دیوانِ نصیری
(اردو)
کتاب کے حقوق
بسمِ اللہ الرحمٰنِ الرحیمِ ۔اللّٰھم انی اسئلک باسمائِک الحسنی
اس کتاب ــ “دیوانِ نصیری (اردو)” کے جملہ حقوق محفوظ ہیں، بنامِ عزیزترازجانم حُبِّ علی ثانی ابنِ امین الدین ہونزائی ابنِ ایثار علی (مرحوم) ابنِ علاّمہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی (ایس۔آئی) ابنِ خلیفہ حُبِ علی اوّل ابنِ خلیفہ محمد رفیع ابنِ فولاد بیگ ابنِ شمشیر بیگ۔
دیوانِ ہٰذا کی تمام نظموں میں عشقِ سماوی کی دولتِ لازوال بھری ہوئی ہے، الحمدُ للہ ! حضرتِ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ نے اپنے ایک پاک فرمان میں جماعت کی اس مدح خوانی کو شَرفِ قبولیت عطا فرمایا ہے، اور اہلِ دانش کے نزدیک یہ مولائے پاک کے نورِ لطف و محبت کی روشنی ہے جس کی پیش گوئی بمبئی ۱۰ مارچ ۱۹۴۰ء میں ہوئی تھی، امامِ عالی مقامؑ کی ہر پیش گوئی ظہور پزیر ہوکر رہتی ہے، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا یہ فرمانِ مبارک کتابچۂ حکمتِ تسمیہ کے آغاز میں محفوظ ہے۔
نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
منگل ۳،اپریل ۲۰۰۱ء
ISBN 190344032-7
Published by:
International Book House Gilgit
شاہِ شاہانِ دو عالم قائمِ آلِ نبی
پرنس علی سلمان یقیناً نورِ یکتا بای علی
کراچی،ہفتہ ۱۰،اپریل۲۰۰۴ء
ج
حضرتِ قائم ؑ=جانانِ عاشقان
کیا خوب ہے بہارِ دل و جانِ عاشقان!
از نورِ پاکِ حضرتِ جانانِ عاشقان
قائم شناس جو بھی ہے وہ کامیاب ہے
اجر و ثواب اُس کے لئے بے حساب ہے
کراچی،بدھ،۱۴،اپریل ۲۰۰۴ء
د
آغازِ کتاب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ دیوانِ نصیری (اردو )بھی بارِاوّل منظرِ خاص و عام پر آگیا، ہم علیُّ الوقتؑ کی عنایاتِ بے نہایت کے لئے ہمیشہ محتاج ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ صاحبِ فضل و کرم اسے اہلِ ایمان کے لئے نافع بنائے آمین! آج کل ہمارے عزیزان نئی کتابوں میں بہت زیادہ محنت سے کام کرتے ہیں،مجھے یقین ہے کہ حضرتِ قائم علیٰ ذکرہ السّلام انہیں علمِ لدنّی کی دولت سے مالا مال فرمائے گا، کیونکہ علمی خدمت کرنے والوں پر وہ شاہِ شاہان بے حد مہربان ہے۔
خانۂ حکمت میں خدمت کرنے والے، ان شاء اللہ بہشت کے تاجدار ہوں گے، یہ حضرات بہشت میں دعوتِ حق کا کام کریں گے۔یہ قرآنی تاویل ہے۔(۲۴: ۵۵)۔
اے عزیزان!آپ قائمؑ شناسی میں کامل ہوجانا، سلمان غریبم قلبِ تو اللہ ُ مولانا علیؑ کی حکمتوں کو سمجھ لینا۔ یہ وہ نورانی خزانہ ہے جس کی طرف سے دوستوں کو گویا اعلان ہوا کہ ہر حقیقی عاشق اس خزانے کو حاصل کرے کیونکہ یہ خزانہ بڑا عجیب و غریب ہے کہ یہ قلب بھی ہے اور
ہ
نورِ قلب بھی اور اللہ ُ مولانا علیؑ کا سِرِّ اعظم بھی ہے۔
ز نورِ اُو تُو ہستی ہمچو پرتو
حجاب از پیش بردار و تو اُو شَو
آن دشمنِ خورشید ، برآمد بر بام
دودیدہ ببست و گفت خورشید بِمرد
گلشنِ خودی صفحہ ۲۳۔
نصیر الدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی
بدھ،۷ ،اپریل ۲۰۰۴ء
و
حضرتِ آدم ؑ اور بنی آدم کا تجدُّد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ دیوانِ نصیری (اردو) کا انتساب اپنے آباوامَّہات کے اسماء پر لکھنے کے لئے سوچ رہا تھا پھر اچانک ایک انقلابی خیال آیا، وہ یہ کہ عظیم روحانی قیامت کی وجہ سے آدمؑ اور بنی آدم کا تجدّد ہوچکا ہے ، جس سے بہت سے اسرار کا انکشاف ہوا ہے۔
دیوانِ نصیری (اردو) کی اشاعت سے دانش گاہِ خانۂ حکمت کی نیکنامی میں (ان شاء اللہ) مزید اضافہ ہوگا، اور سب کچھ علیُّ الوقتؑ کا علمی معجزہ ہے، حضرت قائم علی ذکرہ السّلام اس باطنی ادارے پر بے حد مہربان ہیں۔ ایچ۔ڈی۔ برانچ حضرت قائمؑ کا ایک خاص معجزہ ہے، میں نے اس نوروز کے قریب ایک نورانی خواب دیکھا ہے، جس کا تاویلی خلاصہ یہ ہے کہ حضرتِ قائم علیہ افضل التحیۃ و السّلام خواتین وغیرہ کی گریہ و زاری سے ایک بڑا مفید عالمی پاور کا معجزہ بنانے والے ہیں۔
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیت نیز کتابِ قائمؑ شناسی “اللہ ُ مولانا علیؑ” کے عظیم معجزات میں سے ہیں۔
نصیر الدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی
منگل ، ۶ ، اپریل ۲۰۰۴ء
ز
انتساب
نورالدّین مومن ابنِ قاسم علی ابنِ وزیر علی
والدۂ ماجدہ لاڈچی بائی زوجۂ قاسم علی
۵ جون ۱۹۶۲ء
الماس مومن بنتِ کریم ابنِ ولی محمد
والدۂ ماجدہ نور بانو زوجۂ کریم
۱۲، دسمبر ۱۹۶۷ء
زین العابدین ابنِ نورالدّین ابنِ قاسم علی
۷ اپریل ۱۹۹۱ء
کتابِ لعل و گوہر کے شروع میں بھی انہی ارضی فرشتوں کے نام پر انتساب ہے، خانۂ حکمت کے تمام عزیزان کو حضرتِ قائمؑ سلاطینِ جنّت بنارہے ہیں، بہشت کی خلافت و سلطنت کے مقابلے میں دنیا کی سلطنت ہیچ ہے۔
خانۂ حکمت کے مومنین و مومنات سے حضرتِ قائم علی ذکرہ السّلام نے عالمِ شخصی میں جو کچھ وعدہ فرمایا ہے، اس کے لئے دیکھ لو (۲۴: ۵۵) وغیرہ۔
نصیر الدّین نصیرؔ (حُبِ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی، جمعرات، ۸ اپریل ۲۰۰۴ء
ح
نذرانۂ عقیدت
بموقع تشریف آوریٔ امامِ زمان شاہ کریم الحسینی صلوات اللہ علیہ
اے مظہرِ نورِ خدا اھلاً و سہلاً مرحبا
اے آلِ پاکِ مصطفیٰ اھلاً و سہلاً مرحبا
خورشیدِ انوارِ ہُدا سلطانِ ملکِ انّما
اے جانشینِ مرتضیٰ اھلاً و سہلاً مرحبا
تشریف فرما جب ہوئے قرآنِ ناطق اس طرف
روح الامین کہنے لگا اھلاً و سہلاً مرحبا
دیدارِ اقدس کیلئے ہم دیر سے تھے تشنہ لب
اے چشمۂ آبِ بقا اھلاً و سہلاً مرحبا
جب یارِ جانی آ گئے جانیں ہوئیں سب فرشِ راہ
نکلی دلوں سے یہ صدا اھلاً و سہلاً مرحبا
سلطانِ عزت آ گیا دریائے رحمت آ گیا
با صد عنایات و سخا اھلاً و سہلاً مرحبا
خورشیدِ راحت آ گیا اب ظلمتِ غم مٹ گئی
اے دلِ کہا کر برملا اھلاً و سہلاً مرحبا
کرتے ہیں سر خم ہو کے سب تسلیم و تعظیم و ادب
پڑھتے ہوئے صَلِ علیٰ اھلاً و سہلاً مرحبا
اے علم و حکمت کے چراغ اب آپ کی تشریف سے
ہر دل منور ہو گیا اھلاً و سہلاً مرحبا
امید کے غنچے کھلے ارمان کے موتی ملے
احسان ہے یہ آپ کا اھلاً و سہلاً مرحبا
مسرور و نازان ہو گئے شادان و خندان ہو گئے
یہ آپ کے اہلِ وفا اھلاً و سہلاً مرحبا
جب آپ گویا ہو گئے موتی بکھر جانے لگے
اے گنجِ اسرارِ خدا اھلاً و سہلاً مرحبا
یہ کیا کرشمہ ہو گیا مٹی سے سونا بن گیا
یہ کیمیائے عشق تھا اھلاً و سہلاً مرحبا
اک دل نیا سا مل گیا اک جان نئی سی آ گئی
اب ہم میں اے نورِ خدا اھلاً و سہلاً مرحبا
۱
سب اہلِ دل مخمور ہیں اس وصلِ نورانی سے اب
اے رہبرِ صدق و صفا اھلاً و سہلاً مرحبا
یہ دل ہے یا گلشن ہے یہ ، اتنی خوشی ایسی خوشی
اے جانِ جان ، روحی فدا اھلاً و سہلاً مرحبا
میری خوشی کا یہ سماں بیدار ہوں یا خواب میں!
یا یہ کہ میں بے خود ہوا اھلاً و سہلاً مرحبا
مستی ہے یا پستی ہے یہ ، ،ہستی ہے یا کیفِ فنا!
یہ ارض ہے یا ہے سماء اھلاً و سہلاً مرحبا
یہ وصلِ جانان کی شراب فکر و نظر کا انقلاب
یہ دردِ الفت کی دوا اھلاً و سہلاً مرحبا
یہ محفلِ بزمِ لقا یہ منظرِ نور و ضیا
یہ جامِ عشقِ جانفزا اھلاً و سہلاً مرحبا
دیدار کی گفتار کی یہ لذّتیں یہ راحتیں
سب آپ ہی کی ہیں عطا اھلاً و سہلاً مرحبا
مقصودِ رب العالمین محبوبِ شاہِ مرسلین
اے ہادیٔ راہِ ھدا اھلاً و سہلاً مرحبا
اے سرورِ روئے زمین اے بادشاہِ ملکِ دین
اے دل نشین و دل رُبا اھلاً و سہلاً مرحبا
حبلِ خدائی آپ ہیں اے مقتدائے مومنان
اے شہسوارِ لافتیٰ اھلاً و سہلاً مرحبا
اے پیکرِ حسن و جمال اے صورتِ وصفِ کمال
آئینۂ ایزد نما اھلاً و سہلاً مرحبا
اے وارثِ دینِ نبی اے والیٔ ملکِ وصی
اے صاحبِ حوض و لوا اھلاً و سہلاً مرحبا
تو کون ہوتا ہے نصیرؔ جو شاہ کی مدحت کرے
چپ ہو کے سن سب کی ذرا اھلاً و سہلاً مرحبا
صفر ۱۳۹۶ ھ، فروری ۱۹۷۶ء
۲
دعوتِ غوروفکر
مقصدِ کائنات کیا ہو گا ؟
سِرِّ سِرِّ حیات کیا ہو گا ؟
کب سے دونوں جہان ہوئے قائم ؟
پھر کبھی یہ ثبات کیا ہو گا ؟
جز خدا کلِّ شئ تو ہالک ہے
عالم شش جہات کیا ہو گا ؟
کیا ہلاکت فنائے کلّی ہے؟
یا فنائے صفات ، کیا ہو گا ؟
ہے تصوّر میں کوئی ایسی مثال ؟
منظرِ کائنات کیا ہو گا ؟
عدل و رحمت کا کیا تقاضا ہے ؟
حق کا وہ التفات کیا ہو گا ؟
خود شناسی ہے گر فنائے “انا”
ماورائے ممات کیا ہو گا ؟
۳
معرفت ہی رہے گی یا عارف ؟
یا فقط ذاتِ ذات ، کیا ہو گا ؟
معرفت کی کوئی بقا بھی ہے ؟
ورنہ یہ تُرّہات ، کیا ہو گا ؟
کیا دران حال بھی دوئی ہو گی ؟
ہے کوئی ایسی بات ؟ کیا ہو گا ؟
کیا بتوں کو دکھائے جائیں گے ؟
حالِ لات و منات کیا ہو گا ؟
حالِ مطلق جواب کلّی ہے
حالِ بعدِ وفات کیا ہو گا ؟
اپنے انجام کی خبر ہے نصیر ؟
سرِّ سرِّ نجات کیا ہو گا ؟
۴
تجلّیات
دل میں جب میں نے وہ صنم دیکھا
جسمِ کلّی کا کیف و کم دیکھا
میرے چشم و چراغ جب آئے
ہستی و نیستی بہم دیکھا
جب مرے دل کی آنکھ میں وہ بسے
لوحِ محفوظ تا قلم دیکھا
میری ہستی پہ برقِ نور گری
میں ہوا نیست پھر عدم دیکھا
میں نے اس نیستی پہ غور کیا
نہ کوئی خوف ہے نہ غم دیکھا
مایۂ علم ہے حصولِ فنا
ایسے عشاق میں نے کم دیکھا
ہے کوئی اہلِ دل تو سن لے حال
میں چلا دو قدم حرم دیکھا
ہے کوئی داستانِ رنج و عنا
جس طرح میں نے وہ ستم دیکھا
پھر ستم ہی سے میری آنکھ کھلی
محفلِ دل میں جامِ جم دیکھا
نغمۂ روح تھا کہ بادۂ جان
جس کی مستی میں زیر و بم دیکھا
جب سے نورِ نبیؐ طلوع ہوا
حلقۂ فقر نے کرم دیکھا
میں نے علم و عمل کی دنیا میں
ہر جگہ شاہِ محتشم دیکھا
عاشقِ نور کیوں نہ شاد رہے
جب تخیّل میں ہی اِرم دیکھا
یہ تعجب ! کہ ذاتِ قطرۂ ہیچ
چشمِ باطن سے میں نے یم دیکھا
عکسِ خورشیدِ نورِ عالمِ دل
جس نے دیکھا ہے صبحدم دیکھا
۵
مُصحفِ عشق میں تو کیا پڑھتا
خود حروف و نُقط میں فم دیکھا
جس طرف بھی مری نگاہ گئی
عشق کا خیمہ و عَلم دیکھا
جب مجھے ذوقِ عشقِ نور ملا
دل میں فردوس کے نِعَم دیکھا
سایۂ عشق ہے نصیر نہیں
دل میں جب اس نے وہ صنم دیکھا
۶
ایک تازہ جہان
عارف نے سنو دل میں اک تازہ جہان دیکھا
ہے جس کی طلب سب کو وہ گنجِ نہان دیکھا
یہ رازِ نہانی ہے اور ربّ کی نشانی ہے
آئی ہے جہاں سے جان وہ عالمِ جان دیکھا
ہاں نورِ ازل ہے وہ اور سِرِّ ابد ہے وہ
واں سب سے نہان دیکھا یاں سب سے عیان دیکھا
اسرارِ کتابُ اللہ انوارِ دلِ عارف
قرآنِ مقدّس میں اک گنجِ نہان دیکھا
جب آنکھ کھلی دل کی اسرار نظر آئے
حیرت زدہ ہوں بیحد جب گوہرِ کان دیکھا
میں اس میں؟کہ وہ مجھ میں؟ یہ سرِّ قیامت ہے!
