حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
آغازِ کتابِ حظیرۃ القدس
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ’’حظیرۂ قدس‘‘ کی پیاری کتاب تقریباً ایک سو قسطوں میں مکمل ہوچکی تھی، اور پھر کم عرصے میں دوسری پیاری کتاب ’’کنوز الاسرار‘‘ بھی، خداوندِ قدّوس کے ان علمی معجزات و احسانات کی شکرگزاری سے زبان قاصر اور قلم عاجز ہے، لہٰذا یہ بندہ یعنی غلام اپنے مولا و آقا کے سامنے ازبس خجل = شرمندہ ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اپنے تمام عزیزانِ شرقی و غربی کو وقتاً فوقتاً گریہ و زاری کی دعوت دیتا ہوں۔
امامِ زمانؑ جو خدا اور رسول کا نور ہے، مجھ ناچیز اور تمام عزیزان پر بدرجۂ انتہا مہربان ہے، اُس کارساز نے ہم سب کو علم کی سب سے اعلیٰ بہشت عطا کر دی ہے، الحمد للہ۔
اس علمی بہشت میں جتنے بھی ہیں وہ سب کے سب فرشتے ہیں، خدا کی قسم، اگر وہ فرشتے نہ ہوتے تو ان کی آواز میں ایسی شادمانی والی روح نہ ہوتی! کل سیکنڈ پریسیڈنٹ شمس الدین جمعہ اور اُن کی فرشتہ خصلت بیگم سیکریٹری کریمہ نے یہ درخواست کی ہے کہ وہ دونوں فرشتے اس کتابِ حظیرۂ قدس کو شرق و غرب کے اپنے کل ساتھیوں کی طرف سے طبع و نشر کرانا چاہتے ہیں، ان کی نیّت اور ساتھیوں
ط
کے لئے خیرخواہی قابلِ ستائش تھی، لہٰذا میں نے ان کی درخواست منظور کر لی، آپ سب ان کے لئے دعا کریں، آمین!
ہر کسی کے دنیا میں آنے کا کوئی مقصد ہوتا ہے، آپ عزیزوں کے دنیا میں آنے کا مقصد عظیم، بلکہ انتہائی عظیم ہے، کیونکہ آپ سب کو حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم سلام اللہ علیہما کے علمی لشکر کے طور پر کام کرنا ہے، یہ بہت بڑی سعادت آپ سب کو مبارک ہو! آمین!!
نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اسلام آباد، پیر ، ۶ مئی ۲۰۰۲ء
ی
حظیرۃ القدس = عالمِ شخصی کی بہشت
سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰): کیا تم لوگوں نے (چشمِ بصیرت = چشمِ معرفت سے) نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟
اس آیۂ کریمہ کی باطنی حکمت میں حظیرۂ قدس = عالمِ شخصی کی بہشت کا قصّہ ہے، جس میں اگر چشمِ معرفت سے دیکھا جائے تو اس نمائندہ آیت کی تاویلی حکمت سمجھ میں آتی ہے۔
میں آپ کو ایک خاص الخاص راز بتانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ قرآنِ حکیم بہت مشکل بھی ہے اور بہت آسان بھی ہے، مجھے احساس ہے کہ میرا یہ قول آپ کے لئے ایک عجیب سا سوال بن گیا کہ قرآن بیک وقت بہت مشکل بھی ہے اور بہت آسان بھی ہے، آئیے ہم قرآن ہی کی روشنی میں اسکی وجہ معلوم کر لیتے ہیں۔
سورۂ الم نشرح (۹۴) فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا۔ ترجمہ: سو بےشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ آپ نے سورۂ انشراح (۹۴: ۰۵ تا ۰۶) کو پڑھا کہ ہر عظیم کام میں پہلے مشکل ہے پھر بعد میں آسانی ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم اپنی اصل صورت میں علم و حکمت کی انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے بہت مشکل ہے،
ک
مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتِ بے پایان سے اسے آسان کر دیا ہے، ذکر و عبادت کے لئے بھی اور علم و حکمت کے لئے بھی۔
سورۂ قمر (۵۴: ۱۷، ۵۴: ۲۲، ۵۴: ۳۲) کو دیکھیں، اللہ تعالیٰ نے بہت مشکل قرآنِ حکیم کو اس طرح سے آسان کر دیا ہے کہ اپنا نورِ منزّل = زندہ اسمِ اعظم = امامِ زمانؑ کو قرآن کے ساتھ کر دیا ہے، اور جو مومن امامؑ سے قرآن کی حکمت کو سیکھنا چاہتا ہو اس کو امامِ زمانؑ اسمِ اعظم کے اسرار بتاتے ہیں، اور ایسا مومن اسمِ اعظم کے ذریعے سے فنا فی الامام ہو جاتا ہے، اور جب وہ فنا فی الامام ہو جاتا ہے تو اسی کے ساتھ ہی فنا فی القرآن بھی ہوجاتا ہے کیونکہ باطن میں قرآن کو کس طرح آسان کر دیا ہے۔
نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۲۸ اپریل ۲۰۰۲ء
ل
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱
حظیرۂ قدس = احاطۂ پاک = عالمِ شخصی کی جنّت ہے، جہاں کلیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کے تمام معجزات اور جملہ اسرارِ معرفت جمع ہیں، یہاں آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی جنّت ہے، اور اسی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کو صورتِ رحمان پر پیدا کیا تھا، اسی مقدّس مقام پر عظیم فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا، تم سب اُس دن ساجدین میں بھی اور مسجود میں بھی موجود تھے (۰۷: ۱۱) دیکھو قرآنی حکمت = قرآنی سائنس کو خوب غور سے پڑھو اور قرآنِ حکیم سے روحانی فائدہ حاصل کرتے جاؤ۔
حقیقی مومنین کے لئے وہ مقدّس بیوت (گھر، ۲۴: ۳۶) بھی حظیرۂ قدس ہی میں ہوتے ہیں، جن میں خدا کے نور کا چراغ روشن ہوسکتا ہے۔
حضرتِ نوح علیہ السّلام کے روحانی طوفان = روحانی قیامت، میں کشتی کوہِ جودی = کوہِ عقل پر جا کر ٹھہری تھی (۱۱: ۴۴)، اور کوہِ عقل = گوہرِعقل حظیرۂ ہٰذا میں ہے، یہیں سے نوح سلامتی اور برکتوں کے ساتھ اتر گیا تھا (۱۱: ۴۸)، گویا روحانی طوفان اور روحانی قیامت کا مقصد حظیرۂ قدس میں پہنچ جانا تھا۔
حضرتِ ادریسؑ جب جسمانی موت سے قبل روحانی طور پر مر گیا تو خدا نے
۱
اسے حظیرۂ قدس پر مرفوع کیا (۱۹: ۵۶ تا ۵۷)۔
قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ تمام چیزیں دو دو ہیں پس حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السلام نے نہ صرف ظاہر میں خدا کا گھر بنایا تھا، بلکہ باطن یعنی حظیرۂ قدس میں بھی ایک بیت اللہ بنایا تھا۔
ن۔ ن (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۹ دسمبر ۲۰۰۱ء
۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲
قرآنِ حکیم میں مشارق و مغارب والی سرزمین کا ذکر آیا ہے (۰۷: ۱۳۷)، اس سے حظیرۃ القدس مراد ہے، کیونکہ وہاں اگرچہ ایک ہی مشرقِ نور ہے جو مغرب بھی ہے، لیکن وہی واحد بھی ہےاور جمع بھی، اللہ تعالیٰ نے حدودِ دین کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو حظیرۂ قدس کا وارث بنایا تھا آپ اس آیت کو قرآن میں دیکھیں۔
سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۱) کے مطابق حظیرۂ قدس وہ سرزمین ہے، جس میں خدا نے عوالمِ شخصی کے لئے بےشمار برکتیں رکھی ہیں آپ اس آیت کو باترجمہ قرآن میں پڑھیں۔
سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۲) میں ارشاد ہے:
وَ فِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ ۔ وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ۔ وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۔ وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ
ترجمہ: زمین میں بہت سی نشانیاں (معجزات) ہیں اہلِ یقین کے لئے، اور خود تمہارے اپنے وجود (عالمِ شخصی) میں ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں؟ آسمان (حظیرۂ قدس) ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز (بہشت) بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔
اس ارشاد کی روشنی میں آپ دیکھتے ہیں کہ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں
۳
سب کچھ ہے، یہاں آسمان سے حظیرۂ قدس مراد ہے، رزق علم و حکمت اور معرفت ہے، وہ چیز جس کا وعدہ کیا جاتا ہے بہشت ہے، جب امامِ زمانؑ کا نور عالمِ شخصی میں طلوع ہوجاتا ہے تو تب یہ سارے حقائق و معارف روشن ہوجاتے ہیں۔
پس دانائی اور حکمت یہ ہے کہ تم بوسیلۂ عشق امامِ زمانؑ میں فنا ہوجاؤ تا کہ تمہیں عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کے عظیم معجزات کی حقیقی معرفت حاصل ہو۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۰ دسمبر ۲۰۰۱ء
۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳
قصّۂ موسیٰ میں جو طور ہے، اس کی باطنی تاویل حظیرۂ قدس ہے، حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
انا النور الذی اقتبس منہ موسیٰ فھدیٰ۔
یعنی میں وہ نور ہوں، جس سے موسیٰؑ نے روشنی طلب کی تو ہدایت پائی۔ (بحوالۂ کتاب کوکبِ درّی، بابِ سوم، ص ۔ ۲۲۶)۔ اس ارشاد سے یہ حقیقت ظاہر ہو رہی ہے کہ امامِ زمانؑ کا نور حضرتِ موسیٰؑ کے عالمِ شخصی میں طلوع ہوا تھا۔
سورۂ نمل (۲۷: ۰۷ تا ۰۸) میں ارشاد ہے:
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًاؕ-سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ترجمہ: جب موسیٰؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ مجھے ایک آگ سی نظر آئی، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگارا چن لاتا ہوں تا کہ تم لوگ گرم ہوسکو، وہاں جو پہنچا تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے، پاک ہے اللہ جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے۔
۵
یہ اللہ کے نورِمنزل کی تجلّی تھی نہ کہ ذاتِ سبحان کی تجلّی، یعنی یہ نورِالٰہی کا مظہر تھا، جس آیت میں کوئی سوال پیدا ہوتا ہے اس کے آخری حصے میں حکمتی جواب موجود ہوتا ہے، چنانچہ یہاں سبحان اللہ ربّ العالمین میں، پیدا ہونے والے سوال کا جواب ہے، نیز بُوْرِكَ = وہ برکت دیا گیا، یہ تعریف ذاتِ سبحان کے لئے نہیں ہو سکتی ہے کہ کسی نے اُس کو برکت دی ہو۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
پیر، ۱۰ دسمبر ۲۰۰۱ء
۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴
سورۂ مومنون (۲۳: ۵۰) میں ارشاد ہے:
وَ جَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗۤ اٰیَةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَاۤ اِلٰى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّ مَعِیْنٍ ۔
ترجمہ: اور ابنِ مریمؑ اور اس کی ماں کو ہم نے ایک آیت = نشانی = معجزہ بنایا، اور ان کو ایک سطحِ مرتفع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے۔ یہ حظیرۂ قدس کی تعریف ہے۔
چونکہ عالمِ شخصی کی بہشت حظیرۂ قدس ہی ہے لہٰذا یہ عارفوں کے لئے اعلیٰ اطمینان کی جگہ ہے، اور اس میں علم و حکمت اور اسرارِ معرفت کے چشمے جاری ہیں جن کی تعریف و توصیف قرآنِ حکیم میں ہے، کیا اس جنّت میں رازِ ازّل و ابد بھی ہوسکتا ہے؟ کتابِ مکنون؟ کلمۂ باری کی معرفت؟ گوہرِعقل کا سرِّاعظم؟ لقاء اللہ؟ کنزِ مخفی؟؟؟؟؟ وغیرہ۔
بقعۂ مبارکہ = خطۂ مبارکہ = حظیرۂ قدس (۲۸: ۳۰)، وہاں جس درخت پر آگ نظر آئی تھی وہ نفسِ کلّی تھا۔
زیتون کا مبارک درخت جو نہ شرقی ہے نہ غربی (۲۴: ۳۵) نفسِ کلّی ہے جو کائنات گیر اور لامکانی ہے۔
۷
حضورِ اکرم صلعم کے قصّۂ معراج (۵۳: ۱۵ تا ۱۶) میں سدرۃ المنتہیٰ نفسِ کلّی تھا جو گوہرِعقل کا مظاہرہ کر رہا تھا۔
سورۂ مومنون (۲۳: ۲۰) ترجمہ: اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طورِسینا سے نکلتا ہے تیل لئے ہوئے اگتا ہے اور کھانے والوں کے لئے سالن بھی۔ اس سے نفسِ کلّی کے وہ فیوض و برکات مراد ہیں جو عرفاء کے لئے حظیرۂ قدس میں ہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۱۱ ، دسمبر ۲۰۰۱ء
۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵
سورۂ ق (۵۰: ۳۱ تا ۳۵) میں ارشاد ہے:
وَ اُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ هٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِكُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَ جَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِﹰ ادْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍؕ-ذٰلِكَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ ۔
ترجمہ: اور (روحانی قیامت میں) جنّت متقین کے قریب لے آئی جائے گی (یعنی عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس = جبین میں بہشت ہوگی) کچھ بھی دور نہ ہوگی، ارشاد ہو گا: یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لئے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا جو بے دیکھے رحمان سے ڈرتا تھا اور جو دل گرویدہ لئے ہوئے آیا ہے، داخل ہوجاؤ جنّت میں سلامتی کے ساتھ، وہ دن خلود کا ہوگا (یعنی یہ راز معلوم ہوگا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں ہیں) وہاں اس کے لئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، اور ہمارے پاس اس سے زیادہ بھی بہت کچھ ان کے لئے ہے۔
بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲ تا ۱۷۳) واقعۂ الست کا تعلق حظیرۂ قدس سے ہے، جہاں ربّ العزّت نے تمام روحوں سے پوچھا تھا کہ آیا میں تمہارا
۹
پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے پروردگار ہیں ہم نے دیکھا اس لئے ہم گواہی دیتے ہیں۔ لیکن آج کسی آدمی کو یہ عظیم واقعہ یاد نہیں پھر بھی یہ قرآنی شہادت اور روشن دلیل ہے کہ مومن روحانی ترقی میں حظیرۂ قدس تک جاسکتا ہے اگر روحوں کا یہ عروج کسی وسیلے سے ہوا تھا تو اب بھی وہ وسیلہ موجود ہوسکتا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۱۱ دسمبر ۲۰۰۱ء
۱۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶
علم الیقین کی ایک عجیب و غریب مثال: دو دوست کسی دور شہر میں گئے تھے جس میں دونوں نے بہت سے عجائب وغرائب کا مشاہدہ کیا، جب یہ دونوں اپنے وطن واپس آگئے تو ایک دوست تمام عجائب کو بھول چکا تھا، جبکہ اس کے ساتھی کو ہرہر واقعہ یاد تھا، مگر یہ دونوں دوست بڑے نیک اور ایک دوسرے کے عزیز اور خیر خواہ تھے لہٰذا دونوں نے مل کر قصّۂ سفر کو یاد کیا جس میں ذہین دوست نے اپنے دوست کی بہت مدد کی۔
اس میں میرا مطلب صرف اور صرف یہی ہے کہ علم الیقین آپ کے روحانی سفر کا ساتھی اور گویا ذہین دوست ہے، آپ اس سے پوچھیں کہ آیا آپ روحاً دربارِ الست میں موجود تھے یا نہیں؟ اور یہ بھی پوچھیں کہ بارگاہِ الٰہی اُس وقت حظیرۂ قدس میں تھی یا اور کہیں؟
طور = پہاڑ، حضرتِ موسیٰؑ کے لئے ظاہراً و باطناً دو تھے طورِ باطن آپ کی جبینِ مبارک میں تھا، جس میں امامِ زمان علیہ السّلام کا نور طلوع ہوگیا تھا، یہ زندہ نور خدا کا اسمِ اعظم ہوتا ہے جو خودگو ذکرِاکبر ہے یہ از خود روشن ہونے والا کائناتی چراغِ نور ہے۔
قصّۂ موسیٰؑ میں دونوں دریاؤوں کا سنگم (۱۸: ۶۰) عظیم امتحانات میں
۱۱
سے ہے کیونکہ معلوم ہوا ہے کہ عالمِ شخصی میں جگہ جگہ سنگم ہیں، چنانچہ روحانی قیامت کے آغاز ہی میں اسرافیل اور عزرائیل کا سنگم ہے، پھر خیر و شر (فرشتہ اور جنّ) کا سنگم ہے، یہی نفس اور عقل کا سنگم بھی ہے، قصّہ دراصل حظیرۂ قدس کا ہے: کلمۂ امر اور عقلِ کلّی کا سنگم ہے، قلم اور لوح کا، مشرق اور مغرب کا، گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کا، عرش اور کرسی کا، آسمانِ عقلِ کلّ اور زمینِ نفسِ کلّ کا، ازل و ابد کا، ابداع و انبعاث کا، مکان ولامکان کا، اور ناسوت و ملکوت کا سنگم ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۱۲، دسمبر ۲۰۰۱ء
۱۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷
سالکین اور عارفین کے لئے عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں علمِ لدّنی کے بہت سے خاص خاص مقامات ہیں، جن کی نشاندہی اور معرفت کا حکیمانہ رہنما اصول مجمع البحرین (۱۸: ۶۰) اور مرج البحرین (۵۵: ۱۹ تا ۲۰) ہے، قسط نمبر ۶ کے مطابق ہر سنگم پر خضرِ وقت = امامِ زمانؑ کی نورانی تائید کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اور رسولِ پاکؐ کی طرف سے نورِ ہدایت وہی ہے، جبکہ امامِ مبین میں بحکمِ نورٌ علیٰ نورٍ تمام انوار جمع اور ایک ہیں۔
اے عزیزان! اس بیان کے سلسلے میں یہ حقیقت بھی سن لو کہ:
حضرتِ موسیٰؑ کا قصّۂ ظاہر از (۱۸: ۶۰) تا (۱۸: ۸۲) تاویلِ باطن پر حجاب ہے، کیونکہ حضرتِ موسیٰؑ کا یہ سفر اپنے عالمِ شخصی ہی میں تھا۔
نیز دیکھو:
ترجمۂ آیۂ مبارکہ (۲۵: ۳۵) ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو وزیر (مددگار) بنایا پس یہاں اشارۂ حکمت یہ ہے کہ بحکمِ خدا ہارونؑ موسیٰؑ کے باطنی امور میں وزیر = مددگار تھا اور خدا ہی کی مرضی ایسی تھی کہ ہارونؑ = امامؑ کا نور موسیٰؑ کے عالمِ شخصی
۱۳
میں نورانی تاویل کا کام کرے اور قصّۂ موسیٰؑ میں یقیناً خضرؑ سے امامِ زمانؑ مراد ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۷ ، رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ
۱۳ دسمبر ۲۰۰۱ء
۱۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸
سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىٕفَ الْاَرْضِ وَ رَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَكُمْ فِیْ مَاۤ اٰتٰىكُمْؕ-اِنَّ رَبَّكَ سَرِیْعُ الْعِقَابِ ۔ وَ اِنَّهٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔
ترجمہ: (اللہ) وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیئے، تا کہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے، بے شک تمہارا ربّ سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔
سوال: خلیفہ اور خلافت کی مناسبت سے یہ پوچھنا ضروری ہے، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو کس زمین میں خلیفہ بنایا تھا؟
جواب: اوّل سیّارۂ زمین کے لوگوں = ناسوت میں، دوم عالمِ شخصی میں، سوم حظیرۂ قدس میں، چہارم کائناتی بہشت کی زمین میں، پنجم نفسِ کلّی کی زمین میں۔
لفظِ الخلیفۃ = جانشین = قائمِ مقام= سب سے بڑا بادشاہ، ج۔ خلفاء = خلائف (المنجد)۔
۱۵
اللہ تعالیٰ نے جس طرح موسیٰؑ اور ہارونؑ کی قوم میں روحانی ملوک = سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) اسی طرح اس نے محمدؐ اور علیؑ کے مومنین کو کائناتی بہشت کی زمین کے خلفاء = بادشاہ = سلاطین بنا دیا، اس آیۂ شریفہ کو آیتِ استخلاف (۲۴: ۵۵) کے تناظر میں پڑھیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے عالمِ شخصی میں حقیقی مومنین سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو کائناتی بہشت کی زمین میں خلیفہ = بادشاہ بنانے والا ہے۔
اے عزیزان! آپ حدیثِ اطیعونی تکونوا ملوک الارض کو ہرگز نہ بھولیں، اس میں شاہانِ بہشت کا ذکر ہے، یعنی رسولِ پاک صلعم کی حقیقی اطاعت وہ ہے جو اہلِ ایمان کو سلاطینِ بہشت بنا دیتی ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعۃ المبارک، ۱۴، دسمبر ۲۰۰۱ء
۱۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹
حظیرۂ قدس حق سبحانہ و تعالیٰ کے عظیم معجزات کی جنّت ہے جس میں اللہ کے معجزاتی خزانے ہیں، اور خزینۃ الخزائن = امامِ مبینؑ کا نور بھی ہے، آپ آیۂ خزائن (۱۵: ۲۱) اور آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کو حکمت کی روشنی میں پڑھیں تاکہ آپ کو صاف صاف معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام خزائن، جملہ اسماء الحسنیٰ اور ہرہر خاص چیز کو امامِ مبین کے نور میں گھیر کر اور شمار کرکے رکھا ہے اگر آپ امامِ زمانؑ کو بحقیقت پہچاننا چاہتے ہیں تو اپنے عالمِ شخصی کا سفر کرکے حظیرۂ قدس کی منزلِ مقصود میں پہنچ جائیں اور چشمِ بصیرت سے وہاں اپنے امامؑ کی کامل معرفت کو حاصل کریں، چونکہ وہ مقام مرتبۂ حق الیقین ہے، لہٰذا آپ امام کو پہچان لیں گے جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے۔
آپ کی بنیادی امام شناسی قرآن و حدیث کی روشنی میں ہونی چاہئے، تا کہ آپ ہر طرح سے کامیاب ہوجائیں اللہ جلّ جلالہ نے حضرتِ آدمؑ کو عالمِ ناسوت کے لئے خلیفہ بنایا تھا، آپ یہ بتائیں کہ فی الوقت سیّارۂ زمین پر ناسوت موجود ہے یا نہیں؟ اگر ناس (لوگ) ہیں تو ناسوت (عالمِ انسانیت) بھی ہے، اگر ایسا ہے تو پھر تین باتوں میں سے ایک بات بتا کر اس پر قائم رہو، کیا
۱۷
خلافتِ الٰہیہ صرف شخصیتِ آدمؑ ہی کے لئے مخصوص و محدود تھی؟ کیا اللہ نے اپنا یہ مرتبۂ ناسوت سے واپس لیا؟ کیا عالمِ ناسوت میں بعد از آدمؑ کوئی انسانِ کامل وارثِ آدمؑ ہوا کرتا ہے؟ کیا داؤدؑ کوئی نیا خلیفہ تھا یا وارثِ آدمؑ (۳۸: ۲۶)، سلیمان اپنے باپ داؤد کا وارث ہوا (۲۷: ۱۶) وہ اپنے وقت میں وارثِ آدم ہوا یا نہیں؟
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۱۵، دسمبر ۲۰۰۱ء
۱۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۰
سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) کی یہ آیۂ شریفہ حظیرۂ قدس کے الٰہی خزانوں کی شان میں ہے: وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘- وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ۔
ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے (حظیرۂ قدس میں) ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں وہ لوگوں کی علمی رسائی کے مطابق ہوا کرتی ہے۔
اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ حضرتِ ربّ العزّت اور اس کے خزانوں کی معرفت اور خزانۂ خزائن = نورِ امامِ مبین کی معرفت حظیرۂ قدس میں ہے، اور وہ اہلِ ایمان کو درجہ بدرجہ حاصل ہوتی ہے۔
اس آیۂ کریمہ میں ظاہری چیزیں مثال ہیں اور باطنی چیزیں ممثول، بارش کا خزانہ سمندر ہے، اگرچہ وہ حظیرۂ قدس میں موجود نہیں، لیکن کلمۂ امر = کُنۡ = ہوجا جو ارادۂ الٰہی کا خزانہ ہے، وہ ہمیشہ حظیرۂ قدس کی جنّت میں ہے، اللہ کا ارادہ کلمۂ کُنۡ سے عبارت ہے، کُنۡ (ہوجا) کی عبارت کسی اور لفظ میں بھی ہوسکتی ہے۔
کلمۂ امرِ کُنۡ (ہوجا) = ارادۂ باری تعالیٰ کا خزانہ قدیم = ہمیشہ کا ہے جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، اس سے تصورِ آفرینش سمجھ میں آسکتا ہے، جیسا کہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہ) کا ارشادِ مبارک ہے کہ خداوندِ تعالیٰ ہمیشہ تخلیق کرتا ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۱۵، دسمبر ۲۰۰۱ء
۱۹
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۱
بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۷۰۱) من مات فقد قامت قیامتہ۔ ترجمہ: جو شخص (نفسانی = روحانی) موت سے مر جائے تو اُس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔
اس حدیثِ شریف میں عارفانہ موت اور انفرادی قیامت کا ذکر ہے، جس میں باطناً اجتماعی قیامت کا منظر ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کلی قیامت کی معرفت سے عارف بے خبر رہتا جس کا ذکر سر تا سر قرآن میں ہے، مگر یہ بات نہیں، بلکہ عرفاء کو تمام اسرارِ قیامت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
سوال: آیا قرآنِ حکیم میں موتوا قبل ان تموتوا کا حکم یا اشارہ موجود ہے؟
جواب: جی ہاں، سورۂ بقرہ (۰۲: ۵۴) میں خوب غور سے دیکھو، قرآنِ حکیم کے ہر لفظ میں حکمتِ بالغہ ہوتی ہے۔ ترجمۂ آیت: جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ لوگو! تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے اوپر ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو۔
یہاں لفظی توبہ مراد نہیں، بلکہ عملی اور حقیقی توبہ مقصود ہے، اور وہ حظیرۂ قدس میں اپنے خالق سے رجوع ہے، جو نفس کشی، یعنی موتوا قبل ان تموتوا سے ممکن ہے جس کا حکم اس آیت میں موجود ہے: تم میں سے ہر ایک اپنے نفس کو پرحکمت ریاضت سے قتل کرے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۶، دسمبر ۲۰۰۱ء
۲۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۲
اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے قرآنِ حکیم میں سر تا سر حکمتیں ہی حکمتیں ہیں لہٰذا حکمت ہی کی امید پر یہ سوال ہے کہ بحوالۂ قرآن (۳۲: ۱۱) فرشتۂ موت (عزرائیل) ہر انسان پر مقرر اور مؤکل ہے، اس میں کیا رازِ حکمت ہے؟ حالانکہ اور بھی چھوٹے بڑے فرشتے ہیں ان کی طرف کوئی ایسی توجہ نہیں دلائی گئی ہے؟
جواب: اس میں دانا لوگوں کے لئے بہت بڑی حکمت ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہر دانا شخص موتوا قبل ان تموتوا پر عمل کرکے روحانی قیامت اور سب فرشتوں کو دیکھے، اور جیتے جی حضرتِ ادریسؑ کی طرح حظیرۂ قدس کی جنّت میں داخل ہوجائے، اگر اللہ کی رحمت سے ایسا ہوسکا تو یہ حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام ہی کی برکت سے ہوگا، اگر تم عاشقانہ موت یا عارفانہ موت کے لئے بالکل تیار ہو تو سنو کہ تنہا عزرائیل نہیں آئے گا بلکہ اسرافیل اور دیگر تمام فرشتے بھی آئیں گے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ فرشتۂ موت ملکوت کا دروازہ ہے جب یہ دروازہ کھلتا ہے تو سب فرشتے آجاتے ہیں، پس خدائے علیم و حکیم نے ملک الموت کی صورت میں تمام فرشتوں کو ہر انسان پر مقرر کیا ہے، اور اس سے زیادہ بڑی رحمت اور حکمت اور کیا ہوسکتی ہے۔
۲۱
قرآنِ عزیز (۰۲: ۹۴) میں موت کی آرزو کی حکیمانہ تعریف ہے، ایسی با سعادت اور پرحکمت موت کون سی ہوسکتی ہے؟
جواب: صوفیانہ موت، عاشقانہ موت، اور عارفانہ موت، جس میں روحانی قیامت اور معرفت ہے اور جس کا آخری نتیجہ حظیرۂ قدس = جنّت ہے جہاں جیتے جی بہشتِ جاویدانی کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے (قرآن، ۴۷: ۰۶) الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بموقعِ عید الفطر، پیر، ۱۷، دسمبر ۲۰۰۱ء
۲۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۳
سورۂ انشقاق (۸۴) روحانی قیامت اور عالمِ شخصی کے عظیم اسرار سے لبریز ہے لہٰذا آپ تیاری کے طور پر اسے پہلے ترجمۂ قرآن میں بغور پڑھ لیں پھر ان شاء اللہ ہم آپ کو اس کی کچھ حکمتیں بیان کریں گے۔
ترجمۂ آیات (۸۴: ۰۱ تا ۱۱): جب آسمان پھٹ جائے اور سن لے حکم اپنے ربّ کا، اور وہ آسمان اسی لائق ہے اور جب زمین پھیلا دی جائے اور نکال ڈالے جو کچھ اس میں ہے اور خالی ہو جائے اور سن لے حکم اپنے ربّ کا اور وہ زمین اسی لائق ہے، اے آدمی تجھ کو تکلیف اٹھانی ہے اپنے ربّ تک پہنچنے میں سہہ سہہ کر، پھر اُس سے ملنا ہے، سو جس کو ملا اعمالنامہ اُس کا داہنے ہاتھ میں تو اُس سے حساب لیں گے آسان حساب، اور پھر کر آئے گا اپنے لوگوں کے پاس خوش ہو کر، اور جس کو ملا اُس کا اعمالنامہ پیٹھ کے پیچھے سے، سو وہ پکارے گا موت موت۔
اگرچہ کائناتِ ظاہر عالمِ اکبر ہے، اور انسان عالمِ اصغر، لیکن جب روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ساری کائنات کو عالمِ صغیر = عالمِ شخصی میں محدود کر دیتا ہے، جیسا کہ حضرتِ علیؑ کے دیوان میں ہے:
و تحسب انک جرم صغیر
و فیک انطوی العالم الاکبر
۲۳
ترجمہ: اور تو خیال کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے۔
پس یقیناً اللہ روحانی قیامت میں جملہ کائنات کو مومنِ سالک کے عالمِ شخصی میں لپیٹتا ہے، لہٰذا یہاں باطنی اور روحانی قیامت کے جن معجزات کا ذکر ہوا ہے ان کا تعلق سالک کے مشاہدۂ باطن سے ہے، کائناتِ ظاہر یہاں صرف مثال کے طور پر ہے، آپ میری ایک کتاب: عملی تصوف اور روحانی سائنس میں، از صفحہ ۱۴۱ تا ۱۵۰، روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو پڑھیں تا کہ آپ کو روحانی قیامت اور عالمِ شخصی کے معجزات کی خبر ہو۔
آپ کو علم ہے کہ آسمان ٹھوس اور یک لخت نہیں، بلکہ ایک لطیف گیس ہے، لہٰذا آسمان کا پھٹ جانا سالک کے لئے مثالی معجزہ ہے، اور زمین کی توسیع یہ ہے کہ عالمِ شخصی کو حدودِ کائنات تک پھیلا کر کائناتی بہشت بنائی جاتی ہے، ممکن ہے کہ اس کائنات کے باطن میں ستر ہزار روحانی کائناتیں ہوں، اور ہر کائنات بہشت ہو۔
آپ قرآنِ حکیم کو حکمت کے ساتھ پڑھیں تو ایسے اسرار کا علم ہوجائے گا۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۱۸، دسمبر ۲۰۰۱ء
۲۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۴
سورۂ انشقاق (۸۴) یقیناً صاحبِ روحانی قیامت = امامِ زمان اور عالمِ شخصی کے عظیم عرفانی اسرار سے لبریز ہے یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ذاتِ سبحان نے کون و مکان کی تمام اصل اور اعلیٰ چیزوں کو امامِ مبین میں گھیر کر اور عددِ واحد میں شمار کر کے رکھا ہے، ہر عارف کی روحانی قیامت میں خدا اپنے اس عظیم معجزے کا تجدّد کرتا ہے، تا کہ عارف چشمِ بصیرت سے اس کو دیکھ کر کامل معرفت حاصل کرسکے، امامِ زمان علیہ السّلام کی مہربانی سے ہماری کتابوں میں حکمت اور معرفت کے جواہر پارے بکھرے ہوئے ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
اس حقیقت میں کسی شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ مومنِ عاشق ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی بے شمار تکالیف کو برداشت کرنے کے بعد ہی حظیرۂ قدس میں اپنے ربّ سے مل سکتا ہے۔
جو شخص جیتے جی عرفانی موت سے مر کر حظیرۂ قدس تک پہنچ جاتا ہے اور کتابِ مکنون اس کے داہنے ہاتھ میں ہوتی ہے، تو یہ اس کا نامۂ اعمال ہے جو اس کے داہنے ہاتھ میں دیا گیا، تو اس کا آسان حساب ہوگیا، اب وہ اپنے لوگوں کی طرف شادان و فرحان لوٹ آئے گا۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
منگل ۱۸، دسمبر ۲۰۰۱ء
۲۵
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۵
آج کے اس مقالے میں ایک بے حد پیارے قرآنی لفظ کو حفظ = یاد کرنا ہے وہ ہے: لفیفا (۱۷: ۱۰۴) تم اس کو قانونِ لفیف بھی کہہ سکتے ہو۔
لفیف = لپٹا ہوا = سمٹا ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ارحم الراحمین ایک ہی عاشق و عارفِ مولا کی روحانی قیامت میں سب لوگوں کو لپیٹ کر = سمیٹ کر حظیرۂ قدس میں اپنے پاس لے جاتا ہے، ایسے میں تمام لوگ نفسِ واحدہ ہوجاتے ہیں، یعنی ایک ہی جان = ایک ہی روح۔
پس مبارک ہیں وہ جملہ عزیزان جو مل کر علمی خدمت کرتے کرتے خود بھی علمی ہو جاتے ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ تمام عزیزان کی خوش نصیب روحیں حجتِ قائم کے زمانے میں حظیرۂ قدس میں پہنچ گئی تھیں اور جملہ جماعت بھی۔
اسرارِ معرفت پر بہت سے حجابات ہیں، آپ علم الیقین کے ذریعے سے ایک ایک کر کے حجابات کو ہٹاتے جائیں تا آنکہ آپ کو کامل یقین ہو کہ آپ امامِ مبین کی نورانی بہشت = حظیرۂ قدس میں ہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۱۹ ، دسمبر ۲۰۰۱ء
۲۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۶
حظیرۂ قدس، وادیٔ مقدسِ طویٰ (۲۰: ۱۲) بھی ہے، طورِ سینا (۲۳: ۲۰) بھی ہے، یہ وہ جبل (پہاڑ) ہے (۰۷: ۱۷۱) جو بنی اسرائیل پر ظلۃ = چھتری کی طرح بلند کیا گیا تھا (۰۲: ۶۳)، (۰۴: ۱۵۴) یہاں انتہائی عظیم معجزات ہیں کہ اللہ اپنے دستِ مبارک سے کائنات کو لپیٹتا ہے اور پھیلاتا بھی ہے (۲۱: ۱۰۴) یہاں مطویات ہیں (لپیٹی ہوئی کائناتیں) (۳۹: ۶۷)۔
اے عاشقانِ امامِ زمان علیہ السّلام، تم کو اپنے پاک مولا کا مقدس عشق مبارک ہو ! علم و عبادت اور حقیقی اطاعت سے آگے بڑھو بہت آگے بڑھو تا آنکہ امامِ مبین کا نور تمہاری جبین (پیشانی) میں طلوع ہوجائے، لیکن اتنا کارِ بزرگ = عظیم کام چند دنوں میں کیسے ہو سکتا ہے؟ محنت، محنت، محنت، مشقت، بہت زیادہ مشقت، دائم الذّکر ہوجاؤ، ہمیشہ گریہ و زاری کرو، دیکھو جیتے جی حظیرۂ قدس کی جنّت کی معرفت ممکن ہے۔
قرآن میں دیکھو، اللہ نے اپنی آیات = معجزات دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے یا نہیں؟ کیا قرآن و حدیث میں امام شناسی بے حد ضروری نہیں ہے؟
۲۷
اگر یہ چیز بہت ہی ضروری ہے تو آخر کیوں؟ یہ خدا ہی کی مرضی ہے کہ اُس نے امامِ مبین میں سب کچھ رکھا ہے (۳۶: ۱۲) پس یہ آپ کی بہت بڑی دانائی ہوگی کہ خدا و رسول کی خوشنودی کو امامِ زمانؑ کی اطاعت سے حاصل کریں۔ آمین ! ثم آمین !
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۰، دسمبر ۲۰۰۱ء
۲۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۷
سوال: آیا حظیرۂ قدس سے امامِ مبین کا احاطۂ نور مراد ہے جو عالمِ شخصی کی جنّت ہے؟ جواب: جی ہاں۔
پس اللہ تعالیٰ کا وہ ارشادِ مبارک جو امامِ مبین کی شان میں ہے (۳۶: ۱۲) وہ عالمِ شخصی کی بہشت میں گوناگون الٰہی تجلیات و معجزات کی صورت میں ہے۔
امامِ مبین کے احاطۂ نور = حظیرۂ قدس میں کل اشیاء تو محدود ہیں مگر امام خود لامحدود ہے پھر بھی اُس کی معرفت ہوسکتی ہو، یہ معرفت عارف کی خود شناسی کی چوٹی پر ہے، چونکہ امامِ آلِ محمد مظہرِ نورِ الٰہی ہے لہٰذا امامِ زمانؑ کی معرفت خدا کی معرفت ہے۔
حظیرۂ قدس = جنّت کا ہر ہر معجزہ تجلّیاتی ہے مثال کے طور پر وہاں کتابِ مکنون ایک غالب تاویلی معجزہ ہے، جس میں قرآنِ کریم کے تمام اسرار = بھید جمع ہیں، اس کی ہر تجلّی سے امامِ زمان (روحی فداہ) آپ کو ایک قرآنی بھید بتاتا ہے، نہ تو تجلّیات کا سرچشمہ بند ہو جاتا ہے اور نہ ہی اسرارِ قرآنِ کریم ختم ہو جاتے ہیں۔
کتابِ مکنون (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) کتابِ مکنون کے اور بھی بہت سے اسماء ہیں اور ہر اسم میں بہت سی معنوی تجلّیات ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ۲۱، دسمبر ۲۰۰۱ء
۲۹
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۸
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا پرحکمت فرمان ہے: “ہم علی اور نبی دونوں کے نور ہیں۔” امامِ عالی مقام کا یہ جامع الجوامع ارشاد آیاتِ نور کی ایک حکیمانہ تفسیر ہے، اس میں امامِ زمانؑ کے عاشقوں کے لئے حظیرۂ قدس = جنّت کی بشارت ہے، کیونکہ امامِ زمان علیہ السّلام اللہ کا زندہ اسمِ اعظم اور زندہ بہشت ہے۔
جو مومنین و مومنات اپنے امامِ وقت کو علم الیقین کی روشنی میں پہچانتے ہیں وہ بڑے مبارک ہیں، اگرچہ عین الیقین اور حق الیقین کے مراحل ہنوز طے نہیں ہوئے ہیں، تاہم مولائے مہربان کارساز اور بندہ نواز ہے اور اس کے پاس حدودِ دین کا وسیلہ بھی ہے، اور وہ مسبب الاسباب ہے، آمین !
ارشادِ قرآنی کے مطابق ہر امام کے زمانے میں ایک مخفی = روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، جو سب لوگوں کے لئے باعثِ رحمت ہے، کیونکہ امام اوّل متقین کے لئے ہے، اور دوم تمام لوگوں کے لئے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۲۱، دسمبر ۲۰۰۱ء
۳۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۹
حضرتِ رحمان نے بوسیلۂ اسمِ اعظم قرآنِ حکیم کی باطنی = نورانی تعلیم دی اور اسی ذریعے سے اس نے ہر انسانِ کامل کو بعد از جسمانی تخلیق و تکمیل روحاً و عقلاً پیدا کیا، اور علم البیان = علمِ تاویل سکھایا، حظیرۂ قدس میں شمس و قمر ایک ہیں اس لئے ان کا طلوع و غروب اور گردش کا ایک ہی حساب ہے، وہاں نجوم (تارے) اور درخت ایک ساتھ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں، خدا ہی نے عالمِ شخصی کی زمین سے آسمان کو الگ کرکے بلند کیا، اور علم و حکمت کی میزان حظیرۂ قدس کے آسمان ہی میں قائم کر دی تا کہ تم یہاں تک پہنچ جانے کے بعد ہی حقائق و معارف کو ٹھیک ٹھیک تول سکو۔
قرآنِ حکیم کی ہر آیت میں حکمتِ بالغہ، یعنی حظیرۂ قدس تک پہنچ جانے والی حکمت ہے، پس مضامینِ قرآن گویا حظیرۂ قدس = جنّت کے چشموں سے آئی ہوئی نہریں ہیں، یا اس بہشت کے قابلِ تعریف اور پرسکون لمبے لمبے سائے = ظلِ ممدود (۵۶: ۳۰) ہیں۔ مثلاً توبہ، رجوع ، لقاء اللہ، دیدار، کلام، اشارہ، صورتِ رحمان کا سرِّ اعظم، فنا فی اللہ، انبیا علیہم السّلام کی معراجوں کے اسرار، نورِ محمدیؐ = قلم، نورِ علیؑ = لوح، الغرض تمام اسرار اسی عرفانی جنّت = حظیرۂ قدس میں ہیں۔
ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۲۲ ، دسمبر ۲۰۰۱ء
۳۱
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۰
صحیح بخاری جلدِ سوم کتاب الرقاق باب ۸۵۶ میں یہ حدیثِ شریف ہے:
یدخل الجنۃ سبعون الفاً بغیر حساب۔
ترجمہ: جنّت میں ستر ہزار بلا حساب داخل ہوں گے۔
ہر زمانے کا امامِ آلِ محمد وارثِ علی بحکمِ خدا (۱۷: ۷۱) عالمِ شخصی میں ایک مخفی اور روحانی قیامت برپا کرتا ہے، جس میں دنیا بھر کے تمام لوگوں کا روحانی حشر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب میں سے ستر ہزار خاص ایمانی روحوں کو فرشتہ بناتا ہے، یہی ستر ہزار فرشتے بیت المعمور کی زیارت کرتے ہیں جو حظیرۂ قدس کے آسمان میں ہے اور وہ مرتبۂ امامِ زمان علیہ السلام ہے، یعنی امامِ زمان کا نور ہی بیت المعمور یعنی خدا کا وہ گھر ہے جس میں خدا کا دیدار اور اس کے جملہ خزائن ہیں ان ستر ہزار فرشتوں میں سے ہر فرشتہ ایک عالمِ شخصی بھی ہے اور ایک روحانی کائنات بھی، ان تصورات میں خوب غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال: جو حقیقت قرآنِ پاک میں ہے، وہی حدیثِ شریف میں بھی ہے، پس وہ آیت کون سی ہے، جس میں یہ ذکر ہے کہ خدا کی رحمت سے بعض لوگ
۳۲
حساب کے بغیر بھی بہشت میں داخل ہو سکتے ہیں؟
جواب: اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ (۰۳: ۳۷) ترجمہ: اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے (یعنی خدا جسے چاہتا ہے روحانی قیامت کی سختی کے بغیر حظیرۂ قدس کی بےشمار نعمتیں عطا فرماتا ہے) یہاں حساب سے روحانی قیامت کی سختی مراد ہے، یہ قصّہ مریم سلام اللہ علیہا کا ہے کہ اس کے پا س علمِ لدّنی آ رہا تھا حالانکہ وہ روحانی قیامت کی سختی سے ہنوز نہیں گزری تھیں، نیز دیکھو (۰۳: ۲۷) (۰۲: ۲۱۲)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۲۲، دسمبر ۲۰۰۱ء
۳۳
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۱
مذکورۂ بالا بہشت دو مقام پر ہے، اوّل جبینِ مبارک امامِ مبین دوم کائنات گیر کرسی کا دائرۂ اعظم = نفسِ کلّی جو امامِ مبین کا نورِ محیط ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر تم امامِ زمانؑ میں فنا ہوجاتے ہو جیسا کہ فنا ہوجانے کا حق ہے تو خدا کی قسم تمہاری باسعادت جبین میں بھی نورِ امامِ مبین طلوع ہوکر ہر طرح سے حظیرۂ قدس کا منظر ہوگا، اور وہ سارے معجزات ہوں گے جن کا ذکر ان قسطوں میں ہوچکا ہے، اس حقیقت پر بہت سی قرآنی شہادتیں پیش کی جاسکتی ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے عزیزان اس حقیقت کو جان چکے ہیں ان کو حجتِ قائمؑ کی اعلیٰ روحانی تعلیمات یاد ہیں، اعنی حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہ) کے ارشادات جو روحانی ترقی سے متعلق ہیں۔
حجتِ قائمؑ نے بڑے رازدارانہ طریق سے فرمایا ہے کہ تم زندگی ہی میں روح کو بدن سے ایک بار باہر نکال کر تجربہ کرو، یہ بات ہرگز معمولی نہیں، یہ تو روحانی قیامت اور منزلِ عزرائیلی ہی کا پرحکمت قصّہ ہے، ایک اور ارشاد میں یہ مفہوم ہے کہ کوئی بھی مومن جیتے جی اپنے امام سے واصل نہیں ہوسکتا، مگر مر جانے کے بعد، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ جو مومن جیتے جی عارفانہ موت سے مر جاتا ہے وہ حظیرۂ قدس = احاطۂ نورِ امامِ مبین سے واصل ہو جاتا ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۲۳، دسمبر ۲۰۰۱ ء
۳۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۲
سورۂ بروج (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) میں ارشاد ہے: بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۔ ترجمہ: بلکہ وہ قرآنِ مجید ہے (بلند مرتبہ قرآن ہے) اُس لوح میں (نقش ہے) جو محفوظ ہے۔ رسولِ اکرمؐ کے علم وحکمت کا باب (دروازہ) کون تھا؟ جواب: مولا علیؑ۔ پس یہ مولا علیؑ ہی کا ارشاد ہے: انا اللوح المحفوظ یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں (کوکبِ درّی) یقیناً آنحضرتؐ کا نور قلم اور علیؑ کا نور لوحِ محفوظ ہے۔ پس امامِ مبینؑ کا نور لوحِ محفوظ ہے جس میں قرآنِ مجید ثبت ہے۔
سورۂ ق (۵۰: ۰۱) میں ارشاد ہے: قٓ-وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ= قسم ہے قلم کی اور لوحِ محفوظ = قرآنِ مجید کی، یعنی نورِ محمدؐ اور نورِ علیؑ کی قسم ہے۔ اس کے بعد جو ارشاد ہے، وہ جوابِ قسم ہے، پس قرآن کی تاویلی حکمت محمدؐ و علیؑ کے نور کی اس معرفت میں ہے، جو حظیرۂ قدس کے خزانوں میں ہے۔
سورۂ طور (۵۲: ۰۱ تا ۰۷) میں ارشاد ہے: ترجمہ اور حکمت: قسم ہے طور (کوہِ عقل) کی اور کتابِ مسطور (یعنی ذرّاتِ لطیف پر لکھی ہوئی کتاب) کی اور بیت المعمور (آباد گھر) کی اور اونچی چھت (حظیرۂ قدس) کی اور بھرا ہوا سمندر (یعنی بحرِعلم جس پر عرشِ اعلیٰ ہوتا ہے) کی قسم ہے کہ تیرے ربّ کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے (یعنی روحانی قیامت جس کے ابتدائی مراحل میں سخت تکلیف ہے)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۲۴، دسمبر ۲۰۰۱ ء
۳۵
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۳
سورۂ بقرہ کے آغاز ہی (۰۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: الٓمّٓ، ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ۔ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ: وہ کتاب (ایسی ہے کہ)اُس میں کوئی شک ہی نہیں، (یعنی اُس میں یقین ہی یقین ہے) ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے۔
مولا علی علیہ السلام مؤوّلِ قرآن نے فرمایا: اَنَا ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ یعنی میں وہ کتابِ ناطق ہوں جس میں کوئی شک نہیں (۴۵: ۲۹) اس میں متقین کے لئے روشن ہدایت ہے۔
حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: انا خازن علم اللہ۔ یعنی میں ہوں علمِ الٰہی کا خزانہ دار، یعنی قرآنِ حکیم کے علم و حکمت کا خزانہ میرے پاس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولا خزانہ بھی ہے اور خزانہ دار بھی ہے۔
اے عزیزان آپ جان و دل اور عشق و محبت سے مولا علی علیہ السّلام کے پرحکمت ارشادات کو پڑھیں اور مطالب کو یاد کریں، تا کہ قرآنی حکمت کے سمجھنے میں اس طریقِ کار سے مدد ملے، کیونکہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے، قرآنِ عزیز بھی حکیم ہے، اور مولائے پاک بھی حکیم ہے۔
مولا علیؑ کے ارشادات کے لئے کوکبِ دری میں دیکھیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۲۴، دسمبر ۲۰۰۱ ء
۳۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۴
سورۂ مطففین (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) میں ارشاد ہے: وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّیُّوْنَ كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ یَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ ۔ ترجمہ: ہرگز نہیں، بےشک نیک آدمیوں کا نامۂ اعمال عالی مرتبہ ہستیوں کے دفتر (کتاب) میں ہے اور تمہیں کیا خبر کہ کیا ہے وہ عالی مرتبہ ہستیوں کا دفتر؟ ایک لکھی ہوئی کتاب، جس کومقرّب لوگ چشمِ بصیرت سے دیکھ سکتے ہیں (یعنی وہ حظیرۂ قدس ہے) جو عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، اور امامِ مبین کے انوار کی وحدت کا مقامِ اعلیٰ ہے، یہی حظیرۂ قدس ہے، جو عالمِ شخصی کی بہشت ہے، مقربین = عارفین، جس کا مشاہدہ کرکے کامل معرفت حاصل کرتے ہیں، یہ ہے حظیرۂ قدس کی ایک خاص تعریف، یہ فضل و کرم اللہ تعالیٰ ہی کا ہے وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے۔
سوال: کیا روحانی قیامت کے شروع شروع میں تجربۂ عذاب بھی ہے؟ جواب: جی ہاں۔
سوال: ایسا کیوں ہے؟
جواب: اس میں بہت بڑی حکمت اور بہت بڑی مصلحت ہے، یہ بہت بڑی قربانی ہے، بہت ہی بڑی قربانی، اور باطنی شہادت بھی۔
۳۷
سورۂ مریم (۱۹: ۷۱) وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا ۔
ترجمہ: تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو جہنم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے ربّ کا ذمہ ہے۔ (پھر ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو دنیا میں متّقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے)۔
عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس اور امامِ مبین کے انوار کی وحدت کا مقام، سبحان اللہ!
