شہدِ بہشت
فرشتگانہ خصوصیات
(انتساب)
اے نورِعینِ من! اس بابرکت و پُرحکمت کلیدی آیت کو جان و دل سے یاد رکھنا اور ہر گز ہر گز بھول نہ جانا جو نورِ منزّل اور کتابِ مبین (قرآن) کے دائمی ربط و تعلق کے بارے میں وارد ہوئی ہے (۰۵: ۱۵) تاکہ ان شاء اللہ روحانی ترقی میں آگے چل کر آپ کو ہر مشکل سے مشکل علمی سوال کا معجزانہ جواب از خود مل سکے، کیونکہ نورِ ہدایت اور کتابِ سماوی کا اصل مقصد یہی ہے کہ دینِ کامل (۰۵: ۰۳) کا سرچشمۂ علم و حکمت ہمیشہ کی طرح ایک ہی شان سے جاری و ساری رہے۔
بعض عزیزوں نے ایک بہت ہی عمدہ اور مفید سوال پیش کیا ہے، وہ یہ ہے: “کون کونسی فرشتگانہ خصوصیات ایسی ہیں جو مومنین و مومنات میں کُلّی یا جزوی” طور پر پیدا ہو سکتی ہیں؟
اس کا مفصل جواب کلامِ الٰہی میں موجود ہے: (الف:) فرشتو ں کی اوّلین خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی اطاعت کر کے روحانی علم حاصل کر لیا، کیونکہ قانون یہی ہے کہ خلیفۂ خدا کے سوا اور کہیں سے حقیقی علم نہیں ملتا ہے۔ (ب:) جو فرشتے درجۂ کمال پر پہنچ چکے ہیں وہ ہر چیز میں شاہدِ علم و حکمت
کی تجلّی دیکھتے ہیں (۴۰: ۰۷) اس لئے چھوٹے فرشتوں کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی علمی ترقی سے اس مقام تک پہنچ جائیں۔ (ج:) سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۹ تا ۲۰) میں عظیم فرشتوں کے ذکر و عبادت اور تسبیح کے بیان کو دیکھیں کہ ان کے مبارک وجود میں ذکر و عبادت اور علم و حکمت کا آفتاب طلوع ہو چکا ہوتا ہے۔
الغرض فرشتوں کی کوئی ایسی خصوصیّت اور صفت نہیں جو مومنین و مومنات میں بتدریج پیدا نہ ہو سکے، جبکہ فرشتے اہلِ ایمان ہی کے ترقی یافتہ نفوس (ارواح) ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔
ملائکہ ارض و سماء میں منتشر ہیں، وہ روحانی بھی ہیں اور جسمانی بھی، چنانچہ ہماری اپنی پیاری کائنات کے پیارے پیارے فرشتوں میں سے چار عزیز فرشتے آٹھ کھڑے ہوئے اور ایک بڑے وسیع علمی دستر خوان کو چاروں کونوں سے پکڑ کر پھیلا دیا، یہ عزیزان باربار احسان کرتے رہتے ہیں، دعا ہے کہ ان کو ہر لحظہ حضرتِ امام علیہ السّلام کی پاک دعا حاصل رہے! وہ ہمارے بہت ہی عزیز اور ممدّ و معاون فرشتے ظہیر لالانی، عشرت رومی ظہیر، روبینہ برولیا، اور زہرا جعفر علی ہیں، جو ہمارے شہرۂ آفاق ادارے میں ریکارڈ آفیسرز کے عہدوں سے سرفراز ہیں، ان شاءاللہ العزیز دنیا میں ہمارے جملہ رفیقوں کی ایک تاریخِ زرین بنے گی اور آخرت میں ایک انتہائی عظیم الشّان
کائناتی نامۂ اعمال تیار ملے گا۔
میرے عزیزان جس ملک میں بھی ہیں وہ گویا میرے ساتھ ہیں، میں سب کو ہمیشہ اپنی عاجزانہ دعاؤں میں یاد کرتا رہتا ہوں، ہم سب مولائے پاک اور پیاری جماعت کے ساتھ ساتھ اسلام اور انسانیّت کی مقدّس خدمت کی خاطر فردِ واحد کی طرح ایک ہو گئےہیں، جس کے نتیجے میں ہمیں بفضلِ خداعدیم المثال کا کامیابی نصیب ہوئی ہے، ہم کو کسی عظیم دوست نے لطفاً اپنے باغ کا ایک شجر بنا دیا، الحمد للہ اس کی بہت سی پُر ثمر شاخیں پیدا ہو گئیں، ان میں سے ایک “شاخِ عالیۂ لندن” اور ایک “شاخِ عالیۂ شمال” بھی ہیں، مجھے شرق و غرب سے اشارہ مل گیا کہ ان کی یہ تعریف لکھوں۔
شاید دنیا میں صرف ہم ہی وہ لوگ ہیں جو مونوریالٹی (یک حقیقت) پر یقینِ کامل رکھتے ہیں اور اس کے اسرارِ عظیم کو درجہ بدرجہ ادراک کر لیتے ہیں، جس کی برکت سے ایک میں سب کی موجودگی کا انمول خزانہ حاصل ہوا، اس کی بدولت ہم پر یہ حقیقت روشن ہونے لگی کہ ہم میں سے کسی ایک کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے، علاوہ برآن “نظریۂ عالمِ شخصی” ہمارے لئے ایک عظیم علمی انقلاب تھا، جس سے علم و عرفان کے سارے عقدے کھل گئے، اب ہماری روحانی سائنس کا چرچا ہونے لگا ہے،
ان شاء اللہ تعالیٰ، آئندہ ہونے والی تحقیق (ریسرچ) سے یہ پتا چلے گا کہ ہماری تمامتر تحریروں کے ظاہر و باطن میں روحانی سائنس کے خزانے موجود ہیں۔ یہ سب کچھ تیرے فضل و کرم سے ہے یا ربّ العالمین! اللّٰھم صل علیٰ محمد وآل محمد۔
نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات۲۹ جمادی الثانی ۱۴۱۶ھ ۲۳ نومبر ۱۹۹۵ء
آغازِ کتاب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ رحمتیݣ کے برکتݣ اُیون تھانُم دمن (خداوند تعالیٰ) یکل ڎم ژُۚڅیڎن، بیسیکے ان غیبے خزانہ مڎے مالک بای، اِنے (INE) قدرتے مُڅ لُو بیسن ایون بی، انے رحمیتے سمندر بُٹ شوقُم دا بُٹ غُٹُم، انے اُویس کے اُچھیسے نہ یرنے ڈرگارڎُم بلہ نہ الجنے، ایوݣکو ایوݣکودا تھائکو تھائکو صفتݣ اِنے (INE) بڎن، ان ھِنُمن غمیس بای، می میون ترق بان بݽکیابان، انے ٹوک کائناتݣ اُغوی بای کلی خزانہ مڎفݽ اومائیبین امڎ امڎ نیامتشو میوای کے اڎے حقُ لو شکرگزاری امیمیابان، وا عزیزتݣ! رۛوین بُٹ عاجزیے کا مناجات کے فریات ایچن، تا کہ اِن نِرے امایمی، بیسیکے ان نجݽو نو دارحمکݽ بای۔
یا اللہ! جے کھنے غریپے اسے حالت اُنر سر کے بلا، جہ ناچار دَچَنُم با دُچَھنُم با، خداوندا ! جہ اُنے اُیَم شُل کے محبتے دا پاک عشقے گنے ہمیشہ موتاج با، پروردگار! جیئمو دنے اس بیلٹے ایستوڅم دیستوڅُم؟ ڈݣوراس چھݣور اس کوراٹی گپ اس دویان جہ ڈِگ حیران با، اریݣ دور، قلم ززل، حرپُڎ اُیون سیل غنڈیر تول غنڈیر، جیّے دمان! بیسن ھییم بیسن سییم، ارین ڎہ دُون، ارین
۱۱
ڎے دُون۔
حضرت محمد مصطفیٰ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ڎم شوق کے عشقے کا جا روح فدا منݽ! جا اوامی کے اولات اُیون اِن ڎم قربان! انے دلتشکو صفتݣ بیان ایتس جہ ناچار بہ آمایم، انے صفت سوجو سومولو قرآن لوبلہ، انے تعریف خود پروردگارہ ایتای، قول بلا: قرآن تمام وصفِ کمالِ محمد است۔
امامِ زمان علیہ الصلاۃ و السلام می انائے علوی بای، یعنی می جیّے جی (جانِ جان، جانِ جہان، جہانِ جان) انے عشقے مڞی ایش اسقرݣ ڎم بلہ، یہ گوتے مڞی باطنی بیایمݣر ملی بلہ الحمد للہ!
شہدِ بہشت:
اس کتابِ عزیز کا پسندیدہ اور پُرکشش نام “شہدِ بہشت” ہے، احباء و اعزّہ اور قارئینِ کرام پڑھ کر ہی بتائیں گے کہ کام اور نام کی مناسبت او ر مطابقت کیسی ہے، ان شاء اللہ، مولائے پاک کی علمی برکتوں کی وجہ سےیہ کتاب پڑھی جائے گی اور اس کی قدر ہو گی۔
اس دفعہ بھی گلگت میں ہمارے ہوشمند عزیزوں نے کچھ سوالات کئے، ان میں سے تھوڑے سائنسی انکشافات کے حوالے سے بھی تھے، جیسے پوچھا گیا: صاحب! علمِ تاویل کے مطابق ہم یہ تو مان لیتے ہیں کہ ہمارے نظامِ شمسی میں جو سورج ہے۔ وہ امام علیہ السّلام کی مثال ہے،
۱۲
لیکن اب سائنس کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ کائنات کے مختلف نظاموں میں بہت سے سورج موجود ہیں، تو کیا اب اس کی تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ بیک وقت بہت سے امام موجود ہیں؟
جواب: (الف) حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السّلام ہمیشہ ایک ہی ہے، لیکن اس میں بیک وقت بہت سے ظہورات کا معجزہ ہے (ب) اگر یہ مان لیا جائے کہ ہر ستارہ مخلوقِ لطیف کا ایک عالم ہے، تو اس میں امامؑ کا ظہور بھی ضروری ہے (ج) مومن سالک کے روحانی سفر کے دوران اسرافیل و عزرائیل کی منزل میں بھی اور آگے چل کر مرتبۂ عقل پر بھی امامؑ اپنی نورانیّت کی ہزاروں کاپیاں بناتا ہے، تاکہ بہشت میں ہر کامیاب روح امامِ عالی مقامؑ کی صورت میں ہو سکے (د) انسانِ کامل کا ایک قرآنی نام “نفسِ واحدہ” ہے، یعنی نفسِ کلّی، جس کے اجزاء (کاپیاں بحدِّ قوّت) تمام انسان ہیں، جن کو پھیل کر کثیر بھی ہو جانا ہے، اور واپس ہو کر اپنے کُلّ کے ساتھ ایک بھی ہو جانا ہے۔
دوسرا سوال بھی سورج سے متعلق تھا، وہ یہ ہے: اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ۔ جب آفتاب بے نور ہو جائے گا (۸۱: ۰۱) حالانکہ اصل لغوی ترجمہ یہ ہے: جب سورج لپیٹ دیا جائے گا، اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جس وقت عالمِ شخصی حظیرۃ القدّس میں لپیٹ لیا جاتا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ آفتابِ عقل کی پھیلی ہوئی روشنی بھی وہاں محدود ہو جاتی ہے، یہاں خسوف (چاند گرہن) کا مختصر ذکر بھی ضروری
۱۳
ہے کہ یہ خود نور کی ذات میں کسی نقص و کمی کی دلیل ہر گز نہیں، بلکہ خسوف چاند پر زمین کا سایہ ہے، اور خسوف چاند کا زمین اور سورج کے درمیان آ کر آفتاب کی روشنی زمین تک نہ پہنچنے دینا ہے۔
امامؑ سب کے لئے:
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آفتابِ عالم آرا حضرتِ امام علیہ السّلام کی مثال ہے تو اس کی یہ منطق بنتی ہے کہ امامِ برحقؑ باطن میں سب کے لئے کام کرتا ہے، کیونکہ مادّی طور پر سورج جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان سب کو درجہ بدرجہ فائدہ بخشتا ہے، اور کس کو اس روشن حقیقت سے انکار ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک سب کا خالق و رازق ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمتِ کُلّ ہیں، پھر امامِ حق علیہ السّلام کا طریقہ قانونِ عدل کے خلاف کس طرح ہو سکتا، مگر ہاں، درجاتِ عمل ہیں، اور ترقی بہت پہلے بھی ممکن ہے اور بڑی دیر سے بھی۔
سفینۂ نوحؑ:
علم کی مثال پانی ہے اور پانی کی مختلف شکلیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ پانی اگر اپنی راہ سے ہٹ کر طوفانی شکل میں آرہا ہو تو اس سے بربادی ہو جاتی ہے، اس کی تاویل یہ ہے عوام علم کے پانی کو شروع شروع میں قطرہ قطرہ کر کے پی سکتے ہیں، اور رفتہ رفتہ ان کی ترقی ہو جاتی ہے لیکن حضرتِ نوحؑ کی قوم نے اس عمل سے قطعاً انکار کیا، لہٰذا ان کو روحانی علم ہی کے طوفان میں ہلاک کیا گیا، سفینۂ نوح سے ان کے اہلِ بیت
۱۴
مراد ہیں، کیونکہ کشتیٔ تاویل وہی حضرات ہیں، جیسے آنحضرتؐ کا ارشاد ہے کہ آپ ؐکے اہلِ بیتِ اطہار سفینۂ نوحؑ یعنی اہلِ بیتِ نوح کی طرح ہیں۔
اس کتاب کے مضامین:
یہ مضامین جو اس کتابِ عزیز میں درج ہوئے اس زمانے کے یادگارہیں، جبکہ میں اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر مولائے پاک اور نیکنام جماعت کی خدمت انجام دیتا تھا، میری کتابِ زندگی مختلف ابواب پر مشتمل ہے، اور اسی میں یہ باب بڑا اہم اور بابرکت رہا، اور میں نے خلوصِ نیت سے جن عزیزوں کو اسماعیلی حکمت کی کچھ تعلیم دی، بفضلِ خدا ان کی بہت ترقی ہوئی، الحمد للہ ربّ العالمین۔
علم سیکھو اور سکھاؤ:
اے نورِعینِ من! میں نے اس مقولے کے مطابق عمل کیا ہے، تم بھی ایسا کرو، میں کبھی علم سیکھنے یا سکھانے کےبغیر نہیں رہا، آج میرے پاس ظاہر و باطن میں جو کچھ علمی اسباب و ذرائع موجود ہیں، وہ “علم سیکھو اور سکھاؤ” کے اس زرّین مقولے کے مطابق ہیں، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج ہم لاکھوں کی تعداد میں بڑا عجیب علمی لشکرہیں، عجوبہ یہ ہے کہ یہاں کتابوں کی افواج بھی ہیں اور دعاؤں کے عسکر بھی۔
۱۵
ڈاکٹر زرینہ کی گرانقدر خدمات:
بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزرز اینڈ پیٹرنز کی چیف محترمہ ڈاکٹر زرینہ (حسین علی مرحوم) کی روز افزون اور انمول خدمات ہمارے شہرۂ آفاق علمی ادارے کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گی، یہ بھی جذبۂ علم اور استاد سے محبت کی ایک خاص علامت ہے کہ انہوں نے اپنے گارڈن ویسٹ کے کلینک کو “نصیر میڈیکل سنٹر” کا نام دیا ہے، آپ نے ہر ضرورت پر ہم سے تعاون کیا اور کر رہی ہیں، اور ایک بڑی اہم اور عظیم خدمت ہمارے عظیم مہمانوں کے طعام و قیام سے متعلق ہے، مزید آن آپ کے فرزندِ جگر بند کرنیل غلام مرتضیٰ صاحب یہاں اپنی زرّین خدمات کی ایک سنہری تاریخ مرتب کر رہے ہیں، اور ان کی فرشتہ جیسی خوش خصلت بیگم ڈاکٹر امینہ مرتضیٰ بھی ہر خدمت میں شریک و شامل ہیں، عاجزانہ اور درویشانہ دعا ہے کہ خداوندِ تعالیٰ تمام علمی خادموں کو دونوں جہان کی کامیابی اور سرفرازی سے نوازے۔ آمین!
صدرِ خانۂ حکمت:
تاحیات صدر فتح علی حبیب خدا پرست، محبِّ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السّلام) اور علم کے بڑے قدردان مومن ہیں، ان کی اصلی و بنیادی خوشی شب خیزی اور ذکر و عبادت میں ہے، آپ اکثر اپنے استاد کے علمی اور مناجاتی کیسٹوں کو سنتے رہتے ہیں، علمی مجلس تو ان کی جان ہے، خداوندِ عالم نے ان کو دین کی بے شمار نعمتیں
۱۶
عطا کر دی ہیں، ان بڑی بڑی نعمتوں میں خوش الحانی کی نعمت نمایان ہے، جس کا عملی شکر گنان خوانی سے کرتے ہیں، آپ کی رفیقۂ حیات محترمہ گل شکر ایڈوائزر شرافت میں ایک ارضی فرشتہ ہیں، ان کی خدمات کی فہرست بڑی طویل ہے، یہ اپنے استاد کی بہت عزت کرتی ہیں، اسی وجہ سے استاد نے کہا “ٓآپ میری آسمانی بیٹی ہیں” یعنی ایسی مدد کرنے والی سٹوڈنٹ بیٹی جو کسی مشقت کے بغیر گویا آسمان سے دی گئی، اور یہ بہت بڑی بات ہے کہ حقیقت میں ہم سب ایک ہیں۔
فتح علی اور گل شکر کے تینوں بہت پیارے بچے نزار، رحیم اور فاطمہ بڑے نیک بخت ہیں، کہ ان کی مذہبی پرورش سپیشل قسم کی ہو رہی ہے، یعنی گھر ہی میں ہر وہ چیز مہیا اور موجود ہے جو بڑی عمدگی سے دین سیکھنے کے لئے ضروری ہوتی ہے، جیسے: استادِ کامل کی عملی تعلیم، کلاس، ریکارڈنگ، بولنے کی مشق، حوصلہ افزائی، ہر قسم کی کتابیں، سکالرز کے لیکچرز، مقالہ، ریسرچ کا موقع، پروف ریڈنگ، پریس کا تجربہ، مختلف زبانوں میں گنان خوانی، وغیرہ، یہ خصوصی رحمتیں اور برکتیں ان کو اور ان کے خوش نصیب والدین کو اور تمام عزیزوں کو بہت بہت مبارک ہوں!
آمین!!
ن۔ ن (ح۔ ع) ھ۔
کراچی
بدھ ۲۲، محرم الحرام ۱۴۱۶ھ، ۲۱۔ جون ۱۹۹۵ء
۱۷
جشنِ نوروز
از علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
نوروز کے معنی نئے دن کے ہیں لیکن اس سے مراد وہ یومِ جشن ہے جو سالِ نو کی آمد پر موسمِ بہار کے آغاز ہی میں منایا جاتا ہے جس میں بُرج حمل سورج کے مقابل ہونے لگتا ہے اور جہاں سے مصریوں اور ایرانیوں کے شمسی سال کا نیا دن گنا جاتا ہے۔ جشنِ نوروز دنیا کے قدیم تہواروں میں سے ہے۔
جشنِ نوروز کی اہمیت ہر پیغمبر کے زمانے میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے لیکن اس کی پوری اہمیت خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ظاہر ہوئی۔ جس طرح ان کی ذاتِ مطہرۂ نبوّت پایۂ تکمیل کو پہنچی تھی چنانچہ اس مبارک دن
۱۸
حجتہ الوداع سے واپسی پر غدیرِ خم کے مقام پر آنحضرتؐ نے بامرِ خداحضرت مولانا مرتضیٰ علی علیہ الصلوٰۃ والسّلام کو درجۂ وصایت پر مامور فرمایا۔ یہ روایت معتبرہ بہ یومِ سعید ۱۸؍ ذی الحجہ ۱۰ھ مطابق ۲۱ مارچ ۶۳۲ء کا تھا، مقامِ غدیر کی نسبت سے یہ جشن اسلامی تاریخ میں عیدِ غدیر کے نام سے بھی مشہور ہے۔ رسول اللہ صلعم پہلے سے ہی جان چکے تھے کہ یہ ان کا آخری حج ہے اس لئے انہوں نے اس حج کو قبلاً ہی حجتہ الوداع کے نام سے موسوم کیا اور اعلان کیا گیا کہ یہ رسول اللہ کا آخری حج ہے۔ اس لئے تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار نفوس رسول اللہ کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہو گئے۔ جناب رسولِ خدا عرفات کے راستے میں تھے کہ سورت الم نشرح نازل ہوئی جس میں ان کے لئے خدا کا ایک عظیم امر یہ تھا: فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْ (۹۴: ۰۷ تا ۰۸) یعنی پس اے رسول جب تو (اعمالِ حج سے) فارغ ہو تو (اپنے وصی) کو مقرر کر اور اپنے ربّ کی طرف راغب ہو یعنی دنیا سے کوچ کر، پس معلوم ہوا کہ جشنِ نوروز بھی وہاں آ کر ظاہرہوا جہاں مولانا علیؑ کا مرتبہ ظاہر ہواتھا۔
سلسلۂ بیان کا مذکورۂ بالا حصہ رسمی اور ظاہری جشنِ نوروز سے تعلق رکھتا ہے۔ اب ہمیں چشمِ بصیرت سے یہ دیکھنا ہے کہ جشنِ نوروز کی اس مثال کی حقیقت کیا ہے؟ اور حقیقی مومنوں کے لئے روحانی قسم کا جشنِ نوروز کون سا ہے؟ اور یہ سوال اس لئے پیدا ہو سکتا ہے
۱۹
کہ ہر وہ جشن خواہ دینی قسم کا ہو یا دنیوی نوعیّت کا، جب یہ زیادہ سے زیادہ جسمانی خوشی کے اسباب فراہم کرتا ہے تو وہ حقیقی اور روحانی جشن ثابت ہو نہیں سکتا بنا برین ہر ظاہری عید کے مقابلے میں ایک خالص روحانی عید کا ہونا لازم آتا ہے کیونکہ ایک مشہور حدیث میں آیا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی خلق (ظاہری دنیا) کی طرح رکھی، تاکہ اس کی مخلوق سے اس کے دین کی دلیل لی جا سکےاور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت پر دلیل لی جا سکے۔
اب دینی بہار اور حقیقی جشنِ نوروز کا ذکر یہ ہے کہ جس طرح سورج کائنات کے وسط میں واقع ہے اور وہ اپنی جگہ سے نہیں ٹلتا۔ اسی طرح امامِ زمانؑ کا اصلی نور ہمیشہ ایک ہی حال پر قائم ہے اور وہ کسی طرح بھی بدلتا نہیں، جس طرح کرۂ ارض کے مختلف حصّے اس کی روزانہ اور سالانہ گردش میں روشنی اور تاریکی سے گزرتے ہیں اور سورج سے نزدیک و دور ہوتے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے زمین کے ان مختلف حصو ں پر دن، رات، بہار، تابستان، خزان اور زمستان کے موسم گزرتے ہیں، بالکل اسی طرح نفوسِ انسانی پر روحانی قسم کی شب و روز اور بہار وخزان کے موسم گزرتے رہتے ہیں۔ اور جس طرح کرۂ زمین کے قطبِ شمالی، قطبِ جنوبی اور دوسرے بہت سے بیابانوں میں فی الحال کوئی آبادی اور موسمِ بہار یا جشنِ نوروز کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا، اسی طرح بعض نفوسِ انسانی پر نورِ امامت طلوع ہونے
۲۰
کے لئے ابھی کافی وقت باقی ہے اور جس طرح کرۂ زمین کے بعض علاقے خطِ استوا یا اس کے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی نباتات نہیں مرتیں۔ اسی طرح بعض مومنین ایسے ہیں جن کے دل میں ہمیشہ امامِ زمانؑ کی عقیدت و محبّت کی گرمی قائم رہتی ہے اور ان میں روحانی مسرّت کے پھول کھلتے رہتے ہیں۔ آفتابِ امامت کی فیض بخشی کی یہ مثال خواص و عام کی اپنی ہی جسمانی اور روحانی حیثیت سے ہے۔
اب اس سلسلے میں امامِ زمانؑ کی جسمانی اہمیّت و افادیت کی مثال سنئے! کہ سورج اور کرۂ زمین کے ذریعے نورِ امامت اور نفوسِ انسانی کی جو مثال دی گئی ہے وہ حقیقت ہے لیکن سورج میں اختیار نہیں اور امامِ زمانؑ مختارِ کلّ ہے، اس لئے ہم اس مثال کی مزید توضیح اس طرح کرتے ہیں کہ فرض کیجئے کہ روئے زمین پر ایک بہت ہی عجیب اور عظیم آئینہ نصب کیا گیا ہے۔ اب یہ عجیب آئینہ آفتابِ عالمتاب کا پُرنور عکس لئے ہوئے جس طرف کو رخ کر لیتا ہے وہیں پر جشنِ نوروز کی خوشی اور موسمِ بہار کی خرمی و شادمانی ہونے لگتی ہے۔ یہی مثال امامِ زمانؑ کی ہے کیونکہ وہ ظہورِ جسمانیّت کے اعتبار سے فیوضات و برکاتِ خداوندی کا مظہر اور نورِ ازل کا آئینہ ہے، اندرین حال عوالمِ اسماعیلیّت کا روحانی موسم ہمیشہ معتدل اور انتہائی خوشگوار رہتا ہے، اور ان عوالم میں ہمیشہ کے لئے بہار ہی بہار ہے، پس حقیقی جشنِ نوروز مومنوں کی انفرادی روحانیّت میں پایا جاتا ہے، یعنی ہر مومنِ مخلص کی ابتدائی روحانی
۲۱
ترقی ہی اس کا جشنِ نوروز ہے، اور وہ اسی طرح کہ جب مومن بحقیقت نورِ امامت کا مطیع و فرمان بردار بن جاتا ہے، تو اس کی شخصی دنیائے دل روحانی روئیدگی اور آبادی سے باغِ بہشت کی مثال ہونے لگتی ہے۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۰۶
۲۲
بہشت، اس کے دروازے اور اس کی کلید کےبارے میں
ما خذ از وجہ دین۔ حکیم ناصر خسروؒ
مترجم:۔ علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی
ہم جو کچھ (یہاں حقائق کے سلسلے میں) کہتے ہیں، اس میں ہماری اپنی کوئی توانائی و طاقت نہیں، جب کہ (بموجب لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِٱللّٰهِ ) توانائی و طاقت خدا ہی کی ہے، اور ہمارے قول میں جو کچھ بہتری ہے،
۲۳
کہ وہ خدا کے ولی (امامِ زمانؑ) کی نسبت سے ہے اور خطا و لغزش کا سبب ہمارا ضعیف نفس ہی ہے، پس ولیٔ زمانؑ کی کرم فرمائی سے ہم یوں بیان کرتے ہیں، کہ بہشت حقیقت میں عقل ہی ہے اور بہشت کا دروازہ اپنے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے اور اس کا وصی اپنی مرتبت میں اسی حیثیت سے ہے، اور امامِ زمانؑ اپنے عصرمیں یہی درجہ رکھتا ہے، اور بہشت کے دروازے کی کلید کلمۂ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہی ہے، پس جو شخص یہ شہادت اخلاص (بے ریائی) سے کہتا ہے، تو گویا اسے بہشت کا دروازہ (رسولؐ) مل چکا ہے، اور جس نے اس شہادت کو اخلاص سے اپنالیا، تو وہ شخص پیغمبر علیہ السّلام کے ساتھ بڑھ جاتا ہے اور جو شخص شہادت کو خلوص سے اپنا کر رسول علیہ السّلام سے واصل ہوا، تو وہ شخص گویا بہشت میں داخل ہوا، چنانچہ جو کوئی کلید کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھ جائے، تو دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت کی دلیل جو ہم نے کہا کہ عقل ہی بہشت ہے، یہ ہے کہ انسان کی یہ ساری راحت، سہولت اور بے خوفی عقلِ کلّ سے ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انسانوں کو عقلِ کلّ سے حصہ ملا ہے (جس کی وجہ سے) انہوں نے چوپایوں پر کس قدر تکلیف، سختی اور خوف ڈال رکھا ہے اور وہ خود ان پر سردارہوئے ہیں، کیونکہ ان چوپایوں میں عقل نہیں، اور
۲۴
جو شخص زیادہ دانا ہے، تو اسے دنیا کوئی دکھ دے نہیں سکتی، دنیا کا کوئی غم اس کی طرف بڑھ نہیں سکتا، اور اسے دنیاوی نفع و نقصان کی کوئی پرواہ نہیں، لیکن نادان مالی نقصان کے غم، گناہ، دکھ اور دنیاوی طمع کی وجہ سے گویا مر ہی جاتا ہے، پس اتنی سی عقلِ جزوی کے ذریعہ، جو لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف سے بطورِ حصہ ملی ہے، اس قدر دکھ ان سے اٹھ گیا ہے، تو یہ حقیقتِ حال اس امر کی دلیل ہوئی کہ عقلِ کلّ ہی بحقیقت بہشت ہے، کیونکہ اسی کے اثر سے دنیا میں ساری نعمتیں اور راحتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، اور جو شخص زیادہ دانا اور عقل کے زیادہ نزدیک ہے، تو وہ بہشت کا دروازہ ہے، چنانچہ رسول مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ساری مخلوقات میں سے عقل کے زیادہ نزدیک تھے، آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ آپ لوگوں کو علم سکھایا کریں اور مسلمانوں کو اس میں کوئی شک ہی نہیں، کہ پیغمبر علیہ السّلام بہشت کا دروازہ ہے، پس ثبوت ہوا کہ حقیقت میں عقل ہی بہشت ہے۔
اب اس بارے میں دلیل پیش کی جاتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہشت کا دروازہ ہے، چنانچہ ہمارا بیان یہ ہے، کہ کسی مقام کا دروازہ وہ ہوتا ہے جس کے بغیر اور کہیں سے اس مقام میں کوئی شخص داخل ہو نہیں سکتا، اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی شخص بہشت میں داخل نہیں ہو سکے گا، مگر وہی شخص جو رسول مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی فرمانبرداری
۲۵
کرے، اس کے نزدیک ہو جائے، اس کے فرمان کو قبول کرے اور اس کے قول و عمل کی حقیقت کو سمجھے، کیونکہ رسول کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ (۰۴: ۸۰) یعنی جس شخص نے رسولؐ کی فرمانبرداری کی، اُس نے خداتعالیٰ کی فرمانبرداری کی۔ اسی طرح ہی ہر رسولؐ اپنے دور میں بحدِّ قوّت بہشت کا دروازہ رہا ہے، اس وجہ سے کہ اس کی فرمانبرداری کے راستے پر چلتے ہوئے اس کی شریعت پر علم کے ساتھ عمل کرنے سے کوئی انسان بہشت میں پہنچ سکتا ہے، اور جو شخص رسول کی شریعت کو علمِ تاویل کے بغیر قبول کرے، تو اس شخص کو بہشت کا دروازہ مقفل ملا ہوا ہوتا ہے، اور جو شخص عمل دانش سے کرے، تو اس کے لئے بہشت کا دروازہ کھل جاتا ہےجیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قولہ تعالےٰ: وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ اِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا (۳۹: ۷۳) اور جو لوگ اپنے ربّ سے ڈرتے تھے وہ گروہ گروہ ہو کر بہشت کی طرف روانہ کئے گئے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے۔ یہ جو فرماتا ہے کہ بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے تو اس آیت سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے آنے سے پیشتر بہشت کے دروازے بند کئے ہوئے ہوں گے، اور ان کے آنے کے بعد کھول دیئے جائیں گے، اس قول کے یہ معنی ہوئے، کہ انبیاء علیہم
۲۶
السّلام کی شریعتیں سب کی سب اشارات و تمثیلات کے ذریعے بندھی ہوئی ہوتی ہیں، اور لوگوں کی نجات ان کے کھولنے میں پوشیدہ ہے، جس کی مثال ایک ایسے بند دروازے کی طرح ہے کہ جب وہ کھل جاتا ہے تو لوگوں کو آرام کی جگہ ملتی ہے اور کھانا پینا مہیا ہوتا ہے، جب بہشت کا دروازہ بند کیا ہوا ہو تو اصولاً دوزخ کا دروازہ کھولا ہوا ہوگا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔ وَ سِیْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِلٰى جَهَنَّمَ زُمَرًاؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْهَا فُتِحَتْ اَبْوَابُهَا (۳۹: ۷۱) اور جو کافر تھے وہ جہنم کی طرف گروہ گروہ بنا کر ہانکے گئے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئے، تو دوزخ کے دروازے کھول دیئے گئے، بہشت کے دروازے کا کھل جانا کتاب (قرآن) اور شریعت کی تاویل سے متعلق ہے، اور تاویل کا مالک ہر رسول کا وصی ہوتا ہے، اور بہشت کا دروازہ کھل جانے سے اصولاً دوزخ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، پس رسول بہشت کے دروازے کی حیثیت سے ہے، اور بہشت کا دروازہ کھولنے والا اس کا وصی (علی علیہ السّلام) ہے، نیز (ہرزمانے میں) سارے مومنوں کے لئے (دروازۂ جنّت کھولنے والا) امامِ زمانؑ ہے۔
جب ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ رسول علیہ السّلام بہشت کے دروازے کی حیثت سے ہے، اور اس کا وصی اس دروازے کا کھولنے والا ہے، تو اب ہم بہشت کے دروازے کی کلید کے بارے میں بیان کرتے ہیں اور اس حقیقت کی دلیل لاتے ہیں، کہ بہشت کے دروازے کی کلید کلمۂ
۲۷
شہادت ہے، چنانچہ اس کی تشریح کی جاتی ہے کہ کلید وہ چیز ہے جس کو حاصل کئے بغیر کوئی شخص مقفل دروازے کے پاس جانا نہیں چاہتا، یہی وجہ تھی کہ جس شخص نے کلمۂ شہادت قبول کر لیا، تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی طرف آیا اور جس شخص نے کلمۂ شہادت اخلاص سے کہا تو رسول علیہ السّلام نے اسے بہشت کا وعدہ کیا، اس حدیث کے بموجب جو فرماتا ہے: من قال لا الہ الا اللہ خالصاً مخلصاً دخل الجنۃ جس شخص نے کلمۂ اخلاص پاک دلی سے کہا تو وہ بہشت میں داخل ہوا پس یہ اس بات کی دلیل ہوئی کہ یہی کلمۂ شہادت بہشت کے دروازے کی کلید ہے، یہاں تک کہ جب یہ کلید لوگوں کو مل جائے، تو وہ بہشت میں داخل ہو سکتے ہیں اور جس کو یہ (کلید) نہ ملی تو وہ بہشت سے محروم رہ جاتا ہے۔
پس بتا دیا جاتا ہے، کہ کلمۂ “لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ” سات الفاظ پر مشتمل ہے۔ (لا۔ الہ۔ الا۔ اللہ۔ محمد۔ الرّسول۔ اللہ) جو نوحروف سے بنا ہے، چنانچہ ل، ا، ہ، م، ح، د، ر، س، و، اور اس میں دو گواہیاں ہیں (لا الٰہ الا اللہ (۱) محمد الرّسول اللہ (۲) ) اور کلید کو عربی میں مفتاح کہتے ہیں، اور ان پانچ حروف یعنی “مفتاح” کے حساب کا مجموعہ پانچ سو انتیس ہوتا ہے اور پانچ سو انتیس (۵۲۹) کے (دس دس کے اعدادِ کاملہ کے حساب سے) سات “عقد” بنتے ہیں، جو مذکورہ دو شہادتوں کے سات
۲۸
الفاظ کے برابر ہے، جن سے مذکورہ دو شہادتیں بنی ہوئی ہیں، اور یہ کلمہ دو شہادتوں پر مبنی ہے، جس طرح کلید دو چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو حصّے میں جدا جدا مگر اتصال میں ایک ہیں، وہ کلید کا دستہ اور دندانہ ہیں اور مومنوں کا یہ کلمۂ اخلاص کہنا، قفل کھولنے والے کے چابی گھمانے کی مثال ہے، تاکہ اس سے دروازہ کھل جائے۔
پس ہمارا یہ قول ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہشت کا مقفل دروازہ ہے، جس کی کلید کلمۂ اخلاص میں ہے، مومن نے یہ کلید پکڑ رکھی ہے، اور امامِ زمانؑ مومن ہی کے ہاتھ سے اس چابی کا گھمانے والا ہے، تاکہ دروازہ کھل جائے۔ اس قول کی حقانیّت کی گواہی یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتا ہے: قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّؕ-وَ هُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ (۳۴: ۲۶) یعنی کہہ دیجئے کہ ہمارا پروردگار ہمارے درمیان جمع کرے گا، اس کے بعد ہمارے درمیان کھول دے گا اور وہ دانا کھولنے والا ہے، اس معنی سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ جب لوگ رسول کے دین کو قبول کرتے ہیں، تو اس کے ساتھ یہی ان کا جمع ہونا ہے، اس کے بعد تاویل کا مالک شریعت کے بند کو شریعت کے تاویل کے ذریعے کھول دے گا، تاکہ مومن کو معلوم ہو جائے، کہ اس طرح کی شریعت سے جو رسول نے رکھی، اور اس قسم کی مثالوں سے جو اس نے بیان کیں، کیا مراد تھی، تاکہ مومن اس پر بصیرت سے عمل کرے،
۲۹
ہم نے اپنے زمانے کے انداز پر بہشت اور اس کے دروازے کے کلید کا بیان کیا۔
والسلام
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۰۷
۳۰
کتاب الھمہ “کا پہلا باب”
مصنف:۔ سیدنا قاضی نعمان، قاضی قضاۃِ دولت فاطمیہ
مترجم: علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
(باب۔ ۱)
ان امور کا بیان جو أئمّۂ صلوات اللہ علیہم کے پیرؤوں کو بجا لانے چاہئیں یعنی أئمّہ کی ولایت پر اعتقاد رکھنا، ان کی امامت پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا۔
یہ باب تمام بندوں کے لئے لازم ہے، اور اگر میں اس کو مفصل طور پر لکھ دوں، تو یہ اس کتاب کی (مقررہ) حد سے بڑھ جائے گا، اور مجھے ایک جدا گانہ کتاب لکھنے کی ضرورت پیش آئے گی، لیکن میں اس
۳۱
میں سے ایک قابلِ ذکر حصّے کا بیان کر دیتا ہوں (اس باب کی یہ اہمیت کیوں نہ ہو) جب کہ أئمّۂ (برحق) کی ولادت کا اعتقاد، ان کی امامت کو ماننا اور ان کی فرمان برداری ہی اس حقیقت کی جڑیں اور بنیادیں ہیں، جس کے لئے اس کتاب کا لکھنا واجب ہوا ہےاور یہ وہ اوّلین چیزیں ہیں، جن کے ذکر سے اس کتاب کا آغاز اور افتتاح ہونا چاہئے۔
وہ شخص جس نے أئمّہ کے حق کو پہچانا ہو، اور ان کی امامت پر اعتقاد رکھا ہو، جب وہ ان کی اہمیّت دیکھ پائے اور ان کے امر بجا لائے، جس کے بارے میں وہ دیکھتا ہے، کہ وہ اس اللہ تعالیٰ کا ایک ضروری فرض اور ایک لازمی حق ہے تو اس کے دل میں ان کی بزرگی انتہائی عظیم اور اس کی آنکھوں میں ان کی ہیبت بہت ہی بڑی نظر آتی ہے، یہ نسبت دنیا کے بادشاہوں کی اس بزرگی اور ہیبت کے، جو ان کے تابعداروں کے دلوں میں اور ان کی آنکھوں میں ہوا کرتی ہے (اماموں کی یہ جلالت و ہیبت کیوں نہ ہو) جبکہ خدائے عزّو جل (تبارک و تقدّست اسماوُہ) نے اپنی کتاب میں ان کی فرمانبرداری اپنے بندوں پر فرض کر دی ہے اور اس نے اس فرمانبرداری کو اپنی فرمانبرداری اور اپنے رسولؐ کی فرمانبرداری سے وابستہ کر دیا ہے، پس فرمایا اور وہی تو سارے کہنے والوں میں سب سے سچا ہے” اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی
۳۲
الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (۰۴: ۵۹) تم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرو اور رسولؐ کی فرمانبرداری کرو اور صاحبانِ امر کی فرمانبرداری کرو جو تم میں سے ہیں۔”
پھر اللہ تعالیٰ نے أئمّہ صلوات اللہ علیہم کے مذکورہ پَیروطبقات میں شامل ہونے کے لئے جس شخص کو مخصوص کر دیا ہو، اس کے لئے یہ مہربانی کی ہو اور اس پر یہ انعام فرمایا ہو، تو اس کو ان کی امامت پر اس شخص کی طرح اعتقاد رکھنا چاہئے، جو دیکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ان کی خوشنودی اس کے پروردگار کی خوشنودی کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور ان کی ناراضگی اس کی ناراضگی کے انتہائی نزدیک ہے، پس اس (اعتقاد کی وجہ) سے وہ اس بہترین عمل کو اختیار کرتا ہے، جس سے خدا کی اس خوشنودی (کے حصول) کے لئے امید کی جا سکتی ہو، جس کا بدلہ جنّت مقرر کی گئی ہے، اور وہ اس چیز سے دور رہتا ہے، جس سے خدا کی وہ ناراضگی لازم آتی ہو، جس کی سزا آتشِ (دوزخ) مقرر کی گئی ہے، اور وہ (امامت کا معتقد) اپنے نفس کو اس چیز کی ترغیب دیا کرتا ہے، جو اس کو اماموں کے (نزدیک سے) نزدیک تر کر سکتی ہے، اور اس کو ان کے حضورِ خاص تک لے جاسکتی ہے، اور وہ اس (عمل کے انجام دہی کے سلسلے) میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا رہتا ہے، جو (عمل) اماموں کے لئے پسندیدہ اور ان کی خواہش کے مطابق ہے اور ان کو اس سے خوشی حاصل ہو سکتی ہے (اور امامت کے حقیقی عقیدت مند کا یہ نفسانی جہاد اسی طرح ہمیشہ جاری
۳۳
رہتا ہے) ہر اس چیز میں جو اس کو تو پسند ہی ہے (مگر نفس اس کو پسند نہیں کرتا) اور ہر اس چیز میں جو اس کو خوش کرتی ہے (مگر نفس تو اس سے خوش ہو نہیں سکتا) اور ہر اس چیز میں جو اس کو ناراض کر دیتی ہے (لیکن نفس تو اس کے لئے راضی ہی ہے) تاکہ وہ اس چیز کے سبب سے، جس میں اس کی ناراضگی تھی، اپنے نفس کی ریاضت (اصلاح) کی طرف رجوع کر سکے، اور اس کو (حصولِ رضا کی غرض سے) اس میں مانوس کرتا رہے یہاں تک کہ وہ (عقیدے کے طور پر) اپنی ناراضگی کو خوشنودی میں اور ناپسند کو پسند میں تبدیل کر سکتا ہے، نیز جب بھی یہ بیماری (ناراضگی) اس میں پائی جائے، تو وہ اس میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہے، اور جانتا ہے کہ (اس کے نفس کی) یہ ناراضگی گناہوں میں سے ایک بڑٓا گناہ ہے، نیز یہ بھی جانتا ہے کہ اس (فعلِ ناراضگی) سے توبہ ہو نہیں سکتی، بجزآنکہ اس سے قطعی چھٹکارا حاصل کیا جائے (یعنی ہر قسم کی ذاتی ناراضگی کی بیماری کو جڑ سے اکھیڑ کر پھینک دیا جائے) یہاں تک کہ وہ اسی چیز سے ہی راضی ہو، جس سے أئمّہ راضی ہوئے ہیں اور وہ اسی چیز سے ہی ناراض ہو جس سے وہ ناراض ہوئے ہیں، اور وہ اسی چیز کو پسند کرے، جس کو انہوں نے پسند کیا ہے، اور وہ اسی چیز کو ناپسند کرے جس کو انہوں نے ناپسند کیا ہے، اور وہ اپنے قول، فعل، نیّت اور عمل میں بس یہی اعتقاد رکھتا ہے، اگرچہ اس میں اس کی اپنی موت واقع ہو جائے اور اس کے خاندان، مال اور اولاد
۳۴
ہلاک ہو جائیں، اور وہ سارے امور میں اماموں کی رضا کارانہ تابعداری کرتا ہے، مجبورانہ تابعداری نہیں، وہ جانتا ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرے، اور (پوری طرح سے) یا تھوڑی سی اس کی خلاف ورزی کرے، تو خدائے تبارک و تعالیٰ کے اس قوّل کے بموجب وہ مومن ہو نہیں سکتا ہے: ” فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۰۴: ۶۵) پس (اے رسول) تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں، پھر (یہی نہیں بلکہ) جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ہوں بلکہ خوش خوش اس کو بھی مان لیں۔”
پس اللہ تعالیٰ (جلّ ذکرہ) کی طرف سے اس کے رسول کے لئے مومنوں پر یہی فرض ہے، جس کی فرمانبرداری اللہ نے اپنی فرمانبرداری کے نزدیک رکھی ہے، اور اماموں کی فرمانبرداری رسولؐ کی فرمانبرداری کے نزدیک رکھی ہے، اور ان کو رسولؐ کے بعد امت کیلئے نائبین مقرر کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ رسولؐ کے وسیلے سے اور ان کی ذرّیت کے نیکو کار، برگزیدہ اور پسندیدہ اماموں کے وسیلے سے رحمت بھیجے!
