جماعت خانہ

 

ترجمۂ فرمان مبارک

 

مورخہ ۹، اکتوبر ؁۱۹۶۱ء

 

میرے عزیز رُوحانی فرزند

 

مجھے تمہارا برقیہ موصول ہوا، اور میں تمہاری فداکارانہ خدمات کے عوض میں اپنی بہترین شفقت آمیز مبارک دعائیں دیتا ہوں۔ میں یہ جان کر بہت ہی خوش ہوا ہوں کہ تم نے ہونزائی زبان میں گنان کی کتاب مکمل کر دی ہے۔

تمہارا مشفق

آغاخان

الواعظ نصیر الدین نصیر ھونزائی

بمعرفت: ایچ۔ایچ۔آغاخان اسماعیلیہ کونسل

راولپنڈی

مغربی پاکستان

 

ج

 

حصۂ اول

 

 

مولا کس کو چاہتے ہیں؟

 

مولائے پاک اگرچہ سب کو چاہتے ہیں، لیکن دینی خدمت کیلئے جوانوں کو زیادہ پسند فرماتے ہیں، ایک ایسا عالی ہمّت جوان، جن سے علمی خدمت کی بھرپور توقع کی جا سکتی ہے، عزیزم غلام مصطفیٰ قاسم علی (مومن) ہیں، جن کا مختصر تعارف قبلاً ہوچکا ہے، ان سے نیک بختی اور علم دوستی کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں، باقاعدہ ملاقات سے پیشتر میں نے ان کی تعریف سنی تھی، سچ مچ وہ ایک ارضی فرشتہ ہیں، آپ سب اِس پُرخلوص دعا میں شامل ہوجائیں کہ خداوند تعالیٰ ان کے اور ان کے عزیزوں کے قلوب کو نورِعلم کی ضیأ پاشی سے منور کر دے! آمین یا ربّ العالمین!!

 

نصیر الدّین نصیر ھونزائی

کراچی

۲۷، رجب المرجب ۱۴۱۴ھ ۱۰ جنوری ۱۹۹۴ء

 

۳

 

دیباچہ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاک و پُرحکمت ارشاد ہے: اللہ نور السمٰوٰت والارض ۔۔۔۔ بالغدو والاٰصال  (۲۴: ۳۵ تا ۳۶) خدا (عالمِ شخصی کے) آسمانوں میں زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق، جس میں ایک روشن چراغ ہو، اور چراغ شیشے کی قندیل میں ہو (اور) قندیل (اسقدر شفاف ہے کہ) گویا موتی کی طرح چمکتا ہوا ایک ستارہ ہے (وہ چراغ) زیتون کے ایک مبارک درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے کہ وہ نہ مشرق کی طرف واقع ہے اور نہ مغرب کی طرف، اس کا تیل (اس قابل ہے کہ) اگر اس کو آگ نہ بھی چھوئے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہی آپ روشن ہو جائے گا (غرض ایک نور نہیں بلکہ) نورٌعلیٰ نور ہے (یعنی نور پر نور ہے) خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور خدا تو ہر چیز سے خوب واقف ہے (اور ہاں وہ چراغ) ان گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ کائناتِ ظاہر اپنی صورتِ لطیف کے

 

۵

 

اعتبار سے عالمِ شخصی میں داخل و شامل اور محدود و مجموع ہے، اور خدائے بزرگ و برتر عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کا نور ہے، کیونکہ اسی میں ظاہر و باطن کی یک جائی ہے اور اسی کے تمام اسرارِ حقائق و معارف پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے، جبکہ مادّی آسمان، زمین، جمادات، نبادات اور حیوانات میں ایسی کوئی صلاحیت موجود نہیں کہ ان پر نورِایمان، نورِعلم، نورِ یقین، نورِعشق، نورِدیدار اور نورِ معرفت کی شعاعیں برسا دی جائیں، اور جبکہ دوسری جانب یہ حقیقت عیان ہے کہ عالمِ انوارِ الہٰی (لاہوت) سے بنیادی صلاحیت کے طور پر روحِ ناطقہ اور عقلِ جزوی کی روشنی صرف انسان ہی کو عطا ہوئی ہے۔

آئیے! ہم نورِ اقدس کی اس عظیم الشّان تعریف و تفسیر پر غور کرتے ہیں جو اہلِ بیتِ اطہار علیہم السلام کی پاکیزہ تعلیمات میں سے ہے، اور وہ یہ پُرحکمت دعا ہے جو حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام ہر نمازِ فجر کے بعد پڑھا کرتے تھے: ۔

اللھم اجعل لی نوراً فی قلبی

ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے۔

ان دعائیہ الفاظ میں سب سے پہلے دل کے لئے نورِ ایمان اور نورِعشق مطلوب ہے، کیونکہ ایمان ہر چیز سے مقدم ہے، اور وہ بہت سی خوبیوں کا مجموعہ ہے، اور ایمان کی حفاظت و ترقی کے لئے دل میں عشقِ الہٰی کی تپش بے حد ضروری ہے، اور یہ صرف نورِنبوت اور نورِامامت ہی کے وسیلے سے ممکن ہے۔

و نوراً فی سمعی

ترجمہ: اور میرے کان میں ایک نور (مقرر کر دے)۔

 

۶

 

یہاں یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ کانوں کے واسطے جس نور کی ضرورت ہے، وہ علمی اور عرفانی آواز کی صورت میں ہے، جو ظاہراً امام، حجّت، داعی اور باطناً جد، فتح، خیال کے ذریعے سے ہوسکتی ہے۔

و نوراً فی بصری

ترجمہ: اور میری آنکھ میں ایک نور۔

مقصود یہ ہے کہ ظاہری و باطنی ہر حِس اور ہر مدرکہ کے لئے ایک نور حاصل ہو، چنانچہ چشمِ عیان اور دیدۂ نہان دونوں کے لئے نور چاہئے، تاکہ اسرارِ خداوندی کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ و مطالعہ کیا جائے۔

و نوراً فی لسانی

ترجمہ: اور ایک نور میری زبان میں۔

جب زبان میں نور کا ظہور نہ ہو تو وہ نہ ذکرِجلی کرسکتی ہے اور نہ ذکرِخفی، اور اگر بصد مشقت کوئی ذکر وعبادت کر بھی لے تو اس سے کوئی حلاوت نہیں ملتی۔

و نوراً فی شعری و نوراً فی بشری و نوراً فی لحمی و نوراً فی دمی و نوراً فی عظامی و نوراً فی عصبی

ترجمہ: اور میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں میں بھی نور بنا دے۔

اس بابرکت دعا میں کُل سولہ مرتبہ لفظِ ’’نور‘‘ آیا ہے، اس سے یہ یقین آتا ہے کہ عالمِ شخصی میں روحانی عجائب وغرائب اور حقائق و معارف کی سولہ کائنات موجود ہیں، جن پر روشنی ڈالنے کے لئے سولہ قسم کے انوار مطلوب ہیں، مثلاً انسانی جلد پر بالوں کی دنیا قائم ہے، لیکن ان کی باطنی حکمتیں

 

۷

 

صرف اس وقت معلوم ہوسکتی ہیں، جبکہ نورِ خداوندی کے MICROSCOPE (خوردبین) سے دیکھا جائے کہ ان کے اندر روحِ نباتی کے کیسے کیسے کرشمے ہیں، اور ہر ذرّۂ روح کے باطن میں کیا کیا تجلّیات ہیں۔

و نوراً بین یدی، و نوراً فی خلفی، و نوراً عن یمینی، و نوراً عن یساری، و نوراً من فوقی و نوراً من تحتی

ترجمہ: اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے بھی نور مقرر فرما۔

اس میں یہ اشارہ ہے کہ عالمِ شخصی کی چھ اطراف سے چھ ناطقوں کے انوار داخل ہو جاتے ہیں، تفصیل کے لئے کتابِ وجہ دین، گفتار ۸ ملاحظہ ہو، پس اس بیان میں نور کی تعریف (DEFINITION) بھی ہے اور تفسیر بھی۔

اگر آیۂ مصباح کی تاویل حدودِ دین ہیں تو حدودِ دین کی روحانی اور عقلانی صورتیں امامِ مبین علیہ السّلام میں محدود ہیں، اس عظیم الشّان اور حکمت آگین مثال میں کشفِ سرِ لامکان کا اشارہ بھی موجود ہے، وہ اس طرح کہ جس بابرکت درختِ زیتون کے تیل سے یہ چراغ روشن ہوتا ہے وہ مشرق و مغرب میں نہیں، یعنی مکان میں نہیں بلکہ لامکان میں ہے، اور اس کے سرِ عظیم کا کشف و مشاہدہ عرفاء کو اس حال میں ہوتا ہے، جبکہ خداوندِ تعالیٰ بطریقِ باطن کائنات یعنی مکان کو لپیٹ کر فنا کر دیتا ہے، تاکہ کاملین کو ایسے میں عالمِ لامکان کے انتہائی بڑے بڑے اسرار کا علم ہو جائے، جیسا کہ سورۂ حاقہ میں ارشاد ہے:

اور فرشتے آسمان کے کنارے (حاشیۂ کائنات) پر ہوں گے، اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے (۶۹: ۱۷) اسرارِ عالمِ دین سب کے سب عالمِ شخصی میں پوشیدہ ہیں،

 

۸

 

چنانچہ عرش سے نورِ مطلق مراد ہے، اور ہر امام اپنے وقت میں تنہا حاملِ عرش ہوا کرتا ہے، کیونکہ اس کی مبارک پیشانی میں نورِعقل بنامِ عرشِ عظیم کام کرتا رہتا ہے، اسی طرح جب سات آئمہ علیھم السّلام کا دور مکمل ہوجاتا ہے تو باطنی طور پر ایک بڑی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور اس وقت مجموعۂ ارواحِ مومنین و مومنات کا آٹھواں فرشتہ بھی اس سلسلے میں شامل ہوجاتا ہے، جن کی پیشانی میں ظہورِ نور کا تذکرہ سورۂ حدید (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۵۷: ۲۸) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۸) میں موجود ہے، الغرض درختِ زیتون کا ممثول لامکان میں نفسِ کُلّی ہے۔

وہی نورِ واحد چراغ کی مثال میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے باطنی گھروں میں روشن ہوتا رہا ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے وقت میں خدا کا زندہ گھر تھا، اور اسی سنتِ الہٰی کے مطابق جس میں کوئی تبدیلی نہیں، اِس وقت امامِ حیّ و حاضرعلیہ السّلام خدائے بزرگ و برتر کا پاک و پاکیزہ گھر ہے، جس کی حرمت و تعظیم کے لئے خدا نے حکم دیا ہے، اور کتنی بڑی رحمت ہے کہ پاک جماعت خانہ خدا کے گھر کا قائم مقام ہے، اور وہ اسماعیلی جماعت کے لئے بڑا بابرکت گھر ہے، جس میں روح و روحانیت کے بڑے سے بڑے معجزات پنہان ہیں۔

ہم ہر امامِ برحق کو مولا علیؑ ہی کی طرح مانتے ہیں، اور یہ حقیقت ہے، پس جو کچھ قرآن، حدیث، خطبۃ البیان وغیرہ میں ارشاد ہوا ہے، وہ نہ صرف مولانا علیؑ کے بارے میں ہے بلکہ یقیناً ہر امام کے بارے میں ہے، لہٰذا حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام خدا کے عجائب وغرائب کا مظہر ہے، چنانچہ دیکھنے والوں نے دیکھا ہے کہ مومنین و مومنات کے لئے نورِ امامت کا معجزہ جماعت خانہ ہی سے شروع ہوکر کائنات پر محیط ہو جاتا ہے، یعنی اس نور کے باطنی معجزات

 

۹

 

بے شمار ہیں۔

مولا کے بڑے بڑے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ ہے کہ اس کا مقدّس نور جثۂ ابداعیہ اور ہیکلِ نورانی کی صورت میں ہر جماعت خانہ میں موجود ہے، جیسا کہ امامِ عالی مقامؑ نے جامۂ سابق میں بارہا ارشاد فرمایا ہے کہ اس کا پاک نور جماعت خانہ میں حاضر ہوتا ہے، جیسے قرآنِ حکیم بزبانِ حکمت فرماتا ہے کہ نور دنیا بھر میں بلکہ کائنات میں چلنے کے لئے ہوتا ہے۔

(یمشی بہ، ۶: ۱۲۲، تمشون بہ، ۵۷: ۲۸)

عرشِ عظیم امام ہے، کیونکہ وہ حاملِ نورِعرش ہے، بیت المعمور امام ہے، کیونکہ وہ خدا کا آباد گھر ہے، بیت اللہ امام ہے، اس لئے کہ وہ قبلۂ حقیقت ہے، حرمت والی مسجد (خانۂ کعبہ) امام ہے کہ مسجد کے معنی ہیں سجدہ گاہ، اور امام کے عالمِ شخصی میں ارواح و ملائکہ اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ کرتے ہیں، اور جماعت خانہ امام ہے، کیونکہ وہ اس پاک گھر کی جان اور جماعت کا جانان ہے۔

چونکہ اسلام دینِ فطرت ہے، اس لئے یقیناً اسلام ہی آفاقی دین ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہاں علم و عمل کے اعتبار سے بہت سے درجات کی گنجائش ہے، اس کی بڑی عمدہ مثال صراطِ مستقیم ہے جس کی چھوٹی چھوٹی منزلیں بہت زیادہ ہیں، مگر بڑی اور معروف منزلیں صرف چار ہیں:

۱۔ شریعت

۲۔ طریقت

۳۔ حقیقت

۴۔ اور معرفت

یہ معنی آپ کو قرآنِ حکیم میں مل سکتے ہیں، جیسے ارشاد ہے:

 

۱۰

 

لکل جعلنا منکم شرعۃ و منھاجاً(۵: ۴۸)۔

ترجمہ: تم میں سے (اے اہلِ ملّلِ مختلفہ) ہر ایک کو ہم نے ایک شریعت اور ایک طریقت دی۔

سورۂ اعراف میں ارشاد ہے:

حقیق علیٰ ان لا اقول علی اللہ الا الحق  (۷: ۱۰۵)

ترجمہ: (اور موسیٰؑ نے کہا کہ میں) حقیقت شناس ہوں، تاکہ بجز سچ کے خدا کے بارے میں کوئی بات نہ کروں۔

پس قرآنِ پاک میں جہاں جہاں لفظِ حق آیا ہے وہاں حقیقت ہی کا ذکر ہے، اور اسی طرح قرآنِ مجید میں معرفت کے الفاظ آئے ہیں، جیسے:

فتعرفوا (۲۷: ۹۳)  یعرفون (۲: ۱۴۶، ۶: ۲۰، ۷: ۴۶، ۱۶: ۸۳)  یعرفونھم(۷: ۴۸) عرفھا (۴۷: ۶)۔

اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت، حقیقت اور معرفت بھی لازمی ہیں، اور اس خداوندی نظام و پروگرام کے مطابق یہ امر بھی ضروری تھا کہ مسجد اور خانقاہ کے بعد مقامِ حقیقت پر جماعت خانے کا عمل شروع ہوجائے، کیونکہ آنحضرتؐ کی رحلت کے ساتھ اگرچہ پیغمبرانہ وحی کا دروازہ بند ہوگیا، لیکن قرآنِ حکیم اور حضورِ اکرمؐ کی تعلیمات کے ثمرات و نتائج رفتہ رفتہ ظاہر ہونے والے تھے۔

خداوندِ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جماعت خانہ جیسے مقدّس مقام سے متعلق ایک چھوٹی سی کتاب تیار کی گئی، جس کے اکثر اجزاء خود بندۂ ناچیز کی بعض کتابوں میں پہلے ہی سے موجود تھے، اس کی تجویز گذشتہ سال ۱۹۹۲ء دورۂ امریکا کے دوران اُس وقت عمل میں آئی تھی جبکہ ہمارے عزیز دوست

 

۱۱

 

چیف ایڈوائزر اکبر اے علی بھائی کے گھر میں اُن کی فرشتہ خصلت بیگم ریکارڈ آفیسر شمسہ (اکبر۔اے۔علی بھائی) نے اس نوعیت کا ایک اہم سوال پیش کیا تھا، اس سوال سے کتنی بھلائی ہوئی، ہم اپنے تمام عزیزوں کے ممنون اور شکرگزار ہیں۔

دنیا بھر میں امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے جتنے ادارے ہیں، خصوصاً دینی تعلیم سے متعلق ادارے، ہم ان کی خاکِ پا کے بھی برابر نہیں ہیں، وہ بڑے مقدّس ادارے ہیں، اس لئے ہم ان سے عملاً قربان ہوجانا چاہتے ہیں، اور ہماری یہ مفید قربانی علمی خدمت کی شکل میں ہوسکتی ہے، تاکہ اس سے جماعت کو بھی فائدہ حاصل ہو، مجھے یقین ہے کہ اس نیّت میں تمام عزیزان میرے ساتھ ہیں، اور ان میں سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں۔

جو حضرات یہاں اعزازی طور پر ہماری کتابوں کا ترجمہ کرتے ہیں، جو کمپیوٹر کا کام کرتے ہیں، جو ایڈٹ کرتے ہیں، اور جو کتاب سے متعلق دوسرے امور انجام دیتے ہیں، وہ اس بندۂ حقیر کو ہراس فرد کے عالمِ شخصی میں زندہ کر دینا چاہتے ہیں، جس کو کتاب سے دلچسپی اور فائدہ ہو، کیونکہ آخرت میں نہ صرف مشترک بہشت ہوگی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عالمِ شخصی کی جنّت بھی ہوگی، جس میں حسبِ منشاء ہر شخص اور ہر نعمت موجود ہے۔

الخلق عیال اللہ (مخلوق گویا خدا کا کنبہ ہے) جیسی سب سے اعلیٰ تعلیم جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے، تو پھر ہمیں انتہائی عاجزی سے یہ دعا کرنا چاہئے کہ اے پروردگارِ عالم! اپنے خاص نورِعلم سے دوزخِ جہالت کو ٹھنڈا کر دینا، اور تمام اولادِ آدم اور عالمِ انسانیت کو بہشت کی لازوال نعمتوں سے سرفراز فرمانا! الہٰی تیرے غضب پر تیری رحمت کو

 

۱۲

 

سبقت حاصل ہے، اس لئے عجب نہیں کہ تو سارے لوگوں کو معاف کر دے۔ آمین!

۳۱ اگست ۱۹۹۳ء

 

۱۳

 

خانۂ خدا ۔ خانۂ جماعت

(پہلی قسط)

 

اسلام اپنی روح میں کامل و مکمل دین ہے، اِس میں رشد و ہدایت اور علم و حکمت کی فراوانی ہے، اِس کا ہر قول وعمل اور ہر چیز ظاہراً و باطناً عقلی اور روحانی خوبیوں سے مالا مال اور یقین و معرفت کے اشارات سے بھرپور ہے، چنانچہ آج ہم یہاں عنوانِ بالا (خانۂ خدا ۔ خانۂ جماعت) سے بحث کرتے ہیں، اور یہ معلوم کرلینا چاہتے کہ آیا ذاتِ سبحان بحقیقت کسی گھر کے لئے محتاج ہے یا اس کی حاجت و ضرورت دراصل اہلِ ایمان کو ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ جو کون و مکان کا خالق و مالک ہے، وہ مکان و لامکان سے بے نیاز و برتر ہے، سو اس حال میں یہ سوال ہوگا کہ اگر خانۂ خدا کا یہ تعیّن لوگوں کی دینی ضرورت کے پیشِ نظر ہے تو پھر بتائیے کہ اس سے ان کو کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ اور اس میں کیا کیا اسرار پنہان ہیں؟ اس کا مفصّل جواب ذیل میں درج ہے: ۔

۱۔ جاء و جہت یا مکان و زمان کے اعتبار سے خدا کا تصور تین درجوں ہر مبنی ہے، اوّل یہ گویا خداوند تعالیٰ ایک خاص گھر میں جلوہ نما ہے، جس طرح بیت اللہ کا تصور ہے (۲۲: ۲۶) دوسرا یہ کہ وہ ہر جگہ موجود ہے (۲: ۱۱۵) اور تیسرا یہ ہے کہ وہ مکان و لامکان سے بے نیاز و برتر ہے، کیونکہ وہ سبحان،

 

۱۴

 

قدوس، اور صمد ہے، اور یہ حقیقت مسلّمہ اور ناقابلِ تردید ہے، چونکہ اسلامی تعلیمات و ہدایات تدریجی صورت میں ہیں، لہٰذا یہ امر ضروری قرار پایا کہ ہر فردِ مسلم سب سے پہلے خانۂ خدا کے عقیدۂ راسخ کو اپنائے، اور اس سے وابستہ ہو جائے، تاکہ اس کو یہیں سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت حاصل ہو، اور اگر کوئی شخص اِس بنیادی تصور کی حکمت کو نہیں سمجھتا، اور اسے نظرانداز کرتا ہے، تو وہ دوسرے اور تیسرے تصور کے خزانوں کو براہِ راست حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ خدائی قانون کے خلاف چلنا باعثِ نامرادی ہے۔

۲۔ اسلام میں جس طرح عرشِ عظیم کا تصور ہے، وہ بھی دینِ حق کی جملہ حکمتوں کا مرکز ہے، اس سے نہ صرف خدا کے گھر کی عظمت و بزرگی کا ثبوت مل جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس سے بہت بڑی فضیلت کا یقین بھی ہو جاتا ہے کہ جو مومنین زمین پر خانۂ خدا کی آبادی و ترقی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، وہ عالمِ بالا کے ان پاکیزہ فرشتوں کی طرح ہیں، جو عرشِ الہٰی سے متعلق ہیں یا اِس کے گردا گرد طواف کرتے ہیں، اِس بیان سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ جس طرح خانۂ خدا کی نزدیکی اور شناخت سے انسانوں کو فائدہ ہے، اِسی طرح عرشِ اعلیٰ کی قربت و معرفت سے فرشتوں کو فضیلت حاصل ہوتی ہے، مگر اللہ سبحانہُ و تعالیٰ ہر شیٔ سے بے نیاز و برتر ہے۔

۳۔ خدائے واحد کی ذاتِ پاک و منزہ اُس وقت بھی تھی، جبکہ خانۂ کعبہ نہ تھا، اور بیت اللہ کی تعمیر اُس وقت ہوئی، جبکہ حضرت آدم علیہ السّلام کے سیّارۂ زمین پر اُترنے کا وقت آیا، چنانچہ خداوندِ عالم کے امر سے فرشتوں نے خانۂ خدا کی تعمیر کی، تاکہ آدمؑ و اولادِ آدمؑ اس سے رجوع کر کے روحانی

 

۱۵

 

فائدے حاصل کریں، اس سے معلوم ہوا کہ دین کی اصل و اساس خانۂ خدا ہے، اور یہی خدا کا گھر خانۂ دین اور خانۂ جماعت بھی ہے، جس کی اُردو عبارت’’جماعت خانہ‘‘ ہے، ’’خدا کا گھر‘‘ کہنے کا مطلب ہے کہ اس میں انوار و اسرارِ خداوندی کا ظہور اور فیوض و برکات کا نزول ہوتا رہتا ہے، تاکہ مومنین ہمیشہ خدا کے اِس گھر میں جا کر مستفیض ہوتے رہیں اور روز بروز علم و عمل میں ترقی کرتے جائیں۔

۴۔ خانۂ کعبہ جس میں عظیم تاویلی حکمتیں پوشیدہ ہیں اپنی جگہ بیحد ضروری ہے تاکہ جملہ مسلمانانِ عالم اس کی ظاہری اور باطنی حکمتوں کو سمجھتے ہوئے باہمی اتفاق و یکجہتی کی دولت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، اور زمانۂ نبوت کے مسلمانوں کی طرح سب کے سب سالکِ وحدتِ ملّی سے منسلک ہی رہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی ضروری تھا کہ ذیلی طور پر ہر مسلم قریہ میں خدا کا ایک گھر بنایا جائے، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ دور دراز ممالک کے مسلمین روزانہ عبادت کے لئے خانۂ کعبہ میں پہنچ جائیں چنانچہ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے نام سے خدا تعالیٰ کا مقامی گھر بھی بنا دیا، یہ صرف ایک چاردیواری تھی، جس میں تین طرف دروازے تھے۔۔۔ آنحضرت کے بعد جتنی نئی مسجدیں تعمیر ہوئیں، سب کا بنیادی ڈھانچہ یہی رہا، رفتہ رفتہ مسجد کی تعمیر مسلمانوں میں ایک فن بن گئی، اِس طرح ایک خاص طرزِ تعمیر کا ارتقاء ہوا۔۔۔ (فیروز سنز۔ اُردو انسائیکلوپیڈیا)۔

