قرآنی مینار
اِنتسابِ کتابِ ہٰذا
ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُوْنُوْآ اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ (ترجمہ): اے ایمان والو! ﷲ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابنِ مریم نے حواریوں کو خطاب کر کے کہا تھا ’’ﷲ کے لیے میرے مددگار کون ہیں؟‘‘ اور حواریوں نے جواب دیا تھا ’’ہم ہیں ﷲ کے مددگار‘‘ (۶۱: ۱۴)۔
ہر زمانے کے انسانِ کامل کے مددگارہی انصارُ ﷲ ہیں اوراس دورِ قیامت کے انصارانِ قائم کی خصوصی تعریف ہے جو ذکر و فکراور علم و حکمت کے فروغ کے لیے بے مثال قربانیوں کے ذریعے ایک اسماعیلی قیامت برپا کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشان ہیں۔
پاکستان اور امریکہ میں خدمات کی یادگار تاریخ رقم کرنے والے ہمارے دو قابلِ قدر احباب ڈاکٹر رفیق جنت علی، آئی۔ایل۔جی، سکالر، پریذیڈنٹ اٹلانٹا ہیڈ کوارٹر اورمیڈیکل پیٹرن؛ اور ڈاکٹر شاہ سلطانہ رفیق، حضرتِ عالیہ، نورِ فاطمہ، میڈیکل پیٹرن اور کوآرڈینیٹر پرنس علی محمد لٹل اینجلز اٹلانٹا نے علمی خدمات کے تسلسل کے طور پر اپنے اہلِ خانہ کی جانب سے ’’قرآنی مینار‘‘ جیسی عظیم اور بنیادی کتاب کو چھپوا کر ازراہِ شفقت اپنے مرحوم والد جنت علی ابنِ علی محمد، اپنے مرحوم بھائی جعفر ابنِ جنت علی اور اپنی والدۂ محترمہ زہرا خانم زوجۂ جنت علی کے نام کر دیا ہے۔
دعا ہے کہ خداوند بہشتِ برین میں مرحومین کے درجات کو بلند فرمائے اور محترمہ زہرا خانم کو دین و دنیا کی ہزار ہا نعمتوں سے سرفراز فرمائے! آمین!
ڈاکٹر شہناز سلیم ہونزائی
کراچی، دسمبر ۲۰۰۵ ء
۱
آغازِ کتاب
۱۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اے خدائے علیم و حکیم! اے بادشاہِ مُلکِ قدیم! اے خلّاقِ کون و مکان! اے رزّاقِ انس و جان! اے قادرِ مطلق! اے دانائے برحق! اے سلطانِ ازل! اے خدا وندِلم یزل! اے دارندۂ خزائنِ علم و حکمت ! اے کشایندۂ ابوابِ رحمت! اے کریمِ کارساز! اے رحیمِ بندہ نواز! الٰہی چارۂ بیچار گان کن ۔۔،’ الٰہی رحمتی بربندگان کن۔ الٰہی رحمتت دریائے عام است ۔۔،’ و زانجا قطرۂ ما را تمام است۔۔۔۔ اَللّٰھُمَّ صلِّ علٰی محمّدٍ وَّ آلِ محمّد۔
۲۔ بندۂ احقراللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ابرِ کرم اور ایسی طوفانی بارانِ دُرّوگوہر سے انتہائی حیرت زدہ ہے، یہ خاکسار دریائے غور وفکر میں مستغرق ہو کر اپنے آپ سے یوں پوچھتا ہے کہ: کس کی یا کن کی عاجزانہ دعا سے خداوندِ مہربان نے روحانی اور علمی نعمتوں کی ایسی عظیم الشّان اور جانفزا بارش برسادی؟ کیا شعوری یا غیر شعوری طور پر میرے آباؤاجداد اور بزرگوں نے کوئی ایسی دعا و مناجات کی تھی؟ آیا یہ ان پُرخلوص دعاؤں کا ثمرہ نہیں، جو علاقے کے مومنین بار بار پروردگار کے حضور سے طلب کرتے رہتے ہیں؟ کیا وہ جماعتی دعا سب سے افضل و اعلیٰ اور سب سے مقبول نہیں ہے، جو دنیا بھر کے جماعتخانوں میں منظم طور پر اور ایک ہی شان سے مانگی جاتی ہے؟ اور اس خاکسار کے عزیز ساتھیوں اور دوستوں کی قابلِ رحم گریہ و زاری اور دلسوز مناجات بھی تو ہے، الغرض یہاں تمام دعاؤں نے مل کر کام کیا ہے، تاہم یہ نکتہ ہمیشہ یاد رہے کہ دعاؤں پر جو دعا بادشاہ ہے، وہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی مبارک دعا
۲
ہے۔
۳۔ یہ بات واضح رہے کہ قرآنی علاج، علمی علاج، اور روحانی علاج کے بعد گزشتہ سال لنڈن کے دَورہ کے دوران دوستانِ عزیز کی میٹنگ میں یہ مشورہ ہوا تھا کہ اب (اگر خدا نے چاہا تو) “قرآنی مینار” کے نام سے ایک کتاب لکھی جائے گی، جس کا حصّۂ اوّل یہی زیرِ نظر کتاب ہے، اگر ربّ العزّت کی توفیق و تائید حاصل رہی، اور جسمانی صحت کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوا، تو ان شاء اللہ تعالیٰ دوسرے حصّے کے لئے بھی سعی کی جائے گی۔
۴۔ اپنی بیشتر کتابوں کی طرح “قرآنی مینار” بھی ابواب پر منقسم نہیں، بلکہ چند پُرمغز و مفید مقالوں پر مبنی ہے، تاہم یہاں یہ عرض کرنا بیجا نہ ہوگا کہ نہ صرف انہی مقالات میں کلّی طور پر موضوعاتی ربط و ہم آہنگی موجود ہے، بلکہ خدا وندِ قدوس کے فضل و کرم سے تمام کتابوں کا اصل اور بنیادی موضوع بھی ایک ہی رہا ہے، اور وہ مقدّس موضوع ہے: “قرآنی حکمت و روحانیّت۔” چنانچہ بروشسکی ریسرچ ورک کو چھوڑ کر باقی نظم و نثر کے جیسے اور جتنے بھی مضامین ضبطِ تحریر میں آچکے ہیں، وہ یقیناً سب کے سب اسی انتہائی عظیم و اعلیٰ موضوع سے متعلق اور اسی کے تحت ہیں، اور آپ یہ بات جانتے ہیں کہ کوئی علمی شیٔ حکمتِ قرآن اور روح و روحانیّت سے باہر نہیں۔
۵۔ میرے خیال میں یہ سوال بڑا دلچسپ اور نافع ہوسکتا ہے: اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ اس مشکل ترین موضوع کا انتخاب کن وجوہ کی بناء پر ہوا؟ میں جواباً عرض کروں گا:
الف: قرآن اور اسلام کے دو پہلو ہیں: ظاہر اور باطن، سو ظاہر سب کے سامنے عیان ہے، مگر باطن ایسا نہیں، لہٰذا قرآنی حکمت اور روحانیّت کے عنوان سے
۳
تلاشِ باطن ضروری تھی۔
ب: ہر دانشمند مسلمان شرّ سے دور ہو کر خیر کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اور قرآنِ کریم کا واضح اشارہ ہے کہ جس کو خیرِ کثیر چاہئے، وہ حکمت کے توسّط سے حاصل کرے (۰۲: ۲۶۹)۔
ج: جب خدائے بزرگ و برتر نے دینِ اسلام کو مکمل کردیا، تویہ اس کی نعمتِ تامّہ کی صورت ہوگئی (۰۵: ۰۳) اب آپ قرآن ہی سے پوچھ لیں کہ دین جو اللہ کی سب سے بڑی اور سب سے کامل نعمت ہے، وہ صرف ظاہر ہی میں ہے، یا باطن میں بھی ہے؟ قرآن یہ کبھی نہیں فرماتا کہ دین کی نعمتیں صرف ظاہر ہی میں محدود ہیں، بلکہ اس کا حکم یہ ہے: اور اس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی طورپر پوری کر رکھی ہیں (سورۂ لقمان ۳۱: ۲۰)۔
د: اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں پیدائشی اسماعیلی ہوں، اور یہ مذہب بمقتصائے حکمتِ قرآن و حدیث باطنی، روحانی، اور تاویلی ہے، یعنی یہاں ظاہر اور باطن دونوں کی اہمیت ہے، جیسا کہ کتابِ “وجہِ دین” میں ہے، پس میں نے قرآنی حکمت و روحانیّت سے دلچسپی لی۔
۶۔ منکرینِ قرآن نے قرآنِ حکیم کو اساطیرالاوّلین (اگلے لوگوں کی کہانیوں کا مجموعہ) کیوں کہا؟ اس لئے کہ قصصِ قرآن میں علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے جیسے انمول خزانے پوشیدہ ہیں، وہ ان کے دیکھنے سے بالکل ہی اندھے تھے، اور وہ گمان بھی نہیں کرسکتے تھے کہ قصّے میں کوئی رازیا کوئی اشارہ ہوگا (لفظِ اساطیر کو قرآن کے نو مقامات پر دیکھ لیں) اس سے یہ معلوم ہوا کہ اگرچہ قرآنِ کریم میں قصّے بھی ہیں، اور تاریخی واقعات بھی، لیکن ان کا مقصدِ اصلی کچھ اور ہے، اور وہ ہے تاویلی حکمت۔
۴
۷۔ اب مذکورہ بیان کی روشنی میں یہ بڑا اہم سوال سامنے آرہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرتِ یوسف علیہ السّلام کو (خواب و بیداری کی تمام) باتوں کی تاویل / حکمت سکھا دی، اور جیسے ارشاد ہوا کہ ایسا کرنا اللہ پاک کی طرف سے اتمامِ نعمت ہے (اور خدا کی سنت یہی رہی ہے ۱۲: ۰۶) تو کیا دینِ اسلام میں جو نعمت تامّہ ہے (۰۵: ۰۳) اس میں اور حضرتِ یوسفؑ کی نعمت میں کوئی فرق ہے، یا یہ وہی نعمت ہے؟ کیا یہ اس حقیقت کا واضح اشارہ نہیں ہے کہ اسلام میں صاحبِ تاویل موجود ہے؟ ورنہ وہ نعمت کامل ہوگی، اور یہ نعمت نامکمل، مگر یہ بات درست نہیں، نیز یہ بھی سوچنا ہے کہ سورۂ یوسف حکایت تو ہے، لیکن حکمتوں سے بھری ہوئی، جس میں بے شمار سوالات کیلئے پیشگی طور پر آسمانی جوابات مہیّا ہیں، یہ جوابات آیات کے نام سے ہیں (۱۲: ۰۷)۔
۸۔ علمِ لدنّی یعنی روحانی اور تائیدی علم ہی تاویل کا ذریعہ ہوتا ہے (۱۸: ۶۵) جیسے حضرتِ موسیٰؑ کے معلّم کو عطا ہوا تھا ، اور وہ بزرگ اسی علم کی بناء پر تاویل کیا کرتے تھے (۱۸: ۷۸ تا ۸۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ تاویل دو قسم کی ہوتی ہے: کتابی، اور عملی، کتابی تاویل ہر وہ شخص کر سکتا ہے، جو تاویلی کتب کا مطالعہ کرتا ہو، اور وہ بہت محدود ہے، مگر عملی تاویل صرف امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے پاس ہے، اور آپؑ اپنے لشکر میں سے جن کو چاہیں بطریقِ روحانیّت اس کی تعلیم دے سکتے ہیں، کیونکہ بحکمِ حدیثِ خاصف النّعل علیؑ (یعنی ہر امام) تاویلِ قرآن پر جنگ کرتے ہیں، مگر جس طرح آنحضرت صلعم ظاہری جہاد میں تنہا نہ تھے، اسی طرح امامِ وقتؑ بھی جہادِ باطن میں اکیلے نہیں ہوتے۔
۹۔ دین اسلام کی ایک قابلِ فہم مثال یہ ہے کہ پیغمبرِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے جس شان سے نورِ نبوّت کی تشبیہہ و تمثیل علم کے شہر اور حکمت کے گھر سے اور
۵
نورِ امامت کی مثال دروازے سے دی ہے، وہ صراطِ مستقیم کی مستقل روحانیّت ہے (جیسے آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، اور فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے) خوب یاد رہے کہ ان دونوں حدیثوں میں نورِ امامت کے وسیلے سے نورِ نبوّت تک رسا ہو جانے کی تعلیم دی گئی ہے، اور اگر ہم یہاں تصوّف کی زبان میں بات کریں تو یہی ہے فنا فی الامامؑ کے ذریعے سے فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل کرنا۔
۱۰۔ بہت سے حضرات کو اس حقیقت کا علم ہے کہ ہر حدیثِ صحیحہ کسی ایک آیۂ کریمہ کی یا چند آیاتِ مقدّسہ کی تفسیرکرتی ہے، تو سوال ہے کہ مذکورۂ بالا دونوں حدیثوں کا تفسیری رُخ کس آیۂ مبارکہ کی جانب ہے؟
جواب: الف: ارشاد ہے: وَاْ تُواالْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا (۰۲: ۱۸۹) اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو۔ یہ حکم شروع سے آخر تک جاری ہے، چنانچہ انبیا علیہم السّلام بیوت ہیں، اور أئمّہ علیہم السّلام ابواب، اور تمام اُمتوں کو ایک ساتھ حکم ہوا کہ تم اپنے اپنے اماموں کے وسیلے سے پیغمبروں کی روحانیّت میں داخل ہوجاؤ۔
ب: آیۂ کریمہ ہے: وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲)۔ یہاں امامِ مبینؑ کی مثال ایک چار دیواری اور اس کے دروازے کی طرح ہے، اور رحمتِ عالمؐ کائنات پر محیط بھی ہیں، اور یہاں بحکمِ خدا محاط بھی، یعنی اس احاطے میں آپ ہی کُل شَی ہیں۔
ج: قرآن میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ بیت (اللہ) لوگوں کے لئے جائے ثواب اور مقامِ امن ہے (۰۲: ۱۲۵) جس سے نورِ نبوّ ت اور نورِ امامت مراد ہے، کیونکہ ہر گھر کی
۶
دو چیزیں ہوا کرتی ہیں: در و دیوار، اور اندرونی حصّہ، جس میں کسی کی حیثیت کے مطابق مال ہوتا ہے، اور خدا کے گھر میں کیا نہیں ہوسکتا، پس جاننا چاہئے کہ مذکورہ دونوں حدیثیں کئی آیات مبارکہ کی تفسیر کرتی ہیں، وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ ا تَّبَعَ الْھُدٰی (۲۰: ۴۷)۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
پیر ۲؍رمضان المبارک ۱۴۱۰ھ
۱۶؍اپریل ۱۹۹۰ء
۷
ایک یادگار دن
۱۔ اس دفعہ امامِ اقدس و اطہر کے بابرکت دیدار کی عظیم سعادت ہمیں نوروز کے موقع پر یعنی ۲۱؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو حاصل ہوئی، کوئی مومن اور کوئی عاشق ایسے یومِ سعید کو کیسے فراموش کرسکتا ہے، اسی روحانی بہار کے موسمِ گُل کی تروتازگی، شادابی، اور رنگ و بو کا تذکرہ جاری وساری تھا کہ ۲۴؍ مارچ کو خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف نے ایک پُرخلوص و پُر وقار الوداعی تقریب منعقد کی، جو میرے گلگت جانے سے متعلق تھی، جس میں دونوں اداروں کے عملداران، ارکان اور کئی احباب تشریف فرما تھے۔
۲۔ یہ تقریب میری ناچیز حیثیت سے بدرجہ ہا اعلیٰ و بالا تھی، اگر آپ چاہیں تو متعلقہ ہمت افزائی کے خطوط کو پڑھ سکتے ہیں، یا کیسیٹوں کو سن سکتے ہیں، جن میں ہمارے بہت ہی عزیز ساتھیوں نے الفاظ و معانی اور علم و دانش کی گُل افشانی کی ہے، یہ سب کچھ صدر فتح علی حبیب، صدر محمد عبد العزیز، دوسرے عملداران، اور ممبران کی اجتماعی کوشش سے ہو رہا تھا، اسی لئے وہ سب بیحد شادمان نظر آتے تھے، مسکراہٹوں سے بھی اور خاموش آنسوؤں سے بھی خوشی اور شکرگزاری کی علامت ظاہر ہورہی تھی، کیونکہ ہنگامی صورتِ حال خواہ کچھ بھی ہو، لیکن ہمیشہ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات غالب رہتے ہیں۔
۳۔ اس بندۂ کمترین کی زندگی کی ارتقائی تصویر کا خاکہ کچھ یوں ہے: بچپن کا زمانہ، چوپانی کا دور، مکتب و مدرسہ کا عہد، گلگت سکوٹس اور آرمی کے چند سال، پھر فوجی ملازمت سے استعفا اور حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا قیامت
۸
بدامان دیدار، جوڈائمنڈ جوبلی (۱۹۴۶ء) کے موقع پر حاصل ہوا، بعد ازان اپنے گاؤں میں سکول ماسٹری کے ماہ و سال، پھر غیر شعوری طور پر طلبِ علم کی خاطر چین جانا، اور روحانی انقلاب، جو کسی طرح بھی قیامت سے کم نہ تھا، بعد ازان ہونزا اور گلگت کی زندگی، جو انقلابی ہی انقلابی تھی، جیسے میر محمد جمال خان کی شخصی حکومت کی موجودگی میں مذہبی والینٹئرز کی تنظیم کو قائم کرنا، وغیرہ۔
۴۔ اس کے بعد خداوند کے فضل و کرم سے میری مزید ترقی ہوئی، اور میں ۱۹۶۲ء میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کراچی مرکز سے منسلک ہوگیا، اور تقریباً چودہ سال تک میں نے اس علمی ادارے میں کام کیا، میں سمجھتا ہوں کہ امامِ زمان علیہ السّلام کی ہدایت و تائید حاصل تھی، لہٰذا تر قی کی اور منزلیں طے ہوتی رہیں، تاآنکہ میں مولا کی دستگیری سے قلمی خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال ہوگیا، اور بذمۂ خود کچھ علمی خدمت کی غرض سے کام شروع کیا، اس مقصد کے پیشِ نظر ہم نے بہت پہلے یعنی ۲؍جون ۱۹۶۲ء کو اپنے گاؤں میں مدرسۂ دارالحکمت قائم کیا تھا، جس کی منظوری اور افتتاح کے لئے ہم نے میر محمد جمال خان صدرِ سپریم کونسل برائے وسطی ایشیا کو دعوت دی، مگر انھوں نے اپنے نمائندوں کو بھیجا، اور یہی ان کی منظوری کی ایک واضح علامت تھی، ہم نے اس تقریب میں شرکت کے لئے مرتضیٰ آباد پائین سے لے کر التت تک ہر گاؤں سے دو دو مذہبی نمائندوں کو مدعو کیا، ساتھ ہی ساتھ گاؤں کی خواتین نے دیہاتی کھانوں اور غذاؤں کی ایک نمائش بھی کی تھی، تاکہ مہمانوں کے لئے کھانے کا اہتمام ہو۔
۵۔ اسی بنیاد پر اسماعیلیہ دارالحکمت وجود میں آکر رفتہ رفتہ آگے بڑھنے لگا، اور غلام محمد بیگ صاحب کے نام پر امامِ زمانؑ کے حضور سے ادارۂ ہٰذا کے ممبروں کے
۹
حق میں دعائے برکات کا تعلیقۂ مبارک موصول ہوا، جس پر تاریخ۴؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء درج ہے، پس یہی دارالحکمت آگے چل کر “خانۂ حکمت” کے نام سے مشہور ہوا۔
۶۔ میری اوّلین تصنیف “سلسلۂ نورِ امامت” ماہِ جنوری ۱۹۵۸ء میں امامِ زمان علیہ السّلام کے حضورِ اقدس میں پیش کی گئی تھی، اور اس میں جو تین فارسی نظمیں ہیں ان کی وجہ سے ایران کے جماعتی نمائندوں نے بطورِ تبرّک اس کتاب کی ایک کاپی پر حضرت پرنس علی شاہؑ کا آٹو گراف لیا تھا، ممکن ہے کہ اب تک یہ کتاب جناب سیّد جلال بدخشانی کے دولت خانہ میں محفوظ ہو، کیونکہ ان کے والدِ محترم ان فارسی نظموں کو بہت پسند کرتے تھے، اور شاید مذکورہ بابرکت آٹو گراف انھوں نے لیا تھا۔
۷۔ اگرچہ مجھے بروشسکی شاعری کا شوق بہت پہلے سے تھا، اور اس کی مشقیں زمانۂ چوپانی سے ہورہی تھیں، تاہم اس کی ایک باقاعدہ نظم ۱۹۴۰ء میں جماعت کے سامنے آئی، اور تب سے بعنایتِ الٰہی میں اعتماد کے ساتھ شعر کہہ سکتا تھا، پس بوقتِ فرصت اس مقدّس کام میں مصروف رہا کرتا تھا، جب ۱۹۶۱ء میں اس بندۂ خاکسار کے لئے مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ کے حضورِ عالی سے دعائے پُرنور آئی، تو پھر میری ہمت آسمان کو چھونے لگی، اور بروشسکی شاعری حالانکہ انتہائی مشکل کام ہے، مولائے پاک کی اس دعائے مبارک کے صدقے سے بیحد آسان ہوگئی، صرف یہی نہیں، بلکہ اس میں بے شمار برکتیں ہیں۔
۸۔ نور اور کتابِ مبین کا ربط و رشتہ ایک دائمی اور اٹل قانون ہے، لہٰذا ہر پیغمبر کا ایک وارث ہوا کرتا ہے، تاکہ سلسلۂ نور ہمیشہ جاری و ساری رہے، اور ظاہر ہے کہ نور شخصِ کامل میں ہوتا ہے، اور نور ہادیٔ برحق کی شخصیّت کے توسط سے سرچشمۂ ہدایت قرار پاتا ہے، ورنہ نورِ مجرّد تک لوگوں کی رسائی قطعاً ناممکن ہوجاتی ہے، جیسے حضرت
۱۰
آدم علیہ السّلام اور فرشتوں کا قصہ ہے کہ تاجِ خلافت سے آدمؑ ہی کو سرفراز کیا گیا، فرشتوں کو نہیں، حالانکہ ان کی خواہش تھی کہ انہی کو خلیفہ بنادیا جائے، ان کو اپنی پاکیزگی پر بڑا اعتماد تھا، اور یہ مطلب آیۂ کریمہ کے اس مفہوم میں پوشیدہ ہے: اور ہم ایسے صاف ستھرے ہیں کہ اس کی بدولت ہم تیری حمد کی تسبیح اور تیری ذات کی تقدیس کرسکتے ہیں (۰۲: ۳۰)۔
۹۔ قرآنِ حکیم میں بغور دیکھنے سے آپ کو معلوم ہوگا کہ نہ کبھی سنتِ الٰہی میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے، اور نہ کسی وقت نور شخصیّت سے الگ ہونے والا ہے، اور یہ حقیقت اس طرح ہے کہ آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں جیسا ارشاد ہوا ہے، وہ سنتِ الٰہیہ کی روشن ترین مثال ہے، جس کی ترجمانی و تفسیر آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) ہے، یعنی حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا اپنے وقت میں نورِ مجسّم ہونا، اس درخشندہ و تابندہ حقیقت سے جملہ زمانوں پر روشنی پڑتی ہے کہ مسکنِ نور ہمیشہ انسانِ کامل کا دل و دماغ ہوا کرتا ہے، اور یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ کوئی آدمی اپنے علم کے معیار سے انسانِ کامل کو نہیں پرکھ سکتا، بلکہ صرف حقیقی فرمانبرداری ہی سے اس کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے۔
۱۰۔ قرآنِ حکیم میں درخت کی مثال کو بہت بڑی اہمیت دی گئی ہے، آپ خود دیکھ کر اس حقیقت کا یقین حاصل کرسکتے ہیں، درخت کی بنیادی اور بڑی تقسیم تین حصّوں میں ہوا کرتی ہے: جڑیں، تنہ، اور شاخیں، جڑیں اصولِ دین ہیں، شاخیں فروعِ دین، اور تنہ شخصِ کامل میں ان سب کی وحدت و سا لمیت ہے۔
۱۱۔ درخت کی دوسری مثال علم کے لئے ہے، جس کا ڈایا گرام نقوشِ حکمت میں بھی ہے، علم کا سدا بہار شجر کسی مخصوص موسم ہی میں نہیں، بلکہ ہر وقت اور ہمیشہ اپنے ربّ کے حکم سے پھل دیتا رہتا ہے (۱۴: ۲۵) دیکھ لیں، زندگی ہی میں پہچان لیں۔
۱۱
۱۲۔ اللہ تعالیٰ نے جن خوش نصیب لوگوں کو علم کی گونا گون نعمتوں کی لذتیں چکھا دی ہیں، ان پر خدا کا بہت بڑا فضل و احسان ہوا ہے، وہ علم کی اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں، اور اس کے بڑے قدردان ہیں، وہ مزید علم کے حصول میں لگے ہوئے ہیں، ان شاء اللہ ایسے مومنین کو دونوں جہان کی سُرخروئی اور سربلندی حاصل ہوگی۔
۱۳۔ اب بفضلِ خدا قرآنی علاج اور علمی علاج کے بعد روحانی علاج کا کورس بھی تقریباً ہوچکا ہے، اس لئے فی الوقت نقوشِ حکمت کا کورس شروع ہونے والا ہے، کتابِ نقوشِ حکمت اب تک چھپ کر آچکی ہوگی، میں ۲۶؍مارچ ۱۹۸۹ء کو کراچی کے عزیزوں سے مرخص ہوکر بذریعۂ جہاز راولپنڈی پہنچا، ۲۹؍تاریخ کو گلگت آیا، اور یومِ جمعہ ۳۱؍ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہم اپنے نئے مکان میں رہائش کرنے لگے، جو قریۂ ذوالفقار آباد (گلگت) میں بنا ہے، اگرچہ یہ نیا گھر ہماری غریبانہ حیثیت سے بڑھ کر ہے، تاہم فی الحال یہاں بعض ایسی سہولتیں میّسر نہیں، جو کراچی میں تھیں، خصوصاً پانی، بجلی وغیرہ کی دقت، پھر بھی دعا ہے کہ خدا مسبب الاسباب ہمیں کام کرنے کی توفیق و ہمت اور حوصلہ عنایت فرمائے!
۱۴۔ ذوالفقار آباد اور اس کے آس پاس جیسے انتہائی قابل اور معزز حضرات بس رہے ہیں، ان کو دیکھ کر دل بے ساختہ کہتا ہے: چشم بد دُور! مستقبلِ قریب میں ان شاء اللہ یہاں سے امامِ عالیمقام علیہ السّلام کی علمی ذوالفقار اپنا کام کرنے لگے گی، جیسا کہ مولای رومی شمشیرِ علم کے بارے میں کہتے ہیں: نکتہ ہا چون تیغِ فولاد است تیز ۔۔،’ چون نداری تو سِپر واپس گریز۔ علمی نکات فولادی شمشیر کی طرح تیز ہیں، اگر تیرے پاس عقل و دانش کی ڈھال نہیں ہے تو اس میدان سے بھاگ جا۔
۱۲
۱۵۔ مجھے امید ہے کہ میرے عزیزان جو امامِ اقدس و اطہرؑ کے علمی لشکر میں سے ہیں، وہ اب شکر گزاری اور قدردانی کے ساتھ میدانِ علم وعمل میں آگے بڑھ کراسلام اور انسانیت کے لئے عظیم الشّان کارنامے انجام دیں گے، تاکہ ان بیمثال اور لازوال علمی خزانوں سے دین و دنیا میں ان کی سرفرازی ہو، آمین!
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔ذوالفقار آباد گلگت
یکم رمضان المبارک۱۴۰۹ھ
۸؍اپریل ۱۹۸۹ء
۱۳
سائنس اور روحانیّت
۱۔ عصرِحاضرمیں وعدۂ الٰہی کے مطابق آیاتِ آفاق بصورتِ سائنس عرصۂ شہود میں جلوہ نما ہیں، اور اب یقیناً روحانی معجزات (آیات) کا وقت بھی آچکا ہے (۴۱: ۵۳) ایسے میں سائنسی کرشموں کی حکمت پر غور کرنا بڑا مفید ثابت ہوسکتا ہے، لہٰذا ذیل میں سائنسی ایجادات کی چند مثالیں درج کی جاتی ہیں، تاکہ روحانی ممثولات سے متعلق علم الیقین حاصل ہوسکے۔
۲۔ بجلی گھر/طاقت گھر (POWER HOUSE): جو کسی ملک یا شہر کی ہر گونہ مادّی ترقی و بہبودی کا سرچشمہ ہے، اگر یہ نہیں تو لوگ حیاتِ نو سے بے بہرہ رہ جاتے ہیں، چنانچہ بجلی گھر نورِ ہدایت کی مثال ہے، کیونکہ دین میں سب سے بڑی اساسی طاقت ہدایت حقّہ (نور) ہے، جس کی سب سے بڑی اور کائناتی مثال تو سورج ہی ہے، تاہم بہت سی ذیلی مثالیں بھی ہیں۔
۳۔ برق زا/جنریٹر(GENERATOR): پیدا کرنے والا، بجلی پیدا کرنے والی مشین، یہ ذکرِ سریع کی تشبیہہ و تمثیل ہے، جس سے مومنِ ذاکر کے عالمِ دل میں روشنی پیدا ہوجاتی ہے، قرآنِ کریم میں مادّۂ س ع ی کے بعض الفاظ میں ذکرِ سریع کے اشارے موجود ہیں،اور سورۂ عادیات (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۲) میں بھی اس کی حکمت بیان ہوئی ہے۔
۱۴
۴۔ ہوائی جہاز(AEROPLANE): اس کا اشارہ سیر و سلوک اور تختِ روحانیّت کی جانب ہے، اُڑن طشتری اور جسمِ مثالی بھی روحانی جہازوں میں سے ہیں، سرابیل (۱۶: ۸۱) محاریب (۳۴: ۱۳) وغیرہ میں بھی اس کا حکیمانہ تذکرہ فرمایا گیا ہے۔
۵۔ متحرک تصویر /سنیما (MOVIE): جوہرقسم کی برائی سے پاک، سبق آموز، اور صرف تعلیمی مقصد کے لئے ہو، وہ روحانیّت کی مثال ہے، خدا کی قَسم بیت الخیال اور روحانیّت اگر رُوبہ عروج ہے تو بہشت کی مووی ہے، جو زندہ اور انتہائی اعلیٰ ہے۔
۶۔ ریڈیو (RADIO): مخاطبۂ روحانی (کلامِ مؤکّل) کی دلیل ہے، یعنی فرشتوں کی گفتگو، جس کے کئی نظائر قرآنِ عزیز میں موجود ہیں، جیسے مادرِ موسیٰؑ، مریمؑ، اور حواریوں سے ملائکہ کا کلام کرنا (۲۰: ۳۸؛۰۳: ۴۲؛۰۵: ۱۱۱) اور صفِ اوّل کے مومنین سے فرشتوں کی مخاطبت (۴۱: ۳۰) پس روح اور روحانیّت کی تشبیہہ و تمثیل کے لئے تمام سائنسی آلہ جات پیدا کئے گئے ہیں۔
۷۔ دُورگو/ٹیلیفون (TELEPHONE): یہ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کی علامت ہے، چنانچہ جو مومنِ صادق لقائے روحانی کی خاطر گریہ و زاری اور مناجات کرتا ہو تو یقین کیجئے کہ اس کا باطنی ٹیلیفون خوب کام کررہا ہے۔
۸۔ برقاؤ/چارج کرنا (CHARGING): جب خاص قسم کی
۱۵
بیٹری استعمال کی وجہ سے کمزور ہوجاتی ہے، تو اس میں برقی قوّت بھرنے کے لئے چارج کیا جاتا ہے، یہ ذکر و عبادت کی مثال ہے، جس سے دل و دماغ کی صرف شدہ طاقت بحال ہوجاتی ہے، گویا یادِ الٰہی اور بندگی سے قلب و روح کی تمام بیٹریاں چارج ہوجاتی ہیں، مگر اس میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ مادّی بیٹری میں صرف محدود برقی قوّت کیلئے جگہ ہوتی ہے، اس کے برعکس باطنی بیٹریز میں بے پناہ طاقت کی گنجائش ہے۔
۹۔ پیمانہ / مقیاس (METER): مقیاس الحرارت، مقیاس الماء، مقیاس الہوا، وغیرہ یہ مادّی قسم کے میٹرز ہیں، اسی طرح روحانی پیمانے بھی ہیں، مگر ان کی بہت بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے، روحانیّت کا ہر پیمانہ احساس و شعور ہی میں کام کرتا ہے، یعنی حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن میں، اگر نورِ ہدایت کی روشنی میں اس عمل کی تر قی ہوئی، تو پھر بحکمِ خدا وہ فرقان دستگیری کرنے لگے گا، جو فرق و امتیاز اور فیصلے کے لئے مقرر ہے (۰۸: ۲۹)۔
۱۰۔ اِشارہ(SIGNAL): جس طرح امن یا خطرے کا ظاہر میں اشارہ ہوتا ہے، اسی طرح باطن میں بھی سگنل ہوا کرتا ہے، اس کا مقام خیال، خواب، اور روحانیّت ہے، جس میں ایک اشارہ خوشخبری کا ہے اور دوسرا اشارہ ڈرانے کا (۳۳: ۴۵)۔
۱۱۔ دُور بین / منظار / ستارہ بین (TELESCOPE): یہ مشاہدۂ روحانیّت کی مثال ہے، حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے ستارہ، چاند، اور سورج
۱۶
کو چشم باطن سے دیکھا تھا (۰۶: ۷۶ تا ۷۸) ظاہری دوربین جسمانی آنکھ سے الگ ایک چیز ہے، لیکن باطنی دوربین اور دیدۂ دل ایک ہی شیٔ ہے۔
۱۲۔ خُردبین (MICROSCOPE): وہ آلہ جو چھوٹی چیز کو بڑا دکھاتا ہے، یہ چشم بصیرت کی نظیر ہے، جس سے ذرّاتِ روحانی کا مشاہدہ ہوجاتا ہے، اور ہر ذرّہ خورشیدِ جہانتاب کے برابر نظر آتا ہے۔
۱۳۔ ترسیمی آلہ/ریکارڈنگ مشین (RECORDIG INSTRUMENT): یہ کراماً کاتبین (۸۲: ۱۱) کی طرف اشارہ ہے،یعنی وہ بزرگ فرشتے ، جو نامہ ہائے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ہرقول و فعل اور اس کے ماحول کو فلماتے بھی ہیں، تاکہ روحانیّت اور آخرت میں اس کودیکھا جائے۔
۱۴۔ تصویر /عکسی تصویر (PHOTO ): فرشتۂ خیال روحانی فوٹوگرافی کا کام کرتا رہتا ہے، آسمان اور زمین کی جتنی چیزیں آپ کے مشاہدے میں آتی ہیں، اور جن لوگوں کو آپ دیکھتے ہیں، ان سب کی روحانی تصویر اور نورانی فلم آپ کے نامۂ اعمال میں شامل ہوجاتی ہے (۱۸: ۴۹)۔
۱۵۔ نقل گیر مشین( COPYING MACHINE): کوئی بھی مشین جو کسی چیز کی نقلیں یا کاپیاں بناتی ہو، وہ اس حقیقت کی مثال و دلیل ہے کہ منزلِ عزرائیلی میں روحِ عارف کی نقول بنائی جاتی ہیں، اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتنی بڑی
۱۷
رحمت ہے کہ مومن ایک سے بے شمار ہوجاتا ہے (۰۲: ۲۴۵)۔
۱۶۔ شمارندہ / حساب کار (COMPUTOR): کمپیوٹر حساب کتاب کے علاوہ اور بھی بہت سے کاموں کو بڑی سرعت کے ساتھ انجام دیتا ہے، اور یہ سائنسی کمالات کی ایک قابلِ توجہ چیز ہے، لہٰذا کمپیوٹر روح کے کُنۡ فیکونی معجزات کا ایک ادنیٰ سا نمونہ ہے۔
۱۷۔ ذیلی سیّارہ / مصنوعی سیّارہ (SATELLITE ): جب بندۂ مومن حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ارشادِ گرامی کے مطابق بوسیلۂ فرمانبرداری اور ذکر و عبادت اپنی روح کی کاپی جسم سے باہر نکالتا ہے، تو گویا وہ ایک مصنوعی سیّارہ عالمِ علوی کی طرف بھیجتا ہے، اس وقت ایسے نیک بخت شخص کو خدا کی قربت و نزدیکی حاصل ہوجاتی ہے، اور اس کی دعا مقبول ہوجاتی ہے۔
۱۸۔ لاسِلکی، بے تار خبر (WIRELESS): یہ آلہ تائیدِ روحانی اور اجابت و قبولیّت کی دلیل ہے، کہ مومن کی دعا وائرلیس کی طرح بارگاہِ خداوندی میں پہنچتی ہے، اور نورانی ہدایت کی صورت میں جواب دیا جاتا ہے۔
۱۹۔ دُور نُمائی/ٹیلی ویژن (TELEVISION): ٹیلی ویژن ایک مثال ہے اس کامیاب طریقِ عبادت کی جو مشاہداتِ روحانی پر منتج ہوتا ہے، کیونکہ مرشدِ کامل (ہادیٔ برحق) کی رہنمائی اور عبادت و ریاضت ہی سے باطنی آنکھ کھل جاتی ہے، جس سے روحانی عجائب و غرائب سے بھر پور مناظر سامنے آنے لگتے ہیں،
۱۸
غرض سائنس کے تمام مفید کرشمے مل کر روح اور روحانیّت کی کم سے کم مثالیں پیش کرتے ہیں، تاکہ اہلِ دانش ان مثالوں سے ممثولات کو سمجھ سکیں۔
والسّلام
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی
۸؍شوال ۱۴۰۹ھ
۱۴؍ مئی ۱۹۸۹ء
۱۹
نمونہ ہائے حکمت
۱۔ انسان اور آسمان: کیا پیدائش میں تم زیادہ سخت ہو یا آسمان؟ اللہ نے اس کو بنایا، اس کی سقف کو بلند کیا پھر اس کو برابر کیا(۷۹: ۲۷ تا ۲۸) اس سے نفسِ کلّی مراد ہے، کیونکہ عالمِ شخصی کا آسمان وہی ہے، جس کی سقف عقلِ کلّی ہے، جہاں برابری (یعنی مساواتِ رحمانی) ہوتی ہے، پس یہ انسان کے روحانی عروج کا تذکرہ ہے، جبکہ وہ شروع شروع میں ایک آدمی تھا، اس کے بعد وہ ایک کائنات ہوگیا۔
۲۔ لفظِ خلیفہ کی حکمت (۰۲: ۳۰): یہ خیال نہ ہوکہ آپ لفظِ خلیفہ کی ساری حکمتیں جان چکے ہیں، حالانکہ اس باب میں ہنوز آپ کو بہت کچھ جاننا باقی ہے، مثال کے طور پر: خدا کی خدائی میں نظامِ خلافت کب سے شروع ہوا اور کب تک جاری رہا؟ یا رہے گا؟ کیا خلافتِ الہٰیہ صرف زمین تک محدود ہے؟ اگر ایسا سمجھا جائے، تو پھر آسمان کے فرشتے آدمِ خاکی کے سجدے میں کیوں گر پڑے؟ اور کیوں انھوں نے آپؑ سے علم حاصل کیا؟ کیا حضرتِ آدمؑ براہِ راست خلیفۂ خدا ہیں؟ یا خلیفۂ سابق کے خلیفہ ہیں؟ خلیفہ (نائب، جانشین) کسی بشر کا ہوتا ہے، جبکہ وہ خود موجود نہیں ہوتا، لیکن یہ انتہائی عظیم راز کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو اَلْحَیُّ الْقَیُّوم ہے، اس کا خلیفہ ہے؟
۳۔ گنجِ ازل (۱۵: ۲۱): جس طرح مالی اعتبار سے دنیوی خزانے کا بار بار تذکرہ اور رجوع ہوتا رہتا ہے، اسی طرح گنجِ ازل سے علمی اور فکری رجوع بیحد ضروری ہے، اس سِرِّ عظیم کا بے پایان خزانہ ہر شخص کی امکانی روحانیّت کی چوٹی پر
۲۰
موجود ہے، جس میں تمام قرآنی حکمتیں جمع ہیں، اور یہاں یہ نکتۂ دلپذیرخوب یاد رہے کہ اگرچہ یہ زندہ اور ناطق خزانہ لامکان اور لازمان ہے، تاہم ہر جگہ اور ہر وقت کے اہلِ معرفت اس کا مشاہدہ کرکے بے شمار فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔
۴۔ حجرِ ابیض: حجرِاسود جو خانۂ کعبہ کی دیوار میں نصب ہے، وہ فی الاصل بہشت میں دودھ سے زیادہ سفید تھا،اور ہے، کیونکہ جنّت کی چیزیں دنیا میں بذاتِ خود نہیں آتیں، بلکہ یہاں ان کے مادّی سائے بنتے ہیں، پس بہشتِ روحانیّت میں حجرِ ابیض یعنی دُرّمکنون موجود ہے، اور وہ حجِ اکبر کی علامت و دلیل ہے۔
۵۔ ظلِ ممدود (۵۶: ۳۰): یعنی بہشت میں ہر مومن کے لئے سایۂ دراز ہوگا، اور یہ درازی مقدار کے لحاظ سے بھی ہے، اور تسلسل کے اعتبارسے بھی، اس سے یہ مراد ہے کہ بہشتی روح انائے علوی سے بہشت ہی میں رہتی ہے، مگر انائے سفلی کا ظہور جسم کے سایوں میں بار بار ہوتا رہتا ہے، اور ظلِ ممدود کا مطلب یہی ہے۔
۶۔ عقلی ہلاکت اور عقلی زندگی (۰۸: ۴۲): سب سے بد ترین موت عقلی ہلاکت ہے، اور سب سے اعلیٰ زندگی عقلی حیات، جن لوگوں کو قرآنِ حکیم نے جاہل، نادان، اور چوپائے قرار دیا ہے، وہ دلیلاً مرچکے ہیں، اور جن کو صاحبانِ عقل کہا گیا ہے، وہ دلیلاً اور حقیقی معنوں میں زندہ ہوگئے ہیں، پس قرآن اور امامؑ کے سرچشمۂ علم و حکمت سے ہر وقت فیوض و برکات حاصل کرتے رہنا ۔
۷۔ عالمِ وحدت اور عالمِ کثرت: وہ جہان جس میں تمام ارواح یکجا ہیں، عالمِ وحدت کہلاتا ہے، اور یہ دنیا جس میں لوگ متفرق و منتشر ہیں،
۲۱
عالمِ کثرت ہے، عالمِ وحدت کے کئی نام ہیں، جیسے: نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) اُ متِ واحدہ (۰۲: ۲۱۳) عالمِ ذرّ(۳۶: ۴۱) ابداع و انبعاث (۳۱: ۲۸) عالمِ شخصی (۰۶: ۹۸) امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) عددِ واحد (۱۹: ۹۴) ملکوت (۳۶: ۸۳) نفسِ کل (۱۴: ۳۴) کنز یعنی عقلِ کل (۱۱: ۱۲) عالمِ امر (۰۷: ۵۴) وغیرہ، عالمِ وحدت زندہ، گویندہ، اور دانا ہے، وہ ایک کامل انسان بھی ہے، اور ایک عظیم فرشتہ بھی۔
۸۔ حضرتِ ابراہیمؑ کی مثال: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نفسِ واحدہ، مجموعۂ ارواح، عالمِ ذرّ اورعالمِ وحدت ہونے کی وجہ سے تنہا ایک اُمت اور موحد اعظم تھے (۱۶: ۱۲۰) آیۂ کریمہ کا اشارہ یہ ہے کہ آپؑ کی روحانیّت میں تمام لوگ فردِ واحد کی طرح متحد اور کامل طور پر فرمانبردار ہوئے تھے، اور جملہ انسانانِ کامل ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔
۹۔ دائرے ہی دائرے: آپ چشم بصیرت سے جہاں بھی مشاہدہ کریں، وہاں دائرے ہی دائرے نظر آئیں گے، وجود و عدم دائرہ، شب و روز دائرہ، آسمان و زمین کی شکل اور گردش دائرہ، ہر چیز کا اپنی اصل کی طرف رجوع دائرہ، اور کوئی چیز نہیں، جو ایک دائرے پر گردش نہ کرتی ہو(۳۶: ۴۰) چنانچہ موجوداتِ ظاہر و باطن کا دائرۂ عظیم بڑا عجیب اور حیرت انگیز ہے، کہ زمین (جس میں معدنیات و جواہر ہیں) سے بے شمار مراتب کا آغاز ہوتا ہے، اور زمینِ نفسِ کلّ اور گوہر ہائے عقلِ کلّ پر جاکر دائرۂ معرفت مکمل ہوجاتا ہے۔
۱۰۔ ہر قرآنی موضوع کا مجموعی مفہوم: مسئلہ نور سے متعلق ہو،
۲۲
یا ہدایت سے، آپ اسے حل نہیں کرسکتے، جب تک کہ اس موضوع کا مجموعی مفہوم واضح نہ ہو، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: پہلی آیت میں ارشاد ہوا (ترجمہ): اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا (ترجمہ): اے نبیؐ ہم نے تم کو گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور خدا کی طرف اسی کے حکم سے بلانے والا اور (ہدایت کا)روشن چراغ بنا کر بھیجا (۳۳: ۴۶)اور اس کی تفسیر یہ ہے (ترجمہ): اے ایماندارو! خدا سے ڈرو اور اس کے رسول (محمدؐ) پر ایمان لاؤ تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصّے اجر عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور مقرر فرمائے گا جس (کی روشنی) میں تم چلو گے اور تم کو بخش بھی دے گا (۳۳: ۲۸) کسی شک کے بغیر یہ نورِ امامت ہی ہے، پس موضوعِ نور کا مجموعی مفہوم یہی ہے۔
۱۱۔ دو دو چیزیں: ہر شیٔ دو قسم کی ہوا کرتی ہے، چنانچہ عقل دو طرح کی ہوتی ہے: دینی اور دنیوی، روح بھی دو قسم کی ہے: روح الایمان، اور روح الحیوان، اور جسم بھی دو قسموں میں ہے: لطیف اور کثیف، پس نیک بخت اور ہوشمند مومن وہی ہے، جو علم و معرفت سے ہمیشہ دینی عقل کو تقویت دیتا ہے، اعمالِ صالحہ سے ایمانی روح کو طاقتور بناتا ہے، اور تقویٰ سے جسمِ لطیف کو اجاگر کرلیتا ہے، تاکہ وہ قیامت کے دن ان تین چیزوں میں زندہ ہوجائے۔
۱۲۔ بالواسطہ لذّت و شادمانی: حلاوت و مسرّت براہِ راست بھی ہے، اور بالواسطہ بھی، مثلاً علم و حکمت اگرچہ غذائے عقل، ذکر و عبادت خوراکِ روح، اور طعامِ ظاہر جسم کا کھانا ہے، تاہم ان غذاؤں میں سے ہر ایک میں مشترکہ لذّتیں اور خوشیاں بھی ہیں، لیکن جس کی ایسی عقل اور ایسی روح نہ ہو، اس کی لذّت و خوشی بہت
۲۳
محدود ہوا کرتی ہے، جس کی مثال حیوان ہے، اور وہ انسان جو حیوان کی طرح ہے۔
۱۳۔ وارثِ قرآن کون ہے؟: سورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) میں یہ ارشاد ہے (ترجمہ): پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے ان کو قرآن کا وارث بنایا جنھیں برگزیدہ کیا (۳۵: ۳۲) یہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں، پس جب تک دنیا میں قرآن باقی ہے، تب تک وارثِ قرآن (امامؑ) موجود و حاضرہے، کیونکہ قرآن اور اس کا معلّم لازم و ملزوم ہیں (۰۵: ۱۵) جیسے زمانۂ نبوّت میں نبی اکرمؐ قرآن کے معلّم تھے۔
۱۴۔ خوشبو میں حکمت: پروردگارِ عالم کی بے شمار اور لامحدود نعمتوں میں سے ایک نہایت عمدہ اور لطیف نعمت خوشبو ہے، جس کو آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم پسند فرماتے تھے، اور آپؐ کی اس پسندیدگی میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ خوشبو فتح و کشائشِ روح کی مثال ہے، اور پیراہنِ یوسفی (۱۲: ۹۳)کا نمونہ ہے، کیونکہ بہشت میں جسمِ لطیف کے لئے کھانے پینے کی لطیف نعمتیں خوشبوؤں کی صورت میں ہیں، اور دوستانِ خدا کو حصولِ معرفت کے سلسلے میں ان نعمتوں کی شناخت سے سرفراز کیا جاتا ہے۔
۱۵۔ بشر اور مَلک (فرشتہ): روحانی عروج وارتقا کی منزلیں تین بڑی قسموں میں ہیں:
الف: بشریت کی منزلیں۔
ب: فرشتگی کی منزلیں۔
ج: فنافی اللہ و بقاباللہ کی منزلیں۔
پس ظاہر ہے کہ حضورِ انورؐ پہلے پہل بشر تھے، پھر فرشتۂ ارضی (۱۷: ۹۵)
۲۴
ہوگئے، اور جب آنحضرتؐ کو معراج ہوئی، تو اس وقت آپ فرشتۂ مقرب سے بھی ارفع و اعلیٰ ہوکر مرتبۂ فنافی اللہ و بقا باللہ میں پہنچ گئے، پس سرورِ انبیا و رُسلؐ کا اسوۂ حسنہ یہی ہے، جس کی طرف قرآنِ حکیم ہمیشہ دعوت کرتا رہتا ہے (۳۳: ۲۱)۔
۱۶۔ کارخانۂ الٰہی کے عجائب و غرائب: موالیدِ ثلاثہ میں سب سے نچلا درجہ جمادات کا ہے، لیکن چشم بصیرت سے نہ صرف معدنیات و جواہر کی رعنائی و دلکشی ہی کو، بلکہ کسی ذرّۂ خاکی کو بھی دیکھ لیں کہ اس کے ظاہر و باطن میں دستِ قدرت کی کیسی انتہائی عجیب صناعی ثبت کی گئی ہے، زمین میں یہ دائمی صلاحیت موجود ہے کہ اس کے بطن سے ہمیشہ سونا، چاندی، اور لعل و گوہر جیسی خوبصورت و گرانمایہ چیزیں پیدا ہوتی رہیں، نباتات کا کارخانہ اور بھی زیادہ عجیب ہے، دیکھئے اب سے بہت پہلے جب سیّارۂ زمین پیدا ہوکر روئیدگی کے قابل ہوا، تو اس وقت یہ سارے درخت کس طرح پیدا ہوئے؟ کیا یہ بہشتِ برین کا مادّی ظہور نہیں ہے؟
ظاہر ہے کہ جمادات میں قدرت کی نشانیاں ہیں، نباتات میں قدرت کی کارفرمائی نمایان ترہے، کیونکہ اس درجہ کی تخلیق میں روحِ نباتی کا اضافہ ہے، حیوانات میں مزید عجائب و غرائب ہیں، جبکہ ان میں روحِ نباتی کے ساتھ روحِ حیوانی بھی کام کررہی ہے، انسان دراصل جمادات، نباتات، اور حیوانات سے افضل ہے، جس کی وجہ انسانی روح ہے، جس میں عقل جیسی خدا کی سب سے بڑی نعمت پیدا ہوسکتی ہے، اور اشرفِ مخلوقات کا زندہ ثبوت انسانِ کامل ہے۔
اب یہ حقیقت قابلِ فہم ہوگئی کہ ہر مومنِ سالک جو منزلِ مقصود تک رسائی رکھتا ہو، وہ بڑا عجیب کارخانۂ قدرت قرار پاتا ہے، اس کی روحانیّت میں عوالمِ لطیف اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں، مثلاً عالمِ جماد بشکلِ روحانی کہ وہ جواہرات کو دیکھتا ہے،
۲۵
عالمِ نبات بصورتِ لطیف، اسی لئے وہ اپنے باطن میں باغ و گلشن کا نظارہ کرتا ہے، عالمِ حیوان، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی روحانیّت میں خوبصورت چرند و پرند کو دیکھتا ہے، ناسوت وغیرہ، جو خدا کی عطا کردہ سلطنت ہے، پس انسان اپنی اصلیت میں سب سے عظیم کارخانۂ قدرت ہے۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی
۱۷؍ ذیقعدہ ۱۴۰۹ھ
۲۲؍جون ۱۹۸۹ء
۲۶
کلیدی حکمتیں
۱۔ اسلام دینِ قدیم: اسلام دینِ قدیم و قائم ہے، اور یہ اس وقت سے ہے، جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا (۰۹: ۳۶) دین کا ایک لفظی ترجمہ قانون بھی ہے، جس سے قانونِ فطرت مراد ہے، اور اسی معنی میں اسلام کو (دینِ) فطرت کہا جاتا ہے، جیسا کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کُلُّ مولودٍ یولدُ علی الفطرۃِ۔۔۔۔ ہر بچہ فطرت (یعنی اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔۔۔ ۔ پس اسلام نظامِ کائنات کے مطابق مستحکم ہے۔
۲۔ آنحضرتؐ سے قبل کا زمانہ اور سنتِ الٰہی: اس کی چند قرآنی مثالیں یہ ہیں:
الف: خدا کی سنت و عادت کا مظہر انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام ہیں۔ ( فِی عبادہٖ ۴۰: ۸۵)۔
ب: ہر قوم کے لئے ایک نذیر اور ایک ہادی ہوا کرتا ہے (۱۳: ۰۷)، کیونکہ صراطِ مستقیم کی ہدایت ان ہی کی پیروی سے وابستہ ہے۔
ج: نذیر اور ہادی (پیغمبرؐ اور امامؑ) کا دوسرا نام خدائی نور ہے، جس کو کوئی نہیں بجھا سکتا (۰۹: ۳۲؛ ۶۱: ۰۸)۔
د: پروردگارِ عالم روزِ قیامت ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائے گا (۱۷: ۷۱)، اس سے ظاہر ہے کہ جب سے لوگ ہیں تب سے نورِ امامت
۲۷
موجود ہے اور موجود رہے گا۔
ہ: آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳) کو غور سے دیکھنا بیحد ضروری ہے کہ اللہ پاک نے حضرت آدمؑ، حضرتِ نوحؑ، خاندانِ ابراہیمؑ، اور خاندانِ عمرانؑ کو سارے جہان سے برگزیدہ کیا ہے، پس یہاں خاندانِ ابراہیمؑ میں رسولِ اکرمؐ اور أئمّۂ طاہرینؑ کی برگزیدگی کا ذکر ہے۔
۳۔ نورِ امامت کی پیروی: الاعراف (۰۷: ۱۵۷) میں ارشاد ہے: پس جو لوگ اس (نبی محمدؐ) پر ایمان لائے اور ان کی حمایت کی اور ان کی مدد کی اور اس نور (یعنی نورِ امامت) کی پیروی کی جو ان کے ساتھ نازل ہوا ہے تو یہی لوگ اپنی دلی مراد پائیں گے (۰۷: ۱۵۷) حضرتِ امام جعفرصادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ اس آیت میں نور سے مراد علی بن ابی طالبؑ اور أئمّۂ حقؑ ہیں (حاشیۂ ترجمۂ قرآن، مولانا فرمان علی)۔
۴۔ أئمّۂ ہدیٰ ہی صادقین ہیں: ارشاد ہے: اے ایماندارو! خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ (۰۹: ۱۱۹)، خدا سے ڈرنے (تقویٰ) میں اتنی بڑی جامعیّت ہے کہ اس میں اسلام کے سارے اوصاف و کمالات مرکوز ہوجاتے ہیں، تاکہ اہلِ ایمان کو صادقین کی وہ روحانی صحبت و ہمنشینی نصیب ہو، جو علمی اور عرفانی معجزات سے بھرپور ہے، کیونکہ آپ قرآنِ عظیم (۰۴: ۶۹) میں دیکھ سکتے ہیں کہ انبیاء علیہم السّلام کے بعد سچوں (اولیاء) کا مقام ہے، اور یہ سچے (صدق والے) وہ حضرات ہیں، جو اسرارِ الٰہی، رموزِ روحانیّت اور تاویلِ قرآن و شریعت کو بیان کرنے میں انتہائی صدق سے کام لیتے ہیں۔
۲۸
۵۔ مقامِ محمود (۱۷: ۷۹) کیا ہے؟: انبعاث کے دو پہلو ہیں: مکانی اور لامکانی، چنانچہ حضورِ انور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے شبِ معراج میں عملاً مقامِ محمود (سراہا ہوا مقام) کو عرشِ الٰہی کی داہنی جانب دیکھا تھا، اس میں مرتبۂ عقلِ کلّی کا اشارہ ہے۔
۶۔ دُرود کا مجموعی مفہوم: درود (صَلوٰۃ) کیا ہے؟ توفیق، روشن ہدایت، علمی تائید، چنانچہ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں ارشاد ہے: وہ وہی ہے جو خود تم پر درود (تائیدِ روحانی) بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو (جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (علم و حکمت کی) روشنی میں لے آئے (۳۳: ۴۳) جب احکم الحاکمین نے تمام موجودات و مخلوقات کے ظروف کو علم ہی کے موتیوں سے لبالب کردیا ہے، تو پھر قرآنِ حکیم کی کوئی شی اور کوئی مثال تذکرۂ علم سے کیونکر خالی ہوسکتی ہے (۰۶: ۸۰؛۴۰: ۰۷) پس یقین کیجئے کہ درود کی مثال میں بھی علم و حکمت موجود ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: اس میں شک نہیں کہ (تمہارے لئے) خدا اور اس کے فرشتے پیغمبرؐ(اور ان کی آل) پر درود (تائید) بھیجتے ہیں، تو اے ایماندارو! تم بھی کہا کرو: یا اللہ محمدؐ و آلِ محمدؐ پر (ہمارے لئے) درود نازل فرما (اور اے مومنو!) فرمانبرداری کرنا جیسا کہ اس کا حق ہے (۳۳: ۵۵)۔
۷۔ سب سے بڑی نعمت، جو نعمتوں کی کائنات ہے: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی (۰۵: ۰۳) ، یہاں دین سے قرآن مراد ہے اور نعمت معلّمِ قرآن (نور) ہے، جو عالمِ شخصی میں نعمتوں کی کائنات ہے، اب رہا سوال کہ دین کا نام “اسلام” کس معنی کے
۲۹
پیشِ نظر رکھا گیا ہے؟ اسلام کے اصل معنی ہیں اپنے آپ کو کسی کے حوالے کردینا، پس دین اسلام کا مقصد و منشا ہے خدا وندِ قدوس کے امروفرمان کے لئے سرِتسلیم خم کردینا، یعنی خدا و رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی اطاعت کرنا (۰۴: ۵۹)۔
۸۔ توبہ اور صدقہ کی حکمت (۰۹: ۱۰۴): توبہ اور صدقہ کی باہمی مناسبت نہ صرف ظاہرہی میں ہے، بلکہ یہ دونوں چیزیں مقامِ عقل پر بھی ایک ساتھ ہیں، کہ توبہ بارگاہِ ازل کی طرف لوٹ جانا ہے،اور صدقات گوہر ہائے مکنون ہیں (۰۹: ۱۰۹) یعنی مظاہرۂ عقل۔
۹۔ یہ مومنین (۰۹: ۱۰۵) کون ہیں؟: اور (اے رسولؐ) تم کہدو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی تو خدا اور اس کا رسولؐ اور مومنین (أئمّۂ طاہرینؑ) تمہارے کاموں کو دیکھیں گے(۰۹: ۱۰۵) حضرت امام جعفرصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ اس آیت میں وَالْمُؤْمِنُوْن سے مراد أئمّہ علیہم السّلام ہیں (حاشیۂ ترجمۂ قرآن، مولانا فرمان علی)۔
۱۰۔ حضراتِ أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۳) میں ارشاد ہے: اور اسی طرح (اے أئمّہ) ہم نے تم کوعادل اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (محمدؐ) تم پر گواہ بنیں (۰۲: ۱۴۳) آپ حکمت نمبر ۹ اور نمبر ۱۰ کو ذرا غور سے دیکھیں کہ گواہ صرف وہی بن سکتے ہیں جو اعمال کو دیکھ سکیں۔
۱۱۔ جس کے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے: یہ بہت بڑی حکمت سورۂ رعد کے آخر میں ہے: اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر
۳۰
نہیں ہو تو تم (ان سے) کہدوکہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے کافی ہیں (۱۳: ۴۳) اہلِ دانش کے لئے یہاں بہت سے اسرار موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی علیہ السّلام کو اس انتہائی عظیم گواہی میں اپنے ساتھ رکھا ہے، پس مولا علیؑ آنحضرتؐ کی رسالت کے گواہِ ثانی اس لئے ہوئے کہ بحکمِ خدا آپؑ نے رویتِ روحانی اور تجدّدِ امثال میں دیکھا کہ کلمۂ کنْ اور قلمِ الٰہی سے قرآنِ کریم لوحِ محفوظ پر نازل ہورہا تھا، اور وہاں سے رسولِ اکرمؐ پر، یہ انمٹ تجدّدِ امثال آپؑ کی اپنی ذات میں ہوا، لہٰذا قرآنِ مجید کی تاویلی حکمتیں نورِ امامت کے عالمِ شخصی میں لازم (چسپان) ہوگئیں۔
۱۲۔ نور اور کتاب (قرآن) کا رشتہ اور تعلّق: سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں فرمایا ہوا ہے: قَدْ جَآئَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۔ تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک (چمکتا ہوا) نور اور صاف صاف بیان کرنے والی کتاب (قرآن) آچکی ہے (۰۵: ۱۵) یہاں نور سے مراد حضرتِ رسولؐ ہیں، اور کتابِ مبین قرآنِ پاک ہے، اس آیۂ کریمہ میں پہلے نور کا تذکرہ ہے پھر کتاب کا، کیونکہ نزولِ قرآن سے قبل آنحضرتؐ کا قلبِ مبارک منور ہوا، اور اس کے بعد اللہ کی یہ کتاب نازل ہونے لگی، دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن آپؐ کی ذاتِ عالی صفات میں ایک زندہ روح اور نور تھا (۴۲: ۵۲) مگر روحانی اور عقلی روشنی کبھی بصورتِ اصل کتابی تحریر میں منتقل نہیں ہوسکتی، پس اس کتابِ سماوی کی روحِ گویندہ و دانا (یعنی نور) حضورؐ ہی میں قائم رہی، جبکہ قرآن کا ظاہری پہلو ضبطِ تحریر میں لایا گیا، پس نور اور کتاب کا رشتہ و تعلق
۳۱
یہ ہے کہ نور ، ہدایت نامۂ سماوی کا باطنی پہلو ہے اور کتاب ظاہری پہلو۔
۱۳۔ نور کس طرح منتقل ہوجاتا ہے؟: دانشمندوں کے نزدیک یہ سوال جتنی بلندی کا ہے، اتنی اہمیت کا بھی حامل ہے، اور اس کا جواب انتہائی عظیم کیوں نہ ہو، چنانچہ ایک کامل شخصیت سے دوسری کامل شخصیت میں نور کی رسائی اور پھر منتقلی اس طرح ہوجاتی ہے۔
الف: یہ حکمت آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کی مثال میں پوشیدہ ہے کہ ایک درخشندہ چراغ ہر طرف روشنی بکھیر رہا ہے، اگر دوسرے چراغ کو بھی روشن کرنا ہے، تو اسے ہر طرح سے تیار کرکے چراغِ اوّل کے انتہائی قریب لانا ہوگا، پھر اس کے شعلۂ تابان سے اس کو سلگانا ہوگا، اس کے معنی ہیں کہ پیغمبرِ اکرمؐ نے خدا کے حکم سے علیؑ کو اسرارِ علم و حکمت، مرتبۂ مہروشفقت، موقعِ خدمت، تعلیمِ اسمائے بزرگ، اور انتہائی پُراثر دعاؤں میں اپنے قربِ خاص میں رکھا، جس سے یہ چراغ بھی روشن ہوگیا، اور اسی خدائی معجزے کا نام “نورٌعلٰی نور” ہے، یعنی ایک شخصیت سے دوسری شخصیت میں نور کی منتقلی۔
ب: اللہ تعالیٰ نے اپنی روح (نور) حضرت آدمؑ میں پھونک دی (۱۵: ۲۹؛ ۳۸: ۷۲) یہ پھونک دینا بے معنی نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے معنی ہیں تعلیم، اسمِ اعظم وغیرہ، جس طرح اوپر ذکر ہوا، کیونکہ حضرتِ مریمؑ میں بھی روحِ قدسی پھونک دی گئی تھی (۲۱: ۹۱؛ ۶۶: ۱۲) مگر ایک دوسری آیت سے ظاہر ہے کہ یہ ایک کلمہ تھا (۰۴: ۱۷۱) یعنی اسمِ بزرگ اور کلمۂ کُنۡ کے بہت سے معنوں میں سب کچھ ہے۔
ج: پیغمبرِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سراجِ منیر (روشن چراغ ۳۳: ۴۶)
۳۲
تھے، یعنی ایسا نور جو براہِ روحانیت دل سے دلوں کو منور کردیتا ہے، دراصل یہی سراجِ وَھّاج (تابناک چراغ ۷۸: ۱۳) ہے، جس سے ہمیشہ کے لئے نورِ امامت کا چراغ روشن ہوگیا۔
د: صوفیوں کے وہاں مشاہدۂ نور کا طریقہ فنا فی الشّیخ (المرشد) ،فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ ہے، اور اسماعیلیوں کے یہاں فنا فی الامام، فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ ہے، چونکہ پیغمبرِ اکرمؐ اور أئمّۂ طاہرینؑ اللہ تعالیٰ کے اسمائے بزرگ ہیں (۰۷: ۱۸۰) لہٰذا اس (طریقے) میں بڑی آسانی سے محویّت و فنائیّت اور معرفتِ نور حاصل آسکتی ہے، پس دیکھنے والوں نے نور اور اس کے کائناتی عمل کو دیدۂ دل سے دیکھ لیا ہے، اور اسی لئے وہ دیوانہ وار ہمیشہ اس کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں، عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم تمام انسانوں کو نورِ اسلام کی ہدایت نصیب فرمائے! آمین!!
