علم چشمۂ شیرین
ان لوگوں کی بہت بڑی ازلی سعادت ہے، جو علم کے چشمۂ شیرین کی لذت کے دلدادہ ہیں، وہ اس آبِ زلال سے عالمِ شخصی کے ہر ملک و شہر اور ہر باغ و چمن کی آبادی وشادابی دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ علم ہی کے پانی سے ہر چیز زندہ ہوسکتی ہے(۲۱: ۳۰) پس ایسی سعادت محترمہ کلثوم ناتھانی اور ان کی فیملی کو بہت بہت مبارک ہو۔
آمین!! ثم آمین!!!
ابتدائیہ
بِسمِ اللہِ الرَّحمنِ الرَّحِیمِ
الحَمدُ للّہِ رَبِّ العَالَمِین وَالعَاقبتہ لِلمُتقِینَ وَالصَلواة وَ السلام
عَلیٰ رسُولہ وَ عَلیٰ آلہ الطاھِرِینَ۔
اہلِ دانش کے سامنے یہ حقیقت روزِ روشن
کی طرح آشکار اور واضح ہے کہ متعلقہ علم کے سارے مضامین دین شناسی اور امام شناسی
میں سموئے ہوئے ہیں، اس لیے دین اور امام کی شناخت اسماعیلیت میں نہایت ہی ضروری
امر ہے، جس کے بغیر کسی اسماعیلی کو حقیقی سکون نہیں مل سکتا۔
علم و معرفت ہی سے مسائل حل ہوجاتے ہیں،
شکوک و شبہات کا ازالہ ہوجاتا ہے، ایمان کی روشنی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جان و
دل کو تسکین ملتی ہے، اس سے مومن میں اولوالعزمی اور عالی ہمتی جیسی صفات پیدا
ہوجاتی ہیں غرض آنکہ علم و معرفت میں سب کچھ ہے۔
سوال کب پیدا ہوتا ہے؟ اس وقت جبکہ تعارف
نہ ہو یعنی جبکہ مذہب کی شناخت نہ ہو، جبکہ علم نہ ہو اور جبکہ لٹریچر نہ ملے،
سوال اُس وقت اُٹھتا ہے جبکہ دینی علم کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔
۱
خیر بہر حال اگر کوئی سوال پیدا ہوتا ہے
تو اس کے لیے جواب بھی مہیا کیا جاسکتا ہے، ایسا نہیں کہ سوال ہو اور جواب نہ ہو،
لیکن جو کچھ بھی ہو حق و صداقت پر مبنی ہونا چاہیے، ورنہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ
ہوگا۔
چنانچہ اس کتابچہ میں آٹھ ایسے سوالات کا
جواب دیا گیا ہے جو ہمارے سٹوڈنٹ میں سے ایک نے پیش کیے تھے، جہاں اس کام کے لیے
ہم پر اعتماد کیا گیا تو وہاں یہ ہمارا فرض ہوتا ہے کہ متوقع خدمت کی انجام دہی کے
لیے کوشان رہیں اور اللہ تعالیٰ سے توفیق و یاری چاہیں۔
میرے عقیدے میں اسماعیلیت کی حقانیت میں
کسی بھی سوال کا جواب دینا مشکل نہیں بہت ہی آسان ہے، چنانچہ اگر لاکھوں سوالات
ہوں تو بھی کوئی مشکل نہیں، کیونکہ ہم یہ ثابت کرکے دکھا سکتے ہیں کہ اسماعیلی
مذہب سے متعلق جتنے بھی سوالات اُٹھتے ہیں، وہ سب باہم مل کر ایک بہت بڑے درخت کی
صورت اختیار کرلیتے ہیں، اس لیے ہم درخت کے تنا پر بحث کرکے ساری باتوں کو سمجھا
سکتے ہیں اور بڑی بڑی شاخوں کے بارے میں گفتگو کرکے تمام سوالات کا جواب بتا سکتے
ہیں کہ اسماعیلی مذہب اور امامِ زمان حق ہے، یعنی سمجھنے والوں کے لیے صرف یہی
بنیادی سوال کافی ہے جو پوچھنا چاہیے کہ امام کے حق ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ کیونکہ
متعلقہ تمام سوالات اِسی بڑے سوال کے تحت آتے ہیں، لیکن عوام الناس اس ترتیب کو
کہاں ملحوظِ نظر رکھتے ہیں، وہ پوچھتے ہیں جو بھی دل میں آئے، جو بھی چاہیں۔
کوئی شک نہیں کہ اسماعیلیوں کو ہمیشہ
اپنے امامِ برحقؑ کی طرف دیکھنا چاہیے کہ امام کا منشاء کیا ہے یا ان کی واضح
ہدایت کیا ہے، اور اسی اصُول کو قائم رکھتے ہوئے دینی علم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
۲
جاننا چاہیے کہ سوال کا جواب یا تو
بلاواسطہ دیا جاتا ہے یا بالواسطہ بہر حال جواب دینا ضروری ہوتا ہے، ورنہ جماعت کے
بعض حلقوں میں بددلی پھیل جاتی ہے اور خاص کر نئی نسل کا عقیدہ متاثر ہو جاتا ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق شاملِ حال رہی تو آئندہ بھی ہماری یہی کوشش جاری
رہے گی، اور کسی نہ کسی طریقے سے شکوک و شبہات کو دُور کردینے کی کوشش کی جائے گی۔
فقط جماعت کا علمی خادم
نصیرالدین نصیر ہونزائی
۳
Blank Page
آٹھ سوال
سوال نمبر ۱: جماعت خانے میں بعض دفعہ لڑکیاں کیوں
دُعا پڑھاتی ہیں، جبکہ شریعت میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی؟ صفحہ نمبر۷۔
سوال نمبر۲: مختلف مجالس کے عنوانات سے اور جدا جدا
مواقع پر جماعت خانے کے اندر جماعت سے کیوں پیسے لیے جاتے ہیں، کیونکہ وہ خدا کا
گھر ہے، جہاں صرف عبادت ہونی چاہیے؟ صفحہ نمبر ۱۰۔
سوال نمبر۳: جماعت خانے میں جب کبھی کوئی دوسرا مسلم
بھائی آنا چاہے، تو اسے کیوں نہ آنے دینا چاہیے؟ صفحہ نمبر۱۱۔
سوال نمبر۴: تمہارا شاہ کریم کس طرح امامِ برحق ثابت
ہوسکتے ہیں، جبکہ وہ یورپ میں مغربی طرزِ زندگی گزارتے ہیں؟ صفحہ نمبر۱۳۔
سوال نمبر۵: تمہاری زکات شرعی زکات سے کیوں مختلف ہے؟
اور وہ براہِ راست غُرباء و مساکین میں کیوں تقسیم نہیں ہوتی؟ صفحہ نمبر ۱۷۔
