یاعلیؑ مدد

عظیم خدمات کا اعتراف

 

میں ادارۂ عارف امریکا کی ”یاسمین نور علیؑ برانچ“ کی زرّین خدمات کا معترف ہوں کیونکہ اس نیک نام برانچ نے حقیقی علم کی روشنی پھیلانے کے سلسلے میں شاندار کارنامے انجام دیئے ہیں، یہ برانچ ہمارے ان چار عزیزوں پر مبنی ہے: نور علیؑ مامجی، یاسمین نور علیؑ اور ان کے پیارے بچے نادر علیؑ اور نسرین۔

 

۲

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

یا علیؑ مدد

 

مدد کا مطلب:

دلیل نمبر ۱: جیسا کہ یہ اشارہ اس کتاب میں جگہ جگہ کیا گیا ہے، کہ مخلوق کو حقیقی مدد خدا کی طرف سے حاصل ہوتی ہے، مگر یہ رسولؐ اور امامؑ کے توسط سے ممکن ہے، بعد ازان ظاہری، مجازی اور جسمانی مدد ہے، جو لوگوں کی طرف سے خدا، پیغمبرؐ اور امامؑ کو ہونی چاہئے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ مدد کی مراد مقام اور درجہ کے مطابق ہے، یعنی خدا کی مدد، پیغمبرؐ اور امامؑ کی مدد اور لوگوں کی مدد ایک جیسی نہیں ہو سکتی، چنانچہ یاعلیؑ مدد کا مطلب ہے، کہ اے علیؑ صراطِ مستقیم پر ہماری رہنمائی اور دستگیری کیجئے، کیوں کہ یہاں مدد سے مراد ظاہری و باطنی ہدایت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر بھی اگر پوچھا جائے، کہ ہم یااللہ مدد کیوں نہ کہیں، کہ یا رسولؐ مدد کہیں اور یاعلیؑ

 

۳

 

مدد کہیں؟ اس کا تفصیلی جواب ذیل کی طرح ہے:

 

۱۔ جن کا یہ عقیدہ ہے بلکہ ایمان ہے کہ پیغمبرؐ اور امامؑ علیہما السّلام خدا تعالیٰ کے زندہ اور گوئندہ اسمِ اعظم ہیں (۰۷: ۱۸۰) تو ان کے نزدیک یہ بات حق اور حقیقت ہے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ایسے نام سے پکاریں جو سب سے بزرگ اور خداوند تعالیٰ کو بہت ہی عزیز اور پیارا ہے۔

 

۲۔ دانشمندوں کے نزدیک یہ بات بہت بڑی اہمیت والی ہے، کہ حق تعالیٰ نے کبھی اپنے کسی ظاہری اور حرفی نام کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا، اسم کو پیغمبرؐ اور امامؑ نہیں ٹھہرایا، اسے آسمانی کتاب کا معلم نہیں کہا، نہیں فرمایا کہ نورِ ہدایت کا سرچشمہ یہی لفظی اسم ہے، اور نہ یہ ارشاد ہوا کہ ظاہری اسم خدا کی رسی ہے، پس معلوم ہوا کہ خدا کا حقیقی نام پیغمبرؐ ہیں اور امام زمانؑ ہیں، لہٰذا انہیں کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع درست اور صحیح ہے۔

 

۳۔ کیوں نہیں، خداوند تعالیٰ کے ظاہری اور حرفی اسماء میں بھی مومنین کے لئے نور ضرور ہے، مگر اس وقت جبکہ نبیؐ اور امامؑ کسی سے راضی ہو جائے، ورنہ مشکل بلکہ نا ممکن ہے، مثال کے طور پر کسی غیر مسلم کو خداوند تعالیٰ کا کوئی ظاہری اسم بتا دیجئے اور قرآن سے دریافت کیجئے، کہ آیا محمد رسول اللہ صلعم کی نبوّت و رسالت کے اقرار کے بغیر ایسے شخص کو اسمِ خداوندی سے کوئی نور مل سکتا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ قرآن سے اس کا جواب نفی میں ملے گا۔

 

۴

 

۴۔ جو کامل انسان ایسا ہو، کہ وہ روئے زمین پر خلیفۂ خدا ہے، اس کی جانب سے نورِ ہدایت اور خزانۂ علم و حکمت ہے، خدا اور اس کی مخلوق کے درمیان وسیلہ اور واسطہ ہے، اور لوگوں کا رہنما اور دستگیر ہے، تو یہ لازمی بات ہے کہ لوگ ہر وقت اس کی طرف رجوع کریں، اور اسے مدد کے لئے پکارا کریں، کیونکہ اسے خدا ہی نے اسی مقصد کے لئے مقرر فرمایا ہے۔

 

۵۔ قرآنِ مجید کی عظمت و بزرگی اور تقدس و فضیلت میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے، چنانچہ کتابِ الٰہی کی جتنی تعظیم و حرمت کی جائے اور جیسا رجوع کیا جائے، وہ سب صحیح اور جائز ہے، یہی مثال امامؑ کی بھی ہے اور اس میں ذرہ برابر شرک نہیں، کیونکہ خدا تعالیٰ کی چیز کی طرف رجوع درحقیقت خدا سے رجوع ہے، تو اس میں شرک کیسے ہو سکتا ہے۔

 

۶۔ اللہ تعالیٰ کی شناخت کے تصورات میں سے ایک تصور ایسا بھی ہے جیسے حق سبحانہ و تعالیٰ عرشِ عظیم پر قائم ہو اور جیسے اس کے عرش یعنی تخت کو چند بڑے بڑے فرشتے اٹھا رہے ہوں، اگر یہ بات مثال نہ ہو، حقیقت ہو تو پھر بھی اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ انتہائی قوت والے فرشتے جو عرشِ عظیم اٹھائے ہوئے ہیں، خدا کے شریک ہرگز نہیں بلکہ خدا کے بندے ہیں، ہر چند کہ عرشِ الٰہی ان پر قائم ہے۔

 

۷۔ اللہ تعالیٰ کے قلم اور لوح کا تصور ہے، جو خداوند تعالیٰ کا سارا

 

۵

 

