روح کیا ہے؟
روح کیا ہے؟ = عالمِ شخصی کیا ہے؟ = انسان کیا ہے؟
عنوانِ بالا کا کیا مطلب ہے؟ ج: اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشخص روح کو پہچاننا چاہتا ہے، اس کو عالمِ شخصی کا سفر کرنا پڑے گا، جو اس کے باطن میں بحدِّ قوّت موجود ہے، پہلے وہ ہادیٔ زمان علیہ السّلام سے رجوع کرے، جیسا کہ رجوع کا حق ہے، پھر اپنے عالمِ شخصی کو حدِّ قوّت سے حدِ فعل میں لائے اور اس میں سیر و سفر کرے، اور اس انتہائی عظیم کام کی تمام سختیوں کو خوشدلی سے برداشت کرے۔
قرآنِ حکیم میں بزبانِ حکمت جگہ جگہ عالمِ شخصی کا تذکرہ موجود ہے یا تو آپ خود ریاضتِ حقّہ کر کے حکمت کے ساتھ قرآنِ حکیم کا مطالعہ کریں، یا دوسروں کی مشقت سے حاصل کردہ حکمت کو پڑھیں، آپ قرآن کو قرآنِ حکیم (حکمت والا قرآن) کہہ کر تو قرآنی حکمت کو مانتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ حکمت حاصل کرنے کے لئے کوشش نہیں کرتے ہیں، حالانکہ خیرِ کثیر حکمت میں ہے۔
ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو اپنی کتابِ عزیز = قرآنِ حکیم کی حکمتِ بالغہ کی لازوال دولت سے مالامال فرمائے! آمین!
انتسابِ جدید:
میرے بہت ہی عزیز ساتھی اور مہربان دوست فتح علی حبیب جو آئی۔ ایل۔ جی۔
۳
اور پریسیڈنٹ کمیٹی کے سینیر رکن ہیں انہوں نے ہمارے ادارے کے لئے بے شمار خدمات انجام دی ہیں، چونکہ ان کی جملہ خدمات امامِ زمانؑ کے عشق میں ہیں، لہٰذا ایسے تمام عزیزوں کی اس عزت کی تعریف میں نہیں کر سکتا ہوں جو کل جنّت میں ان شاء اللہ ان سب کو ملنے والی ہے، فتح علی کی فرشتہ خصلت بیگم گل شکر بھی ہر خدمت میں ساتھ ساتھ ہیں، گل شکر ہماری خداداد بیٹیوں میں سب سے سینئر ہیں، آپ آئی۔ ایل۔ جی۔ نیز سینئر رکن پریسیڈنٹ کمیٹی اور ایڈوائزر بھی ہیں۔
عزیزم نزار فتح علی ٹریننگ آفیسر، آئی۔ ایل۔ جی۔ ، ٹرینی ممبر آف پی۔ سی۔ اور ہائی ایجوکیٹر نے نہایت خوبصورت کتابیں چھپوانے کی مہارت حاصل کر لی ہے، ساتھ ساتھ عزیزم رحیم فتح علی بھی ہے جو آئی۔ ایل۔ جی، ٹرینی ممبر آف پی۔سی۔ اور سکین انچارج (Scan-Incharge) بھی ہے، فاطمہ فتح علی آئی۔ ایل۔ جی۔، ممبر آف بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزر اینڈ پیٹرن اور انچارج آف ایل۔ اے۔ ایس۔ ہے، نزارکی بیگم شازیہ علمی سولجر، ہائی ایجوکیٹر اور ویڈیو کیسیٹ انچارج ہے اور درِ ثمین نزار علی علمی سولجر اور ایل۔ اے۔ ایس۔ ہے۔
خداوندِ قدّوس اپنی رحمتِ بے پایان سے اس عزیز خاندان = فیملی کو دونوں جہان کی کامیابیوں سے نوازے، آمین یا ربّ العالمین!
ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، سنیچر ۱۵ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ
یکم دسمبر ۲۰۰۱ء
۴
روزنامہ جنگ کراچی (۳) جمعہ ۱۹ جون ۱۹۸۷ء
روح کیا ہے؟
(رئیس امروہوی)
علامہ نصیر الدین ہونزائی کا ذکر ان کالموں پر کیا جا چکا ہے، عجیب شخصیّت کے مالک ہیں ایک سو تیس کتابوں کے مصنف، بروشسکی، اردو، اور فارسی زبانوں پر کامل دست رس! تینوں زبانوں میں شعر کہتے ہیں، حضرتِ ہونزائی نے چین کے زندان خانوں میں عرفانِ خودی کی منزلیں طے کیں۔ اس ناکارہ پر خصوصیّت سے مہربان ہیں۔ احسان فرماتے ہیں اور اظہار نہیں کرتے۔ دلنوازی کی ادائیں کوئی ان سے سیکھے، کہتے ہیں کہ یہ لازوال دولت یعنی روحانیّت قرآنِ مجید کی ظاہری اور باطنی برکتوں سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآنی برکتوں کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ طالبِ روحانیّت قرآنِ مجید کی آیات پر غور و تدبر کرے۔ روح کیا ہے؟ روح ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہر آن اور ہر لمحہ جمالِ الٰہی اور جلالِ ربّانی کی ایک نئی تجلّی ظہور پذیر ہوتی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہر روز اس کی ایک نئی شان ہے (۵۵: ۲۹) اس آیۂ مبارکہ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ روح کے آئینے میں پیہم تجلّیاتِ غیبی منعکس ہوتی رہتی ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی قلبِ با صفا اپنی روح کو دیکھ سکتا ہے؟ دیکھ سکتا ہے تو کس آنکھ سے؟ چشمِ ظاہر سے یا دیدۂ باطن سے؟ روحِ انسانی بجائے خود ایک کائنات ہے۔ یعنی عالمِ صغیر! اس ننھی منی ان دیکھی کائنات (روح) میں
۵
تمام عالموں تمام کائناتوں اور تمام موجودات کی کیفیّت لطیف ذرّات کی شکل میں موجود ہوتی ہے ۔ روح ایک قائم بالذّات جوہر ہے۔ اس کی تجرید کے چار درجے ہیں۔ خیال، خواب، روحانیّت اور عقل۔ اور اس کی تجسیم (جسمانی حالت) کے بھی چار درجے ہیں۔ کثیف ذرّے، کثیف جسم، لطیف ذرّے، لطیف جسم! روح ناقابلِ تقسیم ہے۔ لیکن یہ لطیف اور کثیف جسم کے توسط سے لاتعداد مظاہر میں جلوہ پذیر ہوتی ہے۔ ہدایتِ قرآنی کے مطابق روح کا منبع و مرکز عالمِ امر ہے (۱۷: ۸۵) جس کے لاتعداد نورانی سائے، وجودِ انسانی کے آئینہ خانے میں منعکس (Reflect) ہوتے رہتے ہیں۔ انفرادی روح کا تعلق روحِ کلّ سے ہے۔ نباتات اور حیوانات بھی ذی روح ہیں۔ لیکن ان کی روحوں کی نوعیّت انسانی روح سے مختلف ہے۔ ہر روح مختلف ذرّات کا مجموعہ ہوا کرتی ہے۔ جنّات اور اس قسم کی دوسری نادیدہ مخلوقات بھی ذی روح ہے۔ علامہ نصیر الدین ہونزائی نے روح اور روحانیّت کے بارے میں اپنی کتاب روح کیا ہے؟ میں تفصیلی بحث کی ہے۔ ان کی فکر کا سرچشمہ قرآنِ مجید ہے۔ یہ موضوع بہت دقیق، نازک اور لطیف ہے۔ چند سطور یا ایک آدھ مضمون کے کوزے میں اس سمندر کو سمیٹ لینا ممکن نہیں۔ جو حضرات ان علمی بحثوں سے دلچسپی رکھتے ہیں وہ علّامہ مؤلف کی کتاب (روح کیا ہے؟) کا مطالعہ کریں اس کتاب کو اے۔۳۔ نور ولا پلاٹ نمبر ۲۶۹ گارڈن ویسٹ کراچی ۳۔ فون ۷۲۲۴۹۲۰ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
۶
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حرفِ آغاز
“روح کیا ہے؟” جیسے سب سے مشکل موضوع پر “سو (۱۰۰) سوال و جواب” کی پرمغز و مفید کتاب جس طرح مکمل ہوئی ہے، وہ حقیقت میں اس بندۂ ناچیز کی کوششوں کا نتیجہ ہرگز نہیں، بلکہ یہ عنایاتِ خداوندی کا ایک علمی معجزہ ہے، جو دور و نزدیک کے بہت سے پاک و پاکیزہ دلوں کی پرخلوص دعاؤوں سے وجود میں آیا، یہ بات میرے بنیادی عقائد میں سے ہے کہ میں اہلِ ایمان کی قلبی دعا کو تائیدِ روحانی کا وسیلہ مانتا ہوں۔
امامِ عالی مقام کے اس غلامِ ناتمام کو چاہئے کہ یہ اپنی حقیر سی روح کے جملہ ذرّات کے ساتھ ہزار گونہ عاجزی و انکساری سے سر بسجود ہو کر خداوندِ مہربان کے عظیم الشّان احسانات کی شکرگزاری کرے، اگر یہ بندۂ کمترین اپنے جسم و جان کے بے شمار ذرّات کی ایسی ہم آہنگی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے، تو پھر بھی میرے مالک و مولا کی پُرحکمت نعمتیں اتنی زیادہ، اس قدر گرانمایہ اور ایسی عالی شان ہیں، کہ ان کا حقِ شکرانہ کسی طرح سے بھی ادا نہیں ہو سکتا۔
بارانِ رحمت کے اس موسم میں بھی ہمیشہ کی طرح آسمانِ امامت نے ہم سب پر جیسی بابرکت بارش برسائی ہے، اور اس سے قلوبِ احباب کے باغ و چمن میں جو روحانی مسرّتوں اور امیدوں کی تازہ بہار آئی ہے، اس کے نتیجے میں ہم قدردانی اور احسان مندی کے جذبات سے سرشار تو ضرور ہیں،
۱۳
لیکن ان تمام مہربانیوں کی شکرگزاری کے لئے ہم اپنے آسمانی بادشاہ کے حضور میں کیا نذرانہ پیش کر سکتے ہیں اگر ہم اپنی حقیر جانیں اس کی راہ میں قربان کر دیں، تو پھر بھی حقیقت میں کیا کارنامہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ہماری جانیں بھی تو اسی کی ہیں۔
“روح کیا ہے؟” کی بحث بے حد دلچسپ بھی ہے، اور انتہائی مفید بھی، اور یہ سب سے عالی قدر موضوع ایسا ضروری ہے کہ اس کی طرف اہلِ دانش جس قدر بھی توّجہ دیں کم ہے، شاید کوئی دوست مجھ سے پوچھے گا کہ یہ بات اتنی اہمیّت والی کس وجہ سے ہو سکتی ہے؟ میں یہ عرض کروں گا کہ آیا معرفتِ روح معرفتِ خدا نہیں ہے؟ جیسا کہ مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ:
“من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ”
“جس نے اپنی روح کو پہچان لیا یقیناً اُس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔” سو وہ اس مبارک فرمان کو ضرور قبول کرے گا۔
جب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ مومن کی خود شناسی ہی میں خدا شناسی کا عظیم ترین خزانہ مل جاتا ہے، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ خدا اور خدائی کا یہ خزانہ اسرارِ روح اور رموزِ روحانیّت سے بھرپور ہے، اس میں قرآن اور اسلام کی عقل و جان بھی ہے، اور نبوّت و امامت کا درخشندہ نور بھی، اللہ تعالیٰ کے عظیم اور پیارے بھیدوں کا یہ گنجِ گرانمایہ، جس میں ازل اور ابد کے تمام حقائق و معارف جمع ہیں، جب روحانیّت میں ہے، تو پھر روح کا موضوع کیوں اہم اور ضروری نہ ہو۔
اب ہم اس پیاری کتاب کے سوالات کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ یہ کس طرح مرتب ہوئے، قصّہ یوں ہے کہ عرصۂ دراز سے روح اور روحانیّت پر جو سوالات عام لفظوں میں ہوتے آئے ہیں ایک تو انہی کو منظم شکل دی گئی ہے،
۱۴
اور دوسرے یہاں وہ سوالات ہیں، جو ہمارے بہت ہی پیارے پریذیڈنٹ فتح علی حبیب، دیگر عملداران اور ارکان کی خواہش و فرمائش پر خانۂ حکمت نے بنائے ہیں، یاد رہے کہ عام اور غیر منطقی سوال کوئی بھی کر سکتا ہے، مگر ایسا سوال حقیقی اور روحانی علم کی بلندیوں کو چھو نہیں سکتا، اور نہ ہی وہ حقیقتوں اور معرفتوں کو گھیر سکتا ہے، چنانچہ درست سوال کسی مکان کے صحیح نقشے کی طرح ہے، جس پر پرحکمت جواب کی خوبصورت عمارت قائم ہو سکتی ہے۔
اس مقام پر میں اپنے دینی بھائیوں، دوستوں اور عزیزوں کو ایک ضروری مشورہ دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ علمی فائدہ حاصل کرنے کے لئے خانۂ حکمت کی دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جائے، خصوصاً ان کتابوں کا، جو روح اور روحانیّت سے متعلق ہیں، تا کہ اس وسیع مطالعے سے ایک طرف تو قاری پر اس کتاب کے تمام مطالب روشن ہو جائیں، اور دوسری طرف اس کے ذخیرۂ معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔
یہ درویش جو دنیا کی گوناگون تکالیف سے تھکا ماندہ ہے، درختِ “خانۂ حکمت” کے زیرِ سایہ اپناحقیرانہ کام انجام دے رہا ہے، خداوندِ تعالیٰ اس پرمیوہ اور سایہ دار درخت اور اس کی سر سبز شاخوں کو دونوں جہان میں سدا بہار اور سربلند رکھے! اس کے لذیذ، خوشذائقہ اور خوشبودار پھلوں میں توقع سے زیادہ برکت پیدا کرے! اور اس کو ہر صبح و شام روئے زمین کے مومنین و مومنات کی نیک دعاؤوں سے حصّہ ملتا رہے!!
“خانۂ حکمت” ایک چھوٹا سا ذاتی نوعیّت کا ادارہ سہی، لیکن جب آپ حق پسندی اور علم پروری کی نظر سے اس کی اہمیّت و افادیّت کو دیکھیں گے، تو اس وقت آپ کو اس بات سے بڑا تعجب ہو گا کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی مصلحت و حکمت
۱۵
اور نورانی ہدایت پیاری جماعت کی ترقی اور مضبوطی کے لئے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی کس طرح اپنا کام کرتی رہتی ہے، الحمدللہ ہم سب افرادِ جماعت اس بات کے قائل ہیں کہ ہمارا پاک مذہب باطنی اور روحانی ہے، لہٰذا ہم سرچشمۂ نورِ ہدایت کے ذریعۂ ظاہر کے علاوہ وسیلۂ باطن پر بھی یقین رکھتے ہیں، پس ہم فیضِ باطن اور توفیق و تائیدِ روحانی کے لئے ہر وقت دعا کرتے رہتے ہیں۔
خانۂ حکمت کے عہدہ داران اور ارکان پر خداوندِ مہربان کی نظرِ رحمت ہے، کہ وہ زیورِ اخلاق و ایمان سے آراستہ ہیں، اُن میں عجز و انکساری، جذبۂ ایثار و قربانی اور دینداری کی تمام تر خوبیاں موجود ہیں، ان کی سب سے بڑی آرزو اور خوشی اس بات میں ہے کہ وہ اپنے امامِ اقدس و اطہر کے پیارے مریدوں کی کوئی علمی خدمت کر سکیں، وہ اسی مقصدِ عالی کے پیشِ نظر سوچتے بھی ہیں اور عملاً کوشش بھی کرتے ہیں۔
اس موقع پر ہم ادارۂ “عارف” کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں، یہ بڑا پیارا ادارہ ہے، اس نے مغرب میں اسماعیلی جماعت کے لئے جو علمی کارنامے انجام دیئے ہیں، وہ بڑے تسلی بخش اور دور رس فوائد کے حامل ہیں، اس کے کارکن عالی ہمت اور حوصلہ مند ہیں، انہوں نے خوش بختی سے مولائے زمان صلوات اللہ علیہ سے اپنی اس بے لوث علمی خدمت کے لئے پرحکمت اجازت اور پاک دعا حاصل کر لی ہے۔
“عارف” کا یہ خوبصورت نام کتنا پیارا ہے، دیکھئے اس سے معرفت کی خوشبو آتی ہے، کیونکہ اس لفظ میں معرفت کا تصوّر ہے، اور اس کا رشتہ مولا علی علیہ الصلاۃ و السّلام کے مبارک کلام سے ہے، یعنی یہ “من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ” کی بنیاد پر قائم ہے، لہٰذا امید ہے کہ یہ ادارہ آگے چل کر بہت مفید
۱۶
ثابت ہو گا۔
اصل میں “خانۂ حکمت” اور “عارف” دو دوست ادارے ہیں، بلکہ کہنا چاہئے کہ یہ ایک ہی علمی وجود کے دو نام ہیں، وہاں بھی اور یہاں بھی اور عملدار و ارکان ہر وقت یہی چاہتے ہیں کہ فروغِ علمِ دین کا پھیلاؤ زیادہ سے زیادہ ہو، کیونکہ جب اس مذہب میں نورِ ہدایت کا سرچشمہ موجود ہے تو پھر یہاں کسی قسم کی جہالت و نادانی کی تاریکی کو کیوں رکھنا چاہئے۔
امامِ حیّ و حاضر کی مہربانی اور نوازش سے “خانۂ حکمت” اور “عارف” کے پاس اس وقت کل ملا کر سو (۱۰۰) کتابیں موجود ہیں ان میں سے تقریباً نصف کتابیں چھپ چکی ہیں، یہ کتابیں سب کی سب اسماعیلی مذہب پر ہیں، جو سب سے اہم موضوعات پر مبنی ہیں، جیسے تصوّرِ توحید، یک حقیقت (MONOREALISM)، قرآن کی حکمت و تاویل، اسمِ اعظم، ذکر و بندگی، معارفِ اسلام، حقائقِ نبوّت، اسرارِ امامت، نظریۂ قیامت، معرفتِ روح و روحانیّت، فلسفۂ خودی، مذہب اور سائنس، جماعتی خدمت، حقیقتِ نور، اثباتِ امامت، کیفیتِ معراج، وغیرہ، یہ کتابیں ان شاء اللہ تعالیٰ حال و مستقبل میں اہلِ علم کے لئے ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
آخر میں عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم اپنی رحمتِ بے نہایت سے خانۂ حکمت اور عارف کے سعادت مند عملداروں اور ممبروں کو مذہب اور قوم کی علمی خدمت کے لئے ہر وقت نورانی توفیق اور اعلیٰ ہمت عنایت فرمائے! ان کو دنیا و عقبیٰ کی کامیابی اور سرفرازی عطا کرے! خداوندِ برحق جملہ جماعت کو روحانی علم اور نورانی معرفت کی لازوال دولت سے مالامال فرمائے! آمین ! !