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
منگل ۲۵، دسمبر ۲۰۰۱ ء
۳۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۵
عالمِ شخصی کی مذکورہ بہشت کائناتی بہشت کے ساتھ مربوط ہے، جس کو حاصل کرنے میں سبقت کا حکم دیا گیا ہے (۵۷: ۲۱) اور (۰۳: ۱۳۳) یہ عالمی اور کائناتی سبقت انتہائی مشکل عمل ہے، جس کی تفصیلات ہم بیان نہیں کر سکتے ہیں، الغرض جو متقی لوگ تمام شروط کے مطابق عالمِ شخصی اور کائناتی بہشت کے حصول میں سبقت کریں گے، تو جنّت بحقیقت انہی کو عطا ہوگی، تاہم سلاطینِ بہشت کی سلطنت لوگوں کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا سب لوگ بہشت میں داخل کئے جائیں گے، کیونکہ امامِ آلِ محمد علیٔ زمان امام المتقین بھی ہے اور امام الناس بھی، الحمد للہ ربّ العالمین۔
آپ قرآنِ حکیم میں سبقت کے مضمون کو اچھی طرح سے پڑھ لیں اور سابقون ہی مقرب لوگ ہوتے ہیں (۵۶: ۱۰ تا ۱۱) اس حکمت کو بھی سمجھ لیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
منگل ۲۵، دسمبر ۲۰۰۱ء
۳۹
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۶
سورۂ نمل (۲۷: ۶۵ تا ۶۶) قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰهُؕ-وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ ﱄ بَلْ هُمْ فِیْ شَكٍّ مِّنْهَا-بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُوْنَ ۔
ترجمہ: ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا، اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب مبعوث کئے جائیں گے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آخرت کے بارے میں ان کے علم کا خاتمہ ہوگیا ہے، بلکہ اس کی طرف سے شک میں پڑے ہیں، بلکہ سچ یہ ہے کہ اس سے یہ لوگ اندھے بنے ہوئے ہیں۔
اگر علمِ قیامت اور علمِ آخرت کسی بھی وسیلے سے ممکن الحصول نہ ہوتا تو یہاں بعض لوگوں پر یہ اعتراض نہ ہوتا مگر ظاہر ہے کہ یہ کام غیر ممکن نہیں بلکہ ممکن ہے، پس اہلِ دانش پر واجب ہے کہ وہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی خصوصی ہدایت کی روشنی میں عالمِ شخصی میں داخل ہوجانے کے لئے سخت ریاضت کریں تا کہ ان شاء اللہ نفسانی موت اور روحانی قیامت کا دروازہ ان کے لئے مفتوح ہوجائے اور قیامت و آخرت کا علم ان کو حاصل ہو۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۲۶، دسمبر ۲۰۰۱ ء
۴۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۷
قسط ۲۶ کو بار بار پڑھیں تا کہ آپ کو علم القیامت اور علم الآخرت کی اہمیت کی خبر ہو، قرآنِ پاک نے عمون (اندھے) کے لفظ میں باطنی اندھا پن کی مذّمت برائے مذّمت نہیں کی بلکہ یہ برائے عبرت و ہدایت ہے تا کہ عقل والے قرآنی حکمت سے فائدہ حاصل کریں، یہی مقصد ہر اُس آیت کا ہے، جس میں باطنی نابینائی کی مذّمت کی گئی ہے، جیسے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ارشاد ہے: وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا۔ ترجمہ: اور جو شخص اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔
قرآنِ حکیم طبیبِ لاہوتی کا شفا خانہ ہے جس میں عالمِ ناسوت کے ہر باطنی مریض کے لئے شفائے کلّی کا انتظام ہے لہٰذا ہر ہوشمند انسان کو قرآنی حکمت سے فائدہ اٹھانے کی سخت ضرورت ہے، جس طرح ظاہر میں اگر ایک بیماری کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو دوسری بیماری بھی ہوسکتی ہے، یہی مثال باطن میں بھی ہے۔
اے عزیزان ذکر و عبادت، گریہ و زاری اور علم و حکمت ہی سے روحانی زندگی میسر ہوسکتی ہے، اللہ تعالیٰ سب کو نیک توفیق عطا فرمائے، آمین!
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۲۶، دسمبر ۲۰۰۱ء
۴۱
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۸
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (ح ق) صلوات اللہ علیہ کے پاک ارشادات میں ہے: جہاں (باطنی) دیدار ہے وہاں ہی بہشت ہے (کلامِ امامِ مبین حصۂ اول۔ منجیوڑی۔ ۲۵۔ ۱۲۔ ۱۸۹۳)۔
تم نورانی بدن کے لباس میں ملبوس ہوکر بہشت میں جاؤ گے (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل۔ منجیوڑی۔ ۲۸ ۔ ۱۲۔ ۱۸۹۳)۔
نورانی بدن = جسمِ لطیف = لبوس (۲۱: ۸۰) سرابیل (۱۶: ۸۱) جثۂ ابداعیہ۔ حدیثِ شریف ہے: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا = مومن کی روح بعد از موت ایک قالب (نورانی بدن) میں رکھی جاتی ہے جو اُسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اس کا قالب (بدن) تھا صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں قالب کثیف تھا، مگر یہ جدید بدن لطیف اور نورانی ہوتا ہے (ہزار حکمت، قالب، ح: ۶۷۲)۔
سوال: جو مومن جیتے جی مرکر زندہ ہو جاتا ہے، اس کی روح جسمِ لطیف میں ہوتی ہے یا جسمِ کثیف میں؟ جواب: دونوں میں ہوتی ہے، یعنی بہشت میں بھی ہوتی ہے اور دنیا میں بھی، الحمد للہ ربّ العالمین۔
ن۔ ن۔ (حّبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ۲۷ دسمبر ۲۰۰۱ء
۴۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۲۹
سورۂ رعد (۱۳: ۱۲) میں ارشاد ہے:
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ ۔ ترجمہ: وہی ہے جو تمہیں برق (جثۂ ابداعیہ = نورانی بدن) دکھاتا ہے، جس سے تم ڈرتے بھی ہو، اور تم کو طمع بھی ہوتی ہے (کہ تم اس میں منتقل ہو جاؤ) وہی ہے جو پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتا ہے۔
آفاق و انفس کے معجزات ظاہری بھی ہیں اور باطنی بھی، اور جتنے ظاہری ہیں ان میں سب سے زبردست معجزہ برقی بدن = نورانی بدن = جثۂ ابداعیہ ہے، جی ہاں عارف کے لئے یہاں بھی جیتے جی ایک پرحکمت موت ہے، مگر منزلِ عزرائیلی کی موت کی طرح نہیں، بلکہ یہ صرف ایک خوف یا رعب کی کیفیت میں ہے، کیونکہ یہ امامِ زمان کا نورانی دیدار ہے۔
حدیثِ شریف کے حوالے سے بار بار اس حقیقت کا ذکر ہوچکا ہے، کہ قرآن حکیم کی ہر آیت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ پاک کے ہر قصّے کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور یقیناً قصّۂ موسیٰؑ بھی اسی قانونِ ظاہر و باطن کے مطابق ہے، اور آیت کے باطن سے تاویلی حکمت مراد ہے، اب آپ کو ایک سچے عاشقِ مولا کی حیثیت سے اس بات کا پختہ یقین آئے گا کہ قرآنِ حکیم
۴۳
کی تاویل حضرت مولانا علی صلوات اللہ علیہ کے پاک ارشادات سے شروع ہوکر سلسلۂ نورِ امامت کے ساتھ ساتھ جاری و ساری ہے، کیونکہ یہ بات قانونِ رحمتِ الٰہی سے بعید ہے کہ دنیا میں قرآن بھی ہو اور سلسلۂ نور بھی ہو مگر قرآنی حکمت غائب ہو جائے یہ بات ہرگز نہیں ہے بلکہ جس طرح دنیا میں اللہ کی کتاب اور اللہ کا نور موجود ہے اسی طرح قرآن کی حکمت بھی عاشقوں کو حاصل ہوتی رہتی ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ۲۸ ، دسمبر ۲۰۰۱ء
۴۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۰
ان للقرآن ظھرا و بطنا و لبطنہ بطنا الی سبعۃ ابطن۔ ترجمہ: یقیناً قرآن کا ایک ظاہر ہے، اور ایک باطن، اور باطن کا بھی باطن ہے سات بواطن تک (کتابِ احادیثِ مثنوی از بدیع الزمان فروزانفر استادِ دانشگاہِ تہران)۔
سورۂ بقرہ (۰۲: ۵۵ تا ۵۶) میں خوب غور سے دیکھیں، یہ لوگ حدودِ دین یا صفِ اوّل کے مومنین تھے لہٰذا یہ جیتے جی معجزاتی موت سے مرکر زندہ ہوگئے تھے اور یہ مظہرِ نورِ خدا = امامِ مبین کا معجزہ تھا، حصولِ معرفت کی غرض سے جس کو دیکھنا ضروری ہے، اور یہ حقیقت و انتم تنظرون (اور تم دیکھتے تھے) سے ظاہر ہوجاتی ہے، اگر ان کی موت عرفانی نہ ہوتی، ظاہری اور جسمانی ہوتی، تو وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ حادثاتی موت میں آدمی کے دل و دماغ کا چراغ فوراً ہی گل ہو جاتا ہے، جیسے منزلِ عزرائیلی میں مومن کی روح بار بار قبض کی جاتی ہے مگر سالک بے ہوش نہیں ہوتا، بلکہ وہ حضرتِ عزرائیل کے ذکرِ اسمِ اعظم کو اور حضرتِ اسرافیل کی آوازِ صور کو نیز عالمِ ذرّ کی تسبیحات کو سنتا رہتا ہے، اور یہ بھی دیکھ رہا ہوتا ہے کہ روح کائنات میں پھیلائی جا رہی ہے، وغیرہ، حالانکہ اس کی روح کا صرف نچلا سرا دماغ میں باقی
۴۵
رہ کر اس کے لئے شعور کا کام کر رہا ہوتا ہے، تو یہ بڑی عجیب بات ہے کہ یہاں بھی حیات و ممات کا ایک سنگم ہے، جس میں بھید ہی بھید ہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ۲۸، دسمبر ۲۰۰۱ء
۴۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۱
یہ حدیثِ شریف، گنجینۂ جواہرِ احادیث، ص ۶۶ پر ہے، ان فاطمۃ و علیا و الحسن و الحسین فی حظیرۃ القدس فی قبۃ بیضاء سقفھا عرش الرحمان۔
ترجمہ: یقیناً فاطمہ اور علی اور حسن و حسین علیہم السلام حظیرۂ قدس = جنّت کے ایک ایسے سفید قبہ (گنبد) میں ہوں گے جس کی چھت عرشِ رحمان ہے۔
ہم مذکورہ کتابِ مستطاب کے ترجمۂ اردو کے لئے بھی درخواست کرتے ہیں، اس ایمان افروز اور روح پرور کتاب کے ص ۲ پر صاحب جوامع الکلم کا یہ ارشادِ مبارک بھی ہے: یا علی انت منی بمنزلۃ ہارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی = اے علیؑ مجھ سے تم کو وہ نورانی منزلت حاصل ہے، جو موسیٰؑ سے ہارونؑ کو حاصل تھی، مگر یہ ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔ اس حکمتِ بالغہ کی رو سے حضرتِ امام ہارونؑ وزیرِ موسیٰؑ کے تمام ظاہری و باطنی اوصاف و کمالات مولا علیؑ سے بھی متعلق ہو جاتے ہیں۔
قرآنِ حکیم میں ۱۲۶ دفعہ حضرتِ موسیٰؑ کا نام ہے اور ۲۰ دفعہ حضرتِ مولانا
۴۷
ہارونؑ کا نام ہے، پس اسمِ موسیٰؑ اور اسمِ ہارونؑ محمدؐ و علیؑ کے نور کی آئینہ داری کرتے ہیں اور ہر دانا مومن کو حکمت کے اس عجیب و غریب پل کو عبور کرکے علم و حکمت کے عجائب و غرائب کا نظارہ کرنا چاہئے، ہم ان شاء اللہ اس پُرحکمت عمل کی کوئی مثال پیش کریں گے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۲۹، دسمبر ۲۰۰۱ ء
۴۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۲
سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) میں ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ۔ ترجمہ: پہلے ہم موسیٰ اور ہارون کو فرقان = معجزہ = توراۃ اور نور، اور ذکر = اسمِ اعظم عطا کر چکے ہیں۔
سید الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ مبارک کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس آیۂ کریمہ میں کئی عظیم اساسی حکمتیں ہیں، یعنی موسیٰؑ اور ہارونؑ رسولِ اکرمؐ اور مولا علیؑ کی مثال ہیں، اور متّقی لوگ وہاں بھی ہیں اور یہاں بھی، اور عجیب و غریب حکمت تو یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ پیغمبر اور امام کو جو فرقان = معجزہ، نور، اور ذکر = اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے، وہ متقین کے لئے ہے۔
پس ہر مومن کی دانائی اس بات میں ہے، کہ وہ موسیٰؑ اور ہارونؑ کے قصّے میں محمدؐ و علیؑ کے اسرار کے لئے تلاش کرے، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی، اور حدیثِ مماثلتِ ہارونی کا مقصد یہی ہے، اور یہاں یہ سوال ہونا چاہئے کہ حدیثِ منزلت میں جس طرح لفظِ منزلت آیا ہے، اس کا اشارۂ حکمت کیا ہے؟ جواب: منزلت دراصل منزل سے ہے، یعنی جائے
۴۹
نزول یا اترنے کی جگہ، کیونکہ اللہ سے جو وحی موسیٰؑ پر نازل ہوتی تھی، اس کی روحانی اور نورانی تاویل براہِ راست یا بالواسطہ ہارونؑ پر نازل ہوتی تھی، لہٰذا موسیٰؑ سے ہارونؑ کو نورانی تاویل کی منزلت حاصل تھی، اور بحکمِ حدیثِ نبوی نورانی تاویل کی یہی منزلت آنحضرتؐ سے مولا علیؑ کو حاصل تھی، اسی نورانی تاویل کے حامل ہونے کے معنی میں مولا علیؑ قرآنِ ناطق = نور برائے کتاب (۰۵: ۱۵) اور صاحبِ تاویل ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۲۹، دسمبر ۲۰۰۱ ء
۵۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۳
سوال: کیا آپ ذوالقرنین کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟
جواب: ان شاءاللہ، میں امامِ آلِ محمد صلوات اللہ علیہ کی یاری سے چند حکمتیں بیان کر سکتا ہوں، اوّل یہ ہے کہ ذوالقرنین دنیا کا کوئی بادشاہ ہرگز نہیں بلکہ یہ حضرتِ امام علیہ السّلام ہی ہے، جیسے مولا علیؑ قرآنِ ناطق نے فرمایا: انا ذوالقرنین۔ یعنی میں ذوالقرنین ہوں (کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت۔ ۴) ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو سینگوں والا، اس سے ناقور مراد ہے جو آواز کے دو حصوں پر مبنی ہے چونکہ دین کی ہر بڑی چیز دو دریاؤں کے سنگم کے اصول پر ہے، لہٰذا صورِ قیامت بھی اسی طرح سے ہے، پس ذوالقرنین سے صاحبِ صورِ قیامت = امام مراد ہے، ذوالقرنین کا سفر عالمِ شخصی میں تھا مگر وہ اکیلا نہ تھا، بلکہ کسی مومنِ سالک = عارف کی رہنمائی فرما رہا تھا۔
قصّۂ ذوالقرنین کے آغاز (۱۸: ۸۴) میں ارشاد ہے: اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًا۔
ترجمہ: ہم نے اس کو زمینِ عالمِ شخصی میں اقتدار عطا کر رکھا تھا، اور اسے ہر قسم کے اسباب و وسائل بخشے تھے یہ یقیناً کلّیۂ امامِ مبین کی ایک
۵۱
تفسیر ہے نہ کہ یہ کسی دنیوی بادشاہ کی تعریف ہے۔
پس ذوالقرنین یعنی حضرتِ امام علیہ السّلام نے سالک = عارف کو حظیرۂ قدس تک رہنمائی فرمائی اور اسی مقام پر منزلِ مقصود تھی، چونکہ یہاں اسرار ہی اسرار بھی ہیں اور حجابات ہی حجابات بھی اس لئے فرمایا گیا کہ وہ پہلے مغرب میں گیا اور دیکھا کہ سورج ایک کالے پانی میں غروب ہوتا تھا، یہ سخت حجاب اور زبردست امتحان نہیں تو اور پھر کیا ہے؟
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی)ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ۳۰، دسمبر ۲۰۰۱ء
۵۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۴
المستدرک جلدِ سوم ص ۱۳۳ پر یہ حدیثِ شریف ہے، رسولِ پاک نے فرمایا: یا علی ان لک کنزاً فی الجنۃ و انک ذوقرنیھا ۔ ترجمہ: اے علی تمہارے لئے جنّت میں ایک (عظیم) خزانہ ہے، اور یقیناً تم اس (جنّت) کا ذوالقرنین ہو۔ یہ کنز حظیرۂ قدس = جنّت = کلّیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کا خزانہ ہے۔
قصّۂ ذوالقرنین میں جس مغرب و مشرق کا ذکر ہے وہ سیّارۂ زمین کے شرق و غرب نہیں ہیں، وہ تو حظیرۂ قدس، یعنی عالمِ شخصی کی جنّت ہے جس میں ایک ہی مقام مشرق و مغرب بھی ہے اور جمع و واحد بھی ہے، وہاں دنیا کا سورج ہرگز نہیں بلکہ وہ نورِ ازل ہی ہے جس میں ہر ہر روشن چیز کی نمائندگی ہے یعنی وہ شمس بھی ہے، قمر بھی ، نجم بھی ہے، انجم بھی، نور بھی ہے، انوار بھی، اور اس کے صد ہا اسماء ہیں، الغرض ذوالقرنین سے امامِ مبین مراد ہے، اور ذوالقرنین کا مطلب صاحبِ ناقور ہے۔
ناقور یا صورِ قیامت کے بارے میں ایک اعرابی نے آنحضورؐ سے پوچھا کہ یا حضرت صور کیا چیز ہے؟ رسولِ پاک نے فرمایا کہ وہ ایک قرن (سینگ) ہے یعنی وہ سینگ جس میں پھونکنے سے ایک زوردار آواز نکلتی
۵۳
ہے، قرآن (۳۹: ۶۸) میں دیکھیں کہ صور دو دفعہ پھونکا جاتا ہے، پس یہ گویا دو قرن (قرنین) دو سینگ ہیں، میں نے قرآنِ حکیم کے حوالے سے ہر خاص اور عظیم چیز کے سنگم کا بار بار ذکر کیا ہے، کیونکہ ذاتِ سبحان کے سوا ہر چیز کا جوڑا ہوتا ہے (۳۶: ۳۶)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
اتوار ۳۰، دسمبر ۲۰۰۱ء
۵۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۵
کتابِ کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۸۱ میں حضرتِ امیر المومنین علی قرآنِ ناطق علیہ السلام کا ارشادِ مبارک ہے: انا ذوالقرنین ہٰذہ الامۃ، یعنی میں اس امت کا ذوالقرنین ہوں۔ انا الذی انفخ فی الناقور، یعنی میں وہ شخص ہوں کہ روحانی اور عرفانی قیامت کو برپا کرتے وقت صور پھونکتا ہوں اور عالمِ شخصی کی مخفی روحانی قیامت برپا کرتا ہوں (منقبت ۸۲)۔
مذکورہ کتاب کے بابِ دوم ، منقبت ۶۷ میں ارشادِ رسولِ اکرم صلعم ہے: یایھا الناس ان منکم من یقاتل عَلیٰ تاویل القرآن کما قاتلت عَلیٰ تنزیلہ فقلنا من ھو یا رسول اللہ، فقال ذاک خاصف النعل۔
ترجمہ: اے لوگو! تم میں سے ایک شخص ہے کہ وہ تاویلِ قرآن پر جنگ کرے گا، جیسا کہ میں نے تنزیلِ قرآن پر جنگ کی ہے۔
سوال: قرآنی تاویل پر علیٔ زمانؑ کس طرح جنگ کرتا ہے، اس کی کوئی خاص مثال کیا ہے؟ جواب: زمانے کا امام علیہ السّلام بحکمِ خدا (۱۷: ۷۱) اپنے حدودِ دین کے عالمِ شخصی میں ایک مخفی روحانی قیامت
۵۵
قائم کرتا ہے، یہ روحانی قیامت بھی ہے، تاویلِ قرآن کی جنگ برائے دعوتِ اسلام بھی ہے، اب سب لوگ اس تاویلی جنگ = قیامت کی زبردستی سے دینِ حق میں داخل ہو جاتے ہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۳۱ دسمبر ۲۰۰۱ ء
۵۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۶
سنّتِ الٰہی میں تبدیلی ہرگز ہرگز نہیں، ہاں اس میں مسلسل تجدّد ہے، چنانچہ کاملین و عارفین کے لئے مخفی روحانی قیامت کا تجدّد اللہ کی سنّت ہے، کیونکہ علم و حکمت اور معرفت کے تمام انمول خزانے حجاباتِ قیامت ہی کے پیچھے پوشیدہ ہیں، لہٰذا مخفی روحانی قیامت کا قیام ہر امامِ حق کے زمانے میں بے حد ضروری ہے، جیسا کہ حکیم پیر ناصر خسرو کے دیوان میں ہے:
ھو الاوّل ، ھو الآخر، ھو الظّاہر، ھو الباطن
منزّہ مالک الملکی کہ بے پایان حشر دارد
ترجمہ: وہی اوّلین سے اوّل ہے، آخرین سے آخر ہے، وہی سب سے آشکار ہے، اور سب سے باطن ہے، وہ ہر چیز سے پاک اور پادشاہی کا ایسا مالک ہے، کہ اس کی پادشاہی میں بے پایان قیامات ہیں۔
بے پایان حشر کا مطلب ہے کہ سلسلۂ قیامات کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں قیامت کے برپا ہونے کا ذکر ہے وہ دراصل قیامت کے تجدّد کا ذکر ہے اور یہ نکتۂ دل پذیر خوب یاد رہے کہ نزولِ قرآن کے بعد جب بھی کسی کامل یا
۵۷
عارف پر روحانی قیامت آئی تو وہ تاویلِ قرآن کی صورت میں آئی، کیونکہ قیامت کا سب سے عظیم اور ہمہ رس اور ہمہ گیر فائدہ قرآنی تاویل ہے، اور یہ حظیرۂ قدس میں جمع ہے، الحمد للہ۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، یکم جنوری ۲۰۰۲ء
۵۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۷
قرآنِ حکیم کی تاویل، مخفی روحانی قیامت کی صورت میں آتی ہے، سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳)۔
اللہ تعالیٰ نے حضرتِ یوسف علیہ السّلام کو علمِ تاویل سکھانے کے لئے منتخب کیا تھا، (۱۲: ۰۶) حضرتِ یوسفؑ امامِ مستودع کو علمِ تاویل عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں عطا ہوا تھا (۱۲: ۲۱)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے: فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا۔ ترجمہ: ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملکِ عظیم بخش دیا، یعنی عظیم روحانی سلطنت۔ (۰۴: ۵۴)۔
پس جب تک دنیا میں قرآن اور حکمت ہے تب تک آلِ ابراہیم = آلِ محمد کی روحانی سلطنت (امامت) بھی جاری اور باقی ہے، پس قصّۂ یوسفؑ میں ملک (بادشاہ) سے امامِ مستقر مراد ہے ، مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ ظاہراً مصر ہی میں موجود ہو، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جملہ قرآن میں لفظِ ملک خدا کے بعد صرف حضرتِ امامؑ ہی کے لئے آیا ہے، اور مذکورہ آیۂ کریمہ کا یہی فیصلہ ہے۔
۵۹
کتاب ہزار حکمت میں لفظِ تاویل کو دیکھیں: از حکمت ۱۸۴ تا ۲۰۴ یعنی ۲۱ حکمتیں۔
آلِ ابراہیم سے متعلق ایک مختصر اور جامع بیان ہزار حکمت (ح: ۵) میں بھی دیکھ لیں، اور کتابِ دعائم عربی جلدِ اوّل ص ۲۱ پر بھی، بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ دعائم میں سے کتاب الولایۃ کو خوب غور سے پڑھیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۲، جنوری ۲۰۰۲ء
۶۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۸
امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام سے یہ روایت منقول ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب آیتِ کریمہ: وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ (۲۶: ۲۱۴) ترجمہ: اور آپ اپنے قریب ترین کنبہ والوں کو ڈرائیے، نازل ہوئی تو آنحضرت صلعم نے ایک پیالہ دودھ اور بکری کی ایک ران دسترخوان پر رکھ کر خاندانِ بنی عبد المطلب کو جمع کیا جو چالیس مردوں پر مشتمل تھا، مگر دس نوجوان تو ایسے تھے کہ ان میں سے ہر ایک، میمنہ اکیلا ہی کھا سکتا تھا اور ایک مشک دودھ پی سکتا تھا، پھر بھی ان لوگوں نے خوب پیٹ بھر کر کھایا پیا، اس روز ابولہب بھی ان کے ساتھ تھا، جب خورد و نوش سے فارغ ہوچکے تو رسولِ اکرم صلعم نے ان سب سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے بنی عبد المطلب! میری اطاعت کرو تو تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤگے، اور میں تم سے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اب تک پروردگارِعالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وصی اور وزیر بھائی اور وارث اور ولی مقرر فرمایا تھا تو آج تم میں کون ایسا جوان مرد ہے جو میرا وارث میرا ولی میرا بھائی اور میرا وزیر بنے گا؟ اتنا سننا تھا کہ سب پر خاموشی چھا گئی، مگر آنحضرت صلعم نے اتمامِ حجّت کے طور پر ان میں سے ایک ایک کے سامنے
۶۱
فرداً فرداً یہ دعوت پیش کی لیکن کسی نے آپ کی اس دعوت کو قبول نہ کیا الا آنکہ میں باقی رہ گیا تھا اس وقت میں سب سے کمسن تھا مگر جب رسول اللہ صلعم نے میرے سامنے اپنی یہ دعوت پیش کی تو میں نے مؤدّبانہ عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا میں آپ کا وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی بنوں گا آپ نے فرمایا کہ ہاں ! اے علی تمہیں میرے وصی میرے وزیر میرے بھائی اور میرے ولی ہو۔
جب بنی عبد المطلب مجلس سے باہر نکلے تو ابولہب نے ان سے کہا کہ تم نے آج جو کچھ دیکھا ہے کیا اس سے تم کو اپنے صاحب محمدؐ کی جادوگری کا ثبوت نہیں ملتا کہ اس نے تمہارے سامنے دستر خوان پر بکری کی ران رکھی اور دودھ کا ایک پیالہ جس سے تم لوگ خوب شکم سیر ہوگئے، پھر کیا تھا وہ سب کے سب ابولہب کی اس بات کو سن کر ٹھٹھا کرنے لگے اور حضرتِ ابوطالب سے کہنے لگے کہ تمہارا بیٹا تم پر مقدم ہوگیا۔ از کتابِ دعائم الاسلام حصّۂ اوّل ص ۳۱ تا ۳۲۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
جمعرات ۳، جنوری ۲۰۰۲ء
۶۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۳۹
قسط ۳۸ میں حدیثِ بنی عبد المطلب کا ذکر ہوا، کیا یہ حدیثِ شریف دین کی حقیقی بنیاد کا حصہ نہیں ہے؟ جواب: کیوں نہیں، یہ تو عاشقانِ نور کے لئے ایک ایسا چراغِ ہدایت ہے جو کبھی بجھنے والا نہیں ہے، سبحان اللہ! صاحبِ جوامع الکلم کی تعریف و توصیف خدا کے سوا کوئی نہیں کر سکتا، اللہ ہمیں اپنے محبوب رسول صلعم کے کلامِ حکمت نظام سے اور زیادہ حیرت اور عشق نصیب کرے!
اس حدیثِ شریف میں دینِ حق کی اساسی حقیقتیں اپنی جگہ پر ہیں، ساتھ ہی ساتھ یہ ذکر بھی ہے کہ حقیقی اطاعت کے انعام میں بہشت کی بادشاہی ملتی ہے، جس کے بارے میں کئی مقالے لکھے گئے ہیں۔
حقیقی مومنین سے اللہ تعالیٰ نے عالمِ شخصی میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا، جس طرح اگلے لوگوں کو خلیفہ بنا چکا ہے (۲۴: ۵۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو کثیف سے لطیف بنائے گا، یعنی وہ جثّۂ ابداعیہ میں کائناتی بہشت کے بادشاہوں میں سے ہوں گے، جثّۂ ابداعیہ کو کائناتی بہشت کی سلطنت حاصل ہے، وہ تمام سیّاروں، ستاروں ، اور فضاؤوں کی سیاحت کرسکتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کا
۶۳
تعلق عالمِ روحانی سے بھی ہے جس کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور اصل بہشت تو وہی ہے، اور مضمونِ خلافت میں آپ (۰۶: ۱۶۵) کو ہرگز فراموش نہ کریں، اس میں آپ کو بڑی بشارت اور مبارکبادی ہے۔ آمین آمین !!
