تجہیز و تکفین

دیباچۂ طبعِ اول

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اللّٰھم صل علیٰ محمد و اٰل محمد کما تحب و ترضیٰ

خدائے قادرِ مطلق اور جوادِ برحق کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کریمِ کارساز نے اپنی رحمتِ بے نہایت سے اس بندۂ عاجز و ناتوان کو رسالۂ ہٰذا کی ترتیب و طباعت اور اشاعت کے لئے توفیق و ہمت عنایت فرمائی۔ یقیناًیہ ربّ العزّت کے دائمی انعامات اور ہمہ رس احسانات میں سے ہے جس کے لئے شکر کرنا ہر دین دار پر فرض ہے۔

یہ رسالہ جو تجہیز و تکفین کے احکام پر مشتمل ہے کلیۃً اسماعیلی فقہ کی مستند و جامع اور مشہور و معروف کتاب دعائم الاسلام سے لیا گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے اس کتاب کو اصل دعائم الاسلام عربی سے ترجمہ کر لیا ہے ساتھ ہی ساتھ مذکورہ کتاب کا اردو ترجمہ بھی ملحوظِ نظر رہا ہے اور وہ ترجمہ بھارت کے مشہور عالمِ دین یونس شکیب مبارک پوری نے کیا ہے اور واقعاً انہوں نے ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔

عربی دعائم الاسلام مصر سے شائع ہوئی ہے، وہ عام طور پر دستیاب نہیں ہوتی اور اگر وہ دستیاب ہو بھی آئے تو اس کو پڑھنا اور سمجھ لینا ہر شخص کے بس کی بات نہیں اور یونس شکیب کا اردو ترجمہ جو ہندوستان میں چھپ گیا ہے وہ تو عنقا ہو گیا ہے لہٰذا یہ امر ضروری تھا کہ فقہی مسائل کی اہمیت کے پیشِ نظر

 

۱

 

دعائم الاسلام کے بعض اہم اجزاء الگ الگ کتابچوں کی اور رسالوں کی صورت میں شائع کئے جائیں تا کہ علم کی اشاعت اور حصول کے ہر مرحلے پر سہولت و آسانی مہیا ہو سکے چنانچہ اس سلسلے میں “فصولِ پاک” کے بعد رسالۂ “تجہیز و تکفین” ہٰذا مرتب ہو کر شائع ہو رہا ہے۔

واضح رہے کہ تجہیز و تکفین کے جتنے امور ضروری ہیں اور جو احکام کتاب و سنّت کے مطابق ہیں وہ اس کتاب کی جامعیّت سے باہر نہیں اور جو اضافی اور غیر ضروری چیزیں رواجاً بعد میں پیدا کی گئیں ان سے یہاں بحث نہیں۔

بالآخر میں گلگت مرکز کی عقیدت مند مخلص، نیکوکار، خدمت گزار اور نامور و نامدار جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی کریمانہ عادت کے مطابق اس دینی کتاب کے مصارف میں تعاون کیا پروردگارِ عالم اس قابلِ قدر اور عزیز جماعت پر ابوابِ!!فیوض و برکات ظاہراً و باطناً کشادہ کئے رکھے۔ آمین ، یا ربّ العالمین

فقط جماعت کا علمی خادم
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۷۔ ۷۔ ۷۵

۲

دیباچۂ طبعِ ثانی

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للّٰہ علیٰ منہ و احسانہ

یہ دیکھ کر رسالۂ “تجہیز و تکفین” اب بفضلِ خداوند تعالیٰ طباعت و اشاعت کے مرحلۂ دوم میں داخل ہو رہا ہے اس بندۂ ناتوان و خاکسار کو ازبس خوشی ہو رہی ہے اس علمی مسرّت و شادمانی کا اصل راز جذبۂ شکرگزاری ہے اس لئے کہ علمی خدمت کی یہ پیش رفت پروردگارِ عالم کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔ اور یہ حق بات ہے کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت و عنایت نہ ہوتی تو ہم ایسے مفلسوں کے یہاں علم کی کوئی چیز نہ ہوتی۔

مظہرِ نورِ خدا، آلِ محمد مصطفی، جانشین علئ مرتضیٰ، مصباح ہدیٰ اور سلطانِ با صفا یعنی امامِ وقت شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ و سلامہ کے ہر مرید اور ہر دوستدار سے بصد عقیدت و اخلاص قربان ہو جاؤں کیونکہ اسی شہنشاہِ علم و حکمت کے مبارک دروازے پر جا کر میں ناچیز سائل اپنی جھولی کو خوب بھر لیتا ہوں اور اس پرحکمت دریوزہ کی کئی شرطیں ہیں۔ مثلاً عاجزی، انکساری، اظہارِ حاجت اور خاص کر امامِ زمان کے ہر مرید و روحانی فرزند کی حقیقی خیر خواہی اور اگر بدقسمتی سے دل میں عاجزی کی کیفیت نہ ہو اور کسی بھی ایک مومن کی رنجش پوشیدہ پوشیدہ باقی رہے تو یہ سچ ہے کہ باریکیوں اور نزاکتوں کی درگاہ سے درویش کی روح تہی دامن اور نامراد لوٹتی ہے۔

۳

یہاں اس سوال کا پیدا ہو جانا بعید از قیاس نہیں کہ اصولِ درویشی یا قانونِ روحانیت اتنا خاص و باریک اور ایسا نازک کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی حکمت و مصلحت اور لوگوں کی منفعت اسی میں ہے کہ مذہبی زندگی سے متعلق کامیابی کا راستہ ظاہراً و باطناً پل صراط کی طرح سخت مشکل اور انتہائی نازک ہو تاکہ یہ اسی طرح اپنی جانب سے نہایت دشوار بھی ہو اور نورِ خداوندی کی ہدایت و تائید کے وسیلے سے بہت آسان بھی۔

حقیقی راحت و سکون “انا” میں نہیں بلکہ “فنا” میں ہے اور فنا کے کئی مدارج ہیں۔ اور اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہر دانشمند مومن انائیّت و خودی کو چھوڑ کر خود کو خاکِ پائے مومنین قرار دیتا ہے پھر وہ اس پُرحکمت عمل کے نتیجے میں خود نمائی کی تلخیوں سے نجات پاتا ہے کیونکہ کبر و فخر جیسی مہلک روحانی بیماری کے لئے کوئی جراثیم کش دوا چاہئے ورنہ یہ مرض رفتہ رفتہ آدمی کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔

ہمارے مولائے مہربان اور آقائے زمانؑ کی کتنی بڑی عنایت و مہربانی ہے کہ آپؑ نے ان چند سالوں کے اندر اندر عالمِ اسماعیلیّت میں ایک عظیم اور دور رس علمی انقلاب لایا جس میں نہ صرف آپ کے نامدار ادارے عظیم الشّان خدمات انجام دے رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ امامِ عالی مقام کے دوسرے مرید بھی کسی نہ کسی صورت میں رضا کاری کر رہے ہیں۔ تاہم اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کا مرکز اور ہر علاقے کے ذیلی ادارے لائقِ تحسین اور قابلِ مبارکباد ہیں کیونکہ انہوں نے بموجب امرِ مولا مین پاور کے عنوان سے دینی علم کے ایک لشکرِ جرّار کو تیار کیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف جماعتی سطح پر زیادہ سے زیادہ نورِ علم کی روشنی پھیلا دینا ہے۔ الحمد للہ کہ اب ہماری نیک

 

۴

 

بخت جماعت نے علم و عمل کے ہر میدان میں نمایان ترقی کی ہے۔

یہ رسالہ جو بڑا اہم اور بہت مفید ہے اس دفعہ ہماری پیاری جماعت کی ضرورت کے پیشِ نظر “خانۂ حکمت” اور ادارۂ عارف” کی جانب سے شائع ہو رہا ہے۔ لہٰذا یہ میرا فرض ہے کہ میں جان و دل سے ان دونوں عزیز اداروں کی گوناگون خدمات کا شکریہ ادا کروں اور ان کو سراہوں، میرا عقیدہ ہے کہ صدر محترم جناب فتح علی حبیب اور صدر محترم جناب محمد عبد العزیز گویا دو ایسے عظیم فرشتے ہیں جن کے اس دنیا میں آنے کا سب سے بڑا مقصد علمی خدمت کو انجام دینا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی اور دوسرے عملداروں کی خدمات جو جان نثاری سے کم نہیں، بے مثال ہیں۔ “خانۂ حکمت” اور “عارف” کا ہر عہدہ دار اور ہر ممبر جہاں کہیں بھی رہتا ہو، حقیقی علم کی خدمت میں فدا کار اور جان نثار ہے اور ان سب کا زرّین اصول یہ ہے “نورِ علم کو حاصل کرو اور پھیلا دو۔” یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ باقاعدگی سے دینی کتابوں، مقالوں اور علمی خطوط کو پڑھتے ہیں اور حصولِ علم کے ہر وسیلے سے کام لے کر اپنی مفید معلومات میں گرانقدر اضافہ کر لیتے ہیں، ان شاء اللہ، ہر ہوشمند اسماعیلی دینی علم میں کمال حاصل کرے گا۔

جماعت کا علمی خادم
نصیر الدین نصیر ہونزائی

جمعرات ۲۷ جمادی الاول ۱۴۰۴ھ
یکم مارچ ۱۹۸۴ء

۵

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

بیماری، عیادت اور احتضار

بخار کی حکمت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام آپ کے پدر بزرگوار امام باقر علیہ السّلام آپ کے آباء کرام علیہم السّلام اور حضرت علی صلوات اللہ علیہ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلعم ایک مرتبہ ایک مردِ انصاری کی عیادت (بیمار پرسی) کو تشریف لے گئے اس شخص نے آنحضرتؐ سے بخار کی تکلیف کی شکایت کی ۔ آپ نے فرمایا “ان الحمیٰ طھور من رب غفور” یعنی بخار خدائے غفور کی طرف سے ایک پاکیزگی ہے یعنی اس سے گناہ دھل جاتا ہے اس شخص نے کہا بل الحمیٰ تفور بالشیخ الکبیر حتیٰ تحلہ القبور ، یعنی نہیں بلکہ بخار ضعیف بوڑھے کو بھون ڈالتا ہے یہاں تک کہ اس کو قبر میں اتار دیتا ہے۔ رسولِ خدا یہ سن کر غصہ ہوگئے اور فرمایا کہ ایسا ہی تمہارے ساتھ ہونا چاہئے چنانچہ وہ شخص اسی بخار میں مر گیا۔

مریض کا کراہنا:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ مریض کا صبر و تحمل کے ساتھ کراہنا آہ آہ کرنا، نیک اعمال میں شامل کر کے لکھا جاتا ہے اور اگر بے صبری و اضطراب کے ساتھ کراہتا ہے تو اسے بے صبر قرار دیا جاتا ہے، جس کے لئے کوئی اجر و صلہ نہیں۔

گناہوں کا کفارہ:
موصوف امام علیہ السّلام سے منقول ہے، آپ نے فرمایا کہ ایک دن کا بخار ایک سال (کے گناہوں) کا کفارہ ہے۔

 

۶

 

جب کسی طبیب نے یہ سنا اور اس کو اس حدیث کا تذکرہ کیا گیا تو اس نے کہا کہ یہ قول طبیبوں کی اس بات کی تصدیق ہے کہ ایک روز کا بخار ایک سال تک جسم کے لئے تکلیف دہ ہوتا ہے۔

خدا کا قید خانہ:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ بیمار خدا کے قید خانے میں ہوتا ہے اس کے گناہ مٹائے جاتے ہیں بشرطیکہ وہ عیادت کرنے والوں سے اپنی بیماری کی کوئی شکایت نہ کرے اور جو مومن بندہ بیماری کی حالت میں انتقال کر جاتا ہے وہ شہید ہو جاتا ہے اور یوں تو ہر مومن شہید کا درجہ رکھتا ہے اور ہر مومنہ عورت حوراء ہوتی ہے اور مومن جس موت سے بھی مرے وہ شہید ہے۔ آپ نے یہ آیتِ کریمہ: تلاوت فرمائی
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَ الشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْؕ (۵۷: ۱۹)۔ اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدّیقوں اور شہیدوں کے درجے میں ہوں گے۔

