سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
آغازِ کتاب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ (۵۷: ۰۳)
اے برادران و خواہرانِ روحانی آپ اپنی درویشانہ دعاؤوں کا سلسلہ جاری رکھیں تا کہ امامِ زمان (روحی فداہٗ) کی نورانی تائید حاصل ہو! یہ حقیقت ہے کہ اب تک جو کچھ علمی کام ہوا ہے وہ آپ کی دعا سے ہوا ہے، آپ میرے عالمِ شخصی کے فرشتے ہیں۔ آپ خدا کی طرف سے میرے لئے انعامی روحیں اور نورانی عوالمِ شخصی ہیں، ہم اور آپ سب ایک ہی کامیاب روح ہیں۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ۔
اس کتاب کا نام سلسلۂ نورٌ علیٰ نور ہے، اس کا عجیب و غریب دلکش انتساب جناب جعفر علی اور محترمہ زرینہ کی دخترِ نیک اختر زہرا چیف سیکریٹری نے بنایا ہے، جو درجِ ذیل ہے:
حبِ علی ثانی امین الدین ہونزائی، تاریخِ پیدائش: ۱۶ جنوری ۱۹۹۸ء بروزِ جمعہ،
درِّ علوی امین الدین ہونزائی، تاریخِ پیدائش: ۵ اپریل ۲۰۰۰ء، بروزِ بدھ،
ز
گل میری عرفان اللہ، تاریخِ پیدائش: ۲ نومبر ۲۰۰۰ء، بروزِ جمعرات،
درِّ فاطمہ امین الدین ہونزئی، تاریخِ پیدائش: یکم ستمبر ۲۰۰۲ء، بروزِ اتوار۔
نوٹ: زہرا چیف سیکریٹری کا تذکرہ قبلاً ہماری دس کتابوں میں ہوا ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۱۴ اپریل ۲۰۰۳ء
ح
کلماتِ شکرگزاری و ممنونیّت
اے معزز و عالی قدر برادران و خواہرانِ روحانی آپ سب کو سعادت و سلامتِ دارین نصیب ہو! میں جان و دل سے آپ تمام عزیزان کا بے حد شکرگزار اور ممنون و احسان مند ہوں، اور ہر وقت آپ کے حق میں نیک درویشانہ دعائیں کرتا ہوں، آمین ! خداوندِ لا یزال آپ تمام نورِ علمِ امام کے پروانوں پر نہایت مہربان ہو ! اور اپنی بے پایان رحمت کے دروازے آپ کے لئے مفتوح کرے ! آمین! مولا آپ کو دونوں جہان کی بہت بڑی کامیابی و سرفرازی عطا فرمائے! کہ آپ نے اپنی گوناگون خدمات اور طرح طرح کی قربانیوں سے اپنے ادارے کو دنیا اور زمانے میں سب سے نیک نام اور سب سے کامیاب بنایا اور آپ نے علمِ باطن کی نادیدنی جنگ سے کائنات کو مسخر کر لیا آپ کو یہ عالمی فتح مبارک ہو! ہزار بار مبارک ہو! یہ انسانی باتیں ہرگز نہیں بلکہ یہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی قرآنی تاویل ہے۔ اہلِ حقیقت کے لئے آنحضرتؐ کا حکم دراصل خدا ہی کا حکم ہے پس موتوا قبل ان تموتوا قرآنِ حکیم کے عین مطابق ہے۔ لیکن یہ عظیم الشّان عمل ممکن ہی نہیں جب تک امامِ زمان علیہ السّلام آپ کو اسمِ اعظم اور خصوصی ہدایات اور روحانی تائیدات سے نہ نوازے۔
ط
اگر تمام شرطیں پوری ہوگئیں اور آپ اسرافیلی اور عزرائیلی سیڑھی چڑھنے میں بھی کامیاب ہوگئے، تو پھر ان شاء اللہ حظیرۂ قدس میں تسخیرِ کائنات ممکن ہے۔ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) ملاحظہ ہو۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس ۔ آئی)
کراچی
بدھ، ۲۳ اپریل ۲۰۰۳ء
ی
یہ خواب ہے یا بیداری؟
جواب: خواب نہ تھا، مدہوشی تھی۔
میں نے کل خواب میں علی دیکھا
اس خفی نور کو جلی دیکھا
وہ امامِ مبینِ آلِ رسول
قبلۂ عاشقانِ اہلِ قبول
سر جھکا کر غریب نے سلام کیا
آنسوؤں کی زبان سے کلام کیا
اے سرتو سجدہ کر کہ ترا فرض سجدہ ہے
انکارِ سجدہ جس نے کیا وہ تو راندہ ہے
اے آنکھ کہاں ہیں ترے اشکوں کے وہ گوہر
اب شاہ کے قدموں سے کرو ان کو نچھاور
اے نارِ عشق تجھ کو سلام ہو ہزار بار
تیرے کرم سے عاشقِ بیدل کو مل گیا قرار
ہم مردہ تھے کہ اُس نے ہمیں زندہ کر دیا
چہرے اداس تھے کہ تابندہ کر دیا
ک
نورِ رحمت کی سخت بارش تھی
ہر طرح کی بڑی نوازش تھی
ہم کو یہ اک نئی حیات ملی
علم و حکمت کی کائنات ملی
دستِ پرنور میں کمالِ معجزہ ہے
خاک کو چھو کے زر بناتا ہے سنگ کو وہ گہر بناتا ہے
نورِ عشقِ مرتضا ! ہر لحظہ ہو تجھ پر سلام
بندگانِ ناتمام تجھ ہی سے ہوتے ہیں تمام
میں ہوں نصیرِ خالی وہ ہے نصیرِ معنی (حقیقی مددگار)
میں ہوں غلام و ناکس وہ ہے امامِ اقدس
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
مرکزِ علم و حکمت، لندن
جمعرات ، ۲۱ جون ۲۰۰۱ء
ل
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۱
سورۂ روم (۳۰: ۳۰) میں اللہ کا وہ واحد قانون مذکور ہے جس کے مطابق وہ جلّ ذکرہ ہمیشہ انسانوں کو پیدا کرتا ہے، اور اس کے قانونِ آفرینش میں کوئی تبدیلی نہیں، دراصل یہ آیۂ فطرت اللہ ان آیاتِ کریمہ کی تفسیر و تاویل ہے جو اللہ کی سنت سے متعلق ہیں جن کا مجموعی مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی سنتِ قدیم ہمیشہ ایک جیسی ہے اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی۔
حضرتِ آدم علیہ السّلام کو جب خدا نے روئے زمین کا خلیفہ بنایا تو یہ امر (کام) اللہ کی سنّت کے مطابق تھا پس یہاں سے اس حقیقت کا انکشاف ہو جاتا ہے کہ جس طرح اللہ کی سنّت قدیم یعنی ہمیشہ ہے، اسی طرح معمورۂ عالم میں خلیفۃ اللہ بھی ہمیشہ ہے، کیونکہ نہ تو اللہ کی رسی کبھی ٹوٹ جاتی ہے، نہ نورٌ علیٰ نور کا سلسلہ کبھی منقطع ہو جاتا ہے، اور نہ ہی اللہ کا نور کبھی بجھ جاتا ہے، اور نہ اللہ کی سنّت کسی طرح سے تبدیل ہو جاتی ہے۔
صفات و ذاتِ او ہر دو قدیم است
شدن واقف در و سیرِ عظیم است
۱
ترجمہ: خداکی ذات اور صفات دونوں قدیم ہیں، اس میں واقف = عارف ہو جانا عظیم سیر و سلوک ہے۔ از روشنائی نامہ۔
اگر چشمِ بصیرت اور عقلِ سلیم سے کام لیا جائے تو اس میں صدہا سوالات کے لئے جوابات موجود ہیں۔ مثلاً : آیا خدا کے کاموں میں سے کوئی کام نیا ہوتا ہے؟ جواب: نہیں۔ کیونکہ خدا کے ہر کام میں تجدّد یعنی اعادہ ہے مگر نیا پن نہیں، جیسے دن رات کا تجدّد تو ہے مگر ایسا کوئی دن یا رات نہیں جس کا کبھی مشاہدہ نہ ہوا ہو۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، جمعرات ، ۲۰ فروری ۲۰۰۳ء
۲
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۲
سورۂ نساء (۰۴: ۶۶ تا ۷۰) کو امامِ آلِ محمدؐ کی جانب سے عطا ہونے والا اسمِ اعظم اور روحانی تناظر میں پڑھیں۔ یہ آیات سب سے پہلے موتوا قبل ان تموتوا کی تصدیق کرتی ہیں۔ جب کہ رسول کا حکم دراصل اللہ کا حکم ہے۔
وَ لَوْ اَنَّا كَتَبْنَا عَلَیْهِمْ اَنِ اقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِكُمْ مَّا فَعَلُوْهُ اِلَّا قَلِیْلٌ مِّنْهُمْؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِهٖ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ وَ اَشَدَّ تَثْبِیْتًا وَّ اِذًا لَّاٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ لَّدُنَّاۤ اَجْرًا عَظِیْمًا وَّ لَهَدَیْنٰهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاﭤ ذٰلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰهِؕ-وَ كَفٰى بِاللّٰهِ عَلِیْمًا ۔ (۰۴: ۶۶ تا ۷۰)
ترجمہ: اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے نفوس کو ہلاک کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے۔ حالانکہ جو نصیحت انہیں کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا اور جب یہ ایسا کرتے
۳
تو ہم انہیں اپنی طرف سے بہت بڑا اجر دیتے اور انہیں سیدھا راستہ پر چلاتے۔ جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگو کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیّقین اور شہداء اور صالحین۔ کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔ یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لئے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، جمعہ ، ۲۱ فروری ۲۰۰۳ء
۴
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۳
سوال: حظیرۂ قدس کی عرفانی بہشت میں نورٌعلیٰ نورٍ کا اشارہ کس طرح ہوتا ہے؟
جواب: اس بہشت میں جس طرح آفتابِ نور کا مسلسل طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے اسی میں دیگر بہت سے اشارات کے ساتھ ساتھ نورٌعلیٰ نورٍ کا اشارہ بھی ہے۔
کتاب سرائر ص ۱۱۷ پر مولا علی صلوات اللہ علیہ کے خاص خاص اوصاف میں یہ وصف بھی ہے کہ آپ عالَم میں قدیم ہیں یہ خود مولا علی (ارواحنا فداہٗ) کا تعارفی کلام ہے اس میں معرفت کا سب سے عظیم خزانہ موجود ہے، اور یہی خزانہ خود نورٌعلیٰ نور کی شہادتوں سے بھرا ہوا ہے، جہاں قرآن و حدیث میں مولا علی المرتضیٰؑ کی درخشندہ اور تابندہ تعریفات کو دیکھ کر ہماری آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں وہاں ہم ایسے غریب لوگ شاہنشاہِ ولایت کی کیا توصیف کر سکتے ہیں؟ صرف اتنا کہیں گے، آپ کے غلاموں سے ہماری جان ہزار بار فدا ہو! یا مولا! یا مولا! ہم کو اپنے غلاموں کی غلامی میں رکھنا ! آمین!
سورۂ شوریٰ (۴۲: ۱۱) میں ارشاد ہے: لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ
۵
وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ = کوئی چیز اس کی مثل (یعنی علیؑ) کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔ پس خدا نے علیؑ کو اپنی مثل بنایا ہے اور خدا کی اس لاجواب مثل جیسی کوئی چیز نہیں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، جمعہ، ۲۱ فروری ۲۰۰۳ء
۶
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۴
اربع رسائل اسماعیلیۃ ص ۱۵ پر یہ حدیثِ قدسی درج ہے: عبدی اطعنی اجعلک مثلی حیاً لا تموت و عزیزاً لا تذل و غنیاً لا تفتقر۔
ترجمہ: اے بندۂ من! میری حقیقی اطاعت کر تا کہ میں تجھ کو اپنی مثل بنا دوں گا یعنی ہمیشہ زندہ کہ تو کبھی نہ مرے اور ایسا معزز کہ تو کبھی ذلیل نہ ہو، اور ایسا غنی کہ تو کبھی مفلس نہ ہو جائے۔ یہی حدیثِ قدسی حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو قس کی شہرۂ آفاق کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳ پر بھی مرقوم ہے۔ اس حدیثِ قدسی سے فنا فی الامام کی حقیقتِ عالیہ واضح اور روشن ہو جاتی ہے اور ابوابِ خزائنِ معرفت یکے بعد دیگرے مفتوح ہوتے جاتے ہیں۔
مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے: “انا و محمد نورٌ واحدمن نور اللہ” = یعنی میں اورمحمد اللہ کے نور سے ایک ہی نور ہیں۔
انا صاحب الرجفۃ (۰۷: ۷۸) انا صاحب الآیات (صاحب المعجزات) ۔۔۔۔ و انا النباء العظیم الذی ھم فیہ مختلفون (۷۸: ۰۲ تا ۰۳) ۔۔۔ انا الکتاب ۔۔۔ انا اللوح
۷
المحفوظ و انا القرآن الحکیم ۔۔۔ فآدم ، و شیث، و نوح، و سام و ابراہیم ، واسماعیل ، و موسیٰ ، و یوشع، و عیسیٰ ، و شمعون، و محمد، و انا کلنا واحد۔۔۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، پیر، ۲۴ فروری ۲۰۰۳ء
۸
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۵
سورۂ حٰمٓ السجدہ (۴۱: ۳۰ تا ۳۲) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ-وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَﭤ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۔
ترجمہ: جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ “نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی، یہ ہے سامانِ ضیافت اس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔”
اس آیۂ کریمہ کی باطنی حکمت سمجھنے کے لئے سلسلۂ نورٌ علیٰ نور قسط:۲ کو پھر غور سے پڑھیں کیونکہ اس مبارک ارشاد میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو روحانی قیامت کے زیرِ اثر مر کر زندہ ہو جاتے ہیں ورنہ فرشتوں
۹
کا نزول غیر ممکن ہے۔ آپ جان و دل سے موتوا قبل ان تموتوا کے حکم پر عمل کریں اور اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے اسمِ اعظم کے خزینہ دار سے رجوع کرنا ہو گا، اور وہ امامِ آلِ محمد یعنی امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی ذاتِ با برکات ہے۔
عارفانِ حق کے لئے روحانی قیامت بے حد ضروری ہے جس کے سوا امامِ زمان علیہ السّلام کی اعلیٰ اور کامل معرفت ممکن نہیں، پس روحانی قیامت اللہ کی سنتِ قدیم ہے جس میں کوئی تبدیلی ہرگز نہیں ہوتی ہے۔
موتوا قبل ان تموتوا کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ تم عارفانہ موت کا کلّی تجربہ کر کے معرفت کے عظیم خزانوں کو حاصل کرو اور ابدی طور پر زندہ ہو جاؤ۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی ، منگل ۲۵ فروری ۲۰۰۳ء
۱۰
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط : ۶
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ (۰۲: ۵۱)۔
ترجمہ: یاد کرو، جب ہم نے موسیٰ کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بلایا، تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبود بنا بیٹھے۔ اُس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی۔
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْۤا اِلٰى بَارِ ىٕكُمْ فَاقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىٕكُمْؕ- فَتَابَ عَلَیْكُمْؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (۰۲: ۵۴)۔
ترجمہ: یاد کرو جب موسیٰ (یہ نعمت لئے ہوئے پلٹا، تو اس) نے اپنی قوم سے کہا کہ “لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو، اسی میں تمہارے خالق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے۔” اُس وقت تمہارے خالق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۶۸۸) تمام قرآنِ حکیم اور اس کی ہر
۱۱
آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے چنانچہ بچھڑے کو معبود بنانے کی ایک ظاہری مثال ہے اور ایک باطنی ممثول ہے، ممثول یہ ہے کہ جو لوگ حضرتِ ہارون علیہ السّلام کی نورانی ہدایت سے منہ موڑ کر سامری کی گمراہ کن باتیں سننے لگے تھے اُن کو نہ صرف سامری کا بنایا ہوا سونے کا بچھڑا بہت اچھا لگ رہا تھا بلکہ روحانیّت سے ان کو بچھڑے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی، یہ اُن کی نافرمانی اور ناشکری کا بہت بڑا امتحان تھا۔ لہٰذا حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام نے ان سے اسمِ اعظم کے ذکرِ قلبی کا عہد لیا تا کہ ان پر روحانی قیامت آئے اور ان کے نفوس منزلِ عزرائیلی میں مر کر زندہ ہو جائیں تا کہ اسی طرح ان کی توبہ قبول ہو جائے۔ پس موتوا قبل ان تموتوا ایک اصولی حقیقت ہے۔ جس کی کئی شہادتیں قرآنِ پاک میں موجود ہیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔
نوٹ: روحانیت سے ان کو بچھڑے کی آواز آرہی تھی (۰۷: ۱۴۸، ۲۰: ۸۸)۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی ، بدھ ۲۶ فروری ۲۰۰۳ء
۱۲
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۷
سوال: مسطورِ بالا عنوان کی وجہ سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ امامِ سابق امامِ لاحق میں نور کس طرح منتقل کرتا ہے؟
جواب: پُرنور دعا، پُر نور محبت، پُرحکمت تعلیم، پُر معجزہ اسمِ اعظم ، اور آخراً نص (قطعی حکم) سے، خدا کی قسم حضرتِ امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ کے پاک نور میں کئی انوار ہیں، چنانچہ حضرتِ امامؑ جب جب اپنے فرزندِ دلبند سے غیر معمولی محبت کرتے ہیں تو اس میں نورِ محبت آتا ہے، جب جب خیر خواہی اور دعا فرماتے ہیں تو اس میں نورِ سلامت و کرامت آتا ہے، جب امامؑ اپنے فرزند کو خصوصی تعلیم دیتے ہیں تو اس میں نورِ علم و حکمت آتا ہے، اور جب اسمِ اعظم دیتے ہیں تو اس میں نور الانوار آتا ہے، اسی طرح نورٌ علیٰ نورٍ کے معنی ہر طرح سے درست ہوتے ہیں۔
سوال: آیا عالمِ شخصی میں امامِ زمان کے روحانی بچوں کو سب کچھ مل سکتا ہے؟
جواب: جی ہاں، قرآنِ حکیم کی آیتِ پُرحکمت (۳۱: ۲۰) کو یقین اور شکرگزاری کے ساتھ بار بار پڑھیں، سلسلۂ نورِ امامت کے ارشادات کو کامل عشق و محبت سے پڑھیں، آمین ! ثم آمین!