امامِ وقت کا غلامِ کمترین
نصیر الدین نصیر ہونزائی
منگل ۲۰ شعبان ۱۴۰۱ھ
۲۳ جون ۱۹۸۱ ء سالِ مرغ
۱۷
بابِ اوّل:
روحِ نباتی:
سوال نمبر ۱: درخت، جھاڑ، گھاس اور ہر قسم کی اُگنے والی چیز (نبات) میں جو روح موجود ہوتی ہے، اس کا کیا نام ہے؟ کیا نباتات میں صرف ایک ہی روح ہوا کرتی ہے؟
جواب: ہر اُگنے والی چیز جو نبات کہلاتی ہے، اس میں روحِ نباتی ہوتی ہے، جس کو روحِ نامّیہ بھی کہتے ہیں، ہاں نباتات میں صرف ایک ہی روح ہوتی ہے۔
روحِ حیوانی:
سوال نمبر ۲: جانور جو حیوانِ صامت ہے، اس میں کتنی روحیں ہوتی ہیں؟ ان کے مرکز کہاں کہاں ہیں؟ ہر ایک کا نام اور کام بتائیے۔
جواب: جانوروں میں دو روحیں ہوتی ہیں، ایک کا مرکز جگر ہے، یہ روحِ نباتی ہے، جس کی بدولت جسم نشونما پاتا ہے، اور دوسری کا سنٹر دل ہے، جس سے روحِ حیوانی حِس و حرکت سے متعلق سارا کام کرتی ہے، روحِ حیوانی کا دوسرا نام روحِ حِسّی ہے۔
روحِ انسانی:
سوال نمبر ۳: انسان کی حیات و بقاء کتنی روحوں پر قائم ہے؟
۲۱
یہ روحیں کون کون سی ہیں، اور جسم کے کس کس عضو میں رہ کر کام کرتی ہیں؟
جواب: انسانی زندگی کا قیام تین روحوں پر ہے، وہ علی التّرتیب روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی ہیں، روحِ نباتی کا مسکن جگر، روحِ حیوانی کا مقام دل، اور روحِ ناطقہ کا مرکز دماغ کا اگلا حصّہ ہے، پہلی روح سے جسم پروان چڑھتا ہے، دوسری روح حِس و حرکت کا سرچشمہ ہے، اور تیسری روح نطق و تمیز کا خزانہ۔
روحِ قدسی:
سوال نمبر ۴: ظاہر ہے کہ ایک عام انسان کیا بلکہ ہر درجے کا آدمی انسانِ کامل سے کمتر ہے، اس روحانی فرق کا کیا سبب ہے؟ آیا انسانِ کامل میں صرف روح کی پاکیزگی زیادہ ہے یا کوئی اعلیٰ اور خاص و پاک روح بھی ہے؟
جواب: عالمِ انسانیّت میں جس طرح انسانِ کامل منفرد و ممتاز ہے۔ اس کی وجہ روحِ قدسی ہے، جو انسانِ کامل کو عطا ہوتی ہے، جس سے لازمی طور پر روح کی پاکیزگی قائم رہتی ہے، کیونکہ روحِ مقدّس تو پاک ہونے اور پاک کر دینے کے تمام معنوں میں ہے، اس پاک روح کا قیام روحِ انسانی پر ہے، چنانچہ انسانی روح کے مرکز کے اوپر اس کا سنٹر ہے، یعنی پیشانی میں، جو انسان کی شخصیّت میں سب سے اعلیٰ مقام اور روحانی معجزات کی ظہور گاہ ہے۔
نوٹ: روحِ نباتی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ: اور خدا ہی نے تم کو زمین سے بحیثیتِ نبات اگایا (۷۱: ۱۷)۔
۲۲
مسٔلۂ تقسیمِ روح:
سوال نمبر ۵: کیا انسانی روح اور دوسری چھوٹی بڑی روحیں سب کی سب ذرّات اور اجزأ پر مشتمل ہیں یا اُن میں سے ہر ایک ایسی وحدت و یکتائی رکھتی ہے کہ جس سے وہ ناقابلِ تجزیّہ و تقسیم قرار پاتی ہے؟
جواب: روح کوئی بھی ہو فی ذاتہٖ تقسیم نہیں ہوسکتی ، مگر جسمِ لطیف کے توسّط سے ہر درجے کی روح کے لاتعداد روحانی ذرّات ہوا کرتے ہیں، اور اس میں ہر ذرّہ اپنی نوعیّت کی ایک زندہ روح ہے، مثلاً کسی چھوٹے سے چھوٹے پودے میں روحِ نباتی کے بے شمار ذرّات موجود ہوتے ہیں، مگر وہ سب تقریباً ایک جیسے ہیں اور ان کا کام بھی ایک قسم کا ہے، لہٰذا کہا جاتا ہے کہ روحِ نباتی ایک ہے یا یوں سمجھ لیجئے کہ ان تمام ذرّات کی وحدت روحِ نباتی ہے، اور حیوان و انسان کی روح میں بھی یہی بات ہے۔
رُوح اور نُور:
سوال نمبر ۶ ۔ انسانِ کامل (یعنی پیغمبرؐ اور امامؑ) میں جو عظیم اور پاک روح موجود ہوتی ہے کیا وہی روح نور کہلاتی ہے یا نور اس کے علاوہ ہوتا ہے؟
نوٹ: بی بی مریم کی پاکیزہ شخصیت میں روحِ نباتی کا جو حسنِ کردار تھا، اس کی بابت فرمانِ خداوندی ہے کہ: خدا نے اسے حسن و خوبی سے اگایا (نشونما کی) و انبتھا نباتا حسنا (۰۳: ۳۷)۔
۲۳
ایسی عظیم الشّان روح کہاں سے آتی ہے؟
جواب: انسانِ کامل میں جو مقدّس روح ہے وہی نور بھی ہے، کیونکہ اسی عظیم روح کو خدائے علیم و حکیم نے علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا نور بنایا ہے، یہ نور ہمیشہ سابِق سے لاحِق میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔
روحِ قرآن:
سوال نمبر ۷۔ آیا قرآنِ پاک کی کوئی عظیم روح ہے؟ اگر کہا جائے کہ قرآنِ حکیم کی ایک معجزاتی روح ہے، تو سوال اٹھتا ہےکہ وہ روح کہاں ہے، قرآن میں یا اور کہیں؟
جواب: ہاں، قرآنِ شریف کی روح ہے، جو زندہ اور تابندہ یعنی نور ہے، آپ اس بارے میں خود قرآن ( ۴۲: ۴۲ ) کی شہادت دیکھ سکتے ہیں، کہ خداوندِ عالم نے قرآن کو ایک عالی شان زندہ روح کی صورت میں آنحضرتؐ پر نازل فرمایا، اور اسی پاک روح کو نور قرار دیا، پس یہی نور روحِ قدسی بھی ہے، جس کا اس سے پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ وہ روح آنحضرتؐ کے بعد سلسلۂ أئمّۂ طاہرینؑ میں موجود و محفوظ ہے۔
رُوحِ خدا:
سوال نمبر ۸: کیا یہ صحیح ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کی بھی ایک پاک و برتر
نوٹ: سابق سے ہر اگلا انسانِ کامل مراد ہے اور لاحق ملا ہوا، یعنی جانشین، حضرت آدم سے پہلے بھی سابق اور لاحق کا یہ سلسلہ چلتا تھا، کیونکہ دین کی اساسی چیزوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، وہ خدا کی سنت (۱۷: ۷۷) کے مطابق اٹل ہیں۔
۲۴
اور ہمہ گیر روح ہے؟ نیز آپ یہ بتائیں کہ حضرتِ عیسیٰؑ کس معنیٰ میں روح اللہ (خدا کی روح) تھے؟ آیا یہ درجہ صرف حضرتِ عیسیٰؑ ہی کو حاصل تھا یا یہ مرتبہ تمام انبیائے کرامؑ میں مُشترک ہے؟
جواب: ہاں، یہ درست ہے کہ خدائے پاک کی روح ہے جو سب سے عظیم اور نورِ دائم ہے، مگر اس طرح نہیں کہ وجودِ باری تعالےٰ اِسی روح سے قائم ہو، کیونکہ ذاتِ سُبحان ہر چیز سے بے نیاز اور پاک و برتر ہے، بلکہ خدا کی روح اور نور کا درجہ کئی اعتبار سے حضراتِ انبیأ و أئمّہ صلوٰت اللہ علیہم ہی کو حاصل ہے، اور حضرتِ عیسیٰؑ اس حقیقت کی ایک مثال ہیں، جبکہ واقعاً ہر پیغمبر اور ہر امام روحِ خدا اور نورِ خدا کا مرتبہ رکھتا ہے۔
کائناتی روح:
سوال نمبر ۹: کہا جاتا ہے کہ اس کائنات کی ایک ایسی روح ہے جو اس پر محیط ہے، اس کا کیا نام ہے؟ آیا یہ حقیقت ہے کہ ہم کائناتی روح کے سمندر میں اس طرح قیام پزیر ہیں جس طرح پانی میں مچھلیاں رہتی ہیں؟
جواب: جی ہاں، یہ ایک مُسلّمہ حقیقت ہے کہ ارض و سماوات کی ایک عظیمُ الشّان رُوح ہے، جس کے کئی نام ہیں، جیسے نفسِ کُلّی، روحِ ارواح، کُرسیٔ خدا، لوحِ محفوظ وغیرہ، بیشک ہم عالمگیر روح کے گہرے سمندر میں مستغرق ہیں
۲۵
مگر روحانی وصال کا سوال اِس سے الگ ہے۔
ہر چیز میں روح:
سوال نمبر ۱۰: فرمایا گیا ہے کہ کوئی چیز روح کے بغیر نہیں، تو کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں، پتھر اور مٹی جیسی چیزوں کی بھی روح ہوا کرتی ہے؟ وہ روح کون سی ہے؟
جواب: یہ بالکل درست ہے کہ ہر بے جان چیز بھی اصل میں ایک جان رکھتی ہے، مگر یہ ہے کہ ایسی روح (جان) ان اشیاء کے اندر خاموش اور سوئی پڑی ہے، کیونکہ مصلحت و حکمتِ خداوندی اسی میں تھی، کہ روحِ نباتی سے نچلے درجے کی روح موت کی نیند سوتی رہے تا وقتیکہ یہ نباتات کی شکل میں زندہ نہ ہوجائے، یہ روح تکوینی اور معدنی ہے۔
روحِ ایمان:
سوال نمبر ۱۱: اسلام اور ایمان کی روح کون سی ہے؟ وہ کہاں رہتی ہے؟ آیا وہ بولنے والی ہے یا خاموش؟
جواب: اسلام اور ایمان کی روح بھی وہی ہے، جو قرآن کی روح ہے، اور وہ ہادئ برحقؑ میں قائم ہے، کیونکہ یہ اس کی پاک روح ہے، جو نورانیّت سے بھر پور ہے (اعنی وہ نور ہے، بحوالہ قرآن ۴۲: ۵۲)۔
۲۶
خواب اور رو ح:
سوال نمبر ۱۲: آدمی جب نیند کی کیفیّت میں ہوتا ہے، تو اس وقت اس کی روح کہاں ہوتی ہے؟ وہ جو خواب دیکھتا ہے، اس کا محلِ وقوع جسم ہے یا روح، یعنی عالمِ خواب کہاں ہے؟
جواب: آدمی جس وقت سو جاتا ہے، تو اس حال میں روح جسم کو کلّی طور پر نہیں چھوڑتی ہے، بلکہ بعض حواس سے اس کی گرفت ڈھیلی ہو جاتی ہے اور وہ اپنی ذات کی طرف متوجّہ ہو کر رہتی ہے، پس آدمی اپنی روح کے باطن ہی میں خواب دیکھتا ہے اور وہ اس کے لئے کہیں نہیں جاتا (دیکھئے: کتابِ مطالعۂ روحانیت و خواب)۔
ذکر اور روح:
سوال نمبر ۱۳: ذکر و بندگی سے روح پر جو پُرمسرت اثرات پڑتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے، اور غفلت و نافرمانی سے جو دل اُداس ہو جاتا ہے اس کا کیا سبب ہے؟
جواب: خدا کی پاک و پاکیزہ یاد اور مقدّس غلامی و فرمانبرداری روحِ مومن کے لئے امید و یقین کی بہشت ہے اور غفلت و نافرمانی اس کے برعکس خوف و جہالت کا جہنم ہے، اس سے دونوں متضاد کیفیّت پر روشنی پڑتی ہے کہ پہلی صورت میں کیونکر شادمانی ہو سکتی ہے اور دوسری صورت میں کیسے غم آسکتا ہے۔
۲۷
راہِ روح:
سوال نمبر ۱۴: خواہ جانور کا بچہ ہو یا انسان کا، جب شکمِ مادر میں ہوتا ہے تو اس وقت اس میں روحِ حسی یا روحِ حیوانی کس راہ سے داخل ہوتی رہتی ہے، اور جب یہی بچہ پیدا ہو کر ماں کا دودھ پینے لگتا ہے تو اس حال میں روحِ حیوانی کس راستے سے بچے میں آتی ہے؟ آیا یہ روح چند دنوں یا چند مہینوں میں مکمل ہو جاتی ہے یا یہ ایک لمبا سلسلہ ہے؟
جواب: جب کوئی حیوانی یا انسانی بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اس کی ناف کی راہ سے ماں کا خون بطورِ غذا داخل ہوتا رہتا ہے اور اسی میں روحِ حیوانی بھی آتی رہتی ہے، مگر جب وہ جنم لیتا ہے تو ناف کٹ جاتی ہے، اور وہ دودھ پینے لگتا ہے، پھر اس صورت میں روحِ حیوانی مُنہ سے داخل ہونے لگتی ہے، اور زندگی بھر جس طرح خوراک کا سلسلہ جاری ہے، وہ روحِ حیوانی کی تکمیل اور مرمّت ہی کا سلسلہ ہے۔
روحِ ناطقہ کا سرچشمہ:
سوال نمبر ۱۵: بچے میں روحِ ناطقہ (یعنی بولنے والی روح) جو انسانی روح ہے، وہ کس سرچشمے سے آتی ہے، اور کس راہ سے دماغ میں داخل ہو جاتی ہے؟ آیا یہ یکایک آتی ہے یا بتدریج مکمل ہو جاتی ہے؟
جواب: بچے کی روحِ ناطقہ کا سرچشمہ گھر کے وہ افراد ہیں، جو اکثر اس کے ساتھ محوِ گفتگو ہوتے ہیں، جیسے ماں، بہن، باپ،
۲۸
بھائی وغیرہ، چنانچہ اس بات چیت کے ساتھ روحِ ناطقہ کانوں کی راہ سے بچے کے دماغ میں داخل ہوتی رہتی ہے، اور بتدریج مکمل ہو جاتی ہے۔
ترتیبِ ارواح:
سوال نمبر ۱۶: انسان میں روحوں کے آنے کی کیا ترتیب ہے، یعنی پہلے کونسی روح آتی ہے، اعلیٰ روح یا ادنیٰ روح؟ بتائیے عقل پہلے آتی ہے یا روحِ ناطقہ؟
جواب: انسان میں سب سے پہلے اساسی طور پر روحِ نباتی آتی ہے، جو ایک قطرے میں موجود ہوتی ہے، پھر روحِ حیوانی، پھر روحِ انسانی اور آخر میں عقل آتی ہے، اس سے یہ ترتیب ظاہر ہے کہ پہلے ادنیٰ یعنی کمتر روح آتی ہے اور پھر اعلیٰ روح، اور یہ بھی عیان ہے کہ پہلے روحِ ناطقہ آتی ہے پھر عقل۔
نفس یا روح؟
سوال نمبر ۱۷: نفس اور روح میں کیا فرق ہے؟ قرآن میں انسانی نفس کے کتنے درجے مذکور ہیں؟
جواب: لوگوں کی عادت الگ ہے اور حقیقت الگ، سو حقیقت میں نفس اور روح کا ایک ہی مطلب ہے، چنانچہ جب “نفسِ امارہ” کہا جائے تو اس کے معنی پستی کی طرف آئیں گے، اور جب “نفسِ مطمئنہ” بولا جائے تو
۲۹
اس کے معنی بلندی کی طرف اُٹھیں گے اور یہی مثال “روحِ حیوانی اور روحِ انسانی” کی بھی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ نفس ہو یا روح، اس کے درجات ہیں، قرآن میں انسانی نفس (یعنی جان) کے تین درجے مذکور ہیں، وہ نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ اور نفسِ مُطمئنّہ ہیں (۱۲: ۵۳، ۷۵: ۰۲، ۸۹: ۲۷) ۔
روح اور عطیۂ خون:
سوال نمبر ۱۸: جب ایک آدمی کسی مریض کو بوقتِ ضرورت خون کا عطیہ دیتا ہے تو اس خون کے ساتھ کون کون سی روحیں بیمار آدمی میں منتقل ہو جاتی ہیں؟
جواب: اس خون کے ساتھ صرف روحِ نباتی اور روحِ حیوانی کے ذرّات کی کچھ تعداد منتقل ہو جاتی ہے نہ کہ روحِ انسانی کا کوئی حصّہ، کیونکہ انسانی روح خون سے نہیں بلکہ گفتگو سے منتقل ہو سکتی ہے، چنانچہ یاد رہے کہ علم و حکمت کی باتوں سے مومنین میں درجۂ اعلیٰ کی روح بنتی ہے جو پاک روح ہے۔
درجاتِ ارواح:
سوال نمبر ۱۹: جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان، یہ تو مخلوقات کے بڑے درجے ہیں، یا یہ بڑی تقسیم ہے، مگر ہمیں یہ پوچھ لینا ہے کہ آیا ان میں سے ہر درجے کے ذیلی درجے بھی ہیں یا نہیں؟ اگر مان لیا جائے کہ ان کے
۳۰
ذیلی درجات بھی ہیں، تو پھر روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی میں سے ہر ایک کے بہت سے مراتب ہوں گے، اس کی وضاحت کیجئے۔
جواب: جی ہاں، جمادات کے مختلف درجات ہیں، نباتات اور حیوانات کے بھی، اور انسان بھی اخلاق و دینداری کے بہت سے درجوں پر ٹھہرے ہوئے ہیں، اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی میں سے ہر ایک کے لاتعداد درجات ہیں۔
روحِ معرفت:
سوال نمبر ۲۰: اگر روح کی شناخت خدا کی معرفت ہو سکتی ہے، تو بتائیے کہ یہ روح کون سی ہے؟
جواب: خدا کی معرفت روحِ قدسی کے بغیر مُحال ہے، لہٰذا اس سلسلے میں سب سے اوّل روحِ مقدّس کو حاصل کر کے اپنانا پڑتا ہے کیونکہ اسی روح کی پہچان خدا کی معرفت قرار پاتی ہے اور یہ روح انسانِ کامل کے توسّط سے مل سکتی ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ انسانِ کامل دوسروں کو بھی کامل بنا سکتا ہے۔
۳۱
بابِ دوم:
لاتعداد روحیں:
سوال نمبر ۲۱ ۔ جَنین (بچۂ شکمِ مادر) میں روحِ حیوانی کب داخل ہو جاتی ہے؟ آیا یہ روح تخلیقِ بدن کے نقطۂ آغاز میں شروع ہی سے موجود نہیں ہوتی، جبکہ ڈاکٹری سائنس کی جدید ریسرچ (تحقیق) کے مطابق تخمِ حیات کے اُن تمام قطرات میں روحِ حیوانی کے ذرّات مجموعی طور پر کروڑوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں؟
جواب: ڈاکٹری سائنس کی یہ بات بالکل معقول اور صحیح ہے، اور اس سے ان روحانی مشاہدات کی تصدیق و تائید ہو جاتی ہے، جن کی روشنی میں قبلاً یہ کہا گیا تھا کہ ہر درجہ کی روح کے لا تعداد ذرّات ہوا کرتے ہیں، جو اُس روح کے مطابق زندگی رکھتے ہیں، اور یقین کرنا چاہئے کہ ہر ایک روح کی ایسی ذیلی تقسیم اور اتنی کثرت و فراوانی میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور رحمتیں بھی اس قدر زیادہ ہیں، بہر کیف جنین میں حرکت چار ماہ کے بعد نمایا ن ہو جاتی ہے، اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ روحِ حیوانی چوتھے مہینے کے اختتام پر آتی ہے۔
لفظِ “روح” کتنی دفعہ؟
سوال نمبر ۲۲: قرآنِ حکیم میں لفظِ “روح” کتنی دفعہ آیا ہے، اور موضوعِ روح سے متعلق جملہ آیات میں کلیدی آیت کون سی ہے؟ مدلل وضاحت کیجئے۔
۳۵
جواب: اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو قرآنِ پاک سراسر روح کے تذکروں سے مملو ہے، اس کے علاوہ ظاہر میں روح کے مترادفات بھی بہت زیادہ ہیں، لیکن یہاں سوال صرف لفظِ “روح” کے بارے میں ہے، لہٰذا یہی بتانا کافی ہے کہ “روح” کا لفظ قرآن میں ۲۴ دفعہ مذکور ہے، اور روح کے باب میں اساسی و کلیدی آیت یہ ہے:۔
“اور (اے رسولؐ) تم سے لوگ “الرُّوح” کے بارے میں سوال کرتے ہیں تم کہدو کہ “الرُّوح” میرے پروردگار کے (عالمِ ) امر سے ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے (۱۷: ۸۵ ) چنانچہ جاننا چاہیےکہ روح سے متعلق یہ قرآنی تعلیم بنیادی اور کلیدی اہمیّت کی حامل ہے، کیونکہ یہ سوال خواہ جیسا بھی کیا گیا ہو، مگر سب سے بڑی روح کے معنی میں لیا گیا ہے، جیسے اس میں “الرُّوح” کا لفظ آیا ہے، نیز اس کے حقائق و معارف کے لئے کلمۂ “کُن” اور عالمِ امر کا حوالہ دیا گیا ہے، تاکہ اہلِ دانش معرفتِ روح کے ان وسائل سے روحانی طور پر رجوع کریں۔
روح کی خاص صورت:
سوال نمبر ۲۳: کیا یہ بات صحیح ہے کہ روح کی شکلیں کائنات بھر کی مخلوقات کی طرح مختلف بھی ہیں اور اتنی زیادہ بھی؟ آیا ان تمام صورتوں میں سے روح کی کوئی خاص صورت بھی ہے؟ اگر اس کی کوئی مخصوص صورت ہے تو وہ کون سی ہے؟
جواب: جی ہاں، بالکل صحیح ہے، کائناتی روح اپنی تمامتر خوبیوں کے ساتھ کائنات کی شکل و شباہت رکھتی ہے، اور یہ حقیقت جنّت کے
۳۶
ذکر میں موجود ہے (۵۷: ۲۱ ) اور جُزوی رُوحیں بھی اجزائے کائنات اور مخلوقات کی سی شکل و صورت رکھتی ہیں، مگر روح کی سب سے خاص صورت یہ ہے کہ وہ انسانی شکل میں ہے، اور اس سے بھی آگے بڑھ کر انسانِ کامل کی صورت میں، جو صورتِ رحمان ہے۔
مُشاہدۂ روحانیّت:
سوال نمبر ۲۴: آپ جن ذرّاتِ روحانی کا اکثر ذکر کرتے رہتے ہیں، آیا وہ مشاہدۂ روحانیّت اور معرفت کی بات ہے یا صرف قرآنی علم کی؟ اگر روح کا دیدار ممکن ہے تو وہ کس آنکھ سے ہوتا ہے، یعنی دیدۂ ظاہر سے یا دیدۂ باطن سے؟
جواب: ذرّاتِ روح کا تذکرہ مشاہدۂ روحانیّت و معرفت اور قرآنی حکمت کے بغیر ممکن نہیں، اور نہ ہی امامِ زمانؑ کی تائید کے سوا روحانیّت اور حکمتِ قرآن حاصل ہو سکتی ہے، دیدارِ روح کا تعلق چشمِ باطن سے ہے، مگر بعد میں ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اس میں حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن باہم مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔
تبادلۂ روح:
سوال نمبر ۲۵: آپ کے کہنے کے مطابق ایک ہی روح، مثلاً روحِ انسانی یا نفسِ ناطقہ لاتعداد روحوں کا مجموعہ ہے، پھر بتائیے کہ آیا یہ تمام روحیں
۳۷
زندگی بھر انسان کے جسم میں محبوس و مقیّد رہتی ہیں یا کہ ان کا تبادلہ اور آنا جانا ہوتا ہے؟
جواب: کوئی شک نہیں کہ ایک ہی روح کے نام سے بے شمار روحیں انسانی جسم میں رہتی ہیں، مگر یہ ہے کہ بہت سے مواقع پر ان کا ایسا تبادلہ اور آنا جانا ہوتا ہے کہ سوائے اہلِ روحانیّت کے اس کا کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا، مثال کے طور پر نیند کے دوران کچھ روحیں جاتی ہیں اور کچھ نئی روحیں آتی ہیں (۳۹: ۴۲ )۔
تجدید و تازگی:
سوال نمبر ۲۶: اگر معاملہ کچھ یوں ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ ہماری مجموعی روحانیت میں تجدید و تازگی ہو، وہ یہ کہ آلودہ اور فرسودہ ذرّات چلے جائیں اور عمدہ عمدہ ذرّات ان کی جگہ لیں، اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
جواب: صاحبِ امر کی فرمانبرداری میں کامیاب عبادت و بندگی، مومنین کی خدمت اور عاجزی اختیار کرنے سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے، اور خداوندِ عالم نے تبادلہ کا یہ نظام اہلِ ایمان کی روحانی تر قی ہی کے لئے بنا یا ہے۔
روح کب سے ہے؟
سوال نمبر ۲۷: روح کب سے ہے اور کب تک قائم رہ سکے گی،
۳۸
بالفاظِ دیگر خداوند تعالیٰ نے روح کب پیدا کی تھی، اور کتنے عرصے کے لئے؟
جواب: اس سے پیشتر آیۂ کریمہ کی وضاحت ہو چکی ہے کہ روح عالمِ امر سے ہے، (یعنی عالمِ خلق سے نہیں) اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ روح ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے اور یہ خدا کی سب سے بڑی صفت ہے کہ اس کی بادشاہی میں ایسی چیزیں بھی ہیں جو قدیم ہیں، کیونکہ جو چیز عالمِ امر سے منسوب ہو وہ قدیم ہوتی ہے اور جو شیٔ عالمِ خلق کی ہو تو وہ حادث ہوتی ہے۔
نفسِ واحدہ:
سوال نمبر ۲۸: یہ تو بالکل درست ہے کہ سب سے بڑی روح ایک مثال میں “روحوں کا سمندر” ہے اور دوسری مثال میں “روح الارواح” ہے، لیکن ہم اس کے علاوہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ عظیم ترین روح کا کوئی قرآنی نام ہو، تاکہ یہ حقیقت اور زیادہ روشن ہو جائے، تو کیا آپ اِس باب میں قرآنِ حکیم سے کچھ بتا سکتے ہیں؟
جواب: قرآنِ پاک میں کائناتی روح کے کئی نام مذکور ہیں، اور ان میں سے ایک نام “نفسِ واحدہ” ہے (۳۱: ۲۸) جس میں تمام روحیں جمع ہیں، جہاں ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو سب لوگ بیک وقت اور معاً پیدا کئے گئے تھے اور وہ اسی طرح دوبارہ پیدا ہو جائیں گے۔
۳۹
اسمِ اعظم:
سوال نمبر ۲۹: مطالعۂ قرآن (۰۴: ۱۷۱ ) سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ خدا کا کلمہ تھے جو بی بی مریمؑ میں القاء کیا گیا، اور خدا کی طرف سے ایک خاص روح تھے، اس میں پوچھنا یہ ہے کہ آپؑ کس طرح کلمہ تھے اور کونسا کلمہ تھے؟ نیز یہ کہ کلمہ اور روح میں کیا مناسبت ہے، اور یہ روح کون سی تھی؟
جواب: اس کی حکمت یوں ہے کہ حضرتِ عیسیٰؑ جسمانی پیدائش سے قبل اور بعد میں بھی روحانی طور پر کلمۂ خدا تھے جو اسمِ اعظم ہے اور یہ اسمِ اعظم حضرتِ مریمؑ کو دیا گیا، کلمہ اور روح کا رشتہ یہ ہے کہ عظیم روح اسمِ اعظم (کلمہ) میں پوشیدہ ہوتی ہے، اور وہ روح القدس ہے، اور اسی طرح خدا وندِ عالم نے بی بی مریمؑ میں روحِ قدسی پھونک دی تھی۔
خدائی روح پھونک دینا:
سوال نمبر ۳۰: قرآنِ کریم (۳۲: ۰۹) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک روح آدمؑ میں پھونک دی، آیا یہ کوئی الگ طریقہ تھا یا اسمِ بزرگ کی تعلیم دینا ہی روح القدس پھونک دینا تھا؟