۵
سوال نمبر۶: تمہاری مذہبی رسومات کس حد تک درست اور
صحیح ہیں؟ خصوصاً ناندی کے بارے میں بتاؤ؟ صفحہ نمبر ۲۲۔
سوال نمبر۷: اسماعیلی جماعت میں صلاة پر کس حد تک عمل
ہوتا ہے؟ اور ان کے نزدیک صلاة کے کیا معنی ہیں؟ صفحہ نمبر۲۵۔
سوال نمبر۸: پوچھا گیا ہے کہ جماعت خانہ میں مرد و
عورت ایک ساتھ کیوں عبادت کرتے ہیں؟ صفحہ نمبر ۳۰۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : یہ سوالات ماہ دسمبر ۱۹۷۶ء میں ایک اسماعیلی سٹوڈنٹ نے پیش کئے
تھے۔
علامہ نصیرالدین نصیر ہونزائی
۲۴ ، دسمبر ۱۹۷۶ء
آپ کے آٹھ سوال
لڑکیوں کا دعا پڑھانا:
سوال نمبر ۱: جماعت خانہ میں بعض دفعہ لڑکیاں کیوں
دُعا پڑھاتی ہیں، جبکہ شریعت میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی؟
جواب (الف) : اسلام صراطِ مستقیم ہے یعنی
راہِ راست، جو اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کے لیے مقرر ہے، جب دینِ حق اس مثال میں
ایک راستے کے مشابہ ہے تو اس کی کچھ منزلیں بھی ہیں، جو کہ شریعت، طریقت، حقیقت
اور معرفت کہلاتی ہیں، چنانچہ جماعت خانہ اور اس کے آداب و رسومات اسی راہِ اسلام
پر چل کر آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی ایک زندہ مثال ہیں جس طرح کہ تصوف اسلام کے
ارتقاء کا ایک بین ثبوت ہے، اور ظاہر ہے کہ صوفیوں کے مسلک میں ہزاروں ایسی چیزیں
ہیں جو کہ شریعت میں نہیں ہیں، اور وہ چیزیں شریعت میں کیونکرہوسکتی ہیں، جبکہ وہ
طریقت کی چیزیں ہیں، اسی طرح جماعت خانہ کی چیزیں یعنی وہاں کے آداب و رسومات
حقیقت کی ہیں، لہٰذا ان کو کسی اور معیار سے پرکھنا سراسر غلطی اور لا علمی کا
ثبوت ہے۔
۷
جواب (ب) : نیز یہ کہ اگر مقامِ شریعت پر
عورت شرعی نماز مردوں کو نہیں پڑھا سکتی ہے، تو اس کی وجہ ظاہر میں کچھ بھی نہیں
سوائے اس کی تاویل کے، اس کے برعکس جماعت خانہ میں جو عبادت و بندگی ادا کی جاتی
ہے، اس کی کوئی تاویل نہیں بلکہ وہ خود تاویل ہے، لہٰذا یہاں عورت دُعا پڑھا سکتی
ہے۔
اگر پوچھا جائے کہ عورت کی امامت شرعی
نماز میں جائز نہ ہونے کی کیا تاویل ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دین میں حضرت
پیغمبرﷺ مرد کے درجے پر ہیں، اور تمام افرادِ امت عورت کے مقام پر ہیں، نیز امامِ
عالی مقامؑ مرد ہیں اور مرید سب کے سب عورت ہیں، اسی طرح معلم مرد اور متعلم عورت
ہے، پس اگر کوئی عورت نمازِ شریعت میں پیشوائی کرے تو اس کی تاویل یہ بتلانے لگے
گی کہ (نعوذباللہ) رسولﷺ امت ہوکر پیچھے آئیں اور امت پیغمبر بن کر آگے بڑھیں،
امامؑ مریدی اختیار کریں اور مرید امام بن جائیں نیز معلم شاگرد بن کررہے اور
شاگرد اپنے استاد کے لیے استادی کرے، سو یہ تاویل ناممکن بات کی ترجمانی کرتی ہے،
اسی لیے نمازِ شرعی میں مردوں کی امامت عورت نہیں کرسکتی ہے۔ مگر مقامِ حقیقت میں
ایسی کوئی تاویل نہیں۔
جواب (ج) : اسلام دراصل نام ہے قرآن اور
معلمِ قرا ٓن کی تعلیمات و ہدایات کا، اور اِن تعلیمات و ہدایات کے مختلف مدارج کو
عملاً طے کرنا صراطِ مستقیم پر چلنا اور منزل بمنزل آگے بڑھنا ہے، پھر اِسی معنی
میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں، کہ اسلام اپنے مراتبِ علم و عمل کے اعتبار سے ایک
ایسی یونیورسٹی کی طرح ہے، جس کے تحت تعلیم کے بہت سے مدارج آتے ہوں، اب اِس مثال
سے ظاہر ہے کہ دینِ اسلام کے اِن تمام علمی اور
۸
عملی درجات کے لیے الگ الگ معیار مقرر
ہیں، اِسی لیے میں کہتا ہوں کہ اسماعیلیت کی رسومات کو غیر اسماعیلیت کی کسوٹی پر
پرکھنا ہرگز درست نہیں ہوسکتا۔
جواب (د) : اگر اسلام صراطِ مستقیم ہے تو
ماننا ہی پڑیگا کہ مسلم فرقے یا جماعتیں یکے بعد دیگرے اس طرح سے ہیں، جیسے کسی
رستے کی مختلف منزلوں پر پھیلے ہُوئے مسافر، اگر دینِ حق اللہ تعالیٰ کی رسی ہے
اور وہ خدا اور اس کے بندوں کے درمیان واقع ہے، تو اس میں بھی انکو درجہ وار اور
سلسلہ وار پکڑنے کی جگہ ہے، جہاں خدا کی معرفت کی بلندیوں کی طرف عروج کر جانے کی
مثال سیڑھیوں سے دی گئی ہے، (۷۰: ۳ تا ۴) وہاں اہلِ مذاہب الگ الگ زینوں پر ہیں، جس اعتبار سے دینِ
مبین ایک عظیم یونیورسٹی کی طرح ہے، اُس اعتبار سے اس کے ماننے والے علم و عمل کے
مختلف درجات پر ہیں اور جس وجہ سے دین فطرت کی تشبیہہ انسانی تخلیق اور زندگی کے
مختلف مراحل سے دی گئی ہے، اسی وجہ سے لوگ ایسے درجہ وار ہیں، جیسے انسانی خلقت اور
عمر کے جدا جدا مراحل ہوا کرتے ہیں، یعنی کچھ لوگ اس بچے کی طرح ہیں جو ماں کے پیٹ
میں ہوتا ہے، کچھ نومولود بچے کی طرح، کچھ طفلِ شیر خوار کے مانند، بعض طفلِ مکتب