۱۳
سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) ترجمہ: اللہ وہی ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تا کہ تم کو (غفلت و لا علمی کی) تاریکیوں سے نکال کر نورِ علم و معرفت میں لے آئے، اور خدا تو ایمانداروں پر بڑا مہربان ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ، ۲۶ فروری ۲۰۰۳ء
۱۴
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۸
یہ تاویلی حکمت خوب یاد رہے کہ ہر روحانی قیامت باطنی جنگ بھی ہے، اور دینِ حق کی فتحِ کلی بھی ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم کے چار مقامات پر ارشاد ہے: (۵۸: ۲۱، ۰۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸، ۶۱: ۰۹)۔ روحانی قیامت ، باطنی = روحانی جنگ، اور دینِ حق کی کائنات گیر فتح کا دوسرانام تسخیرِ کائنات بھی ہے۔ پس اللہ جل شانہ نے جس طرح اپنے محبوب رسول کے لئے تسخیرِ کائنات کا سب سے عظیم معجزہ کیا تھا اس کا ذکرِ جمیل قرآن میں جگہ جگہ ہے خصوصاً سورۂ فتح (۴۸: ۰۱) اور سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۲) تاویلی مفہوم: جب اللہ کی مدد اور کائناتی فتح آگئی اور آپ نے دنیا بھر کے لوگوں کو دیکھا جو فوج در فوج خدا کے دین یعنی آپؐ کے عالمِ شخصی میں داخل ہو رہے تھے۔ اس عالمی فتح کے مقام پر آنحضرتؐ خود اللہ کا دینِ مجسّم تھے ۔ اور دنیا بھر کے لوگ روحاً آپ کے عالمِ شخصی میں داخل ہو رہے تھے۔ قصّۂ آدم کی مثال میں گویا یہ سب ذرّاتی فرشتے تھے جو آنحضرتؐ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے گر رہے تھے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، جمعرات ، ۲۷ فروری ۲۰۰۳ء
۱۵
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۹
روحانی قیامت یقیناً اللہ تبارک و تعالیٰ کا انتہائی عظیم الشّان کثیر المقاصد پروگرام ہے جیسا کہ لکھا گیا ہے۔ روحانی قیامت باطنی حرب (جنگ) بھی ہے، تا کہ دینِ حق دیگر ادیان پر غالب ہو، اسی میں تسخیرِ کائنات بھی ہے، جس میں یداللہ (امامِ زمانؑ) کائنات = عالمِ اکبر کو عالمِ شخصی میں لپیٹ دیتا ہے، ایک خاص مقصد آسمانی کتاب کی تاویل ہے۔ (۰۷: ۵۳) اس کا ایک بڑا مقصد خزائنِ معرفت کی نشاندہی ہے۔ ان مقاصد میں عالمِ شخصی کی خلافت بھی ہے۔(۱)
کائناتی بہشت کے حصول میں سب سے سبقت بھی ایک بڑا مقصد ہے (۵۷: ۲۱، ۰۳: ۱۳۳)۔ الخلق عیال اللہ کی تفصیلی معرفت اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کو ہر عالمِ شخصی کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے، ایسی رحمت کی کیا معرفت ہے؟ الغرض بے شمار سوالات کے لئے جوابات ہیں۔
عارف کی فنا فی الامام و بقا با الامام اور حظیرۂ قدس کے اسرارِ عظیم کا مشاہدہ بھی ہے۔
۱۶
۔(۱)۔ نوٹ: خلافت کا حوالہ: (۰۶: ۱۶۵، ۲۴: ۵۵، ۴۳: ۶۰)
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ، ۲۸ فروری ۲۰۰۳ء
۱۷
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۱۰
روحانی قیامت کے کثیر مقاصد میں سے چند مقاصد کی وضاحت کرو۔
سوال: کیا آدمِ سراندیبی شروع شروع میں امامِ زمانؑ کا ایک مستجیب تھا؟ جواب: جی ہاں۔
سوال: آیا امامِ زمان نے آدم کو اسمِ اعظم = ذکرِ اعظم عطا کیا تھا؟
جواب: جی ہاں! وہ اس ذکرِ قلبی میں انتہائی سخت محنت کرتا تھا (کتابِ سرائر ص ۲۲)۔ ہم سنتِ الٰہی اور قانونِ معرفت کی روشنی میں کہتے ہیں کہ آدم پر روحانی قیامت قائم کی گئی تھی اور سب سے پہلے آدم میں روحِ قدسیۂ الٰہیہ پھونک دینے کا عمل صورِ اسرافیل کے پھونکنے سے ہوا، یہاں روحِ الٰہی سے نورمراد ہے آدم میں اسی نور کے داخل ہونے پر تمام فرشتوں کو پہلے ہی سے حکم تھا کہ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو گرتے ہوئے سجدۂ اطاعت کریں اُس وقت حضرتِ آدم کی جسمانی عمر شاید تیس (۳۰) سے کم اور چالیس (۴۰) سے زیادہ نہ ہو۔ آدم کا اصل نام تخوم بن بجلاح بن قوامۃ بن ورقۃ الرویادی تھا۔ قبیلہ کا نام ریاقۃ ۔ ص ۳۱۔۳۲ (سرائر)۔ یہاں سے یہ راز کشف ہوا
۱۸
کہ آدمِ سراندیبی کا جسمانی باپ نہ پیغمبر تھا نہ امام، لہٰذا ان پر سلسلۂ نورٌعلیٰ نور کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے؟
جواب: کتابِ سرائر ص ۲۸ پر مرقوم ہے کہ امام کے حجّت اور لاحق آدم کے (روحانی) والدین تھے جن کے توسط سے امام کا نور آدم کو پہلے سے ملتا رہا تھا۔
پس آدم خلیفۃ اللہ ہر طرح سے سلسلۂ نورٌعلیٰ نورٍ میں ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
ہفتہ، یکم مارچ ۲۰۰۳ء
۱۹
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۱۱
اگر دین کے علم کی کتابیں پڑھ کر اُن پر عمل کرو گے تو ملائک (فرشتے) بن جاؤ گے۔ (کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ کچھ مندرا ۔ ۲۸۔۱۱۔۱۹۰۳ء)۔
جوبچے اچھی طرح اسماعیلی دین کا علم حاصل کریں گے تو وہ اسماعیلی دین پر مستحکم ہو کر چلیں گے اور انہیں دین کا پتا چلے گا۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل۔ زنجبار۔ ۱۶۔۸۔۱۹۰۵ء)
اگر تم دین کے کام میں مدد کرنا چاہتے ہو تو فارسی کتب کے ترجمے کر کے پڑھو اور دین کو مضبوط کرو، دین کے علم میں اضافے کے لئے دوسروں کو مدد دیتے رہو۔ دوسری زبان کی کتابوں کے گجراتی میں ترجمے کر کے دین کو مضبوط اور بچوں کو ہوشیار کرنا۔ (کلامِ امامِ مبین ۔ حصۂ اول۔ بمبئی ۔ ۸۔۳۔۱۹۰۸ء)
جنہیں علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا انہیں روحانی معاملات میں اپنی طرح کرنے کی کوشش کرو (کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ راجکوٹ۔ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء)
تم پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو، اگر تمہیں قرآن شریف سیکھنے کی خواہش ہو تو اُس کے حقیقی معنی جاننے والوں کے شاگرد بنو۔ اس طرح
۲۰
تمہیں اس کے حقیقی معنی معلوم ہوں گے۔ تم خوجوں کو دین کی بہت سی کتابوں کی خبر نہیں ہے اسی لئے زیادہ تر لوگوں نے ایسی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا۔ ایسی کتب پڑھو گے تو تمہیں سمجھ آئے گی اور تم میں خرابی نہیں رہے گی۔ ان کتابوں کے پڑھنے سے تمہاری عقل گواہی دے گی کہ تمہارا دین سچا ہے۔ اس کا تمہیں پتہ چلے گا۔(کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ زنجبار۔ ۱۴۔۹۔۱۸۹۹ء)
دین کی باتیں خط و کتابت سے ایک دوسرے سے منگوانا، جس طرح کاروبار کے لئے خط و کتابت کرتے ہو اسی طرح دین کی مضبوطی کے لئے خط و کتابت کرنا۔ ہمارے وہ مرید جو عرب اور بدخشان وغیرہ میں رہتے ہیں وہ بیوپار کی خط و کتابت کی طرح دین سے متعلق خط و کتابت کرتے ہیں اور دین کے معنی ایک دوسرے کوسمجھاتے ہیں۔ تم بھی اس طرح کرنا۔ ایک ملک کے بھائی دوسرے ملک کے بھائیوں سے خط و کتابت کے ذریعے علم منگوائیں۔ (کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ دارالسلام۔ ۲۷۔۹۔۱۸۹۹ء)
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی
ہفتہ ، یکم مارچ ۲۰۰۳ء
۲۱
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۱۲
بحوالۂ ہزار حکمت ص ۳۸۸۔۳۸۹ اور لغات الحدیث کتاب “ق” ص ۱۴۲: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا = مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اُس کا قالب تھا (صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ، دنیا کا قالب کثیف تھا مگر یہ لطیف اور نورانی ہوتا ہے)۔ یعنی جسمِ لطیف، نورانی بدن، لبوس (۲۱: ۸۰)، برق (۱۳: ۱۲)، سرابیل (۱۶: ۸۱)۔
جب برق سوا ر آیا تب باب کھلا از خود
میں مر کے ہوا زندہ = ہم مر کے ہوئے زندہ
زندانے اُیم یاد جݺ مݹ بیلٹݺ تل آلجم
جنت نکا آر دین نمی زندان لݸ ئیڎم
ترجمہ: زندان کی شیرین یاد اب میں کیسے بھول سکتا ہوں، جبکہ وہ میرے محبوبِ جان میرے لئے بہشت لے کر آئے اور گئے۔
۲۲
واللہ! ہم سب تمام معجزات میں نفسِ واحدہ تھے آپ میں جو آگے آگے ہیں ان سے پوچھیں ۔ قرآن نے فرمایا لفیفاً (۱۷: ۱۰۴) آپ نے مونوریالٹی کو قبول کیا ہے۔ آپ نے مان لیا ہے کہ ایک میں سب ہیں کیونکہ روح ایک ہی ہے۔ جبکہ خدا القابض بھی ہے اور الباسط بھی ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار، ۲ مارچ ۲۰۰۳ء
۲۳
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۱۳
و قد جاء عن رسول اللہ انہ قال: لما خلق اللہ العقل قال لہ: اقبل، فاقبل۔ ثم قال لہ: ادبر، فادبر۔ فقال: عزتی و جلالی ما خلقت خلقاً احب الیّ منک ، بک آخذ، و بک اعطی، و بک اثیبٰ، و بک اعاقب۔ و ان العقل مثل علی آدم فکان ذلک اعلاما من اللہ موکداً ، و امراً منہ مبرماً ، انہ لا یقبل عملاً الا من جھۃ آدم ، لا یثیب و لا یعاقب الا بہ، و آدم فھو لقب واقع علی کل ناطق فی زمانہ ، و کل امام فی عصرہ، اذھم ابواب اللہ وحججٖہ المنصوبون لھدایۃ خلقہ، و لا یقبل عملا الا من جھتھم ، و لا یسمع دعوۃ الا بھم ، و لا یقبل شفاعۃ الا منھم ، و لو کان الامر الی ماذہبت الیہ العامۃ، اہل العمی و الجھالۃ ، و المخالفون الذین ھم عن الحق حائدون، و لا ھوائھم متبعون، و بآرائھم مقتدون ، ان آدم ھو اول النطقاء ، و ابو البشر فقط ھو اسم خاص لہ لما کانت طاعتہ علی احد بعدہ واجبۃ و لا یجب لاحد من اہل الاعصار، و لا علی امم الانبیاء ثواب و لا عقاب، اذ لیس یلزمھم الا طاعۃ ارباب
۲۴
اعصارھم من ناطق و اساس و امام ، و لا وجب ان یکون للدین حدود الا من جھتھم ، اذ کان آدم ھو المخصوص بالعبادۃ و الطاعۃ لہ وحدہ، لکن عما ھم الجھل و رکبھم الضلال فہم صم لا یسمعون، عمی لا یبصرون ، بکم لا ینطقون۔
و ھم غیر مختلفین فی سیرھم و تواریخھم، اذ کان اسم آدم عبداللہ ، و اسم نوح عبدالغفار، و ھٰذا ایضاً لقب۔
فاسم العبودیۃ واقع بکل ناطق و امام، اذ کل النطقاء و الائمۃ من فعل اللہ، و بامر اللہ مخصوصون بالکلمۃ، مصطفون بالتایید المتصل بھم من الحدود التی بینھم و بین اللہ ، فکانوا عبادہ کما قال سبحانہ مخاطباً لابلیس: ان عبادی لیس لک علیہم سلطان۔۔۔ منھم فی الجمع عباد لا عبید، و فی الانفراد عبد، و انما کان اسم آدم المخصوص بہ تخوم بن بجلاح بن قوامۃ بن ورقۃ الرویادی۔ بحوالۂ کتاب سرائر و اسرار النطقاء ص ۳۰۔۳۱۔
اتوار ، ۲ مارچ ۲۰۰۳ء
۲۵
ترجمۂ قسط: ۱۳
رسول اللہ سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: “جب خدا نے عقل کو پیدا کیا۔ تو اس سے فرمایا: آگے آ جا تو آگے آ گئی، پھر اس سے فرمایا: پیچھے جا تو پیچھے گئی۔ پھر فرمایا: میری عزّت و جلالت کی قسم! میں نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو تجھ سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ تیرے ذریعے سے میں لے لوں گا اور تیرے ذریعے سے میں دے دوں گا۔ تیرے ذریعے سے میں ثواب دے دوں گا اور تیرے ذریعے میں عذاب دے دوں گا۔” یقیناً عقل ایک مثال ہے آدم کی۔ اور یہ خدا کی طرف سے ایک تاکیدی اعلان اور حتمی امر تھا کہ وہ کوئی عمل قبول نہیں کرے گا سوائے آدم کی جانب سے (یعنی آدم کے ذریعے سے) اور نہ کوئی ثواب و عقاب دے گا سوائے اس کے ذریعے سے۔ آدم ایک لقب ہے جو ہر ناطق اور ہر امام پر اپنے اپنے زمانوں میں واقع ہوتا ہے کیونکہ وہ خدا کے ابواب و حجج ہیں جن کو خدا نے اپنے مخلوق کی ہدایت کے لئے مقرر فرمایا ہے وہ نہ کوئی عمل قبول کرتا ہے سوائے ان کی جانب سے نہ کوئی دعا سنتا ہے سوائے ان کے ذریعے سے اور نہ کوئی شفاعت قبول کرتا ہے سوائے ان کی جانب سے۔ اس کے برعکس اگر یہ امرِ واقعی ایسا ہوتا جیسا کہ عوام جو اندھے اور جاہل ہیں اور مخالفین جو حق
۲۶
سے الگ ہوئے ہیں اور جو اپنی خواہشات کی پیروی اور اپنے آراء کے پیچھے چلتے ہیں میں نے سمجھا ہے کہ آدم صرف ناطقِ اول اور ابو البشر کا اسمِ خاص تھا تو اس (آدم) کے بعد کسی پر خدا کی اطاعت واجب نہ ہوتی اور نہ اپنے اپنے زمانوں میں لوگوں میں سے کسی پر اور انبیاء کے امتیوں میں سے کسی پر کوئی ثواب و عقاب لازم آتا کیونکہ خدا کی اطاعت صرف اپنے اپنے زمانے کے ارباب جیسے ناطق، اساس، اور امام کے ذریعے لازم ہوتی ہے اور نہ دین میں ان کی طرف سے کوئی حدود ہوتے اگر خدا کی عبادت و اطاعت کے لئے صرف آدم اکیلے ہی مخصوص ہوتے، لیکن جہالت نے ان کو اندھا کر دیا ہے اور گمراہی ان پر سوار ہو گئی ہے۔ اس لئے وہ بہرے ہیں سنتے نہیں، اندھے ہیں دیکھتے نہیں اور گونگے ہیں بولتے نہیں۔ اور وہ نہ اپنی سیر و تواریخ پر چلتے ہیں کیونکہ آدم کا نام عبداللہ ، نوح کا عبد الغفار تھا اور یہ نام بھی ایک لقب ہے کیونکہ اسمِ عبودیت ہر ناطق اور ہر امام پر واقع ہوتا ہے کیونکہ ناطق اور امام خدا کے فعل سے ہیں اور خدا کے امر سے کلمہ کے ساتھ مخصوص ہیں اور وہ تائید کے ساتھ برگزیدہ ہیں جو ان کے ساتھ متصل ہے ان حدود سے جو خدا اور ان کے درمیان ہیں۔ وہ خدا کے بندے ہیں جیسا کہ خدا ابلیس سے مخاطب فرماتا ہے۔ ان عبادی لیس لک علیہم سلطٰن۔ (۱۵: ۴۲، ۱۷: ۶۵) ۔ پس صرف جمع میں عباد ہیں عبید نہیں اور مفرد صورت میں عبد ہیں آدم کا اسمِ خاص تخوم بن بجلاح بن قوامۃبن ورقۃالرویادی ہے۔
