کارنامۂ زرین حصّۂ اوّل
انتساب بنامِ عزیزانِ گلگت
اعتکاف اور چلّہ
اعتکاف کے معنی ہیں: گوشہ نشینی، گوشہ گیری، گوشہ نشینئ عبادتخانہ، اپنے کو منہیات سے باز رکھنا۔
چلّہ: یہ لفظِ چل سے ہے جو چہل کا مخفف ہے، معنی: چالیس ۴۰ دن کا عرصہ، چالیس دن کا زمانہ، چالیس دن کی گوشہ نشینی اور وظیفہ خوانی، چالیس روز کا عمل۔
حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام نے کوہِ طور پر اللہ کے حکم سے تیس/۳۰ دن کا اعتکاف کیا، خدا نے مزید دس دن عبادت کرنے کے لئے فرمایا، اسی طرح چلّہ ہوگیا، اسی عظیم واقعہ کے پیشِ نظر چالیس ۴۰ دن کی گوشہ نشینی اور ذکر و عبادت بہت بڑی اہمیّت کی حامل ہے، ہم نے کہیں اس کا ذکر کیا ہے۔
اعتکاف اور چلّہ انبیائے کرام علیہم السّلام کی سنّت ہے، اس لئے یہ عمل بڑا مبارک ہے، کہتے ہیں کہ اگر نیّت کی جائے تو کم سے کم اعتکاف ایک گھنٹے کا بھی ہو سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امام عالیمقامؑ کے فرمانِ اقدس کے مطابق صبح نورانی وقت کی خصوصی بندگی ایک گھنٹے کی ہوا کرتی ہے۔
اگر کوئی عزیز چلّہ یا اعتکاف کر رہا ہے تو وہ عوام کے سامنے ہرگز اس کا تذکرہ نہ کرے، کیونکہ یہ ایک عظیم راز ہے، بہت سے لوگ وقت سے پہلے راز کو فاش کرکے ناکام ہوجاتے ہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جہاں بہت بڑی عاجزی کی ضرورت ہے، وہاں فخر کا مظاہرہ ہو سکتا ہے، جو بڑا نقصان دہ ہے۔
عزیزانِ من! یہ دورِ قیامت اور زمانۂ تاویل ہے، اس میں خصوصی عبادت اور حقیقی علم کے توسط سے حضرتِ قائم القیامتؑ کے عظیم اسرار کو حاصل کرنا ہے، جس کے لئے انقلابی ریاضت درکار ہے، عاجزی اور گریہ و زاری سے خود کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا، اس میں امامِ زمانہؑ کی شناخت اور محبت کلیدی وسیلہ ہے، اگر یہ پاک و پاکیزہ محبت بدرجۂ عشق پہنچ گئی ہے تو مبارک ہو! کیونکہ اس سے ذکر و عبادت کی راہ میں حائل ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
ن ۔ ن ۔ (حبِّ علی) ہونزائی
۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۴
کراچی
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔
الحمد للہ ربّ العٰلمین و صلی اللہ علی رسولہ الامین محمد شفیع المذنبین و علی وصیہ امام المتقین علی امیر المؤمنین و علی الائمّۃ من ذریتھما الطاہرین و صحبہ المنتخبین۔
تحیۃ سنیۃ و تکرمۃ ھنیۃ یخص بھا لحکیم القلم، الفیلسوف الاغر، الانور من البدر، العلامۃ نصیرُ الدّین الھنزائی زاد اللہ تعالیٰ شأن علمہ و طول حیوۃ۔
ھھنا بحمد اللہ و ببرکۃ الخمسۃ الاطھار علیم السّلام خیرات و سعادات موجود الیضاً الیکم مطلوب ۔ اشکرکم شکراً جز یلاً للتحائف النادرۃ الخطیرۃ اعنی کتبکم التی یجث فیھا عجائب القراٰن و غرائبھا بمعرفۃ عظیمۃ ۔ ھذا قولنا الصٰادق ما رأیت التفا سیر مثلھا ولا نظیرلہا فی ھذا العصر ۔ لو احد من الرجال و النسأ ءِمن پرید و یحب ان یا خذ المعارف فی امورالدین
۹
من کتبہ فیجب علیہ ان ینظر الی کتبہ بالتفکّر والتدبّر لان فیھا اسرار او معارفا ۔ التمس الیٰ مبدع سبحٰنہ و ھو جل شأ نہ بان یطیل عمر کوم فی خدمتہ نشرالدعوۃ اہل البیت (ع) ۔ ووفر جزأکم باحس الجزأ و نسأل اللہ ان یکمل لکم افضل الاجر۔
حررفی نھار یو م میلاد النبی صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ شہر بیع الاول فی سنتہ ۱۴۱۵ ھ ص۔
قاضی عباس برھانی
۱۰
پیش لفظ
۱۔ بِسْمِ اللہِ الَرّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔ اللہ تبارک و تعالی کی مقدّس معرفت سب سے خاص اور سب سے برتر شۓ ہے، لہٰذا اس کا ذکر قرآنِ حکیم اور حدیث شریف میں حکیمانہ اشارات میں فرمایا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ حکمت کی اس شان سے تعریف کی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ۔ وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بہت سی بھلائی مل گئی۔ (۰۲: ۲۶۹)۔
یقیناً خیر کثیر حکمت ہی سے وابستہ ہے، کیونکہ دین کا ہر راز حکمت کی زبان میں ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ربّ العزّت کی معرفت اسرارِ حکمت میں مخفی ہے، اور جس کو یہ معرفت حاصل ہو، اس کو اپنی ذات یعنی عالمِ شخصی ہی میں کنزِ اسرارِ ازل مل جاتا ہے۔
۱۱
۲۔ اللہ جلَّ شانہٗ کی سنتِ عالیہ کے بھیدوں کو جاننے کے لئے سعی کرتے رہیں، اس کی پاک سنّت ازل ہی سے چلی آئی ہے، چنانچہ یہ امر عظیم اس کی سنت میں ہے کہ وہ تمام اشیاء کو بار بار پھیلاتا اور لپیٹتا رہتا ہے، اور فعلِ قدرت کی سب سے بڑی حکمت اسی میں پوشیدہ ہے، اس امرِ واقعی کی مثالیں اور شہادتیں قرآنِ عظیم کے علاوہ کتابِ کائنات اور کتابِ نفسی میں بھی ہیں، پس کائنات مجموعاً ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں مرکوز و محدود ہو جاتی ہے، جب کہ ذاتی قیامت برپا ہو رہی ہو، پھر وہ روحاً و عقلاً کائنات بھر میں پھیل جاتا ہے، درین حال شخصِ کامل میں نفسِ واحدہ کا تجدّد ہو جاتا ہے اور جملہ ارواح کو یہاں نجات مل جاتی ہے۔
۳۔ روح عالمِ خلق سے نہیں، بلکہ عالمِ امر سے ہے، وہ ایک اعتبار سے یہاں آئی ہے اور دوسرے اعتبار سے نہیں آئی ہے، اس میں بہت سی
۱۲
حکمتیں ہیں، کہ اپنے کُل کی کاپی (COPY ) بھی ہے اور الگ بھی نہیں، روح بسیط یعنی ہر جگہ حاضر ہے، یہ کُل میں ایک اور کاپیوں میں کثیر ہے، جیسے سمندر ایک ہوتا ہے، مگر امواج و اجزاء کی کثرت ہوتی ہے، پس آپ اپنے کُل کو پہچان لیں اور اس میں فنا ہو کر دیکھ لیں تب ہی معرفت حاصل ہو جائیگی، فنا فی الامام کا عظیم الشّان مرتبہ تابعداری اور عشق سے حاصل ہوجاتا ہے، چونکہ امام حیّ و حاضر علیہ السّلام خداوند تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ کا مجموعہ ہے، اس لئے امامِ زمانؑ کا عشق بحقیقت اللہ کے اسمِ اعظم کا عشق ہے، پس بڑے نیک بخت ہیں وہ لوگ جو خدا کے اسماء الحسنیٰ سے کامل عشق رکھتے ہیں اور انہی ناموں سے اس کو پکارتے ہیں (۰۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۰۸، ۵۹: ۲۴)۔
۴۔ مجموعۂ اسماء الحسنیٰ جس کا ذکر ہوا وہ زندہ و گویندہ، نور ہدایت، صاحبِّ علم و حکمت، خزینۂ اسرارِ معرفت اور سرچشمۂ حسن و جمالِ صوری و
۱۳
معنوی ہے، آپ سورۂ رحمان کی خصوصیات اور خوبیوں کے بارے میں جانتے ہوں گے، اس کا خلاصہ، لبِ لباب، اور جوہر آخری آیۂ کریمہ (۵۵: ۷۸) ہے، جس میں اسمِ اعظم یعنی اسماء الحسنیٰ کی بے شمار برکتوں کا تذکرہ ہے، اور اشارہ یہ فرمایا گیا ہے کہ یہاں جن اعلیٰ نعمتوں کا ذکر ہوا، وہ سب کی سب مجموعۂ اسماء الحسنیٰ کے عظیم الشّان خزانے میں ہیں، جن کے حصول کے لئے اساسی شرط یہ ہے کہ اہلِ ایمان خداوندِ قدوس کو انہی بزرگ ناموں سے پکارا کریں۔
۵۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا: القراٰنُ مع علیٌّ و علی مع القراٰن۔ قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ ہے۔ یعنی قرآنِ حکیم کی زندہ روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت علیؑ میں ہے، اور علیؑ کی حقیقت و معرفت کا تذکرہ قرآنِ پاک میں ہے، اور علیؑ سے نورِ امامت مراد ہے، یہی سبب ہے کہ امامِ زمانؑ کو علیٔ زمان
۱۴
(علیہ السلام) کہا جاتا ہے، اور اس میں بڑی حکمت ہے، کیونکہ نور ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔
۶۔ دعائم الاسلام، جلد ثانی، کتاب العطایا کے شروع میں یہ دونوں حدیث شریف درج ہیں: کُلُّ معروفٍ صدقۃً، ہر نیکی ایک صدقہ ہے۔ الخلق عیال اللہ، و أَحَبُّ الخلق اِلی اللہ مَن نَفَعَ عیالہٖ و أدخل السّرورَ علیٰ اہل بیتۃٖ و مشیٌ مع أخً مسلمً حاجتہ، أَ حَبُّ اِلی اللہ مِن اعتکاف شہرَیَن فی المسجد الحرام = مخلوق (گویا) خدا کا کنبہ ہے، اور اللہ لوگوں میں سے اس شخص کو زیادہ محبوب رکھتا ہے جو اس کے کنبے کو فائدہ پہنچائے اور خدا کے اہلِ خانہ کو خوشی دے، اور مسلمان بھائی کے ساتھ اس کی ضرورت کی خاطر چلنا خدا کے نزدیک خانہ کعبہ میں دو ماہ اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
۷۔ حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اس پُرحکمت ارشاد میں ہر ہوشمند مومن اور مومنہ کے لئے بلند ترین ہدایات و تعلیمات موجود ہیں، چونکہ اسلام آفاقی دین ہے اور اس کے قوانین دراصل قانونِ فطرت کے مطابق
۱۵
ہیں، لہٰذا دینِ اسلام میں تمام لوگوں کی خیر خواہی اور خدمت کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ سب لوگ “عِیَالُ اللہ” کی مثال پر ہیں، پس لوگوں کی خدمت اللہ تبارک و تعالی کی بہت بڑی عبادت ہے۔ اگر کوئی شخص خانۂ کعبہ میں دو مہینے کا مسلسل اعتکاف کرتا ہے تو یہ خدائے بزرگ و برتر کی عظیم عبادت ہے، اور اس سے بھی عظیم تر عبادت یہ ہے کہ آپ جماعت، قوم، اور تمام لوگوں کی کوئی نہ کوئی خدمت انجام دیں، اس کلیدی حکمت سے یہ پتہ چلا کہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں عبادت کا ذکر آیا ہے یا اطاعت کا حکم ہے یا نیکی کی تعلیم ہے یا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا تذکرہ ہوا ہے تو ہر ایسے مقام پر خدمتِ خلق بھی مقصود و مطلوب ہے، الغرض قرآنِ حکیم کے بہت سے عنوانات کے تحت ہر گونہ خدمت کا تذکرہ یا اشارہ فرمایا گیا ہے۔
۸۔ اگر آپ کسی بادشاہ کی تعریف نہیں کرتے ہیں تو تنقید بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی انہیں کوئی
۱۶
مشورہ دے سکتے ہیں، چنانچہ میں نے میر محمد جمال خان کے بارے میں کتابچۂ “آئینۂ جمال” تصنیف کیا، اور اس عمل میں کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں جن کی وضاحت یہاں ضروری نہیں، پھر میں نے بہت بڑا انقلابی قدم اٹھایا کہ شمالی علاقہ جات کے ایک گاؤں (حیدرآباد) میں میر صاحب سے پوچھے بغیر والنٹیئرز کی تنظیم قائم کی، حالانکہ قبلاً تمام علاقوں میں ایسی کوئی مثال نہیں تھی، ھادئ برحقؑ کی ظاہری و باطنی ہدایت سے نہ صرف اس گاؤں کی یہ تنظیم کامیاب ہوئی، بلکہ اس نمونۂ عمل کو دیکھ کر ہر اسماعیلی گاؤں میں رضاکار کا یہ ادارہ قائم کیا گیا۔
۹۔ اس کتاب کا نام “کارنامۂ زرین” ہے، یہ ایک خاص پروگرام کے تحت لکھی گئی ہے، وہ “جشنِ خدمتِ علمی” ہے، جس کی تجویز ہمارے ان عزیزوں کی خواہش پر ہوئی تھی، جو امریکہ میں قیام پذیر ہیں، چنانچہ تمام عملداران و ممبران کا یہی حتمی فیصلہ ہوا ہے کہ اس کتاب میں صرف ان اشخاص کا کچھ تذکرہ ہوگا، جنہوں نے کسی بھی حیثیت میں علامہ نصیر سے تعاون کیا ہے، اس کے علاوہ اگر استاد چاہیں تو کسی علمی شخصیت کا بھی ذکر کر سکتے ہیں، بہر کیف یہ سچ ہے کہ میں لوگوں کی عام تاریخ نہیں لکھ سکتا ہوں، میں اس خدمت سے قاصر ہوں۔
۱۰۔ میں دنیائے اسماعیلیت کے ان روحانی بھائیوں اور بہنوں
۱۷
کا شکر گزار اور دعاگو ہوں جو بڑے شوق سے میری کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں، جو عشق و محبت سے میری مذہبی نظمیں پڑھتے ہیں اور جو اسی شان سے مست و مستانہ سنتے رہتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ایک خصوصی نعمت ہے، جس کی شکرگزاری اور قدر دانی ہم پر واجب ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ، آج ہم جشنِ خدمتِ علمی کے سلسلے میں ان تمام پاک و پاکیزہ نفوس کو یاد کریں گے جو اس علمی خدمت میں شریک و شامل ہیں، اور جو اس سے بہرہ مند ہوتے ہوئے شادمان ہیں۔
۱۱۔ شمالی علاقہ جات نے زمانۂ قدیم سے اپنے باشندوں کو جفاکش، غیرت اور بہادری کا درس دیا ہے، جی ہاں، ہمارے وہ تمام ساتھی ایسے ہی ہیں، جن کے بارے میں یہ کتاب (کارنامۂ زرین، حصّۂ اوّل) لکھی گئی ہے، ہم ان شاءٔ اللہ عنقریب کارنامۂ زرین حصۂ دوم و سوم بھی لکھ کر شائع کریں گے، کام، کارنامہ اور کارنامۂ زرین میں آسمان زمین کا فرق ہے، کیونکہ علمی خدمت جو تمام خدمات کی بادشاہ ہے، ہمارے نزدیک وہی زرین کارنامہ ہے، اگرچہ والنٹیئرز کی خدمت علمی نہیں بلکہ سوشل قسم کی ہوا کرتی ہے، تاہم قریۂ حیدرآباد کے رضاکار بار بار کہا کرتے تھے کہ: ہم ایک عالمِ دین کی دعوت پر یہاں خدمت کے لئے منظم ہوگئے ہیں۔
۱۲۔ اس کتاب میں ان عالی ہمت ساتھیوں کا ذکر جمیل بھی موجود
۱۸
ہے، جنہوں نے گلگت اسماعیلی مرکز میں نہ صرف مجھے خدمت کا موقع فراہم کیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ دوسرے واعظین حضرات کی زرین خدمات سے بھی اپنی نیکنام جماعت کو فائدہ دلایا، اور اسی عملی کوشش سے گلگت میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برانچ قائم ہوسکی۔
۱۳۔ چیف ایڈوائزر غلام قادر برائے شمالی علاقہ جات و پنجاب، اب بفضلِ اِلٰہ ۹؍ستمبر ۱۹۹۴ ء سے “چیف ایڈوائزر برائے علامہ نصیر الدین ہونزائی” کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہو گئے ہیں، اس کے باطنی معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جو ساتھی حسنِ خدمت کی وجہ سے ہمیں بیحد عزیز ہیں، وہی احباب ہمارے عالمِ جان و دل (عالمِ شخصی) کے فرشتے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ اہلِ ایمان ہی فرشتے ہوا کرتے ہیں، آپ “ہر پاکیزہ و کامیاب روح میں سب‘” کے قانون کو بھول نہ جائیں، یاد رہے کہ اللہ جلّ جلالہٗ کی قدرتِ کاملہ کے تماتر عجائب و غرائب اور معجزات روح میں ہیں، کیوں نہ ہو جبکہ روح نفسِ واحدہ یا انسانِ کامل کی کاپی ہونے کی وجہ سے سب کچھ ہے، اس کے خزائن سے کوئی چیز باہر نہیں، کیونکہ وہ کامل و مکمل عالمِ شخصی ہے، جس میں عرش، کرسی، سات آسمان اور سات زمین موجود ہیں۔
۱۴۔ خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت کے نیک نام صدر سلطان اسحاق صاحب کی مخلصانہ اور انتھک کوششوں اور ان کے ہوشمند
۱۹
ساتھیوں کے بھر پور تعاون سے وہاں توقع سے زیادہ ترقی ہو رہی ہے، ان شاء اللہ گلگت میں ہمارے تینوں ادارے اور بھی زیادہ مضبوط ہوجائیں گے، کیونکہ اب ترقی کے مواقع ہیں، اور ہر قسم کی کامیابی سے ہم سب کو زبردست حوصلہ مندی اور قوّت حاصل ہوئی ہے، اے کاش، ہم ان بے حساب و لاتعداد نعمتوں پر خدائے پاک و برتر کی شکر گزاری کر سکتے !