ثوابِ عیادت:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے، آپ نے فرمایا کہ جب خدا بندے کو کسی مرض میں مبتلا فرماتا ہے تو اس کی بیماری کے مطابق اس کی خطائیں معاف کر دیتا ہے۔

آپؑ نے فرمایا کہ مریض کی بیمار پرسی تین دن کے بعد کرنی چاہئے اور عورتوں پر مریض کی عیادت فرض نہیں ہے۔

نیز آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلعم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ

 

۷

 

عیادت کرنے والا آدمی مریض کے پاس کوئی چیز کھائے کیونکہ بموجبِ قانونِ الٰہی اس کی بیمار پرسی کا ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔

حضرت امام حسین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپ ایک دفعہ بیمار ہوئے اور عمرو بن حریث آپ کی عیادت کے لئے آیا تھا اتنے میں امیر المومنین علی علیہ السّلام باہر سے تشریف لائے۔ اور آپ نے اس سے فرمایا کہ اے عمرو! تم حسین کی عیادت کر رہے ہو مگر دل میں کچھ اور بات ہے؟ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع نہیں ہو سکتی ہے کہ تجھے ایک نصیحت کر دوں وہ یہ ہے کہ رسولِ خداؐ فرماتے تھے کہ کوئی بندہ مسلم کسی بیمار کی عیادت نہیں کرتا مگر ستّر ہزار فرشتے اس پر صلوات بھیجتے ہیں اگر دن ہو تو غروبِ آفتاب تک اور رات ہو تو طلوعِ فجر تک یہ صلوات جاری رہتی ہے۔

امیر المومنین علیؑ سے روایت ہے کہ آپ ایک مرتبہ زید بن ارقم کی عیادت کو تشریف لے گئے زید نے کہا کہ مرحبا ایسے امیر المومنین کو جو عیادت کو آئے ہیں حالانکہ وہ ہم سے ناراض تھے۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ یقیناً ایسی کوئی چیز مجھے تیری عیادت سے نہیں روک سکتی تھی آپ نے فرمایا کہ جو شخص کسی مریض کی عیادت کو اس نیّت سے جاتا ہے کہ خدا کی رحمت حاصل ہو جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے تو وہ اسی وقت جنّت کے پھل چننے کی کیفیت میں ہوتا ہے جب تک کہ مریض کے پاس بیٹھا رہے اور جب اس کے پاس سے نکل جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس روز اپنے فرشتوں میں سے ستّر ہزار فرشتوں کو مقرر فرماتا ہے جو اس شخص پر رات تک صلوات بھیجتے رہتے ہیں اور اگر شام کو عیادت کرے تو وہ اسی وقت جنّت کے پھل چننے کی کیفیّت میں ہوتا ہے تا وقتیکہ اس کے پاس بیٹھا رہے جب اس کے پاس سے چلا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ستر ہزار

 

۸

 

فرشتوں کو مقرر فرماتا ہے جو اس شخص پر صبح تک صلوات بھیجتے رہتے ہیں پس مجھے شوق پیدا ہوا کہ ایسے ثواب کے لئے جلدی کروں۔

استقبالِ قبلہ:
امیر المومنین علی علیہ السّلام سے روایت ہے کہ رسولِ خدا خاندانِ عبد المطلب میں سے ایک شخص کے گھر اس وقت تشریف لے گئے جب کہ وہ حالتِ نزع میں تھا، اور اس کا منہ قبلہ کی طرف نہ تھا آپ نے فرمایا کہ اس کو قبلہ رخ کر دو کیونکہ جب تم ایسا کرو گے تو فرشتے اس کی طرف متوجّہ ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنا چہرہ مبارک اس کی طرف کر دے گا پھر اس کو اسی طرح رکھا جائے حتیٰ کہ اس کی روح قبض ہو جائے۔

حضرت مولانا علی صلوات اللہ علیہ سے منقول ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ یہ امر فطرت میں سے ہے کہ جب مریض نزع کے عالم میں ہو تو اسے قبلہ کی طرف لٹا دیا جائے۔

کلمۂ شہادت وغیرہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی میّت کے پاس اس کی موت سے قبل جاؤ تو اس کو کلمۂ شہادت کی تلقین و تفہیم کرو یعنی اس کے پاس “اشھد ان لآ الٰہ الا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ کو اس طرح پڑھے کہ وہ اسے سن کر ساتھ ساتھ پڑھنے کی کوشش کرے۔

اگر کلمۂ طیب اور کلمۂ شہادت دونوں پڑھے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں اور اسماعیلیّت میں مناسب ہے کہ شہادت یا شہادتین کے بعد أئمّۂ اطہار علیہم السّلام کے اسمائے گرامی جامۂ حاضر کے نامِ مبارک تک پڑھے جائیں۔

۹

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ محتضر یعنی مرنے والے کے سر کے پاس آیتُ الکرسی اور اس کے بعد والی دو آیتوں (یعنی اللّٰہ لا الٰہ سے لے کر :خٰلدون تک) کا پڑھنا مستجب ہے اور یہ آیت پڑھی جائے
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ۫-یُغْشِی الَّیْلَ النَّهَارَ یَطْلُبُهٗ حَثِیْثًاۙ-وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمْرِهٖؕ-اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ-تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (۰۷: ۵۴)۔

پھر سورۂ بقرہ کی یہ آخری تین آیتیں پڑھی جائیں:
لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕ-وَ اِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُؕ-فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا ﱪ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَ اِلَیْكَ الْمَصِیْرُ لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ-لَهَا مَا كَسَبَتْ وَ عَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْؕ-رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَاۚ-رَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَاۚ-رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖۚ-وَ اعْفُ عَنَّاٙ-وَ اغْفِرْ لَنَاٙ-وَ ارْحَمْنَاٙ-اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ (۰۲: ۲۸۶) ۔

اس کے بعد یہ دعا پڑھے:

 

۱۰

اللّٰھُّمَ اِن کَانَ حَضَرَ اَجَلُہٗ فَسَھِّلۡ علیہٍ اَمۡرَہٗ وَ اَخۡرِجہٗ الیٰ رضآءٍ مِنۡکَ وَالرِّضۡوَانِ وَ لقِۃٍ الۡبُشۡریٰ و اغفرلہٗ وَارۡحَمۡہٗ بِرَحۡمَتِکَ یٰآ اَرۡحَمُ الرَّاحِمِیۡنَ۔ اللّٰھُمَّ ھٰذا عَبۡدُکَ (اگر عورت ہے تو کہے ھذِہٖ اَمَتُکَ ) ان کان بقی اجلہ و رزقہ (+) و اثرہ(+) فعَجِّل شفآءہ(+) و عافیتہ(+) اگر عورت ہے تو جہاں جہاں یہ علامت (+) ہے وہاں “ہا” کی ضمیرِ تانیث پڑھی جائے)۔

خاتمہ بالخیر:
ابو ذر غفاری رحمتہ اللہ علیہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں رسولِ خدا صلعم کے پاس اس بیماری کے وقت موجود تھا جس میں آپ نے رحلت فرمائی تھی۔ آنحضرت صلعم نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابوذر! میرے قریب آؤ تاکہ میں تمہارا سہارا لے کر بیٹھوں چنانچہ میں آپ کے قریب ہوا تو آپ نے میرے سینے کا سہارا لیا۔ لیکن جب امیر المومنین تشریف لائے تو آپ نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابوذر اٹھو علیؑ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ پس علیؑ بیٹھ گئے اور آنحضرتؐ نے ان کی چھاتی کا سہارا لیا۔ پھر حضورؐ مجھ سے فرمانے لگے کہ یہاں میرے سامنے بیٹھو جب میں آپ کے سامنے بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کہ خوب یاد رکھو کہ جس شخص کی زندگی کا خاتمہ لا الہ الا اللہ کے کلمۂ شہادت پر ہو وہ جنّت میں داخل ہو گا۔ جس کا خاتمہ کسی محتاج کو کھانا کھلانے کی حالت میں ہو، وہ بھی جنّت میں داخل ہوگا۔ جس کا خاتمہ فریضۂ حج کے سلسلے میں ہو وہ بھی داخلِ جنّت ہو گا۔ جس کا خاتمہ عمرہ کی حالت میں ہو وہ بھی جنّت میں داخل ہو گا اور جس شخص کا خاتمہ راہِ خدا میں جہاد کرتے ہوئے ہو وہ بھی جنّت میں جائے گا۔ اگرچہ تھوڑی ہی دیر جہاد کیا ہو۔ آپ نے باقی حدیث بیان فرمائی۔

۱۱

جنّت کی بشارت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب موت کے وقت مومن کی زبان بند ہو جاتی ہے تو اس وقت رسولِ خدا صلعم اس کی دائیں طرف تشریف لاتے ہیں اور بائیں طرف امیرالمومنین تشریف فرما ہوتے ہیں۔ اس کے بعد رسولِ خدا صلعم اس مومن کو فرماتے ہیں کہ اے مردِ مومن تم جس چیز کے امیدوار تھے وہ تمہارے سامنے موجود ہے اور تم کو جس چیز کا خوف تھا اس سے محفوظ ہو۔ اس کے بعد جنّت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا۔ پھر اس کو دکھا کر کہا جائے گا کہ جنّت میں یہ تیرا مقام ہے۔ اگر تم دنیا میں واپس ہو جانا چاہتے ہو تو وہاں بھی تمہارے لئے دنیاوی سونا اور چاندی کے ڈھیر ہوں گے۔ اس وقت مردِ مومن کہے گا کہ مجھے دنیا کی کوئی ضرورت نہیں اس وقت اس کا چہرہ سفید ہو جائے گا اور پیشانی سے پسینہ جاری ہونے لگے گا۔ اس کے دونوں ہونٹ سکڑ جائیں گے۔ اس کی ناک کے دونوں نتھنے پھیل جائیں گے اور بائیں آنکھ میں آنسو آجائے گا۔ جب تم یہ علامتیں دیکھو تو انہی پر اکتفا کرو کہ وہ جنّتی ہے۔ آپ نے باقی حدیث بھی بیان فرمائی آپ نے فرمایا کہ اس کی تصدیق کے لئے خدا کا یہ ارشاد ہے: لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا (۱۰: ۶۴) ان کے لئے دنیا ہی میں جنّت کی بشارت ہے۔

موت کی سختی و آسانی میں حکمت:
رسولِ خدا صلعم سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا کہ جس بندے کے لئے جنّت میں مقام ہو وہ معمولی اور ذرا سی آزمائش کے سبب سے اس درجے پر نہیں پہنچ سکتا۔ یہاں تک کہ اس کی موت آ جائے اور جب وہ آخری وقت تک اس درجے پر

 

۱۲

 

فائز نہیں ہو سکتا تو اس کی موت سخت کر دی جاتی ہے پس وہ اس درجے پر پہنچ جاتا ہے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت کی گئی ہے آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کبھی کبھار ملک الموت کو امر فرماتا ہے کہ وہ مومن کی جان کو کچھ وقت کے لئے کھینچتے اور چھوڑتے رہے تا کہ اس کو آسان طریقے سے قبض کیا جائے مگر لوگ خیال کرتے ہیں کہ اس کی جان سختی سے نکل گئی اور اللہ تعالیٰ بسا اوقات عزرائیل کو حکم دیتا ہے کہ وہ کافر کی جان نکالنے میں سختی سے کام لے تو اس کی جان وہ ایک ہی جھٹکے میں کھینچ لیتا ہے جس طرح کہ لوہے کی سیخ پرانے اونی کپڑے سے کھینچ لی جا سکتی ہے۔

۱۳

موت کو یاد کرنا

جنازہ کی خدمت:
امام جعفر الصادق، امام باقر، آپ کے آباء کرام اور حضرت علی صلوات اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلعم نے فرمایا کہ جب تم کو جنازہ کی طرف بلایا جائے تو جلدی سے جاؤ کیونکہ جنازہ تم کو آخرت کی یاد دلاتا ہے۔