ترجمہ: از ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد ہونزائی بحر العلوم
اتوار ، ۲ مارچ ۲۰۰۳ء
۲۷
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۱۴
کتابِ کوکبِ دری بابِ دوم منقبت : ۹۸ میں یہ حدیثِ شریف مرقوم ہے:
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے چہرۂ مبارک کے نورسے ستر ہزار فرشتے پیدا کئے ہیں۔
تاویلی حکمت: اس کا اشارہ یہ ہے کہ جب امامِ زمانؑ عالمِ شخصی میں روحانی قیامت قائم کرتا ہے تومنزلِ عزرائیلی میں خدا کے حکم سے ستر ہزار حقیقی ایمانداروں کو فرشتے بناتا ہے کیونکہ کامل ایمانی روحوں سے فرشتے بنتے ہیں، اور ایسا ہر فرشتہ ایک عالمِ شخصی، ایک کائناتی بہشت، ایک خلافت = سلطنت اور اس میں ایک بادشاہ ہوتا ہے۔
علی کے چہرۂ مبارک کے نور سے نورِ معرفت مراد ہے کیونکہ چہرہ پہچان یعنی معرفت کی علامت ہے اور مولا کا یہ ارشاد: انا وجہ اللہ =میں اللہ کا چہرہ ہوں یہ اشارہ کرتا ہے کہ آپ ہی اللہ کی معرفت ہیں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، اتوار ، ۲ مارچ ۲۰۰۳ء
۲۸
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۱۵
سلسلۂ نسبِ نبیؐ:
شجرۂ نسبِ محمد رسول اللہ (رحمتِ عالم) صلی اللہ علیہ و آلہ ابنِ عبد اللہ ابن عبد المطلب (عامر) شیبۃ الحمد سید الوادی ابن ہاشم (عمرو) ابن عبد مناف (قمر البطحاء) ابن قصی (مجمِّع) ، ابن کلاب ابن مرۃ ابن کعب ابن لوی ابن غالب ابن فھر ابن مالک ابن نضر (قریش) ابن کنانہ ابن خزیمہ ابن مدرکہ (عامر= عمرو) ابن الیاس (سید العشیرہ) ابن مضر ابن نزار ابن معد ابن عدنان ابن اد ابن ادد ابن الھمیسع ابن نبت ابن سلامان ابن حمل ابن قیذار ابن اسماعیل ابن ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ابن تارُخ (حجتِ امام) آذر حضرتِ ابراہیم کی والدہ کا باپ تھا (سرائر ص ۶۷)۔ از سیرۃ النبی اردو (علامہ شبلی نعمانی) رحمت عالمیان، فارسی (فضل اللہ)۔
نورٌعلیٰ نور قرآنِ حکیم کے روشن معجزات میں سب سے روشن معجزہ ہے، جس میں تمام آیاتِ نور کی حکمتیں مرکوز ہیں۔
ہمارے نزدیک قرآنِ حکیم کے ظاہر و باطن میں سر تا سر نورٌعلیٰ
۲۹
نور کا مضمون پھیلا ہوا ہے۔ اگر عالمِ شخصی میں چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو وہاں بھی نورٌعلیٰ نور کا نظام جاری ہے۔
کتابِ سرائر ص ۲۰۰ پر ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہو گزرے ہیں، ہزار حکمت ص ۸۰ ملاحظہ ہو یہ نورٌعلیٰ نور کا الٰہی نظام ہے۔
اگرچہ بتقاضائے زمان و مکان انبیاءعلیہم السّلام الگ الگ تھے لیکن عالمِ شخصی میں ان سب کا اور ائمہ علیہم السّلام کا نور ایک ہوتا ہے کیونکہ نور کی خاصیّت وحدانیّت ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۳ مارچ ۲۰۰۳ء
۳۰
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۱۶
سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) کا ترجمہ ہے: اے ایماندارو! خدا سے ڈرو (جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے) اور اس کے رسول (محمد) پر (حقیقی معنوں میں) ایمان لاؤ تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصے (یعنی ظاہر و باطن اور دنیا و آخرت میں) اجر عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور مقرر کرے گا (یعنی امامِ زمان کی معرفت کا نور) جس کی نورانیت میں تم (عالمِ شخصی میں) چلو گے، اور تم کو بخش بھی دے گا اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ عالمِ شخصی میں چلنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ قرآنِ عزیز میں جہاں جہاں نور کے عظیم مقاصد مذکور ہیں ان کا حصول صرف اور صرف عالمِ شخصی ہی میں ممکن ہے، جیسے ارشادات ہیں: (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) ۔ اس ارشاد میں نور کا مقصد کتابِ مبین کی حکمتِ بالغہ، صراطِ مستقیم کی ہدایت، منزلِ مقصود =حظیرۂ قدس، حیاتِ سرمدی، بعد از فنا فی الامام، اور ادوار و اکوار میں سلامتی کی راہوں میں چلنا ہے اور فرشتۂ رضوان ہو جانا بہشت سے بھی بہت بڑا درجہ ہے (۰۹: ۷۲) بموجبِ ارشاد (۰۶: ۱۲۲) نور کا ایک عظیم مقصد لوگوں میں چلنا بھی ہے، اس کے معنی ہیں فنا فی الامام کے بعد کے بہت سے معجزات ۔
۳۱
آئینۂ حق نما (رباعی)
ای نسخۂ نامۂ الٰہی کہ توی
وی آئینۂ جمالِ شاہی کہ توی
بیرون ز تو نیست ہر چہ در عالم ہست
در خود بطلب ہر آنچہ خواہی کہ توی
ترجمہ: اے کتابِ الٰہی کا نسخہ! (یعنی خدائی کتاب کی اصل) کہ یہ تو خود ہی ہے، اور اے حقیقی بادشاہ کے جلال و جمال کا آئینہ! کہ یہ تو خود ہی ہے ، کائنات میں جو کچھ ہے وہ (اپنی باطنی اور روحانی صورت میں) تجھ سے باہر نہیں (پس) تو جو کچھ چاہتا ہے وہ اپنے باطن (یعنی اپنی ذات) ہی میں طلب کر لے (کیونکہ سب کچھ) تو خود ہی ہے۔
تشریح: انسان کی ازلی و ابدی حقیقت کیا ہے؟ اس کے روحانی اور عقلی مراتب کی بلندی کہاں تک ہے؟ اور صفاتِ انسانیہ کا درجۂ کمال کیا ہے؟ یہ سب کچھ جاننے کے لئے انسانِ کامل کی معرفت و شناخت لازمی قرار دی گئی ہے، کیونکہ وہی مکمل فرد انسانیت کے درجۂ منتہا کا نمونہ ہے اور وہی شخص آدمیّت کے اس اعلیٰ ترین مقام پر کھڑا ہے جو بشریت کے عروج و ارتقاء کا آخری زینہ ہے، چنانچہ انسان ایسے ہی مرتبے پر پہنچ کر کتابِ مبین یعنی بولنے والی کتاب کا مرتبہ حاصل کر سکتا ہے، وہ یقیناً
۳۲
ربِّ عزّت کے جمال و جلال کا آئینہ بن جاتا ہے، اور فعلاً عالمِ صغیر کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس کی بہترین عکاسی مولای رومی کی مذکورہ رباعی میں موجود ہے، اس وقت ایسے روشن ضمیر مومن میں کیا کیا نہیں ہوتا، سب کچھ ہوتا ہے سب کچھ، وہ اپنے آپ میں کلّی بہشت بن چکا ہوتا ہے اور بہشت میں تمام نعمتیں موجود اور مہیا ہوتی ہیں۔
بحوالۂ کتاب گلشنِ خودی، ص ۶۵۔۶۶
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل ، ۴ مارچ ۲۰۰۳ء
۳۳
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط:۱۷
یارقند میں ایک روحانی نے مجھے تاویلی زبان میں بتایا تھا کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر (۰۷: ۵۴) کے درمیان چھ کروڑ سال کا دائرہ ہے۔ ایک دن حضرتِ قائم صلوات اللہ علیہ نے قرآنِ حکیم (۳۶: ۶۸) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاویلاً فرمایا کہ میں اُس دائرے سے ہوکر آیا ہوں۔
محمد دارا بیگ مرحوم نے میر غزان خانِ ثانی کے حوالے سے بتایا تھا کہ کسی خاص مرید نے حضرتِ مولانا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ سے پرنس نامدار کے درجہ کے بارے میں سوال کیا تو مولا نے صرف یہ جواب دیا کہ میرا بیٹا مجھ سے بھی زیادہ بوڑھا ہے۔ نہ معلوم میں نے کیوں اپنے مولا سے یہ درخواست کی، کہ یا مولا میرے موجودہ جسم کی جگہ بہتر جسم عطا ہو، مولانے فرمایا کہ وہ صرف ایک ہی ہے، جو اس وقت شہزادہ علی سلمان خان کے پاس ہے۔ اب میں کہہ سکتا ہوں کہ اس پاک فرمان میں زبردست حکمت ہے۔
جب میں آخری بار قید تھا اس دوران ایک شام کو دروازہ معجزانہ طور پر کھل کر بند بھی ہوا اور سامنے نورانی بدن = جثّۂ ابداعیہ میں حضرت قائم القیامت صلوات اللہ علیہ کا نورانی ظہور ہوا مجھے ادراک ہو گیا کہ میں چشمِ
۳۴
زدن میں مر کر زندہ ہو گیا، نہ گرا نہ بے ہوش ہوا، مگر چہرۂ نور کو دیکھنے سے میری نگاہ عاجز تھی چند سیکنڈوں میں تشریف مبارک واپس گئی دروازہ خود بخود کھل کر بند ہو گیا۔ ایسے ظہورِ نورانی میں اگرچہ کلام کا قانون تو نہیں ہے، لیکن اشاراتِ پُرحکمت بالکل یاد ہیں جن میں اسرارِ معرفت کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے، ان شاء اللہ موقع پر آپ کو بتائیں گے۔ میں ایک دن گھر میں تھا کہ حضرتِ قائم (روحی فداہٗ) نے معجزۂ ظہور کے بغیر صرف معجزۂ کلام میں فرمایا میرے لئے گھوڑے کو تیار کرو میں یارقند شہر جاتا ہوں میں نے حکم کی تعمیل کی اور کچھ دیر تک انتظار کیا، پھر ارشاد ہوا کہ بس اب مجھے شہر میں جانا نہیں ہے۔ اس پُرحکمت فرمان میں عجیب و غریب اسرار تھے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ، ۵ مارچ ۲۰۰۳ء
۳۵
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۱۸
اللہ کی تاویل امامِ زمان (ارواحنا فداہٗ) ہے، اس حقیقت پر ہم اور آپ سب جان و دل اور عشق و محبت سے کلّی اور کامل یقین رکھتے ہیں، لہٰذا توجہ فرمائیں، کہ ہم قرآنِ حکیم میں اس حقیقتِ جامعہ کی کوئی روشن مثال دیکھتے ہیں:
سورۂ شوریٰ (۴۲: ۵۱) کا ارشاد ہے: وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِهٖ مَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ عَلِیٌّ حَكِیْمٌ
ترجمہ: کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے روبرو بات کرے، اس کی بات یا تو وحی (اشارہ) کے طور پر ہوتی ہے ، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جوکچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے، وہ علی اور حکیم ہے۔
تاویل: حضرتِ امام باقر علیہ السلام کا ارشادِ مبارک عاشقوں کے لئے ناقابلِ فراموش ہے: “ما قیل فی اللہ فھو فینا۔” پس مذکورہ آیت تاویلاً امامِ مبین کی شان میں ہے کہ جب عاشق کو اس کا نورانی دیدار ہوتا ہے تو اس حال میں دیدار اور کلام ایک ساتھ نہیں ہوتا ہے جبکہ
۳۶
یہ پاک دیدار بطورِ وحی (اشارہ) سب سے جامع کلام بلکہ عظیم اشاراتی کتاب ہے، پھر بھی ظہورِ معجزہ کی غرض سے ایک نورانی حجاب کے پیچھے سے کلام ہوتا ہے، آپ یہاں لفظ وحی (اشارہ) کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیں، تاہم آپ کی آسانی کی خاطر ہم مزید کوشش کریں گے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات، ۶ مارچ ۲۰۰۳ء
۳۷
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۱۹
سورۂ مریم (۱۹: ۱۱) فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا۔
ترجمہ: چنانچہ وہ (زکریا) محراب سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آیا اور اس نے “اشارے” سے ان کو ہدایت کی کہ صبح و شام تسبیح کرو۔
یہاں قرآن کے حوالے سے یہ بتانا ضروری ہوا کہ وحی کے اصل معنی ہیں، اشارہ، اور اشارہ کئی طرح کا ہوتا ہے۔ پس حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم صلوات اللہ علیہما کے پاک نورانی دیدار میں انتہائی عظیم اشارے تھے اور ہیں۔ ان نورانی ظہورات، معجزات، اور اشارات کی تاویلی حکمت بیان کرنا امامِ زمان اسمِ اعظمِ مجسم، ولیٔ امر، آلِ رسول، نورِعلی، ہادیٔ برحق (روحی فداہٗ) کی اجازت اور تائید کے بغیر ممکن نہیں۔
سوال: دروازہ کھل جانے کا معجزہ کیوں ناقابلِ فراموش ہے؟
جواب: کیونکہ قرآن و حدیث اور کتبِ دینی میں “باب” (دروازہ) ایک بڑا اہم مضمون ہے۔ مثلاً اللہ کا باب = دروازہ رسول ہے، رسول کا باب اساس ہے، اساس کا باب امام، امام کا باب حجّتِ اعظم، جس کا باب حجتِ جزیرہ، اور اس کا باب داعی، قس علیٰ ہٰذا۔
۳۸
اگر آپ قرآنِ عزیز میں باب اور ابواب کا پُرحکمت مضمون پڑھنا چاہتے ہیں، تو ان حوالہ جات سے رجوع کریں: المعجم (قرآنی انڈیکس) مادّہ: ب و ب ، ص ۱۳۹۔۱۴۰۔ (۰۲: ۵۸)، (۰۵: ۲۳)، (۰۷: ۱۶۱)، (۱۳: ۲۳)، (۵۷: ۱۳)، (۱۵: ۱۴)، (۰۷: ۴۰)، (۳۸: ۵۰)، (۰۲: ۱۸۹)، (۳۹: ۷۳)۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ ، ۷ مارچ ۲۰۰۳ء
۳۹
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۲۰
سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) ارشاد ہے: وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ ترجمہ: اور زمین میں یقین داروں کے لئے نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے ہو؟ آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔
تاویلی حکمت: کتابِ کوکبِ دری بابِ سوم ، منقبت ۸۰ میں مولا علی صلوات اللہ علیہ کا تعارفی کلام ہے:
انا اٰیات اللہ و امین اللہ۔ یعنی میں اللہ کے معجزات اور اس کا امین ہوں۔
پس زمین میں آیات و معجزات امامِ زمان علیہ السّلام کا ظہور ہے، جس کی معرفت علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین والوں کو حاصل ہے، اور یہی معجزات تمہارے عالمِ شخصی میں بھی ہیں۔ اور آسمان یعنی حظیرۂ قدس میں تمہارا علمی رزق اور عرفانی بہشت ہے۔
سورۂ اعراف (۰۷: ۴۰) ترجمۂ آیت : جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، اور ان کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بڑا قرار دیا یعنی أئمّۂ
۴۰
آلِ محمد کو جھٹلایا اور کہا کہ ہم بڑے عالم ہیں۔ پوری آیت کو پڑھ لیں۔
آپ خوب سوچ کر بتائیں کہ اللہ کی کون سی آیات جھٹلائی جاتی ہیں؟
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
ہفتہ، ۸ مارچ ۲۰۰۳ء
۴۱
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۲۱
کتابِ سرائر ص ۲۴۳ ، دعائم الاسلام عربی ص ۲۵، وجہِ دین ص ۳۴۳ اور ہزار حکمت ص ۶۸۔۷۶ ملاحظہ ہو: حدیثِ شریف ہے: من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ۔ جو شخص مرجائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت جاہلیت کی سی موت ہوگی۔ (لغات الحدیث، جلد چہارم، باب المیم مع الواو)۔