پس اس اندازہ اور تربیت سے اس ضروری فرض (کے سلسلے) میں نیّت، قول، عمل اور قبولیت کے طور پر ہر امام کی تکریم، تعظیم،
۳۵
فرمانبرداری اور تابعداری کرنا اس کے زمانے اور عصر والوں پر لازم ہے، اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ (انبیاء و أئمّہ) کی فرمانبرداری ایک ہی ہے اور ملی ہوئی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی فرمانبرداری کے نزدیک کر دیا ہے، اور وہ اپنی ساری مخلوقات سے برتر اور بزرگ تر ہے، اور اس کے بندوں پر کسی اعتبار سے بھی اس کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے، پس کسی فرمانبردار کی فرمانبرداری قبول نہیں ہوتی ہے، مگر اس کے اولیاء (أئمّہ برحق) میں سے اس شخص کی فرمانبرداری کرنے سے، جس کی فرمانبرداری اس پر فرض کی گئی ہے، اور کوئی شخص (صرف) اسی پر ہی مومنوں کی جماعت میں شامل نہیں ہو سکتا، مگر یہ کہ وہ شخص جو اس کے اصفیاء (انبیاء) میں سے اس شخص کی تابعداری (تسلیم) کرے، جس کی تابعداری کے لئے امر ہوا ہے، اور اس بیان میں، جو ہم نے اس باب میں کر دیا ہے، عقل و دانش والوں کے لئے جو کچھ ہے وہ کافی ہے (یعنی کوئی بھی ضروری اور مختصر مطلب اس سے باہر نہیں) جبکہ وہ شخص تدبّر (تفکّر) سے کام لے، جس کے فہم کو حقِ تدبّر کی توفیق دی گئی ہو، ان شاء اللہ۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۰۸
۳۶
قرآن اور امامت
از علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی
ہم ذیل میں امامت کے متعلق چند کلیدی سوالات اور ان کے قرآنی جوابات پر مشتمل ایک پُرمعلومات اور اہم مضمون کی طرف آپ کی توجّہ مبذول کراتے ہیں:۔
سوال نمبر ۱:۔ دین میں لفظِ “امام” کا استعمال کب سے شروع ہوا؟
جواب:۔ لفظِ “امام” خواہ اصلی صورت میں ہو یا مترادفات میں، ہر چند کہ امام اور امامت کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر آ کر زیادہ نمایان ہوا ہے، مگر یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، کہ یہ لفظ حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے سے ہی اسی مطلب کے لئے استعمال ہوا ہے، اور لفظِ “امام” شروع ہی سے ایک جامع قسم کی دینی اصطلاح ہونے کی دلیل یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ہر زمانے کے لوگوں کو ان کی امامِ زمانؑ کے ذریعے بلالے گا، اور ظاہر ہے کہ سب سے پہلے تو حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانہ والوں کو ان کے امامِ زمانؑ کے ذریعے بلایا جائے
۳۷
گا، چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے:۔
یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ (۱۷: ۷۱) یعنی جس روز ہم ہر (زمانے کے) لوگوں کو ان کے امام کے ذریعے بلالیں گے، پس اس بیان سے نہ صرف یہی ثابت ہوا، کہ لفظِ “امام” اور اس کے ہم معنی الفاظ حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے ہی سے خاص قسم کی دینی اصطلاحات بنے ہوئے ہیں، بلکہ ساتھ ساتھ یہ ثبوت بھی ملا، کہ کوئی وقت ایسا نہیں گزرا ہے، جس میں لوگوں کے درمیان امامِ برحق موجود اور حاضر نہ رہا ہو۔
سوال نمبر۲:۔ لفظِ “امام” کا معنوی خاصہ کیا ہے؟
جواب:۔ لفظِ “امام” کی اس معنوی خاصیت کا بیان، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو جیسی ہمہ گیر حقیقت کی ترجمانی کے لئے دوسرے تمام الفاظ سے منتخب فرمایا ہے، یہ ہے کہ جس طرح دوسرے بہت سے الفاظ کے لغوی اور اصطلاحی معنی ہوا کرتے ہیں، اسی طرح لفظِ “امام” کے بھی لغوی اور اصطلاحی معنی ہیں، نیز یہاں اس امرِ واقع کا بھی ذکر کر دینا لازمی ہے کہ بعض مثالوں میں ایک ہی اصطلاح کے معنی مختلف گروہوں کے نزدیک مختلف ہوا کرتے ہیں، اندران صورت سب سے پہلے یہ دیکھنا لازمی ہوتا ہے، کہ یہ اصطلاح قرآن پاک کے موضوعات کے سلسلے میں کن کن تفصیلات کی حامل ہے اور ان تفصیلات کا فیصلہ کس نوعیت کا ہے وغیرہ، اس کے علاوہ قرآنِ حکیم میں بہت سے
۳۸
ضروری الفاظ ایسے بھی ہیں، جن کے لغوی معنوں کو واضح اور بے بدل مثالوں میں محفوظ رکھا گیا ہے، چنانچہ لفظِ “امام” ام سے مشتق ہوا ہے، اور “ام” کے معنی ہیں اصل، جیسے ام الکتاب یعنی کتاب کی اصل، نیز لفظِ امام کی ایک اور صورت “امام” ہے، جس کے معنی ہیں آگے، اس لفظ کی ایک اور صورت “امۃ” ہے، جس کے معنی ہیں جماعت اور مدّت، اور اس لفظ کی آخری صورت “امام” ہے، یعنی پیشوا یا سردار، پس اگر ان الفاظ کی بغور تحقیق کی جائے، تو معلوم ہو جاتا ہے، کہ ان تمام الفاظ کی معنوی گہرائیوں میں ایک طرح کی “لامحدودیّت” موجود ہے، وہ اس طرح کہ: (۱) ہر چیز اپنی “اصل” سے آئی ہوئی ہے، اور اپنی اصل سے جا ملنے والی ہے، پس ہر چیز اپنی اصل ہی میں محدود ہے، اور ہر اصل اپنی چیزوں پر حاوی ہے اور وہ لامحدود ہے (۲) “آگے” کا مطلب زمان و مکان کی لاانتہائی کی طرف اشارہ ہے (۳) “جماعت” افراد پر محیط ہے اور افراد جماعت کے اندر محدود ہیں (۴) “مدّت” وقت کا لاانتہا سلسلہ ہے اور وہ اپنے اجزاء یعنی سال مہینے، ہفتے، دن اور رات پر حاوی ہے، اور یہ اجزاء اس کے اندر محدود ہیں (۵) “پیشوا” اپنے دینی علم و دانش کے ذریعے اپنے مریدوں پر حاوی ہے، اور مرید اپنے پیشوا کی علمی حیثیت میں سموئے ہوئے ہیں اور (۶) “سردار” اپنی قوم پر ضبط و تدبّر کے ذریعے چھایا ہوا ہے، اور اس کی قوم اس کی تنظیم میں سمٹی ہوئی ہے، پس لفظ امام کا لغوی تجزیہ اور اس کا خاصہ یہی ہے، کہ یہ لامحدودیّت
۳۹
کا حامل ہے۔
سوال نمبر۳:۔ امام کا دائرۂ عمل کیا ہے؟
جواب:۔ امامِ زمانؑ کے دائرۂ عمل کی وسعت کے متعلق بیان یہ ہے کہ امامِ زمانؑ کی عقل اور روح خدائے برترکے نور کی حیثیت سے، اور عقلِ کلّ و نفسِ کلّی یا عرش و کرسی وغیرہ کے ناموں سے کائنات اور موجودات پرچھائی ہوئی ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز (کائنات و موجودات) کو امامِ ظاہر (کے نور) میں گھیر کر رکھا ہے، مولوی معنوی اپنی ایک پُرمعرفت نظم میں ہوبہو اسی مطلب کی تشریح فرما رہے ہیں، جس کے ابتدائی دو شعر بطورِ نمونہ ملاحظہ ہو:۔
آن امامِ مبین ولی خدا
آفتابِ وجودِ اہلِ صفا
ترجمہ:۔ وہ امامِ ظاہر، خداکا ولی اور اہلِ صفا کے وجود کا سورج (نور) ہے۔
آن امامے کہ قائم است بحق
در زمین و زمان و ارض و سما
ترجمہ:۔ وہ امام جو یقیناً (اپنے نوری وجود سے) زمین، زمانہ، عرش اور فرش پر قائم ہے۔ پس ان تمام باتوں کے خلاصے سے یہ ثابت ہوا، کہ امام زمان کا دائرۂ عمل لا محدود ہے، اور اس دائرے میں کائنات
۴۰
و موجودات محدود ہو کر رہی ہیں۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۱۰
۴۱
حسن صباح کی گرانقدر خدمات
ایران اور امامی مذہب کی آزادی کے لئے
ازکتاب: تاریخ خلفای فاطمی رضوان اللہ علیہم اجمعین (فارسی)
مؤلف: عبد الرحمٰن سیف آزاد مدیرمجلۂ ایرانِ باستان
مترجم: علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی
صاحبِ روضتہ الصفا کے قول اورتشریحات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے، کہ حسن صباح، اُس کی تمام تنظیمات اور اس کے سارے طرفدار لوگ شرعی رسوم کو جیسا کہ چاہئے بجا لایا کرتے تھے، حسن صباح پر لگائے ہوئے الزامات کی وجہ یہ ہے، کہ عباسی غاصب خلفاء کے جانبداروں اور امامی مذہب کے مخالفوں کی ان سے خاص دشمنی تھی اور حسن صباح جیسے تاریخ کے عظیم مرد کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس میں اس زمانے کے اپنے اور پرائے اہل اقدار کے مذہبی خشک تعصبات کی بنا پر غلطی، دشمنی، بدخواہی اور غرض مندی سے کام لیا گیا ہے۔
اس مردِ عظیم کی سرگزشت اور تاریخی حالات ان کتابوں سے مل
۴۲
سکتے ہیں، جو تاریخِ جوینی، روضتہ الصفا اور مجالس المومنین کے نام سے عربی اور فارسی زبان میں مرتب ہو کر چھپ چکی ہیں اور ان مورخین کے آثار سے (یہ حالات مل سکتے ہیں) جو مذہبی تعصبات سے بری ہیں، جنہوں نے حسن صباح کی غالبیت سے لے کر اس کی تنظیم کے آخری وقت تک (جس کے لئے ایک سوپچھتر ۱۷۵سال کا وقت لگا ہے) کوئی تردید نہیں لکھی ہے، جب ہم ان کتابوں کی طرف رجوع کر کے انصاف اور گہری نظر سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس مردِ آہن نے ایران اور امامی مذہب کے استقلال اور آزادی کے سلسلے میں ایک عظیم خدمت انجام دی ہے اور اس نے ترکی غاصب حکومتوں اور عباسی غاصب خلفاء (جو ایران اور أئمّۂ ہدیٰ کے سب سے بڑے دشمن تھے) کی حیثیتوں اور اثر و نفوذ پر مناسب وقت میں بڑی بڑی کاری ضربیں لگائی ہیں، چونکہ اکثر مؤلفین، عرب کے مصنفین یا وہ ایرانی جن کی کچھ تالیفات عربی میں تھیں، نیز سبک اور عربی ادب کے چاہنے والے سب (حسن صباح کے) مخالف تھے، اس لئے انہوں نے ایک دوسرے کی تقلید کرتے ہوئے سیاسی اغراض اور اس زمانے کے اہلِ اقتدار کو خوش کرنے کے لئے اپنے تراشے ہوئے الزامات و اتہامات کے ذریعے اس مردِ عظیم اور اس کی تنظیمات کی گرانقدر خدمات اور کارناموں کو الٹے طریقے سے پیش کیا ہے، کیونکہ وہ غیروں کا بڑا زبردست مخالف اور ایران کے دشمنوں خصوصاً غاصب بنی عباسی
۴۳
خلفا اور سلجوقی خونخوار ترکوں کا جان لیوا دشمن تھا۔
چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۱۰
۴۴
کتابِ الھمہ “باب۲”
مصنف:۔ سیدنا قاضی نعمان، قاضی قضاۃ دولتِ فاطمیہ
مترجم:۔ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی
أئمّۂ حق (علیہم السّلام) کی محبت و ولاء کے واجب ہونے کا بیان
اللہ تعالیٰ جلّ ذکرہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے فرماتا ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (۴۲: ۲۳) آپ (ان سے) کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغِ رسالت) کا کوئی صلہ نہیں مانگتا، سوائے اپنے قرابت داروں کی دوستی کے، پس رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے قرابت دار کون ہیں؟ تو آنحضرتؐ نے فرمایا: کہ علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا:۔
من احبھم فقد احبنی ومن ابغضھم فقد ابغضنی
معنی:۔ جو شخص ان کو دوست رکھے، تو یقیناً اس نے مجھے
۴۵
دوست رکھا ہے، اور جو شخص ان کو دشمن رکھے، تو یقیناً اس نے مجھے دشمن رکھا۔”
لا یحب علیا الا مومن ولا یبغضہ الا منافق۔
علی کو مومن کے سوا اور کوئی شخص دوست نہیں رکھتا ہے، اور منافق کے سوا اور کوئی شخص اسے دشمن نہیں رکھتا۔
پھر (رسول کے بعض اصحاب) یہ کہا کرتے تھے کہ ہم رسول اللہ (صلعم) کے زمانے میں علی (علیہ السّلام) کی محبت، دوستی اور تفضیل (کے متعلق لوگوں کے اقوال و اعمال دیکھنے) کے سوا مومنوں کو منافقوں سے (جدا) نہیں پہچان سکتے تھے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اپنے زمانے والوں کو علی (علیہ السّلام) کی دوستی کے لئے قطعی حکم (نص) کر دیا، اور ان لوگوں کو اس کی ترغیب دی، جو آنحضرت کے حضور تک رسا ہوئے تھے، جبکہ انہوں نے آنحضرت سے اس بارے میں پوچھا۔
اور خدائے عزّوجل نے علی (علیہ السّلام) کی یہی دوستی سارے لوگوں پر فرض کر دی ہے اور اس کی ذرّیت کے اماموں کے لئے بھی یہی (دوستی) ہر دور اور ہر زمانے کے لوگوں پر فرض کی گئی ہے۔
امام محمد باقر بن علی زین العابدین صلوا ت اللہ علیہ سے
۴۶
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں پوچھا گیا:۔
قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ (۴۲: ۲۳)
توانہوں نے فرمایا:۔
واللہ ھی فریضۃ من اللہ واجبتہ علیٰ جمیع العبادلمحمد صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ فینا اھل بیتہ۔
خدا کی قسم یہ (دوستی جس کا ذکر اس آیت میں ہے) اللہ تعالیٰ کی طرف سے سارے بندوں پر ایک واجب فرض ہے، جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے لئے (یہی ایک صلہ ہے کہ اس کے اہلِ بیت کو دوست رکھا جائے، اور یہ ہمارے بارے میں ہے، کہ ہم ہی اس کے اہلِ بیت ہیں اور موصوف امام علیہ السّلام نے فرمایا ہے:۔
من احبنا حشرہ اللہ معنا یوم القیامۃ۔
جو شخص ہم کو دوست رکھے، تو اللہ تعالیٰ ا س کو قیامت کے دن ہمارے ساتھ اٹھادے گا۔ پھر فرمایا:۔
ھل الدین الاالحب
کیا دین محبت کے سوا کوئی اور چیز ہے۔
یعنی حقیقی محبت اور اس کے لوازم ہی کا نام دین ہے،
۴۷
چنانچہ خدائے عزّوجل نے فرمایا ہے:
حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ (۴۹: ۰۷)
اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایمان کی محبت دے دی ہے، اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب (پسندیدہ) کر کے دکھایا ہے۔” اور انہوں نے (حوالے کے طور پر) فرمایا:۔
إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ، (۰۳: ۳۱)
(ا ے رسولؐ ان لوگوں سے) فرما دیجئے کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو کہ خدا (بھی) تم کو دوست رکھے گا، اور تم کو تمہارے گناہ بخش دے گا۔
مولا نا علی علیہ السّلام نے اپنے بعض شیعوں سے فرمایا:۔
الااخبرکم بالحسنہ التی من جاء بھا امن من فزع یوم القیامۃ وبالسیۃ التی من جاء بھااکب اللہ وجہہ فی النار۔
کیا میں تم کو اس نیکی کے بارے میں آگاہ نہ کردوں کہ جو شخص وہ نیکی کرے تو وہ روزِ قیامت کی گھبراہٹ سے بے خوف ہوگا اور اس بدی کے بارے میں بھی، کہ جو شخص وہ بدی کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کو منہ کے بل آتشِ (دوزخ) میں ڈال دے گا۔
شیعوں نے عرض کی، کہ آگاہ کیجئےیا امیر المومنین! تو فرمایا:۔
۴۸
الحسنۃ حبنا والسییۃ بغضنا۔
وہ نیکی ہماری دوستی ہے اور وہ بدی ہماری دشمنی ہے۔
پس جو شخص اماموں کو پہچانتا ہے، تو اس کو چاہئے کہ ان سے خالص (بے غرض) محبت رکھا کرے، اور اعتقاد رکھے کہ یہ محبت اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، اور اماموں کی اس مرتبت کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے (اور اعتقاد رکھے کہ یہ محبّت اور دوستی) کسی ایسی دنیاوی غرض کے لئے نہیں جو اماموں سے حاصل ہو، پھر اگر کسی شخص کی یہ دوستی کسی (دنیاوی) چیز کے لئے ہے تو اس چیز کے زوال و انقطاع کے ساتھ ساتھ وہ دوستی بھی زائل اور منقطع ہو جائے گی۔
پس اماموں سے اس شخص کی دوستی ان کی (دنیاوی) مہربانی رک جانے پر بھی اسی طرح برقرار رہنا چاہئے، جس طرح مہربانی کے وقت ان سے اس کی دوستی تھی، اور تنگدستی میں بھی وہی دوستی ہونا چاہئے، جو خوشحالی میں تھی، کیونکہ جو خالص (بے غرض) اعمال محض اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہوا کرتے ہیں، ان میں دنیا کی گردشیں کوئی تبدیلی لا نہیں سکتیں، اور نہ ان کو ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کر سکتی ہیں، بجز آنکہ دنیا کے حادثات صرف ان اعمال میں تغیّر و تبدّل کر سکتے ہیں، جو دنیا ہی کے لئے کئے جاتے ہوں، امام جعفر صادق بن محمد باقر صلوات اللہ علیہ نے فرمایا ہے:۔
من احبنا فلیخلص لنا المجۃ کما بخلص
۴۹
الذھب الابریز۔
جوشخص ہم کو دوست رکھے تو اس کو چاہئے کہ ہماری محبّت کو اس طرح خالص (پاکیزہ) کرے جس طرح کھرا سونا خالص ہوا کرتا ہے۔”
مولانا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا ہے:۔
لو ضربت المومن علیٰ انفہ ما ابغضنی ابدا ولوصیت الذھب والفضۃ علیٰ المنافق ما احبنی ابدا۔
اگر میں مومن کی ناک پر مارتا، تو پھر بھی وہ مجھ سے ہر گز دشمنی نہ کرتا، اور اگر میں منافق پر سونا اور چاندی برسا دیتا، تو پھر بھی وہ مجھ سے ہر گز دوستی نہ رکھتا۔”
پس جو شخص خد ا کے اولیاء سے دوستی رکھتا ہے، تو اس کو چاہئے کہ ان کی محبت کو خالص (پاکیزہ) کر دے، اور محبت کا حق (جیسا کہ چاہئے) ادا کر دے، یقیناً محبّت کرنے والے پر اس کے محبوب کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے محبوب سے سچی قسم کی دوستی رکھے اور اس کو دھوکا نہ دیا کرے، اس کی امانت ادا کر دے اور اس کی خیانت نہ کرے، اس کی مدد کرتا رہے اور اس کی مدد سے دستبردار نہ ہو جائے، اس کی فرمانبرداری کرتا رہے اور اس کی نافرمانی نہ کرے، اس کے لئے وہ (قول و فعل) ناپسند کرے جو کچھ اپنے لئے
۵۰
ناپسند کرتا ہے، اور (اس کی دوستی کے سلسلے میں) اپنے ظاہر و باطن کے درمیان کوئی فرق نہ رکھے، نہ اپنے بھید اور کھلی بات کے درمیان اور نہ اپنے محبوب کے سامنے ہونے اور اس سے دور ہونے میں، یہ تو اس محبّت کی حقیقت ہے، جو دنیاوی طور پر دوستی رکھنے والوں میں پائی جاتی ہے، پھر اس شخص پر کس قدر عظیم حقوق اور فرائض عائد ہوں گے، جس کا محبوب خدا کا محبوب ہے، جس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھتا اور جانتا ہے جو کچھ وہ خدا کے محبوب کے لئے) اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو کچھ آشکار کر دیتا ہے، جو کچھ چھپاتا ہے اور جو کچھ دکھاتا ہے، پھر اس پر یہ فرض ہے، کہ وہ اپنی اس محبّت کے بارے میں اپنے آپ کی نگرانی کرتا رہے اپنی کھلی اورظاہری حال میں بھی، اور اپنی تنہائیوں اور بھیدوں میں بھی (کہ وہ اس مقدّس محبت کے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی تو نہیں کر رہا ہے) ۔
پس اے مومنو! تم اپنے اولیاء کی (اس مقدّس) محبت کو (دنیاوی اغراض کی آلائشوں سے) خالص کر دو، تاکہ اس کے بدلے میں تم پر وہ مہربانی کی جائے، جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مہربانیوں سے بڑھ کر ہے، اس بیان میں جو میں نے اس باب میں کردیا، ان لوگوں کے لئے تبلیغ ہے، جنھیں درستی (صواب) کی توفیق دی گئی ہے۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۱۱
۵۱
کلامِ مولوی معنوی رومی
ازکلیاتِ شمس تبریزی
(ترجمہ از علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)
آن شاہ کہ بادانش و دین بود علی بود
مسجودِ ملک ساجدِ معبود علی بود
ترجمہ:۔ وہ (حقیقی) بادشاہ جو صحیح معنوں میں دانش اور دین کے ساتھ تھا، علی ہی تھا، فرشتوں نے جس کو سجدہ کیا اور جس نے خدا کو سجدہ کیا، وہ علیؑ ہی تھا۔
خورشیدِضیا گستر و جمشیدِ دوکشور
ماہِ فلکِ موہبت وجود علی بود
ترجمہ: نوربجھا دینےوالا سورج، دونوں جہانوں کا بادشاہ اور بخشش و مہربانی کے آسمان کا چاند علیؑ ہی تھا۔
آن شاہِ فلک مرتبہ کز عزو جلالت
برسائر مخلوق بیفزود علی بود
۵۲
ترجمہ:۔ وہ عالی مرتبت بادشاہ، جو اپنی عزت اور بزرگی کی وجہ سے تمام مخلوق پر فوقیت رکھتا تھا، علی ہی تھا۔
آن نکتۂ تحقیقِ حقائق بحقیقت
کز روی یقین مظہر حق بود علی بود
ترجمہ:۔ وہ راز جس کو دراصل حقیقتوں کی چھان بین سے معلوم کر لیا گیا ہے جو یقیناً خدا کے مظہر کی حیثیت سے تھا، علی ہی تھا۔
آن نقطۂ توحیدِ احد کزدم واحد
جز اونفسِ وحدت نشنود علی بود
ترجمہ: وہ خدا کی توحید کا انتہائی نقطہ، جس کے بغیر اور کسی شخص نےخدائے واحد کے دم سے وحدت کی بو نہیں سونگھی، علی ہی تھا۔
آن بود وجودِ دوجہان کزرہ معنی
بی اونہ شدی عالم موجود علی بود
ترجمہ:۔ وہ دونوں جہان کے وجود کاسبب، کہ اگر وہ نہ ہوتا، تو حقیقت کی رو سے عالم موجود ہی نہ ہوتا، علی ہی تھا۔
آن فاتحۂ دولت ومفتاحِ سعادت
کوقفلِ درِ مصطبہ بکشود علی بود
ترجمہ:۔ وہ اقبال مندی کھول دینے والی طاقت اور سعادتمندی کی کلید، جس نے عشقِ حقیقی کے دروازے کا قفل کھول دیا، علی ہی تھا۔
۵۳
آن ساعدِ دینِ حق و ینبوع معانی
کز یمن وی آدم شدہ مسجود علی بود
ترجمہ:۔ وہ دینِ حق کے (پُرقوّت) بازو اور حقائق کا سرچشمہ، جس کی برکت سے آدم فرشتوں کا مسجو د ہوا ہے، علی ہی تھا۔
چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۱۲
۵۴
علی ہی تھا
کلام مولوی معنوی رومی
ازکلیاتِ شمس تبریزی
(ترجمہ ازعلامہ نصیرا لدین نصیر ہونزائی)
آن فارسِ میدانِ ریاضت کہ بہ مردی: گویِ سبق از عالم بر بود علی بود
ترجمہ: وہ میدانِ ریاضت و عبادت کا شہسوار، جس نے بڑی بہادری کے ساتھ دنیا والوں سے گوئے سبقت لے گیا، علیؑ ہی تھا۔
آن شہ کہ بشمشیر وی از آئینۂ دین : زنگِ ستم وبدعت بزدو دعلیؑ بود
ترجمہ: وہ بادشاہ، جس نے اپنی تلوار کی بدولت آئینۂ دین سے ظلم وبدعت کا زنگ صاف کردیا، علیؑ ہی تھا۔
آن نورِ مجرد کہ بد اودر ہمہ حالت : باموسیٰؑ و با عیسیٰؑ و باہود علی ؑ بود
ترجمہ:۔ وہ خالص و مجرّد نور، جو ہر حالت میں موسیٰؑ کے ساتھ، عیسیٰؑ کے ساتھ
۵۵
اور ہودؑ کے ساتھ تھا، علیؑ ہی تھا۔
آن روحِ مصفا کہ خداوند بقرآن: بنواخت بچند آیت و بستو د علی بود
ترجمہ:۔ وہ پاک و صاف روح، جس کو خدائے تعالیٰ نے قرآن میں کئی آیتوں کے اختصاص سے نوازا اور تعریف فرمائی، علیؑ ہی تھا۔
ہم صابر و ہم صادق و ہم قانت و منفق : ہم ہادی و ہم شاہد و مشہور علیؑ بود
ترجمہ:۔ (ان قرآنی آیات کے بیان کے بموجب) صبر کرنے والا بھی، سچ بولنے والا بھی، فرمانبردار بھی، خدا کی راہ میں خرچ کرنے والا بھی، امت پر گواہ بھی، اورحقیقی امتی بھی علیؑ ہی تھا۔
باملکِ سلیمانیؑ و باعصمتِ یحییٰؑ : بامنزلتِ آدمؑ و داؤدؑ علیؑ بود
ترجمہ: سلیمانؑ کی مملکت کے ساتھ، یحییٰؑ کی معصومیت کے ساتھ اور آدمؑ و داؤدؑ کی مرتبت کے ساتھ علیؑ ہی تھا۔
راہی کہ بیان کردخداوند دراالحمد : آن رہبرو آن راہ کہ بمنود علیؑ بود
ترجمہ: خداوندِ تعالیٰ نے الحمد میں جس سیدھے راستے (صراط مستقیم) کا ذکر فرمایا ہے، اس راستے کا دکھانے والا اور خود ہی راستہ، جو اس نے دکھایا، علیؑ ہی تھا۔
وجہی کہ بفرمودخداوند بقرآن : آن وجہِ مکرم کہ بفرمود علیؑ بود
ترجمہ: خداوند تعالیٰ نے قرآن (کی کئی آیتوں) میں اپنے جس چہرۂ مبارک کا ذکر فرمایا ہے، وہ باکرامت چہرہ، جس کا بیان فرمایا ہے، علیؑ ہی تھا۔
۵۶
جبریلِ امین رازبرحضرتِ عزت : مقصود بمثل احمدؐ و مقصود علیؑ بود
ترجمہ: جبریلِ امین جو بارگاہِ عزّت سے نازل ہوا کرتا تھا، فی المثل اس کا مقصد حضرت محمد صلعم اور فی الحقیقت اس کا مقصد علیؑ ہی تھا۔
گویند ملک ساجد و مسجود بُد آدمؑ : ازمن بشنو ساجد و مسجود علیؑ بود
ترجمہ:۔ لوگ کہا کرتے ہیں، کہ فرشتہ ساجد (سجدہ کرنے والے) تھے، اور آدمؑ مسجود (سجدہ کیا گیا) تھا، مجھ سے سن لے، کہ خود ساجد اور خود مسجود علیؑ ہی تھا۔
این سر بشنو باز زشمس الحقِ تبریز : کز نقدِ وجودِ دوجہان سود علیؑ بود
ترجمہ:۔ ایک اور دفعہ یہ راز شمس الحق تبریزؔ سے سن لے، کہ دونوں عالم کے نقد ہستی کا ماحصل اور حقیقی فائدہ (جو کچھ دونوں جہان کے صرف کرنے سے مل سکتا ہے) علیؑ ہی تھا۔
۵۷
ولایتِ علیؑ
رباعی
(ازرومیؔ)
دائم زولایتِ علیؑ خواہم گفت چون روحِ قدسی نادِ علیؑ خواہم گفت
ناروح شود غمی کہ برجانِ من است کل ہم و غم سینجلی خواہم گفت
ترجمہ:۔ میں تو ہمیشہ حضرت علیؑ کی ولادت کا، تذکرہ کرتا رہوں گا، روح القدس کی طرح “نادِ علیؑ” پڑھوں گا “کل ھم وغم سینجلی” پڑھوںگا، تاکہ میرے دل میں جو غم ہے وہ بدل کر روح بن جائے۔
نوٹـ:۔ لفظِ ’’ولایت‘‘ کے ’’واؤ‘‘کو زبر سے پڑھنا زیادہ صحیح ہے، دیکھو قرآنِ مجید (۰۸: ۷۲) ، (۱۸: ۴۴) اور دعائم الاسلام (عربی) جلد اول ص۱۴اور ص۲۰۔
۲۔ کل ھم وغم سینجلی، یعنی علی علیہ السلام ہر بے چینی اور غم کو روشنی کی صورت میں تبدیل کر دے گا۔
۵۸
نور زندۂ جاوید ہے
رباعی
(ازرومی)
کی گفت کہ آن زندۂ جاوید بمرد کی گفت کہ آفتابِ امید بمرد
آن دشمنِ خورشید در آمد بربام دود دیدہ بیست و گفت خورشید بمرد
ترجمہ:۔ (خدا نے یہ) کب فرمایا، کہ وہ زندۂ جاوید (نور) مرگیاہے؟ اس نے یہ کب فرمایا، کہ امید کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا ہے؟وہ سورج کا دشمن چھت پر نکل آیا اور دونوں آنکھیں بند کر کے کہنے لگا، کہ سورج مرگیا ہے۔
۶۸/۱۱/۲۳
۵۹
کلام۔ ۳
علم، یعنی دانش کے بارے میں کہ وہ کیا ہے؟
ازکتاب وجہ دین، سیدنا ناصرخسرو،
مترجم:۔ علّامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
سب سے پہلے مومن کو یہ جاننا چاہئے، کہ علم (کی تعریف) کیا ہے، تاکہ وہ جب اس کو پہچان لے، تو اسے حاصل کر سکے گا، کیوں کہ جب تک کوئی شخص کسی چیز کو نہ پہچانے تو وہ اس چیز تک ہر گز رسا ہو نہیں سکتا، پس (علم کی تعریف کے بارے میں) میرا کہنا یہ ہے کہ چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کر لینے کا نام علم ہے، اور چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کر لینے والی (قوّت) عقل ہے، پس علم عقل کے گوہر میں ہے (یعنی علم روحانیّت کی اس اعلیٰ
۶۰
ترین مثال میں پایا جاتا ہے، جو بارہ پہلوؤں کے ایک لعل کی صورت میں پیش کی جاتی ہے) اور عقل کی گواہی باری سبحانہ و تعالیٰ کا وہ کلمہ ہے، جس کے تحت تمام روحانی و جسمانی مخلوقات موجود ہیں (یعنی جب گوہرِ عقل کے بارہ پہلوؤں سے بارہ قسم کی روحانی تعلیمات دی جاتی ہیں، تو ہر تعلیم کے ساتھ کلمۂ باری کی ایک تصدیق بھی ملتی جاتی ہے، کیونکہ گوہرِ عقل کی یہ تعلیمات رموزو اشارات پر مبنی ہیں، اور کلمۂ باری ہی ان سب کی گواہی دیتا ہےاور تصدیق کرتا ہے) اور جو کچھ علم کے تحت نہ آتا ہو، تو اسے ہست (موجود) نہیں کہنا چاہئے، پس خدا کے سوا سب کچھ علم کے گھیرے میں پایاجا سکتا ہے، اور جب یہ جائز نہیں کہ خداتعالیٰ علم کے تحت ہو، کیوں کہ علم وہ ہے کہ ساری چیزیں اور ہستیاں اس کے تحت پائی جاتی ہیں، نیز”نیست” بھی اسی کے تحت ہے، تو جائز نہیں جو میں یہ کہوں کہ خدا ہے، یا یہ کہوں کہ خدا ہے نہیں، کیونکہ یہ دونوں حالات (ہست ونیست) علم کے تحت ہیں، لیکن خدا علم کے تحت نہیں۔
پس میں (خدا کی حقیقت کے بار ے میں) یہ بتاؤں گا کہ امر کا محضر ہی خدا ہے، اور جس شخص کو (دوسروں کے مقابلے میں) علم کا زیادہ حصہ ملا ہے، تو وہی شخص خدا کے امر کے زیادہ نزدیک ہے، اور اسی شخص نے خدا کے امر کو زیادہ قبول کر لیا ہے، اور وہی شخص (دوسروں سے) زیادہ فرمانبردار ہےاور جو شخص زیادہ دانا ہو، وہی شخص خدا کا
۶۱
زیادہ فرمانبردار ہو جاتا ہے، اور جو شخص مکمل طور پر دانا ہو جائے، تو وہی شخص دائمی نعمت کو حاصل کر سکتا ہے، چونکہ دانا کے کاموں کا انجام خدا کی رحمت ہے، انسان اس کائنات کی دوسری تمام مخلوقات کی تکمیل کے بعد پیدا ہوا ہے، اور اس کی جائے واپس امرِ کلّ ہے، جو دونوں جہان کی علّت (سببِ پیدائش) ہے، اور قانون یہ ہے کہ تمام چیزیں اپنی اصل ہی کی طرف رجوع کرتی ہیں۔
بھائیو! تم حصولِ علم کے سلسلے میں کوشش کرتے رہو، تاکہ جس سے تم خدائے برتر و بزرگ کے زیادہ نزدیک ہو جاؤگے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو علم ہی ہے۔
چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۱۳
۶۲
آغازِ کتاب (وجہ دین)
مترجم: علّامہ نصیرالدّین نصیرؔہونزائی
ہم حقیقت کے عظیم اور لاانتہا سِرّ (راز) کے طلبگاروں کو یہ بتا دیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خوف اور امید کے لئے پیدا کیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس کو بہشت سے امیدوار کردیا ہے اور دوزخ سے ڈرایا ہے، پس میرا قول یہ ہے، کہ انسان کے نفس میں، جو خوف پایا جاتا ہے، وہ دوزخ (کی ہستی) کا نشان ہے، اور اس میں جو امید پائی جاتی ہے، وہ بہشت (کے موجود ہونے) کا اثر ہے۔
یہ دونوں چیزیں جو انسانی فطرت میں پوشیدہ ہیں، ایک کلّی خوف اور ایک کلّی امید کی نشاندہی کرتی ہیں، وہ دوزخ اور بہشت ہیں، جب رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا، تو انہوں نے بموجبِ فرمانِ الٰہی یہی دونوں
۶۳
چیزیں جو لوگوں کی فطرت میں پوشیدہ تھیں، ان کے سامنے لا رکھیں، یعنی ایک چیز تو امید تھی، جو دونوں جہان کی دولت، رحمت، آسائش اور بقا کے سرمائے کی حیثیت سے تھی، اور دوسری چیز تلوار تھی، جو دونوں جہان کے خوف، جنگ اور فنا کے سرمائے کی حیثیت سے تھی، ایک اور چیز شریعت تھی، جس کو قبول کرنے کا نتیجہ ان سے ہاتھ روکنا تھا اور ان کو جینے دینا تھا، جو صرف اس جہان کے امن و بقاء کی علامت تھی، پس جو شخص آنحضرت علیہ السّلام کی تلوار سے مارا گیا، تو وہ دونوں جہان میں فنا ہوا، اور جس شخص نے آنحضرتؐ کے فرمان کو امید پر قبول کر لیا، تو اس نے دونوں جہان میں بقاء پائی، اور جس نے تلوار کے خوف سے دین قبول کر لیا، تو اس کو اس جہان میں بقاء ملی مگر وہ دوسرے جہان کی بقاء کو نہیں پہنچ سکا، کیونکہ جب عارضی بقاء تلوار کے خوف سے قبول کر لی جائے، درحالیکہ تلوار سرمایۂ قتل ہے، تو وہ ایک ایسی بقاء ہو گی، جس کی علّت (سببِ پیدائش) فنا کی حیثیت سے ہے، اور اصول یہ ہے کہ ہر چیز اپنی علّت ہی کی طرف رجوع کرجاتی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ جس شخص نے اسلام تلوار کے ڈر سے قبول کر لیا (اور مرتے دم تک اسی حالت پر رہا) تو وہ امید سے بے بہرہ ہوا اور اس کو ابدی بقاء نہ ملی، اور جس شخص نے دین دائمی بقاء کی امید پر قبول کر لیا، تو اس کی عارضی بقاء کی علّت دائمی بقا ہی تھی
۶۴
(یعنی وہ ابدی زندگی کی امید پر جی رہا تھا) تو اس کو دائمی بقا ہی حاصل ہو جاتی ہے، کیونکہ اس کی دنیوی زندگی کی علّت تو یہی دائمی بقا تھی، اور جو شخص کام محض کارفرما ہی کے ڈر سے کرتا ہے، تو اس کے کام میں کوئی دانش نہیں اور ایسا کام ان لوگوں کے کام سے ملتا جلتا ہے جو حقیقت سمجھے بغیر کسی خوف کے مارے کر ہی ڈالتے ہیں، اور جو شخص اس امید پر کام کرتا ہو کہ اس کو نیکی ملنے والی ہے، تو اس کا کام بحقیقت دانشمندوں کا کام ہے، اور جب اکثر لوگ نادان ہی ہیں، تو (لازماً) نادان لوگ بگاڑ ہی کی طرف مائل ہوا کرتے ہیں، اور بگاڑ کا بدلہ خوف کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اکثر لوگوں نے دین تلوار کے خوف سے قبول کر لیا ہے، تو لازماً وہ لوگ ایسے ہیں، جو یہ نہیں جانتے کہ دینِ اسلام کیا ہے، بلکہ انہوں نے ڈر کر اس کو قبول کر لیا ہے، اور سمجھے بغیر وہ اس کو اپنا رہے ہیں، یہ لوگ نہ کچھ جانتے ہیں، اور نہ داناؤں سے پوچھتے ہیں، تاکہ خوف سے، جو دوزخ کا نشان ہے، نجات پاتے، اور امید، جو بہشت کا نشان ہے، حاصل کر سکتے، اور دائمی نعمت کو پہنچ سکتے۔
جاننا چاہئے کہ اس دنیا میں دوزخ (جزوی طور پر) تلوار کے خوف کی صورت میں موجود ہے، اور دانش کے بغیر کام کرنا، اسی دوزخ کا عذاب ہے، اور بہشت (جزوی طور پر) اس دنیا میں امید
۶۵
کی حیثیت سے موجود ہے، اور علم و دانش سے کام کرنا، اسی بہشت کا ثوات وصلہ ہے، چنانچہ تمام اہلِ اسلام اس بات پر متفق ہیں، کہ جب کسی گنہگار کو دنیا ہی میں سزا دی جائے تو وہ شخص بہشت میں داخل ہو کر دائمی نعمت حاصل کر سکتا ہے، یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ اکثر لوگوں نے حقیقت کو دیکھے اور سمجھے بغیر محض تلوار ہی کے ڈر سے دین قبول کر لیا ہے، تو یہ دین (بحقیقت وہ دین ہو نہیں سکتا، جو رسولؐ رکھتے تھے، بلکہ یہ ان کا) خود ساختہ دین (بدعت) ہی ہے، مگر جب وہ دانش سیکھ لیں اور علم سے کام کریں تو وہ دوزخ سے چُھٹ کر بہشت میں پہنچ سکتے ہیں، جزوی طور پر اسی دنیا میں بھی اور کلّی طور پر اس جہان میں بھی۔
جب دانشمند سوچے تو اسے یہ حقیقت معلوم ہو ہی جائے گی، کہ اس عالم میں کوئی کام کرنے والا جب کام کو سمجھے بغیر کرتا ہے تو وہ کام اس کا جرم قرار دیا جاتا ہے، اور (اس جرم کی سزا یہ ہوتی ہے کہ) اس کو کوئی صلہ نہیں دیا کرتے ہیں، اور جو شخص دانش سے کام کرے، تو اس قسم کے جرم سے رہائی پاتا ہے، اور اپنے کام کا صلہ حاصل کر لیتا ہے، پس ہر دانشمند پر یہ واجب ہے، کہ وہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شریعت کے معنی سمجھ لے اور اس کے بعد شریعت پر علم سے عمل کرتا رہے، تاکہ وہ اپنے کام کے اس صلے کے قابل ہو سکے، جو بہشت کی حیثیت سے ہے، اور وہ اس جرم
۶۶
کے خوف سے آزاد ہو جائے جو دوزخ کی حیثیت سے ہے۔
جب اسلام میں یہی تھا، جو کچھ میں نے ذکر کر دیا، تو میں نے اس کتاب کی تالیف کرنا اپنے ذمہ ایک اہم فرض سمجھا، جو شہادت، طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد، ولادت، امر، نہی وغیرہ جیسی شرعی بنیادوں کی تشریح پر مشتمل ہے، اور ہم نے اس کتاب کا نام “وجہ دین” یعنی دین کا چہرہ رکھ لیا، اس لئے کہ انسان تمام چیزوں کو ان کے چہروں ہی سے پہچان سکتا ہے، چنانچہ جو دانشمند اس کتاب کو پڑھے، تو وہ دین کو (صحیح معنوں میں) پہچان سکے گا، اور پہچانے ہوئے (دین) پر عمل کرے گا، اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے اپنے کام کے معاوضے کے قابل ہو سکے گا۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۱۴
۶۷
میلادُ الامام الحاضر
(از علّامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)
کسی پیغمبر یا امام برحق کی جسمانی ولادت میں عموماً اہلِ زمانہ کے لئے اور خصوصاً مومنین کے لئے جو کچھ سعادت مندی پوشیدہ ہوتی ہے، اس کے متعلق اعتقاد کی بنیاد صر ف روایت اور قیاس ہی پر نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی استوار اور روشن حقیقت ہے، کہ اس کی دلائل سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکے گا، چنانچہ قرآنِ پاک کی روشنی میں اس حقیقت کی توضیح کی جاتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی ظاہری ولادت کی سعادتمندی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت کی مثال میں بیان فرمائی ہے، کیونکہ حکمتِ الٰھیہ کا تقاضا یہ تھا، کہ انبیاء اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی جسمانی ولادت اور ان کی بشریت کی سعادتوں اور برکتوں کا ذکر ایک ایسے پیغمبر کی پیدائش کی مثال میں کر دیا جائے، جس کی ولادت اور بشریت کے متعلق بے معرفت لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شک اور اعتراض ممکن تھا، وہ پیغمبر حضرت عیسیٰ
۶۸
علیہ السّلام تھے، کیونکہ ان کی پیدائش اور بشریت اس مطلب کے لئے ایک بہترین مثال ہو سکتی تھی، اس لئے کہ مختلف زمانے کے منکرین نے دوسرے انبیاء واولیاء کی جسمانیّت پر جو کچھ اعتراض اٹھایا، وہ تو اکثر یہی ہوا کرتا تھا، کہ انہوں نے انبیاء و اولیاء کو اپنی طرح کے انسان قرار دے دیا، جس کی ترجمانی قرآن پاک اس طرح کر رہا ہے:۔
قَالُوْا مَاۤ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاۙ (۳۶: ۱۵) ان لوگوں نے کہا کہ تم تو کچھ بھی نہیں مگرہماری طرح (محض) معمولی آدمی ہو۔” اور حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش و بشریّت پر منکرین نے جو کچھ اعتراض اٹھایا، اس کے متعلق قرآنِ حکیم کا ارشاد یہ ہے: “قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْــٴًـا فَرِیًّا” (۱۹: ۲۷) لوگوں نے کہا کہ اے مریم! تم نے بڑے غضب کا کام کیا یعنی انہوں نے کہا کہ ہماری طرح کا انسان تو درکنار یہ مولود دوسرے سے حلال زادہ ہی نہیں، پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش اور بشریت انبیاء و اولیاء کی مجموعی زندگی کا وہ پہلو ہے، کہ جس کے متعلق اگر ایک طرف سے منکرین کے سخت سے سخت اعتراض کا ذکر موجود ہے، تو دوسری طرف سے اس اعتراض کی تردید اور انبیاء و اولیاء کی پیدائش و بشریّت کے فیوض و برکات کا بھی انتہائی جامع الفاظ میں ذکر کر دیا گیا ہے، اور اس سلسلے میں قرآن پاک کا ایک ارشاد ہے۔ ” وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪ (۱۹: ۳۱) اور خدا نے مجھے برکت والا بنایا میں جہاں کہیں بھی ہوں۔” اس مطلب
۶۹
کی تشریح یہ ہے، کہ حضرت عیسیٰؑ مذکورہ اعتراض کی تردید میں اپنی پیدائش اور جسمانیّت کے فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے برکت والا بنایا، پس میں جہاں جاؤں، جن لوگوں کے درمیان رہوں اور جن اشخاص کی طرف توجّہ کروں تو وہاں پر اور ان لوگوں کو برکت مل سکتی ہے، پھر ظاہر ہے کہ پیغمبر اور امامِ برحقؑ کے ظاہری وجود ہی امت و جماعت کے لئے باعثِ فیض و برکت ہے، اس لئے کہ “این ماکنت” کا اشارہ سب سے پہلے مکان اور جسمانی وجود کی طرف ہے، چنانچہ مذکورہ آیت سے یہ ظاہر ہے، کہ حضرت عیسیٰؑ جہاں رہتے تھے، ان کے ساتھ برکت تھی، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ برکت حضرت عیسیٰؑ سے جدا نہ تھی، اور صرف انہی کی خوشنودی سے کسی کو مل سکتی تھی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے، کہ برکت کی کیفیّت وحقیقت کیا ہے؟
جس کا جواب یہ ہے، کہ برکت ایمان، جان، اولاد اور مال کی لازوالی اور زیادتی کا نام ہے، پس انسان کو جن چیزوں میں برکت کی ضرورت ہے، وہ بس یہی چیزیں ہیں، اور انسان کی ان چیزوں میں ہر ممکن برکت ہونے کا جو ذریعہ ہے، وہ پیغمبر اور امامِ برحقؑ کی ظاہری ہدایت ہے، یہی وجہ تھی، جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنے اس قول میں یہ منطق پوشیدہ رکھی، کہ اپنے زمانے کی ساری برکات مجھ میں ہیں، یعنی فیوض و برکات شروع شروع میں ہدایت کی صورت میں ہوتی ہیں، تو معلوم ہوا کہ
۷۰
پیغمبر اور امامِ برحقؑ کا ظاہری وجود ہی سرچشمۂ ہدایت اور ذریعۂ برکت ہے۔
مزید برآن برکت کی ایک خاص حقیقت یہ بھی ہے، وہ ہے:
ایمان، جان، اولاد اور مال کے زیادہ سے زیادہ دینی اور روحانی فوائد حاصل ہونا، جو لازوال اور ابدی برکت ہے، اور یہ برکت دنیاوی برکتوں سے برتر ہے، پس انبیاء اور أئمّۂ برحق اپنی ہدایت کے ذریعہ مومنین کو یہی برکت دیا کرتے ہیں، اور اسی برکت کو حاصل کرنے کے لئے انہیں تاکید فرماتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کے بارے میں ایک اور قرآنی جامع حقیقت یہ ہے، کہ انسانِ کامل (یعنی نبی اور ولی) پر تین موقعوں میں ملائکہ اور روحانین کا زیادہ سے زیادہ نزول ہوا کرتا ہے، وہ مواقع اس کے یومِ پیدائش، یومِ وفات اور یومِ بعث ہیں، چنانچہ قولِ قرآن ہے: “وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا (۱۹: ۳۳) اور تائید (یعنی نزولِ ملائکہ کا موقع) ہے، میرے لئے جس دن میں پیدا ہوااور جس روز رحلت کروں گا، اور جس روز زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔” سلام کے خاص معنی تائید یعنی نزولِ ملائکہ وارواح کے ہوتے ہیں، جس طرح خداتعالیٰ کے اس فرمان سے ظاہر ہے: ” تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (۹۷: ۰۴ تا ۰۵) وہ
۷۱
رات (یعنی شبِ قدر) ایسی ہے، کہ اس میں ملائکہ اور ارواح اپنے پروردگار کے اذن پر پورے عالمِ امر سے نازل ہوتے ہیں (اس لئے) وہ رات طلوعِ فجر تک موقعِ تائید ہے، پس ثبوت ہوا کہ نزولِ ملائکہ و اروح کا نتیجہ ہی سلام یعنی تائید ہے۔
پس امامِ زمانؑ کے یومِ پیدائش کی سعادت و برکت مذکورہ آیات کی روشنی میں معلوم کی جا سکتی ہیں، کیونکہ پیغمبر اور امامِ برحقؑ کا نور فی الاصل ایک ہی زندہ روح کی حیثیت سے ہے۔ والسلام
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۱۵
۷۲
پیش کش: محمود الحسن کوکب تبریزی اہالیانِ پشاور کی طرف سے
پشاور ۲۳ نومبر ۱۹۶۴ء
خوش آمدید
(ترجمہ:۔ علّامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)
امامِ عصر و زمان شہزادہ کریم آغاخان اسماعیلی پاک سلسلے کے پیشوائے اعظم دام برکاتہ، کی مبارک تشریف آوری کے موقع پر:۔
۱۔ اے زمانۂ حاضر کی امامت کا وارث! خوش آمدی ! اے ایمان کے راستے کے رہنما! خوش آمدی!
۲۔ اے خداشناسی کے دریا کے یکتا موتی! اے دلیل وبرہان کے بُرج کے چاند! خوش آمدی!
۳۔ اے وجود کے خزانے کے بھیدوں کا جاننے والا! اے اسرارِ کائنات کے دانا!خوش آمدی!
۴۔ اے بنی فاطمہؑ کی شریف ترین یادگار! اے اپنے آباؤاجداد کی محفل کے چراغ! خوش آمدی!
۷۳
۵۔ اےامامِ دین جعفر صادقؑ کے بیٹے کی لائق وفائق اولاد! اے شہرستانِ معرفت کا بادشاہ! خوش آمدی!
۶۔ اے کہ تیری تشریف آوری کی ضیا پاشیوں سے ہمارا روحانی خلوتخانہ منور ہور ہا ہے! ہماری اس بزم میں تو شمعِ روشن کی طرح آیا ہے، خوش آمدی!
۷۔ اے رسولِ امین کا قائم مقام! اے زمانے کا پیشوا! اے محفلِ ایمان کا مسندِ نشین! خوش آمدی!
۸۔ دین و مذہب کا بادشاہ، زمانے کا امام اور عصرِ حاضر کا رہنما! اے سرزمینِ پاکان کی قومیت کے آنکھوں کے نور! خوش آمدی!
۹۔ وطن کا ہر ذرّہ پُرنور اور پُرضیاء ہوا ہےجبکہ تو سورج کی طرح ضوفشانی کرتا ہوا اور جھلکتا ہوا (آیا) خوش آمدی!
۱۰۔ تیری تشریف آوری کی بدولت پشاور جلوہ گاہ طور بن گیا، اے خدا کی تجلّیوں کا مظہر!خوش آمدی!
۱۱۔ کوکب بصد آداب و نیاز تیری خدمت میں پہنچا ہے (اے) شہزادہ کریم آغاخان!خوش آمدی!
چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۱۵
۷۴
“قالو انا للہ وانا الیہ راجعون” کی تاویل کے بارے میں
ازکتاب وجہ دین (مصنف حکیم ناصر خسرو) کالم۔ ۴۹
(ترجمہ علّامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ لوگوں کو جسمانی حالت میں مصیبت اور مشکلات آتے وقت اس قول کا کہنا واجب ہےجیسا کہ خداوندِ تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ (۰۲: ۱۵۶) وہ لوگ جن پر جب کوئی مصیبت آپڑتی ہے، تو کہتے ہیں، کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور اسی کی طرف واپس ہو جانے والے ہیں، عرب والے مشکل کاموں کو رات کی تاریکی سے تشبیہہ دیتے ہیں، اس لئے کہ اس کام سے بڑھ کر اور کوئی مشکل نہیں، جس کے گھیرے سے نکل جانے کا راستہ ہی لوگوں کو نظر نہ آئے، یہی تو تاریکی ہے، تاریکی دوطرح کی ہے، جسمانی تاریکی اور روحانی تاریکی، جسمانی تاریکی کی وجہ رات ہے، جسے سورج ہی روشن کر سکتا ہے، کیونکہ جسمانی تاریکی تو اسی سے روشن ہو سکتی ہے، اور وہ (سورج) جسمانی رکاوٹوں کو ختم کر ڈالتا ہے، لیکن روحانی تاریکی نادانی
۷۵
اور معقولات کے مشکل مسئلے ہیں، اس قسم کی تاریکی کے لئے روشنی خدا ہے، جو اساس (یعنی علیؑ) کی وساطت سے آتی ہے، اس کے بعد روحانی ظلمت میں چشمِ باطن (بصیرت) کا سورج امام الزمانؑ ہیں، جن کے سہارے ایسے سخت عقدے کھل جاتے ہیں، جب کوئی جسمانی ظلمت (مصیبت) اور سختی کسی کے سامنے آئے، تو اسے واجب ہے کہ مشیت ایزدی کے لئے راضی ہو جائے، اور جو کچھ اس کے لئے حکم ہوا ہو، اسے قبول کرے، اور کہے: “انا للہ وانا الیہ راجعون۔” یعنی ہم خدا کے ہیں، اور ہم نے قبول کر لیا، جو کچھ اس نے حکم کیا ہو، اگر ان مشکلات سے ہمیں کوئی ایسی جسمانی تکلیف پہنچے، جس کی وجہ سے ہم جسمانی طور پر مر جائیں، تو اس صورت میں ہم اس کی طرف واپس ہونے والے ہیں، اور تاویل میں مومن کو واجب ہے، کہ جب معقولات کا کوئی ایسا مسئلہ اس کے سامنے آجائے، جس کو وہ حل نہیں کر سکتا ہو، تو پھر اسی قول کو دہرائے، اس طریقہ پر (یعنی اس معنی میں) کہ “ہماری جانیں صاحب العصر کی ہیں، کیونکہ ہمیں روحانی زندگی اسی سے ملی ہے، اور مشکلات میں ہم اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔” نیز وہ مومن یہ سمجھے کہ “ہم اس مشکل مسئلے کو حل نہیں کر سکتے ہیں، اس کا علم امام زمانؑ کے پاس ہے۔” تاکہ اس کو روحانی فیض کا دروازہ کھلے، اور ان مشکلات کو سمجھ سکے، اور وہ غیب اس پر کھلے گا، اور اگر نہ کھل جائے تویہ اپنی ہی کمزوری سمجھے، اور اقرار کرے، کہ جو شخص ایسی مشکلات
۷۶
کا چارہ جانتا ہو، اسے یہ زیب دیتا ہے، کہ روحانی مشکلات میں لوگ اس کی طرف رجوع کریں، اوریہ صرف مومن ہی کے لئے ایک شفا بخش بیان ہے۔ والسّلام۔
مذکورہ بالا آیت کی تاویل کی تحقیق
تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے اور حکمت کاسمجھ لینا عوام کے لئے کوئی آسان بات نہیں، چنانچہ داعی حکیم ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ نے مذکورہ بالا آیت کی جو تاویل بیان فرمائی ہے، ہم ذیل میں اس کے اصولات کو ظاہر کر کے دکھاتے ہیں:۔
قول تعالیٰ: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ,الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ,أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) ، “ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے، اور (اے رسول) ایسے صبر کرنے والوں کو، کہ جب ان پر (ان مصیبتوں میں سے) کوئی مصیبت آپڑی، تو وہ (بے ساختہ) بول اٹھے، کہ ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، خوشخبری دے دو، کہ
۷۷
انھیں لوگوں پر ان کے پروردگارکی طرف سے صلوات اور رحمت ہیں، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔”
مذکورہ ارشادِ الٰہی کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں سے ضرور امتحان لینے والا ہے، فرمایا گیا ہے کہ اس امتحان و آزمائش کی پانچ قسمیں ہیں، جن میں سے ہر ایک قسم کے روحانی و جسمانی دو دو پہلو ہیں، چنانچہ پہلا امتحان خوف کا ہے جس میں جسمانی اور روحانی قسم کے تمام خوف و ہراس شامل ہیں، دوسرا امتحان بھوک کا ہے، جس میں روحانی اور جسمانی غذاؤں کی کمی کا ذکر ہے، تیسرا امتحان مالوں کی کمی کے متعلق ہے جس میں روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے مالوں کا ذکر ہے، چوتھا امتحان نفوس کی کمی کے بارے میں ہے، جس میں نفوسِ قدسیہ اور نفوسِ بشریہ دونوں قسموں کا بیان ہے، اور پانچواں امتحان پھلوں کی کمی کے باب میں ہے، جس میں روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے پھلوں کا تذکرہ ہے۔
اب ان پانچ قسم کے امتحاناتِ الٰھیہ کے روحانی پہلوؤں کے بارے میں سنئے، کہ جس طرح مومن اپنے جسم کو تکلیف پہنچ جانے، اس کے ذلیل وخوار ہو جانے اور ہلاک ہوجانے کا خوف رکھتا ہے، اسی طرح وہ اپنی روح کو ایزا پہنچنے، اس کے خوار و رسوا ہوجانے اور فنا ہو جانے سے بھی ڈرتا ہے، پس ثابت ہوا کہ خوف روحانی اور جسمانی دو قسم کا ہے، اس کے بعد بھوک کا ذکر ہے، چنانچہ جسمانی بھوک جسم کے لئے غذا کی ضرورت محسوس
۷۸
ہونے کا نام ہے، اور روحانی بھوک روح کے لئے غذا کی ضرورت محسوس ہونے کا نام ہے، اور روحانی غذا عبادت و معرفت ہے، اس کے بعد مال کا ذکر ہے، ظاہری مال کی کمی یہ ہے کہ اس میں جسمانی ضروریات فراہم نہیں ہوتیں اور باطنی مال کی کمی یہ ہے کہ اس میں روحانی ضروریات پوری نہیں ہوتیں اورروحانی ضروریات علمِ حقیقت سے پوری ہو جاتی ہیں، اس کے بعد پھلوں کا ذکر ہے، ظاہری پھل یہی ہیں، جو درختوں سے حاصل ہوتے ہیں، اور باطنی پھل وہ ہیں، جو علم و دانش کے درختوں سے حاصل ہوتے ہیں، علم و دانش کے درخت امامِ زمانؑ اور اس کے حدود ہیں، جو کلماتِ تامّہ اور اسماءُ الحسنیٰ کی صورت میں مومنین کے قلب و روح میں موجود ہیں، اور ان روحانی درختوں کے پھل تاویل اور حکمت کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔
پس جس مومن کو ان پانچ قسم کی جسمانی مصیبتوں ہی کی طرح ان پانچ قسم کی روحانی مصیبتوں کا بھی احساس ہوجائے، یعنی جب وہ روحانی قسم کا خوف محسوس کرنے لگے، جب روحانی بھوک یعنی عبادت و معرفت کی کمی محسوس کرے، جب اپنے آپ میں روحانی مال یعنی علمِ حقیقت کی کمی محسوس کرے، جب نفوسِ قدسیہ تک رسانہ ہو سکنے سے سخت پشیمان ہوجائے اور جب تاویل و حکمت سے قاصر رہ جانے کا احساس کرے، تو اسے گھبرانا نہیں چاہئے، بلکہ عزم و ارادہ اور صبر سے کام لیتے ہوئے یہ قول کہنا چاہئے:۔
انا للہ وانا الیہ راجعون= ہم خدا ہی کے ہیں اور
۷۹
ہم اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔” اس قول کی ایک حکمت یہ ہے کہ مومنین خدا کے ہیں اور خدا مومنین کا ہے، چنانچہ ارشادِ نبوّی ہے:۔ من کان للہ کان اللہ لہ= جو شخص خصوصیت کے ساتھ خدا کا ہو جائے، تو خدا بھی خصوصیت کے اس اسی کا ہو جاتا ہے۔
پس ایسا مومن نہ صرف جسمانی موت کے بعد خداکی طرف رجوع کرتا ہے، بلکہ وہ اس زندگی میں بھی خدا کی طرف رجوع کرسکتا ہے، وہ اس طرح کہ جب مومن پر کوئی جسمانی یا روحانی مصیبت آپڑتی ہے، تو اس کی نفسانی خواہشات اور حیوانی صفات کچھ وقت کے لئے یکسر خاموش ہو بیٹھتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مومن اس وقت اس قابل ہو جاتا ہے، کہ امام زمان علیہ السّلام اور ان کے حدود کے ذریعہ خدائے تعالیٰ سے صلوٰۃ، رحمت اور ہدایت حاصل کر سکے، پس حقیقی مومن کو چاہئے، کہ روحانی یا جسمانی مصیبت کے پیش آتے وقت یہ قول کہا کرے، اور اس کے معنی و تاویل کو اسی طرح ہی سمجھے اور اس پر عمل کرے۔
جب حقیقی مومن یہ قول کہتا ہے، اور اس کے حقائق کو سمجھ لیتا ہے اور ان پر عمل کرتا ہے، تو وہ ان صبر کرنے والوں میں سے ہو جاتا ہے، جن کو حضرت رسول علیہ السّلام عملی طور پر خوشخبری سناتے ہیں، کہ انھیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوٰت اور رحمت ہیں، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
تفسیر عمدۃ البیان میں حضرت امام جعفر الصادق سے روایت
۸۰
ہے کہ فرمایا رسولِ خدا صلعم نے، کہ جو کوئی چار چیزوں پر عمل کرے، وہ شخص البتہ بہشتیوں میں سے ہو، اوّل کہنا لا الہ الا اللہ، اور دوسری یہ کہ اگر کوئی نعمت حاصل ہو، تو کہے کہ الحمد للہ، اور تیسری یہ کہ اگر کوئی گناہ کرے، تو کہے کہ استغفر اللہ، اور چوتھی یہ کہ جس وقت کوئی مصیبت پہنچے، تو کہے، کہ انا للہ وانا الیہ راجعون، اس جیسی روایات تفسیر صافی اور کتاب دعائم الاسلام جلد اوّل، ص۲۲۳۔ ۲۲۴ میں بھی پائی جاتی ہیں۔
۸۱
کلامِ حکیم ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہ العظیم
ازکتاب روشنائی نامہ
انسان کے شر ف کے بارے میں
مترجم:۔ علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی
۱۔ تو خود را می ندانی کیستی تو
بگوتا در جہان بر چیستی تو
ترجمہ:۔ تو اپنے آپ کو نہیں جانتا ہے کہ تو کون ہے (اگر تو اپنے آپ کو جانتا ہے تو) بتا دے کہ دنیا میں تیرا قیام کس چیز پر ہے؟
مطلب:۔ تو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا کہ تو کون ہے، تیری ابتدائی حقیقت کیا تھی اور آخری حقیقت کیا ہو گی، اگر تو اپنے آپ کو پہچانتا ہے، تو ہمیں بتا دے کہ اس دنیا میں تو کس بنیادی طاقت پر کھڑا ہے؟
۲۔ توئی تو بگوتا خود کدام است
تنی باجان ترا آخرچہ نام است
۸۲
ترجمہ:۔ اپنی انتہائی خودی بتا دے کہ کون سی ہے؟ تو جسم ہے یا جان، تیرا آخری نام کیا ہے؟
مطلب:۔ انسان گفتگو میں جب اپنے کسی عضو یا اپنی کسی چیز کی طرف معنوی اشارہ کرتا ہے، تو کہتا ہے کہ: “میرا” یا کہتا ہے کہ: “میری” جس میں دو چیزوں کی درمیانی نسبت کے معنی ہیں، اور جب وہ اپنی خودی اور انائیت کی طرف اشارہ کرتا ہے، تو”میں” کا لفظ استعمال کرتا ہے، جس میں انسان کی اس آخری حقیقتِ واحدہ کا ذکر ہے جو بہت سی چیزوں کو اپنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور پھر ان سب کو چھوڑ کر مجرّد اور بے تعلق ہو سکتی ہے، چنانچہ تو اپنی آخری خودی کے بارے میں بتا دے کہ کونسی ہے، کیا تو یہی ظاہری جسم ہے یا جان؟ معرفتِ ذات کے آخری مقام پر تیری خودی کا کیا نام ہے؟
۳۔ تو این ریش و سرو سبلت کی بینی
تو پنداری توئی نے نے نہ اینی
ترجمہ:۔ جب تو اپنی اس داڑھی، مونچھ اور سر کو دیکھتا ہے، تو گمان کرتا ہے، کہ بس تو یہی جسم ہی ہے (اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں) نہیں نہیں تو یہ نہیں ہے۔
مطلب:۔ جب تو اپنے جسم اور اس کے اعضاء کو دیکھتا ہے، تو تیرا یہ گمان ہوتا ہے، کہ بس تو سب کچھ یہی جسم ہے، اور جسم ہی کو اپنی خودی و انائیت قرار دیتا ہے، میں کہتا ہوں کہ یوں نہیں، تو اپنی ابتدائی اصلیت
۸۳
اور آخری خودی میں جسم نہیں ہے، بلکہ تو کچھ اور حقیقت ہے۔
۴۔ طلسم و بندو زندانِ تواست این
بروچشمِ خرد بگشائی خودبین
ترجمہ:۔ یہ (جسم اور اس کے حواس) تیرے لئے جادو، بندھن اور قید خانے کی حیثیت سے ہیں، پس جا اور دیدۂ دانش کھول کر اپنے آپ کو دیکھ لے۔
مطلب:۔ جسمانی لذّتیں طلسم، بندھن اور قید خانے کی مثال ہیں، کہ انسان ان سے نکل کراپنی ذات کی معرفت تک نہیں پہنچ سکتا، لہٰذا جب تک علم و دانش کی آنکھ حاصل نہ کی جائے، تو نہ ان رکاوٹوں سے نکل جانے کا کوئی راستہ دیکھاجا سکتا ہے، اور نہ انسان کی آخری حقیقت معلوم ہو سکتی ہے۔
۵۔ تو صورت نیستی معنی طلب کُن
نظر در جسم و جانِ بوالعجب کُن
ترجمہ:۔ تو ظاہریت نہیں ہے (بلکہ معنویت ہے پس) تو معنویت طلب کر (اور اپنے اس) عجیب جسم اور جان کا دیکھا کر۔
مطلب:۔ انسان کی ظاہریت بادام کی بیرونی چھلکوں کی طرح ہے، اس کی معنویت یعنی جسمِ لطیف اور روحِ ناطقہ مغزِ بادام اور اس کے تیل کی طرح ہیں، پس تو اپنے جسمِ خاکی پر نظر نہ کر، بلکہ اپنے اس عجیب و غریب اور معجزانہ جسمِ لطیف اور روحِ ناطقہ کا مشاہدہ کر۔
۸۴
۶۔ زہی نادان کہ خود را جسم دانی
رہا کن این سخن زیرا کہ جانی
ترجمہ:۔ تو عجیب نادان ہے کہ اپنے آپ کو جسم سمجھتا ہے، اس بات کو چھوڑ دے، کیونکہ تو جان ہے۔
مطلب:۔ اگر انسان اپنی ساری کوششیں صرف جسم ہی کے لئے کر رہا ہو، تو گویا وہ اپنے آپ کو صرف جسم ہی سمجھتا ہے، حالانکہ اسے یوں نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ وہ تو دراصل جان یعنی روح کی حیثیت سے ہے۔
۷۔ کدامین جان نہ این جانِ طبیعی
نکو بنگر کہ چیزی بس بدیعی
ترجمہ:۔ کون سی جان، یہ جان ہیں جو طبعی ہے، اچھی طرح سے دیکھ لے کہ تو ایک بہت عجیب چیز ہے۔
مطلب:۔ میں نے جو کہا کہ تو جسم نہیں، بلکہ جان ہے، تو اس سے میری مراد وہ جان ہرگز نہیں، جو طبعی قسم کی ہے، یعنی وہ نفس نہیں، جو خشکی، تری، سردی اور گرمی کے اعتدال پر زندہ رہ سکتا ہے، پس اچھی طرح سے اپنی حقیقت کا مشاہدہ کر، کیونکہ تو ایک انتہائی معجزانہ چیز ہے۔
۸۔ توئی جانِ سخن گوئی حقیقی
کہ با روح القدّس دارد رفیقی
ترجمہ:۔ تو بحقیقت وہ بولنے والی جان ہے، جو روح القدّس
۸۵
کے ساتھ رہا کرتی ہے۔
مطلب:۔ تو وہ روح ہے، جو بحقیقت بولنے والی ہے، جس کو کہ روح ناطقہ کہا جاتا ہے، جو روح القدّس کی ہم نشین ہے، کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے، کہ کلام کرنا اس روح کی خاصیت ہے تو اس کی رفاقت اور ہمکلامی کے لئے ایک اور روح کا ہونا لازم آتا ہے، پس درست ہے کہ روحِ ناطقہ روح القدّس کی ہم نشین اور ہم کلام ہے۔
۹۔ زجا وازجہت ہستی منزہ
ببین تاکیستی انصافِ خددہ
ترجمہ:۔ مکان اور طرف سے تو پاک ہے، پس دیکھ لے اور خود ہی انصاف سے بتادے کہ تو کون ہے۔
مطلب:۔ جب یہ مانا گیا، کہ انسان بحقیقت جسم نہیں، بلکہ روح کی حیثیت سے ہے، تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان ایک لامکانی اور لاجہتی حقیقت ہے، کیونکہ روح مکان و زمان سے بالاتر ہے، پس معرفت کی آنکھ سے اپنے آپ کو دیکھ لے اور خود ہی انصاف سے بتا دے، کہ تو کون ہے اور تیری ہستی کی آخری حقیقت کیا ہے۔
۱۰۔ نگرتا در گمان اینجانیفتی
قدم بفشارتااز پانیفتی
ترجمہ:۔ (چشمِ باطن سے) دیکھ لیا کر، تاکہ تو اس مقام
۸۶
پرہی گمان میں گر نہ جائے، قدم جما کر چل، تاکہ تو گر نہ پڑے۔
مطلب:۔ معرفتِ ذات کی ابتدائی منزل علم الیقین ہے، درمیانی منزل عین الیقین ہے اور آخری منزل حق الیقین ہے، اور علم الیقین کی منزل سے پہلے جو راستہ آتا ہے، وہ گمان ہی گمان ہے، یعنی وہ ایک تاریک راستہ ہے، اور اگر اس تاریکی میں خدا کے نور نے ہدایت نہ فرمائی، تو انسان گرجانے کا خطرہ در پیش رکھتا ہے، پس انسان کو چاہیے، کہ دیدۂ دانش سے کام لے کر ذریعۂ ہدایت کو پہچان لیا کرے، اور قدم جما کر منازلِ یقین کی طرف آگے بڑھتا جائے۔
۱۱۔ بچشم سرجمالت دیدنی نیست
کسی کو دید رویت چشم معنیست
ترجمہ:۔ سر کی آنکھ سے تیرا جمال دکھائی دینے والا نہیں، وہ شخص جس نے تیرا (یہ روحانی) چہرہ دیکھا (کوئی نہ تھا، مگر) چشمِ حقیقت ہی ہے۔
مطلب:۔ اس ظاہری آنکھ سے تیرا روحانی حسن و جمال دیکھا نہیں جاسکتا، پھر ایسا کوئی شخص کہاں ہے، جس نے اپنی ظاہری آنکھ سے اپنا یہ جلوہ دیکھاہو، مگر یہی ہے کہ دیدۂ حقیقت سے یہ جلوہ دیکھا گیا ہے۔
۱۲۔ صفاتت از صفتہائی خدائیست
ترا این روشنی زان روشنائیست
۸۷
ترجمہ:۔ تیری (روحانی) صفات خداتعالیٰ کی صفات سے ہیں، تجھ کو یہ (علم و دانش کی روحانی) روشنی اس (خدا کی ہمہ گیر و ہمہ رس) روشنی سے حاصل ہے۔
مطلب:۔ جب قرآن ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے، کہ خدا تعالیٰ عقلانی و روحانی طور پر کائنات و موجودات کا نور ہے، تو لازماً وہ مہربان مالک انسانی صفات کا بھی نور ہے، پس انسان کی یہ باطنی روشنی دراصل خدا ہی کی روشنی ہے، اور اس روشنی کے زیرِ اثرانسان کی جو پسندیدہ صفات ہوتی ہیں، گویا وہ خدا ہی کی اپنی صفات ہیں۔
۱۳۔ ہمی بخشد کزو چیزی نکاہد
ترا داد ودہد آنرا کہ خواہد
ترجمہ:۔ تجھ کو وہ (اپنی صفات سے صفات اور اپنی روشنی سے روشنی) کچھ اس طرح عطا فرماتا ہے کہ (اس کی صفات میں) کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، تجھے عطا فرمایا، اور اس طرح وہ جس کو چاہے عطا فرماتا ہے۔
مطلب:۔ جب خداتعالیٰ اپنی صفات اور اپنی روشنی میں سے اپنے خاص بندوں کو صفاتِ الٰہیہ اور نورِ ہدایت عطا فرماتا ہے تو اس کی ذات و صفات میں ہرگز کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اور اس کے اختیار میں ہے کہ وہ جس کو چاہے عطا کرے، جس طرح خود تجھے یہ روحانی نعمتیں عطا کی گئی تھیں۔
۸۸
۱۴۔ زنورِ اوتو ہستی ہمچو پرتو
وجود خود بپرداز و تو اوشو
ترجمہ:۔ تو اس کے نور سے عکس (یعنی روشنی) کی طرح ہے، پس اپنے وجود کو فنا کر دے، اور تو وہ ہو جا (یعنی خدا کی بقا میں ہمیشہ کے لئے باقی رہا کر) ۔
مطلب:۔ خدا تعالیٰ گویا نورانیت کا سورج ہے، اور تو اس کا عکس ہے، جو آئینے میں نظر آتا ہے، پس اگر تو چاہتا ہے، کہ یہ عکس سورج کے ساتھ مل کر ایک ہو جائے، تو اپنے وجود کے آئینے کو ختم کر ڈال، یعنی جب تیری خودی اور انائیت خدا کے نور تک پہنچ چکی ہےتو اپنی ہستی کو مٹا دے، تاکہ دوئی ختم ہو کر وحدت ہی وحدت رہے۔
۱۵۔ حجابت دور دارد گر نجوئی
حجاب از پیش برداری تو اوئی
ترجمہ:۔ اگر تو اسے ڈھونڈے، تو وہ تیرے لئے اپنا پردہ ہٹا دے گا (اور جب) تو نے پردہ کو ہٹا دیا، تو (یہ حقیقت تجھ پر منکشف ہو گی کہ) تو خود ہی وہ ہے۔
مطلب:۔ اگر تو خدا کو ڈھونڈے، تو وہ ایسا مہربان ہے، کہ و ہ خود ہی اپنا پردہ تیرے سامنے سے ہٹا دے گا، اور جب تو نے اسی طرح خدا کی مدد سے پردے کو ہٹادیا، تو یہ حقیقت تجھ پر کھل جائے
۸۹
گی، کہ فی الاصل تیری خودی اور انائیت خدا سے کبھی جدا ہی نہیں ہوئی ہے۔
۱۶۔ بہشت ودوزخی دیگر جزین نیست
جزین داند کہ اوباریک بین نیست
ترجمہ:۔ اس حقیقت کے سوا کوئی بہشت اور کوئی دوزخ ہی نہیں، اور جو شخص باریک بین نہ ہو، تو وہ بہشت اور دوزخ کو، اس کے سوا سمجھتا ہے۔
مطلب:۔ یہی علم و معرفت اور خدا کی وحدت حقیقی بہشت ہے، اور اسی میں وہ تمام لذتیں اور راحتیں مجموع ہیں، جن کا ذکر قرآن وحدیث میں ہے، اور اس وحدت سے محروم رہ جانا ہی دوزخ ہے، جس میں ہر قسم کا غذا موجود ہے، جس طرح خدا و رسول نے اس کا بیان فرمایا ہے، والسلام۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۱۸
۹۰
قصیدۂ منتخب از دیوانِ قائمیات
منجملۂ اشعاررئیس حسن
(مترجمۂ: علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی)
۱۔ ہردل کہ با رضایِ امام آشنا شود
بے ہیچ شک نشانۂ امرِ خدا شود
ترجمہ:۔ ہر دل جو امامِ زمان علیہ السّلام کی خوشنودی سے واقف ہو جائے (اس میں) کوئی شک ہی نہیں کہ وہ خدا کے امر کا نشانہ (یعنی توفیق و ہدایت نازل ہونے کا مقام) بن جاتا ہے۔
۲۔ آن بندہ باشد آنکہ بمعنی و منزلت
برساکنانِ عالمِ جان بادشاہ شود
ترجمہ:۔ وہ بندہ (اس خوشنودی کی بدولت) اس قابل ہو جاتا ہے، کہ وہ حقیقت اور مرتبت میں روحانی عالم کے باشندوں پر پادشاہ ہو گا۔
۹۱
۳۔ جائے رسد بقوۂ روح القدّس کہ خاک
در زیرِ نعلِ مرکبِ اوکیمیا شود
ترجمہ:۔ وہ شخص روح القدّس کی قوّت و تائید سے ایک ایسے (بلند) مقام پر پہنچتا ہے، کہ اس کے گھوڑے کے نعل کے نیچے مٹی کیمیا (یعنی سونا) بن جاتی ہے۔
۴۔ نفسِ شریفِ اوبمعانی درارتقاء
زین عشوۂ شواغلِ حس مرتضا شود
ترجمہ:۔ اس کا شریف نفس (یعنی روحانی مشاہدہ) حقائق کے ذریعہ ارتقاء و عروج کے سلسلے میں حسی مشغلوں کے اس فریب سے (گزر کر) بلند ہو جاتا ہے۔
۵۔ نورِ ضمیر اوبکرامات و معجزات
خورشیدِ اوج کنگرۂ کبریا شود
ترجمہ:۔ اس کے ضمیرکا نور (روحانی) کرامات و معجزات (کے سلسلے) میں بزرگی کی چوٹی کی بلندی کا سورج بن جاتا ہے۔
۶۔ انصارِ دین و دعوتِ حق را دراعتقاد
ہم پیشوایٔ مطلق و ہم مقتدا شود
ترجمہ:۔ وہ شخص اعتقادی طور پر دین کے مدد گاروں اور دعوتِ حق کرنے والوں کے لئے حقیقی پیشوا اور رہنما ہو جاتا ہے (یعنی اس کی روح کی اصلیّت امامِ زمانؑ کی ہستی میں موجود نظر آنے لگتی ہے)
۹۲
۷۔ ہان اے حسن نہ موسمِ آن است کز ہوس
جان و دلِ توجعبۂ تیرِ ہوا شود
ترجمہ:۔ خبردار اے حسن! (اب) وہ وقت نہیں، کہ حرص و ہوس کی وجہ سے تیری جان اور دل نفسانی خواہشات کے تیروں کا ترکش ہوجایا کرے۔
۸۔ یاباز فکرووہم تو درکسبِ جاہ ومال
موقوف این نشیمنِ خوف و رجا شود
ترجمہ:۔ یا (یہ کہ) تیری فکر اور وہم کا باز (دنیوی) عزّت اور مال کمانے کے لئے اس خوف اور امید کے ٹھکانے میں ٹھہرا رہے۔
۹۔ یا ہمتِ توازرہِ آزونیاز وحرص
مشتاقِ این سرایِ مجازو فنا شود
ترجمہ:۔ یا (یہ کہ) طمع، احتیاج اور حرص کے طریقے پر تیری ہمت اس مجاز و فنا کے گھر (یعنی دنیا) کی مثال ہو جایا کرے۔
۱۰۔ می دان کہ حبِ جاہ بلائی بود عظیم
کابلیس باشد آنکہ بآن مبتلا شود
ترجمہ:۔ جان لے کہ (دنیوی) عزّت کی محبت ایک عظیم بلا ہے، کیونکہ جو شخص اس میں گرفتار ہو جائے، تو وہ ابلیس بن جاتا ہے۔
۹۳
۱۱۔ موراست حبِ مال مرورا امان مدہ
کان مورمار گرد دومار اژدھا شود
ترجمہ:۔ دولت کی محبت گویا حریص چیونٹی ہے، تو (اپنے اندر) اس کو نہ رہنے دے، کیونکہ وہ چیونٹی تو سانپ بن جاتی ہے، اور وہ سانپ اژدھا بن جاتا ہے۔
۱۲۔ وقت است اگر دل تو بتوفیق ذوالجلال
زین کائناتِ عالم خاکی جدا شود
ترجمہ:۔ اگر خدائے بزرگ کی توفیق سے تیرا دل اس عالمِ خاکی کی کائنات سے یکسو ہو جائے تو عین موقع ہے۔
۱۳۔ ذاتِ تو درجماعتِ قائم باختیار
شائستۂ متابعتِ اولیا شود
ترجمہ:۔ (دران حال) تیری ذات جماعت قائمہ کے ساتھ منتخب ہو کر اولیاء اللہ (یعنی ائمۂ برحق) کی پیروی کی قابل ہو گی۔
۱۴۔ تائیدِ نور بخش خداوندِ حق ترا
بخشندۂ سعادتِ بے منتہا شود
ترجمہ:۔ (پھر اس وقت) امام برحق کی وہ تائید جو نور عطا کر دینے والی ہے، تجھے کبھی ختم نہ ہونے والی سعادت بخشے گی۔
۱۵۔ صاحب زمان کہ بہر سجود جنابِ او
ہر لحظہ پشتِ عالمِ اعلیٰ دوتاشود
۹۴
ترجمہ:۔ صاحب زمانؑ (کی یہ شان ہے) کہ ان کے حضور میں سجدے کے لئے عالمِ بالا کی پشت ہمیشہ جھکی ہوئی ہوتی ہے۔
۱۶۔ مولا محمدؐ آنکہ اثرِ خاکِ پای او
در چشمِ عقل سرمۂ کشف الضطا شود
ترجمہ:۔ مولانا محمد علیہ السّلام وہ ہیں، جن کی خاک پا کا اثر عقل کی آنکھ سے (روحانی تاریکی کا) پردہ ہٹا دینے والا سرمہ بن جاتا ہے۔
۱۷۔ ای آنکہ بے اجابتِ تونیست دروجود
کز ہیچ باب حاجتِ عالم روا شود
ترجمہ:۔ اے وہ ہستی! جو آپ کی قبولیت کے سوا یہ امر ممکن اور موجود نہیں، کہ دنیا والوں کی حاجت کسی اور سبب سے روا ہو جائے۔
۱۸۔ گرسایۂ سخط فگنی برفرشتۂ
دیوِ زمانہ گرددو کارش ہبا شود
ترجمہ:۔ اگر آپ کسی فرشتے پر ناخوشنودی کا سایہ ڈالیں، تو وہ زمانے کا شیطان بن جاتا ہے، اور اس کا (تمام سابقہ نیک) عمل ناچیز ہو جاتا ہے۔
۱۹۔ ور دیورا بچشمِ عنایت کنی نگاہ
ہمچون فرشتہ معدنِ صدق و صفا شود
۹۵
ترجمہ:۔ اور اگر آپ شیطان کو مہربانی کی نظر سے دیکھیں، تو وہ فرشتہ ہی کی طرح صدق و صفا کی کان بن جاتا ہے۔
۲۰۔ زندان سرائےِ حادثہ بربندگانِ تو
از رحمتِ تو روضۂ دارالبقا ء شود
ترجمہ:۔ (اگر آپ چاہیں تو) حادثات کا قید خانہ (یعنی یہ دنیا) آپ کے بندوں کے لئے آپ کی رحمت سے عالمِ بقا کی بہشت بن جاتا ہے۔
۲۱۔ این بندۂ ضعیف کہ از ترسِ فعل خویش
رنگ رخش ہمی بصفت کہرُبا شود
ترجمہ:۔ (آپ کا) یہ عاجز بندہ ایسا ہے، کہ اپنے عمل کے خوف سے اس کے چہرے کا رنگ کہربا کے رنگ کی طرح ہو جاتا ہے۔
۲۲۔ از غایتِ فسادِ خیالات ہر زمان
بروی ہمی صواب دوگیتی خطا شود
ترجمہ:۔ ہمیشہ خیالات کی انتہائی خرابی کی وجہ سے اس کے دونوں جہان کا درست کام غلط ہو جاتا ہے۔
۲۳۔ لیکن بعزو قدرمطیعانِ عہد تو
گیرد امید با سر ورد و دعا شود
ترجمہ:۔ لیکن وہ آپ کے زمانے کے حقیقی فرمانبرداروں کی
۹۶
عزّت و قدر کے وسیلے سے توقع رکھتا ہے، اور ورد و دعا کے خیال میں رہتا ہے۔
۲۴۔ تابوکہ از شفاعتِ ایشان دران نفیس
کین مرغِ جان ازین قفسِ تن جدا شود
ترجمہ:۔ تاکہ اُن کی سفارش حاصل ہو اس وقت جبکہ روح کا پرندہ جسم کے اس قفس سے نکل جاتا ہے۔
۱۔ ۳۔ ۶۷
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۲۲
۹۷
جلوۂ نورِ خدائی پیشوایِ ملّتی
(مترجمۂ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)
یہ نشاط آوری تواریخی واقعہ ۲۴ فروری ۱۹۱۱کا ہے، کہ جب امام مولانا سلطان محمد شاہ (علیہ الصلوٰۃ والسلام) علیگڑھ یونیورسٹی کے امدادی چندہ کے لئے شہرِ لاہور میں تشریف فرما ہوئے، تو اسلامیہ کالج لاہور کی جانب سے امامِ عالی مقام کی خدمتِ اقدس میں حسبِ ذیل نظم پڑھی گئی:۔
۱۔ مرحبا ای ساربانِ محمل مامرحبا
مرحبا ای رہبروای خضر برنامرحبا
ترجمہ:۔ مرحبا ای ہمارے ملکی وملی ترقی کی سواری کے ساربان!مرحبا!!مرحبا ای ہمارے قومی پیشوااور جوان سال خضر!مرحبا!!
۲۔ “قم باذن اللہ” گفتی مردگانِ قوم را
مرحبا ایجادِ اعجازِ مسیحا مرحبا
ترجمہ:۔ آپ نے “قم باذن اللہ” (یعنی خدا کے حکم سے اٹھ کھڑے
۹۸
ہو جاؤ یعنی زندہ ہو جاؤ) کہہ کر گویا ہماری قوم کے ان مُردوں کو زندہ کر دیا، جو پس ماندگی اور جہالت کی موت مر چکے تھے، مرحبا حضرت عیسیٰ مسیح کے معجزات کر دکھانے والے !مرحبا!!
۳۔ مرحبا ای ساقیٔ میخانۂ علم و ہنر
مرحبا ای ہادیِ گمگشتانِ بے خبر
ترجمہ:۔ مرحبا اے علوم و فنون کے میخانے کے ساقی! مرحبا ای وادیٔ لاعلمی میں کھوئے ہوؤں کو ازسرِنو شاہراہِ ترقی پر گامزن کر دینے والے!!
۴۔ نامِ نیکت کارِ نیکت درجہان باشد مدام
فخرِ دین و فخرِ ایمان بانیٔ دارالسلام
ترجمہ:۔ آپ کا نیک نام اور آپ کے اچھے کام رہتی دنیا تک یاد گار رہیں گے، آپ ہمارے دینِ اسلام اور ایمان کے لئے باعثِ فخرومباہات ہیں، اور آپ شہردارالسّلام کے بانی ہیں۔
۵۔ میرِ عالی گوہری و رہنمائی ملتی
جلوۂ نورِ خدائی پیشوائی ملتی
ترجمہ:۔ آپ ہمارے عالی نسب سردار (یعنی آلِ محمد) ہیں۔ اور ہماری مقدّس ملت کے رہنما ہیں، آپ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کے عالمِ کبیر نورِ ہدایت کی جلوہ گاہ ہیں اور ہماری پاک ملتِ اسلامیہ کے پیشوا ہیں۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۲۷
۹۹
خانہ اور صاحبِ خانہ
ازکلیاتِ شمس تبریزی
(ترجمۂ و شرح از علامہ نصیرالدین نصیرؔہونزائی)
۱۔ ای قوم بحج رفتہ کجائید کجائید
معشوق ہمین جاست بیائید بیائید
ترجمہ:۔ اے لوگو! جو (بطریقِ ظاہر خانۂ کعبہ کے) حج کے لئے گئے ہو، کہاں ہو؟ کہاں ہو؟ تمہارا حقیقی معشوق تو یہیں ہے، آجاؤآجاؤ۔
۲۔ معشوقِ تو ہمسایہ و دیوار بدیوار
دربادیہ سرگشتہ شما درچہ ہوائید
ترجمہ:۔ تمہارا حقیقی محبوب تو تمہارے پڑوس ہی میں ہے (اور وہ تم سے اس قدر نزدیک ہے کہ) اس کے اور تمہارے
۱۰۰
گھر کی دیوار ایک ہے، تم حیران اور پریشان ہو کر صحرا و بیابان میں کس چیز کی آرزواور جستجو کر رہے ہو؟
۳۔ گرصورتِ بے صورتِ معشوق ببینید
ہم خواجہ وہم خانہ و ہم کعبہ شمائید
ترجمہ:۔ اگر تم حقیقی معشوق کی غیر مشخصی صورت (کے غیر فانی جلال و جمال) دیکھو گے (تو تمہیں یقین ہی کرنا پڑے گا کہ درحقیقت) اس گھر کے مالک بھی، وہ گھر بھی اور وہ کعبہ بھی تم خود ہی ہو۔
۴۔ وہ بارازآن راہ بدان خانہ برفتید
یک بار ازین خانہ برین بام برآئید
ترجمہ:۔ تم دس دفعہ اس (دوردراز جسمانی) راستے سے جا کر اس گھر میں دیکھ چکے (اب کم از کم) ایک دفعہ (اپنے وجود کے) اس گھر سے (روحانیّت کی) اس چھت پر بھی چڑھ کر ذرا دیکھو تو سہی۔
۵۔ آن خانہ لطیف است نشانہاش بگفتند
از خواجۂ آن خانہ نشانی بنمائید
ترجمہ:۔ (تمہارے کہنے کے مطابق) وہ گھر (یعنی خانۂ کعبہ) جس کے نشانات تم بتا چکے، خوبصورت ہی سہی، مگر تم اس گھر کے مالک کا بھی کوئی نشان ہمیں بتا دو (کہ تم نے صرف گھر ہی دیکھا اور گھر کے مالک کو نہیں دیکھا؟)
۱۰۱
۶۔ یک دستۂ گل کو اگر آن باغ بدیدید
یک گوہر جان کو اگر از بحرِ خدائید
ترجمہ:۔ اگر تم نے (علم و معرفت کے) اس باغ کو دیکھ پایا ہے، تو ہمیں (بطورِ نمونہ) کوئی گلدستہ دکھا دو۔ اور اگر تم (اپنے دعویٰ کے مطابق) خدا کے نورانی سمندر سے ہو (یعنی اگر تم معرفتِ ذات کے سمندر کے غواص ہو) تو ہمیں کوئی روحانی موتی دکھا دو (تاکہ ہم تمہارے کہنے پر باور کریں) ۔
۷۔ بااین ہمہ، آن رنجِ شما گنجِ شما باد
افسوس کہ بر گنج شما پردہ شمائید
ترجمہ:۔ ان تمام (خامیوں) کے باوجود دعا ہے، کہ تمہاری وہ (ساری) تکالیف تمہارے لئے (روحانی) خزانے کی صورت اختیار کرجائیں! مگر افسوس (اس کے لئے کیا کیا جائے!) کہ تم خود ہی اپنے اس گنجِ گرانمایہ کے سامنے پردہ (بن کر بیٹھے) ہو۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۲۹
۱۰۲
عملی تصوّف کے روشن حقائق
منتخب از کلیاتِ شمس تبریزی
(مترجمۂ علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی)
۱۔ ما آتشِ عشقیم کہ در موم رسیدیم
چون شمع بپروانۂ مظلوم رسیدیم
ترجمہ:۔ ہم عشق کی آگ ہیں، جو موم بتی میں پہنچ گئے، شمع (کے شعلے) کی طرح بیچارہ پروانے میں پہنچ گئے۔
۲۔ یک حملۂ مردانۂ مستانہ بکردیم
تاعلم بدادیم بمعلوم رسیدیم
ترجمہ:۔ ہم نے (اپنے نفس کے خلاف) مست بہادروں کی طرح ایک بھر پور حملہ کر دیا، یہاں تک کہ ہم نے اپنا علم دے دیا، اور ہم معلوم (یعنی معشوقِ حقیقی) تک پہنچ گئے۔
۱۰۳
۳۔ آن مہ کہ نہ بالاست نہ پستست بتابید
وانجاکہ نہ محمود نہ مذموم رسیدیم
ترجمہ:۔ وہ (روحانی اور لامکانی) چاند طلوع ہوا، جو نہ آسمان میں ہے نہ زمین پر۔ (جس کی تابناک روشنی میں) ہم وہاں پہنچ گئے، جہاں اچھے اور برے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
۴۔ تاحضرتِ آن لعل کہ در کون نگنجد
برکوریٔ ہر سنگدلِ شوم رسیدیم
ترجمہ:۔ ہر سنگدل نا اہل شخص اپنے اندھا پنے ہی میں رہا، اور ہم اس لعل (یعنی گوہرِ عقل) کے حضور تک پہنچ گئے، جو (اپنی وسعتِ نورانیّت کی وجہ سے) کائنات میں سمویا نہیں جاتا۔
۵۔ باآیتِ کرسی بسوی عرش پریدیم
تاحی بدیدیم بقیّوم رسیدیم
ترجمہ:۔ آیتہ الکرسی کے ذریعے (جس میں اسمِ اعظم کے عظیم ترین اسرار پوشیدہ ہیں) ہم نے عرشِ اعلیٰ کی طرف پرواز کیا (کیونکہ) جب ہم نے حیّ (یعنی زندہ انسانِ کامل) کو دیکھ پایا اور پہچان لیا، تو ہم قیّوم تک پہنچ گئے۔
۶۔ امروز ازآن باغ چہ بابرگ ونوائیم
تاظن نبری خواجہ کہ محروم رسیدیم
ترجمہ:۔ آج جبکہ ہم اس (علم و عرفان کے) باغ کی بدولت ساز و
۱۰۴
سامان کے ساتھ ہیں، تو اے خواجہ! تو یہ گمان نہ کرنا، کہ ہم (اس باغ سے) محروم آئے ہیں۔
۷۔ ویرانہ ببومان بگذاریم چو بازان
مابوم نہ ایم ارچہ درین بوم رسیدیم
ترجمہ:۔ ہم باز اور شاہین کی طرح یہ کھنڈر (یعنی دنیا) الووں کے لئے چھوڑ دیتے ہیں (کیونکہ کھنڈر الووں کی جگہ ہے اور) ہم الونہیں ہیں، اگرچہ ہم اس زمین پر اتر آئے ہیں۔
۸۔ زنار گستیم برقیصرِ رومی
تبریز ببر قصہ کہ در روم رسیدیم
ترجمہ:۔ (ہماری دینی غیرت و مردانگی کا یہ عالم ہے کہ) ہم نے قیصرِ روم ہی کے سامنے زنار توڑ دی۔ اے تبریز! تو یہ قصّہ دنیا کو سنا دے، کہ ہم (اب) روم میں پہنچ گئےہیں۔
چاندرات ارشادنمبر ۶۴: ۱۳۲
۱۰۵
وہ نور جس کے ذریعہ خدا دیکھا جا سکتا ہے
منتخب ازکلیاتِ شمس تبریزی
ترجمہ از علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی
دلی یا دیدۂ عقلی تو یا نورِ خدا بینی
چراغ افروزِ عشاق تو، یا خورشیدِ آئینی
ترجمہ:۔ (اے حقیقی معشوق!) آپ دل ہیں یا عقل کی آنکھ!یا آپ وہ نور ہیں، جس کے ذریعے خدا دیکھا جا سکتا ہے!آپ عاشقوں کا چراغ روشن کرنے والے ہیں یا دین کا سورج!
چونامت بشنوددلہا نگنجددرمنازلہا
شود حل جملہ مشکلہابنورِ لم یزل بینی!