۵۔ قبلۂ اسلام کے کئی نام ہیں، جیسے کعبہ، جس کے لفظی معنی ہیں چار گوشہ مکان (۵: ۹۵) البیت (گھر ۲: ۱۲۵) البیت العتیق (قدیم گھر ۲۲: ۲۹) بیت اللہ (خدا کا گھر ۲: ۱۲۵) بیت وضع للناس (وہ گھر جو لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا ۳: ۹۶) البیت الحرام (حرمت والا گھر ۵: ۲) المسجد الحرام (حرمت والی مسجد

 

۱۶

 

۲: ۱۴۴) وغیرہ۔

خانۂ خدا کے مذکورہ اسماء میں کسی ابہام کے بغیر یہ جواز موجود ہے کہ جس طرح مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام مسجد درست ہے، اسی طرح اس کا نام ’’جماعت خانہ‘‘ بھی درست ہے، یعنی جماعت کا مذہبی گھر، کیونکہ اللہ کا گھر لوگوں کا دینی گھر ہوا کرتا ہے، جبکہ بیت اللہ لوگوں کے لئے مقرر ہے (۳: ۹۶) جب ہم تاریخی تحقیقی (ریسرچ) کی روشنی میں زمانۂ نبوت کو دیکھتے ہیں، تو اس میں باعتبارِ شکل مسجد اور جماعت خانہ ایک ہی چار دیواری نظر آتی ہے، چنانچہ میرے نزدیک مسجدِ رسولؐ خدا کا مقامی گھر اور حال و مستقبل کا جماعت خانہ تھی، جس کو اللہ پاک کے مرکزی گھر کی نمائندگی حاصل تھی۔

۶۔ مسجد کے معنی ہیں جائے سجدہ (سجدہ کرنے کی جگہ) عبادت خانہ، نیز اس کے معنی ہیں عبادت، اور اس کی تاویل ہے اسمِ اعظم، اساسؑ اور امامِ زمانؑ، کیونکہ ربّ العالمین کا حقیقی اسمِ اعظم اور عقل و جان والا گھر ہادیٔ زمان ہوا کرتا ہے، جیسا کہ کتابِ دعائم الاسلام جلد اوّل (عربی) کتابِ حج کے سلسلے میں صفحہ ۲۹۲ پر ذکر ہے کہ فرشتوں نے خانۂ خدا کی تعمیر کی، اس کے یہ معنی ہیں کہ ملائکہ نے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں بیت اللہ کی روحانی تعمیر کی، کیونکہ فرشتوں کا اصل کام روحانی قسم کا ہوتا ہے، اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فرشتوں نے واقعی کعبۂ ظاہر کو بنایا تھا، تو اس کی تاویلی حکمت یہ ہوگی کہ مومنین نے جو جسمانی فرشتے ہیں عالمِ جسمانی میں ایک جماعت خانہ بنایا، اور ’’جیسا عمل ویسا بہترین ثواب‘‘ کے قانون کے مطابق ان کے ہاتھ سے روحانیت میں کعبۂ جان کی تعمیر کروائی گئی۔

۷۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی تعمیرِ نو اسی مقام پر کیا، جہاں یہ طوفانِ

 

۱۷

 

نوحؑ سے پہلے تھا، اس جگہ کی نشاندہی ایک ایسی ہوا نے کی جو حضرت ابراہیمؑ کی تسکین کے لئے خداوند تعالیٰ نے بھیجی تھی جس کا نام سکینہ تھا، اِس ہوا کے دو سر تھے، جو ایک دوسرے کے پیچھے گھومتے تھے، جس کی تاویل ذکرِ خدا اور اس کی روحانیت ہے، اس سے یہ حقیقت نمایان ہوجاتی ہے کہ اللہ کے خانۂ ظاہر کے تاویلی پسِ منظر میں خانۂ نورانیت کا تذکرہ موجود ہے، کیونکہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہوا کرتا ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: و اسبغ علیکم نعمہ ظاہرۃ و باطنۃ (۳۱: ۲۰) اور اُس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر رکھی ہیں۔

 

 

 

 

 

 

۸۔ اللہ تعالیٰ کا پاک فرمان ہے: و اذ جعلنا البیت مثابۃ للناس و امنا و اتخذوا من مقام ابراہیم مصلی (۲: ۱۲۵) اور جس وقت ہم نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کے لئے جائے ثواب اور مقامِ امن مقرر کر رکھا اور مقامِ ابراہیمؑ کو جائے نماز بنا لیا کرو۔

اِس آیۂ کریمہ کی پہلی تاویل: جس طرح خدا کے حکم سے خانۂ کعبہ ظاہر میں ثواب اور امن کی جگہ ہے، اِسی طرح امامِ زمان صلوات اللہ علیہ باطن میں بیت اللہ کی حیثیت سے ہر قسم کے ثواب کا وسیلہ اور ہر طرح کے امن کا ذریعہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امامِ برحقؑ قبلۂ باطن ہیں، جس کی طرف قلبی توجہ ہر نیک کام میں لازمی ہے، اور طریقِ ثواب یہی ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ثواب کا ذکر پہلے ہے اور امن کا ذکر بعد میں، اس کی حکمت یہ ہے کہ پہلے مومنین امامِ

 

۱۸

 

اقدس و اطہرؑ کی اطاعت و فرمانبرداری سے ثواب و نیکی کے مراحل طے کر لیتے ہیں، پھر نتیجے کے طور پر امامِ عالی مقامؑ کی روحانیت و نورانیت میں داخل ہو جاتے ہیں، اور یہی اللہ تبارک و تعالیٰ کا خانۂ باطن ہے، جس میں امن ہی امن ہے، یعنی کوئی خوف و خطر نہیں۔

جس طرح ظاہر میں مقامِ ابراہیمؑ خانۂ کعبہ کی ایک ایسی جگہ ہے، جہاں ایک پتھر تھا، اسی طرح خانۂ باطن یعنی امامِ مبینؑ کی نورانیت میں ایک عقلی گوہر ہے، اُس تک رسائی حاصل کر کے نماز کی حکمتوں کو حاصل کر لینے کے لئے فرمایا گیا ہے۔

دوسری تاویل: جس طرح خانۂ کعبہ اللہ کا مرکزی گھر ہے، اسی طرح جماعت خانہ خدا کا مقامی گھر ہے، یا یوں کہا جائے کہ جیسے بیت اللہ شریف مقامِ شریعت پر ہے، ویسے مقدّس جماعت خانہ مقامِ حقیقت پر ہے، لہٰذا مذکورہ آیۂ کریمہ میں جو فضائل بیان ہوئے ہیں، وہ خدا کے اِس گھر کے بارے میں بھی ہیں، جو جماعت خانہ کے نام سے مشہور ہے، چنانچہ عقیدۂ اسماعیلیت اور قرآنی حکمت کے مطابق جماعت خانہ جائے ثواب اور مقامِ امن ہے، اِس کے معنی یہ ہیں کہ دین کے کُل اوامر و نواہی کا جملہ ثواب جماعت خانہ میں مرکوز ہے، اور روحانی امن و سکون بھی اسی میں ہے، کیونکہ جماعت کے اِس خانۂ دین کو دُہری فضیلتیں حاصل ہیں کہ یہ اگر ایک جانب سے خانۂ کعبہ کا نمائندہ ہے، تو دوسری جانب سے امامِ برحقؑ کی مثال ہے، جبکہ امامؑ نے بمنشائے الہٰی اپنی شخصیت اور ظاہری و باطنی قربت کی جگہ جماعت خانہ دیا ہے، پس مرحلۂ اوّل میں جماعت خانہ کے لئے یہی مقامِ ابراہیم ہے۔

۹۔ سورۂ آلِ عمران (۳: ۹۶) میں ربِّ عزت کا فرمان ہے: ان اوّل

 

۱۹

 

بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبٰرکا و ھدی للعٰلمین (۳: ۹۶) یقیناً وہ مکان جو سب سے پہلے لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا، وہ مکان ہے جو کہ مکہ میں ہے جس کی حالت یہ ہے کہ وہ برکت والا ہے اور جہان بھر کے لوگوں کے لئے رہنما ہے۔ اِس آیۂ مبارکہ میں کئی حکیمانہ اشارات ہیں، منجملہ ایک اشارہ یہ ہے کہ ’’اوّل‘‘ اعدادِ ترتیبی (ORDINALS) کی بنیاد ہے، اور اس کا تقاضا ہمیشہ یہ ہوا کرتا ہے کہ اوّل (پہلا) کے بعد دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں وغیرہ بھی ہو، اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اگرچہ لوگوں کا اوّلین اور مرکزی گھر مکہ میں ہے، تاہم زمانۂ نبوّت اور دورِ امامت میں ذیلی اور مقامی طور پر بہت سے گھر (جماعت خانے) ہوں گے۔

دوسرا اشارہ یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے واسطے اوّلین دینی گھر مکہ میں مقرر ہوا، اِسی طرح امامِ اوّل (مولا علیؑ) بھی مکہ میں مقرر ہوئے، جو لوگوں کے لئے روحانیت و نورانیت کا گھر ہیں، جس میں اُن لوگوں کے لئے برکات و ہدایات ہیں، جو عالمِ شخصی بن جاتے ہیں۔

تیسرا اشارہ یہ ہے کہ ’’ بَکَۃً ‘‘ کا ایک اشارتی قرأت گریہ وزاری کے معنی میں بھی ہے، سو اس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے لئے اوّلین روحانیت کا گھر عشقِ مولا کے تابناک آنسوؤں سے بنایا جاتا ہے، جو اہلِ دل کے لئے برکتوں اور ہدایتوں سے بھر پور ہے۔

چوتھا اشارہ یہ ہے کہ خانۂ کعبہ، امامؑ، اور جماعت خانہ اگر ایک طرف سے خدا کے گھر ہیں تو دوسری طرف سے لوگوں کے گھر ہیں، کیونکہ ان پاک گھروں میں جو برکتیں اور ہدایتیں ہیں، وہ لوگوں کے لئے ہیں، اور ان کا خدا تعالیٰ سے منسوب ہو جانا خصوصی ملکیت کی وجہ سے ہے۔

۱۰۔ سورۂ نور میں فرمایا گیا ہے: فی بیوت اذن اللہ ان ترفع و یذکر

 

۲۰

 

فیھا اسمہ یسبح لہ فیھا بالغدو و الاٰصال (۲۴: ۳۶) (وہ نور) ایسے گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں۔ ان گھروں سے حضراتِ أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیھم مراد ہیں، نیز یہ گھر جماعت خانے ہیں، جن میں نورِ خداوندی کا چراغ روشن ہوتا ہے، جس کا مشاہدہ اور عرفان یقینی ہے۔

۱۱۔ خانۂ کعبہ ظاہری علامت، مثال اور نمونہ ہے اُن آیاتِ کریمہ کا، جن کی تاویلی حکمت کا تعلّق خداتعالیٰ کے زندہ گھر یعنی امام علیہ السّلام سے ہے، اور امامِ عالیمقامؑ کی معرفت جو نہایت ہی ضروری ہے، وہ کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی، مگر اطاعت سے اور اطاعت و فرمانبرداری کا مرکز جماعت خانہ ہے، کیونکہ یہ جائے ثواب اور مقامِ امن ہے۔

جس طرح ہر چیز کی رُوح ہوا کرتی ہے، اِسی طرح جماعت خانہ کی ایک عظیم رُوح ہے، یہ امامِ زمانؑ کی رُوح یعنی نور ہے، جس میں جماعتی رُوح زندہ ہوجاتی ہے، پس اگر آپ باور کرتے ہیں کہ جماعت خانہ میں امامِ برحقؑ کا نور موجود ہے، تو یہ بھی جان لیں کہ یہی نور اللہ تعالیٰ کا زندہ گھر ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:

قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم و الذین معہ (۶۰: ۴) تمہارے واسطے تو ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں (کے قول و فعل) کا اچھا نمونہ موجود ہے۔ اِس ربانی تعلیم سے یقینی طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ویسے تو ظاہر میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ بہت سے لوگ تھے، مگر جو حضرات باطن میں آپ کے ساتھ تھے، وہ آپؑ کی پیروی میں درجۂ انتہا پر پہنچ گئے تھے، اگر ایسا نہ ہوتا

 

۲۱

 

تو ان کا اُسوۂ حسنہ حضرت ابراہیمؑ کے اُسوۂ حسنہ سے نہیں ملتا، اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسے حضرات کون تھے یا کون ہیں؟ آلِ ابراہیمؑ ہیں، یعنی انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام، جن کا ظہور جناب خلیل اللہؑ کے نزدیک بہت ہی ضروری تھا (۲: ۱۲۴) اور خدائے مہربان نے آلِ ابراہیم کو سب کچھ دے رکھا تھا (۴: ۵۴) چنانچہ آنحضرتؐ نے بحکمِ خدا حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف خانۂ کعبہ کو قبلہ بنایا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ مقامی طورپر بھی خدا کا ایک گھر (مسجد) بنایا، اور پاک اماموں نے بھی اپنے اپنے وقت میں مسجد یا جماعت خانہ کے نام سے اللہ کے ایسے گھروں کی تعمیر کی۔

۱۲۔ سورۂ قصص (۲۸: ۵۷) میں فرمایا گیا ہے: کیا ہم نے ان کو امن و امان والے حرم میں جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس سے کھانے کو ملتے ہیں و لیکن ان میں اکثر لوگ نہیں جانتے (۲۸: ۵۷) اگر آپ غور کریں تو صاف طور پر معلوم ہوجائے گا کہ ثمرات کل شی یعنی تمام چیزوں کے ظاہری میوے کہیں بھی خود بخود کھنچ کھنچ کر نہیں آسکتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیھما جس جگہ کو عبادت کے لئے مقرر فرمائیں، وہاں کُلّ اشیاء کے روحانی میوے کھنچ کھنچ کر خودبخود آتے رہتے ہیں، اور یہی روحانی معجزات جماعت خانہ سے متعلّق ہیں۔

جب قرآنِ حکیم نے کہا کہ ثمرات کل شی (جملہ اشیاء کے میوے) تو اِس خداوندی کُلّیّہ کے مطابق جمادات، نباتات، حیوانات، اور انسان سب کے سب درخت قرار پائے، تاکہ ان میں سے ہر ایک کا پھل خانۂ خدا کی طرف آئے، مگر یہ صرف اور صرف روحانی صورت میں ممکن ہے، چنانچہ جماعت خانہ وہ مقام ہے، جہاں امامِ زمانؑ کی عظیم المرتبت روح (یعنی نور) کام کرتی ہے، جس کی طرف دُنیا بھر کی چیزوں کی روحیں کھنچ کھنچ کر آتی ہیں، جیسا کہ امامِ مبین

 

۲۲

 

میں اشیائے کائنات جمع ہوتی ہیں (۳۶: ۱۲) پس حقیقی مومنین کے لئے جماعتخانہ سے متعلق یہ روشن دلائل کافی ہیں۔

۱۰ دسمبر ۱۹۸۴ء

 

۲۳

 

خانۂ خدا ۔ خانۂ جماعت

(دوسری قسط)

 

۱۔ اِس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ خانۂ خدا خانۂ جماعت ہے، اور نہ ہی اِس بات میں کوئی شُبہ ہے کہ جس طرح دین کا مرکزی گھر خانۂ کعبہ ہے، اسی طرح مقامی گھر جماعت خانہ ہے، اور یہ نظام اللہ تعالیٰ کی سنت اور قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے، کہ ہمیشہ رحمتوں اور برکتوں کا مقام ظاہراً و باطناً بندوں سے قریب تر کردیا جاتا ہے، جیسے حضرت آدم علیہ السّلام کے اِس دُنیا میں آنے کے ساتھ ساتھ آپؑ اور آپؑ کی اولاد کی خاطر یہاں خانۂ خدا کی تعمیر کی گئی، جو اِس زمین پر عرشِ عظیم کا درجہ رکھتا ہے، کیونکہ خدا کے عرش (تخت) کا جو مفہوم ہے وہی مفہوم خدا کے گھر کا بھی ہے، اور جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینۂ منورہ میں اللہ پاک کا ایک دوسرا گھر بنایا، جس کو ہم پہلی مسجد بھی کہہ سکتے ہیں، اور اوّلین جماعت خانہ بھی، کیونکہ فی الاصل ان دونوں کی شکل اور حقیقت ایک ہی ہے، بہرحال وہ خدا کے قدیم گھر کا قائم مقام تھا، اِس کے یہ معنی ہوئے کہ خانۂ کعبہ کو عرشِ عظیم کی نمائندگی حاصل ہے، اور جماعت خانہ کو کعبۂ شریف کی نمائندگی۔

۲۔ آپ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلام میں تقویٰ کی بہت اہمیت ہے، کیونکہ تقویٰ جملہ عبادات کی جان ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لئے

 

۲۴

 

بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، مگر شعائر اللہ یعنی خدا کی نشانیوں کی شانِ رحمت دیکھئے کہ ان کی حرمت و تعظیم سے قلبی تقویٰ کا عمل بن جاتا ہے (۲۲: ۳۲) امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ جو قرآنِ ناطق ہیں، ان کی پاک و پاکیزہ شخصیت اور جماعت خانہ شعائر اللہ  میں سے ہیں، لہٰذا ان کی تعظیم کرنا قلبی تقویٰ کا نتیجہ بھی ہے اور درجہ بھی، کیونکہ ان میں سے ایک خدا کا باطنی گھر ہے اور دوسرا ظاہری گھر۔

۳۔ سورۂ حج کے ایک ارشاد (۲۲: ۲۶) کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو بیت اللہ قرار دیا تھا، تاکہ اِس مرتبہ کی روحانیت و نورانیت میں توحید کی معرفت حاصل ہو، اور خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا جائے، ربّ العزّت نے آپؑ کو یہ بھی حکم دیا کہ آپ اللہ کے اِس زندہ گھر کی نظریاتی، روحانی اور عقلی پاکیزگی کریں، تاکہ اس میں تین قسم کے فرشتے آجائیں، اور وہ ہیں طواف کرنے والے، قیام یا اعتکاف کرنے والے، اور رکوع و سجود کرنے والے۔

۴۔ پیغمبر اور امام کی پاک شخصیت میں روحانی مسجد اور نورانی جماعت خانہ ہونے کا خدائی قانون ہمیشہ سے جاری ہے، جیسے نوح علیہ السّلام نے اِس خانۂ نورانیت کو بیتی (۷۱: ۲۸) کہا، اور مومنین میں سے جو افراد اس میں داخل ہوچکے تھے، وہ ’’اھلِ بیت‘‘ کہلاتے تھے وہ قرآنی ارشاد یہ ہے:

رب اغفر لی و لوالدی و لمن دخل بیتی مومنا و للمومنین و المومنات (۷۱: ۲۸) اے میرے ربّ مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو کمالِ ایمان سے میرے (روحانی) گھر میں داخل ہوگئے ہیں ان کو اور تمام مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخش دے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت نوحؑ کی اس پُرحکمت دعا میں اہلِ ایمان دو درجوں میں ہیں، یعنی بعض مومنین کمالِ

 

۲۵

 

ایمان کی بدولت آپؐ کے خانۂ نورانیت (یعنی خانۂ خدا) میں داخل ہوچکے ہیں، اور بہت سے مومنین و مومنات ہنوز اِس درجے میں داخل نہیں ہوسکے ہیں۔

۵۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے وقت میں خدا تعالیٰ کا زندہ گھر (۲۲: ۲۶) اور نورانیت سے بھرپور معجزاتی جماعت خانہ تھے، جیسا کہ سورۂ احزاب (۳۳: ۳۳) میں فرمایا گیا ہے: انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت و یطھرکم تطھیرا (۳۳: ۳۳) اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اے (نورانیت کے) گھر والو تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہر طرح سے ظاہراً و باطناً) پاک و صاف رکھے۔ یہ مقدّس گھر نورِ نبوّت و امامت تھا، اور اہلِ بیت (گھر والے) پنجتنِ پاک تھے، یعنی حضرت محمد مصطفیٰؐ، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت فاطمۃ زہرا، حضرت حسن مجتبیٰ اور حضرت حسین سیّد شہداء صلوات اللہ علیھم، یہی خانۂ نورانیت اللہ تعالیٰ کا بولنے والا گھر اور عقلی و روحانی جماعت خانہ ہے، اور یہی وہ حکمت کا گھر ہے، جس کے بارے میں آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے‘‘۔ نیز یہ وہی مبارک و مقدّس گھر ہے جس میں بموجب آیۂ قرآن (۲۴: ۳۵) نورِ خداوندی کا چراغ روشن ہے۔

۶۔ یہاں متعلّقہ حقیقت کو دل نشین انداز میں پیش کرنے کی غرض سے یوں سوال کیا جاتا ہے کہ صراطِ مستقیم (راہِ راست) کس کی ہے؟ آیا یہ خدا کی ہے یا انبیاء کی؟ کیا یہ راہ آنحضرتؐ کی ہے یا امامؑ کی؟ کیا یہ مومنین کے لئے نہیں ہے؟ اِس کا جواب اِس طرح سے ہے کہ صراطِ مستقیم سب سے پہلے خدائے پاک و برتر کی ہے، کیونکہ راہِ راست کی منزلِ مقصود وہی ہے، یعنی سب کو اسی کے خانۂ نور میں جانا ہے (۴۲: ۵۳، ۲: ۱۵۶) نیز صراطِ مستقیم جملہ انبیاء علیھم السّلام کی ہے، کیونکہ وہ حضرات اس پر لوگوں کے رہنما تھے (۱: ۷، ۴: ۶۸) یہ راہِ راست پیغمبرِ

 

۲۶

 

آخر زمان صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہے، اِس لئے کہ حضورؐ سرورِ انبیاء و سردارِ رُسل ہیں (۱۲: ۱۰۸) نیز یہ رستہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کا ہے، کہ آپ ہادیٔ برحق ہیں (۱۳: ۷) اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صراطِ مستقیم مومنین کی ہدایت کے لئے بنائی گئی ہے (۴: ۱۱۵) بالکل اسی طرح وہ انتہائی پاک و پاکیزہ گھر جو ربّ العزّت کا ہے، وہ مذکورۂ بالا تمام درجات کا ہے، اگرچہ ذاتِ خدائے بے مثل مکان اور لامکان سے بے نیاز و برتر ہے، لیکن اس کی وحدانیت کی معرفت خانۂ نورانیت سے باہر ممکن نہیں (۲۴: ۳۵) یہ گھر جو رحمتوں اور برکتوں سے مملو اور نورِ معرفت سے منور ہے وہ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کا نور ہے (۲۴: ۳۶) اور یہی نور سے معمور گھر مومنین و مومنات کا بھی ہے، جبکہ وہ مکمل پیروی کرتے ہیں (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۸)۔

۷۔ قانونِ فطرت (پیدائش) یہ ہے کہ ہر چیز ابتداءً ایک محدود سانچے میں بنتی ہے، اس کے بغیر کسی چیز کا وجود میں آنا غیر ممکن ہے، درختوں کا پھل چھلکے کے بغیر اور مغز  گٹھلی کے سِوا نہیں بن سکتا، اور جس طرح انسان کی ہستی و شکل اپنی ماں کی بچہ دانی سے باہر نہیں بن سکتی ہے، اور دوسری طرف سے آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض اشیاء موجود تو ہیں، مگر اُن کی کوئی مخصوص شکل و صورت نہیں، کیونکہ وہ سانچے کے بغیر بکھری ہوئی ہیں، جیسے عناصرِ اربعہ، یعنی مٹی، پانی، ہوا، اور آگ، چنانچہ بحکمِ خدا و رسول اللہؐ اور صاحبِ امر نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک مقامی گھر بنا دیا، تاکہ اسی سانچے میں ڈھل کر ہر مرید بحقیقت مومن کہلائے، اور اس کی ایک خاص ایمانی اور روحانی صورت بن جائے۔