جیسے، بعضے نوجوان کی طرح، کچھ تیس سال کے مکمل جوان کی طرح، کچھ چالیس سال والے
کی طرح اور کچھ اس سے بھی بڑی عمر والے کی طرح، اور یہ مثال اس لئے ہے کہ اسلام
دینِ فطرت ہے، اور اسے ایک انسان کی طرح رفتہ رفتہ درجۂ کمال کو پہنچنا ہے، اور
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہُوا، کہ اسلام کی تعلیمات درجہ وار ہیں اور اس کی
ہدایات بھی تدریجی صورت میں ہیں، پس کسی کا کسی پر اعتراض کرنا اسلامی تعلیمات کے
مدارج سے نابلد ہونے کی وجہ سے ہے۔
۹
جماعت خانہ میں مالی قربانی:
سوال نمبر۲: مختلف مجالس کے عنوانات سے اور جدا جدا
مواقع پر جماعت خانے کے اندر جماعت سے کیوں پیسے لیے جاتے ہیں، کیونکہ وہ خدا کا
گھر ہے، جہاں صرف عبادت ہونی چاہیے؟
جواب (الف) : جماعت خانہ ہو یا کہ مسجد
اسمیں دنیاوی قسم کی تجارت وغیرہ جائز نہیں، مگر زکوٰة ، صدقہ اور ہر قسم کی مالی
قربانی کے علاوہ اور بھی بہت سے نیک کام ایسے ہیں جن کو خدا ہی کے گھر میں انجام
دینے میں زیادہ ثواب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ: وَاِذجَعَلنَا
البَیتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمناً (۲: ۱۲۵
اے رسولﷺ) وہ وقت بھی یاد
دلاﺅجب ہم نے خانۂ کعبہ لوگوں کے ثواب اور پناہ کی جگہ قرار دی ۔ اس سے صاف طور
پر ظاہر ہے کہ خدا کا گھر مثابہ ہے یعنی ہر قسم کے ثواب کی جگہ اور خدا کا گھر سب
سے پہلے خانۂ کعبہ ہے اور اس کے بعد مسجد اور جماعت خانہ خدا کا گھر ہے، پھر جب
ثواب کا مرکز خدا ہی کا گھر ہے توبہت سے نیک کام وہاں کیوں نہ انجام دئیے جائیں۔
جبکہ یہ کام خدا ہی کے ہیں، تو خدا ہی کے گھر میں ہونے چاہئیں، جبکہ یہ عبادات میں
سے ہیں، جبکہ یہ مالی قربانیاں اور اعمالِ صالحہ ہیں، تو یہ خدا کے گھر میں سب کے
سامنے کیوں نہ ہوں تا کہ نیکی کرنے والے کو سب کی دعائیں حاصل ہوں، ساتھ ہی ساتھ
یہ ایک عملی تعلیم بھی ہے تاکہ جماعت کے افراد اسے دیکھ کر اپنے اندر ایسی مالی
قربانیوں کا جذبہ پیدا کرسکیں، اور یہی سبب ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عہدِ مبارک میں اکثر
مالی قربانیاں مسجد ہی میں لی جاتی تھیں۔
۱۰
جماعت خانہ اور غیر اسماعیلی:
سوال نمبر۳: جماعت خانے میں جب کبھی کوئی دُوسرا مسلم
بھائی آنا چاہے، تو اسے کیوں نہ آنے دینا چاہیے؟
جواب (الف) : اس کے جواب کے لیے آپ
دیکھیں میرے ایک مقالے میں جو اسلام کی بنیادی حقیقتیں“ کے عنوان سے ہے، جو
کتاب ”پنج مقالہ نمبر۱“ میں چھپ کر آنے
والا ہے، نیز یہ ہے کہ ایسا کوئی بھائی جب آئے تو کیاوہ جماعت خانہ میں آنے کے
تمام شرائط اور آداب و رسومات کو بالکل اسی طرح قبول کرے گا جس طرح کہ ایک
اسماعیلی کرتا ہے؟اور اگر یہ بات نہیں ہوسکتی ہے، تو اس کے جماعت خانہ آنے میں
کوئی فائدہ نہیں، لہٰذا اس کا نہ آنا ہی بہتر ہے۔
جواب (ب) : دینِ اسلام میں کچھ مقدس
عمارتیں سب مسلمانوں کے درمیان مشترک ہیں، اور کچھ عمارتیں مخصوص ہیں، جو مقاماتِ
مقدسہ مشترک ہیں، اُن میں سب سے پہلے خانۂ کعبہ ہے، پھر مسجد ہے کیونکہ وہ اُس
وقت سے ہے جس میں کہ سب مسلمان ایک تھے، تاہم بعض جگہوں میں مسجدیں بھی الگ الگ
جماعتوں کے لیے یا جدا جدا نظریات کی بناء پر مخصوص ہوجاتی ہیں، اسی طرح بلکہ اس
سے کہیں زیادہ سختی کے ساتھ خانقاہ، امام باڑہ اور جماعت خانہ مخصوص ہیں، جن کی
حرمت صرف وہی لوگ بجا لاسکتے ہیں جو بنیادی طور پر عقیدةً ان سے منسلک ہیں، اور
دوسرے کسی کی ان میں کوئی شرکت نہیں۔
۱۱
جواب (ج) : مسجد کے معنی ہیں جائے سجدہ،
محلِ عبادت اس لیے یہ لفظ گویا سب مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہاں جائیں اور
اللہ تعالیٰ کے لیے سر جھکائیں اور عبادت کریں، مگر لفظِ جماعت خانہ میں عبادت کا
مفہوم و مطلب ظاہر نہیں بلکہ پوشیدہ رکھا گیا ہے، کیونکہ یہ جماعت خانہ (خانۂ
جماعت) یعنی جماعت کا گھرہے، جو سب کے لیے نہیں صرف ایک ہی جماعت کے لیے ہے، جس
طرح خانقاہ کے معنی میں یہی فلسفہ پایا جاتا ہے کہ خانقاہ مُعَرب ہے خانگاہ (خانہ
گاہ) کا اور خانگاہ کے معنی ہیں صوفیوں اور درویشوں کے رہنے کی جگہ، جس میں عبادت
کا مفہوم پوشیدہ رکھا گیا ہے، اور اگر وہ چاہتے تو بڑی آسانی سے اس مطلب کے لیے
کوئی ایسا نام منتخب کرتے جس سے کہ فوراً ہی عبادت و بندگی کے معنی ظاہر ہوجائیں،
مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، کیونکہ وہاں تو اسلام کی تعلیمات کسی پیرِ
طریقت کے مخصوص نظریات و تشریحات کے مطابق دینی تھیں، اور اس میں عبادت و بندگی
اور ریاضت اپنی نوعیت کی کرنی تھی، اور وہ خانقاہ بھی صرف اسی پیر یا شیخ کے
