پیر پندیاتِ جوانمردی
دیباچۂ طبعِ دوم
پروردگارِ عالمین کے اس عظیم فضل و احسان کا شکر بجا لانے سے ہماری زبان عاجز و قاصر ہے، کہ اس نے اپنی لا انتہا رحمت سے ہمیں توفیق و ہمت عطا فرمائی، جس سے یہ مبارک و مقدس کتاب فارسی سے فہم اور سلیس اردو میں منتقل کر دی گئی، جو سرچشمۂ رشد و ہدایت اور گنجینۂ علم و حکمت کی حیثیت رکھتی ہے، اور اسی ذاتِ پاک کے خاص لطف و کرم سے وسائل و ذرائع مہیا ہوگئے، جن کی بدولت حضرتِ امامِ عالیمقام علیہ السلام کے پاک ارشادات کے اس پر حکمت مجموعے کو طباعت و اشاعت کی مختلف منزلوں سے گزار کر عاشقانِ نورِ ہدایت تک پہنچا دیا گیا۔
أئمۂ طاہرینؑ کے علم کی اہمیت:
اسماعیلی اصول کے مطابق أئمۂ آلِ محمد (صلی اللہ علیہ و علہیم اجمعین) صاحبانِ امر کہلاتے ہیں، اور یہ حضرات بحوالۂ قرآنِ حکیم (۴: ۵۹، ۴: ۸۳ ) اولی الامر ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے تعالیٰ اور اس کے رسولِ برحقؐ کے امر و فرمان کی مکمل وضا حت بمقتضائے زمان و مکان أئمۂ طاہرین کی ترجمانی سے ہوتی آئی ہے، یہی وجہ ہے، جو قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۴: ۵۹) ۔
اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ اولوالامر أئمۂ آلِ محمدؐ ہی ہیں،
۷
آپ پاک اماموں کے علم و حکمت سے بھر پور فائدہ اٹھائیں، اور امامِ زمان کے امرو فرمان کا کامل اطاعت کریں، اور قرآن و حدیث کی روشن و تابناک دلائل کبھی بھول نہ جائیں، جو بڑی کثرت سے ہیں، مثال کے طور پر: جب تک دنیا میں قرآنِ پاک موجود ہے، تب تک اس کے ساتھ نورِ منزل بھی موجود ہے (۵: ۱۵) لوگوں کو امام کی ضرورت نہ صرف ظاہر میں ہے، بلکہ باطن میں بھی ہے کہ خدا لوگوں کو امام ہی کے وسیلے سے بلاتا ہے (۱۷: ۷۱) لوگ نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کو امام کی ضرورت ہے، لیکن حکمت والے خدا نے حضرتِ ابراہیمؑ سے جس طرح فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا امام بنانے ولا ہوں (۲: ۱۲۴) اس سے اہلِ دانش کو ظاہر ہے کہ اہلِ جہان کے لئے امام کا ہونا بیحد ضروری ہے، اگرچہ امامت کے مختلف درجات ہوتے ہیں، لیکن حضرتِ ابراہیمؑ کا مرتبۂ امامت عظیم تھا۔
حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ خدا وند تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اپنا عبد مقرر فرمایا، اور رسول بنانے سے پہلے اپنا نبی بنایا، اور خلیل بنانے سے پہلے رسول مقرر کیا، اور امام بنانے سے پہلے اپنا خلیل بنایا (المیزان، جلدِ اول، ص ۲۷۶، بحوالۂ تفسیر کافی) اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرتِ ابراہیمؑ کا عظیم الشان قرآنی قضہ در اصل امامت ہے، جس کے ظاہر و باطن میں جواہر علم و معرفت ابھرے ہوئے ہیں، الحمدللہ یہ پر نور تصور علی زمانؑ کے عظیم علمی معجزات اور عجائب و غرائب میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اہلِ ایمان آیاتِ قرآنی میں غورو فکر سے کام لیا کریں، تاکہ ان کو قرآنِ حکیم کی پوشیدہ حکمتوں سے آگہی ہو، مثال کے طور پر: حضرتِ آدمؑ کے بارے میں فرشتوں سے فرمایا: إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً=میں ایک خلیفہ زمین میں بنانے والا ہوں (۲: ۳۰)
۸
اور حضرتِ ابراہیمؑ سے فرمایا: إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا: میں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں (۲: ۱۲۴) اب آپ سے یہ سوال ہے کہ آیا خدا کے دین کا نظام خلافت ہے یا امامت؟ یا کبھی وہ ہے اور کبھی یہ؟ یا دونوں لفظوں کی ایک ہی حقیقت ہے؟ آپ خوب سوچیں اور درست جواب دیں۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں میرا یقین یہ ہے کہ خلافت اور امامت الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ خلافت ایک تشریح ہے کتابِ امامت کی، اور تمہید ہے، جیسا کہ آپ نے حضرتِ ابراہیمؑ کی امامت کا تذکرہ سنا، کہ اس میں بڑی زبردست جامعیت ہے، اور قانونِ قیامت (۱۷: ۷۱) کو دیکھا کہ لوگوں کی کوئی قیامت ہی نہیں، مگر امام کے ساتھ، نیز قلبِ قرآن میں دیکھیں کہ خداوند تعالیٰ کس طرح امامِ مبین میں کل کائنات کو لپیٹ لیتا ہے (۳۶: ۱۲ ) یہ بات ایسی ہے جیسے خدا نے قلمِ قدرت سے لوحِ محفوظ میں سب کچھ لکھ دیا ہے۔
حدیثِ شریف ہے: اِنَّ اَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الْقَلَمَ، فَقَالَ اکُتُبْ، قَالَ مَااَکْتُبُ؟ قَالَ اَکْتُبِ الْقَدْرَ مَا کَانَ وَ مَا ھُوَ کَائِنٌ اِلیٰ الْاَبَدٍ = اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور حکم دیا کہ لکھو، اس عرض کیا، کیا لکھوں؟ فرمایا: اندازہ، جو گزر چکا اور جو ابد تک ہونے والا ہے (جامعِ ترمذی، جلدِ اول، ابواب القدر)۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ عالمِ شخصی کے اعتبار سے پہلے پہل انسان کی جسمانی تخیلق ہوتی ہے، بعد ازان روحانی پیدائش، اور آخر مین وہ عقلی طور پر پیدا ہو جاتا ہے، لیکن یہ آخر درحقیقت اول ہے، کیونکہ حقیقی زندگی اب شروع ہو گئی، اسی معنیٰ میں یہ ارشاد ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم / عقل / نورِ محمدی کو پیدا کیا۔
۹
س: قلم اندازۂ گزشتہ و آئندہ کو کب لکھتا ہے؟ ۔۔۔ ج: اس وقت جبکہ عارف صورتِ رحمان میں فناہو چکا ہوتا ہے، س: ایسے میں قلمِ عقل کی تحریروں سے عارف کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ ۔۔ ج: یہ کتابِ مکنون بھی ہے، جس میں مطالعۂ اسرارِ معرفت کے بے شمار فائدے ہیں، س: اس حدیث کا کیا مطلب ہے: جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا اَنْتَ لَاقٍ = اس چیز کو لکھ کر قلم سوکھ گیا جس سے تو ملنے والا ہے؟ ۔۔۔ ج: قلمِ قدرت حظیرۂ قدس کی بہشت میں لکھ رہا ہے، لہٰذا وہ بشارت ار علم و حکمت کے سوا اور کچھ نہیں لکھتا ہے۔
۱۰
چند اساسی حکمتیں
سورۂ قلم کی آیتِ اول (۶۸: ۱) کی تفسیر و تاویل ہے جو حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے: قَالَ: وَاَمَّا’’ن‘‘ فَھُوَ نَہْرٌ فیِ الْجَنَّۃِ، قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَ جَلَّ: اُجْمُدْ فَجَمَد فَصَارَ مِدَادًا، ثُمَّ قَالَ لِلْقَلَمِ: اُکْتُبْ فَسَطَرَ الْقَلَمُ فِی اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ مَا کَانَ وَمَاھُوَ کَائِنٌ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَالمِدَادُ مِدَادٌ مِّنْ نُوْرٍ، وَالْقَلَمُ قَلَمٌ مِّنْ نُوْرٍ، وَاللَّوْحُ لَوْحٌ مِّنْ نُوْرٍ = فرمایا کہ نون جنت کی ایک نہر (ندی) ہے، خداوند تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ جم جا، وہ جم گئی اور روشنائی بن گئی، پھر خدا نے قلم کو حکم دیا کہ لکھ پھر قلم نے جو کچھ ہو چکا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا وہ سب لوحِ محفوظ میں لکھ دیا، پس وہ روشنائی نور کی روشنائی ہے، اور وہ قلم بھی نور کا قلم ہے، اور لوح بھی نور کی لوح ہے۔
پوچھنے پر امام علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا: فَنُوْ نُ مَلَکٌ یُؤَدِّیْ اِلیَ الْقَلَمِ وَ ھُوَ مَلَکٌ، وَ الْقَلَمُ یُؤَدِّیْ اِلیَ اللَّوحِ وَھُوَ مَلَکٌ، وَاللَّوْحُ یُؤَدِّیْ اِلیَ جِبْرَائِیْلِ وَ جِبْرَائِیْلُ یُؤَدِّیْ اِلیَ الْاَ نِبْیَاءِ وَ الرُّسُلِ = نون ایک فرشتہ ہے جو قلم کو خبر یں دیتا ہے اور قلم بھی ایک فرشتہ ہے جو لوح تک حکم پہنچا دیتا ہے، اور لوح بھی فرشتہ ہے، جو اسرافیل کو
۱۱
پیغام دیتا ہے، اور اسرافیل میکائیل کو اور میکائیل جبرائیل کو اور جبرائیل نبیوں اور رسولوں کو اطلاع دیتے ہیں۔ (المیزان، جلد ۱۹، ص ۳۷۶)۔
نمونۂ عالمِ دین:
دین سب سے اہم اور سب سے عظیم عالم ہے، جو سات بڑے ادوار پر محیط ہے، وہ ادوار یہ ہیں: دورِ ناطقِ اول، دورِ ناطقِ دوم، دورِ ناطقِ سوم، دورِ ناطقِ چہارم، دورِ ناطقِ پنجم، دورِ ناطقِ ششم، اور دورِ حضرتِ قائم جو دورِ ہفتم ہے، یہ ایا م اللہ ہیں ( ۱۴: ۵) ، ۴۵: ۱۴) یعنی خدا کے سات زندہ دین، ان میں سے اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں عالمِ دین کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور سنیچر کے دن اسرارِ عرش کا کام کیا، اور ان میں ایک بہت بڑا راز مساواتِ رحمانی ہے۔
خداوندِ قدوس نے اپنی قدرت ِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے نہ صرف عالمِ دین بلکہ عالمِ ظاہر کو بھی عالمِ شخصی میں لپیٹ دیا ہے، تاکہ دینی معرف کی کوئی چیز مکانی اور زمانی مسافتوں کی وجہ سے دور نہ رہے، اور تمام قرآنی قصے، واقعات اور معجزات عارف کی چشمِ باطن کے سامنے ہوں، اسی معنیٰ میں یہ کہنا حقیقت ہے، کہ عالمِ شخصی نمونۂ عالمِ دین ہے، بلکہ یہ آئینۂ عالمِ دین ہے، بلکہ یہ اس کی روحانی اور نورانی مووی (MOVIE)ہے، جس کے زریعے سے دین شناسی جیسی سب سے بڑی سعادت نصیب ہو جاتی ہے۔
سورۂ ھود کی آیتِ ہفتم (۱۱: ۷) کے سرِ اعظم کے بارے میں آپ نے سنا ہوگا، اس آیۂ کریمہ کی تین تفسیریں ہوسکتی ہیں: اول ظاہری کائنات کے پیشِ نظر ، دوم عالمِ دین کے اعتبار سے، سوم عالمِ شخصی کے لحاظ سے، تاہم حصولِ معرفت کی غرض سے تیسری تفسیر زیادہ ضروری ہے، وہ آیۂ مبارکہ یہ ہے: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ
۱۲
أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً=اور وہ تو وہی (قادرِ مطلق) ہے جس نے (عالمِ شخصی کے) آسمانوں اور زمین کو چھ دین (چھ سب سے چھوٹے ادوار) میں پیدا کیا، اور اس کا تخت پانی (بحرِ علم) پر ظاہر ہوا، تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں بہ اعتبارِ (علم و ) عمل زیادہ اچھا کون ہے (۱۱: ۷) ۔
عرش مثال در مثال ہے: عرش آسمان پر بھی ہے، اور زمین (پانی) پر بھی، مگر یہ مثال در مثال اور حجاب در حجاب ہے، جبکہ زمین پر سمندر ہے، سمندر پر ایک تخت ہے جو کشتی بھی ہے، اس میں شخصِ کامل ہے، اور اس میں سے خود بخود اسمِ اعظم کا معجزاتی ذکر ہو رہا ہے، اب آپ ٹھیک طرح سے سوچ کر بتائیں کہ ان حقائق و معارف میں اصل عرش کونسا ہے جو بھری ہوئی کشتی بھی ہے؟ شخصِ وحدت؟ یا نور (اسمِ اعظم)؟ کیا عرش ایک عظیم فرشتہ ہے؟ آیا کرسی دوسرا عظیم فرشتہ ہے؟ کیا یہ سچ ہے کہ شخصِ وحدت عرش و کرسی بھی ہے، قلم و لوح بھی، اور بھری ہوئی کشتی بھی؟
انتسابِ جدید:
میرے علمی سفر کے رفقاء، میرے دل کے احبا ٔ (واحد حبیب) میری روح کے عزیزان، اور میرے عالمِ شخصی کے فرشتے وہ ہیں، جو بار بار مجھے یاد آتے رہتے ہیں، ان کی لطیف و شیرین یادیں میری جانِ حقیر کے لئے ایسی فرحت انگیز اور مسرت بخش ہیں، جیسے عمدہ سے عمدہ پھول اپنی دل آویز خوشبوؤں سے روحانی غذاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، مثلاً گلاب، گلِ سوری، گلِ داؤدی، گلِ سنجد (گنڈورے اسقر) وغیرہ، اس موقع پر مجھے روحانی انقلاب کا زمانہ بھی یا دآیا، جس میں
۱۳
روحانی خوشبوؤں کا دروازہ کھل گیا تھا، میرے جملہ عزیزان (تلامیذ) ظاہری اور باطنی عطریات کی طرح پسند یدہ اور پیارے ہیں، میری بے شمار جانیں ان سے فدا !
اس شادمانی کے عالم میں ایک جانی اور ایمانی دوست کا ذکرِ جمیل کرنا چاہتا ہوں، جو حقیقی علم کے مثالی شیدائی اور عاشق ہیں، ان کا پاکیزہ چہرہ علم و عبادت کے خاموش معجزے سے ہر دم منور و تابان رہتا ہے، یہ خاندانی طور پر امامِ عالیمقام علیہ السلام کے جان نثار عاشق ہیں، علمی خدمت کے تقدس و عظمت کو جانتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہیں، ان کا بہت ہی پیارا نام طاہر علی ابنِ قاسم علی ہے، آپ ہمارے یوسٹین (امریکہ ) ہیڈکوارٹر کے آنریری خزانچی اور لائف گورنر ہیں، ظاہر علی بہت سی خداداد صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک ہیں۔
ان کی نیک خصلت بیگم سارہ (سائرہ) بڑی مذہبی اور بہت دیندار خانون ہیں، مزاج میں سادگی، دل علم و عبادت کے نور سے منور، قلب و لسان ذکرِ الٰہی میں مصروف ، بار بار صلوٰت پڑھنے کی عادی، حضرتِ رب العزت کی ظاہری اور باطنی نعمتوں کے لئے شکرگزار، اور لائف گورنری کے عہدے سے سرفراز، یہ ہیں عزیزم ظاہر علی کی بیگم سارہ، ان کے دو بہت پیارے بچے بڑے باسعادت ہیں، اسد ظاہر علی کا تولد ۴ ؍ اگست ۱۹۹۳ ء کو ہوا، اور سنان ظاہر علی کی تاریخِ پیدائش ۷؍ اکتوبر ۱۹۹۵ ء ہے، ان لٹل اینجلز کی بڑی نیک بختی ہے کہ بوقتِ خفتن تسبیحات پڑھتے ہیں، اور دونوں لائف گورنرز ہیں، پروردگار اپنی رحمتِ بے پایان سے اس باسعادت فیملی اور دیگر تمام عزیزان کو دونوں جہان کی کامیابی، سرخروئی ، اور سرفرازی عنایت کرے! آمین!!
نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی ) ھونزائی۔ کراچی
بدھ ۱۰ ؍ جمادی الاول ۱۴۱۹ ھ ۲ ؍ ستمبر ۱۹۹۸ ء
۱۴
پندیات
بسم اللہ الر حمٰنِ الر حیم۔
۱۔ [ یہ کتاب جو معرفت کا خزانہ ہے اور رحمت کا ٹھکانا ہے، پندیاتِ ؎ ۱ جوانمردی کے نام سے موسوم ہے، جس میں سرتا سر صرف حضرت مولانا مستنصر باللہ ثانی کے فرامین مبارک ہی درج کئے گئے ہیں، اور اس کتاب کو آنجناب نے اپنے عہدِ امامت میں جماعتِ ناجیہ کے لئے اپنے حجت (یعنی پیر ) کے مرتبے پر مقرر فرمایا ہے، حسبنا و کفیٰ مولانا۔
۲۔ یہ کتاب ایک پرانے نسخے سے نقل کی گئی، جو مقام تُنگ دارالخلافۂ سریقول میں لکھا گیا تھا، جس کے شروع اور اخیر کی چند سطور کہنگی و فرسودگی کی وجہ سے مٹ گئی تھیں]۔
۳۔ ۔۔۔۔ ابدی طور پر، آمین! اما بعد مولانا مرتضیٰ علی علیہ السلام کے راستے پر چلنے والوں کے آفتاب صفت نورانی ضمیر سے پوشیدہ نہ رہے، کہ امام ِ زمان حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ ( علیہ السلام ) کی درگاہِ معلی کے اس خادم کا کہنا ہے، کہ پندیاتِ جوانمردی کا سببِ تالیف یہ ہے، کہ مجھے جس مجلس، جس اجتماع اور جس اجلاس کے موقع
؎۱: پندیاتِ جوانمردی کے معنی ہیں عالی ہمتی کی نصیحتیں۔
۱۵
پر آنجناب کے حضور پر نور میں حاضر رہنے کا شرف حاصل ہوا ہے اور ان موقعوں پر امامِ عالیمقام علیہ السلام نے مومنین کی جماعت اور تمام پیروؤں کے لئے امر، نہی، اخلاق، صفات اور سلوک کے بارے میں جو پندیات و نصائح فرمایا کرتے تھے، اور انسانیت، دینداری، عبادت اور مومنین کے دنیوی فیض اور اخروی سعادت کے لئے محنت و ریاضت کے متعلق جو کچھ ارشاد فرماتے تھے، ان سب کو میں نے کتاب کی صورت میں لکھ دیا، تاکہ سننے اور عمل کرنے والوں کے لئے یہ کتاب و سیلۂ نجات ہو، اور میں نے اس کتاب کا نام ’’پندیات‘‘ رکھا، کیونکہ اس میں ایک طویل پند، دو مختصر پند اور عالی ہمتی کے بارہ اصول مندرج ہوئے ہیں۔
۱۶
حقیقی مومن کے اوصاف (۱)
بسمِ اللہ الرَّ حمٰنِ الرَّ حیم۔
۱۔ جان لے، کہ ہمارے آقا امام زمان حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ جلت حکمۃ نےاپنی زبانِ مبارک سے فرمایا: ۔
۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے مال (یعنی آمدنی) سے دسواں ؎۱ حصہ جو امامِ حاضر کا حق ہے، صدقِ دل سے اور مکمل طور پر جدا کرتا ہے، اور اپنے امامِ زمان کےحوالے کر دیتا ہے، اس اصول سے، کہ وہ اپنی ان تمام مالی منفعتوں اور آمدنیوں کے، جو اسے حاصل ہوا کرتی ہیں، دس حصے کرتا ہے، اور اپنے اس رزق و روزی کے بھی، جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے، اور ان دس حصوں میں سے ایک حصہ امامِ زمان کی ملکیت ہے، جس کو حقیقی مومن جدا کر دیتا ہے، اور اس حصے کو حضرت مولانا شاہِ مردان مرتضیٰ علی علیہ السلام کے حضور میں، جو حی و حاضر ہیں، بلا کم و کاست پہنچا دیتا ہے۔
؎۱۔ دہ یک کا ترجمہ دسواں حصہ (۱۰/ ۱) ہے، جو اب دسوند کہا جانے لگا ہے، اس موضوع کی فقہی اصطلاح ’’ زکوٰۃ‘‘ ہے، جس کے چند ذیلی موضوعات ہیں، مثلا: قرضِ حسنہ، صدقہ، نذرانہ وغیرہ، تفصیل کے لئے دیکھئے: دائم الاسلام جز ؤ اول ص: ۲۴۰۔ ۲۶۷، نیز وجہ دین حصہ دوم ( اردو) ص: ۳۴ ۔ ۸۱، اور ص: ۲۱۳ ۔ ۲۱۹۔
۱۷
۳۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو شریعت سے طریقت میں اور طریقت سے حقیقت میں، جو شریعت کا باطن ہے، داخل ہو جاتا ہے، کیونکہ شریعت ایک شمع کی مثال ہے، طریقت راستے کی مشابہ ہے، اور حقیقت منزلِ مقصود کی طرح ہے، مومن کو کوشان رہنا چاہئے، تاکہ شمع کی روشنی میں سیدھے راستے پر چل سکے، اور خانۂ حقیقت میں داخل ہو جائے، اور حقیقت کی بنیاد امامِ زمان علیہ السلام کو پہچاننا ہے، اور ہر چیز کا مقصد اس کی اندورنی اصلیت ہی ہے، کیونکہ چیز کا نچوڑ، مغز اور رس تو وہی ہے، پس شریعت سے پیغمبر صلعم کی غرض اس کا اندورنی مطلب ہی ہے، جس کا نام حقیقت ہے، جو امامِ وقت کی پہچان (معرفت پر قائم ) ہے۔
۴۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو عالی ہمت ہوتا ہے، اور حقیقی مومن وہی ہے جو بارہ مہینے یعنی سال بھر اچھے کام اور اعمالِ صالح بجا لا تا ہے، ہمیشہ حق تعالیٰ کی یاد میں رہتا ہے، حق بات کہتا ہے، حق بات سنتا ہے، حق پر قائم رہتا ہے، راہِ حق پر چلتا ہے، اس کا قلب پاک ہوتا ہے، اور اس کا دل سچا اور صاف ہوتا ہے۔
۵۔ حقیقی مومن وہی ہے، جس کا ضمیر (نفس) حق پسند ہوتا ہے، وہ برے کام کے پیچھے نہیں جاتا، اور حرام کا تعاقب نہیں کرتا ہے۔
۶۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو حق دیکھنے والی آنکھ رکھتا ہے، جس سے وہ جائز کو دیکھتا ہے، اور ناجائز کی طرف نظر نہیں کرتا ہے، جیسے لوگوں کا مال اور ان کی عورتیں۔
۷۔ حقیقی مومن وہی ہے، جس کے الفاظ سچ ہوتے ہیں وہ بدزبانی نہیں کرتا، غیبت نہیں کرتا ہے، گالی گلوچ نہیں بکتا اور جو کچھ اپنے لئے مناسب نہیں سمجھتا، تو وہی دوسرے کے لئے بھی مناسب نہیں
۱۸
سمجھتا۔
۸۔ حقیقی مومن وہی ہے، جس کی بات ایک ہوا کرتی ہے، جو سیدھی ہوتی ہے ار ٹیڑھی نہیں ہوتی۔
۹۔ حقیقی مومن وہی ہے، کہ جب وہ وعدہ کرتا ہے، تو وعدہ خلافی نہیں کرتا، اور اس کا وعدہ سچا اور پورا ہوا کرتا ہے، اور اس نے اپنے خداوند کے ساتھ جو عہد کیا ہوا ہے اس کو بھی پورا کرتا ہے۔
۱۰۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو جائز اور حلال کا لقمہ کھاتا ہے، حرام سے پرہیز کرتا ہے، اپنے حق پر قانع ہوتا ہے، اپنے حصے پر راضی رہتا ہے، وہ طمع نہیں رکھتا، حرام کا لقمہ اپنے منہ میں نہیں ڈالتا، اور اپنے منہ کو حرام خوری سے ناپاک نہیں کرتا۔
۱۱۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو سچا ہوتا ہے، اپنے دل میں دشمنی اور نفرت نہیں رکھتا، جلد ناراض نہیں ہوتا، غصہ نہیں کرتا اور اپنے دل کو صاف اور سچا ہی محفوظ رکھتا ہے۔
۱۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو نیکو کار اور مخلص ہوتا ہے، وہ لوگوں کے مال اور عورتوں کی طرف دست دارزی نہیں کرتا، اور اپنے ہاتھ کو ناجائز طور پر پھلانے سے روک لیتا ہے۔
۱۳۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے نفس کو دوسروں کی بیویوں سے محفوظ رکھتا ہے اور ان کی طرف مائل نہیں ہوتا، جو شخص دوسروں کی بیویوں کی طرف مائل ہوتا ہے، وہ گویا اپنی ماں کی طرف مائل ہو جاتا ہے، اور جس شخص کی بیوی کی طرف دست درازی کرتا ہے، تو یہ ایسا ہے، جیسا کہ وہ اپنی ماں کی طرف دست درازی کرتا ہو، اور اگر وہ بد نظری کرتا ہے، تو اس کی بھی یہی مثال ہے، (یاد رکھو کہ) تم جس شخص
۱۹
کے حق میں جو کچھ کرو گے، تو تمہارے حق میں بھی وہی کیا جائے گا، ایسا معاملہ گویا تم نے خود ہی اپنے حق میں کیا ہے، اور جس راستے سے تم آئے ہو، پھر اسی راستے سے تمہیں واپس جانا ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اسی کو تم دیکھ پاؤ گے۔
۱۴۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو حقانیت کے راستے پر قدم رکھتا ہے، اور طریقِ حق پر سچائی اور حسنِ سلوک سے چلتا ہے، وہ لوگوں کے مال اور ان کی عورتوں کے پیچھے ہر گز نہیں جاتا۔
۱۵۔ حقیقی مومن وہی ہے جو سراپا سچا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے ، کہ سچی بات کرتا ہے، سچی بات سنتا ہے، سچے راستے پر چلتا ہے، سچی مجلس میں بیٹھتا ہے اور سچے موقع پر اٹھتا ہے۔
۱۶۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو حق اور باطل کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے، حلال و حرام کے درمیان فرق و امتیاز جانتا ہے، اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کر سکتا ہے۔
