صنادیقِ جواہر

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

مُناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات

الہی شکرِ نعمت کے لئے اب چشمِ گریان دے

“فنائے عشق ہوجاؤں” یہی ہر لحظہ ارمان دے

اطاعت آنسوؤں سے ہو عبادت آنسوؤں سے ہو

محبّت آنسوؤں سے ہو مجھے اک ایسا ایمان دے

مجھے یہ گریہ و زاری ہمیشہ تازہ رکھتی تھی

خدایا میری عِلّت کی یہی ہے کُہنہ درمان دے

مناجاتوں میں سب احباب اکثر گڑگڑاتے ہیں

تو اپنے فضل سے ان کو الٰہی گنجِ قرآن دے

 

۷

 

بھلی لگتی ہے بیحد آنسوؤں کی گوہر افشانی

خداوندا! کرم کر ہم کو چشمِ گوہر افشان دے

ترے قُرآنِ اقدس میں جواہر ہی جواہر ہیں

اِسی دریائے رحمت سے خدایا دُرّ و مرجَان دے

حبیبِ کبریا ہے وہ کہ تاجِ انبیاء ہے وہ

محمّد مصطفیٰؐ ہے وہ اسی کا ہم کو فرقان دے

علیؑ قُرآنِ ناطق ہے علیؑ ہی بابِ حکمت ہے

اسی کی رہنمائی سے دلوں کو نورِ عرفان دے

امام و حُجّتِ قائم کہ سُلطان بھی ہے جانان بھی

نصیرالدّین کو یا ربّ ہمیشہ وصلِ جانان دے

 

ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۷؍جون  ۱۹۹۹ء

 

۸

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آغازِ کتاب

احساناتِ خداوندی کا طویل سلسلہ: اے دوستانِ عزیز! یہ حقیقت ہےکہ ہم سب کئی معنوں میں فردِ واحد کی طرح ایک ہیں، لہٰذا آئیں ہم سب مل کر خداوندِ عالم کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کی شکرگزاری کریں، اور اس پسندیدہ عمل کے لئے اسی سے توفیق و ہدایت طلب کریں، مناجات اور گریہ و زاری کے سمندر میں مُستغرق ہو جائیں، برستے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ بار بار سجدے میں گر پڑیں، اور اگر اس کی رحمت سے یُوں لگتا ہے کہ اب دل کسی حد تک صاف ہوگیا، تو اس حال میں سب کے لئے دعائیں کرتے جائیں۔

اس کتاب کا نام: پہلے یہ تجویز ہوئی تھی کہ اس کتاب کا نام “حکمتی سوال و جواب” ہوگا، لیکن یہ نام پس منظر میں چلا گیا، اور رفتہ رفتہ “صنادیقِ جواہر” کے اسم سے موسوم ہوگئی، صندوق (چوبی بکس) پیٹی، ٹرنک مشہور چیز ہے، اس کی جمع صنادیق ہے، اور کتاب کا نام صنادیقِ جواہر اس لئے ہے کہ اس میں بہت سے صندوقِ جواہر ہیں، اور ہر بکس میں علم و حکمت کے انتہائی گرانمایہ جواہر بھرے ہوئے ہیں،  الحمد للّٰه عَلیٰ احسانِہ۔

 

۹

 

صندوق کا قرآنی نام تابوت ہے، اور وصفی نام ہے: التّابوتُ فیہِ سکینَۃٌ (وہ صندوق جس میں پروردگار کی طرف سے تسکین ہے۔ ۰۲: ۲۴۸) پروردگار کی طرف سے تسکین چند مادّی چیزوں سے کس طرح ہوسکتی ہے، یہ بات ممکن ہی نہیں، پس اس تسکین سے عظیم ترین باطنی معجزات مراد ہیں، جو امامؑ کے روحانی بادشاہ ہونے کی علامات ہیں، یاد رہے کہ حضرتِ طالوت امام تھا، اور جو شخص امامِ زمانؑ کی خصوصی ہدایت کے مطابق راہِ روحانیّت پر گامزن ہوجاتا ہے، اس کو یہ روحانی صندوق جو عظیم معجزات سے پُر ہے مل جاتا ہے۔

حضرتِ طالوتؑ کا قرآنی قصّہ ہر امام کا قصّہ ہے، آپ اس کو حکمت کے ساتھ پڑھیں (۰۲: ۲۴۶ تا ۲۵۱) جس کے لئے چند کلیدی الفاظ کے خاص معنی اور حکمت کا خیال رکھنا ضروری ہے، چنانچہ بَعَثَ کے معنی ہیں: اس کو زندہ کیا ہے، یعنی مقامِ روح پر بھی اور مرتبۂ عقل پر بھی، دوسرا اہم لفظ مَلِکُ (بادشاہ) ہے، جس سے امام مراد ہے، تیسرا قِتال (جنگ) فی سبیل اللّٰه ہے، جس کی تاویل جہادِ اکبر اور علمی جنگ ہے، جو صرف امام ہی کی رہنمائی میں ممکن ہے، چوتھی حکمت یہ کہ اللّٰه تعالیٰ نے امام علیہ السّلام کو ایسا علمِ شریف اور جسمِ لطیف عطا کیا ہےکہ جس کی وجہ سے امامؑ کائنات پر محیط و بسیط بھی ہے، اور ہر چیز امامِ مبین میں محدود بھی ہے۔

“تابوتِ سکینہ” مجموعۂ معجزاتِ روحانی کی مثال ہے، یہ صندوق یعنی خزانۂ اسرارِ باطن حدودِ جسمانی میں سے ان کو مل جاتا ہے، جو روحانیّت

 

۱۰

 

میں امام ِزمانؑ کے بہت قریب ہوچکے ہوں، یہ بہت بڑا معجزہ اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے امام علیہ السّلام کو روحانی سلطنت عطا فرمائی ہے، اس لئے امامؑ برحق ہے۔

بعض عُلَماء یہ فرماتے ہیں کہ تابوتِ سکینہ میں بہت سی مادّی چیزیں تبرّک کی تھیں، مثلاً کئی پیغمبروں کی تصویریں، حضرتِ موسٰیؑ کی لاٹھی، حضرتِ ہارونؑ کا عمامہ اور ان کی جوتیاں وغیرہ وغیرہ، لیکن ان ظاہری چیزوں کو کس طرح “خداوندی تسکین” کا مرتبہ دیا جاسکتا ہے؟ حالانکہ اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے جو سکینۃ (تسکین) ہے، اس کا ذکر قرآن کے چھ مقامات پر ہے، آپ اِن آیات کو مجموعی طور پر پڑھیں:  ۰۲: ۲۴۸، ۴۸: ۰۴، ۴۸: ۱۸، ۰۹: ۲۶، ۰۹: ۴۰، ۴۸: ۲۶، تو آپ کو (ان شاء اللّٰه) معلوم ہو جائے گا کہ خدا کی طرف سے سکینۃ بہت بڑی چیز ہے۔

دوستوں کی مُشتاقانہ یاد: بہت سے احباب ارضی فرشتے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کی یاد میں حکمت ہوتی ہے، اور بہشت میں بھی آپ کے دوست ساتھ ہوں گے، ان سے بیحد خوشی ہوگی، دُنیا میں دائمی اور کُلّی بہشت تو نہیں، لیکن بہشت برائے معرفت ضرور ہے، اس میں بھی تمام احباب ساتھ ہوتے ہیں، بہشت برائے معرفت عالمِ شخصی ہے، جس میں از اوّل تا آخر حضرتِ مولا کا نور کام کرتا رہتا ہے، لیکن عجیب بات تو یہ ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے۔

میرے علمی دوست مجھے بار بار یاد آتے ہیں، کارخانۂ خیال بڑی تیزی اور برق رفتاری سے کام کرتا ہے، یہ اللّٰه  تعالیٰ کا بہت بڑا معجزہ

 

۱۱

 

ہے، خیال، تخیّل، اور تصوّر آپ کی ذاتی کائنات ہے، جس میں بیرونی کائنات بحدِّ قوّت مُسخّر کی گئی ہے، اس کو جب آپ حدِّ فعل میں لائیں گے، تو ہر چیز آپ کے سامنے حاضرو موجود ہوگی، جس طرح آج خیالی توجّہ سے آپ ہر جگہ جا سکتے ہیں، یا ہر مقام اور ہر شخص کو اپنے پاس لاسکتے ہیں، کیا یہ قوّتِ خیال اُس زبردست جِنّ کی طرح نہیں ہے، جو ملکۂ سبا کے تخت کو حضرتِ سلیمانؑ کے پاس لانا چاہتا تھا، یا یہ راز کھول رہا تھا کہ تخت پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔

میرا علمی اور عرفانی جِنّ (قوّتِ خیال ) میرے لئے بہت کام کرتا ہے، یہ میری ہستی کا حصہ ہوچکا ہے، اس لئے نہیں لگتا ہے کہ یہ کوئی جِنّ ہے اور مجھ سے الگ، اسی طرح اور بھی بہت سےجِنّات/فرشتے ہیں جو انسانی ہستی کا حصّہ ہوچکے ہیں، کیونکہ اللّٰه جلّ شانہٗ نے ساری کائنات کو لپیٹ کر حضرتِ انسان بنایا ہے، اور جب خدا انسان کو کائنات کی شکل میں پھیلا دیتا ہے، تو اسی وقت کسی عارف کو پتہ چلتا ہے کہ وجودِ انسانی میں کیا کیا چیزیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔

انتسابِ جدید: محترم شمس الدین جمعہ ہمارے خاص علمی دوستوں میں سے ہیں، آپ قرآنی اور دینی علوم کے بڑے شیدائی اور قدردان ہیں، لہٰذا اپنے ادارے کی عظیم الشّان ترقی اور بیمثال کارناموں پر ان کو فخر ہے، جب جب اُستاذ سے ملاقات ہوتی ہے، تو آپ بیحد مسرور و شادمان ہو جاتے ہیں، شمس الدین لائف گورنر

 

۱۲

 

بھی ہیں، اور کئی عہدوں پر فائز بھی ہوتے رہے ہیں، آپ صفِ اوّل کے مومنین میں سے ہیں، آپ کے والد صاحب کا نام جان محمد جمعہ، اور والدہ صاحبہ کا نام ناتھی جمعہ ہے، شمس الدین جمعہ کی دنیوی تعلیم: بیچلرز آف کامرس ( کراچی۔ یونیورسٹی، پاکستان)۔

محترمہ کریمہ جمعہ بیگم آف شمس الدین جمعہ بہت ترقی پر ہیں، ان کے پاس اتنی ڈگریاں، ذمہ داریاں، اور عہدے ہیں کہ تفصیل سے لکھنا مشکل ہے، ہم ان تمام چیزوں کو تاریخ کی کتاب میں لکھا کر چھپوائیں گے، جس کی تمام تر ذمہ داری محترمہ شہناز سلیم ہونزائی کودی گئی ہے، کریمہ جمعہ کے پاس جتنی دُنیوی اسناد ہیں، وہ تو ہیں ہی، اور میں جو کچھ لکھ رہا ہوں، اس کی بھی بہت بڑی اہمیّت ہے، وہ یہ کہ “کریمہ جمعہ میرے جوان ہاتھوں میں سے ایک ہیں” اور وہ ایک پین پاور ہوچکی ہیں، میں تمام عزیزوں کی ہر گونہ ترقی کے لئے درویشانہ اور عاجزانہ دعائیں کرتا ہوں، کریمہ جمعہ خاندانی طور پر بڑی ایمانی ہیں، ان کی نیک عادات سے ہمیں یقین آتا ہے کہ یہ اپنے مولا کی بہت ہی عزیز بیٹی ہیں، دنیا میں جہاں جہاں عشقِ مولا میں پگھلے ہوئے مومنین و مومنات ہیں، وہ سدا بہار باغ و گلشن کی طرح ہیں کہ ان میں روحیں اور فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں، جیسے تتلیوں وغیرہ کا پھولوں میں آنا جانا ہوتا ہے۔

کریمہ جمعہ کے والد (شہید) کا نام منصور علی حبیب ہے، او ر والدہ کا نام تاج الدّولہ حبیب ہے، یہ نام حضرتِ پرنس علی سلمان خان

 

۱۳

 

نے عطا کیا ہے۔

 

نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ  ۲۴؍ صفر المظفر  ۱۴۲۰ھ  ۹؍جون  ۱۹۹۹ء

 

۱۴

 

حکمت و معرفت مآب، خازن علم امامت و قیامت حضرت علامہ بزرگوار

(علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)

دامت فیوضاتکم المتنوعہ و برکا تکم المتعددہ ابدالآ بدین و دہر الداہرین،

آمین یا ربّ العالمین

یا علی مدد:

بزرگوارا! عالمِ شخصی اور بہشت جبین کے روحانی و عقلانی حقائق پر مبنی کتاب “صنادیقِ جواھر” کی تکمیل پر یہاں کے ناچیز شاگردوں کی جانب سے جان و دل کے ساتھ ہدیۂ تبریک و تہنیت کو شرف قبولیت سے نوازیئے۔ بزرگوارا! ایسی کتاب جس میں تاویلی حقائق سے متعلق ایک ہزار سوالوں کے جوابات دیئے گئے ہیں، یقیناً فیض روح القدّس کے بغیر ایسا کارنامہ ناممکن ہے، الحمد اللّٰه جن حضرات کو بزرگوار کی علمی و گریہ و زاری کے مجالس میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ہے ان کو معلوم ہے کہ بزرگوار کی بابرکت شخصیّت میں روح قدسی کے کیسے کیسے معجزے وقوع پذیر ہورہے ہیں اور کس طرح مشکل سے مشکل علمی سوالات نہایت ہی آسانی کے ساتھ حل ہو کر کلّی اطمینان نصیب ہوتا ہے۔

بزرگوارا! اگلے وقتوں میں بزرگانِ دین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے میں تاویلی حقائق کےبارے میں جوکچھ لکھا ہے

 

۱۵

 

وہ صرف جھلکیاں ہیں لیکن اس علم کا آفتاب عالمتاب دورِ قیامت میں طلوع ہونے والا ہے، الحمد اللّٰه آج بزرگوار کی کتابوں کی صورت میں علم تاویل کا یہ آفتاب عالمتاب دورِ کریمی (یعنی حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی علیہ افضل التحیہ و السّلام کی کرامتوں کا دور) میں طلوع ہوچکا ہے اور جس کی روشنی سے اہلِ جہان کی آنکھیں خیرہ ہورہی ہیں، الحمدلِلّٰہ احسانہ، ان کتابوں کی ھیبت و جلالت سے دیوِ جہالت دنیا سے فرار ہونے پر مجبور ہوگا، جیسا کہ بزرگوار نے خود فرمایا ہے:۔

ای خوشا دیوِ جہالت از جہان خواہد گریخت

از نہیب دور تامت نور مولانا کریم

اس بابرکت و پُرحکمت کتاب کے بارے میں جان کر جماعت میں جو خوشی کی لہر پیدا ہوئی ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں نے اس کتاب کا ذکر کسی مومن سے کیا تو اس نے فرطِ مسرت سے کہا: “اکثر ہم سوالات شرم کے مارے نہیں پوچھ سکتے ہیں۔ اب الحمد لِلّٰہ یہ کتاب ہمارے سوالوں کے جوابات بن پوچھے فراہم کرے گی۔”

بزرگوارا! آپ نے جس محنت شاقّہ کے ساتھ عالمِ شخصی کے پہاڑوں سے حکمت و معرفت کے لعل و گوہر کے ڈھیر لگائے ہیں اس کے لئے آپ کے ناچیز شاگرد خصوصی طور پر اور دنیائے انسانیّت عمومی طور پر دونوں جہان میں احسان مند اور شکرگزار رہے گی۔ ہم ناچیز شاگرد (یعنی فقیرِ حقیر، رشیدہ، امین، مریم، سلمان، ابوذر، ظہیر، عشرت، دری، فیروزہ، شاہین، شازیہ، ذوالفقار، روشن، فرحت، رضی، ضحی، رحمان، نعمت، فرید، خلیل، مبینہ، ناز اور دوسرے بہت سے طالبانِ علمِ حقیقی کمالِ امتنان اور

 

۱۶

 

شکرگزاری کے ساتھ بزرگوار کے حضور میں پھر سے ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتے اور شرف و برکت قبولیت کے لئے استدعا کرتے ہیں۔

بزرگوار کی دُعاؤوں کے محتاج

فقیر حقیر و جُملہ شاگردانِ

مرکز علم و حکمت، لندن

۲۴؍ نومبر ۱۹۹۹ء

 

۱۷

 

خدماتِ زرّین

 

۱۔ اللّٰه تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے بیحد عزیز ساتھیوں نے حقیقی علم کے عظیم منصوبوں میں زبردست خدمات انجام دی ہیں، جِن کا ذکرِ جمیل ہم وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں، رسولِ اکرم صلّی اللّٰه علیہ وآلہٖ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ہر چیز کی ایک سردار ہوتی ہے، پس خدمات کی بھی ایک سردار ہے، اور وہ علمی خدمت ہی ہے، جو تمام خدمات پر بادشاہ ہے، الحمدللّٰه۔

۲۔ لائف پریسیڈنٹ اور لائف گورنر فتح علی حبیب کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ وہ عرصۂ دراز سے اس علمی خدمت کے ساتھ وابستگی اور دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے لئے ۱۳۸۵ ھ (۱۹۶۵ء) کا سال بڑا مبارک تھا، جس میں ان کو ایک مہربان دوست نے ایک درویش سے ملا دیا تھا، تب سے شاگردی اور دوستی رفتہ رفتہ درجۂ کمال کی طرف آگے سے آگے بڑھنے لگی۔

۳۔ خداوندِ قدّوس کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہُوا، یعنی گھر میں بےشمار علمی مجالس ہوئیں جو عظیم الشّان تھیں، اور گھر علمی کتابوں سے بھر گیا، اور خدا نے ان کو ایک علمی پریس بھی عطا کیا، اور

 

۱۸

 

اہلِ خانہ علمی ٹیچر ہونے لگے، پھر اللّٰه نے اس خاندان کو مزید ترقی دی کہ ان کے دولت خانہ، پریس، کمپیوٹر وغیرہ سے علمی نعمتیں تقسیم ہورہی ہیں۔ محترمہ گُل شکر ایڈوائزر، لائف گورنر (زوجۂ فتح علی) فرشتہ خصلت ہونے کی وجہ سے استاذ کی آسمانی بیٹی کہلاتی ہیں، آپ کے تینوں فرزند: نزار، رحیم اور فاطمہ علم و ہنر سے سرفراز اور ایمانی دولت سے مالامال ہیں، بہت بڑی سعادتمندی ہے کہ یہ تینوں عزیزان بھی لائف گورنرز ہیں۔

۴۔ جوائنٹ پریسیڈنٹ اور لائف گورنر نصر اللّٰه (ابنِ راعی قمرالدّین ابنِ اعتمادی رحیم) ۱۹۷۲ سے ہمارے قلبی دوست ہیں، انہوں نے سِکّۂ علمی کو پرکھ لیا، اور کہا کہ بالکل کھرا ہے، الحمد للّٰه، عزیزم نصر اللّٰه خاندانی طور پر بڑے دیندار اور ہوشمند ہیں، مذہبی خدمت کا جذبہ ان کو ورثے میں ملا ہے، ان کی بیگم محترمہ امینہ بڑی نیکوکار خاتون ہیں، خداوندِ مہربان کا احسانِ عظیم ہے کہ نصراللّٰه اور امینہ کے تینوں پیارے پیارے فرزند: یاسمین، فاطمہ، اور امین محمّد اپنے معصوم دل میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کی پاک و پُرحکمت محبّت رکھتے ہیں، محترمہ خوش خصال امینہ نصراللّٰه اور ان کے بہت ہی عزیز بچّے فرسٹ گورنرز کی حیثیّت سے کام کر رہے ہیں۔

۵۔ نصراللّٰه کے والدِ محترم قمرالدّین بارہ سال تک آکولا جماعت خانہ کے موکھی تھے، آکولا شہر مہاراسٹر اسٹیٹ (انڈیا) میں ہے، اس کے علاوہ وہ ۱۹۶۰ میں یَواتمال (YAVATMAL) کونسل کے پریسیڈنٹ

 

۱۹

 

بھی ہوئے تھے، ان کی بیگم عالیجانی موکھیانی شیر بانو نے بھی جماعت کی بہت سی خدمات انجام دی ہیں، نصر اللّٰه  کے دادا جان اعتمادی رحیم ۶ سال تک آکولا جماعت خانہ میں موکھی رہ چکےتھے۔

۶۔ ہمارے نامور ساتھیوں نے شمالی علاقہ جات میں اجتماعی طور پر بےشمار زرّین خدمات انجام دی ہیں، میں ان کی دانشمندی، دوراندیشی، عالی ہمّتی، اور علم دوستی کی بار بار تعریف کرتا ہوں، میں تمام دوستوں کو آج ایک خاص مشورہ دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ قانونِ قدرت آپ سب سے مخاطب ہوکر اشاراتی زبان میں کہتا رہتا ہے کہ: “دیکھو، عشق سے علم حاصل کرو، یہ لو خزانۂ علم، یہ لو کارخانۂ علم، یہ لو چشمۂ علم، یہ لو تمہاری اپنی کتابیں، یہ لو ۱۹۴۰کا فرمان، یہ لو اسرافیلی لشکر اور ان کی قیامت خیز آوازیں، یہ لو تمہاری مسلسل کامیابی، اور یہ لو امامِ زمانؑ کی ظاہری اور باطنی منظوری۔”  لہٰذا آپ جان و دل سے علم میں ترقّی کریں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

کراچی، شِمشیر  ۲۷؍ صفر المظفّر  ۱۴۲۰ھ  ۱۲؍جون  ۱۹۹۹ء

 

۲۰

 

عالمِ شخصی کے دو پہاڑ

 

آپ بمرتبۂ علم الیقین یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ عالمِ شخصی میں ایک تو روح کا پہاڑ ہے اور دوسرا عقل کا، جب عارف کے عالمِ شخصی میں قیامت برپا ہوجاتی ہے، تو اس میں تمام قرآنی معجزات کا مظاہرہ اور تجدّد ہوتا ہے، تاکہ قرآن کی عملی معرفت نمایان اور آسان ہو۔ اس سلسلے کی ایک مثال: ترجمۂ آیۂ شریفہ از سورۂ حشر (۵۹: ۲۱) اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اُتارتے تو تُو دیکھتا کہ خوفِ الٰہی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔

حکمت: چونکہ تمام قرآنی مثالیں غوروفکر کرنے کی غرض سے ہیں، لہٰذا ہم اس طرح سوچتے ہیں: (الف) اگر اس مثال کی گہرائی میں کوئی بہت بڑا راز نہ ہوتا تو غوروفکر کی کوئی اہمیّت و ضرورت ہی نہ ہوتی (ب) خوفِ خدا کا بہترین نمونہ عُلمائے حقیقی ہیں (۳۵: ۲۸) نہ کہ جمادات، نباتات، حیوانات، اور عوام النّاس، (ج) قرآنِ پاک کا ایک اسمِ صفت حکیم ہے، پس کسی حکیم کے آنے سے حکمت ظاہر ہوسکتی ہے نہ کہ کوئی صدمہ جس میں کوئی حکمت نہ ہو، (د) قرآن کا ایک نام مُبارک ہے، کیونکہ اس میں

 

۲۱

 

کبھی ختم نہ ہونے والی برکتیں ہیں۔

عُرفاء نے عالمِ شخصی میں قرآنِ عظیم کے بےشمار معجزات کا مشاہدہ کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قیامت اور قرآنی معجزات کے زیر اثر جبلِ روح اور جبلِ عقل ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے، مگر اس میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں۔

انتسابِ جدید (دوم):۔ بفضلِ خدا ہمارا ہر عزیز (شاگرد) آنے والا کل کی ایک تابناک کائنات ہے، ان شاء اللّٰه تعالیٰ، اس کی وجہ علیٔ زمان کے دامنِ علمی سے وابستگی ہے، الحمدللّٰه، ہمارے شرق و غرب کے روحانی اور علمی عزیزوں میں سے ایک نوشاد پنجوانی ابنِ امیر علی پنجوانی ہیں، میں ان کی بہت سی سعادتوں اور تعریفات کو جمع کرتے ہوئے صرف اتنا کہوں گا کہ خداوندِ قدّوس نوشاد اور ان کے خاندان پر بڑا مہربان ہے، باسعادت خاندان میں چار فرشتوں کا عدد ہے: نوشاد اور ان کی فرشتہ خصلت بیگم روزینہ، دولِٹل اینجلز: نصیر پنجوانی، اور ایثار علی پنجوانی، نصیر پنجوانی کی تاریخ پیدائش: ۲؍نومبر، ۱۹۹۵ء۔ ایثار علی پنجوانی کی تاریخ پیدائش ۹؍اکتوبر ۱۹۹۹ء۔

دونوں بہت ہی پیارے بچّے کتنے خوش نصیب اور نیک بخت ہیں کہ ان کے مہر و شفقت والے والدین ان کی تعلیم و تربیت کی خاطر ہای ایجو کیٹرز مقرّر ہوئے ہیں، اور ان کے لئے دینی اور دُنیوی تعلیم کا سامان مُہیّا ہیں، الحمدلِلّٰه۔

 

۲۲

 

نوشاد پنجوانی کی والدہ کا نام شکر بانو پنجوانی ہے، نوشاد پنجوانی کے والد امیر علی پنجوانی کا انتقال ۱۹۷۹ء میں ہوا تھا، جبکہ نوشاد کی عمر ۱۳ سال کی تھی نوشاد کے والد کو مذہبی کتابیں پڑھنے اور قرآنِ پاک سے فیض حاصل کرنے کا شوق تھا، اور ان کی والدہ بھی گجراتی میں مذہبی کتابیں پڑھتی تھیں، نوشاد بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں اکثر شام کے کھانے پر مذہبی گفتگو ہوتی تھی۔

روزینہ پنجوانی اپنے بارے میں یُوں تحریر کرتی ہیں: میرے آباؤ اجداد کا تعلّق ایک بلوچ خاندان سے ہے، نورِ ہدایت نےظاہراً و باطناً اپنا کام کردیا، وہ یہ کہ میرے والد نور الدّین بیجار خان نے ۱۳ سال کی عمر میں اسماعیلی مذہب کو قبول کیا، اِس عظیم سعادت اور کارِ خیر کا ذریعہ میرے پُھپّا کریم داد تھے، جنہوں نے امامِ عالیمقامؑ کی پاک محبّت اور بابا سیّد منیر بدخشانی کی تعلیم سے اپنے حلقے کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللّٰه علیہ کے حضور میں پہنچ کر مولائے پاک کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔

نوشاد پنجوانی، روزینہ پنجوانی، اور نصیر پنجوانی لائف گورنرز ہیں، اور ایثار علی پنجوانی کو میں نے آج سے لائف گورنر کا درجہ دے دیا ہے الحمد لِلّٰه۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۲ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ھ  ۱۱؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۲۳

 

گنجینۂ جواہرِ احادیث

 

اِس بابرکت، بیحد مُفید اور تابناک کتاب کی تعریف یہاں چند معمولی الفاظ میں ہوہی نہیں سکتی ہے، لیکن جب چراغِ نورِ امامت کے پروانے اس کا عاشقانہ مطالعہ کریں گے تو ہمیشہ اس کی تعریف زمین سے آسمان کی طرف بلند ہوتی رہے گی، آمین! کیوں نہ ہو، جبکہ یہ انمول خزانہ ان احادیثِ صحیحہ پر مبنی ہے، جو اھلِ بیت اطہار علیہم السّلام کی شان میں فرمائی گئی ہیں، کتبِ احادیث کے بڑے بڑے ذخائر میں سے آنحضرت صلعم کے ان خاص ارشادات کو ڈھونڈھ لینا، مختلف روایات کی تحقیق کرنا، بعض دفعہ تقابلی جائزہ لینا، اور ان احادیثِ شریف کی جمع آوری کے بعد اُن کا مستند ترجمہ کرنا کوئی آسان کام تو نہ تھا، لیکن جناب ڈاکٹر فقیر محمّد ہونزائی صاحب کو خداوندِ قدّوس کی غیبی تائید حاصل ہے، اس لئے یہ عظیم کارنامہ بھی مکمّل ہوا، سچ تو یہ ہے کہ یہاں جتنی کتابوں کا انگلش ترجمہ ہوچکا ہے، وہ سب کی سب جانِ عزیز کی کتابیں شمار ہوتی ہیں۔

مندرجہ ذیل خوبصورت نظم جنابِ محترم ڈاکٹر فقیر محمّد ہونزائی صاحب، رئیس المترجمین، بحرالعلوم کی شان میں کہی گئی ہے۔

 

۲۴

 

ابرِ گوہر ریز

 

کامیابی کا سبب یہ ہے کہ وہ شب خیز ہے

گریہ وزاری میں گُویا ابرِ گوہر ریز ہے

حق تعالیٰ نے ہمیں جب دوستِ اعظم دے دیا

علم و حکمت کا نِرالا ایک عالم دے دیا

علم کی نہریں بہا دو جا بجا بحرالعلوم!

تاکہ اک علمی قیامت ہو بپا بحرالعلوم!

تُجھ کو مولا نے بنایا ساقیٔ آبِ بقا

تا نہ ہو کوئی کہیں بھی جہل و غفلت سے فنا

جو بھی ہو تیری نظر میں تشنۂ آبِ حیات

جام بھر بھر کر پلا دے سَاقیٔ عالی صفات

 

۲۵

 

یار کے مُشکین قلم سے بُوئے جنّت آگئی

دل کی آبادی کی خاطر جُوئے جنّت آگئی

آبشارِ لعل و گوہر ہے مثالِ کِلکِ یار

گنجِ گوہر میں جواہر آگئے ہیں بے شمار

ترجموں میں شک نہیں صمصام کا بھی ہاتھ ہے

شکر ہے صد شکر ہے ہاں وہ فرشتہ ساتھ ہے

جو فرشتہ ہو زمین پر معجزانہ کیوں نہ ہو

رحمتوں اور برکتوں کا ایک خزانہ کیوں نہ ہو

ایک فرشتہ ہے ظہیر بالقب “جانِ نصیرؔ”

خوب خادم علم کا ہے، خوب ہے دانش پذیر

جو علی کی شان میں ہیں ان حدیثوں کی کتاب

رہتی دُنیا تک رہے گا یہ خزانۂ لاجواب

 

۲۶

 

اے فقیرِ نامور یہ آپ کا احسان ہے

اِن حدیثوں میں ہماری جان ہے ایمان ہے

اے فقیر، روشن ضمیر! اے علم و حکمت کے شہیر!

اے عزیزوں کے عزیز اے دین و دانش کے امیر!

عاشقانِ مرتضیٰ سے کیوں نہ ہوجاؤں فدا

تُو تو قربان ہوچکا ہے اے نصیرِؔ بے نوا

 

۳۰؍ ستمبر ۱۹۹۹ء

 

۲۷

 

دربارۂ توصیفِ کتاب

 

آفتاب و ماہتاب و چرخِ اخضر ہے کتاب

چشمۂ آبِ حیات و آبِ کوثر ہے کتاب

حسن و خوبی میں یگانہ دِلکشی میں طاق ہے

باغ و گلشن کی طرح اک خوب منظر ہے کتاب

بے مثال و لازوال انمول تحفہ علم کا

اے عزیزان لے کے رکھنا گنجِ گوہر ہے کتاب

میں جہاں بھی رہ چکا دن بھر کتابوں میں رہا

بس مرا گھر ہے کتاب اور میرا دفتر ہے کتاب

اک جہانِ علم و حکمت ہے کتابِ مُستطاب

ہے اگر قرآن سے پھر سب سے برتر ہے کتاب

 

۲۸

 

آیۂ قَدْ جَآءَ کُمْ (۰۵: ۱۵) کو پڑھ لیا کر جَانِ من!

نورِ حق کی روشنی میں سب کو رہبر ہے کتاب

تُو ہے بھیدوں کا صحیفہ تُو ہے کنزِ لامکان

قولِ مولانا علیؑ ہے: تیرے اندر ہے کتاب

ہے کتابِ حق تعَالیٰ بَاتَکَلُّم ہر جگہ

ظاہر و باطن میں دیکھو میرا حیدر ہے کتاب

معجزے ہی معجزے قرآنِ ناطق سے سُنو

آج مولائے زمانہ، روزِ محشر ہے کتاب

نورِ ایمان نورِ ایقان نورِ علم و معرفت

سربسر انوار کی دولت سے بھر کر ہے کتاب

اس بہشتِ معرفت میں کیا نہیں ہے جانِ من!

کانِ راحت جانِ لذّت شہد و شکّر ہے کتاب

 

۲۹

 

مِثلِ یارِ دلنشین محبُوب ہے مجھ کو کتاب

دِلکُشا ہے جانفزا ہے روح پرور ہے کتاب

جب قلم لیتا ہوں آتا ہے تجلّی بن کے وہ

یہ نوازش ہے اسی کی تب مُیَسَّر ہے کتاب

باغ و گلشن کی سیاحت میں ذرا سا حظ تو ہے

سَیرِ علمی کے لئے بس سب سے بہتر ہے کتاب

اے نصیرؔ الدّین تجھ کو سِرِّ اعظم یاد ہے؟

عالمِ علوی میں تنہا ایک گوہر ہے کتاب

 

ہفتہ ۷؍ جمادی الثّانی ۱۴۲۰ھ

۱۸؍ستمبر ۱۹۹۹ء

 

۳۰

 

وحدتِ انسانی اور امنِ عَالم

 

جان فدا کردوں گا میں خود امنِ عالم کے لئے

تاکہ قُربانی ہو میری ابنِ آدم کے لئے

دل ہے زخموں سے بھرا اِس اِنتشارِ قوم سے

میں کہاں جاؤں گا یاربّ! دل کے مرہم کے لئے

پرچمِ امن و امان دُنیا میں کب ہوگا بلند؟

کون جان دیتا ہے دیکھو ایسے پرچم کے لئے

صُلحِ کُلّ کا اک زمانہ کب جہان میں آئے گا؟

کیا جہان پیدا ہُوا ہے جنگ و ماتم کے لئے؟

 

۳۱

 

اِتحاد و امن کی کوشش کرو اہلِ قلم!

آگئے ہیں ہم جہاں میں سعیٔ پیہم کے لئے

عالمِ انسانیّت جب اِس قدر بیمار ہے

رحم کیوں آتا نہیں ہے ابنِ مریم کے لئے

اتّفاقِ قوم میں ہیں برکتیں ہی برکتیں

نوجوانو! عہد کرلو صُلحِ مُحکم کے لئے

آبیاری ہے نہ بارش باغِ دل بس خشک ہے

رات بھر رونا پڑے گا اب تو شبنم کے لئے

عشق کا غم چَاہیے مُجھ کو نہ کوئی اور شَے

میں تو پیدا ہوگیا ہوں عمر بھر غم کے لئے

اِک نِرالا یار ہمدم ہے وہی ہمراز ہے

مر رہا ہوں جیتے جی میں اپنے ہمدم کے لئے

 

۳۲

 

اے نصیرؔ الدّین اب دُنیا کو یہ پیغام دو

“جان فدا کر دوں گا میں خود امنِ عالم کے لئے”

 

۱۲ ؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء

 

۳۳

 

لشکرِ ارواح اور قیامت

 

قرآنِ حکیم قیامت کے پُرحکمت تذکروں سے بھرا ہُوا ہے، پہلے ہی یہ بیان ہوچکا ہے کہ ہر امام کے ساتھ روحانی لشکر بھی ہے اور باطنی قیامت بھی، سُورۂ مائدہ (۰۵: ۵۴) میں غور سے دیکھیں، ترجمہ: اے ایمان والو، تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائیگا تو (کچھ پرواہ نہیں پھر جائے) عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کرے گا جنہیں اللہ دوست رکھتا ہے (یعنی لشکرِ ارواح اور صاحبِ لشکر) اور وہ بھی خدا کو دوست رکھتے ہیں، جو مومنوں پر نرم اور کفّار پر سخت ہیں، خدا کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کچھ پرواہ نہ کریں گے، یہ خدا کا فضل و کرم ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور خدا تو بڑی وُسعت والا اور بڑا علم و الا ہے (۰۵: ۵۴)۔

علامات اور اشارات: خدا آلِ محّمدؐ کے ہر امامؑ اوراس کے لشکر کو محبوب رکھتا ہے، اور وہ خدا کو محبوب رکھتے ہیں، مومنوں پر نرم ہیں، آپ غور کرسکتے ہیں، کہ اس کلام کے مطابق ایک طرف دُنیا بھر کے مومنین ہیں اور دوسری جانب روحانی لشکر ہیں جو مومنین پر

 

۳۴

 

مہربان ہیں، ملامت سے نہ ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تاویل کا سرچشمہ ہے، لیکن لوگ تاویل پر اعتراض کرتے ہیں اس کے سِوا ملامت کرنے کی کوئی اور وجہ نہیں ہے۔

انتسابِ جدید سِوُم: خداوندِ قدّوس کے عظیم احسانات میں صرف جسمانی بچّے ہی نہیں، بلکہ علمی بچّے بھی اللّٰه  کے احسانات میں سے ہیں، اگر ہم ایسا نہ سوچیں تو بہت بڑی ناشکری ہوگی، اور ناشکری کا دوسرا نام کُفرانِ نعمت ہے، الغرض اللّٰه کے احسانات بڑی کثرت سے ہیں، الحمد لِلّٰه۔

اس گرانمایہ کتاب کے انتسابِ جدید کی تیسری شخصیّت زہرا بنتِ جعفر علی سُندرانی ہے، محترمہ زہرا کوربّ العزّت نے گونا گون صلاحیتوں سے نوازا ہے، فرشتۂ قلم کو علم و حکمت کا زبردست شوق اور بہت بڑی کامیابی کیوں نہ ہو، دانشگاہِ خانۂ حکمت کے جملہ عزیزان فرشتۂ قلم کی علمی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، الحمد لِلّٰه ہمارے اس مقدّس ادارے کی یہی روایت ہے کہ جو بھی علمی ترقی کا کوئی کام سرانجام دیتا ہے تو دوسرے سب کُھلے دل سے اس کی تعریف کرتے ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

میں نے زہرا، چیف پرسنل سیکریٹری ٹو علّامہ کی خدمات کا ذکر قبلاً ہزار حکمت وغیرہ میں کیا ہے، اب ان شاء اللّٰه، عالمِ شخصی پر ان کی پی، ایچ، ڈی ہونے والی ہے، پھر ہم سب بیحد شادمان ہوں گے،

 

۳۵

 

یا اللّٰه تیری بے شمار نعمتوں کا شکر کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم اپنے اِس مقدّس فریضہ سے قاصر ہو رہے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْٔئَلُکَ بِاَسْماَئِکَ الْحُسْنٰی = یا اللّٰه میں تیرے تمام اسمائے حُسنٰی کی حُرمت سے سوال کرتا ہوں، میرا دل بہت آہستہ آہستہ گریہ و زاری کررہا ہے، میری آنکھیں بالکل تھک گئی ہیں، دل علیل ہے، جسم بہت ضعیف و نحیف ہوگیا ہے، الٰہی! بحرمتِ پنجتنِ پاک صلوات اللّٰه علیہم  و بحربتِ أئمّۂ پاکِ آلِ محمّد صلوات اللّٰه علیہ و علیھم اجمعین۔ ۱۴۲۰ھ

بندۂ درگاہِ صاحبِ کاف و نون،  نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۴؍ شعبان المعظّم    ۱۳؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۳۶

 

صنادیقِ جواہر

حصّۂ اوّل

 

 

صندوقِ جواہر۔ ۱

سوال۔ ۱: سورۂ فاتحہ کے آغاز میں اللّٰه تعالیٰ کی بہت بڑی تعریف یہ ہے کہ وہ ربّ العالمین (کُلّ جہانوں کا پروردگار) ہے، آپ یہ بتائیں کہ عالمین سے کون کونسے جہان مراد ہیں؟ اور خدا کی طرف سے پرورش کتنی قسم کی ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ قرآنِ پاک میں لفظِ العالمین کتنی دفعہ آیا ہے؟ جواب: (۱) عالمین سے بقول حضرت امام جعفر الصّادق علیہ السّلام عوالمِ شخصی مراد ہیں (قاموس القرآن) (۲) خدا کی طرف سے پرورش تین قسم کی ہے، جسمانی، روحانی اور عقلانی (۳) قرآنِ پاک میں لفظ العالمین تہتّر دفعہ آیا ہے۔

سوال۔ ۲: انسان کے لئے سب سے قریب ترین عالَم کونسا ہے؟ آدمی کی اپنی ذات کی معرفت کس جہان سے حاصل ہوسکتی ہے؟ ۔ جواب: (۱)انسان کے لئے سب سے قریب ترین عالَم عالَمِ شخصی ہے (۲)آدمی کی اپنی ذات کی معرفت عالَمِ شخصی سے حاصل ہوتی ہے۔

 

۴۱

 

سوال۔ ۳: وہ سدا بہار درخت کونسا ہے جو ہر موسم میں پھل دیتا ہے؟ اور قرآن کی کس سورت میں اس کا ذکر موجود ہے؟ ۔ جواب: (۱) وہ سدا بہار درخت جو ہر موسم میں پھل دیتا ہے شجرۂ طیّبہ ہے (۲) اس کا ذکر قرآنِ حکیم کے سُورۂ ابراہیم میں موجود ہے۔

سوال۔ ۴: خدا نے کس انسانی نفس کی قسم کھائی ہے؟ کیوں؟ یہ تذکرہ کس کتاب میں ہے؟ ۔ جواب: (۱) خدا نے نفسِ لوّامہ کی قسم کھائی ہے (۲) اس لئے کہ یہ نفس “خود ملامتی” اور “خود تنقیدی” کے زرّین اصول پر عمل پیرا ہو کر مرتبۂ نفسِ مطمئنّہ کو حاصل کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور اس کی اس روحانی ترقّی اور عظمت کی وجہ سے خدا نے اس کی قسم کھائی ہے (۳) اس کا ذکر سوغاتِ دانش اور قرۃ العین میں سورۂ قیامت کے مضمون میں آیا ہے۔

سوال۔ ۵: قرآنِ ناطق کون ہے؟ اُس کا رسولؐ سے اور قرآنِ صامت سے کیا ربط و رشتہ ہے؟ آپ خدا کے ان تینوں خزانوں سے کس طرح فائدہ حاصل کرسکتے ہیں؟  جواب: (۱) قرآنِ ناطق پہلے پیغمبرِ اکرمؐ کا نور ہے جو معلّمِ قرآن ہے اور آنحضرتؐ کے بعد امامِ زمانؑ جو آنحضرتؐ کا جانشین ہے کا نور ہے (۲) قرآنِ ناطق کا قرآنِ صامت سے ربط یوں ہے کہ یہ دونوں باطن میں نورٌ علیٰ نور (یعنی ایک ہی نور) ہیں اور ظاہر میں ناطق معلّم ہے اور صامت کتاب، جیسے حدیث شریف

 

۴۲

 

میں ہے: علیٌّ مع القرآن والقرآن مع علی (مستدرک، جلد سِوم)  (۳) ان تینوں خزانوں سے فائدہ اُٹھانے کا وسیلہ امامِ زمانؑ کی کما حقّہ فرمان برداری ہے۔

سوال۔ ۶: کیا آپ بھری ہوئی کشتی کے بارے میں کچھ وضاحت کرسکتے ہیں؟ عالمِ شخصی میں عرشِ الٰہی کا ظہور کب ہوتا ہے؟ شروع شروع میں یا آخر میں؟ ۔ جواب: (۱)  بھری ہوئی کشتی سے مراد انسانِ کامل کا عالَمِ شخصی ہے جس میں بمطابق “وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ”کے کائنات بھر کی چیزیں لطیف صورت میں محدودو مرکوز ہیں (۲) عالمِ شخصی میں عرشِ الٰہی کا ظہور روحانی سفر کے آخر میں ہوتا ہے۔

سوال۔ ۷: اللّٰه نے چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، پھر عرش کی طرف متوجّہ ہُوا۔ اس کی تاویل بتائیں؟ – جواب:  اس کی تاویل یوں ہے کہ خدا نے عالمِ دین اور عالمِ شخصی کو چھ ادوار یعنی دورِ حضرتِ آدمؑ، دورِ حضرتِ نوحؑ، دورِ حضرتِ ابراہیمؑ، دورِ حضرتِ موسٰیؑ، دورِ حضرتِ عیسیٰؑ اور دورِ حضرت محمّدؐ میں بنایا، پھر دورِ حضرتِ قائمؑ کی طرف متوجّہ ہوا۔

سوال- ۸: آپ قرآنِ حکیم کی روشنی میں حضرتِ ابراہیم

 

۴۳

 

علیہ السّلام کی امامت کی تعریف کریں، کہ وہ کیسی امامت تھی؟ – جواب: قرآنِ حکیم میں خدائے تعالیٰ حضرتِ ابراہیمؑ کی امامت کے بارے میں فرماتا ہے “وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ-قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ ۔” (۰۲: ۱۲۴) اور (وہ وقت یاد کیجئے) جبکہ ابراہیم کے ربّ نے اس کا امتحان لیا، چند کلمات سے تو اس نے انہیں پورا کردیا تو خدا نے فرمایا کہ میں تمہیں سب انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے، امام شناسی، حصّۂ اوّل ص ۱۰-۱۵۔

سوال-۹: انسانی روح کہاں سے یا کس عالم سے آئی ہے؟ کس طرح آئی ہے؟ بارش کے قطرے کی طرح؟ یا سورج کی کرنوں کی طرح؟ یا رسّی کے نمونے پر کہ اس کا ایک سِرا عالمِ عُلوی میں اور دوسرا سِرا زمین پر ہے؟ – جواب: (۱) انسانی روح عالمِ امر سے آئی ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم میں آیا ہے: قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ، بولو کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے (۱۷: ۸۵)۔ (۲) انسانی روح عالمِ امر سے سورج کی کرنوں کی یا ایسی رسّی کی طرح آئی ہے جس کا ایک سِرا عالمِ عُلوی میں اور دوسرا سِرا زمین پر ہے۔

سوال-۱۰: “تجدُّدِ امثال” تصوّف کی ایک اصطلاح ہے، کیا آپ اس کے بارے میں کچھ سمجھا سکتے ہیں؟ اس کی تین مثالیں بیان کریں- جواب: “تجدّدِ امثال” سے مراد ہے اللّٰه    تعالیٰ کی پاک عادت

 

۴۴

 

و سنّت کا کسی تبدل و تحوّل کے بغیر ہمیشہ جاری و ساری رہنا اور اس کی ظہور گاہ، انسانِ کامل کا عالمِ شخصی ہے (۴۰: ۸۵) چونکہ تمام موجودات ہمیشہ دائرۂ امکان پر گردش کر رہے ہیں اور دائرۂ آفرینش کی کوئی ابتدا و انتہا نہیں لہٰذا کائنات کی ہر چیز میں تجدّدِ امثال کا عمل جاری ہے مثلاً (۱) پانی کا اپنے دائرۂ زیر و بالا پر کبھی ختم نہ ہونے والا سفر (۲) موسموں کا بار بار آتے جاتے رہنا، (۳) اور دوران خون وغیرہ۔

 

۴۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۲

 

سوال – ۱۱: جہاں دین کی مثال ایک خاص درخت سے دی گئی ہے، وہاں اس کی جڑیں کتنی ہیں؟ اور شاخیں کتنی؟ جڑ کو اصل کہتے ہیں (جمع اصول) اور شاخ کا نام فرع ہے (جمع فروع) آپ اصولِ دین اور فروعِ دین کے نام بتائیں – جواب: دین کے چار اصول ہیں، ان میں عقلِ کلّ و نفسِ کُلّ روحانی ہیں اور ناطق اور اساس جسمانی ہیں، اسی طرح درختِ دین کے چھ فروع ہیں۔ ان میں سے جدّ، فتح اور خیال روحانی اور امام، حجّت اور داعی جسمانی ہیں۔

سوال-۱۲: قرآنِ حکیم (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶) میں یاجوج و ماجوج کا ذکر ہے، آپ ان کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ بتائیں- جواب:  یاجوج و ماجوج سے مراد ذرّاتِ لطیف، نسلِ انسانی، ارواحِ خلائق، لشکرِ روحانی اور عالمِ ذرّ ہے۔ ان کے گونا گون کام ہیں، لہٰذا تفصیل کے لئے دیکھئے: ہزار حکمت، حکمت ۹۵۸۔ حکمت ۹۶۳، نیز امام شناسی، حصّۂ سِوم ص ۱۸۲-۱۸۵۔

 

۴۶

 

سوال-۱۳:  اَلْاَرْوَاحُ جُنُو دٌ مُّجَنَّدَۃٌ = روحیں جمع شدہ لشکر کی حیثیّت سے تھیں (اور ہیں) یہ کہاں؟ کب؟ کس لئے؟ کس کے ساتھ تھیں یا ہیں؟ -جواب: (۱) یہ روحیں انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں جمع شدہ لشکر کی حیثیت سے تھیں (اور ہیں) (۲)کیونکہ انسانِ کامل ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے اور اس کے عالمِ شخصی میں ماضی کی تمام مثالوں کا مظاہرہ ہوتا ہے (۳) اور جب انسانِ کامل کی نمائندہ قیامت برپا ہوجاتی ہے تو اس میں ارواح کے دو مخالف لشکروں کی جنگ کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے جس کا مقصد روحانی فتح اور عالمِ شخصی میں دینی سلطنت کو قائم کرنا ہوتا ہے۔

سوال-۱۴: آپ عالمِ ذرّ کے بارے میں جو بھی معلومات رکھتے ہیں، وہ ہمیں بتائیں- جواب: عالمِ ذرّ کی تعریف میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میں ہر مخلوق کی نمائندہ روح موجود ہے، یہاں تک کہ اس میں پتھر اور لوہے کی روح بھی حاضر رہتی ہے، اور کوئی ایسی چیز نہیں جس کی روح عالمِ ذرّ میں نہ پائی جائے۔ عالمِ ذرّ کے کثیر ناموں سے آپ کو اس کے کثیر کاموں کا اندازہ بھی ہوگا اور تعجب بھی کہ ذرّاتِ لطیفِ روحانی کی اس کثرت سے حکمتیں ہیں! تفصیل کے لئے دیکھئے: عملی تصوّف اور روحانی سائنس، ص ۶۷۔ ۷۱۔

سوال-۱۵: جِنّ اور پری میں کیا فرق ہے؟ جِنّ اور آدمی

 

۴۷

 

میں کیا رشتہ ہے؟ فرشتہ کس طرح وجود میں آتا ہے؟ کیا لطیف انسان ہی کا نام جِنّ، پری، اور فرشتہ ہے؟ -جواب: (۱) جِنّ اور پری ایک ہی قوم ہے اس لئے فرق اور رشتے کا سوال خودبخود ختم ہوجاتا ہے (۲) لفظ جِنّ عربی ہے جو پوشیدہ ہونے اور نظر نہ آنے کو ظاہر کرتا ہے جبکہ پری فارسی ہے جو پریدن (اڑنا) سے ہے اور اُڑنے کے معنی کو ظاہر کرتا ہے (۳) فرشتہ ایک مومن کے شعلۂ عشقِ سماوی سے وجود میں آتا ہے (۴) یعنی فرشتہ مومن کا جسمِ لطیف یا جِنّ ہے۔ لہٰذا جِنّ، پری اور فرشتہ مومن کے جسمِ لطیف کے نام ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: ایضاً ۷۲-۷۵۔

سوال-۱۶: اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں سے دو القابض اور الباسط ہیں، آیا اس کا یہ مطلب درست ہے کہ خدا انسان کو ایک ہی قالب میں محدود بھی کرتا ہے، اور کائنات بھر میں پھیلاتا بھی ہے؟ – جواب: یہ مطلب بالکل درست ہے کہ خدا انسان کو ایک ہی قالب میں محدود بھی کرتا ہے اور کائنات بھر میں پھیلاتا بھی ہے تفصیل کے لئے دیکھئے: ایضاً، ۴۳-۴۶، ۱۵۹-۱۶۳۔

سوال- ۱۷: قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن جنّت پرہیزگاروں کے بالکل قریب لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱) آپ بتائیں کہ ایسے میں بہشت کہاں رکھی جاتی ہے؟ -جواب: قیامت کے دن جب

 

۴۸

 

جنّت پرہیزگاروں کے بالکل قریب لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱) تو ایسے میں بہشت عالمِ شخصی میں رکھی جاتی ہے۔

سوال- ۱۸: کیا آپ خلقِ جدید(۱۴: ۱۹)اور تجدّد کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ کیا یہ دومختلف چیزیں ہیں؟ یا یہ ایک ہی حقیقت ہے؟ -جواب: خلقِ جدید سے مراد جسمِ مثالی یا جثّۂ ابداعیہ ہے اور تجدّد سے مراد وہ فعل ہے جو شعلۂ چراغ کی اس لَو میں جاری و ساری ہے۔ اس عمل کی وجہ سے جسمِ مثالی قدیم ترین ہونے کے باوجود جدید ترین رہتا ہے، خلقِ جدید کی یہ خصوصیّت بھی ہے کہ جب چاہے تو دکھائی دیتا ہے اور جب چاہے تو غائب ہوجاتا ہے، اس کے لئے در و دیوار یا اور کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔ تجدّد کی مزید وضاحت کے لئے دیکھئے جواب ۱۰۔

سوال-۱۹: کیا یہ بات حقیقت ہے کہ حق تعالیٰ جب بھی کائنات کو لپیٹتا ہے تو عالمِ شخصی ہی میں لپیٹتا ہے، اور جب بھی اسے پھیلاتا ہے تو یہیں سے پھیلا دیتا ہے؟ -جواب: یہ بالکل حقیقت ہے جیسا کہ حق تعالیٰ آیت (۰۲: ۲۴۵) میں فرماتا ہے: وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪، اور خدا (کائنات کو)اپنی مٹھی میں لیتا ہے اور پھیلاتا ہے۔ پس یہاں سے”قبض و بسط”عقل کے دو نام ہوئے جس کا مظہر دنیا میں امامِ زمانؑ ہے جو حقیقی معنوں میں عالمِ شخصی ہے۔

 

۴۹

 

سوال-۲۰: اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مقامِ ابراہیمؑ کو مُصلّیٰ (جائے نماز ۰۲: ۱۲۵) بناؤ۔ یہ پاک مقام کہاں ہے؟ خانۂ کعبہ میں؟ حظیرۂ قدس میں؟ کیا یہ ترقی کی حد بتائی گئی ہے کہ تم حظیرۂ قدس تک جاسکتے ہو؟ -جواب: مقامِ ابراھیمؑ کی مثال خانۂ کعبہ میں ہے اور ممثول حظیرۂ قدس میں ہے جو روحانی ترقی کی بتائی ہوئی حد ہے۔ مقام کے پہلے معنی ہیں، کھڑا ہونے کی جگہ، دوسرے معانی ہیں انبعاث کی جگہ اور وہ مرتبۂ عقل ہے جس میں معجزۂ ابداع و انبعاث کا ظہور ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام ایک پتھر پر کھڑے ہوئے تھے تاکہ خانۂ کعبہ کی دیواریں اونچی کریں اس سے گوہرِ عقل مراد ہے جس کے ذریعے سے ذاتی دنیا میں تعمیرِ بیت اللہ کا تجدّدِ امثال ہوتا ہے۔ اِسی امکانی ارتقاء کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ مقامِ ابراھیمؑ کو مُصلّیٰ (جائے نماز ۰۲: ۱۲۵) بتاؤ۔ یعنی تم روحانیّت میں اتنی ترقی کرو کہ امامِ زمانؑ کا نور تمہارے دل میں طلوع ہوجائے، جس کی روشنی میں تم یقیناً کعبۂ حقیقت کی تعمیر کا مشاہدہ کرو گے اور مقامِ ابراہیمؑ تک رسائی ہوگی جو حظیرۂ قدس میں ہے۔

 

۵۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۳

 

سوال- ۲۱: حدیثِ شریف میں ہے کہ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، اور باطن صرف نور ہے (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں نظر آتا ہے، آپ اس مطلب کی مزید وضاحت کریں -جواب :  اس مطلب کی مزید وضاحت یوں ہے کہ خدائے تعالیٰ نے قرآنِ حکیم کے باطن یا بواطن کو دکھانے کے لئے کتاب کے ساتھ نور کو بھیجا ہے اور یہ نورِ مُنزّل آنحضرتؐ کے زمانے میں آنحضرتؐ تھے، اور آپؐ کے بعد أئمّۂ طاہرینؑ اس نور کا درجہ رکھتے ہیں جو قرآن کے باطن یا تاویل کو جانتے ہیں۔ چنانچہ پروردگارِ عالم اس حقیقت کے بارے میں فرماتا ہے کہ قرآن کی تاویل کو صرف خدا اور راسخون فی العلم ہی جانتے ہیں۔

سوال –  ۲۲  :  جس طرح ظاہر میں سُورۂ فاتحہ اُمُّ الکتاب ہے، اسی طرح باطن میں علی اُمُّ الکتاب ہے، اور سورۂ زُخرُف (۴۳: ۰۴) میں ہے: اور یہ (قرآن) ہمارے پاس اُمُّ الکتاب (علی) میں علی اور حکیم ہے۔ آپ اس میں غور کرکے اظہارِ خیال کرسکتے ہیں، آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن خدا کے پاس اُمُّ الکتاب (علی) میں نہایت درجہ بلند اور پُراز حکمت کتاب ہے۔

 

۵۱

 

-جواب :  قرآن خدا کے پاس اُمُّ الکتاب  (علیؑ) میں نہایت درجہ بلند اور پُرحکمت ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اُمُّ الکتاب حقیقت میں لوحِ محفوظ ہے جو ایک زندہ اور گویندہ نور ہے اور یہ انسانِ کامل کی صورت میں ہے۔ قرآنِ حکیم کے اُمُّ الکتاب میں نہایت بلند اور پُرحکمت ہونے کا اصل سبب خدا کی قربت و نزدیکی (عندیت) ہے جو انسانِ کامل یعنی پیغمبر اور امام کو حاصل ہے اور قرآن جب انسانِ کامل کے باطن میں ہے تو یہ نور کی صورت میں ہوتا ہے اس لئے نور کی صورت میں نہایت بلند اور پُرحکمت ہوتا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: سوغاتِ دانش، ص ۷۶-۸۴۔

سوال –  ۲۳  :  اگر کچھ دیر کے لئے یہ مان لیا جائے کہ امامِ مبین سے ایسی لوحِ محفوظ مراد ہے جو باطن میں ہے، تو تعجّب کی بات ہوگی، کیونکہ امام اور مبین یہ دونوں لفظ صرف امام علیہ السّلام ہی کی مبارک شخصیّت کی دلیل ہیں، نہ کہ ان میں کسی باطنی چیز کا اشارہ ہے، آپ آزادی سے اس پر تبصرہ کریں – جواب :  یقیناً ایسی لوحِ محفوظ کا جو باطن میں ہو، امامِ مبین کے ساتھ نہ لفظی مناسبت ہے اور نہ معنوی، بلکہ امامِ مبین کو لوحِ محفوظ تسلیم کیا جائے تو اس سے مراد نفسِ کُلّی ہے جس نے روحانی حیثیت میں کائنات کو گھیر لیا ہے اور جس کا مظہر امامِ زمانؑ ہے۔

سوال- ۲۴ : کیا آنحضرتؐ کا نور قلمِ اعلیٰ نہیں ہے؟ آیا یہی

 

۵۲

 

نور فرشتہ (عقلِ کلّ) نہیں ہے؟ کیا علیؑ کا نور لوحِ محفوظ نہیں ہے؟ کیا یہی نور فرشتہ (نفسِ کُلّ) نہیں ہے؟ آپ سوچ کر جواب دین- جواب: (۱) یقیناً آنحضرتؐ کا نور قلمِ اعلیٰ ہے (۲) اور یہی نور فرشتۂ عقلِ کلّ ہے (۳) اور علیؑ کا نور لوحِ محفوظ ہے (۴) اور یہی نور فرشتۂ نفسِ کُلّ ہے۔

سوال-  ۲۵: جو مقدّس شخصِ کامل ظاہراً امامِ مبین ہے، اور وہی باطناً لوحِ محفوظ بھی ہے، کیونکہ قربِ خدا کی چیزیں عقل و جان کے درجۂ کمال پر ہوتی ہیں، اور اس معنی میں ارشاد ہُوا ہے کہ ہر چیز لوحِ محفوظ میں ہے، نیز فرمایا گیا ہے کہ ہر چیز امامِ مبین میں ہے، کیا یہ دو الگ الگ چیز ہیں؟ – جواب:   جواب ۲۳ اور جواب ۲۴ سے ظاہر ہے کہ امامِ مبین اور لوحِ محفوظ دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت  کے ظاہری اور باطنی پہلو ہیں۔

سوال-  ۲۶:  سُورۂ جِنّ کے آخر (۷۲: ۲۸) میں ارشاد ہے: وَاَحصٰی کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا =اور اُس نے ہر چیز کو ایک عدد (یعنی عددِ واحد) میں گھیر کر رکھا ہے۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں- جواب:  ایک عدد یا عددِ واحد سے مراد امامِ زمانؑ کی ذاتِ مقدّس ہے اور خدائے تعالیٰ جب امامِ زمان کی ذاتِ اقدس میں چیزوں کو گن لیتا ہے تو ان کی وحدت بن جاتی ہے۔

 

۵۳

 

سوال- ۲۷: سُورۂ نبا (۷۸: ۲۹) میں ہے: وَکُلَّ شَیْ ءٍ اَحْصَیْنٰہُ کِتٰباً = اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر کر رکھا ہے۔ کیا یہ امامِ مبین ہی ہے یا کوئی الگ کتاب ہے؟ – جواب:  یقیناً یہ کتاب امامِ مبین ہی ہے نہیں تو کسی بے جان کتاب میں کس طرح ممکن ہے کہ تمام عقلی، روحانی اور جسمانی چیزوں کو گھیرا جائے۔

سوال -۲۸: سُورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں خزائنِ الٰہی کا ذکر آیا ہے، آپ اس میں اچھی طرح سے غور و فکر کر کے بتائیں کہ آیا یہ خزانے امامِ عالیمقامؑ سے الگ ہوسکتے ہیں؟ جبکہ اللہ تعالی نے تمام چیزوں کو امامِ مبینؑ ہی میں گھیر کر رکھا ہے ( ۳۶: ۱۲)؟ – جواب:  جب اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو امامِ مبین ہی میں گھیر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) تو یہ خزائنِ الٰہی بھی امامِ مبین میں گھرے ہوئے ہیں اور اس لئے امامِ مبین سے الگ نہیں ہوسکتے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: گنجِ گرانمایہ، ص ۵۵-۵۹۔

سوال -۲۹: جب عرفانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو خداوندِ تعالیٰ کائنات کو کہاں لپیٹتا ہے؟ عارف کے عالمِ شخصی میں؟ حظیرۂ قدس میں؟ یا امامِ مبین میں؟ کیا اس حال میں امامِ زمان علیہ السّلام کا نور عارف کے عالمِ شخصی میں طلوع نہیں ہوتا؟ – جواب: جب  عرفانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو خداوند تعالیٰ کائنات کو عارف کے عالمِ شخصی اور بطورِ خاص پیشانی میں جو عالمِ شخصی کا حظیرۂ قدس ہے، لپیٹتا ہے۔ ایسا

 

۵۴

 

عارف امامِ مبین میں فنا ہوجاتا ہے اور امامِ زمان کا نور عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے۔

سوال – ۳۰: آفاق و انفس میں مُشاہدۂ معجزات (۴۱: ۵۳) سے متعلّق آپ کے پاس جو علم الیقین ہے، اسی سے سوال ہے، ورنہ ہم آپ سے ایسے مشکل سوالات ہی نہ کرتے، پس آپ یہ بتائیں کہ آیا مولا علیؑ کا یہ ارشاد: اَنَا اٰیٰاتُ اللہ (میں ہی خدا کے معجزات ہوں) اس آیۂ کریمہ (۴۱: ۵۳) کی پُراز حکمت تفسیر نہیں ہے؟ کیا دنیا میں سب سے بڑی نشانی اور سب سے عظیم معجزہ یہ نہیں ہے کہ حضرتِ امامؑ نورانی بدن (جسمِ لطیف ) میں آپ کے سامنے ظاہر ہوسکتا ہے؟ – جواب:  یقیناً مولا علیؑ کا یہ ارشاد آیہ (۴۱: ۵۳) کی پُرحکمت تفسیر ہے اور دنیا میں حضرتِ امامؑ کی سب سے بڑی نشانی اور سب سے عظیم معجزہ جو مجموعۂ آیات و معجزات ہے نورانی بدن (جسمِ لطیف) میں ظہور ہے۔

 

۵۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۴

 

سوال –  ۳۱:  مولا نے یہ کبھی نہیں فرمایا: میں خدا کی آیات میں سے ایک آیت ہوں۔ بلکہ یوں فرمایا: میں ہی خدا کے جملہ معجزات (کامجموعہ) ہوں۔ جس کی ایک زندہ مثال نورانی بدن میں تشریف آوری ہے، یہ معجزہ دراصل لپیٹی ہوئی زندہ کائنات ہے، اس کی بہت مختصر مثال: کیا یہ قیامت اور آخرت نہیں، جس کا بیان تمام قرآن میں پھیلا ہوا ہے؟ کیا یہ دیدار نہیں؟ ملاقات نہیں؟ فرشتہ نہیں؟ جِنّ نہیں؟ روح نہیں؟ جسمِ لطیف نہیں؟ جامۂ جنّت نہیں؟ خود جنّت نہیں؟ عالمِ لطیف نہیں؟ آسمان نہیں؟ بتائیں کیا  نہیں ہے؟ -جواب: چونکہ حضرتِ امامؑ کا نورانی بدن میں ظہور جملہ معجزات کا مجموعہ اور لپیٹی ہوئی زندہ کائنات ہے۔ اس لئے یہ سب کچھ ہے۔ یہ قیامت و آخرت، دیدار و ملاقات، فرشتہ، جِنّ، روح، جسمِ لطیف، جامۂ جنّت، خود جنّت، عالمِ لطیف، آسمان وغیرہ سب کچھ ہے۔

سوال- ۳۲: آپ کو معلوم ہے کہ کوئی بھی وعدہ آنے والے وقت کے پیشِ نظر کیا جاتا ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ خدا کے اکثر وعدے

 

۵۶

 

باطنی نوعیت کے ہُوا کرتے ہیں، درحالے کہ عوام ظاہر میں انتظار کرتے رہتے ہیں، چنانچہ معجزاتِ روحانیّت و قیامت کا وعدہ، جو ریاضت اور مجاہدۂ نفس سے مشروط ہے، ہر عارف کے لئے پورا ہوتا ہے، آپ اپنے الفاظ میں اس مطلب کو دہرائیں -جواب:  قیامت درحقیقت دو صورتوں میں واقع ہوتی ہے، ایک صورت میں قیامت کا وقت مقرّر ہے اور دوسری صورت میں قیامت وقت سے بالاتر ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامتِ کبریٰ اپنے وقت سے پہلے نہیں آئے گی جبکہ قیامتِ صغریٰ، جو حصولِ معرفت کے واسطے مقرر ہے وہ خدا کے خاص دوستوں میں ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہے تاکہ اہلِ معرفت پر حقائق و معارف کا دروازہ ہر وقت کھلا رہے۔ جہاں تک قیامت کے شعور کا تعلّق ہے، قرآنِ حکیم سے ظاہر ہے کہ قیامت پوشیدہ اور لاشعوری (۰۶: ۴۷، ۲۶: ۲۰۲) طور پر آئے گی اور عوام اس سے اندھے (۲۷: ۶۶) رہیں گے۔ اس کا علم اور شعور صرف اہلِ معرفت کو ہوگا۔

سوال- ۳۳: سُورۂ مُدَّثر (۷۴: ۳۰) میں ارشاد ہُوا ہے کہ دوزخ پر انّیس ۱۹ فرشتے معیّن ہیں۔ اور بسم اللہ کے حروف بھی اُنیس ۱۹ ہیں، کیا آپ اس کا تاویلی راز بتا سکتے ہیں کہ ان فرشتوں کی یہ تعداد کیوں ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ یہ فرشتے کس کام کے لئے مقرّر ہیں؟ آپ مدد لے سکتے ہیں: وجہِ دین، گفتار/کلام ۱۴-جواب :   دوزخ پر معیّن ۱۹ فرشتوں اور بِسم اللہ کے اُنیس۱۹ حروف کی تاویل دورِ کبیر کے سات خداوندانِ

 

۵۷

 

دور (چھ ناطقؑ اور قائمؑ) اور ان کے بَارہ حجّت اور دورِ صغیر کے سات امام اور ان کے حجتانِ جزائر ہیں جو لوگوں کو جہالت کی نادانی سے علم کی بہشت تک رہنمائی کرنے کے لئے مقرر ہیں۔

سوال- ۳۴:  آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی معراج جسماً ہوئی تھی یا روحاً؟ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ حضورِ انورؐ روحانیّت کی معراج پر گئے تھے، تو لازماً یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قصّۂ معراج (۱۷: ۰۱) میں مسجد سے عبادت (اسمِ اعظم) مراد ہے، جیسے لفظ مسجد سورۂ اعراف (۰۷: ۲۹، ۰۷: ۳۱) میں عبادت کے معنی میں آیا ہے، پس رسول اللہؐ کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصا کی طرف لے جانے کی تاویل یہ ہے کہ قبلاً آپؐ ابتدائی اسمِ اعظم سے عبادت کرتے تھے، لیکن اب آخری اسمِ اعظم سے عبادت کرنے کا حکم ملا، جو قیامت خیز ہے، یعنی حضرتِ قیّوم۔ -جواب:  آنحضرتؐ کی معراج روحانی طور پر ہوئی تھی، اس لئے کہ معراج کشفِ باطن اور روحانیّت کے عروج کا نام ہے جو ذکر و عبادت کا نتیجہ ہے، قربِ خداوندی باطنی اور روحانی طریق پر ہے نہ کہ جسمانی طور پر، اور عالمِ علوی سے مراد دنیائے روحانیّت ہے جو لامکانی حیثیت میں پائی جاتی ہے نہ کہ مکانی حیثیت میں۔ چونکہ معراج ایک روحانی واقعہ ہے اس لئے روحانی معراج سے متعلّق ان تاویلات کو لازماً ماننا چاہئے۔

سوال – ۳۵ : سُورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۱۸)میں بھی معراج کا پُرحکمت ذکر

 

۵۸

 

موجود ہے، کہ اس کی حکمت راسخونَ فی العلم (پُختہ کارانِ علم) کے سِوا اور کوئی نہیں جانتا ہے، انہی حضرات سے ہم کو صدقہ ملتا ہے، اعنی امامِ زمانؑ سے، پس میں آپ سے سوال کرتا ہوں: آیا آپ نے پڑھا ہے یا سُنا ہے کہ نورِ ہدایت دوڑتا بھی ہے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸)؟ کس منزل میں؟ منزلِ آخرین میں؟ معراج میں؟ حظیرۂ قدس میں؟ -جواب:  آیات (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸) میں مومنین و مومنات کے نور کے دوڑنے کا ذکر آیا ہے۔ یہ واقعہ روحانی سفر کے منزلِ آخرین میں پیش آتا ہے۔ یہ وہ مقامِ وحدت ہے جہاں پر حقیقی مومنین و مومنات کی روحیں امامِ اقدس کے نور کے ساتھ مل کر ایک ہوجاتی ہے، یہی منزلِ آخرین معراج بھی ہے اور حظیرۂ قدس بھی۔

سوال- ۳۶: کیا روحانی سفر انفرادی ہے یا اجتماعی ہے؟ یا یہ ظاہراً انفرادی، مگر باطناً اجتماعی؟ اگر یہی بات حقیقت ہے تو ماننا پڑے گا کہ رسولِ پاکؐ اگرچہ تنہا معراج پر تشریف لے گئے تھے، لیکن باطن اور حقیقت میں بہت سی روحیں بلکہ سب روحیں آپ میں بحدِّ فعل اور بحدِّ قوّت فنا ہوچکی تھیں، یعنی حضورِ اکرم رحمتِ عالمینؐ تمام انسانوں کی روح الارواح کی حیثیّت سے خدا کے پاس گئے تھے – جواب:  روحانی سفر ظاہراً انفرادی ہے مگر باطناً اجتماعی، اس لئے یقیناً آنحضرتؐ اگرچہ ظاہر میں تنہا معراج پر تشریف لے گئے تھے لیکن باطن میں تمام روحوں کو اپنے ساتھ لے کر روح الارواح کی حیثیت سے خدا کے پاس

 

۵۹

 

گئے تھے، اس لئے تمام ارواح خواہ بحدِّ فعل، خواہ بحدِّ قوّت آپ میں فنا ہوچکی تھیں۔

سوال-۳۷: اللہ تعالیٰ نے سُورۂ نجم کی پہلی آیت (۵۳: ۰۱) میں گرتے ہوئے ستارے کی قسم کیوں کھائی؟ قصّۂ معراج کے ساتھ اس کی کیا مناسبت ہے؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ یہ نجم کائناتِ ظاہر کا کوئی سِتارہ نہیں، بلکہ حظیرۂ قدس کا نور ہے؟ جس کے بیشمار نام ہیں؟ اور یہ مقامِ معراج کی مشہور نشانی ہے؟ – جواب: یہ کائناتِ ظاہر کا کوئی ستارہ نہیں بلکہ یہ حظیرۂ قدس کا نور ہے، جس کے بے شمار نام  ہیں اور یہ مقامِ معراج کی مشہور نشانی ہے۔

سوال – ۳۸: دوسری آیت میں جوابِ قسم اس طرح سے ہے: تمہارا رفیق (محمدؐ) نہ بھٹک گیا ہے اور نہ بہکا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر محبوبِ خدا ؐ معراجِ روحانی میں اکیلے ہوتے، اور اہلِ ایمان کی روحیں ان کی رفاقت میں نہ ہوتیں، تو منزلِ آخرین کے تذکرے میں نہ فرمایا جاتا “تمہارا رفیق/ساتھی (محمّدؐ)” آپ کا اس پر کیا تبصرہ ہے؟ – جواب: جیسا کہ جواب ۳۶ سے ظاہر ہے کہ پیغمبر اپنے روحانی معراج میں اکیلے نہیں تھے، بلکہ تمام روحیں خواہ حدِّ قوّت خواہ حدِّ فعل میں آپ میں فنا ہوچکی تھیں، اس لئے وہ سب آپ کے ساتھ تھیں اور اس لحاظ سے خداوند تعالیٰ نے آنحضرتؐ کے بارے میں “تمہارا ساتھی(صاحبکم)” فرمایا ہے۔

 

۶۰

 

سوال- ۳۹: خدا نے ہر انسان کو نہ صرف ایک فرد بنایا ہے، بلکہ بحدِّ قوّت اسے ایک عالمِ شخصی بھی بنا دیا ہے، تاکہ بہشت میں جانے کے بعد ہر شخص اپنے آپ کو کاملین میں پائے، مثال کے طور پر اہلِ بہشت میں سے کوئی شخص فنا فی الرّسولؐ کی حقیقی نعمت چاہتا ہے تو یہ ناممکن نہیں، کیونکہ اس کی روح دوسری تمام ارواح کی طرح رسولِ کریمؐ کے عالمِ شخصی میں موجود تھی، اور مرتبۂ معراج کے عالمِ وحدت میں داخل ہو جانے سے قبل جملہ ارواح رسولِ پاکؐ میں فنا ہو چکی تھیں، آیا یہ حقیقت عجیب و غریب نہیں؟ آپ ان تمام سوالات کے جوابات کو لکھ کر رکھیں، ہم آپ سے طلب کریں گے۔

سوال-۴۰: کیا آپ وحی کے درجات سے متعلّق کچھ بتا سکتے ہیں؟ وحی کے معنی ہیں: اشارہ، جب محبوبِ خداؐ کو معراج میں دیدار ہورہا تھا، تو کیا اس میں بہت سے اِشارے نہیں تھے؟ کلمۂ باری میں؟ نورِعقل میں؟ اگر اس کو قلم کہا جائے تو قلم میں؟ یہاں دستِ خدا کے بہت سے اشارے تھے یا نہیں؟ – جواب:  وحی، آیت (۴۲: ۵۱)کے مطابق تین بڑے درجات میں ہے، سب سے پہلے عام وحی ہے جو جبرائیلؑ وغیرہ کے توسط سے ہوتی ہے، پھر کلامِ الٰہی ہے جو حجاب کے پیچھے سے سنائی دیتا ہے اور آخری درجہ میں خاص وحی ہے جو سب سے عظیم دیدار کے وسیلے سے ہوتی ہے۔ وحی کے معنی ہیں اشارہ، جب آنحضرتؐ کو معراج میں دیدار ہورہا تھا، تو یقیناً اُس میں بہت

 

۶۱

 

سے اشارے تھے اوریہ اشارے کلمۂ باری میں، نورِ عقل میں اور قلمِ الٰہی میں تھے، یہاں دستِ خدا کے بھی بہت اشارے تھے۔

 

۶۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۵

 

سوال- ۴۱: حضورؐ نے اسرارِ معراج کو چشمِ ظاہر سے دیکھا یا دیدۂ دل سے؟ آپ اچھی طرح سے سوچ کر جواب دیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آنحضرتؐ نے معراج کے جملہ معجزات کا دل کی آنکھ سے مشاہدہ کیا تھا، جیسا کہ اِس آیۂ شریفہ میں ہے: مَاکَذَبَ الْفُئَوادُ مَارَایٰ(۵۳: ۱۱)دل نے جھوٹ نہ جانا جو کچھ دیکھا۔ یعنی دل ہی نے دیکھا اور دل ہی نے تصدیق کی۔ -جواب: معراج کا تعلق جیسا کہ جواب ۳۴ سے ظاہر ہے کہ روح سے ہے اور جیسا کہ آیت (۵۳: ۱۱) سے عیان ہے کہ پیغمبرؐ نے معراج کے جملہ معجزات کا روحانی آنکھ یا دیدۂ دل سے مشاہدہ کیا تھا۔ آیۂ مذکورہ میں “دل نے جھوٹ نہ جانا جو کچھ دیکھا” کا مطلب ہے کہ دل ہی نے دیکھا اور دل ہی نے تصدیق کی۔

سوال- ۴۲: کیا معرفتِ نفس اورمعرفتِ ربّ ظاہر میں ہے یا باطن میں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ جُملہ باطنی اشیاء (یا حقیقتوں) کی معرفت باطن میں ہے تو پھر معراج شروع سے لے کر آخر تک باطن میں ہے، اور اس کا مشاہدہ چشمِ باطن سے ہوتا ہے۔ جواب: معرفت کے سلسلے

 

۶۳

 

میں اس آیت (۲۲: ۴۶) کو سمجھنے کی ضرورت ہے: “کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ دل جو سینے میں ہیں وہ اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔” اس سے ظاہر ہے کہ معرفت ظاہر میں نہیں بلکہ باطن میں ہے۔ اس لئے جملہ باطنی اشیاء (حقائق) کی معرفت باطن میں ہے۔ چونکہ معراج ایک روحانی حقیقت ہے اس لئے یہ شروع سے لے کر آخر تک باطن میں ہے اور اس کا مشاہدہ چشمِ باطن ہی سے ہوتا ہے۔

سوال- ۴۳: قرآنِ حکیم منکرین کے بارے میں فرماتا ہے: صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ (۰۲: ۱۸) یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، یہ اب نہ پلٹیں گے۔ آیا یہ لوگ ظاہر میں ایسے ہیں، یا باطن میں؟ کیا یہ جسمانی طور پر سُن نہیں سکتے ہیں؟ بول نہیں سکتے ہیں؟ اور دیکھ نہیں سکتے ہیں؟ -جواب: آیت (۰۷: ۱۷۹) میں پروردگارِ عالم فرماتا ہے: “ان کے دل تو ہیں مگر ان سے نہیں سمجھتے اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے نہیں دیکھتے ہیں اور ان کے کان ہیں مگر ان سے نہیں سُنتے، یہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں” اس آیت سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ باطن میں ایسے ہیں۔

سوال- ۴۴: سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲)، اور سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں کتابِ ناطق کا ذکر آیا ہے، آپ یہ بتائیں کہ کتابِ ناطق کیا ہے؟ کوئی عجیب و غریب بولنے والی کتاب؟ کوئی نوشتہ جو اپنے آپ کو پڑھتا

 

۶۴

 

ہو؟ نامۂ اعمال؟ قرآنِ ناطق؟ امامِ مبین؟ -جواب: کتابِ ناطق ہر زمانے کا امام ہے جو امامِ مبین اور قرآنِ ناطق بھی ہے اور لوگوں کا نامۂ اعمال بھی۔

سوال- ۴۵: جو مومنِ سالک خدا کی رحمت سے جیتے جی مر کر زندہ ہو جاتا ہے، اس کو نامۂ اعمال مل جاتا ہے یا نہیں؟ اگر آپ یقین سے یہ کہتے ہیں کہ ایسے میں کوئی وجہ نہیں کہ کتابِ اعمال اِس سالک کو نہ ملے، اب سوال یہ ہے کہ نامۂ اعمال بولنے والا ہوگا یا خاموش؟ آیا یہ ممکن ہے کہ امام خود اس کا نامۂ اعمال ہو؟ -جواب: جو مومنِ سالک خدا کی رحمت سے جیتے جی مرکر زندہ ہو جاتا ہے اس کو نامۂ اعمال مل جاتا ہے، یہ نامۂ اعمال خاموش نہیں بلکہ جواب ۴۴ سے ظاہر ہے کہ یہ کتابِ ناطق کی صورت میں ہےجو ہر زمانے کا امام ہے، جو لوگوں پر گواہ بھی ہے اور ان کا نامۂ اعمال بھی، تفصیل کے لئے دیکھئے: عملی تصوّف اور روحانی سائنس، ص ص ۱۸۹-۱۹۳ یا تجرباتِ روحانی، ص ص ۷۳-۷۶ یا قانونِ کُلّ، ص ص ۸۳-۹۰۔

سوال- ۴۶: ہمارے پیروں اور بزرگوں کو نفسانی موت اور قیامت کا مکمّل تجربہ حاصل ہُوا تھا، اور اسی کے ساتھ ان کو بڑا کامیاب نامۂ اعمال بھی ملا تھا، وہ کتابِ ناطق ہے جس سے امامِ زمان کا نور مراد ہے، ایسے حضرات سے ہمیں کیا کیا فائدے ہوسکتے ہیں؟ علم و معرفت؟

 

۶۵

 

اسرارِ قیامت؟ امام کی معرفت؟ یقین؟ اُمید؟ بشارت؟ -جواب: ایسے حضرات سے ہمیں علم و معرفت، اسرارِ قیامت، امام کی معرفت، یقین، امید، بشارت وغیرہ کی دولتِ لازوال نصیب ہوئی ہے۔

سوال – ۴۷: سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۹) میں ہے: اس وقت جس کا نامۂ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: لو دیکھو پڑھو میرا نامۂ اعمال۔ اس کا خلاصۂ مطلب کیا ہے؟ روحانیّت و قیامت کے معجزات و اسرار کا تذکرہ کرنا؟ علم و حکمت بیان کرنا؟ امامِ عالی مقام کی معرفت سے اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا؟ -جواب: اس کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ بزرگانِ دین اپنی کتابِ اعمال ہی سے اپنے دوستوں اور لوگوں کو روحانیّت و قیامت کے معجزات و اسرار، علم و حکمت اور امامِ عالی مقام کی معرفت سے آگاہ کرتے ہیں۔

سوال- ۴۸: سورۂ اِنشقاق (۸۴: ۰۷ تا ۰۹) میں ہے: پھر جس کو نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، اس کا حساب آسان ہوگا، اور وہ اپنے اہل کی طرف خوشی خوشی واپس آئے گا۔ کیا یہ انفرادی اور نمائندہ قیامت نہیں ہے؟ خوشی ایک کی ہے یا سب کی؟ کیا ایسا نہیں لگتا ہے کہ یہ کامیابی اور خوشی مشترکہ ہے؟ کیا خوشی سے تسخیرِ کائنات اورگنجِ علم مراد نہیں ہے؟ کیا سب سے بڑی خوشی یہ نہیں کہ حضرتِ امام علیہ السّلام (کتابِ ناطق = قرآنِ ناطق) آپ کا نامۂ اعمال ہوگیا؟ -جواب: یہ عارف کی انفرادی

 

۶۶

 

اور نمائندہ قیامت ہے جو دنیا ہی میں واقع ہوتی ہے۔ وہ اس سے فارغ ہو کر خزانۂ علم و عرفان کی بے پایان خوشی کے ساتھ اپنی جماعت کی طرف آتا ہے۔ چنانچہ یہ کامیابی اور خوشی مشترکہ ہے اور اس خوشی سے مراد تسخیرِ کائنات اور گنجِ علم ہے اور سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ حضرتِ امامؑ عارف کا نامۂ اعمال (کتابِ ناطق =قرآنِ ناطق) ہوگیا۔

سوال- ۴۹: سُورۂ مُطَفِّفین (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) میں دیکھ لیں: ہرگز نہیں، بیشک نیک آدمیوں کا نامۂ اعمال عِلّیِّین میں ہے، اور تمہیں کیا خبر کہ وہ عِلّیِّین کیا ہے؟ ایک لکھی ہوئی (زندہ) کتاب، جس کو مقرّبین دیکھتے ہیں۔ یہ ترجمہ (ان شا ء اللہ) نورِ معرفت کی روشنی میں ہے۔ اب آپ یہ بتائیں کہ عِلّیِّین کون ہیں؟ کیا یہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس ہیں؟ یا یہ تمام انبیاء و اولیاء ہیں؟ آیا یہی پاک ہستیاں کتابِ مرقوم (لکھی ہوئی زندہ کتاب) ہیں؟ کیا ابرار کا نامۂ اعمال اسی زندہ کتاب میں ہے؟ پھر یہ بڑی عجیب رحمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکو کاروں کے نامۂ اعمال کو عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اور اساس کا درجہ دیا، کیا اِس ارشاد کا مطلب ایسا نہیں ہے؟ -جواب: چونکہ عِلّیّین ایک لکھی ہوئی (زندہ) کتاب ہے اور یہ امامِ مبین ہے جس میں ہر چیز گھری ہوئی ہے اس لئے عِلّیّین عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق اور اساس ہیں یہ تمام انبیاء و اولیاء بھی ہیں اور ابرار کا نامۂ اعمال بھی، یقیناً یہ خداوندِ قدّوس کی بڑی عجیب رحمت ہے کہ اس نے نیکوکاروں کے نامۂ اعمال کو عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق اور اساس کا درجہ دیا۔

 

۶۷

 

سوال- ۵۰: قرآنِ عزیز میں ارشاد ہے: یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ۔ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ (۸۳: ۲۵ تا ۲۶) اِن کو سر بمہر خالص شراب پلائی جائے گی، جس کی مُہر مُشک کی ہوگی۔ کیا یہ بہشت کی نعمتوں کی تعریف ہے جو اچُھوتی، نِرالی، انوکھی، اور بڑی عجیب و غریب ہیں؟ آیا علم و حکمت کی گُونا گونی بھی ایسی حیران کُن ہے؟ -جواب: یقیناً یہ بہشت کی اچُھوتی، نرالی، انوکھی اور بڑی عجیب و غریب نعمتوں کی تعریف ہے جو علم و حکمت کی گونا گونی کی صورت میں ہیں۔

 

۶۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۶

 

سوال- ۵۱: قرآنِ حکیم کی ہر ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور اس بے مثال کتابِ سماوی کا کوئی مقام ایسا نہیں، جہاں اہلِ بصیرت کے لئے علم وحکمت کے عجائب وغرائب کا کوئی دروازہ کُھل نہ جائے، آئیے اہلِ بہشت کی حیرت انگیز لطیف زندگی سے متعلّق کچھ معلومات حاصل کرتے ہیں، آپ سُورۂ واقعہ کو باترجمہ پڑھیں اور ہمارے چند سوالات کے جوابات کی تیاری کریں:۔

سابِقُون کے کیا کیا اوصاف ہوتے ہیں؟ کیا یہ ہر نیکی میں دوسروں سے آگے آگے ہوتے ہیں؟ مجموعی طور پر علم و عمل میں؟ آیا یہی لوگ بقولِ قرآن مُقرّبین ہیں؟ کیا قرآن میں یہ حکم ہے کہ نیک کاموں میں سبقت کرو؟ -جواب: سُورۂ واقعہ میں آیات (۵۶: ۱۰ تا ۲۶، ۵۶: ۸۸ تا ۸۹) میں سابقون کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ سابقون ہر نیکی میں دوسروں سے آگے آگے ہوتے ہیں، اور مجموعی طور پر علم اور عمل میں، ہاں، سابقون ہی بقولِ قرآن مقرّبین ہیں، اور قرآن میں نیک کاموں میں سبقت کرنے کا ذکر ہے ۵۷: ۲۱، ۰۲: ۱۴۸)۔

 

۶۹

 

سوال – ۵۲: مذکورہ سورہ (۵۶: ۱۷) میں وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ کا ذکر آیا ہے، یہ لڑکے  جو ہمیشہ لڑکے ہی رہتے ہیں، کون ہیں؟ کب سے ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ اِبداعی ہیں، یا خلقی؟ کیا یہ ازلی و ابدی ہیں؟ آیا یہ لطیف ہیں یا کثیف؟ -جواب: یہ ابدی لڑکے اہلِ بہشت ہیں، اور یہ خُلُود (۵۰: ۳۴) کی حکمت و علامت ہیں، اہلِ بہشت سب کے سب شروع شروع میں دنیا ہی کے لوگ ہوتے ہیں جب وہ مرجاتے ہیں تو ان کو جسمِ لطیف میں زندہ کرکے جنّت میں داخل کیا جاتا ہے، شروع میں خلقی ہیں بعد میں جسمِ لطیف کے ملنے پر یہ ابداعی ہوجاتے ہیں، یہ بہشت میں ازلی و ابدی طور پر موجود بھی ہیں اور دنیا میں آکر پیدا بھی ہوجاتے ہیں، اِسی لئے ان کی دو انائیں ہو جاتی ہیں، یعنی انائے علوی اور انائے سفلی (۰۶: ۹۸ یا ۵۶: ۱۷)۔ دیکھئے ہزار حکمت، حکمت ۹۳۲تا ۹۳۷۔

سوال – ۵۳: ارشاد ہے: وَحُوْرٌ عِیْنٌ (۵۶: ۲۲) کَاَ مْثَالِ اللُّؤْ لُؤِالْمَکْنُوْنِ (۵۶: ۲۳) اور خوبصورت آنکھوں والی حوریں، جیسے چُھپا کر رکھے ہوئےموتی۔ آیا یہ عقلی حوریں نہیں ہیں؟ کیا خوبصورت آنکھیں چشمِ بصیرت کی مثال نہیں ہیں، جو عالمِ وحدت (حظیرۂ قدس) کے اسرار کو دیکھ سکتی ہے؟ کیا پوشیدہ موتیوں کی طرف محفوظ ہونے میں گوہرِعقل (کتابِ مکنون)کی طرف اشارہ نہیں ہے؟ اس درجہ کی حوریں انتہائی عجیب و غریب ہیں، کہ وہ عقلی اور علمی ہیں، حظیرۂ قدس میں ہونے کی وجہ

 

۷۰

 

سے فنا بحق اور صورتِ رحمان سے واصل ہیں، یہ بڑا عجیب انقلابی تصوّر بلکہ روشن حقیقت ہے کہ مرد و زن کی روحانی ترقّی ایک ساتھ صورتِ رحمان تک ہے۔ -جواب: یہ عقلی اور علمی حوریں ہیں، خوبصورت آنکھیں چشمِ بصیرت کی مثال ہیں جو عالمِ وحدت (حظیرۂ قدس) کے اسرار کو دیکھ سکتی ہیں، پوشیدہ موتیوں کی طرح محفوظ ہونے میں گوہرِعقل (کتابِ مکنون) کی طرف اشارہ ہے۔ حظیرۂ قدس میں ہونے کی وجہ سے فنا بحق اور صورتِ رحمان سے واصل ہیں۔ یہ بڑا عجیب انقلابی تصوّر بلکہ روشن حقیقت ہے کہ مرد و زن کی روحانی ترقی ایک ساتھ صورتِ رحمان تک ہے۔

سوال- ۵۴: کیا سُورۂ واقعہ میں حُورانِ درجۂ دوم کا تذکرہ بھی ہے؟ جی ہاں! جیسا کہ یہ ایک ترجمہ ہے: ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سِرے سے (یعنی نورانی بدن میں) پیدا کریں گے اور انہیں باکِرہ بنا دیں گے، اپنے شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سِن، یہ کچھ دائیں بازو والوں کے لئے ہے (۵۶: ۳۵ تا ۳۸) بہشت میں کیا قالبِ نورانی (جسمِ لطیف) صرف عورت کو ملے گا، یا مرد کو بھی؟ حُور اور اس کا شوہر کس طرح ہم عمر ہوں گے؟ کیا عالمِ شخصی میں دونوں کا روحانی تولّد بیک وقت ہوتا ہے؟ باکِرہ یا دوشیزہ کس طرح؟ جسمِ کثیف کو چھوڑ کر جسمِ لطیف میں منتقل ہونے کی وجہ سے؟ -جواب: جی ہاں، جیسا کہ یہ ایک ترجمہ ہے: ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سِرے سے (یعنی نورانی بدن میں) پیدا کریں گے اور انہیں باکرہ بنا دیں گے، اپنے شوہروں

 

۷۱

 

کی عاشق اور عمر میں ہم سِن، یہ کچھ دائیں بازو والوں کے لئے ہے (۵۶: ۳۵ تا ۳۸) بہشت میں قالبِ نورانی عورت مرد دونوں کو ملے گا۔ حور اور اس کا شوہر ہم عمر اس طرح ہوں گے کہ عالمِ شخصی میں دونوں کا تولّد بیک وقت ہوتا ہے اور باکِرہ یا دوشیزہ جسمِ کثیف کو چھوڑ کر جسمِ لطیف میں منتقل ہونے کی وجہ سے ہے۔

سوال – ۵۵: سُورۂ رحمان (۵۵: ۷۲ تا ۷۴) میں ہے: خیموں میں ٹھہرائی ہوئی حوریں، اپنے ربّ کے کِن کِن انعامات کو تم جُھٹلاؤ گے، پہلے کبھی کسی انسان یا جنّ نے ان (حوروں) کو نہ چُھوا ہوگا۔ کیا اس کی تاویل یہ ہے کہ یہ کنزِ مخفی کے اچُھوتے اسرار ہیں؟ آیا یہ کہنا درست ہے کہ ہر مثال میں گوہرِعلم پنہان ہوتا ہے، اسی طرح حورانِ بہشتی کی دل آویز مثالو ں میں سب سے اعلیٰ حقائق و معارف پوشیدہ ہیں؟ -جواب: جی ہاں! آپ کا ہر سوال خود جواب بھی ہے۔

سوال -۵۶: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۹) میں دیکھ لیں: وہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں نفسِ واحدہ سے پیدا کیا اور اُسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ کیا یہ لوگوں کی ظاہری پیدائش کا تذکرہ ہے؟ یا ذرّاتی (روحانی) تخلیق کا؟ -جواب: کیا آپ کو وہ وزڈم سرچ (WISDOM SEARCH)یاد نہیں ہے، جس میں یہ بہت بڑا راز بتایا گیا تھا کہ منزلِ عزرائیلی میں انسانِ کامل کی بےشمار لطیف کاپیاں

 

۷۲

 

بنائی جاتی ہیں؟ اب آپ کو وہ قصّہ یاد آیا، ہاں یہی مخلوقِ لطیف انسان بھی ہے، جِنّ بھی، پری بھی، اور حور و غِلمان بھی ہے، اور اس کے کثیر نام ہیں۔

سوال – ۵۷:  کیا یہ حقیقت ہے کہ انسانِ کامل کی عقلی اور اصل بیوی پیدا نہیں ہوتی ہے، جب تک کہ مقامِ عقل اور حظیرۂ قدس کی منزل نہیں آتی؟ کیونکہ لِیَسْکُنَ اِلَیْھَا (تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے) فرمانے کا مقصد علمی اِزدواج کا سکون ہے؟ -جواب: جی ہاں! یہ بالکل حقیقت ہے۔ اگر آپ کاملین و متقین کی عقلی عروسی کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں تو سُورۂ دُخان (۴۴: ۵۴) میں دیکھیں: کَذٰالِکَ وَزَ وَّجْنٰھُمْ بِحُوْرٍ عِیُنٍ =ایسا ہی ہوگا، اور ہم ان کی شادی بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے کر دیں گے۔

سوال – ۵۸:  اِس نوعیّت کے سوال و جواب کی ضرورت اس لئے ہوئی کہ جب تک کوئی فردِ بشر بہشت کی روحانی اورعقلانی نعمتوں سے متعلّق علم الیقین کو حاصل نہ کرے، تب تک اس کی روحانی ترقّی ناممکن ہے، آپ اس میں غور کر کے تبصرہ کریں۔ -جواب:  یہ بالکل حقیقت ہے کہ یہ علم الیقین ہی تو ہے کہ جس کے ذریعے سے دوزخ اور بہشت کی پہچان ہوتی ہے جیسا کہ سورۂ تکاثر کی آیات ۵-۶ (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۶) سے ظاہر ہے: “دیکھو، اگر تم علم الیقین کو جانتے تو ضرور دوزخ کو دیکھ سکتے۔” جب علم الیقین کے ذریعے

 

۷۳

 

دوزخ کو دیکھا جاسکتا ہے تو بہشت کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

سوال – ۵۹:  آپ اپنی معلوماتِ عامہ کی مدد سے یہ بتائیں کہ آیا انسان کی ہستی تین چیزوں کا مجموعہ نہیں ہے؟ وہ تین چیزیں جسم، روح، اور عقل نہیں ہیں؟ جب حقیقت یہی ہے تو کیا غِذا، لذّت، اور خوشی صرف جسمانی قسم کی ہوسکتی ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ آپ حقیقت بیان کریں۔ -جواب:  انسان کی ہستی یقیناً تین چیزوں یعنی جسم، روح اور عقل کا مجموعہ ہے اور اِسی کے مطابق اس کی غذا، لذّت اور خوشی بھی تین قسم یعنی جسمانی، روحانی اور عقلانی ہے۔

سوال – ۶۰: اے نورِ عینِ من! ہمارا اور آپ کا مقدّس فریضہ وِز ڈم سرچ ہی ہے، کیونکہ ہماری روحانی اور عقلانی شادمانی اسی مبارک کام میں مضمّر ہے، اور ہمارے جملہ رفیقوں کی اصل خوشی بھی اسی نعمت میں ہے، لہٰذا آئیے، ہم قرآنِ عظیم کے ایک باعظمت بھید کی معرفت کے لئے سعئی بلیغ کرتے ہیں، وہ دل کُشا اور روح پرور راز سربستہ ہے: الرّقیم (۱۸: ۰۹) اب سوال ہے کہ الرّقیم کیا ہے؟ -جواب: الرَّقیم کچھ نوشتۂ روحانی یا نامۂ باطنی کی جھلک ہے، تاکہ سالکین و عارفین اللہ تعالیٰ کے روحانی معجزات پر یقین رکھیں۔

 

۷۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۷

 

سوال -۶۱:  کیا آپ نے کبھی خوابِ نورانی میں کوئی بڑی عجیب مسرّت بخش کتاب، یا کوئی ایسی تحریر دیکھی ہے؟ -جواب:  جی ہاں، پس یہی چیز الرّقیم کی ایک مثال ہے، تاہم روحانیّت کے جادوئے حلال (یعنی معجزہ) میں بڑی زبردست تاثیر ہے۔

سوال – ۶۲:  چونکہ بہشت روحی اور عقلی نعمتوں کا سرچشمہ ہے، لہٰذا وہاں کسی بھی صورت میں قرآن و حدیث اور ارشاداتِ أئمّہ کی نعمتیں ہوں گی یا نہیں؟ -جواب:   بلاشبہ وہاں قرآن و حدیث اور ارشاداتِ أئمّہ کی نعمتیں بھی ہیں اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ نعمتیں ضروری ہیں، تو میں بھی کہتا ہوں کہ لازمی ہیں، بلکہ بہشت میں نعمت طلبی کا اُصُول اِرادۂ “کُنْ” کی طرح ہے، کہ اِدھر دل میں کسی چیز کی خواہش پیدا ہوئی، تو اُدھر سے وہ چیز فوراً ہی سامنے آئی، پس بہشت وہ عالم ہے جس میں کوئی نعمت ناممکن نہیں، آپ کسی بھی پیغمبر کی آسمانی کتاب کو بہشت میں بحالتِ اصلی دیکھ سکتے ہیں، الرّقیم (نوشتۂ روحانی) کا یہی اشارہ ہے۔

 

۷۵

 

سوال- ۶۳: سورۂ تحریم (۶۶: ۱۱) میں زوجۂ فرعون کا تذکرہ اس طرح سے ہے: ترجمہ: اور اللہ نے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہیں فرعون کی زوجہ کی مثل بیان کی ہے کہ جس وقت اس نے یہ عرض کی کہ اے میرے پروردگار میرے لئے اپنے پاس جنّت میں ایک گھر بنا دے اور مجھ کو فرعون سے اور اس کے عملِ بد سے نجات دے اور مجھے ان ظالم لوگوں سے چھٹکارا دے۔ یہاں یہ بڑا اہم سوال ہے کہ آیا یہ مکانی اور اجتماعی بہشت ہے؟ جہاں خدا کا ایک جسمانی مکان ہے؟ – جواب:  اگر ایسا ہے تو بےشمار مومنین و مومنات کی بھی یہی درخواست ہوگی کہ ان کو بھی جنّت میں ہمسایۂ خدا ہونے کا سب سے عظیم اعزاز حاصل ہو، مگر یہ قصّہ تاویل طلب ہے۔

بہشت کی مثال عالمِ شخصی ہے، جو انفرادی بہشت بھی ہے اور اجتماعی بہشت بھی، وہ ایک پہلو سے مکانی ہے اور دوسرے پہلو سے لامکانی، اس میں نہ صرف خدا کے پاس ایک گھر ملتا ہے، بلکہ کامیاب مومنین و مومنات اللہ میں فنا ہو کر اُس کے ساتھ (خانۂ خدا میں) رہنے کی سب سے بڑی سعادت بھی حاصل کرسکتے ہیں، مذکورہ آیۂ شریفہ کا تاویلی اشارہ یہی ہے۔

سوال -۶۴: کُرسی کے کیا معنی ہیں؟ وَسِعَ کُرْ سِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (۰۲: ۲۵۵) کی تفسیر و تاویل کی ہے؟ یہاں کُرسی جسم ہے یا روح؟ -جواب: کُرسی وہ اونچی جگہ، چبوترا، وغیرہ ہے جس پر تختِ شاہی کو سجاتے ہیں، مگر یہاں سے نفسِ کُلّی (کائناتی روح) مراد

 

۷۶

 

ہے، اور ان مبارک الفاظ کا یہ ترجمہ ہے: اُس کی کُرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ یعنی ساری کائنات بحرِ نفسِ کُلّ میں مُستغرق ہے۔

سوال – ۶۵: کیا کائناتِ کُلّ کے ہر حصّہ اور ذرّہ میں روح ہی روح ہے؟ اور سیّارۂ زمین کے اندر باہر بھی؟ آیا زمین کائناتی روح سے واصل بھی ہے اور اپنی ایک روح بھی رکھتی ہے؟ -جواب: جی ہاں! آپ کا ہر سوال خود جواب بھی ہے۔

سوال -۶۶: قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ رحمت اور علم کے ابواب (دروازے) ہیں، چُنانچہ سوال ہے کہ قرآنِ کریم میں لفظِ فُرقان کتنی دفعہ آیا ہے؟ اور فُرقان کے کیا معنی ہیں؟ حق و باطل کو جُدا جُدا کرنا؟ قرآنِ مجید؟ معجزہ؟ آپ قرآنِ عزیز کے سات مقامات پر اِس مبارک لفظ کی حکمتوں کا مطالعہ کریں، بعد ازان یہ بتائیں کہ خدا سے ڈرنے والے مومنین کے لئے جو معجزہ (فرقان) مقرّر ہوتا ہے، وہ کیا ہے؟ (بحوالۂ سورۂ انفال ۰۸: ۲۹) – جواب:  لفظ فرقان، قرآنِ کریم میں سات دفعہ آیا ہے (۰۲: ۵۳، ۱۸۵)، (۰۳: ۰۴)، (۰۸: ۲۹، ۰۸: ۴۱)، (۲۱: ۴۸)، (۲۵: ۰۱)، اس کے معنی ہیں حق و باطل کو جدا جدا کرنا، حق و باطل کے درمیان امتیاز کردینے والی چیز، قرآنِ مجید، معجزہ، مردِ مؤمن کی روشنی قلب، توفیقِ خداوندی، آیت (۰۸: ۲۹) میں جس طرح لفظ فرقان آیا ہے اس سے مراد نورِ امامت اور

 

۷۷

 

قرآن کا باطنی علم ہے، دیکھئے ہزار حکمت، حکمت ۶۵۱ تا حکمت ۶۵۴، بالخصوص حکمت ۶۵۳۔

سوال- ۶۷: آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہوگے تو وہ تم کو ایک فیصلہ کن چیز (فرقان) مقرّر کرے گا….(۰۸: ۲۹) ایسی چیز کیا ہے؟ کوئی چھوٹی اور معمولی چیز؟ -جواب:  ہرگز نہیں، یہ ایک عظیم معجزہ ہے، یہ عالمِ شخصی کا نورِ معرفت ہے، جو علم و حکمت کی روشنی کی وجہ سے فیصلہ کُن معجزہ ہے، کیونکہ لفظِ فرقان کا معنوی رشتہ حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیھما السّلام کے جملہ معجزات سے بھی ہے، اور قرآنِ حکیم سے بھی۔

سوال -۶۸:  کیا فُرقان (معجزہ) جس کا اوپر ذکر ہُوا نورِ امامت ہے؟ جو عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے؟ جیسا کہ ارشاد کا ترجمہ ہے: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور رسولؐ پر واقعی ایمان لے آؤ تاکہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دُہرے حصّے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی روشنی میں چل سکو ….(۵۷: ۲۸)۔ -جواب:  جی ہاں، یقیناً فرقان نورِ امامت ہی ہے، جو عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے، جس کی روشنی میں صراطِ مستقیم پر چلنا ہے کہ یہ راہِ راست بھی عالمِ شخصی ہی میں ہے۔

 

۷۸

 

سوال – ۶۹: آیا یہ بات صحیح ہے کہ عالمِ شخصی کی معرفت میں ہر سوال کا جواب موجود ہے؟ خواہ سوال آسان ہو یا مشکل؟ اگر صحیح ہے تو آپ یہ بتائیں کہ سُورۂ انعام (۰۶: ۱۲۲) کی اِس آیت کی حکمت کیا ہے؟ ترجمہ: کیا جو شخص پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور مقرر کیا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا ہے اس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی یہ حالت ہے کہ اندھیروں میں پھنسا ہُوا ہے کہ وہاں سے کسی طرح نکل نہیں سکتا ….(۰۶: ۱۲۲)۔ -جواب:  اللہ تعالیٰ جب مومنِ سالک کو نفسانی موت کے بعد زندہ کرتا ہے تو اس کے عالمِ شخصی میں امام ِزمانؑ کا نور طلوع ہوجاتا ہے، اور اسی نور کی روشنی میں سالک/عارف ان لوگوں کے درمیان چلتا ہے، جو بشکلِ ذرّات عالمِ شخصی میں موجود ہیں، اور باقی مطلب آیت کے ترجمۂ ظاہر میں موجود ہے۔

سوال – ۷۰: سورۂ قمر کے آخر (۵۴: ۵۴ تا ۵۵) میں جو تاویلی حکمت ہے، وہ بیان کریں۔ -جواب:  ارشاد اس طرح ہے: اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّنَھَرٍ۔ فِیْ مَقْعَدِ صِدُقٍ عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ =بیشک پرہیز گار لوگ باغوں اور نہروں میں ہوں گے، مقامِ صدق میں قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ یعنی وہ لوگ جو بحقیقت پرہیزگار ہیں روحانی بہشت کے باغوں اور باطنی نہروں (عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اور اساس کے نور ) میں ہوں گے مقامِ صدق (حقیقی علم کے مرتبہ) میں قدرت والے بادشاہ (اللہ) میں

 

۷۹

 

فنا ہو کر۔ یہاں عِنْدَ سے فنا مراد ہے، کیونکہ کوئی سالک یا عاشق خدا کے قربِ خاص میں فنا کے بغیر ٹھہر نہیں سکتا ہے، جیسے زوجۂ فرعون کے بارے میں ذکر ہُوا۔

 

۸۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۸

 

سوال-۷۱: یہاں آپ سے ایک بڑا اہم سوال پوچھنا ہے، وہ قرآن اور قیامت کے تعلق کے بارے میں ہے، سو آپ یہ بتائیں کہ قرآنِ حکیم اور قیامت کے درمیان کیا ربط و رشتہ ہے؟ کیا اِس ضروری سوال کا جواب قرآنِ عزیز میں موجود ہے؟ – جواب: جی ہاں، اس کا جواب قرآنِ پاک میں بھی ہے اور کتابِ نفسی (عالمِ شخصی ) میں بھی، وہ یہ کہ قیامت قرآن کی زندہ تاویل ہے، یہی سبب ہے کہ حضرت امام علیہ السّلام کے بعد کوئی شخص قرآن کی جُزوی تاویل بھی نہیں کرسکتا، مگر تجربۂ قیامت کے بعد، جو جیتے جی مرنے میں پوشیدہ ہے۔

سوال- ۷۲: وہ آیۂ مبارکہ کونسی ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ قیامت ہی قرآن کی تاویل ہے؟ کیا آپ بتائیں گے؟ -جواب: جی ہاں! ان شاء اللہ، آپ س۔ ۶۹ کو پڑھیں، اللہ تعالیٰ جب مومنِ سالک کو نفسانی موت کے بعد زندہ کرتا ہے تو یہ ایسے سالک کی قیامت اور اس میں قرآن کی تاویل ہے، کیونکہ اس حال میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوجاتا ہے، اور قرآن کی تاویل نور ہی کی روشنی میں کی جاتی ہے،

 

۸۱

 

آپ تمام آیاتِ نور کو اِسی معنیٰ میں پڑھیں۔

سوال- ۷۳: درحقیقت آسمانی کتاب کی تصدیق دو مرحلوں میں ہوتی ہے، پہلے مرحلے میں علم الیقین سے، اور دوسرے مرحلے میں تاویل سے، آیا یہ بات درست ہے؟ -جواب: ہاں، بالکل درست ہے، اور یہ حکمت سورۂ یونس (۱۰: ۳۹) سے ہے، جیسا کہ اُس آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: درحقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمّل علم بھی نہیں ہے اور اس کی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے اسی طرح ان کے پہلے والوں نے بھی تکذیب کی تھی ….(ترجمہ از انوار القرآن)

سوال- ۷۴: ترجمۂ ارشادِ ربّانی: ہم ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے ایک خاص علم کی بناء پر مفصّل بنایا ہے، اور (حقیقی) ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے، اب کیا یہ لوگ اس کے سِوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ اس (کتاب) کی تاویل (یعنی قیامت) آجائے، جس روز اس کی تاویل آگئی تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اسے بُھلا دی تھی کہیں گے کہ واقعی ہمارے پروردگار کے رسول حق لے کر آئے تھے ….(۰۷: ۵۲ تا ۵۳) اس کا مطلب یہ ہُوا کہ قرآن کی نورانی تاویل ہی قیامت ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ -جواب:  جی ہاں، بالکل درست ہے۔

 

۸۲

 

سوال – ۷۵: قرآنِ حکیم میں دو ایسی چیزوں کا ذکر ہے، جن کے بارے میں الگ الگ فرمایا گیا ہے: لَا رَیْبَ فِیْہِ (اُس میں شک نہیں) وہ کونسی چیزیں ہیں؟ ان میں شک نہ ہونے کے کیا معنی ہیں؟ ان دونوں میں کیا نسبت ہے؟ -جواب: وہ دو چیزیں الکتاب لاریب فیہ (۰۲: ۰۲) اور یوم القیامۃ لاریب فیہ (۰۶: ۱۲) ہیں، ان میں شک نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان میں علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ہے، وہ کتاب جس میں شک نہیں اساس ہے، اور وہ روزِ قیامت جس میں شک نہیں حضرتِ قائم ہے، اور ان دونوں کی نسبت اظہر من الشمس ہے۔

سوال – ۷۶: عالمِ شخصی میں عقل عرش کی مثال ہے، اور روح کُرسی کی مثال، یعنی وہ چبوترا وغیرہ جس پر تختِ شاہی ہوتا ہے، اب بحوالۂ سورۂ صٓ (۳۸: ۳۴) یہ سوال ہے کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی کُرسی پر امتحاناً ایک جسد ڈالا گیا تھا، اس کی کیا حکمت ہے؟ یہاں کُرسی اور جسد ظاہری ہیں یا باطنی؟ کیا کُرسی روح اور جسد کوئی آزمائشی جسمِ لطیف تھا؟ آپ اس میں غور و فکر کریں۔ -جواب:  یہاں کرسی سے مراد حضرتِ سلیمانؑ کی روح ہے اور جسد ایک ادنیٰ آزمائشی جسمِ لطیف تھا، جو تکلیف دہ بھی ہوتا ہے اور اس کے بعد معجزاتی جسمِ لطیف کا ظہور ہوتا ہے، دیکھئے ہزار حکمت، حکمت ۳ اور حکمت ۷۔

 

۸۳

 

سوال- ۷۷: حدیثِ شریف کا یہ مطلب سب پر عیان ہے کہ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، چُنانچہ سورۂ ہود (۱۱: ۵۲) میں جس طرح ارشاد ہُوا ہے، اس میں سے ان الفاظ کی تاویلی حکمت بیان کریں، الفاظ یہ ہیں: یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا =(تاکہ) وہ تم پر موسلادھار بارش برسانے والا آسمان بھیجے۔ -جواب:  یعنی مذکورہ شرائط کی بجا آوری پر خدا تمہارے اجتماعی اور انفرادی عالمِ شخصی میں علم کی موسلادھار بارش برسانے والا آسمان بھیجے گا۔

سوال- ۷۸: سوال سُورۂ نمل کے حوالے سے ہے: وَلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ (۲۷: ۲۳) کے کیا معنی ہیں؟ اور اس کا ایک بہت بڑا تخت ہے؟ اور اس کی ایک بہت بڑی سلطنت ہے؟ کیا یہ ملکۂ سبا (بلقیس) کا قصّہ ہے؟ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام نے اپنے سرداروں کو کیا حکم دیا؟ آپؑ کو بلقیس کا صرف تخت مطلوب تھا، یا ساری بادشاہی؟ مادّیت میں، یا روحانیّت میں؟ -جواب: بڑا تخت اور بڑی بادشاہی، ملکۂ سبا کا قصّہ ہے، حضرتِ سلیمانؑ نے اپنے سرداروں کو یہ حکم دیا کہ وہ بلقیس کی ظاہری سلطنت کو باطنی صورت میں حاضر کریں، چونکہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے پاس امامت تھی، لہٰذا یہ اس بات کی ایک جُزوی مثال ہے کہ کس طرح ساری لطیف چیزیں امام کے عالمِ شخصی میں جمع ہوجاتی ہیں۔

سوال-۷۹: ایسا یقین ہے کہ اِس ارشاد (۴۱: ۳۰) میں ذاتی

 

۸۴

 

قیامت کا ذکر ہے، ورنہ نزولِ ملائکہ ممکن نہیں، آپ اس کی حکمت بیان کریں۔ -جواب: جن لوگوں نے (حقیقی معنوں میں) کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ (نفسانی طور پر مرکر) زندہ ہوگئے تو یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجاؤ اس جنّت کی بُشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی….(۴۱: ۳۰) آیۂ شریفہ کے اِس لفظ میں عِرفانی قیامت کا اشارہ پنہان ہے: اِستقاموا=وہ سیدھے ہوئے (یعنی نفساً مرکر زندہ ہوگئے)۔

سوال- ۸۰: یَقُوْمُ، یَقُوْمُوْنَ (۰۲: ۲۷۵) یَقُوْمُ (۸۳: ۰۶) اِسْتَقَامُوْا (۷۲: ۱۶) آیا ان الفاظ میں قیامت کے معنی ہیں؟ وہ کس طرح؟ -جواب:  ق و م کے مادّہ سے مصدر ہے: القِیامۃ =کھڑا ہونا، یعنی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونا، پس اسی سے ہیں وہ الفاظ جن سے متعلّق سوال ہُوا، مگر قیامت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک نفسانی موت سے برپا ہوتی ہے اور دوسری جسمانی موت سے، جیسا کہ سُورۂ جِنّ (۷۲: ۱۶) میں ارشاد ہے: وَاَنْ لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلیَ الطَّرِیقہِ لَاَسْقَیْنٰھُم مّآءً غَدَ قًا =اگر یہ لوگ (منزلِ) طریقت پر مرکر زندہ ہوجاتے تو ہم ان کو بہت زیادہ پانی پلا دیتے (یعنی بہت زیادہ علم عطا کرتے)۔ اس آیۂ کریمہ میں بھی ۴۱: ۳۰ ہی کی طرح انتہائی عجیب و غریب انقلابی حکمتیں ہیں۔

 

۸۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۹

 

سوال -۸۱ : آیا اِس آیۂ شریفہ میں بطریقِ حکمت نفسانی موت اور روحانی قیامت کا کوئی ذکر موجود ہے؟ وہ ارشاد یہ ہے: قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍاَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنیٰ وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُ وْا…(۳۴: ۴۶) (اے پیغمبر، ان لوگوں سے) کہو کہ میں بطورِ نصیحت تم سے صرف ایک بات کہتا ہوں کہ خدا کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ پھر سوچو…. – جواب: جی ہاں، اِس حکمِ عالی میں نفسانی موت اور روحانی قیامت کا عظیم الشّان ذکر ہے، وہ اِس طرح سے ہے: دین کی سب سے اعلیٰ اورسب سے عظیم نصیحت یہ ہے کہ اہلِ ایمان سب کے سب جہادِ اکبر کے حکم پر عمل کریں، تاکہ وہ جیتے جی مرکر زندہ ہوجائیں گے، جس میں انہیں کثرت سے وحدت کی طرف جانے کے لئے پہلے دو دو ہو کر کھڑا (یعنی زندہ) ہونا ہے، اور اس کے بعد آگے جاکر مرتبۂ عقل پر اکیلے اکیلے، یہ ہوئی خدا کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجانے کی تاویلی حکمت۔

سوال-۸۲:  افرادِ بشر جسمانی طور پر الگ الگ وقتوں میں پیدا

 

۸۶

 

ہوتے ہیں، اور اسی طرح جُدا جُدا اوقات میں مرجاتے ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں کہ قیامت انفرادی ہے یا اجتماعی؟ کیا آپ اِس باب میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ جواب: آپ نے انسانوں کی ظاہری پیدائش کے بارے میں درست کہا، لیکن روحانی تخلیق کی بات ہی نہیں ہوئی کہ نفسِ واحدہ سے سب لوگ بشکلِ ذرّات پیدا کئے جاتے ہیں، اور قرآنِ عزیز میں اس کا ذکر اور اشارہ بار بار آیا ہے، پس قیامت کے دو پہلو ہیں: شعوری، اور غیر شعوری، یعنی عارف کی انفرادی قیامت شعوری ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ جُملہ خلائق کی اجتماعی قیامت غیر شعوری، اور لوگوں کی ایسی قیامت کا تجدّد ہوتا رہتا ہے۔

سوال – ۸۳: یہ دو پہلو والی قیامت کس قسم کی موت سے برپا ہوتی ہے؟ عامیانہ موت سے، یا عارفانہ موت سے؟ -جواب:  عارف کے عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے، کیونکہ نورِ امامت میں سب کچھ موجود ہونے کا ثانوی مظاہرہ عارف میں ہوتا ہے، پس مومنِ سالک (عارف) کی نفسانی موت سے قیامت کا آغاز ہو جاتا ہے، جیسا کہ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ =جو شخص (جیتے جی) مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ اگر مذکورہ موت، قیامت، اور چشمِ معرفت کا امکان دنیا ہی میں نہ ہوتا، تو قرآنِ حکیم نہ فرماتا کہ: جو اِس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا…. (۱۷: ۷۲)۔

 

۸۷

 

سوال- ۸۴: سورۂ ذاریات کے شروع (۵۱: ۰۱) میں ہے: وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا = بکھیر والیوں کی قسم جو اُڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ اللہ جلّ شانہ نے قرآن میں صرف مقدّس و مُعَظّم چیزوں کی قسم کھائی ہے، لیکن کیا یہاں ہواؤں کی قسم نہیں ہے؟ -جواب:  نہیں نہیں، اللہ پاک نے ان فرشتوں کی قسم کھائی ہے جو اسرافیلی و عزرائیلی منزل کی نیک بخت روح کے ذرّات کو کائنات میں بکھیر دیتے ہیں، آپ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو پڑھیں۔

سوال – ۸۵: قرآنِ مجید کے چار مقامات پر ارشاد ہے: یُدَبِرُّ الْاَمْرَ۔ اس کے اصل معنی کیا ہیں؟ اور سُورۂ نازعات (۷۹: ۰۵) میں جو ارشاد ہے: فَالْمُدَبِرّاتِ اَمْراً اس کا درست مطلب کیا ہے؟ -جواب:  یدبّر الامر کے معنی ہیں: اللہ تعالیٰ کلمۂ امر (کُنْ =ہوجا) کا اِعادہ فرماتا رہتا ہے، کیونکہ اس کی صفتِ خالقیّت قدیم ہے، اور دوسرے سوال کے مطابق فرشتے مدبّراتِ امر اس معنی میں ہیں کہ وہ منزلِ فنا میں روحِ سالک کو بار بار قبض کر کے کائنات میں بکھیر دیتے ہیں، اور بار بار واپس بدن میں ڈال دیتے ہیں، تاکہ بے شمار کاپیاں ہوجائیں۔

سوال- ۸۶: اہلِ ایمان کے لئے قرآنِ مقدّس کے بابرکت خزانوں میں کس چیز کی کمی ہے، خدا کی قسم، نور کی روشنی میں کوئی کمی نہیں، چنانچہ ہمیں یقین ہے کہ قرآنِ پاک میں مقبول دعاؤں کا گنجِ گرانمایہ بھی ہے،

 

۸۸

 

پس آپ ایسی چند دعاؤں کی طرف اشارہ کریں -جواب:  ہر پاک دعا سے فیضیاب ہونے کے لئے پاکدلی ضروری شرط ہے، جس کا ایک بہترین طریقہ عاجزی اور گزیہ وزاری ہے، آپ تَضَرُّ عْ کی حکمت سے متعلق آٹھ آیاتِ کریمہ کو خوب غور و فکر سے پڑھیں، اور دیکھئے کہ دل کی سختی بد ترین رکاوٹ ہے، ورنہ عاجزی اور گریہ وزاری سے بڑی بڑی بلائیں ٹل جاتی ہیں (۰۶: ۴۳) پس تَضَرُّعْ (عاجزی اور نیازِ پنہانی) کی آسمانی تعلیم اِن آیات میں ہے: ۰۶: ۴۳، ۰۶: ۴۲، ۲۳: ۷۶، ۰۷: ۹۴، ۰۶: ۶۳، ۰۷: ۵۵، ۰۷: ۲۰۵، آپ ضرور اِن آیاتِ مقدّسہ کی حکمت پر عمل کریں۔

سوال – ۸۷: آپ ہمیشہ گریہ وزای اور آسمانی عشق کی تعریف کرتے ہیں، اِس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ -جواب:  اس میں بہت بڑی بُنیادی حکمت یہ ہے کہ جُملہ عظیم حکمتوں کا دروازہ اِسی طریقِ کار سے کُھل جاتا ہے، عاشقانہ گریہ وزاری میں اللہ تعالیٰ کا خاموش معجزہ مومنین و مومنات کے حق میں کائناتی خیر کا کام کرتا ہے، قرآنِ حکیم میں یقیناً عظیم الشّان دعائیں بہت ہیں، لیکن ضروی طور پر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مقبول دعاؤں کے خاص خاص طریقے کیا ہیں؟ اور کیا کیا شرطیں ہیں؟

سوال – ۸۸: سُورۂ ہود کی اِس آیۂ مبارکہ (۱۱: ۷۵) کا اصل ترجمہ اور مطلب کیا ہے؟ وہ آیت یہ ہے: اِنَّ اِبْرٰاھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاۃٌ مُّنِیبٌ۔ -جواب:  اس میں سب سے پہلے اَوَّاہ کی وضاحت ضروری ہے کہ

 

۸۹

 

اَوَّاہ کے معنی ہیں بہت آہیں بھرنے والا، پس آیۂ مقدّسہ کا ترجمہ یہ ہے: بیشک ابراہیمؑ بڑا بُردبار (خدا کی یاد میں ) آہیں بھرنے والا (اور) رجوع کرنے والا تھا (۱۱: ۷۵)۔ آپ الاَوَّ اہ کے لئے دیکھیں: المنجد اور مُفرداتُ القرآن۔

سوال – ۸۹: کیا آپ کو حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے آہیں بھرنے کی کوئی معرفت حاصل ہے؟ کیا وہ آہ کسی مریض کے کراہنے کی طرح ہے؟ کیا آپ نے کسی غمگین یا دردمند کی آہوں کو سُنا ہے؟ یا کسی معصوم بچّے کی فطری آہوں کو؟ -جواب:  آہیں گریہ وزاری سے بھی اعلیٰ ہیں، کیونکہ یہ وہ چیزہے جو رو رو کر تھک جانے کے بعد پیدا ہو جاتی ہے، آپ کسی دن تنہائی اور پنہانی کے عالم میں عاشقانہ آہوں سے ذکر کریں اور دیکھیں کہ کس حد تک کامیابی ہوتی ہے، مگر آپ ایسے بھیدوں کو لوگوں پر ہر گز ظاہر نہ کریں، ورنہ نقصان ہو گا۔

سوال -۹۰:  شب بیداری میں کیا راز ہے؟ ذکرِ کثیر کے کیا کیا فائدے ہیں؟ کثرتِ سجود کی کیا فضلیت ہے؟ دل کی سختی جو بدترین روحانی بیماری ہے، اس کا علاج کس طرح ہوسکتا ہے؟ -جواب:  شب بیداری سے علمی اور عقلی گفتگو میں ترقی ہوتی ہے، ذکرِ کثیر کے بہت سے فوائد ہیں، اور اس کا ایک اساسی فائدہ عاجزی ہے، کثرتِ سُجود کے بے شمار فائدے ہیں اور اس سے

 

۹۰

 

ہر نیک دعا قبول ہوجاتی ہے، اور قساوتِ قلبی (دل کی سختی) کی بیماری کا علاج بار بار کی گریہ وزاری ہے۔

 

۹۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۰

 

سوال – ۹۱: سُورۂ اعراف کے آخر (۰۷: ۲۰۵) میں ذکرِ نفسی (ذکرِ قلبی) کا خاص بیان موجود ہے، کیا آپ اس کی کچھ وضاحت کریں گے؟ -جواب: اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اپنے ربّ کو دل ہی دل میں تَضَرُّع اور خوف کے ساتھ یاد کرو اور قول کے اعتبار سے بھی اسے کم بلند آواز سے صبح و شام یاد کرو اور خبردار غافلوں میں نہ ہوجاؤ۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہر شخص خدا کو اپنی علمی رسائی کے مطابق یاد کرتا ہے، لیکن عُرَفاء کے نزدیک دل میں خدا کو یاد کرنا یہ ہے کہ دیدار اور اس کے اسرار کو یاد کیا جائے، تَضَرُّع جو گریہ وزاری ہے، وہ توبہ بھی ہے، مناجات بھی، خوفِ خدا بھی، شکرگزاری بھی، اور عشقِ سماوی بھی، اس مقامِ عالی پر تَضَرُّعْ اور خوفِ خدا کا انتہائی عظیم فائدہ یہ ہے کہ اس سے اسرارِ معرفت میں مزید انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔

سوال – ۹۲:  حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا قصّہ ہے کہ آپؑ نے کہا تھا: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ =پس جو شخص میری پَیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے (۱۴: ۳۶) آپ یہ بتائیں کہ اس کی حکمت کیا ہے؟ حضرتِ

 

۹۲

 

ابراہیمؑ کا پَیرو کس طرح خلیل اللہؑ کا بیٹا یا حصّہ ہوسکتا تھا؟ ایسا کوئی امکان ظاہر میں ہے، یا باطن میں؟  -جواب: اِتِّباع یا پَیروی کے معنی ہیں کسی کے پیچھے پیچھے چلنا، اور جو شخص پیغمبر کی کامل پَیروی کرتا ہے، وہ یقیناً منزلِ مقصود میں پہنچ کر اپنے نبی کے ساتھ ایک ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ہر کامیاب پَیرو اپنے پیغمبر کا روحانی فرزند ہوسکتا ہے، اور جب یہ اُس میں فنا ہوچکا ہے تو باطن میں بہت کچھ ہوسکتا ہے۔

سوال -۹۳:  اسلام کسی معنیٰ میں دینِ فطرت کہلاتا ہے؟ وہ حدیثِ شریف کونسی ہے، جس کے ارشاد کے مطالق اسلام کا نام “فطرت” ہے؟  -جواب:  چونکہ اسلام قانونِ فطرت کے مطابق ہے، بلکہ یہ خود قانونِ فطرت ہے، اس لئے اس کو کبھی دینِ فطرت کہتے ہیں، اور کبھی صرف فطرت کے نام سے یاد کرتے ہیں، اور وہ حدیثِ شریف، جس میں اسلام کا نام “فطرت” ہے، اس طرح سے ہے: کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَاَبَوَاہُ یُھَوِّ دَانِہٖ اَوْ یُنَصِّراَنِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ=ہر بچّہ فطرت (یعنی اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (ہزار حکمت، فطرت)۔

سوال – ۹۴: سُورۂ تکویر (۸۱: ۱۱) میں ارشاد ہے: وَاِذا السَّمَآءُ کُشِطَتْ =اور جب آسمان کا چھلکا اُتار دیا جائے گا۔ کیا آسمان کا چھلکا ہے؟ اگر نہیں تو اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ یہ کس آسمان کا ذکر ہے؟

 

۹۳

 

-جواب: عالمِ ظاہر چھلکا اور حجاب ہے، اس میں عالمِ باطن مغزِ محجوب ہے، چنانچہ جب کسی عارف پر روحانی قیامت قائم ہو جاتی ہے تو اس حال میں حقائق و معارف سے حجابات اُٹھا لئے جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائناتِ ظاہر چھلکا ہے، اور عالمِ شخصی اس کا اصل میوہ اور مغز ہے۔

سوال – ۹۵: آپ کے نزدیک عالمِ شخصی کا موضوع اور بیان اتنا ضروری اور لازمی کیوں ہے کہ اکثر و بیشتر آپ اسی کو زیرِ بحث لاتے ہیں؟ آیا قرآن و حدیث سے اِس مضمون کی بہت بڑی اہمیّت کا ثبوت ملتا ہے؟  -جواب: اس لئے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جس زندہ اور باشعور عالم کا خالق، مالک، اور پروردگار ہے، وہ عالمِ شخصی ہی ہے، جس کا ذکرِ جمیل بصیغۂ جمع (العالمین) قرآنِ عظیم کے کُلّ ۷۳ مقامات پر موجود ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ لفظِ انسان میں بھی عالمِ شخصی ہی پوشیدہ ہے (۶۵دفعہ) ناس (لوگ) بھی عالمِ شخصی ہی کا ایک نام ہے (۲۴۰ دفعہ) الغرض نبی، ولی مومن اور کافر سبھی عالمِ شخصی ہیں، اور قرآنِ حکیم کا کوئی حصّہ ایسا نہیں، جس میں عالمِ شخصی کا کوئی ذکر نہ ہو، اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ معرفت کے تمام خزانے عالمِ شخصی کے سِوا اور کہیں سے نہیں مل سکتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ مَنْ عَرَف ہے۔

سوال – ۹۶:  ارشادِ نبوّی ہے: اَعْرَفُکُمْ بِنَفْسِہٖ اَعْرَفُکُمْ بِرَبِّہٖ = تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنے آپ کو

 

۹۴

 

پہچانتا ہے، وہی شخص تم میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے، آیا یہ حدیث عالمِ شخصی کی بہت بڑی اہمیّت و ضرورت کی دلیلِ کامل ہے؟  -جواب: جی ہاں، کیونکہ اس ارشاد میں یہ فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ ربّ کی معرفت کا واحد مقام صرف انسانی نفس (جان =روح) ہی ہے، اور بس، اور معرفت دیدار کے بغیر کیونکر ممکن ہوسکتی ہے، نیز یہ بھی سوچنا ہے کہ جہاں خدا کا دیدار ہو، وہاں کیا نہیں ہوگا، عرش؟ کُرسی؟ قلم؟ لوح؟ ملائکہ؟ جنّت؟ لامکان؟ خزائن؟ ازل؟ ابد؟ اسرار؟ حظیرۂ قدس؟ عِلّیّین؟ وغیرہ؟

سوال – ۹۷:  قرآنِ حکیم (۰۲: ۲۵، ۰۳: ۱۵، ۰۴: ۵۷) میں ہے کہ بہشت میں مومنین کے لئے پاک کی ہوئی بیویاں ہیں (ازواجٌ مُّطَھَّرَۃ) ان کو کس نے پاک کیا ہے؟ کس طرح؟ دنیا میں پاکیزگی کتنی قسم کی ہوتی ہے؟ آیا حورِ بہشت کا شوہر بھی نہایت ہی لطیف اور حسین و جمیل ہوگا؟  -جواب: خدائے قادرِ مطلق اہلِ بہشت کی عورتوں اور مردوں کو جسمِ لطیف عطا فرماتا ہے، وہ نورانی بدن ہے، اسی کی وجہ سے وہ پاک و پاکیزہ ہوجاتے ہیں، آپ جسمِ لطیف کو جامۂ جنّت بھی کہہ سکتے ہیں، دُنیا میں جو کاملین ہوتے ہیں، ان میں پانچ قسم کی طہارت (پاکیزگی) ہوتی ہے: بدنی طہارت، اخلاقی طہارت، نظریاتی طہارت، روحانی طہارت، اور عقلی طہارت، جی ہاں، حورانِ بہشت کے شوہران بھی نہایت ہی لطیف اور حسین و جمیل ہونگے۔

 

 

۹۵

 

سوال-۹۸: بہشت کا تذکرہ قرآن اور ایمان میں سے ہے، اور اس کی نعمتوں کی معرفت پہلے پہل علم الیقین کی روشنی میں ہوسکتی ہے، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ جنّت کی بے شمار اور کبھی ختم نہ ہونے والی نعمتوں میں اولاد کی نعمت کس طرح مُہیّا ہوگی؟ -جواب:  أئمّۂ آلِ محمّدؐ اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں، (۱۵: ۲۱، ۳۶: ۱۲) جہاں سے دنیا والوں کو ہر چیز حاصل ہو جاتی ہے، اور اولاد بھی، پس جو مومنین امامِ زمانؑ میں فنا ہو کر خزانہ ہو گئے تھے، وہ بہشت میں جاکر اس کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ کریں گے، جس میں ان کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) ہوگئے تھے، پھر وہ بہشت میں اپنے بہت سے بیٹوں اور بیٹیوں کو دیکھ کر بے حد شادمان ہوجائیں گے۔

سوال – ۹۹: دوزخ کہاں ہے؟ کیا ہے؟ دیدنی ہے یا نادیدنی؟ دائمی ہے یا عارضی؟  -جواب: دوزخ دنیا ہی میں ہے، وہ جہل ہے، دیدنی ہے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی، دائمی نہیں عارضی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: ہرگز نہیں اگر تم علم الیقین کو جانتے ہوتے تو دوزخ (یعنی جہل) کو دیکھ سکتے، پھر اُس کو عین الیقین سے دیکھ لیتے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۸) یہ خطاب مومنین و سالکین ہی سے ہے کہ جب تم کو علم الیقین حاصل ہوگا تو تب تم کو پتہ چلے گا کہ دوزخ یعنی جہالت کیا چیز ہوتی ہے، پھر عین الیقین کے مقامات پر بھی تم اس کو دیکھ کر بہشت میں داخل ہو جاؤگے، کیونکہ تم کو دوزخ سے گزر جانا ہے (۱۹: ۷۱)۔

 

۹۶

 

سوال- ۱۰۰: سوال و جواب کے ذریعہ علم بیان کرنے کا یہ طریقہ بے مثال ہے، لیکن ہم ان سوالات کو کس نام سے یاد کریں گے؟ فرضی سوالات؟ تعلیمی سوالات؟ امکانی سوالات؟ علمی سوالات؟ عملی سوالات؟ نمائندہ سوالات؟ بن پوچھے سوالات؟ ناپُرسیدہ سوالات؟ کسی کے دل کے سوالات؟ زبانِ حال کے سوالات؟ اشاراتی سوالات؟ خاموش سوالات؟  -جواب: یہ سب نام اچھّے ہیں، لیکن میں ان حکمتی سوالات کو اپنے تمام شاگردوں سے منسوب کروں گا، جو مجھے بیحد عزیز ہیں، کیونکہ وہی میرے دل و دماغ کے فرشتے ہیں، اس لئے وہی سوال بھی کرتے ہیں، اور وہی خود جواب بھی دیتے ہیں، اور یہ ایک روحانی راز ہے۔

میرے عزیزوں/شاگردوں نے اپنی پیاری جماعت کی جانب سے قرآنِ عظیم، امامِ زمان، دینِ اسلام، اور انسانیّت کے لئے جس قسم کی خدمت انجام دی ہے، وہ اگر خدا چاہے تو بیمثال ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ یہاں بہت سی چیزیں انوکھی اور نرالی ہیں، اور آہستہ آہستہ سب کو معلوم ہوجائے گا کہ سب کے لئے کیسا مفید کام ہُوا ہے۔

اے دوستانِ عزیز! آؤ، ہم سب مل کر اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کی عاجزانہ شکر گزاری اور گریہ و زاری کریں، اور فرداً فرداً بھی یہی پسندیدہ عمل کریں، کیونکہ ڈر لگتا ہے کہ ہم سے کہیں ناشکری اور ناقدری نہ ہوجائے، آپ عبادت میں مزید ترقی کریں، اور ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ خداوندِ قدّوس علمی نعمتوں کا دروازہ بند نہ کریں، بحقِّ محمّد و أئمّۂ آلِ محمّد صلّی اللہ علیہ و علیہم اجمعین۔

 

۹۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۱

 

سوال – ۱۰۱: یہ بڑا عجیب و غریب اور زبردست انقلابی سوال سورۂ زُمَر کی ایک پُراز حکمت آیت (۳۹: ۴۲) کے حوالے سے ہے کہ آدمی کی روح ہر بار نیند میں قبض کی جاتی ہے، اور ہر بار بیدار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو دوبارہ زندہ کیا جاتا ہے، اِس صورتِ حال میں اجزائے زندگی کو اجزائے موت کے ساتھ مِلاکر انسان کیوں کہتا ہے کہ میں زندہ ہوں اور یہ میری زندگی ہے؟ اگر یوں کہنا بالکل درست اور قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے، تو کیا ہم اِس بات کا یقین کرسکتے ہیں کہ ہماری حیاتِ جُزوی (یہ زندگی) اپنی حیاتِ کُلّی کی مثال اور دلیل ہے کہ یقیناً اُس میں کچھ نہ کچھ وقفے ہیں، مگر بڑے بڑے؟ -جواب:  بہت خوب، بہت خوب، یہ صرف انقلابی سوال ہی نہیں، بلکہ خود بے مثال جواب بھی ہے، اب ہم (ان شا ء اللہ) اِس عظیم کُلّیہ سے دوسرے بہت سے مسائل کو بھی حل کریں گے، مثال کے طور پر انسان کی حیاتِ سرمدی بہشت ہی میں ہے، ہر چند وہ تمام درجات سے گزر کر بار بار تجدیدِ عمل کے لئے باہر بھی آتا رہتا ہے، اور اسی طرح ہر دفعہ اپنی کُلّی زندگی کو بھول جاتا ہے، جس میں عظیم حکمت پنہان ہے۔

 

۹۸

 