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ۴، جنوری ۲۰۰۲ء
۶۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۰
اے برادران و خواہرانِ روحانی! قرآن اور امامِ مبین کے تمام اسرار کا سب سے عظیم خزانہ عالمِ شخصی ہی میں مخفی ہے، اگر آپ عالی ہمت اور عاشقِ صادق ہیں تو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ عالمِ شخصی کی رہنمائی کرسکتا ہے، سب سے پہلے امامِ مبین نے بذریعۂ اسمِ اعظم آدم کو عالمِ شخصی میں پہنچا دیا تھا۔
ہر مخفی روحانی قیامت میں کاملین اور عارفین کو امامِ زمان (روحی فداہ) حظیرۂ قدس کی منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔
اگر تم کثرتِ ذکرِ اکبر کے زیرِ اثر مخفی روحانی قیامت کے آغاز ہی میں مرتے ہو تو یہ تمہاری روح کی موت ہرگز نہیں، بلکہ نفس ہی کی موت ہے، جس کی وجہ سے تم کو ذات و کائنات کی کلّی فتح حاصل ہوئی، اب تم شکرگزاری میں گریہ و زاری کرتے رہو، کہ اللہ و رسول کا ہر وعدہ تمہارے حق میں پورا ہوا، اب ناشکری سے ڈرتے رہو۔
سوال: آلِ ابراہیم اور آلِ محمد کی عظیم سلطنت (۰۴: ۵۴) اور بہشت کی ملکِ کبیر (بڑی بادشاہی) (۷۶: ۲۰) میں کیا فرق ہے؟ جواب: عظیم اور کبیر کے ایک ہی معنی ہیں، لہٰذا یہ حضرتِ امامؑ کی ایک ہی بہت بڑی بادشاہی،
۶۵
بلکہ شاہنشاہی ہے۔
جب حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارونؑ کے خاص مومنین کو خدائے مہربان نے ملوک = سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) تو اپنے محبوب رسول صلعم اور آپ کے وارث (امام) کے حقیقی مومنین کو بھی بہشت کے سلاطین بنا سکتا ہے، اور اس حقیقت میں اہلِ دانش کو کوئی شک ہی نہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۵، جنوری ۲۰۰۲ ء
۶۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۱
انبیا و اولیا علیہم السّلام اور ان کے حدودِ جسمانی کے عالمِ شخصی میں سنّتِ الٰہی کا تجدّد ہوتا ہے، یہاں یہ راز یاد رہے کہ باطنی اور اصولی معجزات سنّتِ الٰہی کے مطابق یکسان ہوا کرتے ہیں، چنانچہ حضرتِ عیسیٰؑ کے معجزات کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، مثال کے طور پر آیت (۰۳: ۴۹) اور (۰۵: ۱۱۰) کو پڑھیں، حضرتِ عیسیٰؑ مٹی کے گارے سے پرندے کی صورت کا ایک مجسمہ بناتا تھا اور اس میں پھونک مارتا تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا، اس کی ایک عظیم الشّان تاویل ہے، اور وہ یہ ہے کہ جب حدودِ جسمانی میں مخفی روحانی قیامت قائم ہوتی ہے تو اس وقت دنیا بھر کے لوگوں کی ارواح حاضر ہوتی ہیں، یہ منزلِ اسرافیلی اور عزرائیلی کا قصّہ ہے، جس میں کسی مومن پر سخت روحانی قیامت گزرتی ہے، اس کی روح بار بار قبض کرکے واپس بدن میں ڈال دی جاتی ہے، ایسی حالت میں صاحبِ قیامت بحکمِ خدا ستر ہزار ایماندار روحوں کو فرشتے بناتا ہے، مٹی کی تاویل مومن ہے، اور مٹی سے پرندہ بنانے کی تاویل ہے، مومن سے فرشتہ بنانا۔
بخاری جلدِ سوم باب ۸۵۶ میں یہ حدیثِ شریف ہے: یدخل الجنۃ سبعون الفا بغیر حساب ۔ ترجمہ: جنّت میں ستر ہزار بلا حساب داخل ہوں گے۔ البتہ یہی ستر ہزار فرشتے ہیں جو حظیرۂ قدس کے بیت المعمور کی ایک بار زیارت کرتے ہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۵ جنوری ۲۰۰۲ء
۶۷
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۲
ستر ہزار فرشتوں کا ذکر ہوا، وہ جس قیامت گاہ = عالمِ شخصی سے مرفوع ہوئے ہیں، یعنی بلند کئے گئے ہیں، اسی کی کاپیاں اور کائناتیں ہیں، اعنی ہر فرشتہ ایک کائناتی بہشت، اور ایک خلافت = سلطنت ہے، جس کا وعدہ قرآنِ پاک میں موجود ہے (۰۶: ۱۶۵) اور (۲۴: ۵۵)۔
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ (۰۳: ۲۷)۔ ترجمہ: اور تو جس کو چاہتا ہے قیامت کا حساب لئے بغیر بہشت کا بے شمار رزق عطا کرتا ہے۔ یہ ستر ہزار حقیقی مومنین و مومنات ہیں جو نہ صرف حساب کے بغیر بہشت میں داخل ہوئے، بلکہ اللہ نے ہر ایک کو ایک فرشتہ اور ایک زندہ کائناتی بہشت بنایا، اور اس میں ایک دینی خلافت و سلطنت قائم کی تا کہ اس میں علم و حکمت اور معرفت کی نعمتوں کی فراوانی ہو، الحمد للہ علی منہ و احسانہ۔
یہ حقائق و معارف اپنی اپنی جگہ پر بدرجۂ اعلیٰ یقینی ہیں، تاہم بحکمِ الخلق عیال اللہ سب لوگ بہشت میں جائیں گے کیونکہ بہشت کی سلطنتیں لوگوں کے مختلف درجات پر قائم ہوتی ہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ۶ جنوری ۲۰۰۲ء
۶۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۳
حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے جو معجزات دیئے تھے ان کا ذکر قرآنِ حکیم کے دو مقام پر ہے: (۰۳: ۴۹) اور (۰۵: ۱۱۰) ان معجزات میں اساسی معجزہ یہ ہے کہ حضرتِ عیسیٰ اسمِ اعظم کا ایک جسمانی ظہور تھا، کیونکہ آپ کی والدہ مریم صدیقہ سلام اللہ علیہا کو اسمِ اعظم عطا ہوا تھا اور وہ لفظ کلمۃ ہے (۰۳: ۴۵) اور (۰۴: ۱۷۱) اور آپ کو یقین ہے کہ امامِ زمان خود ہی اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، اور جب امامِ مبین میں خدا کی ہر ہر چیز محدود ہے، تو پھر پیغمبروں کے معجزات کیوں کر امامِ مبین سے باہر ہوسکتے ہیں، پس آئیے ہم امامِ زمانؑ کی نورانی معرفت کی روشنی میں حضرتِ عیسیٰؑ کے معجزات کی تاویلِ باطن کو دیکھتے ہیں، آپ نے گہوارے میں لوگوں سے کلام کیا، اس کی تاویل یہ ہے کہ جب مومنِ سالک کی روحانی قیامت کا آغاز ہوتا ہے تو امامِ زمانؑ کا نور طفلِ نو مولود کی آواز میں کلام کرتا ہے۔
قرآن (۰۲: ۲۶) میں یہ معجزہ بعوضہ کی مثال ہے، مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا: وہ بعوضہ میں ہوں۔ کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۶۴۔
یہاں نور کی یہ آواز برائے امتحان مچھر کی آواز کی طرح ہے یا کان بجنے کی آواز کی طرح ہے، نیز یہ ناقورِ قیامت کی بنیاد بھی ہے، اور مولا علیؑ خود
۶۹
ناقور ہے، منقبت ۵۶۔ اور امامِ زمانؑ کا یہ سمعی نور جو کان بجنے کے حجاب میں ہے وہ فرشتہ بھی ہے جو ایک جنّ کے خلاف مقرر ہے۔
حضرتِ عیسیٰؑ کے دوسرے معجزات کی تاویل ان شاء اللہ قسط ۴۴ میں بیان کریں گے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۷، جنوری ۲۰۰۲ء
۷۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۴
حضرتِ عیسیٰؑ خدا کے حکم سے مادر زاد اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے، یہاں یہ سوال ہے کہ آیا باطن میں بھی مادرزاد اندھے ہوتے ہیں؟ جواب: جی ہاں بہت زیادہ بلکہ بے شمار، کیونکہ جو حضرات نورٌعلیٰ نور ہیں وہ تو اس بحث سے بالاتر ہیں باقی سب لوگ چشمِ باطن کے بغیر پیدا ہوتے ہیں، اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آئی کہ حضرتِ عیسیٰؑ کے اس معجزے کی تاویل ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ باطنی اندھوں کا علاج کرتے تھے اور خدا کے اذن سے ان کی چشمِ باطن روشن ہوتی تھی، آپ مردوں کو زندہ کرتے تھے، مردے دو قسم کے ہوتے ہیں، جسمانی مردے ، اور غفلت و جہالت کے مردے۔
انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ وہ غافلوں اور جاہلوں میں علم و حکمت کی روح پھونک کر حقیقی معنوں میں زندہ کرتے ہیں، پس حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم تاویلِ باطن کو دیکھتے ہیں تو حضرتِ عیسیٰؑ نے کوئی انوکھا معجزہ نہیں کیا بلکہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے باطنی معجزات کی نشاندہی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔
سوال: ابنِ مریم کوڑھی = جذامی کو بھی شفایاب کرتے تھے، اس کی
۷۱
کیا تاویل ہے؟ جواب: روحانی سفر میں ذرا آگے چلنے کے بعد ایک آزمائشی روشنی آتی ہے جو غیر مفید ہے، اس کو چھوڑ کر آگے جانا چاہئے، لیکن ہادیٔ برحق کی مدد کے بغیر یہاں سے نکل کر آگے جانا غیر ممکن ہے، لہٰذا بہت سے لوگ وہاں سے ناکام ہوکر واپس ہوجاتے ہیں، مگر جس کو ہادیٔ برحق کی رہنمائی حاصل ہوئی وہ آگے سے آگے جاتا ہے اور رفتہ رفتہ حظیرۂ قدس کی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
پیر ۷، جنوری ۲۰۰۲ء
۷۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۵
سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۵) کے حوالے سے مائدہ (خوانِ آسمانی) کی کیا تاویل ہے؟ جواب: اسمِ اعظم کے نتائج و ثمرات = علمی و عرفانی معجزات اور حظیرۂ قدس کا مشاہدہ۔
سوال: آیا یہ معجزہ صرف حضرتِ عیسیٰؑ اور اس کے شاگردوں (حواریوں) کے لئے مخصوص تھا؟ جواب: نہیں نہیں یہ تو امامِ مبین علیہ السّلام کا باطنی معجزہ ہے، جس سے ہر زمانے کے عارفین و سالکین فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، اور حدودِ دین کے وسیلے سے اس معجزۂ علمی کا دائرۂ برکات وسیع تر ہوسکتا ہے۔
حضرتِ عیسیٰؑ نے حواریوں کی درخواست پر ربّ العزّت کے حضور میں یوں دعا کی:
اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ (۰۵: ۱۱۴)۔
ترجمہ: خدایا، ہمارے ربّ، ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو، ہمارے لئے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لئے عید (خوشی کا موقع) ہو، اور تیری طرف سے ایک نشانی (ایک معجزہ) ہو، ہم کو رزق دے اور تو بہترین رازق
۷۳
ہے۔
حضرتِ عیسیٰؑ کی اس دعا میں صاحبانِ عقل کے لئے بہت سی حکمتیں ہیں ظاہر ہے کہ یہ باطنی عیدِ سعید زمانۂ عیسیٰؑ سے پہلے بھی آتی تھی اور بعد میں بھی آتی رہے گی، اللہ خیر الرازقین ہے، اس میں عقلی اور روحانی رزق دینے کا واضح اشارہ ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
منگل، ۸ جنوری ۲۰۰۲ ء
۷۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۶
حدیثِ شریف ہے: خلق اللہ اٰدم علیٰ صورتہ۔ ترجمہ: اللہ نے آدم کو اپنی (رحمانی) صورت پر پیدا کیا (بخاری، جلدِ سوم، باب ۶۵۸) اور یہ ارشادِ نبوی بھی ہے: فکل من یدخل الجنۃ علیٰ صورۃ آدم۔ پس جو شخص جنت میں جائے آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔
سوال: اللہ تعالیٰ نے کب اور کہاں آدم کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا؟
جواب: جب آدم حظیرۂ قدس = جنّت میں داخل ہوا، اب یہاں آدم کی دو صورتوں کا تصور ہوتا ہے، ایک وہ صورت جو حظیرۂ قدس سے باہر اور فنا فی اللہ سے پہلے تھی اور ایک یہ صورت، یعنی صورتِ رحمان، جو بعد میں عطا ہوئی۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے، کہ جو شخص بھی جنّت میں جائے وہ آدم کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ آدم کی بشری صورت؟ یا رحمانی صورت؟ اگر بات رحمانی صورت کی ہے تو قرآنی شہادت ضروری ہے۔
قرآنی شہادت (۰۷: ۱۱) میں اس طرح ہے: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ
۷۵
صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ۔
ترجمہ: ہم نے تم کو (نفسِ واحدہ = آدم کی وحدت میں) جسماً و روحاً و عقلاً پیدا کیا پھر تم کو حظیرۂ قدس میں صورتِ رحمان پر پیدا کیا پھر فرشتوں کو حکم کیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ اور فرشتوں نے خدا کے حکم سے آدم کو دو مقام پر سجدہ کیا ہے، پہلا سجدہ منزلِ اسرافیلی کے آغاز میں، دوسرا سجدہ حظیرۂ قدس میں، دونوں مقام پر تم فرشتوں میں بھی تھے اور آدم میں بھی۔
ایک بہت بڑی قرآنی شہادت یہ بھی ہے: مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ۔ مفہوم: تم سب کو پیدا کرنا اور پھر بعد از موتِ نفسانی دوبارہ جِلا اٹھانا نفسِ واحدہ (آدم) کی طرح ہے (۳۱: ۲۸)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۹ جنوری ۲۰۰۲ ء
۷۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۷
حدیثِ شریف ہے: ان لکل شیءٍ قلبا و قلب القرآن یٰسٓ۔ ترجمہ: ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یس ہے۔
صاحبِ جوامع الکلم صلعم کے اس پاک و پرحکمت ارشاد میں ضرور کوئی بہت بڑا راز مخفی ہوسکتا ہے، اور وہ راز یقیناً یہی ہے کہ خدائے علیم وحکیم نے اس سورہ میں کلّیۂ امامِ مبین کا بیان فرمایا ہے (۳۶: ۱۲) یہ کلّیہ دراصل کلِّ کلّیات ہے، یعنی قوانینِ قرآن کا جامع الجوامع قانون ہے، اور اس میں صاحبانِ عقل و دانش کے لئے ہر ہر علمی و عرفانی سوال کا شافی جواب موجود و مہیا ہے، اور اس حقیقت میں کسی دانا کے لئے کیا شک ہو سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم کلامِ الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی سنّت کا مظہر ہے، سنتِ الٰہی کی کامل اور مکمل معرفت تو خدا شناسی سے الگ نہیں ہے، تاہم علم الیقین کی مدد سے آپ اس حقیقت کا یقین حاصل کریں کہ اللہ الباسط بھی ہے اور القابض بھی، یعنی وہ چیزوں کو پھیلاتا بھی اور لپیٹتا بھی ہے، پس اسی سنّتِ الٰہی کے مطابق قرآنِ حکیم بیک وقت پھیلایا ہوا بھی ہے، اور لپیٹا ہوا بھی ہے، الحمد میں سارا قرآن جمع ہے، اسمِ اعظم میں قرآن مخزون ہے، ام الکتاب میں، لوحِ محفوظ میں، خزائنِ الٰہی میں، اور اس بولنے والی کتاب میں، جو خدا کے پاس
۷۷
ہے، وغیرہ، اگر ان حقائق کے باؤجود ہم قرآن کی وحدت و سالمیت کو نہیں جانتے ہیں تو ہم ان لوگوں میں سے ہوجائیں گے، جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے، (۱۵: ۹۱) قرآنِ عزیز کے جو جو خزائن اور مراکز اور درجات ہیں ان سب کی وحدت و سالمیت امامِ مبین ہی میں ہے، لہٰذا امامِ زمان کا نور قرآن کا زندہ قلب = دل ہے اور سورۂ یٰسٓ کے قلبِ قرآن ہونے کا رازِ اعظم یہی ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ۱۰ جنوری ۲۰۰۲ء
۷۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۸
آپ حضرتِ مولا علی صلوات اللہ علیہ کے پاک و پرحکمت ارشادات کو کامل عشق و محبت سے پڑھا کریں، خود مولا کی نورانی تاویل کا کہنا ہے کہ امامِ مبین قرآنِ ناطق ہے، اسی مناسبت سے سورۂ یٰسٓ قلبِ قرآن ہے، اور یہ خداوندِ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے کہ اللہ کی طرف سے نور بھی آیا ہے اور کتاب بھی آئی ہے (۰۵: ۱۵)۔ یہی زندہ نور قرآنِ ناطق ہے، پہلے رسولِ اکرمؐ، اور پھر آپ کا وصی = امامِ مبین، قرآنِ ناطق ہے، نیز اسی زندہ نور کا بالائی سرا کتابِ ناطق کے نام سے اللہ کے پاس ہے (۲۳: ۶۲) (۴۵: ۲۹) اور یہی نور اللہ کی رسی بھی ہے، جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور دوسرا سرا لوگوں کے سامنے ہے، اور یہی نور وہ امامِ مبین ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کل اشیاء کو گھیر کر اور عددِ واحد میں گن کر رکھا ہے، اور خدا وہ قادرِ مطلق ہے جو بےشمار کائناتوں کو دستِ قدرت میں لپیٹ کر گوہرِ نورِ ازل بناتا ہے، پھر اسی نور سے لاتعداد کائناتیں بناتا ہے، جب نورِ محمدی، عقلِ کل = قلم = عرش ہے، اور نورِعلی، نفسِ کلّی = لوح = کرسی ہے، تو کرسی کی تعریف قرآن میں پڑھیں:
ارشاد ہے: وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ۔
ترجمہ: اُس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا
۷۹
ہے (۰۲: ۲۵۵)۔ اللہ کی یہی کرسی امامِ مبین کا ہمہ رس اور ہمہ گیر نور ہے جو فرشتۂ عظیم = نفسِ کلّی ہے، جس کے باطن میں ستر ہزار سے زیادہ کائناتیں ہیں۔
پس سورۂ یس (۳۶: ۱۲) میں جو کلیۂ امامِ مبین ہے، وہ دراصل کلِ کلیات اور تمام قوانینِ قرآن کا جامع الجوامع قانون ہے، جس میں اہلِ بصیرت کے لئے قرآنِ حکیم کی نورانی تاویل کا سب سے بڑا خزانہ موجود ہے، قرآنِ عزیز کی نورانی تاویل سے کاملین و عارفین کا عالمِ شخصی معمور و پرنور ہوتا ہے، اور یہ سب کچھ مخفی روحانی قیامت کی برکت سے ہے، جس کو امامِ مبین ہی برپا کرتا ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
جمعہ، ۱۱، جنوری ۲۰۰۲ء
۸۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۴۹
سوال: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ جبکہ اوّلیت سے متعلق رسولِ اکرم صلعم کی تین پاک حدیثیں ہیں۔ جواب: ان اسرارِعظیم میں لوگوں کا بڑا امتحان ہے، اور امرِ واقعی یہ ہے کہ نورِ محمدیؐ، عقل، اور قلم ایک ہی چیز ہے، محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد ہی نورِ ازل اور سب سے اوّل ہے، یہی پاک نور قلم اور عقل ہے، ایک ہی اعظم چیز کے بہت سے نام اور بہت سے کام ہوا کرتے ہیں، جیسے اللہ کے اور اس کے پاک رسولؐ اور علیؑ کے بہت سے اسماء ہیں۔
سوال: حظیرۂ قدس میں بہت سے انوار ہیں یا نورِ واحد ہے؟ جواب: وہاں نورِ یک حقیقت ہے، چونکہ ح۔ ق عالمِ وحدت ہے۔
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ حجتِ قائم صلوات اللہ علیہ نے یک حقیقت کا انقلابی تصوّر دیا ہے، آیا اس غالب تصوّر کے اسرارِ عظیم حظیرۂ قدس میں مکشوف ہوسکتے ہیں؟ جواب: جی ہاں، بہت زیادہ تسلی بخش طریق پر۔
سوال: رجوعِ روح کس طرح ہے؟ کیا یہ انفرادی اور ذاتی ہے، یا اجتماعی؟ یا نفسِ واحدہ کے ذریعے سے ہے؟ جواب: انسان دنیا میں ازخود نہیں آیا ہے، بلکہ نفسِ واحدہ کے ذریعے
۸۱
سے آیا ہے، پس لازمی ہے کہ نفسِ واحدہ ہی کے ذریعے سے وہ واپس جائے گا، یعنی ہر شخص خوشی سے یا زبردستی سے امامِ مبین ہی میں فنا ہوکر خدا کے پاس جاسکتا ہے، پس اسی معنیٰ میں وجہ اللہ امام المتّقین بھی ہے اور امام النّاس بھی ہے۔
خدا کے دین میں سب سے زبردست طاقت روحانی قیامت ہے، جس کو برپا کرنے کے لئے اللہ نے امام کو مقرر فرمایا ہے (۱۷: ۷۱)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۱۲، جنوری ۲۰۰۲ء
۸۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۰
کتابِ دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل ص ۱۵ تا ۱۶ پر حدیثِ بنی عبدالمطلب کو خوب غور سے پڑھیں اس میں چند عظیم اساسی حکمتیں ہیں، اس حدیثِ شریف کے مطابق حضرتِ مولا علیؑ آنحضرتؐ کا وصی، وزیر، وارث، بھائی اور ولی ہے، اس بارے میں آپ کو کئی اور احادیثِ صحیحہ مل سکتی ہیں۔
آپ یقیناً اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ ہر حدیثِ صحیحہ قرآنِ حکیم کی کسی آیت کی ترجمانی کرتی ہے، چنانچہ ہم یہاں خداوندِ قدّوس کی توفیق سے اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ مولا علیؑ حضورِ اکرمؐ کی کس چیز کا وارث ہے، اور وہ آیۂ شریفہ کون سی ہے، جس میں پیغمبر کے وارث ہونے کا حکم یا اشارہ ہے؟
جواب: سورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) میں یہ ارشاد ہے:
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ۔ ترجمہ: پھر ہم نے کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا تھا۔ اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ علیؑ = امامِ مبین وارثِ نبی کے معنی میں وارثِ کتاب یعنی وارثِ قرآن ہے، کہ قرآن کی جو نورانی تاویل امامِ آلِ محمد کے پاس ہے، وہ کسی کے پاس نہیں، اور قرآن کی نورانی تاویل عظیم باطنی معجزات کی صورت میں اُس عالمِ شخصی
۸۳
اور حظیرۂ قدس میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ جس میں بعنوانِ روحانی قیامت امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہو جاتا ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۱۴ جنوری ۲۰۰۲ء
۸۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۱
مولا علی صلوات اللہ علیہ کا یہ فرمانِ اقدس عاشقانِ امامِ مبین کے لئے ایک عظیم نورانی خزانہ ہے:
انا و محمد نور واحد من نور اللہ ۔
ترجمہ: میں اور محمد ایک ہی نور ہیں، اللہ کے نور سے
انا اللوح المحفوظ = میں لوحِ محفوظ ہوں۔
و انا القرآن الحکیم = اور میں قرآنِ حکیم (قرآنِ ناطق) ہوں۔
انا محمد و محمد انا = میں محمد ہوں، اور محمد میں (علی) ہے۔
فآدم، و شیث، و نوح، و سام، و ابراہیم، و اسماعیل، و موسیٰ ، و یوشع، و عیسیٰ، و شمعون، و محمد و انا کلنا واحد = پس آدم، اور شیث، اور نوح، اور سام، اور ابراہیم، اور اسماعیل اور موسیٰ، اور یوشع، اور عیسیٰ ، اور شمعون، اور محمد اور یقیناً ہم سب ایک ہیں۔
انا ملک ابن ملک = میں بادشاہ کا بیٹا بادشاہ ہوں (یعنی امام کا بیٹا امام ہوں)۔
۸۵
انا النباء العظیم انا الصراط المستقیم = میں وہ سب سے بڑی خبر ہوں، جس کے بارے میں لوگوں میں اختلاف ہے، میں صراطِ مستقیم ہوں یعنی وہ نورانی راہِ راست جو آسانی سے خدا تک جاتی ہے۔
انا و اللہ وجہ اللہ = خدا کی قسم! میں وجہ اللہ ہوں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۱۴ ، جنوری ۲۰۰۲ ء
۸۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۲
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ (۴۰: ۰۱، حم)، (۴۱: ۰۱، حم)، (۴۲: ۰۱، حم)، (۴۳: ۰۱، حم)، (۴۴: ۰۱، حم)، (۴۵: ۰۱، حم)، (۴۶: ۰۱، حم)۔
یہ قرآنِ حکیم کے حروفِ مقطعات میں سے ہیں ان میں سے ہر ٹکڑا حٰمٓ کہلاتا ہے، اور جمع حوامیم ہیں، ان کی تاویل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولاعلیؑ نے ارشاد فرمایا: انا امانۃ یاسین، انا حاء الحوامیم۔ مفہوم: میں یاسین (سورہ یٰسٓ، نیز حضرتِ محمدؐ) کی امانت ہوں، میں حوامیم کا حرفِ حا = حجت= الحی ہوں۔ ح =۸، م = ۴۰ = ۴۸، یہ اشارہ ہے کہ حجتِ قائم کے زمانہ میں ایک عظیم مخفی روحانی قیامت برپا ہوگی، جس میں سورۂ قدر (۹۷: ۰۴) کے ارشاد کے مطابق عالمِ امر سے ملائکہ و ارواح کا نزول ہوگا، مگر اہلِ معرفت کے سوا کسی کو اس قیامت کی خبر نہ ہوگی۔
حٰمٓ، میں اللہ تعالیٰ کے دو بزرگترین نام ہیں: الحیّ ، القیوم۔ اور حٰمٓ قرآنِ عزیز میں سات دفعہ وارد ہوا ہے، اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ زمانۂ نبوّت اور زمانۂ قائم کے درمیان سات روحانی قیامات ہیں۔
۸۷
وجہِ دین، ص ۱۹۷ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ = میری قبر اور منبر کے درمیان باغاتِ بہشت میں سے ایک باغ ہے۔
قبر = اساس = علی، منبر = حضرتِ قائم، یعنی میرے اساس اور قائم کے درمیان ظاہری اور باطنی دعوت کا سلسلہ جاری رہے گا، اور باطنی دعوت روحانی قیامت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ روحانی قیامت ہر امام کے زمانے میں برپا ہوتی چلی آئی ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۱۵ جنوری ۲۰۰۲ء
۸۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۳
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کا پاک ارشاد ہے: ان للقرآن ظھراً و بطناً و لبطنہ بطنا الی سبعۃ ابطن او الیٰ سبعین بطنا۔ ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے یہ سلسلہ سات بواطن یا ستر بواطن تک جاتا ہے۔ ہزار حکمت (ح: ۶۸۸) بحوالۂ المیزان ، جلدِ اوّل، ص ۷۔
قرآن کے باطن سے تاویل مراد ہے، اور نورانی تاویل امامِ مبین کے نورِ اقدس میں ہے، اور یقیناً قرآن خود بھی باطن میں روح اور نور ہے (۴۲: ۵۲) یعنی قرآن جہاں امامِ مبین علیہ السّلام میں ہے، وہاں یہ امام کی روحِ مقدّس میں روح اور اس کے نورِ پاک میں زندہ نور ہے۔