کام اسی قلم اور لوح نے انجام دیا، مگر چونکہ یہ سب کچھ خدا کے حکم کے مطابق ہوا ہے، اس لئے لوح و قلم خدا کے شریک نہیں، کیونکہ خدا کی اپنی چیز شریک نہیں کہلاتی ہے۔

 

۸۔ حق تعالیٰ کے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السّلام ہیں جو روحانیّت کے بہت سے امور انجام دیتے ہیں اور ان کے علاوہ اور بھی لاتعداد فرشتے ہیں، جو مختلف کاموں پر مامور ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کام کرتے ہیں، اس لئے روح، روحانیّت اور غیب کے کاموں کے کرنے سے وہ شریکِ خدا نہیں کہلاتے ہیں۔

 

۹۔ ایک مثال عالمِ ظاہر کی بھی لیجئے کہ سورج اس کائنات میں کتنا عظیم کام کرتا ہے کہ اس عالمِ ظاہر کا سارا نظام سورج ہی پر قائم ہے، اسی طرح اگر عالمِ دین میں بھی اپنی نوعیت کا ایک سورج ہو تو ظاہر ہے کہ وہ اس دنیاوی سورج سے بھی بہت زیادہ عجیب ہوگا اور بہت ہی عجیب، لیکن کیا کوئی دانشمند یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ دینی سورج خود خدا ہے یا خدا کا شریک ہے؟ اگر دنیوی سورج اپنی بے پناہ روشنی اور مادّی قوّتوں کا سرچشمہ ہونے کے باؤجود خدا کا شریک نہیں ہو سکتا ہے، تو جاننا چاہئے کہ عالمِ دین کا سورج بھی خدا کا شریک نہیں کہلا سکتا، مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظہر ہو سکتا ہے، خدا کا خزانہ کہلا سکتا ہے اور ذریعۂ ہدایت بن سکتا ہے، پس جاننا چاہئے کہ رسولؐ اور امامؑ عالمِ دین کے سورج یعنی نور ہیں اور ان سے ہدایت

 

۶

 

کی روشنی حاصل کرنے کے لئے رجوع اور درخواستِ اعانت جائز اور درست ہے اور اس میں کوئی شرک نہیں۔

 

عالمِ دین کے سورج میں پاک روح اور عقلِ کامل ہے، اسے علم وحکمت اور رشد و ہدایت کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ پروردگارِ عالم نے اس کو قدرت دی ہے اور اسے اختیار حاصل ہے، پس اگر ہم کہیں کہ اے آفتابِ دین! آپ ہمیں دین کی روشنی پہنچائیے، تو کیا یہ شرک ہو سکتا ہے؟ وہ کیسے؟ اور کس طرح؟

 

واسطہ اور وسیلہ:

دلیل نمبر ۲: جس طرح انسان حصولِ ہدایت کے لئے کسی مقدس ہستی کا محتاج رہتا ہے، کیونکہ وہ خود براہِ راست خدا تک پہنچ تو نہیں سکتا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ ذاتی طور پر خدا کی پاک ہدایت سننے سے قاصر ہے، یا کسی جھجک کے بغیر صاف صاف الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ وہ دل کے کان سے بہرا ہے، اور جو آدمی بہرا ہوتا ہے، وہ نتیجے کے طور پر گونگا بھی ہوتا ہے، پس ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو کیسے پکار سکتا ہے، جبکہ اس میں وہ زبان نہیں جو ہونی چاہیے، پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس نے خدائے جلیل و جبار کی مقدس ہدایت اس کو سنائی تھی، وہی شخص اس کی دعا و التجا کو بھی کما حقہ خدا تعالیٰ کے حضورؐ میں پیش کر سکتا ہے، یہی وجہ ہے جو قرآنِ پاک میں ارشاد

 

۷

 

ہوا ہے کہ:

اور (اے رسول) اگر یہ لوگ اسی وقت جبکہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، تمہارے پاس آتے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے اور رسولؐ بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتا تو یہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور بہت مہربان پاتے (۰ٍ۱۴: ۶۴)۔

 

اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبرؐ کے حضورؐ میں ظاہری طور سے آئیں یا باطنی صورت میں رجوع کریں ہر حالت میں یہ درخواست تو کرنی ہی پڑے گی کہ یا رسولؐ اللہ! ہم خدا تعالیٰ کے حکم سے آپ کے حضورؐ میں آئے ہیں ہماری دستگیری فرمائیے اور ہماری مدد کیجئے، اور یا علیؑ مدد میں بھی بس اسی قسم کے معنی ہیں، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں، جبکہ مولا مشکل کشا حضورؐ کے جانشینِ برحق ہیں۔

 

آیۂ مذکورۂ بالا کے بموجب خداوند عالم نے جب یہ حکم دیا کہ لوگ اپنے گناہوں کی معافی کے لئے پیغمبرؐ سے رجوع کریں اور آنحضرت کے ذریعے بخشش مانگا کریں، تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ وسیلہ ہمیشہ کے لئے ضروری ہے؟ اور اس کو ہمیشہ موجود اور حاضر ہونا چاہئے۔

 

اللہ تعالیٰ کی مدد کا وسیلہ:

دلیل نمبر ۳: اللہ تعالیٰ نے، جو خود ہر چیز سے پاک و برتر ہے،

 

۸

 

اپنی رحمتِ بے نہایت سے دین و دنیا کے سب کاموں کے لئے وسائل و ذرائع پیدا کر دیے ہیں اور ہر ہر کام کی انجام دہی کے واسطے اس نے ایک سبب نہیں بلکہ کئی کئی اسباب بنائے ہیں، وہ مہربان جب اپنے بندوں کو کوئی چیز عطا کر دینا چاہتا ہے، تو خود سامنے نہیں آتا اور نہ کسی کو اپنے پاس بلا کر یہ نوازش کرتا ہے بلکہ وہ کسی واسطہ اور وسیلہ سے مہربانی کرتا ہے، اور جب کوئی چیز بندوں کی طرف سے قبول کرتا ہے، تو وہ بھی وسیلے ہی سے قبول فرماتا ہے، اور یہ بات صرف عقل والے ہی جانتے ہیں۔

 

