قرآنی سائنس حصّۂ دوم
آغازِ کتاب
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے عظیم علمی معجزات، بےپایان انعامات اور لا انتہا احسانات و نوازشات کا کما کان حقہٗ شکر اور سجدۂ شکرانہ کس طرح ادا کرو؟
یا ارحم الراحمین! تو اپنی رحمتِ بے نہایت سے ہمارے ہر حلقۂ چہل درویش کو مناجاتِ شکرگزاری کے لئے اعلیٰ توفیق و ہدایت عنایت فرما! یاربّ العزّت تیری بے شمار نعمتوں کا طوفان عالم گیر اور دائمی ہے۔
قرآنِ حکیم کا ارشادِ مبارک ہے:
وَتَوَکّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لاَ یَمُوْتُ (۲۵: ۵۸)۔
نصیر الدین نصیرؔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی
جمعرات ۳۰ ؍ ستمبر ۲۰۰۴ء
۱
اَللّٰھُمَّ اِنِیّ اَسْئَلُکَ بِاَسْمَائِکَ الْحُسْنٰی
بِسْمِ اللّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ-لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ-یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْۚ-وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَۚ-وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ-وَ لَا یَـٴُـوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔ (۰۲: ۲۵۵)
اس کے لا محدود معنی میرے فہم و ادراک سے بالاتر ہیں!
انتسابِ جدیدی: یہ دور جس طرح ظاہراً مادّی سائنس کا ہے، اسی طرح باطناً روحانی اور قرآنی سائنس کا ہے، میرے تجربے میں خواب ہو یا بیداری، اشخاص کے قرآنی ناموں میں اشارتیں اور بشارتیں موجود ہیں، میرے بیحد عزیز فتح علی کے پیارے نام میں دونوں لفظ اتفاقاً قرآنی اور بڑے نیک شگون والے ہیں۔ چنانچہ فتح علی اور گل شکر جسماً انسان اور روحاً فرشتے ہیں، ان کی بے شمار خدمات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے خاندان کو نورِ علم وحکمت کی لازوال نعمت سے نوازا ہے، اس باسعادت خاندان کے ارضی فرشتے یہ ہیں: فتح علی، گل شکر، ان کی دخترِ نیک اختر ڈاکٹر فاطمہ، ان کا فرزندِ اکبر نزار علی، اہلیہ شازیہ نزار، بیٹی درثمین نزار، بیٹا فقیر محمد نزار نیکنام، رحیم ابنِ فتح علی اور ان کی بیگم گوہرِ فاطمہ۔
نصیر الدین نصیرؔ ( حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی
جمعرات ۳۰ ؍ ستمبر ۲۰۰۴ء
۲
قرآنی سائنس
کائناتِ اصغر = عالمِ شخصی میں اللہ جل شانہٗ نے ایک بڑی عجیب و غریب اور ایک نہایت مقدّس و مبارک زمین بنائی ہے، جو اس دنیا کے تمام عوالمِ شخصی کے لئے باعثِ برکت ہے، یقیناً اس کے عجائب و غرائب بےشمار ہیں، اس کے بہت سے مشارق ومغارب ہیں، جن سے ہمیشہ علم و حکمت اور اسرارِ معرفت کے انوار طلوع و غروب ہوتے رہتے ہیں، اس کے ہر نور کے طلوع میں بھی اشارہ ہے اور غروب میں بھی، یہ چند تعریفی اشارات حظیرۂ قدس سے متعلق ہیں، آپ قرآنِ حکیم میں ان آیاتِ کریمہ کو معلوم کریں جو حظیرۂ قدس کی شان میں ہیں، ان آیاتِ مبارکہ کی چند مثالیں: ۔
مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا (۰۷: ۱۳۷)۔
الأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ (۰۵: ۲۱)
بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ (۲۱: ۷۱)
إِنَّكَ بِالْوَادِي الْمُقَدَّسِ طُوًى (۲۰: ۱۲)
ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ (۲۳: ۵۰)
مَكَانًا عَلِيًّا (۱۹: ۵۷)
الطُّورِ الأَيْمَنِ (۱۹: ۵۲)
جَنَّةٍ عَالِيَةٍ (۶۹: ۲۲)
۳
عِلِّيِّينَ (۸۳: ۱۸)
وَكُلَّ شَيْءٍ أحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ (۳۶: ۱۲)
وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ كِتَابًا (۷۸: ۲۹)
وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (۷۲: ۲۸)
ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی
روز جمعہ ۲۹ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۴
جثّۂ ابداعیہ = نورِ مجسّم
سوال: جثّۂ ابداعیہ کو آپ نے شاہِ جنات کہا ہے؟ کیوں؟
جواب: کیونکہ عظیم بھید حجاب چاہتے ہیں۔
سوال: دروازہ سے کیوں آیا؟
جواب: کیونکہ اس کی یہ شان نہیں کہ دیوار سے آئے۔
سوال: کیا اس کا اوّلین معجزہ یہ ہے کہ ہر قسم کا بند دروازہ برقی سرعت سے خودبخود کھل کر خود ہی بند بھی ہو جاتا ہے؟ اس میں کیا راز ہے۔
جواب: اس میں کئی عظیم راز ہیں، اور ایک عظیم راز یہ بھی ہے کہ اس میں نورانی برق کا بڑا زبردست کرنٹ موجود ہے، یہ چاہے تو کسی بڑے فولادی دروازے کو پارہ پارہ کرے، یہ چاہے تو یو۔ایف۔او بن کر فضا میں پرواز کرے۔
سوال و جواب سے معرفت کا مقصد پورا نہیں ہوگا، اس لئے تم بدرجۂ انتہا عالی ہمت بنو، اور جسمانی موت سے قبل نفسانی موت کا کامل و مکمل تجربہ حاصل کرو، تاکہ تم خود آفاق و انفس میں معجزاتِ معرفت کا مشاہدہ کر سکو گے۔
حضرتِ آدمؑ سب سے اوّلین صاحبِ جثّۂ ابداعیہ تھا، پھر ہر زمانے میں آدمؑ کے جانشین کے پاس یہ سب سے بڑا معجزہ تھا، اور معرفتِ
۵
کلّی وہ عجیب اور عظیم مرتبہ ہے جس میں تمام معجزات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ مومنِ سالک بارہا موت سے گزرتا جاتا ہے، لیکن سب سے اعلیٰ موت وہاں ہے جہاں اس کو نورِ مجسّم کا دیدار ہوتا ہے، اس کے بعد اس کو ایک نورانی بیٹے کی خوشخبری ملتی ہے، اور یہ سب سے عظیم اور سب سے عجیب راز ہے کہ وہ بیٹا کون ہے؟ میں یہاں وہ نہیں بتا سکتا، اگر خدا نے چاہا تو ممکن ہے۔
کیا وہ نورانی بیٹا حظیرۂ قدس کی وحدت میں بیٹا بھی ہے اور خود باپ کے علاوہ اور بہت کچھ ہے، یعنی مونوریالٹی؟ اور جنّت میں کونسی نعمت غیر ممکن ہے؟
ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۱ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۶
ایک انتہائی عظیم سوال
سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۲۵) میں ایک مبارک و مقدّس اور پُراز حکمت لفظ کا ترجمہ ہے: صاحبِ نشان فرشتے، اس میں ہمارے بےحد عزیز شاگردوں کو حکمتِ قرآن سے جو عشق ہے اس کی خاطر سے سوال ہے کہ صاحبِ نشان فرشتے کیسے ہوتے ہیں؟ اور ان کا وہ نشان کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ جنگِ بدر کا قصّہ ہے؟ آیا اس جنگ میں لشکرِ اسلام کے ہر فرد نے یا بعض نے ان صاحبِ نشان فرشتوں کو دیکھا تھا؟
جوابات: صاحبِ نشان فرشتے علامتی طور پر کچھ ہتھیار کے ساتھ نظر آتے ہیں، اس میں اللہ کی مدد اور فتح و کامیابی کی بشارت ہے، ظاہری جہاد میں مدد کے لئے آئے ہوئے نشان والے فرشتوں کو صرف خاص مومنین دیکھ سکتے ہیں، اور عالمِ شخصی کی جنگ میں عارف ہر قسم کے فرشتوں کو دیکھ سکتا ہے، نازل ہونے والے فرشتے آسمانی ہوتے ہیں، وہ علامتی اسلحہ کے بغیر ہوتے ہیں، جنگی نشان والے فرشتے حدودِ دین ہیں جو زمین پر ہوتے ہیں، ان کے پاس زمانے کے مطابق علامتی اسلحہ ہوتے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح مندی اور کامیابی کی بشارت اور اطمینان ہو۔
اگر ایک آدمی ایک عالمِ شخصی ہوسکتا ہے تو ایک فرشتہ بھی ایک
۷
ملکی قلعہ یا ایک عالمِ ملکوت بھی ہوسکتا ہے، جس میں بےشمار فرشتے ہوتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۲؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۸
قرآنی حکمتوں کے اشارات
درحقیقت دانا لوگ (صاحبانِ عقل) وہی حضرات ہیں، جو حقیقی معنوں میں قرآنِ حکیم کی آیاتِ مبارکہ میں غور و فکر کرتے ہیں، اور قرآنِ عزیز کی عظیم حکمتوں کے اشارات کو بجا طور پر سمجھ لیتے ہیں، جیسا کہ اس پسندیدہ شعر کا مطلب ہے:۔
بحرِ قرآن بحرِ گوہر زا ہے عقلٔا کے لئے
تاکہ ہر عاقل یہاں سے اپنے دامن کو بھرے
تشریح: قرآن کا سمندر موتیوں کو جنم دینے والا سمندر ہے، تاکہ ہر عاقل و دانا شخص یہاں کے علم و حکمت کے موتیوں سے اپنے دامن کو بھر لے۔
یقیناً قرآنی غوروفکر اور حکمتی اشارات میں انمول جواہرات ہیں، نورِ قرآن سے اگر عشق ہو تو ان شاء اللہ کنزِ قرآن مل سکتا ہے، جو کام منشائے الٰہی کے مطابق ہے وہ قوّتِ الٰہی سے ہو کر رہے گا، آپ حقیقی ایمان، کثرتِ ذکر اور علم و معرفت سے خداوندِ قدوس کو اپنا وکیل قرار دیں۔
قرآن کی سب سے اعلیٰ خدمت اس کے علم و حکمت کی روشنی کو پھیلانا ہے، کیونکہ عصرِ حاضر کا انسان مادّی ترقی کے طوفان میں خدائے واحدِ قھار کو فراموش کر بیٹھا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ انسان کے اعمال سے باخبر ہے۔
۹
تا نہ بردی رنجہا را کی بیابی گنج را
عاقلان از فکرِ قرآن گنج ہا را یافتند
ترجمہ: جب تک تو بہت سی مشقتیں نہ اٹھائے، تجھے خزانہ کس طرح مل سکتا ہے؟ حالانکہ دانا لوگوں نے قرآنی فکر سے خزانے حاصل کر لئے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۱۳ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۱۰
خواتینِ قرآن
ہم نے خواتینِ قرآن کے بعض فضائل بیان کرنے کا ایک مختصر سلسلہ شروع کیا تھا، جو دورۂ مغرب کی وجہ سے جاری نہ رہ سکا، مگر آج سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵) کی وجہ سے پھر وہ مضمون یاد آیا، وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: ۔
وَلَھُمْ فِیْھَأ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ وَّ ھُمْ فِیْھَاخَالِدُوْنَ۔
ترجمہ: ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ اس کے بڑے اہم اور بنیادی سوالات یہ ہیں: ۔
۱۔حورانِ بہشتی خواتینِ قرآن میں شامل ہیں یا نہیں؟
۲۔ ان کی پاکیزگی کی کیا تعریف ہوسکتی ہے؟
۳۔ کیا بہشت میں صرف بیوی ہر طرح سے پاک و پاکیزہ ہوسکتی ہے یا اس کا شوہر بھی؟
۴۔ آیا مومنین و مومنات کی ساری پاکیزگی صرف بہشت میں جاکر ہوتی ہے یا دنیا میں بھی؟
جوابات: میرے خیال میں حورانِ بہشتی بھی خواتینِ قرآن میں شامل ہو سکتی ہیں، ان کی پاکیزگی میں اوّل جسمِ لطیف ہے، دوم روحِ پاک ہے، اور سوم پاکیزہ عقل ہے، کیونکہ ہر انسان جسم و جان اور عقل کا مجموعہ ہے، اس لئے پاکیزگی
۱۱
تین قسم کی ہوتی ہے، جو جسمانی، روحانی اور عقلی ہے، اور اسی میں اخلاقی پاکیزگی بھی ہے۔
حورانِ بہشتی کو بعض علماء نے جنت کی پری عورتیں کہا ہے جو درست ترجمہ ہے، بہشت کا قانون یہ ہے کہ ہر قسم کی پاکیزگی اور حسن و جمال میں وہاں میاں بیوی بالکل برابر اور ہم پلہ ہوتے ہیں، مومنین و مومنات دنیا ہی میں ہر طرح سے بہشت کے لئے تیار ہوتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی
جمعرات ۱۴ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۱۲
عالمِ شخصی میں امامِ مبینؑ کا نورانی ظہور
اللہ تعالیٰ کی پاک حکمت بڑی عجیب و غریب اور چشمۂ آبِ حیات کی طرح ہے، اس ذاتِ پاک نے ہر عظیم شیٔ کو ایک مناسب اور اعلیٰ مقام عطا کیا ہے، چنانچہ اس کریم کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے اہلِ ایمان کو سمجھانے کے لئے امامِ مبینؑ کے ذکرِ جمیل کو قلبِ قرآن میں رکھا ہے، تاکہ ہر عاقل و دانا اس خداوندی حکمت میں خوب سے خوب تر غوروفکر کرے۔
آپ تمام عزیزان عالمِ شخصی کے بارے میں بہت سی باتیں جان چکے ہیں، اور من جملہ ایک روشن حقیقت یہ بھی ہے ، بلکہ یہی سب سے اہم ہے کہ امامِ مبینؑ کا نورانی ظہور عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، جیسا کہ اسکے ظہور کا حق ہے، جسکی برکت سے اہلِ معرفت کو خزائنِ اسرار حاصل ہوتے ہیں، اور کلیۂ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) کی جو جو صفات اور جیسی جیسی تعریفات ہیں ان سب کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔
اس آیۂ شریفہ کے آغاز میں یہ ذکر ہے کہ خداوندِ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرتا ہے ، سوال ہے کہ مضمونِ آیت کی مناسبت سے یہ مردے کون سے ہیں؟ حق بات تو یہ ہے کہ یہ زندہ نما مردے ہیں، یعنی عام انسانی روح سے زندہ تو ہیں مگر حقیقی روح نہ ہونے کی وجہ سے مردے ہیں، پس خدا ایسے لوگوں کو روحِ مقدس میں زندہ کر دیتا ہے، تاکہ وہ امامِ مبینؑ میں اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچان
۱۳
لیں، ورنہ دوسرے مردوں کی قیامت ہوچکی ہے، لہٰذا ان کو خدا شناسی کی ملہت نہیں ہے، حدیثِ شریف کا ترجمہ یہ ہے: جو شخص مرگیا تو اس کی قیامت برپا ہوگئی، اگر یہ موتِ نفسانی کے بعد زندہ کرنے کا ذکر ہے تو فَھُوَ المُراد، کہ اب ہر ایسے شخص پر دروازۂ معرفت کھول دیا جائے گا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
یوم الجمعہ ۱۵ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۱۴
شاہنشاہِ جنّات = صاحبِ جثّۂ ابداعیہ
قید خانے میں اتفاق سے آخری چلہ ہوگیا، جس میں بے شمار عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوا، جن کا بالتّرتیب بیان میرے لئے غیر ممکن ہے، ایک دفعہ رات کے پہلے حصّے میں دروازہ غیر معمولی طور پر دھماکے کے ساتھ کھل گیا اور اسی آن وہ بند بھی ہوگیا، اور شاہنشاہِ جنّات میرے سامنے تشریف فرما ہو گیا، ایک ہاتھ میں رائفل سنگین کے ساتھ اور دوسرے میں ٹارچ، شاید یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ وہ حاملِ نور بھی ہے اور صاحبِ جنگ بھی، میری حالت خوف و حیرت کی وجہ سے دگر گون ہوئی تھی اور میں عجیب قسم کی موت کا شکار ہو رہا تھا، مگر کتنی اعلیٰ موت تھی۔ الحمد للّٰہ۔
گر عشق نبودی سخنِ عشق نہ بودی
چندین سخنِ خوب کہ گفتی کہ شنودی
ترجمہ: اگر عشق نہ ہوتا اور عشق کا بیان نہ ہوتا، تو اتنی عمدہ باتیں کون کہتا اور کون سنتا۔
زندانݺ اُیِم یاد جݺ مُو بیلٹݺ تِل آلجم
جنّت نُکہ آردین نِمی زندانُ لوئیڎم
قرآنِ حکیم میں بارہا جثّۂ ابداعیہ کا ذکر آیا ہے، اور وہ تذکرہ
۱۵
مختلف مثالوں میں ہے، ان میں سے ایک مثال یَسْعیٰ نُوْرُھُمْ (۵۷: ۱۲؛ ۶۶: ۰۸) = مومنین و مومنات کا نور دوڑ رہا ہوگا، یہ معجزہ ظاہر میں جثۂ ابداعیہ ہے۔
فرعون کے محل میں موسیٰؑ کو قتل کرنے کے لئے جو مٹینگ ہو رہی تھی، اس سے موسٰی کو کس نے آگاہ کیا تھا؟ جثۂ ابداعیہ نے، جو شہر سے باہر بیابان میں رہتا تھا، مگر خفیہ طور پر فرعون کےمحل میں بھی آیا تھا (۲۸: ۲۰)۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ جنّات نہیں ہیں، وہ قرآن اور روحانیّت سے بالکل نابلد ہیں، ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ زمین کے دو حصّے ہیں، کہ اس کا ایک حصہ آباد ہے جس میں بنی آدم رہتے ہیں اور دوسرا غیر آباد حصّہ ہے جس میں جنّات بستے ہیں، اگر آپ سوال کرتے ہیں کہ انس و جنّ میں کیا رشتہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اب جسمِ کثیف رکھتا ہے مگر جنّ جسمِ لطیف ہے، جنّات بعض اچھے ہیں اور بعض برے ہیں، جو نیک جنّات ہیں وہ فرشتے بھی ہیں اور جو برے جنّات ہیں وہ شیاطین بھی ہیں اور جو انسان ہر طرح سے نیک ہو وہ لطیف ہو کر نیک جنّ اور فرشتہ ہوجائے گا۔
اگر آپ کو لفظِ جنّ سے ڈر ہے یا نفرت ہے، تو اسکی وجہ لاعلمی کے سوا کچھ بھی نہیں، خدا کے واسطے جنّ کو پری قوم سمجھو، اور یہ بات خوب یاد رکھو کہ نہ صرف پری قوم کی عورتیں ہی لطیف اور انتہائی خوبصورت ہوا کرتی ہیں، بلکہ اس قوم کے مرد بھی لطیف اور بدرجۂ انتہا حسین و جمیل ہوتے ہیں، پس اکثر لوگ جس طرح جنّ کا تصوّر کرتے ہیں وہ بالکل غلط اور گمراہ کن ہے، اس کی وجہ وہ بے حقیقت کہانیاں ہیں جو زمانۂ قدیم سے عوام النّاس میں چلی آئی ہیں۔
قرآنِ حکیم کی اعلیٰ سطحی حکمت یہ بتاتی ہے کہ خدا ضد سے ضد کو پیدا کرتا ہے،
۱۶
پس انسان جو کثیف ہے اس سے لطیف کو پیدا کرتا ہے، یعنی فرشتہ، حور، پری مرد یا عورت، نیک جنّ وغیرہ ۔ حضرتِ آدمؑ سے قبل اس زمین پر جنّات رہتے تھے (بحوالۂ کتاب دعائم الاسلام، حصّہ اوّل ، عربی ، ص ۲۹۱)۔
آپ کو اس بھید کے جاننے سے از حد خوشی ہوسکتی ہے کہ حدودِ جسمانی نہ صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں بلکہ جنّات سے بھی ہوتے ہیں، اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ حضرتِ رحمتِ عالمؐ کے حدود جنّات میں سے بھی تھے، سورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۱) نیز سورۂ جنّ (۷۲: ۰۱ تا ۱۵) میں غور کریں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
یوم الاحد ۱۷؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۱۷
سورۂ شوریٰ کی دو آخری آیتیں
سورۂ شوریٰ کی دو آخری آیتوں (۴۲: ۵۱ تا ۵۲) کو قانونِ حکمت کے مطابق بار بار غور سے پڑھیں، ان میں سے پہلی آیت کے رازوں کو جاننے کیلئے یہ سوالات بنائیں:۔
کسی بشر کے لئے یہ ممکن نہیں کہ خدا اس سے بات کرے مگر وحی (اشارہ) کے ذریعے سے، اس میں دیدار یا ملاقات ہے یا نہیں؟ جبکہ یہ وحی صرف اشارہ کے معنی میں ہے، اور فرشتہ والی وحی (اصطلاحی وحی) کا ذکر بعد میں آیا ہے، اگر خدا کسی بشر کو صرف دیدار عطا فرماتا ہے اور اس سے کلام نہیں کرتا تو کیا اس پاک دیدار میں صدہا اشارے نہیں ہیں؟ بشارتیں نہیں ہیں؟ تمام فیصلے نہیں ہیں؟ سینکڑوں سوالات کے لئے جوابات نہیں ہیں؟ کیا اللہ کا براہِ راست اشارہ کلام نہیں ہے؟ الغرض دیدار کے خزانے میں کس چیز کی کمی ہے۔
وحی کے لفظی معنی کے لئے دیکھو سورۂ مریم (۱۹: ۱۱)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۸ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۱۸
عالمِ شخصی وسیلۂ معرفت
مَن عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبّہٗ کے اس بابرکت ارشاد میں نفسہٗ سے عالمِ شخصی مراد ہے، کیونکہ ہر عارف اپنے ربّ کو اپنے عالمِ شخصی کے وسیلے سے پہچان سکتا ہے، کیونکہ تمام مراتبِ معرفت عالمِ شخصی میں آتے ہیں اور جملہ صفاتِ الہٰیہ کے افعال کا ظہور بھی اسی میں ہوجاتا ہے۔
آپ لفظِ معرفت کو دیگر الفاظ کی طرح ایک عام لفظ نہ سمجھیں، کیونکہ معرفت کے معنی تمام معنوں پر محیط ہیں، اسی وجہ سے کہا گیا تھا کہ عالمِ شخصی میں عالمِ اکبر سمایا ہوا ہے اور کوئی چیز اس سے باہر نہیں ہے۔
عالمِ شخصی کا تعلق چار عالم سے ہے: عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب اور عالمِ روحانیّت، نیز اس کے لئے چار عظیم عالم اور ہیں، وہ ہیں: عالمِ ناسوت، عالمِ ملکوت، عالمِ جبروت اور عالمِ لاہوت اور عالمِ شخصی کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ممکن بنا دیا ہے کہ وہ کائناتی بہشت بن جائے، اگر خدا کے فضل و کرم سے عالمِ شخصی کائناتی زندہ بہشت ہو جاتا ہے، تو یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔
عالمِ شخصی کے عجائب و غرائب کو احاطۂ تحریر میں لانا غیر ممکن ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۹ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۱۹
خزائنِ الٰہی کا قانون
سورۂ حجر ۱۵: ۲۱ کو میں قانونِ خزائنِ الٰہی کے نام سے یاد کرتا ہوں، اور میرا ایمان و یقین ہے کہ یہ آیۂ مبارکہ قرآنِ حکیم کی عظیم نمائندہ آیاتِ کریمہ میں سے ہے۔
قرآنِ عزیز علم و حکمت کی سب سے عظیم کائنات ہے، جی ہاں اللہ جل شانہٗ ہر کائنات کا القابض بھی ہے اور الباسط بھی، پس خداوندِ عالم جو قادرِ مطلق ہے، اس نے اگرچہ قرآن سب کے لئے پھیلا کر رکھا ہے، تاہم اس نے بمقتضائےحکمت بعض آیاتِ مبارکہ میں قرآن کو لپیٹ کر بھی رکھا ہے، تاکہ ہر عارف کو القابض اور الباسط کے معجزات کی حقیقی معرفت قرآن ہی سے حاصل ہو۔
خزائنِ الٰہی میں سب سے پہلے کلمۂ باری ہے، یعنی حق تعالیٰ کا وہ فرمان جس میں وہ سبحانہٗ وتعالیٰ کسی چیز سے فرماتا ہے: کُنۡ: ہوجا، یا صرف اس چیز کے ہوجانے کے لئے ارادہ ہی فرماتا ہے، تو وہ چیز ہو جاتی ہے، آپ اندازہ کریں کہ کیا اللہ کا یہ خزانہ کبھی ختم ہو سکتا ہے؟ یا کبھی کم ہوسکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں، آیا قلمِ اعلیٰ کا خزانہ کبھی کم ہوتا ہے؟ نہیں، اللہ تعالیٰ کا کوئی خزانہ کبھی کم ہونے والا نہیں، پس خزائنِ الٰہی کی کوئی چیز لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی قابلیت کے مطابق نازل ہوتی ہے، جب جب لوگ قرآن
۲۰
کی بتائی ہوئی ہدایات اور شرطوں کے مطابق عمل کرتے ہیں تو فوراً ہی اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے رحمتیں اور برکتیں نازل ہونی لگتی ہیں، پس دنیا میں ظاہراً و باطناً ہر نعمت خزائنِ الٰہی سے نازل ہوتی ہے، اور خوب یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام خزانوں کو اور کل چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے، الحمد لِلّٰہ ربّ العٰلمین۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۲۱ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۲۱
لفظِ ملوک = سلاطین کی تحقیق
سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں بنی اسرائیل کو ملوک = شاہان کہا گیا ہے یعنی خدا نے ان کو سلاطین بنایا تھا، دراصل یہ ایک رازِ باطن ہے، جس کو جاننے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ بات ظاہر میں ایسی نہیں ہے۔
بحکمِ قرآن آلِ ابراہیمؑ کا ہر امام اور آلِ محمدؐ کا ہر امام خدا کی طرف سے اپنے زمانے کا روحانی بادشاہ = مَلِک ہوا ہے، اور مومنین و مومنات میں سے جو جو اپنے امامؑ میں فنا ہوجاتے ہیں، وہ سب کے سب اپنے اپنےعالمِ شخصی اور بہشت کے بادشاہ ہوتے ہیں، کیونکہ امامِ زمانؑ کے معجزات میں سے ایک بڑا عجیب معجزہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے نور اور نورانیّت میں ایک معجزاتی سانچا ہے، پس جو بھی اس میں فنا ہو جائے وہ بہشت کا بادشاہ ہو جاتا ہے، اور یہ لفظِ ملوک کی تحقیق ہے، اور یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں۔
سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں غورو فکر سے دیکھو: اہلِ یقین کے لئے نہ صرف زمین میں قدرتِ خدا کی بہت سی نشانیاں ہیں بلکہ ان کی جانوں میں بھی ہیں، اور زمین کی نشانیوں میں سے ایک نشان قانونِ فنا ہے کہ ایک چیز دوسری چیز میں فنا ہو کر ترقی کرتی ہے، مٹی کو دیکھو جو جماد ہے اور نبات میں فنا ہوکر روحِ
۲۲
نباتی کو حاصل کرلیتی ہے، اور نبات حیوان میں فنا ہو کر روحِ حیوانی میں زندہ ہونے لگتی ہے، اسی طرح حیوان کی ترقی بھی قانونِ فنا ہی میں ہے، اور یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ ہر عام انسان کو بھی انسانِ کامل میں فنا ہوجانا ہے، جس طرح فنا ہوجانے کا حق ہے، یہی قانونِ فنا ہے جس کی وجہ سے اہلِ ایمان فنا فی الامامؑ ہو کر ملوک و سلاطین ہوجاتے ہیں۔
الحمدُ لَلّٰہِ علیٰ مَنِّہٖ واحسانِہٖ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۲۱ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۲۳
رسولِ خداؐ کا ایک اساسی ارشادِ مبارک
آنحضرتؐ نے بنی عبدالمطلب سے فرمایا: یابنی عبد المُطلب اطیعُونی تکونوا مُلُوکَ الارض وَ حُکّامَھا (دیکھو: کتاب دعائم الاسلام، عربی، جلدِ ثانی، ص ۱۵)۔
ترجمہ: اے بنی عبدالمطلب تم سب میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے ملوک (سلاطین) اور حکمران ہوجاؤ گے۔
پیغمبرِ اکرمؐ کی اس کلّی اور حقیقی اطاعت کے نتیجے میں اہلِ ایمان کو جو عظیم بادشاہی ممکن تھی وہ ظاہر میں بھی ہوسکتی تھی اور باطن میں بھی، آپ قرآنِ حکیم کو چشمِ بصیرت سے پڑھیں، قرآن میں ہر مضمون اور ہر بیان موجود ہے، آپ احادیثِ قدسی کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔
جو شخص دنیا میں چشمِ معرفت سے اندھا ہو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا (۱۷: ۷۲) کیا اس حکمِ خداوندی سے ہادئ برحقؑ کی معرفت ضروری بلکہ از بس ضروری نہیں لگتی ہے؟ کیا بہشت اور اسکی نعمتوں کی پہچان ضروری نہیں ہے؟ اور اس کی عظیم بادشاہی کی معرفت؟ اگر تم اپنے عالمِ شخصی کی معرفت حاصل کرلیتے ہو تو کیا پھر بھی کوئی ضروری معرفت اس دائرے سے باہر رہے گی؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں
۲۴
کی آسانی کی خاطر کل اشیاء کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۲۳ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۲۵
بہشت کی شاہنشاہی
جن باسعادت لوگوں نے آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی عظیم روحانی سلطنت (۰۴: ۵۴) کو پہچان لیا، انہوں نے یقیناً بہشت کی بہت بڑی شاہنشاہی (۷۶: ۶۰) کو پہچان لیا، پس ایسے سب لوگ بہشت کے مختلف ممالک کے بادشاہ ہونگے، پس وہ بڑے مبارک لوگ ہیں۔
اگر آپ نے آیتِ استخلاف کو خوب غور سے نہیں پڑھا ہے تو اب خوب غور سے پڑھیں (۲۴: ۵۵) اللہ نے اس آیت میں جن لوگوں کو خلیفہ بنانے کا وعدہ فرمایا ہے وہ ان کو بہشت کی وسیع زمین پر خلیفہ = بادشاہ بنائے گا، مگر خلافت اور بادشاہت کے لئے لوگوں کا ہونا لازمی ہے، جی ہاں دنیا کی تمام قومیں وہاں ہوں گی اور ہر خلیفہ (بادشاہ) اپنے لوگوں کو دینِ حق کی دعوت کرے گا۔
میرا یقین ہے کہ میں نے جو کچھ یہاں لکھا وہ آیتِ استخلاف کی تھوڑی سی وضاحت ہے، حالانکہ اس میں اور بھی بڑی بڑی حکمتیں ہیں۔
جو لوگ حقیقی معنوں میں رسولِ خداؐ کی اطاعت کریں وہ یقیناً بادشاہ (خلیفہ) ہوں گے اس کی بڑی گنجائش بہشت میں ہے، کیونکہ بہشت میں بڑے
۲۶
بڑے درجات ہیں، قرآنی حکمت کا فرمانا ہے کہ اللہ سب لوگوں کو جنت میں جمع کرنا چاہتا ہے اور سب کو دینِ حق سکھانے کا ارادہ رکھتا ہے، کیونکہ ساری مخلوق گویا اس کی عیال ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۲۳ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۲۷
جثّۂ ابداعیہ کے ظہورات و معجزات اور امثال و اسماء
جثۂ ابداعیہ سب سے پہلے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہؑ کو عطا ہوا تھا، یہ دراصل نورِ مجسّم ہے اس لئے یہ مرئی بھی ہے اور غیر مرئی بھی، یہ حاضر بھی ہو جاتا ہے، اور اسی حال میں محجوب بھی ہوجاتا ہے۔
یہ مَلَک بھی ہے اور مَلِک بھی، یہ شاہِ جن بھی ہے شاہنشاہ بھی، یہ روحانی لشکر کا قلعہ (محراب) بھی ہے، یہ ایک ہزار اور بےشمار ہے، کیونکہ یہ سب کی وحدتِ مجسم ہے جبکہ یہ مجموعۂ کائنات ہے۔
یہ انسانِ کامل کی زندہ نورانی تصویر ہے اور ایسی معجزاتی تصویریں ہزاروں کی تعداد میں بھی ممکن ہیں، ہم نے اس کو جسمِ لطیف بھی کہا ہے، یہ قالبِ نورانی ہے، یہ لباسِ بہشت ہے، حضرتِ داؤد خلیفۃ اللہؑ امام تھا، لہٰذا اس کے نور اور نورانیّت کے سانچے میں مومنین ڈھل ڈھل کر جثّۂ ابداعیہ ہوجاتے تھے، اور یہی معجزہ حضرتِ عیسیٰؑ بھی کرتے تھے، قرآن میں دیکھو۔
قبضِ روحِ عارف کی مدت سات رات آٹھ دن ہے (۶۹: ۰۷) اس وقت تقریباً ستر ہزار اجسامِ لطیف بنائے جاتے ہیں، تفصیلات اور معلومات کے لئے آپ میری کتابوں کو پڑھیں۔
جثّۂ ابداعیہ جب نورِ مجسّم ہے تو آپ کو قرآن میں دیکھنا اور
۲۸
سوچنا ہوگا کہ نور کے باب میں کیا کیا ارشادات ہیں؟ اور اس کی کیا کیا نسبتیں ہیں؟ نور کی چارنسبتیں ہیں، نور خدا کا ہے ، رسولؐ کا ہے، امامِ زمانؑ کا ہے، اور پھر حقیقی اطاعت کے نتیجے میں مومنین و مومنات کا بھی ہے، ان سب کے لئے ہزاروں مبارکبادیاں ہوں! آمین ثم آمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۲۴ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۲۹
عالمِ شخصی کا قانونِ قیامت
جو مومنینِ بایقین عالمِ شخصی کے قانونِ قیامت کو جانتے ہیں وہ بڑے نیک بخت ہیں، کیونکہ قیامت ہمیشہ سے عالمِ شخصی کی روحانیّت میں برپا ہوتی چلی آئی ہے۔ اور ربّ العزّت کے احسانِ عظیم کو دیکھیں کہ قانونِ تاویل خود قانونِ قیامت ہے، جو قانونِ عالمِ شخصی بھی ہے، ایسے میں بفضلِ خدا قرآنی تاویل کے ابواب حضرتِ مؤول علیہ السّلام کی یاری سے مفتوح ہو جاتے ہیں۔
اس کی ایک عمدہ مثال: سورۂ مریم (۱۹: ۹۳) میں دیکھو، ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب رحمان کے حضور بندوں (غلاموں) کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں، ان سب کو اس نے (امامِ مبینؑ میں) گھیر لیا ہےاور ان کو ایک خاص عدد میں (یعنی عددِ واحد میں) شمار کر رکھا ہے، یعنی نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک کر دیا ہے۔
حضرتِ آدم کا تمام قصّہ عالمِ شخصی کے قانونِ قیامت کے مطابق ہے، سجدہ کرتے ہوئے جتنے بھی فرشتے آدمؑ کے عالمِ شخصی میں گرچکے تھے وہ واپس نہیں گئے تھے، بلکہ وہ حظیرۂ قدس میں جاکر آدمؑ کے ساتھ ایک ہوگئے تھے، کیونکہ وہ عالمِ وحدت ہے، چنانچہ قصّۂ آدمؑ ہی میں آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب کی ایک ساتھ قیامت قائم ہوجانے کی تاویل بنتی ہے۔
۳۰
اگر کسی مومنِ سالک پر بفضلِ خدا روحانی قیامت واقع ہوتی ہے تو اس کی ہر ہر چیز اس کے نامۂ اعمال میں ہمیشہ کے لئے زندہ رہتی ہے، تو پھر کس طرح آدمؑ کی قیامت میں آئے ہوئے فرشتے واپس جا سکتے تھے، جبکہ قیامت میں تسخیرِ کائنات بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ مومنین کے کسی نیک عمل کو کبھی ضائع نہیں کرتا ہے، تسخیرِ کائنات کا مطلب ہے آسمان و زمین اور اس کی ہر چیز کا عالمِ شخصی میں شامل ہونا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۵ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۳۱
عالمِ شخصی کی معرفت سے متعلق ضروری سوالات
کیا یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرتِ ابوالبشر (آدمؑ) کو خودشناسی اور خدا شناسی کا علم و عرفان عطا کیا تھا؟ کیا خدائے پاک و برتر نے آدمؑ کو اسمِ اعظم کا انتہائی عظیم راز بتا دیا تھا؟ آیا تب سے انبیاءؑ و اولیاءؑ میں یہی بات سنتِ الٰہی کی حیثیت سے چلی آئی ہے؟ آیا یہ بات درست ہےکہ خدا جو القابض اورا لباسط ہے وہ تمام اسماء، اذکار اور عبادات کو اپنے پاک اسمِ اعظم میں جمع کر دیتا ہے؟ کیا خلافتِ آدمؑ کا سب سے بڑا راز بھی اسمِ اعظم ہی میں تھا؟
خدائے واحد کا واحد راستہ صراطِ مستقیم ہے جو انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کا راستہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے تمام بندوں کے لئے بھی یہی راستہ مقرر فرمایا، پس ہر مومنِ سالک جو سیر الی اللہ اور آخری فنا میں کامیاب ہوجاتا ہے اس کو سب سے اوّل حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اور وہاں کی تمام اٹل باتیں اللہ تعالیٰ کی سنت ہیں، جن میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے، یہی ایک کامل معرفت سب کی نمائندہ معرفت ہے، اور عارف کی اپنی معرفت اور حضرت ربّ کی معرفت بھی اسی میں ہوتی ہے۔
۳۲
پس تمام عزیزوں کو میرا ضروری مشورہ یہ ہے کہ عالمِ شخصی سے متعلق جتنا علم کتابوں میں بکھرا ہوا ہے ، اس سب کو ایک بار اپنے ذہن میں یکجا کرلیں، تاکہ اس سے عین الیقین کا مرتبہ آسان ہوسکے، ہمارے یہاں وہ مضمون جس پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے، وہ عالمِ شخصی ہے ، یہ مضمون سب سے مرکزی اور سب سے اعلیٰ ہے۔
اے دورِ قائم کے مومنین و مومنات ! تمہارے علمی فرائض پہلے سے بہت زیادہ ہیں، کیونکہ تم حضرتِ قائم القیامت کے علمی لشکر ہو، اور ہر دانا کے نزدیک یہ مرتبہ نہایت اعلیٰ و ارفع ہے، کیونکہ باطن میں ایک بڑی عجیب علمی جنگ ہے، جس میں تمام کائنات کو فتح کر لینا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۷ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۳۳
ایک نہایت بابرکت اعتکاف = چلہ
تقریباً چالیس دن تک اعتکاف یا چلہ اور ترکِ خواب و خور کے بعد جسم میں بڑا انقلاب آیا، اس اثنا میں غذائے روحانی عطا ہو رہی تھی، جس کا میں نے دوستوں کو زبانی اور تحریری ذکر کیا ہے، جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں سونگھا دی جاتی تھی، اور یہ کام عالمِ ذرّ کے جنّات انجام دیتے ہیں، یہ جنّات اتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کی شکل میں ہیں، اور ان کی پرواز کی رفتار برق سے بھی زیادہ تیز ہے، وہ آپ کو دنیا کے کسی بھی حصّے سے پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں اور درختوں کے خوشبودار پتوں کی خوشبو فوراً لے آ سکتے ہیں، جس سے آپ کے اندر ایک قسم کا جسمِ لطیف پیدا ہوتا ہے۔
خوشبو روح نہیں بلکہ جسم ہے، اس سے جسم کی غذا ہو جاتی ہے، خصوصاً ایسے جسم کی غذا ہوتی ہے جو کثیف سے لطیف ہو رہا ہو، یہی وجہ ہے کہ جنّ و پری پہاڑوں اور دشت و بیابان میں رہتے ہیں، کیونکہ ان کو صاف ہوا سے اوکسیجن وغیرہ ملتی ہے، انبیاء علیھم السّلام نے بہت پہلے ایسے بے شمار معجزات کا تجربہ کرلیا تھا۔
خدا کی خدائی میں ایک ساتھ دو عالم ہیں: عالمِ خلق اور عالمِ امر، ان دونوں میں بڑا فرق ہے، وہ یہ کہ عالمِ خلق میں چیزیں دیر سے تیار ہوتی ہیں، مگر
۳۴
عالمِ امر میں اللہ کے “ہوجا” فرمانے سے، یا صرف ایسا ارادہ فرمانے سے مطلوبہ چیزفوراً ہی سامنے آتی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ امر میں تمام چیزیں ابداعی طور پر ہوتی ہیں، پس ممکن ہے کہ قید خانے کی وہ تمام غذائیں جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں جنّات لایا کرتے تھے، دراصل ابداعی نعمتیں ہوں، اور یہ میری کمزوری تھی کہ ابداعی معجزات کو اچھی طرح سے نہیں سمجھ رہا تھا۔
چالیس دن تلک میں نے گندم کی روٹی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، ایک دن ایک اجنبی آدمی گندم کی ایک خوبصورت روٹی تھالی میں لے کر آیا اور غائب ہوگیا، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا، یاد نہیں روٹی تھالی میں توڑی ہوئی تھی یا میں نے خود ٹکرے ٹکڑے کئے تھے، کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو روحانی نے منع فرمایا، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ میں اس معجزے سے شک اور یقین کی کش مکش میں رہا کہ یہ ابداعی معجزہ تھا، یا یہ دنیا کی روٹی تھی؟
لیکن یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ بعض معجزے ناقابلِ یقین باتوں میں ہوتے ہیں، اور اگر کسی معجزے میں شک ہوتا ہے تو اس میں بھی حکمت ہے کہ اس میں لوگوں کی آزمائش ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۲۸ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۳۵
حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام کا ایک فرمانِ اقدس
کتابِ سرائر ص ۱۱۷ پر بروایتِ ابو ذرجندب مولا علیؑ کا یہ بابرکت ارشاد درج ہے کہ مولا نے فرمایا: انا دینُ اللّٰہِ حقّاً انا نفسُ اللّٰہِ حقّاً لایقولُھا غیری ولایُد عِیھا مُدَّ عٍ اِلّاکذّاباً وَاَناالّذی عَظَّمَنِی اللّٰہُ فقال فی قَسَمِہٖ (فَلَأ اُقْسِمُ بِمَوَاقِع النُّجُوْمِ ۔ ۵۶: ۷۵) وانا الْعلّیُ الکبیرُ (قرآن میں پانچ دفعہ آیا ہے) اناجنبُ اللّٰہِ (۳۹: ۵۶) وَاَنا اُذُنُ اللّٰہِ (۶۹: ۱۲) انا وجہُ اللّٰہِ (فَاَ یْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ۔ ۰۲: ۱۱۵) مولا نے فرمایا: اسمی فی القرآنِ حکیماً و فی التّوراۃِ کُلاً وفی الانجیل حتماً و فی الزّبور بشراً و فی صحفِ ابراھیمَ اوّلاًو آخراً وانا بالغیبِ خبیرو بما یکونُ علیم و فی العالمِ قدیم و فی السّمٰوٰتِ بصیر و بما فی الاارضین عارف فتد بَّرواایُّھا المُؤمنون۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۳۰ ؍ ستمبر ۲۰۰۰ء
۳۶
قرآنِ حکیم میں مضمونِ بشارت
اے میرے بہت عزیز روحانی ساتھیو! قرآنی علم و حکمت میں تمام ضروری چیزوں کا بیان موجود ہے، اور جملہ ضروری مضامین میں لازمی طور پر مضمونِ بشارت بھی ہے، لیکن ہر دانا شخص کو بشارت کی تمام شرطوں اور قوانین کو جاننے کی ضرورت ہے، پس بشارت اجتماعی بھی ہے اور انفرادی بھی، قولی بھی ہے اور عملی بھی، کسی فرد کے لئے ذاتی بشارت نورانی خواب میں بھی ہے، اور سب سے بڑی خوش خبری کسی کی روحانی ترقی ہے، جو سب سے بڑی بشارت ہے، یہ اس مومن کےلئے عملی بشارت ہے۔
مذکورۂ بالا بشارتوں میں مشروط بشارت بھی ہے، آپ کو یہ بھی جاننا ہے کہ رسولِ اکرمؐ کا ایک اسمِ صفت بشیر ہے، یعنی بشارت دینے والا، اب یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ کے اس بابرکت نام کے عملی معنی کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ رسولؐ ہی بشیر ہیں، لہٰذا بشارت دینے کا ظاہری اور باطنی نظام آپؐ کے نور کے تحت ہے، آپ قرآنِ حکیم میں مضمونِ بشارت کوپڑھیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے، تاکہ آپ کے علم و حکمت اور معرفت میں اضافہ ہو۔