سورۂ اعراف (۰۷: ۵۳) کے مطابق روحانی قیامت ہی کی صورت میں قرآن کی نورانی تاویل آتی ہے، بالفاظِ دیگر جب امامِ مبین کا نور مومنِ سالک کے عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے تو یہ سورج کی طرح خاموشی سے طلوع نہیں ہوتا بلکہ قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس کا تذکرہ تمام قرآن میں موجود ہے، پس اسی مخفی روحانی قیامت کے واقعات و معجزات میں امام کے نور کی وجہ سے قرآن کی نورانی تاویل آتی ہے۔
۸۹
مولا علیؑ کے ارشادات میں دیکھیں: مولا ناقورِ قیامت ہے (۷۴: ۰۸)، مولا الساعۃ = قیامت ہے (۲۵: ۱۱) مولا ہی قائم القیامت ہے (۱۷: ۷۱)، پس سر تا سر قیامت میں مولا ہی کا نور کام کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا قرآن کی نورانی تاویل امام کے نور کی نورانیت ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۱۶، جنوری ۲۰۰۲ء
۹۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۴
سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے: وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا۪-وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖؕ-سَیُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ ترجمہ: اور اللہ کے بہت ہی اچھے نام = اسمائے عظام ہیں، اس کو انہی اسمائے عظام ہی سے پکارو، اور ان لوگوں کو چھوڑ دو، جو اس کے اسماء کی معرفت میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں جو کچھ وہ کرتے ہیں، اس کا بدلہ وہ پا کر رہیں گے۔
کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۲۹ کو دیکھو مولاعلیؑ (یعنی امامِ مبین) اسمِ اعظم اور اسماء الحسنیٰ ہے، یاد رہے کہ امامِ زمانؑ اپنے جن روحانی بچوں کو نمائندہ اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے، وہ اگرچہ واحد ہوتا ہے، پھر بھی وہ جمع ہے، کیونکہ کامیابی کی صورت میں اس میں سے کئی اسماء کا ظہور ہوتا ہے اسی وجہ سے مذکورہ آیۂ کریمہ میں اسمِ اعظم اسماء الحسنیٰ سے عبارت ہے، نیز یہ مثال ایسی ہے جیسے امامِ زمان میں سب امام ہوتے ہیں، پس امامِ زمان واحد بھی ہے اور جمع بھی، جیسے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام امام تھا، جو واحد بھی تھا اور جمع بھی، وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ۔ ترجمہ: واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم
۹۱
ایک امت تھا اللہ کا مطیعِ فرمان اور یک سو (۱۶: ۱۲۰) اسی طرح امامِ زمان اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے اور اپنے سلسلۂ نور میں اسماء ُ الحسنیٰ ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۱۶، جنوری ۲۰۰۲ ء
۹۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۵
گنجینۂ جواہرِ احادیث ص ۱۳ پر یہ حدیثِ شریف ہے:
علی مع القرآن و القرآن مع علی، لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ۔ رسولِ کریمؐ کا پاک ارشاد ہے: علیؑ (باطن اور نورانی میں) قرآن کے ساتھ ہے، اور قرآن اُسی صورت میں علیؑ کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے تا آنکہ یہ دونوں حوضِ کوثر پر مجھ سے مل جائیں۔ یعنی ان دونوں کی رہنمائی حجتِ قائم اور قائم تک ضروری اور لازمی ہے۔
اس کے بعد صاحبِ تاویل سے متعلق جو مشہور حدیث ہے اس کا ترجمہ یہ ہے: یقیناً تم میں وہ شخص بھی ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا، جس طرح میں نے قرآن کی تنزیل پر جنگ کی۔ یہ حضرتِ علی علیہ السّلام کی شان میں ہے۔
پس جس طرح حضورِ اکرمؐ تنزیلی جنگ کے لئے ظاہر میں لشکر کو منظم اور تیار کرتے تھے، اسی طرح امامِ مبین تاویلی جنگ کے لئے لشکر کو باطن اور نورانیت میں تیار کرتا ہے کیونکہ قرآنِ حکیم کی نورانی تاویل عالمِ شخصی کے باطن میں بشکلِ معجزاتِ روحانی قیامت پائی جاتی ہے، جس کے حصول کے لئے عالمِ شخصی کا
۹۳
روحانی سفر ضروری ہوتا ہے، بشرطیکہ عالمِ شخصی میں امامِ زمانؑ کا مقدّس نور طلوع ہو چکا ہو، ورنہ ظلمت میں نہ تو صراطِ مستقیم کا سفر ممکن ہے، اور نہ ہی کوئی تاویلی معجزہ نظر آئے گا۔
شبِ تاریک اور روزِ روشن کے درمیان جو آسمان زمین کا فرق ہے، اس کو کون نہیں جانتا؟ مجھے حکیم پیر ناصر خسرو کا شعر یاد آیا:
بر جانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت
لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم
میری جان پر جب امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوا میں گھپ اندھیری رات تھا (اب) روزِ روشن ہوگیا۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ۱۷، جنوری ۲۰۰۲ء
۹۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۶
سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) مفہوم: ہم ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب (قرآن) لے آئے ہیں جس کو ہم نے ایک خاص علم یعنی علمِ تاویل کی بناء پر مفصل بنایا ہے، اور جو حقیقی معنوں میں ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے، کیا وہ لوگ کسی اور بات کے منتظر ہیں مگر یہ ہے کہ (مخفی روحانی قیامت کی صورت میں) اُس کی (یعنی قرآن کی) تاویل آئے گی۔
سوال: مخفی روحانی قیامت کا قرآنی ثبوت کیاہے؟ ج: جواب کے لئے ویسے تو بہت سی آیاتِ کریمہ ہیں، مگر مقالہ بہت ہی مختصر ہے، لہٰذا صرف ایک ہی آیۂ شریفہ کا ترجمہ پیش کرتے ہیں، جو سورۂ نمل (۲۷: ۶۶) ہے: بلکہ آخرت کا علم ہی ان سے گم ہوگیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ یہ اُس سے اندھے ہیں۔
ہزار حکمت (ح: ۶۲۶) اور (ح: ۶۲۷) کو دیکھو، وہاں، لفظِ عمون کی حکمت بیان ہوئی ہے۔
آپ کو یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ اللہ کا کلامِ حکمت نظام صدق و عدل میں بدرجۂ انتہا کامل و مکمل اور ہر طرح سے بے مثال ہے (۰۶: ۱۱۵) ایسے میں قرآنِ حکیم کا یہ اعتراض کہ آخرت کا علم ہی ان لوگوں سے گم ہوگیا ہے، یعنی
۹۵
یہ لوگ سرچشمۂ علمِ آخرت سے ہٹ گئے ہیں، پھر اعتراض ہے کہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ کام (امر) ممکن تھا کہ وہ علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین سے شکوک کو ختم کرسکتے تھے، آخری اعتراض ہے: بلکہ یہ اس (قیامت اور آخرت) سے اندھے ہیں، اگر دنیا ہی میں قیامت اور آخرت کا مشاہدۂ عرفانی ممکن نہ ہوتا تو قرآنِ حکیم ان لوگوں کو اندھے قرار نہ دیتا، اس آیۂ کریمہ کی حکمتِ بالغہ سے صاحبانِ عقل پر یہ حقیقت روشن ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا امتحان علم الآخرت میں ہے اور علمِ قیامت کا نتیجہ علمِ آخرت ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ۱۸، جنوری ۲۰۰۲ ء
۹۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۷
سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۵) میں ارشاد ہے: اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَسْعٰى ۔ ترجمہ: قیامت ضرور آنے والی ہے، میں اُس کو مخفی رکھنا چاہتا ہوں تا کہ ہر شخص اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے۔ ایک اور ترجمہ: یقیناً قیامت آنے والی ہے، میں اُس کو (تمام خلائق سے) پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں، تا کہ ہر شخص کو اس کی کوشش کے مطابق بدلہ مل جائے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یقیناً قیامت کو تمام خلائق سے برائے امتحان پوشیدہ رکھا ہے، ساتھ ہی ساتھ اُس قادرِ مطلق نے امامِ مبین کو صاحبِ قیامت بنایا ہے، پس امام کا لوگوں کو قیامت کے لئے بلانا گویا خدا کا بلانا ہے (۱۷: ۷۱) امامِ زمانؑ اپنے روحانی لشکر کے کسی عالمِ شخصی سے بذریعۂ اسرافیل سیارۂ زمین کے تمام لوگوں کو بلاتا ہے، لوگ ظاہری جسم میں نہیں، بلکہ ذرّاتِ روحانی میں محشور ہوتے ہیں سوائے عارف کے باقی سب لوگوں کی یہ مخفی روحانی قیامت غیر شعوری حالت میں ہوتی ہے، کیونکہ سب لوگ شعوری قیامت کی شرائط سے غافل تھے اور انہوں نے صاحبِ قیامت سے رجوع نہیں کیا جیسا کہ رجوع کرنے کا حق ہے، امامِ زمان علیہ السّلام ہی بحکمِ خدا ارواحِ خلائق کو مخفی روحانی قیامت
۹۷
کے لئے بلاتا ہے، جیسے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے بمرتبۂ امامت حج کی مثال میں دنیا بھر کے لوگوں کو روحانی قیامت کے لئے بلایا تھا، (۲۲: ۲۷ تا ۲۹) خدا نے حضرتِ ابراہیمؑ کو حکم دیا: وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ (۲۲: ۲۷)۔
ترجمہ: اور دنیا بھر کے لوگوں کو حج کے لئے پکارو۔ پہلا سوال: آیا زمانۂ ابراہیم میں سب لوگ مسلمان تھے؟ دوسرا سوال: اس زمانے میں دنیا بھر کے لوگوں کو بلانے کے لئے کیا ذریعہ تھا؟ ظاہر ہے کہ یہ صرف اور صرف روحانی قیامت کے لئے بذریعۂ اسرافیل روحانی دعوت تھی، جس کا حکم خدا نے حضرتِ ابراہیمؑ ہی کو دیا تھا۔
اُس روز صور پھونکا جائے گا اور وہ سب بے ہوش ہوجائیں گے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے ان کے جنہیں اللہ باہوش رکھنا چاہے (۳۹: ۶۸)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
سنیچر ۱۹ جنوری ۲۰۰۲ء
۹۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۸
قرآنِ عزیز کی متعدد آیاتِ کریمہ میں کائنات یا اجزائے کائنات کی تسخیر کا ذکر آیا ہے، اگر ان آیاتِ مقدسہ کا باطنی اور تاویلی پہلو بھی ہے، تو بتائیں کہ سفرِ عالمِ شخصی کی کس کس منزل میں سالکین و عارفین کے لئے تسخیری معجزات ہوتے ہیں؟ ج: سوال انتہائی عظیم اور سخت مشکل ہے، اور میری معلومات بہت ہی محدود، چلو مولائے پاک سے تائید کی درخواست کرتے ہیں، روحانی سفر کا مکمل قصّہ نہ صرف بڑا طویل ہے، بلکہ ازبس نازک اور انتہائی دشوار بھی ہے، لہٰذا ہم، مخفی روحانی قیامت کے آغاز میں جو جو عظیم معجزاتِ اسرافیلی اور عزرائیلی ہیں، ان کا اشارہ کرتے ہیں، ان دونوں عظیم فرشتوں کے تمام معجزات تسخیری ہیں، یعنی تسخیر سے متعلق جتنی بھی آیاتِ شریفہ ہیں، ان سب کی ایک بار تاویل اسی منزل میں مکمل ہو جاتی ہے، اگر تم حجتِ قائم میں اور حضرتِ قائم میں فنا ہوجاتے ہو تو کائنات اور اجزائے کائنات کی تسخیر کا سب سے بڑا مقصد حاصل ہوسکتا ہے، اور آخری بار ہر چیز کی تسخیر تو حظیرۂ قدس ہی میں ہے، جبکہ تم اُس میں داخل ہوسکتے ہو۔
آپ میری کتابوں کو غور سے پڑھیں اور اس سوال کے جواب کے لئے عملی تصوف کو بھی، خاص کر روحانی سائنس کے عجائب و غرائب ص ۱۴۱ تا ۱۴۶۔
قرآنِ حکیم میں آیاتِ تسخیر کو پڑھیں، خصوصاً (۳۱: ۲۰) کو۔
۹۹
معجزاتِ اسرافیلی و عزرائیلی سے پہلے عالمِ خواب اور عالمِ خیال کے معجزات اور عجائب و غرائب ہیں، حق الیقین کے سب سے عظیم معجزاتِ تسخیری تو حظیرۂ قدس ہی میں ہیں کیونکہ ح۔ ق تو بہشتِ برین ہے، سبحان اللہ و الحمدللہ و لا الٰہ الا اللہ و اللہ اکبر و لا حول و لا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
اتوار، ۲۰ جنوری ۲۰۰۲ ء
۱۰۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۵۹
سورۂ رعد (۱۳: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: الٓـمّٓرٰ تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِؕ-وَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔
مفہوم: الف۔ لام۔ میم۔ را۔ الف= اوّل = عقلِ اوّل = نورِ محمدی = قلم = عقلِ کلّ ۔ لام = ثانی = نفسِ کلّ = لوحِ محفوظ = نورِ علی ۔ میم = مرقوم = مکنون = مقامِ محمود۔ را = رویت = دیدار = لقاء اللہ = وجہ اللہ۔ یہ اُس کتابِ ناطق کی آیات ہیں جو اللہ کے حضور میں ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) اور جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے (یعنی قرآن) وہ عین حق ہے مگر (تمہاری قوم کے) اکثر لوگ مان نہیں رہے ہیں۔
اَللّٰهُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-كُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّىؕ-یُدَبِّرُ الْاَمْرَ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ۔
مفہوم: وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو غیر مرئی ستونوں پر مرفوع (قائم) کیا پھر وہ عرش (تخت) پر جلوہ فرما ہوا اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہر
۱۰۱
چیز ایک مسما حقیقت (ظاہر کرنے کے) لئے چل رہی ہے، وہ کلمۂ امر (کن = ہو جا) کا ہمیشہ اعادہ فرماتا ہے، یعنی ہمیشہ تخلیق کا کام کرتا ہے، وہ اپنی آیات کی تفصیل بیان کرتا ہے، شاید کہ تم اپنے ربّ کی ملاقات کا یقین کرو۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۲۱، جنوری ۲۰۰۲ ء
۱۰۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۰
مقامِ محمود (۱۷: ۷۹) = علیین (۸۳: ۱۸) = کتاب مرقوم (۸۳: ۲۰) = کتابِ مکنون (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) = وجہ اللہ (۰۲: ۱۱۵، ۵۵: ۲۷، ۲۸: ۸۸)۔
قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ کی پاک ملاقات کا ذکر ہے، رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: من رانی فقد را اللہ = جس نے مجھ کو دیکھا اُس نے (گویا) خدا کو دیکھا۔ اور یہاں فرمانِ امام محمد باقرؑ (ما قیل فی اللہ) بھی پیشِ نظر ہو، پس ممکن ہے کہ خدا کے دیدار کی تاویل امامِ مبین کا دیدار ہو، جبکہ امامِ زمانؑ وجہ اللہ ہے = آئینۂ خدائے نما ہے، مظہرِ نورِ الٰہی ہے، اللہ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، خدا کے حکم سے حظیرۂ قدس میں امامِ مبین ہی کا نورِ اقدس طلوع ہوتا ہے۔
سوال: وہ سرزمین کون سی ہے، جس کے بہت سے مشارق و مغارب ہیں اور جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے لاتعداد برکتوں سے مالامال فرمایا ہے (۰۷: ۱۳۷)؟ جواب: یہ حظیرۂ قدس کی خوبصورت اور پرحکمت مثالوں میں سے ایک بڑی عمدہ مثال ہے، ح۔ ق کا صرف ایک ہی مشرق ہے، جو خود مغرب بھی ہے، اور بہت بڑی عجیب بات یہ ہے کہ یہی بہت پاک مقام بہت سے مشارق و
۱۰۳
مغارب کا کام کر رہا ہوتا ہے، پس ان کثیر مشارق و مغارب کے ذریعہ آفتابِ نورِ امامِ مبین کثرت سے طلوع و غروب ہوتا ہے، ہر طلوع اور ہر غروب ایک بے نام حقیقت کی طرف اشارہ ہے، اب خدا کی جانب سے صرف امامِ زمانؑ ہی بتا سکتا ہے کہ وہ حقیقت کس نام سے ہے، اسی طرح بہت سے اشارے، بہت سے اسماء اور بہت سے مسمّا ہوگئے، اور یہ خزانۂ نورِ امامِ زمان کے اسرار میں سے ایک سرِعظیم ہے جس کے مطابق حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو امامِ زمانؑ نے علم الاسماء کی تعلیم دی تھی۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۲۲، جنوری ۲۰۰۲ء
۱۰۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۱
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ حجتِ قائم (روحی فداہ) کا مبارک ارشاد ہے: دنیا میں ہمیشہ تین سو تیرہ (۳۱۳) مومن ہوتے ہیں اگر وہ نہ ہوں تو دنیا کا نظام نہ چلے۔ (کلامِ امامِ مبین۔ حصّۂ اول۔ منجیوڑی۔ ۲۷۔ ۱۲۔ ۱۸۹۳ء)۔
کہتے ہیں کہ اصحابِ طالوت اور اصحابِ بدر کی تعداد برابر تھی (تین سو تیرہ = ۳۱۳) اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کا ایک خاص روحانی لشکر ہے، جس کی تعداد امام علیہ السّلام نے خود ہی بتا دیا، اور مولائے پاک نے ہر طرح سے روحانی ترقی پر بہت ہی زور دیا ہے، یقیناً امامؑ کا یہ لشکر بطریقِ روحانی فاتحِ عالم = فاتحِ کائنات ہوسکتا ہے۔
سورۂ توبہ (۰۹: ۳۳)، سورۂ فتح (۴۸: ۲۸) اور سورۂ صف (۶۱: ۰۹) میں ایک ہی ارشاد ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اللہ وہی تو ہے، جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اس انتہائی عظیم آسمانی پروگرام کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس بندۂ ناچیز کو بفضلِ خدا اس کی یہ معرفت حاصل ہوئی ہے کہ جانشینِ
۱۰۵
رسولؐ = امامِ آلِ محمدؐ = امامِ زمانؑ = امامِ مبینؑ بحکمِ خدا اپنے روحانی لشکر اور روحانی قیامت کے ذریعے سے دینِ حق کو دیگر ادیان پر غالب کر دیتا ہے، اور اسی طرح سب لوگ بوسیلۂ امامِ آلِ محمدؐ خدا کے دین میں زبردستی سے لاکر بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں، تا کہ وہ یہ دیکھ سکیں کہ سلاطینِ بہشت کون ہیں اور شاہنشاہِ بہشت کون ہے، آپ اس حقیقت کو ہرگز فراموش نہ کریں کہ ہر زمانے کا امام روحانی قیامت کا تجدّد (Revival, Renew) کرتا ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۲۳، جنوری ۲۰۰۲ء
۱۰۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۲
امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے خاص روحانی لشکر کا تعلق اجسامِ لطیف سے بھی ہوسکتا ہے، جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں موجود ہے، جیسے سرابیل (۱۶: ۸۱) ظلال = اجسامِ مثالی (۱۶: ۸۱) لبوس (۲۱: ۸۰) جثّۂ ابداعیہ یا قالبِ نورانی۔
خاص روحانی لشکر کا گہرا تعلق فرشتوں سے بھی ہے اور جنّات سے بھی ہے (۰۳: ۱۲۴ تا ۱۲۵) چونکہ امامِ آلِ محمدؐ کی روحانی سلطنت حضرتِ سلیمانؑ ہی کی روحانی سلطنت جیسی ہے، لہٰذا سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں جس طرح لشکرِ سلیمانؑ کا ذکر آیا ہے بالکل اسی طرح امامِ مبینؑ کے بھی لشکر ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ لشکرِ سلیمانی میں انس و جنّ اور فرشتے تھے، اور پرندے اس میں فرشتوں کی مثال ہیں ورنہ پرندے جنگ نہیں کر سکتے ہیں جبکہ روحانی جنگ کے لئے صرف تین قسم کی مخلوقات درکار ہیں، وہ انسانان، جنّات، اور فرشتے ہیں۔
وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ (۲۷: ۱۷)۔ ترجمہ: اور سلیمان کے لئے جنّات اور انسانان اور پرندوں (فرشتوں) کے لشکر جمع کئے گئے تھے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۲۳، جنوری ۲۰۰۲ء
۱۰۷
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۳
از کتاب عملی تصوّف اور روحانی سائنس، بعنوان “جنّات کے بارے میں چند سوالات:” روحانی سائنس کے سلسلے میں یہ بھی ایک اہم موضوع ہے کہ ہم قرآنِ حکیم کی روشنی میں جنّات سے متعلق بطریقِ سوال و جواب کچھ معلومات فراہم کریں، کیونکہ بعض لوگ اس مخلوقِ لطیف کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں، اور بعض کو انکار تو نہیں، لیکن وہ جنّ کی اصل حقیقتوں سے نا آشنا اور نابلد ہیں، لہٰذا ہماری کلیدی معلومات درجِ ذیل ہیں:
۱۔ س: جنّ اور پری قوم کے درمیان کیا فرق ہے یا کیا رشتہ ہے؟ لفظی لحاظ سے جنّ کے کیا معنی ہیں؟ اور پری کو کس معنیٰ میں پری کہا گیا؟ ج: جنّ اور پری ایک ہی قوم ہے، اس لئے فرق اور رشتے کا سوال خود بخود ختم ہوجاتا ہے، کیونکہ ایک ہی قوم اور ایک ہی مخلوق ہے، جس کا نام عربی میں جنّ اور فارسی میں پری ہے، لفظِ جنّ پوشیدہ ہونے اور نظر نہ آنے کے معنی کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ پری (پریدن سے) اڑنے کو کہتے ہیں۔
۲۔ س: سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں ایک آیۂ کریمہ و حشر ۔۔۔ تا یوزعون ہے، جس کا ترجمہ ہے: سلیمان کے لئے جنّ اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔
۱۰۸
یہاں یہ ایک فطری سوال ہے کہ پرندے آدمیوں سے بھاگتے ہیں اور آدمی جنّات سے ڈرتے ہیں، پھر ان لشکروں کی یکجائی کیوں کر ممکن ہوسکتی ہے؟ ج: عالمِ ذرّ میں تمام مخلوقات اور جملہ اشیاء ایک جیسے ذرّات ہیں، لہٰذا ماننا ہوگا کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے یہ تمام لشکر ذرّاتی اور روحانی صورت میں تھے۔
۳۔ س: یہ تو معلوم ہی ہے کہ ابلیس سجودِ آدمؑ سے انکار کرنے پر راندہ ہوگیا، اس سے قبل وہ فرشتوں میں سے تھا (۰۲: ۳۴) یہ شہادت چند آیاتِ کریمہ میں موجود ہے، اور سورۂ کہف کے ایک ارشاد (۱۸: ۵۰) میں ہے کہ وہ اس نافرمانی سے پہلے جنّات میں سے تھا، آپ یہ بتائیں کہ اس میں کیا راز ہوسکتا ہے؟ جواب: اس میں بہت بڑا راز یہ ہے کہ مومن جنّ ہی فرشتہ ہوتا ہے، اور فرشتہ ہی مومن جنّ ہوتا ہے۔
۴۔ س: کہا جاتا ہے کہ انسان میں عاجزی اور حلیمی اس وجہ سے ہے کہ اس کی سرشت مٹی سے ہوئی، اور جنّ میں سرکشی اس سبب سے ہے کہ وہ شعلۂ آتش سے پیدا کیا گیا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ج: خیر و شر کی یہ توجیہہ بڑی عجیب ہے، کیونکہ سارے انسان عاجز و حلیم نہیں ہیں، اور نہ ہی تمام جنّات سرکش ہوسکتے ہیں، آپ سورۂ جنّ (۷۲) میں آیت ۱۱ اور ۱۴ (۷۲: ۱۱، ۷۲: ۱۴) کو ذرا غور سے پڑھ لیں، مزید برآن نکتۂ راز تو یہ ہے کہ جنّ کو خداوند تعالیٰ آدمی کی روحانی ترقی سے پیدا کرتا ہے، یعنی جنّ انسان کا جسمِ لطیف ہی ہے کہ جب کوئی مومن عشقِ سماوی کی آگ میں جلتے رہنے کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اسی حال میں شعلۂ عشق سے جنّ (فرشتہ = جسمِ لطیف) کا ظہور ہوتا ہے۔
۵۔ س: آپ سورۂ رحمان (۵۵) کی آیاتِ شریفہ ۱۴ تا ۱۶ (۵۵: ۱۴ تا ۱۶) کی حکمت
۱۰۹
بیان کریں۔ ج: اسی (خدا) نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی (یعنی صورِ اسرافیل کی ابتدائی آواز) سے پیدا کیا اور اسی نے جنّات کو آگ کے شعلے (یعنی سالک کے نورِ عشق) سے پیدا کیا۔ پس اے جنّ و انس! تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اور جنّات قانونِ کثرت کے تحت الگ الگ بھی ہیں، اور قانونِ وحدت کے مطابق ایک بھی ہیں۔
۶۔ س: اے گروہِ جنّ و انس! اگر تم سے ہوسکتا ہے کہ تم آسمانوں کے اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو (چلو) نکل جاؤ حالانکہ بغیر غلبہ تم نکل نہ سکوگے (۵۵: ۳۳) کیا آپ اس ارشاد کی کوئی حکمت بتا سکتے ہیں؟ ج: (ان شاء اللہ تعالیٰ) یہ بہت بڑا امتحان روحانی سفر سے متعلق ہے جو انسان کی اپنی ذات میں ہے کہ اگر کوئی مومنِ سالک علم و عبادت کے زور سے ذاتی کائنات کی چھت پر چڑھ سکتا ہے تو وہ یقیناً ان خزائنِ معرفت کو حاصل کر لیتا ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہیں، کیونکہ تمام تر مشکل مسائل قید خانۂ کائنات ہی میں ہیں۔
۷۔ س: آپ قرآنِ پاک کے حوالے سے یہ بھی کہتے ہیں کہ بہشت کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے، اور ستاروں پر لطیف زندگی ہے، ایسے میں کائنات سے باہر جانے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ ج: کائنات بہشت معرفت سے مشروط ہے، معرفت کے خزانے لامکان میں ہیں، آپ اس کائنات کو دماغ میں رکھتے ہوئے ازل کا تصوّر نہیں کرسکتے ہیں، نہ لامکان کو پہچان سکتے ہیں، اور حظیرۃ القدس کے اسرار سے آگہی ہوسکتی ہے، پس سالک کے لئے یہ سفر ضروری ہے کہ وہ اپنے جنّات یعنی فرشتوں میں مدغم ہوکر عالمِ شخصی
۱۱۰
کی چھت پر چڑھ کر ایک بار دیکھے تا کہ تمام علمی و عرفانی عقدے کھل سکیں۔
نصیر الدین نصیر (حُبِّ علی) ہونزائی
کراچی
پیر ۱۷ ، رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ
۲۷ ، جنوری ۱۹۹۷ء
ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۲۵، جنوری ۲۰۰۲ ء
۱۱۱
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۴
سورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۲) میں ایماندار جنات کے بارے میں ارشاد ہے جو حدودِ دین ہیں: وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ۔قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ۔يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ۔وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ۔
ترجمہ: (اور وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جب ہم جنّوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تا کہ قرآن سنیں۔ جب وہ اُس جگہ پہنچے (جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہو جاؤ پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے انہوں نے جا کر کہا: “اے ہماری قوم کے لوگو، ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے، تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی
۱۱۲
کتابوں کی رہنمائی کرتی ہے حق اور راہِ راست کی طرف۔ اے ہماری قوم کے لوگو، اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرلو اور اُس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں عذابِ الیم سے بچا دے گا”۔ اور جو کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے وہ نہ زمین میں خود کوئی بل بوتا رکھتا ہے کہ اللہ کو زچ کر دے، اور نہ اُس کے کوئی ایسے حامی و سرپرست ہیں کہ اللہ سے اُس کو بچا لیں، ایسے لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
جمعہ، ۲۵، جنوری ۲۰۰۲ ء
۱۱۳
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۵
قاموس القرآن ص ۲۴۹ پر انبیاء کی تعداد ، ایک لاکھ چوبیس ہزار ، اور رسولوں کی تعداد تین سو تیرہ ہے، لغات الحدیث کتابِ ن ، ص ۴ پر ہے: دنیا میں ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبر آئے ہیں، ان میں رسول (جو صاحبِ شریعت ہوں) تین سو تیرہ گزرے ہیں۔
کتابِ سرائر و اسرار النّطقاء جو جعفر بن منصور الیمن الداعی الاجل = عظیم داعی کی کتاب ہے اس کے ص ۲۰۰ پر انبیاء علیہم السّلام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے۔
سورۂ انعام (۰۶: ۱۳۰) کے حوالے سے کسی کو فوری طور پر یہ گمان ہوسکتا ہے کہ شاید جنّات میں بھی نبی ہوئے ہوں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنّوں میں سے کوئی نبی نہیں ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل و اساس انسان ہی ہے، یہی افضل اور برتر ہے، انسان ہی ایک دیندار جنّ ہوکر فرشتہ ہوسکتا ہے، اور انسان ہی نافرمانی سے ایک نافرمان جنّ اور شیطان ہو سکتا ہے، پس اصل پیغمبر انسان میں سے ہوتا ہے، اور جنّات میں سے جو مومن ہیں وہ مرکزِ ہدایت کی طرف سے قاصد یا ایلچی یعنی حدودِ دین ہوسکتے ہیں۔
شروع شروع میں ہم نے اپنی کم علمی کی وجہ سے یہ خیال کیا تھا کہ دو
۱۱۴
دریاؤں کا سنگم صرف ایک ہی جگہ پر ہوسکتا ہے، مگر عرصۂ دراز کے بعد معلوم ہوا کہ خدا کی خدائی میں جگہ جگہ دو دریا اور سنگم ہے، پس انس و جنّ کے دو دریاؤں کا سنگم دیکھنا ہے تو سورۂ رحمان کو غور سے پڑھیں۔
پہلا سوال ہے کہ سورۂ رحمان کو کس وجہ سے عروس القرآن کہا گیا ہے؟ دوسرا سوال ہے کہ اس سورہ کے حوالے سے انس و جنّ اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں میں کیوں ایک ساتھ ہیں؟ بالفاظِ دیگر اللہ کی نعمتیں انس وجنّ میں مشترک کیوں ہیں؟
کیا ہر انسان میں ایک جنّ اور ایک فرشتہ نہیں ہیں اگر ہیں، تو سنتِ رسول کے مطابق ہر عالی ہمت مومن ذاتی جنّ کو مسلمان بنائے تا کہ تمام جنّات کی برائی یکسر ختم ہو جائے، جو لوگ ذاتی جنّ کو مسلمان نہیں بنا سکتے ہیں، وہ بیرونی جنّات کو گالیاں دیتے ہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۲۶، جنوری ۲۰۰۲ ء
۱۱۵
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۶
سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةًؕ۔
ترجمہ: کیا تم لوگ (چشمِ بصیرت سے) نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں، اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟
یہ آیۂ شریفہ عاشقانِ نورِ معرفت کے لئے ایک عظیم خزانہ ہے، اور اس کی حکمت درجہ بدرجہ ہے، اور اس کی آخری درجے کی حکمت حظیرۂ قدس میں ہے، آپ فنا فی الامام کی حقیقت کو تو مانتے ہوں گے، مگر روحانی قیامت کے ذریعے سے اسرافیل اور عزرائیل کا سہارا لے لیں اور بار بار امام کے لئے قربان ہو جائیں اور اس کے معجزات و انعامات کو دیکھیں، پھر قرآنِ حکیم کی تاویلی حکمت کی خدمت کریں۔
تجربۂ روحانی قیامت اور حصولِ معرفت کی خاطر جیتے جی مر جانا انتہائی سخت مشکل کام ہے، مگر امامِ مبین کوئی وسیلہ بنا سکتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایان رحمت سے تمہیں ظاہری اور باطنی
۱۱۶
نعمتیں اور قوتیں عطا کر دی ہیں، تو کیا یہ ممکن نہیں کہ تم ایک دن جسمِ لطیف میں جہاز کے بغیر پرواز کرو گے، فون کے بغیر دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے دوستوں سے بات کر سکوگے، ٹی وی کے بنا مناظرِ عالم کو دیکھ سکو گے، کیا یہ قانونِ تسخیر اور رحمتِ خداوندی سے بعید ہے؟ قرآنِ حکیم میں ایسی بہت سی بشارتیں موجود ہیں، صرف سمجھنے کا فرق ہے، ورنہ قرآن میں کیا نہیں ہے؟ الحمد للہ علی منہ و احسانہ۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)۔
اتوار، ۲۷، جنوری ۲۰۰۲ ء
۱۱۷
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۷
امامِ مبین ارواحنا فداہ کے خزانۂ باطن سے علم و حکمت کی ہر ہر نعمت ملتی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین، العاقبۃ للمتقین۔
اݹ منݳسن اپݶ یعنی کائناتی بہشت میں ہر نعمت ممکن ہے، دنیا آخرتہ ہرکݽ بلا = دنیا آخرت کی کھیتی باڑی ہے، لہٰذا نیک اعمال کا اجر و صلہ دنیا میں جزوی طور پر اور آخرت میں کلی طور پر ملتا ہے، کیونکہ کلی بہشت آخرت میں ہے۔
سوال: کیا دنیا میں اللہ کا دیدار ہو سکتا ہے؟ جواب: جی ہاں، لیکن دیدار اور کلام دونوں انتہائی عظیم معجزے ایک ساتھ نہیں ہوتے، لہٰذا جب کسی بشر کو دیدار ہوتا ہے تو اس حال میں کلام کی بجائے کوئی پرحکمت اشارہ ہوتا ہے (۴۲: ۵۱)۔
حدیثِ شریف ہے: اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربّہ = تم میں جو سب سے زیادہ اپنی روح کا عارف ہو، وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کا عارف ہے۔ یہ عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس کا حوالہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ عارف اپنی روح ہی میں حضرتِ ربِّ تعالیٰ کا دیدار کر کے اس کی معرفت
۱۱۸
حاصل کرتا ہے، جیسے مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ = جس نے اپنی روح کو پہچان لیا، جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے، تو اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ کیونکہ روح عالمِ امر سے آئی ہے، اور وہ وہاں خدا سے واصل ہے (۱۷: ۸۵)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)۔
پیر ، ۲۸، جنوری ۲۰۰۲ ء
۱۱۹
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۸
سوال: آیا سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں دیدارِ خداوندی کا ذکر ہے؟ جواب: جی ہاں، وہ مقامِ حظیرۂ قدس کا دیدار ہے، وہاں ظلِّ الٰہی = سایۂ خدا کی تمثیل ہے، خدا کا سایہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ عکسِ نور ہوتا ہے، مثال کے طور پر آئینے میں سورج کا عکس یعنی تصویر۔
دنیا میں جو لوگ حقیقی اطاعت اور علم و عبادت سے مرآتِ قلب = آئینۂ دل کو پاک و پاکیزہ کرتے ہیں، وہ یقیناً چشمِ باطن سے اپنے دل ہی میں خدا کا دیدار کرتے ہیں، اور ایسے ہی لوگوں کو شمسِ ہدایت اللہ سے ملا دیتا ہے، اور آیۂ شریفہ کا مفہوم اسی طرح سے ہے۔
حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو کا پر از معرفت شعر ہے:
ز نورِ او تو ہستی ہمچو پرتو (عکس)
حجاب از پیش بردارو تو او شو
ترجمہ: تو اس کے نور کا عکس ہے، پردہ سامنے سے ہٹا کر تو وہ ہو جا۔
بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۵) حضرتِ موسیٰؑ نے اپنی قوم سے جن ستر رجال کو اپنے ساتھ کوہِ طور پر لے جانے کے لئے منتخب کیا تھا، ان کو دیدار
۱۲۰
ہوا تھا یا نہیں؟ ج: یقیناً ان کو دیدار ہوا تھا۔
سوال: خود حضرتِ موسیٰؑ کو ربِّ تعالیٰ کا پاک دیدار ہوا تھا یا نہیں؟ ج: حضرتِ موسیٰؑ کو ربّ العزت کا دیدار ہوا تھا درحالے کہ خدا کے دستِ مبارک میں لپیٹی ہوئی کائنات تھی یا کتابِ مکنون، یا گوہرِعقل تھا، یا نور الانوار، اور یہ اُس آیت کی تاویل ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۲۸، جنوری ۲۰۰۲ء
۱۲۱
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۶۹
حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی تخلیقِ روحانی کے سلسلے میں چالیس (۴۰) صبحیں ایسی خاص اور کامیاب تھیں کہ حدیثِ قدسی ہے: خمرت طینۃ آدم بیدی اربعین صباحا ۔ ترجمہ: میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آدم کی مٹی کو چالیس صبحوں میں گوندھ لیا۔
سوال: اللہ تبارک و تعالیٰ وہ قادرِ مطلق ہے، جو اپنے ہر کام کو صرف کن (ہو جا) فرما کر یا کن کا صرف ارادہ کر کے انجام دیتا ہے، پھر آدم کی تخلیق میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟ جواب: ایک ہے عالمِ خلق = عالمِ جسمانی، اور دوسرا ہے عالمِ امر = عالمِ روحانی، پس عالمِ خلق میں ہر چیز کے پیدا ہونے میں وقت لگتا ہے، اور اس کے برعکس عالمِ امر میں ہر چیز اللہ کے فرمانِ کن (ہو جا) ہی سے کسی تاخیر کے بغیر موجود و مشہود ہو جاتی ہے۔
سوال: اللہ کے دونوں ہاتھوں سے کیا مراد ہے؟ جواب: اللہ کے دونوں ہاتھ عالمِ سفلی میں ناطق اور اساس ہیں، اور عالمِ علوی میں، عقلِ کل اور نفسِ کل ہیں۔
سورۂ مائدہ (۰۵: ۶۴) میں ارشاد ہے: بَلْ یَدٰهُ مَبْسُوْطَتٰنِۙ یعنی اللہ کے دونوں ہاتھ تو فیاضی میں بڑے کشادہ ہیں۔ اس آیت کی تاویل کو وجہِ دین میں بھی پڑھیں۔
سورۂ ص (۳۸: ۷۵) سے بیانِ بالا کی تصدیق ہو جاتی ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۲۹، جنوری ۲۰۰۲ء
۱۲۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷۰
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: تم نورانی بدن = جسمِ لطیف کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے، تمہارے پاس جو اسمِ اعظم = بول ہے، وہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے، ہمارا مذہب روحانیت کا مذہب ہے، اس لئے تمہیں اس کا پورا پورا علم ہونا چاہئے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ دوم۔ زنجبار۔ ۱۹۔ ۲۔ ۱۹۲۵ء)۔
ایک بھائی نے امام کے حضور عرض کی کہ مجھے دنیا میں رہنا اچھا نہیں لگتا ہے، اس لئے مجھے اصل میں واصل فرمائیں، تو امام نے فرمایا: دنیا میں رہو، یہاں رہتے ہوئے مومن کے کام کرو۔ تو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی تم اصل سے واصل ہوسکتے ہو، ہمارے مذہب میں دنیا میں رہ کر اصل میں واصل ہونا بہت آسان ہے، آپ بیت الخیال میں داخل ہوئے تو اس وقت ہم نے جو فرمان فرمایا تھا اس کے مطابق عمل کرو گے تو دل میں عشق پیدا ہوگا اور ہر چیز ممکن ہو سکے گی۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ دوم۔ دار السلام۔ ۹۔ ۳۔ ۱۹۲۵ ء)۔
تمہارے دل میں خداوند تعالیٰ کا نور ہے، اگر دین پر سچے دل سے چلو گے تو یہ نور ظاہر ہوگا (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اول، جامنگر۔ ۹۔ ۴۔ ۱۹۰۰ ء)۔
تم ہماری روحانی اولاد ہو اور یاد رکھنا کہ ’’روح ایک ہی ہے‘‘۔ (کلامِ
۱۲۳
امامِ مبین ، حصّۂ اول۔ ممباسہ۔ ۱۲۔ ۱۱۔ ۱۹۰۵ء)۔
سبحان اللہ! سبحان اللہ! اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے۔” سبحان اللہ شاید یہاں سب سے بڑا انقلابی راز ہے، یعنی یک حقیقت۔ میں تو اس سے جیسے بے ہوش ہوگیا، مجھے ہوش میں آنے دو اور سوچنے دو، میرے لئے ایک نیا معجزہ ہے!
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۳۰، جنوری ۲۰۰۲ء
۱۲۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷۱
مخفی روحانی قیامت کے معجزات کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہے ان کو نہ تو کوئی شمار کر سکتا ہے اور نہ ہی علی الترتیب بیان کرسکتا ہے، کیونکہ روحانی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام طوفانِ نوح ہے (۲۹: ۱۴) اگر کسی غریب و ناچار نے اسے دیکھا بھی ہو تو وہ اس کی کامل و مکمل عکاسی کس طرح کر سکتا ہے؟ اے برادران و خواہرانِ روحانی ! تم سب ان شاء اللہ بہشت میں جا کر کسی نامۂ اعمال = نورانی مووی میں سر تا سر روحانی قیامت اور اس کے تمام معجزات کو دیکھو گے، آمین! عزیزانِ من! معجزۂ زلزال بڑا بابرکت ہے، جو روحانی قیامت کے معجزات میں سے ہے، اس کے قرآنی حوالے یہ ہیں: (۹۹: ۰۱)، (۰۲: ۲۱۴)، (۳۳: ۱۱) اور (۲۲: ۰۱) معجزۂ زلزال کے اس بیان میں حقیقت بھی ہے اور حکمت بھی، واللہ، میں نے بارہا یہ معجزہ ظاہراً و باطناً دیکھا، اور جماعت کے بعض افراد پر ظاہراً واقع ہوتے ہوئے بھی جبکہ ذکرِ جلی کی محفلیں ہوتی تھیں، کنیڈا میں جناب بحرالعلوم بھی تشریف رکھتے تھے بعض جماعت خانوں میں ہمیں درویشانہ ذکرِ جلی کی اجازت ملی تھی درویشانہ ذکرِ جلی قدیم ہے یہ دراصل دف و رباب کے ساتھ ہے، یہ رسم درویشانہ ہے تو لازماً صوفیانہ ہے، اور اس کی تاریخ حضرتِ داؤد نبی، خلیفۃ اللہ اور
۱۲۵
امامِ مستودع اور ان کی آسمانی کتاب زبور تک جاتی ہے۔ قرآنِ پاک میں زبور کا ذکر ہے: (۲۱: ۱۰۵)، (۰۴: ۱۶۳)، (۱۷: ۵۵)، (۲۶: ۱۹۶)، (۰۳: ۱۸۴)، (۱۶: ۴۴)، (۳۵: ۲۵)، (۵۴: ۴۳)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۳۰، جنوری ۲۰۰۲ء
۱۲۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷۲
اے برادران و خواہرانِ عزیزِ روحانی! آپ کو دین کی یہ اساسی حکمت بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چیزیں دنیا کی چیزوں سے نہایت پاک و برتر ہیں، جیسے اللہ کا قلم، جو فرشتۂ عقلِ اوّل = عقلِ کلّ = نورِ محمدی = زندہ عرش ہے، لوحِ محفوظ = ثانی = نفسِ کلّ = نورِ علیؑ = زندہ کرسی ہے۔
اللہ کے چھ دن جن میں اس نے عالمِ دین کو پیدا کیا، چھ ناطق ہیں، اور خدا کا ساتواں دن = سنیچر، جس میں اللہ نے عرش پر مساواتِ رحمانی کا کام کیا، حضرتِ قائم ہے، اللہ کا دین = رسولِ پاک صلعم تھا، بحوالۂ سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۲) اور آپ کے بعد مولاعلیؑ خدا کا دین ہے، جیسا کہ مولا کا پاک ارشاد ہے: انا دین اللہ حقا = یہ حقیقت ہے کہ میں خدا کا دین ہوں۔ انا نفس اللہ حقا یعنی میں نفس اللہ ہوں۔ (کتابِ سرائر ص ۱۱۷)۔
نفس اللہ کا حوالہ: (۰۶: ۱۲، ۰۶: ۵۲ تا ۵۴) پہلی آیت میں ہے: کتب علیٰ نفسہ الرحمۃ = اس نے اپنے نفس = مظہرِ نور = امام میں قانونِ رحمت لکھا ہے۔ دوسری آیت میں: کتب ربکم علیٰ نفسہ الرحمۃ یعنی تمہارے ربّ نے اپنے نفس = مظہرِ نور = امامِ مبین میں قانونِ رحمت درج کیا ہے۔
۱۲۷
سورۂ مومن (۴۰: ۸۵) کا تاویلی مفہوم بےحد ضروری ہے: اللہ کی سنت نورٌعلیٰ نور کے پاک اشخاص کے سلسلے میں بارہا گزر بھی چکی ہے، اور کسی تبدیلی کے بغیر اس کا تجدّد سلسلۂ مذکور میں جاری بھی ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ۳۱، جنوری ۲۰۰۲ء
۱۲۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷۳
بحوالۂ کتابِ کوکبِ دری بابِ سوم: امامِ مبین صلوات اللہ علیہ اپنی نورانیتِ باطن میں لوحِ محفوظ ہے، جس کی کامل معرفت حظیرۂ قدس میں ہے، اسی لوحِ محفوظ میں قرآنِ مجید محفوظ ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اور اسی وجہ سے امامِ مبین قرآنِ ناطق کہلاتا ہے، مزید صراحت کے لئے قرآنِ حکیم میں کتابِ ناطق یعنی بولنے والی کتاب کی تعریف کو بھی پڑھیں (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) حضرتِ امامؑ اپنے پاک نور میں ساعت = قیامت ہے، اور مضامینِ قرآن میں قیامت کا مضمون اپنے کثیر ناموں کے ساتھ بڑا زبردست اور سر تا سر قرآن میں پھیلا ہوا ہے، اسی طرح امامِ مبین کا ہر اسم، ہر لقب، اور ہر وصف جملۂ قرآن میں محیط ہے، اسی لئے مولا نے ارشاد فرمایا: و انا وجہ اللہ الذی ذکرہ بقولہ (فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِؕ ، ۰۲: ۱۱۵) (کتابِ سرائر ص ۱۱۷)۔ پس میں ایک عاشق درویش کہتا ہوں: مکان و لا مکان، اوّل، آخر، ظاہر، باطن، آسمان و زمین، عالمِ شخصی، اور قرآنِ حکیم میں جہاں بھی دیکھو اور جس طرف بھی توّجہ کرو، وہیں وجہ اللہ = امام کا نور موجود ہے یعنی عارفِ حق پرست کے لئے ہر طرف اور ہر جگہ دیدار ہی دیدار ہے، کیونکہ خدا خود ہی اس کی آنکھ ہوچکا ہے۔
۱۲۹
حجتِ قائم القیامت نے فرمایا کہ حقیقت میں صرف ایک ہی روح ہے اور وہی سب ہے، یہ یک حقیقت کی بڑی خوبصورت صراحت ہے، ہر شخص ڈرتے ڈرتے اسے قبول کرے، مبادا کوئی شخص تکبر کا شکار ہوجائے۔
اللہ نے چھ دن = چھ ادوارِ بزرگ میں عالمِ دین کو پیدا کیا، اور ساتویں دن اُس نے حظیرۂ قدس میں مونوریالٹی = یک حقیقت کا کام کیا، آج یکایک یہ سرِّاعظم بھی عزیزوں پر ظاہر ہوا کہ ان تمام قسطوں کا ایک ہی عنوان (حظیرۂ قدس) کیوں ہے؟
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ، یکم فروری ۲۰۰۲ ء
۱۳۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷۴
بحوالۂ کتابِ کوکبِ درّی، بابِ سوم: امامِ مبین ہی اپنی پاک نورانیت میں وہ کتاب ہے، جس میں کوئی شک ہی نہیں ، بلکہ یقین ہی یقین ہے (۰۲: ۰۱ تا ۰۲)۔ امامِ زمان علیہ السّلام ہی اللہ کے اسماء الحسنیٰ ہے (۰۷: ۱۸۰) جنّ کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ انہی اسماءُالحسنیٰ سے اس کو پکارا جائے۔ امامِ مبینؑ مقامِ نورانیت پر قرآن کا ترجمان اور مؤول ہے، وہی علمِ الٰہی کا خزانہ دار ہے، وہی ناقور بھی ہے، قیامت بھی ہے، اور قائمِ قیامت بھی۔ مولا نے فرمایا کہ وہ نورِ کوہِ طور ہے، اس کا ارشاد ہے کہ وہ ذوالقرنین ہے۔
امامِ مبینؑ لوگوں پر خدا کی حجت ہے۔ دابۃ الارض امام کا ایک معجزہ ہے (ہزار حکمت، ح: ۳۳۳)۔ امام کے پاس فصل الخطاب ہے (۳۸: ۲۰) = ایک فیصلہ کن کلمۂ تامّہ۔
امامِ مبین نورانیتِ باطن میں حاملِ عرش اور عالمِ تاویل ہے۔ امام خدا کا زندہ اسمِ اعظم ہے۔ اور آیات اللہ = خدا کی نشانیاں= معجزات کہلاتا ہے۔
امامِ عالی مقام صاحبِ جثۂ ابداعیہ ہے، حضرتِ امامؑ
۱۳۱
پانی پر اللہ کا عرش بھی ہے اور اسی حال میں سفینۂ نوح بھی ہے، بحوالۂ تاویل (۱۱: ۰۷) ہزار حکمت (ح: ۵۶۸)۔
اگر دنیا کی ہزار زبانوں میں سے ہزار اشخاص عارف بن کر عالمِ شخصی میں جائیں تو امامِ مبینؑ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ اُس کی زبان میں کلام کرے گا۔ بحوالۂ تاویلِ آیت (۱۴: ۰۴)۔ امام رسولِ پاک کے علم و حکمت کا دروازہ ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، یکم فروری ۲۰۰۲ ء
۱۳۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷۵
چہار مرغِ خلیل علیہ السّلام (۰۲: ۲۶۰) سے متعلق سوال ہے: جب اللہ نے چار مذبوح پرندوں کو زندہ کر دیا، تو کیا اُس وقت حضرتِ ابراہیمؑ کے عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہوئی تھی؟ جواب: جی ہاں۔ سوال: یہ چار پرندے جو قدرتِ خدا سے زندہ ہوکر ابراہیمؑ کے پاس آ گئے وہ تاویلاً کون تھے؟ جواب: جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل، اور یہ حضرتِ ابراہیمؑ کے مومنین میں سے تھے، یہ پہلے گویا مردہ تھے اب بحقیقت زندہ ہوگئے، یہ جسماً چار حجتانِ حضوری تھے اور روحاً چار مقرب فرشتے، کیونکہ عالمِ شخصی عالمِ دین کا نمونہ ہوتا ہے۔
بحوالۂ کتاب نورِ مبین اردو ص ۳۹۹ کے آخر میں حضرتِ امام حسن علیٰ ذکرہ السّلام کا یہ فرمان ہے: دنیا قدیم ہے، زمانہ جاودانی ہے، قیامت صرف روحانی ہے، بہشت و دوزخ معنوی (باطنی) ہیں، ہر ایک شخص کی موت اس کی قیامت ہے۔ جیسا کہ حدیثِ شریف کا ارشاد ہے: من مات فقد قامت قیامتہ یعنی جو شخص نفسانی طور پر مرتا ہے، اس کی روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے اور جو شخص کامیاب ریاضت نہیں کرسکتا ہے اس کی غیر شعوری قیامت ہوتی ہے، اور بہشت میں کسی کی غیر شعوری قیامت بھی شعوری قیامت ہو
۱۳۳
سکتی ہے۔
سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ اس میں یہ اشارۂ حکمت ہے کہ نفسِ واحدہ کی روحانی قیامت میں سب ہوتے ہیں، مگر شعوری اور غیر شعوری کا بہت بڑا فرق ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۲ ، فروری ۲۰۰۲ ء
۱۳۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷۶
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے ہر شخص کے لئے اسی دنیا ہی میں چار عالم بنا دیئے ہیں، اور ان کے نام یہ ہیں: اوّل: عالمِ بیداری، دوم: عالمِ خواب، سوم: عالمِ خیال، اور چہارم: عالمِ روحانیت۔ پس انسانی زندگی کی یہ بےقیاس وسعت محض اس مقصد کے پیشِ نظر ہے کہ انسان وقت کی اس فراوانی سے فائدہ اٹھا کر ذکر و عبادت اور علم و حکمت کی تیاری سے روحانی قیامت میں داخل ہو جائے، تا کہ وہ اپنی روح اور اپنے ربّ کو پہچان سکے، اس طریقِ کار کی خصوصی اور کلی ہدایت صرف اور صرف امامِ زمانؑ ہی (روحی فداہ) کے پاس ہے۔
آپ نے روحانی قیامت کا ایک نام طوفانِ نوح بتایا ہے، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ایسی قیامت انسان کو ہر طرف سے گھیر لیتی ہے یعنی بیداری، اور خواب و خیال میں قیامت محیط ہو جاتی ہے؟ جواب: جی ہاں۔
اطلبوا العلم و لو بالصین۔ صاحبِ جوامع الکلم کا یہ ارشادِ پاک ایک بہت ہی خاص معجزہ بھی ہے اور یاد آورِ تمام معجزاتِ چین بھی ہے۔
سورۂ مجادلہ (۵۸: ۲۱) کا یہ ارشاد: كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ
۱۳۵
رُسُلِیْؕ-اِنَّ اللّٰهَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ ترجمہ: اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسل ہی غالب ہوکر رہیں گے، فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے۔
آپ بھول نہ جائیں، کہ غالب آنا ایک حربی اصطلاح ہے، جس کا اشارہ یقیناً روحانی قیامت کی جنگ کی طرف ہے، اور اس روحانی جنگ کا نورانی سردار یعنی صاحبِ قیامت امامِ زمان علیہ السلام ہی ہے (۱۷: ۷۱)۔ الحمد للہ علی منہ و احسانہ۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
اتوار، ۳ ، فروری ۲۰۰۲ء
۱۳۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط۔ ۷۷
آیا یہ بات درست ہے کہ قرآنِ حکیم کی جن آیاتِ کریمہ میں شہیدانِ ظاہرکی تعریف آئی ہے، ان کی تاویل میں شہیدانِ باطن کی تعریف ہے؟ جواب: جی ہاں یہ قول درست اور حقیقت ہے۔