اب ہم یہاں ایک اہم مسئلہ سامنے رکھ کر بات کرتے ہیں اور وہ ہے قرآنِ پاک کی یہ تعلیم: ایاک نعبد و ایاک نستعین (خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) اس مقدّس دعا میں سوال یہ ہے، کہ آیا ایسی خالص مدد جو ہمیں خدا تعالیٰ سے طلب کرنا چاہیے کسی وسیلے کے بغیر ممکن ہے یا یہ دینِ اسلام کے عام قاعدے کے مطابق درست ہو سکتی ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو، کہ یہ استعانت وہی ہے جو اسلام میں ہے، جس کی عملی صورت کا ذکر قرآنِ حکیم میں موجود ہے، اور وہ یہ کہ بندۂ مومن دعائے رسولؐ (۰۹: ۹۹) اور صبر و صلات (۰۲: ۱۵۳) کے وسیلے سے خداوند تعالیٰ سے مدد طلب کرے، تاکہ پروردگارِ عالم اپنی سنت کے مطابق فرشتہ (۴۱: ۳۰ تا ۳۱)، روح (۵۸: ۲۲)، نبیؐ (۰۹: ۱۰۳) اور ولی (امام، ۰۵: ۵۵) کے توسط سے اس کی مدد

 

۹

 

کرے گا، اللہ تعالیٰ کی عادت ہمیشہ سے یہی رہی ہے۔

 

جاننا چاہئے کہ خدا کے مقرر کردہ وسائل و ذرائع سے خدا کی عبادت کرنا اور اس سے مدد چاہنا عین توحید ہے، شرک ہرگز نہیں، کیونکہ یہ وسائل اور شعائر خدا ہی کے ہیں، غیر اللہ کے نہیں اور شرک وہ ہے جس میں خدا کی مرضی کے بغیر کسی چیز کو ذریعہ بنایا جاتا ہے۔

 

قرآنِ پاک کی تعلیمات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: تم صبر اور صلات کے ذریعے سے خداوندی مدد چاہو (۰۲: ۴۵) اب اگر کوئی دانشمند ذرا غور کر کے دیکھے تو اسے یہ حقیقت بہت جلد ہی واضح ہو جائے گی کہ صبر جس کا یہاں ذکر ہے وہ ایک بشری صفت ہے، جو کسی سخت کام یا کسی تکلیف و مصیبت کے دوران عزم و ہمت سے سختی برداشت کرنے کو کہتے ہیں، یعنی تحمل و برداشت کی کیفیت و صفت کی یہ اہمیت ہے کہ اس کو نماز کے ساتھ ساتھ خداوند تعالیٰ سے مدد طلب کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، پھر آپ ہی بتائیے کہ آیا یہ شرک ہے، کہ صبر و صلات کے وسیلے سے خداوندی امداد طلب کی گئی؟

صبر و صلات کے اس ظاہری معنی کے علاوہ اس کی یہ تاویل کی گئی ہے کہ صبر آنحضرتؐ ہیں اور صلات آپ کے جانشین، یعنی مولانا مرتضیٰ علیؑ، انہی حضرات کے ذریعے خدا تعالیٰ سے مدد طلب کی جانی چاہیے اور اسی کے لئے حکم دیا گیا ہے او ر یہی طریقہ سب سے بہتر ہے۔

 

۱۰

 

صلوات:

دلیل نمبر ۴: آیۂ مقدسہ کا ترجمہ: اللہ وہی ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تا کہ تم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے جائے (۳۳: ۴۳)۔

 

ایک اور آیۂ کریمہ کا ارشاد ہے کہ: اور کچھ دیہاتی تو ایسے بھی ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے خدا کی (بارگاہ میں) نزدیکی اور رسولؐ کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ آگاہ رہو واقعی یہ (خیرات) ضرور ان کے تقرب کا باعث ہے خدا انہیں بہت جلد اپنی رحمت میں داخل کرے گا (۰۹: ۹۹)۔

 

ان دونوں آیتوں میں یہ تصوّر اور تاثر دیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ کی ہدایت و رحمت کے طریقِ کار کو سمجھ لیا جائے، کہ کس طرح مومنین کو ہدایت و رحمت پہنچائی جاتی ہے، جب یہ طریقہ ایسا ہے کہ تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف آنے اور خدا کی نزدیکی حاصل کرنے میں اللہ تعالیٰ کے بعد فرشتے اور رسولؐ مدد کر سکتے ہیں، تو کیا ہمارا یہ عقیدہ، تصوّر اور علم اپنے اندر یہ شوق و جذبہ نہیں رکھتا ہے کہ ہم ان ذرائع سے ہدایت و رحمت کے لئے رجوع کرتے رہیں اور کیا جو مدد دے سکتے ہیں اور مدد دینے کے لئے خدا کی طرف سے مقرر ہیں تو ان سے ”مدد دو“ کہنا غلط بات ہے؟ سبحان اللہ! یاد رہے کہ اگرچہ ظاہر میں

 

۱۱

 

فرشتہ الگ اور رسولؐ و امامؑ الگ ہیں لیکن باطن میں فرشتے پیغمبرؐ اور امامؑ کے نور سے الگ نہیں ہیں۔

 

روح القدس سے مدد:

دلیل نمبر ۵: آپ کو قرآنِ حکیم میں ایسی کئی آیتیں ملیں گی، جن میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اپنی ایک خاص روح کے ذریعے سے مدد دیتا ہے، خاص کر قرآنِ پاک کی ان جگہوں میں دیکھیں: ۰۲: ۸۷، ۰۲: ۲۵۳، ۰۵: ۱۱۰، ۱۶: ۱۰۲، ۵۸: ۲۲، ان میں سے پہلے تین مقام پر یہ ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو روح القدس کے ذریعے سے مدد دیتا تھا، چوتھے مقام پر یہ تذکرہ ہے کہ آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر قرآن اسی روح القدس کے واسطے سے نازل ہوا تھا اور آخری آیت میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ خدائی گروہ یعنی حقیقی مومنین کو پروردگارِ عالم اپنی ایک خاص روح سے مدد دیتا ہے۔

 

میرے خیال میں بعض دفعہ سوال بھی بہت مفید ہوتا ہے، کہ اس سے بات خوب ذہن نشین ہو جاتی ہے، اس لئے یہاں مطلب کی بات کو سوال و جواب کی صورت میں پیش کی جاتی ہے کہ آیا یہ تصوّر درست ہے، کہ پیغمبرؐ کے وسیلے کے بغیر اللہ کے حضورؐ سے براہِ راست روح القدس یا کوئی اور خاص روح آکر مومنین کی مدد کرے، حالانکہ آنحضرت کل عالم کے لئے خدائی رحمت ہیں؟