مریدوں کے واسطے مقرر تھی، سو یہی مثال جماعت خانہ کی بھی ہے، اور جماعت خانہ شروع
شروع میں تھا ہی خانقاہ، جس طرح صوفیوں کے تذکرے میں ملتا ہے کہ ”خواجہ بختیار
کاکی کا جماعت خانہ“ پھر اس کے بعد جماعت خانہ اسماعیلیت میں اپنایا گیا، یہ
تاریخی واقعہ اس امر کی ایک روشن دلیل ہے کہ شریعت کے باطن سے طریقت پیدا ہوتی ہے
اور طریقت کے باطن سے حقیقت اور ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعت خانہ
صرف امام حاضر ہی کے مریدوں کے لیے مخصوص ہے۔
۱۲
امام کی جائے سکونت:
سوال نمبر۴: تمہارا شاہ کریم کس طرح امامِ برحق ثابت
ہوسکتے ہیں، جبکہ وہ یورپ میں مغربی طرزِ زندگی گزارتے ہیں؟
جواب (الف) : یہی تو آپ کا بنیادی سوال
ہونا چاہیے تاکہ ایک ہی جواب سے ثبوت یا عدمِ ثبوت ظاہر ہو کر ساری بحث ہی ختم
ہوجائے گی، کیونکہ اگر امام ثابت ہوگئے تو کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ امام کو
امام تسلیم کرتے ہوئے بھی اُن پر اعتراض اٹھائے، اور اگر امام ثا بت نہیں ہوئے تو
پھر آپ مزید سوالات کی زحمت کیوں اٹھائیں کہ بحث ہی ختم ہوگئی، مگر یہاں سوالات
دہرائے گئے ہیں، بہر حال آپ کا سوال کچھ اس طرح سے ہے کہ اگر ہم نے یہ ثابت کردیا
کہ یورپ میں امام کی رہائش جائز اور روا ہے تو آپ شاہ کریم الحُسینی کو امام برحق
مانیں گے، سوال کا مطلب یہی ہے نا؟
جواب ( ب) : اگر آپ کے نزدیک مغربی طرزِ
زندگی غیر اسلامی ہے، جس کی وجہ سے آپ نے یہ سوال اٹھایا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ
اُس حکمِ قرآنی کو بھی ظاہر کرنا تھا جس کی روشنی میں آپ نے یہ پوچھنا مناسب سمجھا
ہے، اور اب بھی آپ سے یہی سوال ہے کہ آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت موجود ہے
جس میں عصرِ حاضر کے اسلامی معاشرہ اور اس کے لوازم کی کوئی متعین شکل پیش کی گئی
ہو؟ وہ اگر نہیں تو کیا کوئی قرآن سے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ زمانہ نبوت میں مسلمان
جن گھروں یا خیموں میں رہتے تھے، جس قسم کی غذائیں کھایا کرتے تھے، جو لباس وہ
پہنتے تھے اور جیسے معاشرے میں زندگی گزارتے تھے
۱۳
اب بھی بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے؟ ظاہر
ہے کہ ایسی بات کا قرآن سے ثابت ہوجانا تو درکنار اسے عقلِ سلیم بھی قبول نہیں
کرتی ہے۔
جواب(ج): آپ کے سوال کے پس منظر میں کوئی
خاص منطق نہیں سوائے اس کے کہ عہدِ نبوت کے مسلمانوں کی جو مادی حالت تھی، اسی پر
آپ کا قیاس ٹھہرا ہوا ہے، حالانکہ وہ دینِ حق کا آغاز ہی تھا، اور پورے دور میں
اسلام کی جو معاشی اور معاشرتی ترقی ہونے والی تھی وہ سب صرف ۲۳ سال کے عرصے میں کس طرح ہوسکتی تھی،
الغرض آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ظہورِ اسلام کے وقت عرب کی جو مالی حالت تھی، وہی
دنیائے اسلام میں اب بھی ہونی چاہیے، مگر افسوس ہے کہ آپ کے اس خیال کی مخالفت سب
سے پہلے عرب کے مسلمان کررہے ہیں کیونکہ آج ان کی مادی حالت پہلے سے بہت بہتر
ہوگئی ہے، اور ویسے بھی آپ کا خیال ہے بڑا خطرناک، کیونکہ آپ نہیں چاہتے ہیں کہ
مسلمانوں کی دنیاوی اور مادی ترقی ہو، یہاں تک کہ فی الوقت عالمِ اسلام میں جو
شہنشاہ، بادشاہ، حاکم، لیڈر، سربراہ، امیر اور ترقی یافتہ لوگ ہیں وہ بھی آپ
کے اس اعتراض سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں اور نہ اس سے آئندہ ترقی کی
کوئی امید باقی رہتی ہے، اس لیے چلئے ہم قرآنِ مقدس کو پیشِ نظر رکھتے ہیں کہ اس
بارے میں کیا حکم ہے: سورہ اعراف (۷) کی آیت نمبر ۳۲ میں ارشاد فرمایا گیا ہے: قُل مَن حَرَّمَ زِینَةَ اللّہِ
الَّتِیَ اَخرَجَ لِعِبَادِہِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزقِ قُل ہِی
لِلَّذِینَ آمَنُوافِیالحَیَاةِ الدُّنیَا خَالِصَةً یَومَ القِیَامَة
ترجمہ: آپ فرمائیے کہ کس نے حرام کیا
اللہ کی زینت کو جو اُس نے پیدا کی ہے اپنے بندوں کے واسطے اور رزق میں سے پاک
چیزیں تو کہہ دیجئے کہ
۱۴
یہ نعمتیں اصل میں ایمان والوں کے واسطے
ہیں دنیا کی زندگی میں خالص انہی کے واسطے ہیں دورِ قیامت میں۔ اس قرآنی حکم سے یہ
حقیقت صاف طور پر روشن ہوئی کہ آپ کا سوال بے بنیاد ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی
ہوئی زینت اور رزق و روزی کی پاک چیزیں اس کے بندوں کے لیے ہیں اور دورِ قیامت میں
یہ چیزیں مومنین کے لیے بطور خاص ہوں گی، پس یہ حقیقت پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ
حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی امام برحق ہیں کہ وہ اپنے طرزِ زندگی کے ذریعے سے اس