یہ حکمت ہمیشہ یاد رہے کہ عارف کی روحانی قیامت ہی جنت کی کامل
۳۷
خوشخبری ہے، کیونکہ یقینِ کامل کے لئے عملی بشارت چاہئے، پس قرآن میں جہاں جہاں بشارت کا مضمون ہے، وہاں ضرور عملی روحانیّت کا تذکرہ ہے، آپ وہاں سے فائدہ اٹھائیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار یکم اکتوبر ۲۰۰۰ء
۳۸
کلیۂ امکانیہ
Universal Law of Possibility
اݹ منݳسن اپݵ = ناشدنی نیست = کوئی چیز ان ہونی نہیں۔
قانونِ امکانیّت = بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، کوئی ایسی چیز نہیں جو اللہ تعالیٰ کے خزائن میں موجود نہ ہو (۱۵: ۲۱)۔
اݹ مُش او= لا ابتدائی اور لاانتہائی کا نظریہ رکھ لے۔ یعنی خدا کی خدائی ہمیشہ ہمیشہ ہے، بالفاظِ دیگر اللہ کی بادشاہی قدیم ہے، نہ صرف خدا کی ذات قدیم ہے، بلکہ اس کی ہر صفت بھی قدیم ہے: ۔
صفات و ذاتِ او ھر دو قدیم است
شدن واقف از و سیرِ عظیم است
(حکیم پیر ناصر خسرو “ق س” روشنائی نامہ)
عطائے الٰہی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوتا (۱۱: ۱۰۸)۔ اور کبھی ختم نہ ہونے والے اور بے روک ٹوک ملنے والے بکثرت پھلوں اور اونچی نشست گاہوں میں ہوں گے (۵۶: ۳۴)۔
یہ حکمتیں صفِ اوّل کے عاشقوں کے لئے ہیں، اگر کسی کو شک ہو تو وہ ان باتوں کو نہ پڑھے، ایسا شخص نور کا حقیقی عاشق نہیں، اگرچہ یہ چند الفاظ ہیں مگر یہ انمول جواہر ہیں۔
۳۹
اے عزیزان! اپنے آپ کا جائزہ لو کہ آپ علم و حکمت کے کیسے عاشق ہیں؟ اگر آپ اپنے بعض ساتھیوں سے پیچھے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲ ؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۴۰
زندگی نما موت اور حقیقی زندگی
سورۂ ملک کی آیۂ دوم (۶۷: ۰۲) کا ارشاد ہے:۔ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ۔ (۶۷: ۰۲)
ترجمہ: خدا وہ ہے جس نے موت اور زندگی کو مخلوق کیا تاکہ تم سب کو علم میں بھی اور عمل میں بھی آزما کر یہ ظاہر کرے کہ تم میں بہترین شخص کون ہے؟ اس آیۂ کریمہ میں دو پُرحکمت سوال ہیں، ان کے الگ الگ جواب از حد ضروری ہیں۔
سوال: دنیا میں یہ واقعہ سب کے سامنے ہے کہ پہلے زندگی ہوتی ہے اور اس کے بعد موت واقع ہوتی ہے، لیکن یہاں موت کی تخلیق پہلے ہے اور زندگی کی تخلیق بعد میں، چونکہ یہ قرآنِ حکیم کی آیت ہے اس لئے یہاں کوئی حکمت ضرور ہے، آپ بتائیں کہ وہ حکمت کیا ہے؟ جواب: یہ زندگی نما موت کا ذکر ہے جو حقیقی زندگی سے پہلے ہوتی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر موت نیستی اور معدومی کا نام ہے تو یہ مخلوق کس طرح ہوسکتی ہے؟ جواب: نہیں یہ عدم اور نیستی نہیں بلکہ بہت ہی کم درجے کی زندگی ہے اس لئے یہ حقیقی زندگی کے مقابلے میں موت شمار ہوتی ہے، جس کو ہم نے زندگی نما موت کے عنوان میں بیان کیا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۲؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۴۱
روحانی قیامت
روحانی قیامت اپنے ساتھ علم ومعرفت کے بے شمار معجزات کو لے کر آتی ہے، لیکن کوئی بیچارہ درویش جو قیامت کی چکی میں پس رہا تھا وہ کس طرح قصّۂ قیامت کو کما کان حقہٗ بیان کرسکتا ہے؟ اگر تم عاشق ہو تو اس میں سے ہر بات کو سن لو۔
شاید وہی رات تھی جس میں آتشِ سرد کے بہت سے اسرار ظاہر ہوئے، یہ درویش جس کو ابھی ابھی بہت سے معجزات نے خوف زدہ کیا تھا کہ اس کو چھت کے درمیان بہت بڑا شگاف نظر آیا اور اس کا بالائی آسمان، اور اس میں یو۔ایف۔ اوز کے کئی جہاز مجھ پر بمباری کرنے کے لئے منڈلانے لگے، اب چھت میرے اوپر سے تقریباً غائب ہوچکی تھی، میں نے اپنے بیٹے سیف سلمان خان کو جو اس وقت بہت چھوٹا تھا اور اس کی والدہ کو دوسرے روم میں رکھا تھا، تاکہ وہ ان جہازوں کی بمبارمنٹ سے محفوظ رہیں۔
کیا یہ خواب تھا؟ نہیں، کیا یہ بیہوشی کا عالم تھا؟ نہیں نہیں، میں سب کچھ دیکھ رہا تھا، لیکن اس معجزے کو ناقابلِ فراموش کر دینے کا قدرتی ایک نظام تھا، اور کوئی روحانی آواز دے کر یو۔ایف۔اوز کو بتا رہا تھا کہ دیکھو ٹارگیٹ یہاں ہے، کسی بہت بڑے ملک کا نام لیا جارہا تھا کہ یہ جہاز وہاں سے آئے ہیں۔
۴۲
آج یو۔ایف۔اوز نہ صرف سائنس دانوں ہی کے لئے بلکہ بڑے بڑے ممالک کے لئے بھی انتہائی حیران کُنۡ سوال ہیں، مگر ان شاء اللہ ہم درویش لوگ خدائے علیم و حکیم کی ہدایت کی طرف دیکھتے ہیں، آپ قرآنِ حکیم سے رجوع کریں اور آفاق و انفس میں اللہ کی نشانیوں کی پیش گوئی کو بھول نہ جائیں (۴۱: ۵۳)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۵؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۴۳
ایامِ طفلی کی ایک شیرین یاد
جب جب میرے والد صاحب صبح نورانی وقت میں مناجات کرتے تھے تو اس مناجات و عبادت کی آواز میں سے مزہ اور لذّت کی کوئی لہر میرے کان میں آتی رہتی تھی، حالانکہ میں اس وقت اتنا چھوٹا بچہ تھا جتنا اب میرا حبِّ علی ثانی ہے، یہ یقیناً روح الایمان کی لہر تھی جو والد کی آوازِ مناجات سے آتی رہتی تھی، اور یہ حقیقت ہے کہ مجھے عقائد کی دولت میرے والدین سے حاصل ہوئی تھی، اور یہ عقائد ہی ہیں جن پر دین کی عمارت قائم ہوتی ہے۔
ہر ایسے چھوٹے بچے کی کتنی بڑی نیک بختی ہے جس کے والدین نیک، دیندار اور پرہیزگار ہیں، وہ اپنے بچوں کے لئے گھر ہی میں اچھی عادتوں کا نمونہ ہیں، وہ اپنے اہل و عیال کے لئے ایک زندہ سکول ہیں، جب جب وہ مولا کا پاک نام لیتے ہیں تو گھر میں روحانی روشنی پھیلتی ہے، چھوٹے بچوں کو اپنے ماں باپ سے بہت پیار ہوتا ہے، جس کی وجہ سے والدین کی دینی باتیں بہت ہی اچھی لگتی ہیں، پس میرے والدین میرے حق میں ایک کامیاب ابتدائی دینی مدرسہ تھے، ہاں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا، وہ میرے عالمِ شخصی میں زندہ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ہے۔ الحمد لِلّٰہ ربّ ِ العٰلمین۔
۴۴
اے عزیزان! علم و عبادت کی مسلسل کوشش سے اپنے گھروں کو نورانی فرشتوں کا مسکن بناو، اگر تم یہ بڑا نیک کام کرسکتے ہو تو خدائے قادرِ مطلق کی طرف سے فیوضات و برکات کا یقین رکھو، کیونکہ یہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ تم ہمیشہ اس کو یاد کرتے رہتے ہو اور وہ تم کو بھول جائے، جبکہ اس کا ارشادِ مبارک یہ ہے:۔
فَاذْ کُرُوْنیْٔ اَذکُرْ کُمْ (۰۲: ۱۵۲)۔
لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ دیکھو اس آیۂ مبارکہ میں کامیابی کا سب سے بڑا راز پنہان ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۶؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۴۵
سورۂ قدر
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے، اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، فرشتے اور روح اس میں اپنے ربّ کے اذن سے ہر حکم لیکر اترتے ہیں، وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوعِ فجرتک۔
سورۂ قدر کی تاویلِ باطن
قرآنِ حکیم بتدریج نازل ہوا ہے، جس کی مدت ۲۲ سال پانچ ماہ اور چودہ دن ہے، بحوالۂ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا، جلدِ دوم، ص ۱۱۳۵۔
سورۂ قدر کا تاویلی مضمون بڑا عجیب و غریب ہے کہ ہر امامؑ کا حجت اپنے وقت پر اس کا بیٹا ہوتا ہے، مگر اس عام اصول کے برعکس حضرتِ قائم القیامت کا حجت اس کا باپ ہوتا ہے، لہٰذا حجت عالمِ دین میں پہلے آتا ہے اور حضرتِ قائم (ع س) بعد میں آتا ہے، مگر جب حجتِ قائم میں نور آتا ہے تو قائم ہی کا نور نازل ہوتا ہے، کیونکہ بیٹے کی طرف سے باپ نے قیامت کو برپا کرنا ہے، اور بیٹے کو چھپانا ہے۔
حجتِ قائم ایک امام ہے مگر اپنی ظاہری اور باطنی خوبیوں کی وجہ سے ہر امام سے بہتر ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۷؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۴۶
ایک انتہائی اہم سائنسی مضمون
بشکریۂ اخبارِ جنگ کراچی ہفتہ ۱۴؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
جانوروں کی گیارہ ہزاراقسام کو معدومی کا خطرہ ہے زندگی سے معمور دنیا ایک دن بیابان ہوجائے گی ملکہ نور کا ورلڈ کنزرویشن کانگریس سے خطاب۔
کراچی( رپورٹ۔۔ قمررضوی) آئی یو سی این بقائے ماحول کی عالمی انجمن کے زیر اہتمام دوسری ورلڈ کنزرویشن کانگریس اردن میں ۴ تا ۱۱ ؍ اکتوبر ہوئی اس موقع پر اردن کی ملکہ نور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی زمین کو اس طرح سے خوبصورت بنا رہے ہیں کہ اس پر موجود جانداروں کی انواع رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی ہیں اور ایک دن زندگی سے معمور یہ دنیا بیابان بن جائے گی۔ چیف سائنٹسٹ جیف میلینکی نے کہا کہ جب بھی جانداروں کی کوئی قسم صفحۂ ہستی سے مٹتی ہے تو فطرت کی ساڑھے تین ارب سالوں کی محنت بھی خاک میں مل جاتی ہے، دیگر ماہرین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پودوں اور جانوروں کی تقریباً گیارہ ہزار اقسام کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے اس بارے میں آئی یو سی این کی اسپیشیزسروائیول کمیشن نے ایک ریڈ لسٹ جاری کی ہے اس موقع پر آئی یو سی این کے ڈائریکٹر جنرل نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہمارے پاس معدومی کے اس بحران سے نمٹنے کے لئے علمِ ٹیکنالوجی اور انسانی وسائل موجود ہیں ضرورت صرف سیاسی عزم کی ہے تاکہ انہیں آنے والی نسلوں کے مفاد میں استعمال کیا جائے کیونکہ جانوروں کی انواع کا خاتمہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر خطرات
۴۷
سے نہ نمٹا گیا تو آئندہ ۲۵ سالوں میں ۸ ارب تک پہنچنے والی انسانی آبادی کو مختلف امراض، بدامنی اور افلاس جیسے مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کانگریس میں متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد میں کہا گیا کہ غزہ کی پٹی ، مغربی کنارے اور یروشلم میں فریقین سے ماحول کو تحفظ دیا جائے۔ آئی یو سی این ۲۰۰۲ء میں ہونے والی ارتھ سمٹ کوریو ۱۰+ کا نام دیا گیا۔
۴۸
امامِ آلِ محمدؐ
خدایے نورِ ہدایت
امامِ آلِ محمدؐ
امامِ دورِ قیامت
امامِ آلِ محمدؐ
ژو جانِ اہلِ سعادت
امامِ آلِ محمدؐ
لہ نجمِ اوج سیادت
امامِ آلِ محمدؐ
میونے تاجِ کرامت
امامِ آلِ محمدؐ
ژو شاہِ ملکِ ولایت
امامِ آلِ محمدؐ
ایو نے کانِ سخاوت
امامِ آلِ محمدؐ
چراغِ نورِ امامت
امامِ آلِ محمدؐ
۴۹
نجاتے سرکے اشارت
امامِ آلِ محمدؐ
بھشتے زندہ بشارت
امامِ آلِ محمدؐ
نصیرؔے جیےحمایت
امامِ آلِ محمدؐ
(گلگت میں امامِ زمانؑ کے تشریف فرما ہونے کے موقعہ پر)
ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی
منگل ۱۷؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۵۰
امامِ آلِ محمدؐ
جب قرآن و حدیث کی روشنی میں امامِ برحقؑ کی عظمت و برتری کا اندازہ ہونے لگا تو پھر ہر مذہب میں بلکہ علم کے ہر شعبے میں لفظِ امام استعمال ہونے لگا، اس عمومیت کی وجہ سے حقیقی امام کی شناخت مشکل ہوگئی، تاہم اصل اور حقیقی امام کے نشانوں میں سے ایک نشان خاص اور قابلِ ذکر ہے اور وہ ہے امامِ برحقؑ کا آلِ محمدؐ ہونا، لہٰذا ہم نے اس مختصر نظم میں امامِ آلِ محمدؐ کے اسمِ مبارک کو اس طرح لکھا ہے کہ پڑھنے والے اس کا ذکر بھی کریں۔
۱۔ خدا کا نورِ ہدایت۔
۲۔ دورِ قیامت کا امام۔
۳۔ آؤ اہلِ سعادت کی جان۔
۴۔ اے سیادت کی بلندی کا ستارہ!
۵۔ ہم سب کی بزرگی کا تاج۔
۶۔ آ جاؤ اے ملکِ ولایت کے بادشاہ۔
۷۔ تم سب کے لئے کانِ سخاوت ہو۔
۸۔ امامت کے نور کا چراغ۔
۹۔ تم نجات کا نمایان اشارہ ہو۔
۵۱
۱۰۔ بہشت کی زندہ خوشخبری ہو۔
۱۱۔ تو نصیرؔ کی روح کے لئے بے شک باطنی حمایت ہے۔
غلام مصطفیٰ مومن پریذیڈنٹ آف بِگ کی فرمائش پر مذکورہ نظم کا یہ مختصر ترجمہ کیا گیا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۵۲
قرآنِ پاک کی وحدت و سالمیّت
جس طرح ظاہر میں قرآنِ حکیم کے بہت سے اجزاء ہیں، لیکن اس کے باوصف اس کی کتابی شکل کی ایک ہی وحدت و سالمیت موجود ہے، جس کو ہر مسلمان دیکھتا اور یقین رکھتا ہے، اسی طرح باطن میں بھی قرآنِ عظیم کے مقدّس اجزاء ہیں، مگر چونکہ وہ معجزۂ کلامِ الٰہی کی وحدت و سالمیت کی وجہ سے ایک ہیں، لہٰذا ان کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا ہے، جیسے کلمۂ کن، قلمِ اعلیٰ، لوحِ محفوظ، کتابِ مکنون، نور (روح، ۴۲: ۵۲)، کتابِ ناطق، معلمِ ربّانی، تاویل (حکمت)، رمزِ باطن، اشارہ، حظیرۂ قدس، امامِ مبین، اور دیگر عظیم معجزاتِ باطنی کو نہ جاننا، نہ ماننا یا ان معجزات کو الگ الگ قراردینا، ایسا ہے جیسے قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا، متعلقہ آیت کو دیکھو(۱۵: ۹۱)۔
یاد رکھو قرآن کلامِ الٰہی ہے جس کے ظاہری اور باطنی دو پہلو ہیں، پس قرآن کا باطنی پہلو زمان و مکان سے ماوراء ہے، یعنی وہ زمانے کے تحت آکر قصّۂ ماضی نہیں ہوتا، لہٰذا وہ عارفین کے نزدیک گویا ایک نورانی مووی ہے، جو اپنے اصل حال میں موجود ہے، یعنی خدا کُنۡ فرما رہا ہے، قلم لکھ رہا ہے، لوح اپنا کام کر رہی ہے، الغرض قرآن کا ہر باطنی معجزہ جاری ہے، کیونکہ یہ لامکانی اور ازلی معجزات ہیں، ان کو سمجھنے کے لئے کوشش کریں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعۃ المبارک ۲۰ ؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۵۳
قرآنی بہشت
اگرچہ قرآنِ عظیم کی اصل اور حقیقی تعریف خود قرآنِ حکیم ہی میں موجود ہے، تاہم کلامِ الٰہی کی اسی تعریف کے حوالے سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ پاک علم و حکمت کی وہ بہشت ہے جو اہلِ ایمان کے لئے نزدیک لائی گئی ہے، الحمد لِلّٰہ۔ پس جو لوگ علم و حکمت کے مختلف درجات میں قرآن سے وابستہ ہیں وہ اس بہشت میں داخل ہیں، لہٰذا ان شاء اللہ یہ راہنما بہشت جو روح اور نور کے ساتھ ہے اپنے تمام پیروؤں کو کلّی اور ابدی بہشت تک پہنچا دے گی، آمین!
اے عزیزان! جہاں اللہ کی طرف سے ایک نور ہے(۰۵: ۱۵) وہاں اس کی کتاب رہنما بہشت کیوں نہ ہو، پس اہلِ ایمان کی دانائی یہ ہے کہ وہ قرآنی بہشت کی نعمتوں سے ہر وقت لذّت گیر ہوتے رہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسولؐ کی خوشنودی حاصل ہو، آمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۵۴
روشن خیالی = روشن ضمیری
آیۂ نجویٰ (۵۸: ۱۲) میں رسولِ پاکؐ سے جس راز کی بات سننے کا اشارہ ہے وہ یقیناً کارِ بزرگ وغیرہ عطا کرنے سے متعلق ہے، جس کے کئی نام ہیں، اس سے شروع شروع میں روشن خیالی پیدا ہوتی ہے، مگر یہ صرف ابتدائی کیفیت ہے، جبکہ یہ مومنِ سالک کی اپنی ذات کا سفر بہت دور و دراز ہے، اس روحانی سفر کی تمام شرطوں میں ہادیٔ برحقؑ کی ہدایت بنیادی اہمیت رکھتی ہے، یعنی امامِ زمانؑ کی ظاہری اور باطنی رہنمائی روحانی ترقی کی جان ہے، جس کے لئے کامل اطاعت اور حقیقی عشق ضروری اور لازمی ہے، علم الیقین کا وہ حصّہ جس میں امامِ زمانؑ کے اسرار بیان ہوئے ہیں بےحد ضروری ہے۔
گنجِ نہانی طلب از دل و از جانِ خویش
اپنے دل اور اپنی جان ہی سے چھپا ہوا خزانہ طلب کر۔ جیسا کہ شعرہے: ۔
اس مرتبۂ دل کو عارف ہی سمجھتا ہے
گر پاک کرے کوئی تب عرشِ خدا ہے دل
روشن ضمیری = اشراق = تصفیۂ باطنی۔ اشراقین حکماء کا وہ مرتاض گروہ جو تصفیۂ قلب اور کشف کے ذریعے شاگردوں کو دور بیٹھے ہوئے تعلیم دیا کرتا ہے، (دیکھو فیروزاللغات، ص ۹۷)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۵۵
لفظِ غریب کی حکمت
جامعِ ترمذی جلدِ دوم باب: ۱۳۷۵ میں یہ حدیثِ شریف ہے:
اِنَّ الْاِسْلامَ بَدَءَ غَرِیْباً وَ سَیَعُودُ غَرِیْباً۔
اسلام کی ابتداء غربت سے ہوئی اور وہ عنقریب دوبارہ غریب ہوجائے گا۔
نہ تو کوئی آیۂ کریمہ حکمت کے بغیر ہے اور نہ ہی کوئی حدیثِ شریف، لفظِ غریب کا ایک اشارہ عجیب و غریب ہے، اور غریب اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو لوگوں کے لئے انجان اور اجنبی ہو، شروع میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ اسلامِ مجسّم تھے، کیونکہ اسلام کی ہر چیز آپؐ ہی کی ذاتِ عالی صفات سے ظاہر ہونے والی تھی، آپؐ کو اکثرلوگوں نے نہیں پہچانا اور آخر میں بھی اسلام قائمِ آلِ محمدؐ کی صورت میں مجسّم ہو کر غریب (انجان) ہوجائے گا، پس جولوگ نورِ مجسّم (دینِ مجسّم ) کو ہمیشہ پہچانتے ہیں، وہ مبارک ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ کا ارشاد ہے کہ میں جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، یعنی مختصر الفاظ میں بہت سی باتوں کو سمو دینا میری صفت بنائی گئی ہے، پس قرآن و حدیث دونوں جوامع الکلم ہیں، لہٰذا مذکورۂ بالا حدیث میں ایک عظیم حکمت پوشیدہ ہے۔
ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی
پیر ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۵۶
الحی القیوم
سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵۵)
سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۲)
سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۱۱)
حٰم (۸ + ۴۰ = ۴۸)
سورۂ غافر (۴۰: ۰۱)
سورۂ فصلت (۴۱: ۰۱)
سورۂ شوریٰ (۴۲: ۰۱)
سورۂ زخرف (۴۳: ۰۱)
سورۂ دخان (۴۴: ۰۱)
سورۂ جاثیہ (۴۵: ۰۱)
سورۂ احقاف (۴۶: ۰۱)
صبحِ سعادت رسید دامنِ ما را کشید
برسرِ گردون زدیم خیمۂ ایوانِ خویش
۵۷
ہر دو عالم قیمتِ خود گفتۂ
نرخ بالا کن کہ ارزانی ھنوز
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۵۸
چلۂ اسیری کے بےشمار فوائد
میری معلومات اور کتابوں کی دنیا چلۂ اسیری کے عرفانی مشاہدات سے معمور اور آباد ہے، خداوندِ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے مجھ ایسے غافل اور جاہل انسان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے اسرارِ معرفت سے آگاہ کر دیا، الحمد لِلّٰہ۔
سختی اور مشکل حالات میں جس طرح خدا سے رجوع ہوسکتا ہے، وہ آرام و راحت میں نہیں ہوسکتا ہے، خدائے ارحم الراحمین نے اپنی بے پناہ رحمت سے میرے اس پُرمشقت سفر کو باعثِ رحمت اور ذریعۂ برکت بنا دیا، ورنہ من آنم کہ من دانم۔
منت منہ کہ خدمتِ سلطان ہمی کنم
منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت است
ترجمہ: تو یہ کہہ کر احسان نہ جتلا کہ میں بادشاہ کی خدمت کر رہا ہوں، بلکہ تو اس کے احسان کو جان اور مان کہ اسی نے تجھ کو اپنی خدمت دے کر سرفراز فرمایا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۵؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۵۹
الۗمّۗ
سورۂ بقرہ ( ۰۲: ۰۱ تا ۰۲ ) کے آغاز میں یہ حروف مقطعات ہیں: ۔
الۗمّۗ ذَالِکَ الْکِتابُ لَارَیْبَ فِیْہِ۔۔۔
الف = عقلِ اوّل = قلمِ اعلیٰ = نورِ محمدیؐ
لام = نفسِ کلّی = لوحِ محفوظ = نورِ علیؑ
میم = کتابِ مرقوم = کتابِ مکنون
یہ وہ کتاب (قرآنِ ناطق) ہے جس میں کوئی شک نہیں ، بلکہ یقین ہی یقین ہے، اس میں متقین کے لئے ہدایت ہے، یعنی حجتان کے لئے، کیونکہ یہی حضرات باطنی طور پر قرآنِ ناطق سے وابستہ ہیں، اور حقیقی معنوں میں پرہیزگار بھی یہی لوگ ہیں، جبکہ اصل پرہیزگاری اسرافیلی اور عزرائیلی عمل کے بعد ہوتی ہے، اس لئے کہ عزرائیل کے پاس ایک اسمِ اعظم ہوتا ہے، اس کا نام کلمۂ تقویٰ ہے، اس کو عزرائیل پڑھتا رہتا ہے، اور یہ اس بندۂ مومن سے چسپان ہو جاتا ہے، جو بفضلِ خدا تجربۂ قیامت سے گزر رہا ہو۔
اسم کے چسپان ہونے کو اسم کا خودگو ہونا بھی کہہ سکتے ہیں، خود کار اسم بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ روحانی قیامت برپا ہو جانے سے کوئی ایک اسم یا چند اسماء خود بخود ذکر کرتے رہتے ہیں، اس طریقِ کار کو فرشتوں کی
۶۰
پرواز بھی کہا گیا ہے، آج یہ اسرار کافی ہیں، آپ دعا کرتے رہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۵ ؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۶۱
عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی کے چند اسماء
عقلِ کلّی | نفسِ کلّ |
عرشِ اعلیٰ | کرسی، درختِ زیتون |
قلم | لوحِ محفوظ |
فرشتۂ عظیم | فرشتۂ عظیم، درختِ سدرہ |
نورِ محمدیؐ | نورِ علیؑ |
آسمانِ برترین | ارض اللّٰہِ الواسعۃ |
آدمِ معنی | حوایِ حقیقی |
عرش علی الماء | بحرِ محیط، عالمگیر روح
روح الا رواح = روحِ اعظم |
بگردِ عالم ار بحرِ محیط اس
در و ہم گوہر و مرجان علیؑ بود
محمدؐ بود قبلہ گاہِ عالم
ولی برتختِ دل سلطان علیؑ بود
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۶۲
بہشتِ برین کی سلطنت
حدیثِ راعی:۔
رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے:۔
کُلُّکُم راعٍ وَ کُلُّکُم مَسْئُوْ لٌ عَنْ رَّعِیَّتہٖ۔
ترجمہ: تم میں سے ہر شخص سردار ہے اور نگہبان اور (قیامت کے دن) اس کی رعیّت کی اس سے بازپرس ہوگی۔ رعیّت سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی حفاظت اور نگہداشت اور پرورش اس کے متعلق ہے (لغات الحدیث، جلدِ دوم، باب الراء مع العین، ص ۹۵)۔
آنحضرتؐ کا بنی عبدالمطلب سے خطاب:۔
یا بنی عبد المطلب اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکَّامَھا۔
ترجمہ: اے عبدالمطلب کی اولاد! میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے سلاطین اور حکام ہوجاؤگے (کتابِ ہزار حکمت، حکمت ۸۵۵)۔
۶۳
سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں ہے:
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ﳓ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ۔
ترجمہ: یاد کرو جب موسٰی نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی، اس نے تم میں نبی پیدا کئے، تم کو سلاطین بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا تھا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۲۷؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۶۴
آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی عظیم سلطنت
سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) کے ارشاد کا ترجمہ ہے: تو پھر ہم نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب و حکمت اور عظیم سلطنت سب کچھ عطا کیا ہے۔ چونکہ آلِ ابراہیمؑ کا نورانی سلسلہ حضرتِ اسماعیلؑ کے توسط سے آکر حضورِ انورؐ سے مل جاتا ہے، اور پھر اسی طرح آلِ ابراہیمؐ کا سلسلہ بعد میں آلِ محمدؐ کی صورت میں جاری رہتا ہے، اس کی روشن دلیل حدیثِ ثقلین ہے، جس کے مطابق دنیا میں ہمیشہ نہ صرف اللہ کی کتاب (قرآن) موجود ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ کتاب اللہ کا وراث (امامِ آلِ محمدؐ) بھی حاضر ہے، پس امامؑ لازمی طور پر نورانی حکمت اور دین کی عظیم روحانی سلطنت کا مالک ہے۔
جو لوگ حقیقی معنوں میں اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاءؑ اور صد یقین اور شہداء اور صالحین، کیسے، اچھے ہیں یہ رفیق (۰۴: ۶۹)، جب تم بہشت میں ہر طرف دیکھو گے تو نعمتیں ہی نعمتیں اور عظیم سلطنت نظر آئے گی (۷۶: ۲۰)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۰ء
۶۵
پاکیزہ قول اور نیک کام کی حکمت
قرآنِ حکیم کے اسرارِ عظیم کے سلسلے میں سورۂ فاطر (۳۵: ۱۰) میں بھی خوب غور و فکر کریں: ۔
ترجمہ: جو کوئی عزت چاہتا ہو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے، اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور نیک عمل اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔
اس آیۂ کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقی مومن کا پاکیزہ قول صاحبِ عرش کے پاس اوپر چڑھتا ہے، اور نیک عمل اس کو اوپر چڑھاتا ہے، تاکہ مومن کا یہ قول و فعل خدا کے قول و فعل میں فنا ہوکر ایک کائناتی طاقت ہوجائے، کیونکہ جب یہ بات حق ہے کہ مومنِ سالک فنا فی اللہ ہوسکتا ہے، تو پھر یہ بات بھی درست ہے کہ اس کا پاکیزہ قول اور نیک عمل خدا کے قول و فعل میں فنا ہو کر کوئی بہت بڑا کائناتی کام کر لیتا ہے۔
پاکیزہ قول ذکر و عبادت اور علم وحکمت ہے، اور نیک عمل وہ ہے جو خدا، رسولؐ اور ولیٔ امر کے فرمانِ اقدس کے مطابق ہو، لیکن اس میں بہت بڑی شرط پاکیزگی ہے، آپ اس کو سمجھنے کے لئے کتابِ مکنون والی آیت کے راز کو معلوم کر لیں (۵۶: ۷۷ تا ۷۹)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۶۶
عالمِ شخصی کی تخلیق اور پانی پر عرش کا ظہور
سورۂ ھود کی آیتِ ہفتم (۱۱: ۰۷) کو پہلے ترجمہ و تفسیر کی مدد سے خوب پڑھ لیں، بعد ازان اس کی تاویلی حکمت کو سمجھنے کے لئے سعئی بلیغ کریں۔ آپ سب یہ تو جان چکے ہیں کہ کوئی ایسی چیز ہرگز نہیں جو عالمِ اکبر میں موجود ہو، مگر عالمِ اصغر = عالمِ شخصی میں اس کا کوئی نمونہ موجود نہ ہو، پس یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی کی تخلیق و تکمیل کے بعد بحرِ علم پر عرش کا ظہور ہوتا ہے، تاکہ خدا اپنے بندوں کو علم میں بھی اور عمل میں بھی آزما کر سب سے بہترین ۔۔۔ کو ظاہر کرے۔
اگرچہ خدا کی خدائی میں امتحانات بہت سے ہیں، لیکن سب سے عظیم اور سب سے اعلیٰ امتحان علمی رنگ میں ہے چونکہ علم ہر چیز سے برتر ہے، جی ہاں عالمِ شخصی کی تخلیق و تکمیل کے بعد بحرِ علم پر ظہورِ عرش کا معجزہ ہوتا ہے، یہ معجزہ سب سے عظیم ہے، لہٰذا عارف اس کا مشاہدہ صرف نورانی خواب میں کرسکتا ہے، مگر احساس و ادراک بیداری کی طرح ہوتا ہے۔
عجیب بات یا ایک عجیب امتحان یہ ہے کہ سب سے بڑے بادشاہ کا تخت لعل و گوہر سے آراستہ و پیراستہ اور حیران کن نہیں ہوتا، بلکہ صرف ایک معمولی کشتی کی طرح ہوتا ہے، مگر اس میں ایک نورانی اور باکرامت شخص ہوتا ہے، وہ اسماء الحُسنیٰ میں سے ایک اسم کو پڑھ رہا ہوتا ہے، دراصل یہ وہی
۶۷
فرشتۂ اعظم ہے جس کا نام عرشِ اعلیٰ بھی ہے، اور زندہ نور بھی، اور روحوں سے بھری ہوئی کشتی بھی، اور حدیثِ سفینہ کے مطابق یہ امامِ زمانؑ بھی ہے، الحمدلِلّٰہ ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۳۰؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۶۸
پانی پر عرش بھری ہوئی کشتی بھی ہے
بحرِ علم پر عرش کا ظہور (۱۱: ۰۷) بھری ہوئی کشتی کا عظیم معجزہ بھی ہے ( ۳۶: ۴۱) اور کشتی میں جو نورانی ہستی تھی درحقیقت وہی نورِ ہدایت کی زندہ کشتی تھی، اسی میں خدا نے سب کی روحوں کو سوار کر دیا تھا، تاکہ ہم اس انتہائی عظیم نعمت کی شکر گزاری کریں، اہلِ معرفت کے لئے یہ بہت بڑا حیران کن معجزہ ہے۔
اس آیۂ شریفہ کی تاویل کے بغیر چارہ نہیں، کیونکہ ظاہر میں بالکل بھری ہوئی کشتی میں مزید لوگوں کو سوار کر دینا ممکن نہیں، لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ خدا نے اس حال میں روحوں کو فنا فی الامامؑ کر دیا تھا، یہ ہوا بھری ہوئی کشتی میں سوارکرنا، کیونکہ امامؑ ہی بحرِ علم پر خدا کا تخت ، کشتیٔ نوح، سفینۂ نجات، نور اور فرشتۂ عرش ہے، جبکہ امامِ مبینؑ میں تمام معجزات اور جملہ درجات جمع ہیں، خدا کے اسماء الحسنٰی کی قسم کہ امامؑ سے کوئی مرتبہ باہر نہیں ہے، پس اے عاشقانِ نورِ امامؑ! تم کو یہ عشق مبارک ہو۔
این سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۳۱؍ اکتوبر ۲۰۰۰ء
۶۹
معرفتِ آیات
آیات سب سے پہلے قرآنِ حکیم میں ہیں، پھر آفاق وانفس میں (۴۱: ۵۳) اور حظیرۂ قدس میں بھی آیات ہیں جہاں امامِ مبینؑ کی ظہورگاہ ہے (۳۶: ۱۲) اور حظیرۂ قدس کا ایک حوالہ (۲۷: ۹۳) ہے، جہاں آیاتِ کبریٰ کی معرفت عارفین کو حاصل ہوتی ہے، اور یہ عالمِ شخصی کا سب سے اعلیٰ مقام ہے، اور یہی مقام امامِ مبینؑ کی ظہورگاہ بھی ہے اور نزدیک لائی ہوئی بہشت بھی، اور مرتبۂ کوہِ طور بھی ہے اور عالمِ شخصی کے لئے لوحِ محفوظ بھی، اور بہت کچھ ہے، اور جن عظیم معجزات = آیات کی معرفت ضروری ہے وہ سب یہاں موجود ہیں، میں نے الگ الگ مقالوں میں حظیرۂ قدس کے بارے میں بہت کچھ لکھ دیا ہے، آپ میرے تمام مقالوں کو پڑھیں۔
سورۂ نمل کے آخر میں جو عظیم الشّان آیۂ معرفت ہے اس کا ایک لفظی ترجمہ یہ ہے: ان سے کہو تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی آیات = معجزات دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لوگے، اور تیرا ربّ بے خبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو۔ (۲۷: ۹۳)۔
سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۶) میں ارشاد ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ(وَلَیَعْرِفُوْنِ)۔
ترجمہ: اور میں نے جنّوں اور آدمیوں کو اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ
۷۰
وہ میری عبادت کریں (اور مجھ کو پہچان لیں)۔ مزید وضاحت کے لئے کتاب علمی بہار ص ۴۱ کو دیکھیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ یکم نومبر ۲۰۰۰ء
۷۱
ایک زندہ نما مردہ شخص
سورۂ انعام (۰۶: ۱۲۲) میں چشمِ بصیرت سے دیکھو، ایک زندہ نما مردہ شخص تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے روحِ چہارم کی حیاتِ طیبہ میں زندہ کرکے ایک نور عطا کردیا، جس کے ذریعے سے وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے (یعنی عالمِ شخصی میں) کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح ان سے نہ نکلتا ہو؟
آپ سورۂ نحل (۱۶: ۲۱) میں اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ (مردہ ہیں نہ کہ زندہ) کے ارشاد کو بھی غور سے دیکھیں: یہ لوگ وہ مردے نہیں جو دفنائے گئے ہوں بلکہ یہ سچ ہے کہ یہ لوگ زندہ نما مردے ہیں، آپ آیت کو تماماً پڑھ کر دیکھیں کہ اس کا اصل سبب کیا ہوسکتا ہے۔
حضرتِ پیر فرماتے ہیں: ۔
بصورت زندہ اما جان ندارند
اگر دارند جان جانان ندارند
ترجمہ: ظاہراً وہ زندہ نظر آتے ہیں، مگر ان میں جان نہیں ہے، اگر جان ہے تو ان کا جانان نہیں ہے۔ اے عزیزان! میں کسی سے بحث نہیں
۷۲
کر رہا ہوں، بلکہ یہ درسِ حکمت آپ ہی کے لئے ہے، کیونکہ مجھے آپ کی روحانی ترقی بے حد عزیز ہے، اور بفضلِ خداواندِ ارحم الراحمین نور میں فنا ہوجانا ممکن ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۷۳
جانورانِ انسان نما
قسط: ۱
سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) ترجمہ آیۂ شریفہ: ۔
اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جنّ اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔ آپ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۴) میں بھی دیکھیں، پس یہاں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ لوگ جانورانِ انسان نما ہیں۔
ہم ہر چیز کو قرآنِ حکیم کی روشنی میں پہچاننا چاہتے ہیں، اگرچہ ہم عالمِ انسانی کے حق میں سب سے زیادہ خیرخواہ ہیں، اس کا ایک روشن ثبوت یہ ہے کہ ہم ہمیشہ الخلق عیال اللہ پر کامل یقین رکھتے ہیں، اور ہمارا نظریہ یہ ہے کہ خدا نے امامؑ کو اس لئے مقرر کیا ہے کہ وہ قیامت کی طوفانی دعوت سے تمام لوگوں کو عالمِ شخصی میں جمع کرلیتا ہے، جہاں سب کو بہشت کے لئے تیار کیا جاتا ہے، اور بہشت کی بہت بڑی بادشاہی اس بات کی مقتضی ہے کہ سب لوگ اس کو دیکھیں اور تعریف کریں، اور حیرت زدہ ہوں، اور شاہانِ بہشت کی
۷۴
تعظیم کریں، بلکہ سجدہ بھی کریں، کیونکہ جنت کا ہر بادشاہ اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوگا، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر تھا، پس جنّت کا ہر بادشاہ جو آدمؑ کی طرح معلمِ ربّانی بھی ہوگا، اس کے لئے سجدہ کیا جائے گا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۳؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۷۵
نورِ مجسّم اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵)
آیۂ کریمہ کی ترتیبِ پُرحکمت میں پہلے نور کا ذکر آیا ہے، اور اس کے بعد کتابِ مبین کا نام ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ پہلے خدا نے آنحضرتؐ کو نورِ مجسّم (زندہ نور) بنایا، اور پھر مرتبۂ نبوّت و رسالت سے نوازتے ہوئے آپ پر قرآنِ حکیم کو نازل فرمایا، نورِ مجسّم کا مطلب ہے ایسا ربّانی معلّم جو قرآنِ حکیم کے باطن اور تاویلی اسرار سے باخبر ہو، یہ عظیم مرتبہ رسولِ اکرمؐ کے بعد آپؐ کے برحق جانشین کو عطا ہوا۔
اللہ تعالیٰ کی بے مثال کتاب کی عظمت و برتری کی شان اس کے علم و حکمت کو ظاہر کرنے سے معلوم ہوجاتی ہے، اس لئے قرآن کے ساتھ ہمیشہ دنیا میں معلمِ ربّانی کا موجود و حاضر رہنا لازمی اور ضروری ہے ، جو خود اس آیت کے ارشاد کے مطابق یہ نور خدا کی طرف سے آیا ہے۔
آپ خوب غور کر کے دانائی سے جواب دیں: سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) کے مطابق نور اور کتابِ مبین ایک ساتھ ہیں یا نہیں؟ جواب: یقیناً نور یعنی کتابِ ناطق (۴۵: ۲۹، ۲۳: ۶۲) جو زندہ نور ہے وہ ہمیشہ قرآن کےساتھ حاضر و موجود ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۴؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۷۶
اہل الذکر أئمّۂ آلِ محمد صلعم
الذکر رسولِ پاکؐ کے اسمائے مبارک میں سے ہے، نیز یہ قرآن کا نام ہے ، اور ذکر سے اسمِ اعظم بھی مراد ہے، جس سے خاصانِ الٰہی خدا کا ذکر کرتے رہتے ہیں، ان تمام معنوں کے ساتھ اہلِ ذکر أئمّہ طاھرین علیھم السّلام ہیں ، سورۂ نحل (۱۶: ۴۳) کا ترجمہ ہے: پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہلِ ذکر (امامِ آلِ محمدؐ) سے پوچھ لو۔
پوچھنے کے لئے چند خاص شرطیں ہیں، منجملہ تم امامِ آلِ محمدؐ میں فنا ہو جاؤ پھر دیکھو کہ تم اس سے پوچھتے رہتے ہو یا وہ خود تم کو بتاتا رہتا ہے:۔
برجانِ من چو نورِ امام زمان بتافت
لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم
ترجمہ: جب میری روح پر امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوا، تو میں جو قبلاً شبِ تاریک تھا، اب روزِ روشن ہوگیا (ازدیوانِ حکیم پیر ناصر خسرو ’ق س‘)۔
اے عزیزان! جب تم حقیقی اطاعت و فرمانبرداری اورکمالِ عشق سے امامِ زمانؑ میں فنا ہوجاؤ گے تو یقیناً اس کا نور تمہاری روح میں طلوع ہو کر تمہارے باطن کو منور بنا دے گا، اللہ و رسولؐ کی طرف سے دنیا میں نورِ ہدایت موجود ہونے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے، تم ہمیشہ دعا کرتے رہو۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۵؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۷۷
آیاتِ نور کی وحدت و سالمیّت
اگرچہ نظامِ شمسی میں سورج، چاند اور بہت سے ستارے الگ الگ ہیں، لیکن ان سب کی روشنی کی ایک کلّی وحدت وسالمیّت ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ نور ہیں وہ سب کی سب مربوط اور ایک ہیں، ان تمام میں خدائے واحد و یکتا کے نور کا بیان ہے، اور یہ بات سب جانتے ہیں، کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، لہٰذا اس کی تجلّی آسمان میں بھی ہے اور زمین میں بھی۔
اللہ کے نور کی سماوی تجلّی عظیم فرشتوں میں اور ارضی تجلّی انبیاء و اولیاء علیھم السّلام میں ہوتی ہے، حضرت محمد مصطفیٰ رسول اللہ صلعم میں اللہ کے نور کی سب سے عظیم تجلّی تھی، اسی لئے قرآنِ پاک میں آپؐ کا ایک نام سراجِ منیر = روشن چراغ ہے (۳۳: ۴۶)۔
نبوّت یقیناً آنحضرتؐ پر ختم ہوئی، مگر یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نورِ ہدایت کو أئمّۂ آلِ محمدؐ کے سلسلے میں باقی و جاری رکھا ہے۔
سورۂ توبہ (۰۹: ۳۲) میں ارشادِ ربانی ہے:
وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھائیں اور اللہ تعالیٰ کو سوائے اس کے کچھ منظور نہیں ہے کہ اپنے نور کو پورا کرے اگرچہ کافر اسے ناپسند کریں۔ آپ سورۂ صف کی آیت ۸ (۶۱: ۰۸) کو بھی دیکھیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۶؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۷۸
اللہ تعالیٰ کے خاص اور عظیم معجزات
قدرت کی عام نشانیاں سب لوگ دیکھ رہے ہیں، پس اللہ تعالیٰ نے آفاق و انفس میں جن آیات کو دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے (۴۱: ۵۳) وہ خاص اور عظیم معجزات ہیں، اور ان کا تعلق چشمِ بصیرت سے ہے، جو لوگ عظیم معجزات کے بارے میں شک کرتے ہیں وہ خدا کی قدرت میں شک کرتے ہیں، انہوں نے حدیثِ نوافل کو نہیں سمجھا ہے، اللہ ان کو چشمِ بصیرت عطا کرے!