 

۱۲

 

جواب: نہیں یہ درست نہیں، ایسی روح رحمتِ عالم کے ذریعے سے اور آپ کی دعا کے وسیلے سے آتی ہے، بلکہ یہاں تک راز کھول دینا چاہئے کہ حضورؐ انور صلعم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے مرکز ہیں اور رحمت کے فرشتے آپ کے نورِ رحمت کی شعاعیں ہیں، کیونکہ نور کا سرچشمہ ظاہری اور مادّی سورج کی طرح بے جان اور بے عقل نہیں ہوتا بلکہ اس میں روحِ مقدّس اور عقلِ کامل ہوتی ہے، جبکہ یہ نور کسی مومن کے دل میں روشنی ڈالتا ہے تو اس میں روح اور عقل کے ذرّات موجود ہوا کرتے ہیں اور اس حقیقتِ حال کے متعلق تنزیل کی زبان میں کہا جاتا ہے، کہ ایک خاص روح سے جو خدا کی طرف سے تھی اس مومن یا ان مومنین کی مدد کی گئی۔

 

اس کتاب میں جہاں جہاں فرشتوں کے نزول سے مومنین کی مدد کرنے کا ذکر ہوا ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نبوّت و امامت کے نور کے بغیر اور اس سے الگ تھلگ یہ کام ہوتا ہے، بلکہ اس کی مراد وہی ہے جو اوپر بتائی گئی کہ فرشتوں اور روحوں کے اتحاد و یگانگت کا ایک عظیم المرتبت مرکز ہے، جس کا نام نورِ محمدیؐ ہے، اور یہی نور حق تعالیٰ کے شرفِ عندیت کا درجہ رکھتا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ مکان و زمان کے تصوّر سے پاک و منزہ ہے، یعنی ” وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ، ۵۸: ۲۲“ کا مطلب ہے کہ خدا نے مصطفیٰؐ و مرتضیٰؑ کے نور سے مومنین کی مدد فرمائی۔

 

۱۳

 

فرشتوں سے مدد:

دلیل نمبر ۶: سورۂ آلِ عمران کے تیرھویں رکوع کے ارشادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جنگِ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی مدد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے سے دی تھی، اب اس امر میں ذرا غور و فکر کر کے نتیجہ نکالنا چاہیے، کہ اگر روحانی مدد ایسی خاص صفت ہوتی، جو خداوند تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے سوا کسی اور ذریعے سے نہیں ہونی چاہیے، یا یہ اللہ پاک کا کوئی خاص فعل ہوتا جس میں کسی دوسرے کو شریک نہیں ہونا چاہیے، تو فرشتے اس میں ہرگز مداخلت نہ کرتے اور قرآن نہ فرماتا کہ فرشتوں کے ذریعے سے مدد دی گئی،، جبکہ فرشتے خدا نہیں ہیں، بلکہ ربّ العالمین ہی خدا ہے مگر جو انسان حقیقت کی طرف توجّہ ہی نہیں دیتا ہے تو اس کے لئے کیا چارہ ہو سکتا ہے۔

 

یہی تذکرہ سورۂ انفال کے رکوع اوّل کے اخیر میں بھی موجود ہے، کہ اس جنگ کے دوران مسلمانوں کو فرشتوں سے تائید و نصرت دی گئی تھی اور دونوں مقام پر ایک بات مشترک ہے، وہ یہ کہ اس سے گروہِ مسلمین کا سکونِ قلب بھی مقصود تھا، یعنی یہ معجزہ اس لئے تھا کہ ایک تو فرشتوں کی مدد سے فی الوقت فتح حاصل ہو اور دوسرا یہ جان کر قلبی اطمینان ہو سکے کہ امدادِ روحانی کے ایسے ذرائع بھی موجود

 

۱۴

 

ہیں یا یہ کہ معجزانہ قسم کا سکون ہو۔

 

فرشتوں کا مددگار ہونا:

دلیل نمبر ۷: آیۂ پاک کا ترجمہ: تحقیق جنہوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور نہ غم کھاؤ اور خوشخبری سنو اُس بہشت کی جس کا تم سے وعدہ تھا ہم (بحکمِ خدا) دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے مددگار ہیں (۴۱: ۳۰ تا ۳۱)۔

 

اس آیتِ پُرحکمت سے یہ حقیقت عیان ہو جاتی ہے کہ پروردگارِ عالم کے حکم سے فرشتے روحانی طریق پر مومنین کی تائید و نصرت کرتے ہیں، کیونکہ حق سبحانہ و تعالیٰ بادشاہِ مطلق ہے، اس نے کون و مکان کے امور کی انجام دہی کے لئے ذرائع پیدا کئے ہیں اور ہر کام کا ایک وسیلہ یا کئی وسائل مقرر ہیں، وہ صرف امر فرماتا ہے اور ظاہر و باطن کے تمام ذرائع اور وسائل کام کرتے ہیں، چنانچہ روحانی اور جسمانی مدد کے لئے بھی خدا نے وسائل بنائے ہیں، جن سے جو بھی مدد ملتی ہے وہ خدا کی مدد کہلاتی ہے، کیونکہ اس کا ذریعہ اور وسیلہ خدا ہی کی طرف سے ہے۔

 

۱۵

 

رسولؐ کی دعا سے مدد:

دلیل نمبر ۸: آیۂ مقدسہ کا ترجمہ: (اے رسول) آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجئے تاکہ آپ اس کے ذریعے سے ان کو پاک و صاف کر دیں گے اور ان کے لئے دعا کیجئے یقیناً آپ کی دعا ان کے لئے سکونِ قلب ہے (۰۹: ۱۰۳)۔

 

