قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
حصّۂ اوّل
تعارف
کتابِ ہٰذا کے مصنف جناب علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب نے اس نہایت مختصر اور جامع کتاب کو اپنی پُربہار و پُربارعمر کے پچاسیویں سال میں لکھی ہے، کتاب کا متن ۷مئی ۲۰۰۲ء اور ۲جولائی۲۰۰۲ء کے درمیانی عرصے میں، اور اس کا دیباچہ ۲۳ نومبر۲۰۰۲ء کو لکھ کر اس کو مکمل کر دیا، یہ کتاب علامہ موصوف نے اپنی عزیز نواسی محترمہ عرفت روحی امین الدین، چیف ریکارڈ آفیسر دانشگاہِ خانۂ حکمت، کو قسط وار املا کرا کے مکمل کی ہے۔
کتاب کی اہمیّت:
سال ۲۰۰۱ء کو انسانی تاریخ میں”۱۱/۹” کے طور پر یاد کیا جائے گا، اس تباہ کُن واقعے کے بعد دنیا نے اسلام کی اصلیت و حقیقت کے بارے میں ایک مسلسل بحث ومباحثہ کا مشاہدہ کیا ہے، جس میں حصّہ لینے والے بالعموم دو متضاد نظریات کے حامل دکھائی دیتے ہیں، ایک نظریہ کے حامل وہ لوگ ہیں، جو اسلام میں گوناگونی (DIVERSITY) اور رنگارنگی کو سمجھے بغیر عمومی بیانات دیتے ہیں، جیسے “تمدنوں کا تصادم (CLASH OF CIVILIZATIONS)”اور”وحشیانہ میلانات (BARBARIC TENDENCIES)” وغیرہ، دوسرے نظریے کے حامل وہ لوگ ہیں، جو اسلام کی حقیقت کو قوّی اور قائل کنندہ برہانی دلائل سے ثابت کرنے کی بجائے
ک
سطحی اور عذرخواہانہ طریقِ استدلال سے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ مسلم اور غیر مسلم دونوں موجودہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن صحیح معنوں میں اسلام کی حقیقی شناخت اور خدا کی آخری وحی یعنی قرآنِ حکیم کے صحیح مفہوم سے آگہی بہت کم کو نصیب ہے۔
مصنفِ موصوف خدا کے آخری اور عظیم پیغمبر حضرتِ محمد مصطفیٰؐ کی ایک حدیث شریف پر کتابِ ہٰذا اور اپنی دوسری کتابوں میں بار بار زور دیتےہیں، اور وہ ہے”الخلق عیال اللہ واحب الخلق الی اللہ من نفع عیالہ وادخل السرورعلیٰ اھل بیتہ” مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق وہ ہے، جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے، اور اس کے اہلِ بیت کو خوش رکھے، مصنفِ موصوف کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ آپ اس حدیث کے لفظی معنی پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اپنے روحانی تجربات اور ان کے نتیجے میں قرآنِ حکیم کی تفہیم اور عقلی گہرائیوں تک رسا ہونے کی جو قابلیت آپ میں پیدا ہوئی ہے، اس کی روشنی میں یہ واضح کرتےہیں کہ کتابِ سماوی کا اساسی پیغام انسانوں کی صلاح وفلاح اور ترقی ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ کون اور کیا ہیں (ان کا نسلی، لسانی، جغرافیائی اور مذہبی پس منظر کیا ہے)، کتاب کی قسط ۲۹ میں لکھتے ہیں”ہرروحانی قیامت میں عہدِ الست کا تجدّد ہوتا ہے، یہ قرآنِ حکیم کی ایک شہادت ہے، جس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہےکہ اللہ تعالیٰ عالمِ انسانیّت کو اوجِ کمال تک لے جانا چاہتا ہے، اس کو یہ بات پسند نہیں کہ انسان پستی کی طرف جائے۔”
قصّۂ آدمؑ، جس کو سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرنیوالے سب لوگ مانتے ہیں،
ل
کے حقائق کے بارے میں بھی آپ کا بیان منفرد اور حیران کن ہے، اس کے ساتھ ساتھ بنی آدم کی معروف ومسلّمہ اصطلاح کی بھی آپ نے جس انداز میں وضاحت فرمائی ہے، اس میں قارئین کیلئے بالکل نئے معانی پیش آتے ہیں، کتابِ ہٰذا جو ایک سو اقساط پر مشتمل ہے، ان میں سے ہر ایک قسط نہایت ہی مختصر اور جامع انداز سے لکھی گئی ہے، بااین ہمہ ایک ہوشمند قاری اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اگرچہ ادیانِ عالم اور بہت سے مکاتیبِ فکراس حقیقت کو ماننے کے لئے بخوشی تیاری ہیں کہ لوگوں کی گوناگونی اور رنگارنگی، کمزوری کی بجائے ان کی یقینی طاقت کی مظہر ہے، لیکن مصنفِ موصوف کے اس کتاب کو لکھنے سے پیشترکسی اور نے انسانی وحدت کی ایسی مستحکم اور ناقابلِ تردید بنیاد کو ثابت نہیں کیا ہے، آپ نے واضح طور پر دکھایا ہے کہ خدا نے انسانی روح اور عقل کو عبث پیدا نہیں کیا ہے، ارادۂ الٰہی یہ ہے کہ وہ سب لوگوں کو طوعاً و کرہاً بہشت میں داخل کرے اور یہ ان کے لئے صرف روحانی قیامت کے معجزے کی صورت میں ممکن ہے، یہ معجزہ نمائندگی کی صورت میں ہے، اور انفرادی تجربے کی صورت میں بھی، یعنی اس واقعے یا معجزے سے لوگوں کو شعوری یا لاشعوری صورت میں گزرنا ہے۔
مصنفِ موصوف اس کتاب میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہؑ جن کی ذاتِ گرامی کو دنیا آغاخان سوم کے لقب سے زیادہ پہچانتی ہے، کے ارشادات کا اکثر حوالہ دیتے ہیں، امام عالی مقام نے اپنی طویل زندگی میں شیعہ امامی اسماعیلی مسلمانوں کے امام یا روحانی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی ستودہ صفات کو اپنی ذاتِ گرامی میں جمع کیا تھا، مثلاً ایک سماجی وسیاسی مصلح، حامیٔ بین الاقوامیت، صدر مجلس اقوام، پیشرواقوام متحدہ، کئی زبانوں کے
م
ادیب، کھلاڑی، مصنف، مفکر وغیرہ، امام عالی مقام نے دنیا کو یک حقیقت (MONOREALISM) کا تصوّر دیا۔ جس کی توضیح و تشریح موصوف مصنف اپنی کتابوں میں کرتے رہے ہیں، حضرت امام عالی مقام اپنی خود نوشت سوانح حیات میں لکھتے ہیں:
“نوع انسانی کی موجودہ حالت اپنے تمام تر خطرات اور مبارزہ طلبیوں کے باؤجود نہ صرف قوموں کے درمیان مادّی امن، بلکہ روئے زمین پر اس سے کہیں بہتر خداوندی امن کو قائم کرنے کا یقینی موقع بھی فراہم کرتی ہے، اس کوشش میں اسلام اپنا گران قدر اور تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے، اور اسلامی دنیا ایک مضبوط اور استحکام بخش عامل ہوسکتی ہے، بشرطیکہ اس کو حقیقی معنوں میں سمجھا جائے، اس کی روحانی اور اخلاقی طاقت کو پہچانا جائےاور اس کا احترام کیاجائے۔” یہ الفاظ جو آج سے نصف صدی پہلے لکھے گئے تھے، ان میں آنیوالے زمانے کی پیشگوئی بھی ہے اور موجودہ حالات کی نہایت صحت کے ساتھ ترجمانی بھی۔
دینِ اسلام جیسا کہ مصنف نشاندہی کرتے ہیں، خدائے واحد کے دینِ واحد کی تکمیل ہے، جس کا آغازموجودہ دور میں حضرتِ آدمؑ سے ہوا، اور حضرتِ نوحؑ، حضرتِ ابراہیمؑ، حضرتِ موسیٰؑ، حضرتِ عیسیٰؑ کے ذریعے جاری رہا اور حضرتِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر آ کر مکمل ہوا، اور بعداً امامانِ آلِ محمد علیھم السّلام میں جس طرح یہ دین جاری رہا ہے، اور جن حالات سے گزرا ہے اس کی تمثیل ایک ایسی تصویر سے دی جا سکتی ہے، جو فی نفسہٖ نہایت ہی نایاب اور تابان ودرخشان ہے، لیکن اس پر غلط فہمی کے گردوغبار اور غلط نمائندگی کے تارہائے عنکبوت کی تہیں جم گئی ہیں۔ یہ کتاب گردوغبار
ن
کے ان تہوں کو ہٹانے اور دینِ اسلام کی اصل صورت کو نمایان کرنے اور اس کی بنیادی تعلیمات کو پیش کرنے کی ایک کوشش ہے، ان تعلیمات کے مطابق بنی آدم خدائے تعالیٰ کی اشرف ترین و افضل ترین مخلوق ہے، ان کو صورتِ رحمانی پر پیدا کیا گیا ہے، وہ حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں، اس لحاظ سے ان کا درجہ فرشتوں سے بھی برتر ہے، وہ عالمین یا عوالمِ شخصی ہیں، جن کا ذکر قرآنِ حکیم کے سورۂ اوّل کے شروع ہی میں آیا ہے، وہ عوالمِ صغیر ہیں، جن میں عوالمِ کبیر بحدِّ قوّت پوشیدہ ہیں، خدائے تعالیٰ کی نظر میں عالمِ شخصی کی اہمیّت اتنی بڑی ہے کہ اس نے کسی بھی انسان کے قتل کی قرآنِ کریم میں قطعی طور پر مذمت کی ہے، اور ایک فرد کے قتل کو پوری نوع انسانی کے قتل کے برابر قرار دیا ہے (قرآنِ کریم، سورہ ۵، آیت۳۲، (۰۵: ۳۲) ۔
یہ کتاب انسانوں کو امید اور بلند ہمتی کا درس دیتی ہے، ان کو دنیوی زندگی سے بلند تر ہونے کی دعوت، اور اخلاقی و روحانی استحقاقیت (MERITOCRACY) کی ترغیب دیتی ہے، یہ کتاب اس بات کی مستحق ہے کہ وہ تمام لوگ جو کرۂ زمین پر بسنے والے انسانوں کے لئے پُرامن اور آسودہ حال مستقبل کے معتقد ہیں، اس کی سرپرستی کریں۔
مصنف کے بارے میں:
جناب علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی دامت فیوضاتہ، قریۂ حیدرآباد ہونزہ، پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں۱۹۱۷ء کو پیدا ہوئے، آپ دوسروں کے لئے تقلید وپیروی کا نمونہ ہیں، اس لئے کہ آپ نے صرف ایک سال سکول جانے کے باوجود پچاس سال کے عرصے میں قرآنِ حکیم کے باطنی پہلو پر ایک سو۱۰۰ سے زیادہ کتابیں اور بے شمار مقالے لکھے ہیں، ان کو نظم و نثر دونوں پر ملکہ
س
حاصل ہے، ان کی حسین و دلکش اور روحانی تجربات وتعلیمات سے مملو شاعری آپ کی اپنی مادری زبان بروشسکی میں ہے، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی قومی زبان اردو، فارسی اور چینی ترکی میں بھی شاعری کی ہے، ۲۰۰۱ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے آپ کو اسلامی اور قرآنی تحقیقات کی بنیاد پر ستارۂ امتیاز کا اعزاز ملا ہے، آپ کی ساٹھ سے زیادہ کتابوں کا انگریزی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔
جیساکہ بہت سے مصنفین کا دستوررہا ہے، آپ کی موجودہ کتاب بھی آپ کی سابقہ بہت سی کتابوں کے سیاق وسباق میں لکھی گئی ہے، اسلئے قارئین کو مشورہ دیا جاتا ہےکہ موجودہ کتاب کوجو بہت ہی مختصر اور موجزانداز میں لکھی گئی ہے، کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے سابقہ کتابوں خصوصاً ان کا جن کا اس کتاب میں حوالہ دیا گیا ہے، مطالعہ کیاجائے، جیسے”عملی تصوف اور روحانی سائنس” “ہزار حکمت” وغیرہ، علامہ موصوف نے اپنی ہشتاد و پنج سالہ عمر میں بھی حکمتِ قرآن پر لکھنے اور لیکچر دینے کا کام جاری رکھا ہوا ہے، الحمد اللہ۔
“منجانب مترجمین”
ع
آغازِ کتاب
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔اللھم انی اسئلک باسمائک الحسنیٰ۔
الٰہی چارۂ بیچارہ گان کُن! الٰہی رحمتی بربندگان کُن!
