حقیقی عشق

یکے از تصنیفاتِ
علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

حقیقی عشق

حقیقی عشق کے باب میں کچھ اظہارِ خیال کرنے کے لئے کوئی اور چیز نہیں بلکہ خود حقیقی عشق ہی چاہئے، وہی ہو تو کچھ دلکش باتیں ہوں گی، وہی ہو تو کوئی مطلب کسی کے دل میں اتر سکے گا، اس کے بے پناہ بیان میں سے جس قدر بھی تحریر میں آ سکے، خود حقیقی عشق کی روشنی میں ہونا چاہئے، کیونکہ جب وہ خود ہی ایک نور ہے، تو اس کو اس کی اپنی ہی روشنی میں کیوں نہ ظاہر کیا جائے۔

حقیقی عشق کب سے ہے؟ کہاں سے آیا؟ کیوں ہے؟ کس طرح ہے؟ کب تک ہوگا؟ کہاں کہاں ہے؟ کیا یہ مجسّم ہے یا مجرّد؟ اس کے حصول سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ اور اس کے نہ ہونے سے کیا نقصان ہوتا ہے؟ عشقِ حقیقی کی عظمت و مرتبت کیا ہے؟ اور اس کا پھیلاؤ کہاں سے کہاں تک ہے؟ اس قسم کے سوالات کے حل کے طور پر یہ کتاب لکھی گئی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے بہت دلچسپی اور بہت فائدہ ہوگا۔

۱

 

وہ نور ہے:

یعنی عشقِ حقیقی انوارِ الٰہی میں سے ایک نور ہے، ایک ایسا عظیم نور کہ اس سے بڑھ کر کوئی نور نہیں، کیونکہ جسم سے روح کا مرتبہ اونچا ہے، روح سے عقل کا درجہ بلند تر ہے اور عقل سے عشق ارفع و اعلیٰ ہے۔

ہم نے یہ دعویٰ تو کر ہی لیا کہ عشقِ حقیقی سب سے عظیم نور ہے، مگر ایمانداری تب ہوسکتی ہے، جبکہ یہ بھی سوال کیا جائے کہ ایسے نور کی روشنی کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ اور یہ روشنی کس قسم کی تاریکی کو دور کر دیتی ہے؟

چنانچہ میں اس کا بیان ربّ العزّت کی توفیق سے کروں گا، مگر مجھے احساس ہے کہ یہ بہت بڑی بات ہے اور بہت اونچی بات ہے، اس لئے نہ صرف مجھے اِس رازِ حقیقت کو انتہائی ادب اور حرمت کے ساتھ بیان میں لانا چاہئے، بلکہ آپ کو بھی نہایت ہی قدردانی کے ساتھ ایسی باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے، تا کہ حقائق و معارف کی قدر و قیمت قائم رہ سکے، اے میرے عزیزو! یہ جان رکھو کہ نور یعنی روشنی کسی چیز کے جل جانے سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے بغیر کوئی نور ہے ہی نہیں، کہ جلنے جلانے کے سوا نور ہو، سو نورِ عشق عاشق کے جل جانے سے پیدا ہوتا ہے، اس میں جسم، روح اور عقل تینوں چیزیں مسلسل جلتی رہتی ہیں، یعنی ان کی تحلیل ہوتی چلی جاتی ہے، ہاں درست ہے یہ کام ترتیب سے اور اصول کے

۲

مطابق ہوتا ہے، کہ جسم جل کر ایکدم سے نورِ عشق نہیں بن سکتا، بلکہ جسم کی تحلیل سے روح کا احاطہ بڑھ جاتا ہے اور اس مطلب کو عام الفاظ میں ظاہر کرنے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں، کہ جسم کے حقیقی معنوں میں جلنے سے روح کا شعلہ بن جاتا ہے، روح کے جلنے سے عقل کا وجود بنتا ہے اور عقل کو اُس بے مثال محبوب کے حسن و جمال اور اوصافِ کمال کی محبت و حیرت کی آگ میں جلانے سے نورِ عشق پیدا ہو جاتا ہے۔

اِس مقام پر ہوشیار قاری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مجھ سے یہ سوال کرے، کہ اگر ہم یہ مان لیں، کہ عشق کی تحریک و تحلیل ہی سے روح اور عقل کا وجود بن جاتا ہے، تو پھر ہم اس کی کیا توجیہہ کر سکتے ہیں، کہ چھوٹے بچوں میں عقل کا مایہ اور روح ہے، اور جانوروں میں بھی روح ہے، لیکن ان میں عشق نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں میں اگرچہ کوئی کامل عشق نہیں، تاہم عشق کا سایہ ہے یعنی عشق کی ایک خفیف صورت یا صلاحیت موجود ہے مگر یہ ابتدائی شکل میں ہونے کی وجہ سے کھانے پینے اور سونے جاگنے میں محدود ہے اس کے علاوہ یہ بھی ایک عام مشاہدے کی بات ہے، کہ بچے پیدا ہونے کے چند دن بعد روشنی کو حیرت سے دیکھنے لگتے ہیں، کچھ آگے چل کر وہ کھلونوں سے محبت کرتے ہیں، انسان کی یہی صلاحیت رفتہ رفتہ نشونما پا کر عشق کی صورت اختیار کر

