امام شناسی
امام شناسی ہی کائناتی بہشت ہے۔
اہلِ معرفت کے لئے یہ حقیقت روشن ہے کہ امامِ زمانؑ کی پاک معرفت اللہ تعالیٰ کا وہ زبردست معجزہ ہے، جس سے ساری کائنات بہشت بن جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث اور ارشاداتِ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے بعد بزرگانِ دین کی حکیمانہ کتابوں میں بھی امام شناسی کی ضرورت و اہمیّت کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی ہے۔
انتسابِ جدیدی: میں بہت شکرگزار اور ممنون ہوں ان تمام عزیز ساتھیوں کا، جو کتابی اور علمی خدمت میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں، اور کتابوں کی سرپرستی کر رہے ہیں، نیک نام مومن مہدی علی قاسم علی دھنجی اور ان کے اہلِ خانہ نے جس طرح امام شناسی کی اس دینی کتاب کے موجودہ ایڈیشن میں بھرپور تعاون کیا ہے اس کا لازوال اجر و صلہ مولائے پاک عطا کرنے والا ہے، میں ایک خادم درویش کی حیثیت سے عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ خداوند قدّوس ایسے تمام علم پرور اور علم گستر مومنین و مومنات کو دونوں جہان کی کامیابی اور سربلندی عطا فرمائے!
میں آئی۔ ایل۔ جی، سینیئر ممبر پریسیڈنٹ کمیٹی دانشگاہِ خانۂ حکمت عزیزم نصر اللہ قمر الدّین کا بھی شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ایک ارضی فرشتے کو میرا دوست بنا دیا۔
املا از چیف ریکارڈ آفیسر نصیر الدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
عرفت روحی امین الدّین کراچی، جمعۃ المبارک، ۳ مئی ۲۰۰۲ء
ج
مہدی علی قاسم علی دھنجی اور اہلِ خانہ
مہدی علی قاسم علی دھنجی ڈھاکہ بنگلہ دیش میں ۱۹۶۴ء میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی، ۱۹۷۱ء کے بعد آپ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کراچی منتقل ہو گئے، آپ کی والدہ کا نام نور بانو قاسم علی اور والد کا نام قاسم علی دھنجی ہے، مہدی علی نے کئی سال تک ناظم آباد جماعت خانے میں ایک والنٹیئر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، آپ گزشتہ ۸ سالوں سے نصر اللہ قمر الدین ، آئی۔ ایل۔ جی، سینیئر ممبر پریسیڈنٹ کمیٹی دانشگاہِ خانۂ حکمت ، کے بزنس پارٹنر ہیں اور انہی کے توسط سے آپ خانۂ حکمت کی علمی کلاسس اور استادِ گرامی کی عالی قدر شخصیت سے متعارف ہوئے، اپنی طبیعت کی پاکیزگی، عشقِ مولا اور علم دوستی کی بناء پر آپ بہت جلد اس علم سے قلبی طور پر وابستہ ہو گئے، اپنی ذات کو روحانی طور پر منور کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے اس علم کو جماعت کے لئے عام کرنے کی اہمیت کو بھی سمجھ لیا اور علمی خدمت میں سبقت لے جاتے ہوئے امام شناسی جیسی اہم کتاب کی بارِ نو اشاعت کی سرپرستی کی ذمہ داری قبول کی۔
آپ کی زوجۂ محترمہ ناہید مہدی علی کراچی میں ۱۹۷۲ء میں پیدا ہوئیں، آپ کے والد ماجد کا نام حیدر علی حسن علی لاکھانی اور والدہ کا نام حبیبہ حیدر علی ہے، ناہید مہدی علی نے ابراہیم علی بھائی اسکول کریم آباد سے میٹرک پاس کیا،
د
آپ کو گارڈن جماعت خانے میں کچھ سالوں تک بحیثیت لیڈی والنٹیئر خدمت انجام دینے کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے، خانۂ حکمت کی علمی محفل سے آپ کا تعارف آپ کے شوہرِ نامدار جناب مہدی علی قاسم علی کے توسط سے ہوا، اپنی سادہ، نیک اور مذہبی طبیعت کی وجہ سے آپ نے اس علم کی اثر پزیری کو قبول کیا اور امام کے حقیقی علم کے پھیلاؤ کے لئے مہدی علی کی کاوشوں کی بھرپور حمایت کی۔
آپ کے خاندان کے گلشن کو اپنی سدا بہار معصوم مسکراہٹوں اور فرشتگانہ احساسات سے معطر کرنے والا لٹل اینجل سولجر آپ کا ساڑھے تین سالہ فرزند رحیم مہدی علی ہے، رحیم ماما بے بی کیئر اسکول میں مونٹیسری کا طالبِ علم ہے۔
ہ
ایک مثالی خط
برادرِ بزرگ مہربان شاہ (مرحُوم) کے علمی ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ دن ہو یا رات آپ ہمیشہ دینی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے اور اپنے خیالات کو سپردِ قلم بھی کرتے تھے، ان کے جذبۂ دینداری اور اوصافِ مومنی کی کوئی مثال نہیں، وہ عشقِ مولا میں خود کو فنا کر دینا چاہتے تھے، موصوف کے انتقال پر میں نے ان کے فرزندِ ارجمند موکھی سرفراز شاہ اور جملہ خاندان کی خدمت میں ’’ایک مثالی خط‘‘ تحریر کیا ہے، جو اس کتاب میں شامل ہے۔
و
ایک مثالی خط
عزیز و محترم موکھی سرفراز شاہ اور جملہ معزّز خاندان
دلِ دردمند سے یاعلی مدد کہتا ہوں، میں آہ و افسوس سے کہہ رہا ہوں کہ میرے بزرگ و محترم اور مشفق و مہربان بھائی، جن کا پیارا نام بھی ’’مہربان شاہ‘‘ ہے، جو آپ کے دولت خانہ میں قیام پذیر تھے، وہ کہاں تشریف لے گئے؟ اس سے پیشتر کہ آپ کچھ فرمائیں، قرآنِ حکیم ہی سے اس سوال کا جوابِ باصواب مل جاتا ہے کہ: انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ۔ ۰۲: ۱۵۶، ( ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم لوٹ کر اسی کی طرف جانے والے ہیں)۔
ان کے پاکیزہ دل میں خدا، رسولؐ، اور امامِ زمانؑ کی کتنی اور کیسی شدید محبّت تھی! وہ قرآنِ پاک اور دینی علم کے بڑے شیدائی تھے، ایک شب خیز اور مناجاتی درویش، ایک باعمل اور پرسوز دعاگو، ایک مومنِ صادق، ایک عاشقِ مولا، ایک مخلص جماعتی عملدار، ایک بہادر سپاہی (ماضی میں) ایک متّقی خلیفۂ پیرِ روشن ضمیر، ایک ہوشمند اور جفاکش زمیندار،
ز
امامِ عالی مقامؑ کا ایک سرفروش اور جان نثار مرید، ایک دائم الذّکر عابد، شمعِ نورِ امامت کا ایک پروانہ، جہادِ علمی کا ایک مجاہد، اور اہلِ بیت علیہم السّلام کا ایک مُحِبّ۔
ان کا دل جذبۂ ایمانی سے سرشار، آنکھیں آسمانی عشق سے اشکبار، زبان ذکرِ الٰہی میں مشغول، جبینِ سجدہ بار بار بر زمین، ہاتھ میں اکثر اوقات تسبیح، پیروں کو خدا کے گھر چلنے میں راحت، کان منقبت سننے کے لئے مشتاق، جان ہمیشہ مائلِ جانان، روح متّصلِ جنان (بہشت) اور ان کی خوبیان اس تحریر سے بہت زیادہ ہیں۔
عزیزم سرفراز شاہ! دینی اعتبار سے یہی بہتر اور مفید تر ہے کہ آپ تمام عزیزانِ خاندان صبر اور شکر کے راستے پر ثابت قدم رہیں، کیونکہ آپ سب کا بہت بڑا امتحان ہوا ہے، اور سب سے بڑی عبادت اسی میں ہے، آپ ان شاء اللہ، انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں، الحمد للہ، مومن خدا پر توکلّ کرتا ہے، یعنی اللہ کو اپنا وکیل اور کارساز قرار دیتا ہے، آپ کو دین و دنیا کی سعادتیں حاصل ہو رہی ہیں۔
قانونِ روح کا مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کوئی کہیں نہیں جاتا، سب موجود ہیں، مومن صرف کثیف سے لطیف ہو جاتا ہے، چنانچہ قرآن نے فرمایا کہ شہید دراصل مرتے نہیں ہیں (۰۳: ۱۶۹) رسولِ اکرم نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا
ح
کہ ہر مومن شہید کا درجہ رکھتا ہے، اور حضرتِ پیر نے فرمایا کہ دنیا سے آخرت تک کچھ زیادہ مسافت نہیں، لیکن درمیان میں تمہاری اپنی ہستی ہی دیوار بنی ہوئی ہے، وہ شعر یہ ہے:
ز دُنیا تا بعُقبیٰ نیست بسیار
ولی در رہ وجودِ تُست دیوار
پس اگر ہم اپنی ہستی کی دیوار کو درمیان سے ہٹائیں، یا اسے شیشہ کی مانند صاف شفاف بنائیں، تو ہم تمام روحوں کو اس وقت بھی دیکھ سکتے ہیں۔
آپ کا دعاگو
ن۔ ن۔ (حُبِّ علی) ہونزائی ، کراچی
اتوار، ۱۶ جمادی الاوّل ۱۴۱۲ھ
۲۴ نومبر ۱۹۹۱ء
ط
امام شناسی
حصہ اول
پیش گفتار
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ان اللّٰہ و ملائکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین اٰمنو صلوا علیہ و سلموا تسلیما ۔ (۳۳: ۵۶)۔ اللّٰھم صل علیٰ محمد و آل محمد ۔
۱۔ یہ کتابچہ اُن آیاتِ مقدسہ کی توضیحات و تاویلات پر مشتمل ہے جن میں امام اور امامت کا صراحت سے تذکرہ موجود ہے۔ اگرچہ باطناً قرآنِ حکیم کی کوئی آیت امامت کے موضوع سے خالی نہیں، تاہم ظاہراً اس سلسلے میں ایسی آیتوں سے بحث کرنا نہایت ہی ضروری ہے۔
۲۔ سورۂ یٰسٓ (۳۶) آیت نمبر ۱۲ (۳۶: ۱۲) سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر عقلی، روحی اور مادّی چیز کو امامِ اکرم کے نور میں مستغرق کر کے گھیر رکھا ہے، پھر حکمتِ قرآن کے اصول سے ظاہر ہوا کہ جملہ موضوعات امامت کے موضوع میں اور سارے الفاظ امام کے لفظ میں سموئے ہوئے ہیں۔ پس ضروری اور لازمی تھا کہ ان آیاتِ کریمہ کا یکجا طور پر تاویلی بیان کیا جائے جن میں امام یا أئمّہ کے الفاظ آئے ہیں۔
۳
۳۔ جن حقیقی مومنین کا دیدۂ دل روشن ہوا ہو وہ اس حقیقت کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ کائنات و موجودات کی ہر چیز دنیا میں امام کے حیّ و حاضر ہونے کی گواہی دے رہی ہے، اور اس شہادت سے ظاہر و باطن کی کوئی شے خالی نہیں۔
۴۔ جب یہ ارشادِ الٰہی ظاہر ہے کہ ہر چیز امامِ مبین کے نورِ مقدس میں محدود و محصور ہے، پس یہ بات لازمی ہے کہ ہر شی امامِ عالی مقام کی نورانیت کے رنگ میں رنگی ہوئی نظر آئے چنانچہ دنیائے قرآن و حدیث کے علاوہ کائنات کی ہر چیز ایسی ہی رنگین نظر آتی ہے۔
۵۔ اگر بحکمِ حدیث یہ مان لیا جائے کہ خودشناسی کا نتیجہ خدا شناسی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو انسانِ کامل کی شناخت اس موضوع سے مستثنیٰ قرار نہیں دی جا سکتی۔ کیونکہ انسانِ کامل (امام) کی معرفت کے بغیر انسانِ ناقص کی اپنی معرفت خدا شناسی کا نمونہ نہیں بن سکتی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امام کی ابتدائی معرفت سے خود شناسی اور انتہائی معرفت سے خدا شناسی حاصل آتی ہے۔
۶۔ سورۂ قصص (۲۸) آیت نمبر ۸۸ (۲۸: ۸۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ کل شی ھالک الا وجھہ ۔ یعنی ہر چیز ہلاک و فنا ہونے والی ہے بجز اس کے چہرہ کے۔ جاننا چاہئے کہ خدا کے چہرہ سے اس کی معرفت مراد ہے، اور خدا کی معرفت وہ حقیقت ہے جو امام کی معرفت میں
۴
پوشیدہ ہے۔ چنانچہ مولانا علی علیہ السّلام نے فرمایا: انا وجہ اللّٰہ فی السمٰوٰۃ و الارض ۔ یعنی میں ہی آسمانوں اور زمین میں خدا کا چہرہ (معرفت) ہوں۔
۷۔ جب یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ امامِ عالی صفات کی معرفت خدا کی معرفت ہے، تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام علومِ الٰہی بھی اسی معرفت میں مجموع ہیں۔ یہی سبب ہے جو رسول اکرم صلعم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے امامِ وقت کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جاہلانہ موت میں مر جاتا ہے اور جاہل کا ٹھکانا آتشِ دوزخ ہے۔ یعنی وہ علمِ الٰہی کی جنت سے محروم ہو جاتا ہے۔
۸۔ دینِ اسلام خدا سے جا ملنے کا راستہ ہے۔ جسے صراطِ مستقیم یعنی راہِ راست کہتے ہیں۔ اس کی چار منزلیں ہیں۔ جو شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے ناموں سے مشہور ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں منزلِ مقصود اور درجۂ کمال معرفت ہے۔
۹۔ روایت ہے کہ شریعت بمثل رات کے ہے، طریقت ستاروں کی روشنی کی طرح ہے، حقیقت چاند کی روشنی کی طرح ہے اور معرفت سورج کی روشنی کے مثل ہے پس نورِ معرفت کی روشنی میں ہر چیز کی اصلیت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
۱۰۔ معرفت اور یقین کا ایک ہی مطلب ہے اور
۵
یقین کے تین درجے ہیں۔ علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین۔ پس ابتدائی معرفت علم الیقین میں ہے۔ درمیانی معرفت عین الیقین میں اور ا نتہائی معرفت حق الیقین میں۔ اور اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ امامِ مبین کی ابتدائی معرفت ایک ایسے علم میں ہے جو شک سے بالاتر اور بالکل یقینی ہو۔ درمیانی معرفت ایسے دیدار اور مشاہدے میں ہے جو دیدۂ باطن سے کیا جاتا ہے، اور انتہائی معرفت اس روحانی معجزاتی تجربے میں ہے جس میں حقیقی مومن کی خودی امام کے نور کے درمیان اس طرح گم ہو جاتی ہے جس طرح کہ ایک چھوٹے سے کوئلے کی تاریکی اور سیاہی انگاروں کے درمیان کھو جاتی ہے۔
۱۱۔ امام شناسی کے بغیر پیغمبر صلعم کے نور کی معرفت ناممکن ہے اور پیغمبر کے نور کے بغیر خدا کی معرفت محال ہے۔ کیونکہ نبوّت کا دروازہ امامت ہے اور اُلُوہیّت کا دروازہ نبوت۔
۱۲۔ زندہ موجودات کے لئے زندگی کے چار درجے مقرر ہیں۔ پہلا درجہ روحِ نباتی ہے، دوسرا روحِ حیوانی، تیسرا روحِ انسانی اور چوتھا روحِ قدسی۔ اور معرفت روحِ قدسی میں ہے، جو انسانِ کامل یعنی امامؑ کی مبارک روح ہے۔
۱۳۔ اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ جب معرفت امام
۶
کی روح یعنی نور دیکھنے کو کہتے ہیں تو پھر یہ کیوں فرمایا گیا کہ جس نے اپنے آپ کو یعنی اپنی روح کو پہچان لیا تو بے شک اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو روح بحدِّ فعل امام کی ہے وہی روح بحدِّ قوت حقیقی مومن کی ہے۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ مومن کی پہلی روح نباتات سے حاصل ہوتی ہے، دوسری روح حیوانات سے تیسری روح انسانوں سے اور چوتھی روح یعنی روحِ قدسی امام سے حاصل کی جا سکتی ہے اور حقیقی مومن کو چاہئے کہ اپنی اس آخری روح کو حاصل کرے اور کماحقّہٗ پہچان لیا کرے۔
۱۴۔ اگر مان لیا جائے کہ انسان کے لئے چار روحیں مقرر ہیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جسمِ انسانی میں ان کے آنے کے لئے راستے بھی چار ہی ہیں۔ یعنی روحِ نباتی اور روحِ حیوانی شروع شروع میں ناف کے راستے سے اور پھر منہ سے داخل ہوتی رہتی ہیں اور روحِ انسانی اور روح القدس پہلے سر کے کانوں سے پھر گوشِ ہوش سے داخل ہوتی رہتی ہیں۔
۱۵۔ جس طرح یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ مادّی قسم کی غذاؤں کے بغیر روحِ نباتی اور روحِ حیوانی انسان کے جسم میں داخل ہو سکیں اسی طرح یہ امر بھی قطعی محال ہے کہ روحانی نوعیت کی غذاؤں کے بغیر روحِ انسانی اور روح القدس انسان کے دل و دماغ میں جاگزین ہوں اور روحانی غذا علم و حکمت کی باتیں ہیں۔
۷
۱۶۔ امام کے نورِاقدس سے فیوض و برکات حاصل کر کے اپنی ذات میں معرفت والی روح یعنی روحِ قدسی پیدا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ امامِ زمان کے علمی اور عملی فرامینِ مقدس پر عمل کیا جائے اور اس کی خوشنودی ہر چیز پر مقدّم رکھی جائے۔
۱۷۔ امام شناسی کی بنیادی شرط عقیدہ ہے، کیونکہ جس کا عقیدہ درست نہ ہو وہ امام کی معرفت ہرگز حاصل نہیں کر سکتا۔ اور درست عقیدہ کے لئے عموماً بچپن میں مذہبی ماحول کا بہتر ہونا لازمی اور ضروری ہے۔
۱۸۔ امام شناسی کی دوسری شرط امام کی دوستی و محبت ہے۔ محبت عقیدہ کی ترقی یافتہ صورت کا نام ہے۔ اور ترقی امامِ زمان کی فرمانبرداری میں ہے۔
۱۹۔ امام شناسی کی تیسری ضروری شرط امامِ زمان کا عشق ہے جو محبت کی ترقی یافتہ شکل کا نام ہے اور اس کی ترقی اس بات میں ہے کہ امامِ زمان کی ظاہری اور باطنی خوبیوں سے آگاہی حاصل کی جائے۔ کیونکہ کوئی شخص کسی چیز پر عاشق نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کے حسن و خوبی کو نہ دیکھے یا کسی سچ بولنے والے سے نہ سنے۔
۲۰۔ اگر مومن کے دل میں امامِ وقت کا عشق شعلہ زن ہونے لگے تو وہ خود ہی زبانِ حال اور زبانِ قال سے بتا دے گا کہ اب اس کے بعد امام شناسی کی راہ میں کس طرح
۸
آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
نکاتِ مذکورہ بالا کا ماحصل یہ ہے کہ امام شناسی کے بغیر اسماعیلیت سے روحانی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور اس پاک مذہب میں جو کچھ خوبیاں موجود ہیں وہ سب کی سب امام کی شناخت میں پنہان ہیں۔ نیز مذکورہ حقائق سے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ امام شناسی کا ذریعہ بھی خود امامِ حیّ و حاضر ہیں۔ کیونکہ مومن کی فرمانبرداری انہی کے لئے ہونا چاہئے۔
جیسا کہ بتایا گیا کہ کسی مومن کو امامِ وقت سے عشق اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ وہ امام کی بے مثال خوبیوں کو دیکھے یا کسی سچ بولنے والے سے سنے چنانچہ اس کتاب کو تصنیف کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حقیقی مومنین امامِ عالی مقام کے علم و فضل اور روحانیت و نورانیت سے آگاہ ہو جائیں تا کہ اس سے ان کو امامِ زمان علیہ السلام کا عشق حاصل آئے اور اس مقدس عشق سے امام شناسی حاصل کی جا سکے۔
اخیر میں پروردگارِ عالمین کے حضور عاجزانہ دعا ہے کہ ذاتِ کبریا اپنے بے پایان فضل و کرم سے جملہ مومنین و مومنات کو امام شناسی کی لا انتہا دولت سے مالامال فرمائے! ان کو فتنۂ آخر زمان سے بچائے رکھے! ان کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازے! اور دنیا و آخرت کی سرفرازی عنایت فرمائے!
۹
آمین یا رب العالمین!
فقط امامِ زمان کا ایک ادنیٰ غلام
نصیر الدین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی
بروز بدھ ۲۱ جمادی الثانی ۱۳۹۲ھ
۲ اگست ۱۹۷۲ء
۱۰
لفظِ امام کی قرآنی حکمت اور معنوی وسعت
’’امام‘‘ کا لفظ قرآنِ حکیم کے مختلف مقامات پر واحد اور جمع کے صیغوں میں کل بارہ دفعہ مذکور ہوا ہے، اگر ان تمام آیاتِ مقدّسہ کو، کہ جن میں لفظِ امام اور اس کے معنی و مقصد کا تذکرہ موجود ہے، یکجا طور پر عقل و دانش سے دیکھا جائے، تو اس سے یقیناًاس امر کا بخوبی اندازہ ہو گا، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز میں امام شناسی کی حقیقتیں کس جامعیّت کے ساتھ بیان فرمائی ہیں، اور اس نے امامت کے موضوع میں کس قدر بے پایان وسعتِ معنوی رکھی ہے، کہ قرآنی حکمت کی عظیم کائنات فی الاصل اسی امامت کے موضوع کے باطن میں واقع ہے، کیونکہ امامِ عالی صفات علیہ السّلام کا پاک نور حقیقت الحقائق ہے، اس لئے امام کی حقیقتِ عالیہ کے تحت تمام موجودات کی حقیقتیں جمع ہو جاتی ہیں، چنانچہ ہم یہاں علی التّرتیب ان بارہ آیتوں کی کچھ وضاحت کرتے ہیں، جن کے معانی و مطالب میں اسمِ امام کی بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
البقرہ (۲) کی آیت ۱۲۴ (۰۲: ۱۲۴) میں پروردگارِ عالم نے
۱۱
فرمایا ہے کہ: ’’ و اذا ابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمٰت فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً ۔ اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب کہ ابراہیم کے ربّ نے اس کا امتحان لیا چند کلمات سے تو اس نے انہیں پورا کر دیا تو خدانے فرمایا کہ میں تمہیں سب انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔‘‘
یہاں پر یہ سوال ضرور ہونا چاہئے، کہ اللہ تعالیٰ نے جن کلمات سے حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا تھا وہ کس نوعیت کے کلمے تھے اور یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ آیا حضرت ابراہیم پیغمبر تھے یا کہ امام؟ اگر کہا جائے کہ آپ ان دونوں درجوں پر فائز ہوئے تھے، پھر سوال ہو گا، کہ آیا وہ پیغمبر پہلے ہوئے تھے یا امام؟ اگر جواب ملے کہ آپ پہلے پیغمبر پھر امام ہوئے تھے، تو پھر اس کی توجیہہ کرنی ہو گی، نیز یہ سوال بھی ہو، کہ حضرتِ ابراہیم دنیا بھر کے انسانوں کے امام کیسے ہوئے؟ یعنی سیّارۂ زمین کے تمام برِّاعظموں میں آپ نے کس طرح تبلیغ و دعوت کا کام انجام دیا، جب کہ اس زمانے میں پیغام رسانی کے ذرائع محدود تھے؟
جاننا چاہئے، کہ وہ کلمات، جن پر حضرتِ ابراہیمؑ کو آزمایا گیا، جسمانی اور روحانی حدود کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے اسمائےعظام تھے، مثلاً ابتدائی اسم میں حضرت آدم کی روحانیت تھی، دوسرے میں حضرت نوح کی روحانی
۱۲
مثالیں موجود تھیں، تیسرے میں خود حضرتِ ابراہیم کے ماضی و مستقبل پر روشنی ڈالی گئی تھی، چوتھے میں حضرتِ موسیٰ کے تمام روحانی واقعات و معجزات دکھائے گئے تھے، پانچویں اسم میں حضرت عیسیٰ کی روحانی زندگی مندرج تھی، چھٹے میں حضور اکرم کے روحانی کارنامے دکھائے گئے تھے اور ساتویں اسم یا کہ کلمہ میں حضرت قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام کے روحانی معجزات پوشیدہ تھے، نیز ان میں سے ہر ایک اسم کے ساتھ ان حقیقتوں کی روحانی مثالیں بھی موجود تھیں، کہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جد، فتح اور خیال کس معجزانہ طریق سے انبیاء و أئمّہ علیہم السلام کو تائید پہنچاتے رہتے ہیں۔
واضح رہے ، کہ خداتعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم کو پہلے نبوّت و رسالت کے منصبِ جلیلہ سے اور اس کے بعد امامت کے درجۂ عالیہ سے سرفراز فرمایا، چونکہ امامتِ عالیہ کے کئی درجات ہیں۔ جن میں سے بعض درجات نبوّت سے پہلے اور بعض اس کے بعد آتے ہیں، تا کہ امام علیہ السّلام مصلحتِ وقت کے مطابق ان میں سے کسی درجے میں ظہور فرمائے اور حاضر رہے۔
حضرتِ ابراہیمؑ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سارے انسانوں کے لئے امام مقرر ہونے کے کئی معانی ہیں، اوّل یہ کہ آپ زمانۂ آدم سے لے کر اپنے وقت تک ماضی میں سارے لوگوں کے امام تھے، دوسرے یہ کہ اپنی زندگی کے دورانِ حال میں
۱۳
امام تھے، تیسرے یہ کہ اپنے سلسلۂ اولاد کی حیثیت سے مستقبل میں امام ہوئے، آپ زمانۂ ماضی میں اسی طرح امام تھے، کہ دورِ آدم اور دورِ نوح کے تمام پیغمبروں اور اماموں کی روحانیت میں آپ کی روحانیت بالکل اسی طرح شریک اور شامل تھی، جس طرح کہ آپ کی روحانیت میں ان سب کی روحانیّت ہمراز و ہمکار تھی، چنانچہ اسی معنیٰ میں ارشاد ہوا ہے: ’’ ان ابراہیم کان امۃ قانتا للّٰہ حنیفا و لم یک من المشرکین ۱۶: ۱۲۰، بے شک ابراہیم ایک فرمانبردار امّت تھا بالکل ایک طرف کے ہونے والا اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا‘‘۔ امّت کے معنی امام بھی ہیں اور امّت بھی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے یہاں دونوں معنی درست اور موزون ہیں، کہ آپ راہنمائی کی حیثیت میں امام تھے اور حضراتِ انبیاء و أئمّہ کی روح و روحانیت کا جامع ہونے کی وجہ سے ایک پوری امت تھے۔
آپ زمانۂ حال یعنی اپنے وقت میں دنیا بھر کے لوگوں کے امام اس طرح تھے، کہ کرۂ ارض کے بارہ حصے مانے گئے ہیں، اور ہر حصہ کو جزیرہ کہا جاتا ہے، جس کی جمع جزائر ہے، چنانچہ ان بارہ جزائر میں سے ہر جزیرے میں ایک حجّتِ شب اور ایک حجّتِ روز کے علاوہ تیس داعی ہمیشہ موجود ہوا کرتے ہیں، اور ہدایت کے مرکز سے خواہ پیغمبر ہو یا کہ امام، کرۂ ارض کے بارہ جزیروں کے تمام حجّتوں کو معجزانہ ہدایت ملتی
۱۴
رہتی ہے، پس اسی معنی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے وقت میں دنیا کے سب لوگوں کے امام تھے، مگر پیغمبر اور امام کے ایسے معجزات کے لئے اقرار کرنا عوام النّاس کے بس کی بات نہیں، جب تک کہ یہ حقائق ان کے مشاہدے میں نہیں آتے ہیں، اور جب تک کہ اس دنیا میں روحانیت کا دور دورہ نہیں ہوتا۔
قرآنِ حکیم میں یہ ارشاد ہے کہ خنّاس (شیطان) جو جنّات اور انسان کی دونوں صورتوں میں ہے، وہ لوگوں کے سینوں میں وسوسہ (برے خیالات) ڈالا کرتا ہے، پس اگر یہ ممکن ہے، کہ شیطان دور و نزدیک کے لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈال کر گمراہ کر سکتا ہے، تو دوسری طرف سے یہ بھی ممکن ہے، کہ پیغمبر اور امام قریب و بعید کے کسی فرق کے بغیر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ شیطان مُضِل ہے یعنی گمراہ کر دینے والا، اور پیغمبر یا کہ امام ہادی ہے، یعنی رہنمائی کرنے والا، پس اگر قانونِ قدرت مُضِل کی آواز لوگوں کے دلوں تک پہنچا دیتا اور ہادی کی آواز کسی طرح سے بھی نہ پہنچا دیتا، تو اس صورت میں لوگوں پر بڑا ظلم ہوتا، اور قیامت کے روز لوگوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر یہ حجّت قائم ہوتی، کہ اس نے دنیا میں کیوں گمراہی کے ذریعے کو ہمہ رس اور ہدایت کے وسیلے کو محدود کر رکھا تھا؟ مگر حقیقت کچھ اور ہے، وہ یہی کہ پیغمبر اور امام بارہ جزائر کے حجتوں کو روحانی اور نورانی
۱۵
ہدایت پہنچاتے ہیں، اور حجج (یعنی حجّتان) اپنے اپنے داعیوں کے توسط سے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔
حضرتِ ابراہیمؑ مستقبل میں تمام لوگوں کے امام اس معنی میں تھے، کہ جس طرح آپ کی ذاتِ عالی صفات میں زمانۂ سلف کے انبیاء و أئمّہ علیہم السلام کی معجزاتی روحانیّت موجود تھی، بالکل اسی طرح آپ کے سلسلۂ اولاد میں آپ کی زندہ روحانیت موجود اور حاضر تھی، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: ’’ واجعل لی لسان صدق فی الاٰخرین ۔ ۲۶: ۸۴ ، اور میرے لئے بعد میں آنے والے لوگوں کے درمیان سچائی کی ایک زبان مقرر فرما دے‘‘۔ یہ عرض حضرتِ ابراہیم نے خداوند عالم سے کی تھی، نیز ارشاد ہوا ہے کہ: ’’ و جعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ لعلھم یرجعون ، ۴۳: ۲۸۔ اور اس (یعنی ابراہیم) نے اسے (نبوّت اور امامت کو) اپنی اولاد میں باقی رہنے والا کلمہ قرار دیا تا کہ وہ (اللہ تعالیٰ کی طرف) رجوع کرتے رہیں‘‘۔
یہاں اس بات سے کہ ابراہیم نے اپنی نبوّت و امامت کو ایک پائندہ کلمے میں اپنی اولاد میں منتقل کر دی، اس حقیقت کی مزید تصدیق ہوئی، جو بتائی گئی تھی، کہ خداوند تبارک و تعالیٰ نے جن کلمات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا امتحان لیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے زندہ نام تھے، جو انبیاء، أئمّہ اور ملائکہ کی روحانی صورت میں تھے۔
پس معلوم ہوا، کہ ابراہیم خلیل الرّحمٰن اسی معنی میں
۱۶
سب دنیا جہان والوں کے امام ہیں، جب یہ نظریہ مانا گیا، کہ نورِ امامت ایک شخصیت سے دوسری شخصیت میں منتقل ہوتے ہوئے ہمیشہ دنیا میں موجود ہے، تو یہ بھی ماننا لازمی ہے، کہ اسی نورِ امامت سے دنیا کے تمام حجّتوں کو، جو بارہ جزیروں پر منقسم ہیں، تائیدی ہدایت ملتی رہتی ہے۔
۱۷
لفظِ امام کے لغوی معنی
سورۂ توبہ (۹) کی بارہویں آیت کا ارشاد ہے کہ:
’’ و ان نکثوا ایمانھم من بعد عہدھم و طعنوا فی دینکم فقاتلوا أئمّۃ الکفر انھم لا ایمان لھم لعلھم ینتھون ۔ اور اگر انہوں نے اپنے عہد و پیمان کے بعد قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کی تو تم (بھی) کفر کے سرداروں کے خلاف جنگ کرو تا کہ وہ باز آجائیں، بے شک وہ ایسے ہیں، کہ ان کی قسم کچھ چیز نہیں‘‘ (۰۹: ۱۲)۔
اس ارشادِ الٰہی سے ظاہر ہے، کہ أئمّہ، جو امام کی جمع ہے، کفر کے سرداروں کے لئے بھی آیا ہے، چنانچہ معلوم ہوا، کہ امام کے لغوی معنی سردار کے ہیں، اور کسی گروہ کے سردار سے ایک ایسا شخص مراد ہے، جو سب سے مقدم اور بڑا ہو، مثلاً اگر کہا جائے کہ فلان شخص کافروں کا سردار ہے، تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس سے بڑھ کر کوئی کافر نہیں، اور کفر و کافری کا سبب اور ذریعہ وہی ہے، اور کافروں کی ساری نافرمانیوں اور گمراہیوں کی مسؤلیت بھی اسی پر ہے، اس کے
۱۸
مقابل میں اگر کہا جائے ، کہ فلان شخص مومنوں کا سردار ہے، اور یہ بات صحیح ہو، تو اس کا مطلب یہ ہو گا، کہ اس سے بڑھ کر کوئی مومن نہیں، اور ایمان و مومنی کا وسیلہ و ذریعہ وہی ہے، اور ساری ایمانداری اور ہدایت اسی کی وجہ سے ہے، اور امامِ زمانؑ ہی ایسا شخص ہو سکتے ہیں۔
اس فرمانِ الٰہی کی تعلیم سے جب یہ حقیقت ثابت ہوئی، کہ کفر و کافری کے سردار ہوا کرتے ہیں، اور ان کے بغیر ظلمتِ کفر دنیا میں پھیل نہیں سکتی، تو دوسری طرف سے لازماً یہ بھی ماننا ہی پڑے گا، کہ ہمیشہ سے دین و ایمان کے بھی سردار ہوا کرتے ہیں، اور ان کے حاضر و موجود ہونے کے بغیر زمانے میں دین و ایمان کی روشنی جاری نہیں ہو سکتی ہے۔
حکمت کا ایک اور مفہوم اس آیۂ کریمہ میں یہ ہے، کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ہی حاضر و موجود سردار (امام) کے حکم کے تحت منظم اور متّفق و متحد ہو جائیں، کیونکہ ارشاد ہے کہ ’’ تم (سب مسلمان) کفر کے سرداروں کے خلاف جنگ کرو‘‘۔ اور اس امرِ الٰہی پر عمل نہیں ہو سکتا، جبکہ کفر کے سردار کے مقابلے میں ایمان کے سردار موجود نہ ہوں اور دنیائے اسلام ان کے حکم کو قبول نہ کرے، اور اگر کہا جائے، کہ اس وقت ایمان کا کوئی ایسا سردار موجود نہیں جو سارے مسلمانوں کو منظم کر سکے، تو اس کے معنی یہ ہوں گے، کہ نعوذ باللہ منھا خدا خواہ مخواہ انہونی باتوں کے لئے بھی حکم دیتا ہے، یا اس
۱۹
کا مطلب یہ ہو گا کہ جہاد کا یہ حکم رسول اللہ کے زمانے سے متعلّق و محدود ہے، لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے، کہ خدائے حکیم نے جہاد جیسے ایک اہم رکن کے بنیادی ذریعے کو اب دینِ اسلام سے اٹھا لیا ہو، آپ خود خداوندی عدل و انصاف کی روشنی میں سوچئے!