الٰہی رحمتت دریائے عام است! وزانجا قطرۂ مارا تمام است!
اے رفیقانِ ارجمند!ایک ضعیف العمر اور بیمار آدمی کیا کرسکتا ہے؟ واللہ یہ کتاب آپ کی پُرسوزدعا اور روحانی مدد کا نتیجہ اور مولا کا علمی معجزہ ہے،روحانی مدد سے میری مراد یہ ہے کہ ہر شخص میں ایک فرشتہ ہوتا ہے، اور وہ مجھ میں بھی ہے،اللہ کہ یہ حکمت بڑی عجیب وغریب ہے کہ اس فرشتے میں ہر لحظہ تجدّد ہوتا رہتا ہے،مثال کے طور پر میرے سب عزیزوں کے لئے یہ ممکن ہی ہے کہ باری باری سے میرے تصوّر یا خیال میں آکراس فرشتے کا کام کریں اور یہ حقیقت ہونے کے ساتھ مونوریالٹی کی ایک منزل ہے۔
“قرآنِ حکیم اورعالمِ انسانیّت” کی اس کتاب کے آغاز سے قبل میں نے دوستوں سے اجازت اور دعا حاصل کرلی تھی،اور دعا میرے عقیدے میں ایک ایسی ضروری چیز ہے جس کے لئے میں بار بار دوستوں سے درخواست کرتا ہوں، اس سے ایک روحانی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔
ف
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت پر مزید لکھنے کی بڑی گنجائش ہے،لیکن ہم نے کنوز الاسرار اور حظیرۂ قدس کی دو کتابوں کی طرح مختصر سوقسطیں لکھنے کا منصوبہ بنایاتھا، بہر حال یہ کتاب آگے چل کر زیادہ سے زیادہ ضروری اور بیحد مفید ہو سکتی ہے۔
املا ازچیف ریکارڈ آفیسر
عرفت روحی امین الدین
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)
بدھ۳،جولائی،۲۰۰۲ء
ص
مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات
اےآنکہ تیرا پاک وزندہ اسمِ اعظم تمام فیوض وبرکات اور جملہ معجزات کا سرچشمہ ہے! اے آنکہ تیرے نورسے آسمان وزمین قائم وبرجا ہیں! اے آنکہ تیری رحمت اور علم نے ساری کائنات کو گھیر لیا ہے! اے آنکہ تیرے بے پایان خزانے کبھی ختم ہونے والے نہیں ہیں! اے آنکہ تو ہر چیز پر قادر ہے!
اے آنکہ تیری ہر قیامت عالمِ انسانیّت کے مفاد میں ہے! اے آنکہ تو ہر دل کی حالت سے باخبر ہےاور کوئی بات تجھ سے پوشیدہ نہیں!
اے کریمِ کارساز! اے رحیمِ بندہ نواز! تُواپنی رحمتِ بے نہایت سے ہم سب کو ایک نور شناس اور کامیاب روح بنا دے! جو عالمِ شخصی کے تمام اسرار سے واقف ہو! جس کے حظیرۂ قدس میں عرفانی بہشت ہو!
یا الٰہی! تو اپنی قدرتِ کاملہ سے ان تمام کتابوں کو زبانِ حال اور زبانِ قال عنایت فرما! تاکہ یہ سب ہمیشہ دعا وثنا کرتی رہیں ان جملہ عزیزان کے لئے جن کے بے شمارحقوق ہیں!
ان شاءاللہ علمی خدمت جو تمام خدمات پر بادشاہ ہےاس کے بڑ ے شیرین ثمرات دونوں جہان میں ملتے رہیں گے،آمین یا ربِّ العالمین!
نصیر الدین نصیر(حبِّ علی )ہونزائی(ایس۔آئی)
بدھ۳،جولائی۲۰۰۲ء
ق
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت=ایک انتہائی عجیب و غریب اور زبردست حیران کن کتاب میری نہیں آپ کی ہے۔
دلیل(۱) قانونِ یک حقیقت کے تحت ہم سب ایک ہیں۔ دلیل (۲) ایک میں سب ہیں اور سب میں ایک ہے۔ دلیل (۳) میں نے معرفت کی روشنی میں یہ یقین حاصل کرلیا کہ میرے ہرعزیز میں بہشت کا ایک عالم اور اس میں مولا کا ایک گونہ دیدار ہے تو پھر میں ان گوناگون تجلیات کو دیکھنے کی خاطر سب عزیزوں میں فنا ہوگیا۔ دلیل (۴) میرا ایسا ہونا بہشت کی نعمتوں میں سے ہے، اور بہشت میں کوئی نعمت ناممکن نہیں۔ دلیل (۵) آپ کو علم ہے کہ ہر شخص میں ایک فرشتہ ہے، یقیناً مجھ میں بھی ہے، ہاں یہ سچ ہے کہ میرے جملہ عزیزان باری باری سے آکر میرے فرشتۂ عقل کا کام کرتے رہتے ہیں۔
حجتِ قائم ارواحنا فداھما نے فرمایا: تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے، یعنی امامِ زمان علیہ السّلام کے نورانی بدن میں فنا ہو کر بہشت میں جاؤ گے۔
آج میں ایک بہت ہی جدید ترین انتساب ان عزیزان کے نام کے ساتھ لکھنے والا تھا جن سے وعدہ ہے، ان شاء اللہ یہ کام ہوجائے گا۔
عظیم ملکِ امریکہ کے عزیزان امامِ زمان علیہ السّلام کے ارضی فرشتوں
ر
کا لشکر ہیں۔ ان کی علمی خدمات کا عظیم کارنامہ سارے جہان میں لاجواب ہےاور ان کی دعاؤں کا ہر بار صاحبِ عرش تک بلند ہوجانا یقینی ہے۔ یہ میری بڑی خوش نصیبی ہے کہ میں امامِ زمانؑ کے ان ارضی فرشتوں کے علمی لشکر کا خادم ہوں،الحمد للہ۔
نصیرالدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)
کراچی
بدھ۲۳،اکتوبر۲۰۰۲ء
ش
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت کی لاجواب کتاب دانش گاہِ خانۂ حکمت کی ہے
انتساب:اس گنجِ گوہر کی سرپرستی کے بہت سے ذرائع تھے لیکن آخر کار وہی ہوا جو مولا کو منظور تھا، جب میں تمام عزیزان کو امامِ زمان علیہ السّلام کے ارضی فرشتوں کا لشکر مانتا ہوں تو پھر میں اس پیاری کتاب کے دو سرپرست خاندان کے جملہ افراد کو فرشتے کیوں نہ کہوں، یعنی خاندانِ اوّل: موکھی نزار علی ابنِ علی بھائی صدراٹلانٹا، موکھی صاحب کی والدہ رتن بائی، موکھیانی الماس نزار علی وائیس پریسیڈنٹ اٹلانٹا، ان کی صاحبزادیاں، نایاب، حِنا، اور صبا اس بابرکت گھر میں پانچوں افرادILG کا اعزاز رکھتے ہیں۔
خاندانِ دوم: نوشاد ابنِ امیرعلی پنجوانی، نوشاد پنجوانی کی بیگم روزینہ بنتِ نور الدین بیجارخان مرحوم، والدہ کا نام رحمت بیجارخان، نوشاد اور روزینہ کے دو بہت پیارے بچے نصیرپنجوانی اور ایثار علی پنجوانی، والدین اور دونوں بچے ILGکا اعزاز رکھتے ہیں، اور خدمات کی تفصیلات کسی انٹرویو میں ہوں گی۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی
بدھ۲۳،اکتوبر۲۰۰۲ء
ت
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۱
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کا پُرازحکمت قصّہ عقل و دانش سے بار بار پڑھنے کے لئے ہے، کیونکہ عوام النّاس اب تک اس کو نہیں سمجھ رہے ہیں،جیسا کہ اس کو سمجھنے کا حق ہے۔
مثال کے طور پر، روئے زمین سے عالمِ انسانیّت مراد ہے، اور عالمِ انسانیّت میں ہمیشہ خلیفۂ خدا کا موجود ہونا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں، اور وہ ہمیشہ ایک ہی شان سے جاری ہے(۴۰: ۸۵)۔
آپ سنتِ الٰہی کے مضمون کو قرآنِ حکیم میں خوب دانائی سے پڑھیں تاکہ یہ حکمت سمجھ میں آئے کہ خلافتِ آدم اللہ کی سنت کے مطابق تھی، لہٰذا وہ ہمیشہ عالمِ انسانیّت میں جاری ہے، الحمد للہ۔
نصیرالدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
اسلام آباد
منگل۷مئی۲۰۰۲ء
۱
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۲
سورۂ بقرہ (۰۲: ۳۰) کے ارشادِ مبارک کو عقل و دانش اورعلم و معرفت کے ساتھ پڑھنے کے لئے سعیٔ بلیغ کریں، اس آیۂ کریمہ کی بہت سی حکمتوں میں سے ایک عظیم حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنتِ قدیم کے مطابق عالمِ انسانیّت میں ایک خلیفہ مقرر فرمایا،اور یہ حکمت ہے:”فی الارض”=عالمِ انسانیّت میں=عالمِ شخصی میں= کائناتی زمین میں= نفسِ کلّی میں، کیونکہ خلافتِ الٰہیہ کی ضرورت ہمیشہ انسانوں ہی کے لئے ہوتی ہے، پس یقیناً یہاں “الارض” سے عالمِ انسانیّت مراد ہے، جو سیّارۂ زمین پر ہے،جس طرح الارض(زمین) ہمیشہ ہے، اسی طرح عالمِ انسانیّت بھی ہمیشہ ہے اور خلافتِ الٰہیہ بھی ہمیشہ ہے، اور لازماً آدمِ زمانؑ بھی۔
سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) ترجمۂ ارشاد:اللہ نے آدمؑ اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب کیا تھا، یہ ایک ہی سلسلے کے لوگ تھے جو ایک دوسرے کی ذریّت سے پیدا ہوئے تھے، اللہ سب کچھ سنتا اورجانتا ہے۔
اس قرآنی تعلیم سے یہ راز معلوم ہوا کہ زمانۂ آدمؑ میں لوگ تھے اور اللہ نے ان سب سے آدمؑ کو منتخب فرمایا تھا۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
جوٹیال، گلگت، جمعرات۹/۵/۲۰۰۲ء
۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۳
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَ ما اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۲۱: ۱۰۷) اے نبیؐ، ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
یہ آیۂ کریمہ جو رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شان میں ہےاس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ بالآخرسب لوگ بہشت میں جانے والے ہیں، اس آیۂ شریفہ کی یہی ضمانت ہےاور کوئی بھی دانشمند اللہ تعالیٰ کے قانونِ رحمتِ کل سے منکر نہیں ہوسکتا ہے، پس دوزخِ جہالت دنیا میں اپنی جگہ پر ہے، پھر بھی جب امامِ زمانؑ بحکمِ خدا روحانی قیامت برپا کرتا ہے (۱۷: ۷۱) تو اس وقت تمام مخلوقات کو سمیٹ کر بہشت میں داخل کردیتا ہے۔
اس معنیٰ میں حدیثِ شریف ہے: الخلق عیال اللہ، یعنی تمام مخلوقات گویا خدا کا کنبہ ہیں۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی(ایس۔آئی)
جوٹیال،گلگت
جمعرات۹،مئی۲۰۰۲ء
۳
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۴
سورۂ مریم (۱۹: ۹۳ تا ۹۵) اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا، لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّا، وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا۔
ترجمہ: زمین اور آسمانوں کےاندرجو بھی ہیں سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے آنے والے ہیں، وہ (بذریعۂ روحانی قیامت) سب کو گھیر لیتا ہے، اور ایک خاص عدد میں (یعنی عددِ واحد میں) شمار کرتا ہے، پس روزِقیامت سب کے سب فردِ واحد بن کر اس کے سامنے حاضر ہوتے ہیں۔
چونکہ اس آیۂ شریفہ کی تاویل چوٹی کی تاویل ہے، یعنی یہ حظیرۂ قدس کے معجزات کا جامع معجزہ ہے، لہٰذا اس پر مذاکرہ کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے، ان شاء اللہ ان عظیم اسرارکی معرفت کے بعد آپ سجدۂ شکرانہ بجالائیں گے۔
آج کا مقالہ دراصل ایک رسالہ= کتاب کے برابر ہے، پس آپ اس کو خوب غور سے بار بار پڑھیں،اس حکم میں یہ واضح اشارہ ہے کہ سب لوگوں کو خوشی سے یا زبردستی سے امامِ زمانؑ میں فنا ہوجانا ہے، کیونکہ انسانِ کامل،صاحبِ قیامت (۱۷: ۷۱) اور امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) وہی
۴
ہے۔
الحمد للہ علیٰ منہٖ واحسانہٖ
نصیرا لدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)
جوٹیال،گلگت
جمعہ۱۰،مئی۲۰۰۲ء
۵
قرآنِ حکیم اورعالمِ انسانیّت
قسط:۵
سورۂ بقرہ(۰۲: ۱۲۴) کے پُرحکمت اوربابرکت ارشاد سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہےکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو تمام لوگوں کے لئے امام بنایاتھا، وہ مبارک ارشاد یہ ہے: قال انی جاعلک للناسِ اماما۔
اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ سے فرمایا: میں تجھے سب لوگوں کا امام (پیشوا) بنانے والا ہوں۔