ہاں برقی بدن میں تھا جب شاہِ شہان دیکھا
جب برق سوار آیا تب باب کھلا از خود
میں مرکے ہوا زندہ جب شاہِ زمان دیکھا
۷
عشاق سے میں اس کے قربانِ مسلسل ہوں
روحانی قیامت میں جب جانِ جہان دیکھا
اشعارِ نصیری میں اسرارِ نہانی ہیں
شاید کہ کبھی اس نے وہ نورِ قران۱ دیکھا
گزشتہ تاریخ: ہفتہ ۲۶، مئی ۲۰۰۱ء
موجودہ تاریخ: پیر ۲۲، ستمبر ۲۰۰۳ء
فٹ نوٹ: ۱وزن کو برابر کرنے کی غرض سے مدِّ الف کو حذف کیا گیا ہے۔
۸
ظہورات و تجلّیاتِ علیؑ
میں نے ہاں صِین میں علیؑ دیکھا
شکرِ حق چین میں علیؑ دیکھا
اس کا ہمسر نہیں ہے دنیا میں
نورِ یکتا ہے دین میں علیؑ دیکھا
نہ فقط ظاہراً علیؑ دیکھا
بلکہ حق الیقین میں علیؑ دیکھا
تو غریقِ بحرِ قرآن ہو کے دیکھ
حکمتِ برترین میں علیؑ دیکھا
عرش اک نور ہے کہ ہے وہ مَلک
سرِّ عرش برین میں علیؑ دیکھا
سین کو سر جھکا جھکا کے سلام!
میں نے اس سین میں علیؑ دیکھا
سین ہی ہے ہمارے دل کا سراج
میں نے پھر سین میں علیؑ دیکھا
شین کا شکریہ کروں گا سدا
میں نے حقّا کہ شین میں علیؑ دیکھا
۹
کون ہے نورِ جَبہۂ عارف
عارفوں نے جبین میں علیؑ دیکھا
وہ شہنشاہ ہے دونوں عالم میں
میں نے ہاں صین میں علیؑ دیکھا
رازِ نورِ مبین میں علیؑ دیکھا
رمزِ حبل المتین میں علیؑ دیکھا
عرش پانی پہ اس پہ مولا تھا
ایسے خوابِ حسین میں علیؑ دیکھا
اے نصیرِ ضعیف سب کو بتا
“میں نے ہاں چین میں علیؑ دیکھا”
ذوالفقار آباد، گلگت
منگل ۲۸،اکتوبر ۲۰۰۳ء
۱۰
ڈائمنڈ جوبلی
!(۱۹۴۶) کی رنگین و پر بہار یادیں
جس گھڑی شاہ علیؑ جانبِ میدان آیا
میرا دل کہنے لگا دیکھ کہ جانان آیا
رسنِ نورِ خدا سلسلۂ آلِ رسولؐ
شاہ علیؑ نام رکھا پھر شہِ مردان آیا
کثرتِ نورِ خدا کوئی تصور نہ کرے
نورِ یکتا ہے علیؑ بہرِ مریدان آیا
غمِ دل دور ہوا اُن کے تبسم سے مجھے
چمنِ آلِ نبیؐ کا گلِ خندان آیا
محوِ دیدار ہوئے اہلِ حقیقت یکسر
وارثِ مسندِ دین عالِمِ قرآن آیا
ان کے قدموں سے فدا کاش مری جان ہوتی!
جانبِ غرب سے اب یوسفِؑ کنعان آیا
مٹ گئی دل کی عنا اب غمِ وحشت نہ رہا
خانۂ دل میں مرا خضرؑ ہے مہمان آیا
۱۱
مست و بیخود ہیں مرید جامِ عقیدت پی کر
نورِ چشمِ شہِ دین حضرتِ سلطان آیا
عالمِ حسن و جوانی کو مُسخر کر کے
شاہِ خوبانِ جہان پرنس علی ایس خان آیا
لذّتِ عشق میں ہے حکمتِ عالم پنہان
دردِ الفت ہے مجھے مایۂ درمان آیا
سرِ تسلیمِ نصیرؔ خاک پہ تھا بہرِ نیاز
مجلسِ خاص میں جب اشرفِ انسان آیا
ایڈیٹنگ کی تاریخ: ۵، مئی ۲۰۰۱ء
۱۲
امامِ حاضرؑ کی تشریف آوری
مبارک سرورِ آلِ نبیٔ آخرین آیا
زمانے کا امامِ حق علیؑ کا جانشین آیا
ہوا جس نور سے عالَم برنگِ علم و فن روشن
مجسم بن کے عقلِ کلّ بشکلِ شاہِ دین آیا
وہ تاج و تختِ ملت کا شہِ مختارِ بااِجلال
حسینِ ظاہر و باطن ، نگارِ دل نشین آیا
لقب ہے نور مولانا کریم و اکرم و مکرم
جو حا و قاف و جیم و کاف کا حق الیقین آیا
یہ ان کا دورِ روحانی مبارک اے جہان والو
یہی ہے مہدیٔ موعود امام المسلمین آیا
کلامِ جانفزا ان کا جو سن سکتا مبارک ہو
وہ گنجِ گوہرِ علمِ حقائق کا امین آیا
صفاتِ کبریائی کا وہی آئینۂ مظہر
تجلّائی خدائی کا وہی عکسِ مبین آیا
۱۳
کمالِ عزِ انسانی ہے نورِ پاک سبحانی
جبین سے نور چمکاتا ہوا وہ مہ جبین آیا
دو عالم کے حسینوں کا شہنشاہِ سرور انگیز
جمال و حسن کا یکتا وہ رشکِ حورِ عِین آیا
یہ وہ نورٌ علیٰ نور اس خدائے پاک و یکتا کا
بلااوّل بلاآخر امامِ آخرین آیا
سُرورِ عیشِ روحانی یہیں سے ابتدا کر لوں
وہ شمعِ بزمِ وحدت ، ساقیٔ خلدِ برین آیا
خدا کا نور ہے الحق نہیں کوئی نظیر اس کا
وہ نورِ لامکانی جانِ عاشق کا مکین آیا
ہمارے رہبرِ دانا امامِ حیّ و حاضر ہے
دلوں کو خود قرین ہی تھا عیاناً بھی قرین آیا
ترا دامانِ اطہر ہے مثالِ عُروۃ الوثقیٰ
بلا فصلِ نسب تو معنیٔ حبل المتین آیا
نیازی میں نصیر الدین فتادہ ہے تیرے در پر
حصولِ عیش سرمد کا یہیں سے ہے یقین آیا
۱۴
دربارۂ توصیفِ کتاب
آفتاب و ماہتاب و چرخِ اخضر ہے کتاب
چشمۂ آبِ حیات و آبِ کوثر ہے کتاب
حسن و خوبی میں یگانہ دلکشی میں طاق ہے
باغ و گلشن کی طرح اک خوب منظر ہے کتاب
بے مثال و لازوال انمول تحفہ علم کا
اے عزیزان لے کے رکھنا گنجِ گوہر ہے کتاب
میں جہاں بھی رہ چکا دن بھر کتابوں میں رہا
بس مرا گھر ہے کتاب اور میرا دفتر ہے کتاب
اک جہانِ علم و حکمت ہے کتابِ مُستطاب
ہے اگر قرآن سے پھر سب سے برتر ہے کتاب
آیۂ قَد جَائَ کُم (۰۵: ۱۵) کو پڑھ لیا کر جانِ من!
نورِ حق کی روشنی میں سب کو رہبر ہے کتاب
تو ہے بھیدوں کا صحیفہ تو ہے کنزِ لامکان
قولِ مولانا علیؑ ہے: تیرے اندر ہے کتاب
ہے کتابِ حق تعالیٰ باتَکَلم ہر جگہ
ظاہر و باطن میں دیکھو میرا حیدر ہے کتاب
۱۵
معجزے ہی معجزے قرآنِ ناطق سے سنو
آج مولائے زمانہ ، روزِ محشر ہے کتاب
نورِ ایمان نورِ ایقان نورِ علم و معرفت
سر بسر انوار کی دولت سے بھر کر ہے کتاب
اس بہشتِ معرفت میں کیا نہیں ہے جانِ من!
کانِ راحت جانِ لذّت شہد و شکر ہے کتاب
مثلِ یارِ دلنشین محبوب ہے مجھ کو کتاب
دل کشا ہے جانفزا ہے روح پرور ہے کتاب
جب قلم لیتا ہوں آتا ہے تجلّی بن کے وہ
یہ نوازش ہے اسی کی تب میّسر ہے کتاب
باغ و گلشن کی سیاحت میں ذرا سا حظ تو ہے
سیرِ علمی کے لئے بس سب سے بہتر ہے کتاب
اے نصیر الدین تجھ کو سرِّ اعظم یاد ہے ؟
عالمِ علوی میں تنہا ایک گوہر ہے کتاب
ہفتہ ۷ جمادی الثانی ۱۴۲۰ھ ۱۸، ستمبر ۱۹۹۹ء
۱۶
زمزمۂ خدمت
یارو ! نہ فراموش کرو آیۂ خدمت
کونین میں ملتا ہے سدا میوۂ خدمت
خدمت کا شجر میوۂ شیرین سے لدا ہے
اور راحتِ جان سے ہے بھرا سایۂ خدمت
احباب ہزاروں کو میں تحفہ کیا دوں ؟
اک تحفۂ کلّی ہے خوشا ! تحفۂ خدمت
سردار جو دانا ہے وہ قوم کا خادم ہے
ہر شخص نہیں جانتا یہ مرتبۂ خدمت
جنّت کا خزانہ ہے جنت کا ترانہ ہے
یہ ولولۂ خدمت یہ زمزمۂ خدمت
خدمت جو عبادت ہے تو تب قبلہ بھی ہو گا
مولائے زمانہ ہے مرا قبلۂ خدمت
ہر چند کہ دنیا میں نعمات بہت سی ہیں
لیکن مزۂ خدمت ! یکتا مزۂ خدمت
کہتا ہے نصیر الدین اے لشکرِ ایمانی!
جاری ہی رکھو دائم یہ سلسلۂ خدمت
بدھ یکم اگست ۲۰۰۱ء
نوٹ: آیۂ خدمت =سورۂ محمد ۴۷: ۷
۱۷
اِستِمداد
المدد یا شاہِ مردان المدد!
المدد اے سرِّ یزدان المدد!
مظہرِ حق بادشاہِ ملکِ دین
اے کلیدِ گنجِ قرآن المدد!
تو امامِ حیّ و حاضر ہے بحق
نورِ سلطان نورِ سلمان المدد!
علم پانی اور تو ہی عرش ہے
اے سفینۂ نورِ رحمان المدد!
یا علیُ الوقت مولانا کریم
المدد یا شاہِ دوران المدد!
اے شہنشاہِ دُو عالم تاجدارِ نورِ حق
گنج بخشِ اسمِ اعظم جان و جانان المدد!
اسمِ اکبر ہے خدا کا تو امامُ المتقین
اے تو قرآنِ مجسم شاہِ شاہان المدد!
تیرے در پر سر رکھا ہے یہ نصیرِ بیقرار
عذر خواہان ہوگیا ہے اور گریان المدد!
منگل۱۸، نومبر ۲۰۰۳ء
۱۸
یہ تیرا عشق
یہ تیرا عشق مجھے ہے شراب سے بہتر
شمیمِ کوچۂ جانان گلاب سے بہتر
تم آ کے دل میں رہو میں حجاب ہو جاؤں
تو پھر بھی کیسے بنوں اس حجاب سے بہتر؟
وہی ہے گنجِ کرم اور وہی ہے کانِ عطا
نہیں ہے کوئی سخی آن جناب سے بہتر
ترا خیالِ حسین مجھ کو خوابِ راحت ہے
ہے کوئی خواب کہیں میرے خواب سے بہتر؟
جمال و حسن ترا اک کتابِ قدرت ہے
نہیں ہے بشری کتاب اس کتاب سے بہتر
اگرچہ چاند ستاروں میں مثلِ سلطان ہے
ہے میرے دل کا حسین ماہتاب سے بہتر
سوال ایسا کیا جس میں گنجِ حکمت ہے
کہ عقل جس کو کہے : ہر جواب سے بہتر
۱۹
زوالِ عہدِ جوانی سے مجھ کو غم نہ ہوا
کہ فکر و عقلِ کُہن سال شباب سے بہتر
خطابِ عشق و فنا گر کرے زراہِ کرم
یہی خطاب مجھے ہر خطاب سے بہتر
یہ دردِ عشق کی تلخی عجیب شیرین ہے
شرابِ عشق ہے یہ ہر شراب سے بہتر
عتاب میں بھی تجلّی تری عجیب و غریب
نہیں ہے کوئی عطا اس عتاب سے بہتر
وہی ہے نورِ ازل آفتابِ عالمِ دل
ہزار درجہ وہ اس آفتاب سے بہتر
حبابِ دل چہ عجب بحر اس پہ عرشِ خدا!
نہیں ہے بحر کوئی اس حباب سے بہتر
سنو کہ میرا صنم ہے بتوں کا شاہنشاہ
نہیں ہے کوئی مرے انتخاب سے بہتر
بگڑ گیا ہے اگر باغ پھر خراج نہیں
خرابِ عشق ہوں میں ہر خراب سے بہتر
عذابِ عشق نصیرا چہ خوب جنّت ہے!