اے عزیزان تم پر خدا کا بڑا فضل و احسان ہے کہ تم نے حدیثِ نوافل کو اتنی تفصیلات کے ساتھ پڑھا ہے اور ان شاء اللہ اس پر یقین بھی کیا ہوگا، الحمد لِلّٰہ۔
اللہ اپنے جس بندے کو اپنے نور میں فنا کرلیتا ہے وہ کیا کیا عظیم معجزات دیکھتا ہے؟ اور کیا کیا اسرار سنتا ہے؟ اور کیسے کیسے عجیب و غریب احوال اس پر گزرتے ہیں؟ اس کا اندازہ کون کرسکتا ہے، سوائے اس شخص کے جو علم الیقین کی حد میں ہمیشہ پڑھتے اور سنتے رہے، اس سلسلے میں دانش گاہِ خانۂ حکمت کی کتابیں بہت ہی مفید ثابت ہوسکتی ہیں، ان کتابوں کو پڑھتے رہو اور اگر سننے کا موقعہ ہو تو سنتے بھی رہو۔
دعا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ عنقریب دنیا میں روحانی انقلاب لائے! اور
۷۹
روحانیّت کے عجائب وغرائب کو سب دیکھ سکیں۔ تو ان شاء اللہ تمام دنیا والے ایک ہو جائیں گے، اور ان کو بہت زیادہ خوشی ہوگی جو پہلے ہی سے اس عالمِ وحدت کو جانتے تھے، خدا کرے کہ ظاہری سائنس کی ترقی روحانی سائنس سے جا ملے، جس کے زیرِ اثر دنیا کے سب لوگ ایک ہو جائیں، آمین! یاربّ العالمین!!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۱۲؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۸۰
اللہ تعالیٰ کا پاک دیدار = ملاقات
بحوالۂ سورۂ انعام ۰۶: ۳۱ تا ۳۲:
ترجمہ: نقصان میں پڑ گئے وہ لوگ جنھوں نے اللہ سے اپنی ملاقات کی اطلاع کو جھوٹ قرار دیا، جب اچانک وہ گھڑی آجائے گی تو یہی لوگ کہیں گے افسوس! ہم سے اس معاملہ میں کیسی تقصیرہوئی اور ان کا حال یہ ہوگا کہ اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہوں کا بوجھ لادے ہوئے ہوں گے۔ دیکھو! کیسا برا بوجھ ہے جو یہ اٹھا رہے ہیں، دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور ایک تماشا ہے، حقیقت میں آخرت ہی کا مقام ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو زبان کاری سے بچنا چاہتے ہیں، پھرکیا تم لوگ عقل سے کام نہ لو گے؟
نیز ارشاد ہے: قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا (۱۸: ۱۱۰)۔
ترجمہ: اے نبیؐ کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے ربّ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔
۸۱
ترجمۂ ارشاد ہے: اور جنہوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہے وہ عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے (۳۰: ۱۶)۔
یہاں یہ ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا کی آیات کو کونسے لوگ جھٹلاتے ہیں، آیا یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کو نہیں مانتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں، وہ تو خدا کو نہ ماننے کی وجہ سے پھر خدا کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، یعنی خدا کی آیات کے بارے میں بحث نہیں کر سکتے ہیں، اور اس کی کوئی منطق نہیں بنتی ہے، اس لئے اس میں کوئی اہم تاویل ہے اور وہ تاویل یہ ہے جو خود صاحبِ تاویل (علیؑ) نے فرمایا کہ أئمّۂ آلِ محمدؐ آیات اللہ ہیں، دیکھئے کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۸۰۔
قرآنِ حکیم میں لقاء اللہ = خدا کی ملاقات کے مضمون پر بہت سی آیات ہیں، آپ ان سب کا مطالعہ کریں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۳؍ نومبر ۲۰۰۰ء
نوٹ: قرآن میں سرتا سر جہاں کہیں بھی نیک عمل کا ذکر آیا ہے، اس میں علم کا راز بھی مخفی ہے، کیونکہ علم کے بغیر عمل کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔
۸۲
عالمِ خیال
انسان بڑا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں کو نہ تو پہچانتا ہے جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، اور نہ ہی شکر کرتا ہے، انسان پر خداوندِ کریم کے جو جو احسانات ہیں ان کو کوئی فردِ بشر شمار ہی نہیں کرسکتا، اللہ کا ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ اس نے ہر آدمی کو ایک عالمِ خیال عطا کیا ہے، جو ایک بڑا عجیب و غریب عالم ہے، اگر ذکر و عبادت اور علم وحکمت کے ذریعے سے اس میں کافی صفائی اور روشنی پیدا ہوجائے، تو یہ کلّی طور پر بہشت کا عالم ہوسکتا ہے، اگر خدا کے فضل و کرم سے ایسا ہوسکا، تو یہ عالمِ شخصی ہوجانے کے بعد ممکن ہوگا، جس پر قیامت کے جملہ احوال گزر جائیں گے۔
عالمِ خیال جب عام حالت میں اتنا عجیب و غریب ہے، تو پھر اس میں روحانی انقلاب آنے کے بعد یہ کتنا معجزاتی ہوگا! یہی وجہ ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام اپنے بعض مریدوں کو ان کی اپنی درخواست پر بیت الخیال کا خصوصی اور باطنی طریقہ تمام ضروری اور لازمی ہدایات کے ساتھ بتاتے ہیں، آپ کو البتہ عام خیال کا خوب تجربہ ہے کہ یہ بے مثال قوّت آپ کے لئے کس سرعت سے کام کر رہی ہے کہ اس کے مقابلے میں برق بھی ہیچ ہے۔
میں ایک عام انسان کی حیثیت سے بذریعۂ خیال شرق و غرب کے تمام
۸۳
ساتھیوں سے ملاقات کرتا ہوں، اور یہ میرے لئے کوئی خاص بات نہیں، بلکہ یہ اللہ کی طرف سے ہر آدمی کے لئے ایک عطیہ ہے، جو حیوان کو نصیب نہیں ہوا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۱۶؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۸۴
ایمانی روح کا فرشتہ ہوجانا
بحکمِ پروردگار ایماندار اور نیکوکار روح کا فرشتہ ہونا یقینی امر ہے، ان شاء اللہ یہ بلند مرتبہ ڈاکٹر زرینہ (مرحومہ) کو بفضلِ خدا حاصل ہوگا، آمین! یا ربّ العٰلمین! ہم سب ساتھی یہ عاجزانہ دعا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر زرینہ کی نیک خواہش کے مطابق ان کے اہلِ خانہ حقیقی علم اور عملِ صالح میں نیک نام ہوجائیں، آمین! الٰہی ان کو دین اور دنیا کی برکتوں سے نوازنا! اور ان پر ہمیشہ مہربان ہو جانا!
یا ربّ العزّت! تو اپنی رحمتِ بے نہایت سے ہمارے ادارے میں بہت عالی ہمت افراد کو پیدا کر، تاکہ ڈاکٹر زرینہ اپنے اس ادارے کی ترقی کو دیکھ کر شادمان ہو جائے!
میں اس موقع پر اپنے تمام عزیزوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ حقیقی علم اور نیک عمل میں بہت زیادہ ترقی کریں، اس کی بہت بڑی ضرورت ہے، ان شاء اللہ کائنات مسخر ہوگی، یہ اس وقت ممکن ہے جبکہ آپ سب کے سب مل کر چار بہترین خدمات کو سرانجام دیں، وہ چار خدمات یہ ہیں: خدمتِ قرآن، خدمتِ اسلام، خدمتِ جماعت، خدمتِ انسانیّت، اگر آپ کی یہ چاروں خدمات سب سے اعلیٰ، سب سے بہترین اور سب سے بے مثال ہیں تو تسخیرِ کائنات آپ کو مبارک ہو! آمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۱۶ ؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۸۵
حقیقی مومن کا نورانی خواب
کسی ملک میں ایک حقیقی مومن شدید تکالیف سے گزر رہا تھا، جن کی وجہ سے وہ بار بار قاضی الحاجات کی بارگاہِ اقدس میں گریہ و زاری کرتا رہتا تھا، اس نےایک باسعادت رات میں بڑا عجیب نورانی خواب دیکھا کہ حضرتِ امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ اس کے پاس تشریف فرما ہیں، حضرتِ امامؑ کے جسمِ مبارک پر سفید اونی چوغہ ہے، جس پر بہت سارے میڈل (MEDAL) اس طرح سجائے ہوئے ہیں کہ کوئی جگہ خالی نہیں ہے، امامِ عالی مقامؑ نےمومن سے پوچھا: جانتے ہو کہ میرے چوغے پر یہ کیا چیزیں ہیں؟ اس مرید نے بصد عاجزی عرض کی کہ مولا بہتر جانتے ہیں، تب امامِ زمانؑ نے جواباً فرمایا کہ یہ سب میرے ظاہری عملدار ہیں، پھر امامؑ نے اپنے چوغے کے اندر کی طرف کے بہت سے تمغوں کو دکھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرے باطنی عملدار ہیں، اور فرمایا کہ تم باطنی عملداروں میں سے ہو۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۱۷ ؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۸۶
دوستانِ خدا
سورۂ یونس (۱۰: ۶۲ تا ۶۴) میں ارشاد ہے:
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِ
ترجمہ: سنو! جو اللہ کے دوست ہیں جو حقیقی معنوں میں ایماندار اور پرہیزگار ہیں، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لئے بشارت ہی بشارت ہے۔
حدیثِ قدسیٔ نوافل کے شروع میں ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰہَ قَالَ مَنْ عَادٰی لِی وَلِیَّاً اٰذَنْتُہٗ بِالْحَربِ…۔
ترجمہ: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی (دوست) سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی ان چیزوں سے جو مجھے پسندیدہ ہیں، میرا قرب نہیں حاصل کر سکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس
۸۷
سے وہ دیکھتا ہے اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ کا طالب ہوتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں جو میں کام کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے پس وپیش نہیں ہوتا، جیسا کہ مجھےاس مومن کی جان کے بارے میں پس و پیش ہوتا ہے، جو موت کو پسند نہیں کرتا اور میں اس ناگواری کو پسند نہیں کرتا (بحوالۂ صحیح البخاری، جلدِ سوم، حدیث ۱۴۲۲، ص ۵۵۸)۔
مزید وضاحت کے لئے دیکھئے کتابِ علمی تصوّف اور روحانی سائنس، عنوانِ معجزۂ نوافل ، قسطِ اوّل و دوم۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۱۷؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۸۸
صاحبانِ امر
سورۂ نساء (۰۴: ۵۹) میں ارشاد ہے:
ترجمہ: اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو، اور (ان کی) جو تم میں (اللہ کے) امر والے ہیں، پس اگر تم کسی بات میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، یہی سب سے بہتر اور اچھی تاویل ہے۔
نیز ارشاد ہے: ترجمہ: اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی کوئی بات آئی انہوں نے اس کو مشہور کردیا، اور اگر وہ اسے رسولؐ تک اور ان میں سے جو (اللہ کے) امر والے ہیں ان تک پہنچاتے، تو جو بات کی تہ تک پہنچ جاتے ہیں وہ اس (کی حقیقت) کو جان جاتے، اور اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی رحمت (بھی نہ ہوتی) تو بہت تھوڑوں کے سوا تم سب شیطان کی پیروی کرلیتے (۰۴: ۸۳)۔
اس مضمون کی دوسری آیت میں ایک لفظ کی وضاحت ضروری ہے وہ ہے:
يَسْتَنْبِطُونَهُ = استنباط = اخذِ مطلب = اخذِ نتیجہ =
۸۹
انتخاب = استخراج۔
استنتاج = اخذِ نتیجہ = استخراج = استنباط۔
استنباط کے اصل معنی ہیں کنواں کھود کر پہلے پہل پانی نکالنا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲۱؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۹۰
اسمِ اعظم اور امام کا نور
سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں اسمِ اعظم اور امامِ زمانؑ کے نور کا ایک ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:۔
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۔
ترجمہ: (اے رسولؐ) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاک کلمہ (اسمِ اعظم) کی مثال کیسی دی ہے کہ وہ ایک پاک درخت کی مانند ہے، اس کی جڑ زمین میں محکم ہے اور اس کی شاخ آسمان میں جا پہنچی ہے وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
اس مبارک ارشاد میں ایک پاک کلمہ سے اسمِ اعظم مراد ہے اور پاک درخت رسولِ پاکؐ کی مبارک شخصیّت ہے جس کی جڑ زمینِ دین میں مضبوط اور اس کی شاخ یعنی امامِ آلِ محمدؐ کا نور حظیرۂ قدس کے آسمان میں پہنچا ہے، جہاں اسمِ اعظم کا نور اور امامؑ کا نور ایک ہے، اور یہ نورِ واحد گوہرِعقل کی صورت میں
۹۱
ہمیشہ پھل دیتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ مثالیں بیان فرماتا ہے تاکہ اس سے بصیرت اور معرفت والوں کو نصیحت حاصل ہو۔
خوب یاد رہے کہ پاک کلمہ اسمِ اعظم ہے اور پاک درخت رسولِ اکرمؑ کی پاکیزہ شخصیّت ہے اور امامِ زمانؑ کا نور جو اسی پاک درخت کی وہ شاخ ہے جو عالمِ علوی میں پہنچی ہے جہاں اسمِ اعظم کے ساتھ ایک ہوگئی ہے اس لئے کہ وہاں عالمِ وحدت ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ تذکرۂ پاک ایک طرف سے اسمِ اعظم سے متعلق ہے اور دوسری طرف سے امامِ آلِ محمدؐ کے نور سے متعلق ہے، ورنہ دنیا میں کوئی ایسا درخت کہاں ہے جس کی شاخ آسمانِ ظاہر میں پہنچی ہو اور اس کا پھل ہمیشہ آسمان ہی میں مل رہا ہو، یہ ایک ایسی حیران کن حکمت ہے کہ اس سے عقلاء کے لئے ہمیشہ حیرت ہونی چاہئے، الحمد لِلّٰہ ربّ العالمین! آپ تمام عزیزان اس پر (DISCUSS) کریں، اور اس تاویلی حکمت کو کتابِ وجہِ دین، کلام نمبر ۱، ص ۱۶ میں بھی پڑھیں۔
اے عاشقین! یہ اصولی حکمت بھول نہ جاؤ کہ حضرتِ امامِ اقدس علیہ السّلام عالمِ سفلی میں نورِ مجسم ہے اور عالمِ علوی میں نورِ مجرّد۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۲؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۹۲
ہر زمانے میں روحانی قیامت کا برپا ہوجانا اور دینِ حق کا تمام ادیان پر غالب آنا
ارشادِ حق تعالیٰ ہے: یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ (۰۹: ۳۲؛ ۶۱: ۰۸)۔
ترجمہ: وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھائیں اور اللہ تعالیٰ کو سوائے اس کے کچھ منظور نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کرے، اگرچہ کافر اسے ناپسند کریں۔
نیز ارشاد ہے:
هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (۰۹: ۳۳؛ ۴۸: ۲۸؛ ۶۱: ۰۹)۔
ترجمہ: (اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے اگرچہ مشرک اسے ناپسند ہی کریں۔
سب سے پہلے روحانی اور مخفی قیامت زمانۂ نبوّت میں برپا ہوئی تھی، جس میں پہلی بار دینِ حق باقی ادیان پر غالب ہوا اور دنیا بھر کے لوگ بشکلِ ذرّات خدا
۹۳
کے دینِ مجسم (آنحضرتؐ) میں داخل ہوگئے تھے، آپ سورۂ نصر کو چشمِ بصیرت سے دیکھیں (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) اس کے بعد ہر امامؑ کے زمانے میں ایک روحانی قیامت برپا ہوتی آئی ہے، جس میں دینِ حق ادیانِ عالم پر غالب ہوتا آیا ہے (۱۷: ۷۱)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۲۳؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۹۴
آیۂ استخلاف کے بعض اسرار
ارشادِ حق تعالیٰ ہے:۔
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ۪-وَ لَیُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِیْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاؕ-یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِكُوْنَ بِیْ شَیْــٴًـاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (۲۴: ۵۵)
ترجمہ: تم میں سے جو لوگ حقیقی معنوں میں ایمان لاچکے ہیں اور نیک عمل کرتے رہے ہیں جیسا کہ نیک عمل کرنے کا حق ہے اللہ تعالی نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور وہ ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے ضرور تمکین دے گا اور ضرور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو ان حقائق کے جاننے کے بعد ناشکری کرے پس وہی لوگ فاسق ہیں۔
تاویلی وضاحت: دراصل یہ خلیفے سلاطینِ بہشت
۹۵
ہیں جو دنیا میں دینِ حق کی برکت سے خود شناسی کی دولت سے مالامال ہوئے تھے، اسی کا نام حقیقی ایمان اور نیک عمل ہے، اب بہشت میں یہ سلاطین جو بامعرفت مومن ہونے کی وجہ سے زمینِ نفسِ کلّی میں تاجِ خلافت سے سرفراز ہو چکے ہیں، وہ دینِ حق کو علم و معرفت کے ذریعہ سے اہلِ بہشت میں معروف کردیں گے، کیونکہ سلاطینِ بہشت کا جو دینِ حق ہے اسی کو تمام اہلِ بہشت نے قبول کرنا ہے، اور وہاں کوئی خوف نہیں کہ دعوتِ حق میں کوئی رکاوٹ ہو، اس کے سوا ہم قرآن میں کہیں بھی نہیں دیکھتے ہیں کہ کسی دور میں حقیقی مومنین سب کے سب روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہوئے ہوں اور انہوں نےکسی خوف کے بغیر دینِ حق کی دعوت کو سیّارۂ زمین پر پھیلائی ہو۔
اور اس میں یہ بات بھی ہے کہ زمین سے مراد وہ تمام کائنات ہے جو نفسِ کلّی کی لپیٹ میں ہے، بالفاظِ دیگر خود نفسِ کلّی اللہ کی سب سے بڑی وسیع زمین ہے، اور اللہ کی خلافت بحقیقت زمینِ نفسِ کلّی میں ہے جبکہ نفسِ کلّی کی دو تعبیریں ہوتی ہیں کہ جب وہ عقلِ کلّی کے ساتھ ہے تو آسمان ہے اور جب اُس سے الگ ہے تو زمین ہے، اور ویسے بھی اہلِ حکمت جانتے ہیں کہ عقلِ کلّی سب سے اعلیٰ آسمان ہے ، اور نفسِ کلّی سب سے وسیع زمین، اور کسی شک کے بغیر حضرتِ آدمؑ کی خلافت نفسِ کلّی کی زمین میں تھی۔
اور آیت کا یہ فرمانا کہ خدا نے بہت سے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا یہ سلطنتِ بہشت کی حقیقت ہے کہ بہشت میں جو سلاطین ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے دائرے میں خدا کے خلیفہ بھی ہوتے ہیں اور جو خدا کا خلیفہ ہوتا ہے اس کی درست تریں عبادت کا کیا کہنا!
قارئین کو یہ بھی سوچنا ہے کہ آیت کا خطاب قرآن کے عام قانون کے
۹۶
مطابق تمام مسلمانوں سے ہے، پھر اس میں تخصیص ہے کہ جو لوگ حقیقی معنوں میں ایمان لائے اور جو حسبِ منشائے الٰہی نیک اعمال کو انجام دیں انہی سے اللہ نے یہ وعدہ کیا ہے، اور یہ روحانی ترقی کا اشارہ ہے کہ جو لوگ سفرِ روحانیّت میں آگے سے آگے جاتے ہیں ان کے ساتھ اللہ ایسا وعدہ فرماتا ہے، ورنہ تمام ایمان والوں میں سے یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا سب کو چھوڑ کر ایک گروہ سے کوئی خاص وعدہ کرے، قرآن جو کچھ فرماتا ہے وہ سب کے سامنے ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ چشمِ بصیرت سے دیکھنے اور عقلِ کامل سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
مولا تمام عزیزوں کو چشمِ بصیرت اور عقلِ کامل عطا فرمائے، آمین! یا ربّ العالمین!!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۲۵؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۹۷
ایک میں سب ہیں
۔۔۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۲۶؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۹۹
ایک بروشسکی نظم بعنوانِ ایک میں سب ہیں کا ترجمہ:
۱۔ میں کئی مثالوں اور کئی معنوں میں مرا ہوا تھا، اے مظہرِ نورِ خدا ! تو نے مجھے ازراہِ کرم زندہ کر دیا، زہے نصیب! میری جان تیرے لئے فدا ہو! میں خوابِ غفلت میں سوئے پڑا تھا تو نے ہی اپنی رحمت سے مجھے بیدار کر دیا، زہے نصیب ! میری جان قربان ہو!
۲۔ میں بہت پہلے ہی سے علمی غذاؤں کے لئے سخت بھوکا تھا، تو نے اپنی مہربانی سے مجھے خوب شکم سیر کر کے کھلا دیا ہے، میں جامۂ جان کے نہ ہونے سے سرمازدہ ہوگیا تھا، تونے ہی کرم کرکے مجھے روحانی لباس میں ملبوس کردیا۔
میں علم وادب میں بہت ہی پس ماندہ تھا تو نے مجھ پر بہت احسان کیا اور مجھےبہت ترقی عنایت کی، زہے نصیب! میری جان تجھ سے فدا ہو!۔
۳۔ میں تو کچھ بھی نہیں جانتا تھا اب تو نے اپنی عنایتِ بے نہایت سے بہت کچھ سکھا دیا ہے، میں چشمِ بصیرت سے بے بہرہ تھا تو نے مجھے سب کچھ دکھا دیا۔
۱۰۰
میں فی المثل گونگا تھا تو نے مجھے ایک عمدہ قوتِ گویائی عطا کردی، زہے نصیب! میری جان بار بار قربان ہو!
۴۔ میں علمِ دین میں بڑا مفلس تھا اب میں تیری رحمت سے تونگر ہو گیا ہوں، میں ایک پرندہ سے گرا ہوا پر تھا تو نے مجھے پرندہ بنا دیا۔
میں ایک ناکارہ چیز کی طرح تھا اب مجھے تو نے آراستہ پیراستہ بنا دیا، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!
۵۔ میں کرپن (ایک چھوٹی سی گھاس کا ننھا سا پھول جو سطحِ زمین کے برابر ہوتا ہے) تھا تو نے مجھے گلِ سرخ بنا دیا، میں ایک ذرّہ یا نقطہ کے برابر بھی نہ تھا اور یہ تیرا بہت بڑا احسان ہے کہ مجھے اب ایک زندہ کتاب بنا دیا۔
میں ایک چھوٹی سی چڑیا کی طرح تھا، لیکن تیری نوازش نے مجھے ایک عقاب بنا دیا، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!
۶۔ تیری محبت کی شیرینی بہت ہی عجیب ہے، تیرے راز کی حکمت بڑی نرالی ہے۔
تیری باتوں کی دولت بڑی عجیب و غریب ہے، زہے نصیب! جانِ من فدائے تو باد!
۷۔ میرے کان کی روحانی آواز بھی تو ہے، میری آنکھ کی روحانی نظر بھی تو ہے۔
دل و زبان سےادا ہونے والا اسمِ مبارک بھی تو ہے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!
۸۔ ذکرِ خفی بھی تو ہی ہے، نورِ جلی بھی تو ہی ہے۔
۱۰۱
علم و حکمت کا غنی بھی تو ہی ہے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!
۹۔ تو عشق کی بانسری کی رسیلی آواز ہے (مراد صورِ اسرافیل کی آواز) میری آنکھ کی باطنی نظر بھی تو ہے۔
میری زبان پر آنے والا کلمۂ نور بھی تو ہے، زہے نصیب! میری جان تجھ سے فدا!
۱۰۔ اب ماہتابِ نور بدرِ کامل ہوگیا اور معشوقِ جان میری طرف متوجہ ہونے لگا۔ اب عقدۂ مشکل کھل جانے لگا، زہے نصیب! میری جان بار بار فدا ہو!
۱۱۔ اے عزیز! تیرے دل میں اک جہان ہے اس کو دیکھنے کے لئے سعئی بلیغ کر، جانوں کی بھی ایک جان ہوتی ہے اس کو دیکھنے کے لئے کوشش کر۔
ایک گنجِ مخفی تجھ میں ہے اس کو پانے کے لئے جدوجہد کر، زہے نصیب! جانِ من قربان ہو!
۱۲۔ اے عزیزِ من! شاہِ حسینان کے دیدارِ باجمال و باجلال کو حاصل کر، ایک نورانی فرشتہ کو دیکھ لے۔
سلطانِ روحانی کے پر نور دیدار کو دیکھ لے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!
۱۳۔ وہ میرے عالمِ شخصی کا نور ہے، وہ خدا کا نور اور صبغۃ اللہ (رنگِ خدا) ہے۔
وہ ہمارے لئے حجاب کو ہٹا کر آرہا ہے، زہے نصیب! میری جان نثار ہو!
۱۴۔ میں نے جانوں کی جان کو دیکھا ہے، اور کنزِ قرآن کو پایا ہے۔
۱۰۲
اور گنجِ مخفی کا عرفان حاصل ہوا ہے، زہے نصیب! میری جان نچھاور ہو!
۱۵۔ بحرِ علم بڑا عمیق ہے، شمشیرِ عشق بہت ہی تیز ہے۔
اس کا راز سب سے عظیم ہے، زہے نصیب! جانِ من فدا ہو!
۱۶۔ اے جانِ جان! برق کی طرح چشمِ زدن میں میرے پاس آجا، یہ لے میری روح ہمیشہ اپنے پاس رکھ۔
اپنا نورانی قدم میرے سر پر رکھ کر مجھ کو شرف بخش دے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!
۱۷۔ روتے روتے آنسو بھی ختم ہو رہے ہیں اب میرا جسم بھی مڑ مڑ کر پیچیدہ اور عجیب سا ہوگیا ہے۔
میری جان تیرے عشق میں بک گئی ہے زہے نصیب! میری جان تیرے لئے فرشِ راہ ہو!
۱۸۔ میں تو گر چکا تھا تو نے مجھ اٹھا لیا، میں ایک بہت معمولی پتھر تھا لیکن تو نے مجھے لعل بنا دیا۔
میرے اعظاء تیرے عشق کی مشقتوں سے بکھر گئے تھے تو نےازسرِنو ان کو جوڑ کر درست کردیا ہے، زہے نصیب! میری جان فدا ہو!
۱۹۔ میں روحانی بیمار تھا تو نے مجھے شفا ٔ بخشی ہے اوراپنا عاشق بنا لیا ہے، اور اگر عالمِ شخصی کو دیکھا جائے تو تو نے مجھے آفتاب و ماہتاب بنا دیا ہے۔ زہے نصیب! جانِ من فدا ہو!
۲۰۔ میں محفل میں سب سے پست مقام پر تھا تو نے مجھے اوپر سے اوپر بٹھایا یہاں تک کہ مجھے بالا نشین کر دیا۔
تو نے ازراہِ حکمت مجھے سماوی انائے علوی کا سایہ یہاں لایا ہے، زہے
۱۰۳
نصیب! میری جان بار بارتجھ سے فدا ہو!
۲۱۔ میں تو عقل میں سب سے غریب تھا لیکن تو نے مجھے امیر بنا دیا اور میں تو تجھ سے بہت ہی دور تھا، لیکن تو نے بتدریج مجھ کو اپنی طرف قریب سے قریب تر بنا دیا۔
اور تو نے مجھے مدد دے دے کر نصیرؔ بنا دیا، زہے نصیب ! میری جان ہر وقت تجھ سے فدا ہوتی رہے!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۷؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۱۰۴
ایک بڑا عجیب و غریب نورانی خواب
سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۰) میں فرمایا گیا ہے: ۔
ترجمہ: اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔
اس دفعہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی مبارک تشریف آوری کی شان انتہائی عظیم تھی، ہم اس کی تعریف نہیں کرسکتے، اس نورانی بہار سے تمام جماعتیں بے حد خوش تھیں، اب مولا کی بابرکت تشریف واپس ہونے کے لئے تقریباً ایک ہفتہ باقی تھا کہ ایک مہربان عملدار نے اس خاکسار کا نام سی آف کمیٹی میں درج کرایا، اور آخر میں ایک نامہربان عملدار نے میرے نام کو اس لسٹ سے کاٹ دیا، جس کی وجہ سے میں دل ہی دل میں بڑا مغموم ہوا، درین اثنا یہ شعر زبان پر وارد ہوئے: ۔
علم سے دشمنی نہ کر نادان!