سوال – ۱۰۲:  اس لاجواب کُلّیہ سے حلِّ مسائل کی کوئی دوسری مثال؟ -جواب:  تقریباً سب لوگ بہشت کی سابقہ زندگی بھول چُکے ہیں، چنانچہ جب ایماندار اور نیکوکار لوگوں کو بہشت کے علمی پھلوں سے رزق دیا جائے گا تو وہ یہی کہیں گے کہ یہ نعمت اگلی دفعہ کی جنّت میں بھی ہمیں ملی تھی (۰۲: ۲۵) اس سے معلوم ہوا کہ بہشت لاابتداء اور لاانتہاء دفعات میں لوگوں کو ملتی رہتی ہے، اور ہر دفعہ جامۂ جدیدِ لطیف اور علمِ قدیمِ شریف عطا ہوجاتا ہے، جیسا کہ قول ہے: تھوݽ گٹو جݹ، مݶن شُرو جݹ۔

سوال – ۱۰۳: تیسری مثال؟ -جواب:  قرآنِ حکیم کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ بہشت زمانے کے اہلِ ایمان کو بطورِ میراث ملتی ہے، اور میراث ایسی چیز کو کہتے ہیں، جو ایک سے دوسرے کو وراثتاً پہنچے، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: وہ لوگ وارِثانِ فردوس کے وارث ہوں گے، اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں( ۲۳: ۱۰ تا ۱۱)۔

سوال – ۱۰۴: یہ کس طرح ممکن ہوگا کہ انسان ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں بھی رہا کرے، اور ساتھ ہی ساتھ آخرت کی کھیتی باڑی کرنے کی غرض سے بار بار دنیا میں بھی آتا رہے، کیا آپ اس کی درست وضاحت کر سکتے ہیں؟ -جواب:  اِن شاء اللہ تعالیٰ، جاننا چاہیئے کہ خداوندِ عالم نے انسان کو انتہائی عجیب و غریب صلاحیّتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، اور یہ بہت بڑا معجزہ نہیں تو پھر کیا ہےکہ ہر آدمی کی روحانی نمائندگی نہ

 

۹۹

 

صرف تمام لوگوں ہی میں ہے، بلکہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام میں بھی ہے، اور معلوم ہے کہ بہشت کے درجات کبھی بہشتیوں سے خالی نہیں ہوتے، پس ہر شخص ہمیشہ ہمیشہ مقیمِ جنّت ہے کبھی ذاتی طور پر اور کبھی نمائندگی میں۔

سوال -۱۰۵ : اِس حدیثِ شریف میں اسرارِ عظیم ہوسکتے ہیں، آپ اس کا ترجمہ کریں۔ مَامِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ اِلّاَ لَہٗ مَنْزِلَا نِ: مَنْزِلٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ مَنْزِلٌ فِی النَّارِ فَاِنْ مَاتَ وَ دَخَلَ النَّارَ وَرِثَ اَھْل الْجَنَّۃَ مَنْزِلَہ ( المیزان، ج، ۱۵ ص ۱۶)-جواب:   رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کے لئے دو منزلیں ہیں: ایک دوزخ میں اور ایک جنّت میں، پس جو مرکر دوزخ میں داخل ہُوا تو اہلِ جنّت اس کی جنّت کی منزل کے وارث ہوں گے۔

سوال-۱۰۶ : اِس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سرتا سر قرآنِ مجید میں جنّت اور اس کی ہر گونہ نعمت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، تاہم سُورۂ توبہ (۰۹: ۷۲) میں یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی (رِضوان اللہ) بہشت سے بہت بڑی چیز ہے، کیا آپ ہمیں اس کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کریں گے؟ -جواب:  اگر خداوندِ قدّوس کی عنایت ہوئی تو میں سعی کروں گا، اُس آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: اللہ نے مومنین اور مومنات سے ان باغات کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، یہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، ان جنّاتِ عدن

 

۱۰۰

 

میں پاکیزہ مکانات ہیں اور اللہ کی خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے (وَ رِضوانٌ مِّن اللہ اکبر)اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے (۰۹: ۷۲) بہشت کی کوئی چیز قدسی روح اور کامل عقل کے سوا نہیں، یعنی بہشت عالمِ شخصی کی صورت میں ہے، چونکہ وہ معجزاتی شیٔ ہے، اس لئے پھیل کر کائنات کے برابر بھی ہوتی ہے او ر محدود ہوکر انسانی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے۔

اگر آپ نے سچ مُچ حضرتِ امامِ عالیمقامؑ کو نورانی قالب میں دیکھا تھا، تو وہی بہشت ہے، فرشتہ ہے، روح ہے، جسمِ لطیف ہے، آپ کی اپنی انائے عُلوی ہے، عالمِ لطیف ہے، مومن جِنّ ہے، زندہ معجزہ ہے، نور ہے، تجلّیٔ طور ہے، اور یہ وہ فرشتہ ہے، جس کا نام رِضوان ہے، کیونکہ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کو خداوندِ تعالیٰ نے ایسا جامعِ جوامع اور کُلِّ کُلّیات بنا دیا ہے کہ اس کے معجزاتی احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے، پس امام فرشتۂ رضوان ہے، جو اللہ کی زندہ اور پُرنور خوشنودی بھی ہے، اور بہشت پر مُؤکَلّ بھی، جیسے سُورۂ زُمَر (۳۹: ۷۳) میں بہشت کے خازِنوں کے خَزَنَۃ (واحد خازِن) کہا گیا ہے۔

سوال – ۱۰۷: قرآنِ حکیم میں طرح طرح کی مثالیں وارد ہوئی ہیں، جو مغزِ حکمت سے مملو ہیں، کیا ان میں کوئی ایسی مثال بھی ہے: اہلِ بہشت کی مہمانی؟ اہلِ دوزخ کی مہمانی؟ اگر ایسی مثال موجود ہے، تو آیا یہ اس بات کا اشارہ ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ وہاں سے نکل جانے والے ہیں؟ -جواب: جی ہاں، قرآنِ مقدّس میں مِن جُملہ یہ مثال بھی آئی ہے، اور

 

۱۰۱

 

مجھے یقین ہے کہ اس کا اشارہ وہی ہے جو آپ نے کہا، لیکن ان مہمانوں کے آنے جانے کا گول سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے، اور مہمانی یا ضیافت کا لفظ: نُزُل /نُزُلاً ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک کے آٹھ مقامات پر ہے ( ۵۶: ۹۳، ۰۳: ۱۹۸، ۱۸: ۱۰۲، ۱۸: ۱۰۷، ۳۲: ۱۹، ۳۷: ۶۲، ۴۱: ۳۲، ۵۶: ۵۶)۔

سوال – ۱۰۸: آپ یہ بتائیں کہ وہ آیہ کریمہ کونسی ہے، اور کہاں ہے، جس میں یہ ارشاد ہُوا ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کررہی ہے؟ -جواب:  وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ (۲۱: ۳۳، ۳۶: ۴۰)۔ ہر قانون کا اشارہ سب سے پہلے اور سب سے ضروری طور پر انسان کی طرف ہوتا ہے، پس معلوم ہُوا کہ انسان کے لئے تختِ مُساوات بھی ہے، اور دائرۂ درجات بھی۔

سوال – ۱۰۹:  آپ اِس آیۂ مبارکہ کا مطلب کس طرح سمجھائیں گے: لَا نُفَرِّ قُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُسُلِہٖ ( ہم خدا کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے ۰۲: ۲۸۵)؟ -جواب:  اگرچہ پیغمبروں کے ذاتی درجات مختلف ہیں، لیکن اُمتّوں کے لئے ان کے پاس جو نورِ ہدایت ہے، اس میں مُساوات (برابری) ہے، جس میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ ہر زمانے کے لوگوں کا حق ہے کہ ان کو مکمل ہدایت ملے۔

سوال -۱۱۰: بحوالۂ جامِعِ ترمذی، جلدِ دوم، حدیث ۲۳۶۳۔

 

۱۰۲

 

بازارِ جنّت کی تصویروں کی بابت پوچھنا ہے کہ وہ کیسی تصویریں ہیں؟ خاموش ہیں، یا متحرّک؟ کیا وہ روحی اور عقلی ہیں؟ آیا ان میں کاملین کی تصویریں بھی ہیں؟ کیا وہ سب کے سب الگ الگ ہیں، یا ایک ہی تصویر میں جُملہ تصویریں پوشیدہ ہیں؟ -جواب:  وہ تصویریں اہلِ بہشت ہی کی طرح زندہ ہیں، ظاہر ہے کہ وہ روحانی اور عقلانی ہیں، ان میں انسانانِ کامل کی تصویریں بھی ہیں، یہ عالمِ شخصی کی وہ واحد تصویر ہے، جس کا نام صورتِ رحمان ہے، اور یہی تمام صورتوں کا یکتا خزانہ ہے۔

 

۱۰۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۲

 

سوال -۱۱۱:  بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، چنانچہ ایک بہشتی خود کو آدم جیسا دیکھنا چاہتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کی یہ خواہش بھی ہے کہ وہ ایک ایسا فرشتہ ثابت ہوجائے، جس نے دیگر فرشتوں کے ساتھ آدم کے لئے سجدہ کیا تھا، کیا یہ بات اس کے لئے ممکن ہے؟ -جواب:  کیوں نہیں، سُورۂ اعراف( ۰۷: ۱۱) میں غور سے دیکھیں، کہ جو قصّہ آدم کا ہے، وہی سب کا ہے، کیونکہ وہاں روحانی قیامت برپا ہورہی تھی، اور ہر روح (فرشتہ) بشکلِ ذرّہ جب سجدہ کُنان آدم کی ہستی میں گرجاتی، تو آدم کی بےشمار کاپیوں میں سے ایک کاپی ہو کر نکلتی تھی، پس یہ حقیقت ہے کہ بہشت میں ہر نعمت عظمیٰ مل جاتی ہے، اور کاملین پر جو قیامت گزرتی ہے، وہ ایک جدید بہشت بنانے کی غرض سے ہے۔

سوال -۱۱۲: ایک حدیث کا ترجمہ ہے: تُو ہرگز پورا فقیہ نہ ہوسکے گا جب تک قرآن کی بکثرت و جوہ کو نہ دیکھے۔ یہ حدیث کس کتاب میں ہے؟ قرآن کی بکثرت وجوہ  سے کیا مراد ہے؟ -جواب:  کتاب الاتقان، جلدِ اوّل، نوع ۳۹ کو پڑھیں، بکثرت وجوہ سے قرآن کے

 

۱۰۴

 

کثیر پہلو مراد ہیں، کیونکہ قرآن بہت سے پہلوؤں کا حامل ہے، جیسے حدیث شریف میں آیا ہے کہ: القراٰنُ ذُلُوْلٌ ذُوْ وُجُوْہٍ فَاحْمَلُوْ ہُ عَلٰی اَحْسَنِ وُجُوْ ھِہٖ =یعنی قرآن بہت ہی رام ہوجانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے، لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو۔ (الاتقان، جلدِ دوم، نوع ۷۸)۔

سوال – ۱۱۳: آپ اِس آیۂ کریمہ کی تاویلی حکمت بیان کریں: وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًامِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہُ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ …. (۰۴: ۱۲۵)  -جواب:   ترجمۂ آیت: اور اس شخص سے دین میں بہتر کون ہوگا جس نے خدا کے سامنے اپنا سرِ تسلیم جُھکا دیا، اور وہ نیکو کار بھی ہے۔ تاویلی حکمت: …. جس نے اپنا چہرۂ جان خدا کے سپُرد کر دیا، یعنی صورتِ رحمان میں فنا ہوگیا، اور ملّتِ ابراھیمؑ کی پیروی یہی ہے، جیسا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے کہا تھا: میں نے اپنا چہرۂ جان خدا کے لئے قرار دیا، یعنی صورتِ رحمان میں فنا کردیا (مفہوم: ۰۶: ۷۹)۔ اور یہ ارشاد بھی ہے: اور جو شخص اپنا چہرۂ جان خُدا کے سپُرد کردے اور وہ نیکوکار بھی ہو تو بیشک اس نے مضبوط حلقہ ہاتھ میں پکڑا (۳۱: ۲۲)۔ اور یہ آنحضرتؐ کی شان میں ہے: اے پیغمبرؐ اگر یہ لوگ آپ سے کٹ حُجّتی کریں تو کہہ دیجئے کہ میں نے اپنا چہرۂ جان خدا کے سپرد کردیا ہے اور جو میرے تابع ہیں (انہوں نے بھی ۰۳: ۲۰)۔

 

۱۰۵

 

سوال – ۱۱۴:  اہلِ ایمان کے بہترین رُفَقاء کون ہیں؟ یہ رَفاقت کہاں کہاں ہوسکتی ہے؟ اور کس طرح؟ -جواب:  وہ حضرات ناطقان، اساسان، امامان، اور حُجّتان ہیں، یہ قابلِ ستائش اور بیمثال رفاقت صراطِ مستقیم (راہِ روحانیّت) پر بھی ہے اور بہشت میں بھی، نورانی ہدایت، روحانی قیامت اور دائمی جنّت کے ماحول میں، یعنی قدم بقدم اور منزل بمنزل علم و حکمت کی روشنی کے ساتھ (۰۴: ۶۹)۔

سوال – ۱۱۵:  سورۂ غافر (۴۰: ۱۵) میں ہے: رَفیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُوْالعَرْشِ۔ اس کا درست ترجمہ کیا ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ عرش کے ساتھ درجات کی کیا مناسبت ہے؟ -جواب:  ترجمہ: (خدا) درجات کا بلند کرنے والا ہے، صاحبِ عرش ہے۔ یہاں عرش کا ذکر اس لئے فرمایا ہے کہ اللہ جس کو چاہے عرش تک بلند کردیتا ہے، اور کسی کو عرش یا حاملِ عرش کا درجہ بھی دے سکتا ہے، جبکہ عرش مخلوق ہے۔

سوال -۱۱۶: سورۂ اِنفِطار (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) میں ہے: وَاِنَّ عَلَیْکُم لَحٰفِظِیْنَ۔ کِرَامًا کَاتِبِیْنَ۔ ان دونوں آیتوں کا صحیح ترجمہ کریں، اور یہ بتائیں کہ اعمال ریکارڈ کرنے والے فرشتے دو ہیں یا زیادہ؟ یہاں یہ سوال بھی ہے کہ لفظ “کرام” میں کریم اور کرم کے معنی بھی ہیں یا نہیں؟ -جواب:  ترجمہ: اور بیشک تم پر ہر چیز ریکارڈ کرنے والے (نیز حفاظت کرنے والے فرشتے) مقرّر ہیں، معزز لکھنے والے ہیں۔ یہ فرشتے دو بھی ہیں،

 

۱۰۶

 

اور بہت زیادہ بھی ہیں، کیونکہ دونوں کی جگہ باری باری سے بہت سے فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں، لفظِ کِرام میں کئی اچھے اچھے معانی ہیں، المنجد میں دیکھیں۔

سوال – ۱۱۷: آپ کہتے ہیں کہ مٹی کی قبر میں انسانی روح موجود نہیں ہوتی، ایسے میں وہ تمام قبریں کہاں واقع ہیں، جن کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا ہے؟ -جواب:  مٹی کی قبر مثال ہے، اور اس کی ممثول قبر عالمِ شخصی میں ہے، اور مَیِّتْ (مردہ) سے متعلق جتنے شرعی امور ہیں، ان میں ضروری تاویلات ہیں، جن کا مطالعہ آپ تاویلی کتابوں میں کر سکتے ہیں۔

سوال – ۱۱۸: سُورۂ تو بہ (۰۹: ۳۳) سُورۂ فتح (۴۸: ۲۸) اور سُورۂ صف (۶۱: ۰۹) میں ایک ہی عظیم الشّان آیت دُہرائی گئی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس میں سوال یہ ہے کہ اسلام جو دینِ حق کے  ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس میں سوال یہ ہے کہ اسلام جو دینِ حق ہے، وہ اس وعدۂ الٰہی کے مطابق باقی تمام ادیان پر کب غالب آئیگا؟ -جواب:  دینِ حق کی غالبیّت اور فتح قیامت کی روحانی جنگ سے حاصل ہوتی آئی ہے، یعنی آیۂ یَوْمَ نَدْعُوْا (۱۷: ۷۱) کے مطابق ہر امامِ زمان کے توسط سے قیامت برپا ہوئی، جس میں امامِ عالیمقامؑ نے رسولِ اکرمؐ کے جانشین

 

۱۰۷

 

کی حیثیّت سے حربِ روحانی کا مقدّس فریضہ انجام دیا، جس کی وجہ سے دینِ حق ادیانِ باطل پر ہر بار غالب آتا رہا، اور اس روحانی فتح کا تجدُّد تقریباً اُنچاس بار ہوچکا ہے۔

سوال – ۱۱۹: اسلام کی مذکورہ روحانی فتوحات کے سلسلے کا آغاز کب سے ہُوا؟ اور اس کا قرآنی ثبوت کیا ہے؟ -جواب:  دَورِ ششم کے اعتبار سے اوّلین باطنی قیامت اور روحانی فتح آنحضرتؐ کے زمانے میں ہوئی، جس کا نمایان ذکر سُورۂ فتح میں ہے، جس کی پہلی دلیل فتحِ مُبین (۴۸: ۰۱) ہے، جو نتیجۂ قیامت  اور تسخیر کائنات کی صورت میں دینِ فطرت کی عالمگیر روحانی فتح ہے، اور اس سُورہ میں بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں قیامت، روحانی جنگ، اور عالمگیر فتح کے اشارے ہیں، خصوصاً آیت ہو الذّی ارسل ….(۴۸: ۲۸)کا ارشاد۔

حضورِ پاکؐ کی اسی روحانی فتحمندی کا ذکرِ جمیل سُورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۲) میں اس طرح سے ہے: (اے رسولؐ) جب خدا کی مدد آچکی اور (روحانی) فتح ہونے لگی، تو تم نے لوگوں کو دیکھا کہ (بشکلِ ذرّات) فوج در فوج خدا کے دین (تمہاری ہستی) میں داخل ہورہے تھے۔

سوال- ۱۲۰: اے رسولؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبّت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبّت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا، وہ بڑا معاف

 

۱۰۸

 

کرنے والا اور رحیم ہے (۰۳: ۳۱) آیا رسولؐ کی پَیروی کے لئے کوئی شرط ہے؟ آیا اسی پَیروی کا نام صراطِ مستقیم ہے؟ صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود کیا ہے اور کہاں ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ اگر کسی کو خدا، رسولؐ اور امام سے کامل عشق و محبّت ہے، تو اسی میں سب سے بڑی کامیابی ہے، کیا یہ درست ہے؟ -جواب:  رسولؐ کی پَیروی کے لئے امامِ زمانؑ کی پَیروی شرط ہے، جی ہاں، یہی پَیروی صراطِ مستقیم ہی ہے، جس کی منزلِ مقصود خدا کی معرفت ہے، اور وہ عالمِ شخصی میں ہے، جی ہاں، یہ بالکل درست ہے کہ اللہ، رسولؐ، اور امامِ زمانؑ کے عشق و محبّت میں سب سے عظیم کامیابی ہے۔

 

۱۰۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۳

 

سوال – ۱۲۱: آپ نے کہا تھا کہ خدا کی خدائی میں ایک طرف دَرجَات کا قانون ہے، اور دوسری طرف مُساوات کا، اب آپ یہ بتائیں کہ کسی شخص کو کوئی درجہ کس بِناء پر نصیب ہوتا ہے؟ نیز یہ سمجھائیں کہ دَرَجات کی کیا مثال ہوسکتی ہے؟ -جواب: اللہ لوگوں کو ان کے علم و عمل کے مطابق درجات سے نوازتا ہے، درجات کی مثال سیڑھی ہے، جس پر زینہ بزینہ چھت تک چڑھا جاتا ہے، پس درجات اور سیڑھی (۷۰: ۰۳) سے یہ معلوم ہوا کہ قرآنِ عظیم کے خاص خاص الفاظ میں ذیل کی طرح اشارۂ معراجِ روحانی موجود ہے:-

ایمان ____تقویٰ____علم____عمل____ہدایت____عبادت، وغیرہ وغیرہ۔

سوال -۱۲۲: سورۂ فاطِر (۳۵: ۱۰) میں ہے: اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصّالِحُ یَرْفَعُہٗ =اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عملِ صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔

 

۱۱۰

 

اس ارشاد کی کوئی حکمت بیان کریں۔ -جواب: جس طرح مومنِ سالک کو فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے، اسی طرح اس کا پاکیزہ قول اور نیک عمل بھی خدا میں فنا ہوجاتا ہے، اور یہ معرفت کا بہت بڑا راز ہے۔

سوال – ۱۲۳: حدیثِ شریف ہے: رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلیَ الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ =حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فرمایا: ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یہاں بڑا اہم سوال یہ ہے کہ آیا جہادِ اکبر میں مومنِ مجاہد اپنے نفس ہی کو قتل کرتا ہے؟ آخر کیوں؟ کیا اسی اختیاری موت سے روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے؟ -جواب:  جی ہاں، جہادِ اکبر کی اصل کامیابی اس بات میں ہےکہ مجاہد اپنے نفس کو خصوصی ریاضت سے قتل کر سکے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو، جس میں سب کچھ ہے، ہاں جہادِ اکبر سے روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔

سوال -۱۲۴: بعض عُلَماء کا کہنا ہے کہ جہاد تین قسم پر ہے: (۱) ظاہری دشمن یعنی کفّار سے جہاد کرنا (۲) شیطان اور (۳) نفس سے مجاہدہ کرنا، لیکن جہادِ اکبر کے معنی میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں (شیطان اور نفس) کے خلاف ایک ہی جہاد ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ اور یہ بھی بتائیں کہ قرآنِ مقدّس میں جہادِ اکبر کا تذکرہ یا اشارہ کہاں ہے؟ -جواب:  درست ہے شیطان اور نفس کے خلاف ایک ہی جنگ

 

۱۱۱

 

ہے، اور وہی جہادِ اکبر ہے، لیکن اس میں حقیقی علم کی بڑی سخت ضرورت ہے، جس کے بغیر کوئی کامیابی ممکن نہیں، اور جہادِ باطن (جہادِ اکبر) کے بارے میں قرآنِ حکیم کی دو عظیم شہادتیں کافی ہیں، وہ یہ ہیں: سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۹) اور سورۂ حج (۲۲: ۷۸)۔

سوال – ۱۲۵: حدیثِ شریف ہے: اَعْدیٰ عُدُوِّکَ نَفْسُکَ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبَیْکَ = تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ نفس ہے جو تیرے دو پہلوؤں کے درمیان ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ یہ سب سے بڑا خطرناک دشمن ہے؟ -جواب:  چونکہ یہ چھپا ہوا دشمن ہے، اس لئے کہ یہ دشمنِ دوست نُما ہے، کیونکہ یہ شیطان کا نمائندہ ہے، اور ایسے زہر کی طرح کام کرتا ہے جو شہد میں ملایا گیا ہے۔

سوال-۱۲۶:  سورۂ نَحل (۱۶: ۰۹) میں ارشاد ہے: وَعَلیَ اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَآ ئِرٌ  =اور سیدھا رستہ اللہ تک پہنچتا ہے، اور بعضے رستے ٹیڑھے بھی ہیں۔ آپ اس کی کوئی حکمت بتائیں -جواب:   یہ صراطِ مستقیم کی ایک تفسیر ہے، ظاہر ہے کہ یہ ایک مقدّس سفر ہے، جس میں اسلامی علم و عمل کے مسافر خدا کی طرف جاتے ہیں، اور خدا تک جا سکتے ہیں، اور اسی راہِ راست سے ہٹ کر بعض لوگوں نے ازخود راستے بنالئے ہیں، جو ٹیڑھے ہیں، اس لئے وہ خدا تک نہیں جاتے ہیں، اور اسی چیز کا نام گمراہی ہے۔

 

۱۱۲

 

سوال – ۱۲۷: یہ مبارک الفاظ سُورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں ہیں: اِنَّ رَبیّ عَلیٰ صراطٍ مُّستَقِیْمٍ =یقیناً میرا ربّ صراطِ مستقیم پر ہے۔ اس کی وضاحت کریں -جواب:  اللہ تعالیٰ کا صراطِ مستقیم پر ہونا یہ ہے کہ رسول اکرمؐ کے بعد ہر امام جو مظہرِ نورِ ہدایت ہے، وہ اپنی نورانیت میں صراطِ مستقیم (راہِ راست) ہے، کیونکہ ربُّ العزّت کی ہر چیز فرشتہ اور انسانِ کامل کی صورت میں ہوتی ہے، لہٰذا جو ہادیٔ برحق ہے، وہی خود صراطِ مستقیم اور سبیلِ خدا بھی ہے، جس طرح رسولِ پاکؐ قرآنِ ناطق، اسلامِ مُجسّم، ا ور نورِ مُشَکّل تھے۔

سوال- ۱۲۸:  سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۶۸) میں ہے: وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ۔ اس ارشادِ پاک کا ترجمہ اور مطلب کیا ہوگا؟ -جواب:  اور جس شخص کو ہم بے پایان عمر دیتے ہیں اس کو ہم (عالمِ امر سے) عالمِ خلق میں اوندھا کر دیتے ہیں، تو کیا وہ لوگ نہیں سمجھتے ہیں؟ وہ بے پایان عمر جس کا یہاں ذکر ہے دائرۂ اعظم پر ہے، جو عالمِ خلق اور عالمِ امر پر محیط ہے، لہٰذا کاملین کو عالمِ علوی سے عالمِ سفلی میں اُترتے ہوئے ہر بار اوندھا ہونا پڑتا ہے، اور یہ وہی قانونِ فطرت ہے، جس کے مطابق ہر بچّہ شِکمِ مادر سے اوندھا پیدا ہوجاتا ہے، یہ کوئی عیب کی بات ہر گز نہیں۔

سوال – ۱۲۹: آپ نے کبھی کہا تھا کہ مادّہ اور روح کے درمیان

 

۱۱۳

 

بحقیقت کوئی حدّ ِفاصل نہیں، مگر ظاہراً اور مجازاً، پس آپ قرآنِ کریم سے کوئی ایسی دلیل پیش کریں، جس سے یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ مادّہ اور روح ایک ہی چیز کی دو مختلف صورتیں ہیں -جواب:  سُورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں ہے کہ خدا نے لوہے کو نازل کیا ہے، یعنی لوہے کی روح کو کسی مقام پر نازل کیا، اور وہ وہاں لوہے کی کان ہوگئی، اب آپ یقیناً یہ کہہ سکتے ہیں کہ لوہا ایک مقام پر روح اور دوسرے مقام پر مادّہ ہے، تو یہ ایک ہی چیز کی دو مختلف شکلیں ہوگئیں، یعنی روحانی صورت اور مادّی صورت، اور اس سلسلے کا قانونِ کُلّ یا قانونِ خزائن سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں ہے، جس کا فیصلہ کُن ارشاد یہ ہے کہ ہر چیز کو خداوند تعالیٰ اپنے خزائن سے نازل فرماتا ہے، اور یہ خزانے نور اور روح کے ہیں۔

سوال – ۱۳۰ :  سُورۂ سبا (۳۴: ۱۴) میں حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی موت سے متعلق ایک عجیب مشکل سوال ہے، آپ یہ بتائیں کہ ان کی یہ موت جسمانی تھی یا نفسانی؟ اس آیت میں دابۃُ الارض سے کیا مراد ہے؟ اور عصا (مِنْسَاَتَہٗ)کی کیا تاویل ہے؟ -جواب:   اس آیۂ شریفہ میں حضرتِ سلیمانؑ کی نفسانی موت کا ذکر ہے، جس میں یاجوج ماجوج سالک کے جسم پر حملہ آور ہوتے ہیں، اور اس کو کسی حد تک کھا لیتے ہیں، اور سالک موت کے آثار کو دیکھ کر لیٹ جاتا ہے، پس دابۃُ الارض واحد بھی ہے اور جمع بھی، جس سے یاجوج ماجوج مراد ہیں، اور لاٹھی کی تاویل جسم ہے، کیونکہ اسی کے سہارے آدمی چلتا ہے۔

 

۱۱۴

 

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۴

 

سوال – ۱۳۱: سُورۂ نمل (۲۷: ۸۲) میں اس دابۃُ الارض کا ذکر ہے جو وقوعِ قیامت کے ساتھ نکل کر باتیں کرے گا، آپ بتائیں کہ وہ کیا ہے؟ اور اصل حقیقت کس طرح سے ہے؟ -جواب: جب صورِ قیامت پھونکا جاتا ہے تو سب سے پہلے زمینِ دعوت سے مومنین اور مومنات کی روحیں قیامتگاہ کی طرف پرواز کرتی ہیں، ان روحوں کی ایک مجموعی روحی ہوتی ہے، اسی کا نام دابۃُ الارض ہے (یعنی زمینِ دعوت سے پیدا ہو کر چلنے والا) اور خدا کی آیات سے مراد امام علیہ السّلام ہے، پس اسی دابہ یعنی چلنے والے کا حق ہے کہ کلام کرے، اور کہے کہ لوگوں نے خدا کی آیات (امام) کو نہیں پہچانا (لَا یُوْ قِنُوْنَ ۲۷: ۸۲)۔

سوال – ۱۳۲: آیا قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ اسمِ اعظم کا ذکر آیا ہے؟ اور اس کی بہترین مثالیں طرح طرح سے دی گئی ہیں؟ کیا قرآن اور اسمِ اعظم کا سرچشمہ ایک ہی ہے؟ کیا یہ اسمِ اعظم کے معجزات میں سے ہے کہ اس کے درست ذکر سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں (۳۹: ۲۳)؟ -جواب:  ان تمام باتوں میں کوئی شک ہی نہیں، لیکن اسمِ اعظم کی

 

۱۱۵

 

معنویت، حقیقت، روحانیّت، اور نورانیت امامِ زمان علیہ السّلام ہی میں ہے۔

سوال – ۱۳۳: قرآنِ حکیم میں اسما ءُ الحُسنیٰ کا ذکر چار مقامات پر آیا ہے، وہ مقاماتِ شریف یہ ہیں، سُورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) سُورۂ اِسراء (۱۷: ۱۱۰) سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۸) اور سورۂ حشر (۵۹: ۲۴) آپ اسما ءُ الحُسنیٰ کی بڑی زبردست اہمیّت کے بارے میں کس طرح سمجھائیں گے؟ -جواب:  اس کا عالیشان جواب خود قرآن (۰۷: ۱۸۰) میں موجود ہے: اور اللہ ہی کے لئے بہترین (زندہ) نام ہیں لہٰذا اسے انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں بے دینی سے کام لیتے ہیں، عنقریب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا (۰۷: ۱۸۰)۔

سوال – ۱۳۴: سُورۂ یُونس (۱۰: ۸۷) میں ایک بابِ رحمت نظر آتا ہے، وہ حکمت آگین ارشاد اس طرح سے ہے: اور ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی (ھارون) کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو قبلہ قرار دو اور نماز قائم کرو اور مومنین کو بشارت دو۔ اس میں کیا اَسرارِ حکمت ہیں؟ -جواب:  سِرِّ اوّل: حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ (پیغمبر اور امام) کی طرف ایک ساتھ وحی بھیجنا، سِرِّ دوم: مصر یعنی عالمِ شخصی میں ساری قوم کے لئے گھر بنانا، سِرِّ سوم: اپنے عالمِ شخصی کے گھروں کو روحانی ترقّی سے قبلہ (خانۂ خدا) بنانا، سِرِّ چہارم: اسی خانۂ خدا ہی میں افضل ترین اور مقبول ترین نماز قائم کرنا، سِرِّپنجم: مومنین کو خانۂ خدا (حظیرۂ قدس) میں بہشت کا نمونہ دکھا کر عملی خوشخبری

 

۱۱۶

 

دینا، یہ حکمِ خداوندی نہ صرف حضرتِ موسٰی اور حضرتِ ہارونؑ کے لئے تھا، بلکہ اِس کا اشارۂ حکمت آنحضرتؐ اور مولا علیؑ کی طرف بھی ہے، کیونکہ حدیثِ مماثلتِ ہارونی کا مطلب یہی ہے۔

سوال – ۱۳۵: حدیثِ مماثلتِ ہارونی کونسی ہے؟ اور اس کے معنی و مطلب کیا ہیں؟ -جواب:  وہ مشہور حدیث یہ ہے: اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہارُوْنَ مِنْ مُوْسیٰ اِلَّا اَنَّہٗ لا نَبِیَّ بَعْدِیْ = رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے حضرتِ علیؑ سے فرمایا: مجھ سے تم کو وہی منزلت حاصل ہے جو منزلت موسیٰؑ سے ہارونؑ کو حاصل تھی، مگر میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں، اس کے یہ معنی ہیں کہ قرآنِ مجید میں جو ظاہری و باطنی اوصاف و کمالات حضرتِ ہارونؑ سے متعلّق ہیں، وہ سب کے سب حضرتِ علیؑ کے لئے بھی ہیں، مگر آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبی نہیں۔

سوال -۱۳۶: سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) وَلَقَدْ اٰتَیْنَامُوْسیٰ وَھَارُوْنَ الْفُرْ قَانَ وَضِیَآ ءً وّ ذِکْراً لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ اس آیۂ کریمہ کا اصل ترجمہ کس طرح سے ہے؟ اور اس  میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ -جواب:   فرقان توریت بھی ہے اور معجزات بھی، ضیا نور کا نام ہے، ذکر کا مطلب اسمِ اعظم ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی ان عظیم نعمتوں سے حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ کو نوازا اور ان کے وسیلے سے پرہیزگاروں کو بھی، اور ترجمہ اس طرح سے ہے: ہم نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور نور اور ذکر

 

۱۱۷

 

(اسمِ اعظم) عطا کیا تھا (اور ان کے وسیلے سے) مُتّقی لوگوں کو بھی۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ پروردگار کے ہر انعام میں حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ ساتھ ساتھ تھے۔

سوال – ۱۳۷: یہ ارشادِ نبوی بُنیادی اہمیّت کا حامل ہے، لہٰذا آپ اسے ہرگز ہرگز بھول نہ جائیں، ارشاد یہ ہے: یا بنی عبد المطلب، اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکّامھا، ان اللہ لم یبعث نَبیًّا اِلّا جعل لہ و صیًّا و وزیراً و وارثاً و اخاً و ولیّاً (دعائم الاسلام،عربی، جلدِ اوّل، ص ۱۵، آخری سطر۔۔) ترجمہ: اے اولادِ عبد المطلب، میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے سلاطین اور حکمران ہوجاؤ گے، بیشک اللہ نے کسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا مگر اس کے لئے ایک وصی مقرّر کیا اور ایک وزیر اور وارث بنایا اور ایک بھائی اور ولی مقرر فرمایا۔ اس حدیثِ شریف میں یہ سوال ہے کہ آیا رسولِ اکرمؐ کا ہر اطاعت گزار شخص روئے زمین کا بادشاہ ہوتا ہے؟ اگر نہیں تو اس کے کیا معنی ہیں؟ – جواب:  دنیا کی بادشاہی کی کوئی قدرو قیمت نہیں، لہٰذا ہر وہ شخص جو آنحضرتؐ کا حقیقی فرمانبردارہو، وہ ارضِ عالمِ شخصی اور زمینِ جنّت کا بادشاہ ہوگا، آمین!

سوال – ۱۳۸: احیاءُ العلوم، جلدِ سوم، بابِ اوّل، قلب، بیان ۶ یہ حدیثِ شریف درج ہے: لو لا انّ الشّیاطین یحومون علیٰ قلوب بنی  اٰدم لنظر واالی ملکوت السّما ء =اگر بنی آدم کے دلوں

 

۱۱۸

 

پر شیاطین نہ پھرتے ہوتے تو وہ آسمان کی روحانی سلطنت اور اسرار کو دیکھ سکتے۔ ایسے تمام شیاطین سے کس طرح چُھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے؟ -جواب:  نفسانی موت اور ذاتی قیامت کے ذریعے سے، کیونکہ شیطان کے لئےمہلت قیامت تک ہے (۰۷: ۱۴، ۱۵: ۳۶، ۳۸: ۷۹) چونکہ عارف کی ذاتی قیامت جہادِ اکبر کی کائناتی فتح ہے، اس لئے شیطان اور نفس مغلوب ہوجاتے ہیں، اور یقیناً عارف عالمِ لطیف کو دیکھ سکتا ہے۔

سوال – ۱۳۹:  مذکورہ کتاب کے اسی مقام پر یہ تذکرہ بھی ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم سے لوگوں نے پوچھا کہ یا حضرت خدائے تعالیٰ کہاں ہے زمین میں یا آسمان میں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ایمان والے بندوں کے دل میں ہے۔ …. حدیثِ قدسی میں ارشاد ہے: نہ میری گنجائش زمین میں ہے نہ آسمان میں اور میری گنجائش میرے بندۂ مومن کے دل میں ہے جو نرم اور ساکن ہو (لَمْ یَسَعْنِیْ اَرْضِی وَلَا سَمَائیِ وَوَ سِعَنِیْ قَلْبُ عَبْدِ یَ الْمئْومِنِ اللَّیِنُ الْوَادِعُ)۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ آن حضرتؐ کو معراج اپنے قلبِ مبارک میں ہوئی تھی یا آسمان میں؟ -جواب:   حضورِ پاکؐ کی معراج عالمِ شخصی (دل) کے آسمان میں ہوئی تھی۔

سوال – ۱۴۰: حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا قول ہے: لَنْ یَلِجَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ مَنْ لَمْ یُوْلَدْ مَرَّ تَیْنِ = جو شخص دو دفعہ

 

۱۱۹

 

پیدا نہ ہوجائے وہ آسمانوں کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ کوئی شخص کس طرح دو فعہ پیدا ہوسکتا ہے؟ کیا آسمانوں کی بادشاہی سے مراد بہشت کی بادشاہی ہے؟ -جواب:   یہ روحانی ترقی کے بارے میں ہے، کہ دینِ حق کے سالکین / عارفین سب سے پہلے بقیدِ حیاتِ جسمانی اسرافیلی و عزرائیلی کے معجزے سے مرکر دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں، اور طئّ مراحل کے بعد مقامِ عقل پر بہت ہی نرم موت سے مرکر دوبارہ زندہ ہوجاتے ہیں، یہ ہوا دودفعہ پیدا ہوجانا، بعد ازان حظیرۂ قدس کی بہشت اور اس کی بادشاہی میں داخل ہوجاتے ہیں۔

 

۱۲۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۵

 

سوال- ۱۴۱: سُورۂ مریم (۱۹: ۱۷) میں ارشاد ہے: فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْھَا رُوْ حَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَراً سَوِیّاً = ہم نے مریم کی طرف اپنی روح کو بھیجا جو اُن کے سامنے ایک مکمّل آدمی بن کر پیش ہوا۔ اس میں سے چند اسرارِ معرفت بیان کریں۔ -جواب:  رُوْحنا کے معنی ہیں: نور، فرشتہ، روحِ پیغمبر، روحِ امام، تَمَثَّلَ =اُس نے صورت پکڑی، بَشَراً سَوِیّاً= ہر اعتبار سے مکمّل انسان، پس وہ فرشتۂ ظاہر تھا، یا نورانی بدن میں پیغمبر یا امام کا ظہور تھا، اور جسم مثالی بھی ایسا ہی ہوتا ہے، اس میں اور بھی کئی بھید ہیں، تاہم خاص ضروری بات یہ ہے کہ یہ منازلِ روحانیّت میں سے ایک منزل ہے، جس کو منزلِ ابداع کہہ سکتے ہیں، جہاں مومنِ سالک کے لئے امامِ زما ن صلوات اللہ علیہ کا نورانی ظہور ہوتا ہے کہ حضرتِ امامؑ جُثّۂ ابداعیہ میں مومن کو دیدارِ پاک سے نوازتا ہے۔

سوال – ۱۴۲: یہ ارشادِ اِصْطَفیٰ (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) کا ترجمہ ہے: یقیناً اللہ نے آدمؑ، اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کو تمام دنیا والوں سے (نبوّت و امامت کے لئے) منتخب کیا، یہ ایک ہی سلسلے کے لوگ تھے،

 

۱۲۱

 

جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) چونکہ خدا نے ان حضرات کو تمام دنیا والوں سے منتخب فرمایا تھا، تو کیا زمانۂ آدمؑ میں بھی لوگ موجود تھے؟ انتخاب کچھ خوبیوں کی بنیاد پر ہوتا ہے، ان لوگوں میں کیا خوبیاں تھیں؟ ظاہر ہے کہ اس سلسلۂ انتخاب میں آنحضرتؐ کے آباؤ اجداد کا ذکرِ جمیل بھی ہے، کیونکہ وہی حضرات بطورِ خاص آلِ ابراہیمؑ ہیں، اب آپ یہ بتائیں کہ حضورِ اکرمؐ کے آباؤ اجداد کس دین پر قائم تھے، اور ان کو اللہ نے کیا درجہ دیا تھا؟ -جواب:  جی ہاں، آیت خود بتاتی ہے کہ زمانۂ آدم میں لوگ موجود تھے، چونکہ یہ انسانانِ کامل حقیقی معنوں میں بنی آدم تھے، اور اللہ نے بنی آدم کو بہت بڑی کرامت و فضیلت عطا فرمائی ہے (۱۷: ۷۰) رسولِ پاکؐ کے جلیل القدر آباؤ اجداد مِلّت ابراھیمیہ (حنیفیّہ) پر قائم تھے، قرآن میں دیکھئے کہ اسی کا نام “اسلام” ہوا ( ۰۲: ۱۳۰، ۰۲: ۱۳۵، ۰۴: ۱۲۵، ۲۲: ۷۸) اور حضرتِ پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کے آباؤ اجداد میں سے سلسلۂ امامانِ مستقر چلا آیا تھا۔

سوال – ۱۴۳: آپ قرآنِ حکیم میں سے ہمیں کوئی ایسی دلیل پیش کریں، جو نہایت عالی، پُرازحکمت، سب سے آسان، سب سے مختصر، سب سے منطقی، زبردست فیصلہ کُن، اور حیرت انگیز ہو، جس سے ہم سب کو یقینِ کامل حاصل ہوجائے کہ سلسلۂ نور ازل سے جاری ہے۔ -جواب:   ایسی بیمثال دلیل “نُوْرٌ عَلیٰ نُوْر” ہے، جس کا مطلب ہے کہ سِلسِلۂ نور کی کڑی سے کڑی ملی ہوئی ہے، اور خدائی نور کا یہ سِلسِلہ

 

۱۲۲

 

ازل سے چلا آیا ہے، یہی اللہ کی مضبوط نورانی رسّی بھی ہے، جس کو ہمیشہ لوگوں کے درمیان موجود ہونا ہی ہے، میرا عقیدۂ راسخ یہ ہے کہ نُورٌعَلیٰ نُوْر (۲۴: ۳۵) ایک فکری اور علمی وِرد و وظیفہ بھی ہے، لہٰذا آپ باربار اس کو پڑھیں اور معنی میں خوب غور کریں، ان شاء اللہ، یہ فکری عبادت ہرگز بے ثمر نہیں ہوگی۔

سوال – ۱۴۴: سُورۂ نِسا ء (۰۴: ۵۴) میں جو آیۂ شریفہ آلِ ابراہیمؑ کے بارے میں ہے، اسی کا ترجمہ ہے: یا وہ ان لوگوں (یعنی اماموں) سے حسد کرتے ہیں، جنہیں خدا نے اپنے فضل و کرم سے بہت کچھ عطا کیا ہے، تو پھر ہم نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب و حکمت اور ملکِ عظیم سب کچھ عطا کیا ہے۔ اس قرآنی تعلیم کی حکمت بیان کریں، اور یہ بتائیں کہ آلِ ابراہیمؑ کون ہیں؟ اور ان کی معرفت کس طرح ہوسکتی ہے؟ -جواب:  سب سے پہلے کسی شک اور اختلاف کے بغیر رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم آلِ ابراہیمؑ ہیں اور یہ حقیقت ایسی روشن اور تابناک ہے کہ اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں، اب رہا سوال أئمّۂ آلِ محمد کے بارے میں کہ وہ حضرات بھی خاندانِ محمد ہونے کی وجہ سے آلِ ابراہیمؑ ہیں، جس کی علامت و نشانی یا دلیل قرآن و حکمت کی وراثت اور روحانی سلطنت ہے، کہ جب تک دنیا میں قرآنِ حکیم موجود ہے، تب تک سلسلۂ وارثین بھی جاری رہے گا (۳۵: ۳۲) اور آسمانی کتاب کے ساتھ ساتھ ہمیشہ نُورِ مُنَزَّلْ بھی ہوتا ہے (۰۵: ۱۵)۔

 

۱۲۳

 

سوال – ۱۴۵: سُورۂ زُخْرُفْ (۴۳: ۲۸) میں ہے: وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّھُمْ یَرْ جِعُوْنَ۔ کیا آپ اس کی تاویلی حکمت بتا سکتے ہیں؟ -جواب:  مفہوم: اور حضرتِ ابراہیمؑ نے سِرِّ معرفت کو اپنی نسل میں کلمۂ باقیہ (اسمِ اعظم) قرار دے دیا، تاکہ لوگ ہمیشہ بوسیلۂ آلِ ابراہیمؑ خدا شِناسی (معرفت) کی طرف رجوع کریں۔ یہاں یہ حقیقت صاف و صریح ہے کہ آلِ ابراہیمؑ/ آلِ محمّدؐ کا سلسلہ ہمیشہ دنیا میں جاری ہے، کیونکہ اس میں ہمیشہ باقی رہنے والا کلمہ موجود ہے۔

سوال – ۱۴۶ : کتابُ الھِمّۃ، عربی، ص ۴۶ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: اِنّ النّظر اِلیَ الامام ِعبادۃ، والنّظراِلی المُصْحَفِ عبادۃ = یقیناً امام کی طرف دیکھنا ایک عبادت ہے، اور قرآن کی طرف دیکھنا بھی ایک عبادت ہے۔ قرآنِ ناطق اور قرآنِ صامت کو کس نظر سے دیکھنے سے عبادت ہوتی ہے؟ اگر روحانیّت اور باطن میں امام علیہ السّلام کا نورانی دیدار اور قرآنِ پاک کا نورانی مشاہدہ ہوجائے تو وہ کیسی عبادت ہوگی؟ -جواب:   جو شخص امام ِبرحقؑ اور قرآنِ کریم کو بنظرِ عقیدت و محبّت دیکھتا ہے، اسی کی بصری عبادت ہوتی ہے، نورانی دیدار اور نورانی مُشاہدے کی عبادت تو بڑی افضل ہے، چونکہ امام کا ایک نام “آیات” ہے، اور قرآن بھی آیات کا مجموعہ ہے، لہٰذا حسبِ وعدۂ الٰہی (سنریھم اٰیٰتنا …. ۴۱: ۵۳) لوگ اپنے باطن ہی میں امامِ عالیمقامؑ اور قرآنِ عزیز کے تمام معجزات دیکھ سکتے ہیں۔

 

۱۲۴

 

سوال – ۱۴۷: آپ نے کتابِ وجہِ دین کے حوالے سے کسی لیکچر میں کہا تھا کہ اُمّ الکتاب ظاہر میں سُورۂ فاتحہ کا نام ہے، اور تاویلِ باطن میں اس سے حضرتِ علی علیہ السّلام مراد ہے، یہاں آپ ہم کو یہ سمجھائیں کہ سُورۂ فاتحہ کن معنوں میں اُمّ الکتاب ہے؟ اس حقیقت کی دلیل و مثال کیا ہے؟ سُنّتِ الٰہی سے اس امرِ واقعی کا کیا ثبوت ملتا ہے؟ کیا آپ اس کی کوئی قابلِ فہم مثال پیش کر سکتے ہیں؟ -جواب:  ان شا ء اللہ العزیز، اس بیحد ضروری سوال کا جواب کئی طرح سے ہوسکتا ہے، اس میں چند اجزأ ہیں: –

جُزوِاوّل: سورۂ فاتحہ انتہائی جامعیّت کی وجہ سے اُمّ الکتاب کہلاتی ہے، اِس کی دلیل یہ ہے کہ اس میں قرآنِ حکیم کی ساری حکمتیں یکجا اور تمام جواہر جمع ہیں، اور سُنّتِ الٰہی سے اس کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالی القابض بھی ہے اور الباسط بھی، اس لئے وہ ہر کائنات کو ہمیشہ ہمیشہ لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، اور اسی میں اُس کی زبردست حکمت پوشیدہ ہے، پس قرآنِ حکیم کا اوّلین معجزہ یہ ہے کہ وہ نتیجۂ فعلِ قدرت کے مطابق لپیٹا ہوا بھی ہے اور پھیلاہوا بھی۔

جُزوِ دوم: ایک روایت کے مطابق تمام کُتُبِ سماوی کا علم قرآن میں ہے، قرآن کا سارا علم سورۂ فاتحہ میں ہے، سُورۂ فاتحہ کا جُملہ علم بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰن الرَّ حِیْم میں ہے، جس کا خزانہ بسم ہے، بسم میں جو کچھ ہے، اُس کا خلاصہ ب ہے، ب کا قدیم اور اصل نام بَیْت (گھر) ہے، جس سے رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم مراد ہیں کہ آپؐ حکمت

 

۱۲۵

 

کا گھر ہیں اور علی علیہ السّلام اس کا دروازہ، آپ میری ایک تصنیف نقوشِ حکمت میں دیکھیں کہ ب کا نقطہ حضرتِ علیؑ کی مثال ہے، اب نقطے کے بارے میں سُنئے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس چیز کو پیدا کیا وہ عقل ہے، جب عارفوں نےعقل کی ازلی شکل کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ گویا ایک نقطہ ہے، یعنی دُرِّیتیم، گوہرِ یکدانہ، جو کتابِ مکنون ہے، صرف خدا ہی ہے جو لولوئے مکنون میں علم و حکمت کی کائنات کو سمیٹ سکتا ہے۔

جُز وِ سِوُم: قرآنِ پاک علمِ سماوی کا شہر ہے، اور الحمد اسی شہر میں حکمتِ الٰہی کا گھر ہے، اور یہ دونوں مثالیں آنحضرتؐ ہی کے لئے خاص ہیں، اور علیّ المرتضٰیؑ اس شہر کا بھی اور اس گھر کا بھی دروازہ ہے، اب رہا سوال اُمّ الکتاب (سورہ فاتحہ) کی جامعیّت کا، کہ اس کے ہر ہر لفظ کے ساتھ قرآن کی بے شمار چیزیں وابستہ ہیں، مثال کے طور پر جیسا کہ ذکر ہُوا، الحمد کے آغاز ہی میں نقطہ آیا ہے، انتہائی حیرت کی بات ہے کہ نہ صرف معنی کے لحاظ سے بلکہ حروف کےبناوٹ کے لحاظ سے بھی اسی ایک نقطے میں تمام قرآن سمایا ہُوا ہے، وہ اس طرح کہ قرآن کی ظاہری تحریر میں حروف ہی حروف ہیں، اور اگر حروف کا تجزیہ کیاجائے تو ان سب میں نقطے ہی نقطے ہیں، آپ میری ایک کتاب میزان الحقائق میں دیکھ لیں، پس ان بے حدّ و بے حساب نِقاط یا نُقَطْ کی وحدت نُقطۂ بائے بسمِ اللہِ الحمد میں ہے، او ر اس کی کثرت ان لاتعداد نقطوں میں ہے، جن کا یہاں ذکر ہُوا، نقطۂ آغاز ہی سے قرآن کے پھیل جانے اور پھر مرکوز ہونے کی مثال بڑی عجیب و غریب ہے۔

 

۱۲۶

 

جُزوِ چہارم: سُورۂ الفاتحہ کا سب سے پہلا حرف با ء (ب) ہے جس کا اصل تلفُّظ بَیْت ہے یعنی گھر، جو بیت اور بُیُوت سے متعلق تمام آیاتِ مقدّسہ کی جامعیّت رکھتا ہے، جس میں اوّل، اوّل اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاک گھروں کا ذکرِ جمیل ہے، جیسے بیت اللہ، المسجد الحرام، قبلہ، وغیرہ، پھر لوگوں کی دُنیوی اور اُخروی مکانوں کی بات ہے، جیسے دار اور دیار، اور اس بیان میں مُژدۂ جانفزا یہ ہے کہ آسمان و زمین اور دُنیا و آخرت میں جہاں بھی اللہ کا گھر ہے، اس سے امام علیہ السّلام مراد ہے۔

جُز وِپنجم: اس کے بعد اسمِ کا ذکر آتا ہے، جو سمو سے مشتق ہے، سمو میں بلندی کے معنی ہیں، لہٰذا س م و سے سماء (آسمان) کا لفظ بھی ہے، اور جہاں تک اللہ کے اسم اور اسماء کا تعلق ہے، وہ تمام قرآنی آیات پر محیط ہیں، پس بسم اللہ کے معانی میں خدا کے کُلّ نام اور ہر نام کی قرآنی تفسیر جمع ہے، ساتھ ہی ساتھ اس میں علم الاسماء کے عظیم اسرار بھی ہیں، اور سب سے بڑی خوبی کی بات تو یہ ہے کہ بسم اللہ میں خدا کے زندہ اسمِ اعظم کا اشارہ موجود ہے، اور وہ امام ِزمان علیہ السّلام ہے، آپ اندازہ کریں کہ آیا اسمِ اعظم میں دونوں جہان کی برکتیں نہیں ہیں، پھر سماء اور سماوات کے معنی میں غور کریں، کیا ان معنوں میں کائناتِ ظاہر و باطن کا تذکرہ نہیں ہے؟ وہ بھی بکثرت؟ اس سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ میں گنجِ قرآن مخفی ہے، نیز اس میں یکے بعد دیگرے بے پایان کائناتوں کا سِرِّ اعظم ہے۔

 

۱۲۷

 

جزوِ ششم:  لفظِ اللہ کی لُغَوی تحقیق کے لئے مفردات القرآن میں دیکھ لیں، یہ لفظ اصل میں اِلٰہٌ ہے، ہمزہ (تخفیفاً) حذف کر دیا گیا ہے، اور اس پر الف لام (تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے، اس کی صورت یہ ہے: اٖلٰہ =لٰہ، پھر ال +لٰہ =اللہ، اِلٰہٌ کے اشتِقاق میں مختلف اقوال ہیں، چونکہ قرآنِ حکیم کے ہر لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں، لہٰذا چاروں اقوال درست ہیں: (۱) اللہ کے معنی ہیں معبودِ برحق (۲) اللہ اس پاک و برتر ہستی کا نام ہے، جس کی ذات و صفات کے ادراک سے عقول مُتحیّر اور درماندہ ہیں (۳) بعض نے کہا ہے کہ اِلٰہ اصل میں وِلَا ہٌ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر اِلاہ بنا لیا ہے، اور وَلِہَ (س) کے معنی عشق و محبّت میں وارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں، اور ذاتِ باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبّت ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے، اگرچہ بعض چیزوں کی محبّت تسخیری ہے (۴) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لَا ہَ یَلُوْ ہُ لَیَاھاً سے ہے، جس کے معنی پردہ میں چُھپ جانا کے ہیں، اور ذاتِ باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور و محجوب ہے، اِس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے۔

اگرچہ ان اقوال میں سے ہر قول درست ہے، لیکن تیسرے قول میں عاشقوں کےدل کی آواز ہے، بعض حضرات کا کہنا ہے کہ قرآن میں لفظِ عشق نہیں آیا ہے، حالانکہ یہ کئی طرح سے موجود ہے، مثال کے طور پر اس کُلّیہ میں سوچ لیں: اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس میں ہرشے کی وضاحت موجود ہے (۱۶: ۸۹) اب کوئی دانا شخص یہ بتائیں کہ قرآن

 

۱۲۸

 

میں عشقِ الٰہی کی وضاحت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح؟

الغرض اسمِ “اللہ” کی سب سے بڑی جامعیّت کا اندازہ کرنا ہے، چونکہ یہ پاک نام (اللہ) اسمِ ذات کا نمائندہ ہے، لہٰذا براہِ راست بھی اور تمام اسمائے صفاتی کے توسط سے بھی جملہ قرآن اسی سے متعلق ہے، یعنی سارا قرآن اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے تو پھر تسمیہ میں تمام قرآنی معنوں کا جوہر کیوں موجود نہ ہو، جبکہ اس میں خدائے بزرگ و برتر کا اسمِ جامِعُ الجوامِع موجود ہے۔

جُزوِ ہفتم: جاننا چاہئے کہ اسمائے الٰہی کے مظاہر ہُوا کرتے ہیں، اور وہ اپنے اپنے زمانے میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہوتے ہیں، یہی حضرات بفرمودۂ قرآن اسماءُ الحُسنیٰ ہیں (۰۷: ۱۸۰) یعنی خدا کے بہت اچھّے نام، یا بہترین اسماء، کیونکہ ہر پیغمبر اور ہر امام کو اپنے وقت میں مرتبۂ اسمِ اعظم حاصل ہوتا ہے، پس تسمیہ اور الحمد میں جیسے رحمتِ کُلّ کے دو اسم (الرّحمٰن الرّحیم) آئے ہیں، ان کا مظہر رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم ہیں، جس کی روشن دلیل سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷) میں ہے: وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ اور ہم نے آپ کو (کُلّ) عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے علاوہ آپ آنحضرتؐ کے اسمائے مبارک میں دیکھیں، تاکہ آپ پر یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ حضورِ انورؐ کے پاک ناموں میں سے بعض میں مظہریّت کے معنی نمایان ہیں، مثال کے طور پر سُورۂ حدید کے شروع (۵۷: ۰۲) میں اللہ تعالیٰ کے یہ چار اسماء آئے ہیں: الاوّل، الآخر، الظاہر، الباطن، یہی نام پیغمبر اکرمؐ کے بابرکت اسماء میں بھی ہیں: اوّل،

 

۱۲۹

 

آخر، ظاہر، باطن۔

جُزوِہشتم:  اُمُّ الکتاب کی بہت بڑی جامعیّت اور ہمہ گیری کا بیان جاری ہے، جس میں تسمیہ کے بعد ارشاد ہے: الحمد اللہ ربّ العٰلمین۔ مفہوم: بہت بڑی تعریف (حمد =عقلِ کل) اللہ کے لئے ہے کہ وہ نورِ عقل سے عوالمِ شخصی کی پرورش کرتا ہے، اس مقصد کے لئے وہ ہر زمانے میں مُربّیٔ عقل کو لوگوں کے درمیان مقرر فرماتا ہے، تاکہ خدا پر لوگوں کی حُجّت نہ ہو (۰۴: ۱۶۵) یہ قرآنِ حکیم کی نہایت عجیب و غریب حکمت ہمیشہ یاد رہے کہ جتنی آیاتِ کریمہ لفظِ “حمد” کے ساتھ وارد ہوئی ہیں، ان کی عُلُوِّ شان یہ ہے کہ وہ حظیرۂ قدس کے انتہائی عظیم اسرار سے متعلّق ہیں، کیونکہ وہاں عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق اور اساس کی نہروں والی بہشت ہے (۴۷: ۱۵)۔

جُزوِ نہم: ہر شخص ایک عَالم ہے، زمانہ بھر کے لوگ عالمین ہیں، اسی طرح ماضی اور مستقبل کے بے پایان ادوار میں کیسے بےشمار و بے قیاس افرادِ بشر یعنی عوالم ہوں گے، اللہ تبارک و تعالیٰ وہ پروردگار ہے، جو ان تمام عالمین کی روحانی اور عقلی پرورش کرنے کی قدرتِ کاملہ رکھتا ہے، پس “ربّ” (پروردگارِ عقل و جان) ایک ایسا پاک و بابرکت اور پُرحکمت اسم ہے، جو اکثر قرآن کی مقبول دعائیں اسی سے شروع ہوجاتی ہیں اور اس کی مشکل کُشائی اور حاجت روائی کی یہ حدّ ہے کہ جب ابلیس مرتبۂ مَلَکی سے نکالا گیا، تب بھی اس نے “میرے ربّ” کہہ کر عرض کیا، اور قیامت تک مہلت طلب کرلی (۱۵: ۳۶، ۳۸: ۷۹)۔

جزوِ دھم: الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم کی توضیح ہوچکی ہے، مٰلکِ

 

۱۳۰

 

یومِ الدّین۔ مفہوم: روزِ جزا کا مالک، صاحبِ اختیار اور بادشاہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دنیا میں اختیار دیا گیا ہے، مگر قیامت میں کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا، اب لفظِ “مٰلک” کے مادّہ کو دیکھتے ہیں، جو م ل ک ہے، اس کے اِشتِقاقات اور مضامین قرآنِ پاک میں بڑے شاندار ہیں، جیسے مُلْک (خدا کی بادشاہی، روحانی سلطنت) مَلیک (بادشاہ، یعنی اللہ) مالِکُ المُلک (بادشاہی کا مالک، خدا) مَلِک (بادشاہ، یعنی امام) مُلکِ عظیم (بڑی بادشاہی، یعنی امامت /روحانی سلطنت) مُلکِ کبیر (بہشت کی بڑی سلطنت) المُلُوک (سلاطین، یعنی آئمّۂ طاہرینؑ) مُلُک (وہ لوگ جو امامِ آلِ محمّدؐ میں فنا ہونے سے روحانیّت اور بہشت میں بادشاہ ہوگئے ہیں) مَلَک (فرشتہ) ملائکہ (فرشتے) مَلَکُوت (عالمِ ارواح و ملائکہ) یاد رہے کہ قرآنِ کریم میں لفظِ مَلِکَ دنیا کے کسی بھی بادشاہ کے لئے استعمال نہیں ہُوا ہے۔

جُزوِ یازدھم: قرآنِ مجید میں یَوْم کے مختلف صیغے کُلّ ۴۷۴ دفعہ آئے ہیں، ان میں سے اکثر روزِ قیامت سے متعلّق ہیں، اسی طرح قیامت کا مضمون بھی سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے، اور یوم الدّین میں مرکوز ہے، اگرچہ قیامت کے اور بھی بہت سے نام ہیں، لیکن ہماری تحقیق اُمُّ الکتاب کے جامع الفاظ تک محدود ہے، چُنانچہ “یَوْم” قرآنِ حکیم میں ایک عام دن کے لئے بھی آیا ہے، اور ایک خاص دن کے لئے بھی، یہ ایک زمانہ بھی ہے، ایک دَور بھی، اور ایک بہت بڑا دور بھی ہے، اور خدا کے وہاں زندہ دن بھی ہیں۔

 

 

۱۳۱

 

جُزوِ دوازدھم: دین کے معنی ہیں: مذہب، جزا، بدلہ، اطاعت، قانون، فیصلہ، تسلیم، سِپُردگی، حوالگی، سونپنا، تحویل، جیسا کہ ارشاد ہے: اِنَّ الذِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (۰۳: ۱۹)دین تو خدا کے نزدیک اسلام (تسلیم و سپُردگی) ہے۔ آخر کس چیز کی سِپُردگی؟ کس شَیْ کی حوالگی؟ صورتِ رحمان میں چہرۂ جان کی سپردگی، یہ علم و عمل کا ایک طویل سفر ہے، جس کی بہت سی منزلیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر مسافر نے اپنے ہی مبلغ کے مطابق تعریفات میں سے ایک تعریف کی، تاہم قرآنِ حکیم میں بار بار غورو فکر کرنے کا حکم ہے، لہٰذا ہم اس سلسلے میں اپنے دل سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام سے فرمایا: اَسْلِمْ (۰۲: ۱۳۱) اس کے اصل معنی کیا ہیں؟ حضرتِ ابراہیمؑ کئی درجات سے آگے گئے تھے، آیۂ کریمہ کے ماحول کو دیکھ کر اندازہ کریں کہ خدا کا یہ حکم خلیل اللہؑ کے کس درجے میں صادر ہُوا ہوگا؟ الغرض یہ حکم اسلام کی روح حاصل کرنے کے معنی میں ہے۔

جُزوِ سیزدھم: ارشاد ہُوا ہے: ایّاک نعبد و ایّا ک نستعین۔ مفہوم: اِس آیۂ مبارکہ میں معرفت، خدا شِناسی اور توحید کا اشارہ ہے، اور ہر شخص کو تقلید سے تحقیق کی طرف جانے کا حکم ہے، جس پر عمل کرنا بیحد ضروری ہے، ورنہ “ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی (تجھ ہی) سے مدد چاہتے ہیں” کی حقیقت مشکل بلکہ ناممکن ہوجائے گی، چُنانچہ یہ ایک عظیم الشّان نمائندہ آیت کی عِرفانی تفسیر ہے، ملا حظہ ہو (۰۸: ۲۴): تم حقیقی علم، خودشِناسی اور معرفت کے ذریعہ سے اِس سِرِّ اعظم کو ضرورمعلوم

 

۱۳۲

 

کرلو کہ خدا آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے (۰۸: ۲۴) دل گوشت کا لوتھڑا بھی ہے، روح بھی ہے، عقل بھی ہے اور امامِ آلِ محمّدؐ بھی ہے، اور حقیقت میں یہی دل (یعنی امامؑ) وہ مِرآتِ تجلّیّات ہے، جس کے وسیلے سے حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے، پس یہی اشارۂ حکمت مذکورہ آیۂ مبارکہ میں موجود ہے کہ اِس طرف آدمی (عارف) ہے، اُس طرف آئینۂ قلب، اور درمیان یعنی آئینے میں صورتِ رحمان۔

سُورۂ یٰسٓ جو قلبِ قرآن ہے، اس میں یہ ارشاد ہے: اَلَمْ اَعْھَدَ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لّاَ تَقْبُدُ وَاشَّیْطٰنَ (۳۶: ۶۰) اے اولادِ آدم! کیا میں نےتم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پرستش نہ کرنا (کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا، کیونکہ صراطِ مستقیم یہی ہے؟ ) ظاہر ہے کہ دنیا کا کوئی شخص جان بوجھ کر شیطان کی پرستش نہیں کرتا، بلکہ یہ سب سے بڑی نافرمانی جہالت، نادانی اور بے معرفتی کے سبب سے ہوجاتی ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم میں جس طرح بڑی کثرت سے علم و حکمت کی تعریف آئی ہے، اسی میں معرفت کی تعریف بھی ہے، پس قرآنِ مجید کے ۲۷ مقامات پر اِعْلَمُوْا کا حکم آیا ہے، جس کی میں نے “عرفانی تفسیر” کے عنوان سے وضاحت کی ہے، جو اہلِ دانش کے لئے کلیدِ گنجینہ ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے، جو بیحد ضروری ہے، اِن شا ء اللہ، بامعرفت عبادت کےساتھ ساتھ آسمانی مدد بھی ملتی رہے گی، مگر یہ مدد زیادہ سے زیادہ دینی امور میں ہوگی۔

جُزوِ چہاردھم: فرمانِ خداوندی کے ذریعہ تعلیم ہے: اھدنا

 

۱۳۳

 

الصّراط المستقیم۔ مفہوم: ہمیں راہِ راست پر تا بمنزلِ مقصود آگے سے آگے چلا، جس کے لئے اپنے نورِ ہدایت کے مظہر کی معرفت ہمیں عطا فرما۔ اگراللہ تعالیٰ کی توفیق سے سوچا جائے تو داناؤں کو یقین ہوجائے گا کہ اُمُّ الکتاب کا سِرِّ اعظم اسی بابرکت دعا میں ہے۔

جز و ِ پانزدھم: ارشاد ہے: صراط الذّین انعمت علیھم۔ غیرالمغضوب علیھم ولا الضّآلّین۔ مفہوم: ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایا، ان کی راہ نہیں جن پر غضب ہوا یا جو گمراہ ہو گئے ہیں۔ وہ حضرات جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے، ناطقان، اساسان، امامان، اور حُجتان ہیں، اور جو بھی اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں وہ انہی درجات کی رفاقت میں ہوں گے (۰۴: ۶۹) یہی ہیں وہ چند دلیلیں جو اُمُّ الکتاب کی انتہائی جامعیّت کے باب میں درج ہوئیں۔ الحمد اللہ ربّ العالمین۔

سوال- ۱۴۸: آپ کو روحانی سائنس سے بڑی دلچسپی ہے، کیا آپ اُسی کی روشنی میں یہ بتا سکتے ہیں کہ مادّی سائنس کی مزید ترقی کہاں تک ہوگی؟ -جواب:  اس کی مزید ترقی روحانی سائنس کے ظہور تک ہوسکتی ہے، اور وہ وقت اب دور نہیں، موجودہ صورت میں بھی مادّی سائنس کے پیچھے روحانی سائنس کی کارفرمائی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: سب (اپنے اپنے) فلک یعنی دوائر میں تیزی کے ساتھ چل رہے ہیں (۲۱: ۳۳) یہ ہر چیز کی روحانی حرکت کا ذکر ہے، جس کی وجہ

 

۱۳۴

 

سے تمام مادّی چیزیں گردش میں ہیں، آیۂ شریفہ میں سے کُلّیہ یہ ہے: کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ۔

سوال – ۱۴۹ : سُورۂ بقرہ کے ایک ارشادِ مبارک (۰۲: ۱۱۵) میں ہے: فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ = تم لوگ جس طرف منہ کرو اُدھر (ہی) اللہ تعالیٰ کا رخ ہے۔ اس کے وسیع ترمعنی یا ہمہ گیر حقائق و معارف کیا ہوں گے؟ -جواب:  اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ ذاتِ سبحان نے اپنے جس مظہر کو “وجہ اللہ” کا درجہ عطا کیا ہے، اُس کا نور یا نورانی ظہور ہر جگہ ہے، کیونکہ خدا کی خدائی میں بعض چیزیں کُلّ ہیں، بعض کُلّیات، اور ایک چیز بمرتبۂ کُلِّ کُلّیات ہو کر تمام چیزوں پر محیط ہوجاتی ہے، جیسے سورج کی روشنی اپنے دائرۂ نظام میں ہر جگہ موجود ہے، جیسے اللہ کا نور ارض و سما اور کون ومکان پر محیط اور ہرجا حاضر و ناظر ہے۔

سوال – ۱۵۰: قرآنِ حکیم کی کونسی آیت ایسی ہے جو علم و حکمت کے جواہر سے لبریز نہ ہو، لیکن شاید یہ بھی کوئی ہدایتی معجزہ ہے کہ ہر بار کوئی پُرحکمت آیۂ شریفہ اِس دل کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے، چنانچہ سورۂ نجم (۵۳: ۳۰) میں ہے: ذالِکَ مَبْلَغُھُمْ مِنَ الْعِلْمِ =ان لوگوں کا مبلغِ علم بس یہی کچھ ہے۔ مَبلغ کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ -جواب:  مبلغ = پہنچنا، پہنچنے کی جگہ، بُلُوغ سے مصدر میمی و اسمِ ظرف (قاموس القرآن) یعنی ہر شخص کی علمی رسائی کی جگہ، علمی درجہ، علمی سفرکی لاتعداد منازِل میں

 

۱۳۵

 

سے کوئی منزل، اس آیۂ کریمہ سے صاف طور پر یہ معلوم ہُوا کہ دینی علم میں لوگوں کے اجتماعی درجات بھی ہیں اور انفرادی درجات بھی، جس طرح مادّی ترقی کے لحاظ سے اقوامِ عالم برابر نہیں ہیں، اور نہ کسی مُلک کے تمام باشندے ظاہری علم و ہُنر میں یکسان ہوتے ہیں۔

 

۱۳۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۵

 

سوال – ۱۵۱:  آپ نے علمی درجات سے متعلّق قرآنِ پاک کی ایک روشن دلیل پیش کی، لیکن ہمیں اس سلسلے میں مزید دلائل کی ضرورت ہے، کیا آپ کچھ اور بتا سکتے ہیں؟ -جواب:  (۱) قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں درجات کا ذکر آیا ہے، وہ علم و عمل ہی کے درجے ہیں (۲) سُورۂ مجادلہ (۵۸: ۱۱) میں دیکھو (۳) سیڑھیوں (۷۰: ۰۳، ۳۲: ۰۵، ۵۲: ۳۸) سے درجات مراد ہیں (۴) درجات عرش تک (۴۰: ۱۵) ہیں (۵) علم و عمل کے درجات میں ترقّی کے لئے امتحان و آزمائش ہے (۶۷: ۰۲) (۶) ہر امتحان درجے کو بڑھانے کی خاطر ہے (۰۲: ۱۵۵)۔

سوال – ۱۵۲: آیا کوئی ایسی حدیثِ شریف بھی آپ پیش کر سکتے ہیں کہ اس سے لوگوں کے عقلی اور علمی درجات کا ثبوت مِل سکے؟ -جواب:  جی ہاں، ایک حدیثِ شریف یہ ہے: اِنَّا مَعَاشِرَ الْاَنْبیَاءِ نُکَلِّمُ النَّاسَ عَلیٰ قَدْرِ عُقُوْ لِھِمْ =ہم گُروہِ انبیا ء لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق بات کرتے ہیں، (احادیثِ مثنوی) ان شہادتوں اور دلیلوں سے یہ حقیقت بیش از بیش روشن ہوگئی کہ قرآن و حدیث کی پُرحکمت

 

۱۳۷

 

تعلیمات درجہ وار ہیں۔

سوال – ۱۵۳: آپ نے بحوالۂ قرآن (۰۲: ۱۲۴)یہ کہا ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں امامت کے بڑے بڑے اسرار پنہان ہیں، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ تعمیرِ خانۂ کعبہ کی کیا تاویل ہے؟ قبلہ کے باطنی معنی کیا ہیں؟ بیت اللہ کو بیت العتیق کہنے میں کیا حکمت ہے؟ – جواب:  خانۂ خدا (بیت اللہ) کی تعمیر جو حضرتِ ابراہیمؑ اور حضرتِ اسماعیلؑ نے کی تھی، اس کی تاویل یہ ہے کہ پیغمبر اور امام خدا کے حکم سے ہر کامیاب عالمِ شخصی میں قبلہ (خدا کا گھر) بناتے ہیں، جیسے بعد کے زمانے میں حضرتِ موسٰیؑ اور ہارونؑ کو یہی حکم ملا تھا (۱۰: ۸۷) قبلہ کے باطنی معنی ہیں امام، کیونکہ اللہ کا خانۂ باطن امام ہے، بیت اللہ کو بیت العتیق (قدیم گھر) کہنے کا راز یہ ہے کہ امام کا نور قدیم ہے، یاد رہے کہ جس چیز میں ہمیشہ ہمیشہ تجدّد ہوتا رہتا ہے، وہ قدیم بھی ہے اور جدید بھی، جیسے خانۂ کعبہ کی تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اللہ کے اس مقدّس گھر کی کئی بار تعمیرِنَو ہوچکی ہے، پھر بھی قرآن اس کو بیت العتیق (قدیم گھر) کہتا ہے، تو اس میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

سوال – ۱۵۴: آیا یہ بات درست ہے کہ انسان ہمیشہ سَیّارہ بہ سَیّارہ مُنتقل ہوتا رہا ہے؟ کیا یہ تصوّر صحیح ہے کہ دینِ فطرت قدیم ہے؟ سُنّتِ الٰہی ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہے، لیکن کس طرح؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ آدموں کا سلسلہ دائمی ہے؟ آیا یہ بھی امر واقعی ہے کہ اس سلسلۂ دائرہ نما کا

 

۱۳۸

 

ہر آدم کُلّی بہشت سے ہوکر کسی سَیّارے پر ھُبوط کرتا ہے، اور وہاں اس کے رجوع کی خاطر ایک قبلہ (خدا کا گھر) بنایا جاتا ہے؟ کیا بیت العتیق کے یہی معنی ہوتے ہیں؟ آیا بیت العتیق امام علیہ السّلام کی مثال ہے؟ -جواب:  جی ہاں، آدم و آدمی ہمیشہ ایک زمین سے دوسری زمین پر مُنتقل ہوتے رہتے ہیں، یقیناً دینِ فطرت قدیم ہے، یعنی ہمیشہ ہے، سُنّتِ الٰہی میں تبدیلی نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس میں اصولی چیزیں ہمیشہ ایک جیسی رہتی ہیں، ہاں یہ حقیقت ہے کہ آدموں کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے، کوئی شک ہی نہیں کہ ہر آدم بہشت کی نعمتوں سے ہوکر آتا ہے، اور ہر آدم کے لئے زمین پر ایک قبلہ بنایا جاتا ہے، ہاں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ بیت العتیق کے معنی یہی ہیں، جب اللہ کا خانۂ ظاہر قدیم (عتیق) ہے تو معلوم ہوا کہ اس کا خانۂ باطن (امامؑ) قدیم ہے، الحمد للّٰہ۔

سوال – ۱۵۵: سُورۂ قَصَصْ (۲۸: ۸۸) میں ہے: کُلُّ شَیْ ءٍ ہالِکٌ اِلَّا وَجْھَہُ۔ اس فرمانِ خداوندی کی روشنی میں یہ بتائیں کہ سَیّارۂ زمین اور اس کے باشندوں کی ہلاکت کس طرح ہوگی؟ -جواب:  سُورۂ کہف (۱۸)کی آٹھویں آیت کو غور سے پڑھ لیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے، آخر کار اِس سب کو ہم ایک چَٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ یہ ہے قرآنِ حکیم کی وہ پیش گُوئی جس کے مطالق سَیّارۂ زمین کی ساری آبادی وقت آنے

 

۱۳۹

 

پر ختم ہوجانے والی ہے، اس سے پہلے ذخیرۂ آب ختم ہوجائے گا، حوالۂ سُورۂ مومنون (۲۳: ۱۸) اور سورۂ مُلک (۶۷: ۳۰) مگر خدا لوگوں کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ قانونِ قیامت کے مطابق ان کے روحانی ذرّات کو امام میں جمع کرے گا (۱۷: ۷۱) یہ ہُوا وجہ اللہ (یعنی امام) کے سِوا ہر چیز کا ہلاک و فنا ہوجانا، اور رحمتِ الٰہی سے ہر شیٔ کا امامِ مُبین میں محدود و محفوظ ہوکر رہنا (۳۶: ۱۲)۔

سوال – ۱۵۶: آپ کہتے ہیں کہ تمام معرفتیں ایک ہی جگہ جمع ہو جاتی ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو سورۂ محمّد (۴۷: ۰۶) میں جس بہشت کی معرفت کا ذکر آیا ہے، اُس میں بھی یقیناً جُملہ معرفتیں مُجتمع ہوں گی، کیا آپ اس کی چند مثالیں پیش کر سکتے ہیں؟ -جواب:  وہ آیۂ شریفہ جس میں جنّت کی پہچان کا تذکرہ آیا ہے، اس طرح سے ہے: وَیُدْ خِلُھُمُ الجَنَّۃَ عَرَّفَھَا لَھُمْ =وہ انہیں اس جنّت میں داخل کرے گا جو انہیں پہلے سے پہچنوا چکا ہے ( ۴۷: ۰۶) بہشتِ مُجسّم و مُشَکَّل امامِ زمانؑ ہے، جس کی معرفت ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، ظاہری معرفت علم الیقین ہے، باطنی معرفت عین الیقین اور حقّ الیقین، معلوم ہے کہ معرفت کا خزانہ باطن میں ملتا ہے، جس میں ہر چیز کی معرفت موجود ہے، پس مذکورہ آیۂ کریمہ میں زندہ شہیدوں کی تعریف ہے (۴۷: ۰۴) جن کو اللہ تعالیٰ کنزِ معرفت سے مالا مال کرتا ہے، اب آپ سوچیں کہ خزانۂ معرفت میں کس چیز کی معرفت موجود نہ ہوگی؟ کیا بہشت اللہ کے پاک دیدار و معرفت کی نعمتِ عُظمیٰ سے کبھی خالی ہوسکتی ہے؟ آیا اس میں ناطقان، اساسان، امامان، اور حُجّتان کی رفاقت نہیں

 

۱۴۰

 

ہے (۰۴: ۶۹)؟ کیا خود شِناسی میں ہر چیز کی شناخت نہیں ہے؟ آخراً میرا پُرخُلُوص مشورہ یہ ہے کہ جب بھی کسی معرفت کی امکانیت پر سوچنا ہو تو مذکورہ بابرکت آیت میں سوچ لیا کریں۔

سوال – ۱۵۷: کیا قرآنِ حکیم میں معرفت سے متعلّق اور بھی بہت سی آیات و اشارات موجود ہیں؟ اگر ہیں تو کس طرح سے؟ -جواب:  معرفت سے متعلّق طرح طرح کی چیزیں بیشمار ہیں، مثال کے طور پر قرآنِ حکیم میں عبادت کتنا اہم مضمون ہے، مگر یہ معرفت کے بغیر کچھ وقعت نہیں رکھتی، معرفت وہ چیز ہے جو علم کو نکھار بخشتی ہے، معرفت کا دوسرا نام یقین ہے، اس کا ایک اور نام حکمت ہے، اس کو “نورِمعرفت” بھی کہتے ہیں، پھر نور کے معنوں میں معرفت کے معنی بھی ہیں، چُنانچہ آپ ” اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ” کا ترجمہ یُوں بھی کرسکتے ہیں: خدا آسمانوں اور زمین کا نورِ معرفت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ تخلیقِ کائنات کا مقصد معرفت ہے، اور نزولِ قرآن کا مقصد بھی یہی ہے، پس قرآن کے باطن میں سرتا سر معرفت ہی معرفت ہے۔

سوال – ۱۵۸: احادیثِ مثنوی میں ہے: داؤد علیہ السّلام نے عرض کیا: یَا رَبِّ لِمَاذَا خَلَقْتَ الْخَلَقَ؟ قَالَ: کُنْتُ کَنزاً مَخْفِیاً فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقّتُ الْخَلْقَ لِکَیْ اُعْرَفَ۔ اس حدیثِ قدسی کی حکمت کیا ہے؟ -جواب: ترجمہ: اے میرے پروردگار تو نے

 

۱۴۱

 

خلق کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا؟ خدا نے فرمایا: میں ایک چُھپا ہُوا خزانہ تھا پس میں نے پسند کیا کہ میری معرفت ہو تو میں نے خلق کو پیدا کیا تاکہ مجھ کو پہچانا جائے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے جس خلق کو اپنی معرفت کے پیشِ نظر پیدا کیا وہ عُرَفاء ہیں، اور یہ روحانی تخلیق کا تذکرہ ہے، ورنہ عوام النّاس کے نزدیک خدائے پاک اب بھی خزانۂ مخفی ہی ہے، کیونکہ خدا شِناسی کے لئے صرف جسمانی تخلیق کافی نہیں ہے، دوسری بہت ہی عظیم حکمت یہ ہے، کہ حضرتِ ربّ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام “کنز” بھی ہے، مگر یہ صرف اہلِ معرفت ہی کے لئے خاص ہے۔

سوال – ۱۵۹: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۱۶۵) میں یہ ارشاد ہے: والذّین اٰمنوآ شدُّ حُبّاً لِلّٰہ = اور جو لوگ (حقیقی) مومن ہیں انہیں خدا سے شدید عشق و محبّت ہے۔ یہ ترجمہ آپ کی نظر میں کیسا ہے؟ اِس آیۂ شریفہ میں عشقِ الٰہی کا ذکر ہے یا نہیں؟ کسی مُستند عربی لغات کے حوالے سے بتائیں کہ عشق کس چیز کا نام ہے؟ -جواب:   ترجمہ بڑا عمدہ ہے، یقیناً اِس آیۂ کریمہ میں عشقِ سماوی ہی کا تذکرہ ہے، المُنجِد میں ہے: العِشْقُ =محبّت کی زیادتی، پارسائی اور غیر پارسائی دونوں طرح ہوتا ہے۔

سوال – ۱۶۰: عَنْ عَلِّیِ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ اَخَذَ بِیَدِ حَسَنٍ وَّحُسَیْنٍ قَالَ مَنْ اَحَبَّنِیْ وَاَحَبَّ ھٰذَ یْنِ وَاَبَا ھُمَا وَ اُمَّھُمَا کَانَ مَعِیَ فِیْ دَرْجَتِیْ

 

۱۴۲

 

یَوْ مَ الْقِیَامَۃِ۔ آپ اس کا ترجمہ کر کے کوئی حکمت بیان کریں – جواب:  ترجمہ: حضرتِ علیؑ ابنِ ابی طالب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے حسنؑ اور حسینؑ کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا: جو مجھ سے محبّت کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ ان دونوں اور ان کے والدین سے بھی محبّت کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا۔

۱۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ رسولِ خداؐ کا فرمان حق ہے، لیکن یہ سعادت اہلِ ایمان کو امامِ زمانؑ کے وسیلے سے نصیب ہوسکتی ہے (۲) اس حدیثِ شریف میں اُن تمام آیاتِ کریمہ کی تفسیر اور وضاحت ہے جو آنحضرتؐ کی محبّت سے متعلّق ہیں (۳) علم اور فرمانبرداری کے سِوا اتنی بڑی فضیلت کیونکہ ممکن ہوسکتی ہے (۴) یہ دراصل فنا فی الامامؑ، فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ کا انتہائی عظیم راز ہے۔

 

۱۴۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۷

سوال – ۱۶۱: سُورۂ صٓ کے ایک ارشاد (۳۸: ۷۵) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے حضرتِ آدمؑ کو بنایا تھا، اس کی کیا تاویل ہے؟ یہ کونسا مقام تھا؟ -جواب:  خدائے تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں سےعقلِ کلّی اور نفسِ کُلّی مراد ہیں، اور یہ عالمِ شخصی کی وہ اعلیٰ منزل تھی، جس کا نام مقامِ عقل ہے، جو عُرَفاء کی پیشانی میں ہے۔

سوال-۱۶۲: اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا، جو بہشت کی خوشخبری بھی دیتے تھے اور دوزخ سے ڈراتے بھی تھے، یہ دونوں چیزیں لوگوں کی اجتماعی اور انفرادی صورت میں کس طرح سے ہیں؟ -جواب:  اجتماعی طور پر لوگوں کو بُشارت دینے اور ڈرانے کے لئے آسمانی کتاب کی تعلیمات اور ہر پیغمبر کی ظاہری ہدایات کافی ہوتی تھیں، انفرادی مُژدہ روحانیّت اور نورانی خواب ہے، اور انفرادی تخویف ظلمانی خواب ہے۔

سوال -۱۶۳: قرآنِ حکیم میں جو لعنت کا مضمون ہے، اس کا

 

۱۴۴

 

اصل راز عامّۃُ النّاس نہیں جانتے، تو کیا کوئی شخص کسی چیز پر لعنت بھیج سکتا ہے؟ -جواب:  قطعاً منع ہے، جیسا کہ رسولِ کریمؐ کا ارشاد ہے: ترجمہ: لعن کرنے والا، کسی پر لعنت بھیجنے والا، فحش گوئی کرنے والا اور بدتمیزی کرنے والا مومن نہیں ہے، دوسرا ارشاد: ترجمہ: ایک شخص نے رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کے سامنے ہَوا پر لعنت بھیجی، آپ نے فرمایا: ہَوا پر لعنت نہ بھیجو یہ تو مامور ہے اور جو شخص کسی ایسی چیز پر لعنت بھیجتا ہے جو اس کی مستحق نہیں تو وہ لعنت اسی پر واپس آتی ہے  (جامعِ تِرمذی، جلدِ اوّل، ابواب البِرِّ والصِّلۃ)

سوال – ۱۶۴: حدیثِ شریف ہے: مَنْ کُنْتُ مَوْلَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ اَللّٰھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَا ہُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاہُ وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَہٗ وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَہٗ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ شَھِیْدِی عَلَیْھِمْ ۔ ترجمہ: جس شخص کا میں حاکم اور امیر ہوں، علیؑ بھی اس کا حاکم اور امیر ہے، اے خدا! تو دوست رکھ، اس شخص کو جو علیؑ کو دوست رکھے، اور دشمن رکھ اس شخص کو جو علیؑ کو دشمن رکھے، اور چھوڑ دے اس شخص کو جو علیؑ کو چھوڑ دے، اور مدد و نصرت کر اس شخص کی جو علیؑ کی مدد و نصرت کرے، اے خدا! تو ان پر میرا شہید اور گواہ ہے۔ آپ اس کی گہرائی سے کوئی حکمت بتائیں۔ -جواب:  (۱) یہ نُوْرٌعَلیٰ نُوْر کی نبوّی تفسیر ہے (۲) اللہ کی نورانی رسّی کی روشن دلیل ہے (۳) مولا کے معنی میں اور بھی سوچ لیں (۴) ذاتِ سبحان دوستی اور دشمنی سے برتر ہے، مگر یہاں اس حقیقت کا

 

۱۴۵

 

یقین آیا، کہ کسی شخص کی امامؑ سے دوستی گویا خدا سے دوستی ہے (۵) یہ ایک خزانۂ اسرار ہے، اور باغِ بہشت ہے، آپ اس سے فکری روشنی حاصل کریں۔

سوال – ۱۶۵: اگرچہ علمی سفر کے ہر قدم پر اور ہر منزل میں غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی موقع ایسا نہیں، جس میں فکر کی کوئی اہمیّت نہ ہو، لیکن گمانِ غالب یہ ہے کہ ضرور اس کا کوئی خاص مقام بھی ہوگا، جہاں علم و معرفت کے بلند مقامات کی وجہ سے فکر کے ذریعہ بڑے بڑے اسرار منکشف ہوتے ہوں گے، آیا فکری عمل کے لئے کوئی ایسا اعلیٰ مقام ممکن ہے؟ -جواب:  جی ہاں، یقیناً ممکن ہے، چُنانچہ قرآنِ کریم (۳۴: ۴۶) میں ایک نہایت پُرازحکمت آیت ہے، جس کا مفہوم یوں سمجھ لیں کہ خداوند تعالیٰ دین کی ہدایات و نصائح کو پھیلاتا بھی ہے اور جمع بھی کرتا ہے، پس اسی آیۂ مبارکہ میں یہی امرِ واقعی ہے: قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ اَنْ تَقُوْ مُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَ فُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا۔ اے رسولؐ کہدو کہ میں تو تمہیں ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں (جو تمام نصیحتوں کا مجموعہ ہے) کہ تم دو دو اور ایک ایک کھڑے ہوجاؤ (یعنی تم اِسی زندگی ہی میں کارِ قیامت کو انجام دو اور نفسانی موت سے مرکر زندہ ہوجاؤ، یہ ہُوا کھڑے ہوجانا) “دو دو اور ایک ایک” کا مطلب ہے کثرت سے دوئی کی طرف جانا اور دوئی سے وحدت کی طرف، اب چشمِ بصیرت اور فکر کا سب سے اعلیٰ مقام ہے، تاکہ اسرارِ معرفت منکشف ہوجائیں۔ جیسے ارشاد ہے: ثُمَّ

 

۱۴۶

 

تَتَفَکَّرُوْا۔ پس فکر کرو اور سوچو۔

سوال – ۱۶۶: آپ کے کہنے کے مطابق روحانی اور انفرادی قیامت کے بعد فکر کی بہت بڑی اہمیّت ہوجاتی ہے، اس کی چند مثالیں بتائیں – جواب:   قیامت سے نورِ معرفت حاصل آتا ہے، جس کی روشنی میں ہر چیز پر غور و فکر کرنے سے بڑے مفید نتائج کی اُمید ہوتی ہے، اور بعض اوقات خزانے ہی خزانے بھی مل جاتے ہیں، قرآن میں سوچو، اپنی ذات یا کائنات میں یا حدودِ دین میں تفکُرّ و تدبُّر کرو، ہر جگہ علم و حکمت کے لطیف جواہر ملتے رہیں گے، آپ نے دَورانِ قیامت آفاق و انفس کے لاتعداد عجائب و غرائب اور انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے عظیم معجزات کو دیکھا تو تھا، لیکن وہ حالات ایسے تھے کہ ان میں آپ کسی چیز پر غور نہیں کرسکتے تھے، جب کائناتی طوفان تھم گیا، تب سوچنے کا وقت آگیا، یہ ہے مذکورہ آیۂ شریفہ کی مزید وضاحت، الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔

سوال – ۱۶۷: سُورۂ انبیاء میں حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ لُوط علیہما السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطاً اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمیْنَ (۲۱: ۷۱) اور ہم نے ابراہیمؑ اور لوطؑ کو اس سرزمین (شام) کی طرف نجات دی جسے ہم نے عالمین کے لئے بابرکت بنایا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ مُلکِ شام یا کوئی اور مقام تمام زمانوں

 

۱۴۷

 

میں کس طرح عوالمِ شخصی کے لئے بابرکت ہو سکتا ہے؟ -جواب: یہ اشارہ دراصل حظیرۂ قدس کی طرف ہے، جہاں عالمِ لطیف کی زمین بھی ہے اور آسمان بھی، اسی کی نورانی برکتیں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے وسیلے سے ہر عالمِ شخصی کو ملتی رہتی ہیں۔

سوال -۱۶۸: دل کا ایک قرآنی نام فُؤاد ہے، اس کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے؟ اور فواد  (ج   اَفْئِدَۃ) کی کیا تاویل ہے؟ -جواب:  اس کا مادّہ: ف ء د ہے، الفُؤاد کے معنی قلب یعنی دل کے ہیں، فؤاد تَفَؤُّدُ سےبنا ہے، تَفَؤُّدُ کے معنی ہیں روشن ہونا، جلنا، حرارت، بخار، شدّت، اور عجب نہیں کہ اس لفظ (فُؤاد) میں آتشِ عشقِ سماوی اور نورِ معرفت کی تمثیل ہو، یقیناً یہی حقیقت ہے، کیونکہ قرآن کا مقصد یہی ہے کہ انسان اپنی تمام اعلیٰ صلاحیتوں کے ساتھ خدا کی عاشقانہ غلامی کرے، جب کوئی بندۂ مومن اپنے دل کو علم و عمل اور عشقِ حقیقی سے شمع کی طرح جلاتا رہے گا، تو ایک دن خدا اُس کو ایک نُورانی فُؤاد (قلب) عطا کرے گا، یہ معجزاتی دل امامِ عالیمقامؑ ہوگا، جس کو یہ عاشق جان و دل سے مانتا اور پہچانتا تھا، پس فُؤاد کی تاویل یہ ہے۔

سوال – ۱۶۹:  وہ آیات یا آیت کونسی ہے جس میں ایسی تاویل ہو؟ -جواب:  مثال کے طور پر دیکھیں: سورۂ نحل (۱۶: ۷۸) سورۂ مومنون (۲۳: ۷۸) سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۹) سُورۂ مُلک (۶۷: ۲۳) ترجمہ ہے:

 

۱۴۸

 

اور اس نے تم کو کان دیئے اور آنکھ اور دل تاکہ تم شکر کرو۔ کان سے ناطق مراد ہے، آنکھ سے اساس، اور دل کی تاویل امام ہے، ایسی عظیم نعمتوں کی وجہ سے شکر گزاری واجب ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ اللہ کا خاص احسان ہے، ورنہ ظاہری کان، آنکھ اور دل لادینوں کے بھی ہیں اور حیوانوں کے بھی۔

سوال -۱۷۰: حدیثِ نوافل میں پروردگارِ عالم کی جن نوازشات کا ذکر آیا ہے، کیا وہ حدودِ دین کے وسیلے سے ممکن ہیں یا براہِ راست؟ -جواب:  اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص کے لئے حدودِ دین کی سیڑھی ہے، معراج (سیڑھی) کے بغیر عروج ممکن نہیں، یہ سیڑھی زندہ درجات کی ہے، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھئے کہ درجات اور سیڑھیوں (معارج) کا ذکر ہے، جس طرح سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) سے یوں لگتا ہے کہ بندوں کے اعمال کو خدا خود لکھتا ہے، لیکن سورۂ انفِطار (۸۲: ۱۱) سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال لکھنے کا کام کچھ فرشتوں کے سپُرد ہے، جو کِرَاماً کَاتِبِیْن کہلاتے ہیں، یہاں پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ خدا جو حقیقی بادشاہ ہے، وہ کارکُنانِ قدرت کو مختلف کاموں پر مامور کرتا ہے، مگر وہ خود ہر کام سے پاک و بالاتر ہے۔

 

۱۴۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۸

 

سوال – ۱۷۱: عشقِ سماوی کی کتاب کس پیغمبر پر نازل ہوئی تھی؟ فرشتۂ عشق کا کیا نام ہے؟ قرآن کہتا ہے کہ خزائنِ الٰہی میں ہر چیز موجود ہے (۱۵: ۲۱) کیا ان میں حقیقی عشق بھی ہے؟ اگر سب مومنین یا بعض خدا سے بہت سخت محبّت رکھتے ہیں تو ایسی محبّت کو عشقِ الٰہی کہنا چاہئے یا نہیں؟ -جواب:  (۱)عشقِ سماوی کی کتاب جو زبور کے نام سے ہے، وہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام پر نازل ہوئی تھی (۲) فرشتۂ عشق کا نام اسرافیل صاحبِ صور ہے (۳)کوئی ایسی چیز نہیں جو خزائنِ الٰہی میں موجود نہ ہو، چنانچہ اللہ کے خزانوں میں عشقِ حقیقی بھی موجود ہے (۴) جو اہلِ ایمان خدا سے بہت سخت محبّت رکھتے ہیں، ان کو مبارک ہو کہ وہ خدا کےسچّے عاشق ہیں۔

سوال – ۱۷۲: کیا قرآن اگلی کتابوں میں بھی تھا؟ اور اگلی کتابیں قرآن میں بھی ہیں؟ اگر یہ حقیقت ہے تو دلیلوں اور مثالوں سے سمجھائیں -جواب:  جی ہاں، یہ حقیقت ہے، اور اس کی پہلی دلیل: سُورۂ شُعراء(۲۶: ۱۹۶) میں ہے: وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرِالْاَوَّ لِیْنَ = اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ (قرآن) موجود ہے۔ دوسری دلیل: سُورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸)

 

۱۵۰

 

پڑھیں، قرآن سابقہ کتبِ سماوی کی تصدیق کرتا ہے، اور ان کا محافظ اور نگہبان ہے، اس معنیٰ میں کہ ان کے مطالب اور خلاصہ جات اس میں موجود ہیں، تیسری دلیل: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۳) میں دیکھیں کہ تمام کتبِ سماویہ کا مجموعی نام “الکتاب” ہے، اور وہ آج قرآن ہے، چوتھی دلیل: آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمّدؐ سے متعلّق آیۂ کریمہ (۰۴: ۵۴) کو دیکھئے کہ ان کو خدا نے الکتاب دی ہے جو قرآن ہے۔

سوال – ۱۷۳: مذکورۂ بالا دلائل سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ قرآنِ عظیم کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے، اور اس میں سابقہ کتبِ سماوی کا خلاصہ اور جوہر بھی محفوظ ہے، پھر بھی شاید یہ ایک مناسب سوال ہے کہ جس طرح حضرتِ داؤد علیہ السّلام مختلف سازوں کی موسیقی کے ساتھ زبور کو پڑھا کرتے تھے، آیا اُس پر قرآنِ پاک میں کوئی تنقید یا تردید کی گئی ہے؟ -جواب:  ہر گز نہیں، خدا نے خود اپنی عِنایت سے حضرتِ داؤدؑ کو آسمانی عشق کا مُعَلِّم بنایا تھا، تاکہ لوگ اسرارِ عشق سے کچھ سبق حاصل کریں۔

سوال – ۱۷۴: سُورۂ مُزَّمِّل (۷۳: ۱۸) میں ہے: السّمَآ ءُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ کَانَ وَعْدُہٗ مَفْعُوْلاً۔ اس کی اصل حکمت کیا ہے؟ -جواب:   ترجمۂ اوّل: اس دن آسمان پھٹ پڑے گا اور اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ ترجمۂ دوم: اس دن آسمان پھٹ جانے والا ہے اور اس کا

 

۱۵۱

 

وعدہ (بارہا) پورا ہوچکا ہے۔ یعنی پہلے بھی ایسی روحانی قیامت در پردہ برپا ہوتی رہی ہے، کیونکہ مفعول کا معنوی تعلّق ماضی سے ہے۔

سوال – ۱۷۵: آپ نے کچھ دن پہلے یُدَبِّرُ الْاَمْرَ (۱۰: ۰۳) کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ خداوند تعالیٰ کلمۂ امر (کُن) کا اِعادہ کرتا رہتا ہے، کیونکہ وہ اس حکم کے ذریعے سے تخلیق کا سلسلہ جاری رکھتا ہے، کیا یہ بات درست ہے؟ -جواب:  جی ہاں، درست ہے، یہی سبب ہے جو ارشاد ہُوا ہے: وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفُعُوْلاً (۳۳: ۳۷) اور اللہ کا فرمان وہ ہے جو بارہا عمل میں آچکا ہے، پس خدا کے ہاں کوئی ایسا کام نہیں جو کبھی نہ کیا گیا ہو، مگر ہر چیز میں تجدّد ہے، جس کو خلقِ جدید کہا گیا ہے (۱۳: ۰۵، ۱۴: ۱۹، ۳۲: ۱۰، ۳۴: ۰۷، ۳۵: ۱۶، ۵۰: ۱۵، ۱۷: ۴۹، ۱۷: ۹۸)۔

سوال -۱۷۶: ازل کس چیز کا نام ہے؟ ابد کا تصوّر کس طرح کریں؟ لامکان کہاں ہے؟ -جواب:  ازل زمانِ ساکن کا نام ہے جو دھر ہے، اور ابد اس سے الگ نہیں، لامکان کے لئے کہاں کہنا درست نہیں، کیونکہ یہاں، وہاں، کہاں، جیسے الفاظ مکان کے لئے استعمال ہوتے ہیں، مگر لامکان کے لئے نہیں، اس کے لئے یوں پوچھا جائے: کیا لامکان کا علم ہوسکتا ہے؟ یا مشاہدہ اور معرفت ممکن ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں، مکان و زمان سے بالا تر ہونے کی صورت میں ازل، ابد، اور لامکان کا مشاہدہ ہوسکتا ہے۔

 

۱۵۲

 

سوال -۱۷۷: سورۂ اَنعام (۰۶: ۷۳) میں ارشاد ہے: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ بِالْحَقِّ وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ قَوْلُهُ الْحَقُّ۔ اس کی حکمت بیان کریں-جواب:   ترجمۂ اوّل: اور وہی ہے وہ ذات کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور جس دن وہ کہے گا “ہوجا” تو وہ ہوجائے گا، اس کا قول حق ہے۔ ترجمۂ دوم: اور وہی ہے وہ ذات کہ جس نے (عالمِ شخصی کے) آسمانوں اور زمین کو حق (کلمۂ امر) سے پیدا کیا اور جس وقت وہ کہتا ہے “ہوجا” تو وہ ایک عالم ہوجاتا ہے، اس کا قول (کلمۂ امر) حق ہے۔ (۱) یہ ارشاد عالمِ شخصی سے متعلق ہے (۲) حق سے کلمۂ امر مراد ہے، جو حقّ الیقین ہے (۳) وہاں ہر بار اللہ کے کُنْ (ہوجا) فرمانے سے ایک کائنات وجود میں آتی ہے۔

سوال – ۱۷۸: إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (۰۳: ۵۹)اس آیۂ کریمہ کی حکمتِ ضروریّہ بتائیں۔ -جواب:  ترجمۂ اوّل: اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سےپیدا کیا اور حکم دیا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا۔ ترجمۂ دوم: اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے (قانونِ فطرت ۳۰: ۳۰ کے مطابق) مٹی سے پیدا کیا اور (روحانی ترقّی کے بعد مقامِ عقل پر ) اسے “ہوجا” فرمایا اوروہ (نورانی مخلوق) ہوگیا۔ (۱) ہر انسان ماں باپ ہی (۱۶: ۰۴، ۷۶: ۰۲) سے پیدا ہوتا ہے، آدمؑ و عیسیٰؑ بھی انسان ہی تھے (۲) مذکورہ آیۂ کریمہ سے معلوم ہُوا کہ کُنْ کا

 

۱۵۳

 

اطلاق مقامِ عقل پر ہوتا ہے، جس سے انسانِ کامل عقلی طور پر پیدا ہوجاتا ہے، اور یہی وہ مرتبہ ہے، جس میں ستر ہزار فرشتے/سترہزار کاپیاں/ستر ہزار عوالم پیدا ہوجاتے ہیں، فرشتہ، کاپی، اور عالم ایک ہی چیز ہے۔

سوال – ۱۷۹: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا۔ وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ   (۶۵: ۰۲ تا ۰۳) ترجمۂ ظاہر کےبعد حکمت بیان کریں۔ -جواب: ترجمۂ اوّل: اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے۔ ترجمۂ دوم: اور جو شخص (حقیقی معنوں میں) متّقی ہو اللہ اس کے لئے ایک مخرَج (علم کا سرچشمہ) بنا دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ علمی رزق دیتا ہے جس کا گمان بھی نہیں ہوتا ہے۔ (۱) تقویٰ کا مقصدِ عالی علم ہے (۲) مخرج سے سرچشمۂ علم مراد ہے (۳) علمِ مخزون قرآن و حدیث کی ایسی جگہوں سے ملتا رہتا ہے، جس کا گمان بھی نہیں ہوتا ہے۔

سوال -۱۸۰: کیا آپ قرآنِ حکیم سے کوئی ایسی مثال پیش کرسکتے ہیں، جس کے بارے میں گمان بھی نہ ہو کہ اس میں علمِ مخزون پوشیدہ ہے؟ -جواب:  ان شاء اللہ آئیے سورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں دیکھتے ہیں: مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا =اور کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں ہے جس کی پیشانی کے بال اس کے ہاتھ میں نہ ہوں۔ (۱) زمین پر

 

۱۵۴

 

چلنے والا جاندار مومنِ سالک ہے، کہ صرف وہی راہِ روحانیّت پر آگے بڑھتا ہے (۲) پیشانی کے بال سے حواسِ باطن مراد ہیں، جو خدا کے ہاتھ میں ہیں، تاکہ وہ اس روحانی جاذبیّت و کشش سے منزلِ مقصود کی طرف جاسکے (۳) نیز اس کی تاویل یہ بھی ہوسکتی ہے: سالک کے حواسِ باطن ہادیٔ برحق کے عشق کی گرفت میں ہیں، جیسے آیۂ مذکورہ کا آخری حصّہ ہے: اِنَّ رَبیّ عَلیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ (۱۱: ۵۶) یقیناً میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔ اس سے ہادئ زمان مراد ہے کہ وہی خدا کی طرف سے رہنمائی کرتا ہے۔

 

۱۵۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۹

 

سوال – ۱۸۱: خداوندِ قدّوس کے فضل و کرم سے ہم صراطِ مستقیم کے معنی، مطلب، اور تاویلی راز کو تو جانتے ہیں، لیکن یہاں ہمارا ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ سلامتی کی راہیں (سُبُلَ السَّلٰم ۰۵: ۱۶) کیا ہیں یا کون کونسی ہیں کہ جن کی ہدایت خدا اپنے نازل کردہ نور (۰۵: ۱۵) سے کرتا ہے؟ -جواب:  اس کے لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آپ سلام/السّلام کے معنوں کو معلوم کرلیں، اور آخراً اس حقیقت پر یقین کریں کہ ان معنوں کا اور دوسرے تمام معانی کا منبع و مصدر ایک ہی ہے، اور ان کا مرجع و مآب بھی ایک ہی ہے، اور وہ کلمۂ امر (کُنْ) ہے، یعنی قرآنی علم و حکمت کے الفاظ کے عُلوی اور اصل معانی کلمۂ امر کے خزانے سے آئے ہیں (۱۵: ۲۱) اور سلامتی کی راہیں یہ ہیں کہ آپ ان معنوں کو لوٹاتے ہوئے خزانۂ امر تک جاسکتے ہیں۔

پہلی مثال: یہ ارشادِ مبارک قلبِ قرآن (۳۶: ۵۸) میں ہے سَلاَمٌ قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ  = رَبِّ رحیم کی طرف سے ایک قول (کلمۂ امر) ہے جو وہی (ہمیشہ کی) سلامتی ہے۔ دوسری مثال: قرآنِ پاک کے متعدد آیات میں پیغمبروں پر سلام آیا ہے، جیسے سُورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۸۱) میں ہے،

 

۱۵۶

 

جس کی تاویل یہ ہے کہ وہ حضرات کلمۂ امر تک رسا ہوچکے تھے، تیسری مثال: بہشت میں ہر وقت سلام سلام کہا جائے گا (۵۶: ۲۶) یعنی وہاں کلمۂ امر کے اسرارِ عظیم پر گفتگو ہوگی۔ چوتھی مثال: سُورۂ اَنعام (۰۶: ۱۲۷) میں ہے: ان کے ربّ کے پاس ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے اور وہ ان کا سرپرست ہے اس صحیح طرزِ عمل کی وجہ سے جو انہوں نے اختیار کیا۔ یعنی ان کی علمی وعرفانی رسائی اور توجّہ کا مرکز حظیرۂ قدس اور کلمۂ باری ہوگا۔ پانچویں مثال: خداوندِ تعالیٰ کا ایک مبارک نام السّلام ہے (۵۹: ۲۳) اس کے معنی یہ ہیں کہ جہاں کلمۂ امر ہے، وہاں حضرتِ ربّ العزّت کی ملاقات اور معرفت ہے۔

سوال – ۱۸۲: جب کوئی نیک بخت بندۂ مومن (سالک) نورِ ہدایت کی پَیروی میں منزلِ مقصود تک پہنچ کر فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، پھر اس کے بعد وہ عمل کونسا ہے جو ھنوز نہیں کیا گیا ہے؟ – جواب:  ایک تو ہے خدا کی طرف چلنا، اور دوسرا ہے خدا میں چلنا، پس اس سالک کا ایک سفر تو ختم ہوگیا، اور دوسرا سفر اب شروع ہورہا ہے، جس کی علمی وعرفانی مسافتیں سلامتی کی راہیں کہلاتی ہیں۔

سوال – ۱۸۳: آیا سلامتی کی راہوں کو طریقِ تاویل بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ عملی تاویل وہ ہے، جس میں حقائق و معارف کو

 

۱۵۷

 

حظیرۂ قدس کی طرف لوٹایا جاتا ہے؟ -جواب:  یقیناً سلامتی کی راہیں دراصل تاویل ہی کی راہیں ہیں، اور یہاں سلامتی کے مبحث میں جیسی وضاحت کی گئی وہ تاویل ہی ہے، پس سلامتی کی راہوں کو طریقِ تاویل کہنا درست ہے، اور یہی حکمت بھی ہے جو خیرِ کثیر ہے۔

سوال – ۱۸۴: قرآنِ عزیز کے عظیم الشّان مضامین میں تسخیرِ کائنات کا مضمون بھی نہایت ہی ضروری ہے، یقیناً اس میں بڑے بڑے اسرار ہوں گے، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ خدا کے حکم سے کائنات اہلِ ایمان کے لئے مُسخّر ہوچکی ہے یا اس کی تسخیر مُستقبل میں ہونے والی ہے؟ -جواب:  تسخیر سے متعلق جتنی آیاتِ کریمہ ہیں ان کا فرمانا ہے کہ آدمی کے لئےکائنات اور اس کی ہر چیزمُسخّر کی گئی ہے لیکن جاننا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ سب سے بڑا احسان انائے عُلوی کی نسبت سے ہے، اور کاملین و عارفین کو اس حقیقت کا احساس و ادراک بھی ہوگیا ہے کہ جس روحانی بلندی پر انائے عُلوی اور یک حقیقت ہے، وہاں آپ سب کے لئے کائنات مُسَخّر کی گئی ہے، اور اس تسخیر کا دوسرا نام: بہشت کی بہت بڑی بادشاہی (مُلْکاً کَبِیْراً ۷۶: ۲۰) ہے، جو عالمِ صغیر اور عالمِ کبیر کے ظاہر و باطن پر محیط ہے۔

سوال – ۱۸۵:  آپ نے موضوعِ روح پر ایک غیر معمولی اور

 

۱۵۸

 

بے مثال و پُرحکمت کتاب “روح کیا ہے؟” تصنیف کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ یقیناً روح شناس ہیں، کیا آپ روح کے چند بھیدوں کو بتا سکتے ہیں؟ روح مرئی ہے یا غیر مرئی؟ اگر دیدنی (مرئی) ہے تو اس کی شکل و صورت کیسی ہے؟ اگر روح کلام کرتی ہے تو وہ کلام کس زبان میں ہوتا ہے؟ کیا روح آپ کی تھی؟ یا مرشدِ کامل کی؟ یا دونوں کی؟ -جواب:  (۱) ان شاء اللہ، روح کے چند بھید بتا سکتا ہوں (۲) روح مرئی بھی ہے اور غیر مرئی بھی (۳) روح کی بے شمار تجلّیات کی بے شمار شکلیں ہیں، تاہم وہ اصلاً انسانی شکل میں ہے (۴) روح سالک / عارف کی زبان میں کلام کرتی ہے (۵) میری روح تھی، میرے امام کا نور تھا، اور ساری روحیں تھیں، الحمد للّٰہ۔

سوال – ۱۸۶: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً۔ اس آیۂ مبارکہ میں سے کوئی حکمت بتائیں۔ -جواب:  اور (اے رسولؐ) تم سے لوگ روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں تم (ان کے جواب میں صرف اتنا) کہدو کہ میرے پروردگار کے امر سے ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے (لہٰذا تم کو اسرارِ روح کیسے بتائیں،  ۱۷: ۸۵) (۱) روح عالمِ امر سے اس طرح آئی ہے کہ یہ گویا ایک نورانی رسّی ہے، جس کا بالائی سِرا کلمۂ امر (کُنۡ) سے وابستہ ہے، اور زیرین سِرا انسانِ کامل میں ہے (۲) یہ نفسِ واحدہ کا ذکر ہے، جس سے نفوسِ جُزوی پیدا ہوجاتے ہیں (۳) آپ مذکورہ آیۂ شریفہ میں

 

۱۵۹

 

دیکھ سکتے ہیں کہ لفظ روح نہیں بلکہ الرّوح ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ تذکرہ خاص روح کا ہے (۴) حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم سے علم و حکمت کے اسرار دریافت کرنے کے لئے آپؐ کے نورانی دروازے سے داخل ہوجانا ضروری ہے، معلوم ہے کہ وہ بابِ مقدّس نورِ امامت ہے۔

سوال- ۱۸۷:  یہ تو معلوم ہے کہ زَبُور وہ کتابِ سماوی ہے جو حضرتِ داؤد علیہ السّلام پر نازل ہوئی، اس کے علاوہ کیا قرآن میں کہیں لفظِ زبور نامۂ اعمال کے لئے بھی آیا ہے؟ اس کا کیا ثبوت ہے کہ نامۂ اعمال کا نام بھی زبور ہے؟ -جواب:  جی ہاں، قرآنِ حکیم میں لفظِ زبور کتابِ اعمال کے لئے بھی استعمال ہوا ہے، وہ ارشادِ مبارک یہ ہے: وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ (۲۱: ۱۰۵) اور (کاملین و عارفین کے) نامۂ اعمال میں ذکر کے بعد ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ ثبوت کے لئے ملاحظہ ہو کہ الزّبور (اعمال نامہ) واحد ہے، اور الزُّبُر (اعمال نامے) جمع، جیسا کہ سُورۂ قمر (۵۴: ۵۲) میں ارشاد ہے: وَكُلُّ شَيْءٍ فَعَلُوهُ فِي الزُّبُرِ۔ اور یہ لوگ جو کچھ کرچکے ہیں وہ سب اعمال ناموں میں (درج) ہے۔

۱۔ خداوندِ تعالیٰ نے کاملین و عارفین کے نامۂ اعمال کو زبور کے اسم سے موسوم فرمایا، لہٰذا اس نام کے تحت بہت سے عظیم اسرار ہوسکتے

 

۱۶۰

 

ہیں (۲) نامۂ اعمال کتابِ قرطاس نہیں، وہ قیامت نامہ بشکلِ عالمِ شخصی ہے، بلکہ وہ کتابِ کائنات ہے (۳) مذکورہ آیۂ مبارکہ میں جس زمین کی وراثت کا ذکر ہُوا ہے وہ کُلّ کائناتی زمین ہے، بلکہ نفسِ کُلّی کی زمین ہے (۴) قیامت نامہ (زبور =کتابِ اعمال) میں انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے تمام روحانی معجزات ہوتے ہیں، پھر حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے معجزے کیوں نہ ہوں۔

سوال – ۱۸۸: یہ بابرکت ارشاد سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۹) میں ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ =اے ایمان والوخدا سے ڈرو اور سچّوں کے ساتھ ہوجاؤ۔ اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ -جواب:  اس میں بہت بڑی تاویلی حکمت ہے، وہ یہ کہ ہر زمانے کے مسلمین و مومنین کو یہ حکم ہوا ہے کہ خدا سے ڈریں اور اپنے وقت کے صادق (امام) کے ساتھ ہوجائیں، دنیا کے معاملات میں سچ بولنے والے بہت ہیں، مگر پیغمبرؐ اور امامؑ کے سِوا روحانی علم میں سچّا کوئی نہیں، لہٰذا صداقت اور حقیقت حاصل کرنے کے لئے ظاہراً و باطناً امامِ زمانؑ کے ساتھ ہونا ضروری ہے، اگر عالمِ شخصی میں اور حظیرۂ قدّس میں امام علیہ السّلام کے ساتھ ہونا امرِ مُحال ہوتا تو ایسے ناممکن کام کے لئے حکم نہ دیا جاتا۔

سوال – ۱۸۹:  عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: قَالَ: ضَمَّنِیْ رَسُوْل اللہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلّمْ اِلَیْہِ، وَقَالَ اللّٰھُمَّ عَلَّمْہُ الْحِکْمَۃَ وَ تَاوِیْلَ الکِتَابِ۔ (سُننِ ابن ماجہ، جلدِ اوّل، کتاب فی الایمان) اس

 

۱۶۱

 

حدیثِ شریف کا ترجمہ کرکے مطلب بتائیں۔ -جواب:  عبد اللہ بن عباسؓ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے مجھے اپنے (مبارک) سینہ سے لگا یا اور دعا کی یا اللہ سکھلا دے اس کو حکمت اور تاویل قرآن کی۔

۱۔ یہ حدیثِ شریف قرآنی تاویل کی امکانیّت پر ایک واضح اور روشن دلیل ہے (۲) حکمت اور تاویل علم کی چوٹی پر ہے جہاں خیرِ کثیر کا خزانہ موجود ہے (۳) دراصل حکمت اور تاویل ایک ہی چیز ہے (۴) آنحضرتؐ صاحبِ تنزیل ہیں، او رآپؐ کا جانشین (امام) صاحبِ تاویل۔

سوال –  ۱۹۰: کیا آپ تاویل کے بارے میں کوئی اور حدیث بتا سکتے ہیں؟ -جواب:  ان شاء اللہ، حدیثِ شریف ہے: انّ منکم من بقاتل علیٰ تاویلہ کما قاتلت علیٰ تنزیلہ =یقیناً تمہارے درمیان وہ شخص بھی ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا، جس طرح میں نے قرآن کی تنزیل پر جنگ کی (شرح الاخبار، جلدِ اوّل، سرایا الرّسولؐ) جاننا چاہیئے کہ سب سے بڑی تاویلی جنگ روحانی قیامت ہے، جو امام ِزمانؑ کے توسّط سے برپا ہوتی ہے (۱۷: ۷۱) جس میں روحانی جنگ ہوتی ہے، جیسا کہ قبلاً اس کا ذکر ہوچکا ہے۔

 

۱۶۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۰

 

سوال – ۱۹۱: کسی بابرکت زمین کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کے مشارِق و مغارب کی طرف زیادہ توجّہ دلانے میں کیا حکمت ہے؟ وہ زمین کونسی ہے (۰۷: ۱۳۷)؟ -جواب:  کیونکہ وہ مبارک و مقدّس سرزمین عرفانی بہشت ہے، اُس پر نورالانوار یعنی خورشیدِ عقل کثیر معنوں اور کثیر اشارات کے ساتھ طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے، حالانکہ ایک ہی پاک و بابرکت جگہ ہے جو وہی مشرق بھی ہے اور مغرب بھی، لیکن کثرتِ معانی کی وجہ سے اس کو مشارق ومغارب کہا گیا، اور وہ زمین حظیرۂ قدس ہےجس کو خدانے امامِ مبین علیہ السّلام کی جبینِ مبارک میں رکھا ہے۔

سوال – ۱۹۲: خورشیدِ عقل کس طرح کثیر معنوں اور کثیر اشارات کے ساتھ طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے؟ -جواب:  مثال کے طور پر خورشیدِ عقل کے طلوع و غروب سے یہ معلوم ہوا کہ بے شمار چیزیں پردۂ غیب سے ظہور پذیر ہو کر پھر غائب ہو جاتی ہیں، یہ تو طلوع و غروب کی مثال ہوئی، اب غروب و طلوع کا اشارہ دیکھتے ہیں کہ معدنیات، نباتات، حیوانات، اور انسان کی پیدائش سورج کے غروب کے بعد طلوع ہونے

 

۱۶۳

 

کی طرح ہے، اور بعض واقعات و امور بھی ایسے ہیں، جیسے حضرتِ یوسفؑ کو کنویں سے نکالنا، مچھلی کے پیٹ سے حضرتِ یُونس کی خلاصی، حضرتِ سلیمانؑ کے لئے جِنّات کا سمندر سے موتی نکالنا، وغیرہ۔

سوال -۱۹۳: کیا آپ حظیرۂ قدس کے چند دوسرے نام بتا سکتے ہیں؟ -جواب:  ان شاء اللہ (۱) قریبی بہشت (۲) کوہِ جودی (۳) مکانِ عالی (۴) مقامِ ابراہیمؑ (۵) بیت العتیق (۶) بیت المعمور (۷) قبلۂ فرشتگان (۸) مسجدِ اقصیٰ (۹) مقامِ عقل (۱۰) مقامِ معراج (۱۱) کوہِ طور (۱۲) وادیٔ مقدّسِ طُویٰ (۱۳) عِلّیّین (۱۴) مقامِ خزائن (۱۵) کُلّیۂ امامِ مُبین (۱۶) مَطوِیّات، وغیرہ۔

سوال – ۱۹۴: سَقفِ مرفوع (اُونچی چھت ۵۲: ۰۵) سے کیا مُراد ہے؟ سَقفِ محفوظ (محفوظ چھت ۲۱: ۳۲) کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ -جواب:  سقفِ مرفوع سے عالمِ شخصی کا عرش مراد ہے، جو حظیرۂ قدس ہے، کیونکہ عرش کے معنوں میں چھت بھی ہے، اور سقفِ محفوظ لوحِ محفوظ کی طرح ہے کہ اس چھت (عرش) کے تحت جو کچھ بھی ہے وہ ہمیشہ محفوظ ہے، پس عالمِ شخصی کی جس چھت پر دیدار ہے وہ عرش ہے، اور جس سمندر پر بھری ہوئی کشتی ہے، وہ بھی عرش (تخت) ہے۔

 

۱۶۴

 

سوال – ۱۹۵: سُورۂ ذاریات میں ارشاد ہے:  وَفِي الأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلاَ تُبْصِرُونَ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اس کا اصل مطلب بتائیں-جواب:  اور (کائناتی) زمین (یعنی عالمِ اکبر) میں اہلِ یقین کے لئے نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے اپنے وجود (عالمِ شخصی) میں بھی سب کچھ ہے۔ ارض سے کائناتی زمین مراد ہے، جس میں نفسِ کُلّی کی زمین سب سے عظیم شَیٔ ہے، کہ وہ آسمانوں کا آسمان بھی ہے، عقلِ کلّی کی زمین بھی، اور اس کے ساتھ مل کر عقلی آسمان بھی ہے، سبحان اللہ !