بات کی خوشخبری دے رہے ہیں کہ عنقریب اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ بندگانِ خاص کے لیے
پورا ہونے والا ہے، جس کا ذکر آیہ مذکورہ بالا میں ہے۔
جواب (د): شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ
علیہ امام برحق ہیں، اور اس عظیم الشان امر کے ثبوت میں ہمارے پاس ہزاروں ایسے
دلائل موجود ہیں، جن سے کوئی بھی حقیقت پسند انسان انکار نہیں کرسکتا، آپ اسماعیلی
کتب میں اثباتِ امامت کے موضوعات کا مطالعہ کریں، اور یہاں یہ بھی سن لیں کہ اسلام
میں تصورِ خلافت ایک مسلمہ حقیقت ہے، اور یہ ہمارا ایمان ہے کہ خدا اور رسول کا
خلیفہ ہمیشہ دنیا میں موجود ہے اور وہ اس وقت نور مولانا شاہ کریم الحسینی صلو ات
اللہ علیہ ہیں، اگر اس حقیقت کی تردید ممکن ہو تو کوئی کہے کہ نہیں نہیں ایسا
خلیفہ تو فلان خاندان کا فلان شخص ہے جو اس وقت یورپ میں نہیں فلان جگہ پرہے یا
کہے کہ اسلام میں کوئی خلافت نہیں یا بتائے کہ خلافت شروع شروع میں تھی تو سہی مگر
بعد میں قرآن کے اس حکم کے بموجب خداوند عالم نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لی یا اسے
ختم کردیا، ایسی کوئی تردید ناممکن ہے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ شاہ کریم امامِ
حاضرؑ ہیں۔
۱۵
جواب(ہ): میں کہتا ہوں کہ مولانا شاہ
کریم الحسینی برحق امام اس لیے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی جانب سے نورِ ہدایت ہیں،
اگر اس حقیقت کی تردید ممکن ہو تو کوئی شخص کہے کہ نہیں، نورِ ہدایت اور شمعِ
ولایت اس وقت تو فلان حضرت ہیں، جنہوں نے دینِ اسلام کی اشاعت و ترویج کی خاطر
فقروفاقہ کو اپنا شیوہ بنالیا ہے، جو دنیاوی ترقی سے گریزان ہیں، جن کا سلسلہ نسب
رسول اللہ سے جا ملتا ہے، جن کے آباواجداد اپنے اپنے وقت میں خدا کے نورِ ہدایت کے
درجے پر فائز تھے، میرے یقین میں ایسی تردید محال ہے، پس ظاہر ہے کہ شاہ کریم ؑ ہی
اس وقت سلسلہ امامت کے حقیقی جانشین اور امام برحق ہیں اور ان کے سوا اس درجے پر
کوئی نہیں۔
جواب(و): دنیا میں ایسے لوگوں کی کوئی
کمی نہیں جو دین کے کسی بڑے مرتبے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اس میں بعض دفعہ
کچھ وقت کے لیے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں مگر یاد رہے کہ باطل زیادہ وقت کے لیے ٹھہر
نہیں سکتا، اس لیے وہ چلا جاتا ہے لیکن حق ہمیشہ قائم رہتا ہے، دیکھئے قرآن: وَقُل
جَاء الحَقُّ وَزَہَقَ البَاطِلُ اِنَّ البَاطِلَ کَانَ زَہُوقا (۱۷: ۸۱) ترجمہ : اور (اے رسولﷺ) آپ کہہ دیجئے کہ
حق آگیا اور باطل چلاگیا یقیناً باطل جانے والا ہوتا ہے۔
اس آیہ کریمہ میں بزبانِ حکمت فرمایا گیا
ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ کو جو خلافتِ الہٰیہ اور امامتِ عالیہ حاصل تھی وہ حق تھی، اس
لیے وہ دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہے گی، اسی طرح اور اسی معنی میں حضورﷺ خدا کی طرف
سے نورِ ہدایت تھے، اور نور حق ہی حق ہے، اور حق ہمیشہ کے لیے قائم رہتا ہے تو کہاں
ہے وہ حق یعنی نورِ ہدایت بجز امام حق کے جو شاہ کریم الحسینیؑ ہیں
۱۶
اور اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ خدا کا نور
مخالفین کے بجھانے کی کوشش کے باوجود ہرگز نہیں بجھتا کیونکہ وہ حق ہے باطل نہیں،
تو میرے مولا کے برحق ہونے کے ثبو ت میں اس روشن دلیل کے علاوہ اور کیا ہو کہ وہ
خدا و رسول کی طرف سے سرچشمہ ہدایت ہیں اور اسلام میں ایسے سرچشمے کا ہونا حق ہے
جیسا کہ آنحضرتﷺ کے زمانے میں اور آپ کے بعد ہدایت کا یہی مرکز قائم تھا۔
زکوٰة
سوال نمبر۵: تمہاری زکات شرعی زکات سے کیوں مختلف ہے؟
اور وہ براہِ راست غرباء و مساکین میں کیوں تقسیم نہیں ہوتی؟ کہ جمع کرکے امام کو
دی جاتی ہے؟
جواب (الف): میں نے اس تحریر کی ابتدا ہی
میں سوال نمبر ۱ کے جواب دیتے ہوئے دلیل دی ہے کہ شریعت،
طریقت، حقیقت اور معرفت کے درمیان فرق ہے، مگر ان سب کا مقصدِ اعلیٰ ایک ہی ہے،
چنانچہ اگر کوئی باشعور انسان ذرا غور سے دیکھے تو اسے صاف طور پر معلوم ہوجائے گا
کہ زکوٰة کی جو روح اور جو آخری مقصد کی تکمیل اسلام میں ہونی چاہیے، وہ اسماعیلیت
میں کلی طور پر ہوتی رہی ہے۔
جواب (ب): میں نے کہا کہ ہمارے یہاں
طریقِ زکوٰة اسلامی روح کے تقاضے اور مقصدِ اعلیٰ کے عین مطابق ہے، اور یہاں زکوٰة
سے جتنا فائدہ غربا ومساکین کو دلایا جاتا ہے اتنا کہیں بھی نہیں اور امام ایک
اعتبار سے زکوٰة لیتے ہیں اور دوسرے
۱۷
اعتبار سے نہیں لیتے، چنانچہ اسماعیلیوں
کے نظامِ زکوٰة کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق
چلتا ہے، یعنی جس زمانے میں اور جس ملک میں جیسا تقاضا ہوتا ہے ویسا نظام بھی اس
کے ساتھ مطابقت کرتا ہے اور محتاجوں کو زکوٰة سے زیادہ فائدہ دلانے کے یہ معنی ہیں
کہ بجائے اس کے کہ ان کو ایک وقت کا کھانا کھلایا جائے یا ایک جوڑا کپڑوں کا دیا
جائے یا کچھ نقد پیسے یا کوئی اور جنس ان میں تقسیم کر دی جائے یہ کوشش کی جاتی ہے
کہ جہالت و غربت کی لعنت کو بنیاد ہی سے ختم کرکے جماعت کے پس ماندہ افراد کو
ہمیشہ کے لئے علم و ہنر کی دولت سے مالا مال کردیا جائے اور اس مقصد کے حصول کے
لیے صحت اور تعلیم و تر قی کے مختلف اداروں کا قیام ضروری ہوتا ہے، لہذا امامِ
زمان کی سرپرستی و رہنمائی میں زکوٰة کی جمع آوری ہوتی ہے، اور بس اسی معنی میں
میں نے کہا تھا کہ امام ایک اعتبار سے تو زکوٰة لیتے ہیں اور دوسرے اعتبار سے نہیں
لیتے یعنی جماعت سے امام کا زکوٰة لینا صرف اتنا ہی ہے کہ اس کے نظام کی سر پرستی
کرتے ہیں، دعا دیتے ہیں اور جماعتی اداروں کے قیام و اجرا کے سلسلے میں اخراجات کی
منظوری و ہدایت دیتے ہیں۔
جواب (ج):مذہب کی یکجہتی اور اتفاق و
اتحاد کا فلسفہ یہی ہے کہ زکوٰة کی طاقت کو منتشر ہونے سے بچالیا جائے، وہ ایک ہی
جگہ پر جمع ہو اور اس کا استعمال ہادی برحق کی ہدایت کے مطابق ہو، سو اسماعیلی
مذہب میں یہی ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم میں جن ثوابی کاموں کو ترجیح
دی جاتی تھی وہ اس زمانے کے مطابق ضروری تھے، مثلاً غلاموں اور کنیزوں کو خرید کر
آزاد کردینا، یتیموں، غریبوں اور محتاجوں کو کھانا کھلانا
۱۷
یا کپڑے دینا وغیرہ اب زیادہ سے زیادہ
ثواب اس میں ہے کہ ہر قسم کے کمزور اور مجبور انسانوں کو علم و ہنر کی لازوال دولت
سے مالامال کردیا جائے دینی اور دنیاوی فلاح و بہبود کے ادارے قائم کئے جائیں تاکہ
اس سے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی میں اضافہ ہو اور اسلام کی عالمگیر روح کو
تقویت اور مدد ملے، امام عالی مقامؑ اسلام کے اسی منشاء کے مطابق زکوٰة سے کام
لیتے ہیں۔
رسومات:
سوال نمبر۶: تمہاری مذہبی رسومات کس حد تک درست اور
صحیح ہیں؟ خصوصاً ناندی کے بارے میں بتاؤ؟
جواب ( الف): ہماری مذہبی رسومات کے ثبوت
میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے، تاہم یہاں چند ہی نکات پر اکتفا کیا جائے گا، اس سلسلے
میں سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ دین اور دنیا کی اکثر اصلی اور قیمتی چیزیں
ایسی ہیں، جن کا وجود و قیام کچھ دوسری بہت معمولی چیزوں کے اندر ہوتا ہے، مثلاً
درخت کے تنا اور شاخوں کی حفاظت چھلکوں کی بدولت ہوتی ہے اسی طرح پھول پھل اور غلہ
جات کا بھی کوئی غلاف، چھلکا وغیرہ ہوتا ہے تاکہ اس میں اصلی چیز محفوظ رہے اگر
کوئی انجان آدمی تنا کے چھلکوں کو بیکار سمجھ کر چھیل پھینکے تو ظاہر ہے کہ درخت
بہت جلد سوکھ جائے گا، چنانچہ کوئی شک نہیں کہ مذہبی رسومات ایک نا واقف انسان کی
نظر میں عام اور معمولی چیزیں لگتی ہیں مگرجاننے والا ہی جانتا ہے کہ ان رسومات کے
چھلکوں کے اندر عقائد اور ایمان کا درخت کس
۱۹
شان سے محفوظ ہے اور جب تک پھل درخت پر
ہی تو ان کی پختگی اور حفاظت کے لیے چھلکے کی کتنی اہمیت ہوتی ہے۔ اس مثال سے ظاہر
ہوا کہ اگر مذہبی رسومات نہ ہوں تو عقیدہ ختم ہوجائے گا۔
جواب (ب): ہماری مذہبی رسومات کلی
طور پر صحیح اور حق و صداقت پر مبنی ہیں کیونکہ یہ سر تا سر امامِ زمان ؑ کے امرو
فرمان کے مطابق ہیں یا ان کے متعلق صاحبِ امر کی تصدیق کی سند موجود ہے، جبکہ
امامِ برحق خدا و رسول کی جانب سے مختارِ دین ہیں، کیونکہ آپ نہ صرف اللہ اور اس
کے رسولِ پاکﷺ کے فرمان گزار ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اولوالامر کی حیثیت سے خود
بھی ہدایت کرنے والے ہیں، لہذا ہماری مذہبی رسومات کے حق بجانب ہونے میں ذرہ بھر
شک نہیں۔
جواب (ج): یہ حقیقت ہے کہ کسی ملک
و قوم کی جائز اور مناسب رسومات تشریع کی اصل و اساس ہوا کرتی ہیں، اس کے یہ معنی
ہیں کہ جب شریعت بنی تھی تو اس میں مفید رواج پیشِ نظر رہا ہے۔ اور جب بھی شریعت
کے کسی گوشے میں تبدیلی آتی ہے تو وہ رواج کے تغیر و تبدل کی وجہ سے یوں ہوتی ہے،
ملاحظہ ہو مولانا جعفر شا ہ پھلواروی کی کتاب" اسلام۔دینِ آسان"
اور"اجتہادی مسائل"۔
جواب (د): ناندی (منادی) کا مطلب
ہے کسی نیک کام میں حصہ لینے کا اعلان، اور یہ رسم دینِ اسلام کے تصورِ مسابقت (
آگے بڑھنے میں مقابلہ کرنا) کے عین مطابق ہے، چنانچہ قرآن میں ہے کہ :
وَیُسَارِعُونَ فِی الخَیرَات (۳: ۱۱۴)، اور وہ نیک کاموں میں
۲۰
دوڑ پڑتے ہیں، یعنی نیکی میں سبقت لے