جواب: ہم نے کتابِ “پیر ناصر خسرو (ق س) اور روحانیت” میں تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے کہ ربّ العزّت نے اپنی روح حضرت آدمؑ میں اس طرح پھونک دی تھی کہ اس حکمت والے نے آدمِ صفی اللہ کو اسمِ اعظم کی تعلیم سے سرفراز فرمایا، اور کل اسماء کا علم بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔
۴۰
لفظِ “ارواح” کیوں نہیں؟
سوال نمبر ۳۱: قرآنِ پاک میں جہاں جہاں روح کا ذکر آیا ہے تو وہ سب صیغۂ واحد میں “روح” ہے مگر کہیں بھی صیغۂ جمع میں “ارواح” نہیں، سو اس میں کیا راز ہے؟ مثال کے طور پر تنزّ لُ الملٰئٓکۃ وا لرّوحُ فیھَا ( اس میں فرشتے نازل ہوتے ہیں اور روح ۹۷: ۰۴) حالانکہ اس میں ظاہری تقاضا تو یہ ہے کہ قدر کی رات کے موقع پر جس طرح بہت سارے ملائکہ اترتے ہیں اسی طرح صرف ایک ہی روح نہیں بلکہ بہت سی ارواح نازل ہوں۔
جواب: اس میں مصلحت و حکمت اور راز یہ ہے کہ ایک ہی عظیم اور سردار روح میں بے حساب روحیں جمع ہوتی ہیں، چنانچہ ایک عظیم روح کا نازل ہونا ہی بہت سی ارواح کا نزول ہے اور اس کا ذکر سب کا ذکر ہے، جیسے فرمایا گیا ہے کہ: اس (خدا) کی طرف فرشتے اور روح چڑھتی ہے ایک دن میں جو پچاس ہزار برس کے برابر ہے (۷۰: ۰۴) یہ بات بہت ہی عجیب ہوگی اگر ہم صرف یہی خیال کریں کہ اتنے لمبے دور میں جو پچاس ہزار برس کا ہے صرف ایک ہی روح خداوندِ عالم کے حضورِ اقدس میں پہنچ سکتی ہے، مگر یہ بات نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سردار روح (جیسے انسانِ کامل کی پاک روح) تو ایک ہی ہوتی ہے، مگر اس میں کائنات بھر کی ارواح سمائی ہوئی ہوتی ہیں۔
۴۱
فرشتوں کا لشکر اور سردار: ۔
سوال نمبر ۳۲: روح سے متعلق اس بحث کے سلسلے میں شروع سے لے کر یہاں تک جس طرح بیان ہوا اس سے بہت سی حقیقتوں کے علاوہ ہم یہ اصول بھی سمجھ گئے کہ ہر درجہ کی روح میں بہت سی ارواح موجود ہوتی ہیں، اسی کے ساتھ ساتھ ہم فرشتوں کے بارے میں بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا ایک سردار فرشتہ کے تحت بہت سے فرشتے کام کرتے ہیں یا نہیں؟
جواب: جی ہاں، فرشتوں کے متعلق بھی یہی تصوّر درست ہے کہ ہر کام کے لئے ایک سردار فرشتہ ہوا کرتا ہے اور اس کے تحت بہت سے فرشتے اور ہوتے ہیں جو بحکمِ خدا اس کے ساتھ متعلقہ کام کرتے ہیں، جیسے حضرت عزرائیلؑ کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ: “(اے رسولؐ) تم کہدو کہ ملک الموت (عزرائیل) جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہی تمہاری روحیں قبض کرے گا (۳۲: ۱۱)” اور عزرائیل کے ماتحت فرشتوں کے متعلق یوں ارشاد ہے: “یہ وہ لوگ ہیں جن کی روحیں فرشتے اس حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں تو فرشتے ان سے کہتے ہیں تم پر سلامتی ہے ( ۱۶: ۳۲)” اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے کہ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علہیم السّلام میں سے ہر ایک فرشتہ کے تحت بہت سے ذیلی فرشتے کام کرتے ہیں۔
روح اور فرشتہ: ۔
سوال نمبر ۳۳: روح اور فرشتہ کے درمیان کیا فرق ہے، اور نور
۴۲
کے ساتھ فرشتے کا کیا رشتہ ہے؟ کیا الگ الگ بہت سے انوار ہو سکتے ہیں یا کہ نور صرف ایک ہی ہوتا ہے؟
جواب: روح بعض دفعہ فرشتہ اور فرشتہ بعض اوقات روح کے لئے بولا جاتا ہے، اس صورت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں، اور جہاں فرق ہے وہ یہ ہے کہ روحوں میں اچھی بھی ہیں اور بری بھی، مگر فرشتے سب کے سب اچھے ہیں، یعنی فرمانبردار (۱۶: ۵۰) چنانچہ ایسی روحیں جو فرمانبرداری کے درجۂ کمال پر پہنچ گئی ہوں، وہ فرشتے بن چکی ہیں، کیونکہ فرشتے ارواحِ مومنین و مومنات سے ہی بن جاتے ہیں، نور کے ساتھ فرشتے کا رشتہ یہ ہے کہ اگر فرشتہ عظیم ہے تو وہ نور ہوتا ہے، جس طرح بڑی روح نور کہلاتی ہے، نور کے چاند ستارے الگ الگ ہو سکتے ہیں، لیکن وہ صرف سرچشمۂ نور یعنی آفتابِ دین میں ایک ہیں، بلکہ وہ اس روشنی میں بھی ایک ہیں، جو ان کے توسّط سے پھیل جا تی ہے۔
ترقی یافتہ روح: ۔
سوال نمبر ۳۴: یہ بات بڑی اہمیّت والی ہے جو بتائی گئی کہ کچھ روحیں جو خدا اور رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی اطاعت کرتی ہیں، وہ فرشتوں کی حیثیت سے ہیں یا کل فرشتے بن جانے والی ہیں، لہٰذا اس مطلب پر مزید روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ حقیقت زیادہ سے زیادہ روشن ہو جائے کہ ہر ترقی یافتہ روح فرشتہ ہے۔
جواب: جبرائیلؑ کے فرشتہ ہونے میں کسی کو کیا شک ہوسکتا
۴۳
ہے، فرشتہ فارسی لفظ ہے، اس کی عربی “مَلَک” ہے، آپ قرآن میں دیکھ سکتے ہیں کہ جبرائیل مَلَک (فرشتہ) ہے (۴۲: ۵۱) اور آپ یہ بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ حضرت جبرائیلؑ پاک روح ہے (۱۶: ۱۰۲) اور امانت والی روح ہے ( ۲۶: ۱۹۳) صرف یہی نہیں بلکہ اور بھی آیات ہیں، جن میں لفظ “روح” فرشتہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، مثلاً اس آیت کو لیجئے: ۔
فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا(۱۹: ۱۷) تو ہم نے اپنی روح (جبرائیل) کو ان کے پاس بھیجا تو وہ اچھے خاصے آدمی کی صورت بن کر ان کے سامنے آکھڑا ہوا۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہے کہ ہر اعلیٰ روح ایک فرشتہ ہے، اسی کے ساتھ ہم یہاں یہ بھی کہیں گے کہ جن آیات میں بہت سے فرشتوں کے ساتھ ایک خاص روح کا ذکر ہوا ہے (مثال کے طور پر ۱۶: ۰۲) تو اس میں حقیقت کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں، ایک تو یہ کہ ایسے مقام پر “الملٰٓئکۃ” فرشتے ہیں، اور “الروح” عظیم فرشتہ ہے، دوسرا یہ کہ”الملٰٓئکۃ” کا مطلب ارواح ہیں، اور “الروح” سے سردار روح مراد ہے اور ہمیشہ یہ بھی یاد رہے کہ گوہرِ حقیقت کے جتنے بھی زیادہ پہلو ہوتے ہیں، اتنی زیادہ اس کی قدر و قیمت ہوا کرتی ہے۔
خاص روح: ۔
سوال نمبر ۳۵: یہ بالکل صحیح ہے کہ قرآنِ حکیم میں لفظ “روح” کُل ۲۴ مرتبہ مذکور ہے، ان تمام مقامات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ خاص روح کا ذکر ہے، عام روح کی بات نہیں، خاص اس لئے کہ
۴۴
اکثر روح کا اسمِ معرفہ (الروح) ہے، اور بہت کم جگہوں پر نکرہ ہے (یعنی روح) لیکن جہاں جہاں نکرہ ہے اس کو بھی خدا سے منسوب کر کے حقیقت کے اعتبار سے خاص کیا گیا ہے، جیسے: “۔۔۔۔۔۔۔ (۵۸: ۲۲) اور خدا نے اپنی طرف سے ایک روح سے ان کی تائید کی۔” اس ارشاد میں “بِرُوْحٍ” عام ہے، مگر “مِنْہُ” کے اعلان نے اسے ایک طرح سے خاص کر دیا ہے، تاہم “روحٍ” جو اسم ہے، اس کے ایک طرف سے خاص اور دوسری طرف سے عام ہونے میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ دین کا ہر مرتبہ خواہ وہ جبرائیل کا ہو یا کسی اور کا، دو حیثیتوں میں ہوتا ہے، ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ازلی و ابدی مرتبہ ہے، دوسری یہ کہ ہر زمانے میں کوئی عظیم شخصیت اور پاک روح اس مرتبۂ عالی پر فائز ہو جاتی ہے، چنانچہ جہاں دائمی منصب کا ذکر مقصود ہوتا ہے، تو اس میں الروح یا روح القدس جیسے اسمائے معرفہ لائے جاتے ہیں، اور جب اس شخصیت یا روح کی طرف اشارہ مطلوب ہو جو زمانے میں اس مرتبت پر متمکن ہے، تو اس صورت میں روحٍ یا روحاً جیسے اسمائے نکرہ لا کر پھر ان کو خدا سے منسوب کیا جاتا ہے، تاکہ حکمت کا جو تقاضا ہے وہ پورا ہو جائے۔
لفظِ “ذریّت” کی حکمت: ۔
سوال نمبر ۳۶: ہم لفظ ذریّت کے متعلق گہری معلومات چاہتے
۴۵
ہیں۔ چنانچہ سورۂ یاسین (۳۶) کی آیت نمبر ۴۱ کے دو ایسے ترجمے سامنے ہیں، کہ ان دونوں میں “ذریّت” کے معنی مختلف ہیں، آپ بتائیے کہ کون سا ترجمہ درست ہے؟ آیۂ مقدّسہ یہ ہے: ۔
و اٰیۃ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون۔ (۳۶: ۴۱)
پہلا ترجمہ: اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ دوسرا ترجمہ: اور ان کے لئے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کے بزرگوں کو (نوحؑ کی) بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔
جواب: ۔ ذریّت سے یہاں نہ اولاد مراد ہے اور نہ ہی بزرگان یعنی آباؤ اجداد، کیونکہ یہاں جس کشتی کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ کشتیٔ نوحؑ ہے، تو اس میں زمانۂ رسولؐ کے لوگوں کی اولاد کس طرح سوار ہوئی تھی، اور یہ بھی درست نہیں کہ ذریّت کے معنی آباؤاجداد کریں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ذریّت سے ذراتِ روح مراد ہیں، یعنی ان لوگوں کے روحانی ذرّات کشتیٔ نوح میں سوار شدہ مومنین کی پشتوں میں تھے، اور یہ قدرتِ خدا کی ایک نشانی ہے، یعنی معجزہ کہ یہ لوگ ذرّات کی صورت میں وہاں موجود تھے اور طوفان کا خوفناک منظر دیکھ رہے تھے، ذرّاتِ روحانی کی مزید تشریح آپ کو “امام شناسی حصّۂ اوّل” میں “پرہیزگاروں کے امام” کے عنوان کے تحت ملے گی۔
سفینۂ نوح اور ذراتِ روح: ۔
سوال نمبر ۳۷: آپ نے فرمایا کہ جو اہلِ ایمان سفینۂ نوح میں سوارتھے، ان کی پشتوں کے روحانی ذرّات نے طوفان کا منظر دیکھا تھا، اس
۴۶
میں سوال ہے کہ یہ ذرّات کے لئے کس طرح ممکن ہوا، حالانکہ ان میں شعور نہیں تھا؟
جواب: آج سیّارۂ زمین پر جتنے لوگ بستے ہیں، وہ اس سے پہلے بنی آدم کی پشتوں میں روحانی ذرّات تھے، ان کو پروردگارِ عالم نے وہاں سے اٹھا کر ایک ایسی شخصیّت کی روحانیّت میں حاضر کر دیا، جہاں نورِ خدا حقائق و معارف پر روشنی ڈال رہا تھا، چنانچہ خداوند تعالیٰ نے ان ذرّات سے پوچھا کہ آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، تو انہوں نے جواب دیا، کیوں نہیں (۰۷: ۱۷۲) اس سے ظاہر ہوا کہ جہاں نورِ خداوندی کی روشنی پڑتی ہے وہاں نہ صرف روح کے ذرّات کو شعور ملتا ہے بلکہ تمام بے جان ذرّات بھی بول اٹھتے ہیں، جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے: “وہ جواب دیں گے کہ جس خدا نے ہر چیز کو گویا کیا اسی نے ہم کو گویا کیا (۴۱: ۲۱)” چنانچہ سفینۂ نوحؑ میں نورِ نبوّت و امامت ذرّاتِ روح پر روشنی ڈال رہا تھا، اور تمام روحیں ایک طرح سے اس عظیم طوفان کو دیکھ رہی تھیں۔
ہم پہلے تھے یا آدمؑ؟
سوال نمبر ۳۸: اس آیۂ مبارکہ کی ترتیبِ بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اس میں کوئی عظیم راز پوشیدہ ہے، کیونکہ اگر ہم اس کو صرف نگاہِ ظاہر سے دیکھیں تو کئی مشکل سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہ پاک آیت یہ ہے:۔
” وَلقد خلقنٰکم ثمّ صوّرنٰکم ثمَّ قلنا للملٰئکۃ اسجدوا لِاٰدم (۰۷: ۱۱)
۴۷
اور ہم ہی نے تم کو پیدا کیا پھر تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔” اس میں سوال یہ ہے کہ آیاتِ قرآن میں سلسلۂ بیان کی کڑیاں اپنی اپنی جگہ پر ہوتی ہیں، یعنی جو واقعہ ترتیبِ بیان میں آگے ہو، وہ زمانہ کے لحاظ سے بھی آگے ہوتا ہے، اور خصوصاً اس وقت جبکہ ایک چیز بیان ہونے کے بعد “ثُمَ” آتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہاں جو چیز پہلے مذکور ہوئی ہے وہ واقعاً پہلے ہی ہے، پھر آپ یہ بتائیں کہ آیا لوگ زمانۂ آدم سے پہلے موجود تھے؟ نیز اس کی وضاحت کریں آیا “خلقنٰکم” سے مخلوق کرنے کے معنی پورے نہیں ہوتے، کیا اس میں تخلیق کے تمام معنی موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے “ثُم صوّرنٰکم” فرمایا گیا؟
جواب: یقیناً اس بابرکت آیت میں ایک عظیم سِر پوشدہ ہے، ہم بتوفیقِ خداوند قدّوس یہاں اس کی حکمت بیان کریں گے، تاکہ عزیزوں کے تمام متعلقہ سوالات بحکمِ خدا حل ہو کر ان کی معلومات میں گرانقدر حصّے کا اضافہ ہو، وہ عظیم الشّان حکمت اس طرح ہے کہ:
وَلقَد خلقنٰکُم = اور ہم ہی نے تم کو (اس دور کے آدمؑ سے قبل) پیدا کیا (جیسا کہ جسمانیّت میں پیدا کرنا چاہئے) ثُمَّ صَوَّرْنٰکُم = پھر ہم نے تمہاری روحانی شکل و صورت بنائی (یعنی تم پر ایک روحانی دور گزر گیا) ثُمَّ قُلنا للملٰئکۃ اسجدو الِاٰدم = پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو (یعنی اس وقت تم بھی ذرّاتِ روح کی حیثیّت میں اور جمالی فرشتوں کی مرتبت میں وہاں موجود تھے) واضح رہے کہ “خلقنٰکم” میں جسمانی تخلیق کے پور ے معنی موجود ہیں۔ اور “صَوّرنٰکمُ” میں روحانی تکمیل کا ذکر ہے، کیونکہ انسان کے جسمِ کثیف کا تعلق عالمِ خلق سے ہے جو یہ جہان ہے، اور صورتِ
۴۸
لطیف (یعنی روح) کا تعلق عالمِ امر سے ہے جو دنیائے روحانیّت ہے، جس میں انسان شکل و صورت، حسن و جمال اور نورانیّت کے اوجِ کمال پر پہنچ جاتا ہے، کیونکہ وہ حقیقت میں صورتِ رحمان ہے۔
لوگ بابا آدمؑ سے قبل:
سوال نمبر ۳۹: روح شناسی سے متعلق سوالات کے اس سلسلے میں آپ نے بہت بڑا انقلابی تصوّر پیش کیا کہ آدم سے پہلے بھی لوگ موجود تھے، لیکن کیا یہ زیادہ بہتر نہیں ہوگا، کہ آپ ہمیں اس موضوع کی ایک اور آیت سے آگاہ کر دیں؟
جواب: اللہ تعالیٰ کا مقدّس فرمان ہے کہ: ۔
“کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبین مبشرین و منذرین و انزل معھم الکتٰب (۰۲: ۲۱۳)
(پہلے تو سب) لوگ ایک ہی امت تھے تو خدا نے (ان کی طرف) بشارت دینے والے اور ڈرسنانے والے پیغمبر بھیجے اور ان پر کتاب نازل کی۔” اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ دورِ نبوّت سے قبل لوگ موجود تھے اور ان کا طریقہ ایک ہی تھا، پھر نبوّت کا دور شروع ہوا، جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو تاجِ خلافت و نبوّت سے سرفراز فرمایا۔
۴۹
صورِ قیامت: ۔
سوال نمبر ۴۰: یہ سورۂ یاسین کی ایک حکمت آگین آیت کا ترجمہ ہے کہ: اور (جس وقت) صور پھونکا جائے گا تو یہ سب لوگ قبروں سے (نکل کر ) اپنے پروردگار کی طرف دوڑ پڑیں گے ( ۳۶: ۵۱ ) اس میں چند سوالات پیدا ہو جاتے ہیں، اوّل یہ کہ صورِ اسرافیلؑ کی کیفیت و حقیقت کیا ہے، اور اس میں حکمت کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ آیا اس ظاہری قبر میں روح مدفون ہوتی ہے یا اس کی کوئی تاویل ہے؟ تیسرا یہ کہ جب لوگ بڑی سرعت کے ساتھ اپنے ربّ کی طرف جارہے ہوں گے تو اس وقت ان کی ہستی کس حالت میں ہوگی، حالتِ روحانی میں یا کیفیتِ جسمانی میں؟ چوتھا اور آخری سوال یہ ہے کہ خدائے واحد و یکتا جو مکان و لامکان سے پاک و برتر ہے اس وقت کہاں ظہور فرما ہوگا، کیونکہ ان روحوں کو تو اسی کے حضور میں حاضر ہوجانا ہے؟
جواب: (الف) صورِ اسرافیلؑ مقامِ روحانیّت کا ایک عظیم الشّان واقعہ اور ایک پراسرار آواز ہے، وہ نرسنگھا اور بگل نہیں بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ وہ ایک بے مثال سریلی، بیحد رقت انگیز اور مسحورکن شہنائی اور بانسری کے مشابہ ہے، یہ آخری درجے کی دعوتِ حق ہے، یہ نغمۂ عشقِ حقیقی ہے، اور انبیاء و اولیاء اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جس میں ایک طرف تو فنا ہے اور دوسری طرف بقا، یہ ملکوتی نغمہ بے انتہا روح پرور اور بے اندازہ دلنواز ہے، تاکہ لوگ جو دنیا پر فریفتہ ہیں، وہ آخرکار اس کو سن کر روحانیّت کے حقائق و معارف کے لئے یقین کریں، پس صورِ اسرافیلؑ میں اتنی زیادہ حکمتیں ہیں کہ ان کو احاطۂ بیان میں نہیں لایا جا سکتا۔
۵۰
(ب) یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ظاہری قبر میں ارواح مدفون نہیں ہوتیں، ہاں، اس مادّی قبر سے متعلق قرآن و حدیث میں جتنے ارشادات ہیں، ان میں تاویلی حکمتیں پوشیدہ ہیں، چنانچہ قبر اور قبرستان تاویلاً انسان کا زندہ جسم ہے، جس میں اتنی کثیر روحیں مدفون ہیں کہ ان کی تعداد خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، کیا یہ درست نہیں ہے کہ انسان عالمِ صغیر یعنی روحانیّت کی کائنات ہے؟ اگر یہ بات آپ کے نزدیک بھی صحیح ہے، تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ عالمِ صغیر میں روحانی طور پر وہ سب کچھ ہے، جو دنیائے ظاہر میں مادّی طور پر موجود ہے، سو یقیناً اس میں قبریں بھی ہیں، کیونکہ جب کسی شخص پر موت واقع ہو جاتی ہے تو اس حال میں جسم سے روح الگ ہو جاتی ہے، جس کو تو ظاہری قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور روح روحانی قبر میں مدفون ہو جاتی ہے، اور وہ کوئی زندہ شخصیّت ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ کتاب “وجہ دین” کلام نمبر ۱۹ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہِ وسلم کا یہ فرمان درج ہے کہ: “میری قبر اور منبر کے درمیان بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔” پس آنحضرتؐ کی قبر مبارک حضورؐ کے وصی یعنی علیؑ تھے، منبر قائم القیامتؑ اور باغ دعوتِ حق ہے۔
(ج) صورِ اسرافیل کے بجنے پر جب لوگ بڑی تیزی سے اپنے پروردگار کی طرف دوڑ پڑیں گے، تو اس وقت وہ موجودہ جسم میں نہیں ہونگے، بلکہ وہ حالتِ روحانی اور جسمِ لطیف کے ذرّات سے وابستہ ہوں گے، جن کا ذکر اس سلسلۂ سوال وجواب کے علاوہ ہماری دوسری تحریروں میں بھی ہوتا رہا ہے۔
(د) کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ مکان و لامکان سے پاک و برتر ہے، مگر اس کا مقدّس نور دنیا میں ہمیشہ موجود و حاضر ہے اور یہی نور حضورِ خداوندی
۵۱
ہے، جہاں نور موجود ہے وہاں سے اسرافیل صور پھونکے گا اور لوگ ذرّاتِ روحانی کی شکل میں اسی آواز اورا سی بارگاہِ عالی کی طرف اڑتے ہوئے جائیں گے۔
۵۲
بابِ سوم:
روح کی عکاسی: ۔
سوال نمبر ۴۱: آپ نے اپنی ایک تصنیف پنج مقالہ نمبر۴ میں “ایک جوابی خط کا اہم حصہ” کے عنوان سے روح کے بارے میں بیحد عمدہ باتیں تحریر کی ہیں، جس کا خاص حصہ یہ ہے: ۔
” روح ایک حقیقت ہے، ایک جوہرِ بسیط، ایک لطیف زندگی، ایک عظیم دنیا، ایک باطنی شعور، ایک حقیقی بیداری، ایک بے مثال شے، ایک مخفی خزانہ، ایک لازوال سلطنت، ایک نورانی ہستی، ایک خدائی عکس، ایک قدیم ذات، ایک توحیدِ صفات، ایک نمونۂ حیات، ایک لطیف کائنات، ایک آئینۂ معجزات، ایک سرچشمۂ برکات، ایک جامعِ آیات، ایک مجموعۂ حالات، ایک مرکزِ عنایات، ایک وسعتِ جنّات، ایک رفعتِ درجات وغیرہ۔”
ان ۲۲ جملوں میں اوصافِ روح کی بہترین عکاسی کی گئی ہے، مگر ہم یہاں آخری آٹھ جملوں کی مزید وضاحت چاہتے ہیں، تاکہ روح کی شناخت میں زیادہ سے زیادہ آسانی ہو۔
جواب: یقیناً روح ایک لطیف کائنات ہے، جس میں ہر ہر چیز بشکلِ لطیف موجود ہے، روح ایک ایسا آئینہ ہے، جس میں حضرتِ ربّ العزّت کے تمام ازلی، ابدی، مکانی اور لامکانی معجزات کا مشاہدہ ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا سرچشمہ ہے، جس میں آیاتِ قدرت جمع ہیں، وہ ماضی و مستقبل کے حالات و واقعات کا مجموعہ بھی ہے، خداوند نے روح کو اپنی مہربانیوں کا مرکز بنایا ہے، روح خود بفضلِ خدا جنّت ہے اور قرآن ( ۵۷: ۲۱) میں بہشت کی وسعت کا ذکر ہوا ہے، وہ دراصل روح کی وسعت ہے، اور روح وہ ہے
۵۵
جس میں اوّل تا آخر عزّت کے تمام درجات و مراتب موجود ہیں۔
محسوس یا معقول: ۔
سوال نمبر ۴۲: آپ ہمیں یہ بتائیں کہ روح محسوسات میں سے ہے یا معقولات میں سے؟ اس سلسلے میں اپنا نظریہ دلائل کی روشنی میں بیان کریں۔
جواب: روح ذاتی اعتبار سے معقول ہے، یعنی یہ حواسِ ظاہر سے نہیں بلکہ صرف عقل سے جانی پہچانی جاتی ہے، مگر جب اس کا رابطہ جسمِ لطیف یا جسمِ کثیف سے ہو جاتا ہے تو یہ ایک طرح سے محسوس بھی کہلا سکتی ہے، خصوصاً جسمِ لطیف کی صورت میں یعنی جب ہماری روح فلکی جسم کے لباس میں ملبوس ہو تو اس حال میں ہم اس کو تمامتر خوبیوں کے ساتھ سر کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، اس کی باتوں کو سن سکتے ہیں، اس کی خوشبوؤں کو سونگھ سکتے ہیں وغیرہ۔
جب حضرت مریم علیہا السّلام کے سامنے روح القدس کا ظہور ہوا تو اس وقت وہ پاک روح ایک کامل اور مکمل انسان کی صورت میں تھی (۱۹: ۱۷ ) خدا وند تعالیٰ کے امر سے بعض دفعہ فرشتے بشری لباس میں ملبوس ہو کر ظاہر ہو جاتے ہیں، دیکھئے سورۂ ہود کی آیت ۶۹ تا ۸۱ (۱۱: ۶۹ تا ۸۱)، مطلب یہ ہے کہ جہاں چھوٹی چھوٹی روحیں ذرّات کی شکل میں ظاہر ہو جاتی ہیں وہاں عظیم ارواح جو فرشتے ہیں مکمل انسانی شکل میں سامنے آتی ہیں۔
۵۶
رَوح اور رُوح: ۔
سوال نمبر ۴۳: آپ نے اس سے پیشتر یہ بتایا ہے کہ لفظِ “روح” قرآنِ حکیم میں ۲۴ دفعہ مذکور ہے، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں تین بار “رَوح” بھی شامل کیا گیا ہے، آیا رَوح میں بھی رُوح کے لغوی معنی ہیں یا یہ ایک تاویل ہے؟