۸۔ جہاں رحمتِ کُل کے قانون کی رُو سے یہ ممکن ہے کہ عرشِ عظیم کا ایک نمونہ بصورتِ خانۂ کعبہ زمین پر اُتارا جائے، پھر زمانۂ طوفان میں آسمانِ چہارم پر اُٹھایا

 

۲۷

 

جائے، پھر زمانۂ ابراہیمؑ میں زمین پر اِس کی تعمیرِنو ہوسکتی ہو، اور پھر عہدِ نبوّت میں جہاں مقامی طور پر بھی خدا کا ایک گھر بنایا جا سکتا ہو، تو وہاں یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت خانہ خدائے مہربان کے خانۂ ظاہر یعنی کعبۂ شریف اور خانۂ باطن (امامؑ) کی حقیقی نمائندگی کرے، اور یہ بات حق وحقیقت ہے، اور اس میں ذرّہ بھر شک نہیں۔

۹۔ جماعت خانے تین ہیں پہلا عالمی جماعت خانہ، جو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کا مبارک وجود ہے، دوسرا مقامی جماعت خانہ، جو شہر یا قصبہ یا گاؤں یا محلے کا جماعت خانہ، اور تیسرا انفرادی جماعت خانہ جو بندۂ مومن کا دل ہے، مگر اِن تینوں کی مربوط حکمت مقامی جماعت خانے میں ہے، کہ وہیں پر رفتہ رفتہ روحانی ترقی ہوتی ہے، اور قلبی جماعت خانے کا دروازہ کھل جاتا ہے، پھر وہ نورِایمان سے منور ہو جاتا ہے، اور اسی میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا پاک دیدار ہوتا ہے، جو نورانیت کا حقیقی جماعت خانہ ہے۔

۱۰۔ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

و اوحینا الی موسی و اخیہ ان تبوا لقومکما بمصر بیوتا و اجعلوا بیوتکم قبلۃ و اقیموا الصلوٰۃ و بشر المومنین (۱۰: ۸۷) اور ہم نے موسیٰؑ اور ان کے بھائی (ہارونؑ) کے پاس وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے گھر بناؤ اور اپنے اپنے گھروں ہی کو مسجدیں قرار دے کر پابندی سے نماز پڑھو اور مومنین کو خوشخبری دے دو۔ ہر ایسے شہر کو مصر کہتے ہیں جس کے گرداگرد صرف فصیل (شہرِپناہ) ہو، اس سے شہرِ روحانیت مراد ہے، کیونکہ اس کے گردا گرد نہ صرف فصیل ہے، بلکہ اس کا ایک دروازہ بھی ہے، چنانچہ اس آیۂ حکمت آگین میں انفرادی جماعت خانوں کی روحانی ترقی کا ذکر فرمایا گیا ہے،

 

۲۸

 

یعنی اللہ پاک نے پیغمبر اور امام علیھما السّلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کے حدودِ دین کے لئے شہرِ روحانیت میں گھر بنائیں، اور ان گھروں کو خانۂ خدا کا درجہ دے کر دعوتِ حق کا کام کریں، اور ایسے عروج و ارتقاء سے مومنین کو عملاً خوش خبری دے دیں۔

۱۱۔ سورۂ توبہ (۹: ۱۸) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: خدا کی مسجدوں کو بس صرف وہی شخص (جا کر) آباد کرسکتا ہے جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور نماز پڑھا کرے اور زکوٰۃ دیتا رہے اور خدا کے سوا (اور) کسی سے نہ ڈرے تو عنقریب یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں سے ہوجائیں گے (۹: ۱۸) اگر کہا جائے کہ یہاں مساجد اللہ سے دُنیا بھرکے جماعت خانے یا مسجدیں مراد ہیں، تو پھر ایک ہی شخص اُن سب کی آبادی میں کس طرح حصّہ لے سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ بات ناممکن ہے، چنانچہ یہ ارشاد تاویلی حکمت کا متقاضی ہے، اور وہ حکمت یہ ہے کہ خدا کی مسجدیں یعنی جماعت خانے تین درجوں میں ہیں، جیسا کہ ۹ میں بتایا گیا ہے، عالمی جماعت خانہ (یعنی امامِ وقتؑ)، مقامی جماعت خانہ، اور قلبی جماعت خانہ، اور ان تینوں کو ایک ساتھ صرف وہی شخص اپنی حاضری سے آباد کرسکتا ہے، جو خدا اور یومِ آخر (امامؑ) پر ایمان لائے اور نماز قائم کرے، یعنی کارِ دعوت کو انجام دے، اور ظاہری و باطنی زکات دیتا رہے۔

جب  بندۂ مومن عقیدت و محبت سے متعلقہ جماعت خانے میں جا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے، تو اس پُرحکمت عمل سے نہ صرف جمات خانہ آباد ہوجاتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی اور عالمی جماعت خانہ بھی معمور ہوجاتا ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کے یہ تینوں گھر مربوط اور یکجا ہیں، جبکہ مومن

 

۲۹

 

جماعت خانے سے وابستہ ہے، اور جبکہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ جماعت خانے کی رُوح ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو مومن جماعت خانے پر یقینِ کامل رکھتا ہے اس کی رُوح کے ذرّات میں سے ایک خاص ذرّہ ہمیشہ امامِ برحقؑ کی مبارک و مقدّس شخصیت کی خدمت میں رہتا ہے، آپ حقیقتِ رُوح کے بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں، اور ذرّاتِ رُوح سے متعلق مضامین کا مطالعہ بھی کرسکتے ہیں، تاکہ رُوح کے بسیط و ہمہ جا ہونے کا حال معلوم ہو سکے۔

۱۲۔ فرمایا گیا ہے کہ: ’’مومن کا قلب (دل) اللہ تعالیٰ کا عرش ہے‘‘۔ لیکن یہاں پوچھنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ اس قول کی اصل حقیقت کیا ہے؟ کیونکہ لفظِ ’’مؤمن‘‘ کا اطلاق تو بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے، مگر عرش کا تصور بہت بلند ہے، لہٰذا آپ اِس حکمت کو بخوبی دل نشین کر لیں، کہ مومن کا قلب امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں،ا ور اسی مقدّس ہستی میں خدا کا نور جلوہ گر ہے، جیسے قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: و اعلموا ان اللہ یحول بین المرء و قلبہ (۸: ۲۴) اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان۔ یعنی حقیقی علم کی روشنی میں تم اِس قانونِ امتحان کو جان لو کہ آدمی اور اس کے دل (یعنی امامِ زمانؑ) کے درمیان خدا کیوں حائل ہو جاتا ہے؟ یقیناً اس میں حکیمانہ اشارہ اور کامیابی کا راز بس یہی ہے کہ ہر شخص اپنے حقیقی دل کے ساتھ اللہ سے رجوع کرے، وہ لوٹ کر اُس طرف سے آگے بڑھے، جس طرف اس کا دل ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ درحقیقت قلبی جماعت خانہ بھی امامِ زمان ہیں۔ و ما توفیقی الا باللہ۔

۲۰ دسمبر ۱۹۸۴ء

 

۳۰

 

جماعت خانہ سے متعلق سوالات

 

سوال نمبر ا: بزرگوار علامہ صاحب! کیا آپ براہِ کرم شمالی علاقہ جات میں جماعت خانوں کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں گے کہ ان کا قیام کب عمل میں آیا؟ آیا اس بارے میں امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ کا براہِ راست فرمان تھا یا کسی بزرگ کے توسط سے یہ حکم ملا؟

جواب: آج سے تقریباً ۷۲ سال پہلے ہمارے ملک کے شمالی علاقوں میں جماعت خانے تعمیر ہونے لگے، اور اس مقدّس کام کا حکم حضرتِ آغا عبد الصمد شاہ بزرگ کے ذریعہ موصول ہوا، اور مولائے پاک کے اس پُرحکمت فرمان پر جماعتوں نے جان و دل سے عمل کیا۔

سوال نمبر ۲: شمالی علاقہ جات میں اِس وقت کُل کتنے جماعت خانے ہیں؟

جواب: یہ بات ؁۱۹۷۳ء کی ہے، جبکہ میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برانچ گلگت کا انچارج آفیسر تھا، اس وقت میں نے تمام جماعت خانوں کا شمار اور مجموعہ کیا تھا، جس کے مطابق وہاں کے کُل جماعت خانے تقریباً ۳۰۰ (تین سو) تھے، ان میں اسماعیلی فوجیوں کے عارضی جماعت خانے بھی شامل ہیں۔

سوال نمبر ۳: کیا آپ نے روحانی روشنی دیکھی ہے؟ اگر دیکھی ہے تو کب اور

 

۳۱

 

کہاں؟ جماعت خانے میں یا اس سے باہر؟

جواب: الحمد للہ! اس بندۂ کمترین کو یہ سعادت نصیب ہوئی، یہ ؁۱۹۴۸ء کا موسمِ خزان تھا، اور کھارادر کے پُرانے جماعت خانے میں اس نورانی معجزے کا آغاز ہوا، اور منزل بہ منزل اس کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ ذاتی قیامت کا تجربہ ہوا۔

سوال نمبر ۴: کیا آپ قرآنِ شریف سے ثبوت پیش کر سکتے ہیں کہ جماعت خانے کی بہت بڑی فضیلت و مرتبت ہے؟

جواب: جی ہاں، ان شاء اللہ، جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ میں جماعت خانہ کے کمالات کا عاشق ہوں اور اسی کے بارِ احسانات کے نیچے دب گیا ہوں، لہٰذا میں نے فضائلِ جماعت خانہ کے باب میں براہِ راست اور بالواسطہ بہت کچھ لکھا ہے، مختصر یہ کہ خدا کا پہلا گھر خانۂ کعبہ ہے، دوسرا گھر امامِ زمانؑ ہے، جو بیت اللہ شریف کی تاویل ہے، تیسرا گھر جماعت خانہ ہے، جس میں امامِ وقتؑ کا باطنی دیدار اور نورانی معجزات ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا چوتھا گھر بندۂ مومن کا دل ہے، پس قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں بیت اللہ یا حرمت والی مسجد (مسجد الحرام) کی تعریف کی گئی ہے، وہ تاویلاً امامِ زمان علیہ السّلام کی توصیف ہے، جس کی معرفت جماعت خانہ ہی میں ہوسکتی ہے، کیونکہ امامِ عالی مقامؑ کی باطنی ملاقات جماعت خانہ میں ہے۔

سوال نمبر ۵: کیا آپ نے کسی جماعت خانے کی تعمیر میں عملاً حصّہ لیا ہے؟ اگر لیا ہے تو کس علاقے یا کس ملک میں؟

جواب: اس سلسلے میں مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بڑا عجیب لگتا ہے کہ

 

۳۲

 

میں تین چار سال کا بچہ تھا، جبکہ ہمارے گاؤں حیدر آباد (ہونزہ) میں مرکزی جماعت خانہ کی تعمیر ہورہی تھی، میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ شاید کھیل رہا تھا کہ کسی شخص نے کہا: بچو چلو گود میں بھر بھر کر ریت لاؤ، میں چلا اور چند ننھے منے بچوں کے ساتھ مٹی بھر ریت لانے لگا، اُس وقت میرے ہاتھ میں ایک سُرخ مونگا (RED CORAL) تھا، جس سے میں محبت کرتا تھا، لیکن مجھے خیال آیا کہ اسے جماعت خانے کیلئے قربان کر دینا چاہئے، سو میں نے اس مرجان کو ایک دہری دیوار میں ڈال دیا، اُس عمر کے اعتبار سے یہ کام میرے حق میں ایک کرامت سے کم نہ تھا، آگے چل کر سچ مچ جماعت خانے سے عشق ہوگیا، جس قدر بھی ممکن ہوا جماعت خانوں کی تعمیر میں حصّہ لیا، خصوصاً یارقند (چین) کے جماعت خانے اس حال میں تعمیر کروائے جبکہ جماعت کے بعض بڑے لوگ اس امر کی شدید مخالفت کر رہے تھے، وہ اور کچھ غیر اسماعیلی مخالفین بار بار یہ کوشش کرتے رہے کہ مجھے جاسوس قرار دیں، ہاں وہ مجھے بار بار قید اور نظربند کروانے میں کامیاب تو ہوگئے، مگر ثبوتِ جرم اور مقصدِ قتل میں کامیاب نہیں ہوئے، کیونکہ میرا معاملہ صاف اور پاک تھا اور میں صرف جماعت خانوں کو چاہتا تھا۔

سوال نمبر ۶: جماعت خانے کے بارے میں حدیثِ شریف کا کیا ارشاد ہے؟

جواب: یہاں ایک حدیث شریف کی بات نہیں، بلکہ احادیث کے کلّیات کا کلّ یہ ہے جو ارشاد ہوا:

من کنت مولاہ فعلی مولاہ ۔۔۔ و ادر الحق معہ حیث دار  (میں جس کا سرپرست ہوں تو علی اس کا سرپرست ہے۔۔۔ اے اللہ!

 

۳۳

 

تو حق کو اس کے ساتھ گھما دے جہاں وہ گھومے)۔

یعنی زمانے کا علیؑ بفرمودۂ رسولؐ مومنین کا سرپرست اور مختار ہے، اور خدا نے حق کو اس کے ساتھ کر دیا ہے، پس جماعت خانہ بحکمِ امامِ مبینؑ حق پر مبنی ہے، لہٰذا اس کے بے شمار فضائل ہیں، کیونکہ یہ بیت اللہ شریف کی تاویل ہے۔

سوال نمبر ۷: کیا آپ نے جماعت خانے میں کوئی بڑا معجزہ دیکھا ہے؟ اگر دیکھا ہے تو کہاں اور کس جماعت خانے میں؟

جواب: میں نے قریۂ قرانگغو توغراق (QARANGU TUGRAQ) کے مبارک جماعت خانے میں انتہائی عظیم روحانی معجزے دیکھے، یہ بابرکت گاؤں یارقند (چین) میں ہے، میں نے آج تک جو کچھ لکھا ہے اور جو کچھ کہا ہے، اس کی ساری علمی اور عرفانی برکتیں انہیں معجزات میں سے ہیں، جو اس بندۂ ناچیز پر چین کے جماعت خانے میں ظاہر ہوتے رہے۔

سوال نمبر ۸: جماعت خانے کی عظمت و بزرگی پر عقلی دلیل کیا ہوسکتی ہے؟

جواب: ہر چیز کا ایک دل یا مرکز یا سنٹر ہوا کرتا ہے، اسی طرح عقیدہ اور مذہب کے عروج و ارتقاء کے لئے بھی کوئی خاص مقام ہونا چاہئے، تاکہ انسانیت اور آدمیّت کی تمام تر صلاحیتوں کو فروغ حاصل ہو، اور اجتماعی صورت میں خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیا جائے، ورنہ اختلافات کا امکان ہے۔

سوال نمبر ۹: آپ کس عمر سے جماعت خانہ جانے لگے تھے؟

جواب: خدا کے فضل و کرم سے میں بچپن سے جماعت خانہ جاتا تھا، کیونکہ میرے لئے اس میں ایک قدرتی دل کشی پیدا ہوگئی تھی، ہمارے

 

۳۴

 

گاؤں کے بزرگ جب خدا کی عبادت اور حمد کی تسبیح کرتے تھے، اور جس وقت نعت و منقبت خوانی ہوا کرتی تھی، اس سے مجھے بیحد خوشی حاصل ہو جاتی تھی۔

سوال نمبر ۱۰: آپ شروع شروع میں جماعت خانہ کن کے ساتھ جاتے تھے؟

جواب: میں بچپن میں اپنے والدِ محترم کے ساتھ جماعت خانہ جایا کرتا تھا، آپ دین کے دلدادہ، عاشق اور اپنے پیر کے خلیفہ تھے، مجھے یقیناً انہی سے دینی روح ملی۔

سوال نمبر ۱۱: کیا آپ کے علاقے میں جماعت خانوں سے پہلے بھی ذکرِ جلی اور شب بیداری کی رسم جاری تھی؟

جواب: جی ہاں، ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ دینِ اسلام جو دینِ فطرت ہے، وہ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا مجموعہ ہے، تاکہ ہر شخص رفتہ رفتہ معرفت میں داخل ہوسکے، اور اس سلسلے میں ذکرِجلی طریقت کا ایک اہم عنصر ہے، لہٰذا حکیم پیر ناصر خسرو کے حلقۂ دعوت میں شب بیداری اور ذکرِجلی کی رسم چلی آئی ہے۔

سوال نمبر ۱۲: آپ نے کس علاقے یا کس جماعت خانے میں زیادہ سے زیادہ شب بیداری کی ہے؟

جواب: اگرچہ روحانی مجلس اور شب بیداری کی مذہبی رسم شمالی علاقہ جات میں بہت پہلے سے جاری ہے، جس میں اکثر و بیشتر میری شرکت ہوتی رہی، تاہم یارقند کے انتہائی شدید امتحانات نے مجھے جماعت خانہ سے وابستہ کرکے شب بیداری کی دولت سے مالا مال کر دیا، تب ہی مجھے پتہ چلا کہ کس طرح ظلمات میں آبِ حیات پوشیدہ ہے۔

 

۳۵

 

سوال نمبر ۱۳: استادِ گرامی! آپ نے تقریباً کتنے جماعت خانوں کو دیکھا ہے، اور ان میں عبادت کی ہے؟

جواب: ہر چند کہ میرے پاس کوئی خاص تعداد ریکارڈ نہیں، لیکن مشرق و مغرب کے ایک دائمی مسافر کی حیثیت سے مجھے بہت سے جماعت خانوں کی زیارت نصیب ہوئی ہے، اور اگر ہر ایسے مقام پر معبودِ برحق کی کچھ عبادت کی گئی ہو تو اس نعمت پر شکر کرنا چاہئے، نہ کہ فخر۔

سوال نمبر ۱۴: آپ کے تجربے کے مطابق کیا سارے جماعت خانے فضیلت و معجزے میں یکسان ہوتے ہیں، یا ان کے درجات ہوا کرتے ہیں؟ اگر درجات ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب: قرآن میں خانۂ خدا کو پاکیزہ رکھنے کا حکم ہے، تاکہ اس میں معجزاتی روحیں آجائیں (۲: ۱۲۵) اس کا آخری اشارہ یہ ہے کہ اہلِ جماعت خانہ ذکر وعبادت اور علم و معرفت کے ذریعہ اپنے باطن کو پاک کریں، تاکہ جماعت خانہ میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا دیدار ہو، پس اس وجہ سے جماعت خانوں کے مختلف درجات ہوسکتے ہیں۔

سوال نمبر ۱۵: آپ کی تحریروں سے جماعت خانوں میں معجزات کا اشارہ ملتا ہے، سو آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ بڑے بڑے معجزات آپ نے کس جماعت خانے میں دیکھے ہیں؟

جواب: یہ صرف ذاتی تجربے کی بات ہے کہ میں نے قرانغو توغراق (یارقند) جماعت خانے میں انتہائی عظیم معجزات کا مشاہدہ کیا ہے، اور وہاں کے مختلف قید خانوں میں بھی، اگر ان کی تفصیلات درج کی جائیں تو بہت بڑی ضخیم کتاب ہوسکتی ہے۔

 

۳۶

 

سوال نمبر ۱۶: آپ کو اسمِ اعظم پر عبادت کرنے کی اجازت کہاں اور کب دی گئی تھی؟

جواب: یہ ۱۹۴۶ء کا زمانہ تھا، جبکہ امامِ عالی مقام حضرت مولانا سلطان محمد شاہ ڈائمنڈ جوبلی کے لئے بمبئی تشریف لائے تھے، اس موقع پر بمقامِ حسن آباد مولائے پاک نے اسمِ اعظم کے سرِ اسرار سے نوازا، اور اس گروپ کو تقریباً آدھا گھنٹے تک انمول ہدایات دیں، اس پاک دیدار میں میرے لئے بہت بڑی قیامت پوشیدہ تھی۔

سوال نمبر ۱۷: کیا آپ یہ بتائیں گے کہ جماعت خانے میں شیطان آسکتا ہے یا نہیں؟ اگر آسکتا ہے تو وہ کون سا شیطان ہے، انسی ہے یا جنّی؟ نیز یہ بتائیے کہ خدا کے گھر میں شیطان کس طرح داخل ہوسکتا ہے؟

جواب: شیطان جماعت خانے میں بڑے آرام سے آسکتا ہے، جبکہ درست حفاظت نہ ہو، چاہے انسی شیطان ہو یا جنّی، ایک ہی چیز ہے، خدا کا گھر روحانیت کی صراطِ مستقیم ہے، اور شیطان ہمیشہ یہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ لوگوں کو یہاں سے گمراہ کردے، قرآن (۷: ۱۴ تا ۱۷) میں دیکھ لیں کہ کس طرح شیطان کو قیامت تک مہلت اور آزادی دی گئی ہے۔

سوال نمبر ۱۸: جماعت خانے سے زیادہ سے زیادہ روحانی فائدہ اٹھانے کے لئے کیا کرنا چاہئے، اور کیسی شرائط کی تکمیل ہونی چاہئے؟

جواب: اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے ان تمام ارشادات کا بغور مطالعہ کیا جائے جو جماعت خانہ سے متعلق ہیں، تاکہ جماعت خانہ سے عشق پیدا ہو جائے، جب یہ پاک عشق ہو تو پھر ہر

 

۳۷

 

مشکل آسان ہوجائے گی، کیونکہ پاک عشق نور ہے، اور نور میں ہر گونہ ہدایت موجود ہوتی ہے، ایسے میں ان شاء اللہ خدا کے گھر کے معجزات ظاہر ہوں گے۔

سوال نمبر ۱۹: کیا آپ جماعت خانہ کی حرمت کے بارے میں کچھ نصیحت کرسکتے ہیں؟

جواب: جی ہاں، ان شاء اللہ، جماعت خانہ، خانۂ کعبہ کی تاویل ہے، اور خدا کی نشانیوں میں سے ہے، (۲۲: ۳۲) اس کی حرمت و تعظیم سے دل کا تقویٰ بنتا ہے، اور جس کے دل میں تقویٰ ہو وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر ۲۰: جماعت خانہ اور کعبہ میں کیا رشتہ ہے؟

جواب: وہ مثال ہے یہ ممثول، وہ تنزیل ہے یہ تاویل، اور وہ ظاہر ہے یہ باطن، اسی طرح ان دونوں کے درمیان آسمانی رشتہ ہے۔

سوال نمبر ۲۱: اسماعیلی مذہب میں کتنی قسم کے جماعت خانے ہیں؟ اور وہ کون کون سے ہیں؟

جواب: تین قسم کے جماعت خانے (خدا کا گھر) ہیں: انفرادی جماعتخانہ یعنی قلبِ مومن، مقامی جماعت خانہ اور عالمی جماعت خانہ (امامِ زمانؑ) اور ان کے آپس میں وحدت ہے۔

۲۲ اگست ۱۹۹۲ء

 

۳۸

 

دعائے جماعت خانہ کے فیوض و برکات

 

مومن کو سدا رحمتِ رحمان دعا ہے

طاعت میں یہی مقصدِ قرآن دعا ہے

من احسن قولاً سے دعا ہی کو سراہا

اللہ نے، پس مایۂ ایمان دعا ہے

یہ میوۂ  توفیق ہے یہ مغزِ عبادت

بس حاصل ایمانِ مسلمان دعا ہے

مولا کی اطاعت میں جھکا دو سرِ تسلیم

سمجھو کہ تمہیں ثمرۂ  فرمان دعا ہے

تم راہِ حقیقت میں دعا ہی سے مدد لو

اس راہ میں جب شمعِ فروزان دعا ہے

گرجان میں ہے کوئی مرض یا کہ بدن میں

ہر درد و مرض کے لئے درمان دعا ہے

جب جلوۂ  انوارِ الہٰی کی طلب ہو

دیکھو کہ تمہیں دیدۂ  عرفان دعا ہے

 