سوال – ۱۹۶: وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (۵۱: ۲۲) اِس آیۂ کریمہ میں کیا تاویلی راز ہے؟ -جواب:   ترجمۂ اوّل: آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے۔ ترجمۂ دوم: عالمِ بالا ہی میں ہے تمہارا (روحانی) رزق بھی اور وہ چیز (یعنی قیامت) بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے۔ ترجمۂ سِوُم: شخصِ وحدت ہی میں ہے تمہارا (باطنی) رزق بھی اور وہ چیز (روحانی قیامت) بھی جس کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے۔

سوال -۱۹۷: سُورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں ارشاد ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا۔ اس کا حکمتی اشارہ کیا ہے؟ -جواب:  ترجمہ: ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے ایک شریعت اور ایک طریقت مقرّر کر دی ہے۔ یعنی اسی طرح حقیقت اور معرفت بھی ضروری ہیں کہ وہ بھی

 

۱۶۵

 

خدا ہی کی طرف سے ہیں، کیونکہ اسی آیۂ کریمہ میں یہ حکم بھی ہے: فَاسْتَبِقُو الخَیْراتِ = بس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جاؤ۔ قرآنی حکمت یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی نیکی صراطِ مستقیم سے ہٹ کر نہیں ہے، اور اس راہِ دین کی ابتداء سے لے کر انتہاء تک نیکیاں ہی نیکیاں ہیں، جن پر عمل کرنے کے لئے آگے سے آگے جانا پڑتا ہے، تاآنکہ مومنِ سالک فنا فی اللہ ہوجاتا ہے۔

سوال – ۱۹۸:  آپ روشن دلائل سے یہ ثابت کریں کہ اسلام روحانی ترقّی کا دین ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے کا حکم دیا۔ ۔جواب:  (۱) اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کا بہترین نمونہ انسان ہے، انسان جسماً، روحاً، اور عقلاً بہت ترقّی کر سکتا ہے (۲) اھدنا الصّراط المستقیم کے مطابق تمام مسلمانانِ عالم ہمیشہ یہی دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدا ان کو راہِ دین پر چلائے، تاآنکہ منزلِ مقصود آئے (۳) دیکھئے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ بندے کو حضرتِ ربّ کی طرف سفر کرنا ہے (۳۷: ۹۹) (۴) اسلام میں سیڑھی کی مثال بہت بڑی اہمیّت رکھتی ہے، کیونکہ سیڑھی (معراج) آنحضرتؐ کے روحانی سفر کو ظاہر کرتی ہے، (۵) انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام حدودِ دین سمیت اپنے اپنے وقت کی روحانی سیڑھیاں ہوا کرتے ہیں (۷۰: ۰۴)، (۶) قرآنِ عزیز میں جگہ جگہ درجات کا ذکر ہے، اور درجے بھی سیڑھی کی طرح ہوتے ہیں، جن میں ترقی کا اشارہ نمایان ہے،

 

۱۶۶

 

(۷) اگر مادّیت کی پستی سے نکل کر روحانیّت کی بلندی پر جانے کی ضرورت نہ ہوتی تو اللہ کی رسّی اس جہان میں نہ آتی (۰۳: ۱۰۳)، (۸) اگر انسان کو روحانی سفر درپیش نہ ہوتا تو نہ فرمایا جاتا کہ سب سے بہتر زادِ راہ پرہیزگاری ہے (۰۲: ۱۹۷)، (۹) ان جیسے الفاظ میں روحانی سفر کے معانی ہیں: نور، ہدایت، ہادی، سبیل، توبہ، رجوع، اِتّباع (پَیروی) سَابِقُوا (سبقت کرو) سارِعوا (جلدی کرو) فِرُّوا (بھاگو) وغیرہ۔

سوال – ۱۹۹: المُستدرک، الجزٔ الثّالث، کتاب معرفۃ الصّحابہ میں یہ حدیثِ شریف ہے: الا اِنّ مثل اھل بیتی فیکم مثل سفینۃ نوح مِن قومہٖ مَن رکبھا نجاو مَن تخلّف عنھا غرق۔ اس کی گہرائی کی کوئی خاص حکمت بتائیں۔ -جواب:  ترجمہ: خبردار ہوجاؤ یقیناً میرے اہلِ بیت کی مثال تمہارے درمیان کشتیٔ نوح کی سی ہے کہ اُس کی قوم میں سے جو شخص اس میں سوار ہوا اس کو نجات مل گئی اور جس نے اس سے مخالفت کی وہ غرق ہوگیا۔

حضرتِ نوح علیہ السّلام کا سفینۂ ظاہر مثال ہے اور سفینۂ باطن (نورِ امامت) ممثول، کیونکہ طوفان نہ صرف ظاہر میں تھا، بلکہ باطن میں بھی تھا، جس سے نجات دلانے کے لئے نورِ امامت کشتی کا کام کرتا ہے، اور یہی نور پانی پر حضرتِ ربّ کا عرش بھی ہے (۱۱: ۰۷) پس انہی تمام معنوں کے ساتھ آنحضرتؐ کے اہلِ بیت کی مثال سفینۂ نوح کی طرح ہے۔

 

۱۶۷

 

سوال – ۲۰۰: یہ بہت بڑا سوال سُورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۵) کے حوالے سے ہے کہ وہ مائدہ (خوانِ نعمت) جس کے لئے حواریوں نے درخواست کی تھی اور حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے نازل ہوا تھا، وہ کس نوعیت کی نعمتوں کا خوانِ کرم تھا؟ کیا وہ جسمانی غذاؤں کا مائدہ تھا؟ یا روحانی نعمتوں کا مجموعہ؟ -جواب:  حضرتِ عیسیٰؑ کے حوّاری اتنے انجان اور لاعلم نہ تھے کہ دنیا کی غذائیں آسمان سے طلب کریں، بلکہ یہ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کے جملہ معجزات تھے، جن میں روح اور عقل کی ہر گونہ غذا موجود ہوتی ہے، یہ ایسی روحانی چیزیں ہیں جو حدودِ دین کے درجۂ اوّل سے درجۂ آخر تک سب کے لئے ضروری ہیں۔

 

۱۶۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۱

 

سوال – ۲۰۱: حضرت عیسیٰؑ نے نزولِ مائدہ کے لئے اس طرح دعا کی تھی: اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنْ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا ِلأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيرُ الرَّازِقِينَ۔  اس کا مطلب بتائیں۔ -جواب:  ترجمہ: خداوندا! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوانِ نعمت نازل فرما کہ وہ ہمارے (حدودِ دین کے) اوّل سے آخر تک (سب کے لئے) عید قرار پائے، اور تیری طرف سے معجزہ ہو، اور ہم کو (روحانی اور عقلی) رزق عطا فرما اور تو سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے (۰۵: ۱۱۴) اللہ کے خیرالرّازقین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ روحانی اور عقلانی رزق عطا کرتا ہے، اور یہ کام کوئی اور نہیں کرسکتا ہے۔

سوال – ۲۰۲: حدیثِ شریف ہے کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: یا علی اِنّ لک کنزاً من الجنّۃ وانّک ذو قرنیھا (مسنداحمد بن حنبل، الجز ٔ الاوّل) آپ اس کی وضاحت کریں۔ -جواب:  ترجمہ: اے علی یقیناً (عالمِ شخصی کی) بہشت کا خزانہ تیرے لئے ہے اور تو اس کا

 

۱۶۹

 

ذوالقرنین ہے، یعنی تیرے پاس پھونک کر قیامت برپا کرنے کے لئے دو قرن (سینگ) ہیں، ایک نفخۂ اوّل کے لئے اور دوسرا نفخۂ دوم کے لئے ہیں، مگر درمیان میں کوئی وقفہ نہیں، بلکہ مسلسل آواز ہے۔

سوال -۲۰۳: آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: دخلت الجنّۃ البارحۃ فنظرت فیھا فاذا جعفر یطیر مع الملائکۃ واذا حمزۃ متکّیٔ علیٰ سریر۔ اور یہ ارشاد بھی ہے: رأیت جعفر بن ابی طالب ملکاً یطیر مع الملا ئکۃ بجنا حین (المستدرک، الجزٔ الثالث) ان دونوں حدیثوں کی حکمت بتائیں۔ -جواب:  ترجمہ حدیثِ اوّل: شبِ گزشتہ جب میں جنّت میں داخل ہوگیا تو میں نے دیکھا کہ اس میں جعفر فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہا تھا، اور حمزہ ایک تخت پر تکیہ لگائے بیٹھا تھا۔ ترجمہ حدیثِ دوم: میں نے (بہشت میں) جعفر بن ابی طالب کو ایک فرشتہ دیکھا جو فرشتوں کے ساتھ دو پروں سے پرواز کررہا تھا۔

آنحضرتؐ کی اس پاکیزہ اور پُرحکمت تعلیم سے یہ یقین آیا کہ اعلیٰ درجے کی ایمانی روحیں فرشتہ ہوجاتی ہیں، دو پروں سے مراد دو اسموں کا کوئی ذکر ہوسکتا ہے، کیونکہ جسمِ لطیف یا نورانی بدن ظاہری بازو (پر) سے بے نیاز ہے۔

سوال – ۲۰۴: یہ فرمانِ خداوندی سورۂ فاطر کے شروع ہی (۳۵: ۰۱) میں ہے: الْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلاَئِكَةِ رُسُلاً أُولِي أَجْنِحَةٍ مَثْنَى وَثُلاَثَ وَرُبَاعَ۔ اس ارشاد کی توضیح کریں۔

 

۱۷۰

 

-جواب:  ترجمہ: تمام تر حمد (اسی) اللہ کو لائق ہے جو آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ہے جو فرشتوں کو پیغام رسان بنانے والا ہے، جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پردار بازو ہیں (۳۵: ۰۱) مذکورۂ بالا حدیث اور اِس آیت سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مومنین و مومنات ذکر و عبادت کی کثرت اور علم و حکمت کی ترقّی سے فرشتے ہو سکتے ہیں، یہاں یہ بھی معلوم ہُوا کہ فرشتوں کے پردار بازو ذکرِ الٰہی کے ہوتے ہیں، وہ ایسا پاک و برتر اور معجزاتی ذکر ہوتا ہے، جو خود ازخود ہر وقت بولتا رہتا ہے، آپ سب سے پہلے علم الیقین کی دولت سے مالامال ہوجائیں۔

سوال -۲۰۵: سُورۂ نجم میں حضورِ اقدس صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی معراج کے اسرارِ عظیم کا ذکرِ جمیل ہے، کیا آپ اس میں سے چند بھیدوں کی طرف اشارہ کریں گے؟ -جواب:   اس کی پہلی آیت (۵۳: ۰۱) میں نورِ ازل (نورِ عقل) کی قَسم ہے جو حظیرۂ قدس کی بہشت میں اپنے طلوع و غروب کے اشاروں سے بے شمار جواہر بکھیرتا رہتا ہے، دوسری آیت میں جوابِ قسم کے طور پر ارشاد ہوا ہے کہ رسولِ خداؐ نے انتہائی حسن و خوبی سے کارِ ہدایت کا فریضہ انجام دیا ہے کہ تم سب بحدِّ قوّت معراج تک ان کے ساتھ تھے۔

تیسری اور چوتھی آیت میں آنحضرتؐ کی یہ تعریف ہے کہ آپ کی ذاتی باتیں بھی وحی کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوتی تھیں، پانچویں آیت میں تذکرہ ہے کہ خدا ہی سب سے بڑا طاقتور ہے، لہٰذا اسی نے اپنے

 

۱۷۱

 

حبیبؐ کو بے مثال تعلیم دی، چھٹی آیت کا مفہوم ہے کہ رسولِ پاکؐ اللہ کی عطا کردہ طاقت سے طاقتور ہوگئے، اور ان کو ہر طرح کا باطنی کمال حاصل ہُوا، ساتویں آیت کا کہنا ہے کہ حضورِ انورؐ اس وقت اُفقِ اعلیٰ (مقامِ عقل) پر تھے۔

آٹھویں آیت کا اشارہ ہے کہ رحمتِ عالمؐ ربّ العزّت سے بدرجۂ انتہا قریب ہوگئے، پھر آپؐ کو مرتبۂ فنا حاصل ہوا، نویں آیت کا فرمان ہے کہ پھر رُبُوبیّت اور عُبُودیّت کا تصوّر دو کمانوں (دائرہ) کی طرح بلکہ اس سے بھی نزدیک مرکزِ پرکار کی طرح ہوگیا، دسویں آیت کا فرمانا ہے کہ معراجی وحی حالتِ فنا میں ہوتی تھی، گیارھویں آیت کا ارشاد ہے کہ حضورؐ کی معراج روحانی تھی، اس لئے آپؐ کے قلبِ مبارک نے یہ سب کچھ دیکھا اور تصدیق بھی کی، بارھویں آیت میں ارشاد ہے: کیا تم پیغمبر کی دیکھی ہوئی چیزوں کے بارے میں خود رسولؐ سے نزاع کرتے ہو۔

تیرھویں آیت کااشارہ یہ ہے کہ آنحضرتؐ کو دو دفعہ معراج ہوئی تھی، چودھویں آیت کی حکمت یہ ہے کہ یہ دو دفعہ کا دیدارِ مبارک سِدرۃ المُنتھیٰ کے پاس ہوا تھا، سِدرۃ المُنتھیٰ سے نفسِ کُلّی مراد ہے، پندرھویں آیت کی تعلیم بتاتی ہے کہ اسی (سِدرہ) کے پاس جنت الماویٰ ہے، سولہویں آیت میں ہے کہ نفسِ کُلّی کے دستِ مبارک میں کوئی بہت بڑا عجوبۂ قدرت تھا، جو دکھایا بھی جارہا تھا، اور چُھپایا بھی جارہا تھا، سترھویں آیت میں آنحضرتؐ کی چشمِ بصیرت کی تعریف ہے کہ مشاہداتِ معراج کا جو مقصد تھا، اس کو رسولِ خداؐ نے تماماً و کمالاً حاصل کیا، اٹھارہویں آیت کی

 

۱۷۲

 

حکمت یہ ہے کہ حضورِ پاکؐ نے معراج میں اپنے ربّ کے انتہائی عظیم معجزات کو دیکھا، یہ ہیں آنحضرتؐ کی معراج سے متعلق چند عظیم اسرار، الحمد للہ۔

سوال – ۲۰۶: آپ نے سورۂ نجم کی مذکورہ آیاتِ کریمہ کے اسرار میں جبرائیل کا کوئی ذکر نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ -جواب:  (۱) یہاں دراصل جبرائیل کا کوئی ذکر نہیں ہے (۲) جبرائیل اکیلا نہیں بلکہ وحی کے فرشتے پانچ ہیں، سب سے اوپر وہ فرشتہ ہے جو قلم کے نام سے مشہور ہے، اس کے بعد جو فرشتہ ہے، وہ لوح کے نام سے ہے، پھر اسرافیل ہے، پھر میکائیل، اور سب سے نیچے جبرائیل ہے(۳) جیسا کہ حضرتِ امامِ جعفر صادق علیہ السّلام کا ارشاد ہے: فنون ملک یؤدّی الیٰ القلم و ہو ملک، والقلم یؤدّی الیٰ اللّوح و ہو ملک، واللّو ح یؤدّی الیٰ اسرافیل و اسرافیل یؤدّی الیٰ میکائیل و میکائیل یؤدّی الیٰ جبرائیل و جبرائیل یؤدّی الیٰ الانبیا ء و الرّسل (المیزان، ۱۹ ص ۳۷۶)۔

ترجمہ: پس نون ایک فرشتہ ہے جو قلم کو خبریں دیتا ہے او ر قلم بھی ایک فرشتہ ہے جو لوح تک احکام پہنچاتا ہے، اور لوح بھی فرشتہ ہے جو پیغام اسرافیل کو دیتا ہے، اور اسرافیل میکائیل کو اور میکائیل جبرائیل کو اور جبرائیل انبیاء و رُسُل کو اطلاع دیتا ہے۔

سوال – ۲۰۷: مُسند احمد بنِ حنبل، جلدِ سوم حدیث ۸۹۲۱ میں

 

۱۷۳

 

ہے: لا تقوم السّاعۃ حتّیٰ تطلع الشّمس من مغربھا = قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔ اس حدیثِ شریف میں کیا حکمت ہے؟ کیا ابھی تک کوئی قیامت نہیں آئی ہے؟ -جواب:   اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ قیامت روحانی واقعات کا ایک سلسلہ ہے، اور یہ اُس وقت مکمّل ہوجاتا ہے، جبکہ حظیرۂ قدس کا سورج مغرب سے طلوع ہوجاتا ہے، کیونکہ وہاں مشرق و مغرب ایک ہی ہے، اس حدیثِ شریف میں روحانی قیامت کی حدِّ تکمیل کا ذکر ہے کہ قیامت کے مکمّل ہوجانے کا مقام وہ ہے جہاں تک پہنچ کر یہ مشاہدہ ہوجاتا ہے کہ سورج کا مشرق و مغرب ایک ہی جگہ پر ہے، اور قرآنِ حکیم نے بزبانِ حکمت بتا دیا کہ ہر امام کے ساتھ ایک روحانی قیامت ہے (۱۷: ۷۱)۔

سوال – ۲۰۸: حدیثِ شریف ہے: علیّ مع القرآن، والقرآن مع علیّ لن یّتفرّقا حتّیٰ یرداعلی الحوض (المستدرک، جلدِ سوم) اس حدیث کی حکمت بیان کریں۔ -جواب:  ترجمہ: علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، دونوں ایک دوسرے سے ہر گز جُدا نہیں ہوں گے تاآنکہ دونوں حوضِ کوثر پر وارد ہوجائیں۔ یہ آیۂ نُورِ مُنَزَّل (۰۵: ۱۵) کی تفسیر ہے کہ علی سے نورِ امامت مراد ہے جو قرآنِ ناطق ہے، اور کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) کے اندر کتابِ صامت کا ہونا لازمی ہے، پس نور اور قرآن کا یہ کام ہے کہ حقیقی مومنین کی راہنمائی حوضِ کوثر تک

 

۱۷۴

 

کریں، اس سے حضرتِ قائم القیامتؑ کی معرفت مراد ہے۔

سوال – ۲۰۹:  قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم لعلی بن ابی طالب علیہ السلام: من اطاعنی قفد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ ومن اطاعک فقد اطاعنی ومن عصاک فقد عصانی۔ المُستدرک)اس کا دُور رس مطلب کیا ہے؟ -جواب:   ترجمہ: آنحضرتؐ نے مولا علیؑ سے فرمایا: جس شخص نے میری اطاعت کی یقیناً اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس شخص نے تیری اطاعت کی بیشک اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اُس نے دراصل میری نافرمانی کی۔

یہ حدیثِ شریف آیۂ اطاعت کی روشن تفسیر ہے (۰۴: ۵۹) کیونکہ علی علیہ السّلام سے سلسلۂ نورِ امامت اور صاحبانِ امر مراد ہیں، بہ الفاظِ دیگر علیؑ سے علیٔ زمانؑ مراد ہے، جو امام ِزمانؑ ہے، الحمدللہ۔

سوال – ۲۱۰: صحیح البخاری، جلدِ دوم میں ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے حضرتِ علی علیہ السّلام سے فرمایا: اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ =تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ آیا یہ رشتہ جسمانی ہے؟ یا روحانی؟ یا عقلانی اور نورانی؟ -جواب:  یہ رشتہ بلکہ

 

۱۷۵

 

وحدت جسمانی بھی ہے، روحانی بھی، اور نورانی (عقلانی) بھی ہے اور قارئین خود بھی اس میں سوچیں گے۔

 

۱۷۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۲

 

سوال – ۲۱۱: سُنن ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، کتاب الجہاد میں ہے کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا: مَن اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ و من اطاع الامام فقد اطاعنی ومن عصی الامام فقد عصانی۔ ترجمہ اور وضاحت کریں۔ -جواب:  ترجمہ: جس نے میری اطاعت کی بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امام کی اطاعت کی یقیناً اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ اس سے ظاہر ہے کہ امامؑ خدا اور رسولؐ کی طرف سے مقرّر ہے، لہٰذا اس کی اطاعت فرض ہے، چونکہ اسلام زندہ مذہب ہے، اس لئے یہاں ہادیٔ برحق کی موجودگی اور اس کی اطاعت ضروری ہے۔

سوال – ۲۱۲: اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کی شان میں ارشاد فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ(۲۱: ۱۰۷) اور (اے رسولؐ) ہم نے تم کو سارے جہانوں کے حق میں از سرتاپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آپ

 

۱۷۷

 

اس امرِ واقعی کے بارے میں سمجھائیں کہ اس سرچشمۂ رحمت کا فیضان زمانۂ ماضی کے لوگوں کو کس طرح پہنچ سکتا تھا؟ جبکہ آنحضرت صلعم خاتم الانبیاء اور نبیٔ آخرین ہیں؟ -جواب:  یقیناً بظاہر ایسا ہے، لیکن سِرِّ باطن یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نورِ محمدّی کو پیدا کیا، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ = خدائے بزرگ وبرتر نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔ یہ نور فرشتۂ اعظم ہے، جو عقلِ کلّی بھی ہےاور عرشِ اعلیٰ بھی، قلمِ الٰہی بھی ہے اور آدمِ اوّل بھی، الغرض نورِ محمّدی جو رحمتِ کلّ ہے، اس سے بتوسّطِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہر زمانے کے عوالمِ شخصی کو فیضان پہنچتا رہا، انہی  معنوں میں حضورِ انورؐ جملہ پیغمبروں کے سردار اور تمام جہانوں کے لئے سرچشمۂ رحمت ہیں، آپ آنحضرتؐ کے اسمائے گرامی کو بھی غور سے دیکھیں، حضورِ پاکؐ اوّل بھی ہیں اور آخر بھی، ظاہر بھی ہیں، اور باطن بھی، پس اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ سیّد الانبیاء سارے عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کُلّ ہیں۔

سوال – ۲۱۳: رسولِ کریمؐ بحکمِ خدا مومنین کے اموال سے صدقہ لے کر ان کو پاک و پاکیزہ کیا کرتے تھے، اور ان کو آسمانی درود پہنچا کر تسکین بخشتے تھے ( ۰۹: ۱۰۳، ۳۳: ۴۳) اہلِ ایمان کی مشکل آسانی کے لئے آنحضرتؐ ہمیشہ دعا فرماتے تھے، ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر پاک کرتے اور کتاب و حکمت سکھاتے (۶۲: ۰۲) الغرض حضورِ انورؐ سے اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جتنی رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی تھیں، ان کا اِحاطۂ

 

۱۷۸

 

تحریر ہوہی نہیں سکتا، بہ ہرکیف آنحضرت صلعم کی رحلت کے بعد پیغمبرانہ وحی کا دروازہ تو بند ہوگیا، اب آپ یہ بتائیں کہ حضورِ اقدّسؐ کے علم و حکمت سے لوگ کس طرح فیضیاب ہوسکتے ہیں؟ -جواب:  آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے: انا مدینۃُ العلمِ و علیٌّ بابُھا فمن ارادَا لعلمَ فلیأتِ البابَ (شرح الاخبار) میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے پس جو شخص علم کو چاہتا ہو اس کو اسی دروازے سے آنا ہوگا۔ حضورؐ نے یہ بھی فرمایا: انا دارُ الحکمۃِ و علیٌّ بابُھا۔ (مشکوٰۃ، جلد سوم) میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم و حکمت کا دروازہ امامِ زمانؑ ہے، اور اس حقیقت میں مومنینِ بایقین کے لئے کوئی شک ہی نہیں، الحمد للہ۔

سوال -۲۱۴: آپ شروع ہی سے یہ کہتے اور لکھتے آئے ہیں کہ قیامت ایک باطنی اور روحانی واقعہ ہے، جس میں لوگوں کی صرف روحیں موجود ہوتی ہیں، یعنی لطیف ذرّات کی نمائندگی ہوتی ہے، مگر سوائے عارفوں کے کسی آدمی کو واقعۂ قیامت کی خبر نہیں ہوتی ہے، اِس حقیقت پر قرآنِ حکیم کی کون کونسی آیات شہادت دیتی ہیں؟ -جواب:  (۱) سورۂ نمل (۲۷: ۶۶) میں آیت کو پڑھیں، ترجمہ: بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ناقص رہ گیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں مبتلا ہیں، بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں، آپ اس میں خوب غور کریں کہ آخرت قیامت سے بھی آگے ہے اس کے بارے میں کامل علم ہونا چاہیئے، آخرت سے

 

۱۷۹

 

متعلّق علم الیقین، عین الیقین، اور حقّ الیقین ممکن ہے، اگر قیامت اور آخرت کو دیکھنا ممکن نہ ہوتا تو نہ فرمایا جاتا کہ وہ لوگ اس کے دیکھنے سے اندھے ہیں۔

۲۔ سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ہے، ترجمہ: اور جو اِس دُنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا (اس کی وجہ یہ ہے کہ ) وہ بہت دور کا گمراہ تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دینا ہی میں قیامت، آخرت اور بہشت کی معرفت ہوسکتی ہے (۳) سُورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۵) میں ہے: إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا  = یقیناً قیامت آنے والی ہے اور میں اسے چُھپانا چاہتا ہوں۔ یعنی قیامت روحانی اور مخفی چیز ہے۔ (۴) حدیثِ شریف ہے: مَنْ مَّاتَ فَقَد قَامَتْ قِیَامَتُہٗ (احیاء العلوم، جلد چہارم) جو کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ یعنی جو نفسانی طور پر مرجاتا ہے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور جو جسمانی موت سے مرجاتا ہے اس کی قیامت بھی برپا ہوجاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے۔

سوال – ۲۱۵: سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴) میں دو مقدّس چیزوں کی مثال بیان کی گئی ہے، وہ ایک پاک کلمہ ہے اور ایک پاک شجرہ (درخت) اس پاک کلمہ سے کیا مراد ہے؟ اور پاک درخت کونسا درخت ہے، جس کی جڑ زمین میں مضبوط اور شاخ آسمان میں پہنچی ہے؟ -جواب:   پاک کلمہ اسمِ اعظم ہے، پاک درخت نورِ نبوّت اور نورِ امامت ہے،

 

۱۸۰

 

جس میں مضبوط جڑ رسولِ اکرمؐ ہیں، اور شاخ جو عالمِ علوی میں ہے، وہ امامِ زمانؑ ہے، اسی طرح پاک کلمہ/ اسمِ اعظم ہے جو عالمِ شخصی کی زمین سے شروع ہو کر عالمِ بالا تک جاتا ہے، اسمِ اعظم حقیقت میں امامِ زمانؑ خود ہے، لیکن یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ جو اعلیٰ اسم امامؑ کسی کو عطا کرتا ہے، اس میں پہلے بحدِّ قوّت اور پھر بحدِّ فعل امامِ عالیمقام کے نور کا ظہور ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ امامِ زمانؑ اہلِ معرفت کو عالمِ شخصی میں خصوصاً حظیرۂ قدس میں علمُ الاسرار کی تعلیم دیتا ہے۔

سوال – ۲۱۶: بحوالۂ سُورۂ مائدہ (۰۵: ۴۴) یہ پوچھنا ہے کہ آیا توریت کے ظاہری الفاظ میں نور تھا یا اس کی روحانیّت میں؟ ربّانیّون (واحد ربّانی) کن حضرات کو کہا گیا ہے؟ اور احبار (واحد حِبر) کون ہیں؟ خدا کی کتاب پر گواہ (شہدأ، واحد شاھد) ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ -جواب:  (۱) ہر آسمانی کتاب کی روحانیّت میں نور ہوتا ہے (۲) ربّانیّون سے حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام مُراد ہیں (دعائم) (۳) احبار (بڑے عُلَماء) دُعاۃ ہیں (۴) اللہ کی کتاب پر گواہ عارفین ہوتے ہیں، جو کتاب کی تمام روحانی صورت کو دیکھتے ہیں اور یہ دُعاۃ ہیں۔

سوال -۲۱۷: ارشاد ہے کہ توریت اور انجیل میں ہدایت تھی اور نور تھا(۰۵: ۴۴، ۰۵: ۴۶) سوال ہے کہ ہدایت اور نور میں کیا فرق ہے؟ -جواب:  آسمانی کتاب کی روحانیّت عالمِ شخصی پر محیط ہوتی ہے،

 

۱۸۱

 

روحانی سفر کے دَوران جملہ مراحل میں ہدایت کام کرتی ہے، مگر منزلِ مقصود (حظیرۂ قدس) میں نورِ مطلق اپنا کام کررہا ہوتا ہے، جیسے ارشاد ہے: یَھْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ= اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے (۲۴: ۳۵) اس کے دو معنی ہیں، ایک ظاہری اور ایک باطنی، اس سے معلوم ہوا کہ پہلے ہدایت ہے اور آخر میں نورِ مطلق۔

سوال – ۲۱۸: سُورۂ صافات (۳۷: ۸۳) میں ہے: وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبرٰھِیْمَ =اور یقیناً نوح ہی کے پَیروکاروں میں سے ابراہیم بھی تھے۔ آپ اس کی کوئی حکمت بتائیں۔ -جواب:  یہ اس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ دَورِ نبوّت میں سِلسِلۂ انبیاء جاری تھا، جس طرح دَورِ امامت میں أئمّہ کا سلسلہ جاری ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ (۰۲: ۲۸۵) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کو بھی الگ نہیں مانتے (بلکہ سب کو ایک ہی سلسلہ تسلیم کرتے ہیں)۔

سوال – ۲۱۹: اللہ تعالیٰ کی رسّی (۰۳: ۱۰۳) کب سے ہے؟ اور اس سے کیا مراد ہے؟ -جواب:  خدا کی رسّی جو بہت ہی مضبوط اور بہت ہی طویل ہے، وہ ہمیشہ اور قدیم ہے، اس سے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا سلسلۂ نور مراد ہے، جو حضرتِ آدم سے چلا آیا ہے۔

 

۱۸۲

 

سوال – ۲۲۰: آیا صراطِ مستقیم، حبل اللہ (خدا کی رسّی) اور نورِ مُنَزَّل الگ الگ تین چیزیں ہیں، یا یہ ایک ہی حقیقت کے تین نام ہیں؟ -جواب:  یہ تینوں نام اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نام اور بہت سی مثالیں پیغمبرؐ اور امامؑ کے لئے ہیں۔

 

۱۸۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۳

 

سوال -۲۲۱: سُورۂ اَنعام(۰۶: ۵۹) میں ہے: اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سورۂ زمر (۳۹: ۶۳) میں ہے: آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اور سُورۂ شوریٰ (۴۲: ۱۲) میں ہے: آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اِن کُنجیوں سے کیا مُراد ہے؟ -جواب: اللہ کی کنجیاں یہ ہیں: عشقِ سماوی، اسماء الحُسنیٰ، کلماتِ تامّات، اذکار، اور عبادات بشرطِ تائیداتِ غیبی، تاکہ علم و حکمت کے ابواب مفتوح ہوجائیں۔

سوال -۲۲۲: سُورۂ اعراف (۰۷: ۴۰) کے حوالے سے سوال ہے: سُوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزر جانا مفروضہ ہے یا امکانی اور تاویلی مثال ہے؟ -جواب: مفروضہ نہیں، بلکہ تاویلی مثال ہے: (۱) کوئی شخص کتنا بڑا آدمی کیوں نہ ہو، لیکن اس کو چاہیئے کہ روحانی ترقی کی خاطر وہ خود کو عاجز، حقیر اور ذرّۂ بیمقدار قرار دے (۲) جب سالک اسرافیل اور عزرائیل کی منزل میں داخل ہوجاتا ہے تو اس کی باطنی ہستی ذرّات میں بکھر جاتی ہے، اور وہ ذرّات اتنے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں کہ یقیناً سُوئی کے ناکے سے بہ آسانی

 

۱۸۴

 

گزر سکتے ہیں۔

سوال – ۲۲۳: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۵۰) میں ہے: یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لئے راستہ بنایا، پھر اس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا، پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا، آیا اس واقعہ کی کوئی تاویل بھی ہے؟ اگر تاویل ہے تو بتائیں کہ وہ کیا ہے اور کیسی ہے؟ -جواب: روحانیّت اور علم کی مثال پانی ہے، پانی سے آبادی بھی ہوتی ہے، اور وہ باعثِ غرقابی بھی ہے، چنانچہ حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام کی طوفانی روحانیّت سے بنی اسرائیل تو گزر گئے، مگر فرعون اور اس کے لوگ اس میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔

سوال – ۲۲۴: اس سوال کا تعلّق سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) سے ہے کہ ربّ العزّت نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیّت کو لیا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بنایا، یعنی انہوں نے اپنی روح کا مشاہدہ کیا، پھر پوچھا: کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے ربّ ہیں ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔ یہ عہدِ الست کا واقعہ عارف کی انفرادی قیامت کا حصّہ ہے یا یہ کوئی الگ واقعہ ہے؟ کیا بنی آدم سے سب لوگ مراد ہیں یا کچھ خاص لوگ بنی آدم ہیں؟ الستُ بربُکم کا سوال کس منزل میں ہوا؟ -جواب: (۱) عہدِ الست ہر عارف

 

۱۸۵

 

کی قیامت کا حصّہ ہے (۲) بنی آدم درحقیقت کاملین و عارفین ہی ہیں (۳) الست بربّکم کا سوال حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے۔

سوال -۲۲۵: قرآنِ حکیم کی روشنی میں بتادیں کہ ذکر (یاد) خود ربّ کا ہونا چاہیئے یا ربّ کے اسم کا؟ اور کس طرح؟ -جواب: جس کو دیدارِ باطن کی سعادت نصیب ہوئی ہے وہ ربّ اور اسمِ ربّ دونوں کو یاد کرسکتا ہے، اور جن کو ابھی روحانی دیدار نہیں ہوا ہے، وہ اللہ کے زندہ اسمِ مبارک کو یاد کریں گے، کیونکہ یاد اس چیز کی ہوسکتی ہے، جس کا کبھی مشاہدہ ہُوا ہو، مگر اَن دیکھی چیز کی یاد ممکن نہیں۔

سوال – ۲۲۶: اُس آیۂ کریمہ کا حوالہ کیا ہے، جس میں اسمِ خدا کو یاد کرنے کا حکم ہے؟ اور وہ آیۂ مقدّسہ کونسی ہے، جس میں خداوند تعالیٰ کے مبارک دیدار کا تذکرہ یا اشارہ ہے؟ -جواب: (۱) سُورۂ مُزّمِل (۷۳: ۰۸) میں ہے: اور اپنے ربّ کے نام کا ذکر کئے جاؤ …. (۲) سورۂ اعراف کے آخر (۰۷: ۲۰۵) میں ہے: اور اپنے پروردگار کو اپنے عالمِ نفسی (عالمِ شخصی) میں تضرع و خوف سے اور آہستہ و آرام سے صبح و شام یاد کرو اور غافلوں سے نہ ہوجاؤ۔ یعنی تم کو عالمِ شخصی میں جہاں جہاں پاک و برتر دیدار حاصل ہوا تھا، اُس کو گریہ وزاری کے انداز میں آہستہ یاد کرو۔

سوال -۲۲۷: سُورۂ بقرہ کی ایک پُراز حکمت آیت (۰۲: ۱۵۲)

 

۱۸۶

 

کا ترجمہ ہے: لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو، کفرانِ نعمت نہ کرو۔ یہ تو معلوم ہے کہ بندے کس طرح خدا کو یاد کرتے ہیں، آپ صرف یہ بتائیں کہ اللہ اپنے بندوں کو کس طرح یاد رکھتا ہے؟ -جواب: یہ مثال ہے مگر اس کی تاویل اس طرح سے ہے کہ نورِ صفاتِ خداوندی ہمیشہ ہمیشہ سورج کی طرح ضوفشانی کرتا رہتا ہے، خدا اپنے نورِ رحمت کی کرنوں کو کبھی روکتا نہیں، مگر بندہ خود اپنی غفلت و نافرمانی سے رکاوٹوں کو پیدا کرتا ہے، جن کی وجہ سے بندہ فیضانِ رحمت سے محروم رہتا ہے۔

سوال – ۲۲۸: اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو بھی یاد کرنے کا حکم ہے، وہ یاد کس طرح ہوگی؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور شکرگزاری اس کی نعمتوں کی مناسبت سے کرنا (۲) آپ کو خدا نے ظاہری دولت دی ہے، یا علمی دولت عطا کی ہے، یا کوئی اور چیز جس سے آپ لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو یہ اس کی نعمتوں کی علمی یاد اور عملی شکرگزاری ہے (۳) اگر کوئی شخص اہلِ معرفت میں سے ہے وہ بھی باطنی نعمتوں کو منعمِ حقیقی کے ساتھ یاد کرسکتا ہے۔

سوال -۲۲۹: قرآنِ پاک آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر نازل ہُوا تھا (۰۲: ۹۷، ۲۶: ۱۹۴) لہٰذا اللہ کی کتاب حضورِ انورؐ کی روحانیّت و نورانیّت میں بلا کم و کاست موجود تھی، اگرچہ ظاہر میں بھی بتدریج یہ پاک کتاب (قرآن)

 

۱۸۷

 

لکھائی گئی تھی، اب سوال یہ ہے کہ دورانِ تنزیل اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولؐ سے فرمایا: وَاذ کُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمَ / ابرٰھیمَ /موسیٰ/ اسماعیلَ/ادریس۔ حوالہ جات: ۱۹: ۱۶، ۱۹: ۴۱، ۱۹: ۵۱، ۱۹: ۵۴، ۱۹: ۵۶، اس فرمانِ الٰہی کے مطابق آیا پیغمبرِ اکرمؐ نے ان حضرات کو کتابِ ظاہر میں یاد کیا یا کتابِ باطن میں؟ -جواب: انبیاء و اولیاء کے زندہ معجزات عالمِ شخصی ہی میں محفوظ ہوتے ہیں، لہٰذا حضورِ پاکؐ نے باطنی کتاب (عالمِ شخصی) میں ان سب کو روحانی حالت میں دیکھا اور یاد کیا، کیونکہ کسی چیز کو دیکھے بغیر اس کی یاد ممکن نہیں۔

سوال – ۲۳۰: پیغمبر اکرم صلعم کے بابرکت اسماء میں سے ایک اسم “ذکر” ہے (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) اس کی وجہِ تسمیہ کیا ہے؟ -جواب: (۱) ذکر اسمِ اعظم کو کہتے ہیں، آنحضرتؐ اپنے وقت میں اسمِ اعظم تھے (۲) ذکر (نصیحت) قرآن ہے اور رسولؐ قرآنِ ناطق تھے (۳) ذکر کے معنی ہیں ہمیشہ یاد کرنا اور کبھی نہ بھولنا، رسولؐ کی مبارک جبین میں ہر وقت خود بخود ذکرِ الٰہی جاری و ساری رہتا تھا، اور آپؐ جب خود قرآنِ ناطق تھے تو قرآنِ صامت کو کیسے فراموش کرسکتے تھے (۴) پس ذکر بہ ہر معنی رسولؐ کا نام ہے، اوراہلِ ذکر اہلِ رسول یعنی أئمّۂ طاہرینؑ ہیں۔

 

۱۸۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۴

 

سوال – ۲۳۱: سُورۂ صٰفٰت (۳۷: ۷۹) میں ہے: سَلٰمٌ عَلیٰ نُوْحٍ فی الْعٰلَمِینَ۔ اس کی کیا تاویل ہے؟  -جواب:  اس کی تاویل ہے کہ حضرتِ نوحؑ ہر عالمِ شخصی میں اپنے روحانی معجزات کے ساتھ زندہ اور سلامت ہیں۔ اسی طرح حضرتِ ابراہیمؑ (۳۷: ۱۰۹) حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ (۳۷: ۱۲۰) حضراتِ آلِ یاسین (آلِ محمّد) (۳۷: ۱۳۰) اور جُملہ مرسلین (۳۷: ۱۸۱) ہر ہر عالمِ شخصی میں اپنے اپنے پیغمبرانہ معجزات کے ساتھ زندہ اور سلامت ہیں، اور خدا کے تمام برگزیدہ بندے بھی عالمِ شخصی کی بہشت میں زندہ اور سلامت ہیں (۲۷: ۵۹)۔

سوال – ۲۳۲: سُورۂ انبیاء (۲۱: ۱۸) میں یہ ارشاد ہے: بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلیَ الْبَاطِلِ فَیَدْ مَغُہٗ فَاِذَا ہو زَاھِقٌ۔ اس کا ترجمہ اور خُلاصۂ مطلب کیا ہوگا؟ -جواب:  ترجمہ: بلکہ ہم حق بات کو باطل پر پھینک مارتے ہیں سو وہ (حق) اُس (باطل) کا بھیجا نکال دیتا ہے پھر وہ (باطل) دفعۃً نابود ہوجاتا ہے۔ اس کا یہ اشارہ ہے کہ باطل ہمیشہ باطل ہی ہے، لیکن حق کے ذریعے سے اس کو توڑ دینے

 

۱۸۹

 

کے بعد کوئی راز معلوم ہوجاتا ہے۔

سوال – ۲۳۳: آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں ہے: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعدِ دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں نشانیاں ہیں اہلِ عقل کے لئے جن کی یہ حالت ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد کرتے ہیں کھڑے بھی بیٹھے بھی لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار آپ نے اس کو لایعنی پیدا نہیں کیا ہم آپ کو مُنَزہ سمجھتے ہیں سو ہم کو عذابِ دوزخ سے بچا لیجئے۔ اس کی بعض حکمتیں بیان کریں۔ -جواب:  (۱) کائنات آنے والے کل کی بہشت ہے (۲) ستاروں پر لطیف سلطنتیں ہیں (۳) رات اور دن کے گردش سے جو دائرہ بنتا ہے، اس میں ہزاروں اشارے ہیں (۴) اہلِ عقل کی ایک بڑی عجیب تعریف یہ بھی ہے کہ وہ کھڑے بھی بیٹھے بھی اور لیٹے بھی خدا کو یاد کرتے ہیں۔

سوال -۲۳۴: سُورۂ نور (۲۴: ۵۵) میں آیۂ اِستِخلاف ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے؟ اللہ نے تم میں سے صاحبانِ ایمان و عملِ صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے

 

۱۹۰

 

تبدیل کردے گا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہو جائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق اور بدکردار ہیں (۲۴: ۵۵)۔

اس ارشاد میں سے کچھ حکمتیں بتائیں۔ -جواب:  (۱) یہ وعدۂ الٰہی اہلِ معرفت سے ہے (۲) زمین صرف یہی نہیں جس پر آج ہم سب بس رہے ہیں، بلکہ اللہ کی زمینیں بے شمار ہیں، کیونکہ ہر عالمِ شخصی ایک کائنات ہے (۳) ہر آدمی بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی اور ایک کائنات ہے، ہر عالمِ شخصی جو بحدِّ فعل ہو، اس کی بہت سی کاپیاں بھی ہوتی ہیں (۴) خلافتِ الٰہیّہ کے معنی بہت ہی اعلیٰ ہیں (۵) خداوندِ عالم اپنے خاص بندوں کو تاجِ خلافت سے نوازتا ہے (۶) ہر پیغمبر اور ہر امام خلیفہ ہوتا ہے، لیکن ہر خلیفہ نبی یا امام نہیں ہوتا (۷) ہم نے قبلاً بیان کیا ہے کہ ہر قیامت میں دینِ حق غالب ہوجاتا ہے (۸) شرک کے بغیر عبادت کرنے کا راز نظریۂ یک حقیقت کی معرفت میں ہے۔

سوال -۲۳۵: سُورۂ لُقمان (۳۱: ۱۲) میں ارشاد ہے: اور ہم نے لُقمان کو حکمت عطا فرمائی (اور کہا) اللہ کا شکر ادا کرو، بےشک جو شکر ادا کرے گا وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے شکر ادا کرے گا اور جو شخص کُفران کرے گا (تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں دے گا) کیونکہ اللہ تعالیٰ بے نیاز (اور) لائقِ تعریف ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت لقمان کو نبوّت یا امامت عطا ہوئی تھی؟ حکمت اور شکر میں کیا لُزُوم ہے؟

 

۱۹۱

 

-جواب:  (۱) حضرتِ لقمانؑ نورِ نبوّت اور نورِ امامت کا عاشقِ صادق تھا، جس کی برکت سے اس کو وہ سب سے عظیم خزانہ ملا، جس میں سب کچھ ہے، کیونکہ اس میں تمام خزانے محدود ہیں (۲) حکمت سکھانا الگ ہے، اور حکمت دینا الگ، اگر حکمت کی تعریف و وضاحت کی جائے تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی، کیونکہ حکمت کے حقیقی معنوں میں تمام نعمتیں جمع ہو جاتی ہیں، ساری دنیا لقمان کو حکیم تو کہتی ہے، یہ تو ظاہری حکمت کی بات ہوئی، لیکن اس کی باطنی اور روحانی حکمت کی خبر صرف اہلِ معرفت ہی کو ہے (۳) چونکہ حکمت خیرِ کثیر ہے، لہٰذا اس انتہائی عظیم خزانے کے ملنے پر اللہ کا شکر واجب ہوتا ہے۔

سوال -۲۳۶: حضرتِ مُوسیٰ علیہ السّلام کے عصا کی کیا تاویل ہے؟ عصائے موسیٰؑ کا نہایت زبردست اور غالب معجزہ سانپ (حَیَّۃ۲۰: ۲۰) اژدھا (ثُعبان ۰۷: ۱۰۷، ۲۶: ۳۲) اور باریک سانپ (یا جِنّ و پری ۲۷: ۱۰، ۲۸: ۳۱) کی شکل میں ہوتا تھا، اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب:  (۱) حضرتِ موسیٰؑ کے عصا کی چند تاویلیں ہیں: بنیادی طور پر اسمِ اعظم، وزیر یعنی حضرتِ ہارونؑ، عالمِ شخصی کہ وہ ساری کائنات کو نگل لیتا ہے، حظیرۂ قدس کہ وہ عالمِ شخصی کو نگل لیتا ہے، علم الامام کیونکہ وہ تمام علوم پر محیط ہے، اور جسمِ لطیف جو بڑا زبردست اور غالب جِنّ ہے، جو تمام باطل قوّتوں کو نگل لیتا ہے (۲) تمام مشہور جانوروں میں صرف سانپ ہی ایک ایسا جانور ہے جو کُنڈلی مار کر گول بھی ہوسکتا ہے، اور کُھل

 

۱۹۲

 

کر لمبا بھی ہوسکتا ہے، یہ فعلِ قدرت کی طرف ایک اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات سمیت ہر چیز کو لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے، اژدھا اور جِنّ معجزۂ عصا کی بےقیاس طاقت اور غالبیّت کی علامت ہے۔

سوال – ۲۳۷: “وحدتِ کثرت نُما” آپ کی اصطلاحات میں سے ہے، اس کے معنیٰ و مثال کیا ہے؟ -جواب:   معنیٰ ہے: ایک ایسی چیز جس کے باطن میں وحدت ہو اور ظاہر میں کثرت، جیسے انسان کہ باطن میں ایک وحدت ہے اور ظاہر میں کثرت، مثلاً تمام نفوسِ خلائق جب نفسِ واحدہ میں ہوتے ہیں تو وہ سب ایک ہی جان کی حیثیت سے ہوتے ہیں، لیکن جہاں نسل کے طور پر پھیلے ہوئے ہیں، اس میں ان کی کثرت ہوتی ہے، جیسے پانی کہ اس کے کُلّ سے اگر ایک طرف اجزاء بن جاتے ہیں تو دوسری طرف یہ اجزاء واپس کُلّ سے مل بھی جاتے ہیں، لہٰذا آپ پانی کی صورتِ حال کو وحدتِ کثرت نُما کہہ سکتے ہیں۔

سوال – ۲۳۸: یہ سوال ان لوگوں سے متعلّق ہے جن کی اس بات پر قرآن کا اعتراض ہے کہ وہ فرشتوں کو عورتیں سمجھتے ہیں، اس کا تاویلی بھید کیا ہے؟ -جواب:  اس حقیقت میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں کہ مومنین و مومنات علم و عبادت کی روحانی ترقّی سے فرشتے ہوجاتے ہیں، مگر جب خواب میں فرشتہ کسی وجہ سے زنانہ شکل میں آتا ہے تو اس کو عورت سمجھنا درست نہیں، مثال کے طور پر ایک مومن

 

۱۹۳

 

شخص کو کسی حکمت نے محبوس کیا تھا، اس نے خواب میں اپنی ایک بہن کو دیکھا، جس کا نام نجات تھا، یہ دراصل فرشتہ تھا، فرشتہ کبھی کلام کرتا ہے اور کبھی اشارہ، چونکہ اسمِ “نجات” میں رہائی کے معنی ہیں، لہٰذا فرشتہ بی بی نجات کے روپ میں آکر مومن کو اشارہ کر رہا تھا کہ تم کو اس قید سے بہت جلد رہائی ملنے والی ہے۔ حوالہ جات: ۱۷: ۴۰، ۴۳: ۱۹، ۵۳: ۲۷، الحمد للہ۔

سوال -۲۳۹: سُورۂ فجر (۸۹: ۲۲) میں ارشاد ہے: وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً۔ اس کی تاویلی حکمت بیان کریں۔ -جواب:   ترجمہ: اور تمہارا ربّ اور جوق جوق فرشتے آئیں گے۔ کاملین و عارفین کی ذاتی اور نمائندہ قیامت میں یہ عظیم واقعہ دو بار پیش آتا ہے، ایک دفعہ عالمِ شخصی میں، اور دوسری دفعہ حظیرۂ قدس میں، دونوں مقام پر اس واقعہ میں بڑا عجیب فرق یہ ہے کہ عالمِ وحدت (حظیرۂ قدّس) میں صرف ایک ہی مظہرِ کُلّ ہے، کہ وہی جُملہ حقائق و معارف کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے، جیسا کہ سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) میں ارشاد ہُوا ہے۔

سوال – ۲۴۰: بحوالۂ سورۂ حج (۲۲: ۴۶) سوال ہے: وہ زمین کونسی ہے جس میں چلنے پھرنے سے لوگوں کے قلوب عاقل و دانا ہوجاتے ہیں یا ان کے کان حقائق و معارف کو سُننے والے ہوتے ہیں؟ جو لوگ بفرمودۂ قرآن اندھے ہیں، آیا وہ سر کی آنکھ سے اندھے ہیں یا دل کی آنکھ

 

۱۹۴

 

سے؟ -جواب:  (۱) عالمِ شخصی ہی کی زمین ایسی ہے کہ اس میں روحانی طور پر چلنے پھرنے سے دلوں کو عقل و دانش اور علم و حکمت حاصل ہو جاتی ہے، اور کان اس قابل ہوجاتے ہیں کہ حقیقتوں اور معرفتوں کو حسن و خوبی سے سُن سکتے ہیں (۲) قرآنِ حکیم ان دلوں کی مُذمّت کرتا ہے جو اندھے ہیں، جیسا کہ سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ہے: اور جو شخص اِس دنیا میں اندھا بنا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور (معرفت کے) رستہ سے بہت دُور بھٹکا ہُوا۔

 

۱۹۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۵

 

سوال- ۲۴۱: یقین کے تین درجے مانے جاتے ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حقّ الیقین، آیا اِن درجات کا ذکر قرآنِ مقدّس میں موجود ہے؟ کِس سورہ اور کس آیہ میں؟ -جواب:  جی ہاں، قرآنِ حکیم میں یقین کے تینوں درجات کا ذکر آیا ہے، علم الیقین اور عین الیقین کی تعریف و توصیف سُورۂ تکاثر ( ۱۰۲: ۵، ۱۰۲: ۰۷) میں ہے، اور حقّ الیقین کی حکمت سُورۂ واقعہ (۵۶: ۹۵) اور سُورۂ حاقّہ (۶۹: ۵۱) میں ہے۔

سوال- ۲۴۲: جو عارفین جیتے جی مرکر زندہ ہوجاتے ہیں، آیا وہ غیر معمولی چیزیں دیکھ سکتے ہیں؟ کیا ان پر قیامت گزر چُکی ہوتی ہے؟ آیا جہادِ اکبر کا دوسرا نام روحانی جنگ ہے؟ جنگِ روحانی میں جو لوگ شہید ہوجاتے ہیں، ان کا ذکر قرآنِ پاک میں کہاں کہاں ہے؟ کہتے ہیں کہ عُرَفاء ہی شہدائے باطن ہیں، یہ قول کس حد تک درست ہے؟ عارف اس شخص کوکہتے ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے، اور پہچان دیدار کے بغیر محال ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب:  (۱) یقیناً عارفین ظاہراً وَباطناً غیر معمولی چیزوں کا

 

۱۹۶

 

مُشاہدہ کرتے ہیں (۲) اُن پر قیامت گزرچکی ہوتی ہے (۳) جی ہاں، جہادِ اکبر کا دوسرا نام روحانی جنگ ہے (۴) ہر اُس آیت میں روحانی شہادت کا ذکر موجود ہے جس میں ظاہری شہادت کا بیان ہو (۵) یقیناً یہ قول حقیقت ہے کہ عُرَفاء ہی شہیدانِ باطن ہیں (۶) اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ عارف وہ شخص ہے جو اپنی روح کو اور اپنےربّ کو پہچانتا ہے، اور حصولِ معرفت کی یہ سب سے عظیم سعادت مشاہدۂ روح اور دیدارِ اقدسِ الٰہی کے بعد ہی ممکن ہوجاتی ہے۔

سوال – ۲۴۳: اب آپ قرآنِ عظیم کے حوالے سے ہمیں یہ سمجھائیں کہ اگر اہلِ معرفت کو حضرتِ ربّ کا اوّلین دیدار دنیا ہی میں نصیب ہو جاتا ہے، تو اُس حقیقت کی روشن دلیل کیا ہے؟ -جواب:  (۱) سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ہے: اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا اور زیادہ راہ گُم کردہ ہوگا۔ اس کا تابان و درخشان نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عارفوں کو چشمِ بصیرت عطا ہو جاتی ہے، جس سے وہ حق تعالیٰ کی تجلّیات کو دیکھتے ہیں، ورنہ معرفت کیونکر ممکن ہوسکتی ہے (۲) سُورۂ شوریٰ (۴۲: ۵۱) میں ہے: کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُو بُرو بات کرے، اس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، وہ برتر اور حکیم ہے۔ (۳) اس آیۂ کریمہ کی تفسیر جتنی مشکل

 

۱۹۷

 

ہے، اُتنی مفید بھی، بعض عُلَماء کہتے ہیں کہ وحی دوقسم کی ہوتی ہے: انبیائی وحی اور اولیائی وحی، نبی کو جو وحی ہوتی ہے، اس سے نبوّت کے جُملہ امور انجام پاتے ہیں، ہاں یہ بات وحی پر عمل ہونے کے اعتبار سے درست ہے، لیکن حقیقت میں وحی ایک ہی ہے، جس کی روشنی میں نبی اور ولی (امام) دونوں اپنا اپنا کام کرتے ہیں، ولی یعنی امام کا کام یہ ہے کہ وہ نبی کی نبوّت کی گواہی دیتا ہے اور تصدیق کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ آسمانی کتاب کی تاویل بیان کرتا ہے، انبیاء و اولیا علیہم السّلام کے بعد وہ حدودِ دین ہیں، جو معرفت کے درجے پر فائز ہو چکے ہیں۔

سوال -۲۴۴: آپ یہ بتائیں کہ معرفت کی رسائی کیا ہے؟ کیا کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو دائرۂ معرفت سے بیرون اور بالاتر ہوں؟ پروردگار کی معرفت کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ -جواب:  (۱) معرفت ایک ہمہ رس اور ہمہ گیر حقیقت ہے، آپ اندازہ کریں کہ جب حضرتِ ربّ کی معرفت ممکن ہے تو پھر اس کے بعد ایسی کوئی چیز کہاں ہے اور کیا ہے، جس کی معرفت نہ ہو سکے (۲) پروردگار کی معرفت خود اس کی رحمت و مہربانی اور ذرائع و اسباب سے حاصل ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہادیٔ برحق کو مقرّر فرمایا، تاکہ و ہ راہِ مستقیم پر لوگوں کی رہنمائی کرے اور انہیں دیدار و معرفت کی منزلِ مقصود تک پہنچائے (۳) خداوندِ عالم نے لوگوں کو اس لئے پیدا کیا کہ وہ دین شناس، خود شناس

 

۱۹۸

 

اور خدا شناس ہو جائیں۔

سوال -۲۴۵: سُورۂ اعراف کے ایک عظیم الشّان ارشاد ہے (۰۷: ۱۱) کا ترجمہ ہے: اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے ہی تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجُز ابلیس کے وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ آپ اِس آیۂ مبارکہ کی کچھ حکمتوں کو بیان کریں۔ -جواب:  (۱) مومنین اور مومنات کی جسمانی تخلیق و تکمیل کے بعد روحانی کمال ہے، بعد ازان عقلی صورت عطا ہوجاتی ہے (۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ پرہیزگار لوگ حظیرۂ قدس کی جنّت میں داخل ہوتے ہی اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوجاتے ہیں، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا (۳) اب یہاں خدا کے حکم سے فرشتے آدم کو دوسری دفعہ سجدہ کرتے ہیں، انہوں نے پہلی بار عالمِ ذرّ میں سجدہ کیا تھا (۴) چونکہ مُتّقین نہ صرف حظیرۂ قدس میں جا کر آدمؑ اور صورتِ رحمان ہوجاتے ہیں، بلکہ وہ عالمِ شخصی میں شروع ہی سے آدمِ زمانؑ کے ساتھ ایک ہورہے تھے (۵) الغرض اس آیۂ کریمہ کی دُہری حکمت یہ ہے کہ فرشتوں نے بحکمِ خدا آدمؑ کو سجدہ کیا، ساتھ ہی ساتھ مُتقین کو سجدہ کیا، کہ وہ آدمؑ میں بھی تھے، اس کی کاپیاں بھی ہوگئے تھے۔

سوال -۲۴۶: بحوالۂ ہزار حکمت (ح، ۶۹۰) حدیثِ شریف کا ترجمہ ہے: تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک ساتھی جِنّوں میں سے ہے اور

 

۱۹۹

 

ایک ساتھی فرشتوں میں سے اس صورتِ حال کا اشارہ قرآنِ حکیم میں ہے؟ -جواب:  اس کا ایک اشارہ سُورۂ شمس (۹۱: ۰۸) میں ہے، وہ ارشاد یہ ہے: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھٰا= پھر اس (انسانی نفس) کی بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں باتوں) کا اس کو الہام کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا نے ایک جِنّ اور ایک فرشتے کو مقرر کیا، تاکہ انسان کے یہ دونوں ساتھی اس کی قلبی حالت و کیفیّت پر نظر رکھتے ہوئے اپنا اپنا کام کریں۔

ہر شخص کے ان دونوں ساتھیوں کا تذکرہ یا اشارہ سُورۂ زُخرف (۴۳: ۳۶) میں بھی ہے، جیسا کہ آیۂ شریفہ کا ترجمہ ہے: اور جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مُسلّط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ اس کا اشارہ یہ ہُوا کہ ہر آدمی کے ساتھ پہلے ہی سے ایک شیطان (جِنّ) اور ایک فرشتہ مُؤکّل ہیں۔

سوال – ۲۴۷: سُورۂ نحل (۱۶: ۴۳) کے حوالے سے سوال ہے، کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اہلِ ذکر کون ہیں؟ ان کا یہ نام کن معنوں کا حامل ہے؟ -جواب:  جیسا کہ قبلاً ذکر ہوچکا ہے کہ “ذکر” اسمائے رسولؐ میں سے ہے، لہٰذا اہلِ ذکر أئمّۂ طاہرین ہیں، جو اہلِ رسولؐ ہیں، یہی حضرات اہلِ قرآن اور اہلِ اسمِ اعظم بھی ہیں، اور ان کی روحانیّت و نورانیّت میں انبیائے کرام علیہم السّلام کے تمام باطنی اور روحانی معجزات و واقعات ریکارڈ ہیں ( ۳۶: ۱۲) یہی سبب ہے کہ لوگوں سے فرمایا گیا: اگر تم

 

۲۰۰

 

خود (پیغمبروں کے بارے میں) نہیں جانتے تو اہلِ ذکر (أئمّہ) سے پوچھ لو۔

سوال -۲۴۸: اہلِ ذکر سے ہم کس طرح علم و خبر کی باتیں پوچھ سکتے ہیں؟ آیا اس امر کے لئے کوئی خاص نظام مقرر ہے؟ اگر نظام ہے تو کب سے ہے؟ -جواب:  ایسے سوالات کا احساس سب کو ہونا چاہیئے، جی ہاں، خاص قانون ہے، جو زمانۂ آدم سے ہے، اور وہ ہے ابتدائی علم، عبادت، عشقِ سماوی، اور اسمِ اعظم، تاکہ عالمِ شخصی کا دروازہ کُھل جائے، کیونکہ اہلِ ذکر کا نورانی مدرسہ عالمِ شخصی ہی میں ہے، اہلِ ذکر یعنی امامؑ سے پوچھنے کا طریقہ یہی ہے۔

سوال – ۲۴۹: آپ کے نزدیک “فنا فی الامام” حقیقت ہے، لہٰذا ہمیں قرآن کی روشنی میں سمجھادیں کہ یہ امرِ واقعی کس طرح سے ہے؟ -جواب:   فنا دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک شُعوری فنا ہے، اور دوسری غیر شعوری فنا، پس لوگ شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر اپنے امامِ زمان علیہ السّلام میں فنا ہوجاتے ہیں، جیسا کہ سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱) میں ارشاد ہے: یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْ = جس دن ہم اہلِ زمانہ کو ان کے امام کے ساتھ (یعنی اس کی روحانیّت میں) بلائیں گے۔ ایسے میں روحانی قیامت کے زیر اثر سب لوگ فنا ہوجائیں گے، اگر کوئی شخص اس واقعۂ عظیم کو دیکھ رہا ہے تو یہ اس کی

 

۲۰۱

 

شعوری فنا اور آغازِ سلسلۂ معرفت ہے، مگر ہاں، آپ علم الیقین کے وسیلے سے حقائق و معارف کو سمجھ سکتے ہیں۔

فنا فی الامام کی دوسری دلیل یہ ہے: کُلُّ شَیْ ءٍ ہالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ (۲۸: ۸۸) ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرہ (یعنی امام) کے۔ یہ مُنظّم ہلاکت اور قیامت کا ذکر ہے، جس میں سب لوگ بالآخر چہرۂ خدا (امام) میں فنا ہوکر صورتِ رحمان ہوجاتے ہیں۔

تیسری دلیل: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ  وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلاَلِ وَالاِكْرَامِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) ہر عالمِ شخصی کی بھری ہوئی کشتی میں جتنے بھی ہیں وہ سب فنا ہونے والے ہیں اور صرف تیرے رب کا چہرہ (امام) جو باجلالت اور صاحبِ کرامت ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔ یہ بھری ہوئی کشتی یا پانی پر ربّ العزّت کا عرش (تخت) نور = فرشتۂ اعظم = امام ہے، جو ہمیشہ ہمیشہ باقی ہے، اور سب اس میں فنا ہوجاتے ہیں۔

چوتھی دلیل: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر (اور گِن کر) رکھا ہے (۳۶: ۱۲) کیونکہ روحانی قیامت امامِ زمان کے عالمِ شخصی میں ہوتی ہے، جس میں خدا کائنات اور مخلوقات کو لپیٹ لیتا ہے، اور اس وجہ سے تمام لوگ امامِ زمانؑ میں فنا ہوجاتے ہیں۔

سوال -۲۵۰: بعض لوگوں کو ہمارے اس طریقِ کار سے بڑا تعجّب ہوتا ہے کہ ہم اکثر تاویلات کو امام سے ملاتے ہیں، اور علمی بیان میں بار بار اسی کا ذکر کرتے ہیں، کیا آپ کے پاس کوئی ایسی قرآنی دلیل ہے،

 

۲۰۲

 

جس سے یہ ثابت ہوجائے کہ ہم امامِ مبین علیہ السّلام کی جتنی بھی تعریف و توصیف کریں وہ بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے؟ -جواب:  (۱) چونکہ امامِ آلِ محمّدؐ وہ کتابِ ناطق ہے جو روحانیّت  و نورانیّت میں خدا کے پاس ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) جس کی تاویلی حکمت سے قرآنِ صامت کی ہر آیت بھری ہوئی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قرآنِ حکیم کی آیات میں سے کوئی آیت ایسی نہیں جس میں براہِ راست یا بالواسطہ امامِ عالیمقامؑ کا کوئی ذکر نہ ہو(۲) سُورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) اور سُورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں اللہ تعالیٰ کی جس بولنے والی کتاب کا ذکر آیا ہے، وہ یقیناً نورِ امامت ہی ہے جو روحُ القرآن بھی ہے (۴۲: ۵۲) اور اہلِ ایمان کا نامۂ اعمال بھی، پس قرآنِ صامت کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت قرآنِ ناطق میں موجود ہے، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ نے امام کو تاویلی مرکز قرار دیا ہے۔

۳۔ قرآن علم و حکمت کی لطیف کائنات ہے، اللہ جّلا جلالہ اس کو امامِ مُبین (۳۶: ۱۲) میں لپیٹتا بھی ہے، اور وہاں سے پھیلاتا بھی ہے (۴) قرآنی جواہر و اسرار کس طرح یکجا اور مرکوز ہوجاتے ہیں، اس کی مثال کتابِ مکنون (۵۶: ۷۵ تا ۷۹) کے تذکرہ میں ہے، جیسا کہ ارشاد کا ترجمہ ہے: میں (حظیرۂ قدس کے) تاروں کے گِرنے کی قَسم کھاتا ہوں، اگر تم کو اس مقام کا علم ہے تو یہ بہت بڑی قَسم ہے، بات یہ ہے کہ وہ قرآن بڑا محترم ہے، جو ایک پوشیدہ کتاب (یعنی کتابِ مکنون) میں رکھا گیا ہے، اسے پاک و پاکیزہ اشخاص کے سِوا کوئی چُھو نہیں سکتا ہے۔ اس کا مطلب

 

۲۰۳

 

یہ ہوا کہ حظیرۂ قدس کے معجزات تک رسا ہوکر کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لینے والے حضرات صرف أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی ہیں، الغرض آپ قرآنِ حکیم کی ہر ہر آیت میں چشمِ بصیرت سے دیکھیں، تاکہ آپ کو ایک ساتھ قرآن اور امام کی علمی عظمت کی شان معلوم ہو سکے۔

 

۲۰۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۶

 

سوال – ۲۵۱: قلم اور اَقلام کا ذکر قرآنِ مقدّس کے چار مقامات پر ہے ( ۶۸: ۰۱، ۹۶: ۰۴، ۳۱: ۲۷، ۰۳: ۴۴) آپ یہ بتائیں کہ قلم کی تاویل کیا ہے؟ اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں وہ قلم ہوجائیں اور سمندر جس کے بعد سات سمندر اور ان کے لئے روشنائی بن جائیں تو بھی کلماتِ خدا ختم نہ ہوں گے (۳۱: ۲۷) اس آیۂ شریفہ کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ -جواب:   (۱) قلم کی تاویل ہے: عقل، نورِ عقل، گوہرِ عقل (۲) کلماتِ اللہ سے کلماتِ تامّات مراد ہیں، ان کے بے پایان علم کی یہ شان ہے کہ اگر زمین میں جتنے درخت ہیں وہ قلم ہوجائیں اور سمندر جس کے بعد سمندر اور ان کے لئے روشنائی بن جائیں تو بھی کلماتِ تامّات کی تفسیر مکمّل نہیں ہوگی۔

سوال – ۲۵۲: قرآن اور اسلام میں تَوبۃ کی بہت بڑی اہمیّت ہے، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ توبۃ کے لفظی معنی کیا ہی؟ اور اس کی حکمت کیا ہے؟ -جواب:  توبۃ کے معنی ہیں گناہ سے باز آنا، اور یہ اہلِ ایمان کے بہت سے درجات کے مطابق ہے، کیونکہ تَوبۃ کا مطلب ہے کسی مومن کا اپنے درجے کی طرف لوٹنا،

 

۲۰۵

 

اور درجے مختلف ہوتے ہیں، اس لئے کہا کہ تَوبۃ درجہ بدرجہ آگے جاتی ہے، تا آنکہ آخری درجے کی توبہ رجوع اِلی اللہ کے معنی میں ہوتی ہے، جیسے توبۂ آدمؑ تھی۔

سوال – ۲۵۳:  حدیثِ شریف ہے: وَ مَنْ تَابَ تَابَ اللّٰہُ عَلَیْہِ قَبْلَ اَنْ تَطْلُعَ الشَّمسَ مِنْ مَغْرِبِھَا = جو شخص مغرب سے سورج نکلنے سے پیشتر توبہ کرے، اللہ اس کی توبہ قبول کرےگا۔ اس کی حکمت کیا ہے؟ -جواب:  توبہ کے آفاقی معنی ہیں لوگوں کا دینِ حق کی طرف رجوع کرنا، جس کے لئے مہلت مغرب سے سورج کے طلوع ہونے تک ہے، جس سے نورِ امامت کا طلوع ہونا مراد ہے جو صرف عالمِ شخصی ہی میں ہوتا ہے، اس کے بعد روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔

یاد رہے کہ عقلِ کل نورِ وحدت کا مشرقِ مطلق ہے، نفسِ کُلّ اس کا مغرب اور ناطق کا مشرق ہے، ناطق اس کا مغرب اور اساس کا مشرق ہے، اساس اس کا مغرب اور امام کا مشرق ہے، امام اس کا مغرب اور ذیلی حدود کا مشرق ہے، چُنانچہ ان حدود کے عالمِ شخصی میں جب نورِ امامت کا طلوع ہوجاتا ہے، تو یہ نور وہاں سے طلوع ہوتا ہے، جہاں اساس کا مغرب ہے، یعنی امام سے۔

سوال – ۲۵۴: آپ کی بات سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے آفاقی معنی بھی ہیں، ہم تو توبہ کو صرف دائرۂ اسلام ہی میں محدود ایک

 

۲۰۶

 

عمل سمجھتے تھے، حالانکہ اس کا تعلق ان تمام لوگوں سے ہے، جن کی طرف اللہ نے اپنے رسولؐ کو بھیجا ہے (۰۷: ۱۵۸) نیز، یہ بھی سوچنا ہے کہ التّواب (توبہ قبول کرنے والا) جو اللہ تعالیٰ کا ایک اسمِ صفت ہے، آیا خدا کے اس نام میں اور دوسرے ناموں میں آفاقی معنی نہیں ہیں؟ اب اس کے بعد سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے چارۂ کار کیا ہے جنہوں نے مقررّہ مہلت میں توبہ نہیں کی، یعنی مسلمان نہیں ہوئے؟ -جواب:  سُورۂ ا ٰلِ عمران (۰۳: ۸۳) اور سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں طَوْعاً وَّکرھاً (خوشی سے اور بے اختیاری سے) رجوع کروانے کا جو زبردست قانونِ خداوندی ہے اس کو غور سے پڑھ لیں، طَوْعاً وَّ کَرھاً رجوع اِلی اللہ سے روحانی قیامت مراد ہے، جس کا بارہا ذکر ہوچکا ہے۔

سوال -۲۵۵: بعض حضرات کا عقیدہ یہ ہے کہ علمِ تاویل کو صرف امام علیہ السّلام ہی بیان کرسکتا ہے اور بس، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب:  یہ عقیدہ ہے علم نہیں، لہٰذا کچھ وضاحت کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے: (۱) تاویل کا اصل سرچشمہ اور جنگِ تاویل کا سردار صرف حضرتِ امامِ عالیمقامؑ ہی ہے، مگر ہر معلّم کے شاگرد اور ہر جنگی سردار کے تحت لشکر بھی ہوتے ہیں (۲) اگر آپ کسی حقیقی عالم سے سوال کریں کہ امام اپنے مریدوں کو درجہ بدرجہ علم اور تاویلی حکمت سکھا سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یقیناً نفی میں نہیں ہوگا (۳) حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ان مبارک ارشادات کو بھول نہ

 

۲۰۷

 

جانا، جو مومنین کی روحانی ترقّی سے متعلّق ہیں (۴) جب فنا فی الامام ممکن ہے تو اسی ذاتِ پاک سے علمِ تاویل کا حصول بھی ممکن ہے (۵) جہاں امام علیہ السّلام کی معرفت ہوسکتی ہے، وہاں تاویل بھی ہوسکتی ہے (۶) حضرت امامِ اقدسؑ نے اپنے جس مبارک فرمان میں باطن کی تعریف فرمائی ہے، (بمبئی ۲۲؍نومبر ۱۹۶۷ء) اس کو غور سے پڑھیں، کیا باطن کا مطلب تاویل نہیں ہے؟ (۷) آیا زمانۂ ماضی میں امام علیہ السّلام سے بعض ذیلی حدود علمِ تاویل حاصل نہیں کرتے تھے؟ کیا ہمارے مذہب میں تاویلی کتابیں نہیں ہیں؟

سوال – ۲۵۶: حق بات تویہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہر گونہ سوالات کے جوابات کے لئے ایک بہت بڑا ذخیرۂ علمی موجود ہے، یہاں پوچھنا یہ ہے کہ آپ تعلیمی سوال و جواب کو کس وجہ سے ترجیح دیتے ہیں؟ اس میں کیا راز ہے؟ -جواب:  (۱) اس عمل سے علمی گفتگو مُنظم اور منطقی ہوجاتی ہے (۲) قارئین کے لئےمطلب آسان اور دلچسپ ہو سکتا ہے (۳) سوال و جواب پر مبنی علم کی موجودگی میں بحث و مناظرہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے (۴) اس میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔

سوال – ۲۵۷: سردارِ انبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ارشاد ہے: لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ لَا یَسَعُنِیْ فِیْہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَلاَ نَبِیٌّ مُرْسَلٌ۔ کیا اس حدیثِ شریف سے ہم کچھ معرفت کی برکتیں حاصل کر

 

۲۰۸

 

سکتے ہیں؟ -جواب:  ان شاء اللہ تعالیٰ، ترجمہ: میرے لئے اللہ کے ساتھ کوئی ایک وقت ایسا آتا ہے جس میں میرے ساتھ نہ کسی مقرّب فرشتہ کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ نبیٔ مُرسل کی۔ اس ارشاد میں ایک طرف فنائیتِ مُطلّقہ کا اشارہ ہے اور دوسری جانب گوناگون تجلّیات و ظہورات کا ایما ہے، حضورِ اکرمؐ جہاں نورِ اوّل ہیں، وہاں آپ کی ازلی اور دائمی معراج ہے، اور ظہورِ قدسی و منصبِ نبوّت کے بعد جو معراج ہوئی، وہ مثالی ہے، اور وہ بھی ایک سے زیادہ ہیں، اس کے علاوہ آنحضرتؐ جب جب فراغت کے ساتھ نورانی عبادت کرتے تو اپنے آپ کو عالمِ شخصی کی معراج پر پاتے، یہ تھی حضورِ والا صلعم کی شانِ اقدس، کبھی زمین پر اصحابِ کبار رِضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ، کبھی کسی فرشتۂ مقرّب کےساتھ، کبھی کسی نبیٔ مرسل کے ساتھ، جیسے معراج کے قصّے میں ہے، اورکبھی سب سے اعلیٰ اور برتر۔

سوال – ۲۵۸: کوکبِ دُرّی، بابِ پنجم، منقبت نمبر ۵، میں ہے کہ وعلب نامی ایک شخص نے امیرالمؤمنین علی علیہ السّلام سے بطورِ بحث سوال کیا: ھَلْ رَاَیْتَ رَبَّکَ حَتّیٰ عَرَفْتَہٗ =کیا تو نے اپنے پروردگار کو دیکھا یہاں تک کہ اس کو پہچان لیا؟ امیرؑ نے فرمایا: لَمْ اَعْبُدْ رَبَّاَلَمْ اَرَہٗ = میں نے پروردگار کی عبادت نہیں کی، جب تک اس کو نہیں دیکھا۔ وعلب نے کہا: کَیْفَ رَأیْتَہٗ = تو نے اس کو کس طرح دیکھا؟ مولا نے فرمایا: مَا رَاَتْہُ الْعُیُوْنَ بِمُشَا ھِدَۃِ الْعَیَانِ لٰکِنْ رَاَتْہُ

 

۲۰۹

 

الْقُلُوْب بِحَقَائِقِ الْعِرْفَانِ = اس کو سر کی آنکھوں نے ظاہری مشاہدے کے طور پر نہیں دیکھا، لیکن دیدۂ سِرّ یعنی چشمِ باطن نے بُرہانِ عقلی اور حُجّتِ کشفی کے طور پر اس کو دیکھا ہے۔ مولا علیؑ کے ان مبارک الفاظ میں آپ کچھ حکمتیں بتائیں۔ -جواب:  (۱) خدا شِناسی (معرفت) اسلامی امور کی چوٹی پر ہے، اگر خدا و رسولؐ کی جانب سے امام ہماری رہنمائی نہ فرماتا تو ہم سب معرفت کی لازوال دولت سے محروم رہ جاتے (۲) مولا علیؑ کے اس جواب میں دیدارِ خداوندی کا بیان، شہادت، اور تصدیق اظہر مِن الشمس ہے (۳) یہاں سے یہ بھی معلوم ہُوا کہ معرفت دیدار کا ماحصل ہے جو عبادت کی جان ہے (۴) پروردگار کا پاک دیدار دل کی آنکھ سے ہوتا ہے۔

سوال – ۲۵۹: کوکبِ دُرّی، بابِ سُوم، منقبت ۱۵۲ میں ہے: لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَۃِ یَقُوْلُ سَلُوْنی عَمّاَدُوْنَ الْعَرْشِ اِلَّا عَلِیٌّ۔ یعنی صحابہ میں علیؑ کے سوا اور کوئی ایسا نہ تھا، جو یہ کہے کہ تم مجھ سے عرش کے سِوا جو چاہو پوچھو۔ اس کی کوئی باطنی حکمت کیا  ہوگی؟ -جواب:  “عرش کے سوا” روایتی ترجمہ ہے، کیونکہ اصل ترجمہ ہے: عرش کے نیچے، دیکھیں المنجد، دُون =پست، نیچے، چُنانچہ مولا علیؑ نے فرمایا: سلونی عمّا دون العرش۔ یعنی عرش کے تحت جو کچھ ہے اس کے بارے میں مجھ سے پوچھ لو۔ کہ عرش قلم ہے اور اس کے نیچے کُرسی لوحِ محفوظ، قلم نُورِ محمّدؐ ہے اور لوحِ محفوظ نورِ علیؑ، پس مولا نے اپنی

 

۲۱۰

 

ذات کی لوحِ محفوظ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تم جو کچھ پوچھنا چاہو تو مجھ سے پوچھ سکتے ہو۔

سوال – ۲۶۰: سُورۂ رحمٰن (۵۵: ۳۳) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) اے گُروہِ جِنّ و انس اگر تم میں قدرت ہو کہ آسمان و زمین کے اطراف سے باہر نکل جاؤ تو نکل جاؤ مگر یاد رکھو کہ تم قوّت اور غلبہ کے بغیر نہیں نکل سکتے ہو۔ اس آیۂ شریفہ کا تعلّق آفاق سے ہے یا انفس سے؟ یا دونوں سے؟ اس آیت میں جو لفظِ سُلْطَان آیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ آسمان و زمین کے اطراف سے باہر نکل جانا کیوں ضروری ہے؟ -جواب:  (۱) اِس آیۂ شریفہ کا تعلّق آفاق و انفس دونوں سے ہے کہ اللہ کی نشانیاں دونوں میں ہیں، تاہم آسمان کے دروازے عالمِ شخصی میں کُھل جاتے ہیں، (۲) سُلطان جس کے معنی ہیں: قوّت، زور، غلبہ، دلیل، اس سے امام ِزمان مراد ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اسی کو ہرگونہ طاقت کا خزانہ بنایا ہے، جیسے اسمِ اعظم، روحانی قیامت، علم و حکمت اور دلیل (۳) آسمان و زمین سے باہر نکل جانے کا روحانی سفر انسان کی اپنی ذات میں ہے، اور تمام اقوام و ادیانِ عالم کا یہ عجیب و غریب مقابلہ اور مُسابقہ بے حد ضروری ہے۔

۴۔ یہ تسخیرِ کائنات کی روحانی اور علمی جنگ ہے، یہ خدا کے معجزات کو دیکھنے کے لئے ہے، معرفت اور خدا شِناسی اس سے الگ نہیں، مکان اور زمان سے بالاتر ہوکر مشاہدۂ لامکان کا طریقِ کار بھی یہی ہے، الغرض اس آیۂ کریمہ میں ہزاروں اسرار پنہان ہیں۔

 

۲۱۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۷

 

سوال – ۲۶۱: ارشاد ہے: سَنَفْرُغُ لَکُمْ اَیُّہَ الثَّقَلٰنِ (۵۵: ۳۱) اے دونوں گُروہو ہم عنقریب ہی تمہاری طرف متوجّہ ہوں گے۔ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ذاتِ سبحان کو کبھی کثرتِ کار کی وجہ سے فرصت ہی نہ ہو، اور کبھی فراغت و فرصت مُیسر ہو؟ اگر نہیں تو یہ کس حقیقت کی مثال ہے؟ -جواب:   (۱) ایسا نہیں، بلکہ یہ حجابِ حقیقت اور مثال ہے (۲) اس کا اشارہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا روحانی انقلاب آنے والا ہے، جس کی علامتیں دیکھی گئی ہیں، وہ ہیں ذرّاتی لشکر (یاجوج ماجوج) اُڑن طشتریاں، وغیرہ۔

سوال -۲۶۲: یہ ارشاد سُورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۵) میں ہے: اَلرَّحْمٰنُ عَلیَ الْعَرْشِ اِسْتَوٰی۔ کیا آپ اِس آیۂ کریمہ کی اصل حکمت بیان کر سکتے ہیں؟ -جواب:   اِن شاء اللہ، اس آیۂ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے: خدائے رحمان نے عرش پر مساوات کا کام کیا۔ یعنی لوگوں کے لئے آسمانوں اور زمین میں اگرچہ درجات ہیں، لیکن عرش پر مُساوات (برابری) ہے، جس کی کئی دلیلیں ہیں: (۱) جب لوگ خدا کے فضل و کرم سے

 

۲۱۲

 

“یک حقیقت” ہوجاتے ہیں تو وہ سب کے سب یکسان اور برابر ہوتے ہیں (۲) فنا فی اللہ کا مرتبہ عرش پر ہے، عرش ایک نور ہے، نور ایک فرشتہ ہے، جو انسانِ کامل کی لطیف و نورانی ہستی ہے (۳) رحمان کی تخلیق میں تم کو کوئی فرق نظر نہیں آئے گا (۶۷: ۰۳) یہ مُساواتِ رحمانی ہے۔

سوال – ۲۶۳: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۹) اور سُورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۰) کے حوالے سے سوال ہے کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام خدا کے اذن سے جو پرندے بناتے تھے، ان کی کیا تاویل ہوتی ہے؟ -جواب:  ان کی تاویل ہے: حضرتِ عیسیٰؑ کی لطیف زندہ تماثیل /تصاویر، یعنی حضرتِ عیسیٰؑ کی ہستی کے سانچے میں ڈھلے ہوئے فرشتے، تاکہ اُس زمانے کے اہلِ ایمان ان کو جامۂ جنّت کے طور پر پہن لیا کریں۔

سوال – ۲۶۴: سُورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں ہے: وانزلنا الحدید فیہ بَاْسٌ شدیدٌ وّ مَنَافِعُ لِلنّاس = اور ہم نے لوہے کو نازل کیا جس میں شدید جنگ ( بھی) ہے اور لوگوں کے لئے منافع (بھی) ہیں۔ آیا آپ اس کی ظاہری اور باطنی حکمت بیان کریں گے؟ -جواب:  اِن شاء اللہ، اس کی ظاہری حکمت یہ ہے کہ ہر چیز کی روح ہے، اور لوہے کی بھی روح ہے، پس خداوند تعالیٰ نے لوہے کی روح کو نازل کیا، جس سے لوہے کی کانیں پیدا ہوئیں، اور معلوم ہے کہ تمام سامانِ جنگ لوہے سے بنائے جاتے ہیں اور بےشمار فائدے کی چیزیں بھی لوہے

 

۲۱۳

 

سے ہی بنائی جاتی ہیں۔

باطنی حکمت یہ ہے کہ جب امامِ زمان علیہ السّلام کے لشکرِ روحانی عالمِ شخصی میں اُترتے ہیں، تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوہے کا نازل ہونا، جس میں شدید حربِ روحانی ہے، اور روحانی لوہے (لشکرِ ارواح) میں جتنے فائدے ہیں، ان کا شمار ہو ہی نہیں سکتا۔

سوال – ۲۶۵: سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۵۰) میں یہ ارشاد ہے: قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًا= (اے رسولؐ) ان سے کہدو تم پتّھر یا لوہا بن جاؤ۔ اِس آیۂ کریمہ میں کس نوعیّت کا رازِ حکمت پنہان ہے؟ -جواب:  خداوندِ تعالٰی ہمیشہ ممکن بات کرتا ہے، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں سے متعلّق خدائے پاک و برتر کا یہ فرمان ہوا، ان کی روح پتّھر یا لوہے میں تبدیل ہوگئی، کیونکہ کُنْ /کُوْنُوا (ہوجا /ہو جاؤ) ایک ایسا حکم ہے، جس کی تعمیل فوراً ہی ہوجاتی ہے، یہ حکم خدا فرماتا ہے، یا اس کے اذن سے رسولؐ، یا امامؑ۔

سوال – ۲۶۶: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۹) میں ہے (حضرتِ عیسیٰؑ نے کہا) میں تم لوگوں کے لئے گارے سے ایسی شکل بناتا ہوں جیسے پرندے کی شکل ہوتی ہے پھر اس میں پھونک مارتا ہوں جس سے وہ (جاندار) پرندہ بن جاتا ہے خدا کے حکم سے، اور میں اچھا کر دیتا ہوں مادرزاد اندھے کو اور برص (جذام) کے بیمار کو اور زندہ کر دیتا ہوں

 

۲۱۴

 

مُردوں کو خدا کے حکم سے اور میں تم کو بتلا دیتا ہوں جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو کچھ گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو۔ اس کی تاویل کس طرح ہوگی؟ -جواب:   (۱) یہ زندہ پرندہ فرشتہ ہے جو مومن کے ذرّۂ روح سے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں بنتا ہے (۲) مادرزاد اندھے کو اچھا کرنا یہ ہے کہ پیغمبر اور امام مومن کو چشمِ بصیرت عطا کرتے ہیں (۳) برص کے بیمار کو شِفا بخشنا یہ ہےکہ ابتدائی روشنی (سفیدی) سے نکل کر آگے جانا انتہائی مشکل کام ہے، مگر جس پر روحانی طبیب مہربان ہوجائے، اس کے لئے آسان ہے (۴) مُردوں سے مردگانِ جہالت مراد ہیں، جن میں ہادیٔ برحق روح العلم پھونکتا ہے، جس سے وہ زندہ ہوجاتے ہیں (۵) انسانِ کامل کو معلوم ہے کہ لوگ کس قسم کی علمی خوراک کھاتے ہیں، اور کس درجے کی عِرفانی غذا جمع کرتے ہیں۔

سوال -۲۶۷: سُورۂ مُلک (۶۷: ۰۵) میں ہے: ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم الشّان چراغوں سے آراستہ کیا ہے اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے، ان شیطانوں کے لئے بھڑکتی ہُوئی آگ ہم نے مُہیّا کر رکھی ہے۔ یہ قریبی آسمان مادّی ہے یا روحانی؟ شیاطین کس چیز کی تلاش میں آسمان کی طرف پرواز کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں؟ چراغوں (مصابیح) کا ایک کام تو شیاطین کو مار بھگانا ہے، اور دوسرا کام کیا ہے؟ -جواب:   (۱) یہ روحانیّت کا قریبی آسمان ہے، جس میں رنگ برنگ کی روشنیاں

 

۲۱۵

 

ہیں (۲) شیاطین آسمان پر جاکر فرشتوں کی باتوں کو چُرا لینا چاہتے ہیں، تاکہ اپنے چیلوں کو بتا سکیں (۳) چراغوں کا دوسرا کام سالکین کی رہنمائی کرنا ہے۔

سوال -۲۶۸: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سارا قرآن علم و حکمت کے عجائب و غرائب سے مملو (بھرا ہوا) ہے، خصوصاً سورۂ جِنّ کہ وہ جِنّات سے متعلّق ہے، جیسا کہ جِنّوں نے کہا: اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اس کو بھی بہت قوی نگہبانوں اور شعلوں سے بھرا ہُوا پایا، اور یہ کہ پہلے ہم وہاں بہت سے مقامات میں (باتیں) سُننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے، مگر اب کوئی سُننا چاہے تو اپنے لئے شعلہ تیار پائے گا (۷۲: ۰۸ تا ۰۹) جِنّوں میں بعض نیکو کار ہیں اور بعض ان کے برعکس (۷۲: ۱۱) آپ یہ بتائیں کہ سُورۂ جِنّ کا بیان جِنّات کے کس گروہ سے متعلّق ہے؟ کیا یہ قریبی آسمان ہے جِس کو ٹٹولا گیا؟ آیا یہ واقعہ عالمِ شخصی کا ہے یا ظاہری کائنات کا؟ کیا یہ سچ ہے کہ حضورِ اکرمؐ کی بعثت سے پہلے شیاطین آسمان تک پہنچ کر فرشتوں کی باتیں سُنتے تھے؟ -جواب:   (۱) اس سُورہ میں جِنّوں کا مجموعی بیان آیا ہے (۲) یہ وہی قریبی آسمان ہے، جس کا ذکر س-۲۶۷ میں ہوچکا ہے (۳) یہ قصّہ دراصل عالمِ شخصی کا ہے (۴) جی ہاں یہ سچ ہے، مگر آنحضرتؐ کی بعثت کے بعد شعلوں کے ذریعے سے ان کو روک دیا گیا۔

سوال -۲۶۹: سُورۂ بقرہ کے آغاز میں ارشادِ خداوندی اس

 

۲۱۶

 

طرح سے ہے: الٓمٓ۔ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ (۰۲: ۰۱ تا ۰۲) اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ -جواب:   اس کے بارے میں حضرتِ علی امیرالمومنین علیہ السّلام نے فرمایا ہے: اَنَاذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ  =یعنی میں وہ کتاب ہوں، جس میں کسی قسم کا شک و رَیب نہیں ہے۔ کیونکہ علیؑ کا پاک نور قرآنِ ناطق ہے، جس میں یقین ہی یقین ہے، جس کی ہدایت سب سے پہلے پرہیزگاروں کو نصیب ہوتی ہے، یاد رہے کہ مُعلّمِ قرآن ہی نور اور کتابِ ناطق (قرآنِ ناطق ) ہے، الحمدللہ ربّ العٰلمین۔

سوال -۲۷۰: کوکبِ دُرّی، خُطبۃُ البیان میں حضرتِ مولا علی علیہ السّلام کے مُبارک و مقدّس ارشادات میں ہے: اَنَا اٰیَاتُ اللہ۔ آپ اس کی وضاحت کریں۔ -جواب:   مولائے مومنان خدا کی نشانیوں کا مجموعہ اور اس کے معجزات کا کُلّ ہے، کیونکہ آیت کے معنی ہیں: نشانی، حکم، معجزہ، اور اس کی جمع ہے آیات، اب آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آیاتُ اللہ کہاں کہاں ہیں، سب سے پہلے قرآنِ پاک میں خداواند تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، اور پھر بطورِ شہادت آفاق و انفس میں بھی ہیں، اور ان تینوں کتابوں یعنی قرآن، کتابِ کائنات، اور کتابِ شخصی کی مجموعی آیات کے معانی میں علیؑ ہی علیؑ ہے۔

 

۲۱۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۸

 

سوال – ۲۷۱: سب سے بہترین اور سب سے اعلیٰ ترین کتابِ شخصی (کتابِ نفسی) تو رحمتِ عالم صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم تھے، حضورِ اکرمؐ کے بعد مولا علی علیہ السّلام کی مبارک شخصیّت مثالی کتاب ہے، اب آپ یہ بتائیں کہ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) سے امامِ زمین و زمان مُراد ہے یا نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ زمانے کا ہادیٔ برحق ہی امامِ مبین ہے، تو آپ بیان کریں کہ امامِ زمان علیہ السّلام کی روحانیّت و نورانیّت میں کیا کیا آیات و معجزات ہیں؟ -جواب:   (۱) کائنات اگرچہ ظاہراً پھیلی ہُوئی نظر آتی ہے، لیکن امامِ مبین میں وہ محدود، محصور، اور ملفوف ہے (۲) اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے مکان و زمان کی بے پایان وُسعتوں کو لپیٹ کر امامِ مبین کی مٹھی میں دے رکھا ہے (۳) خدا کی بادشاہی میں اِس کثرت سے چیزیں ہیں کہ ان کا شمار جِنّ و انس مل کر کرنا چاہیں تو پھر بھی ناممکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نےتمام اشیاء کو امامِ مبین میں بالآخر عددِ واحد میں گِن کر رکھا ہے (۴) علم و حکمت کے بحرِ بیکران کو دُرِّیتیم میں سمو دیا ہے (۵) یقیناً امامِ زمانؑ ہی امامِ مبین ہے، جس کی روحانیّت و نورانیّت میں جو آیات ہیں، وہ ہمیشہ زندہ اور جامعیّت و کاملیّت میں

 

۲۱۸

 

بے مثال ہیں۔

سوال – ۲۷۲: سوال آنحضرت صلعم کی معراجِ روحانی سے متعلّق ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ ربِّہِ الْکُبْریٰ =اُس نے اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھی ہیں (۵۳: ۱۸) معراج میں بڑی بڑی نشانیاں یا بڑے بڑے معجزات کیا ہیں؟ -جواب:   حظیرۂ قدس کے معجزات سب سے عظیم ہیں، مثال کے طور پر لِقائے الٰہی، اشاراتِ دیدار، وحدتِ عرش و کرسی، معجزاتِ صورتِ رحمان، آفتابِ نورِ ازل، ازل و ابد کی یکجائی، کائنات کا لپیٹ لینا اور پھیلا دینا، فنا فی اللہ، کلمۂ باری، قلمِ اعلیٰ، لوحِ محفوظ، کتابِ مکنون، تخلیقِ آدم، سُجودِ ملائکہ، سِدرۃ المنتہیٰ، مقامِ ابراہیمؑ، مظہرِ کُلّ، علِّییّن، لامکان، بہشت، کنزِ مخفی، تَوَلّدِعقلانی وغیرہ وغیرہ۔

سوال -۲۷۳: آپ مُؤَوِّلِ آلِ محمّدؐ پر جان و دل سے یقین رکھتے ہیں، انہوں نے فرمایا: “اݹ مُش او۔” اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: اس کی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے: نظریۂ لا ابتداء اور لا انتہاء کو اپناؤ، کیونکہ خداوندِ تعالیٰ کی قدیم بادشاہی میں ہر چیز ہمیشہ ایک دائرے پر روان دوان ہے، اور ایسی دائمی حرکت میں انسان کی حیاتِ سرمدی ہے، اور یہ سِرِّعظیم عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے، یہ کلمہ تاویلی کلیدوں میں سے ہے، لہٰذا یہ یاد رہے: –

 

۲۱۹

 

اݹ = حرفِ نفی =لا، نہ، بے، مُش =سِرا، جیسے: سِرا_______ سِرا، او =رکھ، پس ’’اݹ مُش او‘‘ کے معنی ہوئے لا ابتداء اور لاانتہاء کا نظریّہ رکھو، جیسے دوسرا قول ہے: تھݸݽ گٹݸ جݹ، مݶن شُرݸ جݹ =مجھے جامۂ نَو اور رزقِ قدیم عطا فرما ! یہ تو فنا فی الامام کے لئے درخواست ہوئی، کیونکہ وہی مولا اور بادشاہ ہے جو ہر زمانے میں جامۂ جدید اور علمِ قدیم کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے، ان شاء اللہ، اہلِ ایمان کے لئے جُملہ بُشارات سچ ثابت ہو جائیں گی۔

سوال -۲۷۴: قرآن و حدیث میں جہاں جہاں نُور کا تذکرہ آیا ہے، کیا وہاں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ نور روشنی کو کہتے ہیں؟ یا نور کے معنی میں کوئی بہت بڑی حکمت بھی ہے؟ -جواب:   (۱) یقیناً نور کے معنی میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں (۲) نور کی بہترین تعریف اور وضاحت دعائے نور میں ہے (دعائم الاسلام، جلد اوّل، ص ۱۶۷) دل کے لئے اگر نور مقرّر ہو تو اس کی تمام قوّتیں اور صلاحیتیں زندہ ہوجائیں گی (۳) اگر نور آنکھ  کے لئے غیر معمولی روشنی ہے تو کان کے لئے نورانی آواز ہے، اور زبان کے لئے معجزانہ قوّتِ گویائی ہے (۴) اُس طرف سے بار بار محبوبِ جان کا ٹیلی فون آتا رہتا ہے، مگر افسوس کہ اِس جانب کا فون خراب پڑا ہے (۵) آؤ دوستو انتہائی عاجزی سے گریہ وزاری کریں، علم، عبادت، خدمت، اور کامل فرمانبرداری سے فائدہ اُٹھائیں۔

 

۲۲۰

 

سوال -۲۷۵:  آپ نے اذکار میں سے ذکرِ سریع کی تعریف کی ہے، اس کی قرآنی شہادت و دلیل کیا ہے اورکہاں ہے؟ -جواب: (۱) سُورۂ ذاریات (۵۱: ۵۰) میں ہے: لہٰذا اب خدا کی طرف دوڑ پڑو۔ یہ ذکرِ سریع اور نیک کاموں میں سبقت ہے (۲) سابقوا (۵۷: ۲۱) میں بھی یہی حکم ہے، اور سارعوا (۰۳: ۱۳۳) میں بھی (۳) نور کے دوڑنے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸) کے معنوں میں ذکرِ سریع بھی ہے (۴) سُورۂ عادیات (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۲) میں ذکرِ سریع کی حکمت ہے۔

سوال – ۲۷۶: حدیثِ قدسی ہے: مَاوَسِعَنِی اَرْضِی وَلَا سَمَائی وَلٰکِن وَسِعَنْی قَلْبُ عَبدِیُ المُؤمِنُ=مجھے اپنے اندر نہ میری زمین نے سمایا نہ میرے آسمان نے، ہاں میرے بندۂ مومن کے دل نے مجھے سمایا۔ اس گنجائش کا اصل راز کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہاں سب سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ بندۂ مومن بحقیقت کون ہے؟ نبی اور ولی؟ (۲) ان کے بعد بھی ایمان کے مختلف درجات ہیں (۳) اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو جو خصوصیات عطا کی ہیں، وہ ارض و سما کو نصیب نہیں ہوئی ہیں (۴) وہ خصوصیات ہیں انسانیت سے بڑھ کر آدمیّت، نورِ ایمان، عشقِ سماوی، علم و حکمت، چشمِ بصیرت، دیدار اور معرفت، پس خدا شِناسی کا اصل راز یہی ہے۔

سوال -۲۷۷: سُورۂ اَنعام (۰۶: ۱۰۳) کی اِس سماوی تعلیم سے کیا

 

۲۲۱

 

فیصلہ ہوتا ہے؟ آیا اِس دُنیا کی زندگی میں حضرتِ ربُّ العزّت کا دیدار ممکن ہے یا محال؟ آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے، وہ نہایت باریک بین اور باخبر ہے۔ -جواب:   (۱) کسی مومن کی چشمِ باطن میں وہ طاقت نہیں کہ از خود عزّت کی بلندیوں تک رسا ہوکر خدا کا دیدار کرسکے، اور اس کو پہچان سکے، مگر خدا کے لئے یہ امر بڑا آسان ہے کہ از راہِ نوازش مومن کی چشمِ بصیرت کے سامنے جلوہ گر ہوجائے (۲) اللہ جلّ جلالہ کا ایک اسم النّور ہے، اور دوسرا اسم الظّاہر ہے، اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اس دنیا میں دیدار اور معرفت ممکن ہے (۳) آپ اس بات پر خوب غور کریں کہ انسان از خود سورج کو نہیں دیکھ سکتا ہے، بلکہ آفتابِ عالمِ تاب خود بخود آکر اس کی آنکھوں میں سما جاتا ہے۔

سوال -۲۷۸: سُورۂ اعراف(۰۷: ۱۴۳) کے حوالے سے ایک مختصر سوال ہے، مگر حق بات تو یہ ہے کہ یہ مسٔلہ انتہائی مشکل ہے، وہ یہ پوچھنا ہے کہ حضرتِ موسیٰؑ کو ربِّ تعالیٰ کا دیدار ہوا تھا یا نہیں، جبکہ آپؑ نے درخواست کی تھی: اے میرے پروردگار اپنا دیدار مجھ کو دکھلا دے؟ -جواب: (۱) جواب اگرچہ انتہائی مشکل ہے، لیکن ان شاءاللہ مشکِل کُشا کی مدد ہوسکتی ہے، (۲) حضرتِ موسٰیؑ کا یہ قصّہ اسرافیل و عزرائیل کی منزل سے متعلّق ہے، جہاں تجلّیٔ حق تعالیٰ سے کُوہِ روح ریزہ ریزہ ہو جاتا ہےمگر نمایان دیدار نہیں ہوتا (۳) آگے سے آگے چل کر کلیم اللہؑ

 

۲۲۲

 

کو ربُّ العزّت کا پاک دیدار ہوا تھا، یہ مقام بُقعۂ مُبارکہ (۲۸: ۳۰) یعنی حظیرۂ قدس تھا (۴) جس درخت سے آواز آرہی تھی، اس سے نفسِ کُلّی مُراد ہے جو عالمِ عُلوی میں مظہرِ رحمان ہے۔

سوال – ۲۷۹: کیا یہ ناظرین (دیکھنے والے) ظاہری آنکھ کے اعتبار سے ہیں؟ یا چشمِ باطن کے لحاظ سے؟ بنی اسرائیل کے بیل کے رنگ کو دیکھنے والے (۰۲: ۶۹)؟ معجزۂ یدِ بیضأ کو دیکھنے والے (۰۷: ۱۰۸، ۲۶: ۳۳)؟ آسمان میں بُروج (محلّات) کو دیکھنے والے (۱۵: ۱۶)؟ -جواب: (۱) دُنیائے ظاہر میں طاؤس جیسا رنگین بیل کہاں ہے، جس کا رنگ ناظرین کے لئے مسحور کُن ہو، مگر صرف ابتدائی روحانیّت میں نفسِ حیوانی ہی گُویا ایک ایسا خوبصورت اور سحرانگیز بیل ہے، جس کو ذبح کرنا بیحد ضروری ہے (۲) روحانیّت کے درجۂ کمال پر معجزۂ یدِ بَیضاء موجود ہے، جس کی تمثیلات قرآنِ حکیم میں بہت زیادہ ہیں۔

سوال -۲۸۰: کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ حُدودِ دین کا تذکرہ آیا ہے، کیا آپ کسی ایسی آیت کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) حکیم پیر ناصر خسرو ( ق س) کی شُہرۂ آفاق کتاب وجہ دین کا مطالعہ کریں (۲) ناطقِ چہارم کے ذیلی حدود کی چند مثالیں یہ ہیں: وہ نفسانی موت سے مرکر روحانیّت میں زندہ ہوگئے تھے (۰۲: ۵۶، ۰۷: ۱۵۵) (۳) حدودِ دین ہی کے روحانی سانچے میں ڈھل ڈھل کر بنی اسرائیل

 

۲۲۳

 

بادشاہ ہوگئے تھے (۰۵: ۲۰) (۴)حضرتِ موسٰی (ناطق) لاٹھی (اسمِ اعظم) حجرِ مُکرّم (اساس) بارہ چشمے (۱۲ حُجج) ہیں (۰۲: ۶۰، ۰۷: ۱۶۰)۔

 

۲۲۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۹

 

سوال- ۲۸۱: آپ نے کہا تھا کہ کسی کامل انسان میں خدائی روح پھونک دینے کے لئے صور پھونکا جاتا ہے، یعنی نَفْخِ رُوح اور نَفْخِ صُور ایک ساتھ ہیں، لہٰذا جہاں روحِ قدسی پھونکنے کا ذکر ہے، وہاں قیامت بھی ساتھ ساتھ ہے، آپ اس کی کوئی مثال بیان کریں۔ -جواب:  سُورۂ تحریم کے آخر (۶۶: ۱۲) میں ہے: اور مریمؑ بنتِ عمران کی مثال جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے ربّ کے کلمات اور کتابوں کی تصدیق کی اور وہ ہمارے فرمانبردار بندوں میں سے تھی۔ مریم سلام اللہ علیہا اپنے وقت میں حُجّت تھی اور تمام حُجَجْ کی مثال، اس کا مطلب یہ ہُوا کہ حُجتّوں پر روحانی قیامت گزرتی ہے اور یہ بیحد ضروری ہے، کیونکہ سارے باطنی علوم قیامت کے اندر ہیں، اور قیامت کے بغیر نہ حکمت ہے نہ معرفت۔

سوال – ۲۸۲: اگر مریمؑ کی قرآنی تعریف حُجّت کی تعریف ہے تو یہ بتائیں کہ حُجّت کے لئے روحانی روشنی کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟

 

۲۲۵

 

-جواب: (۱) از دلِ حُجّت بحضرت رہ بُوَد +اُو بتائیدِ دلش آگہ بُوَد۔ ترجمہ: حُجّت کے دل سے امامؑ تک راستہ ہوتا ہے، اور وہ (امام) اس کے دل کی تائید کرنے کےلئے آگاہ ہے (۲) حکیم پیر ناصر خسرو نے اپنے مشہور دیوان میں فرمایا ہے: برجانِ من چو نورِ امام ِزمان بتافت +لیلُ السَّراربُودم و شمسُ الضُحیٰ شُدم۔ ترجمہ: میری جان پر جب امامِ زمان کا نور طلوع ہوا، میں (جو قبلاً) شبِ تاریک تھا، اب روزِ روشن کی طرح ہوگیا۔

سوال – ۲۸۳: سُورۂ فیل (۱۰۵: ۰۱) میں ہے: اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيل=کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے ربّ نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے؟ یہاں سوال یہ ہےکہ آیا اصحابِ فیل کا واقعہ آنحضرت صلعم کی ولادت سے پچاس روز پہلے پیش نہیں آیا تھا؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہاں واقعہ تو پہلے کا ہے تو یہاں اِشارۂ حکمت کیوں ایسا ہے جیسا کہ رسولِ پاکؐ نے ہاتھی والوں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا تھا؟ -جواب:   (۱) اِس قسم کے اسرار قرآنِ عظیم میں بکثرت ہیں کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام آئینۂ روحانیّت میں دین سے متعلّق ضروری واقعات کو دیکھتے ہیں (۲) قرآنِ حکیم کے ۳۱ مقامات پر اَلَمْ تَرَ (کیا تم نے نہیں دیکھا؟ ) کا سوال آیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ معرفت کو رسولِ اکرمؐ کے روحانی مشاہدات کی طرف توجّہ دلائی جائے۔

 

۲۲۶

 

سوال – ۲۸۴: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں ہے: (اے رسولؐ) کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے اُن سے فرمایا: مرجاؤ، پھر ان کو دوبارہ زندہ کیا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پربڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں کوئی بڑا عرفانی راز ہے، کیا آپ اس کو بیان کر سکتے ہیں؟ -جواب: ان شاء اللہ (۱) جب صُور پھونکا جاتا ہے اور قیامت برپا ہونے لگتی ہے تو لوگوں کے نمائندہ ذرّات ڈر کے مارے بدن سے نکل کر قیامتگاہ کی طرف بھاگتے ہیں، اور شخصِ قیامت میں پناہ لیتے ہیں (۲) رحمتِ الٰہی اسی میں ہے کہ وہ سب کے سب وہاں غیر شعوری طور پر مرکر زندہ ہوجائیں (۳) خلائقِ عالم پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل واحسان ہے (۴) یہ بہت بڑا انقلابی راز ہے لہٰذا آپ سب اس کی حقیقت کو سمجھ لیں۔

سوال -۲۸۵: سُورۂ فرقان (۲۵: ۴۵) میں ہے: کیا تم نے اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا، ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا، پھر ہم اس سائے کو رفتہ رفتہ اپنی طرف سمیٹتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہاں ظاہری سایہ حجاب اور باطنی سایہ محجوب ہے (۲) جو سایہ حجاب میں ہے، وہ ظِلِّ الٰہی ہے، یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ کا سایہ ہے، بمعنیٔ ارواح و عقول، جن کو خدا پھیلاتا بھی ہے،

 

۲۲۷

 

دائمی اور سرمدی بھی بناتا ہے، جیسے اہلِ بہشت، اور اپنی طرف لپیٹ بھی لیتا ہے، سورج سے نورِ عقل مراد ہے، جس کے ذریعے سے ہر قسم کی نعمتیں مہیّا ہوتی ہیں۔ (یکم جنوری ۱۹۹۹ء)۔

سوال -۲۸۶: سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۵) میں ہے: اور ہم نے موسٰی کو اپنی آیات کے ساتھ بھیجا (اور حکم دیا) کہ اپنی قوم کو ظلمات سے نور کی طرف نکال لے جائے اور انہیں ایّامِ اللہ یاد دلائے، اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر گزار کے لئے آیات ہیں۔ آپ اس خاص سوال کا جواب دین کہ “ایّام اللہ” سے کون کون سے دن مراد ہیں؟ -جواب:   (۱)اللہ کے ان خاص دنوں سے عالمِ شخصی کی مخفی قیامت اور اس کے سات چھوٹے چھوٹے ادوار مراد ہیں، جس کا بارہا ذکر ہوچکا ہے (۲) ان روحانی اور نورانی ایّام کی یاد دہانی کی غرض سے یقین کے تین مراتب ہیں، یعنی علم الیقین، عین الیقین اور حقّ الیقین (۳) اللہ تعالیٰ کے زندہ اور پُرنور ایّام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، عالمِ شخصی میں ان کے نورِ اقدس کا ظہور قیامت ہے، جس میں علم و حکمت کے تمام خزانے موجود ہیں۔

سوال – ۲۸۷: فرمانِ اقدس ہے: مَاقِیلَ فِی اللّٰہِ فَھُوَفِیْنَا وَمَاقِیلَ فِینَا فَھُوَ فِی الْبُلَغَاءِ مِنْ شِیعَتِنَا۔ ترجمہ کریں، یہ ارشاد کس امام کا ہے؟ -جواب:   حضرتِ مولانا امام باقر علیہ السّلام

 

۲۲۸

 

نے فرمایا ہے: جو بات اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے، اور جو بات ہمارے متعلّق کہی گئی ہے وہ ہمارے بلیغ شیعوں پر صادق آتی ہے۔ یہ کنزِ مخفی کے عظیم اسرار ہیں۔

سوال -۲۸۸: آپ نے روح کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کی ہے، جو سوال و جواب پر مبنی ہے، لہٰذا آپ آیۂ قُلِ الرُّوْحُ (۱۷: ۸۵) کے حوالے سے یہ بتائیں کہ روح کس معنیٰ میں “پروردگار کے امر سے ہے؟”  -جواب:   (۱) یعنی خاص یا اصل روح عالمِ امر سے ہے (۲) روح کا بالائی سِرا عالمِ عُلوی میں ہے (۳) روح کا دائمی تعلّق کلمۂ امر یعنی کُن (ہوجا) سے ہے، لہٰذا اس میں ہمیشہ تجدُّد ہوتا رہتا ہے (۴) یہی وجہ ہے کہ یہ بہشت میں دائمی طور پر خلقِ جدید ہے (۵) عظیم روح ہر جا حاضر ہے۔

سوال -۲۸۹: آپ یہ بتائیں کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر کا ذکر قرآنِ مقدّس کے کس مقام پر ہے؟ ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے؟ -جواب:   (۱) سُورۂ اعراف (۰۷: ۵۴) میں ہے: الا لہُ الخلقُ والامرُ تبٰرک اللّٰہُ ربُّ العٰلمین۔ آگاہ ہوجاؤ کہ (عالمِ) خلق اور (عالمِ) امر اللہ کے لئے ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا مالک و پروردگار۔ (۲) عالمِ خلق/ عالمِ جسمانی ہے، جس کی چیزوں کے پیدا ہونے میں وقت لگتا ہے، مگر عالمِ امر/ عالمِ روحانی میں ہر چیز کُن کے امر سے فورًا ہی پیدا ہو جاتی ہے، خدا کی برکتیں دائمی ہیں، وہ کبھی ختم نہیں ہوتیں، چونکہ

 

۲۲۹

 

برکات ہمیشہ ہیں، اس لئے انسانی روح بھی ہمیشہ ہے۔ الحمدللہ۔

سوال – ۲۹۰: سُورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے: وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ۔  آپ اِس آیۂ مُبارکہ کا ترجمہ کریں، اور أئمّۂ آلِ محّمدؐ نے جس شان سے اس کی تاویل کی ہے، وہ بھی ہمیں بتائیں۔ -جواب:   ترجمہ: اور بہترین نام اللہ کے لئے ہیں، پس اسے انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں میں کجی کرتے ہیں (وہ عنقریب اپنے اعمال کی سزا پائیں گے ۰۷: ۱۸۰)۔ (۱) حضرت مولا علیؑ نے فرمایا: اَنَا الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی الَّتِیْ اَمَرَ اللہ اَنْ یُدْعیٰ بِھَا  =یعنی میں خدا کے وہ اسمائے حُسنٰی ہوں، جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو ان اسماء سے پکارا جائے (۲) حضرتِ امام جعفر صادقؑ کا فرمان ہے: نحنُ واللہ الاسمآءُ الحُسنٰی = خدا کی قسم! ہم (أئمّہ) اللہ کے اسمائے حُسنٰی ہیں (۳) خدا کی ہر چیز عقل و جان کے درجۂ کمال پر زندہ اور گوئندہ ہوتی ہے، پس اسی قانون کے مطابق اسمِ اعظم اور اسماءُ الحُسنٰی سے امامِ زمانؑ مراد ہے۔

 

۲۳۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۰

سوال -۲۹۱: حضرتِ مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا ہے: لَوْ کُشِفَ الْغِطَا ءُ لَمَا ازْدَدْتُ یَقِیْناً =اگر پردہ کھول دیا جائے، تو بھی میرے یقین میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا۔ اِس کی وضاحت کریں۔ -جواب:   یقین کے تین درجے مشہور ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حقّ الیقین، اس کے بعد یقین کا کوئی اضافی درجہ نہیں، علیؑ جبکہ خزانۂ اسرارِ حق الیقین ہے، لہٰذا اس میں یقین کی کوئی کمی نہیں، پس اگر پردہ کھولا جائے تو لوگوں کو بڑی حیرت ہوسکتی ہے، لیکن علیؑ کے لئے کوئی حیرت کی بات نہیں۔

سوال – ۲۹۲:  سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۹۵) میں ہے: کہدو: اگر رُوئے زمین پر فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر ان کے پاس بھیجتے۔ اس میں کیا اشارۂ حکمت ہے؟ – جواب:   اس سے ظاہر ہے کہ فرشتے جسمانی اور روحانی دو قسم کے ہوتے ہیں، جسمانی فرشتے انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہیں، جو ذکرِ الٰہی کے اطمینان کے ساتھ کسی ڈر کے بغیر زمین پر چلتے پھرتے ہیں، اور روحانی فرشتے خدا

 

۲۳۱

 

کے حکم سے ارضی فرشتوں کی مدد کرتے ہیں، اور دَورِ نبوّت میں پیغمبروں کے لئے وحی لاتے تھے۔

سوال – ۲۹۳:  حدیثِ شریف ہے: اِنَّ مِنْکُمْ مَنْ یُقَاتِلُ عَلیٰ تَاوِیْلِ الْقُرْاٰنِ کَمَا قَاتَلْتُ عَلیٰ تَنْزِیْلِہ = تم میں سے ایک شخص ہے کہ وہ تاویلِ قرآن پر جنگ کرے گا، جیسا کہ میں نے تنزیلِ قرآن پر جنگ کی ہے۔ معلوم ہے کہ یہ حدیث حضرتِ علیؑ کے بارے میں ہے، لہٰذا یہاں آپ یہ بتائیں کہ تاویلی جنگ اصلاً کیا چیز ہوتی ہے؟ -جواب:   (۱) تاویلی جنگ دراصل روحانی جنگ کا نام ہے، جو ایک مخفی قیامت ہے، اسی کی بُنیاد پر ظاہری تاویل بھی ہے (۲) پس تاویل کے لئے تین عظیم حدودِ دین مقرّر ہیں: اساس، امام، اور قائم، اور تاویلی جنگ ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی لشکر کے بغیر نہیں ہے۔

سوال – ۲۹۴: سُورۂ یُونس (۱۰: ۶۲) میں ارشاد ہے: أَلاَ إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ =آگاہ رہو کہ اللہ کے اولیاء پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ اس میں کیا اسرار ہیں؟ -جواب: (۱) خوف کا تعلّق مستقبل سے ہے، اور غم کا تعلّق ماضی سے، لیکن دوستانِ خدا کی حقیقت زمان و مکان سے بالاتر ہے (۲) خدا کے اولیاء کا ظہور بیک وقت بہشت میں بھی ہے دُنیا میں بھی، اور وہ فنا فی اللہ بھی ہوچکے ہیں، پھر ایسے میں دنیا کے عارضی

 

۲۳۲

 

خوف و غم کا پلّا کس طرح بھاری ہوسکتا ہے، (۳) اس کی ایک اور توجیہہ بھی ہے، وہ یہ کہ خداوندِ تعالیٰ کے دوستوں کے ہر خوف و غم میں رحمت اور حکمت ہے، اس معنیٰ میں بھی خوف و غم کا تصوّر ختم ہو جاتا ہے۔

سوال -۲۹۵: یہ ارشادِ رحمت آگین سورۂ اَنعام (۰۶: ۹۸) میں ہے: و ہو الّذیٓ اَنْشَاَکم مِّن نفسٍ وّاحدۃٍ فمستقرٌّ وّ مُستودَعٌ۔ کیا آپ اس کی تاویلی حکمت بتا سکتے ہیں؟ -جواب:   ان شاء اللہ، ترجمہ: اور وہی ہے وہ ذات جس نے تمہیں نفسِ واحدہ سے پیدا کیا پس (ہر شخص کے لئے) مُستقر بھی ہے اور مُستودَع بھی۔ (۱) انسان کی انائے عُلوی بہشت میں ہے، کہ بہشت مُستقر (جائے قرار) ہے (۲) انائے سِفلی دُنیا میں بھیجی گئی ہے، جو مُستودَع (جائے امانت) ہے، اسی انسانی حقیقت کی نشاندہی اور تصدیق قانونِ امامت سے ہوجاتی ہے کہ تاریخِ امامت میں امام ِمستقر تو ہمیشہ ہے، اور امام ِمُستودع کبھی کبھی ہوا ہے۔

سوال -۲۹۶: آپ نے روح شِناسی پر ایک گرانقدر کتاب لکھی ہے جو “روح کیا ہے؟” کے نام سے ہے، لیکن آپ یہاں مختصراً یہ بتائیں کہ روح کیا ہے؟ آیا یہ ایک ذرّۂ کم مقدار و محدود ہے؟ یا ایک لامحدود شَیٔ ہے؟ کیا روح مکانی ہے یا لامکانی؟ کیا ہم اس کو بسیط و محیط کہہ سکتے ہیں؟ کیا روح ایک ہمہ رس اور کائنات گیر حقیقت ہے؟ -جواب: (۱) روح خدا کی خدائی میں سب سے عجیب و غریب

 

۲۳۳

 

شیٔ ہے (۲) روح لامحدود بھی ہے اور محدود بھی (۳) روح ذاتی طور پر لامکان اور جسم کی نسبت سے مکانی ہے (۴) روح یقیناً بسیط و محیط اور ہر جا حاضر ہے (۵) روح ہمہ رس اور کائنات گیر ہے، کیونکہ وہ خدا کے نور کا عکس ہے۔

سوال -۲۹۷:  الحمد للہ، میں جملہ پیران و بزرگارنِ دین کا عقید تمند ہوں، اور اس حقیقت پر خدا میرا گواہ ہے، چنانچہ میں یہاں حکیم پیرناصر خسرو (ق س ) کا یک ایسا شعر پیش کرتا ہوں جو حلِّ مسائل کے لئے بیمثال ہے، وہ یہ ہے: ز نورِ او تو ھستی ہمچو پرتو +حجاب از پیش بردار و تو اوشو۔ احباب اور قارئینِ کرام کے لئے آپ اس کا ترجمہ و تشریح کریں۔ -جواب: ترجمہ: تو (اپنے باطن میں) اس کے نور کا عکس (زندہ تصویر) ہے، سامنے سے پردۂ خودی کو ہٹا کر تُو وہ ہوجا۔ (۱) کتنی خوبصورت اور بابرکت مثال ہے! انسانی قلب آئینۂ تجلّیات ہے (۲) اگر تو چشمِ بصیرت سے دیکھ سکتا ہے تو دیکھ لے کہ اس مِرأتِ خدا نما میں یک حقیقت کے کیسے کیسے اَسرار پنہان ہیں (۳) اِس مقام پر حدیثِ قدسی اجعلک مِثلی کو بھی یاد کرے (۴) یاد رہے کہ حظیرۂ قدس عظیم بھیدوں کی بہشت ہے۔

سوال – ۲۹۸: آیۂ شریفہ از سُورۂ یوسف (۱۲: ۰۴) ترجمہ: وہ وقت (یاد کرو) جب یوسفؑ نے اپنے باپ سے کہا: ابّاجان! میں نے خواب

 

۲۳۴

 

دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند میرے لئے سجدہ کررہے ہیں۔ اس میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ -جواب:   (۱) حضرتِ یعقوب علیہ السّلام کے پاس امامت تھی، جو کافی پہلے حضرتِ یوسف علیہ السّلام میں منتقل ہوگئی (۲) گیارہ حدود، سابق امامؑ اور باب نے حضرتِ یوسف امامؑ کے لئے سرِ تسلیم خم کیا (۳) سجدہ کے کئی معنی ہیں، اس کا ایک مطلب اطاعت بھی ہے۔

سوال -۲۹۹: ترجمۂ ارشاد از سُورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۲): اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کو بہت یاد کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔ کثرتِ ذکر سے کیا کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟ یادِ الٰہی کے نہ ہونے سے کیا نقصان ہوتا ہے؟ -جواب: (۱) ذکرِ کثیر کے فائدے بےشمار ہیں، جبکہ ذکر و عبادت سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے (۲) یادِ الٰہی کے نہ ہونے سے شیطان غالب آتا ہے (۳) آپ میں جو فرشتہ مقرّر ہے، اس کو کثرتِ ذکر سے تقویت ملتی ہے، اور وہ آپ کے لئے فرشتگانہ کام کرنے لگتا ہے، جس سے آپ کی روحانی ترقی ہوسکتی ہے(۴) ذکرِ الٰہی کی کثرت سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے (۱۳: ۲۸) جو کئی معنوں اور کئی درجات میں ہے (۵) اگر آپ پروردگار کو اس کے بزرگ نام سے یاد کرتے ہیں تو یقین کرنا کہ اس پاک نام میں لاتعداد برکتیں ہیں (۵۵: ۷۸) بھول نہ جانا کہ روحانی ترقّی کا راز خدا کا زندہ اور بزرگ اسم ہے۔

 

۲۳۵

 

سوال -۳۰۰:  سُورۂ انبیاء(۲۱: ۸۱) میں ہے: ہم نے سلیمانؑ کے لئے تیز ہَوا کو مُسخّرکردیا تھا، جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف، جسے ہم نے بابرکت بنا دیا ہے، چلتی تھی۔ نیز ہَوا سے کیا مراد ہے؟ بابرکت زمین کونسی ہے؟ -جواب: انبیاء علیہم السّلام کے اصل معجزات عالمِ شخصی میں ہیں، چُنانچہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کا اصل تخت روحانی تھا، اور اس کو اپنے دوش پر لے چلنے والی تیز ہوا بھی روحانیّت میں تھی اور بابرکت سرزمین حظیرۂ قدس ہے، اگر انبیاء و اولیاء کی پرواز روحانی نہ ہوتی جسمانی ہوتی تو آج ہوائی جہاز کی عام پرواز کی وجہ سے اس کی اہمیّت و عظمت ختم ہو جاتی، مگر یہ بات ممکن نہیں۔

 

۲۳۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۱

 

سوال – ۳۰۱: سُورۂ نحل (۱۶: ۱۲۰) میں ارشاد ہے: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ = ابراہیمؑ (تنِ تنہا) ایک اُمّت تھا، امرِ الٰہی کا مطیع، ہر قسم کے انحراف سے مُبرا تھا۔ آپ یہاں یہ بتائیں کہ حضرتِ ابراہیمؑ اپنی انفرادیت میں کس طرح ایک اُمّت تھے؟ -جواب: (۱) حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے وقت کا بہترین عالمِ شخصی تھا، جس میں سب لوگ فنا ہو کر فرمانبردار ہوگئے تھے (۲) ہر انسانِ کامل اگرچہ اکیلا ہوتا ہے، لیکن اس میں سے ستّر ہزار + ستّرہزار=ایک لاکھ چالیس ہزار فرشتے پیدا ہوجاتے ہیں۔

سوال – ۳۰۲: سُورۂ نوح (۷۱: ۲۶) میں ہے: نوحؑ نے عرض کیا: پروردگارا! روئے زمین پر کفار میں سے کسی ایک کو بھی بسا ہُوا نہ رہنے دے۔ حضرتِ نوح علیہ السّلام کی یہ دعا کس نوعیت کی ہے؟ کیا حضرتِ نوحؑ ظاہری کُفّار کو ختم کر دینا چاہتے تھے، یا یہ عالمِ شخصی کے کافروں کی نفسانی موت کی بات ہے؟ -جواب: (۱) حضرتِ نوحؑ کی یہ دعا پُرحکمت ہے (۲) یہ روحانی طوفان/قیامت کا قصّہ ہے، جس میں سب لوگ عالمِ شخصی میں جاکر ہلاک اور فنا ہوجاتے ہیں، اور یہ معجزہ ان کے حق میں

 

۲۳۷

 

بے حد مفید ہے (۳) خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں اسلام غالب ہوجاتا ہے اور کفر مرجاتا ہے۔

سوال – ۳۰۳: یہ ارشادِ مُبارک سُورۂ محمّد (۴۷: ۰۷) میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ = اے وہ لوگو جو ایمان لے آئے ہو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ اس آیۂ شریفہ کی کوئی حکمت بیان کریں-جواب: (۱) جس طرح دین کی مدد کی جاتی ہے، اس کو خدا نے بہت بڑی عزّت و برتری عطا فرما کر اپنی مدد کا درجہ دیا (۲)اور یہ وعدہ بھی فرمایا کہ وہ ایسے مومنین کی مدد کرے گا جو اللہ کی مدد کرتے رہتے ہیں (۳) وہ ان کو شاہراہِ مستقیم پر ثابت قدمی سے گامزن ہوجانے کی ہمّت عطا کرے گا (۴) اللہ کی طرف سے مدد انفرادی بھی ہوسکتی ہے اور اجتماعی بھی، آسمانی تائید کے مختلف درجات مقرّر ہیں، اللہ تعالیٰ کی مدد بہت بڑی چیز اور بہت بڑا راز ہے۔

سوال -۳۰۴: سُورۂ اَنعام (۰۶: ۹۱) میں ارشاد ہے: تم یہ کہہ دو کہ وہ کتاب جو موسٰی لائے تھے کس نے نازل کی تھی جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی جس کو تم نے متفرّق کاغذات (اوراق) میں تبدیل کیا ہے۔ یہاں سے یہ عظیم راز مُنکشِف ہُوا کہ جب آسمانی کتاب نازل ہوتی ہے تو وہ پہلے پہل کاغذ پر نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ ایک زندہ روح، نور (فرشتہ)

 

۲۳۸

 

اور لوگوں کے لئے ہدایت ہوتی ہے، آپ بتائیں کہ اس کیفیّت میں تورات کہاں تھی؟ آسمانی کتاب جب تک کاغذ پر نہ آئے کس طرح لوگوں کے لئے نور اور ہدایت ثابت ہوسکتی ہے؟ کیا تورات کے لکھنے پر خداوند تعالیٰ کو اعتراض ہے؟ -جواب: (۱) تورات جب نور اور اصل ہدایت تھی، تب وہ حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ ہارونؑ کےعالمِ شخصی میں تھی (۲) آسمانی کتاب کی دوصورتیں ہیں: صورتِ اوّل نور اور ہدایت، صورتِ دوم تحریر، لہٰذا کتابِ سماوی ناطق بھی ہے اور صامت بھی (۳) تورات کے لکھنے پر اعتراض نہیں، بلکہ اس کے باطنی نور اور اصل (روحانی) ہدایت کو اہمیّت نہ دینے پر اعتراض ہے۔

سوال – ۳۰۵: سُورۂ ہود (۱۱: ۱۷) میں ارشاد ہے: تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے دلیلِ روشن پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے اسی کا ایک گواہ ہو اور اس کے قبل موسٰی کی کتاب جو امام اور رحمت تھی (اس کی تصدیق کرتی ہو وہ بہتر ہے یا کوئی دوسرا)۔ خدا کی طرف سے دلیلِ روشن پر کون ہے؟ اسی کا ایک گواہ کون ہے؟ حضرتِ موسٰی کی کتاب کس طرح لوگوں کی امام اور رحمت تھی؟ -جواب: جو شخص اپنے ربّ کی طرف سے روشن دلیل پر ہے وہ آنحضرتؐ ہیں (۲) اسی کا ایک گواہ حضرتِ علیؑ ہے (۳) حضرتِ موسٰی کی وہ کتاب جو امام اور رحمت تھی، اس سے حضرتِ ہارونؑ مراد ہے، کیونکہ امام ہی کتابِ ناطق ہے، جس میں رحمت ہے۔

 

۲۳۹

 

سوال – ۳۰۶:  سُورۂ مُزّمّل (۷۳: ۱۵) میں ہے: تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ سیّد المرسلینؐ کی مماثلت کا اصل راز کیا ہے؟ -جواب: (۱) ویسے تو جملہ انبیاء کے اوصاف و کمالات آنحضرت صلعم میں جمع تھے، تاہم قصّۂ قرآن میں موسٰیؑ اور ہارونؑ آنحضرتؐ اور علیؑ کی مثال ہیں (۲) الَمنْزِلَۃُ کے معنی ہیں: اترنے کی جگہ، گھر، مرتبہ، چُنانچہ حضورِ پاک نے مولا علیؑ سے فرمایا: انتَ مِنّی بِمنزلۃِ ہارونَ مِن موسیٰ اِلّا انّہٗ لا نبیَّ بعدی = یعنی موسیٰ سے ہارون جس منزلت پر تھا تُو مجھ سے اُسی منزلت پر ہے، مگر یہ ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں (۳) اس سے معلوم ہُوا کہ جس طرح حضرتِ موسٰیؑ کے نور کی منزل حضرتِ ہارونؑ تھا، اسی طرح رسولِ اکرمؐ کے نور کی منزل حضرتِ علیؑ ہے۔

سوال – ۳۰۷:  آیۂ بیعت (۴۸: ۱۰) کا حصّہ ہے: (اے رسولؐ) جو لوگ تم سے بیعت کررہے ہیں تو وہ (حقیقت میں) اللہ سے بیعت کررہے ہیں خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ اس ارشاد میں سے حکمتِ ضروریہ بتائیں -جواب:   (۱) جب رسولِ پاکؐ سے بیعت دراصل اللہ سے بیعت ہے اور حضورؐ کا پاک ہاتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے، تو پھر روئے زمین پر ہر زمانے میں خلیفۂ خدا کے ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے (۲) جب ایک زمانے میں لوگوں کو خلیفۂ خدا سے بیعت کرنے کی

 

۲۴۰

 

سب سے بڑی سعادت نصیب ہو جاتی ہے تو دوسرے زمانوں میں اس سے محرومی کس طرح ممکن ہے (۳) رحمتِ عالمؐ نے سچ فرمایا: مَنْ رَاٰنِیْ فَقَدْ رَاَالّٰلہ = (۱) جس نے میرا دیدار کیا اس نے خدا کا دیدار کیا (۲) جس نے مجھے خواب میں دیکھا اُس نے خدا کو دیکھا (۳) جس نے مجھے روحانیّت و نورانیّت میں دیکھا اس نے اللہ کو دیکھا۔

سوال – ۳۰۸: روئے زمین پر ہمیشہ ہمیشہ خداوندِ تعالیٰ کے مظہر موجود و حاضر ہونے کی چند روشن دلیلیں پیش کریں۔ -جواب: (۱) آپ سُورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں خوب غور سے دیکھ لیں: نورِ الٰہی کا روشن چراغ قندیل (زجاجہ = شیشہ) میں ہے، زُجاجہ یا قندیل ستارۂ تابان کی طرح ہے، یاد رہے کہ یہ مظہرِ نورِ خدا کی تعریف ہے (۲) یہی دلیل آیۂ نورِ مُنّزل (۰۵: ۱۵) میں بھی ہے (۳) خدا کا اسم النّور مظہر ہے (۴) اللہ کا نام الظّاہر مظہر کی وجہ سے ہے (۵) حق تعالیٰ کا جو نورانی حجاب ہے ( ۴۲: ۵۱) وہ اس کا مظہر ہی ہے (۶) جب بندۂ مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے تو خدا وندِ عالم کا مظہر سب سے اوّلین مومن ہے (۷) جب امامِ مبین میں خدائے بزرگ و برتر نے سب کچھ رکھا ہے تو یقیناً اس میں مرتبۂ مظہریّت بھی ہے (۳۶: ۱۲) الغرض اس حقیقت کی بے شمار دلیلیں ہیں۔

سوال -۳۰۹: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں ہے: بےشک خدا نے آدمؑ اور نوحؑ اور خاندانِ ابراہیمؑ اور خاندانِ عمرانؑ کو سارے جہان سے

 

۲۴۱

 

برگزیدہ کیا ہے۔ یہاں یہ سوالات ہیں: کیا یہ حضرات صرف اپنے اپنے وقت میں برگزیدہ تھے، برگزیدگی کس مقصد کے لئے ہے؟ عمران تین تھے: والدِ موسٰی، والدِ مریمؑ اور والدِ علیؑ، مذکورہ آیت میں کس عمران کا ذکر ہے؟ -جواب: (۱) یہ انسانانِ کامل رہتی دُنیا تک خدا کے برگزیدہ ہیں (۲) اس انتخاب کا مقصد تمام دنیا والوں کی ہدایت کرنا ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو منتخب فرمایا ہے (۳) عمران حضرتِ ابوطالبؑ کا اسمِ گرامی ہے، اسی کے خاندان سے سلسلۂ امامت جاری ہے، جس طرح آدمؑ کی خلافت (۰۲: ۳۰) نوحؑ کی اساسی شریعت (۴۲: ۱۳) اور آلِ ابراہیمؑ کی فضیلت (۰۴: ۵۴) ہمیشہ جاری و باقی ہیں، ہر چند کہ یہ سب حضرات نورٌ علیٰ نور کے مطابق ایک ہی سلسلۂ ہدایت کی مختلف کڑیاں ہیں۔

سوال – ۳۱۰: بحوالۂ آیۂ اِصطِفاء (۰۳: ۳۳) سوال ہے کہ جب خداوندِ عالم نے تمام اہلِ جہان سے آدمؑ، نوحؑ، خاندانِ ابراہیمؑ اور خاندانِ عمرانؑ کو برگزیدہ فرمایا تو ان حضرات نے بحکمِ خدا دنیا والوں کے لئے کیا کیا امور سرانجام دیئے؟ -جواب: (۱) اس انتخاب کا مجموعی مقصد ہدایت ہے، ساتھ ہی ساتھ حضرتِ آدمؑ کے وسیلے سے اہلِ ایمان کے لئے اسمِ اعظم اور اسمائے حُسنٰی کا بابِ اقدس مفتوح ہُوا، علم الاسماء کی روشنی پھیلنے لگی، خلافتِ کُبریٰ اور خلافتِ صغریٰ کی نوازشات کا سلسلہ شروع ہُوا، آپ قرآنِ حکیم میں قصّہ آدم کو حکمت کے ساتھ پڑھیں (۲) حضرتِ

 

۲۴۲

 

نوحؑ نے لوگوں کو کشتیٔ نجات کا نمونہ پیش کیا، اپنے عالمِ شخصی کی غِربال (چھلنی) کے ذریعے سے عالمِ انسانیت کا فِلٹر کیا، طوفانِ روحانیت کے نتیجے میں اپنے ساتھ بےشمار برکات لائیں (۱۱: ۴۸)، بھری ہوئی کشتی کا تصوّر دیا، اور بُنیادی شریعت پر عمل کرکے دکھایا (۳) خاندانِ ابراہیمؑ کے احسانات بھی ازبس عظیم ہیں، اسی پاک خاندان کے نام سے عالمِ دین/عالمِ شخصی میں کتاب، حکمت اور بہت بڑی سلطنت رکھی ہوئی ہے (۴) خاندانِ عمرانؑ أئمّۂ آلِ محمّدؐ ہیں، ان میں سے ہر ایک کے زمانے میں قیامت برپا ہوتی آئی ہے (۱۷: ۷۱) تاکہ اہلِ زمانہ کو عالمِ شخصی میں داخل کرکے آخرکار نجات دلائی جائے، اور اسی طرح تمام لوگوں کو جنّت میں داخل کیا جائے۔

 

۲۴۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۲

 

سوال – ۳۱۱: سُورۂ کھف (۱۸: ۹۴) اور سُورۂ انبیاء (۲۱: ۹۶) میں یاجوج ماجوج کا ذکر آیا ہے، ان کے بارے میں عُلَماء کے مختلف اقوال ہیں، کیا آپ اس باب میں کچھ بتا سکتے ہیں کہ یہ کونسی مخلوقات ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ، امامِ آلِ محمّدؐ کے صدقے سے بتا سکتے ہیں کہ یاجوج ماجوج وہ روحانی لشکر ہیں، جو ذرّاتِ لطیف کی شکل میں بہت سے امور کو انجام دیتے ہیں (۲) جب صورِ قیامت پھونکا جاتا ہے اور جب ایک داعی بُلانے لگتا ہے (۵۴: ۰۶، ۲۰: ۱۰۸) تو یاجوج ماجوج شخصِ قیامت میں حاضر ہو جاتے ہیں (۳) ان کے کثیر کاموں میں سے ایک کام ہے: عالمِ شخصی کی زمین میں فساد کرنا، تاکہ اس میں تعمیرِ نَو ہوسکے (۴) اگر میں یہ کہوں کہ وہ فرشتے بھی یہی ہیں، جنہوں نے حضرتِ آدمؑ کی شخصیّت میں گرتے ہوئے سجدہ کیا تھا تو شاید آپ کو تعجّب ہوگا (۵) یہ ارواحِ خلائق ہیں، روحانی جنگ کے لشکر ہیں، یہ ثمرات بھی ہیں، یہ جنُودِ سلیمانی بھی ہیں، یہ دُنیا کے تمام لوگ بھی ہیں جو قیامت گاہ میں حاضر ہوئے ہیں، اگر آپ عالمِ شخصی میں آدم ہوگئے ہیں تو یہ سب آپ کی ذرّیات ہیں۔

 

۲۴۴

 

سوال -۳۱۲:  سُورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۰۸) میں ہے: يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِي لاَ عِوَجَ لَهُ۔ ان مبارک الفاظ کی حکمت بیان کریں۔ -جواب:   (۱) اس روز سب کے سب (روحانی) داعی/بلانے والے کی پیروی کریں گے (یعنی قیامتگاہ کی طرف دوڑیں گے) اس کے لئے کوئی کجی نہیں (وہ ہرزبان میں بات کرسکتا ہے) (۲) اس میں یہ اشارہ ہے کہ ہرشخص کی روحانی قیامت میں جتنی باتیں ہوتی ہیں، وہ سب کی سب اس کی اپنی زبان میں ہیں (۳) خداوندِ تعالیٰ قیامت اور بہشت میں اپنے ہر بندے سے اس کی زبان میں کلام فرماتا ہے۔

سوال – ۳۱۳: سُورۂ رحمٰن کی ابتدائی چار آیات (۵۵: ۰۱ تا ۰۴) کی حکمت بیان کریں۔ -جواب: (۱) خدائے رحمٰن نے قرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیدا کیا اور اسے بیان کرنا سکھایا (۲) نہایت مہربان خدا نے قرآن کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت کی تعلیم دے کر عارف کو روحانی اور عقلی طور پر پیدا کیا، اور اس کو علمِ بیان (علمِ تاویل) سکھایا (۳) ہر عارف کی اپنی زبان میں قرآن کی باطنی اور روحانی تعلیم دی جاتی ہے، اور وقوعِ قیامت میں سب کچھ ہے۔

سوال – ۳۱۴:  قیامت کے بہت سے نام ہیں، ان میں سے ایک نام “تاویل” بھی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ -جواب:   (۱) کیونکہ قیامت روحانیّت کا سب سے عظیم واقعہ ہے، جس میں قرآنِ حکیم کی

 

۲۴۵

 

تمام تر تاویلات موجود ہیں، پس جب مومنِ سالک پر قیامت آتی ہے، تو اپنے اندر قرآنی تاویلات کو لے کر آتی ہے، لہٰذا قیامت کا ایک نام تاویل ہے (۰۷: ۵۳)۔

سوال – ۳۱۵:  سُورۂ جاثیۃ (۴۵: ۲۳)میں ہے: پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا او اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہی میں پھینک دیا او اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ کوئی شخص علم کے باوجود گمراہ ہوجاتا ہے؟ -جواب: (۱) جو شخص ہادیٔ برحق کے نورانی علم کے سوا اپنی خواہشِ نفسانی سے کچھ علم سیکھتا ہے وہ آخر کار گمراہ ہوجاتا ہے (۲) وہ حق بات کو نہیں سُنتا تھا اور نہ اس کو سمجھ سکتا تھا، اس نے دُنیا میں نورِ مُنزل کو نہیں پہچانا (۳) یہی سبب ہے کہ خدا نے اس کے کانوں اور دل پر مہر لگادی، اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا (۴) یہ یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں (۱۰: ۴۴)۔

سوال – ۳۱۶: قرآنِ حکیم میں عقل و جان کی از بس شیرین نعمتیں ہیں، لہٰذا ہم بار بار اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، سُورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ہے: اور زمین میں اہلِ یقین کے لئے آیات (نشانیاں) ہیں، اور خود تمہارے وجود کے اندر بھی آیات ہیں کیا تم دیکھتے نہیں؟ آپ

 

۲۴۶

 

ہمیں اس کےتاویلی اسرار سے آگاہ کریں۔ -جواب: (۱) زمین یہ سیّارہ ہے جس پر ہم سب بس رہے ہیں، ساری کائنات بھی زمین ہے، اور نفسِ کُلّی بھی زمین ہے، جس کے ساتھ عقلِ کلی کا آسمان ملا ہوا ہے (۲) چُنانچہ اللہ کی انتہائی وسیع زمین میں جتنی اور جیسی آیات ہیں، وہ سب کی سب بصورتِ لطیف عالمِ شخصی میں بھی ہیں (۳) مثلاً جب زمین پر دو سب سے بڑی آیتیں قرآن اور امام ہیں، تو یقیناً یہ دونوں سب سے عظیم چیزیں آپ کی ذات میں بھی ہیں (۴) اہلِ بصیرت نے اِس حقیقت کا مُشاہدہ کیا کہ عالمِ شخصی میں نورِ قرآن اور نورِ امام بحکمِ نورٌعَلیٰ نور ایک ہی ہے۔

سوال – ۳۱۷:  قرآن ہی کی روشنی میں جواب دیں کہ جب خداوندِ تعالیٰ کسی شخص کے باطن میں نورِ ہدایت کو مقرّر کرتا ہے تو وہ کس کا نور ہوتا ہے؟ -جواب: (۱) قرآن اور امام کا نور ہوتا ہے جو خدا اور رسولؐ کا نور ہے (۲) کیونکہ ہمیشہ عالمِ دین میں ہدایت کے لئے دو مقدّس چیزیں رہی ہیں، وہ کتابِ سماوی اور معلّمِ ربّانی ہیں (۳) قرآنِ حکیم میں نور کا مبارک اسم صیغۂ واحد میں اس لئے آیا ہے کہ نور اصلاً ایک ہی ہے، ہر چند کہ اشخاصِ نور الگ الگ ہیں، جس کا اشارہ نورٌعَلیٰ نور میں ہے۔

سوال -۳۱۸: آیا جِنّات، شیاطین، وغیرہ کبھی کسی انسان کے

 

۲۴۷

 

پاس ظاہر ہو کر آتے ہیں؟ اگر ایسی کوئی مخلوق سامنے حاضر ہوتی ہے تو اس کے لئے چارۂ کار کیا ہے؟ -جواب:   (۱) سُورۂ مومنون (۲۳: ۹۸) میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین کے حاضر ہوجانے کا امکان ہے، جس کے شرّ سے بچنے کے لئے پہلے ہی سے خدا کے ہاں پناہ گیر ہوجانا ضروری ہے (۲) امامِ زمان علیہ السّلام کی پناہ خدا کی پناہ ہے، جو ہر مومن اور مومنہ کو علم و عمل سے مل سکتی ہے۔

سوال – ۳۱۹: حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کے قرآنی قصّے ظاہراً مختلف ہیں، آیا ان کی حکمتیں اور معرفتیں بھی الگ الگ اور مختلف ہیں؟ -جواب: (۱) قصصِ انبیاء کی ظاہری گونا گونی میں علمی نعمت کی فراوانی بھی ہے اور لوگوں کی آزمائش بھی (۲) جب تمام باطنی حکمتیں اور معرفتیں مربوط اور یکجا ہیں (۳) کیونکہ صراطِ مستقیم سب کے لئے یکسان ہے، منزلِ مقصود سب کی ایک ہی ہے، ہر چند کہ پیغمبروں کے درجات مختلف ہیں۔

سوال – ۳۲۰: میرے خیال میں معرفت سے متعلّق سوال عظیم سوالات میں سے ہے، سو آپ یہ بتائیں کہ وہ آیۂ کریمہ کونسی ہے جس کے حکم کے مطابق سارا قرآن معرفت کا موضوع ہوجاتا ہے؟ -جواب: وہ ارشاد سُورۂ یوسف میں ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: کہدو: یہ میرا راستہ ہے کہ میں اور میرے پَیروکار کاملِ بصیرت کے ساتھ

 

۲۴۸

 

لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، اللہ مُنزّہ ہے، اور میں مشرکین سے نہیں ہوں (۱۲: ۱۰۸) (۱) آنحضرتؐ اور آپؐ کے پَیروکار (علیؑ) کا راستہ بصیرت کا ہے، یعنی مشاہداتِ باطن اور معرفت کا راستہ ہے (۲) قرآنِ حکیم سرتا سر اسی دعوتِ بصیرت و معرفت کا مضمون ہے (۳) جو لوگ سیّدالانبیاء صلعم کی اِس پُرنور و بامعرفت دعوت کو حقیقی معنوں میں قبول کریں گے، وہ یقیناً گنجِ معرفت کو حاصل کرسکیں گے۔

 

۲۴۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۳

 

سوال -۳۲۱: سُورۂ احزاب (۳۳: ۴۶) میں ہے: وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا = اور تجھے اللہ کے حکم سے اسی کی طرف دعوت دینے والا اور روشنی عطا کرنے والا چراغ قرار دیا ہے۔ اس ارشادِ مبارک کی حکمت سمجھائیں۔ -جواب: (۱) اس چراغ کے نور میں نہ صرف باطنی روشنی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ چشمِ بصیرت بھی ہے، (۲) جہاں نور اور چشمِ بصیرت ہو وہاں معرفت ہی معرفت ہے (۳) تمام قرآنی الفاظ کے معانی براہِ راست اور بالواسطہ معرفت کے معنی میں تحلیل ہوجاتے ہیں (۴) کیونکہ شریعت کا خُلاصہ طریقت ہے، طریقت کا مغز حقیقت، اور حقیقت کا جوہر معرفت ہے (۵) خدا جب علمی کائنات اور اس کے بےشمار لفظوں کو لپیٹتا ہے، تو اس حال میں تمام الفاظ و معانی یکجا نظر آتے ہیں، یہ مقامِ معرفت کا تذکرہ ہے۔

سوال – ۳۲۲: ایک اور پُرمغز مثال معرفت کے بارے میں بیان کریں۔ -جواب: (۱)خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) یعنی وہ جلّ جلالہ نورِعلم، نورِ ہدایت، اور نورِ معرفت ہے (۲) لہٰذا کائنات،

 

۲۵۰

 

عالمِ شخصی، اور قرآن کا باطن نورِالٰہی سے جگ مگ جگ مگ کررہا ہے (۳) اللہ کا نور اس کے مظہر کی قندیل میں ہے، قندیل فروزان ستارے کی مانند شفاف و درخشان ہے (۴) الغرض جہاں نور کی تعریف و توصیف ہے، وہاں چشمِ بصیرت کا اشارہ بھی ساتھ ساتھ ہے، کیونکہ نور دیکھنے اور دکھانے کے معنی میں ہوتا ہے، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

سوال – ۳۲۳: آپ قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) کی طرف بار بار توجّہ دلاتے آئے ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: تمام چیزوں کے خزانے ہمارے پاس ہیں، لیکن ہم مُعیّن اندازہ کے سِوا انہیں نازل نہیں کرتے۔ ہم کو اس کے بارے میں مزید سمجھائیں، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہاں کچھ کلیدی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ -جواب: (۱)بِقدرٍ معلوم (معیّن اندازہ) میں علم و عبادت اور معرفت کا اشارہ ہے (۲) یعنی اللہ کے خزانوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے اخلاقی اور روحانی ترقّی شرط ہے (۳) خزائنِ الٰہی کے دروازے آپ کے دل ہی میں ہیں، اگر آپ درویش ہیں تو ضرور اس بات کا اندازہ ہوگا کہ دل کا کوئی دروازہ کب کُھل جاتا ہے اور پھر کیوں بند ہوجاتا ہے (۴) دانا شخص وہی ہے جو اشارات کو سمجھتا ہے، دل بھی اشاراتی زبان میں آپ سے ضروری باتیں کرتا رہتا ہے۔

سوال – ۳۲۴: آنحضرتؐ کے اُسوۂ حسنہ کا ذکرِ جمیل قرآنِ حکیم کے کس مقام پر ہے؟ اس کی نمایان حکمت کیا ہے؟ -جواب:   (۱) سُورۂ

 

۲۵۱

 

احزاب (۳۳: ۲۱) میں رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کے اُسوۂ حسنہ کا ذکر آیا ہے (۲) ترجمۂ آیۂ شریفہ یہ ہے: درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا (اور ہے) ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمّیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (۳) اہلِ دانش سے مخفی نہیں کہ حضورِ اکرمؐ نے اسی زندگی ہی میں قیامت، آخرت اور بہشت کا مشاہدہ کیا تھا، اور معراجِ روحانیّت میں آنحضرتؐ کو اللہ تعالیٰ کا پاک دیدار ہوا تھا (۴) پس مذکورہ آیۂ کریمہ بزبانِ حکمت اہلِ ایمان سے یہ فرماتی ہے کہ آؤ آگے بڑھو، کوئی رکاوٹ نہیں، ہادیٔ برحق کے پیچھے پیچھے چل کر فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل کرو، اور رسولِ پاکؐ کے بہترین نمونۂ عمل کی طرف توجّہ دلانے کا مقصد یہی ہے۔

سوال – ۳۲۵: سُورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سُورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں اہلِ ایمان کے نور کا ذکر آیا ہے، کہ دنیا کی زندگی ہی میں باطنی اور روحانی قیامت برپا ہورہی ہے، جس میں مومنین اور مومنات کا نور حظیرۂ قدس میں دوڑ رہا ہے، آپ یہ بتائیں کہ یہ نورِ پاک دراصل کس کا ہے؟ -جواب: (۱) یہ نورِ اقدس اللہ، رسولؐ، اور امامؑ کا ہے، جس میں اطاعت اور عشق و محبّت کے ذریعے سے اہلِ ایمان فنا ہوچکے ہیں، لہٰذا اب یہ نور مومنین و مومنات کا بھی ہے (۲) یہ ایک ایسی روحانی حقیقت ہے کہ ہر قیامت میں اس کا تجدّد ہوتا ہے، (۳) یہ سِرِّعظیم ایسا ہے کہ خدا نے اس کو مخفی رکھا ہے، جیسا کہ سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۷) میں ہے: پھر جیسا کہ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان

 

۲۵۲

 

ان کے اعمال کی جزاء میں اُن کے لئے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی شخص کو خبر نہیں ہے۔

سوال – ۳۲۶: سُورۂ حدید (۵۷: ۱۹) میں ہے: اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر (کما حقّہ) ایمان لائے ہیں وہی اپنے ربّ کے نزدیک صِدّیق اور شہید ہیں، ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے۔ آپ وضاحت سے بتائیں کہ ایسے لوگ کون ہیں، اور ان کا ایمان کس درجے کا ہے؟ -جواب: (۱) یہ اساس، امام، باب، حجّت، اور داعی ہیں، جن کے ساتھ تمام مومنین مربوط اور وابستہ ہیں، ورنہ صدّیق اساس ہے، اور شہید امام (۲) مومنین و مومنات کے بہت سے درجات حدودِ اعلیٰ کے ذریعے سے مُیسر ہوتے ہیں (۳) دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الجنائز، بحوالۂ روایتِ امیر المومنین علی علیہ السَّلام یہ آیۂ شریفہ مومنین کے بارے میں ہے۔

سوال – ۳۲۷: مومن کی بیماری اور موت کے بارے میں کچھ اُمید افزا باتیں بتائیں۔ -جواب: (۱)مذکورہ روایت کا حصّہ ہے کہ حضرتِ علیؑ نے فرمایا کہ بیمار خدا کے قید خانے میں ہوتا ہے، جب تک وہ اپنی عیادت کرنے والوں سے کوئی شکایت نہیں کرتا، اس کے گناہ مٹائے جاتے ہیں (۲) اور جو مومن بندہ بیماری کی حالت میں انتقال کرجاتا ہے، وہ شہید ہوتا ہے، اور یوں تو ہر مومن شہید ہے، اور ہر مومنہ

 

۲۵۳

 

حَوراء ہے (۳) مومن جس موت سے بھی مرے وہ شہید ہے، اس کے بعد مولا علیؑ نے مذکورہ آیت (۵۷: ۱۹) کی تلاوت فرمائی۔

سوال – ۳۲۸: سُورۂ سبا  (۳۴: ۱۳) میں ارشاد ہے: اِعْمَلُوْۤا اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاؕ-وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ=اے آلِ داؤد، عمل کروشکر کے طریقے پر، میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں۔ یہ کس درجے کی نعمتوں کی عملی شکرگزاری کا حکم ہے؟ اب آلِ داؤد موجود نہیں، پھر اس حکم کا تعلّق کس خاندان سے ہوگا؟ -جواب: (۱)یہ روحانی سلطنت کی انتہائی عظیم نعمتوں کا اشارہ ہے، جو حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے جسمانی اور روحانی فرزندوں کو حاصل تھیں (۲) وارثِ تخت و تاجِ امامت اور اس کے حقیقی مُرید آلِ داؤد کے مقام پر ہیں۔

سوال – ۳۲۹: صبر کا اطلاق بحقیقت کِن لوگوں پر ہوتا ہے؟ شکر کا خاص مقام کہاں ہے؟ توکُّل پہلے ہے یا ایمان؟ یقین کس بیماری کا علاج ہے؟ اصل پرہیزگاری کیا ہے؟ علم سے باہر کیا چیز ہے؟ -جواب: (۱) صبر قیامت اور روحانی جنگ برداشت کرنے والوں کا وصف ہے (۲) شکر کا خاص مقام وہاں ہے جہاں باطنی نعمتوں کی بیحد فراوانی ہوتی ہے (۳) ایمانِ کامل کے بعد توکُّل کا مقام آتا ہے (۴) شکوک و شبہات کی بیماری کا علاج یقین ہے۔ (۵) اصل تقویٰ خوفِ خدا اور علم ہے (۶) علم سے باہر کوئی چیز نہیں۔

 

۲۵۴

 

سوال – ۳۳۰: سُورۂ توبۃ (۰۹: ۳۲) اور سُورۂ صف (۶۱: ۰۸) میں ارشاد ہے، دونوں آیتوں کا ایک ہی مضمون ہے، پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے: وہ چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے نورِ خدا کو بجھا دیں لیکن اللہ اس کے سِوا کچھ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے نور کو کامل کرے، اگرچہ کافر اسے ناپسند کرتے ہیں۔ اللہ کے نور کو بُجھانے کے لئے ناکام کوشش سب سے پہلے کس نے کی تھی؟ اس کی حکمت کیا ہے کہ خدا اپنے نور کو مکمّل کرتا ہے؟ -جواب: (۱)سب سے پہلے قابیل نے نورِ خدا کو بجھانے کی کوشش کی (۲) نور ازل میں کامل و مکمّل ہے، یعنی نور کی اپنی ذات میں کوئی کمی نہیں، لیکن جب نور شخصِ نبوّت اور شخصِ امامت میں طلوع ہوتا ہے تو ایک ہی دن میں کارنامۂ نور مکمّل نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کے لئے کچھ وقت چاہیئے، تاکہ حاملِ نور منزل بمنزل آگے سے آگے جائے، اور آخر کار نور مکمّل ہوجائے (۳) نور کی تکمیل دَور کے اعتبار سے بھی ہے کہ سات اماموں کا ایک دَور ہوتا ہے، اور سات دفعہ سات کا ایک بڑا دَور ہوتا ہے۔

 

سوال – ۳۳۱: سُورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں ہے: رَبَّنَآاَتْمِم لَناَ نُوْرَنَا = پروردگارا ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمّل کر دے۔ خدا سے مومنین کی یہ درخواست کس منزل میں ہوتی ہے؟ نورِ معرفت کی تکمیل کس چیز سے ہوتی ہے؟ آیا یہ نور انفرادی ہے یا اجتماعی؟ -جواب: (۱) مومنین و مومنات یہ دعا حظیرۂ قدس میں کرتے ہیں (۲) نورِ معرفت کی