جواب: اوّل یہ ہے کہ رَوح اور رُوح اصل میں ایک ہی ہیں، یعنی یہ ایک ہی لغت ہے، دوم یہ کہ اگر ہم اس کو الگ تصوّر کر کے اس کی تاویل کریں، تو پھر بھی یہی بات بنتی ہے، بہر لحاظ رَوح کا لفظ رُوح کے لئے ہے، کیونکہ دونوں کا مادّہ اور مطلب ایک ہے، چنانچہ اس آیۂ مبارکہ میں ذرا غور کر کے دیکھیں کہ جو لوگ مقرّب ہیں ان کو دنیا کی زندگی ہی میں خدا کی طرف سے روح اور روحانیّت حاصل ہو جاتی ہے، جس میں ہر قسم کے روحانی پھول اور پھل موجود ہیں:۔
فاما ان کان من المقربین فروح و ریحان و جنت نعیم (۵۶: ۸۸ تا ۸۹) پس اگر وہ مقربین میں سے ہے، تو (اس کے لئے زندگی ہی سے حقیقی ) روح اور خوشبودار پھول ہیں اور نعمت کے باغ۔
دوسرے مقام پر لفظ “رَوح” اس طرح ہے کہ: “و لا تایسوا من روح اللہ۔۔۔۔ ۱۲: ۸۷ اور خدا کی روح سے ناامید نہ ہو کیونکہ خدا کی روح سے سوائے کافر لوگوں کے کوئی نااُمید نہیں ہوا۔” اس آیت کی قرأت میں “رُوح” بھی ہوسکتی ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ قول حضرت یعقوب علیہ السّلام کی
۵۷
زبان سے ہے، اور آپؑ نے حضرت یوسف علیہ السّلام کے بارے میں فرمایا تھا کہ خدا کی روح (رحمت) سے نا امید نہ ہوجانا، یعنی حضرت یوسفؑ سے جو روح اللہ اور پیغمبر و امام تھے۔
امامؑ کا نام “الروح”:۔
سوال نمبر ۴۴: ویسے تو امام صلوات اللہ علیہ کے بہت سے نام ہیں، مگر علمِ روحانیّت کی زبان میں امام عالی مقام کا کیا نام ہے؟ اور اس کی کیا دلیل ہے؟
جواب: امام اقدس و اطہر کا ایک مبارک نام “الروح” اور روح اللہ ہے، جس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب امام نور ہے تو روح ہے، کیونکہ نور ایک زندہ روح کی حیثیت سے ہوتا ہے، چنانچہ نوراللہ اور روح اللہ کے ایک ہی معنی ہیں اور دونوں لفظوں میں ذرہ بھر فرق نہیں، دوسری دلیل یہ ہے کہ مولا علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ: اَنَا اَمْرُ اللّٰہِ و الرُّوْحُ۔ یعنی میں ہوں امرِ خدا اور اس کی روح۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے: قُلِ الرُّوحُ مِنْ اَمْرِ رَبیْ۔ کہدو (اے محمدؐ) کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے۔ تیسری دلیل بھی مولا علیؑ کے ارشاد سے ہے کہ: من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ۔ یعنی جس نے اپنی روح (امام) کو پہچان لیا یقیناً اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔ انسان میں کئی روحیں ہوتی ہیں، نباتی، حیوانی اور انسانی، مگر جب تک چوتھی روح یعنی روحِ قدسی کا حصول اور شناخت نہ ہو، تو پروردگار کی معرفت ناممکن ہے، اور ظاہر ہے کہ چوتھی روح پیغمبرؐ اور امامؑ کا نور ہے، اور یہی
۵۸
روح انسان کی حقیقی روح بھی ہے، پس امامؑ ہماری حقیقی روح ہے، یعنی روحِ قدس، اور مذکورۂ بالا ارشاد کا مطلب یہی ہے۔
روح کے عاشق: ۔
سوال نمبر ۴۵: حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰت اللہ علیہ نے کچھ بزرگانِ دین کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: “وہ اپنی روح کے عاشق تھے۔” اس سے کون سی روح مراد ہے؟ صراحت سے بتائیں۔
جواب: جو روح عام طور پر سب انسانوں میں پائی جاتی ہے اس پر کیا عاشق ہونا ہے، عاشق اس روح پر ہونا تھا جو ہادیٔ برحق میں ہے، جو عاشق اور معشوق دونوں کی مشترکہ روح ہے، اور یہی وجہ ہے کہ دونوں کو ایک ہی وحدت عطا کر دیتی ہے، چنانچہ ماضی میں بزرگانِ دین جس پاک روح کے عاشق تھے، وہ ہادیٔ برحق (پیغمبرؐ اور امامؑ) کی روح تھی اور ان کی اپنی روح تھی، جس میں تجلّیوں کی دنیا تھی، پھر کیسے عاشق نہ ہوتے۔
روحِ مقدّس: ۔
سوال نمبر ۴۶: یہ تو عقیدت کی بات ہوئی، اس کو ہم بھی مانتے ہیں، لیکن اس کے بارے میں کوئی ایسی دلیل چاہئے جس میں عقلی طور پر بہت زیادہ وزن ہو، کیا آپ کوئی ایسی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟ جس کی طرف اہلِ ہوش توجہ دیں؟
۵۹
جواب: خداوند تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے جمادات کے لئے عروج و ارتقاء کی روح نباتات میں رکھی ہے، چنانچہ جہاں کہیں مٹی کے ذرّات نباتات میں تحلیل و فنا ہو جاتے ہیں، تو وہاں قانونِ قدرت ان کو لازماً روحِ نباتی یعنی روحِ نامیہ عطا کر دیتا ہے۔
اسی طرح نباتات کی روحِ ترقّی حیوانات کے وجود میں ہے، اور اس کے حصول کی واحد شرط یہ ہے کہ نباتات اپنی ہستی کو حیوانوں کی غذا کی خاطر قربان کر دیں، تاکہ جانور انہیں کھا کر اپنی حیوانی روح کے ساتھ ایک کر لیں۔
اس کے بعد حیوانات کی بات آتی ہے، کہ ان میں سے جو حلال ہیں، ان کی ارتقائی منزل اور بالائی روح انسان میں رکھی ہوئی ہے، اور اس کو اپنانے کا طریقہ صرف اور صرف یہی ہے کہ حیوانات جان دے دیں، تاکہ انسانوں کے مقصدِ حیات کی تکمیل میں مدد ملے، اور ساتھ ہی ساتھ حیوانات ایک طرح سے انسانی روح میں زندہ ہو جائیں۔
یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ اور بھی آگے بڑھ جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو اہلِ سعادت ہیں، وہ خود کو دینی اور روحانی اعتبار سے ہادیٔ زمانؑ کے سپرد کر دیتے ہیں، اور آپؐ کی مکمل پیروی، پر خلوص اطاعت اور کامل عشق میں اپنے نفسِ امّارہ کو فنا کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں آپ آنجنابؑ ایسے برگزیدہ بندوں کو اپنی پاک روح میں متحد اور ایک کر لیتا ہے، پس اس قانونِ فطرت کی روشنی میں یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ انسانِ کامل بنی آدم کی سب سے اعلیٰ اور سب سے آخری روح ہے۔
۶۰
جسمِ فلکی:۔
سوال نمبر ۴۷: آپ نے اپنی تحریروں کے متعدّد مقامات پر جسمِ فلکی، جسمِ لطیف، جثّۂ ابداعیہ، آسڑل باڈی وغیرہ جیسے ناموں کا ذکر کیا ہے، اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آیا ایسی کوئی چیز قرآنِ حکیم میں مذکور ہے یا یہ بات صرف ظاہری معلومات تک محدود ہے؟ اگر فی الواقع ایسی کوئی شے موجود ہے تو وضاحت کیجئے کہ وہ کس طرح ہے؟
جواب: جسمِ فلکی سے ایسا بدن مراد ہے، جس کا مادّہ سیّارۂ زمین کے عناصر سے مختلف ہے، کیونکہ وہ آسمانی مادّہ ہے، جسمِ لطیف بھی وہی ہے جو اپنی لطافت و پاکیزگی کی وجہ سے جسمِ خاکی سے ممتاز ہے، آسٹرل باڈی (ASTRAL BODY) کے معنی ہیں کوکبی یا نجمی بدن، جس سے وہی چیز مراد ہے، اور جثّۂ ابداعیہ بھی ہے تو وہی چیز، مگر اس کا مفہوم عظیم و اعلیٰ ہے، کیونکہ جثّہ کے معنی جسم ہیں اور ابداعیہ ابداع سے ہے، جو کلمۂ “کن” کا نتیجہ ہے، چنانچہ جثّہ ابداعیہ سے ایسا معجزاتی بدن مراد ہے، جس میں “کن فیکون” کی کارفرمائی اور عالمِ امر کی بادشاہی ہے، وہی تختِ بہشت اور سب کچھ ہے۔
جی ہاں! قرآنِ حکیم میں کئی طرح سے اس کا ذکر آیا ہے، کہ بقائے انسانی کے لئے موجودہ جسم کے علاوہ اور بھی چند اجسام ہیں، مثال کے طور پر اس قرآنی ارشاد میں خوب غور کیا جائے: ۔
“اور اسی (خدا ) نے تمہارے لئے کرتے بنائے جو تمہیں گرمی سے محفوظ رکھیں اور کُرتے جو تمہیں ہتھیاروں کی زد سے بچائیں (۱۶: ۸۱ )” یہ دنیا کے کرتے ہر گز نہیں جو کپڑے یا کسی اور چیز کے ہوسکتے ہیں، جن کو انسان بناتا ہے، اور یہ
۶۱
بات بھی قطعی ناممکن ہے کہ کچھ ایسے ظاہری اور مادّی کُرتے ہم کو ہر طرح کی گرمی اور ہر قسم کی جنگ کے اثر سے بچا سکیں، سوائے اجسامِ لطیفہ کے، جو روحانی کُرتے ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے پُرقدرت ہاتھ سے بنایا ہے۔
قوّتِ جبریلیّہ: ۔
سوال نمبر ۴۸: قوّتِ “جبریلیّہ” کس چیز کا نام ہے، اور یہ کس درجے کے انسان میں ہوتی ہے، اس کے ساتھ ایک طرف سے جبرائیل ملا ہوا ہے، اور دوسری طرف سے ایک حقیقی مومن کی روح، تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: میری ایک کتاب: “پنج مقالہ نمبر ۳” سے مضمون “تین سوال انڈیا سے۔”
روح اور جسم کی مشابہت: ۔
سوال ۴۹: آپ نے نمبر ۴۲ میں کہا ہے کہ جب ہماری روح فلکی جسم کے لباس میں ملبوس ہو تو اس حال میں اس کو تمام تر خوبیوں کے ساتھ سر کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، اس کی باتوں کو سن سکتے ہیں، اور اس کی خوشبوؤں کو سونگھ سکتے ہیں وغیرہ، اس میں یہ سوال ہے کہ آیا ہر آدمی اور اس کی
۶۲
روح شکل و صورت میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں یا مختلف؟ روح کس زبان میں گفتگو کرتی ہے؟ کیا تمام روحوں کی کوئی مشترکہ زبان ہے؟ روح کی خوشبو کیسی ؟
جواب: جی ہاں، نچلے درجات میں ہر شخص کی روح گویا اس کی روحانی تصویر ہے، لیکن آخری درجات میں، جہاں بہت سی حقیقتوں کی ازلی و ابدی وحدت ہے، ایسا نہیں ہے ، بلکہ وہاں روح انسانِ کامل کی صورت میں نظر آتی ہے، ہر آدمی اور اس کی روح کی زبان ایک ہی ہے، یعنی جس انسان کی جو مادری زبان ہے، وہی اس کی روح کی زبان ہے، روحوں کی کوئی مشترکہ زبان نہیں، ہاں، روح اور روحانیّت میں خوشبوؤں کی بڑی اہمیّت ہے، یہاں تک کہ اُدھر تو غذائیں بھی مختلف قسم کی خوشبوؤں کی شکل میں دی جاتی ہیں، وہاں نوالہ لے کر چبائی جانے والی غذا کوئی نہیں۔
پرندہ اور پھل کی تاویل: ۔
سوال نمبر ۵۰: “علم کے موتی” (آپ کی ایک کتاب) کا مطالعہ کر کے ہمیں بے اندازہ مسرّت و شادمانی حاصل ہوئی، اس میں (ما شاء اللہ ) آپ نے حقیقتِ عالیہ کی باتیں تحریر کی ہیں، مثال کے طور پر پرندوں اور پھلوں کی تاویل بڑی نرالی اور بیحد جانفزا ہے، کیا آپ اس بارے میں کوئی مزید نکتۂ دلپذیر بیان کریں گے؟
جواب: حضرت سلیمان علیہ السّلام جس طرح پرندوں کی بولی جانتے تھے (۲۷: ۱۶) اس کی تاویل یہ ہے کہ آپؐ تمام روحوں سے گفتگو کرتے تھے،
۶۳
جس میں جنّ و انس اور وحش و طیر سب کی ارواح تھیں، کیونکہ روح کو پرندہ اس معنیٰ میں کہا گیا ہے کہ یہ ذرّۂ لطیف کی شکل میں ہمارے اوپر آزادی سے اڑتی ہوئی آتی جاتی رہتی ہے۔
جنّت میں اگر گوشت ہے تو صرف پرندوں کا، کیوں؟ اس لئے کہ روح کی تشبیہ و تمثیل پرندے سے دی گئی ہے، اور بہشت میں پرندے کا گوشت تناول کرنا یوں ہے کہ کسی عمدہ پسندیدہ اور اعلیٰ روح کو اپناکر جزوِ ہستی بنا لیا جائے، دنیاوی نعمتوں کو کھانے کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ان کی بدولت جسمانی وجود قائم رہے۔
قرآنِ حکیم بار بار کہتا ہے کہ جنّت میں رزق ثمرات یعنی پھلو ں سے دیا جائے گا، اس میں بھی روحوں کی طرف اشارہ ہے، کہ کائنات و موجودات کی ہر ہر چیز کی روح اس کا پھل کہلاتا ہے، جس طرح درخت کی ساری خصوصیات، خوبیاں، قوّتیں اور لذّتیں پھل میں جمع ہو جاتی ہیں، اسی طرح چیزوں کی روح میں علم و حکمت کی تمامتر حلاوتیں اور مسرّتیں سموئی ہوئی ہیں، اور خوب یاد رہے کہ بہشت عقلی اور روحی نعمتوں سے بھر پور ہے۔
مُردوں کا دنیا دیکھنا: ۔
سوال نمبر ۵۱: جب کوئی آدمی مر جاتا ہے تو اسی وقت اس کی نگاہوں سے یہ دنیا اوجھل ہو جاتی ہے، اس لئے کہ اب اس میں وہ آنکھ نہ رہی، جس سے وہ اس عالم کو دیکھتا تھا، مگر اس کے باوجود وہ یہ چاہتا ہے کہ اس دنیا کو یا کم سے کم اپنے خاندان والوں کو دیکھا کرے، اور ان کو کچھ مدد دے، کیا یہ
۶۴
کام اس کے لئے ممکن ہے یا غیر ممکن ؟
جواب: اس میں اوّل تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا شخص بہشت میں ہے یا دوزخ میں؟ کیونکہ بہشت کی بات الگ ہے اور دوزخ کی حالت الگ، یعنی جنت میں ہر خواہش کی تکمیل ممکن ہے، آپ قرآن (۵۰: ۳۵) کو دیکھیں: “اس (جنّت) میں یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے لئے حاضر ہے اورہمارے ہاں تو (اس سے بھی) زیادہ ہے۔”
مومنین جو جنّت میں ہوں گے، وہ کئی طرح سے دنیا کو دیکھ سکیں گے، مثلاً چشمِ روح سے نورِ الٰہی کی روشنی میں، جثّۂ ابداعیہ میں دنیائے ظاہر کی طرف متوجّہ ہو کر، وغیرہ، مگر کسی کو مدد دینے کا سوال اس سے قدرے مختلف ہے، کیونکہ اس سے قانونِ اختیار و امتحان میں مداخلت ہو جاتی ہے، تاہم جب خداوند تعالیٰ کی طرف سے کسی کی مدد منظور ہو تو یہ بھی ممکن ہے، بشرطیکہ روح فرشتے کے درجے میں ہو، جیسا کہ اہلِ ایمان کے لئے فرشتوں کی مدد کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ:۔
“ہم دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے دوست (مددگار) ہیں ( ۴۱: ۳۱)” یہاں یہ بھی یاد رہے کہ فرشتے خدا کے حکم سے جو کچھ مدد کر سکتے ہیں، وہ صرف روحانی، علمی اور دینی مدد ہے، دنیا وی ہر گز نہیں۔
ذوالقرنین اور یاجوج و ماجوج: ۔
سوال نمبر ۵۲: ذوالقرنین کس درجے کی شخصیت تھے؟ ان کا سفر کس نوعیّت کا تھا؟ یاجوج اور ماجوج کیسی مخلوق ہیں، اور سدِّ سکندری کی حقیقت
۶۵
کیا ہے؟ اس سلسلے میں آپ ہمیں کچھ اہم حقائق بیان کر دیں۔
جواب: ذوالقرنین اپنے زمانے کے امامؑ تھے، آپؑ کا یہ سفر جس طرح قرآن (۱۸: ۸۳ تا ۹۸) میں مذکور ہے روحانیّت میں تھا، چنانچہ انہوں نے تمام روحانی منازل اپنی ذات ہی میں طے کیں، سورج ڈوبنے کی جگہ سے دو اصل جسمانی مراد ہیں، یعنی ناطقؐ اور اساسؑ، جو نورِ علم و حکمت کے مغرب ہیں، اور “عَینٍ حَمِئَۃٍ” سے حدود جسمانی کی شخصیتیں مراد ہیں، یعنی امام، حجت و داعی، کہ یہ حضرات ناطق اور اساس سے وابستہ ہیں اور چشمے کی طرح ان کا سلسلہ جاری ہے۔
اس مقام پر حضرت امام ذوالقرنین علیہ السّلام نے تمام دنیا والوں کی روحوں کو دیکھا، اور خداوند عالم نے جیسے امام کو اہلِ دنیا کے معاملے میں اختیار دے رکھا ہے اس کے متعلق ارشاد فرمایا۔
سورج نکلنے کی جگہ کے معنی ہیں دواصلِ روحانی، یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ، جو نورِ علم و حکمت کے مشرق ہیں، وہاں پر امامِ عالی مقامؑ نے ارواح و ملائکہ کا وہ عظیم الشّان اجتماع دیکھا جس پر آفتابِ نور کسی پردے کے بغیر ضیا پاشی کر رہا تھا، یہ اہلِ توحید کی روحیں تھیں۔
یاجوج و ماجوج کی کئی تاویلیں ہیں، آپ میری ایک کتاب “امام شناسی حصہ سوم کلید نمبر ۱۴ اور نمبر ۱۵” کو بھی دیکھیں، یا جوج و ماجوج ایک قسم کی روحیں ہیں، جس سے روحانی طور پر نقصان بھی ہے اور فائدہ بھی، مگر نقصان عارضی اور فائدہ مستقل ہے۔
ایک اعتبار سے عظیم ادوار تین ہیں، ایک بڑا زمانہ جو بہت پہلے گزرچکا ہے، دوسرا یہ جو موجود ہے اور قیامت تک پھیلا ہوا ہے، اور تیسرا عظیم
۶۶
دور قیامت کے بعد شروع ہونے والا ہے، چنانچہ ان تین بڑے ادوار سے متعلق حضرت ذوالقرنین امامؑ نے تین درجے کی ارواح کا مشاہدہ کیا، درجۂ اوّل کی روحیں نور کے مشرق میں تھیں، جن کا تعلق گزشتہ دور سے تھا، اور ان کو دائمی نجات مل چکی تھی، درجۂ دوم کی روحوں کا مشاہدہ پہلے ہی مغرب میں ہوا تھا، جن کی وابستگی موجودہ دور سے تھی، اور درجۂ سوم کی ارواح یعنی یاجوج و ماجوج کو مثلاً ایک ایسی وادی میں دیکھا جو مشرق و مغرب کے درمیان تھی، اس کی تاویل یہ ہے کہ ان کو نہ تو حدودِ روحانی سے ہدایت حاصل تھی، اور نہ ہی حدودِ جسمانی سے، اور یہی سبب ہے کہ یہ ارواح دین کی زبان نہیں جانتی تھیں، سو ان کی فطرت میں یہ تقاضا تھا کہ اپنی وادی سے نکل کر ایک عظیم انقلاب برپا کریں، تاکہ دنیا میں تیسرے عظیم دور کا آغاز ہو، جو انہی سے متعلق ہے، مگر قبل از وقت کوئی کام مناسب نہیں، لہٰذا روحانیت کی ایک مضبوط دیوار بنا کر ان کو روک دیا۔
روحانی غذا: ۔
سوال نمبر ۵۳: سورۂ مائدہ (۵) کی آیت نمبر ۶۶ میں فرمایا گیا ہے کہ: اور اگر یہ لوگ توریت اور انجیل اور جو کچھ ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کو قائم رکھتے تو ضرور وہ اوپر سے بھی رزق کھا لیتے اور پاؤں کے نیچے سے بھی (۰۵: ۶۶) آیا اس میں کوئی روحانی حکمت ہے یا اس کے صرف یہی معنی ہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فرمانبرداروں کو دنیاوی رزق بہت زیادہ ملے، اور نافرمان لوگ بھوکے مرجائیں؟
۶۷
جواب: اس مقام پر روحانی رزق کا ذکر فرمایا گیا ہے، اگر چہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس میں جسمانی رزق کی بات ہے، لیکن چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دراصل روحانی غذا ہے۔
جاننا چاہئے کہ انسان کی مثالیں بہت زیادہ ہیں، اور ان میں سے ایک مثال درخت کی ہے، اس لئے کہ آدمی میں درخت والی روح (یعنی روحِ نباتی) بھی ہے، اور درخت کی پرورش دو طرح سے ہوتی ہے، یعنی جڑوں سے بھی اور شاخوں سے بھی، اسی طرح روحانیّت کے اعلیٰ مقامات پر غذا سے متعلق سماوی روحیں سر سے داخل ہو جاتی ہیں اور ارضی روحیں پاؤں سے اور حیوانی و انسانی روحیں سر سے داخل ہو جاتی ہیں۔
سر کی راہ سے جو لطیف غذائیں حاصل ہوتی ہیں، وہ بھی دو قسم کی ہیں، ایک وہ چیز ہے جو خلق سے اتر تی ہے مگر چبائی نہیں جاتی، کیونکہ وہ لطیف اور بہت خُرد ہے، یہ گویا روحِ حیوانی کا حصہ ہے، اور دوسری بہت سی غذائیں خوشبوؤں کی صورت میں ہیں، ان کو روحِ انسانی کا حصہ سمجھنا چاہئے۔
ظہورِ روح: ۔
سوال نمبر ۵۴: جب کوئی سعادت مند مومن دینِ اسلام اور ہادیٔ برحق کی ہدایات و تعلیمات کی روشنی میں ظہورِ روح و روحانیّت کے مقامات تک پہنچ جاتا ہے تو اس وقت اس کے سامنے روح یا ارواح کن کن حیثیتوں میں ظاہر ہو جاتی ہیں؟ اس بارے میں کچھ اصولی باتیں بتا دی جائیں۔
۶۸
جواب: سب سے پہلے روح محرّک تصاویر پر مبنی نورانیّت کی ایک خاموش دنیا بن کر دیدۂ دل کے سامنے آتی ہے، کچھ عرصے کے بعد اللہ کی رحمت و مہربانی سے مکمل روحانیّت کا دروازہ کھل جاتا ہے، پھر روح کے کامل ظہورات ہونے لگتے ہیں، چنانچہ روح با آواز اور بے آواز ذرّاتِ لطیف میں آتی ہے، اسماء اور کلمات میں بھی، صورت و صدا میں بھی، اشکالِ لطیفہ میں بھی، خواب و خیال اور بیداری میں بھی، وغیرہ وغیرہ ۔
تجلّیاتِ روح کا مقصد: ۔
سوال نمبر ۵۵: روح کے اس قدر کثیر ظہورات و تجلّیات کا خاص مقصد کیا ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لئے کیا کچھ کرنا چاہئے، یا اس کی کیا کیا شرطیں مقرر ہیں؟
جواب: روحانی ظہورات و تجلّیات کا مقصدِ اعلیٰ علم و معرفت ہے، اور اس کے حصول کی شرطیں دو ہیں یقینی علم اور نیک عمل یعنی ایسا علم جو دین کی ہر ہر بات کو یقینی بنا دے اور ایسا عمل جس میں دین کے تمام کام جمع ہو جائیں۔
نور کی منتقلی: ۔
سوال نمبر ۵۶: پیغمبرِ اکرمؐ سے روح یا نورِ مولا علیؑ میں کس طرح منتقل ہوگیا؟ امام سے اس کے جانشین میں نور کیسے جاتا ہے؟ امام کے نور سے کوئی روشنی مرید میں آسکتی ہے یا نہیں؟ اگر آسکتی ہے تو کس طرح؟
۶۹
جواب: اس بارے میں سب سے اوّل یہ جاننا ضروری ہےکہ “کلمہ” کی اصطلاح حقائق و معارف کی کلید ہے، چنانچہ کلمہ کے چار حرف ہیں، جیسے ، ک۔ل۔م۔ہ، اسی طرح کلمہ سے چار قسم کے معنی مراد ہیں، یعنی اس کا مطلب امر بھی ہے، روح بھی، اسمِ اعظم بھی ہے اور تعلیم بھی، مثال کے طور پر قرآنِ پاک کہتا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے اپنی روح بی بی مریمؑ میں پھونک دی (۶۶: ۱۲ ) اس کی تاویل یہ ہے کہ پیغمبریا امامؑ نے حضرت مریمؑ کو اسمِ اعظم دیا، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کلمۂ خدا اور اس کی روح کی حیثیت سے ان کی والدۂ محترمہ کی پیشانی میں بھیجے جاتے ہیں کہ نور کا مقام پیشانی ہے (۰۴: ۱۷۱)۔
اسی طرح رحمتِ عالمؐ نے مولا علیؑ کو کلمۂ خدا دیا، وہ کلمہ جو امرِ خدا بھی ہے اور اس کی روح بھی، اسمِ اعظم بھی ہے اور آسمانی تعلیم بھی، پس ہر امام اپنے جانشین میں اسی طرح نور منتقل کر دیتا ہے۔
امام کے مقدّس نور سے مریدوں کو عام طور پر بھی اور خاص طور پر بھی روشنی مل سکتی ہے، اور اس کا طریقہ قانونِ دین سے مختلف نہیں، مرید امام کے روحانی فرزند ہوا کرتے ہیں، اور اسی رشتۂ روحانی میں دونوں جہان کی سعادتیں پوشیدہ ہیں۔
قرابتوں کا خاتمہ: ۔
سوال نمبر ۵۷: “فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینہم یومئذ و لا یتسائلون(۲۳: ۱۰۱) پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ تو ان
۷۰
میں قرابتیں رہیں گی اور نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔” سوال ہے کہ قیامت کے دن قرابتیں کیوں ختم ہوں گی، اور وہ بھی صورِ اسرافیل کے پھونکنے پر؟
جواب: اس میں دین اور روحانیّت کا ایک عظیم انقلابی راز پوشیدہ ہے، اگر بگویم ۔ مشکل ! اگر نہ گویم ۔ ہم مشکل! تاہم اشارہ ضروری ہے کہ اس کا جواب ایک ایسی آیت میں موجود ہے، جس میں نفخِ صور کا ذکر بھی ہے اور اس میں دوسرے الفاظ کے ساتھ ایک ایسا لفظ بھی ہے جس کی اصل ن، س، ل ہے، اس کے علاوہ شاید میں آپ عزیزوں سے زبانی بات کر سکوں۔
ہم نے اس کتاب میں قبلاً تین ادوار کا ذکر کرتے ہوئے اسی سرِّ عظیم کی طرف اشارہ کیا ہے، ہوشمند مومنین ان خاص بھیدوں کو سمجھ سکتے ہیں، خداوند عالم سب مومنین کو توفیق و ہمت عنایت فرمائے! آمین!!