جانے کی کوشش کرتے ہیں، نیز ارشاد ہوا ہے کہ: اُولَئِکَ یُسَارِعُونَ فِی
الخَیرَاتِ وَہُم لَہَا سَابِقُون (۲۳: ۶۱) یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور بھلا ئیوں کی طرف
(دوسروں سے) لپک کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ : فَاستَبِقُوا
الخَیرَات (۵: ۴۸) سو تم نیکیوں میں سبقت لے جاﺅ۔ نیک کاموں
میں سبقت لے جانا، ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا اور اپنے حسنِ عمل کے ذریعے سے
دوسروں کو نیکی پر اُبھارنا یہ سب قرآنی تعلیما ت میں سے ہیں، لہذا ان کی کچھ
مثالیں جماعت خانہ میں پیش کی جاتی ہیں تاکہ دین کی عملی صورت ہمیشہ جماعت کے
سامنے رہے، چنانچہ رسولﷺ اکثر دفعہ مسجد ہی میں اعلان فرماتے تھے کہ فلان کام کے
لیے مالی قربانی کی ضرورت ہے، جس میں اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم ایک دوسرے سے
بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔
صلاۃ:
سوال نمبر۷: اسماعیلی جماعت میں صلاة پر کس حد تک عمل
ہوتا ہے؟ اور ان کے نزدیک صلاة کے کیا معنی ہیں؟
جواب (الف):صلاة کے معنی ہیں نماز، دعا،
رحمت، درُود چنانچہ لفظ صلاة قرآن میں جہاں جہاں دعا، رحمت اور درُود کے معنی میں
آیا ہے، اس میں البتہ کوئی سوال نہیں، لیکن جن مقامات پر یہ لفظ نماز کے لیے آیا
ہے وہاں ایسی نماز بھی ہے، جس میں کوئی رکوع و سجود نہیں، جیسے نمازِ جنازہ اور
پرندوں کی نماز (۹: ۸۴، ۲۴: ۴۱) سو جہاں صلاة
۲۱
کے معنی نماز کے ہیں وہاں ہم نے نہ صرف
ماضی میں نماز قائم کی بلکہ حال میں بھی اس کا عملی نمونہ ، ثمرہ اور تاویلی حکمت
ہمارے مذہب میں موجود ہے اور جہاں صلاة کے معنی دعا کے ہیں تو ہم اس کے لیے ہمیشہ
جماعت خانہ میں دعا پڑھتے ہیں یا یوں کہنا چاہیے کہ جس طرح صلاة کے معنی میں نماز
بھی ہے اور دعا بھی، اسی طرح وہ عبادت و بندگی جو ہم جماعت خانے میں کرتے ہیں اگر
ایک اعتبار سے دعا ہے تو دوسرے اعتبار سے نماز ہے، کیونکہ اس میں نماز کی روح اور
غرضِ غایت پوری طرح سے موجود ہے اس سلسلے میں مزید معلومات کے لیے ملاحظہ ہو
کتاب" گُلستانِ حدیث" از مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی۔
جواب (ب): نماز کی روح اور مقصد کب تک
قائم رہ سکتا ہے، اس کے لیے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۹ میں بغور دیکھا جائے اور اس ارشاد کا
ترجمہ یہ ہے
پھر اگر تم کو اندیشہ ہو تو کھڑے کھڑے
(یعنی چلتے چلتے) یا سواری پر چڑھے چڑھے (نماز) پڑھ لیا کرو۔ اب اس صورت میں ظاہر
ہے کہ نماز کی اصلیت و حقیقت اور مقصد اپنی جگہ پر قائم ہے باوجود اس کے کہ نماز
کے تقریباً سب ظاہری آداب ساقط ہوگئے کیونکہ پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر جاتے ہوئے
نماز پڑھنے میں نہ تو قبلہ کی شرط پوری ہوسکتی ہے اور نہ رکوع و سجود وغیرہ کی اور
ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نمازِ خوف ہے جو کہا جاسکتا ہے کہ یہ حالتِ مجبوری
ہے، لیکن یہ داصل جبر نہیں ہے بلکہ دین میں آسانی کی ایک صورت ہے، اور یہ اس حقیقت
کا ثبوت بھی ہے کہ نماز کئی قسم کی ہے، اور ان تمام قسموں میں جو اصل حصہ ہے وہ
دعا اور ذکرِ الٰہی ہے جس میں عبادت کی روح اور حصولِ مقصد کا جوہر پنہان ہے، یہی
وجہ ہے کہ نمازِ خوف میں وہ تمام چیزیں اٹھائی گئی ہیں کہ جن کے بغیر بھی نماز کی
روح ار مقصد برقرار رہ سکتا ہے، اب ایسی نماز کی صورت تقریباً
۲۲
تقریباً دعا، تسبیح اور ذکرِ الٰہی کی سی
ہوجاتی ہے، اسی لیے میں نے کہا تھا کہ جماعت خانے کی عبادت نہ صرف دعا ہی ہے بلکہ
وہ ایک طرح کی نماز بھی ہے۔
یہ حقیقت ہمیشہ کے لیے پیشِ نظر رہے کہ
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حق میں آسانی و سہولت چاہتا ہے۔ دشواری و سختی نہیں
چاہتا، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: یُرِیدُ اللّہُ بِکُمُ الیُسرَ وَلاَ یُرِیدُ
بِکُمُ العُسر (۲: ۱۸۵) مگر اس میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
اگر حق تعالیٰ ہمارے واسطے آسانیاں اور سہولتیں مہیا کردینا چاہتا ہے اور دینی
احکام میں کوئی دشواری نہیں چاہتا تو اس کی مشیت و قدرت کے ظہورِ فعل کے لیے کون
سی چیز مانع ہوسکتی ہے؟ اور ایسی عظیم رحمت کے حصول کے لیے بندوں کو کیا کرنا
چاہیے؟ سو اس کا جواب بھی خود قرآنِ پاک ہی سے ملتا ہے اور وہ اس فرمانِ خداوندی
میں ہے
وَمَن یَتَّقِ اللَّہَ یَجعَل لَّہُ مِن اَمرِہِ یُسراً (۶۵: ۴)
اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کے کام میں
سہولت پیدا کردے گا۔ آپ بھول نہ جائیں کہ یہ ارشاد زمانہ نبوت کا ہے اور اس میں یہ