اللہ تعالیٰ کے اس مبارک ارشاد سے دو عظیم حکمتیں ظاہر ہو جاتی ہیں، ایک یہ کہ رسولؐ اکرم کی دعائے خیر سے قلبی اطمینان کی کیفیت میں لوگوں کو روحانی مدد ملتی رہتی تھی، کیونکہ دل کے سکون ہی کا نام مدد ہے اور دوسری حکمت یہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتے نازل ہوئے تو آنحضرتؐ کی مبارک دعا سے ہوئے کیونکہ فرشتوں کے نزول کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کا مقصد مومنوں کو اطمینان دلانا تھا، اور یہاں یہ ارشاد ہے کہ دلوں کے اطمینان کا سرچشمہ تو حضور انور صلعم کی مقدّس دعا ہی ہے، تو ہم اس کا مطلب بخوبی سمجھ گئے کہ فرشتے جس طرح نازل ہوئے اور اصحابِ رسولؐ کو معجزانہ مدد سے جو تسکینِ خاطر ہوئی وہ سب کچھ حضرت کی مبارک دعا کی برکت سے تھی، کیونکہ ہر قسم کے حقیقی سکون کا ذریعہ و سبب رحمتِ عالم کی دعائے پاک ہے۔ ملاحظہ ہو دلیل نمبر ۴، ۵ اور ۶۔

پس معلوم ہوا کہ سکونِ قلب اور روحانی مدد کا سرچشمہ اللہ پاک

 

۱۶

 

کے حکم سے نبی اکرم صلعم ہیں، اور آپ کے بعد آپ کی آلِ اطہار کے ائمّۂ برحق بھی اپنے اپنے وقت میں اسی درجے پر ہیں۔

 

انسانِ کامل کی مثال:

دلیل نمبر ۹: آیتِ پُرحکمت کا ترجمہ: (اے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے ہوتے کہ اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ان کے پاس فرشتہ ہی کو رسولؐ بنا کر نازل کرتے (۱۷: ۹۵)۔

 

اس فرمانِ خداوندی کے اشارات یہ ہیں کہ اس دنیا میں ایسے کامل اور مکمل انسان بھی آتے رہے ہیں جو جسمانیّت کے اعتبار سے بشر ہوتے ہیں مگر روحانیّت کے لحاظ سے ملائک کہلاتے ہیں، وہ خود بھی ہر طرح سے مطمئن ہوتے ہیں، اور دوسروں کو بھی بحکمِ خدا اطمینان دے سکتے ہیں، وہ فرشتوں اور انسانوں کے درمیان وسیلہ اور رابطہ کی حیثیت سے ہوتے ہیں، تاکہ وہ خداتعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے لوگوں کو مدد دے سکیں، اور ایسا کامل انسان جو ملکوتی صفات سے متصف ہوتا ہے سب سے پہلے رسولؐ اکرم کی ذاتِ اقدس ہے، اور آنحضرت کے بعد ائمّۂ برحق علیہم السّلام ہیں۔

 

پیغمبرؐ سے مدد:

دلیل نمبر ۱۰: رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب لوگوں کو اللہ تعالیٰ

 

۱۷

 

کے امر و فرمان کے بموجب پاک و صاف کر دیتے تھے (۰۲: ۱۵۱) تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ آنحضرتؐ ان کے گناہوں کو مٹاتے تھے، تو کیا ہم اس مطلب کو دوسرے الفاظ میں یوں ادا نہیں کر سکتے ہیں، جو کہیں کہ حضورؐ اسی طرح لوگوں کی روحانی مدد فرماتے تھے، اور اپنی مبارک دعا سے مومنوں کو قلبی سکون پہنچا کر ان کی دستگیری اور مدد کرتے تھے؟

 

کیونکہ خدا تعالیٰ مومنوں کے دل کی جس کیفیت کو سکون کے نام سے یاد فرماتا ہے، تو وہ مکمل طور پر سکون ہی ہوتا ہے، اور اس میں ہر قسم کی مدد موجود اور مہیا ہوتی ہے، یعنی ایسے اطمینان و سکون میں ذہنی، خارجی، اخلاقی اور روحانی ہر قسم کی مدد شاملِ احوال رہتی ہے، پس اگر مان لیا جائے کہ دینِ حق کی نعمت لازوال ہے، اس لئے یہ نعمت رسولؐ اللہ کے بعد بھی اپنی جگہ پر موجود اور باقی و برقرار ہے، اور اسے پہلے ہی کی طرح مکمل رہنا ہے تو پھر آنحضرتؐ کے جانشین میں بھی یہ وصف ہونا چاہیے کہ وہ آیۂ درجِ ذیل کا مصداق بنے رہے:

 

خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ (۰۹: ۱۰۳)۔

آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے

 

۱۸

 

آپ ان کو (گناہوں سے) پاک صاف کردیں گے اور ان کے لئے دعا کیجئے یقیناً آپ کی دعا ان کے لئے سکونِ قلب (کا باعث) ہے۔

 

ناصر:

دلیل نمبر ۱۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض مبارک اسماء و القاب ایسے ہیں کہ ان کے معانی و مطالب سے صاف طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے لوگوں کے حامی، دستگیر، مددگار اور پشت پناہ ہیں۔

 

جیسا کہ حضورؐ کے نامِ اقدس ناصر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے، کہ ناصر مددگار کو کہتے ہیں اور اس سے روحانی اور نورانی مدد مراد ہے اور اس میں کسی کو تعجب کیوں ہونا چاہئے، جبکہ سرورِ کائنات صلعم دنیا جہان والوں کے لئے اللہ پاک کی رحمتِ کلّ ہیں اور کوئی انسان عقل و دانش سے سوچے یا پوچھے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ رحمت کسی ایک مہربانی کا نام نہیں بلکہ اس میں تمام کی تمام مہربانیاں جمع و مجموع ہیں، جن میں مدد، نصرت اور دستگیری بھی ہے اور انہی اوصافِ کمالیہ کا تعلق علئ عالی صفات اور آپ کی اولاد کے ائمّۂ کرام کی ذواتِ مقدس سے بھی ہے، لہٰذا اگر ہم یاعلیؑ مدد کہا کریں تو اس میں کیا شک واقع ہو سکتا ہے، ہم نے اس میں خدا و رسولؐ کی مرضی کے خلاف کوئی بات ہرگز نہیں کی، بلکہ ہم نے اپنے اس

 

۱۹

 

قول میں ایسے ذریعے کی طرف رجوع کیا جس کو اللہ اور اس کے رسولؐ رحمت نے مقرر کر دیا ہے۔

 

ہادی:

دلیل نمبر ۱۲: یہ بات سب کو معلوم اور یہ حقیقت سب پر روشن ہے کہ ہادی راہنما کو کہتے ہیں، یعنی رستہ دکھانے والا، اور اس کا مطلب ہے لوگوں کو دین کی راہ پر چلانے والا، جس میں دامن گیری اور دستگیری کا تصور بھی شامل ہے، کہ کوئی کمزور مسافر کبھی کبھار اس بات کے لئے بھی محتاج ہوتا ہے کہ اس کا راہبر اس کی دستگیری کرے، یعنی اس کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے سہارا دے اور مدد کرے، اور کبھی اس کی بھی ضرورت پڑتی ہے کہ پیرو اپنے پیشرو کے دامن کا سہارا لیتے ہوئے چلے، اب ایک چھوٹا سا بچہ بھی اس بات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس مثال میں ہادی کا مطلب مددگار ہے، کیونکہ ہدایت خود سب سے بڑی مدد ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ امامؑ جس کا لقب ہادیٔ دین ہے، جب مومنین کی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے اور ان کو منزلِ مقصود کی طرف آگے سے آگے بڑھاتا ہے، تو اس کے ایسے کام میں کوئی مدد نہیں، کوئی دستگیری نہیں؟ بہرحال ہمیں اس کا پختہ یقین ہے کہ علم و حکمت اور رشد و ہدایت حقیقی معنوں میں مدد ہی ہے، لہٰذا یاعلیؑ مدد کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

 

۲۰

 

سرپرست اور مددگار:

دلیل نمبر ۱۳: آیۂ کریمہ کا ترجمہ: اے ہمارے پالنے والے کسی طرح اس بستی سے جس کے باشندے بڑے ظالم ہیں ہمیں نکال اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا سرپرست بنا اور تو خود ہی کسی کو اپنی طرف سے ہمارا مددگار بنا (۰۴: ۷۵)۔

 

اس پاک و پاکیزہ قرآنی تعلیم کا صاف صاف خلاصہ یہ ہے کہ جو سرپرست اور مددگار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو، جس کو پروردگارِ عالم نے خود ہی مقرر کر دیا ہو، وہ برحق ہے، اور وہ لوگوں کی سرپرستی و مدد کر سکتا ہے، کیونکہ اسے خداوند تعالیٰ نے جس کام کے لئے مامور فرمایا ہے، اس کی تعمیل و انجام دہی کی قوّت بھی عنایت کر دی ہے، چونکہ ایسا شخص ربّ العزّت کی ولایت و نصرت کا مظہر ہوتا ہے، اس لئے اس درجۂ عالیہ پر کوئی عام آدمی نہیں ہو سکتا، ما سوائے انسانِ کامل کے، کہ وہ حضورؐ اکرم کی ذاتِ اقدس ہے اور آپ کے حقیقی جانشین، یعنی امامؑ عالی مقام۔

 

خدا کے بزرگ نام:

دلیل نمبر ۱۴: ارشادِ خداوندی: وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪ (۰۷: ۱۸۰) اور اچھے اچھے نام خدا ہی کے ہیں تو ان

 

۲۱

 

ناموں سے خدا کو پکارو۔

 

قرآنِ حکیم میں مذکورہ آیت کے علاوہ اسماءِ حسنیٰ کا ذکر ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۰۸، ۵۹: ۲۴ میں بھی موجود ہے، کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۹۲ میں مولانا علیؑ علیہ السّلام کا مبارک ارشاد ہے کہ: انا الاسماء الحسنیَ التی امر اللہ ان یدعیٰ بھا، یعنی میں خدا کے وہ اسمائے حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا کہ اس کو ان اسماء سے پکارا جائے۔ مزید معلومات کے لئے شیعی تفاسیر اور متعلقہ کتب کو دیکھا جائے۔

 

اس کے ساتھ ساتھ کچھ دقیق باتیں بھی یہاں بتائی جاتی ہیں کہ جس طرح مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ کا منشاء ہے کہ خدا کے اچھے اور بزرگ ناموں کی شناخت ہونی چاہئے، چنانچہ حضرت امیر المومنین علیؑ علیہ السّلام صاحبِ تاویل نے وضاحت فرمائی ہے کہ آپ خدا کے اسمِ بزرگ ہیں، جس کی مراد یہ ہے کہ سب سے پہلے رسولؐ اللہ، پھر علی، پھر ائمّۂ اولادِ علیؑ اپنے اپنے وقت میں خدا تعالیٰ کے اسمِ اعظم ہیں، پس انہی حضرات کو اسمائے حسنیٰ قرار دے کر خدائے واحد و یکتا کو پکارنا چاہئے، تا کہ پروردگارِ عالم ہماری پکار کو سنے اور شرفِ قبولیت سے مشرف فرمائے۔

 

ناصرِ رسول:

دلیل نمبر ۱۵: قال النبیؐ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رأیت

 

۲۲

 

لیلۃ اسری بی مثبتا علیٰ ساق العرش انا غرست جنۃ عدن محمد صفوتی من خلقی ایدتہ بعلی۔ ترجمہ: حلیۃ الاولیاء میں بہ روایت ابو الحمراء منقول ہے کہ رسولؐ خدا نے فرمایا کہ جب شبِ معراج مجھ کو آسمان پر لے گئے، تو میں نے ساقِ عرش پر لکھا ہوا دیکھا: میں کہ خداوند ہوں، میں نے جنتِ عدن جس میں انواع و اقسام کے درخت لگائے ہیں محمدؐ کے لئے جو میری مخلوقات میں سے برگزیدہ اور پسندیدہ ہے، خلق کی ہے، میں نے اس کو علیؑ سے مدد دی ہے (کوکبِ دری، بابِ دوم، منقبت ۳۵)۔

قرآنِ حکیم کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورۂ بالا حدیث کلی طور پر صحیح ہے کہ: وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَ جَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا (۱۷: ۸۰) یعنی آنحضرت سے فرمایا گیا ہے کہ: اور یہ دعا مانگا کرو اے میرے پروردگار مجھے (جہاں) پہنچا اچھی طرح پہنچا اور مجھے (جہاں سے) نکال تو اچھی طرح سے نکال اور مجھے خاص اپنی بارگاہ سے ایک طاقتور مددگار دے دے۔