۳۹

 

ہے عالمِ دل نورِ حقیقت سے منور

خورشیدِ ضیا بخشِ دل و جان دعا ہے

دنیا میں اگر رنج و الم ہے تو نہیں غم

صد شکر کہ یاں روضۂ رضوان دعا ہے

معلوم ہوئی توبۂ آدمؑ کہ دعا تھی

پھر نوحؑ کا وہ باعثِ طوفان دعا ہے

ہو جائے اگر آتشِ نمرود ہویدا

ہو کوئی خلیلؑ اب بھی گلستان دعا ہے

یونسؑ کو دعا ہی نے دلائی ہے خلاصی

ہر دور میں بس رحمتِ یزدان دعا ہے

ہاں خضرؑ ہوا زندۂ جاوید اسی سے

دنیا میں یہی چشمۂ حیوان دعا ہے

موسیٰ ؑ کو عصا اور یدِ بیضا کے نشانے

حاصل جو ہوئے وجہِ نمایان دعا ہے

عیسیٰؑ میں جو تھا معجزۂ روحِ مقدّس

اس معجزہ کی حکمتِ پنہان دعا ہے

احمد جو ہوئے گوشہ نشین غارِ حرا میں

مقصودِ نبیؐ شمعِ شبستان دعا ہے

مولائے کریم دہر میں ہے نورِ الہٰی

اس نور سے کچھ فیض کا امکان دعا ہے

 

۴۰

 

گر نورِ امامت بمثلِ راہِ خدا ہے

اس راہ میں بھی مشعلِ ایقان دعا ہے

عاشق نے جو کچھ دیکھ لیا دیدۂ  دل سے

صد گونہ یہاں جلوۂ  جانان دعا ہے

تو شام و سحر آکے یہاں ذکر و دعا کر

اخلاق و عقیدت کی نگہبان دعا ہے

جس راہ سے منزلِ وحدت کا سفر ہے

منزل کی طرف وہ رہِ آسان دعا ہے

اس نظمِ نصیری میں ہے اک گنجِ حقائق

گنجینۂ پُر گوہرِ رحمان دعا ہے

 

شوال ۱۳۹۵ھ۔ اکتوبر ۱۹۷۵

 

۴۱

 

جماعت خانہ

 

درونِ نقطۂ توحیدِ بای بسم اللہ

حقیقتیست نہان نکتۂ ولیٔ الٰہ

علیست رہبرِ راہِ خدا و پیغمبر

بگیر دامنِ او تا رسی بمنزلِ جاہ

امامِ جنّ و بشر صاحبِ لوایِ حشر

امیرِ ہر دو سرا بادشاہِ این درگاہ

سخیٔ جملہ خلائق کریمِ دشمن و دوست

علیٔ عالی و آمرزگارِ جرم و گناہ

بحکمِ حضرتِ مولایِ حاضر و ناظر

خوشا شریف مقامی کہ شد عبادت گاہ

مبصرانِ حقیقت شناسِ کونِ صفا

کنند کحلِ بصر خاکِ راہِ این درگاہ

ز ہویِ لشکرِ غمہا چرا تو می ترسی

بیا بخانۂ مشکل کشا تراست پناہ

بیا مریدِ شہنشاہِ دین امامِ زمان

ز بارگاہِ امامت ہر آنچہ خواہی خواہ

 

۴۲

 

بشو باشکِ ندامت اگر تو دانا ای

ترا کہ جامۂ جانِ عزیز گشتہ سیاہ

دلِ من و رہِ عشق تو بعد ازین جانا

اگر برون رود از راہِ تو بیار براہ

مرا بحضرتِ حق ہیچ طاعتی نبود

بجز وظیفۂ عشق و دعایِ نالہ و آہ

نقاب را بکشا ای فروغِ دیدۂ جان

کہ تا بچہرۂ زیبایِ تو کنیم نگاہ

زرنجِ ظلمتِ غم گر نجات می خواہی

بیا بخانۂ نورِ زمانہ شام و پگاہ

برین در است صلایِ نصیرِ بی سامان

دہند آنچہ بخواہد ز لطفِ حضرت شاہ

 

۴۳

 

ترجمہ

 

۱۔ بائِ بسم اللہ کے (خزانۂ) باطن میں ’’(علی) ولی اللہ‘‘ کا نکتہ ایک پوشیدہ حقیقت ہے۔

۲۔ (کیونکہ) علیؑ یقیناً خدا اور رسولؐ کی راہ (یعنی صراطِ مستقیم) کا راہنما ہے، تُو اس کے دامنِ اقدس کو تھام کر رہنا، تاکہ تجھے آخرکار منزلِ مقصود نصیب ہو۔

۳۔ وہ جنّ و انس کا امامِ عالی مقام اور لوائے قیامت (لواءِ الحمد) کا مالک ہے، دونوں جہان میں صاحبِ امر اور اس بارگاہِ عالی کا بادشاہ ہے۔

۴۔ تمام لوگوں کے لئے سخی اور دشمن و دوست کا کریم و فیاض ہے۔ عالی مرتبت علیؑ ہی کی وجہ سے جرم و گناہ کی بخشش مل جاتی ہے۔

۵۔ (چونکہ اللہ و رسولؐ نے امامؑ ہی کو ولیٔ امر بنایا ہے، اس لئے) حضرتِ مولائے حاضر و ناظر کے فرمانِ پاک کے مطابق جو مقام عبادت گاہ (جماعت خانہ) کی مرتبت رکھتا ہو، اس کی کتنی بڑی سعادت ہے۔

۶۔ جن لوگوں کو عالمِ صفا (عالمِ لطیف) سے خصوصی نسبت ہے، اور اہلِ بصیرت ہونے کی وجہ سے حقیقت شناس ہیں، وہ عقیدت و احترام سے اِس درگاہ کی خاکِ راہ کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا لیتے ہیں۔

۷۔ تو دکھوں اور غموں کے لشکر کے شور و غوغا سے کیوں ڈرتا ہے، آجا مشکل کشا کے گھر میں تیرے لئے مستقل امن و پناہ ہے۔

 

۴۴

 

۸۔ اے شاہنشاہِ دینِ امامِ زمان کے مرید آجا، حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کی بارگاہِ عالی سے جو کچھ چاہئے، طلب کر لے۔

۹۔ اگر تُو دانا ہے تو ندامت و پشیمانی کے آنسوؤں سے اپنی پیاری روح کے لباس کو دھو لے، جو (نافرمانی کے میل سے) کالا ہو گیا ہے۔

۱۰۔ اے جانِ جان! اب اس کے بعد میرا دل تیرے پاک عشق کے راستے پر چلتا رہے گا، اگر یہ کبھی بھٹک جائے تو تُو خود اسے (لطفاً) راستے پر لے آنا۔

۱۱۔ یہ سچ ہے کہ خداوند تعالیٰ کے حضور میں میری کوئی بندگی نہیں، ما سوائے مناجاتِ عشق اور گریہ وزاری بھری ہوئی دعا کے۔

۱۲۔ اے میری روحانی آنکھ کی روشنی! (اپنی نورانیت کا) نقاب کھول دے، تاکہ ہم تیرے حسین و جمیل چہرے کو دیکھ سکیں۔

۱۳۔ (اے طالبِ حقیقت!) اگر تو ظلمتِ غم کی تکلیف و اذیت سے چھٹکارا چاہتا ہے تو صبح و شام (یقین کے ساتھ) نورِ زمانہ کے گھر میں آیا کر۔

۱۴۔ اسی مقدّس دروازے پر بے سروسامان (مفلس) نصیر ہر بار (شیئاً لِلّٰہ کی) صدا لگاتا ہے، اور اس کو ہر باطنی نعمت حضرتِ شاہِ ولایت کی مہربانی سے عطا کر دی جاتی ہے۔

نوٹ: میں نے اپنے برادرِ روحانی اور دوستِ جانی محترم عزیز محمد خان (مرحوم) کے پیارے گاؤں قرانگغو توغراق (یارقند چین) کے پاک و بامعجزہ جماعت خانے کو کیسے بھول سکتا ہوں، درحالے کہ اس میں پیش آمدہ واقعات و معجزات میرے دل و ماغ میں کالنّقش فی الحجر (پتھر کے نقش کی مانند) ہو گئے

 

۴۵

 

ہیں، اگرچہ بحدِ قوّت ہر ملک اور ہر مقام کا جماعت خانہ انتہائی معجزاتی ہوا کرتا ہے، تاہم مخفی نہ رہے کہ علم و عمل بے حد ضروری ہے، اور سب سے بڑھ کر قانونِ رحمت بڑا عجیب و غریب ہے۔

میں بارہا عرض کرچکا ہوں کہ فی زماننادورِقیامت جاری ہونے کے ساتھ ساتھ دورِ تاویل بھی ہے، کیونکہ تاویل قیامت کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام ہے، جی ہاں! اجتماعی قیامت کے اتنے سارے نام اس لئے ہیں کہ اس کے ظاہری و باطنی کئی پہلو اور بہت سے کام ہیں، یہاں شاید آپ میں سے کوئی عزیز یہ سوال کرے کہ لفظِ تاویل کے معنی میں واقعۂ قیامت کی کون کون سی باتیں پوشیدہ ہیں؟

جواب: تاویل لفظِ اوّل سے مشتق ہے، لہٰذا اس کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کو اوّل کی طرف لوٹا دینا، یعنی مثال میں سے ممثول (روحانی حقیقت) کو معلوم کر لینا، تاہم قرآن میں جس تاویل کے آنے کا ذکر ہے (۷: ۵۳) وہ خزائنِ الہٰی سے نازل ہو کر دنیا میں آنے والی تاویل ہے، جو آفاق و انفس کی آیات کی صورت میں ہے، جس کا ایک نمایان حصّہ سائنسی انقلاب ہے۔

 

۸ دسمبر ۱۹۹۳ء؁

 

۴۶

 

جائے ثواب

جائے ثواب و امنِ خدائی بگو کجاست؟

آن کعبۂ مبارک و آن خانۂ خداست

دانی مثالِ کعبۂ اعظم کہ چیست آن؟

این خانۂ شریف کہ درپیشِ روئے ماست

آن چیست خانۂ ز خدا آنچہ زندہ است؟

مولائے حاضر است کہ او نورِ کبریا ست

ایزد ولیٔ امر کرا خواند در کلام؟

آن را کہ او امامِ زمان است و رہنما ست

بنمائے از حدیث کہ بابِ نبی کہ بود؟

واللہ بابِ نبی ذاتِ مرتضا ست

مولائے مومنان کہ بود بعد مصطفا؟

آن نائب رسول کہ سرتاجِ ہل اتیٰ ست

آن کشتیٔ نجات کدام است در جہان؟

شخصِ امامت است کہ از آلِ مصطفا ست

نورِ خدا کجاست کہ تابانِ ہمی رود؟

در ہستیٔ امامِ بحق شاہِ اولیا ست

 

۴۷

 

آیا ہموست حبلِ خدا یا کسی دگر؟

انسانِ کامل است کہ در دہر پیشواست

آئینۂ خدائے نما کیست بر زمین؟

سلطانِ لا فتا و شہنشاہِ انما ست

شاہِ زمانہ کیست و سردارِ دین کجاست؟

مولا کریمِ عصر کہ سرچشمۂ ہداست

نوری کہ با کتابِ سماویست آن کجا ست؟

در جبہۂ مبارکِ مولا و مقتدا ست

آن مظہرِ خدا و امامِ زمانہ کیست؟

آقائے ما کہ از ہمہ رو پاک با صفاست

خود خازن و خزانہ و مفتاح و در کہ است؟

آن نورِ حق امامِ مبین میرِ دو سرا ست

 

سنگِ بنیادِ جماعت خانۂ سونی کوٹ نہادہ شد۔

چہار شنبہ، ۱۷ جمادی الآخر ۱۴۰۴ھ، ۲۱ مارچ ۱۹۸۴

سالِ موش۔

 

۴۸

 

ترجمہ

 

س۱: (۲: ۱۲۵) بتاؤ کہ لوگوں کے لئے جائے ثواب اور مقامِ امن کہاں ہے؟

ج: ایسا مقام وہ بابرکت خانۂ کعبہ اور وہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہی ہے، جو مکہ میں ہے۔

س۲: آیا تم کعبۂ اعظم کی مثال جانتے ہو کہ وہ کیا ہے؟ ج: جی ہاں، یہ فضل و شرف والا گھر یعنی جماعت خانہ اِس کا نمونہ ہے، جو ہمارے سامنے ہے۔

س۳: خداوند عالم کا وہ گھر کون سا ہے، جو زندہ و گویندہ ہے؟

ج: خدائے تعالیٰ کا ایسا گھر مولائے حاضر یعنی امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی پاک و پاکیزہ ہستی ہے، کیونکہ نورِ الہٰی وہی تو ہے۔

س۴: اللہ پاک نے قرآنِ حکیم (۴: ۵۹) میں کس کو ’’صاحبِ امر‘‘ قرار دیا ہے؟

ج: اُس نے انسانِ کامل کو جو زمانے کا برحق امامؑ اور ہادی ہوا کرتا ہے۔

س۵: تم حدیثِ شریف کی روشنی میں یہ دکھاؤ کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم و حکمت کا دروازہ کون تھا؟ ج: خدا کی قسم آنحضرتؐ کے علم و حکمت کا دروازہ مولا مرتضیٰ علیؑ کا نور ہے۔

س۶: حضرت محمد مصطفیٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مومنین کا مولا و آقا کون ہے؟ ج: وہ بحکمِ حدیث: من کنت مولا ہُ۔۔۔ آنحضورؐ کے جانشین ہیں، یعنی حضرت علی علیہ السّلام، جو  مملکتِ

 

۴۹

 

ہل اتیٰ (۷۶: ۱ تا ۳۱) کے بادشاہ ہیں۔

س۷: اس دنیا میں وہ نجات والی کشتی کون سی ہے، جس کا ذکر حدیث میں فرمایا گیا ہے؟ ج: یہ شخصِ کامل صاحبِ مرتبۂ امامت ہے، جو آلِ حضرت محمد مصطفیٰؐ ہے۔

س۸: خدا تعالیٰ کا نور جس کا ذکر قرآن کے بہت سے مقامات پر موجود ہے، وہ کہاں ہے، جو ازل سے درخشان و تابان روان دوان ہے؟

ج: وہ نور امامِ برحق کی پاک ہستی میں ہے جو اولیاء کا بادشاہ ہے۔

س۹: کیا اللہ کی رسی (۳: ۱۰۳) بھی وہی یعنی امامِ عالی مقامؑ ہے یا کوئی دوسرا شخص؟ ج: وہی انسانِ کامل خدا کی رسی بھی ہے جو زمانے میں پیشوا ہے۔

س۱۰: کہتے ہیں کہ خلیفۂ خدا روئے زمین پر آئینۂ خدا کا کام انجام دیتا ہے، تو وہ کون ہے؟ ج: وہ سلطنتِ لافتیٰ کا سلطان اور ولایتِ انما (۵: ۵۵) کا شاہنشاہ ہے۔

س۱۱: زمانے کا بادشاہ کون ہے اور دین کا سردار کون؟ ج: وہ مولانا شاہ کریم الحسینی امامِ زمان ہی ہیں، جو سرچشمۂ ہدایت ہیں۔

س۱۲: جو نور ابتدا ہی سے آسمانی کتاب کے ساتھ ساتھ آیا ہے، وہ کہاں ہے؟ ج: وہ نور مولا اور پیشوا (امامؑ) کی مبارک پیشانی میں جلوہ گر ہے۔

س۱۳: وہ خدا کا مظہر اور زمانے کا امامِ اطہر کون ہے؟ ج: وہ مظہر ہمارے آقائے نامدار ہیں، جو ہر طرح اور ہر اعتبار سے انتہائی پاک و پاکیزہ ہیں۔

س۱۴: خود ہی خزانہ دار بھی ہے، خزانہ بھی، کلید بھی، اور دروازہ بھی، یہ کون ہو

 

۵۰

 

سکتا ہے جو ان تمام اوصاف کا مالک ہے؟ ج: وہ خدائے بزرگ و برتر کا نور، امامِ مبین، اور دونوں جہان کے امیر (صاحبِ امر) ہے۔

 

نوٹ: سونی کوٹ (گلگت) کی نیک نام جماعت کی خواہش بلکہ پُرزور فرمائش تھی کہ ان کے جماعت خانۂ نو کے کتبہ کے لئے کوئی پُر مغز نظم تیار کر دی جائے، چنانچہ بتائیدِ نورِ الہٰی یہ عالیشان نظم تیاری ہوئی، اور ان حضرات کے بخت سے بڑا تعجب ہوا کہ یہ نظم اپنی اعلیٰ خوبیوں کی وجہ سے کورس میں شامل ہوئی۔

۱۵ جمادی الثانی ۱۴۰۷ھ؁

۱۴ فروری ۱۹۸۷ء؁

 

۵۱

 

حصۂ دوم

 

 

انتسابِ جدیدِ حکمتی

 

کتابِ جماعت خانہ کا ایک حصّہ قبلاً چھپ کر شائع ہوچکا تھا، لیکن اب سفرِ چین کی رپورٹ لکھتے لکھتے کچھ ضروری مقالے ایسے جمع ہوگئے کہ ان کو کتابِ جماعت خانہ میں ہی شامل کرنا بہت مناسب تھا، پس ہم نے کتابِ جماعت خانہ حصّۂ دوم کے عنوان کے اِن خاص مقالوں کو کتابی شکل دی اور اس علمی خدمت کی سعادت عاشقِ مولا فتح علی حبیب اور ان کے نیک بخت افرادِ خاندان نے حاصل کرلی، فتح علی کی فرشتہ خصلت بیگم گُل شکر ایڈوائزر ہماری خداداد بیٹی ہے، ان کی دُختر نیک اختر فاطمہ فتح علی مثلِ فرشتہ ہے، عزیز نزار فتح علی دلدادۂ علمِ حقیقی ہے، ان کی شرافت والی بیگم شازیہ نزار اور لٹل اینجل دُرِ ثمین، عزیز رحیم مرچنٹ ہنرمند ہے اور انکی بیگم نسرین فرشتۂ جسمانی۔ ان میں سے چھ کے پاس آئی ایل جی کا اعزاز بھی ہے۔ مولا ان سب کا مددگار ہو!

دانشگاہِ خانۂ حکمت کے تمام عزیزان فردِ واحد ہوچکے ہیں یہ حظیرۂ قدس کی بات ہے، کل بہشت میں یہ سب اپنی نورانی مووی کو دیکھ کر حیران ہوجائیں گے۔ کیونکہ ان کے عظیم کارنامے بڑے عجیب و غریب ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص معجزانہ طور پر سب میں ہے یعنی ہر روح کے ساتھ سب ارواح جمع ہیں جیسا کہ مولا (روحی فداہٗ) کا ارشاد ہے کہ روح ایک ہی ہے۔

 

۵۵

 

سُبحان اللہ کیسا عظیم الشّان فرمان ہے الحمدللہ!

اس پیاری کتاب کے حصّۂ اوّل میں ہمارے بیحد عزیز انٹرنیشنل لائف گورنر اور فرسٹ پریسیڈنٹ (BIG) بورڈ آف انٹرنیشنل گورنرز غلام مصطفیٰ مومن اور ان کے خاندان کا انتساب درج ہے۔

 

جمعہ یکم، نومبر ۲۰۰۲ء

 

۵۶

 

دیباچۂ کتابِ جماعت خانہ حصّۂ دوم

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) ترجمہ: ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی (ھارونؑ) کو اشارہ کیا (وحی بھیجی) کہ مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لئے مہیا کرو یعنی ظاہر میں چند عبادت خانے مراد ہیں، اور باطن میں حدودِ دین اور ان ظاہری اور باطنی گھروں کو ترقی دے کر قبلہ قرار دو یعنی خانۂ خدا قرار دو، اور نماز و عبادت کو قائم کرو، اور اسی طرح روحانی ترقی کے عمل سے مومنین کو خوشخبری دو۔

اِس ارشادِ مبارک میں اہلِ تاویل کے لئے بہت سی ظاہری اور باطنی حکمتیں ہیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔ پس جماعت خانہ اللہ، رسولؐ، اور امامِ زمانؑ کے امر سے ہے جو خدا کا گھر ہے اور خدا کا باطنی گھر عالمِ شخصی میں ہے، پھر بڑا مبارک ہے ہر وہ شخص جو جماعت خانہ کی معرفت رکھتا ہے، عقل والوں کے لئے جماعت خانے کی معرفت بیحد ضروری ہے یہ اعلیٰ معرفت روحانی قیامت اور قرآن حکیم میں ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کتابِ جماعت خانہ حصّۂ دوم میں جماعت خانے کے بہت سے معجزات کا ذکر ہوا ہے، ان شاء اللہ اس طریق سے عاشقوں کو عرفانی فائدہ حاصل ہوگا، میں اب جماعت خانہ اور امامِ مبین کے معجزات کو چُھپا نہیں سکتا

 

۵۷

 

ہوں کیونکہ گواہی کا چُھپانا اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم و ستم ہے (۲: ۱۴۰)۔ ترجمہ: اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چُھپائے؟ آیۂ شریفہ یہ ہے:

و من اظلم ممن کتم شہادۃ عندہ من اللہ۔

 

جمعہ یکم، نومبر ۲۰۰۲ء

 

۵۸

 

رباب نے کیا کہا؟

 

۱۔ حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہٗ کے حلقۂ دعوت میں منقبت خوانی دف و رباب کی موسیقی کے ساتھ ہوتی ہے، اس کا رواج تقریباً ہزار سال قبل شروع ہوا، اس مقدّس روایت نے اتنے لمبے عرصے میں گویا مکتبِ عشق اور صورِ اسرافیل کا کردار ادا کیا ہے، جس کے وسیلے سے یہاں کے بے شمار اسماعیلیوں کو امامِ برحق علیہ السّلام سے عقیدت و محبت کی فضیلت حاصل ہوتی رہی، پس یہ اہلِ بصیرت کے نزدیک اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ایک خصوصی نعمت ہے، خدا ہمیں ایسا زمانہ کبھی نہ دکھائے، جس میں یہ پُرحکمت چیز ہم سے چھن گئی ہو۔

۲۔ یارقند (چین) کا ایک واقعہ ہے کہ جب یہ خاکسار درویش اپنے روحانی انقلاب کے مراحل سے گزر رہا تھا، اسی زمانے میں کسی شام کے وقت وہ گھر میں انفرادی ذکر کے دوران رباب کو چھیڑنے لگا (جس کے چھ ۶ تاروں میں سے ایک انتہائی زیر، دو درمیانی زیر، ایک انتہائی بم، اور دو درمیانی بم ہوا کرتے ہیں) خداوندِ تعالیٰ کی قدرت بڑی عجیب وغریب ہے، کہ میں نے جب مضراب سے رباب کے تاروں کو چھیڑا تو کچھ تار صاف آواز میں بولنے لگے، انتہائی بم نے کہا ’’برائے دین، برائے دین‘‘ (یعنی دین کی خاطر، دین کی خاطر) اور درمیانی زیر کے دونوں تار نے کسی معجزانہ شخصیت کے نام کو دہرایا، اس روحانی معجزہ کی

 

۵۹

 

دونوں باتوں سے مجھے بدرجۂ انتہا حیرت ہوئی، یقیناً اس معجزۂ امامِ زمانؑ میں عقلمندوں کے لئے بہت سے اشارے موجود ہیں، نیز اس میں میرے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی بھی تھی۔