۱۵۔ خانۂ حکمت برانچ اسلام آباد کے عزیز صدر نذیر صابر صاحب اور ان کے بزرگ والد کے بارے میں کتاب “لعل و گوہر” میں از صفہ ۱۹ تا ۲۴ لکھا گیا ہے، بڑا اچھا مضمون ہے، آپ ضرور پڑھیں، موصوف صدر صفِ اوّل کے مومنین میں سے ہیں، ان کی ذات میں اخلاقی اور مذہبی خوبیوں کا ایک بڑا خزانہ پوشیدہ ہے، میں نے بہت سے ممالک کے لوگوں کو دیکھا ہے، نذیر صاحب جیسے مثالی انسان دنیا میں خال خال ملتے ہیں، آج کل ہمارے یہاں “جشنِ خدمتِ علمی” کا سلسلہ چلتا ہے، اس لئے ہم اپنے عملداروں کے بارے میں جو کچھ حق اور سچ ہے، وہ لکھ دیتے ہیں۔
۱۶۔ صدر فتح علی حبیب علمی خدمت میں بہت سینیئر ہیں، آپ کے بارے میں بہت اچھی تحریریں موجود ہیں، خداوندِ عالم نے ان کو اہلِ بیتِ پاک علیہم السّلام کی مقدّس محبت کی لازوال دولت
۲۰
سے مالا مال فرمایا ہے، کوئی شک نہیں کہ اسی سرمایۂ ایمان سے بہت سی روحانی خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیں، چنانچہ موصوف صدر صاحب کی ایک بہت بڑی خصوصیت ان کی سریلی اور رسیلی آواز ہے، آپ جب جماعت خانہ میں ہمارے عظیم پیروں کا کوئی گنان پڑھتے ہیں تو اس وقت اہلِ ایمان کے قلوب آتشِ عشقِ سماوی سے پگھل جاتے ہیں، آپ کی رفیقۂ حیات ایڈوائزر گل شکر کی خدمات کا سلسلہ بھی اتنا ہی طویل ہے، اور اب بفضلِ خدا ان کے تینوں پیارے بچے: نزار، رحیم اور فاطمہ بھی ایمان اور علمی خدمت کے اسی پسندیدہ راستے پرگامزن ہو رہے ہیں۔
۱۷۔ ہمارے ادارۂ عارف کے صدر محمد عبدالعزیز کی گرانقدر خدمات کا ذکرِ جمیل جتنا بھی کریں کم ہے، ان کی ایک پائندہ اور ہمہ رس خدمت آڈیو کیسیٹ ریکارڈ کا کام ہے، جس سے انہوں نے پندرہ سو سے زیادہ مختلف لیکچروں کو محفوظ کر لیا، اور جہاں جہاں سے فرمائش آتی ہے وہاں بھیجتے رہے، موصوف صدر کے توسط سے امریکہ میں نورالدین راجپاری جیسے عظیم دوست ملے، اور پھر وہاں ادارۂ عارف قائم ہوا، اور کئی عزیز شاگرد پیدا ہو گئے، ہر شاگرد میرے نزدیک ایک زندہ کائنات ہے، جبکہ وہ عالمِ شخصی ہے، غرض صدر محمد عبدالعزیز کی بے شمار خدمات ہیں، ان کی بیگم کوآرڈینیٹر
۲۱
یاسمین جو حقیقی علم کی شیدائی ہیں، وہ ہر نیک کام میں اپنے محترم شوہر کی مدد کر رہی ہیں، ان دونوں عزیزوں کے فرزند بڑے پیار ہیں، شہزاد امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، سیلینہ (SELINA)اور زہرا کراچی ہی میں پڑھ رہی ہیں۔
۱۸۔ عموماً ہر ملازم اور مزدور صبح آٹھ یا نو بجے اپنے کام پر جایا کرتا ہے، میں جس بندہ پرور اور غریب نواز آقا کا غلام اور مزدور ہوں، وہ بار بار فرماتا ہے کہ سنو، شب خیزی کی دولت سے مالا مال ہو جاؤ، نورانی ذکر، بندگی اور مناجات ہی سے ملا کر قلمی عبادت شروع کرو، پس میں کوشش کرتا ہوں کہ اس بابرکت ہدایت پر عمل ہو جائے، الحمد اللہِ، اکثر کامیابی ہوجاتی ہے۔
اگر میں کہوں: لندن کے عزیزان، تو ظاہر ہے کہ اس سے وہاں کے میرے تمام پیارے شاگرد مراد ہیں، اسی طرح سب کو ایک ساتھ یاد کرنا بہت اچھی بات ہے، اگرچہ ان میں ایک مرکز بھی ہے، اور یہ نکتہ یاد رہے کہ بہشت میں “ہر ایک میں فعلاً سب ہوتے ہیں” یعنی ہر فرد اپنے ابداعی ظہورات سے ہر مرد و زن ہوسکتا ہے، میری روح ان سے بار بار فدا ہو! ان کی لذیذ و دل آویز یاد کی برکت سے بہشت کا ایک عظیم راز سپردِ قلم ہوگیا، اس دفعہ عزیز و محترم غلام قادر صاحب فرمارہے تھے کہ
۲۲
آپ کی جملہ کتابیں جواہرِ علم و حکمت سے مملو ہیں، پھر بھی جو کتابیں لندن میں لکھی گئی ہیں، ان کی ایک نرالی شان ہے۔
ن۔ ن (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
بدھ ؍۶جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۱۲ ؍ اکتوبر ۱۹۹۴ ء
۲۳
بابِ اوّل
شب بیداری اور گریہ و زاری
۲۵
شب بیداری کی شیرینی
رات بھر بیدار رہ کر عبادت کرنا شب بیداری ہے، اس عمل میں بہت سے روحانی فائدے ہیں، اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ خدا کے لئے شب بیداری نہ صرف نفسِ امّارہ کی شدید ترین پامالی کا باعث ہے، بلکہ اس سے علمی اور عقلی گفتگو بھی بدرجۂ کمال درست ہو جاتی ہے (۷۳: ۰۶) یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ انسان میں جو نفسِ حیوانی ہے، وہ ہر وقت روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے رہتا ہے، لہٰذا نفس پر کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ شب بیداری، شب خیزی اور ذکر و عبادت ہے، آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں رات کی عبادت، دعا، مناجات، اور گریہ وزاری کی فضیلت کو دیکھ سکتے ہیں۔
میں نے بہت سے ممالک اور علاقوں کا سفر کیا، اور بہشت کی وسیع ترنعمتوں کی طرح بہت سے جماعت خانوں میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی، ان میں سے بعض میں ذکرِ جلی کی اجازت ملی، اور بعض میں ہم نے جماعت
۲۷
کے ساتھ شب بیداری بھی کی، واللہ اس میں بیحد شیرینی ہے، بڑی دلکش روشنی ہے، اور عجیب و غریب قسم کی شادمانی ہے۔
مجھ پر اپنی جائے پیدائش و رہائش قریۂ حیدرآباد کے بے شمار احسانات ہیں، اس مقام کا ابتدائی نام بروشسکی میں “بی مل” تھا، شخصِ اوّل نے جب اس صحرا کو یہ نام دیا تو اس کا انداز مثبت تھا جیسے بُل مَل جِل مَل، بی مَل (وہ آبادی جس میں سب کچھ ہوگا) کیونکہ یہ ایک عظیم قرآنی اور روحانی راز ہے کہ ہر چیز اور ہر لفظ کے ایجاد میں قدرتِ خدا کی کارفرمائی ہوا کرتی ہے، پھر بِمَل ۱۲۲۱ھ / ۱۸۰۶ ء میں حیدرآباد کے بابرکت اسم سے موسوم ہوا، اس کے اعتقادی معنی ہیں: وہ گاؤں جس کو باطنی طور پر علیِ حیدر نے آباد کیا، میرے پاس سپردِ قلم کر دینے کے لئے ایک اور عظیم امانت ہے، وہ یہ کہ جب مولانا حاضر امام علیہ السّلام پہلی بار شمالی علاقوں میں تشریف لے آئے تو اس دوران حیدرآباد کی جماعتِ باسعادت کی عقیدت، محبت، عشق اور خاموش آنسوؤں کی بارش کے پیشِ نظر ارشاد فرمایا: “میں نے ۳۷ ملکوں کو دیکھا تھا، مگر ایسا نہیں دیکھا تھا” اس فرمانِ مبارک میں معنویت کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔
۲۸
ایک ایمان افروز اور روح پرور یاد
ہماری مذہبی زندگی میں ایک خوشگوار زمانہ وہ بھی تھا، جب کہ ہم بلتت برونگشل جماعت خانہ میں شب بیداری کی نعمتِ عظمیٰ سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے، اللہ و رسولؐ اور اہلِ بیتِ اطہارؑ کے مقدّس عشق سے سرشار جماعت، ذکر خفی و جلی کی مخموریت، مناجات اور گریہ وزاری کی محویّت و فنائیّت، علم و حکمت کی نورانیّت، نیم خوابی کے عجائب و غرائب، حمد و نعت اور منقبت کی جانفزا آواز، عاشقانہ آنسوؤں کے ساتھ سجدے، خلوصِ نیّت کے ساتھ دعائیں، ذکرِ کثیر سے قلبی اطمینان، جماعت اور جماعت خانہ کی ایسی زیارت سے معجزانہ شادمانی، اور اس قسم کی بے شمار روحانی نعمتیں حاصل تھیں۔
میرے دو بہت پیارے شاگرد عالیجاہ موکھی غلام قادر ابن خلیفہ محمد سراج اور عبداللہ شاہ ابن محمد شفیع اس پاکیزہ محفل میں ہر بار منقبت پڑھا کرتے تھے، ان
۲۹
کو بہشتے بلبلشو کہیں یا سوجو مایویو، بہرکیف ان کے ساز و آواز سے اہل دل کو خمرِ جنت کی لذّت حاصل ہوتی رہتی تھی، بروشسکی نظموں میں ایک خوش آئند انقلاب پوشیدہ تھا، اس لئے سب خوشی اور مستی سے جھومتے اور ہم آہنگ ہوجاتے ۔
اگر ہم اس نیک نام جماعت کی میزبانی کا ذکرِ جمیل نہ کریں تو البتہ ناشکری ہوگی، پوری جماعت کا جوش و خروش سے حرکت میں آنا، اس حقیقت کی دلیل ہے کہ وہ سب ان مجالس سے شادمان ہوجاتے تھے، ہم محفل سے پہلے اور بعد میں برادرِ بزرگ جوہر بیگ صاحب کے دولت خانے میں ذرا آرام کرتے ۔
بروݣ شال (قبیلۂ برونگ کی جگہ) ہمارے قدیم آبا واجداد اسی مقام پر رہتے تھے، یہاں تک کہ ہمارے والد کا پڑ دادا ترنگفہ شمشیر بیگ میر سلیم خان کے عہد (۱۲۲۱ ھ / ۱۸۰۶ء) میں حیدرآباد آئے، پس کس زبان سے اور کن الفاظ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اس مسبب الاسباب نے ہمارے لئے یہ سبب بھی بنا دیا کہ ہم اس زمانۂ حقیقت میں جا کر اپنے آباواجداد کے اصل مقام پر معمور شدہ جماعت خانے میں خصوصی عبادت کریں، الحمد للہِ ربّ العٰلمین۔
۳۰
بابِ دوم
ھونزہ میں پہلی بار رضاکار تنظیم کا قیام
۳۱
غلام محمد بیگ
شجرۂ نسب: دارا بیگ عرف تھرا (ثانی) ۔۔ فرحت بیگ ۔۔۔ میرزا حسن ۔۔۔ سید امیر ۔۔۔ محمد امیر ۔۔۔ میر زا حسن (ثانی) ۔۔ غلام محمد بیگ۔
کسی دانشمند شاعر نے کیا خوب کہا ہے: ۔
؎ سالہا باید کہ تا یک سنگِ اصلی زافتاب
لعل گردد در بدخشان یا عقیق اندر یمن
نیز خواجہ حافظ کا یہ شعر ملا حظہ ہو: ۔
؎ گویند سنگ لعل شود در مقامِ صبر
آری شود و لیک بخونِ جگر شود
ترجمہ ۱: سالہائے فراوان درکار ہیں تاکہ سورج کے اثر سے اصلی پتھر بدخشان میں لعل بن جائے یا یمن میں عقیق بن جائے، یعنی زمانہائے دراز کے بعد ہی قوم میں کوئی بہت ہی قابل شخصیت پیدا ہو جاتی ہے۔
ترجمہ ۲: کہتے ہیں کہ (اصلی) پتھر صبر کے مقام میں لعل ہو
۳۳
جاتا ہے، ہاں ایسا ہوتا ہے لیکن خونِ جگر سے ہوتا ہے یعنی کوئی بھی عظیم المرتبت شخص قدر و منزلت کے مراحل کو شدید مشقت کے بغیر طے نہیں کرسکتا۔
غلام محمد بیگ صاحب کی کوئی مثال نہیں ملتی، وہ خود اپنی مثال آپ تھے، دنیا میں سب سے بڑے میدان صرف دو ہیں، مذہب اور سیاست، آپ دونوں میدان کے شہسوار تھے، جہاں بھی گئے قومی اور جماعتی خدمت کو ترجیح و اوّلیّت دی، آپ دینی علم و حکمت کے شیدائیوں اور امامِ زمان علیہ السلام کے فدائیوں میں سے تھے، خدا وندِ عالم نے ان کو قائدانہ صلاحیتوں سمیت بہت سی خوبیوں سے نوازا، یکے بعد دیگرے مذہب کے بڑے بڑے عہدے پر فائز ہوگئے، جماعتی لیڈروں کے ساتھ امام ِوقتؑ کے حضور پر نور سے مشرف ہوئے۔
ہم دونوں یک جان دو قالب تھے، یہ بیمثال دوستی دینی علم اور ترقی پسندی کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی، خداوندِ قدوس کی توفیق و تائید سے میں نے اپنے گاؤں حیدرآباد میں اوّلین اور مثالی والنٹیئرز تنظیم قائم کر کے تمام شمالی علاقہ جات کے اسماعیلیوں کو مذہبی آزادی اور ترقی کا سگنل دیا، تقریباً ایک سال کے بعد ہماری اس
۳۴
تنظیم میں غلام محمد بیگ شامل ہوگئے، زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ میں نے ان کو کیپٹن بنانے کی تجویز کی تو سب نے اس بات کو بخوشی قبول کر لی۔
میں اس تنظیم کا مؤسس (بانی = FOUNDER) اور سربراہ رہا، اور جی۔ ایم بیگ صاحب اوّلین کیپٹن مقرر ہوئے، اور کسی شک کے بغیر ہم سب نے مل کر مثالی ترقی کا کام کیا، میں نے شروع ہی میں والنٹیئر تنظیم کے لئے چار قبیلوں سے بہت ہی اچھے جوانوں کو منتخب کیا تھا، کیونکہ ہمارے سامنے بہت سے چیلنجز تھے، لیکن ہمارے عہدیداروں اور ممبروں کے دل میں خیر خواہی کے سوا اور کوئی بات ہی نہ تھی، لہٰذا مولا کی تائید سے سیاسی مخالفت کی جنگ میں فتح نصیب ہوئی، چونکہ حیدرآباد والنٹیئرز کی نیکنامی اور شہرت نہ صرف وادیٔ ہونزہ میں گونجنے لگی، بلکہ تمام شمالی علاقہ جات میں بھی اس نیک کام کا چرچا ہونے لگا، تب شمالی علاقوں کے ہر اسماعیلی گاؤں میں والنیٹئرز میدانِ عمل میں آگئے۔
علی آباد کی اسماعیلی جماعت بڑی نیکنام اور ترقی پسند ہے، چنانچہ وقت آنے پر دونوں تنظیموں میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ اب ہم اپنے مذہب کی ہر سالگرہ منائیں
۳۵
گے، سو علی آباد ہی میں جوانوں نے سورڈ ڈانس اور ڈکو ڈانس کا مختصر سا کورس کر لیا، تاکہ ہر مذہبی جشن کو شایانِ شان طور پر منایا جائے۔
ہم نے یہ کوشش بھی کی کہ کریم آباد (بلتت) والینٹیئرز بھی اس اتفاق میں آجائیں، تاکہ اصولاً پورے ہونزہ میں تمام رضا کار مل کر ایک ہی تنظیم ہو جائیں، لیکن ہماری یہ دعوت قبول نہ ہوسکی، ورنہ یہ سچ ہے کہ ہم التت جیسے بڑے قلعہ کے والینٹیئرز کو بھی دعوت دیتے، اور اسی طرح اتفاق و اتحاد کرنے کے بعد فوراً ہی وسطی ہونزہ، گوجال، اور شیناکی میں ایک ایک میجر اور کُلّ کے لئے ایک کرنل ہوتا، اگر یہ امکانی اتفاق ہوتا اور اس کے ساتھ انصاف بھی ہوتا تو میرا خیال ہے کہ سب سے سینیئر ہونے کی وجہ سے غلام محمد بیگ ہی سب کا کرنل ہو جاتے، اس کے باؤجود ہم نے یہ بھی سوچا تھا کہ اگر میرمحمد جمال خان اپنے کسی شہزادے کو آل ہونزہ والینٹیئرز کا کرنل بنانا چاہیں تو ہم قبول کریں گے، تاہم اتنے بڑے پیمانے پر اتفاق و اتحاد نہ ہوسکا۔
۳۶
“True Copy”
21st May 1973
My dear President and Members,
On the occasion of Imamat Day, 11th July, I would like you to perform the opening ceremony of the new Jamatkhana at Skardu. My spiritual children in Skardu should use the new Jamatkhana as from Imamat Day.
I send my most affectionate paternal maternal loving blessings to the following beloved spiritual children for their devoted services and good work:
Ghulam Mohamed Hunzaie
S.M. Abdul Hakeem
Ghulamali Shah
Mashroof Khan
Mahmood Beg
۳۷
I give my most affectionate paternal maternal loving blessings to all beloved spiritual children for their donations towards the building of the new Jamatkhana with best loving blessings to all those who helped towards the construction work.
Yours affectionately,
Sd/-
Aga Khan
The President and Members,
H.H. Aga Khan Ismailia Supreme
Council, Karimabad
۳۸
فہرستِ شاہین والینٹیئرز حیدرآباد ہنزہ
تاریخِ داخلہ | داخلہ نمبر | نام | ولدیت | عہدہ | کیفیت |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱ | علامہ نصیر الدین | حبِّ علی | موسس والنٹیئرز | ۔ |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۲ | توالد شاہ | علی موجود | صوبیدار | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۳ | حضور مکھی ملازمان | عین الضحیٰ شاہ | نائب صوبیدار | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۴ | شاہ دل امان | شاہ مازون | فدائی | ۱۹۸۸ میں انتقال ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۵ | رستم خان | پہلوان | فدائی | ۱۹۸۹ میں انتقال ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۶ | شاہ میر بیگ | اسد اللہ بیگ | فدائی | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۷ | محمد علی بیگ | قلندر شاہ | فدائی | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۸ | تحویل شاہ | طلا بیگ | فدائی | ۱۹۶۵ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۹ | خواجہ زرین | علی بیگ | فدائی | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۰ | محمود شاہ | حبِّ علی | نائب صوبیدار | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۱ | تیتم | دادو بوسگ | حوالدار | ۱۹۷۶ میں ناظم آباد منتقل ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۲ | مولا داد | بہرام شاہ | فدائی | ۱۹۸۹ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۳ | امیر حیات | شمشیر بیگ | فدائی | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۴ | علی ممبر | علی مدد | فدائی | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۵ | رضا شاہ | شاہ علی | فدائی | ۱۹۸۵ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۶ | پہلوان | اشدر امان | نائیک | ۱۹۸۸ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۷ | درویش علی | سفر علی | فدائی | ۱۹۸۰ میں انتقال ہوا |
۳۹
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۸ | خوشدل امان | مایون شاہ | فدائی | ۱۹۷۵ میں گلگت منتقل ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۱۹ | ظاہر شاہ | فقیر شاہ | فدائی | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۲۰ | علی بیگ | دولت شاہ | فدائی | ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۷ | ۲۱ | لالیو | شاہ گل حیات | فدائی | ۱۹۸۵ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۸ | ۲۲ | کاروان باشی | غلام حیدر | نائیک | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۸ | ۲۳ | غلام محمد بیگ | مرزا حسن | کیپٹن | ۱۹۸۹ میں انتقال ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۸ | ۲۴ | داد علی شاہ | نیت شاہ | وائس کیپٹن | ۱۹۷۲ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۸ | ۲۵ | مرزا جانان | زیارت شاہ | کوارٹر ماسٹر | ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۸ | ۲۶ | عنایت خان | دادو بائی | حوالدار | ۱۹۸۴ میں انتقال ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۸ | ۲۷ | وفادار | علی عصمت | فدائی | ۱۹۷۹ میں انتقال ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۸ | ۲۸ | طاہر شاہ | فقیر شاہ | فدائی | ۱۹۷۲ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۸ | ۲۹ | محمد رضا بیگ | دادو خان | فدائی | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۰ | کامڑیا پلشر بیگ | سفر علی | لیفٹیننٹ | ۱۹۹۳ میں انتقال ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۱ | غریب فتح اللہ بیگ | حرمت اللہ بیگ | نائب صوبیدار | ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۲ | محبت خان | حاجت امان | نائب صوبیدار | ۱۹۷۰ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۳ | خلیفہ غلام حیدر | مبارک شاہ | فدائی | ۱۹۷۷ میں انتقال ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۴ | مکھی قدیر امان | مہربان | لانس نائیک | ۔ |
۴۰
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۵ | جان خان | دادو بوسگ | حوالدار میجر | ۔ |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۶ | حبیب اللہ | دادو بوسگ | فدائی | ۱۹۸۰ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۷ | قدیر خان | تراب خان | حوالدار میجر | ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۸ | دادو خان | سنگی خان | نائیک | ۱۹۷۱ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۳۹ | رائی امیر اللہ بیگ | رحمٰن اللہ بیگ | نائب صوبیدار | سالار |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۴۰ | محمد یار بیگ | مظہر شاہ | حوالدار | ۱۹۶۲ میں مستعفی ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۴۱ | حاجی بیگ | لطف علی | نائیک | ۱۹۶۷ میں انتقال ہوا |
یکم مارچ ۱۹۵۹ | ۴۲ | غلام قادر | قنبر علی | نائیک | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۵۸ | ۴۳ | دادو خان | روبی علی | نائب صوبیدار | ۱۹۶۰ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ | ۴۴ | کامڑیا غلام حیدر | پلشر بیگ | نائیک | ۱۹۹۰ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ | ۴۵ | غلام | پہلوان | فدائی | ۱۹۸۹ میں انتقال ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ | ۴۶ | خداداد | خدا یار | فدائی | ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ | ۴۷ | نصر اللہ | قنبر علی | نائیک | ۱۹۶۷ میں انتقال ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۰ | ۴۸ | سخاوت | بہادر | فدائی | ۱۹۶۳ میں انتقال ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۲ | ۴۹ | حاجی بیگ | فیض اللہ امان | نائب صوبیدار | ۱۹۸۰ میں دنیور منتقل ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۲ | ۵۰ | قبول علی | شاہ ولی | نائیک | ۱۹۷۸ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۲ | ۵۱ | ایمان شاہ | فدایت شاہ | فدائی | ۔ |
۴۱
۲۱ مارچ ۱۹۶۳ | ۵۲ | دولت شاہ | فقیر شاہ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۶۳ | ۵۳ | عین الحیات | عبد الحیات | لیفٹیننٹ | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۶۴ | ۵۴ | سردار خان | رحمٰن اللہ بیگ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۶۴ | ۵۵ | کامڑیا نادر امان | مہربان | حوالدار | سالار |
۲۱ مارچ ۱۹۶۵ | ۵۶ | جنگی عالم | زوارہ بیگ | فدائی | ۱۹۷۰ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۷ | ۵۷ | رحمٰن بیگ | حاتم بیگ | حوالدار میجر | ۱۹۹۳ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۷ | ۵۸ | محمد خان | شاہ برات | حوالدار | سالار |
۲۱ مارچ ۱۹۶۷ | ۵۹ | حاجی بیگ | بیگ نظر | فدائی | ۱۹۷۰ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۶۷ | ۶۰ | شاہ گل حیات | دلاور خان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۶۸ | ۶۱ | غلام قادر | فقیر شاہ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۶۸ | ۶۲ | حضور مکھی رحمدل خان | نظر شاہ | کیپٹن | ۱۹۹۰ میں مقامی کونسل کا صدر مقرر ہونے پر مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۷۰ | ۶۳ | حضور مکھی شاہ میر بیگ | شاہ گل حیات | کیپٹن | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۷۰ | ۶۴ | عالم جان | محمد امان | صوبیدار | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۷۰ | ۶۵ | محمد امین | محمد امان | حوالدار | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۷۲ | ۶۶ | بیکو | اکبر شاہ | صوبیدار میجر | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۷۲ | ۶۷ | محمد ولی | شاہ ولی | لیفٹیننٹ | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۶۸ | عرب خان | نیت شاہ | حوالدار | ۔ |
۴۲
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۶۹ | اشتیاق علی | درویش علی | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۰ | محمد فقیر | عرب خان | حوالدار | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۱ | عبداللہ جان | عبدالغفار | فدائی | ۱۹۸۷ میں مکھی کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۲ | غلام عباس | بابر خان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۳ | اکرام خان | گری خان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۴ | امتیاز حسین | عرب خان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۵ | درویش علی | علی ممبر | وائس کیپٹن بینڈ | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۶ | عالم جان | دولت امان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۷ | محمد حسین | نعمت خان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۸ | رمضان خان | ہمایون | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۰ | ۷۹ | محمد فقیر | وفادار | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ | ۸۰ | صحت علی | نظر شاہ | بینڈ کیپٹن | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ | ۸۱ | وزیر بیگ | دولت شاہ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ | ۸۲ | علی جمہور | قلندر شاہ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ | ۸۳ | شاہ مراد | شاہ داد | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ | ۸۴ | فدا علی | غلام قادر | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ | ۸۵ | سرتاج کریم | مالک شاہ | فدائی | ۔ |
۴۳
۲۱ مارچ ۱۹۸۴ | ۸۶ | دیدار کریم | لطف علی | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۵ | ۸۷ | جاوید کریم | مالک شاہ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۵ | ۸۸ | اسلام الدین | سگ علی | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۵ | ۸۹ | ابراہیم | قلندر شاہ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۸۵ | ۹۰ | غریب علی | قبول علی | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۹۱ | فرمان علی | امان علی | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۹۲ | شیرعلی | ملا یوسف | فدائی | ۱۹۹۱ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۹۳ | میر احمد جان | محمود شاہ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۹۴ | الیاس خان | محمد حسین | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۹۵ | موسیٰ خان | مرزا جانان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۹۶ | اکرام اللہ بیگ | عطا اللہ بیگ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۹۷ | غلام رسول | لیمان شاہ | فدائی | ۱۹۹۱ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۹۸ | نجیب اللہ بیگ | ہدایت اللہ بیگ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۹۹ | حضور مکھی صحت علی | سگ علی | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۰ | غلام سرور | عبدالرحمن | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۱ | اسماعیل خان | سید امیر | صوبیدار | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۲ | علی محمد | عنایت خان | صوبیدار | ۔ |
۴۴
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۳ | فدا علی | درویش علی | نائب صوبیدار | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۴ | احمد جامی | نواب شاہ | نائب صوبیدار | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۵ | رحمٰن بیگ | گری خان | سیکریٹری | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۶ | شکر اللہ بیگ | قدیر شاہ | کوارٹر ماسٹر حوالدار | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۷ | غلام خان | عبادت شاہ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۸ | رحیم اللہ بیگ | حیات بیگ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۰۹ | عزیز علی | محمد رحیم | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۰ | عزیز علی | عنایت خان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۱ | آصف حیدر | غلام حیدر | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۲ | الیاس کریم | رحمدل خان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۳ | غریب علی | علی حرمت | جوائنٹ سیکریٹری | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۴ | غلام علی | داد علی | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۵ | سرباز خان | میرباز خان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۶ | شکر اللہ بیگ | قلندر شاہ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۷ | اسلام علی شاہ | نادر امان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۸ | محمد اسحاق | مرزا جانان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۱۹ | صدر الدین | خواجہ عربی | فدائی | ۔ |
۴۵
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۲۰ | عیسیٰ خان | داد علی | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۲۱ | مشغول عالم | امیر حیات | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۲۲ | اسد اللہ بیگ | ہدایت اللہ بیگ | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۲۳ | نظام الدین | قلندر شاہ | فدائی | ۱۹۹۱ میں مستعفی ہوا |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۲۴ | راحت اللہ بیگ | اسد اللہ جان | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۲۵ | امیر حیدر | غلام حیدر | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۲۶ | عالم جان | محمد حسن | فدائی | ۔ |
۲۱ مارچ ۱۹۹۰ | ۱۲۷ | عرفان اللہ | علی مدد | فدائی | ۔ |
۴۶
فدائیوں کا ترانہ
وقت دِیݳ کݺ گکھر دینٹݺ قربانݺ فدائی!