نوٹ: مضمون اور محولہ آیاتِ کریمہ کو غور سے پڑھیں، اور یہ بات یادرہے کہ یہ ایک خصوصی نعمت ہے، اور ہر نعمت کی عملی شکر گزاری بیحد ضروری ہے، کیونکہ قیامت کے دن نعمتوں کی پوچھ ہوگی (۱۰۲: ۰۸) ۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی
۲۲؍ذیقعدہ ۱۴۰۹ھ
۲۷؍جون۱۹۸۹ء
۳۳
حضرتِ یونسؑ
۱۔ ذَاالنُّون (۲۱: ۸۷) /صاحب الحوت (۶۸: ۴۸): مچھلی والا، یعنی حضرتِ یونس علیہ السّلام، جنھیں مچھلی نگل گئی تھی، حدیثِ شریف میں ہے کہ قرآنِ کریم کی آیات میں کوئی آیت ایسی نہیں جس کا ایک ظاہر اور ایک باطن(نہ ہو) اور اس باطن کے سات بواطن نہ ہوں۔ چنانچہ ہم یہاں خداوندِ قدوس کی توفیق و تائید سے مچھلی کی باطنی حکمت بیان کریں گے، وہ یہ ہے کہ خشکی تاویل کی زبان میں جسمانیّت کو کہتے ہیں، اور سمندر روحانیّت کا نام ہے، پس مچھلی سے وہ روح مراد ہے، جو بحرِ روحانیّت میں رہتی ہے، لیکن یہ مچھلیاں بھی چھوٹی بڑی اور اچھی بری ہر طرح کی ہوا کرتی ہیں، ان میں سے ایک نفسِ امّارہ کی مچھلی ہے، جو بڑی آسانی سے آدمی کو نگل سکتی ہے، بظاہر یہ ہمارے اندر ہے، لیکن تسلّط اگر اسی کا ہے تو ہم گویا اس کے پیٹ میں محبوس و مقید ہیں۔
۲۔ دریائے شیرین اور دریائے شور/ دو قسم کی روحانیّت: سورۂ فاطر (۳۵: ۱۲) میں خیر و شر دونوں کی روحانیّت کا ذکر ہے، اگرچہ یہ دونوں سمندر ایک جیسے نہیں، تاہم مچھلیوں کے تازہ گوشت اور موتیوں کے حصول میں کوئی فرق نہیں، یہاں تازہ گوشت سے روحانی علم مراد ہے، اور موتی اسرارِ عقل ہیں (۳۵: ۱۲)۔
۳۔ تین قسم کا گوشت: قرآنِ حکیم میں تین قسم کے حلال گوشت کا
۳۴
ذکر فرمایا گیا ہے، گوسفند وغیرہ کا گوشت: یہ حدودِ جسمانی کے علم کی مثال ہے، مچھلی کا گوشت: یہ حدودِ روحانی کے علم کی دلیل ہے، پرندے کا گوشت: یہ فرشتوں کے علم کی طرف اشارہ ہے، ہر چند کہ روحانی اور فرشتہ ایک ہے۔
۴۔ حالتِ اِحرام میں شکار: اس میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ حالتِ احرام میں دریا کا شکار تو حلال ہے، مگر خشکی کا شکار حرام ہے؟
جواب: امامِ عالیمقامؑ خدا کا زندہ گھر ہیں، حالتِ احرام ان کی روحانی نزدیکی اور حجِ باطن ہے، دریائی شکار کی تاویل ہے حدودِ روحانی سے علم حاصل کرنا جو حلال ہے، اور برّی شکار کی تاویل ہے جسمانی حدود سے علم لینا، اور یہ اس حال میں ممنوع ہے (۰۵: ۹۶) پس شروع سے لے کر یہاں تک جو کچھ بیان ہوا، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ مچھلی کی تاویل ہے روح، روحانی، اور حدودِ روحانی، اور اس کا شکار علمِ روحانی ہے، لہٰذا اب ہم اس حوت/روح کے بارے میں کچھ بیان کریں گے، جو قصّۂ یونسؑ کے باطن میں ہے۔
۵۔ چلنا دوطرح سے ہے: ایک چلنا ظاہر میں ہے، اور دوسرا باطن میں، باطن میں ذکر و عبادت سے چلاجاتا ہے، چنانچہ حضرت یونس علیہ السّلام اپنی قوم پر غضبناک ہوکر راہِ روحانیّت پر چلے اور یہ خیال کیا کہ اس سے رزقِ روحانی میں تنگی نہیں ہوگی، مگر وہ جاکر ایک روحانی مچھلی کے پیٹ میں مبتلا ہوگئے، پس انھوں نے تاریکیوں یعنی انوار کے منقطع ہونے کی حالت میں پکارا: لَآاِلٰہَ اِلَّا ٓاَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (۲۱: ۸۷) آگے ارشاد ہے: تو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور انھیں غم سے نجات دلائی اور ہم تو مومنین کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں (۲۱: ۸۸)۔
۳۵
۶۔ قصّۂ قرآن روحانیّت کی ہرمنزل کے ساتھ منطبق (برابر و موافق) ہے: حضرتِ یونسؑ بھاگ کر جس بھری ہوئی کشتی کے پاس پہنچ گئے، وہ کیا چیز تھی؟ قرعہ سے کیا مراد ہے؟ اس کشتی سے عالمِ ذرّ مراد ہے، جو ذرّاتِ روح سے مملو ہے، یہ کشتی حقیقی ذکر سے چلتی ہے، مگر حضرت یونس علیہ السّلام پر آزمائش تھی، اس لئے حقیقتِ حال کا قرعہ آپؑ کے نام پر نکلا، اور آپؑ نے ان بے شمار روحوں کی قربانی کی خاطر دریائے روحانیّت میں چھلانگ لگائی، پس انھیں روح کی ایک بڑی مچھلی نگل گئی، چنانچہ قرآن کا فرمانا ہے کہ: اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روزِ قیامت (یعنی انبعاث) تک اس کے پیٹ میں رہتے (۳۷: ۱۴۴)۔
۷۔ خیر و شرّ کی تمثیلات: اگرچہ روحانیّت میں خیر و شر صرف دو ہی چیزیں ہیں، لیکن ان کی گوناگون مثالیں بہت سی ہیں، جیسے آپ ہمیشہ عالمِ خواب میں خیر و شر کے سوا کچھ نہیں دیکھتے ہیں، مگر ظاہر ہے کہ ان دونوں کی بے شمار تشبیہات و تمثیلات ہیں، اس لئے ہر بار تعجب ہوتا ہے کہ آپ نے کچھ نئی چیزیں دیکھ لیں، حالانکہ وہی خیر ہے اور وہی شر، مگر ان کی شکلیں بار بار بدلتی رہتی ہیں، سو حضرت یونس علیہ السّلام جس مچھلی کے پیٹ میں رہے، اس کی اور بھی تمثیلات ہوسکتی ہیں، جن کی اصل حقیقت و کیفیت یہی ہو،اور اگریہ بات درست ہے، تو پھر دوسری مثالوں میں بھی مذکورۂ بالا آزمائش کا بیان ہوسکتا ہے۔
۸۔ ہدایتِ انبیاؑء اور منزلِ مقصود: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ انبیاء علیہم السّلام خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، اسی لئے وہ حضرات لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے بھیجے گئے، ان میں سے کوئی بھی پیغمبر درمیانی راستے سے
۳۶
نہیں، بلکہ منزلِ مقصود سے ہوکر مرتبۂ اعلیٰ کی معرفت کے ساتھ آیا تھا، کیونکہ جب قرآنِ حکیم کہتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا (۰۲: ۲۱۳) تو عقل کا یہ سوال جائز اور مناسب ہے کہ حضراتِ انبیاءؑ کس روحانی مقام سے یا کس درجے سے بھیجے گئے؟ اور اس کا یہی ایک فطری جواب مہیّا ہے کہ پروردگارِ عالم نے پیغمبروں کو اپنے قرب و حضور سے بھیجا، اگر ہم اس آیۂ کریمہ کے لفظِ بَعَثَ سے ابداع و انبعاث کے معنی لیں، تو پھر بھی اس کا یہی مطلب ہوگا کہ انبیاءؑ روحانیّت کے بلند ترین مقام سے آئے ہیں، ہر چند کہ وہ حضرات جسمانی طور پر شروع ہی سے لوگوں کے ساتھ تھے، پس آئیے ہم اس یقین کے ساتھ قرآنِ حکیم میں دیکھیں، تاکہ حضرتِ یونسؑ کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں۔
۹۔ یہ چٹیل میدان (عراء ۳۷: ۱۴۵) کونسا ہے؟: ارشاد ہے: سو ہم نے ان کو چٹیل میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھے، اور ہم نے ان پر ایک بیلدار درخت اُگا دیا، اور ہم نے ان کو ایک لاکھ یا اس سے زیادہ آدمیوں کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر وہ لوگ ایمان لے آئے تھے تو ہم نے ان کو ایک زمانہ تک بہرہ مند کیا (۳۷: ۱۴۵ تا ۱۴۸) یہ میدانِ عقل ہے، جس میں حضرتِ یونسؑ کو پہنچا کر بدرجۂ انتہا عقلی صحت کی دولت سے نوازنا مقصود تھا، اور بیلدار درخت سے ظہورِ معجزۂ عقل مراد ہے، جس میں عقل و دانش اور علم و حکمت کے لاتعداد اشارات و رموز موجود ہیں، اسی مقام پر گنجِ ازل، کلمۂ باری، اورمرتبۂ فنا فی اللہ بھی ہے۔
۱۰۔ قانونِ اسرار و حجابات: جیسا کہ اس مضمون کے شروع ہی میں حدیثِ شریف کی روشنی میں یہ ذکر ہو چکا کہ قرآنِ پاک کی ہر آیت کا ایک ظاہر اور
۳۷
ایک باطن ہے، اس کا یہ مطلب ہوا کہ آیۂ کریمہ کا ظاہر حجاب ہے اور باطن محجوب، جیسے اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ جب بشر سے کلام کرتا ہے، تو پردہ کے پیچھے سے کرتا ہے (۴۲: ۵۱) یقیناً یہ نورٌعلیٰ نور کی طرح ہے کہ ایک نور دوسرے نور کا حجاب ہوا کرتا ہے، جیسے سورج، کہ وہ اپنا پردہ خود ہی ہے، اس لئے آپ اس کے پس منظر کو نہیں دیکھ سکتے، نہ کبھی اندرونی حصّے کو دیکھ سکتے ہیں، اور نہ ہی پیش منظر کو نظر جما کر دیکھ سکتے ہیں، اس سے ظاہر ہوا کہ علم کا حجاب علم ہی ہوا کرتا ہے۔
۱۱۔ حضرتِ یونسؑ کی برگزیدگی: سورۂ قلم (۶۸: ۴۸ تا ۵۰) میں ارشاد ہوا ہے: تو تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کرو اور مچھلی والے (یونسؑ) کے ایسے نہ ہوجاؤ، کہ جب وہ غصہ میں بھرے ہوئے تھے اپنے پروردگار کو پکارا، اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں بدحالی کے ساتھ ڈالے جاتے، پھر ان کے ربّ نے ان کو برگزیدہ کرکے نیکو کاروں سے بنا دیا۔ اللہ تعالیٰ عظیم الشّان پیغمبروں کی عقلی اور علمی تربیت ایسی روحانی بلندی پر فرماتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے، مثال کے طور پر اگر کہا جائے کہ جس میدان کا یہاں ذکر ہوا ہے، وہ میدانِ عقل ہے، تو بہت ہی کم لوگ باور کریں گے، کیونکہ عوام کے سامنے دشوار ترین حجابات ہوتے ہیں۔
۱۲۔ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کی بہت سی مثالیں کیوں ہیں؟: سنت الٰہی ہمیشہ کے لئے یہی رہی ہے کہ وہ عزّو جلّ کسی استثناء کے بغیر ہر چیز کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، جب یہ بات حقیقت ہے، تو پھر اس کی بہت سی نظیریں قرآنِ کریم میں کیوں نہ ہوں، لیکن یہ جاننا ہوگا کہ دستِ قدرت کس طرح کائنات کو اور اس کی
۳۸
چیزوں کو ملفوف کرتا ہے؟ دیکھئے! جب کسی میوہ دار درخت پر پھل پک جاتا ہے، تو اسی کے ساتھ جملۂ درخت بحدِّ قوّت، بصورتِ جوہر، اور بحالتِ روحِ نباتی گٹھلی یعنی مغز میں لپیٹ لیا جاتا ہے، حالانکہ درخت اپنی جگہ موجود ہے، اسی طرح اہلِ معرفت کے مشاہدۂ روحانیّت میں کائنات کو لپیٹ کر ازسرِنو وجود دیا جاتا ہے، اگر چہ کائنات ظاہراً اپنی جگہ قائم ہے۔
اُمّ الکتاب لوحِ محفوظ (نفسِ کلّ) کا نام ہے، سورۂ فاتحہ کا بھی یہی نام ہے، اور مولا علی علیہ السّلام کا بھی، چنانچہ سورۂ فاتحہ میں قرآن لفظی اور معنوی طور پر مرکوز ہے، اور امامِ زمانؑ (جو علیؑ ہیں) میں روحانی اور عقلی طور پر قرآن مجموع ہے، پس اگر یہ حقیقت تسلیم کر لی جائے کہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؐ، اور اساسؑ کے بہت سے نام اور بہت سی مثالیں ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآنِ عظیم ان قدسیوں کے تذکروں سے بھرا ہوا ہے، جیسے آپ نے سنا، یا پڑھا کہ چٹیل میدان (عرای) مرتبۂ عقل کی مثال ہے، اور بیلدار درخت بھی، اسی طرح بہت سی مثالیں ہیں، جو پیغمبروں کے قصّے میں آکر ان کی عظمت و بزرگی، اعلیٰ روحانیّت، اور مرتبۂ عقل کو ظاہر کرتی ہیں۔
اگر میں کہوں کہ سماء و ارض عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے نام ہیں، تو شاید آپ کو تعجب ہو، حالانکہ یہی دو کلید آپ کے علمی انقلاب کے لئے کافی ہوسکتی ہیں، اور یہ انقلاب بنیاد ہی سے شروع ہوجائے گا، جبکہ آپ آیۂ اعلانِ خلافت ( اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ۰۲: ۳۰) کے ترجمہ: “میں سیّارۂ زمین پر ایک خلیفہ (نائب) مقر ر کرنے والا ہوں۔” کی جگہ پر: ’’میں زمینِ نفسِ کلّی میں ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔” کو ترجیح دیں گے، کیونکہ اس سے یہ نظریہ قائم ہوگا کہ انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام کو ساری کائنات کی خلافت حاصل ہے، اور یہ حقیقت ہے، تاہم کوئی بھی انقلاب صرف بٹن
۳۹
دبانے، یا سوِچ آن کرنے، یا چابی گھمانے سے آنہیں سکتا، اور نہ ہی چل سکتا ہے، لہٰذا اس کے لئے عقل و دانش اور شدید محنت کی بیحد ضرورت ہے، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔
نوٹ: آپ لازمی طور پر حضرت یونس علیہ السّلام کے قصّے کو قرآن و تفسیر میں پڑھ لیں، تاکہ اس کے ظاہری اورباطنی پہلو سے واقفیت و آگہی ہو۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔لنڈن
۱۱؍ ذوا لحجہّ۱۴۰۹ھ
۱۴؍جولائی ۱۹۸۹ء
۴۰
قرآنی میناروں سے روشنی
(قسطِ اوّل)
۱۔ منار، منارہ اور مینار کے معنی ہیں نور کی جگہ، چراغ دان، اونچا ستون، ٹاور، لائٹ ہاؤس، وغیرہ، اگر گھر کے چراغ کو کسی پست جگہ رکھا جائے، تو اس کی ضیاپاشی میں رکاوٹوں کی وجہ سے روشنی محدود ہوجاتی ہے، اور ماحول کی چیزوں کے سائے زیادہ ہوتے ہیں، اسی لئے اس کو چراغدان پر یا طاق میں رکھا جاتا ہے، اسی طرح شہری بازار کے برقی قمقمے اونچے اونچے ستونوں ہی سے روشنی بکھیر سکتے ہیں، شاید آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ سمندری جہاز کی رہنمائی کے لئے روشنی کے بلند و بالا مینار (لائٹ ہاؤسز) ہوا کرتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر نظامِ فطرت کو دیکھئے کہ خالقِ اکبر نے خورشیدِ انور،ماہِ تابان، اور درخشندہ ستاروں کو آسمان کی بلندیوں میں جگہ دی، تاکہ وہ اپنے اپنے وقت میں اہلِ زمین پر بلادریغ نور کی بارش برساتے رہیں، پس اسی قانونِ قدرت کے مطابق شہرستانِ قرآن میں بھی عظیم اور کامل انسانوں کی صورت میں متعدد میناروں کا انتظام فرمایا گیا ہے، ان منار ہائے ہدایت کی رفعت و فوقیّت سے جس طرح نورِ علم و حکمت ضوفگن ہورہا ہے، اس سے اہلِ بصیرت کے قلوب منور و شادمان ہوتے ہیں۔
۲۔ حضرتِ آدمؑ: قصّۂ قرآن میں حضرتِ آدم علیہ السّلام کو مینارِ اوّل کی مرتبت حاصل ہے، اگر آپؑ سے متعلق آیاتِ کریمہ میں چشم بصیرت سے دیکھا جائے،
۴۱
تو یقیناً بڑے بڑے بھید منکشف ہوجائیں گے، مثال کے طور پر آپ ربِّ جلیل کے خلیفہ تھے، کہاں کہاں؟ زمینِ ظاہر پر، عالمِ دین میں، عالمِ شخصی میں، اور زمینِ نفسِ کلّی میں، سویہ کائناتی خلافت ہے، پھر بھی یہاں مطلب واضح نہ ہوسکا، کیونکہ نفسِ کلّی میں خلافت انتہائی عظیم چیز ہے، جس سے عقلِ کلّی الگ نہیں، اسی خلافت میں امامت بھی ہے، لوحِ محفوظ کا دوسرا نام نفسِ کلّ ہے، جس میں ہر چیز کا زندہ ریکارڈ موجود ہے، اور یقیناً اس میں ازل ہی سے ہر شخص کی انائے علوی بھی ہے، پس خلیفۂ خدا نے مرتبۂ نفسِ کلّ میں انائے علوی کو پہچانتے ہوئے اپنے ربّ کو پہچان لیا، اور معرفتِ کاملہ کا مقام یہی ہے۔
۳۔ خدا کی خدائی میں بے شمار آدموں کے ادوار ہیں، مگر ان کی اصولی باتیں ایک جیسی ہیں، لہٰذا قرآنِ حکیم نے علمی اور عرفانی آزمائش کے پیشِ نظر تمام آدموں کے قصّوں کو ایک ہی آدم کا قصّہ بنا کر بیان فرمایا، جیسے اس نے انسانوں کی مشترکہ خصوصیات بیان کرتے ہوئے صیغۂ واحد (یعنی لفظِ انسان) استعمال کیا ہے، درحالیکہ قرآن میں جہاں جہاں انسان کا ذکر آیا ہے، وہ لاتعداد انسانوں کا تذکرہ ہے۔
۴۔ حضرتِ ہابیلؑ: اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام میں حکمتِ بالغہ ہے (۵۴: ۰۵) یعنی ایسی حکمت، جو آیۂ مقدسہ کے مطلب کو بلند کرکے مقامِ حق الیقین تک پہنچا دیتی ہے، اور دوسری طرف کلامِ الٰہی صدق اور عدل سے بھر پور ہے (۰۶: ۱۱۵) یعنی اس کے سب سے اعلیٰ معنی میں نورِ عقل اور کلمۂ باری کے اسرار پنہان ہیں، کیونکہ صدق و عدل عقل اور امر کے ناموں میں سے ہیں، چنانچہ حضرتِ ہابیل علیہ السّلام کی قربانی قبول ہوجانے کی حکمتِ بالغہ یہ ہے (۰۵: ۲۷) کہ آپ کئی فناؤں سے گزر جانے کے
۴۲
بعد بالآخر وجہِ خدا میں فنا ہوکر امامِ اساس مقرر ہوئے، کیونکہ ان کی ظاہری قربانی روحانی قربانی کی مثال ہے، اور اس مقدّس آگ کے پس منظر میں نورِعقل کا تذکرہ ہے، لیکن کچھ مدت کے بعد قابیل نے حضرت ہابیلؑ کو شہید کردیا، اور نورِ امامت حضرت شیثؑ میں منتقل ہوگیا۔
۵۔حضرتِ ادریسؑ: سورۂ مریم (۱۹: ۵۶ تا ۵۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور (اے رسولؐ) کتاب (کی روحانیّت) میں ادریسؑ کا بھی تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ بڑے سچے نبی تھے، اور ہم نے ان کو (روحانیّت کے) مقامِ اعلیٰ تک پہنچایا (۱۹: ۵۶ تا ۵۷) حضرتِ ادریس علیہ السّلام کے بارے میں جو قصّہ مشہور ہے وہ یہ ہے: ایک مرتبہ فرشتۂ موت خدا کی اجازت سے آپؑ کی زیارت کو آئے، تو آپؑ نے فرمایا: میری روح قبض کرو، تاکہ اس کی تلخی معلوم کروں، ملک الموت نے آپؑ کی روح قبض کی، پھر اسے داخلِ بدن کردیا، اس وقت آپؑ نے فرمایا: تم مجھ کو آسمان پر لے چلو، اور دوزخ بہشت کی سیر کرادو، غرض آسمان پر گئے، اور دوزخ پر سے ہوتے ہوئے بہشت میں پہنچے، جب سیر کرچکے، تو ملک الموت نے کہا: اب چلئے، میں آپ کو زمین پر پہنچادوں، اس پر خدا کا حکم ہوا: اے ملک الموت، اب انھیں یہیں رہنے دو، کیوں کہ دنیا کی تکلیف، موت کی سختی اٹھا چکے، دوزخ پر سے گزر چکے۔
۶۔ یہ قصّہ قاعدۂ تاویل کے ساتھ مربوط ہے، اور اس میں راہِ روحانیّت کی منزلِ عزرائیلی کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں قبضِ روح کا سلسلہ چند دن تک جاری رہتا ہے، جو روح جسمانی موت سے قبل قبض کی جاتی ہے، وہ واپس بدن میں نہیں آتی (۳۹: ۴۲) اس کی جگہ باہر سے تازہ روح ڈالی جاتی ہے، یہ توابتدائی فناہے، اور آخری
۴۳
فنا اس سے بھی بہت بلندی پر ہے، یعنی مرتبۂ وجہ اللہ، جس میں جو فنا ہوجاتا ہے، وہ واپس آتا بھی ہے، اور نہیں بھی آتا، واپسی کی مثال یہ ہے کہ حضرتِ موسیٰؑ کوہِ طور سے اور حضرتِ محمدؐ معراج سے واپس تشریف لائے، اور نہ آنا اس اعتبار سے ہے کہ اس مرتبۂ عالی میں انائے علوی پہلے ہی سے موجود تھی، یعنی عارف وہاں ہے ہی، مگر کسی اور نام سے، اب انائے سفلی کو خزانۂ معرفت حاصل ہوا، یہ حضرتِ ادریسؑ کی پہچان ہے، آپ امامؑ تھے، آپؑ کا نام سلسلۂ امامت میں اخنوخ ہے۔
۷۔ حضرتِ نوحؑ: سورۂ نوح کی تین آخری آیات کا ترجمہ: اور نوح نے کہا کہ اے میرے پروردگار کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ بھی مت چھوڑ، کیونکہ اگر تو ان کو چھوڑدے گا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور ان کی اولاد بھی بس گنہگار اور کافر ہی ہوگی، پروردگارا مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے گھر میں آئے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے اور ظالموں کی بس تباہی کو اور زیادہ کر (۷۱: ۲۶ تا ۲۸)۔
۸۔ بہتر یہ ہے کہ آپ قصّۂ نوحؑ میں طوفانِ آبی کو مثال اور طوفانِ روحانی کو ممثول تسلیم کریں، تاکہ آپ کے لئے علم کا راستہ ہموار ہو اور حکمت کا دروازہ کھل جائے ، چنانچہ زمانہ جس پیغمبر کا بھی ہو، اس میں خدائے بزرگ و برتر کا ایک ہی قانون ( سنت) ہوا کرتا ہے، سو حضرتِ نوح علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں جب روح و روحانیت کا طوفان برپا ہوا، تب مومنین کشتیٔ دعوتِ حق میں داخل ہوچکے تھے، مگر منکرین اس سے باہر رہ کر غرق و ہلاک ہوگئے، اور یہ ان کی ہلاکتِ روحانی تھی، اور حضرتِ نوحؑ کی دعا کا مقصد بھی یہی تھا کہ عالمِ شخصی کی زمین پر کوئی کافر باقی نہ رہے، تاکہ اس میں صرف
۴۴
اہلِ ایمان ہی کی نسلیں بڑھتی جائیں۔
۹۔ چند سوالات: حضرتِ نوح علیہ السّلام کو آدمِ ثانی کیوں کہا جاتا ہے؟ حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اپنے اہلِبیت کی مثال سفینۂ نوح سے دی ہے، اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ سورۂ ھود (۱۱: ۳۷) کے اس حکم میں کیا اشارہ ہوسکتا ہے: وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا؟ اس قصہ میں تنور کے کیا معنی ہوتے ہیں (۱۱: ۴۰)؟ کشتی میں اقسامِ جانوروغیرہ کا ایک ایک جوڑا کیوں ضروری تھا (۱۱: ۴۰)؟ آیا اس میں کوئی راز یا اشارہ ہوسکتا ہے کہ طوفان تھم جانے کے ساتھ کشتی جاکر کوہِ جودی پر ٹھہری (۱۱: ۴۴) ؟ کہا گیا کہ اے نوح اترو ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کے ساتھ جو تم پر نازل ہوں گی اور ان جماعتوں پر جو تمہارے ساتھ ہیں (۱۱: ۴۸) آپ بتائیں کہ سلام کس چیز کا نام ہے؟ برکتیں کیا ہیں؟ اور یہ اُمم یعنی جماعتیں کون کون سی ہیں، جو حضرتِ نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئی ہوں، حالانکہ اس میں بظاہر مومنین کی ایک ہی جماعت تھی؟
۱۰۔ جوابات:
الف: حضرتِ نوحؑ کو آدمِ ثانی ظاہراً اس لئے کہا جاتا ہے کہ طوفان کے بعد دنیا آپؑ اور آپؑ کے ساتھیوں کی نسل سے آباد ہوئی، مگر اس کی باطنی وجہ زیادہ صحیح ہے، جس کا ذکر انہی جوابات کے سلسلے میں آئے گا۔
ب: آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: میرے اہلِبیت کی مثال کشتیٔ نوحؑ کی طرح ہے۔۔۔۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ ہر پیغمبر کے ساتھ ایک امام ہوا کرتا ہے، جس کی شناخت ہی کشتیٔ نجات ہے، چنانچہ حضرت نوح علیہ السّلام کے ساتھ امامِ اساس
۴۵
مولانا سام علیہ السّلام تھے۔
ج: وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا، اور تم کشتی کو ہمارے(آفاقی) حقائق اور ہماری وحی کے مطابق بناؤ۔ یعنی امام کی معرفت کی کشتی دوقسم کے دلائل پرمبنی ہو، دلیلیں آفاق سے بھی ہوں اور وحی سے بھی۔
د: تنور وہ جگہ ہے جہاں آگ جلائی جاتی ہے، اس سے مومنِ سالک کا ذکر مراد ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے: وَفَار التّنّور (۱۱: ۴۰) اور تنور نے جوش مارا، یعنی ذِکر میں جوش آیا، اور بس وہیں سے روحانی طوفان شروع ہوا۔
ہ: کشتی میں تمام قسم کے جانوروں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ کو لینے کے یہ معنی ہیں کہ قانونِ دوئی (جفت) اور اصولِ اضداد کے بغیر علم و معرفت کی کشتی تیار نہیں ہوسکتی ہے،نیز اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حضرتِ نوحؑ کے عالمِ شخصی میں دنیا کی تخلیق و آبادی کا تجدّدِ امثال مقصود تھا۔
و: جی ہاں، اس میں راز واشارہ ہے کہ کشتی کوہِ جودی پر جا ٹھہری، اور وہ یہ کہ روحانی طوفان کے نتیجے میں ذکر و معرفت کی کشتی کوہِ عقل پرجاکر ٹھہر جاتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کا بے حساب جود و کرم ہے۔
ز: سلام تائید کا نام ہے، برکتوں سے تاویلات مراد ہیں، اور جماعتیں جو حضرتِ نوحؑ کے ساتھ تھیں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنے مومنین سمیت ایک جماعت تھا۔
۱۱۔حضرتِ ھودؑ: جس طرح مولانا ھُنید (Hunayd) امامِ مقیم اورمربیٔ آدمؑ تھے، اسی طرح مولانا ھودؑ امامِ مقیم اور مربیٔ نوحؑ تھے، یہاں یہ نکتہ یاد رہے کہ
۴۶
بتقاضائے حکمت بعض حضراتِ انبیاء سلسلۂ امامت سے بھی منسلک تھے، آپ دورِ نبوّت کی اسماعیلی تواریخ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
۱۲۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۶۵) میں ارشاد ہے: اور ہم نے قومِ عاد کی طرف ان کے بھائی ھودؑ کو بھیجا انھوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو (اِعبدوااللہ) اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں سو کیا تم نہیں ڈرتے (۰۷: ۶۵) “تم اللہ کی عبادت کرو۔” یہ خدا کی جانب سے ایک ایسا اہم اور بنیادی حکم ہے کہ ہر پیغمبر نے دعوتِ دین کے شروع ہی میں اسے اپنی قوم کو سنایا، چونکہ انبیاء علیہم السّلام خود نورِ معرفت کی روشنی میں حضرتِ ربِّ عزت کی عبادت کیا کرتے تھے، لہٰذا ان کے پاس اس امر کی واضح ضمانت تھی کہ جو شخص حقیقی معنوں میں ان کی اطاعت کرے، اس کو معرفت کی لازوال دولت سے مالا مال کیا جائے گا، جیسے حضرتِ ھودؑ اور کئی پیغمبروں نے اپنے اپنے وقت میں قاعدہ اور اصول کے طور پر فرمایا: اَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ (۰۷: ۶۸) میں تمہارا سچاخیر خواہ ہوں، یعنی تم میری نصیحت پر عمل کرو تاکہ میں تمھیں کچھ امانت سپرد کروں، غرض پیغمبروں کو جو نور نظر آتا ہے، اس کی تشبیہہ و تمثیل آگ سے اس لئے دی گئی ہے کہ آگ کی چنگاری کہیں سے لاکر خاندان اور ساتھیوں کے فائدے کی خاطر آگ جلائی جاتی ہے، دیکھ لیجئے یہ قرآن ہی کی حکمت ہے: قَبَسْ (۲۰: ۱۰) شِھَابٍ قَبَسْ (۲۷: ۰۷) جَذْوَۃ (۲۸: ۲۹) پس یہاں خوب سوچ لینا ہے۔
۱۳۔ حضرتِ ھودؑ نے فرمایا: اور اے میری قوم اپنے پروردگار سے مغفرت کی دعا مانگو پھر توبہ کرو (یعنی اس کے قریب ہوجاؤ) تو وہ تم پر (روحانیّت کی) موسلادھار مینہ برسانے والا آسمان بھیجے گا (۱۱: ۵۲) ربّانی نصیحت و ہدایت تمام لوگوں کے لئے ہوا کرتی ہے، خصوصاً ان مومنین کے لئے، جو راہِ روحانیّت کے مختلف درجات پر ٹھہرے
۴۷
ہوئے ہیں، کیونکہ عام حالت سے آگے بڑھ کر کسی روحانی منزل میں پہنچنا اگرچہ ترقی ہے، لیکن موحدین کا کہنا ہے کہ جو کچھ خدائے واحد سے تجھ کو غافل رکھے وہ تیرا بت ہے، جیسا کہ حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کا ارشاد ہے: کُلّ مَنْ شَغَلَکَ عَن مُطالَعَۃِ الْحَقِّ فَھُوَ طَاغُوتُک، جو چیز بھی تجھے مطالعۂ حق (مشاہدۂ تجلّی) سے باز رکھے، وہی شیطان اور بت ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ قرآنِ حکیم کی نصیحت و ہدایت میں صرف دعوتِ اسلام ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مومنین کے لئے منازلِ روحانیّت کی روشنی بھی ہے، تاآنکہ وہ خدا تک پہنچ جائیں۔
۱۴۔ سورۂ شعرآء (۲۶: ۱۲۳ تا ۱۲۴) میں ارشاد ہے: قومِ عاد نے پیغمبروں کو جھٹلایا جبکہ ان سے ان کے بھائی ھودؑ نے کہا کہ کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک پیغمبر کو جھٹلانے سے درحقیقت جملہ انبیاء کی تکذیب ہوجاتی ہے، جس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ حضرات سب کے سب نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہوتے ہیں، اور نورِ نبوّت ایک ہی ہے، چنانچہ بعد کے کسی نبی سے انکار کی صورت میں خود بخود اگلے پیغمبروں کی بھی نفی ہوجاتی ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جہاں تمام حضراتِ انبیاء اس عہد و پیمان کے مطابق جو خدائے پاک نے ان سے لیا تھا ایک دوسرے کی تصدیق و تائید کرتے ہیں (۰۳: ۸۱) وہاں اگر کچھ لوگ ایک پیغمبر کو نہیں مانتے ہیں، تو اس سے جملہ انبیائے کرام کو جھٹلانے کا ارتکاب ہوجاتا ہے۔
۱۵۔ حضرتِ صالحؑ: سورۂ اعراف (۰۷: ۷۳) میں ارشادِ خداوندی ہے: اور ہم نے قومِ ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا انھوں نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں تمہارے پاس تمہارے
۴۸
پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے نشانی ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرے اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ تم دردناک عذاب میں گرفتار ہوجاؤ گے (۰۷: ۷۳) دعوتِ حق خداوندِ قدّوس کی بامعرفت عبادت کے بیان سے شروع ہوتی ہے، کیونکہ جب قانونِ دین میں عبادت کا ذکر آتا ہے، تو اس سے کامل اور عارفانہ عبادت مراد ہوتی ہے، جیسا کہ خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ (اَی لِیَعْرفُوْنِ (۵۱: ۵۶) میں نے جنّوں اور انسانوں کو اپنی عبادت یعنی اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے۔
۱۶۔ اونٹ ناطق کی مثال ہے اور اونٹنی اساس ( حجت) کی، پھر یہی مثال ہر دوسرے پیغمبر اور ان کے حجت کی بھی ہے، اور ہر امام و حجت کے لئے بھی، اس کے علاوہ عالمِ شخصی میں اونٹ عقل ہے اور اونٹنی روح، چنانچہ حضرتِ صالح علیہ السّلام کا حجت علمِ روحانی میں ایک معجزے کی حیثیت سے تھا، خدا کا حکم یہ تھا کہ حجتِ صالحؑ کو زمینِ دعوت میں کارِ تبلیغ کے لئے آزادی دو، اونٹنی کھاتی پھرے، یعنی حجت ہر جگہ لوگوں کو علم بیان کرے، کیونکہ کھالینا اور کھلا دینا علم بیان کرنے کی مثال ہے، جس میں روحانی غذائیت و لذّت ہے۔
۱۷۔ حضرتِ صالح علیہ السّلام کی اونٹنی پہاڑ کی ایک چٹان سے پیدا ہوئی، اس کی تاویل یہ ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کا حجت عقلی حیثیت میں حجرِ نور سے پیدا ہو جاتا ہے، اس میں کیا راز ہے کہ ناقہ (اونٹنی) گیابھن (گابھن) پیدا ہوئی تھی؟ اور اسی وقت اس نے بچہ بھی دیا تھا؟ جب حجتِ صالحؑ کوہِ عقل سے ہوکر آیا، تو اس وقت اس میں جلد ہی اپنے جانشین کو علمی جنم دینے کی صلاحیت پیدا ہوئی، اور اس نے ایسا ہی کیا،
۴۹
اس میں کیا حکمت ہے کہ پانی کی باری ہوتی تھی، ایک روز کنویں کا سارا پانی ناقہ پی لیتی تھی، اور اس سے اتنا دودھ حاصل آتا تھا کہ سب کو خاطر خواہ مہیّا ہوجائے اوردوسرے دن پانی کولوگ استعمال کرتے تھے؟ پانی سے علم مراد ہے، چنانچہ جس روزعلم کا پانی حجت کے زیرِ تصرّف ہو تو وہ ظاہری علم کو بھی باطنی علم میں تبدیل کرکے پیش کرتا تھا، اور جس دن لوگوں کی باری ہوتی، تو علم کے وقت کو جاہلانہ سوالات اور طفلانہ بحثوں میں ضائع کرتے تھے۔
۱۸۔ سورۂ قمر (۵۴: ۲۹) میں ہے: تو ان لوگوں نے اپنے رفیق (قدار) کو بلایا تو اس نے پکڑ کر (اونٹنی کی) کونچیں کاٹ ڈالیں تو (دیکھو) میرا عذاب اور ڈرانا کیسا تھا (۵۴: ۲۹) یعنی حجتِ صالحؑ کے چار نقیب یا داعی تھے، جن پر حجت کے امورِ دعوت کا قیام تھا، جس طرح اونٹنی اپنے چار پاؤں پر کھڑی ہو کر چل پھر سکتی ہے، سو مخالفین نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ دعوت کا کام بالکل رک کر رہ گیا، یا یہ کہ حجت اور چاروں داعی شہید کئے گئے۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔لنڈن
جمعرات ۱۷؍ ذوالحجہّ۱۴۰۹ھ
۲۰؍ جولائی۱۹۸۹ء
۵۰
قرآنی میناروں سے روشنی
(قسطِ دوم)
۱۔ عالمِ شخصی اور آیات کی معرفت: سورۂ نمل کے آخر (۲۷: ۹۳) میں اللہ تعالیٰ کا یہ پُرحکمت ارشاد ہے: وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَھَا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(۲۷: ۹۳) اورتم کہدو کہ الحمدللہ وہ عنقریب تمھیں اپنی آیات دکھادے گا تو تم انھیں پہچان لوگے، اور جو کچھ تم کرتے ہو تمہارا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے۔ اس تعلیمِ سماوی کا مرکزی موضوع “آیات اور معرفت” ہے، لہٰذا اہلِ دانش کے لئے اس کی حکمت بیحد ضروری ہے، چنانچہ پوچھنا یہ ہے:
س: اللہ تعالیٰ کی آیات کہاں کہاں ہیں؟
ج: قرآنِ حکیم، آفاق، اور انفس میں (۴۱: ۵۳؛۵۱: ۲۱) ۔
س: آیا حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام بھی آیات کہلاتے ہیں؟
ج: کیوں نہیں، جبکہ حضرتِ عیسیٰؑ اور ان کی والدۂ معظّمہ آیت ہیں (۲۳: ۵۰)۔
س: ان چار مقامات کی آیات کی معرفت کہاں اور کب حاصل ہو سکتی ہے؟
ج: عالمِ شخصی میں، جبکہ اپنی روح اور پروردگار کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
۲۔ معرفتوں کی یکجائی: اوپر کی آیۂ کریمہ کے آخر میں جس طرح عمل کے بارے میں ذکر ہوا، ا س کا یہ اشارہ ہے کہ عمل ہی کی کمی سے آیات کے مشاہدات اور معرفت میں تاخیر ہورہی ہے، ورنہ اور کوئی چیز اس میں مانع نہیں ہوسکتی،
۵۱
اب ہمیں یقین سے یہ کہنا ہوگا کہ معرفت کا دروازہ ہر وقت کھل سکتا ہے، کیونکہ یہ کسی خاص زمانے سے مشروط نہیں، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: أعر فکم بنفسہٖ أعرفکم بربّہٖ (تم میں جو اپنے آپ کو زیادہ پہچانتا ہے وہی تم میں اپنے پروردگار کو زیادہ پہچانتا ہے۔ زادالمسافرین ، ص ۲۸۷) اس حدیثِ شریف سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام میں معرفت کا آغاز زمانۂ نبوّت ہی سے ہوا، کیونکہ “تم” کا خطاب اگرچہ ہر زمانے کے مومنین سے ہے، لیکن اس کا اوّلین تعلق اصحابِ رسولؐ سے ہے، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ معرفت یعنی خدا شناسی کے درجات ہوا کرتے ہیں، پس آپ کے لئے یقینی علم کی بات ہے کہ عالمِ شخصی میں تمام معرفتیں یکجا کی گئی ہیں، کیونکہ خدا ہر ہر کائنات کو دستِ قدرت میں لپیٹ لیتا ہے، اب آپ یقین کریں گے کہ پروردگار کی معرفت میں ساری معرفتیں جمع ہیں، اور یہ خزانۂ خزائن ہے، جس سے کوئی خزانہ باہر نہیں، پس پیغمبروں کا قصّہ اگر معرفت کی روشنی میں ہوسکے تو اس سے بہت فائدہ ہوگا۔
۳۔ حضرتِ ابراہیمؑ: سورۂ بقرہ میں ارشاد ہے: اور جس وقت ابراہیم کو ان کے پروردگار نے چند کلمات میں آزمایا اور انھوں نے پورا کردیا تو خدا نے فرمایا میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں ( حضرتِ ابراہیمؑ نے) عرض کی اور میری اولاد میں سے، فرمایا (ہاں مگر ) میرے اس عہد پر ظالموں میں سے کوئی شخص فائز نہیں ہوسکتا (۰۲: ۱۲۴) حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی یہ آزمائش روحانی عروج و ارتقاء کے لئے اسمائے عظام اور کلماتِ تامّات سے ہوئی تھی، تاکہ حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کی پاکیزہ شخصیّت کے بلند و بالا مینار پر نورِ امامت کا آفاقی چراغ فروزان کیا جائے۔
۵۲
۴۔ امامت عہدِ الٰہی: خدا وندِ قدوس نے مرتبۂ امامت کو “عہدی” (میرا عہد) کہا (۰۲: ۱۲۴) عہد کے معنی ہیں اقرار، قول و قرار، اس کا دوسرا لفظ میثاق ہے، یعنی پختہ عہد، قول و قرار، جس پر قسم کھائی گئی ہو، یا پختگی اور مضبوطی کا ذریعہ، جب یہ ایک روشن حقیقت ہے، تو پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے لوگوں سے حضرت ابراہیمؑ کی امامت کاعہد و اقرار لیا ہوگا، جبکہ ان کے بابرکت عالمِ شخصی میں عہدِ الست کا تجدّدِ امثال ہوا (۰۷: ۱۷۲) کیونکہ اللہ کا عہد، یعنی دنیا بھر کے لوگوں سے ربوبیّت، نبوّت، اور امامت کا اقرار لینا واقعۂ الست سے شروع ہوجاتا ہے، جیسا کہ سورۂ رعد میں صاحبانِ عقل (۱۳: ۱۹) کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: اور یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ سے جو کچھ انھوں نے عہد کیا ہے اس کو پورا کرتے ہیں اور عہد کو توڑتے نہیں (۱۳: ۲۰)۔
۵۔ عہدِ اَلَسْت اور بیعت: ہر پیغمبر اور امام کے مبارک عالمِ شخصی میں واقعۂ الست کا تجدّدِ امثال ہوتا ہے، اور اس میں بحالتِ روحانی دنیا کے سب لوگوں سے یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ ان کی عقلی اور روحی پرورش خدا، پیغمبر، اور امام سے ہے، یہی راہِ راست اور دینِ اسلام ہے، اور بیعت، جس میں عہدِ خدا (یعنی امامت) کا ذکر ہے، اسی میثاقِ الست کی تجدید ہے، جیسا کہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے: جولوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں تو وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پھر جو شخص عہد توڑے گا سواس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا جس پر خدا سے عہد کیا ہے تو عنقریب خدا اس کو بڑا اجردے گا (۴۸: ۱۰) جو بیعت خدا کے ہاتھ سے لی جائے اس کی اہمیت، فضیلت، اور عظمت کا کیا عالم ہوگا، اور اس امرِ عظیم میں کیسے کیسے معنی ہوں گے، پس نمائندگیٔ دستِ خدا کی
۵۳
اس عظیم نعمت کو برقرار و باقی رکھنے کے لئے خدا و رسولؐ نے امام کو مقررفرمایا، اور یہ کام ازل سے جاری ہے۔
۶۔ حضرتِ ابراہیمؑ اور حجِّ باطن: قرآن کا حکایتاً یہ کہنا ہے کہ خداوندِ عالم نے حضرتِ ابراہیمؑ سے فرمایا: اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو لوگ تمہارے پاس چلے آئیں گے پیادہ بھی اور دبلی سواریوں پر بھی جو دور دراز راستوں سے پہنچی ہوں گی (۲۲: ۲۷) خداوندِ عالم نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو نہ صرف خانۂ کعبہ کی جگہ بتلا دی، بلکہ آپ کو اس کا ممثول بھی بنا دیا (۲۲: ۲۶) چنانچہ بحکمِ خدا صورِ اسرافیل کی آواز سے سیّارۂ زمین کے سارے باشندے بشکلِ ذرّات حضرتِ ابراہیمؑ کے عالمِ ذرّ میں آنے لگے، جو لوگ اقرار و معرفت کی وجہ سے خانۂ خدا (مرکزِ امامت) کے قریب تھے، وہ تو گویا پیادہ چل کر آسانی سے روحانی حج کو پہنچ گئے، اور دوسرے سب لوگ جتنے بھی تھے، وہ اپنے اپنے حجتِ جزیرہ اور داعیوں سے وابستہ ہوکر حاضر ہوئے، اس مثال سے ظاہر ہے کہ جو شخص امامِ وقت کو نہیں پہچانتا، وہ ذیلی حدود کو بھی نہیں پہچانتا ہے، ایسے میں اس کا روحانی سفر مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ حجت اورداعی اس کے حق میں کمزور سواریوں کی طرح کام کرتے ہیں۔
۷۔ ستارہ، چاند، اور سورج: خداوندِ بزرگ و برتر نے حضرتِ ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کے ملکوت کا روحانی مشاہدہ کرایا، تاکہ آپؑ موقنین یعنی عارفوں میں سے ہوجائیں، ملکوت کے معنی ہیں عظیم الشّان سلطنت، عالمِ ارواح و ملائکہ، حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام نے پہلے آسمانِ روح میں علی التّرتیب ستارہ، چاند، اور سورج کو دیکھا، اس کے بعد آگے چل کر آپؑ نے آسمانِ عقل میں بھی یہی واقعہ
۵۴
دیکھا، مگر وہاں ایک ہی نور تھا، جو اپنے بار بار کے طلوع و غروب سے کبھی ستارہ کہلاتا تھا، کبھی چاند اور کبھی سورج، اور ان دونوں مقاموں کے اشارے حدودِ دین کی طرف تھے، اور یہ آپ جیسے موحدِ اعظم کے لئے مرتبۂ حق الیقین کی طرف عملی رہنمائی تھی، پس ان کو ربِّ عزت کا پاک دیدار حاصل ہوا، جیسا کہ قرآن میں ہے:
۸۔ ایک بہت بڑا راز: مذکورۂ بالا حقائق و معارف کے لئے سورۂ انعام، آیت ۷۵ تا ۷۹ (۰۶: ۷۵ تا ۷۹) پیشِ نظر ہو، ان شاء اللہ، اب یہاں یہ سعی کی جاتی ہے کہ اس سلسلے میں کوئی سرِّ عظیم منکشف ہوجائے، اور وہ اس آیۂ مبارکہ میں ہے: اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔۔۔ (۰۶: ۷۹) ۔
الف: میں نے اپنا چہرۂ جان آسمانوں اور زمین کے خالق کی طرف متوجہ کیا۔
ب: میں نے اپنا روحانی چہرہ معرفت کے بعد ہی اپنے ربّ کی طرف متوجہ کیا۔
ج: میں نے اپنی انائے علوی اور اپنے ربّ کو پہچان لیا، اس لئے اب میرا رُخ اسی کی طرف ہوجاتا ہے۔
د: اللہ جو کچھ فرماتا ہے، وہ صدق و عدل سے بھر پور ہوتا ہے (۰۶: ۱۱۵) چنانچہ اگر دستِ خدا کی نمائندگی ظاہر میں درست ہے تو باطن میں بھی درست ہے، اور اسی طرح چہرۂ خدا کی بھی نمائندگی صحیح ہے، اب راز کی بات سن لیں کہ حضرت ابراہیمؑ کو چہرۂ خدا کا سب سے عظیم دیدار حاصل ہوا تھا، اس میں ہر چیز اور ہر روح فنا ہوجاتی ہے (۲۸: ۸۸؛ ۵۵: ۲۷) مگر جو معرفت کے ساتھ فنا ہوجائے، تو وہی ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجاتا ہے، پس مقامِ عقل پر حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو فنا فی اللہ اور بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوا، جس کے نتیجے میں آپؑ نے فرمایا: میں نے اپنا چہرۂ باطن (بطورِ نمائندگی)
۵۵
اس کا چہرہ قرار دیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔۔۔ (۰۶: ۷۹)۔
۹۔ ضروری سوالات: س: ناطقِ سوم حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کے والدِ بزرگوار کا کیا نام تھا؟ اور امامِ مقیم جس نے آپ کو روحانی اور علمی تربیت دی کون تھا؟
ج: اسمِ والد تارح ہے، اور امامِ مقیم حضرتِ صالحؑ تھے، بعض کے نزدیک خود حضرتِ تارح امامِ مقیم ہیں۔
س: حضرت ابراہیمؑ سے آزر (۰۶: ۷۴) کا کیا رشتہ تھا؟
ج: آزر حضرت ابراہیمؑ کے چچا کا نام ہے، بعض کے نزدیک یہ وہ استاذ تھا، جس نے آپؑ کوعلمِ ظاہر کی باتیں سکھائی تھیں، لیکن حضرتِ ابراہیمؑ معرفت اور علمِ توحید کے ایسے مقام پر فائز ہوگئے کہ اب اس شخص کی تعلیم باطنی بت پرستی لگ رہی تھی۔
س: وہ آیۂ مقدسہ جو خلافتِ آدمؑ سے متعلق ہے (۰۲: ۳۰) زبانِ حکمت سے کہہ رہی ہے کہ جب تک زمین (الارض ۰۲: ۳۰) ہے، تب تک اس خلافتِ کبریٰ کا سلسلہ جاری رہے گا، اسی طرح اس آیۂ کریمہ کا بھی اشارہ ہے، جو حضرتِ ابراہیمؑ کی امامت کے بارے میں ہے (۰۲: ۱۲۴) کہ جب تک لوگ ہیں ( لِلنّاس۰۲: ۱۲۴) تب تک امام ہوگا، تو کیا خلافت اور امامت دو الگ الگ چیزیں ہیں، یا یہ ایک ہی منصب ہے؟
ج: خلافت اور امامت یا خلیفہ اور امام میں لفظی اعتبار سے ضرور فرق ہے، مگر حقیقت میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ جو خدا کا نمائندہ (خلیفہ) ہوتا ہے، وہی لوگوں کا پیشوا (امام) ہوتا ہے۔
۵۶
۱۰۔ آلِ ابراہیمؑ/آلِ محمّدؐ: سورۂ نِساء (۰۴: ۵۴) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: سو ہم نے ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے (۰۴: ۵۴) اس میں یہ ذکر ہے کہ جب تک دنیا میں کتاب و حکمت کی ضرورت ہے، تب تک آلِ ابراہیمؑ یعنی آلِ محمدؐ کی امامت (روحانی سلطنت) جاری رہے گی، یہ سلطنت غلامی سے صرف نجات ہی دلانے پر اکتفا نہیں کرتی، بلکہ اس میں داخل ہوجانے والوں کو سلطان بھی بنا دیتی ہے (۰۵: ۲۰؛ ۰۳: ۲۶)۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔لنڈن
۲۲؍ذوالحجہّ ۱۴۰۹ھ
۲۵؍ جولائی۱۹۸۹ء
۵۷
قرآنی میناروں سے روشنی
(قسطِ سوم)
۱۔ دعائے ابراہیمی: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۲۶ تا ۱۲۹) میں غور سے دیکھ لیں، جہاں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے دین کی انتہائی اہم اور اساسی چیزوں کے لئے ربِّ جلیل سے درخواست کی۔
اوّل: شہرِ مکہ پناہ و امن کا مقام ہو، اور اس کے باشندوں میں سے جو خدا اور روزِ آخرت پر ایمان لائے، اس کو طرح طرح کے پھل نصیب ہوں، یعنی مرتبۂ اساس کی معرفت مومنین کے لئے باعثِ امنِ روحانی ہو، اور اس سے علم و حکمت کے ثمرات حاصل ہوتے رہیں۔
دوم: تعمیرِخانۂ کعبہ کی خدمت جو حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام نے انجام دی، اسے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔
سوم: تعمیرِبیت اللہ کے دوران دونوں بزرگوں نے یہ دعا بھی کی کہ پروردگارِ عالم ان دونوں کو اپنا خاص فرمانبردار بنالے۔
چہارم: یہ کہ ان کی ذرّیت سے ایک ایسی جماعت ہو، جو حقیقی معنوں میں خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری کرے، یعنی أئمّۂ ہُدا علیہم السّلام۔
پنجم: یہ دعا تھی: وَاَرِنَا مَنَا سِکَنَا (اور ہم کو ہمارے حج کی جگہیں یعنی مقاماتِ روحانی دکھا دے) وَتُبْ عَلَیْنَا (اور ہماری توبہ قبول فرما، یعنی ہماری طرف لوٹ آ، اور ہمیں مرتبۂ حق الیقین پر پہنچادے، جو مقامِ ازل ہے)۔
۵۸
ششم: یہ درخواست کی گئی ہے: اے ہمارے پروردگار! ان (أئمّہ) میں انہی میں سے ایک رسولؐ کو بھیج جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور آسمانی کتاب اور حکمت سکھائے اور ان (کے نفوس) کو پاکیزہ کردے۔ تاکہ اس پاکیزگی (تزکیہ و تطہیر) کے بعد وہ لوگوں کے أئمّہ ہوجائیں۔
۲۔ مجتبیٰ کون ہیں (۲۲: ۷۸)؟: حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام خاص مومنین ہیں (۰۹: ۱۰۵) اور مجتبیٰ (برگزیدہ) بھی وہی ہیں (۲۲: ۷۸) آپ سورۂ حج کی آخری دوآیتوں کو بغور دیکھ لیں، وہاں جو کچھ ارشاد ہوا ہے، وہ أئمّۂ آلِ محمدؐ کے بارے میں ہے، جو آلِ ابراہیمؑ ہیں (۰۴: ۵۴) جیسا کہ نمونۂ ارشاد ہے: ھُوَاجْتَبٰکُمْ (اسی نے تم کو برگزیدہ کیا) وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ (اور امورِ دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں کی، یعنی احکام کی تعبیر و تاویل اور تشریح و توضیح کا وسیع علم عطا فرمایا) مِلّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ( یہ اسلام تمہارے باپ ابراہیمؑ کا مذہب ہے یعنی تم اس دین کے وارث ہو) ھُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ (اسی نے تمہارا نام مسلمین یعنی فرمانبردار رکھا) مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا (یہ نہ صرف پہلے کی بات ہے بلکہ اب اس قرآن میں بھی ایسا ہے) لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْداً عَلَیْکُمْ (تاکہ رسولؐ یعنی نورِ نبوّت تم پر حاضر اور گواہ رہے) وَتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ ج (اورتم یعنی نورِ امامت تمام لوگوں پر حاضر اور گواہ رہے) یہاں اس آیۂ کریمہ کی یہ کلیدی حکمت بحسن و خوبی دلنشین ہو کہ نورِ نبوّت نورِ امامت پر دائمی گواہ ہے، اور نورِ امامت لوگوں پر دائمی گواہ ہے، اور ایسا گواہ ہمیشہ حاضر رہتا ہے، ہر چند کہ لوگ اس روشن حقیقت سے بے خبر ہیں۔
۳۔ ابراہیمؑ- لوگوں کا باپ: اِب (باپ) راہیم (جمہوریا عوام)
۵۹
یہ کلدانی زبان کا لفظِ مرکب ہے، بمعنی لوگوں کا باپ، جس طرح حضرت آدمؑ کا لقب ہے: ابوالبشر، اور جیسے حضرتِ نوحؑ کا لقب ہے: ابوالبشرِثانی،اسی طرح ہر پیغمبر اور ہر امام باطن اور روحانیّت میں لوگوں کا باپ ہوا کرتا ہے، روشن ثبوت کے لئے دیکھئے آیۂ اخذِ ذرّیت (۰۷: ۱۷۲) کہ پروردگار نے اولادِ آدمؑ کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو باہر نکال کر پوچھا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ تو سب کے سب بولے: کیوں نہیں (۰۷: ۱۷۲) پس یہ بنی آدم بمرتبۂ کمالاتِ روحانی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جن کی پشتوں میں جو عالمِ ذرّ ہے، اس سے اپنے اپنے وقت میں ان کی ذرّیت یعنی لوگوں کو باہر نکال کر ربوبیت کا اقرارلیا گیا، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے مبارک نام میں یہ اشارہ موجود ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کو اپنے وقت میں کلی طور پر ابوالبشر کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے۔
۴۔حضرتِ لوطؑ کا حلقۂ دعوت: حضرتِ لوطؑ حضرتِ ابرہیمؑ کے بھائی حاران کے بیٹے تھے، آپؑ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے مرتبۂ نبوّت سے نواز کر سرفراز فرمایا، جیسا کہ سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۱) میں فرمایا ہوا ہے (ترجمہ): اور ہم نے ابراہیمؑ کو اور لوطؑ کو ایسی زمین کی طرف بھیج کر نجات دی، جس میں ہم نے دنیا جہان والوں کے لئے خیر و برکت رکھی ہے (یعنی زمینِ نفسِ کلّی) نیز اسی سورہ (۲۱: ۷۴) میں ارشاد ہے: اور لوطؑ کو ہم نے حکمت اور علم عطا فرمایا، اور ہم نے ان کو اس بستی سے نجات دی جس کے رہنے والے گندے گندے کام کیا کرتے تھے (۲۱: ۷۴) اُردن کی اس جانب جہاں آج بحرِ میّت یا بحرِ لوط واقع ہے یہی وہ جگہ ہے، جس میں سدوم، عامورہ، وغیرہ کی بستیاں آباد تھیں، انہی بستیوں میں کارِ دعوت انجام دینے کے لئے حضرتِ لوط علیہ السّلام مامور ہوئے تھے۔
۶۰
۵۔ قومِ لوطؑ کے شرمناک افعال: حضرتِ لوط علیہ السّلام نے جب شہرِ سدوم میں آکر قیام کیا تو دیکھا کہ یہاں کے باشندے فواحش اور نافرمانیوں میں اس قدر مبتلا ہیں کہ الامان، یہ لوگ دوسری تمام برائیوں کے علاوہ ایک خبیث عمل کے موجد تھے، یعنی اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے وہ عورتوں کی بجائے اَمْرد لڑکوں سے اختلاط کرتے تھے، دنیا کی قوموں میں اس عمل کا اس وقت تک قطعاً کوئی رواج نہ تھا، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: اور (یاد کرو) لوط کا واقعہ، جب اس نے اپنی قوم سے کہا کیا تم ایسے فحش کام میں مشغول ہو، جس کو دنیا میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا، یہ کہ بلاشبہ تم عورتوں کی بجائے اپنی شہوت کو مردوں سے پوری کرتے ہو، یقیناً تم حد سے گزرنے والے ہو (۰۷: ۸۰ تا ۸۱)۔
۶۔ لواطت و اِغلام کا باطنی پہلو: اس سلسلے میں بہتر تو یہ ہے کہ آپ کتابِ وجہِ دین گفتار ۴۱ کو غور سے پڑھیں، تاہم یہاں بھی کچھ وضاحت کی جاتی ہے کہ دنیا میں ہمیشہ سے ایک طرف طائفۂ اہلِ حق ہے، اور دوسری جانب طائفۂ اہلِ باطل، گروہِ حق کو مرد کا درجہ حاصل ہے، اور گروہِ باطل گویا ایک عورت ہے، چنانچہ حقیقت میں یہ امر بیحد ضروری ہے کہ یہ مرد اس عورت سے روحانی نکاح کرلے، یعنی دعوتِ حق کی تعلیمات سے اس کو مستفیض کرے، اور وہ اس کو قبول کرے، اگر اس حقیقتِ حال کے برعکس اہلِ باطل کا کوئی فرد جو عورت کی حیثیت سے ہے دعوت کا کام کرتا ہے، تو وہ خدا و رسولؐ کی لعنت میں گرفتار ہوجاتا ہے، کیونکہ اس نے خود کو روحانی مرد کے مشابہ کرلیا، اسی لعنت میں اہلِ حق کا ایسا شخص بھی مبتلا ہوجاتا ہے، جو بحدِّقوّت مردِ روحانی تھا، لیکن اس نے جہالت و نادانی سے ایک عورت کو اپنا شوہر بنالیا، جیسا کہ پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے:
۶۱
لعنۃُ اللّٰہِ عَلَی المُتَشبِھِّینَ مِن الرِّ جالِ بالنِّسائِ والمُتَّشَبِّھاتِ مِن النِّسائِ باالرِّجال: خدا کی لعنت ہے، ایسے مردوں پر جو عورتوں کی طرح ہوجاتے ہیں، اور ایسی عورتوں پر جو مردوں کی طرح ہوجاتی ہیں اس میں لِواطہ اور سِحاقہ دونوں کی مذمت کی گئی ہے۔
۷۔عذابِ الٰہی: آخر عذابِ الٰہی کا وقت آپہنچا، ابتدائِ شب ہوئی تو ملائکہ کے اشارہ سے حضرتِ لوطؑ اپنے خاندان سمیت دوسری جانب سے نکل کر سدوم سے رخصت ہوگئے، اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکار کردیا، اور راستہ ہی سے لوٹ کر سدوم واپس آگئی، آخرِ شب ہوئی تو اوّل ایک ہیبت ناک چیخ نے اہلِ سدوم کو تہ و بالا کردیا اور پھر آبادی کا تختہ اوپر اٹھا کر الٹ دیا گیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کانام و نشان تک مٹا دیا، اور وہی ہوا جو گزشتہ قوم کی نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہوچکا ہے۔
۸۔ حضرتِ اسمٰعیلؑ: یہ مبارک نام دو لفظوں سے مرکب ہے: اِسمع+ ایل = اسمٰعیل ، عبرانی میں “ایل” اللہ کے مترادف ہے، عربی کے لفظِ اِسمع اور عبرانی کے شماع کے معنی ہیں “سُن’ چونکہ اسمٰعیل علیہ السّلام کی ولادت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کی دعا سن لی، اور ہاجرہ کو فرشتہ سے بشارت ملی کہ: “خداوند نے تیرا دکھ سن لیا۔” اس لئے ان کا یہ نام رکھا گیا، عبرانی میں اس کا تلفظ “شماع ایل” ہے۔
۹۔ وادیٔ غیر ذی زرع اور ہاجرہ و اسمٰعیل: جب حضرتِ ہاجرہ سے حضرتِ اسمٰعیلؑ پیدا ہوئے تو حضرتِ سارہ میں سوکن کا لڑکا ہوتے ہی رشک و حسد
۶۲