امام باقرعلیہ السّلام سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کو بیک وقت جنازہ اور ولیمہ کی دعوت ہو تو ان دونوں میں کس کو قبول کرنا چاہئے۔ آپؑ نے فرمایا کہ جنازہ کے امور میں شرکت کرے کیونکہ جنازہ کے امور میں حاضر رہنے سے موت اور آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے اور دعوتِ ولیمہ میں شرکت ان دونوں سے غافل بنا دیتی ہے۔

دنیاوی حرص سے چھٹکارا:
رسول اللہ صلعم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے انصار میں ایک شخص کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہیں موت کو یاد کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ موت کی یاد تمہیں دنیاوی امور کی نگرانی سے چھڑا دے گی۔

آنحضرتؐ سے منقول ہے، آپؐ نے فرمایا کہ “ھاذم اللذّات” کو کثرت سے یاد کرو۔ عرض کیا گیا کہ اے رسولِ خدا صلعم ہاذم اللذّات سے کیا مراد ہے؟ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ ہاذم اللذّات (دنیاوی لذتوں کو نیست و نابود کرنے والی) موت ہے مومنوں میں سب سے زیادہ عقلمند اور ہوشیار وہ ہے جو موت کو ان سب سے زیادہ یاد کرتا ہے اور ان سب سے بڑھ کر اس کے واسطے تیاری کرتا ہے۔

ہوشیار شخص:
حضورِ اکرم صلعم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا

 

۱۴

 

کہ لوگوں میں سب سے زیادہ ہوشیار شخص کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص موت کو سب سے زیادہ یاد کرے اور اس کے لئے سب سے زیادہ تیاری کرے۔

دنیا سے بے رغبتی:
امام باقر علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے بعض اصحاب کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ موت کو کثرت سے یاد کیا کرو کیوں کہ جو شخص موت کو جس قدر زیادہ یاد کرتا ہے وہ اس قدر زیادہ دنیاوی معاملات سے بے رغبت ہو جاتا ہے۔

مومن کا گلدستہ:
رسولِ مقبول صلعم سے مروی ہے آپؐ نے فرمایا کہ موت مومن کا گلدستہ ہے نیز آنحضرتؐ نے فرمایا کہ موت میں دو قسم کی راحت ہے۔ ایک راحت وہ ہے جو خود مرنے والے کو حاصل ہوتی ہے۔ دوسری وہ ہے جو مرنے والے کو نہیں بلکہ دوسرے کو حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ جس مرنے والے کو راحت حاصل ہوتی ہے وہ نیکو کار بندہ ہے جو دنیا کے غم اور عبادت و ریاضت سے فراغت و راحت پا کر آخرت کی نعمتوں کو حاصل کرتا ہے اور جس شخص کی موت سے دوسرے کو راحت ہوتی ہے وہ فاسق و فاجر آدمی ہے کہ اس کے مر جانے سے اعمال لکھنے والے دونوں فرشتوں کو فراغت و راحت ملتی ہے۔

آخرت سے غافل ہو جانے کا نتیجہ:
رسولِ اکرمؐ سے روایت کی گئی ہے آپؐ فرماتے تھے کہ خبردار ہو بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک انسان مسرور و شادمان رہتا ہے اور وہ نہیں سمجھتا کہ آخرت کے معاملے میں اسے نقصان ہو چکا ہے وہ کھانے پینے اور ہنسنے میں مشغول رہتا ہے حالانکہ

 

۱۵

 

خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ وہ جہنم میں داخل ہو گا۔

انسان، حیوان اور موت:
حضرت امیر المومنین علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم کو احمق نہ بنایا ہوتا تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا اور اگر جانوروں کو معلوم ہوتا کہ وہ مرنے والے ہیں جیسا کہ تم انسانوں کو معلوم ہے تو وہ بھی تمہارے لئے موٹے تازے نہ ہو سکتے۔

اپنی موت کا باور نہ کرنا:
آپؑ نے فرمایا کہ میں نے کوئی ایسا ایمان نہیں دیکھا جو یقین کے درجے تک پہنچ چکا ہو لیکن وہ پھر بھی شک سے ملتا جلتا ہو سوائے اس انسان کے جو ہر روز مردوں کو الوداع کرتا ہے اور ان کو قبروں تک پہنچاتا ہے لیکن پھر بھی دنیا کے قریب کی طرف متوجّہ رہتا ہے اور شہوتوں اور لذّتوں سے نہیں رکتا۔ پس اگر بفرضِ محال ابنِ آدم مسکین کا کوئی گناہ اور حساب نہ بھی ہوتا اور صرف موت ہی ہوتی جو اس کی جمعیّت کو بکھیر دیتی ہے اور اس کی اولاد کو یتیم بناتی ہے تو پھر بھی اسے مناسب تھا کہ موت کی انتہائی سختی سے ڈرتا رہے ہم تو موت سے غافل رہتے ہیں اس قوم کی طرح جس کو گویا موت آنے والی ہی نہیں اور دنیاوی خواہشات کی طرف اس قوم کی طرح مائل ہوتے ہیں جس کو نہ حساب کی امید ہے اور نہ عذاب کا ڈر۔

زیادہ عقلمند:
حضرت امیر المومنین علیہ السّلام نے فرمایا ایک مرتبہ رسولِ خدا صلعم سے پوچھا گیا کہ کون سے مومنین زیادہ عقلمند اور ہوشیار ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ جو موت کو زیادہ یاد کرتے ہیں اور اس کے لئے خوب تیاری کرتے ہیں ایسے ہی مومنین عقلمند اور ہوشیار ہیں۔

۱۶

تعزیت، صبر اور رونے کی رخصت

جبرائیل اور اہلِ بیّت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ جب رسولِ خدا صلعم کا وصال ہوگیا تو اہلِ بیّت کرام کے پاس ایک آنے والا آیا وہ حضرات اس کی آواز سن رہے تھے مگر اس کا جسم ان کو نظر نہیں آتا تھا پس اس نے کہا کہ:
السلام علیکم اھل البیّت و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ كُلُّ  نَفْسٍ   ذَآىٕقَةُ  الْمَوْتِؕ-وَ  اِنَّمَا  تُوَفَّوْنَ  اُجُوْرَكُمْ  یَوْمَ  الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ (۰۳: ۱۸۵)۔ ہر مصیبت کے وقت خدا کے لئے صبر سے کام لینا چاہئے ہر مرنے والا اپنے پیچھے جانشین چھوڑ جاتا ہے۔ لہٰذا خدا سے امید رکھو اور صرف اسی کی عبادت کرو اور یقین جانو کہ مصیبت زدہ دراصل وہی ہے جو ثواب سے محروم ہے اور تم پر سلام اور خدا کی رحمت اور برکات ہیں۔

پھر امام جعفر الصادقؑ سے پوچھا گیا کہ اے فرزندِ رسول! آپ حضراتِ اہلِ بیّتؑ کے خیال میں وہ بولنے والا کون تھا؟ آپ نے فرمایا کہ ہم اہلِ بیّتؑ اسے جبرائیلؑ خیال کرتے ہیں۔

صبر کا موقع:
امام جعفر الصادق ، امام محمد باقر ، آپ کے آباء کرام اور

 

۱۷

 

حضرت علی صلوات اللہ علیہم اجمعین سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلعم ایک عورت کے نزدیک سے گزرے جو ایک قبر پر رو رہی تھی آپؐ نے اس سے فرمایا کہ اے عورت تم صبر کرو اس عورت نے آپ سے کہا کہ اے مرد تم اپنی راہ لو کیونکہ یہ میرا فرزند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ رسولِ خداؐ اس عورت کو چھوڑ کر آگے تشریف لے گئے اور وہ عورت آپ کو نہیں پہچانتی تھی۔ جب اس کو بتایا گیا کہ وہ تو رسولِ خدا صلعم تھے یہ سن کر وہ عورت اٹھ کھڑی ہوئی اور حضورؐ کو تلاش کرنے لگی یہاں تک کہ آپؐ کے پاس جا پہنچی اور عرض کی کہ اے رسولِ خداؐ میں اس وقت حضورؐ کو نہیں پہچانتی تھی آپؐ فرمائیے کہ اگر میں صبر کروں تو مجھے اس کا اجر ملے گا؟ آپؐ نے فرمایا اجر و ثواب پہلے صدمے کے ساتھ ہے یعنی مصیبت کے پہنچتے ہی صبر اختیار کرنے سے اجر ملتا ہے نہ کہ رونے دھونے کے بعد صبر کرنے سے۔

استرجاع اور صبر:
امام جعفر الصّادقؑ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلعم نے فرمایا کہ جس شخص میں یہ چار چیزیں ہوں گی وہ ضرور جنّت میں داخل ہو گا۔ وہ کلمۂ شہادت لا الہ الا اللہ میں گناہوں سے پناہ لیتا ہو، اگر خدا احسان کرے تو الحمد للہ کہے، اگر کوئی گناہ کرے تو استغفراللہ کہے اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو انا للہ و انا الیہ راجعون کہے۔

حضرت امیر المومنین علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ جزع (بے صبری) سے بچو، کیونکہ اس سے امید ختم ہو جاتی ہے، عمل میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور فکر و غم میں انسان گرفتار ہو جاتا ہے ۔ جاننا چاہئے کہ مصیبت کے لئے چارہ کار دو طرح سے ہو سکتا ہے وہ یہ کہ جس معاملہ میں کوئی تدبیر کام آسکتی ہو تو تدبیر کرو اور جس میں کوئی تدبیر کام نہ آ سکے تو صبر پر لازم رہو۔

۱۸

آپؑ نے فرمایا کہ صبر کا درجہ ایمان میں ایسا ہے جیسے کہ سر کا درجہ جسم میں۔

آگ سے بچانے کا ذریعہ:
رسولِ خدا صلعم سے روایت کی گئی ہے آپؐ نے فرمایا جس شخص کے تین فرزند انتقال کر جائیں اور وہ اس سے اجر و ثواب کی توقع کرے تو اس کے یہ فرزند اس کو آگ سے بچانے کا ذریعہ بن جائیں گے ۔ رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اگر کسی کے دو بچے انتقال کر جائیں تو؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی ایسا ہی ذریعہ بن جائیں گے۔

صاحبِ ایمان کی نشانیاں:
رسولِ اکرم صلعم سے منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ انصار کے کچھ لوگوں سے دوچار ہوئے جو ایک گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے ان کو سلام کیا اور کھڑے کھڑے ان سے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کس حال میں ہو؟ انہوں نے جواباً عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم ہم سب اہلِ ایمان ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس صاحبِ ایمان ہونے کی کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ، آپؐ نے فرمایا اس کو پیش کرو۔ انصار نے کہا کہ ہم راحت کے وقت خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ مصیبت میں صبر کرتے ہیں۔ اور قضا پر راضی ہیں۔ آنحضرتؐ نے ان کو فرمایا کہ تب تو تم ٹھیک کہتے ہو، یقیناً تم اہلِ ایمان ہو۔

صبر کا صلہ:
پیغمبرِ خدا صلعم سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دنیا بطورِ قرض عطا فرمائی ہے پس جس شخٰص نے اس دنیا سے تھوڑا سا حصہ لے کر اس پر صبر کیا تو خداوند تعالیٰ اس کو اس کے عوض تین ایسی بہترین چیزیں عطا کرے گا کہ ان میں سے اگر ایک چیز بھی خدا اپنے فرشتوں کو دیتا تو وہ خوش ہو جاتے وہ تین چیزیں درود، رحمت اور ہدایت ہیں جیسا کہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

 

۱۹

 

وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ  الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ  قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ  اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ  وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) اور (اے رسول) ایسے صبر کرنے والے مومنین کو خوشخبری دے دو کہ جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑی تو بے ساختہ بول اٹھے ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں کہ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

ام سلمہ کا قصّہ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ جب ابو سلمہ بن عبد الاسد کا انتقال ہو گیا تو اس کی بیوی ام سلمہ نے اس پر جزع و فزع کیا۔ اس وقت آنحضرت صلعم نے اس سے فرمایا کہ اے ام سلمہ تم اس طرح سے دعا کرو:
اللّٰھم اعظم لی اجری فی مصیبتی و عوضتی خیراً منھا۔ یا اللہ! تو مجھے اس مصیبت کا بہت بڑا اجر و ثواب عطا فرما اور اس کا بہترین عوض مجھے عنایت کر دے۔