۱۷۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو نہیں ہنستا، کیونکہ ہنسی غفلت (یعنی خدا کی یاد بھول جانے) سے پیدا ہوتی ہے، اور قہقہہ مار کر ہنسنا تو شیطان کی صورت ہے، اور بے موقع ہنسنا حرام ہے، تو اس وقت ہنس لیا کر، جبکہ ہلاک کر دینے والے خطرات سے تجھے نجات مل چکی ہو، ورنہ جس شخص کو مرنا درپیش ہے، تو صحیح معنوں میں اس کی ہنسی کس طرح آسکتی ہے، اور اگر بھول سے وہ ہنس بھی لیا تو یہ کیا کام آسکتی ہے، اور اس خوشی سے فائدہ ہی کیا ہوا، جس (کے متعلق معلوم ہو، کہ اس ) کے بعد غم آرہا ہے، اور اس آسائش سے کیا حاصل ہوا، جس میں کچھ عرصہ کے بعد زوال آنے والا ہے۔
۱۸ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ حق تعالیٰ کی یاد میں لگے رہتا
۲۰
ہے، اور ہمیشہ یا تو خدا کے ڈر سے یا اس کے دیدار کے شوق میں گریہ وزاری کرتا رہتا ہے۔
۱۹۔ حقیقی مومن وہی ہے، کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو اور جو کچھ بھی نیک کام کرتا ہو، تو سب سے پہلے اس کو رحمت والے خداوند کی یاد کرنا چاہئے، ہمیشہ حق تعالیٰ کے خیال میں رہنا چاہئے اور لوگوں کی بیویوں اور بیٹیوں کو اپنی بہنیں سمجھنا چاہئے۔
۲۰۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ ذکر، فکر اور خداوندِ ذوالجلال کی شناخت سے خالی نہیں رہتا ، قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور روزِ محشر کی ہولناکی سے آگاہ رہتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے۔
۲۱۔ حقیقی مومن وہی ہے، کہ روزِ قیامت کے حساب سے، جو حق تعالیٰ اس سے لینے والا ہے، ڈرتا ہے، اور اس حساب سے پیشتر روزانہ خود ہی اپنا حساب کرتا رہتا ہے۔
۲۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ اپنی موت کو یاد کرتا ہے، اور قیامت کے دن کو اپنے نزدیک دیکھتا ہے، اور اس سے ڈرتا رہتا ہے۔
۲۳ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو خدا سے ڈرتا ہے، اس سے شرماتا ہے، کفر کی باتیں نہیں کرتا، اور حق تعالیٰ سے غافل نہیں رہتا ۔
۲۴ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو آخرت سے آگاہ رہتا ہے اور اپنی موت نہیں بھول جاتا ۔
۲۵۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فرمان اور اس کے حکم کی تابعداری کرتا ہے۔
۲۶ ۔ حقیقی مومن وہی ہے جو خدائے غفار کو ہمیشہ اپنے سامنے حاضر و ناظر، روبرو اور اپنے آپ سے بھی زیادہ نزدیک سمجھتا ہے۔
۲۷۔ حقیقی مومن وہی ہے، کہ جو کام اور شغل کرے، اس میں وہ اپنے خداوند کو اپنے پاس حاضر سمجھتا ہے۔
۲۱
۲۸۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے خداوند کو پہچانتا ہے، سچائی کے راستے پر چلتا ہے، اور اپنے دل میں اور زبان پر ایک ہی طرح کا قول رکھتا ہے۔
۲۹۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو مومنوں اور نیک لوگوں کی صحبت میں رہ کر علم کی باتیں سن لیا کرتا ہے اور انہیں یاد کرتا ہے۔
۳۰ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے آپ کو مردہ اور نیست تصور کرتا ہے اور حقانیت و کمالیت کے ساتھ سر سے لیکر پاؤں تک اپنے تمام اعضا ٔ کو حق تعالیٰ کے فرمان کے تابع رکھتا ہے۔
۳۱ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے گناہوں پر نظر کر کے خدا سے ڈرتا ہے اور توبہ کرتا ہے۔
۳۲۔ ۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو جفاکش، محنتی، خاموش اور کم بولنے والا ہوتا ہے۔
۳۳۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ صابر، سچا اور پرہیزگار ہوتا ہے، برے کاموں سے دور رہتا ہے، نیکو کار، پاک، صاف دل اور بے کینہ ہوتا ہے۔
۳۴۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے اعمال و احوال سے باخبر رہتا ہے، غافل نہیں رہتا، موت کی تکلیف اور جان نکل جانے کی سختی سے بھی آگاہ رہتا ہے، عذاب اور نکیرو منکر کے سوال و جواب سے بھی ڈرتا رہتا ہے اور اسے نہیں بھول جاتا ہے۔
۳۵۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو حضرت امام مہدی عبد اللہ صاحب زمان علیہ السلام ( یعنی امامِ وقت علیہ السلام ) کو جانتا پہچانتا ہے، کیونکہ آنجناب دنیا میں حاضر ہے، تمہیں اس کا طالب رہنا چاہئے، تمہیں اس کو ڈھونڈنا، دیکھنا اور پہچاننا چاہئے، اور اس مولا کے مالی حق کو
۲۲
آنجناب کے حضور پرنور میں پہنچا دینا اور حوالہ کرنا چاہئے، اور اس کی محبت اختیار کرنا چاہئے۔
۳۶۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو دائم خدا کی یاد میں رہتا ہے، اور اس کی زبان پر یادِ الٰہی کے سوا کوئی اور چیز، کوئی اور بات نہیں ہوتی۔
۲۳
حقیقی مومن کے اوصاف ۔۲
۱۔ جان لو اے ایمان والو اور اے صداقت والو! جس شخص کا دل صاف اور بے کینہ ہو، تو وہی ہمیشہ خدا کی فکر و ذکر میں رہا کرتا ہے، اور اس کی زبان ہر وقت خدا کی تعریف میں مصروف رہتی ہے، اور خدا کا مخلص بندہ وہی ہے، جو خوفِ خدا سے ہمیشہ گریہ وزاری اور عجز و انکساری کرتا رہتا ہے، یقیناً اس کے گناہ گرتے جاتے ہیں، (جس طرح موسم خزان میں کسی درخت کے پتے گرتے ہیں) جس طرح آسمان سے برف پڑتی ہے، اور سورج کی گرمی سے پگھل جاتی ہے، جو شخص قیامت سے ڈر جائے، تو اس کے گناہ اسی طرح گرتے جاتے ہیں، اور جو شخص بے ترتیب ، بے موقع اور بغیر سوچے سمجھے بات کرتا ہو، فحش باتیں کرتا ہو، فضول گوئی کرتا ہو، مسخرہ کرتا ہو، غفلت اختیار کرتا ہو، اوروں کی بیویوں کی خوبیان بیان کرتا ہو یا ان کے عیوب گنتا ہو، یا لوگوں کی بیویوں کی طرف دیکھاکرتا ہو، یا ان کا عاشق بنتا ہو، یا کوئی ایسی عورت بیگانہ مرد کی عاشق بنتی ہو، پس خدا کے غضب سے نعوذ باللہ! کہ ایسے شخص نے اپنی تمام عمر میں جو کچھ نماز اور عبادت کی ہے اور جو کچھ نیک کام کیا ہے، وہ سب برباد ہو جاتا ہے، اور سب ضائع ہو جاتا ہے، اس شخص کی طرح جس نے ایک پاک طعام میں چوہے کی لینڈی یعنی گوہ یا کوئی اور غلاظت ملادی ہو، اور سب کو ناپاک کر دیا
۲۴
ہو، خدائے تعالیٰ ایسے شخص سے ناراض اور ناخوش ہو جاتا ہے، اور اس شخص کے کام میں نقصان آتا ہے، اور وہ دربدر، حیران، پریشان اور سرگردان ہو گا، دنیا و آخرت میں اس کے لئے تاریکیاں اور ظلمتیں ہوں گی، اور آخرت میں عذابِ دوزخ میں گرفتار ہوگااور مایوسی کی آگ میں جلتا رہے گا، بد فعلی اور بد عملی ہی کی وجہ ہے، جو بہت سے لوگ ہمیشہ دنیا میں خوار و زار اور دربدر اور آخرت میں روسیاہ اور دوزخی ہو جاتے ہیں۔
۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو ہمیشہ صابر، نیکو کار، سچا، راست باز، دیندار، پرہیزگار، متقی، بے کینہ، بے بغض اور صاف دل ہوتا ہے، اور ہر ایک کام میں اپنے خداوند کو اپنے سامنے حاضر و ناظر سمجھتا ہے اور ہمیشہ حق تعالیٰ کی یاد میں رہتا ہے، اور جو بندہ ایسا ہو، تو اس کے لئے دنیا میں نور اور فیض حاصل ہو گا، اور آخرت کے دن بہشت میں اپنے آقاو مولا علی علیہ اسلام کے دیدار سے مشرف ہوگا۔
۳۔ حقیقی مومن وہی ہے، جس کا قول و قرار ایک اور سچا ہوتا ہے، اس بندے کے دل کا خیال بھی سچا ہوتا ہے، اس کا وعدہ بھی سچا ہوتا ہے، اس کی محبت و عاشقی بھی سچی ہوتی ہے، اور وہ بندہ سرتاپا مخلص اور سچا ہوتا ہے، وہ شیرین کلام اور نرم گو ہوتا ہے، اور اس کی روح صداقت ولی ہوتی ہے، اور وہ دائم الذکر ہوتا ہے، ہمیشہ خدا کے ذکر و فکر اور اس کے وصف، تعریف اور معرفت میں مصروف رہتا ہے، اور اس کے اعمال و کردار اچھے ہوتے ہیں، وہ اپنے خداوند اور پیر کی فرمانبرداری کرتاہے، اس کی زبان پر پنج تن کا نام جاری رہتا ہے، خدا کی یاد و تسبیح سے اس کی محبت ہوتی ہے، اپنے آقا حضرت صاحب الامر امامِ زمان کو پہچانتا ہے، اور آن جناب تک رسا ہو کر فرمانبرداری اور اطاعت کرتا
۲۵
ہے، اور اپنے آپ کو اور اپنے تمام دینی اور دنیوی امور کو آن مولا علیہ السلام، جو امامِ زمان اور جہان و اہلِ جہان کے مالک ہیں، کے حوالے کر دیتا ہے۔
۴۔ حقیقی مومن وہی ہے جو اپنے تمام کاروبار، تجارت اور آمدنی و منافع کو حساب کر کے دہ یک (یعنی دسواں حصہ) مالِ واجبات کے طور پر جدا کر دیتا ہے، اور سچے اعتقاد، کامل محبت، اخلاق، شوق اور عشق سے اس دسویں حصے کو اپنے امامِ وقت کے حضور میں پہنچا دیتا ہے، اور اگر پاک اعتقاد، سچائی اور کامل طور پر پہنچا دے، تو اس کو دنیا میں فیض و برکت اور آخرت میں سعادت حاصل ہوگی، اور حق تعالیٰ اس سے راضی ہوگا، کیونکہ اس نے خداوند کا حق ادا کر دیا، اور یہی مومنی، خدا دوستی اور اخلاص مندی کی علامت و نشانی ہوا کرتی ہے، اور صرف ایسا شخص ہی صابر، سچا، نکوکار، راست باز، پاک فطرت، پرہیزگار، منکسرالمزاج اور درویش صفت ہوتا ہے، اور اپنے آپ کو نیست سمجھتا ہے، اور اپنے آپ کو سراسر گناہ گار تصور کرتا ہے، وہ خود بینی اور غرور نہیں کرتا، نہ وہ خود نگر اور خود بین ہوتا ہے۔
۵۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو دل میں بغض و عداوت نہیں رکھتا، ہمیشہ اپنے پروردگار کے ذکر و فکر میں رہتا ہے، اس کے دل و زبان ایک ہوتے ہیں، تمام مومنین کے ساتھ ہمیشہ اس کی ملاقات اور محبت ہوتی ہے، وہ آخرت کی فکر میں رہتا ہے اور علم کی باتوں کو یاد کر لیا کرتا ہے، حق تعالیٰ کی راہ میں روز بروز آگے بڑھتا رہتا ہے، خدا کی راہ میں چلنے سے نہیں تھکتا، راہِ حق میں اسے جو تکالیف پیش آتی ہیں، ان سے رنجیدہ نہیں ہوتا، وہ دین میں ناشکری اور سستی نہیں کرتا، بلکہ شوق و محبت سے دینداری میں مصروف رہتا ہے، اور
۲۶
روز بروز اس کا یہ عشق و شوق بڑھتا جاتا ہے، اور دن بدن اس کے اخلاق، اوصاف، اقوال اور اعمال بہتر ہوتے جاتے ہیں، اور روز بروز اس کا ایمان کامل تر ہوتا جاتا ہے، جیسے کوئی مریض روز بروز صحت یاب ہو رہا ہو، یہاں تک کہ اسے شفائے کلی ملتی ہے، وہ ہمیشہ خدا کی راہ میں ہوشیار رہتا ہے، خدا کی محبت میں آنسو بہاتا ہے اور بہت کم ہنسا کرتا ہے، اور اپنے آپ کو غفلت اور شیطنت کی ہنسی سے بچاتا ہے، ہر وقت اپنے خدا کی طرف متوجہ رہتا ہے، دائم حق تعالیٰ کی یاد کرتا ہے، قیامت کے دن سے ڈرتا ہے، خدائے غفار کی، اپنے امام علیہ السلام کی، جو صاحب الزمان ہیں، اور اپنے پیر کی ہمیشہ یاد کرتا ہے، اور اپنے پیر کے دامن کو پکڑا ہوا ہوتا ہے، کیونکہ یہی پیر قیامت کے روز تم مومنین کی فریاد کو پہنچے گا، اور دوسرا کوئی شخص تمہارا عذر نہیں سنے گا۔
۶۔ اے مومنو! اور اے نکوکارو! حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے آپ مومنین و صالحین کی خاکپا سمجھتا ہے، ایسا مومن ہی مخلص اور حقیقی ہوتا ہے، اور ایسا مومن ہی خدا تک پہنچتا ہے، خدا اس کے ساتھ ہوتا ہے اور خدا اس سے کبھی جدا نہیں ہوتا۔
۷۔ اے مومنو اور اے صادقو! خاص بندوں کے لئے دین کا کام آسان ہے، بشرطیکہ کوئی بجالائے، خدا وند تعالیٰ کی محبت اور عشق مومنوں کے لئے آسان بھی ہے اور انتہائی پر لطف بھی، خدا کا عشق مومنوں کے لئے سہل بھی ہے اور پرلذت بھی، پروردگارِ عالم نے اپنے عشق کو پاکبازوں کی روحانی غذا بنائی ہے، اور غافلوں اور غفلت کے مارے ہوؤں کے لئے یہ امر بہت بھاری اور مشکل ہے، غفلت والے اور غفلت زدہ لوگ دنیوی عشق رکھتے ہیں، ان میں سے ہر شخص
۲۷
کسی نہ کسی دنیوی چیز کا عاشق بن کر اس کے پیچھے چلتا ہے، حالانکہ مجازی قسم کا عشق درحقیقت عشق نہیں، ایک مہلک شی ہے، بلکہ یہ ایک دائمی بیماری ہے، اور ایسی عشق بازی عاشق کو جہنم میں پہنچا دیتی ہے، اور جو کوئی اپنے پروردگار کے دیدار کا طالب اور اس کی ملاقات کا عاشق ہو، تو خدا وند عالم اپنے ذکر کو اس کے دل و زبان پر قرار دیتا ہے، اور ایسا بندہ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔
۸۔ اے مومنو! سچا مذہب ہی صراطِ مستقیم ہے ؎۱، یعنی امامِ وقت کی معرفت اور اس کی پیروی ہی سیدھی راہ (صراطِ مستقیم؎۱) ہے، سو جتنا بھی ہوسکے، تم راہِ راست پر آگے بڑھنے کی کوشش کرو، تاکہ منزلِ حقیقت میں، جو امام ِزمان علیہ السلام کی معرفت ہے، پہنچ سکو، اور تم جوانی میں ایسا کام کرو، کہ جس سے اپنے دین و ایمان کو کامل کرسکو، اور منزلِ مقصود میں پہنچ سکو، کیونکہ بڑھاپے میں حرص زیادہ اور عقل کم ہو جاتی ہے، اس وقت (اکثر لوگ) دنیا کے لئے حریص ہو کر غفلت میں رہ جاتے ہیں، پس اب تم اس فریضہ کو سمجھ سکتے ہو اور بجا لا سکتے ہو، اور جس وقت تم اس کو سمجھنے کے قابل نہ رہو گے، تو تمہاری کوشش لا حاصل اور بے سود ہوگی۔
؎۱ فالنبی، (ص) فی عصرہ ھو الصراط المستقیم و الوصی بعدہ کذالک، ثم ینتظم فی امام بعد امام، کل منہم یسند الیٰ من تقد مہ ویشیر الیٰ من تاء خرعنہ ۔۔۔ پس نبی (صلعم) خود ہی اپنے عصر میں ’’ صراط امستقیم‘‘ ہیں، ان کے بعد وصی ایسے ہی ہیں، پھر ایک امام کے بعد دوسرے امام میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، اور ان میں سے ہر امام اگلے امام کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور آنے والے امام کے متعلق اشارہ کرتا ہے۔
(المجالس المستنصریہ ص: ۱۶۹ ۔۱۷۰)
۲۸
۹۔ اے مومنو! غفلت سے خدا بچائے، کہ خدا سے غافل ہونا آفت ہے، جہاں تک تم سے ہوسکے، تو ذکرِ الٰہی سے غافل نہ ہونا، اور حق تعالیٰ کی یاد سے غفلت نہ کرنا، کیونکہ جو غافل ہوا، تو وہ ہار گیا، اور جو شخص حق تعالیٰ کو فراموش کرے، تو خدا اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے، اور خدا ایسے شخص کو قیامت کے دن فراموش کر دیتا ہے، پس تم غافل نہ رہنا، بلکہ اپنے تمام حالات سے باخبر رہنا۔
۲۹
سخاوت اور بخالت
نیز امام علیہ السلام نے فرمایا: ۔
۱۔ اے مومنو اور اے عزیزو! سخی و عالی ہمت شخص اور بخیل آدمی کے اوصاف سنو اور اپنے ذہن میں رکھ کر سمجھو کہ: ۔
۲۔ عالی ہمت اور بلند حوصلہ شخص وہ ہے، جو عالی ہمتی کرتا ہے، راست باز اور سچا ہوتا ہے، اس کے باطن میں ظاہر کی نسبت حقیقی محبت زیادہ ہوتی ہے، اور وہ ہر شخص سے دوستی اس لئے رکھتا ہے، کہ خدا کی خوشنودی حاصل ہو، نہ اس لئے کہ دنیا کا کوئی مطلب اور فائدہ حاصل ہو۔
۳۔ عالی ہمت اور بہادر شخص وہ ہے، جو نیک کاموں میں دوسروں سے سبقت لے جاتا ہے، بھلائی کے کاموں کے لئے کوشان رہتا اور ان کا بانی ہوتا ہے، اپنے کام پر دینی بھائی کے کام کو ترجیح دیتا ہے، اور طعام و آرام میں دوسروں کو مقدم رکھتا ہے، جہاں تک ہو سکے دیتا ہے لیتا نہیں، اگر اس کا دینی بھائی کھائے، تو یوں سمجھتا ہے، جیسا کہ اس نے کھایا، اور مومن بھائی کی شادمانی سے شادمان ہوتا ہے، اور اس کی غمگینی سے غمگین۔
۴۔ عالی ہمت اور حوصلہ مند شخص وہ ہے، جو نہ دنیوی فائدے
۳۰
سے خوش ہوتا ہے، اور نہ نقصان سے غمناک، پتھر اور جواہر اس کے نزدیک ایک جیسے ہوتے ہیں، اس کے خیال میں کھانا اور نہ کھانا یکسان ہے، اس لئے کہ وہ عاقل اور دانشمند ہوتا ہے۔
۵۔ عالی ہمت اور سخی شخص وہ ہے جو مہمان نواز ہوتا ہے، نہ یہ کہ وہ ہمیشہ دوسروں کا مہمان بنے، وہ شیر کی طرح (دوسروں کو بھی کھلانے والا) ہوتا ہے، نہ لومڑی کی طرح (دوسروں) کا کھانے والا) وہ ہمیشہ ہنس مکھ ہوتا ہے، اس میں امامِ وقت کا حقیقی عشق اور کامل اعتقاد ہوتا ہے، وہ یہ کوشش کرتا ہے، کہ خود کہ لازوال دولت تک، جو امامِ زمان کی معرفت ہے، پہنچا دے، وہ خیر خواہ اور نیک خصلت ہوتا ہے، اور جناب مولا علیہ السلام کے دوستوں اور عاشقوں کے حق میں جو کچھ مہربانی اور حسنِ سلوک ممکن ہو، کر دیتا ہے۔
۶۔ عالی ہمتی اور فیاضی (کی برکت) یہ ہے، کہ ایسے مومن کے تمام کام وقت پر ہی انجام پاتے ہیں، تمام بلائیں اس سے دور رہتی ہیں، دشمن اس پر قابو نہیں پا سکتے، رزق و روزی کا دروازہ اس کے لئے کھلا رہتا ہے، وہ خیرو برکت سے بھرپور ہوتاہے، اس کے تمام کام حسبِ منشا تکمیل پاتے ہیں، اس کے فرزند سلامت رہتے ہیں اور نیکو کار ہوتے ہیں، اس کا گھر آباد ہوتا ہے، ہر نیک کام کے لئے اسے موقع ملتا ہے، اور خدائے غفار اس کا مددگار ہوتا ہے، اور خدا کا مددگار ہونا یہ ہے، کہ اس کے دل کا آئینہ صاف و روشن ہو جاتا ہے، اس کا ایمان مستحکم اور کامل ہوتا ہے، اس کی کمائی اور آمدنی حلال کی ہوتی ہے، اور حلال آمدنی کی علامت یہ ہے، کہ وہ خدا کی راہ میں صرف ہوتی ہے، جس کا ثواب حقیقی مومنوں اور نکوکاروں کی پاک ارواح کو ملتا رہتا ہے، اور حلال مال منافقوں کی قسمت میں نہیں، اور ( حرام مال خرچ کرنے
۳۱
سے) منافقوں کی ناپاک ارواح کو نہیں پہنچتا ہے، حلال مال ہی ہے، جو ایمان و یقین والے مومنوں کے مولائے حاضر کے حضور پر نور میں اور اس کی مبارک درگاہ و دربار میں پہنچ سکتا ہے، خداوند عالم ایسے بندے سے راضی ہوتا ہے، اور اس بندے کو خیروبرکت ملتی ہے، خدائے قادر و توانا اس بندے سے خوشنود ہوتا ہے، اس کا دین کامل ہوتا ہے، اس کے دل کا آئینہ درخشان اور معجز نما ہوتا ہے، اس کی جان و روح روشن ہوتی ہے، اس کی عقل و دانش بھی روشن ہوتی ہے، اور آخرت میں عزت والا خدا اسے اپنا عزیز دیدار عطا فرماتا ہے۔
۷۔ عالی ہمتی کی صفات سے حقیقی مومنوں کے لئے اتنے درجات و کمالات حاصل ہوتے ہیں، عالی ہمت کو چاہئے، کہ کم بولنے والا، سچا اور حلیم ہو، اسے اپنے تمام امور میں صبر و تحمل اور خدا وند تعالیٰ پر بھروسا ہونا چاہئے، اسے تمام کاموں میں صابر اور حوصلہ مند رہنا چاہئے، مگر دو کاموں میں صبر نہیں کرنا چاہئے، اور جلد از جلد ان کو انجام دینا چاہئے، اور صبر و تحمل نہیں کرنا چاہئے بلکہ صبر کرنا اس موقع پر حرام اور کفر ہے۔
۸۔ پہلا: پروردگار کے دیدار کی خواہش و آرزو کرنے اور اس کی ملاقات تک رسا ہوجانے میں، جو تمام کاموں سے زیادہ ضروری اور لازمی ہے ( صبر و تاخیر کرنا کفر ہے) کیونکہ ان امور میں صبر کرنا و بال ، گمراہی کی بنیاد اور ابدی نقصان کا سبب ہے۔
۹۔ دوسرا: حق تعالیٰ کے مبارک امر و فرمان کے بجالانے میں ، کہ خدا کی اطاعت واجب ہے اور اس میں صبر (تاخیر) و سستی کرنا کفر کا سرمایہ ہے۔
۱۰۔ مذکورہ دونوں کاموں میں صبر نہیں کیا جاسکتا ، اور نہیں کرنا چاہئے، پس تجھے چاہئے، کہ مولا کی محبت پر اکتفا ٔ کرے، اور اس کی
۳۲
محبت کے ماسوا سے اپنے آپ کو بچالے، کیونکہ دوسری چیزوں کی محبت (معجزانہ طور پر ) تیرے دل کو حقیقت کی طرف نہیں لے جاسکتی۔ نہ ہی اپنا طالب بنا سکتی ہے، جب حق تعالیٰ کی عبادت و بندگی کا وقت آئے، سو تو جس دنیوی کام میں بھی مصروف ہے، اور جو کچھ بھی کام تیرے ہاتھ میں ہو، خواہ وہ کام ضروری ہو یا غیر ضروری ، فوراً ہی اسے چھوڑ دے اور جلدی سے حق تعالیٰ کی بندگی کی طرف چلا جا، اور کسی تاخیر کے بغیر اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر میں مصروف ہوجا، یہ ہیں عالی ہمتی کے اوصاف جو مذکور ہوئے۔
۱۱۔ اب بخیلوں کے حالات سنو، کہ بخیل کا دل ہمیشہ تنگ و تاریک اور سیاہ رہتا ہے، بخیل بدخصلت ہوتا ہے، اس کا خیال ہمیشہ لقمے پر رہتا ہے، وہ دائم تکلیفات اور مشکل کاموں میں گرفتار رہتا ہے، ہر وقت دنیوی نفع و نقصان کے حساب میں لگے رہتا ہے، ہمیشہ اس کے دل کا چراغ بجھا ہوا اور اس کا دل و دماغ بصیرت سے کورا رہ جاتا ہے، اس کی عقل قاصر اور فہم زائل ہو جاتی ہے، وہ نفسانیت کی تاریکی میں گرفتار اور جہالت کے کنوئیں میں اوندھا رہتا ہے، وہ دولت فراہم کرنے، کمانے اور اسے رکھنے کے سوا نیز دنیوی اعتبار سے اپنے آپ کو دیکھنے کے سوا کچھ بھی نہیں جانتا، وہ صرف اسی دنیا کو جانتا ہے، مگر دوسرے جہان سے بے خبر ہے، کسی ایسے کیڑے کی طرح، جو مٹی کے نیچے یا کسی اور جگہ ہوتاہے، جو اپنی محدود جگہ کے سوا دوسری جگہوں سے بے خبر ہے، اور جو رزق وہ کھاتا ہے، اس کے متعلق اس کا گمان ہے، کہ اس کے سوا کوئی رزق ہی نہیں، اور بخیل جس کا دل اکتا یا ہوا اور غمگین ہے، جو ہمیشہ منہ بنائے اور تیوری چڑھائے رہتا ہے، اس کی دعا خدا کے حضور میں مقبول و مستجاب نہیں ہوتی، اس کی روح تاریکی
۳۳
اور ظلمت میں ہے، بخیل کے دل میں مہر و محبت نہیں ہوتی، بخیل مومن سے دوستی نہیں رکھتا، اور اللہ تعالیٰ ایسا سبب بناتا ہے، کہ بخیل ظالموں اور بدکاروں سے دوستی رکھتا ہے، کیونکہ اس کی روح وہیں سے ہے۔
۱۲ ۔ بخیل سرگردان اور خوار و زار ہوتاہے، اس کے اخراجات (منشا سے ) زیادہ ہوتے ہیں، اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گا، گناہ کے بغیر اس کا کوئی وقت نہیں گزرتا، چونکہ خداوند تعالیٰ اس سے راضی نہیں بلکہ ناراض ہے، اسے ظالموں سے آشنا کردیا ہے، اور یہ سب کچھ اس سبب سے ہے، کہ بخیل پروردگار کو نہیں پہچانتا ، جب بخیل کے دل میں حقیقی مہر و محبت اور عشق نہیں ، اور اس کا مال خدا کی راہ میں خرچ و استعمال نہیں ہوتا ہے، تو لازماً کسی منافق کی روح کے لئے صرف ہوتا ہے۔