کی آگ بھڑک اٹھی، آخر جب ان دونوں میں کسی طرح نہ بنی، تو حضرتِ ابراہیمؑ ہاجرہ و اسمٰعیلؑ کولیے ہوئے خدا کے حکم سے مکہ کے میدان میں آئے، جب کہ وہاں بالو اور پہاڑ کے سوا کچھ نہ تھا، جیسا کہ ارشاد ہے: اے ہمارے پالنے والے میں نے تیرے معزز گھر (کعبہ) کے پاس ایک بے کھیتی بیابان (مکہ) میں اپنی کچھ اولاد کو لاکر بسایا ہے تاکہ اے ربّ یہ لوگ یہاں نماز پڑھا کریں تو توکچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر اور انھیں طرح طرح کے پھلوں سے روزی عطا کر تاکہ یہ لوگ شکر کریں (۱۴: ۳۷)۔
حکمت: جب مومنین پر تکالیف آتی ہیں، تو ان آزمائشوں میں روحانی عروج و ارتقا کے بھید پوشیدہ ہوتے ہیں، چنانچہ امامِ عالیمقام صلوات اللہ علیہ اپنے ہر ایسے روحانی فرزند کو جس کی حق تلفی ہوئی ہو شفقت و محبت کی ماں کے ساتھ عالمِ شخصی کے اس بیابان میں رکھ دیتا ہے، جس میں آگے چل کر کعبۂ جان بننے والا ہے، تاکہ تمام واقعاتِ روحانیّت کے عظیم الشّان تجدّدِ امثال سے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کی کامل معرفت حاصل ہو۔
۱۰۔ چند سوالات:
الف: السّعی (دوڑنا) سے کیا مراد ہے (۳۷: ۱۰۲)؟
ب: فدا اور ذِبحٍ عظیم کے کیامعنی ہیں (۳۷: ۱۰۷)؟
ج: اس قربانی میں جبین (ماتھا ۳۷: ۱۰۳) کا ذکر کس مناسبت سے ہے؟
جوابات: (۱) ہر زندہ شیٔ میں حرکت ہوتی ہے، چنانچہ نور ایک زندہ حقیقت ہے، اور اس میں کئی طرح کی حرکتیں پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک حرکتِ ذکر ہے،
۶۳
یعنی نورِ نبوّت و امامت کا ایک کمال یہ ہے کہ اس میں ذکرِ اسمِ اعظم بڑی سرعت کے ساتھ خود بخود جاری رہتا ہے، یہ ہوا حضرت اسماعیلؑ کا اپنے والد کے ساتھ دوڑنے کے قابل ہو جانا، اور ایسے وقت میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی روحانی قربانی ہوجاتی ہے۔
(۲) فدا کا مطلب ہے قربان کردینا، ذِبحٍ عظیم کی تاویل ہے حضرتِ اسماعیلؑ کی بدنی قربانی کی بجائے روحانی قربانی، جو بہت بڑی ہے، اور حضرتِ اسحاقؑ کی ایسی قربانی۔
(۳) جبین کا اشارہ اس لئے ہے کہ روحانی قربانی میں روح ماتھے پر مرکوز ہو کر بلند ہوجاتی ہے۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی
۱۶؍ محرم الحرام۱۴۱۰ھ
۱۹؍ اگست۱۹۸۹ء
نوٹ: انبیاء علیہم السلام کے ظاہری قصّہ کے لئے “قصص القرآن” کو بھی دیکھیں، جو مولانا محمد حفظ الرحمٰن سیوہاروی کی تالیف ہے۔
۶۴
ستاروں پر لطیف زِندگی
معرفتِ ذات و کائنات کے سلسلے میں ہمیں بوسیلۂ نورِ قرآن یہ سوچنا اور جاننا بیحد ضروری ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات میں ایسی کثرت سے اور اتنے بیشمار ستارے کیوں سجائے ہوئے موجود ہیں؟ آیا یہ تصوّر درست ہوسکتا ہے کہ زندگی صرف اور صرف ہماری زمین پر پائی جاتی ہے، باقی تمام ستاروں پر کوئی زندہ مخلوق نہیں؟ کیا ہر ستارہ لطیف مخلوقات سے پُر ایک دنیا نہیں؟ اس بارے میں قرآنِ حکیم کا کیا ارشاد ہے؟ اس کے جوابی دلائل ذیل کی طرح ہیں:
دلیل (۱): سورۂ بقرہ کے ایک حکمت آگین ارشاد (۰۲: ۲۲) کے مطابق زمین انسان کے لئے فرش کا کام دیتی ہے، اور آسمان یعنی فضائے محیط چھت کی طرح ہے، اور اس حکم کا اطلاق یقیناً ہر ستارے پر ہوجاتا ہے، پس اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کوئی ستارہ لطیف مخلوقات سے خالی نہیں۔
دلیل (۲): سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں غور سے دیکھ لیجئے کہ کائنات کی کوئی چیز باطل نہیں پیدا کی گئی ہے، پھر نجوم یعنی ستارے کیونکر بیکار اور فضول ہوسکتے ہیں، بلکہ یہ حقیقت ہے کہ وہ انسان کی زندگانیٔ لطیف کیلئے بے شمار دنیائیں ہیں۔
دلیل (۳): نہ صرف ہر آدمی ایک دنیا ہے، بلکہ ہر ستارہ بھی ایک عالم ہے، پس قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں لفظِ “عالمین” آیا ہے، اس کے معنی ہیں شخصی دنیائیں اور انجم (ستارے) جن کا خالق اور ربّ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے، اور اس
۶۵
میں خدائے بزرگ و برتر کی سب سے بڑی تعریف (الحمد) اس معنی میں ہے کہ وہ احد و صمد اپنی بیمثال ربوبیّت سے ہر انسان کی اس حد تک عقلی اور علمی پرورش کرسکتا ہے کہ وہ کسی ستارے کا خلیفہ اور بادشاہ ہوجائے (۲۴: ۵۵) ۔
دلیل (۴): قرآنِ عزیز ہی کا مفہوم ہے کہ قانونِ فطرت (جس کے مطابق خدا نے کائنات اور ستاروں کو پیدا کیا) اور لوگوں کی فطرت (پیدائش) ایک ہی چیزہے (۳۰: ۳۰) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ستارے بھی انسانوں کی طرح مختلف زمانوں میں پیدا ہوجاتے ہیں، اور الگ الگ ادوار میں مرجاتے ہیں، ہر چند کہ ان کی عمریں انتہائی طویل ہوا کرتی ہیں۔
دلیل (۵): کوئی چیز خواہ ظاہری ہو یا باطنی، رحمت اور علم سے ہر گز خالی نہیں (۰۶: ۸۰؛۴۰: ۰۷) اور یاد رہے کہ رحمت میں روحانی نعمتیں ہیں، اور علم میں عقلی نعمتیں، پس اکثر ستاروں پر اگرچہ ظاہری آبادی نہیں ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہاں رحمت و علم سے بہشت کی معموریت ہو، اورانسان ہمیشہ بے پایان نعمتوں میں شادمان رہے۔
دلیل (۶): کوئی چیز اور کوئی ستارہ ایسا نہیں، جو خزائنِ الٰہی کا محتاج نہ ہو، اور اس پر خداوندِ عالم بتدریج عقل و جان کی برکتیں نازل نہ فرماتا ہو (۱۵: ۲۱) اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ بالواسطہ تذکرہ انسان ہی کا ہے کہ وہی دراصل ستارے کی روح اور اس کا باشندہ ہے۔
دلیل (۷): سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) کے حوالے سے بارہا یہ ذکر ہوچکا ہے کہ پروردگارِ عالم نے اپنی عنایتِ خاص سے ایسے کُرتے بنائے ہیں، جو ہر قسم کی گرمی سے بچا سکتے ہیں، اور ایسے کُرتے بھی، جو تمام جنگوں سے محفوظ رکھنے والے ہیں، ان سے
۶۶
اجسامِ لطیف مراد ہیں، جن کے حصول کے بعد ہی آدمی گرم ترین اور سرد ترین ستاروں پر جنت کی پُرلذت زندگی گزار سکتا ہے۔
دلیل(۸): اشارۂ قرآن یہ ہے کہ بہشت جہاں اپنی جگہ پر ہے، وہاں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے (۰۳: ۱۲۳؛۵۷: ۲۱) اور جہاں نزدیک لائی جاتی ہے (۲۶: ۹۰؛۵۰: ۳۱) وہاں عالمِ شخصی میں ہے، پس انجم مجموعی طور پر بہشت کی زمینِ ظاہر ہیں، جس میں بدنِ کوکبی کے لئے ہر گونہ لطیف نعمتیں مہیّا ہیں، اور کسی چیز کی کمی نہیں۔
دلیل (۹): خدا کی آیات أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے: جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور (ان کے اقرار) سے تکبر کرتے ہیں ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وہ لوگ کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے (۰۷: ۴۰) اس سے ظاہر ہے کہ آسمانِ ظاہر اور آسمانِ روحانیّت کے دروازے بہشت کے دروازے ہیں، اور وہ صرف علم و معرفت ہی سے کھل سکتے ہیں۔
دلیل (۱۰): کائنات کا ہیولیٰ یا ایتھر (Ether) بحرِ محیط ہے، اس میں ستارے خدا کی عظیم کشتیاں ہیں، ہر ایسی کشتی میں سوار شدہ لوگوں کو جب فنافی اللہ اور بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے، تو وہ کثیف سے لطیف جسم میں منتقل ہوکر انجم کو بہشت کی زمین پاتے ہیں (۵۵: ۲۴ تا ۲۷)۔
دلیل (۱۱): اگرچہ افرادِ انسانی الگ الگ ہیں، لیکن ان سب کو ملا کر انسان یا عالمِ انسانیت کہا جاتا ہے، اسی طرح کیا عجب ہے کہ قرآنِ مجید تمام ستاروں کو زمین کا نام دے رہا ہو اور ہم اپنی عقلِ جزوی کی وجہ سے صرف اسی سیّارے کو زمین مانتے
۶۷
ہوں، جس پر ہم فی الوقت بستے ہیں، جی ہاں، لاتعداد ستاروں کا مجموعہ ہی خدا کی ظاہری زمین ہے، جو خلافت و سلطنت کی غرض سے بیحد وسیع ہے (۲۹: ۵۶؛ ۳۹: ۱۰)۔
دلیل (۱۲): اللہ تعالیٰ کی کرسی یعنی نفسِ کلّی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (۰۲: ۲۵۵) اور آپ جانتے ہیں کہ ہرُ کل اپنے اجزاء کا مجموعہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ کائنات کی فضائے محیط اور جملہ ستاروں پر نفسِ کل کے اجزاء بھرے ہوئے ہیں، جو جنّات، ملائک، اور نفوسِ بشر ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ چاند ہو، یا مِریخ، یا کوئی اور ستارہ، وہ مخلوقاتِ لطیف سے ہر گز خالی نہیں ہوسکتا۔
دلیل (۱۳): میں نے ملکِ چین میں شدید مشقت اور ریاضت کے دوران ایک نورانی خواب دیکھا، جس میں یہ مشاہدہ ہوا کہ عبدالاحد نامی ایک مومن کی صورت میں کوئی فرشتہ ہاتھ سے یہ اشارہ کررہا تھا کہ ستاروں میں اہلِ ایمان کیلئے روحانی سلطنتیں رکھی ہوئی ہیں، عبدالاحد کا بہت بڑا مالی نقصان ہوا تھا، جس کی وجہ سے وہ خدا کے حضور بکثرت گریہ و زاری اور مناجات کرتا رہتا تھا۔
دلیل (۱۴): سورۂ رحمان کے اس ارشاد میں دیکھ لیں: اے گروہِ جن و انس! اگر تم طاقت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکلو، مگر بدونِ زور کے نہیں نکل سکتے (۵۵: ۳۳) یہاں ستاروں اورآسمانوں سے بھی اوپر جاکر صاحبِ عرش میں فنا ہوجانے کی ایک حکیمانہ دعوت دی گئی ہے، جس کے لئے زور (سلطان، غلبہ) کی سخت ضرورت ہے، اور وہ ہے: ذکر و عبادت، اور علم و معرفت۔
دلیل (۱۵): آپ نے فنا فی اللہ اور بقاباللہ کے بارے میں سنا ہوگا، یہ مرتبہ جنت سے بہت اعلیٰ اور لازوال ہے، چنانچہ یہ امر ممکن ہے کہ کسی ستارے کی
۶۸
بہشت میں جس مومن کو بادشاہی عطا ہوئی ہے، وہ زمانہائے دراز کے بعد درجۂ رضوان (۰۹: ۷۲) یا منزلِ فنا میں پہنچ کر جنّت سے بے نیاز ہوجائے، البتّہ یہی وجہ ہے کہ فردوسِ برین کی سرداری میراث کے طور پر ملتی رہتی ہے (۲۳: ۱۰ تا ۱۱) اور کسی چیز کو میراث اس وقت کہا جاتا ہے، جبکہ اس کا مالک مرجاتا ہے، خواہ وہ جسمانی موت ہو، یا نفسانی، یا فنافی اللہ۔
دلیل (۱۶): سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۵) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اس کے صالح بندے زمین کے وارث ہوں گے، خدا کا یہ وعدہ زمینِ انجم کی وراثت سے متعلق ہے، ورنہ سوال پیدا ہوگا کہ کب ایسا ہوگا؟ جبکہ اللہ کے بہت سے نیک بندے دنیا سے گزر چکے ہیں؟
دلیل (۱۷): قرآنِ حکیم (۴۵: ۱۳) میں غور سے دیکھ لیں کہ کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں، جو مومنین کے لئے مسخر نہ کی گئی ہو، اور آسمانوں اور زمینوں یعنی انجم میں وہ کونسی چیز باقی ہے، جو بندوں کو عطا نہ ہوئی ہو(۱۴: ۳۴) غرض ستاروں کی زمین بہشت کی زمین ہے، جس کے وارث مومنین ہوں گے۔
دلیل (۱۸): اپنے آپ کو خواب میں پرواز کرتے ہوئے دیکھنا کسی اچھی عبادت یا گریہ و زاری کا نتیجہ ہوا کرتا ہے، اور اس کا اشارہ یہ ہے کہ کل ستاروں کی بہشت میں بڑے پیمانے پر اڑنے کی قدرت عنایت ہونے والی ہے، تاکہ اس سے ستاروں کی سیاحت ممکن ہو، جس طرح حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے خواب میں جعفرِ طیار کو بہشت میں اڑتے ہوئے دیکھا تھا۔
دلیل (۱۹): جہاں اور جب اللہ تعالیٰ دستِ قدرت میں کائنات و موجودات
۶۹
کو لپیٹ لیتا ہے، تو اس کے بہت سے معنی ہوتے ہیں،من جملہ یہ کہ ہر دُوریٔ مکان و زمان کو ختم کردیتا ہے، منتشر کو یکجا کرلیتا ہے، اجزاء کو کل سے ملاتا ہے، ازل وابد کا دائرہ بناتا ہے،ہرچیز کی ازسرِ نوتخلیق فرماتا ہے ،آفرینشِ عالم و آدم کا تجدّد کرتا ہے، نفوسِ خلائق کو نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک کرلیتا ہے، اور ایسے میں یوں کہنا چاہئے کہ ستاروں کی زمینیں اگرچہ بے شمار ہیں، لیکن وہ ایک ہی ہے، یعنی سارے نجوم کا نام “الارض” ہے۔
دلیل (۲۰): خدا وندِ عالم نے جگمگاتے ستاروں (کواکب) سے آسمانِ دنیا کو زینت بخشی ہے (۳۷: ۰۶) اور حفاظت بھی کی ہے ہر سرکش شیطان سے (۳۷: ۰۷) وہ شیاطین عالمِ بالا کے سردار فرشتوں کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور وہ ہر طرف سے مار کر دھکے دیئے جاتے ہیں (۳۷: ۰۸) یعنی کواکب کے اسرار ایسے آسان نہیں کہ ان پر عبور حاصل کرکے ہر کوئی عالمِ علوی میں پہنچ سکے۔
دلیل (۲۱): غیر آباد ستاروں پر مخلوقاتِ لطیف موجود ہونے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ شروع شروع میں جب سیّارۂ زمین بیابان تھا، تو اس وقت یہاں جنّات بستے تھے، پھر ان کی اکثریت کو ہٹا کر اس پر آدم وبنی آدم بسائے گئے، تاکہ جنّوں کا غلبہ نہ ہو، اگر یہ دنیا کبھی پانی کے ذخائر سے محروم ہو کر خشک صحرا بن جائے (۱۸: ۰۸) تو پھر اس پر جنّات کا قبضہ ہوگا، کیونکہ یہ کائنات مکان و مکانیت اور ظرفیت کے قانون پر ہے، چنانچہ کوئی ظرف خالی نہیں رہ سکتا، اس میں یا تو ہوا ہوتی ہے، یا پانی ہوتا ہے یا کچھ اور، واقعہ کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ سیّارہ بے آب و گیاہ بیابان ہوگا، تب تک انسان جسمِ لطیف میں منتقل ہوچکا ہوگا۔
دلیل (۲۲): ستاروں کے چراغوں (مصابیح ۶۷: ۰۵) سے نور بھی ہے اور
۷۰
نار بھی، یعنی ان میں علم و ہدایت کی روشنی بھی ہے اور دھتکار کا شعلہ بھی، جیسے دربان بادشاہ کے دوستوں کو محلِ خاص تک رہنمائی کرتا ہے، اور چوروں کو بھگا دیتا ہے (۷۲: ۸)۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
۸؍ربیع الاوّل ۱۴۱۰ھ
۱۰؍اکتوبر۱۹۸۹ء
۷۱
اسمِ اعظم- سِرِّ اَسرار
۱۔ اللہ تعالیٰ کا سب سے بزرگ اور سب سے بابرکت نام اسمِ اعظم یا اسمِ اکبر کہلاتا ہے، اور خدا کی خدائی میں یہی سرِّ اسرار (بھیدوں کا بھید) اور خزینۂ خزائن کا درجہ رکھتا ہے، یہ واحد بھی ہے، اور جمع بھی، چنانچہ ارشاد ہوا (ترجمہ): اور بہت ہی اچھے نام (اسمائُ الحسنیٰ) اللہ ہی کے لئے ہیں سو ان ناموں سے اس کو پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں (۰۷: ۱۸۰) اسمائُ الحسنیٰ کا بنیادی ذکر اگرچہ قرآنِ حکیم کے چار مقام پر فرمایا گیا ہے، لیکن جب اللہ کا مقصد و منشا اور حکم انہی اسماء سے عبادت و بندگی کرنے کے لئے ہے، تو پھر عارفوں کو اس حقیقت کا یقین کیوں نہ ہو کہ تمام قرآن میں جس طرح ذکر و عبادت اور علم و معرفت کا بیان پھیلا ہوا ہے، وہ دراصل اسمِ اعظم ہی کا بیان ہے۔
۲۔ اسمِ اعظم ہمیشہ نورِ ہدایت سے وابستہ ہے، لہٰذا کوئی شخص اسے ہادیٔ برحق سے الگ کرکے اپنے لئے ضبطِ تحریر میں محفوظ نہیں کرسکتا، اگر یہ امر ممکن ہوتا، تواہلِ کتاب ایسا کرلیتے، جیسے خدا کی رسّی کا تصوّر ہے کہ اسے لوگ پکڑ بھی سکتے ہیں، اور چھوڑ بھی سکتے ہیں مگر اسکا بالائی سِرا کبھی خداوندِ عالم کے ہاتھ سے چھوٹ نہیں سکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دینِ حق کی تمام اہم چیزیں ایک ہی جگہ جمع ہیں، اور وہ جگہ مرکزِ ہدایت ہی ہے، یعنی امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲)۔
۳۔ کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۲۹ میں حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: اَنَا الْاَسمآئُ الحُسنٰی الَّتی اَمَر اللّٰہُ اَنْ یُّدعیٰ بھا۔ یعنی میں
۷۲
خدا کے وہ اسمائِ حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو ان اسماء سے پکارا جائے (۰۷: ۱۸۰) پس اصل اسمِ اعظم صوتی، حرفی، لفظی، اور تحریری نہیں، بلکہ شخصی، روحانی، اور نورانی ہے، یعنی امامِ زمانؑ ہی خدا کا زندہ اسمِ بزرگ ہیں، اور ہاں اس وسیلے کے بعد اسمِ اعظم کا تلفظ و ذکر ممکن ہوجاتا ہے، جبکہ نورانی اسم کا نمائندہ کوئی مناسب لفظی اسم قرار پاتا ہے۔
۴۔ جب حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام میں خدائی روح پھونک دی گئی، یعنی جس وقت نور داخل ہوا، تو اس وقت آپؑ نورانی اسمِ اعظم ہوگئے، اور پھر تمام دوسرے اسماء کی حکمتیں بھی ان پرروشن ہونے لگیں، چنانچہ آپ کو یقین کرنا ہوگا کہ ربّانی تعلیم خود کار طور پر دی جاتی ہے، خواہ وہ حضرتِ آدمؑ کے لئے ہو، یا فرشتوں کے لئے، یا کسی اور کے واسطے، بہر حال روحانی علم کا ایک ہی قانون چلتا رہتا ہے اور وہ اسمِ اعظم کے تحت ہے۔
۵۔ اگرچہ سارا قرآن اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ ہی کی تفصیلات و توضیحات سے مملو ہے، تاہم لفظِ حسنیٰ کا اوّلین تعلق ان جملہ الفاظ سے ہے، جو مادّۂ ح۔س۔ن سے بنے ہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم کا ہر لفظ بنظرِ حکمت ایک کتاب کا درجہ رکھتا ہے، چنانچہ خدائے بزرگ و برتر کا سب سے حسین و جمیل نام (اسمِ اعظم) تجلّیاتِ صفات اور عقل و بصیرت کے حسن و جمال کی بولتی کتاب ہے، اور شاید کوئی مومن اس حقیقت کا یقین اس وقت کرتا ہوگا، جبکہ شخصی اور کلیدی اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) کے نور کی روشنی میں رنگِ خدا (صبغۃ اللّٰہ ۰۲: ۱۳۸) کی کائنات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے، جس میں نہ صرف بندۂ مومن کا باطن ہی بلکہ دوسری تمام اشیا بھی نورانیت سے رنگین نظر آتی ہیں، یہ دنیا کا رنگ ہرگز نہیں، بلکہ مختلف رنگ کے انوار ہیں، جن کا ذکر ہوچکا ہے،
۷۳
پس اسماء الحسنیٰ کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ان کے اصولی ذکر و عبادت سے روحانیّت اور صبغۃاللہ کا دروازہ کھل جاتا ہے ، اور ہر چیز نورِ عبادت سے رنگین ہو جاتی ہے۔
۶۔ چونکہ حضراتِ انبیاء و أئمّۂ علیہم السّلام اپنے اپنے وقت میں خدا کے اسمائے جلیل و جمیل کی مرتبت میں ہوتے ہیں، لہٰذا قرآنِ عزیز میں اس حقیقت کی کوئی جامع مثال ہونی چاہئے، تاکہ ایک کو دیکھ کر سب کو پہچان لیا جائے، جی ہاں، اللہ تعالیٰ کے حسین ترین ناموں یعنی اسماءالحسنیٰ میں سے ایک اسم حضرت یوسف علیہ السّلام تھے، مگر یہاں یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ حسن و جمالِ یوسفؑ دراصل روحانی، علمی، عرفانی، اور عقلی صورت میں تھا، کیونکہ ظاہری و جسمانی زیبائی و دلکشی بہت سے عام انسانوں میں بھی ہوتی ہے، جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں، اور نہ وہ بزرگی کی علامت ہے، چنانچہ حضرتِ یوسفؑ کا حسنِ ظاہر ان کے حسنِ باطن پر حجاب و پردے کا کام کررہا تھا، آپؑ اپنے وقت کے امام اور اسمِ اعظم تھے، اس لئے یہ امر ضروری تھا کہ آپ کا چہرۂ باطن چہرۂ خدا کی جگہ پر بدرجۂ انتہا حسین و جمیل ہو، اور حقائق و معارف کے پروانے اس سر چشمۂ نور کاطواف کرتے ہوئے فنا ہوجائیں۔
۷۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم خدائے لایزال کے اسماء الحسنیٰ تھے، اسی لئے آج اسلام میں اطاعتِ رسولؐ اطاعتِ خدا ہے (۰۴: ۸۰) اور جب عشقِ رسولؐ عشقِ خدا ہے (۰۳: ۳۱) تو پھر ذکرِ رسولؐ کے بغیر حضورؐ کا عشق کیسے حاصل ہوسکتا ہے، اگر آپ مانتے ہیں کہ ذکرِ رسولؐ حق ہے (۹۴: ۰۴) تو یہ صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہوگا وہ یہ کہ پیغمبرِ اکرمؐ کو اللہ کا اسمِ اعظم مانا جائے، ورنہ عبادت میں وحدت نہ ہوگی، دُوئی ہوگی، اور دوئی بت پرستی ہے، اس دلیل سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ
۷۴
پیغمبر اور امام علیہما السّلام وہ اسمائے حسنیٰ ہیں، جن سے خدا کو پکارنا ضروری ہے، کیونکہ مقبول عبادت و بندگی اور رضائے الٰہی کا طریقہ یہی ہے۔
۸۔ پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کس طرح اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ کا مرتبہ رکھتے ہیں، اور ان بزرگ ناموں سے خدا کو کیسے پکارا جائے، اس کی دوسری مثال یہ آیت ہے: اگر یہ لوگ جس وقت اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے آپ کے پاس آتے پھر خدا سے بخشش مانگتے اور رسولؐ بھی ان کے لئے خدا سے بخشش مانگتے تو ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے (۰۴: ۶۴) یہ حکم ایک کُلّیّہ کی حیثیت سے ہے، یعنی اس کا تعلق سب سے ہے، اور یہ ہر زمانے کے لئے ہے، کیونکہ نورِ ہدایت ہمیشہ حیّ و حاضر ہے، تاکہ لوگ اس نامِ بزرگ کے وسیلے سے خدا کو پکارا کریں۔
۹۔ اس حقیقت کی تیسری دلیل کے لئے سورۂ توبہ کا یہ ارشاد پیشِ نظر رہے: اور بعض دیہات والے ایسے بھی ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو خدا کے نزدیک قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسولؐ کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں ۔۔۔ (۰۹: ۹۹) پس رسولِ اکرمؐ اور امامِ عالیمقامؑ کی دعا ہی کے معنی ہیں اسمِ اعظم سے خدا کو پکارنا (۰۷: ۱۸۰) اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی عنایت ہے کہ اس نے ہر زمانے میں دعائے مقبول کے لئے اپنے بزرگ ترین نام کا وسیلہ بنادیا، جو نبوّت کے بعد سلسلۂ امامت ہے۔
۱۰۔ چوتھی دلیل یہ ہے: آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک صاف کردیں گے اور ان کے لئے دعا کیجئے یقیناً آپ کی دعا ان کے لئے موجبِ اطمینان ہے (۰۹: ۱۰۳) کیا ان کو اس بات کا علم نہیں
۷۵
کہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے۔۔۔ (۰۹: ۱۰۴) یہاں پہلی آیت دوسری آیت کی تفسیر و تشریح کا کام کررہی ہے، جس سے یہ حقیقت مثلِ خورشیدِ انور درخشان و تابان ہورہی ہے کہ رسولؐ اور نائبِ رسولؐ (امامؑ) اپنے اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات پر مامور ہیں کہ وہ اہلِ ایمان سے صدقہ (زکات وغیرہ) لے کر ان کو روحانی اور عقلی طور پر پاک و پاکیزہ کرلیں، اور ان کے حق میں ایسی بے مثال دعا کریں کہ یہ معجزانہ دعا ان کے سوا کوئی نہیں کرسکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کے زندہ اور گویندہ اسمِ اعظم میں جو رضائے الٰہی اور مقبولیت رکھی ہوئی ہے، وہ کسی دوسرے نام میں نہیں، مگر ہاں، جب اللہ کے اسمائے حسنیٰ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے، تو ان کے نور سے دوسرے تمام اسماء بھی منور ہوجاتے ہیں۔
۱۱۔ پانچویں دلیل ملا حظہ ہو: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے دُرود بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان والو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو جیسا کہ حق ہے (۳۳: ۵۶) اس آیۂ کریمہ کی تفسیرو تاویل اس طرح ہے کہ خدا اور اس کے قلم ولوح (کیونکہ یہ دونوں بڑے فرشتے ہیں) اور دیگر تمام فرشتے نبی رحمتؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے اہلِ ایمان تم بھی اسی مقصد کیلئے عرش والے سے درخواست کرتے ہوئے کہا کرو: اَللّٰھُمَّ صلِّ علٰی محمّدٍ وّاٰلِ محمّد۔۔۔ تاکہ لاہوت، جبروت، ملکوت، اور ناسوت اس ہمہ رس وہمہ گیر درود سے ہر وقت گونج اٹھے، اور ہمیشہ نورِ رحمت کی بارش برستی رہے، یہاں یہ بہت بڑا سوال سامنے آتا ہے کہ یہ کائناتی درود جو خالق اور مخلوق سب کی طرف سے آنحضرتؐ کی تعظیم و تکریم کے معنی میں بھیجی جاتی ہے، وہ دراصل کس کا ذکرہے؟ خدا کا؟ یا بندے کا؟ یا دونوں کا؟ جواباً یہ کہنا ہوگا کہ یہ ذکر اسمائے عظام کا
۷۶
ہے، یعنی محمدؐ وآلِ محمدؐ کا، اور اصلاً خدا کا ذکر ہے۔
۱۲۔ قرآنِ حکیم جہاں یہود ونصاریٰ کو اہلِ کتاب کہتا ہے، وہاں اس قولِ خداوندی کا یہ مطلب ہے کہ توراۃ اور انجیل میں پہلے کی طرح سب کچھ موجود ہے، اور اللہ تعالیٰ کے وہ تمام اسمائے ظاہر بھی ہیں، جو کبھی ان کے لئے کام کرتے تھے، مگر اب ان کے وہاں اسماءالحسنیٰ موجود نہیں، وہ تو صراطِ مستقیم اور نورِ ہدایت کے عنوان سے اسلام میں منتقل ہوچکے ہیں، یعنی حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اللہ تبارک و تعالیٰ کا اسمِ اکبر ہیں، لہٰذا اہلِ کتاب آپ کے بغیر جس نام سے بھی خدا کو پکارا کریں، اس سے ان کے لئے کوئی شنوائی اور قبولیت ممکن نہیں۔
۱۳۔ سورۂ انفال کے اس پُرحکمت حکم (۰۸: ۲۴) میں چشم بصیرت سے دیکھنا ہوگا: اے ایمان والو تم اللہ اور رسولؐ کی دعوتِ خاص کو قبول کرو جب کہ رسولؐ تم کو اس چیز کی طرف بلاتے ہوں جو تم کو زندہ کردینے والی ہے (یعنی امامتِ علیؑ اور اسمِ اعظم) اور یہ جاننا ہوگا کہ خدا تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان ۔۔۔ (۰۸: ۲۴) یعنی جب تم اس دعوت کو قبول کروگے، تو تم حیاتِ طیبّۂ ازلی وابدی میں زندہ ہوکر اپنی انائے علوی اور خدا کو پہچان لوگے، پھر اس وقت اللہ تعالیٰ تمہاری انائے سفلی کو انائے علوی سے واصل کردے گا۔
۱۴۔ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کی تعلیمات میں ہے کہ مومنین زمانۂ آدمؑ میں بھی اور زمانۂ علیؑ میں بھی جسمانیّت میں بشر اور روحانیّت میں فرشتے تھے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ بتقاضائے سنتِ الٰہی ہر پیغمبر اور ہر امام بعض مومنین کو اسمائے حسنیٰ کی وہ تعلیم دیا کرتا ہے، جو ابتداء میں حضرتِ آدم علیہ السّلام نے فرشتوں کو دی تھی، تاکہ ہمیشہ سے نورِ ہدایت اور اسمِ اعظم کے تمام معجزات و تجلّیات کا تجدّدِ امثال
۷۷
ہوتا رہے، اور اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
۱۴؍ربیع الاوّل ۱۴۱۰ھ
۱۶؍اکتوبر۱۹۸۹ء
۷۸
حکمتیں ہی حکمتیں
۱۔ قرآنِ پاک، نورِ ہدایت، اسمِ اعظم، خانۂ خدا، شب خیزی، گریہ و زاری، ذکرِ دائم، عشقِ محمدؐ و آلِ محمدؐ، عاجزی، آفاق، اور عالمِ شخصی، ان سب خزانوں کو علم و عمل سے مربوط کرکے دیکھا جائے تو حکمتیں ہی حکمتیں نظر آئیں گی، حکمت مومن کی گم شدہ متاع ہے، جس کی بازیابی کے بغیر تمہیں کیسے قرار مل سکتا ہے، پس تم دیوانہ وار علم و حکمت کی جستجو میں لگے رہو، تا آنکہ خزائنِ حقائق و معارف سے مالا مال ہوجاؤ۔
۲۔ حضرتِ آدم علیہ السّلام اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم تھے، لہٰذا سجدۂ آدمؑ کے حکم میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، جس کوبجا لاکر فرشتوں نے علم الاسماء کے نور کو حاصل کرلیا، مگرشیطان اس عظیم سعادت سے محروم رہا، کیونکہ اس نے سجدہ نہیں کیا، جس کی وجہ تکبر ہے، اور تکبر کی وجہ جہالت ہے، جبکہ ہر برائی جہالت سے اور ہر اچھائی علم سے پیدا ہوجاتی ہے، پس شیطان جاہل تھا، اسی لئے اس نے اپنے آپ کو کسی حق کے بغیر بڑا سمجھا، اور جاہل ہی رہا، اگر دانا ہوتا تو تکبر نہ کرتا، بلکہ عاجزی سے اسمِ اعظم کے سامنے سر جھکاتا، جب اسمِ بزرگ (یعنی آدمؑ) سے شیطان نے دشمنی کی، تو پھر توبہ اور رجوع کیسے کرسکتا تھا۔
۳۔ حضرتِ آدمؑ کی خلافتِ عالیہ حضراتِ انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام کے سلسلے میں تا قیامۃ القیامات جاری و باقی رہنے والی ہے، اسی وجہ سے فرشتوں نے شروع سے لے کر آخر تک ہر امکانی فساد و خونریزی کو آدم صفی اللہ سے منسوب کیا (۰۲: ۳۰) ملائکہ نے ایسے واقعات کو اگلے آدموں کے ادوار میں دیکھ لیا تھا، اس فساد و خونریزی کا
۷۹
ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، ظاہر کو تو سب ہی جانتے ہیں، مگر باطن بڑا عجیب و غریب ہے، وہ اس طرح کہ جب ذکر و عبادت اور علم و معرفت کے نتیجے میں کسی عالمِ شخصی میں ذاتی قیامت کا وقت آتا ہے، تو سب سے پہلے صورِ اسرافیل کی آواز پر لاتعداد و بے شمار یاجوج و ماجوج (جوانتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّاتِ لطیف ہیں) آکر قریۂ ہستی میں فساد کرتے ہیں، یہ فساد برائے اصلاح ضروری ہے، اور یہی لشکر عالمِ شخصی ہی میں خون بہاتا ہے، یعنی شکوک و شبہات کا اِزالہ کرتا ہے، کیونکہ جس طرح خونِ گوسفند حرام ہے، اس لئے بذریعۂ ذبح اسے بہایا جاتا ہے، اسی طرح شک و شبہ حرام ہے، لہٰذا اسے دور کیا جاتا ہے، تاکہ مومن کی روحانی ترقی ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قصّۂ آدمؑ کا طول یاجوج و ماجوج کے خروج تک ہے، یا یہ مان لیا جائے کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اپنے اپنے وقت کے آدم ہیں۔
۴۔ حضرتِ آدم علیہ السّلام کے بعد حضرتِ ہابیل علیہ السّلام کی معرفت لازمی ہے، اس مقصد کے لئے سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۷ تا ۳۲) میں خوب غور و فکر سے دیکھنا ہوگا، جس کا باطنی پہلو اور تاویلی مفہوم یوں ہے: اور اے رسولؐ آپ ان کو آدم کے دو بیٹوں کی خبر “حق الیقین” کے ذریعہ پڑھ کر سنائیے، جبکہ دونوں نے ایک ایک قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی، یعنی نارِ مقدّس (نورِ عشقِ الٰہی) نے حضرتِ ہابیل علیہ السّلام کی گوسپندِ نفس کو جلا کر نور بنالیا، پس آپ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے امام اور اسمِ اعظم ہوگئے، کیونکہ یہاں لفظِ “قربان” اور “قبول” آدمؑ اور وصیٔ آدمؑ کی مناسبت سے اپنے انتہائی اعلیٰ معنی دیتے ہیں، چنانچہ اس قرب و قبولیت کا مطلب یہ ہوا کہ ہابیلؑ راہِ روحانیّت پر منزل بمنزل چلتے گئے، تاآنکہ منزلِ فنا میں داخل ہوگئے، اور سنتِ الٰہی کے مطابق آپؑ میں خدائی
۸۰
روح (نور) پھونک دی گئی، کیونکہ ظرفِ چراغ ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، مگر نورِ ہدایت کبھی بجھتا نہیں۔
۵۔ قرآنی حکمت بڑی عجیب و غریب ہوا کرتی ہے، چنانچہ حضرت ہابیلؑ کی شہادتِ ظاہر اور شہادتِ روحانی کا تذکرہ ایک ساتھ ہے، کیونکہ اگر قرآنِ پاک میں ظاہری موضوعات اور تاریخی واقعات سے زیادہ کچھ نہ ہوتا، تو یہ قرآنِ حکیم نہ کہلاتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) پس حضرتِ ہابیل علیہ السّلام شہادت کے تمام مراتب سے گزر گئے، اور وہ پانچ ہیں:
۱۔ منزلِ عزرائیلی
۲۔ منزلِ صاعقہ (۰۲: ۵۵)
۳۔ منزلِ انبعاثِ اوّل (۲۷: ۳۹)
۴۔ منزلِ انبعاثِ دوم (۲۷: ۴۰)
۵۔ اور جسمانی شہادت
۶۔ اس کی وضاحت یوں ہے: سب سے پہلے یہ جاننا ہے کہ حضراتِ انبیا علیہم السّلام وغیرہ کے قرآنی قصّے نمونہ ہائے ہدایت اور قوانینِ رحمت کی حیثیت سے سب انسانوں کو قربِ خداوندی کی دعوت دیتے ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا، اور یہ پُرحکمت حکایات صرف پیغمبروں اور اماموں ہی کی ذواتِ مقدّسہ تک محدود ہوتیں، تو لوگوں سے بار بارنہ فرمایا جاتا کہ تم صراطِ مستقیم پر چلو، جو انبیاء و اولیاء کا راستہ ہے، جس پر چلنے والوں کو خدا اپنی خاص خاص نعمتوں سے نوازتا رہتا ہے، اس روشن دلیل کے بعد ہماری گزارش یہ ہوگی کہ جسمانی موت سے قبل جو نفسانی موت اور عزرائیل کا عمل ہے، اس کے بارے میں اختلاف نہیں ہوسکتا، لیکن جہاں تک مجموعی موت کے تجزئیے
۸۱
کا تعلق ہے، وہ البتّہ مشکل ہے، بہرحال مذکورۂ بالا منزلیں ہر مومنِ سالک کے لئے مقرر ہیں، جن کی مثالوں سے قرآنِ حکیم بھرا ہوا ہے، منزلِ عزرائیلی کی ایک مثال: عالمِ شخصی سے متعلق نافرمان روحیں ثمود اورعاد کی طرح صورِ اسرافیل کی زور دار آواز اور عملِ عزرائیل سے ہلاک ہوجاتی ہیں (۶۹: ۰۴ تا ۰۷) منزلِ صاعقہ کی دلیل: حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے جن ستّر رجال کا انتخاب کیا تھا، وہ راہِ روحانیّت پر گامزن تھے، اسلئے اصولاً ان پر صاعقہ اور زلزلہ کی پُرحکمت موت واقع ہوئی (۰۲: ۵۵؛۰۷: ۱۵۵) انبعاثِ اوّل کا نمونہ: عفریت نے کوئی بڑی روح کھینچ کر حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے حضور پیش کردی، جو تختِ بلقیس کے نام سے مشہور ہے، انبعاثِ دوم کا اشارہ: یہی کام بارِ دوم اس شخص نے بھی کیا، جس کے پاس کتابِ روحانی کا علم تھا، مگر چشم زدن میں (۲۷: ۴۰) اور آخر میں جسمانی موت ہے، جس کی دلیل وہ خود ہے۔
۷۔ سورۂ فرقان (۲۵: ۳۰) کا یہ ارشادِ مبارک بہت زیادہ قابلِ توجہ اور زبردست حیرت انگیز ہے: اور (اس دن) رسولؐ کہیں گے کہ اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا (۲۵: ۳۰) اس آیۂ کریمہ کا ایک دوسرا مستند ترجمہ یہ ہے: اور کہا رسولؐ نے اے ربّ میرے تحقیق میری قوم نے پکڑا ہے اس قرآن کو چھوڑا ہوا ۔ یعنی پکڑا ہے صرف ظاہر کو اور چھوڑا ہے باطن کو، جو ذخائرحکمت سے مملو ہے۔
۸۔ ایک مرتبہ آنحضرتؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا کہ: جنّت میں تمہارے لئے ایک مکان مخصوص ہے اور تم اس اُمت کے ذوالقرنین ہو (مفرداتُ القرآن، مادّہ: ق ر ن) خدا و رسولؐ کے نزدیک کسی دنیاوی بادشاہ کی کوئی اہمیت ہی نہیں، اس بناء پر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ذوالقرنین اپنے وقت میں امام تھے، اسی لئے مماثلت سے
۸۲
مولا علیؑ کی توصیف فرمائی گئی، کیونکہ آپؑ قیامت تک اس امت کے امام ہیں، اور قرآنِ حکیم میں جو کچھ ذوالقرنین سے متعلق ہے، وہ مضمونِ امامت میں شامل ہے۔
۹۔ لفظِ “قَرْن” قرآنِ حکیم میں مستعمل ہے، جس کے معنی ہیں ایک زمانہ کے لوگ، اور ذوالقرنین سے امامِ اقدس و اطہر ہی مراد ہیں، جن کا تعلق اہلِ زمانہ سے دوطرفہ ہے، یعنی ظاہر میں بھی، اور باطن میں بھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے امامِ زمان علیہ السّلام کو زمینِ روحانیّت میں قدرت عطا کردی ہے، اور ازل سے اس طرف پھر یہاں سے ازل کی جانب ہر چیز کا راستہ دیا ہے (۱۸: ۸۴) پس ذوالقرنین عالمِ شخصی کے مراحل طے کرنے لگے (۱۸: ۸۵) یہاں تک کہ جب آفتابِ نور کے مغرب میں پہنچے تو اس آفتاب کو چشمۂ گل میں ڈوبتا ہوا پایا، یعنی عالمِ سفلی میں انسانِ کامل کی شخصیّت میں، اور عالمِ علوی میں اسی کے چہرۂ نورانی میں، اور چشمہ اس معنی میں کہ یہ مرتبہ اور اس کا فعل ہمیشہ جاری و ساری ہے، اور انہوں نے یہاں ایک قوم دیکھی، یعنی وہ تمام لوگ جو شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اس مغرب میں رہتے ہیں ۔۔۔ (۱۸: ۸۶) ۔۔۔ پھر وہ وہاں سے بھی آگے گئے (۱۸: ۸۹) یہاں تک کہ نورِ عقل یا نورِ ازل کے مشرق میں پہنچ گئے، جہاں ان کا عارفانہ سفر ختم ہوگیا، اور انھوں نے چشم باطن سے مشاہدہ کیا کہ خورشیدِ عقل اہلِ معرفت پر بے حجاب طلوع ہوتا رہتا تھا (۱۸: ۹۰) ۔۔۔ پھر وہ وہاں سے واپس آئے (۱۸: ۹۲) یہاں تک کہ بحیثیتِ امام وہ دو دیواروں کے درمیانی مقام میں پہنچ گئے، یعنی نورانی ہدایت کا وہ مرتبہ، جس میں امامِ عالی مقامؑ اپنا نورانی حجاب اور مرید کا ظلمانی حجاب اٹھا کر باطنی تعلق پیدا کرتا ہے، تاکہ اولیائی کرامات ظہور پذیر ہوں۔
۱۰۔ سوال: ذوالقرنین پہلے مغرب میں پہنچ گئے، پھر مشرق میں، اور آخراً
۸۳
یاجوج و ماجوج کے مسئلہ سے دوچار ہوئے، اس ترتیب میں کیا حکمت ہے؟
جواب: مجموعی طور پر عالمِ عقل مشرق ہے، جو سفرِ باطن کی منزلِ آخرین ہے، جہاں سے آفتابِ نور طلوع ہوجاتا ہے، عالمِ شخصی مغرب ہے، جس میں خورشیدِ نور غروب ہو جاتا ہے، چنانچہ اس سفر میں مغرب پہلے آتا ہے، اور مشرق بعد میں، اور اگرچہ یاجوج و ماجوج (ذرّاتِ روح) کا خروج شروع ہی میں ہوتا ہے، لیکن یہاں ان کا تذکرہ دوسروں کی نسبت سے آخر میں فرمایا گیا ہے، یعنی یہ واپسی اور تصرّف کی بات ہے۔
۱۱۔ سوال: اس کا کیا اشارہ ہوسکتا ہے کہ یاجوج و ماجوج بات کو ذرا بھی نہیں سمجھ سکتے تھے؟ اور وہ زمین میں فساد کیوں کرتے تھے؟
جواب: دنیائے ظاہر ہو، یا عالمِ شخصی، اس میں جو لوگ علم و حکمت کے بغیر کام کرتے ہیں، اور ہادیٔ برحق کی اطاعت نہیں کرتے، وہ حقیقت میں بات کو بالکل ہی نہیں سمجھتے، اور فساد کررہے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے کہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح ہی کرنے والے ہیں (۰۲: ۱۱)۔
۱۲۔ سوال: ظاہری اور روحانی یا جوج وماجوج کے شرو فساد سے بچنے کے لئے سدِ ذوالقرنین کس طرح بنایا جاتا ہے؟
جواب: ایسی عبادت و بندگی سے، جو کسی کاہلی کے بغیر بھرپور توجہ سے کی جاتی ہے، علم کی ایسی باتوں سے، جو لوہے کے ٹکڑوں کی طرح ٹھوس ہوں، ایسے پُرحکمت ذکر سے، جو آتشِ عشق بن کر ان تمام ٹکڑوں کو سرخ انگارا بنائے، اور ایسے علمِ توحید سے، جو ان تمام حقیقتوں کو ایک کردے (۱۸: ۹۵ تا ۹۶)۔
۱۳۔ عالمِ عقل (عالمِ وحدت) میں جن لوگوں پر خورشیدِ نورِ ازل کسی حجاب
۸۴
کے بغیر طلوع ہوجاتا ہے، وہ معرفت کے جملہ بھیدوں سے واقف و آگاہ ہوجاتے ہیں، یہی لوگ مقربین کہلاتے ہیں (۸۳: ۲۱) اگر تنہا عالمِ وحدت ہی کا تصوّرکیا جائے، تو باور کرنا ہوگا کہ اس کا مشرق و مغرب ایک ہی ہے، اور یہی آفتابِ قیامت کا مغرب سے نکلنا ہے، یاد رہے کہ حضرت ذوالقرنین (یعنی امام) جیسے روحانی اور عرفانی طور پر مقامِ ازل تک پہنچ گئے، اور وہاں ایک قوم کو پایا، تو اس میں ہادیٔ برحق کی کامیاب ہدایت کا اشارہ ہے، آخر میں یہ حقیقت بھی دلنشین ہوکہ عالمِ وحدت میں لوگ منتشر نہیں ہوسکتے، بلکہ صرف ایک ہی شخص کی شکل میں مجتمع ہوجاتے ہیں، پس یقین کرلو کہ وہاں امامؑ ہی میں ایک ایسی قوم پوشیدہ تھی، جس کا ذکر ہوچکا۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
۲۲؍ربیع الاوّل ۱۴۱۰ھ
۲۴؍اکتوبر ۱۹۸۹ء
۸۵
پیغمبرؐ اور امامؑ کی دعائے برکات
۱۔ سرورِ انبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے پُرحکمت ارشاد کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دینِ اسلام کا مجموعی مفہوم نصیحت یعنی خیر خواہی ہے (اَلدّینُ النَّصیحَۃُ) اور خیر خواہی میں قلبی دعاؤں کے معنی موجود ہیں، اس سے ایک طرف تو دعا و خیر خواہی کی بہت بڑی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوا، اور دوسری جانب یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ دین کی کوئی چیز ایسی نہیں، جس میں دعا کے لئے کوئی ہدایت یا اشارت نہ ہو۔
۲۔ یہ بات اہلِ دانش کے نزدیک یقینِ کامل کا درجہ رکھتی ہے کہ حقیقی عبادت معرفت ہی کی روشنی میں ہوسکتی ہے، اور ایسے ہی خاص مقام پر دعا مغز عبادت ہوا کرتی ہے، تاہم مغزیات ایک جیسے نہیں ہوتے، اور نہ ہی سب دعائیں یکسان ہوتی ہیں، چنانچہ ہمیں ایک ایسی دعا کی شناخت اور طلب ازحد ضروری ہے، جو تمام دعاؤں کی سردار اور جملہ خیر خواہیوں کی روح کی حیثیت سے ہے، اور وہ پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اور امامِ برحق علیہ السّلام کی بابرکت دعا ہے، اور اس میں اہلِ ایمان کو کُلّی یقین حاصل ہے کہ یہ پاک و پاکیزہ دعا بہت ہی جلد بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوجاتی ہے۔
۳۔ حضرتِ نوح علیہ السّلام نے سب سے پہلے اپنے حق میں دعائے مغفرت کی، پھر اپنے والدین کے حق میں، پھر ہر اس مومن کے لئے، جو آپؑ کے خانۂ نورانیّت میں داخل ہوچکا تھا، اور آخر میں عام مومنین کے واسطے یہ دعا کی (۷۱: ۲۸) آپؑ نے اوّل ذاتی طور پر حضرتِ ربّ سے طلبِ بخشش کی، کیونکہ یہ دعا کرنے کیلئے باطنی طہارت تھی، پھر اپنے عظیم والدین اور ہر درجہ کے مومنین کے حق میں دعا بہت
۸۶
ضروری ہوئی، اس مثال سے پیغمبرانہ دعا کی اہمیت ظاہر ہوجاتی ہے۔
۴۔ پیغمبروں کی مبارک دعاؤں کی فضیلت کے بارے میں کسی مومن کو کیا شک ہوسکتا ہے، لیکن جس طرح حضرتِ محمد مصطفیٰ خاتمِ انبیاء، محبوبِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی شانِ رسالت بے مثال ہے، اسی طرح حضورِ انور و اطہرؐ کی دعائے پاک بھی نرالی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: ۔۔۔ وَصَلِّ عَلَیْھَمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (۰۹: ۱۰۳) اور ان کے واسطے دعائے خیر کرو کیونکہ تمہاری دعا ان لوگوں کے حق میں اطمینان (کا باعث) ہے (۰۹: ۱۰۳) یاد رہے کہ قرآنِ پاک کے موضوعات اور الفاظ میں حکیمانہ ربط و رشتہ پوشیدہ ہے، لہٰذا سَکَنٌ کا تعلقِ اوّلین لفظ سَکِیْنَۃ ٌسے ہے، جو قرآنِ کریم کے چھ مقامات پر موجود ہے، جس کا مفہوم ہے وہ جسمانی، روحانی، اور عقلانی سکون و اطمینان، جو ربِّ کریم کی طرف سے عطا ہوجاتا ہے، اور آپ کو یہ نکتۂ دلپذیر بھی یاد ہوکہ قرآنی الفاظ کے معانی سب کے سب قلمِ الٰہی (یعنی گوہرِ عقل) سے نازل ہوئے ہیں، اس لئے تمام تاویلات لوٹ کر مقامِ عقل پر مرکوز و مجموع ہوجاتی ہیں، پس آنحضرتؐ کی بابرکت دعا سے مومنین کو سکون (سَکَنٌ ۰۹: ۱۰۳) مل جانے کا اشارہ یہ ہے کہ اس کے حصول کا آخری درجہ گنجِ عقل ہے، جس میں انتہائی اعلیٰ مرتبت کی سکینت (تسکین) ہے، کیونکہ منزلِ آخرین (منزلِ مقصود) یہی ہے، جس میں مومن کو ساکن ہو جانا ہے۔
۵۔ حضورِ انور صلّی اللہ علیہ وآلہٖ سلّم کی ذاتِ عالی صفات تمام جہانوں اور سارے زمانوں کے لئے مرکزِ رحمت ہے (۲۱: ۱۰۷) اور دوسرے تمام انسانانِ کامل، یعنی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام آپؐ کے نمائندے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ہر عالم خصوصاً عالمِ دین کو اس کے مرکز میں لپیٹ لیتا ہے، اور پھیلا دیتا ہے (۰۲: ۲۴۵؛ ۲۱: ۱۰۴)
۸۷
چنانچہ رحمتِ عالمؐ کی دعائے برکات جس طرح آپؐ سے قبل کے پیغمبروں کے توسط سے ملتی رہی تھی، اسی طرح بعد میں اماموں کے وسیلے سے ملتی آئی ہے، جیسے سورۂ انعام (۰۶: ۲۰) میں ارشاد ہوا ہے: جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے (یعنی اہلِ کتاب کے عرفاء) وہ تو جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اسی طرح اس نبی (محمد صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم) کوپہچانتے ہیں (۰۶: ۲۰) یہ امرِ واقعی زمانۂ موسیٰؑ اور زمانۂ عیسیٰؑ کے عارفوں سے متعلق ہے، جنھوں نے چشم باطن سے نور کو دیکھا اور پہچان لیا، اس مقام پر بڑی بڑی عنایات ہوا کرتی ہیں، من جملہ یہ کہ نور نے عارفین سے فرمایا: “میں تمہارا بیٹا ہوں، کیونکہ تم نے اپنے عالمِ شخصی میں مجھے جنم دیا، پس میں تمہارے لئے بیٹے کی طرح کام کروں گا۔” جب نورِ محمدیؐ تک عارفوں کی رسائی کا یہ عالم ہے، تو پھر انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے اس سے ہمیشہ واصل رہنے کی کیا شان ہوگی! اس روشن دلیل سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ امامِ زمانؑ کے توسط سے رسول اللہؐ کی دعائے برکات اہلِ ایمان کو حاصل ہوجاتی ہے، اور یہ انتہائی عظیم سعادت ہے۔
۶۔ آپ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۵۱) میں حضرتِ طالوت علیہ السّلام (جو امام تھے) اور صندوقِ سکینت کا قصّہ حکمت کی روشنی میں پڑھ لیں، مگر اس میں یہ نکات خوب یاد رہیں کہ: بَعَثَ (اس نے زندہ کیا) میں انبعاث کا ذکرہے، یعنی حضرتِ طالوتؑ روحانی موت کے تمام مراحل سے گزر کر حقیقی معنوں میں زندہ ہوگئے تھے، جس طرح انسانِ کامل کے لئے اللہ کا قانون ہے، اور مَلِک (بادشاہ) امام کو کہا جاتا ہے،جو عقلِ کلّ کے علم اور نفسِ کلّ کے جسمِ لطیف سے کائنات پر محیط ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۱۲) میں ہے: وَکُلَّ شَیْ ئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) الغرض حضرتِ طالوتؑ کی ہدایات، تعلیمات، اور دعائے برکات سے خاص خاص
۸۸
مومنین کو صندوقِ سکینت حاصل آیا، جس میں اسرارِ الٰہی کے انمول جواہر بھرے ہوئے ہیں، اب ایسے میں کسی کو عقلی دولت کی ازلی و ابدی تسکین و اطمینان کیوں نہ ہو۔
۷۔ سورۂ قمر (۵۴: ۰۵) میں جس شانِ عالی سے قرآنی حکمت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اس کے محجوب (بھید) کشف ہوجانے سے آپ بیحد مسرور و شادمان ہوجائیں گے، وہ صرف دوہی لفظ ہیں: حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ (حکمتِ بالغہ)، درجۂ انتہا کی حکمت، ایسی حکمت، جو ایک ساتھ ازل وابد کے تمام بھیدوں کو چھوتی رہتی ہے، کیونکہ لفظِ بالغہ (پہنچنے والی) بُلُوغ سے اسمِ فاعل ہے، اور اس حکمت کے پہنچنے کیلئے کوئی حد یا مقام چاہئے، جی ہاں، حد اور مقام ہے، اور وہ بہت سے ناموں اور مثالوں کے ساتھ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم کی گہری دانائی کا نام حکمتِ بالغہ اس معنی میں ہے کہ یہ نہ صرف خود ہی گنجِ ازل تک پہنچنے والی ہے، بلکہ وہ اس انتہائی اعلیٰ مقام تک ہر ایسے مومن کی رہنمائی بھی کرتی رہتی ہے، جس کو حکمت عطا ہوئی ہو۔
۸۔ برکت یا برکات قرآنِ حکیم کا ایک ایسا حکمت آگین لفظ ہے، جس کے غیر محدود معنی میں ان لاتعداد و بے شمار عقلی، روحانی، اور مادّی نعمتوں کا ذکر ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتیں، ہمیشہ ان کے سرچشمے مخلوقات کی طرف جاری و ساری رہتے ہیں، کیونکہ ہر ایسا سرچشمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے عطا ہوتا ہے، مثال کے طور پر سورج کو لیجئے کہ اس انتہائی عظیم سرچشمۂ نور سے مادّی برکتوں کی کتنی بڑی طوفانی لہریں کائنات میں پھیلتی رہتی ہیں، یہ تو ہوا آفتابِ عالمِ جسمانی، اب اس خورشیدِ انور کی بات کیجئے، جو ہمیشہ عالمِ روحانی میں عقل و جان کی تابناک برکتیں بکھیرتا رہتا ہے، وہ نورِ ہدایت اور سراجِ علم و حکمت ہے۔
۹۔ اگر چہ نبوّت آنحضرتؐ پر آکر ختم ہوئی، لیکن خلافت و امامت کا سلسلہ
۸۹
جاری ہے، تاکہ نورِ ہدایت منشائے الٰہی کے مطابق ضروری امور کو انجام دیتا رہے، تاکہ دینِ حق میں کوئی تنگی (حرج ۲۲: ۷۸) نہ ہو، دشواری نہ ہو، آسانی ہو (۹۴: ۰۶) دینِ اسلام کی کمالیت اور نعمتِ خداوندی کی تمامیت میں کوئی کمی واقع نہ ہوجائے (۰۵: ۰۳) تسکین بخش دعائے برکات ملتی رہے (۰۹: ۱۰۳) اخذِ زکات اور علم و حکمت کے سکھانے سے مومنین کی روحانی اور عقلی پاکیزگی ہو (۰۹: ۱۰۳؛ ۰۲: ۱۲۹؛ ۰۲: ۱۵۱) بیعت لی جائے (۴۸: ۱۰) عبادت اسماءالحسنیٰ سے ہو (۰۷: ۱۸۰) تاکہ یہ نور قرآن سے وابستہ ہو اور معلّمِ روحانی و نورانی کا کام انجام دیتا رہے (۰۵: ۱۵) اور روزِ قیامت یہ عذرِ لنگ نہ ہوکہ رسولؐ کے بعد کوئی ہادی نہ تھا (۰۴: ۱۶۵)۔
۱۰۔ اللہ تعالیٰ مومنین پر دُرود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی (جس میں علم و رحمت کی برکتیں ہوتی ہیں) تاکہ ان کو جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال کر علم و حکمت کے نور میں لے جائے (۳۳: ۴۳) اس روشن ہدایت سے کسی شک کے بغیر درود کا اصل مقصد معلوم ہوا، اور وہ ہے عقل کے لئے علمِ الٰہی، اور روح کے لئے رحمتِ خداوندی، پس درود میں یہی دو معنی پوشیدہ ہیں، لیکن یہاں یہ سوال سامنے ہے کہ آیا یہ آسمانی درود رحمتِ عالمؐ کے تو سط سے بندوں پر نازل ہوجاتی ہے؟ یا براہِ راست؟ تو جواباً گزارش یوں ہے کہ جب ہم رسولِ اکرمؐ کی تعلیم کے مطابق کہا کرتے ہیں: اَللّٰھُمَّ صَلِّ علٰی محمّدٍ وّاٰلِ محمّدٍ، تو اس کا یہ مفہوم ہوتا ہے کہ: “یا اللہ! وہ درود، جس کا تو نے ذکر فرمایا ہے (۳۳: ۴۳) محمدؐ و آلِ محمدؐ کے وسیلے سے نازل فرما۔” چنانچہ پروردگارِ عالم اسی وسیلے سے اپنے بندوں پر درود نازل فرماتا ہے، یہی راز پیغمبر اکرمؐ اور امامِ زمانؑ کی دعائے برکات میں پنہان ہے، اور اسی معنی میں درود کی طرف پُرزور توجہ دلائی گئی ہے (یہاں زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے)۔
۹۰
۱۱۔ اسمِ اعظم ہی سے اللہ کو پکارنے کا حکم تو قرآنِ عزیز میں موجود ہے (۰۷: ۱۸۰) لیکن کیا معلوم کہ ہم اس پر حقیقی معنوں میں عمل کرسکتے ہیں یا نہیں، اس لئے کیا یہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت نہیں کہ اس کا زندہ اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) ہمارے حق میں دعائے خیر کرے؟ اس مثال سے (ان شاء اللہ) آپ بہت کچھ سمجھنے کے لئے کوشش کریں گے کہ مومنِ صادق کی سعادتِ دارین اسی میں ہے کہ وہ اپنے مولا و آقا کی خوشنودی اور دعائے برکات حاصل کرے، تاکہ اس سے خدا و رسولؐ کی رضا حاصل ہو۔
۱۲۔ خدا کے نزدیک سب سے عظیم شیٔ امرِکُنْ (ہوجا) ہے ، اور بندے کے پاس سب سے بڑی چیز دعا ہی ہے، امر اور دعا کے درمیان ایک عجیب و غریب قسم کا رشتہ پایا جاتا ہے، یہ رشتہ لفظ میں بھی ہے، معنی میں بھی، عشق میں بھی ہے، اور قبولیت میں بھی، اور اگر آپ کے حق میں اسمِ اعظم خود ہی دعا ئے برکات فرماتا ہے، تو پھر یہ رشتہ بدرجۂ انتہا مضبوط ہوجاتا ہے، پس اے مومنین! امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی دعائے برکات کی اہمیت و فضیلت کو قرآنِ پاک ہی کی روشنی میں دیکھنا اور سمجھ لینا ، تاکہ پروردگارِ عالم کے اس احسانِ عظیم پر آپ پگھلتے ہوئے شکر کرسکیں کہ اس مہربان نے آپ کو ظلِ امامت میں رکھا، کائناتِ ظاہر و باطن خصوصاً سورج (یعنی امامؑ ۴۵: ۱۳) کو آپ کے کام میں لگا دیا، اور سب کچھ عطا کردیا (۱۴: ۳۴؛ ۱۳: ۲۰؛ ۱۵: ۲۱) الحمد للہ ربّ العالمین۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
بدھ یکم ربیع ا لثانی ۱۴۱۰ھ
یکم نومبر ۱۹۸۹ء
۹۱
امامِ عالیمقامؑ کے چند قرآنی نام
قسط: ۱
۱۔ امام المتّقین (۲۵: ۷۴): اور وہ لوگ جو ہم سے عرض کیا کرتے ہیں کہ پروردگارا ہمیں ہماری بیویوں سے اور ذرّیت کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا (امام ۲۵: ۷۴) بنا۔ یہ دعا حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام ہی کے لئے مخصوص ہے، اور اس میں بزبانِ حکمت یہ فرمایا گیا ہے کہ سلسلۂ امامت زمانۂ آدمؑ سے شروع ہوا، اور قیامتِ قیامات تک جاری و باقی رہے گا، کیونکہ جب سے دین ہے، تب سے پرہیزگاروں کی بات چلتی ہے، قصّۂ ہابیلؑ کو پڑھ لیں (۰۵: ۲۷) اور یہاں یہ اشارہ بھی سمجھ لینا ہے کہ لفظِ ذرّیت کا تعلق نہ صرف مستقبل ہی سے ہے، بلکہ اس میں یہ ذکر بھی ہے کہ حال کاامام کس طرح ماضی میں بھی امام ہوا کرتا ہے، پس یہی وجہ ہے، جو آیۂ اِصطفاء (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) میں ارشاد ہوا کہ انبیاء علیہم السّلام ایک دوسرے کی ذرّیت ہوا کرتے ہیں، مثال ملاحظہ ہو:
۲۔ اہلِ ذکر(۱۶: ۴۳): ذکر سے حضرتِ رسولؐ مراد ہیں (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) ذکر قرآنِ پاک بھی ہے (۱۵: ۰۹) ذکر اسمِ اعظم بھی ہے (۰۷: ۱۸۰) ذکر نصیحت بھی ہے، اور یاد کرنا بھی، چنانچہ اہلِ ذکر سے أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی مراد ہیں، جواہلِ بیتِ رسول
۹۲
صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ہیں جن کے پاس قرآن کی روحانیّت اور اسمِ اکبر پوشیدہ ہے، اور یہی حضرات لوگوں کیلئے سرچشمۂ ہدایت و نصیحت اور یاد و تذکرہ کا وسیلہ ہیں، پس انہی تمام معنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: (اے رسولؐ) تم سے پہلے مردوں ہی کو پیغمبر بنا بنا کر بھیجا کئے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے تو (تم لوگوں سے کہو) اگر تم خود نہیں جانتے ہو تو اہلِ ذکر (اہلِ بیتِ رسولؐ /امامؑ) سے پوچھو (کیونکہ یہ حضرات شروع ہی سے اپنی نورانیّت میں نورِ نبوّت سے وابستہ رہتے آئے ہیں) اور عالمِ شخصی میں ہر عارف کے لئے معرفت کا ذریعہ تجدّدِ امثال ہے۔
۳۔ نفسِ رسولؐ (۰۳: ۶۱): آپ واقعۂ مباہلہ کے بارے میں درست معلومات رکھتے ہوں گے، چنانچہ نفسِ رسولؐ سے مولا علیؑ مراد ہیں، آپ اس آیۂ مکرمہ میں دیکھ رہے ہیں کہ علیؑ پیغمبرؐ کی جان ہیں، کیونکہ “نفس” عربی میں جان کو کہتے ہیں، لیکن یہاں یہ پُرمغز نکتہ بھی سامنے آیا ہے کہ جب آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سراپا نور تھے، تو پھر کس طرح کوئی عام و معمولی شخصیّت حضورؐ کی جان ہوسکتی تھی، جبکہ اس کا اشارہ محبوبیّت و وحدت کی طرف ہے، چنانچہ یہاں “نفس” نور کے معنی میں ہے، جیسے کہا جاتا ہے: نفسِ مطمئنہ، نفسِ واحدہ، نفسِ کلّی، وغیرہ، یہ نور ہی ہوتا ہے، پس یہاں نورِ نبوّت اور نورِ امامت کی وحدت کا اشارہ ہے۔
۴۔ اصحابِ اعراف (۰۷: ۴۶): اعراف اس مقامِ عالی کا نام ہے، جہاں معرفتیں جمع ہوجاتی ہیں، یہ عالمِ شخصی میں امامِ برحق علیہ السّلام کا مرتبۂ عقلی ہے، جہاں وہ سب کو چہروں سے پہچانتے ہیں، اشارہ ہے کہ ہر قسم کی معرفت کا تعلق چہرے سے ہے، اور انتہائی اعلیٰ معرفت کا تعلق بھی۔
۹۳
۵۔ یوم الآخر (۰۲: ۰۴): چھ ناطق جو صاحبانِ شریعت ہیں، خدا کے چھ دن ہیں، اور حضرتِ قائم ع س ساتواں دن یعنی سنیچر ہے، جو یوم الآخر ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: الٓمّٓ (نورِ امامت، جوکتابِ ناطق ہے ۲۳: ۶۲) وہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں شک نہیں (یقین ہی یقین ہے) وہ پرہیزگاروں کی رہنما ہے، جو مشاہدۂ روحانیّت سے عالمِ روحانی پر ایمان لاتے ہیں، اور نماز کو قائم کرتے ہیں (یعنی دعوتِ حق کا کام انجام دیتے ہیں) اور جو کچھ ہم نے ان کو رزق دیا ہے، اسی سے خرچ کرتے ہیں (یعنی وہ روحانی علم کی تعلیم دیتے ہیں) یہ وہ لوگ ہیں جو (دیدہ و دانستہ) اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو تجھ پر نازل کی گئی ہے، اور اس چیز پر بھی جو تم سے پہلے نازل کی گئی ہے، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یعنی ان کو حضرتِ قائم ع س کی روحانی اور عقلی معرفت حاصل ہوئی ہے، اور اسی کی بدولت یہ سب کچھ ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، یاد رہے کہ یقین کا سرچشمہ حضرتِ قائم القیامت علینا سلامہ ہیں، اسی لئے ارشاد ہوا: وَبِالْاٰ خِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (۰۲: ۰۴) پس یہاں یہ قاعدہ خوب دلنشین کرلینا ہے کہ قرآنِ حکیم میں جتنے قیامت کے نام آئے ہیں، وہ حضرتِ قائم ع س کے اسما والقاب ہیں۔
۶۔ کوثر (۱۰۸: ۰۱): کوثر کے معنی ہیں خیرِ کثیر اور مردِ کثیر الذرّیہ، جس سے حضرتِ امیر المومنین علیؑ مراد ہیں، حوضِ آبِ کوثر بھی بصورتِ قائم القیامت مولاعلیؑ ہیں، اور آبِ کوثر کے ساقی بھی، کوثر کتابِ مکنون کا علم ہے، یہ سب حکمت اور خیرِ کثیر ہے۔
۷۔ مؤمنون (۰۹: ۱۰۵): ایمان کے شروع سے لے کر آخر تک مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ ہر امیر المومنین (امامؑ) ایمان کے درجۂ کمال پر
۹۴
ہوتا ہے، اور اسی معنی میں أئمّۂ طاہرینؑ کا ایک لقب مومنون ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی توخدا اور اس کا رسولؐ اورمومنین (یعنی أئمّہ) تمہارے کاموں کودیکھیں گے (۰۹: ۱۰۵) اس حکم سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ اللہ اور پیغمبرؐ کے بعد حضراتِ أئمّہ اعمالِ خلائق کو دیکھ رہے ہیں، اس لئے کہ خدا نے ان کو لوگوں پر گواہ بنایا ہے (۱۱: ۱۷؛ ۵۰: ۲۱) اور یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن اہلِ زمانہ کو ان کے امام کے ساتھ بلایا جائے گا (۱۷: ۷۱)۔
۸۔ شاہد (۱۱: ۱۷) شہید (۵۰: ۲۱) شُہداء (۰۲: ۱۴۳): جہاں خدائے پاک خود اور فرشتے توحید اورمعبودیت کی گواہی دیتے ہیں، وہاں علم والے (اولوا العلم ۰۳: ۱۸) بھی یہ شہادت دیتے ہیں، یہ علم والے کون ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بعد فرشتۂ قلم، فرشتۂ لوح، حاملانِ عرش، عزرائیل، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل جیسے عظیم فرشتوں کے ساتھ ایسی عقلی و عرفانی بلندی کی گواہی دیتے ہیں؟ کیا دیکھے اور پہچانے بغیر کوئی گواہی درست ہوسکتی ہے؟ نہیں نہیں، یہ حضرات جو علمِ توحید اور خدا شناسی کی چوٹی پر پہنچ چکے ہیں، انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جو عدل وانصاف پر قائم ہیں (۰۳: ۱۸)۔
۹۔ وارِثِ قرآن (۳۵: ۳۲): سورۂ فاطر میں فرمایا گیا ہے: پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو کتاب (قرآن ) کا وارث بنایا جنھیں (اہلیت دے کر) منتخب کیا تھا (۳۵: ۳۲) یہ حضراتِ أئمّۂ ہدا علیہم السّلام ہی ہیں، جو قرآنِ حکیم کے خازن ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ مجید کی روح و روحانیّت
۹۵
(۰۵: ۱۵) اور نور و نورانیت (۴۲: ۵۲) امامِ زمان صلوات اللہ علیہ میں ہے، اور اسی معنیٰ میں آپؑ قرآنِ ناطق ہیں (۴۵: ۲۹) الحمد للہ۔
۱۰۔ اُمّ الکتاب، کتاب (۴۳: ۰۴؛ ۷۸: ۲۹): اُمّ الکتاب سے اساس مراد ہیں اور کتاب امام ہیں، کیونکہ نورِ محمد مصطفیؐ قلم ہیں، اور نورِعلی مرتضیٰؑ لوحِ محفوظ، اور یہی اُمّ الکتاب بھی ہے، پس قرآن جہاں اس زندہ اور نورانی اُمّ الکتاب میں ہے، وہاں وہ بڑا عالی اور پُرازحکمت ہے (۴۳: ۰۴) اور اسی لوحِ محفوظ میں قرآنِ مجید محفوظ ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) چونکہ حضرتِ علیؑ کے بعد کا ہر امام بھی یہی نور ہے، اس لئے فرمایا گیا: وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ کِتٰباً (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں محدود کر رکھا ہے، یہ اشارہ ہے خدا کے اس فعل کی طرف، جس سے وہ قادرِ مطلق پوری کائنات کو اپنے ہاتھ میں لپیٹ لیتا ہے، اور یہ کام اللہ تعالیٰ امامِ زمان علیہ السّلام کی مبارک ہستی میں کرتا ہے، اسی لئے ارشاد ہوا: وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲)۔
۱۱۔ مثیلِ ہارونؑ (۲۰: ۲۹ تا ۳۴): قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلّم لِعلی: اَنتَ مِنّی بمنزلۃ ھَارُون مِنْ موسٰی(اخرجہ المسلم وغیرہ)جناب رسالت ماب صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے جنابِ امیرؑ سے ارشاد فرمایا کہ تم مجھ سے بمنزلۂ ہارون کے ہو موسیٰ سے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرتِ امیر المومنین علیؑ مثیلِ ہارونؑ ہیں، اور حضرتِ ہارون علیہ السّلام کے جوجوفضائل قرآن میں بیان ہوئے ہیں، وہ سب کے سب بجز نبوّت کے مولا علی علیہ السّلام میں بھی ہیں، یہ حدیثِ شریف بطریقِ حکمت قصّہ ہارونؑ کی تمام حکمتوں کو موضوعِ امامت میں شامل کردیتی
۹۶
ہے، یقیناً اس لئے کہ مولانا ہارون علیہ السّلام امامِ اساس تھے، جیسے مولا علی صلوات اللہ علیہ امامِ اساس ہیں۔
۱۲۔ بابِ حطّہ(۰۲: ۵۸): کوکبِ دُرّی، ارجح المطالب، وغیرہ میں مذکور ہے کہ حضرتِ رسولِ خداؐ نے فرمایا: عَلِیٌّ بابُ حِطَّۃٍ۔۔۔ علیؑ توبہ اور استغفار کا دروازہ ہے۔۔۔۔ یہاں میں بصد عاجزی یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن و حدیث کا قانونِ حکمت ایسا ہے کہ ہر ممثول کی کئی مثالیں ہوا کرتی ہیں، جیسے مولاعلیؑ کی بے شمار مثالوں میں سے ایک مثال دروازہ ہے، یعنی بابِ علمِ نبیؐ، بابِ حکمتِ پیغمبرؐ، دروازۂ توبہ، بابِ سماء (۰۷: ۴۰) درِبہشت، وغیرہ۔
۱۳۔ مَلِک (بادشاہ ۰۲: ۲۴۷): آپ قرآنِ حکیم میں قصّۂ طالوتؑ (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۵۱) کو گہرائی سے پڑھ لیں، پھر ان مسائل کو حل کریں:
مسئلہ الف: بنی اسرائیل کے یہ سردار دینی تھے؟ یا دنیوی؟
مسئلہ ب: ان سرداروں نے خود ہی جہاد کا اہتمام کیوں نہیں کیا؟
مسئلہ ج: ان کی درخواست پر خدا اور پیغمبر نے جب طالوتؑ کو بادشاہ بنایا، تو اسے کوئی بڑی سے بڑی طاقتِ روحانی بھی عطا کی گئی؟ یا نہیں؟
مسئلہ د: جو شخص اللہ تعالیٰ اور نبی کی طرف سے بادشاہ مقرر ہوا ہو، وہ دینی بادشاہ کہلائے گا؟ یا دنیوی؟
مسئلہ ھ: اگر دین میں ایسے بادشاہ کی ضرورت ہے کہ اس کو صرف خدا اور پیغمبر ہی منتخب کرسکتے ہیں، تو پھر زمانۂ نبوّت میں ایسا پسندیدہ شخص کون تھا؟ جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بادشاہت دی ہو؟ جوابِ جامع: علیؑ۔
۹۷
مسئلہ و: اس حقیقت پر قرآن کی کیا دلیل ہے؟ جواب ملاحظہ ہو:
دلیلِ اوّل: اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کو دوسری بڑی بڑی نعمتوں کے ساتھ عظیم سلطنت بھی عطا کردی ہے، جب تک دنیا میں قرآن باقی ہے، تب تک یہ بادشاہی (۰۴: ۵۴) جاری ہے۔
دلیلِ دوم: دنیا ہو یا دین، حکم اور امر سے کوئی بڑی چیز نہیں، کیونکہ ہر بادشاہی اور حکومت کا قیام اسی پر ہے، چنانچہ پروردگارِ عالم اور رسولِ اکرمؐ نے پاک اماموں کو اولواالامر کا درجہ عطا کرکے لوگوں پر پادشاہ بنا دیا (۰۴: ۵۹) تاکہ لوگ حقیقی اطاعت و محبت کے ذریعہ ان میں فنا ہوکر پادشاہ ہوسکیں، جس کا وعدہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
منگل۷؍ ربیع الثّانی۱۴۱۰ھ
۷؍نومبر۱۹۸۹ء
۹۸
اصحابِ کہف کی عظیم حکمتیں
۱۔ اہلِ ایمان ہمیشہ اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآنی قصّے دنیا کے قصّوں سے قطعاً مختلف اور الگ ہیں، کیونکہ قرآنِ پاک کی ہرآیت علم و حکمت اور باطنی تاویل کے گرانمایہ موتیوں سے لبریز ہے، لہٰذا ہوشمند مومنین کا اوّلین فرض یہ ہے کہ وہ بقدرِ امکان قرآنِ حکیم کے قصّوں کی تاویلی حکمتوں کے لئے ساعی رہیں، تاکہ نورِ قرآن اور روحِ اسلام کی معرفت حاصل ہو۔
۲۔ اصحابِ کہف (۱۸: ۰۹): صاحبانِ تقیہ اور اہلِ باطن، جو اسمِ اعظم اور مخفی عبادت سے منسلک ہوا کرتے ہیں، ان حضرات کی راہِ روحانیّت میں تین غار واقع ہیں:
اوّل: غارِ طریقت
دوم: غارِ حقیقت
سوم: غارِ معرفت
یہ مراحل علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین بھی کہلاتے ہیں، چنانچہ ہر قسم کی فرمانبرداری اور یقینی علم سے آراستہ ہوکر حلقۂ کارِ بزرگ میں شامل ہوجانا گویا غارِ اوّل میں چھپ جانا ہے، اگر اس سلسلے میں کسی خوش بخت مومن پر روحانیّت کا دروازہ کھل جاتا ہے، تو وہ یقیناً دوسرے غار میں داخل ہوجاتا ہے، اور تیسرا غار انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے بہت مشکل ہے، کیونکہ وہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا غار ہے، تاہم
۹۹
ناممکن نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت سے نورِ ہدایت موجود ہے، غارِ سوم کہفِ عقلانیّت ہے (یعنی د ۔ م) پس حقیقی معنوں میں اصحابِ کہف وہ حضرات ہیں،جو غارِ عقل میں پوشیدہ ہیں ، آپ سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں وَجَعَلَ لَکُمْ مِّنَ الْجِبَالِ اَکْنَانًا کو دیکھ لیں، جس میں عوالمِ شخصی کے عقلی غاروں کا اشارہ ہے۔
۳۔ رقیم (۱۸: ۰۹) کیا ہے؟: رقیم کے لفظی معنی ہیں: نوشتہ، کتبہ، یہاں اس سے وہ روحانی تحریر مراد ہے، جو مشاہداتِ باطن اور روحانیّت کے عجائب و غرائب کے سلسلے میں سامنے آتی ہے، یہ رقیم منازلِ روح میں بھی ہے، اور مراحلِ عقل میں بھی، اور دنیائے عقل میں جو کوہِ قاف ہے، جو قرطاسِ نور کی طرح صاف و شفاف ہے، اس پر رقیم ایسے نورانی الفاظ میں ہے کہ ہر لفظ کے آخر میں ق (قاف) موجود ہے، شاید اس مقام کا نام اسی وجہ سے کوہِ قاف ہوا ہو، یہاں یہ بات بھی خاطر نشین کرلیں کہ سب سے اعلیٰ رقیم کلمۂ باری ہی ہے، کیونکہ اصحابِ کہف اور رقیم آیاتِ قدرت و حکمت میں سے ہیں۔
۴۔ چند جوانوں کا غار میں جا بیٹھنا (۱۸: ۱۰): ایسے باصلاحیت اور عالی ہمت مومنین کا باذنِ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ خصوصی عبادت، ذکر ، اور روحانیّت کی طرف رجوع کرنا ، جو نہ صرف جسمانی طور پر جوان ہوچکے ہیں، بلکہ بندگی اور دینی شعور کے اعتبار سے بھی ان کا عنفوانِ شباب ہے، کیونکہ روحانیّت کا کوئی وجود ہی نہیں بنتا، اِلاّنفسِ جوانی کی خواہشات کو کچل دینے سے، اور یہی سبب ہے کہ بقولِ قرآن کامل انسانوں کو جوانی ہی میں روحانی اور عقلی دولت سے مالا مال کیا جاتا ہے۔
۱۰۰
۵۔ رحمتِ لَدُنی اور رُشد و ہدایت کی درخواست (۱۸: ۱۰): انھوں نے رحمتِ لدنّی (وہ ربّانی رحمت جو خاص ہے) کیلئے دعا کی، اور رشد و ہدایت کے طلب گار ہوئے، تاکہ دین و دنیا کی کامیابی حاصل ہو، اس دعا کی حکمت سے ظاہر ہے کہ اصحابِ کہف کو لوگوں کے ساتھ رہنا ہے، اور میدانِ آزمائش سے بھاگ کر کہیں ہمیشہ کے لئے چھپ جانا مقصود نہیں۔
۶۔ کانوں پر ضرب لگ جانا (۱۸: ۱۱): اس کا مطلب ہے: ذکر و عبادت میں معجزانہ یکسوئی، وسوسے کا خاتمہ، اور قیامت خیز روحانی ترقی کا آغاز، جس میں عالمِ خواب کی طرح دنیا سے بے خبری اور لا تعلقی پائی جاتی ہے، کیونکہ صورِ اسرافیل میں ایک طرف شدت کی غایت ہے، اور دوسری طرف شیرینی کی انتہا، تو ایسے میں یہ حالت ایک نیند جیسی ہے، جس میں آدمی دنیائے ظاہر سے کسی حد تک یا بڑی حد تک منقطع ہوجاتا ہے، تاکہ محویّت و فنائیّت حاصل ہو۔
۷۔ خدا نے ان کو زندہ کیا (۱۸: ۱۲): (ثُمَّ بَعَثْنٰھُمْ) پھر ہم نے ان کو زندہ کیا، یہ منزلِ عزرائیلی کا تذکرہ ہے، جس میں جیتے جی قبضِ روح پھر حیاتِ نو کا معجزہ ہے، تاکہ یہ واضح ہو کہ اہلِ ظاہر اوراہلِ تائید کے دوگروہ میں سے کون ایسا ہے جو ان کے غار میں ٹھہر جانے کی مدت کا درست اندازہ کرسکتا ہو، اشارہ یہ ہے کہ اس مقام پر وقت کم سے کم بھی ہوسکتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ بھی، کیونکہ روحانیّت میں دستِ قدرت زمانے کو جتنا چاہے لپیٹ سکتا ہے، اور جیسے چاہے پھیلا سکتا ہے، اور خدا بے شمار چیزوں کو کسی چھوٹے عدد میں بھی گھیر سکتا ہے۔
۱۰۱
۸۔ مرتبۂ حق الیقین (۱۸: ۱۳): یہ قصّہ روحانیّت کی انتہائی بلندی تک پہنچ جاتا ہے، جہاں حق الیقین ہے، کہ غار والے جوانی ہی میں ایمان اور ہدایت کی دولت سے مالا مال ہوگئے تھے، اور جب ان کی ذاتی قیامت برپا ہورہی تھی (اِذْقَامُوْا ۱۸: ۱۴) تو خدا نے ان کو صبر و ثبات عطا فرمایا، کیونکہ یہ آزمائش کوئی آسان واقعہ ہے نہیں، پھر ان کو توحید و معرفت کے اسرار کا علم ہوا (۱۸: ۱۴) اب وہ غارِ روحانیّت سے غارِ عقلانیّت میں منتقل ہوگئے، جہاں وہ اپنے ربّ سے کل کائنات کی حد تک وسیع رحمت (یعنی نفسِ کل کے دیدار اور سماعتِ امر) کی لازوال عنایت حاصل کرسکتے تھے (۱۸: ۱۶) یعنی ایک ذاتی کائنات اور اس کی بادشاہی مطلوب تھی۔
۹۔ منزلِ مقصود اور آفتابِ عقل کا طلوع (۱۸: ۱۷): اے سالک تو خورشیدِ عقل کو دیکھتا ہے کہ جب طلوع ہوجائے تو ان کے غار سے داہنی طرف جھک کے نکل جاتا ہے اور جب غروب ہو جاتا ہے تو ان سے بائیں طرف کترا جاتا ہے اور وہ لوگ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں ہیں (۱۸: ۱۷) آپ اس حکمت کو سمجھنے کے لئے سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۸) میں تذکرۂ نورِ مومنین کو بھی دیکھ لیں، اور یہ امر ضروری ہے، چنانچہ غار والے مکان و زمان کی بے پناہ مسافتوں سے بالا تر ہو کر لامکان و لازمان ہوگئے، اس حال میں اسرارِ ازل و ابد کا یکجا مطالعہ ہوا، تاہم اس پر غور و فکر کا عمل ایک طویل سلسلہ تھا۔
۱۰۔ صبحِ ازل اور شامِ ابد (۱۸: ۱۷): جب غارِ عقل والوں پر سورج (نورالانوار) طلوع ہوا، تو یہ صبحِ ازل تھی، اور جیسے ہی غروب ہوا ، تو شامِ ابد
۱۰۲
ہوئی، اسی طرح وہاں لاتعداد ازلیں اور ابدیں دیکھنے میں آئیں، پس ازل الآزال اور ابد الآباد کہیں بھی نظر نہیں آتی تھیں، شاید یہ دونوں لفظ لا ابتدائی اور لا انتہائی کے معنی میں تھے، اس مقام پر طلوع و غروب کے بہت سے اشارے ہیں، مثال کے طور پر نقشِ ذیل کو دیکھیں:
تجدّدِ ازل
طلوع | غروب | طلوع | غروب |
ازل | ابد | تنزیل | تاویل |
عقلِ کل | نفسِ کل | قلم | لوح |
ناطق | اساس | خلق | امر |
روز | شب | عرش | کرسی |
اوّل | آخر | آدم | حوّا |
ظاہر | باطن | آسمان | زمین |
نور | ظلمت | فتق (۲۱: ۳۰) | رتق (۲۱: ۳۰) |
بقا | فنا | کل شی (۳۶: ۱۲) | احصا (۳۶: ۱۲) |
کتاب | حکمت | یدُاللہ | وجہُ اللہ |
کثرت | وحدت | بسط | قبض |
۱۱۔ دنیا خواب ہے اور آخرت بیداری (۱۸: ۱۸): اے سالک تو ان کو بیدار سمجھتا ہے حالانکہ وہ خوابیدہ ہیں، یعنی آئندہ شعور کے مقابلے میں
۱۰۳
موجودہ شعور خواب کی طرح ہے، خدا ان کو کبھی ظاہر (یمین) کی طرف اور کبھی باطن (شمال) کی طرف پھیرتا رہتا ہے، اور ان کا کتا اپنے آگے کے دونوں پاؤں پھیلائے چوکھٹ پر بیٹھا ہے (یعنی وہ شخص جو غار والوں سے وابستہ ہوا تھا۔۔۔۔) اے سالک اگر تو غارِ عقل یا غارِ روح میں جھانک کر ان کو دیکھے تو اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہو اور تیری پوری ہستی میں ان کا رعب چھا جائے (۱۸: ۱۸) کیونکہ بتقا ضائے حکمت روحانیت کا ایک پہلو خوف کا ہے اور دوسرا امن کا۔
۱۲۔ غارِ عقل میں انبعاث (۱۸: ۱۹): اب ان کا عقلی اور عرفانی انبعاث ہوجاتا ہے، اور وہ حقیقی معنوں میں زندہ ہوجاتے ہیں، تاکہ انھیں ہر گونہ معرفت حاصل ہو، اور ان کے آپس میں سوال و جواب ہوا کرے۔۔۔۔انھوں نے اپنے ایک ساتھی کو سکۂ علمِ روحانی (وَرِق) کے ساتھ شہر کی طرف بھیجا، تاکہ وہ جاکر دیکھے کہ کونسا شخص یا اشخاص اس علم کی پذیرائی کے لئے پاک فطرت ہیں ( اَزْکٰی طَعَاماً) ساتھ ہی ساتھ انھیں یہ اندیشہ بھی تھا کہ کہیں راز فاش نہ ہوجائے، کیونکہ اگر لوگوں کو دعوتِ حق کا پتا چلا، تو حسد و دشمنی سے مسائل کی سنگ باری کریں گے یا اپنا ہی نظریہ مسلّط کردیں گے (۱۸: ۲۰) تاہم اس بھید کے ظاہر ہونے میں بھی عظیم حکمت تھی، وہ یہ کہ غاروالوں میں قیامت کی مثال موجود ہے، پس جو لوگ اصحابِ کہف کی عظمت و بزرگی کے قائل ہوگئے، ان کے درمیان یہ بحث ہونے لگی، کہ غار پر بطورِ یادگار کوئی عام عمارت بنائیں؟ یا مسجد؟ یہ اشارہ ہے کہ ان کو کس درجے میں مانیں؟ ذیلی حدود؟ یا امام؟ لیکن زیادہ زور اور وزن اُن دلائل میں تھا، جو اس قصّے کی اصلیت و روحانیّت امامِ عالیمقامؑ سے متعلق ہونے کے بارے میں تھے، لہٰذا یہ مانا گیا کہ اس حکایت میں بھی
۱۰۴
امامؑ ہی کے اسرار پوشیدہ ہیں، جس طرح قصّۂ ذوالقرنین میں امام ہی کا تذکرہ ہے، پس مسجد امام علیہ السّلام کی مثال ہے، کیونکہ آپ خدا کا گھر ہیں۔
۱۳۔ غار والے کتنے تھے (۱۸: ۲۲)؟: اصحابِ کہف کی وہی تعداد بالکل درست ہے، جو رَجْماً بِالْغَیْبِ کے بعد ہے، یعنی وہ سات ہیں، اور ان کا آٹھواں کتا ہے، یہ امامِ وقتؑ کے سات باطنی درجات ہیں، جو روحانیّت کے سات آسمان ہیں، اور سگِ اصحابِ کہف ہر وہ مومن ہے، جو امامِ برحق کی پیروی، محبت، خدمت، اور وفاداری میں طرح طرح کی ذلتیں برداشت کرتا ہے، اور ہمیشہ درِاقدس سے وابستہ رہتا ہے، تاآنکہ یہ کتا بحکمِ قرآن اپنے آقا میں فنا ہوکر خود کو اصل سے واصل پاتا ہے۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
۱۲؍ربیع الثّانی۱۴۱۰ھ
اتوار ۱۲؍نومبر۱۹۸۹ء
۱۰۵
معرفتِ آیات و معجزات
۱۔ انسان کا روحانی عروج و ارتقا (۹۵: ۰۴ تا ۰۵): سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸) کی دعوتِ فکریہ ہے کہ ہر دانشمند اس بات پرغور کرے کہ انسان کی روحانی اور عقلی ترقی کا درجۂ کمال کیا ہے؟ یعنی آدمی مراحلِ ارتقاء کے سفر میں بالآخر کس بلندی کو چھو سکتا ہے؟ اور اگر اس کو پھیر دیا جاتا ہے، تو کس پستی تک ؟ چنانچہ ترجمہ و تفسیر کو دیکھنے کے بعد تاویلی حکمت بھی ملاحظہ ہو: قَسم ہے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس کی (وجہِ دین، گفتار نمبر ۱۱) کہ ہم نے انسان کو بہترین تقویم پر پیدا کیا (تقویم: سیدھا کرنا، قائم کرنا، بلند کرنا) یعنی اسے انتہائی عروج کا درجہ دیا، پھر ہم نے اسے پست ترین حالت میں پھیر دیا، مگر جو لوگ کما حقہ ایمان لائے اور حقیقی معنوں میں اچھے کام کرتے رہے ان کے لئے تو کبھی ختم نہ ہونے والا اجر و ثواب ہے (۹۵: ۰۱ تا ۰۶) خدائے بزرگ و برتر کی اس پُرحکمت قَسم کا ایک بڑا مقصد بھی ہے، اور ایک خاص مناسبت بھی، مقصد امکانی عروج و ارتقا کی طرف بھر پور توجہ دلانا ہے، اور مناسبت یہ ہے کہ روحانی اور عقلی ترقی کا انحصار چار اصل کی معرفت پر ہے، اور وہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس ہیں۔
۲۔ معرفت کا روشن ثبوت (۲۷: ۹۳): سورۂ نمل بھی روحانی اور قرآنی عجائب و غرائب کی ایک کائنات ہے، وہ اپنی تمام آیات میں پھیلی ہوئی ہے، مگر آخری آیت میں بطورِ خلاصہ ولُبِّ لُباب لپیٹی ہوئی ہے، وہ ارشادیہ ہے: اور تم کہہ
۱۰۶
دوکہ الحمد للہ وہ عنقریب تمھیں اپنی آیات (معجزات) دکھا دے گا تو تم انھیں پہچان لوگے اور جو کچھ تم کرتے ہو تمہارا پروردگار اس سے غافل نہیں ہے (۲۷: ۹۳) سب سے بلند ترین آیات عالمِ علوی میں ہیں، جیسے کلمۂ باری (کُنْ = ہوجا) قلم، لوح، عرش، کرسی ، وغیرہ، لیکن مشاہدہ اور معرفت سے کسی عظیم چیز کو مستثنا رکھے بغیر خدائی حکم ہوا کہ تم نیک عمل کرتے رہو جیسا کہ چاہئے، ہم تمھیں آفاق وانفس میں اپنی آیات دکھاتے رہیں گے، یہاں تک کہ تم کو حق الیقین کی معرفت حاصل ہو (۴۱: ۵۳)۔
۳۔ کلمۂ “کن” کی معرفت: آیاتِ کُبریٰ میں سب سے پہلے امرِکُلّ ہے، یعنی فرمانِ الٰہی، جوکُنْ سے عبارت ہے، یہ اصل کلمہ کے بے شمار مفہومات میں سے ایک مفہوم ہے، چونکہ زبانوں کا اختلاف بھی آیاتِ قدرت میں سے ہے (۳۰: ۲۲) لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ ہر زبان میں بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت کلمۂ کُنْ موجود ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کبھی اللہ نے کوئی پیغمبر بھیجا تو خدا اس سے اس کی قوم کی زبان میں باتیں کرتا تھا (۱۴: ۰۴) اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا بدرجۂ اعلیٰ کلام کرنا کلمۂ “امر” میں ہے، پس اس سے ظاہر ہوا کہ کلمۂ کُنۡ اور اس کی ترجمانی ہر زبان میں ہے، کیونکہ وہی تمام الفاظ و معانی کا سرچشمہ اور مرکز ہے، جس طرح ہمیشہ سنت الٰہی یہی رہی ہے کہ ایک آدم کی پشت سے سارے آدمی دنیا میں پھیل جاتے ہیں، اور پھر دوسرے آدم میں ملفوف و مجموع ہوجاتے ہیں، اسی طرح عالمِ شخصی کے تجدّدِ امثال میں ساری باتیں کُنْ سے منتشر ہوجاتی ہیں، اورکُنْ ہی میں سمٹ جاتی ہیں ۔
۴۔ فرشتۂ عقل کی معرفت: عقلِ کُل عظیم فرشتہ ہے، یہی قلمِ قدرت اور نورِ ازل بھی ہے، یہی وہ خورشیدِ انور ہے، جس کو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اپنی پیکرِ نورانی
۱۰۷
سے طلوع و غروب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں، جس میں عالمِ عقلانی کی تعمیر و ترقی کا راز مضمر ہے، اگر آپ ظاہری سورج کے چھوٹے بڑے کائناتی فیوض و فوائد کو شمار کرنا چاہیں تو یہ کام ممکن ہی نہیں، پھر شمسِ عقل کی برکتوں سے جتنی نعمتیں وجود میں آتی ہیں، ان کو کون گن سکتا ہے، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ کائناتیں تین ہیں: کائناتِ ظاہر، کائناتِ روحانی، اور کائناتِ عقلانی، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم میں سب سے پہلے عقلی چیزوں کا تذکرہ ہے، پھر روحانی اشیا کا، اور آخر میں مادّی اشیا کا ذکر ہے، اور ممکن ہے کہ کسی مقام پر مادّیت کو اہمیت نہ دی گئی ہو، مثال کے طور پر آسمان، سورج، چاند، ستارے، بادل، برق، رعد، وغیرہ، یہ چیزیں سب سے پہلے عالمِ عقل سے متعلق ہیں، یہی مثال زمین، پہاڑ، اور سمندر کی چیزوں کے بارے میں بھی ہے۔
۵۔ فرشتۂ نفس (روح/جان) کی معرفت: نفسِ کُل دوسرا عظیم فرشتہ ہے، یہی لوحِ محفوظ اور اُمّ الکتاب بھی ہے، اور وہ زمین بھی جس سے آسمان الگ کرکے بلند کیا گیا (۲۱: ۳۰؛۵۵: ۰۷) جو ارضِ مبارک ہے (۲۱: ۷۱) جہاں زمان و مکان کی کُل مسافتیں سمٹ سمٹ کر ختم ہوجاتی ہیں، کیونکہ یہ طوٰی کی پاک وادی ہے (۲۰: ۱۲) جس میں پہنچ جانے پر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے فرمایا گیا کہ اب روحانی جوتے اتارو کیونکہ سفر ختم ہوا، اور یہ منزلِ مقصود ہے، جبکہ اسی مقام پر سب کچھ موجود ہے، یہ سارے معانی لفظ طوٰی میں پوشیدہ ہیں، جس میں نطوی (۲۱: ۱۰۴) اور مطویّات (۳۹: ۶۷) کی طرح کائناتِ باطن کو لپیٹ کر یکجا دکھانے کا ذکر ہے۔
عقلِ کُل جہاں عرش ہے، نفسِ کُل وہاں کرسی ہے، اور کرسی کی ایک صفت یہ ہے کہ اس نے خدا کی قدرت سے آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر گھیر لیا ہے، اس عمل کا
۱۰۸
تصوّر دو طرح سے ہے:
پہلا: آفتابِ نور جو کائنات اور ہر چیز کا نمائندہ ہے نفسِ کلّی میں غروب ہوجاتا ہے۔
دوسرا: کرسی یا نفسِ کُل جو روحِ اعظم ہے، اس کے سمندر میں کائنات ڈوبی ہوئی ہے، اسی طرح خدا کی کرسی ارض و سماء پر محیط ہے۔
۶۔ فرشتۂ عرش کی معرفت: خدائے علیم و حکیم کی طرف سے سب سے بڑا اور مشکل ترین امتحان معرفت ہی ہے، بالخصوص عرش اور صاحبِ عرش کی معرفت، لیکن جہاں کوئی امتحان مقصود ہوتا ہے، وہاں اس میں کامیابی کی غرض سے تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہمیں نورِ ہدایت کی روشنی میں خوب سوچنا چاہئے کہ آیا عرشِ الٰہی عقل و جان کی انتہائی خوبیوں اور علم و حکمت کے بے مثال کمالات کے سوا کسی اور انمول شیٔ سے مزین و آراستہ ہوسکتا ہے؟ کیا قرآن کا تذکرۂ عرش کائناتِ ظاہر سے متعلق ہے؟ یا اس کا تعلق عالمِ شخصی سے ہے؟ اگر آپ نے مان لیا کہ یہ عالمِ شخصی ہی کی روحانی ترقی کا قصّہ ہے، تو پھر سمجھ لینا کہ اب یہ مسئلہ حل ہونے لگا، کیونکہ حقیقت این جانب ہے، جی ہاں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ارض و سما کی تخلیق کی، پھر اس نے عرش پر اِستواء فرمایا، اِستواء کے کئی معنی بیان ہوئے ہیں، مگر ہم یہاں یہ عرض کریں گے کہ خدا نے عرش کو دستِ قدرت میں لے لیا، کیونکہ عرش عقل اور قلم ہے، جو قبضۂ قدرت میں ہوتا ہے، تاکہ عقلی تحریروں سے مساواتِ رحمانی کے لئے کام کیا جائے ، پس عرشِ عظیم سے نورِ عقلِ کُل مراد ہے، اور حاملانِ عرش سے حاملانِ نور مراد ہیں، اور وہ حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جن
۱۰۹
کے عالمِ شخصی میں عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ کا ظہور و مظاہرہ ہوتا ہے۔
۷۔ المثل الاعلیٰ (۱۶: ۶۰) کی معرفت: ذاتی دنیا کے عالمِ علوی میں ایک انتہائی جامع الجوامع اور لاثانی مَثَل (کہاوت، مثال) ہے، جو کلمۂ کُنۡ، عقلِ کلّ، گوہر، اور نفسِ کُلّ سے بطریقِ تجدّدِ امثال ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے، جس میں تمام علم و معرفت کے خزانوں کی کلیدیں گھیری اور لپیٹی ہوئی ہیں، چنانچہ اسرارِ الٰہی کا خزینۂ خزائن اسی مقام پر مخفی ہے، مثال کے طور پر یہ بھید کتنا عجیب و غریب ہے کہ عقلِ کلّی نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) یعنی نفسِ کلّی کے ساتھ ایک بھی ہے اور الگ بھی، جیسے مظاہرۂ گوہر سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے، اسی طرح ناطق اور اساس بھی انائے علوی سے نفسِ کلّی میں ہیں، مگر شخصیّت میں جدا ہیں، اب جبکہ ان کی متحدہ پیکرِ نورانی سے آفتابِ علم و حکمت طلوع ہوجاتا ہے، تو آپ اس نور کو بتقاضائے حکمت سب سے یا کسی ایک سے منسوب کرسکتے ہیں، بلکہ یہ وحدت ایسی ہے کہ اس میں عرش، کرسی، قلم، لوح، اور دوسرے تمام حقائق ایک ہیں، اور یہی نظریۂ “یک حقیقت” (MONOREALITY) کا اوّلین اور رہنما نمونہ ہے۔
۸۔ عِلّیّین اور کتابِ اَبرار (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) کی معرفت: ارشاد ہے (ترجمہ): ہر گز ایسا نہیں، بیشک نیکوکاروں کا نامۂ عمل عِلّیّین میں ہے، اور تم کو کیا معلوم کہ عِلّیّین کیا ہے، وہ ایک لکھا ہوا دفتر ہے، (جس میں نیکوں کے اعمال درج ہیں) اس کے پاس مقرب لوگ حاضر ہوجاتے (یعنی اس کو دیکھتے ہیں) اس عظیم الشّان حکمت میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، کہ عِلّیّین عقلِ کلّی، نفسِ کلّی، ناطق اور اساس ہیں، جونہ صرف خود ہی لکھا ہوا دفتر ہیں، بلکہ اسی دفتر میں مومنین کا
۱۱۰
نامۂ اعمال بھی محفوظ ہے، اس کتابِ مرقوم کو جس کا نام عِلّیّین ہے مقربین دنیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں، اور یہی رازِ معرفت ہے۔
۹۔ کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲؛۲۹: ۴۵) کی معرفت: امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ و سلامہ ظاہری ہدایت کی مرتبت میں بھی اور درجۂ روحانیّت و قیامت میں بھی بولنے والی کتاب ہیں، چونکہ کتابِ ناطق قربِ خداوندی کے خاص مقام پر ہے (لَدَیْنَا ۲۳: ۶۲) لہٰذا اس کی نورانی معرفت کسی شخص کو صرف روحانی ترقی ہی سے حاصل ہوسکتی ہے، جو امامِ عالیمقامؑ کی فرمانبرداری سے وابستہ ہے، اس بارے میں یہ نکتہ زیادہ سے زیادہ قابلِ توجہ ہے کہ جو نیک بخت لوگ جسمانی زندگی ہی میں حضرتِ عزرائیلؑ اور اس کے لشکر کے عمل سے گزر کر ذاتی قیامت کے احوال کو دیکھتے ہوں، وہی لوگ بولنے والی کتاب کے روحانی اور عقلی عجائب و غرائب کا احساس و ادراک کرسکتے ہیں، کیونکہ آیۂ مبارک: یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمْ (اس دن (کو یاد کرو) جب ہم تمام لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے ۱۷: ۷۱) کا تعلق انفرادی قیامت سے بھی ہے، جس میں اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوا کرتی ہے، پس معرفتِ آیات و معجزات کا وسیلہ یہی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
۱۸؍ربیع الثّانی ۱۴۱۰ھ
۱۸؍نومبر۱۹۸۹ء
۱۱۱
حکمتِ اضداد
۱۔ آدم و حوّا کی مثال (۳۹: ۰۶): یقیناً اسی امر میں سرِّحکمت اور رازِ مصلحت پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا، پھر آپؑ سے بی بی حوا علیہا السّلام کو عرصۂ وجود میں لایا، پھر ان دونوں عظیم المرتبت ہستیوں سے بے شمار انسانوں کو پیدا کیا، اور یہیں سے زَوْجَیْن (دوجوڑے ۵۳: ۴۵) کا قانون نمایان ہونے لگا، اور خوب یاد رہے کہ قانونِ ضِدَّیْن یہی ہے، اور اس اصول سے کوئی چیز باہر نہیں ہوسکتی، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۳۶) میں خدا وندِ عالم کا یہ ارشاد ہے: وہ (مخلوق کی ہر صفت سے پاک ہے جس نے زمین سے اُگنے والی چیزوں اور خود ان لوگوں کے اور ان چیزوں کے جن کی انھیں خبر نہیں سب کے جوڑے پیدا کئے۔ آپ قرآنِ کریم میں اس پر حکمت موضوع کو کما حقہ پڑھ لیں۔
۲۔ جفت بسیط: عقلِ کُل اور نفسِ کُل جفت بسیط کہلاتے ہیں، یعنی ایسے دوجوڑے جو کائنات پر محیط ہیں، جن کی نورانی لہروں کے زیرِ اثر تمام چیزیں دو دو ہوگئی ہیں، اس قانون کا اطلاق نہ صرف نر ومادہ ہی پر ہوتا ہے، بلکہ اس کا تعلق ہر دومتضاد و مخالف چیزوں سے بھی ہے، جیسے دن رات، حیات و ممات، آسمان اور زمین، اور دوسری سب اضداد، جن میں لا تعداد حکمتیں پنہان ہیں، اور یہ ساری حکمتیں مجمع البحرین میں منعکس ہوتی رہتی ہیں، یہ وہی مقام ہے، جہاں عقلِ کلی اور نفسِ کلی ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں (۱۸: ۶۰) (مَرج البحرَین ۵۵: ۱۹)۔
۱۱۲
۳۔ خدا کے دونوں ہاتھ: سورۂ مائدہ میں ہے: بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ (۰۵: ۶۴) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں ۔ یعنی عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ، دوسرے اعتبار سے ناطق اور اساس، تیسرے اعتبار سے امام اور باب اللہ کے دونوں ہاتھ ہیں، کیونکہ فعلِ خداوندی کا ظہور مظاہر سے ہوتا ہے، جیسے فرشتۂ قلم، فرشتۂ لوح، اور دیگر فرشتوں کی مثال ہے، اور جس طرح آنحضرتؐ مظہرِ دستِ خدا تھے (۰۸: ۱۷؛۴۸: ۱۰) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اعضا و جوارح کے تصوّرسے پاک و برتر ہے، پس عقلِ کلّی نورِ نبوّت ہے، اور نفسِ کلّی نورِ امامت، چنانچہ خدا کے یہ دونوں ہاتھ ہمیشہ اور ہر دم عالمِ شخصی کو آسمانوں اور زمین کی حدود تک پھیلا کر پھر اسے نقشِ کائنات سمیت لپیٹ دیتے ہیں، اور یہ عملِ عظیم جس میں بے حساب حکمتیں ہیں، ہر وقت جاری و ساری ہے، تاکہ دُور کی بہشت اور سلطنت نزدیک لائی جائے۔
۴۔ ضِدَّیْن (دومخالف چیزیں): ضدین ایک دوسرے سے بنائی جاتی ہیں، جیسے مرد اور عورت بلحاظِ جنس ایک دوسرے کے برعکس ہیں، اوراسی تضاد کی بدولت مرد شوہر بن جاتا ہے، اور خاتون بیوی کہلاتی ہے، اور یہ دونوں نام کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر ایک ساتھ شروع ہوجاتے ہیں، چنانچہ یہ راز تو ظاہر ہے کہ حضرتِ آدمؑ سے حضرتِ حوّا کا وجود بنا، مگر یہ بھید صرف خواص ہی جانتے ہیں کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے بنانے کی خدائی حکمت دونوں طرف برابر برابر تھی، اور یہی حال عقلِ کُلّ اور نفسِ کُلّ کا بھی ہے، کہ وہ قلم اور لوحِ محفوظ ہیں، جن کا عملی وجود ایک دوسرے سے ہے۔
۵۔ نقشۂ اضداد اور تجدّدِ امثال: ذاتِ سبحان کے سوا جو کچھ
۱۱۳
بھی ہو، وہ کسی نہ کسی پہلو سے ایک ضد ضرور رکھتا ہے، اور اسی میں بڑی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہوا کرتی ہیں، مثال کے طور پر نقشۂ ذیل میں غور سے دیکھیں:
اضداد کا لاابتدا و لا انتہا ادل بدل
لاابتدا | روزِ ازل | شبِ ابد | روزِ ازل | شبِ ابد | لا انتہاء |
“ | ازل | ابد | ازل | ابد | “ |
“ | عقلِ کل | نفسِ کل | عقلِ کل | نفسِ کل | “ |
“ | ناطق | اساس | ناطق | اساس | “ |
“ | اول | آخر | اول | آخر | “ |
“ | ظاہر | باطن | ظاہر | باطن | “ |
“ | مکان | لامکان | مکان | لامکان | “ |
“ | بقا | فنا | بقا | فنا | “ |
“ | کثرت | وحدت | کثرت | وحدت | “ |
“ | بسط (۲: ۲۴۵) | قبض (۲: ۲۴۵) | بسط | قبض | “ |
“ | فتق | رتق | فتق (۲۱: ۳۰) | رتق (۲۱: ۳۰) | “ |
“ | خلق (۷: ۵۴) | امر (۷: ۵۴) | خلق | امر | “ |
۶۔ نقشۂ اضداد کی وضاحت: سورۂ معارج کے ارشاد (۷۰: ۰۴) کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک ایسا دن (دَور) بھی ہے، جو لوگوں کے حساب سے ۵۰۰۰۰ (پچاس ہزار) برس کا ہے، مگر ممکن ہے کہ یہی عرصۂ طویل مقامِ عقل پر
۱۱۴
سمٹ سمٹ کر کم و بیش پانچ سیکنڈ کا ہو، جس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہاں مکان و زمان کی بے پناہ مسافتیں لپیٹ لی جاتی ہیں (۳۹: ۶۷) دوسری وجہ یہ کہ اس جگہ مومنینِ بایقین کا نور برق رفتاری سے اپنا کام کرنے لگتا ہے(۵۷: ۱۲) اور تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ دارالابداع ہے، جہاں ہر کام براہِ راست امرِ “کُنۡ” سے کسی تاخیر کے بغیر انجام پاتا ہے (۳۶: ۸۲) الغرض عالمِ شخصی میں ازل و ابد کا تجدّدِ امثال ہونے لگتا ہے، اور یہیں سے قانونِ اضداد کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے، مثلاً روزِ ازل کے ساتھ ساتھ شبِ ابد کیوں ضروری ہے؟ اس نقشے میں دیکھ کر بتائیں، کہ آیا ابد سے قبل ازل اور ازل سے پہلے ابد نہیں ہے؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ ہاں، ایسا ہی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ازل و ابد جو باہم ضد ہیں، وہ ایک دوسرے سے پیدا ہوئیں، اور یہ دائرۂ مستدیر پر واقع ہیں، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہاء۔
۷۔ قرآنی حقائق و معارف کا تعلّق: امرِ واقعی یہی ہے کہ قرآنِ حکیم کے حقائق و معارف کا زیادہ سے زیادہ تعلق عالمِ شخصی سے ہے، چنانچہ تخلیقِ ارض و سما، ظہورِ عرش و کرسی، واقعۂ قلم و لوح، حکایاتِ انبیاءؑ ، قصۂ اصحابِ کہف، تذکرۂ ذوالقرنین وغیرہ کا باطنی پہلو پرسنل ورلڈ (عالمِ صغیر) میں ہے، اور ہر انسانِ کامل ایک مکمل کائنات ہے، جس کا روحانی سفر ڈائل (DIAL) یا دائرے کی طرح ہے، وہ اس مثال میں نقطۂ آغاز یا زیرو یا صفر سے روانہ ہوکر ۱۸۰ ڈگری تاریکی میں اور ۱۸۰ ڈگری روشنی میں چلتا ہے، اور اسی سٹارٹنگ پوائنٹ پر پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اس نے یہ سفر شروع کیا تھا، اب اس جگہ ۳۶۰ ڈگری ہوجاتی ہے، جیسے: ۳۶۰۰، تب اس کے دل و دماغ میں آفتابِ نورِ ازل طلوع ہوکر حقائق و معارفِ ازلی و ابدی کا تجدّدِ امثال
۱۱۵
ہونے لگتا ہے۔
۸۔ اس نقشے کی حکمتیں: اس میں جو جو الفاظ و اصطلاحات درج ہوئے ہیں، ان سے آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس میں بہت سی حکمتیں پنہان ہیں، مثال کے طور پر یہ سوال ہے: لفظِ فَتْق و رَتْق کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ اور یہ یہاں اس ترتیب میں کیوں رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں رَتْق کے بعد فَتْق ہے؟
جواب: رتق کے معنی ہیں، منہ بند ، جڑا ہوا، اور فتق کے معنی ہیں شگافتہ کرنا ، قرآنِ پاک میں ہے کہ: آسمان اور زمین دونوں جڑے ہوئے تھے تو خدا نے دونوں کو شگافتہ کیا (۲۱: ۳۰) یعنی دونوں ایک تھے، پھر اللہ نے ان کو الگ کردیا، اور نقشے سے ظاہر ہے کہ پھر اس نے آسمان و زمین کو ایک کیا، پس یہ آسمانِ عقلِ کلّی اور زمینِ نفسِ کلّی کی بات ہے کہ نورِ عقل اس زمین کے اندر غروب ہوجاتا ہے، اور طلوع ہوجاتا ہے، اور یہ عمل ہمیشہ جاری ہے، چونکہ یہ کلیدی اور اصولی حکمت ہے، اس لئے اس کے سمجھنے سے کسی مومن کے عام نظریات میں انقلاب آسکتا ہے، اب آپ ہی بتائیں کہ “رَتْق” نفسِ کُلّ اور اساس کی طرف ہونا چاہئے، یا نہیں؟
۹۔ بہشت کے دو دو میوے (۱۳: ۰۳؛۵۵: ۵۲): یہی مضمون علمی علاج (کتاب العلاج)، ص ۳۸۲ پر بھی شروع ہوجاتا ہے، جنت کے روحانی، نورانی، عرفانی، علمی ، اور عقلی میوے جوڑے جوڑے اس معنیٰ میں ہیں کہ ہر جفت پھل نر و مادہ کی مثال پر بہت سے پھلوں کو جنم دے سکتا ہے، اور یہ بات البتّہ اہلِ جنت کی خواہش و کوشش پر منحصر ہے کہ وہ دو باتوں سے کئی منطقی نتائج نکالیں، بہشتِ برین
۱۱۶
میں بتائیدِ الٰہی یہ کام آسان ہے۔
۱۰۔ قرآنی بہشت کے ثمرات: قرآنِ عزیز فردوسِ علم و حکمت سے ہے، لہٰذا اس میں بھی تمام کی تمام جفت جفت نعمتیں موجود ہیں، مثال کے طور پر کتاب: کتابِ صامت اور کتابِ ناطق، نور: نورِ نبوّت اور نورِ امامت، علم: علمِ ظاہر اور علمِ باطن، نعمت: نعمتِ روحانی اور نعمتِ عقلانی، کشتی (فُلک): کشتیٔ آب اورکشتیٔ علم، آسمان: آسمانِ جسمانی اور آسمانِ روحانی، زمین: زمینِ ظاہر اور زمینِ باطن، وغیرہ ، جیسا کہ سورۂ لقمان میں خداوندِ عالم کا ارشاد ہے: کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے، اور جو کچھ زمین میں ہے، (غرض سب کچھ) اللہ ہی نے یقیناً تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں (۳۱: ۲۰) اس روح پرور اور ایمان افزا ربّانی تعلیم کا براہِ راست تعلق اس جامع الجوامع نعمت سے ہے، جس کا ذکر دین کے مکمل ہونے پر فرمایا گیا تھا ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ۔۔۔ ۰۵: ۰۳) الغرض حکمتِ اضداد کا قرآنی موضوع علمی بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، جس کی بیمثال نعمتیں ازلی و ابدی ہیں، آپ ہمیشہ اور ہر وقت حسنِ توفیق کے لئے دعا کرتے رہیں۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
جمعرات ۲۳؍ربیع الثانی۱۴۱۰ھ، ۲۳؍نومبر۱۹۸۹ء
۱۱۷
عقل آدم اور روح حوّا
۱۔ خزینۂ قرآن: جب خزائنِ الٰہی بے پایان ہیں (۱۵: ۲۱؛۳۱: ۲۷) تو پھر خزینۂ قرآن کے علمی عجائب و غرائب کیسے ختم ہوسکتے ہیں، اگر اس مبارک پہاڑ سے ہر وقت تازہ بتازہ جواہرِ گرانمایہ مل جاتے ہیں اور یہ پاک سمندر ہمیشہ انمول موتیوں سے بھرا رہتا ہے، تو آئیے ہم اپنی زندگی کے ایک خاص حصّے کو اس دولتِ سماوی کے حصول کے لئے وقف کردیں، ہمارے لئے سعادتِ دارَین اسی میں ہے کہ قرآن اور امامؑ سے وابستہ رہیں، تاکہ ہم اسرارِ خداوندی سے بانصیب ہوجائیں، یہ اس وقت ممکن ہے، جبکہ ہم نورِ ہدایت کی روشنی میں قرآنِ حکیم کا بطریقِ احسن فکری مطالعہ کریں۔
۲۔ جفت جفت حکمتیں: آپ نے “حکمتِ اضداد” کا مضمون پڑھا ہوگا، اور دیگر موضوعات میں بھی ایسے کئی نکات نظر سے گزرے ہوں گے، اور نتیجے کے طور پر آپ کو اس حقیقت کا یقین حاصل ہوا ہوگا کہ ہر حکمت دراصل طاق نہیں جفت ہوا کرتی ہے، مثال کے طور پر انسان کی خودی (انا) بظاہر ایک مانی جاتی ہے، لیکن روحانی علم کی روشنی میں تحقیق کی گئی ہے کہ انائے علوی اور انائے سفلی دو ہیں، کیونکہ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ ایک تو اصل چیز ہے اور دوسرا اس کا سایہ (۱۶: ۸۱) چنانچہ وہ انسانی حقیقت جو عالمِ علوی (عالمِ امر) سے ازلی و ابدی وابستگی رکھتی ہے، اور لمحہ بھر کے لئے بھی الگ نہیں ہوسکتی، انائے علوی کہلاتی ہے، اور اس کا سایہ جو عالمِ خلق
۱۱۸
میں آیا ہے، انائے سفلی ہے۔
۳۔ حضرتِ آدمؑ کی دو انائیں: آدم و بنی آدم کی دودو انائیں علمی بہشت کے دو دو میوؤں میں سے ہیں، لیکن کیسے دو دو؟ آیا اسی طرح کہ نظر ڈالتے ہی معلوم ہوجائے کہ یہ دو چیزیں ہیں اور بس؟ نہیں، ایسا نہیں دانۂ گندم، یاکوئی اور بیج، یا اخروٹ بظاہر ایک ہوتا ہے، لیکن اس کے اندر ایک حصۂ نر اور ایک حصۂ مادہ دوہیں، جس کو علم والے ہی جانتے ہیں، چنانچہ حضرت آدم علیہ السّلام کی دو انائیں تھیں، آپؑ انائے علوی سے بہشت ہی میں رہ گئے، اور انائے سفلی سے دنیا میں بھیجے گئے، پس اکثر لوگوں نے خلیفۂ خدا کو نہیں پہچانا، جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، آپؑ میں خدائی روح پھونک دی گئی تھی روح کہیں یا نور، اس کے جسمِ بشری میں آنے کی مثال ایسی ہے، جیسے آسمان میں خورشیدِ انور اور زمین پر کسی آئینے میں اس کا عکس، شاید یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ پھر حضرت آدمؑ کی گریہ و زاری اور توبہ کا کیا مقصد تھا؟
جواب: مقصد چندان مختلف نہیں، کیونکہ ایک حقیقی مومن بھی تقریباً وہی گریہ و زاری اور توبہ کرتا ہے، تاکہ بہشت اور اپنی انائے علوی کو دیکھ سکے۔
۴۔ روح کا بالائی سرا اور زیرین سرا: ارشادِ ربّانی ہے: وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (۸۱: ۰۷) اور جس وقت روحیں دودو ہوں گی۔ یعنی جب قیامت اور کشفِ روحانیّت سے اس بات کا علم ہوگا کہ ہر روح کے پس منظر میں ایک اور روح موجود ہے، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۳۶) میں فرمایا گیا ہے کہ لوگوں کی روحیں دو دو ہیں، پس ایک انائے مستقر ہے اور دوسری انائے مستودع (۰۶: ۹۸) تاکہ روح کا بالائی سِرا درخت کی طرح عالمِ امر میں برجا رہے، اور دوسرا سِرا سائے کی طرح عالمِ خلق
۱۱۹
میں آجائے (۱۶: ۸۱)۔
۵۔ روحِ اعظم اور اس کا سایہ: جب ہم “انائے علوی” کے قائل ہیں، تواس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ کوئی معمولی سی ہستی ہے، بلکہ ہمارا یقین تو یہ ہے کہ وہ سب سے بڑی روح ہے، وہ ایک ہے، مگر نفسِ واحدہ ہونے کے سبب سے سب ہے، جس طرح کتابِ “روح کیا ہے؟” میں دوسری بہت سی حقیقتوں کے علاوہ یہ ذکر بھی ہوا ہے کہ ہر روح بے شمار روحوں کا مجموعہ ہوا کرتی ہے، اس لئے وہ اپنی ذات میں ایک کائنات ہے، پس اسی دلیل سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ نفسِ واحدہ میں سب جمع ہیں، اور اس دنیا کا ہر شخص اس کا سایہ ہے، چنانچہ یہ مثال قابلِ توجہ ہے کہ سایہ جوں جوں درخت سے قریب تر ہوتا رہتا ہے، توں توں اس کی تاریکی کم ہوتی جاتی ہے، یہ اس حقیقت کی طرف بڑا عمدہ اشارہ ہے کہ آدمی جیسے جیسے علم و معرفت میں آگے بڑھ جاتا ہے، ویسے ویسے روحِ کلّی سے نزدیک تر ہوجاتا ہے، اور جب وہ شمس الانوار کو دیکھتا ہے، تو اس کی اپنی معرفت نور کی معرفت ہونے لگتی ہے۔
۶۔ عقل اور جان نمونۂ آدم و حوّا: عالمِ شخصی میں بھی آدم و حوّا ہیں، اور وہ ہیں عقل و روح، جن کی اعلیٰ معرفت حضرتِ ابوالبشرؑ کی معرفت ہے، یہی وجہ ہے، جو ارشاد ہوا: اس میں تو شک ہی نہیں کہ ہم نے تم کو (جسمانی طور پر) پیدا کیا پھر تمہاری (روحانی اور رحمانی) صورتیں بنالیں پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدمؑ کو سجدہ کرو (۰۷: ۱۱) یہ دوستانِ خدا یعنی عارفین ہیں، جو منازلِ معرفت اور تجدّدِ امثال کے سلسلے میں واقعۂ آدمؑ سے گزرتے ہیں، جو عجائب و غرائب سے پُر اور کلیدی حکمتوں سے مملو ہے۔
۱۲۰
۷۔ حضرتِ آدمؑ اور بہشت: جب آدم علیہ السّلام میں خدائی روح پھونک دی گئی، تو اسی کے ساتھ عقل و جان کی نعمتوں کی جنت آپؑ میں داخل ہوئی، یعنی یہ روح نور ہی ہے، جس میں کائناتی بہشت کی سلطنت پوشیدہ ہوتی ہے، چنانچہ فرشتوں نے حضرت آدمؑ کو جنت میں دو دفعہ سجدہ کیا، پہلی بار عالمِ ذرّ میں، اور دوسری بار مقامِ عقل پر، شروع شروع میں ملائکہ نورانی ذرّات کی شکل میں تھے ، لیکن مرتبۂ عقل پر ایک کامل متحدہ نور، کیونکہ تمام بڑے بڑے فرشتوں کا جامع فرشتہ ایک ہی ہوتا ہے، وہی دو، اور سب کا سب ہے، اور خوب یاد رہے کہ یہی قانون بڑی بڑی روحوں کے لئے بھی ہے۔
۸۔ فرشتوں کا سجدہ کس نوعیت کا تھا؟: یہ سوال اس لئے پیدا ہوا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوقات اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کررہی ہیں، مگر ان میں سے اکثر موجودات وہ ہیں ،جو اپنے اپنے فعل کے معنی میں سجدہ کرتی ہیں، اور فرشتوں کے بارے میں آپ کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ آیا وہ جہاں ذرّۂ نور ہیں یا کامل نور ہیں وہاں وہ پیشانی سے سجدہ کرتے ہیں؟ یا تابعداری سے؟ اور اس میں بھی غورکرنا لازمی ہے کہ حضرتِ یوسفؑ کے والدین تخت (عرش ۱۲: ۱۰۰) سے آپؑ کے سجدے میں کیوں گرپڑے؟ اس میں کیا راز ہے؟ یاد رہے کہ فرشتوں کے ایک یا دو رسمی سجدوں سے خلافتِ آدم کا مقصدِ اصلی پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ لہٰذا انھوں نے بحکمِ خدا عالمِ شخصی میں بھی اور کائنات میں بھی روح اور عقل کے مقام پر حضرتِ آدمؑ کی اطاعت کی، جس سے تمام معنوں میں خلافتِ الٰہیہ ثابت ہوئی، سجدہ کی مثالوں کے لئے دیکھئے: (۱۳: ۱۵؛۱۶: ۴۹؛۲۲: ۱۸)۔
۱۲۱
۹۔ آدم و حوّا پانچ قسم کے ہیں: عالمِ کبیر میں عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی، دورِ اعظم میں آدم و حوّا، دورِ نبوّت میں ہر ناطق اور اساس، دورِ امامت میں ہر امام اور باب، اور عالمِ صغیر میں عقل و روح آدم و حوّا ہیں، تاکہ خلافتِ کبریٰ اور خلافتِ صغریٰ سے متعلق خداوندِ عالم کا جو وعدہ ہے، وہ پورا ہوجائے (۲۴: ۵۵) اور معرفت و علمِ روحانی کا دروازہ ہر زمانے میں کشادہ رہے، کیونکہ دینِ اسلام میں کوئی تنگی (حرج ۲۲: ۷۸) نہیں، جبکہ یہاں ہمیشہ نورِ ہدایت موجود ہے، اور جبکہ قرآنی علم و حکمت کے خزائن سامنے ہیں (۰۵: ۱۵)۔
۱۰۔ والد اور ولد (۹۰: ۰۳): باپ اور بیٹا ، یہ دونوں نام نور کے ناموں میں سے ہیں، کیونکہ نور عالمِ شخصی میں ایک جانب سے باپ ہے، اور دوسری جانب سے اولاد، چنانچہ حضرتِ یوسف علیہ السّلام نے عالمِ شخصی کے روحانی عروج و ارتقاء کے سلسلے میں نور اور اس کے حجتِ اعظم (باب) کو تختِ عقل (عرش ۱۲: ۱۰۰) پر بٹھا دیا ، تب ان دونوں نے جوشمس و قمر بھی کہلاتے تھے (۱۲: ۰۴) آپؑ کو سجدۂ اطاعت کیا، جیسے ملائکہ نے حضرت آدمؑ کو یہ سجدہ کیا تھا، یاد رہے کہ حضرتِ یعقوب اور حضرتِ یوسف علیہما السّلام امامانِ مستودع کے سلسلے میں تھے۔
۱۱۔ قیامت کے دن ہر نسب ختم ہوجائیگا (۲۳: ۱۰۱): ارشاد ہے: پھر جس وقت صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ لوگوں میں قرابت داریاں رہیں گی اور نہ ایک دوسرے کی بات پوچھیں گے (۲۳: ۱۰۱) یہ ایک رازِ سربستہ ہے، کہ جب بھی کسی آدم کی ذاتی قیامت برپا ہوئی، تو اس میں اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوا کرتی ہے، اور آدمِ زمانؑ میں تمام دنیا والوں کا باطنی اور روحانی حشر ہو جاتا ہے، پھر
۱۲۲