 

۲۵۵

 

تکمیل اسرارِ معرفت ہی سے ہوتی ہے (۳) یہ نور انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی کیونکہ عالمِ شخصی واحد بھی ہے اور جمع بھی، اور قیامت کے تمام واقعات عالمِ شخصی میں پیش آتے ہیں۔

سوال -۳۳۲: جب کوئی مومنِ سالک آگے چل کر عارف ہو جاتا ہے اور اس کو خداوند تعالیٰ کا دیدارِ اقدس حاصل ہوتا ہے تو اُس وقت اس کا علمی اور عرفانی سفر ختم ہوتا ہوگا، کیونکہ منزلِ مقصود خدا ہی ہے؟ -جواب: (۱)خدا کی طرف جو سفر ہے وہ تو ختم ہوجاتا ہے، لیکن جو سفر خدا میں ہے، اس میں عارف کی حقیقی زندگی ہے، اور عارف کی حقیقی زندگی کیونکر ختم ہوسکتی ہے (۲) خدا یقیناً منزلِ مقصود ہے، لیکن یہ منزل کس طرح محدود ہو سکتی ہے، یہاں تو ہر لحظہ بے شمار کائناتیں بنتی رہتی ہیں۔

سوال ۳۳۳: سُورۂ رحمٰن میں سرتا سر نعمتوں ہی کا ذکر ہے، اور یہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم، اعلیٰ اور بے شمار نعمتوں سے انس و جِنّ دونوں کو ایک ساتھ نوازا ہے، ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا انس و جِنّ کے آپس میں کوئی رشتہ ہے؟ یا کوئی وحدت ہے؟ -جواب: (۱) آیۂ قرآن (۵۷: ۱۳) کے مفہوم کے مطابق ظاہر و باطن کے درمیان ایک دیوار اور اس میں ایک دروازہ ہے، جب ہم اس دروازے سے باطن میں داخل ہوجاتے ہیں، تو اس میں رحمت و

 

۲۵۶

 

علم اور نور و سرور کی فراوانی ہے، لیکن ظاہر کی طرف جب باہر آتے ہیں تو بےشمار اُلجھنوں کی وجہ سے عقلی عذاب ہے (۲) انسانوں اور جِنّوں میں نہ صرف رشتہ ہے بلکہ وحدت بھی ہے، وہ اس طرح کہ آپ انسان ہیں، لیکن آپ نے ایک لطیف انسان (جِنّ = پری) کے بارے میں بھی سنا ہے، یقین کریں کہ یہ آپ کا رشتہ دار ہے، اور عجب نہیں کہ ایک نہ ایک دن آپ خود بھی مخلوقِ لطیف ہوجائیں۔

خداوندِ قدّوس کی عِنایتِ بے نہایت سے آج یہاں کتابِ “صنادیقِ جواہر” کا حصّۂ اوّل مکمّل ہو جاتا ہے جو ۳۳۳ سوالات پر مُشتمل ہے، مولائے پاک کے علمی لشکر اور جملہ جماعتِ باسعادت سے درخواست ہے کہ وہ ہر گونہ علمی ترقّی کے لئے دعا کریں، ساتھ ہی ساتھ ہر عزیز شاگرد کو بیحد ضروری مشورہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو علم و حکمت کے اسلحہ سے لیس کر کے رکھے۔

میں ہمیشہ اپنے تمام عزیزوں کو دل و جان سے یاد کررہا ہوں، یہ میرے لئے خداوند تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہے، کیونکہ دینی محبّت و دوستی ایک بہشتی میوۂ شیرین ہے، یہ ایک دوسرے کے لئے احترام و محبّت صفتِ انسانیت اور خاصۂ آدمیت ہے۔ الحَمْدُ للہ ہم سب خدا شِناس ہیں، جس کی وجہ سے ہم دنیا و آخرت سے متعلّق غیر معمولی اُمیدیں رکھتے ہیں، ان شاءاللہ، مولائے پاک کی نورانی دعا جماعت کے لئے ہر مقام پر معجزانہ کام کرتی رہے گی۔

نورِ امامت کے انتہائی عظیم معجزات کو میں کیسے بُھول سکتا ہوں، قانونِ

 

۲۵۷

 

روحانیت و قیامت کے مطابق میں تنہا تھا اور میں تنہا نہ تھا میرے ساتھ سب تھے، خصوصاً میرے جملہ عزیزان جو آج میرے ساتھ مِل کر علمی خدمت کو حسن و خوبی سے سرانجام دے رہے ہیں، عجب نہیں کہ ہمارے بیحد پیارے ساتھیوں کی علمی خدمات تمام عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیت کے حق میں مفید ثابت ہوں، کیونکہ اسرارِ قرآن ہی ایسے ہیں کہ تمام لوگوں کو خوشی سے یا زبردستی سے بہشت میں لے جانا ہے، ہادیٔ برحق کے امام النّاس (تمام لوگوں کا امام) ہونے کے یہی معنی ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبّ ِعلی) ہونزائی

بدھ۲؍ شوال المکرّم ۱۴۱۹ھ   ۲۰؍جنوری  ۱۹۹۹ء

 

۲۵۸

 

صنادیقِ جواہر

حصّۂ دُوُم

 

 

صندوقِ جواہر۔ ۱

 

سوال – ۳۳۴: سُورۂ معارِج کے شروع (۷۰: ۰۳) میں اللہ تعالیٰ کو “ذی المعارِج” کہا گیا ہے، اس کی کیا توجہیہ ہوسکتی ہے؟ -جواب: (۱) معارِج = سیڑھیاں، درجے، واحد معراج (۲) ہر دَور کے حدودِ دین، یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اساس، امام، باب، حُجّت، داعی، ماذون، اور مستجیب (۳) حدودِ دین ہی وہ درجات ہیں جو کبھی صراطِ مستقیم کہلاتے ہیں، کبھی اللہ کی رسّی، اور کبھی معراج (سیڑھی) (۴) یہ سارے حدود امامِ مبین میں جمع ہیں، جس کی معرفت عالمِ شخصی میں ہے۔

سوال – ۳۳۵: قرآنِ حکیم کی ہر آیۂ شریفہ اپنی باطنی حکمت میں عُقَلاء کے لئے انتہائی حیران کُن ہوتی ہے، جس طرح یہ آیۂ مبارکہ ہے: فَفِرُّوْآ اِلیَ اللہ =پس تم خدا کی طرف دوڑو (۵۱: ۵۰) آپ اس کی حکمتی وضاحت کریں۔ -جواب: (۱) اس کے معنی ہیں: صراطِ مستقیم پر تیزی سے آگے بڑھو (۲) اللہ کی یاد میں ذرا بھی سُستی نہ کرو (۳) ہر نیک کام میں سبقت کرو (۴) ذکرِ سریع سے خوب فائدہ اٹھاؤ (۵) جملہ شُرور اور خطرات سے بچنے کے لئے خدا کی پناہ گاہ کی طرف بھاگو۔

 

۲۶۱

 

سوال -۳۳۶: سُورۂ نساء (۰۴: ۱۲۵) میں ہے: وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ ۔ اس کی عظیم تر حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱)جو شخص اپنا چہرۂ جان خدا کے سپرد کر دے اس سے بہتر کس کا دین ہے (اور پھر وہ نیکوکار بھی ہو اور ابراہیم کے خالص اور پاک دین کا پَیرو ہو اور خدا نے ابراہیم کو اپنی دوستی کے لئے منتخب کر لیا ہے ) (۲) جو شخص علم و عمل کے ساتھ ساتھ عشقِ سماوی سے بکثرت گریہ و زاری اور بکثرت سجدہ کرتا ہے، وہ اپنے چہرۂ عقل و جان کو اللہ کے سپرد کرتا ہے، اور اللہ اس کو حضرتِ آدم کی طرح صورتِ رحمان میں حیاتِ جاویدانی عطا کرتا ہے۔

سوال -۳۳۷ : سُورۂ اَنعام (۰۶: ۷۹) میں ہے: اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا…۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱)حضرتِ ابراہیمؑ نے کہا: میں نے اپنا چہرۂ عقل و جان اس پاک ہستی کے لئے قرار دیا جس نےآسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے میں وحدت شِناس ہوں (۲) جب حضرتِ ابراہیمؑ کی عِرفانی رسائی عقلِ کلّی کے بعد نفسِ کُلّی تک ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو حضرتِ آدمؑ کی طرح صورتِ رحمان پر پیدا کیا (۳) جب عارف صورتِ رحمان میں فنا ہوجاتا ہے، تب اس کا چہرۂ عقل و جان اللہ جلّ شانہ کے لئے قرار پاتا ہے (۴) مذکورہ آیت کی حکمت اِس شعر میں ہے:۔

ز نورِ او تو ھستی ہمچو پر تو   +  حجاب از پیش بردار و تُو اوشو

 

۲۶۲

 

سوال – ۳۳۸: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے لَآ اُحِبُّ الٰا فِلِیْنَ (۰۶: ۷۶) کہا، اس میں کیا رازِ معرفت ہے؟ -جواب:   (۱) میں غروب ہوجانے والوں سے محبّت نہیں کرتا (۲) اس میں نفسِ کُلّی کی خاص معرفت کا اشارہ ہے کہ وہ طلوع و غروب سے بالاتر ہے۔

سوال – ۳۳۹: حضرتِ ابراہیمؑ نے یہ بھی کہا تھا: وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (۰۶: ۷۹) اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: میں مشرکین سے نہیں ہوں (۲) یعنی میں مُوَحِّدِینْ سے ہوں کہ حقیقی معنوں میں خدا کو ایک مانتا ہوں (۳) زبانی طور پر اللہ کو ایک ماننا بڑا آسان ہے، لیکن علمِ توحید اور معرفت بہت مشکل ہے، لہٰذا اس کے لئے امامِ آلِ محمّدؐ کی ہدایت ازبس ضروری ہے (۴) کسی عارف کا حظیرۂ قدس میں جا کر صورتِ رحمان پر ہونا اگرچہ سب سے بڑی کامیابی ہے، تاہم سوچنا یہ ہے کہ آیہ یہ ایسا نیا واقعہ ہے جو پہلے کبھی پیش نہیں آیا تھا، یا یہ ازلی اور قدیم راز کا انکشاف ہے؟

سوال – ۳۴۰:  سُورۂ مومنون (۲۳: ۹۷ تا ۹۸) میں نہ صرف شیاطین کے وسوسوں کا ذکر ہے، بلکہ یہ ارشاد بھی ہے کہ وہ حاضر بھی ہوسکتے ہیں، پس سوال یہ ہے کہ جب مُضِلّ (گمراہ کرنے والا) یعنی شیطان شرّ پھیلانے کے غرض سے اتنا کچھ کرسکتا ہے، تو کیا اس کے توڑ کے لئے ہادئ برحق کے پاس کوئی چیز نہیں ہے؟ -جواب:   (۱) کیوں نہیں بہت کچھ ہے،

 

۲۶۳

 

بلکہ سب کچھ ہے (۲) امامِ اقدس و اطہر کے نور کی بہت سی مثالیں ہیں، ان میں سے ایک مثال ٹیلیفون کیسی ہے، فوجی سِگنل اور وائرلیس کی طرح بھی ہے (۳) ہادئ برحق (امامؑ) کے پاس جُثّۂ اِبداعیّہ کا عظیم معجزہ ہے، لہٰذا وہ اِس نورانی بدن میں کس مومنِ عاشق کے سامنے حاضر ہو سکتا ہے (۴) اگرچہ باطن میں بھی دیدارِ پاک کے کئی اعلیٰ مقامات ہیں، لیکن یہاں جسمِ فلکی کا ذکر ہورہا ہے، کہ وہ کیسا عظیم معجزہ ہے؟

 

۲۶۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲

 

سوال – ۳۴۱: سُورۂ رعد (۱۳: ۱۲) اور سُورۂ رُوم (۳۰: ۲۴) میں برق (بجلی) کا ذکر آیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟ اس میں خوف اور طمع کیوں ہے؟ -جواب: (۱)یہ امامِ زمانؑ کے جسمِ فلکی میں ظہور کا معجزہ ہے (۲) اس حال میں مومن امام کے اس مافوق الفطرت ہستی سے ڈرتا بھی ہے اور طمع بھی کرتا ہے، کہ اے کاش! میں اپنے امام میں فنا ہوجاتا، تاکہ مجھ کو اپنے اِس بیمار اور ناچار جسم سے آزادی مل جاتی (۳) اگر یہ صرف آسمانی بجلی ہوتی تو خوف درست بھی ہو، لیکن طمع کس بات کی، آپ اس کو بارش کی طمع نہیں کہہ سکتے ہیں، کیونکہ ظاہری بارش میں آبادی بھی ہے اور بربادی بھی۔

سوال – ۳۴۲: حضرتِ امامِ عالیمقام علیہ السّلام کے جُثّۂ اِبداعیّہ کے ناموں میں سے ایک نام البرق (بجلی) کیوں ہے؟ آیا کائنات میں جتنی چیزیں ہیں، ان کی نظیریں عالمِ دین میں بھی ہیں اور عالمِ شخصی میں بھی؟ -جواب:   (۱)حدیثِ شریف ہے: یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنی خلق (کائنات و موجودات) کی طرح بنایا، تاکہ اس

 

۲۶۵

 

کی خلق سے اس کے دین کی دلیل لی جائے، اور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت کی دلیل لی جائے (۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح ظاہر میں کثیف (مادّی) چیزیں ہیں، اسی طرح باطن میں لطیف (روحانی) چیزیں ہیں (۳) جاننا چاہیئے کہ جہانِ کثیف مُردہ ہے، اس لئے یہاں برقی انسان ہو نہیں سکتا ہے، لیکن جہان لطیف زندہ ہے، اس لئے وہاں برقی انسان کا ظہور ہوسکتا ہے (۴) لطیف برقی انسان آج امام ہی ہے، اسی لئے اس کا نام “البرق” ہے، اور کل آپ بھی برقی کُرتا پہن کر برقی آدمی ہو سکتے ہیں۔

سوال – ۳۴۳: آپ یہ بتائیں کہ برقی کُرتا کیا ہے؟ اور اس کا ذکر قرآنِ پاک میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱) سُورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں سرابیل (کُرتے) کی نعمتِ عظمیٰ کی تعریف کو شادمانی اور شکر گزاری سے پڑھیں، اور نہایت مہربان خدا کے وعدے پر جان و دل سے یقین رکھیں (۲) قمیصِ برقی کے بہت سے اسماء ہیں، جیسے: پیراہنِ یوسفی، پرندۂ عیسیٰ، شاہِ جِنّات، فرشتہ، جُثّۂ ابداعیہ، ایسٹرل باڈی، جامۂ جنّت، کوکبی بدن، برقی بدن، قالبِ نورانی، تختِ سلیمانی، محراب (قلعہ) لطیف عالمِ شخصی، جوہرِ کائنات، کائناتی بدن، جسمِ کُلّی، خلقِ جدید، اُڑن طشتری، وغیرہ۔

سوال – ۳۴۴: آیا کُلّیّۂ امام ِمُبین (۳۶: ۱۲) زمانۂ آدم میں بھی تھا؟ خدا کی روح اور خدا کے نور میں کیا فرق ہے؟ کیا یہ بات درست ہے کہ

 

۲۶۶

 

ہر انسانِ کامل میں خدائی روح پھونک دینے کے لئے صورِ قیامت پھونکا جاتاہے؟ -جواب: (۱)کُلّیّۂ امامِ مبین ازل سے ہے، یعنی قدیم ہے، لہٰذا قصّۂ آدم کے پس منظر میں امام ہے (۲) خدا کی روح نور ہے اور نور روح ہے، اس لئے ان دونوں لفظوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں (۳) خدائی روح سے روح الارواح مراد ہے، جو نورِ مطلق ہے، جب یہ روح کسی کامل میں آنے لگتی ہے تو لازماً اسرافیل صور پھونکتا ہے، اور روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے(۴) اللہ تعالیٰ نے جس روح کو رُوْحِیْ (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) یا رُوْحنَا (۱۹: ۱۷، ۲۱: ۹۱) کہا ہے، وہ نسبتِ شرفی ہے، یا نسبتِ مظہریت ہے۔

سوال – ۳۴۵: سُورۂ قصص (۲۸: ۲۰) میں ہے: اور ایک شخص شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہُوا آیا اور بولا: موسیٰ، سرداروں میں تیرے قتل کے مشورے ہورہے ہیں، یہاں سے نکل جا، میں تیرا خیر خواہ ہوں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ شخص کون تھا جو شہر کے بارہ بیابان سے آیا تھا؟ -جواب: (۱) یہی ہے صاحبِ جُثّۂ ابداعیّہ، کہ بیابان سے دوڑتا ہوا آیا، شہر کے کسی مرکز سے نہیں آیا (۲) انبیاءعلیہم السّلام کے قِصّوں میں معمولی باتیں نہیں ہوتیں، بلکہ اسرار ہوتے ہیں (۳) خوب یاد رہے کہ جب امام علیہ السّلام کا پاک ظہور نورانی بدن میں ہوتا ہے تو اس کا آنا جانا وغیرہ برق کی طرح ہوتا ہے۔

 

۲۶۷

 

سوال – ۳۴۶: سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۲۰) میں ہے: ایک شخص شہر کے دور و دراز مقام سے دوڑتا ہُوا آیا (اور) اس نے کہا: اے میری قوم! رسولانِ خدا کی پیروی کرو۔ یہ شخص کون تھا؟ وہ کیوں دوڑتا ہُوا آیا؟ کیسے پتا چلا کہ یہاں لوگ پیغمبروں کی بات نہیں مان رہے ہیں، حالانکہ وہ دور تھا؟ -جواب: (۱) یہ صاحبِ جُثّۂ اِبداعیّہ تھا (۲) دوڑنا یعنی برق رفتاری سے آنا اس کا خاصّہ ہے، کیونکہ وہ برقی بدن ہے (۳) وہ روحانی طور پر دیکھ رہا اورسُن رہا تھا، اس نے پیغمبروں کی تصدیق و حمایت کی غرض سے بات کی، ورنہ لوگ اس کو نہیں دیکھتے اور نہیں سنتے تھے۔

سوال – ۳۴۷: سورۂ اعراف (۰۷: ۲۷) میں ہے: وہ (شیطان) اور اس کے لشکر تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ شیطان اپنے لشکر کے ساتھ کسی مقام سے انسان کو دیکھ سکتا ہے؟ اس کو یہ زبردست قوّت کس غرض سے دی گئی ہے؟ اگر شیطان اس لئے لوگوں کو دیکھ سکتا ہے تاکہ ان کو گمراہ کر سکے، تو کیا ہادئ برحق لوگوں کے باطن کو دیکھ کر ہدایت نہیں کرسکتا ہے؟ -جواب: (۱) شیطان اپنے لشکر سمیت عالمِ شخصی میں داخل ہوکر وہیں سے انسان کو دیکھتا ہے، اس کا ثبوت وہ جِنّ ہے جو دل کے پاس مقرّر ہے (۲) شیطان کی اس قوّت میں انسان کی آزمائش ہے (۳) ہادیٔ برحق بھی اپنے لشکر (ارواح و ملائکہ) کے ساتھ عالمِ شخصی میں آسکتا ہے، جس کا ثبوت وہ فرشتہ ہے، جو دل کے پاس موجود ہے، تاکہ اللہ کی طرف سے جو نورِ ہدایت مقرّر ہے، وہ اہلِ

 

۲۶۸

 

ایمان کے باطن تک پہنچ سکے۔

سوال – ۳۴۸: سورۂ مُجادلہ (۵۸: ۲۱) میں ہے: اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولان ہی غالب ہو کر رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کس جنگ کے بارے میں ہے؟ خدا اور اس کے پیغمبران کب شیطان اور اس کے لشکر پر غالب آئیں گے؟ -جواب: (۱) یہ وہ جنگ ہے جو شیطان اور اس کی پارٹی کے خلاف لڑی جاتی ہے (۲) ہر ناطق کے دَور میں کئی روحانی جنگیں یعنی قیامتیں ہوئیں، اور ہر بار خدا، صاحبِ دَور (ناطق) امام، اور اہلِ ایمان غالب آگئے۔

سوال – ۳۴۹:  یہ ارشاد قرآنِ حکیم کے آٹھ مقامات پر ہے: اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ (۰۵: ۰۴) بیشک اللہ تعالیٰ جلدی حساب لینے والا ہے۔ یہ ارشاد بھی ہے: اَلَا لَہُ الْحُکْمُ وَھُوَ اَسْرَاعُ الْحٰسِبِیْنَ (۰۶: ۶۲) خوب سن لو کہ فیصلہ اللہ ہی کا ہوتا ہے اور وہ سب سے زیادہ جلد حساب لینے والا ہے۔ یہ حساب کس چیز کا ہے؟ یوم الحساب کس دن کا نام ہے؟ -جواب: (۱) یہ حساب بندوں کے اعمال سے متعلّق ہے، جس سے قیامت مراد ہے (۲) یوم الحساب قیامت کے ناموں میں سے ہے (۳) الغرض قیامت ظاہری نہیں، بلکہ باطنی اور روحانی حالت میں ہے، جو ہر ایک امام کے زمانے میں برپا ہوتی چلی آئی ہے، اور جیسے ہی کوئی عمل انجام پاتا ہے، فوراً ہی اس کا حساب ہوچکا ہوتا ہے۔

 

۲۶۹

 

سوال – ۳۵۰: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۲۷) میں ایک عظیم الشّان دعا کا آخری حصّہ ہے: وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ = اس میں جو عظیم حکمت پوشیدہ ہے، وہ کیا ہے؟ -جواب: (۱) ظاہری ترجمہ: اور تو ہی جس کو چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔ اس ترجمے کی وجہ سے دنیا کی ان قوموں کی تعریف ہوسکتی ہے، جن کے پاس آج بے پناہ دولت موجود ہے، لیکن یہ بات درست نہیں (۲) اصل ترجمہ: اور تو ہی جس کو چاہتا ہے (تجربۂ) قیامت کے بغیر بھی علم دے سکتا ہے (۳) کیونکہ دراصل خزائنِ علم و حکمت کے لئے قیامت شرط ہے۔

 

۲۷۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۳

 

سوال – ۳۵۱: سورۂ حجر (۱۵: ۸۷) میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ۔ اس کا تاویلی راز کیا ہے؟ -جواب: (۱) ترجمۂ اوّل: اور ہم نے تم کو سبعِ مثانی (سُورۂ فاتحہ) اور قرآنِ عظیم عطا کیا ہے (۲) ترجمۂ دوم: اور ہم نے تم کو سبعِ مثانی (سات سات اماموں کا سلسلہ) اور قرآنِ عظیم (قائم) دیا ہے۔

سوال – ۳۵۲: سُورۂ رعد (۱۳: ۰۷) میں ارشاد ہے: اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ۔  (اے رسولؐ) سوائے اس کے نہیں ہے کہ تم تو ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے۔ آپ اس کی وضاحت کریں۔ -جواب: (۱) مُنذِر (ڈرانے والا) آنحضرت صلعم ہیں اور ہادی حضرتِ علیؑ (۲) زمانۂ آدم سے لے کر قیامۃ القیامات تک کوئی قوم ایسی نہیں، جس کے لئے خدا کی جانب سے ہادی نہ ہو۔

سوال – ۳۵۳: سُورۂ قمر (۵۴: ۱۷، ۵۴: ۲۲، ۵۴: ۴۰) میں ارشاد

 

۲۷۱

 

ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ = اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کردیا ہے تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟ کیا آپ یہ بات سمجھا سکتے ہیں کہ خداوندِ عالم نے کس طرح قرآن کو آسان کردیا ہے؟ آیا خود قرآن ایسی آسان کتاب ہے یا آسانی کی خاطر کچھ دوسرے ذرائع ہیں؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عظیم الشّان اور بے مثال کتاب (قرآن) کے ساتھ نور کو بھی مقرر کیا ہے (۰۵: ۱۵) تاکہ اس کی روشنی میں قرآن ذکر و عبادت کے لئے بھی اور ہدایت و نصیحت کے واسطے بھی آسان ہو (۲) قرآن کا نہ صرف ظاہر ہے، بلکہ اس کا باطن بھی ہے، اور اس کا باطنی حصّہ بہت زیادہ ہے، لہٰذا قرآن مجموعاً سخت مشکل کتاب ہے، اور اس کا ایسا ہونا سب سے بڑا معجزہ ہے، کیونکہ یہ خدائےعلیم و حکیم کا کلامِ حکمت نظام ہے، یہی سبب ہے کہ اگر انسان اور جِنّات سب کے سب قرآن جیسی کتاب لانے کے لئے جمع ہوجائیں، تو پھر بھی یہ کام ان کے لئے ناممکن ہے (۱۷: ۸۸)۔

سوال -۳۵۴: اس حکمت کی بڑی زبردست اہمیّت ہے، لہٰذا آپ اس کی مزید وضاحت کریں۔ -جواب: (۱) مذکورہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن تو ہے ہی مشکل، لیکن خدا نے اپنی طرف سے نور (مُعلّمِ ربّانی) مقرّر کر کے اسے آسان بنا دیا ہے، کیونکہ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ کا ترجمہ ہے: ہم نے (مشکل) قرآن کو آسان کردیا ہے۔ (۲) قرآنِ حکیم لوگوں

 

۲۷۲

 

کے علمی و عرفانی درجات کے مطابق آسان ہوتا ہے، قرآنِ ناطق کی معرفت میں قرآنِ صامت کی معرفت پوشیدہ ہے (۳) کیونکہ قرآن کی روح اور نور معلّمِ ربّانی میں ہے، ہم نے اس حقیقت کا بارہا ذکر کیا ہے۔

سوال – ۳۵۵: دائرۂ معرفت کتنا وسیع ہے؟ اس دائرے میں کِن کِن اشیاء کی معرفتیں شامل ہیں؟ پروردگار کی معرفت کا ذریعہ کیا ہے؟ آیا روحِ قرآن کی معرفت بھی ہوسکتی ہے؟ اگر ہوسکتی ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ -جواب:   (۱) دائرۂ معرفت بہشت اور کائنات کے برابر ہے، مگر اللہ بہشت اور کائنات کو اپنے عارفوں کے عالمِ شخصی میں نزدیک لاتا ہے، تاکہ انتہائی وسیع معرفت محدود اور آسان ہوجائے۔ (۲) اس دائرے (عالمِ شخصی) میں ہر ہر چیز کی معرفت شامل ہے (۳) پروردگار کی معرفت ہوسکتی ہے، جبکہ و ہ نور (۴۲: ۵۲) اس کا طریقہ بھی وہی ہے جو خود شناسی اور خدا شناسی کے لئے مقرّر ہے، اللہ، رسولؐ، اور امامؑ کی معرفت سے قرآن کی معرفت الگ نہیں ہے، کیونکہ یہ خدا کا کلام اور نورِ باطن ہے، جو آنحضرتؐ پر نازل ہوا، جس کا وارث امام (قرآنِ ناطق) ہے، تو پھر قرآنِ پاک کی معرفت کیونکر الگ تھلگ ہوسکتی ہے۔

سوال – ۳۵۶: بحوالۂ کتاب العلاج (قرآنی علاج، امواجِ نور، ص ۲۱۳) یہ سوال ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے جس عجیب و

 

۲۷۳

 

غریب حکمت سے دعائے نور کی تعلیم دی ہے، اس سے ہم کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں؟ کیا اس دعا میں اہلِ دانش کے لئے معرفتِ نور کا ایک خزانہ موجود نہیں ہے؟ قرآنِ حکیم میں جس شان سے نور کا مبارک مضمون پھیلا ہوا ہے، آیا یہ دعا اس کا تعریفی خلاصہ نہیں ہے؟ -جواب: (۱) مجھے بھی اس میں بڑی حیرت ہے کہ جو لوگ نور کے عاشق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ گریہ کنان اور سجدہ کُنان اس کو کیوں نہیں پڑھتے ہیں، اور اس میں جو جو علم و معرفت کے جواہر ہیں ان کو حاصل کیوں نہیں کرتے (۲) یقیناً اس دعا میں عقل والوں کے لئے معرفتِ نور کا ایک گنجِ گرانمایہ مخفی ہے (۳) سِراجِ مُنیر (۳۳: ۴۶) اور نورِ مُنَزّل (۰۵: ۱۵) ہی کی روشنی میں مضمونِ نور کی عظیم حکمتیں ظاہر ہو سکتی ہیں، لہٰذا آپ اس دعائیہ حدیثِ شریف میں خوب غور سے دیکھیں کہ کس حکیمانہ انداز سے نور کی تعریف کی گئی ہے، اور اس کے پُرحکمت افعال کی طرف کیسے بلیغ اشارے ہیں۔

سوال -۳۵۷: سُورۂ حٰمٓ السّجدۃ (۴۱: ۵۴) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک خاص وعدہ بھی ہے اور قرآنِ حکیم کی پیش گوئی بھی، کہ خداوندِ عالم عنقریب لوگوں کو اپنی آیات آفاق میں بھی اور ان کے نفوس میں بھی دکھائے گا، سوال ہے کہ آیا ظہورِ آیات کا وہ زمانہ یہی زمانہ ہے، جس میں سائنسی انقلاب آیا ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو سائنسی ایجادات و آلات کی مثالو ں سے روحانی معجزات کی وضاحت کرنے سے کیوں

 

۲۷۴

 

شرمانا چاہیئے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، ظہورِ آیات کا زمانہ یہی ہے، اور سائنسی ایجادات و آلات قدرتِ خدا کی نشانیوں میں سے ہیں (۲) اس میں کوئی شرم کی بات ہرگز نہیں کہ ہم مادّی سائنس کی مثالوں سے روحانی معجزات کو سمجھیں اور سمجھائیں، جبکہ قرآنِ حکیم میں واضح طور پر ارشاد ہوا ہے کہ خدا لوگوں کو اپنی آیات آفاق میں بھی اور ان کے عالمِ شخصی میں بھی دکھانے والا ہے۔

سوال -۳۵۸: سُورۂ الم نشرح (۹۴: ۰۵ تا ۰۶) میں ارشاد ہے: فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ اس کی باطنی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: تو (ہاں) مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے، اور بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے (۲) ہر مشکل کام کسی نہ کسی وسیلے سے آسان ہو جاتا ہے (۳) اسی طرح قرآن اور اسلام کا ہر مشکل کام نورِ ہدایت کے وسیلے سے آسان ہوجاتا ہے، (۴) خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ مشکل کا کوئی وجود ہی نہیں، بلکہ ارشاد ہوا کہ مشکل موجود ہے، ساتھ ہی ساتھ آسانی کا وسیلہ بھی ہے، الحمد لِلّٰہ ربّ العالمین۔

سوال – ۳۵۹:  سُورۂ نمل (۲۷: ۸۲) میں یہ ارشاد ہے: اور جب ہماری بات پوری ہونے کا وقت اُن پر آپہنچے گا تو ہم اُن کے لئے ایک جانور زمین سے نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں کرتے تھے۔ یہ دابۃ یا چلنے ولا کیا ہے؟ اور یہ زمین کونسی

 

۲۷۵

 

ہے؟ جانور کس زبان میں کلام کرے گا؟ -جواب: (۱) یہ مولاعلیؑ کا نور ہے جو داعیٔ قیامت کی حیثیّت سے عالمِ شخصی میں ہے (۲) یہ زمینِ ظاہر نہیں بلکہ زمینِ عالمِ شخصی ہے جو زمینِ دعوت ہے (۳) داعیٔ قیامت ہر زبان میں کلام کرسکتا ہے (۴) خدا کی آیات أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جن پر اکثر لوگ یقین نہیں کرتے تھے۔

سوال – ۳۶۰: بیانِ بالا کی دلیلیں پیش کریں۔ -جواب: (۱) حضرتِ علیؑ نے فرمایا: اَنَا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ = میں ہوں دابۃ الارض (کوکبِ دُرّی) یہ علیؑ کا نور ہے جو داعیٔ قیامت کی حیثیت سے قیامتگاہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ صورِ اسرافیل کی آواز بھی ہوتی ہے (۲) داعی کی آواز بعوضۃ (۰۲: ۲۶) کی آواز جیسی ہے، اس لئے مولا علیؑ نے فرمایا: اَنَا الْبَعُوْ ضَۃُ الَّتِیْ ضَرَبَاللّٰہُ بِھَا مَثَلاً = میں وہ بعوضۃ ہوں جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرمائی ہے (کوکبِ دُرّی ) (۳) داعیٔ قیامت جو مولا علیؑ کا نور ہے وہ دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہے، دیکھو لَا عِوَجَ لَہُ (۲۰: ۱۰۸) مولا علیؑ نے فرمایا: اَنَا الْمُتَکَلِّمُ بِکُلِّ لُغَتٍ فِی الدُّنْیَا = میں دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہوں (کوکبِ دُرّی) اور مولا نے یہ بھی فرمایا: اَنَا اٰیَاتُ اللہ = میں ہوں خدا کی آیات (کوکبِ دُرّی، باب سوم میں دیکھیں)۔

 

۲۷۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۴

 

سوال – ۳۶۱: سُورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں فرمایا گیا ہے: اِنَّ رَبِّیْ عَلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ =بیشک میرا پروردگار صراطِ مستقیم پر ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے کے لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک ہادی کو مقرّر فرمایا ہے، جو بنفسِ نفیس راہِ حق بھی ہے اور اس کا راہنما بھی، اور مظہرِ خدا بھی (۲) پس ربّ العزّت کا صراطِ مستقیم پر ہونا یہ ہے کہ اس کا مظہر صراطِ مستقیم پر ایمان والوں کی ہدایت کر رہا ہے۔

سوال – ۳۶۲: نورِ خدا کی مظہریّت کی اوّلین مثال قرآنِ کریم میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱)یہ مثال قصّۂ آدم میں ہے، کیونکہ خداوندِ تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کی پیشانی میں اپنے نورِ اقدس کو جلوہ گر فرما کر ان کو ساری کائنات کی خلافت عطا کی (۲) حضرتِ آدمؑ میں اللہ نے اپنی روح پُھونک دی تھی، یہاں روحِ خدا سے نورِ خدا مراد ہے، اور جس شخصِ کامل میں اللہ کا نور ہوتا ہے، وہی اس کی صفات کا مظہر ہوتا ہے (۳) جس طرح نظامِ شمسی کی تمام

 

۲۷۷

 

قوّتوں کا سرچشمہ سورج ہے، اسی طرح اللہ کی جملہ صفات کا منبع اس کا نور ہے، پس حاملِ نور خدا کا مظہر ہے۔

سوال ۳۶۳: اس بات کی کیا دلیل ہے کہ حضرتِ آدمؑ کو خداوندِ تعالیٰ نے ساری کائنات کی خلافت سے سرفراز فرمایا تھا؟ -جواب: (۱) سورۂ طلاق (۶۵: ۱۲) میں ہے: خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور انہی کے برابر زمین کو بھی (۲) یعنی ہر آسمان کے نیچے ایک زمین ہے، اسی طرح سات آسمان اور سات زمینیں اِس کائنات میں ہیں (۳) قرآنِ حکیم میں آسمانوں کو کبھی سمٰوٰت کہا گیا ہے اور کبھی سب کو ایک قرار دے کر سماء، اسی طرح سات زمینوں کا نام قرآن میں ارض (زمین) ہے (۴) یہی وجہ ہے جو ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کی زمین بہت ہی وسیع ہے (۰۴: ۹۷، ۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) یاد رہے کہ خدا کی سب سے وسیع زمین روحانیّت میں ہے (۵) اب میں یہ کہوں گا کہ کائنات ایک اعتبار سے آسمان ہے اور دوسرے اعتبار سے زمین، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آسمان، زمین، اور بہشت تینوں وسعت میں برابر برابر ہیں (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی جگہ ہے جو ظاہراً و باطناً آسمان بھی ہے، زمین بھی، اور بہشت بھی ہے، پس معلُوم ہوا کہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کو خدائے تعالیٰ نے اپنی کائنات کے ظاہر و باطن کا خلیفہ بنایا تھا۔

 

۲۷۸

 

سوال – ۳۶۴: ایسا لگتا ہے کہ یہ عظیم الشّان دلیلیں آپ کی نہیں، بلکہ حضرتِ امامِ اقدس و اطہرؑ کے حضور سے ہیں، لہٰذا گزارش ہے کہ ہمیں خلافتِ آدم سے متعلّق مزید حکمتوں سے آگاہ کریں۔ -جواب: (۱) عقلِ کلّ آسمان ہے، اور نفسِ کُلّ زمین، لیکن اہلِ معرفت کو یہ سِرِّعظیم معلوم ہے کہ وہ دونوں سب سے بڑے فرشتے مل کر ایک ہستی ہوگئے ہیں، لہٰذا وہاں تعینات کے لحاظ سے ارض و سماء الگ الگ بھی ہیں، اور وحدت کے لحاظ سے ایک بھی، آپ سُورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں آیۂ رَتْق و فَتْق کو دیکھیں (۲) اس سے آپ کو دُرست اندازہ ہُوا ہوگا کہ خلیفۃ اللہ کی خلافت سیّارۂ زمین تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ سات آسمانوں اور ان کے برابر کی سات کائناتی زمینوں اور عقلِ کلّ و نفسِ کُلّ کی خلافت ہے (۳) بنی آدم کے لئے جب ساری کائنات مُسخّر کی گئی ہے (۳۱: ۲۰، ۴۵: ۱۳) تو پھر آدم صفی اللہ کی خلافت صرف سیّارۂ زمین تک محدود کیونکر ہوسکتی ہے۔

سوال – ۳۶۵: یہ اسرار جو حضرتِ امامِ آلِ محمّدؐ کے خزانے سے ہیں بڑے روح پرور اور ایمان افروز ہیں، لہٰذا مزید وضاحت کریں۔ -جواب: (۱) قانونِ تجدُّد کا سِلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے، چنانچہ ہر زمانے میں جدید لوگ ہُوا کرتے ہیں، اسی طرح انسانی روحوں کی ترقی سے ہر عصر میں جدید فرشتے وجود میں آتے رہتے ہیں، جن کو آدمِ زمان علم الاسماء کی تعلیم دیتا ہے (۲) قصّۂ آدم سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فرشتوں کے لئے روحانی علم کی سخت ضرورت تھی، پس یہ اُن کا گمان تھا کہ آدم

 

۲۷۹

 

کی خلافت صرف اِسی سیّارے پر ہوگی (۳) حالانکہ حضرتِ آدمؑ کو سوائے ابلیس کے کُلّ کائنات کے فرشتوں نے سجدہ کیا، اور آپ نے اپنے زمانے کے تمام جدید فرشتوں کو علم الاسماء سے بہرہ ور فرمایا۔

سوال – ۳۶۶: کہتے ہیں کہ عالمِ دین کے بھی سات آسمان اور سات زمینیں ہیں، اگر یہ بات حقیقت ہے تو آپ ہمیں سمجھائیں کہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، عالمِ دین عالمِ ظاہر کی طرح ہے کہ اِس کے بھی سات آسمان اور سات زمینیں ہیں (۲) چنانچہ چھ ناطق اور قائم سات آسمان ہیں، اور ان کے سات حُججَ سات زمینیں ہیں (۳) اور یہ حضرات عالمِ شخصی میں بھی اسی طرح سے ہیں، تاکہ ہر گونہ معرفت کا سامان مُہیّا ہو۔

سوال – ۳۶۷: صحیح مُسلم، جلد ۲، کتاب المساجد میں یہ حدیثِ شریف ہے: بُعِثْتُ بِجَوَامعِ الْکَلِمِ۔ اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) آنحضرتؐ نے فرمایا: مجھے خدا نے وہ باتیں دے کر بھیجا جن میں لفظ تھوڑے ہیں اور معانی بہت ہیں (۲) اس سے قرآنِ حکیم کی آیت اور احادیثِ صحیحہ کے کلمات مراد ہیں، جن میں تہ بہ تہ حکمت بھری ہوئی ہوتی ہے (۳) الکلامُ الجامع = وہ کلام جس کے الفاظ کم ہوں مگر مطلب بہت ہوں، ج، جوامع، الکلمۃ، ج، کَلِمٌ (کلمات) الغرض قرآن و حدیث کے الفاظ میں معجزاتی جامعیّت ہے۔

 

۲۸۰

 

سوال – ۳۶۸: حدیثِ شریف ہے: مَا مِنْکُمْ مِنْ رَّجُلٍ اِلَّاسَیُکَلِّمُہٗ رَبُّہٗ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَیْسَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَہٗ تَرْجُمَانٌ (تِرمذی، جلدِ دوُم، قیامت) اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کہ پروردگار قیامت کے دن اس سے بات نہ کرے اور اس دوران بندہ اور حضرتِ ربّ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ (۲) اس میں بہت سی عظیم حکمتیں ہو سکتی ہیں، اوّل یہ کہ اللہ اپنے بندے کی زبان میں کلام کرے گا، کیونکہ ترجمان نہ ہونے کا مطلب یہی ہے، دوم: اللہ کے کلام میں علم و حکمت کا بہت بڑا خزانہ ہوگا، کیونکہ کلامِ الٰہی کی خصوصیّت یہی ہے، سِوُم یہ سب سے بڑی سعادت عُرَفاء کو دنیا میں بھی حاصل ہوتی ہوگی، اس لئے کہ کاملین و عارفین کی قیامت ان کی جسمانی موت سے پہلے ہی آتی ہے۔

سوال – ۳۶۹:  جو سالکین جسمانی موت سے پہلے ہی نفسانی طور پر مرجاتے ہیں یعنی فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل کر لیتے ہیں، آیا ان کو ربِّ تعالیٰ کا پاکِ دیدار نصیب ہوتا ہے؟ کیا اُن سے خداوند تعالیٰ کلام کرتا ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، سالک /عارف کو دیدارِ الٰہی کی سب سے بڑی سعادت نصیب ہوجاتی ہے، تب ہی وہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے اور عارف کہلاتا ہے، اور خدا اس سے کلام کرتا ہے، جس کی وجہ سے اُس کے پاس علم و معرفت کا خزانہ ہوتا ہے (۲) آپ کو

 

۲۸۱

 

سُورۂ شورٰی (۴۲: ۵۱) میں بہت غور سے دیکھنا ہوگا، اس کا ترجمہ یہ ہے: کسی بشر کے لئے یہ قانون نہیں ہے کہ اللہ اس سے (رُوبرو) کلام کرے مگر (دیدار کے) اشارے سے یا پردے کے پیچھے سے…. (۳) دیدارِ پاک خاموش اشاراتِ عرفانی کا عظیم خزانہ ہے، اس میں اسرارِ معرفت و حکمت کی لازوال دولت موجود ہے۔

سوال – ۳۷۰:  کتابِ زاد المسافرین، قول بیست ویکم میں یہ حدیث، شریف درج ہے:  اَعْرَفُکُمْ بِنَفْسِہٖ اَعْرَفُکُمْ بِرَبِّہٖ۔ آپ اس کی تشریح کریں -جواب: (۱) ترجمہ: تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنی ذات کو پہچانتا ہے وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے (۲) اس سے ظاہر ہے کہ اہلِ ایمان معرفت کے مختلف درجات پر ہیں، اور معرفت کا درجۂ کمال حقّ الیقین ہے (۳) معرفت ہی کی غرض سے انسان دنیا میں بھیجا گیا ہے، کیونکہ تخلیقِ عالم و آدم کا مقصد یہی ہے، پس ہر مومن کی دانشمندی اس بات میں ہے کہ وہ حصولِ معرفت کے لئے کما حقّہ سعی کرے۔

 

۲۸۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۵

 

سوال -۳۷۱: اس شعر کا کیا مطلب ہے؟ گنج نہانی طلب از دل و از جان خویش + تانشوی بی نوا بردر دوکان خویش۔ ۔ ۔ – جواب: (۱) ترجمہ: کنزِ مخفی کو اپنے دل اوراپنی جان ہی سے طلب کر، تاکہ تُو اپنی (مُقفّل) دکان کے دروازے پر مفلسی میں مُبتلا ہوکر نہ رہے (۲) ہر شخص کے باطن میں بحدِّ قوّت گنجِ مخفی موجود ہے، لیکن ایسے لوگ کتنے ہوں گے جو بحدِّ فعل اس کو حاصل کرلیتے ہیں، (۳) تاہم دینِ حق میں مایوسی منع ہے۔

سوال – ۳۷۲: کیا آپ ایسی آیاتِ کریمہ کا حوالہ بتا سکتے ہیں کہ ان میں حدودِ دین کا تذکرہ ہے؟ – جواب: (۱) اِن شاء اللہ العزیز، جاننا چاہیئے کہ عالمِ ظاہر سرتا سر عالمِ دین کی مثال و دلیل ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں یہ ذکر آیا ہے کہ خدا نے چھ دن میں کائنات کو پیدا کیا، اور پھر عرش کی طرف متوجّہ ہوا (یعنی یہ سنیچر کا دن تھا) تو اس سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ ناطقوں کے ادوار میں عالمِ دین کو مکمل کر دیا، اور ساتواں دَور حضرتِ قائم کا ہے، جس

 

۲۸۳

 

میں رفتہ رفتہ اسرارِ مساوات رحمانی کا ظہور ہوگا۔

سوال – ۳۷۳: سورج اور چاند جو قرآن میں مذکور ہیں، وہ حدودِ دین میں سے کِن درجوں کی مثال ہیں؟ – جواب: (۱) زمانۂ ناطق میں سورج ناطق کی مثال ہے، اور چاند اساس کی (۲) عہدِ اساس میں سورج اساس کی مثال ہے، اور چاند امام کی (۳) زمانۂ امامت میں سورج امام کی مثال ہے اور چاند باب کی مثال۔

سوال – ۳۷۴: سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۲) میں ارشاد ہے کہ خداوندِ عالم نے بنی اسرائیل میں بارہ نقیب (سردار) مقرّر کئے تھے، وہ کون تھے؟ اور ان کے لئے بَعَثْنَا کا لفظ آیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ – جواب: (۱) بارہ نقیب حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے حُجَجْ (حجّتان) تھے، جن میں حجّتِ اعظم کا مرتبہ امامِ ہارون علیہ السّلام کو حاصل تھا (۲) بَعَثْنَا کا مطلب ہے: ہم نے ان کو نفسانی موت کے بعد زندہ کیا، تاکہ قیامت اور آخرت کے علمی و عرفانی خزانوں سے ان کو مالا مال کیا جائے۔

سوال – ۳۷۵:  سُورۂ مائدہ (۰۵: ۲۰) میں ہے: یاد کرو جب موسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تمہیں عطا کی ہے، اس نےتم میں نبی پیدا کئے، تم کو سلاطین بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دنیا میں کسی کو نہ دیا ہے۔ اس کی تاویل کیا

 

۲۸۴

 

ہے؟ – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کا یہ احسان بڑا عظیم بھی ہے اور بڑا عجیب بھی، کہ انبیاء علیہم السّلام اگرچہ ظاہر میں آئے تھے، لیکن ان کی باطنی تشریف آوری کے بغیر عالمِ شخصی کےمعجزات مکمّل نہیں ہوسکتے ہیں (۲) امامِ عالیمقام علیہ السّلام اور اس کے حُجج روحانی سلاطین بھی ہیں، اور قالبِ قیامت (قیامت کا سانچہ) بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی عنایتِ بے نہایت سے مومنین بھی قالبِ قیامت میں ڈھل ڈھل کر بہشت کے بادشاہ ہوجاتے ہیں۔

سوال – ۳۷۶: آپ یہ بتائیں کہ قیامت انفرادی ہے یا اجتماعی؟ ظاہری ہے یا باطنی؟ – جواب: (۱) ہر قیامت کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں: شعوری اور غیر شعوری، اس لئے قیامت ایک طرف سے انفرادی اور دوسری طرف سے اجتماعی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں قیامت کا بیان دوطرح سے آیا ہے (۲) قیامت باطنی اور روحانی طور پر آتی ہے، لیکن اس کے زیرِ اثر دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں آتی ہیں۔

سوال – ۳۷۷: اجتماعی قیامت کا عقیدہ تو ہم سب رکھتے ہیں، اس لئے آپ صرف یہ دلیل پیش کریں کہ اس کا اصل پہلو انفرادی ہے- جواب: (۱) سورۂ روم (۳۰: ۳۰) میں قانونِ فطرت (قانونِ دین) کا ذکر بھی ہے اور اشارہ بھی، کہ لوگ جس طرح جدا جدا وقتوں میں پیدا

 

۲۸۵

 

ہوتے ہیں اسی طرح مختلف اوقات میں فرداً فرداً مرجاتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا انفرادی پہلو موت کی طرح جُدا گانہ ہے (۲) حدیثِ شریف ہے: مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ =جو شخص مرجائے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ یعنی جو شخص اضطراری موت سے قبل اختیاری موت سے مرجاتا ہے اس کی قیامت قائم ہوجاتی ہے، اسی انفرادی قیامت کے ساتھ ساتھ تمام اہلِ جہان کی اجتماعی قیامت بھی ہوتی ہے، مگر غیر شعوری طور پر۔

سوال – ۳۷۸: حدیثِ شریف ہے: اَنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ =اللہ تعالیٰ صاحبِ جمال ہے وہ جمال کو پسند کرتا ہے۔ آپ ہمیں اس کی مزید تشریح کریں۔ – جواب: (۱) اللہ اپنے ظہورات و تجلّیات میں بیحد حسین و جمیل ہے، پس اگر تم عاشقانِ الٰہی میں سے ہوجانا چاہتے ہو تو اخلاقی، روحانی اور عقلی طور پر اپنی ذات میں حسن و جمال کو پیدا کرو (۲) اپنے باطن میں حسن و جمال پیدا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ تم عشق سے فرمانبرداری کرو، جیسا کہ اس کا حق ہے (۳) سُورۂ سجدہ (۳۲: ۰۶ تا ۰۹) میں دیکھو کہ خدا نے جو چیز بنائی خوب بنائی۔ اللہ نے انسان پر تخلیق کے مراحل میں بڑا احسان کیا، اس میں اپنی روح پھونکی، یہ تذکرہ اگرچہ انسانِ کامل کا ہے، لیکن سوچنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ انسانِ کامل کو اپنی روح / نور سے نوازتا ہے، اور تم پر احسان رکھتا ہے، یہ کیوں ایسا ہے؟

 

۲۸۶

 

(۴) اچھی طرح سے سُنو اور یاد رکھو، کہ یہ انسانِ کامل تم سے بیگانہ ہرگز نہیں، یہ تو دراصل تمہاری اپنی جانوں کی جان ہے، یعنی روح الارواح ہے، اور تمہارے حواسِ باطن کے لئے نور ہے (۵) مذکورہ حدیثِ شریف میں دیدارِ خداوندی کی دعوت اور اس کے لئے تیاری کی ہدایت موجود ہے۔

 

سوال – ۳۷۹:  آپ نے بیانِ بالا میں ایک ساتھ تین آیاتِ کریمہ کا حوالہ دیا ہے، ان میں تیسری آیت یہ ہے: ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ وَجَعَلَ لَكُمْ السَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَةَ۔ اس کا ترجمہ اور خلاصۂ حکمت بتائیں- جواب: (۱) ترجمہ: پھر اس کو درست کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تم کو (باطنی) کان اور آنکھیں اور دل دیئے (۲) اِس آیۂ مبارکہ میں بڑی عجیب و غریب حکمت ہے، کہ اس میں آدم، آدمِ زمان، وغیرہ کا ذکر ہے، پھر یہ اشارہ ہے کہ حدودِ دین اہلِ ایمان کے لئے حواسِ باطن کا کام کرتے ہیں۔

سوال – ۳۸۰: بیشک آپ نے قرآنِ پاک کے حوالے سے تضرُّع (عاجزی کرنا) کے بارے میں لکھا تو ہے، لیکن جو قرآنی دوا امراضِ باطن کے لئے زبردست مُؤثر اور ازحد مفید ہو، اس کی تعریف بار بار کیوں نہ کریں، پس آپ یہ بتائیں کہ تضرُّع کا ذکر قرآنِ حکیم میں کہاں کہاں ہے؟ اس سے انسانی دل و دماغ کی اصلاح کس طرح ہوئی

 

۲۸۷

 

ہے؟ – جواب: (۱) تضرُّع کا مضمون سات آیاتِ کریمہ میں ہے: ۰۶: ۴۲، ۰۶: ۴۳، ۲۳: ۷۶، ۰۷: ۹۴، ۰۶: ۶۳، ۰۷: ۵۵، ۰۷: ۲۰۵، آپ ان آیاتِ مبارکہ کو کامل یقین سے پڑھ لیں (۲) کمالِ تضّرع کی صورت گریہ وزاری ہے، جس کے فوائدِ روحانی بے شمار ہیں، اس سے نہ صرف ہر بلا ردّ اور ہر مُشکل آسان ہو جاتی ہے، بلکہ عذابِ الٰہی بھی ٹل جاتا ہے (۳) قساوتِ قلبی (دل کی سختی) تمام روحانی بیماریوں کی جڑ ہے، جس کا واحد علاج تضرُع ہے (۴) انبیاء، اولیاء، عارفین، عاشقین، سالکین، ذاکرین، اور عابدین کو تضرُّع اور مناجات کا عظیم راز معلوم ہے۔

 

۲۸۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۶

 

سوال – ۳۸۱:  لوگوں کے دل میں بعض ایسے سوالات بھی ہو سکتے ہیں، جو شرم کے مارے زبان پر ظاہر نہ کرسکتے ہوں، جیسے حورانِ بہشت سے متعلّق مختلف سوالات، حالانکہ قرآن و حدیث کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان بھی ہے، اور ہر سوال کا جواب بھی، لہٰذا ہم یہاں لوگوں کے چند نمائندہ سوالات کرتے ہیں: کیا جنّت میں پری عورتیں ہیں؟ آیا انہی کو حورانِ بہشت کہا جاتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ نے ان حوروں کو بہشت ہی میں پیدا کیا ہے؟ قرآنِ حکیم ہی کی روشنی میں یہ حقیقت مُسلّمہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے بہشت کی حوروں کو غیر فانی حسن و جمال سے نوازا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ علمی اعتبار سے ان کی کوئی تعریف کیوں نہیں ہے؟ – جواب: (۱)  جی ہاں، بہشت میں پری عورتیں ہیں (۲) جی ہاں، انہی کو حورانِ جنّت کہا جاتا ہے (۳) اللہ تعالیٰ اپنی بے پایان رحمت سے دنیا کی عورتوں کو لطیف بدن عطا کرکے بہشت کی حوریں بنا دیتا ہے (۴) قرآنِ عظیم میں حوران کے درجات کے مطابق علمی تعریف بھی موجود ہے، لیکن یہ بات یاد رہے کہ علم کے معانی کے لئے اور بھی بہت سے الفاظ اور مثالیں ہیں (۵) مثلاً یہ ارشاد: ولھم فیھا ازواجٌ مُّطَھَّرَۃٌ

 

۲۸۹

 

(۰۲: ۲۵) اور ان کے لئے بہشت میں پاک کی ہوئی بیویاں ہیں۔ پاکیزگی ہمیشہ تین قسم کی ہوا کرتی ہے: جسمانی، روحانی، عقلانی، پس معلوم ہوا کہ بہشت کی تمام حوریں جسماً، روحاً اور عقلاً پاک کی ہوئی ہیں، اور اس میں یقیناً علم کا اِشارہ بھی آگیا، کیونکہ دُنیا کی کوئی عقل پاک نہیں ہوسکتی ہے، مگر علم و حکمت سے۔

سوال – ۳۸۲: آپ مزید قرآنی دلائل سے یہ ثبوت پیش کریں کہ جنّت کی پری عورتوں کی ذات میں عقلی اور علمی حسن و جمال بھی ہے – جواب: (۱)  سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ جنّت کا کوئی میوہ مغزِ علم و حکمت کے بغیر نہیں ہے، بالفاظِ دیگر: بہشت کی بے شمار نعمتیں تین قسم کی ہیں: جسمانی (لطیف) روحانی، عقلانی، (۲) آئیے، ہم سُورۂ واقعہ (۵۶) کا بغور مطالعہ کرتے ہیں، جس میں بہشت کی نعمتوں کا تذکرہ ہے (۳) اس سورہ میں سابقین/مُقرّبین کی حوروں کا بیان ہے، مگر سوچنے سے یوں لگتا ہے کہ وہ محض عقلی، علمی، اور عرفانی حوریں ہیں، (۴) کیونکہ وہ آپ کی چشمِ بصیرت ہوجاتی ہیں، جس سے آپ ربِّ تعالیٰ کی تجلّیات کو دیکھ سکتے ہیں، اور کتابِ مکنون کے عظیم اسرار کا مُشاہدہ کر سکتے ہیں۔

سوال – ۳۸۳: آپ نے سورۂ واقعہ کے حوالے سے جس طرح عقلی حوروں کی معرفت بیان کی، اس سے ہم سمجھ گئے کہ یہ امامِ آلِ محّمدؐ کا علمی معجزہ ہے، پس آپ اسی امامؑ کے نور کی روشنی میں یہ حکمت بھی بتائیں کہ

 

۲۹۰

 

اصحاب الیمین کی حوریں کن اوصاف سے موصوف ہیں؟ – جواب: (۱)  سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اس قانونِ قدرت کے لئے اقرار کر لینا ضروری ہے کہ آخرت / بہشت عالمِ لطیف ہے، اور دُنیا عالمِ کثیف، پس تمام لوگ جب بہشت میں تھے تو لطیف تھے، لیکن جب وہاں سے سب کے سب نکالے گئے (۰۲: ۳۸) تو یہاں آکر کثیف ہوگئے (۲) مگر جب خدا کی رحمتِ کُلّ سے سارے لوگ جنّت میں جائیں گے، تو تمام لوگ لطیف ہو جائیں گے، اسی حالت میں جُملہ عورتیں لطافت اور نورانی بدن کی وجہ سے حوریں کہلائیں گی (۳) یہ حکمتی بیان سورہ واقعہ (۵۶: ۳۵ تا ۳۶) کی روشنی میں ہے، اور یہی اصحابُ الیمین کی حوریں ہیں۔

سوال – ۳۸۴: ہم امامِ آلِ محمّدؐ کے علمی معجزات کے معترف اور شکرگزار ہیں، لیکن ہمارے اہم سوالات ابھی ختم نہیں ہوئے، جو اس گنجینۂ اسرار سے متعلّق ہیں، سورۂ زُخرف (۴۳: ۷۰) میں ہے: اُدخلو الجنّۃَ انتم واز واجکم تُحْبَرُوْنَ۔ اس کا ترجمہ اور حکمت؟ – جواب: (۱) ترجمہ: داخل ہوجاؤ جنّت میں تم اور تمہاری بیویاں، تمہیں آراستہ کیا جائے گا۔ یعنی تمہیں نورانی بدن عطا ہوگا، جس میں حسن و جمال کے عجائب و غرائب ہیں (۲) اس سے معلوم ہوا کہ مومنین کی اپنی بیویاں بھی حوریں ہوجاتی ہیں۔

سوال – ۳۸۵: سوال ہے کہ اگر کوئی جنّتی شخص اولاد کی خواہش

 

۲۹۱

 

کرے تو کیا جنّت میں بھی اولاد ہوسکتی ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، بہشت میں بھی مومن کی اولاد ہوسکتی ہے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے: المؤمنُ اذا شُتھیَ الولدَ فی الجنّۃِ کان حَمْلُہٗ و وَضْعُہٗ وَسِنُّہٗ فی سا عۃٍ کما یشتھی = اگر کوئی مومن جنّت میں اولاد کی خواہش کرے گا تو صرف ایک گھڑی میں حمل، پیدائش، اور اس کی عمر اس جنّتی کی خواہش کے مطابق ہوجائے گی (ترمذی، جلد دوم، جنّت کا بیان)۔

سوال – ۳۸۶: یہ حدیثِ شریف بھی مذکوہ کتاب میں ہے: فَمِیْۃٌ اَشَدُّ عَلیَ الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدٍ = ایک فقیہ (علمِ فقہ کا عالم) شیطان کے لئے ایک ہزار عابدوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ اس میں کیا راز ہے؟ – جواب: (۱) اس میں رازِ معرفت ہے، کیونکہ حقیقی فقیہ وہ ہے جو خود شِناس اور خدا شِناس ہے کہ وہی شخص ہے جو کہ شیاطینِ انسی و جِنّی کو شکستِ فاش دے سکتا ہے، جیسا کہ شروع ہی میں شیطان نے خود ہی کہا تھا کہ وہ اللہ کے مخلص بندوں کو گمراہ نہیں کر سکے گا (۳۸: ۸۲ تا ۸۳) مخلص وہ شخص ہے جو خدا کی توحید کو شرک کی آمیزش سے خالص اور پاک کرتا ہے، اور یہ کام صرف عارف ہی کرسکتا ہے جس سے شیطان مغلوب ہوجاتا ہے۔

سوال – ۳۸۷:  سُورۂ اَنعام (۰۶: ۱۱۲) میں ہے: اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ اِنسی شیطانوں اور جِنّی شیطانوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے وہ

 

۲۹۲

 

لوگ فریب دینے کی غرض سے ایک دوسرے کی چکنی چُپڑی باتوں کی سرگوشی کرتے ہیں۔ کیا انسی شیاطین بھی ہوتے ہیں؟ انسی اور جنّی شیطانوں کے آپس میں رابطہ کس طرح ہوتا ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، انسی شیاطین ہیں، اور وہ بڑی خطرناک ہوا کرتے ہیں (۲) جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہر شخص کے اندر ایک جِنّ اور ایک فرشتہ مقرّر ہیں، ان دونوں ساتھیوں میں انسان کے لئے بہت بڑی آزمائش ہے، پس یہی اندرونی جنّ ہے، جس کے ذریعے سے انسی شیطان اور جنّی شیطان کے درمیان رابطہ ہوتا ہے، اور یہی اندرونی فرشتہ ہے، جس کے وسیلے سے ارضی فرشتہ اور سماوی فرشتہ کے مابین رابطہ ہوسکتا ہے۔

سوال – ۳۸۸: یہ آیۂ مبارکہ سُورۂ نمل کے آخر (۲۷: ۹۳) میں ہے، لہٰذا اِس کی بہت بڑی اہمیّت ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اور تم کہدو کہ الحمدللہ، وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں (معجزات) دکھادے گا، تو تم انہیں پہچان لوگے۔ ظاہر ہے کہ ایسی آیات غیر معمولی ہوں گی، آیا یہ معجزات آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) میں ہوں گے؟ کیا ان آیات و معجزات میں حظیرۂ قدس کے عظیم اسرار بھی ہیں؟ کیا ربُّ العزّت کا دیدار بہت بڑی آیت یا بہت بڑا معجزہ نہیں ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، یہ آفاق و انفس کی غیر معمولی آیات ہیں (۲) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سب سے عظیم آیات و معجزات حظیرۂ قدس ہی میں ہوتے ہیں(۳) کیوں نہیں، پروردگارِ

 

۲۹۳

 

عالم کا پاک دیدار سب سے بڑی آیت اور سب سے عظیم معجزہ ہے، اور معرفت کا تعلّق بھی اسی سے ہے۔

سوال – ۳۸۹: سُورۂ نجم (۵۳: ۱۸) میں ارشاد ہے: لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۔ اس آیۂ مقدّسہ کا ترجمہ کرکے بتائیں کہ یہ بڑی بڑی آیات کیا ہیں؟ اور یہ قصّہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) ترجمہ: انہوں (یعنی آنحضرتؐ) نے اپنے ربّ کی بڑی بڑی آیات دیکھیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کے متعلّقات جو حظیرۂ قدس میں ہیں (۲) یہ آیۂ شریفہ قصّۂ معراج کے سلسلے میں ہے۔

سوال – ۳۹۰: سُورۂ نحل کی ایک عظیم الشّان آیت (۱۶: ۸۱) کے حوالے سے سوال ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنی جس مخلوق کے ظِلال (سائے) بنا کر مومنین پر احسان فرمایا ہے، وہ کیا ہیں؟ اور کہاں ہیں؟ ظلِّ الٰہی (۲۵: ۴۵) کیا ہے؟ ظلِّ ممدود (۵۶: ۳۰) سے کیا مُراد ہے؟ – جواب: (۱)  عالمِ عُلوی خدا کی پُرنور مخلوق ہے، اس کی تمام چیزیں نور سے بھرپور ہیں، چُنانچہ کلمۂ کن نور ہے، قلم نور ہے، لوح نور ہے، عرش نور ہے، کُرسی نور ہے، وغیرہ، ان کے سایوں سے مظاہر مراد ہیں، جو عالمِ دین میں بھی ہیں اور عالمِ شخصی میں بھی، یہ سائے (مظاہر) عکسِ خورشید کی طرح روشن و تابان ہیں (۲) ظِلِّ الٰہی امام ِزمانؑ ہے جو زمین پر نورِ خدا کا مظہر ہے (۳) ظِلِّ ممدود یعنی کھینچا ہوا سایہ بہشت کی وہ لطیف نعمتیں ہیں جو باطن سے لیکر ظاہر تک پھیلی ہوئی ہیں۔

 

۲۹۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۷

 

سوال – ۳۹۱: روحانی سائنس آپ ہی کی اصطلاحات میں سے ہے، اور یہ آپ کا ایک پسندیدہ مضمون بھی ہے، لہٰذا آپ اسی کی روشنی میں جواب دیں کہ آیا بہشت میں ہر شخص کے لئے زبان سے متعلّق معلومات کی نعمتیں بھی ہیں؟ اگر بہشت میں دیگر لاتعداد نعمتوں کے ساتھ ساتھ لِسانی نعمتوں کی بھی فراوانی ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ – جواب: (۱) قرآنِ حکیم نے بارہا فرمایا ہے کہ جنّت میں لوگوں کی خواہش کے مطابق ہر چیز موجود ہے (مَایَشَاءُوْنَ۔ ۵ مقام پر) (۲) سُورۂ روم (۳۰: ۲۲) میں بھی دنیا بھر کی بولیوں اور زبانوں سے متعلّق بڑی روشن دلیل یہ ہے کہ یہ بولیاں اور زبانیں اللہ کی آیات میں سے ہیں، اور خدا اپنی آیات لوگوں کو دکھانے والا ہے، اس میں معلوم ہوا کہ ہم سب اپنی اپنی زبان کے عجائب و غرائب دیکھنے والے ہیں (۳) اس سلسلے کی ایک مُستند دلیل یہ بھی ہے کہ زمانۂ ماضی کے لوگوں کے نامہ ہائے اعمال میں زبان محفوظ ہے، آپ قرآنِ مقدّس میں نامۂ اعمال کے پُراز حکمت مضمون کو خوب غور سے پڑھیں۔

 

۲۹۵

 

سوال – ۳۹۲: یہ بڑی دلچسپ اور بیحد مفید بحث ہے، لہٰذا آپ مزید دلائل پیش کریں- جواب: (۱)  امام ِمبینؑ (۳۶: ۱۲) لوحِ محفوظ ہے، جس میں تمام زبانوں کی چیزیں محفوظ اور ریکارڈ ہیں، اور زبانیں بھی محفوظ ہیں (۲) عِلّیّین سے حضراتِ آئمّہ مراد ہیں جو کتابِ مرقوم ہیں، جس میں تمام نیکو کاروں کا نامۂ اعمال محفوظ ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۰) اور نامۂ اعمال ہر شخص کی اپنی زبان میں ہوتا ہے (۳) سُورۂ زِلزال کے آخر (۹۹: ۰۷ تا ۰۸) میں دیکھیں کہ انسان اپنے قول و فعل کا ذرّہ ذرّہ دیکھنے والا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ زبان کا ہر لفظ محفوظ ہے (۴) سُورۃ الکہف (۱۸: ۰۹) کا اشارہ ہے کہ جس طرح خدا نے معجزانہ طور پر اصحابِ کہف کو محفوظ رکھا تھا، اسی طرح وہ قدیم زبانوں اور نوشتوں (رقیم) کو بھی محفوظ رکھتا ہے، الحمدللہ۔

سوال – ۳۹۳: اس سے معلوم ہوا کہ نورانی خواب، روحانیّت، اور بہشت میں لوگ اپنی اپنی زبان کے معجزات کو دیکھتے ہیں، پس بتائیں کہ آپ نے بُروشسکی میں کیا کیا عجائب و غرائب دیکھے؟ اور خداواندِ قدّوس کی بے پایان رحمت سے کیا کیا توقعات ہیں؟ – جواب: خوشتر آن باشد کہ سِرِّ دلبران + گفتہ آید در حدیثِ دیگران۔ بہتریہ ہے کہ معشوقوں کا راز دوسروں کے قصّے میں بیان کیا جائے۔ میں بطریقِ حکمت اپنے تمام احوال داناؤں کو بیان کرتا رہتا ہوں (۲) تاہم یہاں بھی کچھ عرض کریں گے کہ روحانی انقلاب کا سارا قصّہ بروشسکی میں ہے، مجھے اُن روحانیوں کے بروشسکی کلام سے بڑی حیرت ہوئی، اور یہ سچ ہے کہ میں

 

۲۹۶

 

اپنی طفلانہ بروشسکی سے شرمندہ ہوتا تھا (۳) ہر مومن خدا سے ڈرتا بھی ہے اور اس کی رحمت کا اُمیدوار بھی ہے، پس بہشت میں سب کچھ ہے اور مذہبی کتابوں کی عظیم نعمت بھی ہے۔

سوال – ۳۹۴:  سُورۂ انفطار (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) میں ارشاد ہے: وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَ = اس میں کوئی شک نہیں کہ تم پر (تمہارے اعمال، یاد رکھنے والے معزّز لکھنے والے مقرّر ہیں۔ یہاں یہ پوچھنا ضروری ہے کہ یہ فرشتے انسانون کے اقوال و اعمال کو کس طرح یاد کرتے ہیں اور کس طرح لکھتے ہیں؟ آیا انسان جس بولی میں بھی بولتا ہے اسی کو درج کرتے ہیں یا کسی خاص زبان میں ترجمہ کرتے ہیں؟ کیا فرشتے ہاتھ سے لکھتے رہے ہیں؟ – جواب: (۱) اگر آپ اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ خاموش تاویلی انقلاب آچکا ہے تو پھر ان سوالات کے جوابات آسان ہیں، وہ یہ ہیں کہ فرشتے روحانی تماثیل کے ذریعے سے ہم سب کے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں، تماثیل روحانی مُوویز کا نام ہے (۲) انسان کی جیسی بھی گفتگو ہوتی ہے، اسی کو ترجمہ کے بغیر ریکارڈ کرتے ہیں (۳) فرشتے انسانوں کی طرح نہیں لکھتے ہیں۔

سوال – ۳۹۵: تِمثال (تصویر) کی جمع تَماثیل (تصویریں) ہے، اس سے آپ نے روحانی مُوویز کو مراد لیا، یہ کس طرح سے ہے؟  کیا آپ نے اس کی تسلّی بخش وضاحت کرسکتے ہیں؟  – جواب: (۱)  ان شاء اللہ

 

۲۹۷

 

ہم ٹھیک ٹھیک وضاحت کریں گے (۲) سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ تماثیل ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی، دونوں مقام پر ساکن بھی ہیں اور متحرک بھی، خاموش بھی ہیں اور بولنے والیاں بھی (۳) اس کا مطلب یہ ہُوا کہ و ہ تماثیل (تصاویر) جو باطن میں حرکت اور گفتگو کے ساتھ ہیں، وہ روحانی سائنس کی زبان میں نورانی مُوویز ہیں۔

سوال – ۳۹۶: نورانی مُوویز کے ثبوت میں آپ کا مُدلّل بیان بڑا عمدہ تھا، لیکن اس سے ہمارے لئے دو بڑے مشکل سوال پیدا ہوگئے، کیونکہ لفظِ تماثیل قرآنِ حکیم کے دو مقام پر موجود ہے، جس کا ظاہری ترجمہ آپ کے اس بیان سے مختلف ہے، تو کیا آپ ان دونوں آیتوں سے بھی نورانی مُوویز کی دلیل و شہادت پیش کرسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ العزیز، سُورۂ انبیاء (۲۱: ۵۲) میں ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی قوم کے لوگ تماثیل (تصاویر، اصنام) کی پرستش کرتے تھے، جن میں آزر پیش پیش تھا، یہ تماثیل ظاہر کے علاوہ باطن میں بھی تھیں، اور روحانیّت کے ابتدائی مراحل میں جو جو روشن اور خوب سے خوبتر تماثیل (تصویریں) سامنے آتی ہیں، وہ ہرگز خدا نہیں، بلکہ اصنام ہیں، لہٰذا حضرتِ ابراہیمؑ نے ظاہری اور باطنی ہر دو قسم کی بُت پرستی کی بڑی سختی سے مذمت کی، اس سے روحانی یا نورانی موویز کی نفی نہیں ہوئی ہے، کیونکہ آفتاب پرستی کی مذمت کرنے سے آفتاب کی نفی ہرگز نہیں ہوتی۔

 

۲۹۸

 

سوال – ۳۹۷: اب تماثیل سے متعلّق صرف ایک سوال باقی ہے، وہ سُورۂ سَبا (۳۴: ۱۳) میں ہے، آپ یہ بتائیں کہ جِنّات حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لئے کس نوعیت کی تماثیل بناتے تھے؟ مادّی تصویریں یا روحانی تصویریں؟ – جواب: (۱) قرآن ہمیشہ باطنی اور روحانی عجائب و غرائب کا تذکرہ کرتا ہے، کیونکہ مادّی چیزیں دنیا میں عام ہیں (۲) متعلّقہ آیت میں اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات کا ذکر ہےکہ جِنّات خدا کے حکم سے حضرتِ سلیمانؑ کے لئے روحانیت کے بڑے بڑے کاموں کو سرانجام دیتے تھے، مِنجملہ ایک کام یہ بھی تھا کہ وہ نورانی مُوویز بناتے تھے (۳) بعض دفعہ کس بڑے راز کو پردے میں رکھ کر لوگوں کو آزمانے کی خاطر فرشتے کا نام جِنّ رکھ لیتے ہیں، کیونکہ فرمانبردار جِنّ فرشتہ کہلاتا ہے، اور نافرمان جِنّ شیطان۔

سوال – ۳۹۸: آپ کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کا ہر احسان بیمثال ہوا کرتا ہے، لہٰذا زمانے کی ترقّی سے اس قدر و قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، اس حقیقت کی دلیل کیا ہے؟ – جواب: (۱) دلیل یہ ہے کہ اگر تختِ سلیمان روحانیّت میں ہونے کی بجائے مادّیت میں ہوتا تو آج ہوائی جہاز اس کے مقابلے میں ہمہ رس، اور عالمگیر معجزہ قرار پاتا، لیکن ایسا نہیں، کیونکہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کا تخت روحانیّت میں ہے، وہ حق تعالیٰ کا احسان ہے، جو بے مثال اور لازوال ہے (۲) اسی طرح جِنّات کی بنائی ہوئی تماثیل روحانیّت میں ہوا کرتی ہیں،

 

۲۹۹

 

آپ کو شاید اس بات سے بڑا تعجّب ہوگا کہ آپ کی اپنی باطنی قوّتیں ہی جنّات اور فرشتے ہیں، دران حالے کہ آپ اپنی ذات میں ایک مکمّل عالم یعنی عالمِ شخصی ہیں۔

سوال – ۳۹۹: سُورۂ حشر (۵۹: ۲۱) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر (بھی) نازل کرتے تو تم اس کو دیکھتے کہ خدا کے ڈر سے دب جاتا اور ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ جملہ حکمتیں پہلے عالمِ شخصی میں اور آخراً حظیرۂ قدس میں جمع ہوجاتی ہیں، چنانچہ مذکورہ مثال کے پیشِ نظر آپ یہ بتائیں کہ عالمِ شخصی میں پہاڑ کہاں ہے؟ – جواب: (۱) کسی شک کے بغیر عالمِ شخصی میں دو پہاڑ ہیں: طُورِ روح اور طُورِعقل (۲) حضرتِ موسٰیؑ کے یہ دونوں طُور اللہ تعالیٰ کی تجلّی سے ریزہ ریزہ ہوگئے تھے، مگر یاد رہے کہ خدا کے نور (تجلّی) سے اس کی کتاب الگ نہیں ہے، چنانچہ قرآن کے نورِ باطن نےعالمِ شخصی کے دونوں پہاڑوں کو پاش پاش کردیا ہے۔

سوال – ۴۰۰: حال ہی میں ایک عزیز شاگرد نے سوال کیا: جنابِ اُستاذ! براہِ کرم آپ ہمیں یہ سمجھائیں کہ زلزلۂ قیامت کیا ہے؟ یہ ظاہر میں ہے یا باطن میں؟ آپ سورۂ حج کی دو ابتدائی آیتوں (۲۲: ۰۱ تا ۰۲) کی حکمتی وضاحت کریں؟ – جواب: (۱) زلزلۂ قیامت میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں، یقیناً یہ انتہائی شدید زلزلہ (بھونچال) ہے (۲) چونکہ

 

۳۰۰

 

قیامت باطنی اور روحانی واقعہ ہے، اس لئے زلزلۂ قیامت بھی باطنی ہے (۳) زلزلۂ قیامت کی سختی ایسی ہے کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچّے کو بھول جائے گی، اس کی تاویل یہ ہے کہ قیامت کے دَوران کوئی اُستاد اپنے شاگردوں کو تعلیم نہیں دے سکتا ہے (۴) ارشاد ہے کہ ساری حاملہ عورتیں اپنے اپنے حمل گرادیں گی، تاویل ہے کہ اُس دَوران ہر اُستاد کی روح بار بار قبض کی جاتی ہے (۵) فرمایا گیا ہے کہ اس وقت لوگ مست نظر آئیں گے، حالانکہ وہ مست نہیں ہیں، بلکہ غفلت اور اللہ کے سخت عقلی عذاب کی وجہ ہے۔

 

۳۰۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۸

 

سوال – ۴۰۱:  کہتے ہیں کہ بعض ہستیاں خدا کے حکم سے بہشت کی انتہائی طویل زندگی بسر کر کے دنیا میں آتی ہیں، کیا یہ تصوّر درست ہے؟ اگر درست ہے تو قرآنِ حکیم میں اس کی کیا شہادت ہے؟ – جواب: (۱) اس کی مشہور گواہی یہ ہے کہ آدم و حوّا اور ان کے تمام ساتھی بہشت کی کُلّی زندگی کے بعد دنیا میں آئے (۰۲: ۳۸) اور ہر آدم کی سرگزشت اسی طرح کی ہے (۳) سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۲۸) میں ہے: اور جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کو (عالمِ امر سے عالمِ ) خلق میں سرنگون کردیتے ہیں، یعنی ایسے شخص کا تصوّر اوندھا ہوجاتا ہے جو عالمِ عُلوی سے عالمِ سِفلی کی طرف آرہا ہو (۴) ہر چیز ایک دائرے پر گردش کررہی ہے، اس قانون کا تعلّق انسان سے بھی ہے۔

سوال – ۴۰۲:  ارشاد (۳۶: ۲۷) کا ترجمہ ہے: اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان کی جگہ پر ہی مسخ کر دیں کہ نہ تو وہ آگے کو سفر جاری رکھ سکیں اور نہ ہی پیچھے کی طرف پلٹ سکیں۔ مسخ کیا ہے؟ خدا کسی آدمی

 

۳۰۲

 

کو کیوں اور کس طرح مسخ کرتا ہے؟ – جواب: (۱) مسخ = اچھّی صورت بدل کر بری صورت ہوجانا، جیسے آدمی کی صورت سے بندر یا دیگر حیوان کی صورت میں ہوجانا (۲) یہ مسخ ظاہری نہیں، بلکہ باطنی ہے جب کوئی انسان نافرمانی کے سبب سے صفاتِ دینداری سے خالی ہوجاتا ہے، تو اس میں کسی ادنیٰ جانور کی روح آکر رہنے لگتی ہے، (۳) ایسی روح اس شخص کی گری ہوئی عادت کے مطابق ہوا کرتی ہے، جبکہ تمام جانوروں کی عادتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔

سوال- ۴۰۳: کیا آپ قرآنِ حکیم کا کوئی ایسا حوالہ دے سکتے ہیں، جس سے ہم مذکورۂ بالا حقیقت کو با آسانی سمجھ سکیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) میں غور سے دیکھ لیں، ترجمہ: اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِنّ اور انسان ایسے ہیں، جن کو ہم نے جہنّم ہی کے لئے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کےپاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔ (۲) پس ایسے لوگ یقیناً انسان نُما حیوان ہیں، جس کی وجہ علم و آگہی کا فقدان ہے، جو غفلت کی وجہ سے ہے، اور غفلت اس لئے پیدا ہوئی کہ انہوں نے اپنے حواسِ ظاہر سے کام نہیں لیا۔

 

۳۰۳

 

سوال – ۴۰۴: یہ حقیقت سب پر روشن ہے کہ قرآنِ حکیم کے عظیم الشّان اور مبارک مضامین الگ الگ ہیں، اس کے باوجود اہلِ بصیرت کے لئے یہ بہت بڑا معجزہ ہے کہ ہر اعلیٰ مضمون سرتا سر قرآن میں پھیل جاتا ہے، اس حقیقتِ حال کے پیشِ نظر آپ یہ بتائیں کہ ہر قرآنی مضمون کے باطن میں علم و حکمت کا مضمون مخفی ہے یا نہیں؟ جواب مُدلّل ہو- جواب: (۱) حقیقت یہی ہے کہ قرآن کا ہر مضمون ظاہراً ایک مخصوص بیان کا حامل ہوتا ہے، اور باطناً علم و حکمت کا گنجینہ ہوتا ہے (۲) اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے (۳) نیز قرآن کا ہر مضمون نورٌعلیٰ نور کے قانون کے مطابق ہے، یعنی بیرونی نور اندرونی نور پر حجاب ہے، لوگ حجاب کو تو دیکھتے رہتے ہیں مگر محجوب کو نہیں دیکھ سکتے۔

سوال – ۴۰۵: اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے اوپر طُور (پہاڑ) کو معلّق کیا تھا، حوالہ جات: سورۂ بقرہ (۰۲: ۶۳، ۰۲: ۹۳) سورۂ نِساء (۰۴: ۱۵۴) سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۱) آپ بتائیں کہ اس مثال کی باطنی حکمت کیا ہے؟ – جواب: (۱) خدائے بزرگ و برتر کی عِنایت بے نہایت سے قرآنِ عظیم کے تمام زندہ معجزات بغرضِ تاویل و معرفت عالمِ شخصی میں جمع ہو کر بعد ازان حظیرۂ قدس میں مرکوز ہوجاتے ہیں (۲) چُنانچہ قرآنِ پاک میں جتنی مثالیں اور تذکرے پہاڑ (طُور = جَبَل) کے عنوان سے ہیں، ان کا تعلّق کُوہِ روح اور کُوہِ عقل سے ہے، (۳) جو لوگ عالمِ شخصی کے

 

۳۰۴

 

اسرار سے واقف و آگاہ ہیں، وہ یقیناً آپ کو بتا سکتے ہیں کہ جبلِ روح اور جبلِ عقل کیا کیا مظاہرے کرتے ہیں، اور کس طرح سروں کے اوپر معلّق ہوسکتے ہیں، آپ آیاتِ جِبال کو پڑھیں۔

سوال – ۴۰۶: قرآنِ حکیم ( ۱۹: ۲۶) میں روزۂ مریم کا تذکرہ ہے، آپ کےنزدیک اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کا انفرادی اور اجتماعی فائدہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) روزۂ مریم سے متعلّق آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: پھر اگر کوئی آدمی تجھے نظر آئے تو اس سے کہہ دے کہ میں نے رحمان کے لئے روزے کی نذرمانی ہے، اس لئے آج میں کسی سے نہ بولوں گی (۲) اس سے تقیّہ مراد ہے، یعنی دین کے خاص اور اعلیٰ اسرار کو بیان نہ کرنا، اس میں انفرادی اور اجتماعی امن و سلامتی کا فائدہ ہے۔

سوال – ۴۰۷:  حق و صداقت اور علم و حکمت کی گواہی کو چُھپانا بہت بڑا ظلم ہے (۰۲: ۱۴۰) اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ – جواب: (۱) چویابی محرمے با اوبگو فاش + ولیکن راز پنہان کُن زا وباش۔ (۲) آپ قرآن و حدیث کی حکمت کی زبان میں اپنی شہادتوں کو بیان کرسکتے ہیں، آپ کے لئے یہی بہترین طریقہ ہے، اور یہ سب سے اعلیٰ علمی خدمت ہے۔

سوال – ۴۰۸: کتابِ دعائم الاسلام، عربی، جلدِ اوّل، ص ۵۳

 

۳۰۵

 

پر یہ روایت ہے کہ مولا علی علیہ السّلام نے قرآنِ پاک کے بارے میں فرمایا: ظاہرہُ عملٌ موجوبٌ، و باطنہُ علمٌ مکنونٌ محجوبٌ، و ھو عِندنا معلومٌ مکتوبٌ۔ اس کی حکمت سے ہمیں آگاہ کریں۔ – جواب: (۱) ترجمہ: اِس کا ظاہر واجبی اور لازمی عمل ہے، اور اس کا باطن پوشیدہ اور درپردہ علم ہے، اور وہ ہمارے پاس معلوم اور لکھا ہوا ہے، (۲) قرآن کے ظاہر پر عمل کرنا آسان ہے، مگر اس کا باطنی علم بیحد مشکل بلکہ غیر ممکن ہے، مگر نورِ منّزل (۰۵: ۱۵) کے وسیلے سے، اور وہ نور امام زمان علیہ السّلام ہے (۳) لفظِ مکنون اس لئے ہے کہ قرآن کتابِ مکنون میں ہے، اور محجوب کا یہ اشارہ ہے کہ اللہ حجاب کے پیچھے سے کلام کرتا ہے، لہٰذا جس طرح تنزیل کے حجاب میں تاویل ہے، اس کی بہت بڑی اہمیّت ہے۔

سوال – ۴۰۹: مذکورہ کتاب میں حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے یہ حدیثِ شریف مروی ہے: من مات لا یعرف امام دھرہٖ حیّاً مات مِیتۃً جاھلیّۃً = جو شخص مرجاتا ہے درحالے کہ اس نے اپنے زمانے کے زندہ امام کو نہیں پہچانا تھا تو وہ شخص جاہلیّت کی موت مر جاتا ہے۔ سوال ہے کہ اس ارشاد میں خدا و رسولؐ کی معرفت کا ذکر کیوں نہیں؟ آیا ہر زمانے میں امامؑ حاضر اور موجود ہوتا ہے؟ جاہلیّت کی موت کیوں؟ – جواب: (۱) خدا اور اس کے برحق رسولؐ ہی کی معرفت کی غرض سے امامِ زمانؑ کی معرفت ازحد ضروری ہے (۲) امام

 

۳۰۶

 

نورِ خدا ہے، اس لئے وہ ہمیشہ موجود و حاضر ہے (۳) امامِ زمانؑ پیغمبرِ اکرمؐ کا دورازہ ہے، لہٰذا جس کو بابِ نبیؐ کی معرفت حاصل نہ ہو، اس کو بحقیقت نبیؑ کی معرفت نہیں ہوتی ہے۔

سوال -۴۱۰: دعائم الاسلام، عربی، جلدِ دوم، کتاب الوصایا میں دیکھیں: رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے اپنی وصیّت میں حضرتِ علی علیہ السّلام سے یہ بھی فرمایا تھا: والرّابعۃُ کثرۃُ البکاء لِلّٰہِ یُبنی لک بکُلِّ دمعۃ الفُ بیتٍ فی الجنّۃ = اور چوتھی وصیّت یہ ہے کہ تُو خدا کے لئے کثرت سے رویا کر تاکہ وہ تیرے لئے ہر قطرۂ اشک کے عوض جنّت میں ہزار گھر بنا دے۔ آپ کثرۃ البکاء کی چند حکمتیں بیان کریں – جواب: (۱) رسول پاک صلعم کی یہ مبارک وصیّت امیر المومنین علیؑ کے توسّط سے اہلِ ایمان کے لئے ہے (۲) گریہ وزاری میں عبادت کے بہت سے معانی جمع ہیں (۳) یہ عشقِ الٰہی کا خزانہ ہے (۴) اسی سے دل و جان کی پاکیزگی ہوتی ہے (۵) یہی حقیقی توبہ ہے (۶) یہی پیغمبرانہ اور اولیائی دعا و مناجات ہے (۷) اسی کو خوفِ خدا کہتے ہیں (۸) اسی سے روحانی ترقّی کا دروازہ کُھل جاتا ہے (۹) الغرض گریہ وزاری میں بےشمار فائدے ہیں۔

 

۳۰۷

 

صندوقِ جواہر ۔ ۹

 

سوال – ۴۱۱: آپ گریہ وزاری کو روحانی سائنس کی بنیاد قرار دیتے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) کیونکہ اس سے روح میں ایک خوشگوار تبدیلی آتی ہے اور یہیں سے روحانی سائنس کا تجربہ شروع ہوجاتا ہے (۲) روحانی سائنس کا راستہ خود شناسی سے الگ نہیں، پس جو چیز حصولِ معرفت کے لئے مفید ہے، وہی روحانی سائنس کے لئے بھی مفید ہے (۳) جس طرح دودھ میں مکھن موجود ہے، مگر وہ نظر نہیں آتا، تا آنکہ اس کو نہ ہلایا جائے، اسی طرح آپ کے بدن (خلّیات) میں جسمِ لطیف بحدِّ قوّت موجود ہے، جس کو گریہ وزاری، اور علم و عبادت سے حدِّ فعل میں لایا جاسکتا ہے۔

سوال – ۴۱۲: سُورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۵) میں دیکھیں: آسمانوں اور زمین میں کتنی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ گزرا کرتے ہیں اور ان سے مُنہ پھیرتے رہتے ہیں۔ کیا آپ اس کی حکمتوں میں سے کچھ بتا سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) اگر خدواندِ قدّوس کی بارگاہِ عالی سے ہمیں مدد ملتی ہے تو کچھ بیان ہوسکتا ہے (۲) کتابِ کائنات کی آیات بےحّد و

 

۳۰۸

 

بے شمار ہیں، ہر آیت خدا کی تعریف و تسبیح کے ساتھ ساتھ اس کی قدر کی آئینہ داری کرتی ہے، ہر شَیٔ (آیت) اپنی نوعیت کا ایک اعجوبہ ہے (۳) اس کائنات میں کونسی چیز ایسی ہے جو چشمِ بصیرت کےسامنے ازبس عجیب و غریب، حیران کُن اور ہوشرُبا نہ  ہو (۴) ان بے شمار حیرت انگیز اور مسحور کُن اشیاء میں سے مثال کے لئے کس شَیٔ کا انتخاب کریں، چلیں ٹھیک ہے، عجائباتِ قدرت میں سے بطورِ نمونہ اس پروانے کو لیتے ہیں جو ریشم کے کیڑے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ (۵) کتنی تعجّب خیز اور قابلِ غور بات ہے کہ ریشم کے کیڑے سے پروانہ پیدا ہوتا ہے، اور پھر پروانے سے کیڑا وجود میں آتا ہے، کیا اس میں فطرت کا کوئی عظیم راز پنہان نہیں ہے؟ (۶) یقیناً اس میں دائرۂ اعظم کا راز ہے جو انسان کے لئے مقرّر ہے۔

سوال -۴۱۳:  سُورۂ مُلک (۶۷: ۱۹) کے حوالے سے سوال ہے: آیا پرندے کا اُڑنا قدرتِ خدا کی خاص نشانیوں میں سے ہے؟ پرندے کی کون کونسی حرکات معجزاتی ہیں؟ مرغِ خانگی کبوتر کی طرح کیوں پرواز نہیں کرسکتا ہے؟ – جواب: (۱) کیوں نہیں، جبکہ قرآنِ پاک بطورِ خاص اس چیز کا ذکر فرماتا ہے (۲) پرندوں کا ہوا کے سمندر کو چیرتے ہوئے اُوپر کی طرف اُڑنا بڑا عجیب ہے (۳) بڑے بڑے وزنی پرندوں کا پر پھیلائے ہوئے پرواز کرنا زیادہ تعجّب خیز ہے، پرواز کی خاصیّت دراصل پرندوں کی روح میں پوشیدہ ہُوا

 

۳۰۹

 

کرتی ہے (۴) مرغِ خانگی اور گھریلو بطخ سے پرواز کی صلاحیّت چِھن گئی ہے، اس وجہ سے کہ وہ جنگل کی آزادی سے گھر میں لاکر قید کئے گئے، اور یہ اشارہ انسان کے لئے کہ وہ بہشت میں تو پرواز کرتا تھا، مگر دنیا میں آنے سے اس کی یہ قوّت غائب ہوگئی۔

سوال – ۴۱۴:  نفسِ واحدہ کون ہے؟ آیا نفسِ واحدہ ہر زمانے میں ہوتا ہے؟ یہ لوگوں کے لئے کیا کیا مفید امور انجام دیتا ہے؟ – جواب: (۱) سب سے اوّلین نفسِ واحدہ حضرتِ آدمؑ تھا، ہر پیغمبر اور ہر امام نفسِ واحدہ کا مرتبہ رکھتا ہے، لہٰذا ہر زمانے کا امام نفسِ واحدہ ہوتا ہے (۲) لوگوں کی روحانی پیدائش اور قیامتِ روحانی نفسِ واحدہ میں ہوتی ہے، کیونکہ لوگ نہ تو ازخود روحانی طور پر پیدا ہوسکتے ہیں اور نہ ہی قیامت کی سختیوں کو برداشت کرسکتے ہیں، لہٰذا خداوندِ عالم نے تمام انسانوں کی روحانی تخلیق و بعث کو نفسِ واحدہ میں رکھا ہے۔

سوال – ۴۱۵: آیۂ نجوٰی کس سُورہ میں ہے؟ اس میں کس خاص عمل کا حکم ہے؟ – جواب: (۱) یہ آیۂ شریفہ سورۂ مُجادلہ (۵۸: ۱۲) میں ہے (۲) جس کا ترجمہ یہ ہے: اے ایمان لانے والو! جس وقت تم چاہو کہ رسولِ خداؐ کے ساتھ نجوٰی (راز کی بات) کرو تو اس سے پہلے صدقہ دیا کرو، یہ تمہارے لئے بہتر اور زیادہ پاکیزہ بات ہے ……..

 

۳۱۰

 

(۳) یقیناً اللہ تعالیٰ کے اِس فرمانِ اقدس میں کوئی عظیم راز ہوگا، لیکن حضرتِ علی علیہ السّلام کے سِوا اس پر کسی نے عمل نہیں کیا، کیونکہ صدقہ بھاری لگتا تھا (۵۸: ۱۳) میرا عقیدہ ہے کہ پیغمبرِ اکرمؐ سے تنہائی میں ملاقات یا سرگوشی کا مقصد اسمِ اعظم کا راز بھی ہوسکتا ہے (۴) کیونکہ آیۂ شریفہ کے یہ خاص الفاظ بڑے دور رس معنی رکھتے ہیں: ذٰلِکَ خَیْرٌلَّکُمْ وَاَطْھَرُ ( یہ تمہارے لئے بہتر اور زیادہ پاکیزہ بات ہے)۔

سوال – ۴۱۶: آپ نے کہا تھا کہ فرشتہ اور روح واحد بھی ہے اور جمع بھی، وہ روحانی لشکر کا ایک فرد بھی ہے، لشکر بھی، اور عسکر سے بھرا ہوا قلعہ بھی ہے، آپ ان ضروری نکات کی وضاحت کریں کہ فرشتہ یا روح میں یہ عجائب و غرائب کیون کر ہوسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) چونکہ روحِ کامل اور فرشتہ ایک ہے، جو عالمِ امر سے ہے، یعنی وہ کلمۂ امر (کُنۡ) کے تحت ہے، لہٰذا اس میں “ہوجا” کے فرمان پر سب کچھ ہو جانے کی صلاحیّت موجود ہے (۲) اس کی مثال انسانی شخصیّت میں دیکھی جاسکتی ہے، چنانچہ جب آپ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ “میں ایک شخص ہوں”  تو ظاہراً درست کہتے ہیں، مگر باطنی حقیقت اس کے برعکس ہے، جبکہ آپ ایک کائنات ہیں، جس میں سب کچھ ہے، مگر بحدِّ قوّت۔

سوال -۴۱۷: بیانِ بالا کی مدد سے قرآنِ عظیم کی کوئی بہت بڑی حکمت سمجھا دیں – جواب: (۱) سُورۂ فجر (۸۹: ۲۲) میں ارشاد ہے:

 

۳۱۱

 

وَجآَءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً = تمہارا ربّ جلوہ فرما ہوگا اور فرشتے صف در صف آئیں گے (۲) اس آیۂ کریمہ کا تعلّق عالمِ شخصی کے دو مقام سے ہے، اوّل مقامِ روح، جہاں یہ معجزہ عالمِ کثرت کے مطابق ہوگا، دوم مقامِ عقل (حظیرۂ قدس) جس میں یہ معجزہ عالمِ وحدت کے مطابق ظاہر ہوگا، یعنی ایک ہی نور کی مظہریّت میں سب کچھ ہوگا (۳) بہت بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہمارے دانشمند ساتھی مقامِ وحدت کے اسرار کو جانتے ہیں، مثال کے طور پر اللہ نور ہے، انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام نور ہیں، فرشتے نور ہیں، اور مومنین ومومنات بھی آگے چل کر نور ہوجاتے ہیں (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۰۸) یہ نور دراصل خدائے واحد کا ہے، جس میں سب فنا ہو جاتے ہیں۔

سوال – ۴۱۸: قصّۂ موسٰی کے حوالے سے سوال ہے کہ مجمع البَحرین  (۱۸: ۶۰) ظاہراً کیا ہے اور باطناً کیا ہے؟ وہ خدا کا خاص بندہ، جس کے پاس علمِ لَدُنّی کا بہت بڑا خزانہ تھا، دو دریاؤں کے سنگم پر کیوں سکونت پذیر ہُوا تھا؟ وہ روایات میں کس نام سے مشہور ہے؟ – جواب: (۱) مجمع البَحرین ظاہر میں دو دریاؤں کے سنگم کو کہتے ہیں، جس سے باطن میں دو علمی دریاؤں کا سنگم مراد ہے، اور وہ کئی مقامات پر ہے (۲) ذرّۂ مادّہ اور روح کا سنگم (۳) ظاہرو باطن کا سنگم (۴) تنزیل و تاویل کا سنگم (۵) شرّو خیر کا، جِنّ و فرشتے کا سنگم (۶) ناطق اور اساس کا سنگم (۷) عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ کا سنگم، وغیرہ (۸) خدا کا وہ

 

۳۱۲

 

خاص بندہ علم کے ہر سنگم پر رہنمائی کرتا رہتا ہے (۹) وہ روایات میں خِضر کے نام سے مشہور ہے، الخِضْر و الخَضِرْ = سبز، ہرا (یعنی سدا بہار اور ہمیشہ زندہ، جس سے امامِ زمانؑ مراد ہے)۔

سوال – ۴۱۹: عالمِ ذرّ کہاں ہے؟ ذرّ کے کیا معنی ہیں؟ عالمِ ذرّ کی تعریف کریں۔ – جواب: (۱) عالمِ ذرّ عالمِ دین میں ہے، جس کی معرفت عالمِ شخصی میں حاصل ہوتی ہے (۲) الذّر کے معنی ہیں: چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، ہوا میں مُنتشر غبار، اس سے خلائق کے ذرّاتی نفوس مراد ہیں (۳) عالمِ ذرّ کی تعریف یہ ہے کہ اس کی ہر ہر چیز بشکلِ ذرّہ موجود ہے، اور وہ ذرّہ اتنا چھوٹا ہے کہ کوئی بشری آنکھ اسے دیکھ ہی نہیں سکتی، اور نہ ہی کسی سائنسدان نے ابتک اسے دیکھ لیا ہے، مگر یہ ہے کہ اہلِ معرفت نے عالمِ ذرّ کو دیکھا اور پہچان لیا ہے، جس کا مختصر بیان یہ ہے کہ عالمِ ذرّ کے لوگ ذرّاتی ہیں، فرشتے، جِنّات، چرند، پرند، ثمرات، وغیرہ تمام چیز یں ذرّاتی ہیں۔

سوال – ۴۲۰: آپ نے بفضلِ خدا اپنے بے مثال اُستادِ روحانی (امامِ آلِ محمّدؐ) کی مدد سے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یا جوج ماجوج ذرّاتی مخلوق ہیں، کیا آپ قرآنِ پاک کے حوالے سے لشکرِ یاجوج ماجوج کا کچھ تذکرہ کریں گے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ العزیز، سُورۂ انبیاء (۲۱: ۹۵ تا ۹۶) میں ہے = اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو

 

۳۱۳

 

ہم نے ہلاک کردیا ہو وہ پھر رجوع کرے، یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے (۲) ہر زمانے میں لوگوں کی بہت بڑی اکثریت گمراہی کی وجہ سے روحانی طور پر ہلاک ہوجاتی ہے، اور وہ رجوع نہیں کرسکتی ہے، یہاں تک کہ امامِ زمانؑ کے توسّط (۱۷: ۷۱) سے قیامت کا آغاز ہوتا ہے، اور تمام حدودِ دین (حَدَبْ) سے یاجوج و ماجوج نکل کر قیامتی لشکر کا کام کرنے لگتے ہیں، تب ہی بہت کم لوگ خوشی سے اور اکثرلوگ زبردستی کے تحت رجوع کرتے ہیں۔

 

۳۱۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۰

 

سوال – ۴۲۱: سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۰۹) ہم نے ایک دیوار ان کے آگے بنا دی ہے اور ایک دیوار ان کے پیچھے پھر اوپر سے ان کو ڈھانک دیا ہے تو وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔ آپ اس کی تاویلی حکمت بیان کریں۔ – جواب: (۱) ان کے آگے / مستقبل کی طرف دیوارِ جہالت کھڑی ہے، اسی طرح ان کے پیچھے / ماضی کی طرف بھی دیوارِ نادانی ہے، اور ان کا زمانۂ حال بھی تاریک ہے، کیونکہ اوپر سے نور کی روشنی نہیں آتی ہے، جبکہ یہ لوگ ڈھانکے ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ منکرین گویا آفاق و انفس کی آیات سے اندھے ہیں (۲) اس سے اہلِ بصیرت کی عظیم سعادت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کی نگاہ کے سامنے کوئی دیوار نہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدۂ پاک کے مطابق ان کو آفاق و انفس میں آیات (معجزات) دکھاتا ہے۔

سوال – ۴۲۲: مذکورۂ بالا سُورۂ مبارکہ (۳۶: ۱۲) میں ہے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتیٰ وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَھُمْ ط وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۔ معلوم ہے کہ آپ اکثر اس آیۂ کریمہ کے

 

۳۱۵

 

آخری حصّے کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن آج ضرور پوری آیت کی مربوط حکمت بیان کریں، تاکہ اس سے سب کو بہت بڑا عرفانی فائدہ حاصل ہو – جواب: (۱) جب امامِ زمانؑ کے توسّط سے روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو دنیا بھر کے لوگ ذرّات کی شکل میں آکر امام کی شخصیّت میں فنا ہوجاتے ہیں، اور خدا ان ذرّات کو امامِ مبین ہی میں زندہ کرتا ہے، اور ان کے تمام اعمال و آثار کو اسی میں محفوظ اور ریکارڈ کرتا ہے، (۲) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو امامِ مبینؑ میں گھیر کر اور گِن کر رکھا ہے (۳) اس سے معلوم ہوا کہ اس آیۂ شریفہ کا آخری حصّہ پہلے حصّے کی تفسیر ہے، کیونکہ مُردوں کو زندہ کرنے اور ان کے اعمال و آثار کو لکھنے کا خدائی کام امامِ مبین ہی میں ہوتا رہتا ہے۔

سوال – ۴۲۳: سورۂ عادیات (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۵) میں دیکھ لیں، سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم جو نتھنوں سے فراٹے لیتے ہیں، پھر پتّھر پر ٹاپ مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں، پھر صبح کو چھاپہ مارتے ہیں، اور غبار بلند کرتے ہیں، پھر اس وقت (دشمن کے) دَل میں گھس جاتے ہیں۔ اس میں کیا کیا تاویلی اسرار ہیں؟ – جواب: (۱) جب رات کی تاریکی میں کوئی سالک نفس پر دباؤ ڈالتے ہوئے ذکرِ سریع کرتا رہتا ہے، اور یہی ریاضت جاری رکھتا ہے تو اس حال میں تحلیلِ نفس کی وجہ سے چنگاریاں نکلتی ہیں، (۲) روحانی جہاد کی فتح و کامیابی اکثر صبح نورانی وقت میں ہوتی ہے (۳) خوب یاد رہے کہ جو شخص کاہلی اور سُستی کے ساتھ عبادت

 

۳۱۶

 

کرتا ہے، وہ ذکر وعبادت کے معجزات سے دور رہتا ہے، خداوندِ قدّوس سب کو عاشقانہ عبادت کی توفیق عنایت فرمائے!

سوال – ۴۲۴: حروفِ مُقَطَّعات میں سے حٰمٓ کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ کونسی سورتیں سُوَرِ حوامیم کہلاتی ہیں؟ ایسی سورتیں کتنی ہیں، اور کون کونسی ہیں؟ – جواب: (۱) حٰمٓ کی تاویل یہ ہے: قسم ہے الحیّ کی (اور) قسم ہے القیّوم کی۔ جس سے حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم مراد ہیں، جو اللہ تعالیٰ کے دو بزرگ ترین اسم ہیں، نیز ح م کی عددی تاویل ۴۸ ہے (۲) سُورۂ حوامیم وہ سورتیں ہیں جو ح م سے شروع ہوجاتی ہیں وہ سات ہیں: ۴۰: ۰۱، ۴۱: ۰۱، ۴۲: ۰۱، ۴۳: ۰۱، ۴۴: ۰۱، ۴۵: ۰۱، ۴۶: ۰۱، یہ ہے حٰمٓ کی تاویلی حکمت بفضلہ وَمَنِّہٖ۔

سوال – ۴۲۵: سُورۂ شورٰی (۴۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ہے: حٰمٓ۔ عٓسٓقٓ۔ آپ ان حروفِ مُقَطَعات کی تاویل بیان کریں – جواب: (۱) اس کی تاویلات میں سے ایک اس طرح سے ہے: قسم ہے الحیّ کی، قسم ہے القیّوم کی۔ قسم ہے چشمۂ بہشت کی (عَین = چشمۂ مُقرّبین ۸۳: ۲۸) قسم ہے چشمۂ سلسبیل کی (۷۲: ۱۸) قسم ہے کوہِ قاف کی (۵۰: ۰۱، روحانیّت میں ایک عجیب و غریب صاف و شفاف شیشہ جیسا پہاڑ ہے، جس پر ایسے بہت سے الفاظ مرقوم ہیں کہ ہر لفظ کے آخر میں ق آیا ہے )۔

عٓسٓقٓ کی دوسری تاویل یہ ہے: قسم ہے عشق کی۔ یعنی عشقِ سماوی

 

۳۱۷

 

کی، جو بڑا مقدّس اور وسیلۂ قربِ الٰہی ہے، اور یہ تاویل اس قاعدے کے مطابق ہے کہ قرآن سات حرفوں یعنی سات قرأتوں پر نازل ہُوا ہے (جامِع ترمذی، جلدِ دوم، ابواب القرأت)۔

سوال – ۴۲۶: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳) اور سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) کے حوالے سے سوال ہے کہ آیا حصولِ جنّت کے لئے دوڑنے اور ایک دوسرے سے سبقت کرنے کی ضرورت ہے؟ کیوں؟ کیا جنّت کاعرض کائنات کے عرض کا سا ہے؟ اس کے طول کا ذکر کیوں نہیں؟ – جواب: (۱) جی ہاں، جنّت حاصل کرنے کے لئے دوڑنا اور سبقت لے جانا ضروری ہے، (۲) کیونکہ جو لوگ اس عمل میں سب سے سابق ہوجائیں، ان کو زندہ بہشت بنانا ہے (۳) جی ہاں، جنّت کا عرض خود بہشت کا عرض ہے، کیونکہ کائنات بہشت کا ظاہری جسم ہے (۴) بہشت کے طول کا ذکر اس لئے نہیں کہ جو چیز گول ہوتی ہے، اس کا طول و عرض ایک ہی ہوتا ہے۔

سوال – ۴۲۷: سُورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں ارشاد ہے: اور سلیمان کے لئے اس کے جِنّوں، انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے اور ان کو قسم وار ترتیب دیا جاتا تھا۔ آپ اس کی تاویل بیان کریں – جواب: (۱) اِس آیۂ شریفہ میں قیامت کا حربی پہلو نمایان ہے، کیونکہ قیامت دینِ حق کی آخری دعوت بھی ہے، اور روحانی جہاد بھی (۲) حضرتِ سیلمان علیہ السّلام کو مرتبۂ امامت حاصل تھا، لہٰذا وہاں زمانے

 

۳۱۸

 

کی روحانی قیامت بھی تھی، اور تمام لشکر روحانی ذرّات کی شکل میں تھے۔

سوال – ۴۲۸: سُورۂ یُونُس (۱۰: ۱۰۰) میں ارشاد ہے: وَیَحْعَلُ الرِّجْسَ عَلیَ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ۔ اور اللہ تعالیٰ بے عقل لوگوں پر گندگی واقع کردیتا ہے۔ یہ کس نوعیّت کی بے عقلی کی اتنی سخت مذمّت ہے کیا اس فیصلے سے دینی عقل کی خود بخود بہت بڑی تعریف نہیں ہے؟ آیا اعلیٰ سے اعلیٰ پاکیزگی عقل ہی سے ہوتی ہے؟ – جواب: (۱) دینی حقائق و معارف کی طرف سے جاہل و نادان رہنے کی شدید مذّمت کی گئی ہے (۲) یقیناً اس حکم سے دینی عقل و حکمت کی بہت بڑی تعریف ثابت ہوتی ہے (۳) نہیں، اعلیٰ سے اعلیٰ پاکیزگی عقل و دانش ہی سے حاصل ہوتی ہے۔

سوال – ۴۲۹: آپ قرآنِ حکیم سے کوئی ایسا کُلّیّہ بتائیں، جس کے پیشِ نظر ہم یقین کرسکیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہر نعمت عطا کرنے والا ہے، اور اس کی رحمت میں کوئی چیز ناممکن نہیں۔ – جواب: (۱) آپ آیۂ خزائن (۱۵: ۲۱) کو غور سے پڑھیں (۲) آپ کُلّیّۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) میں خوب سوچین (۳) فنا فی اللہ و بقا باللہ سب سے بڑی یقینی حقیقت ہے، اس حال میں کونسی نعمت ناممکن ہوسکتی ہے (۴) ہزار حکمت کی اوّلین حکمت کو دیکھیں (۵) بہشت کی بادشاہی میں کوئی بھی عظیم نعمت غیر ممکن نہیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

۳۱۹

 

سوال -۴۳۰: مشہور حدیثِ قدسی ہے: کُنْتُ کَنْزاً مَّخفِیّاً، فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ، فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِکَیْ اُعْرَفَ۔ خداوندِ قدّوس نے فرمایا: میں چُھپا ہوا خزانہ تھا، پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پھر میں نے خلق (عالمِ شخصی) کو پیدا کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔ آیا یہ ترجمہ درست ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، درست ہے، کیونکہ خدا کی معرفت کا مقصد صرف عالمِ شخصی کی جسمانی، روحانی، اور عقلانی تخلیق ہی سے حاصل ہوتا ہے، (۲) جبکہ معرفت کا تعلّق عارف سے ہے، جبکہ ارشادِ من عرف کے مطابق حضرتِ ربّ کی معرفت انسان کی خود شناسی میں ہے (۳) چُنانچہ حدیثِ شریف ہے: اعرفکم بنفسہٖ اعرفکم بربّہ = تم میں جو شخص اپنی روح کو سب سے زیادہ پہچانتا ہے وہی تم میں سے اپنے پروردگار کو سب سے زیادہ پہچانتا ہے۔

 

۳۲۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۱

 

سوال – ۴۳۱: بحوالۂ سُورۂ انبیأ (۲۱: ۹۱) سوال ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مریمؑ اور ابنِ مریمؑ (حضرتِ عیسٰیؑ) کو عالمین کے لئے ایک آیت (نشانی، معجزہ) بنایا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ ماں بیٹے کو ملا کر ایک ہی آیت قرار دینے میں کیا راز ہے؟ حضرتِ مریمؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ کے روحانی معجزات کو کس درجے کے لوگ دیکھ سکتے ہیں یا سُن سکتے ہیں؟ دنیا والے یا عالمِ شخصی کے عارفین؟ – جواب: (۱) اِس مثال میں بہت سی حکمتیں ہیں (۲) حضرتِ مریمؑ صِدّیقہ اور ولیّہ تھی، اس لئے وہ اَولیاء کے مختلف درجات کی مثال ہے، اور خواتین کی روحانی ترقّی کی بھی، اور حضرتِ عیسیٰؑ میں انبیاء کا نمونہ ہے، پس اللہ تعالیٰ نے ان دونوں عظیم ہستیوں کو ایک ہی آیت قرار دے کر یہ اشارہ فرمایا ہے کہ انبیاء و اولیاء کا روحانی سفر ایک جیسا ہے، اور یقیناً منزِل مقصود بھی ایک ہی ہے (۳) حضرتِ مریمؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ کے روحانی معجزات عالمِ شخصی میں ہیں، لہٰذا ان کا تعلّق یقین کے تینوں درجات سے ہے۔

سوال – ۴۳۲: سُورۂ توبہ (۰۹: ۰۳) میں “حجِّ اکبر” کا نام آیا ہے،

 

۳۲۱

 

اس سے کیا مراد ہے؟ – جواب: (۱)  اگرچہ حجِّ اکبر کی ظاہری توجیہہ بھی تفسیر میں موجود ہے، لیکن اس کی باطنی تاویل الگ ہے، اور وہ روحانی حجّ ہے جو عارف کی ذاتی قیامت میں ہے۔

سوال – ۴۳۳: قرآنِ حکیم میں بے شمار حکمتی مثالیں ہیں، ان میں تقابلی مثالیں بھی کافی ہیں، چنانچہ ایک تقابلی مثال کو سورۂ ہود (۱۱: ۲۴) میں دیکھیں: (منکرین اور مومنین) دونوں فریق کی مثل اندھے اور بہرے اور دیکھنے والے سُننے والے کی سی ہے، کیا یہ دونوں مثل میں برابر ہوسکتے ہیں؟ تو کیا تم لوگ غور نہیں کرتے؟ اس میں سے کوئی عظیم حکمت بتائیں – جواب: (۱) اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام مومنین علم و عمل میں یکسان نہیں ہوسکتے، بلکہ وہ مختلف درجات پر ہوتے ہیں (۲) لیکن جب مقابلے کا موقع آتا ہے تو خداوند تعالیٰ سارے مومنین کو اعلیٰ درجے میں جمع کرتا ہے، اور ان سب کو یکسان طور پر البصیر، السّمیع (دیکھنے والا، سُننے والا) قرار دیتا ہے، یہ کتنی عجیب و غریب رحمت ہے۔

سوال -۴۳۴: یہاں بھی ایک عظیم الشّان تقابلی مثال ہے، جو سُورۂ زُمر (۳۹: ۰۹) کا ارشاد ہے: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الأَلْبَابِ = ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکسان ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔ آپ اِس آیۂ کریمہ کی

 

۳۲۲

 

توضیح کریں۔ – جواب: (۱)  اگر غور سے دیکھا جائے تو قرآنِ حکیم کی تمام تقابلی مثالیں ایک ہی مضمون سے متعلّق ہیں، اور وہ مضمون مَثَلُ الْفَرِیْقَیْنِ (دونوں فریقوں کی مثال ۱۱: ۲۴ ) کا ہے۔ یہاں تقابلی مثال اس طرح سے دی گئی ہے کہ ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو علم رکھتے ہیں، اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے، یعنی وہ سب کے سب جاہل اور نادان ہیں (۳) معلوم ہے کہ جہالت و نادانی انکار کی وجہ سے ہے تو انکار اوّلین جہالت ہے، اور اقرار بُنیادی علم ہے، پس اِس تقابلی مثال کے مطابق جن لوگوں کے پاس علم ہے، ان میں اقرار یا بنیادی علم  والے بھی بہت ہیں۔

سوال – ۴۳۵: آپ قرآنِ عزیز میں س و ی کے مادّہ کے تحت مزید تقابلی مثالوں کا مطالعہ کریں، چنانچہ ایک بڑی عالیشان مثال سورۂ رعد (۱۳: ۱۶) میں بھی ہے: ترجمہ: کہو، کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے؟ کیا ظلمتیں اور نور برابر ہیں؟ آپ اس مثال کی وضاحت کریں – جواب: (۱) ایک درویش نے عالمِ خیال میں دیکھا کہ کوئی بزرگ اسے یکے بعدِ دیگرے بہت سے چشمے دے رہا تھا، تاویلی اشارہ معلوم ہوا کہ انسان کی ظاہری آنکھ میں بہت سی آنکھیں پیدا ہوسکتی ہیں (۲) پس اگر کسی شخص نے چشمِ یقین حاصل نہیں کی ہے تو حقیقت میں وہ اندھا کہلاتا ہے (۳) آنکھوں والا وہ ہے جو دینِ حق کے تمام ظاہری اور باطنی معجزات کو دیکھ سکتا ہے (۴) ظلمتوں سے جہالتیں مراد ہیں (۵) نور کا

 

۳۲۳

 

سرچشمہ زندہ ہے، جس کے کئی شعبے ہیں، اور سب سے بڑا شعبہ علم سے متعلّق ہے۔

سوال – ۴۳۶: آپ سے بحوالۂ سُورۂ اَنعام (۰۶: ۷۵) ایک مختصر مگر بہت ہی ضروری اور بہت ہی مشکل سوال ہے: آپ یہ بتائیں کہ خدا وندِ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو کُلّ کائنات کی سلطنت کہاں دکھائی تھی؟ – جواب: (۱) عالمِ شخصی میں، کیونکہ کائنات اور اس کی بادشاہی / (ملکوت) مشاہدہ اور معرفت کی غرض سے عالمِ شخصی میں لائی جاتی ہے، (۲) خصوصاً حظیرۂ قدس میں، جہاں نہ صرف ہر چیز موجود ہے، بلکہ خدائے پاک کا دیدار اور ملکوت بھی ہے (۳) آپ ملکوت سے متعلّق چاروں آیات کو پڑھیں: ۰۶: ۷۵، ۰۷: ۱۸۵، ۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳، اور ان میں اچھی طرح سے غور کریں۔

سوال – ۴۳۷: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۸) میں حضرت زکریا علیہ السّلام کی یہ دعا ہے: قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طِیّبَۃً =دعا کی کہ اے میرے پروردگار! تو مجھے خاص اپنے پاس سے ایک پاکیزہ اولاد عنایت فرما۔ کیا ایک پیغمبر کی ایسی دعا میں صرف جسمانی اولاد مطلوب ہوتی ہے، یا کوئی عظیم مقصد بھی ہوتا ہے؟ – جواب: (۱) انبیاء علیہم السّلام کی ایسی دعا میں بظاہر جسمانی اولاد مطلوب ہوتی ہے، وہ بھی دنیا کے لئے نہیں، بلکہ دین کی غرض سے (۲) مگر باطن میں اُن کی یہ درخواست ہوتی ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ اپنے خاص حضور سے یعنی مقامِ

 

۳۲۴

 

عقل پر ایک پاکیزہ فرزند عطا فرمائے (۳) کیونکہ انسانانِ کامل کی ذُرّیّات مقامِ روح پر بھی ہوتی ہیں اور مقامِ عقل پر بھی۔

سوال – ۴۳۸: آپ کی مذکورۂ بالا وضاحت انقلابی ہے کہ ہر انسانِ کامل کی نہ صرف روحانی ذُرّیّات ہُوا کرتی ہیں بلکہ عقلی ذُرّیّات بھی ہوتی ہیں، براہِ کرم آپ کسی اور آیت سے بھی اس حقیقت کی شہادت پیش کریں – جواب: (۱) حضرتِ ایوب علیہ السّلام کے گھرانے کے لوگ چھت کے گرجانے سے دب کر مرگئے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے بڑی حد تک ان میں اضافہ کرکے روحانیّت اور عقلانیت کے مقام پر آپؑ کو عطا کیا (۲) چنانچہ سورۂ صٓ (۳۸: ۴۳) میں دیکھیں: ہم نے اسے اس کے اہل و عیال واپس دیئے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور، اپنی طرف سے رحمت کے طور پر، اور عقل و فکر رکھنے والوں کے لئے درس کے طور پر (۳) آخر میں یہ اشارہ ہے کہ  اہلِ ایمان کو بھی یہ عظیم نعمت نصیب ہوسکتی ہے۔

سوال – ۴۳۹: اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (۱۰۸: ۰۱) اے رسولؐ) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا ہے۔ آپ بتائیں کہ کوثر کے کیا معنی ہیں؟ – جواب: (۱) کوثر بہشت کے ایک چشمے کا نام ہے، کوثر کا مطلب خیرکثیر بھی ہے، اور کوثر کے معنی مردِ کثیر الذّریّت کے بھی ہیں، جس سے یہاں حضرتِ علیؑ مراد ہے جس کی ظاہری اور باطنی ذرّیّت بڑی کثرت سے ہے (۲) خدا نے آنحضرتؐ کو علیؑ بطورِ فرزند عطا فرمایا تھا، پس

 

۳۲۵

 

علیؑ مقامِ روح پر بھی اور مرتبۂ جبین میں بھی رسول اللہ کی ذرّیّت کا درجہ رکھتا ہے، اور کوثر کے جتنے بھی معانی ہیں، وہ سب کے سب مولا علیؑ کے لئے ہیں، الحمدللہ۔

سوال – ۴۴۰: سُورۂ رعد (۱۳: ۳۸)  میں ارشاد ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً   =اور ہم نے تم سے پہلے اور (بھی) بہتیرے پیغمبر بھیجے اور ہم نے ان کو بیویاں بھی دیں اور ذرّیّت بھی عطا کی۔ اس کی حکمت کو ظاہر کریں – جواب: (۱) اِس آیۂ مبارکہ کا خاص تعلّق پیغمبروں کی روحانیّت اور عقلانیّت سے ہے کہ انہی دو مقام پر ان کی بیویاں بھی ہیں اور ذرّیّت بھی، ورنہ حضرتِ یحییٰ اور حضرتِ عیسیٰ علیہما السَّلام نے جسمانیّت میں کوئی شادی بھی نہیں کی تھی (۲) اس سے معلوم ہُوا کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ذُرّیت مقام روح پر بھی ہے اور مرتبۂ عقل پر بھی۔

 

۳۲۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۲

 

سوال – ۴۴۱: سورۂ مریم کے ارشادات (۱۹: ۵) میں ہے: فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً = پس تُو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما۔ سوال ہے کہ آپ اس کی باطنی حکمت بتائیں – جواب: (۱) یہ حضرتِ زکریّا علیہ السّلام کی وہ دُعا ہے، جس میں آپ نے پروردگار سے ایک خاص فرزند کے لئے درخواست کی، کہ وہ جسمانی، روحانی، اور عقلانی کمالات کا مالک ہو (۲) مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً (اپنے پاس سے ایک وارث) کے الفاظ میں بہت بڑی حکمت ہے (۳) جس علمِ لَدُّنی کی بہت بڑی تعریف ہوتی ہے، تو پھر اولادِ لَدُنی کی تعریف کیوں نہ ہو (۴) یہاں وارث کا ذکر آیا ہے، اس سے وہ شخص مُراد نہیں، جو زمین، گھر، جائداد وغیرہ کا وارث ہُوا کرتا ہے، بلکہ روحانی کتاب، اور علم و حکمت کی وراثت کا قصّہ (۵) اگر ہر پیغمبر کے لئے ایک وارث کا ہونا حتمی قانون تھا، تو آنحضرتؐ کا وارث جو علی تھا اس میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

سوال – ۴۴۲: مذکورۂ بالا سورہ (۱۹: ۱۲) میں ارشاد ہے: یٰحَیْیٰ خُذِالْکِتَبَ بِقُوَّۃٍ = اے یحیٰی! کتاب کو مضبوط پکڑے رہو۔ اس میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ – جواب: (۱) سُستی اور کاہلی سے عبادت کرنا

 

۳۲۷

 

بہت بڑی ناشکری ہے، لہذا اسمِ اعظم کا ذکر بھر پور قوّت سے کرو  (۲) آسمانی کتاب ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، اس پر سخت ریاضت کرو (۳) علم و حکمت کے لئے سخت سے سخت کوشش کرتے رہو (۴) کتاب کے وسیع تر مفہوم کے مطابق یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کتابِ صامت، کتابِ ناطق، کتابِ نفسی، اور کتابِ کائنات میں دل لگا کر غور کرو۔

سوال – ۴۴۳: خدا کے حکم سے جو خاص روح یا فرشتہ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس آکر ایک درست اور مکمّل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا تھا ( ۱۹: ۱۷) وہ بدنی اعتبار سے کیسا تھا؟ کیا اس کا جسم عناصرِ اربع کا مرکب تھا؟ آیا وہ انسانی شکل میں فرشتہ ہی تھا؟ کیا ہم اس کو جُثّۂ ابداعیہ کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہم اس کو مُبدَع کہہ سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) وہ قالبِ نورانی ہوتا ہے (۲) وہ عناصر اربع سے نہیں (۳) ہاں، وہ انسانی شکل میں فرشتہ ہی ہوتا ہے (۴) وہ جثّۂ ابداعیہ ہے (۵) یقیناً وہ مُبدَع ہے، مگر فلسفۂ قدیم میں مبدَع کا مطلب کچھ اور ہے۔

سوال -۴۴۴: حضرتِ عیسیٰؑ کو مریمؑ نے نہ صرف جسمانیت میں بلکہ روحانیّت اور عقلانیت میں بھی جنم دیا، کیا آپ اس حقیقت کو قرآن کریم کی روشنی میں سمجھا سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، جب مریمؑ کے پاس ایسا عظیم فرشتہ آیا کہ جس کو خداوند تعالیٰ نے رُوْحَنَا کے لقب سے یاد فرمایا ہے، تو معلوم ہوا کہ اس وقت مریم روحانیّت کے درجۂ

 

۳۲۸

 

اعلیٰ پر پہنچی ہوئی تھی، اس حال میں فرشتے کا یہ کہنا: لِاَھَبَ لَکِ غُلمٰاً زَکِیّاً (کہ تم کو ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں) (۱۹: ۱۹) اس حقیقت کی روشن دلیل اور بشارت تھی کہ مقامِ عقل پر مریمؑ سے حضرتِ عیسیٰؑ کا عقلی تولُّد ہونے والا ہے (۲) پھر دردِ زہ مریمؑ کو کھجور کے تنے کی طرف لے گیا (۱۹: ۲۳) یہ حظیرۂ قدس اور مقامِ عقل ہے۔

سوال -۴۴۵: سُورۂ نساء (۰۴: ۱۷۱) میں ہے: مسیح عیسیٰ ابنِ مریم تو اور کچھ بھی نہیں البتہ اللہ کا رسول ہے اور اللہ تعالیٰ کا ایک کلمہ ہے جس کو خدا نے مریم کی طرف القاء کیا تھا اور خدائے تعالیٰ کی طرف سے ایک روح ہے، حضرتِ عیسیٰؑ کس معنیٰ میں خدا کا کلمہ تھا؟ اور ابنِ مریمؑ اللہ کی جانب سے ایک روح کس طرح سے ہے؟ – جواب: (۱) خدا کا کلمہ اسمِ اعظم ہے، اور حضرتِ عیسیٰؑ اپنے دَور کے لئے اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم / کلمہ تھا، یہ اسمِ اعظم جس میں بحدِّ قوت حضرتِ عیسٰی کا نور تھا مریم صدّیقہ کو عطا ہوا، جس سے رفتہ رفتہ مریمؑ کے عالمِ شخصی میں عظیم روحانی انقلاب آیا، جس کے تمام تر اشارے قرآنِ حکیم میں موجود ہیں (۲) ہر انسان میں تین روحیں ہوا کرتی ہیں: روحِ نباتی، روحِ حیوانی، اور روحِ انسانی، مگر انسانِ کامل میں ایک اور کا اضافہ ہو جاتا ہے، وہ روحِ قدسی ہے، جس میں اللہ کے کُلّ معجزات جمع ہیں، یہی روح دیگر تمام کاملین ہی کی طرح حضرتِ عیسیٰؑ میں بھی جلوہ گر ہوئی تھی۔

 

۳۲۹

 

سوال – ۴۴۶: آج صبح (۹۹/۲/۲۷) دُرِّمکنون گیسٹ کلاس میں حُبِّ علی کے خطِ چہارم کو پڑھتے وقت یہ کہا گیا تھا کہ بہشت کی جن نعمتوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے، ان کی مزید وضاحت کی جائے، پس آپ توضیح کریں- جواب: (۱) اس خط میں یہ حکمت بڑی عجیب و غریب ہے کہ: تمام انسانی صورتیں صورتِ رحمان ہی کے خزانے سے آتی ہیں (۱۵: ۲۱) یقیناً، کیونکہ جو شخص بہشت میں داخل ہوجاتا ہے، وہ اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوجاتا ہے، اور آدمؑ رحمان کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا (۲) اب یہ حقیقت سمجھنے کے لئے بڑی آسان ہوگئی کہ بہشت میں معشوقِ حقیقی کا دیدار مختلف شکلوں میں بھی ہوسکتا ہے، جبکہ بقولِ رسولِ اکرمؐ ہر بہشتی رحمان کی صورت پر ہوجاتا ہے (۳) اب بہشت کی ان بہت سی نعمتوں کی حقیقت واضح ہوگئی، جو آنکھوں کو لذّت بخشنے کے لئے پیدا کی گئی ہیں، (۴) جیسا کہ ارشاد ہے:

وفیھا ما تشتھیہِ الا نفسُ وتلذُ الاعیُنُ (۴۳: ۷۱) اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لَذّت دینے والی چیز وہاں موجود ہے۔ (۵) آپ سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۷) میں بھی دیکھیں۔

سوال – ۴۴۷: اللہ، رسولِ پاکؐ، اور ولیّٔ امرؑ کی نورانی ہدایت کی روشنی میں قرآنِ کریم کے بہت سے تاویلی اسرار مکشوف ہوئے ہیں، چُنانچہ اگر پانی پر عرش سے مراد کشتیٔ نجات ہے جو اہلِ بیت ہیں، تو آپ یہ بتائیں قرآنِ حکیم میں جتنی مثالیں کشتی کے باب میں آئی ہیں، ان کا

 

۳۳۰

 

حکمتی تعلق کشتیٔ نجات سے ہے یا نہیں؟ اگر تعلّق ہے تو نمونہ بتائیں – جواب: (۱) قرآنِ پاک میں کشتی کی جتنی بھی مختلف مثالیں موجود ہیں، ان کی آخری تاویل کشتیٔ نجات کی طرف جاتی ہے (۲) آپ سُورۂ بقرہ (۰۲: ۱۶۴) میں دیکھیں: اور کشتی میں (اللہ کی نشانی) جو سمندر میں چلتی ہے آدمیوں کے فائدے کی چیزیں لے کر۔ سوچنے کی بات ہے کہ ظاہری کشتی اللہ کی بڑی آیت (نشانی) ہے یا باطنی کشتی؟ انسانوں کا مادّی فائدہ زیادہ ضروری ہے یا روحانی فائدہ؟ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ظاہری کشتی کی مثال میں باطنی کشتی کی حقیقت پوشیدہ ہے۔

سوال – ۴۴۸:  آپ نے حدیثِ مماثلتِ ہارونی کی روشنی میں کبھی یہ کہا تھا کہ: “آئینہ ہارونی میں باربار علیؑ کا دیدار کر لیا کرو۔” اس کے معنی کیا ہیں؟ ایسا آئینہ کیا ہے؟ اور کہاں ہے؟ – جواب: (۱) اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ حضرتِ علیؑ کو سوائے نبوّت کے دیگر تمام معنوں میں حضرتِ ہارونؑ ہی کی طرح مانیں (۲) یہ آئینہ ان آیاتِ مبارکہ میں ہے، جو حضرتِ ہارونؑ کی شان میں وارد ہوئی ہیں (۳) پس آئینۂ ہارونی قرآن ہی میں موجود ہے (۴) انبیائے قرآن میں سب سے طویل قصّہ حضرتِ موسیٰؑ کا ہے، لہٰذا قرآنِ پاک میں ۱۳۶ دفعہ اسمِ موسیٰ آیا ہے، اس سارے قصّے میں اکثر دفعہ حضرتِ ہارونؑ بھی ساتھ ہے، اگرچہ ظاہراً حضرتِ ہارونؑ کا نام صرف ۲۰ مرتبہ آیا ہے۔

 

۳۳۱

 

سوال – ۴۴۹: بحوالۂ سُورۂ اعراف (۰۷: ۵۳) بڑا اہم اور بہت ہی نازک سوال ہے کہ آیا زمانۂ تاویل آچکا ہے؟ یہ تاویل کس چیز کی ہے؟ اس کا دوسرا نام کیا ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، زمانۂ تاویل آچکا ہے (۲) تاویل قرآنِ حکیم ہی کی ہے (۳) تاویل کا دوسرا نام قیامت ہے، قیامت یعنی تاویل باطنی طور پر بار ہا آچکی ہے، لیکن اِس دفعہ کی تاویل بہت ہی پُراثر، عمومی، اور عالمگیر ہے، اور اسی کی وجہ سے سائنسی انقلاب آیا ہے (۴) سائنسی عجائب و غرائب قدرتِ خدا کی وہ نشانیاں (آیات) ہیں، جن سے متعلّق پیش گوئی اور دکھانے کا وعدہ آیۂ آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) میں موجود ہے۔

سوال -۴۵۰: سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) میں ہے: جس دن زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان (دوسرے آسمان سے) اور سب کے سب اللہ واحدِ قہار کے لئے نکل کھڑے ہوں گے۔ اس سے اگر یہ مراد لی جائے کہ انسان کسی اور سیّارے پر منتقل ہونے والا ہے، تو اس صورت میں آسمان نہیں بدلیں گے، لہٰذا آپ اس کی درست تاویل بتائیں- جواب: (۱) یہ قیامت اور قیامتگاہ کا تذکرہ ہے، اور یقیناً قیامت کی جگہ عالمِ شخصی ہے، جس کے آسمان و زمین کائناتِ ظاہر سے مختلف ہیں، کیونکہ وہ باطنی اور روحانی ہیں (۲) اللہ کے واحد و قہار ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ سب لوگوں کو زبردستی سے ایک کرنے والا ہے۔

 

۳۳۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۳

 

سوال – ۴۵۱: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۵۵) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ عیسیٰؑ سے فرمایا: اور تیری پَیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے اس تعلیم میں لوگوں کے لئے بہت مشکل سوال ہے، وہ یہ کہ آیا دورِ عیسیٰؑ کے خاتمہ پر کوئی قیامت نہیں آئی تھی؟ اگر قیامت برپا نہیں ہوئی ہے تو پھر حضرتِ عیسیٰؑ کے پَیرو اب بھی حق پر ہیں، لیکن یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے؟ آپ اس سوال کا درست جواب مُہیّا کریں- جواب: (۱) سرورِ انبیاء صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی نبوّت کی ابتداء میں جو قیامت آئی تھی، اس سے دورِ عیسیٰؑ ختم ہوگیا، اور اُس دَور کے مومنین سے جو وعدہ فرمایا گیا تھا، وہ بھی پورا ہوگیا (۲) سورۂ صف (۶۱: ۰۶) میں دیکھیں کہ حضرتِ عیسیٰؑ نے اپنے بعد آنے والے رسول ( یعنی آنحضرتؐ) کی خوشخبری کس طرح دی تھی، اور بنی اسرائیل نے وقت آنے پر کیا کہہ کر انکار کر دیا۔

سوال -۴۵۲: سُورۂ صف (۶۱: ۰۸) میں ہے: وہ لوگ اپنےمنہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، لیکن اللہ اپنے نور

 

۳۳۳

 

کو مکمّل کرکے رہے گا، چاہے کافروں کو پسند نہ آئے، سُورۂ توبہ (۰۹: ۳۲) میں بھی دیکھیں، یہاں بُنیادی سوال یہ ہے کہ عالمِ خلق میں خدا کے نور کا ظہور کب ہوا؟ سب سے پہلے کس نے نور سے دشمنی کی؟ کیا وجہ تھی؟ پھونکوں سے کیا مراد ہے؟ خدا اپنے نور کو کس طرح مکمل کرتا ہے؟ – جواب: (۱) عالمِ خلق میں اللہ کے نور کا ظہور زمانۂ آدم میں اور آدم ہی کی صورت میں ہوا (۲) شروع شروع میں جس نے خدا کے نور سے دشمنی کی، وہ ابلیس تھا، پھر قابیل نے اس کی پیروی کی (۳) یہ عداوت انکار اور تکبّر کی وجہ سے پیدا ہوئی (۴) پھونکوں سے باطل دلیلیں اور ناکام کوششیں مراد ہیں (۵) اللہ اپنے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے سلسلے میں ہر بار نور کو مکمل کرتا رہتا ہے، آپ نورٌعلی نور میں بھی غور کریں۔

سوال – ۴۵۳: سُورۂ مُجَادَلَۃ (۵۸: ۲۱) میں ارشاد ہے: کكَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ =اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولان ہی غالب ہوکر رہیں گے، فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نے یہ پروگرام اپنے ہر رسول کے لئے لکھ دیا ہوگا، کہ وہ خدا کی مدد سے کائنات کو اپنے مومنین کے لئے مُسخّر کر لے گا، یا سیّارۂ زمین کو فتح کرکے اسلام ہی کو سارے ادیان پر غالب بنا دے گا لیکن ظاہر میں معلوم ہے کہ کوئی ایسی کامیابی نہیں ہوتی ہے، پس آپ بتائیں کہ اس آیۂ کریمہ کا اصل راز کیا ہے؟  – جواب: (۱) آپ کو اس حقیقت پر یقین ہوگا کہ

 

۳۳۴

 

قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، چنانچہ اس آیۂ شریفہ کے بیان کے مطابق ہر ہر جنگ میں اللہ اور اس کے رسولوں کی فتح و غالبیّت بہت ہی آسان چیز ہے، لیکن لوگوں کو دنیا میں بحیثیتِ مجموعی مہلت دی گئی ہے (۲) مگر جب جب روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو اس میں کسی کو کوئی مہلت نہیں ملتی، اور آپ یہ راز جان چکے ہیں کہ باطنی قیامت دعوتِ حق کی غرض سے دینی جنگ بھی ہے، جس میں خدا، رسولِ دَور، امامِ زمان، اور مومنین کو پوری کائنات پر فتح حاصل ہوجاتی ہے۔

سوال – ۴۵۴: سُورۂ نجم (۵۳: ۳۹) کی اس پُرحکمت آیت سے ہر دیندار مومن میں عالی ہمّتی اور اُولو العزمی کا جذبہ پیدا ہوسکتا ہے، لہٰذا آپ اِس کی حکمت کے بارے میں سمجھائیں، وہ آیۂ مبارکہ یہ ہے: وَاَنْ لَّیْسَ لِلاِنْسَانِ اِلّاَ مَا سَعٰی = اور یہ کہ انسان کو اُتنا ہی ملتا ہے جتنی کو وہ کوشش کرتا ہے – جواب: (۱)  یہاں لفظِ سعی (کوشش) میں علم و عمل کے تمام اعلیٰ معانی جمع ہیں، سعی و کوشش ہدایتِ حقّہ کے مطابق جسم و جان اور عقل کے ذریعے سے ہوتی ہے (۲) اس میں درست اور کامیاب ریاضت کا اشارہ موجود ہے، کیونکہ اصل کوشش وہ ہے، جس میں ایک دانا شخص اپنی تمام صلاحیتوں کو نہ صرف بیدار کرکے ان سے خوب کام لیتا ہے، بلکہ کمال یہ ہے کہ ان کو بدرجۂ اعلیٰ ترقّی بھی دیتا ہے۔

 

۳۳۵

 

سوال – ۴۵۵: یہ مقدّس ارشاد سُورۂ عنکبوت کے آخر (۲۹: ۶۹) میں ہے: الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ = اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے، اس تعلیمِ سماوی کی کوئی باطنی حکمت بتائیں – جواب: (۱) اگرچہ مومن کی کوشش شروع ہی سے درجہ بدرجہ ہدایت کی روشنی میں آگے بڑھ سکتی ہے، تاہم عقلی فنا کے بعد خاص نورانی ہدایت کا آغاز ہو جاتا ہے (۲) خدائے بزرگ و برتر کا یہ ارشاد جہادِ اکبر کا مضمون ہے، کیونکہ سعی و کوشش، جدّوجہد، اور جہادِ اکبر نفس ہی کے خلاف ہے۔