تانہ ہو ظالما! تیرا نقصان
یہ دشمنِ علم سب کا دشمن ہے
وہ شقی ہے کہ ربّ کا دشمن ہے
میرے دل و دماغ میں اسی حق تلفی کی شکایت تھی کہ میں نے ۱۴؍ نومبر ۲۰۰۰ء کو ایک عظیم نورانی خواب دیکھا، ایک پرانا باغ جیسا مقام ہے، یکایک مولانا حاضر
۱۰۵
امام علیہ السّلام اپنے اس غلام کے پاس جلوہ فرما ہوگیا، دست مبارک سے دو لطیف لقمے کھلا دیئے جو غالباً اپنے پاک کھانے سے تھے، پھر بڑی عنایت یہ ہوئی کہ میں نے مولا کے دست راست کی دو پاک انگلیاں چاٹ لیں جن میں کوئی پاک طعام لگا ہوا تھا، مگر مجھے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اس عمل کا حکم ظاہر میں تھا یا باطن میں!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲۸؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۱۰۶
علیؑ آنحضرتؐ کا بھائی، وزیر، وصی، وارث اور ولی تھا
امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام سے یہ روایت منقول ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ جب آیتِ کریمہ:
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ (۲۶: ۲۱۴)
ترجمہ: اور آپ اپنے سب سے زیادہ قریب کے کنبہ والوں کو ڈرائیے (دعوت کریں) ۔ نازل ہوئی تو آنحضرت صلعم نے ایک پیالہ دودھ اور بکری کی ایک ران دسترخوان پر رکھ کر خاندانِ بنی عبدالمطلب کو جمع کیا جو چالیس مردوں پر مشتمل تھا، مگر دس نوجوان تو ایسے تھے کہ ان میں سے ہر فرد ایک میمنا (LAMB) (بھیڑ یا بکری کا بچہ) اکیلا ہی کھا سکتا تھا اور ایک مشک دودھ پی سکتا تھا، پھر بھی ان لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا پیا، اس روز ابولہب بھی ان کے ساتھ تھا، جب خوردونوش سے فارغ ہوچکے تو رسولِ اکرم صلعم نے ان سب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے بنی عبدالمطلب! میری اطاعت کرو تو تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤ گے، اور میں تم سے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اب تک پروردگارِ عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وصی، اور وزیر، بھائی اور وارث، اور ولی مقرر فرمایا تھا، توآج تم میں کون جوان مرد ہے جو میرا وصی، میرا وارث، میرا ولی، میرا بھائی اور میرا وزیر بنے گا؟ اتنا سننا تھا کہ سب پر خاموشی
۱۰۷
چھا گئی، مگر آنحضرت صلعم نے اتمامِ حجت کے طور پر ان میں سے ایک ایک کے سامنے فرداً فرداً یہ دعوت پیش کی، لیکن کسی نے آپ کی اس دعوت کو قبول نہ کیا، الا آنکہ میں باقی رہ گیا تھا، اس وقت میں سب سے کم سن تھا مگر جب رسول اللہ صلعم نے میرے سامنے اپنی یہ دعوت پیش کی تو میں نے مؤدبانہ عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا صلعم میں آپ کا وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی بنوں گا آپؐ نے فرمایا کہ ہاں! اے علیؑ تمہیں میرے وصی، میرے وزیر، میرے بھائی، میرے وارث اور میرے ولی ہو، جب بنی عبدالمطلب مجلس سے باہر نکلے تو ابو لہب نے ان سے کہا کہ تم نے آج جو کچھ دیکھا ہے کیا اس سے تم کو اپنے صاحب محمدؐ کی جادوگری کا ثبوت نہیں ملتا کہ اس نے تمہارے سامنے دسترخوان پر بکری کی ران رکھی اور دودھ کا ایک پیالہ جس سے تم لوگ خوب شکم سیر ہوگئے، پھر کیا تھا کہ وہ سب کے سب ابولہب کی اس بات کو سن کر ٹھٹھا کرنے لگے، اور حضرت ابوطالب سے کہنے لگے کہ تمہارا بیٹا تم پر مقدّم ہوگیا (بحوالۂ دعائم الاسلام، حصّہ اوّل، اردو، ص ۳۱)۔
آسمانی کتاب کی وراثت کے لئے دیکھیں سورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۹؍ نومبر ۲۰۰۰ء
۱۰۸
خانۂ خدا میں اسمِ اعظم کا معجزہ
اگرچہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک مکان و لامکان سے پاک و برتر اور بے نیاز ہے، لیکن اس حکیمِ مطلق کی مصلحت و حکمت یہ تھی کہ جس طرح عالمِ بالا میں عرش ہے اسی طرح زمین پر اللہ کا ایک گھر ہو ، تاکہ یہ لوگوں کے لئے روحانی ترقی کا باعث ہوسکے، پس مقامِ شریعت پر اللہ کا گھر خانۂ کعبہ ہے، اور مقامِ حقیقت پر امامؑ خدا کا زندہ گھر ہے، اور امامؑ سے روحانی ملاقات کے لئے بھی ایک خاص گھر بنایا جاتا ہے وہ جماعت خانہ کہلاتا ہے، جس میں روحانی اور نورانی معجزہ ہوتا ہے، اس معجزے کو دیکھنے کے لئےجو شرائط ہیں وہ ہر عاشقِ صادق کے لئے مشکل نہیں، اور جو عاشقِ صادق نہ ہو اس کے لئے مشکل ہوسکتی ہیں۔
قرآنِ حکیم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کی رسی کو منتشر حالت میں فرداً فرداً پکڑو، بلکہ اس نے تو یہ حکم دیا کہ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور فرقہ فرقہ نہ ہو جاؤ (۰۳: ۱۰۳) اس حکمِ عالی میں بہت سی حکمتیں ہیں، اس میں انفرادی حکمت یہ ہے کہ تم اپنے منتشر خیالات کو ایک کر کے اللہ کے ذکر کی رسی کو مضبوطی سے جاری رکھو، اور اجتماعی حکمت یہ ہے کہ ساری امتِ مسلمہ ایک ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ، ورنہ اس سے تمہاری قوّت و طاقت بہت سے حصّوں میں تقسیم ہوجائے گی، اور تم اسلام کی سب سے بڑی قوّت نہیں بن سکو گے، جیسا کہ بن جانے کا حق ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۴ ؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۰۹
قرآنِ حکیم کے خطاب کی گہری حکمتیں
اگر قرآنِ پاک کا خطاب جمع سے ہے تو اس میں واحد بھی ہے، عام بھی ہے اور خاص بھی، ظاہر و باطن بھی ہے، ماضی اور مستقبل بھی، اور مکان و لامکان بھی ہے، ہر پہلو اور ہر طرح سے سوچے بغیر فکرِ قرآن کا حق ادا نہیں ہوگا، اور نہ ہی قرآنِ حکیم کی گہری حکمتیں معلوم ہوسکیں گی، جیسے ارشادِ مبارک (۰۵: ۱۵) کا ترجمہ ہے:۔
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آیا ہے اور کتابِ مبین، اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی، ظاہرمیں بھی اور عالمِ شخصی میں بھی، مکان میں بھی اور لامکان میں بھی، ہرزمانے میں، ہر وقت کے لئے، جشمِ بصیرت پیدا کر کے دیکھو، کتاب میں نور اور نور میں کتاب کو دیکھو، عوام کی نظر سے بھی دیکھو اور خواص کی نگاہ سے بھی، اور یہ بھی سوچو کہ اگر خدا تمہاری آنکھ ہوجاتا تو تم نور کو کہاں کہاں دیکھتے؟ اگر تم فنا فی الامامؑ ہوجاتے تو تم قرآن میں کیا کیا دیکھتے؟ تم قرآنی آیات میں خوب غور کیا کرو۔
اس شعر کی حکمت کو ضائع نہ کرنا:
زنورِ او تو ہستی ہمچو پرتو—- حجاب از پیش بردار و تو اوشو
ترجمہ: تو اس کے نور کی زندہ تصویر ہے، سامنے سے پردہ کو ہٹا لے اور تو اس کے ساتھ ایک ہوجا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۵ ؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۱۰
علامہ نصیرؔ کی بروشسکی شاعری میں حقائق و معارف
اِنَ لے عجب دُربنن کون ومکان غیئچلہ
ایپچی نُکون ڈوݣ برین یارے ہنر بُٹ اُیَم
ترجمہ: اس کے پاس ایک بڑا عجیب وغریب دوربین ہے جس کے ذریعے دیکھنے سے دونوں جہان کا نظارہ اور مشاہدہ ہوتا ہے، اس کے پاس جا کر کچھ دیر کے لئے دیکھو تو معلوم ہوجائے گا کہ میرے دوست کا ہنر بے حد شیرین ہے۔
درجِ بالا شعر علامہ ہونزائی کے بروشسکی عارفانہ کلام کا ایک نمونہ ہے، اور جاننے والےجانتے ہیں کہ اس کے کلام میں ایسے حقائق و معارف سے لبریزاشعار بہت ہیں۔
یکے از شاگردان
بدھ ۶ ؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۱۱
میوہ ھائے بہشت جیسے سوالات و جوابات
سوال: ۱۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی روحِ عالیہ آدمؑ میں کس طریقے سے پھونک دی؟
سوال: ۲۔ اس انتہائی عظیم الشّان روح کا دوسرا نام کیا ہے؟
سوال: ۳۔ نورٌعلیٰ نورٍ کا سلسلہ کب سے شروع ہوا؟
سوال: ۴۔ کیا حضرتِ آدمؑ سے پہلے بھی نور کا سلسلہ تھا؟
سوال: ۵ ۔ مولانا ھنیدؑ کون تھا؟
سوال: ۶: آیا سنتِ الٰہی میں کبھی تبدیلی آتی ہے؟
سوال: ۷۔ کیا نورٌعلیٰ نورٍ اللہ کی سنّت ہے؟
سوال: ۸۔ کیا خدا کی خدائی میں بے شمار آدم ہوئے ہیں؟
سوال: ۹۔ کیا آدمِ سراندیبی آدمِ اوّل ہے؟
سوال: ۱۰۔ کیا آپ آدمِ زمانؑ کو پہچانتے ہیں؟
سوال: ۱۱۔ کیا آلِ ابراہیمؑ کے بعد آلِ محمدؐ نور کا ایک ہی سلسلہ ہے؟
نوٹ: ہر پُرحکمت سوال کے حجاب میں ایسا ہی جواب پوشیدہ ہے، لہٰذا سوال و جواب دونوں کی ایک ساتھ تعریف کی گئی۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۱۲
ترجمۂ سورۂ انشقاق (۸۴)
اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔
جب آسمان پھٹ جائے گا، اور وہ اپنے ربّ کا (حکم) سن لے گا اور وہ اسی لائق ہے، اور جب زمین پھیلا دی جائے گی، اور جو کچھ اس میں ہے وہ اسےنکال ڈالے گی اور خالی ہوجائے گی، اور اپنے ربّ کا(حکم) سن لے گی اور اسی لائق ہے، اے انسان بے شک تو اپنے رب کی طرف (پہنچنے میں) خوب تکلیف اٹھانے والا ہے پھر اس کو ملنا ہے، پس جس کو اس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا گیا، پس اس سے عنقریب آسان حساب لیا جائے گا، اور وہ اپنے اہل کی طرف خوش خوش لوٹے گا، اور جس کو اس کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا گیا، وہ عنقریب موت مانگے گا اور جہنم میں داخل ہوگا، بیشک وہ اپنے اہل میں خوش وخرم تھا، اس نے گمان کیا تھا کہ وہ ہرگز نہ لوٹے گا، کیوں نہیں؟ اس کا ربّ بیشک اسے دیکھتا تھا، سو میں قسم کھاتا ہوں شام کی سرخی کی، اور رات کی اور جو (اس میں) سمٹ آتی ہے، اور چاند کی جب وہ مکمل ہوجائے، تم کو درجہ بدرجہ ضرور چڑھنا ہے، سو انہیں کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے؟ اور جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے، بلکہ جن لوگوں نے کفر کیا (منکر) وہ جھٹلاتے ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ (دلوں میں) بھر رکھتے ہیں، سو انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا، سوائے
۱۱۳
ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے ان کے لئے ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔
سورۂ انشقاق کی چند تاویلی حکمتیں
اس تاویل میں روحانی قیامت اور عالمِ شخصی کے آسمان و زمین کے احوال کا تذکرہ ہے، جیسے آسمان کا پھٹ جانا یعنی ظاہری آسمان کا غائب ہوجانا اور اس کی جگہ روحانی آسمان اور لامکان کا ظہور، روحانی خطاب کی سماعت، شخصی زمین کو حدودِ کائنات تک پھیلا دینا، اور اس زمین کا کثیف سے لطیف ہو کر اپنے ربّ کا خطاب سننا، انسان کو اپنے ربّ تک پہنچنے کے لئے تکلیف لازمی ہے، تاکہ زندگی ہی میں انتہائی قرب اور وصل نصیب ہو، اگر ایسا ہوا اور نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا، اور وہ اپنے لوگوں کی طرف خوش خوش لوٹے گا، یہاں جیتے جی مرکر لوٹنے کا اشارہ ہے، کیونکہ جسمانی موت سے قبل نفسانی موت کے ذریعے قیامت کا تجربہ کرنے سے علم و معرفت کے خزانے حاصل ہوتے ہیں، اور خوش خوش اپنے لوگوں کی طرف لو ٹنے کے یہی معنی ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۱۴
گنجِ مخفی کا نورانی راستہ
اے صاحبانِ عقل! اے اہلِ بصیرت! تمہاری سب سے بڑی حکمت اور سب سے اعلیٰ دانائی یہ ہے کہ تم اطاعت اور عشق ومحبت سے امامِ زمانِ آلِ محمدؐ میں فنا ہوجاؤ، کیونکہ اللہ کی زندہ صراطِ مستقیم اور گنجِ مخفی کا نورانی راستہ وہی ہے، آسمانی عشق کی قسم! آؤ، ہم اللہ تعالیٰ کی بے مثال کتاب قرآن کی ایک بے مثال آیت (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) کو غور سے پڑھتےہیں:
ترجمہ: جن لوگوں نے جان و دل اور اخلاص و یقین سے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے (اور ان کو اسمِ اعظم عطا ہوا) اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ “نہ ڈرو نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ اس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔”
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۱۵
میوہ ھائے بہشت جیسے شیرین و پُرمغز سوالات و جوابات
سوال: ۱۔ کہتے ہیں کہ عالمِ شخصی کی بلندیوں میں ایک مخفی اور کلّی کتاب ہے ، کیا آپ نے سنا ہے کہ اس کا کیا نام ہے؟
سوال: ۲۔ کسی عارف نے کہا ہے کہ خدا کی بادشاہی میں ایک کائنات کے بعد دوسری کائنات بنتی ہے، اور یہ لاابتدا و لاانتہا سلسلہ ہے، کیونکہ خدا کی ذات قدیم ہے، اور اس کی صفات بھی ہمیشہ ہیں، جس کے ساتھ ساتھ اس کی بادشاہی بھی ہمیشہ ہے، اور بادشاہی میں ہر چیز ہوتی ہے۔
سوال: ہر چیز ہلاک ہوجاتی ہے مگر وجہ اللہ (امامؑ) باقی رہتا ہے، ہرچیز اس لئے ہلاک ہوجاتی ہے کہ قانونِ تجدّد کے مطابق اس جیسی چیز پھر سے وجود میں آتی ہے۔
سوال: ۴۔ اللہ کا امرِکُنۡ (ہوجا) قدیم ہے جس کے تحت کائنات کی بقا و فنا کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے۔
سوال: ۵۔ اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کر کے حکم دیا کہ لکھ، قلم نے عرض کیا: کیا لکھوں؟ تو خدا نے کیا فرمایا؟ اور قلم نے کیا لکھا؟ اس میں یہی حکمت ہے جس کے بارے میں مَیں نے سوال کیا، یعنی فرمایا کہ لکھ: مَاکَانَ وَمَا یَکون = جو کچھ تھا وہ لکھ اور جو کچھ ہوگا وہ لکھ، آپ اس میں سوچ کر
۱۱۶
بتائیں آیا یہ قلم کے لئے اللہ کا ہمیشہ کا حکم تھا یا ایک دفعہ کیلئے؟
سوال: ۶۔ درجِ بالا سوالات میں کتابِ مکنون کا اشارہ کہاں ہے؟ آیا کتابِ مکنون میں محدود اسرار ہیں؟ یا لامحدود؟
سوال: ۷۔ عقل سے علم کا کیا رشتہ ہے؟
سوال: ۸۔ حظیرۂ قدس اور امامِ مبینؑ میں کیا ربط ہے؟
سوال ۹۔ تمام چیزوں کے لپیٹنے اور گننے کے کیا معنی ہیں؟ اور خدا کا یہ کام کہاں ہوتا ہے کہ وہ تمام چیزوں کو لپیٹتا بھی ہے اور گنتا بھی ہے؟ اس میں لپیٹنے کی کیا صورت بنتی ہے اور گنتی کا کیا عدد بنتا ہے؟
سوال ۱۰۔ عاد، عدد اور معدود میں کیا فرق ہے؟
نوٹ: ہر پُرحکمت سوال کے حجاب میں ایسا ہی جواب پوشیدہ ہے، لہٰذا سوال و جواب دونوں کی ایک ساتھ تعریف کی گئی۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۸؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۱۷
اشیائے کائنات کی سہ گونہ عبادات
۱۔ ہرچیز اپنی نماز اور تسبیح جانتی ہے۔
۲۔ ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔
۳۔ کائنات کی ہر چیز اللہ کے لئے سجدہ کرتی رہتی ہے۔
۴۔ مگر سوال ہے کہ ہر چیز کی یہ عبادت شعوری ہے یا غیر شعوری؟ عرفانی ہے یا تسخیری؟ زبانِ حال سے ہے یا زبانِ قال سے؟ ہر چیز یہ عبادت کہاں کرتی ہے؟ عالمِ ظاہر میں یا عالمِ شخصی میں؟
۵۔ کیا عالمِ ذرّ کی تمام چیزیں فرشتوں کی حیثیت سے آدمِ زمانؑ کا سجدہ کرتی ہوئی گرتی ہیں؟ آیا یہ حقیقت ہے کہ جب عارف پر روحانی قیامت گزرتی ہے تو اس حال میں تمام چیزیں صورِ اسرافیل کی ہم آہنگی میں اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح خوانی کرتی رہتی ہے؟ سبحان اللہ!
۶۔ کیا یہ درست ہے کہ حضرتِ داؤد علیہ السلام صورِ اسرافیل کا ایک زندہ معجزہ تھا؟
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۹؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۱۸
دورِ اعظم کی تحقیق
روحانی سائنس کی روشنی میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دورِ اعظم چھ کروڑ سال کا ہے، جس میں ارض و سماء کا تجدّد ہوتا ہے (۱۴: ۴۸) جس میں ایک عظیم روح عالمِ امر سے عالمِ خلق میں آتی ہے (۳۶: ۶۸) دائرۂ دورِ اعظم عالمِ علوی اور عالمِ سفلی پر محیط ہے، لہٰذا اس پر گردش کرنے والا اوپر سے نیچے آنے کے لئے اصولاً سرنگون ہوجائے گا، اور آیت میں یہی اشارہ ہے۔
صاحبانِ عقل کو اس قانونِ فطرت پر غور کرنا چاہئے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے کہ انسان شکمِ مادر سے سرنگون ہو کر پیدا ہوتا ہے، شاید یہ کسی دائرے سے گزر جانے کی علامت ہے، یہ بحدِ قوت یا بحدِ فعل ہوسکتا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۱ ؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۱۹
روحانی قیامت میں قرآنِ حکیم کی متحرک اور زندہ تاویل پوشیدہ ہے
سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) کو دقتِ نظر سے پڑھنے اور خوب غور کرنے کی ضرورت ہے، اس ارشاد کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کی تفصیل ایک خاص علم سے کی گئی ہے، وہ علمِ قیامت اور علمِ تاویل ہے۔
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ لوگ کسی چیز کے آنے کا انتظار کرتے ہیں؟ جبکہ کوئی چیز آنے والی نہیں ، مگر صرف قرآن کی تاویل بصورتِ روحانی قیامت آنے والی ہے۔ مربوط آیت کو پڑھیں۔
مذکورۂ بالا روحانی اور باطنی قیامت حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانے میں برپا ہوئی، الحمد لِلّٰہ ربّ العالمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۱؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۲۰
کتابِ مکنون کے عظیم و اعلیٰ اسرار
سورۂ واقعہ ۵۶: ۷۵ تا ۸۰:
فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
ترجمہ: پس میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھاتا ہوں، اور اگر تم جانتے ہو تو یقیناً وہ قسم بہت عظمت والی ہے، یقیناً وہ عزت وکرامت والا قرآن ہے، جو کتابِ مکنون (پوشیدہ کتاب) میں ہے، نہیں اسے کوئی چھوتا سوائے (ان کے) جو پاک کر دیئے گئے ہیں، جو براہِ راست پروردگارِ عالمین کی طرف سے ہے۔
تاویلی مفہوم: حظیرۂ قدس میں نہ صرف شمس و قمر ایک ہوجاتے ہیں بلکہ تمام ستارے بھی مل کر ایک بڑا تابندہ نجم ہوجاتے ہیں، اور مشارق ومغارب بھی یک جا ہوئے ہوتے ہیں، واللہ! وہاں آسمان و زمین بھی متحد ہیں کیونکہ وہ عالمِ وحدت کا انتہائی عظیم راز ہے، ایسے اسرارِ عظیم کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ ایک بہت بڑی قسم کھاتا ہے، بڑی قسم اس لئے کہ یہ اوّل اللہ کی قسم ہے اور پھر مقامِ وحدت پر ہے، نیز اس سے سب سے عظیم اسرار کا باب بھی مفتوح ہوجاتا ہے، اور قرآنِ حکیم کے سب سے
۱۲۱
اعلیٰ مقام کا ذکر ہے، پھر کتابِ مکنون کا ذکر بھی ہے جو تاویلات کا سب سے بڑا خزانہ ہے، پس یہاں اللہ کی یہ قسم اور جوابِ قسم بے مثال ہے۔
کتابِ مکنون کو کوئی چھو نہیں سکتا ہے مگر وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں، اس پاکیزگی کا معیار قرآن کے باطن اور روحانیّت میں ہے، یقیناً اس میں بہت بڑی سخت ریاضت ہے، جس کو بحیثیتِ مجموعی قیامت کہا جاتا ہے، تب کوئی مومنِ سالک عارفِ پاک ہوجاتا ہے، اور کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لے سکتا ہے، اور اس میں قرآنی اور روحانی اسرار کو پڑھ سکتا ہے۔
چونکہ کتابِ مکنون خزانۂ خزائنِ تاویلات ہے اس لئے کوئی امکانی تاویل اس سے باہر نہیں ہے، اسی معنیٰ میں قرآنِ کریم اس میں سمایا ہوا ہے، پس بہت بڑی سعادت اور عظیم نیک بختی ہے ان شہیدانِ روحانی کی جو فنا فی الامامؑ ہو کر کتابِ مکنون کو نہ صرف چھو سکتے ہیں، بلکہ اس کو پڑھ بھی لیتے ہیں اور اس کا (DEMONSTRATION) بھی کرتے ہیں ، جیسا کہ اس کا حق ہے، الحمد لِلّٰہ ربّ العٰلمین!
اللہ کرے ہمارے عزیزان ان اسرار کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دے سکیں!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بموقعۂ یومِ سعیدِ ولادتِ امامِ زمانؑ
بدھ ۱۳؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۲۲
رحمتِ عالمین کے اسرارِ عظیم
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نورِ محمدیؐ کو فرشتۂ عظیم کی صورت میں پیدا کیا، یہی نور فرشتۂ قلم و لوح اور فرشتۂ عقلِ کلّی بھی تھا، اور نفسِ کلّی بھی، اور یہی نورِ اقدس نور الانوار بھی تھا جس سے تمام انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام پیدا ہوئے، اور جملہ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کے توسط سے آنحضرتؐ تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کل مقرر ہوئے، بحوالۂ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷)۔
یہاں یہ حکمت بھی خوب یاد رہے کہ نورِ محمدؐ و علیؑ ایک ہی ہے کیونکہ عالمِ وحدت کا شمس و قمر ایک ہیں، قلم اور لوح ایک ہیں، عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی ایک ہیں، آسمان و زمین بھی ایک ہیں۔
حدیثِ وحدتِ نورِ محمدؐ و نورِعلیؑ کا ترجمہ: رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ میں اور علیؑ ایک نور تھے اور وہ نور آدم کو پیدا کرنےسے چودہ ہزار سال پیشتر خدائے عزّو جل کی درگاہ میں طاعت اور تقدیس کرتا تھا جب آدمؑ کو پیدا کیا اس نور کو آدمؑ کے صلب میں رکھا اور برابر ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ اس کو عبدالمطلب کے صلب میں قرار دیا پھر اس نور کو دو حصّوں میں منقسم کیا میرے حصّے کو عبد اللہ کی پشت میں قائم کیا اور علی کے حصّے کو ابو طالبؑ کے صلب میں، پس علیؑ مجھ سے ہے اور میں علیؑ سے (بحوالۂ کوکبِ دری ۔ باب دوم، منقبت نمبر۱)
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۱۴؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۲۳
روحانی قیامت
سورۃ الانبیاء ۲۱: ۱۰۴ تا ۱۰۷
يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ إِنَّ فِي هَٰذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔
ترجمہ: جس دن ہم لپیٹ لیں گے آسمان کو جیسے لپیٹا جاتا ہے طومار خطوں کا (اور) جیسے ہم نے پہلی بار (مخلوق کو) خلق کیا تھا دوبارہ بھی اسے پیدا کردیں گے یہ وعدہ ہم پر (لازمی) ہے یقیناً ہم اسے (پورا) کر کے رہیں گے اور بتحقیق ہم نے لکھ دیا ہے زبور میں بعد نصیحت کے کہ زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے یقیناً اس میں (ایک خوشخبری) پہنچا دینا ہے ان لوگوں کے لئے جو عبادت کرنے والے ہیں اور (اے رسولؐ) ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر رحمت بنا کر سب جہانوں کے لئے۔
عارفِ واصل باللہ کی روحانی قیامت میں انتہائی عظیم معجزات اور بیحد حیران کُنۡ عجائب و غرائب ہیں، اللہ تعالیٰ القابض اور الباسط ہے، لہٰذا عارف کی روحانی قیامت میں معرفت کی ایک مکمل مثال قائم کرنے کے لئے عارف کی روح
۱۲۴
کو قبض کرکے کائنات میں پھیلا دیتا ہے اور کائنات کو لپیٹ کر عارف کے عالمِ شخصی میں ڈال دیتا ہے، یہ روحانی کام شاید ستر ہزار بار ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ان میں سے ہر کائنات ایک زمین بھی ہے، ایک آسمان بھی، اور ایک خلافتِ الہٰیہ بھی جس کے دینے کا خدا نے حقیقی مومنین سے وعدہ فرمایا ہے (۲۴: ۵۵) اور اللہ کے خاص بندوں کے لئے وراثت بھی ہے، یہی بہشت بھی ہے اور جنت کی بادشاہی بھی، مگر یہاں یہ نکتہ یاد رہے کہ جب روحانی قیامت میں خدا کائنات کو لپیٹتا ہےتو کائنات اور عالمِ شخصی کو جسمانی طور پر کچھ نہیں ہوتا ہے۔
لفظِ زبور کتاب کے معنی میں ہے اور یہ حضرتِ داؤدؑ کی آسمانی کتاب کا نام بھی ہے اور مذکورہ آیت (۲۱: ۱۰۵) میں زبور (کتاب) عالمِ شخصی کی عملی کتاب کیلئے آیا ہے جس میں یہ عملی حقیقت موجود ہے کہ اللہ کے نیک اور نکو کار بندے کائناتی زمین کے وارث ہوتے ہیں۔
نوٹ: حقیقت میں عابدین وہ لوگ ہیں جو معرفت کے ساتھ عبادت کرتے ہیں کیونکہ قرآن میں چوٹی کی حکمتیں ہوتی ہیں ایسی حکمت کو حکمتِ بالغہ کہا گیا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۱۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۲۵
نفسانی موت قبل از جسمانی موت
ایک ایسے باسعادت مومن کی شخصیّت واقعۂ قیامت کی زندہ کتا ب ہوجاتی ہے، اب سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۴) کو عارفِ کامل کے عالمِ شخصی کے پیشِ نظر خوب غور سے پڑھیں جس میں تمام مومنین و مومنات کا نور ہوتا ہے، اور وہ سب غیر شعوری روحانیّت میں ہوتے ہیں، صرف عارف شعوری طور پر ان کی نمائندگی کرتا ہے، وہ آج علم الیقین سے سمجھ سکیں گے اور کل بہشت میں اس حقیقت کو نورانی موویز میں بڑے آرام سے دیکھ سکیں گے۔
ترجمۂ آیات (۵۷: ۱۲ تا ۱۴)
جس دن تو دیکھے گا مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو کہ دوڑتا ہے انکا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف (ان سے خطاب ہوگا) کہ تمہیں بشارت ہو آج کے دن ایسی جنتوں کی جن کے نیچے جاری ہیں نہریں، تم ان میں ہمیشہ رہوگے یہی وہ بڑی کامیابی ہے، اس دن کہیں گے منافق مرد اور منافق عورتیں ان کامیاب مومنین سے کہ ہمارا انتظار کرو کہ ہم بھی روشنی حاصل کرلیں تمہارے نور سے، کہا جائیگا کہ تم لوٹ جاؤ اپنے پیچھے (تاریخ میں) پھر جستجو کرو نور کی، پس قائم کردی جائے گی ان کے درمیان ایک دیوار جس میں ایک درہوگا، اندر کی طرف اس میں رحمت ہوگی اور باہر کی طرف اس کے سامنے عذاب ہوگا، وہ انہیں پکاریں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ
۱۲۶
نہیں تھے؟ وہ کہیں گے ہاں تھے لیکن تم نے اپنی جانوں کو فتنہ میں ڈالا اور (کسی اور قیامت کے) منتظر رہے اور شک کرتے رہے اور فریب دیا تم کو آرزوؤں نے یہاں تک کہ آگیا حکم اللہ کا اور فریب دیا تم کو اللہ کے بارے میں فریب دینے والے نے۔ نیز دیکھو سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۸؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۲۷
أئمّۂ آلِ محمدؐ اور ان کے روحانی اور جسمانی لشکر کا ذکرِ جمیل
ترجمہ آیۂ شریفہ (سورۂ مائدہ ۰۵: ۵۴):
اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ ایسے لوگوں کو پیدا کرے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا جو مومنوں پر نرم اور کفارپر سخت ہوں گے جو اللہ کی راہ میں جہادِ ظاہر و باطن کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔
اور یہ آیت آیۂ ولایت سے مربوط ہے جس کا ذکر دعائم الاسلام کے حوالہ سے ہوچکا ہے۔
اس آیۂ مبارکہ کے خاص اشارے: اللہ کو محبوب رکھنا اور اللہ کا محبوب ہونا حضرتِ سید الانبیاءؐ کی سب سے خاص صفت ہے، اور آنحضرتؐ کے بعد یہ صفت صرف أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی کی ہوسکتی ہے، ہر امامؑ کے ذریعہ ایک روحانی قیامت برپا ہوتی ہے اور یہی روحانی جنگ بھی ہے، جس میں امامؑ اور اس کا روحانی لشکر مومنین پر نرم اور کافروں پر سخت ہوتے ہیں، امامؑ کے جسمانی لشکر امامِ وقت کے ارشادات پر عمل کرتے رہتے ہیں اور کسی ملامت کرنیوالے کی ملامت سے نہیں ڈرتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۹؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۲۸
حدیثِ معراج = علیؑ آسمانِ چہارم میں
کتابِ سرائر ص ۱۱۵ پر یہ حدیثِ شریف درج کی گئی ہے:
ترجمہ: رسول اللہ صلی علیہ و آلہٖ وسلم سے روایت ہے: آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ جب مجھے شبِ معراج میں آسمانِ چہارم تک اٹھایا گیا، تو میں نے وہاں علیؑ کو کرسیٔ کرامت پر بیٹھا ہوا دیکھا کہ فرشتے اس کےگردا گرد گھیرے ہوئے اس کی تعظیم و عبادت کر رہے تھے، اور اس کی تسبیح و تقدیس کرتے تھے، پس میں نے پوچھا اے میرے دوست جبرائیل! کیا میرا بھائی علیؑ مجھ سے پہلے ہی اس مقام تک پہنچ چکا ہے؟ تو جبرائیل مجھ سے کہنے لگا یا محمدؐ! حقیقت یہ ہے کہ جب فرشتوں کو علیؑ کی برتری اور منزلت کا علم ہوا تو ان میں علیؑ کو دیکھنے کا شدید شوق پیدا ہوا جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ سے شکایت کی کہ ان کو علیؑ کا دیدار کیوں نہیں ہورہا ہے؟ پس اللہ نے علیؑ کا ایک ہم شکل فرشتہ یعنی یہ فرشتہ پیدا کیا، اور ان پر اس کی بندگی کو لازم کردیا، پس جب ان کو علیؑ کے دیدار کا شوق ہوتا ہے تو اس فرشتہ کو دیکھتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے: ۔
اور اللہ وہ ہے جو آسمان میں بھی معبود ہے اور زمین میں بھی معبود ہے اور وہی حکیم و علیم ہے (۴۳: ۸۴)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۰؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۲۹
تسخیرِ کائنات اور اللہ کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں
سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کو آپ چشمِ معرفت سے پڑھ لیں:
ترجمہ: کیا تم لوگ عین الیقین سے نہیں دیکھتے؟ کہ اللہ نے ساری کائنات کی چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں، اور اپنی جملہ ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر تمام کردی ہیں۔
اس ارشادِ مبارک میں اللہ تعالیٰ کے بے حد و بے حساب احسانات کا مجموعی ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز کس طرح ہر روحانی قیامت میں عالمِ اکبر کو لپیٹ کر عالمِ شخصی میں رکھ دیتا ہے!
آپ دانش گاہِ خانۂ حکمت کی تمام کتابوں میں اسی انتہائی عظیم معجزۂ الٰہی کے مبسوط مضمون کو تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں، روحانی قیامت کے اسی سب سے عظیم مضمون میں جو حضرتِ امام علیہ السّلام کے کرم سے ہے، تمام ضروری مضامین جمع ہیں، آپ ایک بار ہماری تمام کتابوں کو تجرباتی طور پر پڑھ کر دیکھ لیں، ان شاء اللہ ! آپ علم و معرفت کی دولت سے مالامال ہو جائیں گے، والسّلام!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۲۲؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۳۰
علیؑ کے پُرنور عالمِ شخصی میں قرآنی معجزات
سورۂ رعد کے آخر (۱۳: ۴۳) میں ارشاد ہے:
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا ۚ قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتَابِ۔
ترجمہ: اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں ہو، تو تم (ان سے) کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس کتاب (قرآن) کا علم ہے کافی ہیں۔
ترجمۂ قرآن از فرمان علی کے حاشیہ کو بھی دیکھیں، نیز کتابِ کوکبِ دری، بابِ اوّل، منقبت ۳۳، ص ۱۶۰ کو بھی پڑھیں۔
اس آیۂ شریفہ کے باطن میں عاشقوں کے لئے ایسے عظیم الشّان ایمان افروز و روح پرور اسرار ہیں کہ جن کی خوشبوؤں سے ہر عاشق تا ابد مست ہوسکتا ہے، یہاں سمجھنے کے لئے بڑی آسان حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندۂ مقرب کی آنکھ ہو جاتا ہے، تو کیا یہ کوئی ناممکن بات تھی کہ خدا شاہِ ولایتؑ کی آنکھ ہوچکا تھا؟ اورحضرتِ شاہِ ولایتؑ یعنی مولا علیؑ خدا کی آنکھ سے دیکھ رہا تھا؟ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ خدا جس کی آنکھ ہو جاتا ہے تو وہ خدا کی آنکھ سے دیکھتا ہے، اور یہ ہرگز شرک نہیں بلکہ خدا کی بہت بڑی عنایت ہے۔
۱۳۱
پس خدا کے ساتھ ساتھ مولا علیؑ کے آنحضرتؐ کی رسالت کے گواہ ہونے کی حکمت یہ ہے کہ حضرتِ شاہِ ولایتؑ نے اپنے پُرنور عالمِ شخصی میں نزولِ قرآن کے تمام معجزات کو دیکھا، عالمِ علوی میں بھی اور عالمِ سفلی میں بھی، یعنی امامِ مبینؑ نے خزانۂ کلمۂ کُنۡ سے قلمِ الٰہی میں ظہورِ قرآن کا معجزہ دیکھا، مگر یہاں یہ بات یاد رہے کہ کلمۂ باری اور قلمِ الٰہی میں وحدت ہے، قلمِ الٰہی اور لوحِ محفوظ میں بھی وحدت ہے، اس لئے کہ وہاں عالمِ وحدت ہے، پس مولاعلیؑ نے بمرتبۂ عین اللہ لوحِ محفوظ میں قرآن کو دیکھا تھا، اور کتابِ مکنون میں بھی قرآن کے جملہ اسرار کو دیکھا تھا، لہٰذا علیؑ حضورؐ پر قرآن نازل ہونے یا حضورؐ کو قرآن عطا ہوجانے کے ہر معجزہ کو دیکھ رہا تھا جس طرح خدا کا دیکھنا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرتِ امیرالمومنینؑ کو اپنے ساتھ آنحضرتؐ کی رسالت کا آسمان پر بھی اور زمین پر بھی گواہ بنا دیا۔
چونکہ کسی معاملہ کا گواہ وہ شخص ہوتا ہے جو اس معاملہ میں حاضر ہوتا ہے، اور قرآن کی زبان میں حاضر کو بھی اور گواہ کو بھی شہید کہا جاتا ہے، پس جس طرح حضورِ انورؐ کی پیغمبری کا گواہِ مطلق خدا تھا اسی طرح علی بھی گواہِ مطلق تھا، اور اس میں آخری اشارہ یہ ہے کہ علیؑ اللہ کا نور ہے اس لئے اللہ سے الگ نہیں ہے۔ الحمد لِلّٰہ ربِّ العٰلمین!!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۵؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۳۲
دعائے ابراہیمؑ و اسماعیلؑ
سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۲۸ تا ۱۲۹) کو خاص طور پر غور سے پڑھیں:۔
رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ۪-وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَاۚ-اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۔
ترجمہ: اے ہمارے ربّ! اور ہمیں اپنے لئے بدرجۂ انتہا فرمانبردار بنا دے اور ہماری ذرّیت میں سے بھی اپنے لئے ایک ایسی فرمانبردار جماعت بنا دے اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان، اے ربّ ہمارے! اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور حکمت سکھائے انہیں خوب پاک کر دے بے شک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔
یہاں یہ قرآنی ارشاد ہے کہ حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیھما السلام اللہ کے دو انتہائی فرمانبردار بندے ہونے کی دعا کرتے ہیں، اور اپنے سلسلۂ ذرّیت سے بھی ایک ایسی فرمانبردار جماعت پیدا ہونے کے لئے دعا کرتے ہیں جس سے آلِ ابراہیمؑ کے أئمّہ مراد ہیں، اور انہی اماموں کی جماعت میں سے حضرتِ محمد رسول اللہؑ
۱۳۳
کے روحانی ظہور اور جسمانی ظہور کےلئے درخواست کرتے ہیں، اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر امام کے عالمِ شخصی میں نورِ محمدیؐ کام کرتا ہے اور ہمیشہ یہی قانون ہے کہ أئمّہؑ پر رسولؐ گواہ ہے اور رسولؐ پر اللہ گواہ ہے (۲۲: ۷۸) اور گواہ کا قرآنی لفظ شہید ہے جس میں حاضر ہو کر گواہ ہونے کے معنی بھی ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲۶؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۳۴
سب سے عظیم حیران کن راز
سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ۔
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔
نیز سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۵۲) میں ارشاد ہے: ۔
فَلَمَّاۤ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ۔
ترجمہ: جب عیسیٰؑ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں، تو اس نے کہا: “کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے؟” حواریوں نے جواب دیا: “ہم اللہ کے مددگار ہیں۔”
اللہ تعالیٰ کا سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں یہ فرمانا کہ اے مومنینِ بایقین اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا، کیا یہ سب سے بڑا حیرت انگیز راز نہیں ہے؟ کیونکہ اللہ قادرِ مطلق ہے وہ کسی مخلوق کی مدد کے لئے ہرگز محتاج نہیں، ہاں یہ حقیقت ہے، مگر وہ اس بات پر بھی
۱۳۵
قادر ہے کہ حقیقی مومنین کے ہاتھوں سے عظیم کارنامے انجام دلائے، کیا زمین پر اہلِ ایمان اللہ کے لشکر نہیں ہیں؟
اللہ کے لئے حقیقی مومن کی بہترین مدد یہ ہے کہ جہادِ اکبر کے ذریعے سے عالمِ شخصی کو فتح کر لے تاکہ وہ اللہ کی مدد کا معجزہ دیکھ سکے گا، کیونکہ اللہ کی مدد کے عظیم معجزات عالمِ شخصی ہی میں ہوتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بموقعۂ عید الفطر جمعرات ۲۸؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۳۶
مائدۂ عیسٰیؑ = مجموعۂ معجزاتِ عالمِ شخصی
سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۴) میں ارشاد ہے:
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَىٕنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ۔
ترجمہ: (حواریوں کے سلسلہ میں) یہ واقعہ بھی یاد رہے کہ جب حواریوں نے کہا “اے عیسٰیؑ ابنِ مریم! کیا آپ کا ربّ ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے؟” تو عیسٰیؑ نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ انہوں نے کہا “ہم بس یہ چاہتے ہیں کہ اس خوان سے کھانا کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوں اور ہمیں معلوم ہوجائے کہ آپ نے جو کچھ ہم سے کہا ہے وہ سچ ہے اور ہم اس پر گواہ ہوں۔” اس پر عیسٰیؑ ابنِ مریم نے دعا کی “خدایا! ہمارے ربّ! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے عید قرار پائے اور تیری طرف سے ایک (عظیم) معجزہ ہو، ہم کو
۱۳۷
رزق دے اور تو بہترین رازق ہے۔”
تاویلی وضاحت: مائدۂ عیسٰیؑ سے عالمِ شخصی کے تمام معجزات مراد ہیں، جن میں سر تا سر باطنی نعمتیں ہیں، حضرتِ عیسٰیؑ کے حواری حدودِ دین تھے، مائدۂ عیسیٰؑ اسمِ اعظم کے ذکر کے ذریعے سے نازل ہوتا ہے، وہ بالکل روحانی نعمتوں سے پُر ہوتا ہے، وہ دراصل مجموعۂ معجزاتِ عالمِ شخصی ہے اس میں علم و حکمت اور معرفت کی بے شمار نعتیں ہیں اور اس میں انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے معجزات ہیں اور یقیناً اس میں قرآن کی تاویلات ہیں، مائدۂ عیسٰیؑ کی جتنی تعریف کریں کم ہے مگر ان تمام نعمتوں کی شکرگزاری اور قدردانی مشکل ہے۔
لوگ صرف اتنا سمجھتے ہیں کہ یہ معجزہ صرف حضرتِ عیسٰیؑ ہی کا معجزہ تھا، اگر سچ مچ ایسا ہے تو ہر پیغمبر کا معجزہ اس کے ساتھ چلا گیا اور اب اللہ کے سچے دین میں کیا باقی رہا ، مگر صاحبانِ عقل کے نزدیک ایسا نہیں ہے، خدا کی قسم! عالمِ شخصی میں داخل ہو کر دیکھوامامِ مبینؑ میں تمام انبیاءؑ کے معجزات محفوظ ہیں، خدا کی قسم! ہر معجزہ تازہ بتازہ محفوظ و موجود ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
روزِ جمعہ ۲۹؍ دسمبر ۲۰۰۰ء
۱۳۸
امثال القرآن
قرآنِ حکیم میں بکثرت مثالیں وارد ہوئی ہیں، قرآنِ عظیم کے اس طریقِ کار میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں، لوگ باطنی اور روحانی ممثولات (حقائق و معارف) کو مثالوں کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں، لہٰذا یہ امر ضروری تھا کہ طرح طرح کی مثالیں بیان کی جائیں، پس ان مثالوں سے اہلِ بصیرت نے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا، کیونکہ ایک ہی حقیقت کی کئی کئی مثالیں آئی ہیں، جیسے قرآنِ حکیم (۱۷: ۸۹) نیز (۱۸: ۵۴) میں یہ اشارہ موجود ہے: ۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۔
ترجمہ: اور ہم نے تو( لوگوں کے سمجھانے) کے واسطے اس قرآن میں ہر قسم کی مثالیں ادل بد ل کے بیان کر دیں۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۔
ترجمہ: اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے) کے واسطے ہر طرح کی مثالیں پھیر بدل کر بیان کر دی ہیں۔
مثال تنزیلِ ظاہر ہے اور ممثول تاویلِ باطن ہے، جیسے حبل اللّٰہ = اللہ کی رسی جو آسمان اور زمین کے درمیان تانی ہوئی ہے، تنزیل اور مثالِ ظاہر ہے، اور اس کا ممثول نورِ امامت ہے جو خدا سے امامِ زمانؑ تک قائم ہے، جو لوگوں کے درمیان
۱۳۹
ہے، دوسری مثال میں یہی آسمانی سیڑھی بھی ہے، تیسری مثال میں یہی صراطِ مستقیم اور سبیل اللہ بھی ہے، مگر ان تمام مثالوں میں ایک ہی تاویل ہے، اور وہ نورِ امامت ہے، پس معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم میں طرح طرح سے مثالیں بیان کی گئی ہیں تاکہ لوگ حقیقت کو سمجھ سکیں۔
ن۔ن۔(حبِّ علی) ہونزائی
سالِ نو، پیر یکم جنوری ۲۰۰۱ء
۱۴۰
بہشت عطائے الٰہی ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا
بہشت عطائے الٰہی ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا = عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ (۱۱: ۱۰۸)، اگر بہشت کا ظاہری جسم کائنات ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا تجدّد کرسکتا ہے، اور یہی اشارہ ہے کئی آیات میں۔
وَاَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّةِ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَؕ-عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔
ترجمہ: رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنّت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں، الا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے، ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہوگا۔
بہشت کے پھل لا مقطوعہ اور لاممنوعہ ہیں (۵۶: ۳۳)، آخرت ہمیشہ کے قرار کی جگہ ہے (۴۰: ۳۹)، اللہ دارالسّلام کی طرف دعوت دے رہا ہے (۱۰: ۲۵) ، ان کے ربّ کے پاس ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے (۰۶: ۱۲۷)، بہشت میں جو اللہ کی طرف سے رزق ہے وہ کبھی ختم ہونے والا نہیں (۳۸: ۵۴)۔
جنّت اور اس میں اہلِ جنّت کے ہمیشہ ہونے سے متعلق دلائل بہت زیادہ ہیں، مگر ہم نے چند قرآنی دلیلوں پر اکتفاء کیا۔ الحمد لِلّٰہ!