۳

لیتی ہے۔

اب رہا جانوروں میں عشق کی کسی صورت کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سوال، تو عرض یہ ہے کہ جانوروں میں بھی عشق کی مختلف ادنیٰ (یعنی کم سے کم تر) صورتیں موجود ہیں، مثلاً باہمی میل جول اور بچوں سے محبت، غذا کی خواہش اور حرص، اور ایسی عادتوں کی طرف ہر وقت مائل رہنا جو فطری طور پر جانوروں میں پائی جاتی ہیں۔

الغرض یہ بات حقیقت ہے کہ عشقِ حقیقی نور ہے جس کی روشنی عقل کی روشنی سے بڑھ کر ہے، کیونکہ جہاں انسانی روح فکری مشقت کی آگ میں جل کر عقل کی روشنی بن جاتی ہے وہاں عاشقِ صادق کی عقل جمالِ جانان کی تجلیوں کی سوزش سے نورِ عشق کی کیفیت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

نورِ عشق کی کیفیت و حقیقت کماحقہٗ بیان نہیں ہو سکتی ہے، اس لئے کہ عشق عاشق کے اُس بھرپور جذبے کو کہا جاتا ہے، جس میں سچا عاشق ماسوائے معشوق کے ہر چیز کو اور سب سے پہلے خود کو ہیچ سمجھتا ہے، یعنی وہ ہر چیز کو اور اپنی خودی کو ارادے کی انتہائی شدّت سے اپنے معشوق پر قربان کر دیتا ہے، اس کیفیت کی مثال کسی چیز کو جلا کر روشنی پیدا کرنے کی طرح ہے، ایسی حالت میں یقیناً ایک حقیقی مومن میں نورِ عشق کی روشنی پیدا ہوتی ہے، جس کی

۴

تجلّیوں کی تعریف و توصیف کے لئے مناسب الفاظ نہیں ملتے، اور حق بات یہ ہے کہ حقیقی عشق کی کیفیت احاطۂ بیان سے باہر ہے، تاہم یہاں قریب قریب کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں۔

اُس روشنی کی مثال:

یعنی وہی سوال کہ نورِ عشق کیسا ہے؟ اس کی مثال کیا ہے؟ اور اس کو کس طرح سمجھ لیا جائے؟ جاننا چاہئے، کہ انسان اپنی باطنی حیثیت اور قلبی حالت میں ایک بہت ہی عظیم دنیا ہے، اور اس میں عشق سورج ہے، عقل چاند ہے، روح ستاروں کا مجموعہ ہے اور جسمانیّت و نفسانیّت رات کی طرح ہے، دوسری مثال میں عشق بادشاہ ہے، عقل وزیر، روح امیر اور جسم رعیّت ہے۔

عشق دنیائے دل کا نور اس لئے ہے، کہ جن جن تاریکیوں کو عقل دور نہیں کر سکتی ہے، ان کو عشق دور کر سکتا ہے، عشق ہر خام کو پختہ اور ہر نا تمام کو مکمل کر دیتا ہے، عشق وہ ہے جو جسم، روح اور عقل تینوں کو بیداری اور حقیقی زندگی بخشتا ہے، یہ انسان کی خرابیوں اور بری عادتوں کی اصلاح کرتا ہے، عبادت و بندگی اور روحانی ترقی کی مشکلات کو آسان کر دیتا ہے، مصائب و آلام کی تلخیوں کو خوشگوار بناتا ہے، خوف و ہراس کو امید و یقین کا رنگ دیتا ہے، یہ

۵

بعید کو قریب لاتا ہے، پرائے کو اپنا اور دشمن کو دوست بنا لیتا ہے، نفرت کو محبّت کی صورت دیتا ہے، بُرے کو اچھا قرار دیتا ہے، بد صورت کو خوبرو سمجھتا ہے۔

عشق کا مذہب و مسلک بھی ازبس عجیب ہے، یہ مذہب ایسا ہے کہ یہ ہونے کو ہے بھی اور نہ ہونے کو نہیں بھی، کیونکہ قانونِ عشق مذاہب کے تعصبات اور اختلافات و انتشارات سے بالا و برتر ہے، چونکہ عشق رحمتِ خداوندی کا نام ہے، جبکہ رحمت مہر و مہربانی اور محبّت و عشق کو کہتے ہیں۔

 

یہ وضاحت عشق کی روشنی میں ہے اور یہ خود بھی عشق کی اتنی روشنی ہے جتنی کہ تحریر میں آ سکتی ہے، اور جو عشق کی عملی روشنی ہے وہ اس سے الگ ہے اس کو عین الیقین سے دیکھنے کے لئے یہ پہلا زینہ ہے جو علم الیقین کا زینہ ہے، اس کے بغیر کوئی شخص عین الیقین کے زینے پر نہیں چڑھ سکتا۔

جس طرح روحانی روشنی مادّی روشنی سے مختلف ہوتی ہے، اور علم و عقل کی روشنی اس سے بھی مختلف ہوتی ہے، اسی طرح عشق کی روشنی بھی بالکل جدا اور قطعی نرالی چیز ہے، یہ محسوس ہوتی ہے دکھائی نہیں دیتی، مگر ہاں اس کے تحت عقل و روح کی روشنی جو خادم کی طرح کام کرتی ہے، وہ عشق کے زیرِ اثر تیز تر اور نمایان تر ہو جاتی ہے۔