پہلی مثال: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۶۹ تا ۱۷۱) ۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ۔ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ۔
ترجمہ: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے ربّ کے پاس رزق پا رہے ہیں، جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اُس پر خوش و خرم ہیں، اور مطمئن ہیں کہ جو اہلِ ایمان ان کے پیچھے دنیا میں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لئے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، وہ تو اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شادان و فرحان ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع
۱۳۷
نہیں کرتا۔
دوسری مثال: سورۂ محمد (۴۷: ۰۴ تا ۰۶): وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ۔ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ۔
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں گے اللہ ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، وہ ان کی رہنمائی فرمائے گا، ان کا حال درست کر دے گا اور ان کو اس جنّت میں داخل کرے گا جس سے وہ ان کو شناسا کرا چکا ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۳، فروری ۲۰۰۲ ء
۱۳۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷۸
سوال: شہیدانِ باطن کا تعلق کس جہاد سے ہوتا ہے؟ جواب: یہ لوگ جہادِ اکبر کے شہید ہوتے ہیں جس کے بارے میں ایک مشہور حدیث یہ ہے: رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر = ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ صحابۂ کرام نے پوچھا: حضور جہادِ اکبر کیا چیز ہے؟ فرمایا: الا وہی مجاہدۃ النفس = اچھی طرح سے سن لو! جہادِ اکبر مجاہدۂ نفس ہے۔ (کتاب کشف المحجوب)۔ یہ بھی ایک مشہور حدیث ہے: موتوا قبل ان تموتوا = تم جسماً مر جانے سے قبل نفساً مر جاؤ (المعجم الصوفی ص ۱۰۳۳) ۔ امامِ مبین علیہ السّلام (روحی فداہ) اپنے جن مریدوں کو ان کی درخواست پر اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے، ان میں سے جو موتوا قبل ان تموتوا کے مطابق روحانی قیامت کے زیرِ اثر مر کر زندہ ہو جاتے ہیں، وہی باطنی شہید ہوتے ہیں، دراصل ان کی روحانی قربانی بھی ہوتی ہے، اور باطنی شہادت بھی۔
حضرتِ آدمؑ کے دو بیٹوں کی قربانی کی مثال بھی ہے اور ممثول بھی، اور ممثول یہ ہے کہ حضرتِ ہابیل باطن میں ذبیح اللہ بھی ہو گیا تھا اور شہید فی سبیل اللہ بھی۔ بحوالۂ سورۂ مائدہ (۰۵: ۲۷)۔ اگر حضرتِ اسماعیل
۱۳۹
ذبیح اللہ سے پہلے اللہ کی کوئی ایسی سنّت نہ ہوتی تو حضرتِ ابراہیمؑ بحکمِ خدا خواب میں اپنے فرزند کو ذبح نہ کرتے۔ سورۂ صافات (۳۷: ۱۰۲ تا ۱۰۵)۔ قرآنِ حکیم کے کتنے تاویلی اسرارِ عظیم اب تک ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں! اب ہم مانتے ہیں کہ مولانا ہابیلؑ کے گوسفند کی قربانی مثال ہے، اور روحانی قیامت کے تحت جان کی قربانی ممثول ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۴، فروری ۲۰۰۲ ء
۱۴۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۷۹
دائرۂ درودِ شریف کا تصوّر ایک ایسی نورانی رسی کی طرح ہے، جو عرشِ برین اور فرشِ زمین کے درمیان گول شکل میں قائم کی گئی ہو، جی ہاں یہ مثال اور تصوّر قرآن و حدیث ہی کی روشنی میں ہے، پس آپ جب جب محمد و آلِ محمد پر درود پڑھتے ہیں تو یہ پاک نورانی رسی جو دراصل درود ہی کی رسی ہے حرکت میں آتی ہے، جس کی وجہ سے آپ کی درخواست جو درود کے الفاظ میں مخفی ہے، وہ عرشِ اعلیٰ کی طرف بلند ہو جاتی ہے، پھر اللہ اپنے فضل و کرم سے اس درخواست کو اپنے الٰہی درود میں فنا کر لیتا ہے، اور حسبِ ارشادِ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) اللہ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے فرشتے اہلِ ایمان پر درود بھیجتے ہیں، جو رسولِ پاکؐ یا جانشینِ رسولؑ = امامِ زمانؑ کی مقدس دعائے برکات کی صورت میں یہ آسمانی درود جملہ مومنین و مومنات کو ہر وقت حاصل ہوتا رہتا ہے۔
آپ درودِ شریف کی پر نور حکمت کو سرچشمۂ قرآن و حدیث سے عشق و محبت کے ساتھ دلنشین کر لیں، مضمونِ صلوات میوۂ بہشت کی طرح بےحد شیرین، ایمان افروز اور روح پرور ہے ، درودِ شریف = صلوات کا ایک مختصر اور جامع مضمون ہزار حکمت میں بھی ہے (ح: ۵۰۶ تا ۵۱۰)۔
۱۴۱
سوال: درودِ شریف کی زبردست فضیلت کا اصل راز کیاہے؟ یہ سوال بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، جس کی وجہ سے اس کا جواب اور بھی زیادہ ضروری ہے، لہٰذا میں ان شاءاللہ ولیٔ امر کی یاری سے قسط ۸۰ میں یہ جواب لکھنے کی سعی کروں گا کیونکہ اس قسط کی ظرفیت میں مزید گنجائش نہیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۵، فروری ۲۰۰۲ء
۱۴۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸۰
یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ درودِ شریف کی زبردست اہمیت و فضیلت کا اصل راز کیا ہے؟ الجواب: سورۂ احزاب (۳۳: ۵۶) کا ترجمہ ہے: یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے (سب کے سب) نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ حکمائے دین کہتے ہیں کہ عقلِ کلّ زندہ نور اور سب سے عظیم فرشتہ ہے، اور اسی طرح نفسِ کلّ بھی، قلم اور لوح بھی فرشتے ہیں، عالمِ ذرّ میں فرشتے ہیں، عالمِ ملکوت اور عالمِ جبروت میں فرشتے ہیں، کائنات کی ایک بالشت جگہ بھی فرشتوں سے خالی نہیں، سورج، چاند، اور تمام ستارے بھی اپنی نوعیت کے فرشتے ہیں، اللہ کے تمام سماوی اور ارضی لشکر فرشتے ہیں، وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۴۸: ۰۷) اور اللہ کے ایسے بےشمار نیک بندے ہیں جو کائناتی بہشت میں جا کر فرشتے ہو گئے ہیں، الغرض اللہ تعالیٰ اور یہ سب فرشتے محمدؐ و آلِ محمدؐ پر درود بھیجتے ہیں، جب اصحابِ کبار نے آنحضرتؐ سے درود کے بارے میں پوچھا تو حضورؐ نے فرمایا: فقولوا اللّٰھم صل علی محمد و علیٰ آل محمد ۔۔۔ بحوالۂ حدیثِ بخاری جلدِ سوم کتاب الدعوات باب ۷۶۹ ، نیز دیکھیں ہزار حکمت (ح ۵۰۶ تا ۵۱۰)۔
سورۂ نور (۲۴: ۴۱) میں ارشاد ہے: ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں ہو
۱۴۳
کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی صلاۃ (نماز = درود) اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے۔
اس مدّلل بیان سے اُس پیدا شدہ سوال کا جواب کلی طور پر مہیا ہو گیا جو درودِ شریف کی زبردست فضیلت سے متعلق پیدا ہوا تھا اور اب خلاصۂ جواب یہ ہے کہ خدا اور اس کی خدائی کی ہر چیز کی طرف سے محمدؐ و آلِ محمدؐ پر درود کا سلسلہ جاری ہے، لہٰذا ہر شخص کی دانائی یہ ہے کہ وہ خود کو اس کل کائناتی درود کے طوفانی ثواب میں شامل کر دے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
بدھ ، ۶، فروری ۲۰۰۲ء
۱۴۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸۱
سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) کا ارشاد ہے: هُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْكُمْ وَ مَلٰٓىٕكَتُهٗ لِیُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِؕ-وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا۔ ترجمہ: وہ (اللہ تعالیٰ) وہی ہے، جو تم پر درود بھیجتا ہے، اور اُس کے (جملہ) فرشتے بھی، تا کہ تمہیں (غفلت و نادانی کے) اندھیروں سے نور کی طرف نکالے، اور وہ مومنین پر بہت رحم کرنے والا ہے۔
بحوالۂ حاشیۂ تفسیر المتقین ص ۵۴۹۔ تفسیرِ صافی ص ۴۰۷ پر بحوالۂ کافی امام جعفر صادق علیہ السّلام سے منقول ہے، کہ جو شخص محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر دس دفعہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر سو مرتبہ درود بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمدؐ و آلِ محمدؐ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ہزار مرتبہ درود بھیجتے ہیں۔ اسی کا خدا تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے۔
سوال: وہ آیۂ کریمہ کون سی ہے جس میں بمقتضائے حکمت درود اور رحمت دونوں معنوں کا ذکر ہے؟ جواب: وہ آیت (۰۲: ۱۵۷) کی ہے، جس میں ارشاد ہے:
اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ
۱۴۵
اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ۔
سوال: اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ کا درود مومنین تک کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ جواب: زمانۂ نبوّت میں بوسیلۂ رسولِ پاک، اور ختمِ نبوّت کے بعد امامِ آلِ محمدؐ کے توسط سے۔
ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی
جمعرات ، ۷، فروری ۲۰۰۲ء
۱۴۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸۲
از دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل، بعنوان ذکر ایجاب الصلاۃ علیٰ محمد و علیٰ آلِ محمد صلی اللہ علیہ وعلیہم اجمعین و انھم اہل بیتہ، و انتقال الامامۃ فیھم و البیان علیٰ انھم امۃ محمد صلی اللہ علیہ و علیہم (کتابُ الولایۃ ص ۲۸ تا ۲۹):
قال اللہ عز و جل: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۳۳: ۵۶)۔
و روینا عن رسول اللہ (صلع) ان قوما من اصحابہ سالوہ عند نزول ہٰذہ الآیۃ علیہ فقالوا: یا رسول اللہ، قد علمنا کیف نسلم علیک، فکیف نصلی علیک؟ فقال: تقولون: اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید ، فبین لھم رسول اللہ (صلع) کیف الصلوٰۃ علیہ التی افترض اللہ عز و جل علیہم ان یصلوھا علیہ، و انھا علیہ و علیٰ آلہ کما علمہم و بین لھم سائر الفرائض التی انزل ذکرھا علیہ مجملا
۱۴۷
فی کتابہ، کالصلوۃ و الزکوٰۃ، و الصوم، و الحج، والولایۃ الجہاد کما انزل ذکر الصلوٰۃ علیہ مجملا ففسرلھم رسول اللہ (صلع)۔
ترجمہ از دعائم الاسلام اردو، جلدِ اوّل بعنوان محمدؐ و آلِ محمدؐ پر صلوات کا بیان، محمدؐ و آلِ محمدؐ پر صلوات بھیجنا واجب ہے اور آلِ محمدؐ سے اہلِ بیتِ رسولؐ مراد ہیں، اور منصبِ امامت انہیں میں منتقل ہوا ہے اور آلِ محمدؐ ہی رسولِ اکرم صلعم کی (خاص) امت ہیں (کتاب الولایۃ، ص : ۵۷ تا ۵۸)۔
ترجمۂ آیت (۳۳: ۵۶): اس میں شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر اور ان کی آل پر درود بھیجتے ہیں تو اے ایماندارو تم بھی درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو۔
رسولِ اکرم صلعم سے روایت ہے کہ جب آنحضرتؐ پر مذکورۂ بالا آیتِ کریمہ نازل ہوئی تو آپ کے اصحابِ کرام میں سے بعض نے پوچھا کہ اے پیغمبرِ خدا ہمیں آپ پر سلام پڑھنے کی کیفیت کا علم تو ہے لیکن آپ پر صلوات بھیجنے کی کیا صورت ہے؟ اس وقت رسالتمآب نے فرمایا کہ مجھ پر اس طرح سے درود بھیجا کرو: اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمیدٌ مجید۔ چنانچہ آنحضرت صلعم نے اپنے اصحاب کو کھلے لفظوں میں یہ بتا دیا کہ ان پر کس طرح صلوات بھیجنا چاہئے اور یہ واضح رہے کہ پروردگارِ عالم نے صرف محمدؐ و آلِ محمدؐ ہی پر صلوات بھیجنا اہلِ ایمان کے لئے واجب قرار دیا ہے۔
رسولِ اکرم صلعم نے اپنے اصحاب کو محمدؐ و آلِ محمدؐ پر صلوات بھیجنے کی
۱۴۸
کیفیت سے اس طرح آگاہ کر دیا تھا جس طرح کہ آپؐ نے نماز پڑھنے، زکوٰۃ دینے، روزہ رکھنے، حج کرنے اور ولایت و جہاد کی تمام تفصیلات سے واقف کر دیا تھا کیونکہ یہ تمام فرائض قرآنِ حکیم میں مجمل نازل ہوئے تھے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات، ۷، فروری ۲۰۰۲ء
۱۴۹
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸۳
سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۳ تا ۱۰۴) میں خوب غور کر کے چشمِ بصیرت سے دیکھنا ہوگا کیونکہ یہ ارشادِ مبارک اُن ارشاداتِ عالی میں سے ہے، جن کے آئینۂ حکمت میں نمائندۂ خدا (رسول اور بعدہ امام) کا قول و فعل لا ریب خدا ہی کا قول و فعل ہوتا ہے۔
اس کی ایک روشن مثال آیۂ بیعت (۴۸: ۰۱) میں ہے کہ رسولِ پاکؐ کا دستِ مبارک گویا اللہ کا ہاتھ تھا، اس دلیلِ محکم سے بیعت کی بہت بڑی اہمیت ، اور امامِ آلِ محمدؐ کی امامت اور خلافت کا ثبوت مل گیا، زمین پر ہمیشہ نورِ منزل موجود ہونے کے بارے میں اہلِ دانش کو کوئی شک ہی نہیں، اس لئے ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور وہ صلوات کا موضوع ہے، آپ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳ اور ۳۳: ۵۶) کو اس طرح مربوط پڑھیں کہ اس میں ایک آیت دوسری کی تفسیر ہو، مثلاً آپ نے اوّل آیت ۴۳ کو پڑھا، پھر آیت ۵۶ کو تو اس کا مختصر مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے جو آسمان و زمین میں ہیں، مومنین پر درود بھیجتے ہیں، آپ یہاں خوب سوچ کر بتائیں کہ زمانۂ نبوّت میں رسولؐ اور امامؑ زمین پر دو عظیم فرشتے بھی تھے اور خدا کے دو نمائندے بھی، لہٰذا ان دونوں عظیم فرشتوں نے بھی کماحقہ مومنین
۱۵۰
و مومنات پر درود بھیجا یا نہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر اور اساس (امام) جب زمین پر دو عظیم فرشتے بھی تھے، اور زمین پر آسمانی صلوات کے دو نمائندے بھی تو پھر لازمی طور پر انہوں نے خدا اور اس کے تمام فرشتوں کا صلوات اہلِ ایمان کو پہنچا دیا جیسا کہ اس کا حق ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ، ۸، فروری ۲۰۰۲ ء
۱۵۱
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔۸۴
سورۂ احزاب ہی میں (۳۳: ۴۳ اور ۳۳: ۵۶) مضمونِ درود کی دو بنیادی آیتیں ہیں، آپ نے قسط ۸۳ میں پہلے آیت ۴۳ کو پڑھا ہے، لہٰذا اب یہاں آیت ۵۶ کے مفہوم کو بیان کرتے ہیں کہ یقیناً اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے (سب کے سب) نبیؐ اور آلِ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے ایماندارو، تم بھی محمدؐ اور آلِ محمدؐ پر درود بھیجتے رہو، اور تسلیم یعنی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہو، تا کہ یہ اللہ کی فرمانبرداری بھی ہو، اور محمدؐ و آلِ محمدؐ کی تعظیم و تکریم بھی ہو، اور تم پر آسمانی درود کے لئے ایک درخواست بھی، کیونکہ مومنین کا ہر پاک کلمہ خدا کی طرف چڑھتا ہے اور نیک عمل اس کو بلند کرتا ہے (۳۵: ۱۰)۔
اس قرآنی ارشاد کے مطابق درودِ شریف کے کلمات بہت ہی پاک ہیں اور وہ یہ ہیں: اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ آلِ محمد۔ اللّٰھم خدا کا ایک خاص اسم ہے، جو ساٹھ اسماء کے برابر ہے، محمد و آلِ محمد اسماء الحسنیٰ اور اسمِ اعظم ہیں، پس درود جو ان پاک کلمات پر مبنی ہے یقیناً عرشِ برین تک جاتا ہے اور پھر وہاں سے آسمانی درود کی صورت میں زمین کی طرف آتا ہے، آپ درود پر یقین رکھیں جیسا کہ حق ہے۔
سورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۳) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو اللہ کو
۱۵۲
کثرت سے یاد کرو، اور صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے رہو، اللہ وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے، اور اس کے (سب) فرشتے بھی، تا کہ تمہیں تاریکیوں سے انوار کی طرف لے آئیں، یعنی نورِعلم، نورِایمان، نورِیقین، نورِحکمت، نورِدیدار، نورِمعرفت، نورِوحدت، وغیرہ، کیونکہ ایک ہی نورمیں بہت سے انوار ہوتے ہیں، اگرتم بہشت میں انوار کو الگ الگ دیکھنا چاہو تو بےشک دیکھ سکتے ہو۔ الحمد للہ۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۸ ، فروری ۲۰۰۲ء
۱۵۳
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸۵
بحوالۂ صنادیقِ جواہر۔ سوال: ۲۰۶: آپ نے سورۂ نجم کی مذکورہ آیاتِ کریمہ کے اسرار میں جبرائیل کا کوئی ذکر نہیں کیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب: (۱) یہاں دراصل جبرائیل کا کوئی ذکر نہیں ہے (۲) جبرائیل اکیلا نہیں، بلکہ وحی کے فرشتے پانچ ہیں، سب سے اوپر وہ فرشتہ ہے، جو قلم کے نام سے مشہور ہے، اس کے بعد جو فرشتہ ہے، وہ لوح کے نام سے ہے، پھر اسرافیل ہے، پھر میکائیل، اور سب سے نیچے جبرائیل ہے (۳) جیسا کہ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: فنون ملک یودی الی القلم و ھو ملک، و القلم یودی الی اللوح و ھو ملک و اللوح یودی الی اسرافیل و اسرافیل یودی الیٰ میکائیل و میکائیل یودی الی جبرائیل و جبرائیل یودی الی الانبیاء و الرسل (المیزان: ۱۹، ص ۳۷۶)۔
سوال: ۲۰۷: مسند احمد بن حنبل، جلدِ سوم، حدیث ۸۹۲۱ میں ہے لا تقوم الساعۃ حتیٰ تطلع الشمس من مغربھا = قیامت برپا نہیں ہو گی جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو جائے۔ اس حدیثِ شریف میں کیا حکمت ہے؟ کیا ابھی تک کوئی قیامت نہیں آئی ہے؟ جواب: اس کی
۱۵۴
تاویلی حکمت یہ ہے کہ قیامت روحانی واقعات کا ایک سلسلہ ہے، اور یہ اس وقت مکمل ہو جاتا ہے، جبکہ حظیرۂ قدس کا سورج مغرب سے طلوع ہو جاتا ہے، کیونکہ وہاں مشرق و مغرب ایک ہی ہے، اس حدیثِ شریف میں روحانی قیامت کی حدِ تکمیل کا ذکر ہے کہ قیامت کے مکمل ہو جانے کا مقام وہ ہے جہاں تک پہنچ کر یہ مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ سورج کا مشرق و مغرب ایک ہی جگہ پر ہے، اور قرآنِ حکیم نے بزبانِ حکمت بتا دیا کہ ہر امام کے ساتھ ایک روحانی قیامت ہے (۱۷: ۷۱)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۹، فروری ۲۰۰۲ء
۱۵۵
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸۶
بحوالۂ کتابِ مستطابِ گنجینۂ جواہرِ احادیث ص ۶۸: اللھم انک جعلت صلواتک و رحمتک و مغفرتک و رضوانک علیٰ ابراہیم و آل ابراہیم، اللھم! انھم (یعنی اہلِ بیت) منی و انا منھم فاجعل صلواتک و رحمتک و مغفرتک و رضوانک علی و علیہم۔ یعنی علیا و فاطمۃ و حسنا و حسینا۔
The holy Prophet said: “O Allah! Verily You sent Your blessing, Your mercy, Your forgiveness and Your pleasure upon Ibrahim and his progeny. O Allah! They are from me, and I am from them. So, send Your blessings, mercy, forgiveness and pleasure upon me and them, namely Ali, Fatimah, Hasan and Husayn.”
یا اللہ، یقیناً تو نے اپنا درود اور رحمت، اور مغفرت و خوشنودی کو ابراہیم اور آلِ ابراہیم پر نازل کیا تھا، اے اللہ تعالیٰ یہ مجھ سے ہیں، اور میں ان سے ہوں، پس (تو اپنی عنایتِ بے نہایت سے) اپنا درود اور رحمت اور اپنی مغفرت و خوشنودی مجھ پر نازل فرما! اور ان پر بھی، یعنی علی، فاطمہ، اور حسن و حسین۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۹، فروری ۲۰۰۲ء
۱۵۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸۷
سورۂ انفال (۰۸: ۲۹) میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کروگے تو اللہ تمہارے لئے ایک فرقان = معجزہ = کسوٹی = معیار = (نور، ۵۷: ۲۸) مقرر کرے گا۔ لفظِ فرقان کی قرآنی حکمتوں کی معرفت کے لئے قرآن میں دیکھیں: ۰۲: ۵۳، ۰۲: ۱۸۵، ۰۳: ۰۴، ۲۱: ۴۸، ۰۸: ۲۹، ۰۸: ۴۱۔
لفظِ فرقان کی قرآنی معرفت کے لئے یہی چھ مقامات ہیں، اور ہاں آپ لغاتِ قرآن کو بھی دیکھیں، فرقان کے جتنے معانی ہیں، ان میں نور کے معنی بھی ہیں، اور شاید یہ آپ کے لئے آسان ہیں، پس آپ عالمِ شخصی کی طرف توجہ دیں، اور اس میں نور کا مشاہدہ کریں اور ذکر و عبادت، اور علم و حکمت میں غیر معمولی ترقی کریں تو یہ نور جو دراصل امامِ زمانؑ ہی کا نور ہے، آپ کو حظیرۂ قدس تک لے جائے گا۔
اگر آپ کو اسمِ اعظم نہیں ملا ہے، امامِ زمانؑ کے پاک عشق کے معجزات کا تجربہ نہیں ہے، آپ کو نفس کے خلاف جہادِ اکبر کرنے کی ہمت نہیں ہے اور آپ دوسرے حقیقی مومنین و مومنات کی طرح عبادت میں گریہ و زاری بھی نہیں
۱۵۷
کرسکتے ہیں تو پھر آپ کو دیکھنا اور سوچنا پڑے گا کہ کس وجہ سے ایسا ہے۔
لفظِ فرقان کی لغوی وضاحت کے لئے دیکھو: قاموس القرآن، ص ۳۹۹۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۰ ، فروری ۲۰۰۲ء
۱۵۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸۸
سورۂ حدید کے آخر میں بھی ایک زبردست انمول نگینہ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِن رَّحْمَتِهِ وَيَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (۵۷: ۲۸)۔ ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور اس کے رسول (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ) پر کماحقہ ایمان لاؤ، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور مقرر کرے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے، اور تمہارے قصور معاف کر دے گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔
سوال: کیا رحمت کے دہرے حصے کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ ظاہر و باطن اور دنیا و آخرت میں رحمت ہوگی؟ جواب: ان شاءاللہ۔ سوال: یہ کون سا نور ہے؟ جواب: یہ امامِ زمان علیہ السلام کا نور ہے۔ سوال: ایک حساب کے مطابق قرآنِ حکیم کی آیات ۶۶۶۶ = چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ ہیں، آپ نے اب سے بہت پہلے یہ کہا تھا کہ آپ ان شاءاللہ قرآنِ حکیم کی ہر آیت کے باطن میں سے ثبوتِ امامت کی کوئی حکمت بناسکتے ہیں، کیا آپ اس طریقِ کار کا کوئی راز بتا سکتے ہیں؟ جواب: جی ہاں، اصل راز
۱۵۹
حضرتِ امامِ آلِ محمدؐ کی مدد ہی ہے، جس سے اس غلامِ کمترین کو یہ معلوم ہوا ہے کہ قرآن کی ۶۶۶۶ آیات میں کیونکر اختلاف ہوسکتا ہے؟ ان میں تو ہم آہنگی اور یکرنگی ہے، وہ سب کی سب کتابِ مکنون میں ہیں، وہ گوہرِعقل میں ہیں، وہ امامِ مبین میں ہیں، وہ سب کلمات ہیں، اور کلمات میں حروف ہیں، حروف میں نقطے ہیں، نقطے سب یکسان ہیں، لہٰذا صرف ایک ہی نقطے کی معرفت ضروری ہے اور وہ نقطہ بائے بسم اللہ ہے، جس کی تاویل علی ہے، پس ہر آیت میں بشکلِ نقطہ علی ہے، یہ نقطہ جو علی ہے، وہ گوہرِعقل ہے، = کتابِ مکنون = لپیٹی ہوئی کائنات = نورِ ازل = نورِ محمدیؐ = نورِعلیؑ۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۰، فروری ۲۰۰۲ء
۱۶۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۸۹
بحوالۂ کتابِ وجہِ دین، اردو، کلام ۔۱ ، ص ۳۱ پر سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۵) کی پرحکمت آیۂ شریفہ درج ہے جس میں رسولِ اکرم کی مثال ایک ایسے پاک درخت کی طرح ہے، جس کی جڑیں زمین میں محکم و مضبوط ہیں، اور اس کی شاخیں آسمان میں پہنچ گئی ہے، یعنی فرزندِ رسول = امامِ مبین کا نورِ اقدس حظیرۂ قدس کے آسمان میں ہر وقت اپنے ربّ کے اذن سے علم و حکمت کا روح پرور پھل دیتا رہتا ہے اور حظیرۂ قدس کے تمام اسرارِ عظیم کا تعلق بھی امامِ مبین کے نورِ مبارک ہی سے ہے یعنی کلیۂ امامِ مبین کے انتہائی عظیم حیران کن اور ہوش رُبا معجزات، ظہورِ ازّل و ابد، عہدِ الست کا تجدّد، فنائے مطلق کا سرِ اعظم!