۱۳۔ بخیل کا دل شیطان کا گھر ہے، اور شیطان لعین منافق کے دل میں ہے، اور جب منافق راضی ہوا، تو سمجھ لو، کہ شیطان راضی ہوا کیونکہ منافق ان چیزوں سے خوشنود ہوتا ہے، جن سے شیطان خوشنود ہوتا ہے، شیطان اور منافق کے دل ایک ہیں، یہ دونوں خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے شریک ہیں، پس جب بھی تم منافق کو خوشحال دیکھتے ہو، گویا شیطان کو خوشحال دیکھتے ہو، اور جو شخص کوئی ایسا کام کرتا ہے، کہ جس میں شیطان کی خوشی ہے، تو ایسے شخص کے دل میں تاریکیاں اور ظلمتیں پیدا ہوتی ہیں اور اس کے دل کے مکانات میں تاریکی چھا جاتی ہے، اور اس کی عقل و دانش بھی تاریک ہو جاتی ہے، اور اس کے سب کام مشکل ہو کر اسے پریشانی و سرگردانی پیدا ہوتی ہے، اور اس کا منہ اداس ہو جاتا ہے، اور منافق وہ شخص ہے، جو اپنے ولی ٔ نعمت ؎۱
؎۱: ولی نعمت۔ نعمت کا مالک۔
۳۴
کو، جو امامِ وقت ہیں، نہیں پہچانتا، اور جو شخص اپنے حقیقی ولیٔ نعمت کو نہیں پہچانتا ہو، لوگوں کو تکلیف دیتا ہو، مومن کی دل آزاری کرتاہو، اور لوگوں کا بدخواہ ہو، تو منافق وہی ہے۔
۱۴۔ اگر کوئی شخص ہزاروں اعمالِ صالحہ کرے، اور دائم خدا کی یاد و فکر اور تعریف و توصیف کرے، ہمیشہ استغفار پڑھتا رہے اور ہزاروں عبادات کو بجا لائے، جب تک اپنے وقت کے امامِ عالی مقام کو، جو دنیا میں حاضر ہیں، نہ پہچانے، تو نہ اس کی نماز و طاعت قبول ہوتی ہے اور نہ اس کی کوئی نیکی۔
۱۵۔ اے مومنو اور اے صداقت والو! تم نے منافقوں کی صفات سن لیا، کہ منافق کا خوش ہونا اس کی تاریکی اور روسیاہی کا سبب ہو جاتا ہے، پس منافق کے خوش ہونے سے تاریکی پیدا ہو تی ہے، اور مومنوں کے خوش ہونے سے نور حاصل آتا ہے، کیونکہ منافق شیطان کا سپاہی ہے اور مومنین رحمان کے لشکر ہیں۔
۱۶۔ اے مومنو! تم متوجہ اور ہوشیار رہو، تاکہ تم راستہ غلط نہ کرو۔
۱۷۔ اے مومنو اے نیکوکارو اور اے عزیزو! بخیل اور سخی کے اوصاف ایسے ہیں جو بیان کئے گئے، اور جن کو تم نے سن لیا، ابھی تم کو چاہئے کہ راہ حق پر، جو صراطِ مستقیم ہے، ثابت قدم ہونے کے لئے کوشش کرو، تاکہ تم (اپنا راستہ) بھول نہ جاؤ، بخیل و منافق خدا کے دشمن ہیں، اور سخی مومن خدا کا دوست ہے۔
۳۵
بدنظری
۱۔ اے مومنو اے صداقت والو! وہ مرد جو دوسروں کی عورتوں کو تاکتا ہے، وہ گویا اپنی ماں بہن کو تاکتا ہے، ہم بتا چکے، کہ جب کوئی مرد دوسروں کی عورتوں کو نفسانی خواہش سے گھورتا ہے، تو وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے اپنی ماں بہن پر بد نظر کیا، بے شک دوسروں کی عورتیں اپنی ماں بہن جیسی ہیں، تمہیں بدنظر نہیں کرناچاہئے، تاکہ تمہاری آنکھ ناپاک و نجس نہ ہو، اور لوگوں کی عورتوں کو اپنی مائیں سمجھو۔
۲۔ بد نظری کے معنی یہ ہیں، کہ وہ غیر عورتوں کو نفسانی خواہش کی نظر سے گھورتا ہے، اور یہ نہیں جانتا کہ اگر وہ دوسروں کی عورتوں کو بری نظر سے گھورتا ہے، تو یہ ایسا ہے جیسا کہ وہ اپنی ماں بہن کو گھور رہا ہو، اور اس جیسا ایک غلط کار (بیہودہ) شخص پیدا ہو سکتا ہے، جو اس کی عورت کو بھی بری نظر سے گھورا کرے، یہ صفات بدعملی ہیں، اور بد نظری اسی کو کہتے ہیں، حق تعالیٰ اس آدمی پر یعنی اس ناپاک شخص پر قہر کی نظر ڈالتا ہے، دنیا میں اس کا کام تباہ اور آخرت میں وہ خود روسیاہ ہوگا، وہ گرفتار، سرگردان اور دربدر ہوگا، اور وہ ہمیشہ دنیا میں دل تنگ، لوگوں کے نزدیک خوار و شرمسار ہوتا ہے، اور اس کا کام حسبِ منشا نہیں بنتا، او راس کا چہرہ اداس اور بے نور ہوجاتا ہے، پس تم ہر گز ہرگز لوگوں کی عورتوں کو نفسانی خواہش سے نہ دیکھو، کیونکہ یہ بد عملی ہے، اور یہ شیطان
۳۶
کے وسوسے کی وجہ سے ہے، اور یہ سب کام شیطان کے ہیں، اور وہ شخص جہنمی ہے، اور بدنظری بہت بری شے ہے، نعوذ باللہ منھا، پس اس قوم اور اس شخص سے، جو ایسے کام کرتے ہوں، بچنا چاہئے۔
۳۔ اے مومنو اور اے عزیزو! اگر کوئی دختر چشمِ بد سے کسی نامحرم مرد کو دیکھے، تو یہ ایسا ہے، جیسا کہ اس نے اپنے باپ اور بھائی کو چشمِ بد سے دیکھا، اس لئے کہ نامحرم مرد اس کے باپ اور بھائی کے مانند ہے، پس اس کے دل کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہئے، کیونکہ اگر اس کی حالت بدل جائے، تووہ نادان حق تعالیٰ کی راہ سے بھٹک کر دور اور سرگردان ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے (دینی) مقصد تک نہیں پہنچ سکتی، پس اگر وہ مردوں پر بدنظری کرتی ہے، تو گویا اس نے اپنے باپ اور بھائی پر بدنظری کی، اور ایسی عورت پر خدا وند قہر کی نظر ڈالتا ہے، اور وہ بیچاری سرگردان، دربدر اور کندذہن ہو جاتی ہے، اس کے دل کا آئینہ تاریک اور ناخوش رہتا ہے، وہ پریشان حال اور لوگوں کی نظر میں خوار و زار ہو جاتی ہے، اور وہ مفلس و تنگدست ہو جاتی ہے، یعنی وہ اپنی تمام عمر میں حسرت میں رہتی ہے، ہمیشہ اس کے کاموں میں مشکلات پیش آتی ہیں، اور دنیا میں حیران و سرگردان رہتی ہے، اور اس کے لئے کوئی ٹھکانا اور کوئی قرار نہیں اور آخرت میں اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا۔
۴۔ نعوذ باللہ بد عملی کا انجام یہی ہے، بد عملی اور برائی کے سب کاموں کا نتیجہ انتہائی برا ہوا کرتا ہے، خواہ وہ کسی مرد سے صادر ہوا ہو یا کسی عورت سے، اور جو شخص بد عملی کرتا ہے، حق تعالیٰ اس کے اس کام کے متعلق بڑا قہر کرتا ہے، اور ایسا شخص دنیا میں خوار و زار، سرشکستہ اور روسیاہ ہوتاہے، اور آخرت میں بھی روسیاہ اور دوزخی ہو تا ہے، اور لوگوں کے درمیان
۳۷
بھی ذلیل و رسوا، خوار و زار، سرشکستہ، حیران اور سرگردان ہوتا ہے، اور قیامت کی سختی میں ساتویں دوزخ کی آگ کے عذاب میں گرفتار ہو کر جلتا رہتا ہے، اور دوسری بات یہ ہے ، کہ جس گھر میں ایسی کسی عورت کا قدم پڑے، تو وہ گھر ویران اور اس کے اہل پریشان ہو جاتے ہیں، اور وہ گھر دوبارہ کبھی آباد نہیں ہو سکے گا۔
۵۔ اے مومنو، اے صداقت والو اور اے عزیزو! جان لو، کہ جس گھر میں برا کام واقع ہو جائے، تو اس گھر والوں کا زمانہ تاریک و تباہ ہو تا ہے، اور وہ خوار و زار اور ذلیل ہو جاتے ہیں، اور اپنی پیشمانی میں کچھ ایسے لوگوں کے مانند ہو جاتے ہیں، جن کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اور وہ اسی طرح خوار ہوتے ہیں۔
۳۸
حقیقی مومن کے اوصاف ( ۳)
۱۔ اے مومنو، اے صداقت والو اور اے عزیزو! حقیقی مومن وہی ہے، کہ دائم الوقت حق تعالیٰ کے خیال میں رہتا ہے، اور ہمیشہ نیک کام کی فکر میں رہتا ہے۔
۲۔ حقیقی مومن وہی ہے، جو علم و معرفت رکھتا ہے، اپنے امام زمان علیہ السلام کی اطاعت کرتا ، نافرمانی و خلاف و رزی نہیں کرتا، ہمیشہ نیک خصلت، خوش معاملہ، نیکو کار اور خوش سلوک ہوتاہے، دائم خداوند ِ کریم کی یاد میں رہتا ہے، اور ہر وقت پروردگار کے ذکر و فکر، ثناو صفت اور تمجید و شناخت میں لگے رہتا ہے، اور مدام الوقت اپنے گناہوں سے پشیمان ہو کر رویا کرتا ہے، اور خدا کے خوف یا اس کے دیدار کےشوق میں گریہ وزاری کرنا موسمِ بہار کی بارش کی طرح ہے، جو باغ و چمن کے ہنسنے کا باعث ہوتی ہے، اور دوسرے موقعوں پر رونا بیجا اور بے موقع بارش کی مثال ہے۔
۳۔ حقیقی مومن کے دل میں ہمیشہ خوفِ خدا ہونا چاہئے، اور اسے (زندگی کی) راہ میں احتیاط سے چلنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ اس سے کوئی گناہ و خطا صادر ہو جائے ، یا اس سے کوئی برا قول و فعل واقع ہو جائے۔
۴۔ حقیقی مومن کو ہمیشہ شیطان سے بچنا چاہئے، اس کے دل میں وسوسہ نہ ہونا چاہئے، فتنۂ آخرزمان سے خوف رکھنا چاہئے، اور کفر کے
۳۹
زمانوں سے، جو دنیا میں آتے ہیں، ڈرنا چاہئے، شیطان کے پیروؤں سے دور رہنا چاہئے، اور جو شخص شیطان کی مدد کرتا ہو، اسے شیاطینِ انس میں شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ ( یہ شیاطینِ جن اور شیاطینِ انس) ایک دوسرے کی ہمت افزائی کرتے ہیں، اور یہ جہالت کی ہمت افزائی ہے، اس کام سے دور رہنا چاہئے اور ان سے دوستی و آشنائی نہیں رکھنی چاہئے، تاکہ وہ (خدا کے حفظ و) امان میں رہے، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو شکل و صورت سے آدمی نظر آتے ہیں، مگر باطن میں دیو ( یعنی شیاطین) ہیں، اور لوگوں کا تعاقب کر رہے ہیں، اور انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، مگر جو مومن اپنے خدا، پیغمبر اور پیر کو پہچانے، اور ان کے حقوق ادا کرے، اور اپنے آپ کو خدا، پیغمبر اور پیر کے حوالے کر دے، اور امر و فرمان بجالائے، تو ڈاکو ( یعنی شیطان ) اس پر غلبہ نہیں پاسکے گا، اور جو شخص خدا وند تعالیٰ، پیغمبر اور اپنے پیر کی فرمانبرداری میں رہے، تو ہرگز وہ ڈاکو اور دشمن ( یعنی شیاطین) ایسے مومنوں کے نزدیک نہیں آسکیں گے، لیکن یہ ڈاکو ایسے لوگوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، جو اپنے خداوند، پیغمبر اور پیر کو اپنے سامنے نہیں دیکھتے ہیں، اور وہ جو کچھ کرتے ہیں، پیر کے امر و فرمان کے بغیر کرتے ہیں، پس یہ ڈاکو ایسے لوگوں کے تعاقب کر رہے ہیں۔
۵۔ اے مومنو اور اے نیکوکارو! اب یہ وقت آیا ہے، کہ تم دین کی مدد کرو، اور ایک دوسرے کی یاری کرو، حصولِ علم کے لئے کوشش کرتے رہو، دین ( کی ترقی) کے لئے کوشان رہو، ایمان کو کامل بنانے میں جدوجہد کرو، اور ایمان امامِ وقت کی اطاعت و پیروی کرنے سے کامل ہوتا ہے، اچھے کام کرو، اچھا کام یہ ہے، کہ تم امام کے فرمانبردار ہو، جو کچھ امام علیہ السلام کی مبارک زبان سے سنو، اسے بلا تاخیر بجالاؤ ، تبھی چھٹکارا ملے گا، پس اپنے
۴۰
پیرو پیغمبر کا دامن پکڑو، اور اپنے خدا کی اطاعت کرو اور اپنے امامِ وقت کا پاک دامن پکڑو، تاکہ امامِ زمان تمہیں اپنی پناہ میں رکھ کر مدد اور فتح و کشائش عطا فرمائیں، اور اپنے پیر کا دامن پکڑو، اور پیر کی ہمنیشنی کو غنیمت سمجھو، پیر اور امام علیہ السلام کے فرمان کو یاد رکھو اور ا س پر عمل کرو، جس تک رسا ہونا دوا میسر ہونے کی مثال ہے، اور پیرو مرشد یعنی امام کا قول سن کر اس پر عمل کرنا اور اس کی تعلیم حاصل کرنا اور اس کو بجالانا باطنی بیماریوں کے دفع ہونے، شفا پانے اور دل روشن ہونے کا سبب ہے، اور معلموں کی تعلیم دل کے آیئنے کو صاف اور روشن کر دیتی ہے۔
۶۔ اے مومنو، اے صداقت والو اور اے عزیزو! جب کوئی مومن خداوند کے ذکر میں مصروف ہوتا ہے، یا اپنے گھر میں کسی اور جگہ خداوند کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے، اس وقت ایک نادان، جو خدا کی عبادت میں شک رکھتا اور اس کو اس میں کوئی ذوق نہیں، کہتا ہے، کہ تم کس چیز میں مشغول ہو، اور اس بندے کو ذکر نہیں کرنے دیتا ، یا طنز کے طور پر کہتا ہے، کہ فلان شخص عابد ہوا ہے، یا شخ ہوا ہے، یا ان کی عبادت اور ملاقات سے دشمنی کرتا ہے اور طعنہ دیتا ہے، تو ایسے روسیاہ حاسد پر خداوند قہر کی نظر ڈالے گا، کیونکہ اس نادان نے اس عزیز بندے کو طعنہ دیا ہے، اور خداوند ایسے نادان گدھے کے لئے قہر کرتا ہے، کہ اے بدعمل اور مکار غافل ! میرے عزیز مومن بندے کے میری عبادت کرنے میں تم نے کیوں عیب جوئی کی، اور میرے بندے کو دل شکستہ کر کے ذکرو عبادت سے کیوں روک دیا؟ اور تم خود جبکہ عبادت نہیں کرتے ہو، اور منافق و دل سیاہ ہوگئے ہو، تو تمہیں خدا سے ڈرنا چاہئے اور شرمانا چاہئے کیونکہ خدائے تعالیٰ توانا و برتر (ایسے میں) سخت قہر کرتا ہے۔
۷۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے، کہ میں نے لوگوں کو اس لئے پیدا کیا ہے،
۴۱
کہ وہ مجھ کو یاد کرلیا کریں، اور اپنے دل و زبان پر میرا نام جاری رکھا کریں، اور پڑھتے رہیں، پس تم نے کیوں طنز اور عیب جوئی سے اس بندے کو عبادت میں ملامت کیا، اب جبکہ تم نے اس مخلص بندے کو عبادت کے متعلق طعنہ دیا، تو تم شیطان کی ظاہریت و صورت بن گئے ہو، اور دوزخ والوں سے ہو جاؤ گے۔
۸۔ یہ حالات و واقعات شیطان کے پیروؤں سے متعلق ہیں، جو خدا کی راہ سے بھٹک گئے ہیں، اور شیطان کے پیرو اور مطیع ہوئے ہیں، جو رحمان کی نعمت کھاتے ہیں اور شیطان کی اطاعت کرتے ہیں، لیکن جو لوگ اللہ والے ہیں، وہ تو خداوند کو پہچانتے ہیں۔
۴۲
منافق کی علم دشمنی
۱۔ اے مومنو اور اے عزیزو! دوسرا مطلب یہ ہے ، کہ جب عالم (ایک مجلس میں ) علم بیان کرتا تھا، تو اس میں اچانک ایک منافق آملا، اور وہ جاہل منافق خدا اور علم سے بےخبر تھا، اس نے کچھ نہیں سنا تھا، اور وہ اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرسکتا تھا، ایسا شیطان صفت اور گمراہ شخص اس مجلس میں پیدا ہوا، اور اس کے خیال میں یہ بات تھی، کہ اس مجلس سے نکل جانے کے بعد اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر اس عالم کی زبان سے کچھ باتیں کرے، تاکہ اس عالم پر ہنسی اڑائی جائے، اور وہ عالم صاف دلی سے علم کی باتیں سنا تا اور بیان کرتا تھا، اور بیچارہ عالم اس شیطان، منافق اور منکر شخص کے کھوٹے دل سے آگاہ نہیں تھا، اور نہیں جانتا تھا، کہ یہ شخص شیطان صفت ہے، اور دل میں حیلہ و مکر رکھتا ہے، اور اگر وہ منافق اسی گھڑی علم کا مسٔلہ اس عالم سے پوچھ لیتا، کہ علم میں یہ بات کہی گئی ہے، اس کے کیا معنی ہوتے ہیں، تو بہتر تھا، تاکہ اسی وقت فوراً ہی وہ عالم اس نادان کو لفظ کے معنی اور علم کا مطلب بتا دیتا، اور اسے آگاہ کرتا، اور اس گمراہ شخص کے دل کو روشن اور (علم کے لئے ) بیقرار کردیتا، لیکن چونکہ وہ بے وقوف نادان، پرکینہ اور گدھا تھا، اس لئے اس نے علم کا مسٔلہ عالم سے نہیں پوچھا، نہ وہ خود جانتا تھا، اور اس کے بعد کہ وہ عالم وہاں سے چلا گیا، اور
۴۳
مجلس والے سب کے سب اپنے اپنے کام کے پیچھے چلے گئے، یہ عام نادان گدھے کہیں بیٹھ گئے، اور دوسرے چند گدھوں (یعنی نادانوں) کو بھی اپنے گرد جمع کر لیا، اور ان تمام شیطان کے فوجیوں نے اس عالم کی غیبت کے لئے زبان کھولی، اور اس عالم کی بدگوئی اور عیب جوئی کرنے لگے۔
۲۔ اے مومنو اور اے عزیزو!جو شخص معلم کی عیب جوئی کرتا ہے، ایسا ہے جیسا کہ وہ خدا کی عیب جوئی کرتا ہو، وہ گناہِ کبیرہ میں داخل ہو جاتا ہے، اور جو شخص (اعتقاد سے) عالم کا کلام سنتا ہے، گویا خدا کا کلام سنتا ہے، اور جو لوگ عالم کی غیبت کرتے ہیں، اس کی وجہ دشمنی، کینہ اور حسد ہے، اور اپنے دلوں میں بغض رکھتے ہیں، خدا کی لعنت ہو شیطان پر اور شیطان صفت لوگوں پر اور اہلِ حسد پر۔
۳۔ اے عزیزو! اگروہ نادان اور بیوقوف دل میں حسد نہیں رکھتا اور حق کی طرف مائل ہوتا، تو اسی گھڑی اس معلم سے کلام کی حقیقت پوچھ لیتا ، اور معلم کلام کی حقیقت سے اس کو آگاہ کر دیتا ، اور اس حقیقت سے اس نادان کا دل روشن، ملائم اور نرم ہو کر راہِ حق کا طالب ہوجاتا، پھر وہ حقیقت سے آگاہ ہوجاتا، اس کے دل کو سکون و قرار آجاتا، اور وہ اہلِ حق میں سے ہوتا، کیونکہ وہ شخص نادان اور خرتھا، اس نے خود علم کی حقیقت نہیں سنی تھی، اور نہیں جانتا تھا، اور اسے گمان نہیں تھا، کہ وہ عالمِ حقیقت سے باخبر ہے، یہی سبب تھا، جو عالم سے نہیں پوچھا، اور عالم کے چلے جانے کے بعد اس کی غیبت شروع کی، اور وہ دل میں راہِ حقیقت کے علما ٔ کی دشمنی و کینہ رکھتا تھا، اسی سبب سے ایسے لوگوں سے آخر کار گناہِ کبیرہ سرزد ہو کر دوزخی ہو گئے، یہ لوگ بہت ہی نادان اور خر تھے، اور بسببِ جہالت راہِ حق
۴۴
سے بھٹک گئے، ورنہ شروع شروع میں سب لوگ راہِ حق پر تھے، اور اپنی جہالت کی بنا پر ہر زمانے میں ایک ایک فرقہ ہو کر جدا ہوتے گئے، حضرت خاتم الانبیا صلعم سے قبل اور بعد میں اب تک جو لوگ سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں، اس کا سبب جہالت، حسد اور دشمنی ہے، انہوں نے کتنے موقعوں پر حقیقی امام علیہ السلام کو چھوڑ کر غیر امام کی پیروی کی اور فرقہ فرقہ ہوگئے، اور اسی اپنی جہالت میں اب بھی سرگردان ہیں۔
۴۔ وہ حق کو چھوڑ کر باطل کے پیرو ہوئے، اور یہ دانشمندوں کا راستہ نہیں، اہلِ دانش تو امامِ علیہ السلام ہی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، وہ یہ کہ تم اپنے امامِ وقت کے امرو فرمان کی اطاعت کرو، اور دائرۂ وجود کے اس مرکز کے حکم کے تحت رہو، اور یہ کہ امامِ وقت کی معرفت حاصل کرو، علم کی حقیقت جانو، دینی علما سے پوچھ لیا کرو، علمی مجلس میں بیٹھا کرو، عالم سے پوچھو، سنو اور اس پر عمل کرو، تب ہی علم کی حقیقت جاننے والے تم کو بتا سکتے ہیں، سمجھا سکتے ہیں ، اور کام حسبِ منشا ہو سکتا ہے، اور کوئی شخص گمراہ نہ ہوگا۔
۵۔ اے مومنو ، اے عزیزواور اے صداقت والو!تمہیں غافل نہیں ہونا چاہئے، حق بات کی طرف توجہ دو، سیدھی راہ اور سچی بات کے طلبگار رہو، تحقیق و تصدیق سے راہِ حق کو قبول کرو، حق و صدق کی باتوں میں بحث نہ کیا کرو اور کلام (یعنی قرآن) کے معنی و حقیقت سمجھ لیا کرو، اور اس کی تعلیم دو اور اس کو سنو۔
۶۔ اے مومنو! حقیقی مومنین، جو ایمان کے مکمل ہوتے ہیں، وہ ہیں، جو دینداری سے متعلق احکام اور مطالب یعنی کام، افکار، رفتار و سلوک اعمال و احوال، جو مومن کی صفات ہیں، دینی علما ٔ سے ، جو معلمانِ صادق ہیں، پوچھ لیا کرتے ہیں، اور واقفیت حاصل کرکے
۴۵
ان کو بجا لاتے ہیں، کیونکہ اول علم پھر عمل ہے، اور جو لوگ راہِ حق کے طالب ہیں، وہ روز بروز راہِ حق سے زیادہ مانوس ہو تے ہیں، اور آگے بڑھتے ۔
۴۶
دیدار کے لئے قربانیاں (۱)
۱۔ اے مومنو!مومنین آخرت کے لئے ستم و سختی جھیلتے ہیں، اور مومنین پر یہ ظلم و سختی منافقین کی طرف سے آتی ہے، اور مومنین منافق لوگوں کے درمیان خوار و بیمقدار ہوتے ہیں، دشمنانِ دین مومنین کو اذیتیں پہنچاتے ہیں، اور مومنین ہر حالت میں صبر اختیار کرتے ہیں، نہ اذیت سے غمگین ہوتے ہیں، اور نہ ہی حمایت سے شادان، وہ دنیا کے غم اور خوشی سے متاثر نہیں ہوتے، کیونکہ نہ دنیا کا غم ہمیشہ رہ سکتا ہے اور نہ اس کی خوشی، اور مومن صرف اپنے پروردگار کی خوشنودی کا طالب رہتا ہے، اور مومنین نے اخروی نجات کے لئے محنت، مشقت اور زحمت اٹھائی ہے، اور گریہ وزاری کی ہے۔
۲۔ مومنین نے خداوند کے دیدار کی خاطر اپنی آمدنی کا دسواں حصہ، جو امام علیہ السلام کا حق ہے، بطورِ واجبات بلا کم و کاست اور پوری طرح سے حضور کو پہنچا دیا ہے، مومنین امام علیہ السلام کے دیدار کے لئے اپنے مال، بیوی، اولاد اور زندگی سے دست بردار ہوئے، مومنین نے دیدار کی غرض سے اپنے سر، فرزند، مال و ملک کو فروخت کر ڈالا، اور آنجناب کی راہ میں صرف و قربان کر دیا، مومنین نے حصولِ دیدار کے لئے دور و دراز خشکی اور دریائی راستوں کو طے کیا، طوفانوں سے گزرے، اخراجات اور تکالیف برداشت کیں، یہاں تک کہ مقصد کو پہنچ
۴۷
گئے، مومنین مولا کے دیدار کے لئے کس قدر دور ممالک سے آئے، کتنی تکالیف اٹھا کر اور کتنے اخراجات برداشت کر کے آئے اور مالِ و اجبات لائے، مومنین نے دیدار کی خاطر نیک کام انجام دیئے اور خیر خواہی کی، مومنین نے دیدار کی غرض سے نیک کام، سچائی، سادگی، امانت گزاری، پاک نظری، صاف دلی اور دینداری اختیار کی، مومنین نے دیدار کے لئے عبادت، بندگی اور ریاضت کی، جس سے مقصود کو پہنچ گئے، مومنین نے دیدار کے لئے خداوند کی یاد میں کوشش کی، دائمی ذکر اختیار کیا، وہ دن رات لحظہ بھر کے لئے بھی خدا کی یاد سے غافل نہ رہے اور انہوں نے ذوق و شوق سے بندگی کی، مومنین نے دیدار کی خاطر اپنے سرو جان کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
۳۔ مومنین نے دیدار کے لئے حق تعالیٰ کے امرو فرمان کو بجا لایا، مومنین دیدار کی غرض سے حقیقی مومنین کی مجلس میں رہے اور دینی علما ٔ سے علمی سوالات کئے اور سن کر اس پر عامل ہوئے، مومنین نے دیدار کے لئے اپنے غریب دینی بھائیوں کی مالی امداد کی اور انہیں توانگر بنایا، مومنین نے دیدار کے لئے فیاضی کی اور راہِ دین میں بہت سے خیراتی کام کئے، مومنین نے دیدار کے لئے اپنے مال سے اپنے مومن بھائی کو حصہ دیا، اس کے ساتھ برادرانہ سلوک کیا، اسے شفقت کی نظر سے دیکھا، محتاج مومنوں کے لئے نیکی اور سخاوت کا دروازہ کھول رکھا، اور ان پر کسی دنیاوی غرض، طمع اور ریا کے بغیر مہربانی کی، اور مومنین نے دیدار کے لئے مومنین اور نادار دینی بھائیوں کی دلجوئی کی۔
۴۔ اے مومنو!راہِ حقیقت کی قدردانی کرو، کہ راہ نجات ہے، جو شخص اس راہ پر چلتا ہے، وہ منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے، جو دیدار کا مشاہدہ ہے، پس جہاں تک تم سے ہو سکے کوشان رہو، تاکہ منزلِ مقصود
۴۸
تک رسا ہوجاؤ، جو امام علیہ السلام کا پاک دیدار ہے، اور جو شخص امام علیہ السلام کا طلبگار ہو، تو امام علیہ السلام بھی اس کے طلبگار ہوتے ہیں، جو کوئی امام علیہ السلام کو سارے جہان پر برگزیدہ مانے، تو امام علیہ السلام بھی اس کو ممتاز کر دیتے ہیں، جو شخص امام علیہ السلام کے لئے قبول کرتا ہے، تو امام علیہ السلام بھی اسے قبولتے ہیں، لیکن جو شخص امام علیہ السلام کے لئے قبول نہ کرے، تو امام علیہ السلام بھی اس کی پذیرائی نہیں کرتے، نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں، اور جس شخص کا دل اور آنکھ پا ک ہو، اور وہ امام علیہ السلام کے دیدار کا طلبگار ہو، اور اسی خواہش کی بنا پر تمام دنیاوی خواہشات سے دست بردار ہو جائے، تو امام علیہ السلام اس کو دیدار بخشتے ہیں، خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہو۔