مولا شلݺ خدمتݺ گنݺ ارمانݺ فدائی!
روحانی ببا گنلݸ خوشِیݺ کا گُیَٹس دِݵو
دنیا اکھݵݽن نیلترݵ حیرانݺ فدائی!
مقصودݺ بسار نِیَسُلݸ ڈݣ ہمّتݺ ڎٹ بے
خس گُیَر چھݽن دِیݳ کلݵ میدانݺ فدائی!
اُنݺ بَی کݺ بݺ غم نورݺ دمن عقلݺ مددگار
ہر ڈݹم درݸون عقلٹݺ آسانݺ فدائی!
گݸیَرُم وطنُلݸ بم سسݺ عزّت کݺ ادب ہݵن
اُنݺ وطنݺ زمین عزّتݺ اسمانݺ فدائی!
عادتُلݸ فرشتان نمݳ دلتشکݸ دُرݸئݣ او
ڞا گکھر دݵڎن ݼنکݽݺ انسانݺ فدائی!
مذہبݺ درݸور دَل دِیݺ دنیاتُلݸ بݽ خا
فرمانݺ برِݣ گن ژُلݺ فرمانݺ فدائی!
۴۷
ہر ڈݣ دشن ئݶڎَکݺ ایمانݺ گرݵݣ دِݵو
ایمانݺ مثال اور منݺ ایمانݺ فدائی!
محتاج غریبن وطنُلݸ ئݶڎکݺ فی الحال
امدادݺ بچارا گنݺ چارانݺ فدائی!
جݶ دِݵو لݺ نصیرؔ نورݺ دمنݺ لشکرݺ حقُ لݸ
وقت دیݳ کݺ گکھر دینٹݺ قربانݺ فدائی!
۴۸
باب الکریم
باءِ بسم اللہ و بابِ شہرِ علمِ احمدیؑ
جُز علیؑ نبوَد کہ قولِ مصطفیٰ و مرتضی است
اوست بابِ گنج ہایِ علمِ قرآن و حدیث
ہر کہ زین در اندر آید با مراد و بانواست
بی درو دیوار نبود خانہ و باغِ جہان
قصرِ دین رابی درو دیوار پنداری خطاست
این کہ حق گوید زمانو و کتابی آمدہ
نورِ حق در کاملی پنہان کتابش برملاست
لمعہ ہایِ عکسِ نورش راکنون آئینہ کیت
اکملی و اشرفی از آلِ پاکِ مصطفیٰ است
کعبۂ مقصودِ عالم آنچنان سلطانِ دین
نور مولا شہ کریم الحق کنون نورِ خداست
رہبرِ دنیا و دین و حامیِ اسلامیان
ظاہر و باطن بنورِ حیّ و قائم رہنماست
۴۹
یادِ تشریفِ قدو مش باداز بابِ الکریم
“شغف” رابشمار سالِ ہجرتِ خیرالوری است
مژدۂ جان بخش بادا ہر فدائی راکہ او
گر تو اند خدمت دینی و کارش بی ریاست
فٹ نوٹ: صفحہ ۱۱ ۔
این قطعۂ لطیف بموقعِ تشریف آوریِ حضرتِ مولانا شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ بہ علاقہ جاتِ گلگت و ہنزہ در سالِ “شغف” گفتہ شدہ، و یک خاصیت ظاہرِ این قطعہ چنانکہ آغازِ ہر شعری ازین اشعار علی الترتیب از حرفی میشود کہ در عوانِ ’’باب الکریم‘‘ است، و باب الکریم دروازۂ محرابی است از سنگہایِ تراشیدہ کہ فدائیانِ حیدر آبادہ (ہونزہ) آن را تعمیر کردہ اند، تا تشریف آوریِ مولانا حاضر امامؑ را دران ناحیہ علامتی و یادگاری باشد، و اِشا رۂ معنویِ آن بدان حکت است کہ امامت بابِ نبوت بودہ ہمچنا نکہ از موضوعِ نظم ظاہر است۔
۵۰
October 15th 1964
Monogram
My dear Spiritual Child
I have received your letter of 16th September and I send you and all members of the H.R.H Prince Karim Aga Khan Shaheen Volunteers of Hyderabad, Hunza my best loving blessings for the success of your newly formed Shaheen Volunteers Band
I send best loving blessings for the success of the Hunza Cooperative Development Society.
Yours affectionately
Sd/. AGA KHAN
Ghulam Mohamed,
P.O. Karimabad. Hyderabad
Hunza State.
۵۱
April 23rd 1966.
Monogram
My dear Honorary Captain,
I was happy to receive your letter dated 11th March and report of the services rendered by the H.R.H. Prince Aga Khan Shaheen Volunteer Group, and I send you all my warm congratulations with my best loving blessings.
Yours affectionately,
Sd/- AGA KHAN
Hon. Capt. Ghulam Muhammad Hyderabadi,
P.o. Karimabad.
Hunza State.
۵۲
18th Setember, 1966.
MONOGRAM
To,
Our Beloved Mowlana Hazar Imam
H.R.H. Prince Karim Aga Khan.
May it please your Royal Highness,
I have honour enough to submit a brief report about the performances of Ismailia Darul Hikmat Hyderabad Hunza State.
This institution is consisted of four sections
1) Religious Education: Throughout Hunza State there is not a single institution to impart religious education. Having felt this need we two honorary Waizeen have been lecturing on religion and social reforms for a period of more than six years. Moreover, we have been supplying religious and Farman Books to our girls and boys students at Hyderabad, Hunza State.
۵۳
2) Female Education: For the first time we had opened a girls primary school in 1960, which is running well on the contribution of a few social workers of Hyderabad. Last year, five students have passed their primary class, but they could not continue their further studies due to lack of further facilities. We had invited the President Ismailia Community, Central Asia and other hereditary religious chiefs to witness our school progress on the occasion of Imamat Day in 1965, but did not take any step for the progress of the school which resulted a hinderance in the growth of female education. This year, also four students have passed their primary class and I am trying to make their studies to be continued in Government girls High School Gilgit, but the poor girls students need scholarships. In this connection, we have applied to the Chairman Managing Committee Gilgit for consideration.
Moreover, our school is in need for a well education Ismailia lady teacher but not available in Hunza State. I met the President, Central Education Board for Pakistan, but he showed his unability to extend any help to our school.
۵۴
- Publication: The Secretary of Ismailia Darul Hikmat has published several religious and ginan books in Hunza language under the name of this Institution. We want to publish more Ismailia religious text books for our school, but due to shortage of funds and lack of any grant we are unable to do so.
Moreover, the Secretary, Mr. Nasiruddin the 1st Poet and Scholar of Hunza has been translating the ground book of our well known philosopher and Hujat-Nasir Khusrow named Wajahuddin into Urdu which will be beneficial to our educated persons.
- Social Service: we have a volunteers company named “H.R.H. PRINCE KARIM AGA KHAN SHAHEEN VOLUNTEERS” Hyderabad to perform social activities. The volunteers have been helping the helpless persons in the form of manual work. Moreover, all our religious functions are being performed under the good management of volunteers. The volunteers have a grand Pipe Band for amusement. Social service is continued in other walks of life too.
۵۵
Hoping for kind blessings and instructions for our onward success.
Your obedient spiritual Child.
Sd/- M. GHULAM MOHAMMED
Address:
Village: Hyderabad,
Post office: Karimabad,
HUNZA STATE,
GILGIT AGENCY (WEST PAKISTAN)
۵۶
28th April, 1966.
Monogram
My dear spiritual child,
During the last months I have been wondering what is the situation of education of the young girls who are living in Hunza and generally in Central Asia. I would be most happy if you would send me your wiews on this matter and also obtain the views of the Managing Committee of the Gilgit Central. Would you, for example, suggest the introduction of middle and secondary schools for girls in Hunza, Chitral and Central Asia?
I know that generally speaking in the above mentioned areas education for girls is not viewed with favour but we cannot allow such an attitude in remain and I would very much appreciate having your comments on this matter.
I understand also recently there has been created in Hunza a private institution called the Ismailia Dar-ul Hikma. Please would you be good enough to send me your views on this
۵۷
institution and let me know whether it was created with your approval and sanction.
I look forward so much t seeing you, your Rani, your children and family very soon and I look forward with impatience to reading your good news.
I send my most affectionate paternal maternal loving blessing to all beloved spiritual children of Hunza and Central Asia.
Yours affectionately,
Sd/- AGA KHAN.
H.H. the Mir of Hunza,
Mir Mohamed Jamal Khan H.P.,
Baltit,
Gilgit Agency,
Pakistan.
۵۸
4th Coctober, 1966
Copy
My dear Spiritual Child,
I have received your letter of 18th September and I have read the report of Ismailia Darul Hikmat with much interest and pleasure.
I am very happy indeed with your good work and devoted services, and I give my most affectionate paternal maternal loving blessings to all the members of the Ismailia darul Hikmat for their services.
Your affectionately,
Sd/- AGA KHA.
Mr. M. Ghulam Mohmadded,
Ismailia Darul Himat,
Hyderabad. Hunza State.
۵۹
بابِ سوم
گلگت میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کا قیام
۶۱
دیرینہ احسان کا شکریہ!
مشہور کہاوت ہے: “دیر آید درست آید” یعنی جو کام دیر میں (سہولت میں) ہوتا ہے وہ عمدہ اور درست ہوتا ہے، لیکن کسی نیک کام کے لئے غیر معمولی تاخیر بھی درست نہیں ہوسکتی، لہٰذا اب اس موقع پر یہ بندۂ خاکسار صمیمیتِ قلب سے ان تمام محسنین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے جو مختلف ممالک میں اس علمی خدمت کی نمائندگی کرتے آئے ہیں، ان نیکوکاروں میں سے بعض حضرات وہ ہیں، جنہوں نے ہونزہ کی جماعتی اور قومی خدمت میں مجھ سے بھرپور تعاون کیا، اور بعض مومنین و محسنین ایسے ہیں، جن کی پُرجوش اور ولولہ انگیز مدد کے بغیر گلگت مرکز میں ایک پائدار اور مستقل علمی ادراے کا قیام ممکن ہی نہ تھا، کیونکہ اس مشکل زمانے میں ہر چھوٹی بڑی ترقی کے راستے میں بڑی بڑی چٹانیں حائل تھیں۔
اگرچہ ذاتِ سبحان ہر قسم کی مدد سے بے نیاز اور پاک و برتر ہے، لیکن دینی کاموں میں جس مدد کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے، اس کی اہمیّت و افادیت اور قدرو منزلت کو عرشِ اعلیٰ تک بلند کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان
۶۳
لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابنِ مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا: “کون ہے اللہ کی طرف (بلانے میں) میرا مددگار؟” اور حواریوں نے جواب دیا تھا: “ہم ہیں اللہ کے مددگار (۶۱: ۱۴)۔”
میں ایک بہت ہی عام اور بہت ہی حقیر آدمی کی حیثیت سے خود کو خوب جانتا ہوں کہ شروع سے لیکر اب تک میں کتنا کمزور چلا آیا ہوں، اور مجھے جان و دل سے اس بات کا اقرار و اعتراف بھی ہے کہ موجودہ مقام تک میری یہ ترقی اس لئے ممکن ہو سکی کہ اہلِ ایمان کے پاکیزہ دلوں کی دعاؤں سے حضرتِ امام علیہ السّلام کی بابرکت ظاہری و باطنی دعا حاصل ہوئی، جس کی برکت سے نورِ امامت کے بہت سے پروانوں اور جانثار عاشقوں نے ہر طرح سے میری مدد فرمائی، لیکن میں بڑی عاجزی اور ناچاری سے عرض کرتا ہوں کہ ان سب کا نام بنام شکریہ ادا کرنا میرے لئے ممکن نہیں، کیونکہ مجھ پر جن محسنین نے احسانات کئے ہیں، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لئے میں ان تمام حضرات کا اجتماعی شکریہ ادا کرتا ہوں، اور بڑی عاجزی سے یہ دعا ہے کہ ربّ العزّت ان سب نیک لوگوں کو دنیا و آخرت میں کامیابی اور سربلندی عطا فرمائے! آمین!!