سوال – ۴۵۶: کوکبِ دَرّی، بابِ سُوم، منقبت۔ ۲۸ میں حضرتِ مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ مبارک ہے: اَنَا ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَارَیْبَ فِیْہِ = یعنی میں ہوں وہ کتاب جس میں کسی قسم کا شک و ریب نہیں۔ آپ اس کی وضاحت کریں۔ – جواب: (۱) سورۂ بقرہ کے شروع ہی میں ارشادِ خداوندی ہے: الٓمٓ۔ ذٰلک الکتٰبُ لا ریب فیہ۔ جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ یہ مولا علی کی شان میں ہے، کیونکہ علی ہی کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) ہے (۲) پس یہ قرآنِ ناطق یعنی امامؑ کی تعریف ہے کہ اس میں شک نہیں، یعنی اس میں یقین ہی یقین ہے، اور یقین کے تین درجے ہیں: علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، کیونکہ شک اور یقین آمنے سامنے ہیں، چنانچہ شک کی نفی اس لئے کی گئی کہ وہاں درپردہ یقین کے معنی آجائیں۔

 

۳۳۶

 

سوال – ۴۵۷: حروفِ مُقَطَّعات کے بعد جو بھی آیۂ شریفہ آئی ہے، وہ ربط و تعلّق کے بغیر نہیں ہوتی، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ مذکورہ آیۂ کریمہ کس طرح الٓمّٓ  کے ساتھ مربوط ہے؟ – جواب: (۱) الف =اوّل (قلمِ اعلیٰ)، لام = لوح محفوظ، میم = مرقوم، پس اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قسم ہے قلم کی، قسم ہے لَوح کی (اور) قسم ہے مرقوم (تحریر) کی کہ اس کتا ب (الٓمّٓ) میں کوئی شک نہیں۔ یعنی اس میں یقین ہی یقین ہے، جیسا کہ ذکر ہُوا، اور مولا علی صاحبِ تاویل کے فرمانِ اقدس سے معلوم ہوا کہ جس کتاب میں یقین کے تمام درجات موجود ہیں، وہ حضرتِ علی علیہ السّلام ہی ہے، آپ نے دیکھا کہ قسم اور جوابِ قسم کے درمیان ربط و رشتہ قائم ہے۔

سوال – ۴۵۸:  سُورہ سجدہ (۳۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: الٓمّٓ  تَنزِيلُ الْكِتَابِ لاَ رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ = قسم ہے قلمِ اعلیٰ کی، قسم ہے لوحِ محفوظ کی (اور) قسم ہے مرقوم کی (جو لوحِ محفوظ میں ہے) کہ الٓمٓ جو الکتاب ہے جس میں شک نہیں، اس کا نازل کرنا عوالمِ شخصی کے پروردگار کی طرف سے ہے۔ اس کی حکمت کے عجائب و غرائب کیا ہیں؟ – جواب: (۱)  قلمِ اعلیٰ سے رسولِ پاکؐ کا نور مراد ہے جو عقلِ کلّ کے نام سے عظیم فرشتہ ہے، لوح محفوظ سے حضرتِ علیؑ کا نور مُراد ہے، جو فرشتۂ نفسِ کُلّ ہے، اور مرقوم سے وہ قرآنِ مجید مراد ہے جو لوحِ محفوظ یعنی نورِ علی میں موجود ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) دیکھنا یہ ہے کہ آپ ان عظیم اَسرار

 

۳۳۷

 

کو کس طرح لیتے ہیں (۲) اس آیۂ مبارکہ میں جس تنزیل کا ذکر آیا ہے، وہ ہے تنزیلِ اوّل، یعنی خدا کے حکم سے قرآن کو لوحِ محفوظ میں نازل کر دیا، اور لوح نے اسے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا (۳) فرشتۂ لوح نے بتدریج قرآن کا مکمّل عکس اسرافیل کو دیا، اسرافیل نے میکائیل کو دیا، میکائیل نے جبرائیل کو، اور جبرائیل نے آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر قرآن نازل کیا۔

سوال -۴۵۹: حضرتِ امیرالمومنین علی علیہ السّلام کے ارشادات میں یہ بھی ہے: اَنَا اللَّوْحُ اَلْمَحْفُوْظُ = یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں۔ آپ یہ بتائیں کہ قرآنِ حکیم میں لوحِ محفوظ کا نمایان تذکرہ کہاں ہے؟ اس کی تعریف کیا ہے؟ وہ کس عالم میں ہے؟ – جواب: (۱) لوحِ محفوظ کا عیان ذکر سُورۂ بُرُوج (۸۵: ۲۲) میں ہے (۲) اس کی تعریف یہ ہے کہ اس میں قرآنِ مجید (۸۵: ۲۱) ہے، اور قرآنِ مجید میں بصورتِ نقش ازل سب کچھ موجود ہے (۳) چونکہ لوحِ محفوظ سے علی / امامِ مُبین کا نور مراد ہے، اور نور جبین میں ہوتا ہے، جس کا مخفی نام عالمِ عُلوی ہے، جی ہاں، علیؑ (امامِ مبینؑ) کا نور فرشتۂ نفسِ کُلّ ہے، جو لوحِ محفوظ ہے۔

سوال – ۴۶۰: سُورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشادِ خداوندی ہے: الم  اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ۔ آپ اس ارشاد کی وضاحت کریں۔ – جواب: (۱) قسم ہے قلمِ خدا کی، قسم ہے لوحِ

 

۳۳۸

 

محفوظ کی (اور) قسم ہے مرقوم کی ( جو لوحِ محفوظ میں ہے) کہ اللہ ہی وہ خدا ہے جس کےسِوا کوئی قابلِ پرستش نہیں ہے، وہی زندہ (اور ہر ہر عالم کا) سنبھالنے والا ہے۔ (۲) اس سے ظاہر ہُوا کہ الحیّ اور القیّوم خدا کے دو خاص اور بزرگ نام ہیں، اور ان کی بہت بڑی اہمیّت ہے، اللہ کے یہ دو پاک، مبارک، اور زندہ اسم حُجّتِ قائم اور حضرتِ قائم علیہما السّلام ہیں، یہ دونوں مقدّس اور بہت ہی عظیم نام آیَۃُ الکُرسی (۰۲: ۲۵۵) میں بھی ہیں، اور سُورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۱) میں بھی، اور حٰمٓ میں ان کا ذکر سات دفعہ آیا ہے۔

 

۳۳۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۴

 

سوال – ۴۶۱:  قرآنِ حکیم کی ہر آیت حکمتِ لاہوتی سے لبریز ہے، آپ اس آیۂ شریفہ کی باطنی حکمت بیان کریں: اِنَّ قراٰنَ الفجرِ کان مشھودًا (۱۷: ۷۸) – جواب: (۱) اس حکم کےتین معنی ہیں: (الف) نمازِ صبح پڑھنا (ب) بوقتِ صبح قرآن خوانی (ج) صبح اپنے وقت پر اسمِ اعظم پڑھنا (۲) الَمشھودُ وَالشّھادۃُ کے معنی کسی چیز کا مشاہدہ کرنے کے ہیں خواہ بصر سے ہو یا بصیرت سے، اور صرف حاضر ہونے کےمعنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (مُفردات) (۳) ترجمۂ آیت: یقیناً فجر کی عبات سے (نورِ باطن کا) مُشاہدہ ہوتا ہے۔ جس کی خصوصی ہدایت صرف امامِ آلِ محمّدؐ سے مل سکتی ہے (۴) آپ سخت ریاضت کرنے کے عادی ہو جائیں، نور اقدس کے عاشقوں میں سے ہوجائیں، رات کو بروقت اٹھ کر عاشقانہ گریہ وزاری اور عبادت کریں، ان شاء اللہ، کامیابی ہوگی۔

سوال – ۴۶۲: حضرتِ امیرالمومنین علی علیہ السّلام نے فرمایا ہے کہ قرآن چار حصّوں میں نازل ہوا ہے، ایک چوتھائی تو ہماری تعریف و توصیف میں ہے، ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کی مذمت و منقصت میں،

 

۳۴۰

 

ایک چوتھائی سِیَر، قصص، اور امثال میں، اور ایک چوتھائی میں شریعت کے فرائض اور احکام ہیں، اور قرآن کی بہترین آیات سب ہمارے واسطے ہیں۔ اس میں کیسی کیسی حکمتیں ہیں؟ – جواب: (۱) اس میں بڑی عجیب و غریب حکمتیں ہیں (۲) مولا علیؑ کی تعریف قرآن میں براہِ راست بھی ہے، بالواسطہ بھی ہے، امثال میں بھی، احکام میں بھی، اور کرائمِ القراٰن میں بھی ہے، مگر امام شِناسی میں سب لوگ برابر نہیں ہوسکتے ہیں، لہٰذا درجات بنائے گئے۔

سوال – ۴۶۳: کَرائم الْقُرْاٰن کی کیا مثال ہے؟  – جواب: (۱) سُورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں ارشاد ہے: قَدْ جَاءَكُمْ مِنْ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ = تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور ایک ظاہر کتاب (قرآن) آئی ہے، یہ ان بڑی آیات میں سے ہے جو علیؑ کی شان میں ہیں (۲) یقیناً یہ نور رسولٌ کے ساتھ اور آپؐ کے بعد حضرتِ علیؑ میں تھا، تاکہ اس نور کی روشنی میں قرآن کی باطنی حکمت نکھر نکھر کر سامنے آجائے، اس بے مثال عمل کی وجہ سے جُملۂ قرآن میں علی / امامِ مبین کی تعریف موجود ہے، مگر یہ صرف ایک ہی نمونہ ہے، جبکہ مولا علیؑ کی شان میں کرائم القرآن (قرآن کی بہترین آیات) بہت ہیں۔

سوال – ۴۶۴: کیا آپ ہمیں قرآن کی بہترین آیات کے بارے میں سمجھا سکتے ہیں کہ وہ کیا ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ،

 

۳۴۱

 

مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے، جس کا ترجمہ س- ۴۶۲ میں آچکا ہے: نَزَلَ الْقُرْاٰنُ اَرْبَعَۃَ اَرْباعٍ۱ فَرُبْعٌ فِیْنَا وَرُبْعٌ فِیْ عَدُوِّنَا وَ رُبْعٌ سِیَرٌ وَ اَمْثَالٌ وَ رُبْعٌ فَرَائِضٌ وَاَحْکَامُ شَرِیْعَۃٍ وَلَنَا کَرَائِمُ الْقُرْاٰنِ۔ پس قرآنِ حکیم کی جس چوتھائی میں امیرالمومنین کی تعریف و توصیف آئی ہے، اس میں سب سے خاص آیات ہیں، اور ان میں خاص الخاص آیات بھی ہیں، اور یہ کرائم القرآن ہیں، یعنی قرآن کی بہترین آیات، جس طرح کرائم المال بہترین مال کو کہتے ہیں (المُنجِد)

سوال – ۴۶۵: سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں یہ ارشادِ مبارک ہے: فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا =  ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم بخش دیا۔ کیا یہ آیۂ شریفہ کرائمِ القراٰن میں سے ہے؟ آیا یہ ایک خاص الخاص آیت ہے؟ – جواب: (۱)  اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آیۂ مبارکہ کرائم القرآن میں سے ہے، اور اس سے حضرتِ علی علیہِ السّلام کے ارشاد کی تصدیق ہوجاتی ہے، کہ جس طرح انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اسی طرح خدا نے اپنی رحمت سے ان کی خاص تعریف و توصیف بھی فرمائی ہے (۲) جی ہاں، یہ ایک خاص الخاص آیۂ شریفہ ہے، جو آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدّ کی شان میں ہے، اور اس کی طرف بار بار توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔

 

۳۴۲

 

سوال – ۴۶۶: سورۂ تحریم (۶۶: ۰۶) میں یہ حکمِ خداوندی ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ و عیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے اس پاک فرمان پر کس طرح عمل ہوسکتا ہے؟ کوئی مومن اپنے اہل و عیال کو کسی طرح دوزخ کی آگ سے بچا سکتا ہے؟ – جواب: سب سے پہلے ہر مومن کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کے دائرۂ فرائض میں کیا کیا چیزیں ہیں، اگر وہ فرض شِناس ہے اور خدا سے ڈرتا بھی ہے، تو یقیناً وہ علم و عمل کے ذریعے سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتشِ جہالت سے بچانے کے لئے سعی کرے گا، کیونکہ وہ آگ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، آتشِ جہالت و نادانی ہے۔

سوال – ۴۶۷: یہ آیۂ مبارکہ سُورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) میں ہے: ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا = پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو قرآن کا وارث بنایا جنہیں منتخب کیا تھا۔ یہ حضرات کون ہیں جن کو اللہ نے منتخب فرمایا تھا، اور کتاب (قرآن) کا وارث بنایا؟ اس وراثت کی دلیل کیا ہے؟ – جواب: (۱)  یہ حضرات أئمّۂ آلِ محمّدؐ ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے منتخب کرکے قرآن کا وارث بنایا ہے (۲) اس وراثت کی دلیلوں میں سے صرف دو پر اکتفاء کیا جاتا ہے: پہلی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ

 

۳۴۳

 

نے آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمّدؐ کو آسمانی کتاب کا وارث بنایا ہے (۰۴: ۵۴) اور دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن کی روح و روحانیّت اور تاویلی حکمت أئمّۂ آلِ محمّدؐ کے سِوا کسی سے نہیں ملتی ہے، کیونکہ خدا و رسولؐ کی طرف سے یہی حضرات قرآن کی تاویل کے لئے مقرّر ہیں۔

سوال – ۴۶۸:  سُورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۸) کے حوالے سے سوال ہے کہ تابوتِ سکینہ سے کیا مراد ہے؟ ربّ کی طرف سے سکینہ (سکونِ قلب) کس معنیٰ میں تھا؟ اس صندوق میں آلِ موسیٰؑ اور آلِ ہارونؑ کے تبرکات تھے، ان سے کیا مراد ہے؟ – جواب: (۱) تابوتِ سکینہ (صندوقِ سکون) لپیٹی ہوئی قیامت اور روحانیّت ہے (۲) ربّ کی طرف سے سکون علم و معرفت کے معجزات میں ہوتا ہے (۳) آلِ موسیٰؑ اور آلِ ہارونؑ کی باقی ماندہ چیزوں سے نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے اسرار مراد ہیں (۴) اس کا مطلب یہ ہُوا کہ اصل صندوق روحانیّت میں ہوتا ہے، جس میں قیامت کے تمام جواہرِ اسرار جمع ہوتے ہیں، اور وہ تین قسموں میں ہیں: اسرارِ اُلُوھِیّت، اسرارِ نبوّت، اور اسرارِ امامت۔

سوال – ۴۶۹: سُورۂ یونس کے آغاز (۱۰: ۰۱) میں ہے: الر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ۔ اگر آپ کو امامِ آلِ محمدؐ کے درِاقدس سے ان حروفِ مُقَطّعات کا صدقہ ملا ہے تو بتائیں کہ ان کے اسرار کیا ہیں؟ – جواب: (۱) اللہ جَلَّ شَانَہٗ کا ارشاد ہے: قسم ہے قلمِ اعلیٰ کی قسم

 

۳۴۴

 

ہے لوحِ محفوظ کی (اور) قسم ہے رقیم کی (جو لوح میں ہے) کہ وہ کتابِ حکیم کی آیات ہیں۔ (۲) رقیم اور مرقوم دونوں کے معنی ہیں: نوشتہ، تحریر، یہ وہ قرآنِ مجید ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اور اس کا ذکر ہوچکا ہے کہ لوحِ محفوظ امامِ مبین کا نور ہے (۳) الف لام را کے لئے پانچ سورتوں کے آغاز میں دیکھیں: ۱۰: ۰۱، ۱۱: ۰۱، ۱۲: ۰۱، ۱۴: ۰۱، ۱۵: ۰۱۔

سوال – ۴۷۰: سُورۂ رعد کے شروع (۱۳: ۰۱) میں ارشاد ہے: المر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ۔ آپ نے أئمّۂ اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کے باطنی معجزات کو دیکھا ہے، اور عزیزانِ خاص میں سے بعض کو بتا بھی دیا ہے، پس اگر ممکن ہے تو ان حروف کے اسرار کو بھی بیان کریں۔ – جواب: (۱) خدائے دانا و بینا کا ارشاد ہے: قسم ہے اوّل کی (جو قلم ہے) قسم ہے لوحِ محفوظ کی، قسم ہے مرقوم کی (اور) قسم ہے رُؤیت کی کہ وہ معجزاتِ کتاب ہیں۔ (۲) اُس مقام پر جو سب سے بلند ترین ہے، جہاں نورِ قرآن اور نورِ امامِ مبین ایک ہی ہے، وہاں رُؤیت بھی عظیم معجزہ (آیت) ہے، یہ رُؤیت دیدار بھی ہے، مشاہدہ بھی، اور مطالعہ بھی ہے۔

 

۳۴۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۵

 

سوال -۴۷۱:  سُورۂ صٓ (۳۸: ۰۱ تا ۰۲) میں خدا وندِ عالم کا ارشاد ہے: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْر  بَلْ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ۔ آپ اس ارشاد کی حکمت بیان کریں۔ – جواب: (۱)  صورتِ رحمان کی قسم (اور) ذکر والے قرآن کی قسم ( کہ تم حق پر ہو) لیکن کافر لوگ غرور اور مخالفت میں ہیں۔ (۲) چونکہ صورتِ رحمان کا معجزہ عالمِ عُلوی میں ہے، لہٰذا اسی مناسبت سے قرآن کے ازلی اور دائمی معجزے کی قسم ہے جو لوحِ محفوظ میں ہے (۸۵: ۲۲) قرآن عالمِ عُلوی میں بھی ذکر کا ذریعہ ہے اور عالمِ سفلی میں بھی (۳) پس حظیرۂ قدس میں قرآنِ مجید کے روحانی اور عقلی معجزات بڑے زبردست مُؤثِّر اور ناقابلِ فراموش ہیں، جیسا کہ سُورۂ قمر (۵۴: ۱۷) میں ہے اور ہم نے قرآن کو ذکرونصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی ہے جو اس سے فائدہ حاصل کرے؟

سوال – ۴۷۲: یہ سوال سُورۂ اعراف (۰۷: ۰۱ تا ۰۲) کے حوالے سے ہے: الٓمّٓصٓ (۱) یہ ایک کتاب ہے جو نازل کی گئی ہے، پس اے نبیؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو، اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم

 

۳۴۶

 

اس کے ذریعہ سے (منکرین کو) ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو نصیحت ہو۔ کیا آپ امامِ آلِ محمّدؐ کے صدقے سے ان حروفِ مُقَطَّعات کے اسرار کو بتا سکتے ہیں۔ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ چار معجزاتِ عُلوی کی قسم کھاتا ہے: قسم ہے قلم کی، قسم ہے لَوح کی، قسم ہے مرقوم کی (اور) قسم ہے صورتِ رحمان کی۔ اس کے بعد جوابِ قسم ہے جو اوپر درج ہوا (۲) الف۔ لام۔ میم۔ صاد، یہ خدائی خزانے ایسے ہیں، جو انتہائی عظیم اور ازلی ہیں، جن سے آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ کے قلبِ مبارک پر قرآن نازل ہوا۔

سوال – ۴۷۳: سُورۂ قلم (۶۸: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ۔ آپ اس کی حکمت سے ہم کو آگاہ کریں – جواب: (۱) ترجمہ: قسم ہے نون کی، قسم ہے قلم کی اور قسم ہے ان (فرشتوں) کے لکھنے کی کہ تم اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہو۔ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ نون جنّت کی ایک نہر ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ جم جا، وہ جم گئی اور روشنائی بن گئی …… پھر خدا نے اپنے ہاتھ سے ایک درخت لگایا، پھر خدا نے درخت سے فرمایا کہ قلم ہوجا، جب وہ قلم ہوگیا تو حکم دیا کہ لکھ دے، اس نے عرض کیا کہ پروردگارا کیا لکھ دوں؟ ارشاد ہوا کہ جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے (۲) یہ قصّہ دراصل انسانِ کامل کے عالمِ شخصی سے متعلق ہے، یہی شخص وہ درخت ہے جو خدا

 

۳۴۷

 

اپنے ہاتھ سے لگاتا ہے، اسی درخت سے بحکمِ خدا قلمِ اعلیٰ بن جاتا ہے (۳) قلمِ عقل فرشتہ ہے، وہ واحد بھی ہے اور جمع بھی، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ آیت میں یَسْطُرُوْنَ (وہ لکھتے ہیں) صیغۂ جمع آیا ہے۔

سوال – ۴۷۴: قرآنی لُغات میں اَمْر کے دو معنی ہیں: حکم، کام، پس سُورۂ یُونس (۱۰: ۰۳) میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا امر (حکم اور کام) بار بار اور مسلسل ہے، یعنی وہ قادرِ مطلق ہر عالمِ شخصی میں اپنی مکمّل سُنّت کا نمونہ دکھاتا ہے، اور اللہ کی سُنّت وہی ہوتی ہے، جو پہلے ہی کاملین میں گزر چکی تھی، اب آپ یہ بتائیں کہ آیا خدا کے نزدیک کوئی ایسا نیا کام بھی ہوسکتا ہے جو اب تک ناکردہ ہو؟ – جواب: (۱) اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں کوئی کام ایسا نہیں ہے جو نہ کیا گیا ہو، بالفاظِ دیگر خدا کا کوئی بھی کام نیا نہیں ہے، مگر یہ ہے کہ اس کے ہر کام میں تجدّد ہے (۲) تجدّدِ امثال کی اصطلاح ہم کو خبر دیتی ہے کہ ہر مری ہوئی چیز اللہ کے حکم سے زندہ ہوجاتی ہے اور ہر پرانی چیز نئی ہوجاتی ہے۔

سوال ۴۷۵: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۵۸) میں ارشاد ہے: وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ (آپ پوری آیت ترجمہ کے ساتھ قرآن سے پڑھیں) یہ کونسی بستی تھی، جس میں بنی اسرائیل کو داخل ہوجانے کا حکم ملا تھا؟ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃ (یہ بستی) سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ ایک طرح سے اسی بستی میں موجود تھے، جس میں داخل ہوجانے کا حکم ہوا تھا، اس میں کیا

 

۳۴۸

 

راز ہے؟ سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجانے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ – جواب: (۱)  یہ ہر انسان کا اپنا ہی قریۂ ہستی ہے، جس کو اب ہم عالمِ شخصی کہتے ہیں، بنی اسرائیل جسمانی طور پر عالمِ شخصی میں رہتے تھے، مگر روحانی طور پر ھنوز داخل نہ ہوسکے تھے، (۲) ھٰذِہِ الْقَرْیَۃَ (یہ بستی) کے اشارے سے اس حقیقت کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ یہ بستی خود ان کی ہستی ہی میں تھی، اور یہی ایک بہت بڑا راز ہے (۳) سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجانا = پیغمبر کے باب (اساس / امام) کی حقیقی اطاعت کے ذریعے سے عالمِ شخصی میں داخل ہوجانا، جہاں پیغمبر کے علم و حکمت کے خزائن موجود ہیں۔

سوال – ۴۷۶: آپ سُورۂ مائدہ کے رکوعِ چہارم (۰۵: ۲۰ تا ۲۶) کو باترجمہ قرآن میں پڑھیں، حضرتِ موسٰی نے کہا: اے میری قوم! اس مقدّس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے، پیچھے نہ ہٹو ورنہ ناکام و نامراد پلٹو گے۔ یہ مقدّس سرزمین کونسی ہے، جس کو فتح کرلینے کے لئے بنی اسرائیل کو حکم ہوا تھا؟ آیا یہ جہادِ اکبر کا قصّہ ہے؟ -جواب: (۱) یہ سرزمین عالمِ شخصی ہے جو کئی معنوں میں مقدّس ہے، جس کی فتح تسخیرِ کائنات ہے (۲) یقیناً یہ جہادِ اکبر ہی کا قصّہ ہے۔

سوال – ۴۷۷: اسی رکوع کے شروع (۰۵: ۲۰) میں یہ حکیمانہ اشارہ آیا ہے کہ حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ ہارونؑ کے مومنین میں سے جو لوگ

 

۳۴۹

 

عالمِ شخصی میں داخل ہوچکے تھے، وہ ملوک و سلاطین ہوگئے تھے، کیا یہ اللہ کی بہت بڑی عِنایت ہر زمانے میں ممکن نہیں ہے؟ -جواب: (۱) خداوندِ تعالی کی عنایت ہمیشہ ہمیشہ ممکن ہے، لیکن اس کے لئے عالمِ شخصی میں داخل ہوجانا عظیم شرط ہے (۲) عالمِ شخصی کا باب (دروازہ) امامِ زمان علیہ السّلام ہے، جس کے ذریعے سے داخل ہوجانے کے لئے اطاعت، محبّت، عشق، اور علم چاہیئے (۳) ہمارے پیروں اور بزرگوں کے عالمِ شخصی میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوگیا تھا، اسی عظیم واقعہ کی بے شمار مثالیں قرآن میں موجود ہیں۔

سوال – ۴۷۸: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ اس سوال کے جواب میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ کے پانچ ارشادات ہیں: (الف) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوری (ب) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ القَلَمُ (ج) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ العَقْلُ (د) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ  اللَّوْحُ (ھ) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الرُّوْح۔ آپ یہ بتائیں کہ پانچ مختلف چیزیں ایک ساتھ اوّل کس طرح ہوسکتی ہیں؟ کیا قلم اور لوح عقل و جان کے بغیر ہیں؟ -جواب: (۱) یہ ایک ہی حقیقت ہے کہ جس کے ازلی نام یہاں پانچ ہیں، اس کا تذکرہ کسی بھی نام سے ہوسکتا ہے، چنانچہ آنحضرت نے موقع و محل کے مطابق اس کا ایک نام ظاہر فرمایا (۲) قلم اور لوح عقل و جان کے سوا نہیں ہیں، یہ نبیؐ اور علیؑ کے نورِ واحد کے اسمائے ازل ہیں۔

 

۳۵۰

 

سوال – ۴۷۹: آپ نے تو بتایا تھا کہ نورِ محمّدؐ قلم ہےاور نورِ علیؑ لوح، کیا یہ ضروری نہیں کہ یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہوں؟ اگر نورِ نبیؑ عرش ہے اور نورِ امامِ مبینؑ کرسی، تو کیا یہ دونوں درجے جدا جدا نہیں ہیں؟ – جواب: (۱) عالمِ شخصی کے بہت سے مراحل کے بعد حظیرۃ القدس / عالمِ وحدت آتا ہے، جس کے بارے میں عُرَفاء یہ کہتے ہیں کہ وہاں ایک ہی عظیم فرشتہ قلم بھی ہے اور لوح بھی، یہی مَلَک محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد بھی ہے، اور عقلِ کل و نفسِ کُلّ بھی یہی ہے (۲) یقیناً نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِعلیؑ کرسی، لیکن یہ نورِ واحد ہے اور فرشتۂ واحد، جو عرش بھی ہے اور کرسی بھی، بلکہ وہی عظیم فرشتہ روحانی آسمان بھی ہے اور زمین بھی۔

سوال- ۴۸۰: اکثر لوگوں کے نزدیک تصوّرِ ازل انتہائی بعید ماضی کی طرح ہے، لیکن اس کے برعکس آپ تو یہ کہتے ہیں کہ عالمِ شخصی کے روحانی سفر کے آخر میں براہِ راست ازل اور لامکان کا مشاہدہ ہوتا ہے، آپ اس عجیب و غریب حکمت کی وضاحت کریں- جواب: (۱)  عالمِ شخصی کا روحانی سفر جسم سے روح کی طرف، مکان سے لامکان کی طرف، زمین سے آسمان کی طرف، اور آخر سے اوّل کی طرف ہے (۲) چونکہ یہ سفر مُدَوّر (گول) ہے، لہٰذا ہم کو گھوم کر واپس وہاں جانا پڑتا ہے، جہاں سے ہم آئے تھے (۳) امامِ مبینؑ میں سب کچھ ہے، اس کا تجربہ عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، خصوصاً جبین میں، جو عالمِ عُلوی ہے، جس میں ازل و ابد کے اسرار ہیں۔

 

۳۵۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۶

 

سوال – ۴۸۱: سُورۂ رحمٰن (۵۵: ۳۳) میں زمان و مکان یعنی کائنات کی قُیُود سے بالاتر ہوجانے کا مفہوم ہے، یہ کس طرح ممکن ہے؟ -جواب: (۱) اس کا طریقِ کار لفظِ “سلطان” میں ہے، جس کے معنی ہیں: دلیل، حجّت، اقتدار، غلبہ، مراد ہے ہدایتِ حقّہ کی روشنی میں زبردست علم اور زبردست عبادت کے ذریعے سے معجزاتِ جبین تک رسا ہوجانا، جہاں ازلی اور لامکانی اسرار ہیں۔

سوال – ۴۸۲: آپ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کی طرف بہت زیادہ توجّہ دلارہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ – جواب: (۱) اساسی طور پر آپ اس کو توفیقِ الٰہی سمجھیں، کیونکہ قرآنی علم وحکمت میں جو زبردست جاذبیّت و کشش ہے، وہ خداوندِ قدّوس ہی کی طرف سے ہے، اور دیگر تمام اسباب بھی اسی مُسَبِّبُ الاسباب کی جانب سے ہیں (۲) آیۂ آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) کےمطابق عصرِ حاضر میں ظاہری اور باطنی آیات، معجزات، اور عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہو رہا ہے، ایسے میں کم از کم علم الیقین کی سطح پر عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کے اسرار کا بیان بیحد ضروری ہے، اور اس عمل سے

 

۳۵۲

 

بے شمار فائدے حاصل کئے جاسکتے ہیں، الحمدللہ۔

سوال- ۴۸۳: آپ ہمیں حظیرۂ قدس کے چند مبارک و مقدّس اسماء اور وہاں کی چند عظیم چیزیں بتائیں۔ -جواب: (۱) عِلِّیّین، خزائن، الٰہی، عرش، کُرسی، قلم، لوح، کتابِ مکنون (۲) لپیٹی ہوئی کائنات، مرکزِ قبض و بسط، کائناتی نامۂ اعمال، مقامِ حق الیقین، نزدیک لائی ہوئی بہشت، عقل، نفس، ناطق، اساس (۳) شاخِ شجرۂ طیّبہ، گنجِ مخفی، کلمۂ باری، درختِ طُوبیٰ، مثل الاعلیٰ، صورتِ رحمان، رُؤیت، وجہ اللہ، مقامِ فنافی اللہ، مرتبۂ یک حقیقت، عالمِ عُلوی، کُوہِ طور، کُوہِ عقل، گوہرِعقل (۴) عالمِ وحدت، مرتبۂ امامِ مبینؑ یا کُلّیّۂ امامِ مبینؑ، اُمُّ الکتاب، عالمِ امر، بیت المعمور، حکمت کا گھر، مقامِ الست، مقام ابراہیمؑ، کعبۂ باطن، بیت العتیق، مقامِ معرفت، معراجِ انبیأ علیہم السّلام، وغیرہ۔

سوال -۴۸۴:  آپ بحیثیتِ مجموعی عالمِ شخصی سے متعلّق چند الفاظ و اصطلاحات کو تحریر کریں، تاکہ آپ کے بہت ہی پیارے تلامیذ ان کے ذریعے سے اپنی معلومات کا اندازہ کرسکیں- جواب: (۱) منزلِ عزرائیلی، منزلِ اسرافیلی، قبضِ روح، یاجوج ماجوج، عالمِ ذرّ، داعیٔ قیامت، جنگِ روحانی، تسخیرِ کائنات، روحانی قیامت، موت قبل از موت (۲)، روحانی لشکر، کُوہِ روح، تَوَلُّدِ روحانی، تَوَلُّدِ عقلانی، آسمانِ دنیا، عالمِ شخصی اور عالمِ اکبرکا ایک ہوجانا، سالک، عارف، عاشق، آدمِ زمان، قریۂ ہستی،

 

۳۵۳

 

ثمرات، آلِ محمّدؐ کی روحانی سلطنت، زلزلہ (۳) روحانی خوشبوئیں، نمائندہ ذرّات، نمائندہ قیامت، تجدُّدِ امثال، جسمِ لطیف، نورانی قالب، نورانی موویز (۴) عارف کے جسمِ لطیف کی کاپیاں، کتابِ نفسی، کائنات کی کاپیاں، فنا فی الامام، دینِ حق کی آخری دعوت (۵) شعوری قیامت، غیر شعوری قیامت، حجّتِ قائم، قائم القیامت، عین الیقین، کیا آپ عزیزان ان تمام معنوں کو جانتے ہیں؟

سوال – ۴۸۵:  بحوالۂ سُورۂ بقرۃ (۰۲: ۲۴۶) اور سُورۂ اَنعام (۰۶: ۲۰) آیۂ کریمہ کا یہ مفہوم ہے کہ اہلِ کتاب حضرتِ محمّد رسول اللہؐ کو اس طرح پہچانتے تھے، جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے، لیکن ان میں بعض ایسے بھی تھے جو دیدہ و دانستہ حق بات کو چھپاتے تھے۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) اس مقام پر ایک عظیم راز پوشیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ عیسٰیؑ کے دَور کے حُجج اپنی اپنی روحانیّت میں نورِ واحدِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو پہچانتے تھے، اور اسی میں آنحضرتؐ کی پہچان (معرفت) بھی تھی، یاد رہے کہ نور کے ساتھ عارف کے کئی رشتے ہیں، منجملہ نور عارف سے یہ بھی کہتا ہے کہ میں تیرا بیٹا ہوں، یہ بات دنیا میں صرف عالمِ شخصی تک محدود ہے، پس اہلِ کتاب میں آنحضرتؐ کی مذکورہ پہچان حدودِ دین کی وجہ سے تھی۔

سوال – ۴۸۶:  سُورۂ نمل کے آخر (۲۷: ۹۳) میں قرآنی جواہر کا جو

 

۳۵۴

 

خزانہ موجود ہے، اس کی خوشخبری ہی سے عاشقوں کو بیحد خوشی ہوسکتی ہے، آپ ترجمۂ آیت اور حکمت پیش کریں۔ -جواب: (۱) ترجمہ: کہہ دو: الحمد للہ! وہ بہت جلد اپنی آیات (معجزات) تمہیں دکھلائے گا تاکہ تم انہیں پہچان لو۔ (۲) یہاں سب سے پہلے آپ کو یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ یہ آیات جُزوی ہیں یا کُلّی؟ آفاق میں ہیں انفس میں؟ یا دونوں میں؟ عالمِ نفسی / عالمِ شخصی کی کس منزل میں ہیں؟ آیا یہ تمام معجزات (آیات) جو عظیم ہیں، وہ سب کے سب حظیرۂ قدس میں جمع ہیں؟ جی ہاں، جی ہاں، پھر آپ س ۴۸۳ میں دیکھیں کہ اس مقام پر کیسے کیسے عظیم معجزات ہوتے ہیں۔

سوال – ۴۸۷: نزولِ قرآن کے زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو اپنی آیاتِ خاص دکھانے کا وعدہ فرمایا تھا، وہ کچھ ایسے معجزات دیکھے بغیر مرگئے، اور اسی طرح آج تک صدیاں بیت گئیں، لیکن اللہ جل شانہٗ کا کوئی ایسا معجزہ دنیا والوں کے سامنے ظاہرنہیں ہوا، جو بیحد حیران کُن اور زبردست انقلابی ہو، حالانکہ خداوند تعالیٰ کا ہر وعدہ حق ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ – جواب: (۱) اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا وہ اندھا پن ہے، جس کا قرآنِ پاک میں جگہ جگہ ذکر آیا ہے، خصوصاً سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱ تا ۷۲) میں دیکھیں، اور ضرور دیکھیں (۲) تمام چھوٹے بڑے معجزات اس روحانی قیامت میں جمع ہیں، جو زمانے کے امام کے توسّط سے قائم ہو جاتی ہے (۳) پس ربّ العزّت کا ہر ہر معجزہ امام ِمبینؑ (۳۶: ۱۲) میں ہے۔

 

۳۵۵

 

سوال – ۴۸۸: آیا سُورۂ نمل کی مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ (۲۷: ۹۳) میں کوئی ایسا اشارہ بھی موجود ہے، جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ وہ معجزات کس مقام پر ہیں؟ اور اُس منزل کا کیا نام ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، “الحمد للہ” میں یہ اشارہ ہے کہ وہ جملہ عظیم معجزات مرتبۂ عقل پر جمع ہیں جو حظیرۂ قدس میں ہے، کیونکہ حمد سے عقل مراد ہے (۲) حظیرۂ قدس کا دوسرا نام دائرۂ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) ہے۔

سوال – ۴۸۹: ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے پاس روحانی معلومات کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے، اور ہم اس بات کو بھی جانتے ہیں کہ یہ عنایتِ بے نہایت کس مہربان بادشاہ کی طرف سے ہے، بہ ہر کیف بارِ امانت  سُبک دوشی کے لئے آپ کے پاس کیا کیا طریقے ہیں؟ کیا آپ اپنی علمی خدمت کے ان طریقوں سے مطمئن ہیں؟ – جواب: (۱) میری ایک خاص مناجات کا ایک شعر ہے: خداوندا جݺ اُنݺ ھِݣ ڎمُ ھُکن با+ جماعتݺ غُم اُݼوݣُ لُمْ تِکݺ فُکن با = خداوندا، میں تیرے دروازے کے سامنے رہنے والا ایک کُتّا ہوں، اور جماعت کے نقشِ قدم کا ایک ذرۂ خاک ہوں، لیکن اس کے کتنے عظیم احسانات ہیں، کہ آج میں صرف ایک فرد نہیں ہوں، اللہ تعالیٰ نے میری روح کے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر کے اگرچہ کُلّ جہان میں بکھیر دیا ہے، تاہم خواہش یہ ہے کہ میری ہستی کا ہر ذرّہ علمی دوستوں سے قربان ہوجائے، (۲) خدا کے فضل و کرم سے ہمارے ادارے میں کئی طریقے ہیں، جن سے ادائے امانات کا فریضہ

 

۳۵۶

 

انجام پا رہا ہے (۳) اللہ کا شکر ہے، میرے عزیزان جس طرح علمی خدمت کررہے ہیں، میں اس سے مطمئن ہوں۔

سوال – ۴۹۰: سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۴) میں ارشاد ہے: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لاَ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ = اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ قرآنِ عظیم کا یہ بڑا عجیب و غریب کا ئناتی کُلّیّہ ناقابلِ فراموش ہے، لہٰذا اگر ہوسکتا ہے تو اس کی کوئی حکمت بیان کریں -جواب: (۱)  ہر چیز چار مقامات پر ذاتِ سبحان کی تسبیح کرتی ہے، یعنی اس کو مخلوق کی صفات سے پاک قرار دیتی ہے (۲) اوّل: جُملہ اشیاء اپنی اپنی جگہ زبانِ حال سے یہ تسبیح کر رہی ہیں (۳) دوم: ہر شیٔ کائناتی تسبیح (۱۷: ۴۴) میں شرکت و شمولیّت کر رہی ہے (۴) سوم: جب کسی شخصِ کامل پر روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اُس وقت کُلّ اشیاء صورِ اسرافیل کی مسلسل آواز کی ہم آہنگی میں تسبیح خوان ہو جاتی ہیں (۵) چہارم: جب منزلِ آخرین / منزلِ حمد (عقل) آتی ہے، تو ہر چیز حمد کے ساتھ خدا کی تسبیح کرتی ہے اور فنا ہوجاتی ہے، اور یہی ہر شیٔ کی آخری تسبیح ہے۔

 

۳۵۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۷

 

سوال – ۴۹۱: ارشاد ہے: کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَا تَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ =سب اپنی اپنی نماز اور تسبیح سے باخبر ہیں ( ۲۴: ۴۱) آپ سُورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں بھی دیکھ لیں: جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے طَوعاً یا کَرھاً اللہ کے لئے سجدہ ریز ہے۔ اس سے معلوم ہُوا کہ ہر چیز اور ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی غلامی کر رہی ہے، یعنی نماز، تسبیح، اور سجدہ کے بغیر کوئی چیز نہیں، یہاں یہ سوال ہے کہ جب اِس کائناتی کُلّیّہ کے مطابق انسان اور غیر انسان سب کے سب خدا کی غلامی کررہے ہیں، تو پھر عذاب اور ثواب کا تعلّق صرف انسانوں سے کیوں ہے؟ -جواب: (۱) غلامی یا عبادت دو قسم کی ہوا کرتی ہے: ایک ہے تسخیری، اور دوسری ہے اختیاری، اختیاری صرف انسان ہی کو عطا ہوا ہے (۲) جیسے کہ قرآنی الفاظ ہیں: طَوعًا وَ کَرھًا (خوشی سے یا مجبوری سے) چنانچہ جب کوئی مومن اللہ کے لئے سجدہ کرتا ہے تو یہ اختیاری سجدہ ہے، لہٰذا اس کا ثواب ہے، لیکن درخت کا سجدہ فطری اور تسخیری ہے، اس لئے اُس کو کوئی ثواب نہیں۔

سوال – ۴۹۲:  آپ تسخیر کے بارے میں وضاحت کریں کہ وہ

 

۳۵۸

 

کیا چیز ہے اور کس طرح سے ہے؟ – جواب: (۱) تسخیر کے معنی ہیں: فرمانبردار بنانا، قرآنِ حکیم کی کئی عظیم الشّان آیات بتاتی ہیں کہ خداوندِ قدّوس نے اپنی رحمتِ بےنہایت سے انسان کے لئے کائنات کو ظاہراً وَبَاطناً مُسخّر کردیا ہے، آپ ایک ایسی عظیم، بابرکت، اور پُراز علم و حکمت آیت کو سُورۂ لُقمان (۳۱: ۳۰) میں پڑھیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مُسَخّر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟

سوال – ۴۹۳: آپ قرآنی دلیل کی روشنی میں یہ ثابت کر کے بتائیں کہ انسان صاحبِ اختیار ہے -جواب: (۱) قرآنِ حکیم میں تَوَکّلُ کے مضمون کو پڑھیں، کیونکہ تَوَکّلُ یہ ہے کہ آپ اپنا اختیار حقیقی وکیل کو دیتے ہیں وہ آپ پرنورِ ہدایت کی روشنی ڈال کر آپ کے اختیار کو محدود کرتا ہے، اس سے معلوم ہُوا کہ انسان صاحبِ اختیار ہے۔

سوال – ۴۹۴: سُورۂ احزاب (۳۳: ۷۲) میں ہے: ہم نے امانت (کا بار) آسمان اور زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب نے اس بار کو اُٹھانے سے انکار کر دیا، اور اس سے ڈر گئے، اور انسان نے اس کو اُٹھا لیا، بلاشبہ وہ ظَلُوم و جَھُول تھا، آپ بتائیں کہ یہ امانت کیا تھی؟

 

۳۵۹

 

– جواب: (۱) یہ انسانی اختیار کی امانت ہے، یعنی اختیار خدا کی طرف سے انسان کو بطورِ امانت ملا ہے، تاکہ مقاماتِ تَوَکّلُ کے ذریعے سے اس کو واپس کیا جائے (۲) آپ کو نفسانی موت کا قصّہ معلوم ہے کہ منزلِ عزرائیلی میں داخل ہونے کے ساتھ مومنِ سالک کا اختیار باقی نہیں رہتا ہے، اس کا ایک لطیف اشارہ سورۂ احزاب (۳۳: ۳۶) میں بھی ہے۔

سوال – ۴۹۵:  صنادیقِ جواہر کی اس انمول کتاب میں ایک جدید اور ازبس مفید طریقۂ تعلیم یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہم گاہے گاہے عالیشان کلیدی الفاظ اپنے عزیزوں کےسامنے رکھیں، تاکہ وہ اپنے ذخیرۂ معلومات کا بخوبی اندازہ کرسکیں، پس آپ کلیدی الفاظ کی ایک سوالیہ فہرست مُرتّب کر دیں – جواب: (۱) نفسِ واحدہ؟ عالَمِ دین کے چھ دن؟ امامِ مُستقر اور امامِ مستودع؟ اساس؟ (۲) وصی؟ وصیٔ آدم؟ وصیٔ موسیٰ؟ باب؟ کوثر؟ رسولِ ناطق؟ بے پایان حشردارد؟ نفسانی موت؟ جسمانی موت؟ (۳) وزیر؟ حجاب؟ کفیل؟ حُجّت؟ ماذون؟ داعیٔ مطلق؟ مُستجیب؟ حُجّتِ جزیرہ؟ پیر؟

سوال – ۴۹۶:  کلیدی الفاظ سے پُرانی اور نئی اصطلاحا ت مراد ہیں، اور ان میں ضروری عُنوانات بھی شامل ہیں، جس طرح کسی خزانے کا مُقَفّل دروازہ ہوا کرتا ہے، جس کی ایک کلید ہوتی ہے، اور جیسے کوئی صندوقِ جواہر تالا لگا ہوا ہوتا ہے، اور اس کی ایک چابی ہوتی

 

۳۶۰

 

ہے، اسی طرح خزائنِ علم و حکمت کی بھی مفاتیح (کلیدیں) ہیں، براہِ کرم آپ کچھ اور سوالیہ فہرستیں بنائیں – جواب: (۱) قیامۃ القیامات؟ حشر؟ نشر؟ یوم الحساب؟ حجِّ اکبر؟ جہادِ اکبر؟ شہید؟ فانی؟ جدید؟ (۲) من و سلویٰ؟ اعتکاف؟ اربعین؟ ناقۂ صالح؟ دُلدُل؟ قنبر؟ سلمان؟ ابوذر؟ ذوالفقار؟ آیۂ اِنّما؟ معراج؟ لافتیٰ؟

سوال – ۴۹۷: آیا کلیدی الفاظ کی کوئی لِسٹ اس سے پہلے بھی تیار ہو چکی ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، کارنامۂ زرّین، حصّہ دوم، از ص ۵۶ – ۵۹ میں ایک عمدہ فہرست درج ہوئی ہے، اب ان شاء اللہ اپنے عزیز شاگردوں کے ذریعے سے ایک ایسی لُغات مُرتب کریں گے، جن میں قدیم و جدید اصطلاحات وغیرہ کی تشریح ہو (۲) اس کارنامۂ عظیم کے لئے ان عزیزوں کو اوّلیّت دیں گے، جو قابل اور محنتی ہیں، اور جو کلاس کے علاوہ مطالعے سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں، طریقِ کار میں اوّلین بات یہ ہے کہ عزیزوں کو اصطلاحات اور ضروری الفاظ کا بخوبی علم ہونا چاہیئے، تاکہ ہر کتاب میں سے ایک فہرست بنائی جائے، اور تمام فہرستوں میں سے لغات تیار کی جائے۔

سوال – ۴۹۸: بحوالۂ سُورۂ زُمَر ( ۳۹: ۲۳) آیۂ شریفہ: اَللّٰہُ نَزَّلَ سے مِنْ ہادٍ تک کس مقدّس چیز کی تعریف میں ہے؟ آپ اس کی بعض خوبیاں بیان کریں – جواب: (۱)  یہ آیۂ کریمہ اوّل قرآنِ پاک کی تعریف کرتی

 

۳۶۱

 

ہے، اور دُوُم اسمِ اعظم کے بارے میں ہے، قرآنِ حکیم کے اَوصاف و کمالات سب پر عیان ہیں، لیکن اسمِ اعظم کے معجزات تک رسائی بیحد مشکل کام ہے (۲) اسمِ اعظم اللہ تعالیٰ کا بہترین کلام ہے، وہ مُتَشَابہ ہے، اس کو بطورِ ذکر دُہرایا جاتا ہے، اس سے ان ذاکرین کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ……۔

سوال – ۴۹۹: شاید یہ روحانی سائنس کا مسئلہ ہے، یا روحانی علاج کا سوال ہے کہ قرآن کی تلاوت اور اسمِ اعظم کے ذکر کے زیرِ اثر بندۂ مومن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کیا آپ اِس کی مناسب توجیہہ کر سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ العزیز، آدمی کا سارا بدن بے حدّ و بے حساب زندہ خلیّات کا مجموعہ ہے، جن میں بمتقضائے حکمت روحوں کی ایک عظیم کائنات سوئی ہوئی ہے (۲) جب مومن، مخلص خوفِ خدا کے ساتھ ذکرِ قلبی میں محو ہوجاتا ہے تو اس حال میں اسمِ اعظم کی نورانیت خلیّات والی روحوں میں پھیلنے لگتی ہے، جس کی وجہ سے تمام خلیّات کچھ دیر کے لئے جوش و جذبے کے ساتھ بیدار ہوجاتے ہیں۔

سوال – ۵۰۰: قرآنی تعلیمات کا ایک خاص مقصد یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ قدرتِ خدا کےعجائب و غرائب میں غور کر لیا کریں،

 

۳۶۲

 

مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگوں کو فخر ہے، جس کی وجہ سے وہ بہت سی چیزوں کو حقیر سمجھتے ہیں، اور ان میں غور نہیں کرتے، چنانچہ یہاں میرا یہ سوال ہے کہ جب گدھے کے کان پر مکھی بیٹھ کر کاٹنے لگتی ہے تو گدھا کان ہلا کر اسے اڑا دیتا ہے، آپ یہ بتائیں کہ گدھے کو کس نے یہ خبر دی کہ مکھی تمہارے کان پر بیٹھی ہے، اور گدھے نے اپنے کان کو کس طرح حکم دیا کہ ظالم مکھی کو دور کردو جو خون چُوسنے کے لئے آئی ہے؟ – جواب: (۱)  حیوان ہو یا انسان، اس کے سارے خلیّات اور جسم میں روحِ حیوانی پھیلی ہوئی ہے، جس میں حِسّی پیغام رسانی کا نظام ہے، (۲) جب گدھے کے کان پر مکھی آکر ستانے لگی، تو مقامی خلیّات نے دل کو حِسّی سگنل دیا، اور دل نےفورًا حکم دیا کہ مکھی کو اُڑا دو۔

 

۳۶۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۸

 

سوال – ۵۰۱: انسان میں چار اساسی قوّتیں کام کررہی ہیں: روحِ نباتی، روحِ حیوانی، روحِ انسانی، اور عقل، اب آپ ہمیں یہ بتائیں کہ غُصّہ کس روح سے پیدا ہوتا ہے؟ کونسی روح ہے جو درد کو محسوس کر سکتی ہے؟ لَذت گیری کا خاصّہ کس روح میں پوشیدہ ہے؟ علم و حکمت کا شوق کس روح میں ہوتا ہے؟ – جواب: (۱) غُصّہ روحِ حیوانی سے ہے (۲) درد کو صرف روحِ حیوانی محسوس کرسکتی ہے (۳) لَذتیں تین قسم کی ہیں: روحِ حیوانی کے لئے، روحِ انسانی کے لئے، اور عقل کے لئے، پس حیوان کو صرف ایک قسم کی لَذت ہے، جبکہ انسان تین طرح سے لَذت گیر ہوتا ہے، (۴) علم و حکمت کا شوق عقل میں پیدا ہو سکتا ہے۔

سوال – ۵۰۲: کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ عقلِ کلّ میں نفسِ کُلّ غائب ہے یا نفسِ کُلّ میں عقلِ کلّ؟ آپ قرآن ہی کی روشنی میں بتائیں -جواب: (۱) نفسِ کُلّ میں عقلِ کلّ غائب ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرض = اس کی کُرسی نےسب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ کُرسی نفسِ کُلّی ہے، جبکہ عرش عقلِ کلّی ہے۔

 

۳۶۴

 

سوال – ۵۰۳: یہاں ایک بُرُوشسکی قول ہے: تھلا تھلا تھلا نی، تھلا تھلا تھلا ژُو =آہستہ آہستہ آہستہ جا۔ آہستہ آہستہ آہستہ آ۔ ایک اصول کے مطابق اس کا تلفظ یوں بھی ہوسکتا ہے: تھلاک تھلاک تھلاک نی۔ تھلاک تھلاک تھلاک ژُو۔ اس میں کیا حکمت ہے؟  – جواب: (۱)  عالمِ عُلوی اور عالمِ سِفلی کے درمیان جو دائرۂ اعظم ہے، وہ عجب نہیں کہ چھ کروڑ سال کی مسافت رکھتا ہو۔

سوال – ۵۰۴:  سُورۂ قصص (۲۸: ۸۱) میں ہے: فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ = آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔ یہ قارون کا قصّہ ہے کہ اللہ نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، کیونکہ      وہ سرکش اور نافرمان ہو چکا تھا، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آیا خدا وندِ عالم نے اسے زمینِ ظاہر میں دھنسایا یا عالمِ شخصی کی زمین میں؟ -جواب: (۱) قرآنی مثالیں الگ الگ ہیں، لیکن حقیقت ایک ہی ہے، وہ یہ کہ تمام لوگ بحکمِ خدا عالمِ شخصی ہی میں جمع ہو جاتے ہیں (۲) علم و حکمت کے راستے میں قدم قدم پر امتحان ہے، مگر آپ یقین کریں کہ روحوں کا مرکز ایک ہی ہے، اور قارون جیسے لوگ بہت ہوئے ہیں، ان سب کو قیامت کی زبردستی سے عالمِ شخصی میں لایا جاتا تھا۔

سوال – ۵۰۵:  قرآنِ حکیم (۰۳: ۴۵) میں حضرتِ عیسیٰؑ کا پورا اسم “المسیح عیسیٰ ابنِ مریم” ہے اور لفظِ المسیح قرآنِ پاک کے مختلف مقامات

 

۳۶۵

 

پر گیارہ مرتبہ آیا ہے، یہ نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا، لہٰذا آپ بتائیں کہ مسیح کے کیا معنی ہیں؟ – جواب: (۱) اگرچہ اس باب میں عُلماء کے اقوال مختلف ہیں، تاہم یہ قول درست ہے کہ عیسیٰ علیہ السّلام کے مس کرنے سے چونکہ کوڑھی تندرست ہوجاتے تھے، اس لئے آپؑ کو مسیح کے نام سے پکارا جاتا ہے (۲) حضرتِ مسیح عیسیٰ علیہ السّلام اپنے دَور کے لئے خداوندِ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم تھا، ان کی مبارک شخصیّت میں دعائے نور کے مطابق نور کی لہریں دوڑتی تھیں، پس اگر ناطق، اساس، اور امام علیہم السّلام کے نورانی کرنٹ سے روحانی امراض کا علاج ہوا ہے، تو اس میں کیا تعجّب ہوسکتا ہے۔

سوال – ۵۰۶: سیّدالانبیاء حضرتِ محمّد مصطفیٰ رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا سب سے عظیم معجزہ کونسا ہے؟ ایسا بے مثال معجزہ جس سے یہ حقیقت روشن ہو کہ بے شک آنحضرتؐ ہی محبوبِ خدا ہیں؟ – جواب: (۱) ایسا انتہائی عظیم اور بیمثال معجزہ قرآنِ حکیم ہی ہے، جس میں ایک حساب کے مطابق چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (۶۶۶۶) معجزات ہیں، (۲) یعنی قرآنِ پاک کی ہر آیت نہ صرف معناً معجزہ ہے، بلکہ فعلاً بھی معجزہ ہے، جس کی نورانیت آٹھ مقامات پر ہے: کلمۂ باری (کُن)، قلم، لوح، جدّ، فتح، خیال، نورِ نبوّت، نورِ امامت (۳) جوہرِ قرآن اگلے لوگوں کی (آسمانی) کتابوں میں بھی موجود ہے (۲۶: ۱۹۶) قرآن کی نورانیت عُرَفاء کے عالمِ شخصی میں بھی ہے (۴) اس کی حکمت علم الیقین کے درجات میں بھی

 

۳۶۶

 

ہے، اس کی روشنی مومنین و مومنات کے اذکار، عبادات، اور تسبیحات میں بھی ہے، الغرض قرآن نہ صرف ایک عظیم معجزہ ہے، بلکہ ایک بہت بڑی معجزاتی کائنات بھی ہے (۵) لوگوں کی عادت ہمیشہ ایسی رہی ہے کہ اگر کوئی معجزہ ہوتا ہے تو وہ ان کے مفاد میں ہو، درست ہے مگر سوچنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ قرآنی معجزات میں باطنی شِفا کے ساتھ ساتھ بے شمار فائدے بھی ہیں۔

سوال – ۵۰۷: آپ کے اس بُرُوشسکی شعر کی مثال انتہائی دلکش اور حیرت انگیز ہے: اِنَ لݺ عجب دُربنن کون و مکان غیئچلہ + ایپچی نُکون ڈوݣ برین یارہ ھُنر بُٹ اُیَم۔ اس کے پاس ایک عجیب دوربین ہے جس سے دونوں جہان کا نظارہ ہوتا ہے، تم اس کے پاس جا کر ذرا دیکھو کہ میرے دوست کا ہنر بیحد شیرین ہے۔ البتہ اس دوربین سے چشمِ بصیرت مراد ہے، اور ہنر کا مطلب روحانیّت ہے، پس آپ نے جس فُوغلغُو (جُگنُو = کِرمِ شب تاب ) کو اپنے علاقے میں دیکھا تھا، اس کے بارے میں بتائیں کہ اس سے روشنی نکلنے کی وجہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) سب سے پہلے ہمیں یہ اقرار کرنا چاہیئے کہ یہ آیاتِ قدرت میں سے ہے، اس کے بعد اگر ہم سے ہوسکتا ہے تو اس میں غور و فکر سے توجیہہ کریں (۲) میرا خیال ہے کہ جُگنُو سے جو روشنی نکلتی ہے، وہ روحِ حیوانی کی ایک خاص قسم کی تحلیل کے سبب سے ہے، جس طرح کائنات کے مرکز میں مادّہ کی تحلیل سے سورج کے نام سے روشنی بنتی

 

۳۶۷

 

ہے، اسی طرح روحِ حیوانی کی بھی تحلیل اور روشنی ہے، مگر روحِ انسانی کی روشنی اس سے بہت ہی اعلیٰ ہے، اور عقل کی روشنی اس سے بھی اعلیٰ ہے، لیکن وہ رنگینی سے بالاتر ہے۔

سوال – ۵۰۸: اگر آپ کے پاس جُگنُو سے متعلّق کچھ ظاہری معلومات ہیں تو وہ بھی بتائیں – جواب: (۱) اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اوّل، ص ۴۶۹ پر ہے: جُگنُو (FIRE FLY)  یہ راتوں کو اُڑنے والا، ضوافگن بھونرا ہے، جو ایک ننّھی سی بجلی کی طرح لمحہ بہ لمحہ چمکتا بجھتا رہتا ہے، یہ خاندان لمپائر ڈی(LAMPYRIDA)  کا فرد ہے اور معتدل علاقوں کی بہ نسبت حارّی علاقوں میں زیادہ کثرت سے ملتا ہے (۲) نوری اعضا شکم پر ہوتے ہیں، جہاں ننھّے ننھّے خلیوں کی کئی تہیں عاکس (REFLECTOR) کے طور پر کام کرتی ہیں اور سب سے نچلی تہہ نورزا خلیوں کی ہوتی ہے (۳) ہر خلیے میں اعصاب اور ہوا کی نالیاں ہوتی ہیں، جن کے توسط سے لیوسی فریس (LUCIFERASE) نامی خامرے کی موجودگی میں لیوسی فیرن (LUCIFERIN) کی تکسید ہو جاتی ہے (۴) روشنی کی رنگت (زرد، سبزی مائل، نیلی یا سرخی مائل ) میں نوع تا نوع فرق ہوتا ہے۔ روشنی کی تیزی اور اس کی جھلکیوں کے وقفے میں بھی فرق ہوتا ہے (۵) خیال کیا جاتا ہے کہ روشنی کا تعلّق جنسوں (یعنی نراور مادہ) کی باہمی کشش سے ہے (۶) بعض انواع کے نروں، ماداؤں کے علاوہ پہلروپوں (LARVAE) اور انڈوں سے بھی روشنی پھوٹتی ہے۔

 

۳۶۸

 

سوال – ۵۰۹: کلامِ الٰہی (قرآنِ حکیم) میں بہشت کی چار نہروں کی بڑی شاندار تعریف ہے (۴۷: ۱۵) ان میں صاف و شفاف شہد (عَسَل) کی نہر بھی ہے، نیز دُنیا میں جو ظاہری شہد ہے، اس کی بھی حکیمانہ تعریف ہے، اور یہ تذکرہ بھی ہے کہ شہد کی مکھی کو کس طرح فطری ہدایت ملتی رہتی ہے (۱۶: ۶۸ تا ۶۹) کیا آپ مادّی سائنس کی کوئی ایسی کتاب بتا سکتے ہیں، جس میں شہد کی مکھّی اور شہد سے متعلّق گرانقدر معلومات ہوں؟ – جواب: (۱) ایک بروشسکی کہاوت ہے: امݺ بِچنڎہ فِٹی اپݵ، فِٹی بچنڎہ امݺ اپݵ =جب دانت صحتمند تھے تو روٹی نہیں تھی، اور جب روٹی ملنے لگی تو دانت نہیں تھے۔

۲۔ شہد: میٹھا گاڑھا سیال جو شہد کی مکھی پھولوں کے رس سے تیار کرتی ہے، کام کرنے والی مکھّیوں کی شہد تھیلیوں میں یہ رس، ان خامروں (ENZYMES) کے عمل سے، جوتھیلی میں ہوتے ہیں، گلوکوس اور فرکٹوس میں تبدیل ہوجاتا ہے (۳) مکّھیاں شہد کو چھتّے کے کُھلے مومی خانوں میں جمع کرتی ہیں۔ تبخیر کے عمل سے مناسب قوام بن جانے کے بعد شہد ان خانوں میں خود بخود “موم بند” ہوجاتا ہے (۴) مکھّیوں کی ایک اوسط درجے کی بستی کو اپنے استعمال کے لئے سالانہ ۴۰۰ سے ۵۰۰ پاؤنڈ تک شہد درکار ہے (۵) ایک پاؤنڈ شہد بنانے کے لئے کم از کم  ۰۰۰، ۲۰ مرتبہ کھیتوں کو جانا پڑتا ہے۔ تجارتی پیمانے پر شہد نحل گاہوں (APIARIES) سے حاصل ہوتا ہے۔ شہد کی رنگت اور خوشبو پھولوں کے اس رس کی قسم پر منحصر ہوتی ہے جس سے وہ بنا ہو۔

 

۳۶۹

 

سوال – ۵۱۰: بحوالۂ سُورۂ نحل (۱۶: ۶۸ تا ۶۹) یہ امر ضروری ہے کہ شہد کی مکھّی کے عجائب و غرائب میں غور و فکر کریں، لہٰذا آپ ہمیں اس کا قصّہ بیان کریں- جواب: (۱) اُردو جامع اِنسائیکلوپیڈیا، جلد اوّل میں ہے: شہد کی مکھّی  . . . .علاوہ ازین یہ شہد اور موم بھی پیدا کرتی ہے، ان کی بستی (چھتّے) میں صرف ایک ملکہ ہوتی ہے جو کسی ایک نر سے ایک بار مل کر لاتعداد انڈے دینے لگتی ہے، (۲) نر اس ملاپ کے بعد مرجاتا ہے، ملکہ کے علاوہ ہزاہا (جنسی طور پر بے نشوونما ) کام کرنے والی لونڈیاں ہوتی ہیں۔ یہ موم کا خانہ دار چھتّا بناتی ہیں، شہد اکٹھا کرتی، چھتّے کو صاف رکھتی اور اس کی حفاظت کرتی ہیں (۳) نیز ملکہ اور پہل روپوں کو کھلاتی پلاتی ہیں اِن لونڈیوں کی عمر صرف چھ ہفتے ہوتی ہے اور زیادہ کام کا ایک موسم گزار جاتی ہیں۔ ان کے بعد نئی لونڈیاں کام سنبھال لیتی ہیں (۴) لونڈیوں کے علاوہ چند سونِکمّے نر بھی چھتّے میں ہوتے ہیں، جنہیں بعض نکھِٹّو کہتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ شہد کی مکّھیاں ایک دوسرے تک اشارات اور حرکات سے پیغام رسانی بھی کرتی ہیں، مثلاً کوئی مکھّی اگر اپنےچھتّے میں واپس جا کر ناچنے لگے تو یہ شہد کے کس نئے ذخیرے کی دریافت کا اشارہ ہوتا ہے۔

 

۳۷۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۹

 

سوال – ۵۱۱:  سُورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں ارشاد ہے: هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ آپ اس آیۂ کریمہ کے کچھ حقائق و معارف بیان کریں۔ – جواب: (۱) ترجمہ: وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی (۲) یعنی عُرَفاء کو یہ معرفت حاصل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ سب سے اوّل ہے اور سب سے آخر، وہی سب سے ظاہر ہے اور سب سے باطن (۳) یہاں سب سے اہم سوال الظَّاہر میں ہے، جس کا جواب تین مقامات پر دینا ہوگا: عالمِ ظاہر، عالمِ دین، اور عالمِ شخصی (۴) پہلا جواب یہ ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) اور نور ظاہر ہوتا ہے، لیکن ظہورِ نور سے قانونِ معرفت کبھی ختم نہیں ہوا (۵) دوسرا جواب: آنحضرتؐ اور امامؑ مظہرِ نورِ خدا ہیں (۶) تیسرا جواب: عالمِ شخصی دیدار اور معرفت کے لئے خاص ہے، لہٰذا اس میں تجلّیات و ظہورات کے ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔

سوال – ۵۱۲: الظّاہر اور النّور کے بارے میں مزید حقائق و معارف اور دلائل ضروری ہیں – جواب: (۱) یہ ایک بہت بڑا کشف

 

۳۷۱

 

ہے کہ ایک اعلیٰ مقام پر وہ جلّ جلالہ ظاہر ہوکر دیدار بھی عنایت کرتا ہے اور فوراً ہی حجاب میں محجوب بھی ہوجاتا ہے (۴۲: ۵۱) اس سے یہ معلوم ہُوا کہ وہ پاک و برتر جب حجاب کے بغیر ہے تو ظاہر ہے، اور جب حجاب میں ہے تو باطن ہے (۲) خورشیدِ انور کے لئے کئی حجابات ہیں: سورج کا بیرونی نور اندرونی نور پر حجاب ہے، پیشِ نظر نور پس منظر پر پردہ ہے، ہر قسم کا سایہ، بادل، رات وغیرہ سورج کے حجابات میں سے ہیں، اگر انسان اندھا ہے تو یہ اس کے لئے دائمی حجاب ہے (۳) الظّاہر کے بہت سے حجابوں میں نوری حجابات بھی ہیں، علمی حجابات بھی، مَلَکی اور بشری حجابات بھی ہیں۔

سوال – ۵۱۳: سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۵) میں ہے: جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں۔ اس میں کیا کیا حکمتیں ہیں؟ – جواب: (۱)  اس میں بہت سی حکمتیں ہوسکتی ہیں۔ حکمتِ اوّل: جس طرح اللہ کا حجاب ہے اسی طرح قرآن اور رسولؐ کا بھی حجاب ہے۔ حکمتِ دوم: رسولِ اکرمؐ قرآنِ حکیم کو نہ صرف ظاہر میں پڑھتے تھے بلکہ باطن میں بھی پڑھتے ہیں۔ حکمتِ سِوُم: اگر آنحضرتؐ کی مبارک ہستی پُرنور نہ ہوتی، یعنی آپؐ سراجِ مُنیر نہ ہوتے، اور آپؐ کا قرآن پڑھنا غیر معمولی نہ ہوتا تو حجاب کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ حکمتِ چہارم: آنحضورؐ کا قرآن پڑھنا یہ ہے کہ آپ کا جانشین (امامؑ) ہر زمانے میں قرآن کی تاویل بیان کرتا ہے۔

 

۳۷۲

 

سوال – ۵۱۴: قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ کریمہ نور کے مضمون سے متعلّق ہیں، ان سب کو آیاتِ نور کہنا درست ہے، پس آپ آیاتِ نور کی کوئی مجموعی حکمت بتائیں- جواب: (۱)  نور کا مضمون قرآنِ حکیم میں پھیلا ہوا بھی ہے، اور آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں مرکوز بھی ہے (۲) جب اللہ تعالیٰ بذاتِ پاکِ خود آسمانوں اور زمین کا نور ہے تو پھر نُورِ مُنَزّل کس طرح الگ ہوسکتا ہے (۳) آپ نُورٌ علیٰ نور کے قانون میں بھی سوچیں (۴) آیۂ مصباح میں دو عظیم حکمتیں ہیں: (الف) اللہ خود کائنات کی بلندی و پستی کا نور ہے (ب) اس کے نور کی مثال ….. (۵) اگر لوگوں کو سمجھانے کی خاطر فرمایا گیا ہے: نورِ خدا، نورِ نبیؐ، نورِ امامؑ اور نورِ مومنین و مومنات، تو تجلّیات کے اعتبار سے درست ہے، لیکن نُورٌعلیٰ نور کے قانون کے مطابق یہ تمام تجلّیات و ظہورات نورِ واحد ہی کے ہیں (۶) جب اللہ عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے آسمان و زمین کا نور ہے تو حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بعد بہت سے اہلِ ایمان پر بھی یہ نُور طلوع ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ دنیا کا ہر انسان اس نور سے فیض حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن ایمان اور اطاعت شرط ہے۔

سوال – ۵۱۵: سُورۂ فتح (۴۸: ۲۰) میں ارشاد ہے: وَعَدَكُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا۔ اللہ تم سے بکثرت اموالِ غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے = یہ بکثرت اموالِ غنیمت مسلمانوں کو کب کب حاصل ہوئے؟ کیا اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہر زمانے کے اہلِ ایمان

 

۳۷۳

 

سے نہیں ہے؟ – جواب: (۱) ظاہری جہاد مثال اور باطنی جہاد ممثول ہے، لہٰذا یہ وعدۂ الٰہی باطنی اموالِ غنیمت سے متعلّق ہے، جو کائنات بھر میں ہیں (۲) خداوندِ قدوس کا پاک وعدہ تمام زمانوں کے مومنین کے لئے یکسان مفید ہے، یعنی ہر زمانے میں امام کے ذریعے سے روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور یہی قیامت جہادِ اکبر بھی ہے جس میں دینِ اسلام کی فتح تسخیرِ کائنات کی صورت میں ہوتی ہے، میری ایک کتاب “علم کی سیڑھی” میں بھی دیکھیں (از ص ۶۶ تا ۷۵)۔

سوال – ۵۱۶: آج (اتوار ۹؍ ذی الحجّہ ۱۴۱۹ ھ  ۲۸؍ مارچ ۱۹۹۹ء) کی وِزڈم سرچ میں جتنی حکمتیں تھیں، وہ سب قابلِ تعریف ہیں، شاید ان کا ریکارڈ ہوگا، ان میں سے چند انتہائی خوبصورت الفاظ کی مزید و ضاحت ضروری ہے، وہ پُرمغز اور اعلیٰ الفاظ یہ ہیں: نورِ مُجَسّم، قرآنِ مُجَسّم، اسلامِ مُجَسّم، سُنّتِ مُجَسّم، آپ سمجھائیں کہ حقیقت کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہ تعریفی نام سب سے پہلے آنحضرتؐ کے لئے ہیں، اور پھر امامؑ کے لئے، کیا دعائے نور کے مطابق آنحضرتؐ سرتا پا نور نہیں ہوئے تھے؟ کیا اللہ نے اپنے محبوب رسولؐ کو نور بنا کر نہیں بھیجا تھا (۰۵: ۱۵)؟ (۳) آیا قرآن کی کتابت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی حضورِ اکرمؐ قرآنِ مُجَسّم اور قرآنِ ناطق نہیں تھے؟ (۳) کیا حضرتِ سیّد الانبیاءؐ سرچشمۂ اسلام نہیں تھے؟ (۴) کیا اصل اور حقیقی سُنّت رسولِ پاکؐ خود نہیں تھے؟ ان سوالات سے، جو خود جوابات بھی ہیں، معلوم ہُوا کہ نورِ مُجَسّم، قرآنِ مُجَسّم (قرآنِ ناطق) اسلام ِمُجَسّم

 

۳۷۴

 

اور سُنّتِ مُجَسّم اہلِ بصیرت کے لئے زبردست دلائل ہیں۔

سوال – ۵۱۷: یہ ٹیلفونِک سوال اٹلانٹا (امریکہ) سے ہمارے بہت ہی عزیز و محترم صدر غلام مصطفیٰ مومن نے کیا: صاحب! آپ یہ بتائیں کہ دعوتِ حق کی غرض سے دُنیا میں جو بارہ جزائر ہیں، ان کی یہ تقسیم کس اعتبار سے ہے؟ کیا اب بھی حدودِ دین کا نظام برقرار ہے؟ آیا اس زمانے میں بھی ہر جزیرے میں ایک حُجّت اور تیس (۳۰) داعی ہوا کرتے ہیں؟ – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے خلافتِ آدمؑ کے بارے میں ارشاد فرمایا: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً = کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ یہاں زمین سے لوگ مراد ہیں، کیونکہ خدا نے نہیں فرمایا کہ: “زمین پر” بلکہ فرمایا: زمین میں (۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلافتِ الٰہیّہ بعنوانِ نورِ ہدایت نہ صرف لوگوں کے ظاہر میں جاری ہے، بلکہ خلیفۂ زمان کی اصل معرفت عارفین کے باطن میں ہے (۳) چُنانچہ خدا کے امر سے آدم پر قیامت برپا ہوئی، اور خدائی روح آدم میں کام کرنے لگی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) جس کے کرم سے کائنات مُسخّر ہوگئی، حضرت آدم علیہ السّلام کی مبارک ہستی سے ستّر ہزار انسانانِ لطیف پیدا ہوئے (۴) آگے چل کر مقامِ عقل پر ستّر ہزار فرشتے بھی پیدا ہوئے، پس خدا کے نزدیک دنیا میں بارہ اقوام ہیں جو بارہ جزائر ہیں، ہر جزیرے کے لئے انسانانِ لطیف میں سے ایک حُجّت اور تیس داعی مقرّر ہیں (۵) حدودِ دین کا باطنی نظام نہ صرف زمانۂ آدمؑ میں تھا، بلکہ اب بھی روحانیّت کا وہی قانون ہے۔

 

۳۷۵

 

سوال – ۵۱۷: آپ قرآنِ عزیز کی روشنی میں ہمیں یہ سمجھا دیں کہ دنیا میں انسانانِ لطیف بھی موجود ہیں، جو ہمیں نظر نہیں آتے، اور ان میں حدودِ دین بھی ہیں – جواب: (۱) آپ سُورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۲) اور سُورۂ جِنّ (۷۲: ۰۱ تا ۱۵) میں خوب غور سے دیکھ لیں، کہ یہ جِنّات جو آنحضرتؐ کے حضورِ اقدس میں آئے تھے، وہ درحقیقت حُجَّتانِ جزائر تھے، جو انسانانِ لطیف ہیں، جو نظر نہ آنے کی وجہ سے جِنّات کہلاتے ہیں (۲) کیونکہ حدودِ دین میں حُجّتانِ شب بھی ہیں، اور وہ یہی ہیں۔

سوال – ۵۱۹: بحوالۂ سُورۂ انعام (۰۶: ۱۳۰) کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ گروہِ جِنّ کے لئے انسان سے الگ رسول آتے تھے؟ یا یہ کہ جب بھی خدا کی طرف سے کوئی رسول آیا تو جِنّ و انس دونوں جماعتوں کے لئے آیا؟ – جواب: (۱)جب جِنّات سے انسانانِ لطیف مراد ہیں تو پھر یہ مسٔلہ خود بخود ختم ہوگیا، جو جِنّ و انس کی تقسیم سے پیدا ہوا تھا (۲) قرآنِ حکیم میں جِنّ و انس کی وحدت سے متعلّق بے شمار حکمتیں موجود ہیں، خصوصاً سُورۂ رحمٰن میں دیکھیں کہ اس پاک سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام عظیم نعمتوں کا تذکرہ کس شان سے فرمایا ہے، جو جِنّ و انس کے لئے ساتھ ساتھ عطا کی گئی ہیں (۳) رحمان نے قرآن کی آسمانی تعلیم دی۔ کس کو؟ انسانِ کامل کو، آپ سُورۂ رحمان کی بارہ ابتدائی آیات حکمت کے ساتھ پڑھیں، پھر آیت ۱۳ کو دیکھیں، اگر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی سے قرآنی حکمت وغیرہ کا فائدہ گروہِ جنّ و انس کو نصیب نہ ہوتا، تو پروردگار اپنی ان نعمتوں کی طرف

 

۳۷۶

 

اُن کو پُرزور توجّہ نہ دلاتا۔

سوال – ۵۲۰: سُورۂ رحمٰن چونکہ عُرُوس القرآن ہے، لہٰذا اس میں حکمتی سوالات بہت ہیں، مثلاً آیۂ سِوُم میں ارشاد ہے: خَلَقَ الاِنْسَانَ =اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ پھر آیت ۱۴ اور ۱۵ میں انسان اور جنّ کو پیدا کرنے کا ذکر ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ – جواب: (۱) آفرینشِ انسان کا پہلا بیان اجمالی ہے اور دوسرا بیان تفصیلی (۲) چنانچہ: خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ کا مطلب یہ ہے کہ خدائے رحمان نے عارف اور اس کے عالمِ شخصی کو درجہ بدرجہ تخلیق کے مرتبۂ کمال پر پہنچا دیا، اور علم البیان (علمِ تاویل) سکھایا (۳) یہی پُرحکمت تذکرہ کچھ تفصیل کے ساتھ اس طرح سے ہے: خدا نے انسان کو ایسی مٹی سے پیدا کیا جو کھنکناتی تھی، یعنی انسانِ کامل کی باطنی تخلیق نفخۂ ناقور سے شروع ہوئی، کیونکہ اس میں خدائی روح کی نورانی پھونک جاری تھی، نیز ارشاد ہے: اور اس نے جِنّ کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا (۴) شعلہ تین قسم کا ہوتا ہے: دُود آلود، صاف، غیر مرئی، پس اللہ تعالیٰ نے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی ہی کی مختلف روشنیوں سے جِنّ کو پیدا کیا، اور ربّ العزّت کی ایسی تمام تخلیقات میں اِنس و جِنّ کی دونوں جماعتوں کے لئے مشترکہ نعمتیں ہیں۔

 

۳۷۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۰

 

سوال – ۵۲۱: ہم بحیثیتِ انسان بیحد کمزور ہیں، لہٰذا بُحرمتِ محمّدؐ و آلِ محمّدؐ اللہ سے اِستعانت کی درخواست کرتے ہیں، تاکہ وہ اپنی عِنایتِ بے نہایت سے ہماری مدد فرمائے، سوال ہے کہ آیا آپ سورۂ رحمٰن کی کوئی تعریفی حکمت بیان کر سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، اس کی اوّلین تعریف یہ ہے کہ ہماری چھوٹی سی عقل سے عروس القرآن بالاو برتر ہے، تاہم حصولِ برکت کی غرض سے چند باتیں عرض کرتے ہیں: (۲) سُورۂ رحمٰن ایک ایسا جامع الجوامع قرآنی مضمون ہے، جس نے عرصۂ کون و مکان کا علمی احاطہ کر لیا ہے (۳) یہاں اس عظیم راز کا انکشاف ہوجاتا ہے کہ انسان، جِنّ، اور فرشتہ ایک ہی حقیقت کے تین رُوپ ہیں (۴) اس سورۂ مبارکہ کے ذیلی مضامین ۳۱ ہیں، ہر مضمون میں اِنس و جنّ کی مُشترکہ نعمتوں کا تذکرہ ہے، اور ہر ایسے مضمون کے آخر میں بطورِ خُلاصہ یہ پوچھا گیا ہے کہ: سو (اے جنّ و انس) تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جُھٹلاتے ہو؟ (۵) آپ اِن ۳۱ مضامین کو الگ الگ پڑھ کر سوچیں کہ مذکورہ نعمتیں کس  طرح اِنس و جِنّ میں مشترکہ ہوسکتی ہیں؟ (۶) اکثر مضامین ایک ایک آیت کے ہیں، مگر ان میں انتہائی جامعیّت ہے،

 

۳۷۸

 

کیوں نہ ہو جبکہ خدائے علیم و حکیم کا پاک و پُرحکمت کلام ہے، جس کی کوئی مثال نہیں۔

سوال – ۵۲۲: اکثر قرآنی سورتوں کے آخر میں کوئی ایسی عظیم الشّان آیت بھی موجود ہوتی ہے، کہ اس میں بڑے بڑے اسرارِ مخزون پوشیدہ ہوتے ہیں، لہٰذا آپ سُورۂ رحمٰن کی آخری آیت کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) تَبٰرَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجلٰلِ وَالْاِکْرَام = بڑا بابرکت نا م ہے آپ کے ربّ کا جو عظمت والا اور احسان والا ہے۔ یہ خدائے بزرگ و برتر کے اسمِ اعظم کی تعریف ہے، جو ہر زمانے میں زندہ اور گوئندہ ہے (۲) اہلِ معرفت کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نہ صرف خزائن ہیں، بلکہ خزینۃ الخزائن بھی ہے، اور وہ یقیناً امامِ مبینؑ ہے، اسی جامع الجوامع خزانے میں تمام اعلےٰ برکتیں موجود ہیں۔

سوال  – ۵۲۳: اگرچہ ہمیں اس حقیقت پر یقینِ کامل ہے کہ امامِ مبینؑ کے نورِ اقدس میں اللہ تعالیٰ کے کُلّ خزانے مجموع و محفوظ ہیں، تاہم یہ ایک علمی سوال ہے کہ آیا اس حقیقت پر ہر انسان کی ذات میں کوئی قرآنی دلیل موجود ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، کئی دلائل ہیں، ان میں سے ایک روشن دلیل یہ ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ اور خود تمہاری ذات میں بھی، تو کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا؟ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) (۲) یہ ایک ناقابلِ تردید قرآنی شہادت و دلیل ہے

 

۳۷۹

 

کہ ہر خاص و عام انسان میں کائنات بھر کی نشانیاں موجود ہیں، کیونکہ زمین سے کائنات مراد ہے، مگر اس عظیم راز میں بہت بڑا فرق یہ ہے کہ یہ ساری نشانیاں اولیا و عُرَفاء میں بحدِّ فعل موجود ہوا کرتی ہیں اور عوام میں بحدِّ قوت، پس اہلِ دانش کے لئے یہ حقیقت بیش از بیش روشن ہوگئی کہ امامِ مبینؑ کی ذات میں ہر چیز موجود اور تمام حقائق و معارف جمع ہیں۔

سوال – ۵۲۴: ہر شخص کی روح عالمِ عُلوی میں اس کی جسمانی صورت کی طرح ہے، لیکن وہ عالمِ لطیف میں ہے، لہٰذا وہ زیبائی اور رعنائی کے درجۂ کمال پر ہے، کیا قرآنِ حکیم میں اس امرِ واقعی کا کوئی حکمتی اشارہ موجود ہے؟ -جواب: (۱) کیوں نہیں، جبکہ قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) آپ سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۹۹) اور سُورۂ یٰسٓ (۳۶: ۸۱) کی حکمت میں خوب غور کریں کہ “مِثل” کا مطلب روح ہے، جیسے آیۂ مبارکہ میں یہ الفاظ ہیں: بِقٰدِرٍ عَلٰیٓ اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَھُمْ = خدا قادر ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرے۔ یعنی ان کو جسم سے ان کی اپنی ہمشکل روح کی طرف لے جائے (۲) سُورۂ واقعہ اور سُورۂ دھر (۵۶: ۶۱، ۷۶: ۲۸) میں بھی دیکھیں، اسی کو جسمِ مثالی بھی کہتے ہیں، اور یہی ہر شخص کی ہمشکل روح بھی ہے۔

سوال – ۵۲۵: ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: ہم نے (روحانیّت

 

۳۸۰

 

کے) قریبی آسمان کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے اور ہر شیطانِ سرکش سے اس کو محفوظ کر دیا ہے، یہ شیاطین ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سُن سکتے، اور ہر طرف سے مارے جاتے ہیں (۳۷: ۰۶ تا ۰۸) آپ اس ربّانی تعلیم کی کوئی حکمت بتائیں -جواب: (۱) آسمانی اور روحانی بھیدوں کو چُرانے کے لئے شیاطین جس طرح گمراہانہ اور غلط کوشش کرتے ہیں، اور جیسی ان کو ناکامی، دوری، اور مایوسی ہوتی ہے، اس سے یہ قرآنی اشارہ ملتا ہے کہ مقربین کے ارتقائے روحانی میں کوئی رکاوٹ نہیں (۲) روحانیّت کے قریبی آسمان کو کواکِب کی زینت سے آراستہ کرنے کے دو بڑے مقصد ہیں: شیاطین کو اسرارِ سماوی سے دور کر دینا، خدا کے دوستوں کو خدا کی طرف ہدایت کرنا، تاکہ ان پر خزائنِ علم و معرفت مُنکشِف ہو جائیں۔

سوال – ۵۲۶: یہ اُن دو پُرحکمت آیتوں کا ترجمہ ہے جو سُورۂ قمر کے آخر (۵۴: ۵۴ تا ۵۵) میں ہیں: بے شک پرہیزگار لوگ باغوں اور نہروں میں ہیں، صدق کی مجلس میں عظیم قدرت رکھنے والے بادشاہ کے حضور۔ اس کی کوئی تاویلی حکمت؟ – جواب: (۱) سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ پرہیزگار لوگ قرآنی بہشت کے کس کس باغ میں اور کس کس نہر میں ہیں؟ اس کا جواب مُطالعۂ قرآن سے یہ ملے گا کہ قرآن سرتاسر متقین کی تعریفا ت سے مملو ہے (۲) پھر اِس آیۂ مبارکہ کا مطلب سمجھ میں آتا ہے کہ یقیناً پرہیزگار لوگ بہشت کے تمام باغوں اور ساری

 

۳۸۱

 

نہروں میں ہیں، مگر بہشت کا یہ قانون ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ وہاں کی کوئی چیز عقل و جان کے بغیر نہیں، اس لئے بہشت کا ہر باغ وگلشن اور ہر نہر زندہ ہے (۳) صدق کی مجلس سے انتہائی اعلیٰ علم کی مجلس مراد ہے، کیونکہ صدق سچ کو کہتے ہیں، اور “سچ” حقیقی علم کا نام ہے، (۴) پس یہ حقیقی علم و حکمت کی مجلس بادشاہِ دو جہان کے حضور ہی میں ہوگی، اور “عظیم قدرت رکھنے والا بادشاہ” کے معنی یقیناً لامحدود ہیں، لہٰذا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ وہ علم کی مجلس اور عظیم دربارِ خداوندی پرہیزگاروں کی وجہ سے ہے، لیکن سب لوگوں کو وہاں حاضر ہوجانا چاہیئے، تاکہ علمی خدمت کی جو بہت بڑی فضیلت ہے، وہ سب پر عیان ہوجائے۔

سوال – ۵۲۷: قرآنِ حکیم (۰۷: ۴۳، ۱۵: ۴۷) میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنّت کے دلوں سے دشمنی، کینہ، اور کدورت کو نکال دیتا ہے، اس میں کیا حکمت؟ – جواب: (۱) کیونکہ یہ چیزیں ہمیشہ دل میں کانٹوں کی طرح چبھتی رہتی ہیں، جس سے انسان کو ہر وقت تکلیف ہوتی رہتی ہے (۲) بہشت میں دل کی آنکھ سے اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنا ہے، اس لئے دل کی پاکیزگی ضروری ہے (۳) اس میں ایک حکمتی اشارہ یہ بھی ہے کہ خدا کے دوستوں کے پاکیزہ قلب میں کسی سے دشمنی اور کینہ نہیں ہوتا ہے (۴) اس میں البتہ ایک بڑا راز یہ بھی ہے کہ خدا وندِ عالم رفتہ رفتہ جُملہ خلائق کو بہشت میں داخل کر دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اہلِ ایمان کے دل سے ہر قسم کی دشمنی کو نکال دیتا ہے، تاکہ بہشت میں مخالفین کو

 

۳۸۲

 

دیکھ کر کسی کو تکلیف نہ ہو۔

سوال- ۵۲۸: دعائم الاسلام، جلدِ ثانی، کتاب العطایا، ص ۳۲۰) پر یہ حدیثِ شریف ہے: (ترجمہ) مخلوق (گویا) خدا کا کُنبہ ہے، اور لوگوں میں خدا کو سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہے جو اس کے کُنبے کو فائدہ پہنچاتا ہے، اور اس کے اہلِ بیت کو خوش کر دیتا ہے، اور ایک مسلمان بھائی کے کسی ضروری کام میں ساتھ چلنا خدا کے نزدیک دو ماہ تک خانۂ کعبہ میں اعتکاف کرنے سے زیادہ پسند ہے۔ اس میں کیا کیا حکمتیں ہوسکتی ہیں؟ – جواب: (۱) آنحضرتؐ کے اس مبارک ارشاد میں عجیب و غریب انقلابی حکمتیں ہیں، چُنانچہ یہاں سے معلوم ہوا کہ خداوند تعالیٰ اپنی مخلوق سے بہت محبّت رکھتا ہے (۲) اہلِ بصیرت کے لئے یہ حقیقت روشن ہے کہ خلّاقِ جہان اپنی اِس مخلوق کو جو انسان کے نام سے ہے، کبھی ضائع نہیں کرے گا۔

سوال – ۵۲۹: سُورۂ مومنون (۲۳: ۱۱۵) میں ہے: تو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو (یوں ہی) بیکار پیدا کیا اور یہ کہ تم  ہمارے حضور میں لوٹا کر نہ لائے جاؤگے؟ اس حکم کا خلاصۂ بیان کیا ہے؟ -جواب: (۱) خدا نے لوگوں کو فضول اور بیکار پیدا نہیں کیا ہے، لہٰذا انہیں ہر حالت میں لوٹ کر خدا کے پاس جانا ہے (۲) اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع خوشی سے بھی ہوتا ہے اور زبردستی سے بھی (۰۳: ۸۳) یہ ہر

 

۳۸۳

 

زمانے میں برپا ہوجانے والی روحانی قیامت (۱۷: ۷۱) رجوع ہی کی غرض سے ہے (۳) اسی واقعۂ قیامت کے ساتھ ساتھ خدائے تعالیٰ کائنات وموجودات کو عالمِ شخصی میں لپیٹ لیتا ہے، اُس وقت القابض اور الباسِط کے دستِ مبارک میں سوائے خیر کے (۰۳: ۲۶) اور کوئی چیز باقی نہیں رہتی ہے۔

سوال – ۵۳۰: آپ کے اس قول کا واضح مطلب یہ ہے کہ جب خداوندِ قدوس ارض و سما کو لپیٹنے لگتا ہے تو اس وقت ہر گُونہ شر کا خاتمہ ہوجاتا ہے، اس سے یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اس حال میں دوزخ پر کیا گزرتا ہے؟ اور شیطان کا کیا حشر ہوتا ہے؟ – جواب: (۱) قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی ایسی بے مثال آسمانی کتاب ہے کہ اس میں ہر ممکن سوال کا جواب پہلے ہی سے دیا گیا ہے، چُنانچہ اس سوال کا جواب قرانِ عظیم میں یہ ہے کہ وقت آنے پر اللہ اپنی رحمت سے آتشِ دوزخ کو گلزار بناتا ہے، جیسے اس نے حضرتِ ابراہیمؑ کے لئے آتشِ نمرود کو گُلزار بنایا تھا (۲۱: ۶۹) (۲) اور شیطان کو فرشتہ بناتا ہے، کیونکہ شیطان کا کام قیامت تک تھا (۰۷: ۱۴) اور جس دوزخ میں وہ سزا بھگت رہا تھا (۰۷: ۱۸) اس کو خدا نے گلزار بنا دیا، جبکہ قبضۂ قدرت میں ہر خیر تو خیر ہی تھی، شر بھی خیر ہوگیا۔

 

۳۸۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۱

 

سوال – ۵۳۱: آپ بعض دفعہ روحانی سائنس کے موضوع پر یہ کہتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ روحانی سائنس کی باتیں ہیں، تو تب پتا چلتا ہے، ورنہ کیا معلوم، جبکہ آپ کے پاس ایک جیسی معلومات کی فراوانی ہے، کیا اِس بارے میں آپ ہمیں کچھ بتائیں گے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، ہم اِس بارے میں آپ کو چند اُصولی باتیں بتائیں گے، میرے عقیدے کے مطابق آفاق و انفس کی آیات سے متعلّق جو کچھ تجربہ ہے، وہ روحانی سائنس ہے، قیامت اور عالمِ شخصی کے بارے میں جتنی باتیں تحریر ہوئی ہیں، وہ سب کی سب روحانی سائنس کے تحت ہیں (۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ معرفت اور حکمت ہی کا نام روحانی سائنس ہے، اور یہی علم الآخرت (۲۷: ۶۶) بھی ہے، الغرض سارے علوم کا خزانہ دار امامِ آلِ محمّدؐ ہے، اسی سے کسی کو کوئی علمی صدقہ مل سکتا ہے۔

سوال – ۵۳۲: علم الآخرت کے بارے میں قرآنی ارشاد کیا ہے؟ – جواب: (۱) ترجمۂ آیت: بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہوگیا، بلکہ یہ لوگ اس سے شک میں ہیں، بلکہ یہ اس سے اندھے بنے ہوئے

 

۳۸۵

 

ہیں(۲۷: ۶۶) اگر علم الآخرت غیر ممکن ہوتا تو کسی کی کوئی مذمّت نہ ہوتی (۲) اگر آخرت سے متعلّق علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کا امکان نہ ہوتا تو اس سے جو لوگ شک میں ہیں، ان پر کوئی اعتراض ہی نہ ہوتا (۳) اگر قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا وعدہ نہ ہوتا کہ وہ اپنی آیات (معجزات) دکھانے والا ہے (۲۷: ۹۳، ۴۱: ۵۳، ۵۱: ۲۰ تا ۲۱) تو پھر قرآنِ پاک کے بہت سے مقامات پر ان لوگوں کی مذمت نہ ہوتی جو دل کی آنکھ سے اندھے ہیں۔

سوال – ۵۳۳: جی ہاں، سُورۂ حج (۲۲: ۴۶)  میں یہ ارشاد ہے: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں، یہاں بڑا اہم سوال یہ ہے: وہ زمین کونسی ہے جس میں چلنے پھرنے سے دل سمجھنے والے اور کان سُننے والے ہوتے ہیں؟ دل کی آنکھ روشن ہونے سے کیا کیا عظیم فائدے حاصل ہوسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) یہ صرف عالمِ شخصی ہی کی زمین ہے، جس میں سیر کرنے سے چشمِ بصیرت (دل کی آنکھ) پیدا ہوجاتی ہے، اور باطنی کان سننے لگتا ہے (۲) دل کی آنکھ کے فوائد بے شمار ہیں، آپ کتابِ “عملی تصوّف اور روحانی سائنس” میں معجزۂ نوافل کو پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندۂ مومن کو کس حد تک نوازتا ہے۔

 

۳۸۶

 

سوال – ۵۳۴: معلوم ہوا ہے کہ آپ کو اپنا ایک مضمون “معجزۂ نوافل” بیحد پسند ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ آیا اس میں کوئی عظیم راز موجود ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، یہ سچ ہے کہ مجھے یہ مضمون نہایت عزیز ہے، اگرچہ مجھے اپنی نظم و نثر کی ہر چیز اپنی جانِ شیرین ہی کی طرح پیاری ہے، کیونکہ وہ میری لطیف ہستی کا حصّہ ہے جو خدا کی عنایت ہے، تاہم ہر عاشقِ صادق کے لئے “فنا فی اللہ” کی تفسیر ضروری تھی، اور وہ آسمانی تفسیر حدیثِ نوافل ہے (۲) پس میرا مضمون (معجزۂ نوافل) فنا فی اللہ کی تفسیر کی تفسیر ہے، میرا خیال ہے کہ وہ اگر اس بندۂ ناچیز کی ہے توکچھ بھی نہیں، اور اگر دوستِ مہربان کی ہے تو پھر قابلِ تعریف کیوں نہ ہو۔

سوال ۵۳۵: فنا فی اللہ کی حکیمانہ دعوت قرآنِ پاک میں کہاں کہاں ہے؟ بقاء باللہ کا کوئی حکمتی اشارہ کس آیۂ کریمہ میں ہے؟ – جواب: (۱) ہر عالمِ شخصی کے بحرِ علم پر بھری ہوئی کشتی ہوا کرتی ہے (۵۵: ۲۴) اس میں جتنے بھی ہیں، وہ سب کے سب وجہ اللہ میں فنا ہوجاتے ہیں (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) یہی امرِ عظیم لوگوں کے حق میں فنا فی اللہ بھی ہے اور بقاباللہ بھی (۲) تذکرۂ فنا کے بعد وجہ اللہ کے جلیل و کریم ہونے کی تعریف آئی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے جلیل جوالاکرم الاکرم الاکرم ہے، وہ اپنے بے انتہا کرم سے اہلِ سفینہ کو اپنے ساتھ ایک کرلیتا ہے (۳) فنا فی اللہ سے متعلق دوسری آیت سُورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں ہے، اس میں یہ ارشاد ہے

 

۳۸۷

 

کہ وجہ اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہوجاتی ہے، پھر حکم یعنی کلمۂ کُنۡ اور رجوع کا ذکر ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ فنا فی اللہ اور رجوع الی اللہ کا آخری مقام حظیرۂ قدس ہے، جہاں کلمۂ کُنۡ کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔

سوال – ۵۳۶: اس بیان سے یوں لگ رہا ہے کہ لفظِ “رجوع” میں بھی کوئی آخری راز ہے، کیا آپ اس راز کا انکشاف کرسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، رجوع ایک ایسا لفظ ہے کہ اس کے معنی مرتبۂ فنا فی اللہ تک جاتے ہیں، اس کے بغیر کامل رجوع نہیں ہے، جیسے سُورۂ فجر میں ہے: اے نفسِ مُطمئِن، رجوع کر اپنے ربّ کی طرف ….. (۸۹: ۲۷ تا ۲۸) (۲) ایسے الفاظ بہت ہیں، جن کی حکمتِ بالغہ مرتبۂ فنا تک پہنچی ہوئی ہے، جیسے حضرتِ ابراہیمؑ نے کہا میں اپنے ربّ کی طرف جاتا ہوں، وہی میری رہنمائی کرے گا (۳۷: ۹۹) پس دوڑو اللہ کی طرف (۵۱: ۵۰) توبہ کرو (کئی مقامات پر ہے) اللہ سے وابستہ ہوجاؤ (۲۲: ۷۸) ایسے تمام الفاظ میں دیدار اور فنائے عشق کی حکمت پوشیدہ ہے۔

سوال – ۵۳۷: آپ کا خیال ہے کہ اِس ظاہری اور مادّی کائنات کے ذرّہ ذرّہ میں روح ہے، کیا آپ اس کی کوئی معقول دلیل پیش کرسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) سُورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں جو آیۂ شریفہ ہے، اس کی اہمیّت اتنی بڑی اور زبردست ہے کہ اس کو قانونِ خزائن کہا جاتا ہے، جس کا ترجمہ  ہے: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے

 

۳۸۸

 

پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں (۲) خزائنِ الٰہی سے عالمِ ذرّ مراد ہے، جس میں ہر چیز کا ایک ایسا عجیب و غریب ذرّہ موجود ہے، کہ وہ مادّۂ لطیف بھی ہے اور روح بھی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے انہی خزانوں (یعنی عالمِ ذرّ) سے ہر چیز کو پیدا کرتا رہتا ہے (۳) ہر کائنات، ہر ستارہ، ہر مخلوق، اور ہر شیٔ عالمِ ذرّ کے الٰہی خزانوں سے پیدا کی گئی ہے، لہٰذا کائنات کے ذرّہ ذرّہ میں روح موجود ہے۔

سوال – ۵۳۸: سُبحان اللہ! یہ روحانی سائنس کا ایک اور انقلابی کُلّیہ ہے، اگرچہ عالمِ ذرّ کا تصوّر بہت پہلے سے ہے، لیکن ہم اس کو ٹھیک طر ح سے نہیں سمجھتے تھے، یقیناً آپ پر امامِ زمانؑ بہت مہربان ہے، پس آپ بتائیں کہ مستقبل میں لوگوں کے لئے روحانی سائنس سے کیسے کیسے فائدے ممکن ہوں گے؟ – جواب: (۱) عالمِ ذرّ سے ایک خوشبودار لطیف غذا دریافت ہوسکتی ہے، جو صرف قوّتِ شامّہ سے حاصل کی جاتی ہے (۲) قیامت جو خفی ہے، وہ بِحکمِ خدا جلی ہوسکتی ہے (۰۷: ۱۸۷) اس میں بہت بڑی آزمائش ضرور ہے، لیکن بعد ازان دینِ حق کی بادشاہی سے لوگوں کو بے شمار فائدے حاصل ہوں گے۔

سوال – ۵۳۹: اس سلسلے میں مزید معلومات کیا ہیں؟ – جواب: (۱) عالمِ ذرّ امامِ مُبینؑ کی عالمگیر روح میں ہے، سب سے عجیب و غریب اور

 

۳۸۹

 

ازبس حیران کُن بات تو یہ ہے کہ عالمِ ذرّ کے تمام زندہ ذرّات جُفت جُفت ہیں، اس حقیقت پر قرآن میں کئی شہادتیں موجود ہیں (۲) جب روحانی طوفان شروع ہوا تو خداوندِ عالم نے حضرتِ نوحؑ کو حکم دیا: ہر قسم کی ذرّاتی مخلوقات کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو (۱۱: ۴۰، ۲۳: ۲۷) اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ ذرّ میں بھی تجدّد ہوتا ہے (۳) یعنی ہر امام میں عالمِ ذرّ کی تجدید ہوتی ہے، اور وہ اسی طرح تسخیرِ کائنات اور خلافتِ آدم کا وارث ہو جاتا ہے۔

سوال – ۵۴۰:  قرآنِ حکیم میں سے ذرّاتِ عالمِ ذرّ کے چند نام بتائیں – جواب: (۱) ان روحانی ذرّات کے بےشمار ناموں میں سے چند یہ ہیں: یاجوج و ماجوج، ثمرات، جِنّ، اِنس، طَیر، جُنُود، ذرّہ، ذرّیّت، نسل، کُلُّ شَیْءٍ، اوّلین، آخرین، مجموعون، حشر، محشور (۲) کتابِ منشور، صُحُفِ مُنشرۃ، نُشور، نشر، کتابِ ناطق، مَلَک، ملائکہ، نفیر، ھَبَا، غنم، قوم (۰۵: ۵۴) وُحُوش (۸۱: ۰۵) نَملْ (۳) دابّۃ، خَردَل (رائی) صلصال، ماء، طوفان، جراد، قُمَّل، ضفادع، دم، یہ ہیں ذرّاتِ عالمِ ذرّ کے چند اسماء جو بیان ہوئے۔

 

۳۹۰

 

صندوقِ جواہر ۔ ۲۲

 

سوال – ۵۴۱: کائنات کے ہر ذرّے میں روح موجود ہونے سے متعلّق کوئی اور روشن دلیل بھی ہوسکتی ہے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، یہ سب سے روشن ترین دلیل آیۃُ الکرسی (۰۲: ۲۵۵) میں ہے: اس کی کُرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ کُرسی سے نفسِ کُلّی مراد ہے، جو کائناتی روح ہے، جو بحرِ نور ہے، جس میں ساری کائنات مُستغرق ہے (۲) یہ آیۂ مصباح کی عظیم الشّان تفسیر ہے، جس میں ارشاد ہوا ہے کہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) اس کا مطلب یقیناً یہی ہوا کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ نور کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے، روح جو نور ہے، وہ آگ سے بھی زیادہ لطیف ہے، لہٰذا آسمان و زمین کا ہر ہر ذرّہ ظاہراً و باطناً روحِ اعظم (نفسِ کُلّی) کی روشنی سے منوّر ہے۔

سوال – ۵۴۲: آیۃ ُ الکُرسی اعظم الآیات ہے، جس کے خزانۂ مخفی سے قانونِ فطرت اور نظامِ کائنات کا سب سے عظیم راز معلوم ہوگیا کہ کائنات اللہ تعالیٰ کی مُٹھی میں ہے، یعنی نفسِ کُلّی کی گرفت اور کنٹرول میں ہے، تو پھر کششِ ثقل کا نظریہ ختم ہوگیا، کیا آپ اس حقیقت

 

۳۹۱

 

پر کوئی اور دلیل پیش کرسکتے ہیں کہ کائنات نفسِ کُلّی کے کنٹرول میں ہے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، ہر چیز یعنی کائنات اللہ کی کرسی میں محدود ہے = ہر چیز کو اللہ نے امامِ مبین میں محدود کر رکھا ہے، یہ ایک ہی مطلب ہے، کیونکہ کُرسی / نفسِ کُلّی امامِ مبینؑ کا نورِ محیط ہے (۲) آپ قرآنِ حکیم میں س خ ر کے مادّہ کے تحت دیکھیں: ۳۱: ۲۰، ۴۵: ۱۲ اور دیگر آیات، کہ خداوندِ مہربان نے ساری کائنات اب اس وقت بھی انسان کے لئے مُسخّر کر رکھی ہے، کوئی عالی ہمّت شخص امامِ مبینؑ میں فنا ہوکر تجربہ کرے تو سہی (۳) داناؤں کے لئے یہ کوئی سوال ہی نہیں کہ جو کچھ لکھنا چاہیئے، وہ خدائے سبحان بذاتِ خود لکھتا ہے یا اس کے امر سے قلم لکھتا ہے؟ آپ کو معلوم ہے کہ قلم عرش بھی ہے اور عقلِ کلّی بھی، جبکہ لوح کُرسی بھی ہے اور نفسِ کُلّی بھی (۴) پس نفسِ کُلّی اللہ کا اسمِ صفت القابض بھی ہے، اور الباسط بھی، کہ وہ ہمیشہ کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے۔

سوال – ۵۴۳: سُورۂ مائدہ (۰۵: ۶۴) کے حوالے سے یہ سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھوں سے کیا مراد ہے؟ -جواب: (۱) خدائے پاک و برتر کے دو ہاتھ عالمِ علوی میں عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ ہیں، اور عالمِ سفلی میں ناطق اور اساس (۲) اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ خداوندِ قدّوس اپنے تمام کاموں کو انہی ہاتھوں سے انجام دیتا ہے (۳) آپ قرآنِ عزیز میں “فضلِ خداوندی” کی بہت بڑی تعریف کو پڑھیں، اور دیکھیں کہ یہ بہت ہی عظیم خزانہ خدا کے بابرکت ہاتھ میں ہے (۰۳: ۷۳، ۵۷: ۲۹)

 

۳۹۲

 

(۴) ساری کائنات کی بے مثال و لازوال سلطنت خدا کے ہاتھ میں ہے (۶۷: ۰۱) ہر چیز کی عظیم الشّان بادشاہی اللہ کے ہاتھ میں ہے (۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳)۔

سوال – ۵۴۴: سُورۂ حجّ کی دو آخری آیتیں (۲۲: ۷۷ تا ۷۸) أئمّۂ آلِ محمّدؐ کی شان میں ہیں، لہٰذا آپ اس مقام کے حوالے سے پاک اماموں کی کوئی عِرفانی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) دینِ اسلام کی تمام ظاہری اور باطنی عبادات اور نیک اعمال کے جواہر حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام کے پاس ہیں (۲) جہادِ اکبر انہی کی نورانی ہدایت کی روشنی میں ممکن ہوجاتا ہے، کیونکہ خداوند تعالیٰ نے ان کو برگزیدہ فرمایا ہے، ان کے لئے دینی علم میں کوئی تنگی نہیں (۳) کیونکہ یہ ان کے جدِّ اعلیٰ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا مذہب ہے، اُسی خدا نے پہلے ہی سے اماموں کا نام مسلمین رکھا ہے، یعنی حقیقی فرمانبردار اور اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دینے والے، اور قرآن میں بھی ان کے یہی نام ہیں، تاکہ رسولؐ اماموں پر گواہ بنیں، اور أئمّہ لوگوں پر گواہ بنیں….۔

سوال – ۵۴۵: حضرتِ عیسیٰؑ نے عرض کی …. وُکُنتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیھِمْ = اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان پر گواہ اور نگران تھا (۰۵: ۱۱۷) اس قانونِ شہادت کی روشنی میں آپ یہ بتائیں کہ رسولِ پاکؐ اماموں پر کس طرح گواہ ہوتے ہیں؟ اور حضراتِ أئمّہ کس صورت میں لوگوں پر گواہ ہوسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) قرآنِ حکیم کے درجِ

 

۳۹۳

 

بالا الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کا گواہ صرف وہی شخص ہوسکتا ہے، جو ان کے درمیان حاضر ہو، چُنانچہ آنحضرتؐ اماموں پر گواہ اِس معنیٰ میں ہیں کہ ہر امام کے ساتھ رسولؐ کا نور موجود ہوتا ہے (۲) اور لوگوں پر أئمّہ اس طرح گواہ ہوتے ہیں کہ ہر زمانے میں امامِ برحق لوگوں کے درمیان حاضر اور موجود ہوتا ہے، پس قانونِ شہادت یہ ہے کہ لوگوں پر حضراتِ أئمّہ گواہ ہیں، أئمّہ پر رسولِ کریمؐ گواہ ہیں، اور رسولؐ پر اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآنِ حکیم کی زبردست حکمتوں میں سے ہے۔

سوال – ۵۴۶: سُورۂ رعد کی آخری آیت (۱۳: ۴۳) کا ترجمہ ہے: یہ منکرین کہتے ہیں کہ تم خدا کے بھیجے ہوئے نہیں ہو، کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے اور پھر اس شخص کی گواہی جو کتابِ آسمانی کا علم رکھتا ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ وہ شخص کون ہے جو “الکتاب” کا علم رکھتا ہے؟ کیا الکتاب صرف قرآن ہے (۰۲: ۲۱۳) یا اس میں اگلی کتابیں بھی ہیں؟ اِس گواہِ ثانی کی گواہی کے لئے آسمانی کتاب کا علم کس طرح کام آتا ہے؟ – جواب: (۱) وہ شخص جس کے پاس آسمانی کتاب کا علم ہے اور آنحضرتؐ کی رسالت کا گواہِ دوم ہے، وہ حضرتِ علیؑ ہے (۲) الکتاب جُملہ آسمانی کُتُب کا نام بھی ہے، اور یہ قرآنِ عظیم بھی ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ مولا علیؑ ہی وہ شخص ہے، جس کے پاس تمام آسمانی کتابوں کا علم موجود ہے (۳) آسمانی کتاب کا علم معمولی اور عام نہیں، بلکہ یہ معجزاتی اور مُشاہداتی علم ہے، یعنی خداوندِ تعالیٰ حضرتِ علیؑ کے لئے کان، آنکھ،

 

۳۹۴

 

ہاتھ، اور پاؤں ہوگیا (بحوالۂ حدیثِ نوافِل، (۴) کوئی عاقل اور دانا شخص ہمیں یہ بتائے کہ حضرتِ علیؑ کے پاس آسمانی کتابوں کا معجزاتی اور مُشاہداتی علم تھا یا نہیں؟ پس یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ مولا علیؑ کو بھی آنحضرتؐ کی رسالت پر گواہ بنا دیا ہے۔

سوال – ۵۴۷: کیا یہ صفت ہر امام کی ہوتی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا؟ آیا ہر امام مولا علیؑ ہی کی طرح آسمانی کتاب کا معجزاتی اور مشاہداتی علم رکھتا ہے؟ کیا وہ رسولِ پاکؐ کی رسالت پر گواہ بھی ہوسکتا ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، ہر امام حاملِ نورِ مُنَزَّل ہوتا ہے، لہٰذا وہ اپنے زمانے میں علمِ الٰہی کا خزانہ ہوتا ہے (۲) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ آلِ محمّدؐ و اولادِ علیؑ کا ہر امام علیؑ ہی کی طرح آسمانی کتاب کا چشم دید معجزاتی علم رکھتا ہے، یعنی آسمانی کتاب کا اوّلین خزانہ رُؤیت ہے، جس میں اشارۂ ناطق بھی ہے اور اشارۂ صامت بھی، دوسرا خزانہ کلمۂ کُن ہے، تیسرا خزانہ قلمِ اعلیٰ، چوتھا خزانہ لوحِ محفوظ، پھر تین عظیم فرشتے، پھر نبی اور ولی کا عالمِ شخصی ہے (۳) چنانچہ خداوندِ تعالیٰ ہر امام کو اپنے تمام خزائن اور جملہ مقاماتِ نزول کا مشاہدہ کراتا ہے، اور پھر وہ امام سارے انبیا و رُسُل کی نبوّت و رسالت کا گواہ بن جاتا ہے۔

سوال – ۵۴۸: سُورۂ تطفیف میں ہے: ہرگز ایسا نہیں، بےشک نیک لوگوں کا نامۂ اعمال عِلّیِّین میں ہے، اور تمہیں کیا خبر کہ وہ عِلّیِّین کیا

 

۳۹۵

 

ہے، ایک لکھی ہوئی کتاب ہے، جس کو مقرّب بندے دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) اس کی حکمتی وضاحت کریں- جواب: (۱) ہر گز ایسا نہیں جس طرح عوام کہتے ہیں، یقیناً نیک لوگوں کا اعلیٰ اور اجتماعی نامۂ اعمال حظیرۂ قدس کی برتر ہستیوں میں ہے، وہ لکھی ہوئی ایک زندہ کتاب کی طرح ہیں، اس کا مُشاہدہ دنیا میں صرف مقرّبین ہی کر سکتے ہیں۔

سوال – ۵۴۹: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۳) میں یہ فرمانِ الٰہی ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا۔ اس میں کیا حکمت ہے؟ – جواب: (۱) یہ آیۂ شریف أئمّۂ آلِ محمدؐ کے بارے میں ہے، ترجمہ: اور اس طرح ہم نے تم کو عادل اُمّت بنایا تاکہ تم لوگو ں پر گواہ بنو اور رسول(محمد) تم پر گواہ  بنیں(۲) اس کی حکمت یہ ہے کہ جب تک دنیا میں لوگ موجود ہیں، تب تک أئمّہ طاہرین کا سلسلہ جاری و باقی ہے، تاکہ کسی بھی زمانے کے لوگ قیامت کے دن یہ نہ کہیں کہ دنیا میں ہدایت کا کوئی ذریعہ ہی نہ تھا۔

سوال – ۵۵۰: سورۂ توبۃ (۰۹: ۱۰۵) میں ہے: اور اے رسولؐ، ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسولؐ اور مومنین تمہارے کاموں کو دیکھیں گے۔ ایسے بابصیرت اور باطن شِناس مومنین کون ہوسکتے ہیں، جو خدا اور رسولؐ کے بعد لوگوں کے اعمال کو دیکھتے ہوں؟ – جواب: (۱) ایسے باکمال مومنین امامانِ برحق ہیں (دعائم الاسلام،

 

۳۹۶

 

جلد اوّل، ولایتِ أئمّۂ اہلِ بیتؑ) کیونکہ اہلِ ایمان جو عام ہیں، وہ دوسروں کے اعمال کو دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں۔

 

۳۹۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۳

 

سوال – ۵۵۱: لُغاتُ الحدیث میں ہے: اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہٗ، یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ  = مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ کیا یہ ہر مومن کی صفت ہوسکتی ہے؟ اگر تمام مومنین خدا کے نور سے دیکھ سکتے ہیں تو کس کو کس سے ڈرنا چاہیئے؟ جبکہ سب ایک جیسے ہیں؟ آخر ڈرنے کا مقصد کیا ہے؟ – جواب: (۱) ایسا نور کسی مومن میں نہیں آتا مگر فنا فی الامام، فنا فی الرّسول، اور فنا فی اللہ کے بعد اور وہ علمی مقصد کے لئے ہوتا ہے (۲) مومن کے خاص معنی ہیں: امن دینے والا، یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں سے ہے (۵۹: ۲۳) آپ جانتے ہیں کہ امامِ عالی مقامؑ اسمائے الٰہی کا مظہر ہے، لہٰذا مومن (امن دینے والا) حضرتِ امامؑ ہے (۳) “مومن کی فراست سے ڈرو، وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔” امام کے علم سے ڈرو، یعنی احترام کرو، اور بحث نہ کرو، کیونکہ یہ علم اللہ کے نور کی روشنی میں ہے۔

سوال – ۵۵۲: آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے مطابق: “وہ زیتون کا مبارک درخت جو نہ مشرق کا ہے اور نہ مغرب کا۔”  پھر وہ کہاں کا ہے؟

 

۳۹۸

 

اور کیا ہے؟ – جواب: (۱) اس مثال کا تعلّق کائناتِ ظاہر سے بھی ہے، اور عالمِ شخصی سے بھی، پس یہ بابرکت درختِ زیتون نفسِ کُلّی ہے، جو زمان و مکان کی قُیُود سے بالا و برتر اور لامکانی ہے۔

سوال – ۵۵۳: سُورۂ زُخرُف (۴۳: ۲۸) میں ارشاد ہے: وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ۔ آپ اس کا تاویلی ترجمہ کریں- جواب: (۱) اور ابراہیمؑ نے اس (اسمِ اعظم اور امامت) کو اپنی اولاد میں ہمیشہ باقی رہنے والا کلمہ قرار دیا تاکہ لوگ رجوع کریں (۲) حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے پاس عظیم امامت کی ذمہ داری تھی، اس لئے آپؑ اپنی اولاد (آلِ ابراہیمؑ) میں کلمۂ باقیہ چھوڑ گئے۔

سوال – ۵۵۴: سُورۂ شُعرآ ء (۲۶: ۸۴) میں ہے کہ حضرتِ ابراہیمؑ نے خدا سے یہ دعا کی: وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الآخِرِينَ۔ اس آیۂ کریمہ کا رازِ حکمت کیا ہے؟ – جواب: (۱) ترجمہ: اور (اے پروردگار) آئندہ آنے والی نسلوں میں میرے لئے صدق کی زبان بنا دے (۲) یعنی میرے اپنے سلسلۂ اولاد (آلِ ابراہیمؑ) میں میرے لئے علم و حکمت بیان کرنے والی زبان بنا دے (۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ آلِ ابراہیمؑ میں ایک طرف امامانِ مُستقر کا سلسلہ تھا، اور دوسری جانب امامانِ مستودع کا سلسلہ۔

سوال -۵۵۵: آپ یہ بتائیں کہ قرآنِ عظیم میں امام شِناسی

 

۳۹۹

 

کا دائرہ کس حد تک وسیع ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ حضرتِ ابراہیمؑ کے قصّۂ قرآن میں نورِ امامت کے کیسے کیسے عظیم اَسرار پنہان ہیں؟ – جواب: (۱) حق بات تو یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں امامِ شناسی کا دائرہ تمام دائروں پر محیط ہے، آپ قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں دیکھیں (۲) آپ یقین کریں کہ قرآن میں حضرتِ ابراہیمؑ کا قصہ سرتاسر نورِ امامت کے اسرار سے لبریز ہے (۳) کیوں نہ ہو جبکہ خدائے علیم و حکیم نے اپنے خلیل کو تمام لوگوں کے لئے امام بنا یا تھا (۰۲: ۱۲۴) پھر ان کا قصّہ لازمی طور پر قصّۂ امامت ہونا ہی تھا۔

سوال – ۵۵۶: سُورہ ابراہیم (۱۴: ۳۷) میں ہے کہ جناب خلیل اللہؑ نے کہا: پروردگار !میں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے، پروردگار! یہ میں نے اس لئے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تُو لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل (ثمرات) دے، شاید کہ یہ شکرگزار بنیں۔ آپ اس کی کوئی حکمت بتائیں۔ – جواب: (۱) یہاں وادیٔ عقل، کعبۂ باطن، اور مرتبۂ امامت کا تذکرہ ہے، نماز کی تاویل دعوت ہے، لوگوں کے دل میں اماموں سے عشق و محبت ہونے کے لئے دعا کی گئی ہے، اور پھر ایسے سب لوگوں کے لئے ثمراتِ علمی مطلوب ہیں، کیونکہ اللہ کے باطنی گھر کی یہی خاصیت ہے کہ جس کی طرف ہر چیز کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں (۲۸: ۵۷)۔

 

۴۰۰

 

سوال – ۵۵۷: قرآنِ حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے، لہٰذا اس کے تمام الفاظ و کلمات مغزِ علم و حکمت سے مملو اور لبریز ہیں، پس سُورۂ قَصَص (۲۸: ۸۵) کے حوالے سے یہ سوالات ہیں: کیا ہر چیز کا ظاہری پھل ہوتا ہے؟ آیا صرف ثمردار درختوں ہی کے ثمرات ہوا کرتے ہیں، یا کُلّ اشیاء کے ثمرات ہوتے ہیں؟ کیا تمام چیزوں کے ثمرات حرمِ ظاہر کی طرف کھچے چلے آتے ہیں؟ – جواب: (۱) ظاہر میں صرف میوہ دار درختوں کے ثمرات ہوتے ہیں اور بس، کُلّ اشیاء کے ثمرات باطن میں ہوتے ہیں، اور وہ دو قسم کے ہوا کرتے ہیں: روحانی اور عقلی، تمام چیزوں کے باطنی میوے حرمِ باطن کی طرف از خود کھچے چلے جاتے ہیں۔

سوال – ۵۵۸: سُورۂ کہف (۱۸: ۰۷ تا ۰۸) میں ہے: واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ (عِلماً و) عملاً کون زیادہ اچھا ہے۔ آخرکار اس سب کو ہم ایک چَٹیل میدان بنا دینے والے ہیں۔ یہاں آپ یہ بتائیں کہ یہ تذکرہ اور پیش گوئی کس زمین کے بارے میں ہے؟ زمینِ ظاہر؟ زمینِ عالمِ شخصی؟ یا دونوں؟ آخر کیوں؟ – جواب: (۱) دونوں کے لئے فنائیت کا ایک ہی قانون ہے، مگر ایک زمین کی عمر بڑی طویل ہے، اور دوسری کی عمر بہت ہی مختصر (۲) جب پروردگار سیّارۂ زمین کے ذخیرۂ آبی کو لے جائے گا (۲۳: ۱۸) تو اس وقت نباتات، حیوانات،

 

۴۰۱

 

اور انسان سب کے سب مر جائیں گے، تاہم انسانوں کے لئے کثیف سے لطیف ہوجانا یا وجہ اللہ میں فنا ہوجانا بھی ممکن ہے۔

سوال – ۵۵۹: آپ یہ بتائیں کہ زمینِ عالمِ شخصی کس طرح چَٹیل ہوجائے گی؟ – جواب: (۱) اگر آپ چاہیں تو اس حقیقت کو براہِ راست قرآنِ حکیم کی کئی آیات میں دیکھ سکتے ہیں کہ زمینِ ظاہر موسمِ سرما میں مرچکی ہوتی ہے، پس اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان سے بارش برسا کر اس کو موسمِ بہار میں زندہ کرتا ہے، یہ بیحد حسین و دل آویز موسم ظاہراً کلیوں اور پھولوں کی محبوبیّت اور بادشاہت کا زمانہ ہوتا ہے، اس کے بعد موسمِ گرما آتا ہے، جس میں طرح طرح کے پھل تیار ہوجاتے ہیں، بحقیقت پھولوں کے موسم سے پھلوں کا موسم بہتر ہوتا ہے، اور آخراً موسمِ خزان آتا ہے، جو تمام موسموں کا ماحصل اور نتیجہ ہے، یا یوں کہا جائے کہ یہ پھولوں اور پھلوں سے بھی زیادہ مفید اور آرام کا موسم ہے، کیونکہ اس وقت تمام اشیائے خوردنی گھروں میں جمع ہوتی ہیں، پس اس حال میں باغ اور کھیت بیابان جیسے لگتے ہیں، یہی مثال عالمِ شخصی کی بھی ہے کہ وادیٔ عقل کا قرآنی اور روحانی تصوّر بیابان جیسا ہے۔

سوال – ۵۶۰: کیا سبب ہے یا کیا دلیل ہے کہ وادیٔ عقل کا تصوّر ایک بیابان کی طرح ہے؟ – جواب: (۱) عالمِ شخصی کے ابتدائی مراحل دنیا کی مثال پر ہیں، اور آخری منزل آخرت کے نمونے پر ہے،

 

۴۰۲

 

اس کے بیابان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کھیتی باڑی نہیں ہوتی، کیونکہ یہ وہ مقامِ اعلیٰ ہے، جہاں اشیائے کُل کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں (۲۸: ۵۷) (۲) سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۷) میں دیکھیں کہ حضرتِ امام اسماعیلؑ فرزندِ حضرتِ ابراہیمؑ وادیٔ عقل میں رہتا تھا، جس کا ایک ترجمہ بے کھیتی کا بیابان ہے (وَادٍ غَیْرِذِ یْ زَرْعٍ)۔

 

۴۰۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۴

 

سوال – ۵۶۱: آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا ہے: میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے: میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔ اس علم و حکمت کا قرآن سے کیا تعلّق ہے؟ اس کے حصول کے لئے کیا طریقہ بتایا گیا ہے؟ – جواب: (۱) اس علم و حکمت کا براہِ راست تعلّق قرآن ہی سے ہے، کیونکہ حضورِ پاکؐ خود قرآنِ مُجسّم اور قرآنِ ناطق تھے (۲) اس علم و حکمت کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ آپ روحانی طور پر علیٔ زمانؑ میں فنا ہوجائیں، تاکہ آپ قرآنِ ناطق اور قرآنِ صامت کے خزانوں تک رسا ہو سکیں۔

سوال – ۵۶۲: آیا قانونِ باب / قانونِ دروازہ ایک کائناتی حقیقت ہے؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ: “ہاں” تو پھر آپ اس کی چند مثالیں پیش کریں- جواب: (۱) جی ہاں، اس قانون میں ذرا بھی شُبہہ نہیں (۲) جبکہ آسمان کے دروازے (۰۷: ۴۰) ہیں (۳) دورزخ کے دروازے (۱۵: ۴۴) ہیں(۴) بہشت کے دروازے (۳۹: ۷۳) ہیں (۵) ہر گھر، ہر خانۂ خدا، اور ہر چیز کا دروازہ ہوا کرتا ہے (۶) پس اس حقیقت کی تردید کوئی

 

۴۰۴

 

نہیں کرسکتا کہ اللہ کے نور کا دروازہ رسولؐ ہیں، رسولؐ کا دروازہ اساس، اساس کا دروازہ امام اور امام کا دروازہ حُجّت وغیرہ ہوتا رہا ہے۔

سوال – ۵۶۳: سُورۂ طُور (۵۲: ۰۱ تا ۰۶) میں ہے: وَ الطُّوْرِ۔  وَ كِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ۔  فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ۔  وَّ الْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ۔ وَ السَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ۔ وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ۔ ان آیات کریمہ کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) قسم ہے طورِ روح اور طورِ عقل کی، جو عالمِ شخصی میں ہے، اور قسم ہے لکھی ہوئی کتاب کی جو بکھرے ہوئے ذرّات میں ہے، اور قسم ہے آباد گھر کی، اور قسم ہے بلند کی ہوئی چھت (عرش) کی، اور قسم ہے موجزن سمندر کی۔ (۲) عالمِ شخصی میں کوہِ روح اور کوہِ عقل کے بےشمار معجزات ہیں (۳) لکھی ہوئی کتاب جو بکھرے ہوئے ذرّات پر مبنی ہے، وہ کتابِ ناطق بھی ہے، اور عارف کا نامۂ اعمال بھی (۴) بیت المعمور یعنی اللہ تعالیٰ کا آباد گھر بھی عالمِ شخصی میں ہے، جس کا طواف ہر روز ستّر ہزار فرشتے کرتے ہیں (۵) سقفِ مرفوع عرشِ اعلیٰ کا نام ہے، (۶) بحرِ مسجور (بھرا ہُوا سمندر) علم کا سمندر ہے، جس پر عرشِ الٰہی کا ظہور ہوتا ہے، اور یہ بات آپ سب کو معلوم ہے کہ تمام معجزات اور دیگر بے شمار معجزات عالمِ شخصی ہی میں ہوا کرتے ہیں۔

سوال – ۵۶۴: آپ کا یہ خیال ہے کہ خدوندِ قدّوس نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو جو عظیم امامت عطا فرمائی تھی (۰۲: ۱۲۴) اس کا نور نہ

 

۴۰۵

 

صرف آپ کی شخصیت میں جلوہ گر تھا، بلکہ آپؐ کے آباؤاجداد اور آئندہ نسل میں بھی یہی نورِ ہدایت جاری و باقی ہے، آپ مثال اور دلیل سے سمجھائیں کہ یہ بات کس طرح ممکن ہے- جواب: (۱)  ارشاد ہے: قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ (۰۲: ۱۲۴) میں تجھے سب لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ یعنی میں تجھے امام بناؤں گا، اور ساتھ ہی ساتھ علم الاسرار عطا کروں گا، جس سے تجھ پر یہ راز کُھل جائے گا کہ تو ماضی میں بھی امام تھا، اور مستقبل میں بھی امام ہونے والا ہے، کیونکہ اس کا ایک لطیف اشارہ “ناس” میں موجود ہے کہ یہ لفظ یہاں اپنے معنی میں محدود نہیں بلکہ مطلق ہے (۲) نورِ امامت کے باب میں دو حقیقتیں مُسَلّمہ ہیں: ایک ہے نورِ مجرّد اور دوسرا ہے جامۂ نور، کیونکہ جب بھی نور کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس میں یا تو نورِ مجرّد کا اشارہ ہوتا ہے یا جامۂ نور کا، جیسے اللہ نور السّمٰوٰت والارض میں نور ہی کا ذکر ہے، لیکن نورٌعلیٰ نور میں جامۂ نور کا بیان نمایان ہے، پس اس بات کا انحصار کسی مومن کی عرفانی رسائی پر ہے کہ وہ حضرتِ ابراہیمؑ کو جامۂ نور مانتا ہے یا تمام زمانوں کے لئے نور تسلیم کرتا ہے۔

سوال ۵۶۵: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں اسرارِ نبوّت و امامت کے خزانے مخفی ہیں۔ ان تک عاشقوں کی رسائی کس طرح ہوسکتی ہے؟ – جواب: (۱) اس کے لئے اوّلین شرط حقیقی اطاعت ہے، اور سب سے بڑی چیز نورانی ہدایت و تائید ہے، پھر قصّۂ ابراہیمؑ

 

۴۰۶

 

کا بغور مطالعہ قرآنِ حکیم کے ۶۹ مقامات پر کریں، کیونکہ اس قصّے کا سلسلہ ہر اُس مقام پر ہے، جہاں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا اسمِ مبارک آیا ہے، اور یہ نام قرآنِ پاک میں ۶۹ بار آیا ہے (۲) اس بابرکت اور پُرحکمت قصّے کے کئی عالیشان پہلو ہیں، ان میں ایک پُرمغز، انتہائی جامع اور بے مثال پہلو آلِ ابراہیمؑ سے متعلق ہے، اس ذیلی مضمون میں وہ دعائیں بھی شامل ہیں جو حضرتِ ابراہیم خلیل اللہؑ نے اپنی ذرّیّت کے حق میں کی ہیں (۳) آپ قصّۂ خلیل اللہؑ کی حکمت کو سمجھنے کی غرض سے متعلقہ دینی کتابوں کو بھی پڑھیں۔

سوال – ۵۶۶: الحمد للہ، ہر پیغمبر کے آئینۂ ذات میں نورِ محمّد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ مُتجلّی ہے، اب آپ یہ بتائیں کہ محمد و آلِ محمدؐ اِس دَور کے لئے اسماء الحُسنیٰ ہیں یا نہیں؟ یہی حضرات صراطِ مستقیم اور حبل اللہ ہیں یا نہیں؟ یہی مُبارک ہستیاں سُلَّم النجاۃ (نجات کی سیڑھی) ہیں یا نہیں؟ اور یہی صاحبان سفینۂ نوح کی مثال ہیں یا نہیں؟ – جواب: کیوں نہیں، جبکہ سب کچھ یہی حضرات ہیں، اور جبکہ اللہ کے عظیم خزانے یہی انسانانِ کامل ہیں۔

سوال – ۵۶۷: سُورۂ نساء (۰۴: ۹۷) میں ہے: جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم

 

۴۰۷

 

زمین میں کمزور و مجبور تھے، فرشتوں نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ اس آیت کے ظاہری معنی اپنی جگہ پر ہیں، آپ اس کی تاویلی حکمت بتائیں – جواب: (۱) خدا کی انتہائی وسیع زمین عالمِ شخصی ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات پر محیط ہے، اور اس میں ہجرت کرنا یہ ہے کہ لوگ خودشِناسی کے طریق پر اپنے عالمِ شخصی میں داخل ہوجائیں (۲) یہ بھی ایک ضروری سوال ہے کہ لوگ کس طرح اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نافرمانیوں کی صورت میں اپنی روح پر ظلم کرتے ہیں، اگر سچ مچ کمزوری اور مجبوری ہے تو اس سے علم و عبادت میں کوئی رکاوٹ کس طرح ہوسکتی ہے۔

سوال – ۵۶۸: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) میں ہے: جس دن یہ زمین بدل کر دوسری زمین سامنے لائی جائے گی اور (اسی طرح) آسمان (بھی بدل دیئے جائیں گے) اور سب لوگ خدائے واحدِ قہار کے روبرو نکل کھڑے ہوں گے۔ یہ کونسا دن ہے؟ زمین و آسمان کس طرح بدل جائیں گے؟ اور خدائے واحدِ قہار کا معنوی راز کیا ہے؟ – جواب: (۱) یہ انفرادی اور روحانی قیامت کا دن ہے، جب عارف عالمِ شخصی کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس ظاہری اور مادّی زمین سے وہاں کی زمین بالکل الگ اور مختلف ہے، جبکہ وہ روحانی اور لطیف ہے، اور اسی طرح وہاں کے آسمان بھی روحانی اور لطیف ہیں (۲) خدائے واحدِ قہار کے یہ معنی ہیں کہ اللہ جَلَّ شَانَہٗ قیامت کی آخری منزل میں سب لوگوں کو

 

۴۰۸

 

زبردستی سے ایک کر لیتا ہے، جس طرح ابتداءً  سب لوگ شخصِ واحد کی صورت میں تھے۔

سوال – ۵۶۹: سُورہ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں جہاں کَیْفَ مَدَّالظِّلَّ کا حکمت سے لبریز ارشاد ہے، اس کے عظیم اسرار کو بیان کرنے کے لئے سعیٔ بلیغ کریں- جواب: (۱) ترجمہ: کیا تم نے اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح سایہ پھیلا دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا، ہم نے سورج کو اپنی دلیل (رہنما) بنایا، پھر ہم اس سائے کو آسانی سے اپنی طرف لپیٹ لیتے ہیں۔

اسرارِ حکمت: یہ مبارک خطاب سب سے پہلے حضرت سیّد الانبیاءؐ سے ہے، پھر ہر امام سے ہے، اور پھر ہر عارف سے ہے کہ آیا تو نے اپنے پروردگار کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح وہ اپنا سایہ (جو تیرا باطنی وجود ہے) مقامِ روح پر بھی اور مقامِ عقل پر بھی ہزاروں بار پھیلاتا اور لپیٹتا رہتا ہے، اگر وہ چاہتا تو اسے دائمی سایہ بنا دیتا، اس سے امام مراد ہے جو ہمیشہ کے لئے ظِلِّ الٰہی ہے، اس پر سورج دلیل ہے، یعنی یہ سارے معجزات نورِ ہدایت کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، اور سائے کو لپیٹنے کی بات ہوچکی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی قیامت کے اندر بےشمار قیامات کا مثالی مظاہرہ ہوتا ہے۔

سوال – ۵۷۰: خدا کا سایہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے، درحالے

 

۴۰۹

 

کہ سایہ تاریک ہوا کرتا ہے، اور خدا تاریکی سے پاک و برتر ہے؟ – جواب: (۱) ہر چیز کا سایہ تاریک نہیں ہوتا، بعض چیزوں کے سائے تاریک اور بعض کے سائے روشن ہوا کرتے ہیں، جیسے سورج، چاند، ستارے، آگ وغیرہ کے سائے ہمیشہ تابناک ہوتے ہیں، آپ سُورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں اس فرمانِ خداوندی کو پڑھیں: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلاَلاً۔ اور خدا نے تمہارے لئے اپنی ہر مخلوق کے (جسمانی، روحانی، اور عقلانی) سائے بنائے۔ یعنی تمہارے عالمِ شخصی میں چار انوار (عقلِ کلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اور اساس) کے نوری سائے ہیں (۲) چونکہ یہ صفاتِ خدا کے مظاہر ہیں، اس لئے ان کا نورانی سایہ خدا کا سایہ ہے جو اصلاً نور ہے، اور عالمِ ذرّ ہر چیز کا روحانی سایہ بھی ہے اور لطیف جسمانی سایہ بھی۔

 

۴۱۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۵

 

سوال – ۵۷۱: کہتے ہیں کہ حضرتِ یوسف علیہ السّلام اپنے زمانے کا امام تھا، اس کا سارا قصّہ تاویلی رُموز سے بھرا ہوا ہے، پس آپ یہ بتائیں کہ اس کے بےمثال حسن و جمال میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں؟ – جواب: (۱) اس کی اوّلین حکمت یہ ہے کہ حضرتِ یوسفؑ کے جمالِ ظاہری کے مقابلے میں جمالِ باطنی بیحد اعلیٰ و افضل اور لازوال تھا (۲) اس میں یہ اشارہ بھی تھا کہ تمام انسانانِ کامل باطنی حسن و جمال اور دیگر کمالات میں یکسان ہوا کرتے ہیں (۳) علم و حکمت کی تجلیات بڑی عجیب و غریب ہوا کرتی ہیں، پس علم و حکمت کی لا انتہا خوبصورتی خدا کے حکم سے یوسفِ صدّیق میں مُجَسّم ہوگئی تھی (۴) حدیثِ شریف کا ترجمہ ہے: اللہ صاحبِ جمالِ باطن ہے، وہ جمالِ باطن کو پسند فرماتا ہے، مگر کوئی شخص علم کے بغیر باطن میں حسین و جمیل ہو ہی نہیں سکتا۔

سوال – ۵۷۲: سُورۂ یوسف (۱۲: ۸۷) میں ہے کہ حضرتِ یعقوبؑ نے کہا: میرے بچو، جا کر یوسفؑ اور اس کے بھائی (بنِ یمین) کی کچھ تلاش کرو، اللہ کی رحمت (رَوح/ رُوح) سے مایوس نہ ہو، اس کی رحمت

 

۴۱۱

 

سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رَوح اور رُوح ایک ہی لفظ ہے (بحوالۂ مُفردات القرآن) پس حضرتِ امام یوسف علیہ السلام اپنے وقت کے لئے رحمۃ اللہ بھی تھا اور رُوح اللہ بھی، اوریہی صفت ہر امام کی ہوا کرتی ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ – جواب: (۱) یہ بیان بالکل درست اور حقیقت ہے، میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ ان جیسی جملہ صفات کے ساتھ امام ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے (۲) اگرچہ کسی شک کے بغیر رحمتِ کُل آنحضرتؐ کی ذاتِ اقدس ہی ہے، لیکن علیٔ زمانؑ رسول اللہؐ کے صرف علم و حکمت کا دروازہ نہیں، بلکہ حضورؐ کی تمام صفات کا دروازہ ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ یقیناً اللہ کی رحمت رسولؐ کے توسط سے اور رسولؐ کی رحمت امامؑ کے توسط سے آتی ہے۔

سوال – ۵۷۳: سُورۂ یوسف کی آیت ۱۲: ۱۰۰ کا تاویلی مفہوم بتائیں – جواب: (۱) اور یوسفؑ نے اپنے روحانی ماں باپ کو عالمِ شخصی کے عرش (تخت) پر بٹھایا، اور وہ دونوں نیز دیگر تمام حدودِ دین یوسفؑ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (۲) یعنی یوسفؑ نے جب اپنے عالمِ شخصی کو فتح کرلیا تو اس کے تختِ سلطنت پر امام اور باب کو بٹھایا، پھر امام نے یہ سلطنت واپس یوسف کو عطا کر دیا، اس کے معنی ہیں کہ یوسفؑ کو امامت عنایت ہوئی، اور سب حدودِ دین اطاعت کرنے لگے (۳) سجدہ کی تاویل اطاعت ہے، پس یوسفؑ نے جو خواب دیکھا تھا کہ گیارہ ستارے اور شمس و قمر اس کو سجدہ کر رہے ہیں، اس کی تاویل یہی

 

۴۱۲

 