امام علیہ السّلام وارثِ آدم بھی ہے، امامُ النّاس بھی ہے، امامُ المتقین بھی ہے، وہ ھادی بھی ہے، اور وہ صاحبِ روحانی قیامت بھی ہے۔
بیانِ مذکورِ بالا سب کا سب قرآنی حکمت پر مبنی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اس میں اطمینانِ کلّی حاصل ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
جوٹیال،گلگت
ہفتہ۱۱،مئی۲۰۰۲ء
۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۶
سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۸) میں ارشاد ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم: قُلْ یاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا۔
ترجمہ:اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کہو کہ اے انسانو،میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔
جو باسعادت لوگ آئینۂ سنتِ الٰہی کی معرفت رکھتے ہیں وہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کے قصّے میں اسرارِ الٰہی کے عظیم خزانےکو دیکھتے ہیں، اور اس میں سب سے بڑا راز تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نمائندے یعنی خلیفہ ہو یا نبی یا امام، سب کے سب،عالمِ انسانیّت ہی کی صلاح و فلاح کے لئے مقرر ہوتے ہیں، جیسے آپ نے دیکھا کہ خلافتِ آدم، امامتِ ابراہیم، اور رسالتِ محمدی عالمِ انسانیّت ہی کے لئے تھی، پس یہ حقیقت ہے کہ لوگ اگر خوشی سے رجوع نہ کریں تو انہیں زبردستی سے رجوع کرایا جاتا ہے، اور وہ زبردستی رجوع روحانی قیامت ہی کی صورت میں ہے، جس کا بار بار ذکر ہوچکا ہے، وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی یا مجبوری سے رجوع کرتے ہیں۔ (۰۳: ۸۳) اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خوشی سے اطاعت و رجوع نہیں کرتے ہیں، ان کو روحانی قیامت
۷
اطاعت و رجوع کراتی ہے، اور اسی طرح وہ سب بہشت میں داخل کئے جاتے ہیں۔
سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں ہے: وللہ یسجد من فی السموت والارض طوعاوکرھا۔
وہ تو اللہ ہی ہے ،جس کو آسمان و زمین والے سب سجدہ کرتے ہیں، طوعاً و کرھاً= خوشی سے یا مجبوری سے۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)
جوٹیال،گلگت
اتوار۱۲،مئی ۲۰۰۲ء
۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۷
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالمِ انسانیّت ہی میں جملۂ انبیاء علیھم السّلام کو مبعوث کیا،اور ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے،اور ساتھ ہی ساتھ سلسلۂ أئمّہ علیھم السّلام بھی جاری ہے اور بہت سے ذیلی حدودِ دین بھی۔
پس خداوندِ قدّوس کا ایسا بڑا زبردست اور غالب نظامِ ہدایت کس طرح بے نتیجہ اور ضائع ہو سکتا ہے؟ اور کوئی بھی عاقل وداناایسا سوچ ہی نہیں سکتا۔
سورۂ مومنون(۲۳: ۱۱۵)میں ارشاد ہے: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۔ترجمہ:کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟
اس آیۂ کریمہ میں ان تمام سوالات کے لئے جوابِ باصواب موجود ہے،جو عالمِ انسانیّت سے متعلق پیدا ہوجاتے ہیں۔
یقیناً ہر زمانے کا امام ہی بحکمِ خدا ایک روحانی قیامت برپا کرتا ہے(۱۷: ۷۱)جس سے سب لوگ اللہ کی طرف رجوع ہوجاتے ہیں اسی عظیم
۹
مقصد کے لئے خدا نے ہادیٔ برحق کو امام الناس بنایا ہے اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ امامُ المتقین بھی ہے،الحمد للہ ربِّ العالمین۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)
جوٹیال،گلگت
اتوار۱۲مئی۲۰۰۲ء
۱۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۸
آپ اسی مضمون کی قسط۔۷۔ کو ایک بار پھر خوب غور سے پڑھیں،کیونکہ وہ عالمِ انسانیّت کے حق میں ایک بہترین بیان ہے، جبکہ وہ قرآنِ حکیم ہی کی دلیل پر مبنی ہے۔
آپ عقل ودانش سے اللہ تعالیٰ کے اسمائے صفات میں بھی غور کریں،یقیناً ہر اسم عالمِ انسانیّت کے لئے رحمت اور علم و حکمت کا ایک دائمی خزانہ ہے،خدائے علیم وحکیم کے علمِ غیب اور ہمہ دانی میں کس کو شک ہو سکتا ہے؟ وہ انسانوں کو پیدا کرنے سے پہلے ہی جانتا تھا کہ لوگ کیسے کیسے اعمال کریں گے، اس کی نظر میں اصلاحِ احوال کا کام بہت ہی آسان تھا۔
پس اللہ تعالیٰ نے عالمِ انسانیّت کو رجوع الی اللہ کے بہت سے ذرائع کے ساتھ پیدا کیا اور روحانی قیامت کا ذریعہ سب سے آخر میں رکھا، تاکہ لوگ سب کے سب طوعاً وکرھاً(خوشی سے یا مجبوری سے) لوٹ کر فنا فی الامام ہوجائیں،اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب لوگ بہشت میں جانے والے ہیں، اور کوئی شخص جنت سے باہر نہیں رہے گا، مگر جنت میں بہت سے درجات ہیں، یہ درجات علم و معرفت کی بنیاد پر ہیں۔ آپ قرآن وحدیث سے معلوم کریں۔ والسّلام۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)
جوٹیال،گلگت،پیر۱۳مئی ۲۰۰۲ء
۱۱
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۹
سورۂ تین(۹۵: ۰۱ تا ۰۸) کو عقل و دانش سے پڑھیں اور اس میں خوب غور کریں،اللہ تعالیٰ نے یہاں عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اس نے انسان کو بہترین تقویم (ساخت=ترتیب=معراج=سیڑھی) پر پیدا کیا ہے یعنی انسان خود روحانی تخلیق و تکمیل کے لحاظ سے عالمِ شخصی کی ارتقائی سیڑھی ہے،عالمِ شخصی کی چھت ہے، چھت کو عربی میں عرش کہتے ہیں، جس کی جمع عروش ہے (۰۲: ۲۵۹)اور چھت کا نام سَقف بھی ہے(۲۱: ۳۲)یہ عالمِ شخصی کی محفوظ چھت آسمان ہے، یعنی حظیرۂ قدس ہمیشہ کے لئے محفوظ ہے۔
حظیرۂ قدس عالمِ شخصی کا آسمان اورعرش ہے، نیز یہ سقفِ محفوظ ہے(۲۱: ۳۲)۔
سورۂ تین کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی روحانی تخلیق وتکمیل درجہ بدرجہ حظیرۂ قدس میں جا کر مکمل ہوجاتی ہےاور انسان اپنے باپ آدم کی طرح اس بہشت میں صورتِ رحمان پر پیدا ہوجاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے قسم کھانے کاجواب یہی ہے۔
الحمد للہ علیٰ منہٖ واحسانہٖ
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)
جوٹیال،گلگت
منگل ۱۴مئی ۲۰۰۲ء
۱۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۱۰
آپ قرآنِ عزیز کے پانچ مقام پر نفسِ واحدہ کے پُرحکمت مضمون کو پڑھیں، اوّلین نفسِ واحدہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام ہے اور آدم کی روحانی قیامت کی وجہ سے تمام موجودہ روحیں جمع ہوئی تھیں، یہاں ایک ایسی عظیم الشّان حقیقت ہے کہ جس کے کئی پہلو ہیں، لہٰذا اس کی کئی تاویلیں ہو سکتی ہیں: سب انسان روحاً حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ کے ساتھ تھے ساجدین میں بھی تھے، اور مسجود میں بھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ سب آدم بھی تھے اور ذرّیتِ آدم بھی، اور جو اس کو نہیں سمجھتا ہو، وہ روح کو نہیں پہچانتا ہے۔
حجتِ قائم علیہ السّلام نے فرمایا: تم ہماری روحانی اولاد ہو اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے” ۔یعنی روح دراصل وہی نفسِ واحدہ ہے جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہے، نفسِ واحدہ ایک بھی ہے اور بے شمار کی وحدت بھی، اسی لئےوہ آدم بھی ہے اور بنی آدم بھی، نفسِ واحدہ اللہ کا سب سے بڑا معجزہ ہےجو بڑا حیران کن ہے کہ معجزہ در معجزہ اور تجلّی در تجلی ہے، اور ہر زمانے میں اس کا تجدّد ہوتا ہے۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
جوٹیال،گلگت
جمعرات۱۶مئی ۲۰۰۲ء
۱۳
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۱۱
سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ بَصِيْرٌ
تاویلی مفہوم: ہر انسان بحدِّ قوّت نفسِ واحدہ کی طرح ہے، پس جو انسان حقیقی معنوں میں اللہ کی اطاعت کرتا ہے وہ بحدِّ فعل نفسِ واحدہ کی طرح ہوجاتا ہے۔
حجتِ قائم علیہ السّلام نے فرمایا کہ: “مومن کی روح (بحدِّ قوّت) ہماری روح ہے۔” کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل ۔ راجکوٹ۔ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰) پس حقیقی اطاعت ضروری اور لازمی ہے، تاکہ مومن کی روح امام کی مثل ہوسکے، جیسے حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے کہ اے ابنِ آدم میری حقیقی اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بنا دوں گا ۔۔
سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) میں مضمونِ خلافت کو تاویلی حکمت کی روشنی میں پڑھیں۔
سوۂ نور (۲۴: ۵۵) میں بھی مضمونِ خلافت ہے، ان دونوں پُرحکمت آیتوں میں یہ راز ہے کہ نیک لوگ اللہ کے زندہ اسمِ اعظم کی حقیقی اطاعت کرکے حضرتِ آدمؑ کی طرح ہوسکتے ہیں، اس دنیا میں اللہ کا زندہ اسمِ اعظم موجود ہے، الحمد للہ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جوٹیال، گلگت، جمعہ ۱۷ مئی ۲۰۰۲
۱۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط : ۱۲
اللہ تعالیٰ کی سنت ہمیشہ ایک ہی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدمؑ کو تاجِ خلافت سے سرفرازفرمایا تھا تو اس وقت خدا کی رحمت سے ستر ہزار روحیں آدم خلیفۃُ اللہ کی حقیقی کاپیاں ہوگئی تھیں، اس شان سے کہ ہر روح (کاپی) میں ایک عظیم فرشتہ تھا، ایک کائناتی بہشت اور ایک بہشتی خلافت = سلطنت تھی پس ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت میں اسی طرح لوگوں کے لئے بے شمار فائدے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہادیٔ برحق کو ایسے فوائد کے لئے لوگوں کا امام بنایا ہے، اور وہ بفضلِ خدا پرہیزگاروں کا امام بھی ہے، تاکہ وہ ان کو زیادہ سے زیادہ عزّت اور بے شمار فائدے دلائیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ جلَّ جلالہ ہر انسانِ کامل کی روحانی قیامت کے ذریعے سے دنیا بھر کے لوگوں کو بہشت میں داخل کر دیتا ہے۔
انہی معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اَلْخَلقُ عِیَالُ اللہِ = تمام لوگ گویا خدا کا کنبہ ہیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جوٹیال، گلگت
جمعہ ۱۷ مئی ۲۰۰۲
۱۵
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۱۳
سورۂ یونس (۱۰: ۶۰) آپ اس آیۂ کریمہ کی اصل حکمت کو سمجھنے کی سعیٔ بلیغ کریں، آیۂ شریفہ یہ ہے: وَ مَا ظَنُّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ۔ تاویلی مفہوم: جو لوگ کلامِ الٰہی کی تاویلی حکمت نہیں جانتے ہیں وہ گویا اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، تو ایسے لوگوں کا قیامت کے بارے میں کیا گمان ہے؟ یقیناً اللہ لوگوں پر فضل و کرم کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ غفلت و نادانی سے ناشکری کرتے ہیں۔