نشر ہو جاتا ہے، یعنی اسرافیل کی دعوت پر ارواحِ خلائق جمع ہوجاتی ہیں، اسی کے ساتھ جملہ ارواح آدمِ حاضر و موجود کی ذرّ یت قرار پاتی ہیں اور ان کی سابقہ قرابت ختم ہوجاتی ہے، پھر یہ ساری روحیں اپنے اپنے جسم میں واپس ہوجاتی ہیں، یہ ہوا حشر اور نشر کا ایک نمونہ، اگلے نسب کا خاتمہ، اور نئے نسب کا آغاز۔
۱۲۔ سنتِ الٰہی کا موضوع اور تصوّر: آیا آپ نے ان تمام آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کیا ہے،جو سنتِ الٰہی کے بھیدوں سے پُر ہیں؟ کیا خدا کی سنت و عادت وہ نہیں، جو اس کے خاص بندوں یعنی انبیاء و اولیاء میں ہو گزری ہے، اور حال و مستقبل میں بھی وہی ہوتی رہے گی؟ تو کیا اس میں بار بار روحانی قیامت برپا ہوجانے کا ذکر نہیں؟ ضرور اس میں یہی اشارہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی امر ایسا نہیں، جس کے وقوع پذیر ہوجانے کے لئے کوئی انتظار ہو، بلکہ اس کے حکم پر عمل ہوچکا ہے (۳۳: ۳۷)۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
بدھ ۲۹ ؍ربیع الثّانی ۱۴۱۰ھ
۲۹؍نومبر۱۹۸۹ء
۱۲۳
حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن
۱۔ حواسِ ظاہر پانچ ہیں: دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا، اور چھونا، جن کو باصرہ ، سامعہ، شا مہ، ذائقہ، اور لامسہ بھی کہتے ہیں، ان میں سے ہرحس میں ایک طرف دوئی ہے، اور دوسری طرف وحدت، وہ یوں کہ آنکھیں دو ہیں، مگر ان کا فعلِ بینائی ایک ہی ہے، کان اگرچہ دو ہیں، لیکن قوتِ سماعت ایک ہے، نتھنے دو ہیں، اور خوشبوکا احساس ایک، منہ اور زبان بھی دو حصوں پر منقسم ہے، تاہم چکھ لینے کا نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے، اور اسی طرح ہاتھ دو ہیں، اور چھونے کے احساس میں وحدت ہوا کرتی ہے، تاکہ ہر دانشمند ظاہر و باطن اور کثرت و وحدت کے بارے میں کچھ غور کرے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسی بیمثال قوّت سے ممتاز و سرفراز فرمایا ہے، ورنہ ظاہری حواس کے پیشِ نظر آدمی سے حیوانات کہیں زیادہ قوّی ہیں، مثال کے طور پر بعض جانور جس طرح اندھیری رات میں دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح انسان نہیں دیکھ سکتا، اور نہ وہ بعض حیوانوں کی طرح سونگھنے کی زبردست قوّت رکھتا ہے، اور یہ حقیقتِ حال تقاضائے حکمت کے مطابق ہے، کیونکہ حیوان حواسِ ظاہر ہی میں محدود ہے، اور انسان زیادہ سے زیادہ حواسِ باطن کے لئے محتاج ہے، تاکہ وہ روحانی نعمتوں کو حاصل کرسکے۔
۳۔ حواسِ خمسۂ ظاہر پانچ حواسِ باطن کی مثال ہیں، نیز یہ پانچ حدودِ جسمانی کی دلیل ہیں، یعنی ناطق، اساس، امام، حجت، اور داعی، ان کے ظاہری اور باطنی دودو درجے ہیں، جس طرح حواسِ ظاہر دو طرفہ (دائیں بائیں) ہیں،جن کا
۱۲۴
شروع ہی میں ذکر ہوچکا، یہاں یہ نکتۂ دلپسند بھی خوب یاد رہے کہ جس طرح ظاہری حواس دو درجوں میں ہیں: حواسِ حیوانی، اور حواسِ انسانی، اسی طرح حواسِ باطن بھی دومرتبوں میں ہیں: حواسِ روحانی اور حواسِ عقلانی، آپ ان کو مُدرِکات بھی کہہ سکتے ہیں۔
۴۔ حواسِ باطن کی اصل حکمت یہ ہے کہ روحانی ترقی ہونے سے نورِ ناطق باصرۂ دل ہوجاتا ہے، نورِ اساس سامعۂ جان، نورِ امام شامّۂ روح، حجت ذائقۂ نہانی، اور داعی لامسۂ باطنی ہوجاتا ہے، کیونکہ حدودِ دین ہی اہلِ حقیقت کے باطنی حواس ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ نحل (۱۶: ۷۸) میں ہے: وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَ فْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ اور خدا نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر کرو۔ یہ حواسِ باطن ہیں، یعنی حدودِ دین ، جو روحانی بھی ہیں اور عقلی بھی، جن سے ایسی گرانمایہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں کہ ان پر ربِّ کریم کا شکر بیحد ضروری ہوتا ہے، ورنہ حواسِ ظاہر حیوان کے بھی ہیں، اور کافر کے بھی۔
۵۔ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: “اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں،پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے “قرآنی علاج (کتاب العلاج)، ص ۸۵” واللہ، خدا کا یہ کام حدودِدین ہی کے توسط سے ہوتا ہے، کیونکہ ذاتِ سبحان کسی آدمی کے اعضاء و جوارِح اور حواس بن جانے سے پاک و برتر ہے۔
۶۔ کتابِ “قرآنی علاج(کتاب العلاج)” میں عنوانِ ’’امواجِ نور کا
۱۲۵
تصوّر” کے تحت حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام کی ایک انتہائی پُرحکمت دعا کو دیکھئے ، جس کا ترجمہ اس طرح ہے: “یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کردے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں، اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے بھی نور مقرر فرما!” اس دعائے مبارک کا مطلب بھی حدیثِ تقرب ہی کی طرح ہے، کہ حدودِ دین کا نور بندۂ مومن کے باطن میں حواس و مُدرکاتِ نورانی کا کام کرتا ہے، اور خدا کی طرف سے نورِ ہدایت اسی مقصد کے لئے مقرر ہے۔
۷۔ اللہ تعالیٰ نہ کسی آدمی میں حلول۱ ہوجاتا ہے اور نہ کسی دوسری شیٔ میں، بلکہ اس نے اپنے حضورِ اقدس سے ایک نور کو بھیجا ہے، جس کا انتہائی حسین و جمیل تذکرہ تمام آیاتِ نور میں موجود ہے، یہی نور حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے توسط سے مومنینِ با یقین میں اپنا مقررہ کام کرتا ہے، جس کا فعل بوجہِ نمائندگی خدا کا فعل قرار پاتا ہے۔
۸۔جس طرح لوگوں کو اقرارِ نبوّت آسان ہے، مگر اقرارِ ولایت یعنی مولا علیؑ کی امامت کو تسلیم کرنا مشکل ہے، اسی طرح عینِ یقین سے ابتدائی انوار کا مشاہدہ آسان ہے، لیکن اُذُنٌوَّاعِیَۃٌ (یاد رکھنے والا کان ۶۹: ۱۲، جو اساس کا مرتبہ ہے) سے روحوں کی آوازیں سننا دشوار کام ہے، بلکہ یہ امرِ ناممکن ہے، جب تک کہ ذاتی قیامت برپا نہ ہوجائے، ہاں، جس وقت صورِ اسرافیل بجنے لگتا ہے، اور ارواح کا حشر ہوجاتا ہے، تو اسی وقت باطنی سماعت کا دروازہ کھل جاتا ہے، اور اساس کے مقابلے میں امام کی
؎۱: حلول: ایک چیز کا دوسری چیز میں اس طرح داخل ہو جانا کہ دونوں میں تمیز نہ ہو سکے (۲) تناسخ، آواگون۔
۱۲۶
شناخت زیادہ مشکل ہے، یہی سبب ہے کہ روحانی خوشبوؤں کا تجربہ بعد میں ہوتا ہے، اس بارے میں نقشۂ ذیل کو دیکھئے:
حواسِ باطن
ق | اساس | امام | حجت | داعی
|
باصرہ | سامعہ | شامّہ | ذائقہ | لامسہ |
دیکھنا؟ | سننا؟ | سونگھنا؟ | چکھنا؟ | چھونا؟ |
تمام روحانی مناظر | جملہ باطنی آوازیں | ساری روحی خوشبوئیں | ہر روحانی غذا | سب چھونے کی چیزیں |
دیکھو آیاتِ رویت | آیاتِ سماعت | آیاتِ خوشبو | آیاتِ غذائے روحانی | آیاتِ لمسِ باطن |
دیدار | کلام | بوئے یوسفی | من و سلوی | کتابِ مکنون |
تجلّیات | تلاوتِ روحانی | رِیاح/خوشبوئیں | مائدۂ عیسیٰؑ | گوہرِ عقل |
نتیجہ ؟ معرفت | ؟ معرفت—– | ؟ معرفت—– | ؟ معرفت—– | ؟ معرفت—– |
۹۔ سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸) کے مطابق انسان کا دائرہ نما سفر عالمِ علوی اور عالمِ سفلی کے درمیان واقع ہے، وہ اس سلسلے میں مثال کے طور پر سب سے پہلے جماد ہے، پھر نبات، پھر حیوان کے درجے میں آتا ہے، اس کے بعد انسانیت کے درجات میں داخل ہوجاتاہے، جن میں نہ صرف پشتِ پدر اور شکمِ مادر کے مختلف مراحل ہیں، بلکہ وہ جنم لینے کے بعد بھی نشو و نما کی کئی منزلوں کو طے کرتا ہے، وہ خلّیّات کی ایک کائنات بھی ہے، ارواحِ نباتی، ارواحِ حیوانی، اور ارواحِ انسانی کے تین مجموعوں کا مجموعہ بھی، وہ عالمِ ذرّ بھی ہے، اور تمام حدودِدین کا نمونہ بھی، یعنی وہ اپنی ذات میں جملہ حدودِ جسمانی و روحانی کو پاتا ہے، اور پہچانتا ہے، اور یہ خدا وندِ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے ناطق، اساس، امام ، حجت، اور داعی کو مومنین کی روحانیّت میں
۱۲۷
حواس و مُدرکات کا کام سونپ دیا ہے۔
۱۰۔آدمی کے آخری حواسِ باطن عقل، نفس، جدّ، فتح، اور خیال ہیں، کیونکہ پروردگارِ عالم نے انہی مُدرکات سے انسانِ کامل کو تعلیم دی، جیسا کہ ارشاد ہے: اِقْرَاْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (۹۶: ۰۳ تا ۰۴) پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم (یعنی عقل) کے ذریعہ سے تعلیم دی۔ یہاں قلم سے عقل مراد ہے، اور قلم و لوح لازم و ملزوم ہیں، لہٰذا اس کی حکمت یہ ہوئی کہ خدا نے انسانِ مقدم یعنی انسانِ کامل کو عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی(اور دیگر تین فرشتوں) کے توسط سے علم سکھایا، یہ ہوئے حواسِ خمسۂ عقلی، یاد رہے کہ اسمِ “الاکرم” میں عرش کے علم و معرفت کا ذکر ہے۔
۱۱۔ خوب توجہ سے سن لیجئے کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے تمام اسرار، معجزات، عجائب و غرائب، اور سب سے اعلیٰ حواسِ باطن پیشانی میں پوشیدہ ہیں، مثلاً حضرتِ آدمؑ کی بہشت کا راز، حضرتِ ادریسؑ کی اونچی جگہ (۱۹: ۵۷) حضرتِ نوحؑ کی کشتی اور کُوہِ جودی (۱۱: ۴۴) حضرتِ ھودؑ کا آسمان، جس سے موسلادھار بارش برستی ہے (۱۱: ۵۲) حضرتِ ابراہیمؑ کے ملکوتی بھید (۰۶: ۷۵) حضرتِ لوطؑ کی بابرکت زمین (۲۱: ۷۱) انبیاء علیہم السّلام کس معنی میں ہاتھوں اور آنکھوں والے ہوتے ہیں (۳۸: ۴۵)؟ وہ جگہ جہاں حضرتِ یوسفؑ کے لئے گیارہ ستاروں اور شمس و قمر نے سجدہ کیا (۱۲: ۰۴) حضرت شعیبؑ کا بقیتُ اللہ (۱۱: ۸۶) حضرت موسیٰؑ کا طُور (۱۹: ۵۲) حضرتِ داؤدؑ کی خلافت (۳۸: ۲۶) حضرتِ سلیمانؑ کی مملکت (۳۸: ۳۵) حضرتِ عیسیٰؑ اور حضرتِ مریمؑ کی بلند ترین جگہ (۲۳: ۵۰) اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا مقامِ معراج جبین (پیشانی) ہے تاکہ عالمِ شخصی کے خزائنِ معرفت میں کوئی کمی نہ ہو۔
۱۲۔ جس طرح حواسِ ظاہر کا سر چشمہ دل ہے، اسی طرح حواسِ باطن اور
۱۲۸
مُدرکاتِ عقلی کا مرکز قائم القیامت ہے، کیونکہ وہی عظیم المرتبت ہستی تمام حدودِ دین کا قلب ہے، چنانچہ آنحضرتؐ نے شبِ معراج میں جو کچھ دیکھا، وہ دل سے دیکھا (۵۳: ۱۱) کہ مرتبۂ قائم دل ہے (۰۸: ۲۴) اور خداوندِ عالم کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے مومنین کو ایسا معجزاتی اور بیمثال قلب عنایت کردیا (۰۸: ۲۴؛ ۲۳: ۷۸) اور ربّ کریم کا یہ امرِعظیم اسرارِ عجائب و غرائب اور کلیدی حکمتوں سے پُر ہے، تاکہ علم و معرفت کے ہر گنجِ گرانمایہ کا مقفّل دروازہ کھل جائے۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
اتوار ۱۰؍جمادی الاوّل ۱۴۱۰ھ
۱۰؍دسمبر۱۹۸۹ء
۱۲۹
چوٹی کے سوالات
قسط: ۱
س ۱: قرآنِ حکیم کے اس امر میں کیا حکمت ہے کہ خصوصاً صبح و شام ذاتِ سبحان کی پاکی بیان کرنے یا تسبیح پڑھنے کا حکم (۰۳: ۴۱؛ ۳۳: ۴۲؛ ۴۸: ۰۹) ہے؟
ج: اس فرمانِ الٰہی کی خاص حکمت یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں جہاں سب سے بڑا معجزہ صبح ازل اور شامِ ابد ہے، وہاں اللہ تعالیٰ کو تغیرات سے پاک و برتر مانا جائے۔
س ۲: اگر یہ بات حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی میں وہ سب کچھ ہے، جو عالمِ ظاہر میں ہے، تو جس طرح ظاہر میں انبیاء علیہم السّلام تشریف لائے، اس کی کوئی مثال بندۂ مومن کی روحانیّت میں کہاں ہے؟
ج: سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں غور سے دیکھ لیں، خاص کر جَعَلَ فَیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکاً (یعنی خدا نے تمہارے ظاہر میں نیز تمہارے باطن میں پیغمبر بنائے اور تم کو بحدِّ قوّت بادشاہ بنایا ۰۵: ۲۰) اگرچہ اس تذکرے میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا خطاب پوری قوم سے ہے، تاہم حدودِ دین ہی وہ حضرات تھے، جن کو اس حقیقت کی نمائندگی حاصل تھی، اور انہی کے توسط سے سارے مومنین بہشت میں بادشاہ ہوئے۔
س ۳: بہشت میں پہلے بہت کم لوگ پھر رفتہ رفتہ سب داخل ہوسکیں گے، اگرچہ یہ بہت بڑا راز ہے، تاہم یہ زمانہ ایسا ہے کہ اگر ہوسکے تو اس میں بھیدوں کو جاننا چاہئے، جیسے سائنس کے بھید ظاہر ہونے سے فائدہ ہورہا ہے، پس سوال یہ ہے کہ آیا اہل جنت مختلف درجات پر فائز ہوجائیں گے یا سب کے سب یکسان ہوں گے؟
۱۳۰
ج: بہشت میں مساواتِ رحمانی بہت دیر کی حقیقت ہے، اس لئے قبلاً وہاں درجات ہوں گے، جس کا ایک روشن ثبوت سورۂ انسان (سورۂ دہر ۷۶: ۲۰) سے مل سکتا ہے، وہ یہ کہ اس میں بعض لوگ بادشاہ ہوں گے، اور ظاہر ہے کہ یہ عظیم الشّان سلطنت رعیت کے بغیر بے معنی ہے، چنانچہ معلوم ہوا کہ بہشت والے مختلف درجوں میں ہوں گے۔
س۴: جدّ، فتح، اور خیال (یعنی اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل) کا تذکرہ دینی کتب میں بار بار آتا ہے، مگر ان کے ساتھ عزرائیل کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، حالانکہ وہ بھی ایک مقرب فرشتہ ہے، اور مومن کی روحانی ترقی کے سلسلے میں اس کا مفید کام بڑا عجیب ہے، اس کی کیا وجہ ہے کہ یہ ان تین فرشتوں کے ساتھ شامل نہیں کیا گیا ہے؟
ج: حکمتِ عزرائیلی حجاب میں رکھی گئی ہے، اگر یہ حکمت ظاہر ہوتی، اور سب لوگ اس کو یقین سے جانتے، تو پھر لوگ وقت سے پہلے مرجانا پسند کرتے، اور دنیا کی آبادی متاثر ہوجاتی ۔
س ۵: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴) کے حوالے سے یہ پوچھنا ہے کہ آتشِ دوزخ کے ایندھن لوگ اور پتھر کیوں ہیں؟ پتھروں (الحجارۃ ۰۲: ۲۴) کو کس جرم میں جلایا جاتا ہے؟
ج: خوب یاد رہے کہ علم و حکمت نور ہے، اور جہالت و نادانی نار، پس اگر انسانی عقل علم و حکمت کے نور سے منور ہو رہی ہے، تو یہ ایک انتہائی قیمتی پتھر (گوہرِ گرانمایہ) ہے، ورنہ وہ ایک ایسا پتھر ہے، جو نارِ نادانی میں جل رہا ہے۔
س۶: جس دن بلانے والا ایک ناشناختہ چیز کی طرف بلائے گا (۵۴: ۰۶) یہ بلانے والا کون ہوگا؟ کہاں سے بلائے گا؟ اور وہ شیٔ کیا ہے، جس کو لوگ نہیں پہچانتے؟
ج: یہ عالمِ شخصی کا داعی ہے، جو کانوں سے صورِ اسرافیل کی آواز کے ساتھ
۱۳۱
ساتھ لوگوں کو امرِ امامت کی طرف مدعو کرے گا، کیونکہ قیامت دراصل حضرتِ قائم علیناسلامہ کی قہر مانی اور جلالی دعوت ہے، تاکہ سب لوگ اس کی بادشاہی میں ایک ہوجائیں (۴۰: ۱۶) ۔
س ۷: بے شک خدا مچھر یا اس سے بڑھ کر کوئی مثل بیان کرنے میں نہیں شرماتا (۰۲: ۲۶) اس سے کیا مراد ہے؟ یا اس کا ممثول کیا ہے؟
ج: یہ انفرادی روحانیّت اور قیامت کے سلسلے کی ابتدائی آواز ہے، جس کا آغازکان کے بجنے سے ہوجاتا ہے، جو مچھر کی آواز جیسی ہے، دراصل ذرّۂ لطیف میں یہی داعی ہے۔
س ۸: صورِ اسرفیل کی آواز پر قبروں سے اٹھنے والوں کی تشبیہہ و تمثیل ٹڈیوں (۵۴: ۰۷) اور پروانوں (۱۰۱: ۰۴) سے کیوں دی گئی ہے، حالانکہ یہ اڑنے والی مخلوقات میں سے ہیں، اور آدمی جسمِ خاکی میں پرواز نہیں کرسکتا؟
ج: عارف اسی جسم میں روحانی قیامت کا مشاہدہ کرتا ہے، اور لوگوں پر غیر شعوری قیامت گزرتی ہے، وہ اس طرح کہ ان کے زندہ ابدان (اجسام) گویا قبریں ہیں، جن سے نمائندہ ذرّات (جو روح بھی ہیں اور جسمِ لطیف بھی) مرکزِ قیامت یعنی ظہور گاہِ قائم ع س کی طرف پرواز کرجاتے ہیں، جن کی مثال ٹڈیوں اور پروانوں کی طرح ہے۔
س ۹: سورۂ رعد (۱۳: ۰۸) کے اس ارشاد: وَکُلُّ شَیْ ئٍ عِنْدَہ‘ بِمَقْدَارٍ (۱۳: ۰۸) “اور ہر چیز اس کے نزدیک ایک اندازے سے ہے۔” کے بارے میں سوال ہے کہ خداوندِ عالم کی یہ مقدار کیا ہے؟
ج: اگرچہ کائناتیں اور کہکشاں(GALAXY) ایک سے کہیں زیادہ ہیں،
۱۳۲
زمانہائے دراز کی مدّت بے پناہ ہے، اور موجودات و مخلوقات کا کوئی شمار ہی نہیں ہوسکتا، لیکن قادرِ مطلق نے ہر چیز کو سمیٹ کر ایک معیّن مقدار میں محدود کردیا ہے، اور وہ دستِ قدرت کی مٹھّی سے بھی کم ہے، اور وہ تمام چیزیں، جو ہمارے نزدیک بے شمار ہیں، اس نے ان کو عددِ واحد میں محدود کردیا ہے، اور وہ مقدار بھی اورعددِ واحد بھی یہی ہے:ʘ ۔
س ۱۰:۔ سورۂ قلم (۶۸: ۴۲) میں ہے: یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْ عَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ۔ جس دن پنڈلی کھول دی جائے اور لوگ سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو (سجدہ) نہ کرسکیں گے (۶۸: ۴۲) پنڈلی کھولنے کی کیا تاویل ہے؟ اور سجدہ سے اس کی کیا نسبت ہے؟
ج: پنڈلی عقل ہے، کیونکہ تمام حدودِ دین کا قیام اسی پر ہے، اور پنڈلی کھولنے کا اشارہ ظہورِ عقل کی طرف ہے، اور اس واقعہ سے سجدے کا رشتہ یہ ہے کہ جواہرِعقل کے لئے سرِ تسلیم خم کردینا چاہئے، لیکن یہ کام عوام النّاس کے لئے ممکن ہی نہیں۔
س ۱۱: آیا سیّارۂ زمین پر اس افسانوی کوہِ قاف کا کوئی وجود ہے، جس پر جِنّ و پری یا سیمرغ رہتا ہو؟
ج: ظاہر میں ایسا کوئی پہاڑ کہیں بھی نہیں، مگر روحانیّت میں ایک نورانی پہاڑ ضرور ہے، جس پر جابجا ایسے الفاظ درج ہیں، جن کے آخر میں قاف ہی قاف ہے، جس میں بھیدوں کے جِنّ و پری کے علاوہ روحِ اعظم کا سیمرغ رہتا ہے۔
س ۱۲: وہ عجیب و غریب الفاظ جو کوہِ قاف پر لکھے ہوئے ہیں، کس نوعیت کے ہیں؟ خیر کو ظاہر کرتے ہیں؟ یا شرّ کو؟ یا دونوں معنی رکھتے ہیں؟ کیا ان کے نمونے قرآنِ مجید میں موجود ہیں؟
۱۳۳
ج: وہ الفاظ حکمتوں سے پُر ہیں، جو خیر و شرّ دونوں پر روشنی ڈالتے ہیں، جن کی مثالیں قرآنِ حکیم میں جابجا موجود ہیں، جیسے: قٓ (۵۰: ۰۱) سے قلمِ قدرت مراد ہے، یعنی عقلِ کُلّ، اب چند ایسے قرآنی الفاظ ملا حظہ ہوں، جن کے آخر میں حرفِ “ق” ہے، مثلاً: صدق: اس کا مطلب یہ ہوا کہ صداقت کا اصل مقام مرتبۂ عقل ہے، کیونکہ اس لفظ کے آخر میں قاف آیا ہے، جو کوہِ عقل کے معنی رکھتا ہے،عمیق: عقل کی گہرائی، بیت العتیق: عقل کا قدیم گھر، عذاب الحریق: عقلی عذاب یعنی آتشِ جہالت سے جلنا، حقیق: حق شناس، وہ شخص جو مرتبۂ عقل تک رسائی رکھتا ہو، طبق: عقلی آسمان، سابق: نورِ عقل تک آگے بڑھنے والا، ساق: پنڈلی، یعنی عقل، جو حدودِ دین کی اساسِ ازلی ہے، عٓسٓقٓ (۴۲: ۰۲): عشقِ حقیقی، جو عقل کی معرفت کے ساتھ ہو۔
س ۱۳: راہِ خدا میں قربانی کس کی ہوئی تھی؟ اور ذبیح اللہ کس کا لقب ہے؟ حضرتِ اسماعیلؑ کا؟ یا حضرتِ اسحاقؑ کا؟ بتائیے کہ ذِبحٍ عظیم (۳۷: ۱۰۷) سے کیا مراد ہے؟
ج: قربانی کا حکم حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کے بارے میں ہوا، پھر بجائے اس کے کہ جسم قربان ہو، آپؑ کی روحانی قربانی ہوئی، اور یہی قربانی حضرتِ اسحاق علیہ السّلام کی بھی ہوئی، پس ایک پاکیزہ شخصیّت کے بدل دو عظیم روحوں کی قربانی ذِبحِ عظیم کہلائی، دراصل ہر کامل انسان کی روح قربان ہوجاتی ہے۔
س ۱۴: سورۂ مومن (۴۰: ۱۶) کے اس ارشادِ مبارک کی حکمت بیان کریں: لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ۔ آج کس کی بادشاہت ہے؟ خاص خدا کی جو اکیلا (اور) غالب ہے(۴۰: ۱۶)۔
ج: خدا کے بادشاہِ قدیم ہونے میں کسی مومن کو کیوں کر شک ہوسکتا ہے،
۱۳۴
تاہم یہ بھی ایک بڑی حکمت ہے کہ اس کی سلطنت عالمِ شخصی میں ظہورِ قیامت کے ساتھ ساتھ قائم ہوجاتی ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ بادشاہی بصورتِ خلافت و نیابت ہوتی ہے، پس یہ بادشاہت یقیناً اللہ تعالیٰ کی ہے، حضرتِ قائم ع س کی ہے، اور مومنین کی ہے۔
س ۱۵: مومنین کی بڑی سے بڑی روحانی ترقی کی کوئی مثال قرآنِ پاک سے پیش کریں، تاکہ وہ اپنی تمام تر ذمّہ داریوں کو صحیح معنوں میں محسوس کرسکیں۔
ج: مومنین حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی اطاعت و پیروی کرتے ہوئے روحانیّت کے تمام مراحل سے آگے جاسکتے ہیں، تا آنکہ وہ چشم باطن سے یہ دیکھ لیں کہ عالمِ جبین میں نورِ ازل ابھی ابھی طلوع ہوا، یہ نور خورشیدِ عقل بھی کہلاتا ہے، جس کا مشرق و مغرب ایک ہی جگہ ہے (۵۷: ۱۲؛۶۶: ۰۸) یہیں سب سے بڑا دیدار اور مرتبۂ فنا حاصل ہوجاتا ہے، اور اسی مقام پر جملہ مخفی خزائن اور ان کی کلیدیں موجود ہیں، چنانچہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے بمقامِ حسن آباد (بمبئی) ایک خاص مجلس میں دستِ مبارک سے بطورِ نمونہ اپنی پاک پیشانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: “یہاں بہشت ہے، اسے حاصل کرلو۔” یہ بابرکت ارشاد ڈائمنڈ جوبلی کے پُرمسرّت ایام کی یاد تازہ کرتا ہے(۱۹۴۶ء)۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
پیر۱۸؍جمادی الاوّل ۱۴۱۰ھ
۱۸؍دسمبر۱۹۸۹ء
۱۳۵
چوٹی کے سوالات
قسط: ۲
س ۱: آپ نے سورۂ انعام (۰۶: ۱۸؛۰۶: ۶۱) کے حوالے سے یہ نوٹ کیا ہے: “خدا کی زبردستی اس کے خاص بندوں پر خوب چلتی ہے، اور اسی میں بڑی حکمت ہے۔” اس میں کیا راز ہے؟
ج: دونوں جگہ وہ مبارک الفاظ یہ ہیں: وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ۔ وہی اپنے (خاص) بندوں پر غالب ہے۔ دنیا کے ہر ظالم کی زبردستی میں شرّ و فساد ہے، مگر اللہ کی زبردستی (قاھریت) میں خیر و صلاح اور عظیم حکمت ہے، لہٰذا اس کا تعلق منکرین سے نہیں، صرف مومنین ہی سے ہے، کیونکہ کافروں کو دنیوی زندگی کی مہلت دی گئی ہے، مگر ہاں قیامت کے دن (۴۰: ۱۶) ۔
س ۲: سورۂ مومن (۴۰: ۱۵) میں ہے: رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُوْالْعَرْشِ ۔ خدا تو درجات کا بلند کرنے والا (اور) عرش کا مالک ہے(۴۰: ۱۵) اس ارشاد کا تاویلی مفہوم کیا ہے؟
ج: درجات سے حدودِ دین مراد ہیں، اور عرش کے معنی ہیں عقلِ کلّی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا تمام حدود کو عقلِ کلّی تک بلند کرتا ہے، جہاں علم و معرفت اور اسرارِ خداوندی کی ازلی و ابدی بہشت اور اس کی تمام نعمتیں موجود ہیں۔
س ۳: تقیہ الگ ہے، مگر روحانی علم کو چھپانا ظلم ہے، جیسا کہ خدائے بزرگ و برتر کا ارشاد ہے: وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَھَادَۃً عِنْدَہ‘ مِنَ اللّٰہِ (۰۲: ۱۴۰) اور اس سے
۱۳۶
بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف سے کوئی گواہی (موجود) ہو اور پھر وہ چھپائے (۰۲: ۱۴۰) کیا آپ اس کی مزید وضاحت کریں گے؟
ج: اگر کسی شخص نے اللہ کے نورِ ہدایت کی روشنی میں قرآن اور اسلام کے روحانی عجائب وغرائب کا مشاہدہ کیا ہے، تو یہ اس پرخدا کی طرف سے ایک بڑا مقدّس فریضہ بن جاتا ہے کہ اس شہادت کو ہادیٔ زمان کے منشاء کے مطابق بیان کرے، ورنہ وہ بہت بڑا ظالم قرار پائے گا۔
س ۴: عاشق اور عارف میں کیا فرق ہے؟ عارف اور معرفت کا درجۂ کمال کیا ہے؟ معرفت کے بارے میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشادِ گرامی کیا ہے؟ اور اس باب میں امامِ عالیمقام صلوات اللہ علیہ کی کیا ہدایتِ عالیہ ہے؟
ج: ایمان میں درجہ بدرجہ عشق موجود ہے، مگر معرفت علم الیقین کی بنیاد پر عین الیقین سے شروع ہو کر حق الیقین کے مقام پر مکمل ہو جاتی ہے، اور یہی اس کا درجۂ کمال ہے، یہ بڑا عمدہ قول ہے: سبحٰنک ماعبدناک حقّ عبادتک، سبحٰنک ماعرفناک حقّ معرفتک۔ توپاک ہے ہم نے تیری عبادت نہیں کی جیسا کہ اس کا حق ہے۔ تو پاک ہے ہم نے تجھ کو نہیں پہچانا جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، ارشادِ نبوّی ہے: أعرفکم بنفسہٖ أعرفکم بربّہٖ۔ تم میں جو سب سے زیادہ اپنی روح کو پہچانتا ہے، وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے۔ اس سے معرفت کے بہت سے درجات مرتب ہوجاتے ہیں، اسی کی تصدیق کرتے ہوئے مولا علیؑ نے فرمایا: مَن عَرف نَفسہ فَقد عَرف رَبّہ۔ جس نے اپنی روح (یعنی انائے علوی) کو پہچانا بیشک اس نے اپنے پروردگار کو پہچانا، آپ أئمّۂ برحقؑ کے ان گرانمایہ ارشادات کا مطالعہ کریں، جو معرفت کے بارے میں ہیں۔
۱۳۷
س ۵: یہ آپ ہی کا بیان ہے: “ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مسگار میں قربان علی خان صاحب کے گھر میں بموقعِ دعوتِ بقا شب بیداری کی مجلس جاری تھی، اس حال میں مجھ پر چند لمحات کے لئے نیم خوابی کی کیفیت طاری ہوئی، اور یکایک قرآنِ مجید جو درمیانی سائز کا تھا سامنے آیا، اور تیزی سے خود بخود اس کے مقدّس اوراق کھلتے گئے، یہاں تک کہ آیۂ کرسی پر یہ عمل ٹھہر گیا۔” اس کے کیا معنی ہیں؟
ج: اس کے معنی انتہائی عجیب و غریب ہیں، مثلاً:
الف: آیۂ کرسی میں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے مرتبۂ اسمِ اعظم پر ہونے کا ذکر ہے۔
ب: یہ اعظم الآیات ہے، اس لئے اس کا پڑھنا ضروری ہے۔
ج: صاحب خانہ اوراہلِ مجلس کیلئے خوشخبری تھی۔
د: اس میں یہ واضح اشارہ بھی تھا کہ قرآنی روح و روحانیّت سے کامل رسائی ہوسکتی ہے، اور مرتبۂ عقل پرقرآنِ مجید کی معرفت بھی ممکن ہے۔
س۶: شیاطین اِنسی شکل کے بھی ہیں، اور جنّی صورت کے بھی (۰۲: ۱۱۲) ، آپ بتائیں کہ ان میں زیادہ خطرناک کون ہیں؟ نیز یہ بیان کریں: اس کے کیا معنی ہیں کہ شیطان صراطِ مستقیم کے مسافروں پر آگے، پیچھے، داہنے، اور بائیں سے حملہ کرتا ہے؟
ج: شیاطینِ انسی سے احتیاط بیحد ضروری ہے، آگے سے حال و مستقبل مراد ہے، پیچھے ماضی ہے، داہنے ظاہر ہے، اور بائیں باطن (۰۷: ۱۷)، چونکہ شیطان دراصل رجیم (سنگسارکیا گیا ، اور سنگسار کرنے والا) ہے، لہٰذا وہ مذکورہ اطراف سے گمراہ کُن باتوں کی سنگباری کرتا ہے، جس کا دفاع ولیٔ امرہی کے علم سے ہوسکتا ہے۔
۱۳۸
س ۷: اصحابِ فیل کا واقعہ حضورِ انورؐ کی پیدائش سے ایک سال قبل کا ہے، لیکن قرآنِ حکیم کا خطاب اس طرح ہے، جیسے یہ واقعہ آنحضرتؐ کے سامنے ہی پیش آیا ہو، جیسا کہ ارشاد ہے: اَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ (۱۰۵: ۰۱ ، اے رسولؐ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا۔ اس میں کیا راز ہے؟
ج: روحانیّت ایسا معجزہ ہے کہ اس سے ماضی بھی اور مستقبل بھی حال میں مرکوز ہوجاتے ہیں، چنانچہ سرورِ انبیا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم چشم باطن سے ہر ضروری چیز کا مشاہدہ کرتے تھے، جس کا اشارہ قرآنِ پاک میں موجود ہے (دیکھو آیۂ کشفِ غطاء ۵۰: ۲۲)۔
س ۸: آپ نے چند سال قبل اپنے بعض تلامذہ سے کہا تھا کہ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں لفظِ “کذالک” آیا ہے وہاں آیۂ ماقبل اور مابعد کو خوب غور سے دیکھا کرو، کیونکہ وہاں کچھ جواہرِ اسرار پوشیدہ ہیں، اور آپ کے کہنے پر ایک ہوشمند سٹوڈنٹ نے اس سے متعلق تمام حوالہ جات کا گوشوارہ بنا کر پیش کیا تھا، تو کیا آپ یہاں اس کلید کی بہت بڑی اہمیت کی کوئی مثال بیان کریں گے؟
ج: اس لفظ میں کاف حرفِ تشبیہہ ہے، اور ذالک اسمِ اشارۂ بعید، پس کذالک کے معنی ہوئے اُسی طرح، مثال: وَکَذَالِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً (۰۲: ۱۴۳) اور اُسی طرح (یعنی اگلے قانونِ ہدایت کے مطابق اے گروہِ أئمّہ) ہم نے تم کو عادل اُمت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسولؐ تم پر گواہ بنیں (۰۲: ۱۴۳) اس آیۂ کریمہ کی واضح حکمت یہ ہے کہ نورِ نبوّت امامؑ پر
۱۳۹
دائمی گواہ اور حاضر و ناظر ہے، اور نورِ امامت لوگوں پر دائمی گواہ اورحاضر و ناظر ہے ، جیساکہ سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۵) میں ارشاد ہے: وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہ‘ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط۔ اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی تو خدا اور اس کا رسولؐ اور مومنین (یعنی أئمّہؑ) تمہارے کاموں کو دیکھیں گے (۰۹: ۱۰۵)۔
س ۹: اللہ تعالیٰ کے حضور جانے کی کیا کیفیت ہوگی؟ کیا لوگ تنہا تنہا جائیں گے (۰۶: ۹۴)؟ یا گروہ گروہ ہوکر (۱۷: ۱۰۴)؟
ج: خدا وندِ تعالیٰ انسانِ کامل میں سب لوگوں کو سمیٹ کر نفسِ واحدہ بنائے گا، اب یہی اکیلا شخصِ کامل خدا کے پاس جاسکے گا(۳۱: ۲۸) کیونکہ جب لوگ دنیا کی طرف آرہے تھے، تو اس وقت بھی وہ سب کے سب نفسِ واحدہ میں ذرّاتِ روحانی تھے، اور واپسی پر بھی ایسے ہی ہوں گے، پس نفسِ واحدہ ایک طرف سے سب ہے، اور دوسری طرف سے اکیلا (۰۴: ۰۱؛ ۰۶: ۹۸؛ ۰۷: ۱۸۹؛ ۳۱: ۲۸؛ ۳۹: ۰۶)۔
س ۱۰: جب نفسِ واحدہ یعنی انسانِ کامل کے خدائے بزرگ و برتر کی طرف لوٹ جانے کا یہ عالم ہے، جس کا ذکر ہوا، تو کیا آپ کوئی ایسی آیۂ مقدسہ بتا سکتے ہیں، جس کی حکمت سے یہ معلوم ہو کہ حضورِ اکرمؐ میں زمانہ بھر کے لوگوں کا انبعاث ہوا تھا؟
ج: ایسی آیاتِ کریمہ کئی ہیں، مثال کے طور پر سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) کو لیں: (اے رسولؐ) جب خدا کی مدد اور (ذاتی قیامت و عالمگیر) فتح آپہنچی تو تم نے (دنیا بھر کے) لوگوں کو (بصورتِ ذرّات) دیکھا کہ غول کے غول خدا کے دین (یعنی تمہاری شخصیّت) میں داخل ہورہے تھے، پس تم مقامِ عقل پر اپنے ربّ کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو، وہ بیشک توبہ قبول کرنے والا ہے، یعنی جب کوئی روحانی سفر میں عملاً لوٹ کر اس کے پاس جاتا ہے، تو اس کو قبولتا ہے، اور اپنی
۱۴۰
ذات میں فنا کر لیتا ہے، پس توبہ کے اصل معنی یہی ہیں۔
س۱۱: جیسا کہ س نمبر ۹ کے حوالے سے ظاہر ہے کہ روزِ قیامت بندے کو خدا کے پاس جانا ہے، لیکن دوسری طرف سورۂ فجر میں یہ ارشاد ہوا ہے: وَجَآئَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً (۸۹: ۲۲) اور تمہار اپروردگار اور فرشتے قطار کی قطار آجائیں گے (۸۹: ۲۲) آپ وضاحت کریں کہ قیامت کے دن لوگوں کو اللہ کے حضور جانا ہے؟ یا خدا اور فرشتوں کو دنیا میں نازل ہونا ہے؟
ج: عالمِ امر لامکان ولا زمان ہے، لہٰذا اس کے حقائق و معارف مکان و زمان کی کسی ایک تشبیہہ و تمثیل میں محدود نہیں ہوسکتے، بلکہ ان کا بیان مختلف مثالوں میں کیا جاتا ہے، پس جو ذات حقیقت میں آنے جانے سے برتر ہے، اس کے متعلق مجازاً یہ کہنا درست ہے کہ لوگ اس کی طرف جانے والے ہیں، اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ وہ ذاتِ پاک لوگوں کے پاس آنے والی ہے۔
س ۱۲: اگر خدا وندِ عالم بذاتِ پاکِ خود آنے جانے سے منزہ و برتر ہے، تو پھر پروردگار اور فرشتوں کے نزول کی یہ مثال کس چیز سے دی گئی ہے؟
ج: اس انتہائی عظیم واقعہ کی مثل حضرتِ قائم القیامت علیناسلامہ کا ظہور ہی ہے، جس کا تعلق عالمِ دین اور عالمِ شخصی سے ہے، اَلحمد لِلّٰہ علٰی مَنّہٖ و اِحْسَانہٖ۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
جمعہ ۲۲ ؍جمادی الاوّل ۱۴۱۰ھ
۲۲؍دسمبر۱۹۸۹ء
۱۴۱
سابقون کی سبقت کا راز
۱۔ اَلسَّبْقُ: اس کے اصل معنی ہیں چلنے میں کسی سے آگے بڑھ جانا، اسی سے سابق ہے، یعنی آگے بڑھنے والا، اور اس کا صیغۂ جمع سابقون اور سابقین ہے (یعنی آگے بڑھنے والے) چنانچہ ارشادِ خدا وندی ہے: وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ (۵۶: ۱۰) اور جو آگے بڑھنے والے ہیں وہ آگے ہی بڑھ جانے والے تھے۔
۲۔ سابق کی حکمت: لفظِ سابق کے آخر میں حرفِ قاف (ق) موجود ہے، جو مرتبۂ عقل کا اشارہ ہے، چنانچہ سابقون وہ خوش بخت حضرات ہیں، جو سرچشمۂ عقل کی طرف سب سے آگے بڑھ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ احوالِ روحانی اور اعمالِ ظاہری میں بھی سبقت کرتے ہیں، کیونکہ عقل ہی سے روح اور جسم کی بہتری ہوسکتی ہے۔
۳۔ سابقون اور نامۂ اعمال: سورۂ واقعہ (۵۶) (۵۶: ۰۱ تا ۱۲) کی ابتدائی بارہ آیاتِ مقدّسہ کو بمعِ ترجمہ غور سے پڑھ لیں، جس سے پتا چلے گا کہ زلزلۂ قیامت سے عالمِ شخصی کے پہاڑ (منجمد روحیں) کس طرح ذرّات بن کر اڑنے لگتے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اس وقت لوگ تین درجوں میں ہوجاتے ہیں: داہنے ہاتھ میں نامۂ اعمال لینے والے، بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال لینے والے، اورسابقون، جوسب سے آگے ہیں، جو مقربین ہیں، جن کا نامۂ اعمال سامنے (جبین) اور عِلّیّین میں ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۳)۔
۱۴۲
۴۔ عِلّیّین کیا ہے؟: اگرچہ لفظِ عِلّیّین کے بارے میں کئی وضاحتیں ہوچکی ہیں، لیکن کوئی ربّانی خزینہ چند ہی سکّوں کے لینے سے کس طرح ختم ہوسکتا ہے، چنانچہ عِلّیّین کی مزید حکمت یہ ہے کہ روحانیّت اور قیامت کے موقع پر ہر مومن کی پیشانی میں علیؑ کا نور تابان و درخشان ہوگا (۰۶: ۱۲۲؛۵۷: ۱۲؛ ۵۷: ۱۹؛ ۶۶: ۰۸) چونکہ ہر امام اپنے وقت کا علیؑ ہی ہوا کرتا ہے، لہٰذا تمام حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام کا اجتماعی نام عِلّیّین یا عِلّیّون(۸۳: ۱۸ تا ۱۹) ہوا، آپ نے کتابِ “وجہِ دین” میں پڑھا ہوگا کہ امام ہی مومنین کی گردن (عُنُق۱۷: ۱۳) ہے، اور اسی میں ان کا نامۂ اعمال ہے، پس حضرتِ امامِ عالیمقامؑ کے جن نیک بخت مریدوں نے اپنی پیشانی ہی میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا نورانی دیدار کیا ہے، تو انھوں نے عِلّیّین (کتابِ مرقوم) میں بطورِ پیشگی یعنی قبل ازجسمانی موت اپنے نامۂ اعمال کا مشاہدہ کیا، اور یہ کتنی بڑی سعادت اور کیسی عظیم بشارت ہے کہ دوستانِ خدا چشم بصیرت سے نورِ عقل کو دیکھتے ہیں۔
۵۔ نورانی کُرتے (سرابیل ۱۶: ۸۱): اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے نور کے ایسے لباس بنائے ہیں، جو آتشِ نادانی کی حرارت و گرمی سے بچا سکتے ہیں، اور ایسے کپڑے بھی، جو جنگِ قیامت (جہادِ روحانی) میں مومنین کے لئے بیحد ضروری ہیں، یعنی نورِ اساس (علیؑ) کے لباس اور نورِ قائم ع س کے لباس، کہ پہلے میں علمِ دین ہے، اور دوسرے میں علمِ قیامت، اور آپ نے یہ حکمت سنی ہوگی کہ مقامِ روح اور مقامِ عقل پر امامِ برحق علیہ السّلام کے نور سے مذکورۂ بالا کُرتے بنتے ہیں، جن کے بہت سے نام ہیں، اور ان میں سے ایک نام عِلّیّین بھی ہے۔
۶۔ دَوڑ پڑو۔ آگے بڑھو: آپ یہ حکم سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳)
۱۴۳
اور سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) میں دیکھ سکتے ہیں، لیکن اس دوڑنے اور آگے بڑھ جانے کے کیا معنی؟ جبکہ دین میں ہر قول و فعل سنجیدگی اور سکون سے کیا جاتا ہے؟
ج: یہ امر علم و عمل میں سبقت کرنے سے متعلق ہے، اور اس کا زیادہ سے زیادہ تعلق منازلِ عقل سے ہے، کیونکہ وہاں تو مومنین کا نور دوڑتا رہتا ہے(۵۷: ۱۲؛ ۶۶: ۰۸) تاہم مجموعی اعمال میں سبقت کا یہ اشارہ ہے کہ بہشت میں داخل ہوجانا آسان بات ہے، مگر اللہ کی خوشنودی حاصل کرکے خود کو دوسروں کے حق میں بہشت بنانا انتہائی مشکل کام ہے۔
۷۔ طریقِ احسن: قرآنی و اسلامی ہدیات و تعلیمات سے صراطِ مستقیم مرتب ہوجاتی ہے، جس پر قدم بقدم اور منزل بمنزل آگے بڑھ جانا مقصود ہے، اور یقیناً اسی عمل میں بہتر سے بہتر چیز کی پیروی ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ منزلِ آخرین میں عقل کا معجزہ آتا ہے، جو سب سے بہترین چیز ہے، جیسا کہ حضرتِ موسیٰؑ سے فرمایا گیا: تم توریت کو مضبوطی سے لو اور اپنی قوم کو حکم دے دو کہ اس کی اچھی سے اچھی باتوں پر عمل کریں (۰۷: ۱۴۵) اور اگر قرآنِ حکیم کی ان آیاتِ مبارکہ میں، جن میں لفظِ “احسن” موجود ہے، خوب غور سے دیکھا جائے، تو یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ قرآنی ہدایات درجہ بدرجہ ہیں، اور اس کی تعلیمات رفتہ رفتہ نورِ عقل تک پہنچا دیتی ہیں، پس یہی عقلی راستہ اس کا طریقِ احسن ہے۔
۸۔ درجات کی سیڑھیاں: قرآنِ کریم کے کُل ا ٹھارہ مقامات پر درجہ اور درجات کا ذکر موجود ہے، سورۂ معارج (۷۰) میں سیڑھیوں کا، اور سورۂ اِنشقاق (۸۴: ۱۹) میں طبقات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، الغرض سب سے اعلیٰ سیڑھی
۱۴۴
کے مختلف مدارج پر انبیاء جارہے تھے، پھر اسی طرح اولیاء کی سیڑھی اس کے نیچے لگی ہوئی ہے، جس پر دوستانِ خدا زینہ بزینہ چڑھ رہے ہیں، اس کے تحت شہدا کی سیڑھی جڑی ہوئی ہے، جو صالحین کی سیڑھی پر قائم ہے، اس کا قیام تابعین کی سیڑھی پر ہے، اور یہ عوام النّاس کی سیڑھی پر کھڑی کی گئی ہے، یہی تصوّرصراطِ مستقیم کا ہے (۰۴: ۶۹) لیکن یہاں بڑا اہم سوال یہ ہے کہ ان بے شمار درجوں کا تعین کس فرق و تفاوت کی بنیاد پر کیا گیا ہے؟
جواب: فرق و امتیاز میں اصل چیز علم ہی ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِیْ عِلْمٍ عَلِیْمٌ (۱۲: ۷۶) ہم جسے چاہتے ہیں اس کے درجے بلند کردیتے ہیں اور ہر صاحبِ علم سے اوپر ایک اور عالِم ہے (۱۲: ۷۶) اس سے یہ حقیقت کسی شک کے بغیر ظاہر ہوئی کہ قرآنی علم و عرفان درجہ بدرجہ اوپر سے اوپر جا کر خورشیدِ عقل سے مل جاتا ہے، پھر وہاں سے اس کا ایک پہلو نورِ منزّل کے ساتھ نیچے آکر پھیل جاتا ہے۔
۹۔ اسلام کے دو نام: دینِ قائم اور دینِ فطرت اسلام کے خاص ناموں میں سے ہیں، دینِ قائم (۰۹: ۳۶) اس معنی میں کہ یہ اپنی باطنی جڑوں پر قائم و برجاہے، اور اس میں ذرّہ بھر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، اور دینِ فطرت (۳۰: ۳۰) اس وجہ سے کہ یہ ظاہری حرکت و ارتقاء میں قانونِ فطرت کے عین مطابق بنا ہے، تاکہ انسان کی ترقی میں کوئی تنگی (حرج ۲۲: ۷۸) نہ ہو، پس ہر مومن کے لئے نہ صرف مادّیت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ روحانی عروج ضروری ہے، تاکہ وہ دیدۂ دل سے یہ دیکھ سکے کہ عالمِ شخصی کے خزانوں میں حقائق و معارفِ اسلام
۱۴۵
کس شان سے تر وتازہ محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔
۱۰۔ کائناتی اور آفاقی ہدایت: اگر کوئی دانشمند اللہ تعالیٰ کی ہدایتِ کُلیّہ کو چشم ظاہر سے دیکھنا چاہے، تو وہ اس کائنات کے بحرِ محیط کی حرکتِ مستدیر کی شکل میں دیکھ سکتا ہے، کہ کس طرح آسمان، ستارے، زمین، اور چار موسم دائمی گردش میں ہیں، اسی معنٰی میں فرمایا گیا: وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوُنَ (۳۶: ۴۰) اور ہر چیز ایک دائرے میں گردش کرتی ہے، یہ تو ہوئی ہدایتِ مدوّر، اور اب اس ذیلی ہدایت کے بارے میں بات کرتے ہیں، جو ارتقائی صورت میں کام کررہی ہے، وہ ہے جمادات سے نباتات بنانا، نباتات کو حیوان میں فنا کردینا، حیوان کو انسانیّت کی خاطر قربان کردینا، اور عام انسانوں کو انسانِ کامل سے واصل کرلینا، اس سے ظاہر ہوا کہ قرآنِ پاک کے علاوہ کتابِ کائنات کے متعدد مقامات پر بھی “آگے بڑھو، اور ترقی کرو۔” کا حکم مرقوم ہے، پس اے بھائیو! اپنے علم و عمل کی کوششوں کو تیز تر کرو۔
۱۱۔ فطرت کا بہترین نمونہ: آدم و آدمی کو بجا طور پر قانونِ فطرت کا شہکار مانا جاتا ہے، کیونکہ دستِ قدرت کی تخلیق کا بہترین نمونہ یہی ہے، جیسے ربّ العزّت کا ارشاد ہے: فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَّ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایَعْلَمُوْنَ (۳۰: ۳۰)اس کا حکمتی مفہوم یہ ہے: پس اے رسولؐ تم ابراہیمؑ کی طرح باطل سے کترا کے مرتبۂ عقل پر اپنے چہرۂ جان کو دین کے لئے پیکرِ نورانی قرار دو، وہی خدا کی بناوٹ ہے، جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی اس بناوٹ میں بدل نہیں ہوسکتا یہی
۱۴۶
اُستوار اور سیدھا دین ہے، مگر بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں (۳۰: ۳۰) ملاحظہ ہو: قرآنی میناروں سے روشنی، قسطِ دوم، ۸ – ایک بہت بڑا راز۔
۱۲۔ صورتِ رحمان کا سِرِّ عظیم: جب خدائے پاک و برتر خود جسم نہیں ہے، تو پھر اس کے اعضاء و جوارح اور صورت بھی نہیں، وہ ایسی تشبیہہ و تمثیل سے منزہ ہے، مگر یہ ہے کہ وہ پیغمبر اور امام کو اپنا خلیفہ بنا کر کہہ سکتا ہے کہ یہ میرا نور، میری روح، میرا چہرہ، اور میرا ہاتھ ہے، اور اللہ کی یہی سنت چلی آئی ہے، سو حضرتِ آدمؑ سے قبل جو امام تھا، اس کو صورتِ رحمان کی مرتبت حاصل تھی، چنانچہ پروردگارِ عالم نے اسی سابقہ صورتِ رحمانی پر حضرت آدمؑ کو پیداکیا، تاہم یہ راز سمجھ لینا کہ اس میں تخلیقِ روحانی اور چہرۂ جان کا تذکرہ ہے، اور یہی چہرہ مقامِ عقل پر وجہُ اللہ کی نمائندگی کرتا ہے (۲۸: ۸۸؛ ۵۵: ۲۷) پس مذکورۂ بالا آیۂ مبارکہ میں بزبانِ حکمت یہ ارشاد ہوا ہے کہ دینِ حنیف، دینِ قائم، اور دینِ فطرت یہ ہے کہ رسولِ خداؐ اور امامِ زمانؑ کے چہرۂ روحانی کو صورتِ رحمان اور وجہُ اللہ مان لیا جائے، اور ایسے حقائق و معارف کی بہت بڑی اہمیت کے پیشِ نظر سابقون کی شاندار تعریف کی گئی ہے، وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (۳۶: ۱۷)۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
بدھ ۲۷؍جمادی الاوّل ۱۴۱۰ھ
۲۷؍دسمبر۱۹۸۹ء
۱۴۷
چوٹی کے سوالات
قسط: ۳
س۱: آپ نے اپنی تحریروں میں بار بار یہ ذکر کیا ہے کہ آدم صفی اللہ علیہ السّلام سے قبل کے بہت سے ادوار میں بہت سے آدم ہو گزرے ہیں، اور آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اس دورِ کبیر کا آدم سراندیب (SRI LANKA) میں پیدا ہوا تھا، اگر ایسا ہے، تو کیا آپ بتائیں گے کہ آدمِ سراندیبی کے والد کا کیا نام تھا؟
ج: آدم ایک اجتماعی لقب ہے، جس کا اطلاق ہر دورِ کبیر کے ابتدائی انسانِ کامل، ہر ناطق، اور ہر امام پر ہوتا ہے، عبداللہ آدمِ سراندیبی کا ذاتی لقب ہے، ان کا اصل نام تخوم ہے، اور ان کے والد کا نام بجلاح بن قوامہ بن ورقتہ الرّویادی ہے (بحوالۂ سرائرواسرار النطقاء، ص ۳۱، جعفر بن منصور الیمن)۔
س ۲: سورۂ صآفّات (۳۷: ۷۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ خدا وندِ عالم نے صرف حضرتِ نوح علیہ السّلام ہی کی ذرّیت کو دنیا میں باقی و برقرار رکھا (۳۷: ۷۷) جبکہ سورۂ ھود (۱۱: ۴۷) سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ آپؑ کے ساتھ کشتی میں مومنین کی جماعتیں (اُمم) بھی تھیں، آیا ایسے لوگوں کی ذرّیت، جن سے سلامتی اور برکتوں کا وعدہ فرمایا گیا تھا، رفتہ رفتہ ہلاک ہوگئی؟
ج: ہرگز ایسا نہیں، کشتی میں جتنے لوگ اور جس قدر ذرّاتِ روحانی سوار ہوئے تھے، ان سب کو حضرتِ نوحؑ کی ذرّیتِ روحانی ہونے کا شرف حاصل ہوا، اور مذکورہ آیۂ مبارکہ میں اسی ذرّیت کو باقی رکھنے کا ذکر ہے۔
۱۴۸
س ۳: سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۷) میں ہے: ان لوگوں کی کار گزاریوں کے بدلے میں کیسی کیسی آنکھوں کی ٹھنڈک پوشیدہ رکھی ہے، اس کو تو کوئی نفس (شخص) جانتا ہی نہیں (۳۲: ۱۷) آنکھوں کی ٹھنڈک سے کیا مراد ہے؟ اور اس میں نفس کا ذکر کیوں فرمایا گیا ہے؟
ج: آنکھوں کی ٹھنڈک امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ کا وہ پاک دیدار ہے، جو نیکو کاروں کو مرتبۂ عقل پر حاصل ہوجاتا ہے، جس کے تحت بہشت کی تمام نعمتیں مہیّا ہیں، اور نفس کا ذکر یہاں اس وجہ سے ہے کہ یہ مقامِ عقل کا قصّہ ہے، منازلِ جان (نفس) کا نہیں، یعنی یہ معرفت عقل ہی کو حاصل ہوجاتی ہے۔
س۴: ہر پیغمبر اپنے قرآنی قصّے میں دوسرے تمام انبیاء اور جملہ أئمّہ کا ترجمان (INTERPRETER) ہوا کرتا ہے، اسی طرح ماضی کے قصّۂ مومنین میں بعد کے اہلِ ایمان کے لئے بہت سی مثالیں ہیں، جیسے زمانۂ آدم کے مومنین کہ وہ روحانیّت میں فرشتے تھے، اور جسمانیّت میں بشر، اب آپ اسرائیل (حضرتِ یعقوبؑ) اور بنی اسرائیل کی مناسبت سے یہ بتائیں کہ اس نام میں کیا اشارہ ہے؟
ج: اسرائیل عبرانی اسم ہے، چنانچہ اسرائیل کے معنی ہیں: عبداللہ، یعنی بندۂ خدا ، جبکہ اِسرا بندہ ہے، اوراِیل خدا، یعنی اللہ کا خاص بندہ، پس بنی اسرائیل کے معنی ہوئے: خدا کے بندۂ خاص کی اولاد، جس سے ہادیٔ برحق کے فرزندانِ روحی مراد ہیں، تاکہ ہر مقام پر اور ہر مثال میں قرآنی علم و حکمت کا رخ مومنین ہی کی طرف ہوجائے، اور قرآنِ حکیم کو ایسا ہی ہونا تھا، پھر آپ اس بیان کی روشنی میں یوں سمجھ لیں کہ روحانیّت میں وہی سارے معجزات، تمام نعمتیں، اور فضیلتیں اب بھی موجود ہیں، جن کا ذکر قصّۂ موسیٰؑ میں ملتا ہے (۰۲: ۴۷؛ ۰۲: ۵۵؛ ۰۵: ۱۲؛ ۱۷: ۱۰۱) بلکہ وہ جملہ نعمتیں بھی، جن
۱۴۹
کا تذکرہ دیگر انبیاءؑ کے قصّوں میں آیا ہے۔
س ۵: سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں ارشاد ہے: اور ہم نے موسیٰؑ اور ان کے بھائی (ہارونؑ) کے پاس وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے گھر بناؤ اور اپنے اپنے گھروں ہی کو قبلہ قراردے کر پابندی اور درستی سے نماز پڑھا کرو اور مومنین کو خوشخبری دے دو (۱۰: ۸۷) اگرچہ یہ شریعتِ موسیٰؑ کا ذکر ہے، تاہم سورۂ نور کی آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے بعد والی دو آیتوں میں بھی غور سے دیکھ کر بتائیں کہ لفظِ قبلہ میں کیا حکمت ہے؟ اور فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہ‘۔۔۔ (۲۴: ۳۶ تا ۳۷) کے کیا معنی ہیں؟
ج: قرآنِ کریم کی ہر آیۂ مبارکہ کی بے شمار خوبیاں ہیں، اور سب سے خاص خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی حکیمانہ ہدایت سے بندۂ مومن کو خدا سے واصل کردینے کی بھر پورصلاحیت رکھتی ہے، چنانچہ خانۂ جسم اور خانۂ جان کو قبلہ بنانے کا یہ اشارہ ہے کہ مرتبۂ فنا فی اللہ حاصل کیا جائے، یہی سبب ہے کہ پروردگارِ عالم نے مومنین کو اجتماعی عبادت کے تاکیدی حکم کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے گھروں میں انفرادی ذکر و تسبیح کی اجازت بھی دے رکھی ہے، کیونکہ جب قرآن ذکرِ کثیر کرنے کے لئے فرماتا ہے (۳۳: ۲۱؛ ۳۳: ۴۱؛ ۶۲: ۱۰) تو اس کا ایک بڑا حصہ گھر ہی میں ہوسکتا ہے۔
س۶: قانونِ فطرت کے مطابق سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں (۰۹: ۳۶) بنی اسرائیل میں بارہ نقیبوں کا انبعاث ہوا (۰۵: ۱۲) حجرِ مکرم سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے (۰۲: ۶۰) اور حضرتِ عیسیٰؑ کے بارہ حواری تھے (۰۳: ۵۲) اس بارہ کے عدد میں کیا حکمت ہے؟
ج: اس کی دلیل یہ ہے کہ اپنے اپنے وقت میں ناطق، اساس، اور امام کے
۱۵۰
بارہ بارہ حجت ہوتے ہیں۔
س ۷: یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ انسان نام ہے جسم، روح، اور عقل کا، اور آپ نے یہ مثال دی تھی کہ جسمِ انسانی ایسے قطعۂ زمین کی طرح ہے، جس کو دربارِ شاہی بنانے کے لئے پسند کرکے درست کیا جاتا ہے، روح وہ بہترین چبوترا ہے، جو دربارِ جسم میں بنایا گیا ہے، اور اس پر تختِ عقل بڑی شان سے سجایا جاتا ہے، تاکہ اس پر بادشاہ جلوہ افروز ہو، اس تشبیہہ و تمثیل سے عقل کی فضیلت و برتری واضح اور نمایان ہوجاتی ہے، اب اگر کوئی بندۂ مومن قرآنِ حکیم کی ہر آیت میں عقل کی تجلّیوں کو دیکھنا چاہے، تو یہ امر کس طرح ممکن ہوگا؟
ج: یہ سوال قرآنِ پاک کی معرفت ہی کے بارے میں ہے، جو ربِّ کریم کی پہچان سے الگ نہیں، اس کا طریقہ خود شناسی ہی ہے، تاکہ خدا اور کلامِ خدا (قرآن) کی شناخت ہو، کیونکہ قرآنِ عظیم کے تین بڑے مرتبے ہیں:
مرتبۂ اوّل: ظاہر
مرتبۂ دوم: روحانیّت
اور مرتبۂ سوم: عقلانیّت
جو انتہائی بلندی پر ہے، اور حقیقی بہشت وہی ہے۔
س۸: کیا آپ قرآنِ عزیز کے مذکورہ تین مراتب کے بارے میں کچھ وضاحت کریں گے؟ علی الخصوص روحانیّت اور عقلانیّت کے باب میں ضروری باتیں بتائیں۔
ج: قرآنِ حکیم کا ظاہر آپ کے سامنے ہے، اس کے علاوہ قرآن کی ایک عظیم روح (۴۲: ۵۲)
۱۵۱
اور ایک کامل عقل بھی ہے، عقل کا دوسرا نام نور ہے (۴۲: ۵۲) قرآنِ مجید آنحضرتؐ کے قلب مبارک پر زندہ روح اور نور (عقل) کی صورت میں نازل ہوا تھا، لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ زندہ اور حرکت والی چیزیں تحریر میں منتقل ہوجائیں، چنانچہ کتابِ سماوی کا ظاہری مرتبہ کاتبانِ وحی سے لکھایا گیا، مگر اس کی روحانیّت و نورانیّت حضورِ اکرمؐ کے جانشین میں منتقل کی گئی ، اسی لئے ارشاد ہوا کہ نور اور کتاب دو الگ الگ چیزیں ہیں (مفہوم۰۵: ۱۵)۔
اب جو شخص بطریقِ خود شناسی خلیفۂ رسولؐ میں فنا ہوجائے، وہی مشاہدہ کرسکے گا کہ قرآنِ پاک کی روح و روحانیّت اور عقل و عقلانیّت کی کیسی کیسی کائناتیں ہیں! قرآن میں ارض و سما کے ذکر کو دیکھ کر اگر چہ مادّی زمین و آسمان کو ذہن میں لانا بجا ہے، لیکن یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ یہی تذکرہ عالمِ روحانی اور عالمِ عقل کا بھی ہے، اسی طرح سراسر قرآن میں ایک ساتھ جسمانی، روحانی، اور عقلی چیزوں کا ذکر موجود ہے۔
س ۹: بیت المقدّس کے عابدوں میں اس بات پر باہم جھگڑا ہوا کہ ہر شخص حضرتِ مریمؑ کی پرورش کرنے کی تمنا رکھتا تھا، آخر یہ مشورہ قرار پایا کہ وہ سب اپنے اپنے قلم پانی میں ڈال دیں، اور جس کا قلم تیرتا رہ جائے، وہی مریمؑ کی کفالت کرے گا، اس میں حضرت زکریاؑ کے قلم کو معجزہ ہوا، اور دوسرے تمام قلم ڈوب گئے، اس کی کیا تاویل ہے؟
ج: قلم نورِ عقل کا نام ہے، جو امامِ اقدس و اطہرؑ کی مبارک پیشانی میں تیرتا رہتا ہے، چنانچہ قلم کا پانی کی سطح پر ابھر جانا یا تیرنا نورِ امامؑ کے بحرِ علم پر محیط و حاوی ہوجانے کی دلیل ہے، حضرتِ زکریا علیہ السّلام منصبِ امامت پر فائز تھے، اس لئے ان کے علم و حکمت سے دوسروں کا کیا مقابلہ ہوسکتا تھا! پس حضرتِ مریمؑ کی علمی اور
۱۵۲
روحانی پرورش نورِ امامت سے ہوئی۔