پرندوں کی بولی یا ارواح کی زبان؟
سوال نمبر ۵۸: قرآنِ مقدس ( ۲۷: ۱۶ ) میں ارشاد ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام پرندوں کی بولی جانتے تھے، آپ نے اس کی تاویل سوال نمبر ۵۰ کے تحت یہ بتایا ہے کہ سلیمان پیغمبرؑ روحوں کی زبان جانتے تھے، کیونکہ پرندوں سے ارواح مراد ہیں، ہم ضرور اس بات کو مانتے ہیں، مگر اس میں یہ ذیلی سوال باقی رہتا ہے کہ آیا جناب سلیمانؑ ظاہری پرندوں کی بولی بھی جانتے تھے یا نہیں؟ نیز یہاں آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ: “خدا نے ہر چیز کو گویا کیا (۴۱: ۲۱)” یعنی بولنے کی قوّت دی، تو یہ معجزہ کب اور کہاں ہوا، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے سوا جو بھی مخلوق ہے وہ ہمیشہ سے بے زبان اور بولنے سے قاصر ہے؟
۷۱
جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السّلام نہ صرف روحوں کی زبان جانتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ظاہری اور جسمانی پرندوں کی بولی بھی جانتے تھے اور جملہ انبیائے کرام و أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام اس معجزاتی اور روحانی علم میں یکسان ہیں، کیونکہ خدائی نور سے ان کامل انسانوں کی وابستگی کو علمی و عرفانی نتیجہ ایک جیسا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ آپ کوئی پیغمبر یا امام ہر گز نہیں، مگر فرض کریں کہ خداوند تعالیٰ اپنی بے پایان رحمت سے آپ کو نورِ معرفت کی روشنی عطا فرماتا ہے، تو اس وقت آپ راہِ روحانیّت پر رسولِ خداؐ اور امامِ زمانؑ کے پیچھے پیچھے چلتے ہوں گے، درحالیکہ ہر قدم پر نورِ نبوّت و امامت کے عجائب و غرائب اور معجزات کا ایک نیا عالم آپ کے سامنے ہوگا، اس وقت آپ لاتعداد مافوق الفطرت SUPERNATURAL واقعات کا مشاہدہ اور مطالعہ کررہے ہوں گے، اور اسی سلسلے میں آپ زندوں اور مردوں کی ارواح سے گفتگو بھی کریں گے اور پرندوں کی بولی بھی سمجھ سکیں گے، اسی روحانیّت کے بغیر کوئی مکمل معرفت ہے نہیں، اور نہ ہی اس کے سوا کوئی اور راستہ ہے۔
جی ہاں، اللہ پاک نے ہر چیز کو گویا کیا، یعنی اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ہر چیز کے بولنے کا معجزہ دکھایا، اور اس کی علمی شہادت (گواہی) ہمیشہ سے مقامِ روحانیّت پر موجود ہے، الغرض ہر بیجان اور بے زبان چیزدو طرح سے معجزانہ بات چیت کرتی ہے، ایک تو یہ ہے کہ اس گفتگو میں صرف اس چیز کی روح موجود ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ وہ شے یعنی جانور وغیرہ جسمانی حالت میں سامنے ہوتا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ اس میں روحِ قدسی کا ہاتھ ہوتا ہے، لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ اگر کوئی بیجان چیز یا کوئی جاندار آپ کی
۷۲
روحانیّت کے مقام پر کچھ بول رہا ہے تو اس کو اپنے بولنے کا احساس و شعور بھی ہو۔
روحانی ہد ہد: ۔
سوال نمبر ۵۹: اب ہم آپ کے کہنے کے مطابق یہ مانتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ روحانی پرندوں کی بولی بھی جانتے تھے اور جسمانی پرندوں کی بولی بھی، مگر اس سے ایک اور سوال یہ پیدا ہو ا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور ملکۂ سبا (بلقیس) کے قرآنی قصّے میں جس ہد ہد کا ذکر ہے، وہ روحانی اور تاویلی طور پر تھا یا مادّی حالت میں؟ اس مرغِ سلیمانؑ نے شہرِ سبا کی شہزادی کے متعلق جو کچھ خبرلائی، جیسے حضرت سلیمانؑ کا خط ان کو پہنچا دیا اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات، آیا یہ سب روحانیّت کی باتیں ہیں یا ظاہری معجزات ؟
جواب: جاننا چاہئے کہ یہ ہد ہد مادیّت میں نہیں بلکہ روحانیّت میں تھا، اور اس کا سارا کام باطنی اور روحانی تھا، قصّۂ ملکۂ سبا کے دو پہلو ہیں، ایک ظاہری اور ایک باطنی و تاویلی اور تاویلی بھی کئی طرح سے ہے، منجملہ ایک یہ ہے جو ہم یہاں بیان کر رہے ہیں، کہ اس قصّے میں روحِ تجسس کا نام ہد ہد بتایا گیا ہے، کیونکہ مملکتِ سلیمانی دراصل روحانی حکومت ہے، جس میں رحمانی سلطنت کے تمام انتظامات مہیّا ہیں۔
حضرت سلیمانؑ کے لشکر جو جنّات، آدمی اور پرندوں سے تھے، وہ ارواح کی شکل میں تھے( ۲۶: ۱۷) ہَوا جو آپؑ کے لئے مسخر تھی یہ ایک روحانی معجزے کی بات ہے ( ۳۴: ۱۲) جنّات روحانیّت میں دوسرے بہت سے کاموں کے علاوہ روحانی مصوری بھی کرتے تھے (۳۴: ۱۳) عرش یعنی تخت کی
۷۳
تاویل یہاں انسان کی لطیف شکل و صورت اور روحانی ہستی ہے ( ۲۷: ۲۳) کیونکہ آدمی کی انا و خودی اس کی روح کے تخت پر قائم ہے اور روح اصل میں ایک لطیف نورانی تصویر ہے، اسی موقع پر اگر ہم عرشِ الٰہی کی بات بھی کریں تو بہتر ہوگا، اور وہ یہ کہ خداوند تعالیٰ کا عرش بھی انسانی شکل کا ہے، چنانچہ جب آپ روحانیّت کے اعلیٰ مقام پر دیدۂ باطن سے امامِ اقدس و اطہرؑ کی نورانی ہستی کا مشاہدہ کریں گے تو یہ مقامِ عرش ہوگا، قرآنِ حکیم میں جہاں ( ۲۷: ۲۳) میں ملکۂ سبا کے عرش کا ذکر ہوا ہے وہاں (۲۷: ۲۶) میں “العرش العظیم” یعنی لاہوتی بادشاہ کے تخت کا ذکر بھی فرمایا گیا ہے، تاکہ اہلِ دانش اس میں غور کریں۔
کون سی خصلت کس روح کی؟
سوال نمبر ۶۰: جب انسان میں روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی مل کر ہیں، تو اس کی ایسی مخلوط و مرکب ہستی میں کیسے معلوم ہوگا کہ کون سی خصلت کس روح کی ہے اور کونسا فعل کس روح کا؟
جواب: ان باتوں کے جاننے کا اصول یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے درخت، حیوان اور انسان کے درمیاں جو فرق و امتیاز ہے، اس کو دیکھیں گے، یا یوں کہنا چاہئے کہ ہم درخت اور حیوان کی خصوصیات کے بارے میں ذرا غور کریں گے کہ کون سی چیز کس میں ہے درخت میں یا حیوان میں؟ تاکہ اسی طرح انسان کی روحِ نباتی اور روحِ حیوانی کی صلاحیتوں کی شناخت ہو جائے، اب اس کے
۷۴
بعد آدمی کی جو خصوصیات باقی ہوںگی، وہ ظاہر ہے کہ اس کی روحِ انسانی سے متعلق ہوںگی۔
۷۵
بابِ چہارم:
چراغ اور شعلۂ چراغ: ۔
سوال نمبر ۶۱: آپ اس سے پہلے یہ تو بتا چکے ہیں کہ روحُ اللہ اور نورُاللہ ایک ہی حقیقت ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کی (۴۲: ۵۲) میں فرمایا گیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو روح حضور اکرمؐ کی طرف وحی کی گئی تھی، اسی کو نور قرار دیا گیا تھا، آیا ہم اس کے نتیجے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ جو خدا کی روح تھے وہ بطنِ مریمؑ میں بھی ہوتے ہوئے نورِ الٰہی تھے؟ کیا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ جب حضرتِ عیسیٰؑ کا جسمانی جنم ہوا تو بی بی مریمؑ روحِ خدا یعنی نورُاللہ سے خالی ہوگئیں، کیونکہ روحُ اللہ تو صرف حضرت عیسیٰؑ تھے؟ اس کے بارے میں وضاحت چاہئے۔
جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدّس نور کی تشبیہ و تمثیل ایک روشن چراغ سے دی ہے، چراغ ایک تو ظرف (برتن) ہے جس میں تیل اور بتی ہوتی ہے، اور دوسرا شعلہ، جو اس ظرف کے کنارے سے بلند ہوتے ہوئے روشنی بکھیرتا ہے، اسی طرح اگرچہ حضرت عیسیٰؑ کی جسمانی تکمیل شکمِ مادر میں ہورہی تھی، لیکن آپؑ کا نور بی بی مریمؑ کی پیشانی سے ضوفشانی کرتا تھا، اور نور کے کئی پہلو ہوتے ہیں، لہٰذا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ نور دونوں مقدّس ہستیوں سے متعلق تھا، جس وقت حضرتِ عیسیٰؑ جسمانی طور پر پیدا ہوئے، تو اس میں صرف جسم سے جسم الگ ہوا، مگر نور (روح) بسیط ہے، اس لئے یہ الگ نہیں ہوسکتا تھا، سو اگرچہ مرکزِ نور عیسیٰؑ تھے، مگر اس کا ایک مکمل عکس بی بی مریمؑ کی مبارک پیشانی میں باقی تھا۔
۷۹
حضرت موسٰی کی والدہ: ۔
سوال نمبر ۶۲: آیا حضرت موسٰیؑ کی والدہ کوئی پیغمبرانہ درجہ رکھتی تھیں؟ اگر نہیں تو ان کو خداوند تعالیٰ کی طرف سے وحی کیونکر آئی، جس کا ذکر قرآن ( ۶۸: ۰۷) میں موجود ہے؟ کیا ان کی اور بی بی مریمؑ کی روحانیّت ایک جیسی تھی؟ آیا حضرت موسٰیؑ بھی اپنے وقت میں روحُ اللہ تھے؟
جواب: حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی والدۂ محترمہ نہ تو کوئی پیغمبر تھیں اور نہ ہی کوئی امام، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت یہ نہیں کہ کوئی عورت پیغمبر یا امام ہو، مگر باطنی اور روحانی طور پر مرد اور عورت دونوں نور سے واصل ہو سکتے ہیں، مادرِ موسٰیؑ کو جو وحی آئی تھی، وہ پیغمبرانہ نوعیّت کی نہ تھی، وہ ذاتی قسم کی تھی، جس کو روحانیّت اور الہام بھی کہا جا سکتا ہے، جو پیغمبر اور امام کے قرب کا نتیجہ ہے۔
جی ہاں، موسٰی علیہ السّلام کی والدہ اور بی بی مریم روحانی فضائل کے اعتبار سے ایک جیسی نظر آتی ہیں، کیونکہ دونوں مقدّس ہستیوں پر آسمانی ہدایت کی تابش یکسان ہے، اگر چہ مادرِ موسٰیؑ کے متعلق قرآن میں کوئی ایسی اعلانیہ تعریف نہیں، جیسی بی بی مریمؑ کے بارے میں ہے، تاہم ان کی ساری تعریف وہاں جمع ہے جہاں ان کو وحی ہوتی ہے، جی ہاں، حضرت موسٰیؑ بھی اپنے وقت میں خدا کی روح تھے۔
۸۰
ذیلی فرشتے: ۔
سوال نمبر ۶۳: ہم روحانیّت کے اس اصول پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر درجہ کی روح میں لاتعداد روحیں ہوا کرتی ہیں، اور یہی مثال روح القدس کی بھی ہے، اب ہمیں اس میں یہ پوچھنا ہے کہ زمانۂ نبوّت میں اگر روح القدّس یعنی جبرائیلؑ سلمان فارسی کی شکل میں آیا تھا، تو وہ لاتعداد فرشتے جو جبرائیل کے ہمراہ ہوتے تھے کن کن شکلوں میں ہوا کرتے تھے؟
جواب: ۔ قانونِ روحانیّت یہ ہے، کہ جہاں ایک اعلیٰ مومن کی روح جبرائیلؑ کا فریضہ انجام دیتی ہے وہاں دوسرے بہت سے مومنین کی ارواح (خواہ زندوں کی ہوں یا مردوں کی) طفیلی اور ذیلی فرشتوں کا کام کرتی ہیں، اور روح جس کی ہو اس کی ہمشکل ہو تی ہے۔
مومن کی پرواز: ۔
سوال نمبر ۶۴: “میں نے جعفر (بن ابی طالبؑ ) کو جنّت میں فرشتوں کے ساتھ اڑتے دیکھا (حدیث)” کیا یہ فضیلت صرف حضرت جعفرؑ کے لئے مخصوص ہے یا ایک مشترکہ اعلیٰ درجہ ہے؟ آیا فرشتے پرندوں کی طرح پرواز کرتے ہیں یا کسی اور کیفیت میں؟
جواب: جنّت میں فرشتوں کے ساتھ اڑنے کا درجہ صرف حضرت جعفرِ طیارؑ ہی کے لئے مخصوص نہیں، مگر ضرور اتنا ہے کہ آپ اس فضیلت کے بارے میں تمام مومنین کے لئے مثال اور نمونہ ہیں، اور حصول کے
۸۱
لئے یہ درجہ سب کے سامنے ہے، فرشتوں کی پرواز پرندوں سے قطعی مختلف ہے، یہ تو روحانی اڑان ہے جو صرف ذکرِ الٰہی کے پروں سے ممکن ہے، جیسے قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ: فرشتوں کو (اپنا ) قاصد بنانے والا جنّ کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر ہوتے ہیں ( ۳۵: ۰۱) یعنی فرشتوں میں ایک ساتھ دو اسم کا ذکر بھی جاری رہتا ہے، تین کا سلسلہ بھی چلتا ہے اور چار بھی۔
بہشت میں عبادت :
سوال نمبر ۶۵: کیا بہشت میں عبادت و بندگی ہے؟ اگر نہیں تو وہاں فرشتوں کی پرواز ذکرِ خدا سے کیونکر ہو سکتی ہے؟ کیا بقولِ قرآن (۱۵: ۹۹) عبادت موت کے آنے تک محدود نہیں ہے؟
جواب: بہشت میں ایسی کوئی تکلیف کی عبادت ہرگز نہیں جو آج ہم دنیا میں خداوند تعالیٰ کی غلامی کے تصوّر سے کرتے ہیں، اور یہ بھی نہیں جو دوزخ کے ڈر اور جنّت کی طمع سے کی جاتی ہے، مگر ہاں، بہشت میں خاص اور اعلیٰ عبادت ضرور ہے، جو کسی زحمت کے بغیر انتہائی خوشی اور پروردگار کی محبت و دوستی میں کی جاتی ہے، ایسی عبادت یا ذکرِالٰہی جنت میں روحانیّت کی بلندی پر واقع ہے، وہ عارفانہ اور فرشتگانہ ذکر ہے، جو صرف ارادے اوراشارے سے خود بخود چلنے لگتا ہے، جس میں روحیں اور عقلی قسم کی لذّتیں، حلاوتیں اور مسرّتیں موجود ہیں، یہ غذائے عقل و روح کے طور پر ہے، اور اسماء و کلمات میں جو علمی و عرفانی خزائن پوشیدہ ہیں اور جو روحانیّت
۸۲
کے عجائب و غرائب ہیں ان کو دیکھنے کے لئے ہے، جیسے آنحضرتؐ کا ارشاد ہے کہ: “لاحولَ وَلا قُوّۃَ اِلّا بِاللہِ العلیّ العظیم۔ بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے،” اس کے یہ معنی ہوئے کہ جنّت کے دوسرے خزانے بھی کچھ اس طرح اسماء اور کلمات کے ہیں۔
عبادت موت کے آنے تک نہیں، کیونکہ عبادت کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ موت آجائے اور موت حاصل ہو، اس کا مقصد یقین کا آخری درجہ ہے، یعنی حق الیقین، جو انتہائی بلند مرتبہ ہے، پس مذکورہ آیت (یعنی ۱۵: ۹۹ ) میں موت کا نہیں یقین کا ذکر ہے۔
جنت میں پرواز کیسی ؟
سوال ۶۶: اگر مانا جائے کہ بہشت جو عالمِ آخرت میں ہے وہ لامکان ہے، اور اس میں دنیائے ظاہر کی طرح مادّی قسم کی مسافتیں نہیں ہیں، تو پھر اس میں کسی پرندے کی طرح کیسی پرواز ہو سکتی ہے؟
جواب: یہ بات درست اور حقیقت ہے کہ بہشت روحانی اور لامکانی کیفیت میں ہے، اور اس میں مادّی اور مکانی مسافتیں نہیں، لہٰذا فرشتوں اور روحانیوں کی پرواز جسمانی اور دنیاوی اڑان سے بالکل الگ اور مختلف ہے، اور وہ یہ کہ جنّت کے عجائب و غرائب اور ظہورات و تجلّیات کا لا انتہا سلسلہ ذکرِ خدا سے وابستہ ہے، چنانچہ یادِ الٰہی اور تذکرۂ اسماء کے ساتھ ساتھ جنّت کے گونا گون جلوے اور طرح طرح کی نعمتیں خود بخود سامنے آتی رہتی ہیں۔
۸۳
ہمارے جواب کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم بعض دفعہ عالمِ خواب میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پرواز کر جاتے ہیں حالانکہ خوابوں کی دنیا مکان نہیں بلکہ لامکان ہی ہے، اس سے ظاہر ہے کہ لامکان میں مکان کی غیر مادّی اور لطیف مثالیں بھی ہیں۔
اس کے علاوہ یہاں یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ اگر فرشتہ یا روح جسمِ لطیف یا ذرّۂ لطیف کے ساتھ ہے تو اس وقت وہ بیشک جسمانی طور پر پرواز کرتی ہے، جس طرح اڑن طشتری پُراسرار طریقے سے اڑتی ہے۔
اڑن طشتری: ۔
سوال نمبر ۶۷: اڑن طشتری (FLYING SAUCER) کیسی مخلوق ہے؟ کیا یہ کسی دوسرے سیّارے کا ترقی یافتہ انسان ہے یا فرشتہ یا جنّ؟ اس کے زمین کی طرف آنے کا مقصد کیا ہے؟ اس کے بارے میں آپ ہمیں کچھ مفید معلومات فراہم کریں۔
جواب: آج کل مغرب میں اڑن طشتری کو یو۔ایف۔ او (U.F.O)کہا جاتا ہے یعنی (UNIDENTIFIED FLYING OBJECT) جس کا مفہوم ہے ایک ایسی اڑنے والی چیز جس کی شناخت اب تک نہ ہو سکی ہے، ہم نے سوال نمبر ۴۷ کے جواب میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے آپ کو اس سلسلے کی معلومات فراہم ہو سکتی ہیں، اس کے علاوہ آپ میری ایک کتاب “میزان الحقائق” کے صفحات از ۶۲ تا ۶۷ دیکھیں۔
میرا یقین ہے کہ اڑن طشتریاں وہی تسخیرِ کائنات کے مافوق الفطرت
۸۴
(SUPERNATURAL) زندہ کُرتے ہیں، جن کا ذکر قرآنِ حکیم (۱۶: ۸۱ ) میں فرمایا گیا ہے، اور اس ارشاد کا ترجمہ یہ ہے:۔
اور خدا ہی نے تمہارے (آرام کے) لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اور پہاڑوں میں غار بنائے اور کُرتے بنائے جو تم کو گرمی سے بچائیں اور (ایسے) کُرتے (بھی) جو تم کو (اسلحۂ) جنگ (کے ضرر) سے محفوظ رکھیں اسی طرح خدا اپنا احسان تم پر پورا کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو (۱۶: ۸۱)۔
اس پراسرار زندہ کرتے کو ہم جسمِ فلکی، جسمِ لطیف، جثّۂ ابداعیہ، آسٹرل باڈی (ASTRAL BODY) وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور دوسرے سیّارے کا ترقی یافتہ انسان فرشتہ اور جنّ بھی، کیونکہ یہ مقامِ ابداع ہے، اس کے زمین کی طرف آنا خدا کے حکم سے ہے، تاکہ دنیا میں روحانی انقلاب لایا جائے، اور اقوامِ عالم ایک ہو جائیں۔
عرش یا روح: ۔
سوال نمبر ۶۸: اس کائنات کو عرصۂ وجود میں لانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش (تخت) پانی کے ایک بے پایان سمندر پر قائم تھا (وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلیَ الْمَآءِ ۱۱: ۰۷) اس وقت انسانی روح کہاں تھی؟
جواب: اس وقت روحِ انسان عرشِ عظیم کی شکل میں تھی، اور یہ عرش (تخت) شکل میں نہ تو مربع تھا، نہ مستطیل، اور نہ ہی گول، وہ نہ تو لعل و گوہر سے بنا تھا، نہ سونا چاندی سے، اور نہ ہی کسی دوسری بیجان چیز سے، بلکہ وہ عقل و جان کا سرچشمہ اور علم و حکمت کا بے پایان خزانہ تھا، اس لئے وہ
۸۵
نور بھی کہلاتا تھا اور قلم بھی، وہ سب سے عظیم فرشتہ تھا، مگر انسانِ کامل کی صورت میں، اور وہ سمندر جس پر خداتعالیٰ کا تخت قائم تھا علمِ الٰہی کا تھا، مادّی پانی کا نہیں۔
قرآنِ حکیم کی یہ تعلیم کہ: “خدا کا تخت پانی پر تھا۔” تاویلی حکمتوں سے بھرپور ہے، اس لئے لازم نہیں آتا کہ اس سے قبل کائنات و موجودات اپنی موجودہ شکل میں ظاہر نہ ہوں، مگر ہاں، اس تصوّر میں ربِّ کریم کی جانب سے ایک بہت بڑی علمی و عرفانی آزمائش ضرور مقصود ہے، کہ اہلِ ادیان و مذاہب “عرش” اور “پانی” کی حکمت کو سمجھتے ہی نہیں۔
جاننا چاہئے کہ تخت (عرش) کا اشارہ خداوند تعالیٰ کی اس بادشاہی کی طرف ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، اور بادشاہی میں سب کچھ موجود ہوتا ہے۔