۴۹
خدا کا محل اور تخت
۱۔ اس کے علاوہ تم یہ جان لو، کہ جب کسی دیندار مومن کا دل خرسند، شادمان اور راضی ہوجاتا ہے، تو سمجھ لو، کہ خدا راضی ہوا، کیونکہ مومن کا دل خدا کا گھر ؎۱ ہے، اور خدا وندکریم کے نظر کرنے کی جگہ ہے۔
۲۔ اے مومنو اور اے پرہیزگارو! خداوند ہر اس شخص کے دل میں اپنا مقام رکھتا ہے، جو مومن اور پاکباز ہو، جس میں کینہ، عداوت اور دنیوی محبت نہ ہو۔
۳۔ اے مومنو! جن دلوں میں کینہ اور پلیدی بھری ہوئی ہے، جس کا سبب تاریکیوں اور باطل خیالات کے نتیجے پر شکوک کا پیدا ہونا ہے، ان دلوں میں شیطان اور جنات کی جگہ ہے، اس کے برعکس، وہ دل، جو صاف، پاک اور حقیقی محبت والے ہیں، جن میں کسی سے کینہ و عداوت اور دنیاوی محبت نہیں، اور خدا کے خیال کے سوا کوئی اور خیال نہیں، تو ایسے دل عرشِ الٰہی اور مقامِ ملائکہ ہیں۔
۴۔ پس اے مومنو اپنے دل ہی میں خدا کا مشاہدہ کر لیا کرو، اپنے
؎۱: حدیثِ قدسی ہے کہ: لا یسعنی ارضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدی المومن۔
میں اپنی زمین اور آسمان میں نہیں سماتا ہوں، لیکن اپنے مومن بندے کے دل میں سماتا ہوں۔
نیز حدیثِ نبوی ہےکہ: قلب المومن عرش اللہ تعالیٰ۔ مومن کا دل اللہ تعالیٰ کا عرش یعنی تخت ہے۔
۵۰
دل کو ہمیشہ صاف و پاک رکھا کرو، آئینۂ دل سے شک اور نفاق کے زنگ و غبار کو یقین کے جھاڑن کے ذریعہ پونچھ لو، اور علم و حکمت کے پانی سے اسے دھولیا کرو، تاکہ تم اپنے دل کے آئینے میں خدا دیکھ سکو، اگر تم خدا سے دوستی رکھنا چاہتے ہو، تو تم سیاہ دل منافقوں کی طرف مائل نہ ہو جاؤ، ایسا نہ ہو، کہ منافق تمہیں اپنے مانند بنالیں، اور خدائے تعالیٰ نے منافقوں سے اپنا چہرہ پھیر لیاہے۔
۵۱
حاضر و ناظر کے معنی
۱۔ جو کوئی خدا سے دوستی رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ بے ایمان منافقوں سے اپنا منہ موڑ لے، جس طرح مومنین خدا سے دوستی کرتے ہیں، اسی طرح خدا بھی مومنین سے دوستی کرتا اور ان کی مدد کرتا ہے، اور جو کوئی خدا سے دوستی کرتا ہو، اس کو پہچانتا ہو اور اس کی عبادت کرتا ہو، تو خدا وند اس کو ساری آفتوں سے محفوظ رکھتا ہے، اور وہ زمانے میں خدا کا خاص بندہ اور حقیقی مومن بن جاتا ہے، کیونکہ وہ ہر جگہ اپنے خدا کو حاضروناظر؎ جانتا ہے، اور غافل نہیں ہوتا، وہ جانتا ہے، کہ اس کے تمام حالات سے، خواہ وہ پوشیدہ ہوں یا ظاہر، خداوند مہربان باخبر ہے، وہ جس کام میں بھی مصروف ہو (یقین رکھتا ہے کہ ) خدا کے حضور میں اور اس کے روبرو ہے، اور خدا اس کے پوشیدہ اور ظاہر کاموں سے، اس کے دل کے خیالات سے اور اس کی نیت سے باخبر ہے، اور ذرہ بذرہ اس کی تمام چیزوں سے آگاہ ہے، اگرچہ تو خدا کو نہیں دیکھتا، تاہم خدا تجھے دیکھتا ہے ( بندے کو) یقین کرنا چاہئے، کہ وہ جو کچھ کام کرتا ہو، اور
؎۱: خدا کے حاضر ہونے کے معنی یہ ہیں، کہ وہ اپنے ظہورِ نور کے اعتبار سے لوگوں کے سامنے ہے، اور ناظر کے معنی یہ کہ وہ بندوں کے احوالِ ظاہر و باطن کو دیکھتا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: ’’فلنقصنّ علیھم بعلم و ماکنا غائبین ۷: ۷ اور ہم (قیامت میں ان کے احوال کے) علم کے ساتھ ان سے ضرور بیان کر دین گے اور ہم (کچھ ) غائب تو تھے نہیں۔‘‘
۵۲
ہر بد یا نیک خیال جو وہ دل میں رکھتا ہو، اس سے خدائے عادل کے سوا دوسرا کوئی آگاہ نہیں، اور خدائے تعالیٰ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے، اور اس کی تمام کمیت و کیفیت پر مطلع ہے، تو غافل اور بے خبر ہے، اور جو شخص بے خبر ہو، تو وہ ڈرتانہیں اور خدا کو فراموش کرتا ہے، اور شیطان اس کے دل میں برے کام کا وسوسہ ڈالتا ہے، اس وقت وہ غافل خدا کے سامنے ہی کسی برے کام میں مصروف ہوتا ہے، یا کسی کو تکلیف دیتا ہے یا کسی کی غیبت کرتا ہے، ایسا شخص آخرت میں رسوا ہوگا، حضرت باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ: ۔
۲۔ مخلص بندہ وہ ہے، کہ جو کچھ کام کرے، اور جہاں کہیں جائے، تو اس میں ہم کو اپنے سامنے حاضر و ناظر جانتا ہے، اور ہم سے شرمایا کرتا ہے، اگر کسی آدمی کے دل میں کوئی برا خیال پیدا ہو، یا وہ حرام خوری کی طرف مائل ہو، اور وہ اس وقت ہماری طرف التجا کرے، تو ہم اس کو اس وسوسۂ شیطانی سے، اور اس فعلِ بد سے، جو اس کے لئے عذابِ آخرت کا باعث ہے، نجات بخشیں گے، اور اس کے دل میں نیک کام ( کی خواہش) ڈالیں گے، جس سے وہ اچھے کام اور اعمالِ صالح انجام دے گا، جن سے وہ آخرت میں رستگار اور مسرور ہوگا، اور وہ خوشی سے دنیوی زندگی بسر کرے گا، اور آخرت میں بھی وہ خوش رہے گا۔
۵۳
حقیقی مومن کا درجہ
۱۔ مومن کو چاہئے، کہ ہمیشہ خدا کے خیال میں رہے، موت کو اپنے نزدیک سمجھے، آخرت کی فکر و کاروبار میں رہے، اس کی توجہ اس بات کی طرف ہو، کہ وہ اپنی آخرت کو آباد کرے، اور ہمیشہ صرف دنیا ہی آباد کرنے میں پا بہ زنجیر نہ ہو، قوت لایموت ؎۱ کی ضرورت کے مطابق صرف اس قدر کمائے، کہ جس سے لوگوں کے درمیان دینداری کر سکے، اور اپنے دین کو مکمل کرے نہ کہ دنیا کو۔
۲۔ مومن کو چاہئے، کہ اپنے وقت کے پیر کی پیروی کرے اور اس کا دامن پکڑے، خدا وندِ ذوالجلال نے فرمایا ہے، کہ جو شخص مجھے (دنیا میں) اپنا بزرگ اور مہربان برادر سمجھے، تو میں اسے آخرت میں اپنا چھوٹا بھائی قرار دوں گا، اور اپنا دیدار اسے نصیب کروں گا، وہ میرے نورانی دیدار کا مشاہدہ کرے گا۔
۳۔ اے مومنو! اپنی قدرو قیمت سمجھو، کہ تم کل قیامت کے دن (گزشتہ زمانے کے) مومنوں اور نیکوکاروں کے ہمسر ہوجاؤ گے، حوروں کی معیت میں بہشت کی نعمتوں سے حظ اٹھاؤ گے، ان کے ہمنشین بن جاؤ گے، اور تمہیں اپنے مولا کی دوستی و برادری حاصل ہوگی، اور وہ ہر جگہ تمہارا پشت پناہ رہے گا۔
؎۱: قوتِ لایموت۔ اس قدر قلیل خوراک ، جو صرف بھوک کی موت سے بچائے۔
۵۴
۴۔ اے مومنو! میں نے تم کو پیدا کیا ہے، تاکہ تم ہمیشہ میری ہی یاد میں رہو، اس صورت میں دوسرے کسی کی یاد تمہیں جائز نہیں، اور ہر قسم کی سختیوں میں میری ہی طرف التجا کرو اور مجھ ہی سے مدد چاہو، کیونکہ میرے ماسوا سے التجا کرنا اور کسی غیر سے حاجت طلب کرنا روا نہیں، تمہیں پوری طرح سے باادب رہنا چاہئے، تاکہ تم سے کوئی غلطی سرزد نہ ہو، اور میرا نام اپنے دل و زبان پر جاری رکھا کرو، تاکہ میں تم سے راضی رہوں، میں نے اپنی رحمانی صفت سے تم کو نیستی کے بھنور سے چھڑا کر وجود کے ساحل پر پہنچا دیا، زندگی کے تمام ذرائع مہیا کر دیئے، اور تمہاری سہولت کی خاطر میں نے تم کو راحت و آسائش بخشی، تاکہ تم میری عبادت کرسکو، اور جس کام کا میں نے امر ؎۲ کیا ہے، اسے بجا لا سکو ، اور جس کی نہی ؎۳ کی ہے، اسے ترک کر سکو، تاکہ تم بھی میرے مانند ہو سکو اور زندۂ جاوید رہو گے، اور تمہیں علم و قدرت عطا کر دوں ؎۴ گا، پس اگر تم میری فرمانبرداری کرو، تو اس کا فائدہ تم ہی کو حاصل ہوگا، مجھ کو نہیں، کیونکہ میں تو بے نیاز ہوں اور تم محتاج، پھر تم دیکھ لو اور سوچو، کہ میں تم سے بھی زیادہ تمہارا خیر خواہ ہوں ( اور تم جس قدر اپنا لحاظ و رعایت کرتے ہو) میں اس سے بھی بڑھ کر تمہارا لحاظ و رعایت کرتا ہوں، پس اگر فی الواقع تم خود اپنا دشمن نہیں بنتے ہو، اور اپنی ابدی راحت کے طلبگار ہو، تو
؎۱: امر۔ فرمان وہ حکم جو کسی کام کے کرنے کے لئے ہو۔
۲۔ نہی۔ منع، ممانعت، روک، وہ حکم جو کسی کام کے نہ کرنے کے لئےہو۔
۳۔ تورات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ( أطعنی یا بن آدم اجعلک مثلی حیاً لاتموت، عزیزاً لا تذل، غنیاً لا تفتقر) اے ابنِ آدم! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو ایسا زندہ کروں گا کہ تو کبھی نہیں مریگا، ایسا معزز بناؤں گا کہ تو کبھی ذلیل نہیں ہوگا، اور ایسا امیر بناؤں گا کہ تو کبھی محتاج نہیں ہوگا (بحوالۂ تاویل الدعائم ص ۴۲، تحقیق کردۂ محمد حسن الاعظمی)
۵۵
مجھے یاد کرتے رہا کرو، اور میری آشنائی اختیار کرو، کیونکہ کوئی دوسرا شخص تم کو خطرات و مہلکات سے چھڑا نہیں سکتا، بلکہ وہ خود تم سے بھی زیادہ عاجز ہوگا۔
۵۔ اے مومنو! جو کوئی میرا دیدار کرنا چاہتا ہو، تو اس کو چاہئے کہ وہ مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ قریب سمجھے اور مجھے حاضرو ناظر مانے، ہر حال میں اور ہر جگہ مجھے حاضر و موجود جانے، روزِ قیامت کے حسابات سے خوف رکھا کرے، اور اپنی موت سے غافل نہ ہو جایا کرے، اور جو شخص میری فکر میں رہے، تو میں بھی اس کی فکر کر لیا کروں گا۔
۵۶
پیر اور معلم
۱۔ اے عزیزو! سن لو، تمہیں حصولِ علم کے لئے کوشان رہنا چاہئے، تم عالم کی باتوں کی حاصل کرو، ان کو خوب اپنے ذہن و شعور میں رکھا کرو، خداوند کریم کے علم کی حقیقت معلم سے سیکھ لیا کرو، اور اس پر عمل کئے جاؤ، تاکہ تم درجۂ کمال تک پہنچ سکو، اور دنیا و آخرت کے فیوض و برکات حاصل کرسکو گے، اور معلم جو کچھ تمہیں تعلیم دیتا ہے، اسے بجا لایا کرو، اور دیکھو کہ علم کے مقام پر پیر نے کیا ارشاد فرمایا ہے، تم اسی پر عامل رہو، معلم تمہیں پیر شناسی اور دین شناسی سکھاتا ہے اور منزلِ معرفت تک پہنچا دیتا ہے، امامِ عالیمقام علیہ السلام جو کچھ فرماتے ہیں، اس پر ثابت قدم اور قائم رہو، اور آنجناب جو حکم فرمائیں، اسی کے مطابق عمل کرو، ہر لمحہ اس کے امر کے لئے منتظر رہو، اور ہر دم اس کے فیض کے لئے امید وار رہو۔
۲۔ اے مومنو! اگر تم خدا شناسی میں کامل ہونا چاہتے ہو، اور خدا کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہو، تو اپنے وقت کے پیر کے امر کو قبول کرو، اور پیر تمہیں جو کچھ فرماتے ہیں، اسی کے مطابق عمل کرو، امر سے تجاوز نہ کرو، اور ہمیشہ فرمانبردار رہو، تاکہ تم اہلِ کشف میں سے ہوسکو۔
۳۔ پیر وہ شخص ہے، جس کو امامِ زمان علیہ السلام ایک ایسا درجہ عطا فرماتے ہیں، کہ جس سے وہ لوگوں میں اشرف ترین ہو جاتا ہے،
۵۷
اور جب کبھی امام کسی پیر کا تعین و تقرر فرماتے ہیں، تو اس وقت تفصیلی معرفت لازمی ہوتی ہے، اور تجھے چاہئے کہ انہی ( پیر ) کے ذریعہ امام شناسی کو مکمل کرے، اور جب امام علیہ السلام پیر کا تقرر نہ فرمائیں، تو امام اہلِ علم میں سے جس کو ہدایت و دعوت کے لئے مامور فرمائیں، تجھے اس شخص کی دعوت و ارشاد سے امام کی معرفت حاصل کرنی چاہئے، تاکہ تو گمراہی میں نہ رہے، اور اس شخص کے علم کی روشنی سے تو امام کی معرفت میں پہنچ سکے، اور پیر کے ہونے سے یہ ہوتا ہے، کہ پیر اور امام علیہ السلام کے امرو فرمان کے بموجب اور پیر کی اجازت سے معلمین دعوت کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔
۴۔ پس اے مومنو! تم پر لازم ہے، کہ پیر کی پیروی کر لیا کرو، ان کی فرمانبرداری سے روگردان نہ ہو جاؤ، اور پیر تمہیں جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں، اس پر پابند رہو، اور اسے عمل میں لاؤ، پیر تم سے کوئی اجرو صلہ نہیں مانگتے ہیں، اور میں خود انہیں عوض دیا کرتا ہوں، اور تم پیر کی جتنی بھی اطاعت کرو گے، ان شاء اللہ پیر روزِ قیامت تمہاری سفارش کر ینگے۔
۵۔ قیامت کے دن اگلے اور پچھلے تمام لوگوں کا حساب مولانا علی ذکرہ الشفا ء ؎۱ کے ہاتھ میں ہوگا ، اور آنجناب علیہ السلام ہی اپنے بندوں کو طلب فرمائیں گے، ان کے طلبگار ہوں گے، دریافت فرمائیں گے اور مخلص مومنین کو نوازیں گے، اور نافرمان منافقین صحرائے محشر کی گرم دھوپ میں خود بخود گرفتار ہوں گے، وہ وہاں روسیاہ اور شرمسار ہونگے، عذاب جھیلتے ہوئے نالہ و فریاد کریں گے، ہر شخص خود بخود گرفتار ہوگا، اور جو کوئی دنیا میں پیر کا فرمانبردار رہا ہو، اس ہولناک روز اپنے
؎۱: ذکرہ الشفاء۔ اس کی یاد شفاء ہے، مراد یہ ہے، کہ مولانا علی علیہ السلام کی یاد روحانی بیماریوں کے لئے دوا و شفاء ہے (مترجم)
۵۸
وقت کے پیر کے سائے میں رہے گا، اور خوشیاں منائے گا۔
۶۔ روزِ قیامت (ہر شخص کے لئے ) بے شمار لوگوں کے سامنے اپنے سامان (یعنی اعمال ) ظاہر کرنے کا دن ہے، ہر شخص جو کچھ اچھی جنس رکھتا ہو، وہ بازارِ محشر میں حاضر کرے گا، اور اس بازار میں خود اللہ تعالیٰ ہی ان چیزوں کا خریدار ہوگا، پس اب تو نے سمجھ لیا اور حساب کے بارے میں آگاہ ہوا اور جان لیا کہ تیرا خریدار کون ہے، پھر عمدہ اجناس اور نفیس اشیا ٔ ( مہیا کرنے ) کی فکر میں رہا کر، جو انمول اور گرانمایہ ہوں، وہ کون کون سی چیزیں ہیں؟ پاک روح، پاکیزہ دل، امامِ وقت کا عشق، اور اس کی کلی معرفت، اس کے خوف و امید میں جان دینا اور اس کی رضاجوئی۔
۷۔ اے مومنو! قیامت کے دن پیرِ کامل کے سوا باقی سب پیر، امیر اور ان جیسے لوگ کاپنتے لرزتے ہوئے کھڑے رہیں گے، اور ان میں سے کوئی شخص بھی بولنے کی جرأت نہ کر سکے گا، اور اپنی بات کوظاہر نہ کر سکے گا، مگر تمہارا پیر ہی، جنہوں نے دنیا میں تمہاری دستگیری کی ہے، آخرت میں بھی تمہاری دستگیری اور سفارش کریں ؎۱گے، پس ان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو، چونکہ تم دراصل اس جہان والے ہو، لازماً تم اس جہان میں خوشیاں کرو گے اور عیش و راحت سے رہو گے، پس تم اس دنیا کی خوشی، دولت، عزت، رتبہ اور بڑائی میں مقید نہ رہا کرو، تم روز بروز زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے کی، اپنے پیر کی اور امام کی محبت اور خدمت کر لیا کرو، اور اس دنیا میں نہ پھنس جاؤ، کیونکہ یہ جہان فانی اور بے قدر و منزلت ہے، تم دنیوی آلائشوں سے بچکر رہو، کیونکہ یہ تمہیں غفلت
؎۱: جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے۔’’ يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلاَئِكَةُ صَفًّا لاَ يَتَكَلَّمُونَ إِلاَّ مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا(۷۸: ۳۸) جس دن روح اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہونگے، وہ بات نہیں کرسکیں گے، مگر وہ جسے رحمان اذن دے اور وہ ٹھیک بات کہے۔‘‘
۵۹
میں ڈال دیتی ہیں، جب تم غفلت میں پڑتے ہو، تو آپس میں جھگڑا فساد کر کے مرتے دم تک ایک دوسرے سے انتقام لینے کے درپے ہوتے ہو، اس وقت مفلس، شرمسار ار پشیمان ہو جاتے ہو، پس کوئی چیز آخرت میں کام نہیں آتی، صرف یہی، کہ اگر تم سے ہو سکے، تو اپنے مال کو اپنے امامِ وقت کی خوشنودی میں صرف کیا کرو، کیونکہ دنیوی طور پر جو کچھ خرچ کرتے ہو، یا خزانہ کر کے رکھتے ہو، اسے تم دوبارہ نہ دیکھ سکو گے، بلکہ وہ تمہارے لئے باعثِ عذاب ہوگا، اور جو کچھ تم راہِ مولا میں دیتے ہو، وہ تمہارے لئے آخرت میں باقی رہے گا، جس کی مثال گندم کی طرح ہے، کہ جو خرچ کئے جاتے ہیں، وہ تو ختم اور فانی ہی جاتے ہیں، اور جو تخم ریزی کے طور پر کھیت میں بکھیر دیتے جاتے ہیں، وہ غیر فانی ہیں، اور آخرت میں تمہارےلئے اپنے ہی وقت کا پیر زیادہ کارآمد اور ہمدرد ہوں گے، جو شخص اپنے زمانے کے پیر کافرمانبردار نہ ہو، اور ان کا حکم نہ سنے، تو اس کے لئے آہ و افسوس! کہ وہ دنیا و آخرت میں ہمیشہ سرنگون و سرگردان ہوگا، پس لازمی ہے، کہ تم پیر کے دامن کو پکڑے رہو، کہ پیر ہی تم کو امام علیہ السلام کی تفصیلی معرفت سمجھا سکتے ہیں۔
۸۔ اگر تم چاہتے ہو، کہ اپنے دل کو حق تعالیٰ کے عشق و محبت سے پر مسرت اور زندہ کر سکو، اور خدا وند عالم کا عشق تمہارے دل میں ہمیشہ قائم رہے، اور یہ عشق تمہیں اپنے پروردگار کی ملاقات کے لئے بیقرار اور اس کے دیدار کے لئے طلبگار کرتا رہے تو اس کے لئے یہ ہے، کہ تم اپنا دل ماسوا ؎۲ اللہ سے پھر دو، خداوند کی طرف متوجہ ہو جاؤ، پروردگار،
؎۱۔: ما سوا اللہ ۔ خدا کے سوا جو کچھ ہے۔
۶۰
پیر اور رہنما سے التجا کرو، باطل اور غیر ممکن خیالات کو چھوڑو، اور دنیوی محبت کو قطعی طور پر دل سے نکال دو، تب ہی خدا وند تعالیٰ کا عشق تمہارے دل میں ٹھہرے گا، اور تمہیں حقیقی دیدار کے لئے بے قرار کر دے گا۔
۶۱
کشتیٔ نجات
۱۔ انہیں اپنے نوحِ وقت کی کشتی ؎۱ میں سوار ہونا چاہئے، کیونکہ دوسری سب کشتیاں غرق ہو جانے والی ہیں، پس تم اپنے رئیس اور سردار کا دامن پکڑو، خانۂ حقیقت میں رہا کرو، اورا پنے نوحِ زمان کی کشتی میں داخل ہو جاؤ، تاکہ تم سلامتی سے ساحلِ نجات پر پہنچ سکو، اور وہ رئیس اور نوحِ زمان تمہارے امامِ وقت شاہ عبد السلام شاہ علیہ السلام ہیں، انہی کی شناخت حاصل کرلو اور کشتیٔ نوح میں داخل ہو جاؤ، یعنی ان کے طریقِ دعوت میں، تاکہ تمہارا ایمان مکمل ہو اور تمہاری روح آفتوں سے سلامت رہے۔
۲۔ جو گھر روشن دان اور کھڑکی کے بغیر ہو، وہ تاریک رہتا ہے، اسی طرح جس شخص کا خانۂ دل امامِ زمان علیہ السلام سے، جو وقت کے سورج ہیں، مستفیض نہ ہو، تو وہ تاریک اور بے نور ہے، اس میں کوئی روشنی نہیں، اور کینہ و عداوت کی تاریکیوں میں ہے، پھر تاریکی میں کسی چیز سے ٹکرا جانا، راستے سے بھٹک جانا اور گمراہ ہو جانا لازمی ہے۔
؎۱: اس باب میں آنحضرت صلعم کا ارشاد یہ ہے: مثل اھل بیتی فیکم کمثل سفینۃ نوح فی قومہ من رکبہا نجیٰ و من تخلف عنہا غرق۔ تم میں میرے اہلِ بیت سفینۂ نور کی مثل ہیں، جو ان کی قوم کے لئے تھی، جو اس پر سوار ہوا نجات پا گیا اور جو اس سے مخالف ہوا غرق ہوا ( ارجح المطالب، ص ۳۲۹)۔
۶۲
۳۔ جو شخص راہ راست سے بھٹک گیا، تو وہ خواہ چلے یا ٹھہرے منزل میں نہیں پہنچ سکتا، اگر تو اسے راہِ راست بتائے، تو وہ باور نہیں کرتا، وہ شک و نفاق میں ہے، رد کیا گیا ہے، پر کھ نہیں سکتا، ایسے لو گ گمان کرتے ہیں، کہ وہ خود راہِ راست پر ہیں، حالانکہ وہ گمان کے پردے میں ہیں، وہ سرگردان رہے، اور نہیں جانتے ہیں، کہ سیدھی راہ ( اور دینِ حق) وہی ہے، کہ جس راہ کے پیشوا اور جس دین کے مالک امامِ حی و حاضر علیہ السلام ہیں۔
۴۔ پیغمبروں کے زمانے میں بھی جو شخص اپنے وقت کے نبی کی راہ پر چلا، تو وہ ناجی ہوا، اور جو شخص (اگلی) شریعت پر عامل رہا، اور اس نے اپنے وقت کے پیغمبر کی فرمانبرداری نہ کی، تو ایسے لوگ ضلالت و گمراہی میں رہے، ہر چند کہ انہوں نے اس شریعت کی رو سے خدا کے حکم اور گزشتہ زمانے کے انبیأ کے فتویٰ کے مطابق عمل کیا، اور اب بھی دورِ ولایت (میں ایسا ہی ) ہے۔
۵۔ جب کبھی کوئی شخص اپنے ولیٔ زمان کو نہیں پہچانتا ، نہیں مانتا، اور ان کے فرمان کو علمِ ظاہر کے ذریعہ پرکھتا، اور (آنجناب کے ) امام ہونے کے متعلق علمائے ظاہر سے تقلید کے طور پر پوچھتا ہو، اور اس پر عمل کرتا ہو، تو اس کا یہ عمل باطل اور اس کی تکلیف ضائع ہو گی، اور آخر کار وہ دوزخ والوں میں سے ہوگا، کیونکہ قرآن اور صحیح حدیث کے معنی امام علیہ السلام کے پاس ہیں، اور پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جو شخص میری عترت (آل) اور خدا کی کتاب (قرآن) کو پکڑے رہے، تو وہ ہر گز گمراہ نہ ہوگا، اور میری عتر ت امام علیہ السلام ہیں‘‘ کہ (یہ حقیقت) ذریۃ بعضھا من بعض ؎۱ کے مطابق ہے، اور امام ہی کے ذریعہ امام کو پہچاننا چاہئے، امام خود ہی اپنی اولاد میں سے جس کو امام مقرر فرمائیں، وہی امام ہوگا،
۶۳
اور اس کے سوا کوئی امام نہ ہوگا، اور لوگ امام مقرر نہیں کر سکتے ہیں، اور (امامِ سابق) اپنی اولادوں میں سے جس کو نورِ امامت کے لئے مقرر فرمائیں اور جس کو اسرارِ امامت حوالہ کریں، تو وہی شخص امام ہے، اور وہی آلِ نبی ہیں، اور باقی سب دوسرے فرزند اگر (امام) کی اطاعت کریں، تو وہ اہلِ نجات میں سے ہیں۔
۶۔ پس امام کی پیروی کرو، تاکہ تم نسلاً بعد نسل امام کے راستے پر قائم رہ سکو، اور جو لوگ امام کے راستے پر نہیں، اس کا سبب یہی ہے، کہ انہوں نے امام علیہ السلام کی مخالفت کی اور آنجناب علیہ السلام سے عداوت کی، اور امام علیہ السلام نے اپنے آپ کو ان سے پردے میں
؎۱: اس مطلب کی پوری آیت یہ ہے: إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ۔ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (۳: ۳۳ تا ۳۴) بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور نوح علیہ السلام اور آلِ ابراہیم علیہ السلام اور آلِ عمران علیہ السلام ( یعنی آل ابو طالب) کو تمام جہانوں پر مصطفیٰ (پاک و صاف) کیا ہے یہ ایک دوسرے کی نسل میں سے ہیں، اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا (اور ) جاننے والا ہے‘‘ اس آیۂ مقدسہ سے خوب واقف و باخبر ہونے کے لئے اس حقیقت کا سمجھ لینا ضروری ہے، کہ جب حضرتِ نوح علیہ السلام کے ایک بیٹے کنعان نے اپنے والد کے دینِ برحق میں داخل ہونے سے صاف انکار کیا، تو قانونِ الٰہی نے اسے حضرتِ نوح علیہ السلام کی اولادوں سے خارج قرار دیا، چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے: ’’( خدانے ) کہا اے نوح یقیناً وہ (بیٹا) تیرے اہل میں سے نہیں، کیونکہ اس نے اچھا کام نہیں کیا (۱۱: ۴۶)‘‘ اب اگر کنعان کی کوئی نسل باقی رہتی، تو حقیقت میں نوح علیہ السلام کی زریت نہیں کہلاسکتی، چونکہ یہ ذریت صرف کنعان ہی کی نسبت سے نوح علیہ السلام سے منسوب ہوسکتی تھی، پس آدم علیہ السلام ، نوح علیہ السلام ، آلِ ابراہیم علیہ السلام اور آل عمران علیہ السلام ایک دوسرے کی اولاد سے ہونے اور پاک و صاف ہونے کے معنی یہ ہیں، کہ ان حضرات کے غیر منقطع سلسلۂ ذریت کے پاک اشخاص میں نورِ خدا تاقیامت جاری و باقی ہے۔