امام شناسی کے تین درجے ہیں: علم الیقین، عین الیقین ، حق الیقین۔
حدیثِ شریف ہے: من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ و الجاہل فی النار۔ جو شخص مر جائے در حالے کہ اس نے امامِ زمان کو نہیں پہچانا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مر جاتا ہے اور جاہل کا ٹھکانہ آتش (دوزخ) ہے (کتابِ وجہِ دین، گفتار ۳۶) یہ اس لئے ایسا ہے کہ خدا و رسول کے بعد صاحبِ امر (امام زمان) کی اطاعت فرض ہے تا کہ علم و معرفت کا گنجِ گرانمایہ حاصل ہو۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ و من اطاع الامام فقد
۴۲
اطاعنی و من عصی الامام فقد عصانی۔ آنحضرت نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امام کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (سنن ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، کتاب الجہاد، باب ۳۹، طاعۃ الامام)۔
ارشادِ نبوی ہے: من مات بغیر امام مات میتۃ جاہلیۃ ۔ جو شخص مر جائے امام (کی اطاعت) کے بغیر اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔ (مسند احمد بن حنبل، ۵، حدیث ۱۶۴۳۴)۔ المستدرک ، الجزء الاوّل، ۲۵۹/۲۵۹ میں بھی دیکھ لیں۔
(دعائم الاسلام ، المجلد الاول، کتاب الولایۃ ، ذکر ولایۃ الائمہ کے حوالے سے) حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے رسولِ خدا کے اس ارشادِ گرامی کے بارے میں فرمایا: من مات لا یعرف امام دھرہٖ مات میتۃ جاہلیۃ۔ جو شخص مر جائے در حالے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانتا ہے تو وہ (زمانۂ ) جاہلیت کی سی موت میں مر جاتا ہے۔ صادقِ آلِ محمد نے فرمایا کہ امامِ زمانہ سے زندہ امام مراد ہے۔
امام جعفر الصادق نے خداوندِ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں فرمایا : یوم ندعوا کل اناس بامامھم (۱۷: ۷۱) جس دن کہ ہم ہر ایک جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے، آپ نے فرمایا کہ اس سے ہر زمانے کا امام مراد ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، اتوار، ۹ مارچ ۲۰۰۳ء
۴۳
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۲۲
سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) ارشاد ہے: وَ لَقَدْ جِئْنٰهُمْ بِكِتٰبٍ فَصَّلْنٰهُ عَلٰى عِلْمٍ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۔ ترجمہ: اور ہم ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کوہم نے ایک (خاص) علم (یعنی علمِ تاویل) کی بناء پر مفصل بنایا ہے، اور جو ایمانداروں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَهٗؕ-یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُهٗ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ نَسُوْهُ مِنْ قَبْلُ۔۔۔ ترجمہ: کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور واقعہ کے منتظر ہیں جبکہ (صرف) اس کتاب (قرآن) کی تاویل (روحانی قیامت کی صورت میں) آنے والی ہے جس دن تاویل بشکلِ روحانی قیامت آ گئی تو وہی لوگ جنہوں نے پہلے اسے نظر انداز کر دیا تھا کہیں گے۔۔۔
ہزار حکمت = تاویلی انسائیکلوپیڈیا: ح: ۶۸۸ ملاحظہ ہو، چنانچہ قرآن کا یقیناً ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، پس قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں قیامت کا کوئی ذکر آیا ہے لازماً اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، لیکن کسی کو نہ تو قرآن کے باطن کا علم ہے اور نہ ہی قیامت کے باطن کی خبر ہے، سوائے امامِ آلِ محمد کے کہ وہی امامِ مبین (۳۶: ۱۲) اور مؤولِ قرآن ہے۔
۴۴
پس جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق مؤولِ قرآن سے رجوع کیا اور اس کی معرفت حاصل کر لی تو اسی معرفت کے ساتھ ساتھ روحانی قیامت اور قرآنی تاویل کی معرفت بھی ان کو حاصل ہوئی۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۱۰ مارچ ۲۰۰۳ء
۴۵
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۲۳
کتابِ کوکبِ دری بابِ سوم منقبت ۸ میں مولا علی صلوات اللہ علیہ کا تعارفی کلام ہے: انا اللوح المحفوظ۔ یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) یقیناً امامِ مبین علیہ السّلام (۳۶: ۱۲) لوحِ محفوظ ہے۔ منقبت ۳۴۔ مولا (روحی فداہٗ) کے معجزات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہے، مثلاً: اگر دنیا کے تمام لوگوں پر بہشت جیسا روحانی دور آئے جس میں امامِ مبین علیہ السّلام کو سارے انسانوں سے کلام کرنا چاہیے تو امام جو مظہر العجائب ہے وہ معجزانہ طور پر بیک وقت سب لوگوں سے ان کی زبان میں ایسا کلام کرے گا کہ ہر شخص یہ خیال کرے گا کہ حضرتِ امام علیہ السّلام نے صرف اسی سے کلام کیا۔ اس حیران کن معجزے کا سرِّ اعظم یہ ہے کہ امامِ عالی مقام کے نزدیک روح صرف ایک ہی ہے۔
منقبت ۳۳ میں ارشاد ہے: انا الذی عندی الف کتاب من کتب الانبیاء ۔ یعنی میں ہوں وہ شخص جس کے پاس انبیاءعلیہم السّلام کی کتابوں میں سے ہزار کتابیں موجود ہیں۔ جاننا چاہئے کہ ہر پیغمبر کی اصل کتاب ابتداءً نورانیت اور ام الکتاب یعنی لوحِ محفوظ میں ہوتی ہے، اور یقیناً معلوم ہے کہ علی ہی ام الکتاب بھی ہے اور لوحِ محفوظ بھی، پس اس
۴۶
میں کوئی شک ہی نہیں کہ انبیاء کی ہزار کتابیں امامِ مبین میں لپیٹی ہوئی موجود ہیں۔ ان میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہے، وہ نورٌعلیٰ نور کے اصول پر یکجا اور ایک ہیں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل ، ۱۱ مارچ ۲۰۰۳ء
۴۷
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۲۴
حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا پرحکمت ارشاد ہے:
(منقبت ۲۷) انا الساعۃ التی لمن کذب بھا سعیرا (۲۵: ۱۱) یعنی میں وہ روحانی قیامت ہوں کہ جو شخص اُس کو جھٹلائے اور اس کا منکر ہو، اس کے لئے دوزخ واجب ہے، یعنی دوزخِ جہالت و نادانی۔ کیونکہ جب امامِ زمان علیہ السّلام روحانی قیامت ہے تو اسی میں علم و معرفت کے تمام خزانے ہیں، اور جو شخص امامِ زمان کی تکذیب کرے تو یہ دراصل روحانی قیامت ہی کی تکذیب اور علم و حکمت اور معرفت سے انکار اور خود بخود دوزخِ جہالت و نادانی میں گرفتاری ہے۔
قرآن (۱۰: ۴۴) کا ارشاد ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْــٴًـا وَّ لٰـكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ۔ ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا، لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔
منقبت ۱۲ میں مولا کا ارشاد ہے: انا اٰدم الاوّل انا نوح الاوّل۔ یعنی میں ہوں آدمِ اوّل ، میں ہوں نوحِ اوّل۔ سوال: اس آدمِ اوّل سے کس دور کا آدم مراد ہے؟ جواب: مولا کے کلام میں بے پایان اشارے ہوتے ہیں، لہٰذا بے پایان ادوار و اکوار میں نورٌعلیٰ نور کی سنتِ
۴۸
الٰہی کے مطابق آدموں کا قدیم سلسلہ ہو سکتا ہے، جبکہ مولانے خود فرمایا کہ میں عالم میں قدیم ہوں یعنی ہمیشہ ہوں، سرائر ص ۱۱۷۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ ، ۱۲ مارچ ۲۰۰۳ء
۴۹
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۲۵
کلامِ مولا (ارواحنا فداہٗ) منقبت ۲۸ : انا ذالک الکتاب لا ریب فیہ۔ یعنی میں اللہ کی وہ کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲ = ۴۵: ۲۹) ہوں، جس میں کوئی ریب و شک نہیں (۰۲: ۰۱ تا ۰۲)۔
الف لام میم = عقلِ اوّل، لوحِ محفوظ، کتابِ مرقوم = امامِ مبین = امام زمان علیہ السّلام۔
کلامِ مولا (ارواحنا فداہٗ) منقبت ۲۹: انا الاسماء ُ الحسنی التی امر اللہ ان یدعیٰ بھا۔ یعنی میں خدا کے وہ اسماء حسنیٰ (اسماءِ عظام) ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ انہی با عظمت و با برکت ناموں سے اس کو پکارا جائے۔ القرآن (۰۷: ۱۸۰)۔
کلامِ مولا (روحی فداہٗ) منقبت ۴۲: انا ولی اللہ فی الارض و المفوض الیہ امرہ و احکم فی عبادہ۔ یعنی میں زمین میں خدا کا ولی ہوں، اور امرِ خدا میرے سپرد کیا گیا ہے، اور میں اس کے بندوں میں حکم کرتا ہوں۔
عشاق سے میں اُس کے قربانِ مسلسل ہوں۔ مولائے پاک کا کلام ہے: منقبت ۹۷: انا الذی عندی اثنان و سبعون اسما من
۵۰
العظام۔ یعنی میں وہ شخص ہوں کہ میرے پاس اسمائے اعظمِ الٰہی سے بہتّر (۷۲) اسم ہیں۔
جب برق سوار آیا تب باب کھلا از خود
ہم (تمام ساتھی) مر کے ہوئے زندہ جب شاہِ شہان آیا
کلامِ مولا منقبت ۹۸ میں مولا کے پاس برقی بدن = جثۂ ابداعیہ ہونے کا ذکر ہے جس کا درست ترجمہ یہ ہے: اور میں وہ شخص ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ایک چشمِ زدن میں مشرق اور مغرب یعنی تمام روئے زمین کا مالک بناتا ہے یعنی سارے جہان کی سیر کراتا ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ ، ۱۲ مارچ ۲۰۰۳ء
۵۱
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۲۶
بحوالۂ کتابِ کوکبِ دری ص ۶۱: مولا علی صلوات اللہ علیہ کا تعارفی کلام ہے: انا وجہ اللہ، انا جنب اللہ، انا ید اللہ، انا عین اللہ ، انا القرآن الناطق، و انا البرہان الصادق، و انا اللوح المحفوظ، انا القلم الاعلیٰ، انا آلٓمٓ ذٰلک الکتاب، انا کٓھٰیٰعٓصٓ (۱۹: ۰۱)، انا طٰہٰ ، انا حاءُ الحوا میم، و انا طاءُ الطواسین، انا الممدوح فی ہل اتیٰ ، و انا النقطۃُ تحت الباءِ (بسم اللہ)۔
ترجمہ: میں وجہ اللہ ہوں، میری طرف متوجّہ ہونا خدا کی طرف رخ کرنا ہے، میں جنب اللہ ہوں مجھ تک پہنچنا خدا کے پہلو میں بٹھاتا ہے اور منتہائے قرب پر پہنچاتا ہے، میں یداللہ =دستِ خدا ہوں، جو کچھ وہ کرتا ہے مجھ سے کرتا ہے، جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے میرے ہاتھ سے ہوتا ہے، اور میں کرتا ہوں اس کا کہلاتا ہے، میں عین اللہ ہوں، اس کی آنکھ سے عالم کو دیکھتا ہوں، اور دنیا میرے لئے ایسی ہے جیسے کہ آنکھ کے سامنے تل (ذرہ)، میں قرآنِ ناطق ہوں، اور برہانِ صادق ہوں، میرا وجود حق اور دلیلِ وجودِ حق ہے۔ میں حاملِ اسرارِ الٰہی = لوحِ محفوظ ہوں، میں ہی قلمِ اعلیٰ ہوں، جو کچھ صفحاتِ عالمِ امکان پر قدرت نے رقم کیا ہے
۵۲
وہ مجھ سے رقم کیا ہے (اول ما خلق اللہ القلم) میں آلٓمٓ ذالک الکتاب ہوں، کتابِ فعلی اور کتابِ قولی دونوں میرے وجودِ حقیقی ہیں، میں ہی کٓھٰیٰعٓصٓ ہوں، اور میں ہی طٰہٰ ، میں ہی حاءُالحوامیم ہوں، اور میں راسِ طواسین ہوں، میں ممدوح ہل اتٰی ہوں اور میں نقطۂ تحتِ باءِ بسم اللہ ہوں، جس میں کل کتاب جمع ہے۔
نصیرالدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات ، ۱۳ مارچ ۲۰۰۳ء
۵۳
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۲۷
حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی اصل توراۃ امامِ زمانؑ کی باطنی نورانیت ہی میں تھی جس کو کاغذی کتاب میں محدود قرار دینے پر قرآن اعتراض کرتا ہے (سورۂ انعام، ۰۶: ۹۱) نیز سورۂ ہود (۱۱: ۱۷) میں دیکھیں کہ خود امامِ زمانؑ ہی حضرتِ موسیٰ کی نورانی اور اصل کتاب ہے، ورنہ کاغذی صامت توراۃ کس طرح امام ہو سکتی ہے جس پر قرآن کو اعتراض ہے (۰۶: ۹۱)۔
سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ: اور ہم ہی نے یقیناً موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور نور اور ذکر عطا کیا تھا۔
اس آیۂ مبارکہ میں اہلِ بصیرت کے لئے بڑی عجیب و غریب حکمتیں ہیں کہ اللہ کے یہ عظیم احسانات، فرقان= آسمانی کتاب، نور ، اور ذکر = اسمِ اعظم، اگرچہ موسیٰ اور ہارون علیہما السّلام کے لئے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ پرہیزگاروں کے لئے بھی ہیں، اور ہم یہ جانتے ہیں کہ حضرتِ ہارون امام بھی تھا ، وزیرِ موسیٰ بھی اور کتابِ ناطق یعنی نورانی توراۃ بھی۔
سورۂ انعام (۰۶: ۰۷ تا ۰۹) کو غور سے پڑھیں ، اگر کوئی بھی آسمانی کتاب کاغذ میں لکھی لکھائی صورت میں نازل ہوتی تو لوگ کیا کہتے ؟ اگر
۵۴
خدا اپنی کتاب کی روح اور نور کو ایک فرشتہ بنا کر نازل کرتا تو وہ فرشتہ کس مخلوق کی صورت پر ہوتا؟ اس کا قرآنی جواب محولہ آیت میں موجود ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ، ۱۴ مارچ ۲۰۰۳ء
۵۵
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۲۸
جس طرح حدیثِ شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہو گزرے ہیں، یہ نورٌعلیٰ نور کی ایک ایسی واضح اور روشن دلیل ہے کہ اس سے کوئی بھی دانشمند انکار نہیں کر سکتا ہے، اور یہاں آپ حدیثِ بنی عبد المطلب کو بھی یاد کریں، اس میں یہ مبارک کلمات بھی ہیں: ان اللہ لم یبعث نبیا الا جعل لہ وصیا و وزیرا و وارثا و اخا و ولیا۔ بحوالۂ کتابِ دعائم الاسلام عربی، حصۂ اول، ص ۱۵۔۱۶۔
ترجمہ: یقیناً اللہ نے کسی پیغمبر کو مبعوث نہیں کیا مگر خدا نے اُس کے لئے، ایک وصی، ایک وزیر، ایک وارث، ایک بھائی، اور ایک ولی کو مقرر کیا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرتِ امام علیہ السلام کے ظہور کا سلسلہ نہ صرف دورِ امامت میں جاری رہتا ہے، بلکہ دورِ نبوّت میں بھی امامِ عالی مقام کا نور ہر نبی کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث کی حکمت سے ظاہر ہے۔