دوسری حکمت “پانی” کے لفظ میں ہے، جو علم کے معنی میں ہے، اور علم عالَمْ (کائنات) کی موجودہ صورت و کیفیت میں ہے، اور اس کے بغیر علم کا وجود ہی نہیں بنتا، اگر ہم یہاں پانی کو تاویل کے بغیر ظاہری پانی ہی سمجھیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تخت کس چیز کا تھا، جبکہ پانی کے سوا اور کوئی چیز وہاں موجود ہی نہ تھی؟ تخت کو کس نے بنایا تھا، جبکہ کوئی بادشاہ اپنا تخت خود نہیں بناتا ، بلکہ کسی اور کو حکم دے کر بنواتا ہے؟
رونگٹے کھڑے ہو جانا: ۔
سوال نمبر ۶۹: رونگٹے کھڑے ہو جانے کا یا کپکپی کا ذکر قرآنِ
۸۶
حکیم (۳۹: ۲۳ ) میں بھی ہے، اور ہم اسے اپنے آپ میں یا دوسروں میں بعض دفعہ دیکھتے بھی ہیں، تو کیا اس کے ظاہری اسباب کے علاوہ کوئی روحانی سبب بھی ہے؟ اگر روحانیّت میں اس کی کوئی وجہ ہے تو بیان کیجئے۔
جواب: ہاں، اس کیفیت کی ایک روحانی وجہ بھی ہے، مگر ہم پہلے اس کے ظاہری اسباب کے بارے میں کچھ الفاظ بیان کریں گے، کہ جب آدمی کی جلد کو سخت سردی لگتی ہے یا کسی شدید خوف کا احساس ہوتا ہے تو اس وقت اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے، جس کی وجہ روحِ حیوانی کے وہ بے شمار ذرّات ہیں، جو پورے جسم میں بھرے ہوئے ہیں کہ ان روحوں کو اس غیر مناسب اور ناگوار حالت سے اضطراب و پریشانی پیدا ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ ذرّات آرام و سکون کی نیند سے بیدار ہوکر اپنی جگہ پر حرکت کرتے ہیں، جس کا نتیجہ رونگٹے کھڑے ہو جانے یا کپکپی طاری ہو جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔
اگر یہ واقعہ اپنی روحانی شکل میں ہے تو اس کی وجہ روحِ انسانی کے وہ لاتعداد ذرّات ہیں، جو انسان کی تمام ہستی میں موجود ہیں، کہ جب کوئی خوش نصیب مومن نورِ ہدایت کی روشنی میں کثرت سے ذکر و بندگی کرتا ہے، تو اس سے ان روحوں کو تقویّت و خوشی حاصل ہو جاتی ہے اور پھر روحِ قدسی کی شعاعوں کے برسنے سے ان میں بیداری اور اشتیاقِ وصال کی تڑپ پیدا ہو کر گویا رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں یا کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔
۸۷
جنّات اور انسان کا تعلق: ۔
سوال نمبر ۷۰: کیا آپ جنّ، پری اور شیطان کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں بتائیں گے؟ آیا ان سے انسان کا کوئی رشتہ و تعلق ہے یا یہ الگ مخلوقات ہیں؟ ابلیس اور شیطان میں کیا فرق ہے؟
جواب: “جن” کا لفظ عربی ہے اور پری اسی کا فارسی ترجمہ ہے، یعنی جنّ ہی میں وہ ساری باتیں ہیں جو پریوں سے متعلق ہیں، جنّ کے معنی پوشیدہ مخلوق کے ہیں، اور وہ پوشیدہ اس لئے ہے کہ لطیف ہے کثیف نہیں، جنّات کے مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی، یہ ظلم ہے کہ بعض لوگوں نے جنّات کو بھونڈی شکل میں پیش کیا، حالانکہ یہ بات غلط ہے وہ تو بڑے حسین و جمیل ہوا کرتے ہیں، اس لئے کہ وہ لطیف جسم رکھتے ہیں۔
خداوند عالم نے نہ صرف قرآنی آیات میں غور و فکر کرنے کے لئے فرمایا ہے، بلکہ اس کا فرمان یہ بھی ہے کہ ہم آفاق و انفس کی آیات میں بھی اس کی قدرتوں اور حکمتوں کا مطالعہ کریں، چنانچہ اس سلسلے میں ایک چھوٹا سا جانور ہمارے سامنے آتا ہے وہ ایک کیڑا ہے جو کچھ عرصے کے بعد پروانہ بن جاتا ہے، پھر اس پروانے کے انڈوں سے کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اس میں یہ پُرحکمت اشارہ ہے کہ روحانی دور کے آنے پر مخلوقِ کثیف خدا کے حکم سے مخلوقِ لطیف بن جاتی ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ انسان جو آج جسم کے اعتبار سے کثیف ہیں، کل کو لطیف جسم میں ہوں گے، اور جسمِ لطیف کے مختلف درجات ہیں، مثلاً فرشتے، جنّات اور شیاطین، فرشتے تو سب کے سب اچھے ہیں، شیاطین تماماً برے ہیں، مگر جنّات میں اچھے
۸۸
بھی ہیں اور برے بھی، ابلیس شیاطین کے سردار کا نام ہے، الحمد اللہ، میں نے اس بیان میں جو اشارات سے بھر پور ہے آپ کے سوال کا مکمل جواب مہیا کر دیا۔
ٹیلی پیتھی:
سوال نمبر ۷۱: ٹیلی پیتھی (TELEPATHY) خیال رسانی یعنی اشراق کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟ آیا مستقبل میں کبھی اس کی ترقی ہو سکتی ہے؟ کیا اس کا تعلق مذہب سے ہے یا سائنس سے؟
جواب: خیال رسانی (ٹیلی پیتھی) یا اشراق پر میرا کامل یقین ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ذات میں بہت سی اعلیٰ صلاحیتیں پوشیدہ رکھی ہیں، اگر ان کو ترقی دے کر بروے کار لا یا جائے، تو آدمی بہت سے حیرت انگیز کارنامے انجام دے سکتا ہے، مستقبل میں ٹیلی پیتھی کی ترقی یقینی ہے، میرا نظریہ اصل مذہب اور اصل سائنس کے ایک ہوجانے کا ہے، اس لئے ٹیلی پیتھی دونوں میں مشترکہ ہے۔
آج مذہب اور سائنس کے درمیان جو دیوار کھڑی ہے وہ صرف الفاظ، اصطلاحات اور زبان کی ہے، کاش سائنس دان قرآنی حکمت کی زبان کو جانتے اور روحانیّت کو سمجھتے! کاش جو باتیں دل میں ہیں وہ ہم زبان پر لاسکتے! کاش کامل انسانوں کے بھیدوں کو سب لوگ جانتے !
آپ اس پر حکمت آیت میں غور کریں: فالھمھا فجورھا و تقوٰھا (۱۹: ۰۸) مفہوم یہ ہے کہ خدا نے روح کو بدکاری کا بھی اور پرہیز گاری
۸۹
کا بھی الہام کیا، مگر اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ اللہ پاک نے یہ کام بذاتِ خود نہیں کیا، کیونکہ وہ اس بات سے بہت ہی منزّہ اور برتر ہے کہ کس کو فسق و فجور کی تعلیم دے، لہٰذا یہ کام مضل (شیطان) نے کیا، جو شر کا ذریعہ ہے، اور خدا اس سے بھی پاک و برتر ہے کہ مضل کا مدِ مقابل بن کر کوئی کام کرے، پس اس پادشاہِ مطلق نے ہادیٔ برحق کو یہ قدرت دی کہ وہ خیر کا ذریعہ بنے اور پرہیز گاری کا الہام کرے۔
وسیلۂ روحانیّت: ۔
سوال نمبر ۷۲: آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ روحانیّت ایک ایسا وسیلہ ہے، جو زمانۂ نبوّت کی بولنے والی روح و نورانیّت اور زندہ حقیقتوں کو مستقبل کی طرف لاتا ہے، اور حال و مستقبل کے مومنین کو رسولِ برحق صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے ملا دیتا ہے، کیا آپ اپنے اس نقطۂ نظر پر قرآنِ پاک کی روشنی ڈال کر ہمیں سمجھائیں گے؟
جواب: عزیزانِ من! یہ بات بالکل درست اور حقیقت ہے، اور اس نظریے کی تشریح یہ ہے کہ حضور اکرمؐ وہ پاک نور ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے قرآن سے وابستہ کر کے بھیجا ہے (۰۵: ۱۵) تاکہ اہلِ ایمان اسی نورِ ہدایت کی روشنی میں قرآن پر عمل کرتے جائیں، چنانچہ آنحضرتؐ کا مقدّس نور آج سلسلۂ امامت میں موجود اور حاضر ہے، قرآن نے یہ تو اعلانیہ طور پر کہا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور اس کے نور کی مثال ایک طاق کی طرح ہے جس میں ایک روشن چراغ ہو (۲۴: ۳۵) پھر فرمایا گیا کہ روشن چراغ
۹۰
رسولؐ ہیں ( ۳۳: ۴۶) اللہ پاک کے نور کا جہاں ذکر ہوا وہاں یہ بھی ارشاد ہوا کہ نورِ خداوندی کا قابلِ فہم تصور “نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ (۲۴: ۳۵ )” ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ نور کا خلیفہ و جانشین صرف وہی شخص ہو سکے گا جو خود بھی پہلے ہی سے نور بن چکا ہو۔
الغرض امامِ زمانؑ میں خدا و رسولؐ کا مقدّس نور موجود ہے، اب اس بات کے لئے وسیلۂ روحانیّت چاہئے تاکہ ہم مدینۂ علم اور حکمت کے گھر میں داخل ہو سکیں اور چشمِ باطن سے نورِ نبوّت کے علمی و عرفانی معجزات کا مشاہدہ کریں، اور زمانۂ نبوّت کی بولنے والی قدسی روح و نورانیت اور زندہ حقیقتوں کو دیکھیں۔
ہم آپ کو آئندہ کسی مجلس میں سورۂ جمعہ کی ایک ایسی حیرت انگیز اور پُرمسرّت حکمت بیان کریں گے کہ جس سے آپ یقین کریں گے، کہ ہم نورِ امامت کے وسیلے سے مرتبۂ نبوّت کی شناخت حاصل کر سکتے ہیں اور اس بات میں تمام اشارے موجود ہیں۔
“دو ۲” کی اہمیّت: ۔
سوال نمبر ۷۳: آپ نے ایک دن اپنی علمی گفتگو میں کہا تھا کہ قرآنِ مقدّس میں “ایک” کے بعد “دو” کی اہمیّت کا اشارہ ہے، لہٰذا ہم یہ جاننا چاہئے ہیں کہ دو کی اہمیت قرآن میں کہاں کہاں ہے اور کس طرح یا کس معنی میں ہے؟
جواب: اس سلسلے میں سب سے پہلے ہم یہ کہیں گے کہ
۹۱
خداوند تعالیٰ ایک بھی ہے اور ایک سے برتر بھی، اس کے بعد ہم دو کی بات کرتے ہیں، کہ ذاتِ سبحان کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ دو دو کے جوڑوں میں ہے (۳۶: ۳۶) دنیا و آخرت دو ہیں ( ۰۲: ۲۰۱) اللہ تعالیٰ کی عبات کے لئے جنّ و انس دو مخلوق ہیں (۵۱: ۵۶) خیرو شر انسانی آزمائش کے ذریعے دو ہیں (۲۱: ۳۵) حکمت اسی میں ہے کہ بہشت کے پھل دو دو کے جوڑوں میں ملیں گے (۵۲: ۵۵) روحانی حکمت کی تعلیم وہاں ملتی ہے، جہاں دو دریا ایک دوسرے سے ملتے ہیں ( ۱۸: ۶۰) مشرق و مغرب دو دو ہیں (۵۵: ۱۷ ) ۔
آسمان و زمین یعنی بلندی و پستی دو ہیں (۲۴: ۳۵) نورو ظلمت دو ہیں (۳۵: ۲۰) زندگی اور موت دو ہیں (۶۷: ۰۲) دن اور رات دو ہیں (۱۷: ۱۲) نفوسِ خلائق دو دو کے جوڑے ہوں گے ( ۸۱: ۰۷) وغیرہ وغیرہ ۔
دو کے عدد میں بہت سی حکمتیں ہیں: یہ وحدت اور کثرت کے درمیان ہے، لاابتدائی اور لاانتہائی کا وسیلہ ہے، جفت اور جوڑے اسی عدد میں ہیں ، اضداد اسی سے بنتی ہیں، تاکہ ایک دوسرے کی شناخت ہو، نفی اور اثبات کی حکمت اسی میں ہے، یہ میزانِ عدل کی مثال ہے، اور آخری بات یہ ہے کہ مخلوقات میں کوئی چیز دو کی حکمت یا دو کے قانون کے بغیر نہیں، چنانچہ نفوسِ خلائق بھی دو دو ہیں، جیسے کہا گیا تھا کہ روح کے دو سِرے ہیں، یعنی ہم ایک انائے علوی رکھتے ہیں اور ایک انا ئے سفلی۔
نوٹ: انائے علوی اور انائے سفلی کی تفصیلات “میزان الحقائق” میں دیکھیں۔
۹۲
خدا کے ہاں ماضی و مستقبل نہیں: ۔
سوال نمبر ۷۴: مجھے یہ بات ٹھیک طرح سے یاد نہیں کہ میں نے مولانا روم کی مثنوی میں یا آپ کی کسی کتاب میں یہ دیکھ لیا تھا کہ خداتعالیٰ کے حضور میں نہ تو ماضی ہے اور نہ مستقبل، وہاں بس حال ہی حال ہے، کیا یہ روحانیّت کی بات ہے یا آخرت کی؟ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی مقام پر ماضی بھی نہ ہو اور مستقبل بھی، صرف اور صرف زمانۂ حال موجود ہو؟
جواب: ماضی اس کا ہوتا ہے جس کی نگاہوں سے زمان و مکان کے واقعات آگے گزر چکے ہوتے ہیں یا یہ کہ اس کو مدّتِ مدید اور مسافتِ بعید کی وجہ سے قطعاً ماضی کی خبر ہی نہیں ہوتی ہے، اور مستقبل بھی اسی شخص کا ہوتا ہے کیونکہ آنے والے حالات اس تک ابھی نہیں پہنچے ہیں اور وہ ان تک رسا ہو جانے سے قاصر ہے، مگر خدا جو اپنے نور سے زمان و مکان پر محیط ہے، اس کے لئے کوئی ماضی اور مستقبل نہیں، اس کی نظر میں ہر غائب حاضر ہے اور ہر ماضی و مستقبل حال، یہ اس کا نور ہے جو کائنات و موجودات کے تمام واقعات و حالات کو اصل صورت میں محفوظ رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور سے روحانیّت مراد ہے، اور روحانیّت ہی وہ مقام ہے، جہاں زمانۂ گزشتہ اور زمانۂ آئندہ دونوں “حال” کی صورت میں حاضر ہیں، جس کی مثال یہ ہے کہ اگر آپ روحانیّت میں چلے جائیں تو واقعاتِ آدمؑ اور واقعاتِ قیامت کو آپ حال ہی میں دیکھیں گے، پس یہ حالت روحانیّت بھی ہے اور آخرت بھی۔
۹۳
دائرۂ لطیف و کثیف: ۔
سوال نمبر ۷۵: قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنّات کو انسانوں سے قبل آگ سے پیدا کیا ( ۱۵: ۲۷) لیکن آپ نے نمبر ۷۰ میں یہ تاویل کی ہے کہ انسانوں سے فرشتے، جنّات، اور شیاطین بن جاتے ہیں، وہ کس طرح ممکن ہے؟ ہمیں اس کی وضاحت چاہئے۔
جواب: آپ کے سوال کے پس منظر میں دو باتیں خاص ہیں، ایک ہے “قبل” اور ایک ہے “آگ” سو جاننا چاہئے کہ اس دنیا میں دن رات کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے چلنے والے دو عظیم دور گردش کرتے ہیں ایک تو لطیف (روحانی) دور ہے، اور دوسرا کثیف (جسمانی) دور، اگر آپ پورے دائرے کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اس صورت میں دورِ لطیف اور دورِ کثیف میں سے کوئی آگے اور کوئی پیچھے نہیں، لیکن جہاں آپ جسمانی دور میں رہتے ہیں، تو اس حال میں روحانی دور کو قبل کا زمانہ کہنا صحیح ہے۔
اب رہا آگ کا سوال، تو یہ لطافت کے معنی میں ہے، یعنی جس وقت روحانی دور آتا ہے، اس وقت جو لوگ علم وعمل میں اعلیٰ ہیں، وہ درجہ بدرجہ فرشتے بن جاتے ہیں، جو درمیانی قسم کے ہیں، وہ مختلف درجات کے جنّات بن جاتے ہیں، اور جو شریر ہیں وہ شیاطین بن جاتے ہیں۔
جنّات اور انسان کی تخلیق کی مثال یوں ہے، جیسے کوئی حکیم کہتا ہو کہ کیڑے کو کثافت سے پیدا کیا گیا، اور پروانے کو اس سے پہلے لطافت سے پیدا کیا گیا، اس سے ہوشمند شخص مطلب کو سمجھ لیتا ہے کہ یہ لطافت کیڑے کی تھی اور کثافت پروانے کی۔
۹۴
حضرت آدمؑ، بی بی حوّاؑ اور ان کے لاتعداد ساتھی بہشت میں جانے سے پہلے کثیف جسم میں تھے، لیکن بہشت میں جاتے ہوئے لطیف بن گئے، جب بہشت سے نکالے گئے تو کثیف جسم میں بدل گئے، اور پھر واپس بہشت میں جا کر لطیف ہو گئے۔
ایک حیرت انگیز حکمت: ۔
سوال نمبر: آپ نے نمبر ۷۲ کے آخر میں یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ ہمیں سورۂ جمعہ کی ایک ایسی حیرت انگیز اور پُرمسرّت حکمت بیان کر دیں گے، کہ جس سے ہم کو کامل یقین ہو کہ نور امامت کے وسیلے سے ہم مرتبۂ نبوّت کی شناخت حاصل کر سکتے ہیں، کیا آپ وہ حکمت بیان کریں گے؟
جواب: جی ہاں، یہ وہی سلسلہ ہے، جس کے شروع میں کہا گیا تھا کہ روحانیّت کا وسیلہ ہی حال و مستقبل کے مومنین کو رسولِ برحقؐ سے ملا دیتا ہے، چنانچہ سورۂ جمعہ (۶۲) کی دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی ان بے شمار رحمتوں اور مہربانیوں کا ذکر ہوا ہے، جو زمانۂ نبوّت کے مومنین کو حاصل تھیں، مثلاً رسولِ اکرمؑ کا ان کے سامنے خدا کی آیتیں پڑھنا، ان کو پاک و پاکیزہ کر دینا، کتاب اور حکمت سکھا دینا، اور یہ سب دراصل روحانیّت کی باتیں ہیں۔
تیسری آیت میں “آخرین” کے بارے میں ذکر ہے، کہ جو اہلِ ایمان زمانۂ نبوّت میں ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے، وہ آئندہ زمانے میں پیدا ہو جانے کے باوجود نورِ ہدایت اور روحانیّت کے وسیلے سے زمانۂ رسولؐ کے مومنین سے جاملیں گے، یہ سب کچھ حکمت کی زبان میں ہے، جس کا ثبوت آیت کے آخر
۹۵
میں “العزیز الحکیم” ہے، یعنی وہ غالب حکمت والا ہے، اس لئے وہ ایسا کر سکتا ہے۔
چوتھی آیت میں اشارتاً فرمایا گیا ہےکہ یہ ہدایت و روحانیّت خداوند تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور خدا بڑے فضل کا مالک ہے۔
انتہائی عظیم راز: ۔
سوال نمبر ۷۷: “خلقکم من نفس واحدۃ ثم جعل منھا زوجھا (۳۹: ۰۶) اسی نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا پھر اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا۔” عرصۂ دراز سے اس آیت میں سوچتے آیا ہوں، مگر کوئی مطلب سمجھ میں نہیں آتا، کیونکہ اگر یہاں نفسِ واحدہ سے آدمؑ مراد لیا جائے، تو تنہا ایک شخص سے اولاد کا پیدا ہونا اور بیوی کی پیدائش بعد میں، یہ ناممکن بات ہے، لہٰذا براہِ کرم آپ ہمیں بتائیں کہ اس میں راز کیا ہے؟
جواب: خداوند کی توفیق و یاری سے اور اسی کو کار ساز مانتے ہوئے کہتا ہوں کہ واقعی یہاں ایک انتہائی عظیم راز پوشید ہ ہے، وہ یہ کہ آیۂ مذکورۂ بالا میں نفسِ کلّی کا ذکر ہے، جس کے پس منظر میں لازمی طور پر عقلِ کلّی بھی ہے، اور یہ دونوں دینی حکمت کی زبان میں جفتِ بسیط اور آدم و حوّای معنیٰ کہلاتے ہیں، چنانچہ نفسِ واحدہ (یعنی عقلِ کل کی روحانی بیوی) سے سابقہ عظیم دور کے تمام نفوس پیدا ہو گئے، اور اس دور کے اختتام پر یہ نفسِ کلّ عقلِ کلّ کے درجے پر فائز ہو گیا، جس کی تاویلی مثال یہ ہوئی کہ یہ عظیم فرشتہ گزشتہ دور میں ماں کا درجہ رکھتا تھا اب مستقبل کے
۹۶
نفوس کا باپ بن گیا، اس لئے خدا نے اس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا ، یعنی اس کے حدود میں سے ایک عظیم حد کو نفسِ کلّ بنا یا گیا، تاکہ ان دونوں عظیم فرشتوں کے اس روحانی ازواج سے روحوں کی ایک نئی دنیا وجود میں آئے۔
ستاروں کی روحیں: ۔
سوال نمبر ۷۸: جب ہر چھوٹی بڑی چیز کی ایک روح ہوا کرتی ہے، اور جہاں اس عظیم کائنات کی ایک ہمہ گیر روح ہے، تو کیا سیّارۂ زمین، چاند اور جتنے بھی ستارے ہیں، ان کی بھی جانیں ( ارواح) ہوتی ہیں؟ اگر آپ کہتے ہیں، کہ ہاں سیّاروں اور ستاروں کی روحیں ہیں، تو اس کی کوئی معقول دلیل پیش کی جائے۔
جواب: مجھے یہ سوال نہ جانے کیوں بہت ہی عمدہ اور خوبصورت لگ رہا ہے، شاید اس میں کوئی رحمتِ خداوندی ہے، عزیزانِ من! کائنات کی ہر چیز روحِ ارواح کے بحرِ محیط میں غرق ہے، اسی طرح تمام سیّارے اور ستارے ظاہراً و باطناً روح کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں سے ہر ایک کی روحانی شکل و صورت متعین ہو جاتی ہے، چنانچہ سیّارۂ زمین کی روحانی شکل زمین ہی کی طرح ہے، جیسے کسی عظیم فرشتے نے خدا کے حکم سے اس کی پر حکمت اور زندہ فلم بنائی ہو، یہ زمین کی روح کی ایک قابلِ فہم مثال ہے۔
ہوا کی شکل کا اپنے طور پر کوئی تعیّن نہیں ، مگر جہاں مشک میں ہے، تو وہ مشک کی طرح ہے، بوتل میں ہے تو بوتل جیسی، اور جب ٹائر میں ہے تو ٹائر