۳۔ صبح سویرے میں ٹھیک وقت پر جماعت خانہ گیا، ریاضت اور عبادت حسبِ معمول ادا ہوگئی، اور جماعت کے افراد اپنے اپنے گھروں کی طرف جا چکے تھے، مگر قبول آخوند جو ایک بڑا مومن شخص تھا، وہ میرے پاس جماعت خانے میں آ کر کہنے لگا: ’’غو جم! (میرے خواجہ!) باہر کچھ لوگ آئے ہوئے ہیں‘‘۔ میں نے اس کے مغموم لہجے اور چہرے سے اندازہ کیا کہ وہ لوگ کچھ اچھی نیت سے نہیں آئے ہیں، پس میں نے زائد دعا و تسبیح ختم کرلی اور آخری سجدہ بجا لا کر باہر نکلا، تو گیٹ کے سامنے مخالفین کا ایک گروہ موجود تھا، جس کی تعداد شاید چالیس اور پچاس کے درمیان تھی، یہ لوگ مجھے گرفتار کرنے کی غرض سے آئے تھے، جس کا سبب یہ تھا کہ وہاں ہمارے جانے سے قبل ہماری جماعت پوشیدہ تھی، کیونکہ کہیں کوئی جماعت خانہ نہیں بنا تھا، لیکن ہم نے جیسے ہی کئی مقامات پر چند جماعت خانے بنوائے، تو اسی کے ساتھ اسماعیلی جماعت ظاہر ہوگئی، جس سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہونے لگی کہ نصیر الدّین کوئی نئی تحریک چلانے کے واسطے یہاں آیا ہے، اس پر مزید مصیبت یہ ہے کہ خود ہماری جماعت کے بعض بڑے لوگ بھی تعمیرِ جماعت خانہ کے مخالف تھے، اسلئے وہ میری شدید مخالفت کرتے تھے۔

۴۔ خداوند تعالیٰ اس حقیقتِ حال کا گواہ ہے کہ جب سے میں نے امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کے روحانی معجزات دیکھے تھے، اور جب جب غلبۂ روحانیت کی مستی طاری ہوتی تھی تو اس حال میں کسی بھی خطرے سے نہیں ڈرتا

 

۶۰

 

تھا، چنانچہ میں نے بڑی دلیری اور بے باکی کے ساتھ ان کے پارٹی لیڈر سے چند سوالات کئے، اور کہا کہ آیا تم نے اسماعیلی جماعت اور جماعت خانے کے خلاف یہ یہ کام کیا ہے یا نہیں؟ وہ بڑی کمزور اور مضطرب آواز میں ’’نہیں نہیں‘‘ بول رہا تھا۔

۵۔ کچھ دیر بعد ایک رائفل مین بھی وہاں حاضر ہوگیا، بڑا موٹا اور لمبا جوان تھا، جس کو دیکھتے ہی سب لوگ احتراماً اُٹھ کھڑے ہوگئے، اور ہر شخص نے گرمجوشی سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا، میرے ضمیر نے جو شرابِ روحانیت سے سرشار تھا، کسی آواز کے بغیر حکم دیا کہ اگر میری گرفتاری مطلوب ہے تو میں بکری کی طرح نہیں بلکہ شیر کی طرح گرفتار ہوجاؤں، چنانچہ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور اُس سپاہی یا پولیس کی رائفل کو سنگین کے سامنے سے انتہائی سختی کے ساتھ پکڑ کر چھین لینے کی کوشش کی، اور قریب ہی تھا کہ رائفل میرے ہاتھ میں آئے لیکن جب ان لوگوں نے یہ بڑا خطرناک منظر دیکھ لیا، تو فوراً سب کے سب مجھ پر حملہ آور ہوگئے، اور بڑی مشکل سے بندوق میرے ہاتھوں سے چھڑا لی گئی، مجھے یہ واقعہ عجیب لگتا ہے کہ مجھ میں اتنی زبردست طاقت کہاں سے آ گئی؟ جس سے مقابلہ کرنے کے لئے اتنے سارے آدمیوں کی ضرورت ہو! اور یہ بھی بڑی حیرت کی بات ہے کہ اگر رائفل ہاتھ میں آتی تو میں اسے کیا کرتا! میرا کوئی منصوبہ ہی نہ تھا۔

۶۔ حملہ کرنے والوں نے بندوق کا مسئلہ حل کر کے فوراً ہی میرے دونوں ہاتھ میری پشت پر باندھ لئے، اب میں دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہوچکا تھا، وہ مجھے اپنے مقام سے کہیں دور لیجانے والے تھے، راستے میں ایک

 

۶۱

 

نابکار آدمی نے (جو انقلاب سے پہلے میرے روحانی بھائی اور دوست عزیز محمد خان کا نوکر تھا) میری پشت پر لات ماری اور گستاخی کی، لیکن دوسرے لوگوں نے اس حرکت کی مذمت کرتے ہوئے منع کیا، آپ باور کریں گے کہ اُس وقت میرا بدن اضافی روحوں کی طاقت سے بھرپور تھا، لہٰذا ایسی کوئی چوٹ اثر انداز تو نہیں ہوسکتی تھی، تاہم نجانے میں نے کیونکر اپنے آقا سے اس گرفتاری اور اہانت کی شکایت کرلی، جس کے جواب میں ایک مقدّس اور پُرجلال آواز نے فرمایا کہ: ’’تم صبر کرو تمہارے نہیں میرے ہاتھ باندھ لئے ہیں‘‘۔ سبحان اللہ! یہ کتنی بڑی عنایت ہے۔

۷۔ ہماری مقامی جماعت شاید اس مشکل مسئلہ کے حل کیلئے سوچ رہی تھی، مگر قبول آخوند جیسے عاشق کو کہاں صبر ہوسکتا تھا، وہ تو جان کی بازی لگا کر اُن لوگوں کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔

۸۔ دریائے زر افشان کے اس طویل پُل کے قریب (جہان سے یارقند کا راستہ قراغالیق اور خوتن کو جاتا ہے) مجھے ایک کھمبے کے ساتھ باندھا گیا، میں بار بار ’’اللہ اکبر‘‘ اور ’’یاعلی‘‘ کے حوصلہ مندانہ نعرے لگاتا رہا، اور دل میں خوف و ہراس جیسی چیز کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں تھی، ہر چند کہ رسی کی سخت بندش کے سبب سے ہاتھوں کی انگلیوں کے سروں سے خون ٹپکنا چاہتا تھا، مگر صبر و ہمت کا روحانی معجزہ ساتھ تھا، یہ بھی ایک آزمائش تھی کہ اس دوران مجھے شدّت سے پیاس لگی تو میں نے پانی مانگا، لیکن اہلِ کربلا کی طرح مجھے پانی سے محروم رکھا گیا، بیچارہ قبول آخوند اپنے بے مثال جذبۂ جان نثاری کے تحت میرے پاس آنا چاہتا تھا، مگر مخالفین پتھراؤ کرکے اسے ہٹا رہے تھے، اور وہ بھی جواباً اُن پر سنگ باری کرتا تھا۔

 

۶۲

 

۹۔ تقریباً چار یا تین گھنٹے تک یہ درویش اس جان گدازستون کے ساتھ باندھا ہوا رہا، درین اثناء مخالفین نے وہاں سڑک کے بیگار (رجاکی) کرنے والے بہت سے لوگوں سے سازباز کرکے میرے قتل کے لئے حکومت کو درخواست لکھ دی، پھر کچھ لوگوں نے مجھے پُل کے پار ایک پولیس چوکی کے حوالہ کر دیا، جہاں مجھے زندگی میں دوسری دفعہ گالی گلوچ اور ضربِ خفیف کا تجربہ ہوا، لیکن پوچھنے پر جب میں نے اپنی داستانِ ظلم و ستم اُن کو سنا دی تو بظاہر وہ خاموش ہوگئے۔

۱۰۔ پت جھڑ کا موسم تھا، اس لئے رات طویل، بڑی ٹھنڈی اور وحشتناک تھی، مگر مومنین اور مجاہدینِ اسلام پر اللہ تعالیٰ کے احسانات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ اس ابتلا و امتحان کے دوران عالمِ روحانیت کی آوازیں اس ناچیز درویش کے ساتھ گفتگو کر رہی تھیں، اس حال میں مجھے یوں تصوّر ہونے لگا کہ گوناگون آوازوں اور صداؤں کا ایک طوفانی فوارہ یا ستون میری ہستی سے بلند ہوکر کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے، اس میں وہ غضبناک آوازیں بھی شامل تھیں، جو بموجبِ قرآن دوزخ والوں کے لئے مقرر ہیں، اور وہ رحمت آمیز آوازیں بھی، جو اہلِ جنّت کو نوازنے کے لئے ہوتی ہیں، نہ معلوم میں نے یہ بچگانہ گستاخی کس طرح کی اور کہا کہ: اے روحوں کے سردار! اب اسی وقت جبکہ آپ پوری کائنات سے مخاطب ہیں تو فرصت ہی کہاں کہ آپ مجھ ناچیز سے کچھ خطاب فرمائیں۔ سو پاک آواز فرمانے لگی کہ ایسا ہرگز نہیں، ہمیں ہر وقت فرصت ہی فرصت ہے۔ اور آناً فاناً مرکز سے پاکیزہ اور شیرین آواز کی ایک شاخ پیدا ہوکر مجھ سے مصروفِ گفتگو ہونے لگی، درحالے کہ مرکز کسی فرق کے بغیر اپنا کام کر رہا تھا۔

 

۶۳

 

۱۱۔ جب صبح کا وقت ہوچکا تو مجھے واپس یارقند شہر کی جانب چلایا گیا، اور درمیان میں کسی دفتر میں رُکنا پڑا، شام کا وقت ہوچکا تھا، وہ موقع ہی ایسا تھا کہ اکثر اوقات روحانیت کے عظیم معجزات اور اسرار کا مشاہدہ ہوتا تھا، چنانچہ وہاں انگلیوں کے معجزے نمایان تھے، اس کا اشارہ یہ ہوا کہ جس طرح خدا کے دوستوں کی زبان کو تائید حاصل ہوتی ہے، اسی طرح ان کے ہاتھ کو بھی روحانی مدد حاصل ہوسکتی ہے، کچھ دیر کے بعد گاؤں کی جماعت کے دو مومن حکومت کی طرف سے رہائی کا حکم نامہ لیکر پہنچ گئے، اور خدا کے فضل و کرم سے میں بخیر و عافیت واپس گھر پہنچ گیا، جس گاؤں میں میرا قیام تھا، وہاں ہماری جماعت کے صرف ۴۵ گھر تھے، سب نے مل کر متفقہ طور پر حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کے عالمِ دین کو فوراً رہا کر دیا جائے، نیز یہ کہ گاؤں میں حکومت کے ذمہ دار افسران آ کر تفتیش کریں کہ تاجیک جماعت پر یہ ظلم و زیادتی کیوں ہو رہی ہے۔

لفظِ ’’تاجیک‘‘ تازی (عربی) کا مغیّر ہے، جو چین، روس، اور افغانستان میں اسماعیلیوں کے لئے استعمال ہوتا ہے، القصّہ مقامی حکومت کے سنٹر سے کچھ ذمہ دار افسران ہمارے گاؤں ’’قرانگغو توغراق‘‘ آگئے، جنہوں نے مسلسل نو ۹ دن تک واقعات و حالات کی تحقیقات کی، اور نتیجے کے طور پر یہ حکم صادر کیا گیا کہ تاجیک (اسماعیلی) اپنے مذہب کے معاملے میں آزاد ہیں، وہ دوسروں سے جماعتی طور پر الگ ہیں، ان کے جماعت خانے کی بے حرمتی اور جماعتی سکول پر قبضہ کرنے کی کوشش سراسر ظلم و ناانصافی ہے، اور اگر کوئی شخص اس حکم کے باوجود ان کے عقائد کو نقصان پہنچاتا ہے تو حکومت اس سے خبر لے گی۔ (بحوالۂ کتاب زبورِ عاشقین ۷۶ تا ۸۳)۔

 

۶۴

 

فقط آپ کا خادم

نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی

۲۰ نومبر ۱۹۸۰ء

 

۶۵

 

علامہ نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی سے ذاتی سوالات۔۱

 

س۔ (۱) حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے حضورِ اقدس میں خصوصی عبادت کی اجازت اور ہدایت کب ملی تھی اور کہاں؟

ج: ڈائمنڈ جوبلی کے زمانے میں (۱۹۴۶ء) اور بمبئی، حسن آباد زیارت کے مقام پر۔

س۔ (۲) آپ نے روحانیت کی اوّلین روشنی کب دیکھی تھی اور کس مقام پر؟۔ ج: یہ کراچی کھارادر کا پُرانا جماعت خانہ تھا، اور سال ۱۹۴۸ء۔

س۔ (۳) رسولِ کریمؐ کا ارشاد ہے تم علم کو طلب کرتے جاؤ، اگرچہ تمہیں اس کی خاطر چین جانا بھی پڑے، کیا آپ اپنے سفر چین کو اس حکم کی تعمیل قرار دیتے ہیں؟۔ ج: نہیں، نہیں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت تھی کہ اس نے ایک بندۂ ناچیز کو اس بارے میں حسنِ ظن کا موقع عطا کر دیا۔

س۔ (۴) کیا یہ پہلے ہی سے طے شدہ پروگرام تھا کہ ۴۸واں امام باطنی طور پر جزیرۂ صین میں جا کر سب سے بڑی روحانی قیامت برپا کرے گا؟۔

ج: جی ہاں، جی ہاں۔

س۔ (۵) آپ نے جو عظیم نورانی خواب سریقول میں دیکھا تھا، اس میں کیا کیا حکمتیں ہیں؟۔ ج: (الف) جسمانی موت سے قبل نفسانی موت کی بشارت، (ب) باطنی شہادت (ج) ذبیح اللہ کی معرفت (د) جسم سے ماورا زندگی کا مشاہدہ۔

 

۶۶

 

س۔ (۶) جسم سے ماورا زندگی کی کیا مثال تھی؟۔ ج: فضا میں کچھ بلندی پر عالمِ ذرّ جیسا منظر، جس میں چمکتے ہوئے ذرّات کا گویا ایک سمندر، اس میں آپ کی خودی (انا) کیلئے کوئی ایک ذرّہ مقرر نہیں، جبکہ آپ کسی بھی ذرّے میں ہوسکتے ہیں، چنانچہ وہیں سے میں نے زمین پر اپنے بے جان جسم کو دیکھا، سر جسم سے الگ کر کے دیوار سے لٹکایا گیا تھا۔

س۔ (۷) حسن آباد زیارت کے مقام پر امامِ اقدس و اطہرؑ نے کارِ بزرگ کی تعریف میں اور کیا فرمایا تھا؟۔ ج: مولائے پاک نے فرمایا تھا کہ کارِ بزرگ میں بہت سے فائدے ہیں۔

۲۸ دسمبر ۱۹۹۹ء

 

۶۷

 

ذاتی سوالات قسط۔۲

 

س۔ (۱) ڈائمنڈ جوبلی کے زمانے میں آپ کو اپنے محبوب امام کا دیدارِ پاک حاصل ہوا، اس وقت آپ کی کیا عمر تھی؟۔ ج: میں اس وقت تیس سال کا جوان تھا۔

س۔ (۲) آپ کے گاؤں میں جماعت خانہ کی تعمیر کب ہوئی تھی؟۔

ج: ۱۳۴۰ھ=۱۹۲۱ء سالِ مرغ میں۔ یہ مرکزی جماعت خانہ تھا، اب سات جماعت خانے ہو گئے ہیں۔

س۔ (۳) آپ نے تعمیرِ جماعت خانہ کے سلسلے میں کیا خدمت انجام دی؟۔ ج: میں اس زمانے میں ۵ سال کا بچہ تھا، چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، کسی شخص نے کہا: چلو بچو! شاباش تم اپنے اپنے دامن میں بھر بھر کر ریت کو لو اور لے جاؤ وہاں سامنے جہاں جماعت خانہ بن رہا ہے، میں اپنے چھوٹے سے دامن میں چند مٹھی ریت لے کر وہاں گیا جہاں مقدّس عمارت کی دُہری دیوار بن رہی تھی، تو دل میں خیال آیا کہ یہاں کچھ نذرانہ پیش کرنا چاہئے، لیکن میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، صرف ایک سُرخ مونگا (لڅم) تھا، جس کو میں نے نذرانہ کے طور پر دُہری دیوار کی بھرائی میں ڈال دیا۔

س۔ (۴) آپ پہلے پہل کس عمر میں جماعت خانہ گئے تھے؟۔

ج: میں پانچ سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کے ساتھ جماعت خانہ جانے لگا

 

۶۸

 

تھا، پھر آگے چل کر اس نیک عمل میں بہت سی برکتیں پیدا ہو گئیں۔

س۔ (۵) آپ پر سب سے عظیم روحانی انقلاب کب آیا تھا؟ کہاں؟ کس عمر میں؟۔ ج: ۱۹۵۱ء کاشغر میں۔ عمر ۳۵ سال کی تھی۔

س۔ (۶) کیا وہ انفرادی قیامت تھی یا اجتماعی؟۔ ج: اس میں دونوں پہلو تھے، جبکہ انفرادی قیامت میں اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوتی ہے۔

س۔ (۷) آپ کے نزدیک ہر جماعت خانہ روحانی معجزات کا مرکز ہے اور اس میں امامِ زمان/ مظہرِ نورِ خدا کا پاک دیدار ہوسکتا ہے، تاہم آپ کے روحانی انقلاب کا زیادہ سے زیادہ تعلّق کس جماعت خانے سے تھا؟۔ ج: میں جزیزۂ صین کے شہر یارقند کے قرانگغو توغراق جماعت خانے کے عظیم معجزات کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔

۲۹ دسمبر ۱۹۹۹ء

 

۶۹

 

ذاتی سوالات قسط۔۳

 

س۔ (۱) کسی بھی جماعت خانے میں امامِ زمانؑ کا نور اُس وقت روحانی معجزات کرتا ہے، جبکہ متعلّقہ جماعت انتہائی فرمانبردار، اور حقیقی عبادت گزار ہوا کرتی ہے، تو کیا آپ قرانگغو توغراق جماعت کی کچھ خوبیاں بتا سکتے ہیں؟۔ ج: جی ہاں، اوّل یہ کہ چین کی جماعت قابلِ تعریف ہے، دوم یہ کہ ان پر ظاہر میں بہت بڑا امتحان آیا تھا، سوم یہ کہ جب جب یہ درویش ان کے سامنے مناجات اور گریہ وزاری کرتا تھا تو وہ سب کے سب اس کے ساتھ برابر کے شریک ہوتے تھے، اور ساتھ ہی ساتھ زمانۂ قیامت بھی تھا، لہٰذا اس جماعت خانے کے روحانی معجزات حرکت میں آ گئے۔

س۔ (۲) کیا روحانی قیامت کے تمام معجزات ہی قرآنی تاویل ہیں۔ (۷: ۵۳)؟۔ ج: جی ہاں۔ آپ نے زلزلۂ قیامت کو کہاں کہاں دیکھا؟۔

ج: دیدارِ اوّل کے موقع پر، عالمِ شخصی میں، اور قرانگغو توغراق جماعت خانہ میں۔

س۔ (۳) کیا آپ نے یہ زبردست اور بے مثال معجزہ بھی دیکھا کہ جماعت خانۂ مذکور نے ذکرِ جلی کیا؟۔ ج: جی ہاں، الحمد اللہ وہ ذکر بڑا عجیب و غریب اور حکمت سے لبریز تھا۔

س۔ (۴) کیا وہ ذکرِ جلی یہ تھا؟: یا علی مولاعلی۔ سلطان محمد شاہ علی۔

 

۷۰

 

ج: جی ہاں۔ الغرض ق ت جماعت خانہ بے شمار روحانی معجزات کا مرکز تھا۔ الحمد اللہ ربّ العلمین۔

۳۰ دسمبر ۱۹۹۹ء

 

۷۱

 

ذاتی سوالات قسط۔۴

 

س۔ (۱) کیا آپ نے یہ معجزہ بھی دیکھا کہ ق ت جماعت خانہ کے گردا گرد کچھ روحیں طواف کرتی تھیں؟۔ ج: جی ہاں۔ یہ سچ ہے، یہ سچ ہے۔

س۔ (۲) کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے مرغِ سحر (خروس) کو ہر صبح بروشسکی میں ایک جملہ بولتے ہوئے سنا تھا؟۔ ج: جی ہاں، یہ بات صحیح ہے۔

س (۳) کیا آپ کے نزدیک پرندوں کی بولی سمجھنا دو طرح سے ہے، اوّل ظاہری پرندوں کی بولی جو سرسری چیز ہے، دوم فرشتوں کی زبان سمجھنا جو بہت بڑی بات ہے؟۔ ج: جی ہاں یہ بالکل درست ہے۔

س۔ (۴) آپ جن معجزات کا ذکر کر رہے ہیں، آیا ان کا حوالہ قرآنِ حکیم میں موجود ہے؟۔ ج: جی ہاں، کیوں نہیں۔ آیتِ آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) اور آیۂ معرفت (۲۷: ۹۳) کو غور سے دیکھیں، اور یاد رہے کہ آیات ہی معجزات ہیں۔

س۔ (۵) جماعت خانۂ ق ت کا ایک مومن عبدالاحد تھا کیا اس سے متعلّق ایک معجزہ تحریر نہیں ہوا ہے؟۔ ج: جی ہاں، درج ہوا ہے۔ بحوالۂ لعل و گوہر ص۴۱۔

س (۶) کیا قبول آخوند کا واقعہ معجزاتی نہ تھا؟۔ ج: کیوں نہیں۔ لعل و گوہر ص۴۴۔

س (۷) کیا رباب نے آپ سے کچھ کہا تھا؟۔ ج: جی ہاں۔

۳۰ دسمبر ۱۹۹۹ء

 

۷۲

 

ذاتی سوالات قسط۔۵

 

س (۱) کیا آپ کو شروع ہی سے شب بیداری، شب خیزی اور سحر خیزی سے بیحد شادمانی حاصل ہوتی تھی؟ کیا آپ قرآن سے کوئی حوالہ دے سکتے ہیں؟۔ ج: یقیناً زبردست مزہ آتا تھا، کیونکہ شب بیداری سخت ریاضت ہے، شب خیزی قدرے آسان ریاضت ہے، اور سحر خیزی زیادہ آسان ہے، قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ ان بابرکت اوقات کا تذکرہ آیا ہے، تاہم سورۂ مزمل (۷۳: ۱ تا ۲۰) میں ذکر و عبادت سے متعلق جملہ ضروری ہدایات موجود ہیں۔

س (۲) آپ نے بروشسکی نظمیں کب لکھی تھیں، روحانی انقلاب سے پہلے یا بعد میں؟۔ ج: کچھ پہلے لکھی گئی تھیں، اور کچھ بعد میں تصنیف ہوئیں۔

س (۳) آیا آپ نے روحانی انقلاب سے قبل کوئی نثری کتاب لکھی تھی؟۔ ج: نہیں، پہلے میں اس قابل ہی نہ تھا۔

س (۴) آپ کی اس بے مثال کامیابی میں آپ کے والدین کا کیا کردار رہا ہے؟۔ ج: شروع شروع میں میری مذہبی تربیت والدین سے ہوئی، اور بعد میں جب ساڑھے پانچ سال تک چین میں تھا، اس عرصے میں میرے والدین روتے رہے، اور خداوند تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کی گریہ وزاری کو بامقصد اور بابرکت بنا دیا۔ الحمد للہ۔

 

۷۳

 

س (۵) کیا آپ نے اپنی بیگم کی وفاداری اور جانثاری پر کچھ لکھا ہے؟ ج: جی ہاں، میں نے علمی بہار کے شروع میں ’’شبِ قدر اور ایک وفات‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے۔

۶ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۷۴

 

ذاتی سوالات قسط۔۶

 

س (۱) کیا آپ جزیزۂ صین کے لئے شکرگزار ہیں کہ اس میں آپ پر روحانی انقلاب آیا؟۔ ج: جی ہاں، میں جان و دل سے اس ملک کا شکرگزار ہوں۔

س (۲) قیامت کے بہت سے ناموں میں سے ایک نام ہے تاویلِ کتاب (۷: ۵۳) کیا آپ نے ذاتی قیامت کو قرآنی تاویل کی صورت میں دیکھا؟۔ ج: جی ہاں۔