ظاہری جہاد نہ سہی علمی جنگ سہی بہرکیف سب مسلمانوں کے لئے سردار یعنی امام کی ضرورت ہے، آپ اس کرۂ ارض کے تمام مسلمین کی خستہ حالی اور بے چارگی کا تصور کرکے کوئی بنیادی سبب بتائیے، کہ آج مسلمان ہر جگہ مجبور کیوں ہیں؟ اور آپ اس کے سوا اور کیا بتائیں گے، کہ جو مسلمان رسولِ اکرم صلعم کے زمانے میں متّفق و متحد تھے وہ آج متّفرق و منتشر ہیں، اور ان کے اس افتراق و انتشار میں صدیاں گزر گئیں، حالانکہ پروردگارِ عالم نے اس خطرناک نافرمانی سے بچنے کے لئے بروقت ارشاد فرمایا تھا کہ و اعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعا و لا تفرقوا ۔ تم سب کے سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا اور فرقہ فرقہ نہ ہو جانا (کیونکہ تمہارے ہاتھ اس رسی سے چھوٹ جانے کا خطرہ ہے) اب فرقہ فرقہ ہو جانے کا الزام مسلمانوں ہی پر عائد ہوتا ہے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رسی پر، کہ اس نے کیوں ان کو زور و زبردستی سے ایک مرکز پر نہیں لایا، کیونکہ خداوندِ عالم نے یہاں یہ نہیں فرمایا، کہ میری رسی! تم سارے
۲۰
مومنین و مسلمین کو اپنی ذات کی معرفت سے وابستہ کئے رکھنا اور ان کو فرقہ فرقہ نہ ہونے دینا، بلکہ اس نے تو یہ فرمایا کہ اے گروہِ مسلمین! تم سب یکجا طور پر خدا کی مضبوط رسی کو بڑی مضبوطی سے پکڑے ہوئے رہنا اور فرقہ فرقہ نہ ہو جانا۔
۲۱
کیا کوئی آسمانی کتاب امام ہو سکتی ہے؟
سورۂ ہود (۱۱) آیت ۱۷ (۱۱: ۱۷) میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : افمن کان علیٰ بینۃ من ربہ و یتلوہ شاہد منہ و من قبلہ کتٰب موسیٰ اماما و رحمۃ ۔ تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہو، اور اس کے پیچھے ہی پیچھے اسی سے ایک گواہ ہو اور اس کے قبل موسیٰ کی کتاب (توریت) جو (لوگوں کے لئے) امام اور رحمت تھی (اس کی تصدیق کرتی ہو وہ شخص بہتر ہے یا کوئی دوسرا)۔
اس آیۂ کریمہ کی تعلیم یہ ہے کہ آنحضرت صلعم اپنے ربّ کی طرف سے دلیلِ روشن پر ہیں یعنی آپ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں، اور علیّ مرتضیٰؑ جو آپ کا جزو ہیں، آپ کے پیچھے ہی پیچھے حضور کی حقّانیت کا ایک گواہ ہیں، اور اس کے بارے میں ایک اور گواہ آنحضرتؐ کے قبل حضرت موسیٰؑ کی کتاب توریت ہے، جو لوگوں کے لئے امام اور رحمت تھی، اور یہ ساری حقیقتیں مسلّمہ ہیں مگر سوال کتابِ موسیٰ یعنی توریت کے بارے میں ہے، کہ وہ کس حیثیت میں امام تھی؟
۲۲
اس کا جواب یہ ہے، کہ یہ بات عربی زبان کے دستور میں شامل ہے، کہ بعض دفعہ کسی چیز کو دوسری ایسی چیز کے نام سے پکارا جاتا ہے، جو اکثر اس کے ساتھ ہو،مثلاً اس اونٹ کو، جو پانی کی مشکیں لادنے کے لئے مقرر ہو، مشک یا مشکیزہ کہا جاتا ہے، اور یہ مثال عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی مل سکتی ہے، چنانچہ اہلِ علم اس حقیقت سے آگاہ ہیں، کہ آنحضرت صلعم کو قرآنِ مجید (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) میں ذکر کے اسم سے موسوم کیا گیا ہے، حالانکہ ذکر قرآن کا نام ہے، اور اس معنی میں حضورِ اکرم صلعم کو قرآن کہا گیا ہے، اور یہ بات کئی وجوہ سے درست ہے، جن میں سے کچھ وجہیں ظاہری اور کچھ باطنی ہیں، پس ثابت ہوا، کہ روحانی پیشوا (پیغمبر یا امام) کو کتابِ الٰہی اور کتابِ سماوی کو پیشوا یا امام کہا جاتا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آسمانی کتاب یعنی توریت کو امام کے اسم سے موسوم کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے، کہ ہر الہامی کتاب فی الاصل ایک زندہ نور یعنی علم و حکمت کی روح کی حیثیت سے ہوتی ہے، اور وہ بحقیقت امام ہی کی روح ہے، الغرض مولانا ہارون علیہ السلام کی روحِ مقدّس حضرت موسیٰ پر بصورتِ روحانی کتاب وحی کی گئی تھی، پھر ان روحانی حالات و واقعات کی کچھ ترجمانی کرتے ہوئے کاغذی تحریر کی توریت لکھی گئی تھی۔ مگر اصل توریت روحانی اور نورانی صورت میں موجود تھی، یعنی حقیقی توریت تو امامِ عالی صفات کے نور
۲۳
سے جدا نہ تھی، جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ: قل من انزل الکتٰب الذی جاء بہ موسیٰ نورا و ہدی للناس تجعلونہ قراطیس تبدونھا و تخفون کثیرا ،۰۶: ۹۱۔ (اے رسول) آپ کہہ دیجئے وہ کتاب جسے موسیٰ لے کر آئے تھے کس نے نازل کی تھی جو لوگوں کے لئے نور اور ہدایت تھی جسے تم لوگوں نے کاغذات کی (تحریری) صورت دی ہے، جس میں کچھ تو ظاہر کرتے ہو اور اکثر چھپاتے ہو۔
اس آیۂ مقدسہ کی حکمت یہ بتاتی ہے، کہ توریت دو صورتوں میں موجود تھی، چنانچہ پہلی اور اصلی صورت میں توریت علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے معجزاتی نور اور ہمہ گیر مقدس روح کی حیثیت سے ہارون اور موسیٰ علیہم السّلام کے دل و دماغ میں موجود تھی، جس سے بمصداق ’’ ھدی للنّاس ‘‘ اس طرح لوگوں کو معجزانہ ہدایت ملتی تھی، کہ براہِ راست حجّتانِ جزائر کو الہامی روشنی حاصل ہوتی تھی، پھر وہ اپنے اپنے داعیوں کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت کرتے رہتے تھے، دوسری صورت میں توریت جو کچھ بھی تھی، اس کا حال آیۂ مندرجۂ بالا میں ظاہر اور واضح ہے۔
اب اس قرآنی حکمت کی تفصیل سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی، کہ توریت یقیناًاپنی اصلی حالت اور نوری کیفیت میں امام تھی، جس سے حضرت مولانا ہارون علیہ السّلام
۲۴
کا پاک نور مراد ہے، اس حقیقت کی مزید تصدیق و توثیق کے لئے اس آیۂ مقدسہ پر ذرا غور کیا جائے کہ: ’’ و کذالک او حینا الیک روحا من امرنا ما کنت تدری ما الکتاب و لا الایمان و لٰکن جعلنٰہ نورا نھدی بہ من نشاء من عبادنا ، ۴۲: ۵۲۔ اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف (یہ کتاب بصورت) ایک روح نازل کی ہے، آپ کو نہ یہ خبر تھی کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ ایمان (کا انتہائی کمال ) کیا چیز ہے لیکن ہم نے اس (روح) کو ایک نور بنایا جس کے ذریعے سے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں‘‘۔ اس ارشادِ الٰہی سے یہ حقیقت ظاہر ہے ، کہ قرآن حکیم کی بھی ایک ایسی روحانی اور نورانی اصلیت و حقیقت موجود ہے، جس کو پیغمبر اور امام کا نور کہا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص الہامی کتاب اور نور کے مذکورہ حقائق و معارف کے باوجود، جو قرآنِ حکیم کی روشنی میں بیان ہوئے، یہ سوال کرے، کہ آسمانی کتاب پیغمبر اور امام کے نور میں کس طرح موجود ہو سکتی ہے؟ تو اس کا مفصل جواب پھر عقلی طور پر دیا جائے گا، کہ دیکھو جب تم اپنے کسی عزیز کو ایک خط لکھتے ہو، تو وہ اپنے دل و دماغ کی معلومات سے لکھتے ہو، اس میں کبھی ایسا نہیں ہوتا، کہ جتنی معلومات لکھی گئی ہیں، وہ تمہارے ذہن سے خارج ہو کر خط میں اس طرح محدود ہو جائیں، جس
۲۵
طرح کہ کوئی مادّی چیز ایک برتن سے دوسرے برتن میں ڈالنے کے بعد پھر وہ چیز پہلے برتن میں پائی نہیں جاتی ہے، بلکہ وہ معلومات، جو خط میں تحریر ہوئی ہیں، تمہارے دل و دماغ میں اپنی اصلی حالت پر قائم ہیں، ان میں ذرا بھی کمی نہیں آئی، وہ جب تک انسانی ذہن میں ہیں، تو ان کی تحریری صورت نہیں ہوتی بلکہ وہ معلومات قلبی اور ذہنی کیفیت میں موجود ہوتی ہیں، اور یہ بات اس بحث سے علیحدہ ہے، کہ انسان اپنی قوتِ ارادی سے خیال میں بھی کوئی تحریر کر سکتا ہے۔ پس اس مثال و دلیل سے یہ حقیقت واضح ہو گئی، کہ قرآن کے علم و حکمت کا جو معجزاتی نور محمد و علی علیھما السّلام کی ذاتِ اقدس میں طلوع ہوا تھا، وہ قرآن کے لکھنے سے کم نہیں ہو سکتا تھا۔
اب اگر یہاں یہ سوال بھی ہو، کہ قرآن پیغمبر اور امام کی معلومات میں سے نہیں لکھا گیا تھا، بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے آنحضرتؐ پر نازل فرمایا تھا، تو اس کا یہ جواب دیا جائے گا، کہ بے شک قرآن آنحضرتؐ پر لوحِ محفوظ سے نازل کیا گیا ہے، لیکن یہ بات سمجھ لینا ضروری ہے، کہ وہ کس طرح نازل ہوا ہے اور لوحِ محفوظ کیا ہے، چنانچہ جاننا چاہئے، کہ قرآن ایک زندہ روح کی حیثیت سے حضورِاکرمؐ کے قلبِ مبارک پر نازل ہوا ہے، اور نزولِ قرآن کا تذکرہ اسرارِ روحانیت سے مملو ہے، جس کے لئے جداگانہ کوئی مقالہ ہونا چاہئے، المختصر یہ ہے، کہ جو چیز دل میں نازل ہوتی ہے
۲۶
وہ معلومات اور معقولات کی صورت اختیار کر لیتی ہے، اور اگر دل پاک ہے تو معلومات و معقولات کا یہ دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے، تا آنکہ ساری کائنات و موجودات اس میں سمو آتی ہیں، چنانچہ قرآن کی روح جو حضورِ اکرم صلعم پر وحی کی گئی تھی، آپ کی ذاتِ اقدس میں عالمِ ملکوت (فرشتوں کا عالم) بن کر آ گئی تھی، وہ علم و حکمت اور کشفِ حقیقت کی ایک جیتی جاگتی روشن دنیا تھی، جس کے مشاہدات اور تجربات کی ترجمانی عربی زبان میں حضورِ انور صلعم نے فرمائی، اور اسی طرح قرآنِ پاک کی تحریری صورت جمع کی گئی، لیکن قرآن کی روح یا کہ نور بلا کم و کاست حضور کی ذاتِ شریف میں آخری وقت تک موجود تھا۔
اب رہا سوال کہ پھر یہ روح علئ مرتضیٰؑ میں کس طرح آئی؟ اس کے لئے جواباً تحریر کی جاتی ہے، کہ (بحکم: و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ ) نورِ علی، امامِ مبین، کتابِ مبین، ام الّکتاب اور لوحِ محفوظ ہے اور اس میں سب کچھ ہے، اور امام کے نور کے سوا دوسری کوئی چیز لوحِ محفوظ کے درجے میں نہیں ہو سکتی ہے، کیونکہ اگر لوح کے لفظی تصور سے یہ مان لیا جائے، کہ خدا کی ایک بہت بڑی تختی ہے، جس پر ہر چیز لکھی ہوئی موجود ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے، کہ اس ظاہری قسم کی تحریر اور لکھت میں ہر چیز نہیں آ سکتی ہے، مثلاً عقل، شعور، فہم، نطق، تمیز، خوشی،
۲۷
غم و غصہ، علم، حلم اور زندگی کے علاوہ عقول، نفوس، ملائکہ اور کائنات و موجودات کی ہر چیز نیز زمانہ اور اس کے بدلتے ہوئے حالات وغیرہ، یہ تمام باتیں ’’ کل شیء ‘‘ میں داخل ہیں، پس معلوم ہوا، کہ لوحِ محفوظ امام کے نور کا نام ہے، اور یہ نور کائنات و موجودات کے ظاہر و باطن پر محیط و حاوی ہے اور اسی طرح اس میں سب کچھ ہے۔
جاننا چاہئے، کہ عقلِ کل خدا کا زندہ قلم ہے اور نفسِ کل خدا کی زندہ تختی ہے، نیز یہ بھی جاننا چاہئے ، کہ عقلِ کل محمد کا نور ہے، اور نفسِ کل علی کا نور ہے، اور قرآن عقلِ کل کے قلم سے نفسِ کل کی لوح پر روحانی تحریر میں لکھا گیا ہے، اب آپ ہی بتائیے، کہ آنحضرتؐ کی شخصیت پر جو روحانی تحریریں منکشف ہوئیں یا جو قرآن نازل ہوا، وہ کہاں سے ہوا، علّئ عالی صفات کے نور سے، جو لوحِ محفوظ کے نام سے مشہور ہے، اگرچہ آنحضرتؐ کا نور قلمِ الٰہی کی حیثیت سے تھا، لیکن قلم نے تو ازل میں خدا کے امر سے لوح پر سب کچھ لکھ دیا ہے، اور اب ہر چیز لوحِ محفوظ پر موجود ہے، نیز ظاہر ہے، کہ لکھنے کے لئے قلم کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، اور پڑھنے کے لئے تختی کی طرف، پس معلوم ہوا کہ آنحضرتؐ نے علیؑ کے نور کو ام الکتاب اور لوحِ محفوظ سے خدائی تحریروں کی حکمت کا مشاہدہ کیا تھا، اور یہیں سے یہ پاک قرآن حاصل آیا ہے۔
۲۸
امامِ مبین
سورۂ حجر (۱۵) آیہ ۷۹ میں ارشاد ہے کہ:
’’ فانتقمنا مھم و انھما لبامام مبین ۔ ۱۵: ۷۹۔ پس ہم نے ان سے بدلہ لیا اور یقیناًوہ دونوں (اجڑی ہوئی بستیاں) کھلی شاہراہ پر ہیں‘‘۔
اس آیۂ کریمہ کا ظاہری پہلو قومِ لوط اور قومِ شعیب اور ان دونوں کی بستیوں سے متعلق ہے، کہ وہ لوگ اپنے پیغمبروں کو جھٹلانے کے انجام میں عذابِ الٰہی سے ہلاک ہوئے تھے، اور ان دونوں کی بستیاں تباہ و برباد ہو چکی تھیں، چنانچہ قومِ لوط کی بستیاں سدوم وغیرہ اور قومِ شعیب کی بستی مدین تباہ و برباد ہو جانے کے آثار نشانات عرب سے شام کو جاتے ہوئے اب بھی نظر آتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہاں لفظِ امام لغوی لحاظ سے رستے کے معنی میں آیا ہے، اس میں ذرا بھی شک نہیں، کہ حکمت کے اعتبار سے بھی امام رستہ ہیں، یعنی صراطِ مستقیم اور سبیلِ خدا، اور رستے کے دوسرے اور بھی نام ہیں، جیسے مذہب، مسلک، شریعت، طریقت، منہاج وغیرہ، تو ان تمام الفاظ سے امامِ
۲۹
عالی صفات مراد ہے، کیونکہ دنیاوی اور مادّی اعتبار سے راہ اور راہنما دو الگ الگ چیزیں ہوا کرتی ہیں، مگر دینی اور روحانی لحاظ سے ہدایت کے واحد نور کا نام راہ بھی ہے اور راہنما بھی، اس حقیقت کی ایک روشن دلیل قرآنِ پاک سے یہ ہے جو ارشاد ہوا ہے کہ: ’’ ان ربی علیٰ صراط مستقیم ۔ یقیناً میرا پروردگار سیدھی راہ پر ہے‘‘۔ یعنی چراغِ ہدایت اور نورِ معرفت کی روشنی میں خدا ملتا ہے، یا اس مطلب کو سادہ الفاظ میں یوں ادا کرنا چاہئے، کہ امامِ اقدس کا پاک نور ہی وہ سیدھا رستہ ہے جس پر کہ خدا ہے، اور بندگانِ خدا کے لئے خدا کا حقیقی تصور، دیدار و ملاقات اور معرفت اسی نور کے رستے پر یقینی ہے، اور نور کا یہ رستہ ہمیشہ کے لئے قائم و باقی ہے۔
اس آیۂ مقدسہ کی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے، کہ امامِ مبین کا مطلب جیسا کہ ذکر کیا گیا صراطِ مستقیم ہے، جو نور کا راستہ ہے، چنانچہ جب حقیقی مومنین امامِ مبین کی روحانیت و نورانیت کے رستے پر چلتے رہتے ہیں، تو وہ دیدۂ دل سے سابقہ امتوں کی بے شمار مثالوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اور اس سلسلے میں قومِ لوط اور قومِ شعیب اور ان دونوں کی بستیوں کا حال بھی شامل ہے۔
نیز اس ارشادِ الٰہی میں ایک اور حکمت یہ بھی ہے، کہ عددی اصول کے اعتبار سے ’’ایک‘‘ کا عدد اللہ تعالیٰ
۳۰
کی وحدانیت پر دلیل ہے، اور اس کے بعد ’’دو‘‘ کا عدد آتا ہے، جو وحدت اور کثرت کے درمیان ہے، یعنی دونوں کے مابین واسطہ اور وسیلہ ہے، اور اس کی ایک خاصیت یہ ہے، کہ کثرت کو وحدت کے قریب لاتا ہے، پس دو کا عدد از روئے حکمت مخلوقات و موجودات میں سے ایسی دو ہستیوں کے لئے مقرر ہے، جو دونوں جہان میں خدا کے بعد انہی کا درجہ ہے، جس طرح اعداد و شمار میں ایک کے بعد دو آتا ہے، اور وہ دو ہستیاں ہیں عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ، چنانچہ اب اس لحاظ سے ’’ و انھما لبامام مبین ‘‘ کی تأویل یہ ہے کہ: عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ امامِ مبین کے ساتھ ہیں۔ کیونکہ عالمِ ہست و بود اور حدودِ روحانی میں سب سے عظیم دو فرشتے یہی ہیں۔
نیز جاننا چاہئے،کہ مراتبِ کائنات میں دو سب سے بڑی چیزیں عرش و کرسی ہیں، عالمِ علمِ الٰہی میں قلم و لوح ہیں، کونِ وحدت میں ربوبیت و عبودیت ہیں، دنیائے اسلام میں قرآن و حدیث ہیں، حدودِ جسمانی میں ناطق و اساس (محمد و علی علیہما السلام) ہیں، دائرۂ ہستی میں روحانیت و جسمانیت ہیں، مقاماتِ تعلیم میں مجمع البحرین یعنی دو ملے ہوئے سمندر ہیں، عرصۂ وجود میں دنیا و آخرت ہیں وغیرہ، چنانچہ ’’انھما‘‘ کی اس ضمیرِ تثنیہ میں مذکورہ دنیاؤں کی ان عظیم چیزوں کی طرف اشارہ ہے، کہ جن پر
۳۱
دو کے عدد کا بحقیقت اطلاق ہوتا ہے، پس یہ حقیقت واضح اور روشن ہوئی، کہ امامِ مبین اُس ہستی کا نام ہے، جس کی ذاتِ عالی صفات سے کوئی حقیقت جدا اور دور نہیں۔
۳۲
امامؑ کی دائمیّت کا تصوّر
سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) آیت ۷۱ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ یوم ندعوا کل اناس بامامھم ۔ ۱۷: ۷۱۔ جس دن ہم تمام (زمانوں کے) لوگوں کو اپنے اپنے امام کے ساتھ بلائیں گے‘‘۔ یاد رہے، کہ یہ آیت لفظی معنی کے لحاظ سے اس قسم کی ہے، جس طرح کہ: قد علم کل اناس مشربھم ۔ ۰۲: ۶۰۔ سب قبیلوں نے اپنا اپنا گھاٹ جان لیا۔ چنانچہ اس آیۂ کریمہ کی حکمت کے سلسلے میں یہاں سب سے پہلے لفظ ’’اناس‘‘ کا مطلب سمجھنا ضروری ہے، اور وہ اس طرح سے ہے، کہ اناس انس کی جمع ہے، اور اس کی دوسری صورت اناسی ہے، جو کہ قرآنِ کریم میں لوگوں کی چھوٹی تقسیم کے لئے آیا ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ کے لوگوں کو امتِ موسیٰ یا کہ قومِ موسی کہا جاتا ہے، اور انہیں کسی اضافت و نسبت کے بغیر ناس بھی کہا جاتا ہے، مگر سب کو ملا کر اناس نہیں کہا جاتا۔ کیونکہ اناس قرآن میں لوگوں کی چھوٹی تقسیم کے لئے استعمال ہوا ہے، یعنی حضرت موسیٰؑ کی قوم کے بارہ قبیلوں میں سے ہر قبیلے کو اناس کہا گیا ہے۔ اس کا
۳۳
مطلب یہ ہوا، کہ امامِ وقت کی نسبت سے انسانوں کو اناس کہا گیا ہے۔ جس طرح کہ پیغمبر کی نسبت سے لوگوں کو امت یا قوم کہا جاتا ہے، چونکہ ہر ناطق پیغمبر کے دور میں کئی امام ہوا کرتے ہیں، پس ہر امام کے زمانے کے لوگ امت اور قوم نہیں کہلائیں گے بلکہ اناس کہلائیں گے۔
حقائق بالا مظہر ہیں، کہ امامِ عالی مقام ہمیشہ سے دنیا والوں کے درمیان موجود و حاضر ہیں، اور یہی سبب ہے، کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی عدالت گاہ میں ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے امامِ وقت کے ساتھ بلا لے گا۔ یہ اس لئے کہ خدا نے امام کو دنیا والوں کے لئے سرچشمۂ ہدایت اور وسیلۂ نجات بنایا ہے، مگر لوگوں نے اسے نہیں پہچانا، نیز اس لئے کہ امام علیہ السلام لوگوں کے اعمال پر گواہ ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ لوگوں کے اچھے اور برے اعمال کا فیصلہ نہیں فرمائے گا، جب تک کہ امام علیہ السّلام ان کے اعمال کے متعلق گواہی نہ دے۔
اس اصول کا جاننا ضروری ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی بعض صفات پیغمبر اور امام علیہما السّلام کی نسبت سے ہیں۔ اور ایسی صفات معلوم کر لینے کا طریقہ یہ ہے، کہ خدا تعالیٰ کے سو (۱۰۰) ناموں کو دیکھا جائے، پھر پیغمبر کے سو (۱۰۰) ناموں کو دیکھا جائے اور اس کے بعد امام کے سو (۱۰۰) ناموں کو دیکھا جائے، اب خدا کے جو جو اسمِ صفاتی پیغمبر اور امام کے اسماء میں آئیں
۳۴
گے، وہ خدا کے ایسے اسماء ہوں گے، جو پیغمبر اور امام علیہما السلام کی نسبت سے ثابت ہیں۔ مثلاً خدا کے اسمائے صفاتی میں سے ایک اسم الہادی ہے، یعنی ہدایت کرنے والا، یہی اسمِ صفت رسولِ اکرم کا بھی ہے اور امامِ اطہر کا بھی، پس دانشمندوں کے لئے ظاہر ہے، کہ خدا اس لئے ہادی ہے، کہ اس نے ہدایت کے لئے پیغمبر بھیجا اور پیغمبر اس لئے ہادی ہے، کہ اس نے اپنے وقت میں لوگوں کی ہدایت کی اور آئندہ لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنی آل سے امام مقرر فرمایا، اور کارِ ہدایت امام پر آ کر مکمل ہوا۔
اسی طرح خدا کے ناموں میں سے ایک نام الشہید ہے، یعنی ’’گواہ‘‘ نیز پیغمبر اور امام علیہما السلام کا بھی یہی نام ہے، اور اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خدا نے پیغمبر کو گواہ کے طور پر بھیجا ہے، اور پیغمبر نے بحکمِ خدا امام کو اپنی جگہ میں لوگوں پر گواہ بنایا ہے، پس لوگوں کے اعمال پر گواہِ مطلق امامِ عالی مقام ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ خدا قیامت کے دن ہر زمانہ کے لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلا لے گا۔
۳۵
خدا امامؑ سے ہر وقت مخاطب ہے
سورۂ انبیاء (۲۱) آیت نمبر ۷۳ میں خدا تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ و جعلنٰھم ائمۃ یھدون بامرنا ۔ اور ہم نے ان کو (لوگوں کے ) ائمہ بنایا کہ وہ ہمارے امر کے بموجب لوگوں کو ہدایت کرتے تھے‘‘ (۲۱: ۷۳)۔
اس آیۂ کریمہ کی حکمت سے صاف طور پر ظاہر ہے، کہ أئمّۂ برحق کا تقرر اللہ تعالیٰ خود ہی فرماتا ہے، اور حضراتِ أئمّہ پروردگارِ عالم کے منشاء و امر کے مطابق لوگوں کو ہدایت کیا کرتے ہیں، نیز اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے، کہ امر و ارشاد فرمانے کے لئے اللہ تعالیٰ ہر وقت أئمّۂ اطہار سے مخاطب ہوتا ہے، اس خطابِ الٰہی کو خواہ ہم توفیقِ خاص کہیں یا نورانی ہدایت یا وحی بہرحال امامانِ برحق کو خدا تعالیٰ کا امرو فرمان وقت اور جگہ کی ضرورت کے موافق تازہ بتازہ حاصل ہوتا رہتا ہے، چونکہ امرِ باری تعالیٰ انہی صاحبان کے لئے مخصوص ہے، یعنی یہ حضرات ایک طرف سے تو اللہ تعالیٰ کا امر و فرمان حاصل کرتے رہتے ہیں، اور دوسری طرف سے لوگوں کو نافذ کر دیتے ہیں اور اسی معنی میں یہ حضرات اولوا الامر کہلاتے ہیں۔
۳۶
ہر وہ دانشمند جو خدا کی ہستی کا قائل ہو، ذرا غور و فکر کرکے اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے، کہ خدا تعالیٰ کے قانونِ رحمت کی رو سے یہ بات قطعاً ناممکن ہے ، کہ خدا جو رحمان و رحیم ہے، کسی وقت دنیا والوں سے اپنا ذریعۂ امر و ہدایت (یعنی امامِ زمان) اٹھا لے، نیز یہ بھی محال ہے کہ دنیا والے کسی وقت خدا کے سرچشمۂ ہدایت سے بے نیاز ہو جائیں، پس واجب و لازم ہے، کہ ہر زمانے میں امام بلباسِ بشریت لوگوں کے درمیان حیّ و حاضر ہو، خواہ نبوّت کا دور ہو یا امامت کا۔
واضح رہے، کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک جو زمانہ گزر چکا ہے، اسے دورِ نبوّت کہتے ہیں، اور آنحضرتؐ سے قیامت تک جو زمانہ گرز رہا ہے اسے دورِ امامت کہا جاتا ہے، اور ان دونوں زمانوں میں یہ فرق ہے، کہ دورِ نبوّت میں بعض أئمّۂ کرام علیہم السلام خدا کے امر سے امامت کے ساتھ ساتھ کارِ نبوّت کو بھی انجام دیتے تھے، لیکن دورِ امامت چونکہ دورِ قیامت ہے اس لئے اس میں آلِ محمد کے أئمّۂ طاہرین صرف امورِ امامت سے متعلق فرائض کو انجام دیتے آئے ہیں۔
۳۷
پرہیزگاروں کے امام
سورۂ شعراء (۲۵) آیت نمبر ۷۴ میں لفظِ امام اس انداز میں آیا ہے کہ: و الذین یقولون ربنا ھب لنا من ازواجنا و ذریتنا قرۃ اعین و اجعلنا للمتقین اماما ۔ اور وہ لوگ جو (ہم سے) عرض کیا کرتے ہیں، کہ پروردگار ہمیں ہماری بیبیوں سے اور ہماری ذریت سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا دے (۲۵: ۷۴)۔
اس آیۂ مقدسہ کی حکمتوں میں سے ایک نمایان حکمت یہ ہے، کہ اس دعا کا زیادہ تر تعلق أئمّۂ کرام علیہم السلام سے ہے، کیونکہ صرف وہی حضرات یہ شان رکھتے ہیں، کہ اپنی اولاد اور ذرّیات کی حیثیت میں بھی امام بن جائیں۔
اس آیۂ دعائیہ سے یہ حقیقت ظاہر ہے، کہ امامِ برحق اپنی اولاد و احفاد کی شخصیتوں میں بھی امام ہوتا ہے، چنانچہ اسماعیلیوں کا یہ عقیدہ درست ہے، جو کہتے ہیں کہ مولانا علیؑ شاہ کریم الحسینی حاضر امام کے جامۂ بشریت میں موجود و حاضر ہیں۔
آیۂ مذکورہ بالا کے حکیمانہ انداز میں عقل و دانش والوں
۳۸
کے لئے سلسلۂ امامت کی لا انتہائی کا ذکر موجود ہے، وہ اس طرح کہ نہ صرف زمانۂ ماضی میں بلکہ حال اور مستقبل میں بھی ہر امام مذکورہ ارشاد کے مطابق اپنے پروردگار سے یہی درخواست کرے گا، کہ وہ اپنی شخصیت کے علاوہ اپنے بیٹوں اور آئندہ نسل کی حیثیت میں بھی پرہیزگاروں کا امام بنتا رہے، اور بغیر کسی انتہا کے یہی سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہے گا۔ اگر بہت سے زمانوں کے بعد سیّارۂ زمین کی مدتِ عمر ختم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ نورِ امامت کو کسی دوسرے سیارے پر منتقل کر لے گا۔ جیسا کہ شروع میں یہ نور دوسرے سیّارے سے نازل ہوا تھا جس کو ہبوطِ آدم کہتے ہیں۔
جاننا چاہئے کہ پرہیزگاروں کا امام بننے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ امامِ عالی مقام کے وجودِ مبارک سے پہلے کچھ پرہیزگار لوگ موجود ہوں۔ پھر اس کے بعد امام پیدا ہو جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے، کہ امامِ زمان کی ہدایت کے نتیجے میں کسی کو پرہیزگاری حاصل آتی ہے اور پھر امام ان سے منسوب ہو کر ’’امام المتّقین‘‘ کہلاتا ہے۔ یا یوں کہنا چاہئے ، کہ جب امام دنیا میں ہمیشہ سے ہیں تو نتیجے کے طور پر پرہیزگار بھی ہیں اور پرہیزگاری بھی۔
ایک اور عظیم حکمت یہاں لفظ ’’ذرّیت‘‘ میں پنہان ہے، ویسے تو لفظ ذرّیت میں ایک نہیں بلکہ بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ مگر ہم یہاں اختصار سے کام لیتے ہیں، کہ
۳۹
ذرّیت اور ذرّہ ایک ہی مادہ کے الفاظ ہیں۔ جاننا چاہئے، کہ ذرّیت اور اولاد کے درمیان بڑا فرق ہے، اور وہ یہ ہے کہ ذرّیت نام ہے ذرّۂ روح یا نقطۂ روح کا، جو انسان کے خون و خلیات میں ہے اور ابھی تولید کے مراحل سے نہیں گزرا ہے، اور اولاد ایسے ذرّات کو اس وقت کہا جاتا ہے، جبکہ یہ تولید کے مراحل سے آگے گزر چکے ہوں، اس حقیقت کی ایک روشن دلیل، کہ جسمِ انسانی کے خون اور خلیات کے اندر جو زندگی یا روحِ حیوانی کے بے شمار ذرّات موجود ہیں، ان کا قرآنی نام ذرّیت ہے، :ارشادِ قرآنی کی صورت میں یہ ہے
’’ و اٰیۃ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون ۔ ۳۶: ۴۱۔ اور ان کے لئے یہ بھی ایک معجزہ ہے، کہ یقیناً ہم نے ان کی ذرّیت (یعنی ان کی زندگی کے ذرّات) کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا”۔ یعنی جو مومنین کشتئ نوح میں بوقتِ طوفان سوار ہوئے تھے، ان کے خون و خلیات میں ان منکرین کی زندگی کے ذرّات یعنی ذرّیت موجود تھی۔ نیز کلامِ پاک میں یہ بھی ارشاد ہے: ’’ و اذ اخذ ربکم من بنی آدم من ظھورہم ذریتھم ، ۰۷: ۱۷۲۔ اور جب آپ کے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذرّیت کو لیا”۔ اس آیۂ کریمہ سے ظاہر ہے، کہ حضرت آدم کے بیٹوں کی پشتوں سے جو روحیں لی
۴۰
گئی تھیں، ان میں دنیا بھر کے لوگوں کی روحیں شامل تھیں، کیونکہ اس موقع پر خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی روحوں کو جس مقصد کے لئے بیدار کر دیا تھا، اس کا تعلق چند روحوں سے نہیں بلکہ ساری ارواح سے تھا، بہرکیف مذکورۂ بالا تینوں آیات کا خلاصہ یہ ہے، کہ ذرّیت ان بے شمار روحوں کا نام ہے، جو انسانی خون و خلیات کے اندر ایک قسم کی خوابیدہ حالت میں موجود ہیں، جن میں سے صرف چند روحیں قانونِ فطرت کے مطابق اولاد کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں، اور باقی البتہ ویسے ہی خیال، توجہ، محبت، تعلیم ، دعائے خیر وغیرہ کی روحانی لہروں سے اپنوں اور بیگانوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں، یہی باتیں أئمّۂ طاہرین کی مذکورہ دعا میں بھی پائی جاتی ہیں کہ ان حضرات کے نزدیک آنکھوں کی ٹھنڈک (یعنی فرزند) دو صورتوں میں ممکن ہے، چنانچہ پہلی صورت جسمانیّت کی ہے، اور دوسری روحانیّت کی، پس ’’ و من ذریتنا = اور ہماری ذرّیت سے‘‘ میں جسمانی اولاد کا تذکرہ نہیں، بلکہ اس سے روحانی فرزند مراد ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے جو دعا کی گئی ہے، اس میں حضراتِ أئمّہ کی جسمانی بیبیاں شریک نہیں کی گئی ہیں۔
۴۱
امام کے روحانی فرزندوں کا درجہ
سورۂ قصص (۲۸) آیت نمبر ۵ میں لفظِ امام صیغۂ جمع میں اس طرح سے آیا ہے کہ: و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوٰرثین ۔ اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ روئے زمین پر کمزور کر دئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور انہی کو (لوگوں) کے أئمّہ بنائیں اور انہی کو اس (سرزمین) کے وارث بنائیں (۲۸: ۰۵)۔
آیۂ مذکورۂ بالا ظاہراً حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون اور ان کے فرمانبردار مومنین کے بارے میں ہے، اور باطناً تمام أئمّۂ برحق اور ان کے سارے روحانی فرزندوں کے بارے میں ہے، اور اس آیت کا خلاصہ و نتیجہ یہ ہے، کہ دنیا میں امامِ عالی صفات اور اس کے ماننے والوں کو کمزور سمجھا جاتا ہے، ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں اور ان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر خداوندِ عالم منکرین کے ایسے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاتا ہے، اور امام اور اس کے حقیقی پیروؤں پر احسان کرتا ہے، درختِ امامت کو پھلنے پھولنے کا موقع عنایت کرتا ہے، امام اور اس کے روحانی فرزندوں
۴۲
کو ظاہری و باطنی مال و ملک کا وارث بنا دیتا ہے، اور ان کو دین و دنیا کی سرداری عطا کر دیتا ہے۔
ذرا غور و فکر کرنے سے آپ کو معلوم ہو گا، کہ اس آیۂ کریمہ نے حقیقی مومنین یعنی امام کے روحانی فرزندوں کو درجۂ امامت میں شامل کر دیا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں، اوّل اس لئے کہ دنیا کی کوئی فاتح قوم اپنا کوئی سردار منتخب کرتی ہے، تو یہ سرداری ساری قوم کی ہے، بالفاظِ دیگر پوری قوم سردار ہے، دوسرا اس لئے کہ اگر ایک شخص بادشاہ بننے میں کامیاب ہو گیا، تو اس کامیابی میں اس کے عزیز و احباب بھی شریک ہیں، اور تیسرا اس لئے کہ اگر باپ بادشاہ ہے، تو یقیناً بیٹا بھی بادشاہ ہو گا، یا کسی بڑے عہدے پر فائز ہوگا، بشرطیکہ لائق اور فرمانبردار ہو۔
سوال: اگر ایک ہندو اسلام قبول کر کے امامِ برحق کا مرید بنتا ہے تو وہ کس طرح امام کا روحانی فرزند ہو سکتا ہے جبکہ اس کی روح ہندوانہ تعلیم سے بنی ہوئی ہے؟
جواب :
ا۔ وہ اس طرح امام کا روحانی فرزند بن سکتا ہے، جس طرح کہ سلمان فارسی پیغمبر کا یا امام کا روحانی فرزند بن گیا تھا۔ حالانکہ وہ شروع شروع میں آتش پرست تھا۔
۲۔ اگر کوئی تالاب گندہ اور ناپاک پانی سے بھرا ہوا ہے، تو اس کو بڑی آسانی سے صاف اور پاک کر دیا جا سکتا
۴۳
ہے، وہ اس طرح کہ نہر سے تالاب میں پاکیزہ پانی بہا دیا جائے اور کچھ وقت کے لئے پانی کو جاری رکھا جائے۔ تا کہ یہ تازہ پانی اس گندے پانی کو مُخرج اور نکاس سے نکال دے اور تالاب میں صاف و پاک پانی رہ جائے۔
۳۔ اس سے قبل یہ بات بتا دی گئی ہے، کہ روحیں خیال، توجہ، محبت، تعلیم، دعائے خیر وغیرہ کی روحانی لہروں سے بھی اپنوں اور بیگانوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں، جس میں تالاب کے گندے پانی کی جگہ صاف پانی بھر جانے کی طرح ناپاک روحوں کو نکال کر پاک روحیں قائم رہتی ہیں۔
۴۔ اگرچہ سب کے نزدیک یہ بات مشہور ہے، کہ انسان کے اندر تین روحیں ہیں، اور انسانِ کامل کے اندر چار روحیں ہوتی ہیں، تاہم یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے، کہ ان تینوں یا چاروں کے مجموعی ذرّات بے شمار ہیں، اور سوائے خدا کے کوئی انسان ان کا شمار نہیں کرسکتا، پس ان لاتعداد روحوں میں سے ایک روح انسان کی خودی اور انائیت کے مرکز پر کام کرتی ہے باقی روحوں کا تعلق جس عضو سے ہو، وہی کام کرتی رہتی ہیں مگر سب کے سب اس بات کی متمنی ہوتی ہیں کہ وہ مرکز پر قبضہ کریں چنانچہ ذکر و عبادت کے نتیجے میں ان ذرّات کو موقع میسر ہوتا ہے، کہ روح کا مرکزی ذرّہ خدا کے نور میں تحلیل ہو جاتا ہے، اور قریب کا کوئی دوسرا ذرّہ اسی وقت مرکز پر آتا ہے، اور عبادت سے ہی سلسلہ ہمیشہ کے لئے
۴۴
جاری رہتا ہے، اسی چیز کا نام صوفیوں کے نزدیک تحلیلِ نفس یا تزکیۂ نفس ہے۔
۴۵
امام سرچشمۂ ہدایت ہیں
سورۂ قصص (۲۸) آیت نمبر ۴۱ کا ارشاد ہے:
و جعلنٰھم ائمۃ یدعون الی النار و یوم القیامۃ لا ینصرون ۔ اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا۔ جو آگ کی طرف بلاتے تھے اور قیامت کے دن ان کو کوئی مدد نہ دی جائے گی (۲۸: ۴۱)۔
اس فرمانِ الٰہی سے یہ حکمت ظاہر ہے، کہ فرعون و ہامان اور ان جیسے کافر سردار لوگوں کے ایسے پیشوا تھے، جو لوگوں کو آتشِ دوزخ کی طرف بلاتے اور راہنمائی کرتے تھے، اس سے صاف طور پر معلوم ہوا، کہ نافرمانی، گمراہی، اور کافری اگرچہ آسان ہے، لیکن یہ چیز بھی بغیر سردار اور پیشوا کے ممکن نہیں، پس فرمانبرداری، ہدایت اور ایمان پیشوا یعنی امام کے بغیر کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
نیز جاننا چاہئے ، کہ اگر قانونِ قدرت کے لئے یہ بات ضروری ہے، کہ لوگوں کے درمیان کوئی ایسا شخص ہمیشہ موجود ہو، جو کہ انہیں راہِ راست سے گمراہ کر کے دوزخ کا راستہ بتائے، پھر اس کے مقابلے میں یہ امر زیادہ ضروری ہے، کہ
۴۶
دنیا میں کوئی ایسا شخص بھی ہمیشہ موجود رہے، جو کہ صراطِ مستقیم پر لوگوں کی راہنمائی کرتے ہوئے انہیں بہشت میں پہنچا سکتے، اور ایسا شخص امامِ زمان ہی ہیں۔
پروردگارِعالم جس شخص کو کفر کا سردار بناتا ہے، تو اس کو یوں ہی اور خالی خولی سردار نہیں بناتا بلکہ اسے ظاہری اور مادّی قسم کے سامانِ تجمل اور طرح طرح کے مال یا ظاہری علم و ہنر دے دیتا ہے، تب ہی وہ لوگوں کو راہِ حق سے گمراہ کر کے جہنم کے راستے پر چلانے میں کامیاب ہو سکتا ہے، جیسا کہ قولِ قرآن ہے: و قال موسیٰ ربنا انک اٰتیت فرعون و ملاہ زینۃ و اموالا فی الحیٰوۃ الدنیا ربنا لیضلوا عن سبیلک ۔ ۱۰: ۸۸۔ اور موسیٰ نے کہا اے ہمارے رب تحقیق تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو سامانِ تجمل اور مال دیا ہے، دنیوی زندگی میں اے ہمارے ربّ تا کہ وہ تیری راہ سے (لوگوں کو) گمراہ کریں۔ پس لازمی ہے کہ خداوندِ عالم ایمان کے سردار یعنی امام کو بھی کچھ مال و دولت عطا فرمائے، تا کہ وہ لوگوں کی ہدایت کر سکے، کیونکہ لوگ فطرتاً اس شخص کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، چنانچہ پروردگارِ عالم نے امامِ برحق کو روحانی مال و ملک سے نوازا ہے، جو علم و حکمت کی صورت میں ہے، جس کے سبب سے عقل و دانش والے امام کی طرف متوّجہ ہو جاتے ہیں۔
۴۷
آیۂ مذکورۂ بالا کی حکمتوں میں یہ بھی ارشاد ہے، کہ قیامت کے دن یعنی دورِ روحانیت میں کفر کے سرداروں کو کوئی مدد نہ دی جائے گی، پھر معلوم ہوا کہ اس حال کے برعکس ایمان کے سرداروں کو مدد دی جائے گی، یعنی فتح و نصرت اور غالبیّت أئمّۂ اطہار اور ان کے تابعین کی ہو گی۔
۴۸
امام کے صبر اور تیقّن کے معنی
سورۂ سجدہ (۳۲) آیت نمبر ۲۴ میں ارشاد ہے:
و جعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا لما صبروا و کانوا باٰیٰتنا یوقنون ۔ اور ہم نے ان میں سے امام بنائے جبکہ انہوں نے صبر کیا جو ہمارے امر سے ہدایت کیا کرتے تھے اور وہ لوگ ہماری آیتوں (یعنی روحانی معجزات) کا یقین رکھتے تھے (۳۲: ۲۴)۔
اس آیۂ مقدسہ کی وضاحت یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کی جنس سے امام بنائے، جبکہ انہوں نے ظاہری اور باطنی امتحانات میں صبر اختیار کیا، پیغمبروں اور اماموں پر جو ظاہری امتحانات آتے ہیں، وہ سب کو معلوم ہیں، مگر ان سے جو باطنی امتحانات لئے جاتے ہیں، ان سے بہت کم لوگ واقف ہیں، جاننا چاہئے کہ وہ آزمائشیں خالص روحانی قسم کی ہوا کرتی ہیں، جو علم و حکمت اور رشد و ہدایت سے بھرپور ہیں، جن کے ذریعہ امام کا فرزند حدودِ دین کے مراتب سے ایک ایک کر کے عروج کرتا ہے، تا آنکہ درجۂ امامت پر فائز ہو جاتا ہے۔
اس ارشادِ الٰہی سے یہ بھی واضح ہے کہ امامِ برحق
۴۹
اللہ تعالیٰ کے امر سے لوگوں کو ہدایت کرتے ہیں جس کا یہ مطلب ہوا، کہ امام علیہ السلام جو کچھ ہدایت فرماتے ہیں، وہ دراصل خدا کی طرف سے ہے، اور اس طرح خدا تعالیٰ کا امر و فرمان دنیا میں جاری و ساری ہے۔
جاننا چاہئے، کہ جو ہدایت خدا کے امر سے ہو، وہی صحیح ہدایت ہوتی ہے، اس میں منزلِ مقصود کی طرف صحیح راہنمائی، ہر مشکل سوال کا درست جواب اور زمان و مکان کے پیدا کردہ مسائل کے یقینی حل موجود ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر ایمان لانے اور ان پر یقین رکھنے میں بڑا فرق ہے، کیونکہ ایمان عام بھی ہے اور خاص بھی، مگر یقین عام نہیں خاص ہی ہے، چنانچہ آیۂ مذکورہ بالا کا یہ ارشاد ، کہ أئمّۂ طاہرین اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا یقین رکھتے ہیں، اس امر کی دلیل ہے، کہ أئمّۂ کرام علیہم السلام پر علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کی ساری حکمتیں اور حقیقتیں ظاہر اور روشن ہیں، اور خدا کی کوئی نشانی ان سے پوشیدہ نہیں۔
ان تمام باتوں کا تعلق امام شناسی سے ہے، یعنی یہ باتیں ان لوگوں کے لئے مفید ہیں، جو امامت کا عقیدہ رکھتے ہوں اور امام شناسی کی کسی نہ کسی منزل پر پہنچتے ہوں۔
۵۰
نورِ امامت میں تمام چیزیں محدود ہیں
سورۂ یاسین (۳۶) آیت نمبر ۱۲ میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: انا نحن نحی الموتیٰ و نکتب ما قدموا و اٰثارھم و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ بے شک ہم مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھتے جاتے ہیں وہ اعمال جن کو لوگ آگے بھیجتے جاتے ہیں اور ان کے وہ اعمال جن کو پیچھے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں اور ہم نے ہر (روحانی وعلمی) چیز کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔
اس فرمانِ الٰہی کی تاویل یہ ہے، کہ جہالت و نادانی کی موت سے علم وحکمت کی روح میں زندہ ہو جانا اور دنیا و آخرت کی نعمتوں سے متمتع ہو جانا اس وقت ممکن ہے، جبکہ کوئی شخص امامِ مبین کی معرفت تک رسا ہو جائے کیونکہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ نے پہلے مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر فرمایا پھر اعمالِ آخرت اور آثارِ دنیا کا، اور اس کے بعد فرمایا کہ یہ سب کچھ امامِ مبین کی ذاتِ با برکات میں مجموع ہے، پس معلوم ہوا، کہ امامِ مبین کی معرفت کی روشنی میں ان تمام حقیقتوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، کہ کس طرح مردہ زندہ ہو سکتا ہے،
۵۱
اور اعمالِ آخرت اور آثارِ دنیا سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
امامِ مبین کے معنی ہیں ظاہر امام اور بیان کرنے والا امام یعنی امامِ حیّ و حاضر، جس کے نورِ مقدّس نے عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کی صورت میں اپنے اندر دونوں جہان کو سموئے رکھا ہے، دونوں جہان میں سب کچھ ہے اور ان سے باہر کچھ بھی نہیں۔
مبین کے معنی میں امامؑ دو صورتوں میں ظاہر ہیں اور دو صورتوں میں بولنے والا ہیں، وہ دو صورتیں جسمانیّت اور نورانیت ہیں، یعنی امامِ عالی مقام بشری لباس میں بھی ظاہر ہیں اور پیکرِ نور میں بھی، وہ حدودِ جسمانی میں بھی بولنے والا ہیں اور درجاتِ روحانی میں بھی۔
۵۲
نورِ امامت خدا کی بولنے والی کتاب ہے
سورۂ احقاف (۴۶) آیت نمبر ۱۲ میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: و من قبلہ کتٰب موسیٰ اماما و رحمۃ و ھٰذا کتٰب مصدق لسانا عربیا لینذر الذین ظلموا و بشریٰ للمحسنین ۔ اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب تھی (لوگوں کے لئے) رہنما اور رحمت، اور یہ کتاب عربی زبان میں ہے اسی کی تصدیق کرنے والی، تا کہ ظالموں کو ڈرائے اور نیکوکاروں کو خوشخبری سنائے (۴۶: ۱۲)۔
حقیقی مومنین کو جاننا چاہئے، کہ حضرت مولانا امام ہارونؑ کا مقدس و مبارک نور ہی حضرت موسیٰؑ کی اصلی کتاب تھا، چونکہ آسمانی کتاب وحی کی کیفیت میں ایک زندہ نور ہوتی ہے، اور اسی معنی میں موسیٰ کی کتاب لوگوں کے لئے امام اور رحمت تھی، اور امامِ عالی مقام کی روحِ مقدس یعنی نور کے کتاب ہونے کا ذکر اس کتابچہ میں اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے۔
اسماعیلی مذہب کی تاویلی کتابوں کے مطالعے میں یہ بات بار بار آپ کے سامنے آ جائے گی کہ علمِ تاویل کی
۵۳
زبان میں کتاب امام یا اساس کو کہتے ہیں، چنانچہ ہر ناطق پیغمبر کا اساس اس کی نورانی کتاب ہے، اس طرح ’’کتابِ موسیٰ‘‘ کا مطلب حضرت مولانا امام ہارون علیہ السّلام ہیں، جن کے نورِ مبارک کا نام توریت تھا۔
مذکورہ حقیقت کے برعکس اگر ہم اس بات کو مانیں، کہ قرآن سے پہلے ظاہری توریت جس حالت میں بھی اپنے دور میں تھی، وہ لوگوں کے لئے پیشوا اور رحمت تھی، پھر اس کے یہ معنی ہوں گے کہ یہودیوں نے اپنی آسمانی کتاب میں جو جو تحریفیں کی تھیں، اس میں خدا کی خوشنودی اور ہدایت و رحمت تھی، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ ایسی توریت جس کی آیتوں میں لوگوں نے ہیر پھیر کر دیا ہو، وہ لوگوں کے لئے امام اور رحمت نہیں ہو سکتی، نہ ہی قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے۔
۵۴
امام شناسی
حصہ دوم
حرفِ آغاز
جب عوام و خواص کے نزدیک یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے، کہ اس ظاہری کائنات کا نور باطنی عالَم کے نور کی مثال کی حیثیت سے ہے، تو پھر ہمیں یہاں سب سے پہلے ظاہری اور مادّی نور کی کچھ صفات بیان کرنا چاہئے، تا کہ سالکانِ راہِ حقیقت مثال میں غور و فکر کرنے کے نتیجے پر ممثول کی شناخت حاصل کر سکیں۔
چنانچہ سب جانتے ہیں، کہ جسمانی نور اس دنیا میں صرف ایک ہی ہے، اور اس کے سوا روشنی کا کوئی دوسرا سرچشمہ حقیقت میں ہے ہی نہیں، ایسا ظاہری اور مادّی نور سورج ہے، اب رہا چاند، ستاروں اور روشنی کے دوسرے تمام ذریعوں کی روشنیوں کا سوال، سو وہ فی الاصل سورج کی پیداوار ہیں، اور اس جہان میں کوئی ایسی مادّی چیز موجود نہیں ہو سکتی، جو سورج کی مختلف قوّتوں سے پرورش پائے بغیر روشنی یا گرمی کا کوئی ذریعہ بن سکے، مادّی نور یعنی سورج کے اوصاف صرف یہی نہیں، بلکہ یہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا وہ کارخانۂ قدرت ہے، جس کے عملِ تکوین ہی کے ذریعے اس عظیم کائنات میں
۵۷
ستاروں اور سیاروں کی دنیاؤں کو وجود دیا جاتا ہے، اور ان میں سے ہر دنیا میں مادّی طور پر جو کچھ ہے، وہ اسی نور کے وسیلے سے موجود ہوا ہے۔
اسی طرح روحانی نور بھی عالمِ دین اور کونِ حقیقت میں ازل سے ایک ہی ہے، جس کے واسطے سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی جملہ صفات کا ظہور ہوتا رہتا ہے، اور عالمِ روحانیت کی ہر چیز اسی نورِ مطلق کے ذریعے پیدا ہوئی ہے، مثلاً نور ہی سے حق تعالیٰ کا مقدس امر و فرمان صادر ہوتا رہتا ہے، نور ہی سے ربّانی رشد و ہدایت دی جاتی ہے، نور ہی کی ایک خاص صورت عقل و دانش اور علم و حکمت ہے، نور ہی کا نام دیدۂ دل اور چشمِ بصیرت ہے، نور ہی میں حضرتِ ربُّ العزّت کے اسرارِ عجائب و غرائب اور رموزِ حقائق و معارف پنہان ہیں، نور ہی کرامات و معجزات کا منبع و مخرج ہے، نور ہی روح الارواح اور عقلِ کامل یا کہ عرش و کرسی کہلاتا ہے، نور ہی کو کتابِ منیر اور تاویلِ نورانی کہا جاتا ہے، نور ہی کا ایک دوسرا نام عالمِ عُلوی اور بہشتِ حقیقی ہے، نور ہی میں ہر چیز موجود اور محدود ہے، اور یہی نورِ مطلق سب کچھ ہے۔
بیانِ مذکورۂ بالا سے جب یہ ظاہر ہوا، کہ آفاق میں جسمانی نور کی بادشاہی ہے اور انفس میں روحانی نور کی سلطنت، تو آئیے کہ اب ہم دنیائے قرآن کے سورج کو دیکھیں، چنانچہ امامِ عالی مقام علیہ الصّلوات و السّلام نے اشارہ فرمایا ہے، کہ قرآنی
۵۸
علم و حکمت کے عالم کا سورج آیۂ مصباح، چاند آیۂ سِراج اور ستارے دوسری آیاتِ نور ہیں، اور اس حقیقت کا جاننا ضروری ہے، کہ یہ تمام آیاتِ نور اپنے رشتۂ معنی میں آیۂ مصباح کے ساتھ ایسی منسلک ہیں، جیسے ستارے اور چاند روشنی کے سلسلے میں سورج سے وابستہ ہیں، اس حقیقت کی مثال یہ ہے، کہ رات کے وقت جب چمکتا ہوا چاند اور درخشان ستارے نظر آتے ہیں، تو اس وقت عام لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے، کہ شاید چاند اور ستاروں کی یہ روشنی ان کی اپنی ذات سے ہے، لیکن اہلِ بصیرت نے معلوم کر لیا ہے، کہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے، وہ یہ کہ اگر ہم اسی وقت چاند اور ستاروں کی روشن دنیاؤں میں سے کسی ایک میں پرواز کر جائیں، تو اُس دنیا میں رات نہیں بلکہ دن کا کوئی وقت ہو گا، اور وہاں سے آسمان کی طرف دیکھنے سے آفتابِ منیر نظر آئے گا، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ چاند اور تمام ستاروں کی روشنی دراصل سورج ہی کی روشنی ہے۔
بالکل اسی طرح جس وقت ہم آیاتِ نور پر نظر ڈالتے ہیں، تو فوری طور پر ہمیں ان کے عام معانی میں انوارِ کثیرہ کا تصور ہوتا ہے، یعنی ایسا لگتا ہے جیسے کتبِ سماویہ ، انبیائے کرام، ائمۂ عظام اور بزرگانِ دین جدا جدا اور مختلف انوار ہیں، مگر جب غور و فکر اور تحقیق و تدقیق کے بعد حقیقی مومن کا تصور ان آیات کی معنوی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے، تو وہاں یکایک شک و گمان کی رات ختم ہو کر یقینِ کامل کا دن نظر آتا ہے، یعنی حصولِ معرفت کے بعد معلوم
۵۹
ہوتا ہے، کہ دینی چاند اور ستاروں کا نور فی الاصل آیۂ مصباح کے سورج ہی کا نور ہے۔
جیسے نور کی ایک آیت میں ہے کہ: نورھم ، یعنی مومنین کا نور، تو اس کے ظاہری معنی یہ البتہ یہ گمان ہوتا ہے، کہ مومنین کا یہ نور خدا کے نورِ مطلق سے الگ تھلگ کوئی ذاتی نور ہو گا، جس طرح رات کے وقت درخشان ماہتاب اور چمکتے ہوئے ستاروں کے متعلق یہ گمان ہوتا ہے، کہ یہ روشنی ان کی اپنی اپنی ذات سے مہیا ہوتی رہتی ہے، حالانکہ ایسا نہیں، بلکہ روشنی کے اس بے پایان سمندر کا واحد منبع و مخرج سورج ہی ہے، یہی مثال اس نور کی بھی ہے، جو عالمِ دین کے چاند اور ستاروں سے منسوب کیا گیا ہے، کہ جب کوئی حقیقی مومن روحانی طور پر اپنے باطن کی روشنی کی بلندیوں تک رسائی حاصل کر کے مشاہدہ کرتا ہے، تو اس وقت معلوم ہوتا ہے، کہ مومن کا یہ نور اصلاً وہ نورِ مطلق ہے، جس کا ذکر آیۂ مصباح میں موجود ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ: خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات و موجودات کے باطن کے لئے ایک ایسا واحد، ہمہ رس، کافی اور جامع صفات نور ہمیشہ اور ہر جگہ حاضر و موجود ہے، کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے نور کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ حقیقتاً اس میں دوئی کی گنجائش ہے۔
متذکرۂ بالا مثالوں اور شہادتوں سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیان و ظاہر ہے، کہ آفاق و انفس اور دنیائے قرآن میں نور کا درجہ سب سے اعلیٰ ، اس کی اہمیت سب سے زیادہ اور اس کی موجودگی
۶۰
انتہائی ضروری ہے، لہٰذا یہ امر کیسے ممکن ہو سکتا ہے، کہ ہر عالم میں تو اس کے تقاضوں کے مطابق نور موجود و حاضر ہو، اور عالمِ انسانیت میں نور کا کوئی مستقل وجود نہ ہو، اگر یہ بات ممکن ہوتی، تو ربّ العٰلمین کے معنی میں ایک خاص چیز کی کمی یہ رہ جاتی کہ خدا ہر ہر عالم کی پرورش تو کر ہی دیتا ہے، مگر دنیائے انسانیت یا عالمِ بشریت اور انسانی عقل و روح کی ہدایتی اور علمی پرورش و تربیت اس طرح سے نہیں کرتا جس طرح کہ کرنا چاہئے، ظاہر ہے کہ یہ امر محال اور خدا کی ہدایت و رحمت کے منافی ہے، پس معلوم ہوا، کہ اللہ تعالیٰ کا نور ہمیشہ عالمِ دین میں حاضر اور موجود ہے، اور وہ امامِ برحق صلوات اللہ علیہ کے جامۂ بشریت میں موجود اور حاضر ہیں۔
چنانچہ جب یہ بات مسلّمہ ہے، کہ امامِ عالی مقام نورِ مطلق کے مظہر کا درجہ رکھتے ہیں، تو یہ امر ہمارے لئے لازمی اور ضروری ہوا، کہ آیاتِ نور کی کچھ حقیقتیں بیان کر دی جائیں، تا کہ ان مقدس آیات کے یکجا مطالعہ اور مجموعی حکمت کی روشنی میں امام شناسی کی حقیقتیں ہر مومن کے لئے آسان اور قابلِ فہم ہوجائیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
فقط بندۂ احقر
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی
۶۱
لفظِ نور
اللہ تعالیٰ کی اس عظیم حکمت میں خوب غور و فکر کیجئے، کہ لفظِ نور قرآن حکیم میں کل انچاس دفعہ استعمال ہوا ہے، جبکہ آلِ نبیؐ و اولادِ علیؑ کے پاک سلسلۂ امامت میں ہمارے سرکار نامدار حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام علیہ الصلاۃ و السّلام بھی انچاسویں امام ہیں، چنانچہ خدا کی حکمت و قدرت میں یہ امر ناممکن نہیں، کہ لفظِ نور کی اس تعداد میں قرآنِ پاک کی یہ پیش گوئی ہو، کہ نورِ امامت کے انچاسویں جامہ کے مبارک زمانے میں باطنی اور ظاہری علم و حکمت سے دین بھی روشن ہو گا اور دنیا بھی، جیسا کہ ظاہر ہے، کہ موجودہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے عہدِ مبارک میں خاص طور پر ایٹمی دور کا آغاز ہوا اور تسخیرِ کائنات کے سلسلے میں انسان نے چاند پر فتح و کامیابی کا پرچم لہرایا۔
جب آیاتِ نور کی اس پیش گوئی سے ہمیں یقین ہوا، کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی روشنی کا زمانہ اور نور کا دور دورہ ہے،
۶۲
پس آئیے، کہ ہم حضرت پیر سیّد ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ کی حکیمانہ تعلیمات کے مطابق مذکورہ انچاس آیتوں کی کچھ وضاحت کریں، جن میں نمایان طور پر نورِ امامت کا تذکرہ موجود ہے
حقیقی نور اور خود ساختہ نور:
البقرہ۔ ۲۔ آیت۔ ۱۷۔ (۰۲: ۱۷) میں حقیقی نور اور خود ساختہ نور یعنی اصلی ہدایت اور نقلی ہدایت کی جس طرح مثال دی گئی ہے، اس کا واضح مفہوم یہ ہے، کہ رات کی تاریکی میں دو مسافر جدا جدا کسی دور و دراز سفر کے لئے نکل گئے، ان میں سے ایک کے ہاتھ میں ایک بے مثال معجزانہ ٹارچ ہے، کہ اسے نہ کوئی ہوا بجھا سکتی ہے اور نہ کوئی بارش، دوسرے مسافر کے پاس صرف ماچس کی ایک ڈبیا ہے، اب ٹارچ والا بڑے اطمینان سے منزلِ مقصود کی طرف چلتا اور بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ وہاں پہنچ جاتا ہے، دوسرا شخص روشنی نہ ہونے کے سبب سے آگے نہیں بڑھ سکتا، وہ تاریکی سے تنگ آ کر بڑی مشقت سے بیابان میں ایک آگ جلاتا ہے، اور چاہتا ہے، کہ اس کی روشنی میں اپنے سفر کی کچھ مسافت طے کرے، مگر ایک ہی جگہ پر ٹھہری ہوئی آگ کی روشنی کہاں تک روشنی دے سکتی ہے، آخرکار وہ آگ بھی بجھ جاتی ہے اور وہ مسافر اندھیری رات میں پڑا رہتا ہے۔
۶۳
اس تمثیل کی تاویل یہ ہے، کہ اہلِ نجات کے لئے امامِ حیّ و حاضر کی معرفت اور نور ہی وہ بے مثال معجزاتی ٹارچ ہے، جس کو مخالفت و دشمنی کی کوئی ہوا اور حادثاتِ زمانہ کی کوئی بارش ہرگز ہرگز نہیں بجھا سکتی، کیونکہ یہ مقدّس و مبارک نور خدائے قادر و توانا اور اس کے رسولِ برحق کا ازلی و ابدی نور ہے، جو کہ ہر آسمانی کتاب اور ہر پیغمبر کے ساتھ موجود تھا، اور آنحضرتؐ کے بعد بھی اسی شان سے ہمیشہ کے لئے موجود و حاضر ہے، تا کہ اس کی روشنی میں صراطِ مستقیم کی ہدایت حاصل ہو سکے، اس حقیقی نور کے بغیر حصولِ ہدایت کے لئے جو بھی سعی و کوشش کی گئی ہے، اس کی مثال آیۂ مذکورۂ بالا میں بزبانِ حکمت بیان ہوئی ہے۔
نورِ ہدایت اور ظلمتِ گمراہی:
البقرہ۔ ۲۔ آیت ۲۵۷۔ (۰۲: ۲۵۷) میں حضرت احدّیت کا جو ارشاد ہے، اس کا خلاصۂ مطلب یہ ہے، کہ اگر دنیا میں ایک طرف گمراہی کی ظلمت ہمیشہ سے ہے، تو دوسری طرف ہدایت کا نور بھی ہمیشہ سے موجود ہے، اگر ایسا نہ ہوتا اور دنیا میں کفر و ضلالت کے کالے بادل چھائے ہوئے ہوتے اور ایمان و ہدایت کا کوئی سورج نہ ہوتا، تو وہ قانونِ قدرت کی طرف سے دنیا والوں پر بہت بڑا ظلم و ستم ہوتا۔
۶۴
روشن کتاب:
آلِ عمران۔ ۳۔ آیت ۱۸۴۔ (۰۳: ۱۸۴) میں نور کا تذکرہ ’’الکتاب المنیر‘‘ یعنی روشن کتاب کے عنوان سے کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے، کہ حقیقی اور روحانی کتاب رسول اکرمؐ اور امامِ برحقؑ کے نورِ واحد کی حیثیت میں ہے، جو کتابِ ناطق یعنی خودگو کتاب ہے، اس روشن کتاب یعنی انسانِ کامل کے نور کو تاویل یا حکمت کے نام سے بھی موسوم کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو کتاب وجہِ دین حصۂ اول ص ۸۲۔۸۳) تاویل کو روشن کتاب اس معنی میں کہا جاتا ہے، کہ وہ روحانیت کے اعلیٰ ترین مقام پر اور کشف و مشاہدہ کے عالم میں موجودات کے حقائق و معارف کو واضح اور روشن کر کے دکھاتی اور بتاتی جاتی ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ وہی نور جو امامِ عالی صفات کی ذاتِ اقدس میں موجود ہے قرآنِ پاک کی زندہ اور بولنے والی روح ہے، جس میں قرآنِ حکیم کی عملی تاویل کی ایک جیتی جاگتی وسیع دنیا سموئی ہوئی ہے، چنانچہ ہمارے نامور پیروں اور بزرگوں نے امامِ وقت کی بتائی ہوئی عبادت اور ریاضت کے نتیجے پر اپنے دل و دماغ میں اس نور یعنی روشن کتاب کا کافی مشاہدہ اور مکمل تجربہ کر لیا، جس سے انہیں دونوں جہان کی زندہ حقیقتیں معلوم ہوئیں۔
۶۵
نورِ مبین:
النساء۔ ۴۔ آیت۔ ۱۷۴۔ (۰۴: ۱۷۴) میں نورِمبین کا لفظ آیا ہے، جس کے دو معنی ہیں، ایک معنی ہیں ظاہر نور اور دوسرے معنی ہیں بولنے والا نور، اور اس آیت میں یہ دونوں معنی مناسب و موزون ہیں، جیسے سورۂ زخرف۔ ۴۳۔ آیت۔ ۱۸۔ میں مبین کا لفظ بولنے والے کے لئے استعمال ہوا ہے، پس معلوم ہوا کہ امامِ اطہرعلیہ السّلام کا پاک نور نہ صرف جسمانی صورت میں ظاہر اور بولنے والا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ روحانی کیفیّت میں بھی معجزانہ ظہور اور کلام کرتا ہے۔
چنانچہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں ارشادِ ربانی ہے کہ: اے لوگو یقیناً تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے اور ہم تمہارے پاس ایک ظاہر نور نازل کر چکے ہیں۔ پس یہاں مرتبۂ نبوّت کو دلیل اور منصبِ امامت کو نورِمبین کہا گیا ہے، اگر یہاں کوئی شخص یہ کہے کہ دلیل سے قرآنِ مجید مراد ہے اور نور کا اشارہ رسولِ اکرم کی طرف ہے، تو اس سے بھی نتیجے کے طور پر پھر وہی حقیقت ثابت ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کا نور بجھنے والا نہیں تھا، اس لئے وہ آنحضرتؐ سے سلسلۂ امامت میں منتقل ہوا، اور وہ آج بھی امامِ حیّ و حاضر کے جامۂ بشریت میں جلوہ گر ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔
۶۶
نور اور کتابِ مبین:
المائدہ۔ ۵۔ آیت۔ ۱۵، ۱۶۔ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) میں پیغمبر اور امام علیہما السلام کو ایک ہی نور قرار دیا ہے، اور قرآن کو ظاہر کتاب کہا گیا ہے، یہاں پر شاید یہ سوال ہو سکتا ہے، کہ کبھی نور کو اور کبھی کتاب کو ظاہر کیوں کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ نور اور قرآن دونوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ایک پہلو سے ظاہر ہیں اور دوسرے پہلو سے باطن، یعنی نور کی شخصیت اور قرآن کی تنزیل ظاہر ہیں، مگر نور کی روحانیت اور قرآن کی تاویل باطن ہیں، پس جہاں نور کی روشنی میں قرآن کی حکمت دیکھنے کی تعلیم دی گئی ہے وہاں شخصیت کے اعتبار سے نور کو ظاہر کہا گیا ہے اور اس کے برعکس جہاں قرآن کی مدد سے امام کی معرفت حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے، وہاں تنزیل کے لحاظ سے کتاب کو ظاہر کہا گیا ہے۔
توریت کا مقصد:
المائدہ۔ ۵۔ آیہ۔ ۴۴۔ (۰۵: ۴۴) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: تحقیق ہم نے توریت نازل کی، اس میں ہدایت اور نور ہے، انبیاء جو کہ اللہ تعالیٰ کے مطیع تھے، اس کے مطابق یہود کو حکم دیا کرتے تھے، اور (اسی طرح) اہلِ اللہ اور علماء بھی (حکم دیا کرتے تھے) جن کو اللہ کی کتاب کی حفاظت سپرد کی گئی
۶۷
تھی، اور وہ اس کے گواہ تھے۔
مذکورۂ بالا آیت سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے، کہ توریت کا مقصد و منشاء ہدایت اور نور تھا، یعنی توریت سے ایسی ہدایت مقصود تھی، جس سے نورِ معرفت کا راستہ ملے اور امامِ زمان کی معرفت حاصل ہو۔
نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ خدا کی طرف سے انبیاء، اولیاء اور علماء مقرر ہو جانے کا مقصد بھی یہی تھا، کہ وہ لوگوں کو توریت کی ہدایت کے مطابق حکم دیا کریں، تا کہ اس ہدایت پر عمل کرنے کے بعد وہ نور کی معرفت تک رسا ہو جائیں۔
انجیل کا مقصد:
المائدہ۔ ۵۔ آیہ۔ ۴۶۔ (۰۵: ۴۶) میں ارشادِ ربّانی ہے کہ: اور ہم نے عیسیٰؑ کو انجیل دی، جس میں ہدایت اور نور ہے اور وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توریت کی تصدیق کرنے والی ہے اور وہ پرہیزگاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا، کہ جو موضوع اور مقصد توریت کا تھا، وہی انجیل کا بھی ہے، اور وہ یہ کہ لوگوں کو ایسے قول و عمل کی ہدایت اور تعلیم دی جائے، کہ جس سے وہ نورِ امامت کا مشاہدہ کر کے معرفت حاصل کر سکیں۔
اس آیت کے اخیر میں حق تعالیٰ کا یہ فرمانا، کہ انجیل پرہیزگاروں کے لئے ہدایت اور نصیحت ہے، اس حقیقت کی
۶۸
روشن دلیل ہے، کہ انجیل کی ہدایت و نصیحت پر صرف وہی لوگ عمل پیرا ہوتے تھے، جو تمام نفسانی اور دنیاوی اغراض سے اپنے آپ کو بچانے والے تھے، تا کہ ہدایت کے ذریعہ نورِ امامت کا مشاہدہ کر سکیں اور اسے پہچان سکیں، اور ہر آسمانی کتاب کا مقصد و منشاء یہی ہے۔
قرآنِ حکیم کا مقصد:
المائدہ۔ ۵۔ آیت۔ ۴۸۔ (۰۵: ۴۸) میں ربّ العزت کا فرمان ہے کہ: اور ہم نے یہ کتاب آپ کے پاس بھیجی ہے جو خود بھی صداقت سے بھرپور ہے، اور اس سے پہلے جو کتابیں ہیں ان کی بھی تصدیق کرتی ہے، اور ان کتابوں کی محافظ بھی ہے، تو آپ ان کے درمیان اسی بھیجی ہوئی کتاب کے مطابق حکم کیجئے۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ قرآنِ مجید کس طرح اگلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے؟ اور کس معنی میں ان کا محافظ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان اگلی آسمانی کتابوں کا جو مقصد تھا، وہی مقصد قرآنِ مجید کا بھی ہے، اس لئے قرآنِ پاک کے بنیادی موضوعات اور اصولی تعلیمات وہی ہیں، جو توریت، انجیل، وغیرہ کی تھیں، اسی طرح قرآنِ پاک نے اگلی سماوی کتابوں کی ایسی عملی تصدیق کی، کہ جس سے بڑھ کر کوئی دوسری تصدیق نہیں ہو سکتی۔
اب یہ بتائیں گے کہ قرآن کس معنی میں اگلی آسمانی
۶۹
کتابوں کا محافظ ہے، چنانچہ جاننا چاہئے ، کہ اگلی سماوی کتب میں جو حقائق و معارف بیان کئے گئے تھے، وہ سب کے سب قرآنِ پاک کے ظاہر و باطن میں محفوظ ہیں، پس ان دونوں باتوں سے کہ قرآن پاک اگلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اور ان کا محافظ بھی ہے، یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جس طرح توریت اور انجیل کا خصوصی موضوع ہدایت اور نور ہے، اسی طرح قرآنِ حکیم کا موضوع بھی ہدایت اور نور ہے، چنانچہ سورۂ نور۔ ۲۴۔ آیت۔ ۳۵۔ کے اس فرمانِ الٰہی پر ذرا غور و فکر کیجئے جو ارشاد ہوا ہے کہ: حق تعالیٰ جسے چاہے اپنے نور کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ جسے چاہے قرآن، پیغمبر اور امامِ زمانہ کے توسط سے (کہ یہی مقدّس ہستیاں مشیتِ ایزدی اور ہدایتِ الٰہی کے ذرائع ہیں) اپنے مبارک و مقدّس نور کی شناخت کرا دیتا ہے، پس معلوم ہوا، کہ توریت اور انجیل کی طرح قرآنِ مجید کا اصلی موضوع اور مقصدِ اعلیٰ ہدایت اور نور ہے۔
ظلمت کے مقابلے میں نور:
الانعام۔ ۶۔ آیت۔ ۱۔ (۰۶: ۰۱) میں ارشاد ہوا ہے کہ: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں، جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں کو اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ اپنے ربّ کے برابر قرار دیتے ہیں۔
اس آیۂ مقدّسہ میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اس بناء پر
۷۰
کی گئی ہے، کہ اس نے آسمانوں کو اور ان کے نیچے زمین کو پیدا اور ظلمتوں کو اور ان کے مقابلے میں نور کو مقرر فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالمِ دین کو پیدا کیا، جو اس ظاہری کائنات کی طرح اپنے اندر آسمان، زمین، ظلمت اور نور رکھتا ہے، اور نور کی یہ اہمیّت ہے، کہ اگر یہ نہ ہو، تو عالمِ دین نیست و نابود ہو جائے گا، جیسا کہ یہ حقیقت سب جانتے ہیں، کہ اگر اس مادّی کائنات کے وسط میں یہ جسمانی سورج نہ ہو تو یہ جہان درہم و برہم ہو کر فنا ہو جائے گا، کیونکہ اس عالم کے قیام و نظام کا انحصار سورج پر ہے، بالکل اسی طرح عالمِ دین کے قرار و ثبات کا دارو مدار نورِ امامت پر ہے جو جہانِ دین کا سورج ہے۔
نور اور ہدایت:
الانعام۔ ۶۔ آیت۔ ۹۱۔ (۰۶: ۹۱) میں فرمایا گیا ہے کہ: اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی (قدرت و توانائی کی) قدر نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کا حق تھا، جبکہ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی چیز نازل نہیں کی، آپ کہیئے کہ وہ کتاب کس نے نازل کی ہے جس کو موسیٰ لائے تھے، جس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ نور ہے اور لوگوں کے لئے وہ ہدایت ہے، جس کو تم ورق ورق کرتے ہو (یعنی نورانی کیفیت سے منتقل کر کے کاغذی تحریر کی صورت میں لاتے ہو) اور بہت سی باتوں
۷۱
کو چھپاتے ہو۔
اس آیۂ کریمہ میں آسمانی کتاب کی زندہ روح کے متعلّق بہت سی حقیقتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں، جن کو سمجھنے کے لئے وحی و الہام کی حقیقت و کیفیت سے آگاہی ضروری و لازمی شرط ہے، چنانچہ وحی و تنزیل ایک علمی نور اور ایک زندہ روح کی صورت میں واقع ہوتی ہے، جس کو روح القدس یا روح الامین کا نزول کہا جاتا ہے، نیز اس عقل و دانش کے نور اور علم و حکمت کی روح کو، جو بے شمار عجائب و غرائب اور کرامات و معجزات سے مملو ہے، حقیقی معنوں میں آسمانی کتاب کہا جاتا ہے، اگرچہ پیغمبر کی مبارک زبان اور کاتب کے قلم سے گزر کر کاغذ پر تحریری صورت میں نہیں آئی ہو۔
یاد رہے کہ آسمانی کتاب تحریر میں آنے کے بعد بھی بلا کم و کاست اپنی اصلی صورت و حالت پر پیغمبر اور پھر امامِ عالی مقام کی عظیم الشان روحانیت میں ہمیشہ کے لئے برجا و قائم رہتی ہے اور یہی کتاب امام علیہ السلام کا زندہ نور اور حقیقی ہدایت کہلاتی ہے۔
جاننا چاہئے کہ باطنی کتاب کا موضوع پہلے نور پھر ہدایت ہے، اور ظاہری کتاب کا مضمون اوّل ہدایت اوراس کے بعد نور ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ امام کے مقدّس نور سے قرآن کے حقائق و معارف کا راستہ مل جاتا ہے، اور قرآن کے علم و حکمت کی ہدایت سے امام کے نورکی معرفت تک رسائی ہو سکتی ہے۔
۷۲
نور ملے تو ابدی زندگی ملتی ہے:
الانعام۔ ۶۔ آیت۔ ۱۲۲۔ (۰۶: ۱۲۲) میں پروردگارِ عالم کا ارشاد ہے کہ: ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا، پھر ہم نے اس کو زندہ بنا دیا اور ہم نے اس کو ایسا نور دیا کہ وہ اس کے ذریعہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے، کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کی حالت یہ ہو کہ وہ تاریکیوں میں ہے ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا۔
اس آیۂ مقدّسہ کی حکمت یہ ہے، کہ مردہ سے جاہل مراد ہے، زندہ کر دینے کی تاویل ہے علمِ حقیقت دینا، نور مقرر کر دینے کے معنی ہیں امامِ برحق کی معرفت اور نور کا حصول، اور نور کے ذریعے سے لوگوں میں چلنے پھرنے کا اشارہ ہے ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جانا اور لوگوں کی روحانیت میں داخل ہو جانا وغیرہ۔
رسول کے بعد نور کی پیروی:
الاعراف۔ ۷۔ آیت۔ ۱۵۷۔ (۰۷: ۱۵۷) میں یہ ارشاد ہے کہ: پس جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو اس (نبی) کے ساتھ بھیجا گیا ہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
اس آیۂ مقدّسہ کی حکمت یہ ہے، کہ مومنین رسولِ اکرم پر ایمان لانے اور ان کی حمایت و مدد کرنے کے ساتھ ساتھ قرآنِ مجید پر بھی ایمان لاتے ہیں، کیونکہ رسول کی رسالت قرآن
۷۳
ہی کی صورت میں ہے اور اس سے ہرگز جدا نہیں، اب رہا نور کا سوال، جس کی مومنین نے پیروی کی، تو یہ امامت ہی کا نور ہے، کیونکہ اسلامی دور کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں عہدِ نبوّت ہے جس کا زیادہ تر تعلّق تنزیلی امور سے ہے، دوسرے حصے میں عصرِ امامت ہے، جس میں اکثر تاویلی امور پیشِ نظر ہوتے ہیں، پس یہی سبب ہے، کہ مومنین زمانۂ تنزیل میں پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں اور زمانۂ تاویل میں امام کی اطاعت کرتے ہیں۔
نیز جاننا چاہئے کہ اس آیۂ کریمہ میں رسولِ اکرمؐ کی اطاعت کے بعد نورِ امامت کی پیروی کا جو ذکر ہوا ہے، اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد غفلت و جہالت کی تاریکی پھیلنے والی ہے، جس کو صرف امامِ اطہر کا نور ہی دور کر سکتا ہے۔
نورِ الٰہی کے خلاف ناکام کوشش:
التوبہ۔ ۹۔ آیت۔ ۳۲۔ (۰۹: ۳۲) میں ارشادِ الٰہی ہے کہ: وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ کو سوائے اس کے کچھ منظور نہیں کہ وہ اپنے نور کو پورا کر دے، اگرچہ کافروں کو برا لگے۔
اس آیۂ کریمہ کی حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ نورِ الٰہی کو بجھانے کی ناکام کوشش وہ شخص کرتا ہے، جو اس کو نہ پہچانے اور اس سے دشمنی کرے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا نور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
۷۴
کی طرح لباسِ بشریت میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہے، مختصر یہ کہ پیغمبر اور امام علیہما السلام سے مخالفت و دشمنی رکھنے کا سبب سوائے اندھاپن اور جہالت کے کچھ بھی نہیں، کیونکہ دنیا میں کسی ایسے کافر کا ہونا ممکن نہیں، کہ وہ اوّل تو خدا کو مانے اس کے بعد کسی ہستی کے متعلق یہ باور کرے کہ خدا کا نور یہی ہے، اور پھر اس کو بجھا دینے کی کوشش کرے۔
اتمامِ نور:
یہاں پر ایک سوال یہ ہے، کہ خداوندِ تعالیٰ اپنے نور کو کس طرح پورا کرتا ہے؟ کیا اس کا نور ازلی و ابدی طور پر تمام و کمال کا درجہ نہیں رکھتا؟ اب اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک خدا کا نور ہمیشہ سے تمام و کامل ہے اور فی نفسہٖ ہرگز ہرگز کوئی کمی نہیں، لیکن عالمِ دین میں خدا کی مصلحت کے مطابق چند ادوار مقرر ہوتے ہیں، ان میں سے ہر دور میں خدا کا مبارک و مقدّس نور علم و عمل کے ذریعے سے پاک روحوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنے ساتھ ایک کر لیتا ہے، پس تنویرِارواح کے اعتبار سے ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرے گا۔
سورج اور چاند کی نورانی وحدت:
سورۂ یونس ۔ ۱۰۔ آیت۔ ۵۔ (۱۰: ۰۵) کا یہ پاک ارشاد ہے کہ: اللہ وہی ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو نورانی بنایا
۷۵
اور اس کی منزلیں مقرر کیں تا کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔
اس ربّانی فرمان کی تاویل یہ ہے، کہ جس طرح سورج اور چاند جسم کے اعتبار سے دو اور روشنی کے لحاظ سے ایک ہیں اسی طرح پیغمبر اور امام جسمانیّت میں دو اور روحانیت میں ایک ہیں، نیز دورِ امامت میں امام اور حجتِ اعظم (باب) عالمِ دین کے سورج اور چاند ہیں، جن کی ظاہریت جدا جدا اور باطنیت ایک ہے۔
اس آیۂ مقدسہ کی ایک تاویلی حکمت یہ بھی ہے، کہ جس طرح ظاہری سورج اور چاند سے دنیاوی سالوں، مہینوں، ہفتوں اور دنوں کا حساب و شمار معلوم ہوتا ہے، اسی طرح باطنی سورج اور چاند سے، جو کہ پیغمبر اور امام یا کہ امام اور باب ہیں، دینی اوقات بنتے اور معلوم ہو سکتے ہیں۔
اندھیرے اور نور:
سورۂ رعد۔ ۱۳۔ آیت ۔ ۱۶۔ (۱۳: ۱۶) میں ارشاد ہوا ہے کہ:
آپ کہہ دیجئے کہ کیا اندھا اور بینا برابر ہوا کرتے ہیں؟ یا کیا اندھیرے اور نور برابر ہوتے ہیں؟
یہاں قرآنِ حکیم اپنی مخصوص تاویلی زبان میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتا ہے، کہ جو شخص دین کے حقائق و معارف سے اندھا ہے، وہ اس شخص کا ہم پلہ ہرگز نہیں، جو چشمِ بصیرت اور دیدۂ دل کی نعمت سے نوازا گیا ہے، اور نہ کفر و جہالت کے اندھیرے اور
۷۶
انوارِ ایمان و عرفان برابر ہیں۔
جاننا چاہئے، کہ یہ نابینائی اور بینائی انسان کے دل سے متعلق ہے، جیسا کہ ۲۲: ۴۶ کا ارشاد ہے کہ: پس تحقیق آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں لیکن دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں، پس معلوم ہوا کہ روحانی ظلمت و نور کا تعلق بھی دل ہی کی آنکھوں سے ہے نہ کہ سر کی آنکھوں سے۔
کتاب، پیغمبر اور نور:
اللہ تعالیٰ کی عادت و سنّت یہ ہے، کہ وہ جب چاہے آسمانی کتاب اپنے کسی پیغمبر پر نازل فرماتا ہے، تا کہ وہ پیغمبر اس کتاب کے ذریعے سے لوگوں کو غفلت و ناشناسی کی تاریکیوں سے نکال کر امام شناسی کے نور کی طرف لے آئے، پھر اس کے بعد بحکمِ خدا اپنے پورے دور میں اس نور یعنی امام کے توسط سے اللہ تعالیٰ کی طرف راہِ راست کی ہدایت کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم سے :فرمایا کہ
یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لئے اتاری ہے تا کہ آپ لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے اندھیروں سے نور کی طرف نکال کر زبردست لائقِ حمد اللہ تعالیٰ کے راستے پر لگائیں۔ ۱۴: ۰۱۔
۷۷
ہادی اور نور:
سورۂ ابراہیم۔ ۱۴۔ آیت۔ ۵ ۔ (۱۴: ۰۵) کی مقدّس تعلیم یہ ہے کہ: اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نور کی طرف نکال اور انہیں اللہ تعالیٰ کے دن یاد دلا یقیناً اس میں ہر صبر کرنے والے شکر گزار کے لئے کئی نشانیاں ہیں۔
قرآن پاک کی اس تعلیم میں یہ حکمت پنہان ہے، کہ جب اس دنیا میں ہمیشہ سے ایک طرف کفر و جہالت کا اندھیرا پایا جاتا ہے تو دوسری طرف دائم الوقت ایمان و ایقان کا نور بھی موجود ہے، لیکن لوگوں کی فطرت و عادت ایسی ہے، کہ وہ اپنے آپ اس ظلمت سے نکل کر نور میں داخل نہیں ہو سکتے، اس لئے اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں دے کر پیغمبر یا امام کی حیثیت سے ایک ہادی مقرر فرماتا ہے، تا کہ لوگ اپنے زمانے کے ہادی کو پہچانیں اور اس کی ہدایت کے مطابق اندھیرے کو چھوڑ کر نور کے راستے پر چل سکیں۔
یہاں پر یہ ضرور پوچھنا چاہئے ، کہ حضرت موسیٰ کے اس تذکرہ میں جو نشانیاں بتائی گئی ہیں، وہ ہر شخص کے لئے عام کیوں نہیں ہیں؟ اور اس کا سبب کیا ہے کہ یہ نشانیاں صرف صبر و شکر کرنے والوں کے لئے مخصوص ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ صبر و شکر کرنے سے دیدۂ دل روشن ہو جاتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے مشاہدے سے اس کا مقصد و منشاء معلوم ہو سکے، اور اس کے نور یعنی امامِ زمان کی معرفت حاصل کر لی جائے، اس کے برعکس جو شخص خود غرضی، نفسانیت، بے صبری
۷۸
اور ناشکری کا شکار ہوچکا ہو، تو اس کی چشمِ بصیرت پر پردۂ غفلت پڑ جاتا ہے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو نہیں دیکھ سکتا، جو کتابِ سماوی میں ہیں یا پیغمبر اور امام کے ساتھ ہیں۔
امامِ زمان کا نور روشن کتاب ہے:
سورۂ حج (۲۲: ۰۸ تا ۰۹) میں پروردگارِعالم نے فرمایا کہ: اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر علم اور بجز ہدایت اور بدونِ روشن کتاب جھگڑتا ہے، اپنی کروٹ موڑ کر تا کہ اللہ کی راہ سے بہکائے۔
اس تعلیمِ سماوی کی تاویل یہ ہے کہ کوئی شخص داعی، حجت، اور امامِ زمان علیہ السلام کی شناخت و معرفت کے بغیر خدا تعالیٰ کی معرفت کے بارے میں مباحثہ و مناظرہ نہیں کر سکتا، کیونکہ داعی علم، حجت ہدایت اور امام روشن کتاب ہیں، جبکہ داعی علم الیقین، حجت عین الیقین اور امام حق الیقین کے مراتب پر ہیں۔
اس حقیقت کی دلیل یہ ہے کہ داعی علم الیقین سے لوگوں کو دعوت کر کے حجّت کے حوالے کر دیتا ہے، حجّت عین الیقین سے انہیں ہدایت کر کے امام کی نورانی معرفت تک پہنچا دیتا ہے اور امام اپنے نور کی روشن کتاب سے ان پر ظاہری و باطنی موجودات کی تمام حقیقتیں واضح اور روشن کر دیتے ہیں۔
کائنات کا نور:
سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
۷۹
اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں چراغ روشن ہو وہ چراغ ایک شیشہ کی قندیل میں ہو وہ قندیل ایسی ہو گویا وہ چمکتا ہوا ستارہ ہے وہ زیتون کے مبارک درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، قریب ہے کہ اس کا تیل (خود بخود) روشن ہو جائے، اگر اسے آگ نہ چھوئے وہ نور پر نور ہے اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی راہ پر لگا دیتا ہے۔
مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کی حکمت و تاویل یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا نور ظاہری و باطنی طور پر علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی صورت میں موجود ہے، جو امامِ حیّ و حاضر کے مبارک وجود سے طلوع ہو کر حدودِ روحانی کے آسمانوں اور حدودِ جسمانی کی زمینوں کو منور کر رہا ہے، یہ نور خانۂ حکمت (یعنی نبوّت یا امامت کے گھر) سے تعلق رکھتا ہے، جس کے خاص افراد اہلِ بیت کہلاتے ہیں، جو اس نور کے لئے طاق (یعنی چراغ دان) کا درجہ رکھتے ہیں، آنحضرتؐ کی خاندانی اصالت اور علمی مرتبت قندیل کی مثال پر ہے، جو ایک درخشان ستارے کی طرح ہے، جس کے اندر امامِ اطہر کی جسمانیت گویا اس معجزانہ چراغ کا ظرف ہے، امام علیہ السلام کی روحانیت کو زیتون کے تیل سے تشبیہہ دی گئی ہے، درختِ زیتون کا مطلب حضرت ابراہیمؑ اور حضرت محمدؐ کا پاک خاندان ہے، اس چراغ کے تیل میں نفسِ کلّ اور عقلِ کلّ یعنی امام کی مقدّس روح اور ہمہ رس عقل بتی اور شعلے کی طرح ہیں، آگ کے معنی ہیں معجزانہ تائید اور
۸۰
نور پر نور کا مطلب ہے ایک امام کے بعد دوسرا امام ہونا۔
چنانچہ امامِ اطہر کی ہمہ گیر عقل کے شعلے سے جو ہدایت کی روشنی نکلتی رہتی ہے، وہ حدودِ روحانی و جسمانی کے توسّط سے کائنات و موجودات کے ظاہر و باطن میں پھیل جاتی ہے، تا کہ اس سے آسمان، زمین، عناصر، جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان کی ہستی و بقا کا راستہ بنے رہے اور موجودات و مخلوقات میں سے ہر ایک اپنی صلاحیت و قابلیت کے مطابق یہ ہدایت حاصل کر سکے۔
ان حقائق کے مختصر دلائل:
اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ پاک کو آسمانوں اور زمین کا نور یا کہ روشنی قرار دے دیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ جلّ شانہ اس کائنات کی بلندی و پستی کی کلّی ہدایت کی روشنی ہے، یعنی خدا تعالیٰ کے نور نے آسمان و زمین اور ہر چیز کو نیستی کے اندھیرے سے نکال کر ہستی کی روشنی میں لایا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ آسمانوں، سیاروں اور عناصر میں جیسی بھی حرکت پائی جاتی ہے، یا جو چیز جس طرح سے ٹھہری ہوئی ہے، اس کا اصل سبب اللہ تعالیٰ کے نور کی رہنمائی ہے، نیز اس کائنات کی تمام تکوینی، تخلیقی اور حفاظتی قوّتوں میں نور کی ہدایت کارفرما ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس کائناتی نور کے معنی یہ بھی ہیں، کہ اس نور کی معرفت کی روشنی میں اسرارِ کائنات کا ظاہراً و باطناً مشاہدہ و مطالعہ کیا جا سکتا ہے، اور روحانی یا جسمانی طور پر کائنات کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ خدا کا نور عقل و دانش ، علم و
۸۱
حکمت اور رشد و ہدایت کی صورت میں ہے، نہ کہ کسی مادّی روشنی کی کیفیت میں۔
جب خدا کے نزدیک یہ کوئی عیب نہیں کہ آسمانوں کے علاوہ زمین بھی خدا کے نور کی روشنی میں مستغرق رہے، جس میں زمین پر رہنے والے ہر قسم کے جانور اور بُرے بھلے انسان سب شامل ہیں، پھر اس میں کیا شک ہو سکتا ہے، کہ اس کے نور کا مرکز امامِ اقدس کی ذاتِ عالی صفات میں موجود ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کے نور کا دیدار اور معرفت ناممکن ہوتی، تو وہ اپنے نور کی مثال کسی ایسی چیز سے نہیں دیتا جو دنیا میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہے، جب اس نے اپنے نور کی مثال ظاہری چراغ سے دی ہے تو ثابت ہوا، کہ نورانی دیدار اور اس کی معرفت ممکنات میں سے ہیں، اور یہ صرف امامِ اقدس ہی کے وسیلے سے ممکن ہے۔
اگر خدا کا نور ظاہر و باطن میں قریبی مشاہدہ سے برتر اور نارسا ہوتا، تو عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ خدا اپنے نور کو سورج سے تشبیہہ دے، مگر اس نے ایسا نہیں کیا ہے، بلکہ اس نے تو اپنے نور کی تشبیہہ گھر کے چراغ سے دی ہے، تو معلوم ہوا، کہ اس کا پاک نور انسانوں کے درمیان ہے جو انسانِ کامل یعنی امام حیّ و حاضر علیہ السلام کے جامۂ بشریت میں ہے۔
اگر خدا کا نور جسمانیت کا جامہ کبھی نہیں بدلتا اور سورج کی طرح ظاہر میں ایک حال پر رہتا، تو پھر اس صورت میں اس
۸۲
کی مثال سورج سے دی جاتی، اور چراغ سے نہیں دی جاتی۔
جس طرح اس کائنات کے لئے ایک سورج ہے، اور گھر کے لئے کوئی چراغ ہوتا ہے، اسی طرح دنیائے انسانیت کی تاریکی دور کرنے کے لئے انسانِ کامل یعنی امامِ زمان موجود ہے۔
اگر عقل و دانش کی نظر میں جہالت ایک قسم کی ظلمت و تاریکی اور علم و حکمت اس کے مقابلے میں نور ہے تو لازماً یہ بھی درست اور صحیح ہے کہ علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا یہ نور بدرجۂ اتم انسانِ کامل میں موجود ہے۔
اگر دنیا ایک عالم ہے تو دین بھی ایک عالم ہے، اور اگر دنیاوی سورج مادّی قسم کا ہے کہ اس میں عقل و روح نہیں، تو عالمِ دین کا نور عقل و روح رکھتا ہے اور وہ امام ہی ہے۔
یہ حقیقت تقریباً سب کے نزدیک مسلّمہ ہے، کہ انسان انفرادی طور پر ایک چھوٹی سی دنیا ہے، اور اس میں روشنی کا ایک چھوٹا سا نمونہ بھی ہے، جو عقلِ جزوی کے نام سے مشہور ہے، چنانچہ سارے انسان بھی اجتماعی صورت میں ایک عظیم دنیا ہیں، اور اس میں ایک عظیم الشّان نور بھی ہے جسے انسانِ کامل یا کہ امامِ زمان کہا جاتا ہے۔
جب انسان نظریں جما کر چمکتے ہوئے سورج کو دیکھنے لگتا ہے، تو فوراً روشنی کے ذرّات کی تیز بارش کی زد سے اس کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، بالکل اسی طرح جو شخص امامِ عالی مقام کی ذات و صفات پر تبصرہ و تنقید کی نظر ڈالنے لگتا ہے، تو امام
۸۳
کی شخصیت سے طرح طرح کے خیالات پیدا ہو کر وہ عقل کی آنکھ سے اندھا ہو جاتا ہے۔
اگر انسان سورج کو براہِ راست دیکھنے کی بجائے علم و حکمت اور ظاہری سائنس کی نظر سے دیکھے تو وہ سورج کے متعلق بہت سی حقیقتیں سمجھ سکتا ہے، اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا ہے، اسی طرح جو آدمی امام علیہ السلام کو ظاہری نگاہ سے دیکھنے کی بجائے علم و معرفت کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش میں ہو، تو اس کی بہت بڑی سعادت مندی ہے۔
نور علیٰ نور:
اگر ہم یہ عقیدہ نہ رکھیں کہ امام کا نور ازل سے جامۂ بشریت میں اسی طرح موجود ہے جس طرح اس وقت ہے تو نورٌعلیٰ نور کا مطلب کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا، کیونکہ نورٌعلیٰ نور میں ایک ایسا تصور ہے، جیسے ایک نور پہلے ہی سے موجود ہو اور دوسرا نور اس کے بعد وجود میں آئے، پھر یہ دونوں نور باہم مل کر ایک ہو جائیں، اور یہ ایک حقیقت ہے، پس معلوم ہوا، کہ ایک امام کے بعد دوسرا امام ہونے کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے چلے آیا ہے، اور یہ ایک ایسی جامع حقیقت ہے، کہ جس میں تمام حقیقتیں سموئی ہوئی ہیں۔
جب نورٌعلیٰ نور کے تصور سے یہ معلوم ہوا، کہ نور بظاہر ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں، مگر ان کی اصلیت و حقیقت ہمیشہ سے ایک ہی رہتی ہے، جیسے سورج کے علاوہ چاند اور تمام
۸۴
ستارے بھی مادّی قسم کے نور ہیں، مگر یہ تمام انوار مقامِ وحدت پر یعنی سورج کی ذات میں ایک ہیں اور ان کا آخری مقصد بھی ایک ہے۔
علاوہ برآن نور کی یگانگت و یک رنگی اور وحدت کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ جب ہم کسی مکان میں مختلف رنگ کے چند بلب روشن کرتے ہیں، تو ان سب کی روشنی اور رنگت ایک ہو جاتی ہے، یہ مثال ایک طرف سے انوارِ الٰہی کی وحدانیت کی ہے، اور دوسری طرف سے ارواحِ مومنین کی یگانگت کی۔
نورٌعلیٰ نور کی حکمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے، کہ سب سے پہلے امام کا مبارک و مقدّس جسم بنتا ہے، جو ظاہری اور جسمانی ہدایت کا نور ہے، اور وہ اس معنی میں نور ہے کہ ظاہری اور بنیادی ہدایت کی روشنی امام کے مبارک جسم کی بدولت ہے، پھر اس پر امام کی روحِ ناطقہ کا نور ہے، اس پر نفسِ کلّی کا نور ہے اور اس پر عقلِ کلّی کا نور قائم ہے، یہ ہوئے نور پر نور ہونے کے معنی۔
نور اور اللہ تعالیٰ کی مرضی:
سورۂ نور (۲۴: ۳۵) کی ربّانی تعلیم ہے، کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی راہ پر لگا دیتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشاء کے بغیر کوئی انسان اس کے نور کی شناخت اور پیروی نہیں کر سکتا۔
یہاں ایک طرف سے یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور
۸۵
دنیا میں ہمیشہ موجود ہے، اور دوسری طرف سے یہ معلوم ہوتا ہے، کہ ہدایت کے مرحلے دو ہیں، پہلے مرحلے پر خدا کی ہدایت ہے، جس کی پیروی کرنے سے خدا کا نور مل جاتا ہے، دوسرے مرحلے پر خدا کے نور کی ہدایت ہے، جس پر چلنے سے سلامتی اور ابدی نجات مل جاتی ہے۔
جس کے لئے خدا نور مقرر نہ کر دے اس کے لئے کوئی نور نہیں:
مذکورۂ بالا سورہ کی آیت ۴۰ (۲۴: ۴۰) میں ارشاد ہوا ہے کہ: اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی نور قرار نہ دے اس کے لئے تو کوئی نور ہی نہیں۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور مقرر کر دینا اس طرح سے ہے، کہ وہ رسولِ اکرم صلعم سے فرماتا ہے اور آنحضرت جن لوگوں کے لئے اللہ کی مرضی ہو نور مقرر کر دیتے ہیں۔
اس آیۂ مبارکہ کے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ منکرین ایسے نہیں کہ ان کے اعمال نہ ہوں، اعمال تو ہیں مگر بے فائدہ، کیونکہ حقائق ان سے پوشیدہ ہیں اس لئے کہ خداوندِ عالم نے ان کے لئے نور مقرر نہیں فرمایا ہے، پس ان کے اعمال کی مثال ایک چٹیل میدان میں چمکتا ہوا ریت کی طرح ہے، جس کو پیاسا آدمی دور سے پانی خیال کرتا ہے، مگر جب وہ قریب آ کر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں ریت ہی ریت ہے، یا ان کے اعمال کی مثال گہرے سمندر کے اندھیروں کی طرح ہے، کہ اس
۸۶
کو بڑی لہر نے ڈھانک لیا ہو جس کے اوپر دوسری لہر اور اس کے اوپر بادل ہیں غرض اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے ہیں، کہ اگر ایسی حالت میں کوئی انسان ہاتھ نکالے تو اسے دیکھنے کا احتمال بھی نہیں۔
عالمِ دین کے سورج اور چاند:
سورۂ فرقان (۲۵) کی آیت ۶۱ (۲۵: ۶۱) کی ہدایت یہ ہے: بہت برکت والا ہے جس نے آسمان میں بروج بنائے اور اس میں ایک چراغ یعنی سورج اور نورانی چاند بنایا۔
جاننا چاہئے کہ حقیقی برکت دنیاوی چیزوں میں نہیں بلکہ دینی چیزوں میں ہے، پس اللہ تعالیٰ بہت برکت والا اس معنی میں ہے، کہ اس نے عالمِ دین بنایا، جس کے آسمانِ روحانیت کے بارہ بروج بنائے یعنی بارہ حجّت، اور اس میں سورج اور چاند بنایا یعنی پیغمبر اور امام دورِ نبوّت میں، اور امام و حجّتِ اعظم دورِ امامت میں۔
بروج اگرچہ بارہ ہیں لیکن شب و روز کے دو حصوں کے حساب سے وہی بارہ کے چوبیس ہوتے ہیں اور منزلوں کے حساب سے اٹھائیس ہوتے ہیں، اسی طرح امام علیہ السلام کے حجتانِ جزائر بارہ ہیں، حجّتانِ لیلی و حجّتانِ نہاری چوبیس اور حجّتانِ مقرب کے ساتھ اٹھائیس ہوتے ہیں۔
۸۷
کتابِ منیر:
قرآنِ حکیم کی سورت ۳۱۔ آیت ۔۲۔ (۳۱: ۰۲) میں ارشاد ہے: اور لوگوں میں سے کوئی شخص ایسا بھی ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں بغیر علم اور بغیر ہدایت اور بغیر کتابِ منیر کے جدل کرتا ہے۔
یہاں علم سے مراد دورِ نبوّت میں حجّت، ہدایت کا مطلب امام اور روشن کتاب کے معنی آنحضرت صلعم ہیں، اور دورِ امامت میں علم داعی، ہدایت حجّت اور روشن کتاب امام علیہ السلام ہیں، جبکہ تاویلی درجات اور حدودِ دین زمان و مکان کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔
نیز اسی طرح جاننا چاہئے کہ دورِ امامت میں داعی علم الیقین ہے، حجت عین الیقین اور امام زمان علیہ السلام حق الیقین، پس ان حدودِ دین کے بغیر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اس کی معرفت و توحید کے بارے میں مباحثہ و مجادلہ کرنا باعثِ گمراہی ہے۔
ظلمات سے نور تک:
سورۂ احزات یعنی ۳۳ ویں سورت کی آیات ۴۱، ۴۲، ۴۳ اور ۴۴ میں ارشاد کیا گیا ہے کہ: اے ایمان والو! تم اللہ کو خوب کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو وہی ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تم پر
۸۸
رحمت بھیجتے ہیں، تا کہ خدا تم کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آوے، اور اللہ تعالیٰ مومنین پر بہت مہربان ہے، وہ (مومنین) جس روز اللہ تعالیٰ سے ملیں گے تو ان کی دعا سلامتی ہو گی، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے بہت بزرگ اجر تیار کر رکھا ہے۔
(۳۳: ۴۱ تا ۴۴)۔
آیاتِ مذکورۂ بالا کی مجموعی حکمت یہ بتاتی ہے، کہ نور کی حقیقی پہچان اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک انسان کا ایمان جیسا کہ چاہئے مکمل نہ ہو، اور کامل ایمان کی نشانی یہ ہے کہ مومن قلبی، زبانی اور عملی طور پر خدا کا ذکر کثرت سے کرتا ہے یہاں تک کہ وہ دائم الذّکر ہو جاتا ہے، بصورتیکہ یہ ذکر روحانی مسرتوں سے بھرپور ہوتا ہے، اور وہ صبح و شام زبانِ حال اور زبانِ قال سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہے یعنی اس کا ظاہر و باطن اور گفتار و کردار سب پاک ہوتا ہے جبکہ وہ صبح و شام خدا کے حضور میں گریہ و زاری اور عجز و انکساری کرتے ہوئے اپنے نفس کا تزکیہ کرتا ہے، پھر نتیجے کے طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے فرشتے ایسے خاص بندوں پر رحمت فرماتے ہیں جس سے رفتہ رفتہ ان کی ذات سے غفلت، جہالت اور معصیت کی تاریکیاں دور ہو جاتی ہیں، اور نبی و علی (صلوات اللہ علیہما) کا نورِ واحد اپنے علمی و عرفانی عجائبات و معجزات کے ساتھ ان کے دل و دماغ میں جلوہ گر ہونے لگتا ہے، اللہ تعالیٰ کی یہ خاص رحمت صرف حقیقی مومنین ہی کے لئے مخصوص ہے، جس روز کسی حقیقی مومن
۸۹
کو خداوند تبارک و تعالیٰ کے اس نورِ مقدّس کا روحانی دیدار حاصل ہوتا ہے، اس وقت مومن زبانِ حال سے اپنی سلامتی کی دعا کرتا ہے، کہ وہ ابدی طور پر زندہ اور سلامت رہے جسے اللہ تعالیٰ منظور فرماتا ہے۔ بتوفیقِ الٰہی مذکورۂ بالا آیات کا تاویلی خلاصہ بتایا گیا۔
روشن چراغ:
سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۴۵ اور ۴۶ (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) کا فرمانِ الٰہی یہ ہے کہ: اے نبی بے شک ہم نے آپ کو گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔
ان دونوں مقدّس آیتوں کی حکمت سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ یہاں حضورِ اکرم صلعم کی بعض دائمی اور زندہ صفات بیان کی گئی ہیں، جن کی دلیل سے آنحضرت کی دوسری تمام صفات بھی زندہ اور پائندہ ثابت ہو جاتی ہیں، مثلاً جب مانا گیا کہ آنحضورؐ اپنی تمام امت کے اعمال پر گواہ ہیں، جبکہ گواہ کا مطلب کسی معاملے کے سامنے حاضر و موجود ہونا ہے، تو سمجھ لینا چاہئے کہ آنحضرتؐ کی یہ صفت ہمیشہ کے لئے زندہ اور باقی ہے اور لازماً آپ کی دوسری بہت سی صفات بھی اسی طرح لازوال ہیں۔
نیز خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے کو بھی بندوں کے اعمال کے سامنے حاضر و موجود رہنا چاہئے، تا کہ
۹۰
نکوکاروں کو خوشخبری دے اور بدکاروں کو ڈرائے، اسی طرح نبئ اکرم صلعم کی ایک اور زندہ صفت یہ بھی ہے کہ آپ اب بھی اسی طرح خدا کے حکم سے زمانے کے مطابق راہِ حق کی طرف دعوت کرتے ہیں جس طرح عہدِ نبوّت میں اس وقت کے مطابق دعوت کرتے تھے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ حضور کی دعوت ہمیشہ سے وحئ الٰہی کی تابع ہوا کرتی ہے، جس کا لازمی نتیجہ صرف یہی نکلتا ہے، کہ پیغمبر صلعم کا مقدّس نور امامِ زمان کی بشریت میں حیّ و حاضر ہے۔
یہی مثال روشن چراغ کی بھی ہے، کہ خدا کے نور کے اس پاک چراغ کو ہرگز نہیں بجھنا چاہئے اور اس کی صفت میں کوئی کمی اور کوئی زوال نہیں آنا چاہئے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ یہ ارشاد ہوا ہے کہ خدا کا نور ایک لازوال حقیقت ہے، پس یہ تمام زندہ اور دائمی صفات آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد صرف آپ کے نور کی حیثیت میں باقی و برقرار ہیں، اور آپ کا یہ مقدّس نور حضرت مولانا علیؑ و آلِ علیؑ کے سلسلۂ امامت میں ہمیشہ کے لئے قائم ہے۔
سراجِ منیر (روشن چراغ) قرآنِ حکیم میں نورِ نبوّت و امامت کا ایک ایسا پرحکمت اور جامع اسمِ بزرگ ہے، کہ اس کی حقیقت و معنویت میں اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے صفات کی قدرت و مظہریت سموئی ہوئی ہے، اس حقیقت کے ثبوت میں صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اسی نورِ جامع صفات کے
۹۱
اعتبار سے، جو انسانِ کامل کے چراغِ ہستی سے طلوع ہو کر عالمِ دین اور دنیائے دل کو منور کر رہا ہے، آیۂ نور میں فرماتا ہے کہ:
“خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں چراغ روشن ہو۔” اگرچہ حق سبحانہ و تعالیٰ کی ذاتِ بے چون کے اعتبار سے کوئی چیز اس کے مشابہ اور مثل نہیں ہو سکتی ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشاد کیا گیا ہے کہ: “کوئی چیز اس کی مثل نہیں اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے ۔ ۴۲: ۱۱۔”
ظلمتِ جہالت اور نورِ معرفت:
سورۂ فاطر (۳۵) کی ۱۹ تا ۲۲ (۳۵: ۱۹ تا ۲۲) آیات میں ارشادِ ربّانی ہے کہ: اور اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں اور نہ تاریکی اور روشنی، اور نہ سایہ اور دھوپ، اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے۔ بے شک اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔
ان آیاتِ مقدسہ میں ایک طرف صحیح عقیدے کے اور دوسری طرف غلط نظریے کے نتائج کا تقابلی تذکرہ ہے، اور زبانِ حکمت میں فرمایا گیا ہے کہ غلط نظریہ کوردلی اور نادانی کا باعث بن جاتا ہے اور صحیح عقیدہ بصیرت و دانشمندی کا سبب ہوتا ہے، کور دلی یعنی دل کی نابینائی کا نتیجہ جہالت کی صورت میں نکلتا ہے اور قلبی بصیرت کا ماحصل نورِ معرفت ہے، نورِ معرفت کے نتیجے میں رشد و ہدایت کا سایۂ راحت حاصل ہوتا ہے اور جہالت کی
۹۲
تاریکی میں آوارہ گردی کے بعد گمراہی کا تپتا بیابان سامنے آتا ہے، نورِ معرفت اور رشد و ہدایت کے سایہ والے روحانی طور پر زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں اور ضلالت کے سوزندہ ریگستان والے نفسانی طور پر ہلاک ہو جاتے ہیں، یہ جو سایۂ رحمت و ہدایتِ الٰہی میں روحانی طور پر زندہ ہو گئے وہ اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کی باتیں سن سکتے ہیں اور جو لوگ بیابانِ گمراہی میں ہلاک ہو گئے وہ نیستی و معدومیت کی قبروں میں دفنائے ہوئے ہیں انہیں علم و حکمت کی باتیں سنوائی نہیں جا سکتی ہیں۔
انبیاء کے معجزات، کتب اور تاویل:
مذکورہ سورہ کی پچیسویں آیت (۳۵: ۲۵) میں ارشاد کیا گیا ہے: اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں تو جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں انہوں نے بھی جھٹلایا تھا ان کے پاس ان کے پیغمبر معجزات اور کتب اور روشن کتاب کے ساتھ آئے تھے۔
قرآنِ حکیم کی اس مقدّس تعلیم سے ظاہر ہے، کہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ تین قسم کی عظیم الشّان چیزیں ہوا کرتی ہیں، وہ ہیں معجزات ، کتابیں اور کتابِ منیر، لیکن اس باب میں یہ ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے، کہ پیغمبروں کے معجزات اور کتابوں کے علاوہ کتابِ منیر (روشن کتاب) کون سی ہے یا کیا چیز ہوتی ہے؟ کیونکہ آیۂ کریمہ کے عربی الفاظ کے لحاظ سے بینات کے معنی ہیں معجزات، زبر زبور کی جمع ہے جس کا مطلب ہے کتابیں اور کتابِ منیر کا ترجمہ ہے
۹۳
روشن کتاب۔
چنانچہ سوال تھا کہ روشن کتاب کون سی ہے؟ نیز یہ بھی سوال ہو سکتا ہے، کہ آیا وہ روشن کتاب اب بھی ہے یا نہیں، جبکہ آنحضرتؐ سے قبل کے جملہ پیغمبروں کے ساتھ ہمیشہ سے موجود تھی؟ ان سوالات کا سادہ اور آسان جواب یہ ہے، کہ روشن کتاب نورِ امامت کا نام ہے اور وہ پیغمبرِ آخر زمانؐ کے ساتھ بھی تھا اور اب بھی موجود ہے، اور یہی نور تمام پیغمبروں کے آسمانی کتب کی عملی تاویل و حکمتِ بالغہ کی حیثیت سے ہے، کیونکہ نورِ امامت ہی وہ نور ہے جس میں روحانیت کے جملہ اسرار اور تاویلات کے جملہ روشن حقائق و معارف موجود ہیں۔
شرحِ صدر:
سورۂ زُمُر کی بائیسویں آیت کا ارشاد ہے کہ: پس جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا اور وہ اپنے پروردگار کے نور پر ہے (کیا وہ شخص اور اہلِ قساوت برابر ہیں) پس جن لوگوں کے دل خدا کے ذکر سے متاثر نہیں ہوتے تو ان کے لئے بڑی خرابی ہے یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں (۳۹: ۲۲)۔
یہ پاک آیت سب سے پہلے انسانِ کامل یعنی پیغمبرِ آخر زمان اور امامِ برحق علیہما السلام کی شان میں ہے، ان کے بعد درجہ بدرجہ دوسرے حدودِ دین کے بارے میں بھی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا شدہ وسعتِ قلبی، اسلام یعنی اطاعت اور خدا کا
۹۴
نور انسانِ کامل کے وسیلہ اور توسّط سے حدودِ دین کو بھی علیٰ قدرِ مراتب حاصل ہوتا ہے، اور انسانِ کامل کی ذاتِ اقدس میں یہ صفات اور دوسری تمام خوبیاں ہمیشہ کے لئے بدرجۂ اتم موجود ہوتی ہیں۔
اس آیۂ مقدسہ کی حکیمانہ تعلیم شرحِ صدر یعنی وسعتِ قلبی کے ذکر سے شروع ہو جاتی ہے، اور فرمایا جاتا ہے، کہ اسلام کو کماحقّہٗ قبول نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو وسعتِ قلبی عطا نہ فرمائے، نیز لفظِ اسلام کے دوسرے معنوی پہلو کے اعتبار سے ارشاد ہے، کہ اگر خدا کی طرف سے کسی کو کشادہ دلی عنایت نہ ہوئی تو اس شخص سے اطاعت و فرمانبرداری نہیں ہو سکتی، کیونکہ اسلام کے معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں، پھر اس کے بعد فرمان ہے کہ جب خدا نے کسی آدمی کے دل کو کھول دیا تو وہی حقیقی اسلام یا کہ فرمانبرداری بجا لا سکتا ہے، جب اس نے ہادئ برحق کی فرمانبرداری کر لی، تو اس کے دل و دماغ میں بتدریج خدا کا نور جلوہ گر ہونے لگتا ہے، اور ذکرِ الٰہی خود بخود جاری رہتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے قلب میں رقّت و نرمی پیدا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی معجزانہ صوتی ہدایات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
اس صورتِ حال کے برعکس، جس میں حقائق و معارف کے زندہ معجزات موجود ہیں، جن لوگوں کے دل تنگ و تاریک ہوں، وہ حقیقی اسلام قبول نہیں کر سکتے، جس کے سبب سے
۹۵
ان کے دل خدا کے نور کے قابل نہیں ہو سکتے، نہ ہی وہ خدا کے ذکر کو جاری رکھ سکتے ہیں، پھر وہ قساوتِ قلبی کے روحانی مرض میں مبتلا ہو کر گمراہی اور ضلالت کے بیابان میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔
زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی:
سورۂ متذکرۂ بالا میں پروردگارِعالم کے نورِ مقدس یعنی نورِ امامت کے مختلف ظہورات کے بارے میں بطور پیش گوئی ارشاد ہوا ہے: اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی اور اعمال نامہ رکھ دیا جائے گا اور پیغمبروں اور گواہوں کو لایا جائے گا اور ان (یعنی لوگوں) کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہو گا ۔ ۳۹: ۶۹۔
اس آیۂ مقدسہ میں نزولِ قرآن کے دوران نورِ امامت اور روحانی واقعات کے بارے میں جو پیش گوئی کی گئی ہے، اس کا تعلق چار حالات سے ہے، انفرادی روحانیت، اجتماعی روحانیت یا کہ روحانی دور، انفرادی قیامت اور اجتماعی قیامت۔
حقیقی مومن کی انفرادی روحانیت میں نورِ امامت سے جو فیضان حاصل ہوتا ہے، اس کے متعلق اس آیۂ کریمہ کی پیشگوئی اس طرح سے ہے کہ پیغمبر کی تنزیلی ہدایات اور امامِ وقت کی تاویلی ہدایات پر عمل کرنے کے نتیجے میں ہر حقیقی مومن کے دل کی زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی، اس کی روحانیت
۹۶
ایک زندہ کتاب کی حیثیت سے معجزانہ گفتگو کرے گی، پیغمبروں کی مقدّس روحیں اپنے اپنے معجزات اور جملہ واقعات کے ساتھ اس کے روحانی مشاہدے میں آئیں گی، نیز گواہوں یعنی أئمّۂ اطہار کے پاک انوار کے روحانی ظہورات ہوں گے اور اس مومن کے حق میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ ہو گا۔
اجتماعی روحانیت میں نورِ امامت اس طرح اثر انداز ہے، کہ اللہ تعالیٰ کا یہ نور جس ظاہری و باطنی ہدایت کی کیفیت میں پیغمبر صلعم کے بعد سلسلۂ امامت میں سے طلوع ہوتا رہا ہے اور جس انداز سے علم و حکمت کی مسلسل روشنی اس جہان والوں کو بخش رہا ہے اس کے نتیجے کے طور پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے، کہ اس میں دنیائے انسانیت، علم و ہنر، عقل و دانش اور شرافت و یگانگت کے اوجِ کمال پر پہنچ جائے گی، اور ہر قسم کی برائیاں نیست و نابود ہوجائیں گی، اسی وقت حق کو باطل پر فتح حاصل ہو گی اور حق و حقیقت کا دور دورہ ہو گا، غلط عقائد اور نظریات سب کے سب ختم ہو جائیں گے، اور جو سچا عقیدہ اور صحیح نظریہ ہے صرف وہی قائم رہے گا اور اسی کو فروغ حاصل ہوگا۔
یہ ہوا زمین کا اپنے ربّ کے نور سے روشن ہو جانا، کہ زمین کا مطلب یہاں انسانیت ہے، جو انبیاء و أئمّہ کے انوار کے فیوضات کے لئے ہر وقت محتاج ہے، اور یہ ہوا مختلف عقائد و نظریات کے اعمال ناموں کو سامنے رکھ کر قانونِ الٰہی
۹۷
کا فیصلہ کر دینا، پیغمبروں اور اماموں کا حاضر ہو جانا، کیونکہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا یہی ایک دین تھا، جس کی طرف ان تمام حضرات نے ظاہراً و باطناً لوگوں کو دعوت کی تھی، پس ایسا زمانہ انبیاء، أئمّۂ ھُداؑ اور ہر زمانہ کے مومنین کی فتح مندی اور کامیابی کا دن ہے، جس کی پیش گوئی قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ کی گئی ہے۔
انفرادی اور اجتماعی روحانیت کی مذکورہ دونوں حالتوں کو قیامت کے نام سے بھی ہم مان سکتے ہیں، ایسی قیامت انسان کی زندگی میں آتی ہے۔
اب رہا سوال نورِ امامت اور اس قیامت کے تعلق کا، جو انسان کی جسمانی موت کے بعد واقع ہونے والی ہے، جو انفرادی حالت میں بھی ہے اور اجتماعی صورت میں بھی، جس کی مثالیں مذکورۂ بالا تفصیلات سے مل سکتی ہیں، مگر اس میں یہ بات ضرور یاد رہے، کہ جسمانی زندگی میں جو بھی روحانیت یا قیامت پیش آتی ہے، وہ جُزوی قسم کی ہے، اور مرنے کے بعد جو قیامت واقع ہو گی، وہ کُلّی۔ غرض یہ کہ امامِ اطہر کا نور ہی ہے جس کی روشنی کے لئے دنیا و آخرت والے ہمیشہ محتاج ہیں۔
نور کے عظیم اسرار:
سورۂ شوریٰ کے آخری رکوع کی زبانِ حکمت کا ایک پرمغز اور جامع مطلب یہ ہے، کہ پاکیزہ بشریت کے اعلیٰ ترین مقام پر اللہ تعالیٰ کے مقدّس نور کا جلوۂ دیدار کچھ لمحات
۹۸
کے لئے حاصل ہوتا ہے، مگر اس اعلیٰ ترین دیدار کے ساتھ ساتھ کلامِ الٰہی میسر نہیں ہوتا، ہاں ایک حکمت آگین اشارہ ہو سکتا ہے، کلامِ الٰہی تو اس دیدار سے نچلے درجے میں حجاب کے پیچھے سے ہوتا ہے، اور اس ربّانی کلام سے نچلے درجے میں فرشتے کے توسط سے وحی ہوتی ہے۔
اس کے معنی یہ ہوئے کہ روحانیت کا جتنا لمبا سلسلہ ہے، وہ تین درجات پر مشتمل ہے، چنانچہ سب سے نچلے درجے میں جبرائیل علیہ السّلام وحی لاتا ہے، اس کے اوپر کے درجے میں نورِ الٰہی خود ہی حجاب کے پیچھے سے کلام فرماتا ہے اور سب سے اوپر کے درجے میں یہ نور رحمانی صورت میں چند سیکنڈوں کے لئے اپنا جلوہ دکھاتا ہے، مگر اس انتہائی دیدار کے موقع پر کلام نہیں ہوتا، ہاں ایک جامع قسم کا اشارہ ہوتا ہے۔
پس اسی قانون کے مطابق اللہ تعالیٰ نے عالمِ امر سے ایک عظیم روح آنحضرت پر وحی فرمائی تھی، اور سرورِ کائنات اس واقعہ سے قبل آسمانی کتاب اور ایمان کے انتہائی درجات سے واقف نہ تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضورِاکرمؐ کی اس روحانیت کو، جو وحی بھی تھی اور روح بھی، نور بنایا، جس کی روشنی میں پیغمبرِخدا سب کچھ جاننے لگے، اور اسی نور کی روشنی سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے ہدایت کرتا ہے۔
اس بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ نورِ امامت ’’ اوحینا الیک روحا ‘‘ کے معنی میں نہ صرف وحی اور قرآنِ ناطق
۹۹
کی حیثیت سے ہے، بلکہ یہ ایک عظیم روح بھی ہے، اور جہاں ’’ جعلنہ نورا ‘‘ کا ارشاد آیا ہے، وہاں نورِ امامت آسمانی کتاب یعنی قرآنِ صامت کے اسرارِ مخفی کے لئے روشنی بھی ہے، اور جو ارشاد ہوا ہے کہ: ’’ نھدی بہ من نشاء من عبادنا ‘‘ اس کے اعتبار سے ظاہر ہے کہ یہ نور وہی ہے، کہ جس کے ذریعے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضورِاکرمؐ سے قبل کے تمام انبیاءؑ کو بھی وحی کر کے رہنمائی کی تھی ’’ و انک لتھدی الیٰ صراط مستقیم ‘‘ کی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسولِ خداؐ کو یہ نور حاصل ہوا تو آپ نے اپنے وقت میں اسی نور کے ذریعے سے راہِ راست کی ہدایت کی، اور مستقبل کی ہدایت کے لئے حضورؐ نے بحکمِ خدا امامؑ کو مقرر فرمایا پھر نور امام میں منتقل ہو گیا۔ الحمدللہ یہ حقائق و معارف قرآنی حکمت کی زبان سے اور روحانی مشاہدات و تجربات کی روشنی میں بتائے گئے۔
نورانی معجزات:
سورۂ حدید کی نویں آیت (۵۷: ۰۹) میں نور کے بارے میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وہ (اللہ) ایسا ہے کہ اپنے بندے پر واضح نشانیاں اتارتا ہے تا کہ وہ تم کو تاریکیوں سے نور کی طرف نکال دے اور بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔
یہاں عقل و دانش سے خوب سوچنے کا مقام ہے، کہ
۱۰۰
جن تاریکیوں میں سے ایک مسلمان یا ایک مومن ہادئ برحق کے بغیر بذاتِ خود نکل نہیں سکتا، وہ کس نوعیت کی تاریکیاں ہیں؟ کیا یہ بات درست ہو سکتی ہے، جو ہم کہیں کہ یہ وہی تاریکیاں ہیں جو جہالت و نادانی اور زمان و مکان کے پیدا کردہ مسائل کی الجھنوں سے انسان کے دل و دماغ میں پیدا ہوتی ہیں، ظاہر ہے کہ واقعاً ان تاریکیوں کا مطلب یہی ہے، پھر لازماً ہم کو یہ بھی ماننا ہی پڑے گا، کہ جہالت و نادانی اور مسائلِ نو کی تاریکیوں سے نکل جانے کا ذریعہ صرف ایک ایسی تازہ ترین ہدایت ہی ہو سکتی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہو، اور ایسی ربّانی ہدایت آنحضرت صلعم کے بعد صرف امامِ وقتؑ ہی کے وسیلے سے حاصل ہو سکتی ہے، پس یہی حکمت آیۂ مذکورہ بالا میں پوشیدہ ہے۔
قرآنِ حکیم کے ان مبارک الفاظ کی روشنی میں جو ارشاد ہوئے ہیں کہ: وہ (اللہ) ایسا ہے کہ اپنے بندے پر واضح نشانیاں نازل کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف خدا کا ایک خاص بندہ (انسانِ کامل) ہی ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ خدا کا یہ فعل بھی ہمیشہ کے لئے جاری رہتا ہے، کہ وہ اپنے بندۂ خاص پر بدلے ہوئے حالات کی ہدایت نازل کرتا ہے، اور خدا تعالیٰ کے حقیقی عدل و انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے نور کا سرچشمۂ ہدایت ظاہر و باطن میں ہمیشہ کے لئے جاری و ساری رہے، چنانچہ سرورِ کائنات صلعم پر عہدِ نبوّت کے دوران قرآن پاک کی ظاہری نشانیاں (آیات) نازل
۱۰۱
ہوتی رہی ہیں، جن کو تنزیلی نشانیاں اور ظاہری ہدایت کہتے ہیں، اور ہر زمانے کے امامِ برحق پر قرآنِ حکیم کی باطنی نشانیاں نازل ہوتی رہتی ہیں، جن کو تاویلی نشانیاں اور باطنی ہدایت کہتے ہیں، تا کہ قیامت کے دن کسی زمانے کے لوگوں کو یہ عذر و بہانہ نہ ہو سکے کہ ان کے زمانے میں اللہ کی ہدایت کا کوئی آسان ترین ذریعہ موجود نہیں تھا۔
اگر آپ ذاتی طور پر بھی اس حقیقت کی مزید تحقیق کر کے مطمئن ہو جانا چاہتے ہیں، کہ کس طرح آسمانی کتاب کے مکمل نزول کے بعد زمانۂ دراز تک اس کی تدریجی تاویل نازل ہوتی رہتی ہے، اور کس طرح اس تاویل کے مکمل طور پر آنے کے ساتھ ساتھ قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اس کے لئے قرآنِ حکیم کی ان تمام آیات کے معنی میں غور کریں، جو تاویل سے متعلق ہیں، خصوصاً ، ۱۰: ۳۹، ۱۲: ۰۶، ۱۲: ۲۱، ۱۲: ۱۰۰، ۱۲: ۱۰۱میں، اور سب سے بڑھ کر ۰۷: ۵۳ میں آپ غور کریں، پھر آپ کو یقیناًاس حقیقت کے متعلق اطمینانِ قلب حاصل ہوگا، کہ نہ صرف آسمانی کتاب کی نازل شدہ آیات کی تاویل بتدریج نازل ہوتی رہتی ہے، بلکہ دوسری بہت سی چیزیں بھی ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی تاویل عرصۂ دراز کے بعد ظاہر ہوجاتی ہے۔
پس جاننا چاہئے کہ امامِ زمان علیہ الصّلوٰت والسّلام کی پاک ہدایات سے جب حقیقی مومن کے دل سے جہالت و نادانی کی تاریکی دور ہو جاتی ہے، تو اس وقت امامِ عالی مقام کے نور کے علمی و عرفانی معجزات اس کے دل و دماغ میں ظہور پذیر ہوتے
۱۰۲
رہتے ہیں، اور وہ ہمیشہ اپنے باطن میں ایک عجیب و غریب علمی دنیا کا مشاہدہ کرتا رہتا ہے، یہ ہوا اللہ تعالیٰ کا اپنے خاص بندے پر واضح نشانیاں نازل کرنا اور انسانِ کامل کا مومنین کو تاریکیوں سے نکال کر نورِ معرفت کی طرف لے آنا۔
مومنین، مومنات اور نور:
سورۂ حدید کی بارہویں آیت (۵۷: ۱۲) میں انفرادی روحانیت اور دورِ قیامت کے اہلِ ایمان اور نورِ امامت کے بارے میں ارشاد ہے کہ: جس دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے، کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کی داہنی طرف سعی کرتا ہو گا، آج تم کو بشارت ہے ایسے باغوں کی جن کے نیچے سے نہریں چلتی ہیں، ان میں تم ہمیشہ رہنے والے ہو یہی بڑی کامیابی ہے۔
آیۂ مقدّسۂ بالا کا حکمت آگین اشارہ یہ ہے کہ ہر زمانے کی انفرادی روحانیت میں بھی اور دورِ قیامت میں بھی امامِ حیّ و حاضر کا پاک نور مومنین و مومنات کے ساتھ ان کی پیشانی یا داہنی طرف سے کلام کرتا رہے گا، اور “یسعیٰ” کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت اہلِ ایمان کی روحانیت کی بے شمار منزلیں اس نور کی روشنی و رہنمائی میں بڑی تیزی کے ساتھ طے ہو جائیں گی، نیز اس لفظ کے یہ معنی بھی ہیں، کہ یہ نور حقیقی مومنین کے دین و دنیا سے متعلق ہر قسم کی بہتری اور بھلائی کے لئے سعی کرے گا۔
یہاں البتہ یہ بات قابلِ ذکر ہے، کہ مختلف اعتبارات سے
۱۰۳
نورِ مطلق کی مختلف اضافتیں اور جدا جدا نسبتیں ہوا کرتی ہیں، یعنی قرآنِ حکیم میں کبھی اس پاک نور کو اللہ تعالیٰ سے منسوب کرتے ہوئے فرمایا جاتا ہے کہ “نور اللہ کا ہے‘‘ کبھی روشن چراغ وغیرہ جیسے الفاظ کے مفہومات کا اشارہ ہوتا ہے کہ ’’نور پیغمبر کا ہے” بعض آیات اپنی زبانِ حکمت سے بتاتی ہیں کہ “نور امام کا ہے” اور یہاں آیۂ مذکورۂ بالا سے ظاہر ہے کہ “نور مومنین و مومنات کا ہے” پس حقیقی مومنین کو نورِ مقدّس کے اس قانونِ وحدانیت اور نظامِ جامعیّت پر خوب غور و فکر کرنا چاہئے، کہ نورِ واحد کی اس کثرت نمائی میں کیا راز ہے؟
بہر حال جاننا چاہئے، کہ نور کی یہ مختلف نسبتیں اپنی اپنی جگہ پر بالکل صحیح اور درست ہیں، اور ان میں ذرّہ بھر بھی شک نہیں، نیز جاننا چاہئے، کہ ان جدا جدا اضافتوں کے باوجود نور ایک ہی ہے، اور اس میں کوئی دوئی نہیں، پس اس کے معنی، حقیقت اور صفاتِ کمالیہ بھی وہی ہیں جو ’’ اللہ نور السمٰوات والارض‘‘ کے مقام پر ہیں۔
منافقین، منافقات اور نور:
مذکورہ سورہ کی تیرہویں آیت (۵۷: ۱۳) میں منافقین، منافقات اور نورِ امامت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: جس روز منافقین اور منافقات مومنین سے کہیں گے کہ ہمارا انتظار کرلو کہ ہم بھی تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کر لیں ان کو جواب
۱۰۴
دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ پھر وہاں سے روشنی تلاش کرو۔
جاننا چاہئے کہ منافق لوگ نہ صرف دورِ قیامت (روحانی دور) میں اہلِ ایمان کی تیز رفتار روحانی ترقی پر رشک کریں گے، بلکہ ہر زمانے میں نورِ امامت کی شاندار رہنمائی اور مومنین کی ترقی اور کامیابی دیکھ کر منافقین کی روحیں زبانِ حال سے فریاد کرتی ہیں، کہ خدا کے لئے ذرا ٹھہرو تا کہ ہم بھی تمہارے امامؑ کے نور کی ہدایت میں ظاہری و باطنی کامیابی کی منزلیں طے کریں، مگر ان کو زبانِ حال سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ تم تواریخ اور عقائد کے راستے میں ازسرِ نو تحقیق کرتے ہوئے اپنے پیچھے چلو، اور تم نے جس دوراہے پر آکر نور کا پاک دامن چھوڑا تھا، اس کے متعلق سوچو اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے اپنے تمام عقائد کی اصلاح کرو پھر ممکن ہے کہ نور ملے۔
نور حاصل ہونے کا درجہ:
سورۂ حدید کی انیسویں آیت (۵۷: ۱۹) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا مبارک فرمان یہ ہے کہ: اور جو لوگ اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لا چکے ہیں (جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے) ایسے ہی لوگ اپنے ربّ کے نزدیک صدّیق اور شہید ہیں ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے۔
اس آیۂ کریمہ کے باطن میں بہت سی عظیم حکمتیں پنہان
۱۰۵
ہیں، من جملہ ایک حکمتِ بالغہ یہ بھی ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کہ شروع سے آخر تک ایمان کے بہت سے درجات ہیں، صداقت ایک ایسی صفت ہے جو ایمان کامل ہونے سے حاصل ہوتی ہے، اور صداقت کے بھی کثیر مراتب ہیں، جب صداقت درجۂ کمال پر پہنچے، تو اس وقت مردِ مومن میں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت پیدا ہوتا ہے، اور شہادت کے بھی کئی رتبے ہیں، پھر اس کے بعد اجر و صلہ کے مراحل آتے ہیں اور اجر کی بھی بہت سی قسمیں ہیں، اور ان تمام خوبیوں کے نتیجے کی صورت میں نور کا دروازہ کھل کر رہتا ہے۔
پس معلوم ہوا کہ حقیقی مومن کی روحانیت کا سب سے اونچا درجہ وہ ہے جہاں اس کو امامِ برحق کے مبارک و مقدّس نور کا معجزاتی دیدار اور روح افزا مشاہدہ ہو سکتا ہے، یہ وہ مقامِ وحدت ہے، جہاں پر حقیقی مومنین کی روحیں امامِ اقدسؑ کے نور کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتی ہیں، یہی سبب ہے، جو ارشاد ہوا ہے، کہ حقیقی مومنین، جنہوں نے خدا اور اس کے رسولوں پر جیسا کہ چاہئے ایمان لایا ہے، اپنے پروردگار کے نزدیک صدّیق اور شہید جیسے ہیں، یعنی ایسے مومنین اساسوں اور اماموں کے نور سے واصل ہو چکے ہیں، کیونکہ تاویلی زبان میں صدیقین اساسوں کو کہتے ہیں اور شہداء اماموں کا نام ہے، اسی معنی میں کہ چھ ناطق پیغمبروں میں سے ہر ناطق پیغمبر کا ایک اساس ہوا ہے، چنانچہ حضرت محمد مصطفیٰ صلعم کے اساس حضرت مولانا امام علیؑ تھے،