۹۷
کی مانند ہے، یہی حال ہر چیز یعنی ہر ستّارے کی روحانی شکل کا ہے، مگر اس میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ روحانی صورت ایک زندہ اور بولنے والی روح ہوا کرتی ہے، اور ہوا جہاں کہیں بھی ہو روحانی اوصاف سے عاری ہوتی ہے۔
خداوند عالم نے اپنی عزیز کتاب ( ۵۶: ۷۵ ) میں ستاروں کے گر جانے کی قسم کھائی ہے، یہ ستاروں کی روحیں ہیں، جو انفرادی قیامت میں مومن پر گر جاتی ہیں، اور یہ صرف ذرّات کی صورت میں ہوتی ہیں۔
دائرۂ کرم و پروانہ: ۔
سوال نمبر ۷۹: مخلوقِ کثیف (موجود انسان) اور مخلوقِ لطیف (فرشتہ وغیرہ) پر غور کرنے کے لئے آپ نے جو کیڑے اور پروانے کی مثال پیش کی ہے، وہ کتابِ فطرت کی ایک منہ بولتی آیت ہے، اور اس سے ہم بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں قرآنِ مقدّس کی روشنی میں کچھ سمجھائیں۔
جواب: خداوند تعالیٰ نے کائنات کو چھ دن میں بنایا، یعنی اس نے عالمِ دین کو چھ عظیم پیغمبروں کے زمانوں میں مکمل کر دیا، اسی طرح پروردگار نے انسان کے موجودہ جسم کی تخلیق و تکمیل چھ مراحل میں کی، وہ یہ ہیں،: سلالہ (مٹی کا خلاصہ) نطفہ، علقہ، مضفہ، عظام اور لحم، تو انسان جسمِ کثیف میں مکمل ہوا اور دنیاوی طور پر زندگی گزاری، پھر خداوند تعالیٰ نے اس کو خلقِ آخر (جسمِ لطیف ) بنایا ( ۲۳: ۱۲ تا ۱۴)۔
فتبٰرکُ اللہ احسن الخٰلقِین (۲۳: ۱۴ ) تو خدا بڑا بابرکت ہے جو
۹۸
سب بنانے والوں سے بہتر ہے، یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ “خلقِ آخر” سب سے اوپر کی تخلیق ہے، اور وہ جثّۂ ابداعیہ کی تخلیق ہے، اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس مقام پر اللہ کی بہت سی برکتوں اور خالقیت کی خوبیوں کی طرف اشارہ نہ ہوتا۔
یاد رہے کہ قرآنِ حکیم کے ربطِ معنوی کا اصول زبردست حکیمانہ ہے، لہٰذا ہم ثُمّ انشا نٰہُ خلقاً ٰخر (۲۳: ۱۴ ) میں سے “اَنشا نٰہٗ” کی تفسیر و تشریح کسی دوسری آیت میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے یہ آیت ملتی ہے: اِنّا اَنشا نٰھُنّ اِنشآ ءً ۔ فجلنٰھُنَّ اَبْکاراً (۵۶: ۳۵ تا ۳۶) ہم نے ان (حوروں) کو پیدا کیا جیسا کہ پیدا کرنے کا حق ہے، یعنی ان کو پہلے دنیا میں پیدا کیا اور زندگی کے مختلف مراحل سے گزار دیا، پھر ہم نے انہیں کنواریاں بنایا یعنی ان کو لطیف جسم دیا، پس اس سے یہ حقیقت بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ دنیا کا جسم دنیا ہی میں رہ جاتا ہے اور آخرت کے لئے لطیف جسم ہے۔
سرے دو ہیں روح کے: ۔
سوال نمبر ۸۰: ہماری روح (جان) کے دو سِرے کس طرح ہیں، اور کس معنیٰ میں نفوس کے جوڑے ہیں؟
جواب: یہ بات خوب یاد رہے کہ ہماری روح کا اصل سرچشمہ عالمِ امر اور بہشت میں ہے، ہم وہاں سے کلی طور پر نہیں بلکہ جزوی طور پر یہاں آئے ہیں، جیسے سورج اپنے مقام پر قائم ہے، مگر اس کی کرنیں، روشنی اور حرارت سطحِ زمین تک پہنچتی رہتی ہیں، اگر ہم اپنے سامنے سورج کی روشنی میں
۹۹
کوئی آئینہ یا پانی کے ساتھ کوئی برتن رکھیں، تو اس میں سورج کا مدھم سا عکس نظر آئے گا، یہ ہماری روحانیّت اور جسمانیّت کی دو طرفہ ہستی کی ایک خوبصورت اور قابلِ فہم مثال ہے، اسی معنیٰ میں کہا گیا ہے کہ ہماری روح کے دو سِرے ہیں یا یہ کہ ہماری دو انائیں ہیں۔
قرآنِ حکیم (۰۶: ۹۸) کا مفہوم ہے کہ جب بحکمِ خدا تمام انسان نفسِ کلّی سے پیدا کئے گئے، تو اس وقت سب کو دو دو روحیں عنایت ہوئیں، ایک کا نام مستقر ہے اور دوسری کا نام مستودع، مستقر عالمِ امر میں ہے اور مستودع اس دنیا میں آئی، چنانچہ جو لوگ یہاں خدا اور رسولؐ اور صاحبِ امر کی اطاعت کا حق جیسا کہ چاہئے ادا کریں اور انہیں اپنے نفس کی معرفت حاصل ہو تو وہ لوگ اپنی روحِ مستقر سے جا ملیں گے، جیسا کہ رسولِ اکرمؐ نے اپنے آخری وقت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے “رفیقِ اعلیٰ” (روحِ مستقر) سے جا ملنے کے لئے دعا مانگی تھی، ہم نے اس بیان میں آپ کے سوال کا کافی جواب دیا ہے۔
۱۰۰
بابِ پنجم :
جسمِ خاکی دائم نہیں: ۔
سوال نمبر ۸۱: حضرتِ ادریسؑ کو خدا تعالیٰ نے جسمِ خاکی ہی کے ساتھ بہشت میں اٹھالیا (۱۹: ۵۷ ) حضرت خضرؑ اسی جسم میں ہمیشہ کے لئے اس دنیا میں زندہ رہے اور خدا نے حضرت عیسیٰؑ کو اس جسم کے ساتھ زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیا، آیا یہ مثالیں ہیں یا حقائق؟ حقیقتِ حال جیسی بھی ہو، اس کو کھول کر بیان کریں۔
جواب: یہ تو حکمت کی مثالیں ہیں، اور حکمت و حقیقت ان مثالوں کے سمجھنے میں پوشیدہ ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریسؑ کو اس دنیا کی زندگی ہی میں بہشتِ روحانیّت کا مشاہدہ اور تعارف کرایا، جس طرح ہمیشہ پروردگار کی رحمت سے روحانی جنّت کا یہ مشاہدہ انبیاء اولیاء اور نیک بندوں کو ہوتا رہا ہے (۴۷: ۰۶) اس سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ اللہ پاک نے حضرت ادریسؑ کو روحانیّت کے مقام پر اٹھا لیا تھا، پھر بحکمِ خدا وقت آنے پر آپؑ جسمِ عنصری کو چھوڑ کر دائمی جنّت میں داخل ہو گئے، کیونکہ اس جسم کے ساتھ طرح طرح کی تکالیف وابستہ ہیں، اس لئے یہ ابدی بہشت میں نہیں رہ سکتا، ہر چند کہ خدا کے خاص بندوں کو اسی جسم میں یعنی موت سے پہلے بہشت روحانیّت کا مشاہدہ، تجربہ اور تعارف ہو جاتا ہے۔
حضرت خصرؑ سے متعلق جہاں کوئی صحیح روایت یا کوئی مثال ہو، تو اس کی تاویل یہ ہے کہ آپؑ روحانی طور پر زندۂ جاوید ہو گئے ہیں، خداوند تعالےٰ یہ ہر گز نہیں چاہتا کہ اس کے برگزیدہ بندے مقررہ وقت سے زیادہ جسمِ عنصری کے بوجھ کو اٹھاتے پھریں، اسی بیان میں حضرت عیسٰےؑ سے متعلق سوال
۱۰۳
کا جواب بھی مہیا ہے، تاہم دیگر تفصیلات کے لئے آپ پنج مقالہ نمبر ۲ میں “حضرت عیسٰےؑ روح ہیں یا جسم؟” کے موضوع کا مطالعہ کریں۔
جنّت کی معرفت: ۔
سوال نمبر ۸۲: ابھی ابھی آپ نے بہشت کی معرفت کا ذکر کیا، دل چاہتا ہے کہ جنّت کی معرفت کے بارے میں مزید نکات سنیں، کیا آپ براہِ مہربانی ہماری معلومات میں اضافہ کریں گے؟
جواب: دینِ اسلام میں “معرفت” سب سے اعلیٰ اور انتہائی جامع اصطلاح ہے، لہٰذا تمام صفات اور حقیقتیں معنوی طور پر اس میں جمع ہو جاتی ہیں، اس کی پہلی مثال یہ ہے کہ اسلام کے جملہ ظاہری احکام دائرۂ شریعت میں موجود ہیں، انہی تمام خوبیوں کے ساتھ طریقت شریعت کا مغز ہے، حقیقت طریقت کا باطن ہے اور معرفت حقیقت کی روح اور روشنی ہے، اسی طرح دین کی ساری زندہ روح معرفت میں سمو گئی ہے۔
دوسری مثال یہ ہے کہ معرفت اصل میں خدا کی شناخت کو کہتے ہیں، یہ شناخت بغیر اس کے ممکن ہی نہیں کہ ظہوراتِ صفات میں خدا کا دیدار ہو، یہ سب سے بڑی سعادت اس وقت حاصل ہو جاتی ہے جبکہ مومن اپنی روح کو پہچان لیتا ہے، روح کی پہچان اور دیدارِ خداوندی جہاں میّسر آتی ہے وہ جنّت ہے، جنّت کا راستہ پیغمبرِ اکرمؐ کے اسوۂ حسنہ میں پوشیدہ ہے، جس کی کامیاب رہنمائی صرف امامِ زمانؑ ہی کر سکتے ہیں۔
قربان جائیں قرآنِ حکیم کے پُرحکمت الفاظ سے! کہ ہر حکیمانہ لفظ میں بہت
۱۰۴
سی حقیقتیں جمع ہو تی ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا تمام حقائق و معارف “عَرَّفَھَا لَھُمْ” میں یکجا ہیں (خدا نے ان کو اس جنّت سے شناسا کر رکھا ہے۔ ۴۷: ۰۶) اس بیان سے ظاہر ہوا کہ معرفت سب کچھ ہے جو جنّت ہے، اور اس کے حصول کی شرط یہ ہے کہ مومنین دین کی سلامتی اور ترقی کی خاطر ایسی ضروری خدمات انجام دیں، جیسی شہیدوں کی شہادت ماضی میں ضروری ہوتی تھی۔
نورِ منعکس: ۔
سوال نمبر ۸۳: نور کے لفظی معنی روشنی ہیں، لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اہلِ معرفت کی روحوں کو نورِ کامل سے منوّر کر دیتا ہے تو اس منعکس ہو جانے والی روشنی کی کیا حالت و کیفیت ہوتی ہے؟ آیا روحانی روشنی بالکل مادّی روشنی کی طرح ہے یا دونوں میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے؟
جواب: یہ درست ہے کہ نور کے لغوی معنی روشنی ہیں، مگر اس کی مراد مقامِ انسانیّت پر درجۂ کمال اور مرتبۂ اعلیٰ کی ہدایت ہے اور ہدایت کی تین شاخیں ہیں: عقل کی ہدایت، روح کی ہدایت اور جسم کی ہدایت، عقل کی ہدایت علم و حکمت اور آفاق و انفس کے اسرار سے آگہی کی صورت میں ہے، روح کی ہدایت ذوقِ بندگی، لذّتِ ذکر، جذبۂ دینداری اور توفیقِ نیکی جیسے میلانات میں ہے اور جسم کی ہدایت صلاحیتوں کے اجاگر ہو جانے میں ہے، یعنی صبر، ہمت، شجاعت اور مردانگی جیسی اعلیٰ صفات کا نمایان ہو جانا خدا کی ہدایت سے ہے۔
نور نچلے درجات میں مبہوت کر دینے والی رنگینیوں سے پر ہے اور
۱۰۵
اوپر کے درجات میں یا تو اعتدال پر ہے یا شکل و رنگ سے بے نیاز، اور اس رنگ و بے رنگ کیفیت کا نام “صِبْغَۃَ اللہ ( ۰۲: ۱۳۸)” ہے۔
ظاہری نور مثال ہے اور باطنی نور ممثول، لہٰذا مادّی روشنی اپنے ممثول کے مقابلے میں بہت ہی حقیر اور بیجان و بے حقیقت شے ہے، جبکہ باطنی نور عقل و جان کے اوصافِ کمال سے آراستہ ہے، “چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک۔” آپ کتاب “معراجِ روح” میں “نور کی کیفیت و حقیقت” کے مضمون کو بھی پڑھیں۔
عزرائیلؑ اور قبضِ روح:۔
سوال نمبر ۸۴: جب کسی آدمی کی موت کا وقت آتا ہے، تو اس میں آیا اس کی روح خود بخود جسم سے نکل جاتی ہے یا عزرائیلؑ اس کو قبض کر لیتا ہے؟ اگر مَلک الموت روح کو قبض کرتا ہے تو کس طرح؟ کیا عزرائیلؑ ایک ہے یا زیادہ ؟ خروجِ روح کا راستہ کونسا ہے؟
جواب: موت کے وقت روح خود بخود نہیں نکلتی، بلکہ حضرت عزرائیل علیہ السّلام اس کو قبض کر لیتا ہے، اور قبض کرنے کی کیفیت یہ ہے کہ ملک الموت مرنے والے کے کان میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کے ایک بزرگ نام کا مسلسل ذکر کرتا ہے اور عزرائیلؑ کی اسی معجزانہ آواز سے ذرّاتِ روح آدمی کے سر کی جانب حرکت کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسان میں مردگی (موت) کی کیفیت پاؤں سے شروع ہو جاتی ہے، اور روح بتدریج سر کے بالائی حصے سے خارج ہو جاتی ہے۔
۱۰۶
بعض لوگ آخری سانس کے ساتھ روح کے نکل جانے کا گمان کرتے ہیں، مگر ایسا نہیں، یہ صرف اس واقعہ کی علامت ہے کہ روح سینہ کو چھوڑ کے دماغ میں مرکوز ہو گئی، یہ سوال الگ ہے کہ روح کتنی دیر تک سر میں ٹھہرتی ہے۔
عزرائیل بحکمِ خدا صرف ایک ہی نعرہ سے بھی کسی کی جان کو یکایک قبض کر سکتا ہے، عزرائیل درجۂ اصل میں ایک ہے، لیکن اس کے لشکر میں ہر شخص کے لئے ایک عزرائیل موجود ہے۔
نفسانی موت اور جسمانی موت: ۔
سوال نمبر ۸۵: اگر یہ صحیح ہے کہ دین میں “موتوا قبل ان تموتوا (یعنی جسمانی طور پر مرنے سے پہلے نفسانی طور پر مرو)” کا حکم بھی ہے، تو کیا اس پر ایسی ذاتی نوعیّت کی قیامت قائم ہو جاتی ہے تو وہ ان احوالِ قیامت کا مشاہدہ کیسے کر سکتا ہے، جن کا تعلق دنیا بھر کے لوگوں سے ہے؟ کیا نکیرو منکر کے نام سے دوفرشتے حق ہیں؟
جواب: ہاں، حقیقی مومن کی کامیابی اسی میں ہے کہ تزکیۂ نفس کے وسیلے سے جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مرجائے، اور ہاں یہ بھی درست ہے کہ اس صورت میں اس کی انفرادی قیامت برپا ہو جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ مومن قیامت کے ان تمام احوال کا مشاہدہ کر تا ہے، جو اجتماعی قیامت سے متعلق ہیں، کیونکہ خداوند تعالیٰ کے وہاں ایک عالمِ ذرّ بھی ہے جس میں نہ صرف تمام زمانوں کے لوگ بصورتِ ذرّہ موجود ہیں، بلکہ کائنات و موجودات کی ہر ہر
۱۰۷
چیز بھی ذرّی شکل میں حاضر ہے، چنانچہ ایسے بندے پر جو شخصی قیامت کا منظر دیکھ رہا ہے اجتماعی قیامت کے سارے احوال گزر جاتے ہیں۔
جی ہاں، نکیر و منکر دو فرشتے حق ہیں، مگر یہ نکتہ خوب یاد رکھیں کہ روحانیّت میں ایک ہی چیز کے کئی کئی نام اور کئی کئی کام ہوا کرتے ہیں، اس لئے یہ ضروری نہیں کہ یہ فرشتے صرف انہی ناموں سے آئیں۔
عالمِ ذرّ: ۔
سوال نمبر ۸۶: عالمِ ذرّ کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ وہ کہاں ہے؟ آیا وہ جسمانی ہے یا روحانی؟ اگر وہ کوئی جسمانی عالم ہے تو اسے ہر شخص کیوں نہیں دیکھ سکتا ؟
جواب: عالمِ ذرّ کے معنی ہیں ذرّات کی دنیا، جس سے ذرّاتِ ارواح مراد ہیں، وہ اسی دنیا میں موجود ہے، جو جسمِ لطیف اور روح دونوں سے مرکب ہے، اور اس کی ایسی صفت میں عظیم حکمت پوشیدہ ہے، اس کو ہر شخص نہیں دیکھ سکتا ہے، جب تک کہ دل کی آنکھ روشن نہ ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے عالمِ ذرّ ہی میں ارواحِ خلائق سے اپنی ربوبیّت کا اقرار لیا تھا کہ “آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں۔” اور لوگوں نے عرض کیا کہ “کیوں نہیں ۰۷: ۱۷۲) ۔”
جنگِ روحانی: ۔
سوال نمبر ۸۷: یہ ایک قرآنی آیت ( ۰۶: ۱۱۲) کا مفہوم ہے کہ شیاطین
۱۰۸
نہ صرف جنّات میں سے ہوتے ہیں، بلکہ یہ انسانوں میں سے بھی ہوا کرتے ہیں، اور یہ ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے ہیں، تاکہ ایسی باتوں سے لوگوں کو فریب دے کر راہِ راست سے گمراہ کر سکیں، اور اسی مطلب کا یہ ایک خلاصہ ہے کہ خناس جو جنّات میں بھی ہے اور انسانوں میں بھی، وہ لوگوں کے دلوں میں براہِ راست وسوسہ ڈال سکتا ہے ( ۱۱۴: ۰۴ تا ۰۶) لیکن سوال ہے کہ آیا ارواحِ مومنین جو سمتِ مقابل میں ہیں وہ اس جنگِ روحانی میں کچھ بھی نہیں کر سکتی ہیں؟ تو پھر کیا ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ بدی کے ہاتھ تو روحانی میدان میں کشادہ اور آزاد ہیں، مگر نیکی کے ہاتھ سختی سے باندھے ہوئے ہیں؟
جواب: جی ہاں، جسمانی اور روحانی شیاطین یہ سب کچھ کر سکتے ہیں، لیکن اس کے باؤجود اہلِ ایمان کی روحانی صلاحیتوں کے بارے میں ذرا بھی مایوسی نہیں، کیونکہ مومنین حزب اللہ ہیں یعنی لشکرِ خدا، اور خدا ہی کا لشکر غالب رہتا ہے (۰۵: ۵۶)۔
قرآنِ مقدّس کی یہ مثال روحانیّت کی حکمتوں سے بھر پور ہے کہ مومنین لشکرِ خدا ہیں، اوراس میں سب سے اوّلین اشارہ تو یہ ہے کہ اس لشکر کی روحانی قوّتیں بفضلِ خدا طاغوتی قوّتوں سے بڑھ کر ہیں، یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ باطن اور روحانیّت میں ہمیشہ غالب رہتا ہے آپ حزبِ شیطان کے بارے میں بھی غور کر سکتے ہیں ( ۵۸: ۱۹) ۔
لشکرِ خدائی: ۔
سوال نمبر ۸۸: اللہ تعالیٰ کے لشکر کی مثال یقیناً بڑی ایمان افروز اور روح پرور ہے، اب ہم ان شاء اللہ ان آیاتِ کریمہ میں خوب غور کریں گے
۱۰۹
جو خدائی لشکر کے بارے میں ہیں۔ تاہم آپ یہ بتادیں کہ سورۂ فتح میں جس طرح خداوند عالم کے لشکر کا ذکر آیا ہے اس کا مومنین سے کیا ربط ہے، جبکہ یہ اللہ کے لشکر ہیں؟
جواب: اس سلسلے میں سورۂ فتح کا پہلا ارشاد یہ ہے: (خدا) وہی تو ہے جس نے مومنوں کے دلوں پر (روحانیّت کی) تسلی نازل فرمائی تاکہ ان کے ایمان کے ساتھ اور ایمان بڑھے اور آسمانوں اور زمین کے لشکر (سب) خدا ہی کے ہیں۔ اور خدا جاننے والا (اور) حکمت والا ہے(۴۸: ۰۴) آسمان سے روحانی عالم مراد ہے، اور “آسمانوں” کا اشارہ جمع میں روحانی درجات کی طرف ہے، اور زمین عالمِ جسمانی ہے، پس اس فرمانِ الٰہی میں خدا کے روحانی اور جسمانی لشکر (ارواحِ مومنین اور مومنین) کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ ربِّ کریم کے حکم سے سردارِ لشکر (پیغمبرؐ اور امامؑ) اور لشکر ہی وہ وسیلہ ہیں کہ جس سے ہر مومن پر حسبِ علم و عمل روحانی تسلی نازل ہوتی ہے، جیسا کہ ہم قبلاً اس کتاب میں یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ وحی کے مقام پر روح القدس تنہا نہیں آتی، بلکہ وہ اپنے تمام لشکر کے ساتھ ہوتی ہے، جس میں ملائکہ بھی ہیں اور ارواح بھی، چنانچہ یہاں جس شان سے جنودِ الٰہی کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس کا ربط مومنین سے یہ ہے کہ مومنین ہی ارواح و اجسام میں خدائے برتر کے لشکر ہیں، کیونکہ یہی لوگ باطن میں روحانیّت کے آسمانوں پر ہیں اور ظاہر میں جسمانیّت کی زمین پر۔
دوسرا ارشاد آیت نمبر ۷ میں ہے اور اس کے مبارک الفاظ بھی یہی ہیں، اور اس کا مقصد و منشاء بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ گروہِ مومنین سے ظاہر و باطن میں اپنے لشکر کا کام لیتا ہے۔
۱۱۰
شیطان کس ہتھیار سے ڈرتا ہے؟
سوال نمبر ۸۹: ایک بڑا اہم سوال یہ سامنے آیا ہے کہ اس دینی جنگ میں مومنین کے پاس جو اسلحہ مہیّا ہیں، ان میں سے شیطان کس ہتھیار سے زیادہ ڈرتا ہے، اور اس کے لئے وہ کس حیلے سے کام لیتا ہے؟
جواب: مومن کے پاس جو سب سے اعلیٰ اور طاقتور ہتھیار موجود ہے وہ ذکرِ خدا ہے، اسی سے شیطان بہت ہی خائف رہتا ہے، لہٰذا وہ ہر وقت اسی کوشش میں سرگردان رہتا ہے کہ کسی طرح سے مومن سے خدا کی یاد بھلا دے، تاکہ وہ اس پر حملہ آور ہو سکے (۵۸: ۱۹)۔