۶

عشق کی پیدائش:

یہ عنوان اپنے اندر یہ سوال رکھتا ہے کہ عشق کب پیدا ہے؟ اور مومن میں کس طرح پیدا ہوسکتا ہے؟ اور اس میں اضافہ کیسے ہو؟ اس کے لئے جواب ہے کہ عشق ازل سے ہے، یعنی اس کی کوئی ابتداء نہیں، بلکہ یہ ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشگی کی ایک حقیقت ہے، کیونکہ یہ رحمان و رحیم کا وصف ہے، اور آپ ضرور باور کریں گے، کہ خدا کی ہر صفت قدیم ہوا کرتی ہے، یعنی جس طرح ذاتِ خداوندی ہمیشہ سے ہے اسی طرح اس کی صفات بھی ہمیشہ سے ہیں۔

اب یہ سوال بہت ضروری ہے کہ بندۂ مومن میں حقیقی عشق کا وصف کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ اور کس طرح اس کی ترقی ہوسکتی ہے؟ جاننا ضروری ہے کہ عشقِ حقیقی پیدا نہیں ہوتا، مگر محبوب و معشوق کے حسن و جمال اور اوصافِ کمال کے مشاہدہ و مطالعہ سے ، یا اس کی گوناگون خوبیوں اور رعنائیوں کی تعریف و توصیف کے سننے سے، یعنی عشق کی پہلی شرط یہ ہے، کہ معلوم ہو کہ دلبر و دلدار ایسا ہے اور ایسی ایسی صفاتِ عالیہ کا مالک ہے۔ اس مطلب کو شناخت اور معرفت کہا جاتا ہے، اب معشوق کی شناخت جتنی مکمل اور زیادہ ہوگی اتنا عشق مضبوط اور وسیع ہوگا۔

۷

دوسری شرط تقویٰ ہے، یعنی پرہیزگاری کا ہونا لازمی ہے، کیونکہ حقیقی عشق ایک انتہائی مقدس معجزہ اور ایک نہایت ہی عالی شان صفت ہے، جو صرف پاک و پاکیزہ مومنین میں پیدا ہوتا ہے، اور جس دل میں ذرہ بھر گناہ ہو، عشق اس کے قریب بھی نہیں آتا۔

تیسری شرط خوش خلقی ہے، یعنی مومن کو نیک عادات اور اعلیٰ صفات کا حامل ہونا چاہئے، تا کہ اس قریبی نسبت سے حقیقی معشوق سے مومن کی دوستی، محبّت اور عشق ہوسکے، کیونکہ دوستی و محبّت جانبَین کے اوصاف کی موافقت و یک رنگی ہی سے ہوتی ہے اور مخالف و متضاد عادات والوں کے آپس میں ہرگز عشق پیدا نہیں ہوتا۔

ایک سوال اور اس کا جواب:

آپ کبھی تو کہتے ہیں کہ گریہ و زاری اور عجز و انکساری اختیار کرو، اور کبھی کہتے ہیں کہ جب تک اپنے اندر خدا کے اوصاف نہ پیدا کئے جائیں، عشقِ حقیقی نہیں ہوسکتا، حالانکہ اِس وضاحت میں تضاد پایا جاتا ہے، کیونکہ گریہ و زاری اور عجز و انکساری سے اللہ تعالیٰ بہت بالاوبرتر ہے، وہ تو عظمت و بزرگی اور قدرت و توانائی کا مالک ہے، اور یہ بھی ہے اگر ہمارے لئے ممکن ہے کہ ہم اپنے اندر

۸

خدا کی سی عادتیں پیدا کر لیں، تو پھر دوستی و عشق کی کیا ضرورت، کیونکہ جو کچھ وہاں ہے وہ یہاں بھی ہے، آپ ہی بتائیں کہ یہ سوال ہے یا نہیں؟ اور اس کا کیا جواب ہونا چاہئے؟

جواب: جاننا چاہئے کہ گریہ و زاری اور عاجزی و انکساری فی نفسہٖ مراد نہیں بلکہ اس کا نتیجہ مراد ہے، یعنی دل و دماغ کی صفائی اور روح کی پاکیزگی مقصود ہے اور روح کا پاک ہونا کسی قدر یعنی کسی حد تک خدائے پاک کی صفت کے مشابہ ہے۔ جس طرح شبنم کا ایک قطرہ کسی حد تک سمندر کی صفائی کے مشابہ ہوتا ہے، قطرہ اپنی محدود صفات میں جو کچھ بھی رکھتا ہے، وہ سمندر کی خاصیت کے مخالف اور متضاد نہیں، وہ سمندر سے دوستی رکھنے کا محتاج ہے، ان دونوں کے آپس میں دوستی ممکن ہے کیونکہ جانبَین میں یک رنگی اور ہم جنسیت و موافقت ہے، لہٰذا کوئی دانشمند نہیں کہہ سکتا کہ قطرہ سمندر کے برابر ہوگیا اب اسے سمندر سے محبت رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

عشق طبیب ہے:

قرآنِ پاک کے پُرحکمت اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم کی طرح روح بھی قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہے، بلکہ جسم کے مقابلے میں روح