۱۰۶
جنہوں نے نہ صرف شخصی اور ذاتی طور پر قرآن و شریعت کی تاویل کر کے حضورِ اکرمؐ کی نبوّت و رسالت کی تصدیق کی، بلکہ اپنی پاک اولاد کے سلسلۂ امامت کے توسّط سے بھی تاویلات کا یہ دروازہ ہر بار کھول دیا، جس سے ہمیشہ کے لئے آنحضرتؐ کی مرتبۂ پیغمبری کی تصدیق ہوتی رہی، اور اسی تاویلی تصدیق کی ضرورت کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ناطق پیغمبر کے ساتھ ایک صدّیق مقرر ہوا تھا اور صدّیق کے معنی تصدیق کرنے کے ہیں، اور شہداء اماموں کا نام اس معنی میں ہے، کہ شہداء گواہوں کو کہتے ہیں، جس سے أئمّۂ اطہار مراد ہیں، کیونکہ یہی حضرات دنیا والوں کے اعمال پر گواہ ہیں، چونکہ وہ سلسلہ وار دنیا اور زمانہ میں حیّ و حاضر ہوتے ہیں۔
نور سرچشمۂ ہدایت:
خدا کے مقرّر کردہ نور کی موجودگی اور رہنمائی کے بغیر کوئی بھی نظریہ اور مذہب طولِ زمانہ کی پرخطر تاریکیوں سے سلامتی کے ساتھ گزر کر حوضِ کوثر پر وارد نہیں ہو سکتا، اور نہ کسی دین کا ابتدائی وجود ایک مجسّم نور کو مانے بغیر ثابت ہو سکتا ہے، اسی حقیقت کے باب میں سورۂ حدید کی اٹھائیسویں آیت (۵۷: ۲۸) کا یہ ارشاد ہے کہ: اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول (محمدؐ) پر ایمان لاؤ (تا کہ خدا) تم کو اپنی رحمت سے دو حصے عطا فرمائے گا اور تم کو ایسا نور مقرر کر دے گا کہ تم اس کے ذریعہ چل سکو گے اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
۱۰۷
اس متّبرک آیت کی تفسیر یہ ہے کہ: اے ایمان والو! جو دائرۂ اسلام میں داخل ہو چکے ہو، اب خدا سے ڈرو، یعنی نیّات، اقوال اور اعمال میں تقویٰ کو ملحوظِ نظر رکھو اور خدا کے رسول حضرت محمد صلعم پر مکمّل طور سے ایمان لاؤ، یعنی حقیقی مومنین بنو، تا کہ اللہ تعالیٰ بذریعۂ رسولِ مقبولؐ تم کو اپنی رحمتِ بیکران سے دو حصے عطا کرے گا، یعنی ظاہری ہدایت اور باطنی ہدایت کا وسیلہ پیدا کرے گا، اور تم کو ایسا نور یعنی امام مقرر کر دے گا، کہ اس کا سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، تا کہ تم دینی اور دنیاوی طور پر زمانے کے ساتھ ساتھ منزل بمنزل آگے بڑھ سکو گے، یہاں تک کہ تم سلامتی کے ساتھ حوضِ کوثر پر وارد ہو جاؤ گے۔
پیغمبرؐ اور امامؑ کا نور خدا کا نور ہے:
اس کتابچہ کے موضوعات کے سلسلے میں یہاں تک آیاتِ نور سے جو کچھ حقائق و معارف بیان کئے گئے، ان سے آپ پر یہ حقیقت واضح اور روشن ہوئی ہو گی، کہ خدا کے مقدّس نور کا مظہر انسانی ہدایت کے لئے بلباسِ بشریت ہمیشہ اس دنیا میں حاضر اور موجود ہے، جس کی حاضری و موجودگی کے بغیر عالمِ ادیان کی ہستی و بقاء قطعاً نا ممکن ہے، اس حقیقت کی ایک محکم اور روشن دلیل یہ ہے، کہ مادّی نور یعنی سورج کے وجود کے بغیر اس مادّی کائنات کا وجود او رنظام لمحہ بھر کے لئے بھی قائم نہیں
۱۰۸
رہ سکتا، کیونکہ یہ ساری کائنات اور اس کے اندر جو کچھ موجود ہے وہ سب سورج کی بے پناہ تکوینی قوتوں سے پیدا ہوا ہے، اور یہ سارا مادّی نظام سورج ہی کی ہمہ گیر طاقتوں پر قائم ہے، یہ سب کچھ مظہرِ نورِ خدا کی مثال ہے، جو کبھی پیغمبر کی حیثیت سے اور کبھی امام کی صورت میں ہوتا ہے، جس کے ازلی وجودِ مبارک سے بتدریج عالمِ ادیان پیدا ہوا، اور اسی مظہر کی ذاتِ شریف کی طرف سے تمام ادیان کو علیٰ قدرِ مراتب ہدایت حاصل ہوتی رہتی ہے، پس اگر بفرضِ محال عالمِ دین میں یہ مظہر نہ ہو، تو سارے ادیان نیست و نابود ہو جائیں گے، اسی معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ: و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ امام کی نورانی ہستی کی بدولت ہر چیز محفوظ ہے، کیونکہ اس کی مقدّس ہستی لوحِ محفوظ کی حیثیت سے ہے، کہ ہر چیز کو امام کے نور نے گھیر کر رکھا ہے۔
چنانچہ نورِ امامت کی اسی دائمیّت اور اس کو بجھانے کے لئے کافروں کی ناکام خواہش و کوشش کے باب میں سورۂ صف کی آٹھویں آیت کا یہ ارشاد ہے کہ: وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے (پھونک مار کر ) بجھا دیں، حالانکہ اللہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا کر رہے گا ہر چند کہ کافر لوگ ناخوش ہوں۔(۶۱: ۰۸)
جاننا چاہئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نور کا مظہر عالمِ ظاہر میں نہ ہوتا اور عالمِ باطن میں ہوتا، تو اس صورت میں کافر لوگ خدا کے
۱۰۹
نور کو بجھانے کا ارادہ ہی نہ کرتے، کیونکہ کافروں کا ارادہ صرف اس دنیا کی ظاہری چیزوں تک محدود ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی خواہش کی تردید کرتے ہوئے یہ نہ فرماتا، کہ میں اپنے نور کو درجۂ کمال تک پہنچا کر ہی رہوں گا، پس معلوم ہوا کہ خدا کا یہ نور اس دنیا میں ظاہر ہے۔
خدا، رسول اور نورِ امامت:
سورۂ تغابن کی آٹھویں آیت میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: پس تم اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے ایمان لاؤ اور اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے ۔ ۶۴: ۰۸۔
اس آیۂ کریمہ سے جو حقیقت صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے، اس سے کوئی بھی دانشمند انکار نہ کر سکے گا، کہ اس میں تین مقدّس ہستیوں کا جدا جدا ذکر کیا گیا ہے، اور ترتیب سے ان تینوں ذواتِ مقدّسہ پر مکمل ایمان لانے کے لئے فرمان ہوا ہے۔
چنانچہ سب سے پہلے امر ہوا، کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ، اس حکم کے تحت وہ تمام نیک باتیں آ گئیں، جو خدا پر ایمان لانے سے متعلق ہیں، مثلاً حق تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرنا، اس کے اسماء و صفات پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں، کتابوں اور ان پیغمبروں پر ایمان لانا، جو آنحضرتؐ سے قبل دنیا میں
۱۱۰
بھیجے گئے تھے۔
پھر ارشاد ہے کہ اس کے رسول یعنی حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر ایمان لاؤ، اس حکم میں مسلمانی کی تمام بنیادی باتیں آگئیں، جیسے آنحضرتؐ کی نبوّت و رسالت پر ایمان لانا، قرآنِ پاک کو برحق ماننا، اسلام اور آنحضرت کی تمام تعلیمات کو قبول کرنا وغیرہ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ تم اس نور پر ایمان لاؤ، جو ہم نے نازل کیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ پاک نور امامت ہی کا ہے، جو ازل سے موجود ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے ناطق کے آسمانِ نورانیت سے اساس کی زمینِ شخصیت پر نازل کر دیا، بالفاظِ دیگر یہ نور آنحضرتؐ کی ذاتِ والا صفات سے حضرت مولانا علیؑ کی مقدّس ہستی میں منتقل ہو گیا، اور اولادِ علیؑ کے سلسلۂ امامت میں تا قیامت قائم ہے، اور اس مبارک نور پر ایمان لانا یہ ہے، کہ مذکورہ سلسلے کے أئمّۂ طاہرین کو ’’من عند اللہ‘‘ مان لیا جائے، یعنی یقین ہو کہ یہ امام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہوئے ہیں، اور ان کی ظاہری و باطنی ہدایات پر عمل کیا جائے، اور نور کے اشارے سے یہ سمجھنا مقصود ہے، کہ انسانیت اور مذہب کے دور و دراز راستے میں طرح طرح کی تاریکیاں اور گوناگون ظلمتیں آنے والی ہیں، جن کے لئے نورِ امامت کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
جاننا چاہئے، کہ اس آیۂ مقدسہ کا مقصد و منشاء بھی ایسا
۱۱۱
ہی ہے جیسا کہ آیۂ اطاعت کا، جو فرمایا گیا ہے کہ: اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ کا کہا مانو اور رسول کا کہا مانو اور صاحبانِ امر کا بھی جو تم میں سے ہیں ۔ ۴: ۵۹۔
پس معلوم ہوا کہ امامِ برحق کو امر اور نور دونوں کا مرتبۂ عالیہ حاصل ہے، یعنی جس طرح خدا اور رسول نے امامِ عالی مقام کو صاحبِ امر مقرر فرمایا، اسی طرح نور بھی اسی کے سپرد کر دیا گیا، کیونکہ نور کے بغیر خدا کی مرضی و خوشنودی کے مطابق امر و فرمان نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی امر و ہدایت سے بڑھ کر نور کا کوئی اور مقصد ہوتا ہے۔
نور ایک زندہ ذکر:
جاننا چاہئے کہ معجزہ ہمیشہ انتہائی عجیب و غریب ہی ہوتا ہے، اگر وہ ایسا نہ ہوتا، تو معجزہ ہی نہیں کہلاتا، چنانچہ بعض حقیقی مومنین کو اپنی ذات کی معرفت کے ایک اعلیٰ درجے پر اس حقیقت کا علم ہوتا ہے، کہ نورِ امامت نہ صرف اپنی ذاتِ اقدس ہی میں ایک نہایت ہی درخشندہ اور تابناک جہان ہے، بلکہ یہ ہر عارف کے باطن میں بھی ایک ایسا نورانی عالم بن کر مشاہدے میں آتا ہے، جس کی عقل و روح تو کلّی، کائناتی اور ہمہ گیر و ہمہ رس درجے کی ہے ہی، مگر حیرت اس بات کی ہے، کہ اس عالمِ نور کی ہر چیز گویا ایک فرشتہ ہے، کہ اس میں ایک پاکیزہ روح بھی ہے اور ایک کامل عقل بھی۔
۱۱۲
بناء برین جاننا چاہئے، کہ نور کی لاتعداد صفات میں سے ہر صفت ایک عظیم زندہ فرشتے کی حیثیت سے ہے، چنانچہ اسی سلسلے میں نور کی ایک زندہ صفت ’’ذکر‘‘ بھی ہے، جس کے کئی معانی ہیں۔
اب ذکر جو نور کی صفت ہے، اس کے معانی یہ ہیں: ا۔ ذکر = یادِ الٰہی جس کی بہت سی قسمیں۔ ۲۔ ذکر = قوتِ ذاکرہ۔ ۳۔ ذکر = قرآنِ حکیم ۔ ۴۔ ذکر = نصیحت۔ ۵۔ ذکر = پیغمبر اور امام کا لقب۔
سوال: نور اگر ذکر ہے اور ذکر کے معنی یادِ الٰہی کے ہیں، تو بتاؤ کہ نور میں یادِ الٰہی کس طرح سے ہے؟ جواب: حقیقی مومنین کو یقین ہو، کہ نور کا سورج آسمانِ امامت میں بھی اور بحالتِ عکس عارف کے آئینۂ دل میں بھی ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے معجزانہ ذکر کا حامل ہوتا ہے، یعنی یہ نور کے معجزات میں سے ہے، کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے عظام میں سے کوئی ایک اسم خود بخود ایک قدرتی آواز بن کر دائمی اور مسلسل ذکر کی صورت اختیار کرتا ہے، جس کی ایک ظاہری مثال ایسی ہے، جیسے کوئی خلا نورد انسان اپنے راکٹ کے ذریعے جب سیارۂ زمین کے دائرۂ کشش سے باہر نکلتا ہے، تو اس وقت وہ راکٹ کو اڑائے یا نہ اڑائے، بہر حال وہاں کی لاوزنی کیفیت اس کو اور اس کے راکٹ کو اڑائے ہوئے گھماتی رہتی ہے، پس یہی حال اس عارف کا بھی ہے، جس کا ذکر خواہشاتِ نفسانیت کے دائرۂ کشش سے نکل کر نورِ
۱۱۳
امامت کے خلا میں پہنچ چکا ہو۔
سوال: مانا گیا کہ نور کا ایک نام ذکر بھی ہے، مگر نور ذکر کے معنی میں قرآن کس طرح ہے؟ جواب: نور ذکر کے معنی میں قرآن اس طرح سے ہے، کہ ذکر اگر ایک طرف سے نور ہے، تو دوسری طرف سے قرآن کی روح ہے، پس نور، ذکر اور روحِ قرآن ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کی ۴۲: ۵۲ میں ارشاد ہوا ہے کہ قرآن وحی کی کیفیت میں اب بھی ایک عظیم روح اور نور ہے۔
نیز اسی روح اور نور کو ۲۲: ۵۴ میں ذکر کا نام بھی دیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے کہ: اور ہم نے قرآن کو ذکر کے لئے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے کہ ذکر کر لے۔ قرآن کو ذکر کے لئے آسان کر دینے کا مطلب یہ ہے، کہ قرآن کی زندہ روح اللہ تعالیٰ کے اسمِ بزرگ میں ہے جو امامِ زمان کا نور ہے، حضورِ اکرم نبوّت سے پہلے اسی بزرگ اسم کا ذکر کر لیا کرتے تھے، اور اسی سے قرآنِ پاک کا ظہور ہوا، اور اب بھی قرآنِ حکیم کی روحانیت و نورانیت اسی اسم اور اسی ذکر میں موجود ہے۔
جیسا کہ بتایا گیا، کہ نور کے ناموں میں سے ایک نام ذکر بھی ہے، اور بیان ہوا کہ ذکر کے یہ یہ معانی ہیں، پس اسی حقیقت کے بارے میں سورۂ طلاق کی دسویں اور گیارہویں آیت کا یہ ارشاد ہے کہ: تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف ایک ذکر نازل کیا ہے، ایک ایسا رسول جو تم کو واضح نشانیاں پڑھتا ہے تا کہ ایسے لوگوں
۱۱۴
کو جو ایمان لائے اور اچھے کام کریں تاریکیوں سے نور کی طرف لے آئے۔ ۶۵: ۱۰ تا ۱۱
اس آیۂ حکمت آگین کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ خداوندِ عالم نے دنیائے اسلام میں ایک ایسا زندہ اور مجسّم ذکر بھیجا، کہ اس میں ذکر کے تمام مذکورہ معانی اور اوصاف بدرجۂ اتم موجود تھے، جو رسولِ مقبولؐ تھے، دوسری طرف سے اس کے باطنی معنی یا تاویل یہ ہے، کہ حقیقی مومنوں اور عارفوں کے پاکیزہ دل و دماغ میں اسمِ اعظم کا ذکر ڈالا گیا ہے، جس میں رحمتِ عالمین اور امامِ مبین کا نورِ واحد موجود ہے، جو ہمیشہ روحانیت، ہدایت اور علم و حکمت کی روشن آیات پڑھتا ہے، تا کہ مومنوں اور نکوکاروں کو جہالت و نادانی کی تاریکیوں سے نکال کر اپنی ذات کی انتہائی معرفت کی روشنی کی طرف لے آئے۔
نور اور دورِ روحانیت:
سورۂ تحریم کے دوسرے رکوع کے شروع (یعنی ۶۶: ۰۸) میں ہے کہ: اے ایمان والو تم اللہ کی طرف خالص توبہ کرو، قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے برائیاں دور کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کر دے گا، جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں، اس دن اللہ تعالیٰ نبی (صلعم) کو اور جو مومنین (تابعداری کی رو سے) ان (یعنی پیغمبر) کے ساتھ ہیں، ان کو رسوا نہ کرے گا، ان کا نور ان کے داہنے اور ان کے سامنے سعی کرتا ہو گا، کہیں گے کہ
۱۱۵
اے ہمارے ربّ ہمارے لئے ہمارے اس نور کو پورا کر دے اور ہمیں معاف فرما بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
اس آیۂ مقدسہ کی حکمتوں کے سلسلے میں یہ ہے، کہ عموماً سب مسلمانوں سے اور خصوصاً عہدِ نبوّت کے مسلمین سے فرمایا جاتا ہے کہ: “اے ایمان والو! تم اللہ کی طرف توبۂ نصوح کرو۔” یعنی اے لوگو! جنہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف خالص اور سچی توبہ کرلو، مطلب یہ کہ ظاہری اور باطنی گناہوں کو انتہائی ندامت کے ساتھ ترک کردو اور اپنی نیّت، قول، اور عمل کی واجبی طور پر اصلاح کرو، کیونکہ توبہ الی اللہ کے معنی دل و جان سے خدا کی طرف رجوع کرنے کے ہیں، جس کے لئے تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کی ضرورت ہے۔
اس کے بعد جو الفاظ ارشاد ہوئے ہیں، ان میں نور اور روحانی دور کے انقلابات کی پیش گوئی کی گئی ہے، اور روحانی دور کی بابت یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی دو صورتیں ہیں، ایک صورت یہ کہ وہ باطنی طور پر ہمیشہ جاری و ساری ہے، اور دوسری صورت یہ ہے، کہ وہ ایک مقررہ وقت میں ظاہر ہو کر دنیا والوں کو متاثر کرے گا۔
اب اس مقام پر قرآنِ حکیم کی حکمت کا یہ اصول قابلِ ذکر ہے، کہ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں دنیا والوں کی اجتماعی حالت کے بارے میں کوئی پیش گوئی کی گئی ہے، اس کے اندر لوگوں کی انفرادی حالت کی بھی پیش گوئی پوشیدہ ہے،
۱۱۶
مثال کے طور پر جن آیاتِ کریمہ میں ایسی قیامت کا ذکر آیا ہے جو موت کے بعد واقع ہونے والی ہے، ان میں انسانی افراد کی شخصی قیامتوں کا بھی تذکرہ موجود ہے۔
چنانچہ خالص اور سچی توبہ کے حکم کے بعد فرمایا گیا ہے کہ “قریب ہے کہ تمہارا پروردگار تم سے برائیاں دور کر دے گا۔” اس ارشاد سے ایک تو یہ معلوم ہوتا ہے، کہ نافرمانیوں اور گناہوں سے توبۂ نصوح کرنے کے بعد بھی مومنوں میں کچھ ایسی برائیاں باقی رہتی ہیں، جنہیں وہ خود دور نہیں کر سکتے، دوسرا یہ پتہ چلتا ہے، کہ خالص اور قلبی طور پر توبہ کرنے کے بعد امامِ وقتؑ کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا دروازہ کھل جانے کی امید ہے۔
یہاں پر یہ ضروری سوال پیدا ہوتا ہے، کہ وہ کون سی برائیاں ہیں، جن کو مومن اپنی ذات سے توبۂ نصوح کرنے کے باوجود بھی دور نہیں کر سکتا؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ انتہائی حد کی توبہ کرنے کے بعد نفسانی گناہوں کی امکانیت البتہ ختم ہو جاتی ہے، مگر مذہب سے متعلق باطل خیالات اور غلط نظریات ایسی چیزیں ہیں، جن کو مٹانے کے لئے تنہا توبۂ نصوح کافی نہیں ہو سکتی، بلکہ اس کے ساتھ خصوصی ہدایت اور علمِ توحید کی ضرورت ہے، جو امامِ زمان کے وسیلے سے حاصل ہو سکتا ہے۔
بعد ازان ارشاد ہے کہ: “اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کر دے گا، جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں۔” یہ بہشتِ روحانیت کے ان باغوں کا ذکر ہے، جن کا تعلق نہ صرف انسان کی دوسری
۱۱۷
ہی زندگی سے ہے، بلکہ اسی زندگی کی روحانیت میں بھی جزوی طور پر ان کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، جن میں انسانی عقل و جان کے لئے ہر قسم کی نعمتیں اور لذّتیں موجود ہیں، ایسے باغوں کے نیچے تائیدِ الٰہی کی نہریں چلتی ہیں، یعنی ان روحانی درجات میں عقلِ کلّ کی تائید، نفسِ کلّ کی تخلیق، ناطق کی تنزیل اور اساس کی تاویل کی قوتیں جاری و ساری ہیں۔
پھر ارشاد ہوا ہے کہ: “اس دن اللہ تعالیٰ نبی (صلعم) کو اور جو مومنین (فرمانبرداری کی رو سے) ان کے ساتھ ہیں ان کو رسوا نہ کرے گا۔” یہ واقعہ روحانی دور سے متعلق ہے، روحانی دور دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی، وقت سے پہلے انفرادی طور پر بھی ہے، اور وقت آنے پر اجتماعی حالت میں بھی، ایسے دور میں خدا تعالیٰ پیغمبر کو اور ان مومنین کو رسوا نہیں کرے گا، جو تابعداری، محبت اور روحانیت کے اعتبار سے اور نورِ امامت کی معیّت کے لحاظ سے ( کہ امام کا نور پیغمبر کا نور ہے) پیغمبر کے ساتھ ہیں۔
’’ان مومنین کا نور ان کے داہنے اور ان کے آگے سعی کرتا ہو گا‘‘۔ یعنی ایسے دور میں، جس کا اوپر ذکر کیا گیا نورِ امامت جو نورِ ایمان بھی وہی ہے، مومنین کے داہنے کان اور ان کی پیشانی سے خطاب کرے گا، جس میں ان کی دنیا و آخرت سے متعلّق رشد و ہدایت اور علم و حکمت ہو گی، کیونکہ تاویل کی زبان میں داہنی طرف ظاہر کو کہتے ہیں، جس سے یہ دنیا مراد ہے،
۱۱۸
اور آگے کا مطلب آخرت ہے، کہ آخرت انسان کے مستقبل میں ہے۔
’’کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ ہمارے لئے ہمارے اس نور کو پورا کر دے اور ہمیں معاف فرما‘‘۔ یعنی اس وقت مومنین کو اس بات کا احساس ہو گا، کہ وہ باوجود کم علمی اور محتاجی کے قبلاً اس رحمتِ بے پایان سے غافل تھے، لہٰذا وہ خداوند تبارک و تعالیٰ سے یہ دعا کریں گے، کہ اے پروردگار! ہمارے اس نور کو درجۂ کمال تک پہنچا دے! یعنی ہماری ذاتی روحانیت کو نور کی اصل سے واصل کر دے! اور ہم جو اس امکانی رحمت سے قبلاً غافل رہے ہیں، اس کے لئے ہمیں معاف فرما! اور ہمارے آئندہ گناہوں کو بھی بخش دے!
’’بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ یعنی جب مومنین روحانی دور میں اللہ جلّ شانہٗ کے لاتعداد معجزات اور بے شمار قدرتوں کا مشاہدہ کریں گے، تو اس وقت وہ زبانِ قال اور زبانِ حال دونوں سے کہا کریں گے، کہ بے شک تو ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے، اور تیری قدرت میں ’’کوئی شیٔ ناممکن نہیں‘‘۔
۱۱۹
آفتاب و ماہتاب:
قرآن حکیم کی ۱۰: ۰۵، ۲۵: ۶۱ اور ۷۱: ۱۶ میں سورج اور چاند کی روشنی کا ذکر اس انداز سے یکجا طور پر آیا ہے، کہ سورج اس کائنات کے لئے ظاہری اور مادّی روشنی کا سرچشمہ ہے اور چاند اس کا مظہر ہے۔
یہ پرحکمت آیتیں ایک ہی موضوع یعنی نور کے مضمون اور بیان سے متعلق ہیں، جن کے مربوط مطالعہ اور غورو فکر کے نتیجے میں بہت سے حقائق و معارف سامنے آتے ہیں، جن سے نور اور مظہرِ نور کے تصور کے علاوہ توحید کے دوسرے انتہائی اعلیٰ تصورات جیسے ہمہ ازوست یا ہمہ اوست وغیرہ کے سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
چنانچہ سورۂ نوح کی پندرھویں اور سولہویں (یعنی ۷۱: ۱۵ تا ۱۶) میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے سات آسمان کیسے اوپر تلے بنائے ہیں اور چاند کو نور قرار دیا ہے اور سورج کو چراغ ٹھہرایا ہے۔
جاننا چاہئے، کہ قرآنی حکمت کے اصولات میں سے ایک اصول یہ بھی ہے، کہ کسی بھی گوہرِ حقیقت کا مشاہدہ نہ صرف اس کے مختلف پہلوؤں سے کرایا جاتا ہے، بلکہ ہر پہلو کا مشاہدہ بھی مختلف زاویوں سے کرایا جاتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کی ان آیاتِ کریمہ میں، جو سورج، چاند اور ان کی روشنی کے متعلق ہیں،
۱۲۰
کبھی ارشاد ہوا ہے، کہ سورج کی ذات چراغ ہے یعنی ایک خالی ظرف، کبھی ارشاد کیا گیا ہے، کہ وہ ایک روشن چراغ ہے اور کبھی فرمایا گیا ہے، کہ سورج گویا چراغ کا ظرف ہے اور چاند اس کا نور (یعنی شعلہ) ہے۔
پس حقیقی مومنین کے لئے واضح رہے کہ نور کی مذکورہ مثالوں کے ممثولات اس طرح سے ہیں، کہ قرآن پاک میں جہاں سورج کی مثال ایسے ظرفِ چراغ سے دی گئی ہے جس کو روشن کر دینے کے لئے تیل کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں نظریۂ ہمہ اوست (یک حقیقت) کی طرف اشارہ ہے، کہ جس طرح اجزائے کائنات کے تمام ذرّات باری باری سورج کے مقام پر پہنچ کر روشنی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، اسی طرح ہر چیز کی روح جب خدا کی ذات سے واصل ہو جائے، تو وہ فنا ہو کر اس کی صفات کی روشنی بن جاتی ہے، یہ ہمہ اوست اور یک حقیقت کا نظریہ ہے۔
جہاں ارشاد ہوا ہے کہ سورج ایک ایسا روشن چراغ ہے جو کائنات میں روشنی پھیلا دیتا ہے، تو اس کے معنی ہمہ ازوست اور یک الٰہیت کے ہیں، کیونکہ جس طرح ہر چیز کا مادّی وجود سورج سے بنتا ہے، اسی طرح ہر چیز کی روحانی ہستی خدا سے ہے۔ اور جہاں سورج کو چراغ اور چاند کو نور یعنی شعلۂ چراغ قرار دیا گیا ہے، اور یہ مثال رات کے لحاظ سے ہے، جس کا مطلب یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ برحق کی غیر مرئی صفات
۱۲۱
کا نور امامِ زمانؑ سے ظاہر ہوتا ہے، چونکہ یہی انسانِ کامل ہے اور یہی خدا کا مظہر ہے۔
روشنی بلا واسطہ سورج کی ہو یا بالواسطہ چاند کی، ہر حالت میں ایک ہی روشنی ہے، اس میں کوئی دوئی نہیں، مگر اس میں یہ فرق ضرور ہے کہ رات کے وقت جو روشنی چاند سے زمین پر پڑتی ہے، وہ براہِ راست نہیں آتی، بلکہ چاند کی سطح سے ٹکرا کر آتی ہے، اس لئے وہ سورج کی روشنی کی طرح تیز اور گرم نہیں ہوتی، جس کی وجہ یہ ہے، کہ ہم رات کے وقت نہ صرف یہی کہ سورج سے دور ہو جاتے ہیں، بلکہ چاند بھی ہم سے بہت ہی دور رہتا ہے، پس اگر ہم اس وقت چاند کی سطح پر جائیں، تو وہاں اس وقت رات نہ ہو گی بلکہ دن ہو گا، اس لئے وہاں ہم کو براہِ راست سورج نظر آئے گا، اس مثال کی تاویل یہ ہے کہ جو انسان امامِ زمانؑ کے لئے اقرار کرے، اس کے لئے امام کی شخصیت چاند ہے اور امام کی ہدایت چاند کی روشنی ہے، جب ایسا مومن منازلِ معرفت کو طے کر کے امام کی ذاتِ اقدس تک پہنچ جائے گا، تو اس وقت اس کے لئے امامِ زمان کی ہدایت خدا و رسول کی ہدایت ثابت ہو گی، جیسے چاند کی روشنی میں چاند پر پہنچ جانے کے ساتھ ساتھ چاندنی سورج کی روشنی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
۱۲۲
امام شناسی
حصہ سوم
حرفِ آغاز
حضرت آدم علیہ السّلام کی خلقت و بعثت سے قبل ربّ العزّت نے جو تمام فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ: انی جاعل فی الارض خلیفۃ ۔ ۰۲: ۳۰۔ یعنی میں (ہمیشہ ) زمین پر ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔ اس فرمانِ خداوندی کا اصل مطلب یہ پیش گوئی اور یہ اعلان تھا، کہ خلافت و نیابتِ الٰہیّہ کا مبارک و مقدّس منصب آدمؑ و اولادِ آدمؑ کے انبیائے کرامؑ اور أئمّۂ عظامؑ کے پاک سلسلے میں رہتی دنیا تک جاری و باقی رہے گا، چنانچہ اسی منشائے خداوندی کے مطابق پہلے دورِ نبوّت میں یہی خلافتِ الٰہیّہ پشت بہ پشت چلتی آئی تھی، اور اس کے بعد پھر دورِ امامت میں یہی ربّانی منصب آج تک جامہ بجامہ جاری ہے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی یہی سلسلہ چلتا رہے گا۔
اس حقیقت کے بارے میں اگر کوئی دانشمند ذاتی طور پر بھی تحقیق و تدقیق کرنا چاہے، تو اسے سب سے پہلے لفظ جَاعِلٌ کے معنی میں خوب غور کرنا چاہئے، کہ جاعل اسمِ فاعل ہے اور یہاں اس کی معنوی وسعت کا تعلق فی
۱۲۵
الارض کے ساتھ ہے، اور فی الارض سے وہ تمام لوگ مراد ہیں جو حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے سے لے کر قیامِ قیامت تک سیّارۂ زمین پر بستے جائیں گے، اور لفظِ خلیفۃ سے اس حقیقت کا دو طرح سے ثبوت ملتا ہے، کہ خلیفۃ کے معنی ہیں ایک جانشین یا ایک نائب، جو ایک اعتبار سے حضرت آدم علیہ السّلام خدا کا وہ واحد خلیفہ ہے، جس کی اولاد کے تمام انبیاء و أئمّہ علیہم السلام اپنے اپنے وقت میں اسی کی خلافت کے وارث، ولی اور نمائندے تھے، اور دوسرے اعتبار سے یہ بھی درست ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے زمانے میں خدا کا ایک خلیفہ ہے، اور یہ دونوں باتیں ایک ہی حقیقت کی حامل ہیں۔
اگر حضرت آدمؑ کی خلافت ان کی اولاد کے پیغمبروں اور اماموں کے سلسلے میں قیامت تک جاری و باقی رہنے والی نہ ہوتی، تو فرشتوں نے امرِ خلافت پر اعتراض کیوں اٹھایا، اگرچہ وہ فرشتے حقائقِ اشیاء سے واقف و آگاہ تو نہیں تھے، لیکن دنیا میں پیش آنے والے واقعات کی ظاہری حالت کو کسی ذریعے سے جانتے تھے، اور ان کا اعتراض اس انداز میں ہے کہ اس سے دنیا میں ہمیشہ لوگوں کے درمیان خلیفۂ خدا کی موجودگی ثابت ہو جاتی ہے، جیسے انہوں نے کہا کہ: کیا تو ایسے شخص کو زمین میں خلیفہ مقرر کرتا ہے، جو اس میں فساد اور خونریزیاں کرے گا۔ ۰۲: ۳۰۔ اس کے جواب
۱۲۶
میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے۔
دنیا میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی اور حق و انصاف کی تائید و حمایت کے لئے اللہ تعالیٰ کی خلافتِ صوری و معنوی ہمیشہ قائم ہے، اسی لئے پروردگارِ عالم نے فرمایا کہ: یا داؤد انا جعلنٰک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ۔ ۳۸: ۲۶۔ اے داؤد تحقیق ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے سو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکم کرتے رہنا۔ اس آیۂ کریمہ سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہوا، کہ خدائے حکیم نے وہ حکم، جو زمین والوں سے متعلق تھا، تمام معنوں کے ساتھ اپنے برگزیدہ خلیفہ کے حوالے کر دیا ہے، ورنہ خلیفہ کا یہ لقب بے معنی ہو جاتا، قرآنِ پاک کی اس تعلیم کے بموجب جب حکم دینا خلافتِ الٰہی کے بغیر روا نہیں، تو امر کرنا خدا کی خلافت کے سوا کس طرح جائز ہو سکتا ہے، پس یہ حقیقت یقینی الفاظ میں ثابت ہوئی، کہ قرآنِ حکیم نے أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیہم کو اولوالامر اس لئے کہا ہے، کہ ان کو اللہ نے روئے زمین پر اپنی خلافت و نیابت کے شرف سے مشرف کر کے امر کا مالک اور مختار بنا دیا ہے۔
امام شناسی کی اس کتاب کے آغاز میں خلافتِ آدم کی بحث اس لئے کی گئی، کہ ان کی خلافت نہ صرف کارِ نبوّت کی بنیاد ہے، بلکہ یہ کسی شک کے بغیر امرِ امامت کی
۱۲۷
بھی اساس ہے، پس ہم نے اس بیان میں حضرت آدمؑ اور حضرت داؤدؑ کی خلافت کی قرآنی دلیل سے یہ حقیقت واضح کر کے بتایا، کہ امام خدا کے خلیفۂ معنوی کی حیثیت سے ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہیں، اور ان کی معرفت کا حصول ہر دیندار آدمی کے لئے انتہائی ضروری شیٔ ہے، چنانچہ ہم نے اپنے اسماعیلی بھائیوں کے لئے امام شناسی کے مختلف موضوعات پر مشتمل کتابوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے، جس میں قبلاً دو کتابیں تیار ہو چکی تھیں، اب خدا کے فضل و کرم سے زیرِنظر کتاب اسی سلسلے کا تیسرا حصہ ہے، جو مکمل ہو کر آپ کے سامنے ہے۔
یہ کتاب ایسی آیاتِ قرآنی کی شہادتوں پر مبنی ہے، جن میں “کل” کا لفظ آیا ہے، ان آیتوں کو کلیّات یعنی عام قوانین کے درجے میں مانتے ہوئے ہر کلیّے کی حقیقتوں سے امام شناسی کی ضرورت و اہمیت ظاہر کر دی گئی ہے، اس کتاب میں مضامین کا یہ طریقہ اس لئے اختیار کیا گیا ہے، کہ قرآنِ حکیم میں امام شناسی کا ایک مشہور کلیّہ “و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین” ہے اور اس کے معنی ہیں کہ ربّ العزّت نے ہر چیز کو امامِ مبین کی ذات میں گھیر کر رکھا ہے، جب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ امام ہر چیز پر محیط ہے، تو ماننا پڑے گا، کہ امام شناسی کا موضوع تمام موضوعات پر حاوی ہے، پس ہم نے یہ ثابت کر کے
۱۲۸
دکھانا تھا، کہ امام شناسی کے مذکورہ کلیّے نے قرآن کے دوسرے تمام کلیّات کو کس طرح گھیر لیا ہے، چنانچہ آپ اس کتاب کے مطالعے سے یہ معلوم کر سکتے ہیں، کہ واقعاً تمام کلیّات امامِ مبین کے کلیّے میں داخل ہیں اور قرآنِ حکیم کی ساری آیات مختلف کلیّوں میں سموئی ہوئی ہیں۔
قرآن و حدیث کے علاوہ عقل بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے، کہ ہر چیز کا ایک دروازہ ہوا کرتا ہے، اسی طرح قرآن کی مختلف حکمتوں کے بھی خزانے ہیں، ان خزانوں کے مقفل دروازے ہیں اور ان قفلوں کی کلیدیں ہیں، جیسے قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ: افلا یتدبرون القرآن ام علیٰ قلوب اقفالھا ۔ ۴۷: ۲۴۔ تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔چنانچہ ہم نے اس کتاب میں (ان شاء اللہ تعالیٰ) امامِ برحق صلوات اللہ علیہ و سلامہ کے نورِ معرفت کی روشنی میں جن خاص خاص کلیدوں کو درج کر لیا ہے وہ حقیقی مومنین کے لئے واقعی امام شناسی اور قرآنی علم و حکمت کے گنجینوں کی کلیدیں ہیں۔
میں یہ کہتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ہوں بلکہ اس سے مجھے بے اندازہ خوشی ہے کہ میں علم کا غنی نہیں، درویش ہوں اور امامِ عالی مقام کے دروازۂ روحانیت پر شب و روز شیء للہ کی صدا و صلا لگاتا رہتا ہوں، پس اگر میری تحریروں سے جماعت کی کوئی علمی خدمت ہو سکتی ہے،
۱۲۹
تو یہ اسی شاہِ ولایت و نورِ ہدایت کی مہربانی سے ہے، اور اگر ان قلمی کوششوں میں کچھ لفظی خامیاں ہیں، تو وہ میری اپنی نفسانی کدورتوں کے سبب سے ہیں۔
میں بالآخر گروہِ مومنین کی قلبی دعائیں چاہتا ہوں، تا کہ قادرِ متعال اپنے ولئ امر امامِ حیّ و حاضر کے وسیلے سے اس بندۂ ناچیز کو بیش از بیش علمی خدمت کی توفیق و ہمت عنایت فرمائے! آمین یا رب العالمین!!
فقط خاکسار مصنف
۷۴/۳/۱۲
۱۳۰
کلید نمبر ۱
قدرتِ کاملہ
اللہ تعالیٰ کی طاقت و توانائی کا نام قدرتِ کاملہ ہے، قرآنِ حکیم کے پر حکمت کلیّات کے سلسلے میں سب سے پہلے وہ کلیّہ آتا ہے، جو قادرِ مطلق کی قدرتِ کاملہ کے متعلق ہے، جو سورۂ بقرہ کی بیسویں آیت میں ارشاد ہوا ہے کہ: ان اللّٰہ علیٰ کل شیء قدیر (۰۲: ۲۰) یعنی یقیناًاللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یہاں کل شیء کی وضاحت سب سے ضروری ہے، کہ کل شیء یعنی ہر چیز سے نہ صرف ممکنات مراد ہیں، بلکہ اس میں غیر ممکنات کا بھی تذکرہ موجود ہے، کیونکہ قادرِ مطلق کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں، جس کی ایک واضح اور روشن دلیل یہ ہے، کہ زمانۂ قدیم کے دنیاوی حکماء کے نزدیک جتنی چیزیں نا ممکن تھیں، ان میں سے اب بہت سی چیزیں سائنسی انقلاب کی بدولت ممکن ہوچکی ہیں، اور اس قسم کے انکشافات و ایجادات کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، پھر یہ اندازہ شاید غلط نہ ہوگا، کہ آنے والی چند صدیوں کے اندر اندر بے شمار ناممکن چیزیں ممکنات میں شامل ہو جائیں گی،
۱۳۱
اسی طرح رفتہ رفتہ ہوسکتا ہے، کہ غیر ممکن اور محال کا نظریہ قطعی طور پر ختم ہو جائے۔
پس اللہ تعالیٰ کے ہر چیز پر قادر ہونے اور اس کے لئے کوئی چیز ناممکن نہ ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو، کہ انسان، جو اس کی ایک مخلوق ہے، آئے دن کسی نہ کسی ناممکن چیز کو ممکن ثابت کرتا جا رہا ہے، یہ سب کچھ اسی قادرِ مطلق کی قدرتِ کاملہ کی مہربانی سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کے بیان کے ضمن میں انسان کی طاقت و توانائی کی بحث بھی چھڑ گئی ہے، اور یہ مسئلہ ایسا نہیں، کہ اس کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، کیونکہ ’’ناممکن‘‘ کا تصور وہی تو ہے، جس نے دنیا کی بہت سی قوموں کے لئے علم و حکمت کے دروازے بند اور کامیابی کی راہیں مسدود کر دی ہیں، اس لئے جاننا چاہئے، کہ انسان، خواہ وہ مادّیت کے میدان میں ہو یا روحانیت کے مقام پر، خدا تعالیٰ کی قدرت و توانائی کا مظہر ہے، کیونکہ خدائے حکیم کے سارے معجزات انسان ہی سے ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے کہ:
سنریھم اٰیٰتنا فی الاٰفاق و فی انفسھم حتیٰ یتبین لھم انہ الحق ۔ ۴۱: ۵۳۔ ہم عنقریب ان کو آفاق میں بھی اور ان کے نفوس میں بھی اپنے معجزات دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہ برحق ہے۔
۱۳۲
قرآنِ حکیم کی اس پیش گوئی سے دانا کے لئے ظاہر ہے، کہ پہلے تو اس دنیا میں ظاہری اور مادّی قسم کے معجزات رونما ہونے والے تھے، جن کا سلسلہ اب تک جاری ہے، اس کے بعد نفوسِ انسانی روحانی دور کی آمد سے متاثر ہونے والے ہیں، جس کے نتیجے میں روحانی قسم کے معجزات کا دور دورہ ہونے والا ہے، پس مومن کو چاہئے، کہ روحانیت کے انقلابی دور کے ساتھ سازگاری کے لئے اپنے آپ کو تیار کر کے رکھے، یہ تیاری کس طرح ہو سکتی ہے؟ یقینی درجے کے علم سے، امام شناسی کے علم سے اور ذاتی روحانیت کے تجربات سے، اس کے علاوہ قرآنِ حکیم کے ایسے کلیّات میں غور و فکر کرنے سے، جن میں ہر چیز کے قوانین کا علم و حکمت اور ہر شیٔ کی حقیقت و معرفت موجود ہے، تا کہ ایک طرف سے ’’ناممکن‘‘ کا تصور ختم ہوکر، ’’ممکن‘‘ کا نظریہ پیدا ہوسکے اور دوسری طرف سے روحانی دور کے اثرات کے متحمل ہونے کی اہلیت پیدا ہو سکے۔
جب تک کوئی انسان مادّیت کی تنگ و تاریک چاردیواری کے اندر مقید و محبوس، روحانی علم سے بے بہرہ اور امکانیت کی بے پناہ وسعتوں سے نا آشنا ہے، تو پھر وہ کیسے باور کر سکتا ہے، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اور علم نے انسان کے لئے ہر قسم کی امکانیت پیدا کر دی ہے اور کوئی چیز ناممکن نہیں، بلکہ ہر چیز، ہر بات اور ہر کام ممکن ہے، ہاں یہ بات
۱۳۳
ضرور ہے کہ ہر ممکن کے لئے ایک مناسب مقام اور ایک خاص موقع یا کہ کوئی ضروری شرط مقرر ہے، یعنی ازل سے ابد تک، دنیا سے آخرت تک اور مکان سے لامکان تک انسان کے لئے ہر چیز کی امکانیت کے بے شمار مواقع ملنے والے ہیں، اسی لئے ارشاد ہے کہ مایوسی کفر ہے اور اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ تم نے خدا سے مانگا تھا، اس نے وہ سب تم کو دے رکھا ہے۔
قدرتِ کاملہ اور ممکن و ناممکن کے اس بیان کے ساتھ ساتھ لازمی ہے، کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السلام کے ظاہری و باطنی اور علمی وعملی معجزات کا بھی بطریقِ اجمال کچھ تذکرہ کر دیا جائے، چنانچہ یہ جاننا ضروری ہے، کہ قادرِ مطلق نے جن کامل انسانوں کو نبوّت یا امامت کے نورِ مقدّس کا حامل بنا کر بنی نوع انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مقرر فرمایا ہے، ان کو اثباتِ حقانیت وصداقت کے طور پر طرح طرح کے معجزات کی روحانی طاقت سے بھی نوازا ہے، تا کہ ہادئ برحق کے متعلق باور کرنے والے مکمل طور پر باور کریں اور انکار کرنے والے یا تو باور کریں یا انتہائی حد کا انکار کریں، تاکہ ان کے بارے میں قانونِ الٰہی کوئی فیصلہ صادر کرے، ظاہری اور حسّی معجزات کی کیفیت و حقیقت بس ایسی ہے، مگر بسا اوقات ایسا بھی ہوا ہے، کہ جن لوگوں نے شروع شروع میں معجزات پر ایمان لایا تھا، وہ بھی رفتہ رفتہ ان معجزات کے ایسے ہی عادی بن
۱۳۴
گئے، کہ معجزات ان کی نظر میں معجزات ہی نہ رہے، انہوں نے معجزات کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا، ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ ان میں قساوتِ قلبی پیدا ہوئی، یعنی دل کی سختی، جس کی وجہ سے ان کا ایمان روز بروز کمزور ہوتا گیا، اس واقعہ کی ایک مثال بنی اسرائیل کے قرآنی قصے میں موجود ہے۔
ان حالات کے برعکس ہادئ برحق کی حقیقی فرمانبرداری اور اس کی محبت و عشق میں ایمان و ایقان، اور علم وحکمت کے جو جو عجائبات اور معجزات پوشیدہ ہیں، ان کے بار بار سامنے آنے سے مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ان میں کوئی خطرہ نہیں۔
۱۳۵
کلید نمبر ۲
علمِ الٰہی
دوسرا قرآنی کلیّہ اللہ تعالیٰ کے علم کے باب میں ہے، جو البقرہ کی انتیسویں آیت میں ہے کہ: و ھو بکل شیء علیم ۔ ۰۲: ۲۹۔ اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