یہی عذاب مجھے ہر ثواب سے بہتر
کراچی
گزشتہ تاریخ: جمعرات ۲۰، اگست ۱۹۹۸ء
موجودہ تاریخ: بدھ ۲۴،مئی ۲۰۰۳ء
۲۰
نوروزنامہ
مژدۂ نوروز
مارچ ۱۹۸۶ء
یہاں یہ نورِ یزدان ہے یہی ہے مژدۂ نوروز
کہ یہ خود روحِ قرآن ہے یہی ہے مژدۂ نوروز
یہ وہ نوروز ہے گویا خدا نے کر دیا برپا
اسی دن خیمۂ خضرا یہی ہے مژدۂ نوروز
ہوئی جس دن زمین پیدا وہی نوروزِ ارضی تھا
کہ ہر تارا ہے اک دنیا یہی ہے مژدۂ نوروز
ازل نوروزِ عقلی ہے الست نوروزِ روحی ہے
جنم نوروزِ ذاتی ہے یہی ہے مژدۂ نوروز
بمنشائے خداوندی پیمبرؐ نے علیؑ کو دی
امامت بھی نیابت بھی یہی ہے مژدۂ نوروز
علیؑ نورِ امامت ہے شہنشاہِ ولایت ہے
وہ بابِ علم و حکمت ہے یہی ہے مژدۂ نوروز
۲۱
وہی نوروز کا سلطان وہی ہے جان اور جانان
وہی ہے مایۂ ایمان یہی ہے مژدۂ نوروز
فروغِ صبح صادق ہے بہارِ جانِ عاشق ہے
وہی قرآنِ ناطق ہے یہی ہے مژدۂ نوروز
امامِ انس و جان ہے وہ ضیائے لامکان ہے وہ
کہ مولائے زمان ہے وہ یہی ہے مژدۂ نوروز
ظہورِ عالمِ ملکوت وہ نورِ عالمِ جبروت
وہ گنجِ گوہرِ لاہوت یہی ہے مژدۂ نوروز
قبائے انما اس کی ردائے ھل اتٰی اس کی
عطائے کبریا اس کی یہی ہے مژدۂ نوروز
وہی ہے بحرِ گوہر زا جمال و حسن کی دنیا
کتابِ عالمِ بالا یہی ہے مژدۂ نوروز
جہاں محبوبِ جان آیا وہ بن کر اک جہان آیا
اسی میں لامکان آیا یہی ہے مژدۂ نوروز
ترا دل جب منور ہو درخشان مثلِ خاور ہو
نشیمن گاہ مظہر ہو یہی ہے مژدۂ نوروز
خیال و فکر روشن ہو نظر اک باغ و گلشن ہو
طلب بھی گل بدامن ہو یہی ہے مژدۂ نوروز
۲۲
نویدِ جان فزا آئی امامت کی دعا آئی
مسرّت کی ہوا آئی یہی ہے مژدۂ نوروز
جو اک خورشیدِ تابان ہے وہی سلطانِ خوبان ہے
وہی پیدا و پنہان ہے یہی ہے مژدۂ نوروز
اگر مولا سے الفت ہے اگر اعزازِ خدمت ہے
یہی توفیق و ہمّت ہے یہی ہے مژدۂ نوروز
اطاعت کر عبادت کر درِ مولا کی خدمت کر
اسی سے تو محبّت کر یہی ہے مژدۂ نوروز
اگر وہ تجھ کو خدمت دے اسی کے ساتھ ہمّت دے
محبّت دے بصیرت دے یہی ہے مژدۂ نوروز
اسی خدمت میں حکمت ہے اسی میں تیری عزّت ہے
یہی اک زندہ دولت ہے یہی ہے مژدۂ نوروز
نصیرا! تو نہیں تنہا گدائے کوچۂ مولا
یہاں ہے اک جہان شیدا یہی ہے مژدۂ نوروز
مارچ ۱۹۸۶ء
۲۳
رازِ عشق
یا الٰہی! تو عطا کر دے مجھے فیضانِ عشق
تا کہ ہو جاؤں ہمیشہ بندۂ سلطانِ عشق
میں گدا ہوں اس کے در کا اور مریضِ عشق بھی
یا طبیبِ آسمانی! دے مجھے درمانِ عشق
اے حسینِ بے مثال! اے نورِ عشقِ باکمال!
جان فدا ہو تجھ سے ہر دم چونکہ تو ہے جانِ عشق
شاہِ خوبانِ دو عالم! نورِ چشمِ عاشقان!
غیرتِ حور و پری ہے جانِ عشق جانانِ عشق
ماہِ من! اے شاہِ من! تو حکم فرما دیجئے
ہے قبولِ جان و دل تیرا ہر فرمانِ عشق
یہ نہیں معلوم مجھ کو راز کیا ہے؟ رمز کیا؟
اس لئے ہوں میں ہمیشہ والہ و حیرانِ عشق
میں نہیں تنہا غریق تیرے بحرِ عشق میں!
ہیں سبھی غرقاب تجھ میں دیکھ اے طوفانِ عشق!
۲۴
عشق سے مر کر اسی میں زندہ ہے، ہاں زندہ ہے
یہ نصیرؔ تیرا گدا اے جانِ عشق جانانِ عشق!
اسلام آباد،
گزشتہ تاریخ: منگل ۲۹،مئی ۲۰۰۱ء
ایڈیٹنگ کی تاریخ: منگل ۲۳، ستمبر ۲۰۰۳ء
۲۵
شاہ! سلامٌ علیک
نام ہے تیرا کریمؑ شاہ سلام علیک
شان ہے تیری عظیم شاہ سلام علیک
تیرے سوا کون ہے آلِ نبیؐ و علیؑ
نورِ خدائے حکیم شاہ سلام علیک
ذکرِ خفی بن کے آ دیدہ و دل فرشِ راہ
مالکِ ملکِ قدیم شاہ سلام علیک
باغ و چمن کی بہار سَرو و سمن کا نکھار
تو ہے گلوں کی شمیم شاہ سلام علیک
برقِ تجلّیٰٔ طور حسنِ خدا کا ظہور
نور بچشمِ کلیم شاہ سلام علیک
مصحفِ ناطق ہے تو علمِ لدن تجھ سے ہے
تو ہی الف لام میم شاہ سلام علیک
تابشِ دیدار سے ظلمتِ غم ڈھل گئی
تیرے کرم سے کریم شاہ سلام علیک
۲۶
مظہرِ نورِ خدا آئینۂ حق نما
مصدرِ لطفِ عمیم شاہ سلام علیک
تیرے محبّت سے میں دیکھ کے پامال ہوں
رحم کر اے بو رحیم شاہ سلام علیک
عشق کا ہوں میں قتیل نفخۂ جان بخش بھیج
ہمرہِ بادِ نسیم شاہ سلام علیک
تجھ سے شفا پا گئے دردِ جہالت سے ہاں
ہم جو ہوئے تھے سقیم شاہ سلام علیک
پیکرِ نورِ خدا تو ہی تو ہے رہنما
سوئے رہِ مستقیم شاہ سلام علیک
مطلعِ رحمت ہے تو گوہرِ حکمت ہے تو
تو ہے صبور و حلیم شاہ سلام علیک
کون ہے تجھ سا شفیق ہم پہ یہاں اور وہاں
حامی و یارِ حمیم شاہ سلام علیک
اس دلِ ویران میں آ، کہ وہ آباد ہو
چونکہ ہے تیرا حریم شاہ سلام علیک
وصل ہے گویا بہشت راحتِ جان سے بھری
ہجر، عذابٌ الیم شاہ سلام علیک
نقطۂ بسمل میں ہے عارفِ حق کے لئے
ایک کتابِ ضخیم شاہ سلام علیک
۲۷
معجزۂ عشق سے مردہ دلوں کو جِلا
کون ہے تجھ سا حکیم شاہ سلام علیک
جب سے کہ آیا نصیرؔ تیری غلامی میں بس
ہے ترے در پر مقیم شاہ سلام علیک
۲۸
یارِ بدیعُ الجمال
جانِ جہان کون ہے؟ یارِ بدیعُ الجمال
دل میں نہان کون ہے؟ یارِ بدیعُ الجمال
جلوہ نما ہے ادھر حیرتِ اہلِ نظر
غیرتِ شمس و قمر یارِ بدیعُ الجمال
چہرہ مجھے یاد ہے حور و پری زاد ہے
شاد ہے آزاد ہے یارِ بدیعُ الجمال
پیکرِ حسن و جمال با ہمہ وصفِ کمال
دہر میں ہے بیمثال یارِ بدیعُ الجمال
جانِ بہار جانِ من رونقِ باغ و چمن
غنچہ دہن گلبدن یارِ بدیعُ الجمال
جلوہ دکھا جا ذرا دل میں سما جا ذرا
روح میں آ جا ذرا یارِ بدیعُ الجمال
سب میں اسی کا مکان سب ہیں اسی کے نشان
سب کی وہی جانِ جان یارِ بدیعُ الجمال
۲۹
نورِ سحر تجھ سے ہے علم و ہنر تجھ سے ہے
لعل و گہر تجھ سے ہے یارِ بدیعُ الجمال
عشق و فنا کی قسم! وصل عطا کر صنم
کل کو رہیں گے نہ ہم یارِ بدیعُ الجمال
عشق میں اک ساز ہے جس میں ترا راز ہے
اس پہ مجھے ناز ہے یارِ بدیعُ الجمال
اے مرے ماہِ منیر یاد تری دلپذیر
تجھ سے فدا ہے نصیرؔ یارِ بدیعُ الجمال
“حلقۂ اربابِ ذوق” گلگت کی خدمت میں۔
کراچی، جمعہ ۱۳، ربیع الثانی ۱۴۱۹ھ، ۷، اگست ۱۹۹۸ء
۳۰
علمی سفر کی تعریف و ترغیب
ہے دور بہت علمی سفر تیز چلا چل
پر امن ہے یہ راہ نہ ڈر تیز چلا چل
تو ربّ سے سدا ہمتِ عالی کو طلب کر
تاخیر نہ کر دیر نہ کر تیز چلا چل
ہے عمرِ گرانمایہ فقط علم کی خاطر
کر علم کی راہوں میں سفر تیز چلا چل
اس علمِ حقیقی کو سمجھ گنجِ خدا ہے
تاخیر نہ کر اس کا سفر تیز چلا چل
بے رنج کوئی گنج نہیں سارے جہان میں
گنجینۂ حکمت ہے جدھر تیز چلا چل
ہر علمی مسافر سے نصیرا تو کہا کر
اے نیک نصیب نیک سفر تیز چلا چل
کراچی، بدھ ۶، نومبر ۲۰۰۲ء
۳۱
اس نے کہا:
“میں تیرا دل ہوں”
سچ ہے کہ کہا اس نے اک گنجِ خدا ہے دل
جب عشقِ حقیقی سے ویرانہ پڑا ہے دل
ہر گونہ تسلی ہے دیدار کی دولت سے
ہر چند کہ ظاہر میں آہوں سے بھرا ہے دل
اس قالبِ خاکی میں دل عالمِ اکبر ہے
دل دائرۂ کل ہے اور ارض و سما ہے دل
اسرارِ شہِ خوبان اس دل کے خزانے ہیں
صد بار فدا ہے جان صد بار فدا ہے دل
در پردہ کہا اس نے دل میرے حوالے کر
اے جانِ جہان، واللہ! یہ لے کہ تیرا ہے دل
اس مرتبۂ دل کو عارف ہی سمجھتا ہے
گر پاک کرے کوئی تب عرشِ خدا ہے دل
دلدادۂ الفت ہوں اب مجھ میں کہاں ہے دل؟
دلبر نے لیا دل کو عاشق میں کجا ہے دل؟
۳۲
صد شکر کہ اب جانان خود میری خودی ہوگا
جب جان ہے فدا اس سے جب اس میں فنا ہے دل
اشعارِ نصیری میں اسرارِ نہانی ہیں
دل عقدۂ لاینحل اور عقدہ کشا ہے دل
بموقعِ ’علامہ نصیر الدین کے ساتھ ایک شام‘ زیرِ اہتمام حلقۂ اربابِ ذوق گلگت ،
۲۸ ، جوالائی ۱۹۹۸ء بمقامِ ریویریا ہوٹل۔
۳۳
السّلام یا نورِ یزدان السّلام
السّلام یا شاہِ شاہان السّلام!
السّلام یا نورِ یزدان السّلام!
السّلام! وا گنجِ پنہان السّلام!
السّلام وا جیندو قرآن السّلام!
السّلام می دین و ایمان السّلام!
السّلام می جان و جانان السّلام!
السّلام می نورے آسمان السّلام!
السّلام می عشقے سلطان السّلام!
اُن خدائے اسمِ اعظم با حضور!
بُٹ معظم بُٹ مکرم با حضور!
ذکرِ اعلیٰ ہم خفی و ہم جلی!
جانشینِ مصطفیٰ نورِ علی!
کراچی، منگل، ۲۰، جنوری ۲۰۰۳ء
۳۴
سلکِ مروارید
(موتیوں کی لڑی)
بموقعِ تشریف آوریٔ مولانا حاضر امام شاہ کریم الحُسینی صلوات اللہ علیہ و سلامہ
وہ مقدّس وہ مطّہر وہ امام
جانشینِ مصطفیٰ عالی مقام
دیکھ لو ! اس کو خدا کے حکم سے
عالمِ ملکوت کرتا ہے سلام
نورِ یزدان ہے وہ اولادِ علیؑ
جس کا دنیا کر رہی ہے احترام
شاہِ دین جس کو کہا جاتا ہے وہ
جو جہان میں ہے نہایت نیک نام
جو نگاہِ عشق میں اک جلوہ ہے
آسمانِ حسن کا ماہِ تمام
جو مسیحائے زمان ہے وہ طبیب
جس کا درشن زخمِ دل کا اِلتیام
وہ خدائے پاک کا ہے زندہ گھر
حاجیانِ عشق کا بیت الحرام
وارثِ علم نبی سلطانِ دین
بعدِ احمد ہے وہی خیرالانام
باتجمل باکرامت باوقار
وہ خدا کا چہرہ ہے مالاکلام
گنجِ قرآن کا جو ہے خازِن وہی
رہنما ہے جانبِ دارالسّلام
جس کی مِدحت ہے کلامِ پاک میں
کیوں نہ اس کو یاد کرلوں صبح و شام
بات اس کی حکمتوں سے ہے بھری
قابلِ صدہا ستائش اس کا کام
۳۵
علم زر ہے میں ہوں اس کا زرخرید
وہ مرا آقا ہے میں اس کا غلام
محفلِ عشاق ہے بزمِ طراب
یاد اس کی ہے شرابِ لالہ فام
میں بھی اِک سائل ہوں مولا اک نظر
اس طرف کر اے کریمِ خاص و عام
کچھ چہل قدمی کرو اور مسکراؤ
میرے باغِ دل میں آ کر خوش خرام!
یہ تبسّم ہے کہ جادوئے حلال!
پھول ہیں یا آ گئے جنّت کے جام
تیری الفت بھی کیا اکسیر ہے!