مذکورہ معذرت خواہی کے باوجود بعض مثالی قسم کے
۶۴
مجاہدین کا برملا تذکرہ ان کے اسمائے گرامی کے ساتھ ضروری ہے، جنہوں نے بڑے مشکل زمانے میں شمالی علاقوں کے تمام اسماعیلیوں کے لئے ایک منظم علمی ادارے کی تاسیس کے سلسلے میں اس خاکسار اور کراچی مرکز سے بھرپور تعاون کیا ہے، جس کے نتیجے میں (الحمدللہ) آج یہاں امامِ زمان علیہ السّلام کا ایک علمی لشکر مصروفِ عمل ہے، پس حقیقت میں یہ بات ایک علمی سپاہی کی نہیں، اس اعتبار سے یہ ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ بنتا ہے کہ ہم حقائق سے چشم پوشی نہ کریں، بلکہ آئندہ نسل کے لئے جس اصل تاریخ کی ضرورت ہے، اس کے تناظر میں کچھ بیان کریں، تاہم میں مورخ (تاریخ نویس) نہیں ہوں، اور یہ کام میرے لئے بہت مشکل ہے، یعنی میں بیباکی سے سب کچھ بیان نہیں کرسکتا ہوں، ہاں، بطریقِ حکمت ضروری باتیں کی جاسکتی ہیں۔
میری ایک پرانی ڈائری میں میرے اپنے یہ الفاظ درج ہیں: “یکم اپریل ۱۹۷۱ء تا غایتِ جولائی جماعتِ گلگت کے چند ترقی پسند حضرات نے ذاتی طور پر میرا خرچہ (مبلغ چار صد روپے ماہوار) برداشت کیا، پھر اسی بناء پر گلگت سینٹر میں دوبارہ میرا تقرر بھی ہوگیا۔”
معزز و محترم ایکس حوالدار بازگل صاحب کی اوّلین توصیف
۶۵
دینداری ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ اسی بنیادی خوبی سے بہت سی خوبیاں جنم لیتی ہیں، جس کی مثال جنابِ موصوف کی شخصیّت ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ آپ خاندانی طور پر بڑے دانشمند ہیں، اندازِ گفتگو عاقلانہ، الفاظ شیرین و پُراثر، ہر بات میں ایمان، امامؑ کی محبت، اور علم دوستی کی خوشبو، دل ہمہ گیر خیر خواہی کا سرچشمہ، اور خود قائدانہ صلاحیتوں کے مالک، یہ ہیں جنابِ بازگل صاحب۔
المؤمن مِراٰۃُ المؤمن (حدیث) ترجمہ: ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوا کرتا ہے، اس کے کئی معنی ہوسکتے ہیں، اور ان کی ایک مثال یہ کہ ایک مومن دوسرے مومن میں اپنی ایمانی خوبیوں کو دیکھ سکتا ہے، حکمت: حقیقی مومن امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے، اور وہی مبارک و مقدّس ہستی روحانیّت، نورانیّت اور عقلانیّت کا آئینہ معجزنما ہے، پس ہر پیرو مومن کو چاہئے کہ وہ روحانی ترقی کر کے نورِ امامت کے آئینے میں اپنے چہرۂ روح کو دیکھے، تاکہ اس کو اپنے باطنی حسن و جمال کا علم ہو جائے، کیونکہ جب مومنین و مومنات کا نور ان کے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا، اس وقت وہ رحمانی صورت پر ہوں گے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸)۔
محترم و مکرم موکھی عرب خان صاحب ایک مثالی مومن ہیں، ان کا سارا خاندان بھی ایسا شریف ہے، کسی نیک بخت مومن کا
۶۶
مولائے زمانؑ کی منظوری سے عملدار مقرر ہو جانا سب سے بڑی عزت کا باعث ہے، آپ کا دل تقویٰ کا مسکن، زبان یادِ الہٰی میں مصروف، آنکھوں میں شرم و حیا، چہرے پر حقیقی خوشی کی روشنی، گفتار و کردار میں ایمان کی حلاوت، شب خیزی اور ذکر و عبادت کی عادت، علم و حکمت کا شوق، عقل و دانش کا ذوق گفتگو میں سنجیدگی اور ہوشمندی، یہ ہیں جناب موکھی عرب خان صاحب کے بعض اوصاف۔
جناب ایکس حوالدار باز گل صاحب کا تاریخی خط:۔
بخدمت جناب علامہ (نصیر) صاحب
یاعلی مدد! بعد ازآداب عرض۔ آپ کے مشورے کے مطابق کچھ تحریر پیشِ خدمت ہے، اگرچہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں لکھا ہے، تاہم گزرے ہوئے حالات کو صحیح لکھنے کی کوشش کی ہے، البتہ ہر اس کام کو ترتیب نہیں دے سکتے ہیں، کہ کون سا کام پہلے اور کون سا بعد میں، ان تمام ساتھیوں سے تصدیق بھی کروائی گئی جو اس کام میں شریک تھے۔
موجودہ تمام ممبران آپ کی محبت کے لئے دعا گو ہیں اور خوشی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ قدم ( ان شا ء اللہ ) ہماری حوصلہ افزائی کا باعث ہوگا، اور ہم نصیر صاحب کے ممنون ہوں گے۔
یاعلی مدد! فقط خادم باز گل ۶؍جون ۱۹۹۳ء
۶۷
ایک عظیم کارنامہ
بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ کوئی عظیم کارنامہ شروع شروع میں ایک عام اور معمولی کام کی حیثیت سے ہوا کرتا ہے، لیکن آگے چل کر عالیشان نتائج و ثمرات کی وجہ سے عظیم کارنامہ قرار پاتا ہے، اسی طرح گلگت مرکز میں ہماری نیک بخت جماعت اور اس کے بزرگوں نے ایسے بہت سے عظیم کارنامے انجام دیئے جو سب کے سب قابلِ ستائش ہیں، جو سب کے سامنے نمایان ہیں اور یہ ترقی کسی سے پوشیدہ نہیں، تاہم ایک اور کارنامہ ہے، جو عظیم اور ہمہ رس ہے، اور اس کا تعلق بھی اسی مرکز اور اسی باسعادت جماعت سے ہے، لیکن وہ کارنامہ نظر نہیں آتا، کیونکہ وہ لطیف یعنی عقلی اور علمی ہے، اس سے وہ مجموعی علمی خدمت مراد ہے، جسے آج یہاں کے تمام واعظین حضرات انجام دے رہے ہیں، یہ عظیم کارنامہ اس وقت جتنا ضروری اور مفید ہے، اتنی اہمیّت و افادیّت اس کی بنیاد رکھنے میں پیشِ نظر تھی، ہر عمارت کا رسمی سنگِ بنیاد صرف ایک ہی ہوتا ہے، لیکن کتنی عجیب و غریب اور پُرحکمت بات ہے، اور کیسا حسنِ اتفاق
۶۸
اور نیک شگون ہے کہ اس عظیم الشّان علمی عمارت کا آغاز سنگہائے بنیاد سے کیا گیا، اور وہ بڑے خوش نصیب فونڈیشن سٹونز یا احجار الاساس اس ترتیب سے ہیں:
جناب عالیجاہ شاہ ولی صاحب، نصیر الدین ہونزائی، جناب اعتمادی فداء علی ایثار صاحب، اور جناب عالیجاہ عزیز اللہ نجیب صاحب، آپ اگر چاہیں تو ایک اعتبار سے شروع شروع کے ان چار نیک بخت واعظین کو گلگت برانچ کو علمی تعمیر و ترقی کے عناصرِ اربعہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور یہ حقیقت ہے، یہاں شاید آپ یہ سوال کریں گے کہ اس بابرکت اساس (بنیاد) کے مؤسس کون حضرات ہیں؟ میں وہی تو عرض کر رہا ہوں، کہ یہ بڑا نیک کام صفِ اوّل کے چند ترقی پسند مومنین نے کیا تھا، جن کے اسمائے گرامی درج کرنے سے قبل اس منصوبے کا مختصر سا خاکہ پیش کریں گے۔
یہ سچ ہے اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اگر گلگت میں اسماعیلیوں کی یکجائی کا کوئی مرکز نہ ہوتا تو واعظ و عالم کی ضرورت کا کوئی احساس ہی نہ ہوتا، یہ بات ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے ایک بہت بڑا بنگلہ بنایا ہو تو بہت ہی اچھی چیز ہے، لیکن اس کو ضروری فرنیچر اور سازو سامان سے آراستہ بھی کرنا پڑتا ہے، چنانچہ بہت سے دیندار مومنین نے علم کی شدید ضرورت
۶۹
کو محسوس کیا ہوگا، تاہم شدید احساس کے علاوہ درست منصوبہ اور عمل کی سبقت جناب ایکس حوالدار باز گل صاحب کو نصیب ہوئی، اور جناب موکھی عرب خان صاحب بڑی خوشی سے ان کے ساتھ متفق ہوئے، پھر ان دونوں نے جناب ایکس حوالدار امیر حیات صاحب کو بھی اس راز میں لیا، جنہوں نے بسرو چشم اس خدمت کو قبول کرلیا، اور اسی طرح انہوں نے کسی نام کے بغیر ایک تنظیم بنالی، جس کا ایک خاص کام یہ تھا کہ ہر ماہ حسبِ استطاعت و توفیق کچھ ذاتی چندہ جمع کرے، تاکہ جن واعظین کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری لی گئی تھی، ان کو ادارے سے تنخواہ ملنے تک خرچہ دیا جاسکے۔
ہم اس سلسلے میں محترم دوست ایکس حوالدار امیر حیات صاحب خان غندلوی کے ذکرِ جمیل کے بغیر آگے جانا نہیں چاہتے ہیں، یہ عالی ہمت مردِ مجاہد عجیب و غریب خوبیوں کے مالک، بااعتماد، امام عالیمقام کے جانثار، وفا شعار، قومی ترقی کے لئے مرمٹنے والے، سچائی کے دلدادہ، علم دوست، اور دیندار ہیں، ان کی قومی خدمات قابلِ تعریف ہیں، آپ ہمیشہ ہر مشکل کام کے لئے تیار رہتے تھے، اسی بہترین خدمات کی بنا پر آپ کو گلگت ایریا کمیٹی کا اولین چیئرمین مقرر کیا گیا۔
۷۰
ایک اہم تاریخی یاد داشت
محترم و مکرم جناب ایکس حوالدار باز گل صاحب کی تحریر کچھ لفظی اصلاح کے ساتھ یہاں درج کی جاتی ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ سُرمَنس می نمہ اُنے غیبے گریک ذم دُ مانش۔ ۔
اے خدائے بزرگ و برتر! قوم کے ہر نیک کام کے لئے توفیق و تائید تجھ ہی سے حاصل ہو، کام کا ظاہری آغاز ہم سے ہو اور یہ تیرے دستِ غیب سے مکمل ہوجائے۔
میرے پنشن آنے سے ایک سال قبل جناب عرب خان صاحب کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہو گیا تھا کہ ہم دونوں مل کر کاروبار کریں گے، لہٰذا میرے آنے تک کرائے کی کوئی دکان لی جائے، چنانچہ جب میں ماہِ اکتوبر ۱۹۶۶ء میں پنشن آیا تو عرب خان صاحب نے راجہ بازار گلگت میں ایک دکان لے رکھی تھی، پس ہم نے ’’ہمدرد جنرل سٹور‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ تجارت کا آغاز کیا۔
جب میں فوجی ملازمت میں تھا، تو اس وقت میں نے ترقی کے گونا گون نمونے دیکھ لئے، اور اپنے علاقے کے علاوہ
۷۱
باہر کی دنیا کو بھی دیکھ لیا، میرا خیال ہے کہ مجھ میں خوداعتمادی کی قوت پیدا ہوگئی، میں نے دیکھا تھا کہ گلگت مرکز میں ہمارے بزرگوں نے جماعت کے لئے ایک عالیشان جماعت خانہ بنایا ہے، جس کی شایانِ شان تعریف کے لئے منتخب الفاظ نہیں ہیں، اور اسی شان کے ساتھ شاہ کریم ہاسٹل وغیرہ ہے، تاہم میرے دل میں بار بار یہ خیال آتا رہا کہ اب مزید ترقی کی خاطر گلگت میں دو خاص چیزوں کی سخت ضرورت تھی، ہاسٹل میں دینوی درس و تدریس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بندوبست، اور جماعت خانہ میں موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اعلیٰ علمی واعظ کا انتطام ۔
میں نے پہلے ہی مذکورہ ضرورتوں کے بارے میں اپنی نوٹ بک میں نوٹ کر لیا تھا، جب مولا کے فضل و کرم سے ہمارا کاروبار سیٹ ہوگیا، تب ہم دونوں ساتھیوں نے بلا تاخیر مشورہ کیا اور کہا کہ بچوں کی دینی تعلیم کے لئے کیا ہوسکتا ہے، اور جماعت خانہ میں منقبت خوانی کی ترقی کس طرح ہو، اسی گفتگو میں عرب خان صاحب سے یہ پتا چلا کہ ایک ذی علم اور درویش صفت مومن ہے، جس کا پیارا نام شاہ ولی ہے، آپ کی جائے سکونت اوشی کھنداس ہے، آپ گلگت سکاؤٹس سے پنشن پر آئے ہوئے ہیں، شاہ ولی صاحب جب بھی جماعت خانہ میں
۷۲
کوئی منقبت پڑھتے ہیں، تو وہ جماعت کے دل کی گہرائی میں اتر جاتی ہے۔
اب مجھے شاہ ولی صاحب سے ملاقات کرنے اور جماعت کو فائدہ دلانے کا زبردست شوق پیدا ہوگیا، میں نے اپنے دینی اور جانی دوست عرب خان صاحب سے گزارش کی کہ براہِ کرم شاہ ولی صاحب کو یہ پیغام بھیج دیجئے کہ آیا وہ یہاں تشریف لاسکتے ہیں، پیغام بھیجا گیا اور جنابِ موصوف بنفسِ نفیس تشریف لائے، اسی اثناء میں ہم نے یہ فیصلہ بھی کر لیا تھا کہ اب ہم دونوں چند دوسرے ساتھیوں کو بھی اپنے ساتھ ملائیں گے، اگر قبول کرتے ہیں تو بہت اچھی بات، ورنہ ہم خود ذمہ دار ہیں، کیونکہ ہم نے کوئی بڑی میٹنگ منعقد نہیں کی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ اچھے اچھے منصوبے ابتدائی میٹنگ ہی میں اختلافات کا شکار ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔
جناب محترم شاہ ولی اللہ صاحب سے جماعتی خدمت اور ماہوار وظیفہ کے بارے میں گفت و شنید ہوئی، اور انہوں نے قبول فرمایا، یہاں یہ اندیشہ بھی تھا کہ اگر یہ نیک کام پوری جماعت کو معلوم ہو جائے تو ممکن ہے کہ بعض افراد کو پسند نہ آئے، اس لئے کوشش کی گئی کہ یہ علمی خدمت پوشیدہ طور پر انجام دی جائے، اور اس طریقِ کار کے بارے میں جناب شاہ ولی اللہ
۷۳
صاحب سے بھی گزارش ہوئی، چنانچہ موصوف جماعت خانہ میں قصیدہ پڑھتے تھے، اور بچوں کو مذہبی تعلیم دیتے تھے۔
۷۴
قوم کے ان عالی ہمت اور مجاہد صفت جوانوں کے اسمائے گرامی جنہوں نے آج سے ۲۲ سال قبل گلگت مرکز میں جماعت کے لئے ایک مضبوط علمی ادارہ قائم کیا
یہ اسماء بترتیبِ حروفی تہجی درج ہیں
(الف) ۱۔ جناب امان اللہ (فوٹو گرافر) ابن حمید علی شاہ ابن عبد المجید۔
۲۔ جناب امان اللہ (دوکاندار) ابن مراد شاہ ابن زمین شاہ
۳۔ جناب امیر حیات (ایکس حوالدار) ابن فقیر شاہ ابن دولت شاہ۔
۴۔ جناب امیر الرحمان ابن مستجاب شاہ ابن عبد اللہ۔
(ب) ۵ ۔ جناب باز گل (ایکس حوالدار) ابن فقیر شاہ
۶۔ جناب بخت بیگ (عالیجاہ، سابق لوکل صدر گلگت) ابنِ خلیفہ نورِ حیات ابنِ ترنگفہ قلندر شاہ۔
(ح) ۷۔ جناب حمید اللہ خان ابن عبدالجبار ابن علی محمد۔
(د) ۸۔ جناب داد علی شاہ (سابق علاقی صدر ہونزہ) ابن نیت شاہ ابن شعبان۔
۷۵
۹۔ جناب دادو خان (ایکس حوالدار) ابن غلام سرور ابن محمد مراد۔
۱۰۔ جناب دینار خان (دوکاندار) ابن شکر اللہ بیگ ابن چوڑی۔
(ر) ۱۱۔ جناب رستم (سابق کامڑیا) ابن خلیفہ شاہ دل امان ابن خلیفہ نو جوان۔
(ش) ۱۲۔ جناب شیر اللہ بیگ (ایکس صوبیدار) ابن ترنگفہ بخت بیگ ابن خوجہ زرین۔
۱۳۔ جناب شیر ولی خان (وکیل) ابن حیات خان ابن مت خان۔
(ط) ۱۴۔ جناب طالب شاہ مرحوم (ہوٹل والا) ابن کلب علی ابن مبارک شاہ۔
۱۵۔ جناب طاہر بیگ مرحوم (دوکاندار) ابن خلیفہ محمد سراج ابن غلام حسن۔
(ع) ۱۶ ۔ جناب عباد اللہ بیگ (دکاندار) ابن مستان ابن امان اللہ (منو)۔
۱۷۔ جناب عباد اللہ بیگ (ٹھیکیدار) ابن رجب شاہ ابن رمل خان۔
۱۸۔ جناب عبد الغفار (ڈاکٹر) ابن دولت شاہ ابن زمین شاہ۔
۱۹۔ جناب عرب خان( موکھی) ابن محمد خان ابن صمد خان۔
۲۰۔ جناب علی شیر (ایکس صوبیدار) ابن خلیفہ جمعہ بیگ
۷۶
ابن خلیفہ ابوذر غفاری
۲۱۔ جناب علی مدد (ایکس صوبیدار، ایس ۔جے، سابق علاقائی صدر گلگت، راعی ) ابن نیت شاہ ابن حسن۔
۲۲۔ جناب علی مدد (دوکاندار) ابن علی غلام ابن ھمایون شاہ۔
(غ) ۲۳۔ جناب غلام رسول (خلیفہ) ابن ترنگفہ محمد حسن ابن حسن شاہ۔
۲۴۔ جناب غلام رسول (ہوٹل والا) ابن شاہ علی ابن قلندر شاہ۔
۲۵۔ جنا غلام محمد بیگ (سابق ریجنل صدر گلگت) ابن میرزا حسن، ابن محمد امیر۔
(گ) ۲۶۔ جناب گلاب شاہ (ایکس حوالدار میجر) ابن سبیل خان ابن نادر شاہ۔
(ل) ۲۷۔ جناب لطفِ علی شاہ مرحوم (ہوٹل والا) ابن محمد شفیع ابن قلندر۔
(م) ۲۸۔ جناب محمد ایوب (دوکاندار) ابن خلیفہ محمد سراج ابن غلام حسن۔
۲۹۔ جناب محمد ایوب (دوکاندار) ابن خلیفہ دلا امان ابن ترنگفہ خیر اللہ۔
۳۰۔ جناب محمد سلیم (دوکاندار) ابن طیغون شاہ (کونسل) ابن نادر شاہ۔
۳۱۔ جناب موسیٰ بیگ (پروفیسر) ابن لطفِ علی ابن محمد ظہیر۔
۷۷
(م) ۳۲۔ جناب مولاداد ابن اجابت شاہ ابن نجف شاہ۔
۳۳۔ جناب میراحمد خان (مستری) ابن علی حرمت ابن حسن شاہ۔
۳۴۔ جناب میرزا امان (عالیجاہ) ابن مہربان شاہ ابن دادو محمد پیار۔
(ھ) ۳۵ ۔ جناب ھزارہ بیگ (دوکاندار) ابن عبد القادر ابن علی مدد۔
۳۶۔ صاحبانِ ’’ہنزہ نیشنل گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی لمیٹیڈ (قائم کردہ: ۱۹۶۹ ء)‘‘۔
۷۸
جناب باز گل صاحب مزید لکھتے ہیں: ایک دن ہماری نیک بخت کمیٹی کی میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں ایک بڑے عالم سے گلگت جماعت کو علمی فیض پہنچانے کے بارے میں گفتگو ہوئی، اس میں دو عالم معروف اور پیشِ نظر تھے، جناب آخوند الفت شاہ صاحب جو فارسی کے اہلِ زبان اور عربی شناس تھے، لیکن اردو جیسی قومی زبان کی کمی تھی، اور علامہ نصیر تھے، جو حسبِ منشاء جماعت کی خدمت کر سکتے تھے، پس میں نے کمیٹی کے سامنے نصیر صاحب کی بھر پور سفارش کی اور تمام حاضرین نے کسی مخالفت کے بغیر مکمل حمایت و تائید کی۔
مجھ سے کہا گیا کہ براہِ کرم آپ ہونزہ جائیں اور اس سلسلے میں علامہ نصیر سے درخواست کریں، چنانچہ میں نے دوسرے دن ہونزہ کا سفر کیا، ہم اسے حسنِ اتفاق نہیں بلکہ مولائے پاک کا ایک معجزہ کہیں گے کہ میں جیسے ہی جیپ سے علی آباد کے اس مقام پر اتر گیا جہاں ماضی میں پولوگراؤنڈ تھا، وہیں پر علامہ نصیر الدین ہونزائی نمودار ہوئے، طوفانی خوشی کے عالم میں یہ خیال آیا کہ اب ان شاءٔ اللہ ہمارا منصوبہ کامیاب ہوجائے گا، شوق سے ملاقات کرنے کے بعد دل نے کہا فوراً عرض پیش کرو۔
نصیر صاحب سے عرض کی گئی: آپ گلگت آئیے تاکہ جماعت کی خدمت کر سکیں، علامہ موصوف کو یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ یہ دعوت کس کی جانب سے ہے؟ میں نے تمام حالات سے ان کو آگاہ
۷۹
کرتے ہوئے کہا کہ چند قومی خدمتگار ہیں، انہوں نے مجھے بھیجا ہے اور وہ حضرات یہ کام ’’اپنی مدد آپ‘‘ کے اصول پر کرنے کا عزمِ صمیم رکھتے ہیں، ماسوائے تائیدِ الٰہی کے اور کچھ نہیں چاہئے۔
نصیر نے اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے، آپ چلیں، میں ان شاءٔ اللہ ایک دو دن میں گلگت پہنچ جاتا ہوں، لہٰذا میں (بازگل) دوسرے دن واپس گلگت آیا، اور ساتھیوں کو حقیقتِ حال سے آگاہ کیا، وہ شادمان ہوگئے، دو روز کے بعد خبر ملی کہ علامہ نصیر گلگت پہنچ گئے ہیں، تب فوراً ہی ہم نے میٹنگ کال کی، اور زیر بحث مسئلے پر خوب غور ہوا، اصل بات خرچہ پورا کرنے سے متعلق تھی، اس سے پہلے شاہ ولی اللہ صاحب کو اس تنظیم کی طرف سے ماہوار -/۱۴۰ روپے کا وظیفہ مل رہا تھا، اب ہمارے ممبروں نے جو علم کے شیدائی ہیں مزید سختی کے ساتھ کمرِ ہمت باندھ لی، جس سے یہ مالی گنجائش پیدا ہوئی کہ جس سے ہماری کمیٹی علامہ نصیر کو ماہوار -/۴۰۰ روپے دینے لگی۔
اس اہم فیصلے کے بعد میں اور جناب غلام رسول صاحب ابن ترنگفہ محمد حسن علامہ نصیر الدین کی خدمت میں حاضر ہو گئے، ان سے عرض کی، انہوں نے فرمایا کہ میں ان شاء اللہ خدمت کروں گا۔
منشاء تو یہی تھا کہ یہ ساری خدمت جماعت میں چرچا کے بغیر خاموشی سے ہو، لیکن کسی نہ کسی طرح اطراف میں
۸۰
رفتہ رفتہ یہ خبر پھیل گئی، اور شاید اسی میں بہتری تھی، چنانچہ وہ بڑا نیک دن ہمیشہ کے لئے یاد رہے گا جس میں دو اور زندہ خزانے ہماری دکان پر آگئے، یعنی جناب فداء علی ایثار صاحب اور جناب عزیز اللہ نجیب صاحب، اور اپنا تعارف کرایا کہ ہم جناب محمد دارا بیگ صاحب کے شاگرد ہیں، ہمیں یہاں موقع عنایت کر دیں تاکہ ہم خود بھی کچھ سیکھ لیں اور سٹوڈنٹز کو بھی کچھ سکھا دیں گے، اب باقاعدہ اجلاس کے لئے وقت نہ تھا، اور ہاں یا نہیں میں ان کو جواب دینا بھی ضروری تھا، لہٰذا میں نے خدا پر توکل کرتے ہوئے چند فدائیوں سے فرداً فرداً رائے طلب کر لی، اور ان صاحبان کی درخواست قبول کی گئی۔
چند دنوں کے بعد میر آف ہونزہ جو سپریم کونسل کے صدر تھے گلگت آئے اور جماعت خانہ میں ارکان کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھے اور جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا تو فوراً اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے میر صاحب سے مطالبہ کیا کہ جنابِ عالی! ان واعظین کے لئے جو وظائف ہم دے رہے ہیں، وہ آپ براہ کرم جماعتی ادارے سے دلوا دیجئے، کیونکہ آپ امامِ عالی مقامؑ کے نمائندہ ہیں اور آپ کوانتظامی امور میں اختیار حاصل ہے، پس میر صاحب اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے راضی ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے بے نام ادارے کی
۸۱
نیک نامی روز بروز مشہور ہو رہی تھی، لہٰذا ایک دن جناب ایکس صوبیدار صفی اللہ بیگ صاحب نے ہم سب کو میٹنگ کے لئے بلا لیا، اور ایک نیک مشورہ پیش کیا، وہ یہ کہ وقت کے ساتھ ساتھ جماعت کا کام بھی بڑھ گیا ہے، اس لئے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اور آپ مل کر جماعت کا کام کریں گے، اب اس نیک کام سے کون انکار کر سکتا، جب کہ خدمت کرنے کی غرض سے ہم سب جا گ اٹھے تھے، منظور کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے لئے غور کیا، کافی غور و خوض کے بعد “سیٹی کونسل” کے نام سے ایک ادارے کی منظوری کے لئے مولانا حاضر امام علیہ السّلام کے حضورِ اقدس میں درخواست بھیجی گئی، خوش بختی سے چند ایام کے اندر اندر مولائے پاک کی بارگاہِ عالی سے اس ادارے کی منظوری اور دعائے برکات آئی، جس سے ہم سب کی روح میں ایک تازہ بہار آگئی۔
۸۲
بابِ چہارم
کامیاب اور پر ثمر میٹنگیں
۸۳
راولپنڈی کی اہم میٹنگ
سپریم کونسل کی میٹنگ راولپنڈی میں منعقد ہونیوالی تھی، جس میں شرکت کے لئے ہم تمام نمائندے جو ہونزہ، گلگت، اور پولٹیکل اضلاع سے آئے تھے، ۱۴؍ اپریل ۱۹۷۲ء کو بذریعۂ ہوائی جہاز پنڈی پہنچ گئے، جناب غلام محمد بیگ صا حب (مرحوم) بھی تھے، ہمارے چترال کے نمائندے ہم سے پہلے آچکے تھے، ۱۵، ۱۶ کو ہم نے ہونزہ گلگت، اور چترال کے نمائندوں پر مشتمل غیر رسمی میٹنگ کی، جس کا مقصد ان تمام نمائندوں کے آپس میں تبادلۂ خیالات کرنا تھا تاکہ میٹنگ کی تیاری ہوسکے۔
اسی اثناء میں یہ بات سننے میں آئی کہ میٹنگ جائنٹ نہیں بلکہ سپریم کونسل ہی سے تعلق رکھتی ہے، لہٰذا جو جماعت کے وقتی نمائندے ہیں، وہ اس اجلاس میں شامل تو ہوسکتے ہیں، لیکن اظہارِ رائے اور ووٹ کی اجازت نہ ہوگئ، پس اس بات سے ہمیں بڑا دکھ ہوا، اور ہم میں سے چند حضرات عالیہ کونسل کے صدر میر محمد جمال خان صاحب کے پاس گئے، اور کہا کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ہم یہاں محض تماشائی بننے کے لئے نہیں آئے ہیں، اس پر صدر صاحب نے ازراہِ مہربانی فرمایا کہ یہ سپریم کونسل اور جماعت کے دیگر نمائندوں پر مشتمل
۸۵
جائنٹ میٹنگ ہے۔
۱۷ ؍ اپریل ۱۹۷۲ ء کو عالیہ کونسل کا اجلاس بوقتِ گیارہ بجے شروع ہوا، جس میں ہر شخص نے جماعت کی بھلائی کے بارے میں اظہارِخیال کیا، اور تنہا یہ حقیر بندہ تھا، جس نے روحانی تعلیم کی ضرورت و اہمیت پر ایک منظم مقالہ لکھ کر پرنٹ کروالیا تھا، اور جس کی کاپیاں تقسیم کی گئیں اور مقالہ پڑھا گیا، میرا خیال ہے کہ سب کو پسند آیا، اور کیپٹن وزیر امیر علی نے اسے بہت پسند کیا، پھر باتفاق یہ طے ہوا کہ میں مطلوبہ روحانی تعلیم سے متعلق ہدایات اور پروگرام حاصل کرنے کے لئے کراچی مرکز جاؤں، وہ کامیاب مقالہ من و عن درج ذیل ہے: ۔
۸۶
وہ مقالہ جو وسطی ایشیا۔ ہونزہ، گلگت اور چترال کے اسماعیلی نمائندوں اور عالیہ کونسل کے ممبران کی میٹنگ منعقدہ ۱۸؍ اپریل ۱۹۷۲ ء میں پڑھا گیا
جناب صدرِ عالیقدر و معزز نمائندگان!