ترجمہ:۔ جب (عاشقوں کے) قلوب آپ کا (حقیقی) نام سنتے ہیں تو خوشی سے پھولے نہ سماتے ہیں (اور) اس نور کی بدولت، جس کے ذریعہ خدا دیکھا جاسکتا ہے، تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔
۱۰۶
بگفتم آفتابا، تو مرا ہمراہ کُن باتو
کہ جملہ دردہارا تو شفا گشتی و تسکینی
ترجمہ:۔ میں نے کہا کہ اے سورج! آپ مجھے اپنا ساتھی بنا لیجئے، کیونکہ آپ ہر قسم کے دکھ درد کے لئے شفا اور تسکین ہیں۔
بگفتا: جان ربایم من قدم برعرش سایم من
بآب وگلِ کم آیم من مگر دروقت و ہرحینی
ترجمہ:۔ انہوں نے فرمایا، کہ میں بڑا جان لیواہوں (اور میری عالی مرتبتی کی یہ شان ہے کہ) میں عرشِ معلیٰ پر قدم رکھتا ہوں، پانی اور گارے میں بہت کم آتا ہوں، مگر موقع پر اور ہر وقت۔
چوتو از خویش آگاہی ندانی کرد ہمراہی
کہ آن معراجِ اللّٰھی نیابدجز کہ مسکینی
ترجمہ:۔ جب تو صرف اپنے آپ سے خبر رکھتا ہے، تو تُو میری رفاقت نہیں کر سکتا۔ کیونکہ وہ معراجِ الٰہی (یعنی میری رفاقت) کسی عاجز و مسکین بندے کے سوا دوسرے کو حاصل نہیں ہوتی۔
تو مسکینی درین ظاہر درونت نفسِ بس قاہر
یکی سالوسکِ کافر کہ رہزن گشت رہ شینی
ترجمہ:۔ تو اس ظاہریت میں مسکین ہے، مگر تیرے باطن میں نفس بڑا زبردست ہے، وہ ایک ایسا مکار کافر ہے کہ وہ ایک راہ نشین (یعنی بھکاری تھا، مگر اب) ڈاکو بن گیا ہے۔
۱۰۷
مکن پوشیدہ از پیری، چنین مو درچنین شیری
یکی پیری کہ علمِ غیب زیرِ اوست بالینی
ترجمہ:۔ ایسے دودھ میں جو یہ بال گرپڑا ہے، وہ کسی پیرو مرشد سے نہ چھپایا کر، خصوصاً ایک ایسے پیرو مرشد سے، جس کے تحت علمِ غیب تکئے کی طرح مستعمل ہے۔
طبیبِ عاشقان است اوجہان راہمچو جان است او
گدازِ آہنان است او بآہن دادہ تلئینی
ترجمہ:۔ وہ عاشقوں کے طبیب ہیں، وہ عالم کی روح ہیں، وہ لوہوں (یعنی سخت دلوں) کے پگھلانے والے ہیں، جنہوں نے لوہے کو (پگھل کر) نرم ہو جانے کی خاصیت بخشی ہے۔
کُند درحال گلِ راز، دہد درحال تن را سر
ازو انوارِ دین یابدردان و جانِ بےدینی
ترجمہ:۔ (ان کی یہ شان ہے کہ) وہ فوراً ہی گارے کو سونا بنا دیتے ہیں اور فوراً ہی جسم کو سر عطا کر دیتے ہیں (جب انہوں نے عنایت فرمائی تو) انہی کے ذریعہ کسی بے دین شخص کی روح اور جان کو بھی انوارِ دین نظر آنے لگتے ہیں۔
وران دہلیز و ایوانش، بیانیگر تو برہانش
شدہ ہر مردہ از جانش یکی ویسی ورامینی
ترجمہ:۔ ان کی دہلیز اور شاہی محل میں آ کر ان کی (کرامت و توانائی کی) دلیل دیکھ لیا کر، کہ ہر مردہ ان کی معجزانہ روح کی بدولت ویس اور امین
۱۰۸
ہو گیا ہے۔
زشمس الدین تبریزی دلا این حرف می بیزی
بامیدی کہ باز آید ازان خوش شاہ شاہینی
ترجمہ:۔ اے دل! تو ان باتوں کی چھان بین شمس الدین تبریزی ہی کے بارے میں کرتا ہے، اس توقع سے کہ ان عالی مرتبت بادشاہ کی طرف سے پھر کوئی شاہین آجائے۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۳۵
۱۰۹
اپنی ذات کی پہچان کے بارے میں
ازروشنائی نامۂ حکیم سیدنا پیر ناصر خسرو قدس اللہ سرہ
ترجمۂ علامہ نصیرا لدین نصیرؔہونزائی
۱۔ بدان خودراکہ گر خود را بدانی
زخود ہم نیک و ہم بدرا بددانی
ترجمہ:۔ (اے مومن!) اپنے آپ کو پہچان لے، کیونکہ اگر تو خود کو پہچانے، تو اپنی ذات (کی اسی معرفت کے ذریعے) سے خیر کی حقیقت بھی اور شر کی حقیقت بھی سمجھ سکے گا۔
حکمت:۔ جب بموجبِ حدیث انسان کی اپنی معرفت ہی خدا کی معرفت ہے، اور جب خدا کے متعلق “ہمہ اوست” کا نظریہ صحیح ہے، تو خدا کی کلّی معرفت کے ضمن میں ہر چیز کی حقیقت معلوم ہونے میں کیوں تعجب ہو۔
۱۱۰
۲۔ شناسائی وجودِ خویشتن شو
پس آنگہ سرفرازِ انجمن شو
ترجمہ:۔ پہلے تو اپنی ہستی و ذات کا شناسا و عارف ہو جا، پھر اس (علم و معرفت سے مالا مال ہونے) کے بعد میر مجلس ہو جا۔
۳۔ چوخود دانی ہمہ دانستہ باشی
چو دانستی زہر بدرستہ باشی
ترجمہ:۔ جب تو خود کو پہچانے، تو لازماً تجھے تمام چیزوں کا علم حاصل ہوگا، اور جب تمام چیزوں کا علم حاصل ہوا، تو یقیناً تجھے ہر قسم کے شر سے چھٹکارا ملے گا۔
۴۔ ندانی قدرِ خودزیراچنینی
خدا بینی اگر خودرابہ بینی
حکمت:۔ انسانی روح حق تعالیٰ کی تمام صفاتِ کاملہ کا آئینہ اور ساری کائنات کا خلاصہ ہے جس کی معرفت حاصل کرنے کے بعد عارف کے تصوّر سے کوئی ضروری علم باہر نہیں رہ سکتا پس عارف کو اسی تحقیق و تدقیق کے سلسلے میں ہر قسم کی برائی سے ابدی نجات ملتی ہے۔
حکمت: حق تعالیٰ نے انسان کو جو سب سے زیادہ قیمتی اور قابلِ قدر گوہر عطا کر دیا ہے وہ اس کی روح ہے جو شخص اس نایاب اور گرانقدر گوہر کی قدر و قیمت نہیں جانتا ہو، تو ظاہر ہے، کہ وہ روحانی طور پر مفلس اور زبون حال ہو جائے گا، نیز جس شخص کی نظر صرف اپنے جسم اور اس کی پرورش تک ہی محدود ہو جائے تو وہ دیدارِ الٰہی سے محروم ہے۔
۱۱۱
ترجمہ:۔ تو اپنی قدروقیمت نہیں جانتا، اسی وجہ سے تیرا یہ حال ہوا ہے، مگر تو خودبینی اور تن پروری کا نظریہ ترک کرے، تو یقیناً تجھے حق تعالیٰ کے دیدار کا شرف حاصل ہو گا۔
۵۔ ترا نُہ چرخ و ہفت اختر غلام است
تو شاگردِ تنی حیفِ تمام است
ترجمہ:۔ نوآسمان اور سات ستارے تیرے غلام ہیں۔ لیکن بہت ہی افسوس ہے کہ تو اپنے جسم کا نوکر اور چیلا بنا ہے۔
۶۔ مشو پابند لذاتِ بہیمی
اگر جویایِ آن خرم نعیمی
ترجمہ:۔ اگر تو (جان و دل سے) اس مسرّت بخش (ملکوتی) نعمت کا طلب گار ہے، تو حیوانی قسم کی لذّتوں کو یکسر ترک کر دے۔
۷۔ چومردان باش و ترکِ خواب و خورکُن
چوسیاحان یکے درخود سفر کن
ترجمہ:۔ روحانی بہادروں کا شعار اختیار کر کے خوراک اور نیند کو ترک کر دے، اور جس طرح دنیا کے سیّاح اس دنیا میں سفر کرتے ہیں، اسی طرح تو اپنی ذات (کی وسعتوں) میں ایک دفعہ سفر کر۔
۸۔ کہ باشد خواب و خور کا رِ بہائم
بمعلومات شد جانِ تو قائم
ترجمہ:۔ کیونکہ غذا اور نیند مویشیوں کا فعل ہے، اور تیرے
۱۱۲
نفسِ ناطقی کا قیام معلومات پر ہے۔
۹۔ یکے بیدار شوتا چند خفتی
ببین خودراکہ چیزی بس شگفتی
ترجمہ:۔ (اے مومن! خدارا!! کچھ راتوں) جاگتا بھی رہا کر، آخر کب تک یوں سوتا رہے گا، اپنی روح کا ذرا مشاہدہ کر، کہ تو ایک انتہائی عجیب مخلوق ہے۔
۱۰۔ تفکر کن ببین تاازکجائی
درین زندان چنین بہر چرائی
ترجمہ:۔ (اپنے بارے میں خوب) غوروفکر کر، کہ تو کہاں سے آیا ہے، اور تو اس دنیا کے قید خانے میں ایسا خستہ حال کیوں ہے۔
حکمت:۔ رسول اکرمؐ کی حدیث ہے کہ نیند موت کی بہن ہے، اس ارشاد سے دو موتیں ثابت ہوئیں، ایک جسمانی موت اور ایک روحانی موت، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مومن کی شب بیداری اس کی روحانی زندگی ہے اور غیر واجبی نیند اس کی روحانی موت، پس جو مومن اصولِ روحانیّت کے مطابق کم سوئے اور زیادہ جاگے، تو رفتہ رفتہ اس کی روح الایمان زندہ ہو جائے گی، اور وہ اپنے باطن کے روحانی و عقلانی عجائبات و غرائبات کا نظارہ کرنے لگے گا۔
حکمت:۔ مومن کی مفروضہ عبادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے، کہ وہ اپنی روح کی حقیقت و اصلیّت اور ازلی مقام کے متعلق غوروفکر کرتا رہے، اور نتیجۃً یہ معلوم کرے، کہ وہ کہاں سے اور کس مقصد کے لئے اس دنیا میں آیا ہے۔
۱۱۳
۱۱۔ قفس بشکن ببرجِ خویشتن شو
چوابراہیمؑ آذربت شکن شو
ترجمہ:۔ تو (عبادت و ریاضت کی طاقتوں سے اپنے جسم کے) پنجرے کو توڑ کر اپنے محلِ خاص میں چلا جا، اور ابراہیمؑ آذر کی طرح بت توڑنے والا ہو جا۔
۱۲۔ تو زین سان آفریدہ بہر کاری
دریغ آید کہ مہمل در گذاری
ترجمہ:۔ تو کسی خاص کام کے لئے اس قدر عجیب و غریب صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، اگر تو اپنے آپ بیکار چھوڑے تو بڑا افسوس ہو گا۔
۱۳۔ ملک فرمانبرشیطان دریغ است
ملکِ درخدمتِ دربان دریغ است
ترجمہ:۔ فرشتہ شیطان کی تابعداری کرے، تو افسوس کا مقام ہے، بادشاہ کسی دربان کا ملازم رہے، تو بہت ہی مضائقہ ہے۔
۱۴۔ چرا باید کہ عیسیٰؑ کورباشد
خطا باشد کہ قارون عورباشد
۱۱۴
ترجمہ:۔ حضرت عیسیٰؑ کو کیوں آنکھوں سے معذور ہونا چاہئے (جبکہ وہ خود اپنے معجزے سے مادرزاد اندھوں کو چشمِ بینا بخشتا ہے) اور یہ بھی غلط ہے، کہ (اس قدر دولت کے ہوتے ہوئے) فرعون بھوکا اورننگا دھڑنگا ہو۔
۱۵۔ توداری اژدہائے برسرِ گنج
بکشُ آن اژدہا فارغ شواز رنج
ترجمہ:۔ تیرے (عقلی و روحی) خزانے پر ایک اژدہا قابض ہوا ہے، تو اس اژدہے کو (بروقت) قتل کر کے ہمیشہ کے لئے خطرے سے بچ جا۔
۱۶۔ وگر قوتش دہی بدزہرہ باشی
زگنج بے کران بے بہرہ باشی
ترجمہ:۔ (اس کے برعکس) اگر تُو اس کی پرورش کرتا رہا، تو (وہ روز بروز طاقتور ہوتا جائے گا اور) تُو دن بدن مرعوب ہوتا جائے گا (اسی طرح) تُو اپنے لا انتہا خزانے سے محروم ہو جائے گا۔
۱۷۔ ترا درخانہ گنج است و تو درویش
ترا مرہم بدستست و تودلریش
ترجمہ:۔ تیرے گھر ہی میں (ایک عظیم) خزانہ پڑا ہے اور (تعجب ہے کہ) تو مفلس و قلاش ہے، تیرے ہاتھ میں مرہم موجود ہے، اور تو اپنے دل میں زخم رکھتا ہے۔
۱۱۵
۱۸۔ تو درخوابی کجا افتی بمنزل
طلسم آرائی واز گنج غافل
ترجمہ:۔ تو (جب خواب غفلت میں) سو رہا ہے، تو کس طرح منزل کو پہنچ سکتاہے، تو (اپنے اور روحانی خزانے کے درمیان) طلسم باندھ رہا ہے، اور گنجِ گرانمایہ سے غافل ہے۔
۱۹۔ سبک بشکن طلسم وگنج بردار
بکش رنجی واز خودرنج بردار
ترجمہ:۔ بہت جلد طلسم اور جادو کو توڑاور خزانے کو اٹھالے، ایک دفعہ کی سخت تکلیف برداشت کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے اوپر سے رنج رفع کر دے۔
حکمت:۔ جب مومن کو یہ معلوم ہو، کہ اس کے دل میں قدرتی علم و عرفان کا ایک لاانتہا ازلی خزانہ پوشیدہ ہے، اور اس کی راہ میں جو کچھ رکاوٹیں پیش آتی ہیں، ان کا سبب نفسانی لذّتوں کےسوا اور کوئی چیز نہیں، تو اسے چاہئے، کہ عزمِ صمیم سے کام لیتے ہوئے نفسانی لذّتوں کو بتدریج ترک کر دے، اور ان کی جگہ روحانی اور عقلانی لذّات کو درجہ بدرجہ اپنائے، روحانی راستے سے طلسم وجادو توڑنے، نفسِ امّارہ کے اژدھےکو قتل کرنے اور ہمیشہ کےلئے تکلیف ختم کرنے کے معنی بس یہی ہیں۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۴۰
۱۱۶
جشنِ نوروز کا ایک اور پہلو
(بخامۂ علّامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی)
اس سیّارۂ زمین کی پیدائش سے لے کر اب تک نوروز کے موقع پر جتنے بھی عجیب و غریب اور انتہائی عظیم واقعات رونما ہوئے ہیں، اتنے واقعات کسی اور موقع پر نہیں ہوئے ہوں گے۔ چنانچہ علامہ مجلسیؔ کی کتاب “زادالمعاد” کے حوالے سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے، کہ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے فرمایا، کہ نوروز وہ مبارک دن ہے، جس میں خداوندِعالم نے بندوں کی روحوں سے اقرار لیا، کہ وہ اس کو خدائے واحد سمجھیں، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جبکہ تیرے پروردگار نے اولادِ آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو لیاا ور انہیں ا ن کی اپنی اپنی ذات پر گواہ قرار دیا (اور ان سے پوچھا) کہ میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، انہوں نے کہا، ہاں ہم گواہی دیتے ہیں (آپ ہمارا پروردگار ہیں) یہ اقرار اس لئے لیا، تاکہ تم
۱۱۷
قیامت کے دن یہ نہ کہوکہ یقیناً ہم اس سے بالکل بے خبر تھے (۰۷: ۱۷۲) ۔
مذکورہ روایت کے مطابق نوروز ہی تھا، جس میں حضرت نوحؑ کی کشتی طوفان تھم جانے کے بعد کوہِ جودی پر ٹھہری، حضرت ابراہیمؑ نے اسی روز ملکِ عراق کے شاہی بتوں کو توڑ ڈالاتھا، حضرت موسیٰؑ نے اپنے زمانے میں اسی دن فرعونِ مصر کے جادوگروں کو شکستِ فاش دے دی تھی، اور آنحضرتؐ نے بھی اسی نوروز کے موقع پر مولانا علیؑ کو اپنے مبارک کندھوں پر چڑھا کو خانۂ کعبہ کے تین سو ساٹھ بتوں کو توڑوایا تھا، نوروز کے متعلق اس قسم کی بہت سی روایات مشہور ہیں، لیکن پھر بھی اس یومِ سعید کی ایسی بہت حقیقتیں ہو سکتی ہیں، جواب تک پردۂ راز میں پوشیدہ رہی ہوں۔
اس امرِ واقع میں کوئی شک ہی نہیں، کہ پیغمبرِ خدا اور اس کے حقیقی جانشین کے نور کے بغیر اگر اس دنیا اور اس کے باشندوں کے ماضی و مستقبل کی طرف دیکھا جائے، تو ایک انتہائی تاریک تصوّر کے سوا وہاں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا، جیسا کہ قرآن پاک کےاس ارشاد میں یہی مثال مذکور ہے:۔
اور ہم نے ان کے سامنے ایک دیوار کردی اور ان کے پیچھے ایک دیوار کر دی، پھر ہم نے انہیں ڈھانپ لیا، پس وہ دیکھ نہیں سکتے (۳۶: ۰۹) سامنے سے مستقبل اور ابد مراد ہے، اور پیچھے سے ماضی اور ازل مراد ہے، پس ظاہر ہے کہ جو لوگ خدا اور رسولؐ کے حقیقی فرمانبردار
۱۱۸
ہیں، ان کے دل و دماغ میں یہ صلاحیّت موجود ہے، کہ وہ اگر ازل اور ابد کی حقیقتوں کو دیکھنا چاہیں، تو دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے اور پیچھے تقلید و جہالت کی کوئی دیوار نہیں، اور وہ پردۂ غفلت میں ڈھانپے نہیں گئے ہیں۔
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طر ف متوجہ ہوتےہیں، جو جشنِ نوروز کے متعلق ہے، چنانچہ اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ لاکھوں یا کروڑوں سال قبل یا اس سے بھی بہت پہلے ایک زمانہ ایسا تھا، جس میں ہمارا یہ سیّارۂ زمین موجود نہیں ہوا تھا، پھر خداتعالیٰ کی قدرت سے یہ سیّارہ پیدا ہوا، تو لازماً ہمیں یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ ہماری زمین کو کوئی آغاز و انجام ہے، پس جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا ہو، وہ اس کا “نوروز” تھا، یعنی اس کرۂ ارض کی تخلیق و تکمیل کا دن ہی اس کی طویل عمر کا ابتدائی اور نیا دن تھا، کیونکہ نوروز دراصل وہی ہے، جس میں زمین کی تخلیق مکمل ہو کر اس کی مدتِ عمر کا پہلا دن شروع ہوا، جس میں پہلی دفعہ سورج روئی زمین پر چمکنے لگا، پہلی بار سائے نمودار ہوئے اور وہیں سے دن رات کا آغاز ہوا، وہ اس طرح کہ کرۂ ارض کے پیدا ہوتے ہی سورج کی جانب کے نصف کرے پر دھوپ پڑی اور دوسری جانب زمین کا اپنا سایہ پڑا، پس دھوپ کا نام دن اور سائے کا نام رات مقرر ہوا، اسی طرح بیک وقت دن اور رات کا آغاز ہوا۔
اسی نوروز کے دن زمین اپنے مدار پر مغرب سے مشرق کی طرف
۱۱۹
گردش کرنے لگی، اور وہیں سے شمسی اور قمری سال شروع ہوا، اس اصول کے مطابق وہ ابتدائی نوروز اتوار کے دن ہونا چاہئے کیونکہ دنوں کی گنتی کا آغاز تو اتوار ہی سے صحیح ہے اور انبیاء و اولیاء کی تعلیمات سے بھی یہی ظاہر ہے کہ اتوار کے دن دنیا پیدا ہوئی ہے، نیز یہ کہ دنوں کے تعیّن اور ترتیب کے متعلق مذاہبِ عالم میں بھی کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے، اور یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے، کہ شروع سے لے کر اب تک سات دنوں کے سلسلۂ شمار میں کوئی غلطی اور فراموشی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اور شروع ہی سے ہفتے کے دنوں کو صحیح گنتی اور یادداشت کے لئے یہ ضروری نہیں، کہ جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا، تو اسی روز انسان بھی زمین پر اتر آیا ہو، تاکہ یہ کہا جا سکے، کہ تمام باتیں انسانوں کی تواریخی یادداشت کے طور پر یہاں تک پہنچی ہیں، بلکہ اس بارے میں یہ باور کرنا لازمی ہے کہ حقائق کا براہِ راست تعلق وحی والہام سے ہےجو انبیاء واولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام کے لئے مخصوص ہے۔
نیز بتا دیا جاتا ہے کہ جس وقت سیّارۂ زمین پیدا ہوا، تو وہ یہی نوروز کا دن تھا، جس میں سورج اور چاند دونوں بیک وقت برجِ حمل کے مقابل ہونے لگے تھے، اور اسی روز سب سے پہلی چاندرات گزری تھی، یہی سبب ہے کہ دورِ حقیقت کے آغاز ہی سے چاندرات اور آبِ شفا کی اہمیّت و افادیّت کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے، کیونکہ قمری اور اسلامی حساب کے مطابق چاندرات وہ تاریخ ہے، جس میں
۱۲۰
خداوند عالم نے روحوں سے توحید اور معرفت کا اقرار لیا، اور جس میں اکثر معجزات ظاہر ہوئے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ (۵۵: ۰۵) یعنی سورج اور چاند ایک ہی حساب رکھتے ہیں۔” اس کا مطلب یہ ہوا، کہ شمسی اور قمری سالوں کا حساب ایک ہی نقطہ اور ایک ہی درجہ (DEGREE) سے شروع ہوا ہے، یعنی جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا، وہ نہ صرف سورج ہی کے حساب سے نوروز (یعنی نیا دن) تھا، بلکہ چاند کے حساب سے بھی نوروز ہی تھا، کیونکہ مذکورۂ بالا آیت کے مطابق سورج اور چاند کا ایک ہی حساب ہونے کے یہی معنی ہیں، کہ اس کرّۂ ارض کے شمسی اور قمری دونوں سال اس طرح بیک وقت شروع ہوئے جس طرح گھڑی کی گھنٹے والی سوئی اور منٹ والی سوئی دونوں بارہ کے ہندسے سے بیک وقت چلنے لگتی ہیں، اور ہر بارہ گھنٹے کے اختتام پر یہ دونوں اسی بارہ کے ہندسے پر یکجا ہوتی جاتی ہیں، اس وقت ان دونوں سوئیوں کا جس طرح حساب ایک ہوتا ہے، اسی طرح ان کا نقطۂ روانگی بھی ایک ہوتا ہے۔
اس مطلب کے بیان پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے اس آیۂ کریمہ کی حقیقتوں کو واضح کر دی جاتی ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “والشمس تجری لمستقرلھا۔ ذالک تقدیر العزیزالعلیم (۳۶: ۳۸) اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا
۱۲۱
رہتا ہے، یہ اندازہ باندھا ہوا ہے، اس (خدا) کا جو زبردست علم والا ہے۔” سورج کی گردش سے زمین کی گردش مراد ہے، اور سورج خود دراصل اپنے مقام پر ساکن ہی ہے، پس ظاہر ہے کہ زمین ہی اپنے ٹھکانے کی طرف چلتی رہتی ہے، اور اس کا ٹھکانا یہ ہے کہ جب زمین کے تمام باشندے مادّی اور روحانی ترقی کے نتیجے پر نوری اجسام (نورانی پیکر) حاصل کئے ہوئے ہوں گے، یعنی جب ان کی حیات و بقا فلکی قسم کے جسموں میں منتقل ہو گی، تو اس وقت یہ زمین اپنے مدار سے ہٹ کر سورج سے دور ان بے شمار ستاروں میں شامل ہو گی، جو حاشیۂ عالم کے قریب واقع ہیں، پھر یہ عجب نہیں، کہ وہ سب سے عظیم واقعہ بھی نوروز اور چاندرات ہی کے موقع پر ہو، چنانچہ پیر ناصرؔ خسرو (قدس اللہ سرہ) کی مشہور کتاب وجہ دین اورزادالمسافرین نیز سید سہراب کی کتاب صحیفتہ الناظرین میں سیّارۂ زمین کے اٹھائے جانے کا ذکر موجود ہے۔
جب یہ معلوم ہوا، کہ نوروز وہ دن ہے، جس میں پروردگار عالم نے روحوں سے اپنی یکتائی کا اقرار لیا ہے، جس میں حضرت نوحؑ اور اس کے تابعین کو آخری نجات ملی ہے، جس میں حضرت ابراہیمؑ نے شاہی بتوں کو توڑا ہے، جس میں حضرت موسیٰؑ کو جادوگروں پر فتح دی گئی ہے، جس میں آنحضرتؐ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی، جس میں آنحضرتؐ اور ان کے وصی مولانا علیؑ نے خانۂ خدا کو بتوں کے وجود کی ناپاکی سے پاک
۱۲۲
کردیا ہے، اور جس میں بمقامِ غدیرِخم مولانا علیؑ کی ولایت و امامت کا اعلان ہوا، تو آئیے اس مبارک اور مقدّس عیدِ نوروز کے موقع پر ہم بھی اقرارِ الست کو تازہ کرتے ہوئے خدا کی معرفت کی طرف توجّہ کریں، اپنے دلوں میں خودبینی اور دنیا پرستی کے جو بت پائے جاتے ہیں، ان کو توڑ ڈالیں، نفسانی خواہشات کے جادوؤں پر فتح حاصل کریں، اورکعبۂ دل کو باطل خیالات کے بتوں سے پاک وصاف کرلیں، نیز یہ دیکھ لیا کریں، کہ امامِ حیّ وحاضر کے مبارک فرمان کے مطابق گزشتہ نوروز سے لے کر اس نوروز تک ہم نے کون کون سی قومی اور جماعتی خدمات انجام دی ہیں، اور آئندہ ان سے بھی زیادہ خدمات کس طرح کی جا سکتی ہیں، کیونکہ جشنِ نوروز عزم و عمل کا پیغام لاتا ہے۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۴۳
۱۲۳
درسِ روحانیّت
کلام مولوی معنوی رومیؔ ازکلیات شمسِ تبریزی
(ترجمہ از علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)
الف) نوروز اور موسمِ بہار
قرآن مجید کے ایک ارشاد سے ظاہر ہے، کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے، اس حقیقت کی وضاحت یہ ہے کہ خدا کا نور دائمی طور پر ہر جگہ موجود ہے، اس لئے دراصل یہ نہیں کہا جاسکتا، کہ نورنازل ہوا، آیا، گیا وغیرہ، لیکن خدا کی مرضی کے بغیر نور نہیں دیکھا جا سکتا، جیسا کہ ارشاد ہے: ” یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنے نور کی راپ پر لگا دیتا ہے۔” پس عدلِ خداوندی کا یہ تقاضا ہے، کہ نور سب سے پہلے طلبگاروں کو دکھایا جائے، جو پیغمبرؐ اور امامِ حیّ و حاضرؑ کے ذریعہ و وسیلہ سے ممکن ہے، کیونکہ”جوئندہ یابندہ” کے بمصداق جو طالب ہو، وہی مطلوب و مقصود تک پہنچ سکتا ہے، پس وہی لوگ سب سے زیادہ خوش نصیب ہیں، جو مظہرِ نور (یعنی امامِ حیّ و حاضر) کی تابعداری کرتے ہوئے نورانیّت کی اعلیٰ ترین منزل تک پہنچنے کی کوشش
۱۲۴
کرتے ہیں اور پہنچ جاتے ہیں، چنانچہ مولوی معنوی ذیل کے اشعار میں یہی حقیقت بیان فرماتے ہیں:۔
۱۔ بہار آمد بہارآمد بہارِ مشکبار آمد
نگار آمد نگار آمد نگارِ بردبار آمد
ترجمہ:۔ (اپنی تمام رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ) بہار آئی، بہار آئی (باغ و گلشن میں) کستوری اور عطر برسانے والی بہار آئی (فصلِ بہار کے اسی دلکش منظر کے ساتھ ساتھ) معشوق تشریف لائے، معشوق تشریف فرما ہوئے ایک ایسے معشوق تشریف لائےجو شرافت اورحلیمی کا (حسین ترین) پیکر ہیں۔
۲۔ کفی آمد کفی آمد کہ دریا دُر ازو یابد
شہی آمد شہی آمد کہ جانِ ہر دیار آمد
ترجمہ:۔ (سخاوت اور بخشش کا) ایک ایسا ہاتھ ظاہر ہوا، ایک ایسا ہاتھ باہر آیا، کہ اسی سے سمندر کو موتی حاصل ہوا کرتے ہیں، ایک ایسے بادشاہ تشریف لائے، ایک ایسے بادشاہ تشریف فرما ہوئے، کہ وہی ہر مملکت کی جان ہیں۔
۳۔ کجا آمد؟ کجاآمد؟ کزینجا خود نرفتست او
ولیکن چشمِ گہ آگاہ وگہ بے اعتبار آمد
ترجمہ:۔ (مگر ذرا سوچو تو سہی) وہ کہاں آئے؟ وہ کیسے آئے؟ کیونکہ وہ تو (ازل ہی سے یہیں موجود ہیں) یہاں سے گئے ہی نہیں، لیکن ہمیں وہ آنکھ ملی ہے، جو کبھی تو ان کو دیکھ سکتی ہے اور کبھی نہیں دیکھ سکتی۔
۱۲۵
۴۔ ببندم چشم و گویم شد گشایم گویم اوآمد
و او درخواب و بیداری قرین و یارِ غار آمد
ترجمہ:۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ) میں خود (اپنی غفلت سے) آنکھیں بند کرکے کہتا ہوں، کہ وہ تشریف لے گئے، اور (کبھی کچھ ذکر کی طاقت سے) آنکھیں کھول کر کہتا ہوں کہ وہ تشریف لائے، اور (حالانکہ) وہ خود میرے خواب و بیداری میں (ہمیشہ) میرے ہم نشین اور حقیقی رفیق ہیں۔
ب) انسانی دل کی حقیقت اور عشقِ الٰہی
رباعی
شمعی است دل مراد افروختنی
چاکیست زہجرِ دوست بردوختنی
ای بے خبر از ساختن و سوختنی
عشق آمدنی بود نہ آموختنی
ترجمہ:۔ (پہلی مثال میں) دل ایک موم بتی کی طرح ہے، جس کا مقصد روشن کر دینا ہے، (دوسری مثال میں) دل ایک ایسا چاک ہے، جسے صرف دوست کی جدائی ہی سے سی لیا جا سکتا ہے۔ اے (وہ شخص) جو (آتشِ عشق میں) جلنے اور صبر کرنے (کی حکمت) سے بے خبر ہے، عشق ایک عطائی چیز ہے، اکتسابی چیز ہے نہیں۔
۱۲۶
ج) انسان کا نزول و عروج
رباعی
اندر رہِ حق چوچست و چالاک شوی
نورِ فلکی باز بر افلاک شوی
عرش است نشیمنِ تو شرمت ناید
چون سایۂ مقیم خطۂ خاک شوی
ترجمہ:۔ جب تو خدا (کی فرمانبرداری) کے راستے میں چست اور ہشیار ہو جائے، تب ہی تو آسمان پر چڑھ سکے گا، کیونکہ تو آسمان کا نور ہے۔ تیرا محلِ سکونت عرشِ اعلیٰ ہے، کیا تجھے شرم محسوس نہیں ہوتی!کہ تو سائے کی طرح خطۂ زمین پر پڑے رہتا ہے۔
د) گنجِ مخفی
رباعی
درعالمِ گل گنجِ نہانی مائیم
دارندۂ ملکِ جاودانی مائیم
چون از ظلماتِ آب و گلِ بگذشتیم
ہم خضرؑ و ہم آبِ زندگانی مائیم
ترجمہ:۔ اس عالمِ خاکی میں (وہ) مخفی خزانہ ہم ہی ہیں (جس کا ذکر حدیثِ “کنت کنزا” میں ہے) لازوال (روحانی) سلطنت کے مالک ہم ہی ہیں۔ جب ہم جسمِ عنصری کی ظلمتوں سے گزر چکے، تو خضرؑ بھی (جو آبِ حیات
۱۲۷
کا رہنما ہے) اور آبِ حیات بھی ہم ہی ہیں۔
ھ) رازِ اناالحق
رباعی
منصورِ حلاجی کہ انا الحق می گفت
خاکِ ہمہ رہ بنوکِ مژگان می رفت
درقلزمِ نیستی خود غوطہ بخورد
آنگہ پس ازان درِ انا الحق می سفت
ترجمہ:۔ منصورِ حلاجی نے جو اناالحق (میں حق ہوں) کہا، تو اس نے (اس سے پیشتر) اپنی پلکوں کی نو ک سے (عبادت و ریاضت) کے سارے راستے کی مٹی جھاڑ دی اپنی فنائیت و نیستی کے قلزم (یعنی سمندر) میں غوطہ لگایا، جس نے اس کے بعد اناالحق کا موتی پرویا۔
چاندرات ارشاد نمبر۶۴: ۱۴۳
۱۲۸
اتحادِ مسلمین
علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی
مورخہ ۲۸ اکتوبر۱۹۶۹کو سرکار مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شادی مبارک کے پُرمسرّت موقع پر”شاہ کریم الحسینی ہوسٹل” گلگت میں جناب فضیلتِ مآب موکھی سید کرم علی شاہ صاحب نائب صدر ہز رائل ہائنس پرنس آغا خان سپریم کونسل برائے ہونزہ، گلگت، چترال اور وسطی ایشیا کے زیر سرکردگی ایک جشن منعقد ہوا، جس کی صدارت گلگت و بلتستان کے ریذیڈنٹ راجہ حبیب الرحمٰن خان صاحب تمغۂ پاکستان نے کی۔ اس موقع پر علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی صاحب نے اتحاد مسلمین کے موضوع پر جو تقریر کی تھی اس کا اصل مضمون درج ذیل ہے:۔
دینِ اسلام کے مختلف فرقوں کی مجموعی حیثیت ایک ایسے ثمرداردرخت کی طرح ہے، جس کی بہت سی شاخیں ہوں، ہر چند کہ درخت کی شاخیں فضا کے مختلف اطراف و جوانب میں ایک دوسرے سے جدا جدا ہوتی ہیں، تاہم وہ تنے کی صورت میں باہم ملی ہوئی ہوتی ہیں، بالکل
۱۲۹
اسی طرح اسلام کے تمام فرقے خدائے واحد کے عقیدۂ وحدانیّت، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی نبوّت اور اس کے ضمنی عقائد میں ایک دوسرے کے ساتھ متفق اور متحد ہیں، مگر یہ فرقے اشخاصِ امامت وخلافت کے تعیّن کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں۔
اب متذکرۂ بالا بیان سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی، کہ دینِ اسلام کی مجموعی حیثیت کے اندر اگرچہ ایک طرف سے فروعی طور پر اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم دوسری طرف سے اصولی طور پر اس کے اندر قوتِ اتحاد بھی کارِ فرما ہے، جس طرح ایک عظیم مشین کے اجزاء اپنی اپنی شکل و صورت میں مختلف اور جدا جدا ہوتے ہیں، مگر مشین اپنی مجموعی حیثیت میں ایک ہی ہوتی ہے، اور اس کے ایسے ہونے میں یہ حکمت مضمر ہے، کہ بہت سے ذیلی مقاصد کے حصول کے نتیجے پر ایک مقصدِ اعلیٰ حاصل کیا جا سکے، یہی مثال اسلام کے مختلف فرقوں کی بھی ہے، تاکہ اس فروعی اختلاف کی محرکات کے باعث علم و عمل کے میدان میں تقابلی جذبے سے کام لیتے ہوئے توحید باری تعالیٰ کے عظیم اسرار کے نایاب خزانوں کا انکشاف کیا جا سکے، اور جس کے سلسلے میں اسلامی علم و ادب کے بے پایان اور گرانمایہ ذخائر ادیانِ عالم کے مقابلے میں پیش کئے جا سکیں۔
اب اس مقام پر پہنچ کر یہ امر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نظریۂ امامت کی بھی کچھ وضاحتیں کی جائے، کیونکہ آج کی اس تقریبِ مسعود کا تعلق براہِ راست
۱۳۰
اسی نظرئے سے ہے، چنانہ قبلاً یہ بیان ہو چکا ہے کہ اسلام کے تمام فرقے اشخاصِ امامت و خلافت کے تعیّن کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہوا، کہ اسلام کا ہر فرقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد کسی نہ کسی صورت میں ایک امام یا خلیفہ کے ہونے کے قائل ہے۔ چنانچہ اسماعیلی فرقہ حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی کو اپنا امامِ وقت مانتا ہے، اور اس سلسلے میں اس فرقے کا عقیدۂ راسخ یہ ہے، کہ حضرت آدم علیہ السّلام سے بلکہ ازل سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تک نورِ امامت پوشیدہ طور پر موجود تھا، اور آنحضرتؐ کے زمانے میں یہ نورِ امامت حضرت مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام کے جامۂ بشریت میں ظاہر ہوا، پھر جناب مرتضیٰ سرِ خدا اور حضرت فاطمتہ الزہرا علیھاالسّلام کی آلِ اطہار کے سلسلے میں یہ نور جامہ بجامہ منتقل ہوتا چلا آیا ہے، کیونکہ خدائے واحد اور اس کے رسولِ برحقؑ کی مرضی اسی میں تھی، کہ دنیا اور زمانہ نورِ امامت کی مقدّس ہدایت سے کبھی خالی نہ رہ جائے۔
اسماعیلی فرقے کے اعتقاد کے مطابق زمانے کا امام ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہے، کیونکہ انسانی ہدایت کی ضرورت کے پیشِ نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے میں اپنے اور مخلوق کے درمیان جو کچھ واسطہ اور وسیلہ مقررفرمایا تھا، وہ ہمیشہ کے لئے موجود ہونا چاہئے، چنانچہ حق تعالیٰ نے ابتدا ہی میں فرشتوں سے فرمایا تھا کہ
۱۳۱
” اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ” (۰۲: ۳۰) میں روئے زمین پر ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔” پس انسانی ہدایت کی ضرورت و اہمیّت اس وقت بھی اسی طرح ہے، جس طرح حضرت آدمؑ کے زمانے میں تھی، یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی اپنے امامِ زمانؑ کو خلیفۂ خدا اور خلیفۂ رسولؐ مانتے ہیں، اور وہ امامِ عالی مقامؑ کے ہر فرمان پراسی لئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔
اسماعیلی فرقے کا کلیدی عقیدہ یہ ہے، کہ خدا کی فرمانبرداری رسولؐ کی ہدایت کے مطابق کی جائے اور رسولؐ کی فرمانبرداری امامِ زمانہؑ کی ہدایت کے مطابق کی جائے، وہ اپنے اس نظریے کی تصدیق میں اس آیتِ قرآنی کو پیش کرتے ہیں کہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (۰۴: ۵۹) اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرواور رسول کی اطاعت کرو اور اولوالامر کی اطاعت کرو، جو تم میں سے (یعنی تمہارے درمیان) ہیں، پس اسماعیلی اولوالامر سے اپنے سلسلہ کے تمام آئمۂ طاہرین مراد لیتے ہیں، اور امامِ وقت کو صاحبِ امر مانتے ہیں، چنانچہ حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی اسماعیلی جماعت کے امامِ زمانؑ اور صاحبِ امر ہیں، جن کی عروسی مبارک کا جشنِ سعید آج کے دن اسماعیلی عالم میں انتہائی عقیدت ومحبت سے منایا جا رہا ہے۔
اسماعیلیوں کے مذکورۂ بالا عقائد کا سب سے آخری نتیجہ یہ نکلا کہ وہ امامِ زمانؑ کو رشد وہدایت کا ایک ایسا عظیم مرکز مانتےہیں،
۱۳۲
جس کو خدا اور رسولؐ نے اس غرض سے قائم کر دیا ہے، کہ اس کے ذریعے سے اسلامی اخوّت کے باہمی اختلافات ختم کئے جائیں، اور مسلمانانِ عالم کے درمیان صحیح معنوں میں اتفاق و اتحاد قائم ہے۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۲
۱۳۳
امامِ برحقؑ کا دیدارِ فیض آثار
(علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)
امامِ حیّ و حاضر کے دیدارِ فیض آثار کی اہمیّت و افادیت اور قدرو منزلت کے بارے میں کچھ حقائق پیش کرنے سے قبل یہ لازمی امر ہے، کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بطریقِ اختصار یہ ذکر کر دیا جائے، کہ دینِ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے نورانی دیدار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ظاہری دیدار کا کیا تصوّر و عقیدہ ہے، تاکہ مومنین اس واضح بیان سے امامِ زمانہ کے دیدارِ اقدس کی حقیقت و حکمت کو بخوبی سمجھ سکیں۔
دیدار کا تذکرہ: چنانچہ اگر کوئی ذی علم اور صاحبِ بصیرت انسان قرآن حکیم کی معنوی گہرائیوں تک رسا ہوکر غوروفکر کرے، تو یقیناً اس پر یہ حقیقت منکشف ہو گی، کہ قرآن حکیم کی تمام آیاتِ مقدّسہ حکمت کے انداز میں نورانی دیدار کے تذکروں سے بھری ہوئی ہیں، اور ان میں کوئی بھی آیت ایسی نظر نہیں آتی، جو اس تذکرہ سے بالکل خالی ہو، چنانچہ ذیل میں قرآنِ شریف کا ایک ایسا کلّیہ درج کر دیا جاتا ہے، کہ
۱۳۴
جس سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہرہوگا، کہ کائنات، موجودا ت اور قرآن کا کوئی ایسا جزو نہیں، جو اپنے کسی نہ کسی پہلو سے حق تعالیٰ کے جمال و جلال کی آئینہ داری نہ کرتا ہو، اور وہ کلّیہ یہ ہے:۔
فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِؕ (۰۲: ۱۱۵) پس تم جس طرف بھی متوجّہ ہو جاؤ، وہیں خدا کا چہرہ موجود ہے۔ خدا کے چہرہ سے نورانی دیدار اور معرفت مراد ہے، اور “این” کا لفظ تمام عرصۂ زمان ومکان اور جملہ حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے، پھر اس کے معنی یہ ہوئے، کہ اوّل، آخر، ظاہراور باطن کے تمام مقامات وحالات میں نورِ الٰہی کی کوئی نہ کوئی جلوہ نمائی موجود ہے، اور اہلِ بصیرت ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حالت میں دیدارِ خداوندی کے فیوض و برکات سے مستفیض ہو سکتے ہیں، پس معلوم ہوا، کہ جس طرح عین الیقین کے درجے میں کائنات کی ہر چیز کے باطن میں دیدارِ الٰہی کا جلوہ نظر آتا ہے اسی طرح علم الیقین کے مقام پر قرآنِ حکیم کی ہر آیت، ہر جملہ اور ہر لفظ کی حکمت میں اس پاک دیدار کے متعلق کوئی نہ کوئی تذکرہ پایا جاتا ہے۔
مذکورۂ بالا تاویلی حقیقتوں کے علاوہ قرآنِ پاک میں ایسی بہت سی آیتیں ہیں، جن میں دیدارِ ربّانی کا واضح طور پر بیان آیا ہے، ہم یہاں ان تمام آیات میں سے صرف چار آیتوں کی وضاحت پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ وجود و ہستی کے چار حالات کے اعتبار سے دیدارِ الٰہی کے مقامات چار ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ
۱۳۵
وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ (۵۷: ۰۳) وہی سب سے پہلے ہے اور وہی سب سے پیچھے ہے اور وہی سب سے آشکار ہے اور وہی سب سے مخفی ہے۔
ھوالاوّل کا اشارہ: پہلی آیت جو مقامِ اوّل کے دیدار کے بارے میں ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں ارواح کو مخاطب کر کے فرمایا: ” اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْؕ (۰۷: ۱۷۲) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ قَالُوْا بَلٰىۚ-شَهِدْنَاۚ (۰۷: ۱۷۲) انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم (سب اس واقعہ کے) گواہ بنتے ہیں۔” ظاہر ہے کہ اس وقت ارواح سے خداتعالیٰ کی ہستی اور ربّوبیت کی عینی گواہی لی گئی تھی، اور ان تمام روحوں کو ربّ العزّت کے نورانی دیدار کا شرف حاصل ہوا تھا، کیونکہ حکیمِ مطلق کے حقیقی عدل کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں، کہ کچھ لوگوں سے کسی ایسے واقعے کی شہادت پوچھ لی جائے اور ان کو گواہ بنا لیا جائے، جبکہ وہ واقعہ ان پر تاریک اور چھپا ہوا ہے، اور وہ لوگ اس سے بالکل نابلد اور قطعاً ناواقف ہیں، پس یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ روحوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی ربّوبیت کی یہ گواہی دیدار اور جملہ صفاتِ کمالیہ کی روشنی میں تھی۔
والآخرکا اشارہ: دوسری آیت جو مقامِ آخر کے دیدار کے بارے میں ہے، یہ ہے: ” مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍؕ (۲۹: ۰۵) جو شخص
۱۳۶
خدا کے دیدار کی امید رکھتا ہو، تو خدا کے وعدے کا دن ضرور آنے والا ہے۔” اس ارشادِ ربّانی میں اس دیدار کا ذکر ہے، جو مستقبل اور آخرت میں مومنین کے لئے میّسر ہونے والا ہے۔
“والظاھر” کا اشارہ: تیسری آیت جو مقامِ ظاہر کے دیدار کے باب میں ہے، یہ ہے، جو فرمایاگیا کہ: ” اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔” اور نور کی تعریف یہ ہے، کہ وہ بذاتِ خود روشن اور ظاہر ہے، اور کائنات کی تمام چیزوں کو بھی منور و آشکار کر دیتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص آفتابِ عالم تاب کو دیکھنا چاہے، تو خود اسی کی روشنی میں دیکھ سکتا ہے، نہ کسی اور چیز کی روشنی میں، اس کا مطلب یہ ہے، کہ حق تعالیٰ کا نورانی دیدار حالتِ ظہور میں بھی ہے، مگر یہ دیدار خود نور ہی کے وسیلے سے حاصل کیا جا سکتا ہے، نہ کسی اور ذریعے سے، جیسا کہ ارشاد ہے: ” یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُؕ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ اپنے نور تک جس کو چاہتا ہے راہ دے دیتا ہے۔ ”
والباطن کا اشارہ: چوتھی آیت، جو مقامِ باطن کے دیدار کے سلسلے میں ہے، یہ ہے، جو حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا (۱۹: ۱۷) پس ہم نے مریمؑ کے پاس اپنی روح یعنی نور بھیجا اور
۱۳۷
وہ ایک (ہر طرح سے) صحیح انسان کے روپ میں اس کے سامنے ظاہر ہوا۔” اس مقام پر یہ بات قابلِ ذکرہے، کہ اگر روح القدّس حضرت مریمؑ کے سامنے انسانی صورت میں ظاہر ہوئی، تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں، کہ وہ پھر اس وقت روح نہ رہی اور جسم بن گئی، بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے، کہ روح القدّس مقامِ روحانیّت پر روح ہی تھی، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے جسمانی مظہر کے ذریعے ظہور پذیر بھی تھی، پس اس بیان سے ثابت ہوا کہ اس آیت کی حکمت میں دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن دونوں کی دلیل موجود ہے، چنانچہ یہاں ایک مناسب مثال بیان کر دی جاتی ہے کہ سورج اگرچہ ظاہر ہے، تاہم وہ باطن بھی ہے، کیونکہ اس کا اندرونی اور عقبی حصہ حجابِ نور میں پوشیدہ ہونے کی وجہ سے ظاہر نہیں، اس کے یہ معنی ہوئے، کہ سورج نے اپنے آپ کو بیک وقت ظاہر میں بھی کر دیا ہےاور چھپا بھی لیا ہے، یہی مثال دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن کی بھی ہے۔
رسولِ اکرمؐ کا دیدار: اب ہم حضرت محمدؐ مصطفٰی رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے مبارک دیدار کے بارے میں ایک مشہور حدیث اور کچھ فکر انگیز الفاظ درج کرتے ہیں، کہ آنحضرتؐ کا ارشادِ گرامی ہے: “من رانی فقد رای الحق=جس شخص نے میرا دیدار کیا پس اس نے خدا کا دیدار کیا۔” اس حدیثِ شریف میں دو باتوں کا خصوصیّت کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ
۱۳۸
کے پاک دیدار کا حصول حقیقی مومن کے لئے ایک انتہائی ضروری امر ہے، دوسری یہ کہ اس مقدّس دیدار کے لئے واسطہ اور وسیلہ صرف انسانِ کامل ہی ہے، کیونکہ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے، کہ اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے روح القدّس یعنی خدا کے نور کا نزول ہوا ہے، تو لازمی طور پر یہ بھی ماننا ہی پڑے گا، کہ انسان کامل (یعنی پیغمبرؐ اور امامؑ) کے سوا اور کوئی مخلوق اس مقدّس اورعظیم نور کے لئے نہ تو حامل بن سکتی ہے، اور نہ ہی اس سے دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا، کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یعنی نور حضرتِ مریمؑ کے پاس بھیجا تووہ انسانِ کامل ہی کی صورت میں ظاہر ہوا، اور قانونِ الٰہی کی رو سے یہی ممکن اور مناسب تھا، کہ جو روح یا نورعالمِ ملکوت سے عالمِ ناسوت میں نازل ہو آئے، تو اسے سب سے پہلے بشریّت کے بلند ترین درجے میں آنا چاہیے، اور وہ بلند ترین درجہ اور عظیم ترین مرتبہ نبوّت اور امامت کے نام سے ہے۔
قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے، کہ صاحبِ امرؑ کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت ہے، اور رسولؐ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، اورارشاد ہوا ہے کہ اگر رسول اللہ کو کچھ دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرنی ہےتو بس یہی کہ تم رسولؐ کے قرابتداروں سے دوستی و محبت رکھا کرو، نیز ارشاد ہے، کہ خداکی خاص دوستی حاصل کرنے کے لئے رسولؐ کی فرمانبرداری کی جائے، اس نوع کی آیتوں کی تعلیمات کا نتیجہ یہ نکلتا
۱۳۹
ہے، کہ جس طرح پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کی فرمانبرداری خدا کی فرمانبرداری ہے، ان حضرات کی محبت خدا کی محبت ہےاور ان کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے، بالکل اسی طرح ان کا دیدار بھی خدا کا دیدار ہے۔