اس تعلیمِ سماوی سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں پر فضل و کرم کرنا چاہتا ہے لیکن اکثر لوگ شکر گزار اور قدردان نہیں ہیں۔
جب اللہ قادرِ مطلق کے انتہائی عظیم پروگرام میں تمام لوگوں پر فضل و کرم کرنا ہے اور اس میں روحانی قیامت کا اشارہ بھی ہے لہٰذا یقیناً خدا کے حکم سے صاحبِ روحانی قیامت سب لوگوں کو بہشت میں داخل کرلیتا ہے، کیونکہ خدا کی طرف رجوع طَوْعاً وَّکَرْھاً = خوشی سے یا زبردستی سے ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جوٹیال، گلگت
ہفتہ، ۱۸ مئی ۲۰۰۲
۱۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۱۴
سورۂ سبا (۳۴: ۲۸) میں ارشاد ہے:وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَاۗفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْرًا وَّلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ہ
ترجمہ: اور (اے نبیؐ) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لئے بشیر و نذیر بناکر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ عالمِ انسانیّت کا پروردگار ہے، حضرتِ محمدؐ تمام ہی انسانوں کے لئے رسول ہیں، اور امامِ آلِ محمدؐ سب لوگوں کا امام ہے، پس ہر زمانے میں ایک روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ (۱۷: ۷۱) جس کی وجہ سے اہلِ زمانہ سب کے سب بہشت میں جاتے ہیں، بہشت میں علم و عمل کے مطابق درجات ہیں، اعلیٰ درجات والے بہشت کے سلاطین ہوں گے۔
جو لوگ اللہ ، رسول اور صاحبِ امر کی حقیقی اور کلی اطاعت کریں گے وہ بہشت کے سلاطین ہوں گے، بہشت میں علم و حکمت اور معرفت کے شیرین میوے ہیں، یعنی جنّت کے تمامتر پھل روحانی اور عقلی ہیں، اور لطیف جسمانی نعمتیں بھی بہت ہیں۔
بہشت میں اقوامِ عالم پر حقیقی علم کی بادشاہی ہے، اور اس میں
۱۷
ان کے لئے بے پایان رحمت ہے، اَلْحَمْدُللّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ و اِحْسانہٖ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جوٹیال، گلگت
ہفتہ ۱۸ مئی ۲۰۰۲
۱۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۱۵
سورۂ اَنعام (۰۶: ۹۴) وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۔
سورۂ واقعہ (۵۶: ۴۹ تا ۵۰)قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِيْنَ وَالْاٰخِرِيْن ہ لَمَجْمُوْعُوْنَ ڏ اِلٰى مِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ۔
آیتِ اوّل کا تاویلی مفہوم: جب نفسِ واحدہ کے عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے، تو تمام لوگوں کی روحیں جمع ہوکر نفسِ واحدہ میں فنا ہوجاتی ہیں اور نفسِ واحدہ ہی ح ۔ ق میں اکیلا فنا فی الامام ہوجاتا ہے، اور اسی میں فنا فی اللہ و بقا با للہ ہے، یہ سب سے بڑا معجزہ زمان و مکان سے بالاتر ہے، لہٰذا یہاں رجوعِ آخر اور ظہورِ اوّل کا سنگم ہے۔
آیتِ دوم کا تاویلی مفہوم: یہاں سے معلوم ہوا کہ روحانی قیامت میں اوّلین، آخرین اور حاضرین سب کے سب جمع ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک سرِّ عظیمِ معرفت ہے کہ ہر روحانی قیامت میں اللہ تعالیٰ امامِ زمانؑ کے پاک نور کے زیرِ اثر ستّر ہزار کامل ایمانی روحوں کو فرشتے بناتا ہے، اس شان سے کہ ہر فرشتہ ایک عالمِ شخصی = ایک کائناتی بہشت = ایک خلافت جس کا ذکر قرآن میں ہے (۰۶: ۱۶۵)۔ اور (۲۴: ۵۵) یہ خلافتِ الٰہیّہ
۱۹
بہشت کی بادشاہی بھی ہے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانہٖ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جوٹیال، گلگت
اتوار ۱۹ مئی ۲۰۰۲
۲۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۱۶
مقالہ= کتابچہ ، روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو آپ عزیزان بار بار پڑھیں، یہ چھوٹی سی عجیب و غریب کتاب عملی تصوّف نامی کتاب میں ہے،یہ صرف ایک چھوٹا سا مقالہ ہے مگر قصّۂ قیامت کا اساسی حصّہ ہے، لہٰذا یہ بیحد ضروری ہے کہ آپ روحانی سائنس کی بنیادی چیزوں کو معلوم کریں۔
اے عزیزان! آپ آیۂ آفاق و انفس (۴۱: ۵۳) میں چشمِ بصیرت سے دیکھیں اور عقل و دانش سے سوچیں، اس مبارک ارشاد کا مفہوم یہ ہے: ہم عنقریب ان کو آفاق میں اور خود ان کی جانوں = روحوں میں اپنے معجزات دکھائیں گے تا آنکہ ان پر یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ وہ حق ہے۔ سوال: دکھائیں گے میں کیا راز ہے؟ جواب: نوافلِ اسمِ اعظم کے ذریعے سے اللہ ان کی آنکھ ہوسکتا ہے اور حدیثِ قدسی کا یہی ارشاد ہے، اور حدیث ِ قدسیٔ تقرب میں نوافل سے اسمِ اعظم کا خصوصی ذکر مراد ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب عملی تصوّف اور روحانی سائنس ص ۷۶۔۷۷ پر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے، اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی ان چیزوں سے جو مجھے
۲۱
پسندیدہ ہیں میرا قرب نہیں حاصل کر سکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔۔۔۔۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل ۲۱ مئی ۲۰۰۲
۲۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۱۷
سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) کا ارشاد ہے:اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ ۔
ترجمہ: بیشک اللہ لوگوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے، مگر اکثر لوگ اس کا شکر نہیں کرتے۔ اس فرمانِ خداوندی سے یہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ خدا تمام لوگوں پر بڑا مہربان ہے، لیکن لوگ خود ہی نا شکرے ہیں، پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بحکمِ خدا ارشاد فرمایا: اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ نَفَعَ عِیَالَ اللّٰہِ وَاَدْخَلَ عَلٰی اَھْلِ بَیْتِہٖ سُرُوراً۔
ترجمہ: مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق وہ ہے جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے اور (خدا کے) اہلِ بیت کو خوشی دے۔ ہزار حکمت (ح :۶۳۱) ص ۳۵۹، بحوالۂ میزان الحکمت۔ ۲۔ ص ۳۴۷۔ حدیثِ نبوّی ، کتاب دعائم الاسلام ۔ عربی، جلدِ ثانی۔ ص ۳۲۰ پر بھی دیکھیں۔
حدیث قدسی: قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَ جَلَّ : اَلْخَلْقُ عِیَالِیْ فَاَحَبُّھُمْ اِلَیَّ اَلْطَفُھُمْ بِھِمْ وَاَسْمَاھُمْ فِی حَوَائِجِھِمْ ۔ ترجمہ: اللہ تعالیٰ
۲۳
کا ارشاد ہے: تمام مخلوق میرا کنبہ ہے، لہٰذا میرے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جو ان پر زیادہ مہربان ہے اور ان کی حاجات کو پوری کرنے میں کوشش کرتا رہتا ہے۔ (میزان الحکمت۔ ۲۔ ص ۸۲۷)۔
ہم یہ بتا چکے ہیں کہ نورِ مجسم = ہادیٔ برحق، امام النّاس بھی ہے اور امامُ المتقین بھی ہے، اور امام علیہ السّلام کے ان دونوں مرتبوں میں کوئی تضاد ہر گز نہیں، اَلْحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ ۲۲ مئی ۲۰۰۲
۲۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۱۸
اللہ تعالیٰ کی سنتِ قدیم میں کسی تبدیلی کے بغیر تجدّد بار بار ہوتا رہتا ہے، اگر آپ کو تجدّد کی حقیقی معرفت حاصل ہوگئی تو اس کے ذریعے سے بڑے بڑے اسرارِ معرفت بآسانی سمجھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر دوزخ اور جنّت دونوں کی عمر کائنات کے قیام و بقاء تک ہے: بحوالۂ قرآن (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جب عارف کی روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اس وقت اللہ کائناتِ باطن کو لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴) نیز (۳۹: ۶۷) جس سے وجہُ اللہ = امام کے سوا ہر چیز فنا ہوجاتی ہے (۲۸: ۸۸)، اس سے قبل نفسِ واحدہ کے ذریعے سے تمام انسانوں کی روحیں فنا فی الامام و بقا بالامام ہوچکی ہوتی ہیں، ایسے میں بہشت اور دوزخ کا تجدّد ہوتا ہے، اس حال میں ان میں کوئی نہیں ہوتا ہے، کیونکہ یہ دونوں اب بارِ اوّل پیدا کرنے کی طرح ہیں۔
جب بعنوانِ روحانی قیامت امامِ زمانؑ کا نور عالمِ شخصی میں طلوع ہوتا ہے تو قیامت کا ہر واقعہ جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہے بصورتِ ایک زندہ معجزہ عارف کے سامنے آتا ہے، اور سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ معجزاتِ معرفت حظیرۂ قدس میں ہوتے ہیں،
اُیُم دشن ئیڎبا ایلے سِس اُیون بَبَربان
۲۵
ترجمہ: میں نے ایک اعلیٰ مقام دیکھا ہے، جہاں سب لوگ برابر ہیں، یعنی یہ اعلیٰ مقام حظیرۂ قدس ہے، جہاں سب لوگ امامِ زمانؑ کے نور میں غرق و فنا ہوجاتے ہیں، کیونکہ امامِ زمانؑ لوگوں کے لئے بھی امام ہے۔اَلْحَمْدُ للّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحسَانِہٖ ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ ۲۲ مئی ۲۰۰۲
۲۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۱۹
سورۂ مائدہ (۰۵: ۳۲) کے ارشاد میں یہ حکمت محجوب ہے کہ ہر انسان بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی ہے، اگر وہ بحدِّ فعل عالمِ شخصی ہوجاتا ہے تو اس میں روحاً دنیا بھر کے لوگ موجود ہوتے ہیں، کیونکہ ایسے شخص کی روحانی قیامت برپا ہو چکی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے تمام روحیں اس میں جمع ہوچکی ہوتی ہیں، اسی طرح بحدِّ قوّت بھی اور بحدِّ فعل بھی ہر انسان میں سب انسان موجود ہوتے ہیں، پس ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں روحاً عالمِ انسانیّت موجود ہوتا ہے، اور اس میں تمام انسانوں کے لئے بے شمار نعمتیں ہیں، اور اسی طرح اللہ تمام لوگوں کو دارالسّلام کی طرف دعوت دیتا ہے (۱۰: ۲۵)۔
سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ ۔۔۔۔۔
ترجمہ: تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور آیا ہے اور کتابِ مبین، یعنی قرآن ، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں سلامتی کے راستوں پر چلاتا ہے۔۔۔۔
سَیْراِلَی اللّٰہ = خدا کی طرف سفر فنا فی اللہ کے بعد ختم ہوجاتا ہے، مگر سَیْر فِی اللّٰہ کا سفر کبھی ختم ہونے والا نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ
۲۷
کی صفات کے ظہورات و معجزات لا محدود اور بے پایان ہیں، پس اللہ کے نور و صفات میں لا انتہا سفر کا نام سَیْر فِی اللّٰہ یعنی سلامتی کی راہوں پر چلنا ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات ۲۳ مئی ۲۰۰۲
۲۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۰