نوٹ: مذکورہ تمام قرآنی حوالہ جات کو آپ قرآن کی مدد سے پڑھیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲؍ جنوری۲۰۰۱ ء
۱۴۱
مختلف سوالات
قسط: ۱
سوال: ۱۔ نفسِ واحدہ کی کیا تعریف ہے؟
سوال: ۲۔ آدمِ ثانی کس پیغمبر کا نام ہے؟
سوال: ۳۔ ابعادِ ثلاثہ کیا اصطلاح ہے؟
سوال: ۴۔ نفس کے تین نام ترتیب سے بتاؤ۔
سوال: ۵۔ ہرعام انسان میں تین روحیں ہوتی ہیں ان کے نام بتاؤ۔
سوال: ۶۔ انسانِ کامل میں جو چوتھی روح ہے اس کا کیا نام ہے؟
سوال: ۷۔ خیال = قوّتِ خیال، نیز عالمِ خیال؛ خیال = بیت الخیال، نیز خیال = جبرائیل، آیا ان معنوں میں ربط و رشتہ ہے یا یہ اتفاق کی بات ہے؟
سوال: ۸۔ کیا لوہے کی بھی روح ہوتی ہے؟
سوال: ۹۔ جملۂ کائنات کس چیز سے بنائی گئی ہے؟
سوال: ۱۰۔ آیا اس کائنات کا کوئی پھل ہے؟
سوال: ۱۱۔ کیا روح الارواح کا مطلب جانوں کی جان ہے؟
سوال: ۱۲۔ حکمتِ قرآن کہتی ہے کہ ہر امامِ حقؑ امام النّاس بھی ہے اور امام المتقین بھی، بتائیے کہ یہ حقیقت کس طرح سے ہے؟
سوال: ۱۳۔ کیا آپ کچھ بتا سکتے ہیں کہ سورۂ یٰسین کا نام قلب القرآن کیوں ہے؟
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۳؍ جنوری۲۰۰۱ ء
۱۴۲
مختلف سوالات
قسط: ۲
سوال: ۱۔ چہارارکانِ تصوّف کیا ہیں؟
سوال: ۲۔ چار آسمانی کتابوں کے نام بتاؤ۔
سوال: ۳۔ حضرت ابراہیمؑ کی آسمانی کتاب کا کیا نام تھا؟
سوال: ۴۔ کنزِ مخفی کا ذکر کس حدیث میں ہے؟
سوال: ۵۔ عالمِ شخصی کا کوہِ طور کہاں ہے؟
سوال: ۶۔ حظیرۂ قدس کے لفظی معنی کیا ہیں؟
سوال: ۷۔ اللہ تعالیٰ روحانی قیامت میں عالمِ اکبر کو کہاں لپیٹتا ہے؟
سوال: ۸۔ مقامِ معراج کہاں ہے؟
سوال: ۹۔ شعوری قیامت اور غیر شعوری قیامت میں کیا فرق ہے؟
سوال: ۱۰۔ عارف کی قیامت شعوری ہوتی ہے یا غیر شعوری؟
سوال: ۱۱۔ کیا خدا اپنے عارف کی آنکھ ہو جاتا ہے؟ کان بھی؟ ہاتھ اور پاؤں بھی؟
سوال: ۱۲۔ کیا عارف کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لے سکتا ہے؟
سوال: ۱۳۔ آیا عارف پر کتابِ مکنون کے اسرارِ عظیم بتدریج مکشوف ہوسکتے ہیں؟
سوال: ۱۴۔ کیا آپ نے حدیثِ قدسیٔ نوافل کو بار بار غور سے پڑھ لیا ہے؟
۱۴۳
نوٹ: آپ ہمیشہ دعا کریں کہ اللہ اپنی رحمتِ بے پایان سے آپ کو کنزِ معرفت عطا فرمائے، آمین! یا ربّ العزّت! اپنے تمام عاشقوں کو معرفت کی دولتِ لازوال سے مالامال فرما! آمین! یا ربّ العٰلمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۳؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۴۴
مختلف سوالات
قسط: ۳
سوال: ۱۔ کیا یہ بات درست ہے کہ آدمؑ و عیسٰیؑ اللہ کے قانونِ فطرت کے مطابق ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے (۳۰: ۳۰) نیز (۷۶: ۰۲)؟
جواب: جی ہاں، یقیناً۔
سوال: ۲۔ قرآنِ حکیم میں حضرتِ آدمؑ کا نام کل کتنی دفعہ آیا ہے؟
جواب: ۲۵ دفعہ ۔
سوال: ۳۔ کیا اس آدمؑ کے زمانے میں سیّارۂ زمین پر لوگ بستے تھے؟
جواب: جی ہاں، آیۂ اِنَّ اللّٰہَ اصطَفٰی (۰۳: ۳۳) کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو اہلِ زمانہ سے منتخب فرمایا تھا، اگر لوگ نہ ہوتے تو آدمؑ کےلئے انتخاب کا لفظ نہ آتا، اور نہ ہی آدمؑ میں الٰہی روح پھونکنے کے لئے روحانی قیامت برپا ہوتی، اور نہ آدمؑ نفسِ واحدہ کہلاتا، جبکہ نفسِ واحدہ ایسے انسانِ کامل کا نام ہے جس پر روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، لہٰذا اس کے عالمِ شخصی میں تمام نفوسِ خلائق جمع ہوجاتے ہیں، اور ایک آیۂ شریفہ کی حکمت (۰۷: ۱۷۲) سے یہ راز بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ آدمؑ اگلے آدمؑ کے اعتبار سے ابنِ آدم تھا پھر بفضلِ خدا اپنے دور کا آدمؑ ہو گیا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۴؍ جنوری۲۰۰۱ ء
۱۴۵
مختلف سوالات
قسط: ۴
سوال: ۱۔ آپ عالمِ ذرّ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
سوال: ۲۔ اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور فرمایا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا (۰۳: ۶۹) اس کی تاویل سمجھاؤ۔
جواب: اوّل: اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو درجۂ مستجیبی سے درجہ بدرجہ روحانی ترقی دی، تاآنکہ وہ حظیرۂ قدس میں پہنچ گیا، تب خدا نے اسے کُنۡ (ہوجا) فرمایا تو وہ حقیقی معنوں میں موجود ہوگیا، اس کو حکمائے دین موجود بحق کہتے ہیں، یہی مثال عیسیٰؑ کی بھی ہے کہ شروع میں وہ صرف مستجیب تھا، پھر درجہ بدرجہ حظیرۂ قدس میں پہنچ گیا، جو عالمِ امر ہے، تب خدا نے اسے کُنۡ (ہوجا) فرمایا، اور وہ بحقیقت موجود ہوگیا۔
دوم: حضرتِ عیسٰیؑ اور حضرتِ آدمؑ کی اس مماثلت میں ایک اور بڑی حکمت بھی ہے ، وہ یہ ہے کہ جس طرح عیسٰیؑ کے ماں باپ تھے (بحوالۂ بائبل) اسی طرح آدمؑ کے بھی والدین تھے، آدمؑ کا خاص نام تخوم بن بجلاح بن قوامہ بن ورقۃ الرویادی تھا، (بحوالۂ سرائر، س ۳۱، قصۂ آدمؑ)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۴؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۴۶
مختلف سوالات
قسط: ۵
سوال: ۱۔ اسمِ اعظم ذکرِ لسانی ہے یا ذکرِ قلبی؟
سوال: ۲۔ کیا حق تعالیٰ کا اسمِ اکبر زندہ اور نورِ مجسم ہوتا ہے؟
سوال: ۳۔ کیا آپ نے قرآنِ حکیم میں (۰۷: ۱۸۰) کو خوب غور سے پڑھا ہے؟
سوال: ۴۔ ہر شخص کے دل کے کان کے پاس دو ساتھی ہیں، ان کے نام؟ اور کام؟
سوال: ۵۔ اگر اکثر برے خواب آتے ہیں تو اس کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟
سوال: ۶۔ خوفِ خدا اور گریہ و زاری سے کیا کیا فائدے ہو سکتے ہیں؟
سوال: ۷۔ کیا نفسِ امّارہ کی غلامی شیطان کی عبادت ہے؟
سوال: ۸۔ کیا شیطان ہر وقت یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ مومن ذکرِ خدا کو ذرا بھول جائے تا کہ وہ اس پر حملہ کرکے کوئی نافرمانی کا کام کرا سکے؟
جواب: مومنین و مومنات کی دانائی یہ ہے کہ وہ ہر دم خدا کے ذکر سے وابستہ رہیں تاکہ شیطان مایوس ہوجائے۔
سوال: ۹۔ وہ بنی آدم کونسے ہیں جو شیطان کی عبادت (۳۶: ۶۰) کرتے ہیں؟
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۵ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۴۷
مختلف سوالات
قسط: ۶
سوال: ۱۔ قیامت کے روز خدا کی میزانِ عدل میں کونسی چیز وزنی ہوگی؟
جواب: علم و حکمت اور معرفت، کیونکہ خیرِ کثیر حکمت میں ہے۔
سوال: ۲۔ خدا اَسْرَعُ الْحَاسِبِیْن ہے (۰۶: ۶۲) یعنی وہ حساب لینے میں بہت تیز ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا نظامِ عدل خود کار طریق پر کام کرتا ہے، اور خدا کی میزانِ عدل کی یہ تعریف ہے ، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب: جی ہاں۔
سوال: ۳۔ اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْكَ قَوْلًا ثَقِیْلًا = ہم تم پر ایک بھاری قول ڈالنے والے ہیں (۷۳: ۰۵) یہ بھاری قول کیا ہے؟
جواب: کلمۂ تامّۂ امرِ کل جس میں علم و حکمت اور معرفت کی ہر چیز موجود ہے۔
سوال: ۴۔ حدیثِ ثقلین کے مطابق قرآن اور امامؑ آنحضرتؐ کی طرف سے امت کے لئے دو بھاری چیزیں ہیں، سوال ہے کہ ان کے بھاری ہونے کی کیا تعریف ہوسکتی ہے؟
جواب: اس کا جواب پہلے ہی سے قرآنِ حکیم (۰۵: ۱۵) میں موجود ہے، یہ نور اور کتاب ہیں، ان میں علم و حکمت، رشد و ہدایت اور معرفت کا جو وزن ہے
۱۴۸
وہ بے مثال اور لاجواب ہے اور انہی اوصاف میں خود بخود عقل و دانش کا ذکر بھی ہے، اور صاحبانِ عقل کے لئے یہ بیان کافی ہے۔ اَلحَمدُ لِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحسانِہٖ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۶ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۴۹
جوہرِ سورۂ حدید
مندرجہ ذیل آیۂ شریفہ (۵۷: ۲۸) کو زمانۂ نبوّت کے تناظر میں پڑھیں:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو (حقیقی معنوں میں) اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول محمدؐ پر ایمان لاؤ (جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے، تاکہ) خدا تمہیں اپنی رحمت کا ظاہری اور باطنی حصّہ عطا فرمائے اور تمہارے لئے ایک نور مقرر کرے (یعنی نورِ امامت کی معرفت عطا کرے) جس کی روشنی میں تم چل سکو گے (قرآن، اسلام اور عالمِ شخصی میں) اور تمہارے قصور معاف کرے گا اور اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔
نوٹ: اس آیۂ مبارکہ میں اہلِ حقیقت کے لئے بہت سی برکتیں ہیں، اور یہ وہ آیۂ پاک ہے جس کا تمام آیاتِ نور کے ساتھ ایک پُرحکمت ربط ہے، عزیزوں سے ہماری گزارش ہے کہ آپ اس آیۂ پُرحکمت کو جذبۂ جان و دل سے پڑھیں، ربّ العزّت آپ کو اس سے بہت سی علمی برکتیں عطا فرمائے، آمین! یاربّ العالمین!!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۶؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۵۰
ایام اللہ = خدا کے سات دن (۱۴: ۰۵)
ہفتۂ ظاہر کی طرح عالمِ دین میں بھی سات دن ہیں: آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسٰیؑ، عیسیٰؑ، محمدؐ، قائمؑ، یہ ایام اللہ ہیں اور اللہ کے یہی سات دن اپنے تمام زندہ معجزات کے ساتھ عالمِ شخصی میں بھی ہیں، سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۵) کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ خدا نے حضرتِ موسیٰؑ کو یہ حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آؤ، اور ان کو عالمِ شخصی میں ایام اللہ کے معجزات سے آگاہ کرو، اس آیۂ کریمہ میں صَبَّارٍ ہر اس مومن کی صفت ہے جو روحانی قیامت کی سختی برداشت کرتا ہے، اور شکور کے معنی ہیں عالمِ شخصی کی نعمتوں پر اللہ کا شکر کرنے والا، روحانی حج کے اعتبار سے اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ (۲۲: ۲۸) بھی ایام اللہ ہیں۔
سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) میں ارشاد ہے:
وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ۔
اس آیت کی تاویل کا تعلق عالمِ دین اور عالمِ شخصی سے ہے۔
تاویلی مفہوم: اور خدا وہی ہے جس نے عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں یعنی چھ بڑے اور چھوٹے ادوار میں پیدا کیا اور اس کے عرش کا ظہور بحرِعلم پر ہوگیا تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں علم و عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۵۱
بحرِعلم پرعرش
عالمِ شخصی کے بحرِعلم پر خدا کا تخت بھری ہوئی کشتی بھی ہے، وہ ایک نور = فرشتہ = امامِ آلِ محمدؐ = روح الارواح = نفسِ واحدہ = جانوں کی جان ہے، لہٰذا وہ نفوسِ خلائق کا جوہر = گوہر = یک حقیقت ہے، آپ قرآن و حدیث کو چشمِ معرفت سے پڑھیں ان شاء اللہ اسرار ہی اسرار کا مشاہدہ ہوگا، جبکہ خدا حدیثِ قدسی میں فرماتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کی آنکھ ہوسکتا ہے، لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگ اس عنایتِ ازلی کے لئے سعی کرنا تو درکنار اس پر یقین بھی نہیں رکھتے ۔
دوستانِ عزیز! باور نہ کرنا کفرانِ نعمت ہے، آپ حقیقی عاشقوں کی طرح عاجزی سے بار بار سجودِ شکر گزاری بجا لانا، اور ان عظیم قرآنی حکمتوں کو خوب غور سے پڑھنا اور ان کو ہرگز نہ بھولنا، عالمِ شخصی کے بحرِ علم پر عرشِ الٰہی کا ظہور بھری ہوئی کشتی کا ظہور ہے، جس میں حضرتِ امامؑ خود ہی ہے اور اسی میں تمام ارواح کے ذرّات ہیں۔
بحرِعلم پر عرش (۱۱: ۰۷) بھری ہوئی کشتی (۳۶: ۴۱)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۸ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۵۲
حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائم علینا سلامہٗ
خداوندِ تعالیٰ کے یہ دونوں بزرگ نام اسرارِ قیامت کے دو سب سے بڑے خزانے ہیں، ان میں عرفاء کے لئے علم و حکمت اور معرفت کا ہر زندہ معجزہ موجود ہے، ان تمام مومنین و مومنات کی بہت بڑی سعادت ہے جو ان کی معرفت سے بہرہ ور ہیں اور ان کے دوستدار ہیں۔
خدا کے اسمِ اکبر الحیُ القیّوم سے کس کو انکار ہوسکتا ہے، قرآن کے سات مقامات پر ح م سے یہی دو بزرگ اسم مراد ہیں، آپ حکیم پیر ناصر خسرو (ق۔س) کی شہرۂ آفاق کتاب وجہِ دین میں ان کی معرفت حاصل کریں، اور ہمارے ادارے کی کتابوں میں بھی دیکھیں۔
تمام عزیزوں کے دل میں دینی علم کے لئے جو زبردست خواہش ہے وہ مجھے روحانی طور پر مجبور کر رہی ہے کہ میں ہر بار کچھ نہ کچھ خاص باتوں کو آپ کے لئے لکھا کروں ، اس سلسلے میں بعض اہم اسرار دہرائے بھی جاتے ہیں، ان شاء اللہ اس کوشش میں صاحبِ دورِ قیامت کے برکات ہوں گی، آمین!
آپ سب دعا کریں تاکہ ہمارے ساتھیوں میں علم و حکمت کی فراوانی ہو!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۸ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۵۳
لسانی اور قلبی مناجات
مناجات کے معنی ہیں: حمد، التجاء، عرض، استدعاء، التماس، درخواست، اور ہمارے دستور کے مطابق خدا کے حضور میں گریہ و زاری بھی، یہ زبانی بھی ہوسکتی ہے اور قلبی بھی، انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی، مگر ہر عبادت کے آداب ہوتے ہیں، لہٰذا مناجات کے بھی آداب ہیں۔
سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں چشمِ بصیرت سے دیکھ لیں اور فائدہ حاصل کریں، آیت (۰۳: ۱۹۱) جس میں یادِ الٰہی کی ازبس مفید قسموں کی حکمت بیان ہوئی ہے، حق بات تو یہ ہے کہ یہ آیۂ شریفہ صاحبانِ عقل کی شان میں ہے، پس جو لوگ اس عظیم الشّان حکم پر عمل کریں وہ صاحبانِ عقل میں سے ہیں۔
مذکورہ آیاتِ کریمہ (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) اس طرح سے ہیں:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
ترجمہ: زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان صاحبانِ عقل کے لئے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال
۱۵۴
میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں، (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے، پس اے ربّ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۹؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۵۵
قرآنِ حکیم میں ہر چیز کا بیان ہے
قرآنِ عزیز کے دائمی اور عقلی معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ یہ بھی ہے کہ اس کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) پس اللہ تعالیٰ کی اس بے مثال کتاب (قرآن) میں تمام چیزوں کے بیان کے سلسلے میں صاحبانِ عقل کی خصوصیات کا بیان بھی آیا ہے، اور یہ اہلِ ایمان پر خدا کا ایک خاص انعام ہے، تاکہ ان کو یہ معلوم ہوجائے کہ عقل و دانش کن اقوال و اعمال اور کس قسم کے افکار میں ہے۔
پس اے دوستانِ محترم! قرآنِ حکیم کے ہر مضمون کو اس کی جملہ متعلقہ آیات کے ساتھ پڑھنا، اور علم وحکمت کے مضمون کے ساتھ صاحبانِ عقل کے مضمون کو بھی کماحقہٗ پڑھنا، دیکھو عقلمندوں کے نزدیک ہر حال میں ذکرِ الٰہی کیوں اتنا ضروری ہے؟ البتہ عقل اللہ کے خزانوں سے آتی ہے، مگر یادِ خدا کے وسیلے سے، یہی وسیلہ علم و حکمت کے لئے بھی مقرر ہے۔
ذکرِ الٰہی کی کثیر قسمیں ہیں، ان میں لسانی اور قلبی مناجات بھی شامل ہیں، اور یہ خاص اذکار میں سے ہیں، آپ دل ہی دل میں خدا سے رجوع کریں، آپ طرح طرح سے نیک دعائیں کرتے رہیں، یقین کرنا کہ وہ سن رہا ہے اور قبول کر رہا ہے۔
ہر شخص میں ایک جنّ = نفسِ امّارہ = شیطان ہے اور ایک فرشتہ = عقلِ انسانی = عقلِ جزوی ہے، پس خدا کی یاد سے جو کثرت سے ہو، فرشتے کو قوّت ملتی
۱۵۶
رہتی ہے، تا آنکہ اس سے اچھے اچھے نتائج نکلنے لگتے ہیں اور شیطان کو بار بار شکست ملتی ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۱۰ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۵۷
وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ
Wisdom of Holy Bridge Building
قسط: ۱
آج بروزِ جمعرات ۱۱؍ جنوری ۲۰۰۱ء کو جو خدا کا زبردست احسان ہوا وہ ایک انقلابی احسان ہے، الحمد للّٰہ، ہمیں بار بار سجودِ شکرگزاری بجا لانا چاہئے، اللہ تعالی کی اس عجیب و غریب قدرت اور حکمت کی تعریف کے لئے انس و جنّ اور ملائکہ کے پاس کہاں الفاظ ہیں کہ اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے مومنین کو حکمت سکھانے کی غرض سے موسٰیؑ اور ہارونؑ کو الگ الگ پیدا کیا، پھر ان کو روحانیّت و نورانیّت کے کئی مقامات پر ایک بھی کر دیا، تاکہ جو مومنین معرفت سے آگاہ ہیں، وہ محمدؐ و علیؑ کو جسمانیّت میں الگ الگ بھی مانیں اور نورانیّت میں ایک بھی مانیں، کیونکہ موسٰیؑ اور ہارونؑ کی شان میں جتنی آیات نازل ہوئی ہیں ان میں یہی حقیقت ہے، اور آپ کو علم ہوچکا ہے کہ بہت سی باتوں میں موسٰیؑ اور ہارونؑ محمدؐ و علیؑ کی مثال تھے، مگر یہ بات ضرور ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
قرآنی انڈیکس ص ۷۳۶ کے مطابق جس طرح قرآن کے ۲۰ مقامات پر حضرتِ ہارونؑ کا ذکر آیا ہے، آپ ان کے ہر مقام پر آئینۂ ہارونی میں علیؑ کا علمی یا عرفانی دیدار کرنے کے لئے سعیٔ بلیغ کریں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی، اس کا اصول یہ ہے کہ موسٰی کو محمد سمجھیں اور ہارونؑ کو علیؑ، تاکہ وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ کا مطلب سمجھ میں آسکے۔
۱۵۸
انڈیکس کے ص ۶۸۰ کے مطابق قرآن کے ۱۳۶ مقامات پر حضرتِ موسٰیؑ کا ذکر ہے، مگر یہ حقیقت خوب یاد رہے کہ موسٰیؑ کے نور میں ہمیشہ ہارونؑ کا نور بھی تھا، اور واللہ ہارونؑ کے نور میں علیؑ کا نور بھی تھا۔
عاشقوں کے لئے وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ کے قانون کو سمجھنے کے عظیم فائدے یہی ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۱۱ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۵۹
وزڈم آف ہولی بر ج بلڈنگ
Wisdom of Holy Bridge Building
قسط: ۲
سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۲۹ تا ۳۶) میں ارشاد ہے:
وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ هٰرُوْنَ اَخِی اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ كَیْ نُسَبِّحَكَ كَثِیْرًا وَّ نَذْكُرَكَ كَثِیْرًا اِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى۔
ترجمہ: اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر (بوجھ بٹانے والا) بنا دے، اس کے ذریعہ سے میری پشت مضبوط کر دے، اور میرے کام میں اس کو میرا شریک بنا تاکہ ہم دونوں (مل کر) کثرت سے تیری تسبیح کریں، اور کثرت سے تیری یاد کریں، تو تو ہماری حالت دیکھ ہی رہا ہے، فرمایا اے موسیٰ! تمہاری سب درخواستیں منظور کی گئیں۔
ربّ العزّت نے جن حقیقی مومنین و مومنات کو علم الیقین کی دولت سے نواز کر سرفرازی بخشی ہے، وہی اہلِ سعادت ایسی عجیب و غریب حکمتوں کو سمجھتے ہیں، کہ حدیثِ مماثلتِ ہارونی ہی خود یہی مقدّس حکمتی پل ہے، جس کے ذریعے سے تصوراتی طور پر ہر دانا شخص حضرتِ ہارونؑ کے قصّۂ قرآن میں اسرارِ علیؑ کو سمجھ سکتا ہے، جیسے (۲۰: ۲۹ تا ۳۶) جس سے معلوم ہوا کہ وزیرِ موسٰی ہارونؑ اور وزیرِ محمدؐ علیؑ تھا، لیکن یہاں پر ضروری سوال یہ ہے کہ دونوں مقام پر یہ وزارت ظاہری تھی یا باطنی؟ نورِ معرفت
۱۶۰
کی قسم یہ باطن کا سب سے عظیم راز ہے۔
آپ آئینۂ ہارونی میں اسرارِ علیؑ کو دیکھنے کی ریاضت کریں، کہ ریاضت کے بغیر ترقی نہیں، یعنی آپ سوچنے کی ریاضت کریں، مجھے کہنے دیجئے کہ آپ نے نور کی خصوصیات کے بارے میں نہیں سوچا ہے، جبکہ نور اور انوار کے باب میں سوچنا ازحد ضروری ہے، الغرض انبیاء و اولیاء اگرچہ اجسام کے اعتبار سے الگ الگ ہیں، مگر سب کے لئے ایک ہی نور مقرر ہے اور نورٌعلیٰ نور کی واضح تفسیر یہی ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۱۲ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۶۱
وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ
Wisdom of Holy Bridge Building
قسط: ۳
سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) میں ارشاد ہے:
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﱟ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔
ترجمہ: اے کتاب والو! یقیناً تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے وہ اس میں سے بہت کچھ کھول کر بیان کرتا ہے جسے تم کتاب میں چھپاتے تھے اور اکثر سے درگزر کرتا ہے یقیناً تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور کتابِ مبین آگئی ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے ان لوگوں کو جو اس کی رضامندی کی پیروی کرتے ہیں سلامتی کی راہوں پر چلاتا رہتا ہے اور ان کو اپنے حکم سے تاریکیوں سے نور کی طرف لے آتا ہے اور ان کو راہِ راست پر چلا تا ہے۔
پوشیدہ نہ ہو کہ قرآنِ حکیم (۰۵: ۱۶) میں ہولی برجز کے لئے لفظِ سبل السّلام آیا ہے یعنی سلامتی کے راستے، جو قرآن کے ظاہر و باطن اور عالمِ شخصی میں ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لئے جو نورِ ہدایت مقرر فرمایا ہے وہ سلامتی
۱۶۲
کے راستوں پر مومنین کے چلنے کی غرض سے ہے، اب آپ سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) کو خوب غور و فکر سے پڑھ لیں، یہاں پہلے رسولِ پاکؐ کا ذکر ہے، پھر نور کا تذکرہ ہے جس میں محمدؐ وعلیؑ دونوں کا نور ہے، جیسا کہ قبلاً بتایا گیا ، پھر کتابِ مبین ہے جو قرآن ہے مگر یہ نورِ مذکور کے ساتھ ہے۔
یہاں پر ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا تک جانے کے لئے صرف صراطِ مستقیم ہی کافی ہے، تو پھر سلامتی کے راستوں کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ صوفیائے کرام نے کہا ہے کہ: پہلے روحانی سفر کا نام سیرالی اللہ ہے، دوسرے سفر کا نام سیرفی اللہ ہے، چونکہ خدا کی خدائی لامحدود ہے، لہٰذا اس کی راہیں سبل السّلام کہلاتی ہیں، ان راہوں میں بےشمار عظیم اسرار آتے ہیں، پس صراطِ مستقیم پر خدا تک چلنا آسان ہے، مگر خدا میں چلنا بیحد مشکل بلکہ بعض کے لئے غیر ممکن ہے، مگر خدا ان مومنین کی مدد کرتا ہے، جو اس کی مدد کرتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۱۳ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۶۳
وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ
Wisdom of Holy Bridge Building
قسط: ۴
سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں ارشاد ہے:
اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِ تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۔
ترجمہ: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاک کلمے کی مثال کیسی دی ہے کہ وہ ایک پاک درخت کی مانند ہے اس کی جڑ محکم ہے اور اس کی شاخ آسمان میں (پہنچی) ہے، وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے، اور اللہ تعالی لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ (۱۴: ۲۴) کے آغاز کا یہ خطاب: “کیا تو نے نہیں دیکھا؟” آنحضرتؐ کے بعد اولیاءؑ اور عرفاء سے بھی ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسمِ اعظمِ شخصی اور اسمِ اعظمِ لفظی کی مثال دی ہے۔
پاک درخت جس کی جڑ زمینِ دین میں مضبوط ہے رسولِ کریمؐ ہے، اور اس کی شاخ جو آسمان میں پہنچی ہے وہ امامِ آلِ محمدؐ ہے، جو اسمِ اعظمِ شخصی ہےاور پاک کلمہ اسمِ اعظمِ لفظی ہے جو امامِ زمانؑ کی مدد سے حظیرۂ قدس تک پہنچ جاتا ہے،
۱۶۴
اور یہاں یہ دونوں اسمِ اعظم ایک ہوجاتے ہیں، اور اس سے پہلے بھی ان کے بہت سے معجزات کا ظہور ہوتا ہے، پس یقیناً اس پاک درخت کا پھل ہر وقت حظیرۂ قدس میں ملتا رہتا ہے۔
نوٹ: مردگانِ زندہ نما (۱۶: ۲۱) اَمْواتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ
جانورانِ انسان نما (۰۷: ۱۷۹؛ ۲۵: ۴۴) کالأنعام۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۴ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۶۵
وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ
Wisdom of Holy Bridge Building
قسط: ۵
سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں ارشاد ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۪- فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا۫- ثُمَّ اَحْیَاهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ۔
ترجمہ: (اے رسول) کیا تو نے ان کو نہیں دیکھا جو بہ سبب روحانی قیامت موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے تھے اور وہ بےشمار تھے پس ان کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مرجاؤ (اور وہ مر گئے) پھر انہیں زندہ کیا بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر مہربانی کرنے والا ہے و لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔
سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں جو ارشادِ مبارک ہے اس میں روحانی قیامت کا ایک بہت ہی عظیم راز پوشیدہ ہے، وہ اس طرح سے ہے کہ قیامِ قیامت کا تعلق صرف ارواح سے ہے مگر اجسام سے نہیں، لہٰذا جب بھی روحانی قیامت آتی ہے لوگ اس سے بےخبر ہوتے ہیں، مگر وہ مومنِ سالک جس پر یہ قیامت گزرتی ہے، ہاں تمام لوگوں کی نمائندہ روحیں قیامت گاہ = عارف کے عالمِ شخصی میں جمع ہو جاتی ہیں اور وہاں وہ سب بحکمِ خدا مرکر دوبارہ زندہ ہوجاتی ہیں، مذکورہ آیت کی تاویلی حکمت یہی ہے۔
۱۶۶
چونکہ قیامت کا ذریعہ اور وسیلہ امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے (۱۷: ۷۱) وہ اپنے ذیلی حدودِ دین میں سے جس کو چاہے اس آفاقی اور عالمگیر خدمت کو دے کر نوازتا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف امام المتّقین ہی ہے بلکہ امامُ النّاس بھی ہے، تاکہ امامِ آلِ محمدؐ تمام مخلوقات جو عیال اللہ ہیں، ان کو قیامت کی ہر ہر سختی سے بآسانی نکال کر بہشت میں داخل کر دے، اس وجہ سے آیت میں یہ ارشاد بھی ہے:۔
اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ ۔
بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر مہربانی کرنے والا ہے ولیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۲۵ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۶۷
وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ
Wisdom of Holy Bridge Building
قسط: ۶
ایک خاص ترین قرآنی دعا جو قرآنِ حکیم کے چار مقام پر ہے:
مقامِ اوّل (۰۷: ۱۵۱) یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔
مقامِ دوم (۱۲: ۶۴) یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔
مقامِ سوم (۱۲: ۹۲) یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔
مقامِ چہارم (۲۱: ۸۳) یَااَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔
آپ کو معلوم ہے کہ ہر مستند و مقبول دعا کے آخر میں بھی لازمی طور پر اللہ تعالیٰ سے بصد عاجزی یہ درخواست کی جاتی ہے: ۔
بِرَحْمَتِکَ یَا اَرْحَمَ الرّٰحِمِینَ۔
آپ مذکورۂ بالا حوالہ جات کی مدد سے قرآنِ عزیز میں بھی دیکھیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ دعا کن حضرات کی دعاؤں میں سے ہے، الحمد لِلّٰہ!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۲۶ ؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۶۸
وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ
Wisdom of Holy Bridge Building
قسط: ۷
سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۸) میں یہ پُرحکمت اور بابرکت دعا پڑھیں اور اسے حفظ کر کے ہمیشہ پڑھتے رہیں:۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ ۔
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! بعد اس کے کہ ہم تجھ سے ہدایت یافتہ ہوچکے ہیں، تو ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا فرما، بیشک تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔
یہ پاک دعا ان دانشمند مومنین و مومنات کے لئے خاص ہے جن کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہوئی ہے، اور وہ اسی راہِ راست پر ہمیشہ گامزن ہوتے ہوئے فنا فی اللہ ہو جانے کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۲۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۶۹
وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ
Wisdom of Holy Bridge Building
قسط: ۸
سورۂ توبہ (۰۹: ۳۲ تا ۳۳) میں ارشاد ہے:
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ۔
ترجمہ: وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھائیں اور اللہ تعالیٰ کو سوائے اس کے کچھ منظور نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کرے اگرچہ کافر اسے ناپسند کریں (اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے اگرچہ مشرک اسے ناپسند ہی کریں۔
سورۂ صف (۶۱: ۰۸ تا ۰۹) میں ارشاد ہے:
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِـٴُـوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ یَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ هُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖۙ-وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ۔
ترجمہ: وہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونک)
۱۷۰
سے بجھائیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے اگرچہ وہ کافروں کو ناخوش لگے وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام دینوں پر غالب کردے اگر وہ مشرکوں کو ناخوش لگے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۲۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۷۱
وزڈم آف ہولی برج بلڈنگ
Wisdom of Holy Bridge Building
قسط: ۹
الحمدلِلّٰہ کی حکمت
الحمد = عقلِ کلّ = قلمِ اعلیٰ = نورِ محمدیؐ = فرشتۂ اعظم = عرشِ اعلیٰ۔
الحمد لِلّٰہ کے مختصر معنی ہیں: قلمِ قدرت اللہ کا ہے۔
لوح = نور = فرشتہ = نورِ علیؑ = کرسی۔
عقلِ کلّی آسمانِ اعظم ہے اور نفسِ کلی سب سے وسیع زمین = زمینِ کائنات = زمینِ بہشت، اور کلیۂ امامِ مبینؑ ہے۔
سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔
تجلیاتِ مذکورۂ بالا کا مشاہدۂ باطن اور معرفت حظیرۂ قدس میں ریکارڈ ہے
عالمِ وحدت = حظیرۂ قدس کی بہشت = مجمع البحرین (۱۸: ۶۰)۔
اس میں نورِ محمدیؐ اور نورِعلیؑ ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔
عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔
قلم اور لوح ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔
آسمان اور زمین ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی ۔
عرش اور کرسی ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۳۰؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۷۲
دارالسّلام = سلامتی کا گھر
سورۂ یونس (۱۰: ۲۵ تا ۲۶) کا ارشاد ہے:
وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِؕ-وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-
ترجمہ: اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے، اور جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے، بھلائی والوں کے لئے بھلائی ہے اور اس سے بھی زائد۔
دارالسّلام = سلامتی کا گھر بہشت ہے، نیز دارالسّلام خود خدا ہے کیونکہ السلام اللہ کا ایک صفاتی اسم ہے، کہ بحقیقت وہی بہشت بھی ہے اور سلامتی کا گھر بھی، کیونکہ جو عرفاء فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں وہ بہشت کے سب سے اعلیٰ گھر میں رہتے ہیں کہ جس میں وہ ہمیشہ سلامت، لازوال اور لافانی ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ سب سے بڑی دعوت (خدا کی دعوت) کا نتیجہ ہے، اور آیۂ ماقبل کو بھی دیکھیں جس میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر ہے، اس کے بعد سلامتی کے معنی روشن ہوجاتے ہیں، اب سلامتی کے راستوں کا مطلب سمجھنا آسان ہوگیا، وہ ہے خدا کی لامحدود خدائی کے اسرار کے راستے جن کی معرفت میں دائمی سلامتی اور ہمیشہ کی زندگی ہے، جیسا کہ حدیثِ قدسی اجعلک مثلی میں ارشاد ہے کہ آدمِ زمانؑ کے فرمانبردار فرزند فنا فی اللہ و بقاء باللہ کا مرتبہ حاصل کرسکتے ہیں۔
۱۷۳
گر عشق نبودی سخنِ عشق نبودی
چندین سخنِ نغز کہ گفتی کہ شنودی
ترجمہ: اگر عشق نہ ہوتا اور عشق کی بات نہ ہوتی تو اتنی عمدہ باتیں کون کہتا؟ اور کون سنتا؟
نوٹ: زنِ فرعون آسیہ نے نورِ خدا کے گھر میں رہنے کی درخواست کی تھی، بحوالۂ سورۂ تحریم (۶۶: ۱۱)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۵؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۷۴
ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست
ہم بہشت سے بحقیقت آئے ہی نہیں ہیں، یہ ہمارا ظاہری وجود اصل حقیقت کا سایہ ہے، سورۂ زمر (۳۹: ۷۳ تا ۷۵) کو خوب غور سے پڑھ لیں:
ترجمہ: اور ان لوگوں کو جو اپنے ربّ سے ڈرتے رہے بہشت کی طرف گروہ بنا کر بھیجا جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور ان سے اس کے نگہبان کہیں گے سلامٌ علیکم (یعنی تم اس بہشت میں پہلے ہی سے زندہ اور سلامت موجود ہو) تم پاکیزہ ہوئے پس تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو کر داخل ہوجاؤ(یعنی ایسا کوئی وقت کبھی نہ تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا، جس میں تم بہشت میں موجود نہ ہوں ، اسی کو کہتے ہیں خَالِدِیْنَ فِیْھَا اَبَدًا کیونکہ خدا نے روح کو ہر جا حاضر ہونے کی صلاحیت عطا کردی ہے) اور وہ کہیں گے ہر قسم کی حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہمیں جنت کی زمین کا وارث کردیا ہم جہاں چاہیں رہیں پس (نیک) عمل کرنے والوں کا اجر کتنا اچھا ہے اور تو فرشتوں کو دیکھے گا وہ عرش کے گردا گرد گھیرنے والے ہوںگے وہ اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں گے ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائیگا ہر قسم کی حمد سب جہانوں کے پالنے والے اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۶؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۷۵
عوالمِ شخصی میں انبیاء و اولیاء کا نورِ واحد
سورۂ صٰفٰت (۳۷: ۷۹) میں ارشاد ہے:
سَلٰمٌ عَلٰی نُوْحٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ۔
تمام عوالمِ شخصی میں نوح پر سلامتی ہے، یعنی ہر عالمِ شخصی نزدیک لائی ہوئی بہشت ہے، جس میں حضرتِ نوحؑ اور اس کے تمام واقعات زندہ اور سلامت ہیں اور خدا نیکوں کو ایسا اجر و صلہ دیتا ہے۔
سَلٰمٌ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ (۳۷: ۱۰۹)۔
حضرتِ ابراہیمؑ بھی ہر کامیاب عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہے، اور اس کے تمام کارنامے بھی محفوظ ہیں۔
سَلٰمٌ عَلٰی مُوْسٰی و ھَارُوْنَ (۳۷: ۱۲۰)۔
موسٰی اور ہارونؑ بھی اپنے تمام معجزات کے ساتھ عالمِ شخصی کی بہشت میں زندہ اور سلامت ہیں۔
سَلٰمٌ عَلٰی اِلْیَاسِیْنَ (۳۷: ۱۳۰)۔
اس کی ایک قرأت سَلاَمٌ عَلٰی آلِ یَاسِینَ بھی ہے، یعنی آلِ محمدؐ، یقیناً أئمّۂ آلِ محمدؐ عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہیں۔
سَلٰمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ (۳۷: ۱۸۱)۔
۱۷۶
خدا نے اپنے تمام پیغمبروں کو بمع جملہ معجزات عالمِ شخصی میں رکھا ہے، تاکہ معرفت کے خزانوں میں کوئی کمی نہ ہو، یاد رہے کہ عالمِ شخصی میں تمام انوار کا ایک ہی نورِ واحد اور جملہ معجزات کا مجموعاً ایک ہی عظیم معجزہ ہے، اسی سے طرح طرح کے معجزات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۱۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۷۷
ایک فرشتۂ ارضی کا حیرت انگیز نورانی خواب
پُرنور خواب میں امامِ زمانؑ کا غیر معمولی دیدارِ مبارک اور وہ بھی پاک جماعت خانہ میں، پھر علمِ لدّنی کا اشارہ ، پھر شمشیرِ عشقِ سماوی کا مشاہدہ، جسے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا، پھر اسی شمشیرِ مبارک سے اس کی قربانی بھی اور شہادت بھی، اس فرشتۂ ارضی کے مبارک بدن سے خون کی جگہ نورِ اخضر کی شعاعیں نکلنا۔
اس لاثانی نورانی خواب کی تاویل یہ ہےکہ ان کو قربانی اور شہادت کا درجہ عطا ہوا، تلوار کو لہرانا وغیرہ فتح مندی کی علامت ہے، نام صیغۂ راز میں ہے۔
نوٹ: میں معمولی خوابوں کی تاویل نہیں کرتا ہوں، اس میں وقت ضائع ہوجاتا ہے، جبکہ وقت عمر کا حصہ ہے، اگر کسی عزیز کا نورانی خواب ہے تو وہ معجزہ ہے تو اسے کون نظرانداز کرسکتا ہے، یہ خواب جو یہاں درج ہوا بڑا عجیب و غریب ہے حالانکہ ہم نے اس کا صرف ایک حصہ درج کیا ہے، ہم نے اس عزیز کو فرشتۂ ارضی کہہ کر اسکے سارے ایمانی کمالات کو ایک ہی لفظ میں بجا طور پر جمع کیا ہے۔
جو لوگ پاک مولا کے عاشق ہیں ان کے لئے معجزے ہوتے رہتے ہیں، ہمارے عزیزوں نے طرح طرح سے کسبِ کمالات کئے ہیں، میں نے نظم و نثر میں بجا طور پر اپنےتمام عزیزوں کی تعریف کی ہے، الحمد لِلّٰہ، کہ یہ میرا ایک مقدس فریضہ ہے، اگر خدا کا حکم ہوا تو بہشت میں ان تمام کی بہت تعریف کرونگا اور وہاں کونسی نعمت غیر ممکن ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۱۷؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۷۸
قرآن میں امام المتقین کے لئے ایک خاص دعا
دعائم الاسلام حصّۂ اوّل اردو ص ۵۰ پر درج ہے:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے: آپ نے ایک شخص کو جو بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا یہ کہتے ہوئے سنا کہ:
وَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا (۲۵: ۷۳)
ترجمہ: اے پروردگار! تو مجھے ان لوگوں میں سے بنا کہ جس وقت ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو اندھے بہرے بن کر نہیں گرتے۔
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا (۲۵: ۷۴)۔
ترجمہ: اے میرے پروردگار! تو مجھے ان لوگوں میں سے بنا جو یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تو ہماری بیبیوں اور ہماری ذریت سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا دے۔
آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ اے شخص! تو نے اپنے پروردگار سے اپنی حیثیت سے بڑھ کر سوال کیا ہے، تو نے خداوندِ تعالیٰ سے یہ سوال کیا ہے کہ وہ تجھے پرہیزگاروں کا مفترض الطاعۃ امام (وہ امام جس کی طاعت خدا کی طرف
۱۷۹
سے فرض ہے) بنا دے۔
اس وقت آپ کے اصحاب میں سے کسی نے کہا کہ اے صادقِ آلِ محمدؐ! میں آپ پر قربان جاؤں، پہلی آیت (۲۵: ۷۳) میں کن لوگوں کی طرف اشارہ ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ وہ تمہارے متعلق ہے، پھر انہوں نے پوچھا کہ دوسری آیت (۲۵: ۷۴) میں کن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؟ امام جعفرالصادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ دوسری آیت ہمارے لئے اتری ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۱۸؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۸۰
اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کا اصل راز
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ہر شخص کی اولاد اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے، لیکن اس کا اصل راز کسی کو بھی معلوم نہیں، ویسے تو حیوان بھی اپنے بچوں کو بہت چاہتے ہیں، یہ تو حیوانی انسیت ہوئی، مگر دانا لوگ جانتے ہیں کہ بنی آدم پر حیوان کا قیاس لگانا ظلم ہے، کیونکہ خدا نے بنی آدم کو اپنی بہت سی مخلوقات پر کرامت وفضیلت بخشی ہے (۱۷: ۷۰)۔
اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی پسندیدہ فطرت (۳۰: ۳۰) پر پیدا ہوتی ہے، یہاں فطرت کے دو معنی ہیں۔
اوّل: اصل اسلام جو دینِ فطرت ہے، اور نو مولود بچے کی طرح پاک و معصوم ہے۔
دوم: پیدا کرنے کا سب سے بہترین طریقہ جس کے مطابق خدا نے انبیاء و اولیاء کو پیدا کیا۔
اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف حضرتِ موسٰی پر اپنی خاص محبت کا پرتو ڈالا تھا (۲۰: ۳۹) بلکہ تمام انبیاء و اولیاء کو بھی یہ نعمت حاصل ہوئی تھی، اور قرآنِ حکیم کے شروع میں یہ اشارہ موجود ہے کہ جو لوگ انبیاءؑ و اولیاءؑ کے راستے پر چلیں گے، ان پر بھی وہی انعامات ہوںگے جو صراطِ مستقیم پر چلنے والوں پر ہوتے رہے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے پیارے بچوں پر اپنی خاص محبت
۱۸۱
کا عکس ڈالتا ہے، تاکہ اس قدرتی کشش کے وسیلے سے والدین اپنے بچوں کو ہرگونہ تعلیم و تربیت کے لئے سعیٔ بلیغ کرتے رہیں، اور یہاں یہ بہت بڑا راز بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ بہشت میں نیکوکار والدین کو ان کے نیک بچوں کی صورت میں بھی دیدار عطا کرے گا (۳۲: ۱۷)، کیونکہ بہشت میں ہر نعمت خواہش کے مطابق ملتی رہتی ہے، اور کوئی نعمت ایسی نہیں جو حاصل نہ ہوسکے، الحمدلِلّٰہ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۱۹؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۸۲
حاملانِ عرش کی دعائے مغفرت
سورۂ مومن (۴۰: ۰۷ تا ۰۹) میں ارشاد ہے:
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۔
ترجمہ: عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے، اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں، وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: “اے ہمارے ربّ! تو نے رحمت اور علم میں ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچالے ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے، اے ہمارے ربّ! اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی ان جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے، اور ان کے آبا ؤ اجداد اور بیویوں اور ذرّیت
۱۸۳
میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچا دے) تو بلاشبہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے، اور بچا دے ان کو برائیوں سے، جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے۔”
حاملانِ عرش سے حضراتِ أئمّہ علیھم السّلام مراد ہیں اور یہ لوگوں سے بہت ہی بڑا امتحان ہے کہ عرش بھی اور حاملانِ عرش بھی امامِ مبین ہی ہے، جو امامِ زمان علیہ السّلام ہے، پس اس آیۂ شریفہ میں امامِ زمانؑ کی عظیم الشّان معرفت ہے اور اسی کی دعائے مغفرت کی تعریف ہے، جو بے مثال اور لاجواب ہے۔
جو فرشتے عرش کے گرداگرد رہتے ہیں، ان سے عظیم ارواح مراد ہیں۔
حمد کے ساتھ ربّ کی تسبیح = عقل کے ذریعے حضرتِ ربّ کو ہر چیز سے پاک و برتر قرار دینا۔
ایمان بدرجۂ حق الیقین ہے، اور یہاں حقیقی مومنین کے لئے دعائے مغفرت ہے۔
توبہ لفظی اور زبانی نہیں بلکہ یہ عملاً رجو ع الی اللّٰہ ہے۔
کائنات = کل شیءٍ بیک وقت بحرِ رحمت اور بحرِ علم دونوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔
اس ارشاد میں سے صرف چند حکمتیں بیان ہوئیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
یک شنبہ ۲۱؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۸۴
خدا نے ہر رسول کو اسکی قوم کی زبان میں بھیجا
سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) میں ارشاد ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔
ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی اپنی قوم کی زبان میں ہی (باتیں کرنے والا) تاکہ ان کے لئے احکام کھول کھول کر بیان کرے، پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے اور وہ زبردست بڑا حکمت والا ہے۔
یقیناً یہ قانونِ تنزیل ہے، مگر ترجمہ، تفسیر اور تاویل کا جواز اس کے علاوہ ہے، تاکہ قرآنی دعوت اور علم وحکمت کا دائرہ عالمگیر ہو، حضرت مولا علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے:
مَن عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ۔
ترجمہ: جس نے اپنے آپ = اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، اس مبارک ارشاد کو پڑھ کر اقرار کر لینا بڑا آسان ہے ، اور اس کے لئے کوئی دیر بھی نہیں لگتی ہے مگر اس پر عمل کرنا دین میں سب سے سخت اور مشکل ترین کام ہے، لیکن اس کے فائدے اس کثرت سے ہیں کہ آپ ان کو شمار ہی نہیں کرسکیں گے۔
۱۸۵
آپ یہ بے حد ضروری بات نوٹ کر لیں کہ جہاں ربّ کی معرفت ہے وہاں قرآن کی معرفت بھی ہے، اور یہی معرفت قرآن کی عملی تاویل ہے، اور قرآن کی یہ تاویل خود شناس مومن کی زبان میں ہوتی ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۲؍ جنوری ۲۰۰۱ء
۱۸۶
حضرتِ ایوب علیہ السّلام کی خاص قرآنی دعا
سورۂ انبیا(۲۱: ۸۳ تا ۸۴) میں ارشاد ہے:
وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ۔
ترجمہ: اور ایوب جس وقت اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، پس ہم نے اس کی فریاد سن لی سو جو تکلیف اس پر تھی ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے بطورِ رحمت اور عبادت کرنے والوں کے لئے بطورِ نصیحت اسے اسکے اہل و عیال اور اتنے ہی ان کے ساتھ عطا کردیئے۔
ہر پیغمبرانہ دعا آسمانی ہدایت کے نور پر مبنی ہوتی ہے اور مزید بران یہ دعا کلامِ الٰہی کا حصّہ بھی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ شان سے قبول فرمایا ہے اور خدا نے یہ اشارہ بھی فرمایا کہ وہ اپنے عبادت گزار بندوں کے لئے بھی اس دعا کو اسی شان سے قبول فرمائے گا۔
اب رہا سوال کہ اللہ نے کس طرح حضرتِ ایوبؑ کے اہل اور ان کی مثل کو واپس دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدائے قادرِ مطلق بہشت میں اپنے دوستوں کو نہ صرف
۱۸۷
ان کے تمام اہل و عیال کو واپس عطا کرتا ہے بلکہ ان سب کو نورانی ابدان (اجسامِ لطیف) میں بھی زندہ کردیتا ہے تاکہ بہشت میں جو نعمتیں آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے ہیں وہ بھی پوری ہو جائیں، کیونکہ جنت الاعمال جسمانی اولاد اور علمی اولاد سے معمور ہے۔
خوب یاد رہے کہ بہشت میں ہر شخص کی اولاد ہوتی ہے اگرچہ دنیا میں کسی شخص کی ظاہراً کوئی اولاد نہ بھی ہو، کیونکہ روح کی منتقلی سے متعلق بڑے بڑے اسرار ہیں، جن کو انبیاء و اولیاء علیھم السّلام کے بعد عارفین بھی جانتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۲؍ فروری ۲۰۰۱ء
۱۸۸
ایک بہت ہی عجیب و غریب پُرحکمت مثال
سورۂ جمعہ (۶۲: ۰۵ تا ۰۷ ) میں ارشاد ہے:
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ قُلْ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ وَلَا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ۔
ترجمہ: جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لادی ہوئی ہوں اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا، ان سے کہو “اے لوگو جو یہودی بن گئے ہو اگر تمہیں یہ گھمنڈ ہے کہ باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تم ہی اللہ کے دوست ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اس زعم میں سچے ہو” لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو یہ کرچکے ہیں اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
جن لوگوں کو توراۃ کا ظاہری حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کی باطنی
۱۸۹
حکمت کا بوجھ نہ اٹھایا، پھر ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لادی ہوئی ہوں اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیات (أئمّہ علیھم السّلام ) کو جھٹلایا ہے ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا ہے۔
یہاں موت کی تمنا سے مراد نفسانی موت کی خواہش اور اس کے لئے ریاضت ہے اور موتوا قبل ان تموتوا پر عمل کرنا ہے تب ہی کسی کو اللہ کی دوستی حاصل ہوسکتی ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۳؍ فروری ۲۰۰۱ء
۱۹۰
موت قبل از موت اور اس کے نتائج
اہلِ طریقت اور اہلِ حقیقت کے نزدیک یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جسمانی موت سے پہلے نفسانی موت معرفت کا واحد دروازہ ہے، جس کے سوا خودشناسی اور خدا شناسی جیسا کہ اس کا حق ہے وہ ناممکن ہے، پھر اہلِ ایمان کے لئے یہ امر بےحد ضروری ہے کہ وہ علم الیقین کی دولت کمانے میں ذرا بھی سستی نہ کریں، کیونکہ علم الیقین تمام مومنین و مومنات کے لئے عطیۂ الٰہی ہے۔
موت قبل از موت کے علمی اور عرفانی ثمرات بے شمار ہیں، اور معلوم ہے کہ یہ سارے فائدے اہلِ ایمان کے لئے ہیں، جو خوش نصیب لوگ معرفت کے دروازے سے داخل ہوجاتے ہیں، وہ کیسے کیسے عجائب و غرائب اور کتنے عظیم معجزات کا مشاہدہ کرتے ہوں گے!