امام زمانؑ کا دیدار: سیدنا قاضی نعمان کی ایک مشہور تصنیف “کتاب الھمہ فی آدابِ اتباع الائمّہ” کے صفحہ ۴۶پر اس حدیثِ مرفوع کا ذکر کیا گیا ہے: “ان النظر الی الامام عبادۃ، والنظر الی المصحف عبادۃ۔ تحقیق امام کی طرف دیکھنا ایک قسم کی عبادت ہے، اور قرآن کی طرف دیکھنا بھی ایک طرح کی عبادت ہے۔” قاضی نعمان صاحب پھر اپنے الفاظ میں فرماتے ہیں کہ بھول اور غفلت کی نگاہ سے امام کی طرف دیکھنے میں کوئی عبادت نہیں، بلکہ غوروفکر کی نظر سے دیکھنے میں عبادت ہے، جس طرح سوچے سمجھے بغیر قرآن کی طرف دیکھنے والے کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، جیسے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔” اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا (۴۷: ۲۴) پس کیا وہ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل ہیں۔” پس اس بیان سے جوامامؑ اور قرآن کی طرف دیکھنے اور غوروفکر کرنے کے بارے میں ہے، یہ ظاہر ہوا کہ امامِ حیّ وحاضرؑ کے مبارک اور پُرحکمت دیدار کے فیوض و برکات حاصل کرنے میں تمام مومنین ومومنات ایک جیسے نہیں، بلکہ وہ سب اپنی اپنی عقیدت، محبت، معرفت اور فرمانبرداری کے لحاظ سے مختلف درجات پر ہیں، کیونکہ جس طرح قرآن فہمی کے اعتبار سے
۱۴۰
لوگوں کے بے شمار درجے ہوتے ہیں، اسی طرح امام شناسی کے لحاظ سے بھی ان کے لاتعداد مراتب ہیں۔
اخیر میں جو کچھ مناسب اور موزون بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے، کہ امامِ زمانؑ کی تشریف آوری اور دیدارِ اقدس کی رحمتوں اور برکتوں سے دینی اور دنیاوی طور پر صرف وہی حقیقی مرید پورا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جواس مبارک موقع پر اپنے تمام اعمال کا باریک بینی سے احتساب کریں، اپنی ناپسندیدہ عادتوں اور نافرمانیوں سے دست بردار ہو جائیں، اور اپنے دل میں امام زمانؑ سےیہ وعدہ کریں، کہ وہ آئندہ کسی بھی قسم کی نافرمانی کے مرتکب نہ ہوں گے، عبادت میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے اور امام کے کسی بھی مرید کی دل آزادی نہ کریں گے، پس صرف اسی صورت میں اہلِ ایمان کو امامِ عالیمقامؑ کے پاک دیدار کا لازوال ثمرہ حاصل ہو سکتا ہے، اور اپنے مریدوں کے پاس امام زمانؑ کے تشریف لانے اور ان کو دیدار کرانے کا اصلی مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔
تحریر: جنوری ۱۹۷۰پاکستان میں اما م زمانؑ کی تشریف آوری کے موقع پر۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۳
۱۴۱
ذکرِ الٰہی میں شفا
بقلمِ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
ذکرِ الٰہی نتیجۃً صحت و سلامتی کا ذریعہ، اطمینانِ قلب کا باعث اور علم و حکمت کی کلید ہونے کے علاوہ لفظی طور پر بھی خداشناسی و معرفت کی ایک روشن دلیل ہے۔
لفظِ ذکر کے اشارے:۔
لفظِ “ذکر” کے معنی میں خدا کی شناخت اور پہچان کے اشارات اس طرح سے ہیں، کہ ذکر کے معنی ہیں کسی جانی پہچانی ہوئی چیز کے تصوّر کو الفاظ ومعانی کے ذریعے دل و دماغ میں لانا مگر کسی چیز کو دیکھے، جانے اور پہچانے بغیر یاد کرنا محال ہے، اب اس بیان سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلا، کہ خدا کی حقیقی یاد وہ ہے، جو معرفت (یعنی پہچان) کی روشنی میں کی جاتی ہے۔
ذکرِ الٰہی کی مثال:
حقیقی ذکر کی ایک خاص شرط خداشناسی اور معرفت ہونے کے دلیل یہ ہے، جو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَآءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًاؕ (۰۲: ۲۰۰) پس تم اللہ
۱۴۲
تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آبا کو یاد کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ یاد کرو، اس ارشادِ الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے آبا کو دیکھے، پہچانے اور مانوس ہوئے بغیر اس کثرت و شدّت سے یاد نہیں کر سکتے، جس کو اللہ تعالیٰ اپنے ذکر کی مثال اور نمونہ قرار دے، اور اگر وہ چار و ناچار اپنے آبا کو یاد کرنے میں کوئی معیاری نمونہ پیش کرتے ہیں، تو اس کی وجہ پہچان، مانوسیّت اور محبّت ہے، چنانچہ اس مثال سے یہ امر لازمی ہوا کہ خدا کو معرفت اور عشق سے یاد کیا جائے۔
ذکرِ الٰہی کی اس مثال میں ان تمام حقائق کے اشارے سموئے ہوئے موجود ہیں، کہ ایک صاف دل اورخیرخواہ باپ اپنے چھوٹے سے بچے کو کس قدر عزیز رکھتا ہے، اس کے حق میں کتنا شفیق و مہربان ہوتا ہے اور کس طرح اس کی بہتری و کامیابی کا طلبگار رہتا ہے، اور اس کا وہ چھوٹا سا معصوم اور سادہ لوح بچہ جب اپنے پیارے باپ سے دور رہنے لگتا ہے، تو کس قدر بے تاب و مضطرب ہو کر اور کیسے اشتیاق کے عالم میں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے، ہر چند کہ اس کی ماں، بہنیں اور گھر کے دوسرے عزیز افراد اسے بہلا پھسلا کر باپ کی یاد سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، مگر یہ اپنے باپ کو اور اس کی شفقتوں اور نوازشوں کوہرگز فراموش نہیں کر سکتا، اور جب کوئی شخص بھول سے اس کے باپ کا کوئی تذکرہ کرتا ہے، تو اس کے نازک اور پاکیزہ دل میں باپ کی محبت کی آگ شعلہ زن ہونے لگتی ہے، اور وہ بہانہ جوئی کرتے ہوئے رونے لگتا ہے، محبت اس کے اشتہا کو اپنے قبضے میں کر لیتی ہے، اس
۱۴۳
لئے وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا، جب بہت سی کوشش کے بعد اس کو سلادیا جاتا ہے، تو وقفہ وقفہ پر جھٹکوں کے ساتھ چونک اٹھتا ہے، کیونکہ ہر بار وہ خواب و خیال میں اپنے باپ ہی کو دیکھتا ہے، اور اس کے ساتھ چمٹ جانے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے جاگ اٹھتا ہے، یہاں تک کہ بعض دفعہ شدّتِ یاد کے بخار سے اس کا جسم تپتا رہتا ہے۔
خدا کی یاد اور باپ کی یاد میں فرق:
جیسا کہ بیان ہوچکا، کہ معصوم اور سادہ لوح بچہ مانوسیّت کے بعد جب باپ سے جدا اور دور رہنے لگتا ہے، تو وہ بعض دفعہ شدّتِ اشتیاق کی بیماری میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے، لیکن ذکرِ الٰہی کے بارے میں عقل و دانش یہ کہتی ہے، کہ اگرچہ خدا کی یاد کی مثال باپ کی یاد سے دی جا سکتی ہے، تاہم انسانی یاد کے آثار و نتائج کے برعکس ذکرِ الٰہی سے حقیقی مومنین کے لئے جسم و جان کی صحت وسلامتی اور سکون و اطمینان حاصل ہونا چاہئے، اور قرآنی اشارات کا اشارہ بھی یہی ہے، چنانچہ قولِ قرآن ہے کہ: اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ (۱۳: ۲۸) خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔ پس مطلب صاف طور پر ظاہر ہے، کہ کسی انسان کے دل کو اطمینان اس وقت ہو جاتا ہے، جبکہ وہ ذہنی اور جسمانی تکلیفوں اور بیماریوں سے بالکل محفوظ ہو، یا پھر اس کو برداشت کی معجزانہ قوّت ملے، اس کے بغیر اطمینانِ قلب کے کچھ معنی نہیں۔
۱۴۴
ذکر کا تعلق پاک دل اور پاک زبان سے:
جب تک انسان اپنی زبان اور دل کو ناشائستہ اقوال و افعال کے زنگ و کدورت سے پاک نہ رکھے، تو وہ مذکورہ بالا مثال کے مطابق خدا کو یاد نہیں کر سکتا، اور جب حقیقی معنوں میں خدا کو یاد نہیں کر سکتا، تو ذکرِ الٰہی کے ظاہری و باطنی فوائد سے محروم رہ جاتا ہے اور اس محرومیّت میں ہر قسم کی ناکامی پوشیدہ ہے۔
ذکر میں شفا ہونے کی دلیل:
اگر پوچھا جائے کہ یادِ الٰہی کس طرح باعثِ شفا ہو سکتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے، کہ اکثر دفعہ انسان اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے، غلط کاری نفسِ امّارہ کے حکمران ہونے سے صادر ہوتی ہے، نفسِ امّارہ کی حکمرانی نہیں ہو سکتی، جب تک کہ عقلی اور روح الایمان کمزور نہ ہوں، یہ دونوں کمزور اس وقت ہوتی ہیں، جبکہ ان کو اصلی و پُرقوّت غذا نہ ملے، اور ایسی غذا کا واحد ذریعہ ذکرِ الٰہی ہے، جس میں عقل اور روح الایمان کے لئے سب کچھ موجود ہے، پس معلوم ہوا، کہ جب اللہ کے بندوں کو ذکر سے عقل و روح کی لذّتیں اور راحتیں میسر ہونے لگتی ہیں، تو اس وقت ان کی نفسانی خواہشات روحانی قوّتوں کے نیچے دبی ہوئی رہتی ہیں، پھر اس وقت ایسی تکالیف نہیں آتیں، جو غلط کاریوں کی پاداش کے طور پر پہنچتی ہیں۔
۱۴۵
ذکر میں جسمانی مدد:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (۰۸: ۴۵) اے ایمان والو، جب تم (جہاد میں) کسی گروہ کے مقابل ہوتے ہو، ثابت قدم رہو، اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو، پس ظاہر ہے، کہ ذکرِالٰہی سے نہ صرف عقل و روح ہی کو نورانی قوّت ملتی ہے، بلکہ اس سے جسم کو بھی معجزانہ قسم کی مدد ملتی رہتی ہے۔
مادّی خوف: ذکرِ الٰہی اورخوف خدا کی ایک اور مثال یہ ہے، کہ جب انسان پر یکایک ظاہری قسم کا کوئی خوف طاری ہو جاتا ہے، تو اس وقت اس کے دل کے مرکز سے عجیب قسم کی ہیجانی لہر اس کے تمام جسم میں پھیل جاتی ہے، نہ معلوم کہ کچھ لوگوں کے علم میں یہ بات کس طرح آگئی، کہ خوف کی ایسی کیفیت کے دوران روحِ حیوانی کے ذرّات خون کی نالیوں وغیرہ میں دوڑنے لگتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بعض بیماریوں کا نفسیاتی علاج خوف کے اصول سے شروع کر دیا، مثلاً بخار کے مریض کے پاس، جبکہ اسے خبر ہی نہ ہو، بندوق چلائی، اور یہ طریقہ بعض دفعہ باعثِ شفا ثابت ہوا، کہ خوف کے ایک ہی جھٹکے کے ساتھ اس کی بیماری کے سارے جراثیم نکل گئے، اور وہ صحت یاب ہو گیا، اس کا سبب شاید یہی ہو، کہ روحِ حیوانی کا کچھ حصہ
۱۴۶
مدافعہ کے لئے یا گریز کی صورت میں جسم سے خارج ہو جاتا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ بیماری کے اکثر جراثیم بھی نکل جاتے ہیں۔
روحانی خوف: مثالِ مذکورۂ بالا ظاہری اور مادّی خوف کی تھی، اب اس عجیب و غریب اور معجزانہ خوف کا حال سنئے، جو کثرتِ ذکر کے بعد حق پرست بندوں پرطاری ہو جاتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:۔
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ (۳۹: ۲۳) اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام نازل فرمایا ہے، جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جلتی ہے، بار بار دہرائی گئی ہے، جس سے ان لوگوں کے، جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں، بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف متوجّہ ہو جاتے ہیں۔
آیۂ مذکورۂ بالا اگرچہ ظاہراً قرآنِ پاک کی تعریف میں ہے، تاہم اس میں حکمت کا پہلو بھی بجائے خود نمایان ہے، وہ یہ ہے، کہ ہر مومن کے لئے عبادت وبندگی کے وہ الفاظ، وظائف، اوراد اور اسماء “احسن الحدیث” کی حیثیت سے ہیں، جو امامِ زمان علیہ السّلام مقرر فرماتے ہیں، اور یہی خاص عبادت و ذکر وہ عظیم معجزہ ہے، جو کئی طرح کے
۱۴۷
معنوں سے دہرائی جانے والی کتاب کی صورت اختیار کرتاہے، اور اسی سے مومنین کے بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر ذکر کی طرف متوجّہ ہو جاتے ہیں، پس اس کا نتیجہ یہ نکلا، کہ جس طرح انسان کا دل ذکرِ الٰہی کے فیضان کو قبول کر سکتا ہے، اسی طرح اس کا جسم بھی یادِ الٰہی کے فیوض و برکات سے بہرہ ور ہو سکتا ہے، چنانچہ باور کیا جا سکتا ہے، کہ اس قسم کے ذکر کے معجزے سے انسانی جسم کے خلیات و ذرّات کی تجدید ہو جاتی ہے، جس سے بہت سی روحانی و جسمانی بیماریوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
علاج و معالجہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا مجموعی اصول یہ ہوتا ہے، کہ کسی تدبیر سے جراثیم کو مریض کے اندر ہی ہلاک و تباہ کر دیا جائے یا ان کو بدر کر دیا جائے، اب اگر جراثیم میں زندگی پائی جاتی ہے، اور ان میں ایک قسم کی روح موجود ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرثومہ روح اور جسم دونوں میں مشترک ہے، یعنی روحانی اور جسمانی دونوں طریقوں سے اس پر تصرّف کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ پروردگار عالم کا قول ہے کہ:۔
مَا مِنْ دَآبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِیَتِهَاؕ-اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (۱۱: ۵۶) زمین پر چلنے والا کوئی بھی ایسا نہیں مگر یہ کہ وہ (خدا) اس کی پیشانی کے بال پکڑنے والا ہے، یقیناً میرا پروردگار سیدھی راہ پر ہے، پس اس آیت کی حکمت کے بموجب یہ ضروری ہے، کہ ہر ذی روح مخلوق میں اپنی نوعیّت کا احساس ہے، اور قادرمطلق ہر جانور کے اسی احساس کو پکڑکر راہِ راست کی
۱۴۸
طرف کھینچ سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ ہر قسم کا جرثومہ بھی اپنی نوعیّت کا احساس رکھتا ہے۔ پس اگر خدا چاہے تو اس کے احساس پر تصرف کر سکتا ہے، اور اس میں خوف و گریز کی خواہش ڈال سکتا ہے۔
ذکر میں قوّتِ برداشت:
ذکرِ الٰہی کے اس قدر شفا بخش اور معجز نما ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی مومن خدا کی مصلحت و حکمت سے بیمار رہتا ہو، تو پھر بھی خدا کی یاد سے مایوسی کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہو سکتی، کیونکہ ایسے موقع پر عبادت اور ذکر مومن کو صبرو تحمل اور تسلیم و رضا کی ایسی بے مثال طاقت بخشتا ہے، کہ جس سے وہ اپنی بیماری کی تکلیف کو محسوس ہی نہیں کرتا، جیسا کہ انبیاء، اولیاء اور حقیقی مومنین کے تذکروں سے یہ مثال ظاہرہے۔
ذکر کا سب سے بڑامقصد:
حقیقی مومن اپنے پروردگار کو صرف اسی لئے یاد نہیں کرتا، کہ اس کے جسم و جان کی صحت وسلامتی قائم رہے اور بس، بلکہ اس کا سب سے بڑا مقصد خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، جس میں مومن کے لئے سعادتِ دارین کے راز سر بستہ ہیں تاہم یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خدا کی خوشنودی کے طلب گار رہنے سے روحانی و جسمانی فیوض وبرکات کے حاصل ہونے میں بسا اوقات کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، تاکہ مومن شکرگزاری کے طریق پر بھی خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کرتا رہے۔
۱۴۹
دل کا آسمان
مِنکلامِ مولوی معنوی رومی رحمتہ اللہ علیہ
ازکلیاتِ شمس تبریزی (ق۔ س)
(ترجمہ از علّامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی)
۱۔ نقش بندِ جان کہ جانہا جانبِ اومائل است
عاقلان را برزبان و عاشقان را دردل است
ترجمہ:۔ نقاشِ جان یعنی روح کا خالق و مالک، جس کی طرف جانیں راغب اور متوجہ ہیں، دانشمندوں کی زبان پر اور عاشقوں کے دل میں موجود ہے۔
۱۵۰
۲۔ آنکہ باشد ہر زبانہا لا احب الافلین
باقیات الصالحات است آنکہ درددل حاصل است
ترجمہ:۔ جو زبانوں پر ظہور رکھتا ہے (اس کے بارے میں یہ ہے کہ) میں غروب ہوجانے والوں سے دوستی نہیں رکھتا۔ اور جو دل میں ظہور رکھتا ہے، وہی ہمیشہ باقی رہنے والی نیکیوں کی حقیقت ہے۔
۳۔ دل مثالِ آسمان آمد زبان ہمچون زمین
از زمین تا آسمانہا منزلِ بس مشکل است
ترجمہ:۔ دل آسمان کی طرح ہے اور زبان زمین کی طرح ہے، اور زمین سے لے کر آسمان تک (اتنی مسافت اور بلندی طے کر کے پہنچ جانا) ایک انتہائی مشکل منزل ہے (یعنی زبانی الفاظ سے شروع کر کے دل کی حقیقت تک پہنچ جانا ایسا ہی مشکل کام ہے، جیسے زمین سے آسمان میں پہنچ جانا) ۔
۴۔ دل مثالِ ابر آمد سینہا چوں با مہا
دین زبان چون ناودان باران ازینجا نازل است
ترجمہ:۔ دل (علم و حکمت کے پانی کے لئے) بادل کی مثال ہے، اور سینے چھتوں کی طرح ہیں، اور یہ زبان پَرنالہ کی طرح ہے، اور یہیں سے (یعنی زبان کے پَرنالے سے) علمی بارش کا پانی گرتا ہے۔
مطلب:۔ دل آسمان اور بادل ہونے کی تاویل یہ ہے کہ دل کی
۱۵۱
اصلیّت و حقیقت ہی روحانیّت کی بلندی اور آسمان ہے۔ اور یہیں سے روحانی علم و دانش کی بارش برستی ہے، جسے وحی و الہام کہئے یا علمِ لدّنی یا ہدایتِ خاص وغیرہ، علم حقیقت کے الفاظ زبان پر آنے سے پہلے سینے میں جمع ہوجاتے ہیں، جس طرح بارش کے قطرات یا توپہاڑ پر جمع ہو کر پانی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں یا چھت پر، پھر یہ علم زبان کے ذریعے ظاہر ہونے لگتا ہے، جس طرح پہاڑ کا پانی نہر سے آتا ہے اور چھت کا پانی پرنالے سے گرتا ہے۔
۵۔ آب ازدل پاک آمد تاببامِ سینہا
سینہ چون آلودہ باشد این سخنہا باطل است
ترجمہ:۔ علم کا یہ پانی دل کی بلندی سے لے کر سینوں کی چھتوں تک تو پاک اور صاف ہی آیا، مگر جب سینہ (دنیاوی آلائشوں سے) آلودہ ہوا، تو (علم کا یہ پانی بھی پینے اور نہانے کے قابل نہ رہا، پس) ایسے علم کی باتیں باطل ہیں۔
۶۔ این خود آنکس را بود کزابراوباران چکد
بام کو از برگیروناودانش قائل است
ترجمہ:۔ یہ مثال صرف اس شخص کی ہے، جس کے بادل بارش برسا دیتے ہیں، اور چھت بادلوں سے پانی حاصل کرتی ہے، اس کا حال پرنالہ خود ہی بتا دیتا ہے۔
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۶
۱۵۲
نعتِ نبی اکرم صلعم
(از علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی)
۱۔ کلامِ خدادان کلامِ محمدؐ
سخن گفتہ یزدان زکامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کے کلام نے خداتعالیٰ کے کلام کو سمجھا دیا (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ کی زبانِ مبارک سے خطاب فرمایا ہے۔
۲۔ کتابِ خدا معجزِ بے مثالے
گواہِ کمالِ کلامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب (یعنی قرآن جو) ایک بے نظیر معجزہ ہے، حضرت محمدؐ کے کلام کی کمالیت کی گواہ ہے۔
۳۔ خداوندِ برتر نوازش نمود
بتکریمِ لولاک بکامِ محمد
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کے حصولِ مقصد کے لئے لولاک
۱۵۳
(لما خلقت الافلاک) کی تعظیم و تکریم سے نوازش فرمائی۔
۴۔ خدایش فشانید برعرشِ عزت
مقامیست محمود مقامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ حق تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو (بموقعِ معراج) تختِ عزّت یعنی عرشِ اعظم پر بٹھایا (پس) محمدؐ کا مقام وہ مقام ہے، جس کی تعریف کی گئی ہے۔
۵۔ گہر ہائے حق اوصیا و رسل
خدا سفتہ اندر نظامِ محمد
ترجمہ:۔ حق تبارک و تعالیٰ نے حضرات انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے موتیوں کو حضرت محمد صلعم کی لڑی (سلسلہ) میں پروئے ہیں۔
۶۔ برون از حساب و فزون از شمار
درودِ الٰہی بنامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ حضرت محمد صلعم کے اسمِ گرامی پر اللہ تعالیٰ کی بے حساب اور لاتعداد رحمت نازل ہو۔
۷۔ درآمد بدینِ خدا عالمے
باحکامِ شرع و حسامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کے احکامِ شرعی اور تیز تلوار سے (جو حضرت علیؑ کے ہاتھ میں تھی) دینِ خدا میں ایک پوری دنیا داخل ہو گئی۔
۱۵۴
۸۔ کشد بوئے رحمٰن زسویِ یمن
غذائی جلالی مشامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کامشام (یعنی سونگھنے کی قوت) یمن کی جانب سے جلالی غذا کے طور پر رحمٰن کی خوشبوئیں سونگھ لیا کرتا ہے۔
۹۔ کسے راکہ بختش کند یارمندی
فتداز عقیدت بگامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ جس شخص کو اپنا بخت مدد کرتا ہے، وہ خلوص وعقیدت سے حضرت محمدؐ کے مبارک قدمو ںپر جا گرتا ہے۔
۱۰۔ نبیؐ و علیؑ ہست مولایِ حاضر
بود دردوعالم دوامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ مولای حاضر حضرت نبیؐ اور حضرت علیؑ (کا نور) ہیں، کیونکہ دونوں عالم میں حضرت محمدؐ کی دائمیت برقرار ہے۔
۱۱۔ پیامِ محمدؐ پیامِ امامت
پیامِ امامت پیامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کا پیغام نورِ امامت کا پیغام ہے، نورِ امامت کا پیغام حضرت محمدؐ کا پیغام ہے۔
۱۲۔ کنون شہ کریم آلِ پاکِ نبی دان
برومیکنم احترامِ محمدؐ
۱۵۵
ترجمہ:۔ موجودہ وقت میں مولانا شاہ کریمؐ (حاضر امام) کو حضرت نبیؐ کی پاک آل سمجھ لے، میں تو انہیں کے واسطہ سے حضرت محمدؐ کا احترام بجا لاتا ہوں۔
۱۳۔ شدہ کشفِ اسرارِ حق بردلم
چوشد جانِ من مستِ جامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ جب سے میری جان (روح) حضرت محمدصلعم کے (عشق کے) پیالے سے مست و مخمور ہوئی، تو میرے دل پر حق تعالیٰ کے اسرار منکشف ہوئے ہیں۔
۱۴۔ فدای امسامی کہ از آلِ اوست
تن و جانِ زارِ غلامِ محمدؐ
ترجمہ:۔ حضرت محمدؐ کے اس غلام کا جسم و جان اس امام پر فدا ہو، جو آنحضرتؐ کی آل سے ہیں۔
۱۵۔ چہ خوش خواند نورش بگوشِ نصیرؔ
کلامِ خدا ہم کلامِ محمدؐ
(سبحان اللہ!) اس (امامِ زمانؑ) کے نور نے نصیر ؔ کے کان میں خدا کے کلام (یعنی حکمتِ قرآن) کو نیز محمدؐ کے کلام (یعنی حکمتِ حدیث) کوکس خوش اسلوبی سے پڑھا!
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۷
۱۵۶
سردارِ رسل کے وزیر
(از قلمِ علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)
وزیر کے لغو ی معنی ہیں بوجھ اٹھانے والا، اور اصطلاح میں وزیر اس شخص کو کہتے ہیں، جو کسی بادشاہِ مطلق العنان یا صدرِ جمہور کے امورِ مملکت اور نظامِ حکومت کی ذمہ داریوں کے بارِ گران کا متحمل ہوتا ہے، یہی مثال اور مفہوم خلافتِ الٰہیہ یعنی دینی حکومت کا بھی ہے، کہ اس میں ہر دور کا پیغمبر دینی بادشاہ اور اس کا وصی (یعنی وہ امام جس کو پیغمبر وصیت کرے) دینی وزیر ہوا کرتا ہے۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام جب پہلی بار کوہِ طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے، تو حق تعالیٰ نے ان کو پیغمبری کے درجہ پر مامور فرمایا، اور موسیٰ علیہ السّلام نے اس موقع پر پروردگارِ عالم سے جو کچھ عرض والتجا کی، اس میں یہ بھی ہے کہ: ـ۔ وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ هٰرُوْنَ اَخِی اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ (۲۰: ۲۹ تا ۳۲) ترجمہ:۔ اور میرے لئے میرے اہل میں سے ایک وزیر بنا دے (یعنی) میرا بھائی ہارون،
۱۵۷
اس کے ذریعے سے میری کمر مضبوط کر دے، اور اسے میرے کام میں میرا شریک کر دے۔
اسماعیلی اور اثنا عشری کتابوں کے علاوہ سنی مکتبۂ فکر کے مآخذ میں بھی یہ روایت مذکور ہے، کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے سلسلۂ قصّہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مذکورۂ بالا آیت نازل ہوئی، تو آنحضرتؐ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی کہ: اے بارِ خدا! میں بھی اسی طرح التجا کرتا ہوں جس طرح موسیٰؑ نے التجا کی تھی کہ: وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْ هٰرُوْنَ اَخِی اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْ وَ اَشْرِكْهُ فِیْۤ اَمْرِیْ (۲۰: ۲۹ تا ۳۲) اور میرے اہل میں سے ایک وزیر بنا دے (یعنی) میرا بھائی علیؑ، اور اس کے ذریعے سے میری کمر مضبوط کر دے، اور اسے میرے کام میں شریک کر دے۔
حضرت امیرا لمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام سے یہ روایت منقول ہے، آپ فرماتے ہیں، کہ جب آیتِ کریمہ: “وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَ (۲۶: ۲۱۴) اور آپ اپنے نزدیک ترین کنبہ والوں کو ڈرائے۔” نازل ہوئی، تو آنحضرت صلعم نے ایک پیالہ دودھ اور بکری کی ایک ران دستر خوان پر رکھ کر خاندانِ نبی عبد المطلب کو مدعو کیا، جو چالیس مردوں پر مشتمل تھا، مگر دس نوجوان تو ایسے تھے، کہ ان میں سے ہر فرد ایک بکری اکیلا ہی کھا سکتا تھا، اور ایک مشک دودھ پی سکتا تھا، پھر بھی ان لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا پیا اس روز ابولہب بھی ان کے ساتھ تھا۔
۱۵۸
جب خورد و نوش سے فارغ ہو چکے تو رسولِ اکرم صلعم نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ، اے بنی عبد المطلب! میری اطاعت کرو، تو تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤ گے، اور میں تم سے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں، کہ اب تک پروردگارِ عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی مقرر فرمایا تھا، تو آج تم میں سے کون ایسا جوان مرد ہے، جو میرا وصی، میرا وارث، میرا ولی، میرا بھائی اور میرا وزیر بنے گا؟ اتنا سننا تھا کہ سب پر خاموشی طاری ہوئی، مگر آنحضرت صلعم نے اتمامِ حجّت کے طور پر ان میں سے ایک ایک کے سامنے فرداً فرداً یہ دعوت پیش کی، لیکن کسی نے آپؐ کی دعوت کو قبول نہ کیا، بجز آنکہ میں باقی رہ گیا تھا، اس وقت میں سب سے کمسن تھا، مگر جب رسول اللہ صلعم نے میرے سامنے اپنی یہ دعوت پیش کی، تو میں نے مؤدبانہ عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا صلعم میں آپ کا وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی بنوں گا، آپؐ نے فرمایا کہ، ہاں! اے علیؑ تم ہی میرے وصی، میرے وزیر، میرے وارث، میرے بھائی اور میرے ولی ہو۔
جب بنی عبدالمطلب مجلس سے باہر نکلے، تو ابولہب نے ان سے کہا، کہ تم نے آج جو کچھ دیکھا ہے، کیا اس سے تم کو اپنے صاحب محمدؐ کی جادو گری کا ثبوت نہیں ملتا، کہ اس نے تمہارے سامنے دسترخوان پر بکری کی ران رکھی اور دودھ کا ایک پیالہ جس سے تم لوگ خوب سیر شکم ہو گئے، پھر کیا تھا، وہ سب کے سب ابولہب کی اس بات کو سن کر ٹھٹھا کرنے لگے، اور
۱۵۹
حضرت ابو طالبؑ سے کہنے لگے کہ تمہارا بیٹا مقدّم ہو گیا۔ (ازدعائم الاسلام حصہ اول ص۳۱۔ ۳۲) ۔
مذکورۂ بالا حدیث مظہر ہے، کہ پروردگار عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وزیر مقرر فرمایا تھا، چنانچہ حضرت آدمؑ کے وزیر مولانا امام شیث علیہ السّلام تھے، حضرت نوحؑ کے وزیر مولانا حضرت سام علیہ السّلام تھے، حضرت ابراہیمؑ کے وزیر مولانا امام اسماعیل علیہ السّلام تھے، حضرت عیسیٰؑ کے وزیر مولانا امام شمعون علیہ السّلام تھے، اور حضرت محمد مصطفیٰ صلعم کے وزیر مولانا امام علی علیہ السّلام ہیں۔
یہاں پر ایک اور حدیث کی وضاحت کی جاتی ہے، جو”حدیثِ مماثلتِ ہارونی” کے نام سےمشہور ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا: یاعلی انت منی بمنزلتی ھارون من موسیٰ الا انہ لا نبی بعدی۔ اے علی! تیرا درجہ مجھ سے ایسا ہے، جیسے ہارون کا درجہ موسیٰ سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد (کوئی) پیغمبر نہیں ہے۔
یہ حدیث زبانِ حکمت سے ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے، کہ بے شک مولانا علیؑ پیغمبر نہیں ہیں، اس لئے وہ ذاتی طور پر ظاہری پیغام پہنچانے کے ذمّہ دار نہیں، لیکن جہاں تک خدا اور رسولؐ سے ان کی قربت و نزدیکی اور امرِ نبوّت میں شریک ہونے کا تعلق ہے۔ اس کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے، کہ پہلے
۱۶۰
تو ان آیات پر غور کیا جائے، جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے بارے میں ہیں، اس کے بعد ان تمام آیات کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیاجائے، جو آنحضرتؐ کے ظاہری اور باطنی فضائل و کمالات اور مومنین کے اوصاف کی آئینہ دار ہیں، پھر آپ کو اس حقیقت میں ذرہ بھر بھی شک نہ رہے گا، کہ علیؑ جو عجائب و غرائبِ الٰہیہ کے مظہر ہیں، وزیر کی مرتبت میں حضورِ اقدس صلعم کے ساتھ ساتھ وحیٔ آسمانی اور علمِ لدّنی سے آراستہ و پیراستہ ہو کر سر چشمۂ رشد و ہدایت بھی ہیں، اور امیر المومنین کی حیثیت سے اسلام، ایمان، عبادت، ریاضت، حیا، تقویٰ، صبر، شجاعت، احسان، سخاوت، علم، حلم، حکمت، فضیلت، کرامت وغیرہ جیسی صفاتِ حسنہ میں اہلِ ایمان کے آگے آگے بھی ہیں، کیوں نہ ہو، جبکہ آپ ہی سردارِ رسل اور شاہِ سبل کے وزیر ہیں، اور وزیر کا فرضِ منصبی ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ نہ صرف امورِ سلطنت کے نظم و نسق میں بادشاہ کا اوّلین راز دار، معاون اور مددگار ہوا کرتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ قوانینِ سلطنت کی پیروی میں رعایا سے سبقت وفوقیّت لے جا کر عملی مثال بھی پیش کرتا ہے۔
جب ہم شروع شروع میں قرآنِ مجید کی ان پُرحکمت آیتوں کو سطحی نظر سے دیکھتے ہیں، جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے قصّے میں آئی ہیں، تو ہمیں صرف اس قدر معلومات فراہم ہوتی ہیں، کہ موسیٰؑ کی طرح ہارونؑ پر بھی وحی نازل ہوا کرتی تھی، اور وہ موسیٰؑ کے وزیر اور خلیفہ تھے، لیکن اس طائرانہ نظر سے یہ ہر گز معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ وزارت
۱۶۱
کے اس منصبِ اعلیٰ پر مامور ہونے کے بعد کن کن موقعوں پر اور کیسے کیسے حالات میں اپنے بھائی موسیٰؑ کی حمایت ویاری کرتے رہے؟ یہ سوال بظاہر نہایت ہی پیچیدہ اور سخت دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ موسیٰؑ خود ہر موقع پر تبلیغِ رسالت میں مصروف نظر آتے ہیں، اور ہارونؑ اکثر ان کے ساتھ ہوتے تو ہیں مگر خاموش۔
لیکن جب ہم بعد میں ان آیات کی معنوی گہرائیوں میں اتر کر حکمت سے خوب استفادہ کرتے ہیں، تو ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف و آگاہ ہو جاتے ہیں، کہ تمام امورِ دین کے دودو پہلو ہوا کرتے ہیں، ظاہر اور باطن، یا تنزیل اور تاویل، تنزیل آسمانی کتاب کی ظاہریت کا نام ہے، جس میں احکامِ الٰہی کے ظاہری پہلو نظر آتے ہیں، تاویل کتاب کی باطنیت کو کہتے ہیں جس میں ان احکام کے باطنی پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰؑ کا تعلق تنزیل سے تھا اور حضرت ہارونؑ کا تعلق تاویل سے اور یہ ایک لازمی بات ہے، کہ جس شخص کا تعلق پوشیدہ کاموں سے ہو، تو اس کی حیثیّت بھی پوشیدہ رہا کرتی ہے۔
اب اس حقیقت کی دلیل پیش کی جاتی ہے، کہ موسیٰؑ کا تعلق تنزیل سے تھا، اور ہارونؑ کا تعلق تاویل سے، وہ اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ:۔
وَ اَخِیْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْۤ٘-اِنِّیْۤ اَخَافُ اَنْ یُّكَذِّبُوْنِ (۲۸: ۳۴) اور (موسیٰ نے کہا) میرا
۱۶۲
بھائی ہارون جو میری نسبت زبان میں زیادہ فصیح ہے، پس اسے میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیجئے (تاکہ) وہ میری تصدیق کرے، یقیناً میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں مجھے نہ جھٹلائیں۔
یہاں موسیٰؑ نے اپنے بھائی ہارونؑ کی جس فصاحت کا ذکر کیا ہے، اس سے تاویل مراد ہے، کیونکہ جہاں لوگ تنزیلی امور کے نہ سمجھنے سے نبوّت کی تکذیب کرتے ہیں، وہاں تاویل کی روشنی میں ان پر حقیقت ظاہر کر کے نبوّت کی تصدیق کی جا سکتی ہے، ورنہ یہ بات کیسے ممکن ہے، کہ جب موسیٰؑ کہتے ہیں، کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں، اور ساتھ ہی ساتھ زبردست معجزات کی صورت میں اس کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں، تو لوگ ان کی تکذیب کرتے ہیں، مگر جب ہارونؑ صرف اپنی ظاہری فصاحت و بلاغت ہی سے ان کو سمجھاتے ہیں، تو وہ جھٹلانے سے باز آ کر موسیٰ علیہ السّلام کی نبوّت کے قائل ہو جاتے ہیں، بلکہ اس واقعہ کی حقیقت تو یہ ہے کہ ہارونؑ نے تاویل کی روشنی میں نہ صرف اپنی جسمانی زندگی کے دوران موسیٰؑ کی نبوّت کی تصدیق کی، بلکہ وہ پورے دور میں، جو حضرت عیسیٰؑ کے زمانہ تک ہے، اپنے سلسلۂ اولاد کی حیثیت میں بھی یہی کام انجام دیتے رہے، کیونکہ یہ تو ہر گز نہیں ہو سکتا، کہ نبوّت کی تکذیب و تصدیق نبی کی زندگی ہی تک محدود رہے، اور بعد وفات یہ بحث بالکل ختم ہو جائے، چنانچہ امرِ واقعہ اس کے برعکس ہے، اور وہ یہ ہے، کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جاتا ہے، تو عوام الناس بھی پیغمبر سے دور تر ہوتے جاتے ہیں،
۱۶۳
اس صورت میں لوگوں پر اتمامِ حجّت اور فرمانبرداروں کی رہنمائی کے لئے پیغمبر کے وزیر اپنی اولاد کی حیثیت میں موجود ہوتے ہیں، تاکہ پورے دور میں یکسان اور مسلسل طور پر تصدیقِ نبوّت کا کام جاری و ساری رہ سکے۔
اس بیان میں سردارِ رسل صلعم کے وزیر مولانا علیؑ کے بارے میں جو امامِ زمانہ علیہ السلام کی نورانی حیثیت میں ہیں، بہت سے روشن حقائق موجود ہیں، جن کا بالواسطہ اور بلا واسطہ دو طرح سے ذکر کیا گیا ہے، اس موقع پر اہلِ دانش کے لئے علم و عرفان کے یہی تذکرے اور اشارے کافی ہیں۔
بموقعِ عیدِ میلاد النبیؑ
سہ شنبہ ۱۲۔ ربیع الاول ۱۳۹۰ھ
بمطابق ۱۹۔ مئی ۱۹۷۰ء
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۵۷
۱۶۴
توحید
“توحید” ایک عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ایک ہونا، ایک بنانا، ایک ماننا اور ایک تصوّر کرنا، اور اس کے اصطلاحی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت ویکتائی کا اعتقاد، یعنی خدائے واحد پر ایمان لانا اور ا س کی وحدت کا قائل ہونا، یہ توصرف توحید کی لفظی تحلیل ہوئی اب یہ دیکھنا ہے، کہ اس لفظ کے معنی سے خدا کی جو یکتائی مراد ہے، وہ کس طرح سمجھائی جا سکتی ہے، چنانچہ اس سلسلے میں اہلِ تصوّف کے نظریئے سے کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں:۔
توحیدِ وجودی:
توحیدِ وجودی یا وحدت الوجود کے معنی ہیں تمام ہستی کو ایک ماننا، یعنی یہ عقیدہ رکھنا، کہ ساری موجودات و مخلوقات کی حقیقی ذات ایک ہے، جو خدا کے نور اور رحمت میں مستغرق ہے، اور اس تصوّر کی مدد سے یہ حقیقت سمجھ لینے کی کوشش کرنا، کہ کوئی چیز خدا کی قدرت وحکمت سے خالی نہیں، اب اگر یہ معلوم ہو جائے، کہ ہر چیز میں خدا کی قدرت وحکمت موجود ہے، تو لازمی ہے، کہ تمام مظاہرِ
۱۶۵
قدرت کو ایک مان لیا جائے، اور قدرت کو قادرِ مطلق سے جدا نہ سمجھاجائے، چنانچہ جامی صاحب کی یہ رباعی اس مطلب کی خوب ترجمانی کرتی ہے:۔
مجموعۂ کونین بقا نونِ سبق
کردیم تفحص ورقا بعد ورق
حقا کہ ندیدیم و نخواندیم درو
جزذاتِ حق و شونِ ذاتیہ حق
ترجمہ:۔ ہم نے درس کے اصول پر دونوں جہاں کی کتاب کے اوراق کو تحقیق و تجسّس سے پڑھ لیا، خدا کی قسم ہم نے اس میں حق تعالیٰ کی ذات اور (علمی مراتب کے مطابق) اس کے مختلف ظہورات کے سوا اور کوئی شیٔ نہیں دیکھی۔ حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے اس حقیقت کو چند لفظوں میں اس طرح بند کیا ہے:۔ “فطرت خدا کی زندہ کتاب ہے۔”
توحیدِ عیانی:۔
جب کوئی خاص بندہ خدا کے نور کی قربت حاصل کر کے اپنی صفات کو خدا کی صفات میں فنا کر دیتا ہے، تو اس کی خودی خدا کی تجلّیوں میں گم ہو جاتی ہے، ایسے میں بعض عارف اناالحق (میں حق ہوں) جیسا کوئی نعرہ بلند کرنے لگتے ہیں، معرفت کا یہ مقام فنا فی اللہ و بقا بااللہ کہلاتا ہے، یعنی اپنی صفات سے فنا ہو کر خدا کی صفات میں زندہ ہو جانا۔
توحید کی مذکورہ مثالوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے، کہ جس طرح
۱۶۶
کثرت وحدت ہی سے پیدا ہوئی تھی، اسی طرح پھر یہ رفتہ رفتہ وحدت ہی میں فنا ہو نے والی ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے:
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۸) یعنی سب جو اس (زمین) پر ہیں فنا ہونے والے ہیں، اور باقی رہے گی آپ کے پروردگار صاحبِ جلالت و احسان کی ذات، پس تم دونوں (جنّ و انس) اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ ظاہر ہے کہ یہ فنا وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی فنا فی اللہ و بقا بااللہ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے، کہ یہ فنا بھی حق تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔
رسولؐ اللہ کا ارشادِ گرامی ہے، کہ: حق تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنی خلق ہی کی طرح بنایا، تاکہ اس کی خلق سے اس کے دین کی دلیل لی جا سکےاور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت کی دلیل لی جا سکے۔
خلق سے دینِ حق کی دلیل:
کائنات و مخلوقات سے دینِ حق کی دلیل یہ ہے، کہ آسمانوں اور ستاروں کے اثرات عناصر میں تحلیل ہو جاتے ہیں، عناصر سے نباتات اگتی ہیں، نباتات سے حیوانات کی پرورش ہوتی ہے، حیوانات کے فائدے انسانوں کو ملتے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ اس ترتیب میں ہر مخلوق اپنے سے برتر مخلوق میں فنا ہو کر ایک اعلیٰ قسم
۱۶۷
کی ہستی میں بدل جاتی ہے۔
دینِ حق سے خدا کی وحدانیّت کی دلیل:
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور تم سب لوگ اللہ تعالیٰ کی رسی (ولایت) کو مضبوطی سے پکڑے رہو، اور متفرق نہ ہو اور یاد کرو اللہ تعالیٰ کی نعمت کو جو تم پر ہے، جبکہ تم دشمن تھے، پس اس نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تم اس کی نعمت کے طفیل بھائی بھائی ہو گئے۔
اس ارشادِ الٰہی میں یہ حکمت پوشیدہ ہے، کہ لوگ قبولِ اسلام سے قبل ایک دوسرے کے دشمن تھے، خدا و رسول نے دینِ حق کی نعمت سے، جو سب کے لئے ایک ہی ماں کے دودھ کا درجہ رکھتی تھی، ا ن کو بھائی بھائی بنایا، اب اس نعمت کے بعد ان کو ایک ایسی بے مثال نعمت کی طرف بلایا جاتا ہے، کہ جس سے وہ ایک جان کے مانند ہو سکتے ہیں، کیونکہ وحدت کے سلسلے میں بھائی بھائی ہونے کے بعد ایک جان کے مانند ہونا ہے، چنانچہ رسول اکرمؐ کا ارشاد ہے:
انما المومنون اخوۃ والانبیاءِ کنفسِ واحدۃ۔ یعنی مومنین بھائی بھائی ہیں اور انبیاء (اولیاء) ایک جان کے مانند ہیں۔ اور سب سے بڑی قیامت برپا نہ ہوگی جب تک کہ مومنین ایک جان کے مانند ہو کر یکدلی نہ اختیار کریں، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ (۳۱: ۲۸)
۱۶۸
اور نہیں تمہاری ازلی پیدائش اور بعث مگر ایک جان کے مانند۔” یعنی جس طرح تم ازل میں ایک جان کی طرح پیدا کئے گئے تھے، اسی طرح وحدت کے مقام پر پہنچ کر تم ایک ہو جاؤ گے، پس دینِ حق سے خدا کی وحدانیّت کی دلیل و مثال یہ ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تمام انبیاء اولیاء اور مومنین کی وحدت کے مرکز ہیں، اور آنحضرتؐ کا نور امامِ حیّ و حاضر کے لباس میں تاقیامت جلوہ گر ہے۔
توحیدِ مطلب:
صوفیائے کرام کے نزدیک توحیدِ مطلب یہ ہے کہ مرید، پوری تابعداری اور سچی محبت کے وسیلے سے اپنے پیرومرشد کے ساتھ وابستہ ہو جائے، رشد و ہدایت حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے شخص کی طرف ہر گز توجہ نہ کرے اور رفتہ رفتہ اپنی تمام خواہشات کو اپنے مرشد کی خوشنودی میں فنا کر دے، یہ ہوئی “توحیدِ مطلب” یعنی ذریعۂ ہدایت کے ساتھ اپنے آپ کو ایک کر دینا۔
(از قلم علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)
چاندرات ارشاد نمبر ۶۴: ۱۶۰
۱۶۹
آیاتِ دعا کے بنیادی حقائق
(تحریر از علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)
حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلواۃ اللہ علیہ وسلامہٗ کے ارشاداتِ گرامی میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ہم اسماعیلی اپنی مروّجہ دعا کے معنی و مطالب اور بنیادی حقائق کو بخوبی سمجھ لیا کریں۔ کیونکہ اس مبارک و مقدّس دعا کے الفاظ، اسماء، کلمات اور آیات نہ صرف حقیقی عبادت کے لحاظ سے پُرمغز اور پُرحکمت ہیں بلکہ یہ اسماعیلی عقیدہ اور نظریہ کے اعتبار سے بھی بنیادی اہمیّت کی حامل ہیں، چنانچہ ہم دعا کے ان اجزاء کی کچھ اساسی حقیقتیں بیان کرتے ہیں، جوآیاتِ قرآن کی صورت میں ہیں۔
حصۂ اوّل
سورۂ فاتحہ:
سورۂ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی اور بعض روایتوں کے
۱۷۰
مطابق مدینہ میں بھی نازل ہوئی۔ اس کو سبع المثانی کہتے ہیں، چنانچہ سبع کے معنی ہیں سات اور مثانی کے معنی ہیں دہرائی ہوئی، جس سے یہی سورۂ فاتحہ مراد ہے کہ اس کی سات آیتیں ہیں اور یہ دو دفعہ نازل ہوئی ہے۔