۶۴
رکھا، اور لوگوں نے ظاہری علما ٔ کی پیروی کی، اسی سبب سے یہ لوگ گمراہ ہیں، اور انہی علمائے ظاہری کے ساتھ باقی رہے، یہ لوگ تقلیدی طور پر عبادت و دینداری کرتے تھے، یہاں تک کہ یہی تقلیدی عمل ان کا موروثی دین بن گیا، جس طرح زمانۂ جاہلیت میں تھا۔
۷۔ علمائے ظاہر بھی جانتے ہیں، کہ دنیا امام سے ایک طرفۃ العین کے لئے بھی خالی نہیں اور نہ کبھی خالی ہوگی، کیونکہ اگر دم بھر کے لئے وہ امام موجود نہ ہو، تو زمین اور اس کے باشندے ہلاک ہو جائیں گے، مگر دینوی سرداری اور اقتدار نے ان کو اس بات پر مجبور کردیا ہے، کہ وہ اس حقیقت کو چھپالیں اور منکر ہو جائیں، آخر انہوں نے انبیا ٔ و اولیا ٔ سے جو تنازعات کئے، ان کا سبب بھی یہی تھا، کہ وہ لوگوں میں معزز و محترم ہو جائیں۔
۶۵
اصلی مسرت کا مقام
۱۔ اے مومنو! تعجب ہے ان لوگوں سے، جو امام کے رستے پر نہیں اور وہ ہنسی خوشی کر رہے ہیں، اور اس سے بھی زیادہ تعجب ان لوگوں سے ہے، جو امامِ وقت سے انکار اور دشمنی کرتے ہیں، ان کی مثال اس چھوٹی بچے کی طرح ہے، جو پن چکی کے پرنالے پر یا گھر کی چھت پر یا ہاتھ میں ایک سانپ لئے ہوئے خوش ہورہا ہے (حالانکہ وہ سخت خطرے میں ہے) یہ غیر مناسب ہنسی اور بیجا و بے موقع خوشی، جو عوام کرتے ہیں، تو دیکھے گا کہ یکایک یہ ان کی ہلاکت، عذاب اور غم کا سبب بن جائے گی۔
۲۔ اے مومنو اور اے صداقت والو! ہنسی خوشی اس وقت کرو، جبکہ تم خطرات و آفات سے نجات پا چکے ہو، اور غرقابی سے (بچکر) ساحل پر اور سفر سے (سلامتی کے ساتھ) منزل پر پہنچ چکے ہو، یہ اس وقت حاصل ہو سکتا ہے، جبکہ تم اپنے امامِ وقت علیہ السلام کی معرفت میں پہنچ چکے ہو، امام علیہ السلام کی غلامی (بندگی) و فرمانبرداری کر رہے ہو، آنجناب علیہ السلام کی فرمانبرداری و یاد سے تم دم بھر کے لئے بھی غافل نہیں ہو، اور آنجناب علیہ السلام کی معرفت سے تمہارا ضمیر روشن ہو چکا ہو، ایسا وقت ہی تمہارے لئے مسرت و شادمانی کا وقت ہے۔
۳۔ پس قہقہہ مار کر ہنسنے سے، جو ناپائدار ملمع چیزوں کے سبب سے
۶۶
ہے، جن کی مثال بچوں کے کھلونوں کی طرح ہے، بہت ڈرا کرو، کیونکہ یہ ہنسی شیطان کی صورت ہے، اور یہ ہنسی بے ایمان شخص کا فعل ہے، ہنسی اپنے مالک کو خوار کر دیتی، انسان کو لوگوں کے نزدیک بے وقار، بے آبرو اور ھلکا کردیتی ہے، اور ہنسی غفلت سے ہے، اور غفلت بے وقوفی سے ہے، اگر ہنسنے والا بے وقوف نہ ہوتا، تو وہ یہ بات سمجھ لیتا، کہ امرأ، حکما یا کسی معزز شخص کے پاس لوگ نہیں ہنس سکتے ہیں، پس وہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہنسی، بے ادبی، فحش، غیبت اور فعلِ بد کرتا ہے، وہ اپنے کام کی سزا پائےگا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
۶۷
برائی کا انجام
۱۔ اے مومنو! تم اپنے قول، سلوک اور عمل میں سچے رہو، اور ہر گز جھوٹی، فضول اور بیجا باتیں نہ کیا کرو، اور کم گوئی اختیار کرو، اور جو باتیں نہ پوچھی جائیں، وہ نہ بتایا کرو، ہمیشہ خدا کی راہ میں رہو، خدا کی راہ سے دست بردار نہ ہوجاؤ، اور جو کچھ حضرت خداوند اور پیر فرماتے ہیں، اسے سنو اور عمل میں لاؤ، اگر تم حق تعالیٰ سے رحمت چاہتے ہو، تو خدا تعالیٰ کے کام میں حاضر رہو، اور دینداری کے شائق رہو، کیونکہ تمہارے لئے حق تعالیٰ کے عدل و انصاف کا ایک وقت آئےگا، اور فصل کاٹنے کا وقت آنے والا ہے، جس میں ہر شخص اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹے گا، اور ہرشخص کو اپنے عمل کا بدلہ ملے گا، پس آخرت کے حساب کے خیال میں رہو، اگرچہ بہت سے کام ایسے ہیں کہ جن کا بدلہ لوگوں کو صرف قیامت میں ملتا ہے، تاہم بدی دنیا میں بھی تین چیزوں میں سے کسی ایک کو تباہ کردیتی ہے، یا مال کو یا عمر کو یا ایمان کو پس برے کام انتہائی احتیاط کے ساتھ پرہیز کرو، کہ برائی بہت ہی خطرناک ہے، برائی سے بہت سی برائیاں پیدا ہو تی جاتی ہیں۔
۶۸
زندہ سمندر
۱۔ حقیقی مومن کو سمندر کی طرح ہونا چاہیے، جو کمی بیشی سے اس میں تغیر نہیں آتا، اور اس میں گد لایا گندہ پانی کے داخل ہونے سے، یا کسی نجاست کے پڑنے سے اس کے رنگ و بو اور طبیعت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، پس مومن کو بھی چاہئے، کہ دنیوی مال کی کمی بیشی سے یا کس شخص کی برائی سے یا اس کی فحش باتوں سے یا ڈا کا مارنے سے یا بد زبانی و بدسلوکی سے متغیر نہ ہو جائے، ان چیزوں سے حقیقی مومن کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے، لہٰذا اس کا دل اپنے مولا کی محبت میں برقرار ہے، اور لوگوں کی برائی اور بھلائی اس ( امتحان کے) لئے ہے، کہ مومن غیض و غصہ نہیں کرتا، وہ اپنی قوتِ شہوانیہ اور قوتِ غضبیہ پر غالب آچکا ہے، اسی لئے مومن فحش گالی نہیں دیتا۔
۲۔ مومن بد زبان و تلخ کلام نہیں ہوتا، وہ بد معاملہ و بد سلوک نہیں ہوتا، بد فعل و بد کردار نہیں ہوتا، مومن بخیل نہیں ہوتا، وہ امامِ زمان علیہ السلام سے غافل نہیں رہتا، ہمیشہ اپنے امام کا فرمان بردار اور اس کی رضا کا طلبگار رہتا ہے، مومن غیبت نہیں کرتا، وہ لوگوں کے مال اور عورتوں کی طرف خیانت کا ہاتھ نہیں بڑھاتا، اور شرم وحیا کے اوصاف رکھتا ہے۔
۳۔ پس اے مومنو! بری بات کرنے سے ڈرو، کیونکہ برائی آدمی کو بے ایمان بنا دیتی ہے، برائی لوگوں کے ایمان کو زائل کر دیتی ہے،
۶۹
اور ان کو دوزخی اور روسیاہ کر دیتی ہے۔
۴۔ اے مومنو! جس آدمی کی طبیعت میں غصے کا مادہ ہو، اس کے غصے کی آگ بھڑکتی ہے، جب وہ غصے کے زور سے گرم ہو جاتا ہے، تو اسی گرمی سے (اس کی ہستی میں) آگ لگ جاتی ہے، اور اس کے ایمان، نیک کام، ثواب، بندگی، دل کی روشنی، چہرے کی رونق، فہم و فراست کو یکسر جلادیتی ہے، اور اسی حرص کی آگ سے نفسانی خواہشات کی آگ بھڑک اٹھتی ہے، جو پرلذت غذاؤں کی خواہش، مال، عزت و اقتدار ، لوگوں کی عورتوں کی خواہش اور عمدہ غذا و نفیس لباس کی خواہش ہے، یہ حرص گویا دوزخ ہے، جو تجھے خوار اور کنویں میں نگو نسار (اوندھا) کرے گی، پس جس حد تک تم سے ہو سکے، اپنی غضبی قوت اور شہوانی قوت کو قابو میں کر رکھو، تاکہ یہ تم کو لغزش و حرکت نہ دے سکے، تم کو نہ گرمائے تم میں کوئی تغیر نہ لائے اور تمہاری طبعی حالت نہ بدلائے، کیونکہ جب حرص نے کسی کی انسانی طبیعت و خصلت بدل دی ، تو وہ انسان حیوانِ بےایمان بن جاتا ہے۔
۷۰
دیدار کے لئے قربانیاں (۲)
۱۔ اے مومنو اور اے عزیز و! حقیقی مومنین حصولِ آخرت کے لئے غلط راستے کو چھوڑ کر صحیح راستے پر گامزن ہوئے، اور ٹیڑھے راستے سے دست بردار ہو کر سیدھے راستے پر ہولئے، انہوں نے خود بخود آخرت کی خاطر دیندار مومن بھائی کی خدمت اختیار کر لی، اور روشن ضمیر پیروں کی خدمت اختیار کر لی، اور اپنے معلم سے حق باتیں پوچھ کر ان پر عمل کیا، نیک لوگ حصولِ آخرت اور امامِ وقت کے دیدار کے لئے تختِ شاہی سے دست بردار ہوئے، یہ سب کچھ ان کی فطرت کے تقاضے سے ہے، کیونکہ بہت سی فطرتیں اس قابل ہیں، جو دینوی چند روزہ بادشاہی، سرداری اور عزت سے دست بردار ہوسکتی ہیں، اور نیک لوگ امام کے دیدار کے لئے ظاہری سرداری سے گذر کر (باطنی اور) ابدی سرداری کو پہنچتے ہیں، اور بہت سی ایسی خبیث فطرتیں بھی ہیں، جو امام علیہ السلام کے دیدار کو چھوڑ کر دنیوی سرداری طلبگار رہتی ہیں، وہ لوگ نور چھوڑ کر ظلمت کے طلبگار ہوتے ہیں، اور پانی چھوڑ کر آگ میں چلے جاتے ہیں۔
۲۔ نیک لوگوں نے دیدار کے لئے اپنے رشتہ داروں اور قومیت والوں کو چھوڑ دیا، انہوں نے دیدار کی غرض سے مال، ملکیت، بیوی، اولاد، عزت اور اقتدار سب کچھ چھوڑ دیا، اور نیک لوگوں کے پاؤں
۷۱
میں، امام علیہ السلام کے عشق اور دیدار کی تلاش میں، چھالے پڑپڑ کر پھوٹ گئے، انہوں نے آخرت کے لئے مجالس میں دینی بھائیوں کی خدمت کی، اور نیک لوگوں نے ایمان مکمل کر لینے کے لئے مومنوں کی مجلس میں شرکت کی، اور عبادت و بندگی کی، اپنے معلموں سے علمِ حقیقت کے سوالات کئے، علم یاد کرلئے، علم سیکھ لئے، بیٹھے اور سن لئے، اور حفظ کر کے عمل کر لئے، اور وہ سب دینِ حق کے عاشق ہیں۔
۳۔ اے مومنو! تم سب علیہ السلام کے پاک دین کا عاشق بنو، کلام اور علم سے واقف ہو جاؤ اور اپنے احوال و افعال سے غافل نہ رہا کرو، کیونکہ حق سے غافل ہونا آفت ہے۔
۷۲
اسرار امامت
۱۔ اے حقیقی مومنو! جہاں تک ہوسکے، اپنے حضرتِ خداوند کے راز (بھید) کو پوشیدہ رکھو، تاکہ نااہل اس سے واقف نہ ہو، اور جواہرات کو نادان سے مخفی رکھنا چاہئے، چنانچہ خداتعالیٰ نے پیغمبر صلعم سے فرمایا، کہ حقیقت کے اسرار (بھیدوں) کو زمانہ کے جاہلوں سے پوشیدہ رکھ لیجئے۔
۲۔ اے حقیقی مومنو! حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ ( علیہ السلام )فرماتے ہیں، کہ تم میرے اور اپنے امام شاہ عبدالسلام شاہ علیہ السلام کے نام کو بے ایمان جاہلوں کے پاس، جن کو رسالت اور امامت سے فطری دشمنی ہے، زبان سے ظاہر نہ کیا کرو، تمہیں دل میں اور نہایت آہستگی سے پڑھنا چاہئے، اور ہمارے راز کو زمانہ کے غیر دین والوں سے پوشیدہ اور مخفی رکھا کرو، تاکہ تم فیض اور حیاتِ طیبہ کے درجۂ کمال کو پہنچ سکو، اور خداوند کریم تم اخلاص والوں سے راضی ہوگا، تمہارے دل روشن اور پرنور ہوں گے، اور تم شادمان رہو گے۔
۷۳
باہمی امداد و اتفاق
۱۔ اے مومنو! حقیقی دیندار وہ شخص ہے، جو آخرت کی نجات چاہتا ہو، اسے چاہئے کہ اپنے حقیقی دیندار بھائی کی مدد کرے، تاکہ وہ اہلِ نجات میں سے ہو، حقیقی مومنین وہ ہیں، جو اپنے دینی بھائیوں میں باہمی مدد کرتے ہیں، ایک دوسرے کی یاری کرتے ہیں، جو کچھ میسر ہو مل کر کھاتے ہیں، غم اور خوشی میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں، ان کے دل میں ہرگز کینہ اور عداوت نہیں، ہوتی، ان کا ظاہر و باطن ایک ہوتاہے، یہ مومن شکم سیر ہو، تو وہ مومن خود کو شکم سیر سمجھتا ہے، وہ بھوکا ہو، تو یہ اپنے آپ کو بھوکا متصور کرتاہے، جب یہ کھائے تو وہ خوش ہوتا ہے، اور جب وہ کھائے تو یہ خوش ہوتا ہے، ایسے مومنین دنیا میں بھی متحد ہیں، اور آخرت میں بھی خداوند کے حضور میں متحد ہوں گے۔
۲۔ جو شخص انسان ہو، وہ اپنے دینی بھائی کے ساتھ متفق و متحد ہے، کیونکہ انسانی روح متحد ہے، اور حیوانی روح متفرق ہے، اور ضدیت و مخالفت حیوانی روح کی وجہ سے ہے، حیوانی روح کی زندگی غذا سے میسر ہوتی ہے، اسے غذا نہ ملتے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرتا، کہ وہ ہلاکت ہو جاتی ہے، اور انسانی روح امام علیہ السلام کی معرفت اور اہلِ حق کی محبت سے زندگی حاصل کرتی ہے، اگر یہ دونوں چیزیں میسر نہ ہوں تو
۷۴
یہ ہلاک ہو جاتی ہے۔
۳۔ پس اے مومنو! اگر تم چاہتے ہو، کہ دونوں جہان میں زندہ رہو، تو ایمان کو مکمل کرلو، کیونکہ نورِ ایمان کے ذریعہ ابدی حیات تک رسا ہوسکتے ہیں، اور ایمان امامِ وقت علیہ السلام کی شناخت و معرفت اور فرمانبرداری سے، اور آنجناب کے پیروؤں کی محبت سے حاصل اور کامل ہو جاتا ہے، پس اپنے امام کی پیروی کرو، اور ایک دوسرے سے راضی اور متحد رہو، تاکہ تم دونوں عالم میں زندہ ہو سکو، اور آخرت میں نیک لوگوں اور انبیا ٔ علیہم السلام و اولیا ٔ علہیم السلام کے ساتھ اور امام علیہ السلام کے حضور میں اٹھائے جاؤ گے، اور انتہائی مسرت سے ایک دوسرے کو دیکھو گے۔
۴۔ پس اے مومنو! آخرت کے کام خواہ اچھے ہوں یا برے، دنیا ہی میں مکمل ہو تے ہیں، پس تمہیں دنیا میں باہمی صاف دلی اور محبت ہونی چاہئے، اور ایک دوسرے سے دوستی ہونی چاہئے، تاکہ کل قیامت کے روز تم امامِ زمان صاحب الامر علیہ السلام کے مقدس حضور پُرنور میں اور آنجناب علیہ السلام کے تخت کے نزدیک انتہائی مسرت و شادمانی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہو گے۔
۵۔ اے مومنو! کسی شرم کے بغیر ایک دوسرے کی خدمت کر لیا کرو، اور اس میں ننگ و ناموس نہ کیا کرو، کیونکہ (بیجا ننگ و ناموس کرنے کے باعث) تم فیض سے دور رہ جاتے ہو، تم ایک دوسرے کے حال احوال سے آگاہ ہو جاؤ، ایک دوسرے کے گھروں میں آیا جایا کرو، اور تمہارا خیال ایک دوسرے کا مال کھانے کے لئے نہ ہو، ایسا نہ ہو کہ تم منافقوں کی طرح ایک دوسرے کی برائی کرنے لگو، بلکہ تیرا خیال یہ ہونا چاہئے، کہ تو اپنا کھانا اپنے مومن بھائی کو کھلائے، اور وہ اس خیال میں ہو، کہ اگر اس
۷۵
سے ہوسکے، تو وہ تجھے کھلا دے، اگر تم سے ہو سکے، تو اس خیال میں رہو، کہ اپنے کام پر مومن بھائی کے کام کو ترجیح دو، ہمیشہ تم جس کام اور معاملہ میں بھی ہو، جب مومن بھائی مطمئن ہوا تو تم مطمئن ہو جاؤ، اگر تمہارا کام بن گیا اور مومن بھائی کا کام ادھورا رہا، تو تم اطمینان سے نہ رہا کرو، یوں سمجھو جیسا کہ تمہارا اپنا کام ادھورا رہا ہو، اور اگر مومن بھائی کا کام بن گیا، یا اسے زیادہ فائدہ حاصل ہوا، یا ( اس کا مالِ تجارت) زیادہ اور اچھی قیمت پر بک گیا، تو تم اسے اپنے کام بن جانے کی نسبت زیادہ خوش ہو جایا کرو، اور اگر مومن بھائی کو فائدہ ہوا، تو یوں سمجھ لو کہ گویا تمہیں فائدہ ہوا، اسی صورت میں تم سب کو برکت، سلامتی اور خوشحالی حاصل ہوگی، تمہارا دل روز بروز روشن تر ہو تا جائےگا، تمہاری خوشی بڑھتی جائےگی، اور تمہارا اعتقاد کامل تر ہوتا جائےگا، اور اگر تم نے اپنے کام کو (مومن بھائی کے کام پر) ترجیح دی، اور اس خیال میں رہے، کہ تمہارا اپنا منافع زیادہ ہو، یا اس کے مال کو کھانا اور لے جانا غنیمت سمجھے اور تمہارا خیال یہ ہو، کہ تم اس کے مال کو لے کر اپنا مال بڑھا سکو، ایسے میں لازماً تمہارے مال سے خیروبرکت اٹھ جاتی ہے، اور تم خدا کی رحمت کو نہیں پہنچو گے۔
۶۔ جب کبھی تم دینی بھائی ایک دوسرے کے دوست اور خیر خواہ ہوتے ہو، تو خدا بھی تم سے راضی اور خوش رہتا ہے، اور بدی ہر گز نہ دیکھو گے، اور اگر تم ایک دوسرے کے دشمن اور بدخواہ ہوگے، تو خدا تم سب سے بیزار ہے، اور اگر بدی صرف ایک ہی طرف سے ہو، تو صرف وہی ایک فریق برائی میں گرفتار اور نگونسار ہوگا۔
۷۶
کشت گاہِ آخرت ؎۱
۱۔ اے بھائیو اور اے عزیزو! اگر کوئی شخص بیج نہ بوئے، تو وہ کیا حصول اٹھائے گا، تم جو کچھ بوتے ہو وہی اگتا ہے، پس نیکی کے بیج بودو، یعنی نیک کام کرو، تاکہ آخرت میں تم کو اچھا حصول ملے، تم دنیا کے معاملے میں جو کچھ خرچ کرتے ہو، وہ فنا اور ختم ہو جاتا ہے، اور راہِ خدا میں جو کچھ دیتے ہو، تو اسی کے ذریعہ آخرت میں تمہاری دستگیر ی ہوتی ہے، جو کچھ تم اپنے مولا کی راہ میں دیتے ہو، اس کا عوض دنیا میں سو گنا اور آخرت میں ہزار گنا تمہیں حاصل ہو جاتا ہے، پس کوئی زراعت اور کوئی تجارت اس سے بہتر نہیں، کہ تم اپنے حلال مال کو اپنے مولا کی راہ میں صرف کرو، اور اس سے برتر کوئی دولت ہی نہیں، کہ تمہیں اپنے امامِ وقت علیہ السلام کا راستہ مل جائے، اور اس سے بالاتر کوئی عبادت نہیں، کہ تم ہمیشہ اپنے امامِ زمان علیہ السلام کے ذکر میں لگے رہو، زہے نیک بختی، اس شخص کی، جس کو یہ مطلب حاصل ہو، جو ایسی لازوال نعمت کو پہنچے اور جس کو یہ ایسی دولت نصیب ہو۔
۲۔ جس کا دل اور زبان ایک ہو، تو صرف اسی کو خدا کے حضور میں کوئی قربت و منزلت میسر ہوسکتی ہے، اور جس کا دل و زبان ایک نہ ہو،
؎۱: آخرت کی کھیتی، چنانچہ حدیثِ شریف ہے: الدنیا مزرعۃ الاخراۃ۔ یعنی دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
۷۷
تو وہ کسی مقام کو نہیں پہنچ سکتا، حقیقی مومن وہی ہے، جس کا دل اور زبان ایک ہو۔
۳۔ دیندار مومن وہی ہے، جو ہمیشہ خداوند کے ذکر میں ہو، اس کا دل خداتعالیٰ کے عشق میں اور اس کی زبان حق تعالیٰ کی توصیف و ثنا میں ہو، راہِ حق کے رہنماؤں کی نصیحت سنتا ہواور اس پر عمل کرتا ہو، اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہو، نیک کام کو اول خود انجام دیتا ہو اور اس کے بعد دوسروں کو اس کی ترغیب دیتا ہو۔
۷۸
خدا کی معرفت
۱۔ انسان اپنے پروردگار کی معرفت اس وقت حاصل کر سکتا ہے، جبکہ اس نے اپنے آپ کی معرفت حاصل کر لی ہو، اول؎۱ چاہئے کہ تو اپنے جسم کو جزو جزو پہچان لیا کرے، اس کےبعد تجھے جان لینا چاہئے، کہ تو خود بخود پیدا نہیں ہوا ہے، کسی دوسرے نے تجھے پیدا کر دیا ہے، پھر تجھے غور و فکر کرنا چاہئے ، کہ کس نے تجھے پیدا کر دیا ہے؟ اور اس دنیا میں کیوں لایا ہے؟ اور کہاں لے جانے والا ہے؟
۲۔ اس کے بعد تجھے معلوم ہوگا، کہ اگر تیرا بدن اعتدال پر ہے، تو وہ بیماریوں سے سلامت ہے، اگر اعتدال پر نہیں، تو بیمار پڑتا ہے، اس وقت انسان خود کو ناموافق غذاؤں سے بچاتاہے، اور وہ خود کو ظاہر سے باطن کی طرف لے جاتا ہے( یعنی جسم سے روح کی مثال لیتاہے) کہ اگر اپنے آپ کو افراط و تفریط ؎۲ سے بچائے، اس کا ہر کام اعتدال پر ہو، افراط و تفریط نہ کرے اور اخلاق کی اصلاح و درستی کرے،
؎۱۔ یہ اشارہ ہے، اس حدیثِ شریف کی طرف: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔ جس نے اپنے وجود یعنی چار نفوس: نفسِ نباتی، نفسِ حیوانی، نفسِ ناطقی اور روحِ قدسی کو پہچانا، پس اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔
۲۔ افراط: بیشی ، تفریط، کمی۔ پس افراط و تفریط کا مطلب ہے غیر معتدل حالت، یعنی جس میں کمی بیشی ہو۔
۷۹
یہاں تک کہ اپنی ذات سے چوپایوں اور درندوں کی عادات کا خاتمہ کرے، اور انسان صفات سے متصف ہو جائے اور اپنے نفس کو پاک و صاف کر دے، جونہی اس کا دل پاک ہوا، شک و نفاق اس کے دل میں نہ رہا، اپنے امامِ زمان علیہ السلام کی معرفت پر یقین کیا، اور امام علیہ السلام کو ہر جگہ اپنے روبرو حاضر و ناظر دیکھا، تو اس وقت وہ علم الیقین میں پہنچتا ہے، اور حق الیقین کے مرتبے میں اس وقت پہنچتا ہے، جبکہ اس کا قلب نورِ یقین سے روشنی ہو جاتا ہے، اور وہ اپنی جان کو نورِ یقین کی روشنی میں دیکھنے لگتا ہے، اس کے بعد جہاں (یعنی جس مرتبے میں) اس کا پروردگار ہے، عین الیقین سے اس کا مشاہدہ کرتاہے، یہ سب کچھ اس وقت حاصل ہوتا ہے، جبکہ تو اپنے پیر اور رہنما کے فرمان پر عمل کرے، اور ایسے لوگوں کی پیروی کرے، جو راہِ حق پر چلے ہیں، یہ وہ راہنماہیں، جو امام علیہ السلام کی راہ کے سوا از خود کوئی راہ نہیں دیکھاتے، راہِ حقیقت میں صادق اور باخبر ہیں، یہ دنیوی اغراض سے آزاد ہوئے ہیں، اور امام علیہ السلام ، پیر اور معلم کے معاملات میں سرکشی اور چون و چرا نہیں کرتے، کیونکہ دینی بزرگ اور باخبر حضرات یعنی امام علیہ السلام ، حجج، دعاۃ؎۲ اور طریقِ حق کے معلمین ؎۳ کی مثال طبیبوں، دانشمندوں، استادوں اور داناؤں کی طرح، شفیق ناصح کی طرح اور دایوں کی طرح ہے، اور باقی سب لوگ مریض اور شیر خوار بچوں کی مانند (محتاجِ پرورش) ہیں، مریض اور شیر خوار بچوں کو لازمی ہے، کہ وہ اپنے طبیب اور پالنے والے کی اطاعت کریں، اور ان کا سب سے بڑا فائدہ اسی میں ہے، اگر وہ مخالفت اور انکار کریں، تو اس طریقِ کار سے ان کو نہایت ہی نقصان پہنچے گا، اور آخرکار ان پر ملامت آئے گی۔
؎۳۔ حجج۔ حجت کی جمع، دعاۃ۔ داعی کی جمع
۴۔ معلمین۔ معلم کی جمع
۸۰
۳۔ پس راہرو کے لئے لازمی ہے، کہ وہ راہبر کی پیروی کرے، تاکہ سلامتی سے منزل میں پہنچ جائے، پس جو لوگ ہماری محبت میں رہنا چاہتے ہوں، تو ان کی زبان سچی ہونی چاہئے، وہ جھوٹ بولنے والے اور غیبت کرنے والے نہ ہوں، ان کی آنکھیں پاک ہوں، اور غیر عورتوں اور مالِ بیگانہ کی طرف حسرت و خیانت کی نگاہ سے نہ دیکھیں، ان کا دل پاک ہو، ان کے دل میں دنیا اور مال و متاع کی محبت، عزت و اقتدار کی آرزو اور میٹھے کھانوں کا شوق نہ ہو، وہ عمل میں راست باز ہوں، ان کا منہ پاک ہو، حرام لقموں کے کھانے سے اور دسواں (دہ یک) جو امام زمان علیہ السلام کا مال ہے، کے نہ دینے سے، اور یتیم کے مال پر قبضہ کرنے سے اپنے منہ کو گندہ نہ کرتے ہوں، خاموش رہتے ہوں، ان کا خیال دنیوی آرائشوں کی طرف نہ ہو، ان کا خیال اپنے امام حاضر الوقت علیہ السلام کی جانب ہو، امام زمان علیہ السلام کے دیدار کے سوا کوئی چیز ان کے دل میں اور ان کی نظر میں جلوہ گر اور جاذب نہ ہو، ان کا خیال دنیا و آخرت کی طرف نہ ہو، بلکہ امام علیہ السلام کے دیدار اور آنجناب کی خوشنودی کی طرف ہو، سچائی سے حقیقت کی راہ پر چلیں، کارِ حرام کے پیچھے نہ جائیں، اور پاکیزہ و پرہیز گار رہیں، یعنی (حرام و حلال) تمام چیزوں سے پرہیز کر کے امام علیہ السلام کی معرفت کی طرف بڑھ جائیں، اس لئے کہ امام علیہ السلام کے سوا محسوسات اور غیر محسوسات کی ہر چیز ، خواہ بری ہو یا اچھی، فی الواقع آگ کی سی آفت ہے، پس جس طرح تم کاٹنے اور پھاڑنے والے جانوروں سے پناہ کی طرف دوڑتے ہو، اور (جس طرح دوسری تمام) بلاؤں سے خود کو بچاتے ہو، اسی طرح تمہیں دنیا اور تمام اہلِ دنیا سے بچ جانا چاہئے، اور دنیا کے مالک کے حضور میں پناہ لینی چاہئے، کیونکہ مکمل امن و آسائش کا مقام یہی ہے۔