آپ ان کتابوں کو پڑھیں جو علم الیقین سے لبریز ہیں، آپ امامِ آلِ محمدؐ کے عشق میں پگھل جانا سیکھیں، کیونکہ کامیابی کا سب سے بڑا راز امامؑ کا عشق ہی ہے، امامؑ کا پاک عشق رسولؐ کا عشق ہے اور رسولؐ کا عشق اللہ کا عشق ہے، خدا کا زندہ اسمِ اعظم محمدؐ ہےاور علیؑ، یہ بات بھول نہ جانا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۵؍ فروری ۲۰۰۱ء
۱۹۱
نورِ عشق اور نورِ علم
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ۱۹۴۰ء میں اپنے ایک خاص فرمان میں جس نور کے طلوع ہو جانے کی پیش گوئی فرمائی تھی، وہ نورِ عشق اور نورِ علم ہے، جس سے حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کے باصلاحیت مریدوں نے خوب فائدہ اٹھایا، ان میں لشکرِ اسرافیلی کا کردار نمایان ہے، انہوں نے جماعت کے دلوں کو عشقِ مولا کی حرارت سے گرمایا، خوابیدہ روحوں کو جگایا، ہر بار کچھ نہ کچھ آنسوؤں کی روح افزا بارش برستی تھی، اسی طرح جا بجا لشکرِ اسرافیلی پیدا ہوگئے، وہ سب تمام جماعت کو بہت ہی عزیز ہیں، امامِ زمانؑ ان پر بہت مہربان ہے، وہ دونوں جہان میں آبرومند اور سرفراز ہیں، ان کی خدمات بڑی گرانقدر ہیں، نورِ عشق کے ساتھ ساتھ نورِ علم بھی آسکتا ہے، بروشسکی زبان کا یہ خاموش انقلاب بڑا تاریخ ساز واقعہ ہے، بروشسکی زبان پر مولائے پاک کی نظرِ کرم ہے، لہٰذا امید ہے کہ اس سے بہت سی برکتیں پیدا ہوں گی، آمین!
کتابِ حکمتِ تسمیہ ص ۱ پر ۱۰؍ مارچ ۱۹۴۰ء کا فرمانِ مبارک درج ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۶؍ فروری ۲۰۰۱ء
۱۹۲
جانورانِ انسان نما
قسط: ۲
سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) میں ارشاد ہے:
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ۔
ترجمہ: اور یقیناً ہم نے جنوں اور انسانوں میں سے بہتوں کو جہنم کے لئے پھیلا دیا ہے، ان کے دل( موجود) ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں، وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بے راہ، یہی لوگ بے خبر ہیں۔
نیز سورۂ فرقان (۲۵: ۴۴) کو بھی دیکھیں۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا درجہ فرشتہ اور حیوان کے درمیان بنا ہوا ہے، یعنی فرشتہ اس سے اوپر ہے اور حیوان اس سے نیچے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہ صرف عقلِ جزوی اور اختیار عطا فرمایا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کے لئے نورانی ہدایت کا دائمی وسیلہ بھی مہیا کر دیا ہے، تاکہ کوئی فردِ بشر درجۂ انسانیّت کی بلندی سے حیوانیّت کی پستی میں گر نہ جائے، اور فرشتہ بن جانے کے لئے سعئ پیہم کرتا رہے، پھر بھی بہت سے لوگ نفس اور شیطان کے
۱۹۳
فریب میں آکر بجائے فرشتہ ہوجانے کے حیوان بن جاتے ہیں، مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ میں جملہ وجوہ بیان ہوئی ہیں، آپ خوب غور سے پڑھیں، یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ انسان اپنے آپ پر اکثر ظلم کرتا رہتا ہے، جبکہ خدا کسی پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۶؍ فروری ۲۰۰۱ء
۱۹۴
موت قبل از موت اور روحانی قیامت
سورۂ حٰمٓ السجدۃ (۴۱: ۳۰ تا ۳۲) میں ارشاد ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ۔
ترجمہ: عطائے اسمِ اعظم کے بعد جن لوگوں نے حقیقی معنوں میں کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ ذکرِ اعظم پر ثابت قدم رہے تو یقیناً ان کی روحانی قیامت قائم ہوجاتی ہے اور ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو نہ غم کرو خوش ہوجاؤ اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیزجس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اسی ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔
“موت قبل از موت” کہنے کو تو بڑا آسان ہے، لیکن اس پر عمل کرنا اتنہائی مشکل کام ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہادیٔ زمانؑ جس کی رہنمائی اور دست گیری
۱۹۵
فرمائے، اس موت کو عارفانہ موت بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اس موت کا مقصدِ اعلیٰ معرفت ہی ہے، جبکہ بفرمودۂ قرآن دنیا ہی میں چشمِ بصیرت حاصل ہوسکتی ہے (۱۷: ۷۲) اور آخرت میں نہیں، پس ان لوگوں کی بہت بڑی سعادت ہے جو جیتے جی مر کر کنزِ مخفی کو حاصل کر لیتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۷؍ فروری ۲۰۰۱ء
۱۹۶
عالمِ شخصی کی بہشت میں کتابِ مکنون
سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۵ تا۸۰) میں اللہ مواقعِ نجوم کی قسم کھا کر فرماتا ہے کہ یہ قسم بہت بڑی ہے اگر تم اسرارِ باطن کو جانتے ہو، عالمِ وحدت میں سورج، چاند اور نجوم کے لئے ایک ہی مشرق و مغرب ہے جو انتہائی مقدّس ہے اور اگر خدا اسی کی قسم کھاتا ہے تو یہ بہت بڑی قسم ہے، اور اس کے بعد جوابِ قسم ہے وہ بھی بہت ہی بڑا اور بے حد ضروری ہے، پھر فرماتا کہ جہاں کتابِ مکنون میں قرآن ہے وہاں وہ بہت بڑی عزت والا ہے، اشارہ ہے کہ وہاں تمام تاویلی اسرار جمع ہیں، گویا یہ بہت بڑا خزانہ ہے، لیکن اس کوکوئی چھو ہی نہیں سکتا سوائے ان لوگوں کے جو پاک کئے گئے ہیں، حدیثِ نوافل کو ازسرِ نو پڑھیں اور دیکھیں کہ خدا اپنے دوستوں کا ہاتھ ہو جاتا ہے تب اسی پاک ہاتھ سے کتابِ مکنون کو چھو سکتے ہیں۔
مذکورۂ بالا آیات (۵۶: ۷۵ تا ۸۰) میں خداواندِ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
ترجمہ: پس میں ستاروں کے گرنے کی جگہ کی قسم کھاتا ہوں اور اگر تم جانتے ہو تو یقیناً وہ قسم بہت عظمت والی ہے یقیناً وہ عزت والا قرآن ہے جو پوشیدہ
۱۹۷
کتاب میں ہے اسے کوئی نہیں چھوسکتا سوائے (ان کے) جو پاک کردئے گئے ہیں (اس کا ) اتارا جانا (بلاواسطہ) تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۸؍ فروری ۲۰۰۱ء
۱۹۸
دائرۂ درودِ شریف
قسط: ۱
اے برادارن و خواہرانِ روحانی! چشمِ بصیرت کے سامنے یہ حقیقت روشن ہے کہ قرآنِ حکیم میں درود کا مضمون اور اس کی حکمت ایک مکمل دائرے کی طرح واقع ہے، اس کی معرفت کے لئے سب سے پہلے سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں دیکھیں:
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا۔
ترجمہ: اللہ وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی یعنی فرشتۂ قلم، فرشتۂ لوح، اسرافیل، میکائیل، جبرائیل (بتوسطِ محمدؐ و آلِ محمدؐ) تاکہ تم کو جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال کر نورِ علم و حکمت کی طرف لے آئیں، اور خدا مومنین پر بڑا مہربان ہے، یہاں سے معلوم ہوا کہ درود کا مقصد علم و حکمت کا نور ہے۔
اسی سورۂ احزاب (۳۳: ۵۶) میں ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا۔
ترجمہ: یقیناً خدا اور اس کے فرشتے نبیؐ (اور ان کی آلؑ) پر درود بھیجتے ہیں (تاکہ وہ تم کو پہنچائیں) تو اے ایماندارو تم بھی نبیؐ کے توسط سے اسی درود کے لئے درخواست کرو، اور فرمانبرداری کرو جیسا کہ اس کا حق ہے تاکہ تم کو درود کے ذریعے نورِ علم و حکمت حاصل ہو۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۹؍ فروری ۲۰۰۱ء
۱۹۹
دائرۂ درودِ شریف
قسط: ۲
بحوالۂ مضمونِ سابق اللہ وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اسکے فرشتے بھی یعنی فرشتۂ قلم = نورِ محمدی، فرشتۂ لوح = نورِ علیؑ، جد، فتح، خیال (بتوسطِ محمدؐ و آلِ محمدؐ)۔
اور سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۳) میں ارشاد ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔
ترجمہ: (اے رسولؐ) تم ان کے مال کی زکوٰۃ لو اور اسکی بدولت ان کو (گناہوں سے) پاک صاف کرو اور ان کے واسطے صلوٰت = دعائے خیر دو یقیناً تمہاری صلاۃ انکے واسطے باعثِ اطمینان ہے اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔
اس آیۂ کریمہ سے درود کا مطلب اور زیادہ روشن ہوگیا، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ درود شریف ایک خاص نورانی عبادت ہے، آپ کثرت سےدرود شریف کو پڑھتے رہیں اور عالمِ غیب سے فیوض و برکات پر یقین رکھیں۔ درود کی عجیب و غریب خصوصیّت یہ ہے کہ اللہ تعالی خود مومنین پر درود بھیجتا ہے، اس کے فرشتے بھی، رسولِ پاکؐ بھی، اور امامِ زمانؑ بھی، اور مومنین ہر وقت اس کے لئے درخواست کرتے رہتے ہیں۔
امامِ زمان علیہ السّلام کی خوشنودی اس امر میں ہے کہ آپ عبادت میں جو کچھ پڑھتے ہیں اس کے ظاہری معنی اور باطنی حکمت کو بھی سمجھ لیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۹؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۰۰
قصّۂ حضرتِ طالوت علیہ السّلام
سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۴۷) میں ارشاد ہے:
أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ۔
ترجمہ: (اے رسول) کیا تم نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں (کی
۲۰۱
حالت) پر نظر نہیں کی جب انہوں نےاپنے نبی (شموئیل) سے کہا کہ ہمارے واسطے ایک بادشاہ مقرر کیجئے تاکہ ہم خدا کی راہ میں جہاد کریں (پیغمبر نے) فرمایا کہیں ایسا تو نہ ہو کہ جب تم پر جہاد واجب کیا جائے تو تم نہ لڑو، کہنے لگے جب ہم اپنے گھروں اور اپنے بال بچوں سے نکالے جا چکے تو پھر ہمیں کون سا عذر باقی ہے کہ ہم خدا کی راہ میں جہاد نہ کریں۔ پھر جب ان پر جہاد واجب کیا گیا تو ان میں سے چند آدمیوں کے سوا سب نے لڑنے سے منہ پھیرا اور خدا تو ظالموں کو خوب جانتا ہے، اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ بیشک خدا نے (تمہاری درخواست کے مطابق) طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا۔ تب کہنے لگے اس کی حکومت ہم پر کیوں کر ہوسکتی ہے حالانکہ سلطنت کے حقدار اس سے زیادہ تو ہم ہیں کیوں کہ اسے تو مال کے اعتبار سے بھی فارغ البالی (تک) نصیب نہیں۔ (نبی نے) کہا خدا نے اسے تم پر فضیلت دی ہے اور (مال میں نہ سہی مگر) علم اور جسم کا پھیلاؤ تو اسی کا خدا نے زیادہ فرمایا ہے اور خدا اپنا ملک جسے چاہے دے اور خدا بڑی گنجائش والا (اور) واقف کار ہے، اور انکے نبی نے ان سے یہ (بھی) کہا اس کے (منجانبِ اللہ) بادشاہ ہونے کی پہچان ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تسکین دہ چیزیں اور ان تبرکات سے بچا کھچا ہوگا جو موسٰیؑ و ہارونؑ کی اولاد یادگار چھوڑ گئی ہے اور اس صندوق کو فرشتے اٹھائے ہوں گے اگر تم ایمان رکھتے ہو تو بیشک اس میں تمہارے واسطے (پوری) نشانی ہے۔
امام ِ اقدس و اطہرؑ کا جسمِ بسیط اور علمِ محیط
اللہ تعالی نے حضرت امام علیہ السلام کو جثۂ ابداعیہ عطا فرمایا ہے جس کی تجلّی گاہ ساری کائنات ہے، لہٰذا یہ لطیف جسم حدودِ کائنات میں بسیط ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ایسا ہمہ گیر علم دیا ہے جو ہر چیز پر محیط ہے، کیونکہ امام علیہ السّلام اللہ جل شانہٗ
۲۰۲
کا زندہ اسمِ اعظم اور مظہرِ کل ہے، آپ قرآنِ حکیم میں قصّۂ طالوتؑ کو چشمِ بصیرت سے پڑھیں، حضرتِ شموئیلؑ نبی اور امامِ مستودع تھا، انہوں نے خدا کے حکم سے طالوتؑ کو مَلِک (امام) بنایا، امام کے من عند اللہ مقرر ہونے کی تین نشانیاں بتائی گئیں ہیں: اوّل جسمِ بسیط، دوم علمِ محیط، سوم صندوقِ سکینہ کا لانا، یہ مجموعۂ روحانیّت کی مثال ہے، امامِ عالیمقام کے یہ معجزات اور دیگر معجزات صرف عارفین ہی باطنی طور پر دیکھ سکتے ہیں، اور باقی مومنین و مومنات سب کے سب علم الیقین کی روشنی میں اپنے امام کو پہچان لیتے ہیں، بفرمودۂ قرآن علم الیقین میں چشمِ بینا کی طرح کام کرتا ہے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۷)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۲؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۰۳
اللہ تعالیٰ کا خزینۃ الخزائن
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے بے شمار خزانے ہیں اور ان سب پر ایک عظیم خزانہ محیط ہے، جس کا نام عنوانِ ہذا میں خزینۃ الخزائن درج کیا گیا ہے، کیونکہ خدا کی چیزیں انتہائی منظم ہوا کرتی ہیں، آپ سب کو جیسا کہ اس حققیت کا علم ہوچکا ہے کہ خزانۂ کل کا ذکر قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں موجود ہے، اور اسکی بابرکت معرفت عالمِ شخصی میں ہے، آپ تمام عزیزان عالمِ شخصی کے حقائق و معارف کو مرتبۂ علم الیقین میں حاصل کر رہے ہیں، علم الیقین معرفت کا پہلا زینہ ہے، علم الیقین کے ساتھ ساتھ باقاعدہ عبادت، ذکر اور گریہ و زاری کرنے سے ان شاء اللہ ایک دن عین الیقین کی منزل آئے گی، عاجزی، دل کی نرمی اور گریہ وزاری ہمیشہ کے لئے ضروری چیزیں ہیں، حقیقی مومن کا قلب بہت ہی نرم ہوا کرتا ہے، دل کی نرمی میں خدا کی رحمت نازل ہوتی رہتی ہے، کیونکہ قساوتِ قلبی (دل کی سختی) سے کئی اخلاقی اور روحانی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں، حقیقی مومن ہمیشہ اپنے ربّ کو یاد کرتا رہتا ہے، جس سے اس کا دل صاف پاک، نرم اورمطمئن رہتا ہے، الحمد لِلّٰہ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۳؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۰۴
حضرتِ داؤد علیہ السّلام
قسط: ۱
داؤد نبی اسرائیل کے مشہور اور جلیل القدر نبی اور بادشاہ تھے، حضرت شموئیلؑ کے زمانہ میں جب جالوت نے بنی اسرائیل کو قتل و غارت کیا تو انہوں نے طالوتؑ کو بنی اسرائیل کا بادشاہ بنا کر جالوت کا مقابلہ کرنے کے لئے بھیجا، طالوتؑ کی فوج میں حضرتِ داؤدؑ اور ان کے چھ بھائی بھی تھے، پرانے زمانے کے قاعدہ کے مطابق جالوت نے طالوتؑ کے لشکر میں ممتاز بہادروں کو مبارزت (مقابلہ ) کے لئے بلایا، حضرتِ داؤد علیہ السّلام میدان میں نکلے، آپ نے تین پتھر فلاخن میں رکھ کر مارے، جالوت سر سے پاؤں تک لوے میں غرق تھا، صرف ماتھا کھلا تھا، پتھر وہیں جا کر لگے اور اس کا کام تمام ہوگیا، حضرتِ داؤد کی یہ بہادری دیکھ کر طالوتؑ نے ان کو اپنا داماد بنا لیا اور اس کے بعد یہی بنی اسرائیل کے بادشاہ ہوئے۔
حضرتِ داؤدؑ کی حکومت شام، عراق، فلسطین اور شرقِ اردن کے تمام علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی اور خداوندِ تعالیٰ نے نبوّت کے خلعت سے سرفراز کیا تھا، حضرت داؤدؑ پر اللہ تعالیٰ نے زبور اتاری تھی، آپ اس کو ایسی خوش آوازی کے ساتھ تلاوت کرتے تھے کہ پرندے اور اردگرد کے پہاڑ آپ کے ہمنوا ہوجاتے تھے، اور آپ کے ساتھ مل کر خدا کی تسبیح و تحمید کے ترانے گاتے تھے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۱۴؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۰۵
حضرتِ داؤد علیہ السّلام
قسط: ۲
حضرتِ داؤد علیہ السّلام کا ذکر قرآنِ حکیم کے سولہ مقامات پر آیا ہے، سورۂ انبیأ (۲۱: ۸۰) میں ارشاد ہے:
وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ شَاكِرُونَ۔
ترجمہ: اور ہم ہی نے داؤد کو تمہاری جنگی پوشش (زرہ) کا بنانا سکھا دیا تاکہ تمہیں ایک دوسرے کے وار سے بچائے، تو کیا تم اب بھی شکر گزار نہ بنو گے؟
یہ اجسامِ لطیف کا ذکر ہے جو داؤدِ زمان (امامِ آلِ محمدؐ) بنا دیتا ہے، خدا مومنین پر اسی جسمِ لطیف کا احسان رکھتا ہے، کیونکہ کوئی بھی جنگ جسمِ لطیف پر اثرانداز نہیں ہوسکتی ہے، جبکہ وہ جنّ اور فرشتہ کی طرح لطیف اور غیر مرئی ہے، وہ اگرچاہے تو مرئی بھی ہوسکتا ہے، یہی جسمِ لطیف لباسِ جنّت بھی ہے اور جثّۂ ابداعیہ بھی، یہی جسم کائنات میں ہرجگہ پہنچ سکتا ہے، اور جسمِ لطیف ہی بہشت کی بادشاہی کا پرواز کرنے والا تخت ہے، اور یقین جانو کہ جثّۂ ابداعیہ روحانیّت کا سب سے بڑا معجزہ ہے، ہم نے جسمِ لطیف کے بارے میں باربار لکھا ہے ، آپ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب وغیرہ کو پڑھیں ان شاء اللہ جسمِ لطیف سے متعلق کافی معلومات حاصل ہوں گی۔
۲۰۶
یہ انسانِ لطیف ہے یا جنّ و پری ہے، یا خود فرشتہ ہے، ہاں یہ سب سے بڑا حیران کن معجزہ ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۱۵؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۰۷
حضرتِ داؤد علیہ السّلام
قسط: ۳
جو لوگ قرآنِ حکیم کے عاشقِ صادق ہیں وہ کلامِ الٰہی کو اس کی اپنی حکمت سے ساتھ پڑھنے کے لئے سعئ بلیغ کرتے رہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے زندہ اسمِ اکبر کے ذریعے سے ان کی مدد کرتا ہے، پس وہ قرآنی حکمت سےفیضیاب ہوتے رہتے ہیں، وہ قرآن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اللہ کا نور عالمِ دین (عالمِ شخصی) میں خلافت کے نام سے طلوع ہوا تھا، وہ رہتی دنیا تک جاری اور باقی ہے، یہی اشارۂ حکمت ہے کہ قرآنِ عظیم نے حضرت داؤدؑ کو بھی خلیفۃ اللہ کہا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلافتِ الہیہ جو حضرتِ آدمؑ کو عطا ہوئی تھی وہ رہتی دنیا تک موجود ہے، مگر نبوّت آنحضرتؑ پر ختم ہوئی، جبکہ آسمانی کتاب کی وراثت أئمّۂ آلِ محمدؐ میں باقی ہے، پس یہی وارثِ کتابِ سماوی جو خدا اور رسولؐ کی طرف سے ہے اللہ کا وہ نور ہے جو قرآنِ حکیم کے عاشقانِ صادق کے عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے اور اسی کی روشنی میں قرآن کے تاویلی معجزات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
قرآنِ پاک میں فیصلہ کن آیات کو پڑھنا ہے تو آیاتِ نور کو غور سے پڑھو، مثلاً سوال ہے: یہ حقیقت ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ایسے میں وہ پاک ذات عالمِ دین، عالمِ شخصی اور عالمِ انسانیّت کے لئے نور ہے یا نہیں؟ اور اپنی کتابِ عزیز قرآن کا نور ہے یا نہیں؟ کون کہہ سکتا ہے کہ خدا کائنات کی ہر چیز کے لئے نور ہے اور قرآن کے لئے نہیں، جبکہ آیۂ قد جاء کم میں یہ ارشاد ہے کہ خدا کی طرف سے نور
۲۰۸
آیا ہے اور کتابِ مبین، یقیناً یہ خدا کا نور قرآن کی باطنی حکمت دکھانے کی غرض سے آنحضرتؐ میں تھا اور آپؐ کے بعد یہ نور حضرتِ مؤول (اساسؑ) میں منتقل ہوگیا، اور اب یہ نورِ پاک امامِ زمان علیہ السّلام میں جلوہ گر ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۱۵؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۰۹
حضرتِ داؤد علیہ السّلام
قسط: ۴
سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں ارشاد ہے:
اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ۔
اس آیۂ شریفہ کے کم سے کم معنی دو ہیں، ایک مثالی معنی ہیں اور دوسرے ممثولی:
۱۔ اے داؤد کی اولاد! ( اے سلیمان اور اس کی کاپیاں) تم اللہ کی ان نعمتوں کی جو بے مثال ہیں عملی طور پر شکرگزاری اور قدردانی کرو، کیونکہ ایسی اعلیٰ نعمتیں بہت کم بندوں کو نصیب ہوتی ہیں۔
۲۔ اے داؤدِ زمانؑ کی خاص روحانی اولاد! تم کو جو اللہ کی روحانی نعمتیں حاصل ہوئی ہیں وہ بہت ہی خاص اور بے مثال ہیں، لہٰذا تم ان کی بہت خاص طور پر شکرگزاری کرو، اور وہ عملی شکرگزاری ہے، یعنی تم ان عظیم نعمتوں سے دین کی خدمت کرو، کیونکہ ایسے لوگ بہت کم ہیں جن کو یہ نعمتیں ملی ہیں۔
داؤدِ زمانؑ کی روحانی اولاد کو عملی شکرگزاری کا حکم دینے میں یہ حکمت بھی ہے کہ وہ بحدِّ قوّت سلیمانؑ کی طرح ہیں، پھر وہ علم و عمل سے سلیمانؑ جیسے ہوسکتے ہیں، کیونکہ جہاں خدا شکر کرنےکا حکم دیتا ہے وہاں نعمتیں موجود ہوتی ہیں یا موجود ہوسکتی ہیں، وہ غیر معمولی نعمتوں کے سوا شکرگزاری کا حکم نہیں دیتا ہے، بہت ممکن ہے کہ ہر امام اپنے وقت کا داؤدؑ ہو اور وہ ستر ہزار اجسامِ لطیف بنائے، ہر جسمِ لطیف ایک عالمِ شخصی ہو اور
۲۱۰
اس میں کائنات بھر کی بہشت ہو، اور مذکورہ آیت کا یہ مطلب ہو کہ اے اہلِ ایمان تم جو بحدِ قوت سلیمانؑ ہو، علم وعمل کی شکر گزاری سے بحدِ فعل سلیمانؑ ہوجاؤ اور جن و انس پر بادشاہی کرو، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جو تسخیرِ کائنا ت کا ذکر ہے وہ تسخیرِ کلِ کلیات ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعۃ المبارک ۱۶؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۱۱
حضرتِ داؤد علیہ السّلام
قسط: ۵
انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں جب نفخِ صور اور روحانی قیامت کا عالم گیر معجزہ جاری ہوتا ہے تو اس وقت نہ صرف پہاڑوں اور پرندوں کی روحیں بلکہ کل کائنات کی ہر ہر چیز کی روح فرشتۂ جدّ (اسرافیل) کے قیامت انگیز معجزے سے قیامت گاہ میں حاضر ہوکر انسانِ کامل کی ہم نوائی میں اللہ کی حمدیہ تسبیح پڑھتی ہے، دیکھو قرآن (۲۱: ۷۹)، (۳۴: ۱۰)، (۱۷: ۴۴)، (۲۴: ۴۱)۔
صورِ اسرافیل کی ہم آہنگی میں آسمان و زمین کی ہر چیز خدا کی تسبیح پڑھتی ہے (۵۷: ۰۱)، (۵۹: ۰۱)، (۶۱: ۰۱) یقیناً صورِ اسرافیل کی تسبیح خوانی میں سرتاسر عالمِ ذر بھی ہمنوائی کرتا رہتا ہے، اور عالمِ ذرّ سے کوئی چیز خارج نہیں، اور یہی قصّہ حضرت داؤدؑ کا بھی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت میں کل کائنات کی ہر ہر چیز کو بحکمِ خدا روحاً (بشکلِ ذرۂ لطیف ) تسبیح کنان حاضر ہوجانا ہے، اس بیان میں ایک طرف سے انسانِ کامل کی روحانی قیامت کی معرفت ہو رہی ہے، دوسری طرف سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ روح کے بغیر کوئی چیز نہیں، اور ہر چیز کی نمائندہ روح ذرّہ لطیف میں آتی ہے، اگرچہ کائنات کی ہر چیز ہمہ وقت زبانِ حال سے تسبیح کرتی ہے، لیکن جب روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اس وقت معجزۂ اسرافیلی سے ہر شیٔ زبانِ قال سے تسبیح پڑھتی ہے۔
اے عزیزان! آپ میں سے کوئی شخص ان عظیم بھیدوں کو معمولی باتیں قرار دیکر
۲۱۲
ناشکری اور ناقدری نہ کرے، ایسا نہ ہو کہ پھر یہ نعمت ہم سے اٹھا لی جائے، کیونکہ یہ معمولی چیز نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ آپ شکرگزاری میں گریہ و زاری کرتے رہیں تاکہ یہ نعمت کچھ وقت تک جاری رہے!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۱۷؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۱۳
عارفانہ موت اور قیامت
قسط: ۱
اللہ تعالیٰ کی سنتِ قدیم (۴۰: ۸۵) کے مطابق اس دور میں سب سے پہلے حضرت آدم خلیفۃ اللہؑ عارفانہ موت سے مرکر زندۂ جاوید ہوگیا تھا، اور حضرت جعفر بن منصور الیمن کے بقول اس دور کے آدم کا نام تخوم بن بجلاح بن قوامہ بن ورقۃ الرویادی تھا، اگرہم ان کو خدا کا خلیفۂ اوّل قرار دیں تو یہ ہمارا تصوّر سنتِ الٰہی کے خلاف ہوگا، اس لئے کہ گویا ہم نے یہ سمجھا کہ پہلے خدا کی سنت میں خلافت نہیں تھی پھر بعد میں اس کی سنت میں تبدیلی آ گئی، توبہ توبہ ، نعوذ باللّٰہ، اللہ کی سنت قدیم ہے اور اس میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں۔
سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۷) میں جہاں آدمؑ کے دو بیٹوں ہابیلؑ اور قابیل کا قصّہ ہے اس میں ایک بڑا ضروری سوال باقی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے شروع شروع میں جس طرح ظاہری قصّہ سنا تھا وہی یاد رہا تھا، اب اس وقت سوچنے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِذ قربا قرباناً کے اصل معنی کیا ہیں؟ کیونکہ قرآنِ حکیم کے یہ مبارک کلمات تاویلی حکمت کے بغیر نہیں ہوسکتے ہیں، قرب = اس نے نزدیک کیا، قربا = ان دونوں نے نزدیک کیا، پھر بھی سوال اپنی جگہ پر ہے۔
آدمؑ نے اپنے دونوں بیٹوں کو الگ الگ یا ایک ساتھ اسمِ اعظم کی سپیشل عبادت سکھلا دی تھی، دونوں کوشش کرتے رہتے تھے، لیکن قابیل پرہیزگاری میں
۲۱۴
پیچھے تھا، لہٰذا ھابیلؑ عارفانہ موت اور قیامت کی قربانی کے لئے قبول ہوگیا، مگر قابیل اس مقصد میں ناکام ہوگیا، اب دو باتیں ممکن ہیں، کہ قابیل نے اپنے بھائی ھابیلؑ کو یا تو نفسانی طور پر قتل کیا یا جسمانی طور پر۔
قابیل کے دل میں پہلے اپنے بھائی سے حسد پیدا ہوا پھر دشمنی، پھر قتل کیا اس لئے اپنے دینی بھائیوں سے حسد رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
یک شنبہ ۱۸؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۱۵
عارفانہ موت اور قیامت
قسط: ۲
سورۂ مومن کے آخر (۴۰: ۸۵) میں ارشاد ہے:
سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ۔
ترجمہ: یہی اللہ کی مقرر سنت ہے جو ہمیشہ اس کے خاص بندوں (کے عالمِ شخصی) میں جاری رہی ہے، اور اس موقع پر کافر لوگ خسارے میں پڑ گئے۔ یہاں کافروں کے خسارے کا ذکر اس لئے ہے کہ عالمِ شخصی میں مومنین کو خدا کی سنت کی جو معرفت حاصل ہوتی ہے اس کے عظیم فائدے بےشمار ہیں، پس حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں اللہ کی سنتِ قدیم کے مطابق ہرگونہ معجزات کا ظہور ہوا تھا، اور حضرت ھابیل علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں بھی یہی سنتِ الٰہی گزری تھی، ہابیلؑ کی قربانی قبول ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ عارفانہ موت اور قیامت کی تمام قربانیوں سے گزر کر زندۂ جاوید ہوگیا ، جبکہ قابیل حسد اور دشمنی کی وجہ سے ہر سعادت اور ہر درجہ سے محروم رہا۔
بحوالۂ کتابِ سرائر۔ص ۵۲: اور حضرتِ ہابیل علیہ السّلام نے اپنی جگہ ایک مقدّس اور بلیغ حد قائم کیا، جس کو حدودِ دین کی اصطلاح میں ستر یا حجاب کہا جاتا ہے، اور خود ہابیلؑ کہفِ تقیہ میں داخل ہوگیا، اور اپنے کام کو دشمنوں سے مخفی رکھا، اور پوشیدہ طور پر اپنے داعیوں کو پھیلا دیا، تاکہ اللہ کی توحید کی دعوت قائم ہو، اس کے بعد حضرتِ
۲۱۶
شیثؑ اس کا جانشین ہوا اور شیثؑ کا نام ھبۃ اللہ بھی ہے، جس کو خدا نے دشمنوں پر غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۹؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۱۷
عارفانہ موت اور قیامت
قسط: ۳
اس سلسلے میں فرشتۂ عزرائیل کی معرفت بھی ضروری ہے جس کا نام قرآنِ پاک میں ملک الموت (فرشتۂ موت) ہے، (۳۲: ۱۱)، وہ بفرمانِ خداوندی ہر فردِ بشر پر مؤکل ہے یعنی ہمیشہ مقرر ہے، جو کچھ عالمِ اکبر میں ہے اور جو کچھ عالمِ دین میں ہے وہ سب کچھ عالمِ شخصی میں موجود ہے، چنانچہ انسان میں بحدِّ قوّت عظیم فرشتے موجود ہیں، ان کو روحانی اور علمی ترقی سے حدِّ فعل میں لانے کی ضرورت ہے، مگر یہ اصول یاد رہے کہ ہر سردار فرشتے کے تحت لشکر کے طور پر بےشمار روحیں کام کرتی ہیں، پس یہ خدا کی بہت بڑی عجیب و غریب حکمت ہے کہ آپ میں جو قوّتِ عزرائیلی ہے اس کے لشکر میں اکثر ایسے لوگوں کی روحیں ہیں جو آپ کے مخالف ہیں یا آپ سے حسد اور عداوت رکھتے ہیں، پس جب حضرتِ ہابیلؑ جیتے جی عارفانہ موت سے مرنے لگا تو اس وقت لشکرِ عزرائیلی میں قابیل کی روح کا کردار نمایان تھا، لہٰذا ہابیلؑ کی موت تاویلاً قابیل کی وجہ سے ہوئی۔
غراب کی ایک تاویل میں نے بتائی ہے، یہاں دوسری تاویل بتوفیقِ خداوندِ قدوس بتائی جاتی ہے کہ غراب فرشتۂ عزرائیل ہے جو خدا کی طرف سے آکر ہابیل کی قوّتِ عزرائیلیہ سے مل کر کام کرنے لگا، غراب = کوا زمین میں کریدتا تھا اور ایک دوسرے کوے کو دفناتا تھا، عملِ عزرائیلی بالکل ایسا ہی ہے ، عالمِ شخصی سے کرید کرید کر گہرائی سے روح کو نکالنا، پھر کائناتی روح سمیت واپس جسم میں ڈالنا اور بارہا ایسا کرنا، یہ
۲۱۸
ہے غراب کی دوسری تاویل، الحمد لِلّٰہ!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۹؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۱۹
خانۂ کعبہ = بیت المعمور= اساس (امام)
سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۵ تا ۳۷) میں ارشاد ہے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ ۖ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ۔
ترجمہ: اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم نے (خدا سے) عرض کی تھی کہ پرودردگار! اس شہر(مکہ) کو امن و امان کی جگہ بنا دے اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچا لے کہ بتوں کی پرستش کرنے لگیں۔ اے میرے پروردگار! اس میں شک نہیں کہ ان بتوں نے بہتیرے لوگوں کو گمراہ بنا چھوڑا، تو جو شخص میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو یقیناً تو درگزر کرنے والا مہربان ہے، اے ہمارے پروردگار! میں نے ایک بیابان وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے تاکہ اے ہمارے پروردگار! یہ لوگ برابر یہاں نماز پڑھا کریں تو تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر اور
۲۲۰
انہیں طرح طرح کے پھلوں سے روزی عطا کر تا کہ یہ لوگ (تیرا) شکر کریں۔
تاویلی حکمت: شہر مکہ = امن و امان کی جگہ = حظیرۂ قدس جو امامِ زمانؑ کی معرفت اور امن و امان کا مقام ہے، اصنام پرستی = پیشوایانِ باطل کی پیروی۔ ابراہیمؑ کا قول: جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے، یعنی وہ حقیقت میں میری روحانی اولاد ہے، وہ ان تمام روحانی معجزات کو دیکھے گا جن کو میں نے دیکھا ہے، یہی حقیقی پیروی ہے۔
معزز گھر = کعبہ = بیت المعمور = اساسؑ = امامِ زمانؑ کا نور جو حظیرۂ قدس میں ہے، حضرتِ ابراہیمؑ نے خدا کے حکم سے اپنے فرزندِ جگربند حضرتِ اسماعیلؑ (امام = اساس) کو خانۂ کعبہ کے پاس بیابان میں ٹھہرایا تھا، اس کی حکمت یہ ہے کہ عارف کو امامِ زمانؑ کی معرفت عالمِ شخصی کی زمین پر مکمل نہیں ہوتی ہے ( اگرچہ یہ زمین اپنے دل آویز مناظر کی وجہ سے بہشتِ برین کا ایک زندہ نمونہ ہے) جب تک کہ وہ حظیرۂ قدس میں نہیں پہنچتا، حالانکہ وہ ایک بیابان مقام جیسا لگتا ہے، اور اسی تصوّر میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں، ان شاء اللہ موقع کی مناسبت سے بعض حکمتیں بیان کریں گے۔
حضرتِ ابراہیمؑ نے اپنی دعا کے سلسلے میں عرض کی: تاکہ یا ربّ! یہ میری اولاد = أئمّہؑ نماز یعنی دعوت کو قائم کریں، پس تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان اماموں کی طرف مائل کر دے ، اور ان کو روحانی، علمی، عقلی اور عرفانی ثمرات سے رزق عطا کر، تاکہ یہ لوگ تیرا شکر کریں یعنی تیری قدرت اور علم و حکمت کو سمجھیں اور شکر گزاری اور قدردانی کریں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۱؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۲۱
حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے
قسط: ۱
حظیرۂ قدس کا سب سے عظیم علمی و عرفانی سرچشمہ کتابِ مکنون ہے، جس میں قرآنِ کریم کے تمام تاویلی اسرار جمع ہیں، ان عظیم الشّان بھیدوں میں سے ایک خاص بھید یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ کائنات کو لپیٹ کر فنا کردے گا اور اس کی جگہ ایک نئی کائنات کو پیدا کرے گا، آپ کو خدا کے اس امر کی بہت سی شہادتیں مل سکتی ہیں، اسمائےصفات سے بھی، آیاتِ قرآن سے بھی، کیونکہ جو راز کتابِ مکنون میں ہے وہ قرآن میں بھی ہے، اور جو کچھ قرآن میں ہے وہ اللہ کے اسمائے صفات میں بھی ہے، کائنات میں بھی ہے اور انسان میں بھی ہے، مثال کے طور پر قرآن (۱۳: ۳۹) میں دیکھو: يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ۔
اللہ جو کچھ چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے، ام الکتاب اسی کے پاس ہے، اگر کسی شخص کو اس آیۂ شریفہ میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو اس کا جواب خود اسی آیت کے آخر میں موجود ہے، وہ ہے ام الکتٰب۔ ام الکتٰب علیؑ کا نام ہے، نیز سورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں دیکھیں۔
کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلّا وَجْھَہٗ۔
ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے وجہ اللہ (علیؑ) کے ۔ آیۂ کریمہ کے آخر (وجہ اللہ) میں جواب موجود ہے ہر اس سوال کے لئے جو اس آیت سے متعلق
۲۲۲
ہو۔
قرآنِ مقدّس (۱۴: ۴۸) میں دیکھ لیں: ایک دن اس کائنات کی جگہ دوسری کائنات ہوگی، سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں زیادہ غور سے دیکھیں: اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائنات کو اس سے پہلے بنائی تھی اسی طرح دوبارہ بنانے والا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۱؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۲۳
حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے
قسط: ۲
حظیرۂ قدس عالمِ شخصی کا وہ بلند ترین مقام ہے جس کے کئی مقدس نام ہیں، جیسے ظہورگاہِ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲)، معرفت کی غرض سے نزدیک لائی ہوئی بہشت، آدمؑ کی جائے پیدائش، نوحؑ کا وہ مقام جہاں کشتیٔ نجات ٹھہر گئی تھی یعنی جہاں کوہِ جودی ہے، جہاں آدمؑ و حوّاؑ کی بہشت ہے، جہاں تک ادریسؑ کو بلند کیا گیا تھا، جہاں مقامِ ابراہیمؑ ہے، جہاں حجرِ ابیض ہے، جہاں کوہِ طور ہے، جہاں مریمؑ نے حضرت عیسیٰؑ کو جنم دیا تھا، جہاں عیسیٰؑ اور مریمؑ کو بلند مقام اور چشموں کی جگہ دی گئی تھی، جہاں مقامِ محمود اور مقامِ معراج ہے، جہاں عالمِ وحدت ہے، جہاں مرتبۂ فنا فی اللہ ہے، جہاں خدا اپنے بندۂ مقرب کی آنکھ، کان، ہاتھ اور پاؤں ہوجاتا ہے، جہاں عارف کنزِ مخفی کو حاصل کرلیتا ہے، جہاں مونوریالٹی کا راز سمجھ میں آتا ہے، جہاں عارف اپنے آپ کو آدمؑ کے ساتھ دیکھتا ہے کبھی فرشتہ اور ساجد، کبھی آدمؑ اور مسجود۔
اگر میں حظیرۂ قدس کے اسرار کو اس سے آگےبیان کروں تو میرے بعض شاگرد ناوقت انا الحق کا نعرہ لگائیں گے، اور وہ مولا کو منظور نہیں، اس لئے یہی طریقہ بہتر ہے کہ شرابِ معرفت کم کم پیا کریں، تاکہ کوئی شخص حد سے نہ گزرے۔
شرابِ معرفت صد بار خوردم
زجامِ مصطفیٰ الحمدلِلّٰہ
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۲۲؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۲۴
حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے
قسط: ۳
سورۂ دہر (۷۶: ۰۱) ترجمہ: کیا انسان پر زمانِ ساکن (دہر) میں سے ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟ کیا یہ لامکان کا ظہور ہے؟ یا یہ معجزۂ ازل ہے؟ یا حالتِ فنا ہے؟ یا ایک ساتھ ابداع و انبعاث ہے؟ کیا اسی مقام پر انسان کی جائے ابتدأ اور جائے بازگشت ہے؟
سورۂ انعام (۰۶: ۹۴) میں ٹھیک طرح سے سوچنے کی ضرورت ہے، جس طرح نفسِ واحدہ سے سب لوگ پھیل گئے تھے اسی طرح سب کے سب اس میں جمع ہوجاتے ہیں اور ان سب کا مجموعہ، نمائندہ اور جانوں کی جان نفسِ واحدہ ہوتا ہے، یہی روحِ کاملہ عارفانہ موت اور روحانی قیامت کے تمام مراحل سے گزر کر حظیرۂ قدس میں پہنچ جاتی ہے، اور اسرارِ معرفت کا مشاہدہ کرتی ہے، یہ عظیم راز فراموش نہ ہو کہ قربِ خاص ہی مقامِ وصل اور مقامِ فنا ہے، جب انسان فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، تو اس کے لئے سب سے بڑے معجزے ہوتے ہیں۔
جب خدا اپنے عارف کی آنکھ ہوجاتا ہے تو وہ خدا کو دیکھتا اور پہچانتا ہے، خداوندِ تعالیٰ اپنے نورِ منزل (مظہر) کی صورت میں دیدار دیتا ہے، کبھی خواب میں، کبھی بیداری میں، خصوصاً حظیرۂ قدس میں ہردیدار عظیم حکمتی اشاروں سے پُر ہے، اور جب خدا عارف کا ہاتھ ہوجاتا ہے، تو وہ کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لے سکتا ہے،
۲۲۵
جس کا راز انتہائی عظیم الشّان ہے، اے عزیزان! ان اسرار کو بیان کرتے کرتے خوف سے میری جان نکلتی ہے کہ کہیں ان کی ناشکری اور ناقدری نہ ہوجائے، ایسا نہ ہو کہ ہم جس کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں، آپ میرے لئے بھی دعا کریں کہ مجھ میں فخر پیدا نہ ہوجائے۔
جب مومنین و مومنات دیدار کی ان باتوں پر یقین کر کے عاشقانہ آنسو بہائیں گے تو ان شاء اللہ ان کو بھی پاک دیدار نصیب ہوگا۔ آمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعۃ المبارک ۲۳؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۲۶
حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے
قسط: ۴
مشرقین (دو مشرق) عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ۔
مغربین (دو مغرب) ناطقؐ اور اساسؑ۔
مشارقِ انوارِ علم و حکمت، مغاربِ انوار علم و حکمت۔
وہ مقدس و مبارک زمین جس کے سورج، چاند اور انجم علم و حکمت کے ساتھ بار بار طلوع و غروب ہوتے رہتے ہیں، جس کے شمس و قمر اور ستارگان کے لئے واحد مشرق و مغرب ہے، سبحان اللہ!
اس کے ناموں میں سے ایک نام وادیٔ مقدسِ طویٰ ہے (۲۰: ۱۲)، طویٰ کا اشارہ ہے جہاں ساری کائنات لپیٹ لی جاتی ہے، قرآن میں دیکھیں: نطویٰ (۲۱: ۱۰۴) مطویات (۳۹: ۶۷)۔
یہ وہ بہشت ہے جس میں داخل ہو جانے سے بنی آدم اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوجاتے ہیں، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر تھا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۲۴؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۲۷
حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے
قسط: ۵
ارضِ مقدس کے خورشید و ماہ اور انجم کے مسلسل طلوع و غروب میں ہمیشہ کتابِ مکنون کے اسرار چمکتے نظر آتے ہیں، پھر بھی یہ بھید ختم نہیں ہوتے۔
فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ۔
اور میں تمام ستاروں کے یکجا مغرب کی قسم کھاتا ہوں اور اگر تم جانو تو یہ بہت بڑی قسم ہے، اس قسم کی عظمت سمجھنا علم سے مشروط ہے( ۵۶: ۷۵ تا ۷۶) یہ وہ سرزمین ہے جس میں خدا نے ہر عالمِ شخصی کے لئے برکتیں رکھی ہیں (۲۱: ۷۱؛ ۰۷: ۱۳۷) یقیناً یہ وہ مکانی اور لامکانی بہشت ہے جو کائنات کے طول و عرض پر محیط ہے، اور اس میں برکتیں ہی برکتیں ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اس بہشت کا وارث بنائے گا، اس میں علم و حکمت اور معرفت کے ثمرات ہوںگے۔
کتابِ مکنون ایک بے مثال نور ہے جو اس بہشتِ برین میں شمس و قمر اور انجم کی صورت میں علم وحکمت کی ضیا پاشی کرتی رہتی ہے، مزید بران یہ یداللہ کے ہر فعل کا نمونہ پیش کرتی رہتی ہے، جیسے کائنات کو لپیٹنا اور پھر اس کو پھیلانا، اور کوئی خداوندی انعام کسی کو دینا وغیرہ۔
کتابِ مکنون کے اسرارِ عظیم بہت زیادہ ہیں، یہ مومنین و مومنات کا وہ نمائندہ نور ہے جو ان کے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (۵۷: ۱۲) نیز (۶۶: ۰۸) اس
۲۲۸
نور کا ایک زبردست معجزہ یہ بھی ہے کہ کبھی آسمان اور زمین کو ایک کرکے دکھاتا ہے اور کبھی الگ الگ کردیتا ہے، یہ نور صراطِ مستقیم اور سلامتی کے راستوں پر چلنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے، تمام تاویلاتی اشارے اسی نور کی طرف سے ہوتے ہیں، کیونکہ یہ قلمِ اعلیٰ کا نمائندہ ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۲۵؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۲۹
حظیرۂ قدس کے عظیم حکمتی اشارے
قسط: ۶
سورۂ نحل (۱۶: ۱۲) میں ارشاد ہے: ترجمہ: اس نے تمہاری بھلائی کے لئے رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو مسخرکر رکھا ہے اور سب تارے بھی اسی کے حکم سے مسخر ہیں اس میں بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
حظیرۂ قدس عالمِ وحدت ہے، لہٰذا وہاں سورج، چاند سب ستارے مجموعاً نورِ واحد ہیں، جو شمس و قمر اور تمام انجم کے کاموں کو یہی نور انجام دیتا ہے، اور یہی کتابِ مکنون بھی ہے، جس میں آسمان و زمین کی ہر چیز مسخر کی گئی ہے، کائنات اور اس کی تمام اشیاء کی تسخیر کی جملہ مثالیں اور نمونے اور تمام حکمتی اشارے کتابِ مکنون (نورِ واحد) میں موجود ہیں، مثالوں اور اشاروں کو سمجھنے کے لئے زبردست علم و حکمت کے ساتھ ساتھ تائیدِ غیبی کی بھی سخت ضرورت ہے، لیکن کتابِ مکنون کو صرف وہی لوگ چھو سکتے ہیں جو اس عظیم مقصد کے لئے پاک کئے گئے ہیں ( مطھرین = ۵۶: ۷۹)۔
امامِ زمان علیہ السّلام نے اس دفعہ کراچی میں کئی بار ارشاد فرمایا: “دانا ہوجاؤ” یہ پاک فرمان اگرچہ جملہ جماعت کےلئے ہے، تاہم جو لوگ دینی علم و حکمت کے عاشق ہیں، ان کے لئے مبارک بادی ہے کہ ان کو پہلے ہی سے اس عظیم الشّان عمل کی توفیق عطا ہوئی ہے، الحمد لِلّٰہ! جب بھی حضرتِ امامؑ اپنے کسی مرید کو اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے ، اس کا عظیم مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مرید روحانی ترقی کر کے اپنے مولا و
۲۳۰
آقا سے روحانی علم و حکمت حاصل کرے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بڑا کام دنیوی کاموں کی غرض سے نہیں دیا جاتا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۶؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۳۱
اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے
قسط: ۱
سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) میں ارشاد ہے:- ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو( جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے) اور اس کے رسول (محمدؐ) پر (حقیقی معنوں میں) ایمان لاؤ اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصّہ عطا فرمائے گا اور تمہیں ایک نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمہارے قصور معاف کردے گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔
سوال: معلوم ہوا کہ یہ پاک و مبارک نور چلنے کی غرض سے ہے لیکن سوال ہے کہ کہاں کہاں چلنا ہے؟ ارشاداتِ قرآنی کے مطابق جواب ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نورِ ہدایت ہے جس کی روشنی میں صراطِ مستقیم پر چلنا ہے، سلامتی کے راستوں پر چلنا ہے، اور عالمِ شخصی میں چلنا ہے، جیسا کہ حکیم پیر ناصرخسرو(ق۔س) اپنے دیوان میں فرماتے ہیں:
برجانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت
لیل السرار بودم و شمس الضحےٰ شدم
جب میری روح = جان (میرے عالمِ شخصی ) پر امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوا میں (قبلاً) شبِ تاریک تھا (اب میں) روزِ روشن کی طرح ہوگیا ۔
اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خدا کے حکم سے امامِ زمانؑ کا نور ہر کامیاب
۲۳۲
عالمِ شخصی میں طلوع ہوتا ہے، کیونکہ ہر عارف کے لئے خود شناسی اور خدا شناسی عالمِ شخصی ہی میں ہے، عارفِ رومی کہتا ہے:
گنجِ نہانی طلب، ازدل و از جانِ خویش
تا نہ شوی بے نوا، بر درِ دکانِ خویش
گنجِ مخفی کو اپنے دل اور اپنی جان سے طلب کر، تاکہ تو اپنی مقفل اور بند دکان کے دروازے کے سامنے مفلس بن کر بیٹھ نہ جائے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲۷؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۳۳
اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے
قسط: ۲
سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں ارشاد ہے:
قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ۔
ترجمہ: تمہارے پاس (یعنی تمہارے ظاہر و باطن میں) اللہ کی طرف سے نور آیا ہے اور کتابِ مبین آئی ہے۔ جب اللہ کا نور اہلِ ایمان کے پاس آیا تو یقیناً ظاہر کے مقابلے میں باطن = عالمِ شخصی زیادہ منور ہوا، اور ظاہر میں جتنی بھلائی ہوئی وہ بھی روحوں کی اصلاح کی وجہ سے تھی، پس اللہ کا یہ پاک نور آنحضرتؐ کے مبارک و مقدس عالمِ شخصی میں تھا، اور آپؐ کے بعد آپ کے جانشین اعنی حضرتِ علیؑ میں یہ نور جلوہ گر ہوا، اور کتابِ مبین ظاہر میں محدود نہیں بلکہ وہ تنزیلاً ظاہر میں اور تاویلاً باطن میں ہے، کیونکہ عالمِ شخصی بے حد ضروری ہے، جبکہ یہ عالمِ ظاہر اور عالمِ دین دونوں کا مجموعہ ہے۔
عالمِ شخصی کی زبردست اہمیت کا راز مولا علیؑ کے مشہور شعر سے کھلتا ہے، جس کا ترجمہ ہے: کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے؟ درحالیکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے، اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام نے بھی انسان کو ایک مستقل عالم قرار دیا ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان ایک دائمی عالم ہے۔
۲۳۴
اللہ تعالیٰ نے اس مادّی کائنات کے لئے ایک مادّی نور یعنی سورج کو مقرر کیا ہے، پھر اس کی قدرت اور حکمت کا یہ تقاضا ہوا کہ عالمِ شخصی جو ایک زندہ عالم ہے اس کے لئے ایک زندہ نور ہو، پس اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کے لئے نورِ کامل و مکمل مقرر فرمایا، اَلحَمدُ لِلّٰہ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحسانِہٖ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲۷؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۳۵
اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے
قسط: ۳
قرآنِ عظیم سرتا سر معجزاتِ الٰہی سے مملو (بھرا ہوا) ہے، ان تمام معجزوں میں آیاتِ نور کے معجزات سب سے زیادہ حیرت انگیز اور سب سے زود فیصلہ کن ہیں، اور بہت بڑی عجیب و غریب حکمت یہ ہے کہ ان سب آیات و معجزات کا ایک مرکزِ وحدت بھی ہے، وہ ہے آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) جس کا مضمون ہے: اللہ ساری کائنات کا نورِ ہدایت ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ ذاتِ سبحان کی تعریف ہے یعنی آیا اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ بذاتِ پاکِ خود سورج، چاند، انجم اور بجلی کی طرح اس مادّی کائنات کا نور ہے؟ یا یہ اس کے نمائندہ نور (مظہر) کی تعریف ہے؟ آپ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا کا کوئی نمائندہ نور نہیں، جبکہ قرآن میں اللہ کی طرف سے نور آنے کا ذکر ہے، آپ خود آیۂ مصباح میں غور سے دیکھیں تو کم سے کم تین بار اللہ کے نمائندہ نور کا ذکر ہے: اول: مَثَلُ نُوْرِہ میں ، دوم: نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ میں، سوم: یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یِّشَآءُ میں۔
پس یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ عالمِ شخصی میں خدا کا نمائندہ نور امامِ زمان علیہ السلام ہے، چونکہ امامِ زمانؑ اللہ کا زندہ اسمِ اعظم بھی ہے، لہٰذا عارف کے عالمِ شخصی میں تمامتر معجزات امامِ زمانؑ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۸؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۳۶
اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے
قسط: ۴
سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۴) میں مومنین و مومنات کے جس نور کا ذکر آیا ہے، وہ امامِ زمان علیہ السّلام کا نورِ اقدس ہی ہے، اور یہ دنیا ہی میں کسی عارف کے عالمِ شخصی کا معجزۂ عرفانی کا قصّہ ہے اور مقامِ جبین (حظیرۂ قدس) ہے، آپ سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں بھی دیکھیں، قرآنِ حکیم کے اندر دونوں مقدس حوالوں میں اسرارِ معرفت کا بہت بڑا خزانہ موجود ہے۔
نور کے دوڑنے میں کیا راز ہے؟ البتہ اس میں یہ اشارہ ہے کہ نور ہمہ رس ہے اور ہر چیز پر محیط ہے، ہر دور اور ہر زمانے میں موجود ہے، اور اگر یہ مانا جائے کہ نہ صرف پچاس ہزار سال کا ایک دور ہے بلکہ چھ کروڑ برس کا بھی ایک بڑا دور ہے، نور اپنی سعی (دوڑ) سے یہ بتاتا ہے کہ اس کے علمی و عرفانی احاطے سے کوئی دور اور کوئی شیٔ باہر نہیں وہ ہر چیز سے باخبر ہے، سورۂ حدید (۵۷: ۱۳) کے مطابق ہر ایسی روحانی قیامت کے بعد مومنین اور منافقین کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے، جس میں ایک دروازہ ہوتا ہے، جس کے اندر کی طرف رحمت ہی رحمت ہے اور باہر کی طرف عذاب۔
آپ ان مقالوں میں درج شدہ تمام آیاتِ کریمہ کو خوب غور کے ساتھ قرآن میں پڑھیں بے حد ضروری ہے۔
ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی
بدھ ۲۸؍ فروری ۲۰۰۱ء
۲۳۷
اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے
قسط: ۵
سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) کا ترجمہ ہے: اور ہم نے موسٰیؑ اور ان کے بھائی ہارونؑ کے پاس وحی بھیجی کہ مصر (عالمِ شخصی) میں اپنی قوم کے (رہنے سہنےکے) لئے گھر بناؤ۔ اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ پیغمبر اور امام اپنے مومنین کے لئے کبھی ظاہری اور مادّی گھر بنا کر نہیں دیتے، بلکہ ان کو روحانی گھروں میں بساتے ہیں، یعنی ان کو عالمِ شخصی میں تیار شدہ اجسامِ لطیف عطا کرتے ہیں، اور اللہ کا یہ حکم کہ تم اپنے ان گھروں کو قبلہ بناؤ یعنی تم اپنے جسمِ لطیف کو ترقی دے کر خانۂ خدا بنا سکتے ہو (تمہارا جسمِ لطیف جثّۂ ابداعیہ ہو سکتا ہے) یہ ہوا اپنے گھروں کو قبلہ بنانا۔
یہ سب سے عظیم کارنامہ اس لئے ممکن ہوگا کہ خدا اور اس کے محبوب رسولؐ نے امامؑ کو عالمِ شخصی کی روحانی ترقی کیلئے مقرر کیا ہے اور یہی امامِ عالی مقامؑ عالمِ شخصی میں نمائندہ نور ہے، اور آخر میں مومنین کو خوشخبری دینے کا حکم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے کے مومنین کو اپنےامامؑ سے ایسے انعامات حاصل ہوں گے۔
مصر= ہر وہ شہر جس کی حدبندی ہو، ایک معروف شہر کا نام (قاموس القرآن) مصر یہاں تاویلاً عالمِ شخصی ہے۔
نوٹ: اپنے اپنے جسمِ لطیف کو قبلہ (خانۂ خدا) بنانے میں ناطقؑ ، اساسؑ، اور امامؑ سب سے آگے اور رہنما ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات یکم مارچ ۲۰۰۱ء
۲۳۸
اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے
قسط: ۶
عالمِ شخصی میں امامِ زمان علیہ السّلام کی مکمل اور اعلیٰ معرفت حاصل کرنے کے لئے رضاکارانہ طور پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت سے گزرنا پڑتا ہے، جس میں حیاتِ سرمدی ہے، اور اس سب سے عظیم کارنامے کا خداوندی حکم قرآنِ حکیم (۰۸: ۲۴) میں موجود ہے:
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز (یعنی اسمِ اعظم کی عبادت) کی طرف دعوت کرے جو تمہیں ابدی زندگی بخشنے والی ہے اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان حائل ہے (یہاں ایک عظیم تاویلی راز پوشیدہ ہے)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات یکم مارچ ۲۰۰۱ء
۲۳۹
اللہ تعالیٰ نے امامِ زمانؑ کو عالمِ شخصی کا نور مقرر کیا ہے
قسط: ۷
سورۂ نسا ٔ(۰۴: ۱۷۴ تا ۱۷۵) ترجمہ: لوگو! تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے پاس دلیلِ روشن آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک (مجسّم) نور نازل کیا ہے (چونکہ نور ہمیشہ زندہ شخصیت میں ہوتا ہے اس لئے نورِ مجسّم کہنا درست اور حقیقت ہے) پس جن لوگوں نے درحقیقت خدا پر ایمان لایا اور اسی کی رسی کو مضبوطی سے تھام لی ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنےفضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کے سیدھے راستے پر ان کو چلا لے گا۔
دلیلِ روشن یقیناً حضرتِ رسولؐ ہیں، اور نورِ مبین علیؑ (امام) ہے، نور یا تو زندہ فرشتۂ سماوی ہوتا ہے یا زندہ فرشتۂ ارضی ہوتا ہے، جبکہ عالمِ بالا میں نورِ محمدی فرشتۂ عقل اور قلم ہے، نورِ علیؑ فرشتۂ نفسِ کلّ اور لوحِ محفوظ ہے، یعنی خدا کی ہر خاص چیز نور اور زندہ فرشتہ ہے، پس امامِ زمانؑ نورِ عالمِ شخصی بھی ہے، فرشتۂ سماوی بھی ہے، فرشتۂ ارضی بھی ہے، اور اللہ کی وہ بولنے والی کتاب بھی ہے جو اللہ کے پاس ہے (۲۳: ۶۲؛ ۴۵: ۲۹) جو اہلِ ایمان کا نامۂ اعمال بھی ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات یکم مارچ ۲۰۰۱ء
۲۴۰
دنیا پر آخرت کو ترجیح نہ دینا سب سے بڑی جہالت ہے
ترجمۂ آیۂ شریفہ (۱۰: ۰۷ تا ۰۸): حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں ان کا آخری ٹھکانا دوزخِ جہالت ہوگا ان برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ کرتے رہے۔
سوال: یہ آیات کونسی ہیں جس سے لوگ غافل ہیں؟ آیاتِ قرانی؟ آیاتِ کائنات؟ آیاتِ ذات (عالمِ شخصی)؟ نہیں یہ بات نہیں، قرآنی آیات سے مسلمانانِ عالم کیسے غافل ہوسکتے ہیں، ذات و کائنات پر سائنسدان تحقیق کر رہے ہیں، اور یہ کوشش جاری ہے، اب رہیں صرف وہ آیات جن کا ذکر حضرت مولانا علی علیہ السّلام کے ارشاد میں ملتا ہے، مولا نے فرمایا:
اَنا اٰیاتُ اللّٰہِ الکُبرٰی الّتی اراھا اللّٰہُ فرعَونَ۔
یعنی میں اللہ تعالیٰ کی آیاتِ کبریٰ ہوں جو اللہ نے فرعون کو دکھائیں اور فرعون نے عصیان اور نافرمانی کی۔
پس مولا علیؑ امامِ زمانؑ اور مجموعہؑ حضراتِ أئمّہؑ کے معنی میں اللہ کی عظیم آیات ہیں، اور اب معلوم ہوا کہ لوگ اللہ کی ان آیاتِ کبریٰ سے غافل ہیں، امامؑ اور أئمّہؑ خدا کے سب سے بڑے معجزات (آیات) ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۲؍مارچ ۲۰۰۱ء
۲۴۱
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۱
قرآنِ حکیم، احادیثِ نبوّی اور ارشاداتِ أئمّہ علیھم السّلام میں معرفت کے خزانے بھرے ہوئے ہیں، انہی خزانوں سے بزرگانِ دین کی کتابیں بھی معمور اور ذیلی خزانوں کی صورت میں ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرتِ امامؑ کے بعض عالی ہمت عشاق چشمِ باطن سے معرفت کے معجزات کا مشاہدہ کریں تاکہ علم الیقین کے درجے میں جو کچھ سنا تھا اس کی تصدیق عین الیقین سے کرسکیں، کیونکہ یقین کے تینوں درجے مومنین ہی کے لئے ہیں۔
کتابِ سرائر وغیرہ کے مطابق قرآنِ حکیم میں جس طرح آدمؑ کا قصّہ ہے، وہ بطریقِ حکمت بے شمار آدموں کا قصّہ ہے، کیونکہ آدمؑ نفسِ واحدہ ہے اور ہر قیامت کے لئے ایک نفسِ واحدہ ہوتا ہے، جس میں صورِ قیامت کی طاقت سے تمام نفوسِ خلائق جمع ہو کر اس کی روحانی اولاد قرار پاتے ہیں، بقولِ حکیم پیر ناصر (ق۔س) خدا کے وہاں بے پایان قیامات ہیں، تو پھر آدموں کا بھی کوئی شمار نہیں، جبکہ ہر آدمؑ میں خدائی روح بذریعۂ قیامت داخل ہوجاتی ہے۔
سوال: اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ آدمِؑ سراندیب میں ہوا تھا، تو پھر بہشت سے آدمؑ کے ھبوط کے کیا معنی؟
جواب: بہشت سے بہت سی روحیں آدمؑ پر نازل ہوتی تھیں، انہی
۲۴۲
روحوں کو وہ آدمؑ سمجھو جس کا عالمِ جسمانی میں ھبوط ہوا، ارشادِ قرآنی ہے: ۔
قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعاً (۰۲: ۳۸)۔
ہم نے کہا کہ تم سب اس سے اتر جاؤ۔ اس حکم میں کئی حکمتیں ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۲؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۴۳
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۲
ھبوطِ آدمؑ دراصل سب سے بڑا اور سب سے پوشیدہ اور انتہائی پیچیدہ راز رہا ہے، کیونکہ اس عظیم واقعہ سے متعلق بہت سے مشکل سوالات موجود ہیں، جیسے: کیا آدمؑ کسی مکانی بہشت سے زمین پر اتر آیا تھا یا لامکانی بہشت سے؟ کیا وہ کسی بہت ترقی یافتہ سیّارے پر تھا؟ کیا وہ قبلاً عالمِ شخصی کی جنّت میں تھا؟ کیا وہ اس سے پہلے جسمِ لطیف کی جنّت میں تھا؟ جب جنّت کے بڑے درجات آٹھ ہیں اور بڑے درجے کے ذیلی درجات بہت ہیں، تو بتاؤ کہ آدمؑ کس نام کی جنّت سے دنیا میں آیا؟
یہ میرا ذاتی نظریہ ہے کہ آدمؑ تنہا ایک فرد نہ تھا، بلکہ وہ نفسِ واحدہ (کلِ کلیات) تھا، یعنی وہ ایسا عالمِ شخصی تھا کہ ساری کائنات مسخر ہو کر اس میں گر چکی تھی، پس آدمؑ خلیفۂ خدا کلِ کلیات تھا، لہٰذا وہ ہر قسم کی جنّت اور اس کے جملہ درجات پر محیط تھا۔
جب آدمؑ کے جانشین کو تیار کرنے کا وقت آیا تو اس کے لئے سنتِ الٰہی کے مطابق روحانی قیامت برپا ہونے لگی، چنانچہ آدم خلیفۃ اللہ میں الٰہی روح کے نام سے جو نور تھا وہ بحکمِ خدا آدمؑ کے جانشین میں منتقل ہوگیا، تو تمام حدودِ دین اور کل فرشتوں نے حاملِ نورِ ہٰذا کو سجدہ کیا، اور آخر میں آدمِ اوّل نے بھی اس آدمِ ثانی کو سجدہ کیا، یہی ہے دینِ خدا کا قانون۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
سنیچر ۳؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۴۴
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۳
سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے:
مَا خَلْقُكُمْ وَلاَبَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ۔
اس آیۂ شریفہ کی سری حکمت و معرفت کی کلید سمیع اور بصیر میں پوشیدہ ہے، یعنی فرمانِ خداوندی ہے کہ اگر تم نے خدائے سمیع و علیم کے دین کی مدد اپنے ہر قول وفعل سے کر دی تو خدا تمہاری بہت بڑی مدد کردے گا، وہ یہ کہ تمہاری روح الایمان اور روح العشق کو نفسِ واحدہ سے وابستہ کر دیگا، تاکہ تم عارفانہ موت اور روحانی قیامت میں اس کیساتھ ہوجاؤ اور اسی کے سانچے میں ڈھل کر اپنے باپ آدمؑ کی طرح ہو سکو، اور تمہارا عالمِ شخصی وہ ذاتی بہشت ہوجائے جس کا طول و عرض کائنات کے برابر ہے، پس تم اپنی اس بہشت میں خلیفہ بھی ہو اور بادشاہ بھی، تم آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کی اصل حکمت تک رسائی کرلو اور بہشت کی بادشاہی کی معرفت بھی حاصل کرو۔
اس جہانِ آب و گل میں قانونِ فطرت کی یہ دائمی حقیقت سب کے سامنے اظہر من الشمس ہے کہ جمادات بذریعۂ فنا نباتات کے سانچے میں ڈھل کر روحِ نباتی کو حاصل کرتی ہیں، نباتات کے لئے ترقی کا سانچا حیوانات میں موجود ہے، حیوانات کی ترقی کا رخ انسان کی طرف ہے اور تمام انسانوں کی ترقی کا سانچا انسانِ کامل ہے جس میں جو بھی بذریعۂ فنا ڈھل جاتا ہے وہ انسانِ لطیف یا فرشتہ ہو جاتا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ادت ۴؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۴۵
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۴
سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ…۔
کتابِ کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۲۹ میں حضرتِ علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے:
اَنَا الْاَ سمَآءُ الْحُسنَی الَّتِیْ اَمَرَ اللّٰہُ اَنْ یُّدْعیٰ بِھَا۔
یعنی میں خدا کے وہ اسماء حسنٰی ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو انہی اسماء سے پکارا جائے۔
جس عظیم الشّان چیز کی تعریف خدا خود فرماتا ہے اس کی تعریف ہم ہزار سالہ زندگی میں بھی نہیں کرسکتے ہیں، پھر بھی یہ ہمارا عذرِلنگ ہے کہ ہم ایسی چیز کو اپنی جانِ عزیز سے بھی زیادہ اوراپنی پیاری اولاد سے بھی زیادہ محبوب کیوں نہیں رکھتے ہیں، پس عزیز ساتھیو! اگر ہمارے قلوب میں اسماء الحسنٰی کا کچھ عشق ہے تو چلو ان کی معرفت کے لئے سعیٔ بلیغ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنٰی اسمائے عظام ہیں، جن کو آپ اپنی مخصوص دعا کے آخر میں پڑھتے ہیں، جن کی برکت سے ہماری روحوں کی تجدید ہوتی رہتی ہے، یہ سب اسماء جس طرح علیؑ میں جمع تھے اسی طرح امامِ زمانؑ میں بھی تمام
۲۴۶
اسماء الحسنٰی (اسمائے عظام) جمع ہیں، اور ایسا ہونا خدا کا بہت بڑا احسان بھی ہے اور عظیم انعام بھی۔
ہم بار بار کہتے ہیں کہ اللہ کی خاص چیزیں زندہ، گویندہ (ناطق) عقلی اور نورانی ہوا کرتی ہیں، جیسا کہ اللہ کا قلم نورِ محمدیؐ بھی ہے، فرشتۂ عقلِ کلّ بھی ہے، نورِ عرش بھی ہے، اور لوحِ محفوظ علیؑ کا نور جو فرشتۂ نفسِ کلّ بھی ہے، اللہ کی کرسی بھی ہے، اور روح الارواح (کائنات گیر روح) بھی ہے، پس اسماء الحسنٰی انوار بھی ہیں، اور نورٌعلی نور کا سلسلہ بھی اور دورِ محمدیؐ کے اسمائے عظام بھی ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۵؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۴۷
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۵
حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ کا بابرکت ارشاد ہے:
اَعرَفُکُم بنفسِہٖ اَعرَفُکُم بِرَبِّہٖ۔
ترجمہ: تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنی روح کو پہچانتا ہے وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اہلِ ایمان کے لئے معرفت کے بہت سے درجات ہیں، تاکہ وہ رفتہ رفتہ معرفت میں بہت آگے جا سکیں، معرفت کا ہم لفظ یقین بھی ہے جو تین بڑے درجوں میں ہے، یعنی علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین، حق الیقین حظیرۂ قدس کے عظیم الشّان معجزات میں ہے۔
میں ایک طرف سے اسرار بیان کرنے سے بہت ڈرتا بھی ہوں کہ کہیں ان کی ناشکری اور ناقدری نہ ہو، اور دوسری طرف سے کوئی طاقت مجھے مجبور کرتی رہتی ہے کہ تم اپنے عزیزوں کے لئے ہر راز کو بیان کرو، اور علم و حکمت اور معرفت خاص طور پر ان کو بتاؤ، جن کو بتانا چاہئے۔
عزیزانِ من! آپ کو خوب علم ہے کہ یہ نعمتیں معمولی نہیں ہیں، اس لئے ہمیں شکر گزاری میں اشکبار ہونا ہے، اللہ ہمیں توفیق و ہمت عطا فرمائے، آمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۵؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۴۸
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۶
حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے:
من عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ۔
ترجمہ: جس شخص نے اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔ انسان میں وہ اعلیٰ روح کب آئی جس کی معرفت حضرتِ ربّ العزت کی معرفت ہو سکے؟ انسان میں روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی یہ تین روحیں اپنا اپنا کام کرتی رہتی ہیں، مگر یہ ربِّ تعالیٰ کی معرفت کی آئینہ داری نہیں کرسکتی ہیں، لہٰذا اس پُرحکمت ارشاد میں کوئی بہت بڑا راز پوشیدہ ہے، وہ عظیم راز مرتبۂ عشق و فنا ہے، یعنی جب تک کوئی انسان ہادیٔ برحق (امامِ زمانؑ) میں فنا ہو کر اپنی انائے علوی کو امامؑ میں نہیں پہچانتا، وہ اپنے ربّ کو نہیں پہچان سکتا ہے، صاحبانِ عقل کے لئے یہی بیان کافی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حضرتِ مولانا امام محمد باقر علیہ السّلام کے فرمانِ مبارک کو کبھی بھول نہ جانا! (ما قیل فی اللہ) کوئی شک نہیں کہ اشیائے کل کا خزانہ امامِ مبینؑ ہی ہے تو یقیناً رب العزت کی معرفت کا کنزِ مخفی بھی آپ ہی ہیں، دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، ص ۲۵ پر یہ حدیث شریف درج ہے۔
من مَاتَ لَایَعرِفُ امامَ دھرِہٖ حَیّاً ماتَ میتۃً جاھلیّۃً
۲۴۹
ترجمہ: جو شخص مر جائے درحالیکہ وہ اپنے زمانے کے امامِ حیّ و حاضرؑ کو نہیں پہچانتا تھا تو وہ شخص جاہلیت کی موت مرگیا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بموقعِ عیدالاضحی منگل ۶ ؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۵۰
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۷
سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں اللہ تعالیٰ کا مبارک ارشاد ہے:
فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا۔
ترجمہ: ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت (عقل کی باتیں) عطا فرمائی اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی۔