اس سورت کے بہت سے نام ہیں۔ جیسے سورۃ الحمد کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی گئی ہے، سورۃ الفاتحہ کیونکہ اسی سے قرآن شریف کا آغاز ہوتا ہے، اساس القرآن کہ یہی کتابِ الٰہی کی بنیاد ہے، سورۂ شفا کہ اس کی تاثیر سے روحانی اور جسمانی شفا حاصل ہوتی ہے، سورۃ الکنز، چونکہ یہی سورہ قرآن پاک کے سارے علوم کا خزانہ ہے، اور امُ الکتاب یا امُ القرآن، چونکہ قرآن شریف کے تمام مضامین اجمالی طور پر اس میں سمودیئے گئے ہیں۔ سورۂ فاتحہ کے نام ان کے علاوہ اور بھی ہیں جن سے اس سورہ کی عظمت و فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
سورۂ فاتحہ میں خداوند عالم نے اپنے بندوں کو بطریقِ جامع ضروری امور کی تعلیم دی ہے بالفاظِ دیگر یہ سورت قرآن پاک کی تمام حقیقتوں کا سرچشمہ اور ساری حکمتوں کا خزانہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس کے ناموں میں سے ایک خاص نام ام الکتاب یا کہ ام القرآن ہے جس کے معنی ہیں: کتاب کی اصل یا کہ قرآن کی اصل (ORIGIN) ۔
۱۷۱
حصۂ دوم
الف) آیۂ اطاعت:
حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے، آپؑ نے فرمایا کہ پروردگار عالم نے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا (اے ایمان والو) فرما کر قیامت تک کے مومنین سے یعنی ہر زمانے کے مومنین سے خطاب کر کے فرما دیا کہ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ، یعنی اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جوصاحبانِ امر ہیں ان کی اطاعت کرو (۰۴: ۵۹) ۔
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ میں اللہ ورسول کی اطاعت کے بعد جن صاحبانِ امر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس سےہم ائمّۂ اہلِ بیت مراد ہیں۔
ب) امامِ مبین:
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر رکھا ہے۔
جناب امام محمد باقر علیہ السّلام سے بروایت اپنے والد ماجد و جدِ امجد کے منقول ہے کہ جب جناب رسولِ خدا پر یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب میں سے چند حضرات اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ کہ آیا امامِ مبین سے مراد توریت ہے؟ فرمایا
۱۷۲
نہیں، انہوں نے عرض کی: پھر انجیل ہے؟ فرمایا نہیں۔ پھر انہوں نے عرض کی: آیا قرآن ہے؟ فرمایا نہیں، اتنے میں جناب امیر المومنین مولانا علیؑ تشریف لے آئے، آنحضرت نے فرمایا: دیکھو ! وہ امام جس میں خدائے تعالیٰ نے ہر چیز کے علم کا احصار فرما دیا یہ ہے۔
جناب امیر المومنین علیؑ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم وہ امام مبین میں ہوں، میں حق و باطل کو صاف صاف بیان کردیتا ہوں اور میں نے یہ عہدہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے وارثۃً پایا ہے (بحوالۂ تفسیر صافی و تفسیر عمدہ البیان وحاشیہ ترجمہ قرآن از مقبول احمد صاحب) ۔
حصۂ سوم
امرِ ولادیت:
جب مذکورۂ بالا آیۂ اطاعت کے ذریعے خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے بعد صاحبِ امرؑ یعنی امامِ وقتؑ کی اطاعت فرض کی گئی تو لوگ سمجھ نہ سکے، کہ ولایت کیا ہے، ہر چند کہ رسول اللہ مختلف موقعوں پر مولانا علی علیہ السّلام کی ولایت کے متعلق لوگوں کو سمجھا دیا کرتے تھے، اور یہ کام نزول وحی کے آغاز ہی سے جاری تھا۔ جیسے آنحضرتؐ نے فرمایا کہ مجھ سے علیؑ کو وہی درجہ ہے جو موسیٰؑ سے ہارونؑ کو تھا۔ پھر بھی لوگ علیؑ کی ولایت سمجھنے سے
۱۷۳
قاصر رہے۔ اس وقت پروردگارِ عالم نے آنحضرت صلعم کو یہ حکم دیا کہ آپؐ امت کو ولایت کا مفہوم بھی اسی طرح سمجھا دیں جس طرح سے کہ آپ نے دوسرے امور کی صورت و کیفیت سے واقف کیا ہے۔ پس مفہومِ ولایت سمجھانے کا یہ حکم خداوند عالم نے جب آنحضرت صلعم پر نازل کیا تو اس وقت آپؐ کا دل بیٹھ گیا اور آپؐ کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ کہیں خدانخواستہ لوگ آپ کے دین سے مرتد نہ ہو جائیں اور آپ کی نبوّت کی تکذیب نہ کر بیٹھیں۔ اس اندیشے کی وجہ سے آپ امرِ ولایت کے متعلق دوبارہ رب العزت سے مخاطب ہوئے تو خداوندِ تعالیٰ نے یہ وحی نازل کی کہ:۔
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ-وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ (۰۵: ۶۷)
ترجمہ:۔ اے رسول جو کچھ (امرِ ولایت کے بارے میں) آپ کے ربّ کی جانب سے آپ پر نازل کیا گیا ہے آ پ اس کو پہنچا دیجئے اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔
چنانچہ آنحضرت صلعم نے امرِ الٰہی کو ظاہر کر دیا، اور مقامِ غدیر خم میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السّلام کی ولایت و امامت کا اعلان کر دیا۔ آپؐ نے پہلے تو اس پیغام کو پہنچانے کے لئے “الصلواۃ جامعۃ” کی ندا کروائی اور آپؐ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ جو حاضر ہے، وہ اس پیغام
۱۷۴
کو غائب تک پہنچا دے۔
حصّۂ چہارم
بیعتِ رضوان:
ہجرت کے چھٹے سال میں صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بیک وقت چودہ سو اصحاب سے، جو اس وقت حاضر تھےبیعت لی، اس کے بعد سورۂ فتح نازل ہوئی جس میں بعض دوسرے امور کے ساتھ ساتھ بیعت کی حقیقت و حکمت کے بارے میں بھی ارشاد ہے کہ: (اے رسول!) جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں تو وہ (واقع میں) اللہ تعالیٰ سے بیعت کر رہے ہیں، خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پھر (بیعت کے بعد) جو شخص عہد توڑے گا تو اس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پرپڑے گا، اور جو شخص اس بات کو پوراکرے گا جس پر (بیعت میں) خدا سے عہد کیا ہے، سو عنقریب خدا اس کو بڑا اجر دے گا (۴۸: ۱۰)
اس بیعت کے متعلق حق تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اسی لئے اس کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے کہ:۔ لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (۴۸: ۱۸) یقیناً اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہو گیا، جس وقت کہ انہوں نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی۔
۱۷۵
آیۂ بیعت کی مذکورہ تعلیم سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوئی کہ مومنین دین و ایمان کی حفاظت کے لئے اپنے آپ اتفاق و اتحاد کے رشتہ میں منسلک ہرگز نہیں ہو سکتے بجز آنکہ وہ ایک ایسی مقدّس ہستی کے مبارک ہاتھ پر بیعت کریں اور اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں جس کو حق تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مومنین کے لئے حقیقی اتحاد کا مرکز قرار دیا ہے، جس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے جس سے بیعت کرنا خدا سے بیعت کرنا ہے اور جس کا فرمان ماننا خدا کا فرمان ماننا ہے اور ایسی پاک ہستی پیغمبر اور امام علیہ السّلام کی ہے۔
چنانچہ اسماعیلی مذہب کا یہ عقیدہ ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے ہے کہ مومنین کی ہدایت کرنے اور ان سے فرمانبرداری اور اتحاد کی بیعت لینے کے لئے آنحضرتؐ کے وصی ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہیں جو محمدؐ و علیؑ کے نور کے حامل اور امامِ زمانہ کا درجہ رکھتے ہیں۔
حصۂ پنجم
امانات:
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ اور (اس کے) رسول کی (امانتوں میں) خیانت نہ کرو، اور نہ اپنی امانتوں کی خیانت کرو، حالانکہ تم جانتے ہو (۰۸: ۲۷) ۔
۱۷۶
اس ارشادِ الٰہی کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ قرآن کے علم و حکمت اور رتبۂ آلِ محمد (یعنی امامت) خدا اوراس کے رسول کی امانتیں ہیں، پس ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ ان امانتوں میں خیانت نہ کریں یعنی وہ ان مقدّس امانتوں کے مالک ہونے کا دعویٰ نہ کریں؟ بلکہ ان کو خدا اور رسولؐ کی ملکیت سمجھیں چنانچہ قرآن کے متعلق یہ عقیدہ رکھیں کہ قرآن کے علم و حکمت اللہ تعالیٰ جانتا ہے، اور اس کے رسول جانتے ہیں، وصیٔ رسولؑ جانتے ہیں اور رتبۂ امامت کے بارے میں عقیدہ رکھیں کہ امامت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ہے اور آنحضرتؐ کے بعد یہ امانت ان کی آلِ پاک کی ہے اور ایمان والوں کو ان امانتوں میں دخل دینے کا حق نہیں۔ پس اس عقیدہ اور تصوّر کی مثال ایسی ہے جیسے خدا اور رسول کی امانتیں ادا کر دی گئیں۔ اس کے برعکس اگر وہ ان امانتوں میں خیانت کریں تو گویا وہ خود اپنی ان امانتوں میں خیانت کرتے ہیں، جو قرآن اور امامت کے ذریعے روح الامین کے فیوض و برکات کی صورت میں ان کو مل سکتی تھیں۔
چنانچہ خدا اور رسول کی یہی مقدّس امانتیں تھیں جن کے بارے میں آنحضرتؐ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ: میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو گرانمایہ چیزیں چھوڑ دیتا ہوں خدا کی کتاب (یعنی قرآن مجید) اور میری عترت و اہلِ بیت، اگر تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے تو تم میرے بعد ہر گز ہرگز گمراہ نہ ہو جاؤ گے کیونکہ یقیناً یہ دونوں ایک دوسرے
۱۷۷
سے ہر گز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ یہ دونوں حوضِ کوثر میں مجھ سے آن ملیں۔
اب معلوم ہوا کہ یہ دونوں گرانمایہ چیزیں وہی ہیں جن کو مذکورۂ بالا آیت میں خدا اور رسول کی امانتیں کہا گیا ہے اور یہ دونوں مقدّس چیزیں امانت اس معنی میں ہیں کہ ملکیت جس کی ہو اس کو اختیار ہے کہ وہ جیسا چاہے استعمال کرے، مگر امانت جس کے پاس ہو اس کا فریضہ ہے کہ صاحبِ امانت سے یہ با ت پوچھ لیا کرے کہ اس امانت کا مقصد و منشاء کیا ہے، اس سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور اس کی کیا کیا شرطیں ہیں۔
حصۂ ششم
سورۂ اخلاص:
سورۂ اخلاص مکہ یا مدینہ میں نازل ہوئی اور اس کی چار آیتیں ہیں۔ اخلاص کے معنی کسی چیز کوآمیزش اور ملاوٹ سے خالص اور پاکیزہ کرنے کے ہیں۔ چنانچہ اس سورۃ میں توحید کو شرک اور دہریّت کی آمیزش سے خالص اور پاکیزہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اس لئے اس کو سورۂ اخلاص کہتے ہیں۔ اس اہمیّت کی بنا پر اس کو قرآن پاک کی تمام تعلیمات کا خلاصہ اور نتیجہ کہا گیا ہے۔
حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ یہودیوں
۱۷۸
نے رسولِ خدا سے پوچھا کہ تم اپنے پروردگار کا نسب بیان کرو اور انہوں نے تین بار یہی پوچھا لیکن حضر ت جواب نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ جبرائیلؑ یہ سورہ لے کر آئے۔
سورۂ اخلاص کا مقصد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت (یکتائی) کا مفہوم سمجھانا ہے اور وہ نظریۂ وحدت الوجود کے مطابق درست ہے، یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ساری موجودات و مخلوقات کی حقیقی ذات ایک ہے۔ جو خدا کے نور اور رحمت میں مستغرق ہے اور اس تصوّر کی مدد سےیہ حقیقت سمجھ لینے کی کوشش کرنا کہ کوئی چیز خدا کی قدرت و حکمت سے خالی نہیں۔ اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ہر چیز میں خدا کی قدرت و حکمت موجود ہے تو لازمی ہے کہ تمام مظاہرِ قدرت کو ایک مان لیا جائے اور قدرت کو قادرِ مطلق سے جدا نہ سمجھا جائے۔ چنانچہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: کہا جاتا ہے کہ ہم سب خدا میں رہتےہیں، خدا میں حرکت کرتے ہیں اور ہمارا وجود خدا میں ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ خدا کے ارادہ اور اس کے منشاء سے باہر کوئی شے اور کوئی وجود نہیں۔
۱۷۹
حدودِ دین
(بقلمِ علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی)
حدودِ دین کے لفظی معنی ہیں دین کی حدیں اور اس کا مطلب ہے دین کے درجے یا کہ دعوت کے ارکان، قرآنِ حکیم میں بطریقِ حکمت دین کے حدود اور درجات کا خالص طور سے ذکر موجود ہے، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:۔
وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗؕ (۶۵: ۰۱) “اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے حدود سے نکل جائے، پس تحقیق اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔” یعنی جو انسان حدودِ دین کے دائرۂ فرمان سے نکل جاتا ہے تو وہ یقیناً اپنی روح پر بہت بڑا ظلم کرتا ہے، اور اگر وہ ان حدود کی فرمانبرداری کرتا ہے تو وہ قربِ الٰہی کے ان حدود اور درجات کے وسیلے سے معرفت کے ایک خاص مقام تک پہنچ سکتا ہے، جیسا کہ قولِ قرآن ہے:۔
۱۸۰
هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِؕ -وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ (۰۳: ۱۶۳) یعنی “وہ (حدودِ دین) خدا کے نزدیک درجے ہیں، اور جو کچھ وہ کرتے ہیں خدا اسے دیکھ رہا ہے۔” چنانچہ ہم ذیل میں حدودِ دین یعنی دعوت و معرفت کے مدارج کی کچھ وضاحت کر دیتے ہیں۔
مستجیب:
جس شخص نے دعوتِ حق (اسماعیلیّت) قبول کر لی ہے یا جو خاندانی اسماعیلی حصولِ حقیقت کی ابتدائی حد میں ہو، وہ اس مذہب کی اصطلاح میں مستجیب کہلاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ (۰۸: ۲۴) اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کی دعوت کو قبول کرو جبکہ رسولؐ تم کو اس چیز کے لئے دعوت کرے جو تم کو (روحانی طورپر) زندہ کر دینے والی ہے۔
ظاہر ہے کہ مستجیب اسماعیلی دعوت کی ابتدائی حد ہے اور یہیں سے دعوت الحق یعنی اسماعیلیّت شروع ہو جاتی ہے، پس مستجیب صرف شروع شروع کی دینی تعلیمات اور ابتدائی ہدایات حاصل کرنے کا حق رکھتا ہے، مگر وہ کسی دوسرے کو دعوت نہیں کر سکتا۔
ماذون:
ماذون کے معنی ہیں اذن یافتہ شخص، یعنی ایک ایسا اسماعیلی
۱۸۱
جو مستجیب کی حد میں تھا، لیکن بعد میں دینی علم کی قابلیّت کے سبب سے اس کو دعوت کرنے کی اجازت دی گئ ہے، ماذون دودرجوں میں ہوتے ہیں: ماذونِ محدود اور ماذونِ مطلق۔
الف) ماذونِ محدود، یعنی وہ ماذون جو دعوت کے لئے ایک طرح سے اذن یافتہ تو ہے، مگر اس کے بارے میں کلّی طور پر آزاد نہیں، یعنی اس کو صرف اتنی اجازت ہے کہ وہ کسی کے باطل عقیدے کو ایک سخت مسئلے کی صورت دے کر توڑ دیتا ہے، مگر وہ اس سوال کا جواب نہیں دیتا، اور وہ اسے یہ ظاہر کر دیتا ہے، گویا وہ خود بھی اس جواب کی تلاش میں لگا ہے، تاکہ وہ شخص، جس کا باطل عقیدہ توڑا گیا ہے، حدودِ اعلیٰ کی طرف رجوع ہو جائے، پس اسی معنی میں ماذونِ محدود کو مکاسر کہا جاتا ہے، مکاسر کے معنی ہیں توڑنے والا، یعنی وہ لوگوں کے باطل عقائد کو توڑ دیتا ہے۔
ماذونِ محدود کا درجہ یہ ہے کہ وہ مستجیبون کے دلوں کو علمِ حقیقت کی طرف متوجّہ کر دیتا ہے۔
ب) ماذونِ مطلق، یعنی وہ ماذون جسے داعی کی نگرانی میں دعوتِ حق کی پوری آزادی حاصل ہے، اسے اختیار ہے کہ مستجیب کے ضروری سوالات کے جوابات دے دے۔ وہ سب سے پہلے مستجیب سے عہد وپیمان لیتا ہے کہ وہ اس کے بعد حدودِ دین کی تابعداری کرتا رہے گا، اور اسرارِ دین کو گنجِ گرانمایہ کی طرح مخفی اور محفوظ رکھے گا۔ ماذونِ مطلق
۱۸۲
کا مرتبہ عہد و پیمان لینا ہے۔
داعی:
داعی کے لغوی معنی بلانے والے کے ہیں، جس سے مراد یہاں حدودِ دین میں سے وہ شخص ہے جو حجّت کی طرف دعوت وتبلیغ کے لئے مقررکیا گیا ہے، چنانچہ ہر حجّت کے تحت تیس (۳۰) داعی دعوت کے امور کو انجام دیتےرہتے ہیں، اسی طرح کرۂ ارض کے بارہ حجّتوں کے کل تین سو ساٹھ (۳۶۰) داعی ہوا کرتے ہیں۔
عام طور پر داعی کے دو درجے ہوتے ہیں: داعیٔ محدود اورداعیٔ مطلق اور بعض دفعہ ان کے علاوہ داعیٔ بلاغ کو بھی مقرر کیا جاتا ہے۔
داعیٔ محدود کا رتبہ یہ ہے، کہ وہ جسمانی حدود کی شناخت اور ظاہری عبادت کی تعلیم دیتا ہے، داعیٔ مطلق کا درجہ یہ ہے کہ وہ روحانی حدود کی معرفت اور باطنی عبادت کی تعلیم دیتا ہے، اور داعیٔ بلاغ کا منصب یہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور علمِ آخرت کی تعلیم دیتا ہے۔
حجّت:
حجّت کے معنی دلیل اور غلبہ کے ہیں، جس کا مطلب ہے دلیل میں غالب آنا، اور حدودِ دین کے سلسلے میں حجّت اس عظیم المرتبت شخص کو کہتے ہیں، جو علمِ روحانیّت میں یگانۂ روزگار ہو، جسے زمانے کے امام نے دنیا کے کسی جزیرے میں راہِ حق کی ہدایت کے لئے مقرر فرمایا ہو، اور ہر دور کے جغرافیہ کے مطابق کرۂ ارض کے
۱۸۳
بارہ جزیرے (مناطق) مانے گئے ہیں، پس ہر جزیرے میں ایک حجّتِ شب اور ایک حجّتِ روز مقرر ہوتا ہے، ان کے علاوہ امام علیہ السّلام کی حضرت میں بھی چار حجّت ہوتے ہیں۔ اس طرح حجّتوں کی مجموعی تعداد اٹھائس (۲۸) ہے۔
حجّت کو صاحبِ جزیرہ کہا جاتا ہے، اور بعض دفعہ داعی بھی کہا گیا ہے، نیز بعد کے زمانوں میں حجّت یا داعی کے لئے پیر کا لقب بھی استعمال ہوا ہے۔ حجّت کا علمی مرتبہ یہ ہے کہ وہ حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔
باب:
باب دروازے کو کہتے ہیں، یہاں باب سے مراد حجّتِ اعظم ہے، جو امامِ عالی مقام کے علم ومعرفت اور نورِ حقیقت کے دروزے کی حیثیت رکھتا ہے، باب کو داعیٔ دعات اور رئیسِ مجلسِ دعوت بھی کہتے ہیں، یعنی داعیوں کا داعی اور مجلسِ دعوت کا صدر، باب کا عرفانی مرتبہ یہ ہے کہ وہ فصل الخطاب کا مالک ہے، یعنی اس کے پاس علمِ ظاہر اور علمِ باطن دونوں بدرجۂ اتم موجود ہوتے ہیں۔
امام:
امام کے عام و خاص بہت سے معانی اور درجے ہیں، کیونکہ جسمانی حیثیّت کے اعتبار سے بھی اور روحانی حقیقت کے لحاظ سے بھی اس کی مبارک ومقدّس ہستی کے گوہرِ نایاب کے بہت سے پہلو ہیں۔
۱۸۴
وہ اگرچہ اپنی ازلی نورانیّت میں تمام حدودِ دین کا جامع ہے، لیکن جسمانیّت و بشریت کے اعتبار سے وہ حدودِ دین میں سے ایک متوسّط حد ہے۔
امام علیہ السّلام کا ایک خاص دینی مرتبہ جو ابتداء سے انتہا تک قائم ہے، جس سے اوپر کوئی مرتبہ نہیں “الامر” ہے، یعنی وہ ظاہراً و باطناً امر و فرمان کا مالک ہے۔
اساس:
اساس کے معنی ہیں بنیاد، یعنی وہ امام جو کسی ناطق پیغمبر کے دور کے شروع میں منارۂ امامت اور خانۂ حقیقت کی بنیاد کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ چنانچہ آخری ناطق (حضرت محمدؐ) کے دور کے اساس مولانا علیؑ تھے۔
اساس کو صامت، وزیر، وصی اور وراثت جیسے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اساس کو صامت اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ احکامِ دین کے ظاہر کے متعلق خاموش رہتا ہے، کیونکہ وہ تو باطن کا مالک ہے اور ظاہر کا مالک ناطق ہے، وہ وزیر اس لئے کہلاتا ہے کہ وہ پیغمبر کے روحانی امور میں شرکت اور معاونت کرتا ہے، وصی اور وراثت اس معنی میں ہے کہ رسول ناطق اپنی روحانی خلافت و نیابت کے لئے اسی کو وصیت کر کے وارث بنادیتا ہے۔
اساس کا خاص مرتبہ معجزۂ تاویل ہے جو نسلاً بعد نسل قیامت تک برقرار وباقی ہے۔
۱۸۵
ناطق:
ناطق کے لفظی معنی ہیں بولنے والا، جس سے مراد ایک ایسا پیغمبر ہے جو آسمانی کتاب اور مخصوص شریعت کا مالک ہواور اسی سلسلے میں بولتا ہو، چنانچہ حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمد مصطفیٰ صلعم یہ چھ حضرات اپنے اپنے وقت کے ناطق تھے، ناطق کا علمی معجزہ تنزیل ہے، یعنی نزولِ وحی کا مرتبہ۔
خیال:۔
خیال جبرائیل فرشتے کا نام ہے جو وحی کا ابتدائی فرشتہ ہے، اس فرشتے کو خیال اس لئے کہتے ہیں کہ یہ معجزاتی آواز کے علاوہ اکثر تصوّر و خیال کی روشن مثالوں میں وحی لاتا ہے۔
فتح:
فتح کا مطلب ہے کھولنا اور غلبہ پانا، فتح میکائیل کو کہتے ہیں، چنانچہ جب حقیقی مومن حدودِ دین کے معجزات سے گزرتے ہوئے میکائیل کے معجزہ تک پہنچ جاتا ہے تومیکائیل تمام فرشتوں اور روحوں کے لشکر کی مدد سے مومن کے نفس کے ناقابلِ تسخیر قلعے کو ریزہ ریزہ کر کے فتح کر دیتا ہے۔ پھر مومن کے لئے روحانی حقائق و معارف کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ میکائیل فرشتے کا معجزہ قوّتِ فہم کے ذریعے علمی مسائل کی گتھیوں کو سلجھانا ہے۔
جدّ:
اسرافیل کو کہتے ہیں، جدّ کے لغوی معنی شان بتاتے ہیں،
۱۸۶
یہ فرشتہ صاحبِ صور ہے یعنی نرسنگھا بجانے والا، جو واقعاً ایک عجیب و غریب پر حکمت بانسری یا ایک معجزانہ شہنائی کے مشابہ کوئی ساز بجا کر نفوسِ خلائق کو فنائیت کا مزہ چکھا دیتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ اسی صور کی معجزانہ آواز سے انہیں زندہ کر دیتا ہے، بخدا یہ ایک ایسی زندہ حقیقت ہے، کہ اس کی تعریف و توصیف احاطۂ بیان سے باہر ہے۔
اسرافیل دراصل عشقِ حقیقی کا فرشتہ ہے جس کا معجزہ فنا فی اللہ اور بقا باللہ ہے۔
نفسِ کلّی:
نفسِ کلّی ایک ہمہ گیر اور ہمہ رس روح ہے جو اس وسیع اورعظیم کائنات کی روحِ اعظم کی حیثیت رکھتا ہے، یہی روح تمام انسانی روحوں کا بحرِ محیط ہے۔ اس کے بہت سے نام ہیں، مثلاً حوّائے حقیقی، کرسی، لوحِ محفوظ، نفسِ واحدہ، تالی وغیرہ۔
نفسِ کلّی کا مرتبہ ترکیبِ عالم ہے، یعنی کائنات کی تخلیق اسی سے ہے اور عالمِ جسمانی میں یہ نورِ مرتضوی ہے۔
عقلِ کلّی:
عقلِ کلّ سب سے عظیم روح ہے، جو دونوں جہان کی عقلِ کامل اور انسانی عقول کا سرچشمہ ہے۔ اس کو آدمِ حقیقی، عرش، قلمِ الٰہی، عقلِ اوّل اور سابق بھی کہتے ہیں۔ یہ نور مصطفویؐ ہے، جبکہ نفسِ کلّ نورِ مرتضویؑ ہے۔
۱۸۷
عقلِ کلّ کا مرتبہ نورانی تائید ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت و قوّت کی انتہائی معجزانہ مدد ویاری۔
نوٹ:۔ واضح رہے کہ حدودِ دین کا مذکورہ نظام حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانے سے اٹھایا گیا ہے اور حدودِ دین کے یہ درجات صرف اس زمانے میں مقررہوتے ہیں جس زمانے میں امامِ زمان علیہ السلام خود مرتبۂ حجت یعنی پیری کے مرتبہ کو اپنے پاس نہیں رکھتے۔ چونکہ حضرت امام آقا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے دورِ مقدّس سے مرتبۂ حجت یعنی پیری کا مرتبہ بھی خود امام علیہ السّلامہ ہی کے پاس ہے اس لئے حدودِ دین کا یہ نظام اس زمانے میں اسماعیلی دعوت میں نہیں پایا جاتا اور جماعتی ادارے جو خدمت انجام دیتے ہیں اور جو درجے ان اداروں میں پائے جاتے ہیں وہ صرف ظاہری اور انتظامی امور کے لحاظ سے ہیں۔
۱۸۸
اسلام۔ دینِ حق۔ خدا کا قدیم دین
(علامہ نصیرالدین نصیرؔہونزائی)
اہلِ بصیرت و اصحابِ دانش کی فکر ونظر کے سامنے یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے، کہ اسلام یعنی دینِ حق زمانہائے دراز گزر جانے کے بعد پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ یہ خدا کا قدیمی اور ازلی دین ہے، اور قانونِ الٰہی کی رو سے اس کا ایسا ہی ہونا ضروری تھا، تاکہ ہر دور اور ہر زمانے کے لوگوں کو کسی تخصیص و تعمیم اور فرق و امتیاز کے بغیر یکسان طور پر اللہ کا سچا دین پیش کیا جا سکے، اس کے سوا خدا کی وحدانیّت کا کوئی تصوّر اور دین و ایمان کی کوئی صورت ناممکن تھی، کیونکہ یہی دین اللہ تعالیٰ کے اس بے مثال مقدّس قانون کا درجہ رکھتا ہے، جو قانونِ فطرت کے اسم سے موسوم اور سنّتِ الٰہیہ کی حیثیت سے ہمیشہ موجود ہے۔
یہاں اس مطلب کو یوں ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حقیقی اسلام، قانونِ فطرت، دینِ حق اور خدا کی سنّت و عادت ایک ہی حقیقت کے مختلف نام ہیں اور یہی حقیقت صراطِ مستقیم یعنی نورِ ہدایت اور منزلِ نجات کا
۱۸۹
رستہ ہے۔
ہر دانشمند دیندار اس مفروضہ میں غور وفکر کر کے یہ اندازہ کر سکتا ہے، کہ اگر دینِ اسلام قانونِ قدرت و فطرت اور سنتِ الٰہی سے الگ تھلگ کوئی نظام و آئین مقرر ہوا ہوتا، تو اس صورت میں ایسے اسلام کی بنیادی اور اصولی تعلیمات قانونِ فطرت اور سنتِ الٰہیہ کے خلاف واقع ہوتیں، اور منشاءِ الٰہی سے ان کا تصادم ہوتا رہتا، لیکن ظاہر ہے، کہ اسلام کی اساسی اور حقیقی ہدایتوں میں ایسی کوئی بات پائی نہیں جاتی، جو قانونِ الٰہی کے برعکس قرار پائی ہو، پس معلوم ہوا، کہ سنّتِ الٰہی دینِ اسلام کا حقیقی اور قدیم نام ہے، جیسے قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوا ہے کہ:۔
سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا (۱۷: ۷۷) ان رسولوں کا دستور (دین) چلا آتا ہے جو ہم نے اپنے پیغمبر تم سے پہلے بھیجے اور ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہ پاؤگے۔
قرآنِ پاک کے اس مبارک و مقدّس ارشاد کا لبِ لباب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے رشد و ہدایت اور علم و حکمت کی روشن قندیلیں لے کر جتنے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اس سیّارۂ زمین پر تشریف فرما ہوئے ہیں، ان تمام حضرات کا یہی ایک دین و آئین رہا ہے، جودینِ حق اور دینِ فطرت کہلاتا ہے، جس کی اصولی تعلیمات میں بحقیقت
۱۹۰
کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی، مگر ہاں اس میں کوئی شک ہی نہیں، کہ اس کی فروعی ہدایات میں رفتہ رفتہ بمقتضائے زمان و مکان ترمیمات اور تبدیلیاں ہوتی چلی آتی ہیں، پس سنتِ اللہ اور انبیاء و أئمّہ کے دینِ حق میں یہی خاص علامت و نشانی پائی جاتی ہے۔
چنانچہ حق تعالیٰ کا یہ مبارک فرمان ہے کہ:۔ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ (۲۲: ۷۸) (اے گروہِ أئمّہ!) اس نے (یعنی خدانے) تم کو برگزیدہ فرمایا اور دین میں تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں کی جو تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے، اسی نے تمہارانام مسلمان رکھا۔ اس آیۂ مقدّسہ کی واضح تعلیم یہ ہے کہ خدا کے یہ برگزیدہ حضرات أئمّہ اطہار علیہم السّلام ہی ہیں جن کی برگزیدگی کا بین ثبوت بھی خود اسی ارشاد میں موجود ہے، کہ خداوند عالم نے دینِ حق کے تمام قدیم وجدید مسائل کا علمِ لدنّی أئمّہ طاہرینؑ کو عطا فرمایا ہے، جس کے ذریعے وہ ہر قسم کی دینی اور دنیاوی مشکلات میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کر سکتے ہیں، اور انہیں کارِ دین میں کوئی رکاوٹ اور کسی قسم کی تنگی پیش نہیں آتی، یہ اختصاص صرف أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی کو حاصل ہے اور ان کے سوا کوئی دوسرا انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ دین اور قرآن کی جملہ مشکلات کو حل کر سکتا ہے۔
مذکورۂ بالا حقیقتوں کے علاوہ یہاں یہ بھی ظاہر ہوا، کہ اسلام اور
۱۹۱
مسلمان کے یہ نام آج سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کے زمانے سے ہیں، یہ تو لفظِ اسلام اور مسلمان کی اصطلاح بن جانے کی ابتداء کے بارے میں بات ہوئی، لیکن اسلام کی معنویّت، حقیقت اور روح اس واقعہ سے بہت قدیم ہے جیسا کہ پروردگار عالم کا مبارک ارشاد ہے کہ:۔
شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا (۴۲: ۱۳) اس نے (یعنی خدا نے) تمہارے لئے دین میں وہی راہ مقرر کر دی جس کا حکم نو ح کو کیا تھا اور جس کو ہم نے آپ کے پاس بذریعۂ وحی بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو حکم دیا تھا، کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔
آیۂ مذکورۂ بالاصاف اور واضح الفاظ میں فرما رہی ہے کہ حضور اکرم صلعم کا لایا ہوا دین اور شریعت وہی ہے، جس کا حکم انبیائے سلف کو دیا گیا تھا، اور جس پر ان پیغمبروں نے عمل کیا تھا، اگرچہ اس میں سطحی طور پر ترمیم و تجدید ہوتی رہی ہے، لیکن دین کے اصولات، حقیقت، اصلیّت، روح اور مقصد وہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور نہ ہی آئندہ ہو گی۔
پروردگارِ عالم کا ارشاد ہے کہ:۔
۱۹۲
وَ اِنَّهٗ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ (۲۶: ۱۹۶) اور وہ (یعنی قرآن) سابقہ امتوں کی کتابوں میں بھی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا، کہ ان تمام آسمانی کتب اور صحائف میں، جو سرورِ کائناتؐ سے اگلے پیغمبروں کو دیئے گئےتھے، قرآنِ حکیم کی وہ مختلف تدریجی ہدایات و تعلیمات تھیں جو گزشتہ ادوار کے لوگوں کی ضروریات کے مطابق پیش کی گئی تھیں، پھر یہاں اس حقیقت کے لئے اقرار کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں، کہ قرآنِ حکیم اپنے تنزیلی، تاویلی، ظاہری اور باطنی معنوں میں نہ صرف ایسی ہدایات کا بے پایان خزانہ ہے، جو گزشتہ زمانوں کے بارے میں ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس میں ایسی تدریجی اور ارتقائی تعلیمات کی بھی فراوانی ہے، جو موجودہ اور آئندہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کو پورا کر سکتی ہیں، اور دینِ اسلام کی تدریجی ہدایات کا ایک قابلِ فہم ثبوت صراطِ مستقیم کا تصوّر ہے، جس میں یہ تعلیم رکھی ہوئی ہے کہ ہمیں قدم بقدم اور منزل بمنزل خدا کے قرب و حضور کی طرف روان دوان ہونا چاہئے، اور راہِ حق کا یہ سفر شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کی چار منزلوں کے درمیان ہے۔
سطورِ بالا سے اس امر کی صراحت ہو گئی، کہ پیغمبرِ آخرِ زمانؐ کا دین خدائے واحد کا قدیم دین ہے، اور نبوّت وامامت کے ذریعہ اسی دین کی دعوت وہدایت ہوتی رہی ہے، اس دین کے اصولات ہمیشہ اٹل اور بے بدل ہیں، مگر فروعات میں احوالِ زمانہ کی ضرورت کے مطابق مناسب ترمیم و تجدید ہوتی چلی آئی ہے تاکہ وقت اور جگہ کے فرق
۱۹۳
و تفاوت کے بغیر ہر زمانے میں بندگانِ خدا دنیوی اور اخروی ہدایتیں اور رحمتیں حاصل کر سکیں، چنانچہ اس باب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقدّس فرمان ہے کہ:۔
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً (۰۲: ۲۱۳) سب آدمی ایک ہی امت تھے، یعنی یہ نہ صرف حضرت آدمؑ سے پہلے والوں کی بات ہے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ابتداء سے لے کر انتہا تک جتنے لوگ دنیا میں پیدا ہونے والے تھے، وہ سب کے سب دعوت و نصیحت کے امتحان سے قبل خدا کی نظر میں ایک ہی امت تھے، اور قانونِ عدل و انصاف کی رو سے انہیں یکسان طور پر آسمانی رشد و ہدایت کی ضرورت وحاجت تھی، فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ۪۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیجا جو خوشی سناتے تھے اور ڈراتے تھے۔ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ (۰۲: ۲۱۳) او ر ان کے ساتھ حقانیّت سے کتاب نازل فرمائی اس مقام پر یہ حقیقت صاف صاف ظاہرہوئی، کہ اگر لوگوں سے دین و مذہب کی قبولیّت و ناقبولیّت اٹھالی جائے، تو اوّلین و آخرین سب لوگ ایک ہی امت ہیں، انبیاء و أئمّہ علیہم الصلوات والسّلام دعوتِ حق کی ایک ہی جماعت ہیں، اور ان کے آسمانی کتب وصحائف ایک ہی کتاب کی حیثیت سے ہیں پس اگر ہم مانیں کہ سچا دین بدرجۂ سنّتِ خدا سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات میں موجود تھا، تو ہر گز غلط نہیں، اور اسی دین کی طرف
۱۹۴
بلائے جانےکے لئے سب لوگ پیدا کئے گئے، اور جس کی ہدایت و تعلیم دینے کی غرض سے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام مقرر ہوئے، ان تمام ہادیانِ راہِ حق نے ربّ العزّت کی اس ہمہ گیر کتاب کے ظاہر و باطن سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کی جو تمام امتوں میں مشترک تھی، اور دنیا کسی وقت بھی اللہ کے اس سلسلۂ ہدایت سے بے نیاز نہیں ہو سکتی ہے۔
قرآنِ حکیم کے اشارات، معتبر روایات، عقلی دلائل اور سائنسی انکشافات کی روشنی میں دیکھنے سے ہمیں یہ یقین آتا ہے، کہ اس وسیع و عریض کائنات کے مختلف سیّاروں میں اور خود اس سیّارۂ زمین پر لاتعداد آدم ہو گزرے ہیں، اور قانونِ حکمت کہتا ہے کہ ان تمام آدموں اور ان سب کی نسلوں کو خدائے یکتا کا ایک ہی دین پیش کیا گیا تھا، جو دینِ حق تھا، اور جس کا مرکزی نام آج اسلام ہے، جو اللہ کی سنت اور دینِ فطرت کے مرتبے میں ہے، پس یہی سبب ہے جو حق تعالیٰ کا ارشاد ہوا ہے کہ:۔
فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ (۳۰: ۳۰) یعنی اللہ تعالیٰ کی فطرت وہی ہے جس کے موافق اس نے لوگوں کو پیدا کیا۔ یاد رہے کہ فطرت کے معنوں میں سے ایک معنی دینِ اسلام کے ہیں۔
اس موضوع کے سلسلے میں یہاں تک جو کچھ بیان ہو چکا، اس کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ ازل سے ابد تک دینِ حق ایک ہی ہے جس کی
۱۹۵
طرف جملہ پیغمبروں اور اماموں نے اپنے اپنے وقت کے لوگوں کو واجبی طور پر دعوت دی ہے، اور یہ حضرات امردعوت کے مقصدِ اعلیٰ میں نفسِ واحدہ کی طرح یک زبان اور متحد تھے، ان کاملِ انسانوں نے جنہیں خدائے برتر نے ہر لحاظ سے برگزیدہ فرمایاتھا، اپنے اپنے وقت کے تقاضے کے مطابق دنیا والوں کے سامنے جس شان سے دینِ حق کی ہدایات و تعلیمات پیش کی ہیں، اس میں کوئی کمی نہ رہی ہے، اور یہ رہنما سلسلہ جو نبوّت کے بعد امامت کی صورت میں چل رہا ہے، تا قیامِ قیامت جاری و باقی رہے گا، اور زمانہ جیسے بھی نت نئے مشکلات و مسائل پیدا کرتے گزر جائے، ان سب کا حل اسی مبارک و مقدّس سلسلے کے امامِ حیّ و حاضر کی تازہ ترین ہدایات و فرامین کے ذریعے سے ہوتا رہے گا۔
الحمد للہ ربّ العلمین
سوینئیر ۱۹۷۴ میلاد النبی نمبر
۱۹۶
حکمتِ عددی
چالیس (۴۰)
حقیقی مومن کو اس امرِ واقعی میں کوئی شک نہ ہو گا، کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مقدّس ارشاد”وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ” (۳۶: ۱۲) کے بموجب کائنات و موجودات کی ہر چیز کو رشتۂ قدرت و حکمت میں پرو کر امامِ اطہر علیہ السّلام کی ذاتِ والا صفات سے وابستہ کر دیا ہے۔ تمام اشیائے ظاہری کی ارواحِ لطیفہ اور اسرارِ بدیعہ کو مرتبۂ امامت میں سمویا ہے، اور کون ومکان کی وسعتوں کو اسی مظہرِ صفاتِ قدسیہ کی نورانیّت کے بے پایان سمندر میں مستغرق کئے رکھا ہے، پس جاننا چاہئے کہ عالمِ ہست و بود کے ظاہر و باطن میں کوئی چیز ایسی نہیں، جو زبانِ حکمت سے اس حقیقت کی شہادت نہ دیتی ہو، کہ امامِ برحقؑ دنیا میں ہمیشہ کے لئے حیّ و حاضر ہیں، چنانچہ ہم یہاں نورِ الٰہی کی توفیق سے چالیس (۴۰) کی حکمتِ عددی میں سے کچھ بیان
۱۹۷
کر دیتے ہیں۔
خدائے علیم و حکیم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو چالیس برس مکمل ہونے کے بعد نبوّت و رسالت کے مرتبۂ عالی سے نوازا، اگرچہ حضور اکرمؐ بچپن ہی سے انتہائی پاک و پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے، اور آپ کو حضرت یحیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی طرح ابتدائی عمر میں درجۂ پیغمبری کی موہبت و عنایت ممکن تھی، لیکن اس امرِ عظیم کے لئے چالیس سال کی شرطِ محض اسی لئے لازمی ہوئی کہ نبوّت و امامت کا ایک مخصوص عدد چالیس (۴۰) ہے، پس معلوم ہوا کہ چالیس (۴۰) کا عدد پیغمبر اور امامؑ کا خاص مرتبہ ہے۔
حضرت پیر ناصر خسرو کی مشہور کتاب وجہ دین کے تیسویں کلام میں ہے کہ:۔
حدودِ دین کا مجموعہ بھی چالیس ہے، یعنی پانچ روحانی حدود (عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جدّ، فتح، خیال) ناطق، اساس، سات امام، دن رات کے چوبیس حجّت، اور داعی و ماذون (۵ +۲ +۷ +۲۴ +۲ =۴۰)
پس یہی عدد یعنی چالیس پیغمبرؐ اور امامؑ کا بھی ہے، کیونکہ نبوّت و امامت کا نور ایک ہی ہے اور اس پاک نور میں جملہ حدودِ دین مجموع ہیں۔
سورۂ احقاف کی پندرہویں آیت کے مفہوم میں حیاتِ بشری کے مراحل کے بارے میں یہ اصول بتایا گیا ہے، کہ اکثر انسانی سمجھ بوجھ کی تکمیل اور عقل و شعور کی پختگی چالیس برس کے بعد ہوتی ہے، ایک
۱۹۸
نیکو کار اور دور اندیش انسان عمر کی اس حد میں پہنچ کر اپنے پروردگار سے اس بات کی توفیق طلب کرتا ہے، کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے پیمانے پر اخلاقی اور روحانی انقلاب لا سکے، پس جاننا چاہئے کہ انسانی عمر میں چالیس کے عدد کی یہ اہمیت اس حقیقت کے پیشِ نظر ہے کہ چالیس کے عدد کی حکمت کا تعلق نورِ محمد و علی علیھا السّلام سے ہے۔
حدیث میں ہے، کہ دستِ قدرت نے حضرت آدمؑ کے قالب کا گارا چالیس صبحوں میں گوندھ کر تیار کیا، یعنی ہر صبح نورانیّت کے وقت آدمؑ کے جسمانی وجود کا خمیر تیار ہوتا رہا، اس کی تاویل یہ ہے کہ آدم صفی اللہؑ کی اعلیٰ روحانی ہستی چالیس (۴۰) صبحوں کی عارفانہ عبادت سے مکمل ہوئی تھی، کیونکہ چالیس کے عدد کی تاویل میں نبوّت و امامت کے اسرارِ معرفت پنہان ہیں۔
قرآن پاک کے قولِ حکمت آگین سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰؑ کوہِ طور پر جس اعتکاف کے لئے گئے تھے، اس کی مدّت چالیس راتوں کی تھی، تاکہ حضرت موسیٰؑ اس اعلیٰ ترین اعتکاف کے ذریعہ اپنے ربّ کے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہو سکیں۔ جس کا تاویلی اشارہ یہ ہے، کہ نورِ نبوّت و امامت کی معرفت کے بغیر، جو چالیس (۴۰) حدودِ دین کا مرکز ہے، روحانیّت کے مراحل طے نہیں ہو سکتے۔
فریضۂ جہاد ترک کرنے کی سزا میں بنی اسرائیل کو ارضِ مقدّس (ملکِ شام) سے چالیس سال تک محروم کر دیا گیا، اور انہیں اس عرصے
۱۹۹
میں وادیٔ تیہ میں محدود ہو کر سرگردان ہونا پڑا، اس کی تاویل بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر اور امامِ وقت کی نافرمانی کی تھی، جن کا نشان چالیس تھا، لہٰذا انہیں چالیس سال کی سزا ملی تاکہ غور و فکر کرنے والے اس حکمت کو سمجھ سکیں۔
جملِ کبیر کے سلسلے میں چالیس (۴۰) کے عدد کا حرف “میم” ہے اور میم عربی میں ایک ایسا انتہائی عجیب حرف ہے کہ اس کے اسماء والفاظ کے شروع میں داخل ہونے سے طرح طرح کے معنوں کا تعیّن ہوتا ہے، اور ان سب میں اسرارِ امامت پوشیدہ ہوتے ہیں، مثلاً اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک اسمِ جو علمِ الٰہی سے متعلق ہے، علیم ہے یا علام یا اعلم ہے یا الاعلم ہے۔ یہ ظاہری بات ہوئی، مگر حقیقت میں اس سلسلے کا سب سے بڑا نام معلم ہے، جس میں حرف میم ہے، جس کی بزرگی کی دلیل یہ ہے کہ کسی ہستی کے علم ودانش رکھنے میں انتی فضیلت نہیں جتنی کہ علم سکھانے کی فضیلت ہے۔ چنانچہ وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (۰۲: ۳۱) (اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی حقیقت سکھائی) سے ثابت ہے کہ خداوندِ عالم خود ہی آدم صفی کا معلّم تھا، اس بیان سے نہ صرف یہی حقیقت واضح و روشن ہو گئی کہ حرف میم میں معنویّت و حقیقت کی انتہائی بلندی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوا، کہ علم الاسماء میں تمام حقائق و معارف کے خزانے موجود ہیں۔ اس بیان میں حقیقی اور دانشمند مومنین کے لئے بہت کچھ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور ہی ہر زمانے میں ظاہراً
۲۰۰
وباطناً صحیح معنوں میں معلم و رہنما ہے، اور یہی نور یعنی امام زمانؑ قادر مطلق کا اسم اعظم ہیں۔
خوب جاننا چاہئے کہ چالیس کے عدد کا جملِ اصغر۴ ہے، اور محمد وعلی صلوات اللہ علیھما کے مبارک و مقدّس اسموں کا جملِ اصغر بھی ۴ ہے۔ یہ اس طرح سے ہے: ۴۰=۰+۴برابر ہے ۴ جواب، اب محمدؐ و علیؑ کے مبارک ناموں کا بسطِ حرفی ملاحظہ ہو=م ح م د، ع ل ی۔ ان پاکیزہ حروف کے اعداد اور ان کا مجموعہ یہ ہیں=۴۰ +۸+ ۴۰ +۴ +۷۰ +۳۰ +۱۰ برابر ہے ۲۰۲، دو سودو کا جملِ اصغر یہ ہے=۲ +۰+ ۲ برابر ہے ۴ جواب۔
مذکورہ بالا تمام حکمتوں اور تاویلات کا خلاصہ یہ ہے کہ چالیس کے عدد میں محمدؐ و علیؑ کے نورِ واحد کے حقائق و معارف کا ایک بے پایان خزانہ پوشیدہ ہے اس گنجینۂ علم وحکمت کے اسرار میں سے یہ بھی ہے کہ نور اصل میں ایک ہی ہے جو کبھی خدا سے، کبھی رسولؐ سے اور کبھی امامؑ سے منسوب کیا جاتا ہے، اور حقیقت بس یہی ہے کہ اس پاک نور میں وحدانیّت کی صفت ہے، یہ نور جو کائنات و موجودات کی تمام روحوں کی روح اور ساری عقول کی عقل بھی ہے اس وقت امام زمانؑ کی ذاتِ اقدس سے طلوع ہوکر عالمِ دین کو منور کر رہاہے۔
۲۰۱
قرآن اور حقیقتِ شیعیت
(از قلم علامہ نصیرا لدین نصیرؔہونزائی)