۹

بہت زیادہ بیمار رہتی ہے اور اس کی بیماری بھی بڑی خطرناک ہوتی ہے، کہ اگر وقت پر علاج نہ کیا گیا تو انسان جہالت و گناہ کی موت ہلاک ہو جاتا ہے، اور بہت بڑی دانشمندی یہ ہے کہ ہر نوع کی روحانی بیماری کا علاج عشقِ حقیقی سے کیا جائے، کیونکہ اخلاقی، مذہبی اور روحانی بیماریوں کے لئے حقیقی عشق سے بڑھ کر کوئی علاج نہیں، ان معنوں میں عشق خود دوا بھی ہے اور خود طبیب بھی، جبکہ عشق خاموشی کی زبان سے کلام کرتا ہے، بتاتا ہے، سمجھاتا ہے اور سکھاتا ہے، کیونکہ نورِ عشق میں نورِ ہدایت کی روشنی ہے، جس میں نیک توفیق بھی ہے اور اعلیٰ ہمت بھی اور سچ پوچھو تو اس میں کیا نہیں سب کچھ ہے۔

عشق طبیب ہے اور معشوق طبیب ہے، میرے نزدیک دونوں باتیں ایک ہیں، کیونکہ عشق نمائندہ ہے معشوق کا، عشق قائم مقام ہے محبوب کا، جب عشقِ حقیقی ہماری روحوں کا علاج کرسکتا ہے تو ہم اسے کیوں نہ طبیب مانیں، اور جب بھی دل میں جانان کا کوئی ظہور ہوگا، تو عشق میں سے ہوگا پھر ہم یہ کیوں نہ کہیں کہ عشق چراغ کی روشنی ہے اور معشوق چراغ ہے، اگر تمہارے دل میں اُس دلبر و دلدار کا مکمل عشق ہے، تو مبارک ہو کہ عنقریب تم کو جانِ جان کا جلوہ دکھائی دینے والا ہے، وہ یار جانی تم کو اپنا مقدّس دیدار دینے والا ہے، اس کے پاک عشق نے ہی پہلے پہل تم کو اس قابل بنایا، کہ اب تم خود کو روحانی دیدار کے

۱۰

مستحق سمجھ رہے ہو، شروع شروع میں تمہیں روحانی بیماریوں کی شکایت رہتی تھی، اب یہ بات نہیں رہی، تو معلوم ہوا کہ عشق طبیب ہے جس نے دوا دی اور علاج کیا پھر شفا ملی۔

یہ نسخہ ہزار بار آزمودہ اور کامیاب ہے، کہ حقیقی محبّت اور دینی عشق کی دستگیری اور مدد حاصل کئے بغیر کوئی مومن ایمان اور ایقان میں آگے نہیں بڑھ سکتا، راہِ روحانیت میں ترقی نہیں کرسکتا اور نہ اس کی عبادت و بندگی اور ذکر و فکر میں کوئی جان ہوتی ہے، حقیقت میں ایسے شخص کی زندگی کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔

مرضِ روحانی کی علامتیں:

روحانی بیماری کی عام علامتیں یہ ہیں: شوقِ عبادت کا فقدان، ذکر و بندگی میں سستی و کاہلی، دل میں طرح طرح کے وسوسوں کا آنا، خوفِ بے جا، بے چینی، ذکر و عبادت کا سلسلہ قائم نہ رہنا، عبادت کے الفاظ ادا کرنے میں لغزش، قساوتِ قلبی (دل کی سختی) یعنی بندگی اور وعظ و نصیحت کے درمیان دل کا نرم نہ ہو جانا، اور گریہ و زاری کے فیض سے بے بہرہ رہ جانا وغیرہ۔

 

غیبت، شکایت، بدگوئی اور بیہودہ باتوں میں مصروف رہنے کی عادت، جھوٹ

۱۱

بولنا، معمولی باتوں میں بار بار قسمیں کھانا، نیک صحبت اور علم کی باتوں سے گریز کی خواہش، دینی قسم کی مایوسی، علمائے دین سے بغض رکھنا، غیروں کی باتوں سے دلچسپی، اور حرام کو چاہنا، خواہ وہ حرام صرف دل کی نیّت تک محدود ہو یا وہ قول حرام ہو یا کوئی حرام عمل ہو، ہر حالت میں حرام ہی ہے اور اس کی خواہش روحانی بیماری ہے جو بنیادی قسم کی ہے۔

غرض یہ ہے کہ خدا و رسول اور صاحبانِ امر کے حکم کے مطابق جو چیزیں ممنوع ہیں ان کو چاہنا اور ان سے دوستی رکھنا روحانی بیماری کی علامت ہے، جبکہ دوسری طرف سے دینی حکم کے موافق اعمالِ صالح سے دوستی ہونا روح اور دل کی صحت کی علامت ہے۔
مذکورۂ بالا تمام روحانی بیماریوں کا علاج عشق ہی سے کیا جا سکتا ہے، کیونکہ عشق ہی طبیب ہے، عشق ہی دوا اور علاج ہے اور عشق ہی شفا ہے، جبکہ عقیدہ، اخلاص، محبت، ایمان، یقین اور معرفت عشق کے بغیر نہیں، اگر دینی امور میں عشق ہے تو کوئی چیز مشکل نہیں، عشق وہ معجزہ ہے جس سے مشقت راحت بن جاتی ہے، عشق وہ ہے جو عاشق کو معشوق سے ہمکنار کر دیتا ہے بلکہ خود عاشق کو معشوق بنا دیتا ہے۔