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ۔وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا (۱۷: ۸۵) وہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہو روح میرے ربّ کے (عالمِ) امر یعنی کلمۂ کُنۡ سے ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے بہت ہی کم بہرہ لیا ہے۔ یہاں اسمِ روح اگرچہ واحد ہے، لیکن حکمتِ بالغہ کی رو سے جمع بھی ہے، کیونکہ یہی روح جب جب انسانِ کامل میں ہوتی ہے، تو تمام عالمِ انسانیّت پر محیط ہوکر نفسِ واحدہ کہلاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حجّتِ قائمِ سلامُ اللہ علیھما نے ارشاد فرمایا کہ “روح ایک ہی ہے۔” معرفت کی لازوال دولت سے مالامال ہوجانے کے بعد کوئی عارف یہ بتا سکتا ہے کہ لوگ سب کے سب روحاً حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کے ساتھ تھے اور اس حقیقت کا واضح اشارہ قرآنِ حکیم (۰۷: ۱۱) میں بھی ہے، اور اس آیۂ کریمہ میں چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تم آدم میں بھی تھے اور فرشتوں میں بھی، اور سب سے اعلیٰ راز تو یہ ہے کہ تم کو آدم کے ساتھ حظیرۂ قدس میں صورتِ رحمان پر پیدا کیا گیا تھا، مگر یہ عظیم معجزہ تم سے فراموش ہوچکا ہے، ہاں یہ لوحِ محفوظ میں ریکارڈ ہے، تم آج دنیا میں چشمِ معرفت سے یہ معجزہ دیکھ
۲۹
سکتے ہو، اور کل بہشت میں بھی۔
ہم ہر پیغمبر کے ساتھ تھے، اور ہر امام کے ساتھ بھی، اور ہر عارف کے ساتھ بھی، کیونکہ ہر روحانی قیامت میں بحکمِ اَلْارْوَاحُ جُنُوْدٌ مُّجَنَّدَۃٌ تمام روحیں جمع ہوجاتی ہیں۔ وَمَاتَوْفِیْقی اِلَّا بِا اللّٰہِ۔
گلشنِ راز میں ہے:
وَقَدْ سَئَلُوا وَ قَالُوْا مَا النِّھَایَۃُ
فَقِیْلَ ھِیَ الرُّجُوعُ اِلَی الْبِدَایَۃِ
انہوں نے پوچھا اور کہا کہ نہایت کیا ہے؟ جواب دیا گیا کہ نہایت ابتداء تک رجوع (واپسی) کا نام ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات ۲۳ مئی ۲۰۰۲ ء
۳۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۱
قرآنِ حکیم میں عالمِ انسانیّت کا اوّلین بار ذکر سورۂ فاتحہ کے آغاز ہی میں ہے: بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ = عقلِ کلّی کی تعریف اللہ ہی کے لئے خاص ہے، جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے۔ الْعٰلَمِيْنَ سے عوالمِ شخصی مراد ہیں، یعنی ہر فردِ بشر ایک مستقل عالم ہے، پس انسانان عالمین ہیں = عوالمِ شخصی اور لفظ الْعٰلَمِيْنَ قرآنِ پاک میں کُلّ ۷۳ مقامات پر آیا ہے، اور اس لفظ میں ہر مقام پر عوالمِ شخصی = عوالمِ انسانیّت ہی کا ذکر ہے، حضرتِ امام جعفرالصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ عالمین سے افرادِ بشر مراد ہیں۔
حمد سے عقلِ کلّ مراد ہے، جو نورِ اعظم = نورِ محمدی = فرشتۂ اکبر = قلمِ الٰہی = عرشِ عظیم = آدمِ اوّل = آسمانِ نورُالانوار = اصلِ اوّل وغیرہ کے ناموں سے ہے، جب خدا نے ایک ایسی بے مثال مخلوق پیدا کی ہے تو یہ خود اس کی بہت بڑی تعریف ہے، اور اللہ تعالیٰ کا یہ سب سے بڑا خزانہ جو انوارِ عقل و دانش اور اسرارِ علم و حکمت سے مملو، اور جواہرِ گرانمایۂ معرفت سے لبریز ہے، اس مقصد کے پیشِ نظر ہے کہ اس کے ذریعے سے عالمین = ہر ہر عالمِ انسانیّت یعنی ہر انسان کی اعلیٰ سے اعلیٰ پرورش ہو، کیونکہ خدا کی تمام
۳۱
مخلوقات میں عالمِ جمادات اسفلِ سافلین (سب سے نیچے) ہیں، اس لئے کہ وہ بیجان ہیں، خواہ وہ جواہرات کیوں نہ ہوں، جمادات پر نباتات کو برتری ہے، کہ ان میں روحِ نباتی ہے، نباتات پر حیوان بادشاہ ہے کہ اس میں روحِ حسّی ہے، حیوان پر انسان بادشاہ ہے، اس کی وجہ نفسِ ناطقہ اور عقلِ جزوی ہے، پس حضرتِ ربُّ العزت کی روحانی اور عقلی پرورش صرف اور صرف انسانوں ہی کے لئے مخصوص ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ۲۴مئی ۲۰۰۲ ء
۳۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۲
قرآنِ عزیز میں سر تا سر عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہدایت و نصیحت اور علم وحکمت موجود ہے، قرآنِ حکیم علم و حکمت کا ایک بحرِ عمیقِ بے پایان ہے چونکہ اس کے ساتھ نورِ منزل بھی ہے (۰۵: ۱۵) اس لئے اس کی عُلُوِ شان کا کیا کہنا، اگر قرآنِ حکیم میں ستر ہزار علوم محجوب ہیں، تو وہ یقیناً سب کے سب عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہیں، پروردگار نور اور قرآن (۰۵: ۱۵) کے ذریعے سے انسانی طبقات و درجات کو ترقی دینا چاہتا ہے، لہٰذا قرآن میں جگہ جگہ پُر از حکمت نصائح ہیں، آپ قرآنی انڈیکس کے ذریعے سے معلوم کر سکتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں کتنی بار لفظِ انسان آیا ہے، اور لفظِ ناس کتنی دفعہ؟
الغرض قرآنِ حکیم عالمِ انسانیّت کی بہتری کے لئے نازل ہوا ہے، لہٰذا قرآنِ عزیز کے ہر مضمون اور ہر عنوان کے تحت انسان ہی کا ذکر آتا ہے۔
حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: (اے انسان!) کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے (اور بس) حالانکہ عالمِ اکبر تجھ میں سمایا ہوا ہے! یقیناً یہ حقیقت ہے کہ روحانی قیامت جب قائم ہوتی ہے، تو اس میں بار بار کائنات کو عالمِ شخصی میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، اور بار بار یہی عمل ہوتا رہتا ہے، ملاحظہ ہو کتابچہ روحانی سائنس کے عجائب و غرائب جو
۳۳
عملی تصوّف میں ہے۔
ای نسخۂ نامۂ الٰہی کہ تُوی وی آئینۂ جمالِ شاہی کہ تُوی
بیرون ز تو نیست ہر چہ در عالم ہست درخود بطلب ہر آنچہ خواہی کہ تُوی
ترجمہ: اے کتابِ الٰہی کا نسخہ! (یعنی خدائی کتاب کی اصل) کہ یہ تو خود ہی ہے، اور اے حقیقی بادشاہ کے جلال و جمال کا آئینہ ! کہ یہ تو خود ہی ہے، کائنات میں جو کچھ ہے وہ (اپنی باطنی اور روحانی صورت میں) تجھ سے باہر نہیں (پس) تو جو کچھ چاہتا ہے وہ اپنے باطن (یعنی اپنی ذات) ہی میں طلب کرلے(کیونکہ سب کچھ) تو خود ہی ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ۲۴مئی ۲۰۰۲ ء
۳۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۳
سورۂ حُجرات (۴۹: ۱۳)يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ۔
ترجمہ: لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے، یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
اس آیۂ کریمہ کے ظاہری معنی سب کو معلوم ہیں، مگر باطنی تاویل حجاب میں محجوب ہے، آپ امامِ مبین علیہ السّلام کو آدمِ زمانؑ مان سکتے ہیں، پرہیزگاری کا خاص معیار کلمۂ تقویٰ ہے (۴۸: ۲۶) جوحضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کے کام کے لئے ایک بڑا طاقتور اسمِ اعظم ہے جس کی معرفت منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں ہوتی ہے۔
انسانی روح قادرِ مطلق کا سب سے بڑا معجزہ ہے کہ یہ بیک وقت ایک میں بھی ہے اور سب میں بھی ہے، بہشت میں بھی ہے اور دنیا میں بھی ہے، درجات میں بھی ہے، اور مساوات میں بھی ہے۔
۳۵
اے عزیزان! روح کو حظیرۂ قدس میں دیکھو، یہاں روح کیلئے کیا نہیں ہے؟
جواب: سب کچھ ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
سنیچر ۲۵، مئی ۲۰۰۲ ء
۳۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۴
سورۂ مریم (۱۹: ۹۳ تا ۹۵) کا ارشاد ہے:اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا ہ لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا ہ وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا۔
ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں، سب اس کے حضور بندوں کی حیثیت سے آنے والے ہیں، یعنی حشرِ روحانی سے محشور ہونے والے ہیں، اس نے ان سب کو گھیر لیا ہے، اور ان کو عددِ واحد = نفسِ واحدہ میں ایک کرکے شمار کر رکھا ہے، (یعنی روحانی قیامت میں سب روحیں آکر نفسِ واحدہ میں فنا ہوجاتی ہیں) اور پھر تمام روحیں اسی کے ساتھ فردِ واحد بن کر خدائے واحد میں فنا ہوجاتی ہیں۔
اس آیۂ کریمہ کی تاویلی حکمت میں عالمِ انسانیّت کے حق میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی زبردست عنایات کا ذکرِ جمیل ہے، یقیناً روح ایک ہی ہے، مگر لوگوں کے پاس علم و معرفت کے آئینے الگ الگ اور بہت ہی مختلف ہیں، لہٰذا روح کے بیان میں تضادات پیدا ہوگئے ہیں۔
اگر آپ کا آئینۂ معرفت پاک و صاف اور روشن ہے تو آپ اپنی روح کو اصل سے واصل پائیں گے، اور آپ یقین کریں گے کہ خدا نے جو
۳۷
کام کرنے کا ارادہ کیا تھا، وہ کام ہوچکا ہے، ارشاد ہے:وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا ۔ (۳۳: ۳۷) اور اللہ کا فرمان اور کام خواستۂ خدا کے مطابق بجا لایا ہوا ہوتاہے۔
سوال: کیا خدا کسی چیز کو وجود میں لانے کے لئے کلمۂ کُنۡ (ہوجا) کہتا ہے یا اس کا ایسا ارادہ کرنا ہی گویا کُنۡ فرمانا ہے؟ جواب: صرف اللہ کا ارادہ ہی کافی ہے، اور کلمۂ کُنۡ ہمیں سمجھانے کے لئے ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
سنیچر۲۵مئی ۲۰۰۲ ء
۳۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۵
سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳) ترجمہ: اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے، (عصر) زمانے کی قسم، انسان در حقیقت خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو حقیقی معنوں میں ایمان لائے، اور نیک اعمال کرتے رہے، اور ایک دوسرے کو حق و حقیقت کی نصیحت کرتے رہے اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔
انسان اپنی ذات سے برتر چیزوں کی قسم کھاتا ہے، مگر اللہ کی ذات ایسی پاک و برتر ہے کہ اس سے نہ تو کوئی شیٔ برتر ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس کے برابر ہے، لہٰذا خدا ایسی مقدّس چیز کی قسم کھاتا ہے، جو اس کے بہت قریب کی ہو، اور ایسی مقدّس ہستیاں حدودِ دین ہیں۔
پس سورۂ عصر میں اللہ نے اساس کی قسم کھائی ہے، کہ عصر سے اساس مراد ہے، ملاحظہ ہو کتاب وجہِ دین، کلام۔ ۲۰، ص ۲۰۷۔۲۰۸ یہاں قَسم کے بعد جوابِ قَسم میں انسان کو خسارے سے خبردار کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے عالمِ انسانیّت کے لئے سب کچھ کررکھا ہے، مگر انسان خود اتنا غافل اور ایسا جاہل ہے کہ اسے اپنے خسارے پر خسارے یعنی مسلسل خسارے کی کوئی خبر ہی نہیں۔
۳۹
اللہ نے اساس (رسولؐ کے وصی یعنی علیؑ) کی قسم کھائی، اس میں علم و حکمت کے دروازے کی طرف اور سلسلۂ نور کی طرف اشارہ ہے، خدا کرے کہ ہر انسان اپنی آخرت کی تجارت میں کوئی خسارہ نہ کرے، وہ چشمِ بصیرت سے اپنا نامۂ اعمال اور بہشتِ حظیرۂ قدس کو دیکھے اور پہچان لے، آمین! یَا رَبَّ العٰلَمِین!