ہم یہاں سب سے پہلے حقیقتِ شیعیت کے بارے میں اپنے خیالات عرض کرتے ہیں، تاکہ یہ ظاہر ہو، کہ یہ موضوع دراصل کہاں سےکہاں تک پھیلا ہوا ہے، اور اس کے آغاز و انجام کی حقیقت کیا ہے، وغیرہ۔
چنانچہ “حقیقتِ شیعیت” سے شیعانِ علی کے نظریئے کی اصلیّت اور واقعیّت مراد ہے، اور وہ حضرت مولانا مرتضیٰ علی اور ان کی آلِ اطہار علیہم السّلام کی ولایت و امامت ہے، کیونکہ شیعی کے اصطلاحی معنی سے وہ شخص مراد ہے، جو مولانا مرتضیٰ علی اور ان کی پاک ذرّیت علیہم السّلام کو آنحضرتؐ کے حقیقی جانشین مانتا ہے، اور شیعیت
۲۰۲
کا مطلب یہاں اس نظریئے کی اصلیّت اور واقعیّت ہے۔
پس اگر ہم حقیقتِ شیعیت کو خدا اور اس کے رسولِ برحقؐ کے ارشادات کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو لازمی ہے کہ ہم ان تمام آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوّی کا غور سے مطالعہ کریں جو حضرت امیر المومنین علی اور ان کی پاک ذرّیت علیہم السّلام کی ولایت و امامت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔
اگر ہم حقیقتِ شیعیّت کو عملی طور پر خود اسماعیلی مذہب میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو ضروری ہے، کہ ہم اپنے أئمّۂ برحق کے فرامین اور بزرگانِ دین کے علمی آثار کا گہرا مطالعہ کریں، کیونکہ شیعیّت کی اصلی صورت اسماعیلیّت ہی ہے، اس لئے کہ علیؑ کا نور درحقیقت اسی مذہب میں حاضر اور موجود ہے۔
اگر ہم حقیقتِ شیعیّت کو تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اسماعیلی مذہب اوراس کے اماموں کی تواریخ پڑھنی چاہئے، کیونکہ شیعانِ علی کا اصلی نظریہ اور تصوّر صرف اسماعیلی مذہب ہی میں برقرار و باقی ہے، وہ یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ کے بعد ان کی پاک آل سے ہمیشہ کے لئے زندہ امام حاضر اور موجود ہونا چاہئے۔
اگر حقیقتِ شیعیت کی کچھ مثالیں کسی دوسرے مذہب سے لینی ہوں تو اس کے لئے بہتر یہ ہے، کہ وہ مثالیں تصوّف سے لی جائیں، اس لئے کہ صرف تصوّف ہی ایک ایسا مذہب ہے، کہ جس کی کسی حد تک
۲۰۳
حقیقتِ شیعیت کے ساتھ ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔ مثلاً تصوّف کا یہ بنیادی عقیدہ، کہ پیرو مرشد کی تابعداری کے بغیر کوئی مرید منزلِ طریقت میں نہیں پہنچ سکتا، جس طرح شیعیّت کی اصل الاصول ہے، کہ امام زمان کی فرمانبرداری کے بغیر کوئی مومن منزلِ حقیقت میں داخل نہیں ہو سکتا۔
اگر حقیقتِ شیعیّت دل کی آنکھ سے دیکھنا ہو تو مومن کو اپنی ذات کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی، چونکہ دینِ حق کا روحانی مشاہدہ اور خدا کی پہچان انسان کے اپنے آپ کی شناخت کا نتیجہ ہے، اور ہمارے دینی بزرگوں کو اس مذہب کی تحقیق کے بارے میں جو یقینِ کامل حاصل ہوا، وہ ان کی اپنی ذات کی معرفت کے ذریعے سے میسّر ہوا تھا۔
اگر ہم اس حقیقت کو عقلی دلائل کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں، تو قانونِ فطرت کی شہادتوں سے کام لینا ہو گا، جو آفا ق و انفس کی تخلیق میں موجود ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ (۴۱: ۵۳) ہم ان کو اس عالم میں اور خود ان کی جانوں میں اپنے نشانات دکھاتے رہیں گے، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے، کہ وہ حق ہے۔ ”
اگر عصرِ حاضر کے بعض ترقی پسند علمی اداروں کو خصوصیّت سے حقیقت شیعیت پر ریسرچ کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو، تو وہ اس
۲۰۴
حیرت انگیز واقعہ کی بنا پر ہو گی، کہ دنیا کا کوئی مذہب اور اسلام کا کوئی فرقہ اپنے ابتدائی اور اصلی نظریات پر قائم نہیں رہ سکا، سوائے شیعہ مذہب کی ایک شاخ کے، جو نزاری اسماعیلیّت ہے، جس کا نظریہ اب بھی وہی ہے، جو رسول اکرمؐ کے فوراً بعد قائم کیا گیا تھا، وہ یہ کہ آلِ محمدؐ واولادِ علی علیہم السّلام سے ہمیشہ کے لئے زندہ اور حاضر امام موجود ہونا چاہئے، تاکہ اس سے دینی اور دنیاوی ہدایت حاصل کی جا سکے۔
اس کے علاوہ ان علمی اداروں کو شیعیّت کے متعلّق تحقیق کرنے کا احساس اس لئے ہوا ہوگا، کہ خدا کا آخری دین اسلام ہے، اور اسلام کی ایک مثالی شاخ شیعیّت ہے، جس کے عقائد و نظریات کا خلاصہ یہ ہے، کہ خدا اور رسولؐ کی طرف سے دنیا میں ہمیشہ کے لئے انسانی وحدت اور حصولِ کمالیّت کا مرکز قائم ہے، وہ قدرتی مرکز امام زمانؑ ہیں، جن پر اگر سب دنیا والے متفق و متحد ہو جائیں، تو روحانی ترقی اور عالمی امن کا دور دورہ ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ اس بیان کے شروع میں اشارہ کیا گیا، کہ حقیقتِ شیعیّت سب سے پہلے قرآن اور حدیث سے واضح ہو جاتی ہے، اب ہم یہاں اس کی ایک مثال عرض کرتے ہیں، کہ ارجح المطالب، باب دوم، ص۵۶ پر ابوبکر ابنِ مردویہ کے حوالے سے مولانا علیؑ کا یہ کلام درج ہے: “نزل القرآن ارباعاقربع فینا و ربع فی عدوناور بع سیر وامثال و ربع فرائض و احکام ولنا کرایم القرآن=
۲۰۵
قرآن مجید چار حصوں میں نازل ہوا ہے، پس اس کی ایک چوتھائی ہماری شان میں ہے، ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے، ایک چوتھائی میں قصّے اور مثالیں ہیں اور ایک چوتھائی میں فرائض و احکام ہیں اور قرآن مجید کی بزرگ آیتیں ہماری شان میں ہیں۔ ”
کیا مولانا علیؑ کے اس پُرحکمت کلام کے ظاہری معنی کے اعتبار سے ہم صرف یہی مان بیٹھیں، کہ قرآنِ مجید کی ایک ایک چوتھائی مولائی نامدار کی شان میں ہے اور بس، یا اس قول کی حکمت کو منکشف کرنے کی جسارت کریں؟ آپ ضرور اس پر متفق ہوں گے، کہ مومنین کی روحانی ترقی کا انحصار اس امر پر ہے، کہ وہ حصولِ حکمت کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کریں، پس مولا کے مذکورہ کلام کی حکمت سن لیجئے، کہ یہ تو صاف ظاہر ہی ہے، کہ قرآن مجید کی ایک چوتھائی مولا کی شان میں ہے، مگر سوال اس بارے میں پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کا جو حصّہ علیؑ کے دشمنوں کے بارے میں ہے، وہ کس صورت میں ہے؟ کیا اس حصے میں کھلم کھلا علیؑ کے دشمنوں کی مذمت کی گئی ہے؟ نہیں نہیں، قرآن کا وہ حصّہ اس طرح سے نہیں، لہٰذا ہمیں حدیث نبویؐ کی مدد سے اس مسئلہ کا حل نکالنا پڑے گا، وہ یہ ہے، کہ آنحضرت نے آخری حج کے موقع پر مولانا علیؑ کے حق میں بطورِ دعا فرمایا:۔
اَللّٰھُمَّ وَاٰلِ مَنۡ وَالَاہٗ وَعَاد مَنۡ عاداہ=اے میرے
۲۰۶
پروردگار! آپ اس شخص کو دوست رکھئے جو علیؑ کو دوست رکھے اور اس شخص کو دشمن رکھئے جو علیؑ کو دشمن رکھے۔
پس معلوم ہوا، کہ قرآن پاک میں خدا کے جن دشمنوں کا ذکر آیا ہے، وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں، جن کی علیؑ سے دشمنی ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلا، کہ اسی طرح حکمت کے اصول میں قرآن کی دوسری چوتھائی بھی مولا کی شان میں ہے، کیونکہ انہی کی وجہ سے ان کے دشمنوں کی مذمت کی گئی ہے۔
اب قرآن کی تیسری چوتھائی کے بارے میں سنئے، جس میں قصے اور مثالیں بیان کی گئی ہیں، سو قصوں کے متعلق یہ ہے، کہ وہ اکثر قرآنی قصے پیغمبروں کے بارے میں ہیں، اور اس کے علاوہ جو قصے ہیں، وہ بھی دراصل ایسے لوگوں کے بارے میں ہیں، جو پیغمبروں کی فرمان برداری کرتے تھے، یا ان لوگوں کے بارے میں ہیں، جو پیغمبروں کی نافرمانی کرتے تھے، پس قرآن کے تمام قصّوں کے مرجع انبیاء علیہ السّلام ہوئے، اور یہ ایک مشہور حدیث ہے، جو آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا:۔
یَاعَلِیۡ کُنۡتَ مَعَ الۡاَنۡبِیَاء سِرّاً وَّمَعِیۡ جَھۡراً=اے علی آپ تمام پیغمبروں کے ساتھ پوشیدہ طور پر موجود تھے اور سب پیغمبروں کے مرجع ہیں، بلکہ ان سے متعلق تمام قصّوں کے بھی مرجع ہیں۔
۲۰۷
اب ہم قرآنی مثالوں کے بارے میں عرض کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے، کہ قرآن مجید کی بعض مثالیں مثبت پہلو سے اور بعض مثالیں منفی پہلو سے حقیقت الحقائق کے تمام درجات کی حکمت بیان کرتی ہیں، چنانچہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: “بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌؕ- (۲۱: ۱۸) بلکہ ہم حق کو باطل پر دے مارتے ہیں، پس وہ (حق) اس (باطل) کا بھیجا نکال دیتا ہے، سو وہ دفعتاً جانے والا ہوتا ہے۔” اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے نہ صرف یہی معلوم ہوا، کہ قرآن کے خاص خاص حقائق مثالوں میں بیان کئے گئے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ظاہر ہوا، کہ حق و باطل کا آخری فیصلہ بھی انہی مثالوں میں موجود ہے، یہی وجہ ہے، جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ:۔ “الحق مع علی = یعنی حق علی ہی کے ساتھ ہے۔” جب یہ معلوم ہوا کہ حق اور حقیقت علیؑ ہی کے ساتھ ہے، اور حقیقتیں قرآن کی مثالوں میں بیان کی گئی ہیں، تو ظاہر ہے کہ قرآن کا وہ حصّہ بھی علیؑ ہی کی شان میں ہے، جس میں حقیقت الحقائق کے درجات کی مثالیں ہیں۔
اب رہی قرآن کی آخری چوتھائی، جس میں فرائض اور احکام مذکور ہوئے ہیں۔ اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ فرائض اور احکام کی بجا آوری خدا کی اطاعت کہلاتی ہے، مگر خدا کی یہ اطاعت رسول اور اولوالامر (یعنی آئمۂ برحق) کے وسیلے سے کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہی
۲۰۸
حضرات ہیں، جو خدا کے فرمائے ہوئے فرائض و احکام کی تفصیلات لوگوں کو زمان و مکان کے تقاضے کے مطابق بتایا کرتے ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: “یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ (۰۴: ۵۹) اے ایمان والو! تم اللہ کی فرمان برداری کرو، اور رسول کی فرمان برداری کرو اور اولوالامر کی فرمان برداری کرو جو تم میں سے ہیں۔”
جب یہ معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے اس حصّے میں بھی مولانا علیؑ کا ذکرِ جمیل موجود ہےجس میں فرائض و احکام مذکور ہیں، تو اب ہم عرض کرسکتے ہیں، کہ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس میں کسی نہ کسی طرح سے علیؑ یعنی نورِ امامت کا تذکرہ نہ کیا گیا ہو، پس یہی حقیقتِ شیعیّت کا موضوع اور قرآن و حدیث سے اس کا تعلق جو بیان کیا گیا۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔
بموقع نوروز، ۲۱ مارچ ۱۹۶۸ء
۲۰۹
الٰہی شناخت
سیدنا ناصر خسرو قدس کی تصنیف”روشنائی نامہ”سے چند منتخب اشعار
ترجمہ و تشریح: علامہ نصیرالدین نصیرؔہونزائی
بنامِ آنکہ دار ای جہان است
خدا وندِ تن و عقل وران است
ترجمہ:۔ اس (خدا) کے نام سے (آغاز کرتا ہوں) جو کائنات کا نگہبان ہے، اور جسم و جان اورعقل کا مالک ہے۔
تشریح:۔ حضرت ناصر خسرو قدس اللہ سرّہ، حکمت کی زبان میں فرماتے ہیں، کہ اگرچہ عام اعتقاد کے مطابق حق تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان اور مالک ہے، لیکن حقیقت میں اس کی صفاتِ عالیہ کے فیوض و برکات سے تمام مخلوقات یکسان طور پر مستفیض نہیں ہو سکتیں، بلکہ وہ حسبِ مراتب فیضیاب ہوتی رہتی ہیں۔ نگہبانی اور محافظت کی جانے والی مخلوق کے
۲۱۰
لئے یہ قید و شرط ضروری نہیں، کہ وہ اپنے نگہبان اور محافظ کو پہچانے اور اس کی فرمان برداری کرے، مگر مملوک ہونے کے لئے یہ شرط لازمی اور ضروری ہے کہ اپنے مالک کو پہچان لیا جائے اور اس کی فرمان برداری کی جائے۔
خرد ز ادراک او حیوان بماندہ
دل و جان در رہش بی جان بماندہ
ترجمہ:۔ عقل و دانش اس کے پانے سے (قاصر ہو کر) حیران رہ گئی ہے، دل اور جان اس کی راہِ طلب میں بے دم اور پژ مردہ ہو گئے ہیں۔
تشریح:۔ یہاں اس آیۂ کریمہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ: لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ (۰۶: ۱۰۳) اسے آنکھیں نہیں پاسکتیں اور وہ آنکھوں کو پالیتا ہے۔ یہاں آنکھوں سے انسانی عقل و روح کی قوّتیں مراد ہیں، پس معلوم ہوا کہ عقل و روح کی قوّتیں خدا کو نہیں پا سکتیں، لیکن خدا خود ان قوّتوں کو پالیتا ہے، جس کی مثال سورج کی طرح ہے، کہ حقیقت میں ہماری آنکھیں کروڑوں میل کی مسافت سے گزر کر سورج کو نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ سورج خودبخود ہماری آنکھوں میں آجاتا ہے، یہاں سوچنے اور تجربہ کرنےکی ضرورت ہے۔
بہر وصفی کہ گویم زان فزون است
زہر شرحی کہ من دانم برون است
۲۱۱
ترجمہ:۔ میں جیسے بھی اس کی تعریف و توصیف کروں وہ اس سے بڑھ کر ہے، ہر اس تشریح سے، جو میں جانتا ہوں وہ بالا و برتر ہے۔
تشریح:۔ حکیم صاحب کی یہ شعر اس قرآنی تعلیم کے مطابق ہے: سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ (۳۷: ۱۸۰) آپ کا پروردگار جو عزّت کا پرورگار ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ ” رَبِّ الْعِزَّةِ” کے معنی ہیں عزّت کے کل تقاضوں کو پورا کرنے والا، مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ عزّت کو انسانی صورت میں پیدا کرتا ہے، پھر اس کی پرورش کرتا ہے اور آگے سے آگے بڑھا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ مجسّمۂ عزّت انتہا کو پہنچتی ہے، پس تعریف و توصیف ذی عزّت کی ہے اورحق تعالیٰ تعریف و توصیف سے پاک و برترہے۔
بسی گفتند و می گویند ازین حال
ندانم تاکرا روشن شداحوال
ترجمہ:۔ بہت سے مدعیوں نے اس حال کے بارے میں قیل وقال کی ہے، اور کر رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کس پر حالات (حقائق) روشن ہوئے۔
تشریح: سیدنا ناصر خسرو کا یہ قول ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وسیلہ اور واسطہ چھوڑ کر کسی غلط طریقے
۲۱۲
سے خدا شناسی کے مدعی ہوا کرتے ہیں اور اپنے گمان کے مطابق خدا کی حقیقت کے بارے میں قیل و قال کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی ایک ناکام کوشش ہے۔
ہزاران سال اگر گویند و پویند
درآخر رخ بخونِ دیدہ شویند
ترجمہ:۔ اگر وہ ہزاروں سال اسی طرح قیل و قال کرتے چلے جائیں پھر بھی آخر کار وہ (ناکام ہو کر) خون کے آنسوؤں سے اپنا چہرہ دھو لیں گے۔
تشریح:۔ فرماتے ہیں کہ خدا کی حقیقت سمجھنے کے لئے جن لوگوں کا نظریہ صحیح نہ ہو، تو وہ خواہ ہزاروں سال اپنے قول و عمل سے کوشش کیوں نہ کرے، یہ سب کچھ بے سود اور لاحاصل ہے۔
چنین گفتند کہ روبشناس خودرا
طریقِ کفر و دین و نیک و بدرا
ترجمہ:۔ انہوں (یعنی پیغمبر اور امام علیھما السّلام) نے یوں فرمایا کہ جا تو اپنے آپ کو پہچان لیا کرو، کفرو دین اورنیک و بد کا طریقہ سمجھنے کے لئے۔
تشریح:۔ یہاں اس طرف اشارہ ہے:
“من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” نیز”اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربہ” کی طرف ہے، یعنی جس شخص نے
۲۱۳
اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔ جو شخص تم میں سب سے زیادہ خودشناس ہو وہی شخص تم میں سب سے زیادہ خدا شناس ہے۔
پس اسی خود شناسی کے سلسلے میں دین و کفر اور نیک و بد کا تمام علم آجاتا ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کی تعلیمات سے بھی ظاہر ہے کہ خیرو شر کے دونوں راستے واضح کئے ہوئے ہیں، تاکہ نتیجے کے طور پر خدا کی طرف رجوع ہو۔ (۲۱: ۳۵، ۷۶: ۰۳، ۹۰: ۱۰، وغیرہ
کزین رہ سوی یزدان است راہت
ترا بس باشد این معنی گواہت
ترجمہ:۔ کیونکہ اسی (ذاتی معرفت کی) راہ سے تجھے خدا کی طرف راستہ میسّر ہے، اور یہی حقیقت تیرے لئے بطورِ گواہ کافی ہے۔
تشریح:۔ موصوف حکیم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی خودشناسی کا نتیجہ ہی خدا شناسی ہے، اور یہ ایک ایسی جامع حقیقت ہے کہ تمام حقائق اسی میں سموئے ہوئے ہیں، پس ہر حقیقت کے لئے اسی سے استشہاد کیا جا سکتا ہے، کیونکہ خدا کی حکمتوں کی جیتی جاگتی نشانیاں صرف انسانی نفوس ہی میں پوشیدہ ہیں، جیسا کہ قرآنِ پاک کا قول ہے:
۲۱۴
وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (۵۱: ۲۱) اور تمہارے نفسوں میں بھی (نشانیاں یعنی معجزات) ہیں پھر کیا تم نہیں دیکھتے ہو۔
چونادانی ندانی ہیچ ازین حال
شووضائع ترا روز و مہ وسال
ترجمہ:۔ چونکہ تو نادان ہے (اس لئے) تو اس حال کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، تیرے دن، مہینے اور سال ضائع ہوتے جاتے ہیں۔
تشریح:۔ ارشاد ہوتا ہے کہ تیری اپنی نادانی کے سبب سے معجزاتِ معرفت کاحال اور اس کی قدرومنزلت اور اہمیّت و افادیّت تجھ پر پوشیدہ ہے۔ اگر تجھے ذرا بھی عقل ہوتی تو حصولِ معرفت کے لئے تو ساعی اور کوشان رہتا، اور تیری گرانقدر عمر اور قیمی اوقات اسی طرح بے کار اور لاحاصل ضائع نہ ہوتے۔
زدانش زندہ مانی جاودانی
زنادانی نیابی زندگانی
ترجمہ:۔ دانش ومعرفت ہی سے تو زندۂ جاوید رہے گا، نادانی و ناشناسی سے تجھے کوئی حیات و بقا حاصل نہ ہو گی۔
تشریح:۔ سیدنا کا اشارہ اس قرآنی تعلیم کی طرف ہے: “کیا وہ شخص جو مردہ تھا پس ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لئے
۲۱۵
ایک نور قرار دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے، جو اندھیروں میں (پڑا) ہو جن سے وہ نکل ہی نہ سکے (۰۶: ۱۲۲)
یہاں نور کے معنی علم ومعرفت ہیں، اور ظلمت کے معنی جہالت و ناشناسی ہیں۔
اگر بشناختی خودرا بہ تحقیق
ہم از عرفانِ حق یا بی تو توفیق
ترجمہ:۔ اگر تو اپنے آپ کو بہ حقیقت پہچانے تو (ساتھ ہی ساتھ) تجھے حق تعالیٰ کی معرفت کی توفیق بھی ملتی رہے گی۔
نماند برتو پنہان ہیچ حالی
نہ بینی از جہان در دل ملالی
ترجمہ:۔ (حصولِ معرفت کے بعد) تجھ پر حقیقت کا کوئی حال پوشیدہ نہ رہے گا، نہ ہی تو اپنے دل میں دنیاوی تکالیف سے کوئی اکتاہٹ محسوس کرے گا۔
درامروز اندرین عالم نہ بینی
دران عالم بصد حسرت نشیبی
ترجمہ:۔ اور اگر تو آج اس دنیا میں نہ دیکھ سکے، تو اس عالم میں تجھے صدہا حسرتیں لے کر رہنا پڑے گا۔
تشریح: حجتِ خراسان کا یہ ارشاد اس آیۂ کریمہ کے مطابق ہے: وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى
۲۱۶
وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا (۱۷: ۷۲) =اور جو کوئی اس (دنیا) میں اندھا رہا پس و ہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور بہت زیادہ گمراہ رہے گا۔
اسماعیلی بلیٹن جلد۱۔ شمارہ ۳، ذی الحجہ ۱۳۹۴ھ، دسمبر۱۹۷۴ء
۲۱۷
سورۂ مزمل کی چند حکمتیں
سوال و جواب کی صورت میں
ازقلم: علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی
سوال نمبر ۱:۔ کپڑوں میں لپیٹنے والا کون ہے؟ اور اس خطاب کی وجہ کیا ہے؟ (۷۳: ۰۱)
جواب:۔ کپڑوں میں لپیٹنے والا یا چادر لپیٹنے والا آنحضرتؐ کے ناموں میں سے ہے، اس کی وجہ بعضوں نے یہ بتائی ہے کہ ابتدائے نبوّت میں کفارِ قریش نے حضورِ اکرمؐ کو ساحر کہا، آپؐ کو یہ خبر سن کر رنج ہوا اور رنج کی حالت میں کپڑوں میں لپٹ گئے اور بعض کے نزدیک اس خطاب کی وجہ یہ ہے کہ شروع شروع میں جب سرورِ کونینؐ پر نزولِ وحی کی کیفیت گزرتی تھی، تو آپ پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے اور فرماتے تھے، کہ مجھے کپڑوں میں لپیٹ دو۔
سوال نمبر ۲:۔ خدائے حکیم نے اشارہ فرمایا، کہ رات کو بروقت سو کر پھر جلدی ہی عبادت کے لئے جاگ اٹھو، اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ اور ساری رات جاگنے کے لئے کیوں نہیں فرمایا؟(۷۳: ۰۲)
۲۱۸
جواب: نیند سے اٹھ کر عبادت کرنے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس سے نہ صرف جسم تازہ دم ہو جاتا ہے، بلکہ مومن کا دل و دماغ بھی ہر قسم کی فکری الجھنوں سے آزاد و فارغ ہو جاتا ہے، اور ذکر و عبادت میں یکسوئی صرف ایسی ہی حالت میں ہو سکتی ہے۔ قرآنِ حکیم میں ساری رات عبادت میں گزارنے کا بھی ذکر ہے، جس کی حکمت و منفعت اس سے علحیدہ ہے۔
سوال نمبر ۳:۔ سورۂ مزمل کے ارشاد کے مطابق رات کے کس وقت سے عبادت شروع ہونی چاہئے؟(۷۳: ۰۳)
جواب:۔ رات کی ایک تہائی گزرجانے کے بعد یا نصف شب سے یا آخری تہائی سے ذکر و عبادت کا آغاز ہونا چاہئے۔
سوال نمبر ۴: مذکورہ سورہ میں قرآن کا کیا مطلب ہے؟ (۷۳: ۰۴)
جواب:۔ قرآن کا مطلب قرآنِ حکیم ہے، جو سرورِ انبیاء صلعم پر نازل ہوا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا ہر بزرگ اسم قرآن مقدّس کا ایک حصّہ ہے، کیونکہ یہ قرآن مجید میں سے ہےاور اس میں قرآن شریف کی معجزانہ روح اور نورپنہان ہے۔
سوال نمبر ۵:۔ رات کی عبادت کے وقت میں کمی بیشی کا یہ اختیار کیوں دیا گیا ہے؟
جواب:۔ اس لئے کہ مومن کی حالت ایک جیسی نہیں رہتی وہ کبھی زیادہ تھکا ماندہ ہوتا ہے، کبھی بیمار اور کبھی سفر پر ہوتا ہے۔
۲۱۹
سوال نمبر ۶:۔ ترتیلِ قرآن کا مطلب بتاؤ؟ (۷۳: ۰۴)
جواب:۔ ترتیلِ قرآن کا مطلب ہے قرآن کو حسنِ ترتیب سے پڑھنا اور اگر عبادت میں قرآن میں سے کوئی اسمِ الٰہی ہے تو مکمل توجہ اور دل کی بیداری سے پڑھنا۔
سوال نمبر ۷:۔ عبادت کس چیز کے حصول کی تیاری ہوتی ہے؟
جواب:۔ ذکرو عبادت کی تکمیل حقیقی مومن کی وہ تیاری ہے کہ اس کے نتیجے میں مومن کو اللہ پاک کی جانب سے نیک توفیق، خاص ہدایت اور بلند حوصلہ مل سکتا ہے۔
سوال نمبر ۸:۔ قولِ ثقیل کا کیا اشارہ ہے؟ (۷۳: ۰۵)
جواب:۔ قول ثقیل کا خاص تعلق پیغمبر صلعم کی ذات شریف سے ہے، اور وہ ایک عظیم حکمت ہے، اور مومن کے لئے اس کا اشارہ روحانی ترقی ہے۔
سوال نمبر۹:۔ رات کی عبادت سے کیا کیا فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟
جواب:۔ اس سے نفسِ امّارہ خوب کچل جاتا ہے، ذکرِ الٰہی آگے بڑھتا ہے اور عقل و دانش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر ۱۰:۔ شب بیداری سے ذکر کی ترقی ہونے کا سبب کیا ہے؟ (۷۳: ۰۶)
جواب:۔ چونکہ رات نہ صرف فراغت اور سکون کا وقت ہے، بلکہ
۲۲۰
اس میں بموجب سورۂ فرقان یعنی (۲۵: ۶۲) خدا کے امر سے یہ تاثیر بھی ہے، کہ ذکرِ الٰہی معجزانہ حد تک آگے بڑھ جاتا ہے۔
سوال نمبر ۱۱:۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جو ارشاد فرمایا، کہ دن کو تمہارے لمبے لمبے شغل ہوتے ہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ رسولِ اکرمؐ دن کو ایسے مشاغل کے باوجود بھی ذکر وعبادت سے خالی نہیں رہتے تھے، پھر اس میں کیا حکمت ہے جو فرمایا گیا کہ آپ رات کوعبادت کے لئے اٹھاکریں؟ (۷۳: ۰۷)
جواب:۔ یہ دن کی عبادت پر رات کی عبادت کی فضیلت کا ایک روشن ثبوت ہے۔
سوال نمبر ۱۲:۔ ارشاد ہے کہ آپ اپنے ربّ کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کر کے اسی کی طرف متوجہ رہو، اس میں کیا حکمت ہے کہ یہاں ذکر پہلے آیا اورتوجہ بعد میں ہے؟ (۷۳: ۰۸)
جواب:۔ چونکہ روحانی توجّہ کوئی ظاہری تعلیم کی چیز ہے نہیں یہ تو کثرتِ ذکر کے نتیجے میں خود بخود پیدا ہوتی ہے، اس لئے آیت میں ذکر کا بیان پہلے آیا اور توجّہ کا بعد میں۔
سوال نمبر ۱۳:۔ ذکر کے وقت کن کن چیزوں کو بھولنا چاہئے؟
جواب:۔ ذکر کے دوران ذاکر ہر چیز کو بھول جائے، یہاں تک کہ اپنے آپ کوبھی فراموش کرے، سوائے اس خیال کے کہ اسم کی حقیقت سے خدا کو جدا اور دور نہ سمجھے۔
۲۲۱
سوال نمبر ۱۴:۔ ارشاد ہے کہ “وہ مشرق اور مغرب کا پروگار ہے۔” اس ارشادِ ربّانی میں کیا حکمت ہے؟ (۷۳: ۰۹)
جواب:۔ یعنی اللہ تعالیٰ حدودِ علوی اور حدودِ سفلی دونوں کی تائیدی پرورش فرماتا ہے، اس لئے مومن ذاکر کو یہ توقع رکھنی چاہئے، کہ خواہ وہ جس درجے میں بھی ہواسے ذکر و عبادت کا ثمر ضرور ملتا رہے گا۔
سوال نمبر ۱۵:۔ یہاں آیت ۹ میں فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے معبودِ برحق کو اپنا وکیل بناؤ، تو بتائیے کہ توکل پہلے ہے یا عبادت؟(۷۳: ۰۹)
جواب:۔ پہلے معبودِ برحق کی عبادت ہونی چاہئے اور وہ بھی معرفت کی روشنی میں، اس کے بعد توکل کا مقام آتا ہے، مذکورہ آیۂ کریمہ سے یہی حقیقت ظاہر ہے۔
سوال نمبر ۱۶:۔ یہاں صبر سے کیا مراد ہے؟ (۷۳: ۱۰)
جواب:۔ اگر سورۂ مزمل کو ذکر و عبادت کا ایک مسلسل اور مربوط مضمون قرار دیں، تو یہاں صبر کے معنی یہ ہوں گے کہ منکرین کی باتوں سے نہ صرف ظاہری طور ہر رنج ہوتا ہے، بلکہ اس سے ذکر و عبادت کے دوران بھی وسوسوں کی صورت میں اذیت پہنچتی رہتی ہے، جس کا علاج صبرو ثبات سے ذکرِ الٰہی میں مصروف رہنا ہے۔
اسماعیلی بلیٹن جلد۱۔ شمارہ نمبر۸۔ جمادی الاول ۱۳۹۵ھ، مئی ۱۹۷۵ء
۲۲۲
انسانی کمال کی صفت
ماخوذ از روشنائی نامہ سیدنا ناصر خسرو (ق۔ س)
ترجمہ: از علامہ نصیرالدین نصیرؔ ہونزائی۔
درخت است این جہان و میوہ مائیم
کہ خرم بردرختِ او برآئیم
ترجمہ:۔ یہ جہان درخت ہے اور (اس کا) میوہ (پھل) ہم ہیں۔ کیونکہ ہم اسی جہان کے درخت پر ترو تازہ نشوونما پاتے ہیں۔
دگر ہستند برگ و ماہمہ بر
طفیل ماشد نداین ہا سراسر
ترجمہ:۔ دوسری (مخلوقات) پتے ہیں اور ہم سب (انسان) پھل ہیں یہ ساری (مخلوقات) ہمارے طفیل سے ہوئی ہے۔
شرف دار د درخت از میوہ آری
کہ باشد تاندارد ہیچ باری
ترجمہ:۔ درخت کو شرف و عزّت پھل ہی سے حاصل ہے (ورنہ) کون رہنے دیتا ہے جبکہ اس کا پھل کوئی نہ ہو۔
زبوی و لذتِ خوش میوہ ہارا
شرف باشد چنانک از عقل مارا
۲۲۳
ترجمہ:۔ خوشبو اور خوش ذائقہ ہونا پھلوں کے لئے باعثِ شرف و فضیلت ہے جیسے ہم (انسانوں) کے لئے عقل و دانش سے (شرف و عزّت ہے) ۔
نیا بد مردِ جاہل در جہان کام
نداردبوی و لذت میوۂ خام
ترجمہ:۔ نادان آدمی دنیا میں مقصد حاصل نہیں کر سکتا۔ کچے پھل میں بُو اورذائقہ نہیں ہوتا۔
مشوچون میوہ ہای نارسیدہ
سقط ہرگز نا باشد چون گزیدہ
ترجمہ:۔ کچے پھلوں کی طرح نہ ہو جا (درخت سے) ناتمام گرا ہوا اور (پک کر) چُنا ہوا پھل دونوں برابر نہیں ہوتے۔
سقط باشد درین باغ آنچہ خامند
حکیمان میوہای خوش طعامند
ترجمہ:۔ اس باغ میں جو کچّے ہیں وہ سقط (یعنی نا تمام و ناپختہ گرا ہوا) ہیں (جبکہ) اہلِ حکمت خوش ذائقہ پھل ہیں۔
درختی کان لطیف ومیوہ دار است
مرورا باغبان پروردگار است
ترجمہ:۔ جو درخت عمدہ اور پھل دار ہو باغبان اسی کی (زیادہ سے زیادہ) پرورش کرتا ہے۔
۲۲۴
نخواہد میوہ جز خوشبوی و شیرین
بیند از دسقطہای بد آئین
ترجمہ:۔ (باغبان) خوشبودار اور میٹھے پھل کے بغیر نہیں چاہتا ہے (اور) ناکارہ گرے ہوئے پھلوں کو پھینک دیتا ہے۔
سقط خواراست خواری رارہاکن
تمامی جوی و خودرا پُر بہاکن
ترجمہ:۔ ناتمام بے قدر ہے، بے قدری کو چھوڑ دے (اور) تمامیت کی جستجو کر اور اپنے آپ کو پُرقیمت بنا لے۔
ہرآن میوہ کہ نبود طعم و بویش
نبا شد باغبان در جستجو یش
ترجمہ:۔ ہر وہ پھل جس کی (کوئی) لذّت اور خوشبو نہ ہو باغبان اس کی طلب میں نہیں رہتا ہے۔
ترا لذت زعلم است از عمل بوی
کمالیت ز علم باعمل جوی
ترجمہ:۔ تجھ کو علم سے لذّت اور عمل سے خوشبو ہے (اسی طرح) اس علم سے جو عمل کے ساتھ ہو تمامیّت کو طلب کرے۔
گراز سرچشمۂ معنی خوری آب
شوی در باغ جنت میوۂ ناب
ترجمہ:۔ اگر تُو حقیقت کے سرچشمے سے پانی پیا کرے تو تو جنّت
۲۲۵
کے باغ میں پاک و صاف میوہ بن سکتا ہے۔
دگر باشی سقط درخاک مانی
معذب دربلای جاودانی
ترجمہ:۔ اگر تُو سقط ہو جائے تو تُو مٹی میں رہ جائے گا، دائمی بلا میں عذاب اٹھاتے ہوئے۔
نباشی درخورِ خوان شہنشاہ
چوخاکی خوار باشی برسرِ راہ
ترجمہ:۔ (اس صورت میں) تُو شاہنشاہ کے دستر خوان کے قابل نہ ہو گا (بلکہ) رستے کی مٹی کی طرح حقیر و ذلیل ہو جائے گا۔
چوخواہی تاکہ یابی دانش و ہوش
مکن پندِ حکیمان را فراموش
ترجمہ:۔ اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے عقل و شعور حاصل ہو تو حکماء کی نصیحت کو فراموش مت کر۔
اسماعیلی بلیٹن جدل ۱۔ شمارہ۱۰۔ رجب ۱۳۹۵، جولائی ۱۹۷۵ء
۲۲۶
خودشناسی
سیدنا ناصر خسرو قدس کی تصنیف “روشنائی نامہ” سے انتخاب
اردو ترجمہ از: علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی
۱۔ اگر بشناختی خودرا بہ تحقیق
ہم از عرفانِ حق یابی تو توفیق
ترجمہ:۔ اگر تُو اپنے آپ کو بہ حقیقت پہچانے تو (ساتھ ہی ساتھ) تجھے حق تعالیٰ کی معرفت کی توفیق بھی ملتی رہے گی۔
۲۔ نماند برتو پنہان ہیچ حالی
نہ بینی از جہان دردل ملالی
ترجمہ:۔ (حصولِ معرفت کے بعد) تجھ پر حقیقت کا کوئی حال پوشیدہ نہ رہے گا، نہ ہی تو اپنے دل میں دنیاوی تکالیف سے کوئی اکتاہٹ محسوس کرے گا۔
۳۔ بود پیدا اہلِ علم اسرار
ولی پوشیدہ گشت از چشمِ اغیار
۲۲۷
ترجمہ:۔ اہلِ علم پر (حقائق کے) پوشیدہ بھید ظاہر ہیں لیکن (یہ بھید) غیر کی نظر سے پوشیدہ ہیں۔
۴۔ بیا بکشا ی چشمِ دل درین راہ
مگر ازخویش وازحق گردی آگاہ
ترجمہ:۔ آ اس (معرفت کی) راہ میں دل کی آنکھ کھول کر دیکھ لیا کرتاکہ تُو اپنے آپ سے اور حق تعالیٰ سے واقف و آگاہ ہو سکے۔
۵۔ ورامروز اندرین عالم نہ بینی
در آن عالم بصد حسرت نشینی
ترجمہ:۔ اور اگر تو آج اس دنیا میں نہ دیکھ سکے تو اس عالم میں تجھے صدہا حسرتیں لے کر رہنا پڑے گا۔
۶۔ نہ بہرِ خواب و خوردی ہمچو حیوان
برائی حکمت و علمی چو انسان
ترجمہ:۔ تُو حیوان کی طرح سونے اور کھانے کے لئے نہیں (بلکہ) علم و حکمت کے لئے انسان (پیدا کیا گیا) ہے۔
۷۔ خطاب از حق بجز تو نیست باکس
اگر دریا بی این معنی ترا بس
ترجمہ:۔ حق تعالیٰ کے ساتھ ہمکلام ہونے کا شرف تیرے سوا اور کسی مخلوق کو حاصل نہیں اگر تو سمجھ سکے، تو یہی حقیقت تیرے لئے کافی
۲۲۸
ہے۔
۸۔ زمین و آسمان بہر تو آراست
ازان برخاستی باقامتِ راست
ترجمہ:۔ خدا نے زمین و آسمان تیرے لئے پیدا کر دیا اسی سبب سے تو (پرورش پا کر) ایک سروقد انسان بنا۔
۹۔ توئی فرزند این عالم چوآدم
خلف بر خیز چون آدم ز عالم
ترجمہ:۔ تو حضرت آدم کی طرح اس کائنات کا فرزند (یعنی ماحصل) ہے لہٰذا حضرتِ آدم صفیؑ کی طرح تو اس عالم کا ایک لائق فرزند ثابت ہو جا۔
۱۰۔ بفضل و دانش و فرہنگ وگفتار
توئی در ہر دو عالم گشتہ مختار
ترجمہ:۔ علمیّت و فضیلت اور شعور و گفتگو کے سبب سے تو دونوں جہان پر برگزیدہ ہے۔
اسماعیلی بلٹین جلد۱۔ شمارہ ۱۲۔ رمضان ۱۳۹۵ھ۔ ستمبر ۱۹۷۵ء
۲۲۹
نیک اعمال سے دوستی
(ازقلم: علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی)
قرآنِ حکیم زبانِ حکمت سے جو تعلیمات پیش کرتا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ ایمان کا مرکز انسانی قلب یعنی مومن کا دل ہے۔ ایمان محض نام کی چیز ہر گز نہیں بلکہ وہ ایک زندہ اور روشن حقیقت ہے جب ایک حقیقی مومن روحانیّت کے ایک اعلیٰ مقام پر پہنچتا ہے تو وہ دیدۂ دل سے نورِ ایمان کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ خدائے جلیل و جبار اس حقیقت کا گواہ ہے کہ ایمانِ حقیقی مومن کے دل کو عملاً بہشت کا نمونہ بنا دیتا ہے، پھر مومن کی ایمان سے محبّت ہوتی ہے اور اس وقت کفر، فسق و نافرمانی سے نفرت ہوتی ہے اور ایسے مومنین ہدایت یافتہ ہوتے ہیں اور یہی مطلب اس آیۂ کریمہ میں ہے:۔
وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ
۲۳۰
قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ (۴۹: ۰۷)
ترجمہ:۔ لیکن خدا نے تو تمہیں ایمان کی محبت دے دی ہےاور اس کو تمہارے دلوں میں عمدہ کر دکھایا ہے اور کفر اور بدکاری اور نافرمانی سے تم کو بیزار کر دیا ہےیہی لوگ راہِ ہدایت پر ہیں۔
جب مکمل ایمان کا کوئی ذکر ہوتا ہے، تو اس میں لوازمِ ایمان اور نتائج و ثمراتِ ایمان مراد لئے جاتے ہیں، پس جاننا چاہئے کہ ایمان قلبِ مومن میں نورانیّت کی ایک سدا بہار دنیا ہے اور اس سے مومن کی محبت لازمی سی ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشادِ مقدّس ہے کہ: اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ (۵۸: ۲۲)
ترجمہ:۔ “یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں (اللہ تعالیٰ نے) ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی مدد اپنی ایک رو ح سےکی۔” یعنی قلوبِ مومنین میں اللہ تعالیٰ کا یا فرشتوں کا ایمان لکھ دینا یہ ہے کہ ایمانِ کامل کے نتائج و ثمرات روحانیّت کی ایک روشن دنیا کی صورت میں تیار ہوگئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان، لوازمِ ایمان اور نتائجِ ایمان سے مومن کی بہت محبت ہوتی ہے۔
قرآنِ مقدّس (۲۸: ۳۲) میں ذکرِ الٰہی کو عزیز رکھنے اور اسے تمام دنیوی چیزوں پر ترجیح دینے کا اشارہ موجود ہے (۰۲: ۲۱۶) میں زبانِ حکمت سے
۲۳۱
یہ فرمایا گیا ہے کہ تم نورِ ہدایت کی روشنی میں غلط انتخاب سے بچ کر ہر نیک عمل سے دوستی رکھو اور ہر بد عمل سے نفرت کرو۔ (۰۳: ۹۲) میں ارشاد ہوا ہے کہ: تم مکمل نیکی کو کبھی حاصل نہ کر سکو گے جب تک کہ اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حلال چیزوں سے محبّت رکھنا جائز ہے مگر موقع پر ان میں سے راہِ خدا میں خرچ کرنا ضروری ہے۔
سورہ ۲۴ کی آیت ۲۲ (۲۴: ۲۲) میں ارشاد ہوتا ہے کہ: کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ خدا تمہاری خطا معاف کرلے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی بخشش کو دوست رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سورۂ قیامت (۷۵) کی آیت ۲۰۔ ۲۱ (۷۵: ۲۰ تا ۲۱) میں دنیا سے محبت کرنے اور آخرت کو چھوڑنے پر اعتراض کیا گیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ آخرت سے محبت کی جائے۔
الجمعہ (۶۲) کی آیت ۱۳ (۶۲: ۱۳) میں فرمایا گیا ہے کہ: مومنین اللہ پاک کی طرف سے مدد اور فتح کے دلدادہ ہوتے ہیں، جو عنقریب حاصل ہونے والی ہے۔
غرض یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں ایسے بہت سے واضح ارشادات اور اشارات موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ نیکی سے محبّت اور بدی سے نفرت ضروری ہے، تاکہ ولایت کے مدارج طے ہو سکیں اور ابدی نجات حاصل ہو۔
اسماعیلی بلیٹن جلد۲۔ شمارہ ۱۔ شوال۱۳۹۵ھ، اکتوبر ۱۹۷۵ھ
۲۳۲
حکمتِ ناصری (۱)
حقائق و معارف (قسط اوّل)
(ازقلم: علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی)
۱۔ الاای زادۂ گردون الاای زبدۂ امکان
بمعنی حجتی بشنو طرازش رحمت و برہان
ترجمہ:۔ آگاہ ہو جا اے کائنات کے فرزند، آگاہ ہو جا اے عالمِ امکان کے خلاصے، معنی اورحقیقت کی ایک ایسی دلیل سن لے جو رحمت اور دلیل کی قاطعیّت کا طرز رکھتی ہے۔
شرح:۔ حکیم نامور حضرت پیر ناصر خسرو قدّس سرہ کے اس ارشاد کے مطابق انسان کائنات کا بیٹا ہے اور عالمِ امکان کا خلاصہ ہے، جس کی توجیہہ یہ ہے، کہ آدم اور آدمی کی آفرینش و تخلیق میں کون و مکان کی جملہ قوّتوں سے کام لیا گیا ہے، یا یوں کہنا مناسب ہوگا کہ انسان ساری کائنات
۲۳۳
کا نچوڑ اور خلاصہ ہے، اس معنیٰ میں کائنات و ممکنات گویا ایک بہت ہی عجیب و غریب اور نہایت ہی عظیم درخت ہے، اور اس کا پھل انسان ہے، یا یہ وجودِ ظاہر و باطن بمثلِ دودھ کا ایک بے پایان سمندر ہے اور انسان اس کا مکھن یعنی خلاصہ ہے۔
۲۔ چودربحرِ سخن رانم برآرم گوہر آدم
چودر کانِ خرد آئم نمائیم جو ہرِ انسان
ترجمہ:۔ جب میں گفتگو کے سمندر میں (کشتی) چلاؤں گا تو آدم (اور آدمیّت) کا موتی نکالوں گا، اور جب میں دانش کی کان میں داخل ہوں گا تو (وہاں سے) انسانی کا گوہر ظاہر کروں گا۔
شرح:۔ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ میں جب بھی علم و حکمت کی کشتی پر سوار ہو کر گفتگو اور بیان کے بے پناہ سمندر میں آگے بڑھوں گا تو اس میں درخشندہ دلائل سے یہ ثابت کر کے دکھاؤں گا، کہ اس بحرِ ناپیداکنار کا گوہرِ مقصود آدم و آدمیّت ہی ہے، اور اسی طرح جب میں عقل و دانش اور عرفان و ایقان کے پہاڑ کی کان میں چلا جاؤں گا تو وہاں سے بھی انسان اور انسانیّت کی حقیقتِ عالیہ کے جواہرات ظاہر و آشکار کروں گا۔
۳۔ حروفِ عقل بشمارم کہ مسطور است اشیارا
کتابِ نفس بر خوانم کہ باشد نسخۂ درجان
ترجمہ:۔ میں عقل کے حروف کو گن گن کر بتاؤں گاجو تمام چیزوں پہ لکھے ہوئے ہیں، اور کتابِ نفس کو پڑھ کر سناؤں گا، کیونکہ جان میں
۲۳۴
نفس کاایک نسخہ موجود ہے۔
شرح:۔ اشیائے کائنات کے حروفِ عقلی سے مراد چیزوں کی حقیقتیں ہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ظاہری حروف کو ترتیب دینے سے زبان پرتقریر اور کاغذ پر تحریر کی صورت بنتی ہےاسی طرح عقلی حروف کی بھی اپنی قسم کی تقریر و تحریر ہے، جسے حقیقتِ اشیاء یا معرفت وحکمت کہتے ہیں، اور کتابِ نفس بھی اس معنی سے دور نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں حروفِ عقلی اور حقیقت و معرفت پر مبنی یعنی روح اور روحانیّت کی کتاب ہے، جس کو پڑھ کر سنانا یہ ہے کہ اس کی حکمتیں بیان کر دی جائیں۔
۴۔ ہر آن چیزی کہ در آفاق موجود است ہستی را
درانفس مثلِ آن بنہادہ ایزد سر بسر برخوان
ترجمہ:۔ کائنات میں ہستی کی جو چیزیں موجود ہیں خداوند تعالیٰ نے ان سب کی مثالیں نفوسِ انسانی میں رکھی ہیں، ان کو سر بسر پڑھ لینا۔
شرح:۔ آفاق افق کی جمع ہے جو اس ظاہری کائنات کا نام ہے، اور انفس نفس کی جمع ہے جو اس عالمِ باطن کو کہتے ہیں، جو نفسِ باطن میں پوشیدہ ہیں۔ پیر صاحب کا ارشاد ہے کہ عالمِ ظاہرمیں جو لاتعداد چیزیں مادّی طور پر الگ الگ پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب عالمِ نفس میں روحانی یکجائی کے طور پر موجود ہیں، یعنی انسان کی روح میں
۲۳۵
اشیائے ظاہر کے سب روحانی اور علمی نمونے مہیا ہیں، جن کی شناخت کی روشنی میں خارجی دنیا کی اشیاء کی حقیقتیں معلوم ہو سکتی ہیں۔
۵۔ بگویم طرفۂ بیتی چند درآفاق ودرانفس
ہم از گفتارِ پیغمبر ہم از فرمودۂ یزدان
ترجمہ:۔ میں آفاق و انفس کے بارے میں چند عجیب و غریب بیت کہوں گا، جو پیغمبرؐ کے ارشاد اور اللہ تعالیٰ کے فرقان کے مطابق ہوں گے۔
شرح:۔ پیرصاحب کہتے ہیں کہ یہاں کچھ ایسے حکمت آگین اور پُرمغز ابیات پیش کئے جائیں گے جو آفاق و انفس کے اسرارِ معرفت سے بھر پور ہیں او ر خداوند کریم کے مقدّس ارشادات کی روشنی میں اور انہیں کی مطابقت میں ہوں گے۔
۶۔ عزیزاچشمِ دل بکشاوگوش جا ن بگفتارم
چوجان و دل تو این معنی درونِ جان ودل بنشان
ترجمہ:۔ اے عزیز میری بات کے لئے دل کی آنکھ اور روح کے کان کھول، تو اس معنی کو جان و دل کی طرح جان ودل کے اندر اپنا لینا۔
تشریح:۔ بزرگانِ دین حقیقت اور حکمت کی جو روح پرورتعلیمات پیش کرتے ہیں ان میں حقائق و معارف کے اعلیٰ درجے کے تصوّرات موجود ہوتے ہیں جبکہ کوئی نیک بخت انسان بزرگوں کے اقوال کو دل کے کان
۲۳۶
سے سنتا ہے اور پیر صاحب کا یہ فرمانا کہ “میری باتوں کو جان و دل کی طرح جان و دل میں بٹھا لینا” یہ معنی رکھتا ہے کہ ان کے اقوال کو پوری طرح قبول کیاجائے، یعنی حقیقت دل وجان کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے، کیونکہ علم و حقیقت اور دل و جان کا جوہر ایک ہی ہے۔
اسماعیلی بلٹین جلد۲۔ شمارہ۸، ۹۔ جمادی الاول، جمادی الثانی ۱۳۹۶ھ اپریل ۱۹۷۶ء
۲۳۷
عقیدۂ توحید
از علامہ نصیرالدّین نصیرؔہونزائی
تلخیص۔ از غلام عباس
توحید کا عقیدہ دنیائے اسلام میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے اس کا مطلب اللہ تعالیٰ کی وحدت اور یکتائی کا اقرار کرنا اور یہ باور کرنا ہے کہ خدائے تعالیٰ لاشریک و بےنیاز ہے۔
قرآنِ حکیم میں لاتعداد پُرحکمت مثالوں کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ اس کتابِ مقدّس کا مقصد علمِ توحید ہی ہے اور جملہ انبیائے سلف کی تبلیغ کی غرض وغایت بھی علمِ توحید کو عام کرنا تھا۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ توحید کی کیا کیفیّت وحقیقت ہے؟ اس مشکل و پیچیدہ مسئلے کے بارے میں بزرگانِ دین کے بہت سے اقوال موجود ہیں اور ان سب کا زُبدہ و خلاصہ یہ ہے کہ توحید باری تعالیٰ انسانی
۲۳۸
علم و دانش سے بالا تر ہے۔ الفاظ میں وہ گنجائش کہاں کہ ان کے ذریعے حقیقتِ توحید بیان ہو سکے۔ چنانچہ حکیم ناصر خسرو نے اپنی کتاب ” روشنائی نامہ” میں تحریر فرمایا ہے کہ:۔
بنام کردگار پاک داور!
کہ ہست ازوہم وعقل و فکر برتر!