ام سلمہ نے آنحضرت صلعم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم، ابو سلمہ ایسا مجھے کہاں سے ملے گا۔ لیکن آنحضرتؐ نے پھر وہی فرمایا جو کچھ آپؐ نے پہلے کہا تھا ام سلمہ نے بھی اپنی وہی پہلی بات کہی حضورِ اکرمؐ نے تیسری دفعہ وہی ہدایت فرمائی اس وقت ام سلمہ نے اپنے جی میں کہا کہ میں نے رسولِ خدا صلعم کی بات تین مرتبہ رد کر دی آخرکار اس نے رسولِ خدا صلعم کی ہدایت کے مطابق دعا کی پس پروردگارِ عالم نے اس کو ایک ایسا شخص عطا فرمایا جو ابو سلمہ سے بہتر تھا یعنی ام سلمہ آنحضرت صلعم کے عقد میں آئیں۔

۲۰

سب سے بڑا سانحہ:
رسولِ اکرم صلعم سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا کہ میرے بعد اگر تم میں سے کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو اس وقت جو مصیبت اسے میری وفات سے پہنچی ہے اس کو یاد کرے کیوں کہ اس کو میری وفات سے جو مصیبت پہنچی ہے وہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔

تعزیت میں نصیحت:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب مسلمان کسی مسلمان کو تعزیت (ماتم پرسی) کرے اور اس وقت ایک ذمّی (دارالسّلام میں جزیہ دے کر رہنے والا غیر مسلم) موجود ہو تو”انا للہ و انا علیہ راجعون” پڑھے اور موت و آخرت وغیرہ کا تذکرہ کرے آپؑ نے فرمایا کہ اسی طرح تمہارا کوئی ذمّی پڑوسی کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو اس کے نزدیک بھی یہی کہو اور اگر وہ ذمّی تم کو کسی میت کی تعزیت کرے تو اس کو “ہداک اللہ”کہو یعنی خدا تم کو ہدایت دے۔

آنحضرت کی کیفیت ابراہیم کی وفات پر:
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ جب رسولِ اکرم کے فرزند جناب ابراہیم کا وصال ہو گیا تو آنحضرت صلعم نے مجھے غسل کا حکم دیا پس میں نے ان کو نہلایا اور آنحضرت نے ان کو کفن پہنایا اور حنوط لگایا اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اے علی میت کو اٹھا کر لے چلو پس میں جنت البقیع کی طرف لے آیا اور آنحضرت صلعم نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ پھر آپ نے جنازے کو قبر سے نزدیک کیا اور مجھ سے فرمایا کہ اے علی تم قبر میں اترو ۔ میں جب قبر میں اترا تو آپ نے جنازے کو قبر میں جھکا دیا۔ جب آپ نے جنازے کو قبر میں اترتے دیکھا تو آپ رو پڑے اور تمام مسلمان

 

۲۱

 

رسول اللہ صلعم کو دیکھ کر رونے لگے۔ حتیٰ کہ مردوں کی آواز عورتوں کی آواز سے بھی بلند تر ہو گئی۔ اس وقت رسول اللہ صلعم نے ان کو سختی کے ساتھ رونے سے منع فرمایا اور کہا کہ آنکھیں آنسو بہائیں اور دل رنجیدہ و مغموم ہو لیکن ہم ایسی بات نہ کہا کریں جس سے پروردگار ناراض ہو۔ اے ابراہیم ہم تمہاری وفات سے مصیبت میں پڑ گئے اور ہم تم پر محزون ہیں۔ پھر آپ نے قبر کو ہموار کر دیا اور اپنا ہاتھ سرہانے رکھ کر انگوٹھے کو مٹھی میں دھنسا دیا اور یہ دعا پڑھی: بسم اللّٰہ ختمتک من الشیطان ان یدخلک ۔ یعنی خدا کے نام سے میں نے اس بات کی مہر لگا دی کہ شیطان تمہارے پاس داخل نہ ہو آپ نے باقی حدیث تفصیل کے ساتھ بیان کی تھی۔

آنحضرتؐ کی رحلت کے وقت فاطمۂ زہراؑ:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب آنحضرت صلعم پر نزع کا وقت آیا تو آپ پر غشی طاری ہو گئی اس وقت جناب فاطمہ زہرا علیہا السّلام رونے لگیں جب آنحضرتؐ کو ہوش آیا تو اس وقت جگر گوشۂ رسولؐ اپنی زبان اقدس سے یہ فرما رہی تھیں کہ اے رسول اللہ آپ کے بعد ہمارا پرسانِ حال کون ہو گا؟ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ خدا کی قسم میرے بعد تم (یعنی اہلِ بیتؑ) کو کمزور و ناتوان سمجھا جائے گا۔

واویلا کرنے کی ممانعت:
امیر المومنین علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ آنحضرتؐ اپنے کسی فرزند کے انتقال پر رو پڑے لوگوں نے عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم، آپؐ خود رو رہے ہیں حالانکہ آپؐ ہم کو رونے سے منع فرماتے ہیں؟ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میں نے تم کو رونے سے کبھی منع نہیں کیا ہے میں نے تم کو نوحہ کرنے یعنی پکار کے چلا کے رونے اور واویلا کرنے سے منع کیا ہے،

 

۲۲

 

یہ رونا ایک قسم کی رقت اور رحمت ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ جس کے دل میں چاہے پیدا کر دیتا ہے اور خدا جس بندے کو چاہے رحم کرتا ہے اور یقین کرو کہ خدا صرف اپنے نرم دل اور رحیم بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔

رونے کی رخصت:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آنحضرت صلعم نے مصیبت کے وقت رونے کی رخصت دی ہے اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جان کو مصیبت پہنچتی ہے آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور وعدے کی گھڑی قریب ہے پس تم اپنے منہ سے ایسی بات کہو جس سے خدا خوش ہو اور بیہودہ باتیں منہ سے نہ نکالو۔

آہ کا نعرہ مارنا:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ آہ کا نعرہ مارنا اور خراٹے لینا شیطان کا کام ہے۔

زندوں کی باتوں سے مردوں کو عذاب:
جناب امیر المومنین علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلعم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے رسولِ خدا صلعم! عبد اللہ بن رواحہ بیماری کی وجہ سے بارِ گران ہو چکا ہے۔ آپؐ اٹھے اور ہم بھی آپؐ کے ساتھ ہو گئے یہاں تک کہ ہم اور آپؐ عبدا للہ بن رواحہؓ کے پاس پہنچ گئے۔ آنحضرتؐ نے اس کو بے ہوشی کے عالم میں پایا وہ کچھ سمجھ نہیں سکتا تھا، خواتین نالہ و فریاد کر رہی تھیں۔ آنحضرتؐ نے اس کو تین مرتبہ آواز دی اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تو آپؐ نے یہ دعا کی:
اللّٰھم عبدک ان کان قد قضیٰ اجلٰہ و رزقہ و اثرہ نالیٰ جنتک و رحمتک و ان لم یقض اجلہ و رزقہ و اثرہ فعجل

 

۲۳

 

شفاۂ و عافیتہ
“اے الٰہی! تیرا بندہ ہے اگر اس کا وقت پورا ہو چکا ہے اور آب و دانہ ختم ہوا ہے تو اس کو اپنی جنّت اور رحمت کی طرف لے جا اور اگر اس کی مدتِ عمر پوری نہیں ہوئی ہے اور آب و دانہ باقی ہے تو پھر اس کو جلد شفا اور عافیت عطا فرما۔”

اتنے میں کسی نے عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم! عبدا للہ بن رواحہؓ کے لئے یہ تعجب کی بات ہے کہ اس نے اکثر جہاد میں بغرضِ شہادت اپنے کو پیش کیا تھا مگر اس کو شہادت کا درجہ نصیب نہیں ہوا۔ اور آج وہ اپنے بستر پر انتقال کر رہا ہے ۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ میری امت میں کون لوگ شہید کہلاتے ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلعم! شہید تو وہ ہے جو میدانِ جنگ میں فرار ہوئے بغیر قتل ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ پھر تو میری امت کے شہید بہت تھوڑے ہیں۔ یقیناً وہ شخص شہید ہے جس کا تم نے ذکر کیا۔ لیکن شہید وہ بھی ہے جو طاعون (پلیگ) سے مرا ہو۔ شہید وہ بھی ہے جو پیٹ کے عارضہ سے مر جائے۔ شہید وہ بھی ہے جو کسی مکان، دیوار وغیرہ کے گرنے سے مر جائے۔ شہید وہ بھی ہے جو پانی میں ڈوب کر مر جائے اور وہ عورت بھی شہید ہے جو بچہ پیٹ میں لئے مر جائے یا جو کنواری مر جائے لوگوں نے عرض کیا کہ اے رسول اللہ کوئی عورت پیٹ میں بچہ لئے کیسے مر جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب بچہ پیٹ میں ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد آنحضرتؐ وہاں سے چلے آئے اتنے میں عبداللہ بن رواحہؓ کو جب کچھ آفاقہ ہوا تو آنحضرت صلعم کو خبر دی گئی۔ آپ پھر ٹھہر گئے اور آپ نے عبداللہ

 

۲۴

 

بن رواحہؓ سے فرمایا کہ اے عبد اللہ ابھی ابھی تم نے جو کچھ دیکھا ہے بیان کرو کیونکہ تم نے بڑے عجائب دیکھے ہیں۔ عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا کہ اے رسولِ خدا صلعم! میں نے ایک ایسا فرشتہ دیکھا تھا جس کے ہاتھ میں لوہے کی ایک قمچی تھی جس میں سے شعلے بھڑک رہے تھے۔ جب ان عورتوں میں سے کوئی چیخنے والی چیخ کر “اے میرے پہاڑ یعنی پشت پناہ” کہتی تو وہ فرشتہ قمچی سے میرے سر کی طرف اشارہ کرتا اور کہتا کہ کیا تو ہی اس عورت کا پہاڑ یعنی آسرا ہے؟ میں کہتا کہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے پس وہ قمچی کو ہٹا لیتا اور کوئی چیخنے والی چیخ کر “اے میرے عزت والے” کہتی تو وہ فرشتہ میرے سر کی طرف قمچی سے اشارہ کرتا اور کہتا کہ کیا تو ہی اس عورت کو عزت دینے والا ہے میں کہتا کہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے پس وہ فرشتہ قمچی کو ہٹا لیتا۔ آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ عبد اللہ نے سچ کہا ہے۔ اے لوگو! تمہارے ان مردوں کا کیا حال ہو گا جو تمہارے زندہ لوگوں کی باتوں سے تکلیف میں مبتلا کئے جاتے ہیں۔

ایک وصیت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے اپنی وفات کے وقت یہ فرمایا کہ میرے انتقال پر کوئی شخص اپنے رخساروں پر تھپڑ نہ مارے اور نہ کوئی گریبان چاک کیا جائے۔ اگر کوئی عورت اپنا گریبان پھاڑے گی تو جہنم میں اس کے لئے ایک کھڈا کھودا جائے گا۔ وہ جتنا زیادہ گریبان چاک کرے گی اتنا زیادہ بڑا کھڈا کھودا جائے گا۔

عورتوں سے نوحہ نہ کرنے کی بیعت:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ آنحضرت صلعم نے عورتوں سے اس امر کی بیعت لی تھی کہ وہ ہرگز ہرگز نوحہ نہ کریں گی۔ نہ اپنے رخساروں کو نوچیں گی اور

 

۲۵

 

نہ خلوت میں نا محرموں کے ساتھ بیٹھیں گی۔

جاہلیت کے اثرات:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم نے فرمایا کہ زمانۂ جاہلیّت کے یہ تین کام لوگوں کے درمیان قیامت تک باقی رہیں گے۔ ستاروں سے بارش مانگنا، ذات پات میں طعنہ زنی کرنا اور مردوں پر نوحہ کرنا۔