آلِ ابراہیمؑ کی توضیح: حضرتِ اسماعیلؑ اساسِ مستقر اور ان کی نسل سے امامانِ مستقر، اور حضرتِ عمران (ابوطالبؑ امامِ مقیم)، حضرتِ محمدرسول اللہ (صلعم)، أئمۂ آلِ محمد علیھم السّلام، دوسری طرف حضرتِ اسحاقؑ اساسِ مستودع اور ان کی نسل سے امامانِ مستودع اور کئی انبیاء علیھم السلام تھے، یہ تمام حضرات آلِ ابراہیمؑ ہیں۔
مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں آلِ ابراہیمؑ پر اللہ تعالیٰ کے تین عظیم احسانات کا ذکر ہے: اوّل: آسمانی کتاب اور اس کی وراثت، دوم: حکمت، یہ تاویل بھی ہوسکتی ہے، سوم: عظیم سلطنت، یہ زمانے میں امامِ برحقؑ کی روحانی سلطنت ہے، اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ پر عظیم احسانات اس لئے فرمائے کہ لوگ ان سے رجوع کریں، اطاعت و فرمانبرداری اور عشق و محبّت سے ان میں فنا ہوجائیں، کیونکہ لوگ ان وسائل کے بغیر از خود روحانی سفر نہیں کرسکتے ہیں۔ آلِ ابراہیمؑ کا سلسلہ محمدؐ و آلِ محمدؐ کے توسط سے جاری و باقی ہے اور انہی حضرات کو آسمانی کتاب کی وراثت حاصل ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بموقعِ عیدالاضحی منگل ۶؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۵۱
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۸
سورۂ بقرہ(۰۲: ۲۵): ۔
وَبَشِّرْ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔
ترجمہ با تاویلی مفہوم: اور جو لوگ حقیقی معنوں میں ایمان لائے اور انہوں نے منشائے الٰہی کے مطابق نیک کام کئے ان کو اے پیغمبر خوشخبری دیدو کہ ان کے لئے بہشت کے وہ علمی باغات ہیں یعنی کلمۂ باری اور کلماتِ تامات جن کے نیچے تائیدِ الٰہی کی نہریں جاری ہیں جب انہیں ان علمِ الٰہی کے باغات کا کوئی میوہ کھانے کو ملے گا تو اس سے ان پر یہ راز کھل جائے گا کہ وہ اس سے پہلے بھی بہشت میں رہ چکے تھے وہ یقین سے کہیں گے کہ ہم پہلے بھی یہ علمی میوہ کھا چکے تھے الغرض بہشت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے اسرار ان پر منکشف ہو جائیں گے۔
اور بہشت میں ان کے لئے جسماً، روحاً اور عقلاً پاک کی گئیں بیویاں ہیں وہاں نہ صرف بیویاں بلکہ ان کے شوہر بھی جسمِ لطیف میں تین قسم کی پاکیزگی کے ساتھ ہوں گے یعنی جسمِ لطیف، روحِ شریف اور عقلِ کامل اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، الحمد لِلّٰہ ربّ العٰلمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۷ ؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۵۲
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۹
سورۂ اعراف (۰۷: ۵۴):
إِنَّ رَبَّكُمْ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ۔
ترجمہ: درحقیقت تمہارا ربّ اللہ ہی ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اپنے تختِ سلطنت پر جلوہ فرما ہوا جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کئے سب اس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار ہو! عالمِ خلق اور عالمِ امر دونوں اسی کے ہیں۔ بڑا بابرکت ہے اللہ تمام عوالمِ شخصی کا مالک و پروردگار۔
تاویل: یقیناً تمہارا ربّ اللہ ہے، جس نے عالمِ دین کے آسمانوں اور زمین کو چھ ناطقوں کے ادوار میں پیدا کیا، جن کی مدت تقریباً چھ ہزار برس کے برابر ہوتی ہے، پھر اس نے عرش پر استویٰ کیا، یعنی چھ ناطقوں کے ادوار کے بعد دورِ حضرتِ قائم میں مساواتِ رحمانی اور یک حقیقت کے اسرار سمجھانے کا کام شروع کیا، اور ابھی معلوم نہیں کہ اس دور میں کیسے کیسے معجزات رونما ہوں گے، ہونا یہ چاہئے کہ جسمِ لطیف
۲۵۳
کا ایک زبردست لشکر آسمان سے اتر آئے اور قیامۃ القیامات برپا ہوجائے، اور وہ سب کچھ ہوجائے جو اللہ تعالیٰ کے کلام (قرآن) میں ارشاد فرمایا گیا ہے، ان شاء اللّٰہ تعالیٰ۔
آدمؑ ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسٰیؑ، عیسٰیؑ اور محمد رسول اللہؐ، یہ چھ ناطق حضرات علیھم السّلام اللہ کے وہ چھ زندہ دن تھے، جن میں خدا نے عالمِ دین کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور حضرتِ قائم اللہ کا وہ ساتواں دن ہے، جس میں اس نے عرش پر استویٰ کیا یعنی دورِ قیامت کے تمام معجزات کا کام کیا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۸؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۵۴
تحائفِ معرفت برائے عاشقانِ نورِ امامت
قسط: ۱۰
سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶):
أَلَمْ تَرَى إِلَى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلا ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا۔
ترجمہ: (اے رسولؐ) کیا تم نے (عالمِ علوی میں) اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا؟ کہ اس نے کیونکر عالمِ امر کا سایہ عالمِ خلق میں پھیلا دیا اگر وہ چاہتا تو اسے ایک ہی جگہ ٹھہرا ہوا کر دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس کا رہنما بنا دیا پھر ہم نے اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے اپنی طرف کھینچ لیا۔
اس ارشادِ مبارک کی مجموعی تاویل یہ ہوتی ہے کہ عالمِ خلق جو عالمِ کثیف ہے وہ عالمِ امر (عالمِ لطیف) کا سایہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلاَلاً۔ (۱۶: ۸۱)
ترجمہ: اور خدا ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے۔ یہ آیت دراصل ہر دانا شخص کو اللہ تعالیٰ کے عظیم اور خاص احسانات کی طرف توجہ دلاتی ہے، لہٰذا مادّی چیزوں کے سائے صرف مثال کی حد تک محدود ہوسکتے ہیں اور بس۔
۲۵۵
نیزیہ بات بھی معلوم ہی ہے کہ ہر مادّی چیز کا سایہ تاریک اور بیجان ہوتا ہے، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اپنی جس اعلیٰ مخلوق کا پُرحکمت سایہ بنا کر اپنے بندوں پر خاص احسان فرمایا ہے، وہ عالمِ شخصی میں عالمِ امر کی ہر چیز کا نورانی نمونہ ہوسکتا ہے اور قادرِ مطلق ایک ہی آئینۂ نور میں ہر چیز کی مثال اور نورانی نمونہ دکھا سکتا ہے۔
بہشت کی اعلیٰ نعمتوں میں ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ (۵۶: ۳۰) دور تک پھیلی ہوئی چھاؤں کی بھی تعریف ہے، اس کی تاویل ہے نورِ علم کے ذریعے سے دور دور تک پھیلی ہوئی اللہ کی نعمتوں تک رسائی اور حصول۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعرات ۸؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۵۶
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۱
ہمارے عظیم المرتبت پیروں اور دینی بزرگوں کو امام شناسی کا سب سے بڑا انعام تاویلی حکمت کی صورت میں ملا تھا، آپ ان حضرات کی مقدّس تعلیمات کو خوب غور سے پڑھیں اور یہ بتائیں کہ ان کے مبارک الفاظ و کلمات حکمت سے لبریز ہیں یا نہیں؟ آپ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے مقدّس ارشادات کے حوالے سے یہ بتائیں کہ ہمارے پیروں کے گنانوں کا قرآن سے کیا رشتہ ہے؟ نیز آپ یہ بتائیں کہ امامِ عالی مقامؑ کے پاک اور فیصلہ کن فرمان کے مطابق امامؑ کے مریدوں کے لئے روحانی ترقی کس حد تک یا کہاں تک ممکن ہوسکتی ہے؟
میرے خیال میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے نہ صرف اپنے قولِ مبارک ہی سے اپنے تمام مریدوں کو روحانی اور علمی ترقی کی ترغیب و تشویق دی ہے، بلکہ پاک امامؑ نے اس سلسلے میں جماعتی ادارہ جات وغیرہ کی شکل میں بھی بہت کچھ کیا ہے، میرا یہ بھی خیال ہے کہ اسماعیلی تاریخ میں کبھی کسی امام نے اتنے زیادہ مومنین و مومنات کو اسمِ اعظم کے سب سے عظیم انعام سے نہیں نوازا تھا، حضرتِ مولانا امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: پیر صدرالدین نے تمہیں جو گنان بنا کر دئے ہیں وہ ہندوستانی زبان میں قرآن کا نچوڑ ہیں (۵؍ جولائی ۱۸۹۹ء، کلامِ امامِ مبین، حصۂ اوّل، ص ۸۵)۔
نوٹ: قرآن کے نچوڑ کا دوسرا نام حکمت اور تاویل ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۹؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۵۷
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۲
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ فرماتے ہیں:
“انسان میں سے فرشتہ بن جانے کا یقینی امکان ہے، لیکن اس عظیم کامیابی کے لئے بڑی سخت محنت درکار ہے”۱
“پیر صدرالدین بھی تم جیسا ایک آدمی تھا، اس میں اور تم میں ظاہراً اور جسماً کوئی فرق نہ تھا، وہ ظاہر میں ہر لحاظ سے تم جیسا تھا، مگر پیر صدرالدین عقلمند، دانا، سچا اور پاک باطن تھا، پیر صدرالدین کہیں اکیلے بھی جا رہے ہوتے تو تب بھی سمجھتے تھے کہ خدا میرے ساتھ ہے، تم بھی سخت محنت کرو اور پیر صدرالدین جیسے بنو”۲
“تمہارا اصل مقام کتنا بڑا بلند ہے اس سے تم لا علم ہو۔”۳
“تم جب جب سجدہ کرو تو دعا مانگو کہ خدایا ! ہمیں اصل مقام پر پہنچاؤ۔”۴
“محنت کر کے (حقیقی) علم سیکھو اور عالی ہمتی سے کام لو، جس میں ہمت ہو وہ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔”۵
“جو بے علم ہیں وہ حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن جو حقیقی ہیں وہ اس راستے (یعنی حقیقت) پر چلتے ہیں، جیسے ماضی میں حضرتِ عیسیٰؑ، پیر صدرالدین، ناصر خسرو، پیر شمس، مولانا رومی، اس طرح کے لوگ حقیقت کے راستے پر چلے، یہ راستہ نادان کے لئے بہت مشکل ہے۔” ۶
۲۵۸
“عیسیٰؑ حقیقتی تھا وہ خدا میں فنا ہوا، تم بھی فنا فی اللہ ہوجاؤ۔”۷
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۹؍ مارچ ۲۰۰۱ء
؎۱ امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ اوّل، ص ۲۲۹۔ (زنجبار، ۱۷-۸-۱۹۰۵ء)۔
؎۲ ایضاً، ص ۱۱۴۔ (زنجبار، ۱۳-۹-۱۸۹۹ء)۔
؎۳ ایضاً، ص ۱۳۹۔ (جام نگر، ۶-۴-۱۹۰۰ء)۔
؎۴ ایضاً، ص ۳۵۵۔ (دارالسلام، ۲۹-۹-۱۸۹۹ء)۔
؎۵ ایضاً، ص ۱۵۲۔ (احمدآباد، ۱۳-۱۰-۱۹۰۳ء)۔
؎۶ ایضاً، ص ۳۵۴۔ (دارالسلام، ۲۹-۹-۱۸۹۹ء)۔
؎۷ ایضاً، ص ۳۵۰۔ (دارالسلام، ۲۹-۹-۱۸۹۹ء)۔
۲۵۹
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۳
مولا فرماتے ہیں:
“جیسے کوئی انسانی بچہ اپنی ماں سے بچھڑ جاتا ہے یا گم جاتا ہے تب وہ روتا رہتا ہے کہ کب ماں کے پاس جا پہنچوں! تم بھی ایسے بنو۔”۱
“تم ابھی تک روحانیّت سے دور دنیا ہی میں بیٹھے ہو، اس لئے تمہیں دل سے رونا چاہئے۔”۲
“اس دنیا میں دو قسم کے مومن ہیں، جس میں ایک جسم کے ہیں اور دوسرے روح کے ہیں، جو جسم کے مومن ہیں وہ یہاں ہی خوش ہوتے ہیں، یعنی وہ اس دنیا ہی میں رہنے میں خوش ہیں، ان کی جگہ زمین میں ہوتی ہے، یہ بڑائی کے مومن ہیں، وہ بالآخر زمین (خاک) ہی میں جاتے ہیں، دوسرے جو روح کے مومن ہیں، وہ ایسے ہوتےہیں کہ دین کے کام میں آگے ہی آگے قدم بڑھاتے جاتے ہیں، وہ رکتے نہیں، وہ مسلسل آگے بڑھتے ہی رہتے ہیں، ایسے لوگ بہشت سے بھی اوپر جائیں گے۔”۳
“بہشت سے بھی زیادہ پاک ایک جگہ ہے وہاں تک روح کو پہنچنا چاہئے۔”۴
“ہمارے فرامین کی تاویل کر کے جماعت کو سمجھا دینا یہ واعظین کا خاص کام ہے۔”۵
مولا کا ایک بڑا اہم فرمان یہ بھی ہے: “تم سب پر واجب اور لازم ہے کہ دین کی باتیں ایک دوسرے کو سناؤ (اگر) نہیں سناؤ گے تو گناہ ہوگا۔”۶
’’ماسٹر (ٹیچر) کو
۲۶۰
قابل اور ہوشیار ہونا چاہئے نیز روحانی علم سے بھی واقف کار ہونا ضروری ہے۔”۷
یہا ں سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ امامؑ اپنی جماعت کو روحانی علم اور تاویل سکھانا چاہتے ہیں، آیا اس فرمان میں ایسا نہیں ہے؟ کیا کسی اسماعیلی کو امامؑ کے اس ارشاد میں کوئی شک ہے؟ اگر اسماعیلی مذہب میں تاویل کرنا صرف امامؑ ہی کا کام ہے تو پھر مولا کیوں فرماتے ہیں کہ ہمارے فرامین کی تاویل جماعت کو سکھا دینا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۱۰؍ مارچ ۲۰۰۱ء
؎ ۱ امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ اوّل، ص ۳۵۵۔ (دارالسلام،۲۹-۹-۱۹۹۹ء)۔
؎۲ ایضاً، ص ۱۷۰۔ (راجکوٹ، ۲۱-۱۰-۱۹۰۳ء)۔
؎۳ ایضاً، ص ۲۰۰۔ (کچھ بدریسر،۲۳-۱۱-۱۹۰۳ء)۔
؎۴ ایضاً، ص ۱۶۵۔ (وڈھوان کیمپ،۱۹-۱۰-۱۹۰۳ء)۔
؎۵ ایضاً،جلدِ دوم، ص ۳۲۱۔ (کمپالا، ۱۷-۵-۱۹۴۵ء)۔
؎۶ ایضاً، جلدِ اول ،ص۱۳۲۔ (جام نگر،۴-۴-۱۹۰۰ء)۔
؎۷ ایضاً، ص ۲۲۱۔ (کچھ ناگپور، ۲۹-۱۱-۱۹۰۳ء)۔
۲۶۱
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۴
مولا فرماتے ہیں:
“ہمارا گھر آلِ رسول (صلعم) کا گھر ہے اور ہم ان کی آل ہیں، اس کا ثبوت کتاب اور قرآنِ پاک میں ہے۔”۱
“حاضر امام کے لئے نیت اور حب کے بغیر کوئی بھی چیز قبول نہیں ہوتی، یہ قرآن حکیم اور احادیثِ صحیحہ سے بھی ثابت ہے۔”۲
“جماعت کے پاس ہم مرتضیٰ علیؑ کے نور حاضر و ناظر بیٹھے ہیں، اس لئے آپ کو سچا یقین رکھنا چاہئے، ہم اس دنیا میں جامۂ جسم پہنتے ہیں اورتبدیل کرتے ہیں، لیکن ہمارا نور ازل سے ایک ہی نور چلا آیا ہے، اس لئے آپ کو نورِ واحد دیکھنا چاہئے۔”۳
“آپ اپنے دل میں اپنی اصل روح یعنی ہمارے نور کو دیکھیں … جوکوئی روحانی عشق رکھتا ہے وہی خدا پرست ہے، جسم کو دیکھنے والا بت پرست ہے، ہر ایک انسان کی روح تک امام کا نور رسا ہے، مومن کا دل امام کے رہنے کا محل ہے اور اس سعادت کا انحصار عشق پر ہے اگر وہ خود دکھائی دے تو ہی امام کی خوبی اور نوازش ہے کیونکہ امام زندہ اور بااختیار نور ہے۔”۴
“آپ کا مرتبہ کتنا بڑا بلند ہے؟ اس کا آپ کو علم نہیں، سلمان فارسی(جو) اہلِ بیت (سے ہوا تھا) آپ جیسا تھا، پیغمبرؐ فرماتے تھے کہ سلمان فارسی اہلِ
۲۶۲
بیتِ اطہار جیسا نورانی تھا، وہ اپنے اصل مقام پرپہنچا، سلمان فارسی بھی آپ جیسا انسان تھا، آپ بھی علم و عبادت سے سلمان فارسی جیسے بن سکتے ہیں، آپ علم و عبادت کے ذریعے سے پیر صدرالدین جیسے ہو سکتے ہیں، جانور جیسے ہوں تو آپ کو کیا فائدہ ہو؟”۵
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۱۰ ؍ مارچ ۲۰۰۱ء
؎ ۱ امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ اوّل، ص ۴۔ (بمبئی،۱-۹-۱۸۸۵ء)۔
؎۲ ایضاً، ص ۶۔ (بمبئی، ۸-۹-۱۸۸۵ء)
؎۳ ایضاً، ص ۸۔ (بمبئی، ۸-۹-۱۸۸۵ء)۔
؎۴ ایضاً، ص ۳۰۸۔ (بمبئی،۴-۴-۱۹۰۸ء)۔
؎۵ ایضاً، ص۱۳۹۔ (جام نگر،۶-۴-۱۹۰۰ء)۔
۲۶۳
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۵
مولا فرماتے ہیں:
“تم میں سے اکثر نے مذہب کی ایسی کتابیں نہیں پڑھی ہیں، تم ان کتابوں کو پڑھو گے تو تمہیں سمجھ آئے گی ، اور تم میں خرابی نہیں ہوگی، وہ کتابیں پڑھنے سے تمہاری عقل گواہی دے گی کہ تمہارا دین سچا ہے اور اس سے تمہیں تسلی ہوگی، دیوانِ شمس تبریز اور مثنویٔ مولانا رومی پڑھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ دوسرے ملکوں میں تمہارا دین کیسا چلتا ہے، تمہارا مذہب ہر ایک ملک میں ہے۔”۱
“پیر صدرالدین نے تمہیں تمہاری زبان میں علم سکھایا، اسی طرح ہماری طرف سے راہ دکھانے والوں نے جن کی زبان جیسی تھی انہیں اسی زبان میں نصیحت کی، فضول باتوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ایسی کتابیں پڑھو…دین کا مطلب برابر سمجھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ دین کے بزرگ کیسے تھے اور وہ خدا کے نزدیک کس طرح پہنچے، فلسفۂ الٰہیہ (حکمت) پڑھو تو خداوندِ تعالیٰ کےنزدیک ہوسکتے ہو، شمس تبریز، پیر صدرالدین اور مولانا رومی نے فلسفۂ الٰہیہ بہت پڑھا تھا اور قرآنِ شریف کو معنی و تاویل کے ساتھ پڑھا تھا، فقط پیر شمس، پیر صدالدین اور مولانا رومی ایسے بن سکے ایسا مت سمجھو، تم بھی محنت کر کے پڑھو تو ایسے بن سکتے ہو، ان جیسا مرتبہ حاصل کرنے کے لئے عالی ہمتی چاہئے۔”۲
۲۶۴
“قرآنِ شریف بھی حکمت اور دانائی سے پڑھو تو واجب ہے … حکمت کے ساتھ پڑھو گے تو فائدہ ہوگا”۳
“تم فرصت کے وقت دنیوی عشق کی باتیں یا کتابیں مت پڑھو، فرصت کے وقت دین کی نصیحتوں کی کتابیں پڑھو یا گنان و علم (کی کتابیں) پڑھو، جس سے تمہیں فائدہ ہو۔”۴
“ہماری تاریخ پڑھو، شجرہ پڑھو اور پوری تاریخ پڑھو، ہمارے آباؤاجداد فاطمی اسماعیلی أئمّہ جنہوں نے مصر میں دو سو سے تین سو سال تک حکومت کی ہے، ان کی تاریخ پڑھو۔”۵
“حقیقی علم کی کتابیں پڑھ کر اس پر عمل کرو گے تو فرشتے بن جاؤ گے۔”۶
“مذہبی کتابیں پڑھو، فرامین پڑھو تو روشنی ہوگی، دن کے وقت کام کرو، اور رات کو کتابیں پڑھو۔”۷
“دین کی باتیں ایک دوسرے سے خط و کتابت کے ذریعے منگاؤ، جس طرح بیوپار دھندے کے لئے ایک دوسرے سے خط و کتابت کرتے ہو، اسی طرح دینی معلومات کے لئے خط و کتابت کرو، اور ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح کا میل جول رکھو۔”۸
“ہمارے فرامین پر دھیان دو، اس کے معنی نکالو اور سمجھو، ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دوگے تو اس کا کیا فائدہ ہوگا۔”۹
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ہفتہ ۱۰ ؍ مارچ ۲۰۰۱ء
؎ ۱ امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ اوّل، ص۳۱۶۔ (زنجبار، ۱۴-۹-۱۸۹۹ء)۔
؎۲ ایضاً، ص۳۱۶۔ (زنجبار،۱۴-۹-۱۸۹۹ء)۔
؎۳ ایضاً، ص۳۱۸۔ (زنجبار،۱۴-۹-۱۸۹۹ء)۔
؎۴ ایضاً، ص ۳۳۹۔ (دارالسلام،۲۷-۹-۱۸۹۹ء
؎۵ ایضاً، ص۳۲۴۔ (زنجبار، ۱۶-۹-۱۸۹۹ء)۔
؎۶ ایضاً، ص۲۱۷۔ (کچھ ناگلپور،۲۸-۹-۱۹۰۳ء)۔
؎۷ ایضاً،جلدِ دوم، ص۸۳۔ (زنجبار،۱۸-۲-۱۹۲۵ء)۔
؎۸ جلدِ اوّل، ص۳۳۸۔ (دارالسلام،۲۷-۹-۱۸۹۹ء)۔
؎۹ جلدِ اوّل، ص۳۴۱۔ (دارالسلام، ۲۸-۹-۱۸۹۹ء)۔
۲۶۵
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۶
دینی تعلیم کے سلسلے میں مولا فرماتے ہیں:
“واعظین اور مذہبی اسکولوں کے اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ گنان اور فرمان کا روحانی مطلب سکھائیں، کیونکہ صرف گنان اور فرمان سکھا دینا کافی نہیں ہے۔”۱
امام علیہ السلام سے ہماری روحیں فدا! اگر گنان اور فرمان میں کوئی روحانی مطلب (معنی = تاویل = حکمت یا کوئی اشارہ) نہ ہوتا تو مولا ایسا نہ فرماتا، پس معلوم ہوا کہ گنان اور فرمان کے روحانی معنی بھی ہیں، اور یہی حکمت اور تاویل ہے، پھر میرا کوئی اسماعیلی بھائی کس طرح کہہ سکتا ہے کہ تاویل کرنا صرف امامؑ ہی کا کام ہے، ارے پیارے بھائی جان! اس فرمانِ مبارک میں غور کرو کہ اگر گنان اور فرمان میں کوئی روحانی مطلب نہ رکھا ہوتا، تو کوئی واعظ روحانی مطلب کو کہاں سے لا کر بیان کرتا؟
نیز یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ اگر تاویل امامؑ سے نچلے درجات تک نہ آتی تو بزرگانِ دین کی کتابوں میں اتنی ساری کتابی تاویلات نہ ہوتیں، اور أئمّۂ آلِ محمدؐ اپنے ارشادات میں تاویل کے بھیدوں کو ظاہر نہ کرتے ، لیکن ایسا نہیں ہے ، اس کے برعکس حقیقتِ حال یہ ہے کہ ہر امامؑ نے اپنے وقت میں تاویل کا ایک حصہ ظاہر کیا، تاویل کا اصل دروازہ اساس(علیؑ) ہے، تاہم ہر زمانے کا امامؑ علیؑ کا جانشین ہوتا ہے، اور تاویل کی ظہورگاہ عالمِ شخصی ہے، اور حضرتِ امامؑ مؤول (تاویل کرنیوالا)
۲۶۶
ہے، اور امامِ زمانؑ تاویلی معجزات کرتا ہے، اور ہر معجزہ ظاہر میں یا باطن میں دکھانا مقصود ہوتا ہے، اور یہ سچ ہے کہ امامؑ کے تاویلی معجزات کو صرف عارف ہی دیکھتا اور پہچانتا ہے، جو شخص علم الیقین کی آنکھ سے اندھا ہے وہ عین الیقین سے بھی اندھا ہے، یعنی جو کتابی تاویل سے انکار کرتا ہے وہ باطنی تاویل کو نہیں دیکھ سکتا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۱۱؍ مارچ ۲۰۰۱ء
؎۱ امام سلطان محمد شاہؑ، کلامِ امامِ مبین (بمبئی، ۱۹۵۰ء)، جلدِ دوم، ص۸۵۔ (زنجبار، ۱۹-۲-۱۹۲۵ء)۔
۲۶۷
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۷
اے نورِ عینِ من!حضرتِ علیؑ = امام علیہ السّلام کے مبارک اسماء و القاب میں سے ایک لقب “آیات اللہ” ہے، بمعنیٔ خدا کے معجزات، آپ کوکبِ درّی وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں، یقیناً امامِ اقدس و اطہرؑ اللہ کا نور اور سرچشمۂ معجزات ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳)۔
ترجمہ با تاویلی مفہوم: ہم آئندہ ان کو اپنے معجزات امام شناسی سے متعلق آفاق میں بھی اور خود ان کے عالمِ نفسی میں بھی دکھاتے رہیں گے تا آنکہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ وہ یعنی امامؑ برحق ہے۔
جب کسی عاشق پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہونے لگتی ہے تو ظاہری اور باطنی معجزات ایک ساتھ شروع ہوجاتے ہیں، یہ مقام منزلِ اسرافیلی بھی ہے اور منزلِ عزرائیلی بھی، یہ وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں تمام فرشتوں نے حضرتِ آدمؑ کے لئے سجدہ کیا تھا، اگرچہ آگے چل کر حظیرۂ قدس میں بھی بڑے بڑے فرشتوں نے آدمؑ کے لئے سجدہ کیا تھا۔
ظاہری معجزات کی کچھ تفصیل یہ ہے: صورِ اسرافیل کا قیامت انگیز معجزہ جس کو صرف عارف ہی سنتا ہے، جس کا بے مثال تذکرہ قرآن میں بڑا عجیب و غریب ہے، اور
۲۶۸
یہ قصّۂ حضرتِ داؤدؑ میں بھی انتہائی حیران کن ہے اور عالمِ ذرّ کے تمام ذراتی معجزات، جیسے یاجوج ماجوج کا خروج، ستاروں کا گرنا، جنّ و انس اور وحوش و طیورکا جمع ہونا، عالمِ ذرّ کے تمام معجزات، تقریباً ایک ہفتہ تک قبضِ روح اور واپس بدن میں روح ڈالنے کا عمل، القابض اور الباسط کا معجزہ، بہت سے عوالمِ شخصی اور بہت سی کائناتیں بنانے کی قدرتِ خداوندی کا معجزہ ، مسلسل حشر اور نشر کا معجزہ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۱۱؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۶۹
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۸
قرآنِ حکیم میں قیامت کے بہت سے اسماء آئے ہیں، اور ہر اسم کے عنوان کے تحت قیامت کا ایک بیان موجود ہے، اور مولاعلیؑ جو خدا و رسولؐ کی طرف سے سب لوگوں کا امامؑ، نور اور صاحبِ تاویل ہے، اس نے فرمایا کہ قیامت تاویلاً وہ خود ہی ہے (بحوالۂ کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۲۷) پھر یقیناً قیامت سرتا سر امام شناسی کے اسرار سے لبریز ہے اور یہ حقیقت ہے، واللہ مضامینِ قرآن میں سے کوئی مضمون ایسا نہیں جس کے باطن میں امام شناسی کے جواہر بھرے ہوئے نہ ہوں۔
اے نورِ عینِ من! امامؑ علیٔ زمان ہے، اور علیؑ وجہ اللہ ہے، جس کے بارے میں قرآنِ حکیم فرماتا ہے: فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ = جس طرف بھی تم رخ کرو گے اسی طرف اللہ کا رخ ہے، یعنی عالمِ قرآن میں ہر طرف وجہ اللّٰہ کی جلوہ نمائی ہے، لہٰذا بالواسطہ یا بلاواسطہ امامِ عالی مقامؑ کے ذکرِ جمیل کے بغیر کوئی آیت نہیں ہے۔
اے عزیزان ! مولا علی صلوات اللہ علیہ نے اپنے بابرکت اور پُرحکمت ارشادات میں جس عظیم الشّان طریقے سے قرآنی تاویلات کو بیان فرمایا ہے وہ اساسی اور کلیدی تاویلات ہیں، لہٰذا ہر عاشق کا یہ فریضۂ عشق ہے کہ وہ اپنے معشوق کے ارشادات کو بار بار پڑھے، تاآنکہ اس کو ہر ارشاد کا مطلب یاد ہو، اور ان کی برکتیں شروع ہو جائیں۔
۲۷۰
یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امامؑ اپنے مریدوں کو دو مرحلوں میں علمِ تاویل سکھاتا ہے: اوّل مرتبۂ علم الیقین میں ، دوم مرتبۂ عین الیقین میں، پس مولانا علیؑ اپنی ذاتِ عالی صفات کی شان میں جو کچھ ارشاد فرماتا ہے وہ آپ کے لئے بنیادی امام شناسی بھی ہے اور کلیدی تاویل بھی، جیسے ارشاد ہے کہ علیؑ آیات اللہ ہے ، وہ قیامت ہے، وہ ناقور ہے، ذوالقرنین ہے، لوحِ محفوظ ہے، ذَالِکَ الْکِتَابْ ہے، وغیرہ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۲؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۷۱
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۹
آپ کے لئے قرآنِ حکیم میں سوال تھا کہ ذوالقرنین کون ہے؟ سن لو حضرتِ مؤولِ قرآن یعنی قرآنِ ناطق (علیؑ) نے کیا فرمایا؟ اَنَا ذُوالقَرنَینِ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ = یعنی میں اس امت کا ذوالقرنین ہوں۔
سورۂ کہف (۱۸: ۸۳ تا ۹۹): ذوالقرنین کے لفظی معنی = دو سینگوں والا، مراد صاحبِ صورِ قیامت، کیونکہ ایک دن کسی اعرابی نے رسولؐ اللہ سے پوچھا یا رسولؐ اللہ! صورکیا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا: وہ ایک سینگ ہے جس میں پھونک مار کر زور دار آواز نکالی جاتی ہے، یہ ایک عام شخص کی عقل کے مطابق آنحضرتؐ کا جواب فرمانا تھا۔
صورِ اسرافیل دو حصوں میں بھی ہے اور وہ ایک ہی سلسلہ بھی ہے، جہاں صورِ قیامت کو پہلی بار اور دوسری بار پھونکنے کا ذکر ہے (۳۹: ۶۸) اس کی مثال دو سینگ پھونکنے کی ہوئی، اور یہ حقیقی صورِ اسرافیل پر ایک حجاب ہوگیا، جس طرح تمام تر چیزیں مثالوں کے حجابات میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔
مولا علیؑ نے واضح الفاظ میں بھی فرمایا: میں قیامت ہوں، میں ناقور ہوں، میں قیامت کا برپا کرنے والا ہوں، مگر یہ جو فرمایا کہ “اس امت کا ذوالقرنین ہوں” یہ ساری امت سے امتحان ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک امت ہے تب تک اس کا ذوالقرنین (یعنی امامؑ) ساتھ ہے، جب تک دنیا میں اللہ کی کتاب (قرآن) ہے
۲۷۲
تب تک اللہ کا نور بھی ہے (۰۵: ۱۵) ذوالقرنین کا قصہ قرآن میں اور اس کی معرفت عالمِ شخصی میں ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۲؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۷۳
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۱۰
آپ کے لئے ایک بڑا مشکل سوال یہ بھی تھا کہ آیا ہر چیز امامِ مبینؑ میں ہے یا لوحِ محفوظ میں ہے؟ تو مولائے پاک نے تاویلاً جواب عطا فرمایا کہ اَنَا اللّوحُ المحفوظُ۔ یعنی میں ہی لوحِ محفوظ ہوں۔
نورِ محمدیؐ قلمِ اعلیٰ ہے اور نورِعلیؑ لوحِ محفوظ ہے، نورِ محمدیؐ کو خدا نے جو قلمِ قدرت بنایا وہ فرشتۂ عقلِ کلّی بھی ہے اور نورِ عرش بھی، اور نورِعلیؑ سے جو لوحِ محفوظ ہے وہ نفسِ کلّی کا فرشتہ بھی ہے اور کرسی کے نام سے عالمگیر نور بھی ہے اور یہاں یہ حکمت بھی خوب یاد رہے کہ کبھی محمدؐ و علیؑ کا نور ایک ہوتا ہے اور کبھی دو نور ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آسمانِ عقلِ کلّ اور زمینِ نفسِ کلّ ایک بھی ہیں اور دو بھی، اسی طرح قلم و لوح دو بھی ہیں اور ایک بھی، یہی حقیقت عرش و کرسی کی بھی ہے، اور خود محمدؐ و علیؑ کا معجزہ بھی ایسا ہی ہے، شاید یہ لوگوں سے بہت بڑا امتحان ہے، یا عاشقوں کو حیران کردینے کے لئے یہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔
علم و معرفت کے دعویدار سب کے سب اس رازِ معرفت کے جاننے سے عاجز ہیں، لوگ شاید یہ خیال کرتے ہوں گے کہ اتفاق سے حدیثِ بخاری کے سب سے بڑے ذخیرے میں علیؑ سے متعلق احادیث کم آئی ہیں، یہ لوگ کتنے سادہ لوح ہیں، درحالیکہ بخاری میں ایک مختصر حدیثِ شریف ایسی حکمت سے مملو بھی ہے کہ اس کا وزن سو
۲۷۴
کائناتوں سے بھی زیادہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرتِ علیؑ سے فرمایا:
اَنتَ مِنّی وَاَنَا مِنْکَ = تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔
تاویل: تیرا نور میرے نور سے ہے اور میرا نور تیرے نور سے ہے، سبحان اللہ!(صحیح بخاری، جلدِ اوّل، کتاب الانبیا ٔ، باب ۳۹۱)۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۳؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۷۵
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۱۱
حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا:
اَنَاالّذِیْ عِنْدِی الفُ کِتَابٍ مِن کُتُبِ الاَنبِیَاءِ = یعنی میں وہ شخص ہوں جس کے پاس انبیاء علیھم السلام کی کتابوں میں سے ہزار کتابیں موجود ہیں۔
اَنَا المُتَکَلِّمُ بِکُلِّ لُغَتٍ فِی الدُّنیا = یعنی میں وہ شخص ہوں جو دنیا کی ہر لغت و زبان میں کلام کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
اَنَا صَلوٰۃُ المُومِنینَ وَزَکوٰتُھُم وَحَجُّھُم وَجِھَادُھُو: یعنی میں مومنین کی نماز اور ان کی زکات اور ان کا حج اور ان کا جہاد ہوں۔
اس حقیقت کی پہلی دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی دینی فریضہ علیؑ کے عشق و محبت کے بغیر قبول نہیں، دوسری دلیل یہ ہے کہ ہر فریضہ کی تاویل کو کتابِ وجہِ دین میں دیکھو امامؑ اور حدودِ دین کی معرفت کا ذکر اور دعوتِ حق کا ذکر ہے، گویا تمام فرائض کا جوہر امامؑ کی معرفت ہے۔
سوال: امامؑ کس طرح دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہے؟
جواب: یہ معجزہ مولا کے لئے بہت آسان ہے، حضرتِ امام علیہ السلام روح کا ایک ذرہ نہیں بلکہ وہ کلِ کلیات اور اپنے کائناتی نور میں نفسِ کلّ ہے، جس
۲۷۶
کے سمندر میں دنیا کے سب لوگ اپنی اپنی زبانوں کے ساتھ مستغرق ہیں، جب ان میں سے کوئی شخص وقت آنے پر اپنی زبان میں امامؑ سے کلام کرتا ہے، اس اجنبی زبان میں امامؑ کے معجزانہ کلام کو سن کر یہ شخص حیرت زدہ ہو جاتا ہے، اور خود اپنی ہی زبان میں بہت سی غلطیاں کر کے امامؑ کے سامنے شرمندہ ہوجاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ہر زبان کے اندر ایک اصل زبان محفوظ ہے، تاکہ امامِ عالی مقامؑ روحانی قیامت یا بہشت میں اسی اصلی زبان میں اہلِ زبان کے ساتھ کلام کرے ، تاکہ لوگوں کو بڑی حیرت ہو کہ حضرت امامؑ کیونکر ہماری زبان میں ایسی فصاحت و بلاغت کے ساتھ بولتے ہیں! اس محفوظ زبان کا ایک اور مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص امامؑ سے تاویل سننے کے قابل ہوجاتا ہے تو وہ تاویل اسی محفوظ زبان میں ہو۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۳؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۷۷
تاویلی حکمت امام شناسی کا انعام ہے
قسط: ۱۲
حضرتِ مولانا امیرالمؤمنین علی علیہ السّلام نے فرمایا: اَنَا البَعُوضَۃُ الّتیْ ضَرَبَ اللّٰہُ بِھَا مَثَلاً (۰۲: ۲۶) = یعنی میں وہ بعوضہ ہوں جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی ہے، مولا کے حقیقی عاشقوں کے لئے یہاں ایک بڑا لطیف اور بڑا عجیب وغریب راز ہے، کیونکہ یہ کوئی ظاہری بعوضہ (مچھر) نہیں ہے، بلکہ صورِ اسرافیل یا آوازِ ناقور کی طرف ایک بہت ہی باریک صوتی اشارہ ہے جس کے بارے میں لوگ کچھ بھی نہیں جانتے ہیں، وہ ہے آدمی کے کان کا بجنا جو مچھر کی آواز کی مانند ہے۔
جب اللہ کے حکم سے کسی مومنِ سالک پر جیتے جی عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہونے کا وقت آتا ہے تو اسی کان کے بجنے میں بتدریج اضافہ ہونے لگتا ہے، پھر اسی آواز سے داعیٔ قیامت (۵۴: ۰۶؛ ۲۰: ۱۰۸) يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِي لاَ عِوَجَ لَهُ۔ یعنی جس پر قیامت گزرتی ہو اسی کی زبان میں داعی ہوگا، پس مولا نے فرمایا کہ میں ناقور بھی ہوں اور اسکی آواز کی اساس بھی ہوں، یعنی کان کا بجنا، کہ اسی سے دعوتِ قیامت اور ناقور شروع ہوجاتا ہے۔
دعوتِ قیامت میں سب سے پہلے یاجوج ماجوج کو بلایا جاتا ہے، اسی کے ساتھ عالمِ ذر کا ظہور طوفانی شکل میں ہوتا ہے، اب صورِ اسرافیل کی آواز کائنات
۲۷۸
گیر ہوجاتی ہے، جس کا پہلا حصّہ بڑا سخت اور تباہ کن اور دوسرا حصّہ بدرجۂ انتہا شیرین مانندِ مستانہ پریلو (بانسری، یا کوئی بہشت کی شہنائی) مگر بے مثال، جان بخش، حیات آفرین، روح پرور، جس کی لذّت ناقابلِ فراموش، اے کاش! ایسی قیامت باربار آتی! اے کاش! اے کاش! پھر وہ پریلو (بانسری) ہم کب سنیں گے؟ اے لشکرِ اسرافیلی! تم بڑے خوش نصیب ہو، تمہاری آواز سے فدا ہو جاؤں، مجھے اپنی اپنی مجلس میں رکھو، مجھے خوب رلاؤ، خوب رلاؤ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۱۴؍ مارچ ۲۰۰۱ء
۲۷۹