جب ہم کتابِ کائنات کا مطالعہ کرتے ہیں، تو سب سے پہلے سورج اشاراتی زبان سے کہتا ہے: نورٌعلیٰ نور، چاند اور ہر ستارہ بھی یہی کہتا ہے، ہر دن کی روشنی بھی، ہر ذرّے کی چمک بھی، ہر کرن
۵۶
کی جھلک بھی، ہر کلی کی چٹخ بھی، ہر پھول کی مہک بھی، الغرض اشیائے کائنات و موجودات میں کوئی شیٔ ایسی نہیں جو خدا کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کر رہی ہو (۱۷: ۴۴) حمد سے عقل مراد ہے لہٰذا ہر چیز کی تسبیح کا راز نورِعقل کی روشنی میں معلوم ہوسکتا ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
سنیچر، ۱۵ مارچ ۲۰۰۳ء
۵۷
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۲۹
کتابِ مستطاب (مبارک) دعائم الاسلام ، عربی، جلدِ اوّل، ص ۱۵۔۱۶ پر یہ حدیثِ شریف مرقوم ہے: یا بنی عبد المطلب ، اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکامھا۔ ترجمہ: اے عبد المطلب کی اولاد! میری اطاعت کرو، جیسا کہ اس کا حق ہے، تا کہ تم زمین کے بادشاہ اور اس کے حکمران ہو جاؤ گے۔
سوال: آیا رحمتِ عالم کا یہ پاک و پرحکمت فرمان سب کے لئے نہیں ہے؟ جواب: کیوں نہیں، سب کے لئے ہے۔
سوال: کیا رسولِ کریم صلعم کے حقیقی فرمان بردار لوگوں کو سیّارۂ زمین کی ظاہری سلطنت عطا ہونے والی ہے؟ جواب: نہیں، نہیں، ان کو عالمِ شخصی کی کائناتی بہشت کی زمین پر خلافت = سلطنت ملے گی، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے: سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) سورۂ نور (۲۴: ۵۵) سورۂ زخرف (۴۳: ۶۰) میں یقیناً اعلیٰ درجے کی خلافت کا ذکر ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن کو چاہے فرشتے بناکر عالمِ شخصی کی کائناتی بہشت کی زمین کی خلافت سے سرفراز فرمائے گا۔
أئمّۂ آلِ محمد صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین کے
۵۸
بابرکت ارشادات کو آپ عشق و محبت اور یقین سے پڑھیں اور عمل بھی کریں تا کہ فرمانِ عالی کی روشنی میں ایمانی روح کے فرشتہ بن جانے کی حقیقت سمجھ میں آئے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
سنیچر ، ۱۵ مارچ ۲۰۰۳ء
۵۹
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۰
قسط۔ ۲۵ کو ایک بار پھر خوب غور سے پڑھ لیں، کیونکہ اُس میں اسمِ اعظم کا بیان ہے، اور وہ خود امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہے، آپ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) کو چشمِ بصیرت سے دیکھیں اور عشق و محبت اور کامل یقین سے قبول کریں کہ اسماءِ حسنیٰ سے امامِ زمان مراد ہے، اگرچہ یہ اسماء جمع ہیں لیکن آپ یہ بات نہ بھولیں کہ نور واحد بھی ہے اور جمع بھی ہے، ورنہ قرآن میں لفظِ انوار کہاں ہے؟ اسی طرح روح، ارواح کے لئے بھی ہے۔
جب امامِ مبین اسمِ اعظم ہے تو اس میں القابض اور الباسط کے قانون کی وجہ سے واحد اور جمع کا ایک انتہائی عظیم تصوّر سامنے ہے۔ بڑے نیک بخت ہیں وہ لوگ جو امامِ زمانؑ کو اللہ کا اسمِ اعظم مانتے ہیں، دین کا یہ نظام ازل سے ہے اور اس میں زبردست اور غالب حکمتیں جمع ہیں خدا کرے کہ آپ کو امامِ زمان (روحی فداہٗ) اسمِ اعظم عطا کرے اور آپ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں۔ آمین یا رب العالمین! پھر آپ عمر بھر اسمِ اعظم کی تعریف کرتے رہیں گے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار ، ۱۶ مارچ ۲۰۰۳ء
۶۰
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۱
آپ تمام عزیزوں نے حضرتِ مولا علی (ارواحنا فداہٗ) کے تعارفی کلام سے یہ یقینِ کامل حاصل کر لیا ہوگا کہ امامِ زمانؑ نہ صرف اعظم الاسماء =اسمِ اعظم ہیں، بلکہ آپ ہی اپنی نورانیت میں ناقور (صورِ اسرافیل) اور روحانی قیامت بھی ہیں، پس آئیے ہم دعائے نور کی روشنی میں اس معرفت کے لئے سعی کریں کہ مومنِ سالک پر امامِ زمان علیہ السّلام کا نور برائے روحانی قیامت کس طرح طلوع ہوتا ہے؟ چونکہ مومنِ سالک دل ہی دل میں اسمِ اعظم کا ذکرِ خفی کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا جب روحانی قیامت کا وقت آتا ہے، اور امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہونے لگتا ہے تو سب سے پہلے سالک کے دل میں جو اسمِ اعظم کا لفظ ہے وہ نور ہو جاتا ہے یعنی جو لفظی اسمِ اعظم ہے، اس میں امامِ زمانؑ کے نور کا ظہور ہوتا ہے، لہٰذا یہ پاک دعا اس طرح شروع ہو جاتی ہے۔ ترجمہ: اے اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے! اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے بھی نور مقرر فرما! از کتاب العلاج ، ص ۲۱۴۔
۶۱
بحوالۂ دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل، ص ۱۶۷۔
جیسا کہ قسط ۳۰ میں بتایا گیا کہ نور واحد بھی ہے اور جمع بھی ہے، چنانچہ امامِ زمانؑ روحانی قیامت کا نور ہے (ملاحظہ ہو قسط: ۲۴) اور یہ پاک نور مومنِ سالک پر باطنی قیامت قائم کرنے کی خاطر کتنے اجزاء میں تقسیم ہو کر کام کرتا ہے اس کی تفصیل کے لئے دعائے نور کو خوب غور سے پڑھیں۔ کیونکہ یہ ایک عظیم الشّان دعائے ماثورہ بھی ہے، اور علم القیامت کا ایک بنیادی حصہ بھی ہے، پس آپ دعائے نور کو بار بار پڑھیں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۱۷ مارچ ۲۰۰۳ء
۶۲
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۲
بحوالۂ قسط: ۲۴۔ امامِ مبین علیہ السّلام کے نور میں روحانی قیامت کے انوار پوشیدہ ہیں۔ دعائے نور کی تاویلات میں سے ایک تاویل روحانی قیامت سے متعلق ہے، جس کا کچھ بیان قسط: ۳۱ میں ہو چکا ہے۔ باطنی قیامت کے انوار میں سے ایک نور ناقور ہے (۷۴: ۰۸) یہی وجہ ہے کہ مولا کے کلام میں ہے کہ مولا ناقور یعنی صورِ اسرافیل ہے (منقبت : ۵۶) منقبت : ۵۳ میں ہے کہ مولا ہی روحانی قیامت کو قائم کرتا ہے، یہ آیۂ شریفہ (۱۷: ۷۱) کی تاویل ہے۔
ناقور میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی وہ زبردست اور غالب دعوت ہے، جس کو سن کر نہ صرف حدودِ کائنات کی روحیں قیامت گاہ = عالمِ شخصی میں حاضر ہو جاتی ہیں بلکہ پہاڑوں کی منجمد روحیں بھی زندہ ہو کر حاضر ہو جاتی ہیں (۳۱: ۱۶) اسرافیل و عزرائیل کے بے پایان لشکر کی تعداد صرف اللہ ہی جانتا ہے، اسرافیل کے بعد روحانی قیامت کی سب سے بڑی طاقت عزرائیل ہے، جس کی عظیم طاقت کا راز ایک اسمِ اعظم میں ہے جو حضرتِ قائم القیامت کے بزرگ ناموں میں سے ہے، اُس کو قرآنِ حکیم نے کلمۂ تقویٰ کہا ہے (۴۸: ۲۶) یہ اسم گویا فرشتۂ عزرائیل ہے، جس
۶۳
کا بڑا حیران کن معجزہ یہ ہے کہ یہ کسی زبان کی حرکت سے نہیں بلکہ صرف خدا ہی کی قدرتِ کاملہ سے آٹومیٹک اور مسلسل ذکر بن کر نور افشانی کرتا رہتا ہے، جس کی طاقت سے تمام عزرائیلی لشکر انسانی بدن میں ڈوب کر ذرّاتِ روح کو کھینچ نکالتے ہیں، بحوالۂ سورۂ نازعات (۷۹: ۰۱ تا ۰۵) جو سالک کے تجربہ کے لئے سختی سے بھی روح کو قبض کرتے ہیں اور نرمی سے بھی تا کہ عارف کو ریاضت بھی ہو اور تجربہ و معرفت بھی ہو۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل، ۱۸ مارچ ۲۰۰۳ء
۶۴
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۳
سورۂ نازعات (۷۹: ۰۱ تا ۰۵) وَ النّٰزِعٰتِ غَرْقًا وَّ النّٰشِطٰتِ نَشْطًا وَّ السّٰبِحٰتِ سَبْحًا فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا۔
تاویلی مفہوم: قسم ہے ان فرشتوں کی جو باطنی قیامت کے آغاز میں سالک کے بدن میں ڈوب کر اس کے ذرّاتِ روح کھینچتے ہیں، اور آہستگی سے سر کی راہ نکال لے جاتے ہیں، اور ان فرشتوں کی قسم جو کائنات میں تیزی سے تیرتے ہیں تا کہ سالک کو خدا کے امر سے روحاً کائناتِ اکبر بنائیں اور کائنات کو سالک = عالمِ شخصی ۔ اور اس امر کا بار بار تجدّد اور اعادہ کرتے کرتے تقریباً ستر ہزار کائناتیں اور ستر ہزار عوالمِ شخصی بناتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عیال اللہ کے حق میں طوفانِ رحمت اور طوفانِ علم و حکمت ہے، شاعر کہتا ہے عشاق سے میں اُس کے قربانِ مسلسل ہوں۔
یقیناً ہر کامیاب عارف کو اسرافیل اور عزرائیل کی منزل میں سات رات اور آٹھ دن رہنا پڑتا ہے ، (۶۹: ۰۷)اس میں اللہ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم کے فضل و کرم سے ستر ہزار کائناتوں کی حقیقی تسخیر ہے۔
۶۵
قرآن فرماتا ہے کہ تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے سبقت کرو (۰۳: ۱۳۳)، (۵۷: ۲۱) اور جو لوگ نیک کاموں میں اہلِ زمانہ سے سبقت کریں گے ان کو ہمیشہ کے لئے کائناتی بہشت بنادیا جائیگا۔ پس سورۂ نازعات (۷۹: ۰۴) میں اسی سبقت کا اشارہ ہے۔
ضروری نوٹ: یہ مضمون روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کے ساتھ مربوط ہے لہٰذا آپ ضروری طور پر اسکا خوب غور سے مطالعہ کریں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ، ۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء
۶۶
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۴
جب مومنِ سالک روحانی قیامت کے آغاز میں مرحلۂ اسرافیل و عزرائیل میں داخل ہو جاتا ہے، تو اُس پر باطنی قیامت کے گوناگون معجزات کا سب سے زبردست طوفان برپا ہو جاتا ہے، ناقور = صورِ اسرافیل ، دراصل امامِ زمان کے انوار میں سے ایک بڑا عجیب و غریب صوتی اور سمعی نور اور معجزہ ہے، یہ بہت ہی مقدس اور لاہوتی چیز ہے، لہٰذا یہ یقیناً فرشتۂ جدّ = اسرافیل، اور مولا کے انوار میں سے نورِ مناجات ہے، عشاق کے لئے نورِ محویّت و فنائیت ، اور شاید وہ مناجاتِ باری تعالیٰ ہے جس کو حضرتِ موسیٰؑ نے کوہِ طور پر سن لیا تھا اور ان کو زبردست حیرت ہوئی تھی، تاویلاً یہ امامِ زمانؑ کی مناجات تھی۔ اور یہی ناقور حضرتِ داؤد کی خوش الحانی کا معجزہ بھی ہے، اور نغماتِ بہشت کا معجزہ بھی، ملاحظہ ہو! میری ایک کتاب: زبورِ عاشقین ص ۲۱۔ ۲۶۔ نیز بحوالۂ شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا ص ۷۱۳ پر بہشت کے بارے میں یہ کلمات درج ہیں، آنحضورؐ سب سے پہلے جنّت میں داخل ہوں گے فرشتے نہایت عمدہ اور سریلے نغموں کے ساتھ ان نیک بندوں کا استقبال کریں گے۔ القرآن (۵۶: ۲۵ تا ۲۶) میں ارشاد ہے کہ بہشت میں لغو = بے ہودہ اور گناہ کی بات نہیں ہوتی ہے، اس
۶۷
سے معلوم ہوا کہ نغماتِ بہشت میں عشقِ مولا اور علم و حکمت ہے، جس میں انسان کے لئے ابدی سلامتی ہے، اور اس آیت میں یہی اشارہ ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ، ۱۹ مارچ ۲۰۰۳ء
۶۸
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۵
کتابِ کوکبِ دری بابِ سوم منقبت : ۶۴، میں حضرتِ مولا علی صلوات اللہ علیہ کا وہ پُرحکمت فرمان ہے، جس میں روحانی قیامت کے نقطۂ آغاز کا بیان ہے، وہ بابرکت ارشاد یہ ہے: جو حضرتِ مولا (ارواحنا فداہٗ) نے فرمایا: ان البعوضۃ التی ضرب اللہ بھا مثلاً۔ یعنی میں وہ بعوضہ (مچھر) ہوں، جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآن (۰۲: ۲۶) میں بیان فرمائی ہے۔ یہ انسان کے کان بجنے کی آواز کی مثال ہے۔ اور اس کی زبردست اہمیت یہ ہے کہ جب بھی کسی مومنِ سالک پر روحانی قیامت برپا ہونے لگتی ہے تو اس وقت کہیں باہر سے ہرگز نہیں، بلکہ رفتہ رفتہ سالک کے کان بجنے ہی سے صورِ اسرافیل کا پُرنور سمعی و صوتی معجزہ شروع ہو کر باطنی طور پر ہمہ رس اور کائنات گیر ہو جاتا ہے مولائے پاک کے اس مبارک فرمان کی حکمت کو آپ نے سمجھ لیا ہو گا کہ ناقور = صورِ اسرافیل میں نقطۂ آغاز ہی سے مولا کا نور ہے۔
عرفاء جانتے ہیں کہ مولا کے نور میں بیک وقت بہت سے معجزے ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ روحانی قیامت کے آغاز میں ناقور کے ساتھ ساتھ مولا کا نور ایک باطنی داعی بن کر دنیا کی ہر زبان میں لوگوں کو بار بار بلاتا بھی ہے
۶۹
اس داعی کا نام قرآنِ حکیم (۲۰: ۱۰۸) میں “الداعی لا عوج لہ” ہے یعنی وہ داعی جو دنیا کی ہر زبان میں کلام کر سکتا ہے۔ جیسا کہ مولا نے فرمایا ہے: انا المتکلم بکل لغۃ فی الدنیا ۔ منقبت ۳۴۔
ترجمہ: میں دنیا کی ہر زبان میں کلام کرتا ہوں۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات ، ۲۰ مارچ ۲۰۰۳ء
۷۰
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۶
سورۂ نوح کی تین آخری آیات (۷۱: ۲۶ تا ۲۸) کو خوب غور سے پڑھیں تا کہ اس سے ایک خاص اصولی تاویلی حکمت آپ کے لئے آسان ہو۔ ترجمہ: اور نوح نے کہا (یعنی دعا کی) میرے ربّ، ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ، اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا۔
اب یہاں یہ بہت ہی ضروری سوال ہے کہ حضرتِ نوح علیہ السّلام کی یہ دعا کلی طور پر خدا کی بارگاہ میں قبول ہوئی تھی یا نہیں؟ جبکہ اس کا جوابِ شافی خود قرآن میں موجود ہے (۳۷: ۷۵) ۔ دوسرا سوال: حضرتِ نوحؑ کی ایسی زبردست دعا اور طوفان کے بعد زمین پر دوبارہ کفر کس طرح پھیل گیا؟