نوحہ ممنوع ہے:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپ نے رفاعہ بن شداد کو جو شہرِ اہواز میں آپ کا قاضی تھا ایک خط میں یہ لکھا کہ اے رفاعہ خبردار تم جس شہر کا بھی سلطان ہو وہاں کسی میّت پر نوحہ نہ ہونا چاہئے۔

کونسی آواز ملعون ہے:
علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلعم نے فرمایا دو آوازیں ملعون ہیں ان سے خدا بغض و عداوت رکھتا ہے۔ مصیبت کے وقت واویلا کرنے کی آواز اور دولت و راحت کے موقع پر گانے بجانے کی آواز۔

۲۶

میّت کو غسل دینا

امام جعفر الصادق، آپ کے پدرِ بزرگوار امام باقر، آپ کے آباء کرام اور حضرت علی صلوات اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے۔ امیر المومنین نے فرمایا کہ آنحضرت صلعم نے مجھ کو یہ وصیّت کی تھی کہ میں آپؐ کے غسل کی ذمہ داری لوں۔ پس جاننا چاہئے کہ مولا علیؑ ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غسل دیا تھا۔ حضرت امیر المومنین غسلِ رسول اللہ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

آنحضرتؐ کو غسل دینے کی کیفیّت:
جب میں آنحضرتؐ کو غسل دینے لگا تو میں نے بیت الشرف کی ایک جانب سے کسی کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے علی آنحضرت کے جسمِ اطہر سے قمیض نہ اتارو پس میں نے آپ کو قمیض کے ساتھ غسل دیا اور میں آپ کو غسل دے رہا تھا کہ میں نے اپنے ہاتھ کے ساتھ ایک اور ہاتھ محسوس کیا جو آپؐ کے جسمِ مبارک پر کام کر رہا تھا چنانچہ جب میں نے حضورؐ کو پلٹا تو اس میں میری مدد کی گئی جب میں نے آپؐ کو منہ کے بل لٹانا چاہا تا کہ آپؐ کی پشتِ مبارک کو غسل دوں تو مجھے آواز آئی کہ حضورؐ کو منہ کے بل نہ لٹاؤ پس میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہلو پر لٹا کر پشتِ مبارک کو غسل دیا۔

حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرتؐ نے مجھے اس امر کی وصیّت فرمائی کہ میں آپؐ کو غسل دوں اور میرے ساتھ کوئی دوسرا غسل نہ دے تو میں نے اس وقت رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کا جسمِ مبارک

 

۲۷

 

بھاری ہے، میں تنہا آپ کو نہیں پلٹ سکوں گا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جبرائیلؑ تمہارے ساتھ میرے غسل میں شریک ہوں گے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھ کو پانی کون دے گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ فضل (ابنِ عباس) تم کو پانی دے گا۔ لیکن تم اس سے اتنا ضرور کہہ دینا کہ وہ اپنی دونوں آنکھوں پر پٹی باندھ لے کیونکہ تمہارے سوا جو بھی میرے سرّ کی طرف دیکھے گا وہ اندھا ہو جائے گا۔

امام باقر علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ فضل ابنِ عباس آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے امیر المومنینؑ کو پانی دیتے تھے اور علیؑ و جبرائیل علیہ السّلام رسالت مآبؐ کو غسل دے رہے تھے۔

تین غسل:
امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السّلام نے آنحضرتؐ کو تین مرتبہ غسل دیا تھا، ایک غسل ایسے پانی سے، جس میں حرض یعنی اشنان کی گھاس ڈالی گئی تھی۔ دوسرا غسل اس پانی سے جس میں ذریرہ (ایک قسم کی خوشبو) اور کافور ڈالا گیا تھا۔ اور تیسرا غسل سادہ پانی سے اور یہ آخری غسل تھا۔ حرض یا کہ اشنان ایک خاص قسم کی گھاس ہے جس سے ہاتھ اور کپڑے دھوتے ہیں اس کو جلا کر سجی (شخارہ شقوی) بناتے ہیں۔ اس کا بروشسکی نام صبون شقہ ہے۔ یہ گھاس اور درخت سدر (بیری) بیری کی پتیاں دونوں میت کے غسل میں مستعمل تھیں مگر بعد میں البتہ سدر کے پتے زیادہ استعمال ہونے لگے۔

میّت کی خدمت کا عظیم ثواب:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جس مردِ مسلم نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو بغیر کسی کراہت کے غسل دیا۔ اس کی شرمگاہ پر نظر نہ ڈالی اس کی کسی برائی کا ذکر نہیں کیا اس کے

 

۲۸

 

جنازے کے ساتھ چلا اس پر نماز پڑھی اور اس کی تدفین میں وقت صرف کیا ایسا مسلمان بندہ جب وہاں سے چلے گا تو اپنے گناہوں سے خالی ہو جائے گا۔

جنب اور حائض میّت کو غسل نہ دیں:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ جنابت اور حیض دار دونوں کسی بھی میّت کو غسل نہ دیں۔

شوہر کا بیوی کو غسل دینا:
امام باقر علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ حضرت علئ مرتضیٰ نے فاطمۂ زہرا صلوات اللہ علیہا کو غسل دیا تھا کیونکہ خاتونِ جنّت نے اس امر کی وصیت فرمائی تھی۔

امیر المومنین سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ فاطمۂ زہرا علیہا السّلام نے مجھے اس بات کی وصیّت کی تھی کہ ان کو میرے سوا کوئی اور غسل نہ دے اور اسما بنتِ عمیس مجھے پانی ڈالے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے، آپ سے پوچھا گیا کہ آیا کوئی مرد اپنی عورت کو غسل دے سکتا ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ کپڑے کے اوپر سے غسل دے۔

بیوی کا شوہر کو غسل دینا:
امامِ موصوفؑ سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جب کسی عورت کا شوہر انتقال کر جائے تو وہ اس کو غسل دے سکتی ہے مگر قصداً اس کی شرمگاہ کو نہ دیکھے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جب میرے جدِ امجد

 

۲۹

 

امام زین العابدین علیہ السّلام کا انتقال ہو گیا تو اس وقت میرے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام نے فرمایا کہ میں آپؑ کی زندگی میں آپ کی شرمگاہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا نا پسند کرتا تھا تو اب آپؑ کے انتقال کے بعد میں کس طرح اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ سکتا ہوں؟ پس آپؑ نے کپڑے کے نیچے ہاتھ ڈال کر آپ کو غسل دیا۔ اور آپؑ کی ام ولد۱ کو بلایا انہوں نے بھی آپ کے ہاتھ کے ساتھ اپنا ہاتھ شریک کر دیا اور آپ کو غسل دیا۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ جب میرے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام کا انتقال ہوا تو میں نے بھی اسی طرح سے آپؑ کو غسل دیا تھا۔

۱ام الولد وہ لونڈی ہے جس کے ہاں مالک کے نطفے سے کوئی بچہ پیدا ہو چکا ہو۔

جب میّت کو غسل دینے کے لئے کوئی محرم نہ ہو:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسا مرد عورتوں کے درمیان انتقال کر جائے جس کو ان عورتوں میں سے کوئی محرم نہ ہو اور اسی طرح کوئی ایسی عورت مردوں کے درمیان مر جائے جس کو (کپڑوں کے نیچے) غسل دینے کے لئے کوئی محرم نہ ملے تو ان دونوں کو بغیر غسل کے دفن کر دیا جائے۔

یہاں امامِ عالی مقام کی رائے گویا یہ ہوئی کہ میّت کو غسل دینا تو واجب تھا لیکن جب ایک ناجائز ذریعے کے بغیر اس کی تعمیل ممکن نہیں ہوئی تو جو کچھ واجب تھا وہ خود بخود ساقط ہو گیا۔

شہید کے متعلق حکم:
امامِ موصوف علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جو شہید اپنی شہادت گاہ پر ہی جان بحق ہو چکا ہو اس کو اپنے کپڑوں ہی میں دفن کر دیا جائے۔ اور اس کو غسل نہ دیا جائے

 

۳۰

 

اور اگر اس میں تھو ڑی سی جان باقی رہی ہو اور اسی حالت میں شہادت گاہ سے منتقل کر دیا پھر اس کا انتقال ہو جائے تو اس کو غسل دیا جائے پھر کفنایا اور دفنایا جائے آپؑ نے فرمایا کہ رسولِ اکرمؐ نے امیر حمزہ علیہ السّلام کو ان کپڑوں میں دفن کیا تھا جن میں وہ شہید ہوئے تھے اور صرف ایک چادر کا اضافہ کیا تھا۔

حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ جنگِ بدر میں جو مسلمان شہید ہو گئے ان کے جسموں سے پوستینوں کو آنحضرتؐ نے اتروا لیا تھا ان کو پہنے ہوئے کپڑوں میں دفن کر دیا تھا اور ان پر نماز پڑھی تھی۔

حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا کہ شہید کے جسم سے پوستین ، جوتے، ٹوپی، پگڑی، کمرپٹہ (کمر بند) اور پاجامہ اتار لئے جائیں بشرطیکہ ان میں خون نہ لگا ہو اور اگر ان میں سے کسی چیز میں خون لگا ہو تو اسے نہ اتارا جائے اور اس کے ساتھ کوئی چیز گرہ لگا ئی ہوئی نہ رکھی جائے مگر کھول کر۔

جو ڈوب کر مرے:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ جو شخص پانی میں ڈوب کر مر گیا ہو اس کو غسل دیا جائے۔

جو جل کر مرے:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ جو شخص جل کر مر گیا ہو اسے جب غسل دیا جائے تو اس میں اوپر سے صرف پانی ڈالا جائے یعنی ہاتھوں سے اس کے جسم کو نہیں ملنا چاہئے۔

غریق:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص پانی میں ڈوب کر مردہ جیسا بے حس ہو جائے تو اس کو ایک دن اور ایک

 

۳۱

 

رات رکھ کر دفن کیا جائے۔

زندہ درگور سے احتیاط:
امام باقر علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ جس شخص پر آسمانی بجلی گر پڑی ہو اس کو تین دن سے پہلے دفن نہ کیا جائے، مگر یہ ہے کہ اس کی موت کی علامتوں کا پورا یقین ہو چکا ہو۔

تدفین میں تاخیر نہ ہو:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کا انتقال دن کے پہلے حصّے میں ہو جائے تو اس کا قیلولہ (دوپہر کو سونا) اس کی قبر میں ہونا چاہئے، اور اگر دن کے آخری حصے میں انتقال کر جائے تو اس کی رات قبر میں گزرنی چاہئے۔

ایک ہی غسل کافی ہے:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا اگر کوئی شخص جنابت کی حالت میں انتقال کر جائے تو اس کو ایک ہی غسل دینا کافی ہے اور حائضہ کو بھی ایک ہی غسل کافی ہے (نیز جو عورت نفاس کی حالت میں مر جائے اس کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ اس کو صرف میّت کا غسل دیا جائے گا)۔

میّت کو غسل دینے کی کیفیت:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ میّت کو تین مرتبہ غسل دینا چاہئے۔ ایک غسل تو پانی اور سدر (بیری کی پتیوں) سے دیا جائے، دوسرا غسل کافور ملے ہوئے پانی سے دیا جائے اور تیسرا غسل سادہ پانی سے دیا جائے اور ہر غسل جنابت کی حالت کے غسل کی طرح ہونا چاہئے۔ چنانچہ پہلے میّت کو اسی طرح وضو کرایا جائے جیسے نماز کے لئے وضو کیا جاتا ہے پھر میّت کے سارے بدن پر پانی بہایا جائے۔ اور اس کو پہلو پر لٹایا جائے مگر بٹھایا نہ جائے اور نہ منہ کے بل گرایا جائے کیونکہ اگر میّت کو بٹھایا گیا تو اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اس لئے

 

۳۲

 

میّت کو باری باری دونوں پہلوؤں پر لٹا کر اس کی پیٹھ کو دھونا چاہئے اور اسی حال میں سارے بدن پر ہاتھ پھیرنا چاہئے۔ جس طرح کہ جنابت دار شخص اپنے تمام جسم کو دھو لیتا ہے۔