یا علی مدد!
مجھے اسماعیلی جماعت کے جس ادارے نے جس ضروری کام کے لئے اس عالیشان اجلاس میں شرکت کرنے کو موقع بخشا ہے، اس کی طرف سے یہ میرا ایک واجبی اور لازمی فریضہ ہے، کہ میں ادارہ مشارٌ اِلیہ کے اُس مطالبے کے اغراض و مقاصد کی کچھ وضاحت کروں، جو ایک مختصر گوشوارے کی صورت میں اسماعیلیہ علاقائی کونسل گلگت کو پیش کیا گیا ہے۔
آپ سب حضرات کسی اختلاف کے بغیر اس بات کے قائل ہیں، اور یہ ہم سب کے لئے ایک یقینی امر ہے، کہ مولانا حاضر امام کے پاک و مقدّس فرامین کے مطابق ہمیں نہ صرف یہی کہ مادّی طور پر ترقی کرنا لازمی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ روحانی طریق پر بھی آگے بڑھنا ازبس ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ اہم ترین کام ایک ایسی اعلیٰ درجے کی روحانی تعلیم کے بغیر ناممکن ہے جس کا طریقِ کار باضابطہ
۸۷
اور منظم ہو۔
اب یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ اس درجے کی دینی اور روحانی تعلیم سے مختلف علاقوں کی جماعتوں کو کن کن اصولوں اور طریقوں سے مستفیض و بہرہ مند کیا جا سکتا ہے، اس سوال کا تسلی بخش جواب بھی اسماعیلی مذہب کی تعلیمات میں موجود ہے، چنانچہ مولانا علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے کہ کلّمو ا النّاس عَلیٰ قدرِ عقو لھِم۔ یعنی تم لوگوں سے ان کی عقل کے موافق بات چیت کر لیا کرو۔ نیز اس سوال کا جواب ہمارے نامور پیروں کے اصولِ دعوت اور طریقِ تبلیغ میں بھی موجود ہے، جیسا کہ ہمارے عظیم المرتبت حضرت پیر صدرالدین اور آپ کے بعد والے نامور پیروں نے ہندوستان کے جس خطے میں بھی تبلیغ و دعوت کی ہے، وہاں ان حضرات نے لوگوں کی جائز اور مناسب رسومات و عادات کو پیشِ نظر رکھ کر انہی چیزوں کی موزونیت و مناسبت کے مطابق اسماعیلی دعوت کی ہے، کیونکہ ان بزرگوں کی نظر میں سب سے زیادہ مؤثر دعوت صرف اسی صورت میں ہوسکتی تھی، پس معلوم ہوا کہ اسماعیلی مذہب میں ہمیشہ سے ایسی بہت سی خوبیاں موجود ہیں، کہ جن کی بدولت زمان و مکان کے تقاضوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
بالکل اسی طرح دوسری طرف سے حضرتِ پیر ناصر خسرو (ق س) نے بھی ہندوستان کے پیروں سے بہت پہلے لوگوں کے ماحول
۸۸
اور زمان و مکان کی کیفیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دعوت کی تھی، یاد رہے کہ حضرتِ پیر ناصر خسرو نے جن جن ملکوں اور علاقوں میں دعوت کی تھی، وہاں سب کا سب اسلامی ماحول تھا، چنانچہ اگر آپ چاہیں تو اس حقیقت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ پیر ناصر خسرو نے اپنے طریقِ دعوت اور تمام تعلیمات میں قرآن و حدیث اور اماموں کے اقوال کی روشنی میں کیسے کیسے محکم دلائل سے اسماعیلی مذہب کی حقانیت ثابت کر دی ہے، اور آج تک ان تمام ملکوں اور علاقوں کے اسماعیلیوں میں، جن کے آباو اجداد نے پیر ناصر خسرو کی دعوت قبول کی تھی، امام شناسی اور دین شناسی کا وہی تعلیماتی اصول کارفرما اور مؤثر ہے، جسے موصوف پیر نے قائم کیا تھا۔
پیر ناصر کی تعلیمات سے ہمیں نہ صرف قرآن و حدیث کے اسماعیلی حقائق و معارف کا انکشاف ہوتا ہے بلکہ ان میں اس پاک مذہب کے متعلق فلسفہ اور منطق جیسے ظاہری علوم کے ایسے عاقلانہ دلائل بھی موجود ہیں، کہ کوئی دانشمند ہزار ہا کوشش کے باوجود بھی ان کی تردید نہیں کرسکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے مقدس عقیدہ کے بارے میں اعتراضات و سوالات خواہ کوئی مسلمان اٹھائے یا کوئی غیر مسلم، ان سب کے لئے مُسکِت جوابات حکیم ناصر خسرو کی تعلیمات سے مل سکتے ہیں، کیونکہ جس طرح مسلمان قرآن و حدیث کے بغیر کوئی مذہبی بات سننا گوارا ہی نہیں کرتے، اسی طرح
۸۹
غیر مسلم دانشور فلسفہ اور منطق کے بغیر نظریات کے مباحثوں اور مناظروں کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔
زمانۂ قدیم میں مذہب اور عقیدہ کی بابت لوگوں کی سادہ لوحی اور بھولاپن کا یہ عالم تھا، کہ اگر ایک آدمی کسی پتھر یا کسی درخت کو خدا کا مظہر قرار دیتا، تو دوسرے بہت سے آدمی کسی تحقیق و تدقیق کے بغیر پتھر یا درخت کی پرستش کرنے لگتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے، وہ زمانہ کبھی کا گزر چکا ہے، موجودہ وقت ہر قسم کی ریسرچ (تحقیق) کا زمانہ ہے، جس میں انسان نہ صرف سائنسی طور پر مادّی اشیاءٔ کا تجزیہ و تحقیق کر رہا ہے، بلکہ وہ عقلی طور پر مذہبی عقائد و رسومات کا بھی تبصرہ تنقید کرنے لگا ہے، پس اگر ہم ایسی حالت میں اپنے بچوں کو باضابطہ روحانی تعلیم کے ذریعہ پاک اسماعیلی مذہب کی بے مثال خوبیوں سے آشنا نہ کریں، تو یہ ہماری ایک ایسی غفلت ہوگی جس کا نتیجہ کسی نہ کسی وقت ہماری نئی نسل کی گمراہی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔
اگر ہم حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ اور مولانا حاضر امام علیہما السّلام کے تمام مقدّس فرامین کو سامنے رکھ کر دیکھیں، تو ان میں جگہ جگہ مذہبی اور روحانی تعلیم کی اہمیت ظاہر ہوگی، اس کے علاوہ دینی تعلیم کی ضرورت اس امر سے بھی واضح ہو سکتی ہے، کہ امام عالی مقام نے پاکستان، ہندوستان اور افریقہ جیسے
۹۰
ملکوں کے اسماعیلی مرکزوں میں وسیع پیمانے پر دینی تعلیم اور وعظ و نصیحت کے لئے کتنے بڑے بڑے ادارے قائم کئے ہیں اور ان کے مصارف کے واسطے کتنے گرانقدر عطیات دے رہے ہیں۔
آپ کو یہ حقیقت روشن ہے، کہ ہمارے علاقہ جات کراچی کے اسماعیلی مرکز سے کتنے دور اور دینی ترقی میں کس قدر پسماندہ ہیں۔ آپ حضرات سے یہ امرواقع بھی ہرگز پوشیدہ نہیں، کہ ہمارا علاقہ ملکِ چین کی سرحدوں سے ملا ہوا ہے، اور ملک روس کی سرحد تک فضائی راستہ تقریباً پانچ میل ہے اور آپ اس صورتحال سے بھی بخوبی واقف و آگاہ ہیں، کہ مذکورہ دونوں عظیم ممالک نے کہ جن کی دنیاوی ترقی و برتری کا چرچا عالمگیر ہو چکا ہے، مادّی ترقی کے سبب سے دین اور عقیدہ کو خیرباد کہا ہے اور یہ ایک فطری امر ہے، کہ ایک غریب و نادار شخص اپنے امیر ہمسائے کے قول و فعل کی نقل و تقلید کرنے کا خواہان ہوتا ہے، کیونکہ نادان غریب، جس کو دین کی حکمتوں کی خبر نہ ہو، تنگدستی اور مفلسی کے نتیجے پر اپنی ہر بات اور ہر کام سے بیزار ہو کر امیر کی ہر بات اور ہر کام کو عقیدت و محبت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے، ہر چند کہ امیر غریب سے زبانی طور پر یہ نہیں کہتا کہ تم میری عادتوں کو اپنا لینا۔
۹۱
مذکورہ بالا بیان کا مقصد و منشاء اس کے سوا کچھ بھی نہیں، کہ اس وقت چترال، گلگت اور ہونزہ جیسے پس ماندہ علاقہ جات کے اسماعیلیوں کے لئے بڑی سختی کے ساتھ روحانی تعلیم کی ضرورت درپیش ہے، اور وہ اس حد تک ضروری ہے کہ اگر خدانخواستہ اس کارِ خیر میں کسی سبب سے تاخیر ہوئی تو آپ اس بات پر یقین کیجئے، کہ پھر آگے چل کر لاکھوں روپے کے صرف کرنے سے بھی اس بگڑے ہوئے کام کی درستی و اصلاح نہ ہوسکے گی، لہٰذا متعلقہ پسماندہ جماعتوں کی زبانِ حال اور زبانِ قال سے عرض ہے کہ اب بھی اصل وقت سے کچھ باقی ہے جس میں یقیناً آپ حضرات ان جماعتوں کی دینی اور روحانی محافظت کے لئے کوئی تعلیمی بندوبست کر سکتے ہیں۔
پس امید ہے کہ آپ تمام حضرات، جو اس اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں شرکت فرما ہیں، ہمارے اس جائز و مناسب بلکہ ضروری مطالبے کی تائید کرتے ہوئے اپنی قیمتی سفارشات کے ساتھ مولانا حاضر امام کے حضورِ اقدس میں پیش کریں گے، تاکہ آپ کے بہت سے دینی بھائی اس مذہبی تعلیم کے نتیجے میں اپنے پاک عقائد کی خود حفاظت و نگہبانی کر سکیں، اور آپ کو اس عظیم احسان کے عوض میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیک اور مخلصانہ دعائیں دیتے رہیں۔
فقط
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی نمائندہ مکتبۂ ناصری
اسماعیلی مرکز گلگت۔ مورخہ ۸؍ اپریل ۱۹۷۲۔
۹۲
کراچی کی اہم میٹنگ
۱۷، ۱۸، اپریل ۱۹۷۲ء میں راولپنڈی کانفرنس ختم ہوگئی، ۲۰؍ اپریل کو میں کراچی روانہ ہوا ۔۔۔۔۔ میں کراچی میں تھا کہ یکایک وزیر امیر علی صاحب نے مجھے ایک مخصوص میٹنگ کے لئے کال کیا، یہ تاریخ ماہِ مئی کی یکم تھی، اور مقام جوبلی انشورنس کی بلڈنگ میں اسٹیٹ آفس تھا، اس میٹنگ میں ہم صرف تین اشخاص تھے: جناب وزیر امیر علی صاحب، جناب فقیر محمد صاحب ہونزائی، اور یہ بندہ (نصیر الدین) یہ میٹنگ ہماری پنڈی والی کانفرنس کے اس مقالے سے متعلق تھی، جس میں پُرزور الفاظ میں روحانی تعلیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ہماری دوسری میٹنگ ۱۲ ؍ مئی ۱۹۷۲ کو بمقام ِباغیچہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن میں ہوئی، اب اس میں جناب کیپٹن وزیر امیر علی صاحب کے علاوہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ جناب وزیر غلام حیدر بندہ علی صاحب بھی تھے، مگر اس میں جناب فقیر محمد صاحب ہونزائی حاضر نہ ہو سکے تھے۔
تیسری میٹنگ ۱۶؍ مئی کے لئے مقرر ہوئی، مگر بعد میں تاریخ
۹۳
تبدیل کر کے ۲۳؍مئی کو رکھی گئی، اور ۲۳ میں بھی نہ ہوسکی، بلکہ ۲۴ کو یہ میٹنگ پریذیڈنٹ کے دفتر میں منعقد ہوئی، اس دفعہ بہت کچھ گفتگو کے بعد یہ طے ہو گیا کہ نصیر الدین اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کی جانب سے گلگت وغیرہ میں کام کریں گے، اس میٹنگ میں، یہ اشخاص تھے: جناب وزیر امیر علی صاحب، جناب وزیر غلام حیدر صاحب صدر، جناب راعی قاسم علی صاحب، جناب فقیر محمد صاحب ہونزائی، اور یہ حقیر بندہ، محترم فقیر محمد صاحب ہونزائی شروع ہی سے مشفق و مہربان رہے ہیں۔
جب مجھ سے فرمایا گیا کہ آپ ایسوسی ایشن کی طرف سے گلگت میں علمی کام کریں گے، تو میں نے قبول کیا، اور یہ تجویز بھی ہوئی کہ اب آپ وہاں برانچ قائم کریں گے، میں نے کہا: ان شاء اللہ میں یہ خدمت کروںگا، اسی کے ساتھ دل میں ایک اچھا خیال آیا کہ اب موقع ہے اپنے ساتھیوں کے لئے کوئی نیک بات کرو، چنانچہ عرض کیا کہ برانچ کا کام میں اکیلا کیسے کروں گا، وزیر امیر علی صاحب نے پوچھا: آپ کس کو ساتھ لینا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا: فداعلی ایثار صاب اور عزیز اللہ نجبیب صاحب کو نیز شاہ ولی صاحب کو انہوں نے مقدم الذکر دونوں صاحبان کے لئے فوراً منظور کیا، اور دونوں عزیز انہی دنوں میں کراچی تشریف لائے، اور ہم نے ان کو یہ خوشخبری سنائی، تو وہ شادمان ہوگئے۔
۹۴
باب پنجم
جشنِ افتتاح
۹۵
جشنِ افتتاح
آپ یقیناً ایک ترقی پسند اسماعیلی کی حیثیت سے یہ بشارت سن کر مسرت و شادمانی محسوس کریں گے، اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کراچی نے مورخہ ۱۰؍ جون ۱۹۷۲ سے اپنی ایک شاخ گلگت میں بھی قائم کر دی ہے، جو “اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان شاخِ گلگت” کہلاتی ہے، اور اس میں ایک خوش منظر اور شاندار لائبریری بھی قائم کی گئی ہے۔ جس کا نام “ایچ۔ آر۔ ایچ دی آغاخان اسماعیلیہ مرکزی لائبریری گلگت” رکھا گیا ہے، اس میں ہر ضروری موضوع سے متعلق گرانمایہ کتابیں سجائی جارہی ہیں۔
چنانچہ مذکورہ ایسوسی ایشن اور اس کی لائبریری کی عظیم الشّان افتتاحی تقریب مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ کو اسماعیلی مرکز گلگت میں منائی گئی، جس کی صدارت عالی جناب نواب جعفر خان صاحب صدر اسماعیلیہ ریجنل کونسل گلگت نے کی، اس پُررونق اور مسرت انگیز جشن کے موقع پر علماء، فضلاء اور مقررین حضرات نے جس دلکش انداز سے وعظ و نصیحت اور علم و حکمت
۹۷
کے تابناک جواہر پارے بکھیرے، اس سے حاضرینِ مجلس بیحد مسرور محظوظ ہو کر جھوم رہے تھے۔
ان تمام منظور و منثور علمی باتوں کا قلمی احاطہ نہیں ہوسکتا، اس لئے ایک نظم بطورِ نمونہ درج کی گئی ہے جو “مرکزِ علوم” کے عنوان سے لائبریری کی تعریف و توصیف میں ہے، جو علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی نے اس پُرشکوہ اجتماع میں انتہائی جوش و خروش اور آہنگ و ترنم سے پڑھی تھی۔
مرکزِ علوم
(لائبریری)
قائم ہوا بفضلِ خدا مرکزِ علوم راہِ عمل کی شمعِ ہدا مرکزِ علوم
تھا نورِ مصطفیؐ و علیؑ مایۂ عقول جب اس جہان میں کوئی نہ تھا مرکزِ علوم
اس نور سے جہاں ہوا علم کا ظہور پھر رفتہ رفتہ بن کے رہا مرکزِ علوم
توضیحِ رازِ علمِ سماوی فروغِ دین میراثِ پاک آلِ عبا مرکزِ علوم
۹۸
شاہنشہِ علوم و حکم ہے کریمؑ دہر الحق اسی نے ہم کو دیا مرکزِ علوم
روشن ہو دہر علمِ امامت سے دن بدن یاں اس لئے ہوا ہے بنا مرکزِ علوم
آثارِ علم ناصرِ خسرو (قس) تلاش کر ہاں اس لئے ہوا ہے بپا مرکزِ علوم
ناصر (قس) کے علمِ دین سے دنیا بدل گئی وہ تھا قرین نورِ خدا مرکزِ علوم
اس در سے آکہ حکمتِ ناصر (قس) تجھے ملے کوئی نہیں ہے اس کے سوا مرکزِ علوم
سر چشمۂ حیاتِ دوامی ہے علمِ دین یعنی یہی ہے آبِ بقا مرکزِ علوم
علم و ہنر سے کوئی نہیں بے نیاز اب مرجع برائے شاہ و گدا مرکزِ علوم
ما نا کہ مرضِ جہل ہے دنیا میں بد ترین اس مرض کی یہی ہے دوا مرکزِ علوم
جس منزلِ مراد پہ ہے نورِ کبریا اس راہ کا ہے راہنما مرکزِ علوم
۹۹
ہے باعثِ سعادتِ دنیا و آخرت اللہ کا ہے جود و عطا مرکزِ علوم
مانا کہ علم دولتِ پایندہ ہے مگر آتا نہیں ہے علم بلا مرکزِ علوم
کرتا ہو کوئی علمِ حقیقت کی جستجو تو اس کو روز روز دکھا مرکزِ علوم
علم و ادب کا گنجِ گران مایہ مل گیا اس وقت سے کہ ہم کو مرکزِ علوم
آنکھیں ہوئی ہیں خیرہ فروغِ علوم سے جب سے ہوا ہے جلوہ نما مرکزِ علوم
قائم کیا ہے قوم نے امیدِ خیر میں یا ربّ رہے ہمیشہ بجا مرکزِ علوم
مردِ حکیم کا ہے یہی قولِ مختصر گنجینۂ گہر ہے سدا مرکزِ علوم
دیکھا نصیرؔ زار ہوا علم کا چراغ زینت فزائے ارض و سما مرکزِ علوم
(مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ء)
۱۰۰
لائبریری کی رکنیّت
بسم اللہ الرّحمٰنِ الرّحیم۔
لائبریری اسکول کی طرح ایک (علمی) ادارہ ہے جہاں زیادہ سنجیدہ قِسم کا لٹریچر متعارف کرانا چاہئے، اور اسماعیلیوں، خاص کر نوجوانوں میں سنجیدہ اسماعیلی تاریخ اور اسماعیلی فلسفے کے مطالعہ کی دلچسپی پیدا کی جائے۔
(حاضر امام کا فرمانِ مبارک ۔ کمپالا ۔ ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۵۷ء۔ )
گنجینۂ علم و حکمت
جس طرح اس مادّی دنیا میں لعل و گوہر اور نقرہ و زرّ کے خزانوں کے بغیر “دنیاوی اور مادّی ترقی نا ممکن ہے” اسی طرح شعوری عالم میں عقل و دانش اور علم و حکمت کے گنجینوں کے بغیر دینی اور روحانی ترقی محال ہے، اور ان دونوں باتوں
۱۰۱
میں یہ مماثلت و مشابہت بھی پائی جاتی ہے، کہ مادّی دولت کا سرمایہ یعنی لعل و زرّ وغیرہ اعلیٰ قسم کے پہاڑوں کے سینوں سے نکال کر خزانہ کر لیا جاتا ہے اور شعوری دولت کا سرمایہ یعنی علم و ادب اعلیٰ درجے کے انسانوں کے سینوں سے حاصل آکر گنجینہ بن جاتا ہے۔