اس کی تاویلی حکمت یہ ہے، کہ نامِ خدا اور یادِ الٰہی امامِ زمان (صلوات اللہ علیہ ) ہیں، جو مومنین کی تمام ظاہری و باطنی قوّتوں کا سرچشمہ ہیں، اس لئے جسمانی اور روحانی شیاطین (۰۶: ۱۱۲) ہر وقت عقیدہ اور علم میں کمزور مومنین کے پیچھے لگے رہتے ہیں، تاکہ موقع پر امامِ اقدس و اطہر کے مبارک دامن سے کسی ایسے مرید کا ہاتھ چھڑا سکیں، یہی ہے مومن کا سب سے بڑا روحانی اور علمی ہتھیار، اور یہی ہے شیطان کی وجہ سے ذکرِ خدا بھول جانے کی تاویل۔
یومِ عقیم: ۔
سوال نمبر ۹۰: ویسے تو قرآنِ پاک میں قیامت کے صدہا نام ہیں، جن کا اندازہ قرآنی انڈیکس سے ہوسکتا ہے، اور ہر نام میں کئی کئی حکمتیں پوشیدہ ہو سکتی ہیں، مگر ہم یہاں صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ قیامت کو جو
۱۱۱
“یَوْمٍ عَقِمٍ” کہا گیا ہے، اس کی کیا تاویل ہے؟
جواب: میرے عزیز! قیامت کا نام یومِ عقیم (۲۲: ۵۵) اس لئے ہے کہ اس وقت سب لوگوں کی نسلیں منقطع ہو جائیں گی، سوائے خاندانِ رسولؐ کے، کہ وہ روئے زمین پر چہرۂ خدا ہے، جس کا ذکر قرآن (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) میں ہے، آپ اس کتاب میں نمبر ۵۲ اور نمبر ۵۷ کو اور سو سوال حصّۂ اوّل کے صفحہ ۴۵۔ ۴۶ کو دیکھیں۔
چار مرغِ ابراہیمؑ: ۔
سوال نمبر ۹۱: اگر پرندے کی تاویل روح ہے، جیسا کہ آپ نے نمبر ۵۰ میں بتایا ہے، تو پھر اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے چار پرندوں کی کیا تاویل ہے ( ۰۲: ۲۶۰) ؟ اس میں چار کے عدد کی کیا اہمیّت ہے؟
جوب: حضرت ابراہیمؑ کے چار پرندے جو زندہ ہو کر آگئے آپؑ کے چار مقرّب حجّتوں کی روحیں ہیں، اور یہی چار روحیں آپؑ کے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرئیل علہیم السّلام تھے، جیسا کہ ہم اس سے پیشتر بتا چکے ہیں کہ پرندہ تاویل کی زبان میں روح اور فرشتے کو کہا جاتا ہے، چار کی اہمیت اس لئے ہے کہ مقرب فرشتے چار ہیں اور حضوری حجّت بھی چار ہیں، جن کا ذکر ہوا۔
مستجیب ہو یا مأذون بحدِّ قوّت پرندہ (روح = فرشتہ ) ہوتا ہے، ابراہیمؑ نے بحکمِ خدا ایسے درجات میں سے چار کو لے کر خصوصی تربیت اور اسرارِ روحانیّت کے لئے ان سے عہد لیا، یہ آپؑ کے چار پرندوں کو ذبح کرنے
۱۱۲
کی تاویل ہے، کاٹنا کوٹنا علمی اور روحانی طور پر آزمانے کو کہتے ہیں، پہاڑ پر رکھنا روحانی بلندی کا اشارہ ہے، یہ سب کچھ کرنے کے بعد جب حضرت ابراہیمؑ نے اپنی روحانیّت میں ان کو بلایا تو وہ مذکورۂ بالا چار درجوں میں آپؑ کی روحانی تائید کے لئے حاضر ہوئے، اللہ تعالیٰ کا یہ معجزہ کہ وہ مومنین کو غفلت و جہالت کی موت سے اٹھا کر روحانیّت کی بلندیوں پر مقرب فرشتوں کی زندگی عنایت کرتا ہے، اس سے بہت زیادہ بہتر ہے کہ کسی جسمانی مردے کو زندہ کرے۔
سلمان۔ دروازۂ بہشت: ۔
سوال نمبر: “اَ لسّلمانُ با بٌ مِنْ ابوابِ الجنَّۃِ، یعنی سلمان بہشت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔” آپ ہمیں اس حدیثِ شریف سے متعلق کچھ حکمتیں بیان کریں۔
جواب: جاننا چاہئے کہ زمین پر روحانیّت و نورانیّت کی زندہ بہشت بلباسِ بشریت ناطقؑ اوراساسؑ تھے، اور یہی سبب ہے کہ جنّت کے دروازے بھی زندہ اور گویندہ اشخاص کی صورت میں تھے، اور ان بابرکت ابوابِ جنّت میں سے ایک باب سلمانِ فارسی کی حیثیت میں تھا، دنیا کے کسی باغ و چمن میں یہ خوبیاں کہاں کہ اس کی زمین عقل و جان اور علم و حکمت کے عناصر رکھتی ہو، اور اس کے پھل پھول اسرارِ الٰہی کی لذّتوں اور وحدانیّت کی خوشبوؤں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پُربہار رہیں، مگر امامِ حیّ و حاضر کی شخصیّت میں محمدؐ و علیؑ کا پاک نور ہی وہ زندہ باغِ بہشت ہے، جس کی تعریف و توصیف احاطۂ بیان میں نہیں آسکتی۔
۱۱۳
سلمانِ فارسی اس پاک شخصیّت کی زندہ بہشت کا دروازہ اس معنیٰ میں تھا، کہ وہ دعوتِ حق کا ایک وسیلہ، نور کا راستہ، حقیقی محبّت کا نمونہ، علمِ امام کا ایک خزانہ، معرفت کا دفینہ اور روحانیّت کا آئینہ تھا۔
قرآن (۲۹: ۶۴) کا مفہوم یہ ہے آخرت کا گھر چاہے بہشت میں ہو یا دوزخ میں ہر حالت میں زندہ ہے، اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ دین کے چند اعلیٰ درجات (حدود) بہشت ہیں، یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؐ اور اساسؑ آٹھ بہشت ہیں، کہ ان میں سے ہر ایک کے دو درجے ہیں، دوسرے درجات دروازوں کی حیثیت سے ہیں، اور تیسرے درجات ان لوگوں کے ہیں، جو ان دروازوں سے بہشت میں داخل ہوں گے۔ آپ کتاب “وجہِ دین” میں اس موضوع کی تفصیلات کو دیکھیں۔
تصورِ تخلیق: ۔
سوال نمبر ۹۳: اگر اسلامی تصورِ آفرینش، جیسا کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ (صلوات اللہ علیہ ) کا ارشاد ہے، ایک دائم اور مسلسل واقعہ ہے، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ تخلیق کا غیر متناہی سلسلہ دائرے کی شکل میں چلتا رہتا ہے، کیا آپ اس باب میں قرآنِ حکیم کی کوئی روشن دلیل پیش کریں گے؟
جواب: قرآنِ پاک میں سورج چاند کے مسلسل طلوع و غروب اور دن رات کی دائمی گردش کی مثال پیش کرنے کے بعد قانونِ فطرت کے اس سب سے عظیم راز کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے اور وہ یہ ہے: ۔
“و کل فی فلک یسبحون (۳۶: ۴۰) اور سب اپنے اپنے دائرے
۱۱۴
میں تیررہے ہیں۔” جاننا چاہئے کہ قرآن کریم میں ایک موضوع ایسا بھی ہے جس کو “قانونِ کل” کہنا چاہئے، کیونکہ اس میں کائنات و موجودات کے کلّیات کا ذکر ہے، اور اس سے متعلق آیات کی ایک عام علامت یہ ہے کہ ان میں “کل” کا لفظ موجود ہوتا ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا آیت قانونِ کلّ کا ایک کلّیہ (عام قاعدہ) ہے، کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کرتی رہتی ہے، اور روح بھی اسی قانون کے تحت ہے، مگر اس میں یہ سوال ایک ہے کہ کیوں اور کس طرح؟
خداوندِ عالم نے آیاتِ قرآن کے علاوہ جن آفاقی آیتوں میں غور و فکر کرنے کے لئے فرمایا ہے، ان سے بھی یہی حقیقت ظاہر ہے کہ ہر چیز کا لاانتہا سفر ایک دائرے پر جاری ہے (۰۲: ۱۶۴) جیسے دن رات کا مسلسل آنا جانا، کشتی کا بار بار دریا سمندر میں جاتے رہنا، بارش برسنے کا سلسلہ، ہر سال مری ہوئی زمین کا زندہ ہو جانا اور چھوٹے موٹے جانوروں کے سال بسال زندہ ہونے کا چکر، ہوا کی دائمی گردش اور بادلوں کا ہمیشہ سمندر سے پیدا ہو جانا، اور پھر دریاؤں کی شکل میں گھوم کر سمندر سے جا ملتے رہنا۔
قرآن کی روحانیّت:۔
سوال نمبر ۹۴: اگر قرآنِ پاک کی ایک عظیم روح ہے، جو علم و آگہی کی ایک تابناک دنیا لئے ہوئے ہے، تو اس کے فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کیا کرنا چاہئے؟ آپ نے اس سلسلۂ سوال و جواب کے نمبر ۷ اور نمبر ۱۱ میں روحِ قرآن کے بارے میں جو ذکر کیا ہے، اسی سے یہ سوال متعلق ہے۔
۱۱۵
جواب: آپ اس کتاب کے نمبر ۱۵ میں دیکھیں کہ طفلِ شیر خوار میں روحِ ناطقہ کہاں سے آتی ہے، اور کس طرح؟ یہ حقیقت روشن ہے کہ بچے میں بولنے والی روح والدین اور افرادِ خانہ سے آتی ہے، بالکل اسی طرح قرآنِ پاک کی روحِ ناطقہ آپ کے روحانی باپ کے گھر سے مل سکتی ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ زید و بکر سے روحانی علم حاصل کر نے کا مدعی نہ بنیں، بلکہ خاندانِ رسولؐ یعنی امامِ زمانؑ کے پاک روحانی گھر کا دودھ پیتا بچہ بنیں، تاکہ آپ کے روحانی والدین کی پر شفقت گفتگو سے آپ میں بتدریج قرآنی روح آجائے، کیونکہ قرآن کی روح پیغمبرؐ کے بعد صرف امامِ زمانؑ ہی سے مل سکتی ہے۔
دوسری مثال یہ ہے کہ آپ اپنے آئینۂ دل سے زنگِ غفلت اور غبارِ جہالت کو دور کرکے اسے ایسا پاک و پاکیزہ بنالیں، کہ اس میں نورِ قرآن کی روشنی چمکنے، اور دل کی یہ پاکیزگی بھی صرف امامِ عالی مقامؑ ہی کے مبارک ہاتھ سے ہو سکتی ہے، جس طرح یہ ایک حقیقت ہے کہ زمانۂ نبوّت میں صرف رسولِ خداؐ ہی مومنین کو پاک و پاکیزہ کرتے تھے، جس کا ذکر قرآن کی کئی آیتوں میں موجود ہے۔
معجزۂ عیسٰیؑ: ۔
سوال نمبر ۹۵: اس کی کیا تاویل ہے کہ حضرت عیسٰےؑ مٹی سے چڑیا کی مورت بناتے تھے، پھر اس میں کچھ دم کر دیتے، تو خدا کے حکم سے وہ ایک چڑیا بن جاتی تھی؟
جواب: مٹی جس کو عربی میں “تراب” کہتے ہیں اور گارا جسے “طین”
۱۱۶
کہا جاتا، یہ مومنین کے دو درجے ہیں، ایک درجہ عقیدہ یا کہ ابتدائی نوعیّت کے ایمان کا ہے، جو اہلِ دعوت کے لئے بنیادی اہمیّت کا حامل ہے، جس کی مثال مٹی سے دی گئی ہے اور دوسرا ایمان قدرے علم کے ساتھ، جس کی تشبیہ گارے سے دی گئی ہے، چنانچہ جناب عیسٰےؑ گارا لے کر پرندے کی مورت بناتے تھے یعنی ایمان اور ذرا علم والے مومن کو مأذون کے لئے نامزد کرتے تھے، اس وقت وہ شخص اپنے مرتبے کی صرف ایک خاموش تصویر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا، پھر اس مورت میں حضرت عیسٰیؑ کچھ دم کرتے تو بحکمِ خدا وہ ایک چڑیا بن جاتی تھی، اس کے یہ معنی ہیں کہ آپؑ اس مأذون میں رفتہ رفتہ تائیدی علم کی روح پھونک دیتے تھے، جس سے وہ روحانی پرندہ یعنی روح اور فرشتہ بن جاتا تھا۔
آنحضرتؐ نے مولا علیؑ کو ابی تراب (مٹی کے باپ) کا ٹائٹل دیا تھا، اور اس کی تاویل یہ ہے کہ آپؑ رسولِ خداؐ کے بعد مومنین و مومنات کے روحانی باپ ہیں، کیونکہ مٹی سے اہلِ ایمان مراد ہیں۔
درخت پر نور: ۔
سوال نمبر ۹۶: کیا یہ مثال ہے یا حقیقت، کہ حضرت موسیٰؑ جیسے ہی آگ کی تلاش میں نکلے تو یکایک ان کو خدا مل گیا؟ آیا انہوں نے نورِ خدا کا یہ مشاہدہ چشمِ ظاہر سے کیا یا دیدۂ باطن سے؟ اگر یہ واقعہ تادیلی قسم کا ہے تو درخت (جس پر نور تھا) کی کیا تاویل ہے؟
جواب: اس میں مثال کا پہلو نمایان ہے کہ آگ سے نور مراد ہے، درخت کا مطلب اسمِ اعظم (کلمہ = شجرہ ۱۴: ۲۴) ہے، اور صرف ایک
۱۱۷
دن میں اچانک نور کا مشاہدہ نہیں ہوا، بلکہ جنابِ موسیٰؑ پہلے ہی سے راہِ روحانیّت پر گامزن تھے، آپؑ کو مصر ہی میں ہجرت سے پہلے روحانی تربیت ملتی تھی، آپ کی روحانی ماں مصر میں حضرت شعیبؑ کا ایک داعی تھا، حضرت موسٰیؑ ہجرت کے بعد براہِ راست حضرت شعیبؑ سے بھی روحانیّت حاصل کر تے تھے۔
نورِ خدا کا مشاہدہ سر کی آنکھ سے نہیں دل کی آنکھ سے ہوا کرتا ہے، اور جب حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن ایک ہو جاتے ہیں، تو اس وقت کے مشاہدات بھی باطنی واقعات شمار ہوتے ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ انبیاء و اولیاء کے حواسِ ظاہر پر حواسِ باطن غالب رہتے ہیں۔
آسمانی آگ: ۔
سوال نمبر ۹۷: پنج مقالہ نمبر ۳ (علمی خزانہ) کے صفحہ ۱۵۲ پر تحریر ہے کہ “چنانچہ ہابیل نے ایک گوسفند پہاڑ پر لے جا کر رکھا اور قابیل نے کھیت سے کچھ بالیاں لے کر رکھ آیا، اس کے بعد حسبِ دستور آسمان سے آگ کا ایک شعلہ اترا اور ہابیل کی نذر (قربانی) کو کھا گیا۔” کیا مذکورہ آگ یہی مادّی آگ تھی، جو دنیا میں سب کے سامنے ظاہر ہے یا وہ کوئی اور چیز تھی؟ آیا روحانیّت میں ایسی کوئی مقدّس اور معجزانہ آگ ہو سکتی ہے؟ اگر اس قربانی میں تاویل ہے تو گوسفند سے کیا مراد ہے؟ آسمانی آگ کا یہ معجزہ کب تک چلتا رہا؟
جواب: جاننا چاہئے کہ قرآنی قِصَصْ تاویلی حکمتوں سے پُرہیں، دنیا کی آگ میں یہ شعور کہاں ہے کہ صرف متقی ہی کی قربانی کو قبول کر کے اس کی سچائی کی شہادت پیش کرے، چنانچہ یہ مادّی آگ نہ تھی بلکہ روحانیّت کی مقدّس اور
۱۱۸
معجزاتی آگ تھی، جو انبیا و أئمّہ علیہم السّلام کے روحانی معجزات میں شامل ہے (۰۳: ۱۸۳ ) گوسفند سے روحِ حیوانی مراد ہے، حضرت ہابیلؑ نے اپنے نفس کی قربانی پیش کی تھی، اور خدا کے دوست ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں، اس عظیم روحانی معجزے کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ آپ یا کوئی اور مومن کبھی کبھار علم و عبادت اور نیک خیالات کے زیرِ اثر اندر ہی اندر سے جلنے کا احساس رکھتا ہے، ایسے میں نہ تو وہ عقلی طور پر جلتا ہے اور نہ ہی روحانی لحاظ سے (یعنی روحِ انسانی سے) بلکہ صرف اس کے نفسِ حیوانی کی قربانی ہو جاتی ہے، جس سے ایسے شخص کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ پس آسمانی آگ کا یہ روحانی معجزہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ کے لئے جاری ہے۔
ملکوت ۔ روحانیت: ۔
سوال نمبر ۹۸: ملکوت کے کیا معنی ہیں، اور یہ کون سی دنیا ہے؟ آیا اس کا ذکر قرآن میں ملتا ہے؟ اگر ملتا ہے تو کہاں ہے اور کس طرح ہے؟ اس سلسلے میں کچھ اصولی معلومات کی ضرورت ہے۔
جواب: ملکوت کے کئی معنی ہیں، مثلاً بزرگی، قدرت، غلبہ، عظمت، بادشاہی وغیرہ، اور اس سے ارواح و ملائکہ کا عالم مراد ہے، ملکوت کا ذکر قرآن کی (۰۶: ۷۵، ۰۷: ۱۸۵، ۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳) میں موجود ہے۔
چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ “اور اسی طرح ہم ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کی روحانیّت دکھاتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں ۰۶: ۷۵”
۱۱۹
اس روحانیّت کا مشاہدہ آپؑ چشمِ باطن سے اپنی ذات ہی میں کرتے تھے، اور یہی مقامِ عین الیقین ہے، جس کا مقصد حق الیقین ہے۔
ایک طرف آسمان اور زمین کی باطنی اور روحانی چیزیں ہیں، اور دوسری طرف ظاہری اور جسمانی چیزیں، سو خداوند عالم نے ایک ہی آیت میں دونوں چیزوں کا ذکر فرمایا تا کہ دانشمند مومنین ملکوت کا تصوّر الگ کریں، اور ناسوت کا الگ، آپ ۰۷: ۱۸۵ میں خوب غور کریں۔
۲۳: ۸۸ میں اشارہ ہے کہ ہر چیز کی روحانیّت (ملکوت) خدا کے ہاتھ میں ہے، اور پناہ و نجات اسی روحانیّت کی معرفت میں ہے۔
۳۶: ۸۳ کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ جس پاک ذات کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی روحانیّت محفوظ ہے، وہ خود تو ہر چیز سے پاک و بے نیاز ہے، اس لئے ملکوت بہر معنی مومنین کے لئے ہے، تمام چیزیں مادّی شکل میں ناسوت ہیں، اور ان کی روحانیّت ملکوت۔
عوالم یا دنیائیں: ۔
سوال نمبر ۹۹: ناسوت کے کیا معنی ہیں؟ جبروت و لاہوت کیا ہیں؟ عالمِ علوی کون سا عالم ہے، اور عالمِ سفلی کہاں ہے؟ عالمِ امر اور عالمِ خلق کے بارے میں کچھ حقائق بیان کریں۔
جواب: ناسوت لفظِ ناس (لوگ) سے ہے، جس سے یہی دنیا مراد ہے جس میں لوگ (ناس) رہتے ہیں، ملکوت روح و روحانیّت اور ملائک کا عالم ہے، جس کا ذکر ہو چکا، جبروت اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت کا عالَم ہے، لاہوت کا مطلب ہے خدا کی خداوندی، عالمِ علوی روحانی عالم ہے اور عالمِ سفلی
۱۲۰
جسمانی عالم۔
عالمِ امر وہ عالم ہے، جو خدا کی بادشاہی کی حیثیت سے قدیم ہے، جہاں تمام چیزیں کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ موجود ہیں، اس لئے وہاں تخلیق کی کوئی گنجائش نہیں، اس میں تو صرف امر ہی سے بلا تاخیر چیزوں کے ظہورات ہوتے رہتے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ ارادہ اور توجّہ سے غائب چیزیں حاضر ہو جاتی ہیں، یہ باتیں بندوں کی نسبت سے ہیں نہ کہ خدا کی نسبت سے کیونکہ اس کی ذاتِ اقدس کے لئے ظہور و بطون اور حاضر و غائب یکسان ہیں۔
عالمِ خلق عالمِ امر کے برعکس ہے، اور وہ دنیائے ظاہر ہے، جو حادث ہے، یعنی قدیم نہیں، جس میں کوئی چیز ہمیشہ نہیں رہ سکتی، مختلف اوقات میں چیزیں پیدا ہو جاتی ہیں، پھر فنا ہو جاتی ہیں، تخلیق کا کارخانہ یہی دنیا ہے۔
یاد رہے کہ عالم صرف دو ہی ہیں، جو دنیا و آخرت ہیں، اور اس سلسلے کے جتنے بھی کثیر الفاظ ہیں، وہ یا تو ان دونوں کے مختلف نام ہیں، یا ان کے مراتب کو ظاہر کرتے ہیں۔
یَدُ اللہ کی حکمت: ۔
سوال نمبر ۱۰۰: یہ اختتام کا سوال ہے، اور شاید بڑا اہم بھی ہے، وہ یہ کہ “یَدُ اللہ” کی کیا تاویل ہے؟ اللہ کے ہاتھ میں ملک (۶۷: ۰۱) ملکوت (۳۶: ۸۳) اور خیر (۰۳: ۲۶) ہونے کا کیا اشارہ ہے؟ آیا تمام چیزیں لوحِ محجفوظ میں ہیں (۰۶: ۵۹) یا امامِ مبین میں (۳۶: ۱۲) ؟ کیا ہر شے ایک کتاب میں محدود نہیں ہے (۷۸: ۲۹) ؟
۱۲۱
جواب: خدا کے ہاتھ کی تاویل ہے قبضۂ قدرت، اختیار، کنٹرول، تصرف یعنی لینا دینا، چیزوں کو اپنے لئے یا دوسروں کے لئے استعمال کرنا، اشیاء کو جمع، مہیا اور حاضر رکھنا، وغیرہ۔ خدا کے ہاتھ کی جامع الجوامع تاویل پیغمبرِ اکرمؐ اور امامِ اطہرؑ ہیں، لہٰذا دستِ خدا کی ساری تاویلات انہی قدسی ہستیوں سے متعلق ہیں، کیونکہ ان کے مبارک ہاتھ پر بیعت کرنا اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہے (۴۸: ۱۰) ۔
پروردگارِ عالم کے ہاتھ میں ملک و ملکوت اور خیر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ تمام چیزیں پیغمبرِ اسلامؐ اور امامِ برحقؑ کی تحویل میں موجود ہیں، جبکہ بشری صورت کے یہی دو عظیم فرشتے خدا کے ہاتھ بھی ہیں اور خزائنِ الٰہی بھی (۱۵: ۲۱) ۔
لوحِ محفوظ، امامِ مبین اور کتاب ایک ہی حقیقت ہے، چنانچہ تمام چیزیں ایک ہی جگہ پر جمع ہیں، اور وہ مقامِ روحانیّت ہے، جو خدا تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ کا درجہ رکھتا ہے، وہ محمدؐ و علیؑ کا پاک نور ہے، جس میں سب کچھ موجود ہے، ملک بھی ہے، اور ملکوت بھی، الحمد للہ علیٰ منّہٖ و احسانہٖ۔
بروزِ شنبہ، ۱۷؍ شعبان ۱۴۰۱ ھ ۲۰؍ جون ۱۹۸۱ ء
۱۲۲