(دیکھو فرمان علیؑ صاحب کے ترجمۂ قرآن اور حاشیے کو ۸۰: ۱۷ سے متعلق)۔

 

۲۳

 

دین کا مددگار:

دلیل نمبر ۱۶: کتاب کوکبِ دری بابِ دوم منقبت ۵۴۱ میں ہے کہ: قال النبیؐ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: ان اللہ تعالیٰ اید ھٰذا الذین بعلیؑ و انا منہ و فیہ انزل افمن کان علیٰ بینۃ من ربہ الایہ۔

ترجمہ: ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: خدا تعالیٰ نے اس دین کو علیؑ کے ذریعہ سے قوت دی ہے اور میں اس سے ہوں، اور اس کی شان میں آیۂ ذیل نازل ہوا ہے: اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ۔۔۔ الخ۔ (۴۷: ۱۴)

 

گواہِ رسول:

دلیل نمبر ۱۷: آیۂ مبارک کا ترجمہ: اور وہ لوگ جو کافر ہوگئے کہتے ہیں کہ تو (اللہ تعالیٰ کا) بھیجا ہوا نہیں ہے (اے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کافی گواہ ہے اور وہ (شخص بھی) جس کے پاس کتاب کا علم ہے (۱۳: ۴۳) اور: دوسری آیتِ کریمہ (جس کا ذکر اوپر ہو گزرا ہے) کا ترجمہ یہ ہے کہ:

کیا منکرِ قرآن ایسے شخص کی برابری کر سکتا ہے جو قرآن پر

 

۲۴

 

قائم ہے جو کہ اس کے ربّ کی طرف سے آیا ہے اور اسی سے ایک گواہ بھی ہے۔ (۱۱: ۱۷)۔

 

چنانچہ ان دونوں آیتوں کے متعلق یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے، کہ یہ مولانا علیؑ علیہ السّلام کی شان میں ہیں، کہ آپ ہی حضرتِ رسولؐ کی رسالت و نبوّت کے دوسرا گواہ ہیں جبکہ خداوند تعالیٰ اس امر کا پہلا گواہ ہے، اور جو شخص سعادت مند ہے وہ اس نکتے پر خوب غور کر کے یہ سمجھ لے گا کہ سردارِ انبیاء صلعم کی نبوّت کے گواہ ہونے کے کیا معنی ہیں، سبحان اللہ! پروردگارِ عالم نے علئ مرتضیٰ کو لفظ شاہد اور شہید (حاضر اور گواہ) کے معنوی اسرار کے گنجِ بے پایان کا مالک بنایا ہے۔

 

اس کے مختصر معنی یہ ہوتے ہیں کہ رحمۃ للعٰلمین کی نبوّت، جو علم و حکمت، رشد و ہدایت اور اسرارِ روحانیّت کا ایک عظیم الشّان عالم ہے (اور جو آنحضرتؐ کی روحانی اور جسمانی زندگی پر محیط تھا) اس کے تمام احوال سے علیؑ علیہ السّلام خوب واقف و آگاہ تھے۔

 

اس کے برعکس یہ امر کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے نورانیّت کی جس بلندی پر آنحضرتؐ کے اسرارِ نبوّت اور عجائباتِ قدرت کے مشاہدات کے لحاظ سے جہاں خود کو گواہ قرار دیا ہے، وہاں کسی ایسے عام شخص کو بھی گواہ بنا لے، جس نے ذاتی طور پر تمام

 

۲۵

 

واقعات کو نہ دیکھا ہو، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ محمدؐ و علیؑ ایک ہی نورِ مقدّس کے دو جسمانی پیکر ہیں، اور یہ مطلب مذکورہ آیت کے شاہد منہ سے بھی ظاہر ہے، یعنی علیؑ نبیؐ کی نبوّت کے گواہ اس طرح سے ہیں کہ آن جناب خود نبیؐ اکرم کے پاک نور سے ہیں، جیسا کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ: ہم لوگ (یعنی میں اور علی) اللہ کے حضورؐ میں ایک نور کی شکل میں موجود تھے۔۔۔ علیؑ مجھ سے ہے اور میں علیؑ سے ہوں۔ (ینابیع المؤدۃ بابِ اوّل)۔

 

مذکورۂ بالا حقائق و معارف کی روشنی میں اب آپ خود حق و انصاف سے بتائیے کہ جو کامل انسان قربِ خداوندی کے اس اونچے مقام پر فائز ہو، جو ہادئ برحق خاتم الانبیاء کے نورِ اقدس کا جزو ہو اور جو امامؑ اکرم کی کتابِ سماوی کے علم و حکمت کا حامل اور نبوّت و رسالت کا دائمی گواہ ہو، وہ ہر طرح کا مددگار بھی ہو سکتا ہے کہ نہیں۔

 

خدا کی مدد کرو:

دلیل نمبر ۱۸: فرمانِ خداوندی ہے کہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ (۴۷: ۰۷) اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا۔

 

اس آیۂ مقدسہ سے چند عظیم حکمتیں ظاہر ہوتی ہیں، پہلی

 

۲۶

 

حکمت یہ کہ مدد خاص سے خاص بھی ہے اور عام سے عام بھی، لہٰذا ہم خدا تعالیٰ کے بعد رسولؐ سے اور امامؑ سے مدد طلب کر سکتے ہیں، اگر یہ امر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ مدد کو عمومیت کی طرف لا کر یہ نہ فرماتا کہ اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہاری مدد کرے گا، پس ظاہر ہے کہ مدد کوئی ایسا خاص لفظ نہیں جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ ہی کے لئے بولا جائے۔

 

دوسری حکمت یہ ہے کہ جس طرح پیغمبرؐ اور امامؑ اپنی نورانیّت میں مومنین کی مدد کرتے ہیں اسی طرح اہلِ ایمان کو چاہئے کہ وہ اپنی جسمانی حیثیت میں رسولؐ اور امامؑ کی مدد کریں، ان کو اس کا اجر و صلہ بالکل اسی طرح دیا جائے گا جیسے انہوں نے خدا کی مدد کی ہو، کیونکہ خدا بذاتِ خود کسی مدد کا محتاج ہرگز نہیں۔

 