عقل و دانش کے گران قدر جواہر اور علم و ادب کے بیش بہا موتیوں کا خزانہ پُرمغز کتابوں کی صورت میں موجود ہوتا ہے، اور ہمارے زمانے میں کتابوں کے اس انمول خزانے کا نام لائبریری (LIBRARY) مشہور ہے، لائبریری کے معنی کتب خانہ یا کتاب گھر ہیں، ہم اسے ذخیرۂ کتب یا گنجینۂ کتب بھی کہہ سکتے ہیں۔
الحمد للہ علیٰ احسانہٖ، کہ گلگت اسماعیلی مرکز کی نیک نام جماعت کی گرانقدر مالی قربانیوں اور اس کے ہوشمند کارکنوں کے حسنِ عمل کے نتیجے پر آج ہمارے سامنے نہ صرف “ایچ ۔ آر۔ ایچ دی آغا خان، اسماعیلیہ سنٹرل لائبریری۔” کی ایک خوبصورت اور دلکش عمارت موجود ہے، بلکہ اس میں دنیائے علم و ادب کی بلند پایہ اور مفید ترین کتابوں کا ایک ذخیرہ بھی مہیا ہونے لگا ہے، اور اس سلسلے میں سب سے بڑی خوشی کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ سال اس لائبریری کی ترقی اور کامیابی کی غرض سے مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ کے حضورِ اقدس میں جو ایک حقیر
۱۰۲
سی مہمانی مرسول ہوئی تھی، اس کے جواب میں مولائے پاک کے حضورِ پُرنور سے دعائے فیوض و برکات کا مبارک و مقدّس رقیمہ عنایت ہوا ہے، جو کہ یہاں کی نامدار مقامی کونسل کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
لائبریری کی اہمیّت و افادیّت:
جاننا چاہئے کہ دنیائے علم و حکمت کے نامور علماء و حکماء نے اپنی گران مایہ عمر کے عوض میں جو کچھ حاصل کر لیا تھا، وہ سب بصورتِ کتب لائبریری سے دستیاب ہو سکتا ہے، لہٰذا ایک مکمل اور وسیع پیمانے کی لائبریری نہ صرف عصرِ حاضر میں علم و حکمت کے خزانے کا درجہ رکھتی ہے، بلکہ یہ زمانۂ قدیم میں بھی علم و ادب کا چشمۂ زائندہ رہی ہے، بنا برین لائبریری ایک ایسی بے پایان وسیع و عریض معلوماتی دنیا ہے، کہ جس کی وسعتوں میں یہ جسمانی کائناتِ شش جہات ذرّۂ بے مقدار کی طرح گم گشتہ اور غائب ہے، پس معلوم ہوا، کہ لائبریری کی اس علمی دنیا کی روشنی میں بارہا آنکھ کھولے بغیر کوئی عام انسان مقامِ علم پر نہ کچھ دیکھ سکتا ہے اور نہ کچھ دکھا سکتا ہے، چنانچہ ایک عام طالبِ علم سے لیکر ایک خاص ریسرچ سکالر تک جتنے بھی علمی درجات ہیں وہ سب کے سب لازماً لائبریری کے محتاج ہوتے
۱۰۳
ہیں، اور اس کے سوا ان کا کوئی علمی اور تحقیقی کام پایۂ تکمیل پر نہیں پہنچ سکتا۔
لائبریری کی خدمات میں حصّہ:
جب لائبریری کی اہمیّت و افادیت سے آپ خوب واقف و آگاہ ہو گئے، تو ظاہر ہے کہ آپ کے دل میں لائبریری کی خدمات میں حصّہ لینے کا ذوق و شوق موجزن ہوا ہوگا، اگر واقعاً ایسا ہی ہے، تو آئیے! ہم آپ کو اس مقدّس خدمت کا ایک منظم طریقِ کار پیش کرتے ہیں، تاکہ اس سے آپ اپنی مالی حیثیت کے مطابق خوشی اور آسانی سے جماعت کی ایک ہمہ رس علمی خدمت میں شرکت کر سکیں، وہ طریقِ کار حسبِ ذیل ہے: ۔
ا۔ سرپرست اعلیٰ کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۰۰۰
۲۔ سرپرست درجۂ اول کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۵۰۰
۳۔ سرپرست درجۂ دوم کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۴۰۰
۴۔ سرپرست درجۂ سوم کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۳۰۰
۵۔ لائف ممبر درجۂ اوّل کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۵۰
۶۔ لائف ممبر درجۂ دوم کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۵۰
۷۔ لائف ممبر درجۂ سوم کا عطیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۱۰۰
۱۰۴
اس علمی خدمت کے فوائد:
ویسے تو اس علمی خدمت کے بے شمار فائدے اور لاتعداد ثمر ہیں، جو دنیا میں بھی اور عقبیٰ میں بھی حاصل ہونے والے ہیں، لیکن ان کے باتفصیل بیان کے لئے یہاں گنجائش نہیں ہوسکتی، اس لئے ان فوائد کی ایک چھوٹی سی ظاہری مثال پر اکتفاء کیا جاتا ہے، کہ مالی قربانی پیش کر کے مذکورہ بالا درجات حاصل کرنے والے حضرات کے اسمائے گرامی اوّل تو لائبریری کے اندر خاص قسم کے تختوں پر درجہ وار لکھے جائیں گے، اس کے بعد کسی خاص موقع پر لائبریری کی طرف سے شائع ہونے والے کسی کتابچے یا رسالے میں بھی یہ اسماء مرقوم ہوں گے، علاوہ بران لائبریری کی خاص خاص تقریبات میں شرکت کے لئے ان معزز حضرات کو دعوت بھی دی جائے گی، نیز اگر یہ امر ممکن ہوا، تو حصولِ دعائے فیوض و برکات کی غرض سے ان صاحبان کے اسمائے گرامی کی فہرست کسی مناسب ذریعے سے مولانا حاضر امام علیہ السّلام (روحی فدا) کے حضورِ اقدس میں بھی پیش کی جائے گی۔
ان تمام ظاہری خطابات و اعزازت کا مقصدِ اعلیٰ یہ ہے کہ مذہبی اور جماعتی خدمات کی باقاعدگی سے حوصلہ افزائی اور نیک کاموں کی تشویق و ترغیب ہو جائے۔
۱۰۵
درجات کا داخلہ:
مذکورہ بالا درجات کا داخلہ مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ ء سے شروع ہوا ہے جب کہ “اسماعیلیہ ایسوسی برائے پاکستان، شاخ گلگت” اور اس کی مذکورہ لائبریری کی افتتاحی تقریب منائی جارہی تھی، اور اب یہ داخلہ جاری ہے۔
اس کارِ خیر میں کوئی بھی اسماعیلی فرد یا کوئی بھی اسماعیلی جماعت یا ادارہ کسی علاقائی استثناء کے بغیر حصّہ لے سکتا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد و زن، صغیر و کبیر، برنا و پیر، گذشتہ و زندہ اور فرد و ادارہ سب کے سب ابدی نجات و ثواب کے محتاج ہیں، لہٰذا جس کے حق میں اس دور رس علمی کام کا ثواب مطلوب ہو، اس کا نام اس سلسلے میں لکھایا جاسکتا ہے۔
مقررہ رقومات کی بجائے کارآمد اور مفید کتابیں بھی لائبریری میں لی جاسکتی ہیں، اور فرنیچر وغیرہ بھی۔
اس کارِ خیر میں آپ کی شمولیت و شرکت کا متمنی اور دعا گو
علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
انچارج: اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان، برانچ گلگت۔
۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ء
۱۰۶
دعوت نامۂ رکنیّت
از دفتر
اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان
شاخ گلگت
مورخہ۔۔۔۔۔۔۔
جناب محترم امین الدین صاحب!
یا علی مدد! ہم “اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان، شاخِ گلگت” اور اس سے ملحق “ایچ ۔ آر۔ ایچ پرنس آغا خان اسماعیلیہ سنٹرل لائبری” کی جانب سے آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ آپ نے امام حیّ و حاضر کی دین پرور اور علم گستر ہدایات کے مطابق مبلغ ڈھائی سو (۲۵۰) روپوں کی عظیم مالی قربانی پیش کر کے مذکورہ لائبریری کے لائف ممبر بننے کا بلند درجہ حاصل کر لیا ہے، دعا ہے کہ پروردگار عالم آپ کو دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی عنایت فرمائے! آمین یا رب العالمین!!
آپ کو اس امرِ واقع میں کوئی شک و شبہ نہ ہو کہ آپ کی یہ عظیم مالی قربانی ایک تاریخ ساز کارنامہ سے متعلق ہے، کیونکہ اس قسم کے عطیات کی فراہمی سے اسماعیلیہ ایسوسی ایشن اور اس کی لائبریری کے ایک مضبوط اور ہمہ رس علمی مرکز کی حیثیت
۱۰۷
سے قائم ہونے میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے، لہٰذا ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ نیک عمل کی تشویق و ترغیب اور احسان شناسی و قدردانی کی غرض سے آپ کا اسمِ گرامی نہ صرف لائبریری کے بورڈ پر مرقوم ہوگا، بلکہ ہر اُس اہم کتابچہ، نمبر وغیرہ میں بھی ثبت ہوگا جو وقتاً فوقتاً لائبریری کی طرف سے شائع ہونیوالا ہے تاکہ آپ جیسے جماعت کے محسن اور خیر خواہوں کا نامِ نامی ہمیشہ کے لئے زندہ رہے اور آنے والی نسلوں کو آپ کے اس کارنامے سے قومی خدمت کا سبق حاصل ہو۔ لہٰذا آپ کو، آپ کے جملہ خاندان کو اور پوری جماعت کو ایسی علمی و جماعتی خدمات اور کارناموں پر فخر ہونا چاہئے۔
چونکہ مورخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۷۳ء کو بروز اتوار بوقت ایک بجے (دوپہر) اسماعیلیہ ایسوسی ایشن ہٰذا اور اس کی لائبریری کی افتتاحی تقریب منائی جارہی ہے، اس لئے آپ سے گذارش ہے کہ مقررہ وقت پر تشریف لا کر اس دینی اور علمی جشن کو کامیاب بنانے میں معاونت فرمائیں شکریہ!
فقط آپ کی علمی خادم
علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
انچارج: اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان، برانچ گلگت۔
۱۰۸
دو ماہ کورس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان، گلگت ایریا کمیٹی
تصدیق کی جاتی ہے کہ مسمی ___________ولد ____________ ساکن موضع _____________ تحصیل ____________ ضلع______________ نے میری نگرانی میں آر۔ جی ۔ سی کا مختصر مگر جامع دوماہ کورس منعقدہ بمقام شاہ کریم الحسینی ہاسٹل کونو داس گلگت از یکم ماہ جولائی تا غایت ماہِ اگست ۱۹۷۵ء مکمل کر لیا، جس میں، میں نے اور گلگت اسماعیلی مرکز کے سینیئر واعظین نے لیکچرز اور تحریری درس کی صورت میں مندرجہ ذیل ۳۸۰ موضوعات کی تعلیم دی ہے:
قرآنی حکمت کے ۶۲ مضامین۔ احادیثِ شریف کے ۵۲۔ کلامِ مولا یعنی مولانا مرتضیٰ علی علیہ السلام کے مبارک اقوال کے ۲۰۔ فقہی مسائل کے ۱۵۔ اسماعیلی تواریخ کے ۱۴۔ اسماعیلی دعا کے ۱۲ ۔ بچوں کی دینی تربیت کے ۱۰۔ حسنِ قرأت کے ۱۰۔ ضروری ضروری جنرل مضامین ۱۷۵۔ کل مضامین ۳۸۰ تھے۔
حامل سند ہٰذا اس کورس کی تکمیل کے امتحان میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کامیاب ہوا ہے۔
علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
آفیسر انچارج ٹیچنگ اینڈ پریچنگ ڈیپارٹمنٹ
۱۰۹
بابِ ششم
مذہبی رسومات کی بیمثال خدمت
۱۱۱
ایک اجتماعی خدمت جو بیمثال ہے
حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو قَدَّسَ اللّٰہُ سِرَّہ نے بحکمِ امامِ برحق علیہ السّلام جس پُرحکمت نہج پر اسماعیلی دعوت کا آغاز کیا، اور جس شان سے علم و حکمت سے مملو کتابیں تصنیف کی گئیں، اور جیسے آپ کے باکرامت شاگرد یعنی پیر، داعی، معلم وغیرہ پیدا ہوئے، ان تمام وسائل و ذرائع کی برکت سے اسماعیلی دعوت کا دائرہ بڑا وسیع ہوگیا، اور شروع سے لے کر آج تک تقریباً ایک ہزار سال کے اس عظیم دور میں کروڑوں نفوسِ انسانی اس مبارک راستے پر چل کر عرفانِ حق کے مختلف مراتب پر فائز ہوگئے۔
آپ جانتے ہیں کہ اگرچہ بنیادی اہمیّت دعوت اور قبولیت کی ہے، تاہم یہ کام محدود وقت میں مکمل ہو جاتا ہے، جبکہ اس مقدّس دعوت (یعنی مذہب) کی حفاظت اور خدمت ہمیشہ کے لئے ضروری ہے، چنانچہ ہمارے پاک عقائد کی حفاظت اور چھوٹی بڑی خدمات کی ذمہداری خلیفوں نے قبول کرلی، اور یہ خلفاء حضرات ہمارے عظیم پیروں کے جانشین اور نمائندے تھے اور ہیں، اگرچہ اہلِ تصوّف کے وہاں خلیفہ ایسے شخص کا نام ہوتا ہے، جو کسی مرشد کا براہِ راست جانشین ہوتا ہے، لیکن ہمارے یہاں خلیفہ (جانشین) کی اصطلاح
۱۱۳
پیر بزرگوار کی نسبت سے مقرر ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ جہاں سے جہاں تک پیر ناصر کی دعوت کی دنیا ہے اس میں یقیناً خلیفوں کی اجتماعی خدمات بے مثال ہیں، ہمیں عدل و انصاف سے سوچنا اور دیکھنا چاہئے کہ ہماری مذہبی رسومات اس کثرت سے ہیں کہ خلیفہ صاحب کو ہمہ وقت ان میں مصروف رہنا پڑتا ہے، خوشی اور غمی کی کوئی ایسی رسم نہیں، جس میں خلیفہ کی ضرورت نہ ہو، ایک طرف فرائض و مسائل کا بارِ گران اور دوسری جانب کم علمی کا دکھ، ضروری کتابوں کا فقدان، استادِ کامل کی عدم موجودگی، مدارس فلک بوس پہاڑوں کے پیچھے اور تلاشِ علم کی تمام تر راہوں میں طرح طرح کی رکاوٹیں، اور شدید مشکلات کا احساس صرف خلیفہ صاحب کو ہوتا رہتا تھا۔
ہم اپنی معلومات کی آسانی کی خاطر ہونزہ کی مثال پیش کرتے ہیں کہ شروع شروع میں جب یہاں اسلام نہ تھا تو علم بھی نہ تھا، جس وقت بلتستان سے اسلام کی روشنی یہاں آئی تو اسی کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم بھی آنے لگی، جب پیرانِ بدخشان کے توسط سے ہونزہ میں اسماعیلیّت مقبول ہونے لگی تو اسی وقت سے اسماعیلی علم کی طرف توجہ دی جانے لگی، کچھ علم یا یاغستان، گلگت، اور نگر سے بھی حاصل کیا گیا، تاہم ان تمام کوششوں کے باوجود کوئی پائدار مدرسہ یا علمی مرکز قائم نہ ہوسکا، اور جو حضرات کسی حد تک کامیاب ہوئے تھے، ان کی کوئی پُراز معلومات اور مفید تحریر آج قوم کے ہاتھ میں نہیں ہے،
۱۱۴
مگر جماعت میں صرف ایک ہی مقدّس چیز ایسی ہے، جو شروع سے اب تک برابر جاری و ساری ہے، اور وہ خلیفوں کی اجتماعی خدمت ہے۔
کسی عالمِ بے عمل کے ذخیرۂ علمی سے خلیفۂ باعمل کا قلیل علم بدرجہا بہتر ہے، کیونکہ وہ شب و روز جماعتِ باسعادت کی ہرگونہ خدمات انجام دیتا ہے، اور خدمات بھی ایسی جو بیحد ضروری ہیں، جب کوئی نیک بخت خلیفہ مقدّس رسومات کی ادائیگی میں جماعت کے لئے دلکشی پیدا کرتا ہے، تو اس کے نتیجے میں مومنین و مومنات کے قلوب میں رقت و نرمی کے بعد مولائے پاک کا دریائے محبت موجزن ہونے لگتا ہے، اور یہ بہت بڑی سعادت ہے، کیونکہ اہلِ بیت علیہم السّلام کی محبت خدا کی محبت ہے، جس میں دین کے سارے اوصاف و کمالات خود بخود جمع ہو جاتے ہیں۔
جس زمانے میں مریضوں کے علاج کے لئے کوئی ڈاکٹر یا طبیب نہیں ملتا تھا، اس وقت خلیفہ کبھی دم دعا کرتا، کبھی قرآنِ پاک میں سے کچھ پڑھتا، کبھی تعویذ گنڈے سے تسلی دیتا، اور کبھی طشتِ آب پلا دیتا، غرض یہ بھی جماعت کی ایک اہم خدمت تھی۔
سب سے مشکل ترین خدمات موت کی رسومات کی ادائیگی میں ہیں، چنانچہ اس حلقۂ دعوت کی رسم شروع ہی سے یہی چلی آئی ہے کہ جب کسی بیمار میں مرجانے کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، اس
۱۱۵
وقت فوراً کوئی آدمی جاکر خلیفہ صاحب کو اطلاع دیتا ہے، جگہ دور ہو یا نزدیک، وقت دن کا ہو یا رات کا، ہر حالت میں خلیفہ وفات پانے والے کے پاس جاتا ہے، اور نزع (جان کندنی) سے متعلق جو اسلامی آداب ہیں، ان کو بلا کم و کاست بجا لاتا ہے، متوفی کے متعلقین کو ہر بار صبر اور شکر کی نصیحت کرتا ہے، غسلِ میت کی نگرانی اور کفن دوزی بھی اسی کی ذمہ ہے، وقفہ وقفہ سے قرآن خوانی، دعا، اور سورۂ فاتحہ کا سلسلہ تو روزِ ہفتم تک جاری رہتا ہے، خلیفہ صاحب خواہ کہن سال کیوں نہ ہو وہ جنازے کے پیچھے پیچھے پیدل چلتا جاتا ہے، وہ اور اس کے ساتھی بہ آوازِ بلند محمدؐ و آلِ محمد پر درودِ شریف پڑھتے جاتے ہیں، تا آنکہ تنہا قبر یا قبرستان آتی ہے، نمازِ جنازہ وہاں یا اس سے پہلے کسی مناسب مقام پر پڑھی جاتی ہے، اکثر دفعہ جناب خلیفہ خود ہی میت کو قبر میں اتار دیتا ہے، پھر قبر کو حسبِ معمول ڈھانپ دینے کے بعد قرآن خوانی اور دعائے مغفرت کی جاتی ہے، پھر خصوصی تسبیح پڑھنے کے لئے جماعت خانہ جانا ضروری ہے، بعد ازان خلیفہ بلا تاخیر اسی گھر کی طرف جاتا ہے جہاں موت واقع ہوئی ہے۔
اس گھر کے افراد اور آئے ہوئے رشتہ دار محترم خلیفہ کے انتظار میں ہوتے ہیں، خلیفہ آکر مخصوص سورۂ کی تلاوت کرتا ہے،