جس سے ہم کندن ہوئے اور شاد کام
منزلِ مقصود آئی ہے قریب
ساتھیو! آگے چلو بس چند گام
صبحِ انورکا طلوع ہے اے نصیرؔ
جاگ اٹھنا اب ہوا وقتِ قیام
۲۴،صفر ۱۴۰۶ھ۔ ۸،نومبر ۱۹۸۵ء
۳۶
مرکزِ علوم
(لائبریری)
قائم ہوا بفضلِ خدا مرکزِ علوم
راہِ عمل کی شمعِ ہُدا مرکزِ علوم
تھا نور مصطفیٰ و علیؑ مایۂ عقول
جب اس جہان میں کوئی نہ تھا مرکزِ علوم
اس نور سے جہان میں ہوا علم کا ظہور
پھر رفتہ رفتہ بن کے رہا مرکزِ علوم
توضیحِ راز علمِ سماوی فروغِ دین
میراثِ پاک آلِ عبا مرکزِ علوم
شاہنشہِ علوم و حِکَم ہے کریمِؑ دہر
الحق اسی نے ہم کو دیا مرکزِ علوم
روشن ہو دہر علمِ امامت سے دن بدن
یاں اس لئے ہوا ہے بِنا مرکزِ علوم
آثارِ علمِ ناصرِ خسرو قدس سرہُ تلاش کر
ہاں اس لئے ہوا ہے بپا مرکزِ علوم
۳۷
ناصر ق س کے علمِ دین سے دنیا بدل گئی
وہ تھا قرینِ نورِ خدا مرکزِ علوم
اس در سے آ کہ حکمتِ ناصر تجھے ملے
کوئی نہیں ہے اس کے سوا مرکزِ علوم
سرچشمۂ حیاتِ دوامی ہے علمِ دین
یعنی یہی ہے آبِ بقا مرکزِ علوم
علم و ہنر سے کوئی نہیں بے نیاز اب
مرجع برائے شاہ و گدا مرکزِ علوم
مانا کہ مرضِ جہل ہے دنیا میں بدترین
اس مرض کی یہی ہے دوا مرکزِ علوم
جس منزلِ مراد میں ہے نورِ کبریا
اس راہ کا ہے راہ نما مرکزِ علوم
ہے باعثِ سعادتِ دنیا و آخرت
اللہ کا ہے جود و عطا مرکزِ علوم
مانا کہ علمِ دولت پایندہ ہے مگر
آتا نہیں ہے علم بلا مرکزِ علوم
کرتا ہو کوئی علمِ حقیقت کی جستجو
تو اس کو روز روز دکھا مرکزِ علوم
علم و ادب کا گنجِ گراں مایہ مل گیا
اس وقت سے کہ ہم کو ملا مرکزِ علوم
۳۸
آنکھیں ہوئی ہیں خیرہ فروغِ علوم سے
جب سے ہوا ہے جلوہ نما مرکزِ علوم
قائم کیا ہے قوم نے امیدِ خیر میں
یا ربّ رہے ہمیشہ بجا مرکزِ علوم
مردِ حکیم کا ہے یہی قولِ مختصر
گنجینۂ گہر ہے سدا مرکزِ علوم
دیکھا نصیرؔ زار ہوا علم کا چراغ
زینت فزائے ارض و سما مرکزِ علوم
۳۹
توصیفِ لطیفِ مولانا حاضر امامؑ
مظہرِ نورِ خدا مولا کریم
جانشینِ مصطفیٰؐ مولا کریم
معدنِ جود و سخا کانِ کرم
چشمۂ آبِ بقا مولا کریم
وہ چراغِ کائناتِ عقل و جان
وہ ستون، زیرِ سماء مولا کریم
وہ ظہورِ نورِ شاہِ اولیاء
یعنی خود ہے مرتضیٰ مولا کریم
وہ خلیفہ ہے خدائے پاک کا
حیّ و حاضر ہے سدا مولا کریم
عالمِ شخصی میں جا کر دیکھ لے
کنزِ اسرارِ خدا مولا کریم
وہ امامِ عصرِ حاضر ہے بحق
بادشاہِ دُو سرا مولا کریم
تو کتابُ اللّٰہِ ناطق ہے ہمیں
تجھ سے حکمت ہے عطا مولا کریم
عاشقان تھے منتظر دیدار کے
مرحبا صد مرحبا مولا کریم
جان فدا کر اپنے آقا سے نصیرؔ!
جان و دل تجھ سے فدا مولا کریم
سنیچر۱۵، نومبر ۲۰۰۳ء
۴۰
ہمتِ مردان مددِ خدا
تائیدِ الٰہی ہے سدا ہمتِ مردان
ہے باعثِ انعامِ خدا ہمتِ مردان
مشکل ہی سہی منزلِ مقصود کی راہیں
ہے سہل جو ہو راہ نما ہمتِ مردان
آسان ہے ظلماتِ حوادث سے گزرنا
ہوجائے اگر نورِ ہدیٰ ہمتِ مردان
اقوام کے اس معرکۂ علم و عمل میں
دیکھو گے سدا قلعہ کشا ہمتِ مردان
گنجینۂ اقبال و سعادت تو یہی ہے
اللہ کا ہے جود و عطا ہمتِ مردان
کب جاگتی تعمیرِجہان خوابِ عدم سے
دیتی نہ اگر اس کو جگا ہمتِ مردان
یہ رونقِ تہذیب و تمدّن بھی نہ ہوتی
ہوتی نہ اگر جلوہ فزا ہمتِ مردان
معشوقِ ہنر بزمِ ثقافت میں نہ آتا
دیتی نہ اگر بانگِ درا ہمتِ مردان
ہمت سے گئے اہلِ ہنر سوئے کمالات
تم بھی تو بڑھو کرکے ذرا ہمتِ مردان
سمجھو گے اگر معجزۂ ہمتِ مردان
کرلو گے طلب کرکے دعا ہمتِ مردان
اے ہمتِ مردان کہ تو ہے دمِ عیسیٰ
ہر درد کی ہے تو ہی دوا ہمتِ مردان
اس گلشنِ امید میں تو موسمِ گل ہے
جو غنچہ کھلا تجھ سے کھلا ہمتِ مردان
سرمایۂ ایجاد ہے تو رُوئے زمین پر
تجھ ہی سے گئے سوئی سما ہمتِ مردان
ہر عارفِ کامل جو ہوا واصلِ یزدان
لاریب کہ وہ تجھ سے ہوا ہمتِ مردان
ہمت سے ہوئے جو بھی ہوئے زندۂ جاوید
مانا کہ تو ہے آبِ بقا ہمتِ مردان
۴۱
وہ عقدۂ مشکل کہ نہ کھلتا تھا کسی سے
فی الفور وہ تجھ ہی سے کھلا ہمتِ مردان
ہمت کے ترانے ہیں یہ اشعارِ نصیری
خود آکے ہوئی نغمہ سرا ہمتِ مردان
مرقوم ہے بس صفحۂ عالم پہ یہی قول
“تائیدِ الٰہی ہے سدا ہمتِ مردان”
۴۲
نشانہائے امامِ زمان علیہ السّلام
شہ کریم نورِ حق امامِ زمان
قدوۂ کاملانِ کون و مکان
سبطِ ختمِ رسل وہ آلِ علیؑ
نائبِ مرتضیٰ ؑ ولیٔ زمان
حیّ و حاضر ہے اس جہاں میں مدام
چونکہ ہے عقلِ عقل و مایۂ جان
فائض النّور دونوں عالم کا
مثلِ خورشید ہے عیان و نہان
مجھ سے گر پوچھے کوئی اس کا نشان
بے مثل ہے، کہ ہے خدا کا نشان
بے نشان بھی ہے بانشان بھی ہے
مظہرِ حق کی ذاتِ عالی شان
اک نشان یہ کہ حیّ و قائم ہے
از ازل تا ابد شہِ دوران
اک نشان یہ کہ ہے وہ آلِ نبیؐ
ہادیٔ دین قسیمِ نار و جنان
اک نشان یہ کہ جہد کرتا ہے
تاکہ ہو اس جہاں میں صلح و امان
علم و حکمت ہے اک نشان اس کا
چونکہ ہے پیشوای اہلِ جہان
حسنِ سیرت ہے اک نشان اس کا
جس کا ثانی نہیں چہ انس و چہ جان
بے نیازی ہے اک نشان اس کا
وہ نہیں مدّعی چنین و جنان
کشفِ باطن ہے اک نشان اس کا
تاکہ ظاہر ہو ہم پہ گنجِ نہان
۴۳
اک نشان یہ کہ ہے وہ دنیا میں
مثلِ کشتیٔ نوح و کشتیبان
اس کے صدہا نشان ہیں ایسے
جن کا مجھ سے نہ ہوسکا ہے بیان
حقِ توصیفِ شہ ادا نہ ہوا
معترف ہے نصیرِ بے سامان
ایڈیٹنگ کی تاریخ:۲۳،جولائی ۲۰۰۱ء
۴۴
لامکان کی کیفیّت
گرچہ برتر ہے مکان سے حدِ کیفِ لامکان
جلوہ گر ہے صورتِ عالم میں پیدا و نہان
ہے تصور لامکان کا بس عجیب و دلفریب
لاہیولیٰ و مسافت اک جہانِ جاودان
لوح و کرسی لامکان ہے رحمتِ کل لامکان
جانِ عالم لامکان ہے جانفزا و جانستان
جوہر حسن و تجمل مایۂ نقش و نگار
ذاتِ عرفان و حقائق اصلِ لذاتِ جنان
لامکان نورِ مجرد ہے محیطِ کل ہے وہ
غرقۂ صورت ہے اس سے کائنات اندر میان
جسمِ کلّی ہے مکان و نفسِ کلّی لامکان
پس مکان ہے لامکان اور لامکان میں ہے مکان
اب جہان کی زندہ صورت کو مجرّد مانیے
لامکان و لازمان ثابت ہوئی جانِ جہان
۴۵
اصل اوّل میں نقوشِ جملہ اشیا زندہ ہیں
پس اسی کو لامکان اور عالمِ تجرید جان
جیسے ہوتا ہے بشر کا اک جدا جسمِ لطیف
اس طرح ہے جانِ عالم بے مکان و بے زمان
عکس عالم ہے تخیّل میں ہیولیٰ کے بغیر
باجمالِ صورت و معنی و حیّ و بازبان
عالمِ خواب و تخیّل ہے مثالِ لامکان
پر نہیں یہ زندگی و روشنی مانند آن
مختلف درجات ہوتے ہیں مگر اس خواب کے
خوابِ غافل، خوابِ عاقل، خوابِ پاکِ عارفان
خوابِ عارف لامکان کا نسخۂ تحقیق ہے
خوابِ غافل ہے مثالِ ظلمتِ روح و روان
عالمِ خواب و تخیل ہے کتابِ ممکنات
اس میں سب کچھ ہے سمجھ لے اے حکیمِ نکتہ دان
لامکان کا ہر نمونہ آخرت کی ہر مثال
کچھ مناظر خوف کے اور کچھ مسرّت کے نشان
صورتِ کون و مکان و نقشۂ دہر و زمان
حالتِ روی زمین و کیفِ جوفِ آسمان
ماضی و مستقبل اس میں حال ہو کر رہ گئے
صورتِ پیری و طفلی دیکھ سکتا ہے جوان
۴۶
مردِ عارف کے خیال و خواب جب روشن ہوئے
قدرتِ حق نے دکھایا صد جہان اندر جہان
پھر خیال و خواب سے اک ایسی بیداری بنی
جو حقائق کے لئے ہوتی رہی ہے ترجمان
پس بشر کی ذات ہے آئینۂ ممکن نما
جب مُصَفّا ہو حقائق اس میں ہوتے ہیں عیان
اس طرح وہ واقفِ اسرارِ قدرت ہو گیا
کام اس نے وہ کیا جس کا نہ تھا وہم و گمان
اس نے یہ جانا کہ کوئی کام ناممکن نہیں
چونکہ وہ خود مظہرِ قدرت ہے بہرِ امتحان
گرچہ وہ اک قطرہ ہے لیکن سمندر ساتھ ہے
گرچہ وہ اک ذرّہ ہے سورج ہے اس میں ضوفشان
مقصدِ علمِ ضروری سِرِّ وحدت ہے نصیرؔ
علمِ فاضل ہے مثالِ آبِ بحرِ بیکران
دیکھنا یہ ہے کہ اس پانی پہ ہے عرشِ اِلہٰ؟
یا اسے اب چرخِ اعظم پر لئے ہیں حاملان
پوچھنا گر شرطِ دانش ہے تو سنیے اک سوال
قادرِ مطلق مَلک پر کیوں ہوا بارِ گران؟
۴۷
منقبتِ نورِ امامت
بصورتِ سوال و جواب
جواب سوال
کون ہوا پیشوا بعدِ رسولِ امین؟
جس کو خدا نے دیا نامِ “امامِ مبین”
منبرِ روزِ غدیر کس کے لئے تھا بنا؟
سِرِّ خدا کے لئے تا کہ بنے جانشین
پرچمِ دینِ نبی کس نے کیا تھا بلند؟
حیدرِ کرارؑ نے گونۂ شیرِ عرین
بعد خدا و رسول کس کی اطاعت ہے فرض؟
اسکی جو ہے نورِ حق صاحبِ دنیا و دین
نورِ امامِ مبینؑ کب سے ہوا ہے طلوع؟
یہ تو ازل ہی سے ہے جبکہ نہ تھی ما و طین
کون ہے دلدل سوار؟ کون ہے وہ نامدار؟
سرورِ مردان علی قاضیٔ روزِ پسین
خازنِ علمِ خدا کون ہے اس دہر میں؟
رہبرِ راہِ ھُدا ہادیٔ دینِ متین
باب علوم نبیؐ کون ہے اے ہوشمند؟
نورِ علیؑ ہے سدا بابِ رسولِ امینؐ
سلسلۂ نور کی کب سے ہوئی ابتدا؟
جبکہ ہوا بوالبشر نائبِ روئے زمین
فرض ملائک پہ کیوں سجدۂ آدم ہوا؟
آدمِ خاکی میں تھا نورِ علیؑ جاگزین
نفسِ رسولِ خدا کون ہے وہ ارجمند؟
والیٔ ملکِ ولا پیشروِ متقین
ہاں تو وہی ہے مگر جلوہ نما ہے کہاں؟
چشمِ بصیرت سے دیکھ دل میں ہوا ہے مکین
عرشِ اِلہٰ کا قیام جس پہ ہے وہ کون ہے؟
سلسلۂ نور ہے حاملِ عرشِ برین
کس کو خدا نے دیا خاتمِ حکمت نگین؟
مملکتِ ملکِ دین جس کو ہے زیرِ نگین
۴۸
کس کے احاطے میں ہے دائرہ کل شَیۡ؟
ذاتِ امامت میں ہے عالمِ نورِ یقین
ہے کوئی ایسا چراغ جو نہ بجھے دہر میں؟
نور امامت ہے وہ نورِ دلِ مومنین
کس نے کہا اے نصیرؔ! شاہ بہت دور ہے؟
جسم سے ہاں دور ہے دل سے مگر ہے قرین
۴۹
ترجمانیٔ زبانِ حالِ
مجیب الدین (مرحوم=بہشتی) ابنِ علی یار خان مرتضیٰ آباد
رشتہ دارو! فضلِ مولا پر رکھو محکم یقین
میں تو ہوں الحمدللہ ساکنِ خلدِ برین
موت میری تھی شہادت میں مریدِ شاہ تھا
پس بہشت میں شادمان ہوں تم نہ ہوجانا حزین
میری طوفانی خوشی کا تم کو اندازہ نہیں
تم نے دیکھی ہی نہیں ہے باغِ جنّت کی زمین
تم دعائیں کرکے مجھ کو کچھ تحائف بھیج دو
تاکہ راضی ہو ہمیشہ تم سے ربّ العالمین
ہر بہشتی شادمان ہے اور دائم ہے جوان
سب کو حاصل ہے لِقائے حضرتِ سلطانِ دین
مجلسوں میں حور و غلمان لعل و گوہر کی طرح
ہیں مناظر سب حسین اور اہلِ جنّت نازنین
علم و حکمت کی مجالس نور کا دیدار بھی
نغمہ ہائے مدحِ مولا دل نواز و دل نشین
خواب میں اے کاش تم جنّت کا منظر دیکھتے!