بشارت ہے کہ جو لوگ دینی احکام کی بجاآوری میں خوفِ خدا اور تقویٰ کو ملحوظِ نظر
رکھیں ان کو آگے چل کر دین میں آسانیاں اور سہولتیں مہیا کردی جائیں گی، کیونکہ
عبادات و معاملات میں جہاں دشواری اور ریاضت و محنت ہے اس کا مقصد سوائے تقویٰ کے
کچھ بھی نہیں اور تقویٰ سب کچھ ہے۔
اسی مقصد کی تشریح اور وضاحت کے طور پر فرمایا گیا
سَیَجعَلُ اللَّہُ بَعدَ عُسرٍ یُسراً (۶۵: ۷)
خدا عنقریب ہی دشواری کے بعد آسانی پیدا
کرے گا۔ یعنی شریعت کے باطن سے
۲۳
طریقت اور طریقت کے باطن سے حقیقت ظاہر
کردے گا، اور تنزیل کے بعد تاویل کی حکمتوں سے روشناس کرے گا کیونکہ سب سے بڑی
آسانی یہی ہے اور اس کی دلیل وہ چھوٹی چھوٹی آسانیاں ہیں جن کا تجربہ ہر نیک
مسلمان اپنی روزمرہ کی زندگی میں کرسکتا ہے، مثلاً ہر قسم کی عبادت و ریاضت کی
بجاآوری اور پابندی کے سلسلے میں دشواری کے بعد اللہ تعالیٰ کی مدد ویاری سے آسانی
کا احساس ہوجانا، رفتہ رفتہ نیکی اور تقویٰ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ رہنا
وغیرہ۔
جواب(ج): مجھے پھلواروی صاحب کی اکثر
باتیں بہت ہی پسند ہیں، وہ اپنی کتاب " گُلستانِ حدیث" کے صفحہ نمبر ۵ پر" چند کلماتِ نماز" کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں
کہ :"ہم لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ نماز ایک بندھی ٹکی سی چیز ہے جس کے
کلمات معین اور حرکات مقرر ہیں، اس میں شک نہیں کہ نماز کا بہترین طریق ادا وہ ہے
جو حضور ﷺ نے بتایا ہے، لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ دوسرے طریقے غلط ہیں، آدمؑ سے
لے کر مسیحؑ بلکہ حضورﷺ تک جتنے پیغمبر بھی نماز ادا کرتے تھے ان کے طریقے خواہ
مختلف ہوں لیکن تھی وہ سب ہی نماز۔ ان کی شکلیں جداگانہ تھیں، لیکن روح سب کی ایک
ہی تھی، اور دراصل مطلوب و مقصود ہی روح ہے نہ کہ کوئی مخصوص شکل۔ یہ نماز جب با
جماعت ادا کی جائے تو نظم و ضبط اور ڈسپلن کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ سب کی نماز میں
یکسانی ہو، لیکن انفرادی نماز میں اگر ذوق و شوق عام اندازِ ادا پر غالب آجائے تو
وہ کوئی نقصان کا سبب نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تو جماعت کے اندر بھی معمولی اختلاف
مضر نہیں ہوتا۔“ اس حقیقت بیانی کے بعد اور کوئی چیز قابلِ ذکر نہیں رہتی۔
۲۴
مرد عورت کی یکجا عبادت:
سوال نمبر۸: پوچھا گیا ہے کہ جماعت خانہ میں مرد و
عورت ایک ساتھ کیوں عبادت کرتے ہیں؟
جوا ب (الف): تم وہ قرآنی آیت دکھاؤ یا
پڑھ کر سناؤجس میں فرمایا گیا ہو کہ ایساکرنا حرام ہے یا ممنوع ہے یا مکروہ ہے، یا
یہ ثابت کرو کہ رسولﷺ کے عہدِ مبارک میں مسلمان عورتیں مسجد میں نہیں جاتی تھیں۔
جواب(ب): اسلام کے آداب و ارکان صرف
مردوں ہی کے لیے نہیں خواتین کے لیے بھی ہیں، جو لوگ عورت کو مقامِ عبادت سے دور
اس لیے رکھنا چاہتے ہیں کہ اس کی موجودگی کے سبب سے نفسِ انسانی کی سرکشی میں
اضافہ ہوجاتا ہے، تو ان کو تارک الدنیا ہو کر کسی جنگل میں چلے جانا چاہئے، کیونکہ
عبادت میں خلل صرف عورت کی وجہ سے نہیں پڑتا، بلکہ اس کیلئے بہت سی چیزیں ہیں، جن
کا مجموعی علاج مجاہدہ نفس اور تقویٰ ہے، یعنی نفسِ امارّہ کے خلاف جہاد کرتے ہوئے
پرہیزگاری اختیار کرنا ہے، نہ کہ کسی ایک چیز کو یا چند چیزوں کو اس دنیا سے خارج
کردینا۔
فقط جماعت کا علمی خادم
علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی
۹ جنوری ۱۹۷۷ء
۲۵
درجاتِ اسلام
(از قلم علاّمہ نصیرُالدّین نصیر ہونزائی)
دینِ اسلام صراطِ مستقیم (یعنی سیدھا راستہ) ہے اور ظاہر ہے کہ ہر طویل راستے کی چند منزلیں ہوا کرتی ہیں، جن کے نام ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، ہم ان چار منزلوں کو چار درجات بھی کہہ سکتے ہیں، مگر یہاں یہ اصول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یاد رہے کہ ان میں سے ہر درجے میں دو سے تین درجوں کے اجزاء بھی کم و بیش شامل ہیں، مثال کے طور پر جس منزل میں حقیقت ہے اس میں خالص حقیقت نہیں ہوسکتی ہے لہٰذا ایک اندازے کے مطابق حقیقت میں ۲۰ فیصد شریعت، ۲۵ فیصد طریقت، ۳۰ فیصد حقیقت اور ۲۵ فیصد معرفت کی باتیں ہوتی ہیں، یہی مثل باقی تین درجوں کی بھی ہے، اس مطلب کو درجِ ذیل نقشہ میں ظاہر کیا گیا ہے:۔
اجزائے چہارگانہ
مجموعہ | معرفت فیصد | حقیقت فیصد | طریقت فیصد | شریعت فیصد | منازل | شمار |
۱۰۰ | ۱۵ | ۲۰ | ۲۵ | ۴۰ | شریعت | ۱ |
۱۰۰ | ۲۰ | ۲۵ | ۳۰ | ۲۵ | طریقت | ۲ |
۱۰۰ | ۲۵ | ۳۰ | ۲۵ | ۲۰ | حقیقت | ۳ |
۱۰۰ | ۴۰ | ۲۵ | ۲۰ | ۱۵ | معرفت | ۴ |