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار۲۶مئی ۲۰۰۲ ء
۴۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۶
علم ومعرفت کی روشنی میں یہ حقیقت معلوم ہوئی ہے کہ آدمِ اوّل سے قبل جو دورِ روحانی تھا، اس میں سب لوگ روحاً و باطناً ایک ہی امّت تھے (۰۲: ۲۱۳) اور ہر نفسِ واحدہ میں تمام لوگ روحاً و باطناً ایک ہی امّت ہوجاتے ہیں، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے وقت کا امام = نفسِ واحدہ = مجموعۂ خلائق اور ایک ہی فرمانبردار امّت تھا (۱۶: ۱۲۰) اگر آپ امامِ زمانؑ کا عطا کردہ اسمِ اعظم کے پاک ذکر میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر روحانی قیامت کے ذریعے سے دنیا بھر کے لوگ روحاً و باطناً آپ میں جمع ہوکر ایک ہی امّت ہوجائیں گے، کیونکہ معرفت کے ہر اہم اور عظیم کام کا تجدُّد ہوتا ہے، یا یوں کہا جائے کہ ہر چیز ایک دائرے پر گردش کر رہی ہے، (۲۱: ۳۳)، (۳۶: ۴۰) ۔ اَلْارْوَاحُ جُنُوْدٌ مُّجَنّدَۃٌ = روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں تھیں اور ہمیشہ اسی طرح ہوتی ہیں۔
ہر روحانی قیامت میں سب لوگ کسی عالمِ شخصی میں جمع ہوتے ہیں پس قرآنِ عزیز میں جہاں جہاں قیامت کا ذکر آیا ہے، وہاں عالمِ انسانیّت کا ذکر ہے، جہاں جہاں لفظِ انسان ہے اور جہاں جہاں لفظِ ناس ہے، وہاں عالمِ انسانیّت ہی کا تذکرہ ہے، اور جہاں جہاں اللہ کا کوئی اسمِ صفت
۴۱
آیا ہے اس میں بھی عالمِ انسانیّت کی طرف ایک اشارہ ہے، مثلاً ربّ لوگوں کا پروردگار، وغیرہ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار،۲۶مئی ۲۰۰۲ ء
۴۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۷
سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) کا ارشاد ہے: وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْهًا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ : اور آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات سے) جو بھی ہیں خوشی سے یا مجبوری سے سب اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔
لوگ از خود اللہ کے حضور نہیں جا سکتے ہیں، مگر نفسِ واحدہ میں فنا ہوکر، اور یہی قانونِ لفیف ہے (۱۷: ۱۰۴) یعنی خدا بذریعۂ روحانی قیامت لوگوں کو نفسِ واحدہ میں لپیٹ لیتا ہے، لفیف = لپٹا ہوا = سمٹا ہوا۔
قیامت میں بار بار روحوں کا حشر و نشر ہوتا ہے، یعنی کائنات بھر سے روحیں عالمِ شخصی میں جمع کی جاتی ہیں، پھر ساری کائنات میں بکھیر دی جاتی ہیں، اس حیران کن معجزے میں بہت سی حکمتیں ہیں۔
فنا فی اللہ سے پہلے قانونِ فرد ہے، یعنی جو لوگ نفسِ واحدہ کے ساتھ ہیں ان کو فردِ واحد ہوجانا ہے، تاکہ خدائے واحد میں فنا ہوسکیں (۰۶: ۹۴) (۱۹: ۸۰) (۱۹: ۹۵)۔
قانونِ مَدَالظِّلَّ (۲۵: ۴۵) تاویلی مفہوم: کیا تم نے حظیرۂ قدس میں اپنے ربّ کی طرف نہیں دیکھا کہ کس طرح اپنے نور کے عکس کو پھیلاتا ہے اور
۴۳
لپیٹتا ہے۔ یہاں سایہ مثال ہے اور عکسِ نور ممثول ہے، عقل و دانش سے غور کرو۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر۲۷مئی ۲۰۰۲ ء
۴۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۸
سورۂ روم (۳۰: ۳۰) کا پُرحکمت ارشاد ہے: فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًاۭفِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَاۭلَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِۭذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔
ترجمہ: اللہ کی (ایک ہی) فطرت ہے (بس) یہی ہے جس پر اس نے (تمام ) انسانوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کے پیدا کرنے میں کوئی تبدیلی نہیں، اور وہی دینِ قائم ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔
آیۂ فطرت کا یہ جامعُ الجوامع فرمان علم و حکمت کا ایک ایسا خزانہ ہے، جس میں عالمِ انسانیّت سے متعلق پیدا ہونے والے تمام پیچیدہ سوالات کیلئے تسلی بخش جوابات موجود ہیں۔
اُیُم دشن ئیڎبا ایلے سس اٰیون بَبربان
ازلے ببربم جون ابدے ببر بُٹ اُیم
میں نے ایک اعلیٰ مقام دیکھا ہے، جہاں سب لوگ برابر ہیں، جس طرح لوگ ازل میں ایک اور برابر تھے، اسی طرح ان کا ابد میں بھی برابر اور ایک ہوجانا بڑی خوشی کی بات ہے۔
آپ قرآن میں قانونِ فرد اور قانونِ فنا فی اللہ کو پڑھیں، آپ
۴۵
مساواتِ رحمانی کو پڑھیں، آپ قانونِ یک حقیقت کو سمجھ لیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر۲۷مئی ۲۰۰۲ ء
۴۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۲۹
سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَهِدْنَا ڔ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ ہ
سوال: کتنے آدم ہوئے ہیں؟ جواب: خدا کی قدیم بادشاہی میں بیشمار آدموں کے لاتعداد ادوار گزرچکے ہیں، چونکہ آدم آئینۂ اسماء و صفاتِ خداوندی ہے، لہٰذا اس آئینے کو ہمیشہ ہمیشہ موجود ہونا چاہئے۔
مذکورۂ بالا آیۂ شریفہ کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ اس دورِ اعظم کے آغاز میں جو آدم تھا وہ بھی اگلے آدم کے اعتبار سے بنی آدم میں سے ایک تھا، لہٰذا جب اس پر روحانی قیامت آگئی، تو اس کے لئے قیامت کے تمام معجزے ہوگئے، جن کا ہم نے بار بار ذکر کیا ہے، اس کی پشت سے تمام ذریّت = انسانی ارواح کو خدا نے حظیرۂ قدس پر بلند کر لیا، جہاں حضرتِ ربُّ العزّت نے روحوں کو حظیرۂ قدس کے جملہ معجزات دکھائے۔
ہر روحانی قیامت میں عہدِ الست کا تجدُّد ہوتا ہے، یہ قرآنِ حکیم کی ایک شہادت ہے جس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ عالمِ انسانیّت کو اوجِ کمال تک لے جانا چاہتا ہے، اس کو یہ بات پسند نہیں کہ
۴۷
انسان پستی کی طرف جائے۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں عالمِ انسانیّت کے لئے حقیقی خیر خواہ بنائے! آمین! تاکہ ہم قرآنِ حکیم ہی کی روشنی میں عالمِ انسانیّت کی کوئی علمی خدمت کر سکیں، آمین ! یا ربَّ العٰلمین!
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل۲۸ مئی ۲۰۰۲ ء
۴۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۰
سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۴ تا ۰۵)اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِـتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ ۭ مَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا شَفِيْعٍ ۭ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوْنَ ہ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَاۗءِ اِلَى الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗٓ اَلْفَ سَـنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ۔
ترجمہ: وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کے بعد عرش پر جلوہ فرما ہوا، اس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤگے؟ وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کی روداد اوپر اس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار سے ایک ہزار سال ہے۔
تاویلی مفہوم: اللہ تعالیٰ کے سات زندہ دن یہ ہیں: حضرتِ آدمؑ = اتوار، حضرتِ نوحؑ = سوموار، حضرتِ ابراہیمؑ = منگل وار، حضرتِ موسیٰؑ = بدھوار، حضرتِ عیسیؑ = جمعرات، حضرتِ محمدؐ = جمعہ، حضرتِ قائمؑ =
۴۹
سنیچر، ان میں سے ہر دن ہزار سال کا ایک دور ہے، پس اللہ نے چھ دن (چھ ہزار سال) میں عالمِ دین کو پیدا کیا اور ساتوین دن نورِحضرتِ قائمؑ کے عرش پر جلوہ فرما ہوکر مساواتِ رحمانی کا کام کرنے لگا۔
مذکورہ آیۂ کریمہ میں یہ مفہوم بھی ہے کہ اللہ عالمِ امر سے ہزار سالہ پروگرام کے ساتھ ایک عظیم روح کو عالمِ انسانیّت میں بھیجتا ہے، جو ہزار سال میں اپنا کام پورا کرکے خدا کی طرف رجوع ہوجاتی ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل۲۸مئی ۲۰۰۲ ء
۵۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۱
سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۔ آپ ترجمہ قرآن میں بھی دیکھیں۔
تاویلی مفہوم: اللہ وہی ہے، جس نے عالمِ دین کے نمونے پر عالم شخصی کے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس کا عرش = تخت پانی پر ظاہر ہوا البتہ یہ تاویلی معجزہ تھا، پھر یہ معجزہ در معجزہ ہوکر عرش پانی پر ایک کشتی کی صورت میں نظر آیا اور اس سفینہ میں حضرتِ امام علیہ السّلام جلوہ گر تھا، زبانِ مبارک پر ایک مخفی اسمِ اعظم جاری تھا۔
اسی معجزۂ اعظم کا ذکرِ جمیل سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۴۱) میں بھی ہے:وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ۔
تاویلی مفہوم: اور ان کے لئے ایک بہت بڑا معجزہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی ذرّیت (ذرّاتِ روحانی) کو بھری ہوئی کشتی مین سوار کردیا، روحوں سے بھری ہوئی کشتی خود صاحبِ سفینہ ہے، کیونکہ اللہ کا زندہ عرش، زندہ اسمِ اعظم ، اور تمام روحوں سے بھری ہوئی زندہ کشتی وہی ہے، یعنی امامِ آلِ محمدؐ ، اگر یہ بھری ہوئی کشتی جسمانی ہوتی تو پھر مزید لوگوں کے لئے گنجائش
۵۱
ہی نہ ہوتی، عارفِ رومی کہتا ہے:
بانوح در کشتی بُدم بایوسف اندر قعرِ چاہ
میں نوحؑ کے ساتھ کشتی میں تھا اور یوسفؑ کے ساتھ قعرِ چاہ میں بھی۔ کیا یہ جسم کی بات ہے یا روح کی؟
اس میں علم و عمل کا بہت بڑا امتحان بھی ہے اور اللہ کا انتہائی عظیم احسان بھی، کہ اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے اپنے معجزات کا ایک سبب بناکر عالمِ انسانیّت کو عرش تک بلند کر لیا، امامِ عالیمقامؑ نے فرمایا: تم عرشِ عظیم پر پہنچو۔
رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ (۴۰: ۱۵) درجات کا بلند کرنے والاصاحبِ عرش (القرآن) ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۲۹ مئی ۲۰۰۲ ء
۵۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۲
سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳)اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ ۠ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا ۣ ثُمَّ اَحْيَاھُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَي النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُوْنَ ۔
ترجمہ: کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں (بلکہ بے شمار) تھے اللہ نے ان سے فرمایا: مرجاؤ، پھر اس نے ان کو زندہ کیا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔
تاویل: اس پُرحکمت آیت میں روحانی قیامت کا یہ بیان ہے کہ دنیا بھر کے بے شمار لوگ صورِ اسرافیل کی قیامت خیز آواز سے ڈر کر اس عالمِ شخصی میں داخل ہوجاتے ہیں جس میں قیامت کی دعوت ہے، چونکہ وہاں اسرافیل کے ساتھ ساتھ عزرائیل بھی اپنا کام کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا سب لوگ خوش بختی سے مرکر نفسِ واحدہ میں زندہ ہوجاتے ہیں۔