ترجمہ:۔ باری سبحانہ و تعالیٰ کے نام سے (آغاز کرتاہوں) جو وہم، عقل اور فکر کی رسائی سے بالا و برتر ہے۔
ہمو اول ہمو آخر زمبدا
نہ اوّل بودہ و نے آخر اورا
ترجمہ:۔ وہ مبدا (یعنی عقلِ اوّل کی نسبت) سے اوّل بھی ہے، اور وہی اس سے آخر بھی (مگر ذاتی طور پر) نہ اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا۔
خرد حیران شدہ از کہنہ ذاتش
منزہ دان زاجرام و جہاتش
ترجمہ:۔ عقل ودانش اس ذاتِ پاک کی حقیقت (سمجھنے سے قاصر اور) حیران رہ گئی ہے۔ اس کو اجرام و اطراف (کے تعیّن وحد بندی) سے پاک و برتر سمجھنا۔
کجا اورابچشم سرتوان دید
کہ چشمِ جان تواندجانِ جان دید
۲۳۹
ترجمہ:۔ سر کی آنکھ سے اس کو کہاں اور کیسے دیکھا جا سکتا ہے، جب کہ روحانی آنکھ سے صرف جان کی جان یعنی نفسِ کلّی کو دیکھا جا سکتا ہے۔
خدا کی معرفت:۔
کتابِ مستطاب “نہج البلاغہ” خطبۂ اوّل میں حضرت امیرالمومنین علیؑ کے ارشادِ گرامی کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے:۔
تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کی نعمتیں کوئی گن نہیں سکتا، تمام عقول اس کے فہم سے عاجز ہیں، اور وہ زمان و مکان کے حدود وبندشوں سے ماوریٰ ہے، اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا۔
دین کی ابتدا اس کی معرفت سے ہے، کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق اس کی توحید ہے، کمالِ توحید تنزیہ واخلاص ہے کہ اس سے صفات کی نفی کی جائے ورنہ بصورتِ دیگر دوئی پیدا ہو گی جو توحید کے متضاد ہے۔
وہ ہے، ہوا نہیں وہ موجود ہے مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا، وہ ہر چیز کے ساتھ ہے، لیکن جسمانی چیزوں کی طرح نہیں۔
خدا شناسی اور معرفت کے درجات:۔
جس طرح ایمان اور مرتبتِ خداوندی کے مختلف درجات ہیں۔ اسی طرح توحید کے بھی مختلف مراحل ہیں۔ توحید دینِ حق کی جان ہےاور دینِ حق صراطِ مستقیم ہے۔
۲۴۰
صراطِ مستقیم کے مسافر مختلف درجوں میں خداتعالیٰ کے حضور کی جانب روان دوان ہیں اس سے یہ ظاہر ہوا کہ توحید کے الگ الگ درجات ہیں، قرآنِ حکیم میں حضرت ابراہیمؑ کے قصّے سے بھی یہ حقیقت ظاہر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام سب سے پہلے ایک ستارہ، پھر چاند، آخر میں سورج کی جانب متوجّہ ہوئے اوراس کے بعد حقیقتِ توحید سے آگاہی حاصل کی۔ پس ثابت ہوا کہ خدا شناسی کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔
حضرتِ ابراہیمؑ کے اس قصّے کا تاویلی پہلو بھی ہے، اور یہاں چاند ستارے اور سورج سے مراد حدودِ دین ہیں جو توحید کے درجات کی حیثیت رکھتے ہیں، اور قرآنِ حکیم میں بھی ارشادِ باری تعالیٰ ہے هُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِؕ -وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ (۰۳: ۱۶۳) وہ (حدودِ دین) خدا کے نزدیک درجات ہیں اور خدا ان کے اعمال کو خوب جانتا ہے۔
توحید “جامع الحکمتین” میں:۔
پیر ناصر خسروقس کی تمام کتب میں عقیدۂ توحید کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ لیکن جامع الحکمتین میں پیر موصوف نے اس مضمون کے لئے ایک باب وقف کیا ہے جس کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:۔
“بحیثیتِ مجموعی دینِ حق کے علم کا مقصد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی
۲۴۱
شناخت ہے جو وحدانیتِ محض سے اور توحیدِ مطلق کے ایسے اثبات سے حاصل ہو سکتی ہےکہ وہ تشبیہہ سے دور اور تعطیل سے پاک ہو۔”
پیر ناصر خسرو نے بڑی عمدگی سے اعتقادات اور اخلاقیات کے بارے میں جو اختلاف پایا جاتا ہے واضح کیا ہے اور توحید کے متعلق تمام گروہوں کے نظریات کی وضاحت کرنے کے بعد محبین اہلِ بیت کا نظریہ پیش کیا ہے جو حقیقتاً صائب نظریہ ہے، فرماتے ہیں:۔
وہ (محبیّنِ اہلِ بیت) کہتے ہیں کہ ہم تاویلِ عقلی کے ذریعہ مخلوقات کی صفات کو خالق سے نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تشبیہہ و تعطیل کے درمیان ایک منزلت ہے جس پر ہماری توحید قائم ہے۔
وہ حضرات امام جعفر صادق سے روایت کرتےہیں۔ آپ سے پوچھا گیا کہ توحید کے بارے میں حق تعطیل ہے یا تشبیہہ؟ آپؑ نے فرمایا کہ دونوں مدارج کے درمیانی درجہ ہے یعنی نہ وہ تشبیہہ ہے نہ تعطیل بلکہ دونوں سے پاک ہے۔
توحید کتاب “وجہ دین” میں:۔
حکیم ناصر خسرو کی مایہ ناز تاویلی کتاب “وجہ دین” میں حکیم موصوف نے کئی بار عقیدۂ توحید پر روشنی
۲۴۲
ڈالی ہے، چنانچہ مذکورہ کتاب کے ترجمۂ اردو حصّہ اوّل کے کلام۔ ۹ صفحہ ۷۳ پر ہے کہ:۔
تیسری قوّت عقل ہے۔ جس کے ذریعے انسان توحید کو تشبیہہ اور تعطیل سے مجرد کرتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدت کو نہ تو کسی چیز کے مانند قرار دیتا ہے اور نہ ہی اس کی وحدت سے انکار کرتا ہے) اور وہ جانتا ہے کہ انسان کی عقل تمام چیزوں پر حاوی ہوجاتی ہے اور وہ عقل اس کے لئے ایک عطا ہے کہ وہ عطا اسے ایک ایسی ذات کی طرف سے ہے جو خود اس کی احتیاج سے برتر ہے اور یہ توحید کو مجرّد کرنے کا اشارہ ہے۔
کتاب کے مذکورہ حصّے کےکلام۔ ۱۰صفحہ ۸۵ پر ایک مشہور حدیث درج ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یقیناً اللہ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی خلقت کی طرح رکھی تاکہ اس کی خلق سے اس کے دین کی دلیل لی جائے اور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت کی دلیل لی جائے۔ کلام۔ ۱۱صفحہ ۸۸ پر مذکور ہے کہ “پس میں کہتا ہوں کہ روا نہیں کہ رسول اللہ نے خدائے تعالیٰ کو دیکھا ہو، کیونکہ یہ امر ناممکن ہے۔ لیکن آپ کے لئے حق تعالیٰ کی وحدانیّت پر دو عادل گواہوں نے گواہی دی، اور ساری مخلوق ان دوگواہوں کی گواہی سننے سے قاصر تھی اور ان دو گواہوں میں سےایک تو آفاق (عالمِ جسمانی) تھا اور دوسرا انفس، کہ وہ دونوں آنحضرتؐ کے لئے ایک واضح قول میں گواہی دے
۲۴۳
رہے تھے کہ خدائے واحد کے سوا کوئی خدا نہیں۔ یہاں تک کہ آنحضرتؐ نے حق و صداقت کے ساتھ ان کی گواہی پر گواہی دی۔ ”
وحدانیّت اور ازل:۔
حکیم ناصر خسرو قدس زاد المسافرین کے صفحہ نمبر۱۹۰ پر فرماتے ہیں کہ “ازل خدا کی وحدت کا اثبات ہے۔”
اس سے حضرت پیر کی مراد یہ ہے کہ ازل ہی تصوّر اللہ تبارک و تعالیٰ کی وحدانیت کا مناسب اور موزون اور آسان تصوّر ہے۔ یعنی خدائے قدوس واحدہ لاشریک تمام روحانی اور جسمانی موجودات کی صفات سے کس طرح پاک ہے اور وہ ان کی شرکت سے کس طرح بے نیاز ہو سکتا ہے۔ اس کا ثبوت ازل کی حقیقت ہے اور پیر صاحب کا یہ نظریۂ توحید اہلِ بصیرت کے لئے اس قدر روشن ہے کہ وہ اس اصولِ وحدانیّت کی روشنی میں توحید کے تمام ترنکات کو سمجھ سکتے ہیں۔
اس مقام پر آپ نے ازل اور ازلی وازلیّت کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ فصلِ اوّل کو ازل کی طرف راجع کرکے اسے ازلی کہنا چاہئے۔ اور ازلیّت وہ حقیقت ہے جس میں ازلی چیز کا ثبوت ہے۔ اور وہ ازلیّت ابداع ہے اور ابداع کے معنی ہیں بغیر آلہ، بغیر مادّہ اور مکان و زمان کے کسی شے کو ایجاد کرنا۔ چنانچہ ظاہر ہوا کہ ازل خدا کی وحدت و یکتائی کا ثبوت
۲۴۴
ہے۔ ازلی عقلِ اوّل کی صفت ہےاور ازلیّت کی مثال ابداع ہے۔ یعنی عقل کو ایجاد کرنا۔
اسماعیلی بلیٹن۔ جلد۲۔ شمارہ۱۰، ۱۱۔ رب شعبان ۱۳۹۶ھ، جون، جولائی ۱۹۷۶ء
۲۴۵
تصوف کے جواہر پارے
ازدیوانِ حافظ
از قلم: علامہ نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی
وقتِ سحر
درویش وقتِ سحر از غصہ نجاتم دادند
وندران ظلمتِ شب آب حیاتم داد ند
ترجمہ:۔ گزشتہ شب صبح کے وقت انہوں نے مجھے غصّہ سے نجات دے دی، اور اس رات کی تاریکی میں انہوں نے مجھے آبِ حیات دے دیا یعنی ذکر و عبادت کا معجزاتی نتیجہ رات کے آخری حصّے میں نکلتا ہے، غصّہ سے نجات ملنے کا مطلب ہے ریاضت کی تکمیل سے نفسِ امّارہ کا مغلوب ہو جانا، اور مشاہدۂ روحانی اور تجرباتِ عرفانی گویا آبِ حیات ہے جو ظلمات میں پوشیدہ ہے۔
بیخود از شعشعۂ پرتو ذاتم کردند
بادہ از جامِ تجلیٰ بصفاتم دادند
ترجمہ:۔ انہوں نے مجھے ذاتِ پرتو کی منتشر روشنی سے بیخود بنا
۲۴۶
دیا، انہوں نے مجھے صفاتِ خداوندی کی تجلّیوں کے جام سے شراب پلا دی۔ ذاتِ پاک کے عکس کی پھیلی ہوئی روشنی سے مراد مرشدِ کامل کی روحانی ملاقات اور معرفت ہے، اور جامِ صفات کی شراب حقیقی محبّت ہے۔
چہ مبارک سحری بودوچہ فرخندہ شبے
آن شب قدرکہ این تازہ براتم داد ند
ترجمہ:۔ کیا مبارک صبح تھی، اور کیا مبارک رات تھی، وہ شب قدر کہ جس میں کہ مجھے یہ تازہ دستاویز دے دی گئی، یعنی جس شب کو کہ حافظ پر معرفت کا دروازہ کھلا تھا۔
چون من از عشق رخش بیخود و حیران گشتم
از واقعۂ لات و مناتم دادند
ترجمہ:۔ جب میں اس کے رخ کے عشق سے بیخود اور حیران ہو گیا، تو مجھے لات و منات کے واقعہ کی خبر دے دی گئی، یعنی جب حقیقت کا انکشاف ہوا، تو مجاز کے سارے بھید بھی کھل گئے۔
من اگر کام رواگشتم و خوشدل چہ عجب
مستحق بودم واینہا بزکاتم داد ند
ترجمہ:۔ اگر میں کامیاب اورخوشدل ہو گیا تو کیا تعجب ہے میں اس کا مستحق تھا اور مجھے یہ زکوٰۃ کے طور پر دیا گیا۔
۲۴۷
بعدازین روئے من و آئینہ حسن نگار
کہ درآنجا خبر از جلوۂ ذاتم دارند
ترجمہ:۔ اس کے بعد میں ہوں گا اور معشوق کے حسن کا آئینہ، کیونکہ مجھے اسی مقام پر (یعنی اسی میں) جلوۂ ذات سے خبر دے دی گئی ہے۔ یعنی مرشدِ کامل جو آئینۂ جمالِ خداوندی کی حیثیت سے ہے، اسی کے ذریعے سے معرفتِ الٰہی کا فیضان حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ہاتف آن روز بمن مژدۂ این دولت داد
کہ ببازارِ غمت صبرو ثباتم دادند
ترجمہ:۔ غیب سے آواز دینے والے نے اس دن مجھے اس دولت کی خوشخبری دی، جبکہ تیرے غم کے بازار میں صبرو ثبات دے دیا یعنی جب تیرے غمِ عشق میں روحانی سکون حاصل ہونے لگا تھا، اس وقت ہی مجھے یقین حاصل ہوا کہ کامیابی کا راستہ یہی ہے۔
این ہمہ قندو شکر کز سخنم می ریزد
اجر صبر یست کزان شاخ نباتم دادند
ترجمہ:۔ یہ سب قند و شکر جو میرے کلام سےجھڑتی ہےاس صبر کا بدلہ ہے جو اس مصری کی شاخ کے عوض مجھے دیا گیا ہے، یہاں شاخِ نبات کے دو معنی ہیں گنا اور معشوقہ کا نام بھی ہے۔
کیمیائیست عجب بندگیٔ پیرِ مغان
خاک اوگشتم و چندین درجاتم دادند
۲۴۸
ترجمہ:۔ پیرِ مغان (پیشوای طریقت) کی غلامی عجیب کیمیا ہے میں اس کی خاک بنا اور انہوں نے مجھے اس قدر درجے دے دیئے، یعنی مرشدِ کامل سے عقیدت و محبّت اور اس کی غلامی و خدمت کیمیا کی طرح ہے کہ اس سے خاک سونا بن جاتی ہے۔
بحیات ابد آن رو زرسا نید مرا
خطِ آزادگی از حسنِ مماتم دادند
ترجمہ:۔ ابدی زندگی تک اس نے مجھے اس روز پہنچا دیا جبکہ اس نے مجھے حسنِ موت کی آزادی کا خط دے دیا۔ یعنی جب میں عشق میں فنا ہوا تو مجھے ابدی زندگی ملی۔
ہمتِ حافظ و انفاسِ سحر خیزان بود
کہ زبندِ غمِ ایام نجاتم دادند
ترجمہ:۔ حافظ کی باطنی توجّہ اور صبح کو اٹھنے والوں کی دعاؤں کی برکت تھی کہ انہوں نے مجھے زمانہ کے غم سے نجات دے دی۔
اسماعیلی بیلٹن جلد۲۔ شمارہ۱۲۔ رمضان المبارک ۱۳۹۶ھ، اگست ۱۹۷۶ء
۲۴۹
ہمہ اوست
از دیوانِ شیخ فرید الدین عطار، ترجمہ و شرح از علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی
ہر چہ ہست اوست وہرچہ اوست توی
اوتوی وتواوست نیست دوی
ترجمہ:۔ جو کچھ ہے وہ ہے اور جو کچھ وہ ہے تُو ہے، وہ تُو ہے اور تُو وہ ہے کوئی دوئی نہیں۔
شرح:۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار علیہ رحمتہ فرماتے ہیں کہ “اے طالبِ حقیقت تیرا حقیقی معشوق عرصۂ امکان کی ہست و بود کا سب کچھ ہے اور جس طرح بحدِ فعل وہ سب کچھ ہے اسی طرح بحدِ قوت تو سب کچھ ہےاور جس طرح بحدِفعل وہ سب کچھ ہے اسی طرح بحدِّ قوّت تو سب کچھ ہے کیونکہ کلّ جزو پر حاوی اور محیط ہے اور جزو کلّ میں شامل اور داخل ہے جب ان معنوں میں وہ تُو ہے اور تُو وہ ہے تو پھرجاننا چاہئے کہ اس کے اور تیرے درمیان بحقیقت کوئی دوئی نہیں۔
۲۵۰
در حقیقت چواوست جملہ تو ہیچ
تو مجازی دوبینی وشنوی
ترجمہ:۔ جب حقیقت میں وہ سب کچھ ہے، تو تُو کچھ بھی نہیں، تُو مجازی طور پر دو دیکھتا ہے اور سنتا ہے۔
شرح:۔ جب حقیقت و اصلیّت میں یہ مانا گیا کہ ھو الکل (یعنی ہمہ اوست =وہ سب کچھ ہے) کا نظریہ برحق ہے تو پھر حقیقتاً تُو اپنی طرف سےکچھ بھی نہیں، ہاں اگر تو اسکے ساتھ ایک ہو سکتا ہے، تو یہی صفت تیری بھی ہے، اور جس طرح تو خود کو اور مطلوبِ روحانی کو دور دیکھتا ہے یہ تو تیرا ظاہری اور مجازی مشاہدہ ہے۔
کی رسی دروصالِ خود ہر گز
کہ تو پیوستہ در فراقِ خودی
ترجمہ:۔ تو اپنے دیدار تک کب پہنچے گا! ہر گز نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ تُوہمیشہ اپنی جدائی میں گرفتار ہے۔
شرح:۔ عطار فرماتے ہیں کہ تیرا حقیقی وجود یہ تو نہیں جو تُو اس وقت رکھتا ہے بلکہ وہ محبوب خود ہی تیری اصلی خودی اور تیری ازلی روح ہے جس کا وصال تیرے لئے بہت ہی ضروری ہے۔ تجھ سے اس کی یہ جدائی دراصل تیری اپنے آپ سے جدائی ہے، تو اپنے روحانی دیدارتک نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ تو مجاہدۂ نفس سے گریز کر کے اپنی اصلیّت سے دور ہو جاتا ہے اور اپنی حقیقی روح کی جدائی
۲۵۱
میں مبتلا رہتا ہے۔
زان خبر نیست از توی خودت
کہ تو تا فوقِ عرش تو بتوی
ترجمہ:۔ تجھے اپنی خودی اور انا کی خبر اس لئے نہیں، کہ تو (زمین سے لے کر) عرشِ عظیم کے اوپر تک تہ بتہ اور پیچ در پیچ ہے۔
شرح:۔ فرمایا جا تا ہے کہ تجھے اپنی خودی و ہستی سے واقفیت و آگہی اس لئے نہ ہو سکتی ہے کہ تیرے کلّی وجود کے اجزاء زمین سے لے کر بالائے عرشِ عظیم تک اس طرح درہم برہم اور پیچ در پیچ ہیں کہ ان کی وحدت وحقیقت جاننا تیرے لئے مشکل ہو گیا ہے۔
تا وجودِ تُوکلِ کل نشود
جزو باشی بکل کجا گردی
ترجمہ:۔ جب تک تیرا وجود (فنا ہو کر) کل کی حقیقت نہ بنے، تب تک تو جزو ہی رہے گا (اور) کل تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔
شرح:۔ عطار صاحب اس مقام پر “انا للہ وانا الیہ راجعون” کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک تو معاد سے مکمل رجوع ہو کر اپنے وجود کے قطرے کو وجودِ کل کے سمندر میں نہیں ملا دیتا تب تک تو قطرہ اور جزو ہی رہے گا اور کل تک کیسے اور کہاں پہنچے گا۔
۲۵۲
نقطہ ای از توبرتو ظاہر گشت
تو بدان نقطہ دائماً گروی
ترجمہ:۔ تجھ پر تیری ہستی میں سے صرف ایک نقطہ ظاہر ہوا ہے، اور تو ہمیشہ اسی نقطے کی طرف متوجہ رہا ہے۔
شرح:۔ تیرے وجودِ کلّی میں سے فی الحال تجھ پر صرف ایک نقطہ ظاہر ہوچکا ہے۔ یعنی تو جس طرح کل ہے اس کا تجھے کوئی علم نہیں، صرف اتنا ہے کہ تو اپنی ظاہری شخصیت ہی کو جانتا ہے یہ تو تیرے عظیم وجود کا ایک چھوٹا سا نقطہ ہے، اور افسوس ہے کہ صرف اسی جزوی ہستی کے نقطے سے تیرا رجوع ہے۔
نقطۂ تو اگر بدائرہ رفت
رو کہ کونین راتو پیش روی
ترجمہ:۔ اگر تیرا نقطہ دائرے میں داخل ہو گیا تو چلے جا کہ تو (اب) دونوں جہان کا پیشوا اور مقتدا ہے۔
شرح:۔ اگر کوئی خوش نصیب انسان روحانی اور عرفانی طور پر اپنے نقطۂ وجود کو وجود کے دائرۂ کلّی کے مرکز پر پہنچا دیتا ہے تو ایسے عارفِ ربّانی سے کہا جائے گا کہ جا مبارک ہو اب تو کونین کا پیشوا بن گیا۔
دردرین نقطہ باز ماندی تو
اینت سجینِ صعب و ضیق قوی
ترجمہ:۔ اور اگر تو اسی نقطے میں رہ گیا تو یہی تیرا سخت اور بہت ہی
۲۵۳
تنگ دوزخ ہے۔
شرح:۔ فرماتے ہیں کہ اگر تجھے بقاءِ کلّی کی معرفت حاصل نہ ہو اور صرف اپنی ظاہریّت ہی کے نقطے میں محدود رہا تو بس یہی حال تیرے لئے سخت اور انتہائی تنگ جہنم ہے۔
چون تو در نقطہ کشتہ باشی تخم
نہ ہماتا کہ دائرہ دروی
ترجمہ:۔ جب تو نقطہ (جتنی جگہ) میں کوئی بیج بوتا ہے تو کیا ایسا نہیں ہے کہ تو دائرہ بھر فصل کاٹتا ہے۔
شرح:۔ نقطہ سے دائرہ کس طرح بنتا ہے وہ پرکار کی مثال سے ظاہر ہے کہ پرکار نقطۂ مرکز پر قائم ہو کر دائرہ بناتا ہے اسی طرح نقطہ بھر جگہ میں بیج بوکر ایک دائرہ جتنی فصل حاصل کی جاتی ہے، چنانچہ اگر نقطۂ خودی کی معرفت حاصل ہونے سے دائرۂ امکان کی ابدی سلطنت مل جاتی ہے تو اس میں کیا تعجب ہے۔
نتو ان رست از چنین ضیقی
جز بخورشید نورِ مصطفوی
ترجمہ:۔ ایسے تنگ مقام سے چھٹکارا نہیں مل سکتا، نورِ محمدی کے سورج کے بغیر۔
شرح:۔ بیج خواہ درخت کا ہو یا کسی فصل کا جب زمین میں بو دیا جاتا ہے تو وہ زمین کے اندر نقطہ بھر تنگ وتاریک جگہ میں مقید و
۲۵۴
محبوس رہتا ہے۔ اور اسے ہمہ وقت سورج کی حرارت و روشنی کی سخت ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ بیج تنگیٔ زمین سے نکل کر پروان چڑھے، اور پھلے پھولے، بالکل اسی طرح جزوی ہستی کے نقطے کی تنگی سے کسی فردِ بشر کو نجات نہیں مل سکتی ہے مگر اس وقت جب کہ اس کے دل و دماغ پر نورِ محمدی کا سورج ضوفشانی کرنے لگتا ہے۔ پھر ایسے سعادت مند انسان کی روحانی و علمی بالیدگی شروع ہو جاتی ہے۔
کرد عطار درعلو پرواز
تابدوتافت اختر نبوی
ترجمہ:۔ عطار نے بلندی کی طرف پرواز کیا، جب کہ پیغمبر (صلعم) کے ستارے نے اس پر روشنی ڈالی۔
شرح:۔ جب اندھیری رات میں کسی مسافر کے آگےآگے کوئی روشنی مشعل جلتا رہتا ہے تو اس کا مقصد و منشا یہ ہوتا ہے کہ مسافر اس کے پیچھے پیچھے چلتا جائے، اسی طرح جب سرورِ انبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ستارۂ عزّت و رفعت نے عطار کے باطن پر ضوفشانی کی تو عطار روحانیّت کی فضاؤں میں پرواز کر گیا۔
اسماعیلی بلیٹن جلد۳؍شمارہ۱۔ شوال ۱۳۹۶ھ، ستمبر ۱۹۷۶ء
۲۵۵
حکمتِ ناصری
حکمتِ حج
حاجیان آمدند باتعظیم
شاکر از رحمتِ خدائے رحیم
حستہ از محنت و بلای حجاز
رستہ ازدوزخ وعذابِ الیم
آمدہ سوی مکہ ازعرفات
زدہ لبیک عمرہ از تنعیم
یافتہ حج و کردہ عمرہ تمام
بازگشتہ بسوی خانہ سلیم
من شدم ساعتی بہ استقبال
پای کر دم برون زحدِ گلیم
۱۔ حاجی حضرات تعظیم کے ساتھ حج سے واپس آئے، خداوندِ رحیم کی رحمت کے لئے شکر گزاری کرتے ہوئے۔
۲۔ حجاز کی محنت اور تکلیف سے فارغ ہو کر، دوزخ اور دردناک عذاب سے چھٹکارا پاکر۔
۲۵۶
۳۔ عرفات سے مکہ میں آ کر میقات سے عمرہ کے لئے لبیک کہہ کر۔
۴۔ فضیلتِ حج پا کر اور عمرہ کو مکمل کر کے، سلامتی سے گھر کی طرف واپس ہوتےہوئے۔
۵۔ میں ذرا ان کے استقبال کو گیا، اور اپنے پاؤں کو کمبل کی حد سے زیادہ پھیلادیا۔
مرمرادرمیانِ قافلہ بود
دوستی مخلص و عزیزوکریم
گفتم اورا “بگو کہ چون رستی
زین سفر کر دن برنج و ببیم
تاز تو باز ماندہ ام جاوید
فکر تم راندامتست ندیم
شاد گشتم بدانکہ کر دی حج
چون تو کس نیست اندرین اقلیم
باز گوتا چگو نہ داشتہ ای
حرفتِ آن بزرگوار حریم
۶۔ اس قافلہ میں میرا ایک مخلص، عزیز اور مہربان دوست تھا۔
۷۔ میں نے اس سے کہا “بتا کہ تو کیسے فارغ ہوا، اس رنج اور خوف کے سفر کرنے سے۔
۸۔ کیونکہ جب سے میں تم سے پیچھے رہ گیا ہوں، تب سے ہمیشہ، میری فکر کو پیشمانی لاحق ہوئی ہے۔
۹۔ میں خوش ہوا اس لئے کہ تُو نے حج کیا، اس ملک میں تجھ ایسا کوئی نہیں۔
۲۵۷
۱۰۔ بتا دے کہ تو نے کیسی بجالائی، اس عظیم حرم کی حرمت ؟
چون ہمی خواستی گرفت احرام
چہ نیت کر دی اندر آن تحریم؟
جملہ بر خود حرام کردہ بدی
ہر چہ مادونِ کردگارِ قدیم؟
گفت “نی” گفتمش: ” زدی لبیک
از سرِ علم واز سرِ تعظیم
می شنیدی ندایِ حق وجواب
بازدادی چنانکہ داد کلیم؟
گفت “نی” گفتمش: “چودرعرفات
ایستادی ویافتی تقدیم
۱۱۔ جب تو نے احرام باندھنا چاہا، تو اس احرام میں تُو نے کیا نیّت کی؟
۱۲۔ کیا تو نے سب کچھ اپنے اوپر حرام قرار دیا، جو کچھ کہ خداوند قدیم کے سوا ہے؟
۱۳۔ اس نے کہا “نہیں” میں نے اس سے کہا: “تُو نے لبیک کہا، علم و معرفت کی روشنی میں اور سچی تعظیم کے ساتھ۔
۱۴۔ کیا تو نے خداتعالیٰ کی ندا سنی اور اس لئے ایسا جواب دیا جیسے موسیٰ کلیمؑ نے جواب دیا تھا؟” (یعنی لبیک کا مطلب ہے: میں حاضر ہوں، جو کسی کے بلانے کے جواب کے طور پر ہے) ۔
۱۵۔ وہ بولا “نہیں” میں نے اس کو کہا: “جب تُو عرفات میں کھڑا ہوا، اور خود کو آگے پایا۔
عارفِ حق شدی و منکرِ خویش
بہ توازمعرفت رسید نسیم
گفت “نی” گفتمش: “چومی کشی
گوسفند از پی اسیر و یتیم
۲۵۸
قربِ خوددیدی اول و کردی
قتل و قربان نفس شوم لیم؟”
گفت “نی” گفتمش: “چومی رفتی
درحرم ہمچو اہلِ کہف و رقیم
ایمن از شرِ نفسِ خود بودی
وزغمِ فرقت وعذاب حجیم؟”
۱۶۔ کیا تُو اس وقت خداتعالیٰ کا عارف اور اپنی ہستی کا منکر ہو چکا، کیا تجھ کو معرفت کی نرم ولطیف ہوا محسوس ہونے لگی؟”
۱۷۔ کہا “نہیں” میں نے اس سے کہا جب تو نے ذبح کیا، گوسفند کو یتیموں اور قیدیوں کے واسطے۔
۱۸۔ کیا تو نے اس وقت خود کو خدا کے قرب میں دیکھااور اسی لئے کر دیا، تو نے اپنے کمینہ اور شریر نفس کو قتل و قربان؟
۱۹۔ وہ کہنے لگا “نہیں” میں نے اس سے کہا جب تو حرم میں گیا، اصحابِ کہف اور رقیم کی طرح۔
۲۰۔ کیا تو اس وقت نفسِ امّارہ کی برائی سے چھٹکارہ پاچکا تھا، اورجدائی اور عذابِ دوزخ کے غم سے بھی؟
گفت “نی” گفتمش: “چوسنگ جمار
ہمی انداختی بدیو رجیم
ازخود انداختی برون یکسر
ہمہ عادات و فعلہای ذمیم؟”
گفت “نی” گفتمش: “چوگشتی تو
مطلع برمقام ابراہیم
کردی از صدق و اعتقاد و یقین
خویشی خویش رابحق تسلیم؟”
گفت “نی” گفتمش: “بوقتِ طواف
کہ دو دیدی بہ ہرولہ چو ظلیم
۲۱۔ اس نے کہا “نہیں” میں نے پوچھا: “جب تو نے جمار کے سغگریزے
۲۵۹
شیطانِ رجیم پر پھینکے۔
۲۲۔ کیا تو نے اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے نکال باہر کر دیا، تمام بری عادتو ں اور تمام برے اعمال کو؟”
۲۳۔ اس نے کہا “نہیں” میں نے پوچھا “جب تو (عارفانہ طور پر) ہو گیا واقف و آگاہ ابراہیم کے مقام (یعنی درجۂ روحانیّت) سے۔
۲۴۔ کیا تو نے اس وقت صداقت، عقیدت اور یقین سے اپنی خودی کو خداتعالیٰ کے سپرد کر دیا؟
۲۵۔ وہ بولا “نہیں” میں نے پوچھا: “طواف کے وقت، جبکہ تو فرشہ مرغ کی طرح تندی سے دوڑتا تھا۔
از طوافِ ہمہ ملائکتان
یاد کردی بگردِ عرشِ عظیم؟”
گفت “نی” گفتمش: “چوکردی سعی
ازصفا سوی مروہ برتقسیم
دیدی اندر صفای خود کونین
شد دِلت فارغ ازجحیم و نعیم؟”
گفت “نی” گفتمش: “چوگشتی باز
ماندہ از ہجرِکعبہ بردل ریم
کردی آنجابہ گو مرخودرا
ہمچنانی کنون کہ گشتہ رمیم؟
۲۶۔ کیا تونے تمام فرشتوں کے اس طواف کا، تصوّر کیا جو وہ عرشِ عظیم کے گرد کر لیا کرتےہیں؟
۲۷۔ اس نے کہا “نہیں” میں نے پوچھا: “جب تو نے سعی کیا، یعنی جب تو دوڑا، صفا سے مروہ کی طر ف سات دفعہ۔
۲۸۔ کیا تو نےاس دوران اپنے دل کی صفائی اور روشنی میں دونوں
۲۶۰
جہان کو دیکھا، کیا تیرا دل دوزخ اور بہشت کی فکر سے آزاد ہو گیا؟
۲۹۔ وہ بولا “نہیں” میں نے دریافت کیا: “جب تو وہاں سے لوٹا تو کیا خانۂ کعبہ کی جدائی سے تیرے دل میں زخم ہو گیا؟
۳۰۔ تو کیا (عشق بیت اللہ کے اس زخم سے تو مرگیا اور) تو نے خود کو وہاں دفن کر دیا، کہ جس سے تو اب ایسا ہےجیسا سڑا ہوا ہو؟
گفت “ازین با ب ہر چہ گفتی تو
من ندانستہ ام صحیح و سقیم
گفتم “ازین باب ہرچہ گفتی تو
نشدی درمقامِ محو مقیم
رفتہ ای مکہ دیدہ، آمدہ باز
محنتِ بادیہ خریدہ بسیم
گرتو خواہی کہ حج کنی، پس ازین
این چنین کن کہ کردمت تعلیم”
۳۱۔ وہ بولا “اس کے بارےمیں تو نے جو کچھ کہا مجھے کوئی پتہ نہیں کہ کیا درست ہے اور کیا نادرست۔”
۳۲۔ میں نے کہا “اے دوست پس تو نے حج ہی نہیں کیا، محویّت اور فنائیّت کے مقام کو نہیں پہنچ سکا۔
۳۳۔ تو نے جا کر صرف مکہ دیکھا اور واپس آیا چاندی کو صرف کر کے بیابان کی مشقت خریدلی۔
۳۴۔ اگر تو اس کے بعد حج کرنا چاہتا ہے تو ایسا ہی کرنا جیسا کہ میں نے تجھے بتادیا۔
ترجمہ ازقلم
(علامہ نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی)
اسماعیلی بلیٹن جلد۳۔ شمارہ ۵۔ صفر ۱۴۷۷ھ، جنوری ۱۹۷۷ء
۲۶۱
گلدستۂ عقیدت
بحضورِ شاہِ ولایت حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امامؑ
بموقع تشریف آوری بہ علاقہ ہونزا
(از موکھی عصمت اللہ مشفقؔ ہونزائی)
ترجمہ: از علامہ نصیرالدین نصیر ؔہونزائی
۱۔ ای ہادیٔ سبیلِ دل وجان خوش آمدی
ای نورِ برج رحمتِ یزدان خوش آمدی
ترجمہ:۔ اے دل و جان (یعنی روحانیّت) کی راہ کے رہبر و رہنما، خوش آمدید، اے رحمتِ ایزدی کے برج کا نور، خوش آمدید۔
۲۔ ای آفتابِ دینِ مبینِ فخرِ ملک و دین
ای بادشاہِ تختِ دل و جان خوش آمدی
۲۶۲
ترجمہ:۔ اے دینِ مبین کے سورج، ملک اور مذہب کے فخر، اے دل و جان کے تخت کے بادشاہ خوش آمدید۔
۳۔ سبطِ رسول و ابنِ علی نسلِ مرتضیٰ
درکسوتِ کریمِ کریمان خو ش آمدی
ترجمہ:۔ رسول اللہ کا نواسہ اور شہزادۂ علی سلمان خان کا فرزند اور حضرت مرتضیٰ علیؑ کی نسل، جو کریموں کے کریم (یعنی سخیوں کے سخی) کے لباس میں ہیں خوش آمدید۔
۴۔ مختارِ کل و عالمِ اسرارِ معرفت
اسی جانشینِ ختم رسولان خوش آمدی
ترجمہ:۔ دینی اختیارات کے مالک، معرفت کے بھیدوں کو جاننے والے، اے خاتم المرسلین کے جانشین، خوش آمدید۔
۵۔ ای تاجدارِ مملکتِ دینِ مصطفیٰ
دریایِ نورو بحرِ درافشان خوش آمدی
ترجمہ:۔ اے دینِ مصطفائی کی مملکت کے بادشاہ، نور کے دریا اورموتی بکھیرنے والے سمندر، خوش آمدید۔
۶۔ تو ہمچو برجِ کوکب دری بعصرِ خویش
اسرارِ علمِ سورۂ رحمان خوش آمدی
ترجمہ:۔ آپ اپنے زمانے میں درخشان ستارے کے برج کی طرح ہیں، اے سورۂ رحمان کے علم کے بھیدوں کے مظہر، خوش آمدید۔
۲۶۳
۷۔ اولادِ مرتضیٰ و تویِآلِ مصطفیٰ
ای گنجہای معنی قرآن خوش آمدی
ترجمہ:۔ آپ مرتضیٰ علیؑ کی اولاد ہیں اور آپ حضرتِ محمد مصطفیٰؐ کی آل ہیں۔ اے حضور! آپ ہی قرآنی معنوں کے خزائن کا درجہ رکھتے ہیں، خوش آمدید۔
۸۔ مشفقؔ مریضِ عشق تو شدتاتو بنگری
ای مرہم و طبیب طبیبان خوش آمدی
ترجمہ:۔ مشفقؔ آپ کے مقدّس عشق کے مرض میں مبتلا ہو گیا تاکہ آپ اس کی عیادت کو جائیں اور معائنہ کریں، اے زخمِ دل کی دوا! اور اے طبیبوں کے طبیب! خوش آمدید۔
اسماعیلی بلیٹن جلد۳۔ شمارہ۶۔ ۷، ربیع الاول، ربیع الثانی ۱۳۹۷ھ فروری، مارچ ۱۹۷۷ء
۲۶۴
حکمتِ ناصریؔ
ترجمہ ازعلامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی
یکی بی جان و بی تن ابلق اسپی کو نفرساید
بہ کوہ و دشت و دریا برہمی تازوکہ ناساید
ترجمہ:۔ ایک بے جان اور بے جسم چتکبرا گھوڑا (یعنی زمانہ) جو کہ کبھی فرسودہ نہیں ہوتا (یعنی کبھی بوڑھا) اور ضعیف نہیں ہوتا) پہاڑ، بیابان اور دریا پر ہمیشہ اس طرح دوڑتا رہتا ہے کہ کسی وقت بھی آرام نہیں لیتا۔
سواران گربفر سایند اسپان رابہ رنج اندر
یکی اسپیست این کومر سوارانرابفرساید
ترجمہ:۔ اگرچہ (دوسرے سب) سوار گھوڑوں کو رنج و مشقت سے تھکا تھکا کر فرسودہ کر دیتے ہیں، لیکن یہی ایک گھوڑا ایسا ہے جو
۲۶۵
سواروں کو فرسودہ (کر کے ختم) کر دیتاہے۔
سواران خفتہ اندوین اسپ برسرشان ہمی تازد
کہ نہ کس رابکو بد سر نہ کس راروی بشخاید
ترجمہ:۔ سوار سوئے ہیں اور گھوڑا ان کے سر پر دوڑ رہاہےکچھ اس طرح سے کہ بظاہر وہ نہ تو کسی کے سر کو توڑتا ہے اور نہ ہی کسی کے چہرے کو زخم کر دیتا ہے۔
تووفرزند تو ہردوبرین اسپید لیکن تو
ہمی کاہی برین ہموارو فرزندت می افزاید
ترجمہ:۔ تم اور تمہارا فرزند دونوں اس گھوڑے پر سوار ہو لیکن تم اس پر ہمیشہ گھسٹتےجاتے ہو اور تمہارا فرزند بڑھتا چلا جاتاہے۔
نہ زاد از ہیچ مادر، نہ بپروردش کسی ہر گز
ولیکن ہر کہ زاد اویا بزاید زیرِ اوزاید
ترجمہ:۔ وہ گھوڑا ایسا ہے کہ کسی ماں سے اس نے جنم نہیں لیا، اور نہ کبھی اس کو کسی نے پالا ہے، لیکن جو کوئی پیدا ہوا یا پیدا ہوتا ہے وہ اسی گھوڑے کے نیچے پیدا ہوتا ہے۔
زمانہ یٔ نامساعدرا ازین گونہ بجز حجت
بہ زرد گوہرِ الفاظ ومعنی کس نیاراید
ترجمہ:۔ ناموافق زمانے کو حجّت کے سوا اس طرح الفاظ و معنی کے زرّ و جواہر سے کوئی نہیں سجا سکتا (یعنی زمانہ ہی ایسا گھوڑا ہے) ۔
۲۶۶
سخن چون زرِ پختہ بی خیانت گرددوصافی
چواور اخاطرِ دانا بہ اندیشہ فروساید
ترجمہ:۔ بات خالص سونے کی طرح پاکیزہ اور صاف ہوجاتی ہے، جبکہ دانا کا دل اسے غور و فکر سے نکھار بخشتا ہے۔
سخن چون زنگ روشن باید از ہر عیب و آلائش
کہ تانا ید سخن چون زنگ زنگ ازجانت نزداید
ترجمہ:۔ بات صاف گھنٹی کی طرح تابناک اور ہر قسم کے نقص و آلودگی سے پاک ہونی چاہئے، کیونکہ جب تک بات صاف گھنٹی کی طرح پاکیزہ اور صاف نہ ہو تو تمہاری جان سے زنگ کو مٹا نہیں سکتی ہے۔
بہ آبِ علمِ باید شست گردِ عیب و غشِ ازدل
کہ چون شد عیب و غش ازدل سخن بی گش و عیب آید
ترجمہ:۔ علم کے پانی سے دل کے عیب وآلودگی اور کھوٹ کے گردوغبار کو دھونا چاہئے، کیونکہ جب دل سے عیب وآلائش جاتی رہےتو دل سے صاف اور پاکیزہ بات نکلتی ہے۔
طعامِ جان سخن باشد سخن جز پاک و خوش مشنو
ازیرا چون نباشد خوش طعام و پاک، بگزاید
ترجمہ:۔ بات ہی جا ن کی غذا ہے سو تم سوائے پاک اور عمدہ بات کے نہ سننا، اس لئے کہ جب غذا خوش ذائقہ اور پاک نہ ہو تو مروڑ پیدا کرتی ہے یا اس سے جی متلا جاتا ہے۔
۲۶۷
زدانا ای پسر نیکو سخن راگر بیاموزی
بہ دوعالم ترا ہم خالق و ہم خلق بستاید
ترجمہ: ، اے لڑکے! اگر تم دانا سے عمدہ بات سیکھو گے تو دونوں جہان میں خدا بھی تمہاری تعریف کرے گا اور اس کی مخلوق بھی۔
وگرمرخویشتن رااز سخن بی بہرہ بلپندی
مرا گرچون تو فرزندی نباشد برزمین شاید
ترجمہ:۔ اور اگر تم اپنے آپ کو عمدہ باتو ں سے بے بہرہ رکھنا چاہتے ہو، تو پھر میرا تم جیسا فرزند زمین پر نہ بھی ہو تو مناسب ہے۔
بہ بانگِ خوش گرامی شُد سوی مروم ہزار آرا
وزان خواراست زاغ ایدون کہ خوش و خوب نسراید
ترجمہ:۔ خوش الحانی کی وجہ سے بلبل لوگوں کے نزدیک عزیز ہے، اور کوّا اس لئے خوار و ذلیل ہے کہ اس کی آوازعمدہ اور پسندیدہ نہیں ہے۔
ہزار آوازچون دانا ہمہ نیکو وخوش گوید
ولیکن زاغ ہمچون مردِ جاہل ژاژمی خاید
ترجمہ:۔ ہزار داستان (بلبل) دانشمند کی طرح سراسر، خوب اور دلکش آواز میں بولتا ہے، لیکن کوّا جاہل آدمی کی طرح فضول کائیں کائیں کرتا رہتا ہے۔
۲۶۸
بنجشائی تو طوطی راازان کو می سخن گوید
تو گر نیکو سخن گوئی ترا ایزو بنجشاید
ترجمہ:۔ اگر طو طے کی کوئی غلطی ہو تو تم اس کو معاف کرتے ہو اس لئے کہ وہ کلام کرتا ہے اور اگر تم بھی اچھی باتیں کرو گے تو خداوند تعالیٰ تم کو بھی بخش دے گا۔
اسماعیلی بلیٹن جلد۳۔ شمارہ ۸۔ جمادی الاول تارجب ۱۳۹۷ھ، اپریل تا جون ۱۹۷۷ء
۲۶۹
حکمتِ ناصری
ازدیوانِ ناصر خسرو قدّس سرّہ،
(ترجمہ از علامہ نصیر الدین نصیرؔہونزائی)
پادشا برکامہایِ دل کہ باشد؟پارسا
پارسا شوتاشوی برہر مرادی پادشا
ترجمہ:۔ پیرصاحب بطور سوال فرماتے ہیں کہ وہ کون سا شخص ایسا ہے جو دل کی کامیابیوں کا بادشاہ ہو سکا ہو؟ پھر آپ خود ارشاد کرتے ہیں کہ ایسا شخص صرف متّقی یعنی پرہیزگار ہی ہے۔ لہٰذا پرہیزگار ہو جا، تاکہ تو ہر مقصد کا بادشاہ ہو جائے، یعنی تمام نیک مقاصد کی تکمیل ایسی آسانی سے ہو، جیسے تو بادشاہ ہو۔
۲۷۰
پارسا شو تا بباشی پادشا بر آرزو
کارزوہرگز نباشد پادشابرپارسا
ترجمہ:۔ متّقی اور پرہیزگار بن جا، تاکہ تو اپنے نفس کی خواہش پر غالب بادشاہ ہو سکے۔ اور وہ تجھ پر حکمرانی نہ کر سکے، کیونکہ خواہش تو دوسروں پر حاکم ہوسکتی ہے، مگر پرہیزگارشخص پر ہرگز حکومت نہیں کر سکتی۔
پادشا گشت آرزو برتو زبی باکی تو
جان و دل بایدہ ت داداین پادشا را باژوسا
ترجمہ:۔ یہ تیری اپنی ہی لاپرواہی کا نتیجہ ہے کہ خواہشِ نفس رفتہ رفتہ تجھ پر غالب آکر تیری بادشاہ بن چکی ہے۔ اب اس بادشاہ کو باج وخراج کے طور پر جان ودل دینے کے سوا اور کیاچارۂ کار ہو سکتا ہے۔
آزدیو تست چندین چون رہا جوئی زدیو؟
تورہا کن دیوراتازو بباشی خودرہا
ترجمہ:۔ طمع اور خواہشِ نفسانی تیرے شیطان کی حیثیت سے ہے (جس کو تو نے لاشعوری طور پر پکڑ بھی رکھا ہے اور شعوری طور پر اس سے چھٹکارا بھی چاہتا ہے) تو نے کتنی دفعہ اور کیسے غلط طریق پر خود کو شیطان کے چُنگل سے چھڑانے کے لئے کوشش کی؟ اے دوست جا! دراصل شیطان نے تجھ کو نہیں پکڑا ہے، بلکہ
۲۷۱
خود تو نے اس کو پکڑ رکھا ہے، تو اس کو چھوڑ دے، تاکہ خود بخود تیری رہائی ہو جائے۔
دیوراپیغمبران دید ند وراند ندش زپیش
دیورا نادان نبیند من نمودم مسرترا
ترجمہ:۔ انبیاء علیہم السّلام نے ایسے شیطان کو دیکھا اور ان حضرات نے اپنے حضورسےاس کو بھگا دیا، یہ شیطان ایسا نہیں ہے کہ انجان اور نادان آدمی اس کو دیکھ سکے، لہٰذا میں نے شیطان تجھ کو دکھا دیا۔
خویشتن راچون فریبی؟ چون نپرہیزی زبد؟
چون نہی، چون خود کنی عصیان، بہانہ برقضا؟
ترجمہ:۔ تو اپنے آپ کو کس طرح دھوکہ دیتا ہے؟ تو کس طرح برائی سے پرہیز نہیں کرتا ؟ جب نافرمانی تو خود ہی کرتا ہے تو کس طرح اس کا بہانہ قضا و قدر پر رکھتا ہے؟
چونکہ گرتو بدکنی زان دیورا باشد گناہ؟
وریکی نیکی کنی زان مرترا باید ثنا؟
ترجمہ:۔ کیونکہ تیرا نظریہ یہی کچھ ہے کہ اگر تجھ سے برائی کا ارتکاب ہوا تو اس کی وجہ شیطان ہے، لہٰذا یہ گناہ شیطان کا ہوا، اور اگر تو کوئی نیکی کرتا ہے تو اس سے تیری ہی تعریف و توصیف ہونی چاہئے، حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
۲۷۲
چون نیند کہ می برخویشتن لعنت کنی؟
ازخرد بر خویشتن لعنت چرا داری روا؟
ترجمہ:۔ تو کیسے نہیں سوچتا کہ تو اپنے آپ پر لعنت کرتا ہے، جبکہ نافرمانی شیطان سے نہیں بلکہ تو خود ہی کرتا ہے؟ تو کیون کر عقل کی روسے اپنے آپ پر لعنت کرنا جائز قرار دیتا ہے؟
جزبدستِ تونگیر و ملک کس دیو، ای شگفت
جز لفظِ تونگیر و نیز مرکس راجفا
ترجمہ:۔ شیطان کا قول و فعل انسان ہی کے ذریعے سے ظاہر ہوتا ہے، چنانچہ تعجب ہے کہ تیرے ہاتھ کے بغیر شیطان کسی کے دل کی مملکت لے نہیں سکتا اور نہ ہی وہ تیری بات کے سوا کسی پر ظلم و ستم کر سکتا ہے۔
دست و قولت دست وقولِ دیو باشد زین قیاس
ورنباشی تو نباشد دیو چیزی سویِ ما
ترجمہ:۔ اس دلیل سے ظاہر ہے کہ تیرا ہاتھ اور تیری بات شیطان کا ہاتھ اور شیطان کی بات ہے اور اگر مثال کے طور پر ایسا کوئی شخص موجود نہ ہو تو ہمارے نزدیک شیطان کوئی چیز ہے ہی نہیں۔
چند گردی گرواین و آن بہ طمعِ جاہ وجلال
کز طمع ہر گز نیا گد جز ہمہ درد و بلا
ترجمہ:۔ دنیاوی عزّت اور مال کی طمع سے کبھی اس آدمی کے گرد اور کبھی اس آدمی کے گرد تو آخر کب تک طواف کرتا رہے گا، کیونکہ طمع سے سوائے
۲۷۳
دکھ اور بلا کے اور کوئی چیز ہر گز حاصل نہیں ہوتی ہے۔
گرچہ موش از آسیا بسیار یا بدفائدہ
بی گمان روزی فرو کو بدسرِ موش آسیا
ترجمہ:۔ اگرچہ چوہا چکی سے بہت فائدہ حاصل کرتا ہے، لیکن اچانک چوہے پر کوئی دن ایسا بھی گزرتا ہے کہ اس میں چکی چوہے کے سر کو مسل کر رکھ دیتی ہے۔
ای چرای گور، گردِ دشتِ روز و شب چرا
ننگری کاین روز و شب جوید ہمی از تو چرا؟
ترجمہ:۔ اے قبر کی خوراک یعنی انسان! تو دن رات کے اس صحرا کے گرد کیوں نہیں دیکھتا کیونکہ جہاں تو دن رات سے غذا طلب کرتا ہے، وہاں وہ دونوں تجھ سے خوراک مانگتے ہیں، یعنی تیری عمر کو گھٹاتے ہیں۔
چون چراجوئی ازانک از تو چراجوید ہمی؟
این چرا جستن زیکدیگر چراباید، چرا؟
ترجمہ:۔ اس مثال میں تو ایک ایسے شخص سے کیسے خوراک طلب کرتا ہے، جو وہ خود یہ چیز تجھ سے مانگتا ہے۔ اسی طرح یہ ایک دوسرے سے خوراک کا تقاضا کیوں ہونا چاہئے، کیوں؟
۲۷۴
مرستوران را غذا اندر گیا بینم ہمی
بازبی دانش گیا راخاک و آب آمد غذا
ترجمہ:۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جانوروں کی غذا گھاس پات میں سے ہوتی ہے اور پھر اس بے دانش گھاس کی خوراک مٹی اور پانی سے مہیا ہوتی ہے۔
اسماعیلی بلیٹن جلد ۴۔ شمارہ۵صفر ۱۳۹۸ھ، جنوری ۱۹۷۸ء
۲۷۵