اس حقیقت کے بارے میں مومنین و مسلمین کو ذرّہ بھر شک و شبّہ نہ ہوگا، کہ اللہ پاک ہر چیز کو بخوبی جانتا ہے، اس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، نہ اس کے احاطۂ علمی سے کوئی چیز باہر ہے، لیکن جو اہلِ بصیرت خدا کی توحید ومعرفت سے واقف وآگاہ ہیں، ان کے نزدیک علم کی یہ صفت حضرت ربّ العزّت کے لئے کوئی بڑی بات نہیں، کیونکہ اس کی فرمانبرداری کے نتیجے میں قلمِ قدرت (عقلِ کلّ) اور لوحِ محفوظ (نفسِ کلّ) کو بھی ہر چیز کا علم اور ہر چیز کی قدرت دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک ایسی زندہ اور حقانیت وصداقت سے بولنے والی کتاب ہے، کہ اس میں دستِ قدرت نے روحانی اور نورانی تحریر سے ہر چیز کا احاطۂ علمی کر رکھا ہے، یہ حقیقت ان دونوں آیتوں کا
۱۳۶
ماحصل ہے: و لدینا کتٰب ینطق بالحق ۔ ۲۳: ۶۲۔ اور ہمارے پاس ایک ایسی کتاب ہے جو سچ سچ کہہ دیتی ہے۔ و کل شیء احصینٰہ کتابا ۔ ۷۸: ۲۹۔ اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر رکھا ہے۔ جب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے، کہ خدا کی اس نورانی کتاب میں تمام چیزیں موجود ہیں اور ایسی کوئی چیز نہیں جو اس کتاب سے باہر ہو، پھر یہ بات لازمی ہے کہ خدا کی اپنی مخصوص چیزیں بھی اس معجزاتی کتاب میں ہوں، جبکہ یہ کتاب خدا ہی کی ہے، خدا کی خاص خاص چیزیں کون کون سی ہیں؟ خدا کی جملہ خوبیاں، یعنی تمام صفات ہیں، جن میں سب سے پہلے حیات، علم، ارادہ اور قدرت ہے، اس بیان سے جب یہ حقیقت صاف طور پر ظاہر ہوگئی، کہ خدا کی زندہ اور بولنے والی کتاب میں اس کی ساری خوبیوں کے خزانے پنہان ہیں، تو پھر اس حقیقت کے لئے بھی تسلیم کرنا چاہئے، کہ اللہ تعالیٰ کے مقدّس نور کے سوا کوئی چیز ایسی کتاب نہیں ہوسکتی ہے، جو پروردگارِ عالم کی جملہ صفات سے متصف ہو۔
اللہ تعالیٰ کے نورِ پاک کے حامل صرف انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام ہی ہیں، جنہیں خدا نے روئے زمین کی خلافت و نیابت کے لئے برگزیدہ فرمایا ہے، اور ان حضرات کی برگزیدگی فقط اسی معنی میں ہے کہ ربّ العزّت نے ان کو اپنے اپنے وقت میں نورِ مطلق کا چراغ قرار دے دیا ہے
۱۳۷
تا کہ ان کی ہدایت و رہنمائی اور علم و حکمت کی ضیا پاشیوں سے عالمِ دین تابان و درخشان ہوتا رہے، جیسا کہ قرآن حکیم کی ۳۳: ۴۶ کے ارشاد سے ظاہر ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے وقت میں خدائی نور کے روشن چراغ تھے۔
یہ ہمارا اپنا عقیدہ اور ایمان ہے کہ خدا کے خلیفہ، قلمِ قدرت اور لوحِ محفوظ کا مظہر، کتابِ ناطق اور پیغمبرِ آخر زمان کا نور اور آپ کے جانشین امامِ مبین ہیں، یعنی امامِ زمانؑ، ہمارے نزدیک امامِ مبین کا نظریہ ایک ازلی وابدی حقیقت ہے، چنانچہ قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے کہ: و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ ۳۶: ۱۲۔ اور ہم نے ہر چیز کو امامِ ظاہر (کے نور) میں گھیر کر رکھا ہے۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امامِ مبین سے لوحِ محفوظ مراد ہے، تو میں سوال کروں گا، کہ اچھا حضرت، یہ تو بتایئے کہ لوحِ محفوظ کس چیز سے بنی ہے؟ یعنی اس کے وجود کی کیفیت و حقیقت کیا ہے؟ کیا وہ قیمتی جواہرات میں سے کسی جوہر کی ہے؟ کیا وہ عقلی موجودات میں سے ہے یا روحانی موجودات میں سے؟ وہ ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ضرور کرے گا۔
اگر کہے کہ لوحِ محفوظ وجودِ عقلی رکھتی ہے، تو اس کا یہ جواب غلط ہو گا، کیونکہ ’’کل شیء‘‘ میں جب عقل، روح اور جسم تینوں کا ذکر ہے، تو مجرّد عقل کی ایسی لوحِ محفوظ تمام
۱۳۸
چیزوں کی حامل کس طرح ہو سکتی ہے، جب تک کہ اس کی ہستی میں روح اور جسم کی شرکت نہ ہو۔
اگر وہ اپنے جواب میں کسی عظیم روح کو لوحِ محفوظ قرار دے، تو اس صورت میں بھی اس کا جواب درست نہیں ہو سکتا، کیونکہ عقل اور جسم کے بغیر خالص روح کی لوحِ محفوظ میں صرف روحانی چیزیں ہی ہوسکتی ہیں، مگر کل شیء میں صرف روحانی چیزوں کا ذکر نہیں بلکہ سب چیزوں کا بیان ہے۔
اگر وہ شخص اس طرح جواب دے، کہ لوحِ محفوظ جواہرات میں سے کسی جوہر کی بنی ہے، اور ایسی لوحِ محفوظ کی تاویل کا قائل نہ ہوجائے، تو پھر بھی اس کا جواب غلط ہو گا، کیونکہ جواہرات بغیر روح اور بغیر عقل کے ہوتے ہیں، اور خدا کے نزدیک ان کی کوئی کرامت وفضیلت نہیں، پس کوئی جوہر عقلی اور روحانی چیزوں کا حامل کس طرح ہو سکتا ہے۔
اس بیان سے یہ حقیقت پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی، کہ امامِ مبین کے معنی امامِ ظاہر کے ہیں، جن کی مبارک و مقدّس ہستی میں عقل، روح اور درجۂ کمال کے انسانی جسم کی شرکت ہے، جس کے سبب سے امامِ مبین ہر لطیف چیز کے حامل ہیں، اور حقیقت میں لوحِ محفوظ بھی آپ کی ذاتِ اقدس ہی ہے۔
۱۳۹
علمِ الٰہی کے سلسلے میں علمِ غیب کی کچھ وضاحت بھی ضروری ہے، تا کہ نفسِ مضمون ادھورا نہ رہ جائے، چنانچہ حق تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے کہ: عالمُ الغیب فلا یظھر علیٰ غیبہ احدا۔ الا من ارتضی من رسول ۔ ۷۲: ۲۶ تا ۲۷، غیب کا جاننے والا وہی ہے پس اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے اس شخص کے جس کو وہ رسولوں میں سے منتخب کرے۔
یہاں ’’علیٰ غیبہ‘‘ کے معنی قابلِ غور ہیں، جس کا مطلب ہے ’’اپنے تمام غیب پر‘‘ پس معلوم ہوا، کہ اللہ تعالیٰ اپنے تمام غیب پر کسی برگزیدہ پیغمبر کو بھی مطلع فرماتا ہے۔
علمِ الٰہی کے اس موضوع کے سلسلے میں یہاں تک جو کچھ بیان ہوا، اس کا خلاصہ یہ ہے، کہ علم کے بارے میں خداوند تعالیٰ کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے خاص خاص علوم کے عطیات سے اپنے برگزیدہ بندوں کو سرفراز فرماتا ہے، یہاں تک کہ علمِ غیب کو بھی اپنے لئے مخصوص نہیں رکھتا، جیسے و علم آدم الاسماء کلھا ۔ ۰۲: ۳۱ (اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی) سے بھی یہ حقیقت ظاہر ہے، کہ خدا خود ہی حضرت آدم علیہ السلام کا معلّم ہے، اور علم الاسماء کوئی کتابی اور ظاہری علم نہیں، بلکہ یہ غیب ہی کا علم ہے، جس کو سوائے اللہ تعالیٰ کے ملائک بھی نہیں جانتے تھے، پس اللہ نے ابوالبشر کو غیب کا علم عطا کر دیا۔
۱۴۰
علمِ غیب کے بارے میں مزید حقائق کے لئے اس آیۂ کریمہ میں غور کیا جائے: و عندہ مفاتح الغیب۔۔۔ فی کتاب مبین ۔ ۰۶: ۵۹۔ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسے بحروبر کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری یا سوکھی چیز نہیں ہے مگر وہ روشن کتاب میں (لکھی ہوئی) ہے۔ اس فرمانِ الٰہی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خداوند تعالیٰ کا علمِ غیب کتابِ ناطق میں ہے سب چیزوں کی زندہ اور بولتی تصویریں کتابِ مبین (بولنے والی کتاب یعنی ) نورِ امامت میں موجود ہیں۔
یاد رہے کہ آسمان و زمین اور ظاہر و باطن کی چیزوں کی پوشیدہ باتوں کا جاننا ہی علمِ غیب کہلاتا ہے، جب ایسا علم ظاہر ہوجاتا ہے تو وہ اس وقت علمِ غیب نہیں رہتا، بلکہ علمِ ظاہر کہلاتا ہے، مگر اس کی حکمت اور تاویل، جو ظاہر نہیں کی گئی ہو، وہ اب بھی علمِ غیب ہی ہے۔
چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السّلام حضورِ انور کو بحکمِ خدا غیب کی کوئی بات بتانے کے بارے میں کنجوسی نہیں کرتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے کہ: و ما ھو علی الغیب بضنین ۔ ۸۱: ۲۴۔ اور وہ (جبرائیل) غیب کی باتیں بتانے میں بخیل نہیں۔
۱۴۱
کتابِ ناطق یعنی قرآنِ ناطق میں علمِ غیب کا خزانہ پنہان ہونے کے بارے میں ارشاد ہے کہ: و ما من غائبۃ فی السماء و الارض الا فی کتاب مبین ۔ ۲۷: ۷۵۔ اور آسمان و زمین میں کوئی ایسی مخفی چیز نہیں ہے مگر وہ بیان کرنے والی کتاب میں موجود ہے۔ اس بیان کرنے والی کتاب سے نورِ امامت مراد ہے۔
جاننا چاہئے کہ کتابِ ناطق یعنی امامِ مبین کے نور میں آسمان و زمین کی تمام چیزوں کی ایسی نورانی تصویریں موجود ہیں جو عقل و روح کی رنگینیوں سے بحکمِ صبغۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸) بھرپور ہیں، اور خدا کے اذن سے ان میں سے ہر تصویر کائنات و موجودات کی متعلقہ چیز کی مثال پیش کر سکتی ہے اس حقیقت کا نام نورانی تاویل ہے، چنانچہ حضرت یوسف اپنے وقت میں کتابِ مبین کی حیثیت سے تھے، وہ اپنے باطن کی نورانی مثالوں سے کسی بھی مخفی چیز کا حال بتا سکتے تھے چنانچہ انہوں نے ہادئ برحق کے علمِ غیب کی طرف توجہ دلانے کے لئے قید خانے میں اپنے دونوں ساتھیوں سے فرمایا کہ: دیکھو جو کھانا تمہارے پاس آتا رہتا ہے، جو کہ تم کو کھانے کے لئے یہاں ملتا ہے میں اس کے آنے سے پہلے ہی اس کی حقیقت (تاویل) بتلا دیا کرتا ہوں یہ بتلا دینا اس علم کی بدولت ہے جو مجھ کو میرے ربّ نے تعلیم فرمایا ہے ۔ ۱۲: ۳۷۔
۱۴۲
علمِ تاویل دو قسم کا ہوتا ہے، ایک نورانی ہے اور دوسرا کتابی، انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام کے پاس علمِ تاویل نورانی صورت میں ہوتا ہے، جس کو علمِ لدّنی اور علمِ غیب بھی کہا جاتا ہے۔
۱۴۳
کلید نمبر ۳
ہر گروہ کا قبلہ
قرآن مجید کی ۰۲: ۱۴۸ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ: و لکل وجھۃ ھو مولیھا ۔ ۰۲: ۱۴۸۔ اس آیۂ پرحکمت کے کئی معنی ہیں، اوّل: اور ہر ایک فرقے کے لئے ایک سمت مقرر ہے جدھر وہ (عبادت کے وقت) منہ کیا کرتے ہیں، دوم: اور ہر قوم کے لئے ایک شریعت مقرر ہے جس کی طرف وہ متوجہ رہتی ہے، سوم: اور ہر شخص کے لئے ایک دینی استاد ہے، جس کی طرف وہ رجوع کرتا ہے، چہارم: ہر روحانی طالب کا ایک مطلوب ہوا کرتا ہے، وہ اس کی تلاش میں لگے رہتا ہے، پنجم: ہر دینی درجہ کے لئے ایک اوپر کا درجہ ہوا کرتا ہے، وہ اس کا خواہشمند رہتا ہے، ششم: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت میں سے ہر منزل کے لئے ایک قبلہ ہوا کرتا ہے، جس کے اہل اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، یعنی اہلِ شریعت کا قبلہ خانۂ کعبہ ہے، اہلِ طریقت کا قبلہ پیرومرشد ہے، اہلِ حقیقت کا قبلہ پیغمبر اور امام ہیں، اور اہلِ معرفت کا قبلہ خدا کا نور ہے۔
۱۴۴
مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں اس ارشادِ مقدّس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ: پس تم نیکیوں میں سبقت حاصل کرتے رہو تم جہاں کہیں ہوگے خدا تم سب کو حاضر کرے گا، بے شک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ ۰۲: ۱۴۸۔
اس آیۂ پاک کی حکمت کے اشارے نہ صرف ادیانِ عالم کی طرف ہیں، بلکہ افرادِ مذہب کی طرف بھی ہیں، کہ جس طرح ظاہری قبلہ کے بارے میں گروہوں کے حالات مختلف ہیں، اسی طرح باطنی توجہ کے باب میں بھی افراد کی کیفیت جدا جدا ہے، پس ان مختلف نظریات کو خدا کی توحید کے تصور کی طرف مرکوز کر دینے کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ مسلمین و مومنین دوسرے ادیان والوں سے نیکی یعنی اعمالِ صالحہ میں سبقت لے جائیں، اور دنیا بھر میں نیکی کا نمونہ بن جائیں، تا کہ دعوتِ اسلام کا عملی صورت کارفرما ہوسکے، اور اس کے نتیجے میں دنیا والوں کو ضرور احساس ہوگا، کہ اسلام خدا کا آخری دین ہے اور حضرت محمد مصطفیٰ خدا کے سچے رسول اور آخری نبی ہیں۔
اجتماعی قبلہ کے بیان میں انفرادی توجہ کا ذکر اس لئے آیا ہے، کہ قرآنِ حکیم میں جو ہدایت جماعتوں کے لئے آئی ہے اس میں افراد کے لئے بھی ہر قسم کی رہنمائی ہے، چنانچہ یہاں نیکی کا جو راستہ قوم کے لئے مفید ہے، وہ ایک فرد کے لئے بھی مفید ہوسکتا ہے، مثلاً ایک شخص کے دل میں
۱۴۵
عبادت کے دوران یکسوئی نہیں رہتی ہے اور اس کو طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے کا احساس ہوتا ہے، تو وہ قرآنِ حکیم کی اس حکمت کی روشنی میں محسوس کرے، کہ اس میں نیکی کا مادّہ کم ہو رہا ہے، پھر وہ اپنے آپ میں نیکیوں میں سبقت لے جانے کا جذبہ پیدا کرے اور عملاً ایسا کر کے دیکھے، پھر اس کے دل میں عبادت کی یکجہتی اور روحانی سکون پیدا ہوگا۔
۱۴۶
کلید نمبر ۴
موت کا تجربہ
ہم نے یہاں اس موضوع کو ’’موت کا تجربہ‘‘ کے عنوان سے معنون کیا ہے، لیکن موت کا تجربہ کس نے حاصل کر لیا ہے؟ جبکہ موت کے واقع ہوجانے کے ساتھ ساتھ متوفّی کے تمام تجربات بھی ختم ہوجاتے ہیں! ولیکن ہاں، اموات میں ایک ایسی خصوصی موت بھی ہے، جو روحانیت اور ایقان وعرفان کے مشاہدات وتجربات سے بھرپور اور علم وحکمت کے مغز سے مملو ہے، جس کی حقیقت سے آگہی کے لئے آپ موضوعِ ذیل کا بغور مطالعہ کریں:
چنانچہ قرآنِ کریم کی (۰۳: ۱۸۵) میں موت کا کلیّہ اس طرح ارشاد ہوا ہے کہ: کل نفس ذائقۃ الموت ۔ ۰۳: ۱۸۵۔ یعنی ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔
موت کے اس کلیّہ کے بارے میں دو اہم سوال پیدا ہو جاتے ہیں، ایک یہ کہ جب وجودِ انسانی تین چیزوں کا مجموعہ ہے، یعنی عقل، نفس اور جسم، تو ان تینوں میں سے صرف نفس ہی کو موت کے واقعہ سے کیوں متعلق کیا گیا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے، کہ موت واقع ہونے کی
۱۴۷
تشبیہہ کسی چیز کے چکھنے کی طرح کیوں دی گئی ہے؟
ان میں سے پہلے سوال کا جواب یہ ہے، کہ اگرچہ انسان کی ہستی عقل، نفس اور جسم کے مجموعے سے ہے، لیکن حقیقت میں عقل موت سے بالاتر ہے، کیونکہ وہ مرتی نہیں، جیسے فرشتوں کا حال ہے کہ وہ عقل ہیں اور کبھی نہیں مرتے، اس کے برعکس حیوان جو نفس ہے وہ مر جاتا ہے، مگر پتھر وغیرہ جو جسم ہے وہ نہیں مرتا، اس سے معلوم ہوا، کہ موت کا براہِ راست تعلق نفس کے ساتھ ہے، مگر جسم پر براہِ راست موت واقع نہیں ہوتی، بلکہ نفس کے واسطہ سے ہوتی ہے، یعنی جسم کا جینا اور مرنا نفس ہی کے ذریعے سے ہے، پس یہی وجہ ہے جو قرآنِ حکیم نے اس کلیّہ میں موت کو صرف نفس ہی سے متعلق کر دیا۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے، کہ موت کی مثال کسی مادّی چیز کے چکھنے سے اس لئے دی گئی ہے، کہ وہ فی الواقع روحانی نوعیت کا ایک مزہ ہے، جو زیادہ سے زیادہ شیرین بھی ہے اور انتہائی درجے کا تلخ بھی، اس جواب کا دوسرا پہلو یہ ہے، کہ قرآنِ حکیم نے موت کا تصوّر کسی چیز کے چکھنے کی طرح اس لئے پیش کیا ہے، کہ خصوصی موت اہلِ معرفت کے نزدیک روحانی واقعات اور علمی وعرفانی تجربات کی حامل ہے، جو بموجب: ’’موتوا قبل ان تموتوا‘‘ طبعی موت سے پہلے ہی عبادت و ریاضت کے
۱۴۸
ذریعہ قبول کر لی جاتی ہے، جس کا مقصد معرفت ہے، جس میں روحانی سکون اور ابدی نجات کے اسرار پوشیدہ ہیں، پس نفسانی موت کے عنوان کے تحت حقائق ومعارف کے جو معجزات سامنے آتے ہیں، ان کے لحاظ سے یہ حقیقت ہے، کہ موت کی مثال کسی چیز کو چکھ کر اس کے ذائقہ کا تجربہ حاصل کرنے سے دی جائے۔
نفسانی موت، جو ہادئ برحق کی ہدایات کی روشنی میں مخصوص عبادت وریاضت اور نفس کشی کرنے سے واقع ہوتی ہے، روحانی واقعات و تجربات کا عنوان اس معنی میں ہے، کہ اس سے معرفتِ ذات کے جملہ ابواب کھل جاتے ہیں، اور اسی طرح یہ اختیاری موت روح اور روحانیت کے حقائق و معارف اور اسرارِ خدا شناسی کے حصول کا وسیلہ بن جاتی ہے۔
عام اور اضطراری موت سے پہلے انسان پر ایک خاص اور اختیاری یا کہ تجرباتی موت واقع ہونے کے بارے میں قرآنِ کریم کے بہت سے حکیمانہ اشارات موجود ہیں، جن کی ایک مثال یہ ہے، کہ انسان کے وجود میں نفس یا کہ جان ایک نہیں، بلکہ بے شمار جانیں ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ایک نہایت ہی عجیب قدرت ہے، کہ انسان کے دل و دماغ کے علاوہ اس کا خلیہ خلیہ روحوں کا مسکن ہے، اور ان لاتعداد روحوں کی وحدت انسان کی ’’انا‘‘ ہے۔
۱۴۹
اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت بھی انتہائی عجیب ہے، کہ مختلف موقعوں پر انسانی وجود کے یہ نفوس قبض ہوتے جاتے ہیں، یعنی فرداً فرداً نکل جاتے ہیں، اور دوسری طرف سے نفوس کے داخل ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے، یا یوں کہنا چاہئے، کہ انسان جیتے جی ایک طرف سے مرتا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسری طرف سے زندہ ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک دن ایسا بھی آتا ہے، کہ اس میں وہ پوری طرح سے مر جاتا ہے۔
مذکورۂ بالا موت کو جزوی موت کے نام سے یاد کرنا چاہئے، اسی جزوی موت کی بدولت ہر وقت انسانی نفس اور شخصیت کی اصلاح و تجدید اور تعمیرِ نو ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ چالیس دن کے بعد انسان کے نفس اور جسم کا کوئی پرانا ذرّہ باقی نہیں رہتا، اس حساب سے وہ ہر سال اپنی ہی جگہ پر نو دفعہ پرانے جسم سے نئے جسم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
انسان کی زندگی و بقاء گویا ارواح و نفوس کی ایک ندی ہے، جو ملکوت کے پہاڑوں اور ناسوت کی گھاٹیوں سے آتی ہے اور ہر وقت بہتی رہتی ہے، مگر یہ بات ہے کہ یہ ندی کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو جاتی ہے، بعض اوقات صاف و شفاف بہتی ہے اور گاہے بگاہے مکدر بھی ہو جاتی ہے۔
۱۵۰
اس مقام پر مجھے حضرت پیر ناصر خسرو قدس اللہ سرّہ کا ایک شعر یاد آیا، آپ اپنی کتاب روشنائی نامہ میں فرماتے ہیں کہ:
ز دنیا تا بعقبیٰ نیست بسیار
ولی در رہ وجودِ تست دیوار
یعنی دنیا اور آخرت کے درمیان کچھ زیادہ مسافت تو نہیں، لیکن تیری ہستی ان دونوں کے درمیان دیوار بنی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب خاص عبادت اور سخت ریاضت سے کسی حقیقی مومن پر اختیاری موت آئے گی، اس وقت اس کی ہستی کی یہ دیوار درمیان سے ہٹائی جائے گی، اور اس صورت میں اس کو قیامت و روحانیت کے واقعات کا تجربہ کرایا جائے گا۔
سبحان اللہ! پیر صاحب کی یہ پرحکمت مثال اور یہ ارشاد کہ تمہارا اپنا نفسِ امّارہ ہی دنیا اور آخرت کے درمیان دیوار اور پردہ بنا ہوا ہے، جب تم ہادئ برحق کے مقدّس امر و فرمان کے مطابق خصوصی عبادت و ریاضت اور تزکیۂ نفس کے امتحان میں کامیاب ہو جاؤگے، تو اس وقت تمہاری ہستی و خودی کی کثیف و مکدر دیوار سامنے سے ہٹا دی جائے گی یا صاف شیشے کی بنا دی جائے گی یا اس میں دروازہ بنے گا، پھر تمہیں اس حال میں نہ صرف موت ہی کے عجائبات کا تجربہ حاصل ہوگا بلکہ علمِ قیامت و روحانیت اور معرفتِ الٰہی کے خزانوں کے ابواب بھی ہمیشہ کے لئے کشادہ رہیں گے۔
۱۵۱
اب رہا یہ سوال، کہ آیا موت کے اس کلیّہ سے کوئی نفس مستثنا بھی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب خود اس کلیّے میں موجود ہے، کہ کوئی نفس یعنی کوئی فردِ بشر موت کے اس قانون سے باہر نہیں جا سکتا، جبکہ اختیاری موت کے بغیر روحانیت کا کوئی دروازہ نہیں کھل سکتا، جبکہ قرآنی ارشاد کے مطابق نیند میں بھی ایک قسم کی موت پوشیدہ ہے (۳۹: ۴۲) اور جبکہ جسمانی موت مومن کی مکمل روحانی آزادی ہے پھر آپ خود اندازہ کریں، کہ حقیقی مومنوں کے لئے موت کس قدر ضروری ہے، پس معلوم ہوا کہ موت عالمِ روحانیت کا دروازہ ہے، جس سے داخل ہوئے بغیر نہ روحانی ترقی ممکن ہے اور نہ بہشتِ جاودانی میسر ہو سکتی ہے۔
۱۵۲
کلید نمبر ۵
ہر چیز سے روحانی ملاقات
قرآن حکیم کے آٹھویں پارے کا سرنامہ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ: اور اگر ہم ان پر فرشتے نازل کر دیتے اور مردے ان سے گفتگو کرتے اور سب چیزوں کو ان کے سامنے لا موجود کر دیتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے سوائے اس کے کہ اللہ کو منظور ہوتا لیکن اکثر ان میں سے جاہل ہیں۔ ۰۶: ۱۱۱۔
آپ حکمت کے اس اصول کو بھی ہمیشہ کے لئے یاد رکھیں، کہ قرآنِ حکیم انسان کے سامنے صرف انہی چیزوں کے تصورات پیش کرتا ہے، جو انسان کے لئے ممکنات میں سے ہیں، کیونکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام ہے، اور اس میں انتہائی صداقت اور عدل کا سرمایہ موجود ہے، چنانچہ اگر فرشتوں، مردوں اور تمام چیزوں کی روحوں سے انسان کی روحانی ملاقات اور گفتگو ناممکن ہوتی، اور اللہ تعالیٰ نے کسی وقت میں بھی مومنوں اور کافروں سے واقعاً ایسے معجزات کا امتحان نہ لیا ہوتا، تو اندران حال اس معجزہ کے تذکرے میں (نعوذ باللہ) نہ صداقت ہوتی، اور
۱۵۳
نہ عدل، پس ظاہر ہوا، کہ مذکورہ کلیّہ میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے وہ ایک عملی حقیقت ہے، اور حقیقی مومنوں کے نزدیک کشفِ روحانیت اسی واقعہ کا نام ہے، البتہ خدا کی مصلحت سے بعض دفعہ کافروں پر بھی یہ معجزہ واقع ہوتا ہے، جس کا نام وہاں نزولِ عذاب ہے۔
جو حقیقی مومنین علم الیقین کی مدد سے روحانی ترقی کر کے عین الیقین کا درجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں روحانیت کی ان حقیقتوں پر باور کرنا پڑے گا، کہ روح ظاہری اور مادّی چیزوں کے برعکس ایک معجزاتی جوہر ہے، وہ عالمِ امر کے عجائبات میں سے ہے، جہاں ارادۂ “کُنۡ” سے ہر چیز ظہور میں آتی ہے، اس لئے روح میں تمام علمی عجائبات پیش کرنے کی خاصیت موجود ہے یہ ایک یقینی حقیقت ہے، کہ ہر خدا رسیدہ مومن کی روح کائنات و موجودات کی روحانی صورت اختیار کرکے قیامِ قیامت اور عالمِ آخرت کا نمونہ پیش کرسکتی ہے، ایسی حالت میں انسان اپنے آپ کو روحوں کے ایک طوفان خیز سمندر کے درمیان پاتا ہے، جو فرشتوں، مردوں، زندوں، یاجوج و ماجوج اور تمام چیزوں کی روحوں کے عنوان سے پیش آتی ہیں، یہاں تک کہ اس میں بے جان چیزوں کی روحیں بھی ہوتی ہیں، مگر یہ بات ضرور یاد رہے کہ روحانیت کے ایسے اعلیٰ تجربات حاصل کرنے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
۱۵۴
اگر یہاں یہ سوال ہو، کہ مومن کی روح اتنا بڑا کام کس طرح انجام دے سکتی ہے؟ اس کا جواب میرے پاس صرف ایک ہی جملے میں ہے، کہ مومن کی روح امام حیّ و حاضر کی حقیقی فرمانبرداری سے یہ عظیم کام مکمل کر سکتی ہے۔
پھر اگر سوال کیا جائے، کہ نورِامامت، روح القدس اور مومن کی روح ان تینوں کا باہمی تعلق کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام عالی مقام علیہ السّلام کے نور سے روح القدس جدا نہیں، اور نہ مومن کی روح بغیر روح القدس کے کوئی بڑا کام کر سکتی ہے، ان تینوں روحانی حقیقتوں کے باہمی تعلق کی مثال سورج، سمندر اور ندی کی طرح ہے، یعنی نورِ امامت سورج ہے، روح القدس سمندر اور مومن کی روح ندی ہے، ندی کا پانی کہاں سے آتا ہے؟ پہاڑوں سے جو برف اور بارش کا حاصل ہے، برف و بارش کا ذریعہ کیا ہے؟ بادل ہیں، جو سمندر سے پیدا ہوتے ہیں، سمندر سے بادل کس طرح پیدا ہوتے ہیں؟ سورج کی گرمی کے سبب سے۔
ندی کا پانی کم بھی ہو سکتا ہے اور اس کے زیادہ ہونے کا بھی امکان ہے، اس میں کمی اس وقت واقع ہوتی ہے جبکہ سورج کا نور اس کے پہاڑوں سے دور ہو، یا بغیر بارش کے بادلوں کے سائے پڑے رہیں، اسی طرح مومن کی روح میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جو نورِ امامت سے دوری و نزدیکی کے سبب سے ہے۔
۱۵۵
جب سورج نزدیک آتا ہے اور آسمان صاف ہو جاتا ہے تو جگہ جگہ ندی پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں، اور اس کے پانی میں اضافہ بھی ہو جاتا ہے، تاہم یہ سورج کا کوئی بڑا کرشمہ نہیں، ندی کو سورج کا ایک بڑا کرشمہ وہاں نظر آئے گا، جہاں یہ دریا کے ساتھ مل کر سمندر کی وحدت میں مدغم ہو جاتی ہے، کہ کس ہمہ گیر طریق پر بے پناہ سمندر سورج کی حرارت کی گرفت میں ہے، اور سمندر کا ایک عظیم حصہ، جو ساری دنیا کو سیراب کر کے فاضل دریاؤں کی صورت میں واپس بھی ہو، کس طرح بخارات اور بادلوں کی شکل میں آسمان کی بلندیوں کی طرف اڑتا رہتا ہے۔
چنانچہ ہر حقیقی مومن کی روح کسی نہ کسی درجے میں امامِ زمانؑ کا نورانی دیدار تو کرسکتی ہے، اور اس کی روحانیت میں ترقی بھی ہو سکتی ہے، مگر یہ کوئی بڑا دیدار اور کوئی عظیم معجزہ تو نہیں، ہاں، عظیم معجزہ اس مقام پر ہے، جہاں مومن کی روح پیروں اور بزرگوں کے علمی دریا پر سوار ہوکر روح القدس کے سمندر میں مل جاتی ہے، اس مقام کے بے شمار معجزات میں سے ایک یہ ہے، کہ ہادئ برحق کا نور روح القدس کے سمندر سے بے شمار ہدایتی روحیں اطرافِ عالم میں بھیجتا رہتا ہے، اور ہر گروہ، ہر طبقہ، ہر درجہ اور ہر فرد کی بدیہی اور فکری ہدایت اسی نہج پر ہوتی رہتی ہے، امامِ عالی صفات کے نورِ اقدس کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں، کہ کوئی گروہ یا کوئی
۱۵۶
فرد اس کی عالمگیر ہدایت کا اقرار کرتا ہے یا نہیں، ہاں، اس میں یہ فرق ضرور ہے، کہ ہدایت حسبِ مراتب معرفت اور بمطابقِ ضرورت ہوا کرتی ہے، یا یوں کہنا چاہئے، کہ اس میں قبولِ ہدایت کی استطاعت لازمی شرط ہے۔
اس بیان کا خلاصہ یہ ہے، کہ تمام معجزات کا سرچشمہ روحِ قدسی ہے جو ہادئ برحق کے نور کے زیرِ اثر ہے، ہر معجزے کا نتیجہ دو طرح سے نکلتا ہے، یعنی اس میں روحوں کی آبادی بھی ہے اور بربادی بھی، اگر کوئی حقیقی مومن فرمانبرداری، عبادت، ریاضت اور علم الیقین سے اپنے آپ کو معجزات برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے، اور تدریجی معجزات میں آگے سے آگے بڑھتا جاتا ہے، تو اس کے لئے رحمت ہی رحمت ہے، اگر ایسا نہیں، بلکہ یکایک کوئی بڑا معجزہ کسی انسان کے سامنے آتا ہے تو یہ باعثِ ہلاکت ہے، ماسوائے اس کے کہ امامِ وقت ایسے حال میں بھی دستگیری کریں۔
۱۵۷
کلید نمبر ۶
انسی اور جنّی شیاطین
سورۂ انعام کی ایک سو بارہویں آیت میں انبیاء کے بارے میں ایک کلیہ مذکور ہے کہ: اور اسی طرح ہم نے انسی اور جنی شیاطین کو ہر نبی کا دشمن بنا دیا وہ فریب دینے کی غرض سے چکنی چپڑی باتیں (روحانی طریق پر) ایک دوسرے کے دل میں ڈالتے ہیں۔ ۰۶: ۱۱۲۔
اس ارشادِ الٰہی سے اوّل یہ تعلیم ظاہر ہے، کہ شیاطین دو قسم کے ہوتے ہیں، پہلی قسم کے شیاطین انسانوں میں سے ہیں اور دوسری قسم کے شیاطین جنّات میں سے، جو شیاطین انسانوں میں سے ہیں، ان کے متعلق عام طور پر یہ پتہ نہیں لگتا، کہ وہ واقعی شیاطین ہیں، کیونکہ وہ بظاہر کچھ عجیب شکل و صورت تو نہیں رکھتے، بلکہ وہ اپنی ظاہریت میں بالکل دوسرے انسانوں کی طرح انسان ہیں، لیکن وہ حقیقت کی نظر میں انسی شیاطین ہیں، مگر یہ ضروری نہیں، کہ وہ خود کو پہچانتے بھی ہوں، کہ وہ ابلیس کے لشکر میں شامل ہو چکے ہیں۔
جو شیاطین جنّات میں سے ہیں، وہ خاص خاص
۱۵۸
حالات کے سوا ہمیشہ ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں، کیونکہ وہ ایسے لطیف جسم کے لباس میں ملبوس ہیں کہ وہ نظر ہی نہیں آتا، مگر جب خدا کی مصلحت ہو۔
اس فرمانِ الٰہی کی دوسری تعلیم یہ ہے، کہ خدائے علیم وحکیم کی مصلحت وحکمت اسی امر میں پنہان تھی، کہ انسی اور جنّی شیاطین کو نہ صرف ہر پیغمبر کا دشمن بنائے بلکہ اس طاغوتی گروہ کو ہر امام کے ساتھ بھی عداوت ہو، تا کہ بنی آدم کی اس امتحانگاہِ عمل میں ایک طرف ہمیشہ کے لئے رشد وہدایت کے تمام وسائل مہیا رہیں، اور دوسری طرف اس کے مقابلے میں ضلالت و گمراہی کے سارے اسباب مکمل ہوں۔
اس کلیّۂ حکمت آگین کی تیسری تعلیم یہ ہے، کہ خیر و شر کی اس دائمی جنگ میں، جو دورِ آدم سے قیامِ قیامت تک جاری و ساری ہے، جس طرح حق وباطل کا مقابلہ ہوتا رہتا ہے، اس میں نہ صرف شیاطینِ انسی و جنّی ہی کو یہ موقع دیا گیا ہے کہ وہ دنیا میں بدی پھیلانے کی غرض سے روحانی طریق پر ایک دوسرے کے دل میں چکنی چپڑی باتیں ڈال سکیں، بلکہ پیغمبر اور امامِ برحق کے علاوہ حجّت اور پیر جیسے مراتبِ عالیہ کو بھی اس بات کی امکانیت حاصل ہے، کہ وہ بھی روحانی طور پر ایک دوسرے سے مخاطبہ کرکے رحمانی طاقت اور نیکی کا ذریعہ بنائیں، اس بارے
۱۵۹
میں کسی عارف نے کیا خوب کہا ہے:
از دلِ حجت بحضرت رہ بود
او بتائیدِ دلش آگہ بود
یعنی حجّت اور پیر کے دل سے حضرت امام کی ذاتِ اقدس تک روحانی راستہ ہے، اور امامِ زمانؑ ان کے دل میں تائید وہدایت القاء کرنے سے غافل نہیں۔
۱۶۰
کلید نمبر ۷
آسمانی کتاب میں ہر چیز کی تفصیل
سورۂ انعام کے انیسویں رکوع کے اخیر میں حق سبحانہ کا ارشاد ہے کہ: پھر ہم نے موسیٰ کو ایسی کتاب عنایت کی جو نیکوکاروں کے لئے (ہر طرح سے) مکمل تھی اور ہر چیز کی تفصیل تھی اور ہدایت و رحمت تھی تا کہ وہ اپنے پروردگار کے دیدار پر ایمان لائیں۔ (۰۶: ۱۵۴)۔
اس ارشادِ الٰہی سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے، کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی آسمانی کتاب (توریت) میں اس دور کے نیکوکاروں کے لئے دینی اور دنیاوی ہدایات کی کوئی کمی نہیں تھی، اس میں ہر چیز کا تفصیلی ذکر موجود تھا اور ہر قسم کی ہدایت و رحمت تھی، تا کہ وہ ان تمام چیزوں کے نتیجے میں اپنے پروردگار کی ملاقات کا یقین کریں۔
اب یہ اہلِ دانش کے لئے غور و فکر کا مقام ہے، کہ توریت کے مکمل و مفصل ہونے اور اس میں ہر قسم کی ہدایت و رحمت ہونے کے فوائد صرف نیکوکاروں کے لئے کس طرح مخصوص ہوسکتے ہیں، بجز اس کے کہ وہ حکمت اور تاویل کے بے پایان خزانے کی حیثیت رکھتی ہو، کیونکہ اگر
۱۶۱
اس میں حکمت وتاویل نہ ہوتی، تو وہ عوام وخواص کے لئے یکسان ہوتی، پس ظاہر ہوا کہ توریت حکمت وتاویل کی صورت میں مکمل، مفصل اور ہدایت ورحمت سے بھرپور تھی، اور یہ بات صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ خدا کی کتاب کے ساتھ ساتھ خدا کی طرف سے معلّم بھی مقرر ہو، چنانچہ توریت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی، کہ اس کی زندہ روح حضرت ہارون علیہ السّلام کی ذاتِ شریف میں موجود تھی، جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے وزیر اور اس زمانے کے امام تھے۔
اب اس حقیقت کا کوئی واضح ثبوت چاہئے، کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے وزیر تھے، اس لئے توریت کی مقدّس روح یعنی زندہ حکمتیں اور بولتی تاویلیں حضرت ہارون علیہ السّلام کی روحانیت میں پوشیدہ تھیں، وہ ثبوت قرآن پاک کے اس ارشادِ مبارک میں ہے کہ: و لقد اٰتینا موسیٰ الکتٰب و جعلنا معہٗ اخاہ ہارون وزیرا ۔ ۲۵: ۳۵۔ بہ تحقیق ہم نے موسیٰ علیہ السّلام کو کتاب (یعنی توریت) دی تھی اور ہم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون علیہ السّلام کو ان کا وزیر بنایا تھا۔
اس فرمانِ خداوندی سے یہ حقیقت عیان ہوتی ہے، کہ حضرت ہارونؑ حضرت موسیٰؑ کے کسی اور کام میں وزیر ہو یا نہ ہو، مگر سب سے پہلے اور سب سے ضروری طور پر
۱۶۲
توریت کی روحانی ہدایت اور حکمت و تاویل کے معاملے میں وزیر تھے، کیونکہ آیۂ مبارکہ کے صوری و معنوی ربط میں کتاب کے ساتھ ساتھ وزیر کا ذکر آیا ہے، اور وزیر کے معنی بوجھ اٹھانے والے کے ہیں، اس ربط اور اس مناسبت کی دلیل سے توریت کی تنزیل وتاویل کا بارِگران حضرت ہارون علیہ السّلام اٹھا رہے تھے، چونکہ ہر آسمانی کتاب فی الاصل ایک زندہ اور بولنے والی روح کی حیثیت سے ہوتی ہے، بالفاظِ دیگر یہ ایک نور ہوتا ہے، پس یہ روح یا کہ نور جو حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں توریت کے اسم سے موسوم تھا، حضرت ہارون علیہ السّلام کے باطن میں پوشیدہ تھا۔
جب یہ مانا گیا کہ توریت صرف وہی نہیں تھی، جو ظاہری تحریر کی صورت میں خاموش تھی، بلکہ توریت وہ بھی تھی جو حضرت ہارونؑ کی نورانیت ، روحانیت اور جسمانیت میں زندہ اور گویندہ تھی، پس یقین کرنا چاہئے، کہ انہی معنوں میں ارشاد ہوا ہے جو اس موضوع کے آغا ز میں درج ہے کہ: پھر ہم نے موسیٰؑ کو ایسی کتاب عنایت کی جو نیکوکاروں کے لئے (ہر طرح سے) مکمل تھی اور ہر چیز کی تفصیل تھی اور ہدایت و رحمت تھی تا کہ اپنے پروردگار کے دیدار پر ایمان لائیں۔ ۰۶: ۱۵۴۔
پھر اس کے بعد انہی حقائق سے مربوط ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
۱۶۳
و ھذا کتٰب انزلنٰہ مبٰرک فاتبعوہ و اتقوا لعلکم ترحمون ۔ ۰۶: ۱۵۵۔ اور یہ کتاب (قرآن) جس کو ہم نے نازل کیا ہے برکت والی (کتاب) ہے تو تم اس کی پیروی کرو اور متقی بنو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
چنانچہ “برکت والی کتاب” کے معنی میں پھر وہی تمام حقیقتیں موجود ہیں جو اوپر توریت کے بارے میں بیان ہوئی ہیں، یعنی قرآنِ حکیم میں علم وحکمت اور رشد و ہدایت کی فراوانی اور خیروبرکت کی کثرت اس طرح سے ہے کہ یہ تنزیل و تاویل کی حکمتوں سے بھرپور اور صلاح و فلاح سے مملو ہے، اور ہادئ برحق کے نورِ اقدس میں اس کے زندہ حقائق ومعارف موجود اور محفوظ ہیں، یہ پاک کتاب اسی صورت میں “تبیانا لکل شیء (۱۶: ۸۹)” یعنی تمام چیزوں کا بیان کرنے والی ہے، پس معلوم ہونا چاہئے کہ آسمانی کتاب حقیقی معلّم کی معیت میں ہر چیز کا بیان کرنے والی ہے۔
۱۶۴
کلید نمبر ۸
ہر شخص کی شناخت
امامیہ کتب میں آنحضرت صلعم اور أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے ارشاد کے حوالے سے مذکور ہے کہ:
و علی الاعراف رجال یعرفون کلا بسیماھم ( ۰۷: ۴۶) کا مطلب یہ ہے کہ معرفت کی بلندیوں پر ایسے مرد ہوں گے، جو سارے لوگوں کو ان کی پیشانیوں سے پہچان لیں گے، وہ مرد جو اعراف کی بلندیوں پر ہوں گے، حضرت مولانا مرتضیٰ علیؑ اور آپ کے فرزندوں میں سے اوصیاء یعنی أئمّۂ اطہار علیہم السّلام ہیں (ملاحظہ ہو کتاب دعائم الاسلام جزء اول عربی صفحہ ۲۵)۔
جب یہ ایک قرآنی حقیقت ہے، کہ قیامت کے روز ہر زمانے کا امام اپنے وقت کے ان تمام لوگوں کو ان کے چہروں کی نورانیت سے پہچان لے گا جو دنیا میں اس کو پہچانتے تھے، تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وسیلۂ رحمت وہدایت کا یہ قانون، یعنی دنیا والوں کے درمیان امام کا حاضر ہونا، نہ صرف پیغمبرِ آخر زمانؐ کے دور کے لئے مقرر ہے، بلکہ شفاعت و نجات کا یہ ذریعہ جملہ انبیاء کے ادوار
۱۶۵
کے لئے یکسان ہے، پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر زمانے کے لوگوں کے درمیان امامِ وقت حاضر اور موجود ہوتا ہے، چنانچہ آیۂ درجِ ذیل سے اس حقیقت کی تصدیق و توثیق ہوتی ہے۔
یوم ندعوا کل اناس بامامھم ۔ ۱۷: ۷۱۔ جس دن ہم ہر زمانے کے لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ یعنی قیامت کے روز امامِ زمانہؑ کے بغیر لوگوں کے حق میں شہادت، عدالت، شفاعت اور نجات ممکن نہیں، پس معلوم ہوا، کہ آغازِ عالم سے حضرتِ آدمؑ تک، حضرتِ آدمؑ سے حضرت خاتم الانبیاءؐ تک اور آنحضرتؐ سے قیامِ قیامت تک امامت کا پاک سلسلہ قائم و دائم ہے۔
“یوم ندعوا کل اناس بامامھم” کے یہ معنی بھی درست ہیں کہ خدا قیامت کے دن لوگوں کو ان کے امامِ وقت کے ذریعے سے بلائے گا، کیونکہ أئمّۂ ہدا علیہم السّلام خدا اور لوگوں کے درمیان واسطہ اور وسیلہ ہیں، یعنی خدا کا ہر کام جو امر وفرمان اور ہدایت سے متعلق ہو وہ صاحبِ امر کے توسط سے انجام پاتا ہے، اور لوگوں کا ہر کام جو خدا کی اطاعت اور اس کی خوشنودی کے بارے میں ہے وہ امام کے ذریعے سے مکمل ہوتا ہے۔
آیۂ اعراف کی تفسیر و تاویل کے ذیل میں جو حقیقتیں سامنے آئیں، ان سے ظاہر ہے، کہ امام شناسی ہی سے دونوں جہان کی سعادتمندی اور ابدی نجات کے دروازے
۱۶۶
کھل سکتے ہیں، جیسا کہ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ:
ان الذین کذبوا باٰیٰتنا و استکبروا عنھا لا تفتح لھم ابواب السمآء و لا یدخلون الجنۃ حتیٰ یلج الجمل فی سم الخیاط ۔ ۰۷: ۴۰۔ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے۔ جاننا چاہئے کہ خدا کی آیات معجزات کے معنی میں بھی اور نشانیوں کے معنی میں بھی أئمّۂ اطہار علیہم السّلام ہیں، اور جو لوگ ان حضرات کو نہیں پہچانتے وہ ان سے تکبر کرتے ہیں، اور لفظ ’’استکبر‘‘ میں دو متضاد معنی پوشیدہ ہیں، یعنی خود کو بڑا اور دوسرے کو حقیر سمجھنا اور ان دونوں کا موقعِ استعمال ہم جنسیت کا مقام ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آسمانی کتاب اور آفاقی آیات کی نسبت سے تکبر نہیں ہوسکتا، بلکہ لوگوں کو اپنے ہم جنس انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بارے میں تکبر ہوتا رہا ہے، اور ابلیس نے جو تکبر کیا وہ بھی ایک انسان تھا، جو علم میں مرتبۂ فرشتگی پر فائز ہو چکا تھا، اس نے اپنے ہم جنس بشر حضرت آدم علیہ السّلام کو حقیر سمجھا اور خود کو بزرگ قرار دیا۔
اس کے علاوہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں ارشاد
۱۶۷
ہوا ہے، کہ فرشتے اپنے پروردگار کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ہیں، اس کی تاویل یہ ہے کہ مومنین جو عالمِ معرفت کے فرشتے ہیں امامِ وقت کی فرمانبرداری سے، جو خدا کی عبادت ہے، سرتابی نہیں کرتے، کیونکہ امامِ زمانؑ خدا کا سب سے بڑا نام ہے اور اس کی فرمانبرداری تاویلی زبان میں عبادت ہے۔
۱۶۸
کلید نمبر ۹
ہر چیز کی مقدار
سورۂ رعد کے دوسرے رکوع کے آغاز میں ارشاد ہوا ہے کہ: و کل شیء عندہ بمقدار (۱۳: ۰۸) اور ہر چیز خدا کے نزدیک ایک مقدار میں ہے۔