۸۱
۴۔ پس اے مومنو! حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنا منہ نافرمانیوں سے موڑ لیتا ہے، اور حقیقی بادشاہ کی اطاعت کرتا ہے، حق تعالیٰ کی طرف رخ کر لیتا ہے، پیر کے امر کو بجا لاتا ہے، جس طرح پیر مولا کے امر کو بجالاتے ہیں، جس طرح پیر امام علیہ السلام کے فرمان کے تحت ہیں اور امر سے تجاوز نہیں کرتے، اس طرح معلموں کو بھی پیر کے امر و فرمان کے تحت رہنا اور تجاوز نہیں کرنا چاہئے، تاکہ مراد کو پہنچیں، اور مومنین بھی معلم کے فرمان سے تجاوز نہ کریں، اور اس سے تعلیم حاصل کریں، امام علیہ السلام کی معرفت اور احکامِ دین سیکھ کر ان پر عمل کریں تاکہ مراد کو پہنچیں۔
۵۔ پس مرشد اور رہبر جو کچھ تمہیں تعلیم دیتا ہے، جو تم کو پند، وعظ اور نصیحت کرتا ہے، اور تمہیں صحیح و سلامت امامِ حاضر علیہ السلام کی حقیقت و معرفت میں پہنچا دیتا ہے، تم جان و دل سے اس کے لئے قبول کرو، اور اس نعمت کا شکر کرو، کہ اگر انسان ایک سیدھی راہ کے درمیان چل رہا ہو، اور اس کے ساتھ ایک روشن چراغ ہو، تو وہ نہایت ہی سلامتی اور آسائش سے اپنے وطن میں پہنچ جاتاہے۔
۶۔ پس ہر کاروبار اور ہر معاملے میں جب کوئی دانا اور تجربہ کار شخص موجود ہو، تو وہی معیوب اور غیر معیوب جنس میں فرق و امتیاز کر سکتا ہے، اصل و نقل کو پہچانتا ہے، وہ اس میں دھوکا نہیں کھاتا، اور بے عیب اصلی جنس خریدتا ہے، پس معلمِ صادق کی دانش، جو کامل اور باخبر مرشد ہے، تجھے غلط راستے سے صحیح راستے کی طرف ہدایت کرتی ہے، گمراہی کے کنویں سے نکال دیتی ہے، ہلاکت کے بیابان سے بچاؤ کی آبادی میں منتقل کر دیتی ہے، گمراہی کے دریا سے نجات کے ساحل پر پہنچا دیتی ہے، اور پر آفت جگہ سے اور جانوروں، درندوں، گزندوں اور
۸۲
جنات کے دست و چنگل سے (چھڑا کر) مقامِ امن، جو امام علیہ السلام کی شناخت ہے، میں لے جاتی ہے۔
۷۔ اے مومنو! جب کوئی شخص مذاق اور بیہودہ باتیں کرتا ہو اور ہنسا نے کی باتیں کرتا ہو، اور دوسرے لوگ اس کے سامنے کھڑے (یا بیٹھے) ہوئے ہنس رہے ہوں، تو وہ سب کے سب شیطان ہیں۔
۸۳
تقلید کے نتائج
اے مومنو! سنو اور حق بات کو اپنے دل و دماغ میں محفوظ رکھو، حق تعالیٰ کے فرمان کو یاد رکھو، اور حقیقی علم کی باتوں کو سن لو اور اپنے دل میں رکھو، کیونکہ بہت سے لوگ خود رائی، خود پسندی اور بے تعلیمی سے گمراہ ہو گئے ہیں، وہ قیل و قال، جھوٹے قول اور تقلید؎۱ میں رہ گئے ہیں، انجام سے بے خبر ہیں، وہ اپنی فرضی اور برائے نام دانش سے اور اپنی سرداری اور مالِ دنیا سے مغرور ہوچکے ہیں، روزِ قیامت میں جلادینے والا سورج ان پر طلوع ہوگا، اور سخت ترین حساب کی جگہ کھڑے کئے جائیں گے، اور یہ عوام علم کا کوئی حصہ نہیں رکھتے، تقلید میں گمراہ ہو جاتے ہیں، ان کی نکیل (یعنی اختیار) ڈاکو چھلاؤں؎۲ (جنات) کے ہاتھ میں ہے، جنہوں نے سب کو راہِ حق سے نکال دیا ہے، اور سب گمراہی کے سمندر میں غرق ہوئے ہیں، مگر وہ اپنی گمراہی کا کوئی احساس نہیں رکھتے، سب فرقہ فرقہ ہوئے ہیں، وہ اپنے غلط کام سے بے خبر ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کے کام کا کیا انجام ہونے والا ہے، سب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، اور مرنے کے
؎۱: تقلید دینی معاملات میں ایسی پیروی کو کہتے ہیں، جو تحقیق کئے اور سوچے سمجھے بغیر کی جاتی ہے۔
؎۲: چھلاوہ غول بیابانی کا ترجمہ ہے، جو ایک قسم کا جن متصور کیا جاتا ہے۔
۸۴
بعد ان کو خبر ہوگی، مگر اس وقت ان کے باخبر ہونے میں کوئی فائدہ نہیں، اور وہاں پشیمانی و حسرت کے سوا ان کے لئے کوئی چیز نہیں۔
۲۔ مومن کو دنیا ہی میں قیامت سے اور اپنے کام کے انجام سے باخبر رہنا چاہئے، عوام اور ان کے پیشواؤں کی مثال بوڑھی گائیوں اور قصاب کی طرح ہے، کہ قصاب (آخر کار) چھری کی دھار سے ان سب کا چمڑا اتار لیتا ہے، اور وہ گائیں اس انجامِ کار سے بے خبر رہتی ہیں، پس ہر گز ہر گز تم اہلِ تقلید میں سے نہ ہوجانا، اور علمائے جور کی پیروی نہ کرنا جو علمائے ظاہری ہیں، جو امامِ وقت کے موجود ہونے سے، آنجناب کی راہ پر چلنے سے اور ان کے حضور میں مشرف ہونے سے منکر ہیں، اور اگر کوئی شخص کہے کہ ’’امام حی و حاضر ہیں، تجھے اس کی راہ حاصل کرنی چاہئے‘‘ تو اس بیچارے استاد کے متعلق کفرو بے دینی کا فتویٰ دیتے ہیں، اور اسے سنگسار کرتے ہیں۔
۳۔ ان خود پرست علما سے خدا کی پناہ لو، کہ انہوں نے اپنے لئے عجیب قسم کا خیالی پلاؤ پکایا ہے، اور اپنے لئے عجیب طرح کا پانی نہر میں بہا دیا ہے، کہ انہوں نے اسی جملے کے ذریعے سے لوگوں کی زبان بند کرادی ہے، جو کہتے ہیں، کہ ’’تم کفر کی باتیں کرتے ہو‘‘ اور انہوں نے ایک عام نادان شخص کو اپنا پیر قرار دیا ہے، اور ہر پاکیزہ فطرت شخص، جو امام سے واقف ہوتا ہے، وہ ان خود پرست دشمنوں کے باعث کچھ کہہ نہیں سکتا۔
۴۔ ان ریاست و سرداری کے طلبگاروں نے یہ دیکھ لیا، کہ جس وقت بھی انہوں نے خدا کے نور کو بجھانے کے لئے امامِ وقت کو ایذائیں پہنچائیں اور آنجناب کے خلاف جنگیں لڑیں، تو وہ ناکام ہی رہے، آخر انہوں نے عاجز آکر مکر اور جھوٹ سے کام لیا، اور کتابوں میں لکھ
۸۵
دیا کہ امام صرف آخرزمان میں کچھ کہے گا، اور لوگ (اس وجہ سے) امام علیہ السلام کی راہ دیکھ پانے سے رہ گئے، اور سارے عوام نے اس جھوٹی بات پر باور کر لیا، یہاں تک کہ وہ سب امامِ وقت علیہ السلام کے دیدار سے بے نصیب ہو گئے، حالانکہ امام علیہ السلام سورج کی طرح دنیا میں ظاہر ہیں، اور وہ لوگ از خود امام علیہ السلام کے دشمن اور ظہور کے منتظر ہیں، انہوں نے علمائے ظاہر کی فرمانبرداری اور تقلید میں اپنی زندگی برباد و ضائع کر دی ہے۔
۸۶
سب سے بڑی دولت
۱۔ اے مومنو اور اے صداقت والو! شکر کرتے رہو، کہ تم اس دولت سے مستفیض ہو گئے ہو، اور تمہاری سعادتمندی اور خوش نصیبی تھی، جو یہ (لازوال دولت ) تمہارے ہاتھ آگئی، اور وہ لوگ تم پر غالب نہ آسکے، (یعنی وہ تم کو گمراہ نہیں کرسکے) اور محتاط رہو، اور ہمارے بھید کو ان نااہلوں سے پوشیدہ رکھو، اور ان آدمی نما جنات سے ڈرتے رہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو ہلاک کر ڈالیں اور جس طرح وہ خود کھچے ہوئے ہیں اسی طرح تم کو بھی بدبختیوں کی تاریکیوں میں کھینچ نہ لے جائیں۔
۲۔ اے مومنو! خدا کا راستہ اختیار کرو، اور خدا کے راستے میں خیرات و عطیات دیا کرو، اور گریہ و زاری اور عبادت کرتے رہو، اور اس نعمت کی قدردانی کرو، مبادا کہ تم ہار جاؤ، اور بیش بہا موتی کی حفاظت کرنی چاہئے، تم دیکھتے ہو، کہ جس شخص کے پاس کوئی اچھا مال و متاع ہو، تو وہ کس قدر اس کا خیال رکھتا ہے، پس دینِ حق اور امامِ وقت علیہ السلام کی معرفت سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں، اور اپنے پیرکا دامن پکڑو، تاکہ طوفانوں سے بچکر رہو، اور شیطان کا ہاتھ تم پر نہ پہنچ سکے۔ اور حرام خوری سے اپنے آپ کو بچاؤ، تاکہ تمہارا دل کالا نہ ہو، اور جس شخص کا دل ذکر کرتے وقت بھاری، سخت اور سیاہ محسوس ہوتا ہو، تو یہ اس کے شوق نہ ہونے اور سستی آنے کی وجہ سے ہے، جو حرام خوری اور مالِ واجبات
۸۷
نہ دینے کے سبب سے ہے، پس مالِ واجبات پہنچا دیا کرو، اور امام علیہ السلام کے امر کو قبول کرتے رہو، کسی سے بدی نہ کرو، خیرخواہی اختیار کرو، نیک افعال، نیکی اور پرہیزگاری کے لئے آپس میں امداد اور ترغیب دیتے رہو، تاکہ تمہارا دل روشن ہو، اور اپنے مولا کے ذکر سے تمہاری تمام مشکلات آسان ہو جائیں۔
۸۸
مالِ واجبات
۱۔ اے مومنو! جو شخص شاہ (یعنی امام علیہ السلام ) کے مال کو روک لیتا ہو، اور اس کو اپنے مال سے جدا نہ کر دیتا ہو، اور اس کی آنکھ اور دل میں یہ مال اچھا لگتا ہو، تو اس کا دل کالا ہو جاتا ہے، اور وہ بدکار و بد عمل ہو جاتا ہے، اور اخیر میں اپنے آپ کو دوزخی کر دیتا ہے۔
۲۔ اے مومنو! آگاہ رہو اور غافل نہ ہوجاؤ، کہ (مالِ واجبات کھانا) بہت ہی مشکل اور بھاری لقمہ ہے، اور بہت سی تکالیف اٹھانے کے باوجود بھی یہ لقمہ گلے سے نہیں اترے گا، یہ باطنی قسم کی بیماریوں کا باعث ہو جاتا ہے، مالِ واجبات کا کھا لینا آخر کار آدمی کو ہلاک کردیتا ہے، اور اس دہ یک (یعنی دسواں) کے حساب میں بہت سی حکمتیں اور بے شمار آزمائشیں پوشیدہ ہیں، اور اس کے نہ دینے میں بہت سی آفتیں اور بلائیں پنہان ہیں اور یہ بہت ہی مشکل کام ہے، تم اسے ہلکا اور آسان مت سمجھنا، کیونکہ یہ بڑا سنگین اور بھاری بوجھ ہے (واجبات) دینے اور لینے والے کو چاہئے، کہ سچائی سے اور مکمل طور پر مولانا کے دربار میں پہنچا دیں۔
۸۹
امام کی شناخت
۱۔ اے مومنو! خبردار ہو، تاکہ تم سے غلطی نہ ہو، کیونکہ اس راہ میں بہت ہی دقت اور باریک بینی سے (کام لیتے ہوئے) چلنے کی ضرورت ہے، یہ ایک مشکل نعمت ہے، جو آسانی سے نہیں دی جاتی ہے، جب ظاہری نعمت اتنی دشواریوں کے بعد حاصل ہوتی ہے، تو باطنی نعمت کیونکر آسانی سے ہاتھ آئے، پس باطنی نعمت کے لئے، جو امام علیہ السلام کی شناخت ہے، جان دینی چاہئے، پس تم اس لازوال اور بے پایان نعمت کی قدر دانی کرو اور اپنے مولا کے شکر گزار رہو، کہ اس نے تمہیں عطا فرمائی ہے اور اپنی معرفت کی تعلیم دی ہے، ورنہ ان جنوں، آفتوں اور بلاؤں کے ہوتے ہوئے اور اس تمام قذاقی اور ڈکیتی کے باوجود تم سے کہاں ہو سکتا تھا، کہ امام علیہ السلام کا راستہ دیکھ پاؤ، انہوں نے کوئی ایسی دیوار کھڑی نہیں کر دی ہے، کہ بیچارہ عوام اس سے آگے بڑھ سکیں، انہوں نے ایک ایسی گانٹھ لگا رکھی ہے، جس کے کھولنے سے عوام عاجز رہ گئے ہیں، انہیں حیران و سرگردان ہو کر حسرت و ارمان بھرے دل کو مٹی میں لے جانا پڑے گا، مگر ان کو امام علیہ السلام کا دیدار نصیب نہ ہوگا۔
۹۰
مشاہدۂ نور
۱۔ ہوشیار رہو، کہ میں نے تمہیں ایک بہترین راستہ دکھایا، اور جو کچھ تمہاری نجات، آخرت کی رستگاری اور تمہاری دنیا و عقبیٰ کی صلاح کا سبب تھا، وہ سب میں نے تم کو بتا دیا ، اور تمہاری عقل کے مطابق اور تمہاری سمجھ بوجھ کے موافق میں نے تم سے بات کی، اور جو کچھ تمہاری حدِ قوت میں تھا جسے تم حدِ فعل میں لا سکتے تھے، میں نے اس کے متعلق کوئی ہدایت فروگذاشت نہیں کی، اب تم پر فرمانبرداری لازمی ہے، اور تمہیں سیدھی راہ پر لایا، جو صراطِ مستقیم ہے، پس اپنی راہ پر گامزن ہو جاؤ، اپنے وقت کے امامِ حاضرعلیہ السلام کی خوشنودی کے طلبگار رہو، اپنے امام علیہ السلام کو دیکھا کرو، کہ وہ سورج کی طرح ظاہر ہیں، اور دل و دیدہ (آنکھ) کو کدورت و آلائش اور زمانہ کی رنگینیوں سے پاک کئے رکھو، تاکہ تم علیہ السلام کے پاک نور کا مشاہدہ کر سکو، اور ان کے جانشین کو، جو امام علیہ السلام کے وصی اور آل ہیں، قبول کرو، اور ان کے متعلق اختلاف نہ کیا کرو، جس طرح گزشتہ زمانے میں کیا، انہوں نے امام علیہ السلام کو چھوڑا، اور غیر امام کو امام علیہ السلام کی جگہ قرار دیا، آخر کار خالی ہاتھ رہ گئے۔
۹۱
بنیادی غلطی
۱۔ میرے بزرگوار دادا حضرت شاہ حسین (علیہ السلام)کے زمانے میں بعض لوگ امام علیہ السلام کو چھوڑ کر محمد حنفیہ کی طرف گئے، شاہ زین العابدین (علیہ السلام) کے زمانے میں بعض لوگوں نے امام علیہ السلام کو چھوڑ کر زید کو لیا، میرے جد شاہ جعفر الصادق ( علیہ السلام) کے زمانے میں کچھ لوگ امام علیہ السلام کو چھوڑ کر موسیٰ کاظم کے معتقد ہوئے، بعض عبد اللہ (کی امامت) کے قائل ہوگئے، اسی طرح میرے دادا شاہ مستنصر باللہ علیہ السلام کے عہد میں کچھ لوگ امام کو چھوڑ کر مستعلی کے پیرو ہوگئے، آخرکار یہ سب سرگردان اور امام علیہ السلام کے دیدار سے محروم رہ گئے، یہ سب کچھ ان کی غفلت کی وجہ سے اور اس قدر ان کی غلط روایات کے سبب سے ہوا، انہوں نے اپنے باطن اور اپنے دل کو صاف نہیں کیا اور قدردانی نہیں کی (اس لئے) ان کی نعمت زوال ہوگئی، ان کے لئے ایسے اسباب پیدا ہوئے کہ جن سے ان کی یہی صورتحال ہوئی۔
۲۔ پس ناشکرگزاری نعمت زوال ہو جانے کا باعث بن جاتی ہے، پس قدردانی کرو، اور جو کچھ فرمایا گیا وہ جواہر کی طرح اپنے کان میں لو، اور جو کچھ پیر امر کرتے ہیں، اس پر قائم رہا کرو، اور معلم کے فرمان پر عمل کرو، اور حاضر جامہ ؎۱ کی اطاعت، جو رائج
۹۲
سکے ؎۲ کی مثال ہے، شرعاً و عقلاً ؎۳ واجب ہے۔
۳۔ یہ تمام پندیات حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ (علیہ السلام) نے مجلسوں اور محفلوں میں جماعت کو وعظ و بیان فرمائی ہیں، اور جماعتوں، خیر خواہوں اور طالبوں کو (یہ پندیات) بار بار نصیحت فرمائی ہیں، اس حقیر نے جو کچھ الفاظ سن لئے تھے، ان کو اپنے حفظ میں محفوظ رکھ لیا تھا، یہاں تک کہ یہ الفاظ رشتۂ تحریر میں آگئے، تاکہ ان شاء اللہ آنے والوں کے لئے باقی رہیں، کیونکہ ہر زمانے کے مومنین پڑھ لیا کریں گے، یا سن کر عمل کریں گے، تاکہ وہ اگلے مومنین کی طرح اہلِ نجات ہوں، بعون اللہ الملک المنان و علیہ التکلان۔؎۴۔
تمام شد پندیات بزرگ
؎۱: حاضر جامہ علیہ السلام ۔ نورِ امامت کا موجودہ لباس، یعنی حاضر امام علیہ السلام
؎۲: رائج سکہ۔ چلتا ہوا سکہ۔
؎۳: شرعاً و عقلاً۔ شرعی طور پر (بھی) اور عقلی طور پر (بھی)۔
؎۴: اللہ تعالیٰ کی مدد سے جو بہت احسان کرنے والا بادشاہ ہے اور اسی پر بھر و سہ ہے۔
۹۳
پندیاتِ کوچک
۱۔ دوسری یہ پندیات بھی مولانا شاہ مستنصر باللہ (علیہ السلام) نے مومنوں کی جماعت، طالبوں اور فرمانبرداروں کو وعظ فرمائی ہیں، جو کچھ ان کی زبانِ مبارک سے سن لیا تھا، میں نے اس کو بھی لکھ کر کتابی صورت میں لایا، تاکہ مومنوں، طالبوں اور عمل کرنے والوں کے لئے نجات کا سبب و سیلہ بن جائے، اور ایک یادگار رہے، اور قدر کرنے والے اہلِ دل نیکی کے بانیوں اور خیر خواہوں کے حق میں دعائے خیر فرمایا کریں گے، اور میں نے ان نصیحتوں کا نام ’’پندیاتِ کوچک‘‘ رکھا۔ و علیکم بالسسماع و المطاع و التشکر والتحمید بہٰذہ النعمتہ و ما توفیقی الا باللہ الملک المنان ۱؎ علی الزمان۔
؎۱: اور اس کو سن کر عمل کرنا اور اس نعمت کی شکرگزاری میں خدا کی تعریف و توصیف کرنا تم پر واجب ہے، اور میری تائید تو خدا کے سوا اور کسی سے ہو ہی نہیں سکتی، جو بہت احسان کرنے والا بادشاہ ہے، علی الزمان۔
۹۴
فرمانبرداری کی برکات
اللّھم یا مولانا مددی
۱۔ فرمایا خداوندِ زمان، صاحبِ دوجہان اور امامِ عصرو زمان مولانا مستنصر باللہ (علیہ السلام) جلت حکمۃ و تعالیٰ شانہ العزیز نے:
۲۔ اے مومنو اور اے صداقت والو! مومن کو چاہئے، کہ حق تعالیٰ کے فرمان میں رہے، اور جو کچھ خدا کا فرمان ہے، اس کو احسان شناسی سے سر آنکھوں پر رکھنا چاہئے، ہر وہ بندہ جو حق بات سنتا ہے اور اسے بجالاتا ہے، دیکھ لینا کہ اس بندے کو کیسے کیسے فیوض پہنچتے ہیں، بلائیں اس بندے سے دور ہو جاتی ہیں، اس کے دشمن کو ر رہ جاتے ہیں، اس بندے کے لئے فتحمندی اور روزی کے دروازے کھل جاتے ہیں، خدا سے اس بندے کو فتح و نصرت ملتی رہتی ہے، اس کی نیکی اور عبادت و بندگی قبول ہو جاتی ہے، اس کی نیکی میں برکتیں پیدا ہو جاتی ہیں، اس کا تمام کام حسب منشا ہوتاہے، اس کے فرزند اور خویش و اقربا آفتوں، بلاؤں اور تکلیفوں سے سلامت رہتے ہیں، اس کا گھر آباد ہوتا ہے، وہ پریشان و سرگردان نہیں ہوتا، تمام کام میں اس کو فرصت ہوتی ہے، وہ خوشحالی میں مسرت و شادمانی سے رہتا ہے، خدائے مہربان اس کا یار، مددگار اور غمخوار ہوتا ہے، وہ خدا کے امان میں رہتا ہے، حق تعالیٰ اسکا دستگیر
۹۵
ہوتا ہے، وہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی فیوض و سعادات پاتا ہے، وہ ظاہری و باطنی اور دنیوی و اخروی دولت کو پہنچتا ہے، اور دنیا و آخرت کی دولت اسے میسر اور حاصل ہوتی ہے، آخرت کی دولت کا قصہ سنو جو اسے عطا کر دی جاتی ہے، مومنین آخرت میں حضرت پروردگار کے دیدار اور ملاقات سے مشرف ہوں گے، حق تعالیٰ مومن بندے کو آسمانوں میں سلطنتیں بخشے گا، وہ وہاں رنگ برنگ کے لباس پہنے گا، اور جس بندے نے عبادت و خدمت زیادہ کی ہو، اور (ثواب وصلہ کا) زیادہ حقدار ہوا ہو، تو وہ ساتویں آسمان میں خوشیاں منائے گا، اور سیر و سیاحت کرےگا، اور بخشش کے پروں کے ذریعہ پرواز کرے گا، تاجِ کرامت سر پر رکھے ہوئے اور عافیت کے لباس میں ملبوس ہو کر انبیأ علیہم السلام و اولیا علیہم السلام کے ساتھ سیر کرے گا، ساقی ٔ کوثر کے مبارک ہاتھ سے شرابِ طہور نوش کرےگا، اور وہ فضل و کمال کے محلات کی تصوراتی حوروں تک پرواز کرے گا، اور پاک دل اور دیندار مومنین سب ایک ہوں گے، وہاں کمی بیشی نہیں، اور مومن کے لئے کوئی اندوہ، غم، خرابی، درد، تکلیف، موت اور سختی نہیں۔
۳۔ اے مومنو! اس شخص کے لئے، جو دنیا میں اپنے امامِ وقت کے فرمان کو سمجھتا اور سن کر عمل کرتا ہے، آخرت میں اس قدر نعمتیں، دولتیں، راحتیں، اور آسائشیں میسر ہیں، پس مومن کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فرمان میں رہنا چاہئے، اور جو کچھ اس کے لئے امر ہو، تو اسی امر کو فوراً شوق سے بجالانا چاہئے، اور مومن کو دنیا میں اول چاہئے، کہ اپنے امامِ وقت علیہ السلام کو پہچانے اور اس کی اطاعت کرے۔
۹۶
حلال طعام و لباس
۱۔ پہلا فرمان، جو مومن کے لئے ارشاد ہوتا ہے، یہ ہے کہ اول چاہئے، کہ اس کا کھانا اور لباس پاک، حلال اور جائز ہو، اور ان چیزوں کا حلال ہونا اس بات سے ہے، کہ اول تجھے چاہئے، کہ ایمانداری سے اپنی تمام آمدنی اور منافع کو حساب کرے، اور اس کا دسواں حصہ، جو مالِ واجبات ہے، سچائی، درستی اور اخلاص سے امامِ زمان علیہ السلام کے دربار میں، جو دنیا و آخرت کے مالک ہیں، پہنچا دیا کرے، اور تو نہایت ہی کوشش کرے، کہ یہ پوری طرح سے ادا ہو جائے، اس مال سے ہر گز ہر گز نہ کھانا، کیونکہ اس فرض کی ادائیگی میں بہت سی حکمتیں اور بے شمار فیوض ہیں، اسی دسواں کے دینے سے تم بڑے درجے میں پہنچتے ہو اور اس کے نہ دینے سے گمراہی کی وادی میں رہ جاؤ گے، اور دسواں کے دینے سے عبادات قبول ہو جاتی ہیں، اور اس کے نہ دینے سے قبول نہیں ہوتی ہیں، یہ اس لئے کہ عبادت اس وقت مقبول ہو تی ہے، جبکہ غذائیں اور ملبوسات حلال، پاک اور جائز ہوں، وہ یہ کہ تو اپنے امامِ زمان علیہ السلام کو پہنچانے اور اپنے مال کا دسواں ٹھیک طرح سے دیدیا کرے، تبھی تیرا کھانا اور لباس حلال اور جائز ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد دوسری تمام عبادات مقبول ہو جاتی ہیں، اور اس کے علاوہ دوستی کا امتحان مال میں ہوا کرتا ہے نماز میں نہیں، نماز تو آسان ہی ہے، جسے ہر بیوہ عورت بھی پڑھ سکتی ہے، پس نماز پڑھنا
۹۷
عورتوں کا کام اور صفت ہے، اور مرد کی صفت و تعریف یہ ہے، کہ حقیقی معشوق کے لئے مال و جان دینے سے دریغ نہ کرے، پس نماز بیوہ عورتوں کا کام ہے، اور مال دینا مردوں کا کام ہے، چنانچہ فنا ہونے والی چیزوں کے لئے جب تک تو قیمت ادا نہ کرے، تو تجھے کوئی چیز نہیں دی جاتی ہے، پس باقی رہنے والی نعمتیں بلا قمیت کس طرح مفت دی جاسکتی ہیں، پھر مالِ (واجبات) کو مقدم کرو نہ نماز کو، یعنی اول مال دو اس کے بعد عبادت کرو، تاکہ قبول ہو جائے۔
۲۔ اس عمل کے بعد لوگوں کے مال کو اپنے مال میں ہر گز شامل نہ کرو، غنیمت کے قصد میں لوگوں کا مال نہ کھاؤ اور خیانت نہ کیا کرو، اپنے حلال و جائز حقوق سے مال حاصل کر لیا کرو، اور لوگوں کے مال سے ایک دھاگا بھی اپنے لباس میں شامل نہ کیا کرو، اور اپنے مال کو (کوئی حرام چیز ملا کر) ناجائز نہ کردو، اور دشمنی و سزا کے طور پر کسی سے کوئی چیز نہ لیا کرو، اور اپنے بدن کو، جو روح کا لباس ہے، باطنی نجاستوں سے پاک کئے رکھو، مثلاً تکبر، کینہ، عداوت، حسد، دنیوی محبت، شیطانی صفات اور مردم آزاری سے، کیونکہ یہ سب نجاستیں ہیں، اور یہ باطن کو نجس کر دیتی ہیں، ان سب سے بچنا اور دور رہنا دانشمند پر واجب ہے۔
۹۸
نافرمانی کا انجام