عالمِ انسانیّت پر اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا فضل و کرم ہے کہ اب یہ سب کے سب دریائے رحمت میں بہتے بہتے جنّت میں جا پہنچتے ہیں۔
اس آیۂ کریمہ کے آخر میں ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ سب لوگوں
۵۳
کے حق میں یکسان فضل کرنے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شاکر اور قدردان نہیں ہیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ۲۹ مئی ۲۰۰۲ ء
۵۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۳
سورۂ انشقاق (۸۴: ۰۶ تا ۰۹) کا مبارک ارشاد ہے:يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ ۚفَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ ۙفَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا ۙوَّيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا
ترجمہ: اے انسان تجھ کو تکلیف اٹھانی ہے اپنے ربّ تک پہنچنے میں سہہ سہہ کر پھر اس سے ملنا ہے (دیدار کرنا ہے)۔ سوجس کو ملا اعمالنامہ اس کا داہنے ہاتھ میں تو اس سے حساب لیں گے آسان حساب اور پھر کر آئے گا اپنے لوگوں کے پاس خوش ہوکر۔
تاویل: جب کوئی بھی انسان اللہ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم کے ذکر و عبادت میں کامیاب ہوجاتا ہے تو دنیا کی زندگی ہی میں اس کی روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اور روحانی قیامت وہ ہے جس میں گوناگون قربانیاں دینی پڑتی ہیں، یہ ساری قربانیاں عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہوتی ہیں، کیونکہ عالمِ انسانیّت ہی میں سب ہیں۔
آپ اس آیۂ کریمہ میں عقل و دانش سے غور کریں، یہ عارفانہ قیامت دنیا ہی میں ہے، کیونکہ روحانی قیامت کے خزانوں سے مالا مال ہوکر شادان و فرحان اپنے لوگوں کی طرف لوٹ آنا دنیا ہی میں ممکن اور
۵۵
منطقی ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات۳۰ ،مئی ۲۰۰۲ ء
۵۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۴
تمہارے پاس جو اسمِ اعظم (بول) ہے وہ دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔
ان شاء اللہ ہم غلامانِ امام علیہ السّلام امام کی خوشنودی کیلئے عالمِ انسانیّت سے بار بار قربان ہوتے ہوئے اسمِ اعظم کے نتائج و ثمرات کو عیالُ اللہ کے نام پر کردیں گے، کیونکہ عیالُ اللہ کے لئے کام کرنا، اللہ کی رضا کا باعث ہے، اور بہت بڑی حکمت اسی میں ہے کہ ہم تمام انسانوں کو نفسِ واحدہ میں ایک ہی روح قرار دیں، جیسا کہ حضرتِ امام سلطان محمد شاہؑ کا فرمانِ مبارک ہے: تم ہماری روحانی اولاد ہو، اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے۔”
یقیناً تمام انسانوں کی ایک ہی روح ہے، یہی عالمِ انسانیّت کی روح ہے، یعنی نفسِ واحدہ ہے۔
موصوف امامؑ نے ہمیں مونوریالٹی = یک حقیقت کا انقلابی تصوّر دیا ہے جس میں تمام انسانوں کی ایک ہی ازلی حقیقت ہونے کا اشارہ ہے جیسے فنا فی اللّٰہ و بقاء با للّٰہ کا صوفیانہ تصوّر ہے، اور جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے کہ اے ابنِ آدم! میری حقیقی اور کلّی اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی
۵۷
مثل بنا دوں گا۔۔۔۔
اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ حظیرۂ قدس کی عرفانی بہشت میں یہ تمام اسرارِ معرفت موجود ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانَہٖ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات ۳۰، مئی ۲۰۰۲ ء
۵۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۵
قرآنِ عزیز میں لفظِ روح ظاہراً واحد اور باطناً جمع کے لئے بھی ہے، نیز روح نور کے معنی میں بھی ہے، خصوصاً وہ الٰہی روح جو آدم میں پھونک دی گئی تھی۔
یاد رہے کہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام میں الٰہی روح نفخِ صور اور روحانی قیامت کے ذریعے سے پھونک دی گئی تھی، اور ہر روحانی قیامت میں تمام انسانوں کی روحیں جمع ہوتی ہیں، اور یہاں یہ حکمت بھی یاد رہے کہ آدم پہلا نفسِ واحدہ تھا جس میں تمام انسانی روحیں حظیرۂ قدس تک جاتے جاتے فنا ہوچکی تھیں، اب آدم جس میں عالمِ انسانیّت فنا ہوچکا تھا فردِ واحد بن کر خدائے واحد میں عارفانہ فنا ہوگیا، اور اسی حالت میں اللہ نے آدم کو صورتِ رحمان پر پیدا کیا۔
میں یہ معرفت کا عظیم راز قبلاً بتا چکا ہوں کہ تم آدم میں مسجود بھی اور فرشتوں میں ساجدین بھی تھے، اس یقینی حقیقت کو سمجھنے کے لئے سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) میں چشمِ بصیرت سے دیکھیں اور خوب غور کریں، نیز سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۹) کو بھی سیکھیں، اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُّجَنَّدَہ کے مطابق تمام انسانی روحیں آدم کے ساتھ موجود تھیں، یہ تمام انسانی روحیں آدم کی کاپیاں بھی تھیں ، اور اولاد بھی
۵۹
تھیں۔
آپ اس قانونِ نعمت میں بھی سوچیں : اݹ منݳسن اپݵ = کوئی نعمت غیر ممکن نہیں۔
وَاٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ (۱۴: ۳۴) = اس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ۳۱، مئی ۲۰۰۲ ء
۶۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۶
قرآنِ حکیم ہی کی روشنی میں عالمِ انسانیّت عالمِ شخصی ہے، جس میں حظیرۂ قدس کے نام سے عرفانی بہشت ہے، یہاں اسی عالمِ انسانیّت میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوجاتا ہے، جو اصلاً اللہ کا نورِ منزل ہے (۰۵: ۱۵) جس کی برکت سے عالمِ شخصی = عالمِ انسانیّت کائناتی بہشت بن جاتا ہے۔
اللہ جلِّ جلالہ نے امامِ مبین علیہ السّلام کو نہ صرف پرہیزگاروں کا امام بنایا ہے، بلکہ تمام لوگوں کے لئے بھی امام مقرر فرمایا ہے، اور روحانی قیامت کا کام بھی امام ہی کے سپرد ہے تاکہ امامِ زمانؑ قیامت کے زور و زبردستی سے تمام لوگوں کو بہشت میں داخل کردے (۱۷: ۷۱)۔
حظیرۂ قدس کی عرفانی بہشت میں انسانوں کی سلامتی اور عزت و برتری کے بڑے عجیب و غریب اسرار کے خزانے محجوب ہیں، سبحان اللہ! وہ القابض اور الباسط کا اشارہ، وہ کتابِ مکنون، وہ کلمۂ باری، وہ کتابِ ناطق، وہ آفتابِ نور، وہ ماہِ کامل، وہ جنّات کا سمندر سے موتی نکالنا، وہ ستاروں کا گرنا، وہ پُرحکمت مشارق و مغارب، وہ قرآنی معجزات، وہ نور کی سعی، وہ صبحِ ازل اور شامِ ابد، وہ لقاء، وہ دیدار! وہ فناء، وہ بقاء، وہ تمام انسانوں کی وحدت۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ۳۱ ،مئی ۲۰۰۲ ء
۶۱
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۷
سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷) کا پاک و پُرحکمت ارشاد ہے:وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ۔ ترجمہ: اے نبیؐ! ہم نے تو تم کو دنیا والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے، یعنی ہر عالمِ شخصی= عالمِ انسانیّت کے لئے، پھر یقیناً اللہ کی رحمتِ کلّ کا یہ پروگرام جو تمام انسانوں کے حق میں بنا ہوا ہے، آخر کار پورا ہوکر رہے گا، کیونکہ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ اللہ کسی کام کا ارادہ کرے اور وہ نہ ہوجائے۔
سورۂ مجادلہ (۵۸: ۲۱) کا ارشاد ہے:كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ ۔ ترجمہ: اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول یعنی تمام پیغمبران ہی غالب ہوکر رہیں گے، فی الواقع اللہ زبردست اور زور آور ہے۔
غالب آنا حربی لفظ = اصطلاح ہے، لہٰذا اس فرمانِ الٰہی میں روحانی قیامت اور روحانی جنگ کا تذکرہ ہے، چنانچہ ہر امام کے زمانے میں ایک روحانی قیامت اور اس میں ایک روحانی جنگ ہوتی آئی ہے، اس کی معرفت صرف اورصرف عرفاء ہی کو حاصل ہوتی ہے، اور بس۔
اگر آپ روحانی قیامت اور روحانی جنگ کے معجزات کو دیکھنا چاہتے
۶۲
ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ کے اس فرمان پر عمل کریں، وہ فرمانِ مبارک یہ ہے: مُوْتُوْا قَبْلِ اَنْ تَمُوْتُوْا = تم اپنی جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مرجاؤ، تاکہ تمہاری روحانی قیامت برپا ہوسکے اور روحانی جنگ میں تم اللہ کی مدد سے کائنات کو مسخر کرسکو۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، یکم جون ۲۰۰۲ ء
۶۳
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۸
کتابِ احادیثِ مثنوی ص ۶۴ پر یہ حدیثِ شریف ہے: یَأتِی اَقْوَامٌ اَبْوَابَ الْجَنَّۃِ فَیَقُوْلَوْنَ اَلَمْ یَعِدْ نَا رَبُّنَا اَنْ نَرِدَ النَّارَ فَیُقَالُ مَرَرْتُمْ عَلَیْھا وھِیَ خَامِدَۃٌ۔
ترجمہ: بہت سے لوگ جنّت کے دروازوں پر آکر کہیں گے کہ آیا ہمارے ربّ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ تم سب کو دوزخ کی آگ سے گزرنا ہے (۱۹: ۷۱) ان سے کہا جائے گا کہ ہاں اللہ کا یہ فرمان حق = سچ ہے کہ تم سب آتشِ دوزخ سے گزر چکے ہو در حالیکہ وہ بجھائی ہوئی تھی۔
پس عالمِ انسانیّت کی نجات کی خاطر نہایت مہربان اللہ کے پاس بڑی عجیب و غریب رحمتیں اور حکمتیں ہیں۔
قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ : اَلخَلْق عِیَالیْ (حدیثِ قدسی ہے) تمام مخلوق میرا کنبہ ہے۔۔۔۔
قرآنِ حکیم میں اللہ کے غضب کا ذکر تو آیا ہے، لیکن اللہ کے اسمائے صفات میں کوئی ایسا اسم نہیں جس میں غصّے کے معنی ہوں۔
میں علم و حکمت اور معرفت کی روشنی میں یہ بتا سکتا ہوں کہ اللہ کے ہر اسمِ صفت میں عالمِ انسانیّت کو حظیرۂ قدس تک پہنچا دینے کے معنی ہیں۔
۶۴
ان شاء اللہ ہم اس کی کچھ مثالیں پیش کریں گے، وَمَا توفیقی الّا بِاللّٰہ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، یکم جون ۲۰۰۲ ء
۶۵
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۳۹
سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) کا بابرکت اور پُرحکمت ارشاد ہے:يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاۗءَ كَـطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۭ كَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ ۭ وَعْدًا عَلَيْنَا ۭ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ ۔