تاکہ تم ہر گز نہ ہوتے میرے بارے میں غمین
معرفت ہی معرفت ہے تیری باتوں میں نصیرؔ!
اس لئے اشعارِ شیرین ہیں مثالِ انگبین
ذوالفقار آباد، گلگت، جمعرات ۲۴ ۔مئی ۲۰۰۱ء
۵۰
تجسسِ فکر و نظر
کیا راز فتنہ ہے رخِ حسن و جمال میں؟
ہنگامہ ہوگیا ہے جہانِ خیال میں
اس رنگ و بوئے گل میں یہ سحرِ ستم ہے کیوں؟
بلبل کی زندگی ہے پڑی صد وبال میں
یہ ہے فنائے عشق جو پروانہ جل گیا؟
کیا رمز ہے چراغ کے اس اشتعال میں؟
آوازِ ساز کیسی بنی مستیٔ شراب؟
جو صوفیوں پہ چھائی ہے اس وجد و حال میں
گاتے ہیں جب طیورِ چمن نغمۂ بہار
آتے ہیں کیوں ادیب و سخنور جلال میں؟
اس آرزوئے منظرِ قدرت سے کیا مراد؟
کس کا ہے یہ پیام نسیمِ شمال میں؟
وہ سیرِ جوئبارِ شبِ ماہتاب میں
نقشِ فلک ہو جلوۂ آبِ زلال میں
۵۱
آنکھوں کو سیرِ باغ سے کیوں واسطہ پڑا
کانوں کو کیا ہے پردۂ حسنِ مقال میں؟
ذوقِ نگاہِ طفل کا عالم بھی دیکھئے!
مبہوت ہے نمونۂ رنگ و جمال میں
ان دلبرانِ دہر کا یہ فنِ دلبری؟
جادویٔ دل کشی تو نہیں خد و خال میں
عالم ہے رنگ برنگیٔ تصویرِ حسنِ یار
ہے جلوۂ صفات کچھ اور عینِ حال میں
کچھ آگے جاکے دیکھ جمالِ صفاتِ ذات
مت پوج ان بتوں کو جہانِ مثال میں
دیکھا نصیرِ زار کمالِ جمالِ دوست
ہر شے سے جلوہ گر ہے مقامِ وصال میں
۵۲
انا اور فنا
ہزاروں لعل و گوہر ہیں درونِ سنگ ہستی میں
نہ کر تاخیر اے نادان طریقِ خود شکستی میں
درختِ سربلندی سے تجھے گر بہرہ لینا ہے
خودی کے تخم کو اوّل گرا دے خاکِ پستی میں
پذیرائی نہ کر اَی نورِ آتش ہیزمِ تر کی
کہ وہ مغرور ظلمت ہے فریبِ خود پرستی میں
بہ شرطِ دین و دانش سعی کر تو زر بکف ہو جا
و گرنہ گنجِ لقمانی نہان ہے تنگ دستی میں
عصائے دین توانگر کے لئے از بس ضروری ہے
کہ گر جاتا ہے انسان نشۂ دولت کی مستی میں
اگر تو ہو نہیں سکتا فنا فی ہستیٔ اعلیٰ
بحالِ خود رہے گا تا قیامت اپنی ہستی میں
خودی کے دشتِ وحشت سے تعلق اب نہیں باقی
نصیرا! ہم تو رہتے ہیں ’’انا‘‘ سے پار بستی میں
۵۳
جمیلِ کلّ
جہان میں میرے صنم کی کوئی مثال نہیں
“جمیلِ کلّ” ہے وہی اور کہیں جمال نہیں
یہ دیکھ شمس و قمر کو زوال ہوتا ہے
جہانِ حسن کے خورشید کو زوال نہیں
کمالِ دلبری اس کو بہشت سے آیا
تو پھر جہاں میں کہیں اور یہ کمال نہیں
وصالِ شاہِ بتان اس جہاں میں مشکل ہے
جو کل بہشت میں ہے آج وہ وصال نہیں
مجھے ملالِ مسلسل نے خوب روند لیا
خدا کے فضل سے اب تو کوئی ملال نہیں
جوابہائے “حکم” سے بھرا خزانہ ہے
جوابہا تو بہت ہیں مگر سوال نہیں
وہ شاہِ “کونِ” حسینان حجاب دل میں ہے
حجاب کیسے ہٹاؤں مری مجال نہیں
۵۴
جہان میں اہلِ قلم کوئی بھی غریب نہیں
امیرِ علم و ادب ہے اگرچہ مال نہیں
خیال “طائرِ برقی” ہے اے نصیر الدین!
عظیم عطیۂ رحمان ہے خیال نہیں
گزشتہ تاریخ: بدھ ۲۳،مئی ۲۰۰۱ء
موجودہ تاریخ: بدھ ۲۴،ستمبر۲۰۰۳
۵۵
نعت
حضرتِ سیدالانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
وہ بادشاہِ انبیاء وہ تاجدارِ اولیاء
محبوبِ ذاتِ کبریاء یعنی محمد مصطفیٰ
وہ رحمتہ للعالمین سلطانِ پاکِ مُلکِ دین
وہ ہادیٔ حقُ الیقین یعنی محمد مصطفیٰ
اقدس ہے اس کا سلسلہ عالی ہے اس کا مرتبہ
قرآن ہے اس کا معجزہ یعنی محمد مصطفیٰ
وہ مفخرِ سب مسلمین وہ سرورِ سب کاملین
وہ رحمتِ دنیا و دین یعنی محمد مصطفیٰ
وہ پیشوائے مرسلین وہ ہے شفیعُ المذنبین
مقصودِ ربّ العالمین یعنی محمد مصطفیٰ
وہ تھا نبی وہ تھا صفی علمِ الٰہی میں غنی
محتاج اس کے ہیں سبھی یعنی محمد مصطفیٰ
جس شب گئے پیشِ خدا افلاک سب تھے زیرِپا
لولاک ہے اس کی ثناء یعنی محمد مصطفیٰ
۵۶
نورِ مجسّم وہ نبی خود اسمِ اعظم وہ نبی
سب سے مقدّم وہ نبی یعنی محمد مصطفیٰ
میں ہوں نصیرِ خاکسار اے سیدِ عالی وقار
راضی ہے تجھ سے کرد گار جنّت تجھی سے پر بہار
یعنی محمد مصطفی یعنی محمد مصطفی
اتوار ۱۳،جنوری ۲۰۰۲ء
۵۷
علمِ روحانی
عزیزو! جان و دل کرنا فدائے علمِ روحانی
کہ ہم آئے ہیں دنیا میں برائے علمِ روحانی
ہماری زندگانی کی غرض ہاں معرفت ہی ہے
مگر یہ آ نہیں سکتی سوائے علمِ روحانی
خودی کو اشکِ الفت میں ہمیشہ دھو لیا کرنا
اسی سے سن سکے گا دل صدائے علمِ روحانی
مریضِ جہل کا ہمدرد ہو جانا اگر چاہو
تو ہر قیمت پہ کر دینا دوائے علمِ روحانی
اسی میں رازِ قرآن ہے اسی میں نورِ یزدان ہے
کہ ہے سب سے بڑی رحمت عطائے علمِ روحانی
اسی کی قدر و قیمت ہے خداکی بادشاہی میں
بہائے دین و دینا ہے بہائے علمِ روحانی
غبارِ دہر اس کی رفعتوں کو چھو نہیں سکتا
فلک سے بڑھ کے عالی ہے فضائے علمِ روحانی
۵۸
فلک پر تم نہ جاسکتے، اسی کا شکر کرنا ہے
کہ خود جھک جھک کے آیا ہے سمائے علمِ روحانی
علاجِ دردِ نادانی نہیں ہوتا ہے دنیا میں
مگر یہ ہے کہ حاصل ہو شفائے علمِ روحانی
عروسِ روح کا سنگارِ کامل کس طرح ہوگا
نہ ہو جب تک اسے حاصل ردائے علمِ روحانی
وہ اک دنیا پہ مرتا ہے یہ اک عقبیٰ پہ مرتا ہے
تمہیں ہونا ہے جیتے جی فنائے علمِ روحانی
طلوعِ نورِ یزدان ہو فروغِ صبحِ عرفان ہو
ضیا پاشی کرے دل میں ضیائے علم روحانی
بہت ہیں نعمتیں لیکن نہیں ہے کوئی شی ایسی
کہ عاقل منتخب کر لے بجائے علمِ روحانی
وہ اک گنجینۂ دولت وہ اک سر چشمۂ لذت
وہ اک کانِ حلاوت ہے غذائے علمِ روحانی
خدا کی اک رضا صدہا رضائیں لے کے آتی ہے
عظیم ُ الشّان ہے سب سے رضائے علمِ روحانی
دلِ سنگین سے جاری ہوئے ہیں علم کے چشمے
مرے مولا نے مارا ہے عصائے علمِ روحانی
کہاں یہ دولتِ دنیا کہاں گنجینۂ عرفان
زہے قسمت کہ مل جائے غنائے علمِ روحانی
۵۹
تعجب ہے کہ اس محبوب کی از بس لقائیں ہیں
لقائے جانفزا اس کی لقائے علمِ روحانی
برسنے کو تلی بارش دلوں کے باغ و گلشن پر
وہ دیکھو بدلیاں لائیں ہوائے علمِ روحانی
امامِؑ وقت کے در کی غلامی کر نصیرالدین
یہیں پر بن کے رہنا ہے گدائے علمِ روحانی
۱۶۔ اگست ۱۹۷۹ء
۶۰
مناجات بدرگاہِ قاضیُ الحاجات
الہٰی شکرِ نعمت کے لئے اب چشمِ گریان دے
“فنائے عشق ہوجاؤں” یہی ہر لحظہ ارمان دے
اطاعت آنسوؤں سے ہو عبادت آنسوؤں سے ہو
محبت آنسوؤں سے ہو مجھے اک ایسا ایمان دے
مجھے یہ گریہ و زاری ہمیشہ تازہ رکھتی تھی
خدایا میری علّت کی یہی ہے کہنہ درمان دے
مناجاتوں میں سب احباب اکثر گڑگڑاتے ہیں
تو اپنے فضل سے ان کو الہٰی گنجِ قرآن دے
بھلی لگتی ہے بیحد آنسوؤں کی گوہر افشانی
خداوندا کرم کر ہم کو چشمِ گوہر افشان دے
ترے قرآنِ اقدس میں جواہر ہی جواہر ہیں
اسی دریائے رحمت سے خدایا درو مرجان دے
حبیبِ کبریا ہے وہ کہ تاجِ ابنیاء ہے وہ
محمد مصطفیٰؐ ہے وہ اسی کا ہم کو فرقان دے
۶۱
علیؑ قرآنِ ناطق ہے علیؑ ہی بابِ حکمت ہے
اسی کی رہنمائی سے دلوں کو نورِ عرفان دے
امام و حجتِ قائمؑ کہ سلطان بھی ہے جانان بھی
نصیرالدین کو یا ربّ ہمیشہ وصلِ جانان دے
ذوالفقار آباد، گلگت،۷۔ جون ۱۹۹۹ء
۶۲
وحدتِ انسانی اور امنِ عالم
جان فدا کردوں گا میں خود امنِ عالم کے لئے
تاکہ قربانی ہو میری ابنِ آدمؑ کے لئے
دل ہے زخموں سے بھرا اس انتشارِ قوم سے
میں کہاں جاؤں گا یاربّ! دل کے مرہم کے لئے
پرچمِ امن و امان دنیا میں کب ہو گا بلند؟
کون جان دیتا ہے دیکھو ایسے پرچم کے لئے؟
صلحِ کلّ کا اک زمانہ کب جہان میں آئے گا؟
کیا جہان پیدا ہوا ہے جنگ و ماتم کے لئے؟
اتحاد و امن کی کوشش کرو اہلِ قلم!