امام موصوف علیہ السّلام نے فرمایا کہ میّت کو غسل دیتے وقت اس کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک ازار (پاجامہ)بنائی جائے اور اس کے نیچے سے پانی بہایا جائے اور غسل دینے والا اپنے ہاتھ پر ایک کپڑا لپیٹ کر اس کو ازار کے نیچے داخل کرے اور اس کی شرمگاہ اور سرّ کے تمام حصے کو جو ازار کے نیچے ہے دھوئے۔

اگر میّت کا کوئی جزو گر جائے:
آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر میّت سے کوئی چیز گر جائے جیسے بال، گوشت، ہڈی وغیرہ تو ایسی چیز کو اس کے ساتھ کفن میں رکھ کر دفن کر دینا چاہئے۔

دعائم الاسلام عربی حصّہ اوّل ص ۱۱۴ میں ہے کہ جو شخص میّت کو غسل دے وہ اس کام سے فارغ ہو کر غسل کرے اس کا یہ غسل فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔

نیتِ غسل:
میّت کو غسل دیتے ہوئے نیت کرنا ضروری ہے نیت کسی بھی زبان میں جائز ہے مثلاً اغسل ہٰذا المیت بمآء السدر قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ جب کافور کے پانی سے میت کو غسل دے رہا ہو تو کہے اغسل ہٰذا المیت بمآء الکافور قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ جب خالص پانی سے غسل دے رہا ہو تو یوں کہے اغسل ہٰذا المیت بمآء الخالص قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ اگر میّت عورت کی ہے تو ہٰذا المیت کی جگہ ہٰذہِ المیت کہے۔

اگر نیّت فارسی میں ہو تو اس طرح کہے: غسل می دہم این میت را بآبِ سدر

 

۳۳

 

قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ دوسرے غسل میں کہے غسل میدہم این میت را بآبِ کافور قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔ تیسرے غسل میں اس طرح نیّت کرے: غسل می دہم این میت را بآبِ خالص قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔

اگر اردو میں نیت کرنی ہے تو اس طرح سے کہے: غسل دیتا ہوں اس میت کو آبِ سدر (یا آبِ کافور یا آبِ خالص) سے قربۃ الی اللّٰہ بسم اللّٰہ و اللّٰہ اکبر ۔

واضح رہے کہ غسلِ میّت کی نیّت کے لئے کتابوں میں مختلف کلمات مذکور ہیں ان میں سے کوئی کلمہ مخصوص نہیں اس میں صرف خدا کی نزدیکی یا خوشنودی کی نیّت لازمی ہے۔

۳۴

حنوط اور کفن

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب میّت کو غسل دینے والا غسل دے کر فارغ ہو جائے تو اس کو ایک کپڑے سے پونچھے اور اس کے سجود کے اعضاء یعنی پیشانی، ناک، دونوں ہاتھ، دونوں زانو اور دونوں پیروں پر کافور اور حنوط (خوشبو) لگائے اور اس میں سے کچھ آنکھیں، کانوں، منہ، داڑھی اور چھاتی پر لگا دے۔ عورت اور مرد کا حنوط یکسان ہے۔

امام جعفر الصادق، آپ کے پدرِ بزرگوار امام باقر، آپ کے آباء کرام اور حضرت علی صلوات اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے کہ آپؐ حنوط کے لئے مشک (کستوری) کی آمیزش میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔

میت کے لئے دھونی:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ کسی میّت کو زعفران اور ورس (ایک قسم کی گھاس، جس سے رنگائی کا کام لیا جاتا ہے) سے حنوط نہ لگایا جائے۔ آپؑ میّت کو دھونی دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اس کے کفن کو اور اس جگہ کو جہاں اسے غسل و کفن دیا جائے دھونی دی جائے۔

امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہےکہ آپ کسی میّت کے پیچھے پیچھے دھونی لے کر چلنا مکروہ سمجھتے تھے البتہ کفن کو دھونی دینی چاہئے۔

اگر کوئی حالتِ احرام میں مر جائے:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپ سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو حجِ

 

۳۵

 

بیت اللہ کے لئے احرام باندھے ہوئے انتقال کر گیا ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے کھلے ہوئے سر کو ڈھانک دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ پورا وہ عمل کیا جائے جو ایک بغیر احرام کی میّت کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر خوشبو کو اس کے قریب نہ کیا جائے۔ (یعنی اس کو کافور کے پانی سے غسل نہ دیا جائے۔ نہ اس کو کوئی حنوط لگایا جائے اور نہ اس کے کفن وغیرہ کو کوئی دھونی دی جائے)۔

کفن میں تین کپڑے:
حضرت علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ نے آنحضرتؐ کو تین کپڑوں میں کفن دیا تھا۔ دو کپڑے مضافاتِ عمان کے بنے ہوئے تھے (یعنی قمیض اور افافہ) اور ایک یمنی چادر تھی، ان کے علاوہ اراز اور عمامہ تھا۔

امام جعفر الصادقؑ سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ کفن میں بہترین تین کپڑے ہیں۔ ایک بغیر بٹن کا اور بغیر سلا ہوا کُرتا۔ ایک چادر اور ایک تہبند۔ صادقِ آلِ محمد علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ میرے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام نے مجھے یہ وصیّت کی تھی کہ میں ان کو تین کپڑوں میں کفن دوں۔ ایک یمنی چادر جس میں آپؑ جمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایک اور کپڑا (یعنی تہبند) اور ایک قمیض۔

امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ میّت کو تہبند اور عمامہ پہنانا ضروری ہے لیکن یہ دونوں کفن میں شمار نہیں ہوتے ہیں اور میّت کو تین کپڑوں میں کفن دینا مستجب ہے اس میں کوئی چیز مخصوص اور فرض نہیں ہے۔

عمامہ، ران پیچ اور روئی کا استعمال:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک ایسے شخص نے جو میّتوں کو غسل دیتا تھا آپؑ سے پوچھا کہ میّت کو کس طرح عمامہ پہنایا جائے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اعرابی کے عمامہ کی طرح سے میّت کو عمامہ نہ پہناؤ لیکن عمامہ کو درمیان سے پکڑ کر میّت کے سر پر پھیلا دو اور داڑھی کے نیچے سے گزار کر عمامہ پہناؤ اور عمامہ کے

 

۳۶

دونوں سرّوں کو میّت کے سینے پر ڈال دو اور اس کی دونوں کوکھ پر تہنید کی طرح ایک کپڑا (یعنی ران پیچ) باندھو مگر اس کو ڈھیلا باندھو اور مقعد کے نیچے روئی رکھ دو تا کہ اس میں سے کوئی چیز خارج نہ ہو۔ عمامہ اور کوکھ سے بندھا ہوا کپڑا (یعنی ران پیچ) کفن میں شمار نہیں کفن تو وہی ہے جس میں میّت کے جسم کو کفنایا جاتا ہے۔

ریشمی کفن کی ممانعت:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میّت کو ریشمی کپڑے میں کفنانے سے منع فرمایا ہے۔

اوڑھنی اور غیر سفید کفن:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ میّت کی مقعد میں روئی لگا دو تا کہ اس میں سے کوئی چیز باہر نہ نکلے۔ فرج پر اور دونوں پیروں کے درمیان بھی روئی رکھی جائے۔ اگر میت عورت ہو تو اس کے سر پر اوڑھنی اوڑھائی جائے اور اگر مرد ہو تو اس کے سر پر عمامہ باندھا جائے۔ أئمّۂ اطہار علیہم السّلام نے کفنوں میں غیر سفید کی بھی اجازت و رخصت دی ہے۔ حضرت علی (صلوٰت اللہ علیہ و علیٰ الائمّہ من ولد) سے منقول ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرت حمزہ علیہ السّلام کو اون کی سیاہ دھاری دار چادر میں کفنایا تھا۔

امام حسین علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے اسامہ بن زید کو سرخ چادر میں کفن دیا تھا۔

کفن، قرض اور میراث:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ میّت کے مال میں سے اوّل کفن خریدا جائے پھر قرض ادا کیا جائے پھر اس کی وصیّت پوری کی جائے اور اس کے بعد میراث تقسیم کی جائے۔

۳۷

جنازے کے ساتھ چلنا

اسلام میں پہلا تابوت:
امام جعفر الصادق، آپ کے پدرِ بزرگوار امام باقر، آپ کے آباء کرام صلوات اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے کہ رسول اکرمؐ نے جناب فاطمہ زہرا علیہا السّلام کو یہ بھید بتایا کہ میرے اہلِ بیّتؑ میں سے تم سب سے پہلے مجھے ملو گی۔ جب آنحضرتؐ کا انتقال ہو گیا اور لوگ مبتلائے غم ہو گئے تو سیّدہ عالم فاطمہ زہرا علیہا السّلام بستر سے لگ گئیں ان کا جسم نحیف و زار ہو کر سایہ کے مانند ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد آپ صرف ستر دن تک زندہ رہیں۔ جب انتقال کا وقت قریب ہوا تو انہوں نے اسماء بنتِ عمیسؓ سے فرمایا کہ میں مردوں کے کندھوں پر مکشوف حالت میں کس طرح اٹھائی جاؤں گی میرے جسم میں صرف ہڈیاں اور کھال باقی رہ گئی ہے۔ جب میں سریر (جنازہ) پر رکھ کر اٹھائی جاؤں گی تو کس طرح سے لوگ میرے جثّہ کو دیکھیں گے؟ اسماء بنتِ عمیسؓ نے کہا کہ اے جگر گوشۂ رسولؐ اگر آپؑ پر قضائے الٰہی صادر ہو گئی تو میں آپ کے لئے ایک ایسی چیز بناؤں گی جسے میں نے شہرِ حبشہ میں دیکھی تھی۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے فرمایا کہ وہ کیا ہے؟ اسماء بنتِ عمیسؓ نے کہا کہ وہ نعش (تابوت) ہے، جسے تختۂ جنازے کے اوپر رکھا جاتا ہے اور یہ میّت کو اس طرح چھپاتا ہے کہ میّت نظر ہی نہیں آتی۔ جگر گوشۂ رسولؐ نے فرمایا کہ میرے لئے بھی نعش (تابوت) بنوا دینا ۔ جب آپؑ کا انتقال ہو گیا تو اسماء بنتِ عمیسؓ نے ان کے لئے نعش (تابوت) بنایا تھا۔ پس یہ پہلا تابوت تھا جو اسلام میں اٹھایا گیا۔

 

۳۸

حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نعش یعنی تابوت پر حنوط لگانے سے منع فرمایا ہے۔

تابوت پر رنگ برنگ کا کپڑا نہ ڈالا جائے:
علئ مرتضیٰؑ سے منقول ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ ایک ایسے تابوت کو دیکھا جس کو سرخ، سبز، اور زرد دوپٹوں سے مزیّن کیا گیا تھا۔ پس آپؑ کے امر سے انہیں اتارا گیا تھا۔

امیر و غریب کی قبر یکسان ہو:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے ، آپؑ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آخرت کا پہلا عدل (یعنی مساوات) قبریں ہیں، کیونکہ ان قبروں میں سونے والوں کے متعلق کوئی پتہ نہیں چلتا کہ شریف کون ہے اور رذیل کون ہے۔

جب قریب سے کوئی جنازہ گزرے:
امیر المومنین علیہ السّلام سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے پاس سے جنازہ گزر رہا تھا وہ لوگ کھڑے ہو گئے۔ آپؑ نے انہیں اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ یہ حکم ایسے لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس سے جنازہ گزر جاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ چلنے کا ارادہ نہیں کرتے ہوں لیکن جو شخص جنازے کے ساتھ جانے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اٹھ کر جنازے کے ہمراہ چلے اور جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھا جائے اس وقت تک نہ بیٹھے۔

امام حسین علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپ ایک مرتبہ جنازہ کے ہمراہ کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے وہ لوگ اٹھنے لگے، آپؑ نے ان کو منع فرمایا اور آپؑ چلتے رہے جب قبر کے پاس پہنچے تو آپؑ وہاں رک گئے اور ابو ہریرہ اور ابن الزبیر کے ساتھ بات چیت کرنے لگے