ہوئی کہ گیارہ حُجَج، سابق امامؑ، اور باب حضرتِ یوسفؑ کی اطاعت کرنے لگے۔

سوال – ۵۷۴: آیا ہر عالمِ شخصی میں ایک روحانی سلطنت قائم ہوسکتی ہے؟ کیا جہادِ اکبر اسی مقصد کے لئے ہے؟ انسان کی ذات میں بحدِّ قوت یا بحدِّ فعل ایک عظیم بادشاہی موجود ہونے کی کیا دلیل ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، ہر آدمی کے باطن میں ایک روحانی سلطنت قائم ہوسکتی ہے، یقیناً جہادِ اکبر اسی مقصد کے پیشِ نظر ہے (۲) انسان میں ایک عظیم سلطنت کی امکانیّت پر بےشمار دلائل ہیں (۳) سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں غور سے دیکھ لیں کہ عالمِ شخصی میں بھی دنیائے ظاہر کی طرح بہت سی سلطنتیں ہیں، لیکن وہ ساری کی ساری دینِ حق کے تحت ایک ہیں، اور ان سب ممالک کا شاہنشاہ خدائے واحدِ قہار ہے (۴۰: ۱۶) اس اعتبار سے یہ کہنا حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی کی بہشت میں ایک ہی بہت بڑی شاہنشاہی (مُلکاً کبیراً ۷۶: ۲۰) ہے، لیکن اس کے تحت بہت سی سلطنتیں بھی ہیں۔

سوال – ۵۷۵: دو بڑی حکمتوں کا یکجا نتیجہ: خدا نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب، حکمت اور بہت بڑی سلطنت عطا فرمائی ہے (مفہوم: ۰۴: ۵۴) خدا نے ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر دیا ہے ( مفہوم: ۳۶: ۱۲) نتیجہ: امامِ مبین میں سب کچھ ہے، کتاب و حکمت بھی ہے اور بہت بڑی سلطنت بھی،

 

۴۱۳

 

اور وہ امامِ مبین آلِ ابراہیمؑ و آلِ محمدؐ بھی ہے، یہ طریقہ کیسا ہے؟ -جواب: (۱) یہ فطری منطق ہے، جو انتہائی عجیب و غریب اور زبردست انقلابی ہے۔

سوال – ۵۷۶: کل بروزِ سہ شنبہ ۱۰ ؍ محرم الحرام ۱۴۲۰ھ، ۲۷؍ اپریل ۱۹۹۹ء کو میری بہت ہی عزیز خواہر زادی بی بی گل اندام کا انتقال ہوگیا، جو ہمارے گرامی قدر غلام قادر بیگ صاحب کی والدۂ محترمہ تھیں، لہٰذا ایصالِ ثواب کی نیت سے ہم یہاں ایک حکمتی سوال کرتے ہیں: سورۂ واقعۃ (۵۶: ۸۸ تا ۹۱) میں ارشاد ہے: پس اگر (مرنے والا خدا کے) مقرّبین سے ہے، تو (اس کے لئے) آرام و آسائش ہے، اور خوشبودار پھول اور نعمت کے باغ، اور اگر وہ اصحابِ یمین میں سے ہے، تو (اس سے کہا جائے گا کہ) تم پر اصحابِ یمین کی طرف سے سلام ہو۔ اس فرمانِ خداوندی کی تفصیلی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) مقربین کے لئے بہشت میں روح اور روحانیّت کی ہر گونہ دولت حاصل ہے، طرح طرح کے پھول اور محض خوشبوؤں کی صورت میں قوتِ شامّہ سے حاصل ہونے والی غذائیں ہیں، اور ایسے حسین و دل آویز باغات ہیں، جو لطیف جسمانی، روحانی، اور عقلی نعمتوں سے بھرے ہوئے ہیں (۲) یہ روح اور رَیْحان کی تھوڑی سی تشریح ہوئی، آپ مُقرّبین کے مکمل مضمون کو قرآن میں پڑھ سکتے ہیں، اور اصحابِ یمین کے مضمون کو بھی۔

 

۴۱۴

 

سوال – ۵۷۷: قیامت، آخرت، اور جنّت کے احوال کس طرح معلوم ہو سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) علم الیقین، عین الیقین، اور حقّ الیقین کے ذریعے سے، بالفاظِ دیگر معرفت کے وسیلے سے (۲) اگر چشمِ بصیرت پیدا کرنے کی ذمہ داری لوگوں پر عائد نہ ہوتی تو کبھی نہ فرمایا جاتا کہ یہ لوگ اندھے ہیں (۳) اگر عالمِ شخصی میں عالمِ آخرت اور سب کچھ نہ ہوتا تو خود شناسی کو خدا شناسی کا درجہ نہ دیا جاتا، اور خداوندِ تعالیٰ اپنی ذاتِ پاک کو گنجِ معرفت نہ قرار دیتا (۴) جسمانی موت سے قبل نفسانی موت اس وجہ سے بیحد ضروری ہے، تاکہ قیامت، آخرت، اور بہشت کی کامل معرفت حاصل ہو۔

سوال – ۵۷۸: آپ کسی عام مومن یا مومنہ کی روح کو مقربین میں کس طرح شمار کر سکتے ہیں؟ – جواب: (۱) جب ساری مخلوق (گویا) خدا کا کنبہ ہے تو علیٔ زمانؑ کے نیک بخت مریدوں میں کوئی عام شخص کہا ں سے پیدا ہوا؟ کسی بزرگ کا قول ہے: بُوَد زنجیر باز نجیر پیوند+ سرِ زنجیر در دستِ خداوند = زنجیر وہ چیز ہے جس کی کڑی سے کڑی ملی ہوئی ہوتی ہے (یعنی سلسلۂ حدودِدین) اور اس زنجیر کا (بالائی) سِرا مولا و آقا کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ حدودِ دین کا سلسلہ اسی طرح مولا سے وابستہ ہے، اور یہ مثال بڑی منطقی ہے (۲) سورۂ تطفیف (۸۳) کو غور سے پڑھیں، کہ اگرچہ اصحابُ الیمین سے مقربین کا درجہ اعلیٰ ہے، لیکن آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ دونوں کا نامہ اعمال کتابِ مرقوم

 

۴۱۵

 

میں ہے، جو علّییّن میں ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ مقربین آج بھی نامۂ اعمال کو دیکھ رہے ہیں۔

سوال – ۵۷۹: آپ نے روح پر ایک کتاب تصنیف کی ہے، جو “روح کیا ہے؟” کے عنوان سے ہے، کیا آپ اس کتاب سے مُطمئن ہیں؟ کیا یہ حدیثِ مَنْ عرف کی ہدایت کے تحت ہے؟ کیا اس میں عالمِ شخصی کی معرفت ہے؟ آیا عالمِ شخصی میں معرفت کا سب سے بڑا خزانہ موجود ہے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، میں بڑا مطمئن ہوں (۲) جی ہاں، یہ کام اسی نورانی ہدایت سے ہوا ہے (۳) جی ہاں، اس میں عالمِ شخصی کی معرفت ہے (۴) کیوں نہیں، عالمِ شخصی میں معرفت کا سب سے عظیم خزانہ موجود ہے (۵) کتاب “روح کیا ہے؟” میرے نزدیک اتنی ضروری ہے کہ اس پر ریسرچ ہونی چاہیئے، کیونکہ اس میں روح کے معجزات کا بیان ہے۔

سوال – ۵۸۰: بہت سے لوگ میرے خیال میں آکر طرح طرح کے سوالات کیا کرتے ہیں، چُنانچہ پوچھا گیا: بہشت میں ہر قسم کے پھول تو ہوں گے نا؟ کیا وہاں بھی موسمِ گُل کا انتظار ہوتا ہے؟ قرآنِ حکیم کے کِن کِن الفاظ میں پھولوں کا تذکرہ یا اشارہ موجود ہے؟ -جواب: (۱)  ہر قسم کے اصل اور لطیف پھولوں کا باغ و گلش تو بہشت ہی ہے (۲) بہشت عالمِ امر ہے، اس لئے وہاں کسی نعمت کے ظہور کے لئے

 

۴۱۶

 

ذرا بھی وقت نہیں لگتا (۳) قرآنِ پاک میں جہاں جہاں لفظِ “جنت” یا اس کا کوئی مترادف آیا ہے، وہاں یقیناً پھلوں اور پھولوں کا ذکر موجود ہے، جاننا چاہیے کہ اس مقصد کے لئے یہی لفظ (جنّت) سب سے بڑی جامعیّت کا حامل ہے (۴) پھولوں کا ذکرِ جمیل اُن آیاتِ کریمہ میں بھی ہے، جو بہشت کی بصری نعمتوں سے متعلق ہیں۔

 

۴۱۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۶

 

سوال – ۵۸۱: جب بہشت میں ہر قسم کی بصری نعمتیں ہوسکتی ہیں، تو پھر وہاں ہر طرح کی سمعی نعمتیں کیوں نہیں ہوسکتی ہیں؟ کھلا سوال ہے کہ بہشت میں موسیقی ہے یا نہیں؟ – جواب: (۱) میرا نظریہ مجھے یہ بتا تا رہتا ہے کہ جنّت میں موسیقی ایک سمعی نعمت کے طور پر ہمیشہ موجود ہے، اس کے اِثبات میں بے شمار دلیلیں ہوسکتی ہیں، لیکن یہاں ہم مختصر بات کریں گے کہ قرآنی شہادت (۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵) کے مطابق جنت میں ہر وہ نعمت موجود ہے، جس کو اہلِ جنت چاہتے ہیں (یَشَآءُوْنَ)آیا بہشت کی موسیقی کو نہ چاہنے کی کوئی وجہ ہوسکتی ہے؟ کیا وہاں بھی نفسِ امّارہ اور شیطان کا کوئی خطرہ ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ہر گز نہیں۔

سوال – ۵۸۲: جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ بہشت کی نعمتیں اہلِ بہشت کی خواہشات کے مطابق ہیں، چنانچہ اہلِ جنت کے بعض لوگ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے معجزۂ خوش الحانی اور موسیقی کے ساتھ زبور کی خواندگی کو دیکھنا چاہتے ہیں، آپ بتائیں کہ یہ نعمت بہشت میں ممکن

 

۴۱۸

 

ہے یا نہیں؟ – جواب: (۱) بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، وہاں ہر پیغمبر کو اس کے تمام معجزات کے ساتھ دیکھا جاتا ہے (۲) بہشت میں ایسے لوگوں کی بڑی کثرت ہے، جن پر غیر شعوری قیامت گزرچکی ہے، ان کو معرفت کی غرض سے بہشت میں صورِ اسرافیل کا نرم نمونہ سنایا جائے گا، تب معلوم ہوجائے گا کہ ناقور میں موسیقیت ہے یا نہیں؟ نیز بہشت میں موسیقی ہوسکتی ہے یا نہیں؟

سوال – ۵۸۳: سورۂ حِجرْ کے قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہر دانا شخص کو بس یہی ماننا پڑے گا کہ موسیقی بھی دوسری تمام چیزوں ہی کی طرح خزائنِ الٰہی سے نازل ہوئی ہے، اور معلوم ہے کہ اللہ کے تمام خزانے بہشت ہی میں ہیں، اگر یہ بیان درست ہے تو آپ اس کی تصدیق کریں، اور اگر یہ بات حکمتِ قرآن سے ہٹ کر ہے تو وہ بتائیں – جواب: (۱) یہ بیان ایسا مُدَلّل اور اتنا روشن ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی (۲) موسیقی دنیا کی تمام نعمتوں میں وہ واحد نعمت ہے، جو عاشقانِ الٰہی کے لئے ازبس مفید ثابت ہوسکتی ہے، سوچنے کی بات ہے کہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام نے اپنی بے مثال رسیلی آواز کے باوصف زبور پڑھنے کے لئے سازوں کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ کیا یہ سب کے لئے ایک نمونۂ عمل نہیں ہے؟

سوال – ۵۸۴: سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں ہے: اے آلِ داؤد،

 

۴۱۹

 

عملی طور پر شکر کرو، میرے بندوں میں عملی شکرگزار بہت ہی کم ہیں۔ اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ – جواب: (۱) آلِ داؤد سب سے پہلے حضرتِ سلیمان ہے جو امام تھا، جس کو خدا نے حکم دیا کہ صفِ اوّل کے مومنین کو درجہ بدرجہ روحانیّت اور علم و حکمت عطا کرے، یہ اماموں کی عملی شکرگزاری ہوتی ہے (۲) ایک شکرگزاری قولی ہے اور دوسری شکرگزاری عملی، قولاً شکر کرنے والے بےشمار ہیں، لیکن عملاً شکر بجا لانے والے بہت ہی قلیل ہیں۔

سوال – ۵۸۵: سُورۂ بقرہ (۰۲: ۵۶) میں ہے: پھر تمہیں تمہارے مرنے کے بعد ہم نے جِلا اُٹھایا تاکہ تم شکر کرو۔ یہ خطاب کن لوگوں سے ہے؟ یہ کون سی موت ہے؟ یہ شکر قولی ہے یا عملی؟ – جواب: (۱) خطاب بنی اسرائیل کے حجج سے ہے، موت جسمانی نہیں نفسانی ہے، یعنی فنا فی الامام، جس میں علم و معرفت کے عظیم خزانے ہیں، اسی لئے ان کو عملی شکرگزاری کی ہدایت کی گئی ہے (۲) یہ میرا تجربہ اور کامل یقین ہے کہ بہت سے الفاظ ایسے ہیں، جن کے آخری معنوں میں علم و معرفت ہی کا تذکرہ ملتا ہے، جیسے لفظِ “شکر” ہے، کہ اس کے پہلے معنی ہیں: مُنعِم کی نعمت کی قدردانی، دوسرے معنی ہیں، حقیقی مُنعِم کی نعمت کی شکر گزاری، اور تیسرے معنی ہیں: حقیقی مُنعِم کی خاص نعمت یعنی علم و معرفت کی عملی شکرگزاری کے طور پر علم دینا، اور اللہ تعالیٰ کے لئے ایسی شکرگزاری صرف انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہی کرسکتے ہیں۔

 

۴۲۰

 

سوال- ۵۸۶: سُورۂ نحل (۱۶: ۱۲۰ تا ۱۲۱) میں ہے: بےشک ابراہیمؑ اپنی شخصیّت میں ایک پوری اُمت تھا اللہ کا حقیقی فرمانبردار اور یک سُو، وہ کبھی مشرک نہ تھا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا، اللہ نے اُس کو منتخب کر لیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ حضرتِ ابراہیمؑ کس طرح اپنی شخصیت میں ایک پوری اُمت تھا؟ دیگر اوصاف؟ -جواب: (۱) یہ مثال ہر پیغمبر اور ہر امام کے لئے ہے کہ اس میں سب لوگ بذریعۂ قیامت فنا ہوجاتے ہیں، اور وہ انسانِ کامل نفسِ واحدہ یعنی ایک پوری اُمّت ہوجاتا ہے (۲) حقیقی فرمانبرداری یہ ہے کہ نفسِ واحدہ لوگوں کو بحالتِ فنا خدا سے واصل کر دیتا ہے (۳) یک سُو کا مطلب عشقِ الٰہی کا غلبہ ہے (۴) مشرک نہ ہونا یہ ہے کہ عارف فنا فی اللہ اور مُوَحِّد ہوتا ہے (۵) اللہ کی نعمتوں کی شکرگزاری یہ ہے نبی اور ولی لوگوں کو اللہ کی باطنی نعمتوں سے مالا مال کر دیتے ہیں (۶) اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو امامت کے لئے منتخب فرمایا اور اس کو راہِ مستقیم کا راہنما بنایا۔

سوال – ۵۸۷: سُورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۳) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) اے ذرّاتِ رُوحانی! جن کو ہم نے نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا، بیشک (نوحؑ) بڑا شکر گزار بندہ تھا۔ اس مقدس تعلیم میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ – جواب: (۱) خدا جس طرح کائنات کو لپیٹتا ہے اسی طرح آیات کو بھی لپیٹتا ہے (۲) پس یہ آیت بلکہ تمام آیات سورہ ہود کی آیۂ ہفتم (۱۱: ۰۷) میں ملفوفہ ہیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: اور وہ اللہ ہی تو ہے جس نے (عالمِ

 

۴۲۱

 

شخصی کے) آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں بنایا، اور اس کا عرش پانی (یعنی بحرِ علم) پر ظاہر ہوا، تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں (علم و) عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے (۳) اسرارِ قرآن میں سے ایک عظیم سِرّ لفظِ “ذرّیّت” میں ہے، کہ اس کا خاص معنی ہیں: روحانی ذرّات، پس بھری ہوئی کشتی (۳۶: ۴۱) کا نورانی خواب اس طرح سے ہے کہ کشتی میں صرف شخصِ واحد ہے، اور باقی سب اُس کی ذرّیّت یا ذرّاتِ روحانی ہیں جو نظر نہیں آتے (۴) یہی شخصِ کامل بحرِ علم پر اللہ کا عرش بھی ہے، جس کا ذکر ہوا (۵) اس انتہائی اہم علمی و عرفانی مثال میں حضرتِ نوحؑ تمام انبیاء و أئمّہ کا نمائندہ ہے۔

سوال – ۵۸۸: سورۂ فتح (۴۸: ۱۰) میں ہے: اے رسولؐ، جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا…..۔ یہاں یہ بنیادی اور ضروری سوال ہے کہ اس آیۂ کریمہ کے قانون کے مطابق اصحابِ رسولؐ نے گویا اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنے کی سب سے بڑی سعادت حاصل کر لی تھی، اور یہ عمل دینی اطاعت کا عہد و پیمان تھا، لیکن بڑا اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب حضرتِ خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ کی رحلت ہوئی تو اس وقت  بیعتِ الٰہیہ کی نمائندگی کا یہ عظیم مرتبہ کس انسانِ کامل کو ملا؟ – جواب: (۱) آیاتِ قرآنی اور احادیثِ صحیحہ سے یہ حقیقت اظہر مِن الشمس ہے کہ علیٔ عالیؑ وہ امام ہے جس کو خدا و رسول نے مقرر فرمایا تھا۔

 

۴۲۲

 

سوال – ۵۸۹: حدیث بخاری، جلدِ دوم میں ہے کہ آنحضرتؐ سے پوچھا گیا: یا رسول اللہؐ! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے لیکن آپ پر “صلوٰۃ”  کا کیا طریقہ ہوگا؟ آنحضورؐ نے فرمایا کہ یوں پڑھا کرو:  اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد۔ آپ نے قبلاً درود شریف کی مختلف حکمتیں بیان کی ہیں، یہان اس کی خاص تاویل بتائیں۔ – جواب: (۱) درود (صلوٰۃ) کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے حضور سے روحانیّت اور نورانیّت کی بارش، (بارانِ رحمت و علم) (۲) خدا اور اس کے فرشتے اس طرح درود بھیجتے ہیں کہ خدا حکم فرماتا ہے اور فرشتے رحمت و علم کی بارش محمدؐ و آلِ محمدؐ پر اسی طرح برساتے ہیں، جس طرح ابراہیمؑ اور آلِ ابراہیم پر برسائی گئی تھی، پھر محمدؐ و آلِ محمدؐ (أئمّہ طاہرینؑ) اس سماوی درود کو اہلِ ایمان کی طرف بھیجتے رہتے ہیں۔

سوال – ۵۹۰: حضرتِ محمد مصطفیٰ رسولِ خداؐ جبکہ سیّد الانبیاء ہیں، تو پھر آنحضرتؐ کو آسمانی درود میں حضرتِ ابراہیمؑ کے برابر رکھنے میں کیا راز ہے؟ – جواب: (۱) اور بھی کئی اسرار ہوسکتے ہیں، لیکن ایک سِرِّ عظیم (بڑا راز) یہ ہے کہ اس درود میں آلِ ابراہیمؑ کی مثال سے آلِ محمدؐ کے تمام قرآنی فضائل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے (۲) کیونکہ لوگوں کے لئے سب سے

 

۴۲۳

 

بڑا مشکل مسٔلہ آلِ محمدؐ کی معرفت ہے (۳) حالانکہ قرآن سرتاسر أئمّۂ آلِ محمدؐ کے ذکرِ جمیل سے بھرا ہوا ہے، اور یہ حقیقت طرح طرح کی بے شمار مثالوں میں بیان کی گئی ہے (۴) ان مثالوں میں ایک مثال درود (صلوٰۃ) ہے، جو دراصل رحمت اور علم ہے کہ رحمت سرچشمۂ نفسِ کُلّی سے ہے، اور علم خزانۂ عقلِ کلّی سے، (۵) جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشادِ مبارک ہے: رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا (۴۰: ۰۷) اے ہمارے ربّ! تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم میں سمالیا ہے۔

 

۴۲۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۷

 

سوال – ۵۹۱: بہشت میں کھیتی باڑی، تجارت اور کارخانہ چلانے کی طرح کوئی بھی جسمانی مشقت کا کام نہیں، یہ تو سب جانتے ہیں، پھر آپ بتائیں کہ بہشت کے وہ مشاغل کیا ہیں جن میں تعمیر و ترقی کی حقیقی خوشی ہو؟ – جواب: (۱) اس کا پُراز حکمت جواب قلبِ قرآن کی چار آیاتِ کریمہ (۳۶: ۵۵ تا ۵۸) میں موجود ہے: (ترجمہ) بیشک اہلِ جنت آج کے دن طرح طرح کے (روحانی اور علمی /عقلی) مشاغل میں مزے کر رہے ہوں گے، وہ اور ان کی بیویاں (مُتعلّمین) سب جنت کی چھاؤں (حظیرۂ قدس) میں تخت پر تکیے لگائے آرام کر رہے ہوں گے، ان کے لئے تازہ بتازہ (روحی اور عقلی) میوے ہوں گے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی وہ چاہیں گے، ربِّ رحیم کی طرف سے ایک قول باعثِ سلامتی ہے (یعنی بہشت کی سب سے اعلیٰ نعمت، جس میں سلامتی کی ضمانت ہے، وہ کلمۂ کُن ہے)۔

سوال – ۵۹۲: چونکہ یہ بیان بیحد ضروری ہے، بیحد ضروری اور انقلابی ہے، لہٰذا براہِ کرم آپ اس کی مزید وضاحت کریں- جواب: (۱)

 

۴۲۵

 

دینِ اسلام میں ازدواجی زندگی کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور نکاح و شادی میں بہت بڑی حکمت ہے، جس کی تاویل نکاحِ روحانی ہے، یعنی مُعلّمی اور مُتعلّمی کا قانون (۲) پس بہشت کی سب سے بڑی خوشی معلمین کے علم دینے اور متعلّمین کے علم لینے میں ہے، اور اہلِ جنّت کی بیویوں اور حوروں سے وہاں کے علمی شاگرد مراد ہیں (۳) اوپر کے ترجمۂ آیات میں غور سے دیکھیں، بہشت کا مرکوز اور یکجا نمونہ حظیرۂ قدس ہے، اس کے اسرار سب سے عجیب و غریب ہیں (۴) اہلِ جنّت کی بیویاں یعنی تلامیذ چار درجوں پر ہوا کرتے ہیں، جسمانی، لطیف جسمانی (از قسمِ جِنّ و پری)، روحانی اور عقلانی۔

سوال – ۵۹۳: سُورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں ہے: وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی، اور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ان چار اسماء کی تاویل کیا ہے؟ – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کے یہ پاک اسماء عقلِ کُلّ، نفسِ کُلّ، ناطق، اور اساس ہیں، یہی خدا کے زندہ اور عظیم خزانے اس کے بزرگ نام اور مظاہر بھی ہیں (۲) خداوندِ قدوس کے اسماءُ الحُسنیٰ پر نور، زندہ، گوئندہ اور بدرجۂ کمال عاقل و دانا ہوا کرتے ہیں، تاکہ اللہ کے ان اسمائے عظام کی معرفت سے اہلِ ایمان کے بے شمار فائدے حاصل ہوں۔

سوال –  ۵۹۴: سُورۂ حِجر (۱۵: ۰۹) میں ارشاد ہے: بیشک ہم ہی

 

۴۲۶

 

نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں کہ یہ نگہبانی کس طرح سے ہے؟ – جواب: (۱) اسی سورہ میں ذرا آگے چل کر قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) کو دیکھیں کہ خدا کے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں، چنانچہ قرآن بھی خزائنِ الٰہی سے نازل کیا گیا ہے، اور وہ کبھی ختم نہ ہونے والے قرآنی خزانے یہ ہیں: (۲) کلمۂ کُنۡ، قلم (فرشتہ / عقلِ کُلّ) لوح (فرشتہ / نفسِ کلّ)، اسرافیل، میکائیل، جبرائیل، ناطق، اساس، امامِ مبین، اور قرآن، ان خزائن میں قرآن محفوظ ہے۔

سوال – ۵۹۵: آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے بعد جو ارشاد ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: (یہ چراغ) ایسے گھروں میں ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور اس کا نام ان میں لیا جائے، ان میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔ ایسے گھر کہاں ہوتے ہیں؟ یہ کن بزرگ انسانوں کے گھروں کی تعریف ہے؟ – جواب: (۱) ہر پیغمبر، ہر امام، اور ہر عارف کے عالمِ شخصی کے گھر میں اللہ کے نور کا چراغ روشن ہوتا ہے (۲) یہ گھر شروع شروع میں زمین پر ہوتا ہے، بعد ازان خدا کے حکم سے حظیرۂ قدس میں مرفوع ہو جاتا ہے (اَنْ تُرْفَعَ) وہاں جا کر یہ گھر خدا کا گھر اور کعبۂ باطن ہو جاتا ہے، جس میں بے شمار معجزے ہوا کرتے ہیں۔

سوال – ۵۹۶: سُور ۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں یہ ارشاد ہے: اور ہم

 

۴۲۷

 

نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی (ہارونؑ) کی طرف وحی کی کہ تم دونوں اپنی قوم کے لئے مصر میں کچھ گھر بناؤ اور اپنے ان گھروں کو قبلہ قرار دو اور (ان میں) نماز پڑھا کرو اور مومنین کو خوشخبری سناؤ۔ اس میں کیا کیا تاویلی اسرار ہیں؟ -جواب: (۱) اس کے اسرار بھی وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے، مصر عالمِ شخصی کے ناموں میں سے ہے، چنانچہ خداوندِ عالمِ نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کو حکم دیا کہ اپنی قوم کے لئے عالمِ شخصی میں چند گھر بنائیں، اور ان کو علم و عبادت اور ذاتی قیامت سے ترقی دیکر حظیرۂ قدس میں خانۂ خدا اور قبلۂ باطن قرار دیں، اور اہلِ ایمان کو خوشخبری سنائیں، کہ وہ بھی حدودِ اعلیٰ ہی کی طرح ترقی کر سکتے ہیں، اگر کسی وجہ سے خاطرخواہ ترقی نہ ہوسکی تو کوئی مایوسی نہیں، کیونکہ مومنین اور مومنات کی روحیں امامِ مبینؑ کے ساتھ ہوتی ہیں۔

سوال – ۵۹۷: آپ نے کہا کہ “مِصر” عالمِ شخصی کے ناموں میں سے ہے، اور یہ خوبصورت لفظ قرآنِ حکیم کے پانچ مقام پر آیا ہے: ۱۰: ۸۷، ۱۲: ۲۱، ۱۲: ۹۹، ۴۳: ۵۱، ۰۲: ۶۱ تو کیا آپ ہمیں یہ سمجھائیں گے کہ واقعی “مصر” کی تاویل عالمِ شخصی ہے؟ – جواب: (۱) آیۂ (۱۰: ۸۷) میں لفظِ مصر کی تاویل ہوچکی (۲) المِصرُ: ہر محدود شہر کو (جس کے گرد فصیل ہو) مصر کہتے ہیں (مفردات القرآن) حضرتِ یوسفؑ کا اصل قصّہ عالمِ شخصی میں ہے (۱۲: ۲۱) مصر میں داخل ہو جانے سے مراد عالمِ شخصی میں داخل ہوجانا ہے (۱۲: ۹۹) (۳) فرعون نے عالمِ شخصی کے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا (۴۳: ۵۱) اِھْبِطُوْا مِصْراً =

 

۴۲۸

 

تم حظیرۂ قدس سے عالمِ شخصی کی زمین میں اتر جاؤ (۰۲: ۶۱) یہ تھی لفظِ مصر کی مختصر تاویل۔

سوال – ۵۹۸: حضرتِ مریم سلامُ اللہ علیہا نہ تو نبی تھی، اور نہ ہی امام، لیکن پھر بھی قرآنِ عظیم میں قصّۂ مریم انتہائی عظیم معجزات سے لبریز اور بڑا حیران کن ہے، آپ بتائیں کہ اس میں کیا حکمت ہے؟ – جواب: (۱) ہاں، یہ درست ہے کہ مریمؑ کے پاس بنوّت اور امامت کا کوئی درجہ نہ تھا، لیکن یقیناً وہ ایک صدیقہ (۰۵: ۷۵) تھی (۲) آپ اسے حُجّت اور عارفہ کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ کلیدی نکتہ یاد رہے کہ حُجّتِ خدا پیغمبر اور حجّتِ پیغمبر امام ہے، پس مریم امام کی حُجّت تھی۔

سوال – ۵۹۹: اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السّلام میں جو روح پھونک دی تھی (۲۱: ۹۱، ۶۶: ۱۲) اور اس کے بعد کسی اور موقع پر جو روح یا فرشتہ مریمؑ کی طرف بھیجا گیا تھا (۱۹: ۱۷) ان دونوں میں کیا فرق تھا؟ کیا یہ ایک ہی روح تھی؟ اس کا کیا نام ہے؟ – جواب: (۱) وہ روح بھی تھی، اور وہ فرشتہ بھی تھا، اس لئے وہ ایک ہی ہستی تھی، جب وہ روح یا فرشتہ خدا کے حکم سے مریم کے پاس آیا، تو انسانِ لطیف (جُثّۂ ابداعیہ) کی شکل میں ظاہر ہوا (۲) وہ قدسی اور برتر روح ہے، لہٰذا خدا نے اُسے “روحنا” فرمایا ہے، وہ قیامتی اور معجزاتی روح ہے، یعنی انسانِ کامل کی روح اور جبرائیل (۳) وہ ایسی روح ہے جو نور ہی نور ہے، کوئی شخص شاید یہ

 

۴۲۹

 

خیال کرے کہ یہ صرف ایک ہی روح ہے، حالانکہ اس الٰہی روح کے تحت جملہ ارواح جمع ہو جاتی ہیں۔

سوال – ۶۰۰: آپ قرآنِ مقدّس کی پُرحکمت نصائح میں سے کوئی ایسی نصیحت کریں، جس کی روشنی میں پیارے پیارے بچوں کے والدین اپنے فرائض کو اچھی طرح سے سمجھ سکیں، اور اپنی پیاری اولاد کی اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے سخت کوشش کرتے رہیں – جواب: (۱) سُورۂ تحریم (۶۶: ۰۶) میں ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ (۲) اس قرآنی حکم سے صاف طور پر یہ معلوم ہوا کہ ہر شخص کو خدا کی طرف سے یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ہی جان کو بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی آتشِ جہالت و نادانی سے بچائے (۳) جیسا کہ حدیثِ شریف کا ارشاد ہے: ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، لیکن (اکثر) اس کے ماں باپ ہی اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی (آتش پرست) بناتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بہت بڑی اکثریت ایسے والدین کی ہے جو اپنے موافق بہ اسلام یا فطری مسلمان بچوں کو دینِ حق سے دور لے جاتے ہیں۔

 

۴۳۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۸

 

سوال – ۶۰۱: آپ ہی بتائیں کہ مذکورۂ بالا حدیثِ فطرت کس آیۂ کریمہ کی تفسیر کر رہی ہے؟ – جواب: (۱) آئیے ہم نورِ اسلام کے عشق کے ساتھ قرآنِ عظیم میں دیکھتے ہیں، پس ہمیں سورۂ روم (۳۰: ۳۰) میں آیۂ فطرت ملتی ہے جو اس طرح سے ہے: فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ۔ اللہ کا دینِ فطرت (اور قانون) یہی ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، خدا کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں۔ (۲) مذکورہ حدیث کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ اس آیۂ کریمہ میں جس فطرت کا ذکر آیا ہے، وہ اسلام کا قدیم نام ہے، اور دین کو “فطرت” اس لئے کہا گیا کہ یہ قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے۔

سوال – ۶۰۲: آیۂ فطرت(۳۰: ۳۰) کے شروع کا یہ حصہ ہے: فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًاؕ۔ یوں لگتا ہے اس میں کوئی انتہائی عظیم راز ہے، آپ بتائیں کہ وہ سِرِّ اسرار کیا ہے؟ – جواب: (۱) تاویلی مفہوم: اے محبوب پیغمبر، تم اپنے چہرۂ جان کو دینِ حنیف کے لئے صورتِ رحمان قرار دو۔

 

۴۳۱

 

سوال -۶۰۳: کتابِ صامت، کتابِ ناطق، کتابِ نفسی، اور کتابِ کائنات، کیا یہ چاروں کتابیں ہمیشہ الگ الگ ہوتی ہیں، یا ان کے ایک ہوجانے کا بھی کوئی وقت ہے؟ – جواب: (۱) اللہ نے اہلِ معرفت کے لئے ہر کتاب اور ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) اور ہر عارف اپنے امامِ زمان علیہ السّلام کا یہ انتہائی عظیم مرتبہ عالمِ شخصی میں دیدۂ باطن سے دیکھتا ہے، اور پہچانتا ہے (۲) آپ نے قرآنِ حکیم میں مضمون قیامت کی ہمہ رس اور ہمہ گیر شان دیکھی ہوگی ایسا لگتا ہے کہ ہر ہر آیت میں کسی نہ کسی پہلو سے قیامت کا تذکرہ ہے، اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اتنی بڑی محیط قیامت کا مرکز کہاں؟ حضرتِ امام عالیمقام علیہ السلام کے وہاں (۱۷: ۷۱)۔

سوال – ۶۰۴: آپ نے کبھی مُؤمِنَیْن اور کَافِرَینْ (دو مومن اور دو کافر) کا تذکرہ شروع کیا تھا، مگر کسی وجہ سے شاید یہ حکمت نامکمل رہ گئی تھی، تو کیا وہ راز اس پُرمغز کتاب میں ظاہر کریں گے؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ تعالیٰ، آپ نے یہ تو پڑھا یا سُنا ہوگا کہ عالمِ شخصی میں دو ساتھی، یعنی ایک جِنّ اور ایک فرشتہ ہیں، ان دونوں میں تَجَدُّدْ کا سلسلہ اس طرح جاری و ساری ہے کہ فرشتے میں دو دو مومن اور جِنّ میں دو دو کافر ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں، تاکہ یہ اسی طرح دو بھی کہلائیں، چار بھی، اور اس میں زیادہ بھی ثابت ہوجائیں۔

 

۴۳۲

 

سوال – ۶۰۵: آیا یہی دو فرشتے ہارُوت اور مارُوت بھی ہیں (۰۲: ۱۰۲)؟ کیا مُنکر اور نکیر بھی یہی ہیں؟ کیا وہ فرشتے بھی یہی ہیں جو ہر انسان کے اعمال کو ریکارڈ کرتے ہیں (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) – جواب: (۱) جی ہاں، یہ ہاروت اور ماروت بھی ہیں، منکر و نکیر بھی، اور کاتبانِ اعمال بھی یہی ہیں، اور عالمِ شخصی کے لئے چار فرشتے بھی یہی، کیونکہ جو کچھ کائنات میں ہے، اور جو کچھ عالمِ دین میں ہے، وہ سب عالمِ شخصی میں بھی ہے (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)۔

سوال – ۶۰۶: سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں ہے: اُس دن مومنین اور مومنات کا نور ان کے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا …۔ نور کے دوڑنے کی کیا وجہ ہے؟ آگے اور دائیں جانب کیوں؟ – جواب: (۱) یہ زبردست پُرحکمت تذکرہ حظیرۂ قدس کا ہے، جہاں زمانے کے مومنین اور مومنات امامُ الوقت میں جمع ہوتے ہیں، اور ان کا نور آگے اور دائیں، آگے اور دائیں، آگے اور دائیں بشکل دائرہ دوڑتا ہے، جس میں بے شمار حکمتی اشارے ہیں (۲) یہ دائمی اور ابدی زندگی کا نمونہ ہے، جو دائرۂ اعظم پر ہے، یہ اِس بات کی مثال ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کرتی رہتی ہے (۳) یہاں نور کا دوڑنا دراصل برق رفتاری کے معنی میں نہیں، بلکہ اتنہائی قلیل وقت میں ہزاروں، لاکھوں، اور کروڑوں سال کے واقعات کو سمیٹنے کے معنی میں ہے۔

 

۴۳۳

 

سوال – ۶۰۷: سُورۂ ابراہیم (۱۴: ۱۹) میں ارشاد ہے: اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِیْدٍ = وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ آپ ہمیں اس کی تاویلی حکمت سمجھائیں کہ وہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) یہاں صرف خلقِ جدید کے بارے میں وضاحت ضروری ہے کہ وہ کیا چیز ہے؟ خلقِ جدید (نئی خلقت) کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دنیا والے سب کے سب مرجائیں، اور ان کی جگہ ان جیسے لوگ پیدا ہوجائیں، بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ خدا کے حکم سے جسمِ کثیف کا دور ختم ہونے والا ہے، اور جسمِ لطیف کا زمانہ آنے والا ہے، اور اسی لطیف جسم کا نام “خلقِ جدید” ہے، کیونکہ اس نوری بدن میں شعلۂ چراغ کی طرح ہر لحظہ تجدُّد ہوتا رہتا ہے، لہٰذا کہنگی (پُرانا پن ) اس کے قریب بھی نہیں آسکتی (۲) جنّات یعنی پری مرد و زن، فرشتے، اور بہشت کی خلقت یہ سب لطیف ہیں۔

سوال – ۶۰۸: سورۂ حجر کے آخر (۱۵: ۹۹) میں ہے: وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۔ اس آیۂ شریفہ کے ترجمہ میں مسٔلہ ہے، لہٰذا آپ ترجمہ کر کے ہمیں سمجھائیں -جواب: (۱) ترجمہ: اور جب تک تم کو یقین (معرفت) حاصل نہ ہو، اپنے ربّ کی عبادت کرتے رہو (۲) عبادت کا مقصد دیدار اور معرفت ہے، جو حق الیقین اور فنا فی اللہ کی صورت میں ہے، اس لئے تاکید کی گئی ہے کہ عبادت کا معیار دیدار اور یقین (معرفت) ہے، نہ کہ جسمانی موت عبادت کی آخری حد ہے۔

 

۴۳۴

 

سوال – ۶۰۹: سورۂ تکاثر (۱۰۲: ۰۵؛ ۱۰۲: ۰۷) میں علم الیقین اور عین الیقین کا تذکرہ موجود ہے، سورۂ واقعۃ (۶۵: ۹۵) اور سورۂ حاقۃ (۶۹: ۵۱) میں حق الیقین کا ذکر آیا ہے، یقین کے ان تینوں درجات کے بارے میں آپ ہمیں کچھ بتائیں -جواب: (۱) جو علم یقینی، حقیقی، اور روحانی ہونے کی وجہ سے شکوک و شبہات سے پاک و برتر ہے، اس کو علم الیقین کہتے ہیں (۲) جو علم، معرفت، اور یقین چشمِ باطن سے حاصل آتا ہے، وہ عین الیقین ہے (۳) جو گنجِ اسرار حظیرۂ قدس میں رُؤیت اور فنا فی اللہ کے بعد ہے وہ حق الیقین ہے۔

سوال – ۶۱۰:  سورۂ واقعۃ اور سورۂ حاقۃ کے آخر میں جس طرح سے حق الیقین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، اس کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) دونوں سورتوں میں روحانیت، قیامت، اور آخرت کے حالات اور واقعات کا تذکرہ کرکے آخراً فرمایا گیا ہے کہ ان تمام حقائق و معارف کا زندہ نورانی آئینہ مرتبۂ حق الیقین ہے، جس کو صرف عارفین دیکھ سکتے ہیں، قانون یہ ہے کہ ہر مومن سالک ہوسکتا ہے، اور ہر سالک عارف ہوسکتا ہے۔

 

۴۳۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۹

 

سوال – ۶۱۱: مفرداتُ القرآن: ح ق ق میں ہے کہ آنحضرتؐ نے ایک صحابی سے فرمایا تھا: لِکُلِّ حَقٍّ حَقِیْقَۃٌ فَمَاحَقِیْقَۃُ اِیْمَانِکَ = کہ ہر حق چیز کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے، تو تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے، یعنی یہ کیسے معلوم ہوا کہ جس چیز کے تم مدعی ہو وہ حق ہے۔ آیا یہ حدیثِ شریف اپنی نوعیت کا ایک کُلّیہ نہیں ہے؟ کیا ہم اس قانون کے مطابق یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن حق ہے اور اس کی ایک حقیقت ہے؟ کیا اس میں یہ واضح اشارہ بھی ہے کہ اسلام کی جس طرح ایک شریعت اور ایک طریقت ہے (۰۵: ۴۸) اسی طرح ایک حقیقت اور ایک معرفت بھی ہے؟ -جواب: (۱) یقیناً یہ ایک زبردست کُلّیہ ہے (۲) کیوں نہیں، قرآنِ حکیم کی ایک حقیقت بھی ہے، اور وہ اس کی باطنی حکمت ہے (۳) جی ہاں، اسلام میں خدا تک جانے کے لئے چار منزلیں ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت۔

سوال – ۶۱۲: آیا قرآنِ پاک میں درجات کا ذکر ہے؟ اگر اسلام میں درجات ہیں تو وہ کس اعتبار سے ہیں؟ -جواب: (۱) آپ

 

۴۳۶

 

دیکھ سکتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں کئی طرح سے درجات کا ذکر آیا ہے، اس کی پہلی مثال: سابِقوا (۵۷: ۲۱) اور سارِعوا(۰۳: ۱۳۳) ہے کہ خدا نے حکم دیا: علم و عمل میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور جلدی کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سے درجات بنیں گے (۲) دوسری مثال صراطِ مستقیم (راہِ راست) ہے، اس پر خدا کی طرف چلنے والے مسافر آگے پیچھے ہوں گے، سب لوگ دوش بدوش چل نہیں سکتے، یعنی علم و عمل میں کمی بیشی کی وجہ سے درجات کا ہونا لازمی ہے (۳) اسلام میں جو مختلف درجات ہیں، وہ ایمان، اور علم و عمل کے اعتبار سے ہیں (۴) قرآنِ حکیم میں خود درجات کا پُرحکمت مضمون بھی ہے (۵) قرآن اور اسلام میں درجات کی سب سے روشن مثال سیڑھی ہے، یعنی آنحضرتؐ کی معراج، کیونکہ حضورِ انورؐ اپنی روحانیّت و نورانیّت میں درجہ بدرجہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی تک پہنچ گئے تھے۔

سوال – ۶۱۳: کیا معراج آنحضرتؐ کے روحانی سفر اور عروج کا نام ہے یا اس نام سے عالمِ عُلوی میں کوئی خاص مقام ہے؟ معراج کے معجزات کہاں ہوئے تھے؟ ظاہری آسمان میں؟ یا عالمِ شخصی کے آسمان میں؟ -جواب: (۱) معراج سیڑھی کو کہتے ہیں، جو رسول اللہؐ کے روحانی عروج کی مثال ہے (۲) پیغمبر اکرمؐ کی معراج کے معجزات حظیرۂ قدس میں محفوظ ہیں۔

سوال – ۶۱۴: سورۂ انعام کی ایک عظیم الشّان اور جواہرِ علم و

 

۴۳۷

 

حکمت سے مملو آیت (۰۶: ۱۲۲) میں سے ترجمہ کرکے عنایاتِ خداوندی کا کوئی راز بتائیں -جواب: (۱) ترجمہ: کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے (اولیائی روح میں) زندہ کیا اور اسے ایک نور مقرر کیا جس کی روشنی میں وہ لوگوں کے درمیان چلتا ہے ….۔ (۲) ہر شخص عام طور پر لوگوں کے درمیان چلتا ہے، لیکن یہ عارفین کا تذکرہ ہے کہ وہ عالمِ شخصی میں لوگوں کی نمائندہ روحوں کے درمیان چلتے ہیں، اور وہ معرفتِ روح سے باخبر ہیں۔

سوال – ۶۱۵: سورۂ نمل (۲۷: ۶۲) میں دیکھیں: کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو ) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ اس تعلیمِ سماوی کا اشارہ اور قاقون بڑا عجیب و غریب ہے، آپ اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) مشکلات اور تکالیف اس لئے آتی ہیں کہ اہلِ ایمان دعا، مناجات، اور گریہ و زاری کا سلسلہ جاری رکھیں، تاکہ خداوندِ قدوس ان کی عاجزانہ دعا کو سنے اور قبول فرما کر ان کی تکالیف کو رفع کرے (۲) اسی طرح اللہ اپنے خاص بندوں کو آج بھی اور کل بھی عالمِ شخصی کی خلافت اور سلطنت سے نوازنے کی قدرت رکھتا ہے۔

سوال – ۶۱۶: آپ سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳) کی مزید تاویل بیان کریں – جواب: (۱) ترجمہ: زمانے کی قسم، انسان درحقیقت خسارے

 

۴۳۸

 

میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو (حقیقی معنوں میں ) ایمان لائے اور (علم کے ساتھ) نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے (۲) عصر پھل وغیرہ نچوڑنے کو کہتے ہیں، چنانچہ امامِ زمانؑ کی مثال بہت زیادہ ہیں، ان میں سے امام کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ زمانہ اور اہلِ زمانہ کا نچوڑ، خلاصہ اور جوہر ہے، (۳) پس اللہ نے امامِ زمانؑ کی قسم کھائی اور اشارہ فرمایا کہ انسان کا سب سے بڑا خسارہ یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانتا ہے۔

سوال – ۶۱۷: حدیثِ شریف ہے: تم جسماً مرجانے سے قبل نفساً مرجاؤ۔ یہ حکم قرآنِ حکیم میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱) اس کے بارے میں کئی آیات ہیں، جیسے ارشاد ہے: فَتُوْبُوْۤا اِلٰى بَارِىٕكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ (۰۲: ۵۴) تم اپنے خالق کی بارگاہ میں توبہ کرو اور اپنے اپنے نفس کو (بذریعۂ سخت ریاضت) قتل کرو۔ یہی تفسیر بالکل درست ہے، کیونکہ اصل امتحانی بچھڑا باطن میں ہے، جس سے بچ کر آگے جانے کے لئے کامل ریاضت اور علم و معرفت کی ضرورت ہے، آپ سورۂ نساء (۰۴: ۶۶) میں بھی ٹھیک طرح سے سوچیں۔

سوال – ۶۱۸: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی برگزیدگی کا ذکر آیا ہے، اس کے بعد ان سب کی ذرّیّت کے بارے میں یہ ارشاد ہے: ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ (۰۳: ۳۴) اس کا اصل مطلب کیا

 

۴۳۹

 

ہے-جواب: (۱) مفہومِ آیتِ اوّل: خدا نے آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، عمرانؑ اور ان چاروں حضرات کے خاندانوں کو سارے جہان سے برگزیدہ کیا ہے۔ مفہومِ آیتِ دوم: یہ ایک دوسرے کی ذرّیّت سے ایک نورانی سلسلۂ نسب ہیں، خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے (۲) یہی سلسلۂ پاک اللہ کی رسی اور صراطِ مستقیم ہے۔

سوال – ۶۱۹: ہمیں سلسلۂ آلِ ابراہیمؑ سے متعلق مزید حقائق و معارف کس طرح حاصل ہوسکتے ہیں؟ -جواب: (۱) بہت سی آیاتِ قرآنی ایسی ہیں، جن میں آلِ ابراہیمؑ کے اوصاف بیان ہوئے ہیں، لیکن ہم یہاں ان سب میں سے صرف ایک ہی کلیدی آیت کو لیتے ہیں، جس سے تین عظیم خزانوں کے دروازے کھل سکتے ہیں (۲) ارشادِ خداوندی کا ترجمہ ہے: ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے (۰۴: ۵۴) آلِ ابراہیمؑ آنحضرتؐ سے اس طرف آلِ محمّدؐ ہی ہیں، جو امامانِ برحقؑ ہیں، اور انہی حضرات کو اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتاب (قرآن) کی وِراثت، باطنی حکمت اور عظیم روحانی سلطنت عطا فرمائی ہے۔

سوال – ۶۲۰:  کہتے ہیں کہ نہ تو خدا کا کُنْ فرمانا نیا ہے، نہ ہی اس کا کام، اور نہ اس کا وعدہ، بلکہ اس کی ہر چیز ہمیشہ ہمیشہ ہوتی رہتی ہے، آیا ان حقائق کا ذکر قرآن میں موجود ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل

 

۴۴۰

 

یہی ذکر قرآنِ حکیم میں موجود ہے، آپ مفعولاً والی سات آیاتِ کریمہ کو قرآن میں دیکھیں (۰۴: ۴۷، ۰۸: ۴۲، ۱۷: ۰۵، ۱۷: ۱۰۸، ۳۳: ۳۷، ۷۳: ۱۸) (۲)  خدا کی ذات قدیم ہے، اس کی ہر صفت بھی قدیم ہے، اور اس کا ہر کام بھی قدیم ہے، مگر وہ تجدّد سے فعلِ قدیم کو جدید بنا سکتا ہے (۳) قدیم کے معنی ہیں ہمیشہ یا لا ابتداء اور لاانتہاء۔

 

۴۴۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۰

 

سوال – ۶۲۱: آپ نے اپنے ایک بہت ہی عزیز دوست اور عملدار کی گریہ و زاری کا تجزیہ کیا ہے، اور ایسی عاجزانہ و عاشقانہ مناجات میں تقریباً بیس معانی پوشیدہ طور پر موجود ہونے کا ذکر کیا ہے، سوال ہے کہ گریہ وزاری میں اس کثرت سے خوبیاں کیوں ہوتی ہیں؟ – جواب: (۱) سچ بات تو یہ ہے کہ گریہ وازری کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، کیونکہ وہ تمام اخلاقی خوبیوں کی مرکزیّت اور بابِ روحانیّت کا افتتاح ہے (۲) اسی میں دوستانِ خدا کی روحانی ترقی کا راز پنہان ہے (۳) اے کاش لوگ اس کے عظیم فوائد کو سمجھ لیتے! اے کاش ہم آسانی سے گریہ وزاری کرسکتے !

سوال – ۶۲۲: سورۂ بلد (۹۰: ۱۱ تا ۱۲) کے حوالے سے سوالات ہیں؛ دشوار گزار گھاٹی سے گزر جانے سے کیا مراد ہے؟ کسی گردن کو غلامی سے کس طرح چھڑائیں؟ فاقہ کی تاویل کیا ہے؟ قریبی یتیم کون ہے؟ اور خاک نشین مسکین کون ہے؟ -جواب: (۱) گھاٹی سے گزر جانا = جہادِ باطن میں کامیاب ہوجانا (۲) کسی گردن کو غلامی سے چھڑانا = سب

 

۴۴۲

 

سے پہلے اپنے آپ کو نفس کی غلامی سے چھڑانا، اور گنجِ علم و معرفت سے مالامال ہوجانا (۳) فاقہ = علمی قحط (۴) قحط کے دن قریبی یتیم کو کھانا کھلانا = اپنے یگانۂ روزگار امامؑ کے مریدوں کے لئے علمی غذاؤں کی دعوت و ضیافت کا اہتمام کرنا (۵) خاک نشین مسکین کو کھانا دینا = حجّت اور پیر کے حلقۂ دعوت میں علم پھیلانا۔

سوال – ۶۲۳: سورۂ کہف (۱۸: ۸۲) میں ہے: اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں، اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لئے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کا باپ ایک صالح آدمی تھا اس لئے تمہارے ربّ نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہوں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ اس میں کیا تاویلی اسرار ہیں؟ -جواب: (۱) عالمِ شخصی عالمِ دین کے نمونے پر ہے، اس میں سب کچھ ہے، اور دو لطیف نورانی بچے بھی ہیں، یہ گویا بحدِّ قوّت امام مستقر اور امامِ مستودع ہیں (۲) جیسے عالمِ دین میں حضرتِ اسماعیلؑ اور حضرتِ اسحاقؑ تھے، ایسا لگتا ہے کہ امامت کے اسرار بڑے عجیب و غریب ہیں (۳) جس دیوار کے نیچے یا اس کے عقب میں خزانہ پوشیدہ تھا، اس کا ذکر یقیناً سورۂ حدید (۵۷: ۱۳) میں بھی ہے، یہ دیوار وہ ہے جو ظاہر اور باطن کو الگ الگ کر دیتی ہے۔

سوال – ۶۲۴: حضرتِ امامِ عالیمقام کی پاک و پاکیزہ شخصیت میں یقیناً نورِ الٰہی موجود ہوتا ہے، لیکن وہ کیسے کیسے معجزات کا حامل ہوتا

 

۴۴۳

 

ہے؟ -جواب: (۱) بہت سے لوگ نور کا قیاس ظاہری روشنی پر کرتے ہیں، لیکن اصل نور ایک عظیم فرشتہ ہے، جو کائنات پر محیط بھی ہے، اور امامِ مبین میں محدود بھی ہے (۲) جس کو آپ اللہ کا نور کہتے ہیں، اس کو آپ اللہ کی روح بھی کہیں، اور فرشتۂ عظیم بھی مانیں، تاکہ اس سے حکمتِ قرآن کے سمجھنے میں آسانی ہو (۳) امام علیہ السّلام مغرب میں ہے اور آپ مشرق میں، لیکن علم و عمل اور عشق و محبّت کے باوصف مشکلات آئی ہیں، تو عجب نہیں کہ امامِ آلِ محمدؐ آپ کے پاس تشریف فرما ہوجائے۔

سوال – ۶۲۵: کیا جثّۂ ابداعیہ، اور پیراہنِ یوسفی دراصل فرشتہ ہوتا ہے؟ کیا سرابیل =معجزاتی کُرتے =(۱۶: ۸۱) فرشتے ہیں؟ اور حضرت داؤدؑ کی زرہیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں، جثّۂ ابداعیہ اور پیراہنِ یوسفی وہی نور اور فرشتہ ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا (۲) حضرتِ داؤد کی زرہیں مثال ہیں، دراصل اس کے نور سے ایسے فرشتے وجود میں آتے تھے، جو صفِ اوّل کے مومنین کی طرف سے اضافی روحوں کے طور پر روحانی جنگ کرتے تھے۔

سوال – ۶۲۶: انسانِ لطیف، جِنّ (پری) فرشتہ، اور جثّۂ ابداعیہ میں کیا فرق ہے؟ -جواب: (۱) یہ ایک ہی مخلوق ہے، مگر اس کے بہت سے نام ہیں، تاکہ لوگوں کو آزمایا جائے (۲) جو لوگ علم الیقین،

 

۴۴۴

 

عین الیقین، اور حق الیقین کے لئے کمربستہ ہی نہیں ہوتے، وہ امامِ مبین کے خزانۂ عجائب و غرائب میں کیونکر داخل ہوسکتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ جو خوش نصیب مرید امامِ عالیمقام کے عاشق ہیں، وہ پہلی ملاقات علم الیقین کے باغات میں کیوں نہیں کرتے؟

سوال – ۶۲۷: خداوندِ قدّوس کے فضل و کرم سے آپ کے بہت سے جوان ہاتھ ہیں، جو بیمثال علمی خدمات انجام دے رہے ہیں، اور مشرق و مغرب میں آپ کے بہت سے مُمِدّو معاون علمی دوست ہیں، کیا آپ ان سب سے بیحد خوش ہیں؟ آج کل جو نئی کتاب آرہی ہے، وہ کس نام سے ہے؟ – جواب: (۱) الحمدللہ! میں نہ صرف بیحد خوش ہوں، بلکہ بڑی خوشی کے ساتھ اپنے تمام عزیزوں سے قربان ہوجانا چاہتا ہوں، بلکہ پیشگی طور پر قربان ہوچکا ہوں (۲) ان شاء اللہ، ایک گرانقدر کتاب صنادیقِ جواہر کی تصنیف مکمل ہورہی ہے، اور یہ بھی پروردگار کے احساناتِ عظیم میں سے ہے کہ فرشتۂ قلم کی پُراز حکمت کتاب “ہفت دریائے نورانیت” کا چرچا ہے (۳) پیاری کتاب کی ایڈٹ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب کریں گے، جس سے کتاب کی خوبیوں میں زبردست اضافہ ہوجائے گا۔

سوال – ۶۲۸: عالمِ شخصی کے طوفانی معجزات کب شروع ہوجاتے ہیں؟ تسخیرِ کائنات کا مظاہرہ کس منزل میں ہوتا ہے؟ تسخیر کا مطلب فتح

 

۴۴۵

 

ہے، پس جب ساری کائنات فتح ہوجاتی ہے، تو پھر کیا عالمِ شخصی کائنات پر محیط ہوجاتا ہے؟ -جواب: (۱) قیامت کا آغاز ہی طوفانی معجزات کا آغاز ہے (۲) تسخیرِ کائنات کا عظیم معجزہ منزلِ عزرائیلی ہی میں ہوتا رہتا ہے (۳) شاید یہی راز ہے کیونکہ خدا کے حکم سے فرشتے عالمِ شخصی کو بار بار کائنات میں پھیلاتے رہتے ہیں، اور اسی طرح کائنات کو بار بار عالمِ شخصی میں لپیٹتے رہتے ہیں، اس میں بے شمار حکمتیں ہو سکتی ہیں۔

سوال – ۶۲۹: سورۂ آلِ عمران(۰۳: ۱۳۹) اور سورۂ محمد (۴۷: ۳۵) کی ان دو آیتوں میں باطنی حکمت کیا ہے؟ ۔جواب: (۱) ان کی باطنی حکمت میں جہادِ اکبر کا حکم ہے، جیسا کہ پہلی آیت کا ترجمہ ہے: اور سست نہ ہو جاؤ اور غم نہ کرو، تم ہی غالب ہوجاؤ گے، اگر تم (حقیقی) مومن ہو (۲) وَلاَ تَھِنُوْا (سست نہ ہوجاؤ) کے ارشاد سے ظاہر ہے کہ یہ جہاد کا معاملہ ہے، تاہم ان دونوں آیتوں کی باطنی حکمت جہادِ اکبر سے متعلق ہے، کیونکہ حقیقی مومنین کی غالبیّت باطن میں ہے۔

سوال – ۶۳۰: سورۂ بقرہ (۰۲: ۳۶، ۰۲: ۳۸) اور سورۂ اعراف (۰۷: ۲۴) میں جہاں قصۂ آدم ہے، وہاں اِھْبطُوا (تم سب اتر جاؤ) کا حکم آیا ہے، حالانکہ بہشت سے ظاہراً صرف آدم و حوّا نکالے گئے تھے، اس میں صیغۂ جمع آنے کا کیا سبب ہے؟ -جواب: (۱) اس کا سبب یہ ہے کہ یقیناً

 

۴۴۶

 

کئی آدم اور ان کے ساتھ بہت سے لوگ تھے، جو سب کے سب فردوس سے نکالے گئے (۲) لیکن یہاں ایک بہت بڑا راز یہ ہے کہ پانی اپنے مرکز (سمندر) میں ٹھہرا ہوا بھی ہے، اور اپنے دائرے پر گردش بھی کررہا ہے یہی مثال اہلِ فردوس کی بھی ہے، کہ وہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہمیشہ بہشت میں رہتے ہیں، اور اپنے سائے (۱۶: ۸۱) کے لحاظ سے دنیا میں آتے رہتے ہیں (۳) یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے اہلِ جنّت کے خلود اور ھُبود دونوں کا الگ الگ ذکر فرمایا ہے (۴) ہمیں اعلیٰ حقائق کا تصوّر کُلّی طور پر کرنا چاہیئے، خصوصاً روحِ انسانی کے بارے میں کہ وہ ایک ہمہ رس اور ہمہ گیر حقیقت ہے۔

 

۴۴۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۱

 

سوال – ۶۳۱: سورۂ انبیاء (۲۱: ۰۷) میں ارشاد ہے: اور اے رسولؐ، تم سے پہلے بھی ہم نے جن رسولوں کو بھیجا تھا، وہ سب مرد ہی تھے جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے، تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ ذکر سے پوچھ لو۔ آپ بتائیں کہ اہلِ ذکر سے اہلِ بیت مراد ہیں، یعنی امامِ عالیمقام علیہ السّلام، جس کا عالمِ شخصی بخدا آئینۂ ملکِ خدا ہے (۲) حضرتِ امامؑ سے اسرارِ معرفت پوچھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے امامِ برحقؑ کی حقیقی فرمانبرداری اور عشق و محبّت میں مرکر زندہ ہو جائیں، یہ فنا فی الامام کی ایک اچھی وضاحت ہے۔

سوال – ۶۳۲: فرمانِ خداوندی کا ترجمہ: لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو، (۲۱: ۱۰) آپ یہ بتائیں کہ قرآنِ پاک میں لوگوں کا ذکر کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) اوّل یہ ہے کہ قرآن کا خطابِ مجموعی لوگوں سے ہے (۲) دوم یہ کہ ماضی میں بھی انہی لوگوں کی نمائندگی

 

۴۴۸

 

تھی، جس کا ذکر ہے، یا یوں کہا جائے کہ تم سب شروع ہی سے لشکرِ ارواح میں شامل تھے (۳) سوم: حضرتِ آدمؑ کے عالم ذرّ میں بھی، ذرّیت میں بھی، ساجدین میں بھی، اور خود مسجود میں بھی تم ہی تو تھے (۴) چہارم: آیۂ اَلَستْ کو پڑھیں، ھَلْ اَتیٰ کو پڑھیں، اور دیکھیں کہ قرآنِ عظیم میں اِنس، انسان، اور ناس (لوگ) جیسے الفاظ و عنوانات کتنی دفعہ آئے ہیں؟ (۵) الغرض قرآنِ حکیم میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) پھر اس میں لوگوں کے ظاہری اور باطنی احوال کا ذکر کیوں نہ ہو۔

سوال – ۶۳۳: آپ نے جو کچھ بیان کیا، وہ بہت ہی عمدہ ہے، خصوصاً ساجدین میں بھی ہونا اور مسجود (یعنی آدمؑ) میں بھی ہونا، یہ قرآن ہی سے ایسے لوگوں کا علاج ہے جو ہر وقت مایوس رہتے ہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا حضرتِ آدم خلیفۃ اللہؑ کے بعد ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے باپ آدم کا وارث اور مسجودِ ملائک ہوا ہے؟ اگر یہ ایک حقیقت ہے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ – جواب: (۱) چونکہ خلافتِ الہٰیہ رہتی دنیا تک ہے، لہٰذا ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے وقت میں جانشینِ آدم اور خلیفۂ زمان ہوا کرتا ہے، اور یقیناً وہ دیگر تمام اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ مسجودِ ملائک بھی ہوا کرتا ہے، اس حقیقت کے بارے میں بہت سی دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن یہاں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ شرفِ آدمؑ سنّتِ الٰہی ہے، اور سنتِ الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں۔

 

۴۴۹

 

سوال – ۶۳۴: ارشاد: اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَ (۲۱: ۱۰۱) آپ اس کی تاویلی حکمت بیان کریں۔ -جواب: (۱)  ترجمہ: جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہوگا، تو وہ یقیناً اُس (دوزخ) سے دور رکھے جائیں گے … (۲) اللہ کی طرف سے بھلائی کا فیصلہ پہلے ہی ان لوگوں کے حق میں ہوچکا ہوتا ہے، جن کو خدائے تعالیٰ علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کے خزانوں سے نوازتا ہے۔

سوال – ۶۳۵: فرمانِ الٰہی کا ترجمہ ہے: اُن کو (قیامت کی) بڑی گھبراہٹ غم میں نہ ڈالے گی، اور فرشتے ان سے ملاقات کریں گے اور کہیں گے کہ یہ ہے تمہارا دن جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا تھا (۲۱: ۱۰۳) یہ لوگ کون ہیں جو بڑی گھبراہٹ (الفزعُ الاکبر ) سے غمگین نہ ہوں گے؟ اس کا کیا سبب؟ -جواب: (۱) یہ وہ قیامت ہے جو عالم الآخرت (۲۷: ۶۶) اور دیدار و معرفت کی غرض سے قبل از موتِ جسمانی برپا ہو جاتی ہے (۲) یہ شب خیز مومنین ہیں، جو ایسی قیامت کے آرزومند اور حضرتِ قائم القیامت کے عاشق تھے، لہٰذا وہ لوگ قیامت کو یوم الفتح قرار دیتے ہیں، اور آزمائش سے غمگین نہیں ہوتے ہیں۔

سوال – ۶۳۶: آپ ہی نے کہا تھا کہ قرآنِ حکیم میں یہ ذکر بھی ہے کہ بعض لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں، سوال ہے کہ وہ

 

۴۵۰

 

کیسے لوگ ہوتے ہیں؟ اس عظیم سعادتمندی کا سبب کیا ہے؟ -جواب: (۱) وہ سالکین ہیں، جو جہادِ اکبر کے سلسلے میں جیتے جی مر جاتے ہیں (۲) جس کے سبب سے ان پر قیامت گزرنے لگتی ہے، اور فرشتوں کا نزول ہوتا ہے (۳) آپ سورۂ حٰمٓ السّجدہ (۴۱: ۳۰) میں بنظرِ حکمت دیکھیں، یہ قرآنی سِرِ اسرار بڑا انقلابی ہے الحمد للہ۔

سوال – ۶۳۷: جی ہاں، یہ کوئی معمولی راز ہرگز نہیں، بلکہ سب سے عظیم انقلابی راز ہے، پس آپ اس آیۂ کریمہ کے کلیدی الفاظ کی حکمتی وضاحت کریں -جواب: (۱)  انّ الذین قالو ا ربُّنا اللہ =  جن لوگوں (ذاکرین) نے (بزبانِ اسمِ اعظم) کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے۔ ثمّ اسْتقا موا =پھر وہ (قیامت کے زیرِ اثر مردگی سے زندہ ہو کر) کھڑے ہو گئے …. (۲) جو آیت خاص الخاص ہوتی ہے، اس کا عام ترجمہ مناسب نہیں (۳) لفظِ قیامت ق و م کے مادّہ سے ہے، لہٰذا اس کے کئی صیغوں میں قیامت کے معنی پوشیدہ ہیں (۴)  سورۂ احقاف (۴۶: ۱۳) میں بھی یہی حکمت موجود ہے۔

سوال – ۶۳۸: سورۂ زمر (۳۹: ۴۲) میں ہے: خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی (روحیں) سوتے میں (قبض کرلیتا ہے)۔ اس آیۂ کریمہ کی حکمت بتائیں – جواب: (۱) اس تعلیمِ سماوی میں تین قسم کی موت کا ذکر ہے:

 

۴۵۱

 

جسمانی موت، نفسانی موت، اور نیند (۲) چونکہ اس آیۂ کریمہ میں لفظِ منام (خواب، نیند) موجود ہے، جس کے معنی ہیں عوام میں خوابِ غفلت اور خواص میں خواب ِ روحانیّت (۳) پس پیغمبرانہ خواب، اولیائی خواب، اور عارفانہ خواب میں بھی کچھ روحیں خارج اور کچھ داخل ہوتی رہتی ہیں۔

سوال – ۶۳۹: سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۰۲) میں ہے: ابراہیمؑ نے اس سے کہا، بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ آپ بتائیں کہ حضرتِ ابراہیم خلیل اللہؑ کا یہ خواب کس نوعیّت کا تھا؟ -جواب: (۱) یہ پیغمبرانہ خواب تھا، اور خوابِ روحانی اور نورانی تھا کہ اگر یہ آسمانی وحی کی طرح یقینی نہ ہوتا تو اس پر عمل نہ ہوتا۔

سوال – ۶۴۰: سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۳) میں ہے: بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے اور اللہ نے اس کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے …۔ ایسے انسان کی گمراہی کے اسباب و عِلل کیا ہے؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ پاکؐ نے ہدایت کے لئے جس نور کو مقرر فرمایا ہے، اس کی پیروی نہ کرنے سے یہی حال ہوتا ہے (۲) اس کے پاس ایک ظاہری اور غیر مفید علم ہے، مگر حقیقی علم سے وہ بےنصیب رہا، جس کی وجہ سے اللہ نے اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا۔

 

۴۵۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۲

 

سوال – ۶۴۱: ہمیں یقین ہے کہ قرآنِ حکیم کے ہر قصّہ، ہر بیان، ہر واقعہ، ہر مثال، ہر جملہ، ہر کلمہ، ہر لفظ، ہر معنی، ہر اشارہ، اور ہر چیز میں علم ہی علم پوشیدہ ہے، جیسے عالمِ شخصی میں بالآخر پانی ہی پانی (یعنی علم کا سمندر) نظر آتا ہے، پس سوال ہے کہ قصّۂ سلیمان میں علم و حکمت کا کونسا خزانہ مخفی ہے؟ اور اس میں کیا کیا اشارے ہیں؟ -جواب: (۱) اس قصّے میں روحانی سلطنت سے متعلق علم و حکمت کا خزانہ موجود ہے، جس میں خاص خاص اسرارِ باطن پائے جاتے ہیں (۲) روحانی سلطنت انتہائی عظیم شیٔ ہے، کیونکہ اس کا حقیقی مالک اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے، تاہم خدا اپنی بادشاہی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کو عطا فرماتا ہے (۳) جو لوگ اطاعت اور عشق و محبت سے اپنے امامؑ اور رسولؐ میں فنا ہوجاتے ہیں، ان کو بھی یہ ملکِ عظیم (۰۴: ۵۴) اور ملکِ کبیر (۷۶: ۲۰) یعنی بہت بڑی بادشاہی عطا ہو جاتی ہے (۴) پس قصّۂ سلیمان میں یہ سارے اشارے موجود ہیں۔

سوال – ۶۴۲: سورۂ نمل (۲۷) کے حوالے سے سوال ہے: عرشِ

 

۴۵۳

 

الٰہی کی تاویل کیا ہے؟ بلقیس کے عرش سے کیا مراد ہے؟ (۲۷: ۲۳) حضرتِ سلیمانؑ کو ملکۂ سبا (بلقیس) کا عرش کیوں مطلوب تھا؟ تخت کو جلدی حاضر کرنے میں مقابلہ سا کیوں ہوا؟ – جواب: (۱) عرشِ الٰہی کی ایک تاویل عقلِ کل ہے جو فرشتۂ عظیم ہے (۲) بلقیس کے عرش سے اس کی عقل و جان اور بادشاہی مراد ہے (۳) قانون یہ ہے کہ ظاہری بادشاہی آخرکار روحانی بادشاہی کے لئے مسخر ہو جاتی ہے، لہٰذا حضرتِ سلیمانؑ نے ملکۂ سبا کے تخت کو طلب کیا (۴) تخت کو سلیمان کے حضور فوراً حاضر کر دینے میں علم اور دیگر روحانی قوّتوں کے درمیان مقابلہ ہوا، جس میں علم کو برتری حاصل ہوئی، کیونکہ یہ تمام زمانوں کے لوگوں سے امتحان ہے، جس کو علم ہی نے حل کر دیا، اور بتایا کہ جب حضرتِ سلیمان امامِ مبین ہے اور اس کے عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں سب کچھ موجود ہے تو پھر بلقیس کی عقل و جان اور بادشاہی امامِ مبین کی قیامتی گرفت سے کیونکر باہر ہوسکتی ہے۔

سوال – ۶۴۳: مذکورۂ بالا سورہ (۲۷: ۱۶) میں ہے: اور داؤدؑ کا وارث سلیمانؑ ہوا، اور اس نے کہا، لوگو! ہمیں پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی ہیں اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں دی گئی ہیں۔ آیا ہر پیغمبر اور ہر امام کا کوئی وارث ہوتا ہے؟ پرندوں کی بولیوں سے کیا مراد ہے؟ حضرتِ سلیمانؑ کو ہر طرح کی چیزیں کس طریق پر دی گئی تھیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں! حدیثِ شریف میں ہے کہ ہر پیغمبر کا ایک وارث ہوتا ہے (اور ہر امام کا بھی) آپ قرآنِ پاک میں و۔ ر۔ ث کے الفاظ میں دیکھیں (۲) پرندوں

 

۴۵۴

 

کی بولیوں سے ارواح و ملائکہ کی گفتگو مراد ہے، اور یہ معجزہ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوتا ہے، (۳) حضرتِ سلیمانؑ کو امامِ مبین کا مرتبہ حاصل تھا، اس لئے خدا نے تمام چیزیں اس میں گھیر کر رکھی تھیں۔

سوال – ۶۴۴: ہمیں آیاتِ تسخیر کے بارے میں حُسنِ ظن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازنا چاہتا ہے، آپ ہی بتائیں کہ اللہ کی عنایتِ بے نہایت اور نوازش جو تسخیرِ کائنات کی باطنی صورت میں ہے، وہ کیسی ہے؟ -جواب: (۱) کائنات کی باطنی تسخیر سے قبل اس کی بشارت ہی انتہائی عجیب و غریب ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کائنات کو لپیٹ کر عالمِ شخصی میں رکھ دیتا ہے (۲) انفرادی قیامت کا ہر معجزہ بہشت کی سلطنت اور تسخیرِ کائنات کی عملی خوشخبری ہے۔

سوال – ۶۴۵: ان شاء اللہ، دانشگاہِ خانۂ حکمت کے جملہ عملداران و ارکان فردِ واحد کی طرح یکجان ہیں، لہٰذا یہاں ایک کی کامیابی سب کی کامیابی ہے، دینی اور روحانی وحدت کا یہ خاص طریقہ کتنا اچھا اور قابلِ تعریف ہے، کہ ایک شخص معاشرے سے الگ تھلگ ہوکر اتنی خوشیاں کبھی حاصل نہیں کرسکتا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) خشتِ اوّل چون نہد معمار کج + تا ثریا می رود دیوار کج۔ بہت سے لوگ نفسِ واحدہ کو نہیں پہچانتے ہیں، جس سے ان کو بہت سے معنوں میں خسارہ ہورہا ہے (۲) چنانچہ کئی ہزار سال پہلے جو آدمؑ

 

۴۵۵

 

ہو گزرا ہے، اس کی اولاد ہونے کی وجہ سے جو برادری انسانوں کے آپس میں ہے، وہ بہت پرانی ہوچکی ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ زمانے کا نفسِ واحدہ، ہی آدمِ زمان ہے، اور تمام انسان اِسی آدم کی روحانی اولاد ہیں (۳) مزید بران عالمِ ذرّ میں نظر کریں کہ وہاں لوگ کس طرح ساتھ ساتھ کام کرتے رہتے ہیں، اور بھی آگے جاکر حظیرۂ قدس میں دیکھ لیں، وہاں تو سارے انسان ازلی اور ابدی وحدت میں فنا ہوکر نفسِ واحدہ ہو چکے ہیں۔

سوال – ۶۴۶: آپ کے اس پُرحکمت بیان کا یہ مطلب ہوا کہ اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو لوگوں کے آپس میں ایک بیمثال حقیقی اور روحانی برادری بھی ہے، کہ وہ سب کے سب امامِ زمان (نفسِ واحدہ) کی روحانی اولاد ہیں، اور ان کی ایک لازوال وحدت بھی ہے کہ وہ حظیرۂ قدس میں شخصِ واحد ہیں، لیکن جو لوگ ان بھیدوں کو نہیں جانتے ہیں، ان کو فی الوقت اس رشتۂ نورانی اور وحدتِ ازلی سے کوئی بھی خوشی نہیں ہوسکتی ہے، آپ ہی بتائیں-۔جواب: (۱) جی ہاں! یہ بیان بالکل درست ہے، یہی وجہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے عصر کی قسم کھا کر فرمایا کہ انسان خسارے میں ہے (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) (۲) پس مبارک ہیں وہ لوگ جو اسرارِ معرفت سے باخبر ہیں، یقیناً معرفت ہی سب سے بڑا خزانہ ہے، اور ہاں، معرفت علم الیقین سے شروع ہو جاتی ہے۔

 

۴۵۶

 

سوال – ۶۴۷: سورۂ انعام (۰۶: ۹۸) میں ارشاد ہے: وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) ترجمہ: اور (خدا) وہی ہے جس نے ایک جان سے تم کو پیدا کیا پھر ہر ایک کے لئے ایک توجائے قرار ہے اور ایک جائے امانت ہے۔ (۲) نفسٍ وَّاحِدَۃٍ کے عام معنی ہیں ایک جان، اور خاص معنی ہیں سب کو ایک کر لینے والی جان، کیونکہ واحدہ بروزنِ فاعِلہ (مذکر: فاعل) آدمِ زمان کی روحِ اعظم کی صفت ہے، جو مخفی قیامت میں تمام ارواحِ خلائق کو اپنے ساتھ ایک کر لیتی ہے، اسی وجہ سے قرآن نے آدمِ زمان کو نفسٍ وّاحدہ کہا (۳) ہر شخص کے لئے جائے قرار (مستقر) اور جائے امانت (مستودع) اس طرح سے ہے کہ روح کا بالائی سِرا ہمیشہ عالمِ علوی میں ہے اور پائینی سِرا کچھ وقت کے لئے عالمِ سفلی میں ہے (۴) اس دنیا میں ہم میں سے ہر ایک اپنی انائے علوی کا سایہ ہے۔

سوال – ۶۴۸: سورۂ بقرۃ (۰۲: ۲۷۵) میں ہے: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) کھڑے نہ ہوسکیں گے مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہوں گے جس کو شیطان نے لپٹ کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی تاویل کیا ہے؟ -جواب: (۱) اللہ، رسولؐ، اور ولیٔ امرؑ کی حقیقی اطاعت کے نتیجے میں جو علم ملتا ہے، وہ نجات کی طرح ہے، جو حلال ہے، اس قانون کے سوا جو علم کمایا جاتا ہے، وہ سود کی مثال ہے، جو حرام ہے (۲) وہ حرام اس لئے ہے کہ غلط اور گمراہ کن ہے۔

 

۴۵۷

 

سوال – ۶۴۹: حضرتِ مولانا محمد باقر علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے: مَاقِیلَ فِی اللّٰہِ فَھُوَفِیْنَا وَمَاقِیلَ فِینَا فَھُوَ فِی الْبُلَغَاءِ مِنْ شِیعَتِنَا= جو بات اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہی گئی ہے وہ ہم (اماموں) پر صادق آتی ہے۔ آپ اس فرمانِ مبارک کی کچھ وضاحت کریں – جواب: (۱) میں اس گنجینۂ معرفت کی کیا وضاحت کروں کہ یہ خود واضح اور مثلِ خورشیدِ انورضوفگن اور نورافشان ہے (۲) میں یہاں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ نورانی تعلیم معرفت کی انتہائی بلندی پر ہے، اور اس میں نہ صرف تمام مشکل سوالات کا حل موجود ہے، بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی ترقی کی دعوت بھی ہے۔

سوال – ۶۵۰: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۳۷) میں ہے: اور ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے مشارق و مغارب کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے (بے شمار) برکتیں رکھی ہیں۔ سوال ہے کہ یہ سر زمین کونسی ہے؟ اس کے مشارق و مغارب کی طرف خاص اشارہ کیوں ہے؟ اس کی برکتیں کس نوعیت کی ہیں؟ -جواب: (۱) یہ حظیرۂ قدس ہے جو دنیا ہی میں بہشت برائے معرفت ہے (۲) یہ عالمِ وحدت کے شمس و قمر اور نجوم کے یکجا مشارق و مغارب  ہیں، جن کے ساتھ تمام اسرارِ حکمت وابستہ ہیں، لہٰذا مشارق و مغارب کی طرف خاص اشارہ ہے (۳) اس کی برکتیں ازلی، ابدی، باطنی، روحانی، عقلی، علمی، عرفانی، اور ربّانی ہیں۔

 

۴۵۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۳

 

سوال – ۶۵۱: سورۂ مجادِلہ کی آخری آیت (۵۸: ۲۲) میں حِزبُ اللہ کا ذکر ہے، اس میں دو سوال ہیں: اللہ تعالیٰ ان کے دل میں کس طرح ایمان لکھ دیتا ہے؟ خدا اپنی جس روح سے ان کی تائید کرتا ہے وہ کونسی روح ہے-جواب: (۱) اللہ ان کے دل میں روحانی تحریر سے ایمان ثبت کرتا ہے، یعنی اسرارِ معرفت کے معجزات دکھاتا ہے (۲) وہ روحِ قدسی ہے جو ہادیٔ زمانؑ کا نور ہے، جس سے علمی اور عرفانی مدد فرماتا ہے، اس کے قرآنی الفاظ یہ ہیں: وَاَیَّدَ ھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۔

سوال – ۶۵۲: توبہ اور طہارت (پاکیزگی) کے باب میں ارشاد ہے: اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (۰۲: ۲۲۲) یقیناً اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔ آپ توبہ اور پاکیزگی کے بارے میں سمجھائیں کہ وہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) بندے کی توبہ تین قسم کی ہے: توبۂ ظاہری، توبۂ روحانی، اور توبۂ عقلانی (عرفانی) (۲) اسی طرح

 

۴۵۹

 

پاکیزگی (طہارت) بھی تین قسموں میں ہے: جسمانی، روحانی، اور عقلانی، کیونکہ انسان صرف جسم نہیں، بلکہ روح اور عقل بھی ہے، اور ان تینوں چیزوں کی طہارت و پاکیزگی الگ الگ ہے۔

سوال – ۶۵۳: کل اتوار کے دن (۳۰ مئی ۱۹۹۹ ء) جبکہ وِزڈم سرچ کی کلاس ہورہی تھی، اور پیاری کتاب ذکرِ الٰہی کی رسمِ رونمائی بھی تھی، جس میں ایک نہایت پسندیدہ اور بیحد مفید اصطلاح “بہشت برائے معرفت” کے بارے میں پہلی بار گفتگو ہوئی، جس میں تمام حاضرین انتہائی شادمان ہوئے، اب آپ سے یہ معلوم کرلینا ہے کہ اگر بہشت برائے معرفت حظیرۂ قدس کا نام ہے تو اس کا اشارہ قرآن میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱) آپ سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۶) میں دیکھیں: اور جو لوگ خدا کی راہ میں شہید کئے گئے۔ یہ لوگ زندہ شہید ہیں جو بہشت برائے معرفت یعنی حظیرۂ قدس کو پہچانتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ لوگ اور ان کے تمام ساتھی جسمانی موت کے بعد بہشتِ کُلی میں داخل کردیئے جائیں گے (۴۷: ۰۶) (۲) امامِ مبینؑ میں علم و معرفت کی ہر چیز موجود ہوتی ہے، یہ معجزہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے، اور حظیرۂ قدس کا ظہور شہیدانِ باطن کی جبین میں ہوتا ہے، پس اسی کا نام بہشت برائے معرفت ہے۔

سوال – ۶۵۴: سورۂ لقمان کے آخر (۳۱: ۳۴) میں جو گنجِ اسرار بصورتِ آیۂ شریفہ موجود ہے، اس میں سے دو سوال ہیں: الف:

 

۴۶۰

 

اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃٍ = (بیشک خدا ہی کے پاس قیامت کا علم ہے) کیا اس کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ علم القیامت کا حصول غیر ممکن ہے؟ ب: وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَ یِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ( اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا ہے کہ وہ کس سرزمین پر مرے گا) آیا یہ ارشاد جسمانی موت سے متعلق ہے؟ -جواب: (۱) علم القیامت غیر ممکن نہیں، بلکہ یہ ارشاد بتاتا ہے کہ مقربین تجربۂ قیامت سے گزرتے ہوئے اللہ کے حضور میں پہنچتے ہیں (۲) اکثر لوگ حالات کی روشنی میں اس بات کو ضرور جانتے ہیں کہ ان کی جسمانی موت کہاں واقع ہونے والی ہے، لیکن نفسانی موت کے بارے میں لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کس عالمِ شخصی میں جا کر فنا ہونے والے ہیں؟

سوال – ۶۵۵: یہ ارشاد سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۵۰) میں ہے: قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا =کہدو، تم پتھر ہوجاؤ یا لوہا۔ اس میں کیا راز ہے؟ – جواب: (۱)  اس میں بڑا انقلابی راز ہے، وہ یہ کہ ہر شخص میں بے شمار روحیں ہوتی ہیں، پس اگر خدا چاہے تو کسی انسان کے ذرّاتِ روحانی میں سے کوئی ذرّہ پتھر یا لوہا  ہوسکتا ہے (۲) اس سے روح اور مادّہ کے درمیان حدِ فاصل کا تصوّر ختم ہوگیا، اور یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ ہر چیز میں روح ہے۔

سوال – ۶۵۶: سورۂ سجدہ کی آیتِ پنجم (۳۲: ۰۵) کی حکمت سمجھنے

 

۴۶۱

 

کے لئے کوئی مفہوم بتائیں -جواب: (۱) خدا کا ایک دن ہم انسانوں کے شمار کے مطابق ہزار سال کا ہوتا ہے (۲۲: ۴۷) (۲) وہ ہر یوم یعنی ہزار سالہ کام کے لئے پروگرام بناتا ہے، جس کے لئے وہ صرف کُنْ (ہوجا) فرماتا ہے، پس وہ کام بظاہر جیسا بھی لگے، لیکن باطناً بالکل مکمل ہوجاتا ہے (۳) آسمان سے زمین کی طرف خدا کا یہ حکم (کُنْ = ہوجا) بار بار ہوتا رہتا ہے (یُدَبِّرُ الْاَمْرَ) اور ہر ہزار سال کے بعد ایک بنا بنایا ہوا کام آسمانِ روحانیّت کی طرف بلند ہو جاتا ہے۔

سوال – ۶۵۷: یہ تو معلوم ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں عالمِ دین کو پیدا کیا، یعنی چھ ہزار سال میں، خدا کے چھ بابرکت زندہ اور عاقل و دانا دن یہ حضرات ہیں: آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ اور سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین، اور حضرتِ قائم القیامت وہ ہفتۂ دین ہے، جس میں خدا نے عرش سے متعلق امور کو انجام دیا، آپ یہ بتائیں کہ اللہ کے ان ایام کی معرفت کہاں ہے؟ اور کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) عالمِ دین اور خدا کے ایام کی مکمل معرفت عالمِ شخصی میں ہے، جس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔

سوال – ۶۵۸: سورۂ ابراہیم کی آیتِ پنجم (۱۴: ۰۵) میں ایَّامِ خدا سے متعلق جو ارشاد ہوا ہے، اس کی کوئی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) مفہومِ آیت: خدا نے حضرتِ موسیٰؑ کو ظاہری اور باطنی معجزات دے کر

 

۴۶۲

 

بھیجا تھا، تاکہ وہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نور کی طرف نکالے، اور عالمِ شخصی میں ان کو ایّامِ خدا کی معرفت سے مالامال کرے، اس میں ہر صبر کرنے والے قدردان کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔

سوال – ۶۵۹: قرآنِ حکیم میں ھَلْ یَنْظُرُوْنَ کی چھ آیات ہیں: ۰۲: ۲۱۰، ۰۶: ۱۵۷، ۰۷: ۵۳، ۱۶: ۳۳، ۴۳: ۶۶، ۴۷: ۱۸، ان آیاتِ کریمہ میں کن عظیم واقعات کی پیش گوئی ہے؟ -جواب: (۱) مجموعی طور پر واقعۂ قیامت کی پیش گوئی ہے، اور حضرتِ قائم القیامت کا ذکر ہے کہ وہ عالمِ دین میں تشریف فرما ہوگا (۲) دورِ قیامت اور زمانۂ تاویل کی پیش گوئی ہے۔

سوال – ۶۶۰: اہلِ بہشت میں سے ایک شخص آدمؑ کی طرح ہو جانا چاہتا ہے، کیا یہ معجزہ ممکن ہے؟ اگر یہ بہت بڑی نعمت ممکن ہے تو اس کی کوئی مناسبت بھی ہے یا نہیں؟ اگر مناسبت ہے تو بتائیں کہ وہ کیا ہے؟ -جواب: (۱) بہشت کی کوئی نعمت غیر ممکن نہیں (۲) آدم کے ساتھ اہلِ بہشت کی مناسبت، رشتہ، اور وحدت سب کچھ ہے، کیا یہ لوگ اپنے آدمِ زمانؑ کی اولاد نہیں ہیں؟ آیا یہ اس کے عالمِ ذرّ میں سجدہ کرنے والے فرشتے نہ تھے؟ کیا انہوں نے اس کے روحانی لشکر میں کام نہیں کیا؟ (۳) یہی وہ لوگ ہیں جو آدم کی ہستی کے سانچے میں ڈھل ڈھل کر آدم کی

 

۴۶۳

 

کاپیاں ہوگئے تھے، اور جب حضرتِ آدمؑ حظیرۂ قدس میں داخل ہوکر صورتِ رحمان پر ہوگیا، تو اس وقت بھی یہ سب آدم میں فنا تھے۔

 

۴۶۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۴

 

سوال – ۶۶۱: سورۂ انعام (۰۶: ۳۸) میں ارشاد ہے (ترجمہ): اور (عالمِ شخصی کی) زمین میں کوئی بھی چلنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہیں ہے جو تمہاری طرح کی جماعت نہ رکھتا ہو، ہم نے (عالمِ شخصی کی زندہ) کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں کی ہے اس کے بعد سب اپنے پروردگار کی طرف سمیٹ لئے جاتے ہیں۔ آپ کی نظر میں یہ ترجمہ کیسا ہے؟ -جواب: (۱) بالکل درست ہے، کیونکہ انسان کی خود شناسی اور حضرتِ ربّ کی معرفت عالمِ شخصی ہی میں ہے، اور اسی میں جو روحیں موجود ہیں، وہی سب اللہ کے پاس جمع کئے جاتے ہیں، اور دنیا کے جانوروں کا کوئی حشر نہیں۔

سوال – ۶۶۲: سورۂ سبا (۳۴: ۱۴) میں حضرتِ سلیمانؑ کی موت کا ذکر ہے، لیکن سوال ہے کہ یہ کونسی موت تھی؟ نفسانی یا جسمانی؟ دَآبَّۃُ الْاَرض کس جانور کا نام ہے؟ مِنْسَاَتَہٗ (عصا) سے کیا مراد ہے؟ – جواب: (۱) یہ نفسانی موت کا تذکرہ ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم نفسانی موت کے بیان کو اہمیت دیتا ہے، جبکہ اس میں بہت بڑی

 

۴۶۵

 

حکمت ہے (۲)  دَآبَّۃُ الْاَرض (زمین پر چلنے والا) یاجوج ماجوج کا لشکر ہے (۳) مِنْسَاۃَ (لاٹھی) جسم یا روحِ حیوانی ہے، جس کو یاجوج ماجوج چاٹ کھاتے ہیں، جس میں عظیم حکمت ہے۔

سوال -۶۶۳: سورۂ نمل کی آیۂ چہاردھم (۱۶: ۱۴) کی تاویلی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) اور خدا وہی ہے جس نے سمندر (بحرِ روحانیّت) کو مسخر کر دیا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھا سکو (یعنی تازہ علم حاصل کر سکو) اور پہننے کے لئے زینت کا سامان نکال سکو (یعنی گوہر عقل سے استفادہ کرسکو) اور تم دیکھ رہے ہو کہ کشتیاں کس طرح پانی کو چیرتی ہوئی چلتی جارہی ہیں (یعنی پانی پر عرشِ خدا کا ظہور جو یہی بھر ی ہوئی کشتی بھی ہے)….۔

سوال – ۶۶۴: کیا یہ درست اور حقیقت ہے کہ حدودِ دین کی مثال گھریلو جانوروں سے بھی دی گئی ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں درست ہے، جیسا کہ سورۂ نحل (۱۶: ۰۷) میں ہے: اور وہ (چوپائے یعنی حدودِ دین) تمہارے بوجھ بھی (لاد کر) ایسے شہر (یعنی شہرِ روحانیّت) کو لے جاتے ہیں جہاں تم بدونِ جان کو محنت میں ڈالے ہوئے (خود کبھی) نہیں پہنچ سکتے تھے۔

سوال – ۶۶۵: سورۂ اِنشِقاق (۸۴: ۰۱ تا ۰۹) میں ہے: جب

 

۴۶۶

 

آسمان پھٹ جائے، اور سن لے حکم اپنے ربّ کا، اور وہ آسمان اسی لائق ہے، اور جب زمین پھیلا دی جائے، اور نکال ڈالے جو کچھ اس میں ہے اور خالی ہوجائے، اور سن لے حکم اپنے ربّ کا اور وہ زمین اسی لائق ہے، اے انسان تجھ کو تکلیف اٹھانی ہے اپنے ربّ تک پہنچنے میں سہ سہ کر، پھر اس سے ملنا ہے، سو جس کو ملا اس کا نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں، تو اس سے حساب لیا جائے گا ایک آسان حساب، اور پھر کر آئے گا اپنے لوگوں کے پاس خوش ہوکر۔ سوال ہے کہ روحانی قیامت کے یہ عظیم واقعات عالمِ ظاہر سے متعلق ہیں یا عالمِ شخصی سے؟ آپ وضاحت کریں -جواب: (۱) قیامت ایک عظیم روحانی واقعہ ہے، جس کا اوّلین تعلق عالمِ شخصی یعنی عارف سے ہے (۲) سرِ عارف آسمان ہے اور بدن زمین، قیامت سر کے آسمان سے شروع ہو جاتی ہے، جبکہ صورِ اسرافیل کی فلک شگاف آواز سے عام سماعت کا دائرہ اور خول پھٹ جاتا ہے (۳) ہم نے قبلاً اسرارِ قیامت کے بارے میں بہت سی وضاحتیں کی ہیں۔

سوال – ۶۶۶: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) میں ہے: یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایان فوقیت بخشی۔ آپ اس قرآنی تعلیم کے کچھ اسرار کو ظاہر کریں -جواب: (۱) آدمِ اوّل اور آدمِ زمان کی خاص

 

۴۶۷

 

اولاد کے بارے میں یہ ارشاد ہے کہ ان کو اللہ نے حدودِ دین کی سواریاں عطا کرکے ظاہراً وَ باطناً آگے سے آگے بڑھایا (۲) ان سواریوں میں آخری چیز بھری ہوئی کشتی ہے، پاکیزہ چیزوں سے لطیف غذائیں مراد ہیں، جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں خدا کے دوستوں کو علامتی طور پر ملتی ہیں (۳) اور یہ خوشبوئیں جو ہر علم کی مثال بھی ہیں (۴) بہت سی مخلوقات پر بنی آدم کی فضیلت و فوقیّت کا یہ مطلب ہوا کہ عالمِ شخصی افضل و اعلیٰ ہے کائناتِ ظاہر سے (۵) پھر ہمیں بار بار عالمِ شخصی کا تذکرہ کرنے سے کیوں شرمانا چاہیئے۔

جمعرات ۱۸؍صفرا لمظفر ۱۴۲۰ھ   ۳؍جون ۱۹۹۹ء

الحمد اللہ ربّ العلمین، آج صنادیقِ جواہر کا حصّہ دوم مکمل ہوا، میری اس قابلِ رحم کہن سالی، بیماری، کمزوری، سرجری، اور تکالیف کے باؤجود خداوندِ قدّوس کا یہ معجزاتی احسانِ عظیم شاید اس لئے ہوا کہ بہت سے عزیزان اپنی پُرسوز گریہ وزاری میں اپنے ناچار استاد کے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں، علاوہ بران ان سب کے نمائندہ ذرّات میرے ساتھ ہیں، پس وہ دور بھی اور نزدیک بھی میری علمی خدمت میں شریک ہیں، یا یوں کہنا چاہیئے کہ ہم سب اس مقدّس کام میں مجموعاً ایک ہی شخص کی طرح ہیں۔

بیحد شادمانی اور شکر گزاری کا موقع ہے کہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب کا ایک عظیم کارنامۂ علمی مکمل ہوچکا ہے، وہ ہے:

 

۴۶۸

 

اھل البیت الاطہار فی الاحادیث النبویَّہ، ہر عظیم چیز کے کئی نام ہوا کرتے ہیں، لہٰذا ہم اس کو گنجینۂ جواہر احادیث بھی کہیں گے، تمام عزیزان اور اہلِ علم کو “گنجِ جواہرِ احادیث” مبارک ہو!

 

۴۶۹

 

صنادیقِ جواہر

حصہ سِوم

 

 

سوال – ۶۶۷: سورۂ یونس (۱۰: ۲۵) میں ارشاد ہے: وَاللّٰہُ یَدْعُوْآ اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ = اور اللہ دارالسلام کی طرف بلاتا ہے۔ یہاں ضروری سوال یہ ہے کہ دارالسّلام بہشت کو بھی کہتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا نام بھی ہے، بس آپ ہی بتائیں کہ خدا لوگوں کو کس منزلِ مقصود کی طرف بلاتا ہے؟ بہشت کی طرف جو دارالسّلام (خانۂ سلامتی ) کے نام سے ہے؟ یا خدا کے گھر کے طرف (دار السّلام = خدا کا گھر)؟ یا خود اپنی ذاتِ پاک کی طرف (شاید وہ خود ازل و ابد میں سلامتی کا گھر ہو)؟ -جواب: (۱) یہ دعوت سب سے پہلے بہشت کی طرف ہے (۲) پھر خانۂ خدا کی طرف، اور آخر میں ذاتِ خدا یعنی فنا فی اللہ کی طرف دعوت ہے۔

سوال -۶۶۸: کسی ذریعے سے یہ معلوم ہوا کہ یاجوج ماجوج ایک ہی والدین کی ذرّیات ہیں، یعنی ذرّاتی نسل، جنہوں نے ھنوز شکمِ مادر کو نہیں دیکھا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) یہ بات بالکل درست اور حقیقت ہے، تاہم یہ ایک عظیم راز رہا ہے (۲) یعنی یہ ان بھیدوں میں سے ہے جن کی وضاحت بہت خاص ہے۔

سوال – ۶۶۹: جہاں یاجوج ماجوج کے بارے میں بہت زیادہ اختلافات ہیں، وہاں اگر آپ بفضلِ خدا کوئی انقلابی حکمت بیان کرسکتے ہیں تو کیا حرج ہے؟ کیا یہ روحانی سائنس نہیں ہے؟ -جواب:

 

۴۷۳

 

(۱) حضرتِ آدم اور بی بی حوّا علیہما السّلام دونوں سے بنی آدم بھی ہیں اور یاجوج ماجوج بھی، (۲) ان دونوں میں یہ فرق ہے کہ بنی آدم شکمِ مادر میں پرورش پاکر پیدا ہوگئے، لیکن یاجوج ماجوج کے ذرّات شکم یعنی رحم میں نہ جاسکے، اور وہ بے شمار تھے، وہ ذرّیت تھے، اور ذرّیت ہی رہے، یعنی ان کی تولید نہیں ہوئی۔

سوال – ۶۷۰: اللہ تعالیٰ اپنے عارفین کو “بہشت برائے معرفت” میں ہر معجزہ دکھاتا ہے، آیا یہ بھی ایک ایسا معجزہ نہیں تھا کہ اس نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا، اور حظیرۂ قدس میں ان کو اپنی اپنی اعلیٰ روح کا مشاہدہ کرایا، یہ ان کے ربّ کے پروگرام کو بشارت تھی ( ۰۷: ۱۷۲) کیا آیۂ الست کا یہ مفہوم درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں درست ہے، کیونکہ یہ تو روحانیّت میں لوگوں کے لئے خوشخبری ہے، جس کو صرف عُرَفاء ہی دیکھتے ہیں۔

 

۴۷۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۱

 

سوال – ۶۷۱: آیۂ الست(۰۷: ۱۷۲) میں غور کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا، جبکہ آدم کی پشت سے اس کی ذرّیت کو نہیں لیا تھا، حالانکہ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، اور نہ اس کے قول و فعل میں کوئی تضاد ہے، پس آپ یہ بتائیں کہ آدم اور بنی آدم کی روحانیّت میں یہ بڑا فرق کیوں ہے؟ -جواب: (۱) جب ہمارا نظریہ یہ ہے کہ آدموں کا کوئی شمار ہی نہیں تو پھر ہر آدم ایک طرف سے بنی آدم ہے، اور دوسری طرف سے آدم (۲) لہٰذا اس سے نہ صرف یہ سوال ختم ہوگیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر آدم دراصل بنی آدم بھی ہے۔

سوال – ۶۷۲: قرآنِ حکیم (۱۴: ۳۶) میں ہے کہ حضرتِ ابراہیمؑ نے کہا: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ۔ اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱)جو میرے طریقے پر چلے وہ یقیناً میرا ہے (۲) یعنی جو شخص تابمنزلِ فنا امامِ زمان کی پیروی کرتا ہے وہ بحقیقت “فنا فی الامام” ہوجاتا ہے، پھر ایسے شخص کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیئے۔

 

۴۷۵

 

سوال- ۶۷۳: سورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۸) میں ارشاد ہے: قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْؕ۔  آپ اس کی حکمت بیان کریں- جواب: (۱)ترجمہ: تم ان سے کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی بصیرت پر ہوں اور میرا پیرو بھی (۲) رسولِ پاکؐ نے چشمِ بصیرت سے تمام احوالِ باطن کو دیکھا، اور پھر اپنے راستے پر لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا، اور آپؐ کے پیرو (علیؑ) نے بھی اسی بصیرت سے یہی دعوت کی، اور أئمّۂ اولادِ علی نے بھی دعوت کا یہی فریضہ انجام دیا۔

سوال – ۶۷۴: مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ میں علیؑ و أئمّۂ اولادِ علیؑ کا ذکر کس طرح سے ہے؟ – جواب: (۱)اس آیۂ کریمہ میں اللہ کے دین کا ایک مکمل پروگرام نظر آتا ہے: راہِ رسولؐ(صراطِ مستقیم) دعوتِ اِلی اللہ، بصیرت (نورِ منزل) رسولؐ کی حقیقی اطاعت (جو أئمّۂ آلِ محمد نے بجا لائی) اسلام کے چار عُنصر یہی ہیں (۲) خدا نے اپنے محبوب رسولؐ کو جو بصیرت عطا فرمائی تھی، وہ نورِ منزل ہے (۰۵: ۱۵) جو أئمّۂ آلِ محمدؐ کے سلسلے میں جاری ہے، اس سے نہ تو راہِ رسولؐ الگ ہے اور نہ ہی دعوت اِلی اللہ۔

سوال  -۶۷۵: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰت اللہ علیہ نے آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کی حکمتوں کی بہت تعریف فرمائی ہے، کیا حضرتِ

 

۴۷۶

 

امامؑ کے علمِ روحانی کی روشنی میں آپ کچھ وضاحت کر سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)ذاتِ سبحان کے نور کا خاص تعلق عالمِ دین سے ہے، جس کا مکمل نمونہ عالمِ شخصی ہے (۲) اللہ عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے، یعنی شروع سے لے کر آخر تک عالمِ شخصی کے ہر درجہ میں اُسی کے نورِ اقدس ہی کی روشنی ہے (۳) ہر پیغمبر اور ہر امام کے بعد ہر عارف کے عالمِ شخصی میں بھی اللہ کا نور طلوع ہوجاتا ہے، مگر رسولؐ اور امامؑ کے توسط سے۔

سوال – ۶۷۶: آپ کے نزدیک عالمِ شخصی کی سب سے بڑی تعریف کیا ہے؟ -جواب: (۱)عالمِ شخصی کی سب سے اعلیٰ تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے، خدا کی بادشاہی اسی میں ہے (۲) عرش، کرسی، قلم، لوح، وغیرہ عین شین میں ہے، اللہ کے پاک نور کی رسی (سلسلۂ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ) عش کے سوا اور کہاں ہوسکتی ہے، اسی عالم (عش) میں ہر آسمانی کتاب نازل ہوئی، اور یہ ہے ایک تفسیر کُلیۂ امامِ مبین کی۔ الحمدللہ۔

سوال – ۶۷۷: آسانی کی خاطر عالمِ شخصی کا مخفف: ع ش = عین شین = عش بڑا عمدہ طریقہ ہے، اب آپ یہ بتائیں کہ عالمِ شخصی کا اوّلین ذکر قرآنِ حکیم میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱)ع ش کا پہلا ذکر قرآنِ پاک کے آغاز ہی میں ہے: الحمد اللہ ربِّ العٰلمین = تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے (سورۂ

 

۴۷۷

 

فاتحہ) (۲) خدا کے نزدیک عالمِ شخصی کی پرورش، کہ وہ انسان ہے، انتہائی بڑی پرورش ہے، اور اس میں لفظِ “حمد” کی وجہ سے ایک خاص اشارہ بھی ہے، وہ یہ کہ اللہ خزانۂ عقل سے پرورش کرتا ہے، اور یہی پرورش قابلِ تعریف ہے۔

سوال – ۶۷۸: سورۂ طور (۵۲: ۰۴) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالْبِیْتِ الْمَعْمُوْرِ = اور قسم ہے آباد گھر کی۔ سوال ہے کہ یہ آباد گھر کیا ہے؟ کہاں ہے؟ اور کن معنوں میں آباد ہے؟ -جواب: (۱)یہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا پاک گھر ہے جو ع ش کے آسمان میں ہے (۲) یہ ان معنوں میں آباد ہے کہ اس میں اللہ کی ہر ہر چیز موجود ہے (۳۶: ۱۲) عَلَی الخصوص اس مقدّس گھر میں اللہ کا پاک دیدار ہے، یعنی صورتِ رحمان کے جملہ معجزات ہیں۔ (۳) اس کا  واضح مطلب یہ ہوا کہ خدا کا آباد گھر امامِ مبین ہی ہے (۳۶: ۱۲) اور عارفوں کو اس حقیقت کا مشاہدہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے جو تاویلی آسمان اور عالمِ علوی ہے۔

سوال – ۶۷۹: سورۂ اعراف (۰۷: ۴۰) میں ایک عظیم اور عجیب و غریب سوال پیدا ہوجاتا ہے، جو اس طرح سے ہے: جو شخص خدا کی ہستی سے منکر ہے، وہ کبھی یہ نہیں کہتا کہ اللہ کی آیات جھوٹی ہیں، نہ وہ اپنے آپ کو آیات کے مقابلے میں بڑا سمجھتا ہے، کیونکہ اللہ کی ذات کو نہ ماننے کی وجہ سے وہ کافر خدا کی صفات میں بحث نہیں کرسکتا

 

۴۷۸

 

چونکہ اس کی ہر بات غیر منطقی ہوجاتی ہے، آپ اس کا جواب دیں- جواب: (۱)اس کا جواب مولا علیؑ کے اس ارشاد میں موجود ہے: انا اٰیاتُ اللہِ الکُبریٰ الّتی اراھَا اللہُ فِرعونَ وعصیٰ = یعنی میں اللہ تعالیٰ کی آیاتِ کُبریٰ ہوں، جو اللہ نے فرعون کو دکھائیں اور اس (فرعون) نے عصیان اور نافرمانی کی (کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۹۰)۔

سوال – ۶۸۰: جس آیۂ شریفہ کے بارے سوال ہوا، اس کا ترجمہ اس طرح سے ہے: یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں بڑائی کی ہے ان کے لئے آسمان کے دروازے ہر گز نہ کھولے جائیں گے، ان کا جنّت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا….۔ یہ کونسا آسمان ہے جس کے دروازے منکرین کے لئے بند ہیں؟ کیا ظاہری آسمان کے دروازے مقفل ہیں؟ سوئی کے ناکے سے اونٹ گزرجانے میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱)یہ ع ش کا آسمان ہے، ظاہری آسمان نہیں، ظاہری آسمان کا کوئی دروازہ ہی نہیں، اگر ہے بھی تو وہ آج سب کے لئے کھلا ہے کہ کوئی بھی انسان سائنس کے ذریعے سے آسمان میں جاسکتا ہے  (۲) اونٹ کی تاویل یہاں فخر اور بڑائی ہے، سوئی کے ناکے سے کسرِ نفسی مراد ہے، یعنی نفس کو توڑ کر ذرّہ ذرّہ بنانا۔

 

۴۷۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۶

 

سوال – ۶۸۱: آپ تو یہ کہتے رہتے ہیں کہ سب لوگ بہشت میں جاتے ہیں، جبکہ یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ اکثریت کے لئے یہ امر محال ہے، تو بتائیں کہ اس کا کیا جواب ہے؟ ۔جواب: (۱) اللہ وہ قادرِ مطلق ہے جو غیر ممکن کو بھی ممکن بناتا ہے، چنانچہ خدا کے حکم سے جب امام علیہ السّلام قیامت کو برپا کرتا ہے (۱۷: ۷۱) تو اس وقت ہر نفس ٹوٹ کر ذرّہ ذرّہ ہوجاتا ہے، ایسے میں فخر و تکبر کا ہر اونٹ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے (۲) اب آسمانِ عین شین کے ابواب سب لوگوں کے لئے کھل جائیں گے، اور سب کے سب جنّت میں جائیں گے۔

سوال – ۶۸۲: حدیث شریف ہے: انا دارُالحکمۃِ وَ علیٌّ بَابھا = میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ یہ حدیثِ نبوّی کس آیۂ کریمہ کی تفسیر ہے؟ آیا اس کا تعلق آیۂ اطاعت سے بھی ہے؟ یہ حکمت کونسی ہے؟ -جواب: (۱) یہ عظیم الشّان حدیث آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کی واضح تفسیر ہے (۲) یقیناً یہ آیۂ اطاعت کی بھی تفسیر ہے (۳) یہ حکمت نورانی اور قرآنی ہے، یعنی

 

۴۸۰

 

تاویل ہے۔

سوال – ۶۸۳: آیا یہ بات ممکن ہے کہ آپ ہمیں سمجھائیں کہ اللہ نے کس طرح ہر چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ، خوب یاد رہے کہ یہ سب لطیف چیزیں ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ لپیٹتا ہے یا گھیر لیتا ہے، یعنی جوہرِ کائنات کو بصورتِ ارواح و عقول امامِ مبین میں گھیر لیتا ہے (۲) جواہرِ کائنات کو قرآن کُل چیزوں کے ثمرات (۲۸: ۵۷) بھی کہتا ہے، جو بڑی عالیشان مثال ہے کہ خدا کی خدائی کی ہر چیز کا ثمرہ (میوہ) کشان کشان خدا کے گھر یعنی امامِ مبین میں داخل ہوجاتا ہے (۳) اسی طرح قرآنی ثمرات بھی حرمِ باطن (امامؑ) کی طرف آتے رہتے ہیں۔

سوال – ۶۸۴: اگرچہ آپ کو اس میں کچھ احتیاط بھی ہے، تاہم واقعۂ قیامت کے حوالے سے جو اسرار بیان ہوئے ہیں، اور جو حقائق و معارف تحریر میں آچکے ہیں، ان سےاولاً اپنے دوستوں میں علمی انقلاب آیا ہے، لہٰذا آپ ہمیں روحانیّت اور روحانی سائنس کی باتیں بتائیں -جواب: (۱) خدا کرے کہ ہر مومن اور مومنہ خود شناسی میں کامیاب ہوجائے، کیونکہ یہی سب سے بڑی دولت بلکہ سب سے بڑا خزانہ ہے (۲) آپ نے اپنے عین شین میں جو کچھ دیکھا اور تجربہ ہوا، وہ روحانی سائنس ہے (۳) خصوصاً اس لئے کہ قرآن اس کی تصدیق

 

۴۸۱

 

کرتا ہے، پھر ہم قرآن اور امام سے بار بار قربان کیوں نہ ہوجائیں (۴) جبکہ مادّی سائنس کے نظریات کی تصدیق کے لئے کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے، تاہم روحانی سائنس کا عظیم فائدہ روح کے لئے ہے۔

سوال – ۶۸۵: الکتاب لا ریب فیہ (۰۲: ۰۲، ۱۰: ۳۷، ۳۲: ۰۲) یہ کونسی کتاب ہے؟ -جواب: (۱) وہ کتاب جس میں شک نہیں، کتابِ ناطق / قرآنِ ناطق (امامِ مبین) ہے، جس میں یقین ہی یقین ہے (۲) اس کتاب میں شک کیوں نہیں، اور یقین کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بولتی ہے اور حقیقت بیانی کرتی ہے، کیونکہ وہ نورِ منزل ہے (۰۵: ۱۵)۔

سوال – ۶۸۶: قرآنِ حکیم کی کئی آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ “قیامت کے دن میں شک نہیں” اس میں کیا معنی ہیں؟ -جواب: (۱) یعنی اس میں عین الیقین، اور حق الیقین کا ظہور ہے، اس لئے اس میں کوئی شک نہیں (۲) قیامت مظاہرۂ نور کا نام ہے، اور وہ امام علیہ السّلام کا روحانی کام ہے، جو کہ خدا نے اس کو دیا ہے، لہٰذا روحانیّت میں امام ہی روزِ قیامت ہے، اور جو خوش نصیب لوگ حضرتِ امام عالیمقامؑ کے اس روحانی معجزے کو دیکھتے ہیں، ان کے آخری شکوک و شبہات ختم ہوجاتے ہیں۔

 

۴۸۲

 

سوال – ۶۸۷: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۷) کے حوالے سے سوال ہے: وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ۔ (اور انہوں نے اس نور کی پیروی کی جو رسولؐ کے ساتھ نازل ہوا) اس نور سے کیا مراد ہے؟ -جواب: (۱) یہ نور حضرتِ علیؑ ہے جو نورِ امامت ہے، جو قرآنِ ناطق اور جانشینِ رسولؐ ہے (۲) آپ کو غور سے دیکھنا ضروری ہے کہ اس آیۂ کریمہ میں الذین سے لے کر وَنَصَرُوْہُ تک جس طرح سے ارشاد ہوا ہے، اس کے ایک ایک لفظ میں رسولؐ کی تعریف اس وجہ سے ہے کہ آپؐ پر قرآن نازل ہوا (۳) اسی طرح اشارہ اشارہ میں قرآن کے ذکر کے بعد اس نور کا تذکرہ ہے جو آنحضرتؐ کے ساتھ ساتھ نازل ہوا ہے (۴) اس کا مطلب یہ ہوا کہ محمد و علی علیہما السّلام قبل از آدمؑ نورِ متحد تھے، جس کو آپ ایک بھی کہہ سکتے ہیں اور دو بھی، دیکھیں: کو کبِ درّی، بابِ دوم، منقبت نمبرا۔

 

۴۸۳

 

سوال – ۶۸۹: حدیثِ شریف ہے: اِنَّ عَلِیّاً مِنّیْ وَاَنَا مِنْ عَلِیٍّ وَھُوَ وَلِیٍّ کُلِّ مُوْمِنٍ وَ مُؤمِنَۃٍ بَعْدِیْ لَا یُؤَدِّیْ عَنِّیْ دَیْنِیْ اِلّاَ عَلیٌّ۔ آپ اس ارشادِ نبوی کا حکمتی ترجمہ کریں – جواب: (۱) (اس دورِ اعظم میں) علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، اور وہ میرے بعد ہر مومن اور مومنہ کا ولیٔ امر ہے، اور میرے دین (قرض) کو میری طرف سے علی کے سوا اور کوئی ادا نہ کرے گا (یعنی علم و حکمت کا قرض میری طرف سے علیؑ ہی لوگوں کو ادا کرے گا)۔

سوال – ۶۹۰: آپ اس بات کی وضاحت کریں کہ پیغمبرِ اکرمؐ پر علم و حکمت کا قرض کس طرح ثابت ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ حکیم میں کئی آیات ایسی بھی ہیں، جن میں یہ حکم ہے کہ اللہ کو قرضِ حسنہ دو، اس حکم پر عمل ہونے کی وجہ سے خدا اور اس کا رسولؐ یقیناً اہلِ ایمان کے قرضدار ہوگئے (۲) آیۂ بیعت (۴۸: ۱۰) کی تفسیر سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۱) میں ہے: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں۔ جب امرِ واقعی یہی ہے تو خداوند تعالیٰ مومنین کا قرضدار ہے، اس کی طرف سے رسولؐ اور آنحضرتؐ کی طرف سے امامِ زمانؑ۔

 

۴۸۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۳

 

سوال – ۶۹۱: یہ آیۂ کریمہ خزائنِ قرآن میں سے ایک خزانہ ہے، جو سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۹) میں ہے: بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ۔ آپ اس کا ترجمہ کریں  -جواب: (۱) بلکہ وہ (قرآن) بصورتِ روشن معجزات ان لوگوں (یعنی أئمّہ) کے سینوں میں ہے جن کو علم دیا گیا ہے۔ آپ شیعی تفاسیر میں بھی دیکھ سکتے ہیں (۲) یہ قرآن کی اس روحانی اور نورانی صورت کا ذکر ہے، جبکہ وہ انسانِ کامل کے عین شین میں ہوتا ہے۔

سوال – ۶۹۲: سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں ارشاد ہے: قَدْ جَآءَکُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیْنٌ۔ اس آیۂ شریفہ کا کوئی عظیم تر راز بتائیں -جواب: (۱) اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور اور کتابِ مبین آئی ہے۔ اس میں سب سے عظیم راز یہ ہے کہ اس نور کا مشاہدۂ باطن ممکن ہے، جبکہ کتاب کا مشاہدۂ ظاہر ممکن ہے (۲) نورِ مجسم تو آنحضرتؐ اور علیؑ تھے، لیکن اب ظاہراً ہمارے پاس موجود نہیں، اور امامِ زمانؑ بھی قرآن کی طرح ظاہر میں ہرشخص کے پاس نہیں، اگرچہ وہ نورِمجسم ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہر عاشق کے لئے

 

۴۸۵

 

مشاہدۂ نور بھی ممکن ہو، جس طرح قرآنِ حکیم سامنے ہے۔

سوال – ۶۹۳: سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) میں ہے: اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو (جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے) اور (بحقیقت) اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ تاکہ وہ اپنی رحمت کے دو حصّے تمہیں بخش دے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دے جس کی روشنی میں تم چل سکو گے۔ یہ کونسا نور ہے؟ یہ نور کن راہوں میں چلنے کے لئے ہے؟ -جواب: (۱) یہ نورِ امامت ہے، جو نورِ قدیم اور نورِ ازل ہے، جس طرح س۔ ۶۸۸ میں ذکر ہوا (۲) یہ نور علم و حکمت کی راہوں میں چلنے کے لئے ہے، جو سلامتی کے راستے ہیں اور وہ کتابِ نفسی (عین شین) کتابِ ناطق (امام)، قرآن، اور کتابِ کائنات میں ہیں۔

سوال – ۶۹۴: سورۂ مومنون (۲۳: ۱۰۱) میں ہے: پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا، ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ اور یہی آسمانی تعلیم سورۂ عَبَسَ ( ۸۰: ۳۴ تا ۳۶) میں بھی ہے: اس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ قیامت کے دن تمام رشتوں کے ٹوٹ جانے کا کیا سبب ہے؟ یہ رشتے صور کے پھونکنے سے کیوں ٹوٹ جاتے ہیں؟ پھر بہشت میں رشتوں کا ذکر کیوں ہے؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے انسان کو بڑی عجیب و

 

۴۸۶

 

غریب مخلوق بنایا ہے، اس کی بہت سی مثالیں اور بہت سے پہلو ہیں (۲) انسان ایک اعتبار سے عالمِ اصغر ہے، دوسرے اعتبار سے عالمِ اکبر ہے، اور تیسرے اعتبار سے یہ دونوں جہان کا مجموعہ ہے (۳) پس انسان پر بہت سے احوال گزرتے ہیں، منجملہ یہ بھی ہے کہ صورِ اسرافیل کی دعوت پر ہر روح پرواز کرکے آدمِ زمانؑ کی اولاد قرار پاتی ہے، اور اس کے تمام جسمانی رشتے کالعدم ہوجاتے ہیں، کیونکہ یہ ابھی ابھی پشتِ آدمؑ سے پیدا ہوجانے کے مرحلے میں ہے۔

سوال – ۶۹۵: پھر بہشت میں رشتوں کا ذکر کیوں ہے؟ – جواب: (۱) بہشت وہ معجزاتی مقام ہے، جہاں کالعدم نعمتیں بھی دوبارہ بحال ہوجاتی ہیں، کتنی بڑی خوشی کی بات ہے کہ تم نفسِ واحدہ (آدمِ زمان = خلیفۂ خدا) کے بیٹے ہو (۲) قرآنِ پاک میں جہاں جہاں بنی آدم کا ذکر آیا ہے، وہ تمہارا ذکر ہے۔

سوال – ۶۹۶: قیامت کہاں واقع ہوتی ہے؟ دنیا میں یا آخرت میں؟ بقولِ قرآن (۱۷: ۷۱) قیامت کے ساتھ امامِ زمانؑ کا کیا تعلق ہے؟ -جواب: (۱) قیامت دنیا ہی میں واقع ہوتی ہے، مگر روحانی طور پر (۲) قیامت کے ساتھ امام کا تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت امامؑ کو قیامت کا ذریعہ یعنی صاحبِ قیامت بنایا ہے، کیونکہ زمانے میں وہی نفسِ واحدہ ہے (۳۱: ۲۸) لہٰذا لوگوں کی غیر شعوری قیامت امام علیہ

 

۴۸۷

 

السّلام میں برپا ہوجاتی ہے (۳) جیسا کہ سورۂ یسٓ (۳۶: ۵۱) میں ہے: اور جب صور پھونکا جائے گا تو وہ سب قبروں سے اپنے ربّ کی طرف دوڑیں گے۔ ربّ کا لفظ (اسم) اللہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، اور انسان کے لئے بھی (۱۲: ۴۲) چنانچہ صور پھونکنے کے ساتھ لوگ فوراً ہی اللہ کے حضور نہیں جاسکتے، بلکہ صرف امامؑ کی طرف دوڑتے ہیں کہ وہی صاحبِ قیامت بھی ہے اور مرکزِ قیامت بھی (۴) اِلیٰ رَبِّھِمْ یَنْسِلُوْنَ کے خاص معنی ہیں: وہ سب اپنے مُرَبیّ اور مالک (یعنی آدمِ زمان) کی نسل قرار پاتے ہیں۔

سوال – ۶۹۷: آپ نے کہا: صور پھونکنے کے ساتھ لوگ فوراً ہی اللہ کے حضور نہیں جاسکتے، پس سوال ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ کسی آیت سے کیسے معلوم ہوگا کہ اس میں لوگ اللہ کے روبرو ہیں؟ -جواب: (۱) کسی عالمِ شخصی کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں آ کر عرفانی معجزات کے قابل ہونے تک پچاس ہزار سال کا عرصہ لگتا ہے (۷۰: ۰۴) تاہم صور پھونکنے کے ساتھ قیامت کا آغاز ہوجاتا ہے (۲) پھر چند سال تک لوگ منازلِ قیامت میں سفر کرتے جاتے ہیں، بالآخر وہ سب کے سب ہادئ برحق میں فنا ہو کر فردِ مجرّد ہوجاتے ہیں، اور اب اسی صورت میں وہ سب اللہ کے روبرو ہوجاتے ہیں (۳) یہ واقعہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے، اور آیت کی حکمت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ مقامِ دیدار ہے۔

 

۴۸۸

 

سوال – ۶۹۸: آپ نے کہا کہ قیامت صورِ اسرافیل کی آواز کے ساتھ شروع ہوجاتی ہے، پھر آپ یہ بھی بتائیں کہ یہ کس مقام پر جا کر مکمل ہوجاتی ہے؟ -جواب: (۱) اس کی ایک مثال طوفانِ نوح ہے، اور طوفان اس وقت تھم گیا تھا، جب سفینہ کوہِ جودی (۱۱: ۴۴) پر پہنچ گیا، کوہِ جودی جبلِ عقل کی مثال ہے، جو حظیرۂ قدس میں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا سلسلہ حظیرۂ قدس تک جاتا ہے۔

سوال – ۶۹۹: سورۂ نازعات (۷۹: ۴۴) میں ارشادِ باری ہے: اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَھٰھَا = اس (قیامت) کی انتہا تمہارے پروردگار تک ہے۔ آیا یہ آیت بھی یہی بتاتی ہے کہ قیامت مقامِ دیدار (حظیرۂ قدس) تک جاکر مکمل ہو جاتی ہے؟ – جواب: (۱) جی ہاں، مگر یاد رہے کہ ایسی آیات کریمہ بہت ہیں، جن میں یہی مطلب ہے، مثلاً ہر وہ آیت جس میں رجوع الی اللہ کا کوئی آخری اشارہ ہو۔

سوال – ۷۰۰: اس باب میں یہ آیۂ شریف بڑی باحکمت ہے: وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ (۰۶: ۹۴)۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) ترجمہ: تم ہمارے پاس اسی طرح اکیلے اکیلے آئے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ خطاب انسانِ کامل سے ہے جو عین شین میں نفوسِ خلائق کی ایک کائنات ہوتا ہے، مگر حظیرۂ قدس تک

 

۴۸۹

 

جاتے جاتے سب لوگ اس میں فنا ہوجاتے ہیں، اور وہ بالآخر فردِ مجرّد یا نفسِ واحدہ ہوتا جاتا ہے (۲) فرٰدٰی (اکیلے اکیلے ) میں بے شمار قیامات کا اشارہ موجود ہے (۳) الغرض یہ اس بات کی تحقیق ہے کہ قیامت میں لوگ کس طرح اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں؟ پس معلوم ہوا کہ اہلِ زمانہ اپنے امامؑ میں فنا ہوکر اسی کی وحدت کی صورت میں خدا کے پاس جاسکتے ہیں۔

 

۴۹۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۴

سوال – ۷۰۱ :  اسی اعلیٰ مضمون سے متعلق سورۂ مریم (۱۹: ۹۵) میں یہ ارشاد ہے: وَكُلُّهُمْ آتِيهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَرْدًا۔ آپ اس کی وضاحت کریں -جواب: (۱) ترجمہ: اور سب لوگ قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔ (۲) سب کے سب انسانِ کامل میں فنا ہوجاتے ہیں، اور وہی سب کی طرف سے فردِ مجرّد ہو جاتا ہے، چونکہ اسی میں سب کی وحدت ہے، لہٰذا یہی ایک سب کا نمائندہ ہے۔

سوال – ۷۰۲: صحیح البخاری، جلد سوم، کتاب الرقاق میں یہ حدیثِ قدسی حدیثِ نوافل کے آغاز میں ہے: اِنَّ اللہَ قَالَ: مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیّاً فَقَدْ اٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ = اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔ یہ حدیث قدسی کسی آیۂ قرآنی سے مربوط ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ حکیم کی بہت سی آیاتِ کریمہ دوستانِ خدا کے بارے میں ہیں، آپ سورۂ یونس (۱۰: ۶۲ تا ۶۴) میں بھی دیکھیں: آگاہ رہو کہ اللہ

 

۴۹۱

 

کے اولیا (دوستانِ خدا) پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی انہیں کوئی حزن و غم ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو (بحقیقت) ایمان لائے اور خدا سے ڈرتے تھے، ان ہی لوگوں کے واسطے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی بشارت ہے، خدا کے کلماتِ تامّہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوا کرتی، یہی تو عظیم کامیابی (اور سعادت) ہے۔

سوال – ۷۰۳: جب کوئی بدنصیب انسان خدا کے کسی ولی سے دشمنی کرتا ہے تو خداوند تعالیٰ اس سے اتنا ناراض کیوں ہوتا ہے کہ اس کے خلاف اعلانِ جنگ فرماتا ہے حالانکہ دنیا میں برے لوگ اور بھی بہت ہیں؟ -جواب: (۱) دوستانِ خدا زمین پر اللہ کے لشکر ہیں، اور اللہ کے کسی سپاہی سے عداوت رکھنا گویا اللہ سے دشمنی رکھنا ہے، پس ایسے بدبخت کے خلاف آسمانی جنگ کا اعلان پہلے ہی سے موجود کیوں نہ ہو۔

سوال – ۷۰۴: مذکورۂ بالا قرآنی تعلیم سے یہ معلوم ہوا کہ اولیائے خدا پہلے تو بہت ڈرتے رہتے ہیں، بعد ازان انہیں بڑی حد تک تسکین مل جاتی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) قانونِ فطرت اور آئینِ دین یہی ہے کہ آپ آسمانی عشق اختیار کریں اور گریہ وزاری کرتے رہیں، نافرمانیوں سے ڈریں، ہر نیکی میں آگے بڑھیں، علم و عبادت اور خدمت میں بہت ترقی کریں (۲) سخت کوشش

 

۴۹۲

 

کریں کہ زندگی ہی میں عزرائیلی معجزات کو دیکھ سکیں، اگر اللہ کے ولی کی دستگیری نصیب ہوئی تو آپ نہ صرف دوستانِ خدا کو پہچان ہی سکیں گے بلکہ آپ خود بھی ان میں شامل ہوجائیں گے (۳) جب فرشتے ہر طرح کی خوشخبری سنائیں گے تو آپ کا خوف و غم ختم ہوجائے گا۔

سوال – ۷۰۵: مذکورۂ بالا آیت (۱۰: ۶۴) کا یہ حصّۂ مبارکہ وضاحت طلب ہے: لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ۔ آیا اس میں کوئی راز ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں بہت بڑا راز ہے، وہ یہ کہ دوستانِ خدا (عارفین) کے لئے مقاماتِ روحانیّت پر کلماتِ تامّات ہوا کرتے ہیں، جو سرچشمۂ علم و حکمت کا کام دیتے ہیں (۲) علاوہ بران ان میں بشارتیں بھی ہیں، لہٰذا فرمایا گیا کہ اللہ کے کلماتِ تامّات میں جو جو وعدے اور جیسی جیسی بشارتیں ہیں، وہ سب کی سب بے بدل اور اٹل ہیں (۳) آپ سورۂ تحریم (۶۶: ۱۲) میں دیکھ لیں کہ آسمانی کتابیں الگ ہیں اور کلماتِ تامات الگ ہیں۔

سوال – ۷۰۶: آپ نے سورۂ تحریم (۶۶: ۱۲) کا حوالہ دیا، اس کا ترجمہ یہ ہے: اور (خدا) عمران کی بیٹی مریم کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اپنی روح میں سے اس میں پھونکا اور اس نے پروردگار کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی، اور وہ اطاعت کرنے والوں میں سے تھی۔ آپ اس کی

 

۴۹۳

 

تاویل بیان کریں- جواب: (۱) مریم نے اپنے کان کو اہلِ باطل کی باتوں سے محفوظ رکھا، تب خدا نے اپنے نور سے اس میں پاک روح پھونک دی، جس سے روحانی قیامت برپا ہوئی، جس کی روشنی میں اس نے اپنے ربّ کے کلماتِ تامّات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی، اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی۔ (۲) مریم سلام اللہ علیہا حدودِ دین میں سے حجّت کی مثال ہے، آپ حجّت کو عارفِ کامل بھی کہہ سکتے ہیں۔

سوال – ۷۰۷: کون کہہ سکتا ہے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی عظیم الشّان گریہ وزاری عشقِ الٰہی کے نور سے خالی ہوتی تھی، آپ علم و حکمت کی روشنی میں بتائیں کہ دوستانِ خدا کی گریہ وزاری میں کیا کیا معانی جمع ہو جاتے ہیں؟ -جواب: (۱)  اس میں چند معنوں کی بات ہی نہیں، کیونکہ جب تک اعلیٰ معنوں کا ایک لشکرِ جرار نفسِ مومن پر حملہ آور نہیں ہوتا، تب تک اس سے عاشقانہ گریہ وزاری ہو نہیں سکتی ہے (۲) یقین جانو کہ عاشقانہ گریہ و زاری روحانی ترقی کا اساسی معجزہ ہے، جس کے بغیر رحمتِ الٰہی کے دروازے نہیں کھلتے ہیں۔

سوال – ۷۰۸: حدیثِ شریف ہے: لَا تَدْخُلُ الْمَلاَ ئِکَۃُ بَیْتاً فِیْہِ کَلْبٌ وَّلَا تَصَاوِیْرُ = فرشتے اس گھر میں نہیں جاتے جہاں کتا ہو یا مورتیں ہوں۔ آپ اس کی باطنی حکمت (تاویل) بتائیں

 

۴۹۴

 

-جواب: (۱) فرشتے اس دل میں داخل نہیں ہوتے جس میں غصے کا کتا موجود ہو یا دنیوی عشق کی تصویریں ہوں (۲) دل کے گھر میں غیض و غضب کا کتا نہ ہو، اور اصنام (بتُ یا بتوں کی تصویریں) نہ ہوں، اور ہر آلائش سے قلب پاک ہو تو اس میں رحمت اور علم کے فرشتے آسکتے ہیں۔

سوال – ۷۰۹: قرآنِ حکیم میں اصنام پرستی کی سختی سے مذمت کی گئی ہے، آیا صنم پرستی جیسا شرک صرف ظاہرتک محدود ہے یا اس کی جڑیں باطن میں مضبوط ہیں؟ -جواب: (۱) بڑی مہلک قسم کی اصنام پرستی تو باطن میں پائی جاتی ہے، جس سے چھٹکارا پانا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، مگر اللہ اپنے دوستوں کے قلوب میں اپنی پاک محبت کو بھر دیتا ہے، جس سے وہ اغیار کی محبت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔

سورل – ۷۱۰: یہ عالیشان آیت جس کی تعریف کرنے سے ہم عاجز ہیں سورۂ رعد (۱۳: ۲۸)  میں ہے: اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ = خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ آپ ذکرِ الٰہی کی کوئی عظیم حکمت بتائیں -جواب: (۱) ذکرِ الٰہی کی کئی قسمیں اور چند درجات ہیں، ذکر پر ہماری ایک تصنیف بھی ہے جو ذکرِ الٰہی کے نام سے شائع ہوچکی ہے (۲) اصل ذکر زندہ اسمِ اعظم پر ہوا کرتا ہے، اسی سے حاصل شدہ اطمینان کی سیڑھی حظیرۂ قدس کی بلندیوں تک پہنچی ہوئی ہے (۳) اللہ تبارک

 

۴۹۵

 

و تعالیٰ جس چیز کو اطمینان کے نام سے یاد فرماتا ہے، وہ ہے اطمینانِ کلّی، اور وہ سب سے بڑا خزانہ “بہشت برائے معرفت” ہے۔

 

۴۹۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۵

 

سوال – ۷۱۱: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴ تا ۲۵) میں جس کلمۂ پاک اور جس شجرۂ پاک کی مثال بیان ہوئی ہے، اس کو بار بار پڑھنا اور سمجھنا علمی عبادت ہے، لہٰذا آپ ہمیں اس کی کوئی حکمت بتائیں -جواب: (۱) پاک کلمہ اسمِ اعظم ہے جو امامِ زمانؑ کی طرف سے عطا ہوتا ہے جو عین شین میں کام کرتا ہے (۲) پاک شجرہ (درخت) پیغمبرؐ اور امامؑ ہیں کہ اصل (جڑ) اور تنہ رسولؐ ہیں اور فرع فی السماء امامؑ ہے (۳) یہ شجرِ پاک اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت نورانی ہدایت اور علم و حکمت کا پھل دیتا رہتا ہے (۴) اس ارشادِ مبارک کی ہر حکمت از بس قابلِ توجہ ہے۔

سوال – ۷۱۲: یقیناً عملی عبادت سے علمی عبادت افضل ہے، اس لئے آپ قرآن و حدیث کی جن خاص حکمتوں کو بار بار بیان کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، کیونکہ عبادت ہمیشہ ہوتی رہتی ہے، پس یہاں بہت بڑا سوال ہے کہ آیا قرآنِ حکیم کی ہر آیت کا معنوی رخ امامِ مبین کی طرف ہے؟ -جواب: (۱) کیوں نہیں، جبکہ ہر لطیف شَیٔ امامِ مبین

 

۴۹۷

 

میں گھیری ہوئی ہوتی ہے، جبکہ امامِ عالیمقام کا نور لوحِ محفوظ ہے، جس میں قرآنِ کریم بحالتِ نورانیّت موجود ہے (۲) پس ہر آیت کے باطنی معنی (تاویل) امام علیہ السّلام میں ہوتے ہیں، ان معنوں کو صرف اہلِ حکمت ہی جانتے ہیں۔

سوال – ۷۱۳: آپ ہمیں حضرتِ امام علیہ السّلام کا کوئی ایسا مبارک فرمان بتائیں، جس میں روحانی معجزے کی مثال مادّی سائنس سے دی گئی ہو – جواب: (۱) وہ مثال یہ ہے: مومن کا دل ٹیلیگراف اور ٹیلیفون کی طرح ہے، جس کے ایک سرے پر مرشد ہے، اور دوسرے سرے پر مومن ہے، …. (امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام )۔

سوال – ۷۱۴: فرمانِ اقدس ہے: حقیقی مومن ہر جگہ خدا کو دیکھتا ہے۔ اس کی توضیح و توجیہہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ پاک میں ہے: فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ (۰۲: ۱۱۵) پس تم لوگ جس طرف منہ کرو اُدھر (ہی) اللہ تعالیٰ کا رخ ہے۔ (۲) کیونکہ وہ ہر جگہ حاضرو ناظر ہے، ہر جگہ اس کی قدرت، نور، اور معجزہ ہے (۳) حقیقی مومن (عارف) کو ایسی باکمال بصیرت عطا ہوئی ہے کہ وہ بہت سے معنوں میں خدا کو دیکھتا ہے (۴) خداوند تعالیٰ تجلّیات و ظہورات کا مالک ہے، جن کا مشاہدہ صرف عارف ہی کرسکتا ہے۔

 

۴۹۸

 

سوال – ۷۱۵: سورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفاتی میں سے چار ایسے اسماء مذکور ہیں، جن میں یقیناً نورِ معرفت کی دعوت ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ ۔جواب: (۱) جی ہاں، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ان مبارک اسماء میں سے ہر لحظہ معرفت کی روشنی جگ مگ جگ مگ کر رہی ہے (۲) وہ اسمائے مبارک یہ ہیں: الاوّل، الآخر، الظاہر، الباطن، خدا کے ان بابرکت ناموں کا انتخاب معرفت ہی کی غرض سے ہے (۳) مظہریّت اور معرفت کے معنی میں یہی پاک اسماء رسولِ کریمؐ اور امامِ مبینؑ کے لئے بھی ہیں۔

سوال – ۷۱۶: ان اسمائے گرامی میں سے “الظاہر” کی مزید وضاحت ضروری ہے-جواب: (۱)  الظاہر کا مطلب النور بھی ہے، پس النور اور الظاہر کے مظہر محمد و علی علیہما السّلام ہیں، اسی مقصد کے پیشِ نظر اللہ نے ان کو بھی نور بنایا ہے (۲) اب معلوم ہوا کہ یہ چار اسماء دوسرے تمام اسماء میں سے منتخب کیوں ہیں؟ اور ان میں الظاہر کا اسم کیوں ہے؟ جی ہاں، یہ اللہ کی طرف سے لوگوں کے لئے منصوبۂ معرفت ہے۔

سوال – ۷۱۷: سورۂ دہر (۷۶: ۲۱) میں فرمانِ الٰہی ہے: وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا = اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔ اس ارشاد میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ -جواب:

 

۴۹۹

 

(۱) شرابِ طہور حقیقی عشق بھی ہے اور روحانی علم بھی ہے، کیونکہ دل و جان کی انتہائی پاکیزگی اور اعلیٰ درجے کی خوشی اسی میں ہے (۲) چونکہ اس میں دیدارِخداوندی کا واضح اشارہ ہے، لہٰذا عشق اور علم کے معنی لازمی ہیں (۳) ہم نے قبلاً لکھا ہے کہ دیدارِاقدس میں بہت سے حکمتی اشارے ہوا کرتے ہیں (۴) مذکورہ آیۂ شریفہ کے مطابق شرابِ طہور پلانے والا حضرتِ ربّ خود ہے، ایسے میں تجلّیات و ظہورات کی گوناگونی ممکن ہے۔

سوال – ۷۱۸: آپ مانتے ہیں کہ بہشت میں ربِّ تعالیٰ کی گوناگون تجلّیات و ظہورات ہیں، آپ بتائیں کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ -جواب: (۱) اس کی دلیل بڑی روشن اور قابلِ تعریف ہے، وہ یہ کہ اہلِ جنّت کو ہر وہ نعمت مل جاتی ہے، جسے وہ چاہتے ہوں (۲) یہ دلیل اس دانشگاہ میں زبان زدِ خاص و عام ہوگئی ہے کہ بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، اور یہ ساری باتیں قرآن ہی کی روشنی میں ہیں (۳) بہشت میں خوش منظر اور قابلِ دید نعمتوں کی فراوانی ہے (۳۲: ۱۷، ۴۳: ۷۱) جن کو دیکھنے سے بے قیاس لذّت اور شادمانی ہوتی ہے۔

سوال – ۷۱۹: ذاتِ سبحان کے اسماء الحُسنیٰ کیا ہیں یا کون ہیں؟ -جواب: (۱) اسماء الحُسنیٰ انبیاء و أئمّۂ علیہم السّلام ہیں، لہٰذا بہشت میں ان میں سے ہر ایک آئینۂ تجلّی ہے، اس کے علاوہ بہشت میں جو بھی

 

۵۰۰

 

داخل ہوجاتے ہیں، وہ اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوجاتے ہیں، اور آدم رحمان کی صورت پر تھا (۲) اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ بہشت میں جاکر سب لوگ صورتِ رحمان میں فنا ہوجاتے ہیں، پس معشوقِ حقیقی کا دیدار گوناگون تجلّیات کا عالم ہے۔