س ۱۰: قرآنِ مجید میں اِھْبِطْ (تو اُتر) اِھْبِطَا (تم دونوں اُترو) اِھْبِطُوْا (تم اُترو) کے الفاظ ، جو ہبوط سے ہیں، بلندی سے اتر جانے کے لئے استعمال ہوئے ہیں، لیکن اس حکمِ خداوندی میں کیا حکمت ہے، جو بنی اسرائیل سے فرمایا کہ: اِھْبِطُوْا مِصْراً (تم کسی شہر میں اتر پڑو ۰۲: ۶۱) حالانکہ وہ کسی ظاہری بلندی پر نہ تھے؟
ج: عقل مقامِ وحدت ہے، اس لئے وہاں من و سلویٰ کا طعامِ واحدد یاجاتا ہے، (۰۲: ۶۱) لیکن صفِ اوّل کے بنی اسرائیل ہمیشہ عقل کی بلندی پر کس طرح ٹھہر سکتے تھے، لہٰذا انھیں وہاں سے اتر جانا پڑا۔
س ۱۱: کتابِ وجہِ دین، جو تاویلی حکمتوں کا خزانہ ہے، اس کے کلام نمبر ۳۳ کے آخر میں ہے: “قائم کو کوئی شخص پہچان نہ سکے گا، مگر پانچ حدود کے ذریعے سے، جیسے اساس، امام، باب، حجت، اور داعی۔” یہ کیوں ایسا ہے؟ حضرتِ قائم علیناسلامہ کی معرفت جملہ مومنین کے لئے کیوں آسان اور عام نہیں؟
ج: پروردگارِ عالم نے حضرتِ قائم ع س، قیامت، اور اس کے علم کو اپنے اسمِ اعظم کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ مخفی رکھا ہے، تاکہ قبل از وقت خدائی بھیدوں کا عوام النّاس کو پتا نہ چلے۔
س ۱۲: اسلام کے اصل معنی کیا ہیں؟ دینِ حق کا نام “اسلام” کب سے مقرر ہوا؟ اور کیوں؟
ج: اسلام کے اصل معنی ہیں: “اپنے آپ کو کسی کے حوالہ کردینا۔” دینِ اسلام کو اسی لئے اسلام کہتے ہیں کہ اس کو قبول کرنے والا اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کردیتا ہے، دینِ حق کا یہ نام شروع ہی سے ہے، اس لئے کہ اس کا ماننے والا خود کو اللہ
۱۵۳
کے سپرد کردیتا ہے، (ملاحظہ ہو: قاموس القرآن،ص ۵۶) اس حوالگی اور سپردگی کے تحت اسلام کے اور بھی معنی درست ہوسکتے ہیں، مگر یہاں مختصراً یہ کہنا ہے کہ اپنے چہرۂ جان کو خدا کے حوالہ کردینا اسلام کی سب سے بڑی تعریف ہے، اور یہی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ ہے، جس کا ذکر چہرۂ خدا اور چہرۂ عارف سے متعلق آیات کریمہ میں ہے (۲۸: ۸۸؛ ۵۵: ۲۷؛ ۰۶: ۷۹؛ ۰۳: ۲۰؛ ۳۰: ۳۰؛ ۳۰: ۴۳؛ ۰۲: ۱۱۲؛۰۴: ۱۲۵؛ ۳۱: ۲۲)۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
جمعہ ۷؍جمادی الثّانی ۱۴۱۰ھ
۵؍جنوری ۱۹۹۰ء
۱۵۴
عالمِ عقل-عالمِ وحدت
۱۔ جب آپ قرآنِ پاک کے شروع میں تلاوت کرتے ہیں: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ تو طالبانِ حقیقت کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ عوالم کون کون سے ہیں؟ اور کتنے ہیں؟ اس کا درست جواب یہی ہوگا کہ ہر فردِ بشر ایک عالمِ شخصی ہے، اور چونکہ افراد بے شمار ہیں، اس لئے عوالمِ شخصی بے حساب ہیں، تاہم اساسی طور پر ان عالموں کے تین درجے ہیں: عالمِ کثرت، عالمِ ذرّ، اور عالمِ وحدت، دوسرے لفظوں میں: عالمِ جسمانی، عالمِ روحانی اور عالمِ عقل، پس یہاں عالمِ عقل کے بارے میں کچھ حقائق و معارف بیان کرنا مقصود ہے، جو عالمِ وحدت اور یک حقیقت (MONOREALITY) ہے۔
۲۔ عالمِ ظاہر ہی کا نام عالمِ کثرت ہے، جس میں جتنے انسان ہیں، وہ سب متفاوت، مختلف اور منتشر ہیں، لوگوں کا یہ اختلاف و انتشار قیامت کے دن عالمِ ذرّ ہی میں کم سے کم اور عالمِ عقل میں ختم ہوسکتا ہے، تاہم واقعۂ قیامت بڑا عجیب و غریب ہے کہ جولوگ نفسانی طور پر یا جسمانی طور پر مرچکے ہیں، وہ تو مراحلِ قیامت سے آگے گزر گئے ہیں، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: “مَنْ مَاتَ فَقدْ قَامَتْ قِیَامَتُہ‘۔ جو نفساً یا جسماً مرجائے تو بے شک اس کی انفرادی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔” اور جو لوگ موت کے دروازے سے داخل نہیں ہوئے ہیں، اور علمِ قیامت کے کتابی پہلو سے بھی آگاہ نہیں ہیں، تو وہ قیامت کا انتظار کررہے ہیں۔
۳۔ عالمِ وحدت کس طرح واحد ہے؟ اور اس کی مثال کیا ہوسکتی ہے؟
۱۵۵
جواب: بحرِ عقول (عقلِ کلّی) اور بحرِ نفوس (نفسِ کلّی) کے سنگم ہی کا نام مجمع البحرین (۱۸: ۶۰) ہے، جس کے بارے میں ارشاد ہوا: مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ۔ بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِ۔ فَبِاَیِّ ٰ الَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ۔ یَخْرُجُ مِنْھُمَا اللُّؤْ لُؤُ وَالْمَرْجَانُ (۵۵: ۱۹ تا ۲۲) “اسی نے دودریا باہم ملا کر بہائے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں، دونوں کے درمیان ایک حدِّ فاصل بھی ہے، جس سے تجاوز نہیں کرسکتے (تو اے جِنّ و اِنس) تم دونوں اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے، ان دونوں دریاؤں سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں‘‘۔ مثلاً شخصِ کامل کی عقل اور روح (نفس) اس کی ہستی میں
متصل و متحد بھی ہیں، اور الگ الگ بھی، جیسے شعلۂ چراغ اور روشنی، جس میں برزخ یعنی حدِّ فاصل تو ہے، مگر بیچ میں کوئی غیر چیز نہیں بس وصل ہی وصل ہے آپ مَرَجَ، یَلْتَقِیٰن، اور مجمع کے الفاظ میں غور کریں۔
۴۔ بعض حضرات عقلِ کُل کے وجود سے انکار کرتے ہیں، لیکن یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں نفسِ واحدہ (نفسِ کُلّ ) کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہاں پوشیدہ طور پرعقلِ کُلّ کا ذکر بھی ہے، کیونکہ کوئی عظیم روح مکمل عقل کے بغیر نہیں ہوسکتی، اور نہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ کا تصوّر عقلِ کامل اور روحِ اعظم کے سوا درست ہوسکتا ہے، اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی ہے کہ جس عظیم فرشتے کا نام عرش ہے، وہ عقلِ عقول ہے، اور جس بڑے فرشتے کو کرسی کہا جاتا ہے، وہ نفسِ نفوس کہلاتا ہے، اور ان دونوں میں وحدت ہے۔
۵۔ آیۃ الکرسی کی عظمت و بزرگی اور اس کا ملکوتی نسخۂ کیمیا ہونا اس وجہ سے ہے کہ اس میں علم و حکمت کے عجائب و غرائب اور اسرارِ بدائع و صنائع پوشیدہ ہیں، جیسے کہ ارشاد ہے: وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج(۰۲: ۲۵۵) اس کی کرسی نے سب
۱۵۶
آسمانوں اور زمین کو (اپنے اندر) گھیر لیا ہے۔ چنانچہ یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ نفسِ کلّ نے عالمِ عقل یعنی عقلِ کلّ کو اپنی ہستی میں سمالیا ہے، اور اسی طرح نفسِ واحدہ عالمِ وحدت ہے، اور یہی دودریاؤں کا سنگم ( مجمع البحرین) ہے، جس سے علم و معرفت کے موتی اور مونگے نکلتے ہیں، پس یہی یک حقیقت (MONOREALITY) ہے۔
۶۔ آیاتِ نور جس طرح قرآنِ عظیم اور دینِ اسلام میں ہدایتِ حقہ کی روشنی بکھیر رہی ہیں، وہ حقیقت مومنین سے مخفی نہیں، اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ قرآنِ کریم میں جو تذکرۂ نور ہے، وہ دراصل تذکرۂ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہی ہے، لیکن یہاں یہ پوچھنا ہے کہ آیا تمام پیغمبروں اور اماموں کے انوار الگ الگ ہیں؟ نہیں، ہرگز ایسا نہیں، بلکہ بفرمودۂ نورٌعلیٰ نور (نور بالائے نور ہے ۲۴: ۳۵) جملہ انوار کی وحدت ہے، جس کا مشاہدہ عالمِ عقل میں ہوجاتا ہے، جہاں ایک اکیلا نور کُل اور سب ہے۔
۷۔ “چوٹی کے سوالات، قسط: ۲” میں انسانی وحدت سے متعلق نکات کو غور سے دیکھنا، کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے لوگوں کو کس طرح نفسِ واحدہ/ آدم/نفسِ کُلّ سے پیدا کیا! اور آخر کار کس طرح اسی مرتبہ میں ان سب کا شعوری یا غیر شعوری انبعاث ہوتا ہے! آپ یہ نکتۂ جانفزا ہمیشہ کے لئے دلنشین کرلیں کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے ساتھ عالمِ ذرّ موجود ہوتا ہے، اور لوگ بصورتِ ذرّات غیر شعوری طور پر اس میں حاضر ہوجاتے ہیں، دیکھئے قصّۂ آدمؑ (۰۷: ۱۱) اور قصّۂ نوحؑ (۱۷: ۰۳) کہ لوگ ہر کامل انسان کے عالمِ ذرّ میں رہتے آئے ہیں، اور عالمِ عقل سے بھی منسلک و متعلق رہے ہیں، مگر غیر شعوری طور پر، چنانچہ لوگوں پر بہت سے روحانی واقعات گزرچکے ہیں، لیکن
۱۵۷
انبیاء و اولیاء کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا، الغرض تمام انسان نفسِ واحدہ میں ایک ہیں، اسی لئے وہ سب کچھ ہے۔
۸۔ خداوندِ عالم کی فطرت و صناعیت کا بہترین نمونہ انسان ہی ہے، اسی لئے قرآنِ حکیم لوگوں کو اپنی ذات کی معرفت کی طرف پُر زور توجہ دلاتا ہے، ایسی توجہ یا حکم کی چند مثالیں یہ ہیں:
الف: فِطْرَتَ اللّٰہِ (۳۰: ۳۰)۔
ب: اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ (۲۳: ۱۴)۔
ج: فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (۹۵: ۰۴)۔
د: وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ (۵۱: ۲۱)
ھ: وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ (۱۷: ۷۰)۔
و: قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ (۱۷: ۸۵) اس کی وضاحت:
۹۔ اگر تمہارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ خالقِ کائنات نے آدمِ اوّل اور ابتدائی لوگوں کو کس طرح پیدا کیا؟ تو اس کا جواب موجودہ انسانوں کی فطرت و تخلیق کی کیفیت میں تمہارے سامنے ہے( ۳۰: ۳۰) خدا احسن الخالقین ہے، کیونکہ اس نے خلقِ آخر (انسانِ لطیف/مبدع) کو پیدا کیا (۲۳: ۱۴) اللہ نے انسان کو عروج وارتقاء کی شکل میں پیدا کیا، یہاں تک کہ وہ عِلّیّین میں پہنچ گیا، اب اس کا وہاں سے نیچے آنا، یا نہ آنا علم و عمل پر منحصر ہے (۹۵: ۰۵ تا ۰۶) تمہاری جانوں میں قدرت اور معرفت کی تمام نشانیاں موجود ہیں (۵۱: ۲۱) جو حضرات حقیقی معنوں میں اولادِ آدم کہلاتے ہیں، ان کی کرامت و فضیلت عظیم فرشتوں سے بھی اوپر ہے (۱۷: ۷۰) روح کلمۂ امر یعنی کُنْ (ہوجا) سے پیدا ہوئی ہے، اس لئے اس کا رشتہ امر و فرمان سے
۱۵۸
ہے، اور اس کی عرفانی رسائی بھی امرِ باری تک ہے (۱۷: ۸۵) جہاں اسرارِ ازل کے خزانے ہی خزانے موجود ہیں، اور وحدتِ کُل انسان کی سب سے بڑی دولت ہے، جو بیمثال اور لازوال ہے۔
۱۰۔ انسان اپنی موجودہ ہستی میں ایک اکیلا فرد ہے، لہٰذا وہ عالمِ وحدت کی مثال ہے، لیکن کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کتنے خلیات ہیں؟ بے شمار، کتنے روحِ نباتی کے ذرّات ہیں؟ بے حساب، کتنے روحِ حیوانی کے اجزاء ہیں؟ لاتعداد، کتنے روحِ انسانی کے نمائندے ہیں؟ حدّو حساب سے باہر، اور اگر ہر نمائندہ ذرّہ بحدِّ قوّت ایک کائنات ہو، تو ان کائناتوں یا عوالمِ شخصی کو صرف خدا ہی شمار کرسکتا ہے، اس سے اندازہ ہوا کہ عالمِ عقل (عالمِ وحدت) میں سب کچھ موجود ہے، ہر چند کہ وہ نورِ واحد ہی ہے، لیکن اس کے ظہورات و تجلّیات کُل جہانوں کے خزائن ہیں، پس مومنین کے نور کا دوڑنا لا انتہا تجلّیوں کا سلسلہ ہے (۵۷: ۱۲؛ ۵۷: ۱۹؛ ۶۶: ۰۸) یاد رہے کہ فنا فی الامامؑ، فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ کے بغیر نور مومنین سے منسوب نہیں ہوسکتا۔
۱۱۔ قلبِ قرآن (سورۂ یاسین) میں یہ حکمت آگین ارشاد ہے ( مفہوم): ہم ہی یقیناً نفسانی اور جسمانی مردوں کو زندہ کرتے ہیں، اور جو کچھ اعمال انھوں نے کئے ہیں وہ سب ہم لکھتے جارہے ہیں، اور جو کچھ آثار انھوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم درج کر رہے ہیں، اور (وہ عقلی تحریر اس طرح ہے کہ) ہم نے سب ہی چیزوں کو سمیٹ کر پیشوائے ناطق میں گوہرِ عقل بنا دیا ہے (۳۶: ۱۲) چنانچہ اَحْصَیْنَا ، ح ۔ ص۔ ی کے مادّہ سے ہے، جس کا ایک لفظ اَلْحَصٰی (کنکری) ہے، اور دوسرا اَلْحَصَاۃ (عدد، عقل و رائے) ہے، اور مبین کے معنی ہیں بولنے والا، ناطق، جیسا کہ سورۂ زُخرف
۱۵۹
(۴۳: ۱۸) میں اس کے یہ معنی ہیں، پس امامِ مبینؑ (تأویل بیان کرنے والا امام) جو نورِ ہدایت اور کتابِ مکنون ہے، وہ نہ صرف عالمِ جسمانی ہی میں پیشوائے ظاہر و حاضر ہے، بلکہ عالمِ روحانی اور عالمِ عقل میں بھی امامِ مبینؑ، اور کتاب ناطق ( مُؤوِّل / تأویل بیان کرنے والا ) ہے، تاکہ اس سے انسانی وحدت کے اسرار معلوم ہوجائیں۔
۱۲۔ عرشِ الٰہی علم و حکمت کا سرچشمہ ہے، اس لئے حاملانِ عرش کا علمی مرتبہ سب سے ارفع و اعلیٰ ہے، انھیں ہر چیز میں رحمت و علم کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، چنانچہ قرآنِ پاک نے ان کی ترجمانی کرتے ہوئے فرمایا: رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّ عِلْماً (۴۰: ۰۷) اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور علم ہر چیز کو شامل ہے۔ اس قرآنی حکم و فیصلے سے یہ یقین حاصل ہوا کہ ہر چیز میں روح کے لئے رحمت بھی ہے، اور عقل کے لئے علم بھی، پس ہماری توجہ اور فکر سب سے پہلے قرآنی چیزوں میں مرکوز ہونی چاہئے کہ قرآن کی ہر مثال، ہر قصّہ، ہر اشارہ، ہر آیت، ہر جملہ، اور ہر بات میں کس طرح رحمت و علم کا تذکرہ موجود ہے، اب اس اصولی بیان کی روشنی میں ہمیں اپنے آپ سے پوچھ کر ایک معقول و پسندیدہ جواب مہیّا کرلینا ہوگا، وہ اس طرح کہ آیا اللہ تعالیٰ کائنات کو مادّی طور پر لپیٹتا ہے؟ یا روحانی اور عقلی کیفیت میں (۲۱: ۱۰۴؛ ۳۹: ۶۷) ؟ اس کا درست جواب یقیناً یہی ہوگا کہ مادّیت کا پھیلاؤ اپنی جگہ پر موجود ہے، مگر اس کی تمام قدریں بصورتِ ذرّات عالمِ شخصی میں سمیٹ لی جاتی ہیں، اور روحانیّت کی اقدار مرتبۂ عقل پر لپیٹ لی جاتی ہیں، اسی لئے کہا گیا کہ عالمِ عقل عالمِ وحدت ہے، جس میں آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کا علمی جوہر (گوہر) اپنا جلوہ دکھاتا ہے، یہ عجوبہ انتہائی حیران کُن ہے کہ ایک طرف وحدت ہی وحدت ہے! اور دوسری جانب تجلّیاتِ بے شمار ہیں! سبحان اللہ! مجمع البحرین اور عالمِ وحدت کی شانِ عجائب و غرائب
۱۶۰
کا کیا کہنا!
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
ہفتہ ۱۵؍جمادی الثّانی ۱۴۱۰ھ
۱۳؍جنوری ۱۹۹۰ء
۱۶۱
شبِ قدر کے معجزات
ا۔ عالمِ شخصی میں شبِ قدر (۹۷: ۰۱ تا ۰۵): یہ امر ہر مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ سورۂ قدر کو نہ صرف ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھے، بلکہ سعیٔ بلیغ کرکے اس کی حکمت کو بھی سمجھ لے، ظاہر ہے کہ شبِ قدر وہ بابرکت رات ہے، جس میں فرشتوں، روح القدس، اور دیگر ارواح کا نزول ہوتا ہے، ان سب میں حضرتِ اسرافیلؑ اور حضرتِ عزرائیلؑ بھی اپنا اپنا کام کرتے ہیں، چنانچہ جس وقت کسی عالمِ شخصی میں روحانیّت کی انقلابی ترقی شروع ہوجاتی ہے، اور انفرادی قیامت برپا ہونے لگتی ہے، تو وہ شبِ قدر ( حجتِ قائمؑ) کی وجہ سے ہے، جو خیر و برکت کا سرچشمہ ہے(۹۷: ۰۳؛ ۴۴: ۰۳)۔
۲۔ فرشتوں کا خطاب (۴۱: ۳۰): سورۂ فُصِّلَتْ (حٰمٓ السّجدۃ (۴۱: ۳۰ تا ۳۲)میں د قتِ نظر سے دیکھ لیں کہ فرشتے کس طرح ان مومنین سے خطاب کرتے ہیں، جن کے عالمِ شخصی میں شب قدر واقع ہوئی ہے: تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ۔ ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (نازل ہوں گے۔ چونکہ یہ لفظ مضارع ہے) ۔۔۔ ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔۔۔(۴۱: ۳۱) فرشتوں کی اہلِ ایمان سے دوستی میں بہت سے اشارے ہیں، مثلاً تائید، منازلِ روحانی اور مراحلِ عقلانی میں ترقی، اور حصولِ کمالات، وغیرہ۔
۳۔ نزولِ ملائکہ و ارواح کا مقصد؟: اگر یہاں یہ سوال ہو کہ
۱۶۲
تمام فرشتوں اور جملہ ارواح کا نزول قدر کی رات میں کیوں ضروری ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں عملی معرفت اور تجدّدِ امثال کی غرض سے جتنے امور ضروری ہیں، ان سب کی انجام دہی کے لئے فرشتوں اور روحوں کا حاضر ہونا لازمی ہے، جیسا کہ خود سورۂ قدر (۹۷: ۰۴) میں ہے کہ: پروردگار کے حکم سے ملائکہ و ارواح کا نزول شبِ قدر میں ہر کام کی غرض سے ہوتا ہے (مِنْ کُلِّ اَمْرٍ۹۷: ۰۴ ہر کام کی غرض سے) اگر آپ اس “آئینۂ کُل” میں غور سے دیکھیں، تو کسی شک کے بغیر یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ قرآنِ پاک میں جتنے امور فرشتوں اور روحوں سے متعلق ہیں، ان سب کا عالمِ شخصی میں تجدّدِ امثال ہوجاتا ہے، تاکہ مشاہدۂ روحانیّت اور حصولِ معرفت کے سلسلے میں کوئی کمی نہ رہے، یاد رہے کہ تجدّدِ امثال سنتِ الٰہی کی تفسیر و توضیح ہے، پس حقائق و معارف کو تجدّد کے طریق پر سمجھانے کی ضرورت ہے۔
۴۔ ماضی اور مستقبل کا حال میں مرکوز ہوجانا: بہشت میں نہ توماضی ہے، اور نہ مستقبل، فقط حال ہی حال ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں گزرجانے والا وقت نہیں، بلکہ ٹھہرا ہوا زمانہ ہے، اور جب بہشت عالمِ شخصی کی روحانیّت میں نزدیک لائی جاتی ہے، تو اس میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے کہ ماضی اور مستقبل گویا حال میں مرکوز ہوجاتے ہیں، اور بس عارف ہر چیز کا مشاہدہ حال ہی میں کرتا ہے، اس قانون کی روشنی میں معلوم ہوا کہ شبِ قدر سے ایسی روحانیّت کا دروازہ کھل جاتا ہے، جس میں تمام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے معجزات بھی ہیں، آنے والی آخری قیامت کے زندہ واقعات بھی، اور ازل و ابد کے اسرارِ عظیم کی تجلّیات بھی، پس اسی معنٰی میں شبِ قدر کی مبارک رات یعنی حجتِ قائمؑ خیر کُل ہیں۔
۱۶۳
۵۔ نزول کے پس منظر میں عروج: جس طرح “چوٹی کے سوالات، قسط: ۲” میں ربّ اور فرشتوں کے آنے کے بارے میں ذکر ہوا، اسی طرح ہم یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ لیلۃُ القدر میں اس عالمِ شخصی کا عروج ہوجاتا ہے، جس میں ملائک اور ارواح کا نزول ہوا ہو، بلکہ دوسرے اعتبار سے یہ کہنا بھی درست ہے کہ سورۂ معارج (۷۰: ۰۴) کے مطابق شبِ قدر میں خود فرشتے اور ارواح بھی خدا کے پاس چڑھ کر جاتی ہیں، کیونکہ روحانی اور قرآنی حقیقت ایک ہی ہے، مگر اس کی مثالیں طرح طرح سے بیان کی گئی ہیں (۱۷: ۸۹؛ ۱۸: ۵۴) تاکہ لوگوں کے سمجھنے میں آسانی ہو۔
۶۔ شبِ قدر اور حضرتِ آدمؑ: وہ وقت تاویلاً شبِ قدر ہی کا تھا، جبکہ تمام فرشتوں نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا، در حالیکہ بے شمار روحیں آپؑ کی برگزیدہ ہستی کا حصّہ تھیں، کیونکہ ہر فردِ بشر لاتعداد روحوں کا مجموعہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ آپ قرآنِ عظیم میں دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں فرشتوں نے آدمؑ کو سجدہ کیا، وہاں وہ تنہا نہ تھے (۰۷: ۱۱) اور تنہا کیونکر ہوتے جبکہ ہر کامل انسان میں ایک عالمِ ذرّ ہوا کرتا ہے، اور انسانِ مکمل کی بہت سی کاپیاں بھی ہوتی ہیں، جن کا مشاہدہ نہ صرف منزلِ عزرائیلیہ ہی میں ہوتا ہے، بلکہ مرتبۂ عقل پر بھی یہ سرِّ عظیم موجود ہے، تصوّر کریں اور سوچ لیں کہ وہاں کس طرح ہر بار ایک نورانی جنم ہوتا ہے۔
۷۔ عہدِ اَلَسْت کی تجدید: قرآنِ مجید کے ہر واقعۂ روحانی اورہر معجزۂ عقلی کا تعلق عالمِ شخصی ہی سے ہے، لہٰذا ہر عالمِ شخصی کے لئے یہ امر ضروری ہوا کہ اس میں تمام گزشتہ معجزات رونما ہوجائیں، چنانچہ شبِ قدر وہ موقع ہے، جس میں بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لے کر انھیں اپنی روح کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے، اور
۱۶۴
اس پرورشِ روحانی و عقلی کے پیشِ نظر خدا نے پوچھا: “آیا میں تمہارا ربّ (ہر گونہ پرورش کرنے والا ) نہیں ہوں؟ انھوں نے کہا کیوں نہیں۔” یہ عہدِ الست ہے، جو ہر ہر انسانِ کامل کی روحانیّت میں تمام انسانوں کو حاضر کرکے لیا جاتا ہے۔
۸۔ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸): سورۂ لقمان میں ارشاد ہے: تم سب کا پیدا کرنا اور زندہ کرنا (یعنی ابداع وانبعاث) بس ایسا ہی ہے، جیسا ایک شخص (یعنی انسانِ کامل) کا (۳۱: ۲۸) یہ ترجمہ اصل راز کی نقاب کشائی کے لئے کافی نہیں، آئیے نفسِ واحدہ کے دوسرے معنی کو دیکھتے ہیں: واحدہ فاعلہ کے وزن پر وہ چیز ہے، جو ایک کرلینے والی ہے، چنانچہ نفسِ واحدہ کے معنی ہوئے حضرتِ آدمؑ، ہر پیغمبر، اور ہر امام، یعنی انسانِ کامل، جو اپنی ابداع و انبعاث میں جملہ ارواح کو ایک کرلیتا ہے، کیونکہ ہر کل اس وقت بحقیقت کُل ہوسکتا ہے، جبکہ اس کے تمام اجزا واصل ہوں، پس ہر شخص نہ صرف انسانِ کامل ہی کی ابداع و انبعاث سے وابستہ ہے، بلکہ اپنی ذات میں بھی انفرادی قیامت کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا، تو خدا وندِ تعالیٰ سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) میں قسمیہ ارشاد نہ فرماتا کہ انسان خسارے میں ہے، ظاہر ہے کہ آدمی کا خسارہ صرف روحانی ترقی ہی میں ہے۔
۹۔ شبِ قدر کی صبح (۹۷: ۰۵)؟: یعنی اس آیۂ مبارکہ میں کیا حکمت پوشیدہ ہے: سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ۔ ع وہ (رات) سلامتی ہے طلوعِ فجر تک؟
جواب: سلام تائید ہے اور فجر سے صبحِ قیامت مراد ہے، جو طلوعِ نورِ عقل اور صبحِ ازل ہے، اس کا یہ مطلب ہوا کہ عالمِ شخصی کا دورِ روحانی شب ہے، اور دورِ
۱۶۵
عقلانی روز، پس شبِ قدر تمام روحانی منازل پر محیط ہے، اور اس کا کمال یہ ہے کہ یہ ظہورات و تجلّیاتِ ازل تک پہنچا دیتی ہے، کیونکہ انسان مرتبۂ ازل سے یہاں آیا ہے، اور اسے لوٹ کر وہاں جانا ہے۔
۱۰۔ شب قدر اور اجتماعی قیامت: شاید آپ نے پڑھا ہوگا کہ قیامت انفرادی بھی ہے، اور اجتماعی بھی، چنانچہ اس دور کی اجتماعی قیامت کی شبِ قدر ہیں: حجتِ قائمؑ، اور ایسی لیلۃ القدر میں حضرتِ قائم القیامت پوشیدہ پوشیدہ نازل ہوئے، اور قیامت مخفی برپا ہوگئی، اب اس کے دُوررس اثرات و نتائج کا سلسلہ جاری ہے، چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہوتا ہے(۲۲: ۴۷) لہٰذا روزِ قیامت جو سنیچر ہے، وہ فیصلہ، پھر نتائج کے لحاظ سے ہزار برسوں پر محیط ہے، یہ ہفت ادوارِ کبیر میں سے آخری دور ہوگا، جس میں بڑے بڑے واقعات و معجزات رونما ہونگے، بین الاقوامی اتحاد و یگانگت کا دور دورا ہوگا، سیّارۂ زمین نمونۂ بہشت بن جائے گا، دنیا بھر میں نورِ اسلام کی روشنی پھیل جائے گی، روحانی سائنس عام ہوجائے گی، لوگ اُڑن طشتریوں کی مدد سے پرواز کرکے دوسرے سیّاروں کی سیاحت کریں گے، اور مومنینِ بایقین سے اولیاء اللہ کی طرح ظہورِ کرامات ہونے لگے گا۔
۱۱۔ فرشتوں اور روحوں کے نزول کا عالمی مقصد: ملائکہ و ارواح کے نازل ہونے کا ایک مقصد عالمِ شخصی میں ہے جس کا مختصر ذکر ہوچکا، اور دوسرا مقصد آفاقی اور عالمی ہے، وہ یہ ہے کہ اب ان آسمانی طاقتوں کے باطنی عمل سے وہی انقلاب برپا ہوجائے گا، جس کا ذکر قیامت کے عنوان سے قرآنِ کریم میں موجود ہے، تاہم ان تمام پُرحکمت پیش گوئیوں کو حقیقی معنوں میں جاننے کی ضرورت ہے، جو
۱۶۶
دورِ قیامت کی بڑی بڑی تبدیلیوں اور ترقیوں سے متعلق ہیں، آپ یہ بات بھول نہ جائیں کہ فرشتہ اور روح مرتبۂ روحانیّت پر کچھ اور ہے، اور مقامِ مادّیت پر کچھ اور، چنانچہ ہر سائنسی دریافت و انکشاف (DISCOVERY) فکر سے ہوئی، اور ایسی فکر میں فرشتہ تھا، یا روح تھی، اسی طرح آج کی اس بے پناہ طوفانی ترقی میں “شبِ قدر” کے فرشتوں اور روحوں کا ہاتھ ہے، تاکہ دنیا کی حالت یکسر تبدیل ہوکر خداوندِ عالم کا وعدہ پورا ہوجائے، وہ وعدہ، جو اس نے قرآنِ عزیز میں فرمایا ہے، مذہب، اخلاق، انسانیّت، علم، اور سائنس (حکمت) کی روشنیوں سے سیّارۂ زمین منوّر ہوجانے سے متعلق ہے (۳۹: ۶۹)۔
۱۲۔ ایک ترتیبی حکمت: سورۂ حجر (۱۵: ۸۵ تا ۸۷) میں یہ ترتیبی حکمت موجود ہے کہ پہلی آیۂ کریمہ میں تخلیقِ کائنات کا ذکر ہے، پھر قیامت کے آنے کی یقین دہانی کے ساتھ آنحضرتؐ سے فرمایا گیا ہے کہ آؐپ لوگوں کی جہالت و نافرمانی پر دلگیر نہ ہوجائیں، بلکہ خوبی کے ساتھ درگزر کریں، دوسری آیت میں پروردگار کی صفتِ “َلْخَلَّاقُ الْعَلِیْم” (بڑا پیدا کرنے والا بڑا دانا ہے) بیان ہوئی ہے، جس طرح لفظِ رازق سے رزّاق خاص ہے، اسی طرح اسمِ خالق سے خلّاق خاص ہے، پس اس حکم میں بزبانِ حکمت یہ بشارت دی گئی ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی جانشینی کی مرتبت میں ظاہراً و باطناً کارِ دین کے لئے خداوندِ تعالیٰ خاندانِ نبوّت سے یکے بعدِ دیگرے اشخاصِ امامت کو پیدا کرتا رہے گا، اور تیسری آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم کا تذکرہ ہے کہ اس نے ازراہِ عنایت حضورِ انورؐ کو ایامِ ہفتہ کی طرح سات سات اماموں کا نورانی سلسلہ اور حضرتِ قائم دیا ہے کہ آپ قرآنِ عظیم کی تأویل ہیں، کیونکہ
۱۶۷
تأویل روحانیّت اور قیامت کی صورت میں آنے والی تھی، جو شبِ قدر اور حضرتِ قائم علینا سلامہ کے نور سے وابستہ ہے(۰۷: ۵۳) الحمد للہ ربّ العالمین۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
ہفتہ ۲۲؍جمادی الثّانی ۱۴۱۰ھ
۲۰؍جنوری۱۹۹۰ء
نوٹ: آپ کتابِ “وجہِ دین” کا بغور مطالعہ کریں، تاکہ شبِ قدر اور حضرتِ قائم علینا سلامہ سے متعلق معلومات میں زبردست اضافہ ہو۔
۱۶۸
روح اور مادّہ
قسط: ۲
۱۔ ظاہری فرق: روح اور مادّہ ظاہراً ایک دوسرے کے برعکس ہیں، کہ روح لطیف، زندہ، اور غیر مرئی (نادیدنی) ہے، وہ تقسیم نہیں ہوتی، زمان و مکان سے بالاتر ہے، اس کی نہ تو مکانی مسافت ہے، اور نہ ہی زمانی، اس میں ابعادِ ثلاثہ (طول، عرض، عمق) نہیں، اور نہ ہی اس کی کوئی جہت (طرف) پائی جاتی ہے، وہ روکنے سے نہیں رکتی، کیونکہ اس کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں، تم ہوا جیسی چیزوں کو بھی قید کرسکتے ہو، مگر روح کو نہیں، لیکن جسم کی یہ خصوصیات نہیں، یہ کثیف، مردہ (جبکہ روح نہ ہو) اور دیدنی ہے، تقسیم ہو سکتا ہے، زمان و مکان کے تحت ہے، وقت اور جگہ کی مسافت سے مجبور اور ابعادِ ثلاثہ کا حامل ہے، اس لئے اس کی اطراف ہیں، اور اس کے واسطے بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں، پس روح اور مادّہ کے درمیان بڑا فرق ہے، جس کا یہاں مختصراً ذکر ہوا۔
۲۔ روح اور جسم کی شرکت: جو بات روح کے بارے میں کہی گئی، اور جو خاصیت جسم کی بیان ہوئی، وہ ان دونوں کے الگ الگ ہونے کی صورت میں ہے، مگر جب تک جسم و جان ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، تب تک اس شرکت سے کچھ اور بات بن جاتی ہے، مثلاً روح جو ذاتِ اصل میں تقسیم نہیں ہوسکتی تھی، اب یہاں بہت سے اجسام کے توسط سے تقسیم ہوگئی، جیسے خورشیدِ جہان آرا کہ وہ فی نفسہٖ
۱۶۹
قسمت پذیر نہیں، لیکن اس کے سامنے جتنے آئینے رکھے جائیں، ان میں اتنے سورج نظر آئیں گے، اور اس اشتراک میں جسم کی مثال یہ ہے کہ وہ ازخود مردہ تھا، اور مردہ ہوگا، لیکن جب تک روح کے ساتھ ہے، تب تک زندہ ہے، اس بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
الف: روحِ مجرد پر الگ غور کرنا ہوگا،
ب: بے روح جسم پر جداگانہ سوچنا پڑے گا،
ج: پھر جسم و جان کے وجودِ مربوط کو دیکھنے کی ضرورت ہوگی، تاکہ یہ معلوم ہو کہ ان تین حالتوں میں سے ہر ایک حالت کی کیا حقیقت ہے، تاکہ اس تحقیق سے خود شناسی میں مدد مل سکے، جس میں حضرتِ ربّ العزّت کی معرفت پنہان ہے۔
۳۔ روح اور مادّہ کی وحدت: ہر چیز کی حقیقتِ حال کا علم تصوّرِ ازل ہی سے ہوسکتا ہے، چنانچہ آپ نے بارہا سنا ہے کہ عالمِ شخصی میں ازل کا تجدّد ہوتا ہے، آپ اسے مظاہرہ (DEMONSTRATION) بھی کہہ سکتے ہیں، جس میں وحدت و یک حقیقت کا نورطلوع ہوجاتا ہے، اس نور میں کن کن اشیاء کی وحدت ہے، اس کا پتا نہیں چلتا، مگر قرآنِ عزیز اور امامِ برحقؑ ہی کے وسیلے سے، چنانچہ وہ نورِ اقدس و اطہر ایک اکیلا ہونے کے باوصف کل حقیقتوں اور معرفتوں کا جامع بھی ہے، اور نمائندہ بھی، کیونکہ یہ وہ لؤلوئے مکنون ہے، جس کو پھیلانے سے دونوں جہان کا وجود بنتا ہے، پھر دستِ قدرت کون و مکان کو اسی گوہرِ یک دانہ کی صورت میں لپیٹ لیتا ہے، پس یہی لؤلو جوہرِ جواہر، حقیقتِ حقائق، جامعِ جوامع، اصلِ اصول، عقلِ عقول، اور نورِ انوار ہے، پس یہ نورِ روح الارواح بھی ہے، اور حجرِ ابیض (سنگِ سفید) بھی، یعنی
۱۷۰
یہاں روح اور مادّہ ایک ہی چیز کے دونام ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات و موجودات کی درجاتی سیڑھی بھی ہے، اور مساواتِ رحمانی کی چھت (عرش /تختِ شاہی) بھی، یہاں پر تمام معترضانہ سوالات ختم ہوجاتے ہیں۔
۴۔ ہر اسم اور ہر مُسَمّٰی کی یکجائی و یک حقیقتی: ربّ کریم نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو تین مرحلوں میں علمِ اسماء کی تعلیم دی، وہ مراحل یہ ہیں: ظاہر، روحانیّت، اور عقلانیّت، چنانچہ پہلے مرحلے میں ایک اسمِ اعظم سکھایا گیا، دوسرے مرحلے میں کئی اسمائے عظام عطا ہوئے، اور تیسرے میں کلماتِ تامّات سکھائے گئے(۰۲: ۳۱؛ ۰۲: ۳۷) جن کے آخر میں کلمۂ باری (کُنْ/ہوجا) آکر سب سے اوّل قرار پایا، اب آدمِ صفی اللہ کو مقامِ ازل کا مشاہدہ ہوا، جہاں ہر اسم اور ہر مسمّٰی کی یکجائی اور یک حقیقتی کا منظر تھا، کیونکہ یہ کہنا بجا ہے کہ جس طرح عالمِ کثرت میں چیزیں منتشر اور کثیرہیں، اسی طرح عالمِ وحدت میں یہی چیزیں مرکوز و منظم اور ایک ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ ایک ہے، اور وہ نورِ وحدت ہے، جس کے اسماء بے شمار ہیں، کیونکہ وہ ہر ہر مسمّٰی کا نمائندۂ حقیقی و عرفانی ہے، پس وہ نہ صرف روح اور مادّہ ہے، بلکہ کائنات و موجودات کی ہر شیٔ بھی ہے، قرآنِ حکیم کی ہر مثال کا ممثول بھی وہی نور ہے، اور ہر ہر آیت کے اشارۂ حکمت کا مُشارٌ اِلَیہ (وہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو) بھی بس یہی نور ہے۔
۵۔ آسمان اور اس کی چیزیں: جب قرآنِ حکیم کے ظاہر و باطن میں ہر علم اور ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) تو یقیناً اس میں علمِ اسماء بھی محفوظ ہے، جس کے حصول سے حضرتِ آدمؑ سرفراز ہوئے تھے، چنانچہ قرآنِ پاک کا حکیمانہ اشارہ
۱۷۱
یوں ہے کہ عالمِ وحدت (عالمِ عقل) میں نورِ ازل ہی بجائے خود سب کچھ ہے، لہٰذا حقیقت یہی ہے کہ اس نور کی نورانیّت میں ہر مسمّٰی اور ہر اسم موجود ہے، مثال کے طور پر نور ہی آسمان اور اس کی ہر چیز ہے، جیسے سورج، چاند، ستارے (خواہ واحد ہو یا جمع) بادل، بجلی، بارش، دن، رات، صبح، شام، مشرق، مغرب، ہفتہ، مہینہ، سال، کسوف (سورج گرہن) خسوف (چاند گرہن) بروج، رُجوم، اس کے علاوہ عرش و کرسی، اور قلم و لوح سے متعلق تمام اشارات بھی نورِ عقل کی حرکت میں موجود ہیں، الغرض علمِ اسماء (علمِ حقائقِ اشیاء) کی روشنی میں عالمِ امراور نورِ ازل کا تصوّر ہوا، جس سے پتا چلا کہ اس میں یہ مادّی آسمان اور اس کی ہر چیز ایک زندہ نور کی صورت میں موجود ہے، پس ظاہر ہوا کہ مادّہ بھی دراصل ایک ازلی روح ہے، جو فی الوقت قدرت و حکمتِ خداوندی سے منجمد ہوگئی ہے، لیکن جب قیامت القیامات برپا ہوجائے گی، تو اس وقت یہ جمود ٹوٹ جائیگا، اور متعلقہ روح بیدار ہوجائے گی۔
۶۔ خزائنِ خداوندی: سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں اللہ تعالیٰ کے خزانوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، یہ خزانے کہاں ہیں؟ خدا کے پاس (عِنْدَنَا) اور اس مادّی دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں، جو پروردگارِ عالم کے خزینوں سے نازل نہ ہوئی ہو، خواہ سنگِ سیاہ کیوں نہ ہو، آپ نورِ ازل کا خیال کریں کہ وہ ربّ کریم کے پاس کتنا ہی بڑا خزانہ ہے، اور عقل و روح کے دوسرے خزانے بھی ہیں، جملہ خزائن سے ہر گونہ برکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں، اور ان میں سے بعض روحانی برکتیں خدا کے حکم سے مادّی صورت میں بدل جاتی ہیں، یہ ہوا مادّیت کا ایک بہت بڑا راز، جس کا علم بیحد ضروری تھا، تاکہ مذہب اور سائنس کی ہم آہنگی معلوم ہوسکے۔
۱۷۲
۷۔ مادّہ روح سے ہے، اور روح امر سے: عوالم تین ہیں، جن میں سب سے اوپر عالمِ امر ہے، جو عالمِ عقل اور عالمِ وحدت ہے، اس کے نیچے عالمِ روحانی ہے، اور سب سے نیچے عالمِ جسمانی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ نہ صرف یہ مادّی کائنات، بلکہ عالمِ روحانی بھی امرِ کُنْ(ہوجا) کے تحت ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ روح اور جسم دراصل سرچشمۂ ابداع ہی سے ہیں، جیسا کہ قرآنِ کریم کا بابرکت ارشاد ہے: بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِذَا قَضٰٓی اَمْراً فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ‘ کُنْ فَیَکُوْنُ (۰۲: ۱۱۷) خدا موجد ہے آسمانوں اور زمین کا اور جب کوئی امر (کام ) مقرر کرتا ہے تو بس اسے فرما دیتا ہے کہ “ہوجا” پس وہ ہوجاتا ہے (۰۲: ۱۱۷) اس حکم میں تین بنیادی حکمتیں ہیں:
الف: کائنات (آسمان و زمین) کی روحانی اور مادّی دو حیثیتیں ہیں، روحانی حیثیت میں یہ امرِ کُنْ سے پیدا ہوئی ہے، پھر رفتہ رفتہ اس میں مادّیت مکمل ہوئی ہے۔
ب: اسی طرح ہر ستارہ اور سیّارہ وجود میں آتا ہے۔
ج: شب و روز کی مثال پر فنا و بقا یا عدم و وجود کے بڑے بڑے ادوار ہیں، اور یہ کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے (۲۸: ۸۸؛ ۰۲: ۱۱۷) تصوّرِ ازل کا یہی اشارہ ہے، کہ اس میں آفتابِ نور اپنے مسلسل طلوع و غروب سے دائرۂ بقا و فنا پر چیزوں کی گردش کو ظاہر کرتا ہے۔
۸۔ جزو سے کل کی دلیل: کائنات و موجودات یعنی آسمان، عناصر، جمادات، نباتات، حیوانات، انسان، جنّ، اور فرشتہ ایک ہی اصل سے ہیں، اور وہ خزینۂ خزائن ہے (۱۵: ۲۱) اور ان کا ایک دوسرے سے بہت مختلف اور الگ الگ ہونا
۱۷۳
درجات کی وجہ سے ہے، تو درجات میں عروج بھی ممکن ہے، اور نزول بھی، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: قُلْ کُوْنُوْاحِجِارَۃً اَوْحَدِیْداً (۱۷: ۵۰) کہو کہ تم پتھر ہوجاؤ یا لوہا۔ یہ مفروضۂ محال نہیں، بلکہ یہ خدائے قادرِ مطلق کا وہ غالب قانون اور زبردست حکم ہے، جو آگ کو گلشن (۲۱: ۶۹) اور آدمی کو بندر بنا سکتا ہے (۰۲: ۶۵) پس ان لوگوں کی روح، جن کے بارے میں یہ حکم ہوا ہے، یقیناً مرجانے کے بعد پتھر یا لوہے کی شکل میں منجمد ہوگئی، اس قرآنی دلیل سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ مادّہ کا وجود روح سے بنا ہے، اس لئے اس کا سائنسی رجحان و میلان روح ہی کی طرف ہے، اور اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جیسے مادّہ کا کسی بھی پاور میں تبدیل ہوجانا۔
۹۔ سیّارۂ زمین کی ابتدائی آبادی؟ قانونِ خزائن کی حکمت کا کہنا ہے کہ ہر چیز خدا کے کسی ایک خزانے سے نہیں آتی، بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف تمام خزانوں سے ہوکر خزینۂ آخر سے نازل ہوجاتی ہے (۱۵: ۲۱) تاکہ سارے خزانوں کی برکتوں کے لئے سبیل بنے، پس سیّارۂ زمین کی صورتِ باطن (روح) اسی طرح نازل ہوئی، وہ روحِ منجمد کی مادّیت کے لباس میں ملبوس ہوا، اسی میں عناصر کا ذکر بھی ہے، اور پہاڑوں کا تذکرہ بھی، زمین پر نباتات اور درختوں کو اگانے کے لئے ابداعی قسم کے بیچ بکھیر دیئے گئے، کیڑے مکوڑے جیسے چھوٹے چھوٹے جانور بھی البتّہ ابداعی انڈوں سے پیدا ہوئے، بڑے بڑے جانور، جیسے حیوان اور انسان، پہلے پہل اجسامِ لطیف میں پیدا ہوئے، پھر رفتہ رفتہ ان میں موجودہ جسمانیت پیدا ہوگئی، جیسا کہ سیّارۂ زمین کے آدمِ اوّل کے ہُبُوط (نیچے اترنا) کا قصّہ ہے (۰۲: ۳۸) کہ وہ اور ان کے تمام ساتھی لطیف جسموں میں آئے تھے، انسان ہمیشہ سے سیّارہ بہ سیّارہ منتقل
۱۷۴
ہوتا رہا اور رہے گا (۸۴: ۱۹)۔
۱۰۔ لطیف زندگی: کائناتِ ظاہر نفسِ کلّی کے بحرِمحیط میں مستغرق ہے، روحِ اعظم کا یہی نورانی سمندر امامِ مبینؑ اور لوحِ محفوظ ہے، جس میں کسی استثناء کے بغیر تمام چیزوں کی لطیف، زندہ، اور بولتی تصویریں مچھلیوں کی طرح تیر رہی ہیں، اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں، یہی لوحِ محفوظ کا سب سے وسیع اور قابلِ فہم تصوّر ہے، روح الارواح کا یہ بے پایان سمندر کلمۂ باری اور قلمِ الٰہی کے بعد تیسرا خزانۂ غیب ہے، جس سے مذکورۂ بالا قانونِ خزائن کے مطابق چیزیں سیّارۂ زمین پر نازل ہوتی رہتی ہیں، بغیر اس کے کہ اللہ کے خزانوں میں کوئی کمی واقع ہوجائے۔ آخر میں عاجزانہ دعا ہے کہ ربِّ کریم اپنے خزانۂ نور کے علم سے سیّارۂ زمین کو منور کردے (۳۹: ۶۹)
نوٹ: مقالۂ ہٰذا کی قسطِ اوّل کو کتابِ “حقائقِ عالیہ” میں پڑھ لیں، حکمتِ انجماد کے لئے حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام کے ارشادِ مبارک کو”علمی علاج (کتاب العلاج )” ص۴۰۳ پر دیکھ لیں۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
اتوار ۳۰؍جمادی الثّانی ۱۴۱۰ھ
۲۸؍جنوری ۱۹۹۰ء
۱۷۵
آیت کی تفسیر آیت سے
۱۔ اطاعتِ رسولؐ: قرآنِ حکیم کی لاتعداد خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس کی ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے یا آیات سے ہوا کرتی ہے، مثال کے طور پر سورۂ نساء کے اس ارشادِ مبارک کو دیکھ لیں، جو اطاعت جیسے دین کے سب سے بڑے موضوع کے بارے میں ہے، اور وہ یہ ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقْدْ اَطَاعَ اللّٰہَ (ترجمہ: ) جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا (۰۴: ۸۰) اس ربّانی تعلیم سے پیغمبرِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی اطاعت و فرمانبرداری کی بہت بڑی اہمیت ظاہر ہوجاتی ہے، تاہم یہاں اہلِ دانش کے لئے یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ حضورِ انورؐ کی یہ اطاعت براہِ راست ہوسکتی ہے؟ یا بالواسطہ؟ پس وہ تفسیری آیت، جس میں اس سوال کا جواب موجود ہے، یہ ہے:
۲۔ (ترجمہ): اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں صاحبانِ امر ہیں (۰۴: ۵۹) اب اس روشن ہدایت سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ پیغمبرِ خداؐ کی اطاعت أئمّۂ طاہرینؑ کے توسط سے ہوسکتی ہے کہ امامانِ حق ہی اولواالامر ہیں، ان کے سوا کوئی ایسا سلسلہ ہے ہی نہیں، جو رہتی دنیا تک جاری و باقی ہو، جس کے دلائل قرآن و حدیث میں موجود ہوں، جس کو خدا نے اپنا نور قرار دیا ہو، جیسے اس علیم و حکیم نے سلسلۂ امامت کو اپنا نور ٹھہرایا ہے (۰۵: ۱۵؛۰۷: ۱۵۷؛۲۴: ۳۵؛ ۰۴: ۱۷۴؛ ۵۷: ۲۸؛ ۰۹: ۳۲؛۶۱: ۰۸)۔
۳۔ آیۂ بیعت: سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: بیشک
۱۷۶
اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی (۰۹: ۱۱۱) چنانچہ پروردگارِ عالم اوراہلِ ایمان کی اسی بیع و شرا (خرید و فروخت) اور عہد و پیمان کی تجدید و وضاحت کی خاطر عملِ بیعت کا حکم ہوا، اور وہ یہ ہے: جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا ہی سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے ۔۔۔ (۴۸: ۱۰) خوب یاد رہے کہ لفظِ “بیعت” باعَ سے ہے، جس کے معنی ہیں: بیچنا، خریدنا، اور یہ عہد و پیمان بھی ہے، پھر آپ یہ حکمت بھی سمجھ لیں کہ عرفانی بیعت کا مظاہرہ عالمِ عقل میں ہوتا ہے، جس کے بارے میں حکیم پیر ناصرِ خسرو ق س اپنے دیوان میں فرماتے ہیں:
دستم بکفِ دستِ نبی داد ببیعت
زیرِ شجرِ عالی پُرسایہ و مُثمر
(میرے عظیم معلّمِ روحانی نے) بیعت کے لئے میرے ہاتھ کوپیغمبراکرمؐ کے دستِ مبارک کی ہتھیلی میں دے دیا، اس عالی شان سایہ دار اور پُرثمر درخت کے نیچے (جس کا ذکر قرآنِ مجید (۴۸: ۱۸) میں موجود ہے) جس کو تاریخ و تفسیر میں “بیعتِ رضوان” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
۴۔ رسولؐ کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے: جس طرح فرمایا گیا کہ رسولؐ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، اسی طرح ارشاد ہوا کہ پیغمبرؐ کی بیعت اللہ ہی کی بیعت ہے، تو کیا اس کے معنی یہ نہیں ہوئے کہ آنحضرت صلعم کا دستِ مبارک یدُاللہ کا درجہ رکھتا تھا؟ پس کیا عجب ہے کہ پیغمبرِ اکرمؐ کے بعد بھی یہ انتہائی عظیم نعمت برقرار رہے، اور حضورِ اکرمؐ کی برحق جانشینی کی بدولت امامِ عالیمقامؑ کا بابرکت ہاتھ دستِ خدا
۱۷۷
کے مرتبے پر ہو، کیونکہ دینِ اسلام دوگرانقدر چیزوں کی بنیاد پر مکمل ہوا ہے: قرآن، اور اس کا معلّم، یا نور، اور کتاب (۰۵: ۱۵) ورنہ نور کے نہ ہونے سے دین میں بہت بڑا خلا پیدا ہوجائے گا، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۴) میں ہے کہ: “خدا ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات کو لیتا ہے۔” اس ہدایت سماوی میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، جو ذیل کی طرح ہے:
۵۔ اگر خدا چاہتا تو ایک ساتھ توبہ اور صدقہ دونوں کے لئے لفظِ “قبول” کو استعمال فرماتا، مگر ایسا نہیں کیا، بلکہ صدقات کے بارے میں ارشاد ہوا: یَاْخُذُ (وہ لیتا ہے) اور یہ ہاتھ کا فعل ہے، جس کو زمانۂ نبوّت میں رسول اللہؐ نے انجام دینا تھا، بعد ازان یہ کام امامِ زمانؑ کا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا امرِدوامی (خُذْ) برقرار و باقی رہے، اور وہ ارشاد یہ ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلَوٰ تَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (۰۹: ۱۰۳، اے رسولؐ) تم ان کے مال کی زکوٰۃ لو (اور) اس کی بدولت ان کو (روح اور عقل کی آلودگیوں سے) پاک صاف کرو اور ان کے واسطے دعائے خیر کرو کیونکہ تمہاری دعا ان لوگوں کے حق میں اطمینان (کا باعث) ہے (۰۹: ۱۰۳) اور یہ رازِ سربستہ دل نشین کرلینا کہ عارفانہ زکات عالمِ عقل میں لی جاتی ہے۔
۶۔ قرآنِ حکیم کے دروازے بند نہیں ہوئے: اگرچہ حضرتِ خاتمِ انبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی رحلت کے ساتھ ساتھ نزولِ وحی کے دروازے بند ہوگئے، لیکن قرآن کے علم و حکمت اور اس کے نورِ مجسّم (۰۵: ۱۵) کی معلّمی کے بابرکت ابواب (دروازے) ہمیشہ کے لئے اسی شان سے مفتوح ہیں، کیونکہ یہ
۱۷۸
بات رحمتِ خداوندی سے بہت ہی دور ہے کہ شروع شروع کے مسلمین و مومنین کے لئے قرآن اور اسلام کا خوانِ نعمت عام ہو، اور بعد میں آنے والے محض تاخیرِ زمانی کی بناء پر ان عالی قدر نعمتوں سے محروم رہ جائیں، پس یہ حقیقت ہے کہ جس شان سے نورِعلیؑ یعنی نورِ امامت پیغمبرِ خداؐ کے علم و حکمت کا دروازہ ہے، اسی شان سے اور اسی معنٰی میں یہ قرآن کا بھی دروازہ ہے، کیونکہ رحمتِ عالمؐ کا علم و حکمت دراصل قرآن ہی ہے۔
۷۔ قرآن کا مخاطِب اور مخاطَب: قرآنِ کریم کا مخاطِب ( خطاب کرنے والا) ایک ہی ہے، اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہے، اور مخاطَب (جس سے خطاب ہو) آنحضرتؐ اور زمانۂ نبوّت کے مومنین ہیں، اور اس کے بعد قرآنی خطاب کا تعلق ہر زمانے کے امام اوراہلِ ایمان سے ہے، تاہم قرآن کے تاریخی واقعات کا ظاہری پہلو اپنی جگہ پر ہے، اگرچہ ان میں بھی تاویل ہے، جس کا تعلق تمام زمانوں سے ہے، جس طرح بیعتِ رضوان اگرچہ ایک تاریخی واقعہ ہے، لیکن آپ نے یہاں سن لیا کہ حضرتِ پیر ناصرِ خسرو ق س نے کس طرح مقامِ عقل پر وہی بیعت کی۔
۸۔ آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کی تفسیر: سورۂ نور کا یہ عالیشان ارشاد بڑا بابرکت ہے: خدا آسمانوں اور زمین کا نور (یعنی ہدایت کی روشنی ) ہے۔۔۔ (۲۴: ۳۵) اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) ہے، جس کے علم و حکمت کا دروازہ سورۂ حدید کی اس آیۂ کریمہ میں ہے: اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور اس کے رسول (محمدؐ) پر ایمان لاؤ (جیسا کہ حق ہے) تو خدا تم کو اپنی رحمت کے (ظاہری و باطنی) دو حصّے اجر عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور مقرر کرے گا (یعنی نورِ امامت کی معرفت عنایت ہوگی) جس کی روشنی میں تم چلو گے ۔۔۔ (۵۷: ۲۸) مانا کہ اس آخری
۱۷۹
نور (یعنی چراغِ امامت) کی روشنی میں چلنا تو ہے، لیکن کہاں ؟ کس طرف؟ آیا راہِ مستقیم پر؟ کیا روح اور عقل کی منزلوں میں؟ نورِ نبیؐ کی طرف؟ اسرارِ قرآن و حدیث کی جانب؟ فنافی الرّسولؐ اور فنافی اللہ کی سمت؟ ان سب سوالات کا واحد جواب ہے: “جی ہاں۔”
۹۔ چلنے کی مثالیں: قرآنِ حکیم میں اس قسم کے بہت سے الفاظ ہیں، جن میں چلنے کے معنی موجود ہیں، جیسے لفظِ ہدایت ، صراط، سبیل، شرعۃ، منہاج، طریق، طریقۃ، سبب، سیر، سلوک، زاہب (مذہب) مناکب (راستے) اتباع (پیروی کرنا) سعی، سارِعوا، سابقوا، مساق (چلنا) اور ایسے بہت سے الفاظ ہیں، جو چلنے کے معانی رکھتے ہیں، جس کا مقصد روحانی ارتقا اور عقلانی سعی (۶۶: ۰۸) ہے، تاکہ گنجِ ازل کی دولتِ لازوال حاصل ہو، یاد رہے کہ “نور” صرف آنکھوں ہی کے لئے نہیں، بلکہ آدمی کے جملہ حواسِ ظاہر و باطن اور اس کے عالمِ شخصی کے ذرّہ ذرّہ کو جگمگانے کے واسطے اس کی سخت ضرورت ہے، آپ کتابِ “قرآنی علاج(کتاب العلاج )” کے صفحہ ۱۸۵ پر ملاحظہ کریں کہ حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام نے کس حکیمانہ انداز سے ضرورتِ نور کی ترجمانی فرمائی ہے، اس سے یہ حقیقت بدرجۂ انتہا نکھر کر سامنے آگئی کہ اللہ تعالیٰ عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اسی لئے عالمِ عقل کا ذرّہ ذرّہ پُرنور و پُرضیاء ہوگیا ہے، اور عالمِ دین، جس پر ہمیشہ نورانی بارش برستی رہتی ہے، باطناً عالمِ شخصی ہی میں ہے۔
۱۰۔ جامعِ جوامع- کُلِ کُلّیّات: اللہ تبارک و تعالیٰ نے امامِ مبینؑ کے نورِ اقدس کومجموعات کا مجموعہ اور کُلّیّات کا کل بناکر تمام چیزوں پر محیط کردیا
۱۸۰
ہے، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۱۲) میں ہے، وہ جوامع اس طرح ہیں: امرِ کُلّ (کلمۂ باری، کلمۂ کُنْ ) عقلِ کلّ (سماواتِ عقلی ۲۱: ۳۰؛ ۵۵: ۰۷) نفس کلّ (سات زمین ۳۹: ۱۰، مِثْلَھُنَّ۶۵: ۱۲) روحِ کل (روحِ اعظم، روحُ الارواح ۱۷: ۸۵) نفسِ واحدہ، کتابِ کل (اُمّ الکتاب ۷۸: ۲۹؛ ۴۳: ۰۴) الکتاب و المیزان (۵۷: ۲۵) کتابِ مکنون، کتابِ مرقوم (عِلِّیّین) کتابِ ناطق، کتابِ صامت، دَھر، ازل ( حین ۷۶: ۰۱) آزال، کنزِ ازل، نورِ ازل (گوہرِ عقل) نورالانوار، خزائنِ اشیاء، قلمِ قدرت، لوحِ محفوظ، عرشِ عظیم، کرسی، مُلکِ قدیم، اسرارِ ابد(کلماتِ تامّات)آباد (ابدیں) بیت اللہ، بیت العتیق، بیت العزّۃ، بیت المعمور، بہشت، رضوان، عالمِ شخصی، عالمِ صغیر، عالمِ کبیر، عالمِ لطیف، عالمِ علوی،عالمِ دین، ناسوت، ملکوت، جبروت، لاہوت، عالمِ ذرّ، عالمِ روحانی، عالمِ عقل (عالمِ وحدت) اسمِ اعظم، نقشِ مکرم، نگینۂ حکمت، اسمائُ الحسنیٰ، معجزاتِ انبیاء، واقعاتِ عالم، حقائقِ اشیاء، معارفِ بقاوفنا، وغیرہ، پس امامِ زمان صلوات اللہ علیہ مجموعۂ مجموعات اور کُلِ کُلّیّات ہیں، اور کائنات کو لپیٹنے کا اشارہ اسی حقیقت کی طرف ہے۔
۱۱۔ مُفسِّر و مُؤوّلِ قرآن: ایک حدیثِ شریف (مَنْ مَاتَ ۔۔۔۔ ) کے مفہوم کے مطابق امامِ زمان علیہ السّلام اس نورِ مجسّم کا نام ہے، جو نور کی حقیقی شناخت حاصل کرنے والوں کے لئے دن رات قرآن کی تفسیر و تاویل کی ضوفشانی کرتا رہتا ہے، سچ بات تو یہ ہے کہ امامِ عالیمقامؑ کے علمی اور روحانی کمالات و معجزات سب کے سب اسی میدان سے متعلق ہیں، چونکہ یہ عقلی معجزات ہیں، اور قرآنی علم و حکمت کی روشنی پھیلانے کی خاطر، لہٰذا ہر طرف اس کے جیسے دینی فوائد ہیں، ان کا نہ کوئی شمار ہوسکتا ہے، اور نہ کوئی اندازہ۔
۱۸۱
۱۲۔ آخری تفسیر و تأویل: جس طرح خدا کی اطاعت سب سے پہلے ہے، اس کے بعد رسولؐ کی اطاعت ہے، اور آخر میں اولوا الامر (یعنی أئمّۂ ہُدا) کی اطاعت ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم کی آخری تفسیر و تأویل ان آیاتِ کریمہ میں ہے، جو نورِ امامت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، تاکہ بمقتصائے حکمت قرآنِ عزیز کی تدریجی ہدایت سلسلۂ امامت کے توسط سے ظاہر ہوتی رہے، کیونکہ قرآنی تأویل بہت سے ارتقائی درجات پر مبنی ہے، اس لئے وہ شروع سے لے کر قیامت تک پورے دور پر محیط ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
بدھ ۱۰؍رجب المرجب ۱۴۱۰ھ
۷؍ فروری ۱۹۹۰ء
۱۸۲
عزیزانِ امریکا کے سوالات
چیئرمین نورالدّین راجپاری صاحب اور ایڈوائزر شمس الدّین جمعہ صاحب خدا کے فضل و کرم سے صفِ اوّل کے مومنینِ بایقین میں سے ہیں، ہمارے یہ دونوں خاص شاگرد اور ایمانی دوست امریکا جیسے انتہائی دور ملک سے (جو سیّارۂ زمین کے دوسرے حصے پر ہے) یہاں ملاقات و علمی سوالات کی خاطر آئے ہوئے ہیں، اس سے آپ بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ سبحان اللہ! یہ نیک بخت عزیزان اور ان کے ہمدرس مومنین، جو امریکا اور دوسرے ممالک میں رہتے ہیں، کس شدّت سے علمِ امامت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں، اور کس حد تک معرفت کے دلدادہ ہیں، کیا یہ ان عالی ہمت دانشمندوں کے جذبۂ دینداری کا کمال نہیں ہے، کہ امریکا میں حسن و خوبی سے علمی خدمت انجام دے رہے ہیں، جہاں ہر گونہ مادّی ترقی کا زبردست طوفان جاری ہے؟ آیا ان کے سامنے دنیوی مشکلات اور رکاوٹیں نہیں ہیں؟ بہت زیادہ ہیں، لیکن جہاں کوئی مومن سعادتِ ازلی سے راہِ مستقیم پر گامزن ہورہا ہو، وہاں وہ نورانی ہدایت کی روشنی میں دنیا کی ہر ہر تکلیف کو عارضی قراردے کر بھول جاتا ہے، آپ سب دعا کریں کہ ہر دینی اور علمی خادم کی مشکلات رفتہ رفتہ آسان اور ختم ہوجائیں! آمین!