عشق کے درجات:

۱۲

 

قرآنِ حکیم میں دینی قسم کی محبت و دوستی اور ولایت فرض کی گئی ہے، جس کا ہم یہاں عشق کے عنوان سے ذکر کر رہے ہیں، اگرچہ لفظِ عشق قرآن میں بظاہر موجود نہیں، لیکن مترادفات میں اس کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور حروفِ مقطعات میں بھی، اور اگر دقتِ نظر سے کام لے کر دیکھا جائے، تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئیگی، کہ دنیائے قرآن کی تمام چیزیں عشقِ خدائی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں، جس کا اشارہ  ۰۲: ۱۳۸  میں ہے، اور اس قول میں کیا شک ہو سکتا ہے، جبکہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا کہ:
وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ (۴۹: ۰۷) لیکن خدا نے تمہیں ایمانِ حبیب و عزیز قرار دیا اور اس کی خوبصورتی و عمدگی تمہارے دلوں میں ظاہر کر دی، یعنی ایمان نہ صرف محبّت و جاذبیّت و دلکشی کی تاثیر ہے بلکہ اس میں یہ خاصیت بھی ہے کہ جب ایک حقیقی مومن کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے تو اس وقت ایمان اس کے روحانی مشاہدے میں تجلّیاتِ نورانیّت کی جنّت بن کر سامنے آتا ہے، اس کا مختصر مطلب یہ ہوا کہ ایمان پیارا ہے، وہ پیار چاہتا ہے، ایمان ہر چیز سے حسین اور خوبصورت ہے، کیونکہ حکمت میں ایمان ہی بہشت ہے، اور اسی میں تمام لذّتیں پوشیدہ و پنہان ہیں، اس میں کسی چیز کی کمی نہیں۔

جب ایمان پیار اور محبت کا سرچشمہ ہے، جب یہ حقیقی محبت کی دعوت کرتا

۱۳

ہے، جب اس کی ہر بات اور ہر کام میں مہر و شفقت ہے اور جب اس کا انجام حقیقی عشق ہے کیوں نہ مانیں کہ دین محبت ہی محبت ہے۔ اس قول کی مراد یہ ہے کہ قرآن و سنّت کی تعلیمات میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دین کے تمام امور خوشی اور محبت سے انجام دیئے جائیں، کیونکہ دین میں اکراہ (زبردستی، ۰۲: ۲۵۶) نہیں، یعنی دین میں ہر بات اور ہر کام خوشی اور محبت کے تصور سے کرنا ہے اور یہی طریقہ سب سے بہتر اور یہی تصوّر سب سے ارفع و اعلیٰ ہے، اور خدا کی خوشنودی کا سبیل بھی یہی ہے، اگرچہ دین میں جہاد اور خوفِ خدا جیسی چیزیں بھی ہیں، لیکن انجام میں ۔

اب ہم یہاں حقیقی محبّت اور نورانی عشق کے مراتب و درجات کے باب میں کچھ تذکرہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں، کہ اس کا سب سے اونچا درجہ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے، پھر حضرت رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپؐ کے اہلِ بیت اطہار و أئمّۂ پاک علیہم السّلام کے عشق کا مرتبہ ہے، پھر گروہِ مومنین کی محبّت ہے، اور اس کے بعد نیک باتوں اور اچھے کاموں سے محبّت رکھنے کا رتبہ ہے، ظاہر ہے کہ خدا و رسولؐ سے محبّت و عشق رکھنے میں کوئی اختلاف نہیں، اور نہ ہی مومنوں کے آپس میں ایمانی دوستی و محبّت رکھنے کی بابت کوئی شک ہے، لیکن مقامِ تعجب ہے کہ امیرالمومنین یعنی امامِ زمانؑ کی محبت کے باب میں لوگوں

۱۴

کو کیوں سوال پیدا ہوتا ہے! اور بعض دفعہ اہلِ بیتِ اطہارؑ کی محبّت کے متعلّق بھی تأمل کیا جاتا ہے، حالانکہ اہلِ بیتِ رسول اور امامِ زمانؑ کی دوستی و محبّت مایۂ ایمان اور ذریعۂ عرفان ہے۔

عشق کے مقاصد:

یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ عشق کے بہت سے مقاصد ہیں، جو ابتداء سے لے کر انتہا تک ترتیب وار اور درجہ وار ہیں، اور ان کے آخر میں جو سب سے عظیم مقصد ہے، وہی اس سلسلے کا مقصدِ اعلیٰ ہے، اور وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا مبارک عشق ہے۔

ذاتِ سبحان کا مقدّس عشق بلا واسطہ حاصل نہیں ہوتا، یہ صرف پیغمبر برحقؐ ہی کے وسیلے سے ممکن ہے، پیغمبر علیہ السّلام کی جانب سے عشقِ الٰہی کے رستے کی ہدایت اس وقت مل سکتی ہے، جبکہ ہم رسول و اہلِ بیت اور أئمّۂ ہدا علیہم السّلام سے دوستی و محبت رکھیں، قانونِ الٰہی یہی ہے، اسی میں دین کی تمام حکمتیں پوشیدہ ہیں، یہیں سے اسرارِ معرفت کا ظہور ہوتا ہے، یہی راستہ صراطِ مستقیم کہلاتا ہے، اسی مقام پر نور ملتا ہے، اور یہی طریقہ اسلام کی اصل اور روح کے عین مطابق ہے۔
۱۵