تیسری حکمت یہ کہ جب تم خلیفۂ خدا کی مدد کرتے ہو تو سمجھو کہ تم نے خدا کی مدد کی اور جب وہ تمہاری مدد کرتا ہے تو مانو کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔

 

چوتھی حکمت، پیغمبرؐ اور امامؑ علیہما السّلام کا عظیم رتبہ اس بات سے کبھی کم نہیں ہوتا کہ تم مومنین ان کی مدد کرتے ہو، جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے تصور سے اس کی عظمت و جلال میں کوئی شک واقع نہیں ہو سکتا۔

پانچویں حکمت، اللہ تعالیٰ کا یہ امر عام نہیں بلکہ خاص ہے

 

۲۷

 

کیونکہ جو امر عام ہو اس میں یا تو دوزخ سے ڈرایا جاتا ہے یا بہشت کی امید دلائی جاتی ہے، مگر اس میں ایسا نہیں ہے، بلکہ پروردگارِ عالم نے کمالِ مہربانی سے اس امر کو ایسی صورت میں ظاہر فرمایا ہے جیسے اس کے کسی رکے ہوئے کام میں مدد کر کے اس پر احسان کیا جاتا ہو، اور یہ دینی خدمت و اطاعت کی اہمیت و فضیلت بیان کرنے کا آخری درجہ ہے۔

 

چھٹی حکمت، اس میں ترقی و تنزل کا معیار بتایا گیا ہے، کہ اگر کوئی مومن نیّت، قول اور عمل کی اصلاح نہیں کر پاتا، اور جادۂ اسلام اور راہِ روحانیت میں آگے نہیں بڑھ سکتا اور بار بار اس کے قدموں میں لغزش آتی رہتی ہو، تو جاننا چاہیے کہ وہ خدا کی مدد نہیں کرتا، اس لئے خدا اس کی مدد نہیں کر رہا ہے، اور اسی وجہ سے اس کے قدموں میں لغزش آ رہی ہے۔

 

انصار:

دلیل نمبر ۱۹: آیۂ کریمہ کا ترجمہ: سو جب عیسیٰ (علیہ السّلام) نے ان سے انکار دیکھا تو آپ نے فرمایا: کوئی ایسے آدمی بھی ہیں جو میرے مددگار ہو جاویں اللہ کے واسطے، حوارئین بولے کہ ہم ہیں مددگار اللہ تعالیٰ کے (۰۳: ۵۲)۔

 

۲۸

 

آیتِ پاک کا ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہو جاؤ جیسا کہ عیسیٰ بن مریم نے حواریین سے کہا کہ اے اللہ کے واسطے میرا کون مددگار ہوتا ہے، وہ حواری بولے، ہم اللہ کے مددگار ہیں (۶۱: ۱۴)۔

 

ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی مدد کرنا چاہتے ہوں، وہ رسولؐ اکرم کی مدد کریں، اور جو رسولؐ برحق کی مدد کرنا چاہیں تو وہ امامؑ زمان کی مدد کر لیا کریں، تا کہ ان کو خدا و رسولؐ اور امامؑ کی مدد ملتی رہے، جو ظاہری اور باطنی ہدایت کی صورت میں حاصل ہوتی رہے گی، جس کے نتیجے میں وہ انسانی قوّتوں کا سرچشمہ بن جائیں گے، اور ان کے لئے دونوں جہان کی کامیابی کے سامان مہیا ہوں گے۔

 

روشنی سے مدد:

دلیل نمبر ۲۰: آیۂ مبارکہ کا ترجمہ: (اور یہ وہ دن ہوگا) جس روز منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے کہ (ذرا) ہمارا انتظار کر لو کہ، ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں ان کو جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے (ابتدائی تواریخ یا دنیا میں) لوٹ جاؤ پھر (وہاں سے) روشنی تلاش کرو (۵۷: ۱۳)۔

 

اس آیۂ پُرحکمت کے بہت سے پہلو ہیں، جن سے طرح طرح

 

۲۹

 

کی حکمتوں کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں، چنانچہ اس میں یہ بھی ہے کہ کوئی شخص تواریخ کے راستے سے لوٹ کر رسولؐ کے حقیقی جانشین کو پہچان لے اور یہ بھی ہے کہ مومنین جس نور کی روشنی میں راہِ آخرت یا طریقِ روحانیّت کی مسافت طے کرتے ہوں گے وہ وہی نور ہو گا جو ان کے درمیان دنیا میں بھی تھا، اسی لئے وہ منافقوں سے کہتے ہیں کہ تم اگر ہماری طرح اس نور کی روشنی میں چلنا چاہتے ہو تو دنیا میں لوٹ جاؤ اور وہاں نور کو پہچانو اور دوسری ایک بہت ہی پختہ بات اس میں یہ بھی ہے کہ کیا منافق لوگ اس مقام پر رہنمائی، دستگیری اور مدد کے لئے نہیں پکارتے ہیں؟ اور کیا ان کو یہ جواب نہیں ملتا کہ تم کو آج یہاں نور سے کوئی مدد نہیں ملے گی، کیونکہ تم نے دنیا کی زندگی میں اس سے مدد حاصل نہیں کی ہے؟

 

سب مسلمان:

دلیل نمبر ۲۱: کتنی خوشی کی بات ہے کہ سب مسلمان عقیدۂ توحید و نبوّت میں ایک ہونے کے علاوہ ولایتِ علیؑ میں بھی ایک اعتبار سے ایک ہیں، یعنی جس درجے پر بھی ہو، علیؑ علیہ السّلام کو ہادی و رہنما ضرور مانا جاتا ہے، جب ان کی ہدایت و رہنمائی مسلّمہ ہے تو یہی ہدایت و رہنمائی دستگیری اور مدد ہے، اور اس کے معنی یہ ہوئے

 

۳۰

 

کہ الحمد للہ سب مسلمان علیؑ کو مددگار اور دستگیر مانتے ہیں، وہ اگرچہ عادتاً یاعلیؑ مدد بہت کم کہتے ہوں گے۔ ہم نے اس کتاب میں بار بار یہ وضاحت کی ہے کہ جو ہادی ہے وہی مددگار بھی ہے، جبکہ ہدایت مدد اور مدد ہدایت ہے، یعنی ان دونوں لفظوں کا مطلب ایک ہی ہے۔

 

۳۱