وہ سوالات یہ ہیں:
سوال نمبر۱: کتابِ ’’روح کیا ہے؟‘‘ سوال (۵۷) کے جواب میں آپ نے کسی راز کا اشارہ کرتے ہوئے ن۔س۔ل کا ذکر کیا ہے، کیا آپ اس کے بارے میں کچھ وضاحت کریں گے؟
۱۸۳
جواب: یہ راز جیسے پہلے تھا، ویسے اب بھی راز ہی ہے، جو سورۂ یاسین (۳۶: ۵۱) میں ہے، مگر ہاں، میں زبانی بصیغۂ راز یہ بھید بتاؤں گا، اور اس کی شرط یہ ہوگی کہ آپ تھوڑی دیر کیلئے قلم اور کاغذ کو چھوڑ دیں، اور کلاس کے ٹیپ ریکارڈر کے سٹاپ بٹن کو بھی دبائیں۔
سوال نمبر۲: بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) “اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے ہی تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو۔” اس آیۂ مبارکہ کی ترتیب میں کیوں پہلے جسمانی تخلیق کا ذکر ہے؟ اور جہاں سجدۂ آدم کا مقام ہے، وہاں دوسرے بہت سے لوگ کیوں موجود ہیں؟ نیز یہ بتائیں کہ جب کوئی عارف منازلِ معرفت کے سلسلے میں واقعۂ آدمؑ سے گزرتا ہے، تب شیطان کیوں سامنے ہوتا ہے؟ کیا ایسا ہونا ضروری ہے؟ کیوں؟
جواب: ہر ہر علمی و عرفانی چیز اور ہر حکیمانہ مثال امامِ مبینؑ کی ذاتِ عالی صفات میں محدود ہے ( ۳۶: ۱۲) پس یقیناً امامِ زمانؑ نمونۂ آدمؑ بھی ہیں، چنانچہ ہادیٔ برحقؑ کے وجودِ مبارک کو دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ تخلیقِ آدم جسمانیّت سے شروع ہوکر روحانیّت و عقلانیّت میں مکمل ہوگئی تھی، جواب کا دوسرا حصّہ: ہر آدم کے عالمِ شخصی میں ازسرِ نو لوگوں کی تخلیق ہوتی ہے، لِذا (لہٰذا) جہاں فرشتے آدم کے لئے سجدہ کرتے ہیں، وہاں لوگ غیر شعوری طور پر موجود ہوتے ہیں، تیسرا حصّہ: واقعۂ آدمؑ سے اگر شیطان کو الگ کردیا جائے، تو پھر ایسا واقعہ اور اس کی معرفت کیسے درست اور کامل ہوسکتی ہے، جبکہ دراصل اس میں شیطان بھی موجود ہے۔
سوال نمبر۳: بحوالۂ (۰۷: ۱۳): پس شیطان سے فرمایا جاتا ہے کہ: “تو اس مقام سے اتر جا تجھ کو حق حاصل نہیں کہ تو اس میں تکبر کرے سو نکل جا۔” یہ کونسی جگہ
۱۸۴
ہے، جہاں سے شیطان کو اترنے اور نکل جانے کا حکم ملا؟
جواب: یہ عالمِ شخصی کی بہشتِ برین (مقامِ عقل) ہے، جہاں سے شیطان زمینِ روح پر گرگیا، پھر وہاں سے خارج ہوا کیونکہ پہلا حکم ہے: فَاھْبِطْ مِنھا، اور دوسرا حکم ہے: فَاخْرُجْ (۰۷: ۱۳) یاد رہے کہ یہ دو مختلف حکم ہیں، ایک ہے بلندی سے اترنے کے لئے اور دوسرا پاکیزہ جگہ سے نکلنے کے لئے۔
سوال نمبر۴: انسان کی جسمانی پیدائش کے لئے ۹ماہ کا عرصہ مقرر ہے، آیا روحانی جنم کے لئے بھی کوئی ایسا وقت مقرر ہے؟ اگر ہے تو وہ کیسا اور کتنا وقت ہے؟
جواب: جسمانی پیدائش آدمی کے اختیار سے بالا تر ہے، لِذا اس کے لئے وقت معین ہوا، مگر روحانی جنم چونکہ انسان کے اختیار میں ہے، اس لئے وہ جلدی بھی ہوسکتا ہے، اور بڑی دیر سے بھی، تاہم اختیار کی مہلت ختم ہوجانے کے بعد اس کا ایک وقتِ مقرر بھی ہے، اوروہ ہے نولاکھ برس کا زمانہ (۹۰۰۰۰۰) جس میں آدمی کا روحانی جنم ہوتا ہے اور دودھ چھڑایا جاتا ہے، اور اس کو معلوم کرنے کا قرآنی قاعدہ یہ ہے:
اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس ۳۰ مہینے میں پورا ہوتا ہے، (۴۶: ۱۵) اوسط مہینہ ۳۰ دن کا ہوتا ہے، اس لئے ۳۰ دن×۳۰ ماہ=۹۰۰ دن ہوئے، چونکہ خدا کا ایک دن ہمارے ہزار سال کے برابر ہوتا ہے(۲۲: ۴۷) لِذا ۹۰۰× ۱۰۰۰ = ۹۰۰۰۰۰ (نولاکھ) برس کا زمانہ ہوا، جیسا کہ قول ہے: نُہ صد ہزاران سال شُد تا قالبم را ساختند۔ نوسو ہزار (۹۰۰۰۰۰) سال ہوئے، تب میرا جسم بنایا گیا۔
سوال نمبر۵: ’’اے ایمان والو تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بنانا (۰۵: ۵۱)‘‘ براہِ مہربانی اس حکمِ الٰہی کی وضاحت کریں؟
جواب: یہود و نصاریٰ جیسے لوگوں کے ساتھ ظاہری دوستی جائز ہے، مگر قلبی
۱۸۵
دوستی منع ہے، جیساکہ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۱۸) کا ارشاد ہے: “اے ایمان والو اپنے سوا کسی کو دلی دوست مت بناؤ۔” چنانچہ اس حکم میں گہری دوستی کی ممانعت کی گئی ہے (۰۵: ۵۱) جس کی تفسیر یہ آیت ہے (یعنی ۰۳: ۱۱۸)۔
سوال نمبر۶: “میزان الحقائق” کے صفحہ ۸۰ پر ہے: “اس سیّارے کے انسانوں کے علاوہ انسانوں کے آٹھ قسم کے گروہ اور بھی ہیں۔” گویا کل نو قسم کے گروہ ہیں، کیا ہم ان نو گروہ کو، جوجواہرِ مختلفہ سے بنے ہوئے ہیں، ترتیب اور فرقِ اجسام کے لحاظ سے الگ الگ نام دے سکتے ہیں؟ اگر دے سکتے ہیں، تو وہ جدا جدا اسماء کونسے ہیں؟ اور وہ لطیف اجسام کائنات میں کہاں کہاں ہیں؟
جواب: ظاہری انسان ایک گروہ ہے لطیف انسان کے گروہی درجات بعنوانِ بہشت آٹھ ہیں، جو مختلف سیّاروں سے متعلق ہیں، کیونکہ ہر بہشت ایک لطیف انسانی گروہ ہے، پس ان روحانیوں کے مراتب وہی ہیں، جو جنتوں کے لئے مقرر ہیں، اور نام بھی وہی ہیں، جیسے: خلد، دارالسّلام، دارالقرار ، جنتِ عدن ، جنت الماویٰ، جنت النعیم، عِلّیِّین، فردوس۔
سوال نمبر۷: مذکورہ کتاب کے صفحہ ۸۱ پر درج ہے: “ان آٹھ قسم کے روحانیوں کے اجسام گرمی، سردی، تری، اور خشکی سے بالاتر مختلف جوہروں سے ہوسکتے ہیں۔” آپ نے نویں جسم کو روحانیین میں شامل نہیں کیا ہے، اس کے بارے میں کچھ وضاحت کریں؟
جواب: اس بیان میں ایک تو جسمِ عنصری ہے، اور آٹھ قسم کے کوکبی اجسام ہیں، پھر جسمِ خاکی کو ابدانِ لطیف میں کیسے شامل کیا جائے، یعنی موجودہ جسم کو بہشتی لباس نہیں کہہ سکتے۔
۱۸۶
سوال نمبر۸: انسان اور جنّات کے بعد جوسات گروہ ہیں، ان میں سے پہلے کونسے گروہ نے اپنی ذات کی معرفت میں اپنے ربّ اور اس کی پیدا کردہ کائنات کی شناخت حاصل کرلی ہے؟
جواب: چونکہ یہ سوال میزان الحقائق سے پیدا ہوا ہے، اس لئے اسی کتاب (صفحہ ۸۱) سے پڑھ لیں: ان سب کی حقیقت ایک ہی ہے، ابتداء میں یہ انسان تھے، اور اب بھی شکل و شباہت میں انسان ہی ہیں، صرف فرق اِن میں اور اُن میں اتنا ہے کہ وہ تسخیرِ کائنات کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچ چکے ہیں۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ معرفت اگرچہ کاملین کو دنیا ہی میں حاصل ہوجاتی ہے، لیکن بحیثیتِ مجموعی یہ اوپر سے اوپر جاکر مکمل ہوجاتی ہے، اور ہاں، جن کو دوزخِ جہالت کی سزا کے بعد بہشتِ اوّل میں داخل کیا جاتا ہے، ان کی معرفت وہاں سے شروع ہوجاتی ہے۔
سوال نمبر۹: حضرتِ نوح علیہ السّلام ۹۰۰ (نوسو) سال تک زندہ رہے،اور ایک روایت کے مطابق ان کا قد بھی آٹھ گز کا تھا، اس کی کیا وجہ ہے؟ آج لوگ مقابلتاً چھوٹے چھوٹے کیوں ہیں؟ اور ان کی عمریں اتنی مختصر کیوں ہیں؟ آیا کسی دور میں پھر انسان کی عمر اور قد کے بڑھ جانے کا امکان ہے؟
جواب: جی ہاں، تاریخِ انبیاءعلیہم السّلام میں سب سے طویل عمر حضرتِ نوحؑ کی ہے، اور وہ ایک روایت کے مطابق اس طرح ہے: آپؑ کو چالیس برس میں نبوّت ملی، اور ساڑھے نوسوبرس وعظ فرمایا، پھر طوفان کے بعد ساٹھ برس زندہ رہے، اس حساب سے ان کی عمر ایک ہزار پچاس سال کی ہوئی، اس میں چند حکمتیں ہیں:
الف: عمرِ نوحؑ قدرتِ خداوندی کی ایک نشانی (معجزہ) ہے۔
ب: ہمیشہ کے لئے دنیا والوں پر یہ ظاہر کرنا تھاکہ جولوگ دعوتِ حق سے
۱۸۷
منکرہو جاتے ہیں، وہ بار بار کی نصیحت اور طولِ زمانہ سے ایسے دشمن ہوجاتے ہیں کہ ان پر عذاب نازل ہوجاتا ہے۔
ج: لوگوں کے مسلسل گناہوں کی وجہ سے آج جتنی بیماریاں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں، اتنی اس زمانے میں نہ تھیں (۳۰: ۴۱)۔
د: اگر کوئی شخص عمرِنوحؑ کی طرح درازیٔ زندگانی چاہتا ہے، تو وہ اپنے آپ کو جسمِ لطیف کے لئے تیار کریں، جس کی حیات کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس کے شکمِ مادر میں رہنے اور دودھ چھڑانے کی مدت نولاکھ برس کی ہے، لیکن سب سے بڑی بات اس حدیث قدسی میں ہے: اے ابنِ آدم تومیری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مانند بناؤں گا، ایسا زندہ کہ تو کبھی نہ مرے۔۔۔۔
سوال نمبر۱۰: بحوالۂ مقالہ: شبِ قدر کے معجزات، نکتہ (۱۰)، محوّلہ آیت: (۲۲: ۴۷)، آپ نے ارشاد فرمایا کہ: “روزِ قیامت، جو سنیچر ہے، وہ فیصلہ پھر نتائج کے لحاظ سے ہزار برسوں پر محیط ہے، یہ ہفت ادوارِکبیر میں سے آخری دور ہوگا،” کیا آپ ان ہزاربرسوں کی کوئی خاص مدت بیان کرسکتے ہیں؟ اس کے بعد کیا ہوگا؟ بعد کے دور کی مدّت کیا ہوگی؟
جواب: ایک قیامت حضورِ پاکؐ کے عالمِ شخصی میں پوشیدہ تھی، ایک قیامت آپؐ کے ساتھ تھی (اساس=علیؑ) ہر امام ایک قیامت، ہر ساتواں امام ایک بڑی قیامت، حضور سے تین سو سال بعد ایک بڑی قیامت، ۷×۷=۴۹ پر ایک بہت بڑی قیامت، جو قبلاً برپا ہوچکی، اور اب ہم سب دورِ قیامت میں داخل ہوگئے، اب انقلابات ہی انقلابات آئیں گے، سب سے پہلے روحانی انقلاب، علمی انقلاب، سائنسی انقلاب، فنی انقلاب، سیاسی انقلاب، وغیرہ، تفصیل کے لئے یہاں گنجائش
۱۸۸
نہیں۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
جمعہ ۱۹؍رجب المرجب ۱۴۱۰ھ
۱۶؍ فروری ۱۹۹۰ء
۱۸۹
حضرتِ طالوتؑ
ضروری مشورہ: قصّۂ طالوت قرآنِ کریم کے صرف ایک ہی مقام پر موجود ہے، لہٰذا آپ پارۂ سیقول کے آخری سات آیت کا ترجمہ خوب غور سے دیکھ لیں۔
۱۔آپؑ کا مرتبہ؟ حضرتِ طالوت علیہ السّلام امام تھے، جس کی کئی روشن دلیلیں قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، آپ قرآنِ پاک میں قصّۂ طالوتؑ کو خوب غور و فکر سے پڑھ لیں، تاکہ ایسے قرآنی خزائن سے واقفیت و آگہی ہو، جو اسرارِ امامت کے انمول جواہر سے مملو ہیں، جن میں سے ہر گوہر دُرّ یتیم اس معنٰی میں ہے کہ وہ سرمایۂ دو جہان ہے۔
۲۔ بنی اسرائیل کے سردار: حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں نے اپنے نبی (شموئیل) سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ (یعنی امام) مقرر کیجئے تاکہ ہم راہِ خدا میں (ظاہری اور باطنی) جہاد کریں۔۔۔ (۰۲: ۲۴۶) ظاہر ہے کہ یہ سردار دنیاوی نہیں بلکہ دینی تھے، لہٰذا ان کا حدودِ دین ہونا ثابت ہے، چنانچہ انھوں نے دینی بادشاہ (امام) کے تقرر کے لئے درخواست کی، کیونکہ امام ہی روحانیّت اور علم و حکمت کا سر چشمہ ہوا کرتا ہے، جس کے بغیر جہادِ باطن ممکن ہی نہیں۔
۱۹۰
۳۔ مَلِک (بادشاہ، یعنی امام): دراصل قرآنِ حکیم نے کسی ظاہری اور دنیوی بادشاہ کو کبھی بادشاہ ہی نہ کہا، بلکہ یہ بات انتہائی اہم ہے کہ بادشاہ (مَلِک) کا لفظ امامِ عالیمقامؑ کے لئے استعمال ہوا ہے، جبکہ دنیا کی مثال میں بادشاہ اپنی حد تک با اختیار اور قانون ساز ہوا کرتا ہے، تو امام جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ولیّٔ امر اور صاحبِ اختیار ہے، وہ مَلِک (بادشاہ) کیوں نہ کہلائے، پس امام علیہ السّلام کے روحانی بادشاہ ہونے میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔
۴۔ اِنبعاث کا راز: حضرت امام طالوت علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں لفظِ “بعث” آیا ہے، جس کے معنی ہیں: اس نے بھیجا، زندہ کیا، اٹھایا، مردے کو جلا اٹھایا، اس میں ابداع وانبعاث کا راز پوشیدہ ہے، سو اس سے ظاہر ہوا کہ طالوتؑ یوں ہی مرتبۂ امامت پر فائز نہیں ہوئے تھے بلکہ تمام روحانی مراحل کی شدید آزمائشوں سے گزرجانے کے بعد ان کو یہ مقام عطا ہوا تھا۔
۵۔ امامؑ خدا کی طرف سے ہوتا ہے: ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بیشک خدا نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ( بعث، یعنی ابداع و انبعاث کے بعد بھیجا)۔۔۔ خدا نے اسے تم پر فضیلت دی ہے اور (مال میں نہ سہی مگر) علمِ روحانی اور جسمِ کوکبی کا پھیلاؤ تو اسی کا زیادہ فرمایا ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عطا کرتا ہے۔۔۔ (۰۲: ۲۴۷)۔
۶۔ علم و جسمِ بسیط: امامِ اقدس واطہرؑ کے مرتبۂ علمی کے قائل تو بہت سے لوگ ہیں، لیکن ان کے معجزاتی بدن کے بارے میں جاننا ہر شخص کے بس کی بات
۱۹۱
نہیں، چنانچہ متعلقہ آیۂ کریمہ کا یہ حصّہ انتہائی عجیب و غریب ہے: وَزَادَہ‘ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۔۔۔ (۰۲: ۲۴۷) عام حالت میں جسم کا ذکر پہلے آتا ہے اور علم کا تذکرہ بعد میں ہوتا ہے، لیکن یہاں چونکہ قالبِ عنصری کی بات ہی نہیں، جسمِ بسیط کا بیان ہے، جو علم و معرفت کے ایک خاص حصّے کے بعد حاصل ہوجاتا ہے، لہٰذا آیت کی الفاظی ترتیب میں علم پہلے ہے اور جسم بعد میں، تاکہ اہلِ عقل یہ رمز سمجھ سکیں۔
۷۔ عالمِ ذرّ، یا ذرّاتی جسم: ذَرُّ کے اصل معنی ہیں: چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، ہوا میں منتشر غبار، ذرّات (واحد: ذرّہ) نسل، اسی سے “عالمِ ذرّ” کی اصطلاح بنی ہے، یعنی ایک ایسی لطیف دنیا، جس کی تمام چیزیں انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کی شکل میں ہیں، عالمِ ذرّ میں کائناتِ ظاہر کی ہرہر چیز کی نمائندگی ہے، اور یہی عالم امامِ مبینؑ کا ذرّاتی جسم بھی ہے، جس طرح ہر آدمی کا بدن بے شمار خلیات (CELLS) کا مجموعہ ہوا کرتا ہے، درحالے کہ ہر خلیہ میں ایک کائنات سوئی ہوئی ہے، اسی طرح انسانِ کامل کا ذرّاتی بدن ہے، جو ذاتی قیامت اور صورِ اسرافیل کی وجہ سے حقیقی معنوں میں بیدارو زندہ ہوچکا ہے، اور اسی لئے وہ بحرِعلمِ لدنّی کے ساتھ ساتھ بسیط و محیط ہوگیا ہے۔
۸۔ جسمِ لطیف کے ظہورات: قصّۂ طالوتؑ میں اس اصول کا ذکر ہوا ہے کہ امامِ برحقؑ کی فضیلت و برگزیدگی دو چیزوں کی وجہ سے ہے: علمِ روحانی، اور جسمِ لطیف، یہ دونوں چیزیں اگر سب کے سامنے ظاہر اور عام ہوجاتیں، تو معرفت کا سارا امتحان اور کامیابی کے تمام درجات بالکل ختم ہوجاتے، مگر یہ بات خدائے علیم و حکیم کو منظور ہی نہ تھی، پس امامِ عالیمقام علیہ السّلام کے یہ دونوں ہمہ رس اور عالمگیر
۱۹۲
معجزے محبت و تابعداری سے مشروط ہوئے چنانچہ اہلِ معرفت پر یہ آفاقی حقیقت منکشف ہوگئی کہ ہر چیز ایک جہت سے امامِ مبینؑ کی ذاتِ بابرکات میں محدود ہوکر نورِ امامت کے رنگ سے رنگین اور عشق و معرفت کے عطر سے خوشبودار ہوچکی ہے (۳۶: ۱۲) اس لئے ہر شیٔ میں امام شناسی کا کوئی بھید پوشیدہ رہتا ہے، اور کوئی چیز اس قانونِ معرفت سے باہر نہیں، چنانچہ جنّات (پریوں) کے لطیف جسم میں، اُڑن طشتریوں کی مثال میں، اور روح القدس کی تمثیل (۱۹: ۱۷) میں امامِ مبینؑ کے معجزاتی ظہورات کے اشارے موجود ہیں، سبحان اللہ! امامِ برحقؑ کی شان!
۹۔ پیغمبرِ اکرمؐ کے دو معجزے: یقیناً ازل ہی سے سنتِ الٰہی ایسی چلی آئی کہ ہادیٔ زمان کے بنیادی معجزے آدم و حوّا کی طرح دو ہی ہوں، تاکہ یہ بتدریج بے شمار معجزات کو جنم دیں، چنانچہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم دو دائمی اور عقلی معجزے چھوڑ گئے ہیں: کتاب اللہ (یعنی قرآن) اور عترت (امام) جس میں وہی آسمانی علم اور پاک شخصیّت ہے، اور اس کے پس منظر میں جسمِ لطیف، جیسا کہ تذکرۂ طالوتؑ میں ہے۔
۱۰۔ امام کی روحانی سلطنت کی علامت: ان کے نبی نے ان سے یہ بھی کہا: طالوت کے (مِن جانبِ اللہ) بادشاہ یعنی امام ہونے کی یہ نشانی ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا، جس میں تمہارے ربّ کی طرف سے تسکین ہے، اور وہ چیزیں ہیں جو موسیٰ و ہارون کی اولاد نے چھوڑی ہیں اور اس صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوں گے۔۔۔ (۰۲: ۲۴۸) روحانیّت کی گوناگون مثالیں ہیں، اور ان میں سے ایک مثال ایسے صندوقِ مقفل کی طرح ہے، جو انتہائی قیمتی اشیاء سے بھرا ہو،
۱۹۳
پس امام اور روحانی سلطنت کا مالک وہی ہوسکتا ہے، جس کے حجتوں اور داعیوں کے پاس صندوقِ سکینہ آجائے، جس میں ہر قسم کا اطمینان ہے، خصوصاً امامِ برحقؑ کے معجزاتِ علمی سے تسکین، اور فرمایا کہ اس صندوق کو فرشتے ہی اٹھاتے ہیں، یعنی یہ صندوق مادّی نہیں، بلکہ روحانی ہے، جس میں تجدّدِ امثال کے طریق پر نبوّت و امامت کے کل معجزات محفوظ ہیں ( بَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ ٰ الُ مُوْسٰی وَ ٰ الُ ھٰرُوْنَ ۰۲: ۲۴۸ ) ۔
۱۱۔ أساس التّاویل: قاضی نعمان نے “أساس ا لتاویل” صفحہ ۲۴۷ پر تحریر فرمایا ہے: وکانت الامامۃ دَورِ موسٰی قد انتہت الٰی طالوت۔۔۔ ۔ اور ص ۲۴۸ پر درج ہے: وکان طالوت امام الزّمان۔۔۔۔
۱۲۔ سرائرواسرارالنّطقاء: اس کتاب (ص ۱۸۳) کے حوالے سے طالوتؑ بنیامین کی نسل سے تھا، بنیامین حضرتِ یعقوبؑ کا بیٹا اور حضرتِ یوسفؑ کا حجت تھا، جب حضرتِ موسیٰؑ کی زندگی ہی میں حضرتِ ہارونؑ کا انتقال ہوا تو ان کے چھوٹے فرزند پر حضرتِ یوشع بن النونؑ کو کفیل اور امام بنایا گیا “واجعلہ کفیلاً علٰی ولدک الا صغر۔ ص۱۷۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ہارونؑ پر وحی نازل فرمائی کہ تم یوشعؑ کو اپنے چھوٹے بیٹے پر کفیل بناؤ۔” پس یہ واقعہ بھی اسرارِ امامت میں سے ہے۔
۱۳۔ دعائم الاسلام: حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کا فرمان ہے: ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کو خداوندِ عالم نے امامت کے مرتبۂ اعلیٰ سے نوازا ہے، اس لئے لوگ ہم سے حسد کرتے ہیں، اور اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: فَقَدْٰ اتَیْنَآٰ الَ اِبْرَاھِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاتَیْنٰھُمْ مُّلْکاً عَظِیْمًا(۰۴: ۵۴) سو ہم نے
۱۹۴
خاندانِ ابراہیمؑ کو کتاب بھی دی ہے اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت بھی دی ہے۔ یعنی ہم نے آلِ ابراہیمؑ میں سے انبیاء و مرسلین اور أئمّہ پیدا کئے ہیں۔ الغرض مُلکِ عظیم سے مرتبۂ امامت مراد ہے، اور قرآنِ حکیم میں جہاں کہیں بھی ہو، لفظِ “مَلِک” (بادشاہ) امامِ عالیمقامؑ ہی کے لئے آیا ہے، کسی ظاہری حکمران کے لئے نہیں۔
۱۴۔ قصّۂ بلقیس میں”مُلوک”: بلقیس کہنے لگی بادشاہانِ مملکت جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تہ و بالا کردیتے ہیں (یعنی بصورتِ جنگ) اور اس کے رہنے والوں میں جو عزت دار ہیں ان کو ذلیل کیا کرتے ہیں (۲۷: ۳۴) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ: حضراتِ أئمّہؑ جو روحانی مُلوک ہیں، اپنے اپنے زمانے میں اعلیٰ درجے کے عوالمِ شخصی کو فتح کرلیتے ہیں، جنگ اور تعمیرِ نو کی مثال میں فساد ہوتا ہے، اور سرکش و نافرمان قوّتوں کو ذلیل کیا جاتا ہے، اور سخت صلاحیتوں کو نرم بنایا جاتا ہے۔
۱۵۔ حدودِ دین یا کامیاب مومنین: خداوندِ تعالیٰ نے ہر زمانے کے امام کو بادشاہ بنایا ہے تاکہ لوگ اس کی اطاعت و پیروی کے نتیجے میں بادشاہ ہوجائیں، جیسا کہ سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں ہے: وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکاً (اور تم کو بادشاہ بنایا ۰۵: ۲۰) اس کی مثال یہ ہے کہ عالمِ شخصی ایک عظیم مُلک و مملکت ہے، یعنی بہت بڑی بادشاہی، جس پر کسی کافر دشمن نے قبضہ کیا ہے، اس کافر کو آپ کچھ بھی نام دیں، مثلاً شیطان، یا دیو، یا نفسِ امّارہ، بہرحال یہ بادشاہی دشمن کے تصرّف میں ہے، اب جہاد کے سوا کوئی چارہ نہیں، اور جہاد امامِ وقتؑ کے بغیر ممکن ہی نہیں، کیونکہ یہ کوئی
۱۹۵
بازیچۂ اطفال ہے نہیں، پس حدودِ دین یا کامیاب مومنین امامِ عالی نسبؑ کی تائید سے اپنے عالمِ شخصی میں جنگ کرتے ہیں، جو بڑی سخت ہوا کرتی ہے، تاہم آخر کار بفضلِ خدا انھیں فتح حاصل ہوجاتی ہے، اور لازوال سلطنت کے مالک ہوجاتے ہیں، یہ ملکۂ سبا کے قصّے میں سے قاعدۂ ملوک (۲۷: ۳۴) کی وضاحت ہے۔ اور سارے بیان کا مرکز بھی یہی ہے، کیونکہ اس میں شروع سے لے کر آخر تک تمام أئمّہ (ملوک) کی عادت کا تذکرہ ہے کہ وہ ہمیشہ کس طرح اپنے لشکر سے کام لے کر عوالمِ شخصی کو لیا کرتے ہیں۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
اتوار۲۱؍رجب المرجب ۱۴۱۰ھ
۱۸؍ فروری ۱۹۹۰ء
۱۹۶
چند پیچیدہ مسائل
۱۔ جِنّ کس اصل سے پیدا ہوتا ہے؟: جواب: جِنّ پوشیدہ ، نادیدہ، اور لطیف ہے، جو کثیف سے پیدا ہوجاتاہے، یعنی انسان سے، انسان اچھے بھی ہیں اور برے بھی، چنانچہ نکوکار انسانوں سے نکوکار جنّات بنتے ہیں، آپ انھیں فرشتے بھی کہہ سکتے ہیں، اور بد اعمال آدمیوں سے بد اعمال جنّوں کا وجود بنتا ہے ایسے جنّات شیاطین کہلاتے ہیں۔
۲۔ کیا اب بھی وہی شیطان موجود ہے، جو زمانۂ آدمؑ میں تھا؟ جواب: نہیں، یہ قانون نہیں، بلکہ نمائندگی کا قانون چلتا ہے، وہ یہ کہ جس طرح ہر زمانے میں حضرتِ آدمؑ کا ایک جانشین ہوا کرتا ہے، اسی طرح ابلیس اور شیطان کے نمائندے ہوا کرتے ہیں، کیونکہ نہ صرف ھادی ہی کی شخصیت بدلتی ہے، بلکہ مضل (گمراہ کرنے والا، یعنی شیطان) بھی دوسرا مقررہوتا ہے۔
۳۔ آیازمانۂ آدمؑ میں صرف ایک ہی شیطان تھا؟: جواب: جی نہیں ، یہ بھی ایک بڑا عجیب راز ہے کہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کے چند اِنسی اور جنّی شیاطین تھے، جیسا کہ سورۂ انعام (۰۶: ۱۱۲) میں ہے: اور اسی طرح ہم نے اِنسی اور جنّی شیاطین ہر نبی کے دشمن بنائے۔۔۔ (۰۶: ۱۱۲) لِکُلِّ نَبِیٍّ (ہر نبی کے لئے) سو یہ کُلّیّہ ہے ہر پیغمبر کے واسطے، اور پھر پیغمبرؐ کے جانشین کے لئے بھی، تاکہ آزمائش کا
۱۹۷
سلسلہ کسی فرق و تفاوت کے بغیر جاری رہے، کیونکہ دین کے بنیادی قوانین ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں۔
۴۔ شیطان کی بنیادی علامت کیا ہے؟: جواب: کوئی شک نہیں کہ شیطان میں بے شمار برائیاں ہیں، لیکن تمام برائیوں کی جڑ یہ ہے کہ وہ ھادیٔ برحق کے سامنے سرِتسلیم خم نہیں کرتا، وہ اپنے آپ کو آدمِ زمانؑ سے بہتر اور برتر سمجھتے ہوئے تکبر کرتا ہے، اسی عمل سے وہ درحقیقت مشرک قرار پاتا ہے، کیونکہ خلیفۂ خدا کو نہ ماننا ہی سب سے بڑا شرک ہے۔
۵۔ اِنسی شیاطین اور جنّی شیاطین کس طرح ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں؟ جواب: وہ ایک دوسرے کے جی میں چکنی چپڑی باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ ان سے لوگوں کو فریب دے کر گمراہ کرسکیں، کیونکہ عوام النّاس مُلمّع کی ہوئی باتوں سے بہت متاثر ہوجاتے ہیں، اور وہ بیچارے یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان میں مغزِ حقیقت ہے؟ یا نہیں؟ (۰۶: ۱۱۲)۔
۶۔ گورخیز کسے کہتے ہیں؟: جواب: گورخیز (قبر سے اٹھنے والا) وہ شخص ہوتا ہے، جو مرجانے اور سپردِ خاک ہونے کے فوراً بعد البتّہ جسمِ لطیف میں نمودار ہوکر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتا ہے، اور اصل واقعہ یوں ہے کہ کبھی کبھار جِنّ مردۂ آسیب زدہ کے روپ میں یہ کام کرتا ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۷۵) میں ارشاد ہے: جو لوگ سود کھاتے ہیں (مرجانے کے بعد) نہیں کھڑے ہوں گے، مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان ( جِنّ ) دیوانہ بنادے لپٹ کر (۰۲: ۲۷۵) سود
۱۹۸
کی تأویل ہے، جس کا ذکر جداگانہ ہونا چاہئے، غرض جس پر جِنّ سوار ہو، وہ ایک اعتبار سے جِنّ ہے، اور دوسرے اعتبار سے خود ہے۔
۷ ۔ گورخیز کو کس نے دیکھا ؟: جواب: مرحوم حمید علی شاہ ہمارے گاؤں (حیدرآباد) کے اکابر اور معتبر حضرات میں سے تھے، انھوں نے یہ ذکر کیا کہ بزرگوار شاہ نواز شاہ (بلبل پیر) صاحب اور ا ن کے والد محترم پیر شاہ عبدالحمید صاحب بوقتِ شام اپنے گھوڑوں پر گھر کی جانب تشریف لے جارہے تھے کہ بڑونامی گورخیز (یعنی جِنّ) ایک گھوڑے پر سوار ہوکر نمودار ہوا، وہ دائیں بائیں آگے پیچھے سے آکر ان باکرامت ہستیوں کو ڈرانے کی ناکام کوشش کررہا تھا، اتنے میں بزرگ پیر شاہ عبدالحمید صاحب نے چند پتھروں پر دم کیا، اور جِنّ پر سنگ باری کی، یہاں تک کہ وہ حضرات گھر پہنچ گئے، اب گورخیز غائب ہوچکا تھا، ایک ایسا واقعہ سریقول (چین ) میں بھی ہمارے وہاں جانے سے پہلے پیش آیا تھا، جس کا تذکرہ فتح علی خان صاحب اور دوسرے صاحبان کرتے تھے، یہ واقعہ تحقیق (ریسرچ )کے لئے بڑا اہم ہے اس لئے مسگار کے عزیزان پوچھ کر تحقیق کریں۔
۸۔ کیا آپ اس پر مزید قرآنی روشنی ڈال سکتے ہیں؟: جواب: ان شاء اللہ، سورۂ مریم (۱۹: ۱۷) میں معنوی گہرائی سے دیکھ لیں کہ جب حضرتِ مریم علیہا السّلام کے سامنے حضرتِ جبرائیلؑ کا مثالی ظہور ہوا، تو وہ کسی عام انسان کی شکل میں نہیں بلکہ شخصِ کامل کی صورت میں تھا (بَشَراً سَوِیّاً ۱۹: ۱۷) چنانچہ اگر فرشتہ مظہرِ اعلیٰ میں ظاہر ہوسکتا ہے، تو پھر اس میں کیا شک ہے کہ شیطان مظہرِادنیٰ میں آشکار ہو، یعنی کسی ایسے آدمی میں جو غافل، جاہل اور گمراہ ہے، کیونکہ ہر مخلوق کی
۱۹۹
فطری پسند جداگانہ ہوا کرتی ہے، مثال کے طور پر تتلیوں اور بھونروں کو پھول پسند ہیں، مگر مکھیوں کو ایسی چیزیں نہیں بھاتیں، وہ تو غلاظتوں کو چاہتی ہیں، پس انسان کو اختیار حاصل ہے، اگر وہ چاہے تو فرشتے کی منزل (اترنے کی جگہ) ہوسکتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شیطان کا آ لۂ کار بنے (۴۳: ۳۶)۔
۹۔ آیا شیاطین حاضر ہوسکتے ہیں؟: جواب: جی ہاں، شیاطین نہ صرف آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتے ہیں، بلکہ کسی جانور یا کسی انسی شیطان کی صورت میں حاضر بھی ہوسکتے ہیں، جیسا کہ سورۂ مومنون کی ان دوآیتوں کا ارشاد ہے: اور دعا کرو کہ اے میرے ربّ! میں شیاطین کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں (۲۳: ۹۷) اور اے میرے پروردگار! اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیاطین میرے پاس حاضر ہوجائیں (۲۳: ۹۸) کسی کا حاضر ہونا یہ ہے کہ وہ ہماری ظاہری نگاہ کے سامنے آجائے، یہ شیاطینِ انسی بھی ہوسکتے ہیں، اور شیاطینِ جنّی بھی، کیونکہ دونوں قسم کے شیطانوں کا ایک ہی مقصد ہے۔
۱۰۔ نادیدہ مخلوق سے پتھراؤ کیوں ہوتا ہے؟: جواب: بعض دفعہ کسی خاص مقام پر شیاطین علامت کے طور پر چھوٹے چھوٹے پتھر پھینکتے ہیں، اس میں خوف و خطر کی کوئی بات نہیں، یہ صرف قانونِ فطرت کا ایک تجرباتی اور علمی منظر ہے، اس اشارے کے ساتھ کہ شیطان کی عادت ہے پتھراؤ (سنگ باری) کرنا، کیونکہ وہ رجیم (سنگسار کیا گیا، اور سنگسار کرنے والا) ہے، اس لئے دوسروں کو بھی رجیم بنانا چاہتا ہے، اس کی تأویل یہ ہے: دینی دشمن کا ہر سوال، ہر مسئلہ ، ہر طعنہ ایک ایسا خطرناک پتھر ہے، جس کی زد سے کمزور مومن یا تو مر ہی جاتا ہے، یا زخمی ہوجاتا ہے، جس کے
۲۰۰
معنی ہیں دل میں شکوک و شبہات کا جنم لینا، اور روح الایمان کا ختم ہوجانا، جو جیتے جی جہالت کی موت ہے، اور یہ بدترین مرگ ہے۔
۱۱۔ لطیف شیطان کس طرح سنگباری کرسکتا ہے؟: جواب: یہ مسئلہ بیحد ضروری ہے، کیونکہ اس کا تعلق ہر لطیف مخلوق کے فعل سے ہے جیسے فرشتہ، روح، جِنّ، وغیرہ اس کا جواب ظاہری مثالوں سے یہ ہے کہ درخت کثیف ہے، اور اس کے مقابلے میں ہوا لطیف، لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ آندھی اپنی ایک ہی ٹھوکر سے کتنے بڑے اور مضبوط درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتی ہے، ہاتھی کو کیا چیز اٹھارہی ہے؟ روح، گھوڑے کو اس سختی سے کیا شیٔ دوڑا رہی ہے؟ روح ، پرندے کس شیٔ کے زور سے محوِ پرواز ہیں؟ روح کی طاقت سے، مملکتِ سلیمانی میں جنّات کا کیا کردار تھا؟ ہر کام وہی کرتے تھے، آیا قرآنِ پاک میں یہ تذکرہ نہیں کہ فرشتوں نے جہاد میں حصّہ لیا؟ کیوں نہیں، الغرض طاقت کا اصل سرچشمہ روحِ لطیف ہے، اور جسمانی طاقت ہمیشہ اسی کی بدولت مہیّا ہوتی رہتی ہے۔
۱۲۔ کیا عصرِ حاضر میں جنّات کا کوئی مشہور واقعہ ہے؟: جواب: ذاتی واقعات سے قطعِ نظر، شمالی علاقہ جات کے ایک معزز خاندان کا مشہور قصّہ ہے، کہ جنّات یا اجسامِ لطیف یا افرادِ روحانی یا مردانِ پری ظاہر ہوئے بغیر آگئے، وہ اپنی گوناگون حرکتوں سے سب کو پریشان کررہے تھے، مثلاً سنگباری کرنا، بسترہ اور تکیہ کو پھینکنا، چار پائی کو الٹنا، وغیرہ یہ سارے واقعات اکثر رات کے وقت پیش آتے تھے، اسی طرح یہ سلسلہ چند سال تک جاری رہا، مگر پھر بھی شکر ہے کہ وہ حضرات وہاں سال کے ایک ہی موسم میں رہتے تھے، بہرحال سوائے خوف و ہراس کے شاید ان کا
۲۰۱
کچھ نقصان نہیں ہوا، تاہم اس واقعہ میں بہت سے اشارے پوشیدہ ہوسکتے ہیں، جن میں جسمِ لطیف کے بارے میں اچھی خاصی معلومات ہوں، جس پر بہشت کا قیام ہے۔
۱۳۔ آیا جِنّ جانور کا روپ دھار سکتا ہے؟: جواب: بہت سے لوگوں کو یہ ایک بہت بڑی غلطی ہوئی ہے کہ وہ جِنّ و پری کو الگ الگ دوقسم کی مخلوق سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ ایک ہی ہے، جس کو عربی میں جِنّ اور فارسی میں پری کہتے ہیں، پس پری قوم میں سے کوئی مرد یا عورت جانور کا روپ دھار سکتی ہے، یہاں ایک واقعہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں، قصّہ ہے بہت پہلے کا، کہ میرے دادا جان خلیفہ محمد رفیع ابنِ فولاد بیگ بوقتِ شب کسی روحانی مریض پر عملِ حاضراتِ ارواح کرکے گھر کی طرف آرہے تھے کہ دیوان شاہ کے باغیچہ میں ایک بچھڑا نظر آیا، انھوں نے خیال کیا کہ یہ دیوان شاہ کا بچھڑا ہی ہے جسے وہ یہاں سے لے جانا بھول گئے ہوں گے، لیکن بڑا عجیب واقعہ پیش آیا، کہ وہ بچھڑا اونچی اونچی دیواروں کو پھلانگتا ہوا اس طرف چلنے لگا، جس طرف میرے دادا صاحب جارہے تھے، پھر وہ چو کناہوگئے اور دم دعا شروع کی، تاآنکہ گھر کے قریب آتے ہی یہ مخلوق بلی کی صورت میں بدل گئی، جوغضبناک ہوکر میاؤں میاؤں کرتی رہتی تھی، پس وہ سمجھ گئے کہ حاضرات میں کوئی کسر رہ گئی ہے، چنانچہ انھوں نے بلی کو گوشتِ خام کا ایک حصہ دیا، اور وہ اسے غرّاتے ہوئے لے گئی، یہ جنات یعنی پریوں کا ایک قصّہ ہے، جو علمِ تحقیق کی روشنی میں بیان ہوا۔
۱۴۔ اگر کسی گھر میں جِنّ(پری) ہو، تو اس کا کیا علاج ہے؟: جواب: اس کا علاج یہ ہے کہ وہاں بوقتِ شب کثرت سے خدا کو یاد کیا
۲۰۲
جائے، بار بار ذکرِ جلی ہو، عملِ چراغ روشن کے ذریعے گھر کو ہر قسم کے شر سے اللہ کی پناہ میں رکھا جائے، ہر روز اس میں قرآنِ مجید کی آوازبلند ہو، اور سویرے سویرے گریہ و زاری پر مبنی مناجات کی جائے، اور اگر وہ آفت پھر بھی نہیں ٹلتی، تو سمجھ لینا چاہئے کہ اسی میں حکمت و مصلحت ہے، پس ایسی جگہ عبادت، ذکر ، ریاضت، چلّہ، وغیرہ کے لئے انتہائی مفید ہے (۰۹: ۵۲) اور یہ روحانی تر قی کی ضمانت ہے (۰۲: ۱۵۵) کیونکہ یہ آزمائشی خوف کا مقام ہے۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
پیر ۲۹؍رجب المرجب ۱۴۱۰ھ
۲۶؍ فروری ۱۹۹۰ء
۲۰۳
پرتگال سے دوسوال
شعر: منّت منہ کہ خدمتِ سلطان ہمی کنم
منّت شناس ازو کہ بخدمت بداشت است
احسان مت رکھ یہ کہتے ہوئے کہ میں بادشاہ کی خدمت کررہا ہوں، تو خود اسی کا احسان مان لے کہ اس نے تجھ کو اپنی خدمت میں رکھ لیا ہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے دینی پادشاہ نے ہمیں اور ہمارے عزیزوں کو شرق و غربِ عالم میں خدمت کا زرّین موقع عنایت کردیا ہے، الحمد لِلّٰہِ علٰی منّہٖ واِحْسانہٖ۔
پرتگال سے بتوسطِ عزیزان دو سوال آئے ہیں، اور پہلا سوال یہ ہے: اسلام میں روحانی لحاظ سے مُخَنّث کی کیا حیثیت ہے؟ یہ سوال بیحد مشکل ہے، اس لئے کہ اس کا حل کسی بھی ظاہری کتاب میں موجود نہیں، مگر امامِ زمان علیہ السّلام کو خدائے بزرگ و برتر نے ہر چیز کا علم عطا کردیا ہے (۳۶: ۱۲) لہٰذا ہم اسی پاک و پاکیزہ ہستی سے رجوع کرتے ہیں تاکہ تائید حاصل ہو، آمین!
مُخَنّث(ہیجڑاEUNUCH=) کا نام سنتے ہی عوام الناس نفرت کرنے لگتے ہیں، مگر حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں، جب ہم مسئلۂ مُخَنّث کو فقہ کی شہرۂ آفاق کتاب دعائم الاسلام ، جلدِ ثانی، کتاب الفرائض، فصل۷ میں دیکھتے ہیں، تو حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ہیجڑا مقامِ پیشاب کے پیشِ نظر بظاہر ایسا فردِ بشر لگتا ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہے، لیکن مذکورہ کتاب کے حوالے سے أئمّۂ ہُدا علیہم السّلام نے اس مسئلے کو جس طرح حل کیا ہے، اس کی روشنی میں عمل کرنے سے معلوم ہوجائے گا کہ
۲۰۴
ایسا شخص درحقیقت یا تو مردوں کی میراث لینے والا ہے، یا عورتوں کی طرح، اور درمیان میں بھی ہوسکتا ہے، اس حال میں نصف میراث مردانہ اور نصف میراث زنانہ ملے گی، آپ مذکورۂ بالاکتاب میں دیکھیں۔
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ: اسلام میں روحانی لحاظ سے مُخَنّث کی کیا حیثیت ہے؟
جواب: الف: روحِ انسانی اس مادّی دنیا میں آکر کس نوعیت کے بشری لباس میں ملبوس ہوگئی، یہ بات ہنگامی قسم کی ہے، اس لئے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں، کیونکہ دراصل دیکھنا یہ ہے کہ روح کا مرتبۂ ازل کیا ہے، اور اس کو دوبارہ کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ب: قرآنِ حکیم کبھی پیدائشی معیوب انسانوں کی مذمت نہیں کرتا، جیسے جسمانی اندھے، بہرے، گونگے، وغیرہ اس سے ظاہر ہے کہ کوئی بھی فطری عیب انسان کے اختیار میں نہیں، اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کوئی خدائی مصلحت ہے، پس کسی کے مُخَنّث ہونے میں ضرور اللہ کا کوئی راز ہے، اور ہم بندوں سے امتحان۔
ج: روحانی اور علمی اعتبار سے روحِ انسانی مرتبۂ رُجولت (رُجولیت) پر بھی ہے، مرتبۂ نسوانیّت پر بھی، اور درمیان میں بھی ہے، لیکن ان تمام مراتب سے بالاتر جاکر فنافی اللہ ہوجانے کی جو سیڑھی ہے، وہ کبھی بند نہیں ہوسکتی۔
د: آجکل دورِ قیامت اور سائنس کی روشنی میں یہ ایک بڑا عجیب واقعہ بھی مشہور ہورہا ہے کہ قدرتی طور پر جنس تبدیل ہوجانے کی مثال سامنے آئی ہے، یعنی کبھی کبھار کوئی لڑکا بدل کر لڑکی ہوجاتا ہے، اسی طرح کوئی لڑکی لڑکا ہوجاتی ہے، اس واقعہ سے یہ درست نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ روح کے لئے نر و مادہ وغیرہ جیسی صفات عارضی
۲۰۵
ہیں، جبکہ انائے علوی میں اس کا حقیقی اور دائمی مرتبہ اصل سے واصل رہنا، اور فنافی اللہ و بقا باللہ ہے۔
ھ: جب یہ حقیقت تسلیم کی گئی کہ آدمی ایک کائنات ہے، یعنی عالمِ شخصی، اور اس میں بیشمار خلیات و لاتعداد ارواح کا نظام قائم ہے، بلکہ اس میں عالمِ کبیر کی تمام چیزیں بصورتِ لطیف مجموع ہیں، تو پھر ایسے میں انسانی حقیقت کو صرف ایک جسمانی مرد، یا عورت ، یا متوسط کی حد تک محدود ماننا زیادتی ہوگی۔
و: ہر شخص، خواہ کوئی ہیجڑا ہی کیوں نہ ہو، اپنے ذرّاتِ روح کی پر حکمت کثرت کی بدولت دنیا بھر کے مردوں اور خواتین میں پوشیدہ ہے (۰۶: ۱۲۲) بیشک یہ بات آج بحدِّ قوّت ہے، تاکہ کل بہشت میں وہ بحدِّ فعل روحِ کُل (نفسِ واحدہ) میں زندہ ہو کر پسندیدہ افراد کے روپ میں متجلی ہوسکے۔
ز: انسان بحیثیتِ سایۂ روح عالمِ امر سے یہاںآیا ہے (۱۷: ۸۵) یہ وہاں نہ تو مرد ہے، اور نہ عورت،بلکہ ان دونوں سے بالا تر کوئی حقیقت ہے، آپ اسے فرشتہ یا نور کہہ سکتے ہیں، اور یک حقیقت بھی، پس جب کوئی فرد خدا کے حضور لوٹ جاتا ہے، تو وہ اس حال میں مرد،عورت وغیرہ کے اوصاف سے مجرد و آزاد ہو کر اپنی ازلی کیفیت میں جاتا ہے (۰۶: ۹۴)۔
ح: حدودِدین سیڑھی کی طرح ہیں، آپ اس نقشہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ سب سے اوپر کا درجہ صرف نر ہی ہے، درمیان کا ہر درجہ مافوق کے پیشِ نظر مادہ ہے، اور ماتحت کے لحاظ سے نر ہے، اور سب
۲۰۶
سے نچلا درجہ صرف مادہ ہے، یعنی مستجیب، جو فیضِ علم حاصل کر سکتا ہے، مگر کسی کو فیض نہیں پہنچا سکتا، کیونکہ وہ ہنوز مستجیب ہے، اور ماذون نہیں ہوا۔
ط: اس تاویلی سیڑھی سے تین باتوں کا پتا چلتا ہے: ایک وہ ہے، جو صرف مرد ہی کی طرح فیض دیتا ہے، دوسرے وہ ہیں جو عورت کی طرح فیض لیتے بھی ہیں اور پھر مرد کی طرح فیض دیتے بھی ہیں، اور آخری درجہ ایسا ہے کہ وہ فی الوقت عورت کے مقام پر ہے، تاہم وہ علم و عمل سے مرد بھی ہوسکتا ہے، جیسے اس کے اوپر والے ہیں، اور ان سے بھی اوپر جاسکتا ہے۔
ی: اس بیان میں صراحت سے بھی اور اشارت سے بھی مطلوبہ جواب مہیّا کیا گیا ہے، ہماری کتنی کمزوری ہے کہ معاشرے کی مخالفت کے ڈر سے بعض مسائل پر کھل کر روشنی نہیں ڈال سکتے ہیں، الغرض مُخَنّث بھی انسان ہی ہے، خواہ وہ ایک کمزور مرد کی حیثیت میں ہو، یا ایک عاجز عورت کی کیفیت میں، یا درمیانی حالت میں، جس کا قبلاً ذکر ہوچکا، بہرحال یہ اس کی جسمانیّت ہی کی بات ہے، مگر اس کا تعلق روحانیّت سے ہرگز نہیں، کیونکہ مُخَنّث کی روح دوسروں سے مختلف نہیں۔
دوسرا سوال ایک دیندار بہن کا ہے، جس کا پیشہ نرسنگ ہے، ۔۔۔ ان کی خواتین کے لئے نصیحت بالکل درست اور حق ہے، اور جیسا مشورہ دیتی ہیں، وہ جائز ہے۔
نوٹ: پہلے سوال کے جواب میں، جو دس اجزاء پر مشتمل ہے، بہت سی گرانقدر معلومات درج ہوئی ہیں، جو بھی اس تحریر کو پڑھیں، ان سے گزارش ہے کہ اس میں خوب غور سے کام لیں، مثال کے طور پر یہ کہنا کوئی عام بات نہیں کہ ہر شخص بحدِّ قوّت دنیا بھر کے لوگوں میں رہتا ہے، اور کل بہشت میں یہ معجزہ فعلاً ظاہر ہوجائے
۲۰۷
گا، تاکہ روحِ نجات یافتہ کے بہت سے حقیقی ظہورات ہوں۔
بعض دفعہ کوئی ایسا سوال بھی پوچھا جاتا ہے کہ آیا خواتین جنت میں بھی خواتین ہی رہ کر رجال کے مقابلے میں کمتراور حقوق میں محدود و محبوس ہوں گی؟ یا ان کے لئے بھی بڑے بڑے درجات ہوں گے؟
یاد رہے کہ رجولت و نسوانیّت کا تعلق صرف جسمِ خاکی ہی سے ہے، جو موت کے بعد ضائع ہوجاتا ہے، رہا جسمِ ابداعی کا سوال، وہ تو معجزاتی ہے، اس لئے اس میں فرشتہ، جِنّ (پری) حور، غلمان، مردوزن سب کے ظہورات ہیں، آپ قرآنِ مجید میں دیکھیں کہ بہشت میں کون کون سی نعمتیں حاصل ہوں گی، اور کیا کیا چیزیں ناممکن ہیں (۱۴: ۳۴؛ ۱۵: ۲۱؛ ۳۱: ۲۰؛ ۵۰: ۳۵)۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
اتور ۶؍شعبان المعظم ۱۴۱۰ھ
۴؍ مارچ ۱۹۹۰ء
۲۰۸
سرورِ دوستان، فخرِ محبان، عز یزعزیزان، میرے
محسن و مہربان جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب
دامت برکاتہ‘!