اس کلیّہ کا یہ مطلب ہوا، کہ اگرچہ زمان و مکان کی بعض چیزیں انسان کو غیر محدود اور لاانتہا نظر آتی ہیں، مثلاً زمانہ اور کائنات، لیکن خدا کے نزدیک ہر چیز محدود اور ایک مقررہ مقدار میں ہے، اور ہر چند کہ دورِ جدید کے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات، جس میں لاتعداد سیّاروں اور ستاروں کی دنیائیں موجود ہیں، بے پایان اور غیر محدود ہے، مگر کلیّۂ مذکورۂ بالا کا ارشاد ہے کہ یہ عظیم کائنات بھی اس کی عظمت و وسعت کے باوجود قانونِ قدرت کی ایک معیّن مقدار کے مطابق ہے، اور زمانہ بھی اپنی بے پناہ طوالت کے باوصف ایک محدود مقدار میں ہے۔
چنانچہ اگر کوئی دانشمند اس کتاب کا چشمِ بصیرت سے مطالعہ کرے تو اس کے ہر کلیّہ سے صاف طور پر
۱۶۹
ظاہر ہوگا، کہ اس میں جتنے کلیّات درج ہوئے ہیں، وہ سب کے سب ایک دوسرے کی حقیقت پر دلیل ہیں، اسی طرح ان سب سے مذکورۂ بالا حقیقت کی بھی تصدیق و توثیق ہوتی ہے، کہ ہر چیز خدا کے نزدیک ایک معیّن مقدار میں ہے یعنی ہر چیز خدا کے نزدیک محدود ہے۔
جیسا کہ کلید نمبر ۱ میں ذکر ہوا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے، پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ خدا کی قدرت ہر چیز پر حاوی ہے اور ہر چیز خدا کی قدرت میں محدود ہے، یہی مثال خدا کے علم کی بھی ہے جہاں امامِ مبین کے نور میں ہر چیز کے محدود ہونے کا ذکر ہوا ہے۔
اگر ہر چیز خدا کے نزدیک ایک معیّن مقدار میں ہے، تو جاننا چاہئے، کہ یہ حقیقت بھی امامِ مبین کے احاطۂ نور اور دائرۂ علمی سے باہر نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو امامِ مبین کی ذاتِ اقدس میں محدود اور محصور کر دیا ہے۔
اس حقیقت کے بعد یہاں یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اگرچہ ہر چیز اپنی جگہ پر محدود اور ایک مقررہ مقدار میں ہے، تاہم وہ فنا وبقا یا کہ تغیّروتبدّل کے دائرے پر جو چکر کاٹتی رہتی ہے، اس کے اعتبار سے یہ کہنا درست ہے کہ ہر چیز لامحدود ہے، مثلاً دن رات دونوں محدود تو ہیں مگر ان دونوں کے تغیّروتبدّل
۱۷۰
سے وقت کا جو دائرہ بنتا ہے وہ غیر محدود ہے، اسی طرح اس سے بڑا دائرہ سال کے چکر کا بنتا ہے، اس کے بعد بڑے بڑے زمانوں کے دائرے ہیں اور اخیر میں جا کر اس کائنات کے مٹ جانے اور پھر وجود میں آنے سے دائرہ بنتا ہے، جو لاانتہا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر چیز اگر ایک اعتبار سے محدود ہے تو دوسرے اعتبار سے غیر محدود ہے، اور یہی قانونِ قدرت کی تعریف ہے، کہ اس میں ابتدائی ولاابتدائی اور انتہائی و لاانتہائی کی سب خوبیاں موجود ہیں۔
قرآنِ حکیم میں ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جن کی گہری حکمتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز ایک محدود مقدار میں ہونے کے باوجود غیر محدود ہے، وہ حقیقت اس طرح سے ہے کہ تمام چیزوں کے جوڑے ہیں یعنی ہر چیز کی ایک ضد یا مقابل ہے، مثلاً دن رات، روشنی و تاریکی، دنیا و آخرت، جسمانیت و روحانیت، ہستی و نیستی وغیرہ، پھر ہر جوڑے کے گھومنے سے ایک دائرہ بنتا ہے، جیسے شب و روز کا گردش کرنا اور ماہ و سال کا بار بار آنا، اسی طرح کائنات کا وجود ایک بہت بڑا دن ہے اور اس کا مٹ جانا ایک بہت بڑی رات ہے، ان دونوں کی بھی ایک گردش ہے، یعنی کائنات و موجودات کے وجود و عدم کا بھی ایک چکر ہے جو تمام دائروں میں سب سے بڑا دائرہ ہے، جس کی
۱۷۱
لاانتہا گردش کے سبب سے ہر محدود چیز لامحدود ہو جاتی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ہم کلید نمبر ۲۲ میں اس حقیقت کی مزید وضاحت کریں گے۔
۱۷۲
کلید نمبر ۱۰
مؤمنین کو سب کچھ دیا گیا
سورۂ ابراہیم کے پانچویں رکوع کے اخیر میں ارشاد ہوا ہے کہ: اور جو کچھ تم نے خدا سے مانگا سب تم کو دیا اور اگر تم خدا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو گن نہیں سکتے ہو اس میں تو شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف ناشکرا ہے۔ ۱۴: ۳۴۔
اس فرمانِ الٰہی سے ظاہر ہے، کہ حقیقی مومنین نے جسمانیت میں یا روحانیت میں بزبانِ قال یا بزبانِ حال پروردگار سے جو کچھ طلب کیا وہ سب اس نے انہیں دے رکھا ہے، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ چیز کون سی ہے جس میں سب کچھ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی “جامع الجوامع” چیز جس میں تمام چیزیں موجود ہیں امامِ مبین کی معرفت ہے، کیونکہ امامِ مبین کے نورِ اقدس میں سب کچھ ہے۔
قرآنِ مجید میں ہے کہ جنت کا طول وعرض بھی کائنات کے طول وعرض کی طرح ہے، جس کا اشارہ عالمگیر روح کی طرف ہے، یعنی عالمگیر روح ہی روحانی جنت ہے،
۱۷۳
جس میں سب کچھ ہے، جو امام کی روح یعنی نور ہے، اس سے وہ سوال ختم ہوجاتا ہے کہ سب کچھ بہشت میں ملنا چاہئے، یا کہ امام کی روح میں؟ کیونکہ بہشت، امام کی روح اور اس کی معرفت ایک ہی حقیقت ہے۔
چنانچہ قرآنِ کریم کا یہ ارشاد مذکورۂ بالا مطلب سے جدا نہیں کہ: و سخر لکم ما فی السمٰوٰت و ما فی الارض (۴۵: ۱۳) اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخّر کر دیا۔
یہ اصول ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ کسی بڑی چیز کے حاصل ہونے سے وہ تمام چھوٹی چھوٹی چیزیں جو اس سے وابستہ ہیں، خود بخود حاصل ہو جاتی ہیں، مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو باغ و گلشن دیا گیا تو پھر اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام چیزیں خود بخود مل جاتی ہیں، جو باغ و گلشن میں ہیں، جیسے ہر قسم کے میوے، خوش منظر مقام، آرام دہ سائے، مہکتے ہوئے رنگ برنگ پھول وغیرہ۔
اسی طرح اگر کسی خوش نصیب انسان کو وہ سب سے عظیم خزانہ مل جائے، جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام خزانوں کی کلیّدیں ہیں، تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے سعادت مند آدمی کو خدائے جلیل وجبار کے سارے خزانے مل گئے، اللہ تعالیٰ کے سب خزانوں کے کلیدی
۱۷۴
حیثیت کا خزانہ امامِ مبین کی معرفت ہے، جس کے حصول سے ہر چیز حاصل ہو جاتی ہے۔
حدیثِ شریف کا ارشاد ہے کہ: من کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ ، یعنی جو شخص خدا کا ہو کر رہے تو خدا بھی اسی کا ہو کر رہتا ہے، یعنی جو آدمی خدا کے ارشادات کی پیروی کرتے کرتے تن من دھن سے خدا ہی کی ملکیت بن جاتا ہے، تو پھر نتیجے کے طور پر خدا بھی ایسے شخص کا بے بہا خزانہ بن جاتا ہے، بے شک خدا تعالیٰ خزانۂ مخفی ہے، اور بموجبِ حدیثِ قدسی یہ خزانہ معرفت کے راستے سے مل سکتا ہے، مگر سب جانتے ہیں کہ پیغمبر کی معرفت کے بغیر خدا کی معرفت ممکن نہیں ہے، اور امامِ وقت کی معرفت کے بغیر پیغمبر کی معرفت ناممکن ہے، پھر وہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ امامِ مبین میں سب کچھ ہے۔
قرآنِ مجید کا ارشاد ہے کہ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون ۔ یعنی ہم خدا کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ ایسا کہنے والے کون ہیں؟ صابرین ہی ایسا کہا کرتے ہیں، انہیں یقینِ کامل ہے، کہ وہ خدا کے حضور سے یعنی اس کے نور سے اس دنیا میں آئے ہیں، اس لئے وہ اس بات کے امیدوار ہیں، کہ وہ یہاں سے واپس جا کر پھر خدا کی وحدت میں مدغم ہو جائیں گے، اس حال میں ان کو روحانی بادشاہت کی صورت میں سب کچھ دیا ہوا
۱۷۵
ہوگا، لیکن یہاں یوں سوال ہے، کہ آیا کوئی شخص “اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم” کے فرمان پر عمل کئے بغیر صابر کہلا سکتا ہے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے، تو پھر ہمارا یہ دعویٰ حق بجانب ہو گا، کہ اسلام اور ایمان کی تمام خوبیاں امامِ مبین سے مل سکتی ہیں۔
انبیاء و أئمّہ علیہم السلام دنیا میں اس لئے آتے ہیں، کہ وہ دنیا والوں کی صحیح ہدایت کریں، تاکہ لوگ صراطِ مستقیم پر ثابت قدمی سے چل کر خدا کے حضور پہنچ جائیں، وہ حضرات نہ صرف قولی ہدایت کرتے ہیں، بلکہ ہدایت کی پیروی کا عملی نمونہ بھی پیش کرتے ہیں اور اس ہدایت پر عمل کرنے سے جو کچھ صلہ ملنے والا ہے، وہ بھی برملا دکھاتے ہیں، وہ صلہ کیا ہے؟ پیغمبر اور امامِ زمان ہیں، جن کے نورِ اقدس میں سب کچھ موجود ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
و یدخلھم الجنۃ عرفھا لھم (۴۷: ۰۶) اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا، جس کا انہیں (پہلے سے ) شناسا کر رکھا ہے۔
۱۷۶
کلید نمبر ۱۱
ہر چیز کے خزانے
قرآنِ حکیم کی ۱۵: ۲۱میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : اور ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں اور ہم اس کو مقررہ اندازہ سے نازل کرتے رہتے ہیں۔
اس کلیّۂ مقدّسہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ البتہ مکانی لحاظ سے نہیں، بلکہ فضل و شرف اور علم و معرفت کے اعتبار سے خدا تعالیٰ کی کوئی قربت و نزدیکی ہے، جہاں ہر چیز کے خزانے موجود ہیں اور وہ خزانے امامِ مبین کے مقدس نور میں ہیں، اور اس حقیقت کی مثال ہم ظاہری سورج سے لے سکتے ہیں، کہ سورج میں اس عظیم کائنات کے تمام ستاروں اور سیّاروں کی تکوینی دولت کے بے پایان خزانے موجود ہیں، یعنی مادّی قسم کی دولت کے خزانے، کیونکہ نہ صرف ہر ستارہ اور ہر سیّارہ بحکمِ خدا سورج کے فعل سے پیدا ہوتا ہے، بلکہ عناصر، پہاڑ، جمادات، معدنیات اور نباتات کے علاوہ حیوانات اور انسان کا جسم بھی سورج کی بدولت مکمل ہو جاتا ہے، پس اسی طرح عالمِ روحانیت کی تخلیقی دولت کے تمام خزانے
۱۷۷
امامِ مبین کے نورِ اقدس میں موجود ہیں۔
سورج کی اس عمدہ مثال کے بعد یہ بھی ہمارا علمی فرض ہے کہ آپ کو ثابت کرکے بتائیں، کہ سورج کی بے پناہ طاقتوں کی محرّک روح کا سرچشمہ کہاں ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا ارشاد سے ظاہر ہے کہ ہر چیز کے خزانے خدا کے پاس ہیں، جس کا مطلب بتایا گیا کہ اللہ کے یہ خزانے امامِ مبین کے نور میں موجود ہیں، اب جبکہ امامِ برحق علیہ السّلام کے پاک نور میں خداوند تعالیٰ کے تمام خزانے موجود ہیں، اور پروردگار کے ان خزانوں سے کوئی شیٔ باہر نہیں، تو معلوم ہوا کہ آفتابِ عالم تاب کی بے پناہ اور بے پایان طاقت کی محرّک روح بھی امام کے نور کے خزانوں سے جاری و ساری ہے۔
اس حقیقت کی دوسری دلیل یہ ہے، کہ قرآنِ حکیم میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلعم کو تمام عالموں کے لئے نورِ مطلق اور رحمتِ کل کی حیثیت سے بھیجا تھا، پھر جب سرورِعالم ساری کائنات اور سب جہانوں کے حق میں نور اور رحمت تھے، تو لازمی طور پر آنحضرتؐ سورج کے لئے بھی اسی حیثیت سے تھے، کیونکہ سورج بھی ایک عالم ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ حضورِ اکرم کی ذاتِ اقدس سے آفتابِ جہان تاب کو نور کی صورت میں طبعی ہدایت اور رحمت کی حیثیت سے متعلقہ روح ملتی رہتی تھی، پھر آپ کے
۱۷۸
بعد آپ کے وارث اور جانشین یعنی أئمّۂ اطہارعلیہم السّلام سلسلہ وار اسی حیثیت سے ہیں، اور یہ اللہ تعالیٰ کی بے بدل عادت اور اس کا اٹل قانون ہے، کہ ہر زمانے میں اس کے نور اور رحمت کا ایک مظہر ہوا کرتا ہے، خواہ وہ پیغمبر ہو یا کہ امام، پس یہ حقیقت واضح اور روشن ہو کر سامنے آ گئی، کہ امامِ مبین کا نور سورج کے مادّی فیوض و برکات کا بھی سرچشمہ ہے۔
۱۷۹
کلید نمبر ۱۲
شہد کی مکھی کی مثال
سورۂ نحل کے نویں رکوع میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ: ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللا (۱۶: ۸۹) اور ہر قسم کے میوے کھا اور اپنے پروردگار کے مسخر راستوں میں چلی جا۔
پروردگارِ عالم کا یہ خطاب ظاہر اور تنزیل کے اعتبار سے شہد کی مکھی کے لئے ہے مگر باطن اور تاویل کے لحاظ سے اس خطاب کا تعلق حجّت اور پیر سے ہے، کہ وہی شخص جو امامِ زمان علیہ السّلام کی جانب سے حجّت، پیر، یا داعی کے لقب سے اور بعض دفعہ کسی اور نام سے بھی مقرر ہوتا ہے، شہد کی مکھی کا ممثول ہے، اور شہد کی مکھی اسی شخص کی مثال ہے، کیونک جس طرح شہد کی مکھی مختلف پھولوں اور پھلوں سے رس چوس کر اپنے بطن میں شہد بناتی ہے، اسی طرح امامِ برحق علیہ السّلام کا علمی نمائندہ روحانیت کے پھولوں اور پھلوں سے اپنے باطن میں علمِ تاویل کا شہد تیار کرتا ہے، اس کے لئے علم و حکمت کے راستے ایسے صاف، مسخر اور آسان ہیں، جیسے شہد کی مکھی
۱۸۰
کے راستے، کہ وہ بڑی آسانی سے ایک پھول سے دوسرے پھول پر اڑ سکتی ہے۔
شہد کی مکھی جن مختلف پھولوں اور جدا جدا پھلوں سے شہد بناتی ہے ان سب کا ذائقہ مل کر شہد کا ایک ہی مزہ بن جاتا ہے، اور اس میں دوسرا کوئی ذائقہ باقی نہیں رہتا، اسی طرح حجّت، جس کو امام حیّ و حاضر علیہ السّلام کی روحانی تائید حاصل ہے، مختلف تنزیلات کی ایسی موافق تاویل کر سکتاا ہے، کہ وہ عقل کے نزدیک شہد کی طرح خوشگوار اور یقینی ہوجاتی ہے اور اس میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔
آیۂ مذکورۂ بالا میں بصورتِ تنزیل شہد کی مکھی سے فرمایا گیا ہے کہ: “اور ہر قسم کے میوے کھا اور اپنے پروردگار کے مسخر رستوں پر چلی جا۔” ہر دانا شخص اس مقام پر تاویل کی اہمیت سمجھ سکتا ہے ، کہ دنیا میں جہاں کہیں شہد کی مکھیاں ہوتی ہیں، وہاں ہر قسم کی میوے جمع تو نہیں ہوتے اور نہ ہر نوع کے پھول یکجا ہو سکتے ہیں، اس کے علاوہ پروردگار کے رستے باغوں اور جنگلوں میں ، جہاں شہد کی مکھیاں ہوں، نہیں پائے جا سکتے، پس اس سے ظاہر ہے، کہ ہم اس آیۂ مبارکہ کی جو تاویل کر رہے ہیں، وہ درست ا ور صحیح ہے، ہر چند کہ اس کی اور بھی تاویلیں ہیں۔
چنانچہ جسمانی اور ظاہری حالت میں یہ بات بالکل
۱۸۱
ناممکن ہی ہے کہ دنیا کے کسی ایک مقام پر ہر موسم اور ہر ملک کے تمام پھول اور پھل یکجا موجود ہوں، مگر اس کے برعکس روحانی اور باطنی صورت میں ہر قسم کے پھول اور ہر طرح کے میوے ایک ہی مرکز پر جمع ہوسکتے ہیں، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاک ارشاد ہے کہ:
کیا ہم نے ان کو امن و امان والے حرم میں جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں جو ہمارے پاس سے کھانے کو ملتے ہیں ولیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ ۲۸: ۵۷۔ جاننا چاہئے کہ حرم کی تاویل امامِ زمان ہے، کیونکہ امام ہی خدا کے پاک نور کا حقیقی گھر اور نہانخانۂ اسرارِ توحید ہیں، جہاں ہر قسم کے روحانی میوے کھنچے چلے آتے ہیں، اور یہ رزق دنیاوی نہیں بلکہ خدا کے حضور سے آتا ہے۔
اس سے یہ تاویل ظاہر ہوئی کہ مرتبۂ حجتی پر فائز ہونے والے سے فرمایا جاتا ہے کہ تم اپنے امامِ وقت کے روحانیت میں داخل ہو جاؤ اور تنزیل کے باغات کے پھولوں اور پھلوں کے ہر نمونے سے تاویل کا شہد بناؤ اور اپنے پروردگار کے علم و حکمت کے مسخر رستوں پر چلو پھرو۔
سورۂ نحل میں شہد کی مکھی کے بارے میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس کی مجموعی تاویل یہ ہے کہ : اور آپ کے ربّ نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی، یعنی آپ کے پروردگار
۱۸۲
نے ہونے والے حجّت سے مخاطبہ فرمایا، کہ تو پہاڑوں میں گھر بنا لے، یعنی تم سے قبل جو دوسرے حجّت علم کے پہاڑ ہیں، ان کے ساتھ روحانی رابطہ رکھو، اور درخت میں بھی گھر بنا لے، یعنی حجّتوں کے بعد اپنے امامِ وقت کی معرفت تک رسائی کرو جو امامت کا سدا بہار درخت ہے، یعنی شجرۂ طیبہ جو ہر وقت پھل دیتا ہے اور اس چیز میں بھی گھر بنا لے جو وہ بلند کرتے ہیں، یعنی امامِ زمان کی معرفت کی روشنی میں حدودِ عُلوی کی حکمتوں سے بھی فیض حاصل کرو، پھر ہر قسم کے پھلوں سے کھا لے، یعنی روحانی اور علمی میوؤں سے کھا لو، پھر اپنے ربّ کے صاف اور مسخر رستوں پر چلی جا، یعنی اپنے ربّ کے علم وحکمت کے میدان میں چلو پھرو کہ تمہارے لئے کوئی رکاوٹ اور کوئی الجھن نہیں، اس کے پیٹ میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں یعنی حجّت کے باطن سے گوناگون تاویلات ظاہر ہوتی ہیں، جو روحانی غذا ہے، کہ اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے، یعنی حجّت کی تاویلات کی بدولت لوگ نادانی اور جہالت کی بیماری سے شفایاب ہو جاتے ہیں، یقیناً اس میں فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں، یعنی جو لوگ عقل ودانش سے غوروفکر کرتے ہیں، وہ اس حقیقت کو جانتے ہیں، کہ یہ تمام چیزیں، جن کا ذکر ہوا، امامِ برحق کے روحانی اور علمی معجزات ہیں۔
۱۸۳
کلید نمبر ۱۳
تمام تمثیلات
سورۂ کہف کے آٹھویں رکوع میں ہے کہ:
و لقد صرفنا فی ہٰذا القرآن للناس من کل مثل ۔ ۱۸: ۵۴۔ اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان فرمائی ہیں۔
اس کلیّۂ مقدسہ کا واضح مفہوم یہ ہے، کہ پروردگارِ عالم نے قرآنِ حکیم میں ایک ہی حقیقتِ جامعہ کی مثالیں پھیر پھیر کر بیان کر دی ہیں، چنانچہ ہر مثال میں اسی حقیقتِ واحدہ کی ایک گونہ صورت پنہان ہے، اور جہاں مثل الاعلیٰ ہے، وہاں حقیقتِ واحدہ یا کہ حقیقت الحقائق ہے، پھر اس بیان کے یہ معنی ہوئے، کہ ساری مثالیں مثل الاعلیٰ کی مختلف تفصیلات ہیں اور تمام حقیقتیں حقیقتِ واحدہ کی جدا جدا تشریحات۔
چنانچہ مثل الاعلیٰ کے بارے میں خداوندِ عالم کا ارشاد ہے کہ: و لہ المثل الاعلیٰ فی السمٰوٰت و الارض و ھو العزیز الحکیم ۔ ۳۰: ۲۷۔ اور آسمانوں اور زمین میں بلند ترین مثال اسی کی ہے اور وہ غالب حکمت والا ہے۔
۱۸۴
اس آیۂ مبارکہ سے یہ حقیقت ظاہر ہے، کہ ہر چند کہ باری سبحانہٗ کی ذاتِ بے چون کی کوئی مثال نہیں، تاہم اس نے جملہ مثالوں میں سے ایک مثال کو اپنی ذاتِ پاک سے منسوب کرنے کے لئے منتخب فرمایا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے کہ: لیس کمثلہ شیء و ھو السمیع البصیر ۴۲: ۱۱۔ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سنتا دیکھتا ہے۔ اور اس کا تاویلی اشارہ ہے کہ حق تعالیٰ کی مثال جیسی کوئی شیٔ نہیں، یعنی اس کی ایک اعلیٰ مثال ہے مگر کوئی چیز اس اعلیٰ مثال کی مثال نہیں بن سکتی، اور یہ تمام اشارے کمثلہٖ میں پوشیدہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مثل الاعلیٰ تمام مثالوں میں سے ارفع واعلیٰ اس لئے ہے، کہ یہ اپنی تمام معنوی اور تاویلی خوبیوں کی وجہ سے دوسری سب مثالوں سے ممتاز اور مخصوص ہے۔
جاننا چاہئے کہ مثل الاعلیٰ کا ذکر سورۂ نور میں کیا گیا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض مثل نورہ کمشکوٰۃ فیھا مصباح ۲۴: ۳۵۔ خدا سارے آسمان و زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثل ایسی ہے جیسے ایک طاق ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو۔
پس وہ مثل الاعلیٰ جو کائنات و موجودات پر حاوی اور محیط ہے، یہی ہے، جس کا ذکر ہوا، اس کی تمام معنوی
۱۸۵
اور تاویلی خوبیوں کو کوئی فردِ بشر ضبطِ تحریر میں نہیں لا سکتا، اور اس کی بنیادی خوبی اس حقیقت میں ہے، جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، کہ خدا، رسول اور امامِ مبین کا ایک ہی نور ہے، اور یہی ایک نور جملہ اوصافِ کمالیہ سے موصوف ہے، جبکہ حضرتِ باری تعالیٰ کی ذات ہر صفت سے پاک و منّزہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے کہ:
سبحٰن ربک رب العزۃ عما یصفون ۔ ۳۷: ۱۸۰۔ آپ کا ربّ جو عزت کا پروردگار ہے ان تمام اوصاف سے پاک ہے جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ مطلب یہاں صاف طور پر واضح ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر صفت اور ہر وصف سے پاک و بے نیاز ہے، کیونکہ وہ عزت کا پروردگار ہے، یعنی حدودِ روحانی و جسمانی کی عزت کا بلند کرنے والا ہے، یہاں تک کہ عزت کی بلندی کی انتہا آئے مگر وہ خود ہر صفت سے پاک اور ہر چیز سے بے نیاز ہے۔
مذکورۂ بالا بیان کی روشنی میں اب یہ بتلا دینا آسان ہے ،کہ امامِ مبین کا نور کوئی محدود نور نہیں بلکہ وہی مطلق نور ہے وہی مثل الاعلیٰ کا ممثول اور وہی حقیقت الحقائق ہے، اور یہی مقدّس نور انہی معنوں کے ساتھ خدا کا نور کہلاتا ہے، جس میں وہ تمام صفات موجود ہیں، جو خدا تعالیٰ سے منسوب کی جاتی ہیں۔
۱۸۶
اب جبکہ یہ حقیقت واضح ہوچکی، کہ نورِ مطلق ایک ہی ہے، جس کا حامل ہمیشہ سے امامِ مبین ہے، تو پھر ہم بیان کر دیں گے، کہ ایک ہی حقیقت کی کئی مثالیں یا کئی اعتبارات کس طرح ممکن ہیں، چنانچہ خداوند عالم نے آیۂ بیعت میں آنحضرتؐ کے دستِ مبارک کو اپنا ہاتھ قرار دے لیا ہے، ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس مثال میں اس فعل کو بھی اپنا لیا ہے، جو حضورِ اکرمؐ کے مبارک ہاتھ سے مکمل ہوا تھا، جیسا کہ ارشاد ہے کہ:
ید اللّٰہ فوق ایدیھم ۴۸: ۱۰۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ یعنی پیغمبر صلعم کا ہاتھ، جس نے مسلمانوں سے بیعت لیا، خدا کا ہاتھ ہے، اور رسول اللہ کے بیعت لینے کا جو فعل ہے، وہ بھی اسی نسبت سے خدا کا فعل ہے، پس آیۂ بیعت کے ان مبارک الفاظ سے نہ صرف یہ معلوم ہوا، کہ ایک ہی حقیقت کے کئی اعتبارات ہو سکتے ہیں، بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا، کہ اللہ تعالیٰ انسانِ کامل کے قول و فعل کو اپنا قول و فعل قرار دے سکتا ہے۔
نیز ارشاد ہے کہ: و ما رمیت اذ رمیت و لٰکن اللّٰہ رمیٰ ۔ ۰۸: ۱۷۔ اور (اے محمد) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔ اس ارشاد میں بھی پھر وہی حقیقت ہے کہ خدا نے انسانِ کامل کے فعل کو اپنا فعل ٹھہرا لیا ہے۔
۱۸۷
اس کے بعد آپ اس حقیقت پر غور کریں، کہ آیا پیغمبر کی مثال مثل الاعلیٰ کے ساتھ مل کر ایک ہوسکتی ہے یا نہیں؟ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
و داعیا الی اللّٰہ باذنہ و سراجا منیرا ۔ ۳۳: ۴۶۔ اور آپ خدا کی طرف بلانے والے ہیں اس کے حکم سے اور روشن چراغ ہیں۔ نیز خدا نے قرآن میں یہ بھی فرمایا، کہ آنحضرتؐ ساری کائنات کے لئے رحمت تھے (۲۱: ۱۰۷) اب اگر ہم خدا کے اس روشن چراغ کی وسعتِ روشنی کا تصور کائناتی رحمت (رحمۃ اللعالمین) کے تقاضے کے مطابق کریں، تو سارے آسمانوں اور زمین میں اسی خدائی چراغ کی روشنی کے سوا اور کوئی روشنی تصور میں نہ آئے گی، پس معلوم ہوا، کہ پیغمبر اکرمؐ کی مثال مثل الاعلیٰ کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
اب امامِ مبین کی مثال سنئے، جو ارشاد ہے کہ: اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا فرمائے گا، اور تمہارے لئے ایک نور مقرر کر دے گا، جس کی روشنی میں تم چل سکو گے اور تم کو بخش دے گا۔ ۵۷: ۲۸۔ جاننا چاہئے کہ یہاں خدا سے کماحقہٗ ڈرنے اور رسول محمدؐ پر جیسا کہ چاہئے ایمان لانے میں قرآن اور شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اب رہا اس کے اجر و صلہ کا سوال، جو ظاہر و باطن اور دنیا
۱۸۸
اور آخرت میں ملنا چاہئے، تو وہ اس طرح سے ہے کہ خدا اپنے پیغمبر کے توسط سے مومنین کی ہدایت و رہنمائی کے لئے امام مقرر کر دے، تا کہ وہ امام کے نور کی روشنی میں چل سکیں۔
خدا و رسول نے مومنین کے لئے جس نور کا تقرر فرما دیا ہے، اس کے ظاہری معنی تو یہ ہوئے، کہ گروہِ مومنین کے لئے امام مقرر کر دیا گیا، یہ تو مانا گیا، لیکن اب اس کی تاویل کا سوال ہے، تو بتائیے، کہ اس کی تاویلی حقیقت کیا ہے؟
الجواب: حقیقی مومنین کے لئے خدا و رسول کے نور مقرر کر دینے کی تاویل یہ ہے، کہ حقیقی محبت و فرمانبرداری کے نتیجے میں مومنین کے طاقِ دل میں مصباحِ امامت کا نور جلوہ گر ہونے لگتا ہے، پھر “نورٌ علیٰ نور” کے اصول کے مطابق اس کی علمی و عرفانی روشنی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ تمام کائنات و موجودات کو گھیر کر اپنے باطن میں محدود کر لیتا ہے، اسی معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ: و کل شیء احصیناہ فی امام مبین ۔ ۳۶: ۱۲۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک پوشیدہ امر ہے کہ تم ہر چیز کے لئے امامِ مبین کی طرف رجوع کرو، پس ثابت ہوا، کہ مثل الاعلیٰ کی تاویل میں خدا، رسول اور امامِ برحق کا ایک ہی نور ہے۔
۱۸۹
کلید نمبر ۱۴
ذوالقرنین
ذوالقرنین کون تھا؟ کیا وہ ایک جہانگیر بادشاہ تھا، یا پیغمبر، یا اپنے وقت کا امام؟ اس سوال کا صحیح جواب نہیں دیا جا سکتا، جب تک کہ اس کے بارے میں ان قرآنی حقائق کا انکشاف نہ ہو، جو ذوالقرنین کے قصّے میں ہیں۔
چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: و یسئلونک عن ذی القرنین ۔ قل ساتلوا علیکم منہ ذکرا۔ ان مکنا لہ فی الارض و اٰتینٰہ من کل شیء سببا ۔ فاتبع سببا ۔ ۱۸: ۸۳ تا ۸۵۔ (اے محمد) وہ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہیں اس کے بارے میں کچھ بیان کر دیتا ہوں۔ بے شک ہم نے اس کو زمین (روحانیت) میں قدرت دی تھی اور ہم نے اس کو ہر چیز کا سبب (رستہ) دیا تھا پس وہ ایک رستہ پر ہو لیا۔
اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادِ مبارک دانشمند مومنوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہے، کہ وہ غور و فکر سے اس کی معنوی گہرائیوں تک رسا ہو کر اس کی حقیقتوں کو حاصل
۱۹۰
کر لیں، چنانچہ “و اٰتینٰہ من کل شیء سببا” کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کو آسمان و زمین اور ظاہر و باطن کی سب چیزوں کے وسائل و ذرائع مہیا کر دیئے تھے، پس حقیقی مومنوں کے نزدیک اس فرمانِ الٰہی کا مطلب بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ “و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین” کا ہے۔
جس طرح کہ اس کتاب کے تمام موضوعات میں ایسی قرآنی آیات سے بحث کی گئی ہے، جن میں لفظ “کل” آیا ہے، اور ایسی آیات کو جو کلیّات میں سے ہیں بطورِ ثبوت پیش کیا گیا ہے کہ ان میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ ظاہری اور باطنی قسم کی ساری چیزوں کے بارے میں ہے، اسی طرح آیۂ مذکورہ بالا میں ’’کل شیء‘‘ سے روحانیت اور جسمانیت کی تمام چیزیں مراد ہیں۔
یہاں اس حقیقت کی ایک اور مثال خود قرآنِ حکیم سے یہ ہے کہ: ام لھم ملک السمٰوٰت و الارض و ما بینھما فلیرتقوا فی الاسباب ۔ ۳۸: ۱۰۔ کیا ان کو آسمانوں اور زمین اور جو چیزیں ان کے درمیان ہیں ان کی بادشاہی حاصل ہے (اگر ایسا ہے) تو ان کو چاہئے کہ سیڑھیوں سے آسمان پر چڑھ جائیں۔
جاننا چاہئے کہ یہ مثال ظاہر اور باطن میں غیر امکانیت
۱۹۱
اور امکانیت کے دو معنی رکھتی ہے، اور اس کی امکانیت یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ جن حضرات کو چاہے آسمانوں اور زمین کی روحانی بادشاہی عطا کرتا ہے، اور جن اسباب سے کائنات کی روحانی سلطنت مل سکتی ہے، وہ اسباب گویا آسمانوں اور زمین کی کلیدیں ہیں، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: لہ مقالید السمٰوٰت و الارض و الذین کفروا باٰیٰت اللّٰہ اولٰئک ھم الخٰسرون ۔ ۳۹: ۶۳۔ اور اسی کے اختیار میں ہیں کنجیاں آسمانوں اور زمین کی اور جو لوگ اللہ کی نشانیوں کو نہیں مانتے وہ بڑے خسارے میں ہیں۔ جاننا چاہئے کہ کسی مکان کا دروازہ، قفل اور کلید اس لئے ہوتی ہے کہ مالک جن کو چاہے اپنے مکان میں داخل کر دے اور جن کو نہ چاہے داخل نہ ہونے دے۔
چنانچہ قرآنِ پاک کی ۰۶: ۷۵ میں ہے کہ: اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی دکھاتے تھے تا کہ وہ اہلِ یقین میں سے ہو۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو آسمانوں اور زمین کی روحانی بادشاہی دیکھنے کی کنجیاں عنایت فرمائی تھیں، یا یوں کہنا چاہئے ، کہ خدا نے اسے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کے اسباب یعنی رستے بتا دیئے تھے۔ پس یہی مثال حضرت ذوالقرنین کی بھی ہے، کہ ان کو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کے باطنی رستے بتائے
۱۹۲
گئے تھے، کیونکہ ذوالقرنین اپنے وقت کے امام تھے۔
قرآنِ حکیم میں حضرت ذوالقرنین کا مختصر قصہ ہے وہ دراصل تاویل طلب ہے، مثلاً وہ سورج ڈوبنے کی جگہ پر پہنچ گئے جہاں سورج ایک کیچڑ کے چشمے میں ڈوبتا تھا، اس سے صاف طور پر ظاہر ہے ، کہ یہ سورج مادّی اور دنیاوی سورج نہیں تھا، بلکہ یہ روحانی اور دینی سورج تھا جسے دوسرے الفاظ میں نورِ توحید کہا جاتا ہے، اور کیچڑ کے چشمے سے دو اصلِ جسمانی مراد ہیں، جو روحانی مغرب ہیں ، یعنی ناطق اور اساس، جیسے تخلیقِ آدم کے بارے میں ارشاد ہے کہ و لقد خلقنا الانسان من صلصال من حما مسنون ۔ ۱۵: ۲۶۔ اور ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی بنی تھی پیدا کیا ۔ اور مشرق کی تاویل عقلِ کل اور نفسِ کل ہیں جہاں سے نورِ توحید طلوع ہو کر ناطق اور اساس میں غروب ہو جاتا ہے۔
کتاب ’’الامامۃ فی الاسلام‘‘ کے صفحہ ۱۴۸ سے معلوم ہوتا ہے، کہ حضرت ذوالقرنین علیہ السلام دورِ نوح کے سلسلۂ أئمّۂ مستقر میں سے ہیں چنانچہ آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: ذوالقرنین بن عابر بن شالخ بن قینان بن ارفکشاد بن سام بن نوح، یعنی آپ حضرت نوحؑ سے ساتویں پشت ہیں۔
مذکورۂ بالا حقائق سے ظاہر ہوا، کہ حضرت ذوالقرنین اپنے وقت کے امام تھے اور ان کے مشرق و مغرب کے سفر
۱۹۳
کا سارا قصہ روحانی اور تاویلی ہے۔
نیز حضورِ اکرم صلعم کے ایک مبارک ارشاد سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ حضرت ذوالقرنین امام تھے، چنانچہ آنحضرتؐ نے مولانا علیؑ سے فرمایا کہ: یا علی ان لک کنزا من الجنۃ و انک لذوقرنینھا ۔ یعنی (یاعلی) جنت میں آپ کے لئے ایک مکان مخصوص ہے اور آپ اس امت کے ذوالقرنین ہیں۔ سبحان اللہ ارشادِ نبوی کی معنوی شان کس قدر بلند ہے، کہ اس مبارک حدیث میں امام شناسی کے جملہ اسرار موجود ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ اگر علی ذوالقرنین کی طرح ہیں تو ذوالقرنین بھی علی کی طرح ہیں، پس اگر علی امام ہیں تو ذوالقرنین بھی اپنے وقت کے امام تھے، دوسرا یہ کہ قرآن کے تاویلی قصّے میں جو تعریف و توصیف ذوالقرنین کے متعلق ہے، اس کا تعلق علی سے بھی ہے، جبکہ علی ذوالقرنین کے ہمصفت ہیں، تیسرا یہ کہ جب تک دنیا میں آنحضرتؐ کی امت ہے، تب تک علی بھی انہی اوصاف کے ساتھ جو مذکور ہوئے حاضر اور موجود ہیں، کیونکہ آنحضرت نے مذکورہ ارشاد میں اس امت کے درمیان ایک ذوالقرنین کا مبارک وجود لازمی قرار دے دیا ہے۔
۱۹۴
کلید نمبر ۱۵
یاجوج و ماجوج
یاجوج و ماجوج کے بارے میں ظاہری کتابوں میں مختلف قسم کی روایتیں پائی جاتی ہیں، جن کی کثرتِ اختلاف کے سبب سے حقیقت پر جو پردہ پڑا ہے، اس کا ہٹانا کوئی آسان بات نہیں ہے، لیکن امامِ زمانؑ (جو خدا و رسول کی طرف سے ہادئ برحق ہیں) کی دستگیری اور تائید کے اعتماد پر اس موضوع کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔
قرآنِ حکیم میں یاجوج و ماجوج کا تذکرہ بطریقِ اجمال دو دفعہ آیا ہے، جو سورۂ کہف میں حضرت ذوالقرنین کے قصّے کے سلسلے (۱۸: ۹۱ تا ۹۸) میں ہے اور سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۵ تا ۹۷) میں ہے۔
چنانچہ امامِ وقت کی حیثیت سے حضرت ذوالقرنین پر عالمِ روحانی کے تمام دروازے کھلے ہوئے تھے، انہوں نے اپنی نورانیت میں تمام خلائقِ عالم کی روحوں کا مشاہدہ کیا، یہ روحیں تین قسموں میں تھیں، یعنی اہلِ دنیا کی روحیں جن کا دوسرا نام یاجوج و ماجوج ہے، اہلِ ادیان کی روحیں اور اہلِ اللہ کی روحیں، پس حکمت کا تقاضا یہ تھا، کہ سب سے
۱۹۵
پہلے دین والوں کی روحوں کا مشاہدہ ہو، چنانچہ ذوالقرنین نے ایسی قوم کو نورِ ہدایت کے مغرب میں دیکھا، ان میں بھلائی اور برائی دونوں کی صلاحیت موجود تھی، اس کے بعد آپ روحانیت کے مشرق میں پہنچ گئے، جہاں ان کے مشاہدے میں ایسی روحیں آ گئیں، جن پر ہر وقت نورِ ہدایت کا سورج بلا واسطہ طلوع ہوتا رہتا تھا، یہ اہلِ اللہ کی روحیں تھیں، جن میں سوائے نیکی کے کچھ بھی نہیں تھا، اخیر میں حضرت ذوالقرنین علیہ السّلام روحانیت کے ایسے مقام پر پہنچے، جہاں خلیفۂ خدا یعنی پیغمبر اور امام کے لئے ممکن ہوتا ہے، کہ وہ اہلِ دنیا کی روحوں کے شر و فساد سے مومنوں کو محفوظ رکھیں، جس میں مومنین پر بھی انتہائی حد کی فرمانبرداری کا فریضہ واجب ہوتا ہے۔
چنانچہ اہلِ دنیا کی روحوں یعنی یاجوج و ماجوج کے شروفساد سے بچنے کے لئے اس وقت کے مومنین نے حضرت ذوالقرنین سے یعنی امامِ وقت سے درخواست کی، پس آپ کے علمِ روحانی اور مریدوں کے عملِ جسمانی سے حفظ و امان کی ایک مضبوط روحانی دیوار یاجوج و ماجوج کے سامنے کھڑی کر دی گئی، جس کے اوپر سے وہ چڑھ نہیں سکتے تھے، اور نہ اس میں سوراخ کر سکتے تھے، ذوالقرنین نے فرمایا کہ یہ میرے پروردگار کی ایک رحمت و مہربانی ہے پھر جب میرے پروردگار کا وعدۂ قیامت آئے گا اس کو ریزہ ریزہ کر
۱۹۶
دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچ ہے۔
اس کے بعد قرآنِ حکیم کا یہ واضح اشارہ ہے، کہ دورِ قیامت یعنی دورِ روحانیت کے آغاز میں یاجوج و ماجوج (یعنی اہلِ دنیا کی روحوں) کو کچھ وقت کے لئے موقع دیا جائے گا، جس میں بعض روحیں جسمانی طریق پر اور بعض روحانی طور پر شر و فساد میں مصروف ہوں گی، پھر ایک زمانے کے بعد صور پھونکا جاوے گا، جس کی بدولت خلائقِ عالم کی جملہ ارواح ایک ہی ملی وحدت کے رشتے میں منسلک ہو جائیں گی
قرآنِ مجید کے دوسرے مقام پر یاجوج و ماجوج کا بیان اس طرح آیا ہے کہ: اور ہم جس بستی کو ہلاک کر چکے ہیں اس کے لئے ممانعت ہے کہ وہ رجوع کرے (یعنی جو لوگ عذابِ الٰہی سے روحانی طور پر ہلاک ہوئے ہیں ان کی روحوں کے لئے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ لوٹ کر پھر دنیا میں آئیں) یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دئے جائیں گے اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوں گے (۲۱: ۹۵ تا ۹۶) یاد رہے کہ ہر بلندی کا مطلب یہاں ہر حقیقی مومن کی روحانیت ہے جو دنیا والوں سے بلند تر ہے، کیونکہ حضرت اسرافیل حقیقی مومنوں کی روحانیت میں سے صور پھونکے گا، اس لئے یاجوج و ماجوج اور دوسری تمام روحیں صور کی آواز کی طرف دوڑیں گی، جہاں سے وہ پھر دنیا میں منتشر ہو جائیں
۱۹۷
گی، جیسا کہ قولِ قرآن ہے کہ: و نفخ فی الصور فاذا ھم من الاجداث الیٰ ربھم ینسلون (۳۶: ۵۱) پھر جب صور پھونکا جائے وہ یکایک قبروں سے اپنے پروردگار کی طرف دوڑنے لگیں گے۔ یعنی تمام روحیں جو انسانی جسم کی قبروں میں مدفون ہیں، وہ وہاں سے بحکمِ خدا اٹھ کر صورِ اسرافیل کے پاس، جو حقیقی مومنین میں ہے، جمع ہو جائیں گی، جہاں ان کے پروردگار کا نور اسمِ اعظم کی صورت میں موجود ہے۔
۱۹۸
کلید نمبر ۱۶
ہر چیز کی خلقت و ہدایت
قرآنِ مقدس کی (۲۰: ۵۰) میں فرمایا گیا ہے کہ: قال ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقہ ثم ھدیٰ (۲۰: ۵۰) (موسیٰ نے ) کہا کہ ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو خلقت (یعنی مادّی شکل و صورت) بخشی پھر راہ دکھائی۔
اس کلیۂ مقدسہ کی ان گنت حکمتوں میں سے جو باتیں قابلِ فہم ہیں ان کی یہاں وضاحت کی جاتی ہے، اوّل یہ کہ یہ آیتِ پاک حکمت کی زبان میں فرما رہی ہے، کہ ہر چیز عالمِ امر یعنی عالمِ روحانی میں ازلی و ابدی طور پر موجود ہے، جس کا وجود و صورت محض عقلی اور روحانی کیفیت میں ہے۔
دوم یہ کہ عالمِ امر کی حقیقتیں اشیاء کہلاتی ہیں، یعنی چیزیں، بلکہ چیزیں دراصل وہی ہیں، کیونکہ دنیا کی ہر مادّی چیز آخرت کی اصلی چیز کا سایہ ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ “کل شیء” میں بحقیقت عالمِ امر کی چیزوں کا ذکر ہے، ہاں یہ بات بھی درست ہے کہ جہاں کل شیء کا ذکر ہے وہاں تمام چیزوں کے سائے بھی شامل ہیں۔
سوم یہ کہ ہر چیز عالمِ امر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے
۱۹۹
موجود ہے ساتھ ہی ساتھ اس کو عالمِ خلق میں بھی ایک مادّی وجود دیا جاتا ہے، یہ ہوا خدا کی طرف سے ہر چیز کو خلقت بخشنا، درحالیکہ چیزوں کا مادّی وجود یعنی خلقی صورت بار بار مٹائی جاتی ہے اور بار بار بنائی جاتی ہے، جبکہ اشیاء کی امری صورت لافانی ہے۔
چہارم یہ کہ ہر چیز، جو بیک وقت دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی، اس کو اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت دی گئی ہے یعنی راہ دکھائی گئی ہے، اور ان دونوں جہان کی اس ہمہ گیر و ہمہ رس ہدایت کا سرچشمہ خدا کا نور ہے، جیسے ارشاد ہوا ہے کہ: اللّٰہ نور السمٰوٰت والارض جس کا مفہوم ہے کہ خدا کائنات کے ظاہر و باطن کی ہر چیز کے لئے ہدایت کا نور ہے، مگر جسا کہ بتایا گیا، کہ ہدایت موجودات و مخلوقات کے درجات کے مطابق کارفرما ہوتی ہے۔