۱۱۶
بعض خلفاء روزِ ہفتم تک قرآنِ پاک کو شروع سے لیکر آخر تک پڑھ لیتے ہیں، جبکہ بعض کچھ حصّے کو پڑھتے ہیں، اور ایسے گھر میں صبح سے لیکر شام تک خلیفہ کی حاضری ضروری ہے تاکہ ہر بار آئے ہوئے لوگوں کی طرف سے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کرتا رہے، اور یہ سلسلہ ساتویں دن تک جاری رہتا ہے۔
روزِ سوم متوفی کی قبر کی لپائی (کہگل ) کا کام ہوتا ہے، اور گھر میں رسمِ “چراغِ روشن” کے لئے تیاری ہوتی ہے، جس میں چند دعائیں پڑھی جاتی ہیں، شام کو جماعت خانہ سے فارغ ہو جانے کے بعد چراغِ روشن کا مقدّس عمل شروع ہو جاتا ہے، اہلِ دانش کی نظر میں یہ روایت باکرامت اور پُرحکمت ہے، اور حکیم پیر ناصر خسرو (قس) کے حلقۂ دعوت میں یہ ایک بڑی پُرکشش رسم ہے، کیونکہ اس میں ظاہری و باطنی بہت سی خوبیاں جمع ہیں، پس ان تمام مومنین و مومنات کی بہت بڑی نیک بختی ہے، جو دینی رسومات کو زبردست اہمیت دیتے ہیں اور ان کی حکمتوں کو سمجھتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاکیزہ قول و فعل میں قرآن حکیم کی ٹھوس عملی تفسیر و تاویل موجود ہے، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ تفسیر مثل ہوتی ہے اور تاویل ممثول، چنانچہ رسولِ اکرمؐ نے بحکمِ خدا “چراغِ روشن”
۱۱۷
اہلِ حقیقت کے لئے رائج کر دیا، جس کی تفسیر و تاویل میں تمام آیاتِ نور کی واضح نمائندگی ہے، کیونکہ قرآنِ پاک میں نورِ مطلق کی تشبیہ و تمثیل گھر کے چراغ سے دی گئی ہے (۲۴: ۳۵) اور وہ خدائی نور یقیناً اللہ کے مظہر میں ہے، جس کا سب سے روشن ثبوت نورٌعلیٰ نور ہے، یعنی ایک مظہر کے بعد دوسرا مظہر (ایک امام کے بعد دوسرا امام) پس چراغِ روشن سب سے روشن ترین آیت کی عملی تاویل ہے، اور وہ آیۂ مصباح (اللہُ نُور السمٰوٰتِ … ۲۴: ۳۵) ہے، لہٰذا اس بابرکت رسم میں پاک دین کے مرکزی خزانے کی تاویلی کلید رکھی ہوئی ہے۔
الغرض خلیفہ صاحبان دعوتِ بقاء اور دعوتِ فناء میں تقدّس و احترام کے ساتھ چراغنامہ (کتاب) پڑھتے ہیں، اور چراغِ روشن کے پاکیزہ عمل کو اس کے تمام اجزاء و آداب کے ساتھ انجام دیتے ہیں، جس میں باسعادت اور راسخ العقیدت مومنین و مومنات کے لئے بے شمار باطنی اور روحانی فائدے ہیں۔
جماعت کا عقیدۂ راسخ گویا ایک ثمردار درخت ہے، جس کی جڑیں مذہبی رسومات میں مضبوط ہوچکی ہیں، اس لئے ان مقدّس رسومات و روایات کی حفاظت و نگہداشت بیحد ضروری ہے، پس حکمت و دانائی اسی میں ہے کہ آپ نہ تو رسومات میں بےجا اضافے کریں اور نہ ہی کسی اہم رسم کو ختم کریں۔
۱۱۸
ہر چند کہ دین کا مقصدِ اعلیٰ علم و معرفت ہی ہے، لیکن جب تک عقیدۂ راسخ نہ ہو تو یہ عظیم مقصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتا، آپ قرآنِ پاک میں غور سے دیکھیں کہ بعض عام اور معمولی چیزیں اللہ تعالیٰ کے منشاء اور حکم سے خاص اور قابلِ حرمت قرار پاتی ہیں، اس کی مثال قربانی کے اونٹوں اور گائیوں سے لی جاسکتی ہے، سورۂ حج (۲۲: ۳۶) میں دیکھیں، پھر بُدْن کی تحقیق کریں تو اس میں قربانی کے اونٹوں اور گائیوں کا ذکر ہے، جو شعائر اللہ یعنی خدا کی نشانیوں میں سے ہیں، پس عقل و دانش اسی میں ہے، کہ ہم تمام اسماعیلیوں کی مذہبی رسومات کو عقائد کی بنیاد قرار دیتے ہوئے قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔
آج ہمارے سامنے مذہبی رسومات کی زبردست اہمیّت و افادیت سے متعلق تاجکستان کی ایک روشن مثال موجود ہے کہ اگرکمیونسٹ دور میں وہاں کوئی عظیم پیر یا کوئی بڑا عالم موجود ہوتا اور وہ اعلیٰ سطح پر دین کا کام کرنے کی کوشش کرتا تو وہ نہ کامیاب ہوسکتا اور نہ وہاں ٹھہر سکتا، لیکن خلیفوں کے بارے میں کسی غیر کو گمان تک نہ ہو سکا کہ مذہب کی جڑوں کو یہی لوگ مضبوط کر رہے ہیں، دف، رباب، قصیدہ خوانی، اور دیگر مذہبی رسومات کو کلچر (ثقافت) سمجھا ہوگا، حالانکہ یہی چیزیں مذہب کی جان ہوا کرتی ہیں، کیونکہ اسی کی بدولت روس اور چین جیسے کمیونسٹ ملکوں میں بھی اسماعیلی مذہب زندہ اور عقیدۂ امامت سے وابستہ ہے، الحمد للہ۔
۱۱۹
معروف اخوند رستم علی
یہ ایک روشن حقیقت ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ملک و ملت کا دفاع کبھی شمشیر سے کیا جاتا ہے، کبھی قلم سے، اورکبھی دونوں طاقتوں سے، قدیم ہونزہ میں خاندانِ محسن علی (محسناٹنگ) کا کردار دونوں میدان میں قابلِ تعریف رہا ہے، چنانچہ دولت علی ابنِ محسن میدانِ شمشیر کا بڑا بہادر تھا، اور آخوند رستم علی میدانِ قلم میں منفرد، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ان کی انمول تحریریں نہیں ملتیں۔
اس خاندانِ محترم کا شجرۂ نسب یہ ہے: بجل خان۔۔ رستم خان۔۔ ممو۔۔ مغل خان۔۔ دودو ۔۔۔ محسن ۔۔۔ دولت۔۔ رستم علی ۔۔۔ علی گوہر، جس کے تین بیٹے تھے: سگِ علی، علی جوہر، اور گوہر حیات، میں ان تینوں بزرگوں کو اچھی طرح سے جانتا ہوں، میں فی الوقت ارباب و خلیفہ سگِ علی کے فرزندانِ ارجمند کا مختصر تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، سب سے پہلے ان کے فرزندِ اکبر فتح علی خان (مرحوم و مغفور) کی بات ہو، جو عظیم اور نامور تھے، آپ میرے حق میں سچ مچ علی کی فتح ثابت ہوگئے، اور مجھے اس فتح و فیروزی سے جو کچھ حاصل ہوا، اس کا
۱۲۰
بیان احاطۂ تحریر سے باہر اور بالاتر ہے، انہی روحانی معجزات کی وجہ سے نہ صرف محسناٹک اور مسگار سے محبت ہونے لگی، بلکہ علاقۂ گوجال بھی بہت ہی عزیز ہوگیا۔
منشی غلام محمد خان (مرحوم) کے ساتھ میری برادری اور دوستی بہت ہی مضبوط ہوگئی تھی، اور اب بھی ان شاء اللہ وہی محبت اس خاندان کے ہر فرد سے ہے، کیونکہ ان عزیزوں میں چینی ترکستان، بدخشان، گوجال وغیرہ کے پُرکشش آداب پائے جاتے ہیں، اگر میں یہاں موصوف منشی کے بڑے صاحبزادے کا نام نہ لوں تو ناشکری ہوگی، عزیزم میراحمد خان کی بات ہے، آپ ہر لحاظ سے میری روح کے پیارے ہیں۔
برادر برابر بجانم قربان علی خان کو میں اپنا ایک دانشمند مشیر سمجھتا ہوں، انہوں نے کبھی مجھے کسی اہم کام میں اکیلا نہیں چھوڑا، ہر بار میرے دکھوں میں ان کو دکھ ہوا، میری ہر کامیابی سے وہ شادمان ہوگئے، خدا کا شکر ہے کہ آپ پورے علاقے کی معزز شخصیّت ہیں، اور گورنمنٹ کے معتمد بھی۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ھونزائی
کراچی
جمعرات، ۳؍ صفر المظفر ۱۴۱۵ ھ ۔ ۱۴؍ جولائی ۱۹۹۴ء
۱۲۱
شجرۂ نسب پسرانِ خلیفہ طیہان شاہ ساکنِ موضعِ حیدر آباد۔ ہونزہ
قدیم قبیلہ بروݣ ھرݳݷ جو بعد میں جدِ اعلیٰ صفر کے نام سے منسوب ہو کر صفر ھرݳݷ کہلایا، ھرݳݷ قدیم بروشسکی میں خاندان کو کہتے ہیں، چنانچہ صفر / سفر ۔۔ خوجہ گل ۔۔ خواجہ ۔۔ بہرام شاہ۔ ۔ خواجہ شاہ رؤف ۔۔ خوجہ بہرام شاہ ثانی ( جس کے دو بیٹے تھے: فقراء شاہ، خود راہ شاہ )۔۔ خودراہ شاہ ۔۔ محمد شاہ اوّل۔۔ محمد طلاء ۔۔ محمد بدیل (جس کے دو بیٹے تھے: محمد شاہِ ثانی، مولا شاہ، یہ گوجال چلا گیا ) ۔۔ محمد شاہِ ثانی ۔۔ علی بیگ ۔۔ محمد شاہ سوم۔۔ خلیفہ محمد عطاء اللہ المعروف خلیفہ طیو۔۔ خلیفہ طیہان شاہ، ان کو خداوندِ قدّوس نے پانچ بیٹے دیئے: خلیفہ /موکھی/ ماسٹر جان محمد (مرحوم) جنہوں نے اپنی ساری زندگی پیاری جماعت اور پیارے مولا کی مقدّس خدمت میں صرف کر دی، سید جان جو بڑے دیندار شخص ہیں، خلیفہ / موکھی / ابوذر غفاری (المعروف شمیم الدین) صفِ اوّل کے خلیفہ، عابد، درویش، عالم اور پاک مولا کے عاشق ہیں، آپ الواعظ بھی رہے ہیں۔
۱۲۲
خلیفہ طیہان شاہ (مرحوم) کا چوتھا فرزندِ ارجمند ریٹائرڈ صوبیدار علی داد خان ہیں، کتابِ گلہائے بہشت کے صفحہ ۲۷ پر بعنوانِ “ایک پیارا تعارف” آپ کا ذکرِ جمیل موجود ہے، میرے نزدیک وہ بہت ہی عمدہ اور شایان شان تذکرہ ہے، ایسا لگتا ہے کہ عزیزم صوبیدار علی داد میری باطنی ہستی کا ایک حصّہ ہو چکے ہیں، تاکہ بڑے شوق سے علم کا کام کریں۔
خلیفہ موصوف کے فرزندِ پنجم عزیزم بلبل جان ہیں، ان کی قومی اور جماعتی خدمات کا قصّہ خاصہ طویل ہے، ممکن ہے کہ وہ کسی اور موقع پر شائع ہو جائے، میرے بہت ہی عزیز جسمانی و روحانی بھائی بلبل جان بہت پہلے ہی سے میرے ساتھ علمی خدمت میں شریک رہے ہیں، میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سلسلے کی تمام باتیں حصّۂ تاریخ کے طور پر لکھ کر رکھیں، بلبل جان سچ مچ میری جان ہیں، روحانی علم عجیب سچائی کی نعمت ہےکہ میں نے بلبل جان کو اپنی جان کہا، یہ حقیقت ہے، کیونکہ جو جس کو چاہتا ہے وہ اس کی روح میں آجاتا ہے، جبکہ ایک میں سب کےلئے گنجائش ہو تی ہے، اگرچہ ہوتے تو سب ہیں، لیکن توجہ اور چاہت کی بات ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
۸؍ جولائی ۱۹۹۴ ء
۱۲۳
خلیفہ عافیت شاہ اور ان کے بیٹے
میرے محترم چچا خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع ابنِ ترنگفہ فولاد بیگ بڑے نیک، متقی، اور درویش صفت انسان تھے، وہ قرآن حکیم، دین، ایمان، اور امامِ عالیمقام کے شیدائیوں میں سے تھے، ان کو کتاب اور علم سے شدید محبت تھی، آپ جہاں بھی ہوتے وہاں علم یا نصیحت کی کوئی بات کرتے، آپ بار بار آغا عبدالصمد شاہ صاحب کی نصائح کا حوالہ دیا کرتے ۔
خلیفہ عافیت شاہ کو خداوند تعالیٰ نے چھ نیک بیٹے عطا کر دیئے، بہت بڑی سعادت ہے کہ وہ سب بااخلاق اور ایمانی ہیں، ان کی سب سے بڑی خوشی علم و عبادت میں ہے، وہ شروع ہی سے نہ صرف خانۂ حکمت میں شامل رہے ہیں، بلکہ سرگرم ارکان کی حیثیت سے کام بھی کر رہے ہیں، ہم ان کے احسان مند اور شکرگزار ہیں۔
۱: برادرم تولد شاہ اُن جفاکش ہونزوکڎ میں سے ہیں، جہنوں نے بڑے مشکل زمانے میں پرائمیری پاس کرلی، اور مرتضیٰ آباد ڈی۔جے سکول میں اس وقت ماسڑمقرر ہوئے جب کہ تقریباً پندرہ روپے کی تنخواہ ملا کرتی تھی، ساتھ ہی
۱۲۴
ساتھ خلیفہ کے فرائض بھی انجام دیتے تھے، پھر جماعت کے موکھی بھی ہوگئے، اسی طرح ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ جماعتی خدمت میں صرف ہوگیا۔
۲۔ نائب شاہ نورِ امامت کے عاشق اور جماعت خانہ کے شیدائی ہیں، ذکر کا ان پر زبردست اثر ہوتا ہے، منقبت بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔
سید علی (مرحوم) کی بہت بڑی نیک بختی تھی کہ انہوں نے چند سال تک مرکزی جماعت خانہ گلگت کی مقدّس مجاوری کی، ہر ایسی خدمت جس میں بندۂ مومن کو مظاہرۂ عاجزی کا زرین موقع مل جائے حقیقی خدمت ہے۔
۴۔ برادرِ عزیزم نیاز علی بہت ایماندار اور پرہیز گار شخص ہیں، آپ نے اپنی جماعت میں ایک عرصے تک بحیثیتِ موکھی کا م کیا، اور بطورِ خلیفہ اب بھی کام کر رہے ہیں، خلیفہ نیاز علی کے لئے سب سے بڑی شادمانی ذکرو عبادت اور علم و حکمت میں ہے۔
۵: سابق کامڑیا فدا علی بھی اسی ایمانی خاندان کا ایک فرد ہیں، ان کی روحانی خوشی جماعت خانہ کی حاضری میں ہے، آپ دینی کتابوں سے بہت شادمان ہو جاتے ہیں، حقیقی علم کے قدردان اور شکر گزار ہیں، اور
۱۲۵
انہی چند کلمات میں جملہ خوبیان آجاتی ہیں۔
۶: ریٹائرڈ صوبیدار یوسف علی خانۂ حکمت برانچ گلگت کے نائب صدر رہ چکے ہیں، الحمد للہ، اس خاندان کے تمام افراد صفِ اوّل کے مومنین میں سے ہیں، دیندار، مولائے پا ک کی محبت، علم دوستی، فرض شناسی، فرمان برداری اور دیگر بہت سے انسانی اور ایمانی اوصاف سے آراستہ ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
اتوار، ۲۹ محرم الحرام ۱۴۱۵ ھ ۔ ۱۰؍ جولائی ۱۹۹۴ء
۱۲۶
خلیفہ فرمان علی
عزیزم خلیفہ فرمان علی مقامی الواعظ برائے سکردو جماعت خانہ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے:
فرمان علی بن خلیفہ ذوالنون بن خلیفہ رحمت (المعروف ملنگ جان) بن طیغون شاہ۔
فرمان علی صاحب ابتداًء شیر قلعہ پونیال میں خلیفہ اور موکھی کے مقدّس فرائض انجام دیتے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ ڈی۔ جے گرلز سکول کی تعلیمی خدمت بھی ان کے سپرد تھی، خوش بختی سے فروری ۱۹۷۵ء میں سکردو جماعت کے لئے خلیفہ اور مقامی الواعظ مقرر ہوگئے، اور مکتب دینیہ میں گائیڈ کی خدمات بھی انجام دیتے رہے، نیز نامدار لوکل کونسل برائے سکردو کا ممبر بھی ہوگئے، مزید برآن ہیلتھ بورڈ اور ثالثی و مصالحتی بورڈ کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کر رہے ہیں۔
میں نے مختلف ممالک اور بہت سے مقامات میں لوگوں پر ذکر جلی یا مناجات کے عجائب و غرائب گزرتے ہوئے دیکھا ہے، اگر ان تمام معجزہ جیسے واقعات کو
۱۲۷
قلمبند کر لیا جائے تو یہ بڑا طویل قصّہ ہوگا، آئیے نہ دور جاتے ہیں اور نہ طوالت کو لیتے ہیں، صرف فرمان علی یا محبت شاہ سے پوچھتے ہیں کہ آج سے بہت پہلے قربان علی خان صاحب کے گھر میں جو روحانی مجلس ہوئی تھی، اس میں ان پر رباب اور عاشقانہ مناجات کا اتنا زبردست اثر کیوں ہوا؟ وہ عشقِ مولا کی شرابِ طہور سے ایسے مست و مدہوش ہوگئے کہ اسکی کوئی مثال نہیں ملتی، میں سمجھتا ہوں کہ یہ دورِ روحانیّت کا ایک معجزہ تھا، جس میں پونیال کی پیاری جماعت بصورتِ فرمان علی و محبت شاہ ہمارے سامنے وجد میں آگئی تھی، الحمد للہ ربِ العالمین۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات ۲۳؍ ربیع الثانی ۱۴۱۵ھ ۔ ۲۹ ؍ ستمبر ۱۹۹۴ء
۱۲۸
بابِ ہفتم
یادِ رفتگان
نامِ نیکِ رفتگان ضائع مکن تابماند نامِ نیکت برقرار۔
۱۲۹
چیف موکھی محمد دارا بیگ
اپنے وقت کے سب سے بڑے عالمِ دین چیف موکھی محمد دارا بیگ (مرحوم) کا شجرۂ نسب یہ ہے: محمد دارا بیگ ابنِ محمد رضا بیگ ابن وزیر اسد اللہ بیگ، ابنِ وزیر پونو، آپ بہت بڑے دانشمند، عظیم عالم، شاعر، کامیاب مدرس، شب خیزدرویش، اور امام شناس مومن تھے، آپ بڑی خوبصورتی سے فارسی شاعری کرتے تھے، لیکن افسوس کہ ان کا مجموعۂ اشعار نہیں مل رہا ہے۔
آپ درسی اور علاقائی زبانوں کے علاوہ چترالی (کھوار) اور ترکی بھی جانتے تھے، اور روسی زبان بھی سیکھ رہے تھے، کیونکہ میر محمد نظیم خان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ آپ برائے ضرورت روسی زبان سیکھ لیں، جب کہ اس وقت روس کا کوئی آدمی کریم آباد میں موجود تھا۔
کاش مجھے ان سے دینی درس لینے کی سعادت نصیب ہوتی، جیسا کہ بعض حضرات کا خیال ہے، حقیقت یہ ہے کہ میں صرف دس ماہ کے لئے بلتت پرائمیری سکول جا سکا، جس میں، مَیں نے تیسری اور چوتھی جماعت مکمل کر لی، اسی دوران کبھی کبھی اپنے محترم بہنوئی (محمد دارا بیگ) کے پاس بھی جایا کرتا تھا، اور ان سے
۱۳۱
ایک غیر نصابی اردو تیسری پڑھا کرتا تھا، یہ میری اپنی نارسائی تھی یا ناشکری، ویسے اس زمانے میں علم و دانش کے دو عظیم نمونے تمام لوگوں کے سامنے ظاہر تھے، یعنی جناب حاجی قدرت اللہ بیگ صاحب اور جناب محمد دارا بیگ صاحب۔