جواب: اس بڑی زبردست دعا کا خاص تعلق حضرتِ نوح کے عالمِ شخصی سے تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیشہ کے لئے پاک اور دینِ حق سے معمور اور پُرنور ہوگیا۔ ترجمۂ شعر، از دیوانِ نصیری۔ تم یہ نہ کہا کرو، کہ اب کوئی طوفان نہیں ہے۔ سفینۂ نوح میں سوار ہو جاؤ ، کہ میں
۷۱
روحانی طوفان دیکھ چکا ہوں۔
فرمانِ الٰہی کا تاویلی مفہوم ہے، کہ ہر نجات یافتہ اور کامیاب عالمِ شخصی میں نوحؑ اور اس کے نورانی معجزات زندہ اور سلامت ہیں ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں (۳۷: ۷۹ تا ۸۰)۔
سلام علیٰ آلِ یٰسٓ (۳۷: ۱۳۰) یعنی ائمۂ آلِ محمدؐ کا نورِ واحد ہر کامیاب عالمِ شخصی میں زندہ اور سلامت ہے۔ سلام علیٰ آل یٰسٓ ۔ دعائم الاسلام، عربی، جلدِ اوّل۔ ص ۳۱۔ کوکبِ دری ص ۱۵۶۔ حیات القلوب جلدِ سوم ، ص ۱۰۰۔ المیزان فی تفسیر القرآن جلد ۱۷، ص ۱۵۹۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ ، ۲۱ مارچ ۲۰۰۳ء
۷۲
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۷
آج یومِ جشنِ نوروز ہے، یعنی ۲۱مارچ ۔ آج ہی ہمارے ارضی فرشتوں میں سے ایک نے کسی اجتماع کے حوالے سے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں نوروز کا ذکر نہیں ہے، میں نے فوری طور پر کچھ نہیں کہا جبکہ ان کا عقیدۂ راسخ پہاڑ کی طرح مضبوط اور اپنے مولا پر ان کا عشق بے مثال اور لازوال تھا، بعد میں مجھے خیال آیا کہ مجھے اس باب میں کچھ کلمات تحریر کرنا بہتر ہے تا کہ جملہ عزیزان پر حقیقت روشن ہو، غلامانِ قرآنِ ناطق اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جس طرح خزائنِ اسرارِ قرآن سے واقف و آگاہ ہیں، اس کی کوئی مثال دنیا میں ہے ہی نہیں، پس ان پر ہمیشہ عملی شکرگزاری واجب ہے۔
سورۂ مائدہ (۰۵: ۰۳) میں یقیناً سنی نقطۂ نظر سے بھی دیکھیں اور شیعی نقطۂ نظر سے بھی، آیۂ مبارکہ کا ارشاد ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ۔
دیکھیں یہاں “الیوم” کا لفظ ایک خاص دن کو ظاہر کر رہاہے، جبکہ یہاں اس دن کی ایک ایسی خصوصی تعریف و توضیح موجود ہے کہ تمام قرآن میں ایسا کوئی عظیم الشّان دن نہیں ہے ، کیونکہ اللہ نے اپنے دینِ
۷۳
مبین کو کسی اور موقع پر کامل و مکمل قرار نہیں دیا، مگر اُسی دن جس میں اس کے تاکیدی حکم سے مولا علی کی امامت و خلافت کا اعلان کیا گیا، اللہ کی نعمتوں کا سلسلہ اگرچہ جاری تھا لیکن خود خدا ہی نے یہ فرمایا کہ یقیناً تمام باطنی نعمتوں کا سرچشمہ امامِ مبین ہی ہے۔ رسولِ کریمؐ اپنے عہدِ مبارک میں زندہ اسلام تھے، اس آیت کی حکمت کے مطابق حضور کے بعد علیؑ ہی کو زندہ اسلام (دینِ مجسّم ) کی مرتبت میں لوگوں کے سامنے لایا گیا ۔ جیسا کہ مولا کا ارشاد ہے: انا دین اللہ حقاً سرائر ۔ ص ۱۱۷۔ ترجمہ: یقیناً میں خدا کا دین ہوں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ، ۲۱ مارچ ۲۰۰۳ء
۷۴
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۸
مولانا علی سے پہلے اماموں کے اسماء
مولانا ابو طالب (عمران)
مولانا عبد المطلب
مولانا ہاشم
مولانا عبد مناف
مولانا قصی
مولانا کلاب
مولانا مرۃ
مولانا کعب
مولانا لؤی
مولانا غالب
مولانا فھر
مولانا مالک
مولانا النضر
مولانا کنانۃ
مولانا خزیمۃ
مولانا مدرکۃ
مولانا الیاس
مولانا مضر
مولانا نزار
مولانا معد
مولانا عدنان
مولانا اُد
مولانا اُدَد
مولانا الھمیسع
مولانا نبت
مولانا سلامان
مولانا حمل
مولانا قیذار
۷۵
مولانا اسماعیل
مولانا ابراہیم
مولانا تارح
مولانا ناحور
مولانا ساروغ
مولانا راعو
مولانا فالخ
مولانا عیبر
مولانا شالخ
مولانا ارفخشد
مولانا سام
مولانا نوح
مولانا لمک
مولانا متوشلخ
مولانا اخنوخ
مولانا یرد
مولانا مہلیل
مولانا قینان
مولانا یانش
مولانا شیث
مولانا آدم
ابنِ اسحاق کی سیرۃ رسول اللہ کے مطابق مولانا اُدَد سے مولانا قیذار کی جگہ مندرجہ ذیل نام ہیں:
مقوم
ناحور
تیرح
یعرب
یشجب
نابت
۷۶
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۳۹
سورۂ توبہ (۰۹: ۰۳) میں حجِ اکبر سے روحانی قیامت مراد ہے۔ سورۂ حج (۲۲: ۲۷) میں ظاہراً حج کا ذکر ہے، مگر تاویلاً روحانی قیامت کا ذکر ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم امام علیہ السّلام کوحکم دیا کہ تمام لوگوں کے باطن میں روحانی قیامت کی دعوت دے کر اپنے عالمِ شخصی میں جمع کر لے۔ وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ کی حکمتِ بالغہ یہی ہے۔
سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں حضرتِ سلیمان کی روحانی قیامت کاذکر ہے، یہ اُس کے “جنّ، انس، اور طیر” کے لشکرِ روحانی تھے، اور طیر سے فرشتے مراد ہو سکتے ہیں۔
روحانی قیامت نہ صرف قیامت ہی ہے، بلکہ یہ روحانی جنگ بھی ہے، یہ تسخیرِ عالمِ شخصی اور تسخیرِ کائنات بھی ہے، یہ کتابِ سماوی کی تاویل بھی ہے، اس میں علم و حکمت اور معرفت کے تمام درجات بھی ہیں، اس میں عیال اللہ = عالمِ انسانیت کی ابدی نجات بھی ہے اور فنا فی الامام کا عظیم مرتبہ بھی ہے ، اور ان عظیم مقاصد کے تحت بہت سے ذیلی مقاصد ہیں۔
۷۷
الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار، ۲۳ مارچ ۲۰۰۳ء
۷۸
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۴۰
سوال: قرآنِ حکیم میں سب سے وسیع، سب پر محیط، اور سب سے جامع مضمون کون سا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے قرآنِ حکیم کے تمام مضامین کو جس معجزۂ لاہوتی میں گھیر کر اور عددِ واحد میں گن کر کتابِ مکنون بنا کر رکھا ہے، وہی مبارک و مقدّس مضمون قرآنِ حکیم میں اعظم المضامین ہے، یعنی امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کیونکہ امامِ مبین ہی لوحِ محفوظ ہے، اور وہی حضرت ام الکتاب ہے، اور وہی جناب کتابِ ناطق ، یعنی قرآنِ ناطق ہے۔ خدا کی قسم اسرارِ قرآن سب کے سب کتابِ مکنون میں ہیں، اور کتابِ مکنون کو صرف وہی لوگ ہاتھ میں لے سکتے ہیں، جن کو پاک کیا گیا ہے (۵۶: ۷۵ تا ۷۹) سبحان اللہ! عارفان و عاشقان کے لئے یہ انتہائی عظیم معجزہ عالمِ شخصی کی بہشت = حظیرۂ قدس میں رکھا ہوا ہے۔
فرشتے جسمانی بھی ہوتے ہیں (القرآن) اور روحانی بھی، لہٰذا میں اپنے تمام عزیزوں کو نورِ معرفت کی روشنی میں ارضی فرشتے مانتا ہوں، مجھے یقین ہے کہ مولا ان سب کی مناجات ، گریہ و زاری اور پرخلوص و پرسوز دعا کو میرے لئے علمی معجزات بنا دیتا ہے اور یہ ایک قرآنی حقیقت ہے
۷۹
(۳۵: ۱۰) ان شاء اللہ آپ سب کل بہشت میں یہ معجزہ دیکھیں گے کہ دنیا میں میرے فرشتے کون تھے؟ اور کس طرح علمی خدمت ہو رہی تھی؟ بحوالۂ قرآن (۴۱: ۳۰ تا ۳۲) جن لوگوں کو امامِ زمان اسمِ اعظم عطا کرتا ہے اگر انہوں نے اس پر کما حقہ ذکر کیا تو ان کی روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے اور ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اب آیت کے باقی ترجمے کو پڑھیں مگر یہ بات یاد رہے کہ فرشتوں کے نزول کا یہ مطلب ہے کہ جو ارضی فرشتے ہیں، وہی آسمانی فرشتوں کا کام کرتے ہیں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۲۴ مارچ ۲۰۰۳ء
۸۰
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۴۱
الفجر (۸۹: ۲۲)کا ارشاد ہے: وَّ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۔ ترجمہ: اور تمہارا ربّ جلوہ فرما = ظہور فرما ہو گا اس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے۔ تاویل: یہ عالمِ شخصی کی روحانی قیامت میں ظہورِ قائم علیہ السّلام کا ذکر ہے، جبکہ اللہ آنے جانے سے پاک و برتر ہے۔
سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۰) کے ارشاد کی تاویل میں عالمِ دین = عالمِ شخصی میں حضرتِ قائم علیہ السّلام کے پوشیدہ پوشیدہ آنے کا ذکر ہے اس سماوی امتحان کا کسی کو علم نہیں ہو گا، مگر اللہ جن کو چاہے۔
قرآنِ حکیم میں جابجا = جگہ جگہ نورٌعلیٰ نور کی حکمتیں موجود ہیں۔
کتابِ مستطابِ سرائر نورٌعلیٰ نور کی بڑی مستند تاریخ بھی ہے اور عملی تفسیر بھی ہے۔ اس کے ص ۸۳ اور ص ۲۱۷ پر چالیس حدود کے ذکر کو دیکھیں جو حضرتِ آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت کے آغاز تک ہوئے تھے یہ تاویل ہے سورۂ احقاف (۴۶: ۱۵) کی کہ اُدھر آدم سے شروع کر کے جب چالیس حدود مکمل ہو گئے، اور
۸۱
ادھر جب آنحضورؐ کی پاک عمر کے چالیس (۴۰) سال مکمل ہوئے تو تب آپ کو نبوّت عطا ہوئی۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل ، ۲۵ مارچ ۲۰۰۳ء
۸۲
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۴۲
المائدۃ (۰۵: ۱۵) کا ارشاد ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ یَّهْدِیْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ یَهْدِیْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔
ترجمہ: تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک نورِ مجسم اور ایک واضح کتاب (قرآن) آ چکی ہے، جو لوگ خدا کی خوشنودی کی پیروی کرتے ہیں ان کی تو اس کے ذریعے سے سلامتی کی راہوں کی ہدایت کرتا ہے، اور غفلت و نادانی کی تاریکیوں سے نورِ علم و معرفت کی طرف لے آتا ہے اور انہیں راہِ راست پر چلاتا ہے۔
سوال: آیا اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم صرف زمانۂ نبوّت ہی کے لوگوں کے لئے مخصوص و محدود ہے؟
جواب: نہیں نہیں، اللہ کا ہر احسان اور ہر ہر نعمت تمام زمانوں کے لئے ہے۔
سوال: صراطِ مستقیم کا مقصد کیا ہے؟ اور سلامتی کی راہیں کیا ہیں؟
۸۳
جواب: صراطِ مستقیم کا مقصد: سیر الی اللہ و فنا فی اللہ ہے، اور سلامتی کی راہوں کا مقصد: سیر فی اللہ ہے، جو بے پایان ادوار و اکوار میں بھی ختم نہیں ہو سکتا، الا ما شاء اللہ (مگر اللہ جو کچھ چاہے)۔
ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیْدُ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ (۸۵: ۱۵ تا ۱۶) ترجمہ: عرش کا مالک ہے بزرگ و برتر ہے۔ اور جو کچھ چاہے کرنے والا ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ، ۲۶ مارچ ۲۰۰۳ء
۸۴
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۴۳
سورۂ نساء (۰۴: ۱۷۴ تا ۱۷۵) اَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ اعْتَصَمُوْا بِهٖ فَسَیُدْخِلُهُمْ فِیْ رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ فَضْلٍۙ-وَّ یَهْدِیْهِمْ اِلَیْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا
ترجمہ: اے لوگو! اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارے ربّ کی طرف سے (دینِ حق کی) دلیل آ چکی (یعنی محمد رسولِ خدا) اور ہم تمہارے پاس ایک نورِ تابان و درخشان نازل کر چکے ہیں، (یعنی بصورتِ علی= امامِ مبین) پس جو لوگ خدا پر کما کان حقہ ایمان لائے اور اسی سے وابستہ رہے تو خدا بھی انہیں عنقریب ہی اپنی رحمت اور فضل (کے بے خزان باغ) میں پہنچا دے گا اور انہیں اپنی حضوری کا راہ نمائی کرے گا۔
اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا۔ علی = امامِ مبین = نورِ ظاہر و باطن = نورِ مجسم۔ اِلَیْكُمْ کا اشارہ قوم کی طرف بھی ہے، افراد کی طرف بھی، اور قلوب کی طرف بھی ہے، آپ دعائے نور کی حکمتوں سے فائدہ حاصل کریں، دیکھیں نورِ منزل =امامِ زمان جو اللہ کا نور اور اسمِ اعظم ہے، آپ چراغِ نورِ امامت کے پروانوں میں شامل ہو جائیں۔ بڑی عجیب و
۸۵
غریب بات ہے کہ وہ ایک پروانہ جل کر ہمیشہ کے لئے مر جاتا ہے، مگر یہ ایک پروانہ جل کر ابدی طور پر زندہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ فنا فی الامام ہے، جو فنا فی اللہ کی تاویل ہے اور فنا فی اللہ کے بعد بقا با للہ ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات ، ۲۷ مارچ ۲۰۰۳ء
۸۶
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۴۴
سورۂ ملک (۶۷: ۰۲) الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ۔
ترجمہ: جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے (علم و ) عمل میں سب سے اچھا کون ہے۔
یہاں ایک بڑا مشکل سوال ہے، وہ یہ ہے: کہ یہاں موت پہلے اور زندگی بعد میں کیوں ہے؟ انسانی زندگی ہی میں علم و عمل کا امتحان ہے، اور بس، مگر یہاں موت بھی زندگی ہی کی طرح از بس مفید لگتی ہے، اس میں کیا راز ہے؟ جواب: اِس آیۂ شریفہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جو “موتوا قبل ان تموتوا” کے حکم پر عمل کر کے اسی زندگی ہی میں مر کر زندہ ہو جاتے ہیں، پس مذکورہ آیۂ مبارکہ کی حکمتِ بالغہ عارفانِ الٰہی کے احوال کے مطابق ہے کہ صرف وہی لوگ موت سے بھی اور حیات سے بھی علم و عمل کا فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ نہ کہ عوام الناس
حضرتِ عیسیٰؑ کا قول ہے: لن یلج ملکوت السمٰوٰت من لم یولد مرتین۔
ترجمہ: جو دو بار پیدا نہ ہو جائے ، وہ آسمانوں کی بادشاہی میں
۸۷
ہرگز داخل نہیں ہو سکتا ہے۔ پہلا جنم جسمانی اور دوسرا روحانی یا روحانی جنم اور عقلی جنم۔ مولوی معنوی کہتا ہے:
چون دوم بار آدمی زادہ بزاد
پائے خود بر فرق علتہا نہاد