آگئے ہیں ہم جہاں میں سعیٔ پیہم کے لئے
عالمِ انسانیّت جب اس قدر بیمار ہے
رحم کیوں آتا نہیں ہے ابنِ مریمؑ کے لئے؟
اتفاقِ قوم میں ہیں برکتیں ہی برکتیں
نوجوانو! عہد کر لو صلحِ محکم کے لئے
۶۳
آبیاری ہے نہ بارش باغِ دل بس خشک ہے
رات بھر رونا پڑے گا اب تو شبنم کے لئے
عشق کا غم چاہیے مجھ کو نہ کوئی اور شے
میں تو پیدا ہوگیا ہوں عمر بھر غم کے لئے
اک نرالا یار ہمدم ہے وہی ہم راز ہے
مررہا ہوں جیتے جی میں اپنے ہمدم کے لئے
اے نصیرالدین اب دنیا کو یہ پیغام دو
“جان فدا کر دوں گا میں خود امنِ عالم کیلئے”
۱۲،اکتوبر ۱۹۹۹ء
۶۴
دعائے جماعت خانہ کے فیوض و برکات
مومن کو سدا رحمتِ رحمان دعا ہے
طاعت میں یہی مقصدِ قرآن دعا ہے
من احسن قولاً سے دعا ہی کو سراہا
اللہ نے، پس مایۂ ایمان دعا ہے
یہ میوۂ توفیق ہے یہ مغزِ عبادت
بس حاصل ایمانِ مسلمان دعا ہے
مولا کی اطاعت میں جھکا دو سرِ تسلیم
سمجھو کہ تمہیں ثمرۂ فرمان دعا ہے
تم راہِ حقیقت میں دعا ہی سے مدد لو
اس راہ میں جب شمعِ فروزان دعا ہے
گرجان میں ہے کوئی مرض یا کہ بدن میں
ہر درد و مرض کے لئے درمان دعا ہے
جب جلوۂ انوارِ الہٰی کی طلب ہو
دیکھو کہ تمہیں دیدۂ عرفان دعا ہے
۶۵
ہے عالمِ دل نورِ حقیقت سے منور
خورشیدِ ضیا بخشِ دل و جان دعا ہے
دنیا میں اگر رنج و الم ہے تو نہیں غم
صد شکر کہ یاں روضۂ رضوان دعا ہے
معلوم ہوئی توبۂ آدمؑ کہ دعا تھی
پھر نوحؑ کا وہ باعثِ طوفان دعا ہے
ہو جائے اگر آتشِ نمرود ہویدا
ہو کوئی خلیلؑ اب بھی گلستان دعا ہے
یونسؑ کو دعا ہی نے دلائی ہے خلاصی
ہر دور میں بس رحمتِ یزدان دعا ہے
ہاں خضرؑ ہوا زندۂ جاوید اسی سے
دنیا میں یہی چشمۂ حیوان دعا ہے
موسیٰؑ کو عصا اور یدِ بیضا کے نشانے
حاصل جو ہوئے وجہِ نمایان دعا ہے
عیسیٰؑ میں جو تھا معجزۂ روحِ مقدّس
اس معجزہ کی حکمتِ پنہان دعا ہے
احمد جو ہوئے گوشہ نشین غارِ حرا میں
مقصودِ نبیؐ شمعِ شبستان دعا ہے
مولائے کریم دہر میں ہے نورِ الہٰی
اس نور سے کچھ فیض کا امکان دعا ہے
۶۶
گر نورِ امامت بمثلِ راہِ خدا ہے
اس راہ میں بھی مشعلِ ایقان دعا ہے
عاشق نے جو کچھ دیکھ لیا دیدۂ دل سے
صد گونہ یہاں جلوۂ جانان دعا ہے
تو شام و سحر آکے یہاں ذکر و دعا کر
اخلاق و عقیدت کی نگہبان دعا ہے
جس راہ سے منزلِ وحدت کا سفر ہے
منزل کی طرف وہ رہِ آسان دعا ہے
اس نظمِ نصیری میں ہے اک گنجِ حقائق
گنجینۂ پر گوہرِ رحمان دعا ہے
شوال ۱۳۹۵ھ۔اکتوبر ۱۹۷۵ء
۶۷
نورِ مجسمؑ
خدائے ذوالجلال اپنے ارادوں پر جو قادر ہے
خدا کا نور امامِ حقؑ جہان میں حیّ و حاضر ہے
بچشمِ نور بین دیکھے اگر کوئی، علیٔ دہرؑ
درخشاں مہر کی مانند اس دنیا میں ظاہر ہے
کتاب اللہ کے علم و عمل کا ضامن و عالم
زمانے کے تقاضے پر وہ فرمانے کا ماہر ہے
کتاب اللہ میں احکام ہیں ہر اک زمانے کے
زمانے کا امامؑ اسرارِ قرآنی پہ قادر ہے
نبیوں کی شریعت کا وہی مقصودِ کلّی ہے
زمین و آسمان اس اشرف و اکمل کی خاطر ہے
خدا کا نور ہے وہ اس لئے ہر شیٔ پہ قادر ہے
وہی دانائے کلّ ہے عالِمِ ما فی الضمائر ہے
صلاحِ خلقِ عالم کے لئے آیا ہے دنیا میں
ہے جس کا آشیان عرشِ الہٰی پر وہ طائر ہے
۶۸
خدا کی آنکھ ہے وہ اس سے کوئی شے نہیں مخفی
وہ کل موجودِ کونین پر مدام الوقت ناظر ہے
خدا کی معرفت ہی ہے امامِ وقتؑ کی پہچان
جسے حاصل ہو اس کی معرفت شادان و فاخر ہے
نصیرؔ اپنا قلم رکھ اعترافِ عجز ہی بہتر
ثنا و مدح مولا کی تری طاقت سے باہر ہے
۶۹
علم و عمل کی افضلیّت
خورشیدِ عیان عالمِ جان علم و عمل ہے
معمارِ جہان گنجِ نہان علم و عمل ہے
تحقیق یہی ہو گئی ہے فکر و نظر سے
سرمایۂ اقوامِ جہان علم و عمل ہے
ہر فرد کی معراجِ ترقی بھی یہی ہے
ہاں مرتبۂ کون و مکان علم و عمل ہے
یہ خاصۂ انسان ہے یہ فضلِ خدا ہے
عزّت کے لئے روحِ روان علم و عمل ہے
پتھر کی نہ قیمت ہے نہ سودا کبھی ہوگا
بس بیش بہا گوہرِ کان علم و عمل ہے
فردوسِ برین جانِ چمن چہرۂ جانان
در عالمِ دل جلوہ کنان علم و عمل ہے
ہے اشرف و اعلائے خلائق وہی انسان
ہوجائے اگر اس سے عیان “علم و عمل” ہے
۷۰
جو چیز سدا باعثِ صد فخر و خوشی ہے
وہ میوۂ دل راحتِ جان علم و عمل ہے
اک بھید ہے اس عالمِ شخصی میں بڑا سا
وہ سرِّ ازل رازِ جنان علم و عمل ہے
اک نغمۂ قدسی ہے نہان ذاتِ بشر میں
وہ زمزمۂ پیر و جوان علم و عمل ہے
علیین میں اک زندہ کتاب بول رہی ہے
وہ معجزۂ شرح و بیان علم و عمل ہے
کچھ اور خزانہ نہیں مطلوب نصیرا!
دنیا میں فقط گنجِ گران علم و عمل ہے
گزشتہ تاریخ: ۳۰ جولائی ۱۹۹۵ء ، کراچی
موجودہ تاریخ: جمعہ ۱۹، ستمبر ۲۰۰۳ء
۷۱
انسان کے گونا گون اوصاف
سرِّ یزدان ہے تو انسان ہے
گنجِ پنہان ہے تو انسان ہے
حاصلِ معرفت حقیقتِ روح
رازِ قرآن ہے تو انسان ہے
زُبدۂ کائنات و اشرفِ خلق
جان و جانان ہے تو انسان ہے
صورتِ علم و پیکرِ حکمت
جانِ عرفان ہے تو انسان ہے
بانیٔ دین و کافرِ مطلق
کفر و ایمان ہے تو انسان ہے
عالمِ برزخ و جہیم و جنان
حور و غلمان ہے تو انسان ہے
جس کو سجدہ کیا فرشتوں نے
نورِ رحمٰن ہے تو انسان ہے
۷۲
نازنین و حسین و سرو بدن
ماہِ کنعان ہے تو انسان ہے
شاہِ وحش و طیور و جنّ و پری
گر سلیمانؑ ہے تو انسان ہے
عامۃ الناس تا ولیؑ و نبیؐ
نوعِ انسان ہے تو انسان ہے
رندِ بے باک و صوفیٔ صافی
ریب و ایقان ہے تو انسان ہے
دہری و بت پرست و صاحبِ دین
یا مسلمان ہے تو انسان ہے
حسنِ روئے جہان و جلوۂ جان
کونِ امکان ہے تو انسان ہے
اوّل و آخر و عیان و نہان
ملک و سلطان ہے تو انسان ہے
گر چہ یہ راز ہے کہ جنّ و مَلک
یا کہ شیطان ہے تو انسان ہے
الغرض اس بقائے کلّی کا
بحرِ عمان ہے تو انسان ہے
منقسم ہے بقا مدارج میں
ان کا پایان ہے تو انسان ہے
۷۳
یا بقا فی المثل ہوئی شب و روز
اس میں گردان ہے تو انسان ہے
فانی و باقی و عتیق و جدید
ذکر و نسیان ہے تو انسان ہے
وہ کہیں نور ہے کہیں ظلمت
راہ و رہدان ہے تو انسان ہے
وہ کہیں رنج ہے کہیں راحت
درد و درمان ہے تو انسان ہے
ہے حقیقت یہی بقولِ نصیرؔ
سرِّ یزدان ہے تو انسان ہے
موجودہ تاریخ: جمعہ ۱۹، ستمبر ۲۰۰۳ء
۷۴
ڈائمنڈ جوبلی
جشنِ ڈائمنڈ جوبلی کا ماہِ انور کون ہے؟
جس کو ہم ہیروں میں تولیں گے وہ دلبر کون ہے؟
سر پہ ہے تاجِ امامت علم گویا ذوالفقار
رونقِ تختِ خلافت زیبِ منبر کون ہے؟
نورِ حق آیا زمین پر تاکہ ہو فضل و کرم
ورنہ اس عالم میں ایسا بندہ پرور کون ہے؟
چودہ طبقوں کے نفوس اور عالمِ ارواح بھی
دیکھئے سجدے میں ہیں اللہ اکبر کون ہے؟
باغِ عالم میں تو وہ گل ہے جو مرجھاتا نہیں
جلوۂ نورِ خدائی! تجھ سے بڑھ کر کون ہے؟
آفتابِ نور ہے یا طور کی بجلی ہے تو
کون ہے پوچھو ذرا یہ پاک گوہر کون ہے؟
ہاں علیؑ اب بھی علیؑ ہے نورِ باطن دیکھ لو
میں بتاؤں دوستو اس وقت حیدرؑ کون ہے؟
۷۵
پہلے چاندی بعد میں سونے میں مولا تل گیا
اب تو ہیروں میں تلے گا ان کا ہمسر کون ہے؟
خلد میں ہرگز نہ جاؤں حشر کے دن میں کبھی
گر ترا در چھوڑ جاؤں مجھ سا کافر کون ہے؟
پردۂ دل سے سکھاتا ہے مجھے طرزِ غزل
کیا بتاؤں میں تمہیں اس دل کے اندر کون ہے؟
اس جہاں سے اس جہاں تک سب مراحل طے ہوئے
ہم کو شہ کی رہبری میں ایسا رہبر کون ہے؟
بزمِ شاہی میں نصیرا تو کیوں خاموش ہے؟
شعرِ رندانہ سنا تجھ سا سخنور کون ہے؟
ایڈیٹنگ کی تاریخ: ہفتہ ۵ مئی ۲۰۰۱ء
۷۶
فنا فی اللہ
تو ھو میں فنا ہو جا تب گنجِ نہان تو ہے
یوں ہو تو سمجھ لینا وہ جانِ جہان تو ہے
اسرارِ خودی کو تو اے کاش سمجھ لیتا
اس عالمِ شخصی میں اک شاہِ شہان تو ہے
ہر چیز تجھی میں ہے بیرون نہیں کچھ بھی
ہے ارض و سما تجھ میں اور کون و مکان تو ہے
تو ارض میں خاکی ہے افلاک پہ نوری ہے
یاں ذرّۂ گم گشتہ واں شمسِ عیان تو ہے
ناقدریٔ دنیا سے مایوس نہ ہو جانا
جا اپنا شناسا ہو جب گوہرِ کان تو ہے
اس آئینۂ دل میں اک چہرۂ زیبا ہے
اے عاشقِ مستانہ وہ چہرۂ جان تو ہے
اس عالمِ شخصی میں سلطانِ معظم ہے
تو اس میں فنا ہوجا پھر شاہِ زمان تو ہے
۷۷
آئینِ جہان دکھ ہے تو اس سے نہ گھبرانا
پیری سے نہ ہو غمگین جنّت میں جوان تو ہے
تو چشمِ بصیرت سے خود کو کبھی دیکھا کر
جو حسن میں یکتا ہے وہ رشکِ بتان تو ہے
بھرپور تجلّی سے باطن ہے ترا پرنور
ہر چہرۂ جنّت تو، جب رازِ جنان تو ہے
تو ساری خدائی میں اعجوبۂ قدرت ہے
تو معجزۂ حق ہے اور اس کا نشان تو ہے
تو خامۂ لاہوتی تو نامۂ جبروتی
پھر اس کی زبان تو ہے اور شرح و بیان تو ہے
اشعارِ حکیمانہ! ہے دل میں کوئی استاد؟
اے جان و دلِ حکمت! ہے میرا گمان تو ہے
کہتا ہے نصیرؔ تجھ کو اے عاشقِ آوارہ!