صد گونہ شوقِ ملاقات و آرزوئے دستبوسی کے ساتھ گلشنِ دل سے گلدستۂ “یاعلی مدد” پیش کرتا ہوں، دنیائے ظاہر کے پھول مرجھا مرجھا کر زبانِ حال سے گلہائے باطن کی سدا بہار خوبیوں کا تذکرہ کررہے ہیں، جی ہاں، ہر زوال پذیرشیٔ کسی لازوال حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور ہر چیز کی شناخت اس کی ضد سے ہوتی ہے، پس ان پھولوں میں یہ جاذبیّت و کشش اس لئے رکھی گئی ہے کہ، ہم ان غیر فانی گلوں کو یاد کریں، جو باطن، روحانیّت، اور جنت میں ہیں۔
آپ کا ہر ترجمہ لفظی اور معنوی جمال و کمال کی بہشتِ برین ہے، آپ کے قلمِ مقتدرنے بیاض کو ریاضِ جنت بنادیا، آج اگر یہ خوبصورت اور کامیاب تراجم نہ ہوتے، تو شرق و غربِ عالم میں ہمیں ایسے عالی مرتبت دوست کیسے ملتے، ایک بڑے وسیع حلقے سے جس طرح آج دعا حاصل ہورہی ہے، اس کی سعادت ہمیں ممکن نہ ہوتی، اور سب سے بڑھ کر امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے وہ مبارک الفاظ ہم کہاں سے اور کیسے پیدا کرسکتے، جو ان ترجموں کی بدولت آج ارشاد ہوئے ہیں، جیسا کہ مولائے پاک نے ارشاد فرمایا: “میرے پاس پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے تازہ لٹریچر آرہا ہے۔” کسی اور میٹنگ میں مولانے ارشاد فرمایا: “علّامہ نصیرالدّین بہت ایمانی شخص ہیں۔” گزشتہ سال امامِ زمانؑ جب یہاں تشریف لائے تھے، اس دوران ایک شخصیت نے فون پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مولائے پاک آپ سے بہت
۲۰۹
خوش ہیں۔
کسی بڑے عملدار نے کہا کہ مولا آپ سے بیحد راضی ہیں، اگر آپ کو حاضر امامؑ کی خصوصی ملاقات کرائی جائے، تو آپ دیکھ سکیں گے کہ مولا آپ سے کس حد تک خوش ہیں، ایک وزیر نے کہا کہ مولانا حاضر امام علیہ السّلام علّامہ نصیر الدّین کی کتابوں سے نہایت شادمان ہیں، یہ انتہائی عظیم سعادت کس طرح حاصل ہوئی؟ مجھے جذباتی انداز میں کہنا چاہئے: میں ان سے فدا ہوجاؤں، جنھوں نے ترجموں کا مشکل کام انجام دیا، اور ان سے بھی میری جان قربان ہو، جنھوں نے گونا گون خدمات انجام دیں۔ جب ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی آستین چڑھا کر ترجمے کے کام میں مصروف ہوجاتے ہیں، تو گمان ہوتا ہے کہ بہت سی اعلیٰ روحیں رشک کررہی ہیں، اور آسمان کے فرشتے دعائیں دے رہے ہیں۔
آپ کا احسانمند و ممنون
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی
۵؍ مارچ ۱۹۹۰ء
۲۱۰
سب سے عالیقدر خدمت
یہ ایک روشن حقیقت ہے، اور اس میں ذرّہ بھر شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ دنیا میں سب سے عظیم، سب سے افضل، اور سب سے عالیقدر کام علم ہی کا کام ہے، اس بات کی نہ کوئی شخص تردید کرسکتا ہے، اور نہ کوئی مخالفت ممکن ہے، کیونکہ علم کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء پر محیط ہے، یعنی ہر چیز پر علم ہی کا تسلّط ہے، چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ علم ہر چیز پر بادشاہ ہے، لہٰذا علمی کام یا علمی خدمت تمام خدمات پر بادشاہ ہے، اور یہ بات کئی معنوں میں درست ہے، مثال کے طور پر سارے لوگ مختلف قسم کی خدمتوں میں لگے ہوئے ہیں، اور کوئی فردِ بشر خدمت سے خالی نہیں، یعنی بعض افراد اپنے بچوں اور خاندان کی خدمت کر رہے ہیں، بعض اپنے محلے کی خدمت انجام دے رہے ہیں، بعض لوگ گاؤں کے لئے مفید کام کرتے ہیں، کچھ حضرات کو ملک و قوم کی خدمات کی سعادت حاصل ہے، اور بعض صاحبان کا دائرۂ خدمت بہت ہی وسیع بھی ہوسکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ جب خدمات بے شمار ہیں، تو ان سب میں وہ انتہائی ضروری اور سب سے عالیقدر خدمت کونسی ہے، جو بحقیقت سردار یا بادشاہ کہلائے؟ اس کا جواب عقل کی طرف سے یہ ملتا ہے کہ دنیائے خدمات کی بادشاہ علمی خدمت ہی ہے، یعنی قرآنی اور دینی علم کی خدمت، کہ وہ ہر خدمت سے بالا تر ہے۔
آپ یقین کریں کہ ہم بہت سے ساتھی ظاہراً و باطناً مل کر علمی خدمت کررہے ہیں، کیونکہ ظاہر میں ہم سب ایک ہی ادارے میں کام کررہے ہیں، اور باطن میں ہر ساتھی کے دل و دماغ میں سب کی نمائندگی ہے، اور اس میں کوئی تعجب نہیں،
۲۱۱
کیونکہ ملائک سیرت احباب کی اجتماعی روح تائیدی خیال بن کر آتی ہے، توجہ دی جائے تو پتا بھی چل سکتا ہے کہ کس کی صورت میں ہے، ورنہ وہ روح خاموشی سے اپنا کام کرتی رہتی ہے۔
خانۂ حکمت کے سرپرست صدر فتح علی حبیب اور ان کی فرخندہ بخت بیگم گُل شکر ایڈوائزر کی علمی خدمات گونا گون ہیں، ان کی علم دوستی اور زرّین کارنامے قابلِ ستائش ہیں، اس دفعہ جب میں ۶؍اکتوبر ۱۹۸۹ء میں کراچی آیا، تو انھوں نے اپنے دولتخانہ میں مجھے بطورِ مہمان رکھا، تاآنکہ میں ۱۴؍ مارچ ۱۹۹۰ء کو رحیم کورٹ میں رہنے کیلئے گیا، اس طویل عرصے میں جس خلوص سے مہمان نوازی کی گئی، اور جیسی گوناگون خدمات ہوئیں، ان کی کوئی مثال نہیں ملتی، اور اس پر مزید آخراً معصومانہ آنسوؤں کی بارش کے ساتھ یہ درخواست بھی کرنا کہ سر پلیز! آپ خالی گھر میں نہ جائیں، کیونکہ اس عمر میں آپ تکالیف برداشت نہیں کرسکتے، ہمیں مزید خدمت کے لئے موقع عنایت کریں، یہ ان کی کتنی بڑی مہربانی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اپنے جانی دوست فتح علی حبیب، گُل شکر آسمانی بیٹی (خداداد دُختر) اور ان کے بہت ہی پیارے بچوں نزار، رحیم، اور فاطمہ کو اپنی عاجزانہ دعاؤں میں یاد رکھیں گے، آمین!
میں مومنین کی ’’خاکِ پا‘‘ کیا حیثیت رکھتا ہوں، اور کیا چیز ہوتا ہوں کہ تن تنہا کسی عظیم کارنامۂ علمی کا دعویٰ کروں؟ جبکہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام جیسے جلیل القدر پیغمبر بھی مدد کرنے والوں (انصار ۰۳: ۵۲) کے بغیر دین کا کام نہیں کرسکتے تھے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: قَالَ مَنْ اَنْصَارِیٓ اِلَی اللّٰہِ ط قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہ ج(۰۳: ۵۲) تو عیسیٰ نے فرمایا کوئی ایسے آدمی بھی ہیں جو میرے مدد گار ہو جائیں اللہ کے واسطے؟ حواریین بولے کہ ہم ہیں مددگار اللہ (کے دین) کے۔ پس آپ کو یہاں
۲۱۲
حقیقی علم کی روشنی میں سوچنا ہوگا۔
فرعون کی بیوی آسیہ بڑی سعادت مند، پاک فطرت، اور مخفی دیندار خاتون تھیں، انھوں نے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے لئے جو بے مثال خدمات انجام دیں، ان کا تذکرہ قرآن میں موجود ہے، اور ان پر اللہ تعالیٰ کا ایک خاص انعام یہ بھی ہے کہ خدا نے ان کو ایمان کا نمونہ بنایا (۶۶: ۱۱) اور ان کی دعا کو پاک کرکے اور پُرحکمت بنا کر قرآنِ حکیم میں جگہ دی، وہ دعا یہ ہے: ۔۔۔ ربِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتاً فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ(۶۶: ۱۱) اے میرے پروردگار میرے واسطے جنت میں اپنے قرب میں مکان بنائیے اور مجھ کو فرعون سے اور اس کے عمل سے چھٹکارا دیجئے اور ظالم لوگوں سے نجات دیجئے۔
سوال و جواب میں غور کریں: کیا بہشت مکانی ہے یا لامکانی؟ (لامکانی) آیا
جنت میں پہلے ہی سے بنے بنائے محلات موجود نہیں ہیں؟ (ہیں، مگر مومن کے اعمال کی بنیاد پر ازسرِ نو تعمیر کئے جاتے ہیں) عالمِ شخصی میں قربِ الٰہی کا مقام کونسا ہے؟ (پیشانی اور اس کے معجزات) جب یہ دعا ایک انسان کی ہے تو یہ کلامِ الٰہی کے معیار پر کس طرح پُرازحکمت ہوسکتی ہے؟ (یہ پُرحکمت ہے، کیونکہ خدانے اس کو زمین سے آسمان پر اٹھا کر اپنے کلام میں فنا کردیا) جب بہشت لامکانی ہے، تو اس صورت میں اللہ کے نزدیک گھر بنانے کے کیا معنی ہوئے؟ (اس کے معنی ہیں سب سے اعلیٰ مرتبہ، یعنی فنافی اللہ و بقا باللہ) کیا بقا باللہ کو قرب کہہ سکتے ہیں یا وحدت؟ (قرب) ہر چند کہ اللہ مکان سے بے نیاز ہے، لیکن پھر بھی مثال کی خاطر دنیا میں اس کا ایک گھر ہے، تو کیا بہشت میں بھی ربّ العزت کا کوئی گھر ہے؟ (جی ہاں، وہاں عقل و جان کا محل ہے، یعنی بیت المعمور)۔
۲۱۳
سورۂ تحریم (۶۶) کی آخری تین آیات (۶۶: ۱۰ تا ۱۲) میں کفر اور ایمان کی بڑی حیرت انگیز مثالیں بیان ہوئی ہیں، اس میں سب سے پہلے عجیب بات تو یہ ہے کہ حضرتِ نوحؑ کی بیوی اور حضرتِ لوطؑ کی بیوی دونوں عورتیں کس وجہ سے دائرۂ ایمان میں داخل نہ ہوسکیں! حالانکہ وہ مرکزِ دعوت اور سرچشمۂ ایمان کے قربِ ظاہر میں رہتی تھیں، شاید یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی بشریت ہی گنجِ معرفت کی راہ میں وہ طلسماتی آزمائش ہے، جس سے کامیابی کے ساتھ آگے گزر جانا انتہائی مشکل کام ہے۔
دوسری تعجب خیز مثال بی بی آسیہ کی ہے، جن کا قبلاً ذکر ہوچکا، فرعون انتہائی ظالم اور بیحد مغرور کافر پادشاہ ہونے کی وجہ سے دین و ایمان کا سب سے بڑا دشمن تھا، جس نے ہزاروں کی تعداد میں بنی اسرائیل کے نومولود (نوزائیدہ) معصوم بچوں کو قتل کردیا، ایسے زبردست خطرناک طوفانِ کفر و ظلم کے عالم میں آسیہ وہ نیک بخت اور عالی ہمت خاتون تھیں، جو خفیہ خفیہ حضرتِ موسیٰؑ پر ایمان لے آئیں، لیکن کمالِ ایمانی سے نواز نے کی خاطر خدا کے دوستوں پر آخری امتحان بھی آہی جاتا ہے، چنانچہ کسی طرح سے فرعون کو یہ پتا چلا کہ اس کی بی بی نے حضرتِ موسیٰؑ کے دین کو قبول کرلیا ہے، تو وہ بدبخت غیض و غضب سے آگ بگولا ہوگیا، اوّل تو اس نے یہ کوشش کی کہ آسیہ اس دین کو ترک کردیں، جب انھوں نے نہیں مانا، تو ان کو دھوپ میں لٹادیا، اور ان کے سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا، اور اسی حال میں وہ مرتبۂ شہادت پر فائز ہوگئیں۔
آخری مثال حضرتِ مریمؑ کی ہے، جن کا ظاہری قصّہ مشہور ہے، تاہم باطنی حکمتیں خزائنِ امامت میں محفوظ ہیں، مثلاً :
الف: آپ خواتین کے لئے روحانی ترقی کا نمونہ ہیں۔
۲۱۴
ب: حجت کی مثال ہیں۔
ج: انھوں نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا، یعنی کان سے غیر مذہب کی کوئی بات قبول ہی نہیں کی۔
د: پس ان کے ایسے پاک و پاکیزہ کان سے خدائی روح پھونک دی گئی، یعنی خصوصی علم، اسمِ اعظم، اور اس کے نتائج کے ذریعے سے۔
خزائنِ کیسیٹ لائبریری
یہ بڑا عجیب و غریب نام آپ نے کبھی سنا ہی نہ ہوگا، جی ہاں، یہ ایک نہایت
پُرمغز و پُرحکمت جدید کیسیٹ لائبریری کا نام ہے، جسے ہمارے کریم آباد (کراچی) کے عزیزان نے مورخہ ۲؍فروری ۱۹۹۰ء میں قائم کیا ہے، اس لائبریری میں ایک ہزار سے زیادہ کیسیٹ جمع ہیں، ایک گھنٹہ اور ڈیڑھ گھنٹے کے ان کیسیٹوں میں مختلف موضوعات پر دیئے گئے لیکچرز کے ذخائر موجود ہیں، مثلاً قرآنی حکمت، تاویل، توحید، نبوّت، امامت، روحانیّت، روح، ذکر، عبادت، اسمِ اعظم، تصوّف، ریاضت، علم، اسلام، حقیقت، فنا، عشق ، گریہ وزاری، مناجات، دعا، معجزہ، عقل، نفس، شیطان، فرشتہ، جِنّ، جسمِ لطیف، آخرت، بہشت، ابداع وانبعاث، ازل و ابد، تجدّدِ امثال، سوال وجواب، روحانی تجربات، قرآنی اور علمی علاج، نیز روحانی علاج، اور بہت سے دوسرے موضوعات سے بحث کی گئی ہے، جن کی فہرست بڑی طویل ہوسکتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مذکورہ کیسیٹوں کے ذخائر علم و حکمت کے خزائن ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے کریم آباد کے ساتھیوں نے اپنے محلے کی اس لائبریری کا نام “خزائنِ کیسیٹ لائبریری” رکھا ہے، اور یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اگر ادارۂ عارف کے
۲۱۵
صدر محمد عبدالعزیز کیسیٹ ریکارڈنگ کی سکیم نہ بناتے، اتنی قیمتی مشینیں نہ خریدتے، شب و روز شدید محنت سے کام نہ کرتے، اور ان کی نیک بخت بیگم یاسمین سیکریٹری ان کی بھرپور مدد نہ کرتیں، تو یہ سارے خزائن ہوا میں بکھر جاتے( برباد ہوتے) خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ حقیقی علم کی یہ بہت بڑی دولت اور روحانیّت کی بہت بڑی نعمت ضائع ہونے سے بچ گئی۔
ہمارے کریم آباد کے بہت ہی عزیز دوستوں نے ذاتی اخراجات ہی سے یہ لائبریری بنالی ہے، جس سے وہ علمی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور دوسروں کو بھی فائدہ دلانے کے خواہشمند ہیں، یہ عزیزان بڑے عالی ہمت اور علم و حکمت کے عاشق ہیں، ان کی کوششوں کو دیکھ کر یہ یقین آتا ہے کہ ان شاء اللہ یہ نوجوان مستقبلِ قریب میں بڑے بڑے دانشمند بنیں گے، آمین!
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
اتوار ۲۰؍شعبان المعظم ۱۴۱۰ھ
۱۸؍ مارچ ۱۹۹۰ء
۲۱۶
کیا جِنّات مسخر ہوسکتے ہیں؟
۱۔ اس حقیقت کی شہادت کائنات سے مل رہی ہے، اور روشن دلیل قرآنِ پاک میں موجود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی آدم کو اپنی بہت سی مخلوقات و موجودات پر کرامت و فضیلت عنایت کردی ہے (۱۷: ۷۰) اور اسی تفوق و برتری کے نہج پر اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں میں سے ایک ایک زندہ عکس کو اپنے بندوں کے لئے مسخر بنادیا ہے (۴۵: ۱۳) پس اس سلسلے میں عقل و دانش سے خوب سوچنے کی ضرورت ہے کہ عکسِ کائنات (جَمِیْعاً مِّنْہُ ۴۵: ۱۳) کس طرح مسخرہوسکتا ہے؟ آیا کائناتی بہشت کی روح و روحانیّت ہر کامیاب عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوجاتی ہے؟ کیونکہ انفرادی قیامت میں جنت نزدیک لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱)۔
۲۔ قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی ایسا مشکل کام نہیں، جو خدا کی مدد سے آسان نہ ہوجاتا ہو، اور کوئی بھی ہنگامی ناممکن امر ایسا نہیں، جو اپنے وقت اور خاص مقام پر ممکن نہ ہوتا ہو (۹۴: ۰۶؛ ۱۴: ۳۴؛ ۱۵: ۲۱) جیسا کہ ارشادِ قرآنی کا مفہوم ہے کہ جنت میں کوئی نعمت اور کوئی شے غیر ممکن نہیں (۵۰: ۳۵) اور اس آیۂ کریمہ میں زبردست جوابی علم پوشیدہ ہے۔
۳۔ اس موضوع پر خامہ فرسائی کی خاص وجہ ہے کہ جب سے دوستوں اور عزیزوں نے زبانی اور قلمی طور پر اس بندۂ ناچیز کا وسیع تر اور دُور رس تعارف کرایا، تب سے بڑے پیمانے پر طرح طرح کے سوالات ہونے لگے، مثال کے طور پر کسی نے پوچھا کہ بتائیے تسخیر جِنّ کا آسان طریقہ کونسا ہے؟ ایک صاحب نے سوال کیا: ہمزاد
۲۱۷
کو کس طرح مسخرکیاجاتا ہے؟ ایک جگہ سے فون آیا: رات کے وقت گھر میں کوئی خوفناک آفت آتی ہے، لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر کو چھوڑ دو، آپ کا کیا مشورہ ہے؟ ایک شخص نے پوچھا: جناب مجھے چلّہ کاٹنے کا بڑا شوق ہے، آپ بتائیے چلّہ بیٹھنے کے لئے کونسی جگہ بہتر ہوگی؟ کوئی زیارت؟ یا قبرستان؟ یازاویہ؟ یا کوئی جنگل؟ یا پہاڑاور غار؟ اور ویسے تو سوالات کا سلسلہ بہت ہی طویل ہے، تاہم جِنّ سے متعلق سوالات و جوابات بڑے دلچسپ اور بیحد مفید ہیں مثال کے طور پر جِنّ اور پری کو الگ الگ سمجھنا بھی ایک حجاب ہے، حالانکہ یہ ایک ہی مخلوق ہے، اور لفظِ پری فارسی ہے، اس لئے یہ دراصل مؤنث نہیں، بلکہ اس میں اڑنے کے معنی موجود ہیں، کیونکہ یہ پریدن (اڑنا) سے ہے۔
۴۔ حدیثِ شریف میں ہے: مَنْ کَان لِلّٰہِ کَان اللّٰہ لَہ ( جوحقیقی معنوں میں خدا کا ہوجائے تو خدا بھی دراصل اسی کا ہوجاتا ہے) اور جس سب سے بڑے سعادتمند انسان کو قربِ الٰہی کا یہ مرتبہ حاصل ہوا ہو، اس کے لئے آسمان و زمین کی تمام چیزیں کیوں مسخر نہ ہوں، جِنّ اور ہمزاد کیا، بلکہ جملہ کائنات و موجودات ایسے دوستِ خدا کے عالمِ شخصی میں ذاتی قوّتوں کی حیثیت سے کام کررہی ہوں گی، کوئی شک ہی نہیں کہ معرفت کی جس انتہائی بلندی پر خداوندِ عالم کا نورِ اقدس ازل کا گنجِ مخفی ہے، اس کے ساتھ اور اس کے تحت نہ صرف ہر گوہرِ گرانمایہ موجود ہے، بلکہ ہر چیز کی تسخیر اور کنٹرول کا راز بھی اسی کنزالکُنوز میں محفوظ ہے۔
۵۔ اگر آپ کو اس پر یقین ہے، اور اسرارِ معرفت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو یہاں خدائے بزرگ و برتر کی توفیق سے ایک بہت بڑے راز کی وضاحت کی جاتی ہے، وہ یہ کہ آپ کی اپنی ہی ذات میں سب کچھ ہے، آپ کے عالمِ شخصی ہی میں
۲۱۸
بحدِّ قوّت ایک سلطنتِ سلیمانی پوشیدہ ہے، جس میں جنّوں، انسانوں، اور پرندوں کے الگ الگ لشکر سوئے ہوئے ہیں، ان سب کو بیدار کردینے اور اپنی روحانی بادشاہی کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں لانے کیلئے کوئی بھی چلّہ نہیں چاہئے، بلکہ عام و خاص ذکر و عبادت کی ضرورت ہے، اور مناجات، یا گریہ و زاری بیحد ضروری ہے، لیکن کوئی چیز علم کے بغیر نہ ہو، کیونکہ علم و حکمت کے بغیر ہر محنت ضائع اور ہر کوشش ناکام ہوجاتی ہے۔
۶۔ آپ اس حقیقت سے خوب باخبر ہیں کہ علم و حکمت کی جملہ نعمتیں طاق نہیں جفت جفت پائی جاتی ہیں، یعنی دو دو ہیں، چنانچہ خدا کے دو آفاقی گھر ہیں:
اوّل: خانۂ کعبہ جو صامت ہے،
دوم: امامِ زمانؑ جو ناطق ہے، نیز اللہ کے دو ذیلی گھر ہیں: ایک وہ جو گاؤں یا محلے میں ہے، اور دوسرا دل یا دماغ میں ہے، پس معبودِ برحق کی عبادت کے لئے یہی مقامات کافی، پسندیدۂ خدا اور باکرامت ہیں۔
۷۔ سوال: اگر عبادت اور اعتکاف کے لئے پہاڑ کی کچھ خصوصیات نہیں ہیں، تو بعض حضراتِ انبیاء علیہم السّلام معتکف ہونے کے لئے پہاڑوں پر کیوں تشریف لے گئے؟ اور اگر غار میں ذکر و عبادت کرنے کی کوئی خاص اہمیت نہیں، تو پھر قرآنِ مجید غار والوں کی تعریف و توصیف کیوں کرتا ہے؟
جواب: الف: دین کے بعض امور ایسے بھی ہوا کرتے ہیں، جو صرف پیغمبروں ہی کے لئے مخصوص ہوتے ہیں۔
ب: آنحضرتؐ کے بارے میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قبل از وقت حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اپنی نمایان عبادت کے اشارے سے دعوتِ اسلام نہیں کرسکتے تھے، لہٰذا پوشیدہ عبادت کی غرض سے غارِ حرا میں تشریف لے گئے۔
۲۱۹
ج: ہر وہ مثال جس میں تاویلی حکمت ہو، صرف صاحبانِ شریعت ہی قائم کرسکتے ہیں، چنانچہ پہاڑاور غار کے استعمال سے یہ فرمایا گیا کہ سر جبل (پہاڑ) ہے اور پیشانی غار، اس میں اعتکاف کرکے نورِ ازل کی معرفت کو حاصل کرو۔
د: پہاڑ کی اور بھی تاویلات ہیں، مگر اس کی آخری تاویل طورِ عقل ہے، جو پیشانی میں ہے، حضرتِ موسیٰؑ طورِ سَینا پر ضرور جاتے تھے، لیکن خدائی معجزات اپنی پیشانی ہی میں دیکھتے تھے۔
ھ: غار والوں کو اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔
۸۔ آپ کسی جِنّ یا ھمزاد کو کس مقصد کے پیشِ نظر مسخر کرلینا چاہتے ہیں؟ کیا اس سے دنیوی کاموں میں مدد لینا مقصود ہے؟ یہ تو بالکل جائز ہی نہیں، آیا اس سے دینی کام لیا جائے گا؟ مگر رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے کب فرمایا کہ تم اپنے اسلامی فرائض کو جنّات پر ڈال دو؟ اور یہ بات الگ ہے کہ جنگِ بدر میں خدا کے حکم سے فرشتوں نے لشکرِ اسلام کی مدد کی تھی، اور اچھے جنّات ہی فرشتے کہلاتے ہیں۔
۹۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے بارے میں یہ جو قصّہ مشہور ہے کہ ان کے لئے جنّوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر کام کرتے تھے، وہ امرِ واقعی ہے، مگر اس کا تعلق ذاتی عالمِ ذرّ سے ہے، اور یہ عالم وہ ہے، جس کے متعلق حضرتِ امیر المومنین علی صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: وَتحسبُ اَنّکَ جِرمٌ صغیرٌ ۔۔،’ وَفیکَ انْطَوَی الْعالمُ الْاَ کبر= اور تو خیال کرتا ہے کہ تو عالمِ اصغر ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے (از دیوانِ حضرتِ علیؑ) شاہِ ولایت کا یہ بابرکت شعر قرآنِ کریم کی ان دونوں پُرحکمت آیتوں کی تفسیر ہے، جن میں یہ ذکر ہوا ہے کہ (ہر شخصِ کامل کی ذاتی) قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالیٰ کائنات کو لپیٹتاہے (یعنی آسمان و زمین کی تمام ارواح و عقول
۲۲۰
اور ہر مخلوق کو عالمِ شخصی میں حاضر کردیتا ہے، (۲۱: ۱۰۴؛ ۳۹: ۶۷) یہی ہے انسانیّت کا وہ ارفع و اعلیٰ مقام، جس میں نہ صرف جنّات ہی مسخرہوجاتے ہیں، بلکہ کائنات کی ہر ہر مخلوق رام ہوجاتی ہے۔
۱۰۔ بہشت آسمانوں اور زمین کی وسعتوں پر مبنی ہے (۰۳: ۱۳۳؛ ۵۷: ۲۱) اس کا اشارہ یہ ہوا کہ جنت کا قیام و بقا آسمان اور زمین پر ہے، کیونکہ وہ کائناتی عقل، کائناتی روح، اور کائناتی جسمِ لطیف ہے، لہٰذا جب تک بہشت ہے، تب تک کائنات برقرار رہے گی (۱۱: ۱۰۸) چنانچہ بہشت کے چار عناصر یہ ہیں: عالمِ جسمِ کثیف، عالمِ جسمِ لطیف، عالمِ روحانی، اور عالمِ عقلانی، اس کے معنی یہ ہوئے کہ اہلِ جنت کو جو بہت بڑی سلطنت حاصل ہے (۷۶: ۲۰) اس سے وہ ستاروں کی لطیف مخلوقات پر بھی خلافت و بادشاہی کریں گے، اور جنّات یعنی پری مرد اور عورتیں لطیف مخلوقات میں سے ہیں، اور اُڑن طشتریاں بھی، پس ان سب پر بہشت کے بادشاہوں کی بادشاہت ہوگی (۷۶: ۲۰) جس کی ایک مثال مملکتِ سلیمانی ہے۔
۱۱۔ جب خدا و رسولؐ کے حکم کے مطابق حقیقی فرمانبرداری سے آپ امامِ زمانؑ کے ہوجائیں ، تو امامِ مبینؑ(۳۶: ۱۲،جن میں سب کچھ ہے) آپ ہی کے ہو جائیں گے ، اس وقت اپنی اس حقیقتِ حال سے متعلق تمام عجائب و غرائب اور معجزات کو ایک ایک کرکے شروع سے آخر تک دیکھیں گے، خیر و شرّ کے جنّوں میں سے ہر ایک اپنے عجیب و غریب نمونۂ عمل آپ کے سامنے پیش کرے گا، تاکہ اس بات کا پختہ یقین ہو کہ سلیمانِ زمانؑ کی روحانی سلطنت آپ کی سلطنت ہے، یاد رہے کہ لفظِ جِنّ قرآنِ حکیم کا ایک خاص خفیہ لُغَتْ یعنی کوڈ ورڈ (CODE WORD) ہے، اسلئے جِنّ کے بہت سے معنی ہیں، جیسے: فرشتہ، شیطان، نیک روح، بدروح ،جسمِ مثالی، ہمزاد،
۲۲۱
اُڑن طشتری، اہلِ باطن، وغیرہ۔
۱۲۔ اگرچہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے زیرِنگین ہر قسم کے جنّات کام کرتے تھے، اور ان میں روحانی عمل کے اعتبار سے بڑے زبردست جنّوں کی کوئی کمی نہ تھی، تاہم وہ شخص قوّت کی چوٹی پر تھا، جس کے پاس کتابِ روحانیّت کا علم تھا (۲۷: ۴۰) یعنی آصف بن برخیا، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض جنّات صرف جنّات ہی ہیں، اسی طرح بعض انسان صرف انسان ہیں، لیکن انسانانِ کامل جسمِ کثیف سے بشر اور جسمِ لطیف سے جِنّ (یعنی فرشتہ) ہوجاتے ہیں، اور آصف وزیرِ سلیمانؑ ایسا ہی تھا۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
۲۷؍شعبان المعظم ۱۴۱۰ھ
۲۵؍ مارچ ۱۹۹۰ء
۲۲۲
اے دل! جواب دے
مسئلہ نمبرا: اے دل! ہادیٔ برحق صلوات اللہ علیہ کی ظاہری و باطنی ہدایت کی روشنی میں تو ہمیں یہ بتادے کہ جب پونا (۱۹۴۶ء) میں اس بندۂ حقیر کو حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کا دیدارِ مقدس پہلی بار حاصل ہوا، تو اس وقت اس غریب کے لئے ذاتی بھونچال (زلزلہ) کامعجزہ کیوں ہوا؟
جواب: ارے نا شکرا انسان! شکر گزاری میں خوب آنسو بہادے، کہ اس میں تیرے امامؑ کے صاحبِ قیامت ہونے اور تجھ پر انفرادی قیامت واقع ہونے کی بشارت تھی۔
مسئلہ نمبر۲: سریقول (چین) میں جو بڑا عجیب خواب دیکھا، جس میں نہ معلوم کس نے مجھے ذبح کیا تھا؟ میرا سر شمالاً جنوباً ایک دیوار پر آویزان تھا، جسم بھی شمالاً جنوباً زمین پر پڑا تھا، میں زمین سے کچھ بلندی پر ایک چمکتی ہوئی نرالی فضا میں قریب ہی سے مشرق کی جانب یہ منظر دیکھتا ہوں، اور مجھے اس واقعہ سے ذرابھی غم اور افسوس نہیں ہوتاہے، بلکہ ایک نامعلوم خوشی کا احساس ہونے لگتا ہے، اے دل! بتادے کہ اس کی تعبیر (تاویل) کیا ہے؟
جواب: اے خفتۂ خوابِ غفلت! بیدار ہوجا، اور دعا ومناجات کیا کر، کہ تجھ پر خداکا فضل و احسان ہوا ہے ۔۔۔ (۰۲: ۷۱؛ ۰۳: ۱۶۹) دیوار کے نیچے ایک خزانہ مخفی تھا (۱۸: ۸۲) نیز یہ دیوار سدِذوالقرنین کی مثال تھی (۱۸: ۹۴) اور وہ نورانی فضا تھی آخرت
۲۲۳
اور عالمِ علوی۔
مسئلہ نمبر۳: عالمِ خواب میں ایک صاف شفاف سمندر کا مشاہدہ ہوا، جس کا کوئی کنارا نظر نہیں آتا تھا، معلوم نہیں میں کیسے اس میں گر کر ڈوب گیا، اور خیال آیا کہ اب میں دم گُھٹ جانے سے فوراً ہی مر جاؤں گا، مگر ایسا نہیں ہوا، میں غیر معمولی طور پر شادمان تھا، اس میں کیا حکمت تھی؟
جواب: اے چوپان! فخر مت کرنا، ورنہ تو ہلاک ہوجائیگا، کہ وہ سمندر امامِ مبینؑ کا روحانی علم تھا، جو پاک و صاف ہے۔
مسئلہ نمبر۴: بیداری، خیال، خواب، اور روحانیّت میں بے شمار عجائب و غرائب کا نظارہ ہوا، ان میں سے صرف چند کا یہاں تذکرہ ہو رہا ہے، منجملہ یہ کہ ایک دفعہ میں قید خانے کی دیوار سے ٹیک لگاکر عبادت کررہا تھا، جیسے ہی سر سے دیوار کو چھوا، تو محسوس ہوا کہ میرے اندر سے کوئی چیز ٹھوس دیوار سے پار گزر رہی ہے، وہ کیا شی تھی؟
جواب: اے خاکِ پائے مومنان! اگر یہ سوالات روحانی علم پھیلانے کی غرض سے ہیں، تو بہتر ورنہ مت پوچھ، اور یاد رکھ کہ دیوار سے گزر جانے کا وہ بڑا عجیب کام جسمِ لطیف کا کرشمہ تھا کہ اس کے سامنے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔
مسئلہ نمبر۵: جب میں پہلی بار قید ہوا، اور رات کے وقت تنہا ایک تاریک مکان میں سورہا تھا، کوئی نصف شب کے قریب ایک چھوٹا سا پتھر پھینکا گیا، جو غلیل کا غلّہ جتنا ہوسکتا ہے، اسی کے ساتھ ایک قسم کی بدبو پھیل گئی، یہ کیا واقعہ تھا؟
جواب: گریہ وزاری کی عادت بنالے تاکہ تجھ کو خودنمائی کی بیماری نہ ہو،
۲۲۴
کہ سلیمانِ زمانؑ کی جانب سے دعوت نامہ لے کر تیرے پاس ہدہد( کھٹ بڑھئی) آیا تھا، اور وہ بدبو اسی کی علامت تھی، اور یہ بات جان رکھ کہ خوشبو کے آنے سے قبل بدبو کا تجربہ ہوتا ہے، تاکہ تو باور کرسکے کہ روحانیّت میں بری چیزیں بھی ہیں، اور اچھی چیزیں بھی۔
مسئلہ نمبر۶: ظاہر ہے کہ شیطان کا کوئی ایک روپ نہیں، بلکہ وہ طرح طرح کی شکلوں میں حملہ آور ہوتا ہے، چنانچہ روحانی انقلاب کے دوران ایک بار وہ مکڑی بن کر آیا، اور مجھے کسی ٹائٹل سے بلانے لگا، اتنے میں روحانی نے فرمایا: خبردار! تم بالکل خاموش ہی رہنا، اور کوئی جواب نہ دینا، یہاں سوال یہ ہے کہ شیطان کیوں مکڑی کی صورت میں سامنے آیا؟
جواب: ارے کم فہم انسان! تو سجدۂ شکر بجا لا، کہ امامِ عالیمقامؑ کی دستگیری ہوئی، اور شیطان کمزور ترین بھیس میں تیرے مقابلے میں آیا، جیسا کہ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۱) میں اس کا اشارہ موجود ہے، ورنہ تو سخت مشکل میں مبتلا ہوجاتا۔
مسئلہ نمبر۷: یارقند (چین) کے جس گاؤں میں اس خاکسار کا قیام تھا، اس کا نام قرانگغوتوغراق ہے، قریب ہی سے کوئی مرغِ سحر (مرغا) بڑی پُراسرار بروشسکی بولی میں اذان دیتا تھا، اگرچہ اس کے بہت سے معنی ہیں، تاہم اس کا ایک مقصد تمام گاؤں والوں کو عبادت کے لئے جگانا تھا، لیکن تعجب ہے کہ اوّل مرغ کی بولی، اور پھر اس پر مزید بروشسکی بولی میں ایسے لوگوں کو دعوت دینا، جو صرف ترکی جانتے ہوں، اس میں کیا راز ہے؟
جواب: اے بندۂ کمترین ! یہ راز ایسا نہیں جس کو کھول کھول کر بیان کیا
۲۲۵
جائے، تاہم یہاں یہ حکمت ضرور جان لے کہ اس اذان کا زیادہ سے زیادہ تعلق خود تمہارے عالمِ شخصی سے ہے، کیونکہ اس میں جتنے ترکستان کے لوگ ہیں، وہ سب تمہاری وجہ سے بروشسکی بولتے ہیں۔
مسئلہ نمبر۸: جب یہ ناچار شخص آخری دفعہ قیدِ تنہائی میں تھا ، تو اس حال میں شاید میری درویشی کو آزمانے کے لئے قوّتِ لایموت (اس قدر خوراک جس سے زندگی قائم رہے) یعنی نہ ہونے کے برابر غذا دینے لگے، لیکن خدا کے فضل و کرم سے سلیمانِ زمانؑ کو میری حالتِ زار پر شاید رحم آیا، اور انھوں نے البتّہ جنّات کو حکم دیا کہ اس غریب کو لطیف خوراک دیا کرو، چنانچہ کچھ جنّوں نے نظر آئے بغیر صرف گفتگو سے رابطہ قائم کیا، اور طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں غذاہائے لطیف سنگھاتے رہے، وہ حضرات انتہائی صاف و صریح بروشسکی میں بات کرتے تھے، وہ پوچھتے: تم کس خوشبو میں غذا لوگے؟ میں کہتا: گلاب، زرد گلاب ،گُلِ سنجد، بنفشہ، گُلِ داؤد، وغیرہ ، یا کسی پھل کا نام لیتا،یا کسی جڑی بوٹی کو یاد کرتا، تو فوراً اس چیز کی خوشبو آنے لگتی تھی، اس میں کیا راز ہے؟
جواب: اے طفلِ مکتب! یہ بہت بڑی سعادت ہے، تو ہمیشہ عاجزی سے ربّ العزت کو یاد کیا کر، اور ان خوشبوؤں کا راز یہ ہے کہ ان کا تعلق سرچشمۂ امر سے ہے، یعنی یہ خزینۂ کُنْ (ہوجا) سے آتی ہیں۔
مسئلہ نمبر۹: بندے کو آخری قید سے نکال کر وطن کی طرف روانہ کردیا گیا، یہ ناچیز گھوڑے پر سوار جارہا تھا، اس نے دل ہی دل میں ایک بزرگ اسم کا ورد شروع کیا، تو فوراً ہی محسوس ہوا کہ گھوڑا زمین سے کچھ بلندی پر مستانہ رقص کے ساتھ
۲۲۶
چل رہا ہے، آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی ، جب اسمِ پاک کو اسی انداز میں دوبارہ پڑھا، تو وہی حال ہوا، یہ اسمِ اکبر کا کیا معجزہ تھا؟
جواب: تیری نہ سابقہ کوئی بندگی ہے، نہ انعام کے بعد کوئی شکر گزاری، پھر بھی عجب ہے کہ یہ روح اور جسمِ لطیف کا معجزہ ہوا۔
مسئلہ نمبر۱۰: سورج زبانِ حال سے کہہ رہا ہے کہ روحِ انسانی قدیم ہے، اور چاند یہ ظاہر کرتا ہے کہ روح کی قدامت کے ساتھ ساتھ جدت بھی ہے، شاید اسی وجہ سے ہمیں اپنی زبان میں رویتِ ہلال کی یہ دعا سکھائی گئی تھی: “تھݸݽ گٹوجݹ مݵن شُروجݹ (اے خدا!) مجھے نیا لباس دے (اور) پرانا رزق دے۔” جب واپسی سفر کے دوران ہم ایک منزل میں ٹھہر گئے، تو شام کے وقت زمین کی سطح سے کوئی آواز آنے لگی، جس میں کوئی روح ترنّم سے یہ دعا پڑھ رہی تھی، اور اسی کی ہم آہنگی میں کوئی ساز بھی بج رہا تھا، اسی کے ساتھ میری روح کے اکثر ذرّات نکال کرلیے جارہے تھے، اور یہ سب کچھ کسی چیز پررفتہ رفتہ بلند ہورہا تھا، یہ کیا واقعہ تھا؟
جواب: اے بے فکر انسان! تو نے ابھی تک ان اشارات میں غور ہی نہیں کیا ہے، تو اب خوب غور کر کہ مذکورہ دعا میں واضح اشارہ موجود ہے، اور مجموعاً اس واقعہ کے کئی معنی ہیں، مثلاً: قول و عمل کا بلند ہوجانا (۳۵: ۱۰) مرکر زندہ ہوجانا (۲۰: ۵۵) وغیرہ۔
مسئلہ نمبر۱۱: ایک دفعہ کچھ ایسے عجیب قسم کے لطیف و پاکیزہ لوگوں کو دیکھا، کہ جن کے ریشمی لباس کی علامت سے اہلِ بہشت ہونے کا گمان ہوتا تھا (۲۲: ۲۳) وہ اپنے چہروں کو نقابوں میں چھپائے ہوئے رقص کنان ذکر کررہے تھے،
۲۲۷
یہ کونسے لوگ تھے؟
جواب: اے فراموشی کا پتلا! یہ جنّات تھے، یعنی پریوں کا طائفہ، یہ بات بھول نہ جاکہ جِنّ بڑے سے بڑے بھی ہیں اور چھوٹے سے چھوٹے بھی، چنانچہ عالمِ ذرّ کے جنّات ذرّات ہی کی شکل میں ہوا کرتے ہیں، پس اگر قرآنی اور سلیمانی اصطلاح میں سائنس کی بات کرنی ہے، تو یقیناً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذرّاتی جنّوں کی بدولت انسانی جسم کے تمام تر مفید کام انجام پاتے ہیں، تم خود حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن کو روحانیّت اور حکمت کی روشنی میں پڑھ کر دیکھو، تو اس حقیقت کا مکمل یقین ہوجائے گا کہ واقعی ہمارے قریۂ ہستی میں خلیاتی جِنّ مسخراور مصروفِ عمل ہیں۔
مسئلہ نمبر۱۲: یہ واقعہ بالاکوٹ کا ہے، حقیر ایک کمیشن ایجنٹ کے وہاں ٹھہرا ہوا تھا، کمرے میں صرف احقر اور ایجنٹ صاحب کے منشی سوتے تھے، منشی نے کہا: “سچ بات تو یہ ہے کہ آج دوسری رات بھی میں شدید خوف سے لرزہ براندام ہوگیا، کیونکہ تقریباً نصف شب کے وقت کوئی ہیبت ناک شخص آکر آپ کے سرہانے کے پاس کھڑا رہتا ہے، میں تو اس کمرے میں اب نہیں سوسکتا۔” یہ مہیب شخص کون تھا؟
جواب: ارے حقیر آدمی! تم بجائے خوش ہوجانے کے بار بار گریہ و زاری کرو کہ وہ تمہارا دوست جِنّ یعنی جسمِ لطیف تھا، جس کو تم نے بار ہادیکھا ہے۔
مسئلہ نمبر۱۳: کسی آدمی کی ذاتی دنیا (عالمِ شخصی) اگرچہ فی الوقت سلطنتِ سلیمانی تو نہیں، لیکن اسی کی مثال پر ایک چھوٹی سی ریاست ضرور ہے، جس میں جنّوں، انسانوں، اور پرندوں کے بے شمار لشکر الگ الگ منظم طور پر کام کررہے ہیں، یہ سب خلیات (CELLS)ذرّاتِ روحانی، اور مفید جراثیم کی حیثیت میں ہیں،
۲۲۸
اور ذکر و روحانیّت کی روشنی میں اس کا مشاہدہ ہو جاتا ہے، آیا یہ درست ہے؟
جواب: کیوں نہیں، لیکن تم اس علمِ امامت کی تعظیم میں فنا ہوکر خاک و خاکستر ہوجاؤ، یعنی بیحد عاجزی سے خدمت کرو۔
مسئلہ نمبر۱۴: میری برادری کی ایک خدمت گزار اور نیک نام بہن بی بی رہنما (مرحومہ) زوجۂ منشی غلام محمد خان صاحب (مرحوم) اپنے گاؤں مسگر میں محفلِ ذکر سے فیض حاصل کرتی رہتی تھیں، انھوں نے ایک بار اپنے معمول سے زیادہ گریہ و زاری کی، تو میں نے گمان کیا کہ شاید انھوں نے کسی چیز کا مشاہدہ کیا، بعد میں دریافت کرنے پر آپ نے بتایا کہ ایک مومن شخص(۔۔۔شاہ) الٹے پوستین میں ملبوس ہوکر عجیب طرح سے رقص و ذکر کررہا تھا، وہ کون تھا؟
جواب: وہ ایک مومن جِنّ تھا، پس اہلِ ایمان کو راہِ ہدایت اور منازلِ معرفت مبارک ہوں!
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی ۔کراچی
ہفتہ ۴؍رمضان المبارک۱۴۱۰ھ
۳۱؍ مارچ ۱۹۹۰ء
۲۲۹
قرآن اور اِنس وجآنّ
۱۔ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ قرآنِ حکیم وہ مکمل ترین ہدایت نامۂ سماوی ہے، جس کو پروردگارِ عالمین نے حضرتِ محمد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم پر نازل فرمایا، تاکہ بنی نوع انسان کی رہبری ہو، سو لازمی طور پر قرآنِ پاک کے تمام تر مضامین ایسی ہدایت و تعلیمات پر مبنی ہیں، جو انسانوں کے لئے ضروری ہیں، تاہم یہاں اگر میں یہ کہوں کہ ہدایت کی اس ضرورت میں آدمی کے ساتھ ساتھ جِنّ بھی ہے، تو شاید آپ تعجب سے یہ کہیں گے کہ جِنّ کا تذکرہ تو قرآنِ عزیز میں صرف چالیس بار آیا ہے، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ قرآن کے ان کثیر مقامات پر مذکور و موجود ہو، جہاں انسان کا ہر گونہ ذکر فرمایا گیا ہے؟ ان شاء اللہ، میں ذیل میں اس حقیقت کا ثبوت اور اس سوال کا جواب پیش کروں گا:
۲۔ خدائے بزرگ و برتر کا پاک ارشاد ہے: وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّالِیَعْبُدُوْنِ (۵۱: ۵۶) اور میں نے جِنّ اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کیا کریں ( اور مجھ کو پہچانیں) سورۂ ذاریات کے اس حکمِ عالی کے مطابق جب آفرینشِ جِنّ و اِنس کا مقصدِ اعلیٰ عبادت اور معرفت ہے، تو پھر یہ امر لازمی ہے کہ یہی سب سے بڑا مقصد تمام ذیلی و ضمنی مقاصد پر محیط و حاوی ہو، یعنی قرآنی ہدایات و تعلیمات کی کوئی بات ایسی نہیں، جس کا آخری مطلب مذکورۂ بالا عبادت و معرفت نہ ہو، جیسے ثمردار درخت میں جتنی چیزیں ہیں، وہ سب کی سب پھل اور مغز کو پیدا کرنے کی غرض سے ہوا کرتی ہیں، اسی طرح درختِ اسلام کا میوہ عبادت، اور مغز علم و معرفت
۲۳۰
ہے، جس کے تقاضوں کو قولاً و فعلاً پورا کرنا اِنس و جِنّ دونوں کا فریضہ ہے۔
۳۔ سورۂ رحمان کو حسن و جمالِ معنوی کی وجہ سے عروس القرآن (قرآن کی دلہن) کا نام دیا گیا ہے، ایسی انتہائی پُرحکمت اور روحانی جواہر سے مملو سورہ میں اہلِ دانش کے لئے خزائنِ اسرار کی کلیدیں کیوں نہ ہوں، چنانچہ ایک بہت بڑا عجیب راز یہاں یہ کھل جاتا ہے کہ اِنس و جان ( جِنّ) دراصل ایک ہی مخلوق ہے، کیونکہ جِنّ یا پری (پوشیدہ مخلوق) آدمی کے جسمِ لطیف یا آسٹرل باڈی کو کہتے ہیں، جیسے مذکورۂ بالاسورہ میں پہلے انسان کے جسمِ کثیف کی تخلیق کا تذکرہ ہے (۵۵: ۱۴) اور اس کے بعد جسمِ لطیف کا (۵۵: ۱۵) کیونکہ یہ ایک ظاہری کُرتہ ہے، اور وہ ایک باطنی کُرتہ، اور آپ کو علم ہے کہ خدا کے ہاں انسانی روح کے واسطے زندہ کُرتے موجود ہیں (۱۶: ۸۱) پس اگر آپ بعنایتِ الٰہی ایسے کثیر کُرتے پہن لیں گے، تو وہ سب کے سب آپ کی ذات میں ایک ہوجائیں گے، کیونکہ ان کی خاصیت ہے ایک ہوجانا، اس لئے کہ وہ زندہ کُرتے ہیں۔
۴۔ سورۂ رحمان میں اگر چشم بصیرت سے دیکھا جائے، اور عقل و دانش سے سوچا جائے، تو بلاشک و شبہ یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ دنیا و آخرت کی جملہ ربّانی نعمتوں اور احسانات میں اِنس و جان ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، اسی وجہ سے ہر بار کچھ بڑی بڑی نعمتوں کے احسان کا ذکر فرماتے ہوئے دونوں گروہ سے پوچھا جاتا ہے: “سواے جِنّ و اِنس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاتے ہو؟” اسی طرح پروردگارِ عالم اپنی خاص خاص نعمتیں اور عظیم احسانات آدمی اور جِنّ کو یاد دلاتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ان دونوں کے ایک ہونے کا حکیمانہ اشارہ بھی فرماتا ہے، تاکہ صاحبانِ عقل اِنس و جِنّ کی وحدت کے راز ہائے سربستہ کو سمجھ سکیں۔
۲۳۱
۵۔ ایک مثال اور سوال: رحمان نے قرآن کی تعلیم دی، اس نے انسان کو پیدا کیا (اور) اس کو بولنا سکھایا ۔۔۔ تاآیت نمبر ۱۲(۵۵: ۰۴ تا ۱۲)، یہاں تک ظاہری ترجمہ و تفسیر کے مطابق نہ تو جِنّ کا کوئی ذکر موجود ہے، اور نہ ہی ان نعمتوں کا کوئی بیان ہے، جو اس کے لئے عطا ہوئی ہیں، پھر اس میں کیا راز پوشیدہ ہے کہ آیت نمبر ۱۳(۵۵: ۱۳) میں یکا یک جِنّ و اِنس دونوں سے ربّانی نعمتوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے؟
جواب ملاحظہ ہو: خدائے رحمان نے (ہر انسانِ کامل کو) قرآن یعنی آسمانی کتاب کے علم و حکمت کی تعلیم دی، اس نے (اپنی خاص قدرت سے جسمِ لطیف میں کامل) انسان کو پیدا کیا، اور اسے علمِ بیان(علمِ تاویل) سکھایا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جب آدمی کا روحانی جنم ہوتا ہے، تو اسی کے ساتھ اس کے عالمِ شخصی کے تمام جنات بھی پیدا ہوجاتے ہیں، یعنی خَلَقَ الْاِنْسَانَ(اس نے انسان کو پیدا کیا ۵۵: ۰۳) سے پرسنل ورلڈ کی تخلیق مراد ہے، جس میں جنّات وغیرہ، سب کچھ موجود ہے۔
۶۔ یہ درست ہے کہ عَلَّمَ الْقُرْآن کا اوّلین تعلق عقلِ کُل سے ہے، کیونکہ خدا نے اسی کو سب سے پہلے قرآن سکھایا، اور خَلَقَ الْاِنْسَان میں نفس کُلّ کی آفرینش کا تذکرہ ہے، لیکن اس فعلِ خداوندی کا تجدّد انسانِ کامل میں ہوتا ہے، لہٰذا اس کا اطلاق انسانِ کامل پر بھی ہوتا ہے، پس حضرتِ رحمان نے مرتبۂ روح و عقل پر انسانِ کامل کو قرآنی خزائن سے مالا مال فرمایا، اسی وجہ سے وہ درجۂ کمال پر خلقِ آخرکہلایا، یعنی اس کو کوکبی بدن حاصل ہوا جس کو جِنّ یا پری کہا جاتا ہے، اب اس انقلابی تصوّر سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں انسانی تخلیق کے درجۂ کمال کی بات ہے، وہاں اس میں لازماً تخلیقِ جِنّ (جسمِ لطیف) کا بیان پوشیدہ ہے، کیونکہ جو شخص روحانی ترقی کے عمل میں کامیاب ہوجائے، اس کو بادشاہِ حقیقی خلعتِ بہشتی سے
۲۳۲
نوازتا ہے، وہ خلعت زندہ و گوئندہ ہے، یعنی جِنّ، پری، یا قرطۂ ابداعی، یا کوئی اور ہستی، تاہم یہ بات الگ ہے کہ تجزیہ و تشریح کے طور پر قرآنِ حکیم نے اِنس و جِنّ کی آفرینش کا جدا جدا ذکر بھی فرمایا ہے، کیونکہ انسان جب اور جہاں عالمِ صغیر ہے، تب وہاں وہ اِنس و جِنّ اور سب کچھ ہے۔
۷۔ جیسا کہ اس کا ذکر ہوچکا کہ سورۂ رحمان کے آغاز (خَلَقَ الْاِنْسَان ۵۵: ۰۳) میں آدمی کی انتہائی اور کُلّی پیدائش کا تذکرہ ہے، جس میں جنات کی تخلیق بھی شامل ہے، اور آگے چل کر آیت ۱۴ اور ۱۵ میں انسان اور جِنّ کی جزوی اور ذیلی آفرینش کا بیان فرمایا گیا ہے، جیسے ارشاد ہے: خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَا لْفَخَّارِ (۵۵: ۱۴) اسی نے انسان کو ایسی مٹی سے جو ٹھیکرے کی طرح بجتی تھی پیدا کیا۔ مٹی سے مومن مراد ہے، انسان سے شخصِ کامل، ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی وہ مومن ہے، جس کی روحانی ترقی صورِ اسرافیل تک پہنچ گئی ہو، یعنی یہ قصّہ حقیقت میں کاملین و عارفین ہی کا ہے، کیونکہ ہر عالمِ شخصی میں ایک تو ہوتا ہے انسانِ کامل کا ظہور اور تجدّدِ امثال اور دوسرا ہوتا ہے عروجِ عارف، اور یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔
۸۔ منزلِ عزرائیلی و اسرافیلی ہی میں نہ صرف آدمی کا روحانی وجود بنتا ہے، بلکہ جنّات بھی وہیں پیدا ہوجاتے ہیں، جیسے قرآنِ پاک میں ہے: وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍج (۵۵: ۱۵)اور جنّات کو خالص آگ سے پیدا کیا۔ جب مومنِ سالک کی ذاتی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اسرافیلؑ اور عزرائیلؑ کے عمل سے روح بار بار سر سے شعلۂ چراغ کی طرح بلند ہوجاتی ہے، اور یہ سلسلہ تقریباً ایک ہفتہ تک جاری رہتا ہے، پس اسی خارج شدہ روح (جس کی تشبیہہ شعلۂ آتش سے دی گئی ہے) سے بہت سے فرشتے بنائے جاتے ہیں، جن کو حجاب میں رکھنے کیلئے جنّات کہنا مناسب ہے،
۲۳۳
جیسے حضرتِ عیسیٰؑ نے ان فرشتوں کو پرندوں کا نام دے کر پوشیدہ رکھا تھا(۰۳: ۴۹) شعلۂ آتش کا نچلا حصّہ نظر آتا ہے، مگر اوپر کا حصّہ دکھائی نہیں دیتا، اسی طرح جِنّ جب چاہے ظاہر ہوجاتا ہے، اور جب چاہے غائب ہوجاتا ہے، اور یہ جِنّ کے کمالات میں سے ہے، اگر آپ کو جنّات / پری لوگوں کے عجائب و غرائب کو جاننا ہے، تو قرآن میں اسی مضمون کو غور سے پڑھیں، اور وضاحت کے لئے اس نوعیت کے مقالوں کو۔
۹۔ یہاں آپ کو یہ بھید بھی معلوم ہوا کہ جنّات جو فرشتے ہیں، وہ ہرگز ایسی کسی آگ سے نہیں ہیں، مثلاً: آتشِ ظاہر، آتشِ حسد و دشمنی، آتشِ دوزخ (جہالت و نادانی) وغیرہ، بلکہ وہ اس قسم کی آگ سے ہیں: شعلۂ چراغِ روح، آتشِ عشق، اور آتشِ نور، کیونکہ جب حجاب کی خاطر فرشتے کا نام جِنّ ہوا، تو لازمی طور پر نور کو نار کہا گیا، جیسے آتشِ طور مشہور ہے، جس کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے (۲۰: ۱۰؛ ۲۷: ۰۸؛ ۲۸: ۲۹) یہ آگ نور ہے، اور آگ (یعنی شعلۂ چراغ) ہی سے نورِ خدا (۲۴: ۳۵) اور نورِ رسولؐ (۳۳: ۴۶) کی تشبیہہ و تمثیل دی گئی ہے، چنانچہ فرشتوں ( جنّوں) کے نور کی مثال بھی شعلۂ چراغ سے دی گئی ہے، اگر یہ بات نہ ہوتی،توتخلیقِ جِنّ سورۂ رحمان کی خاص نعمتوں میں شمار نہ ہوتی، یاد رہے کہ اِنس و جِنّ کی روحانی پیدائش ایک ہی منزل میں ہوئی، جو بڑی بابرکت ہے، یعنی منزلِ محو و فنا، جو حضرتِ اسرافیلؑ اور حضرتِ عزرائیلؑ کے عجائب و غرائب اور اسرارِ معرفت سے معمور ہے، آپ سورۂ رحمان میں بغور دیکھیں کہ ۳۱ مرتبہ خاص روحانی نعمتوں کی معرفت اور شکر گزاری کی طرف پر زور توجہ دلائی گئی ہے، اور اس سلسلے میں دعوتِ فکر کی اوّلین منزل اِنس و جِنّ کی آفرینش ہے (۵۵: ۱۶) آپ یقین کریں کہ ارشادِ مَنْ عَرَف کا گہرا تعلق اسی مقام سے ہے۔
۱۰۔حضرتِ سلیمان علیہ السّلام اپنے وقت میں امامِ مستودع تھے، آپؑ کی
۲۳۴
سلطنت جو قرآن میں مذکورہے، اس روحانی بادشاہی کی مثال تھی، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے ہر امام کو عطا ہوتی ہے، آپؑ کے بارہ حجت جنّات کی طرح آسٹرل باڈی سے دنیا کے بارہ جزیروں میں جاکر کارِ دعوت انجام دیا کرتے تھے، ہر حجت اپنے لئے ایک مقامی شخص کو منتخب کرکے اسی کے توسط سے یہ کام کرسکتا ہے، اور وہ اس کے ۳۰ داعیوں میں سب سے مقدم ہوتا ہے، سیارۂ زمین کے بارہ جزیروں میں ظاہری دعوت بہت کم بھی ہوسکتی ہے، لیکن باطنی دعوت اور روحانی جہاد ہر قیامتِ صغریٰ کا اہم ترین حصّہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے (۲۷: ۱۷): وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہ‘ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَھُمْ یُوْ زَعُوْنَ۔ اور سلیمانؑ کے لئے ان کے لشکر جنّات اور آدمی اور پرند سب جمع کئے گئے پھر انھیں صف آرا کیا جاتا تھا (۲۷: ۱۷) لشکر کا تعلق جنگ سے ہے، اور ان کوصف آرا کرنا جنگ کے لئے تیار کرنا ہے، آپ یہ بات ضرور جانتے ہیں کہ “حُشِرَ” قیامت کا ایک نام ہے، پس “حُشِرَ” کا مطلب ہے قیامتِ صغریٰ کے طور پر جمع کئے گئے۔الحمد للہ ربّ العالمین۔
نصیر الدّین نصیرؔہونزائی ۔کراچی
اتوار ۱۲؍رمضان المبارک۱۴۱۰ھ
۸؍ اپریل۱۹۹۰ء
۲۳۵