۱۔ دوسرا یہ کہ فرمانبرداری میں چست اور ہوشیار رہو، اور خدمت گزاری میں حاضر و قائم رہو، اور خداوند نے وعدہ فرمایا ہے، کہ جو شخص خدمت میں بے دریغ اور بے ریاہو، تو آخرت میں لاانتہا دولت کو پہنچےگا۔
۲۔ حضرت مولانا مستنصر باللہ (علیہ السلام)نے فرمایا: افسوس ہے ان لوگوں کے لئے ، جو نافرمانی اور کاہلی کرتے ہیں، اور جو کوئی فرمانبرداری کے معاملے میں ٹیڑھا ہو، تو ایسے اشخاص کے لئے سخت عذاب اور آتشِ دوزخ میں ٹھکانا ہے، وہ دردناک عذاب میں گرفتار، روسیاہ اور شرمسار ہوں گے، اور اس سب سے بڑی گھبراہٹ ؎۱ میں وہ گناہگار پیاس کی شدت سے پانی کے لئے روئے گا، اس وقت ’’ویل‘‘ ؎۲ کے کنویں سے، جو دوزخیوں کے میل اور پیپ سے بھرا ہوا ہے، مالکِ دوزخ اس گناہگار کو مشروبہ دے گا، جس کو ماء حمیم؎۳ یعنی گرم پانی کہتے ہیں، جو
؎۱: سب سے بڑی گھبراہٹ سے قیامت کی ہولناکی مراد ہے، اس مطلب کا قرآنی لفظ ’’الفزع الاکبر‘‘ ہے (۲۱: ۱۰۳)۔
؎۲۔ ویل کے معنی بربادی و ہلاکت ہیں۔
؎۳: اس مطلب کا اشارہ قرآن کی ان آیات کی طرف ہے:
( ۶: ۶۰، ۱۰: ۴، ۳۷: ۶۷ ، ۳۸: ۵۷، ۴۷: ۱۵، ۵۶: ۵۴، ۷۸: ۲۵)
۹۹
دوزخیوں کا میل، ذرداب اور خوناب ہے، جو دوزخ کی تپش سے ابلتا رہتا ہے، جس سے بدبو آتی ہے۔
۳۔ اس شخص کے لئے، جو امام کی فرمانبرداری نہ کرے، بہت سے عذاب ہیں اور اسے کوئی خوشی نہیں ملے گی، پس نافرمانی، تکبر اور غرور سے کنارہ کش ہوجاؤ، اور دیکھو کہ تکبر اور غرور کے سبب سے کیسی حقارتیں، مسخر گیاں، خواریاں اور مشقتیں عزازیل کے سر پر آگئیں، جو درگاہِ الٰہی کا معزز و مقرب فرشتہ تھا، اور تمام فرشتے اس کا احترام کرتے تھے، اور وہ خدا کی بندگی و عبادت میں مصروف رہتا تھا، اور گھڑی بھر کے لئے بھی بندگی سے غافل نہیں رہتا، اس اثنا میں لعنت کا ایک طوق معلق دیکھا گیا، اور خدا کی طرف سے فرشتوں کی ندا آئی، کہ اے فرشتو! یہ لعنت کا طوق اس شخص کے لئے ہے، جو فرمانِ الٰہی سے سرکشی کرے، اس کلام کے سنتے ہی تمام فرشتے کانپنے اور گریہ وزاری کرنے لگے، عزازیل نے ان سب کو تسلی دی، اور کہا، کہ تم میں سے جس کسی کو بھی (یہ طوقِ لعنت) آئے، تو میں اس کو نجات دلاؤں گا، وہ اپنی عبادت اور معرفت پر اس قدر مغرور تھا، کہ اپنے متعلق نافرمانی کا گمان ہی نہیں کرتا تھا، اور اس نے یہ نہیں سمجھا کہ ناشناس لوگ ہی غیر شعوری طور پر نافرمانی کرتے ہیں، یہاں تک کہ حضرتِ احدیت نے آدم ابوالبشر علیہ السلام کو پیدا کیا اور فرشتوں کو امر فرمایا کہ اس کو سجدہ کرو، تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے، جس نے سجدہ کرنے سے تکبر و انکار کر دیا، اور خدا وند نے فرمایا، کہ تو نے کیوں سجدہ نہیں کیا؟ عرض کی کہ تو نے فرمایا تھا، کہ میرے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرنا، نیز یہ بھی ہے کہ میں آدم علیہ السلام سے بہتر
۱۰۰
ہوں، کیونکہ وہ مٹی سے ہے اور میں آگ سے ہوں؎۱ ، پس تکبر و نافرمانی کی وجہ سے اس کے تمام اعمال اور عبادات برباد و ضائع ہو ئیں، اور پروردگارِ عالم کے استغنا و بے نیازی کی آگ میں جل کر نیست و نابود ہو گئیں، اور اس واقعہ کی بنیاد نافرمانی تھی، نافرمانی کی وجہ ناشناسی تھی (کسی عابد کی) وہ عبادت جو معرفت کے بغیر ہو، اس عابد کے لئے باعثِ جرمانہ ہے، اور اس کا کوئی خریدار نہیں، پس وہ عبادت، جو قبول ہو جاتی ہے، ایک ایسی عبادت ہے ، کہ جس میں تو دین کے مالک کو پہچانے اور اس کے فرمان کے بموجب عبادت کرے، اور جو کچھ امر ہو، تو اس کو کسی چون و چرا کے بغیر قبول کرے، کیونکہ معرفت کے بغیر عبادت غلطی و خطا کی ایک تقلید ہے، ہر چیز اور ہر شخص کی تقلید میں غلطی و خطا واقع ہوتی ہے، اور جو شخص تقلید میں رہے، تو وہ توحید میں نہیں پہنچتا ہے۔
۴۔ پس حقیقی مومن وہی ہے، جو اپنے امامِ وقت علیہ السلام کی پیروی کرے، اس کے امر کے لئے منتظر رہے، جو کچھ زمانے اور امر کے مالک علیہ السلام فرماتے ہیں، اسی کو سنے اور عمل کرے، اور اسے اپنا مالِ واجبات ٹھیک طرح سے دینا چاہئے۔ اور وہ ہر رات سوچے، کہ مجھ پر کچھ مالِ واجبات باقی بھی ہے یا میں نے سب دے کر ادا کر دیا ہے؟ اور اگر اس کو یاد آئے، کہ مالِ واجبات میں سے کچھ اس کے مال کے درمیان اور اس کے ذمے میں باقی ہے، تو وہ اسے فوراً ادا کردے، اور جبکہ تم اپنے مال کا دسواں دیتے ہو، تو شکر گزار رہو اور خوشیاں مناؤ، کہ تم کو توفیق دی گئی اور تم نے امام علیہ السلام کے حق کو امام علیہ السلام تک پہنچا دیا۔
؎۱: حضرت آدم اور ابلیس کا پورا قصہ قرآن مجید کی ان آیتوں میں ہے: ۔
(۲: ۳۵ تا ۳۶، ۷: ۱۱ تا ۲۵، ۱۵: ۲۸ تا ۴۲، ۱۷: ۶۱ تا ۶۵، ۱۸: ۵۰، ۲۰: ۱۱۵ تا ۱۲۳، ۳۸: ۷۱ تا ۸۵)
۱۰۱
آخرت پر یقین
۱۔ اے مومنو! دنیا کی بے اعتباری اور بے قدری کے بارے میں ذرا سوچو تو سہی، کہ یہ کسی کی دلی مراد کے لئے کافی نہیں ہوسکی، بلکہ اس نے تو اپنے طلبگار کو ناکام ہی بنا دیا ، تم چلو پھرو اور دیکھو، کہ روئے زمین پر کیسے کیسے اشخاص تھے، جو دنیا کے طلبگار ہوئے، اور انہوں نے جنگیں لڑیں آخر کارگذر گئے اور ختم ہوگئے، مگر انبیا و اولیا علہیم السلام میں سے کسی نے بھی اپنے آپ کو دنیا سے آلودہ نہیں کیا، اور (اس کے برعکس) ظاہری بادشا ہوں نے سرداری کی غرض سے کتنی کوششیں کیں، کیا کچھ نہیں کیا اور آخرکار کس قدر حسرت و افسوس کے ساتھ مرکر ختم ہوگئے، اور تمہارے آباواجداد بھی چل بسے، اب یہ تمہاری باری ہے۔
۲۔ اے مومنو! تم کیوں غم کے موقع پر بے غم بیٹھے ہو، اور دنیا کے درمیان خوابِ غفلت میں مدہوش اور آخرت سے بے خبر ہو گئے ہو، اور بے فکری و نادانی کی وجہ سے خیال نہیں کرتے ہو کہ بہت سے لوگ تن پروری اور جسم کی فربہی کے خیال میں لگے رہتے ہیں، وہ آخرت اور بڑے عذاب؎۱ سے بے خبر ہیں، اور (تم دیکھتے رہنا کہ یہ لوگ) آخر کار خود کو خوب موٹا اور چکنا کردیں گے، پس حقیقی مومن وہی ہے، جو آخرت کی
؎۱: بڑے عذاب کی قرآنی اصطلاح ’’العذاب الاکبر‘‘ ہے (۳۲: ۲۱ )
۱۰۲
فکر میں رہتا ہے، اور غم و غصہ (برداشت کر کر کے) لاغر اور کمزور ہو جاتا ہے، تاکہ اس کے گناہ بخش دیئے جائیں، اور (خیال رکھنا کہ ایمان کی) راہ میں بہت سے حملہ آور اور دشمن موجود ہیں، پس تمہیں چاہئے کہ شب و روز آخرت کی فکر میں رہو، جو شخص آخرت پر اعتقاد اور یقین رکھتا ہو، وہ کوئی گناہ نہیں کرتا، جس کا سبب یہ ہے کہ وہ قیامت کے متعلق کوئی شک نہیں رکھتا، اور جو لوگ بڑے اور چھوٹے گناہوں سے کنارہ کشی نہیں کرتے ہوں، تو اس کی وجہ یہ ہے، کہ قیامت کے بارے میں شک رکھتے ہیں، اور وہ گمان کرتے ہیں، کہ (مرنا اور زندہ ہو جانا درست نہیں، بلکہ) وہ نیست اور معدوم ہو جانے والے ہیں، وہ جانتے نہیں کہ آخرت سے آگاہی اور اس پر یقین امام علیہ السلام ہی کے قول سے حاصل ہو جاتا ہے، جبکہ کوئی شخص عبادت و ریاضتِ کاملہ اور اشیا ٔ کی حکمت و حقائق سے آگاہی کے ذریعہ امامِ وقت علیہ السلام تک رسا ہو چکا ہو۔
۳۔ علمائے ظاہر نے سدِ سکندر کی طرح شریعت کی ظاہریت اپنی سرداری کے لئے ایک دیوار بنا رکھی ہے، اور یہ بیچارہ عوام یا جوج و ماجوج ؎۲ کی طرح بجز خرابی اور بگاڑ کے اور سوائے شب و روز کھانے، سونے اور دنیوی محبت کے کچھ بھی نہیں جانتے ، یہ لوگ تقلید کی کمند میں بندھے ہوئے ہیں، اور موت کے وقت تک اس واقعہ سے بے خبر ہیں، کہ صرف تقلید کے طور پر آخرت کا اقرار کرتے ہیں۔
۴۔ اے مومنو! تحقیق سے جان لو، کہ تم خدا کے حضور سے اور عالمِ باطن سے، جو پاک اور آسمانی عالم ہے، اس عالمِ فانی میں، جو عالمِ خاکی کہلاتا
؎۲۔ یاجوج و ماج اور سدِ سکندر کا مختصر سا قصہ قرآن کے (۱۸: ۹۳ تا ۱۰۱) میں موجود ہے، نیز یاجوج و ما جوج اور قیامت کا ذکر قرآن کے (۲۱: ۹۴ تا ۹۷) میں ہے۔
۱۰۳
ہے، آگئے ہو، اور پھر خداوند تعالیٰ کی طرف واپس چلے جاؤ گے، پس کچھ کام کرو، تاکہ دوست کی طرف جاتے وقت خالی ہاتھ نہ ہو جاؤ، سرفراز ہو جاؤ، خجل و شرمسار نہ ہو جاؤ، پس دنیا کی حرص چھوڑ دو، اور آخرت کے کام کو مکمل کرلو۔
۵۔ جس وقت اللہ تعالیٰ پوچھے؎۱ گا، کہ میں نے دنیا میں تمہیں جو نعمتیں عطا کردی تھیں، تم نے انہیں کہاں کہاں صرف و خرچ کردیں؟ میری شناخت اور میری عبادت کے سلسلے میں، یا تم میری نعمت کھا کر میری مخلوق کو اذیت دینےمیں مصروف رہے، اور شیطان کی اطاعت میں لگے؟ اور میں نے تم کو آنکھ، عقل، ہوش اور اعضائے صحیح دیئے تھے، ان سے تم نے کیسے کیسے کام لئے؟ کیا تم نے ہاتھ مال (کما کر) میری راہ میں صرف کرنے کے لئے استعمال کیا، یا لوگوں کے مال اور عورتوں میں خیانت کرنے اور لوگوں کو مارنے کے لئے؟ کیا تمہارے کان حق بات سن لیا کرتے تھے یا باطل؟ کیا تمہاری زبان میرا ذکر کرتی رہتی تھی یا میرے بندوں کی غیبت؟ کیا تمہارا دل میری محبت میں تھا یا دنیا کی محبت میں؟ کیا تمہاری خواہش میری طرف تھی یا دنیا کی طرف؟ کیا تمہاری آنکھیں حق دیکھنے والی تھیں یا باطل؟ کیا تم نے اپنے لئے یہاں نیک بختی لائی ہے یا بدبختی؟ تم کو وہاں جواب دینا پڑے گا، اور کوئی چیز وہاں سود مند نہ ہوگی بجز پاک قلب ؎۲ کے پس دل کو دنیوی محبت سے پاک کرلو۔
؎۱: قیامت میں انسان کے اعمال کے متعلق سوال و پرسش ہونے کا ذکر قرآن مجید کی ان آیتوں میں ہے: (۱۶: ۹۳، ۱۷: ۳۶، ۲۱: ۱۳ ، ۲۱: ۲۳، ۳۷: ۲۴، ۱۰۲: ۸۔
؎۲: اس کا اشارہ قرآن کے ۲۶: ۸۸ تا ۸۹ کی طرف ہے۔
۱۰۴
روحانی ترقی کا راز
۱۔ اے مومنو! یحییٰ پیغمبر علیہ السلام کا قصہ سنو، کہ آپ دن رات رویا کرتے تھے اور آرام نہیں لیتے، ایک دن حق تعالیٰ کی طرف سے یحییٰ پیغمبر علیہ السلام پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوا، اور کہا، اے یحییٰ پیغمبر علیہ السلام ! پروردگارِ عالمین فرماتا ہے، کہ تو اس قدر کیوں روتا ہے، مجھے تجھ پر بہت رحم آرہا ہے، اگر تو بہشت کے لئے روتا ہے، تو میں نے وہ تجھے عنایت کر دی، اور اگر تو دوزخ کے خوف سے روتا ہے، تو میں نے وہ تجھ پر حرام کر دیا، یحیٰ پیغمبر علیہ السلام نے عرض کی، کہ میں نہ تو بہشت کے لئے روتا ہوں اور نہ ہی دوزخ کے خوف سے، بلکہ تیری ملاقات اور دیدار کے لئے گریہ وزاری کرتا ہوں، اس وقت پروردگارِ عالم نے فرمایا، کہ اگر تو میرے دیدار کے لئے گریہ و زاری کرتا ہے، تو اس سے بھی زیادہ گریہ وزاری کرتا رہ، تاکہ تو اپنی مراد کو پہنچے، جب تک تو اس دنیائے فانی میں ہے، تو اطمینان سے نہ بیٹھ اور بہت سی گریہ و زاری؎۱ کر۔
۲۔ اے مومنو! دیدار و جلوہ دیکھنا مشکل ترین کام ہے، لیکن تم مومنوں
؎۱: مذکورہ قسم کی گریہ وزاری کی فضیلت و حکمت ان قرآنی آیات میں بیان کی گئی ہے:
۶: ۴۲ تا ۴۳، ۶: ۶۳، ۷: ۵۵، ۷: ۲۰۵ تا ۲۰۶، ۹: ۸۲، ۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹، ۱۹: ۵۸، ۵۳: ۵۹ تا ۶۲
۱۰۵
کے لئے پیرِ حاضر نے دیدارِ الہٰی آسان کر دیا ہے، اے مومنو اس کی قدر دانی کرو، غافل نہ ہو اور اپنے حاضر علیٔ زمان علیہ السلام کو یاد کرو، تاکہ وہ تمہاری دستگیری کریں، اور ان کے نام کو اپنی جانی حفاظت کے لئے دل میں اور زبان پر جاری و ساری رکھا کرو، تاکہ بلاؤں سے خداوندِ زمان کے امن امان میں رہو گے۔
تمام شد پندیاتِ کوچک
۱۰۶
دوازدہ جوانمردی
(عالی ہمتی کے بارہ اصول)
۱۔ بارہ جوانمردی، جو حضرت صاحب الزمان مولانا شاہ مستنصر باللہ علیہ السلام نے اپنی مبارک زبان سے فرمائی ہیں، جو کچھ میں نے سن لیا تھا، اسے لکھ دیا، اور وہ یہ ہے، جو حضرت مولانا شاہ مستنصرباللہ نے فرمایا: ۔
۲۔ جو شخص اہلِ حقیقت ہو، اس کا قول و فعل حقیقی ہوتا ہے، اس کی توجہ ہماری طرف رہتی ہے، وہ دنیا ہی میں ہم کو (چشم)ِ معرفت سے دیکھتاہے، اور وہ آخرت میں بھی اپنے پروردگار کا دیدار و جلوہ دیکھے گا، اور حضرت مولانا مستنصر باللہ علیہ السلام نے فرمایا، کہ جو شخص مجھے دوست رکھتا ہو، تو اس کو چاہئے، کہ بارہ جوانمردی بجا لائیں، تاکہ عاقبت میں اسے فیوض و برکات حاصل ہوں اور اپنے دل کی مراد کو پہنچے۔
۱۰۷
دل کی پاکیزگی
۱۔ پہلی جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ اول (وہ شخص) اپنے امامِ وقت، جو دنیا و آخرت کے مالک ہیں، کی فرمانبرداری میں کوشان رہے، شاہ (یعنی امامِ زمان علیہ السلام ) کی دوستی میں ثابت قدم، مستحکم اور قائم رہے، حق تعالیٰ کے فرمان کو بجالائے، اس کا دل پاک و صاف ہو، تم بخیل اور تنگدل نہ ہونا، اور کینہ و عداوت کو اپنے دل میں نہ رکھنا، کیونکہ امامِ زمان علیہ السلام، جو قلم و لوح اور ظاہر و باطن کے مالک ہیں (تم کو) دیکھتے ہیں، پس تم کوئی ایسا کام کرو، کہ جس سے تمہارے دلوں میں نقصان دہ باتیں اور فاسد خیالات جاگزین نہ ہوں، تم اپنے دل کو شیطان کا گھر نہ بناؤ، بلکہ اپنے قلب کو حقیقی علم کے پانی سے (دھو کر) پاک کرلو، تاکہ یہ رحمان کی جگہ ہوسکے، اور جس دل میں رحم ہو، وہ رحمان کی جگہ ہے، اور بے رحم و سیاہ دل شیطان کا ٹھکانا اور جنات کا مقام ہے۔
۱۰۸
دسواں حصہ
۱۔ دوسری جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ تو اس کام اور فعل میں، کہ جس سے حق تعالیٰ راضی ہو، مشغول رہا کرے، خدا کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرے، اور جو کچھ تیری آمدنی ہو، اس کا دسواں، جو مالِ واجبات ہے، اپنے مال سے نکالے، اور اپنے مولا کی درگاہ میں، جو مرتضیٰ علی علیہ السلام اور دنیا و آخرت کے مالک ہیں، بلاکم و کاست پہنچادے، انتہائی سچے عشق و محبت سے اور شگفتہ رو ہو کر خوشی سے، اس لئے کہ دسواں کا مال تمہارے مولا کے حضورِ انور میں پہنچا اور قبول ہوا ہے، اس وقت (تیری آمدنی کے) وہ باقی نو حصے تجھ پر حلال ہوتے ہیں، اور تجھے فیض و برکت ملے گی، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
۲۔ اگر تو مالِ واجبات نہ دے، تو یہ ایک ایسے شخص کی مثال ہوگی، جو (اپنے کھیت میں ہل تو چلا دیتا ہے مگر) تخم ریزی نہیں کرتا، اور اگر تو اپنا مالِ واجبات دوسرے شخص کو دیتا ہے، تاکہ وہ پہنچا دے، اور وہ شخص مولا علیہ السلام کے حضور میں نہ پہنچا دیتا ہو، تو اس کی مثال ایسے بیجوں کی طرح ہے، جو تو دہقان کو دیتا ہے، وہ ان بیجوں کو کھا لیتا ہے اور کھیت میں تخم ریزی نہیں کرتا، اس وقت دہقان اور زمین کا مالک دونوں خالی ہاتھ رہیں گے (یعنی ان کو زمین سے کوئی حصول نہیں ملے گا۔
۳۔ پس لازم اور واجب ہے، کہ تو مالِ واجبات کو فوراً مکمل طور پر
۱۰۹
اور سچائی سے امامِ وقت علیہ السلام کے دربار میں پہنچائے، اور اگر (کوئی شخص) دہ یک (دسواں) کو، جو مالِ واجبات ہے، اپنے مال سے نہ نکالے، تو یہ ایک ایسے گوسفند کی مثال ہے، جس کو ذبح کر کے خون نہ بہایا جائے، اور حرام، مردار ار ناپاک کر کے کھا لیا جائے، پس اگر تو نے دسواں دیا، تو وہ باقی ماندہ نوحصے تیرے لئے حلال ہوتے ہیں، اور اگر تو نے نہیں دیا تو وہ دہ یک (۱: ۱۰) آگ بن کر ان دوسرے نو حصوں کو جلا ڈالتا ہے، اور خیروبرکت اور سلامتی تجھ سے اور تیرے مال سے چلی جاتی ہے، اور دس حصوں میں سے ایک حصہ خداوند کا مال ہے، اور حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، کہ ہمیشہ بندوں کو یہ بتا دیا جائے، کہ وہ غافل نہ ہو جائیں، اور ہمیشہ حساب کر کے دہ یک کو، جو خداوند کا مال ہے، اداکریں، تاکہ وہ حلال کھانے والے رہیں اور یہ دہ یک کا اصول حضرت شاہ مردان مرتضیٰ ( علیہ السلام )نے مقرر فرمایا ہے، چنانچہ مولانا علی علیہ السلام نے اہلِ حقیقت کے لئے ارشاد فرمایا، کہ جو شخص اہلِ حقیقت میں سے ہو اور میرے دیدار کی آرزو رکھتا ہو، تو وہ اپنے مال کا دسواں ، جو میرا حق ہے، مجھے پہنچا دیا کرے، تاکہ وہ (میرا روحانی) دیدار کر سکے، اہلِ شریعت اس حکم اور اس رمز سے بےخبر ہیں، پس ہر زمانے میں جس شخص کو امامِ زمان کا راستہ مل جائے، تو اس پر واجب ہے، کہ اپنے مال کا دسواں، جو امامِ وقت کا حق ہے، پہنچا دیا کرے، اور امام کے فرمان کے بموجب اپنے مال و جان کو قربان کر دے۔
۴۔ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، کہ میرے بندے مجھے جس قدر اور جو کچھ دیا کریں، تو میں جو کہ پروردگار ہوں، ایک کےعوض میں انہیں لاکھ دوں گا، اور اپنا دیدار ان کو عطا کروں گا، اور ان کو آسمانوں میں محلات، مقامات، سیاحتیں، نظارے اور خوبصورت مکانات دیدوںگا، اور جو شخص اس دنیا سے گزر جاتا ہے، وہ دراصل (غیر شعوری طور پر پلِ ) صراط سے گزرا ہوا ہوتا
۱۱۰
ہے، جو شخص حق تعالیٰ کے لئے کام کرتا ہو، وہ فی الواقع اپنے لئے کام کرتا ہے، اور جو شخص اپنے لئے کام کرتا ہو، تو وہ درحقیقت بے کار ہے، اور اس کی کوئی عزت نہیں، کیونکہ لوگوں کی خودی اور ان کی ہر چیز کا مالک خدا ہے، اگر (بندے نے) دہ یک دیدیا، تو وہ نو حصے جو باقی رہتے ہیں، اس پر حلال ہوتے ہیں، اور اگر اس نے دسواں نہیں دیا، تو اس کا تمام مال اس کے لئے حرام ہے۔
۵۔ حقیقت کے تمام امور پوشیدہ اسرار کی حیثیت سے ہیں، جو پیغمبر علیہ السلام نے وحدت شناس مومنوں کے لئے معراج سے بطورِ تحفہ لائے ہیں، یہ مطالب ان ہزار اسرارِ نا گفتنی میں سے ہیں، جن کے متعلق حق تعالیٰ نے رسول علیہ السلام سے فرمایا، کہ آپ ہمارے ان اسرار کو نا اہلوں پر ظاہر نہ کریں، اور یہ وہ نصیحتیں ہیں، جو پیغمبر علیہ السلام نے اہلِ حقیقت کے لئے معراج سے لائی ہیں، اور ان نصیحتوں کو، جو اہلِ شریعت کےلئے ہزار گفتنی باتوں میں سے تھیں، سارے لوگ سمجھ گئے، لیکن مومنِ موحد کے سوا حقیقت کے ان اقوال سے کوئی شخص واقف نہیں، پیغمبرعلیہ السلام نے (یہ اسرار) مومنین کے حوالے کردیئے، اور تاکید فرمائی کہ انہیں نااہلوں سے پوشیدہ رکھو، جس طرح میں نے ان کو پوشید ہ رکھا اور یہ بھی انہیں پوشیدہ باتوں میں سے ہیں، جو فرمایا، کہ حقیقی مجلس میں شامل ہو جایا کرو، اور یہ دینِ حقیقت خدا وندتعالیٰ نے پاک سیرت لوگوں کے لئے مقرر فرمایا ہے، جس شخص کو اس دین کی توفیق دی گئی ہے، اسے ضرور چاہئے، کہ اس کی قدردانی کرے، اور تم پیرکا دامن پکڑے رہو، اور تمہیں صاحبِ دین کے امر پر قائم رہناچاہئے۔
۱۱۱
تسلیم و رضا
۱۔ تیسری جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ قضاو قدر؎۱ کے مالک کے حکم میں رضا و تسلیم ہونی چاہئے، اور حق تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ پیش آئے، اس پر تمہیں راضی ہونا چاہئے، جس کام سے حق تعالیٰ راضی ہوتا ہے، بندہ بھی اس میں راضی ہو، اور جس چیز سے خدا راضی نہیں، تو بندہ بھی اس میں راضی نہ ہو، اور امامِ حاضر علیہ السلام کی فرمانبرداری میں رہے، اور اپنے دل کو امام علیہ السلام کے عشق میں زندہ کر دے، تاکہ وہ دونوں جہان میں زندۂ جاوید ہو سکے۔
؎۱: قضافعلست در فطرت قدر منطق بامرحق
خرد عرشست درحکمت معانی و حی و کرسی آن
وضاحت: ’’قضا و قدر‘‘ کے معنی فعل و قول ہیں، جو حق تعالیٰ کے امر کے بموجب فطرت میں جاری ہے، ’’عرش‘‘ حکمت میں عقل و دانش کو کہتے ہیں اور ’’وحی‘‘ معنی و حقیقت کو، جو اس عرش کی کرسی ہے۔
دیوان ِ اشعار، ص: ۳۵۶
از حکیم پیر ناصر خسرو (ق س)
۱۱۲
حق دیکھنے والی آنکھ
۱۔ چوتھی جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ بندے کو چاہئے کہ وہ ہر جگہ خدا کو دیکھے (یعنی اس کو حاضر و ناظر جانے) اور کسی کی بھی برائی نہ کرے، جو لوگ کسی چیز کی یا کسی شخص کی برائی کرتے ہوں، تو اس کا سبب یہ ہےکہ وہ پردے میں ہیں، ان پر جہالت چھا گئی ہے ، اور حقیقتِ اشیا ٔ سے بے خبر ہیں، پس اے حقیقت شعار مومنو! خدا کو ہر جگہ حاضر و موجود جانو، خدا کی مخلوق کو اچھی سمجھو اور جن چیزوں کو دیکھتے ہو، ان سب کو اچھی نظر سے دیکھا کرو، اپنے آپ میں حق دیکھنے والی آنکھ پیدا کرو اور باطل دیکھنے والے نہ ہو جاؤ، دل میں اپنے خداوند کی تعریف و توصیف کرتے رہو، اور تم پر جو کچھ واقعہ گزرتا ہے، وہ اگر اچھا ہے، تو خدا کی طرف سے ہے، جو تمہاری عقل کی روشنی سے (پیدا کیا گیا) ہے، اور اگر واقعہ برا ہے، تو یہ تمہارے نفس کی تاریکیوں ؎۱ سے ہے، چنانچہ جو تکلیف تم پر آتی ہے، وہ قضا و قدر سے سمجھو، جس میں تمہارے برے اعمال کی سزا اور بلاؤں سے بچاؤ ہے، تاکہ (فیصلہ اور سزا و جزا کا یہ معاملہ) آخرت تک نہ آگے بڑھے، اور تم اپنے دل کو پاک کر رکھو، اور خدائے مہربان سے محبت کئے رہو،
؎۱: جو بھلائی تمہیں پہنچی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور جو تکلیف پہنچی وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے (القرآن ۴: ۷۹)
۱۱۳
تاکہ وہ تم کو دوست رکھے، اور ہمیشہ دل میں اپنے امام کی محبت رکھو، تاکہ تمہار دل حق تعالیٰ کے نور سے روشن ہو۔
۱۱۴
نعمت اور اس کا زوال