تو ھو میں فنا ہوجا تب گنجِ نہان تو ہے
پیر ۲، جمادی الاول ۱۴۱۷ھ۔ ۱۶، ستمبر ۱۹۹۴ء
۷۸
یہ خواب ہے یا بیداری؟
جواب: خواب نہ تھا، مدہوشی تھی
میں نے کل ظاہراً علی دیکھا
اس خفی نور کو جلی دیکھا
وہ امامِ مبینِ آلِ رسولؐ
قبلۂ عاشقانِ اہلِ قبول
سر جھکا کر غریب نے سلام کیا
آنسوؤں کی زبان سے کلام کیا
اے سر تو سجدہ کر کہ ترا فرض سجدہ ہے
انکارِ سجدہ جس نے کیا وہ تو راندہ ہے
اے آنکھ کہاں ہیں ترے اشکوں کے وہ گوہر
اب شاہ کے قدموں سے کرو انکو نچھاور
اے نارِ عشق تجھ کو سلام ہو ہزار بار
تیرے کرم سے عاشقِ بیدل کو مل گیا قرار
ہم مردہ تھے کہ اس نے ہمیں زندہ کر دیا
چہرے اداس تھے کہ تابندہ کر دیا
نورِ رحمت کی سخت بارش تھی
ہر طرح کی بڑی نوازش تھی
ہم کو اِک نئی حیات ملی
علم و حکمت کی کائنات ملی
دستِ پرنور میں کمالِ معجزہ ہے
خاک کو چھو کے زر بناتا ہے سنگ کو وہ گہر بناتا ہے
نورِعشقِ مرتضاؑ! ہر لحظہ ہو تجھ پر سلام
بندگانِ ناتمام تجھ ہی سے ہوتے ہیں تمام
میں ہوں نصیرِ خالی وہ ہے نصیرِ معنی
میں ہوں غلام و ناکس وہ ہے امامِ اقدسؑ
مرکزِ علم و حکمت، لندن
جمعرات ۲۱،جون ۲۰۰۱ء
ایڈیٹنگ کی تاریخ : بدھ ۲۹، اکتوبر ۲۰۰۳ء
۷۹
فکرِ قرآن
اس جہان میں جبکہ قرآن کنزِ رحمان آ گیا
رحمتوں اور برکتوں کا ایک طوفان آ گیا
بحرِ قرآن بحرِ گوہر زا ہے عقلا کے لئے
تاکہ ہر عاقل یہاں سے اپنے دامن کو بھرے
دین و دانش علم و حکمت فکرِ قرآنی میں ہے
راہِ جنت رازِ لذت فکرِ قرآنی میں ہے
برکتیں ہی برکتیں ہیں فکرِ قرآن میں سدا
عاشقانِ فکر را گو مرحبا صد مرحبا
یہ دوائے ہر مرض ہے آزما کر دیکھ لے
دور مت ہوجا عزیزا! اندر آکر دیکھ لے
چشمۂ لذّاتِ عقلی فکرِ قرآنی میں ہے
منبعِ نعماتِ روحی فکرِ قرآنی میں ہے
تا نہ بردی رنج ہا را کَی بیابی گنج را
عاقلان از فکرِ قرآن گنج ہا را یافتند
۸۰
فکرِ قرآنی سے لذّت گیر ہونا ہے تجھے
جب نہ ہو ایسا تو پھر دلگیر ہونا ہے تجھے
فکرِ قرآن ہے طریقِ کنزِ اسرارِ خدا
کنزِ اسرارِ خدا ہے گنجِ انوارِ خدا
فکرِ قرآن ہے یقیناً کلِّ کلّیاتِ علوم
ذرّۂ از علم و حکمت ہے نہیں باہر کہیں
راحتِ روح میوۂ جان فکرِ قرآنی میں ہے
چشمہ سارِ علم و عرفان فکرِ قرآنی میں ہے
فکرِ قرآن ہے تصوّف، اور اسی میں سائنس ہے
اور یہی ہے فیض بخشِ مکتبِ روحانی سائنس
تو تہی دامن ہے اب تک اے نصیرِ بے نوا
جبکہ قرآن درّ و مرجان کا سمندر ہے سدا
بدھ ۸، اکتوبر ۲۰۰۳ء
۸۱
جشنِ علمی
غنچۂ دل مسکرا کر کہہ رہا ہے بار بار
موسمِ گل سے ہوا ہے شہرِ گلگت لالہ زار
باغ و گلشن کے پرندے نغمہ ساز و نغمہ ریز
شاہِ مرغانِ چمن ہے یہ میون سب کو عزیز
نام اس کا اوریول اور بول اس کا پیچا پیچ
اسکے نغمے کے مقابل سارے نغمے ہیچ ہیچ
اک نرالی شان ہے اس جشنِ علمی کی یہاں
اجتماعِ اہلِ دانش پر ہے جنّت کا گمان
یول میں اک بار آتا ہے ہمارا اوریول
آگیا جشنِ بہاران تو خوشی کا چوغہ یول
علم ہے فضلِ خدا، ہاں علم ہے، نوروضیاء
علم ہے دائم یقیناً چشمۂ آبِ بقا
علم و حکمت کے لئے یہ جان بھی قربان ہو!
یا الہٰی یہ طلب عشاق کو آسان ہو!
۸۲
علم کی رنگینوں سے مست و حیران ہے نصیرؔ
عشقِ شاہنشاہِ حکمت نے کیا اس کو اسیر
ذوالفقار آباد، گلگت، پیر، ۱۳ مئی ۲۰۰۲ء
۸۳
مَستِ اَلَست
کثرتِ ذکرِ خدا سے قلب کو پُرنور کر
علم وحکمت کی ضیاء سے روح کو مسرور کر
عالمِ شخصی کو اپنا دن بدن آباد کر
نفس کے چنگل سے خود کو اے جری آزاد کر
خدمتِ خلقِ خدا! صحرائے اعظم درمیان
سر کے بل چلنا ہے تجھ کو اے قلم اے پہلوان!
گل فشانی ہو بطرزِ باغِ فردوسِ برین
تاکہ جس سے شادمان ہوں سب کے سب اہلِ زمین
روح کی پہچان میں جنّت بھی ہے دیدار بھی
تاج و تختِ سلطنت بھی علم کا دربار بھی
ہے شہنشاہِ دو عالم “نور” مولانا کریم
تو فنا ہو کر اسی میں دیکھ اسرارِ عظیم
میرے مولا نے مجھے لوگوں سے قربان کردیا
اس “خلیلی” کام سے دنیا کو حیران کردیا
میں نے نیّت کی عِیالُ اللہ کی خدمت کروں
گر رضائے حق ہے اس میں پھر یہی طاعت کروں
۸۴
چشمِ ظاہر میں نصیرالدین ہے شخصِ حقیر
باطناً مستِ ازل بھیدوں سے پُر ہے یہ فقیر
نصیرݺ عشقݺ کتاب عالمر فریش میمی
سروشݺ غیبݺ جہان ڎم خبر سوݳی لہ سبور
جمعہ ۱۹، ستمبر ۲۰۰۳ء
۸۵
جان نثارانِ علیؑ
دوستدارانِ علیؑ سے جان فدا کر اے نصیر!
جان نثارانِ علیؑ سے جان فدا کر اے نصیرؔ!
جان ہی کو روح سمجھ لے اے عزیزِ ہوشمند!
جان ہی ہے کنزِ عرفان اے حبیبِ ارجمند!
جان ہی ہے اک جہان اور جان ہی ہے آسمان
جان میں ہے عرشِ اعلیٰ اور خدائے ذوالجلال
خود شناسی معرفت ہے اے برادر آگے آ
جان میں جنّت ہے دیکھو، جان میں ملکِ خدا (۱)
عالمِ شخصی میں آ جا اے عزیزِ محترم!
تاکہ حاصل ہو یہاں سے گنجِ اسرارِ خدا
کس غرض سے آگئے ہو اس جہان میں یاد ہے؟
معرفت مقصودِ کلّی ہے نہ بھولو ساتھیو!
گنجِ اسرارِ خدا ہے عارفوں کے واسطے
کامیابی منتظر ہے عاشقوں کے واسطے
ذکرِ دائم ہے طریقِ سالکانِ راہِ حق
دامنِ مولا ہے یہ اس کو نہ چھوڑ اے نورِ عین!
۸۶
نورِعینی ہے اگر تو عالمِ شخصی میں آ
تاکہ دیکھے گا کہ اصلاً کس کا ہے تو نورِ عین
روح کو پہچان لو اور اسی سے عشق ہو!
دین و دانش کا تقاضا بس یہی ہے دوستو!
حق تعالیٰ کی تجلّی اے خوشا حکمت میں ہے
اس لئے حکمت یقیناً ہوگئی خیرِ کثیر (۲)
نورِ حق ظاہر نہ ہو جب عالمِ انسان میں
کوئی اندھا کس طرح کہلائے گا قرآن میں (۳)
ایک تن میں ایک جان کہنا غلط ثابت ہوا
جبکہ جانیں ہیں یقیناً بے حساب و بے شمار
شعرِ پر حکمت کہا کر اے نصیرِ دل فگار
تجھ پہ مولا کا کرم ہے اور تو ہے جان نثار
پیر، یکم مئی ۲۰۰۰ء
۱۔ (خدا کی بادشاہی)
۲۔ (۰۲: ۲۶۹)
۳۔ (۱۷: ۷۲)
۸۷
پیغامِ روحانی بزبانِ حال
مِن جانب ِغزالہ مرحومہ
اے قبلہ! نہ کر غم کہ یہاں زندہ ہوئی میں
یہ اس کی نوازش ہے کہ تابندہ ہوئی میں
ہیں حور و پری ساتھ کہ میں خود بھی پری ہو ں
اس انجمنِ نور میں خوشیوں سے بھری ہوں
میں دخترِ روحانیٔ مولائے زمان ہوں
شہزادیٔ عالم ہوں مگر سب سے نہان ہوں
ہم نور کی اولاد ابھی نور ہوئے ہیں
دنیا کی مصیبت سے بہت دور ہوئے ہیں
جنّت میں عجب شاہی محل ہم کو ملا ہے
ہم زندۂ جاوید ہوئے فضلِ خدا ہے
شاہوں کی طرح شاد ہیں ہم اس کا کرم ہے
بیماری نہیں، موت نہیں، اور نہ ہی غم ہے
ہاں تیری غزالہ پہ علیؑ سایہ فگن ہے
وہ اس لئے جنّت میں سدا زندہ چمن ہے
۸۸
صد گونہ خوشی ہے ہمیں دیدارِ علیؑ سے
گنجینہ ملا ہے ہمیں اسرارِ علیؑ سے
طوفانی خوشی ہے ہمیں، تم ہم پہ نہ رونا
ڈیڈی! ممی! تم کبھی بے صبر نہ ہونا
لینا ہے تمہیں علم و عبادت کا سہارا
ہے دینِ خدائی میں یہی شیوہ ہمارا
کس شان سے آیا ہے یہ پیغامِ غزالہ
روشن ہو زمانے میں سدا نامِ غزالہ
غزالہ بنتِ امام یاربیگ جنرل مینجر، آغاخان ہیلتھ سروسز، پاکستان، ناردرن ایریاز اینڈ چترال۔
غزالہ کی تاریخ پیدائش: ۱۵ جوالائی ۱۹۸۷ء، تاریخِ وفات: ۸، جنوری ۱۹۹۹ء
اِنا للہ و انا الیہ راجعون (۰۲: ۱۵۶)
۸۹
تحفۂ لازوال برائے لِٹل اینجلز
لٹل اینجلز سب کے سب بفضل اللہ ہمارے ہیں
مجھے حبِّ علی جیسے یقیناً سب پیارے ہیں
کیا یہ حور و غلمان ہیں مثالِ زندہ گلدستے؟
کتابیں ہیں؟ نوشتے ہیں ؟ نہیں اصلاً فرشتے ہیں
تمہارے ہر تبسم میں نرالی گل فِشانی ہے
نباتی گل فشانی میں عزیزو! کیا نشانی ہے؟
تمہارے شہر میں دیکھا ہمیشہ موسمِ گل ہے
پرندے مست نغمے ہیں صدائی سوزِ بلبل ہے
کمالِ علم و حکمت کو طلب کر ربُّ العزت سے
کہ مایوسی نہیں ہوتی خدا کے بحرِ رحمت سے
۹۰
تیاری حربِ علمی کی نہ بھولو لشکرِ قائمؑ!
جہان میں تادمِ آخر جہادِ علم ہے دائم
نصیرالدین کہتا ہے لٹل اینجلز ہمارے ہیں
مجھے حبِّ علی جیسے یقیناً سب پیارے ہیں
روزِ یک شنبہ ۲۴، دسمبر ۲۰۰۰ء
۹۱
لِٹل اینجلز کاترانہ
بموقع سالگرۂ حبِّ علی ثانی
تاریخِ ولادت: جمعۃ المبارک ۱۶ جنوری ۱۹۹۸ء
تم دہر میں آباد رہو میرے فرشتو!
خوش حال بنو شاد رہو میرے فرشتو!
مولائے کریم تم پہ سدا سایہ فگن ہو
گلزار ہو تم خانۂ حکمت کا چمن ہو
تم شمس و قمر جیسے حسین میری نظر میں
تم لعل و گہر جیسے حسین میری نظر میں
تم اپنے گھروں میں بخدا سکّۂ زر ہو
ڈیڈی و ممی کے لئے تم نورِ نظر ہو
تم ہی تو ہو مکتب کے گلوں میں گلِ رعنا
تم زیورِ حکمت سے سدا خود کو سجانا
تم شمس و قمر ہو کہ ستاروں کا فلک ہو!
بجلی کی چمک ہو کہ ست رنگی دھنک ہو!
آئینۂ قائمؑ ہو زمانے میں مبارک!
گنجینۂ دائم ہو زمانے میں مبارک!
۹۲
تم علم و عمل ہی سے بنو ایک نمونہ!
قائمؑ کی اطاعت سے بنو ایک نگینہ!
مولا کے کرم سے کبھی مایوس نہ ہونا
تم نیک دعاؤں میں کنجوس نہ ہونا
تم ہو گلِ سوری! کہ ہو تم گلِ میری؟
تم سیکھو نصیری اور سیکھو فقیری!
بدھ ۱۴، جنوری ۲۰۰۴ء
۹۳
توصیفِ قلم
اے قلم جنبشِ ازل ہے تو
قدرتِ ذاتِ لم یزل ہے تو
تجھ سے تحریرِ کائنات ہوئی
اے خوشا! حق کی تجھ سے بات ہوئی
ہے ہمارا قلم ترا سایہ
اس کو تجھ سے ملا ہے سرمایہ
وہ قلم اس جہان میں سلطان ہے
ذاتِ حق کی دلیل و برہان ہے
یہ قلم بادشاہِ دنیا ہے
جب سے علم و عمل کا چرچا ہے
اک قلم برفرازِ عرشِ برین
اک قلم بربسیطِ روئے زمین
علم کا اک جہان قلم میں ہے
رازِ کون و مکان قلم میں ہے
کام میں سر کے بل یہ چلتا ہے
جس سے دنیا زمانہ پلتا ہے
یہ سیاہی سے روشنی کر دے
دولتِ علم سے غنی کر دے
اس کا قطرہ مثالِ بحرِ عمیق
گنج گوہر رہا ہے جس میں غریق
اَسپِ تازی کہ تیز طوفان ہے
بلکہ یہ اک جہازِ پران ہے
چشمۂ علم و منبعِ حکمت
باعثِ فخر و مایۂ عزت
ارضِ جنّت ہیں اس کے مکتوبات
کیف آور ہیں جس کے مشروبات
چپکے چپکے قلم کلام کرے
ساری دنیا اسے سلام کرے
تو نہ شمشیر ہے نہ شیر ببر
پھر بھی طاقت میں تو رہا برتر
۹۴
یہ کتابیں اسی کی پیداوار
جن کی رونق ہے رشکِ باغ و بہار
یہ قلم ہے کہ ہے عصائے کلیم
شر کو نگلے یہ اژدھائے عظیم
ہیں مبارک تمام اہلِ قلم
جن پہ اللہ کا ہوا ہے کرم
خدمتِ قوم ہے رضائے خدا
کام کر کام کر برائے خدا
یہ قلم تیرے پاس امانت ہے
حق ادا گر نہ ہو خیانت ہے
اے نصیرؔ خامہ بہت پیارا ہے
چونکہ اللہ نے اتارا ہے
ذوالفقار آباد، گلگت، ۲۸، ذوالحج ۱۴۱۴ھ، ۹ جون ۱۹۹۴ء
۹۵
حاضر امام علیہ السّلام کی ایک پُر حکمت توصیف
اے نورِ الہٰی تو ہمیں اپنی لقا دے
اے خضرِ زمانؑ! بہرِ خدا آبِ بقا دے
اے آلِ نبیؐ نورِ علیؑ ساقیٔ کوثر
حقا کہ تو ہے اسمِ خدا اعظم و اکبر
اے وارثِ آدمؑ کہ تو ہے ربّ کا خلیفہ
تو معجزۂ عرش ہے اور سرِّ سفینہ
درویش کو یہ معجزۂ نور ہوا ہے
احباب گواہ ہیں کہ یہ مسطور ہوا ہے
آدمؑ سے یہی سلسلۂ نور چلا ہے
ہے دائم و قائم کہ یہی نورِ خدا ہے
قرآنِ مجسّم ہے یہی شاہِ زمانہ
خالق نے بنایا ہے اسے اپنا خزانہ
اسرارِ الہٰی کا یہی گنجِ نہان ہے
اولادِ علیؑ آلِ نبیؐ سب کو عیان ہے
یہ علمِ لدّنی کا معلم ہے یگانہ
تو نور سے خالی نہ سمجھ کوئی زمانہ
۹۶
اے جانِ جہان شکر کہ حاصل ہے ترا عشق
ہر شخص مسافر ہے کہ منزل ہے ترا عشق
یہ بندہ نصیرؔ تجھ سے شب و روز فدا ہے
مولائے زمانؑ جبکہ تو ہی نورِ خدا ہے
سنیچر ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۳ء
۹۷
جشنِ یومِ تکبیر
بلبل کو اگر عشق و محبّت ہے چمن سے
قربان نہ ہوجاؤں کیوں اپنے وطن سے
یہ پاک زمین قائدِ اعظم کا وطن ہے
یہ قلعۂ اسلام ہے یہ باغِ عدن ہے
افواجِ وطن! تم ہی تو ہو اس کے نگہبان
ہے تم کو وراثت میں ملی “ہمتِ مردان”
تم نعرۂ تکبیر سے دنیا کو ہلانا
اور لشکرِ ارواح و ملائک کو بلانا
ہوکر رہے آزاد اُدھر خطۂ کشمیر
جب معجزۂ فتح رہا نعرۂ تکبیر
بس میرے “دھماکے” کو فلک کہہ گیا آمین!