سوال – ۷۲۰: آپ نے قرآنِ حکیم (۱۵: ۲۱) کے حوالے سے کہا تھا کہ جس طرح دنیا کی چیزیں خزائنِ الٰہی سے آئی ہیں، اسی طرح انسانی صورت بھی اللہ کے ایک خزانے  سے آئی ہے، وہ خزانہ کونسا ہے؟ -جواب: (۱) وہ سب سے عظیم اور سب سے مقدّس خزانہ معجزۂ صورتِ رحمان ہے۔

 

۵۰۱

 

 

 

 

 

 

صندوقِ جواہر۔ ۶

 

سوال – ۷۲۱: قرآنِ حکیم میں کل ۱۷ (سترہ) دفعہ لفظِ تاویل آیا ہے، آپ یہ بتائیں کہ تاویل کیا ہے؟ اور جب جب تاویل آتی ہے تو کس طرح آتی ہے؟ -جواب: (۱) تاویل کی لفظی تحلیل تو کتبِ لغت میں کی گئی ہے، لہٰذا ہم تاویل کی ما ہیّت بیان کرتے ہیں کہ جب کسی عارف پر ذاتی اور روحانی قیامت واقع ہونے لگتی ہے تو یہ اس کے لئے تاویل آنے کا آغاز ہے (۲) کیونکہ عین شین میں سرتاسر قیامت ہی تاویل ہے، جس میں آسمانی کتاب کے اسرار موجود ہیں (۳) ہر امام کے ساتھ قیامت اور تاویل ضرور ہے، لیکن اس کی ضرورت زیادہ سے زیادہ اس وقت ہوتی ہے، جبکہ احوالِ زمانہ بدل چکے ہوتے ہیں، جیسے عصرِ حاضر کے حالات ہیں۔

سوال – ۷۲۲: آیا کچھ دوسرے الفاظ بھی ہیں، جن میں تاویل کے معنیٰ موجود ہوں؟ اگر ہیں تو وہ کون کونسے الفاظ ہیں -جواب: (۱) جی ہاں، ایسے ہم معنی الفاظ تو بہت ہیں، ان میں سے چند کو ہم یہاں درج کرتے ہیں: حکمت، باطن، روحانیّت، نورانیّت، بصیرت،

 

۵۰۲

 

مشاہدہ، یقین، معرفت، رؤیّت، لقاء، بیان، شہادت (حاضری) (۲) عالمِ شخصی، حظیرۂ قدس، علم الروح، علم الاسماء، علمِ حقائقِ اشیاء، علم القیامت، علم الآخرت، علم الاسرار وغیرہ (۳) بعض مترادفات لغات کے مطابق ہوتے ہیں، مگر جو مترادفات حکمت کی رو سے ہیں، وہ بڑے عجیب و غریب ہیں۔

سوال – ۷۲۳: قرآنِ حکیم کے نہایت اعلیٰ اور حکمت سے لبریز الفاظ میں سے ایک بابرکت لفظ الفرقان ہے، جو قرآنِ پاک کے سات مقامات پر موجود ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ الفرقان عظیم معجزات کے معنوں میں آیا ہے، اب آپ سورۂ انفال (۰۸: ۲۹) میں دیکھیں: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لئے ایک فرقان (؟ ) مقرر کرے گا اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کرے گا اور تمہارے قصور معاف کرے گا، اور اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ پس آپ بتائیں کہ یہاں فرقان کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ نورِ ہدایت؟ راہِ روحانیّت؟ معجزۂ علم و حکمت؟ -جواب: (۱) جیسا کہ آپ حکمتِ بالغہ کے قانون کو جانتے ہیں، حق بات تو یہ ہے کہ یہاں فرقان سے نورِ ہدایت مراد ہے، جس کی معجزاتی کسوٹی درجہ بدرجہ کام کرتی ہے (۲) فُرْقاناً = نورِ ہدایت جو حق کو باطل سے جدا کرتا ہے، اور یہ صراطِ مستقیم پر رہنمائی کا کام کر رہا ہے، لہٰذا اس کا معجزہ درجہ وار ہے۔

 

۵۰۳

 

۷۲۴: بہت خوب وضاحت ہوئی کہ نورِ ہدایت کا معجزہ یعنی فرقان پرہیزگاروں کے لئے درجہ بدرجہ کام کرتا ہے، گویا یہ نورانی سیڑھی ہے اور اس کا بالائی سرا حظیرۂ قدس سے متصل ہے، ایسے میں یہ پوچھنا ضروری ہوگیا کہ آیا یہ معجزہ (فرقان) دراصل نورِ منزل اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵) کا معجزہ نہیں ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست ہے، یہ وہی نورِ ہدایت اور قرآن ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ معجزہ فرقان کے نام سے ہے، جبکہ نور اور قرآن کی باطنی وحدت کا نام فرقان ہے (۲) اس سے معلوم ہوا کہ خدا ترسی کی بڑی حد تک کمی ہے، ورنہ نور اور قرآن کا معجزہ (فرقان) دور نہیں۔

سوال – ۷۲۵: قرآنِ حکیم (۱۸: ۵۴) میں ہے: اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں (کے سمجھانے) کے واسطے ہر طرح کی مثالیں پھیر بدل کر بیان کر دی ہیں مگر انسان تمام مخلوقات سے زیادہ جھگڑالو ہے (نیز ۱۷: ۸۹) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ حقیقت ایک ہی ہے، مگر اس کی مثالیں طرح طرح سے دی گئی ہیں، آپ بتائیں کہ وہ حقیقت کیا ہے؟ ہر مثال میں وہی ایک حقیقت پوشیدہ کس طرح ہوسکتی ہے؟ -جواب: (۱) شاید اس بات سے کسی کو انکار ہی نہیں ہوگا کہ انسان جس عظیم مقصد کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے، وہ معرفت ہی ہے، اور تمام مثالیں اسی کے سلسلے میں ہیں (۲) مثالوں کی کثرت میں علم و حکمت کی فراوانی ہے، مگر ان سب کا

 

۵۰۴

 

آخری جوہر ایک ہی ہے، جس میں ایک ہی حقیقت جھلکتی ہے، اور وہ معرفت ہی ہے۔

سوال – ۷۲۶: قرآنِ پاک کی مختلف مثالوں کا ایک ہی مطلب کس طرح ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱) خداوند تعالیٰ القابض بھی ہے اور الباسط بھی، اس لئے جب وہ تمام مثالوں کو حظیرۂ قدس میں لپیٹ لیتا ہے، تو وہاں یہ سب اپنے جوہر کی وجہ سے معرفت ہی معرفت ہوجاتی ہیں، اور جب سے اس نے ان کو قرآن میں پھیلائی ہیں، تب سے یہ یہاں مختلف مثالیں ہیں۔

سوال – ۷۲۷: آدمی پر اللہ تبارک و تعالیٰ کے بے شمار و بے پایان احسانات ہیں، کہ اس ذاتِ بابرکات نے اپنے فضل و کرم سے ہر شخص کو چار عالم کا مالک بنایا ہے، وہ عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، اور عالمِ روحانیّت ہیں، اس میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست اور حقیقت ہے، اور میرا نظریہ بھی یہی ہے، عالمِ بیداری کی اپنی خصوصیات کی وجہ سے ایک بہت بڑی شان ہے، یہ بیحد و بے حساب ظاہری نعمتوں کی کائنات ہے (۲) بہت سے لوگوں نے ابھی تک عالمِ خیال کے عجائب و غرائب کی طرف توجہ ہی نہیں دی، کم از کم خیال کی رفتار پر غور ہونا چاہیئے، جس کے مقابلے میں برق کی رفتار کچھ بھی نہیں،

 

۵۰۵

 

ان شاء اللہ ہم آپ کو بتائیں گے کہ اس میں کیا راز ہے۔

سوال – ۷۲۸: آپ نکاتِ بالا کی مزید وضاحت کریں۔ ۔جواب: (۱) قوّتِ خیال ایک زبردست جنّ یا ایک طاقتور فرشتہ ہے، لیکن انسان کے درجۂ کمال کے بعد، کل عالمِ روحانی میں فرشتۂ خیال آپ کے لئے انتہائی سرعت کے ساتھ کام کرے گا (۲) قوّتِ خیال اللہ کے زندہ معجزات میں سے ایک فرشتہ اور ایک عظیم کائنات ہے، وہ ظاہر و باطن کی ہر ہر نعمت کو لے کر آپ کے سامنے حاضر ہے (۳) اسی طرح اپنے بے شمار عجائب و غرائب کے ساتھ خواب بھی ایک زندہ جہان ہے، اور روحانیّت تو اس دنیا میں بہشت برائے معرفت ہے۔

سوال – ۷۲۹: داعیٔ قیامت کون ہے؟ اللہ تعالیٰ؟ اسرافیل؟ نورِ نبی؟ نورِ امام؟ یا دیگر حدودِ دین؟ -جواب: (۱) خداوندِ قدوس بادشاہ حقیقی ہے، وہ ہر کام کے لئے حکم کرتا ہے، اسرافیل دعوتِ قیامت کا مؤکل ہے، رسولِ پاکؐ دینِ حق (اسلام) کے داعیٔ کل ہیں (۳۳: ۴۶) امامِ زمانؑ نمائندۂ خاص برائے قیامت ہے (۱۷: ۷۱) اور حدودِ دین لشکرِ قیامت کے مقدم ہیں۔

سوال -۷۳۰: سورۂ قمر (۵۴: ۰۶) میں ہے: یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ

 

۵۰۶

 

اِلٰى شَیْءٍ نُّكُرٍ = جس دن بلانے والا ایک انجان اور ناگوار چیز کی طرف بلائے گا۔ یہ داعی کون ہے؟ انجان اور ناگوار چیز کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہ داعی (بلانے والا ) اسرافیل ہے، انجان اور ناگوار چیز قیامت ہے، کیونکہ لوگوں کے پاس نہ تو قیامت کا علم ہے اور نہ معرفت۔

 

۵۰۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۷

 

سوال – ۷۳۱: سورۂ توبہ (۰۹: ۵۲ ) کے حوالے سے سوال ہے: إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ (دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی) کا کیا مطلب ہے؟ -جواب: (۱) مثال کے طور پر زمانۂ نبوّت میں لشکرِ اسلام کی فتح یا شہادت دو بھلائیوں میں سے ایک تھی (۲) اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ بندۂ مومن نیک کاموں کے لئے حقیقی معنوں میں سعی کرتا ہے، کامیابی ہو یا نہ ہو، ہر حالت میں اس کے لئے بھلائی یعنی ثواب ہے۔

سوال – ۷۳۲: آپ اربعین (۴۰) کی اہمیت و عظمت کی چند مثالیں بتائیں -جواب: (۱) اس کے بارے میں قبلاً لکھا گیا ہے، تاہم یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر ۴۰ مومنین کسی مومن کے جنازے پر نماز پڑھتے ہیں اور اس کے لئے خوب دعا بھی کرتے ہیں تو یہ ان کی وجہ سے قبول ہو جاتی ہے، یہ روایت مولا علی علیہ السلام سے ہے (دعائم الاسلام، کتاب الجنائز)۔

 

۵۰۸

 

سوال – ۷۳۳: علم و حکمت کی فضیلت و برتری کے باب میں بہت سی قرآنی آیات ہوسکتی ہیں، لیکن آپ اس سلسلے میں ہمیں صرف چند آیات کی نشاندہی کریں -جواب: (۱) اگرچہ مطالعۂ قرآن کی پہلی نگاہ میں اہلِ ایمان کی سب سے اعلیٰ صفت تقویٰ اور خوفِ خدا ہے، لیکن حقیقی معنوں میں خدا سے ڈرنے والے عُلَماء (أئمّہ علیہم السّلام) ہی ہوتے ہیں (۳۵: ۲۸) اس سے معلوم ہوا کہ خداوند تعالیٰ نے تقویٰ اور علم کو بہت بلندی پر رکھا ہے، اور وہ بلندی مرتبۂ امامت ہے۔

سوال – ۷۳۴: دوسری آیت کی طرف اشارہ کریں -جواب: (۱) سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۸) میں ہے: خدا نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور (یہی شہادت) تمام فرشتوں نے بھی دی ہے، اور صاحبانِ علم (انبیاء وأئمّہ) نے بھی (یہی شہادت) ح دی ہے، جو انصاف پر قائم ہیں۔ (۲) اللہ پاک نے اپنی وحدانیّت کی گواہی علم سے دی ہے، فرشتوں نے یہی گواہی علم و معرفت کی روشنی میں دی ہے، اور یہی گواہی صاحبانِ علم نے بھی علم و معرفت کی روشنی میں دی ہے، تاہم خدا نے اولوالعلم کو انصاف کی صفت سے بھی نوازا، اور ہر معاملے میں انصاف کی ضرورت لوگوں کو پیش آتی ہے (۳) چونکہ یہ علمی انصاف کا تذکرہ ہے، لہٰذا خدا و رسولؐ کی طرف سے انصاف یہ ہوا ہے کہ ہر زمانے میں علم و حکمت کا سرچشمہ قائم اور

 

۵۰۹

 

جاری ہے، اور علم و حکمت کی برتری یہ ہے کہ وہ ایک عظیم الشّان نور ہے۔

سوال – ۷۳۵: تیسری آیت کی نشاندہی کریں -جواب: (۱) سورۂ زمر (۳۹: ۰۹) میں ارشاد ہے: قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الأَلْبَابِ= ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکسان ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔ (۲) اس تعلیمِ ربّانی کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں جو حقیقی علم والے ہیں، وہ سب سے بہتر اور برتر ہیں، یہی لوگ صاحبانِ عقل ہیں، اور قرآنِ پاک کی حکیمانہ نصیحت (علم و حکمت ) عقل و علم والے ہی قبول کرتےہیں (۳) اس سے علم و دانش کی برتری روشن ہو جاتی ہے۔

سوال -۷۳۶: آج کی دنیا میں بہت سے علوم مشہور ہیں، اور ہر علم اپنے میدان میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، پس آپ بتائیں کہ قرآنِ عظیم جس علم کو بڑی زبردست اہمیّت دیتا ہے، اور جس کی انتہائی تعریف کرتا ہے، وہ علم کونسا ہے؟ -جواب: (۱) وہ علمِ دین ہے، چونکہ وہ ہمہ رس، ہمہ گیر، اور کائناتی ہے، لہٰذا اس کے بہت سے نام ہیں (۲) جیسے علم الاسماء (علمِ حقائقِ اشیاء)، علمِ روحانی، علم توحید، علمِ باطن، حکمتِ دین، علم تاویل، علمِ الآخرت، معرفت وغیرہ۔

 

۵۱۰

 

سوال – ۷۳۷: آپ علمِ دین کی کچھ تعریف و توصیف کریں -جواب: (۱) علم کنزِ ازل ہے، نورِ ازل ہے، گوہرِ بحرِ ازل ہے، گنجینۂ اسرارِ ازل ہے، یہ وہ کتابِ مکنون ہے، جس کو نہ تو کوئی پا سکتا ہے اور نہ ہی چھو سکتا ہے مگر وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں (۲) قرآن علم و حکمت کے موتیوں کا بحرِ عمیق ہے، امام قرآنِ ناطق یعنی علم و حکمت کی بولتی کتاب ہے (۳) کائنات و موجودات کی کوئی ایسی چیز نہیں، جس میں علم کا کوئی عجیب و غریب راز نہ ہو، پھر قرآن کی کوئی چیز کس طرح علم و حکمت سے خالی ہوسکتی ہے، جبکہ اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، اور اس کے باطن درباطن کا سلسلہ سات یا ستر تک جاتا ہے۔

سوال – ۷۳۸: قرآنِ حکیم کی معرفت کے سلسلے میں یہ ایک اہم سوال ہے: آیا قرآنِ پاک آنحضرتؐ پر بتدریج نازل ہوا ہے یا مجموعاً ایک ہی دفعہ عطا ہوا ہے؟ جیسا کہ سورۂ حجر (۱۵: ۸۷) میں ہے؟ -جواب: (۱) ہر آسمانی کتاب بحکمِ خدا کسی پیغمبر پر بتدریج بھی نازل کی گئی ہے اور مقامِ معراج پر مجموعاً بھی عطا ہوئی ہے (۲) کیونکہ وہاں خزانے ہی خزانے عطا ہوجاتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو کائناتیں عنایت فرماتا ہے۔

سوال – ۷۳۹: بحوالۂ سورۂ بَیِنہ (۹۸: ۰۲ تا ۰۳) سوال ہے کہ

 

۵۱۱

 

یہاں قرآن کا ایک نام صُحُف آیا ہے، جس کے معنی ہیں: صحیفے، کتابیں، نوشتے، اوراق، اس کے بعد ارشاد ہے: فیھا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ = اس میں مضبوط کتابیں ہیں۔ آپ بتائیں قرآنِ حکیم کس طرح صُحُف (صحیفوں کی جمع ) ہے؟ اور کس طرح قرآن میں مضبوط اور قائم رہنے والی کتابیں ہیں؟ – جواب: (۱) قرآنِ پاک اگلی آسمانی کتابوں / الکتاب کا محافظ و نگہبان بھی ہے (۰۵: ۴۸) اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بھی قرآن کے معجزات میں سے ہے کہ اس میں سابقہ کتب سماوی کے خلاصے بھی موجود ہیں اس اعتبار سے اس کا نام صحف ہے (۲) قرآنِ حکیم کا ہر مضمونِ عالی بجائے خود ایک مضبوط و مستحکم کتاب ہے، اس میں صاحبانِ عقل کے لئے یہ اشارہ بھی ہے کہ ہر مضمون کو تمام متعلقہ آیات کے ساتھ پڑھیں۔

سوال – ۷۴۰: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۳) میں ہے: سب لوگ ایک ہی طریق کے تھے، پھر اللہ نے پیغمبروں کو بھیجا جو کہ خوشی (کے وعدے) سناتے تھے اور ڈراتے تھے، اور ان کے ساتھ کتابِ برحق (الکتاب) نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔ اس میں پہلا سوال یہ ہے: لوگ کب اور کہاں ایک ہی طریق پر تھے؟ دوسرا سوال: آیا تمام پیغمبروں پر ایک ہی کتاب نازل کی گئی ہے جس کا نام “الکتاب” ہے؟ – جواب: (۱) حدیثِ شریف کے مطابق سب لوگ حالتِ روحانی میں جمع شدہ لشکر کی حیثیت سے ایک ہی گروہ ہیں، لیکن حالتِ جسمانی میں ان

 

۵۱۲

 

کے درمیان اختلافات ہیں، درحالے کہ ان کی طرف انبیاء علیہم السّلام بھیجے گئے ہیں (۲) جملہ آسمانی کتابیں دراصل ایک ہی ہیں، کیونکہ وہ سب کی سب خدائے واحد کے پاک کلام پر مبنی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کتبِ سماوی کا مجموعی نام الکتاب مقرر ہوا۔

 

۵۱۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۸

 

سوال – ۷۴۱: حدِّ قوّت اور حدِّ فعل کے بارے میں مثال پیش کرکے سمجھائیں کہ ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے؟ -جواب: (۱)  ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، قرآنِ حکیم میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں، جیسے سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ارشاد ہے: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمان میں اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اللہ نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے، اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں۔ چونکہ یہ تسخیرِ کائنات وہ نہیں، جس طرح لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ یہ فنا فی اللہ و بقاء باللہ کے درجے کی روحانی سلطنت ہے، لہٰذا یہ سب سے عظیم نعمت خاصانِ خدا کو بحدِّ فعل حاصل ہے، اور باقی سب کے لئے یہ نعمت ھنوز بحدِّ قوّت ہے۔

سوال – ۷۴۲: سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) کا ایک مفہوم ہے: اور زمینِ کائنات میں اہلِ یقین کے لئے آیات و معجزات ہیں، اور یہ تمام معجزات تمہارے نفوس میں بھی ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے؟ آپ اس

 

۵۱۴

 

کی وضاحت کریں -جواب: (۱) اس ارشاد میں لوگوں کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ وہ موقنین (اہلِ یقین) کے پیچھے پیچھے آفاق و انفس میں معجزات کو دیکھیں، تاکہ ان کو گنجِ معرفت حاصل ہوجائے (۲) ہر شخص کی ذات میں بحدِّ قوّت (بحدِ امکان) ہر چیز اور سب کچھ موجود ہے، لیکن اسے علم و عمل کے ذریعے سے حدِّ فعل میں لانے کی دیر ہے۔

سوال – ۷۴۳: آپ کے بہت ہی عزیز شاگرد کبھی کبھی ٹیلیفونک سوالات بھی کرتے رہتے ہیں، اگر علم و حکمت کے مسائل ہیں تو آپ شادمان ہوجاتے ہیں، چنانچہ آج صبح (۶ ؍جولائی ۱۹۹۹ء) اٹلانٹا (امریکہ) سے موکھی نزار علی کچھ سوالات کر رہے تھے، اور آپ بڑی خوشی سے جواب دے رہے تھے، کیا آپ اس کا کوئی خلاصہ بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ہمارے تلامیذ جو مغرب میں ہیں، وہ سب کے سب حقیقی علم کے عاشق ہیں، لہٰذا وہ ہر وقت علمی تجلّیات کے لئے بے تاب و بیقرار رہتے ہیں (۲) پس میں موکھی نزار علی کے سوالات سے بھی اور ان کی علمی ترقی سے بھی خوش ہوں، اور وہاں عاشقانِ مولا اور بھی ہیں (۳) سلسلۂ سوال و جواب میں بڑی عمدہ باتیں تھیں، وہ ان سطور سے زیادہ ہیں۔

سوال – ۷۴۴: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۴) میں ارشاد ہے کہ قیامت کے دن اللہ لوگوں کو لپیٹ کر اپنے حضور کی طرف لے جاتا

 

۵۱۵

 

ہے، اس امرِ واقعی کی کیفیت کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کی وہی سنتِ بے بدل ہے جس کا بار ہا ذکر ہوچکا ہے کہ زمانے کے امام کے ذریعے سے روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس میں عالمِ انسانی نفسِ واحدہ میں لپیٹ لیا جاتا ہے، (۲) یعنی جس طرح آدم سے نفوسِ خلائق پھیلائے گئے تھے، اسی طرح سب کے سب واپس وارثِ آدم یا آدمِ زمان میں لپیٹ لئے جاتے ہیں (۳۱: ۲۸)۔

سوال – ۷۴۵: جنّ اور پری میں کیا فرق ہے؟ اگر میں کہوں: “پری مرد اور پری عورت” تو کیا یہ بات غلط ہوگی؟ -جواب: (۱) جنّ اور پری میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ ایک ہی لطیف مخلوق اور ایک ہی قوم ہے، جس کو عربی میں جنّ اور فارسی میں پری کہتے ہیں (۲) چونکہ “پری” قوم کا نام ہے اس لئے پری مرد اور پری عورت کہنا بالکل درست ہے (۳) لفظِ پری “پریدن” کا مخفف ہے، جس کے معنی ہیں پرواز کرنا، چونکہ یہ مخلوق (جنّ = پری) برق رفتاری سے آتی جاتی ہے، لہٰذا پری (پریدن = اُڑنا) اس کا نام مقرر ہوا۔

سوال – ۷۴۶: کہتے ہیں کہ جب مومن کثیف سے لطیف ہو جاتا ہے، یعنی جب اس کو زندہ جسمِ لطیف مل جاتا ہے، تو اسی سے وہ پری ہوجاتا ہے، آپ چاہیں تو اس کو فرشتہ یا جنّ بھی کہہ سکتے ہیں، کیا یہ بات درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، یہ بات یقیناً درست

 

۵۱۶

 

ہے، کیونکہ جب مومن کی روحانی ترقی ہوتی ہے تو وہی پری، جنّ، فرشتہ، اور انسانِ کامل ہوجاتا ہے (۲) اس نوعیت کے بے شمارمعجزے عالمِ شخصی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں۔

سوال – ۷۴۷: ارشادِ نبوّی ہے: اِنّ لِکُلِّ شَیْءٍ قَلْباً وَّقَلْبُ الْقُرْاٰنِ یٰسٓ  = ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یٰسٓ ہے۔ آپ اس کی حکمت بتائیں -جواب: (۱) ہر چیز کا قلب اس کی نوعیت اور ضرورت کے مطابق ہوا کرتا ہے، چنانچہ قرآن کا قلب نور (۰۵: ۱۵) اور روح (۴۲: ۵۲) ہے اور سورۂ یٰسٓ میں اسی مبارک قلبِ قرآن کا ذکرِ جمیل موجود ہے (۳۶: ۱۲) (۲) قرآنِ حکیم کی حکمت سمجھنے کے لئے لغات کے الفاظ کافی نہیں ہوسکتے ہیں، جب تک کہ آسمانی لغات و تفسیر یعنی خود قرآن میں خوب غور نہ کیا جائے۔

سوال – ۷۴۸: قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی سب سے کامل و مکمل اور بے مثال و لاجواب کتاب ہے، تاہم قرآن فرماتا ہے کہ خدا کے پاس ایک بولنے والی کتاب بھی ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) کیا اللہ کی یہ دونوں کتابیں قطعاً الگ الگ ہیں یا مربوط ہیں؟ اگر الگ الگ ہیں تو اِس میں اُس کی کمی ہوگی، اور اُس میں اِس کی کمی، آپ بتائیں کہ حقیقت کیا ہے؟ -جواب: (۱) خداوند تعالیٰ کی کتابِ صامت اور کتابِ ناطق دونوں بظاہر الگ الگ بباطن مربوط اور ایک ہیں، یہی تو کمالِ

 

۵۱۷

 

معجزہ اور لوگوں سے زبردست امتحان ہے (۲) ہم سب قرآنِ مقدّس کو معجزۂ محمدی تو کہتے ہیں، لیکن اے کاش ہم کو اس کے عظیم روحانی معجزات کی معرفت یا خبر ہوتی !

سوال – ۷۴۹: کیا آپ قرآنِ حکیم کے عظیم روحانی معجزات کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ، خوب یاد رہے کہ قرآن خدائے لایزال کا قدیم کلام ہے، اس کے اوّلین ظہورات و معجزات مقامِ ازل یا بہشت برائے معرفت میں ہیں (۲) قرآن امر ہے، اس لئے یہ ہمیشہ کلمۂ کنۡ میں متجلّی ہے، قرآن عقل اور علم و حکمت ہے، لہٰذا یہ قلمِ اعلیٰ (عقلِ کلّی) کا دائمی معجزہ ہے (۳) قرآن کے اسرار کبھی ختم نہیں ہوتے، یہی سبب ہے کہ قرآن کتابِ مکنون میں بھی ہے اور لوحِ محفوظ میں بھی ہے۔

سوال – ۷۵۰: پروردگار سے آنحضرتؐ تک نزولِ وحی کے لئے جو وسائط تھے، وہ کیا کیا ہیں؟ -جواب: (۱) قلم (عقلِ کلّ) لوح (نفسِ کلّ) اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل۔

 

۵۱۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۹

سوال – ۷۵۱: آپ کا سب سے جدید اور سب سے انوکھا موضوع “روحانی سائنس” بڑا انقلابی اور حیران کن ہے، پس آپ یہ بتائیں آیا بیابانوں میں لطیف مخلوقات رہتی ہیں؟ اگر رہتی ہیں تو اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) انسانی آبادی سے باہر کوہ، دشت، اور بیابان جیسے مقامات میں لطیف مخلوقات رہتی ہیں، جس میں یہ حکمتی اشارہ ہے کہ کائنات کے تمام بیابان ستاروں پر مخلوقِ لطیف رہتی ہے (۲) کتابِ دعائم الاسلام، عربی، حصّہ اوّل ص ۲۹۱ پر ہے کہ قبل از آدمؑ سیّارہ زمین کے ہر مقام پر جنّات یعنی پری قوم رہتی تھی، پھر ان کو بیابانوں کی طرف ہٹایا گیا، تاہم جس طرح انسان کبھی کبھی کوہ و صحرا کی طرف جاتا ہے، اسی طرح جنّ و پری بھی یہاں آسکتے ہیں۔

سوال – ۷۵۲: آپ نے قبلاً کہا ہے کہ انسانِ لطیف ہی جنّ اور پری ہے، پھر آپ ہی بتائیں کہ اس کی غذا کیا ہے؟ -جواب: (۱) اس کی غذا جوہرِ اشیاء ہے یعنی روحانی ثمرات غذا ہیں، یہ ثمرات روحانی ذرّات کی شکل میں ہیں (۲) ان میں زبردست خوشبو بھی ہے

 

۵۱۹

 

اور انرجی بھی ہے، بعض دفعہ صرف ذرّات ہوتے ہیں اور بعض دفعہ خوشبوئیں بھی (۳) یہ غذائیں کسی باغ و گلشن سے نہیں، بلکہ خزانۂ غیب سے ہیں۔

سوال – ۷۵۳: ہر قرآنی حکایت صرف حکایت نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے باطن میں حکمت بھی ہے، سو بتائیں کہ آیا قرآنِ پاک میں کہیں روحانی غذا کا ذکر موجود ہے؟ ۔جواب: (۱) جی ہاں، کلامِ الٰہی میں جگہ جگہ روحانی غذاؤں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، سب سے نمایان بیان قصّۂ بنی اسرائیل میں ہے، جو من و سلوٰی کے عنوان سے ہے (۲) من  ثمرۂ روحانی / جوہرِ روحانی ہے، اور سلوٰی روحانی خوشبو ہے، خوشبو پھلوں کا جوہر بھی ہے اور غذاؤں کا جوہر بھی (۳) کہتے ہیں کہ سلوٰی بٹیرکی طرح ایک پرند تھا، جو آسمانی غذا کے طور پر ایک خاص وقت میں بنی اسرائیل کے لئے نازل ہوتا تھا، مگر عقل، منطق، اور حکمت کہتی ہے، کہ وہ ایک معجزانہ غذائی جوہر تھا، نہ کہ ظاہری مرغ کی طرح کوئی پرند (۴) دنیا کے حلال پرندوں کو ذبح کرنا، صاف کرنا، اور پکانا پڑتا ہے، لیکن آسمانی غذائیں بہشت کی غذائیں ہوتی ہیں، وہ جوہر اور طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں ہوا کرتی ہیں۔

سوال – ۷۵۴: آپ کہتے ہیں کہ ہر چیز کا روحانی ثمرہ (پھل) یعنی جوہر ہوتا ہے، تو کیا پتھر جیسی چیزوں کا بھی کوئی پھل یا جوہر ہوتا ہے؟

 

۵۲۰

 

-جواب: (۱) جی ہاں، چونکہ ہر چیز خدا کے خزانوں سے نازل ہوئی ہے (۱۵: ۲۱) لہٰذا ہر چیز کی ایک روح ہے، اور یہی روح ثمرہ اور جوہر بھی ہے، اور ہر چیز نازل ہوجانے کے باوجود خزائنِ الٰہی میں بھی ہے (۲) پس خداوند تعالیٰ پتھر جیسی اشیاء سے بھی میوۂ روح / ذرۂ روح پیدا کرکے عارف کے کام میں لگا دیتا ہے، آپ اشارۂ قرآن (۳۱: ۱۶) کو دیکھ لیں۔

سوال – ۷۵۵: کیا عارف کی نمائندہ قیامت میں آسمان و زمین کی ہر مخلوق اور ہر شیٔ سے ذرۂ روح آجاتا ہے؟ اس کی کیا دلیل ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، اور اس کی دلائل میں سے ایک دلیل سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں اس طرح سے ہے: بیٹا، اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہو (یعنی ذرۂ روح) اور وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو تو اس کو بھی خدا (بوقتِ قیامت) حاضر کرے گا (۲) سورۂ زلزال (۹۹: ۰۷ تا ۰۸) میں بھی دیکھ لیں: پس جو کوئی ذرہ بھر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا، اور جو کوئی ذرہ بھر برائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔

سوال – ۷۵۶: سورۂ طلاق کا آخری ارشاد  (۶۵: ۱۲): اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنْ الأَرْضِ مِثْلَهُنَّ = اللہ وہی ہے جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا اور انہی کی طرح زمین بھی۔

 

۵۲۱

 

سوال ہے کہ آیا آسمانوں ہی کی طرح زمینیں بھی سات ہیں؟ کیا مِثْلَھُنَّ (انہی کی طرح) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سات آسمان اور سات زمین سب کے سب تعداد میں بھی اور طول و عرض میں بھی برابر برابر ہیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں، آیۂ کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں (۲) یقیناً سات آسمان اور سات زمین سائز میں بھی برابر برابر ہیں، اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہی ایک کائنات ۷ x  ۲ = ۱۴ ہے، اور اس کی تاویل یہ ہے کہ سات صاحبانِ ادوار آسمان ہیں، اور ان کے سات حجت زمین ہیں۔

سوال – ۷۵۷: سورۂ طور (۵۲: ۳۸) میں ارشاد ہے: أَمْ لَهُمْ سُلَّمٌ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَأْتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ =کیا ان کے لئے کوئی سیڑھی ہے کہ وہ اس پر چڑھ کر (آسمان کی خبریں) سن لیتے ہیں؟ پس ان کا سننے والا کوئی کھلی دلیل لائے۔ اس مثال کے ممثول اور باطنی حکمت کو بیان کریں، تاکہ قارئین کو فائدہ ہو-جواب: (۱)  روحانی ترقی آسمانی سیڑھی ہے، اور قرآن کی عملی تاویلات آسمانی خبریں لانے کی طرح ہیں۔

سوال – ۷۵۸: قرآنِ پاک سے علم و عمل کے فائدے حاصل کرنے کے بہت سے طریقے ہیں، تو کیا چشمِ باطن سے قرآن کا باطنی مشاہدہ اور معرفت بھی ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو کس طرح سے ہے؟

 

۵۲۲

 

-جواب: (۱) جب حدیثِ مَنْ عَرَف کے مطابق معرفتِ نفس اور معرفتِ ربّ ممکن ہے، تو پھر کلامِ الٰہی کی معرفت غیر ممکن نہیں ہے (۲) قرآنِ عظیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، جس کی اوّلین سماعت کلمۂ کُنْ سے بار بار ہوتی رہتی ہے، (۳) ساتھ ہی ساتھ دیدارِ پاک کی انتہائی نوازش بھی ہے، اور قلمِ الٰہی ایک نور اور فرشتہ ہے، وہ لوحِ محفوظ میں لکھا رہتا ہے (۴) لوحِ محفوظ بھی ایک نور اور فرشتہ ہے، اسی مقام پر کتابِ مکنون بھی ہے، وہ ایک نور ہے، جس میں اسرارِ قرآن پوشیدہ ہیں، الغرض یہ تمام معجزات آیاتِ کُبریٰ کے نام سے ہیں، پس بہشت برائے معرفت میں پروردگار کی معرفت کے ساتھ ساتھ قرآن کی معرفت کیوں نہ ہو، جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے۔

سوال – ۷۵۹: آیا قرآنِ حکیم کی معرفت حضرتِ ربّ العزّت کی معرفت کے ساتھ ہے یا اس سے الگ ہے؟ وہ آیۂ شریفہ کونسی ہے، جس میں قرآن کی باطنی معرفت کا ذکرِ جمیل موجود ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ عظیم کی معرفت خدا کی معرفت سے جدا نہیں، کیونکہ کلمۂ امر میں معجزۂ قرآن کا تجدّد ہوتا رہتا ہے (۲) قرآن کی معرفت کا تذکرہ سورۂ نمل کے خاتم یعنی آخری آیت (۲۷: ۹۳) میں ہے۔

سوال – ۷۶۰: مذکورہ آیۂ کریمہ سے سمجھا دیں کہ معرفتِ قرآن کس صورت میں ہے؟ -جواب: (۱) ترجمۂ آیت: اور کہہ دو حمد (عقلِ

 

۵۲۳

 

کل) خدا کے لئے ہے وہ عنقریب تمہیں اپنے معجزات (آیات) دکھائے گا، پھر تم انہیں پہچان لو گے (یعنی حظیرۂ قدس کے معجزات، جن کا مجموعہ قرآن ہے) (۲) قرآنِ حکیم لوحِ محفوظ میں ہے، لیکن اس طرح سے نہیں جیسے کوئی بہت پرانا ریکارڈ خاموش پڑا ہو، بلکہ اس میں تجدّد کا معجزہ ہے، اس لئے وہاں ہر وقت نزولِ قرآن کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔

 

۵۲۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۰

 

سوال – ۷۶۱: پیغمبرِ اکرمؐ کا سب سے بڑا معجزہ کیا ہے؟ اور امامِ عالی مقامؑ کا سب سے عظیم معجزہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرتؐ کا عظیم ترین معجزہ تنزیلِ قرآن ہے، اور امامِ برحقؑ کا معجزہ تاویلِ قرآن ہے (۲) یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم کے تاویلی اسرار امامؑ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، اور جن مومنین کو فنا فی الامام کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے، وہی علمِ تاویل سے فیضیاب ہوسکتے ہیں، کیونکہ امامِ آلِ محمدؐ ہی قرآن و حدیث کے علم و حکمت کا دروازہ ہے۔

سوال – ۷۶۲: لفظِ کرسی قرآنِ حکیم ( ۰۲: ۲۵۵، ۳۸: ۳۴) میں صرف دو دفعہ آیا ہے، مقامِ اوّل پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی کرسی کا تذکرہ ہے، اور مقامِ دوم پر حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی کرسی کا بیان ہے، آپ یہ بتائیں کہ خدا کی کرسی کیا ہے؟ اور سلیمانؑ کی کرسی کیا ہے؟ -جواب: (۱)  اللہ تعالیٰ کی کرسی نفسِ کلّی ہے اور حضرتِ سلیمانؑ کی کرسی نفسِ مطمئنہ ہے۔

 

۵۲۵

 

سوال – ۷۶۳: قرآنِ حکیم فرماتا ہے (۳۸: ۳۴) کہ بطورِ آزمائش حضرتِ سلیمانؑ کی کرسی پر ایک جسد (جسمِ لطیف) ڈالا گیا تھا، اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) جس طرح جسمِ کثیف میں بہت سی مخلوقات ہیں، اسی طرح جسمِ لطیف میں بھی ہیں، چنانچہ حضرتِ سلیمان کی روح و روحانیّت پر ایک آزمائشی جسمِ لطیف بھی ڈالا گیا تھا (۲) پھر بہت جلد یہ تکلیف دور ہوئی تھی۔

سوال – ۷۶۴: آیا یہ بات حقیقت ہے کہ انبیائے قرآن کے سارے معجزات صراطِ مستقیم پر زندہ اور موجود ہیں؟ کیا وہ منزلِ مقصود (حظیرۂ قدس) میں سب معجزات جمع بھی ہیں؟ – جواب: (۱) جی ہاں، یہ حقیقت ہے، کیونکہ کوئی بھی معجزہ صراطِ مستقیم سے ہٹ کر ہو ہی نہیں سکتا (۲) یہی سبب ہے کہ سالکین و عارفین کے لئے ہر گو نہ معرفت حاصل ہوسکتی ہے۔

سوال – ۷۶۵: سورۂ حاقۃ (۶۹: ۱۱) میں ارشاد ہے: اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِی الْجَارِیَةِ۔ اس آیۂ کریمہ کی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) ترجمہ: پس ہم نے اس وقت جب پانی میں طغیانی آئی تو تمہیں کشتی میں سوار کردیا (۲) اللہ تعالیٰ کا یہ پاک خطاب ہر زمانے کے مومنین سے ہے کہ ہر زمانے میں قیامت برپا ہوجاتی ہے، جس میں طوفانِ روحانی بھی ہے اور کشتیٔ نجات بھی۔

 

۵۲۶

 

(۳) سفینۂ نوح یعنی نجات اہلِ بیتِ اطہار ہیں۔

سوال – ۷۶۶: آپ نے اس دفعہ بھی اپنے دوستانِ مغرب کو حکمت کی حیران کن باتیں بتائیں، تو کیا آپ “علمُ الآخرت” کے بارے میں مزید وضاحت کرسکتے ہیں؟ – جواب: (۱) ان شاء اللہ، سورۂ نمل (۲۷: ۶۶) میں غور سے دیکھ لیں، جس میں تین دفعہ علم الآخرت کی طرف واضح اشارہ فرمایا گیا ہے: (الف) بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم ختم ہوگیا (ب) بلکہ وہ اس کی طرف سے شک میں ہیں (ج) بلکہ وہ اس سے دل کے اندھے بنے ہوئے ہیں۔

سوال – ۷۶۷: سورۂ حجر کے آخر (۱۵: ۹۹) میں ارشاد ہے: وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۔ اس آیۂ کریمہ کا اصل ترجمہ اور حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: اور اپنے پروردگار کی عبات کرو یہاں تک کہ تمہیں حق الیقین آجائے (۲) اکثر ترجموں میں یقین سے موت مراد لی گئی ہے، لیکن حق بات تو یہ ہے کہ عبادت حصولِ معرفت کی غرض سے ہے نہ کہ موت حاصل کرنے کے لئے، جبکہ یقین معرفت کا دوسرا نام ہے۔

سوال – ۷۶۸: سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۶۰ تا ۶۱) میں ہے: اے اولادِ آدم! کیا میں نے تم سے یہ عہد نہ لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت

 

۵۲۷

 

نہ کرنا یقیناً وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے، اور یہ کہ تم میری ہی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ سوال ہے کہ بنی آدم کس طرح شیطان کی عبادت کرتے ہیں؟ -جواب: (۱) کوئی شخص شعوری طور پر شیطان کو معبود قرار دے کر عبادت نہیں کرتا ہے، مگر شیطان چونکہ نفسِ امّارہ کے روپ میں بھی ہے، اس وجہ سے اکثر لوگ اس کی غلامی کر تے رہتے ہیں (۲) پس شیطان کی عبادت سے اس کی غلامی مراد ہے۔

سوال – ۷۶۹: قرآنِ حکیم کے مادّہ س خ ر میں یہ ذکر ہے کہ خدا نے کائنات کو انسان کے لئے مسخر کردیا ہے، آپ یہ بتائیں کہ تسخیر کی شرط کیا ہے؟ اور تسخیر کی سورتیں کیا کیا ہیں؟ -جواب: (۱) اس کی عظیم شرط حصولِ معرفت ہے، تسخیر کی ایک صورت عالمِ شخصی میں ہے کہ اس میں ارض و سما لپیٹا ہوا ہے (۲) تسخیر کی دوسری صورت اپنی جگہ پر کائنات ہے، جس پر انسانی روح بذریعۂ عالمگیر روح محیط ہے۔

سوال – ۷۷۰: اب آپ یہ بتائیں کہ عالمِ کبیر کونسا ہے، اور عالمِ صغیر کونسا؟ انسانِ کبیر کس کا نام ہے، اور انسانِ صغیر کون ہے؟ -جواب: (۱) عالمِ کبیر کائناتِ ظاہر کا نام ہے، جبکہ عالمِ صغیر انسان کو کہتے ہیں، جس کو ہم عالمِ شخصی بھی کہتے ہیں(۲) کائنات کی عقل جان ہے، اس لئے وہ انسانِ کبیر ہے، اور آپ اس کے مقابلے میں انسانِ صغیر ہیں۔

 

۵۲۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۱

 

سوال – ۷۷۱: اسرافیلی اور عزرائیلی معجزے کے دوران عارف کی روح قبض کرکے کائنات میں پھیلائی جاتی ہے، اور کائناتی روح عارف میں ڈال دی جاتی ہے، پس آپ بتائیں کہ اس معجزۂ اعظم کی کیا کیا تاویلیں ہوسکتی ہیں؟ -جواب: (۱) اس کی بہت سی تاویلیں ہیں، مثلاً یہ تسخیرِ کائنات کا مظاہرہ ہے، عارف وہ بہشت ہوگیا، جو کائنات کے طول و عرض میں ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اس معجزے کے ظہور سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دراصل انسانی ذات اور کائنات ایک ہی حقیقت ہے (۲) اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ ناسوت بھی ہیں اور ملکوت بھی۔

سوال – ۷۷۲: اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے اس میں سے تمہارے لئے سائے قرار دیئے (۱۶: ۸۱) وَظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ = اور پھیلائے ہوئے سائے (۵۶: ۳۰) آپ ان دونوں آیتوں کی حکمت بیان کریں – جواب: (۱) اللہ نے انوارِ عالمِ علوی کے مظاہر عالمِ دین میں بھی اور عالمِ شخصی میں بھی بنائے، جیسے عالمِ بالا میں قلم اور لوح دو نور (دو فرشتے ) ہیں، اور ان کے مظہر عالمِ دین میں ناطق اور اساس ہیں، اور عالمِ شخصی میں دو

 

 

۵۲۹

 

مظہر عقل و جان ہیں (۲) ظِلِّ ممدود نورِ معرفت کا پھیلاؤ ہے، چنانچہ اگر آپ کے پاس گنجِ معرفت ہے تو یقیناً آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ: “میری اصل حقیقت خدا میں ہے، لہٰذا سب کچھ میرا ہے۔”

سوال – ۷۷۳: سورۂ صف کی آخری آیت (۶۱: ۱۴) بھی بڑی عجیب و غریب ہے، اس میں ایک عظیم آسمانی ٹائٹل کا ذکر ہے، وہ انصار اللہ ہے، یعنی خدا کے مددگار، جیسا کہ اس آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے، تم اللہ تعالیٰ کے مددگار (انصار اللہ) ہوجاؤ، جیسا کہ عیسیٰ ابنِ مریم نے حواریوں سے کہا کہ کون اللہ تعالیٰ کی طرف (جانے میں) میرے مددگار ہیں؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں (۶۱: ۱۴) اس مقام پر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ اہلِ ایمان (مومنین و مومنات) کس طرح خدائے قادرِ مطلق کے کاموں میں مددگار ہو سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) اس سوال کا جواب خود اس آیۂ کریمہ میں موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مددگار ہونا یہ ہے کہ پیغمبر اور امام کے کاموں میں مدد کی جائے، اور اسی طرح ایماندار لوگ اللہ تعالیٰ کے مدد گار ہوسکتے ہیں۔

سوال – ۷۷۴: آیا قرآنِ حکیم کے کسی اور مقام پر بھی ایسا حکم موجود ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، ایسا ارشاد سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں بھی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ

 

۵۳۰

 

کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا۔ (۲) یعنی اگر تم حقیقی مومنین کی حیثیت سے پیغمبرؐ اور امامؑ کی مدد کروگے تو اللہ باطنی کاموں میں تمہاری مدد کرے گا، اور تم کو ذکر و عبادت اور علم و حکمت کے راستے پر ثابت قدم رکھے گا، جس سے تم کسی لغزش کے بغیر آگے سے آگے چلو گے۔

سوال -۷۷۵: آپ شرق و غرب کے اپنے عزیزوں / شاگردوں کو بیحد چاہتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟ – جواب: (۱) اس کی وجہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے تاکہ ہم ایک ہی جان (روح) اور ایک ہی عالمِ شخصی بن کر علمی خدمت کو سرانجام دے سکیں (۲) احباب کے قلوب سونے کے ٹکڑوں کی طرح ہیں، دینی محبت آگ کی مثال ہے، پس جس طرح آگ سونے کی ڈلیوں کو پگھلا کر ایک کر دیتی ہے، اسی طرح حقیقی محبت اہلِ ایمان کے دلوں کو ایک کر دیتی ہے۔

سوال – ۷۷۶: آپ کے نزدیک دینی محیّت کی حدود کیا ہیں؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ کی محبّت، رسولِ پاکؐ کی محبّت، أئمّۂ طاہرینؑ کی محبّت، جماعت کی محبّت، دیگر مسلمانوں کی محبّت، اور بہشت میں تمام انسانوں کی محبّت (۲) کیونکہ بہشت میں سب لوگ جمع ہوجاتے ہیں، جس میں محبّت ہی محبّت ہے، اور وہاں عداوت کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

 

۵۳۱

 

سوال – ۷۷۷: قصّۂ اصحابِ کہف کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ ان کی اصل تعداد کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہ وہ معجزۂ روحانی ہے، جس کا تعلق چھ ناطق اور قائم سے بھی ہے، نیز چھ امام اور قائم سے بھی، اور کلب (کتا) دونوں مقام پر صاحبِ عالمِ شخصی ہے، لہٰذا ان کی تعداد ۷  +۱ = ۸ ہے (۲) غار سے روحانیّت اور حظیرۂ قدس مراد ہے، وہ سب جوان ہیں، کیونکہ روحانیّت اور جنّت میں ہر شخص جوان ہوتا ہے (۳) انسان کے ساتھ کتے کا شمار حکمت سے خالی نہیں، اس جانور کی خصوصیات میں سے مالک و آقا کی پیروی، وفاداری، پاسبانی، اور جان نثاری ملحوظِ نظر ہیں (۴) ہفت انوار (اصحابِ کہف) ہمیشہ اپنے میں سے ایک کو سکۂ علم و حکمت (گوہرِعقل) کے ساتھ دنیا میں بھیجتے رہتے ہیں، یہ دورِ نبوّت میں کوئی پیغمبر ہوتا ہے، اور دورِ امامت میں کوئی امام۔

سوال – ۷۷۸: قصّۂ اصحابِ کہف کے شروع (۱۸: ۰۹) میں رقیم (نوشتہ) کا تذکرہ بھی ہے، ان دونوں تذکروں کے درمیان کیا مناسبت ہے؟ -جواب: (۱) اصحابِ کہف اور رقیم کی مناسبت یہ ہے کہ ساری روحانیّت ہفت انوار سے متعلق خدائی تحریر (رقیم) ہے، اور خدائی تحریر کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔

سوال – ۷۷۹: ان الفاظ کی تاویلی حکمت بیان کریں: إِذْ أَوَى

 

۵۳۲

 

الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ (۱۸: ۱۰)فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ (۱۸: ۱۱) ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ (۱۸: ۱۲)وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ (۱۸: ۱۴)لَوْلاَ يَأْتُونَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ(۱۸: ۱۵)  -جواب: (۱) جب وہ چند نوجوان غارِ روحانیّت میں پناہ گزین ہوئے (۲) پس ہم نے ان کے کانوں پر صورِ اسرافیل کا یک ضربہ لگادیا (۳) پھر ہم نے ان کو موتِ نفسانی کے بعد زندہ کیا (۴) اور ہم نے ان کے دلوں کو نورِ معرفت سے مربوط کیا (۵) یعنی اگر وہ خدا شناس ہیں اور ان کی بیان کردہ توحید درست ہے تو حق الیقین کی کوئی روشن دلیل کیوں پیش نہیں کرتے ہیں۔

سوال – ۷۸۰: آپ کوئی ایسی محکم اور روشن دلیل پیش کریں، جس سے ہم کو یقینِ کامل حاصل ہو کہ قرآنِ حکیم کے ہر قصّے کی روحانیّت اور تاویل ہے -جواب: (۱) جب حدیثِ شریف کے مطابق ہر آیۂ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، بلکہ سات بواطن ہیں، تو پھر قصّۂ اصحابِ کہف یا کوئی اور قصّہ تاویل سے خالی کس طرح ہو سکتا ہے (۲) آپ ذرا غور کریں، کیا اللہ تعالیٰ نے کل اشیاء کو امام ِمبین میں محدود نہیں کیا ہے؟

 

۵۳۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۲

 

سوال – ۷۸۱: سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰) میں ہے: ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو۔ اس کی باطنی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) اس کی حکمت یہ ہے کہ قرآن کے باطن میں ہر جگہ عالمِ شخصی کا ذکر آیا ہے، اس معنیٰ میں انسان کا تذکرہ سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے (۲) دوسری حکمت یہ ہے کہ ذکر سے معرفت مراد ہے، جس میں انسان کی عظمت ہے، اور انسان کی معرفت قرآنِ حکیم ہی میں ہے۔

سوال – ۷۸۲: عالمِ شخصی کی نمایان نشاندہی اور تعریف کس سرچشمۂ علم و حکمت سے شروع ہوئی ہے؟ -جواب: (۱) حضرتِ امیرالمومنین علی علیہ السّلام کے بابرکت کلام سے، جس کا ترجمہ یہ ہے: کیا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر (ساری کائنات) سمایا ہوا ہے (۲) مولا علیؑ کے اس مبارک کلام میں ان تمام آیاتِ قرآنی کی روشن تفسیر ہے جو کائنات کے لپیٹنے سے متعلق ہیں۔

 

۵۳۴

 

سوال – ۷۸۳: سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۷) میں ہے: اور آٹھ فرشتے اس روز تیرے ربّ کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اس ارشاد کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) یہاں عرش سے نورِ عرش مراد ہے، جس کے حاملان سات امام علیہم السّلام اور صاحبِ عالمِ شخصی ہے، جس پر قیامت گزرتی ہو۔

سوال – ۷۸۴: آپ نے حاملانِ عرش کا مطلب حاملانِ نورِ عرش بتایا، کیا انوار الگ الگ ہیں یا ایک ہی نور کے بہت سے معانی ہیں؟ -جواب: (۱) نور ایک ہی ہے، لیکن اس کے معانی کثیر ہیں، جیسے خداوند تعالیٰ ایک ہی ہے، اور اس کے اسمائے صفات بہت ہیں (۲) حاملانِ عرش، یعنی حاملانِ نورِ عرش أئمّہ علیہم السّلام ہیں، اگر آپ انہی حضرات کو فرشتے کہنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں، مگر ان کے سوا دوسرے فرشتے حاملانِ عرش نہیں ہوسکتے ہیں۔

سوال – ۷۸۵: اللہ تعالیٰ کا نور، رسولِ پاکؐ کا نور، امامِ برحقؑ کا نور، اور مومنین و مومنات کا نور (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۶۶: ۰۸) آیا یہ الگ الگ چار انوار ہیں؟ -جواب: (۱) نہیں نہیں، نور دراصل صرف ایک ہی ہے، کیونکہ ہمہ رس، ہمہ گیر، اور ہر طرح سے کافی نور ایک ہی ہوتا ہے (۲) جب اللہ تبارک و تعالیٰ کا نورِ واحد بسیط، محیط، اور ہر جا حاضر ہے، تو پھر کوئی دوسرا نور کیونکر ممکن ہوسکتا ہے۔

 

۵۳۵

 

سوال – ۷۸۶: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۷) میں ہے: جو لوگ اس (یعنی محمدؐ) پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔ آپ بتائیں کہ آنحضرتؐ کے ساتھ کونسا نور نازل ہوا تھا؟ -جواب: (۱) وہ نور جو پیغمبرِ اکرمؐ کے ساتھ نازل ہوا حضرتِ علیؑ ہے، ملاحظہ ہو حدیثِ شریف جو کوکبِ دری، باب دوم، منقبت نمبر ۱ میں درج ہے (۲) مذکورہ آیت میں رسولؐ پر ایمان لانے کا ذکر پہلے ہے، جس میں آنحضرتؐ پر قرآن نازل ہونے کا اشارہ ہوچکا، اور آخراً اسی ایمان کے سلسلے میں نور کی پیروی کا ذکر ہے، پس یہ نور یقیناً علیؑ ہے جو رسولِ اکرمؐ کا جانشین ہے۔

سوال – ۷۸۷: آپ نُوْرٌعَلیٰ نُوْر کی بار بار تعریف کرتے ہیں، لہٰذا آج ہمیں اس کی کوئی نرالی حکمت بتائیں- جواب: (۱) نُورٌعَلیٰ نُوْر کا یہ بابرکت کلیہ ایک عظیم آئینۂ اسرار ہے، چنانچہ اس آئینے میں آدم کو دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ابتدائی نور نہیں ہے، بلکہ وہ نور پر نور کے سلسلے میں ہے، (۲) اسی طرح ہر پیغمبر اور امام کو آئینۂ ھٰذا میں دیکھ لیں، وہ نُورٌعَلٰی نُوْر کے قانون کے مطابق سلسلۂ نور کی ایک کڑی نظر آئے گا، تاآنکہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ پر نبوّت تو ختم ہوگئی، لیکن سلسلۂ نور جاری و باقی ہے۔

 

۵۳۶

 

سوال – ۷۸۸: سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۰۹) میں ہے: سَلٰمٌ عَلٓیٰ اِبْرٰھِیْمَ۔ اس میں کیا تاویلی حکمت ہے؟ -جواب: (۱) ترجمہ: ابراہیم پر سلامتی ہے(۲) یعنی ابراہیمؑ ہر عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس کے تمام روحانی معجزات بھی موجود ہیں، اور تمام کاملین اسی طرح سے ہیں۔

سوال – ۷۸۹: “آلِ یاسین / آلِ محمدؐ کا نور عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہے۔” اس حکمت کا قرآنی حوالہ کہاں ہے؟ -جواب: (۱) سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۳۰) میں ہے (۲) کیونکہ سَلٰمٌ عَلٓیٰ اِلْ یَاسِیْنَ کو حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے سَلٰمٌ عَلٓیٰ اٰلْ یَاسِیْنَ پڑھا ہے (دعائم الا سلام، عر بی، حصّۂ اوّل ص ۳۱)۔

سوال – ۷۹۰: سورۂ مریم (۱۹: ۱۵) میں حضرتِ یٰحیٰؑ کے بارے میں ارشاد ہے: وَسَلاَمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا۔ اس آیۂ شریفہ کی تاویلی حکمت بیان کریں – جواب: (۱)  انسانِ کامل کی روحانی زندگی کے تین مراحل ہوا کرتے ہیں: اوّل وہ خاموش روشنیوں کو دیکھنے لگتا ہے، یہ اس کا یومِ پیدائش ہے، دوم آغازِ قیامت، یہ اس کی نفسانی موت اور روحانی حیات کا دن ہے، سوم فنائے روحانی اور بقائے عقلانی کا زمانہ (۲) اسی کو قرآن نے کہا ہے: دو دفعہ مرنا اور دو دفعہ زندہ ہو جانا (۴۰: ۱۱) الغرض کاملین

 

۵۳۷

 

کی روحانی زندگی کے تینوں مراحل میں سلام و سلامتی یعنی آسمانی تائید حاصل ہوتی ہے۔

 

۵۳۸

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۳

 

سوال – ۷۹۱: انسانِ کامل کی موت کو کس طرح سلامتی (سلام) اور تائیدِ الٰہی کہا جاسکتا ہے، جبکہ موت میں بے ہوشی کا عالم ہوتا ہے؟ -جواب: (۱) آپ نے ایک عام آدمی کی جسمانی موت کو دلیل بنایا، جو بالکل غلط ہے، جبکہ دوستانِ خدا / اولیاء کی نفسانی موت برائے معرفت ایک عظیم معجزہ ہے، اور جو چیز معرفت کی غرض سے ہوا کرتی ہے، اس کا مشاہدہ ضروری ہوتا ہے (۲) الغرض انسانِ کامل کی اس موت میں اللہ کی زبردست تائید ہوتی ہے۔

سوال – ۷۹۲: اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ عزیز روح و روحانیّت اور معرفت کے بھیدوں سے لبریز ہے، پس آپ اس آیۂ شریفہ کی باطنی حکمت بیان کریں:  قَالَ رَبِّ اجْعَل لِي آيَةً قَالَ آيَتُكَ أَلاَّ تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلاَثَ لَيَالٍ سَوِيًّا (۱۹: ۱۰) زکریا نے عرض کی الٰہی میرے لئے کوئی معجزہ مقرر کردے، ارشاد ہوا تمہارے لئے معجزہ یہ ہے کہ تم مسلسل تین رات لوگوں سے بات نہیں کر سکو گے -جواب: (۱) لوگوں نے گمان کیا کہ حضرتِ زکریاؑ کا لوگوں سے بات نہ کرسکنا اور کچھ وقت کے لئے

 

۵۳۹

 

گونگا ہوجانا ہی اللہ کا معجزہ تھا، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے (۲) اس کی جبین میں اسمِ اعظم کا ذکر آٹومیٹک ہوکر دل و دماغ پر چھا گیا، اب وہ لوگوں سے کیسے بات کرسکتا تھا (۳) جب تک انسان کے دل میں وسوسہ اور حدیثِ نفسی باقی ہے، تب تک وہ صرف زبانی ہی عبادت کرتا رہتا ہے، لیکن دل میں لوگوں سے باتیں ہورہی ہیں، لہٰذا اسمِ اعظم کا انقلابی معجزہ ضروری ہے۔

سوال – ۷۹۳: ترجمۂ آیت (۱۹: ۱۱): پھر زکریاؑ محراب سے اپنی قوم پر ظاہر ہوا اور اس نے ان کی طرف اشارہ (وحی) کیا کہ تم لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔ آپ اس کی حکمتی تحلیل کریں۔ -جواب: (۱) محراب سے یہاں حظیرۂ قدس کا مرکز مراد ہے، اور محراب کے معنی ہیں: آلۂ حرب اور قلعۂ عسکر، کیونکہ شیطان اور اس کے لشکر کے خلاف سب سے بڑا آلۂ جنگ اور سب سے عظیم قلعہ حظیرۂ قدس میں ہے (۲) حظیرۂ قدس میں نور (سورج) بڑی سرعت سے دوڑتا رہتا ہے، لہٰذا یہ فرمانا کہ تم صبح و شام تسبیح کیا کرو۔ یہ ہر وقت عبادت کرنے کے لئے حکم ہے، کیونکہ وہاں صبح و شام اور دن رات ایک ہی وقت ہے۔

سوال – ۷۹۴: ترجمۂ آیت (۱۹: ۱۲): اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو، اور ہم نے اسے بچپن ہی میں اپنی بارگاہ سے حکم (قوّتِ فیصلہ) دیا۔ آپ اس کی حکمت بتائیں -جواب: (۱) جس کتاب کو سختی اور

 

۵۴۰

 

مضبوطی سے پکڑنا چاہئے، وہ اسمِ اعظم کا مبارک ذکر ہے کہ وہ بحدِّ قوّت کتاب بھی ہے اور فعلاً شمشیرِ بُران بھی، جنگ میں تلوار کو بھر پور قوّت سے استعمال کرتے ہیں (۲) کتاب سے ذاتی روحانیّت بھی مراد ہے، جو آسمانی کتاب کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

سوال – ۷۹۵: ترجمۂ آیت (۱۹: ۴۰): اس میں شک نہیں کہ (ایک دن) زمین اور جو کچھ اس پر ہے (اس کے) ہم ہی وارث ہوں گے، اور سب کے سب ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ اس کی باطنی حقیقت بتائیں۔ -جواب: (۱) کل آخرت میں سیّارۂ زمین اپنے تمام باشندوں اور جملہ اشیاء کے ساتھ لطیف شکل میں تبدیل ہوجانے والا ہے، اُس وقت ہر چیز کا وارث خدا ہی ہوگا (۲) یہ اللہ تعالیٰ ہی کی بادشاہی کا تذکرہ ہے کہ اس دن سب لوگ اسی کی طرف لوٹا دیئے جائیں گے (۳) اس روز خداوند تعالیٰ اپنے دوستوں کو قدیم سلطنت سے نوازے گا۔

سوال – ۷۹۶: آیا یہ بات درست ہے کہ ہر عارف کے لئے روحانیّت اور قرآنی تاویل اس کی اپنی ہی زبان میں ہوا کرتی ہے؟ -جواب: (۱)  جی ہاں، بالکل درست ہے، جیسے بہشت کا قانون ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص سے اس کی زبان میں کلام کرتا ہے، اور اس نے ہر پیغمبر کو قومی زبان میں بھیجا ہے (۱۴: ۰۴) (۲) جب بھی کوئی روحانی یا فرشتہ کسی مومن سے بات کرتا ہے تو اسی مومن کی زبان میں بات کرتا ہے، اور

 

۵۴۱

 

ہر آدمی کے خواب کی گفتگو کا بھی یہی حال ہے۔

سوال – ۷۹۷: کیا ہر شخص کا نامۂ اعمال اس کی اپنی زبان میں ہوتا ہے؟ آیا کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) بالفاظِ دیگر قرآنِ ناطق (امام علیہ السّلام ) دنیا کی تمام زبانوں کو جانتا ہے؟ -جواب: (۱) یقیناً قرآنِ ناطق دنیا کی ہر ہر زبان کو جانتا ہے، کیونکہ اگر سوال کیا جائے کہ خدا کی بولنے والی کتاب کس زبان میں بولتی ہے؟ تو اس کا نیچرل جواب یہی ہوگا کہ: “دنیا کی ہر زبان میں۔” (۲) آپ مولاعلیؑ کے ان ارشادات کو پڑھیں جو نورِ امامت کے اوصاف کے بارے میں ہیں۔

سوال – ۷۹۸: کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں ایک ایسی پُرحکمت آیت بھی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ مقامِ روحانیّت پر قرآن کی تاویل ہر زبان میں موجود ہے، ایسی آیت قرآن میں کہاں ہے؟ آپ اس کی وضاحت کریں – جواب: (۱) اس نوعیت کی آیاتِ کریمہ بہت ہیں، مثال کے طور پر سورۂ یوسف (۱۲: ۰۲) میں دیکھیں: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۔  ترجمۂ اوّل = ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔ ترجمۂ دوم = ہم نے اسے (لوحِ محفوظ میں ) نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی (یعنی تم سب کی) زبان میں تاکہ تم اس کو اچھی طرح سمجھ سکو (۲) عربی کہتے ہیں ملکِ عرب کی زبان کو، نیز عربی اپنی زبان کو کہا جاتا ہے، جبکہ عجمی غیر زبان کو کہتے ہیں (۳) یہ صرف

 

۵۴۲

 

مقامِ روحانیّت اور مقامِ تاویل کی بات ہے، یہ بیان اہلِ دانش کے لئے کافی ہے۔

سوال – ۷۹۹: آپ ہمیں قرآنِ پاک کے روحانی اور باطنی مقامات سے آگاہ کریں -جواب: (۱) قرآنِ کریم ازل میں خزانۂ امرِ الٰہی یعنی کلمۂ کُنْ میں تھا اور اب بھی وہاں موجود ہے، پھر وہاں سے غائب ہوئے بغیر اس کا نزول قلمِ اعلیٰ میں ہوا، پھر لوحِ محفوظ میں نازل ہوا، درحالے کہ قلم میں بھی کاملاً موجود ہے (۲) پھر اسرافیل لوحِ محفوظ میں سے پڑھنے لگا، اور میکائیل کو سناتا رہا، اور میکائیل نے جبرائیل پر وحی نازل کی، پھر جبرائیل نے آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر رفتہ رفتہ قرآنِ پاک کو نازل کیا (۳) ساتھ ہی ساتھ قرآنِ پاک کی کتابت ہوتی رہی، اور خدا کے حکم سے قرآن کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیت رسولؐ کے ذریعے سے آپؐ کے وصی (علیؑ) کی طرف منتقل ہونے لگی۔

سوال – ۸۰۰: آیا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کے لئے نزولِ وحی کا یہی طریقہ شروع سے لے کر آخر تک جاری تھا؟ -جواب: (۱)  نہیں یہ طریقہ صرف واقعۂ معراج تک تھا، جس میں رسولِ پاکؐ نفسِ کلّی کے آسمان پر تشریف لے گئے، جہاں آنحضرتؐ نے حجاب کے پیچھے سے اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کو سنا، کبھی خاموش دیدار ہوتا تھا، خاموش رؤیت (دیدار) میں

 

۵۴۳

 

بے شمار اشارے پوشیدہ ہیں، لہٰذا یہ سب سے اعلیٰ وحی ہے (۲) یہ اسرارِ معرفت بھی ہیں، اور اسرارِ قرآن بھی۔

 

۵۴۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۴

 

سوال – ۸۰۱: آیا قرآنِ حکیم کاغذ یا کسی اور مادّی چیز پر لکھا لکھایا نازل ہوا تھا؟ اگر نہیں تو پھر اس کے نزول کی کیا صورت تھی؟ -جواب: (۱) قرآن کاغذ وغیرہ پر تحریری صورت میں نازل نہیں ہوا تھا (۰۶: ۰۷) بلکہ یہ ایک روح اور نور کی حیثیت سے تھا (۴۲: ۵۲) (۲) انسانی قلم نور کو کاغذ پر منتقل نہیں کرسکتا ہے، پس سرورِ انبیاءؐ میں قرآن کا جو نور تھا، وہ آپؐ کے جانشین علی المرتضیٰؑ میں منتقل ہوگیا۔

سوال – ۸۰۲: سورۂ انعام (۰۶: ۹۱) کے حوالے سے ایک قابلِ توجہ سوال ہے کہ توراۃ جبکہ حضرتِ موسیؑ اور حضرتِ ہارونؑ میں لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی، اس کو یہود نے قراطیس (کاغذات) بنا ڈالا، جس پر قرآن سخت اعتراض فرماتا ہے، اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ – جواب: (۱) آسمانی کتاب کو کاغذ پر لانا بھی ضروری ہے، لیکن اس سے کہیں زیادہ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہود اپنے پیغمبر اور امام کے نور میں توراۃ کے نور کو دیکھ لیتے، تاکہ ان کو اس کی روشنی میں

 

۵۴۵

 

آسمانی کتاب کے علم و حکمت سے آگہی ہوتی (۲) یہ اعتراض حدودِ دین کی نسبت سے نہیں، بلکہ عوام کی وجہ سے ہے۔

سوال – ۸۰۳: آپ کوئی ایسی محکم اور روشن دلیل پیش کریں، جس سے سب کو یقین ہو کہ آسمانی کتاب کی روحانیّت و نورانیّت پیغمبر اور امام کی ذات میں موجود ہوتی ہے -جواب: (۱) اس حقیقت پر محکم اور روشن دلائل بہت ہیں، مثال کے طور پر سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) میں غور سے دیکھیں، اللہ تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ دونوں کو فرقان، ضیاء (روشنی) اور ذکر عطا فرمایا تھا، اور یہ دولتِ لازوال پرہیزگاروں کے لئے تھی (۲۱: ۴۸) یعنی پرہیزگار (حجّتان) بھی اپنے رسولؐ اور امامؑ کے ان روحانی معجزات کو عالمِ شخصی میں دیکھتے تھے (۲) تو کیا آپ کو حدیثِ مماثلتِ ہارونی یاد نہیں ہے؟ کیا آنحضرتؐ کے لئے علیؑ ایسا نہیں ہے جیسا حضرتِ موسٰی کے لئے ہارونؑ تھا، مگر حضورؐ کے بعد کوئی نبی نہیں، یعنی حضرتِ ہارونؑ کے تمام قرآنی اوصاف ماسوائے نبوّت کے علیؑ میں جمع ہیں، حقیقی مومنین کے لئے یہ دلیل کافی ہے۔

سوال – ۸۰۴: نبوّت تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق بنیٔ اکرمؐ پر آکر ختم ہوگئی، کیا اسی کے ساتھ سلسلۂ نُورٌعَلیٰ نُور بھی ختم ہوگیا؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر آنحضرت صلعم میں جو

 

۵۴۶

 

نورِ قرآن اور نورِ ہدایت تھا، وہ کہاں گیا؟ -جواب: (۱) نُورٌعَلیٰ نور کے قانون پر گفتگو ہوچکی ہے، اس کا سلسلہ کسی ابتدا و انتہاء کے بغیر ہمیشہ جاری ہے، لہٰذا یہ لازمی امر تھا کہ قرآنِ پاک کی زندہ روح /نور رسولِ اکرمؐ سے امامِ مبینؑ میں منتقل ہوجائے (۲) خوب غور سے دیکھئے کہ قرآنِ حکیم بصورتِ روح و روحانیّت نازل ہوا تھا، پھر خداوندِ قدوس نے اس روح کو زندہ نور بنایا تھا (۴۲: ۵۲)۔

سوال – ۸۰۵: ایک انتہائی عمیق، انتہائی دقیق، انتہائی مشکل، اور انتہائی مفید سوال کی باری آئی ہے، جو سورۂ انعام (۰۶: ۹۴) میں ہے، وہ اس طرح سے ہے کہ: ہر انسان کو سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ کر بالآخر اللہ کے پاس اسی طرح اکیلا (فرداً) جانا ہے، جس طرح وہ پہلی بار پیدا کیا گیا تھا۔ اس کی حکمتی وضاحت کیا ہے؟ -جواب: (۱) یہ ہر انسانِ کامل کے بارے میں ہے کہ وہ عالمِ شخصی میں رفتہ رفتہ جسمانی، روحانی، اور عقلی چیزوں کو اپنے پیچھے چھوڑ کر حظیرۂ قدس میں فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، (۲) یہ ہوا اس کا فرد (یگانہ اور بے مثال) ہوجانا، یعنی اللہ میں حَیّ ہوجانا، ورنہ عوام الناس نفسِ واحدہ سے پیدا ہوئے ہیں، اور ان کا رجوع بھی وہاں تک محدود ہے، تاہم انسانِ کامل میں لوگوں کی نمائندگی بھی ہے۔

سوال – ۸۰۶: ہر پیغمبر اور ہر امام عارف بھی ہے، لیکن ہر عارف

 

۵۴۷

 

پیغمبر اور امام نہیں ہے، پس آپ یہ بتائیں کہ فرداً فرداً اللہ کے حضور جانے کے کیا معنی ہیں (۰۶: ۹۴)؟ کیا یہ حقیقت ہے کہ قیامت کو صرف عارف دیکھتا ہے کیونکہ وہ ایک روحانی واقعہ ہے؟ کیا قیامت کا تعلق زمانے کے امام سے ہے؟ آیا یہ بات بھی درست ہے کہ ہر عارف کی قیامت ایک پہلو سے انفرادی اور دوسرے پہلو سے اجتماعی ہوا کرتی ہے؟ -جواب: (۱) مختلف زمانوں کے کاملین فرداً فرداً اللہ کے حضور اس لئے جاتے ہیں کہ ہر زمانے کے لئے ایک الگ قیامت ہے، حالانکہ اس میں ذرّاتی نمائندگی سب لوگوں کی ہوتی ہے (۲) جی ہاں، یہ سچ ہے کہ قیامت کا روحانی مشاہدہ صرف عارف کرتا ہے (۳) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قیامت کا تعلق امامِ زمان سے ہے (۱۷: ۷۱) (۴) ہاں یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ہر عارف کی ذاتی قیامت میں سب لوگوں کی اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوتی ہے، مگر لوگ اس سے بے خبر ہیں۔

سوال – ۸۰۷: آیۂ زیرِ بحث کا ترجمہ ہے: اور تم فرداً فرداً ہمارے پاس آگئے اسی طرح جیسے ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔ آپ یہ بتائیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ خطاب عالمِ شخصی کے کس مقام پر ہوتا ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ ایک ہے رجوع اِلی اللہ، اور دوسری ہے پیدائشِ اوّل، یہ دونوں چیزیں کس طرح ایک جیسی ہوسکتی ہیں؟ -جواب: (۱) خداوندِ قدّوس کا یہ بابرکت خطاب انسانِ کامل سے اس وقت ہوتا ہے، جبکہ وہ مقامِ جبین پر حظیرۂ قدس میں داخل ہوچکا ہوتا ہے (۲) چونکہ

 

۵۴۸

 

حظیرۂ قدس میں تمام حقائق و معارف کے نمونے مجرّد اور ایک جیسے ہیں، لہٰذا انبعاث اور ابداع (رجوع اور پیدائشِ اوّل) ایک ہی چیز ہے، یعنی تجلیٔ گوہر ابداع بھی اور انبعاث بھی ہے۔

سوال – ۸۰۸: سورۂ تکاثر کے آخر (۱۰۲: ۰۸) میں ارشاد ہے: ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ  = پھر ضرور اس روز تم سے ان نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔ یہ کس قسم کی نعمتیں ہوں گی، جن کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا جائے گا؟ -جواب: (۱) عموماً دنیوی نعمتیں، خصوصاً دینی نعمتیں، جیسے ہمیشہ امام کا دنیا میں موجود و حاضر رہنا، علم و معرفت وغیرہ، اور یہ تمام روحانی اور قرآنی نعمتیں، جن کی ہم ذرا بھی قدر نہیں کر رہے ہیں، ہم امامِ عالیمقامؑ کے علمی معجزات کو بہت ہی معمولی چیزیں سمجھ رہے ہیں (۲) مگر ہم میں چند عزیزان ہیں، جن کی گریہ وزاری اور مناجات سے ہم قربان۔

سوال – ۸۰۹: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۸۹) میں ہے: اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں پس کفور کے سوا اکثر لوگوں نے انکار کیا۔ اس کی وضاحت کریں- جواب: (۱) یہاں ایک عظیم حکمت پر حجاب لفظِ کُفُوْراً ہے، جس سے دراصل وہ لوگ مراد ہیں، جن کو خداوندِ قدوس نے علم و معرفت کی لازوال دولت سے مالا مال فرمایا ہے، مگر وہ بڑے ناشکر ے (کفور) ہیں (۲) آپ

 

۵۴۹

 

لغات القرآن وغیرہ میں اس لفظ کی اچھی طرح تحقیق کریں۔

سوال – ۸۱۰: سورۂ دہر کی آیتِ اول (۷۶: ۰۱) کی حکمت بتائیں – جواب: (۱) ترجمۂ ارشاد: کیا انسان پر دہر میں سے وہ وقت آیا ہے جس میں وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں رہتا ہے؟ یعنی یہ ایسے وقت میں فنا فی اللہ و بقا باللہ کے عالم میں ہوتا ہے (۲) اس انتہائی عظیم راز کا تجربہ ہر عارف کو چوٹی کی معرفت میں حاصل ہوتا ہے۔

 

۵۵۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۵

 

سوال – ۸۱۱: سورۂ دہرکی آیتِ دوم (۷۶: ۰۲) کی تاویل بیان کریں- جواب: (۱) فرمانِ خداوندی کا ترجمہ ہے: ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہم اس کو آزماتے ہیں ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ (۲) خدا نے جس طرح ہر انسان کو جسمانی والدین کے مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے، اسی طرح وہ اس کو روحانی ماں باپ یعنی ناطق اور اساس کی تنزیل و تاویل سے روحاً پیدا کرتا ہے، اور اسے روحانی سماعت و بصیرت عطا کرتا ہے (۳) جس طرح ظاہری والدین کے سوا جسمانی اولاد ممکن نہیں، اسی طرح باطنی ماں باپ کے بغیر روحانی اولاد مُحال ہے۔

سوال – ۸۱۲:  اگر ہوسکے تو آیۂ سوم (۷۶: ۰۳) کا بھی کوئی راز بتائیں – جواب: (۱) ترجمۂ آیۂ کریمہ ہے: ہم نے اسے راستہ دکھایا، یعنی ہادیٔ برحق کو مقرر کیا، جس کا وہ یا تو شکر کرتا ہے یا نا شکرا ہوجاتا ہے (۲) اس آیۂ شریفہ میں جو لفظِ کفورا آیا ہے اس کا مطلب لادین کافر نہیں بلکہ اس سے وہ شخص مراد ہے جس کو اللہ نے بہت سی نعمتیں عطا

 

۵۵۱

 

فرمائی ہیں، مگر وہ انسان بڑا ناشکرا ہے (۳) کیونکہ آیت کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی ایسی ہدایتِ کاملہ کا ذکر ہے کہ وہ شکر کرنے والے اور ناشکرے دونوں کے حق میں پوری طرح سے عمل میں آچکی ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ شکر کرنے یا نہ کرنے کا واقعہ نعمتوں کے بعد پیش آتا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ شکر گزاری کا عمل بہت ہی نازک اور ازحد مشکل ہو۔

سوال – ۸۱۳: صحیح معنوں میں شکر گزاری کی کوئی مثال پیش کریں- جواب: (۱) بحوالۂ قرآن (۱۷: ۰۳) حضرتِ نوح علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کا  ایک شکر گزار بندہ تھا، اس میں راز کی دو باتیں ہیں: اوّل یہ کہ حضرتِ نوحؑ کو علم و حکمت کی بہت بڑی کثرت عطا ہوئی تھی، اور دوم یہ کہ وہ ہمیشہ گریہ وزاری اور مناجات کیا کرتا تھا (۲) گریہ و زاری سے ناشکری کا خطرہ ٹل جاتا ہے، عشقِ سماوی کے آنسوؤں میں بہت بڑی حکمت ہے۔

سوال – ۸۱۴: کہتے ہیں کہ قرآنِ عظیم میں جہاں جہاں علم کا نمایان مضمون آیا ہے وہ تو ہے، اس کے علاوہ دیگر تمام مضامین کے باطن میں بھی علم و حکمت کے اسرار مذکور ہوئے ہیں اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ – جواب: (۱) یہ بات بالکل درست اور حقیقت ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم میں سرتا سر علم و حکمت

 

۵۵۲

 

ہی کا بیان ہے، جو براہِ راست بھی ہے اور بالواسطہ بھی، (۲) جیسے شکر کے مضمون میں علم و حکمت کا ذکر پوشیدہ ہے، جس کا بیان ہوچکا۔

سوال – ۸۱۵: مقامِ شکر حقیقی معنوں میں کہاں ہے؟ روحانی سفر کے آغاز میں؟ یا درمیان میں؟ یا منزلِ مقصود میں؟ آخری منزل کے بہت سے نام ہوسکتے ہیں، تو کیا کشتیٔ نوحؑ میں سوار ہوجانا منزلِ مقصود میں پہنچ جانا ہے (۱۷: ۰۳)؟ وہ کس طرح؟ -جواب: (۱)  مومن سالک کے لئے مقامِ شکر دراصل منزلِ مقصود ہی میں ہے، اس لئے کہ اب اس کی ساری مشقتیں اور آزمائشیں ختم ہوگئیں، اور اس لئے کہ یہاں تمام باطنی نعمتیں جمع اور حاضر ہیں (۲) کشتی نوح سے اللہ تعالیٰ کا عرش مراد ہے، لہٰذا یہ منزلِ مقصود ہے۔

سوال – ۸۱۶: سوال ہے کہ اسلام، ایمان، یقین، محبت، صبر، تقویٰ، توکّل، تسلیم، رضا اور دیگر تمام قرآنی مضامین کے باطن میں علم و حکمت کا بیان کس طرح ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱) صراطِ مستقیم روحانی سفر کا راستہ ہے، جو روحانیّت، نورانیّت اور علم و حکمت سے بھر پور ہے، پس قرآنِ حکیم کا ہر مضمون صراطِ مستقیم پر واقع ہے، جو نورِ علم و حکمت کا راستہ ہے (۲) پھر ہر مضمون کے باطن میں علم و حکمت ہے، کیونکہ تمام مضامین کا تعلق باطنی علم و حکمت سے ہے، اور یہ سچ ہے کہ صراطِ مستقیم سے باہر سوائے گمراہی کے کچھ بھی نہیں۔

 

۵۵۳

 

سوال – ۸۱۷: حدیثِ شریف کے مطابق ہر مومن شہید ہے اور ہر مومنہ حوراء ہے، ہمیں اس کی حقیقت سمجھائیں- جواب: (۱) جب عارف میں نمائندہ قیامت برپا ہوجاتی ہے، تو اسی میں دنیا بھر کے لوگ آکر مرجاتے ہیں، پھر زندہ ہوجاتے ہیں، مگر ہر مومن یہاں آکر شہید ہوجاتا ہے، اور ہر مومنہ اسی عالمِ شخصی میں مرکر حوراء ہو جاتی ہے (۲) یہ معجزات امام ِمبین (۳۶: ۱۲) کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں، کیونکہ قیامت کے معنی ہیں: امام علیہ السّلام کا نور کسی عارف میں طلوع ہو جانا۔

سوال – ۸۱۸: آپ نے کہا ہے کہ جنّت کی سب سے عظیم اور سب سے پُر لذّت نعمت علم دینا اور علم لینا ہے، اور اس کی دلیل کے لئے آپ نے ان تمام آیاتِ کریمہ کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں بہشت کی ازدواجی زندگی کا ذکر ہے، یعنی بہشت کی حوروں سے متعلّمین مراد ہیں، کیا یہ تصوّر درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، یہ حقیقت ہے، کیونکہ جنّت کے لوگوں کی اکثریت لا علم ہے، اور یہ شروع شروع کی بات ہے  (۲) قیامت کے عنوان سے جو دعوتِ حق ہے، اس کے نتیجے میں اقوامِ عالم کے لوگ سب کے سب زبردستی سے بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں، مگر ان کے پاس ذرا بھی علم نہیں ہوتا ہے۔

سوال -۸۱۹: مثال کے طور پر ایک مومن شخص سے خواب

 

۵۵۴

 

یا خیال یا روحانیّت میں کہا گیا کہ فلان مشہور لادین قوم کی عورتیں تمہارے نکاح میں آنے والی ہیں، اس کے کیا معنی ہیں؟ -جواب: (۱) اس کے دو معنی ہیں: ظاہری اور باطنی، باطنی تاویل یہ ہے کہ وہ شخص بہشت میں اس قوم کا معلّم ہوگا (۲) اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ جنگِ قیامت کی روحانی فتح کے ساتھ بکثرت اموالِ غنیمت عطا کریگا (۴۸: ۲۰) آپ تحقیق کریں کہ زمانۂ نبوّت میں مالِ غنیمت میں کیا کیا چیزیں ہوا کرتی تھیں؟

سوال – ۸۲۰: آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ اگرچہ قرآنی مضامین ظاہراً مختلف چیزوں سے متعلق ہیں، لیکن باطناً دیکھا جائے تو ہر مضمون میں علم و حکمت ہی کے بھیدوں کا تذکرہ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشت کی تمام نعمتوں کے تذکرے میں علم و حکمت کے اسرار موجود ہیں، آیا یہ بات درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست ہے، بہشت کی گونا گون نعمتوں کی تاویل علم ہے۔

 

۵۵۵

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۶

 

سوال – ۸۲۱: آج ہر ایمانی روح اپنی ذات میں بحدِّ قوّت بہشت ہے، اور کل ان شاء اللہ بحدِّ فعل (یعنی عملاً) بہشت ہوگی، جس میں تمام کائنات مسخر ہوگی ( ۳۱: ۲۰) اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہر عالمِ شخصی کی بہشت میں خداوندی سلطنت ہوگی، کیا یہ بیان صحیح ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، صحیح اور حقیقت ہے، اور اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ اس بہشت میں دنیا کے سب لوگ ہوں گے، جن کو دینِ حق کی تعلیم دی جائے گی (۲) چونکہ بہشت کی ہر نعمت بیحد لذیذ و شیرین، اور بدرجۂ انتہا فرحت بخش ہوا کرتی ہے، لہٰذا وہاں کی تعلیم دینے اور تعلیم لینے کی کئی مثالیں ہیں، ان میں سے ایک مثال حورانِ بہشت کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کی طرح ہے۔

سوال – ۸۲۲: سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں ہے: وہ تو اللہ ہی ہے جس کو زمین و آسمان کی ہر چیز طوعاً و کرھاً (خوشی سے اور زور سے) سجدہ کررہی ہے۔ اس کی تاویلی وضاحت کریں – جواب: (۱) سجدہ کے معنی ہیں اطاعت، یعنی کچھ لوگ خوشی سے خدا کی اطاعت

 

۵۵۶

 

کرتے ہیں اور کچھ لوگ زبردستی سے، پھر بہشت میں جا کر وہ بادشاہ ہوں گے، اور یہ رعایا (۲) یہ حقیقت ہے کہ بہشت میں بہت بڑی سلطنت ہے (۷۶: ۲۰) جب وہاں بہت بڑی بادشاہی ہے تو لازمی طور پر بہت بڑی رعیت بھی ہے (۳) بہشت کا بادشاہ کتنا فیاض اور مہربان ہے کہ رعیت کو علم میں درجہ بدرجہ بلند کررہا ہے۔

سوال – ۸۲۳: سورۂ حج (۲۲: ۱۸) میں ہے: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے لئے سر بسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں؟ اس سے ظاہر ہے کہ کائنات کی ہر چیز اور ہر مخلوق اللہ کے لئے سجدہ کرتی ہے، جس میں بہت سے لوگ یعنی سب لوگ ہیں، پھر عذاب کیوں؟ -جواب: (۱) بہت سی مخلوقات ایسی ہیں، جن کو عقل اور اختیار کی صلاحیت عطا نہیں ہوئی ہے، اس لئے ان کو نہ ثواب ہے اور نہ عذاب، ہاں انسان وہ مخلوق ہے، جس کے پاس عقل و اختیار ہے، لہٰذا اس پر واجب ہے کہ سجدۂ تسخیری سے آگے بڑھ کر سجدۂ عرفانی کرے(۲) بے جان اور بے عقل چیزیں صرف سجدۂ تسخیری کرتی ہیں، اور مومنینِ بایقین سجدۂ عرفانی بجالاتے ہیں۔

سوال -۸۲۴: یہ ارشادِ مبارک سورۂ یونس (۱۰: ۳۹) میں ہے:

 

۵۵۷

 

بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ۔  اس کی تاویلی حکمت بتائیں – جواب: (۱) ترجمہ: بلکہ ایسی چیز کی تکذیب کرنے لگے جس کو اپنے احاطۂ علمی میں نہیں لائے اور ھنوز ان کو اس کی تاویل نہیں آئی (۲) قرآنِ حکیم کی تصدیق نورِ منزل ہی کی روشنی میں ہوسکتی ہے (۰۵: ۱۵) یہی نور اس کا احاطۂ علمی ہے اور یہی اس کی تاویل ہے (۳) سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) کے اس پُرحکمت ارشاد کو کوئی مسلمان کس طرح بھول سکتا ہے: تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور اور ظاہر کتاب آچکی ہے۔

سوال – ۸۲۵: آپ حکمتِ قرآن کی روشنی میں سنتِ الٰہی کا کوئی عظیم راز بتائیں -جواب: (۱) اللہ کی سنت (عادت) بنیادی اور اصولی طور پر ماضی، حال، اور مستقبل میں ایک جیسی رہتی ہے، اور اس میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ہوتی ہے (۲) اس بہت بڑے بھید کے جاننے کے منطقی اور علمی فوائد بے شمار ہیں، لیکن عقل و دانش سے کام لینے کی سخت ضرورت ہے۔

سوال – ۸۲۶: آپ کہتے ہیں کہ قرآنِ پاک کا اندازِ بیان ہر مقام پر ممتحنانہ (امتحان لینے والے کی طرح) ہے، آخر کیوں؟ -جواب: (۱) اس لئے کہ انسانی عقل کی نشوونمائی غور و فکر ہی سے ہوتی ہے، جس کے لئے امتحانی باتوں کی ضرورت پڑتی ہے (۲) چنانچہ

 

۵۵۸

 

اگر قولِ قرآن پر آزمائشی حجاب نہ ہوتا، تو غور و فکر کی طرف اتنی توجہ نہ دلائی جاتی۔

سوال – ۸۲۷: کہا جاتا ہے کہ قرآن ایک طرف سے بہت ہی مشکل ہے اور دوسری طرف سے بہت ہی آسان ہے، اس میں کیا راز ہے؟ -جواب: (۱) راز یہ ہے کہ آپ اگر آسمانی کتاب کو نور کی روشنی (۰۵: ۱۵) میں پڑھتے ہیں، یعنی معلّمِ ربّانی سے سیکھتے ہیں، تو بہت ہی آسان ہے، ورنہ بہت ہی مشکل ہے (۲) آپ سورۂ قمر (۵۴: ۱۷؛ ۵۴: ۲۲؛ ۵۴: ۲۳؛ ۵۴: ۴۰) میں دیکھ لیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ قرآنِ عظیم بہت ہی مشکل تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اسے آسان کردیا۔

سوال – ۸۲۸: قرآنِ حکیم جو موجودہ صورت میں ہمارے سامنے ہے، اس کو خدائے علیم و حکیم نے کس طرح آسان کر دیا ہے؟ -جواب: (۱) اللہ وہ ہے جو ہمیشہ کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، درحالے کہ بظاہر کائنات اپنی جگہ پر قائم ہے، اسی طرح خدا قرآن کی روح و روحانیّت کو آئینۂ اسمِ اعظم میں دکھاتا رہتا ہے (۲) خداوندِ تعالیٰ کے لئے کوئی بھی انتہائی عظیم معجزہ کیونکر ناممکن ہوسکتا ہے۔

سوال – ۸۲۹: ارشادِ مبارک ہے: وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ

 

۵۵۹

 

لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ (۵۴: ۱۷) اور ہم نے قرآن کو ذکر کے لئے آسان کر دیا ہے، تو کیا کوئی یاد آور ہے؟ آپ بتائیں کہ ذکر کے کیا معنی ہیں؟ -جواب: (۱) ذکر کے معنی ہیں: رسولؐ (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) امامؑ (۲۱: ۰۷)، اسمِ اعظم، نصیحت (قرآن) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو سب سے پہلے رسولِ کریمؐ کے لئے آسان کر دیا ہے، پھر أئمّۂ آلِ محمدؐ کے لئے کہ وہ اہلِ ذکر ہیں (۲) پس تمام لوگوں کو معجزۂ معرفتِ قرآن کے لئے پیغمبرؐ اور امامؑ سے رجوع کرنا چاہیئے، تاکہ حقیقی اطاعت کے ساتھ وہ خوش نصیب مومنین آئینۂ اسمِ اعظم / عالمِ شخصی میں قرآن کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت کا مشاہدہ کر سکیں۔

سوال – ۸۳۰: اگرچہ اصل اور حقیقی اسمِ اعظم امامِ زمان علیہ السّلام خود ہی ہے، تاہم وہ لفظی اسمِ اعظم بھی ضروری ہے جو حضرتِ امامؑ بعض مریدوں کو عطا فرماتا ہے، تاکہ اس سے امامؑ کے نورِ اقدس تک رسائی کے لئے ایک روحانی پُل تعمیر ہوجائے، آپ کا کیا خیال ہے؟ آیا یہ انتہائی عظیم کارنامہ بیحد مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ بدرجۂ انتہا مفید بھی ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، جی ہاں، امامِ زمان علیہ السّلام میں فنا ہوجانا، پھر رسولؐ اور اللہ میں فنا ہوجانا کیوں مشکل نہ ہو (۲) کلیۂ امامت (۳۶: ۱۲) کا فرمانا یہ ہے کہ فنا فی الامام میں سب کچھ ہے، قرآن کی کُل خوشخبریاں اسی سے متعلق ہیں، فتحِ روحانی اور تسخیرِ کائنات اسی میں ہے، خود شناسی اور خدا شناسی بھی اسی

 

۵۶۰

 

خزانے میں ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ قرآنِ عظیم کی جملہ آیاتِ کریمہ اپنے تمام معنوں کے ساتھ یہاں (۳۶: ۱۲) مرکوز ہوجاتی ہیں۔

 

۵۶۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۷

 

سوال – ۸۳۱: اس میں کوئی شک نہیں کہ اسمِ اعظم کی مبارک عبادت و ریاضت کی کامیابی پرعالمِ شخصی میں حضرتِ امامِ زمانؑ کا نورِ اقدس طلوع ہوجاتا ہے، لیکن یہاں ایک بہت ہی ضروری سوال یہ ہے کہ آیا قرآنِ اقدس میں کوئی ایسا حکم یا اشارہ موجود ہے کہ تم اسمِ اعظم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص عبادت کر لیا کرو؟ ۔جواب: (۱) جی ہاں، ایسے اشارے تو سارے قرآن میں موجود ہیں، مثال کے طور پر جگہ جگہ یہ حکم آیا ہے کہ تم ہر وقت اللہ کی یاد کرتے رہو، عقل پوچھتی ہے کہ کس نام سے خدا کو یاد کریں؟ اس کا قدرتی اور منطقی جواب یہ ہے کہ اسمِ اعظم سے اللہ کو یاد کیا جائے (۲) قرآنِ کریم میں اس سلسلے کے اشارات بہت زیادہ ہیں، ان کے علاوہ اسمِ اعظم کی عبادت کا حکمِ صریح بھی ہے۔

سوال – ۸۳۲: وہ آیۂ کریمہ قرآن میں کہاں ہے جس میں یہ حکمِ صریح ہے کہ تم اسمائے عظام سے خدا کی یاد و عبادت کر لیا کرو؟ -جواب: (۱) یہ حکمت خوب یاد رہے کہ قرآنِ حکیم کی زبان میں اسماءُ

 

۵۶۲

 

الحُسنیٰ ہی اسماءُ العِظام ہیں، جو لفظی بھی ہیں اور شخصی بھی ہیں (۲) چنانچہ اسماءُ الحُسنیٰ کا نمایان تذکرہ قرآنِ پاک کے چار مقام پر ہے، اور ان میں سے ایک آیت (۰۷: ۱۸۰) کا ترجمہ یہ ہے: اللہ کے اسمائے عظام ہیں، اس کو انہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں کجرا ہی کرتے ہیں (۳) اہلِ دانش کے لئے یہ ایک انقلابی تصوّر ہے، آپ اس میں غورو فکر کریں۔

سوال – ۸۳۳: اسماءُ الحسنیٰ کے بارے میں حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا کیا ارشاد ہے؟ -جواب: (۱) مولائے مومنان کا ارشاد گرامی یہ ہے: اَنَا الْاَسْمَآءُ الْحُسْنَی الَّتِیْ اَمَرَ اللّٰہُ اَنْ یُّدْ عیٰ بِھَا = میں وہ خدا کے اسمائے حسنٰی ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کو انہی اسماء سے پکارا جائے (۲) اسماء الحسنیٰ کی یہ تفسیر و تاویل باطنی حکمت سے مملو ہے، کیونکہ یہ مولا علیؑ کی ہے کہ علیؑ قرآنِ ناطق بھی ہے اور مؤولِ قرآنِ صامت بھی ہے، اور رسولِ اکرمؐ کے علم و حکمت کا دروازہ بھی۔

سوال – ۸۳۴: سورہ مریم (۱۹: ۶۵) میں ارشاد ہے: ھَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیّاً = کیا تیرے علم میں اس کا ہمنام ہم پلہ کوئی اور بھی ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) خداوند تعالی اپنے مبارک نام میں بےمثال ہے، کیونکہ اس کا نام زندہ، پرنور، ناطق، اور

 

۵۶۳

 

دانا ہے، کسی انسان کے نام کی طرح محض لفظی نہیں (۲) انسان قدیم (ہمیشہ کا) نہیں، حادِث ہے، یعنی پہلے نہ تھا اور اب ہے، مگر خدا تعالیٰ ذات میں بھی اور صفت میں بھی قدیم ہے، اللہ کی پاک صفت / صفات کی فعلی تجلّیات ہیں، جو تمام معنوں میں نہایت حسین و جمیل ہیں، اور یہی اسماء الحسنیٰ ہیں، جن کا ذکر ہوچکا۔

سوال – ۸۳۵: یہ سوال ان آیات و احادیث کے بارے میں ہے، جن میں ظاہراً یہ ذکر ہے کہ جو لوگ مرجاتے ہیں، ان کی روح تا قیامت قبر ہی میں رہتی ہے، اس کے بارے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟ -جواب: (۱) قبر ہے، لیکن یہ اصل قبر نہیں جو زمین میں بناتے ہیں، یہ تو صرف علامت اور مثال کے سوا کچھ بھی نہیں، دو اصل قبریں عالمِ شخصی میں ہیں، ایک قبر اسرافیل اور عزرائیل کے مقام پر ہے، اور دوسری بہت آگے چل کر حظیرۂ قدس میں (۲) بحکمِ حدیثِ شریف تمام ارواح ہمیشہ جمع شدہ لشکر کی حیثیت سے کاملین کی روحانیّت میں کام کرتی رہتی ہیں (۳) روحِ مومن بعد از جسمانی موت ایک قالب میں رکھی جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ (ہزار حکمت / ح ۶۷۲) یہ حدیث فیصلہ کرتی ہے کہ روح مٹی کی قبر میں نہیں جاتی ہے۔

سوال – ۸۳۶: منکر اور نکیر کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ یا نظریہ ہے؟ -جواب: (۱) یہ دو فرشتے ہیں جو عالمِ شخصی میں کئی

 

۵۶۴

 

امور کو انجام دیتے ہیں، ایک خیر کی نمائندگی کرتا ہے اور دوسرا شر کی (۲) دونوں ہی فرشتے ہیں، مگر حکمت کے تحت ایک کو جنّ اور دوسرے کو فرشتہ کہا گیا ہے (۳) ان کو قرآنِ حکیم نے ہاروت و ماروت بھی کہا ہے (۰۲: ۱۰۲)۔

سوال – ۸۳۷: سورۂ نحل (۱۶: ۱۴) میں ہے: خدا وہی ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کر رکھا ہے تاکہ تم اس سے ترو تازہ گوشت لے کر کھاؤ اور اس سے زینت کی وہ چیزیں نکالو جنہیں تم پہنا کرتے ہو۔ یہاں سمندر، تروتازہ گوشت، اور زینت کی چیزوں کی کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ -جواب: (۱) سمندر سے بحرِ روحانیّت مراد ہے، تروتازہ گوشت علمِ روحانی ہے، اور زنیت کی چیزیں وہ اسرارِ معرفت ہیں جو اشاراتِ عقل سے حاصل ہوتے ہیں (۲) اس سے ظاہر ہوا کہ یہ تمام عظیم ترین نعمتیں امامِ زمان علیہ السّلام ہی کی نورانیّت میں حقیقی مومنین کو حاصل ہو جاتی ہیں، الحمد للہ۔

سوال – ۸۳۸: ترجمۂ آیۂ کریمہ (۱۷: ۴۵) ہے: جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے ہیں۔ آپ اس کی حکمت کو بیان کریں -جواب: (۱) جو لوگ حقیقی معنوں میں آخرت پر ایمان نہیں لاتے ہیں، ان کو چشمِ بصیرت نصیب نہیں ہوتی ہے، لہٰذا

 

۵۶۵

 

نورِ رسولؐ اور معجزاتِ قرآن کو یہ لوگ دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں (۲) ایمان کے بہت سے درجات ہیں، پس یہاں جس طرح آخرت پر ایمان لانا مقصود ہے، وہ ایمانِ کامل ہے، جس کو نورِ ایمان بھی کہتے ہیں۔

سوال – ۸۳۹: آپ کے تمام عزیزان (تلامیذ) ہر اعتبار سے قابلِ تعریف ہیں، الحمد للہ کہ وہ حکمتِ قرآن کے شیدائی ہیں، ان شاء اللہ ان کی سعئ بلیغ سے علمِ قیامت کی روشنی پھیل جائے گی، امید ہے کہ وہ لشکرِ ارض و سماء کے ساتھ مل کر کام کریں گے، آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ، یہ تمام باتیں قرآن اور امام کی پیش گوئی کے مطابق ہیں (۲) ہم سب کے سب حضرتِ قائم القیامت کے علمی لشکر ہیں، بس اتنا اشارہ کافی ہے۔

سوال – ۸۴۰: قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ حضراتِ أئمّہؑ لوگوں پر گواہ ہیں، اور اماموں پر رسولِ پاکؐ گواہ ہیں (۰۲: ۱۴۳، ۲۲: ۷۸) اس میں کیا حکمت ہے؟ -جواب: (۱) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ ہر زمانے کا امام لوگوں پر گواہ اس معنیٰ میں ہے کہ وہ ظاہراً و باطناً لوگوں کے سامنے حاضر ہے پس جو شخص امام کو ظاہر میں دیکھنا چاہے، تو دیکھ سکتا ہے، اور جو باطن میں دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرے تو یقیناً امام کو دیکھ سکتا ہے، اور علم و ہدایت حاصل

 

۵۶۶

 

کر سکتا ہے (۲) امامؑ پر رسولؐ گواہ اس لئے ہیں کہ امام کی روحانی اور نورانی ہدایت رسولؐ سے حاصل ہوتی ہے۔

 

۵۶۷

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۸

 

سوال – ۸۴۱: یہ بڑی خوبصورت اور عظیم الشّان دلیل ہے کہ امام ہمیشہ لوگوں پر گواہ ہے، یعنی ظاہراً و باطناً لوگوں کے درمیان حاضر اور موجود ہے، جبکہ گواہ (شاہد / شہید، جمع شہداء) حاضر اور موجود ہوتے ہیں، پس قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں امامِ عالیمقامؑ کے گواہ ہونے کا ذکر آیا ہے، وہاں عاشقوں کے لئے سب سے بڑی بشارت ہے کہ مومنِ عاشق کو ہر جگہ حضرتِ امامؑ کا باطنی دیدار ہوتا ہے، کیا آپ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں؟ جواب: (۱) خدائے بزرگ و برتر کی قسم میں اسے تسلیم کرتا ہوں، کیونکہ یہ میرے نزدیک سب سے بڑی روشن حقیقت ہے (۲) آپ قرآن کے مضمونِ گواہی میں غور سے دیکھیں۔

سوال – ۸۴۲: بعض علماء نے فقۂ جدید کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کیا ہے، لیکن یہ کام بہت مشکل ہے، اس باب میں ہمارا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ ہادیٔ برحق موجود ہے، اسی ولی امر کا قول و فعل ہمارے لئے فقۂ جدید کا درجہ رکھتا ہے، وہ جس کو چاہے قرآنی تاویل کی روشنی بھی دے سکتا ہے، تاکہ اس کو یقین ہو کہ امامِ عالیمقامؑ

 

۵۶۸

 

کا ہر کام خدا اور اس کے محبوب رسولؐ کے منشا کے عین مطابق ہوا کرتا ہے، کیا یہ بیان درست ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست اور روشن حقیقت ہے، کیونکہ آسمانی کتاب کی وراثت آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کے پاس ہے، مگر انسان بہت ہی جلد اصولات کو بھول جاتا ہے (۲) اسی لئے خدا نے قسم کھا کر فرمایا کہ انسان بڑے خسارے میں ہے۔

سوال – ۸۴۳: بعض نادان غیر مسلم جو عقل و دانش سے بہت ہی دور ہیں، وہ سوال کرتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ) کی ازواج اتنی زیادہ کیوں تھیں؟ ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ -جواب: (۱) ہمارے پاس بہت سے قرآنی، عقلی، منطقی، اور تاریخی جوابات موجود ہیں، لیکن ہم یہاں اس پر طویل بحث نہیں کریں گے، کیونکہ اس کتاب میں سوال و جواب کے لئے جو سائز مقرر ہے، وہ محدود ہے، لہٰذا ہم صرف ایک تاریخی جواب پر اکتفاء کرتے ہیں: (۲) حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی ایک ہزار بیویاں تھیں، جن میں سات سو شہزادیاں اور تیں سو حَرَمیں تھیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ سلیمانؑ کی اکثر بیویاں آبائی دیوتاؤں کو مانتی تھیں (۳) ملا حظہ ہو: کتابِ مقدّس (اردو) یعنی پرانا اور نیا عہد نامہ، ۱۔ سلاطین، ص ۳۴۰۔ ب ۱۱

سوال -۸۴۴: کیا قرآنِ حکیم میں حضرتِ سلیمان علیہ السلام پر

 

۵۶۹

 

کوئی اس قسم کا اعتراض ہے؟ کیا ان کی تعریف میں کوئی کمی نظر آتی ہے؟ -جواب: (۱) نہیں، ہر گز نہیں، حضرتِ ابراہیم علیہ السلام سے اس طرف جتنے بھی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، وہ سب کے سب آلِ ابرہیم ہیں (۲) ان کو اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتاب کی وراثت، حکمت، اور عظیم سلطنت عطا فرمائی ہے (۰۴: ۵۴) (۳) اکثر لوگ اپنے پیغمبر اور امام کی بشریت کی وجہ سے شکوک و شبہات کا شکار ہوتے گئے ہیں، لہٰذا خداوندی مصلحت اور حکمت یہ تھی کہ روحانی سلاطین میں سے صرف ایک کو ظاہر کرکے لوگوں کو آزمایا گیا، اور وہ حضرتِ سلیمانؑ تھا۔

سوال – ۸۴۵: قرآنِ حکیم میں اھل الکتٰب کن لوگوں کا نام ہے؟ کب سے یہ نام مقرر ہوا؟ کیوں؟ -جواب: (۱) قرآنِ پاک نے یہود و نصاریٰ کو اہل الکتٰب (کتاب والے) کہا ہے، ان لوگوں کے لئے یہ نام زمانۂ نزولِ قرآن سے مقرر ہوا (۲) کیونکہ وہ ماضی کی کتاب پر ٹھہرے رہے، اور نورِ منزل (۰۵: ۱۵) سے منکر ہوگئے (۳) اس سے قبل ان کا ایسا نام نہیں تھا۔

سوال – ۸۴۶: سورۂ مائدہ (۰۵: ۰۵) کے حوالے سے یہ بتائیں کہ آیا مسلمان اور اہلِ کتاب ایک دوسرے کا کھانا کھا سکتے ہیں؟ کیا ایک مسلمان مرد یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کر سکتا ہے اور وہ اپنے دین پر قائم رہ سکتی ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں،

 

۵۷۰

 

جی ہاں، مسلم اور کتابی ایک دوسرے کا کھانا کھا سکتے ہیں (۲) ایک مسلمان مرد کتابی عورت سے نکاح کرسکتا ہے، وہ اگر چاہے تو کتابی ہی رہ سکتی ہے۔

سوال -۸۴۷: جب حکمتی سوالات کا سلسلہ جاری ہے تو حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی کوئی سوال ہونا چاہیئے، سوال کے جواب سے قبل آپ متی کی انجیل، ب۱، آیات ا تا ۲۵ کو بھی غور سے پڑھیں، اور بتائیں کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی جسمانی ولادت کس طرح ہوئی؟ -جواب: (۱) مذکورہ انجیل کے الفاظ اس طرح ہیں: اب یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی (۲) پس اس کے شوہر یوسف نے جو راست باز تھا اور اسے بدنام کرنا نہیں چاہتا تھا اسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا (۳) وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتہ نے اسے خواب میں دکھائی دے کر کہا، اے یوسف ابنِ داؤد! اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر، کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے، وہ روح القدس کی قدرت سے ہے۔

اس نورانی خواب سے جو بڑا معجزانہ اور وحی کی طرح شفاف اور منظم و مربوط تھا یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ مریم کا شوہر یوسف کوئی روحانی شخص یا کوئی خلیفہ تھا (۲۴: ۵۵) لہٰذا یہاں روح القدس سے یوسف کا جسمِ

 

۵۷۱

 

لطیف مراد ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عالمِ شخصی (انسان) میں تمام معجزات کو جمع کر رکھا ہے (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)۔

سوال – ۸۴۸: آپ وضاحت کرکے بتائیں کہ عالمِ شخصی میں روح القدس / جبرائیل کس طرح ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱) عالمِ شخصی دراصل عالمِ دین کا نمونہ ہے، اس لئے اس میں سب کچھ ہے (۲) انسان میں طرح طرح کی قوّتیں موجود ہیں، اور انہی میں قوّتِ جبریلیہ، قوّتِ میکائیلیہ، قوّتِ اسرافیلیہ، اور قوّتِ عزرائیلیہ بھی ہیں، اور وقت آنے پر یہ قوّتیں اپنا اپنا کام کرنے لگتی ہیں، (۳) چنانچہ بحکمِ آیۂ قرآن (۱۹: ۱۷) یوسف کی قوّتِ جبریلیہ خود یوسف کے جسمِ لطیف میں مریم کے سامنے ظاہر ہوگئی ہو تو کیا تعجب ہو سکتا ہے۔

سوال – ۸۴۹: سورۂ اٰلِ عمران (۰۳: ۵۹) میں ہے: اللہ کے نزدیک عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکم دیا کہ ہوجا اور وہ ہوگیا، اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آدمؑ اور عیسیٰؑ کو مٹی سے پیدا کیا، بلکہ تمام انسانوں کو بھی مٹی ہی کے جوہر سے پیدا کیا (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) پس ٹھیک طرح سے سوچیں کہ جسمانی تخلیق سب کی ایک جیسی ہے (۲) مگر روحانی ولادت اور عقلی ولادت کی سعادت صرف کاملین ہی کو نصیب ہو جاتی ہے (۳) یاد رہے کہ جس طرح حضرتِ عیسیٰؑ کے والدین تھے، اسی طرح

 

۵۷۲

 

حضرتِ آدمؑ کے بھی والدین تھے۔

سوال – ۸۵۰: سورۂ رحمنٰ جو عروس القرآن ہے، اس میں حورانِ بہشت کی تعریف و توصیف ہے، اس میں کیا شک ہوسکتا ہے، لیکن ہمیں اسرارِ معرفت کی جستجو ہے، لہٰذا سوال ہے کہ وہ حوریں (۵۵: ۵۶) کس درجے کی ہیں؟ درجۂ جسمِ لطیف؟ درجۂ روحانی؟ یا درجۂ عقلانی؟ ۔جواب: (۱) اگرچہ بہشت میں ہر درجہ کی حوریں ہیں، لیکن اس آیۂ شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حورانِ عقلانی بصورتِ اسرارِ عرفانی ہیں، (۲) ترجمۂ آیت ہے: جنہیں ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جنّ نے نہ چھوا ہے۔ یعنی یہ اسرارِ معرفت اور رموزِ حکمت ایسے نہیں، جن کو قبلاً کوئی انسان یا جنّ جانتا ہو (۳) اس کے بعد دوشیزہ اور اچھوتی ہونے کی صفت روحانی اور لطیف جسمانی حوروں کے لئے بھی ہے۔

 

۵۷۳

 

صندوقِ جواہر۔ ۱۹

 

سوال – ۸۵۱: آپ کے اس عمدہ بیان سے ایک اور عظیم سوال پیدا ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ آیا یہ ممکن ہے کہ اللہ کی قدیم بادشاہی میں ایسے بے شمار بھید ہوں، جن کو ہنوز کاملین نہ جانتے ہوں، اور وہ صرف اہلِ بہشت کے لئے محفوظ ہوں؟ -جواب: (۱) ایسا نہیں، بلکہ اللہ کی قدیم بادشاہی میں تجدّد کا نظام ہے، وہ ہر بار صفحۂ روزگار سے علم کو اٹھاتا بھی ہے، اور ازسرِنّولکھتا بھی ہے (۱۳: ۳۹) (۲) یہ تجدّد اور خلقِ جدید ہی ہے (۱۴: ۱۹) کہ خداوند تعالیٰ دنیا کی عمر رسیدہ عورتوں کو بہشت میں لے جاکر دوشیزہ اور اچھوتی پریاں بنا دیتا ہے (۳) پھر اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ ہر عالمِ شخصی کو اسرارِ معرفت سے لبریز کر دے۔

سوال – ۸۵۲: آپ کی اس حکمت سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ بھول جانا اگرچہ ایک طرف سے شر ہے لیکن دوسری طرف سے خیر ہے، کیا یہ نظریہ درست ہے؟  -جواب: (۱) جی ہاں، بالکل درست ہے، چنانچہ دانشمند انسان وہ ہے، جو ہر بات کو پہلے ہی سے

 

۵۷۴

 

جانتا ہے کہ اس میں خیر ہے یا شر (۲) یہاں ایک خاص نکتہ قابلِ ذکر ہے، وہ ہے ذکرِالٰہی میں خود فراموشی کا نتیجہ، جو بہت بڑی کرامت ثابت ہو سکتا ہے (۳) ہاں، سب سے عظیم کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ مومن خدا کو یاد کرتے کرتے اپنے آپ کو بھول جائے، پھر عجب نہیں کہ ایک نہ ایک دن اس پر بابِ روحانیّت مفتوح ہوجائے۔

سوال – ۸۵۳: آپ دنیا اور آخرت کے لفظی معنی اور حکمت بتائیں  -جواب: (۱) دنیا کے معنی ہیں قریب، بہت نزدیک، یعنی یہ جہان، آخرت کے معنی ہیں عاقبت، دارالبقا، دوسرا جہان (۲) کاملین و عارفین دنیا ہی میں قیامت و آخرت کو دیکھتے ہیں، اس لئے ان کے پاس علم الآخرت کا ایک خزانہ موجود ہوتا ہے، ایک مومن جب مرجاتا ہے، تب وہ قیامت اور آخرت کو عملی طور پر دیکھ سکتا ہے، مگر پوری امت کی عمر کے پیشِ نطر ہنوز قیامت بہت دور ہے۔

سوال – ۸۵۴: یہ سوال شاید از حد ضروری ہے: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت موجود ہے، جس کی حکمت یہ بتائے کہ اہلِ ایمان بہشت میں خاطر خواہ رہ کر دنیا میں آئے ہیں، اور یہ راز ان پر اس وقت کھل جاتا ہے، جبکہ وہ دوبارہ جنت کے علمی پھل کھانے لگتے ہی؟  -جواب: (۱) جی ہاں، ایسی بہت سی آیات ہیں، مگر آپ کا اشارہ اس آیۂ شریفہ کی طرف ہے، جس کا ترجمہ اس طرح سے ہے: جب

 

۵۷۵

 

ان کو کھانے کے لئے ان (باغات) سے پھل ملے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہم کو پہلے مل چکا تھا (۰۲: ۲۵) (۲) بہشت سے باہر آنے کا جو وقفہ ہے، وہی آج بہشت پر حجاب ہے، لیکن اہلِ بصیرت اس کے باؤجود بہشت کو دیکھتے ہیں۔

سوال – ۸۵۵: آپ نے کہا: خداوندِ تعالیٰ اپنی رحمتِ بیکران سے دنیا کی عمر رسیدہ عورتوں کو بھی بہشت کی اچھوتی حوریں بناتا ہے، کیا آپ متعلّقہ آیت کی نشاندہی اور وضاحت کریں گے؟  -جواب: (۱) سورۂ واقعہ (۵۶: ۳۵ تا ۳۶) میں ہے: یقیناً ہم نے ان (عورتوں کو دنیا میں) پیدا کیا اور پرورش کی جیسا کہ حق تھا، پھر ہم نے ان کو باکرہ بنایا (یعنی جسم لطیف میں منتقل کر دیا) (۲) میں سمجھتا ہوں کہ یہ عظیم انقلابی راز ہے، کیونکہ جسمِ لطیف صرف حورانِ بہشت ہی کے لئے نہیں، بلکہ تمام اہلِ بہشت کے لئے ہے۔

سوال – ۸۵۶: دانشگاہِ خانۂ حکمت کی یہ روحانی سائنس بڑی عجیب و غریب ہے، اس کی کائناتی معلومات کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، اسی اعتماد پر سوال ہے: کیا عظیم روحیں، فرشتے، جنّات (مردان و زنانِ قومِ پری) وغیرہ انسان ہی کے مظاہر ہیں؟  -جواب: (۱) جی ہاں یہ بات بالکل درست ہے، کیونکہ تسخیر کائنات کے یہی معنی ہیں (۲) عالمِ شخصی میں ہر چیز موجود ہونے کا مطلب بھی یہی ہے، القابض

 

۵۷۶

 

اور الباسط کی حکمت بھی یہی بتاتی ہے (۳) قانونِ خزائن بھی یہی کہتا ہے، اور یہ کہ بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں۔

سوال – ۸۵۷: کیا آپ نے سچ مچ جنّات کے بادشاہ کو دیکھا تھا، جیسا کہ ایک انٹرویو میں آپ کا یہ قول موجود ہے؟  ۔جواب: (۱) جی ہاں، یہ بالکل سچ ہے کہ میں نے روحانی انقلاب کے دوران بیشمار عجائب و غرائب کا مشاہدہ کیا ہے، اور چشمِ ظاہر کے سامنے حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم کے دو انتہائی عظیم معجزے ہوئے، (۲) انہی میں سے اوّل کو عشق کی سرمستی میں جنّات کا بادشاہ کہا، اور یہ بالکل صحیح بھی ہے (۳) یہ سلیمانِ زمانؑ  کا جثّۂ ابداعیہ تھا، اور سچ مچ شاہِ جنّات، انتہائی خوبصورت اور لطیف انسانی شکل، زبان تمہاری اپنی، دیدار بھی اور حجاب بھی، وہ کسی دروازے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتا، بلکہ وہ روحانی برق سے بڑی تیزی سے کھلتا اور بند ہو جاتا ہے۔

سوال – ۸۵۸: یہاں سے دو مفید سوال اور پیدا ہوگئے اوّل یہ کہ جنّ اور جثّہ ابداعیہ کے لئے دروازے کی کیا ضرورت ہے، وہ لطیف ہے، اس کو درودیوار روک نہیں سکتی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا جثّۂ ابداعیہ یا جنّ کی ہستی برقی ہے؟  -جواب: (۱) جثّۂ ابداعیہ کے لئے کسی دروازے کی ضرورت تو نہیں، لیکن اس کا دروازے سے آنا علامتی ہے کہ وہ حدودِ دین میں سے ہے، (۲) نیز اس میں یہ

 

۵۷۷

 

اشارہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی مومن دشمن کے قید خانے میں محبوس ہو تو برضائے مولا اس کو نکالا جاسکتا ہے، لیکن خدا کے دوست کا زندان میں رہنا بڑا پُرحکمت کارنامہ ہے (۳) جثّۂ ابداعیہ جوہرِ نورانیّت سے ہے، لہٰذا آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ برقی مخلوق ہے یا جوہرِ آتش سے ہے، جیسے قرآن میں ارشاد ہے کہ جنّ کی تخلیق آگ سے ہے۔

سوال – ۸۵۹: سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۷) کے حوالے سے سوال ہے کہ آیا یہ بات ممکن ہوسکتی ہے کہ جس نارِ مقدّس نے ہابیل کی قربانی قبول کرلی تھی، اس سے جثّۂ ابداعیہ مراد ہو؟ کیونکہ مادّی آگ جو عقل و جان کے اوصاف سے عاری ہے، وہ کس طرح خدا کی نمائندہ ہوکر متّقی اور غیر متّقی کے درمیان کوئی فیصلہ کرسکتی ہے؟  -جواب: (۱) آپ کا سوال بہت ہی خوب، بڑا عقلی اور منطقی ہے، یقیناً یہ سوال خود ہی جواب بھی ہے (۲) بیشک جثّۂ ابداعیہ کے ایسے کئی عظیم معجزے ہوں گے، جواب تک پردۂ راز میں ہیں۔

سوال – ۸۶۰: ہم بیچاروں اور غریبوں سے اللہ تعالیٰ کے امتحانات بڑے عجیب و غریب ہیں، ایک طرف یہ فیصلہ کن ارشاد ہوچکا ہے کہ ہر چیز امام مبینؑ میں محدود ہے، یعنی کوئی معجزہ، کوئی علم، اور کوئی بھید امام کے عالمِ شخصی سے باہر نہیں، پھر الگ الگ بہت سی چیزوں کا ذکر بھی ہوا ہے، تاکہ دیکھا جائے کہ لوگ امام کے بارے

 

۵۷۸

 

میں کیا سوچتے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟  -جواب: (۱) یہ بڑا مشکل امتحان ہے، جب تک کوئی مومن بحرِعلم اور دریائے عشق میں مستغرق نہ ہوجائے، تب تک امتحان سخت ہی رہے گا (۲) ذکر و عبادت اور گریہ و زاری سے آپ کو ہر گونہ مدد مل سکتی ہے، علم الیقین بہت بڑی نعمت ہے۔

 

۵۷۹

 

صندوقِ جواہر۔۲۰

 

سوال – ۸۶۱: قرآنی ارشاد کا مفہوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک ہی حقیقتِ عالیہ کو طرح طرح کی مثالوں میں بیان فرمایا ہے (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) کیا آپ اس کے بارے میں کچھ سمجھا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)  ان شاء اللہ العزیز۔ یاد رہے کہ جس طرح انسانی زندگی کا سب سے اہم اور سب سے خاص مرکز دل ہے، اسی طرح قرآنی علم و حکمت کا سب سے عظیم مرکز کلیہ امامِ مبین ہے (۳۶: ۱۲) جو بمرتبۂ قلبِ قرآن ہے، اب اسی اعلیٰ حقیقت کی گونا گون مثالوں کے لئے سارے قرآن میں دیکھنا ہوگا (۲) کلیۂ امامِ مبین کی دوسری مثال قانونِ خزائن ہے (۱۵: ۲۱) تیسری مثال لوحِ محفوظ ہے (۸۵: ۲۲) چوتھی مثال ام الکتاب ہے (۱۳: ۳۹)۔

سوال – ۸۶۲: آپ نے وزڈم سرچ کے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ قرآن فہمی کے خاص خاص اصولات ہیں، پس یہ سب سے بہترین اصول ہے، لہٰذا آپ اس کو آگے بڑھائیں – جواب: (۱) پانچویں مثال حظیرۂ قدس ہے، چھٹی مثال عالمِ شخصی (انفس) ہے، ساتویں مثال کتابِ احصا ہے (۷۸: ۲۹) (۲) آٹھویں مثال یہ ہے کہ خدا نے تمام چیزوں کو عددِ واحد میں گھیر لیا ہے (۷۲: ۲۸) نویں مثال یہ ہے کہ اللہ کائنات کو لپیٹتا ہے (۲۱: ۱۰۴)

 

۵۸۰

 

دسویں مثال یہ ہے کہ مجموعۂ کائنات اللہ کی مٹھی میں ہے (۳۹: ۶۷) یہ اور ان کے علاوہ وہ دوسری بہت سی مثالیں امامِ مبین کی ذاتِ اقدس کی تعریف میں ہیں۔

سوال – ۸۶۳: قرآنِ حکیم میں چار دفعہ لفظِ مَلَکُوْت کا ذکر آیا ہے، آپ بتائیں کہ مَلَکوت کے معنی کیا ہیں؟ اللہ کے ہاتھ میں مَلَکوت ہونے کا کیا مطلب ہے؟ -جواب: (۱) اگر آپ اس کے ظاہری معنی چاہتے ہیں تو لغات میں دیکھیں، اگر آپ اس کے باطنی معنی چاہتے ہیں تو قرآن میں سوچیں (۲) سورۂ انعام (۰۶: ۷۵) میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو آسمانوں اور زمین کے ملکوتی معجزات دکھا رہا تھا، کہاں؟ عالمِ شخصی میں، اور یہ سلسلہ کہاں جاکر مکمل ہوا؟ حظیرۂ قدس میں (۳) خدا کے ہاتھ میں ہر چیز کی ملکوت سے کیا مراد ہے؟ وہ ایک انتہائی گرانقدر چیز ہے، جس کے بے شمار نام ہیں، اور اس کو لولوئے مکنون بھی کہا گیا ہے، اللہ تعالیٰ سب کو حصولِ معرفت کے لئے عالی ہمتی عطا فرمائے!

سوال – ۸۶۴: ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے کس طرح ہوتی ہے؟ -جواب: (۱) ایک آیۂ شریفہ (۳۶: ۸۳) میں ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں ہرچیز کی مَلَکوت ہے، دوسری آیۂ کریمہ (۶۷: ۰۱) میں ہے کہ خدا کے ہاتھ میں مَلَک (بادشاہی) ہے، تو معلوم ہوا کہ مَلَکوت کے معنوں

 

۵۸۱

 

میں سے ایک معنی ہیں: بادشاہی (۲) یہ ایک آیت سے دوسری آیت کی تفسیر کی ایک مثال ہے۔

سوال – ۸۶۵: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶۹) میں حکمت کی تعریف اس طرح فرمائی گئی ہے: وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں خیر کثیر مل گئی۔ آپ کسی اور آیت سے بھی اس کی تفسیر کریں -جواب: (۱) حکمت عطا کرتا ہے (دیتا ہے) یہ فعل خدا کے ہاتھ کا ہے، اور اس کا براہِ راست تعلق اس بے مثال اور انتہائی عالی قدر چیز سے ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے (۲) پس اس کی تفسیر وہ تمام آیاتِ کریمہ ہیں، جو دستِ خدا کی تعریف سے متعلق ہیں، جیسے ارشاد ہے: تیرے ہاتھ میں خیر ہے (۰۳: ۲۶) یعنی جب بھی تو کائنات کو لپیٹتا ہے، تو اس میں شر کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور تیرے ہاتھ میں خیر ہی خیر باقی رہتا ہے (۳) اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکمت خیرِ کل ہے، جو تسخیرِ کائنات ہے، اور یہی بہشت کی بادشاہی بھی ہے۔

سوال – ۸۶۶: آیا قرآنِ حکیم میں عالمِ شخصی کی معرفت کی دعوت ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، یہ دعوت کئی طرح سے ہے، مِن جملہ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۱۹) میں دیکھیں: کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کس طرح خلقت (انسان) کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر (کس طرح) اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے (۲) یہ نہ صرف عالمِ شخصی کی معرفت کی طرف عظیم

 

۵۸۲

 

دعوت ہی ہے، بلکہ نتیجۂ دعوت یعنی معرفت بھی ہے کہ منزلِ عزرائیلی میں خدا انسان کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے، اور اسی طرح مرتبۂ عقل پر بھی (۳) اس آیۂ کریمہ میں “الخلق” سے انسان مراد ہے کہ معرفت اسی سے وابستہ ہے۔

سوال – ۸۶۷: سورۂ قیامہ (۷۵: ۱۴) میں ارشاد ہے: بَلْ الإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ۔ آپ اس کی حکمت بتائیں – جواب: (۱) بلکہ انسان چشمِ دل سے اپنے آپ کو بخوبی دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے (۲) یعنی عارفِ کامل تمام لوگوں کے لئے نمونہ اور مثال ہے، لہٰذا ہر شخص کی روحانی ترقی، خود شناسی، اور خدا شناسی ممکن ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

سوال – ۸۶۸: آج ہم آپ سے ایک غیر معمولی اور بڑا عجیب و غریب سوال کرتے ہیں، وہ ہے نظریۂ  کلّیت، آپ بتائیں کہ نظریہ کلّیت کیا ہے؟ -جواب: (۱) کلّیات میں سے کسی کُلّ کو اس کے تمام اجزأ کے ساتھ دیکھنا، پھر اس کے حقائق و معارف پر تبصرہ کرنا نظریۂ کلّیت ہے (۲) جیسے اگر آپ کو پانی کے بارے میں کچھ کہنا ہے تو اس کے دائرہ کُلّ کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔

سوال – ۸۶۹: آیا انسانی روح پر بھی نظریۂ کلّیت کا اطلاق

 

۵۸۳

 

ہو سکتا ہے؟ -جواب: (۱) کیوں نہیں، جبکہ روح ایک کائنات یعنی عالمِ شخصی ہے، اور اس کے لاتعداد اجزأ ہیں، جو تمام احوال پر محیط ہیں (۲) روح اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے، لہٰذا اس میں صفاتِ الٰہیہ کی جو جو تجلّیات ہیں، ان کا کما حقہ بیان ممکن نہیں (۳) ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ روح مکان و لامکان میں ہرجا حاضر ہے، اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کی کلّی روح کا ایک پہلو ہمیشہ بہشت میں رہتا ہے۔

سوال -۸۷۰: کیا عالمِ شخصی سے عالمِ انسانیّت مراد ہے؟ قرآنِ حکیم میں لفظِ “العٰلمین” کتنی بار آیا ہے؟ العٰلمین سے کون کونسے جہان مراد ہیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں، عالمِ شخصی ہی دراصل عالمِ انسانیّت ہے (۲) قرآنِ پاک میں لفظِ العٰلمین کل ۷۳ دفعہ آیا ہے، (۳) العٰلمین سے عوالمِ شخصی مراد ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسولؐ کو عوالمِ شخصی ہی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) کیونکہ عالمِ جمادات، عالمِ نباتات، اور عالمِ حیوانات اس رحمتِ رسولؐ کے قابل نہیں ہیں۔

 

۵۸۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۱

 

سوال – ۸۷۱: سورۂ یونس (۱۰: ۱۰۰) میں ارشاد ہے:  وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لاَ يَعْقِلُونَ۔ اس کی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱)(ترجمہ) اور جو لوگ بے عقل ہیں ان پر وہ (کفر و جہالت کی) نجاست ڈالتا ہے (۲) جو لوگ حقیقی عقل سے عاری ہیں، ان کی سخت مذمت کی گئی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ اسلام عقلی مذہب ہے (۳) قرآنِ حکیم میں ایسی بہت سی آیات وارد ہوئی ہیں، جن میں عقل و دانش اور علم و حکمت کی تعریف ہے۔

سوال – ۸۷۲: کیا آپ یہ عظیم رازِ معرفت بتا سکتے ہیں کہ خداوندِ تعالیٰ کس طرح روحانی کائنات کو لپیٹتا ہے؟ ۔جواب: (۱) ان شاء اللہ۔ جب کسی انسانِ کامل کی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو اس وقت باطنی کائنات دو مرحلوں میں لپیٹ لی جاتی ہے، پہلے عالمِ شخصی میں، اور کچھ مدت کے بعد حظیرۂ قدس میں (۲) یہی سبب ہے کہ قرآن نے فرمایا کہ تمام چیزیں جفت جفت ہیں۔

 

۵۸۵

 

سوال – ۸۷۳: سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۵) میں ارشاد ہے: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى۔ آپ کے نزدیک اس آیۂ کریمہ کا صحیح ترجمہ کس طرح ہے؟ -جواب: (۱)ترجمہ: (خدائے) رحمٰن نے عرش پر برابری کا کام کیا۔ یعنی پہلے خدا کی مخلوقات کے درجات مقرر ہوتے ہیں، لیکن جب اللہ تعالیٰ ساری کائنات کو حظیرۂ قدس / عرش پر لپیٹ لیتا ہے تو اس وقت وہ مساوات و برابری کا کام کرتا ہے (۲) یہ عالمِ شخصی کا تذکرہ ہے۔

سوال – ۸۷۴: سورۂ مُلک (۶۷: ۰۳) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ  = (اے عارف!) تجھ کو رحمٰن کی خلق میں کچھ فرق و تفاوت نظر نہیں آئے گا۔ آیا یہ آیت بھی مذکورہ برابری کے بارے میں ہے؟ -جواب: (۱)جی ہاں، اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں لوگوں کے لئے درجات بھی ہیں، اور مساوات و برابری بھی ہے (۲) یہ خدا کی مخلوق کے بارے میں نظریۂ کلّیت ہے، اس سے معترضین کے تمام سوالات ختم ہوجاتے ہیں۔

سوال – ۸۷۵: بیانِ بالا سے معلوم ہوا کہ سنتِ الٰہی میں مخلوق کے لئے درجات بھی ہیں، اور برابری بھی ہے، اب آپ یہ بتائیں کہ اس باب میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام نے کس طرح عمل کیا؟ -جواب: (۱) ان حضرات نے سب لوگوں کو یکسان طور پر نورانی

 

۵۸۶

 

ہدایات دیں، اور لوگوں پر ان کا انتہائی عظیم احسان یہ ہوا کہ لوگ اپنے اپنے صاحبِ قیامت میں فنا ہوکر اس کی نورانی کاپیاں ہوگئے (۲) یہ کاپیاں بھی ہیں، اور یہی وحدت بھی ہے۔

سوال – ۸۷۶: آیا یہ حقیقت ہے کہ حظیرۂ قدس میں نہ صرف شخصِ وحدت کی بے شمار کاپیاں موجود ہیں، بلکہ ان کاپیوں کی وحدت بھی ہے، کیا آپ اس کی کوئی معقول مثال پیش کر سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)جی ہاں، حظیرۂ قدس میں بےشمار کاپیاں تو ہیں، مگر بیک وقت ظاہر نہیں ہوسکتی ہیں، کیونکہ وہ عالمِ وحدت ہے، لہٰذا وہاں ایک وقت میں صرف ایک ہی ظہور ہوسکتا ہے (۲) لوگ خدا کی رحمت سے عالمِ شخصی میں جاکر کس طرح انسانِ کامل کی زندہ اور ہوبہو کاپیاں ہوجاتے ہیں، اس کی ایک نمایان مثال حضرتِ ابراہیمؑ ہے، جیسا کہ آیۂ کریمہ (۱۶: ۱۲۰) کا ترجمہ ہے: واقعہ یہ ہے کہ ابراہیمؑ اپنی ذات (کی کاپیوں) سے ایک پوری امت تھا اللہ کا فرمانبردار اور عارف۔

سوال – ۸۷۷: سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں زبردست معجزاتی کُرتوں (سرابیل) کا ذکر آیا ہے، کیا یہ امامِ زمانؑ کے جثّۂ ابداعیہ کی کاپیاں ہیں؟ -جواب: (۱) جی ہاں، کیونکہ خداوندِ تعالیٰ نے امامؑ کو لوگوں کی نجات کے لئے مقرر فرمایا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امامِ مبین علیہ السّلام میں تمام چیزیں موجود ہیں (۲) امامِ زمان یقیناً تمام انبیاء  کے باطنی معجزات

 

۵۸۷

 

کا وارث ہے، اگر ہر پیغمبر کے ساتھ اس کا معجزہ بھی چلا جاتا تو پھر دین کے تمام کمالات اور عجائب و غرائب زمانۂ ماضی کا حصّہ بن جاتے، اور اب دین میں کوئی معجزہ نہ ہوتا۔

سوال – ۸۷۸: سورۂ قصص (۲۸: ۰۵) میں ہے: اور ہم چاہتے تھے (اور چاہتے ہیں) کہ جو لوگ ملک میں کمزور کردیئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان کو أئمّہ (پیشوایان) بنائیں اور انہیں وارث کریں۔ یہ آیت بنی اسرائیل کے بارے میں ہے، آپ بتائیں کہ اللہ نے موسیٰؑ اور ہارونؑ کے مومنین کو کس طرح أئمّہ بنایا؟ -جواب: (۱) بنی اسرائیل کے حقیقی مومنین کو حضرتِ امام ہارونؑ کی منزلِ عزرائیلی میں بھی اور مقامِ عقل پر بھی یہ مرتبہ عطا ہوا (۲) اسی معنیٰ میں ہے کہ خداوند تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰؑ کی قوم کو ملوک یعنی روحانی سلاطین بنایا تھا (۰۵: ۲۰)۔

سوال – ۸۷۹: کیا آپ یہی حقیقت کسی اور دلیل سے بھی سمجھا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)ان شاء اللہ۔ آپ کو وہ حدیثِ قدسی یاد ہوگی، جس میں نفسِ کلّی نے فرمایا ہے: اے ابنِ آدم! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو میری اپنی مثال بناؤں گا (۲) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ امامِ عالیمقامؑ مومنین و مومنات کا روحانی باپ بھی ہے اور ماں بھی، اور لازمی ہے کہ امام کے فرزندانِ روحانی جو فرمانبردار ہیں وہ روحانیّت اور کل بہشت میں اپنے باپ امام علیہ السّلام کی طرح بادشاہ ہو جائیں۔

 

۵۸۸

 

سوال – ۸۸۰: سوال ہے کہ عرش و کرسی کیا ہیں، اور تہ بر تہ سات آسمان کیا ہیں (۶۷: ۰۳)؟ -جواب: (۱) جاننا چاہئے کہ عرش سے فرشتۂ عقلِ کُلّ مراد ہے، کرسی فرشتۂ نفسِ کُلّ ہے، اور ان دونوں عظیم فرشتوں کی وحدت ہے، جس میں صرف نفسِ کلّ کی رؤیت ہوسکتی ہے (۲) سات آسمان جو تہ بر تہ ہیں، وہ سات صاحبانِ ادوار ہیں، جن کو نفسِ کُلّ کی کرسی نے اپنے اندر لے رکھا ہے (۰۲: ۲۵۵) اس کا مطلب یہ ہوا کہ محیط و بسیطِ کلّ کرسی ہے، اور کلِّ کلّیات بھی وہی ہے۔

 

۵۸۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۲

 

سوال – ۸۸۱: مکانی بہشت کہاں ہے؟ لامکانی بہشت کی کیا خصوصیت ہے؟ نزدیک لائی ہوئی بہشت کہاں ہو سکتی ہے؟ -جواب: (۱) مکانی بہشت کائنات بھر میں ہے (دیکھو: ۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) (۲) لامکانی بہشت کی خصوصیت یہ ہے کہ مکان کی محتاج نہیں (۳) نزدیک لائی ہوئی بہشت عالمِ شخصی میں ہوا کرتی ہے، اور یہی بہشت برائے معرفت ہے۔

سوال – ۸۸۲: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۸) میں ارشاد ہوا ہے: اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا۔ اس کی حکمت بیان کریں- جواب: (۱) قرآن کے معنی ہیں کلامِ الٰہی، نیز اس کے معنی ہیں اسمِ اعظم پڑھنا (۲) چنانچہ ارشاد ہے کہ بوقتِ فجر باقاعدہ اسمِ اعظم کے پڑھنے سے روحانیّت کے مشاہدات ہوا کرتے ہیں۔

سوال -۸۸۳: آپ یہ بتائیں کہ اسمِ اعظم کا ذکر کب خود کار (AUTOMATIC) ہوجاتا ہے؟ کیا اس معجزے کا ذکر یا اشارہ

 

۵۹۰

 

قرآنِ پاک میں موجود ہے؟ -جواب: (۱) یہ معجزہ حقیقی معنوں میں قیامِ قیامت کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے، اور چند اسمائے عظام خود بخود بولنے لگتے ہیں (۲) اس کا ایک اشارہ سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں موجود ہے۔

سوال – ۸۸۴: سورۂ طلاق کے آخر (۶۵: ۱۲) میں ہفت آسمان اور ہفت زمین کا ذکر آیا ہے، اس کی تاویل کیا ہے؟ -جواب: (۱) عالمِ دین کے سات آسمان یہ ہیں: چھ حضراتِ ناطقانؑ، اور حضرتِ قائمؑ، کلُ سات آسمان ہوئے، اور ان میں سے ہر ایک کا ایک حجتِ اعظم ہے، اور وہ مجموعاً سات ہوگئے، جو دین کی سات زمین ہیں (۲) یہ سات باطنی آسمان اور سات باطنی زمین کرسی (نفسِ کُلّی) کے اندر ہیں (۰۲: ۲۵۵)۔

سوال – ۸۸۵: مثال کے بغیر کوئی ممثول نہیں، ظاہر اور باطن جسم وجان کی طرح ہیں، اور جب تک تنزیل نہ ہو تو تاویل نہیں ہوسکتی ہے، لہٰذا عجب نہیں کہ ظاہری اور باطنی آسمان و زمین کا قصّہ کسی حد تک ایک جیسا ہو، آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) آپ کی بات دلیلِ روشن پر مبنی ہے، پس ممکن ہے کہ اس کائناتِ ظاہر میں بیک وقت یا باری باری سے ہفت زمین موجود ہوں (۲) جب ہم عالمِ دین پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر بڑے دور کے لوگ صرف ایک ہی جفت آسمان و زمین سے فائدہ حاصل کرنے کے

 

۵۹۱

 

پابند ہوا کرتے ہیں، پھر زیادہ سے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ سات زمین باری باری سے وجود میں آتی ہیں، جس طرح ہفتے کے سات دن تو ہیں، مگر وہ سب ایک ساتھ سامنے نہیں آتے۔

سوال – ۸۸۶: خدا کی قسم! آپ کی اکثر باتوں میں روحانی سائنس ہے، آپ نے آسمان و زمین کے بارے میں چند تاویلیں کی ہیں، ان میں یہ بھی کہا ہے کہ یہی کائنات اگر ایک پہلو سے آسمان ہے تو دوسرے پہلو سے زمین ہے، اس کی دلیل کیا ہے؟ -جواب: (۱) سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں ایک عظیم کائناتی بھید ہے، جس کا نام قرآن میں رَتْق و فَتَقْ ہے، جس کا ایک ترجمہ ہے، اور اس کی تاویل حظیرۂ قدس میں ہے (۲) وہ یہ ہے کہ دراصل آسمانِ عقلِ کلّ اور زمینِ نفسِ کلّ بحیثیتِ فرشتۂ واحد کام کر رہے ہیں، تاہم وہاں جو اشارۂ کلّ ہے، وہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ آسمان زمین قرآنی بیان میں ایک بھی ہے اور دو بھی ہیں (۳) دوسری دلیل: جب باطن کے ہفت آسمان اور ہفت زمین کرسی کے اندر ہیں، اور عرش بھی کرسی کے ساتھ مل کر ہے تو پھر مادّیت کے آسمانون اور زمینوں کو کائنات کی صورت میں کیوں ایک نہ ہونا چاہیئے۔

سوال – ۸۸۷: سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں یہ قرآنی تعلیم ہے: اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لئے،

 

۵۹۲

 

اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی ہیں، یہاں پوچھنا ہے کہ یہ زمین کونسی ہے، جس میں نشانیاں یا معجزات ہیں؟ – جواب: (۱) یہ سیّارہ ہے، جس کو لوگ زمین کہتے ہیں، کائناتی زمین ہے، اور ارضِ نفسِ کلّ ہے، جس میں عالمِ دین کے سات آسمان اور سات زمین موجود ہیں، اور عقلِ کلّ بھی اس کے ساتھ ہے (۲) یہ تمام معجزے انسان میں بھی ہیں، جو عالمِ صغیر یا عالمِ شخصی ہے۔

سوال – ۸۸۸: سورۂ یوسف (۱۲: ۷۰، ۱۲: ۷۲) کے حوالے سے سوال ہے کہ السِّقایَۃ (پانی پلانا، پلانے کی جگہ، پینے کا برتن) اور صُوَاع (پینے کا بڑا جام جس میں شراب پی جاتی ہے، نیز “صَاع” کو صُوَاع کہتے ہیں جو ایک مشہور پیمانہ ہے) ایک ہی چیز ہے، اس کی تاویل کیا ہے؟ -جواب: (۱) اس کی تاویل ہے گوہرِعقل، کیونکہ یہ جملہ معانی جو یہاں مذکور ہیں اور دوسرے تمام معانی اسی سے وابستہ ہیں (۲) وہ باطنی حاجیوں کو آبِ علم پلانے کی جگہ ہے، وہ جامِ کوثر ہے، وہ جامِ شربِ جنّت ہے، وہ حقائق و معارف کا پیمانہ ہے۔

سوال -۸۸۹: جب بوسفؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی (بن یمین) کے سامان میں اپنا پیالہ (سِقایہ =صواع) رکھ دیا (۱۲: ۷۰)۔ آیا امامِ یوسفؑ نے اپنے بھائی کو حدودِ دین کا کوئی درجہ دیدیا تھا؟ -جواب: (۱) یقیناً مرتبۂ حجتی پر فائز کر دیا ہوگا۔

 

۵۹۳

 

سوال – ۸۹۰: حضرتِ امام یوسف علیہ السّلام کے انتہائی حسین و جمیل ہونے میں کیا حکمت (تاویل) ہے؟ -جواب: (۱) حضرتِ یوسفؑ کا حسنِ ظاہری صرف علامت اور مثال ہے، جبکہ اصل اور حقیقی حسن و جمال باطن میں ہوا کرتا ہے (۲) سب سے بڑا حسین و جمیل اللہ تعالیٰ ہے، ہر پیغمبر، ہر امام، اور ہر عارف جمالِ معنوی کا مالک ہوتا ہے (۳) تھوڑی دیر کے لئے جمالیات (حسن شناسی) کی طرف توجّہ دیں، اور عالمِ جمادات کے حسن (جواہر) کو دیکھیں، قیمتی پتھروں کو دیکھ کر یقیناً ہر شخص دنگ رہ جاتا ہے، حالانکہ یہ حسن درجۂ اسفل ہی کا ہے۔ (۴) بعد ازان آپ بنظرِ دقیق عالمِ بناتات کے حسن یعنی طرح طرح کے پھولوں کا نظارہ کریں، آپ کا دل حیرت سے کہنے لگے گا کہ یہ کیسا مسحور کن منظر ہے: اب آپ عالمِ حیوانات میں خوب غور و فکر کریں، جہاں آپ کو روحِ حسی کی وجہ سے زیادہ خوبیاں نظر آئیں گی، مثال کے طور پر جانوروں کے خوبصورت، چنچل اور نخرے باز بچے، جن کی مستانہ حرکتیں بڑی عجیب و غریب ہوا کرتی ہیں (۵) آئیے اب ہم آپ کو عالمِ انسان کی طرف لے چلتے ہیں، جب انسان اشرف ترینِ خلائق ہے، اور وہ ظاہر میں صورتِ رحمان کی علامت ہے تو اس کے باطنی حسن و جمال کا کیا عالم ہوگا، جس نے روح کو دیکھا ہے، اس کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی انسانی رعنائی اور زیبائی سے روحانی جمال ہزار درجہ اعلیٰ ہے، یہ سچ ہے کہ باطنی آنکھ روح کے نورانی دیدار سے چندھیا جاتی ہے۔

 

۵۹۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۳

 

سوال – ۸۹۱: بحوالۂ سورۂ نور (۲۴: ۵۵) آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اس آیۂ شریفہ میں جس زمین کی خلافت کا ذکر ہوا ہے؟ وہ کونسی زمین ہے؟ اس خلافت کا وعدہ کس درجہ کے مومنین سے ہوسکتا ہے؟ ماضی میں اللہ نے کیسے لوگوں کو اپنا خلیفہ بنایا تھا؟ -جواب: (۱) یہ زمینِ عالمِ شخصی اور بعد ازان زمینِ بہشت ہے، جس پر حقیقی مومنین کو اللہ اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہے (۲) خداوند تعالیٰ نے اس حکم سے پہلے جن حضرات کو خلیفہ بنایا تھا، ان میں سب سے اوّل حضرتِ آدمؑ کا نام آتا ہے، ورنہ سنتِ الٰہی ایسی نہیں ہے کہ شروع شروع کی خلافت انتہائی عظیم ہو، پھر رفتہ رفتہ کم سے کمتر ہوتی چلی جائے۔

سوال- ۸۹۲: اس آیۂ کریمہ کے مطابق خلافتِ الہٰیہ کے لئے شرط یہ ہے کہ لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں، سوال یہ ہے کہ آیا دینِ اسلام میں کبھی ایسے لوگ پیدا نہیں ہوئے، جو خلافت کی ان شرطوں کو بجالائیں؟ -جواب: (۱) یقیناً ہر زمانے میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جنہوں نے کما حقہٗ ایمان لایا، اور علم و حکمت کے ساتھ نیک

 

۵۹۵

 

کام کئے، پھر خدا نے اپنے وعدے کے مطابق ان کو عالمِ شخصی اور بہشت کی خلافت عطا فرمائی (۲) کتنی بڑی عجیب بات ہے کہ اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے انعامات کو دنیائے ظاہر ہی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ انعامات باطنی اور اخروی ہیں (۳) دانشمند مومنین و مومنات پر واجب ہے کہ وہ علم و حکمت کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کو پہچانیں۔

سوال – ۸۹۳: سورۂ فجر (۸۹: ۲۲) میں ارشاد ہے: وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا = اور تیرا ربّ آجائے گا اور فرشتے صفیں باندھ کر (آجائیں گے)۔ آیا قیامت کا یہ انتہائی عجیب و غریب واقعہ ظاہر میں پیش آئےگا؟ -جواب: (۱) آنے جانے کا فعل خدا کے لئے تمثیلی ہے، جس کی تاویل ہے، اللہ ہر جگہ حاضر و ناظر اور موجود ہے، خدا نور کا وہ سمندر ہے (۲۴: ۳۵) جس میں ساری کائنات مستغرق ہے (۲) جب نور کے سمندر سے ذرہ بھر جگہ بھی خالی نہیں ہے تو پھر یقین آتا ہے کہ اس آیۂ مبارکہ میں کوئی بہت بڑی تاویل پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ اس سے حضرتِ قائم القیامت کا ظہور مراد ہے۔

سوال – ۸۹۴: آج آپ نے بفضلِ خدا عاشقانِ نور کے لئے سب سے بڑے راز کو کھول دیا، الحمد للہ، براہِ کرم، حضرتِ قائم القیامت علینا مِنہ السّلام سے متعلق مزید اسرار؟ -جواب: (۱) قائمِ

 

۵۹۶

 

آلِ محمدؐ خدا و رسولؐ کی جانب سے نمائندۂ قیامت ہے، چونکہ وہ اللہ کے نور کا مظہر اور نمائندۂ قیامت ہے، لہٰذا اس کا عالمِ دین میں آنا خدا کے آنے کی طرح ہے (۲) غور سے سن لیں کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ بادشاہِ مطلق ہے، وہ امر کا مالک ہے، اس لئے اس کے تمام کاموں کو ملائک، انبیاء اور أئمّہ ہی انجام دیتے ہیں۔

سوال – ۸۹۵: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) آیا وہ (کسی اور معجزے کا) انتظار کرتے ہیں سوائے اس کے کہ خدا (یعنی اس کا نمائندۂ قیامت) ان کے پاس بادل کے سائبانوں میں آئے اور فرشتے (بھی آئیں) اور معاملہ طے ہوجائے (۰۲: ۲۱۰)؟ (۲) لوگوں سے بہت بڑا امتحان ہے، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھیں کہ اللہ کا حجاب ہوا کرتا ہے (۴۲: ۵۱) اور حجاب سے اللہ کا مظہر مراد ہے۔

سوال – ۸۹۶: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) امامِ مبینؑ میں تمام چیزوں کے جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآنی تاویل کا مکمل خزانہ حضرتِ قائمؑ کے نور میں ہے، پس ع ش میں حضرتِ قائمؑ کے ظہور سے قیامت برپا ہوکر تاویل آجاتی ہے (۲) جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۵۳) میں ہے: آیا وہ لوگ (کسی اور قیامت کا) انتظار کرتے ہیں سوائے اس کتاب (قرآن) کی تاویل کے (۳) اس سے معلوم ہوا کہ قیامت قرآن کی زندہ تاویل ہےجو حضرتِ قائمؑ سے وابستہ ہے۔

 

۵۹۷

 

سوال – ۸۹۷: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) اے کاش لوگ حضرتِ قائم، قیامت، عالمِ ذرّ اور عالمِ شخصی کی معرفت حاصل کرسکتے! یا علم الیقین کی کتابوں کا خوب غور سے مطالعہ کرتے رہتے! (۲) ع ذ (عالمِ ذرّ) لوگوں کی وہ نمائندہ کائنات ہے، جس میں نہ صرف انسان بلکہ ہر ہر چیز بشکلِ ذرہ موجود ہے، ع ذ میں بے شمار کلیدی حکمتیں مخفی ہیں (۳) حدیثِ شریف میں ہے: الا رواحُ جُنودٌ مُّجَنَّدَۃ (روحیں جمع شدہ لشکر کی حیثیت سے ہیں) یقیناً یہی ارواح عالمِ ذرّ ہے (۴) الذرّ کے معنی ہیں: چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، نیز اس کے معنی ہیں: ہوا میں منتشر غبار۔

سوال – ۸۹۸: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) اطاعت کی ترتیب یہ ہے: اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رسولِ کریمؐ کی اطاعت، اور صاحبِ امرؑ (امامِ زمانؑ) کی اطاعت، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عشق و فنا کی ترتیب یہ ہے: فنا فی الامام، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ (۲) مگر یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ فنا صرف ایک عقیدہ نہیں، بلکہ ضروری عمل بھی ہے، ہر چند کہ یہ اختیاری موت ہے، تاہم کتنی عظیم الشّان موت ہے !