۱ ۔ پانچویں جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ تم دنیوی فائدے سے شادمان نہ ہوجاؤ، نہ ہی اس کے نقصان سے غمگین ہو جاؤ، بلکہ تمہارا دل ایک حال پر قائم رہنا چاہئے، اگر تمہیں کوئی تکلیف پیش آئے، تو شکر کرنا، کیونکہ یہ مصیبت تمہاری خطا کے بدلے میں ہے اور تمہاری گناہ کا کفارہ ہے، اور یہ خداوند تعالیٰ کی جانب سے اس کے بندوں پر اتری ہوئی نہیں، بدی خود بندے ہی کی طرف سے ہے، اور خدا تعالیٰ جب کوئی نعمت عطا کردے، تو وہ اس کو تغیر اور زائل نہیں کرتا، تغیر اور زوال بندے کی وجہ سے ہے، پس جو شخص راہِ حق میں گامزن ہوا، تو اس نے امام کی شناخت کو، جو عظیم ترین نعمت ہے، حاصل کرسکا ہے، تمہیں اس کی قدر دانی کرنی چاہئے، تاکہ تم کو نہ ہرا دیا جائے، اور جو بھی راحت یا مصیبت آتی ہو، تم اس میں صبر و سکون سے کام لیتے ہوئے حقیقی دوست کا طلبگار رہو، دنیا کی بھلائی اور برائی کو پیشِ نظر نہ رکھو، جب خداوند تعالیٰ تمام بندوں کے حال سے باخبر ہے، تو جو کچھ تیرے اخروی کام کی صلاح و بہبود ہو وہ تجھے عطا کر دیتا ہے، کچھ اس طرح کہ تو (آخرت میں) راضی ہو جائے۔
۱۱۵
خدا کی خوشنودی
۱۔ چھٹی جوانمردی یہ ہے، کہ اگر تم حق تعالیٰ کے طلبگار ہو، تو بزرگوں کے طلبگار رہو، کیونکہ خد ااپنے برگزیدہ بندوں کے پاک دل میں موجود ہے، تم کسی کے بھی دل کہ نہ دکھاؤ، کسی کی بھی دل شکنی نہ کرو، اور کسی کو بھی رنجیدہ اور دل آزردہ نہ کرو، کیونکہ مومن کا دل خدا کا گھر ہے، اور نادان (اس حقیقت سے) بے خبر ہے، اگر تم چاہتے ہو، کہ اپنی طرف سے خدا کو خوش اور راضی کر سکو، تو تم اپنی طرف سے مومن کو خوش اور راضی کر دو، کیونکہ مومن کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے، اگر مومن کو کسی شخص سے کوئی تکلیف پہنچتی ہو، تو خداتعالیٰ اس شخص سے راضی نہیں، حق تعالیٰ اس ظالم سے کس طرح اور کب راضی ہے، جس نے بندۂ مومن کو تکلیف دی ہو، پس جہاں تک تم سے ہوسکے، مومن کو اپنی طرف سے خوش کر دینا، تاکہ تمہیں فیوض و برکات ملیں۔
۱۱۶
دینی و اخلاقی مائیں اور بہنیں
۱۔ ساتویں جوانمردی یہ ہے، کہ تم بیگانہ عورتوں کو اپنی بہنیں سمجھ لینا، اور اگر کوئی بیگانہ عورت تیرے پاس آجائے، تو تیری حالت و کیفیت ہر گز دگر گون نہ ہو، تو ایسا خیال کرنا ( جیسا ) کہ تیری ماں اور بہن تیرے پاس آئی ہے، اور اگر کوئی شخص تیرے پاس کسی عورت کا نام لیتا ہے اور کچھ کہتا ہے، تو تیرا دل برے خیال کی طرف مائل نہ ہو اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آئے، اور اگر کسی بیابان میں یا کسی ایسے مکان میں، جہاں کوئی بھی نہ ہو، تو نے کسی بیگانہ عورت کو دیکھا، تو ہر گز برا خیال مت کرنا، ہر چند کہ وہاں کوئی بھی نہیں، لیکن خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے، پس تو یوں سمجھ لے کہ یہ تیری ماں یا بہن ہے، اور اپنے دل کو پاک اور وسوسوں سے خالی رکھ، ایسی صورت میں تجھ پر خدا کی مہربانی و عنایت نازل ہوتی ہے، اور تیرا دل حق تعالیٰ کی وحی (اترنے) کا مقام بن جاتا ہے۔
۱۱۷
غیبت کی بدبو
۱۔ آٹھویں جوانمردی یہ ہے، کہ تمام گناہوں سے کنارا کشی کی جائے، اور کسی کی غیبت نہ کی جائے، خصوصاً مومن کی (غیبت نہ کی جائے) جو شخص مومن کی غیبت کرتا ہے، وہ (گویا) میت کا گوشت کھاتا ؎ ۱ ہے، اور جو کوئی غیبت کرتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے تو اس کے گھورا ؎۲ جیسے منہ سے ایک قسم کی بد بو نکلتی رہتی ہے، جس سے فرشتوں کو تکلیف پہنچتی ہے، اور اس بدبو سے شیطان کے دل کو قوت ملتی ہے، اور آخرت میں ایک ایسی حالت میں اس کا حشر ہوتاہے، کہ اس کے منہ سے بد بو اور گندگی ظاہر ہوتی ہے، سب لوگ اس سے پرہیز کرتے اور اپنے قریب نہیں آنے دیتے، اور وہ اپنے منہ کی بدبوئی اور گندگی کے باعث اپنے آپ سے بیزار ہو جاتا ہے، جب کبھی کوئی شخص کسی کی غیبت کرتا ہے، تو وہ یہ گمان کرتا ہے، کہ (فلان شخص ) برا آدمی ہے، حالانکہ تمام لوگوں کے باطن کو صرف خدا ہی جانتا ہے، اور اگر ( جس کی غیبت کی گئی) وہ اپنے باطن میں اچھا آدمی ہو، تو اس صورت میں ( غیبت کرنے والنے سے دو گناہ سرزد ہوتے ہیں) کہ اس
۱؎: قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ: اور (اے مومنین!)تم میں سے کوئی ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرے، کیا تم میں سے کوئی اسے پسند کرتا ہے، کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے، پس تم اس سے (ضرور) نفرت کرو گے ۳۹: ۱۲۔
۲؎۔ گھورا۔ وہ جگہ جہاں کوڑا کرکٹ اور گندگی و غلاظت پھینکی جاتی ہے۔
۱۱۸
نے تہمت بھی کی اور غیبت بھی، پھر اس پر افسوس ہے، پس تجھے مومن کے حق میں اچھی بات کہنی چاہئے، اور اس کو اپنی طرف سے راضی کر دے، جس قدر بھی تو اپنے دل کی حفاظت اور صبر کرے، اس قدر تو آخر کا رشادمان ہو جائےگا، اس وقت آخرت میں تجھے معلوم ہوگا، کہ جس کام کے متعلق دنیا میں تیرا یہ خیال تھا، کہ اگر وہ کام بن جاتا یا اگر تو اسے کر سکتا، تو تیرے حق میں اچھا ہوتا ( مگر اس کے برعکس آخرت میں تو کہے گا کہ) اچھا ہوا جو فلان کام نہیں بنا اور میں نہیں کر سکا (پس سمجھ لے) کہ خدا تعالیٰ تیری صلاح و بہبود کو تجھ سے بہتر جانتا ہے، تجھے اپنے دل سے فضول اور بیہودہ خیالات کو نکال دینا چاہئے۔
۱۱۹
روزۂ باطن
نویں جوانمردی یہ ہے، کہ تم سال بھر روزہ دار رہا کرو، جس طرح اہلِ ظاہر ایک ماہ کے لئے روزہ رکھتے ہیں، روزہ سے ریاضت مراد ہے (پس اپنے آپ کی ) نگرانی کرتے رہو، اپنے آپ کو بری صفات ، برے افعال، نازیبا حرکات اور شیطنت سے بچائے رکھو، تاکہ رفتہ رفتہ آئینۂ دل کو پاک و صاف کرسکو، دوسرا یہ جان لو، کہ ان تیس دنوں میں، جن میں اہلِ ظاہر روزہ رکھا کرتے ہیں، روزہ (دراصل) ایک روز کا ہے ( جس میں شبِ قدر پوشیدہ ہے) لوگ اسی ایک دن کے لئے تیس دنوں کا روزہ رکھتے ہیں، تاکہ وہ اس دن کو پاسکے، اور وہ (دن یعنی شبِ قدر) بھی ایک رمز و اشارہ ؎۱ ہے جس طرح لوگ اسی ایک روز کو پانے کے لئے تیس روز روزہ رکھتے ہیں، تمہیں چاہئے کہ دیدارِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے عمر بھر زحمتیں اور تکلیفیں اٹھائیں، صبرو ریاضت کریں اور اپنے باطن کو زندگی بھر روزے میں رکھیں۔
۲۔ اما باطنی ؎۲ روزے کی تفصیل یہ ہے، کہ سرکا روزہ یہ ہے کہ اپنے سر کو لوگوں کا پاؤں شمار کرنا ہے، اور اپنے سر سے سرداری، بڑائی اور تکبر کی تمنا و
؎۱: شبِ قدر کا رمزو اشارہ اور تاویل کے لئے دیکھئے: وجہ دین حصہ اول ص: ۲۰۲، نیز حصہ دوم ص: ۱۱۰۔
؎۲: روزہ کے باطن اور تاویل کے لئے دیکھیں: وجہ دین حصۂ دوم ص: ۹۵ تا ۱۱۰۔
۱۲۰
خواہش نکال دینی ہے، کیونکہ سرداری اور بڑائی حق تعالیٰ کی ذاتِ کبریا کے لئے شایان ہے، اس لئے کہ خدا قائم اور بادشاہی کا مالک ہے، آنکھ کا روزہ یہ ہے، کہ بیگانہ عورت کی طرف بدنظری نہ کی جائے، کان کا روزہ یہ ہے، کہ کان کو غیبت سننے سے محفوظ رکھا جائے، زبان کا روزہ یہ ہے، کہ زبان کو فحش اور غیبت سے روک لی جائے، دل کا روزہ یہ ہے، کہ دل کو شکوک و شبہات سے بچالیا جائے، پاؤں کا روزہ یہ ہے، کہ پاؤں کو ناجائز جگہ جانے سے روک لیا جائے اور ہاتھ کا روزہ یہ ہے، کہ اس کو خیانت سے باز رکھا جائے، مومن اپنے تمام اعضا کو روزے میں رکھے، تاکہ ظالم نہ ہو، خصوصاً زبان کو جھوٹ بولنے سے، اور اس سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں، کہ امام کے بارے میں منکر ہیں اور انہوں نے دنیا کے دوروزہ اقتدار کی خاطر نادان لوگوں کو اپنا تابع بنا لیا ہے۔
۱۲۱
حقیقی عشق کی حکمت
۱۔ دسویں جوانمردی یہ ہے، کہ تم پرہیزگار رہو، گناہوں سے توبہ کر لیا کرو، اور کسی چیز پر اعتماد و فخر نہ کیا کرو، مگر اپنے امام کے کرم پر (بھروسہ اور فخر کرو) کیونکہ تمام اشیا ٔ ان کے امر سے قائم ہیں، دوسری سب چیزیں فنا و ہلاک ہو جاتی ہیں، بجز امام کے، جو باقی، حی اور قائم ہیں، پس تجھے امام ملنے کے باوجود کسی چیز کا طلبگار رہنا اور دنیا پر مغرور ہونا انتہائی نادانی ہے، تو دنیا میں جس چیز کے ساتھ مانوس ہوتا ہے، آخر کار موت تجھے ناکام کر کے اس سے جدا کر دیتی ہے، پس تو لازمی طور پر کسی ایسی ہستی کی محبت اختیار کر لے، جو دنیا و آخرت میں تیرے ساتھ ہو، اس کو کوئی زوال نہ ہو، وہ تجھے سب سے زیادہ نزدیک ہو، وہ تجھے تیری خودی سے بھی زیادہ نزدیک ہو، اور وہ تجھ پر سب سے زیادہ مہربان ہو، وہ تیرے امامِ وقت ہی ہیں، پس ان سے ذرا بھی غافل نہ ہوجا۔
۱۲۲
کون سی شے باعثِ فخر ہے؟
۱۔ گیارہویں جوانمردی یہ ہے، کہ اگر تم کو امام کی راہ مل گئی ہے، اور ان کی بندگی و عشق میں مصروف رہتے ہو، تو فخر و خوشی کرو، ورنہ دنیا کی کسی چیز پر فخر نہ کرنا، کیونکہ آخر کار ہر چیز کا زوال ہو جاتا ہے، اور (یہ واقعہ) تمہارے لئے باعثِ تکلیف ہوگا۔
۱۲۳
طہارتِ باطن
۱۔ بارہویں جوانمردی کا مطلب یہ ہے، کہ مومن کو اپنا ظاہر و باطن پاک و صاف رکھنا چاہئے، وہ اپنے لباس، جسم اور دل کو پاک رکھے، تاکہ اس کے ساتھ فرشتے رہ سکیں، کیونکہ اگر اس کا ظاہر و باطن ناپاک و نجس ہو، اور وہ خود کو پاک نہ رکھے، تو اس کے ہمراہ اور ہم خواب جنات و شیاطین ہوتے ہیں، اور اس کے دل میں بھوت اور شیاطین رہنے لگتے ہیں، پس تمہیں باطہارت رہنا چاہئے۔
۲۔ جس طرح اہلِ ظاہرظاہری عبادت کے لئے اپنے ظاہر کی طہارت اور وضو کرتے ہیں، اسی طرح اہلِ حقیقت کو چاہئے، کہ وہ باطنی طہارت اور حقیقی وضو کو جان لیا کریں اور بجالائیں؎۱، امام کی فرمانبرداری میں سر جھکانا سر کی طہارت و پاکیزگی ہے، امامِ وقت کو بیعت کا ہاتھ دینا ہاتھ کی طہارت و پاکیزگی ہے، امام کی راہ اور اس کی فرمانبرداری میں چلنا پاؤں کی طہارت و پاکیزگی ہے، امام کی محبت میں دل کو قائم رکھنا دل کی طہارت و پاکیزگی ہے امام کے ذکر میں زبان کو ہمہ وقت رکھنا زبان کی طہارت و پاکیزگی ہے، امام کی باتوں کو سن لینا کان کی طہارت و پاکیزگی ہے، اور امامِ وقت کا دیدار کر لینا آنکھ کی
؎۱: طہارت کے باطن یا تاویل کے متعلق مزید معلومات کے لئے دیکھئے ’’وجہ دین حصۂ اول‘‘ از صفحہ ۱۴۳ تا ۱۶۵۔ نیز ’’ تاویل الدعائم‘‘ عربی صفحہ ۷۲ تا ۱۳۳۔
۱۲۴
طہارت و پاکیزگی ہے۔
۳۔ جو شخص امام کے فرمان و کلام کا مطیع ہو، تو اس کے اعضا پاک ہو جاتے ہیں، اور جس کو امام تک راستہ گیا اور اپنے آپ کو ان کے امر کے حوالے کر دیا، تو اس کی جان پاک ہو جاتی ہے، اور اس کی روح پاک ہو جاتی ہے، اور جو شخص امام سے بے خبر ہو، اور منکر ہو، اور مام کی امامت کا قائل نہ ہو، یا ان سردار کی امامت میں شک کرے، تو اس کی مثال ایک ایسے فردِ بشر کی طرح ہے، جو ہمیشہ جنب یا ہمیشہ حیض سے خالی نہ ہو، پس خدا کی پناہ میں رہو، ان منکرین سے، جنہوں نے شریعت کو اسی ظاہری طہارت میں محدود کر رکھی ہے اور باطنی طہارت و پاکیزگی سے بے خبر ہیں حالانکہ انہیں ظاہر کی طرح باطن میں بھی پاک ہونا چاہئے۔
۴۔ عالی ہمتی کے بارہ اصول تمام ہوگئے، پس جو شخص ان صفات کا حامل ہو، تو وہ شاہِ دین کا خاص بندہ اور درگاہ کا حقیقی مومن ہے، اور یہ وہ اسرار ہیں، جو پیغمبر نے حقیقی مومنوں کے لئے معراج سے لائے ہیں، جو ( رسول کے فرمان کے بموجب) شاہ اولیا علی المرتضیٰ نے ( یہ اسرار ظاہر) فرمائے ہیں، کہ اپنے وقت کے امامِ حاضر کو، جو حاضر جامہ ہیں، پہچان لیا کرو، جس شخص نے اپنے امامِ وقت کو پہچان لیا، تو وہی وحدت شناس مومن ہے۔
۱۲۵
ہستی اور نیستی کے درمیان
۱۔ اے بھائیو! مولانا شاہ مستنصر باللہ (علیہ السلام) امامِ حاضر فرماتے ہیں، کہ جو کوئی دنیا میں اپنے آپ کو کوئی شخص خیال کرتا ہو یا ہست شمار کرتا ہو، تو وہ نیست ہو جائے گا، اور وہ ہستی سے بے بہرہ ہے، انسان کو نہ تو ہست کہا جاسکتا ہے، نہ ہی نیست، وہ نہ نور ہے، اور نہ تاریکی، اگر امام نے، جو صاحبِ ولایت ہیں، اس کی دستگیری کی، تو وہ ہست اور نور قرار دیا جاسکتا ہے، اور اگر وہ امام سے منکر ہو، اور اپنے امامِ زمانہ کو بیعت کا ہاتھ نہ دے، تو وہ نیست اور ظلمت ہو جائےگا۔
۲۔ اے مومنو! حضرت مولانا صاحب الزمان امام شاہ مستنصر باللہ فرماتے ہیں، کہ جس شخص نے دنیا میں ہماری راہ کی ہدایت حاصل کی ہو، اور اسی سبب سے دشمنوں سے تکلیف پاتا ہو، محنت کرتا ہو، اور ہماری محبت میں صاف دل پرتپاک ہو، تو اسے آخرت میں امن و آسائش ملے گی، اور اپنے پروردگار کے پاک دیدار میں مسرت و شادمانی سے رہے گا۔
۳۔ اے مومنو! حضرت مولانا شاہ مستنصر باللہ فرماتے ہیں، کہ جو شخص دنیا میں اہلِ حق کی مجلس میں بیٹھ کر علمِ دین حاصل کرے، تو اس بندے پر میری نظرِ رحمت ہوتی ہے، اور مرنے کے بعد اس کی جان سلامتی و عافیت سے حق تعالیٰ کے ساتھ مل جاتی ہے۔
۱۲۶
روحانی دیدار کی شرائط
۱۔ اے مومنو! حضرت مولانا امام شاہ مستنصر باللہ فرماتے ہیں، کہ حقیقی مومن وہی ہے، جو بے کینہ اور صاف دل ہو، جو شخص دنیا و آخرت میں ہمارا دیدار دیکھنا چاہے، تو اس کو چاہئے کہ ہر قسم کے عیب، مخالفت اور برائی سے اپنے آپ کو بچائے رکھے، یہاں تک کہ دل پوری طرح سے پاک و صاف ہو، اوراپنے پروردگار کو دنیا ہی میں دیکھ سکے، اس وقت وہ آخرت میں بھی خدا کو دیکھ سکے گا، مومن پر واجب و لازم ہے، کہ وہ اپنے پروردگار کو، جو دنیا میں ظاہر ہے اور بشری صورت میں ہے، پہچان لیا اور دیکھا کرے، تاکہ آخرت میں بھی دیدار کر سکے۔
۲۔ حضرت امامِ حاضر مولانا شاہ مستنصر باللہ فرماتے ہیں، کہ بری صفات سے دور رہو، کیونکہ تم نے یہاں جس چیز کو صفت و عادت اختیار کر لی ہو (مرنے کے بعد) تم اسی چیز کی صورت میں اٹھائے جاؤگے۔
تمام ہوئی کتاب ’’ پندیاتِ جوانمردی‘‘ جو ایک قدیم نسخے سے نقل کی گئی۔ جس کے شروع اور اخیر کی چند سطور فرسودہ ہو چکی تھیں، بلتت ہونزہ میں تحریر ہوئی ۱۹۳۵۔
الحمد للہ کہ ’’پندیاتِ جوانمردی‘‘ کا یہ اردو ترجمہ بروز یک شنبہ ۱۵ شوال ۱۳۸۸ھ بمطابق ۵ جنوری ۱۹۶۹ء مکمل ہوا۔
المترجم بندۂ حقیر پرتو شاہ (المعروف نصیر الدین نصیر ہونزائی)
۱۲۷
خلیفۂ خدا کی صفاتِ کمالیہ
حقائق و معارف کو آسان طریقے پر سمجھانے کے لئے سوالات اور ان کے جوابات: ۔
سوال ۱: خلیفہ کے کیا معنی ہیں؟
جواب: خلیفہ کسی منصب دار کے قائم مقام، نائب مناب اور جانشین کو کہتے ہیں۔
سوال ۲: یہ لفظ عام ہے کہ خاص؟
جواب: یہ لفظ عام بھی ہے اور خاص بھی۔
سوال ۳: لفظ خلیفہ جو خاص ہے، وہ قرآن مجید میں کن حضرات کے لئے استعمال ہوا ہے؟
جواب: ظاہراً یہ لفظ حضرت آدم اور حضرت داؤد علیہماالسلام کے بارے میں استعمال ہوا ہے۔
سوال ۴: حضرت آدم اور حضرت داؤد کس کے خلیفے یا جانشین تھے؟
جواب: اللہ تبارک و تعالیٰ کے، جو خود ہر چیز اور ہر صفت سے بے نیاز ہے۔
سوال ۵: وہ دونوں حضرات یہ خلافت کہاں کہاں کرتے تھے؟
جواب: آفاق اور انفس میں، یعنی کائنات اور نفوسِ خلائق میں۔
سوال ۶: وہ برگزیدہ شخص جو آفاق اور انفس میں خدا کا جانشین ہو سکے،
۱۲۸
کن اوصاف کی بنا ٔ پر لوگوں سے ممتاز اور مخصوص ہو جاتا ہے؟
جواب: اس کے چند اوصاف یہ ہیں، کہ وہ علمِ لدنی کا حامل ہوتا ہے، جو ہر چیز پر حاوی ہے، اور علمِ لدنی کا سرچشمہ خدا کا وہ نور ہے، جو خدا کے خلیفہ میں ہوتا ہے، جس کا دوسرا نام خدا کی روح ہے، چنانچہ یہ قصہ مشہور ہے، کہ باری تعالیٰ نے حضرت آدم کے دونوں کانوں میں اپنی روح پھونک دی ، یعنی خدا نے ابو البشر کے باطن میں وہ روح ڈالی، جو عام انسانوں کی ارواح سے انتہائی بلند درجے پر ہے، اور وہ ازلیت و ابدیت کا زندہ نور ہے۔
سوال ۷: خلافتِ الٰہیہ کا دوسرا نا م کیا ہے؟
جواب: خلافتِ الٰہیہ کا دوسرا نام نبوت یا امامت ہے۔
سوال ۸: حضرت آدم نبی تھا یا کہ امام؟
جواب: حضرت آدم نبوت و امامت دونوں مرتبوں کا مرکز تھا، اور اس نے ناطقیت کے درجے پر پہنچ کر اپنے بیٹے حضرت شیث پر امامت کی نص کر دی۔
سوال ۹: اگر ایک وقت میں چند پیغمبر موجود ہوں، اور امام ِزمان تو ہر وقت حاضر اور موجود ہے، تو ان سب میں سے خدا کا خلیفہ کون ہوگا؟
جواب: خلافتِ الٰہیہ دینِ حق کی ظاہری و باطنی پوری تنظیم کا نام ہے، تاہم اس میں خلافت کا ظاہری مرکز وہ پیغمبر ہوتا ہے، جس پر ظاہری تبلیغ کی ذمہ داری عائد ہوئی ہو۔
سوال ۱۰: فرشتوں نے جو خدا کے امر سے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا ، اس میں کیا حکمت پوشیدہ تھی، حالانکہ سجدہ خدا ہی کے لئے مخصوص ہے؟
جواب: سجدہ میں مخلوق کے انتہائی عجز و نیاز اور خدا کی انتہائی تعظیم ہے،
۱۲۹
اور یہ عبادت کے آداب میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، پس خدا کے امر سے فرشتوں نے جو آدم کو سجدہ کیا، اور ابلیس نے جو اس سے انکار کیا، اور جس طرح نتیجے کے طور پر فرشتوں کا علمِ حقیقت ملا، اور جیسے ابلیس راندہ ہوا، ان تمام واقعات میں یہ حکمت پوشیدہ ہے، کہ جو شخص صاحبِ خلافتِ الٰہیہ کی فرمانبرداری کرے، تو اس کو وہی علم ملے گا، جو فرشتوں کو ملا تھا، اور جو خلیفۂ خدا کی فرمانبرداری سے روگردان ہو جائے، تو اس کا وہی حشر ہوگا، جو کچھ ابلیس کا ہوا تھا۔
سوال ۱۱: کیا یہ خلافتِ الٰہیہ روئے زمین پر ہمیشہ کے لئے ضروری ہے، یا یہ کہ ایک ہنگامی ضرورت ہے؟
جواب: جب تک دنیا میں لوگ باقی ہیں، تب تک خلافتِ الٰہیہ اور اس کی ضرورت و اہمیت بھی باقی ہے۔
سوال ۱۲: آپ کے اس بیان کے بموجب آدم خدا کا خلیفہ اس لئے ہوا، کہ اس میں خدا نے اپنی روح پھونک دی، اور فرشتوں نے خدا کے امر سے اس کو سجدہ کیا، نیز اس کے اور داؤد کے خلیفہ ہونے کا بیان قرآن میں موجود ہے، لیکن ہم کس طرح سمجھ سکیں ، کہ ان دونوں حضرت کے علاوہ بھی دنیا میں خدا کے خلیفے مقرر ہوئے ہیں؟
جواب: خدائے تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’ انّی جاعِلٌ فی الارضِ خلیفہ۔یعنی میں روئے زمین پر (اپنا) ایک جانشین مقرر کرہا ہوں‘‘ تو اس ارشاد میں روئے زمین سے سیارۂ زمین مراد نہیں، بلکہ زمین کے تمام باشندے مراد ہیں، کیونکہ خلافتِ الٰہیہ کی ضرورت و اہمیت کا تعلق زمین کے باشندوں سے ہے، نہ
۱۳۰
کہ سیارۂ زمین سے، پس اس دائمی ضرورت کے پیشِ نظر خدا نے ہمیشہ کے لئے لوگوں کے درمیان اپنا خلیفہ مقرر کر دیا ہے، جب یہ ثابت ہوا، کہ لوگوں کے لئے خلافتِ الٰہیہ کی ضروت ہے، تو لازماً یہ خلافت اس وقت تک باقی ہونا چاہئے، جب تک دنیا میں لوگ باقی ہیں، اور آدم میں جو ربانی روح پھونک دی گئی تھی، وہ ایک ایسے پاک سلسلے میں تا قیامت باقی اور جاری ہے، جو آدم، نوح، ابراہیم اور ابوطالب کی ذریات میں قیامت تک چل رہا ہے۔
سوال ۱۳: کیا اس کا مطلب یہ ہوا، کہ بموجبِ آیۂ اصطفا ٔ خدا نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران (ابوطالب) کو دنیا والوں پر برگزیدہ کیا ہے؟
جواب: بے شک آیۂ اصطفا ٔ میں لفظ ’’عالمین‘‘ سے دنیا کے تمام لوگ مراد ہیں، جو آدم کے زمانے سے لےکر قیامت تک پائے جاتے ہیں، اور ان کی برگزیدگی نبوت و امامت کا اختصاص ہے۔
سوال ۱۴: خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسول میں کیا فرق ہے؟
جواب: خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسول میں ظاہراً فرق ہے اور باطناً کوئی فرق نہیں، پس ظاہر میں جو فرق ہے وہ یہ ہے، کہ خلیفۂ خدا رسول کا نام ہے، جو صاحبِ تنزیل ہے، اور خلیفۂ رسول امامِ زمان ہے، جو صاحبِ تاویل ہے، اور باطن میں جو فرق نہیں، اس کی حقیقت یہ ہے، کہ جب امامِ زمان خلیفۂ رسول ہے، تو وہ بحقیقت خلیفۂ خدا ہے، کیونکہ یہ خلافت تو دراصل خدا ہی کی ہے۔
سوال ۱۵: خلیفۂ خدا یعنی امام ِ زمان کی صفاتِ کمالیہ کیا ہیں ؟
۱۳۱
جواب: امامِ زمان کی صفاتِ کمالیہ میں سے چند یہ ہیں، کہ اس کی وہی روح ہے، جو خدا نے آدم میں پھونک دی تھی، یعنی وہ نورِ الٰہی کے اوصاف سے موصوف ہے، اس کا وہی مرتبہ ہے، جو فرشتوں کے مسجود میں ہونا چاہئے، اس میں وہی علمِ لدنی ہے، جس کے لئے فرشتے محتاج ہیں، اور اس کی وہی عظمت و جلالت ہے، کہ اگر کوئی فرشتہ خدا کے فرمانے پر اس کو سجدہ نہ کرے تو بارگاہِ رب العزت سے راندہ ہوجائے، بلکہ اس کی صفات ان صفات سے بھی بڑھ کر ہیں، جس کا سبب حسبِ ذیل ہے: ۔
ہر چند کہ خدا کا نور لم یزل و لایزال ہے، اور اس کے نقصان و کمال کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، کیونکہ خدا کا نور ہمیشہ ایک حال پر ہے، تاہم یہ نور جس مقصد کے لئے دنیا میں آیا ہے، اس مقصد کے بتدریج پورا ہوجانے کے اعتبار سے ، یہ کہنا غلط نہیں کہ نور اب اپنے اوصاف میں درجۂ کمال کو پہنچا ہے، اور اس میں پہلے سے کہیں زیادہ معجزات پوشیدہ ہیں، اور یہ محض خدا کی ایک مصلحت ہے، کہ جوں جوں زمانہ ترقی کرتا ہے، اور انسانیت کی تکمیل ہوتی جاتی ہے، توں توں انسانِ کامل میں خدا کا وہ نور زیادہ سے زیادہ روشن ہوتا جاتا ہے، چنانچہ ’’و اللہ مُتِم نُورہ‘‘ کے یہی معنی ہیں، یعنی خدا اپنے نور کو آہستہ آہستہ درجۂ کمال تک پہنچا دیتا ہے۔
(از نصیر الدین نصیر ہونزائی)
۱۳۲