دینی محبّت اور حقیقی عشق اس لئے ضروری ہے کہ اس سے فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں بڑی حد تک آسانی پیدا ہو جاتی ہے، دین کی لگن اور وابستگی اسی میں ہے، جذبۂ ایثار و قربانی اس کے بغیر نہیں پیدا ہوسکتا، اسی حقیقی عشق کے حاصل ہونے سے دنیا کی محبّت اور خواہشاتِ نفس پر قابو پانا ممکن ہے، یعنی اسی کے ذریعے سے باطل چیزوں کی محبّت زائل یا کم ہوسکتی ہے، اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے، کہ دوزخ کے خوف اور بہشت کی طمع سے بالاتر ہوکر خدا و رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی حقیقی اطاعت اسی وسیلے سے کی جا سکتی ہے، یہی تسلیم و رضا کا اصل طریقہ ہے، یعنی خود کو خدا کے سپرد کر دینے اور اس کی خوشنودی کا طالب رہنے کا راستہ یہی ہے، اور تائیدِ غیبی و نصرتِ خداوندی بھی اسی حقیقی عشق میں کارفرما ہے۔

عشق کا ذریعہ:

اگر کوئی پوچھے کہ عشق کا ذریعہ کیا ہے؟ تو بتا دینا کہ عشق کا اصل ذریعہ اور بنیادی وسیلہ خود معشوق ہی ہے، کیونکہ عشق کی علتِ اولیٰ وہی ہے، یہ اسی کی وجہ سے ہے کہ عاشق دردِ عشق میں مبتلا ہوا ہے، اور اس پر طرہ یہ کہ میں اکثر عاشقوں کی محفل میں جا کر انکے دل کے زخموں پر نمک پاشی اس طرح

۱۶

سے کرتا ہوں، کہ نظم و نثر کی صورت میں یار جانی کے حسن و جمال کی تعریف و توصیف کرتا ہوں، اگر چہ یہ میرے بس کی بات تو نہیں ہے، کہ اس شاہِ خوبان کی لاتعداد خوبیوں میں سے کسی ایک خوبی کی درست نقشہ کشی کرسکوں، لیکن تذکرۂ حسنِ جانان کی تاثیر کا یہ عالم ہے، کہ جوں ہی محبوب کا نام لیا گیا، ادھر عاشقوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے آبدار موتی برسنے لگے، میں نہ سہی کوئی اور سہی، مگر حق بات یہ ہے کہ میرے دلبر و دلستان کی بے مثال و لازوال زیبائی و رعنائی کی پیاری باتیں کرنے سے اہلِ عشق کی عاجزی و انکساری کی حد ہو جاتی ہے، جس سے اُن کا عشق اور بھی قوّی ہو جاتا ہے، کیونکہ ان کے آئینۂ دل میں اس گریۂ و زاری سے صفائی اور جِلا پیدا ہو جاتی ہے، اور اس میں یارِ دل نشین کے چہرۂ زیبا کا عکس جھلکتا رہتا ہے۔

اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ عشق کے ذریعے کی عملی وضاحت کر دی جائے، تا کہ معلوم ہو، کہ کس طرح حقیقی عشق میں اضافہ ہوسکتا ہے، جس کے متعلق واضح طور پر مثال پیش کر کے بتایا گیا کہ عشق حسن و جمال کی دلکشی و جاذبیّت کا نام ہے، چنانچہ اگر عشق میں اضافہ کرنا ہے تو بار بار خصوصی طور پر یعنی نورانیت میں دیدارِ یار چاہئے، لیکن ایسا دیدار ہر عاشق کو کہاں حاصل ہوتا ہے، کوئی اور عام دیدار کا سہارا لیا جائے، مثلاً چند ہم خیال عاشق باہم مل کر

۱۷

خلوت و فراغت میں عشق اور معشوق کی پیاری پیاری باتیں کر لیا کریں، یہ ایک طرح کا دیدار ہے یعنی اس ذریعے سے روحانی محبوب تصور اور خیال میں آسکتا ہے، یہ کام مجمع کے علاوہ تنہائی میں بھی ہو سکتا ہے۔

حقیقی محبّت کے فوائد:

حقیقی محبّت جب شدید ہو، تو اُسے عشق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں، کہ عشق ایک نور ہے، اور جاننا چاہئے کہ روحانی یعنی باطنی نور کے اوصاف ظاہری اور مادّی نور کے مقابلے میں ارفع و اعلیٰ اور افضل و اکمل ہوا کرتے ہیں، مگر یہ بیان، جس میں ہم نے نورِ عشق کی مثال سورج سے دے کر دونوں کے فرق کو اعلیٰ اور ادنیٰ سے ظاہر کیا، میری مجبوری اور بے چارگی کا ثبوت ہے، چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔

بہرحال نورِ محبّت میں عشق اور عقل و روح کی روشنی ہے، یعنی اس کی بدولت عاشقِ صادق کے باطن میں دنیائے محبّت، دنیائے دانش اور دنیائے روحانیّت روشن ہو جاتی ہیں، اِس نور میں جیسا کہ ہونا چاہئے گرمانے، پگھلانے، جلانے اور ہمرنگ و ہم صفت بنا لینے کی خاصیتیں موجود ہیں، جن کی بدولت ایک خام و ناتمام انسان پختہ اور کامل ہوجاتا ہے، دل میں رقت و نرمی کی کیفیت پیدا ہو جاتی

۱۸

ہے، جس میں بہت سی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ ہیں، گناہوں کے ڈھیر میں آگ لگائی جا سکتی ہے، جس طرح دنیا کی آگ لکڑی ہو یا کوئلہ ہر قسم کے ایندھن کو اپنا رنگ اور اپنی صفت عطا کرکے اپنا لیتی ہے، اسی طرح نورِعشق، جس میں آتشِ محبّت ہے، نیک انسانوں کے علاوہ کسی سیاہ کار کو بھی جلا جلا کر انگارا اور شعلہ بنا سکتا ہے، اِس حالت کو فنائے عشق کہا جاتا ہے۔

ایک عظیم حکمت:

قرآنِ حکیم کی ۲۷: ۰۸  میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: پس جب موسیٰؑ اُس آگ کے پاس آئے تو ان کو آواز آئی کہ مبارک ہیں جو اس آگ کے اندر ہیں اور جو اس کے گرد ہیں اور وہ خدا جو سارے جہان کا پالنے والا ہے پاک و پاکیزہ ہے۔ (۲۷: ۰۸)۔

آپ غالباً سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ قرآنی قصّہ حضرت موسیٰؑ اور وادئ ایمن کا ہے، جہاں ان کو (پہلے پہل) کچھ دور سے آگ کی روشنی نظر آئی تھی، مذکورۂ بالا ارشاد میں اسی مطلب کا تذکرہ ہے، اب یہاں چند اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں، کہ وہ آگ کس نوعیّت کی آگ تھی؟ کیا وہ آتشِ عشقِ الٰہی تھی یا ذاتِ خدا کی تجلّی؟ اس کے اندر کون تھے اور اس کے گرد کون؟ اگر آپ یہ کہتے ہیں،

۱۹

کہ اُس روشنی کے اندر ذاتِ سبحان مخفی تھی، تو پھر سبحان کا کیا مطلب ہوا؟ اس کے علاوہ یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے کہ جو کوئی اُس مقدّس آگ کے اندر ہے اور جو اس کے گرد ہیں ان کو اِس وجہ سے برکت دی گئی ہے کہ وہ آگ میں اور اس کے قریب ہیں، تو کیا آپ یہ بات ماننے کے لیے تیار ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی دوسری چیز کی بدولت “برکت دیا گیا” کہلاتا ہے؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔

میں نے اس کتابچہ کے شروع ہی میں یہ بتا دیا ہے کہ عشق انوارِ الٰہی میں سے ایک نور ہے، ایک ایسا عظیم نور کہ اس سے بڑھ کر کوئی نور نہیں، جس کا مظہر انسانِ کامل ہے، جو عشقِ خداوندی کا معجزاتی آئینہ ہے، تم سورج سے کہو کہ وہ تمہارے پاس آجائے اور اس کے لئے بہت کچھ منت سماجت کرو پھر بھی نہیں آئے گا، لیکن تم اس کو جیسے ہی آئینہ دکھاؤگے وہ اس میں ایک طرح سے تمہارے پاس اُتر آئے گا، یہ اس مطلب کی مثال ہے، کہ ہادئ برحقؑ اوصافِ ربّانی کے ظہور کا آئینہ ہے، چنانچہ خدا کی اُس سنّت کے مطابق جس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، موسیٰؑ سے پہلے بھی ہادی تھا، جس کے وسیلہ اور توسط سے موسیٰ علیہ السّلام نے عشقِ الٰہی کی تجلّی دیکھی، جب سورج کی تجلّی آئینے سے ظاہر ہوتی ہے، تو اُس وقت آئینہ روشنی کے اندر ہوتا ہے اور دیکھنے والا اس کے گرد رہنے والوں میں سے ہوتا ہے، مذکورہ آیت کا اشارہ اِسی عظیم حکمت کی طرف تھا۔

۲۰

معشوق میں عشق:
آپ تو یہ کہتے ہیں کہ عشق صرف عاشق کا وصف ہے، کیونکہ یہ اُسی سے ظاہر ہوتا ہے، اور یہ کیفیّت و حقیقت اُسی کے دل و دماغ میں پائی جاتی ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ عشق کا اصل سرچشمہ خود معشوق ہی ہے، لہٰذا عشق سب سے پہلے معشوق کی ذات میں ہوتا ہے، اس کا ابتدائی ظہور محبوب ہی سے ہونے لگتا ہے، اور عشق یا دعوتِ عشق کا یہ ظہور ظاہری اور باطنی اوصاف کے حسن و جمال کی تجلّیات کی حیثیت میں ہے، جو ہر وقت اہلِ بصیرت اور اصحابِ وفا کو اپنی طرف متوّجہ کئے رکھتا ہے، اور عشق و محبّت سب سے پہلے معشوق کی ذاتِ عالی صفات میں موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے جو حدیثِ قدسی میں ارشاد ہوا ہے کہ:

 

کنت کنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق ، میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا سو میں نے اِس بات سے محبت کی کہ میرا تعارف ہو پس میں نے خلق کو پیدا کیا۔
آپ نے دیکھا کہ محبّت سب سے پہلے کہاں پیدا ہوئی، یا یہ کس ذات میں موجود تھی، یہی نا کہ محبّت پہلے پہل خدا تعالیٰ میں تھی، اور وہ کچھ اِس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی دوسری تمام صفات سے پیشتر محبّت کا ظہور ہوا، یعنی ربّ العزّت کو اس امر سے محبّت ہوئی کہ اُس کی شناخت و معرفت ہو، پھر ہمیں کسی جھجک کے

۲۱

بغیر یہ بھی کہنا چاہئے کہ خدا کو ازل ہی سے اپنے عاشقوں اور عارفوں سے محبّت اور عشق ہے، اس لئے کہ اس کو اپنے تعارف کرانے سے عشق ہے اور اس لئے کہ اس کو اپنے جلال و جمال سے عشق ہے۔

خدا میں عشق:
عشق اگر ہم میں ہے تو ناتمام و نامکمل ہے، اور اگر یہ کسی کامل انسان میں ہے تو مکمل اور ہر قسم کی خوبیوں سے بھرپور ہے اور جہاں یہ خدا میں ہے، تو وہاں پر یہ ایک مقدّس نور ہے، ایک خداوندی صفت ہے، بلکہ جملہ صفاتِ الٰہی میں عشق کے معنی پائے جاتے ہیں، کیونکہ عشق و محبّت رحمت کے معنی سے مختلف نہیں، یہ خود رحمت ہے یعنی مہر۔ اور رحمت یا کہ مہرِ الٰہی نے کائنات و موجود کو ظاہراً و باطناً گھیر لیا ہے، اور ہر چیز رحمت کے بے پایان سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ عشق خدا کے اوصاف میں موجود ہے، مگر اس طرح سے نہیں جس طرح کہ ہم میں اور تم میں ہے، وہاں تو شانِ بے نیازی اور بڑائی اور بزرگی کی انتہا پر ہے، ہم عشق میں گریہ و زاری کرتے ہیں، ہم میں اضطراب اور بے قراری و بے تابی کی کیفیت ہوتی ہے، مگر خدا کی شان میں ایسا کوئی تصوّر درست نہیں، سمندر کا پانی انتہائی پروقار اور خاموش ہوتا ہے، مگر ایک چھوٹی سی ندی کے

۲۲

سامنے جہاں کوئی نشیبی علاقہ آتا ہے اور جہاں پتھر آتے ہیں وہاں وہ شور مچاتی ہے، کیونکہ اُس کو چوٹ آتی ہے، دھکا لگتا ہے اور صدمہ پہنچتا ہے، مگر سمندر کو کچھ نہیں ہوتا۔

خام عشق اور پختہ عشق:

اگر کوئی آدمی ایسا ہو کہ وہ عشقِ حقیقی کا دعویٰ کرتا ہے اور شاید یہ سمجھتا ہے کہ وہ عاشقِ صادق ہے، تو اسے اپنے آپ کو آزمانا چاہئے ، اور یہ بات ہمیشہ کے لئے پیشِ نظر رکھنا چاہئے، کہ عشق کا پھل شروع شروع میں خام و ناتمام ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ کچا پھل پختہ ہو جاتا ہے یعنی یہ پک جاتا ہے، کچے اور پکے میں فرق و امتیاز رنگ، بو اور ذائقہ سے ہوسکتا ہے، ویسے تو رنگینی اور خوشبو اس وقت میں عمدہ قسم کی ہوتی ہے جب کہ درخت میں پھل لگنے کے لئے پھول کھلتا ہے، مطلب یہ ہے کہ حقیقی عشق کا ثبوت اخلاق کی بلندی اور علم و حکمت کی پختگی کے بغیر ممکن نہیں۔

حقیقی عشق اور مجازی عشق:

جب یہ کتابچہ عشق کی پیاری پیاری باتوں پر مبنی ہے، تو لازمی ہے کہ

۲۳

کچھ مختصر سا بیان عشقِ مجازی کا بھی کر دیا جائے۔ چنانچہ جاننا چاہئے ، کہ عشقِ حقیقی کے مقابلے میں عشقِ مجازی ایسا ہے جیسے نور کے مقابلے میں ظلمت، خیر کے سامنے شر، کیونکہ یہ عدل ہے اور وہ ظلم، یہ جنّت کا رستہ ہے اور وہ دوزخ کی راہ، اس میں انسان کی عزّت و شرافت اور روسپیدی ہے اور اُس میں ذلت و کمینگی اور روسیاہی، اِس کا نتیجہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی صورت میں نکلتا ہے اور اُس کا انجام غضبِ الٰہی اور عذابِ جہنم ہے، حقیقی عشق سے علم و حکمت کے سرچشمے پھوٹتے ہیں اور مجازی عشق ہر قسم کی ظاہری اور باطنی بیماریوں کی جڑ ہے۔ پس دانشمند کو چاہئے کہ وہ ان دونوں باتوں کے نفع و نقصان کے بارے میں لوگوں کو سمجھا دے اور نصیحت کرے۔