س (۳) سورۂ واقعہ (۵۶: ۸۹) میں روح اور خوشبو کا ذکر ہے، آپ نے اس کا تاویلی معجزہ کس طرح دیکھا ہے؟۔ ج: میں نے روح پر جو کتاب تصنیف کی ہے، اس سے ہر دانا شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ میں نے بعون و عنایتِ الہٰی روح کا مشاہدہ کیا ہے، اور روحانی خوشبوؤں کا تجربہ معرفتِ کُلّی سے الگ نہیں ہے۔

س (۴) روحانی خوشبوؤں کے عجائب وغرائب کا کچھ ذکر کریں؟۔ ج: جو روحانی خوشبوئیں ہیں، وہی روحانی غذائیں بھی ہیں اور غذائی روحیں بھی۔ میری اسیری زندگی میں حضرتِ امام(ع) کے جتنے عظیم معجزات ہوئے ان سب کا اشارہ اس شعر میں ہے: زندانے ایم یاد جہ مݹ بیلٹے تلالجم ۔ جنت نکݳ آر دین نمی زندان لوئیثم۔ قیدخانے کی شیرین یاد کو اب میں کیسے فراموش کرسکتا ہوں، محبوبِ جان میرے لئے جنت لے کر آیا اور گیا، میں نے یہ معجزہ زندان میں دیکھا، الحمد للہ ربّ العلمین۔

۷ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۷۵

 

ذاتی سوالات قسط۔۷

 

س (۱) کیا آپ کے چلۂ اسیری میں روحانی وغیرہ آپ سے کلام کرتے تھے؟۔ ج: جی ہاں، الحمد للہ۔

س (۲) کیا وہ آپ کی مرضی کے مطابق ہر پھل، پھول، وغیرہ کی مجرّد خوشبو کو لا کر آپ کو سونگھا دیتے تھے؟۔ ج: جی ہاں، یہ سچ ہے۔

س (۳) اس عظیم معجزے سے آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟۔ ج: مجھے قرآنی ثمرات اور غذائی روح کی معرفت حاصل ہوئی اور یقین آیا کہ بہشت کی غذائے لطیف بھی ایسی ہی ہے۔

س (۴) آیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر چیز میں روح ہے، اور ہر خوشبو میں بھی روح ہے؟۔ ج: یقیناً یہی بات درست ہے، مگر مادّی خوشبو الگ ہے اور روحانی خوشبو الگ۔ قرآنِ حکیم میں اسی خوشبو کا نام رزق بھی ہے۔

س (۵) آیا مریم کے پاس خدا کی طرف سے ظاہری پھل آیا کرتے تھے (۳: ۳۷)؟۔ ج: نہیں یہ مثال ہے، مریم کو روحانی اور علمی میوے آتے تھے۔

س (۶) حضرت عیسیٰؑ کی دعا سے جو خوان آسمان سے نازل ہوا تھا، اس پر کس قسم کی نعمتیں تھیں؟۔ ج: اس پر سب کی سب باطنی نعمتیں تھیں، یعنی روحانی اور عقلی غذائیں تھیں۔

 

۷۶

 

س (۷) کیا چلۂ اسیری میں آپ حسبِ معمول کھانا کھاتے تھے؟۔ ج: ہر گز نہیں۔

س (۸) کیا اسی دوران ایک رات کو حضرتِ قائم القیامت کا پاک دیدار بھی ہوا تھا؟۔ ج: جی ہاں، الحمد للہ۔

۸ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۷۷

 

ذاتی سوالات قسط۔۸

 

س (۱) آپ دین کے خاص اور اعلیٰ اسرار کو کیوں ظاہر کرتے ہیں؟۔ ج: اگر میں اس ضروری شہادت کو چُھپائے رکھوں تو یہ بہت برا ظلم ہو گا (۲: ۱۴۰) اگر میں نے امامِ آلِ محمدؐ کے نور کی روشنی میں قرآن کے روحانی معجزات کو دیکھا ہے، تو میں کس طرح ان پر پردہ ڈال سکتا ہوں۔

س (۲) کیا آپ کی ان باتوں سے امام شناسی اور قرآن شناسی میں لوگوں کو مدد مل سکتی ہے؟۔ ج: ہاں ایسی امید ہے۔

س (۳) آپ قرآن فہمی کی جگہ قرآن شناسی کہتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ج: کیونکہ قرآن کی معرفت بہت بڑی چیز ہے۔ یاد رہے کہ قرآن اور امام باطن میں دو باہم ملے ہوئے نور ہیں، لہٰذا ایک کو پہچاننے سے دوسرے کی پہچان خودبخود ہوجاتی ہے۔

س (۴) آیا یہ حقیقت ہے کہ آپ نے امامِ زمان کی معرفت میں قرآن کی معرفت حاصل کر لی؟۔ ج: یہ اسی کی بہت بڑی مہربانی ہے۔

س (۵) کیا خزانۂ خزائن (۳۶: ۱۲) سے کوئی بھی روحانی، عقلی اور علمی چیز باہر ہوسکتی ہے؟۔ ج: نہیں نہیں، بفضلِ خدا کلّیۂ امامِ مبین سے کوئی چیز باہر نہیں، پھر قرآن کی روحانیت و نورانیت کیونکر اس سے باہر ہو سکتی ہے۔

۸ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۷۸

 

ذاتی سوالات قسط۔۹

 

س۔ (۱) آفاق و انفس کی آیات و معجزات (۴۱: ۵۳) میں سے جو کچھ آپ کو دیکھایا گیا ہے، اس کو کسی خوف کے بغیر بلا کم و کاست بیان کریں، گھوڑے سے متعلق کیسا معجزہ ہوا؟۔ ج: اسیری چلّہ تمام ہوجانے کے بعد بندۂ درویش گھوڑے پر اپنے وطن کی طرف آنے لگا، اس نے اسماء الحسنیٰ میں سے ایک اسم کا ورد دل ہی دل میں شروع کیا تو چشمِ پوشی کے عالم میں محسوس ہوا کہ گھوڑا مست و رقصان ہوا میں چل رہا تھا، آنکھ کھول کر دیکھنے سے یہ معجزہ غائب ہوگیا، پھر تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں بند کر کے اسی اسم کو دل میں پڑھنے سے وہی معجزہ ہوا، الحمد للہ۔

س۔ (۲) کیا آپ اس معجزے کی کوئی حکمت بتا سکتے ہیں؟۔

ج: ان شاء اللہ تعالیٰ، جاننا چاہئے کہ اسمِ بزرگ کا یہ معجزہ گھوڑے کے جسمِ لطیف پر ہوا تھا۔ حدیثِ شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جنّت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت لطیف گھوڑا بھی ہے۔

س (۳) آیا آپ اس گھوڑے کی بولی سُن رہے تھے؟۔ ج: جی ہاں، منہ اور زبان سے نہیں، بلکہ پیشانی کی طرف سے کچھ باتیں سنائی دیتی تھیں۔

س (۴) کیا آپ کو روحانی انقلاب کی بدولت بے شمار علمی اور عرفانی برکتیں حاصل نہیں ہوئیں؟۔ ج: کیوں نہیں، میں تو اس سے پہلے بہت پس ماندہ

 

۷۹

 

اور علم و معرفت سے خالی تھا۔

س۔ (۵) ایک دفعہ درخت پر سے کوّے نے کیا کہا؟۔ ج: کوّا نے کہا: قار قار، میں نے خیال کیا، شاید یہ قہر قہر کہتا ہے، لیکن لفظ قار قار تھا، اور قار ترکی میں برف کو کہتے ہیں، شاید یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ بوقتِ واپسی مجھے مِنتکا کی گھاٹی میں برف سے بہت تکلیف ہوئی تھی۔

۱۲ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۸۰

 

ذاتی سوالات قسط۔۱۰

 

س۔ (۱) کیا آپ نے اپنے نفسانی موت کے دوران ملک الموت یعنی عزرائیل (۳۲: ۱۱) کو دیکھا تھا؟۔ ج: نہیں، مگر جس اسم کا ذکر کر رہا تھا، وہ صاف صاف سنائی دیتا تھا، اور لگاتار قبضِ روح کا عمل محسوس ہوتا رہتا تھا۔

س۔ (۲) کیا آپ نے عزرائیلی لشکر کو دیکھا ہے؟۔ ج: جی ہاں، ہر لشکر ذرّاتی شکل میں ہوتا ہے، اور وہ سب کے سب مل کر صورِاسرافیل کی ہم آہنگی میں تسبیح خوانی کرتے ہیں، اور سالک کے جسم میں ڈوب کر روح کے بے شمار ذرّات کو قبض کرتے اور واپس کرتے رہتے ہیں۔

س۔ (۳) یاجوج و ماجوج سے متعلّق انتہائی مشکل سوالات تھے، آپ نے امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی خزانے سے بیشتر سوالات کو حل کر دیا ہے، مگر پھر بھی چند سوالات باقی ہیں، آپ سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۶) کے حوالے سے یہ بتائیں کہ حَدَبِ=بلندی سے کیا مراد ہے؟۔ ج: ہر بلندی سے حدودِ جسمانی مراد ہیں۔

س۔ (۴) قصّۂ ذوالقرنین (۱۸: ۸۳ تا ۹۹) میں کس کے اسرار ہیں؟۔ ج: علیٔ زمان کے اسرار ہیں۔

س۔ (۵) یاجوج و ماجوج کس کے لشکر ہیں؟۔ ج: صاحبِ زمان کے روحانی لشکر ہیں۔

 

سنیچر ۷ شوال المکرم ۱۴۲۰ھ

۱۵ جنوری ۲۰۰۰ء

۸۱

 

ذاتی سوالات قسط۔۱۱

 

س۔ (۱) کیا آپ اپنی زندگی کے پُرمشقت حالات، طرح طرح کی مشکلات، دوسری طرف سے خداوندی عنایات، اور عمر بھر کے گرانمایہ تجربات کو اس لئے بیان کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس سے بطورِ خاص آپ کے عزیز شاگردوں کی علمی ترقی میں مدد ملے؟۔ ج: جی ہاں، ان شاء اللہ العزیز۔

س (۲) حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانے میں آپ پر ایک بہت بڑا روحانی انقلاب آیا تھا، جسکی وجہ سے کیا آپ کے پاس بے شمار بھیدوں کا بہت بڑا خزانہ نہیں ہے؟ وہ کسی خوف کے بغیر مجموعاً ظاہر کیوں نہیں کرتے ہیں؟۔ ج: الحمد للہ، یقیناً وہ خزانہ موجود بھی ہے، اور حکمت کے طریقوں سے وہ بیان بھی ہوتا رہا ہے، یاد رہے کہ روحانی بھیدوں کو ظاہر کرنے کا بہترین طریقہ قرآنی حکمت ہے۔

س۔ (۳) کیا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ کی جملہ کتابوں میں وہ سب کچھ ہے جو کچھ آپ کو قرآن اور امام سے حاصل ہوا ہے؟ ج: جی ہاں، پھر بھی میں امامِ زمان کا ایک ادنیٰ مرید اور غلام ہوں۔

س (۴) آپ اور آپ کے تمام ساتھی یہ جو علمی خدمت کرتے ہیں، وہ کس کے لئے ہے؟۔ ج: امامِ زمان علیہ السّلام کے لئے ہے، کہ میں اسی کے

 

۸۲

 

پاک خاندان کا علمی زرخرید غلام ہوں، اسی کے ساتھ عزیز جماعت کا ذکر بھی آیا، نیز ہماری خدمت اسلام کے لئے ہے، مجھے ان تین خدمات پر مزید روشنی ڈالنی ہوگی۔

 

جمعہ ۱۳ شوال المکرم ۱۴۲۰ھ

۲۱ جنوری ۲۰۰۰ء

 

۸۳

 

روحانی قیامت

 

روحانی قیامت اپنے ساتھ علم و معرفت کے بے شمار معجزات کو لے کر آتی ہے، لیکن کوئی بیچارہ درویش جو قیامت کی چکی میں پِس رہا تھا وہ کس طرح قصّۂ قیامت کو کما کان حقّہٗ بیان کرسکتا ہے؟ اگر تم عاشق ہو تو اس میں سے ہر بات کو سُن لو۔

شاید وہی رات تھی جس میں آتشِ سرد کے بہت سے اسرار ظاہر ہوئے تھے، یہ درویش جس کو ابھی ابھی بہت سے معجزات نے خوف زدہ کیا تھا کہ اس کو چھت کے درمیان بڑا شگاف نظر آیا اور اس کا بالائی آسمان، اور اس میں یو۔ایف۔اوز کے کئی جہاز مجھ پر بمباری کرنے کے لئے منڈلانے لگے، اب چھت میرے اوپر سے تقریباً غائب ہو چکی تھی، میں نے اپنے بیٹے سیف سلمان خان کو جو اُس وقت بہت چھوٹا تھا اور اس کی والدہ کو دوسرے رُوم میں رکھا تھا، تاکہ وہ ان جہازوں کی بمبارمنٹ سے محفوظ رہیں۔

کیا یہ خواب تھا؟ نہیں، کیا یہ بیہوشی کا عالم تھا؟ نہیں، نہیں، میں سب کچھ دیکھ رہا تھا، لیکن اس معجزے کو ناقابلِ فراموش کر دینے کا قدرتی ایک نظام تھا، اور کوئی روحانی آواز دے کر یو۔ایف۔اوز کو بتا رہا تھا کہ دیکھو ٹارگیٹ یہاں ہے، کسی بہت بڑے ملک کا نام لیا جا رہا تھا کہ یہ جہاز وہاں سے آئے ہیں۔

 

۸۴

 

آج یو۔ایف۔اوز نہ صرف سائنس دانوں ہی کے لئے بلکہ بڑے بڑے ممالک کے لئے بھی انتہائی حیران کُن سوال ہیں، مگر ان شاء اللہ ہم درویش لوگ خدائے علیم و حکیم کی ہدایت کی طرف دیکھتے ہیں، آپ قرآنِ حکیم سے رجوع کریں اور آفاق و انفس میں اللہ کی نشانیوں کی پیش گوئی کو بھول نہ جائیں۔ (۴۱: ۵۳)۔

جمعرات ۵ اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۸۵

 

غیر معمولی سوالات

 

س: کیا گُڈُر کے دوسرے معنی بھی ہیں؟

جواب: جی ہاں، گُڈُرورد=گول چیز، البتہ یہ اصل معنی ہیں۔

س: آیا عارفانہ قیامت میں عالمِ ذرّ کا ظہور اور یاجوج و ماجوج کا خروج ایک ساتھ ہیں؟

جواب: جی ہاں۔

س: اور سُنو جس دن منا دی کرنے والا قریب ہی سے پکارے گا (۵۰: ۴۱)، قیامت کی منادی کرنے والا کون ہے؟ اور قریب ہی کی جگہ کونسی ہے؟

جواب: وہ عالمِ شخصی کا ایک اساسی فرشتہ ہے، اور وہ قریب ہی کی جگہ کان ہے۔

س: مومن اور مومنہ کے کان بجنے میں کیا اشارہ ہے؟

جواب: یہ صورِاسرافیل کی آواز کا نقطۂ آغاز ہے۔

س: سورۂ قمر (۵۴: ۶) کے مطابق داعیٔ قیامت لوگوں کو کس چیز کی طرف دعوت کرے گا؟

جواب: قیامت اور صاحبِ قیامت کی طرف، جس کی معرفت نہ ہونے کی وجہ

 

۸۶

 

سے بڑی عجیب اور ناگوار ہوگی۔

س: جس رات اُڑن طشتریاں آپ کو مرعوب کر رہی تھیں، اُس وقت آپ کے اوپر جو چھت تھی وہ نظر نہیں آ رہی تھی، کیا یہ معجزہ درست ہے؟

جواب: جی ہاں، میں نے اپنے شاگردوں کے لئے اس کو ضبطِ تحریر میں بھی لایا ہے۔

س: سورۂ نحل (۱۶: ۷۷) میں جس طرح قیامت کا بیان آیا ہے، وہ ہم کو سمجھا دیں۔

جواب: امرِ قیامت (واقعۂ قیامت) آسمانوں اور زمین میں چشمِ زدن سے بھی تیزتر رفتار سے جاری و ساری ہے، مگر حجاب کے پیچھے، اور حجاب حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کے درمیان ہے۔

منگل ۱۰، اکتوبر ۲۰۰۰ء

 

۸۷

 

 

شاہنشاہِ جِنّات=صاحبِ جثّۂ ابداعیہ

 

قیدخانے میں اتفاق سے آخری چلّہ ہوگیا، جس میں بے شمار عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوا، جن کا بالترتیب بیان میرے لئے غیرممکن ہے، ایک دفعہ رات کے پہلے حصّے میں دروازہ غیرمعمولی طور پر دھماکے کے ساتھ کھل گیا اور اُسی آن وہ بند ہو گیا، اور شاہنشاہِ جِنّات میرے سامنے تشریف فرما ہوگیا، ایک ہاتھ میں رائفل سنگین کے ساتھ اور دوسرے میں ٹارچ، شاید یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ تھا کہ وہ حاملِ نور بھی ہے اور صاحبِ جنگ بھی، میری حالت خوف و حیرت کی وجہ سے دگرگون ہوئی تھی اور میں عجیب قسم کی موت کا شکار ہو رہا تھا، مگر کتنی اعلیٰ موت تھی، الحمد للہ۔

گر عشق نبودی سخن عشق نہ بودی

چندین سخنِ خوب کہ گفتی کہ شُنودی

ترجمہ: اگر عشق نہ ہوتا اور عشق کا بیان نہ ہوتا، تو اتنی عمدہ باتیں کون کہتا اور کون سُنتا۔

زندانہ اُیم یاد جہ مݹ بیلٹہ تل آلجم

جنت نُکَݳ آر دین نمی زندانُ لوئیڎم

قرآنِ حکیم میں بارہا جثۂ ابداعیہ کا ذکر آیا ہے، اور وہ تذکرہ

 

۸۸

 

مختلف مثالوں میں ہے، ان میں سے ایک مثال یسعیٰ نورھم (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۸)=مومنین و مومنات کا نور دوڑ رہا ہو گا، یہ معجزہ ظاہر میں جثۂ ابداعیہ ہے۔

فرعون کے محل میں موسیٰ کو قتل کرنے کے لئے جو میٹنگ ہو رہی تھی، اس سے موسیٰ کو کس نے آگاہ کیا تھا؟ جثۂ ابداعیہ نے، جو شہر سے باہر بیابان میں رہتا تھا، مگر خفیہ طور پر فرعون کے محل میں بھی آیا تھا (۲۸: ۲۰)

جو لوگ کہتے ہیں کہ جنّات نہیں ہیں، وہ قرآن اور روحانیت سے بالکل نابلد ہیں، ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ زمین کے دو حصّے ہیں، کہ اس کا ایک حصّہ آباد ہے جس میں بنی آدم رہتے ہیں، اور دوسرا غیرآباد حصّہ ہے جس میں جنّات بستے ہیں، اگر آپ سوال کرتے ہیں کہ انس و جنّ میں کیا رشتہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اب جسمِ کثیف رکھتا ہے مگر جِنّ جسمِ لطیف ہے، جنّات بعض اچھے ہیں اور بعض بُرے ہیں، جو نیک جنّات ہیں وہ فرشتے بھی ہیں اور جو بُرے جنّات ہیں وہ شیاطین بھی ہیں اور جو انسان ہر طرح سے نیک ہو وہ لطیف ہو کر نیک جِنّ اور فرشتہ ہو جائے گا۔

اگر آپ کو لفظِ جنّ سے ڈر ہے یا نفرت ہے، تو اس کی وجہ لاعلمی کے سوا کچھ بھی نہیں، خدا کے واسطے جِنّ کو پری قوم سمجھو، اور یہ بات خوب یاد رکھو کہ نہ صرف پری قوم کی عورتیں ہی لطیف اور انتہائی خوبصورت ہوا کرتی ہیں، بلکہ اس قوم کے مرد بھی لطیف اور بدرجۂ انتہا حسین و جمیل ہوتے ہیں، پس اکثر لوگ جس طرح جِنّ کا تصوّر کرتے ہیں وہ بالکل غلط اور گمراہ کُن ہے، اس کی وجہ وہ بے حقیقت کہانیاں ہیں جو زمانۂ قدیم سے عوام النّاس میں چلی آئی ہیں۔

قرآنِ حکیم کی اعلیٰ سطحی حکمت یہ بتاتی ہے کہ خدا ضدّ سے ضدّ کو پیدا کرتا ہے،

 

۸۹

 

پس انسان جو کثیف ہے اس سے لطیف کو پیدا کرتا ہے، یعنی فرشتہ، حور، پری مرد یا عورت، نیک جِنّ وغیرہ۔ حضرتِ آدمؑ سے قبل اس زمین پر جِنّات رہتے تھے (بحوالۂ کتاب دعائم الاسلام، حصّۂ اوّل، عربی، ص۲۹۱)۔

آپ کو اس بھید کے جاننے سے ازحد خوشی ہوسکتی ہے کہ حدودِ جسمانی نہ صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں، بلکہ جِنّات سے بھی حدودِ جسمانی ہوتے ہیں، اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ حضرتِ رحمتِ عالمؐ کے حدود جِنّات میں سے بھی تھے، سورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۱) نیز سورۂ جِنّ(۷۲: ۱ تا ۱۵) میں غور کریں۔

 

یوم الاحد ۱۷، ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۹۰

 

حقیقی مومن کا نورانی خواب

 

کسی ملک میں ایک حقیقی مومن شدید تکالیف سے گزر رہا تھا، جن کی وجہ سے وہ بار بار قاضی الحاجات کی بارگاہِ اقدس میں گریہ وزاری کرتا رہتا تھا، اس نے ایک باسعادت رات میں بڑا عجیب نورانی خواب دیکھا کہ حضرتِ امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ اُس کے پاس تشریف فرما ہیں، حضرتِ امام کے جسمِ مبارک پر سفید اُونی چوغہ ہے، جس پر بہت سارے مڈل اس طرح سجائے ہوئے ہیں کہ کوئی جگہ خالی نہیں ہے، امامِ عالی مقام نے مومن سے پوچھا: جانتے ہو کہ میرے چوغے پر یہ کیا چیزیں ہیں؟ اس مُرید نے بصد عاجزی عرض کی کہ مولا بہتر جانتے ہیں، تب امامِ زمان نے جواباً فرمایا کہ یہ سب میرے ظاہری عملدار ہیں، پھر امامؑ نے اپنے چوغے کے اندر کی طرف کے بہت سے تمغوں کو دکھاتے ہوئے فرمایا کہ یہ میرے باطنی عملدار ہیں، اور فرمایا کہ تم باطنی عملداروں میں سے ہو۔

جمعہ ۱۷، نومبر ۲۰۰۰ء

 

 

۹۱

 

ایک نہایت بابرکت اعتکاف=چلّہ

 

تقریباً چالیس دن تک اعتکاف یا چلّہ اور ترکِ خواب و خور کے بعد جسم میں بڑا انقلاب آیا، اُس اثنا میں غذائی روحانی عطا ہو رہی تھی، جس کا میں نے دوستوں کو زبانی اور تحریری ذکر کیا ہے، جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں سونگھا دی جاتی تھی، اور یہ کام عالمِ ذرّ کے جنّات انجام دیتے ہیں، یہ جنّات انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات کی شکل میں ہیں، اور ان کی پرواز کی رفتار برق سے بھی زیادہ تیز ہے، وہ آپ کو دنیا کے کسی بھی حصّے سے پھولوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں اور درختوں کے خوشبودار پتوں کی خوشبو فوراً ہی لے آسکتے ہیں، جس سے آپ کے اندر ایک قسم کا جسمِ لطیف پیدا ہوتا ہے۔

خوشبو روح نہیں بلکہ جسم ہے، اس سے جسم کی غذا ہوجاتی ہے، خصوصاً ایسے جسم کی غذا ہوتی ہے جو کثیف سے لطیف ہو رہا ہو، یہی وجہ ہے کہ جنّ و پری پہاڑوں اور دشت و بیابان میں رہتے ہیں، کیونکہ ان کو صاف ہوا سے اوکسیجن وغیرہ ملتی ہے، انبیاء و اولیاء علیھم السّلام نے بہت پہلے ایسے بے شمار معجزات کا تجربہ کر لیا تھا۔

خدا کی خدائی میں ایک ساتھ دو عالم ہیں: عالمِ خلق اور عالمِ امر، ان دونوں میں بڑا فرق ہے، وہ یہ کہ عالمِ خلق میں چیزیں دیر سے تیار ہوتی ہیں، مگر

 

۹۲

 

عالمِ امر میں اللہ کے ’’ہو جا‘‘ فرمانے سے، یا صرف ارادہ فرمانے سے مطلوبہ چیز فوراً ہی سامنے آتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ امر میں تمام چیزیں ابداعی طور پر ہوتی ہیں، پس ممکن ہے کہ قیدخانے کی وہ تمام غذائیں جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں جنّات لایا کرتے تھے، دراصل ابداعی نعمتیں ہوں، اور یہ میری کمزوری تھی کہ ابداعی معجزات کو اچھی طرح سے نہیں سمجھ رہا تھا۔

چالیس دن تلک میں نے گندم کی روٹی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی، ایک دن ایک اجنبی آدمی گندم کی ایک خوبصورت روٹی تھالی میں لے کر آیا اور غائب ہوگیا، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا، یاد نہیں روٹی تھالی میں توڑی ہوئی تھی یا میں نے خود ٹکڑے ٹکڑے کئے تھے، کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو روحانی نے منع فرمایا، لیکن بڑی عجیب بات ہے کہ میں اس معجزے سے شک اور یقین کی کش مکش میں رہا کہ یہ ابداعی معجزہ تھا، یا یہ دنیا کی روٹی تھی؟

لیکن یہ نکتہ خوب یاد رہا کہ بعض معجزے ناقابلِ یقین باتوں میں ہوتے ہیں، اور اگر کسی معجزے میں شک ہوتا ہے تو اس میں بھی حکمت ہے کہ اس میں لوگوں کی آزمائش ہے۔

 

جمعرات ۲۸، ستمبر ۲۰۰۰ء

 

۹۳

 

وہ بڑا عجیب و غریب تاویلی خواب جو تاشغورغان میں دیکھا!