 

۳۹

 

یہاں تک کہ جنازہ زمین پر رکھا گیا۔ اس وقت آپ بیٹھ گئے اور دوسرے لوگ بھی بیٹھ گئے۔

جنازہ لے جانے میں سست رفتاری نہ ہو:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ فرمایا کرتے تھے کہ جنازہ کو سرعت کے ساتھ لے جاؤ ، آہستہ آہستہ نہ لے جاؤ۔

جنازہ کو کندھا دینا:
علی مرتضیٰؑ سے منقول ہے آپؑ سے پوچھا گیا کہ آیا ہر اس شخص پر جنازہ کو کندھا دینا واجب ہے جو جنازہ کے ساتھ ساتھ ہے آپؑ نے فرمایا کہ واجب تو نہیں مگر بہتر ہے۔ پس جو شخص چاہے تو پکڑے اور جو نہ چاہے تو نہ پکڑے۔

جنازہ کو کسی سواری میں اٹھانا:
امیر المومنین علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے جنازہ کو سواری کے جانور پر اٹھانے کی رخصت و اجازت دی ہے مگر ایسا اس وقت کیا جائے جبکہ جنازہ اٹھانے کے لئے کوئی شخص نہ ملے یا کوئی عذر ہو لیکن سنّت اور حکم یہی ہے کہ جنازہ کو لوگ ہی اٹھائیں۔

جنازہ کو کندھا دینے کا طریقہ:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپ اس عمل کو مستجب سمجھتے تھے کہ جو شخص جنازہ اٹھانے میں مدد کرنا چاہتا ہے وہ تختہ تابوت کی بائیں جانب سے شروع کرے اور جس کے دونوں ہاتھوں میں تختہ کا پایہ ہو اس سے لے کر یہ شخص اپنے داہنے کندھے پر رکھے پھر باری باری سے چاروں طرف گھوم کر پچھلے، داہنے اور اگلے پایہ کے نیچے بھی کندھا دے۔

جنازہ کے پیچھے چلو:
امیر المومنین علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ جنازے کے پیچھے پیچھے چلو نہ کہ

 

۴۰

 

اس کے آگے آگے، تم اہلِ کتاب کے بالکل برعکس عمل کرو ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے امیرالمومنین سے پوچھا کہ یاعلیؑ! آپؑ کی صبح کیسی گزری؟ آپؑ نے فرمایا کہ اس شخص سے بہتر گزری جو نہ کسی جنازہ کے پیچھے چلا، نہ کسی بیمار کی عیادت کی۔

جناب مرتضیٰ علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ سے ایک مرتبہ ابو سعید الخدری نے جنازہ کے ہمراہ چلنے کی بابت پوچھا کہ جنازہ کے آگے چلنا افضل ہے یا پیچھے؟ آپؑ نے فرمایا کہ اے ابو سعید! تم جیسا انسان اس قسم کی بات پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں بخدا مجھ جیسا آدمی اس بارے میں پوچھتا ہے پس علی علیہ السّلام نے فرمایا کہ جنازہ کے پیچھے چلنے والے پر وہی فضیلت ہے جو فرض نماز کو نفل پر ہے۔ ابو سعید نے کہا کہ یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یا اس بارے میں آپؐ نے کچھ رسولِ اکرمؐ سے بھی سنا ہے؟ امیر المومنین علیہ السّلام نے فرمایا کہ میں نے آنحضرتؐ کو یہی کہتے ہوئے سنا ہے جو میں نے تم سے ابھی کہا۔

جنازہ کے پیچھے ننگے پاؤں چلنا:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ حصولِ فضل و ثواب کی خاطر جنازہ کے پیچھے ننگے پاؤں چلا کرتے تھے۔

جنازہ کے پیچھے کوئی عورت نہ جائے:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرتؐ ایک جنازہ کے ہمراہ تشریف لے جا رہے تھے کہ آپؐ کی نظر ایک عورت پر پڑی جو جنازہ کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی آپؐ ٹھہر گئے اور فرمایا کہ اس عورت کو لوٹا دو پس وہ لوٹا دی گئی۔ آپؐ ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپؐ سے یہ کہا گیا کہ اے رسولِ خداؐ وہ عورت تو مدینہ کی دیواروں سے بھی آگے چلی گئی ہے تب آپؐ وہاں سے چلنے لگے۔

۴۱

 

نمازِ جنازہ

آنحضرتؐ کے جنازہ پر نماز:
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے آنحضرتؐ کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت علی علیہ السّلام جناب رسالت مآب کو غسل و کفن دے چکے تو اس وقت عباس بن عبد المطلبؑ آپ کے پاس آئے اور آپ سے کہا اے علی علیہ السّلام! لوگ رسول اللہؐ پر نمازِ جنازہ پڑھنے کے لئے جمع ہو گئے ہیں اور ان کی یہ رائے ہے کہ آنحضرتؐ کو جنّت البقیع میں دفن کر دیا جائے۔ اور ان کی یہ بھی رائے ہے کہ انہیں میں سے ایک شخص رسولِ خداؐ پر نمازِ جنازہ کی امامت کرے۔ یہ سن کر امیر المومنین علیہ السّلام باہر تشریف لائے اور لوگوں سے فرمانے لگے کہ اے لوگو! یقیناً رسولِ خداؐ زندگی اور موت دونوں حالت میں امامؑ ہیں اور جو نبی جہاں وفات پاتا ہے اس کو وہیں دفن کیا جاتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپؑ کی رائے کے مطابق عمل ہو، چنانچہ امیر المومنین علیہ السّلام بیت الشرف کے دروازے پر کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ پر نمازِ جنازہ پڑھی اور آپؑ نے دس دس آدمیوں کو آگے کر دیا جو نماز پڑھ کر واپس آ گئے۔

اس نماز کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں:
امام باقر علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ آفتاب کے غروب اور طلوع کے وقت اور کسی وقت میں بھی نمازِ جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تو محض استغفار یعنی مغفرت اور بخشش چاہنا ہے۔

۴۲

نیک عمل کی اہمیّت:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جب آپؑ کو کسی جنازے پر نماز پڑھانے کے لئے بلایا گیا تو آپؑ نے فرمایا ہم تو نمازِ جنازہ پڑھیں گے لیکن حقیقت میں متوّفی کا عمل ہی اس پر نماز پڑھتا ہے۔

چالیس مومنین:
امیر المومنین علیہ السّلام سے مروی ہے آپؑ نے فرمایا کہ جب مومن پر چالیس مومنین نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں اور اس کے لئے خوب دعا کرتے ہیں تو ان کی دعا متوّفی کے حق میں مقبول ہوتی ہے۔

سلطان:
مولا علیؑ نے فرمایا کہ جب سلطان خود بوقتِ نمازِ جنازہ حاضر ہو تو وہ میّت کے ولی سے اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس جنازے پر نماز پڑھائے۔

عورت کے خاندان والے:
علی مرتضیٰؑ سے پوچھا گیا کہ اگر کسی شخص کی بیوی انتقال کر جائے تو کیا وہ خود اس پر نمازِ جنازہ پڑھا سکتا ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ عورت کے خاندان والوں کو اس کے شوہر سے اس کام کا زیادہ حق حاصل ہے۔

نوزائیدہ بچہ:
امیر المومنین سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ اگر بچہ ولادت کے وقت زور سے روئے اور پھر مر جائے تو اس پر نمازِ جنازہ پڑھنا چاہئے۔

اگر کوئی بدکار ہو:
حضرت علیؑ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایسی عورت اور اس کے بچہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی تھی جو زنا کے نتیجے پر زچگی کی حالت میں مر گئی تھی۔ حضورِ اکرمؐ نے ہر نیک و بد مسلمان پر نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

۴۳

اگر جسم کا کوئی حصہ ہو:
امیر المومنین نے فرمایا کہ جسمِ انسانی کے ہر اس حصّے پر نمازِ جنازہ پڑھنی چاہئے جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس کے جدا ہونے سے انسان مر جاتا ہے۔ (مثلاً جنگ یا کسی اور حادثے کے نتیجے میں ایک انسان کا سر یا سر کا کوئی حصہ ملتا ہے یا کوئی ایسا عضو ملتا ہے جس کے جدا ہونے سے ایک زندہ انسان مر جاتا ہے تو بدن کے ایسے حصّے اور عضو پر نمازِ جنازہ پڑھنی چاہئے اور اگر ہاتھ یا پاؤں وغیرہ کا کوئی ایسا حصہ مل گیا کہ جس کے کٹ جانے کے باوجود بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے تو ایسے عضو پر نمازِ جنازہ کا پڑھنا واجب نہیں۔

بیک وقت کئی جنازوں پر نماز:
علی مرتضیٰ علیہ السّلام سے روایت کی گئی ہے کہ جب بیک وقت کئی جنازے جمع ہو جاتے ہیں تو آپؑ ان تمام پر ایک ہی مرتبہ نمازِ جنازہ پڑھتے تھے۔ اس صورت میں مردوں کے جنازے اپنے سے اور عورتوں کے جنازے قبلہ سے قریب رکھتے تھے۔
اسی طرح جب مردوں، بچوں، ہیجڑوں اور عورتوں کے جنازے جمع ہو جائیں تو مردوں کے جنازے پیش نما زکے قریب رکھیں، ان کے قریب بچوں کے جنازے ، ان کے نزدیک ہیجڑوں کے جنازے اور ان کے پاس عورتوں کے جنازے رکھیں۔

پیش نماز کہاں کھڑا ہو:
امیر المومنین سے منقول ہے کہ آنحضرتؐ جب کسی مرد کے جنازے پر نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوتے تو آپؐ اس کے سینے کے مقابل کھڑے ہوتے تھے۔ جب جنازہ کسی عورت کا ہوتا تو آپؐ اس کے سر کے مقابل کھڑے ہوتے تھے۔
جب ایک ہی نمازِ جنازہ میں مردوں، بچوں، ہیجڑوں اور عورتوں کے جنازے جمع ہو جائیں تو ان کو اس حالت میں رکھیں کہ پیش نماز کے سامنے مردوں اور بچوں کی چھاتیاں ہیجڑوں

 

۴۴

 

کی گردنیں اور عورتوں کے سر ایک ہی سیدھ میں ہوں۔

اگر طہارت کے لئے پانی نہ ہو:
امام جعفر الصادقؑ سے منقول ہے کہ آپؑ سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو نمازِ جنازہ کے وقت بغیر وضو کئے حاضر ہو اور پانی نہ ملتا ہو؟ آپؑ نے فرمایا کہ اگر نمازِ جنازہ کے فوت ہو جانے کا خطرہ ہو تو تیمم کر کے نمازِ جنازہ پڑھے۔

پانچ تکبیر:
امام جعفر الصادقؑ سے روایت ہے کہ آپؑ نمازِ جنازہ کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھاتے تھے اور جنازوں پر پانچ مرتبہ تکبیر کہتے تھے۔
ہر تکبیر میں ہاتھوں کو اوپر اٹھانا چاہئے، ملاحظہ ہو کتاب تاویل الدعائم ، ۲، ص ۶۹۔
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ آپؑ سے نمازِ جنازہ کی تکبیروں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ جنازوں پر پانچ تکبیریں کہی جائیں کیونکہ پانچ وقت کی نمازوں سے ایک ایک تکبیر لی گئی ہے۔

نمازِ جنازہ میں تاخیر سے شامل ہونا:
امامِ موصوف سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص نمازِ جنازہ میں اس حالت میں آن ملے کہ کچھ تکبیریں اس سے پہلے کہی گئی ہیں تو وہ ابتدائی تکبیر کہہ کر ان میں داخل ہو جائے۔ اور جب لوگ سلام پھیریں تو وہ اپنی باقی تکبیریں پوری کر لیں پھر سلام پھیرے۔ یعنی جب وہ ان میں داخل ہوتا ہے تو وہ تکبیر کہہ کر پانچ دعاؤں میں سے پہلی دعا شروع کرے۔ اور جب پیش نماز تکبیر کہے تو وہ دوسری دعا پڑھے۔ علیٰ ہٰذا القیاس۔ یہاں تک کہ پیش نماز سلام پھیرے۔ اب اس کو چاہئے کہ سلام نہ پھیرے بلکہ اپنی باقی دعاؤں کو پوری کر کے سلام پھیرے۔