سوال: کیا آدم خلیفۃ اللہ جنّت میں جا کر ہی صورتِ رحمان پر پیدا ہوا تھا؟ ج: جی ہاں۔ سوال: حضرتِ داؤد نبی، امامِ مستودع اور خلیفۃ اللہ تھا (۳۸: ۲۶) اُس میں اور آدم میں کیا فرق تھا؟ جواب: کوئی فرق نہ تھا۔ سوال: اُس کو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا یا نہیں؟ جواب: کیا تھا۔ سوال: وہ حظیرۂ قدس میں جا کر صورتِ رحمان پر پیدا ہوا تھا یا نہیں؟ جواب: ہوا تھا۔
سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جن کو خلیفہ بنایا
۱۶۱
ہے، وہ ظاہری ہیں یا باطنی؟ اگر وہ باطن میں ہیں، تو کیا وہ سلاطینِ بہشت ہیں؟ یہی سوال سورۂ نور (۲۴: ۵۵) سے بھی متعلق ہے، ایسے سخت مشکل سوالات کے جوابات کے لئے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے پرحکمت ارشادات کو پڑھیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۱۱، فروری ۲۰۰۲ ء
۱۶۲
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۰
سوال: حضرتِ ربّ تعالیٰ کی پاک و پرحکمت معرفت کا اوّلین دل نشین اشارہ قرآنِ عزیز کے کس مقام پر ہے، اور کس طرح؟ جواب: یہ سب سے اوّلین اشارۂ معرفتِ الٰہی سورۂ فاتحہ کی ربّانی تعلیم میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت اور توحید کے اشارے پر مبنی تعلیم میں اپنے عارفوں کی زبان سے کہا کہ ہم تجھ کو پہچانتے ہیں اور واحد و یکتا مانتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ قرآنِ حکیم کے مبارک الفاظ یہ ہیں۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ کیونکہ معبودِ برحق کی عبادت کے لئے معرفت ضروری ہے۔
سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۶) میں ارشاد ہے: وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۔ ترجمہ: اور میں جنّوں اور انسانوں کو اپنی عبادت = معرفت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یہ ابنِ عباس کی تفسیر ہے، بحوالۂ المعجم الصوفی ص ۱۲۶۷۔
حدیثِ قدسی ہے: کنت کنزا لا اعرف فاحببت ان اعرف فخلقت خلقا فعرفتھم فبی عرفونی۔ (ص ۱۲۶۶) ترجمہ: میں ایک ان پہچانا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میری معرفت ہو، تو میں نے ایک خلق کو پیدا کیا، پس میں نے ان کو اپنا عارف بنایا، پس انہوں نے میرے ہی وسیلے سے مجھ کو پہچان لیا۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۱، فروری ۲۰۰۲ء کراچی
۱۶۳
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۱
کتاب دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل ص ۲۵ پر یہ حدیثِ شریف ہے: من مات لا یعرف امام دہرہ حیا مات میتۃ جاہلیۃ = یعنی جو شخص اپنے زندہ امامِ زمانہ کی معرفت کے بغیر وفات پا گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرگیا۔
کتابِ وجہِ دین ص ۳۴۳ پر بھی اس حدیثِ شریف کو پڑھیں: من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ و الجاہل فی النار = جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اور جاہل جیتے جی دوزخِ جہالت میں گرفتار ہے۔
امام شناسی کے تین بڑے درجے ہیں، علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین۔ علم الیقین وہ سلسلۂ یقینی علم ہے، جس سے بتدریج = رفتہ رفتہ آپ کے سوالات اور شکوک و شبہات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں، کامیاب اور حقیقی عین الیقین اُس وقت ممکن ہے، جب امامِ زمان اپنے کسی مرید کو اسمِ اعظم عطا فرماتا ہے، اگر کسی مومنِ سالک پر مخفی روحانی قیامت واقع ہو جاتی ہے، تو یہ اس کی بہت بڑی سعادت ہے، اب وہ بحکمِ خدا اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف جہادِ اکبر میں فتح یاب ہو سکتا
۱۶۴
ہے، تاہم حق الیقین = حظیرۃ القدس تک سخت امتحانات جاری ہیں، کیونکہ قیامِ قیامت کا عمل اُس وقت پورا ہوتا ہے، جب حظیرۂ قدس کا آفتابِ نور مغرب سے طلوع ہوتا ہے، اور یہ مقامِ حق الیقین ہے، الحمد للہ۔
ن۔ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل، ۱۲، فروری ۲۰۰۲ء
۱۶۵
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۲
حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشادِ مبارک ہے: اسمی فی القرآن حکیما ۔ یعنی میرا نام قرآن میں حکیم ہے۔ بمعنیٔ صاحبِ حکمت، یہ اسم اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفاتی میں بھی ہے، حکیم قرآن کے ناموں میں بھی ہے، اور رسول کے ناموں میں بھی، اس کا اشارہ یقیناً یہ ہے کہ خدا و رسول اور قرآن کی حکمت علیؑ = امامِ مبینؑ سے عاشقوں اور عارفوں کو مل سکتی ہے، جب علیؑ = امامِ زمانؑ اللہ کا حقیقی اور نورانی اسمِ اعظم اور مجموعۂ اسمائے حسنیٰ ہے تو اللہ کے تمام اسمائے صفات اُس کے اسمِ اعظم میں جمع ہو سکتے ہیں حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کے پاک ارشادات کا اشارہ یہی ہے۔
آپ کو اور ہمیں راہِ معرفت میں آگے سے آگے جانے کی سخت ضرورت ہے، تا آنکہ ہم حظیرۂ قدس میں داخل ہو جائیں، تا کہ ہم وہاں امامِ زمان کو حقیقی معنوں میں پہچان سکیں، کیونکہ حظیرۂ قدس ہی علم و حکمت اور معرفت کے معجزات کی بہشت ہے، آپ نے جتنے معجزات کے بارے میں سنا ہے، وہ سب زمانۂ ماضی میں ہوسکتے ہیں، لیکن آپ نے وعدۂ الٰہی (۴۱: ۵۳) کے باوجود اپنے عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں امامِ آلِ محمدؐ کے معجزات کو نہیں دیکھا، چلو
۱۶۶
آپ اور ہم سب امامِ عالی مقام کے عاشق مرید ہیں، یہ دل کی آنکھ کا مشاہدہ ہے کہ امامِ مبینؑ کا ہر معجزہ علم و حکمت اور معرفت کا سرچشمہ ہوا کرتا ہے۔
کیا یہ سب سے عجیب و غریب اور سب سے عظیم معجزہ نہیں ہے کہ امامِ مبینؑ کائنات کو بار بار لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، حالانکہ یہ اپنی جگہ قائم ہے، آپ امام میں فنا ہوکر اس کے معجزات کو دیکھیں، حضرتِ امامِ اقدس و اطہر کے تمام عظیم معجزات حظیرۂ قدس میں ہیں۔ الحمد للہ۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۱۳ ، فروری ۲۰۰۲ء
۱۶۷
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۳
جب عالمِ اسلام میں تصوف کا ایک خاص مقام ہے، تو پھر عملی تصوف کی بہت بڑی اہمیت کیوں نہ ہو، پس آپ عملی تصوف کی کتاب کا مطالعہ ضرور کریں، اور ایسا کوئی حقیقی صوفی دنیا میں نہیں ہوگا جو حدیثِ قدسیٔ نوافل پر یقین نہ رکھتا ہو، پس آپ کتابِ عملی تصوف میں معجزۂ نوافل قسطِ اوّل اور دوم کی حکمتوں کو پڑھ لیں، پھر آپ عالمِ شخصی کی بہشتِ برین = حظیرۂ قدس کا تصور کریں، اب آپ اس تصوّر میں دیکھیں کہ ایک لطیف نورانی ہاتھ ہے، جو باطناً کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، یہ کس کا ہاتھ ہے؟ کیا یہ آپ کے پاک امام کا دستِ مبارک ہے؟ جواب: جی ہاں، یقیناً، کیونکہ یہاں امامِ مبین کا نورِ اقدس کام کر رہا ہے، قلبِ قرآن (۳۶: ۱۲) میں جو کلیۂ امامِ مبین ہے، اس کے عملی معجزات اور ظہورات کا مقام جبین =حظیرۂ قدس = عالمِ شخصی کی بہشت ہے جس میں بوقتِ روحانی قیامت امامِ مبین کا پاک نور طلوع ہوجاتا ہے، اور سب سے عظیم معجزات کرتا ہے، جن میں ناقابلِ فراموش علم و حکمت اور معرفت کے اسرارِ عظیم ہیں، امامِ مبین اللہ تعالیٰ کے نورِ قدیم کا حامل ہے۔
پروانہ اگر ایک بار شعلۂ چراغ کی زد میں آکر جلتا ہے، تو پھر وہ مر کر
۱۶۸
ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے، اس کے برعکس اگر تم کو امامِ برحقؑ کے نورِ عشق میں ستر ہزار مرتبہ جلاتے اور زندہ کرتے رہتے ہیں تو تم کو اور تمہارے تمام دوستوں کو بہت بہت مبارک ہو کہ تم کو ازلی اور ابدی حیات عطا ہوئی۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۱۳، فروری ۲۰۰۲ ء
۱۶۹
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۴
جو شخص حظیرۂ قدس میں امامِ زمانؑ کا عارف ہو جاتا ہے، وہ اپنی روح اور اپنے ربّ کا عارف ہوجاتا ہے، خدا کی قسم نورِ امامِ زمانؑ اور نورِ قرآن الگ الگ نہیں، اور نہ ہی جنّت کے کل معجزات اس سے جدا ہیں (۴۷: ۰۶) ہاں یہ سچ اور حقیقت ہے کہ جنّت بنا بنایا ہوا دنیا کے کسی باغ کی طرح نہیں ہے، بلکہ وہ حضرتِ باری تعالیٰ کے کلمۂ کن (ہوجا) کے بےشمار عجیب و غریب معجزات کی صورت میں ہے جس کی معرفت عالمِ شخصی خصوصاً حظیرۂ قدس میں ہے۔
سورۂ نمل کی آخری آیت (۲۷: ۹۳) بھی ایک بڑا انمول نگینہ ہے: ارشادِ خداوندی ہے: و قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۔ ترجمہ: ان سے کہو، تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں (معجزات) دکھا دے گا اور تم انہیں پہچان لوگے، اور تیرا ربّ بےخبر نہیں ہے ان اعمال سے جو تم لوگ کرتے ہو۔
تاویلی حکمت: حمد = عقلِ کلّ، اور یہی فرشتۂ عظیم، اللہ کی سب سے بڑی زندہ تعریف ہے، اللہ کی آیات = معجزات = امامِ زمانؑ ہے، ارشاد ہوا کہ عنقریب روحانی قیامت میں تم کوآیات و معجزاتِ الٰہی یعنی
۱۷۰
امامِ زمانؑ کا نور دکھا دیا جائے گا، اور تم کو اس کی معرفت ہوگی، پس آیات اللہ = خدا کے معجزات امامِ زمان علیہ السلام ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۱۳، فروری ۲۰۰۲ء
۱۷۱
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۵
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص ۱۳۱۶ پر نزولِ قرآن کی تخمینی مدت ۲۲ سال ۵ ماہ اور ۱۴ دن ہے، نیز اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلدِ دوم ص ۱۱۳۵ پر بھی یہی مدت درج ہے، ان دونوں کے مطابق کل آیاتِ قرآن ۶۶۶۶ ہیں، جیسے جار اللہ کے اس قول پر یہ شعر ہے:
گفت جار اللہ ہمہ آیاتِ قرآنِ مجید
شش ہزار و شش صد و شصت و شش آمد در شمار
جار اللہ نے کہا: قرآنِ مجید کی تمام آیات شمار میں ۶۶۶۶ ہیں۔
حکیم پیر ناصر خسرو کی شہرۂ آفاق کتاب وجہِ دین میں حجتِ قائم اور قائم علیہما السلام کے بارے میں معرفتِ کتابی حاصل کریں، یہ کتاب تقریباً ایک ہزار سال پہلے تصنیف کی گئی ہے، اور یہ اسرارِ امام شناسی کا ایک عظیم خزانہ ہے، اس عظیم الشان کتاب میں حدودِ دین کی معرفت اور علمِ تاویل کا بہت بڑا سرمایہ ہے، اس میں جا بجا حجتِ قائم اور حضرتِ قائم کا ذکر آیا ہے، اس کتاب کے مطابق سورۂ قدر کی تاویلِ باطن میں حجتِ قائم اور نورِ قائم کا ذکر ہے، جس میں شبِ قدر سے حجتِ قائم مراد ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کو مخفی روحانی قیامت بنانا چاہتا تھا (۲۰: ۱۵) اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے فرمایا: اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ
۱۷۲
فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ (۹۷: ۰۱) = ہم نے اُس (قائم) کو شبِ قدر (حجتِ قائم) میں نازل کیا۔ تا کہ یہ قدر والی رات قائم اور قیامت کو چھپا لے، اور تمام لوگوں کے لئے بہت بڑا امتحان ہو۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۱۴، فروری ۲۰۰۲ء
۱۷۳
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۶
یہ حدیثِ شریف کتابِ سرائر ص ۲۴۳ پر بھی موجود ہے: من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ۔ اس کا ترجمہ قبلاً ہو چکا ہے۔
سوال: اس ارشادِ نبوی میں، امامِ زمان کی کون سی معرفت مقصود ہے؟ اقرار؟ ظاہری شناخت؟ کتابی معرفت = علم الیقین؟ عین الیقین؟ یا کلی معرفت = حق الیقین؟ جواب: امام شناسی گویا حظیرۂ قدس کی سیڑھی ہے، لہٰذا سیڑھی اوپر جانے کے لئے ہوا کرتی ہے۔
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (ارواحنا فداہ) نے اپنے زمانے کی روحانی قیامت برپا کر کے تمام انسانوں اور جنات پر بہت بڑا ابدی احسان کیا ہے، ان کی امامت کا زمانہ ظاہراً و باطناً خداوندی پروگرام کے مطابق بڑا انقلابی زمانہ تھا، اے کاش ان کے پرحکمت ارشادات سے ہم سب بھرپور فائدہ اٹھا سکتے! اے کاش ہم سب ان کو قرآن و روحانیت کی روشنی میں پہچان سکتے! ان کے وارث و جانشین نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوات اللہ علیہ کی شانِ اقدس میں اس بندۂ درویش نے کئی مدحیہ نظمیں تصنیف کی ہیں، جو فارسی، اردو اور بروشسکی میں ہیں، آپ ان کا گہرا مطالعہ کر کے دیکھیں۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۱۴، فروری ۲۰۰۲ ء
۱۷۴
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۷
از کتاب سراج القلوب ص ۱۰۰، بعنوانِ سورۂ کوثر کی حکمت:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَر فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ = (اے رسول) بے شک ہم نے تمہیں کوثر ؎۱ عطا کیا ہے، تو تم اپنے رب کے لئے نماز پڑھو، اور قربانی کرو، یقیناً تمہارا دشمن ہی مقطوع النسل ہے۔ (۱۰۸: ۰۱ تا ۰۳)
؎۱ کوثر بروزنِ فوعل صیغۂ مبالغہ ہے، جو کثرت سے مشتق ہے، کثیر زیادہ، اکثر بہت زیادہ، کثار بہت ہی زیادہ، اور کوثر بے حد زیادہ، جو خلق کی عقل و فہم سے ورا ء ہے، اس سے عالمِ ذرّ مراد ہے، جو حضورِ اکرمؐ سے آپ کے وصی مولا علیؑ میں منتقل ہو گیا، اسی طرح سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پاک ذرّیت جاری و باقی رہی، جیسے ارشادِ نبوی ہے:
ان اللہ تعالیٰ جعل ذریۃ کل نبی فی صلبہ و جعل ذریتی فی صلب علی بن ابی طالب = خدا نے ہر نبی کی اولاد اس کے صلب سے قرار دی ہے، لیکن میری اولاد صلبِ علیؑ سے ہے۔
کوثر کے ایک معنی مردِ کثیر اولاد کے ہیں، اور وہ حضرتِ علی علیہ السّلام ہی ہیں، کیونکہ ان کی پشتِ مبارک میں عالمِ ذرّ آیا، جس میں کثیر ذرّیت اور کوثر
۱۷۵
کے دوسرے تمام معانی شامل ہیں۔
حکیم پیر ناصر خسرو ق س کے دیوانِ اشعار میں ہے:
ایزد عطاش داد محمد را
نامش علی شناس و لقبش کوثر
خداوندِ قدوس نے حضرتِ محمد صلعم کو جانشین عطا کر دیا، جس کا اسمِ گرامی علیؑ اور لقب کوثر ہے، کتاب وجہِ دین، کلام ۱ میں سورۂ کوثر کی یوں تفسیر و تاویل کی گئی ہے۔
(اے محمد صلعم) ہم نے آپ کو بہت سی اولاد والا مرد عطا کر دیا ہے (جس سے اللہ تعالیٰ کی مراد اساس یعنی علی ہیں) پس آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز قائم کیجئے (یعنی دعوتِ حق برپا کیجئے) اور نحر کے طریقے پر اونٹ ذبح کیجئے (یعنی اساس کا عہد لیجئے) کیونکہ آپ کا دشمن دم بریدہ ہے (یعنی وہ بے اولاد ہے، اس لئے امامت اس میں نہ رہے گی، بلکہ وہ آپ ہی کی ذرّیت میں باقی رہے گی)۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲۲ شعبان المعظم ۱۴۱۵ھ
۲۴ جنوری ۱۹۹۵ء
کراچی
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۱۵ ، فروری ۲۰۰۲ ء
۱۷۶
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۸
حکیم پیر ناصر خسرو ق س کے دیوانِ اشعار ص ۱۴۸ پر یہ پرحکمت شعر ہے:
ایزد عطاش داد محمد را
نامش علی شناس و لقب کوثر
یعنی خداوندِ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول حضرت محمد صلعم کو بطورِ فرزند و جانشین وہ شخصِ کامل عطا کر دیا، جس کا نامِ مبارک علیؑ اور لقب کوثر ہے، یہ سورۂ کوثر کا تاویلی راز ہے، آپ کتابِ وجہِ دین میں بھی لفظِ کوثر کو دیکھیں، اور سراج القلوب ص ۱۰۰ کو بھی۔
سورۂ احزاب (۳۳: ۴۰) کا ترجمہ ہے: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے اس فرمان میں یہ چاہتا ہے کہ حضرتِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے خاندانی شرف و اصالت اور سیادت کو نمایان اور مستند کیا جائے اور آلِ ابراہیمؑ و آلِ محمدؐ کی معرفت میں کسی کو کوئی غلط فہمی نہ ہو جائے۔
قرآنِ حکیم میں حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا نام کل ۲۵ بار آیا ہے، جس میں کبھی عیسیٰ اور کبھی عیسیٰ ابنِ مریم کہا گیا ہے، البتہ اس میں کوئی بڑا سا راز ہے، ورنہ والدہ کے اسم کے بغیر بھی قرآن میں اسمِ عیسیٰ موجود ہے۔
المیزان، جلد، ۱۹، ص ۳۷۶: امام جعفر صادق علیہ السّلام کا ارشاد ہے: و اما نون فھو نھر فی الجنۃ قال اللہ عز و جل: اجمد
۱۷۷
فجمد فصار مدادا ثم قال للقلم: اکتب فسطر القلم فی اللوح المحفوظ ما کان و ما ھو کائن الیٰ یوم القیامۃ فالمداد مداد من نور و القلم قلم من نور و اللوح لوح من نور۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۱۵، فروری، ۲۰۰۲ء
۱۷۸
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۹۹
آیۂ شریفۂ الست بربکم (۰۷: ۱۷۲) کے معجزۂ اعظم کا ہر تجدّد حظیرۂ قدس ہی میں ہوتا ہے، اس معجزے کا اوّلین تعلق انبیاء و اولیاء اور عرفاء سے ہے، یاد رہے کہ ایک میں سب ہوتے ہیں، لہٰذا روحانی قیامت صرف فردِ واحد کی ہوتی ہے، جو سب کی نمائندگی کے لئے کافی ہے، اور اسی طرح ہر روحانی قیامت میں صرف ایک ہی روح اللہ کے حضور جاتی ہے، جس میں سب کی ازلی وحدت پوشیدہ ہوتی ہے، پس آیۂ الست کی حکمت کے لئے زیادہ سے زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
اس آیتِ مبارکہ میں بنی آدم سے انبیاء و اولیاء اور عارفین مراد ہیں، اور ان کی پشتوں میں سے ان کی ذرّیت کو لینا روحانی قیامت کا عمل ہے، اور خدا کا یہ پوچھنا کہ آیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ عوام النّاس سے متعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ان خواص سے ہے، جنہوں نے اپنی روح اور اپنے ربّ کو پہچان لیا ہے، یہاں یہ حضرات اپنی روح کو خدا کے نور سے واصل پاتے ہیں، یا اپنی انائے علوی کو خدا میں فنا پاتے ہیں۔
و اشھدھم علیٰ انفسھم = اور ان کو اپنی جانوں = روحوں پر گواہ بنایا۔ کسی واقعے کا گواہ وہ شخص ہوتا ہے جو حاضر ہو کر پوری
۱۷۹
طرح سے واقعے کو دیکھ لیتا ہو، تو کیا اس ارشاد میں مشاہدۂ روح اور دیدارِ خداوندی کا ذکر نہیں ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۱۵، فروری ۲۰۰۲ء
۱۸۰
حظیرۃ القدس عالمِ شخصی کی بہشت
قسط ۔ ۱۰۰
کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳ پر جو عظیم الشّان حدیثِ قدسی ہے، یہ اسی کا مفہوم ہے کہ اے ابنِ آدم = آدمِ زمانؑ کا حقیقی مومن، میری کلی اطاعت کر تا کہ میں تجھ کو اپنی مثل بناؤں گا، کہ تو ہمیشہ زندۂ جاوید رہے گا اور کبھی نہیں مرے گا، اور ایسا عزت والا بناؤں گا کہ تجھ کو کبھی کوئی ذلت ہی نہ ہو، اور ایسا غنی کہ کبھی مفلسی تیرے قریب ہی نہ آسکے ۔ حضرتِ پیر نے اس حدیثِ قدسی کی قرآنی شہادت کے لئے جس آیۂ کریمہ کو لیا ہے، وہ (۰۴: ۱۲۵) ہے، یعنی: وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ وَّ اتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِیْمَ خَلِیْلًا ۔
آپ علمائے کرام کے مستند تراجم کو بعد میں خوب غور سے دیکھ لینا کیونکہ اس آیۂ کریمہ کے باطن میں اسرارِ معرفت کا ایک عظیم خزانہ ہے، جس کے دروازے کی نشاندہی اس حکمت میں ہے: “جس نے اپنے چہرۂ جان کو اللہ کے سپرد کر دیا، جس طرح حضرتِ ابراہیم نے یہ عمل کیا تھا (۰۶: ۷۹) تو ایسا شخص حظیرۂ قدس میں فنا فی اللہ بھی ہو جاتا ہے اور اپنے باپ آدمؑ کی طرح صورتِ رحمان پر پیدا بھی ہو جاتا ہے۔” یہاں اتنی تاویل صاحبانِ عقل کے لئے کافی ہے، صوفیاء کے درجۂ اعلیٰ کے مطابق فنا فی اللہ
۱۸۱
و بقا باللہ کا سرِاعظم حق ہے، اور یہ سب سے بڑا معجزہ حظیرۂ قدس میں ہوتا ہے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ روح شناسی اور ربّ شناسی کا یہ انتہائی عظیم معجزہ انبیاء و اولیاء اور عرفا کے لئے خاص ہے اور امامِ زمان علیہ السّلام کے عاشق مریدوں میں سے جو بھی اسمِ اعظم کی تمام شرائط پر عمل کرتا ہے وہ بھی فنا فی الامام کی سب سے بڑی سعادت حاصل کر سکتا ہے، اور فنا فی الامام کا مرتبہ دراصل مرتبۂ فنا فی اللہ ہے۔
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۱۶ ، فروری ۲۰۰۲ ء
۱۸۲