اب یہاں ہمیں عالمِ خلقی کی چیزوں کی ہدایت کے بارے میں کچھ مختصر بیان کرنا چاہئے، چنانچہ خدا کے اس نورِمطلق کی طرف سے، جس کی معرفت کے موضوعات پر یہ کتاب لکھی گئی ہے، سب سے پہلی ہدایت آسمانوں، سیّاروں اور ستاروں کو حاصل ہے، جس کی بدولت وہ نہ صرف وجود میں آئے، بلکہ اسی نورانی ہدایت کے بل بوتے پر وہ اپنے اپنے محدود دائروں میں گردش کرتے ہوئے مصروفِ عمل بھی ہیں۔
۲۰۰
دوسری ہدایت عناصرِ اربعہ کو ملی ہے، جو گرمی، سردی، خشکی اور تری کی طبعی کیفیت میں پنہان ہے، تیسرے درجے کی ہدایت موالیدِ ثلاثہ کو حاصل ہے، جو جمادات، نباتات اور حیوانات ہیں، اور ہدایت ان کے مختلف طبقات کے مطابق ہے، مثال کے طور پر جمادات کی ہدایت بھی ان کی طبعی کیفیت میں پوشیدہ ہے، نباتات کی ہدایت روحِ نامیہ کی قوتوں کی صورت میں ہے، حیوانات کی ہدایت روحِ حسی یعنی روحِ حیوانی کی حیثیت میں ہے اور انسانوں کی ہدایت روحِ ناطقہ کی شعوری طاقتوں کے توسط سے ہے۔
چونکہ روحِ ناطقہ یا کہ انسانی روح اگر ایک طرف سے حیوانی روح سے متصل ہے، تو دوسری طرف سے مَلَکی قوتوں سے بھی ملی ہوئی ہے، اس لئے انسانیت کے غیر معمولی وسیع دائرے میں مختلف نظریات کے بہت سے گروہ اور جدا جدا عادات کے بے شمار افراد داخل ہیں، پس یہ امر لازمی ہوا، کہ نورِ الٰہی کی طرف سے انسانوں کے لئے جس ہدایت کی ضرورت تھی، وہ لوگوں کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق درجہ بدرجہ حاصل ہوتی رہے اور امرِ واقعی ایسا ہی ہے۔
جب یہ بات حق ہے، کہ نورِ الٰہی کی جانب سے بنی آدم کے لئے جو ہدایت آتی ہے، اس کے بھی مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، تو پھر اس بات کی تحقیق ضروری ہے، کہ
۲۰۱
ہدایت کا سب سے اعلیٰ درجہ کون سا ہے، اس کے بارے میں جب ہم قرآنِ حکیم کی طرف رجوع کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے، کہ سب سے اونچی ہدایت عرفانی ہدایت ہے، جو امامِ مبین کی حقیقی معرفت اور نورِ ہدایت کی انتہائی قربت کا مرتبہ ہے۔
۲۰۲
کلید نمبر ۱۷
ہر چیز کا فنا ہو جانا
سورۂ قصص کے اخیر میں ہے کہ: کل شیء ہالک الا وجھہ ۔ لہ الحکم و الیہ ترجعون ۔ ۲۸: ۸۸۔ یعنی اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤگے۔
وجہ اللہ کے لفظی معنی ہیں خدا کا چہرہ، اور اس کا تاویلی اشارہ امامِ زمانؑ کی طرف ہے، جیسا کہ مولانا علیؑ کا مبارک فرمان ہے کہ: انا واللّٰہ وجہ اللّٰہ ۔ یعنی میں خدا کی قسم خدا کا چہرہ ہوں، نیز رسول اللہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: من رانی فقد رای الحق ، یعنی جس شخص نے مجھ کو دیکھا، اس نے خدا کو دیکھا۔
جب اس بات میں کوئی تعجب نہیں، کہ حق تعالیٰ نے نبوّت و امامت کے نور کو اپنی روح قرار دے دیا ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے کہ خدا نے اپنی روح آدم علیہ السّلام میں پھونک دی، اور حضرت مریم علیہا السّلام کے قرآنی قصّے میں دیکھئے کہ اللہ نے روح القدس کو اپنی روح ٹھہرا لیا ہے، تو پھر اس امر میں کیا تعجب ہے، کہ خدا تعالیٰ امامِ
۲۰۳
زمان علیہ السّلام کو اپنا چہرہ قرار دے، اس معنی میں کہ امام کا دیدار خدا کا دیدار ہے اور امام کی معرفت خدا کی معرفت ہے، جیسا کہ امیر المومنین علی علیہ السّلام کا فرمانِ مبارک ہے کہ: انا وجہ اللّٰہ، انا جنب اللّٰہ ، انا ید اللّٰہ ، انا عین اللّٰہ، انا القرآن الناطق و انا البرہان الصادق و انا اللوح المحفوظ و انا القلم الاعلیٰ انا الٓمٓ، ذالک الکتاب، انا کھٰیٰعٓصٓ، انا طٰہٰ انا حاء الحوامیم و انا طاء الطواسین، انا الممدوح فی ھل اتیٰ۔ و انا النقطۃ تحت الباء ۔ میں خدا کا چہرہ ہوں، میری طرف متوجہ ہونا خدا کی طرف رخ کرنا ہے، میں ہی جنب اللہ ہوں، مجھ تک پہنچنا خدا کے پہلو میں بیٹھنا ہے، اور منتہائے قرب پر پہنچنا ہے، میں ید اللہ یعنی دستِ خدا ہوں، جو کچھ وہ کرتا ہے مجھ سے کرتا ہے، جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے، میرے ہاتھ سے ہوتا ہے، اور میں کرتا ہوں اس کا کہلاتا ہے، میں عین اللہ ہوں، اس کی آنکھ سے عالم کو دیکھتا ہوں، اور دنیا میرے لئے ایسی ہے جیسے کہ آنکھ میں تل، میں قرآنِ ناطق اور برہانِ صادق ہوں، میرا وجود حق اور دلیلِ وجود حق ہے، میں حاملِ اسرارِ الٰہی لوحِ محفوظ ہوں، میں ہی قلمِ اعلیٰ ہوں، جو کچھ صفحاتِ عالمِ امکان پر قدرت نے رقم کیا ہے وہ مجھ
۲۰۴
سے رقم کیا ہے، میں الم ذالک الکتاب ہوں، کتابِ فعلی اور کتابِ قولی دونوں میرا وجودِ حقیقی ہیں، میں ہی کھیعص ہوں، اور میں ہی طٰہٰ، میں ہی مبداء حوامیم ہوں، اور میں ہی راسِ طواسین ۔ میں ممدوحِ ہل اتیٰ ہوں اور میں نقطۂ تحتِ باء ہوں، جس میں کل کتاب جمع ہے۔ (کوکبِ دری)۔
جب خدا کے لئے یہ کوئی عجیب کام نہیں کہ اس نے آنحضرت صلعم کے دستِ مبارک کو اپنا ہاتھ قرار دے دیا ہے حالانکہ خدا کوئی بشر تو نہیں کہ اس کا ہاتھ ہو، تو یہ امر بھی عجیب نہیں کہ امامِ برحق کو اپنا چہرہ قرار دے، اس معنی میں کہ امام خدا کا نور ہے۔
قرآنِ حکیم میں خدا کی پنڈلی کا ذکر آیا ہے (۶۸: ۴۲)۔ اگرچہ خدائے پاک اعضاء و جوارح سے مبّرا و منّزہ ہے، جب مثال اور تاویل کے لئے یہ بات درست ہے تو یہ بھی حق ہے کہ امامِ زمان خدا کا چہرہ ہیں، کیونکہ امام کے تصور میں خدا کی معرفت کے اسرار پنہان ہیں۔
قرآنِ پاک کی ۲۹: ۵۶ میں لفظی طور پر جنب اللہ (خدا کا پہلو) مذکور ہے، جب پروردگارِ عالم کے لئے پہلو کی نسبت منظور ہے، تو امامِ حیّ و حاضر کے وجہ اللہ اور جنب اللہ ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا ہے۔
جب اس حقیقت کی وضاحت ہو چکی، کہ امامِ زمان وجہ اللہ ہیں، تو اب ہم بتوفیقِ الٰہی یہ بیان کر دیں گے
۲۰۵
کہ ہر چیز کے فنا ہو جانے کی تاویل کیا ہے، چنانچہ متعلقہ کلیّۂ مقدسہ یہ تھا کہ: وجہ اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔
خوب جاننا چاہئے، کہ اس فرمانِ الٰہی کی تاویل کے کم از کم چار مقام ہیں، سب سے پہلے مقام کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ایسے خاص خاص بندے بھی ہوا کرتے ہیں، کہ ان کے نورانی تصوّروتخیّل میں یا ان کی چشمِ بصیرت کے سامنے کائنات و موجودات کی ہر چیز اسرارِ نورِ الٰہی کی بے پناہ تجلّیوں میں فنا ہو جاتی ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ: پس تم جس طرف بھی متوّجہ ہوجاؤ وہیں خدا کا نور موجود ہے۔ ۰۲: ۱۱۵۔ یہ ہوا کسی مومن کی انفرادی دنیا میں ہر چیز کا فنا ہوجانا، خدا کے نور کا باقی رہنا خدا کی بادشاہی کا دور آنا اور خدا کی طرف اس مومن کا لوٹ کر جانا۔
دوسرے مقام کی تاویل یہ ہے، کہ دنیا ہی میں ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے، جس میں روحانیت کا دور دورہ ہوگا، ہر جسمانی چیز روحانی طاقتوں کے نیچے مغلوب ہو کر نہ ہونے کے برابر رہے گی، وہ روحانی طاقت وجہ اللہ یعنی خدا کے نور کی ہو گی، اس وقت روئے زمین پر خدا کی ایک ہی حکومت ہو گی،اور اس حال میں مومنین خدا کی طرف رجوع کئے ہوئے ہوں گے، یہ ہوا مومنین کی اجتماعی دنیا میں
۲۰۶
ہر چیز کا فنا ہو جانا۔
تیسرے مقام کی تاویل یہ ہے، کہ جب بندۂ مومن اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے امامِ وقت کی روحانیت و نورانیت کی بہشت میں داخل ہوجاتا ہے ، تو اس وقت اس کے نزدیک امام کے نور کے سوا ہر چیز فنا ہو جاتی ہے، ایسے مومن کی اس ذاتی بہشت میں خدا ہی کی بادشاہی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس حال میں وہ مومن خدا کی طرف رجوع کیا ہوا ہوتا ہے، یہ ہوا مومن کی انفرادی قیامت میں ہر چیز کا فنا ہوجانا۔
چوتھے مقام کی تاویل یہ ہے کہ کسی زمانے میں عالمِ جسمانی یعنی ساری کائنات کلّی طور پر فنا ہو جائے گی، جیسا کہ کلید نمبر ۹ میں بھی اس کا ذکر ہو چکا ہے، اور اس حال میں بندگانِ خدا اپنے آپ کو خدا کے نور میں زندہ پائیں گے، جو عالمِ روحانی اور بہشتِ جاودانی ہے، اس عالم میں خدا ہی کی بادشاہی ہوگی اور مومنین خدا کی طرف لوٹے ہوئے ہوں گے، یہ ہوا مجموعی قیامت میں ہر چیز کا فنا ہو جانا۔
مذکورۂ بالا تاویلات کی ایک واضح مثال یہ ہے، کہ ہر انسان جب خواب کے عالم میں ہوتا ہے، تو اس کے نزدیک عالمِ خواب کے سوا ہر چیز فنا ہو جاتی ہے، یعنی یہ ظاہری کائنات تمام موجودات اور مخلوقات کے ساتھ اس کی نظر سے غائب اور پوشیدہ ہو جاتی ہے، مگر اس کے
۲۰۷
خواب کی دنیا میں ہر چیز موجود ہوتی ہے، جس میں خواب کی حکمرانی ہے اور اس کا رجوع خواب کی طرف ہوتا ہے، یہی مثال انفرادی روحانیت و قیامت کے علاوہ اجتماعی روحانیت اور قیامت کی بھی ہے، لیکن بمصداق: چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔ کہاں خواب کی تاریک اور مردہ دنیا، اور کہاں روحانیت و قیامت کا تابان و درخشان عالم، جس کی ہر چیز روحِ قدسی کی حیات و دانش سے معمور ہے۔
۲۰۸
کلید نمبر ۱۸
ہر چیز امامِ مبین میں
سورۂ یاسین کے رکوعِ اوّل کے اخیر میں پروردگارِعالم کا یہ ارشاد ہے کہ: و کل شیء احصینٰہ فی امام مبین ۔ ۳۶: ۱۲۔ اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین (کی نورانیت) میں گھیر لیا ہے۔
سوال: اگر ’’امامِ مبین‘‘ کا یہ اسم حاضرامام ہی کے لئے ہے، تو ہمیں سمجھا دیجئے، کہ کائنات و موجودات کی ہر چیز یعنی تمام اشیائے ظاہروباطن امام کی ذات میں کس طرح گھیری ہوئی ہیں؟
جواب: ہاں، امامِ مبین حاضرامام ہی کا اسمِ مبارک ہے، چونکہ آپ خدائے قدوس کے پاک نور کی مرتبت رکھتے ہیں، اور خدا کا نور وہ ہے، جس نے ارض و سماء کی وسعتوں کو اپنے اندر گھیر کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نورِ مطلق کی حیثیت سے امامِ زمان کون ومکان کی جملہ اشیاء پر کس طرح حاوی ہے، اس کے کئی تصورات ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ امامِ برحق کے آئینۂ باطن میں اشیائے دو جہان کی عقلی و روحی (یعنی زندہ
۲۰۹
اور باشعور) قسم کی عکاسی ہوتی رہتی ہے، بالفاظِ دیگر امام پاک کے ضمیرِمنیر کی لوحِ محفوظ پر ہر چیز کا زندہ نقش وصورت موجود ہے۔
دوسرا تصور یہ ہے کہ امام علیہ السّلام اس عظیم کائنات کی روح اور عقل ہیں، وہ اس طرح کہ امام کی عقل عقلِ کلّی ہے اور آپ کی روح نفسِ کلّی، پس تمام عقول امام کی عقل میں مجموع ہیں اور ساری ارواح آپ کی روح میں محدود۔
تیسرا تصور یہ ہے، کہ امام خدا کی آنکھ ہیں، اس لئے ان کی نگاہ کے سامنے موجودات کے احوالِ ظاہر و باطن محدود و محصور ہیں، جیسے مولانا علی علیہ السّلام کا فرمان ہے کہ:انا عین اللّٰہ فی ارضہ و لسانہ الناطق فی خلقہ انا نور اللّٰہ الذی لا یطفیٰ انا باب اللّٰہ منہ یوتیٰ و حجتہ علیٰ عبادہ = یعنی میں زمین میں خدا کی آنکھ ہوں، اور اس کی مخلوق میں اس کی بولتی ہوئی زبان ہوں، میں وہ نورِ خدا ہوں جو نہیں بجھایا جا سکتا، میں باب اللہ ہوں کہ میرے ہی ذریعہ خدا تک پہنچا جاتا ہے اور اس کے بندوں پر اس کی حجّت ہوں۔
چوتھا تصور امامِ مبین کی ذاتِ اقدس میں ہر چیز محدود ہونے کے بارے میں یہ ہے کہ امامِ عالی مقام کی مقدس روح نفسِ کلّی، روحِ اعظم، روح الارواح اور عالمِ روحانی
۲۱۰
کی حیثیت سے ہے، اس لئے امامِ مبین تمام مخلوقات اور جملہ اشیاء کی روحوں کا سورج ہیں، اب ان روحوں کی مثال جو دنیا میں آئی ہیں، سورج کی ان کرنوں کی طرح ہے جو سطح زمین تک پہنچی ہوئی ہیں، اور جو روحیں دنیا میں آنے کے بعد اپنی اصل سے واصل ہوئی ہیں یا ابھی تک دنیا میں نہیں آئی ہیں، ان کی مثال روشنی کے اس مادہ کی طرح ہے جو سورج کے سرچشمے میں موجود ہے، پس جو روحیں امامِ مبین کے نورِ اقدس میں ہیں وہ بھی، اور جو روحیں دنیا میں آئی ہیں وہ بھی امامِ اکرم کی ذات میں محدود ہیں، جیسے سورج کی کرنوں کا حال ہے، کہ جو شعاعیں ابھی سورج سے نہیں نکلی ہیں وہ تو سورج کے نور میں محدود ہیں ہی، اور ان کے علاوہ جو کرنیں ایک بے پایان نورانی سمندر کی شکل میں کائنات و شش جہات میں پھیلی ہوئی ہیں وہ بھی سورج سے وابستگی کی وجہ سے سورج میں محدود ہیں۔
ان تصورات کے علاوہ اس سلسلے میں ایک اور قرآنی دلیل یہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، کہ و ما ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰلمین ۲۱: ۱۰۷۔ اور (اے رسول) ہم نے تم کو تمام عالموں (یعنی ساری کائنات) کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس فرمانِ الٰہی سے ظاہر ہے کہ حضورِ اکرم
۲۱۱
خدا کی ہمہ رس اور ہمہ گیر رحمتِ کل کی حیثیت سے تمام کائنات و موجودات پر حاوی تھے، چنانچہ اگلے صفحات پر بھی اس حقیقت کا ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز یعنی کائنات کو اپنی رحمت اور علم میں سما لیا ہے، اور وہ قرآنی ارشاد یہ ہے: ربنا وسعت کل شیء رحمۃ و علما ۔ ۴۰: ۷۔ چونکہ امامِ مبین خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسول ہیں، اس لئے امام کی روحانیت خدا کی ہمہ رس رحمت ہے اور آپ کی نورانیت خدا کا ہمہ گیر علم ہے، پس معلوم ہوا، کہ امامِ مبین کی روحانیت اور نورانیت دونوں ارض و سماء کی وسعتوں پر محیط ہیں۔
اب ذیل میں اس حقیقیت کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، کہ امامِ مبین کے نور میں کون و مکان کی تمام چیزیں کس طرح گھیری ہوئی ہیں:
۱۔ سورج نے اپنی روشنی کے بے پناہ سمندر میں تمام کائنات کو غرق کر لیا ہے، حالانکہ وہ خود کائنات کے درمیان ایک محدود جسم ہے۔
۲۔ یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ بائے بسم اللہ کے نقطے میں قرآنِ حکیم کا جملہ ظاہر و باطن پنہان ہے۔
۳۔ درخت کے بیج میں مغز ہوتا ہے اور مغز کے درمیان ایک چھوٹا سا نقطہ ہے اور اسی نقطے میں ایک عظیم درخت پوشیدہ ہے۔
۲۱۲
۴۔ حضرت آدمؑ کی پشت میں نفوسِ خلائق کی ایک بھرپور دنیا چھپی ہوئی تھی۔
۵۔ انسان کے دل و دماغ میں بہت سی لطیف دنیائیں سما گئی ہیں، مثلاً خواب کی دنیا، خیال کی دنیا، غور و فکر کی دنیا، عقل و دانش کی دنیا، تجربات کی دنیا، عشق و محبت کی دنیا وغیرہ۔
۶۔ بندۂ مومن کے قلب میں حکمت کا ایک نقطہ ہے، اور اس نقطے میں اس قدر زیادہ گنجائش ہے کہ حضرت رحمٰن اور اس کی تمام صفاتِ جلالیہ و جمالیہ کے لئے جگہ ہو سکتی ہے۔
۷۔ تمام پیغمبروں کے نفوسِ قدسیہ، کتبِ سماویہ، علمِ الٰہیہ اور ساری امتوں کی ایمانی روحیں آنحضرت کی ذاتِ بابرکات میں مجموع تھیں، ان تمام حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، پس اس کا مطلب یہ ہوا، کہ حضورِ اکرمؐ کا نورِ مقدّس، جس میں سب کچھ تھا، امامِ مبین میں موجود ہے۔
۸۔ یہ عظیم کائنات بہ امرِ خدا کاف و نون (کُنۡ) کے دو حرف سے وجود میں آئی ہے، اور بالآخر پھر کاف و نون میں داخل ہونے والی ہے۔
۹۔ انسان نے اپنے دل و دماغ میں عقل اور علم کو
۲۱۳
گھیر لیا ہے اور عقل وعلم نے انسان کو گھیر لیا ہے، یعنی وہ اپنی معلومات کے دائرے میں محدود ہے۔
۱۰۔ قیامت کے دن ساری زمین خدا کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ ۳۹: ۶۷۔
۱۱۔ سیاہی کی ایک دوات میں امکانی طور پر دنیا بھر کے علوم سموئے ہوئے ہیں، یعنی اس میں سے ہر قسم کی تحریر اور ہر نوع کا علم ظاہر کیا جا سکتا ہے۔
پس مذکوۂ بالا دلائل اور مثالوں سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح اور ظاہر ہو گئی، کہ امامِ مبین کے احاطۂ نورانیت میں کائنات و موجودات کا ظاہر و باطن محدود ہے، اور یہ کلیّہ الحمد للہ اس واحد خزانے کی کلید کی حیثیت رکھتا ہے، جس میں آسمانوں اور زمین کے جملہ مخفی خزانوں کی کلیدیں محفوظ ہیں، جن کا ذکر کلید میں کیا گیا ہے۔
۲۱۴
کلید نمبر ۱۹
ہر چیز کا ملکوت
سورۂ یاسین کی آخری آیت ہے کہ: فسبحٰن الذی بیدہ ملکوت کل شیء و الیہ ترجعون ۔ ۳۶: ۸۳۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور اسی کی طرف تم کو لوٹ کر جانا ہے۔
ملکوت کے معنی ہیں بادشاہی، سلطنت، روحانیت، عالمِ ارواح، عجائبات اور فرشتوں کا عالم، اور ملکوت کل شیء کا مطلب ہے ہر چیز کی روحانیت، ہر چیز کے روحانی عجائبات اور ہر چیز کی وہ روحانی شکل و صورت جو عالمِ امر میں ہے، جس میں ہر چیز مادّی اور جسمانی کیفیت کے بغیر مجرّد روحانیت میں موجود ہے، جس کی ایک مثال عالمِ خواب ہے، کہ اس کی تمام چیزیں بغیر جسم اور بغیر مادّہ کے روحانی کیفیت میں ہوتی ہیں۔
نیز اس کے معنی ہیں ہر چیز کی ملکوتی بادشاہی اور روحانی سلطنت، کیونکہ کائنات و موجودات کی ہر چیز خدا کے قبضۂ قدرت اور اس کے اختیار میں تو ہے،
۲۱۵
لیکن وہ جسمانیت و مادّیت کے عالم میں ظاہر ہے، اور لوگوں کی نگاہیں اس تک رسا ہو سکتی ہیں، اس حال کے برعکس ہر چیز کا روحانی وجود ایسا نہیں، کہ ہر شخص اس کے عجائبات کا ادراک کر سکے، پس اسی اختصاص کے سبب سے ارشاد ہوا ہے، کہ ہر چیز کی روحانیت خدا کے ہاتھ میں ہے، اور خدا کے ہاتھ سے ولئ امر مراد ہیں یعنی امامِ زمان، کیونکہ خدا کی طرف سے مومنین سے بیعت لینے والا ہاتھ پیغمبر صلعم کے بعد امامِ برحق ہی کا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا، کہ نبوّت و امامت کے واحد نور کی روشنی میں تمام چیزوں کی روحانیت کا مشاہدہ ہوسکتا ہے، پھر ان اشیاء کی حقیقتوں اور معرفتوں کے نتیجے میں خدا کی طرف رجوع یعنی اس کی معرفت کا حصول ممکن ہے، آیۂ مذکورۂ بالا میں ربطِ الفاظ کا مطلب یہی ہے۔
اس کلیۂ مبارکہ میں خدا کے ہاتھ کا ذکر ہوا ہے، لیکن صاف ظاہر ہے کہ یہاں خدا کے تصورِ سبحانیت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے، اس لئے اگر ہم خدا کے ہاتھ سے خدا کا اختیار مراد لیں یا قبضۂ قدرت سمجھیں، بہرحال اس کی آخری تاویل ولئ امر ہی کو پہنچنے کے بغیر چارہ نہیں، چنانچہ صاحبِ امر یعنی امامِ مبین علیہ السّلام کے نور میں ہر چیز کا ملکوت موجود ہے، اور ان کے نور سے کوئی چیز
۲۱۶
باہر نہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے خدا کی جانب سے اپنے وقت میں ولئ امر ہونے کے ساتھ ساتھ آسمانوں اور زمین کے ملکوت کا مشاہدہ کیا تھا، چونکہ آپ اپنے زمانے کے امام تھے، اور انہوں نے اپنے نور ہی میں دیدۂ باطن سے عالمِ ملکوت دیکھا تھا، اور آپ نے حکمت کی زبان میں فرمایا کہ جو شخص میری پیروی کرے وہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق ملکوت کا مشاہدہ کرسکتا ہے، یہ مطالب سورۂ انعام کے رکوع نہم اور سورۂ ابراہیم کے رکوع ششم میں ہیں۔ مگر ایمان و ایقان کی قوتوں کے بغیر ان حقیقتوں کے متعلق باور کرنا سخت مشکل ہے۔
قرآنِ حکیم کی کسی آیت کی حقیقتوں سے کوئی حقیقت اس وقت کماحقہٗ دلنشین ہوسکتی ہے، جبکہ اس حقیقت سے متعلق قرآنی موضوع کا بغور مطالعہ کیا جائے اور جبکہ امام کی نورانی تائید حاصل ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پیروی اور مشاہداتِ ملکوتی کے بارے میں ایک اور ارشاد یہ ہے کہ: بلاشبہ سب آدمیوں میں زیادہ خصوصیت رکھنے والے ابراہیم کے ساتھ البتہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کا اتباع کیا تھا اور یہ نبی (صلعم) ہیں اور یہ ایمان والے اور اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا حامی ہے ۔ ۰۳: ۶۸۔ یعنی سب لوگوں میں حضرت ابراہیم کے
۲۱۷
ساتھ زیادہ خصوصیت، زیادہ دوستی اور روحانیت اور نورانیت کا قریبی رشتہ رکھنے والے لوگ وہ تھے جنہوں نے حضرت ابراہیمؑ کی حقیقی معنوں میں پیروی کی تھی، جیسے آلِ ابراہیم کے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور ان کے حقیقی مومنین، نیز نبئ اکرمؐ اور امتِ محمدیہ کے اہلِ ایمان۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اتباع کی اس تعلیم سے چند حکمتیں ظاہر ہوتی ہیں، چنانچہ پہلی حکمت یہ ہے: جناب ابراہیم خلیل اللہ کی حقیقی پیروی یہ ہے، کہ آپ کے پیچھے پیچھے روحانیت و نورانیت کے اس رستے پر چلا جائے جس میں کہ انہوں نے آسمانوں اور زمین کے ملکوتی عجائبات کا مشاہدہ کیا تھا، جس کا زندہ ثبوت آلِ ابراہیم کے جملہ انبیاء وأئمّہ علیہم السّلام نیز نبئ محمد صلعم اور آپ کے خاندان کے تمام أئمّۂ اطہار علیہم السّلام ہیں۔
دوسری حکمت: حضرت ابراہیمؑ کی پیروی ہو یا کسی اور پیغمبر کی، بہرحال پیروی کی دو صورتیں ہوا کرتی ہیں، اور تیسری کوئی صورت نہیں، پہلی صورت بلا واسطہ پیروی کی ہے اور دوسری صورت بالواسطہ پیروی کی، پیغمبر کی زندگی ہی میں جو پیروی کی جاتی ہے وہ بلا واسطہ ہے اور جو پیروی پیغمبر کی وفات کے بعد اس کی کتاب اور حقیقی
۲۱۸
جانشین کے ذریعے سے کی جاتی ہے وہ بالواسطہ ہے۔
تیسری حکمت: حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی پیروی کے لئے آپ کے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیلؑ سے حضرت ابو طالبؑ تک سلسلۂ امامت جاری تھا، جس کے بغیر ابراہیمؑ کی حقیقی پیروی ناممکن تھی اور آپ کی آسمانی کتاب لوگوں کے سامنے موجود نہیں تھی۔
چوتھی حکمت: حضور اکرم صلعم اپنی بعثت سے قبل کے زمانے میں امامِ وقت کے توسط سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی پیروی کر لیا کرتے تھے۔
پانچویں حکمت: مذکورہ ارشادِ قرآنی میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ مومنوں کا ولی ہے، پس ولی کے معنی یہاں کارساز، دوست، حامی، مددگار، مختار، وارث وغیرہ جیسے بھی ہوں بہرحال اس کا مطلب یہی ہے، کہ خدا نے مومنوں کو کسی بھی زمانے میں امامِ مبین کے بغیر نہیں چھوڑا ہے، کیونکہ اس نے امامِ مبین کو ہر چیز پر حاوی اور محیط فرما دیا ہے، اس لئے ہر زمانے میں امام کی موجودگی لازم آتی ہے، جبکہ ظاہریت و جسمانیت میں ہر چیز زمان و مکان کے سوا نہیں ہو سکتی ہے۔
اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے، کہ جب امامِ مبین اپنے نورِ مقدّس سے ہر چیز پر محیط ہے، تو یہ حقیقت ہے، کہ ہر چیز کا ملکوت بھی آپ کے پاک نور میں ہے، جیسے حضرت ابراہیمؑ کی مثال سے ظاہر ہے، اور کوئی شک نہیں کہ آپ
۲۱۹
اپنے وقت میں امامِ مبین تھے، پس یہی سبب ہے، کہ قرآن کے جملہ موضوعات حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے موضوع سے وابستہ کئے ہوئے ہیں، اور آنجناب کا موضوع امامِ مبین کے عنوان کے تحت ہے۔
۲۲۰
کلید نمبر ۲۰
ہر چیز کے لئے گنجائش رحمت اور علم میں
سورۂ مومن کی ساتویں آیت میں قرآنِ مقدّس کا ارشاد ہے کہ: ربنا وسعت کل شیء رحمۃ و علما ۔ ۴۰: ۰۷۔ اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز اپنی رحمت اور علم میں سمو رکھی ہے۔
اس آیۂ کریمہ کا اشارۂ حکمت اس حقیقت کی طرف ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی زندہ رحمت نفسِ کلّی کی روحانیت ہے اور اس کا ذی حیات علم عقلِ کلّی کی نورانیت، اور روحانیت و نورانیت کے دو سمندر میں کائنات و موجودات کی تمام چیزیں ڈوبی ہوئی ہیں، یہ امرِ واقعی اس طرح سے ہے ، کہ جسمِ کلّی، جو آسمانوں ، ستاروں، سیّاروں اور تمام مادّی چیزوں کا مجموعہ ہے، نفسِ کلّ کی روحانیت میں غرق ہے اور نفسِ کلّ بمع ان تمام چیزوں کے (یعنی جسمِ کلّ کے ساتھ) عقلِ کلّ کی نورانیت میں مستغرق ہے، پس یہ ہوا ہر چیز کا رحمت اور علم میں سمو جانا۔
نیز اشیائے کائنات و موجودات کے رحمت وعلم میں سمو جانے کی ایک خاص صورت بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ
۲۲۱
تمام چیزیں اپنی ظاہری اور مادّی ہستی کے علاوہ رحمت میں روحانی طریق پر اور علم میں عقلی طور پر زندہ اور موجود ہیں، بالفاظِ دیگر ہر چیز بیک وقت تین صورتوں میں یا کہ تین مقامات پر موجود ہے، وہ جسمِ کلّ میں جسمانی طور، نفسِ کلّ میں روحانی حیثیت سے اور عقلِ کلّ میں عقلی صورت میں موجود ہے۔
اس حقیقت کی ایک روشن دلیل (کہ جس طرح ہر چیز عالمِ جسمانی میں مادّی صورت میں موجود ہے، اسی طرح وہ عالمِ ارواح میں روحانی صورت میں اور عالمِ عقول میں عقلی صورت میں موجود ہے) یہ ہے کہ ازل میں عقلِ کلّ کے قلم نے بامرِ الٰہی اپنے وجود کے عالم کی جملہ اشیاء کی روحانی یعنی زندہ تصویریں نفسِ کلّ کی لوحِ محفوظ پر اتار دی تھیں، مگر عقلِ کلّ کے عالم کی چیزیں ویسی کی ویسی اپنی اپنی جگہ پر موجود تھیں، اسی طرح نفسِ کلّ یا کہ لوحِ محفوظ کے روحانی نقوش کے مطابق اس دنیا کی جسمانی چیزیں پیدا کی گئیں، بغیر اس کے کہ لوحِ محفوظ کی چیزوں میں کوئی کمی واقع ہو۔
بیانِ مذکورۂ بالا سے نہ صرف یہ ثبوت ملا، کہ ہر چیز رحمت اور علم میں سموئی ہوئی ہے، بلکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوا، کہ رحمت نفسِ کلّ کی صفت ہے اور علم عقلِ کلّ کی صفت، نیز اس بیان سے یہ بھی ظاہر ہوا، کہ ہر چیز بیک وقت عقل، روح اور جسم میں موجود ہے، گویا عقل کا
۲۲۲
سایہ روح ہے اور روح کا سایہ جسم۔
امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے مبارک فرمان میں ہے، کہ مومنین اپنی روحوں میں فرشتے ہیں اور جسموں میں انسان، پس یہ بات قابلِ یقین ہے کہ مومنوں کی روحوں کے فرشتوں کے بھی عقلی فرشتے ہیں، جس کا ثبوت انسان کا ظاہری وجود ہے، کہ اس میں تین چیزیں ہیں، یعنی جسم، روح اور عقل۔
جب یہ مانا گیا، کہ ہر وہ چیز جو جسمانی عالم میں ہے، وہ روحانی عالم میں بھی ہے اور عقلی عالم میں بھی، اور یہ بھی تسلیم کیا گیا، کہ روحانی عالم نفسِ کلّ ہے اور عقلی عالم عقلِ کلّ، پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عالمِ انسانیت کے سردار یعنی امامِ مبین کی روح وہ روحانی فرشتہ ہے، جو نفسِ کلّ کے اسم سے موسوم ہے، اور ان کی عقل وہ عقلی فرشتہ ہے، جس کو عقلِ کلّ کہا جاتا ہے، پس اس مضمون کا لبِ لباب یہ ہے کہ امامِ مبین کی روحِ اعظم کائنات کی رحمت کا سرچشمہ ہے اور آپ کی عقلِ کامل سارے جہانوں کے علم کا منبع ہے۔
۲۲۳
کلید نمبر ۲۱
ہر چیز کا بولنا
قرآنِ مجید کی ۴۱: ۲۱ میں فرمایا گیا ہے کہ: قالوا انطقنا اللّٰہ الذی انطق کل شیء ۔ ۴۱: ۲۱۔ وہ کہیں گے کہ جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی۔
اس کلیۂ مبارکہ کی وضاحت کرنے سے قبل ہمیں نطق یعنی قوتِ گویائی کی حقیقت کے متعلق کچھ کہنا چاہئے، چنانچہ یہ جاننا ضروری ہے کہ اگرچہ بعض حکماء کے نزدیک قوتِ ناطقہ انسانی روح کا خاصہ ہے، لیکن حقیقتاً اس میں سبقت عقل ہی کو حاصل ہے، اور عقل ہی کے ذریعے سے بولنے کی طاقت روحِ انسانی کو حاصل ہوتی رہتی ہے۔
اس حقیقت کی پہلی دلیل، کہ انسانی روح کی یہ قوتِ ناطقہ عقل کے توسط سے حاصل ہوتی رہتی ہے، یہ ہے کہ عالمِ دین کی ترتیب میں سب سے پہلے اور سب سے اوپر کلمۂ باری کا مقام ہے، جس کو کلمۂ “کُنۡ” اور امرِ کل بھی کہا جاتا ہے، یہ فی المثل عالمِ دین کی قوتِ گویائی ہے، کُن کے امر سے عقلِ کلُ کا فرشتہ وجود میں آیا، جو عالمِ دین کی عقل
۲۲۴
کی حیثیت سے ہے، عقلِ کلّ سے نفسِ کلّ کا فرشتہ پیدا کیا گیا، جو عالمِ دین کی جان یعنی روح کا درجہ رکھتا ہے، اس مثال سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ روحِ ناطقہ کی تعمیر عقل سے ہوتی ہے اور عقل کی تکمیل نطق سے۔
دوسری دلیل یہ ہے، کہ انسان کے جسم کا قیام روح پر ہے، روح کی محافظ عقل ہے اور عقل کا مربی نطق۔
تیسری دلیل: عقل نطق کے بغیر نہیں ہو سکتی، جس کا ثبوت فرشتہ ہے، مگر روح نطق کے بغیر ہو سکتی ہے، جس کی مثال حیوان ہے۔
چوتھی دلیل: علم خواہ لدنی مرتبت کا ہو یا اکتسابی قسم کا بہرحال نطق کی صورت میں آسکتا ہے اور جو وحی کا اشارہ ہوتا ہے وہ بھی ایک طرح کا نطق ہے، جس کو سب سے پہلے عقل و شعور قبول کرتا ہے پھر یہ روح تک پہنچتا ہے۔
پانچویں دلیل: اگر کسی بچے کے کان شروع ہی سے سن نہیں سکتے، تو وہ بہرا کہلاتا ہے، جب وہ بہرا ہو گیا، تو اس سے گونگا بھی ہوجاتا ہے، پھر وہ اس کے نتیجے میں عقل کی دولت سے بے نصیب رہ جاتا ہے، اس کا سبب کیا ہے؟ بس یہی کہ جب وہ قوتِ سامعہ سے محروم ہوگیا، تو قوتِ ناطقہ اور عقل ودانش سے بھی محروم رہتا ہے، اس سے معلوم ہوا، کہ عقل کی تکمیل کا ذریعہ ناطقہ ہے۔
مذکورۂ بالا دلائل سے اس حقیقت کا بین ثبوت ملتا
۲۲۵
ہے، کہ جس طرح عالمِ دین میں کلمۂ باری یعنی “کُنۡ” کے امر سے عقلِ کل وجود میں آیا اور جیسے عقلِ کلّ سے نفسِ کلّ پیدا ہوا، اسی طرح مومن کے شخصی عالم میں امامِ زمانؑ کے پرحکمت فرمان سے، جو کلمۂ باری کی مثال ہے، عقلِ جزوی کو کمال حاصل ہوتا ہے، پھر ایسی عقل سے روح الایمان پیدا ہوتی ہے۔
پھر اس کے نتیجے میں مومن کے حواسِ باطن زندہ ہو جاتے ہیں، تب وہ حقائقِ اشیاء کا مشاہدہ کر سکتا ہے، کہ تمام چیزوں کی جسمانی، روحانی اور عقلی تین تین ہستیاں ہیں، ہر چیز اپنے عقلی وجود اور روحانی وجود میں بولتی رہتی ہے، اس کے علاوہ اشیاء کا ظاہری وجود بھی معجزانہ نطق سے خالی نہیں۔
چنانچہ ظاہری اور جسمانی چیزیں دو طرح سے بولتی ہیں، یعنی زبانِ حال سے اور زبانِ قال سے، مگر یہاں زبانِ حال کی کیفیت بیان کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے، ہم صرف زبانِ قال کی بات کریں گے، کہ اس کی بھی دو صورتیں ہیں، اوّل یہ کہ چیزوں کی آواز اور صوت و صدا روح القدس کے تصرف سے معجزانہ گفتگو اور ذکر وتسبیح میں تبدیل ہوجاتی ہے، دوم یہ کہ جن چیزوں کی کوئی آواز نہ ہو، ان سے ایسی معجزاتی آواز پیدا ہوتی ہے کہ اس کی کماحقہٗ توجیہہ نہیں ہو سکتی۔
جب آواز والی اور بے آواز والی جملہ چیزیں زبانِ نطق سے خدا کے ذکر و تسبیح کرنے لگتی ہیں، تو اس میں ہم
۲۲۶
ایک اعتبار سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ان چیزوں کو نطق دیا، دوسرے اعتبار سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ مومن کی اپنی روحِ ایمانی کا کرشمہ ہے، تیسرے اعتبار سے یہ بھی مان سکتے ہیں، کہ یہ روح القدس کا معجزہ ہے اور چوتھے اعتبار سے یہ کہنا بھی حقیقت ہے ،کہ یہ سب کچھ امامِ مبین کے نور کی روشنی میں کشفِ روحانیت کا عالم ہے، پس یہ تمام باتیں اپنی اپنی جگہ پر حق اور صحیح ہیں اور ان میں سے کوئی بھی غلط نہیں، کیونکہ جہاں تمام حقیقتوں کی وحدت و یگانگت کا مقام ہے وہاں کی حالت و کیفیت کے مختلف اعتبارات ہوتے ہیں۔
۲۲۷
کلید نمبر ۲۲
تمام چیزوں کے جوڑے
قرآنِ عظیم کی ۵۱: ۴۹ میں حضرت تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: و من کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون ۔ ۵۱: ۴۹۔ اور ہر چیز کو ہم ہی نے جوڑا جوڑا بنایا تا کہ تم یاد رکھو۔
جیسا کہ کلید ۹ میں بطریقِ اختصار یہ ذکر ہوا تھا، کہ تمام چیزیں جوڑی جوڑی پیدا کی گئی ہیں، چنانچہ اسی مطلب کو یہاں ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، کہ ہر چیز کی ایک ضد یا ایک مقابل ہے، جیسے مرد عورت، دن رات، روشنی تاریکی، خشکی تری، آسمان و زمین ، روحانی و جسمانی، خوشی و غم، امیری و غربت، دنیا و آخرت، وجود و عدم یا کہ ہستی و نیستی ، خلق و امر وغیرہ۔
یہاں یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ چیزوں کے جوڑے دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، ایک قسم وہ ہے جس کے ہر جوڑے کی دونوں چیزیں ایک ساتھ رہ سکتی ہیں، جیسے مرد عورت، دوسری قسم وہ ہے جس کے ہر جوڑے کی دونوں چیزیں یکجا نہیں ٹھہر سکتیں، جیسے دن رات۔
۲۲۸
چنانچہ اگر ہم اس کائنات کی بقا کو دن اور اس کی فنا کو رات قرار دیں، تو یہ بھی مذکورہ چیزوں کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا ہوگا، لیکن لازمی ہے کہ کائنات کی ہستی اور نیستی کے یہ دن رات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جاری ہوں، اور یہ حقیقت ہے کیونکہ دن رات تو ایک لا انتہا سلسلہ ہے۔
مذکورۂ بالا کلیّہ کی روشنی میں چشمِ بصیرت سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات و موجودات کے وجود و عدم کے سلسلے کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، بلکہ اس سے دائمیّت کا ایک نہایت ہی وسیع دائرہ بنا ہوا ہے، جیسے دن رات کی مثال میں کائنات کی بقا و فنا کی لاانتہا گردش کی حقیقت ثابت کی گئی، اس کے برعکس اگر ہم صرف اسی بات کو مانیں کہ پہلے خدا کے سوا کچھ بھی نہیں تھا، پھر اللہ پاک کے امر سے یہ جہان پیدا ہوا، پھر ایک دن یہ جہان فنا ہوجائے گا، تو اس عقیدہ میں تین چیزیں ہو گئیں، یعنی پہلے نیستی، اس کے بعد ہستی ، پھر نیستی، اور یہ بغیر جوڑے کی بات ہوئی، حالانکہ مذکورۂ بالا کلیے کے مطابق ایسا ہونا چاہئے، کہ ہر نیستی کے بعد ایک ہستی ہو اور ہر ہستی کے بعد ایک نیستی، کیونکہ ذاتِ سبحان کے سوا کوئی چیز بغیر جوڑے کے نہیں ہو سکتی۔
علاوہ برآن اگر ہم ہستی کو چھوڑ کر صرف نیستی کی کیفیت کے بارے میں غوروفکر کریں، تو پھر وہی حقیقت نکھر کر
۲۲۹
سامنے آتی ہے، کہ قانونِ قدرت کے تصرف سے کوئی چیز مستثنا نہیں ہو سکتی، یعنی خلقنا زوجین کے حکم کا اطلاق ہر جوڑے کی دونوں چیزوں پر برابر ہوتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہستی خدا کی بنائی ہوئی (مخلوق) ہے اسی طرح نیستی بھی اسی کی بنائی ہوئی (مخلوق) ہے، پھر جب ہم نے بحقیقت یہ تسلیم کر لیا کہ نیستی کوئی ایسی چیز یا کوئی ایسی کیفیت ہے نہیں، جو فعلِ قدرت کے تصرف کے بغیر خود بخود پائی جائے، بلکہ وہ جس حالت و کیفیت میں بھی ہو خدا ہی کی بنائی ہوئی ہے، تو اب ہمیں لازمی طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا، کہ نیستی دراصل ہستی کی بدلی ہوئی ایک صورت ہے، جس طرح رات ایک بدلی ہوئی شکل ہے دن کی، پس اس کا نتیجہ یہ ہوا، کہ ایسی کوئی نیستی نہیں جس سے پہلے ایک ہستی نہ ہو اور نہ ایسی کوئی ہستی ہے جس سے قبل نیستی نہ ہو، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ یہ ارشاد ہے کہ خدا کے امر سے جس طرح رات کے اندر دن پوشیدہ ہے اور دن کے باطن میں رات پنہان ہے، بالکل اسی طرح نیستی میں ہستی چھپی ہوئی ہے اور ہستی میں نیستی مخفی ہے۔
بعض لوگوں کے عقیدے کے مطابق عدم اور نیستی ایک لاشیٔ اور بے مسمّا اسم ہے، مگر حقیقتِ حال اس کے برعکس ہے، جیسے قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ: الذی خلق الموت والحیٰوۃ لیبلوکم
۲۳۰
ایکم احسن عملا ۔ ۶۷: ۰۲۔ یعنی خدا وہ ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا (یعنی مخلوق) کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے کام کرتا ہے۔ اس فرمانِ الٰہی سے یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے، کہ نیستی اور ہستی دونوں خدا کی مخلوقات میں سے ہیں، پس معلوم ہوا کہ نیستی ایک قسم کی مخلوق ہے جس کو خدا نے ہستی سے پیدا کیا ہے۔
ہم نفی اور اثبات کی دونوں حقیقتوں کو تسلیم کر لیتے ہیں، وہ یہ کہ بلا شک وشبہ ہر چیز فنا تو ہوہی جاتی ہے، مگر فنا ہی سے پھر وہی چیز پیدا کی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا پاک فرمان ہے کہ: کیف تکفرون باللّٰہ و کنتم امواتا فاحیا کم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون ۔ ۰۲: ۲۸۔ کیونکر تم خدا کا انکار کرسکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تم کو زندہ کیا پھر تم کو موت دے گا اور پھر زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔
اس آیۂ کریمہ کی حکمت میں آپ ذرا ذہنی اور فکری صفائی کے ساتھ سوچئے، تو معلوم ہو گا، کہ انسان کی روح قدیم ہے، اس کی روحانی اور جسمانی زندگی بے پایان ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا ارشاد میں فرمایا گیا ہے، کہ انسان بارہا بقا و فنا کے تجربات سے گذرتا رہا ہے، وہ ایک
۲۳۱
زمانے میں خدا کے حضور میں تھا، جہاں اس کے لئے حقیقی بہشت تھی، مگر وہ وہاں سے حضرت آدمؑ کی طرح کسی بہانے سے نکل کر دنیا میں آیا، اور پھر آخر کار وہ لوٹ کر وہاں جانے والا ہے، خدا کے حضور جانا بہشت کے بغیر نہیں، اور نہ بہشت خدا کے حضور کے بغیر ہے۔
اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام چیزوں کے جوڑے ہیں اور ہر جوڑے سے ایک دائرہ بنتا ہے، جیسے دن رات کا ایک دائرہ ہے اسی طرح کائنات کی ہستی و نیستی کا بھی ایک دائرہ ہے جو سب سے بڑا دائرہ ہے، اور موجودات و مخلوقات اسی دائرے پر بقا و فنا سے گذرتی ہوئی گردش کرتی رہتی ہیں۔
الحمد للہ علیٰ احسانہ، کہ یہ تمام حکمت کی باتیں امامِ مبین کی معرفت کے خزانے میں موجود ہیں، اور اس معرفت سے کوئی چیز باہر نہیں، پس مومن کو چاہئے کہ وہ امام شناسی میں کامل ہو جائے، اور امام شناسی کی کتابوں کو اصول کے مطابق پڑھتا رہا کرے، تاکہ اس کے دل میں اسرارِ امامت کی روشنی پیدا ہو جائے۔
و السلام
۲۳۲