ترجمہ: جب آدم زاد (انسان) دوسری بار پیدا ہو جاتا ہے، تو وہ علّت اور معلول کے فلسفے سے بالاتر ہو جاتا ہے۔ حکیم پیر ناصر خسرو کا قول ہے:
گرچت یکبار زادہ اند بیابی
عالمِ دیگر اگر دوبارہ بزائی
ترجمہ: اگرچہ تیرا جنم ایک ہی بار ہوا ہے، اگر تو اسی زندگی ہی میں روحاً دوبارہ پیدا ہو جائے تو تجھ کو دنیا ہی میں عالمِ آخرت مل جائے گا۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعہ ، ۲۸ مارچ ۲۰۰۳ء
۸۸
سلسلۂ نورٌ علیٰ نور
قسط: ۴۵
سورۂ بقرہ (۰۲: ۹۴) کا ارشاد ہے: قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔
ترجمہ: ان سے کہو کہ اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لئے مخصوص ہے، تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنا کرو، (یعنی مر جاؤ) بحکمِ موتوا قبل ان تموتوا قرآنِ حکیم کے ہر مقام پر صاحبانِ عقل کے لئے اسرار ہی اسرار ہیں۔ لہٰذا آپ یہاں خوب غور و فکر کریں۔
سوال بحوالۂ (۰۲: ۲۴۳) : یہ کون سے لوگ تھے جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں کو چھوڑ کے نکلے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں بلکہ بے شمار تھے ان کو خدا نے حکم دیا مر جاؤ پھر ان کو زندہ کر دیا۔
جواب: یہ دنیا بھر کے لوگ تھے جن کو عالمِ شخصی کی باطنی قیامت کے لئے بلایا گیا تھا۔ ہاں، جب بھی کسی عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، تو اس میں تمام روحوں کا حشر ہوتا ہے، صرف عارف ہی شعوری قیامت کا احساس و ادراک کرتا ہے۔ اکثر لوگوں کے حق میں غیر
۸۹
شعوری قیامت اللہ کی زبردست رحمت ہے۔ کیونکہ عارف کی شعوری قیامت انتہائی سخت مشکل ہے، اور اس کے عظیم فائدے بھی بے حد و بے حساب ہیں ۔ لیکن سب سے بڑی چیز اللہ کی خوشنودی ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
ہفتہ ، ۲۹ مارچ ۲۰۰۳ء
۹۰
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۴۶
آیۂ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى (۰۳: ۳۳) نورٌعلیٰ نور کی روشن دلیلوں میں سے ہے۔ نوح اور ابراہیم کی نسل میں نبوّت اور کتاب (امامت) تھی (۵۷: ۲۶) ، پھر آیۂ آلِ ابراہیم (۰۴: ۵۴) کو پڑھیں، آلِ محمد کا سلسلہ خود آلِ ابراہیم ہے، قسط ۲۴ میں غور سے دیکھیں تا کہ حضرتِ مولا علیؑ کی نورانی معرفت حاصل ہو۔ جب مولا علیؑ نورانی قیامت ہے، تو سر تا سر قرآن میں قیامت ہی کا مضمون محیط ہے، جب مولا علیؑ عالم میں قدیم ہے، تو پھر یقیناً نورٌعلی نور کا سلسلۂ پاک بھی قدیم اور بے پایان ادوار و اکوار پر محیط ہے۔ یہ جو عاشقانِ امامِ زمانؑ اپنے بیت الخیال کی نورانی عبادت کے دوران نور کی تجلّیات کو دیکھتے ہیں، وہ نورٌعلی نور کے فیوض و برکات ہیں۔ علم کی سیڑھی ص ۱۴۴ پر جو مضمون ہے “رنگِ رحمان میں روح کی رنگینی” کو آخر تک پڑھ لیں۔
نورٌعلیٰ نور کے کم از کم معنی تین ہیں
معنیٔ اوّل: یہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے انوار کا سلسلۂ قدیم ہے۔
معنیٔ دوم: جتنے عاشقین و عارفین نور میں فنا ہو چکے ہیں اس
۹۱
میں ان سب کی حقیقت موجود ہے۔
معنیٔ سوم: یہ بہت سے انوار کا خزانہ ہے، تفصیل کے لئے دعائے نور میں غور کریں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۳۱ مارچ ۲۰۰۳ء
۹۲
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۴۷
سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۵) کا ارشاد ہے: وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَكَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا۔
ترجمہ: (اے رسول!) جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں۔ آخرت پر ایمان لانا یا ایمان نہ لانا ظاہر میں بھی تھا اور باطن میں بھی، اور رسول کا قرآن پڑھنا بھی ظاہر و باطن میں تھا، پس جن لوگوں نے علم الیقین ، عین الیقین اور حق الیقین کے نور کی روشنی میں آخرت پر ایمان لایا یعنی یقین کیا انہوں نے لا ریب نورِ نبی اور نورِ قرآنِ ناطق = امامِ مبین علیہ السّلام کی کامل اور مکمل معرفت حاصل کر لی۔ کیا اِس آیۂ مبارکہ میں اسرارِ معرفت کا ایک بڑا خزانہ پوشیدہ نہیں ہے؟ لیکن شرطِ بندگی یہ ہے کہ آپ عقل و دانش اور جذبۂ شکرگزاری سے اس کو پڑھیں۔ قرآنِ حکیم میں ہنوز کیسے کیسے علم و حکمت کے اچھوتے خزانے موجود ہیں ! جب تک امامِ زمانؑ کا نور ہماری آنکھ نہیں بنتا ہم اپنی اندھی آنکھ سے کوئی ایسا سرِ اعظم دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں۔
۹۳
بحوالۂ کتاب: عملی تصوف ص ۵۴، معجزۂ نوافل سے معجزۂ اسمِ اعظم مراد ہے، چونکہ اللہ کی تاویل امامِ زمانؑ ہے لہٰذا اس حدیثِ قدسی کی تاویل ہے، وہ یہ ہے کہ اسمِ اعظم کا ذکر جیسا کہ پاک فرمان ہے، کیا جاتا ہے تا آنکہ موتوا قبل ان تموتوا کے عمل سے روحانی قیامت برپا ہو تو تب امامِ زمان (روحی فداہٗ) وہ معجزات کرتا ہے جن کا ذکر اس حدیثِ قدسی میں ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل ، یکم اپریل ۲۰۰۳ء
۹۴
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۴۸
اے برادران و خواہرانِ روحانی ! قرآنِ حکیم میں لفظِ “اللہ” = بمعنیٔ اسمِ اَلْاِلٰہ ، تقریباً ایک ہزار مرتبہ وارد ہوا ہے۔ یہ مبارک اسم خداوندِ تعالیٰ کے اسمِ ذات کا نمائندہ ہے، اور آپ یہ حقیقت جانتے ہیں کہ اللہ کا اسمِ اعظم امامِ زمان علیہ السّلام ہے، لہٰذا قرآن کے اُن ہزار مقامات پر جہاں اسمِ اللہ وارد ہوا ہے وہاں اللہ کے اسمِ اعظم =امامِ زمانؑ کا اشارہ بھی موجود ہے۔ پس امامِ زمانؑ کے عاشقانِ صادق کے لئے یہ بات بے حد ضروری ہے کہ وہ جان و دل سے یقین کریں کہ قرآنِ حکیم میں لفظِ اللہ کی وجہ سے ہزار بار اسمِ اعظم = امامِ زمانؑ کا اشارہ آیا ہے۔ خدا اس حقیقتِ حال کا گواہ ہے کہ میں اور میرے بہت سے ساتھی قرآنِ پاک کی کل چیزیں امامِ مبین میں محدود و مجموع ہونے کے قائل ہیں بلکہ ہمارا یقین یہ ہے کہ خدا کی کوئی بھی خاص چیز امامِ مبینؑ سے باہر نہیں ہے۔
قرآن ہی کا قول اور مفہوم ہے کہ اللہ کے پاس یعنی مرتبۂ نورانیّت پر ایک کتابِ ناطق بھی ہے، اس سے امامِ زمانؑ کا نورِ باطن مراد ہے، جو قرآنِ ناطق ہے اس حکمت میں صاحبانِ عقل کے لئے یہ اشارہ ہے کہ قرآنِ ناطق کے ذریعے سے قرآنِ صامت کے اسرار کو سمجھ لیا جائے۔
۹۵
نزولِ قرآن کے دوران اللہ کا یہ فرمانا کہ میرے پاس ایک کتابِ ناطق بھی ہے، میں صرف اپنے ساتھیوں ہی سے یہ سوال کر رہا ہوں کہ آیا یہ کتابِ ناطق امامِ زمانؑ کا پاک نور نہیں ہے؟
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اسلام آباد
ہفتہ، ۵ اپریل ۲۰۰۳ء
۹۶
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۴۹
کتابِ وجہِ دین میں ایک پُرحکمت حدیثِ شریف کے حوالے سے یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک دین کو اپنی خلق کی مثال پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ لفظِ خلق پر کئی اشارے ہیں لیکن ہم آپ کی آسانی کی خاطر مختصر بات کریں گے کہ نظامِ دین = نظامِ قرآن، بالکل نظامِ شمسی ہی کی طرح ہے، چنانچہ نظامِ کائنات = نظامِ شمسی کا مرکز آفتابِ عالمتاب ہے اور نظامِ قرآن = نظامِ دین کا مرکز نور (امامِ مبین) ہے، نظامِ شمسی = کائنات کے لئے جو جو چیزیں ضروری ہیں ان کے سب خزانے سورج میں ہیں۔ اللہ کی کتاب (قرآن) اور اس کے دین کے کل اسرار کا خزانہ اللہ کے نور (امامِ مبین) میں ہے پس اگر آپ اسرارِ قرآن کے شیدائی ہیں تو خدا کی قسم ! وہ اسرارِ عظیم امامِ زمانؑ کی نورانی معرفت ہی میں ہیں۔ جب حکیم پیر ناصر خسرو قس کے عالمِ شخصی میں امام زمانؑ کا نور طلوع ہوا تھا، تو اس میں سب کے سب قرآنی تاویل کے نورانی معجزات تھے۔ حضرتِ پیر قس خود اپنے دیوان میں فرماتے ہیں:
بر جانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت۔۔۔۔۔
امامِ زمان (روحی فداہٗ) کا پاک نور سب سے پہلے عالمِ خیال ہی میں طلوع ہو جاتا ہے، اگرچہ یہ بڑی عجیب و غریب رنگین تجلّیات کا عالم
۹۷
ہے، تاہم یہ بہت ابتدائی آزمائشی مرحلہ ہے، کیونکہ اعلیٰ روحانی ترقی کا آغاز اسرافیل اور عزرائیل ہی کی منزل سے ہوتا ہے۔ اور روحانی قیامت کا طوفان حظیرۂ قدس تک جا کر تھم جاتا ہے اور حظیرۂ قدس کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام عالمِ وحدت ہے۔ ان شاءاللہ ہم اس پر چند کلمات لکھیں گے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اسلام آباد
ہفتہ، ۵ اپریل ۲۰۰۳ء
۹۸
سلسلۂ نورٔعلیٰ نور
قسط: ۵۰
اگرچہ بظاہر کائنات عالمِ اکبر اور انسان عالمِ اصغر ہے، لیکن حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام نے انسان کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عالمِ اکبر تجھ میں سمٹا ہوا ہے۔ اس صورت میں انسان کا سر آسمان ہے اور گردن سے پاؤں تک زمین ہے۔ سر جو آسمان ہے، اس میں یقیناً عرش و کرسی بھی ہیں، قلم و لوح بھی، بہشت بھی، مقامِ معراج بھی، مقامِ محمود بھی، حظیرۂ قدس بھی، عالمِ وحدت بھی، علّیّین بھی، وغیرہ۔
زمانۂ ڈائمنڈ جوبلی ، شہر بمبئی، مقام حسن آباد (زیارت) کا ایک ایمان افروز اور روح پرور دیدار یاد ہے جبکہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ اپنے مریدوں کے ایک گروپ کو اسمِ اعظم کا کنزِ کل عطا کر رہے تھے، متعلقہ ہدایات کے سلسلے میں دستِ پاک سے اپنی جبینِ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں بہشت ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ امامِ مبین کی پاک پیشانی میں نورانی بہشت = حظیرۂ قدس ہے، اور جو مولا کا عاشق اسمِ اعظم کے ذریعے سے امامِ زمان میں فنا ہو جائے گا، اس کی پیشانی میں بھی امام اپنا یہ معجزہ دکھائے گا۔
حظیرۂ قدس کئی معنوں میں عالمِ وحدت ہے۔ علی الخصوص
۹۹
وہاں سب سے بڑا زبردست معجزہ ظہورِ ازل ہے، جس کی وجہ سے ہر چیز کا ازلی تجدّد ہوتا ہے، یعنی ہر روحانی قیامت کے انجام پر حظیرۂ قدس میں ظہورِ ازل کی وجہ سے تمام انسانی روحوں کی یک حقیقت ہو جاتی ہے۔ القرآن (۷۶: ۰۱)
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اسلام آباد
اتوار، ۶ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۰۰
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۵۱
البقرۃ (۰۲: ۲۱۳) آیۂ شریفہ کا عنوان ہے: كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً۔۔۔ سلسلۂ انبیاء علیہم السّلام کے آغاز سے پہلے شخصِ وحدت= امامِ زمانؑ کے عالمِ شخصی میں تمام لوگ روحاً ایک ہی امت (جماعت) تھے۔ کیونکہ ہر روحانی قیامت کے انجام پر سب لوگ عالمِ وحدت (حظیرۂ قدس) میں روحاً ایک ہی امت (جماعت) ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ قدیم میں سے ایک صفت القابض ہے اور ایک صفت الباسط ہے، یعنی وہ قادرِ مطلق اپنی قدرتِ کاملہ سے تمام روحوں کو نفسِ واحدہ (امامِ زمان) میں جمع بھی کرتا ہے، اور اس کی اولاد کے طور پر پھیلاتا بھی ہے، اللہ کے نزدیک تم سب کو جسماً و روحاً پیدا کرنا نفسِ واحدہ ہی کی طرح ہے (۳۱: ۲۸)۔ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام مسجودِ ملائک کے ساتھ بنی آدم کا نہ صرف پدری رشتہ تھا بلکہ تمام بنی آدم خلیفۃ اللہ کے اجزائے روح بھی تھے اور سجدہ کرنے والے فرشتے بھی۔ القرآن (۰۷: ۱۱)۔
ترجمۂ ارشاد(۲۱: ۳۲) اور ہم نے آسمان (حظیرۂ قدس) کو ایک محفوظ چھت بنا دیا ہے۔ یعنی روح وہاں ہمیشہ زندہ اور محفوظ و
۱۰۱
سلامت ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات، ۱۰ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۰۲
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۵۲
سورۂ صٓ (۳۸: ۲۶) حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ۔ (ہم نے اُس سے کہا) اے داؤد، ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکم کیا کر، اللہ تعالیٰ نے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کو ایک ساتھ کئی عظیم درجات سے سرفراز فرمایا تھا جیسے خلیفۃ اللہ، نبی، امامِ مستودع، دینی بادشاہ، آپ ہی کی مناجاتوں میں اللہ نے زبور نازل فرمائی، دنیا کے تمام پہاڑوں اور سارے پرندوں کو حکم دیا کہ عالمِ ذرّ اور صورِ اسرافیل کے توسط سے داؤدؑ کے ساتھ ہمنوا ہو جائیں۔ کیونکہ یہ روحانی قیامت = تاویل ہے۔ جس کی روشنی میں یہ اسرار معلوم ہوئے ہیں کہ (۱۷: ۴۴) کو خوب غور سے پڑھیں، ہر چیز زبانِ حال سے بھی اور زبانِ قال سے بھی اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح کر رہی ہے، اور یہ بہت بڑا راز اس طرح ہے کہ ہر چیز عالمِ ذرّ میں ہے، اور وقت آنے پر عالمِ ذرّ صورِ اسرافیل کی ہمنوائی میں اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے صورِ اسرافیل کو حضرتِ داؤدّ کا معجزہ قرار دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرتِ داؤدؑ زبور کی تلاوت موسیقی کے ساتھ کرتے تھے
۱۰۳
اگر موسیقی خالی از حکمت اور حرام ہوتی تو حضرتِ داؤدؑ ، خلیفۃ اللہ ، نبی، اور امام اس کو استعمال ہی نہ کرتے اور اللہ ہی کی خوشنودی کے سوا کوئی چیز ہرگز ہرگز نہ ہوتی۔ قرآنی حوالہ جات (۰۴: ۱۶۳)، (۱۷: ۵۵)، (۳۴: ۱۰)، (۳۸: ۲۶)، (۲۱: ۷۹)۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ، ۱۱اپریل ۲۰۰۳ء