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ الصلاۃ و السّلام نے میر محمد غزن خانِ ثانی کو تین اسمائے بزرگ برائے خصوصی ذکر عنایت کر دیئے تھے، اور فرمایا تھا کہ ایک خود آپ کے لئے، اور دو ایسے دو اسماعیلی کو دینا، جن کو آپ چاہیں، چنانچہ میر محمد غزن خان نے دو میں سے ایک اسمِ اعظم محمد دارا بیگ کو دیا، اور یہی امامِ عالی مقام علیہ السّلام کی طرف سے سب سے بڑا انعام ہوا کرتا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات، ۱۱ ؍ صفر المظفر ۱۴۱۵ ھ ۔۲۱؍ جولائی ۱۹۹۴ء
۱۳۲
شہزادہ سلطان خان
شجرۂ نسب: شہزادہ سلطان خان ابن شہباز خان ابن میر محمد نظیم خان ابن میر غزن خان ابن شاہ غضنفر خان ابن میر سلیم خان ابن خسرو خان ابن شاہ بیگ، ابن شہباز ابن سلطان ابن عیاشو ابن میوری ابن گرکس۔
شہزادہ سلطان خان (مرحوم) غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے، عظیم والدین کے توسط سے اسماعیلی عقائد کی تمامتر خوبیاں بچپن ہی میں آپ کی ذات میں داخل ہو گئی تھیں، جب آگے چل کر علم الیقین کی روشنی میں دیکھا گیا، تو ہر عقیدت ایک حقیقت تھی، آپ کو امامِ برحق علیہ السّلام سے تا بحدِّ جنون عشق تھا، سلطان خان کو سید شہزادہ منیر ابن سید قاسم بدخشانی کی شاگردی کی سعادت نصیب ہوئی، اسی پاکیزہ صحبت کے زیرِ اثر سلطان خان صاحب روحانی جذب و کشش میں آگئے، حضرتِ پیر کی شہرۂ آفاق کتاب وجہِ دین پر فکری ریاضت کی، جس میں انہوں نے نورِ علم کی جھلکیاں دیکھیں۔
سلطان خان ظاہری نہیں بلکہ تائیدی عالم تھے، اسی وجہ سے ان کی علمی گفتگو دلنشین ہوا کرتی تھی، البتہ یہ بھی دینی
۱۳۳
غیرت کا ایک خوبصورت نمونہ تھا کہ جب جوش میں آتے تو شیر کی طرح غراتے، اس حال میں کسی کو کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوتی۔
شہزادہ سلطان خان نے اپنی عمرِ گرانمایہ کا بیشتر حصّہ پیاری جماعت کی علمی خدمت میں صرف کر دیا، جس میں یہاں کی اسماعیلی جماعتوں نے فائدہ اٹھایا، خصوصاً علی آباد کی نیک بخت جماعت نے، کیونکہ یہ عزیز جماعت دینی بزرگوں کی خدمت اور علم دوستی میں اپنی مثال آپ ہے۔
۱۳۴
قطۂ وفات سید شاہزادہ منیر ابنِ محمد قاسم بدخشانی
جنس و نقدِ عمل و علم چو اندو ختہ شد خوش بہ علیین رَوَد عارف کہ ہمانش وطن است
مسکن و خانۂ عیشِ تو بودَ عالمِ جان مزرع و باغِ جہانت ہمہ جائے محسن است
کوش تا از ہنر و علم نکو نام شوی حاصلِ عمر گرانمایۂ تو علم و فن است
خاصہ علم است کہ ہر جا رسد و کم نشود زانکہ ثبتش بسر صفحۂ عصر و زمن است
مقصدِ علم بُوَدْ دانشِ توحید کہ آن رحمتِ خاصِ خدا، موہبۂ ذوالمنن است
قفلِ ہر گنج جدا گانہ کلیدی دارد دریکی گنج و کلیدِ درآن یک سخن است
اے خوشا آن سخنِ خوش چو مینر الدین یافت کا ندران دولتِ دارین ہمہ سر و علن است
گفتۂ حضرتِ احمدؐ بدل و جان بشنو مومن اندر دو جہان زندہ و باجان و تن است۔
۱۳۵
تصویرِ عمل
تاجِ شرفِ ہر دوپسر فتح علی خان نیکو خلفِ جدو پدر فتح علی خان
سرچشمۂ اشفاق و محبت بہ قبلہ پر فائدہ چون گنجِ گہر فتح علی خان
بازوئی توانائی ہمہ خویش و برادر درحربِ عمل تیغ و سپر فتح علی خان
قربانیٔ ملت شدہ چون قید کشیدی نامِ تو نویسیم بزر فتح علی خان
حق داد ترا در ہمہ کردار کشائش ای ترجمۂ فتح و ظفر فتح علی خان
ای داعئی تہذیب بہ اطفالِ اقارب دلدادۂ تعلیم و ہنر فتح علی خان
ای قاریٔ قرآن و سحر خیز و مصلی عمرت شدہ باذکر بسر فتح علی خان
۱۳۶
یک رنگیٔ حبت بہمہ اہلِ زمانہ سازندہ کہ چون شیرو شکر فتح علی خان
ای سایۂ اسائشِ فرزند و برادر باغی کہ پر از نعمت و بر فتح علی خان
چون پیک اجل خواند تو لبیک بگفتی گردی تو ازین جائے سفر فتح علی خان
یکشنبہ بدو چارمِ پنجم حع شغ سال کزدارِ فنا کر دہ گذر فتح علی خان
ہر دم بروان تو بسی رحمتِ حق باد در حضرتِ حق باد مقر فتح علی خان
این گلشنِ یادِ تو بُوَدْ خرم و جاوید کز چشمۂ دانش شدہ فتح علی خان
بقلم نصیر الدین نصیر ھونزائی
۴۔ ۵ ۔ ۱۳۷۸ھ
۱۳۷
باب العلم (علیؑ)
حی و قیومے کہ باشد لاشریک و بے مثال باصفا و ذاتِ پاک خود نمگیر دد زحال
ہرچہ جز او بودہ در عالم بآخر ہالک است یعنی از حالے بحالے بگزرد در ارتحال
پس فنائے جسمِ مردم را مثالے گویحت کر مکے پروانہ گردو چون نبا شد پائمال
کر مکے پروانہ گردد مو منے گردو ملک این بچشمِ سر بدیدم آن بانوارِ خیال
یا رب این احوال فرخ باد دولت شاہ را آنِ محبِّ مرتضیٰ آن مومن نیکو خصال
در زمانِ صدرِ اعظم خسرو نیکو سیر آن امیرِ داد گر آن پاد شاہِ با مجال
ماہِ شعبان بود و ہجری ’’غمزۂ عین الیقین‘‘ ۱؎ چون گزشت آن نیک فطرت از پسِ ہفتاد سال ۲؎
۱۳۸
ہر سہ ۳؎ فرزندش بنا کردند ’’باب العلم‘‘ را بہر ایصالِ ثوابش از رضائے ذوالجلال
یا الٰہی از عطائے خود روانش شاد داد در جوارِ نورِ خود اے پادشاہِ لایزال
تاپزیرد حق ز رحمت کارخیرِ این نشان اے عیسےٰ خان باغلام موسیٰ و شہ زرین بنال
ملک و ملت را تجمل باید از تعمیرِ نو زانکہ این معنی ہو ید اگشتہ از نامِ جمالؔ
۔۔۱) ۱۳۸۳ ھ
۔۔۲) ۷۰
۱۳۹
بسم اللہ الر حمٰن الر حیم۔
کلامِ یادگار
بِحُکمِ: كُلُّ مَنْ عَلَيْـهَا فَانٍ وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِكْـرَامِ۔
زوجہ جناب قربان علی خان صاحب
محترم زھرا خانم بعمر ۳۵؍ سال کہ ۱۹۷۰ء بود وفات یافت
اِنَّا لِلّٰلِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
قطعۂ از خونِ دل باید کہ بنویسم کنون چونکہ بگذشت از جہان آن خواہر نیکو سیر
خانۂ قربان علی را باعثِ صد فخر بود آن زنِ فرخندہ بخت و باحیا و پر ہنر
رشتۂ عمرِ عزیزش بعد سی و پنچ سال ای دریغا! از قضائی ناگہانی شد یسر
مرغِ روح او زدنیا جانبِ جنت پرید اقربیش را نہادہ داغ برجان و جگر
۱۴۰
از غمش قربانؔ علی بس عاجزو بیچارہ شد گرچہ بودہ مرد آہن گرچہ بودہ شیرِ نر
دان کہ این مرگِ جوانی ہمچو سیل ہادم است خانۂ معمورِ مردم راکند زیر و زبر
یارب! از لطفِ عمیمت روح اورا شاد کن درجوادِ رحمت خود دار دائم در نظر
چونکہ نامِ نیک آن مرحومہ زہرا خانم است باد جانش در حضورِ فاطمہؑ بس مفتخر
۱۴۱
لوحِ مزارِ بی بی یاقوت
زوجۂ داور شاہ اُرکوی۴
کسی کو شناسد امامِ زمان بدنیا و عقبیٰ بیاید امان
شناسندۂ نور پروردگار سعادت برد حاصلِ این جہان
چہ غم گر بمیر دچنین کس بتن کہ از جان شود زندۂ جاودان
بود فارغ از فکرِ دنیای دون زلذاتِ جنت شود بسی شادمان
ز یدارِ نورِ خدا وندِ پاک مشرف شود بر فرازِ جنان
بقصرِ فضیلت بتختِ جلال نشاند خداوندِ کون و مکان
پس ای مومنان از چہ گریان شوید چو مولا بود این قدر مہربان
نباید کہ غمگین شوید از کسی کہ در دارِ باقی رودکامران
چنین بود ’’یاقوتِ‘‘پاکیزہ دین کہ ذکرش ہمی گفتہ شد درمیان
دعائیکہ مقرون مقبولِ تست الٰہی ز رحمت بروحش رسان
حیدرآباد، ھونزہ
از فکارِ نصیر ہونزائی
۱۴۲
بیادِ درویش علی
یک فدائی بود درویش علی مثلِ قنبر باوفا و باحیا
بس حلیم و صابر و نیکو خصال دوستدارِ وارثِ آل عبا
آن مریدِ جان نثارِ شاہِ دین مومنِ صادق محبِّ مرتضا
آن غلامِ شہِ کریم نامدار خادمِ سلطانِ تحتِ انما
بندۂ درگاہِ مولای زمان پاسبانِ خانۂ نور و ضیا ٔ
از رضا کارانِ مولا بود او از گروہِ خادمان باصفا
ای کمر بستہ بخد مت شادباش ثمرۂ خدمت بود قربِ خدا
گفتگویت ہمچو قند و انگبین ای لقایب مثلِ گلشنِ دلربا
ہمنشین و یارِ جانِ دلنشین یاد تو چون گل ببوید نزدِ ما
یاد از مایان دعای جاریہ تحفۂ جنت ترا فرحت فزا
صبر کن ای دل کہ فردا بنگری جلوۂ ارواحِ پاکان برسما
پیدائشِ درویش علی ابن صفر علی نومبر ۱۹۱۸ء
وفات: ۳۱ ؍ ستمبر ۱۹۸۰ء
۱۴۳
بسم اللہ الر حمٰن الر حیم۔
كُلُّ مَنْ عَلَيْـهَا فَانٍ وَيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْاِكْـرَامِ۔ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷)
نامور صیاد (شکاری) محمد دوست کے فرزندِ ارجمند علی مدد ساکنِ محلۂ رحیم آباد۔ علی آباد۔ ہونزہ کا انتقالِ پر ملال تقریباً ۵۶ سال کی عمر میں ہوا، خداوندِ عالم حضرت ِ محمد رسولِ خداؐ اور أئمّۂ ھُدیٰؑ کی حرمت سے انہیں روضۂ دارالسّلام میں ابدی نعمت و راحت عنایت فرمائے! آمین یا رب العالمین!!
تاریخِ وفات: بروزِ بدھ ۱۷ ماہِ رجب ۱۴۰۴ھ، ۱۸؍ ماہِ اپریل ۱۹۸۴ء
۱۴۴
بابِ ششم
ریکارڈ
۱۴۵
بحضور مستطاب حضرت اجل اکرم فاضل گرامی جناب آقای نصیر الدین صاحب المحترم دامت برکاۃ
السلام علیکم:
پس از عرض سلام و تشکر و امتنان از مرا حم عالی باستحضار خاطر مبارک میر ساند:
کہ کتابہای قیمتی و نفیس اھدائے آن سرور انجمند توسط برردر عزیز جناب آقائی عباس برہانی صاحب واصل گردید از درگاہ خداند متعال سلامتی و طول عمر جنا بعائے و توفیق روز افزون شمارا در راہ خدمت بیشتر بہ نحواحسن را مسئلت مینمایم ۔
باتقدیم احترام
جزاک اللہ تعالیٰ و کل اللہ مساعیک با لنجاح
ادارۃ الثقافہ الاسلامیہ
۲ /۴ حامد علی منزل ۵ سول لائن الدکتور علی محمد طھیر ۲۔۱۔ ۱۹۰۹
یونیورسٹی ایریا۔ علی گڑھ نمبر ۲ رئیس کلیۃ معارف الاسلامیہ
انڈیا
۱۴۷
عزیزم عبادت علی شاہ
کتاب ہذا بطورِ تحفۂ اخوت و محبت ان عزیز ایام کی پُرخلوص یاد کو تازہ کرتی رہے گی جن میں ہم اور عبادت علی شاہ صاحب امام عالیمقام کے ایک ہی ادارے میں کام کرتے تھے، مجھے یہ اندازہ ہے کہ اگر پوری قوم کے ہر فرد میں خدمتِ دینی کا وہ بھرپور جذبہ ہوتا جو عبادت علی شاہ جیسے مومنوں میں پایا جاتا ہے تو کتنی اچھی بات ہوتی اور کس قدر ہم آگے بڑھ سکتے ۔ عبادت علی شاہ میں نہ صرف جسمانی طور پر ہی مقدّس دین کی خدمت کی لگن موجود ہے بلکہ انہیں والہانہ طور پر دینی کتب اور علم سے بھی دلچسپی ہے، یہاں تک کہ ان کے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصّہ اشاعتِ کتبِ دین کی خدمت میں صرف ہوتا ہے۔
میری درویشانہ دعا یہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ انہیں اس مقدس دینی خدمت کی عوض دین و دنیا کی کامیابی سے نوازے اور دونوں جہان کی سرفرازی نصیب کرے!!
فقط دعاگو
نصیر ہونزائی
مورخہ ۱۱؍ مارچ ۱۹۷۵ء
۱۴۸
گور خیز تھا یا جنّ؟
کتابِ “قرآنی مینار” ص ۲۶۱۔ ۲۶۲ پر ملا حظہ ہو، جہاں ایک گورخیز کا قصّہ مرقوم ہے، میں نے سنا تھا کہ سریقول میں بھی ایک ایسا واقعہ ہو گزرا ہے، پس میں نے اس کے بارے میں جناب قربان علی خان صاحب سے پوچھا تو انہوں نے ازراہِ کرم اس کا تفصیلی قصّہ لکھ کر دیا، جس کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:
۱۹۴۷ء کا ایک بڑا عجیب و غریب اور نہایت حیران کن واقعہ ہے، کہ تاشغورغان میں قرغز قوم کا ایک آدمی بیبت کے نام سے رہتا تھا، جو بائیں پاؤں سے لنگڑا ہونے کے باوجود برٹش کونسل کی ڈاک رسانی کی ملازمت کررہا تھا، جس کا کام تھا پیک پڑاؤ میں ڈاک لانا لے جانا، مجھے یاد ہے کہ یہ شخص ماہِ مارچ ۱۹۴۷ ء میں فوت ہوگیا، لیکن بڑی حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ تدفین کے تیسرے دن سے مرا ہوا بیبت کفن کے ساتھ بوقتِ شب بعض لوگوں کے گھروں میں آکر کھڑا ہونے لگا، لوگ اس کو پہچانتے تھے اور کچھ پوچھتے تھے، مگر وہ کوئی بات ہی نہ کرتا اور خاموشی سے واپس چلا جاتا، اسی طرح تین چار دن تک یہ خوفناک واقعہ ہوتا رہا، آخر کار وہاں کے لوگوں نے اس کی قبر پر جا کے
۱۴۹
دیکھا تو قبر حسبِ دستور بند ہی تھی، پھر بھی انہوں نے بغرض تحقیق قبر کو کھول کر دیکھا تو بیبت کا مردہ جسم اسی طرح پڑا ہوا تھا، مگر انہوں نے صرف اتنا دیکھا کہ اس کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھا ہوا تھا۔
بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ ان لوگوں نے یا تو سزا کے طور پر یا چلنے پھرنے سے روک دینے کی غرض سے مردے کی ٹانگوں اور پیروں کو کلہاڑی سے کاٹ کاٹ کر رکھ دیا، سمجھ میں نہیں آتا، کہ کہاں کی بات ہے۔
جنّی شیطان کسی کو دو طرح سے گمراہ کر سکتا ہے: ایک دل میں وسوسہ ڈال کر، اور دوسرا خود سامنے حاضر ہو کر، جیسا کہ سورۂ مومنون (۲۳: ۹۷ تا ۹۸) میں ارشادہ ہے: (ترجمہ) اور دعا کرو کہ پروردگار میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اے میرے ربّ، میں اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس حاضر ہو جائیں۔ پس اس قرآنی تعلیم سے ظاہر ہے کہ شیطانِ جنّی لوگوں کے سامنے حاضر بھی ہوسکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح بری روح جسمِ لطیف میں حاضر ہو سکتی ہے، اسی طرح اچھی روح بھی جسمِ لطیف میں سامنے آسکتی ہے۔
۲۶؍ جولائی ۱۹۹۴ء
۱۵۰
عزیزم امان اللہ در حفظ و امانِ مولا باشید!
بڑے شوق سے یا علی مدد کی دعا کرتا ہوں، اسکی بارگاہِ عالی میں قبول ہو! کل ہی آپ کا بہت پیارا خط ملا، جس کا جواب کسی تاخیر کے بغیر آج لکھ رہا ہوں، یہ خط مجھے کتنا اچھا لگ رہا ہے، میں تو اسے محفوظ رکھوں گا، کیونکہ اس میں میرے محبوبِ جان کے ہمہ رس روحانی معجزے کا ذکر ہے، اس سے میرے ماں باپ قربان! وہ اپنے معتقدین پر بڑا مہربان ہے، الحمدللہ۔
آپ کے بقول آپ نے ایک عظیم نورانی خواب دیکھا، وہ اس طرح کہ ایک سبزہ زار میں مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ اور ماتا سلامت کرسیوں پر تشریف فرما ہیں، وہاں ایک خالی کرسی بھی موجود ہے، مولا آپ سے فرماتے ہیں کہ تم اس کرسی پہ بیٹھ جاؤ، تو آپ اس پر بیٹھ جاتے ہیں، پھر حاضر امامؑ فرماتے ہیں کہ ہم سب کے لئے سفید اور عمدہ کپڑے کے سوٹ بنا دو، اتنے میں مولا کا پورا خاندان وہاں موجود نظر آتا ہے، اور یہ خواب آپنے شبِ جمعہ ۲۳؍ نومبر ۱۹۹۰ء کو دیکھا تھا۔
عزیزِ من! آپ کو بہت بہت مبارک ہو! لاکھ لاکھ
۱۵۱
مبارک ہو! آپ نے اس مشورہ کے لئے بڑی دیر لگائی ہے، لیکن خیر ہے، کوئی مضائقہ نہیں، یاد رہے کہ امامِ عالیمقامؑ کو ہر کس و ناکس خواب میں نہیں دیکھ سکتا، مگر کوئی عارف، عاشق، درویش، یا مومنِ صادق، پس جو شخص حضرتِ امام کو خواب میں دیکھتا ہے، اس کو نجات مل جاتی ہے، کیونکہ امام بہشتِ مجسم ہے، اور سب کچھ ہے، یہاں تشریح کے لئے گنجائش نہیں، کرسی جو امامِ اقدس و اطہر کے قرب میں ہو، سب سے بڑی روحانی عزّت و مرتبت کی دلیل ہے، امام کی نورانی فیملی اہلِ بیت کا درجہ رکھتی ہے، انکی محبت مومنین کیلئے سرمایۂ ایمان ہے، اب رہا سوال، سفید رنگ کے عمدہ لباس کا۔
سفید رنگ نورِ ایمان کی علامت ہے، جو نورِ ابیض ہے، لباس کی تعبیر تقویٰ ہے، یعنی پرہیزگاری، پس حضرتِ امامؑ اور اہلِ بیت کے لئے سفید عمدہ سوٹ یہ ہیں کہ ہم امام اور اہلِ بیت سے متعلق اپنے عقیدے کو پہلے کی طرح سفید رکھیں، اور غیر کی باتوں سے پرہیز کریں، اگر ہم اپنی مذہبی عقیدت و محبت کی تجدید کرتے ہیں، تو سمجھ لیں کہ ہم نے اپنے امامِ برحق کو سفید لباس کا تحفہ پیش کیا، آپ کبھی یہاں آئیں تو مزید باتیں ہو سکتی ہیں، تاہم ضروری جواب لکھا گیا ہے۔
بہت سی نیک دعاؤں کے ساتھ
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۹؍ دسمبر ۱۹۹۱ ء
۱۵۲