سوال – ۸۹۹: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) اے عزیزان! عجب نہیں کہ جملہ قرآن میں عشق و فنا کا تذکرہ ہو، کیونکہ وہ ہر کائنات کو لپیٹتا ہے اور پھیلاتا ہے اور عاشقانِ الٰہی کو اللہ کا یہ بہت بڑا معجزہ

 

۵۹۸

 

قرآن ہی میں نظر آتا ہے (۲) کہ وہ قرآنِ عظیم میں جس مضمون کو دیکھنا چاہتے ہیں، وہی مضمون سرتا سر کلامِ الٰہی میں پھیلتا جاتا ہے (۳) کیونکہ خداوند تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ح ق (حظیرۂ قدس) میں قرآنی الفاظ کی معنوی وحدت بنائی ہے، اور اس سے نیچے نیچے معنوی کثرت ہے۔

سوال – ۹۰۰: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) جیسا کہ قرآنِ حکیم (۳۴: ۱۱) میں آیا ہے کہ خداوندِ کریم نے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کو ظاہری اور باطنی (علمی) زرہیں بنانے کی تعلیم دی تھی، جس میں اندازے سے کڑیوں کو جوڑنے کا حکم ہے (۲) اس سے معلوم ہوا کہ روحانی اور علمی زِرہ ظاہری زِرہ کی طرح حلقہ در حلقہ ہوا کرتی ہے، یعنی روحانی علم وہ ہے، جس کی تمام کڑیاں باہم مربوط و مستحکم ہوتی ہیں، اگر آپ کو قرآنی اور روحانی حکمت کی ایک کڑی نظر آتی ہے تو بہت بہت مبارک ہو کہ باقی تمام کڑیاں اس کے ساتھ وابستہ ہیں۔

 

۵۹۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۴

 

سوال – ۹۰۱: سورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں ہے کہ اللہ اوّل بھی ہے آخر بھی، ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، یہی اسمائے مبارک رسول اللہؐ کے بھی ہیں، اور مولاعلیؑ نے اپنی ذات کو اسماء الحسنیٰ قرار دیا ہے، آپ اس کی حقیقت سمجھائیں -جواب: (۱) اس حقیقت کے بارے میں قبلاً گفتگو ہوچکی ہے کہ حضرتِ محمد رسولِ خداؐ اور أئمّۂ آلِ محمدؐ اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ ہیں، جن کے ذریعے سے اللہ کو پکارنے کا حکم دیا گیا ہے (۰۷: ۱۸۰) (۲) پس قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کے جتنے اسمائے ظاہر آئے ہیں، ان سب کی تاویل اسماء الحسنیٰ ہیں، جن کا ذکر ہوچکا۔

سوال – ۹۰۲: آپ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز زندہ، بولنے والی، اور نورِعقل کی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہے، اس کی کوئی مثال بتائیں- جواب: (۱) اللہ کا قلم بے مثال ہے کہ وہ ایک عظیم فرشتہ اور نورِعقل ہے، اسی طرح لوحِ محفوظ کی بہت بڑی تعریف ہے، (۲) عرش و کرسی دو بڑے زندہ فرشتے ہیں، اللہ کے اسماء الحسنیٰ کا ذکر ہوا جو زندہ ہیں (۳) خدا کا نور زندہ ہے، اس کی رسی زندہ ہے،

 

۶۰۰

 

اللہ کی کتاب ایک مقام پر برائے امتحان خاموش ہے، مگر دوسرے مقام پر بولتی ہے، صراطِ مستقیم زندہ ہے اور بولتی رہتی ہے۔

سوال – ۹۰۳: فرمانِ اقدس ہے کہ جب حضرتِ امامِ عالیمقامؑ بولنے کے لئے دہنِ مبارک کھولتے ہیں تو جواہر کا ڈھیر بن جاتا ہے، کیا مولا کے اس مبارک ارشاد میں کوئی باطنی اشارہ ہے یا یہ صرف ظاہری ارشادات انمول ہونے کی تعریف ہے؟ -جواب: (۱) اس میں دونوں باتیں ہیں، چنانچہ جب کوئی عاشقِ صادق ع ش پھر ح ق میں داخل ہو جاتا ہے تو وہ وہاں سب سے عظیم معجزات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے (۲) من جملہ دال میم کے جواہرِ اسرار گویا انبارِ در و گوہر ہیں، جو خدا کی ساری خدائی میں انمول ہے (۳) آپ اندازہ کریں کہ مقامِ ازل پر مظہرِ نورِ الٰہی کے کلامِ حکمت نظام کی کیا شان ہوگی، جبکہ اس میں قرآنی تاویل کا بہت بڑا خزانہ موجود ہو!

سوال – ۹۰۴: کیا آپ کے پاس بعض بروشسکی روحانی یا عرفانی کلمات ہیں؟ – جواب: (۱) جی ہاں، وہ یہ ہیں: اݹ مُش او = نظریۂ دائرہ، اݹ منسن اپݵ = کوئی نعمت ناممکن نہیں (۲) تھݸݽ گٹو جݹ، مݶن شرݸ جݹ =  مجھے جامۂ نو دے اور رزقِ قدیم دے، تھلا تھلا تھلانی، تھلا تھلا تھلا ژُو =  آہستہ آہستہ آہستہ جا، آہستہ آہستہ آہستہ آ، ان کے بہت سے معانی ہیں۔

 

۶۰۱

 

سوال – ۹۰۵: ان پُرحکمت کلمات کی کچھ وضاحت کریں- جواب: (۱) مُش کے معنی ہیں: سِرا، آغاز، انجام، ابتداء، انتہا، اول، آخر، اݹ مُش = لا ابتدا اور لا انتہا، اݹ مُش او کا مطلب ہے لا ابتدائی اور لا انتہائی کا نظریہ رکھو جو نظریۂ دائرہ ہے (۲) اس سے تصورِ آفرینش مراد ہے، جس کی بنیاد پر حقائق و معارف کی عمارت بنائی جا سکتی ہے، اور یہ سچ ہے کہ تصوّرِ آفرینش ایک عظیم دائرے کی طرح گول ہے۔

سوال – ۹۰۶: ” اݹ منسن اپݵ” میں کیا کیا بھید ہوسکتے ہیں؟ -جواب: (۱) اس کے معنی ہیں: بہشت وہ جگہ ہے جہاں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، یہ قرآنِ حکیم کی ایسی آیاتِ شریفہ کی مجموعی تاویل ہے، جن میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ بہشت میں لوگوں کی خواہش کے مطابق تمام نعمتیں موجود ہیں (۲) علم و معرفت کی ضرورت ہے، تاکہ بہشت کی ہر ممکن نعمت کی شناخت اور خواہش ہو۔

سوال – ۹۰۷: تھݸݽ گٹو جݹ، مݶن شرݸ جݹ؟ – جواب: (۱) مجھے جامۂ نَو (خلقِ جدید) اور رزقِ قدیم (علمِ ازل) عطا فرما! یہ تجدّدِ امثال کی تاویلی حکمت ہے (۲) میں نے بار بار سوچا ہے، ان تمام کلمات میں انتہائی جامعیت ہے، ان میں زبردست روحانیّت اور قرآنی حکمت ہے (۳) ہر کلمہ میرے لئے ایک علمی ورد و وظیفہ ہے یا فکری

 

۶۰۲

 

عبادت ہے، لہٰذا میں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔

سوال -۹۰۸: آپ نے یہ کلمہ اس طرح سے بھی لکھا ہے: تَھ لاک تَھ لاک تَھ لاک نی، تَھ لاک تَھ لاک تَھ لاک ژو، اس کے کیا معنی ہیں؟ – جواب: (۱) کروڑ کروڑ کروڑ  دفعہ جا، اور کروڑ کروڑ کروڑ دفعہ آ (۲) ایسا لگتا ہے کہ یہ چھ کروڑ سال کا کوئی دور ہے، ممکن ہے کہ یہی دورِ اعظم ہو (۳) خداوند تعالیٰ جو القابض اور الباسط ہے، وہ مکان و زمان کو جس طرح چاہے سمیٹ سکتا ہے اور پھیلا سکتا ہے۔

سوال – ۹۰۹: “مجموعی تاویل” یہ آپ کی اصطلاح بڑی عجیب و غریب ہے، کیا آپ اس کے باب میں کچھ سمجھا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)  ان شاء اللہ۔ ۔ ۔ ہر کلمۂ تامّہ مجموعی تاویل کا کام کرتا ہے، کیونکہ وہ ہزاروں سوالات کا واحد جواب ہے (۲) خدا و رسولؐ گواہ ہیں کہ امامِ زمانؑ کے نورِ باطن میں اسی طرح قرآنی تاویل سکھانے کا معجزہ موجود ہے۔

سوال – ۹۱۰: آپ نے ایک دفعہ قرآنِ عظیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ قرآنِ حکیم نہ صرف آنحضرتؐ کا سب سے بڑا معجزہ ہے، بلکہ یہ زندہ معجزات کی کائنات ہے، آپ ہم کو یہ حقیقت اچھی طرح سے سمجھائیں کہ کس طرح سے ہے؟ -جواب: (۱) آپ کو یہ سوال شاید اس لئے پیدا ہوا ہو کہ کائنات متحرک اور قرآن ساکن اور

 

۶۰۳

 

خاموش ہے، لیکن نہیں، قرآن کے ساتھ نور بھی ہے (۰۵: ۱۵) روح بھی ہے (۴۲: ۵۲) قرآن لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۲) اور یہی پاک قرآن یقیناً کتابِ ناطق میں بھی ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) (۲) قرآنِ حکیم کے باطن اور پس منظر میں بہت کچھ ہے، لیکن یہاں اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں۔

 

۶۰۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۵

 

سوال – ۹۱۱: بیانِ بالا سے یہ آیت یاد آئی: الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ (۱۵: ۹۱) جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ -جواب: (۱) اس کے معنی ہیں: قرآن کے ظاہری اور باطنی اجزاء اور لوازم کو الگ الگ قرار دینا (۲) کیونکہ خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱) قرآنِ عظیم کی تاویل اور معرفت کے سرچشمے ہیں۔

سوال – ۹۱۲: سورۂ حجر (۱۵: ۰۹) میں ارشاد ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ= ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ یہاں یہ ضروری سوال ہے کہ قرآن کے ظاہر پر ہمارا ایمان ہے، لیکن قرآن کی یہ حفاظت دراصل کونسی ہے؟ -جواب: (۱) چونکہ قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے، لہٰذا اس کا باطن خدا کے نور میں قائم اور لازوال ہے، اس کی دلیل لوحِ محفوظ ہے، جس میں ہمیشہ قرآنِ پاک محفوظ ہے، اور اس عظیم حفاظت گاہ کا دوسرا نام امامِ مبین ہے (۲) ایک اور نام ام الکتاب ہے (۱۳: ۳۹)۔

 

۶۰۵

 

سوال – ۹۱۳: بحوالہ سورۂ حجر (۱۵: ۸۷) سبعِ مثانی اور قرآنِ عظیم کی توجیہہ و تعریف کریں۔ -جواب: (۱) سبعِ مثانی = الحمد کی سات آیتیں جو نمازوں میں دہرائی جاتی ہیں، اس کی تاویل ہے ہفت در ہفت امام، اور قرآن عظیم سے حضرتِ قائم مراد ہے (۲) نیز قرآنِ عظیم یہی قرآن ہے، لیکن جس طرح لوگ مانتے ہیں، اس سے بہت ہی عظیم ہے، کیونکہ اس کا باطنی پہلو بڑا زبردست ہے (۳) چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ کلمۂ امر، قلمِ اعلیٰ، لوحِ محفوظ، کتابِ ناطق، روح، نور، امامِ مبین، اور خزائنِ الٰہی قرآن کے ساتھ ہیں۔

سوال – ۹۱۴: حقیقی معرفت کی روشنی میں بتائیں کہ رسولِ پاکؐ کے بابرکت عالمِ شخصی میں قلمِ اعلیٰ کا مشاہدہ کب اور کہاں ہوا تھا؟ -جواب: (۱) اللہ تعالیٰ نے بوقت عرفانی قیامت آسمان، زمین عرش اور کرسی کو آنحضرتؐ کے عالمِ شخصی میں گھیر کر رکھ دیا تھا، پس نزولِ قرآن کے جملہ معجزات حضورِ اکرمؐ ہی کے عالمِ شخصی میں رونما ہوئے (۲) آپؐ کو اپنی جبین مبارک میں سب سے اعلیٰ معراج کا شرف حاصل ہوا، اسی حال میں آپؐ نے تمام اسرارِ ازل کا مشاہدہ کیا، اور ان عظیم اسرار میں سرِ قلم بھی تھا۔

سوال – ۹۱۵: حضورِ پاک صلعم اپنے عالمِ شخصی کے کن مقامات میں علم کا شہر تھے، اور کس مقام پر حکمت کا گھر تھے؟ – جواب: (۱)

 

۶۰۶

 

حضورِ اقدسؐ اپنے مبارک عالمِ شخصی میں علم کا شہر اور اپنی نورانی جبین میں حکمت کا گھر تھے (۲) آپ نے ارشادِ نبوّی پڑھا ہوگا کہ اس مدینۂ علم اور دارِ حکمت کا دروازہ علیؑ ہے، یعنی زمانے کا امامؑ ہے۔

سوال – ۹۱۶: کلامِ الٰہی میں جگہ جگہ جبینی معجزات کا تذکرہ آیا ہے، کیونکہ جبین (پیشانی) عالمِ شخصی کی بہشت ہے، چنانچہ سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) میں ہے کہ کتابِ مکنون کو کوئی چھو ہی نہیں سکتا، مگر وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں، اس میں سوال ہے کہ کتابِ مکنون کیا ہے اور کہاں ہے؟ پاک کرنے والا کون ہے؟ اور وہ لوگ کون ہیں جو پاک کئے گئے ہیں؟ -جواب: (۱) کتابِ مکنون قرآن کا مجموعۂ اسرار ہے جو قرآنِ کریم کے نام سے ہے، جو جبینی بہشت میں ہے (۲) جو شخص اپنے علم و حکمت کے ذریعے سے لوگوں کو پاک کر سکتا ہے، وہ امامِ آلِ محمدؐ ہے، تاکہ اس پاکیزگی کے بعد کوئی مومن کتابِ مکنون سے فائدہ حاصل کر سکے۔

سوال – ۹۱۷: کیا ہمیشہ دنیا میں ہدایتِ الٰہی کا یہی سلسلہ جاری ہے کہ آسمانی کتاب بھی ہے، ہر جبین میں کتابِ مکنون بھی، اور معلّمِ ربّانی بھی موجود ہے، تاکہ مومنین و مومنات میں جو جو عالی ہمت ہیں، ان کو معراجِ جبین تک پہنچائے؟ -جواب: (۱) یقیناً اللہ تعالیٰ کی نورانی ہدایت کا یہی سلسلہ ہمیشہ جاری ہے (۲) کیونکہ حدیثِ شریف

 

۶۰۷

 

ہے کہ الخلقُ عیال اللہ (لوگ گویا خدا کا کنبہ ہیں) پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت انسانی شکل میں نورِ ہدایت کو مقرر فرماتا ہے (۳) اس حقیقت پر سینکڑوں دلیلیں پیش کی گئی ہیں، تاہم عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کا ذکرِ جمیل دمِ آخرین تک ہوتا رہے گا۔

سوال – ۹۱۸: یہاں سوال قلم کے بارے میں ہے، جو از بس ضروری ہے کہ خدا نے جس قلم کی قسم کھائی ہے (۲۸: ۰۱) وہ کونسا قلم ہے یعنی ارضی قلم ہے یا سماوی؟ کیا یہ ذاتِ سبحان کا قلم ہے؟ یا فرشتوں کا؟ یا کاملین کا؟ -جواب: (۱) یہ قلم عالمِ علوی میں ہے، اللہ کی ملکیت ہے، نور اور فرشتہ ہے، اس لئے خدا کے حکم سے خود لکھتا رہتا ہے (۲) یہ فرشتوں اور کاملین کی جمع بھی ہے اور واحد بھی ہے، لہٰذا اس کے لئے دونوں باتیں درست ہیں: یہ لکھتا ہے، یہ لکھتے ہیں۔

سوال – ۹۱۹: سورۂ علق (۹۶: ۰۴ تا ۰۵) کے حوالے سے سوال ہے کہ جب ربِ اکرم نے قلم کے ذریعے سے انسان کو سب کچھ سکھایا۔ تو یہ قلم کیا تھا؟ اور یہ انسان کون تھا؟ -جواب: (۱) قلم فرشتۂ عقل بھی تھا اور نورِ محمدی بھی، انسان فرشتۂ لوح بھی تھا اور نورِعلی بھی (۲) جس طرح قلم کا فعلی وجود لوح سے قائم ہے، اسی طرح نورِ نبوّت کی معرفت نورِ ولایت سے ہے۔

 

۶۰۸

 

سوال – ۹۲۰: یہ تاویلی سوال سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۴) سے ہے: آیت کی تفسیر ہے: ہر شخص نے اپنا قلم آبِ روان میں ڈال دیا، جس میں تمام قلم بہہ گئے، مگر حضرتِ زکریاؑ کا قلم پانی کے بہاؤ کے خلاف تیرنے لگا۔ اس میں کیا تاویل ہوسکتی ہے؟ -جواب: (۱) ہر عقلِ جزوی دریائے علم میں شناوری نہیں کرسکتی ہے، وہ اس میں بہہ جاتی ہے، لیکن انسانِ کامل کی عقل ہی ہے جو علم کے دریا میں ہر طرف تیرتی ہے اور غواصی کرتی ہے (۲) یہ بی بی مریمؑ کی روحانی تعلیم و تربیت کا قصّہ ہے، اور اس میں اشارہ یہ ہے کہ صرف انسانِ کامل ہی کسی کو روحانی تعلیم دے سکتا ہے۔

 

۶۰۹

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۶

 

سوال – ۹۲۱: قرآنی آیات کی روشنی میں قلم کی چند دوسری مثالیں بتائیں -جواب: (۱) کتابِ مکنون، خیر، ملک (بادشاہی) ملکوت، مطویۃ (جمع مطویات ) (۲) قبضۃ، حکمت، الفضل، کوثر، کنز، نور، لولوئے مکنون، حور، غلمان، میوۂ بہشت، یوسفؑ ، یونسؑ، دفنانا، قبر سے زندہ ہو کر اٹھ جانا (۳) عقلی پیدائش، غواصی، کنویں سے پانی نکالنا، دنیا کے کنویں سے بذریعۂ حبل اللہ نکل کر عالمِ علوی میں جانا، وغیرہ۔

سوال – ۹۲۲: قلم کی مزید مثالیں بتائیں -جواب: (۱) بیعت، صدقہ، زکات، جان و مال دے کر اللہ کے ساتھ بہشت کا سودا کرنا، دن رات اور طلوع و غروب کے اشارے، صبحِ ازل، شامِ ابد، کوہِ جودی، کوہِ طور، پہاڑ کا سروں کے اوپر معلق ہونا(۲) حجرِ ابیض، گرتے ہوئے پتھر سے پانی نکلنا، بارہ چشموں کا پتھر، حدید، یاقوت، مرجان، موتی اور دیگر بہت سی مثالیں ہیں، جو قلم اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔

سوال -۹۲۳: قلم کے مزید اشارات بتائیں – جواب:

 

۶۱۰

 

(۱) ہر اس چیز کا اشارہ جو کُنۡ (ہوجا) سے وجود میں آتی ہے، ہر چیز کے فنا ہوجانے کی مثال، تجدّد، نزول، ظہور، عروج، عطیہ کے نمونے، لا ابتدائی اور لا انتہائی کا مظاہرہ، کسی چیز کو رقم کرنے کی مثال، (۲) لپیٹنا، پھیلانا، حشر، نشر، قرب، رجوع، وصال، وحدت، جدائی، کلام، امر، نہی، وحی (اشارہ) پس قلمِ اعلیٰ میں اسی طرح کے اور بھی بہت سے اشارات ہیں۔

سوال – ۹۲۴: سورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں دیکھا جائے تو یہ خیال آتا ہے کہ پروردگار صراطِ مستقیم پر جلوہ فرما ہے، اور سورۂ حجر کے ایک ارشاد (۱۵: ۴۱) کو پڑھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ صراطِ مستقیم ربِّ تعالیٰ تک جاتی ہے، آپ اس کی حکمت سمجھائیں -جواب: (۱)صراطِ مستقیم دنیا کی کوئی سڑک ہر گز نہیں ہوسکتی، یہ تو امامِ زمانؑ اپنی نورانیّت میں خود ہی ہے، پس اپنے مظہر کے باطن میں شروع سے لیکر منزلِ مقصود تک گویا حضرتِ ربّ خود ہی ہے، ورنہ الظاہر اور مظہر کے کیا معنی ہو سکتے ہیں (۲) صراطِ مستقیم ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی، ظاہر میں حقیقی اسلام ہے، اور باطن میں امام علیہ السّلام، اور یہی وجہ ہے کہ شروع ہی میں یہ دعا سکھائی گئی ہے: اھد نا الصّراط المستقیم۔ ہمیں راہ راست (یعنی امام کی نورانیّت ) پر چلا۔

سوال – ۹۲۵: یہ سوالات سورۂ مائدہ رکوعِ ہفتم سے ہیں:

 

۶۱۱

 

اوّل: نور آسمانی کتاب میں کس طرح ہوتا ہے (۰۵: ۴۴، ۰۵: ۴۶)؟ دوم: کتابِ خدا کے محافظ کس طرح مقرر کئے جاتے ہیں؟ سوم: کیا آسمانی کتاب کے باطنی احوال پر کوئی گواہ ہوسکتا ہے؟ -جواب: (۱)آسمانی کتاب کا باطن امام ہے، جس میں نور ہوتا ہے، اور یہی آسمانی کتاب کا نور ہے (۲) جس شخص کے پاس کتاب کا نور ہے وہی اس کا عالم، معلّم، اور محافظ ہے (۳) جی ہاں، گواہ ہوسکتے ہیں، جیسے امام ہارونؑ، باب، حجت، اور داعی تھے (۰۵: ۴۴)۔

سوال – ۹۲۶: کیا چشم دید گواہ ہونے کے لئے آسمانی کتاب کے تمام باطنی معجزات کا تفصیلی مشاہدہ ہوسکتا ہے؟ – جواب: (۱)یقیناً امامؑ اور اس کے قریب کے حدودِ دین آسمانی کتاب کے جملہ باطنی معجزات کو دیکھتے ہیں، اس کے بغیر نہ گواہی ہوسکتی ہے، نہ تصدیق، نہ حکمت، نہ معرفت، اور نہ ہی تاویل ہوسکتی ہے (۲) لوحِ محفوظ / امامِ مبین / حظیرۂ قدس اللہ تعالیٰ کا وہ زبردست معجزہ ہے، جس میں ہر عظیم واقعہ تازہ بتازہ محفوظ و موجود ہے، کیونکہ اس میں تجدّد کا سلسلہ جاری ہے۔

سوال – ۹۲۷: سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۴) کے حوالے سے سوال ہے کہ رَبَّانِیُّونْ (واحد ربانی) کون ہیں؟ اور احبار کون ہوتے ہیں؟ – جواب: (۱) رَبَّانِیُّونْ سے أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام مراد ہیں، جو اپنے علوم و معارف سے لوگوں کی تربیت کرتے ہیں، اور احبار سے

 

۶۱۲

 

دعاۃ مراد ہیں (دعائم الا سلام ) (۲)آپ بزرگارنِ دین کی کتابوں کو عشق سے پڑھیں، تاکہ آپ خود امامِ زمانؑ کے معجزاتِ تاویلی کو دیکھ سکیں، الحمد للہ۔

سوال – ۹۲۸: حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: اَنَا رَبَّانیُّ ھٰذہِ الاُمَّۃِ۔ اس کی حکمت کیا ہے؟ – جواب: (۱)اس میں کئی حکمتیں ہیں، لفظِ ربّانی کا ترجمہ المنجد میں اس طرح ہے: الرّبّانی = اللہ والا، عارف باللہ، بڑا عالم۔ (۲) لیکن لغات نویس زبان کے عام پہلو کی ترجمانی کرتا ہے، ہمارے نزدیک “علی کا ربّانی ہونا” اور وہ بھی پوری امت کے لئے، بڑا جامع اشارہ ہے، کیا اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ جب تک امتِ محمدی دنیا میں موجود ہے تب تک علی کا نور بھی ساتھ ساتھ ہے۔

سوال – ۹۲۹: المُستَدرَک، الجزء الثالث، ص ۱۳۴ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: عَلِیٌّ مع القراٰن والقراٰن مع علیّ لن یّتفرقا حتّٰی یَرِدا عَلیَ الحوض۔ آپ اس کی حکمت بیان کریں۔ جواب: (۱)علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے تا ٓنکہ حوضِ کوثر پر وارد ہوجائیں۔ (۲) جب تک دنیا میں قرآن موجود ہے تب تک ظاہراً  و باطناً علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے، اور ان دونوں

 

۶۱۳

 

کا تعلق حوضِ کوثر پر اترنے تک برقرار رہے گا (۳) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ صرف کتاب آئی ہے، بلکہ نور بھی آیا ہے (۰۵: ۱۵)۔

سوال – ۹۳۰: آیا نور اور کتاب کی ہدایت و رہنمائی حوضِ کوثر تک جاتی ہے؟ حوض کی تاویل کیا ہے؟ -جواب: (۱)اس میں کوئی شک ہی نہیں، کہ نورِ امامت اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵) کی ہدایت و رہبری حوضِ کوثر تک جاتی ہے، کیونکہ یہی جگہ منزلِ مقصود ہے (۲) حوضِ کوثر سے حضرتِ قائم القیامت کا علم التاویل مراد ہے، جو حظیرۂ قدس کے معجزاتی تالاب میں بھرا ہوا ہے (۳) اگرچہ کوثر کے کئی معنی ہیں، لیکن یہاں اس لفظ کا اشارہ بہت سے علوم کی طرف ہے۔

 

۶۱۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۷

 

سوال – ۹۳۱: آبِ کوثر کی نہر میں اور حوض (تالاب) میں کیا کیا حکمتی اشارات ہیں؟ -جواب: (۱)جس طرح نہر کا پھیلا ہوا پانی تالاب میں جا کر وحدت کی شکل اختیار کرتا ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم کے تمام الفاظ، معانی، اور تاویلات حظیرۂ قدس میں بلند ہوکر تاویلِ جامعۂ جامعات ہو جاتی ہیں، (۲) نیز اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ دنیا بھر کی منتشر روحیں حظیرۂ قدس میں جا کر تالاب کے پانی کی طرح ایک ہوجاتی ہیں، پس یہ حکمت سب سے عجیب بھی ہے، اور سب سے عظیم بھی کہ کوثر کے معنی دیکھا جائے تو بہت بڑی کثرت ہے، اور حوض (تالاب) کے پانی کو دیکھا جائے تو وحدت ہی وحدت ہے۔

سوال – ۹۳۲: سورۂ طارق (۸۶) سے چند سوالات ہیں: النّجمُ الثّاقِب (۸۶: ۰۳) کیا ہے؟ ہر شخص پر حافظ (۸۶: ۰۴) مقرر ہونے سے کیا مراد ہے؟ بارش برسانے والا آسمان (۸۶: ۱۱) کونسا ہے؟ -جواب: (۱)نجمِ ثاقب عالمِ علوی کا وہ ستارۂ تابان ہے، جو کبھی سورج، کبھی چاند، اور کبھی ستارہ ہوجاتا ہے (۲) اعمال ریکارڈ کرنے والے فرشتے پہلے

 

۶۱۵

 

ایک سے زیادہ ہوتے ہیں، لیکن مقامِ وحدت پر جاکر مجموعاً ایک ہی فرشتہ ہوتا ہے، اس لئے حافظ کا اسمِ واحد آیا ہے، جو حافظین کی جگہ پر ہے (۳) یہ علم کی بارش برسانے والا آسمان عالمِ بالا میں ہے۔

سوال – ۹۳۳: سورۂ لَیل (۹۲) سے سوالات ہیں: رات (۹۲: ۰۱)؟ دن (۹۲: ۰۲)؟ مرد، عورت (۹۲: ۰۳) مال دینا (۹۲: ۰۵)؟ اچھائی کی تصدیق (۹۲: ۰۶)؟ پاک ہونے کے لئے مال دینا (۹۲: ۱۸)؟ – جواب: (۱)رات = باطن، دن = ظاہر، مرد = معلِّم، عورت = متعلّم، مال دینا =  علم دینا، اچھائی کی تصدیق = تاویل کے ذریعے سے دین کی باتوں کی تصدیق، مال دینے سے پاکیزگی ہوتی ہے =  علم دینے سے زیادہ پاکیزگی ہوتی ہے۔

سوال – ۹۳۴: قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی مثال نہیں جس میں ایک زبردست عجیب و غریب حکمت پنہان نہ ہو، چنانچہ سوال ہے، اس مثال کے بارے میں جو سورۂ جمعہ (۶۲: ۰۵) میں ہے، وہ مثال اس طرح ہے: جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں، جو لوگ خدا کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں، ان کی مثال بری ہے، اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس کی حکمت ظاہر کریں -جواب: (۱) مثال میں جو ممثول ہے وہ اظہر من الشمس ہے، وہ یہ کہ اگر وہ لوگ علم و حکمت کے ساتھ آسمانی کتاب

 

۶۱۶

 

پر کماحقہٗ عمل کر لیتے تو ان کی ایسی بری مثال نہ ہوتی (۲) اس دنیا میں زمانۂ قدیم سے ایسے لوگ بھی ہیں، جو خدا کی ہستی سے منکر ہیں، پھر وہ لوگ منطقی طور پر نہیں کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی آیات جھوٹ ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر ذمہ دار لوگ آیات کی تصدیق نہیں کرتے ہیں تو تکذیب ہوجاتی ہے، (۳) أئمّۂ آلِ محمد کو تسلیم نہ کرنا بھی آیاتِ خداوندی کو جھٹلانا ہے، کتاب کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت نمبر ۸۰ میں حضرتِ مولا علی علیہ السّلام کا فرمانِ مبارک ہے: اَنا آیاتُ اللہ، یعنی میں خدا کی آیات و معجزات ہوں، پس یقیناً امام کے لئے اقرار، اطاعت، محبت، اور اس کی معرفت آیاتِ خدا کی تصدیق ہے، ورنہ خدا کی آیات کو جھٹلانے کا ارتکاب ہوجاتا ہے، قرآنِ حکیم میں بہت سی آیات ایسی ہیں، جن میں آیات اللہ کو جھٹلانے کا ذکر ہے، ان سب کی مجموعی تاویل یہی ہے، جو بیان ہوئی۔

الحمد للہ، یہ تمام انمول تحائف امامِ عالیمقامؑ کے عاشقوں کے لئے ہیں۔

سوال – ۹۳۵: دعائم الاسلام جلد اوّل ص ۵۳ پر مولا علیؑ کا یہ ارشاد درج ہے، جو قرآن سے متعلق ہے: ظاھِرہٌ عملٌ مَوجُوبٌ وبا طِنہٗ عِلْمٌ مکنُوْنٌ مَحْجُوْبٌ وَھُوَ عِنْدَنَا مَعْلُومٌ مکتوبٌ آپ اس کی وضاحت کریں۔ -جواب: (۱)یہ سب سے روشن ترین کلیہ ہے (۲) قرآن کا ظاہر وہ عمل ہے جو واجب کیا گیا ہے، اور اس کا

 

۶۱۷

 

باطن علم مکنون ہے جو حجاب میں رکھا گیا ہے، (۳) اور وہ ہمارے پاس معلوم اور مکتوب ہے۔ (۴) قرآن باطن میں علمِ مکنون ہے، اس سے کتابِ مکنون مراد ہے، جو حضرتِ امام کے عالمِ شخصی میں محجوب ہے، مگر امام کے پاس معلوم اور مرقوم ہے۔

سوال – ۹۳۶: آیا آپ یہ بتا سکتے ہیں، کہ اسلام اور مسلم کی تعریف حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے نزدیک کس طرح تھی -جواب: (۱)ظاہر ہے کہ یہ سوال سخت مشکل ہے، تاہم امامِ آلِ محمد کی یاری سے ممکن ہے (۲) اس کی اوّلین شرط انبیاء و اولیاء کی معرفت ہے، اگر یہ کلّی اور ہمہ گیر معرفت ہے تو پھر کوئی سوال مشکل نہیں، ورنہ مشکل ہے (۳) لفظِ اسلام س ل م (سلم) سے ہے، اس مادّہ کے بہت سے مشتقات ہیں، (۴) حضرت ابراہیم علیہ السّلام اسلام کے تمام معنوں کے مصداق تھے، (۵) اسلام حضرتِ ابراہیمؑ کے نزدیک ظاہراً و باطناً حقیقی اطاعت و فرمانبرداری کا مذہب تھا، جس کی وجہ سے آپ فنا فی اللہ، خود شناس، خدا شناس، اور مُوَحِّدِ اعظم ہوگئے، پس آپؑ کا مثالی اسلام اپنی تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں کے ساتھ بڑا حیران کن ہے، جس کی تعریف خداوندِ ذوالجلال نے بار بار فرمائی ہے (۶) حضرتِ ابراہیمؑ اپنی معرفت کی نظر میں وہ مسلم تھا جس کا چہرۂ جان حظیرۂ قدس میں صورتِ رحمان ہو چکا تھا، (۰۶: ۷۹) (۷) جب خداوندِ تعالیٰ کے دوستوں پر روحانی قیامت گزرتی ہے تو تب ہی اسلام اور مسلم کی روحانی اور

 

۶۱۸

 

عقلانی خوبیوں کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

سوال – ۹۳۷: سوال آلِ ابراہیم سے متعلق ہے کہ قرآنِ حکیم میں آلِ ابراہیم کی ایسی تعریف آئی ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی (۰۴: ۵۴) پھر آپ ہم کو یہ سمجھائیں کہ حضرتِ محمد اور حضرتِ علی علیہما السّلام کے آباو اجداد جو آلِ ابراہیم تھے، ان حضرات پر اس آیۂ کریمہ کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: فقد اٰتینآاٰل ابرٰھیم الکِتٰب والحکمۃَ واٰتینٰھُم مُّلکاً عظیماً (۰۴: ۵۴)   جواب: (۱) وہ حضرات أئمّہ مستقر اور ان کے حدود تھے، (۲) جیسے حضرتِ اسماعیلؑ ابنِ ابراہیم امامِ مستقر اور اساس تھا اور حضرتِ اسحاقؑ امامِ مستودع تھا، اسی طرح ان دونوں کے خاندان تھے (۳) پس بنی اسماعیل یعنی آنحضرت کے آباؤاجداد کے پاس بطورِ وارثت تین انتہائی عظیم چیزیں تھیں: آسمانی کتاب کی روحانیّت، حکمت روحانی سلطنت۔

سوال – ۹۳۸:  یہ سوال سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۴) سے ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: یقیناً اللہ نے آدمؑ اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کو تمام عوالمِ شخصی پر ترجیح دے کر منتخب کیا تھا یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ یہاں دراصل چند سوالات ہیں: اوّل، آیا یہ منتخب حضرات سب کے سب انبیاء ہیں؟ دوم، یہ حضرتِ عمران کون ہے؟ سوم، اس الٰہی انتخاب

 

۶۱۹

 

میں اولادِ آدم اور اولادِ نوح کا ذکر نہیں، کیا اس میں کوئی راز ہے؟ چہارم، آیا اس آیۂ شریفہ میں اسلام کے مکمل نظامِ ہدایت کا ذکر ہے؟ -جواب: (۱)یہ منتخب حضرات انبیاء و أئمّۂ علیہم السّلام ہیں (۲) یہ عمران حضراتِ امامِ ابو طالبؑ ہے، آپؑ کا اسمِ شریف عمران تھا (۳) یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے، ان الفاظ میں اولادِ آدم اور اولادِ نوح تمام نیکو کاروں کا ذکر آگیا، اس کے علاوہ دیکھیں: سورۂ مریم (۱۹: ۵۷) اور سورۂ حدید (۵۷: ۲۶)، جی ہاں اس آیۂ شریفہ میں اسلام کے مکمل نظامِ ہدایت کا ذکر موجود ہے۔

سوال – ۹۳۹:  حضرتِ ابو طالبؑ کی امامت کے ثبوت میں روشن دلائل کی ضرورت ہے؟ – جواب: (۱)آیۂ اصطفا (۰۳: ۳۳) نے واضح طور پر بتا دیا کہ آلِ ابراہیم جن کو اللہ تعالیٰ نے کتاب، حکمت اور عظیم سلطنت عطا فرمائی تھیں، وہ ایک سلسلے کے لوگ تھے (۲) پس اسی سلسلۂ نور میں آنحضرتؐ کے والد عبداللہ اور مولا علی کے والد ابوطالب بھی تھے، پس یہ دونوں صاحبان آلِ ابراہیم کی اس خاص خدائی عنایت سے بے نصیب ہوسکتے تھے، (۳) نورٌعلیٰ نور کے خدائی قانون کو جن مومنین نے بخوبی سمجھ لیا ہے، ان کے نزدیک یہ روشن حقیقت ہے کہ پیغمبر اور امام کا باپ نور ہوتا ہے (۴) ورنہ نورٌعلیٰ نور کی منطق سمجھ میں نہیں آتی ہے (۵) یہ سوچنے کی بات ہے کہ مذکورہ آیۂ کریمہ میں زیادہ سے زیادہ آنحضرت کی تعریف ہے کہ حضرتِ ابراہیم رسولِ خدا

 

۶۲۰

 

کے جدِ اعلیٰ ہیں، آلِ ابراہیم آپؐ کے آباواجداد ہیں (۶) اور عمران آپ کا مہربان چچا اور امامِ مقیم تھا، جس طرح آدم کے ساتھ امام ِمقیم ھنید تھا۔ (۷) ہر رسولِ ناطق کی روحانی تربیت کے لئے ایک امامِ مقیم ہوا کرتا ہے، چنانچہ حضورِ اکرم کے لئے امامِ مقیم حضرتِ عمران (ابو طالب) علیہ السّلام تھا۔

سوال – ۹۴۰:  حضرتِ ابی طالب کے بارے میں مزید معلومات؟ -جواب: (۱) کتابِ سرائر، ص ۸۰ پر ابی طالب کا نام عمران لکھا ہوا ہے (۲) مذکورہ کتاب سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرتِ ابوطالب حضورِ اکرمؐ کے حجج میں سے تھا۔

 

۶۲۱

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۸

 

سوال – ۹۴۱: یہ حدیثِ شریف اور اس کی پُرنور تاویل کتابِ سرائر میں ہے: (۱) نزل القراٰن علیٰ سبعۃِ احرفٍ کُلّ حرفٍ منھا شافٍ کافٍ پس قرآن سے آنحضرتؐ کا وصی اور اساس یعنی علیؑ مراد ہے، کیونکہ وہ اس کا صاحبِ تاویل اور اس کے عجائب و غرائب کا مظہر ہے (۲) اور سات حروف سے اولادِ علیؑ کے سات امام مراد ہیں، (۳) ان میں سے ہر امام اپنے عصر کے لوگوں کے لئے کافی شافی ہے۔

سوال – ۹۴۲: حضرتِ اسماعیلؑ ابنِ ابراہیمؑ کے فضائل بیان کریں؟ -جواب: (۱) ابھی اسماعیل بچہ ہی تھا کہ حضرتِ ابراہیمؑ نے حکمِ خداوندی کے مطابق اس کو وادیٔ مکہ میں جو اس زمانہ میں بالکل غیر آباد تھی ان کی ماں حضرتِ ہاجرہ کے ساتھ لا بٹھایا (۱۴: ۳۷)۔ (۳) تعمیرِ خانۂ کعبہ کے مقدس کام میں اور اس وقت کی خاص دعاؤں میں حضرتِ اسماعیل اپنے عظیم والد کے ساتھ تھا (۰۲: ۱۲۹)۔ (۴) حضرتِ اسماعیلؑ کا مبارک نام قرآنِ پاک میں ۱۲ دفعہ آیا ہے (۵) حضرتِ اسماعیل

 

۶۲۲

 

امامِ مستقر اور اساس تھا، آپ کا لقب ذبیح اللہ ہے (۶) رسولِ خدا صلعم اور امامِ علیؑ آپ کی نسل سے ہیں، اور ان کی سب سے بڑی فضیلت ہے۔

سوال – ۹۴۳: آپ فنا فی اللہ کے بارے میں بتائیں کہ یہ اعلیٰ ترین قانون کن حضرات کے لئے مقرر ہے؟ -جواب: (۱) فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مقدّس اور عظیم و اعلیٰ قانون سب سے اوّل انبیاء و اولیاء کے لئے ہے (۲) بعد ازان عارفوں کے لئے (۳) اور اہلِ ایمان میں سے جو بھی صراطِ مستقیم پر ترقی کرنا چاہیں ان کے لئے ہے۔

سوال – ۹۴۴: قرآنِ حکیم کی کس آیۂ شریفہ میں فنا فی اللہ کا ذکر آیا ہے؟ -جواب: (۱) اس باب میں بہت سی آیاتِ کریمہ وارد ہوئی ہیں، (۲) منجملہ دیکھیں (۰۲: ۲۱۳) کو جس میں فبعث اللہ النبیین کا جملہ ہے اس کا ظاہری ترجمہ ہے کہ اللہ نے پیغمبروں کو بھیجا (۳) لیکن اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ نے ہر نبی کی روحانی قیامت برپا کر دی، جس میں سب کچھ ہے، اور یقیناً اس میں فنا فی اللہ و بقا باللہ بھی ہے، (۴) قیامت میں سب کچھ ہے، کیونکہ اس میں علم و معرفت کی کائنات سمیٹ لی جاتی ہے، یعنی اس وقت تمام جبینی معجزات کا مشاہدہ ہوتا ہے یہ معجزات امامِ مبین کے ہیں، اور حظیرۂ قدس کے ہیں۔

 

۶۲۳

 

سوال – ۹۴۵: (۵) انبیاء و اولیاء کی معرفت کی غرض سے عرفاء کو بھی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ عطا ہو جاتا ہے، (۶) اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اصل معرفت کا کوئی نام و نشان نہ ہوتا، اور اہلِ ایمان کے لئے یہ نعمتِ عظمیٰ ناممکن ہوجاتی (۷) پھر قرآن میں معرفت کا کوئی ذکر نہ ہوتا، حالانکہ قرآنِ مقدّس میں جگہ جگہ معرفت کا ذکر ہے۔ (۸) آیت / معجزات دکھانے کی غرض معرفت ہی ہے (۴۱: ۵۳)، (۲۷: ۹۳)، (۰۲: ۱۴۶)۔

سوال – ۹۴۶: سید الانبیاؐ نے مقامِ معراج میں اپنے ربّ کے بڑے بڑے معجزے دیکھے تھے (۵۳: ۱۸) کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہاں آنحضرتؐ کے سامنے کیا کیا معجزات تھے؟ -جواب: (۱) رؤیت کا سب سے بڑا معجزہ (۲) کلمۂ کن کا سب سے عظیم معجزہ (۳) کائنات کو لپیٹنے اور پھیلانے کا بے مثال معجزہ (۴) کتابِ مکنون کا وہ معجزہ جس کی تعریف ہو نہیں سکتی (۵) قلم اور لوح کے اسرار جو باعثِ حیرت ہیں (۶) یہ معجزات دراصل ہزار در ہزار ہیں، لہٰذا ان کا تفصیلی احاطہ ممکن نہیں، کیونکہ اس میں بہشت کی کل نعمتوں کی نمائندگی ہے۔

سوال – ۹۴۷: قصّۂ معراج قرآن میں کہاں کہاں ہے؟ – جواب: (۱)سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۱، ۱۷: ۶۰)، سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۱۸) احاطۂ معراج =حظیرۂ قدس ہے، جو احاطۂ امامِ مبین ہے، جو احاطۂ جبین ہے، جو

 

۶۲۴

 

احاطۂ دارِ حکمتِ رسول ہے۔ یقیناً عالمِ شخصی رسولِ پاک کا مدینۂ علمِ ہے، اس شہر کا رہنما اور دروازہ علی ہے۔ الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

سوال – بنی اسرائیل کے بارہ نقیبوں کا ذکر قرآن میں کہاں پر موجود ہے؟ -جواب: (۱) سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۲) میں دیکھیں۔

سوال – ۹۴۹: انسانِ لطیف، جنّ، اور پری میں کیا فرق ہے؟ -جواب: (۱) کوئی فرق نہیں، یہ تینوں مخلوقِ لطیف ہیں (۲) انسان جب لطیف ہو جاتا ہے تو مومن جنّ / پری اور فرشتہ ہوجاتا ہے، (۳) دنیا کے بارہ جزیروں میں بارہ لطیف باطنی حجّت ہیں، (۴) آپ سورۂ جنّ (۷۲) کو غور سے پڑھیں، یہ آنحضرت کے حجّتانِ باطن کا قصّہ ہے، (۵) سورۂ رحمٰن سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں میں انس و جنّ ساتھ ساتھ ہیں۔

سوال – ۹۵۰: سورۂ زمر (۳۹: ۲۳) میں ایک عظیم الشّان آیت ہے، اس کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے حکمت بتائیں – جواب: (۱) اللہ تعالیٰ معجزۂ فنا سے کسی مومن کے سینہ یعنی دل کو اسلام کی کائنات گیر روح کے لئے کشادہ کر دیتا ہے، پس وہ اپنے ربّ کی طرف سے نور کی روشنی میں چلتا ہے، کیا وہ گمراہوں کے برابر ہوسکتا ہے، افسوس تو ان لوگوں پر ہے جن کے دل خدا کی یاد سے غافل ہوکر سخت

 

۶۲۵

 

ہو گئے ہیں یہ لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہیں (۲) اس کے بعد جس معجزاتی کتاب کی تعریف فرمائی گئی ہے، وہ قرآنِ کریم بھی ہے، اور اسمِ اعظم بھی ہے، یعنی احسن الحدیث، (۳) اس تعلیمِ سماوی میں براہِ راست روحانی سائنس ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ ذکرِ الٰہی کا اثر خلیات پر بھی ہوتا ہے، اور یہ سارے بدن میں ہیں، (۴) جس ذکرِ الٰہی سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں / خلیات بیدار ہو جائیں، اور قلوب نرم ہو جائیں، اُس میں روحانی علاج کیوں نہ ہو، مگر ان تمام معجزات کا سبب خوفِ خدا ہے۔ آپ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو پڑھیں (۵) اسلام صرف ایک لفظ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک کائنات گیر روح ہے۔

یاد رہے کہ معجزۂ فنا سے روحانی قیامت مراد ہے، جس میں بےشمار حقائق و معارف پوشیدہ ہیں۔ ہم نے روحانی قیامت کا بار بار ذکر کیا ہے۔ روحانی قیامت = ذاتی قیامت = نمائندہ قیامت، یعنی عارف میں سب کی روحانی قیامت، جس کا علمی اور عرفانی فائدہ صرف عارف کو ہے، مگر علم الیقین کی لازوال دولت سب کو مل سکتی ہے۔

 

۶۲۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۲۹

 

سوال – ۹۵۱: سورۂ مومن (۴۰: ۱۵) کی اس آیۂ شریفہ کی مربوط حکمت بتائیں؟ -جواب: (۱)سب سے پہلے یہ ارشاد کہ اللہ درجات کا بلند کرنے والا ہے، اور پھر یہ فرمان کہ وہ صاحبِ عرش ہے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ اگرچہ روحانی ترقی کے بہت سے درجات ہیں، لیکن فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ صاحبِ عرش میں ہے، اور اس کے بعد ہر بڑی سے بڑی نعمت مل سکتی ہے۔

سوال – ۹۵۲: آپ لفظِ تضَرُّع کے معنی بتائیں؟ -جواب: (۱) تضَرُّع = عاجزی کرنا، گڑگڑانا، (۲) تضَرُّع کے عجیب و غریب بھیدوں کے لئے قرآنِ حکیم میں دیکھیں: سورۂ انعام (۰۶: ۴۲)، (۰۶: ۴۳)، (۰۷: ۲۰۵)۔

سوال – ۹۵۳: پوچھنا یہ ہے کہ پرہیزگاروں کا مسکن جنت میں کیسا یا کس نوعیت کا ہوگا؟ -جواب: (۱) قرآن میں ارشاد ہے کہ

 

۶۲۷

 

متقی لوگ بہشت کے باغات میں بھی ہوں گے، چشموں میں بھی، تختِ شاہی پر بھی، سورۂ حجر (۱۵: ۴۷)۔ سورۂ قمر کے آخر (۵۴: ۵۵) میں دیکھیں۔ (۲) متقین کو بہشت میں کیا کیا مرتبے حاصل ہونے والے ہیں! کہ وہ بہشت کے باغات میں ہوں گے اور بہشت کی نہروں میں بھی، وہ صدق یعنی حقیقی علم کی نشست میں زبردست قدرت والے بادشاہ کے پاس ہوں گے (۳) جنت میں متقین کے لئے غرفات، یعنی بلند عمارتیں ہیں جو منزل پر منزل بنی ہوئی ہیں، سورۂ زمر (۳۹: ۲۰)۔

۴۔ میں نے یہ سوال اس لئے کیا ہے کہ ان آیاتِ کریمہ میں زبردست تاویلی حکمت ہے، وہ یہ ہے کہ خدا بہشت میں اپنے دوستوں کو تمام تر کمالات و معجزات سے آراستہ کرتا ہے (۵) خدا کے فضل و کرم سے متقین جنت میں ہر جگہ موجود ہوسکتے ہیں۔ تاکہ بہشت کی ہر گونہ نعمتوں کو حاصل کرسکیں۔

سوال – ۹۵۴: اس میں کیا حکمت ہے کہ خداوندِ قدوس اپنے دوستوں کو بہشت کے چشموں اور نہروں میں جگہ دیتا ہے؟ -جواب: (۱) اس میں خداوندِ دوجہان کی بہت بڑی نوازش اور عظیم حکمت ہے (۲) کہ وہ نہایت مہربان اپنے دوستوں کو ان عظیم حدود کے ساتھ ملا کر ایک کردیتا ہے، (۳) جن سے بہشت کے جملہ باغات معمور و آباد ہیں، (۴) جیسے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، اور أئمّۂ طاہرین، (۵) جو بہشت کے چشمے بھی ہیں اور نہریں بھی۔

 

 

۶۲۸

 

سوال – ۹۵۵: یہ سوال بڑا عجیب و غریب اور زبردست حیران کن ہے، وہ یہ کہ آیا جنت بہت پہلے ہی سے تیار کر کے محفوظ رکھی ہوئی ہے؟ یا یہ پرہیزگاروں کو وراثت کے عنوان سے ملتی رہتی ہے؟ یا یہ ہر زمانے میں خدا کے دوستوں کے اعمال سے تازہ بتازہ، نو بنو بنائی جاتی ہے؟ -جواب: (۱) قرآنِ حکیم کے مطابق یہ تینوں تصوّرات بالکل درست اور حقیقت ہیں، (۲) متقین کے لئے جنت پہلے ہی سے تیار کی گئی ہے، اس کی ایک مثال کو سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں دیکھو۔

۳۔ جنت کی وراثت کا ذکر سورۂ اعراف (۰۷: ۴۳) میں ہے (۴) اب یہ بتانا ہے کہ ہر زمانے میں خدا کے دوستوں کے اعمال سے ایک جدید بہشت بنائی جاتی ہے، اور وہ ہر طرح سے محفوظ اور اچھوتی ہوتی ہے، سورۂ رحمان (۵۵: ۵۶، ۵۵: ۷۴) میں غور سے دیکھیں اور یقین کریں کہ یہ جنت محفوظ اور اچھوتی ہے، جس طرح اس کی حوریں جنّ و انس سے محفوظ اور اچھوتی ہیں۔

سوال – ۹۵۶: کیسے لوگ زندہ بہشت ہوجاتے ہیں؟  جواب: (۱) خدا کے ایسے دوست، جو علم و حکمت کے ساتھ تمام کاموں میں دوسروں سے سبقت کرتے ہیں، پس وہی خوش نصیب لوگ اپنی ہستی میں زندہ بہشت ہو جاتے ہیں۔

 

۶۲۹

 

سوال – ۹۵۷: کیا آلِ ابراہیم کی معرفت سے مزید آگہی ہو سکتی ہے؟ -جواب: (۱)جی ہاں، ہوسکتی ہے (۲) سورۂ زخرف (۴۳: ۲۸) میں ہے: اور اسی اسمِ اعظم اور معرفت کو ابراہیمؑ اپنی اولاد میں ہمیشہ باقی رہنے والا کلمہ چھوڑ گئے تاکہ وہ رجوع کریں۔ (۳) اسمِ اعظم اور اس کا ماحصل معرفتِ امامت سے الگ نہیں ہے، لہٰذا یہ قول حقیقت ہے کہ کلمۂ باقیہ سے امامت مراد ہے (۴) پس یہ آیہ شریفہ بھی آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی شان میں ہے (۵) حکمت اسی میں ہے کہ آپ ان تمام آیاتِ کریمہ کو جو آلِ ابراہیمؑ کی شان میں ہیں، مربوط اور معنوی وحدت کے ساتھ پڑھیں۔

۶۔ بزرگانِ دین کی کتابوں میں أئمّۂ طاہرین کی تعلیم کے مطابق یہ وضاحت ہے کہ قرآنِ حکیم میں امامانِ حق کا اجتماعی نام امتِ مسلمہ ہے، جیسے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کی دعا میں ہے۔ رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ (۰۲: ۱۲۸) (۷) یہ خاص الخاص امتِ مسلمہ اولادِ ابراہیم اور اولادِ اسمٰعیل کے امامانِ مستقر ہیں، جو حضرتِ محمد رسول اللہؐ اور حضرتِ امام علیؑ کے آباواجداد ہیں، اور اسی پاک سلسلے میں یقیناً حضرتِ امام ابوطالب علیہ السّلام بھی ہے۔

مذکورہ دعا میں یہ بھی ہے: اے ہمارے ربّ ان میں انہی میں سے ایک رسول (یعنی حضرتِ محمدؐ) مبعوث فرما۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ نورِ محمدی اپنے آباؤ اجداد (امامانِ مستقر) کے عالمِ شخصی میں

 

۶۳۰

 

جلوہ گر تھا۔ کیونکہ حضراتِ أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں، رسول اماموں پر گواہ ہے، اور اللہ تعالیٰ رسول پر گواہ ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں کے لئے علم امامِ زمان سے حاصل ہوسکتا ہے، امام کا علم رسول سے ہے، اور رسول کا علم خدا سے ہے۔

یہاں سے یہ بہت بڑا بھید بھی معلوم ہوا کہ آلِ ابراہیمؑ کے ہر نبی اور ہر امام کے عالمِ شخصی میں نورِ محمدی جلوہ گر تھا، یہ مذکورہ آیت (۰۲: ۱۲۸) کی تفسیر ہے۔ الحمد للہ۔

سوال – ۹۵۸: ارشادِ خداوندی ہے: وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (۰۲: ۱۴۳) (۱) اس آیۂ شریفہ کا وہ ترجمہ اور تاویل بتائیں، جو حضرتِ امام باقر علیہ السّلام سے منقول ہے (۲) دعائم الاسلام میں ہے: اور ہم نے تم (اماموں) کو ایک ایسی امت (جماعت) بنادی ہے جو نہایت عادل ہے (۳) تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہے (۴) امام باقر علیہ السّلام نے سائل سے فرمایا کہ ہم أئمّۂ اہلِ بیت (علیہم السّلام) امتِ واسطہ ہیں، اور ہم ہی خلائق پر خدا کے گواہ اور پشتِ زمین پر اس کی طرف سے حجّت مقرر کئے گئے ہیں۔

سوال – ۹۵۹: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۱) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ۔

 

۶۳۱

 

اس آیۂ کریمہ کی حکمت بیان کریں؟ -جواب: (۱) ترجمہ: اور ہماری مخلوقات سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو دینِ حق کی ہدایت کرتے ہیں اور حق ہی کے ساتھ انصاف بھی کرتے ہیں۔ (۲) ایسے لوگ انبیاء اور أئمّہ علیہم السّلام ہی ہیں، اور ان کے سوا کوئی اور جماعت (امت) ایسی نہیں ہے۔

سوال – ۹۶۰: یہاں پر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ ہدایتِ حقہ کے لئے فردِ واحد ہوتا ہے یا ایک جماعت (امت) ہوتی ہے؟ -جواب: (۱) فرد واحد ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ دین کے دیگر حدود بھی ہوتے ہیں، حدودِ دین کی معرفت کے لئے، کتابِ وجہِ دین کو پڑھیں، مذکورہ آیۂ شریفہ میں ہر دور کے حدودِ دین کا ذکر ہے، اور اس میں آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ کی تعریف ہے۔

 

۶۳۲

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۰

 

سوال – ۹۶۱: قرآنِ حکیم سے حدودِ دین کی کوئی نمایان مثال بتائیں؟ -جواب: (۱) سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۲) میں ارشاد ہے: وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمْ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا=اللہ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کئے تھے .. .. .۔

سوال -۹۶۲: یہ ارشاد سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۹) میں ہے: وَمِنْ قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ،  اس آیۂ مبارکہ کی حکمت بیان کریں کہ کس طرح سے ہے؟  جواب: (۱) ترجمہ: موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو حق کے مطابق ہدایت کرتا اور حق ہی کے مطابق انصاف کرتا تھا، (۲) اس سے حدودِ دین کا نظامِ ہدایت مراد ہے (۳) یعنی ناطق، اساس، امام، بارہ حجت اور تین سو ساٹھ داعی (۴) یہی نظام اسلام میں بھی ہے۔

سوال – ۹۶۳: آیا آنحضرتؐ کے لئے کوئی وزیر مقرر تھا، جیسے

 

۶۳۳

 

حضرتِ موسیٰؑ کے لئے ایک وزیر مقرر تھا؟ جواب: (۱) جی ہاں، جس طرح حضرتِ موسیٰؑ کے لئے اس کا بھائی ہارونؑ وزیر تھا اسی طرح آنحضرتؐ کے لئے آپؐ کا بھائی علیؑ وزیر مقرر تھا، اور یہی اللہ کی عنایت ہر ناطق کے لئے تھی (۲) یہی قانونِ الٰہی آپ کو قرآن و حدیث میں ملے گا (۳) آپ دعائم الاسلام عربی، حصّۂ اوّل ص۔ ۱۶ پر دیکھیں۔

سوال – ۹۶۴: آپ یہ بتائیں کہ قرآن میں کہاں کہاں حضرتِ موسیٰ کے وزیر کا ذکر آیا ہے؟ جواب: (۱) سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۲۹) (۲) سورۂ فرقان (۲۵: ۳۵)۔

سوال – ۹۶۵: کیا آپ آنحضرتؐ کے وہ مبارک الفاظ بتا سکتے ہیں جن میں حضورِ اکرمؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کے ساتھ ایک وزیر مقرر کیا تھا؟ -جواب: (۱) اس کے لئے آپ مذکورہ دعائم الاسلام ص – ۱۶ کو دیکھیں (۲) اِنَّ اللہ لم یبعث نبیّاً اِلاَّ جعل لہ و صیّاً و وزیرًا. . .۔ ۔

سوال – ۹۶۶: وزیر کے لفظی معنی کیا ہیں؟ -جواب: (۱) وزیر کا لفظ وزر سے ہے، وزر بوجھ کو کہتے ہیں، پس وزیر کے معنی ہیں کسی بادشاہ کا وہ خاص شخص جو امورِ سلطنت میں بادشاہ

 

۶۳۴

 

کا بوجھ بٹاتا ہے اور اس کو مشورہ دیتا ہے (۲) لیکن ہم نے قرآن میں یہ نہیں دیکھا کہ حضرتِ ہارونؑ، حضرتِ موسیٰؑ کو ظاہر میں کوئی مشورہ دیتا تھا (۳) لیکن یقیناً یہ حقیقت ہے کہ حضرتِ ہارونؑ باطن میں حضرتِ موسیٰؑ کے کاموں میں مدد دیتا تھا، بحوالۂ قرآن (۲۰: ۳۲)۔

سوال – ۹۶۷: کسی پیغمبر کا وزیر کن معنوں میں اپنے پیغمبر کے لئے وزارت کا فریضہ انجام دیتا ہے؟ -جواب: (۱) یہ بہت بڑا روحانی راز ہے (۲) کتابِ ناطق، وصی، اخی، وارث اور (۳) حدودِ دین میں سے اساس، باب اور حجت کے معنوں میں۔

سوال – ۹۶۸: آپ عُرْوَۃ الوثقیٰ کے معنی اور حکمت بیان کریں؟ -جواب: (۱) ترجمہ=مضبوط کڑا یا حلقہ (۲) یعنی حضرتِ علیؑ کی محبّت اور دوستی (۳) یعنی جو کوئی علیؑ کی دوستی سے وابستہ ہو جاتا ہے تو اس کے قدم میں لغزش نہیں آتی ہے، (۰۲: ۲۵۶)۔ یعنی وہ صراطِ مستقیم پر ثابت قدم سے چل کر منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔

سوال – ۹۶۹: سوال سورۂ کہف (۱۸: ۲۲) سے ہے؟ : کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ اصحابِ کہف کی اصل تعداد کیا ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں ان شاء اللہ (۲) اصحابِ کھف سات ہیں، اور آٹھواں ان کا کتا ہے، اور اس کی تاویل عالمِ شخصی میں ہے، وہ یہ کہ

 

۶۳۵

 

عارف کے عالمِ شخصی میں صاحبانِ ہفت ادوار پنہان ہیں، اور کتا ان کا آٹھواں ہے، جس سے عارف مراد ہے کہ وہ غلامی اور وفا میں امامِ زمانؑ کا کتا ہے۔

سوال – ۹۷۰: اس کی دلیل کیا ہے کہ اصحابِ کہف مقدّس ہستیاں ہیں؟ -جواب: (۱) اس کی کئی دلیلیں ہیں اور ایک روشن دلیل یہ ہے کہ جہاں غار تھا وہاں ایک مسجد بنائی گئی اور قرآن اسی کی تصدیق کرتا ہے بجائے اس کے کہ کوئی اور یاد گار بنائی جائے (۲) (۱۸: ۲۱)۔

 

۶۳۶

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۱

 

سوال – ۹۷۱: ذوالقرنین کون ہے؟ اس کے لفظی معنی کیا ہیں؟ اس کی حکمت کیا ہے؟ -جواب: (۱) ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو سینگ والا (۲) اس کی حکمت ہے صاحبِ ناقور یا صاحبِ صور، یعنی مولا علی (۳) ایک اعرابی نے آنحضرتؐ سے پوچھا کہ یا حضرت صور کیا ہے؟ حضورِ پاک نے فرمایا کہ وہ ایک قرن (سینگ) ہے، یعنی وہ سینگ کی آواز ہے، اور قرآن کے مطابق یہ دو آوازیں ہیں، اس لئے قرنین کا لفظ آگیا۔

سوال – ۹۷۲: آپ کہتے ہیں کہ ہر پیغمبر پر ذاتی اور روحانی قیامت گزرچکی ہے، اب آپ یہ بتائیں، کہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کی ایسی قیامت کا ذکر قرآنِ حکیم میں کہاں ہے؟ -جواب: (۱) اس کا تذکرہ ان آیاتِ کریمہ میں ہے، جن میں آدم کے لئے بحکمِ خدا فرشتوں کے سجدہ کرنے کا بیان ہے: (۱۵: ۲۹)، (۳۸: ۷۲)، (۰۲: ۳۴)وغیرہ۔

سوال – ۹۷۳: حضرت ادریس علیہ السّلام کی روحانی قیامت

 

۶۳۷

 

کا تذکرہ کس آیۂ شریفہ میں ہے؟ -جواب: (۱)سورۂ مریم (۱۹: ۵۶)، (۱۹: ۵۷) میں دیکھیں: (۲) اے رسول، کتابِ روحانیّت میں ادریس کو یاد کرو، وہ صدیق تھا، یعنی قیامت کے جملہ حقائق و معارف کا تصدیق کرنے والا اور ایک نبی تھا (۳) اور ہم نے اسے بلند مقام یعنی حظیرۂ قدس پر اٹھایا تھا۔

سوال – ۹۷۴: وہ آیۂ مبارکہ کونسی ہے، جس میں حضرتِ نوحؑ کی روحانی قیامت شروع ہونے کا واضح اشارہ موجود ہے؟ -جواب: (۱) سورۂ ہود (۱۱: ۴۰) (۲) سورۂ مومنون (۲۳: ۲۷) طوفان کی مثال میں حضرتِ نوحؑ کا عالمِ شخصی سفینۂ نجات تھا، اور قیامت کے معنی میں قیامت کا مرکز (۳) یہ قیامت حظیرۂ قدس میں جاکر ختم ہوئی تھی۔

سوال – ۹۷۵: حضرتِ سید الانبیاء صلعم کی روحانی قیامت کا ذکرِ جمیل کس سورہ میں ہے؟ اور کس طرح ہے؟ – جواب: (۱) آپ سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) کو پڑھیں: جب اللہ کی مدد اور فتح آئی (۲) یعنی جب اسرافیل اور میکائیل آگئے، اور روحانی قیامت برپا ہوئی (۳) اور تم نے تمام لوگوں کو دیکھا کہ فوج در فوج اللہ کے دین (یعنی تمہارے عالمِ شخصی) میں داخل ہورہے ہیں (۴) تو اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو۔

 

۶۳۸

 

سوال – ۹۷۶: قیامت سے متعلق مولاعلیؑ کا کیا ارشاد ہے؟  جواب: (۱)حضرتِ مولا علیؑ کا ارشاد یہ ہے (۲) اَنَا السَّاعَۃُ الَّتِی لِمَن کَذَّبَ بِھَا سَعِیرًا (۳) یعنی میں وہ ساعت (قیامت) ہوں کہ جو شخص اس کو جھٹلائے اور اس کا منکر ہو، اس کے لئے دوزخ واجب ہے، کوکبِ دری بابِ سوم، منقبت ۲۷۔

سوال – ۹۷۷: آیا مریم سلام اللہ علیہا کو اسمِ اعظم ملا تھا؟ اور کیا مریمؑ پر روحانی قیامت واقع ہوچکی تھی؟ جواب: (۱)جی ہاں، (۲) قصۂ مریم اسمِ اعظم اور قیامت کے بھیدوں سے بھرا ہوا ہے (۳) سب سے عجیب اور سب سے عظیم راز یہ ہے کہ حظیرۂ قدس میں ابنِ مریم اور مریم کا عقلی تولد ایک ساتھ ہوا تھا۔

سوال – ۹۷۸: سورۂ روم (۳۰: ۲۲) میں ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے، یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لئے۔ کیا آپ زبان کے بارے میں کوئی بھید بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱)ان شاءاللہ جب اہلِ ایمان بہشت میں ہوں گے، تو اس وقت وہ اگر حضرتِ آدم کی زبان کو سننا چاہیں تو سن سکیں گے، اور ان کو بڑی حیرت ہوگی (۲) وہ اپنی قدیم زبان کو بھی سنیں گے جو کئی ہزار سال پہلے دنیا میں استعمال ہوئی تھی (۳) ایسی

 

۶۳۹

 

اصل زبان آپ کے قدیم آباؤ اجداد کے نامہ ہائے اعمال میں محفوظ ہے (۴) بہشت میں علم اور معلومات کی کونسی نعمت ناممکن ہے۔

سوال – ۹۷۹: آیا جنّت میں دوسروں کی کتابِ اعمال کو دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے؟ -جواب: (۱)جی ہاں، کیوں نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ سب اس کے نامۂ اعمال کو پڑھیں (۲) کیونکہ بہشت میں ہر کامیابی کی تعریف بہت ہی اچھی لگتی ہے (۳) دیکھیں سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۹)۔

سوال – ۹۸۰: جو لوگ خدا و رسول کے حکم کے مطابق امامِ آلِ محمدؐ سے دوستی اور محبت کرتے ہیں، اور بحقیقت امام میں فنا ہوجاتے ہیں تو ان کی کتابِ اعمال کی کیا شان ہوگی؟ -جواب: (۱) ایسے میں ان حقیقی عاشقوں پر یہ احسانِ عظیم ہوگا کہ امامِ عالیمقام بذاتِ خود ان کا نامۂ اعمال ہوگا (۲) کیونکہ وہ کتابِ ناطق جو خدا کے پاس ہے، جو سچ سچ بولتی ہے، وہ امامِ برحق ہے، اور وہ یقیناً اہلِ ایمان کا نامۂ اعمال بھی ہے (۲۳: ۶۲)، (۴۵: ۲۹) الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۶۴۰

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۲

 

سوال – ۹۸۱: جو نیک بخت لوگ فنا فی الامام ہو جاتے ہیں، وہی لوگ حقیقت میں فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ بھی ہوتے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟ -جواب: (۱) یہ نکتۂ روح پرور بالکل درست اور حقیقت ہے (۲) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امامِ مبین کو خزانۂ خزائن بنا یا ہے (۳۶: ۱۲) (۳) امامِ زمان یقیناً اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے، جس سے عارف کے عالمِ شخصی میں ذاتی اور روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس کے فوائد بے شمار ہیں (۴) کیا قیامت فیصلے کا دن نہیں ہے، آیا اس میں حق و باطل کے درمیان فیصلہ نہیں ہوتا ہے؟

سوال – ۹۸۲: امام شناسی کے کتنے درجے ہیں؟ -جواب: (۱)امام شناسی کے تین درجے ہیں، ان میں سے ایک درجہ ظاہر میں ہے اور دو درجے باطن میں ہیں (۲) امام شناسی کا درجہ ظاہر میں ہے وہ علم الیقین ہے (۳) دو درجے جو باطنی ہیں، وہ عین الیقین اور حق الیقین ہیں، وہ عارف کے عالمِ شخصی میں ہیں۔

 

۶۴۱

 

سوال – ۹۸۳: کیا آپ یقین کو معرفت کہتے ہیں؟ -جواب: (۱)جی ہاں، چونکہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا یقین معرفت کے معنی میں تھا (۰۶: ۷۵) کیونکہ انہوں نے اپنے عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کے بھیدوں کی معرفت حاصل کرلی تھی (۲) آپ سورۂ بقرہ (۰۲: ۰۱ تا ۰۲) میں کتاب لاریب فیہ۔ میں یہ تاویل کر سکتے ہیں: اس میں شک نہیں = یعنی یقین ہے  =یعنی معرفت ہے (۳) پس الم میں معرفت ہے، تو اس سے حضرت علیؑ مراد ہے، جیسا کہ مولا علی نے فرمایا: انا ذالک الکتاب لاریب فیہ۔ یعنی میں وہ کتاب ہوں جس میں کوئی شک نہیں، بلکہ یقین ہے، یعنی معرفت ہی معرفت ہے۔

سوال – ۹۸۴: سورۂ اعراف کی آیۂ چہلم (۰۷: ۴۰) کو غور سے پڑھیں، اس میں سوال یہ ہے کہ اللہ کی کونسی آیات کو جھٹلایا جاتا ہے؟ -جواب: (۱) اللہ کی آیات أئمّۂ طاہرین ہیں، جن کو نادان لوگ جھٹلاتے ہیں (۲) جیسا کہ مولا علیؑ کا ارشاد ہے: انا آیات اللہ و امین اللہ (کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت۔ ۸۰) (۳) اس تاویل کے سوا اللہ کی دوسری آیات کو جھٹلانے کی کوئی منطق نہیں ہے۔

سوال – ۹۸۵: سوال ہے کہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کن معنوں میں اللہ تعالیٰ کی آیات ہیں؟ -جواب: (۱)حضراتِ أئمّہ خدا کے سب سے عظیم معجزات ہیں (۲) امامانِ حق کتابِ ناطق یعنی قرآنِ ناطق

 

۶۴۲

 

اور اس کی جملہ آیات ہیں (۳) أئمّہ علیہم السّلام قرآنِ حکیم کی حکمت اور تاویلی اسرار ہیں (۴) أئمّۂ ھُدا اللہ کی مقدّس آیات و معجزات ہیں، جن کا ظہور عارف کے عالمِ شخصی میں ہوتا ہے۔

سوال – ۹۸۶: سوال سورۂ حج (۲۲: ۴۶) سے ہے: کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ کیا یہ عالمِ شخصی کی زمین میں چلنے پھرنے کا اشارہ ہے؟ -جواب: (۱) جی ہاں، جس کا دل اندھا ہو جاتا ہے، اس کا کیا انجام ہوتا ہے؟ -جواب: (۱) وہ دنیا میں دل کا اندھا ہوکر معرفت سے محروم ہو جاتا ہے، اور آخرت میں بھی یہی حالت رہتی ہے، (۱۷: ۷۲)۔

سوال -۹۸۷: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۱۰) میں ہے: تب ان کے پیغمبروں نے ان سے کہا کیا خدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اس کی حکمت بیان کریں -جواب: (۱) مطلب یہ ہے کہ خدا کے بارے میں شک نہیں بلکہ یقین ہے (۲) جب یقین ہے تو بالفاظِ دیگر معرفت ہے (۳) پس یہ طریقہ حکمت کے عجائب و غرائب میں سے ہے کہ معرفت کے بیان کو ایسے حجاب میں رکھا گیا ہے، مگر یہ اس کا بہت بڑا احسان ہے۔

 

۶۴۳

 

سوال – ۹۸۸: کیا آپ آنحضرتؐ کے حدودِ روحانی اور ان کے مظاہر کے اسماء بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاء اللہ (۱) حدودِ روحانی کے نام یہ ہیں: سابق، تالی، جد، فتح، خیال (۲) ان کے مظاہر یہ ہیں: ابو طالب، خدیجہ، زیدبن عمرو، عمرو بن نفیل، میسرہ۔ از کتابِ سرائر، ص۔ ۸۱۔

سوال – ۹۸۹: آپ کو حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم کا عشق شروع شروع میں کیسے پیدا ہوا؟ -جواب: (۱)حکیم پیر ناصر خسرو (ق س) کی شہرۂ آفاق کتاب وجہ دین سے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا (۲) یہ مبارک کتاب جو تقریباً ایک ہزار سال پہلے لکھی گئی ہے، علم الیقین کا بڑا زبردست خزانہ ہے (۳) اس مقدّس کتاب میں جگہ جگہ حجّتِ قائم اور خود قائم کا مدلّل بیان ملتا ہے، دراصل یہ سب کچھ خداوندِ قدّوس کی رحمت سے ہوا (۴) اللہ کے فضل و کرم سے میں ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوا تھا، جو بڑا دیندار اور اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کا دوستدار تھا۔

سوال – ۹۹۰: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) حجّت اور قائم دونوں اللہ تعالیٰ کے بزرگ نام ہیں، اس لئے وہ قرآن اور روحانیّت میں الحیّ القیوم ہیں (۲) نیز وہ قرآن کے سات مقام پر حٰمٓ ہیں ح = الحیّ، م= القیوم (۳) وہ مرکزِ قیامتِ عظمیٰ ہیں، قرآنِ حکیم ان کے نورانی تذکروں سے مملو ہے (۴) امام شناسی انہی کی معرفت سے مکمل ہو جاتی ہے۔

 

۶۴۴

 

صندوقِ جواہر۔ ۳۳

 

سوال – ۹۹۱: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) قائم القیامت کو کوئی نہیں پہچان سکتا، مگر ان پانچ حدود میں سے کسی ایک کے ذریعے سے، (۲) وہ حدود یہ ہیں: اساس، امام، باب، حجّت اور داعی۔ (وجہ دین، حصّۂ دوم، کلام۔ ۳۳)

سوال – ۹۹۲: مزید اسرار؟ -جواب: (۱) حضرتِ قائم القیامت کی معرفت کے تین درجے ہیں: (۲) علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔ (۳) یعنی قائم علیہ السّلام کی ابتدائی پہچان ظاہر میں ہوتی ہے، دوسری اور تیسری پہچان باطن (عالمِ شخصی) میں ہے۔ (۴) اور اسی معرفت میں کل معرفتیں جمع ہو جاتی ہیں۔

سوال – ۹۹۳: چھ ناطقوں میں سے ہر ناطق کی روحانی تربیت کے لئے ایک امامِ مقیم مقرر تھا، کیا آپ ان چھ امامانِ مقیم کے اسمائے گرامی بتا سکتے ہیں؟ -جواب: (۱) ان شاءاللہ، حضرتِ آدمؑ کے لئے مولانا ھنید امامِ مقیم تھا (۲) حضرتِ نوحؑ کے لئے مولاناھود امامِ مقیم

 

۶۴۵

 

(۳) حضرتِ ابراہیمؑ کے لئے مولانا صالح امامِ مقیم (۴) حضرتِ موسٰیؑ کے لئے مولانا آد امامِ مقیم (۵) حضرتِ عیسیٰؑ کے لئے مولانا خزیمہ امامِ مقیم (۶) حضرت محمدؐ کے لئے مولانا ابو طالب / عمران امامِ مقیم تھا، الحمد للہ۔

سوال – ۹۹۴: اللہ ُ نور السّمٰوٰتِ والارض = اللہ آسمانوں اور زمین کا (زندہ اور بولنے والا)  نور ہے (۲۴: ۳۵)۔ آیا اس کا اطلاق کائناتِ ظاہر پر ہوتا ہے یا عالمِ شخصی پر؟ جواب: (۱) حق بات تو یہ ہے کہ اس کا اطلاق عالمِ شخصی پر ہوتا ہے، کیونکہ اللہ کے نور کا مظہر بحقیقت انسانِ کامل ہے اور عارفین (۲) اگر اللہ کے نور کی تجلّیات ظاہری کائنات میں ہوتیں تو عالمِ ظاہر ہی اللہ کی معرفت کے لئے مکلّف ہوتا مگر ایسا نہیں ہے بلکہ خدا شناسی کے لئے انسان ہی مکلّف ہے (۳) ظاہر ہے کہ انسانوں ہی میں سے عارف ہوتے ہیں، سیّاروں، ستاروں اور پہاڑوں میں سے نہیں ہوتے (۴) پس معلوم ہوا کہ اللہ کے نور کے ظہورات و تجلّیات عالمِ شخصی ہی میں ہیں (۵) آپ یقین جانیں کہ قرآنِ حکیم کی ساری تعلیمات اسی قانون کے مطابق ہیں۔

سوال – ۹۹۵: اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے نور کی پھیلی ہوئی روشنی موجود ہوتی، تو قرآن نہ فرماتا کہ یقیناً تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور ایک ظاہر کتاب آئی ہے (۰۵: ۱۵)۔ کیا یہ

 

۶۴۶

 

دلیل درست ہے؟ – جواب: (۱)بالکل درست ہے (۲) اگر اللہ کا حقیقی نور کائناتِ ظاہر میں پھیلا ہوا موجود ہوتا تو پتھر بھی علم و حکمت کی باتیں کرتا رہتا (۳) ایسے میں جانور انسان کے لئے کوئی کام ہی نہ کرتا وہ آدمی سے کہتا جاتا کہ جا جا تجھ میں اور مجھ میں کیا فرق ہے (۴) حقیقت یہ ہے کہ اللہ عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔

سوال – ۹۹۶: نورِ محمدی کے چند دوسرے اسماء کیا ہیں؟ جواب: (۱)عقلِ اوّل (۲) قلمِ الٰہی (۳) عرشِ اعلیٰ (۴) آدمِ اوّل (۵) آفتابِ ازل (۶) نورِ قدیم (۷) آفتابِ عالمِ دین (۸) سراجِ منیر (۹) نور الانوار (۱۰) نورِ واحد، یعنی محمدؐ و علیؑ کا نور (۱۱) نبوّت و امامت کا واحد نور وغیرہ وغیرہ۔

سوال – ۹۹۷: ازل، لامکان اور بہشت کی معرفت کہاں ہے؟ جواب: (۱)حظیرۂ قدس میں (۲) کیونکہ امامِ مبین کا معجزۂ کل یہاں ہے (۳) بہشت برائے معرفت بھی یہیں ہے (۴) روحانی قیامت میں سارے آسمانوں اور زمین کو اسی مقام میں لپیٹ لیا جاتا ہے (۵) پس حظیرۂ قدس میں ان اسرارِ عظیم کا مشاہدہ ہوتا ہے، جو زمان و مکان سے بالا تر ہیں۔

سوال – ۹۹۸: کیا آپ کو اس حقیقت کا یقین ہوچکا ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں ظاہری شہیدوں کا ذکر آیا ہے، وہاں باطنی شہیدوں کا تذکرہ بھی ہے؟ جواب: (۱) جی ہاں، الحمد للہ (۲) ایک

 

۶۴۷

 

ایسا تذکرہ سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۶) میں بھی ہے (۳) یہی زندہ شہید عالمِ شخصی میں امامِ مبین (۳۶: ۱۲) اور بہشت کی معرفت کو حاصل کرتے ہیں، آپ مذکورہ سورہ میں اس حوالے کو غور سے پڑھیں۔

سوال – ۹۹۹: کیا آپ کو اس کتاب کے مکمل ہونے پر شکر گزاری کے آنسو بہانے کا شوق ہے؟ جواب: (۱)جی ہاں، جی ہاں، لیکن کیا کروں، ضعیف العمری اور کئی بیماریوں کی وجہ سے خاطر خواہ گریہ و زاری نہیں ہوتی ہے (۲) لہٰذا میں اپنے تمام ساتھیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ سب کے سب اس اجتماعی نعمت کے لئے شکر گزاری کے کچھ آنسو بہائیں، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ہم سب ایک جان کی طرح ہیں۔ الحمد للہ۔

سوال – ۱۰۰۰: اے سب سے حقیر نصیر (تم اپنے ماضی کو ایک بار پھر یاد کرو، بتاؤ  سچ سچ بتاؤ تم کو اتنی بڑی ترقی کس نے دی؟ جواب: (۱)امامِ عالی مقام (روحی فداہ) نے (۲) مولائے پاک نے اس بندۂ ناچیز کے لئے بے شمار معجزے کئے (۳) جب بھی موقع ملا تو میں نے مولائے پاک کے عظیم معجزات کا تذکرہ دوستوں سے کیا ہے (۴) اور نظم و نثر میں اکثر انہی معجزات کا ذکر یا اشارہ ہوتا رہا ہے (۵) یہ مولائے مہربان کے احسانات کا ذکرِ جمیل ہے (۶) یہ عشق نہیں جنون ہے، مولا مولا اب بھی تیری مدد کی سخت ضرورت ہے (۷) بحرمتِ اہلِ بیتِ اطہار علیہ السّلام، و بحرمتِ

 

۶۴۸

 

مومنان و مومناتِ حضرتِ قائم القیامت، برحمتک یا ارحم الراحمین۔

 

اتوار  ۲۲؍ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ھ   ۲۱؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۴۹

 

صنادیقِ جواہر

ضمیمہ

 

 

ایل۔ اے۔ ایس

 

میں حبِ علی ثانی ابن امین الدین ابن ایثار علی ابن نصیر الدین ابنِ حبِ علی اوّل تمام ساتھیوں کو صمیمیتِ قلب سے یا علی مدد کہتا ہوں، میں بڑے شوق سے آپ سب کو مبارکبادی کا گلدستہ پیش کرتا ہوں کہ خدا کے فضل و کرم سے آپ سب کی دوسری عظیم کتاب صنادیقِ جواہر مکمل ہوئی ہے، یہ بے مثال اور انمول کتاب آپ سب کی ہے، اس لئے کہ یہ دانشگاہِ خانۂ حکمت کی ہے، یہ میرے دادا جان کی بھی ہے، لہٰذا یہ میری بھی ہے، اور یقیناً ایل اے ایس کی بھی ہے، کیونکہ ہم سب ایک ہی بستی کے باشندے ہیں، اور یہ کتاب اس مبارک بستی کی بابرکت نہر ہے، جس کا پانی بہت ہی پاک و صاف اور بیحد شیرین ہے۔

میرا دادا جان مجھ کو بہت چاہتا ہے اس کو مجھ سے بہت محبت ہے وہ تمام ایل اے ایس کو بھی بیحد عزیز رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ میری اس محبت میں ایک حکمتی روح ہے، ان شاء اللہ آگے چل کر یہ روح اپنا کام کرے گی۔

 

حبِّ علی ثانی ہونزائی

۲۲؍نومبر ۱۹۹۹ ء

 

۶۵۳

 

آپ کی مقدّس دعاؤوں کا شکریہ

 

ہمارے روحانی عزیزان! آپ کی مقدّس دعاؤوں کا بہت بہت شکریہ، خیر خواہی، ہمدردی، اور دل سوزی کا بیحد شکریہ، یقیناً آپ کے مقدس آنسوؤں کی گوہر افشانی میں بہت سی برکتیں ہیں، الحمد للہ۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خداوندِ قدوس کارساز ہے، تاہم یہ وسیلہ بھی اسی نے بنایا ہے، وہ اپنے لشکر سے کام لیتا ہے، اس کے لشکر سے قربان!

عزیزانِ من! چراغِ آفتاب کی ضوافشانی کا کوئی ایک رخ نہیں، بلکہ وہ ہر طرف سے روشنیوں کی بارش برساتا رہتا ہے، یہی مثال آفتابِ علم کی بھی ہے۔

یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ خداوند تعالیٰ اہلِ زمانہ میں سے کچھ لوگوں کو علم و معرفت کے لئے منتخب فرماتا ہے، یہ بات غیر معمولی ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۳؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۵۴

 

ایک بے مثال اور لازوال تحفہ

 

عزیزانِ من، اگر ہم تاویلی اسرار کو معمولی چیزوں کی طرح سمجھیں تو یہ بہت بڑی ناشکری ہوگی، اس لئے ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے حضرتِ قائم القیامت کے ہر معجزے کی قدر دانی اور شکر گزاری کرنی ہوگی۔

شام کو ہم مل کر گریہ وزاری کر رہے تھے، صبح کسی قرآنی حکمت کے لئے کچھ دیر تک سوچتا رہا، پھر ایک عظیم راز منکشف ہوگیا، وہ یہ ہے: کسی انسان کو کیا معلوم کہ وہ کس سرزمین میں مرنے والا ہے، لیکن پھر بھی بہت سے لوگ جہاں پیدا ہوئے ہیں وہیں مر جاتے ہیں، لہٰذا اس آیۂ شریفہ میں بہت بڑی تاویل ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو خبر ہی نہیں کہ وہ حدودِ جسمانی کی زمین میں کہاں یعنی کس حد میں مرنے والا ہے، اور وہ دنیا کے کس جزیرے میں ہوگا۔ سورۂ لقمان، آیت ۳۴۔ ارشاد ہے: وَمَا تَدْرِیْ نفسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْ تُ۔ (۳۱: ۳۴) ترجمہ: اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سر زمین میں اس کو موت آنی ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۵؍ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ ھ

۲۴؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۵۵

 

قیامت کے دو پہلو

 

قیامت کے شعوری اور غیر شعوری دو پہلو ہیں، معلوم ہے کہ ہر امام کے ساتھ ایک قیامت ہے (۱۷: ۷۱) قرآن اور روحانیّت میں قیامت کے بے شمار عجائب و غرائب ہیں، آپ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں غور سے دیکھیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے گھروں سے نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مرجاؤ، پھر اس نے ان کو دوبارہ زندہ کیا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔

یہ سوالیہ خطاب انسانِ کامل سے ہے کہ اُس نے روحانی قیامت میں لوگوں کو بشکل ذرّات عالمِ شخصی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے، لوگوں کا یہ رجوع قیامت کی زبردستی کی وجہ سے ہے، اور یہ امامِ عالی مقام علیہ السلام کا بہت بڑا احسان ہے، ورنہ لوگ از خود رجوع نہیں کر سکتے تھے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۶؍ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ ھ

۲۵؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۵۶

 

ایل اے ایس اینڈ ہائی ایجوکیٹرز

 

میرا ایمان اور یقین ہے کہ ہر نیک کام کی توفیق و ہدایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے، الحمد للہ ننھے فرشتوں کی بیحد پیاری تنظیم اور ہائی ایجو کیٹرز یعنی اعلیٰ معلمین خدائے مہربان کے انعامات میں سے ہیں، ان میں دونوں جہان کی خوشی اور شادمانی بھری ہوئی ہے، میرے دل کو یہ بشارت مل رہی ہے کہ ان شاء اللہ، یہ ادارہ رفتہ رفتہ بہت ترقی کرے گا۔

خدا کے فضل و کرم سے میرے گھر میں ایل اے ایس کا ایک بہت ہی پیارا سفیر موجود ہے، وہ ہےحبِّ علی ثانی ہونزائی ابنِ امین الدین حبِّ علی کی پیاری ممی عرفت روحی امین الدین اپنے لختِ جگر حبِّ علی کی بہتریں تریبت کے لئے کوشش کرتی رہتی ہیں، عرفت روحی ہائی ایجو کیٹر کے علاوہ پرسنل سیکریٹری اور پروف انچارج آفیسر بھی ہیں، عرفت روحی اور چیف ایڈوائزر ٹو علامہ پروانۂ علم روبینہ برولیا نے صنادیقِ جواہر کے پروف کی خدمت میں بیحد محنت سے کام کیا، خداوندِ قدوس تمام خدمت کرنے والے نفوس کو دونوں جہان کی عزّت عطا فرمائے! آمین!

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۸؍نومبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۵۷

 

قرآنی بہشت

آلِ ابراہیمؑ

 

یہ اصطلاح: قرآنی بہشت، سچ اور حقیقت ہے، جس سے علم و حکمت مراد ہے، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے، عزیزانِ من! قرآنی بہشت میں تمام نعمتوں کی سردار نعمت امام شناسی ہی ہے، اس حقیقت کی روشن دلائل کثرت سے ہیں۔ جب ہم کلیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کے مطابق یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزیں امام مبین میں گھیر کر رکھی ہیں، تو پھر ہم کو یہ بھی سوچنا چاہیئے کہ قرآنِ حکیم کی جملہ آیات اور ان کے تمام معانی اور حکمتیں امامِ مبین میں محدود ہیں، اور ایسے میں ہر پیغمبر کی دعوت بھی امامِ مبین کے لئے قرار پاتی ہے، یعنی امامِ مبین کی طرف جاتی ہے جس طرح کل اشیاء امام میں مرکوز ہو جاتی ہیں۔

ہم نے قرآنی بہشت میں یقیناً یہی دیکھا ہے کہ لوگوں کو سب سے پہلے خدا کی طرف دعوت دی گئی ہے، بعد ازان رسول کی طرف، اور آخری اور مکمل دعوت امام کی طرف ہے، عجب نہیں کہ یہ تیسری اور آخری دعوت زیادہ تر باطنی حکمت میں ہو، کیونکہ امام کا تعلق باطن سے ہے۔

اگرچہ امام شناسی جملہ قرآن میں اور ہر نبی کے قصّے میں ہے، لیکن میں

 

۶۵۸

 

عزیزوں کی آسانی کی خاطر صرف حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ سے فرمایا: میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں (۰۲: ۱۲۴)۔ اس اعلانِ خداوندی سے اہلِ دانش پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ خدا ہر زمانے میں لوگوں کے لئے ایک امام مقرر فرماتا ہے، کیونکہ دین کے ضروری کاموں میں اللہ کی سنت ایک جیسی رہتی ہے، یعنی اس کی سنت گاہے چنین گاہے چنان نہیں ہوتی (۳۳: ۶۲)۔ اور شروع سے لے کر آخر تک سلسلۂ امامت ایک ہی خاندان سے ہے، جیسا کہ آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) میں ہے، ذرّ یَّۃً بعَضُھا مِن بعض = (۰۳: ۳۴) ان مبارک الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبوّت اور امامت کا پاک سلسلہ ایک ہی مقدّس خاندان سے ہے۔ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا یہی سلسلہ اللہ کی رسی بھی ہے (۰۳: ۱۰۳) جو زمانۂ آدم سے چلی آئی ہے، اور یہی سلسلہ زمین پر سلسلۂ نورِ الٰہی ہے۔

سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں ارشاد ہے: ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے۔ اس آیۂ شریفہ کی روشنی میں یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ دورِ محمدی میں آلِ ابراہیم محمد و آلِ محمد ہیں، کیونکہ کتاب (قرآن) اور اس کی تاویلی حکمت، اور عظیم روحانی سلطنت انہی حضرات کے پاس ہے، اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک دنیا میں قرآن جاری و باقی ہے، یہ وہی حقیقت ہے، جس کو ہم آیۂ قد جاءکم  (۰۵: ۱۵) کی تفسیر میں بیان کرتے رہتے ہیں۔

 

۶۵۹

 

اے عزیزان، قرآنِ حکیم اور أئمّۂ آلِ محمدؐ روحانیّت اور نورانیّت میں ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہی حضرات کو اپنی کتاب (قرآن) کا وارث بنایا ہے، کہ خدا نے انہیں اپنے بندوں میں سے منتخب فرمایا ہے (۳۵: ۳۲)۔

آپ نے دیکھا کہ دورِ محمدیؐ میں آلِ ابراہیمؑ سے مراد آلِ محمدؐ ہی ہیں، آپ سورۂ حج کی آخری آیت (۲۲: ۷۸) کو بھی پڑھیں، خصوصاً ان الفاظ کو: مِلَّۃَ ابیکم ابراھیم = تمہارے باب ابراہیم کے مذہب کو تمہارا مذہب بنایا۔ یہ خطاب صرف أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی سے ہے، پس قرآن میں جہاں جہاں حضرتِ ابراہیمؑ کی ذریّت کا ذکر آیا ہے، وہاں آلِ محمدؐ کا تذکرہ بھی ہے، جیسے سورۂ ابراہیم از آیت ۱۴: ۳۵ تا ۴۱۔ اس مقام پر امن والا شہر سے عالمِ شخصی اور مرتبۂ اساس مراد ہے، اصنام یعنی بت پرستی = معرفت کے سوا ہر چیز بت پرستی ہے، یہاں بت پرستی کی مذمت اس لئے کی گئی ہے تاکہ معلوم ہو کہ بحقیقت خدا پرستی اور معرفت حق الیقین کے مقام پر ہے۔

آل ابراہیم کی شان میں قرآن میں بہت سی آیاتِ کریمہ وارد ہوئی ہیں اس لئے یہ تحریر اس سلسلے کا ایک مکمل مضمون نہیں بلکہ صرف چند نمونے ہیں ان شاءاللہ پھر کبھی آلِ ابراہیم کے بارے میں مزید وضاحت کریں گے، تاہم آپ کو میرا پُرخلوص مشورہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے تمام قصّۂ قرآن کا بغور مطالعہ کریں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ آلِ ابراہیمؑ کے بارے میں کیسی کیسی عظیم قرآنی حکمتیں ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعۃ المبارک ۲۴ ؍ شعبان المعظّم  ۱۴۲۰ ھ

۳؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۰

 

ایک عجیب و غریب نورانی خواب

 

میں نے آج ایک نورانی خواب دیکھا، جو بڑا عجیب و غریب تھا۔ میں ہونزہ کے کسی مقام پر ہوتا ہوں، میرے ساتھ چند لوگ ہوتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ وہ کون کون تھے مگر ایک شخص خوب یاد ہے، وہ میرا چچازاد بھائی ماسٹر موکھی تولد شاہ ہے جو محترمہ اسکالر شاہ ناز سلیم ہونزائی کے سسر ہیں۔ ہونزہ وغیرہ میں زمین کی کمی کی بات ہوتی ہے میں کہتا ہوں ارے دوستو! زمین تقسیم ہوتے ہوتے کم ہوگئی ہے تو کیا فکر کی بات ہے، کیونکہ میرا مولا وہ ہے جو ایک نئے سیّارۂ زمین کو پیدا کرے گا، جس میں زمین کی فراوانی ہوگی، جس طرح سیّارۂ زمین کی آبادی کے آغاز میں ایک شخص کو ایک پورا ملک آبادی کے لئے دیا جاتا تھا۔ اور اسی طرح بڑے بڑے ممالک ان لوگوں کے نام سے آباد ہوئے جن لوگوں کو یہ ممالک حصّے میں ملے تھے۔

اس کے بعد میں القابض اور الباسط کا تصوّر کرنے لگا اور اس وقت ایک نئے سیّارہ زمین کا خیال آرہا تھا۔ اس کے بعد خواب کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور جاگنے کے ساتھ خیال آیا کہ خواب غیر معمولی

 

۶۶۱

 

ہو سکتا ہے اس لئے ہم نے اس کو اپنے عزیزوں کے ذریعے سے نوٹ کرایا۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۵؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۲

 

قرآنِ حکیم مشکل بھی ہے اور آسان بھی

 

اِنَّ مع العُسرِ یُسْرًا (۹۴: ۰۶) یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم اگرچہ ایک پہلو سے مشکل ہے، لیکن دوسرے پہلو سے آسان ہے، آپ سورۂ قمر (۵۴: ۱۷) میں دیکھیں: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ = اور ہم نے تو قرآن کو ذکر و عبادت، نصیحت اور علم و حکمت کے واسطے آسان کر دیا ہے، تو کیا کوئی سمجھنے والا ہے؟ اب یہ سوچنا ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کس طرح مشکل قرآن کو آسان بنا دیا ہے؟

اوّل: اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ صرف قرآن آیا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ کا ایک نور بھی ہے، تاکہ لوگ اللہ کے نور کی روشنی میں اُس کے کلامِ پاک کو پڑھیں، اسی طرح خداوند قدوس کی رحمت سے قرآن فہمی آسان ہوگئی ہے۔

دوم: اسمِ اعظم میں قرآن لپیٹا ہوا ہے، آپ جب جب اسمِ اعظم کا ذکر کرتے ہیں تو یقین جانیں کہ قرآن کا ذکر کرتے ہیں، پھر عجب نہیں

 

۶۶۳

 

کہ ایک نہ ایک دن اسمِ اعظم میں سے قرآن کی روحانی اور نورانی صورت آپ کے سامنے ظاہر ہوجائے، اس سے بڑھ کر قرآن کی آسانی اور کیا ہوسکتی ہے۔

سوم: قرآنِ صامت مشکل ہے، اور قرآنِ ناطق آسان، پس اللہ جس کو چاہے تو قرآنِ ناطق کے ذریعے سے قرآنِ صامت کی حکمتوں کو سمجھا سکتا ہے، اور یہ اس کی بہت بڑی رحمت اور نوازش ہے۔

چہارم: علم و حکمت کی کائنات جو قرآنِ ظاہر میں پھیلی ہوئی ہے، وہ سب کی سب امام مبین میں محدود ہے، خدا جن مومنین کو چاہے وہ اپنے عالمِ شخصی میں قرآن اور امامِ مبین کو دیکھ سکتے ہیں۔

پنجم: قرآن ظاہر میں کتابِ صامت ہے، مگر باطن میں یہ کتابِ ناطق ہے، آپ دعا کریں کہ خداوند تعالیٰ اپنی کتابِ ناطق کے وسیلے سے آپ کے لئے قرآن آسان بنا دے !

ششم: قرآن کی آخری آسانی یہ ہے کہ تم عالمِ شخصی میں داخل ہوجاؤ تاکہ امامِ مبین وہاں تمہاری اپنی زبان میں قرآن کی حکمتیں سکھلائے، اور یہ نعمتِ عظمیٰ بہشت برائے معرفت میں غیر ممکن نہیں ہے۔

ہفتم: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) میں دیکھیں، قانونِ الٰہی یہ ہے کہ ہر پیغمبر اپنی قوم کی زبان میں آیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناطق کی تنزیل کسی ایک زبان میں ہوتی ہے، لیکن اساس کی تاویل ہر زبان میں ہوتی ہے، جیسے مولا علیؑ کا ارشاد ہے: انا المتکلم بکلِ لُغَتٍ فی الدّنیا (کوکبِ دری، منقبت ۳۴)۔

 

۶۶۴

 

ہشتم: کتنا عظیم معجزہ ہوگا! کہ حضرتِ امام عالی مقام کا نورِ اقدس تمہارے عالمِ شخصی میں طلوع ہو جائے اور تمہارے زبان میں قرآنی تاویل کی باتیں کرے، یہ معجزہ اس کے لئے مشکل نہیں، مگر یہ سچ ہے کہ تم شکر گزاری نہیں کرسکو گے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

پیر  ۶؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۵

 

چند تاریخی کلماتِ زرین

 

یہ ہم تمام ساتھیوں کی سب سے بڑی سعادتمندی ہے کہ ہم امامِ آلِ محمدؐ کی علمی افواج میں سے ایک نیکنام علمی فوج ہیں، ہم دینِ اسلام کی طرف سے جہالت و نادانی کے خلاف جنگ کرتے رہتے ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

میں مونو ریالٹی کی خمرِ بہشتی سے سرشار ہوکر کہتا ہوں کہ میرے قول میں یقیناً تمام عزیزوں کی آواز ہے، اور میری تحریر میں ان سب کا ہاتھ ہے، تو کیا یہ وحدانی معجزہ مونوریالٹی کی بہشت میں ناممکن ہوسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں جو جو علمی کارنامے انجام دیئے گئے ہیں وہ سب کے سب، ہمارے تمام عزیزان کی اجتماعی کوششوں کی وجہ سے ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

خدماتِ زرین کی ایک تابناک مثال: ہمارے ادارے کا ایک مرکز اٹلانٹا میں بھی ہے، جس کے پریزیڈنٹ سابق موکھی نزار علی، اور وائس پریزیڈنٹ ان کی بیگم الماس سابقہ موکھیانی ہیں، یہ دونوں عزیزان اور ان کی تینوں صاحبزادیاں انٹرنیشنل لائف گورنرز بھی ہیں، صاحبزادیوں کے اسماء یہ ہیں: نایاب، ایل اے ایس، حِنا، ایل اے ایس، اور صبا، ایل اے ایس۔

 

۶۶۶

 

نزار علی کے والدِ مرحوم کا نام ہے: علی بھائی ابنِ ولی محمد، والدہ کا نام رتن بائی زوجہ ٔ علی بھائی۔

الماس کے والد کا نام ہے: نور محمد ابنِ علی جی، والدہ کا نام رحمت بائی اہلیۂ نور محمد۔

 

از قلم

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۸؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۷

 

یکے از تاویلاتِ آیۂ مصباح

 

اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یعنی خداوندِ قدوس عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے زندہ اور دانا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ نورِ خدا کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی روشن چراغ کسی طاق میں رکھا ہو اور وہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور وہ فانوس فروزان ستارے کی مانند شفاف و درخشندہ ہو …..یہاں صرف اتنا بتانا کافی ہے کہ یہ سب حظیرۂ قدس کے اسرارِ عظیم ہیں، اور درختِ مبارکِ زیتون سے نفسِ کلّی مراد ہے کہ وہ شرق میں یا غرب میں محدود نہیں، بلکہ وہ محیط برکائنات ہے، نیز وہ لامکان اور لامکانی ہے۔

نورٌعلیٰ نور کا ایک اشارہ تو یہ ہے کہ حاملانِ نور کا سلسلہ ازبس دراز ہے، اس کا دوسرا اشارہ یہ ہے کہ سلسلۂ نور میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ایک ہیں، تیسرا اشارہ یہ ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاءؐ کے بعد بھی سلسلۂ نور جاری ہے، اور آدم سے پہلے بھی یہ سلسلہ جاری تھا، چوتھا اشارہ یہ ہے کہ آیا آپ ذاتِ سبحان کو نورٌعلی نور کہہ سکتے ہیں، نہیں، نہیں، پھر؟ کیونکہ یہ اس کے مظاہر کی صفت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جس طرح کائناتِ ظاہر کی روشنی کے لئے سورج، چاند

 

۶۶۸

 

اور ستاروں کو پیدا کیا ہے، اسی طرح اس نے عالمِ دین میں بھی ایک سورج، ایک چاند، اور بہت سے ستارے بنائے ہیں، پس سورج ناطق، چاند اساس، اور ستارے أئمّہ ہیں۔

 

النور یقیناً اللہ کا نام ہے، اور خدا کا یہ زندہ اور بزرگ نام آنحضرتؐ اور امامؑ ہیں، اور اللہ کے اسمأ الحسنیٰ یہی ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۹؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۶۹

 

آیۂ مصباح اور انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام

 

اس روشن حقیقت میں کسی مومن کو کیا شک ہوسکتا ہے کہ آیۂ مصباح کا تعلق انبیاء و اولیاء علیہم السّلام سے ہے، کیونکہ یہی حضرات عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے آسمان و زمین ہیں، اور انہی کے مبارک وجود میں اللہ کا پاک نور جلوہ نما ہے، حظیرۂ قدس انہی مقدس ہستیوں کی پاکیزہ جبین میں ہے، جس میں تمام اسرارِ معرفت جمع ہیں۔

اللہ اپنے نور کی طرف جس کو چاہے ہدایت دیتا ہے، جس سے عارف اپنے عالمِ شخصی میں خدا کے نور یعنی امام ِمبین (۳۶: ۱۲) کو دیکھنے لگتا ہے۔

اس بیان کو آپ بڑی توجّہ اور احساسِ ذمہ داری سے سن لیں کہ نورِخدا کا یہ چراغ عالمِ شخصی کے ان گھروں میں روشن ہے، جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کو حظیرۂ قدس تک بلند کرو، یعنی تم اپنے ان گھروں کو جو عالمِ شخصی میں ہیں ترقی دو اور بلند کرو یہاں تک کہ یہ حظیرۂ قدس میں جاکر قبلہ یعنی خانۂ خدا ہوجائیں، اور ان میں نورِ خدا کا چراغ روشن ہوجائے (۲۴: ۳۶) جیسا کہ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں ارشاد ہے: اور وحی کی ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی کی طرف کہ اپنی قوم کے واسطے مصر (یعنی عالمِ شخصی) میں کچھ گھر بناؤ اور ان اپنے گھروں کو (ترقی دے کر ) قبلہ بناؤ (یعنی ان کو حظیرۂ قدس تک مرفوع کرکے خدا کا گھر بناؤ)۔

 

۶۷۰

 

یہاں یہ سرِعظیم بھی مکشوف ہوگیا کہ حضرتِ امامؑ اپنے عارفین کے لئے پہلے عالمِ شخصی میں گھر بنا دیتا ہے، پھر ان گھروں کو حظیرۂ قدس میں اٹھا کر بیت اللہ کا درجہ دیتا ہے۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

جمعۃ یکم رمضان المبارک   ۱۴۲۰ ھ

۱۰؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۱

 

عالمِ شخصی کے چند اسما ء

 

۱۔ عالمِ شخصی / انفس (۴۱: ۵۳) (۲) ارضُ اللہ (۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) (۳) ارضِ مُقَدّسَۃ (۰۵: ۲۱) (۴) بَلَدُ الطَّیِّبُ = پاکیزہ شہر (۰۷: ۵۸) (۵) بَلَدِ الامین = امن والا شہر = اساس / عالمِ شخصی (۹۵: ۰۳) (۶) شہرِ علم (بحوالۂ حدیث) (۷) مِصر / شہر (۱۰: ۸۷) (۸) حرم (۲۸: ۵۷) (۹) جائے ثواب، جائے امن (۰۲: ۱۲۵) (۱۰) مقامِ ابراہیم (۰۳: ۹۷)۔

۱۱۔ مقامِ حجِ اکبر (۰۹: ۰۳) (۱۲) قریۃ = گاؤں، بستی (کئی حوالہ جات)  (۱۳) کُنُوزٍ و مقامٍ کریم (۲۶: ۵۷ تا ۵۸) (۱۴) جَنّۃ (قصۂ آدم) (۱۵) بہشت برائے معرفت (۴۷: ۰۶) (۱۲) آخرت (۲۷: ۶۶) (۱۷) عین الیقین (۱۰۲: ۰۷) (۱۸) آخرۃ (۰۲: ۰۴) (۱۹) معرفتِ آیاتِ و معجزات (۲۷: ۹۳) (۲۹) عالمِ معرفت / مقامِ خود شناسی (حدیثِ من عرف)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۱۱؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۲

 

حظیرۂ قدس / عالمِ وحدت

 

جب صورِ اسرافیل کے ذریعے سے آدمؑ میں خدائی روح پھونک دی گئی، تو عالمِ ذرّ کے جملہ ذرّاتی فرشتے سجدہ کرتے ہوئے آدمؑ کی ہستی میں گرگئے، لیکن آگے چل کر عالمِ وحدت میں جس طرح فرشتوں نے آدمؑ کے لئے سجدہ کیا وہ انتہائی عجیب و غریب تھا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمؑ کی تخلیق حظیرۂ قدس میں صورتِ رحمان پر ہوئی، اور تمام فرشتے سجدۂ اطاعت سے آدمؑ کے ساتھ ایک ہوگئے، اور اس وحدت میں بھی سجدہ کرتے تھے، تو ایسے میں یہ سجدہ خود آدمؑ کررہا تھا، یا فرشتے کررہے تھے؟ ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں درست ہیں۔ یعنی اس وحدت میں آدمؑ بھی ساجد و مسجود تھا اور فرشتے بھی۔

آپ اس نکتۂ جانفزا کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ عالمِ وحدت کے تمام حقائق ڈائمنڈ کی طرح کئی پہلو رکھتے ہیں، اور پہلو دار حقیقت کے کئی معنی ہوتے ہیں۔

سورۂ حدید (۵۷: ۱۲): اس دن جبکہ تم مومنین و مومنات کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا ۔ یہ واقعہ عالمِ وحدت میں دیکھا جاتا ہے، جس میں صرف امام موجود اور

 

۶۷۳

 

تمام مومنین و مومنات اسی کی ہستی میں فنا اور غائب ہوتے ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۳؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۴

 

اب آپ سے سوال ہے؟

 

۱۔ نفس کے تین نام بتائیں؟ (۲) یقین کے کتنے درجے ہیں؟ اور ان کے کیا نام ہیں؟ (۳) عاشق، عارف، اور سالک کو ترتیب سے لکھو، اور ان الفاظ کے معنی بتاؤ؟ (۴) ام الکتاب کے لفظی معنی کیا ہیں؟ اور اس سے کیا مراد ہے؟

۵۔ کیا آپ حظیرۂ قدس کے کچھ اسرار بتا سکتے ہیں؟ وجودِ انسانی میں آدمؑ کی بہشت کہاں ہے، کوہِ طور اور مقامِ معراج کہاں ہے؟ (۶) آیا عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے؟ اس کی کیا دلیل ہے؟ (۷) آپ یہ بتائیں کہ خدا شناسی پہلے ہے یا خود شناسی؟ اس میں کیا راز ہے کہ معرفت کا تعلق صرف اسمِ “ربّ” کے ساتھ ہے؟

۸۔ کیا فرشتوں نے آدمؑ کے علاوہ کسی اور پیغمبر کو بھی سجدہ کیا ہے؟

۹۔ آپ آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

۱۰۔ بہشت میں درجۂ اوّل کے مومنین کا کیا شغل ہوگا؟

۱۱۔ جب بہشت میں ہر قسم کی نعمتیں ممکن ہیں، تو کیا وہاں کتابیں بھی ہوں گی؟

۱۲۔ نامۂ اعمال کس زبان میں ہوگا؟

۱۳۔ بہشت کی تمام تر نعمتیں اہلِ جنت کی خواہش کے مطابق ہیں،

 

۶۷۵

 

تو کیا وہاں تمام آسمانی کتابیں اصلی صورت میں ہوں گی؟

۱۴۔ کیا بہشت میں آفرینشِ کائنات سے متعلق معلومات ہو سکتی ہیں؟

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۱۶؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۶

 

قیامت روحانی اور مخفی ہے

 

مجھے یہاں قیامت پر کوئی بڑا مضمون نہیں لکھنا ہے، صرف چند آیاتِ کریمہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس مضمون پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، اور کل بہشت میں آپ کو معلوم ہوگا کہ خدا کے فضل سے یہاں قرآنی حکمت پر جو عظیم کارنامہ ہوا ہے، وہ کہیں بھی نہیں ہوا ہے، الحمد للہ۔

سورۂ بقرۃ (۰۲: ۲۱۰) تاویلی مفہوم: کیا یہ لوگ واقعۂ قیامت کے بارے میں کسی اور چیز کا انتظار کرتے ہیں؟ مگر یہ ہے کہ اللہ ان پر آئے ابر کے سائبانوں میں اور فرشتے اور طے ہو جائے قصّہ۔ یہ عالمِ شخصی میں حضرتِ قائم کے آنے کا ذکر ہے۔ اور ان حوالہ جات کو بھی دیکھیں: ۰۶: ۱۵۸، ۰۷: ۵۳، ۱۶: ۳۳، ۴۳: ۶۶، ۴۷: ۱۸۔ آپ تاویل کو سمجھنے کے لئے لفظ بلفظ ترجمۂ قرآن کو لیں، جیسے شاہ عبدالقادر کا ترجمۂ قرآن، وغیرہ ہے۔

قیامت کے دن ربّ آئے گا، اور قطار در قطار فرشتے آئیں گے (مگر روحانیّت میں ) (۸۹: ۲۲)۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

بدھ ۱۳ رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ

۲۲؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۷۷

 

علمی انٹرویو

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے لئے ساری کائنات و موجودات کو مسخر کر دیا ہے، اور اپنی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں اسے عطا فرمائی ہیں (سورۂ لقمان: ۳۱: ۲۰) یہ قرآنِ حکیم کا بے مثال کلّیہ اور خداوند تعالیٰ کا اٹل حکم اور فیصلہ ہے، آپ قرآنِ حکیم میں مضمونِ تسخیر سے متعلق آیات کو خوب غور سے پڑھیں۔

آیاتِ تسخیر: ۱۳: ۰۲، ۱۴: ۳۲، ۱۴: ۳۳، ۱۶: ۱۲، ۱۶: ۱۴، ۲۲: ۲۵، ۳۱: ۲۰، ۴۵: ۱۳، اب بہت مناسب اور بہت ہی ضروری سوال یہ ہے کہ انسان کے لئے کائنات کس طرح مسخر ہے؟ ظاہر میں یا باطن میں؟ عالمِ کبیر میں یا عالمِ شخصی میں؟ فنا فی اللہ کے بعد یا اس سے پہلے؟ عالمِ ذرّ میں یا حظیرۂ قدس میں؟ یا بہشت میں داخل ہو جانے کے بعد؟

اے عزیزانِ من! اگر تم عشقِ سماوی اور فنا فی اللہ کے لئے گریہ و زاری کر کے آنسوؤں کی گوہر افشانی کر سکتے ہو تو کرو، کیونکہ اس کے بغیر روحانی ترقی ناممکن ہے، عاشقوں کے آنسوؤں کی بہار عجیب و غریب ہے۔

اے فرشتۂ حدِّ قوّت! تم کو حدِّ فعل میں آکر عالمِ علوی کی طرف اڑ جانا ہے، تیرے لئے ہر وہ قول و فعل ممنوع ہے، جس سے تیری

 

۶۷۸

 

پرواز میں رکاوٹ ہوتی ہو۔

مضمونِ بالا محترمہ صائمہ بنتِ شوکت علی میگھانی کے انٹرویو کی تمہید ہے۔

انٹرویو از محترمہ صائمہ:۔

آپ کی تاریخ پیدا ئش ۲۲؍ فروری ۱۹۷۹ء ہے، دنیوی تعلیم میں آپ نے بی کام تک تعلیم حاصل کی ہے اور مستقبل میں ایم۔ اے انگلش کا ارادہ رکھتی ہیں۔ آپ نے آغاغان اسکول پری پرائمری گارڈن میں دوسال تک مونٹیسری ٹریننگ کی جس کے دوران چھ ماہ تک اسسٹنٹ پروگرام آفیسر اور سوا سال تک چیف کو آرڈنیٹر رہیں۔ صائمہ پچھلے ۹ ماہ سے گارڈز پبلک اسکول کراچی میں مونٹیسری انچارج ہیں اور اس کے علاوہ جماعت ششم اور ہفتم کو حساب بھی پڑھاتی ہیں۔

صائمہ نے ۲۵ ؍ اکتوبر ۱۹۹۶ء میں دانش گاہِ خانۂ حکمت کراچی سے وابستگی اختیار کی اور اس وقت سے ہی آپ نے استاد کی کتابوں کا مطالعہ کرنا شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ اپنے استاد کی تمام آڈیو کیسٹوں کی کیسٹوگرافی کا ارادہ رکھتی ہیں اور اب تک ابتدائی دس کیسٹوں کو TRANSCRIBE  کر چکی ہیں، صائمہ شوکت علی علمی لشکر ۱ کے خوش نصیب ممبروں میں شامل ہیں۔

دینی تعلیم کے سلسلے میں آپ صائمہ کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آپ نے میٹرک فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن میں

 

۶۷۹

 

پاس کیا۔ HRE  میں پانچویں پوزیشن لے کرپوزیشن ہولڈرز میں شامل رہی ہیں۔ ARE سالِ اوّل میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اور لابیلا نائٹ اسکول میں جماعت نہم کو پڑھاتی ہیں۔

جماعتی خدمت میں بھی آپ پیش پیش رہی ہیں۔ دو سال تک گرلز گائیڈ میں رہیں اور اب تین سال سے پلاٹینم پانی اینڈ شوز سروس میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

صائمہ ۲۴ ؍ اکتوبر ۱۹۹۹ ء سے استاد کے پڑپوتے حبِ علی ابنِ امین الدین کی  FUNDAMENTAL EDUCATION  کے لئے معلِّمہ مقرر ہوئی ہیں۔ الحمد للہ۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۶؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۸۰

 

علمی انٹر ویو

علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی سےذاتی سوالات

(پہلی قسط) ص ۱

 

سوال – ۱: علامہ صاحب، آپ ہمیں یہ بتائیں کہ اوّل اوّل آپ کے پاس اسمِ اعظم اور کارِ بزرگ کی تعریف و توصیف کس نے کی تھی؟  – جواب: میں اس وقت چھوٹا سا بچہ تھا، میرے ماموں جان خلیفہ حاجی قدیر شاہ بمبئی اسماعیلی جماعت کے حوالے سے میرے والدین کو بڑے کام کا تذکرہ کر رہے تھے جس کو میں نے بڑے تعجب سے سنا تھا۔

سوال – ۲: عبادت یا گریہ وزاری یا مناجات کی اوّلین

 

ص۱: علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی سے ذاتی سوالات کی باقی قسطیں ’’روحانی سائنس کے عجائب و غرائب‘‘ (نیا ایڈیشن) میں شائع کی گئی ہیں۔

 

۶۸۱

 

لذّت کب محسوس ہوئی تھی؟ – جواب: میں اس زمانے میں بہت چھوٹا تھا، میرے والد محترم پچھلی رات کو اٹھ کر گھر کی چھت پر عبادت اور مناجات کرتے تھے، ان کی مناجات میں سے ایک انتہائی شیرین آواز میرے کان میں پڑتی تھی۔

سوال – ۳: آپ کے خاندان میں مناجات کی روایت کب سے تھی؟ – جواب: میں نے اپنے والدین سے سنا ہے کہ میرے دادا جان خلیفہ محمد رفیع اپنی مشکلا ت کے وقت قاضی الحاجات کی بارگاہِ عالی میں مناجات کیا کرتے تھے۔

سوال – ۴: کیا آپ کے والد کے زمانے میں ذکرِ جلی کا کوئی حلقہ موجود تھا؟ – جواب: جی ہاں، ذکرِ جلی کی روایت بہت پہلے سے چلی آئی تھی، اور یہ ذکر دعوتِ بقا میں بھی شامل تھا۔

سوال – ۵: آپ نے جب پہلی بار امامِ برحقؑ کا دیدار حاصل کیا، تو اُس وقت بھونچال کا معجزہ ہوا، اس کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ – جواب: اس کی تاویل یہ ہے کہ ہر امام صاحبِ قیامت ہوا کرتا ہے، علی الخصوص حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰت اللہ علیہ۔

سوال – ۶: جب مولائے پاک نے دستِ مبارک سے

 

۶۸۲

 

اپنی نورانی جبین کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ یہاں بہشت ہے، تو اس وقت آپ اس فرمانِ عالی کی عظیم حکمتوں کو آج کی طرح نہیں جانتے تھے، کیا یہ بات درست ہے؟ – جواب: جی ہاں، بالکل درست ہے۔

سوال – ۷: کیا آپ اس فرمانِ اقدس کی چند حکمتیں بتا سکتے ہیں؟ – جواب: ان شاء اللہ، یہ بہشت برائے معرفت ہے (۴۷: ۰۶) یہاں علم الآخرت ہے (۲۷: ۶۶) یہاں حظیرۂ قدس ہے، یہ عالمِ علوی ہے، یہ وہ مقدس مقام ہے جہاں خدا نے علم و حکمت کی کائنات کو لپیٹ کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) یہی علیّین، یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اوراساس کی وحدت بھی ہے۔

سوال ۸: عارف کے لئے عالمِ شخصی کا طویل روحانی سفر صراطِ مستقیم کا سفر ہے، جس میں سر تا سر معجزات ہی معجزات ہیں، آپ یہ بتائیں کہ اس کی منزلِ مقصود کہاں ہے؟ جواب: اس کی منزلِ مقصود حظیرۂ قدس ہے، جو جبین میں ہے۔

مضمونِ بالا اس انٹرویو کا علمی حصہ ہے۔

ایل اے ایس حبِّ علی ثانی ابنِ امین الدین ابن ایثار علی ابنِ

 

۶۸۳

 

نصیرِ الدین ابنِ حبِّ علی اوّل، پیارے حبِّ علی کے نام رکھنے کا قصّہ یوں ہے: میرے دونوں عزیزان پوتا امین الدین اور نواسی روحی نے اپنے بچے کی پیدائش سے پہلے ہی چند مذہبی ناموں کی ایک فہرست مجھ سے طلب کی تھی، میں نے خوشی سے یہ اسماء لکھ کر دیئے تھے: (۱) حبِّ علی (۲) ناصر علی (۳) منیر الدین (۴) نوازش سلطان (۵) کرامت کریم (۶) کرامت علی (۷) نصیر الدین (۸) پرتوِ شاہ۔ الحمد للہ سرِ فہرست جو انتہائی خوبصورت اور پُرکشش نام تھا اسی کا انتخاب ہوا، جس سے میں بیحد شادمان ہوا، کیونکہ ہمارے نزدیک یہ نام بہترین اور بڑا پیارا ہے، اور اس سے ہمیشہ علی کی محبت کی خوشبو آتی رہتی ہے، الحمد للہ۔

حبِّ علی کی یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ یہ ایل اے ایس میں شامل ہے، ایل اے ایس یعنی لٹل اینجلز سولجرز جو دراصل حضرتِ قائم القیامت کے علمی لشکر ہیں، ان کو علم القیامت کے اسلحہ سے لیس ہونا ہے۔

پیارے حبِّ علی کی ہائی ایجوکیٹر خود اس کی پیاری ممی عرفت روحی ہے ان کی تاریخِ پیدائش: ۲۴؍ نومبر ۱۹۷۲ء ہے، تعلیم بی ایس سی فارسٹری۔ روحی میری بہت ہی عزیز نواسی ہے، اللہ کے فضل و کرم سے میری عزیز فدا بی بی کی ہر اولاد فرشتہ خصلت ہے، ان میں سے ہر ایک میں اخلاقی خوبیوں کا ایک انمول خزانہ موجود ہے، اور یہ خداوندِ قدوس کا بہت بڑا احسان ہے، چنانچہ محترمہ روحی اپنے نورِ نظر اور لختِ جگر حبِّ علی کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے لئے سعیٔ  بلیغ کرتی رہتی ہیں اور ہر وقت کچھ نہ کچھ سکھایا کرتی ہیں۔

 

۶۸۴

 

پیارے حبِّ علی کی ہائی ایجوکیٹر کا مختصر BIODATA کچھ اس طرح سے ہے:

دنیوی تعلیم: آغاخان رورل سپورٹ پروگرام فارناردرن ایریاز آف پاکستان سے بی ایس سی فارسٹری کے لئے اسکالر شپ حاصل کیا اور سال ۱۹۹۴ء میں پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ (پی ایف آئی) پشاور سے گریجویشن کی ڈگری لے کر دو سال تک مذکورہ ادارے کے دو پروگرام ایریاز گلگت اور بلتستان کی تنظیموں میں شعبۂ جنگلات میں کام کیا۔ حبِّ علی کی ممی کو ناردرن ایریاز آف پاکستان کی پہلی تین خواتین فارسٹرز میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

سال ۱۹۹۶ ء میں امین الدین ابنِ ایثار علی کے ساتھ نکاح ہوا۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد ہی AKRSP  کی طرف سے فارسڑی میں ماسٹرز کے لئے نامزد گی ہوئی۔

تعلمی قابلیت: بی ایس سی سیکنڈ ڈویژن، ایف ایس سی فرسٹ ڈویژن، میٹرک فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن۔

ٹریننگ: (۱) پارٹیسپیٹری رورل اپریزل (PRA)

۲BEE KEEPING TRAINING  (

۳) WOMEN IN WOOD ENERGY DEVELOPMENT (THAILAND)۔ وغیرہ۔

دینی تعلیم: المعز نائٹ اسکول کراچی میں جماعت ہفتم تک تعلیم حاصل کی اور ہر جماعت میں اوّل پوزیشن لی، دعا پڑھانے کے مقابلوں میں بھی شرکت کی اور پوزیشن حاصل کی۔ اس کے علاوہ گنان خوانی کا بے حد

 

۶۸۵

 

شوق ہے اور یہ شوق پیارے حبِّ علی میں بھی منتقل ہوتا جارہا ہے۔

حالیہ عہدے:

ہائی ایجوکیٹر، لائف گورنر، علمی لشکر 1، پرسنل سیکرٹیری ٹو علامہ، پروف سیکشن انچارج، ممبر میڈیکل پیٹرن بورڈ۔

 

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۷؍دسمبر  ۱۹۹۹ء

 

۶۸۶

 

From: Kiran Hunzai kiran_hunzai@hotmail.com

To: hunzai@aol.net.pk

Sent: Thursday, December 02, 1999 6:02 PM

 

Ayarum Dada,

Ya ali madad,

 

I wanted to congratulate you on your great effort and achievement of publishing yet another magnificent book. Dada I never really got a chance to tell you how much your wisdom and desire to achieve the impossible has inspired our lives, although we haven’t spent a lot of time together and are unaware of your brilliant achievements. Our lives have always been blessed with your prayers and I can not neglect the effect it has made on the kind of life we are able to lead today. I am very fortunate to be able to relate my self with the most exceptional being of all. And I thank you for giving me the best years of my life under your influence and I hope that my soul will be content with everything you have don for all of us.

 

With all my love,

kiran

۶۸۷

 

From: para hunzai kute_girl2@yahoo.com

To: hunzai@aol.net.pk

Sent: Saturday, December 04, 1999 10:52 AM

 

Dear ayarum dada

Ya ali madad,

 

I heard about your new book, and I am very proud of you, for all that you have done. I always wanted to tell you that today who I am and tomorrow who I would be will be because of you. You mean so much to me that I can’t put it in words. And I want you to know that I will always love you. I tell all my friends about you here, and every time I talk about you, I feel proud because you are the only one in my life who I am proud of, and inshallah when I grow up and become a journalist I will tell the whole country about you. Because you have inspired me in every way, even though I have never lived with you, but I have always felt you in me. Because I love to write and I feel that it is you who have given me the skill. I work on it everyday, I write about everyone in my family including you. And I will always be proud of you and you will always be a part of me!

 

Love always

Para

 

۶۸۸