۱۰۴
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۵۳
الانبیاء (۲۱: ۱۰۵) میں ارشاد ہے: وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ۔
تاویلی مفہوم: اور عالمِ شخصی کی زبور (کتاب) میں ہم اسمِ اعظم کے ذکر کی تکمیل کے بعد لکھ چکے ہیں کہ ارضِ کلی کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ ارضِ کلی = عالمِ شخصی، سیّارۂ زمین، ارضِ کائنات، ارضِ بہشت۔
زبور کتاب کو کہتے ہیں، اور یہاں عالمِ شخصی کی عملی کتاب مراد ہے۔ حضرتِ داؤد علیہ السّلام اپنے عالمِ شخصی میں زبورِ مجسّم تھے۔ القرآن (۲۱: ۸۰) میں فرمانِ الٰہی ہے۔
وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ۔
ترجمہ: اور ہم نے اُس (یعنی داؤد) کو تمہارے فائدے کے لئے زرّہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تا کہ تم کو ایک دوسرے کی مار سے بچائے پھر کیا تم شکرگزار ہو؟ اس مبارک ارشاد کی تاویل کئی اعتبار
۱۰۵
سے بے حد ضروری ہے، اور وہ تاویل یہ ہے کہ امامِ مبین صلوات اللہ علیہ میں تمام انبیاء علیہم السّلام کے سب معجزات جمع ہیں، چنانچہ امامِ زمانؑ اپنے حدودِ جسمانی میں سے کسی پر روحانی قیامت برپا کرتا ہے اور اس کی منزلِ عزرائیلی میں بہت سے اجسامِ لطیف بناتا ہے، یہ اجسامِ لطیف لبوس ہیں یہ مومن جنّات بھی ہیں اور فرشتے بھی اور سرابیل (۱۶: ۸۱)، اجسامِ نورانی بھی۔ ایک روایت کے مطابق ہر روحانی قیامت میں ستر ہزار نورانی ابدان ہوتے ہیں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار ، ۱۳ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۰۶
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۵۴
قسط ۳۸ میں حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ سے لے کرحضرتِ ابو طالب علیہ السّلام تک پاک امامانِ مستقر صلوات اللہ علیہم کے اسمائے مبارک ہیں جو تقریباً ۴۹ پاک نام ہیں۔ یہ پُرنور اسماء اور أئمّۂ آلِ محمدؐ کے بابرکت اسماء جو آپ اپنی پاک دعا میں پڑھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے وہ اسماءِ حسنیٰ ہیں جن کی عظمتِ شان اور تعریف و توصیف قرآنِ حکیم (۰۷: ۱۸۰) میں موجود ہے، خدائے بزرگ و برتر نے اہلِ ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ انہی اسماءِ حسنیٰ سے اس کو پکارا کریں۔ جیسا کہ مولاعلی علیہ السّلام کا فرمان ہے: انا الاسماءُ الحسنیٰ التی امر اللہ ان یدعیٰ بھا = یعنی میں خدا کی وہ اسماءِ حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ انہی ناموں سے اُس کو پکارا جائے۔ منقبت ۲۹۔ بابِ سوم، کوکبِ دری۔ وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪۔۔۔ (۰۷: ۱۸۰)۔
یہاں پر بڑی زبردست انقلابی حکمت ہے جس کو خوب دلنشین انداز میں سمجھ لینا بے حد ضروری ہے جو خوش نصیب لوگ امامِ زمانؑ کو اسمِ اعظم اور اسماءِ حسنیٰ قرار دے کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں وہ بڑے کامیاب اور سعادت مند ہیں اللہ کالاکھ لاکھ شکر ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر ، ۱۴ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۰۷
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۵۵
گرچہ قرآن از لبِ پیغمبر است
ہر کہ گوید حق نہ گفت آن کافر است
ترجمہ: اگرچہ قرآن حضرتِ پیغمبر کی زبانِ مبارک سے (لکھا گیا) ہے اس کی وجہ سے اگر کوئی کہے کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہے، توایسا شخص کافر ہے۔
بحوالۂ المیزان فی تفسیر القرآن جلد ۱۹ ص ۳۷۶۔۔۔ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے روایت ہے: آپ نے فرمایا: و اما نٓ (۶۸: ۰۱) فھو نھر فی الجنۃ قال اللہ عز و جلّ اجمد فجمد فصار مداد ثم قال للقلم اکتب فسطر القلم فی اللوح المحفوظ ما کان وما ھو کائن الیٰ یوم القیامۃفالمداد مداد من نور والقلم قلم من نور واللوح لوح من نور۔۔۔فنون ملک یودی الیٰ القلم و ھو ملک، والقلم یودی الیٰ اللوح وھو ملک واللوح یودی الیٰ اسرافیل، واسرافیل یودی الیٰ میکائیل، و میکائیل یودی الیٰ جبرائیل و جبرائیل یودی الی الانبیاء و الرسل۔
ترجمہ: امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: پس نون بہشت
۱۰۸
میں ایک نہر ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا منجمد ہوجا اس نے حکم کی تعمیل کی، پس وہ مداد = روشنائی بن گئی، پھر اللہ نے قلم سے فرمایا: لکھ، تو قلم نے لوحِ محفوظ میں لکھا جو کچھ ہوا تھا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا، پس مداد =روشنائی سے ایک نور مراد ہے، قلم ایک نور ہے، اور لوح ایک نور ہے، پس نون ایک فرشتہ ہے جو اللہ کی وحی فرشتۂ قلم کو ادا کرتا ہے، یہ فرشتہ ادا کرتا ہے فرشتۂ لوح کو، وہ ادا کرتا ہے اسرافیل کو، اسرافیل ادا کرتا ہے میکائیل کو، میکائیل ادا کرتا ہے جبرائیل کو اور جبرائیل وحی ادا کرتا ہے انبیاء و رسل علیہم السّلام کو۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل ، ۱۵ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۰۹
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۵۶
سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۱) سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔
ترجمہ: پاک ہے وہ (خدا) جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تا کہ اُسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔
تاویلی حکمت: رات خود رات بھی ہے، اور تاویلاً باطن بھی ہے، لہٰذا یہ آنحضرتؐ کی معراج ہے جو روحانی اور باطنی طور پر ہوئی تھی، یعنی آپ جسماً نہیں، بلکہ روحاً حظیرۂ قدس کے عرش پر گئے تھے۔ مسجد، عبادت، اور عبادت گاہ کا نام ہے، اور اس کی تاویل اسمِ اعظم = امامِ زمانؑ ہے، کیونکہ خاصانِ الٰہی کی مسجد اور عبادت یہی ہے، چنانچہ حضورِ اکرم کو شبِ معراج ابتدائی اسمِ اعظم سے آخری اسمِ اعظم تک عروج ہوا تھا۔ اور آسمانِ نفسِ کلّی = عالمِ وحدت کے عظیم معجزات کا مشاہدہ اور
۱۱۰
عرفان ہوا تھا۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی معراج کے عظیم معجزات کی تاویل جملہ قرآن میں محیط و بسیط ہے۔
سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۱۸) میں معراجِ شریف کے عظیم معجزات اور عظیم اسرار ہیں۔ آپ بہت دعا کریں کہ ہم سب کو حظیرۂ قدس کے عظیم اسرار کی معرفت نصیب ہو! آمین ، ثم آمین ! تا کہ ہم کو اسرارِ معراج کی معرفت حاصل ہو!
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس ۔ آئی)
کراچی
بدھ، ۱۶ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۱۱
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۵۷
سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۰۲) کا تاویلی مفہوم: ظہورِ نورِ ازل کی قسم جبکہ وہ مقامِ معراج پر انتہائی عظیم اسرار و رموز کے پُرحکمت اشارات کے ساتھ طلوع و غروب کا مسلسل مظاہرہ کرتا ہے، چونکہ یہ عالمِ وحدت ہے، لہٰذا گوہرِعقل بھی اور کتابِ مکنون بھی (جس میں قرآن کے تمام اسرار جمع ہیں) اسی نورِ ازل میں ہیں۔ اس عظیم قَسم کے بعد جوابِ قَسم میں ارشاد ہے کہ تمہارا رفیق (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے اس میں حضورِ اکرمؐ کی منزلِ معراج تک کامیاب راہنمائی کی تعریف کے ساتھ ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ تم سب اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ معراج پر گئے تھے، مگر غیر شعوری طور پر تاکہ آئندہ سعیٔ بلیغ کرنے والوں کے لئے معراج کی معرفت غیر ممکن نہ ہو۔
سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۹) میں ایک روشن دلیل یہ ہے کہ کتابِ مکنون کو صرف مطھرون ہی (وہ لوگ جو پاک کئے گئے ہیں) چھو سکتے ہیں یعنی ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔ یہ سعادت مقامِ معراج پر ہی مطھرون کو نصیب ہوتی ہے۔
ایک ایسی روشن دلیل سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) میں بھی ہے کہ مومنین و
۱۱۲
مومنات کا نور مقامِ معراج پر ہی طلوع و غروب کا مظاہرہ کرتا ہے، مگر صرف ان کا نمائندہ ہی اس نور کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات، ۱۷ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۱۳
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۵۸
کتابِ مستطابِ سرائر ص ۱۱۷ پر حضرتِ مؤوّلِ قرآن مولا علیؑ کا فرمان ہے: انا دین اللہ حقا ، یعنی میں یقیناً اور تاویلاً اللہ کا دین ہوں۔
اے عاشقان! اے عاشقان! سنو، سنو اس حکمتِ بالغہ کو جان و دل سے سنو! اور ہمیشہ اس خزانۂ معرفت سے فائدہ حاصل کرتے رہو! اور قرآنِ حکیم میں چشمِ بصیرت سے دیکھو، کیا سر تا سر قرآن میں اللہ کے دین کی دعوت کے سوا اور کوئی بات ہے؟ علاوہ بران جگہ جگہ نمایان طور پر بھی اللہ کے دین کا ذکر ملے گا دینِ حق، دینِ اسلام دینِ حنیف ، صراطِ مستقیم، منہاج، دینِ خالص ، دینِ قیم (دینِ قائم)، ملتِ ابراہیم، وغیرہ۔
سب سے پہلے آپ سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۲) میں دیکھیں اس میں دینِ اللہ خود رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔ پھر علی علیہ السّلام اور امامِ زمان (روحی فداہٗ) اللہ کا دین یعنی دینِ حق ہے اس میں کسی انسان کی مرضی کا ہرگز کوئی دخل نہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی ہے کہ اُسی بادشاہِ مطلق نے اپنی مرضی اور حکمت سے کل اشیاء کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) پس مولا کا ارشاد ہے انا دین اللہ حقا، انا نفس اللہ حقا کو ہر عاشق حفظ کرے، بہت ضروری ہے،
۱۱۴
اس سے علمی برکت ہو گی۔ نفسُ اللہ کے قرآنی حوالے: (۰۳: ۲۸)، (۰۳: ۳۰)، (۰۶: ۱۲)، (۰۶: ۵۴)۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ، ۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۱۵
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۵۹
جامعِ ترمذی ، جلدِ دوم باب: ۱۵۲۱ سورۂ یاسین کی فضیلت۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ : ان لکل شیءٍ قلبا و قلب القرآن یس و من قرا یس کتب اللہ لہ بقراتھا قراۃ القرآن عشر مرات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یس ہے ۔ جو اسے ایک مرتبہ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس مرتبہ قرآن پڑھنے کا اجر لکھ دیتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: ہر چیز کا ایک سنام (بلند حصہ) کوہان ہوتا ہے، اور قرآن کا سنام سورۂ بقرہ ہے اور اس میں ایک آیت ایسی بھی ہے جو قرآن کی تمام آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ اس سے یہ سوال بھی حل ہو گیا کہ سورۂ یس قلبِ قرآن اس لئے ہے کہ اس میں آیۂ امامِ مبین ہے (۳۶: ۱۲) جس کی تعریف و توصیف اللہ نے خود فرمائی ہے۔ آیۂ امامِ مبین کی نورانی معرفت حظیرۂ قدس میں ہے۔
۱۱۶
کتاب الاتقان میں ہے کہ قرآن میں تین چیزیں سب سے بڑی ہیں، سورتوں میں سب سے بڑی سورۂ فاتحہ ہے، تمام آیات میں آیت الکرسی، تمام اسماءُ اللہ میں اسمِ اعظم۔ اب سن لیں کہ سورۃ الفاتحہ کا نام ام الکتاب ہے، ام الکتاب باطن میں علیؑ ہے (بحوالۂ کتابِ وجہِ دین ص ۱۹۷) ۔ آیت الکرسی کی تاویل میں یہ ذکر ہے کہ امامِ زمان اللہ کا اسمِ اعظم ہے ۔ اور خدا کے تمام صامت اسماء میں وہ اسم سب سے اعظم ہے جو حیّ= زندہ اور بولنے والا ہے یعنی امامِ زمانؑ، پس امامِ مبین میں اللہ نے تمام خوبیاں جمع کر رکھی ہیں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۲۱ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۱۷
سلسلۂ نورٌعلیٰ نور
قسط: ۶۰
اِس آیۂ بے مثال کے باطن میں اللہ تعالیٰ کے نورانی معجزات کی کائناتِ اعظم ہے جو اللہ نے امامِ مبین کوعطا کی ہے، اسی وجہ سے یہ قلبِ قرآن میں ہے، وہ ارشاد جو سرچشمۂ حکمتِ کلّ ہے، یہ ہے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲)۔
ترجمہ: ہم یقیناً ہر قسم کے مردوں کو زندہ کرتے ہیں، علی الخصوص ان مردوں کو جو بحکمِ موتوا قبل ان تموتوا مرتے ہیں، اور یہی وہ نیک بخت لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نورانی معجزات کی کائناتِ اعظم کا مشاہدہ کرتے ہیں اور بفضلِ خدا اس کے نتیجے میں ان کو کنزِ معرفت عطا ہوتا ہے۔ نورانی معجزات کی کائناتِ اعظم کے چند نام یہ ہیں: عالمِ علوی، عالمِ بالا، عالمِ امر، عرفانی بہشت، عالمِ وحدت، علّیّین ، کتابِ مرقوم ، آسمانِ نفسِ کلّی، مقامِ معراج، مقامِ محمود، بیت المعمور، عرش، عالمِ شخصی کا آسمان، حظیرۂ قدس، کائناتی بہشت، وغیرہ۔
مولا علیؑ کا پرنور ارشاد ہے: کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا ساجسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمٹا ہوا ہے؟
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل، ۲۲ اپریل ۲۰۰۳ء
۱۱۸