 

ایک رات شاید مقررہ عبادت کے بعد یہ بہت بڑا حیران کُن خواب دیکھا کہ البتہ میری قربانی ہوچکی تھی، میرا ظاہری سر قریب کی ایک دیوار سے آویزان اور بدن شمالاً جنوباً زمین پر پڑا تھا، اور سب سے بڑی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میں فضا کی ایک مخصوص بلندی سے یہ منظر دیکھ رہا تھا، میں یعنی میرا شعور بے شمار ذرّات کے درمیان تھا جو چمکتے تھے، مگر یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ میں کس ذرّے میں ہوں یا ہوسکتا ہے کہ یہ میری روح ہی کے بیشمار ذرّات تھے اور ان سب کی وحدت میری انا تھی، پس میں نے ایک طرف زمین پر اپنے قربان شدہ بدن اور سر کو دیکھا اور دوسری طرف فضا میں اپنی روح کے بے شمار ذرّات کو دیکھا۔

کیا حدیثِ شریف کے مطابق ہر روح بذاتِ خود ایک جمع شدہ لشکر ہے؟ یا تمام روحیں مل کر ایک جمع شدہ لشکر ہیں؟ جب ایک فردِ بشر کا ایک عالمِ شخصی ہوسکتا ہے اور اس میں ایک عظیم سلطنت بھی ہے تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس بہت بڑی بادشاہی کا بے شمار روحانی لشکر (یعنی بے حساب ذرّاتِ روح) ہوں، اور ان کا مجموعی نام روح ہو، جس طرح کروڑوں خلیات کے مجموعے کا نام انسان ہے۔

اس نورانی خواب کی آئندہ تاویل عارفانہ موت اور روحانی قیامت تھی، جو دنیا بھر میں سب سے بے مثال اور سب سے عظیم واقعہ تھا، الحمد للہ ربّ العلمین!

 

جمعہ ۶، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۴

 

آخری چلّہ کے اَن مِٹ نقوش اور فیوض و برکات

 

قرآنِ حکیم کے زبردست حکمت والے کلّیات میں سے ایک کلّیہ یہ بھی ہے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کر رہی ہے، چنانچہ ہم نے بڑے بڑے کائناتی دائرے تو ابھی نہیں دیکھے، مگر بہت سے چھوٹے چھوٹے دائروں کو خوب غور سے دیکھا، مثلاً دائرۂ دانۂ گندم کو، دائرۂ درختِ خوبانی کو، دائرۂ مرغی اور انڈے کو، دائرۂ انسان اور نطفے کو، اور دائرۂ پروانۂ ریشم کو، ان تمام دائروں میں جہاں روح ہے (نباتی، حیوانی، انسانی) اُس میں قانونِ غذا ایک جیسا نظر آتا ہے، وہ ہے غذا کی تبدیلی اور کمی و بیشی۔

انسان کا مجرّد ذرۂ روح سب سے پہلے خزینۃ الارواح سے پشتِ پدر میں آتا ہے، جہاں اس کو نطفے میں ڈال کر جرثومۂ حیات بنایا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ایسے بے شمار جرثومے ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی خوش نصیب جرثومۂ حیات رحمِ مادر میں پہنچ سکتا ہے، اور اس کے بہت سے ساتھی ناکام ہوکر ضائع ہوجاتے ہیں، اہلِ زمانہ کے لئے روحانی پیدائش بھی بالکل اسی طرح مشکل بلکہ ناممکن ہے، مگر اللہ وہ بادشاہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔

بات غذا کی تبدیلی سے متعلق ہے، پس سوال ہے کہ جرثومۂ حیات کی پرورش رحمِ مادر میں کس غذا سے ہوتی رہتی ہے؟ اور یہ بھی پوچھنا ہے کہ جب عورت

 

۹۵

 

کے شکم میں کوئی حمل ٹھہرتا ہے تو اس کا حیض وقتی طور پر بند ہو جاتا ہے، اسکی کیا وجہ ہے؟ آیا یہ بات درست ہے کہ یہ خون گندہ ہو جانے سے پہلے ہی جنین=پیٹ کے بچے کے جسم کا حصّہ بن جاتا ہے۔

بدھ ۱۳، جون ۲۰۰۱ء

 

۹۶

 

کائناتی بہشت

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے امامِ مبین میں سب کچھ گھیر کر اور گن کر رکھا ہے اور اُس کو اپنی قدرت کا کارخانہ اور مظہرِ عجائب و غرائب بنایا ہے، پس جب امامِ زمان علیہ السّلام کے عشق میں مومنِ سالک پر عارفانہ موت اور روحانی قیامت واقع ہونے لگتی ہے تو حضرتِ امامؑ کے عظیم معجزات شروع ہو جاتے ہیں، مومنِ عاشق کو حیرت بالائے حیرت ہوتی رہتی ہے۔

صورِاسرافیل کا لاہوتی معجزہ ایسا ہرگز نہیں کہ دنیائے ظاہر میں اس کی کوئی تمثیل ہو، عزرائیلی معجزہ بھی بڑا حیران کُن ہے، ساتھ ہی ساتھ عالمِ ذرّ کا ظہور اور خروجِ یاجوج و ماجوج، اس کے ساتھ ساتھ کُلّ ارواح کا حشر اور پھر نشر، یعنی القابض اور الباسط کا عملِ مسلسل، اس میں مجھے قرآنِ حکیم میں امامِ وقت کی تائید حاصل تھی ورنہ میں ان عظیم معجزات کی جلالت و ہیبت سے نیست ونابود ہوجاتا، مگر خدا کے فضل و کرم سے اور رحمتِ عالم (صلعم) کی رحمت سے میں ناچیز مرمر کر زندہ ہوگیا۔

اب میں اُس عظیم ملکِ صین کو سلام کرتا ہوں، شہرِ یارقند کو سلام کرتا ہوں، قرانگغو توغراق جماعت خانہ کو بار بار ترکی سلام کرتا ہوں، عزیز محمد خان اور اسکے افرادِ خاندان کو سلام کرتا ہوں، اس گاؤں کی جماعت کو سلام و دعا کرتا ہوں، اس اپنے گھر کو سلام کرتا ہوں جو جماعت خانہ سے متّصل تھا، اور یارقند کی جماعت کو سلام کرتا ہوں، آمین!

ہفتہ ۲۱، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۷

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۱

 

ارشادِ نبوی ہے: اطلبوا العلم و لو بالصین۔

ترجمہ: علم کو ڈھونڈو اگرچہ اس کے لئے تمہیں چین جانا پڑے۔ سعادتِ ازلی اور حسنِ اتفاق سے یہ بندۂ کمترین چین گیا: ۔

این سعادت بزورِ بازو نیست                     تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو بہت سی سعادتیں ایک ساتھ بھی حاصل ہوسکتی ہیں، ہاں ہاں، اُس کا فضل و کرم اور فیاضی بے مثال ہے۔

شہر یارقند کے ایک گاؤں کا نام قرانگغو توغراق تھا، اس بابرکت گاؤں میں ۴۵ اسماعیلی خاندان آباد تھے، ان میں ایک نامور اسماعیلی عزیز محمد خان کا خاندان بھی شامل تھا، عزیز محمد خان نہ صرف ایک بڑا دولت مند اسماعیلی تھا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ عشقِ مولا میں امیر تھا، علم و حکمت کا شیدائی، ذکر وعبادت کا فدائی، شب خیز مومن، نیک کاموں کا مشتاق تھا، یہ وہ بڑا خوش نصیب مردِ مومن تھا جس نے ذاتی اخراجات سے ملکِ چین (یاقند) میں سب سے اوّلین جماعت خانہ تعمیر کیا جو باکرامت و معجزاتی جماعت خانہ قرار پایا، اس پاک جماعت خانہ میں جو کچھ دیکھا گیا تھا اگر میں کسی وجہ سے پوشیدہ رکھوں تو اپنے آپ پر بڑا ظلم ہو گا (۲: ۱۴۰) چونکہ تمام جماعت کیلئے بہت بڑا امتحان تھا، لہٰذا جماعت خانہ میں عاجزانہ عبادت اور گریہ وزاری ہوتی رہتی تھی، جس کی وجہ سے جماعت خانے کے بعض معجزے ظہور پذیر ہونے لگے۔

اتوار ۲۲، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۹۸

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۲

 

قرانگغوتوغراق (یارقند) چین کا یہ جماعت خانہ ۱۹۴۹ء میں تعمیر ہوا، اور یہ بندۂ درویش بھی اسی سال وہاں پہنچا تھا، حکیم پیر ناصر خسرو (قدّس اللہ سرّہ) کے حلقۂ دعوت میں ذکرِجلی کی روایت بھی چلی آئی ہے اور گریہ وزاری بھی، قرآنِ حکیم (۷: ۱۸۰) میں اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے کہ اسماء الحسنیٰ اُسی کے لئے ہیں پس جب بھی تم اللہ کو پکارو تو اس کو انہی ناموں سے پکارنا، ہم اس کی تفسیر و تاویل کے لئے ارشاداتِ أئمّۂ آلِ محمدؐ سے رجوع کرتے ہیں۔

چنانچہ اُس پاک جماعت خانے میں ہم سب دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم پر عشق و محبت کے ساتھ ذکرِ جلی بھی کرتے تھے، کچھ عرصے کے بعد جبکہ میں رات کے وقت جماعت خانہ میں تنہا تھا تو قادرِ مطلق کی قدرت سے جماعت خانہ کی چار دیواری، فرش اور سِلِنگ نے یا جماعت خانہ کے تمام ذرّات نے یا نورِ جماعت خانہ نے یا اس کی روح نے اسی زور و شور سے ذکرِ جلی کیا، جس طرح ہم جماعت قبلاً ذکر کرتے رہتے تھے، معجزہ انسانی عقل سے ماوراء ہے، اس لئے ہم اس کی تحلیل نہیں کر سکتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور رات صرف جماعت خانہ میں زلزلۂ روحانی آیا اور کہیں بھی نہیں، یہ ظاہری بھونچال ہرگز نہ تھا، ایک رات مجھے یہ احساس و ادراک بھی ہوا کہ کوئی

 

۹۹

 

روحانی لشکر جماعت خانے کے گردا گرد طواف کر رہا تھا، اس میں بڑی حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہ اللہ کے سپاہی زمین پر زور سے پاؤں مارتے ہوئے چلتے تھے، چال اور آواز سے معلوم ہوا کہ ان میں میرے والدِ محترم بھی شامل تھے، قرآنِ حکیم کا حکمتی اشارہ ہے کہ اللہ کے گھر سے تین قسم کے جسمانی اور تین قسم کے روحانی وابستہ ہیں (۲: ۱۲۵) وہ یہ ہیں: طواف کرنے والے، اعتکاف کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والے۔

 

اتوار ۲۲ اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۰

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۳

 

سوال: مبارک جماعت خانہ نے وہی ذکرِ جلی کر کے دیکھایا جو اس سے پہلے افرادِ جماعت کرتے رہتے تھے، اس کی حکمت یا تاویل کیا ہے؟

حکمتِ اوّل: یہ امامِ زمان کا نور تھا۔

حکمتِ دوم: یہ جماعت خانہ کی پاک روح تھی۔

حکمتِ سوم: جماعت کی متحدہ روح تھی۔

حکمتِ چہارم: یہ ایک زندہ معجزہ تھا۔

حکمتِ پنجم: یہ نامۂ اعمال کی ایک جھلک تھی، وغیرہ۔

سوال: زلزلۂ روحانی میں کیا حکمت تھی؟

جواب: یہ معجزاتِ جماعت خانہ میں سے ایک معجزہ تھا، حرکت زندگی کی علامت ہے، لہٰذا یہ اشارہ تھا کہ اس پاک گھر کی ایک پاک روح موجود ہے، وہ پاک روح امامِ زمان کا نور ہے۔

ایک دفعہ بوقتِ روز میں جماعت خانہ میں تھا، اس حال میں فاختہ جیسے بہت سے پرندے صحن میں تھے، کسی آواز نے ان کو جماعت خانے کی طرف بلایا اور وہ میری طرف آنے لگے اور مجھ پر ایک زبردست رعب طاری ہوگیا، حالانکہ ظاہر میں اس کی کوئی وجہ نہ تھی، کیونکہ وہ چھوٹے چھوٹے پرندے تھے، مگر ایسا

 

۱۰۱

 

لگتا تھا کہ ان پر کسی روح کا کنڑول تھا، تاہم یقیناً وہ اچھی روح تھی، کیونکہ وہ صاف اور ستھرے پرندے تھے جو اکثر جماعت خانہ کے صحن میں آیا کرتے تھے۔

خُرُوسانِ سَحَر گویند کہ قم یایھا الغافل

تواز مستی نمی دانی کسی داند کہ ہشیار است

ترجمہ: صبح سویرے بولنے والے مرغے بولا کرتے ہیں کہ اے غافل شخص اُٹھ جا (عبادت کے لئے) تو اپنی مستی کی وجہ سے اس پکار کو نہیں سمجھتا کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو صرف کوئی دانا سمجھ سکتا ہے، سبحان اللہ! مرغ کی اذان میں ایک بڑا راز ہے، خدا اس حقیقت کا گواہ ہے کہ قریب کا کوئی مرغا گاؤں والوں سے کچھ کہا کرتا تھا۔

اتوار ۲۲، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۲

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۴

 

بحوالۂ کتابِ دعائم، عربی، جلدِ اوّل، کتابُ الحج، ص۲۹۲: ۔

زمین پر سب سے پہلے بحکمِ خدا فرشتوں نے اللہ کا گھر بنایا تھا، وہ زمانۂ طوفان میں آسمانِ چہارم پر اُٹھایا گیا، جس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے زیارت کے لئے داخل ہو جاتے ہیں کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آسکتے، اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ کے پاک گھر کی روح و روحانیت ہے، اسی حیثیت میں وہ مقدّس گھر آسمانِ چہارم پر مرفوع ہوا تھا، پس جماعت خانہ بیتُ اللہ شریف کی تاویل ہے، لہٰذا قرآن و حدیث میں جو کچھ بیت اللہ کی شان میں ہے تاویلاً جماعت خانہ کی شان میں ہے۔

خود ستائی کفر اور شرک ہے، اللہ ہر مومن کو اس سے بچائے! لیکن دینِ اسلام میں شہادت (گواہی) کی جو اہمیت ہے وہ سب پر عیان ہے، پس اگر میں نے اللہ کے زندہ اسمِ بزرگ کا کوئی معجزہ دیکھا ہے تو اس پر کونسا پردہ ڈال سکتا ہوں اور کیوں؟ شروع شروع میں میرے اپنے لوگوں میں سے بعض مجھے یہ نصیحت کرتے تھے کہ روحانیت کے بھیدوں کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں، لیکن وہ یہ نہیں سوچتے تھے کہ یہ حکم دورِ قیامت کے لئے نہیں ہے۔

پیر ۲۳، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۳

 

چین میں اوّلین جماعت خانہ اور اس کے معجزات نمبر ۵

 

اللہ تعالیٰ جلّ جلالہٗ و عمّ نوالہٗ کے عظیم اور سلسلہ وار احسانات اور انعامات کی شکرگزاری سے زبان قاصر ہے، اور یہ بات بالکل سچ اور حقیقت ہے کہ ہم اللہ کی نعمتوں کو کبھی شمار بھی نہیں کرسکتے ہیں، بہرکیف یہاں معجزات کا تذکرہ ہو رہا ہے۔

میری مذہبی زندگی کا سب سے بڑا یوم وہ تھا جس میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ ارواحنا فداہٗ نے برقی بدن (جثّۂ ابداعیہ) میں اپنا پاک ظاہری، نورانی، معجزاتی دیدارعطا فرمایا تھا، اس کا بیان میرے لئے سب سے مشکل اس لئے ہے کہ یہ سب سے بڑا معجزہ ہے، اس کو بیان کرنے کیلئے شایانِ شان الفاظ ہمارے پاس کہاں ہیں، مگر ہاں ایک چارۂ کار ہے، وہ یہ ہے کہ ہم آ ئینۂ قرآن میں دیکھیں، کیونکہ حضرتِ امام محمد باقر علیہ السّلام نے ہماری اس مشکل کو بہت پہلے ہی آسان کر دیا ہے، وہ ہے  ما قیل فی اللہ  کا ارشادِ مبارک، اب میں کئی آیاتِ قرآنی کی تاویلی زبان میں برقی بدن میں دیدار کی معرفت بتا سکتا ہوں۔

آپ اس شعر کو سُن لیں: ۔

آئینۂ خدائے نما مرتضیٰ بُوَد                     در چشمِ جان تجلّیٔ جانان کُند علی

ترجمہ: مرتضیٰ علی آئینۂ خدا نما ہے، اگر دل کی آنکھ سے دیکھا جائے تو علی ہی خدا کی تجلّی کرتا ہے۔

 

پیر ۲۳، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۴

 

ناقابلِ فراموش معجزات۔۱

 

جی ہاں، تقریباً سب معجزے ناقابلِ فراموش ہوتے ہیں، مگر پھر بھی انسانی یادداشت کی کمزوری اپنی جگہ پر ہے، میری بروشسکی شاعری کا اوّلین شعر کسی سوچے ہوئے منصوبے کے بغیر حاضر امامؑ کے مبارک اسم سے شروع ہوا، اور اُس اوّلین نظم کا موضوع امام کا عشق ہے۔

اس بندۂ مسکین کو حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا پاک ظاہری دیدار سب سے پہلے ۱۹۴۶ء میں شہر پونا میں حاصل ہوا: ۔

جار جلوہ اوّل غنم لو زلزلہ دیمی =  جب میں نے اس کا پہلا جلوہ دیکھا تومجھ کو ایک ذاتی زلزلہ ہوا۔

میں حسن آباد زیارت (بمبئی) کے اُس حکمت آگین دیدار کو کیسے بھول سکتا ہوں، جس میں میرے مولا نے مجھے تحفۂ لازوال عطا فرمایا تھا، اُس بابرکت تحفے میں ایک عالمِ شخصی پنہان تھا اور ایک کائناتی بہشت بھی تھی، میں مردۂ جہالت تھا میرے مولا نے مجھے حیاتِ سرمدی کا ایک بے مثال نسخہ لکھ کر سمجھا دیا۔

میں پرانا جماعت خانہ کھارادر کراچی کو ہمیشہ یاد کرتا ہوں، کیونکہ میں نے اس میں شب خیزی کی ریاضت کی اور تقریباًایک چلّہ کے بعد اسمِ اعظم کی پہلی روشنی کا مشاہدہ کیا، یہ ۱۹۴۸ء کا زمانہ تھا۔

میں نے تاشغورغان کے انتہائی عجیب و غریب نورانی خواب کو قبلاً لکھ دیا ہے، کیونکہ اس خواب میں ایک تاویلی خزانہ پوشیدہ ہے۔

منگل ۲۴، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۵

 

ناقابلِ فراموش معجزات۔۲

 

ایک شب میں نے بڑا عجیب صالح نوارنی خواب دیکھا، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام روحی فداہٗ کا پاک دیدار بہت ہی قریب سے حاصل ہوا، آپؑ نے ایک صاف و سفید ہونزائی اُونی چوغہ زیبِ تن کیا ہوا تھا جس پر بہت سے تمغے (میڈلز) لگے ہوئے تھے جن کی طرف دستِ مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے بندۂ کمترین سے سوال فرمایا کہ جانتے ہو یہ کیا ہیں؟ میں نے عاجزی سے گزارش کی کہ مولا بہتر جانتے ہیں، پھر مولا فرمانے لگے کہ یہ سب میڈلز جو میرے چوغے پر بیرونی جانب سے ہیں وہ میرے ظاہری عملدار ہیں، پھر امامِ عالی مقام نے اس چوغہ کے اندر کی طرف لگے ہوئے بہت سے منڈلز کو دیکھاتے ہوئے فرمایا کہ میرے باطنی عملدار بھی ہیں، اور فرمایا کہ تم باطنی عملداروں میں ہو۔

شمالی علاقہ جات میں امامِ آلِ محمدؐ کے بہت سے ظاہری اور روحانی معجزات ہوئے ہیں جن کو چشمِ بصیرت سے دیکھا اور پہچانا جا سکتا ہے، منجملہ ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ مولا نے جب میر غزن خان ثانی کو کارِ بزرگِ اوّل و دوم عطا فرمایا تو اس کے دل میں جو عشقِ مولا تھا اس میں زبردست اضافہ ہوا، اس نے اپنی تمام رعیت کو کارِ بیگار وغیرہ سے آزاد کر دیا، وہ ہر شبِ جمعہ از شام تا سحر دف و رباب کے ساتھ حضرتِ امام کی منقبت خوانی کو سنتا رہتا تھا، وہ میر محمد نظیم خان کا بیٹا اور میر محمد جمال خان کا باپ تھا۔

بدھ ۲۵، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۶

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات۔۱

 

رسولِ اکرمؐ کا سب سے دُوررس ارشاد یہ ہے: ۔

اطلبوا العلم و لو با لصین۔  تم علم کو طلب کرو اگرچہ تمہیں اس کی خاطر چین جانا پڑے۔

اس حدیثِ شریف کا وہ تاویلی معجزہ جو انتہائی حیران کُن اور بے مثال ہے، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہٗ) نے کمالِ رحمت و مہربانی سے دکھایا، اور امامِ آلِ محمدؐ کے اس قیامت خیز اور طوفانی معجزے میں عجائب و غرائب کی لاتعداد کائناتیں موجود ہیں، علیِٔ زمان کے ان تاویلی معجزات میں وَاللہ ہر قسم کے مشکل سوالات کے لئے جوابات ہیں۔

قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت (اسلام) کی بہترین خدمت سرمایۂ حکمت ہی سے ہو سکتی ہے، مادّی سائنس کی انقلابی ترقی سے تمام لوگ حیرت زدہ ہیں، اے دانا لوگو! ایسے میں ذرا روحانی سائنس اور قرآنی حکمت کے عجائب و غرائب کو بھی دیکھا کرو! اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن ظاہری سائنس کے خلاف ہے، جب قرآن کا ایک اسمِ صفت حکیم ہے اور یہ اپنی کئی آیاتِ کریمہ میں حکمت کی شاندار تعریف فرماتا ہے تو اسی میں مادّی سائنس کی تصدیق و تعریف بھی ہے، کیونکہ حکمت کا کوئی ایک رُخ نہیں بلکہ وہ آفتابِ عالمتاب کی طرح ہمہ جہت روشنی پھیلانے والا گوہر ہے۔

 

جمعہ ۲۷، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۷

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات۔۲

 

یارقند، قرانگغو توغراق جماعت خانہ کے صحن میں جس شام آتشِ سرد=ٹھنڈی آگ کا تاویلی معجزہ ہوا تھا وہ کئی عظیم معجزات کا جامع تھا، میں صحن میں کھڑا تھا کہ پانی کے بہاؤ کی طرح کوئی چیز میری طرف آنے لگی، قریب آنے پر معلوم ہوا کہ یہ ایک عجیب قسم کی آگ تھی، بعد میں پتا چلا کہ یہ وہ آگ تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے زمانے میں ٹھنڈی اور باعثِ سلامتی بنایا تھا (۲۱: ۶۹)۔

پس یہ آگ میرے جسم سے لپٹتی ہوئی سر سے بہت بلند ہو گئی، ایسا لگا کہ یہ آسمان کو چُھو رہی ہے، میرے ساتھ کچھ روحانی ساتھی تھے ان میں سے ایک نے کہا کہ تم اپنے سر کو جھٹکا دے کر اس کو پرے گرادو، تو میں نے ایسا ہی کیا اور وہ آتشِ سرد کا ٹاور گر کر چُور چُور ہو گیا، مگر فوراً ہی تمام ٹکڑے آپس میں مل گئے اور پھر وہی ٹاور سر سے بلند ہو گیا، مجھے روحانی ساتھی نے سر کو ہلا کر اس ٹاور کو گرانے کا حکم دیا اور میں نے اس کو گرا دیا۔

اب تیسری دفعہ یہ ٹاور پھر میرے سر سے بلند ہو کر آسمان کو چھونے لگا، اب کی میری کوشش سے اس ٹاور کو کچھ نہیں ہو رہا تھا وہ اپنی جگہ قائم تھا، اب مجھے بہت پریشانی ہونے لگی، میں نے طرح طرح کی دعائیں شروع کیں، پھر یہ ٹاور فوّارہ جیسا ہوا اور اس سے جو قطرات گِرتے تھے وہ چھوٹے چھوٹے جاندار بن

 

۱۰۸

 

جاتے تھے، لہٰذا بعد میں مجھے یہ یقین آیا کہ جِنّات آتشِ سرد سے پیدا کئے گئے ہیں، اور وہ کُرتے بھی جو گرمی سے بچانے کے لئے ہیں (حوالہ: ۱۶: ۸۱) میرے کانوں میں چھوٹے چھوٹے جانور داخل ہوئے تھے، لہٰذا بیقراری کا عالم تھا۔

ہفتہ ۲۸، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۰۹

 

امامِ آلِ محمدؐ کے تاویلی معجزات۔۳

 

آج کی زبردست ترقی یافتہ دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ یو۔ایف۔اوز کے بارے میں ہے، جو کوئی بھی اسے حل نہیں کرسکتا ہے، سائنسدانوں نے ان کو جیسا نام دیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ ان کو پہچاننے سے عاجز ہیں۔

معجزۂ آتشِ سرد کا بارِگران میرے لئے آسان نہ تھا، میں اپنے گھر داخل ہو آیا ہی تھا اتنے میں یو۔ایف۔اوز کا معجزہ شروع ہوا، کسی آواز نے کہا کہ تم اوپر دیکھو کہ رُوس کے جہاز تم پر بمباری کرنے کے لئے آگئے ہیں، میں اوپر دیکھنے لگا تو مکان کی چھت میں ایک بڑا شگاف پڑ گیا تھا، پھر رفتہ رفتہ چھت تقریباً غائب ہوگئی، اور سچ مچ میرے مکان کے اوپر کچھ جہاز منڈلاتے ہوئے نظر آئے، آواز کا پتا نہیں چلا، میں نے بالکل یقین کیا کہ اب بس میری جسمانی موت آن پہنچی۔

میں نے اپنے فرزند سیف سلمان خان اور اس کی والدہ کو ساتھ والے دوسرے کمرے میں رکھا، اس خیال سے کہ تنہا مجھے ہلاک ہو جانا ٹھیک ہے مگر خاندان تو بچ جائیں، میں مرعوب و مغموم ہوچکا تھا سُکڑ کر بیٹھ گیا، تب النعاس = غُنودگی (۸: ۱۱) کی صورت میں معجزہ ہوگیا، فوراً تمام خوفناک چیزیں یکسر ختم ہوگئیں، اور سامنے والی دیوار میں ایک روحانی ریڈیو بج رہا تھا، اور اس پر کوئی مذہبی جشن ہو رہا تھا۔

ہفتہ ۲۸، اپریل ۲۰۰۱ء

 

۱۱۰

 

عالمِ عجائب و غرائب

 

ہاں بیشک یہ عالمِ شخصی ہی کا ذکر ہے، لیکن اس کے عجائب و غرائب کا بیان کما حقہٗ کوئی بھی نہیں کرسکتا ہے کیونکہ یہ وہ کارخانۂ قدرت ہے جس میں بے پایان اور لامحدود چیزیں پیدا ہوتی ہیں، یہ صرف عالمِ شخصی کی طرف توجہ دلانے کی ایک کوشش ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی کا دوسرا نام بجا طور پر عالمِ عجائب وغرائب ہے، کیونکہ یقیناً اس کی ہر ہر چیز انتہائی عجیب وغریب، بے حد انوکھی اور ازبس نرالی ہے، مثلاً آپ جب عالمِ ذرّ کو دیکھیں گے تو آپ کو بے حد حیرت ہوگی۔

چنانچہ میں یہ قصّہ اپنے دوست عزیز محمد خان مرحوم (یارقند چین) کے حوالے سے بیان کرتا ہوں کہ ایک دفعہ کسی صوفی پر کشف ہوا، اس کو عالمِ ذرّ کے کچھ جِنّات دیکھائے گئے جو ذرّات کی شکل میں تھے، اس نے اپنے اِس کشف کا تذکرہ اپنے دوستوں سے بڑی حیرت کے ساتھ کیا اور کہا کہ میں نے تو یہ سُنا تھا کہ جنّات عظیم الجُثّہ ہوا کرتے ہیں، آج میں ذرّاتی جِنّات کو دیکھ کر حیرت زدہ ہو گیا ہوں۔

الغرض عالمِ ذرّ ایک مکمل عالم ہے مگر اس کی تمام مخلوقات خدا کی قدرتِ عجیبہ سے ذرّات کے برابر ہیں اور انہی میں لشکرِ سلیمان اور یاجوج و ماجوج

 

۱۱۱

 

بھی ہیں، اور ذرّاتِ ارواح بھی ہیں۔

ہفتہ ۸، ستمبر ۲۰۰۱ء

 

۱۱۲

 

حضرتِ امامِ عالیمقامؑ (روحی فداہٗ) کے اِس غلامِ کمترین کا زندہ مذہبی مکتب

 

بندۂ خاکسار (پرتوِشاہ=نصیر الدّین) ابنِ خلیفہ حُبِّ علی ابنِ خلیفہ محمد رفیع مولائے برحق کے فضل و کرم اور سعادتِ ازلی سے ایک مذہبی خاندان میں پیدا ہوا ؁۱۹۱۷ء اور مقام حیدر آباد، ہونزہ ہے، خوش بختی سے میرے مشفق والدین میرے لئے ایک زندہ مذہبی مکتب کا کام کرتے تھے، میری والدۂ محترمہ اگرچہ حرف شناس تو نہیں تھیں، لیکن وہ میرے والدِ محترم کے ساتھ ساتھ ہر اُس فارسی نظم کو بڑی مہارت سے پڑھتی ہوئی ہم نوائی کرتی تھیں، جو امامِ زمان کی تعریف و توصیف میں ہوتی تھی، اور میں ہمیشہ غور سے سُنتا رہتا اور ہم نوا بھی ہوتا تھا، نہ تنہا میرے والد صاحب بلکہ تمام خلیفہ صاحبان رباب اور دف کی مقدّس موسیقی کا سہارا لیکر منقبت خوانی اور ذکرِ جلی کر لیا کرتے تھے، اور دعوتِ بقا کی رسم میں تو دف اور رباب لازمی ہیں۔ پس ایسے پاک مذہبی ماحول نے مجھے ایک مذہبی شاعر بنایا میں نے شروع شروع میں کچھ وقت تک شاعری کی صرف مشقیں کیں، بعد ازان ؁۱۹۴۰ء میں ایک باقاعدہ بُروشسکی نظم امامِ زمان کی شان میں تصنیف کی جس کے مطلع کا ترجمہ یہ ہے: حاضر امام کے عشق کی ایک آگ میرے دل میں لگ رہی ہے، حاضر امام میرے زخموں کا مرہم اور میرے دردِ دل کا درمان ہے۔ میں

 

۱۱۳

 

اس وقت گلگت سکوٹس=سکاوٹس میں بھرتی ہوچکا تھا۔ گلگت سکاوٹس میں اسماعیلیوں کی بہت بڑی تعداد تھی۔ حوالدار تحویل شاہ اور حوالدار حسن علی مولا کے عاشقوں میں سے تھے، اور ان کی آواز بھی مثالی تھی، انہوں نے اس نظم کو مجھ سے طلب کرکے خوب ترنم سے پڑھا اور مولا کا معجزہوا کہ لوگ حیرت زدہ ہو گئے، اور جگہ جگہ سے فرمائش ہوئی کہ یہ نظم مجھے لکھ کر دو۔ میں خود حیران ہوگیا، اُس زمانے میں کوئی فوٹوسٹیٹ مشین کہاں تھی؟ پس میں نے کچھ عرصے تک عاجز آکر اپنی نظموں کو مخفی رکھا اور جب ایک کتاب نظموں کی تیار ہوئی تو مولانا حاضرامامؑ کے حضور میں بغرضِ دعا ایک تارِ برقی بھیجا جس کا جواب مولا نے مرحمت فرمایا ہے، وہ فرمانِ پاک دیوانِ نصیری کے آغاز میں موجود ہے۔ الحمد للہ علی منہ و احسانہ

منگل، ۲۰ اگست ۲۰۰۲ء

 

۱۱۴

 

تاشغورغان کے عجیب و غریب خواب کی تاویل

 

اوّل: حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کے خواب کی مثال، تاویل اور معرفت تھی (۳۷: ۱۰۲)۔ دوم: اس لڑکے کی مثال تھی جس کو خضر نے قتل کیا تھا (۱۸: ۷۴)۔ سوم: جسماً مر جانے سے قبل نفساً مرنے کا ایک نمونہ تھا، چہارم: باطنی شہادت تھی (۴۷: ۴ تا ۵)۔ پنجم: روحانی قیامت اور منزلِ عزرائیلی کا اشارہ تھا۔ ششم: فنافی الامام کا ایک نمونہ تھا۔ ہفتم: فضا میں بصورتِ چمکتے ہوئے ذرّات وہ روح تھی جس کے بارے میں مولا نے ارشاد فرمایا ہے کہ روح ایک ہی ہے، یعنی تمام روحوں کی وحدت ہی اصل روح ہے۔ جس طرح کروڑوں خلیات کی وحدت و سالمیت کا نام انسان ہے۔

تاشغورغان کا بڑا عجیب و غریب خواب اللہ کے زندہ اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) کے بے شمار معجزات میں سے ایک تھا پاک مولا نے فرمایا کہ اسماعیلی مذہب روحانیت کا تخت ہے، یعنی اس کے باطن میں تختِ سلیمان بھی ہے اور عرش بھی ہے اور عرش دو طرح سے ہے ایک تو پانی پر ہے، اور دوسرا حظیرۂ قدس عرش ہے۔ یاد رہے کہ نورانی خواب کوئی معمولی چیز ہر گز نہیں، بلکہ یہ انبیاء علیھم السّلام کے عظیم معجزات میں سے ایک

 

۱۱۵

 

ہے۔

امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے ایسے معجزات میں اسرارِ معرفت اور تاویلِ قرآن پوشیدہ ہوا کرتی ہے۔ الحمد للہ ربّ العلمین۔

۲۳، اگست ۲۰۰۲ء

 

۱۱۶

 

عبدالاحد کا اشارہ جانبِ آسمان

 

یہ اُس عجیب و غریب بابرکت وقت کا قصّہ ہے، جبکہ یہ عاجز بندہ ذاتی طور پر یارقند (چین) میں روحانی انقلاب=روحانی قیامت کے مراحل سے گزر رہا تھا۔

کتابِ لعل و گوہر ص۴۱ پر بھی نظر ہو، ۔۔۔ چنانچہ ظاہری انقلاب اہلِ ایمان کے لئے اللہ پاک کا وہی امتحان تھا جس کا ذکر سورۂ بقرہ (۲: ۱۵۵) میں فرمایا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نہ صرف عبدالاحد ہی بلکہ بہت سارے اہلِ ایمان قبل از عبادت، بعد از عبادت اور بعض دفعہ بندگی کے ساتھ ساتھ گریہ وزاری کر لیا کرتے تھے، اِس حال میں روحانی اعتبار سے خداوندِ قدوس کی کتنی بڑی رحمت تھی، ایک دن میں نے نورانی خیال اور نورانی خواب کے درمیان عبدالاحد کو دیکھا، وہ بڑا شادمان، خرسند اور راضی مگر خاموش کھڑا تھا، وہ ہاتھ سے آسمان اور ستاروں کی طرف کچھ ایسے اشارے کرنے لگا کہ ان کے مفہومات خود بخود میرے دل میں اترتے رہے، وہ اشاراتی زبان میں کہہ رہا تھا کہ ہم سیارۂ زمین پر اراضی اور اموال کے چھن جانے سے کیوں روئیں جبکہ ہمارے خداوند نے اِس عظیم

 

۱۱۷

 

کائنات کی وسعتوں میں بے شمار ستاروں کی دنیائیں اور ان میں بہشت کی بڑی بڑی سلطنتیں (خلافتیں) بنائی ہیں۔ (۲۴: ۵۵)، (۶: ۱۶۵)، (۴۳: ۶۰)۔ عبدالاحد کا باپ شاکر آخوند ایک اسماعیلی عالمِ شخص تھا، اِس لئے عبدالاحد مولائے برحق کے حقیقی عاشقوں میں سے تھا وہ مولا کے اِس کمترین غلام کی تعلیمات کو عشق سے سُنتا تھا، پس وہ شدید گریہ وزاری کے کورس کے بعد فرشتہ ہوگیا، پھر اُس نے قرآنِ حکیم کی تین محولۂ بالا آیات کی تاویل میں اہلِ ایمان کو بُشارت دی کہ ان کے لئے آسمانی بہشت میں خلافت=بادشاہی ہے۔ آپ آیاتِ خلافت کو بار بار پڑھیں وہ ہیں: سورۂ نور (۲۴: ۵۵)، سورۂ انعام (۶: ۱۶۵)، سورۂ زخرف (۴۳: ۶۰)۔ فرشتہ کبھی اشارہ=وحی کرتا ہے اور کبھی کلام کرتا ہے مگر کلام سے وحی=اشارہ بلند تر ہے، کیونکہ وحی=اشارہ کے معنی زیادہ وسیع ہوتے ہیں۔

اتوار ۲۵، اگست ۲۰۰۲ء

 

۱۱۸

 

مرحوم و مغفور عزیز محمد خان باے (غنی) ابنِ عزیزآخوند باے=غنی کی لازول مذہبی خدمات قسط۔ ۱

 

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے پونا میں ارشاد فرمایا: اگر صرف ایک ہی مومن ’’ہمت والا‘‘ ہو تو ہم اُس اکیلے (مومن) کو ایک لاکھ مومنوں کے برابر سمجھتے ہیں۔ پس یقیناً مولا کا عاشقِ صادق عزیز محمد خان اِس پاک فرمان کا مصداق تھا، امامِ عالی مقام علیہ السّلام نے ؁۱۹۲۳ء میں پیر سبز علی کے توسط سے اسماعیلی جماعت کے لئے بہت سی پُرحکمت ہدایات کے ساتھ تعمیرِ جماعت خانہ کا امر بھی فرمایا ہوا تھا، لیکن کیا مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے کہیں ایک جماعت خانہ بھی وجود میں نہیں آیا، خدا گواہ ہے کوئی مجبوری نہ تھی، مگر بات یہ ہے کہ موروثی لیڈرز جماعتی ترقی اور مضبوطی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے وہ صرف ذاتی طور پر نمایان دولتمند ہو جانا چاہتے تھے تاکہ وہ اسی طرح حکومت اور عوام کی نظر میں بڑے معزز اور واجب الاحترام ہو سکیں۔

پس وہ جماعت کے دل میں یہ خوفِ بیجا ڈالتے رہے کہ ہمارے اِس ملک میں جماعت خانہ ناممکن ہے کیونکہ اس سے اسماعیلی مذہب جو اب تک پوشیدہ ہے، وہ ظاہر ہو جائے گا جس سے جماعت کو ہر قسم کی تکلیف ہوگی۔

 

۱۱۹

 

جب مولا کے حقیقی عاشق عزیز محمد خان کو ؁۱۹۴۹ء میں یہ خبر ملی کہ فتح علی اور نصیر الدّین تاشغورغان (سریقول) میں مولائے پاک کا ایک مبارک فرمان لے کر آئے ہوئے ہیں اس مقدّس فرمان میں ایک ضروری حکم تعمیرِ جماعت خانہ کے لئے ہے، پس امامِ زمان کے عاشقِ جان نثار عزیز محمد خان نے اپنے ایک نیک نام گاؤں قرانگغو توغراق میں عظیم ملکِ چین کا اوّلین مقدّس جماعت خانہ کلّی طور پر ذاتی اخرجات سے تعمیر کیا، اس بابرکت گاؤں میں کُل ۴۵ اسماعیلی گھر تھے کسی سے چندہ وغیرہ نہیں لیا گیا، اور جو لوگ تعمیر کا کام کرتے تھے ان کو امیرانہ طعام دیا جاتا تھا۔ اِس پاک جماعت خانہ کے یومِ افتتاح سے لیکر ایک سال کے مکمل ہونے تک ہر شبِ جمعہ کو پوری جماعت کیلئے رباب کے ساتھ منقب خوانی، ذکر و عبادت اور علمی مجالس اور ظاہری کھانے کی دعوت بھی جاری تھی، ایسی سال بھر کی بھاری مجلس کی تجویز میری طرف سے کیونکر ممکن ہوسکتی تھی، یہ تو عزیز محمد خان کا ذاتی معاملہ اور جماعت خانہ سے عشق تھا وہ البتہ جانتا تھا کہ تقریباً ایک سال کے بعد کروڑوں کی جائیداد اور دولت کہیں غائب ہو جانے والی ہے، اور جو عشقِ مولا کے تحت لازوال دینی نعمتیں ہیں وہی ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہیں گی۔

بدھ ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۲ء

 

۱۲۰

 

عزیز محمد خان ابنِ عزیزآخوند ایک عظیم فرشتۂ ارضی تھا۔ ۲

 

جس مومنِ موحد کو بحقیقت فرشتۂ ارضی کہا جاتا ہے وہ بہت سی مذہبی خوبیوں کا مالک ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے عزیز محمد خان اور ان کے افرادِ خاندان سب ارضی فرشتے تھے، یہی وجہ ہے کہ نیک نام قرانگغو توغراق گاؤں میں ان کی زمین پر دورِ قیامت کا مثالی اور قیامتی جماعتخانہ بن گیا اور اس میں ظہورِ قیامت کی عظیم معجزات رُونما ہوئے۔ جس طرح میں نے امامِ مبین کے بعض معجزات کو ذکر کیا ہے۔

جو میری سب سے گرانمایہ کتاب ہے: ’’قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت‘‘ یہ جماعت خانۂ قرانگغو توغراق اوریارقند و کاشغر میں صاحبِ قیامت کے کئے ہوئے معجزات کے فیوض و برکات سے ہے، جس کا بڑا کامیاب انگلش ترجمہ مرکزِ علم و حکمت لندن کے علمی فرشتوں سے کیا ہے تو ماشاء اللہ کیا خوب ترجمہ ہے! خداوندِ قدوس نورِ امامت کے تمام نیک بخت پروانوں کو ارض و سماء کی خلافت والے عظیم فرشتے بنائے! آمین! (۴۳: ۶۰)

کتنی بڑی سعادت ہے ان درویشوں کی جن کو حجّتِ قائم اور حضرتِ قائم اور روحانی قیامت کی عملی معرفت حاصل ہوئی اور وہ عرفانی جنّت کے شناسا ہو گئے امامِ مبین=امامِ زمانؑ، اللہ کے زندہ اسمِ اعظم=کنزِ کُلّ

 

۱۲۱

 

کے چشم دید معجزات کے تذکروں سے کتابیں بھر گئیں ہیں۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ نہ صرف عزیز محمد خان ہماری روح کا حصّہ ہوگیا بلکہ اس روحانی حشر کی وجہ سے دنیا کے تمام اسماعیلی قانونِ یک حقیقت کے تحت نفسِ واحدہ ہو گئے۔ الحمد للہ علیہ منہ و احسانہ۔

بدھ ۱۶، اکتوبر ۲۰۰۲ء

 

۱۲۲

 

امامِ مبین=امامِ زمانؑ اللہ کا زندہ اسمِ اعظم اور کنزِ کُلّ ہے

 

ماہِ فروری ؁۱۹۴۹ء میں ہم تاشغورغان پہنچ چکے تھے، اس بندۂ درویش کو شب خیزی اور خصوصی عبادت کا موقع حاصل تھا۔ خواب و خیال میں عجائب و غرائب کا مبارک سلسلہ جاری تھا، تاہم ایک رات کو انتہائی عجیب و غیرب خواب دیکھا وہ نہ صرف بہت بڑا حیران کُن تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ تاویل کے عظیم اسرار سے بھی لبریز تھا، میں نے یکایک یہ انوکھا اور سب سے نرالا منظر دیکھا کہ میری قربانی ہوچکی تھی جسم جنازے کی طرح زمین پر پڑا تھا، سر قریب کی ایک دیوار کے ساتھ آویزان تھا میں (یعنی روح یا شعور) کچھ بلندی پر چمکنے والے بہت سے ذرّات کے درمیان تھا، یہ کس نے مجھے خواب میں ذبح کیا؟ میرے محبوبِ روحانی باپ (امامِ زمانؑ) نے، دیکھو قرآن (۳۷: ۱۰۲ تا ۱۱۰) اس قربانی کا فدیہ ذبحٍ عظیم (۳۷: ۱۰۷) وہ منزلِ عزائیلی کی قربانی سے جو بہت ہی عظیم ہے، جس میں سات رات اور آٹھ دن مسلسل مرنا اور جی اُٹھنا پڑتا ہے، (۶۹: ۷) اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے، اس میں انسان کے لئے بیشمار فائدے ہیں۔

سوال: وہ روشن ذرّات کیا تھے جن کے درمیان میرا شعور تھا؟ کیا وہ تمام روحوں کی یک حقیقت تھی؟ یا امامِ زمان کا نور تھا؟ کیا امامِ زمان

 

۱۲۳

 

کا نور ایک اکائی ہے یا ایک بے مثال وحدت ہے؟ ہمیں اس خواب پر مزید سوچنا ہو گا۔ ممکن ہے یہ روحانی شہادت اور فنافی الامام کا ایک نمونہ ہو۔ یہ حکمت قرآنی تاویل کی کلیدوں میں سے ہے۔ الحمد للہ ربّ العلمین۔

جمعرات ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء

 

۱۲۴