نمازِ جنازہ کی صورت:
اہلِ بیّتِ اطہار صلوات اللہ علیہم سے یوں تو نمازِ جنازہ

 

۴۵

 

کے بہت سے الفاظ اور دعائیں منقول ہیں ۔ اس صورتِ حال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی دعا مخصوص نہیں ہے ۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ نمازِ جنازہ پڑھنے والا (پہلے نیّت کرے پھر) اللہ اکبر کہہ کر خدا جس حمد و ثناء کے لائق ہے وہ حمد و ثناء کرے۔ اور اس کی تعظیم کرے جیسا کہ اس کی تعظیم کرنے کا حق ہے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر رسولِ خدا اور آپ کی آلِ پاک پر درود بھیجے پھر تکبیر پڑھ کر میّت کے حق میں دعا کرے جب کہ مومن ہو۔ اس کے بعد پھر تکبیر کہہ کر تمام مومنین و مومنات کے حق میں دعا کرے۔ پھر آخری تکبیر کہہ کر رسول اللہؐ اور آپؐ کی آلِ پاکؑ پر درود بھیجے (جس کی صورت ذیل کی طرح ہے) اگر ہر مرتبہ تکبیر میں مذکورہ تمام باتیں شامل ہوں تو وہ بھی بہتر ہے۔

نمازِ جنازہ کی نیت:
اصلی صلوٰۃ الجنازۃ خمس تکبیرات للّٰہ عز و جل ادآء مستقبل الکعبۃ الحرام
پہلی تکبیر:
اللّٰہ اکبر الحمد للّٰہ اہل المجد و الکبریآء و العظمۃ و القدرۃ و الثنآء
دوسری تکبیر:
اللّٰہ اکبر اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد فی الاوّلین و صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد فی الآخرین
تیسری تکبیر:
اللّٰہ اکبر اللّٰھم اغفر لھٰذا المتوّفی ذنوبہ و احشرہ فی زمرۃ النبی محمد و اٰلہ الطاہرین
اگر عورت ہو تو اس دعا میں صرف اتنی ہی تبدیلی ہو گی ۔۔۔ لھٰذہ المتوفاۃ ذنوبھا و احشرھا
چوتھی تکبیر:
اللّٰہ اکبر اللّٰھم اغفر لی ولوالدی و للمومنین و المومنات

 

۴۶

 

الاحیآء منھم و الاموات انک وتی الحسنات و غافر السیئات
پانچویں تکبیر:
اللّٰہ اکبر اللّٰھم صلی علیٰ محمد و آل محمد کما تحب و ترضیٰ
السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
اگر میّت نابالغ ہو تو تیسری تکبیر اس طرح پڑھی جائے۔
اللّٰہ اکبر اللّٰھم اجعلہ ھا لوالدیہ ھا سلفا و خلفا و فرطا و اجرا و زخرا بحق محمد و آلہ الطاہرین

۴۷

دفن اور قبر

لحد اور ضریح:
امام جعفر الصادقؑ، آپؑ کے پدرِ بزرگوار اور آپؑ کے آباء و اکرام اور حضرت علی (صلوات اللہ علیہم اجمعین) سے منقول ہے کہ آپؑ نے آنحضرتؐ کے لئے لحد کھودی تھی اور لحد اس جگہ کو کہتے ہیں جو قبر کے اندر میّت کے لئے قبلہ کی دیوار میں بنائی جاتی ہے اور ضریح اس جگہ کو کہتے ہیں کہ جس کے لئے قبر کے بیچ میں کھودا جاتا ہے۔
امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے اپنے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام کے لئے بربنائے احتیاج ضریح بنائی تھی کیونکہ آپ کافی جسیم تھے۔

قبر میں کوئی چیز بچھانا:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ رسولِ خدا کی قبر مبارک میں چادر بچھائی گئی تھی کیونکہ وہ جگہ گیلی اور شورے والی تھی۔

میّت کو قبر میں کون اتارے:
امیر المومنینؑ سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ عورت کو قبر میں وہی شخص اتارے جس نے اس کو اس کی زندگی میں دیکھا ہو اور وہی شخص دوسرے تمام لوگوں میں اولیٰ ہے کہ اس عورت کی میّت کو پیروں کی طرف سے پکڑے اور اگر میّت مرد کی ہے تو اس کا قریب ترین رشتہ دار اس کے اگلے حصے کو پکڑ کر اتارے اور مرد کے لئے مکروہ ہے کہ اپنے فرزند کو خود قبر میں اتارے یہ اس لئے کہ اس پر رقت قلب طاری نہ ہو جائے۔

قبر کی پائیننی:
امیر المومنین علی علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ رسول اللہ

 

۴۸

 

نے فرمایا کہ ہر گھر کا ایک دروازہ ہوتا ہے اور قبر کا دروازہ میّت کے دونوں پیروں کی طرف ہے لہٰذا اسی طرف سے قبر میں اترنا اور چڑھنا چاہئے۔

جنازہ کو قبر کے کنارے رکھنا اور قبر میں اتارنا:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ آنحضرتؐ ایک جنازہ میں حاضر تھے آپؑ نے لوگوں کو فرمایا کہ میّت کو قبر کے قبلہ والے کنارے پر رکھیں اور قبلہ رو کر دیں۔ اور اسے ہاتھوں میں لے کر قبر میں اتاریں اور اس کے بعد فرمایا کہ پڑھو: علیٰ ملۃ اللّٰہ و ملۃ رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم)

قبر پر پردہ کرنا:
علی مرتضیٰؑ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن مظعون کی قبر پر کپڑے کا پردہ کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ پہلی قبر تھی جس پر کپڑے کا پردہ کیا گیا۔

میّت قبر میں رکھنے کا طریقہ:
علی علیہ السّلام سے منقول ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ بنی عبد المطلب میں سے ایک شخص کے جنازے میں حاضر تھے جب لوگوں نے میّت کو قبر میں اتارا تو اس وقت آپؐ نے فرمایا کہ اس کو قبر میں داہنے پہلو پر قبلہ رو رکھو میّت کو نہ تو منہ کے بل رکھو اور نہ پشت پر پھر آپؐ نے اس شخص سے فرمایا جو قبر میں اترا تھا کہ تم اپنا ہاتھ میّت کی ناک پر رکھو تاکہ اس کے قبلہ رو ہونے کا یقین ہو، پھر آپؐ نے لوگوں سے فرمایا کہ اب یہ دعا پڑھو:
اللّٰھم لقنہ حجتہ و صعد روحہ و لقہ منک رضوانا
مطلب بارے الٰہا: جب فرشتے اس سے پوچھ گچھ کریں گے تو اس میں تو اس کو اپنی حجّت یعنی دلیل سمجھا دے اور اس کی روح کو بلند کر لے اور اپنی خوشنودی سے ملا دے۔

 

۴۹

اہلِ بیّتِ اطہار علیہم السّلام سے ایسی بہت سی دعائیں منقول ہیں جو میّت کو قبر میں رکھتے ہوئے پڑھی جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے لئے کوئی دعا مخصوص نہیں ہے۔

تین مٹھی مٹی:
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی میّت کی تدفین میں حاضر ہوتے تو قبر میں تین مٹھی بھر مٹی ڈالتے تھے۔
حضرت علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ جب آپؑ کسی قبر میں مٹی ڈالتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:
اللّٰھم ایمانا بک و تصدیقا لرسلک و ایقانا ببعثک ھٰذا ما وعد اللّٰہ و رسولہ و صدق اللّٰہ و رسولہ
آپؑ فرماتے تھے جو شخص اس پر عمل کرے گا تو اس کے لئے خاک کا ہر ذرّہ نیکی بن جائے گا۔

میّت کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر نہ لے جاؤ:
امیر المومنین علی علیہ السّلام سے منقول ہے ایک دفعہ آپؑ کی خدمت میں عرض کی گئی کہ کوفہ سے چند میل کے فاصلے پر دیہات میں ایک شخص انتقال کر گیا تھا پس لوگ اسے اٹھا کر کوفہ لے آئے آپؑ نے ان لوگوں کو سخت سزا دی اور فرمایا کہ میّتوں کو وہیں دفن کر دو جہاں ان کا انتقال ہوا ہے یہودیوں کا عمل اختیار نہ کرو جیسا کہ وہ ہر جگہ سے اپنے مردوں کو بیّت المقدّس لے جاتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السّلام سے منقول ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ جنگِ احد میں جب انصار اپنے شہیدوں کو اپنے گھروں کی طرف لے جانے کے لئے آگے بڑھے تو اس وقت آنحضرتؐ نے ایک

 

۵۰

 

منادی کو یہ ندا کرنے کا حکم دیا کہ اجسام کو ان کے مقتل میں دفن کر دو۔

چوکور قبر:
حضرت علی مرتضیٰؑ سے مروی ہے کہ آپؑ جب رسولِ خدا کے جسمِ اطہر کو دفن کر چکے تو آپؑ نے قبر مبارک کو مربع یعنی چوکور بنا دیا تھا۔

قبر پر نشانی:
آپؑ سے یہ بھی روایت ہے کہ آنحضرتؐ جب حضرت عثمان بن مظعون کو دفن کر چکے تو آپؑ نے ایک پتھر منگا کر قبر کے سرہانے رکھ دیا اور فرمایا کہ یہ ایک نشانی کے طور پر ہے تا کہ میں اپنے اہلِ قرابت کو یہیں دفن کر سکوں۔

قبر کی گہرائی:
حضرت علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ تین ہاتھ (یعنی تقریباً ڈیڑھ گز) سے زیادہ گہری قبر کھودنا اور قبر سے نکلی ہوئی مٹی کے علاوہ دوسری مٹی قبر پر رکھنا یہ دونوں باتیں مکروہ سمجھتے تھے۔

قبر پر پانی چھڑک دینا:
آپؑ سے یہ بھی روایت ہے کہ آنحضرتؐ جب عثمان بن مظعون کی قبر پر مٹی برابر کر چکے تو آپؑ نے اس پر پانی چھڑک دیا۔

زیارت قبور کی رخصت:
حضرت علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آنحضرتؐ نے قبروں کی زیارت کی رخصت دی ہے، آپؑ نے فرمایا کہ قبروں کی زیارت سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
امام باقر علیہ السّلام سے منقول ہے آپؑ نے فرمایا کہ سیدۂ عالم جناب فاطمۂ زہرا علیہا السّلام حضرت حمزہؑ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں۔ قبر کے پاس کھڑی رہتی تھیں اور ہر سال خواتین کے ساتھ شہداء کی قبروں پر حاضر ہو کر دعا و استغفار کرتی تھیں۔

قبروں کو دیکھ کر سلام پڑھنا:
حضرت علی علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپؑ جب قبروں کے پاس سے گزرتے تھے تو اس طرح سے تین مرتبہ سلام پڑھتے

 

۵۱

 

تھے: السّلام علیکم یا اہل الدارنا نا بکم لاحقون

قبروں پر چلنا اور ان کے پاس ہنسنا:
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے قبروں پر چلنے سے اور ان کے پاس ہنسنے سے منع فرمایا ہے۔

قبر کے پاس مسجد بنانا:
حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے کسی قبر کے پاس مسجد بنانا مکروہ قرار دیا ہے۔

مصیبت والوں کے پاس کھانا لے جانا:
امیر المومنین علیہ السّلام سے روایت ہے کہ جب حضرت جعفر بن ابی طالبؑ کی خبرِ وفات پہنچی تو آنحضرتؐ نے اپنے اہلِ بیّتؑ سے فرمایا کہ کوئی کھانا پکاؤ اور حضرت جعفرؑ کے گھر والوں کے پاس لے جاؤ جبکہ وہ جعفر کے غم میں مبتلا ہیں۔ اور ان کے ساتھ تم بھی کھانا کھاؤ کیوں کہ ان پر ایسی مصیبت آئی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے اپنا کھانا خود نہیں پکا سکتے۔

 

۵۲