اور میرے دعاؤں کو ملک کہہ گیا آمین!
ہم اہلِ وطن لشکرِ جرارِ وطن ہیں
لوہے کی طرح سخت ہیں دیوارِ وطن ہیں
اس نعرۂ تکبیر میں ہے وحدتِ ملی
وحدت کے سوا کچھ بھی نہیں غیرتِ ملی
ہے نظمِ نصیرؔ ترجمۂ غلبۂ ملی
اور یہ بھی سہی اس کو کہیں نغمۂ ملی
کراچی، پیر ۲۳،محرم الحرام ۱۴۲۰ھ۔ ۱۰،مئی ۱۹۹۹ء
۹۸
ایک عارفانہ کلام
مولائے زمانؑ کی شانِ اقدس میں
وہ اسمِ خدا ہے تو وہی ذکرِ خدا ہے
عارف نے یہی مکتبِ باطن سے پڑھا ہے
وہ سلسلۂ نورِ ہدایت ہے ازل سے
وہ پاک و منزہ ہے سدا عیب و خلل سے
معراجِ فلک عرشِ الہٰ کرسیٔ اعظم
مسجودِ ملک مظہرِ حق قبلۂ آدمؑ
صد شکر کہ مولائے زمانؑ آلِ نبیؐ ہے
اولادِ علیؑ واحد و یکتا ولی ہے
اللہ کا ہے نورِ عیان چشمۂ اسرار
عشاق کے دل میں ہے سدا مطلعِ انوار
وہ دینِ خدا، کاشفِ اسرارِ قیامت
ہے مَصحفِ ناطق کہ سنیں اہلِ سعادت
اے اسمِ خدا آنکہ تو ہے اعظم و اعلیٰ
حقا کہ تو ہے نورِ علیؑ از ہمہ بالا
اے وارثِ سلطانِ محمد شہِ اکرمؑ
اے ابنِ علیشاہؑ شہنشاہِ دو عالم
۹۹
اے نورِ خلافت کہ تو ہے نورِ امامت
آدمؑ سے چلی آ گئی ہے تیری وراثت
خداوندا نصیرؔ اُنے ہݣ ڎم ھُکن بݳی
جماعتݺ غُم اݼݸݣ لُم تکݺ فکن بݳی
جمعۃ المبارک ۷،نومبر۲۰۰۳ء
۱۰۰
قانونِ بہشت
( ایک بہشتی کی زبانِ حال سے)
یہ ربّ کا کرم ہے کہ میں جنّت میں گیا ہوں
اک نور یہاں ہے کہ مجھے اس نے دیا ہے
(س) ہوگی کہ نہیں کل کو ہمیں تیری ملاقات؟
اے جان! بتا، ہم کو بتا جلدی یہی بات؟
(ج)وہ کیسی بہشت ہے کہ نہ ہو جس میں ملاقات
یہ کیسا سوال ہے! صد حیف ہے، ھیھات!
دانا ہیں وہی لوگ جو جنّت کو سمجھتے
آیات کے باطن سے وہ حکمت کو سمجھتے
قانونِ بہشت دیکھ کہ وہ رحمتِ کل ہے
واں کوئی نہیں خار فقط غنچہ و گل ہے
گزشتہ تاریخ:جمعرات ۲۴، اگست ۲۰۰۰ء
موجودہ تاریخ: بدھ ۲۴، ستمبر ۲۰۰۳ء
نوٹ: قانونِ بہشت سے وہ آیاتِ کریمہ مراد ہیں جو بہشت کی توصیف میں وارد ہوئی ہیں۔
۱۰۱
ابرِ گوہر ریز
کامیابی کا سبب یہ ہے کہ وہ شب خیز ہے
گریہ و زاری میں گویا ابرِ گوہر ریز ہے
حق تعالیٰ نے ہمیں جب دوستِ اعظم دے دیا
علم و حکمت کا نرالا ایک عالم دے دیا
علم کی نہریں بہا دو جا بجا بحرالعلوم!
تا کہ اک علمی قیامت ہو بپا بحرالعلوم!
تجھ کو مولا نے بنایا ساقیٔ آبِ بقا
تا نہ ہو کوئی کہیں بھی جہل و غفلت سے فنا
جو بھی ہو تیری نظر میں تشنۂ آبِ حیات
جام بھر بھر کر پلا دے ساقیٔ عالی صفات
یار کے مشکین قلم سے بوئے جنّت آ گئی
دل کی آبادی کی خاطر جوئے جنّت آ گئی
آبشارِ لعل و گوہر ہے مثالِ کلک یار
گنجِ گوہر میں جواہر آ گئے ہیں بے شمار
۱۰۲
ترجموں میں شک نہیں صمصام کا بھی ہاتھ ہے
شکر ہے صد شکر ہے ہاں وہ فرشتہ ساتھ ہے
جو فرشتہ ہو زمین پر معجزانہ کیوں نہ ہو
رحمتوں اور برکتوں کا اک خزانہ کیوں نہ ہو
اک فرشتہ ہے ظہیر بالقب “جانِ نصیر”
خوب خادم علم کا ہے، خوب ہے دانش پذیر
جو علی کی شان میں ہیں ان حدیثوں کی کتاب
رہتی دنیا تک رہے گا یہ خزانۂ لاجواب
اے فقیرِ نامور یہ آپ کا احسان ہے
ان حدیثوں میں ہماری جان ہے ایمان ہے
اے فقیر، روشن ضمیر! اے علم و حکمت کے شہیر!
اے عزیزوں کے عزیز اے دین و دانش کے امیر!
عاشقانِ مرتضیٰؑ سے کیوں نہ ہو جاؤں فدا
تو تو قربان ہوچکا ہے اے نصیرِ بے نوا
۳۰، ستمبر ۱۹۹۹ء
۱۰۳
جشنِ زرّین
از برائے جشنِ زرّین ماہ و انجم آ گئے
جب پیاپے یارِ جانی کے تراجم آ گئے
دلکشی میں ترجمے ہیں تازہ دلہن کی طرح
پُربہار و جانفزا ہیں باغ و گلشن کی طرح
ترجمے کو خود پڑھیں تو رو رہا تھا میں کبھی
وادیٔ حیرت میں از خود کھو رہا تھا میں کبھی
سجدۂ شکرانہ تھا جب زار و گریان گر گیا
میں فدای یارِ جانی مست و حیران گر گیا
ترجموں نے ان کتابوں کو تو مشہور کردیا
دوستوں کے دل کو از بس شاد و مسرور کردیا
ترجمے سے ان کتب کو روحِ جنّت مل گئی
یہ حقیقت ہے کہ مجھ کو اور عزّت مل گئی
وہ قلم سے گل فشان ہے اور زبان سے درفشان
علم و حکمت کے جہان میں کامیاب و کامران
اہلِ مغرب کے لئے اب گنجِ عرفان ہوگیا
جس نے دیکھا ہے خزانے کو وہ حیران ہوگیا
۱۰۴
وصفِ مولا سے بھری ہے ہر کتابِ مستطاب
کیوں نہ ہو پھر یہ خزانہ کل جہان میں لاجواب
عشق و مستی کی قسم! سب ایک ہیں اے دوستان
فتحِ عالم ہے سنو اب شادمان ہو شادمان
ان کی ہر تحریر سے آتی ہے خوشبوی گلاب
ہر عبارت دے رہی ہے عشقِ مولا کی شراب
فضل و احسانِ خدا ہے یہ فرشتہ آ گیا
ورنہ ہم ایسے کجا اور ایسے کارنامے کجا!
نامِ نامی ہے فقیر اور علم و حکمت میں امیر
تیرے اس علم و عمل کا صدقہ ہوجائے نصیرؔ
اک جہانِ علم ان کے ہاتھ سے آباد ہے
اس میں جو بھی بس رہا ہے شاد ہے آزاد ہے
جنگِ علمی میں نہ پوچھو ضربِ صمصام علیؑ
علم شمشیرِ علیؑ ہے دست ہے نام علیؑ
“یک حقیقت” نے بتایا ہم سبھی ہیں ایک جان
سب میں اک ہے ایک میں ہیں سب نہان
میرے عالم میں عزیزان میری روح کی کاپیاں
اس سے بڑھ کر ہیں سبھی اس پرفتوح (۱) کی کاپیاں
۵۔ جولائی ۱۹۹۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ پر فتوح،فتوح،فتح کی جمع، پر فتوح،فتح پر فتح کرنیوالا یعنی اما مؑ جو ہمیشہ روحانی فتوحات کرتا ہے۔
۱۰۵
مخمس درشانِ شہیدانِ کارگل
یہ ہمّت و جرأت کے چٹان لشکرِ ایمان
یہ غیرت و عظمت کے نشان لشکرِ ایمان
شیروں کی طرح حملہ کنان لشکر ایمان
منزل کی طرف روان دوان لشکرِ ایمان
ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان
یہ شوقِ شہادت ہے کہ بس تم کو ملا ہے
یہ لطف و نوازش ہے یہی فضلِ خدا ہے
اس جامِ شہادت میں بتاؤ کیسا مزا ہے
تم جان چکے ہو کہ یہی رازِ بقا ہے
ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان
یہ موت نہیں، موت یہاں زندہ ہوئی ہے
ہر موت اسی موت سے شرمندہ ہوئی ہے
ہاں جانِ شہید نور سے تابندہ ہوئی ہے
یہ فرطِ خوشی ہے کہ رخشندہ ہوئی ہے
ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان
اللہ رے! یہ مردِ مجاہد کی دلیری
خائف نہیں کرتی اسے شمشیر و اسیری
اللہ کے شیروں کی صفت کیوں نہ ہو شیری
درویشِ درونی ہیں بے دلقِ فقیری
ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان
جب ارض و سما لشکرِ غیبی سے بھرا ہے
ایسے میں اگر ڈر گئے ہم پھر یہ خطا ہے
ہوتا ہے وہی کام جسے حکمِ خدا ہے
آج جسمی بقا ہے تو کل روحی بقا ہے
ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان
۱۰۶
قربانِ وطن ہو گئے ہیں اہلِ سعادت
اک بندگیٔ خاصِ خدا ہے یہ شہادت
ہم کو بھی نصیب ہو کبھی ایسی عبادت
اللہ کرم کر کہ یہی ہے تری عادت
ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان
غازی ہے کوئی، کوئی شہید میرے جوانان
اللہ کا احسان ہے اللہ کا احسان
دشمن ہے پریشان انگشت بدندان
تم فاتحِ عالم ہو سنو لشکرِ ایمان
ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان
یہ نظمِ نصیری ہے شہادت کا ترانہ
یہ ملتِ اسلام کی وحدت کا نشانہ
یہ لشکرِ ایمان کی الفت کا خزانہ
گلدستۂ خوش رنگ ہے از باغِ زمانہ
ہیں زندۂ جاویدِ دو کون میرے شہیدان
۸۔ ستمبر ۱۹۹۹ء
۱۰۷
نعتِ حضرتِ خاتم الانبیاء
مُخمس
وہ پیغمبرِ خاصِ خدا وہ بادشاہِ انبیاء
وہ نورِ پاکِ اولیاء یعنی محمد مصطفاء
صلوا علیہ وآلہ
وہ رحمۃ للعالمین وہ ہادیٔ دنیا و دین
وہ سب حسینوں سے حسین وہ مَہ جبین وہ نازنین
صلوا علیہ وآلہ
خیرُ البشر ان کا لقب اور ہاشمی ان کا نسب
شاہِ عجم فخرِ عرب یعنی محمد مصطفا
صلوا علیہ وآلہ
قرآن کَونِ معجزات ہے چشمۂ آبِ حیات
تیری ہے ساری کائنات اے سیّدِ عالی صفات!
صلوا علیہ وآلہ
اے تاجدارِ دو جہان! تو نور کا ہے آسمان
ہر لحظہ تو ہے ضو فشان یعنی محمد مصطفا
صلوا علیہ وآلہ
۱۰۸
جانِ نصیرِ بے نوا تیرے غلاموں سے فدا
محبوب ذاتِ کبریا یعنی محمد مصطفا
صلوا علیہ وآلہ
یک شنبہ ۱۰، جون ۲۰۰۱ء
۱۰۹
مُسَدَّس
درویشِ ضعیف و بیمار ہوں
مظلوم و حزین و ناچار ہوں
کس کو سناؤں اپنا دکھ مولا؟
ظاہر میں بے یار و مددگار ہوں
اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ
اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ
خامہ عصائے پیری
قرطاس دشتِ اعظم
میرا سفر ہے جاری
دن ہو کہ رات ہر دم
اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ
اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ
کب ہوگی وہ قیامت
اے صاحبِ کرامت؟
ہے کوئی شرط اس کی ؟
یا ہے کوئی علامت؟
اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ
اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ
معلوم نہیں مجھ کو کس احمق نے دھکیلا
مولا نے کبھی مجھ کو نہ چھوڑا ہے اکیلا
یہ ارضی فرشتے ہیں سبھی میرے عزیزان
یہ فضل و کرم تجھ سے ہوا ہے شہ دوران!
اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ
اَلمَدَد یَا عَلِیُ الاَ علیٰ
پیر یکم دسمبر ۲۰۰۳ء
۱۱۰
www.monoreality.org