ترجمہ: وہ دن جب کہ آسمان = کائنات کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں، جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتداء کی تھی اسی طرح ہم پھر اس کا اعادہ کریں گے، یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے اور یہ کام ہمیں بہر حال کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کائناتِ باطن کو ایسے عالمِ شخصی میں لپیٹتا ہے جس میں امامِ زمانؑ کے نور طلوع ہونے سے روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، یہاں ایک بڑا مشکل سوال پیدا ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ سورۂ ھود (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸) کے مطابق دوزخ اور جنّت کی عمر اتنی ہی ہے، جتنی کائنات کی عمر ہے، لہٰذا کائنات کو لپیٹنے سے بہشت اور دوزخ دونوں کی عمر ختم ہوجاتی ہے، ہاں یہ حقیقت ہے، لیکن یہ سرِّ عظیم بھی تو ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کائناتِ باطن کا تجدّد کرتا ہے، اور ایک تاویل کے مطابق ستر ہزار روحانی کائناتیں بناتا ہے۔
جس طرح میوہ دار درخت کے پھل میں تخم اور اس میں مغز ہوتا ہے
۶۶
جس سے پھر وہی درخت پیدا ہوتا ہے، اسی طرح اللہ کائناتِ باطن کو لپیٹ کر گوہرِ عقل بناتا ہے، پھر گوہرِ عقل سے باطنی کائنات پیدا کرتا ہے، اگرچہ یہ کام دائرۂ درخت اور پھل کی طرح ہے، لیکن یہ عالمِ خلق نہیں بلکہ عالمِ امر ہے، لہٰذا اس میں تخم اور درخت کے درمیان وقت نہیں لگتا ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ۲، جون ۲۰۰۲ ء
۶۷
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۰
سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) جو قلبِ قرآن ہے، اس کا ارشاد ہے: اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ = ہم یقیناً مردوں کو زندہ کرتے ہیں، جو کچھ افعال انہوں نے کئے وہ سب ہم لکھتے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ثبت کرتے ہیں، اور ہر چیز (یعنی تمام چیزوں) کو امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے۔
اس آیۂ کریمہ کا نام کلیّۂ امامِ مبین بھی ہے، اس کی روحانی تفسیر و تاویل اور معرفت عالمِ شخصی، روحانی قیامت اور حظیرۂ قدس میں مکمل ہوجاتی ہے، حضرتِ امام محمد باقر علیہ السّلام کا یہ ارشاد قوانینِ معرفت میں سے ہے: “جو کچھ اللہ کے بارے میں کہا گیا ہے وہ ہم اماموں سے متعلق ہے ۔”
پس خدا کے حکم سے امامِ مبین ہی روحانی قیامت کو برپا کرتا ہے اور کائناتِ باطن کے ساتھ عالمِ انسانیّت کو حظیرۂ قدس میں لپیٹتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسانوں کو عالمِ سفلی سے عالمِ علوی میں لے جاتا ہے، ہم نے یہ رازِ روحانی آپ کو بتا دیا ہے کہ امامِ مبین اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، لہٰذا وہ روحانی قیامت کو برپا کر سکتا ہے جس میں عموماً سب لوگوں کا
۶۸
فائدہ ہے اور خصوصاً پرہیزگاروں کا فائدہ ہے۔
قرآنِ حکیم میں جس طرح لفظِ خلیفہ کے معنی میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں، بالکل اسی طرح لفظِ امام کے معنی بھی اپنی جگہ پر مضبوط ہیں، پس منصبِ خلافت کو قصّۂ آدمؑ میں دیکھیں اور منصبِ امامت کو قصۂ ابراہیمؑ میں دیکھیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۲ جون ۲۰۰۲ ء
۶۹
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۱
اللہ جلَّ جلالہ کا مقدّس و مبارک زندہ اسمِ اعظم آپ سب کو بہت کچھ دینے کے لئے تیار ہے، لیکن اس غفلت و کاہلی کے لئے کیا کیا جائے کہ آپ انعامات لینے کے لئے تیار نہیں ہیں، پھر بھی اللہ نہایت مہربان اور مسببُ الاسباب ہے، وہ طرح طرح کے وسائل سے تمام انسانوں کو نفسِ واحدہ کے ساتھ حظیرۂ قدس کے عرفانی بہشت میں داخل کردیتا ہے، کیونکہ جب زمانے کی روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو اس میں تمام لوگ روحاً حاضر اور شامل ہوجاتے ہیں، یقیناً روحانی قیامت ہی وہ واحد وسیلہ ہے جس میں ہمیشہ عالمِ انسانیّت کے لئے نجات ہے۔
آج ہم اور ہمارے تمام ساتھی شرق و غرب میں عالمِ انسانیّت کی علمی خدمت کے لئے کمر بستہ ہوچکے ہیں، ان شاء اللہ ہم عیال اللہ کی اس پُرخلوص خدمت میں کامیاب ہوجائیں گے، کیونکہ عصرِ حاضر میں اس مقدّس خدمت کی سخت ضرورت ہے اور دوسری طرف جبکہ یہ زمانہ دورِ قیامت = دورِ تاویل = دورِ کشف ہے۔
اگر کسی شخص نے اللہ کے فضل و کرم سے زندہ اسمِ اعظم اور روحانی قیامت کے عظیم معجزات کو دیکھا ہے تو کیا ایسے معجزات قرآنِ حکیم کے تاویلی معجزات
۷۰
سے الگ ہوسکتے ہیں؟ اگر ایک ہیں، تو پھر ان معجزات کا کوئی مقصد بھی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی مقصد ہے، تو وہ کیا ہے؟
اگر کوئی شخص اللہ کے پُرحکمت معجزات کو دیکھنے کے باوجود بہرا، اندھا، اور گونگا ہوجاتا ہے تو یہ اس کی بہت بڑی بدبختی ہے، لہٰذا ہم بہت ڈرتے ہیں اور عالمِ انسانیّت کے مفاد میں جو قرآنی اور روحانی اسرار معلوم ہوئے ہیں، ان کا اشارہ کرتے ہیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۳، جون ۲۰۰۲ ء
۷۱
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۲
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلیٰ غَضَبِیْ = میری مہربانی میرے غصّے سے آگے بڑھ گئی۔ ( یعنی میری رحمت میرے غضب سے بہت زیادہ ہے)۔
قرآن و حدیث اور خود مولا کے کلام میں علی مرتضیٰ کے بہت سے اسماء والقاب ہیں، چنانچہ کتابِ ناسخ التواریخ میں مولا علیؑ کے تین سو اسماء ہیں، ہم یہاں ان سب کا بیان نہیں کرسکتے ہیں، مگر کتابِ سرائر سے صرف چند ضروری اسماء پیش کرتے ہیں:۔
دِیْنُ اللّٰہ ، نفسُ اللّٰہ، مواقع النجوم، علیُ الکبیر، اُذُنُ اللّٰہ، جَنْبُ اللّٰہ، وجہ اللّٰہ، حکیم: قرآن میں ، کُلّاً: توراۃ میں، حَتماً: انجیل میں ، بشراً: زبور میں، اَوَّلاً وَآخراً: صُحفِ ابراہیم میں، خبیر، علیم، قدیم، بصیر، عارف۔
نفسُ اللّٰہ : (۰۳: ۲۸؛ ۰۳: ۳۰)(۰۶: ۱۲)(۰۶: ۵۴) کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلیٰ نَفْسِہٖ الرَّحْمَۃ = تمہارے ربّ نے اپنے نفس (امام مبین میں) رحمت لکھ دی ہے۔
حدیث شریف ہے: اِنَّ اللّٰہ تعالیٰ لَمَاخَلَقَ الْخَلْقَ کَتَبَ
۷۲
بِیَدِہٖ عَلیٰ نَفْسِہٖ اَنَّ رَحْمَتِیْ تَغْلُبُ غَضَبِیْ = یقیناً جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اس وقت اپنے ہاتھ سے اپنے نفس (امام مبین) میں لکھا کہ میری رحمت میرے غصّے پر غالب ہوتی رہے گی۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانَہٖ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۴، جون ۲۰۰۲ ء
۷۳
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۳
سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ =اللہ کے نام سے جو بے انتہا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ ۙ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا ۙ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا۔
سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۲۴) کے پُرحکمت فرمانِ الٰہی کو دیکھیں، کیا یہ بابرکت ارشاد تمام زمانوں پر محیط نہیں ہے؟ کیونکہ جب زمانۂ ابراہیم کے لوگوں کے لئے امامت اللہ کی رحمت تھی تو پھر یہ رحمتِ الٰہی ہر زمانے میں کیوں نہ ہو؟ اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یہ اللہ کی رحمت بصورتِ امامِ زمانؑ ہر زمانے میں موجود اور حاضر ہے، آپ قرآن (۰۴: ۵۴) میں دیکھیں، چنانچہ حضرتِ ابراہیمؑ اورحضرتِ محمدؐ کے درمیان امامانِ مستقر کا جو سلسلہ ہے اس میں آخری نام حضرتِ ابوطالب علیہ السّلام کا ہے، آپؑ نے آنحضرتؐ کو اسمِ اعظم کی مقدّس تعلیم دی تھی، جس کا نورانی معجزہ بعنوانِ روحانی قیامت = عرفانی قیامت غارِ حرا میں ہوا تھا، روحانی قیامت/عرفانی قیامت کے پاک و اعلیٰ راستے میں ناطق، اساس، اور امام رہنما ہیں، پھر باب، حجّت، داعی وغیرہ بھی ان کے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں، یعنی صفِ اوّل کے مومنین و مومنات بھی۔
۷۴
سورۃ نصر کی تاویل: جب اللہ کی مدد (بصورتِ فرشتگانِ روحانی قیامت) اور کائناتی فتح آئی، تو اے نبیؐ تم نے دیکھا کہ تمام لوگ روحاً جوق در جوق خدا کے دین (یعنی تجھ) میں داخل ہورہے تھے، پس اب تم حظیرۂ قدس میں عقلِ کلّ (حمد) کے ذریعے سے اپنے ربّ کی پاکی بیان کرو اور ان تمام لوگوں کے لئے طلبِ مغفرت کرو جن کے لئے اس نے تم کو رحمت بناکر بھیجا ہے، بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۙ
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۴، جون ۲۰۰۲ ء
۷۵
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۴
قسط۔ ۴۳ میں سورۂ نصر کے حوالے سے روحانی = عرفانی قیامت کا بیان میری قلبی اور ادبی عاجزی کے باؤجود بیحد ضروری تھا، کیونکہ اللہ جلّ جلالہ نے اپنی رحمتِ بے نہایت سے تمام انسانوں کی روحوں کو روحانی قیامت کے عنوان سے اپنے محبوب پیغمبر کے پاک و پاکیزہ عالمِ شخصی میں جمع کرلیا، آیا ایسے میں عالمِ انسانیّت زندہ بہشت میں داخل نہیں ہوا؟ آیا حضور اکرم صلعم نورِ مجسم اور زندہ اسمِ اعظم نہ تھے؟ کیا آپؐ کے وصی (علیؑ) میں ایسی قیامت کا تجدّد نہیں ہوا؟ اور ہر زمانے کے امام میں؟ اس سے یہ سرِ اعظم معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی عیال (تمام مخلوقات) پر نہایت مہربان ہے۔
سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) میں نصر (مدد) سے روحانی قیامت کے عظیم فرشتے مراد ہیں، جن کا ذکر ہوچکا ہے، فتح سے تسخیرِ کائنات مراد ہے، جس میں ستر ہزار کائناتیں ہیں۔
آپ قرآنِ حکیم میں تسخیرِ کائنات کے مضمون کو عقل و دانش سے پڑھیں اور خاص طور پر سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کے ارشاد کو، جس کا تاویلی مفہوم یہ ہے: کیا تم لوگ (عالمی شخصی میں) نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر
۷۶
دی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ مبارک خطاب بلا واسطہ یا بالواسطہ تمام لوگوں سے ہے، کیونکہ وہ ہر عالمِ شخصی کا پروردگار ہے، جب یہ ارشاد ہوا ہے کہ روح ایک ہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ایک شخص کی روحانی قیامت سے بالآخر سب کو فائدہ ملتا ہے، آمین!
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۵، جون ۲۰۰۲ ء
۷۷
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۵
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ہر اسمِ صفت ایک لاہوتی آسمان ہے اس کے تحت عالمِ انسانیّت ہی زمین ہے کیونکہ جس طرح ہمیشہ ہمیشہ آسمان سے زمین کو فیوض و برکات حاصل ہوتی رہتی ہیں، بالکل اسی طرح اسمائے صفاتِ الٰہی سے عالمِ انسانیّت کو بے شمار نعمتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں، اس اعتبار سے بھی قرآنِ حکیم عالمِ انسانیّت کے تذکروں سے بھرا ہوا ہے، جبکہ سارے قرآن پر اسمائے صفات محیط ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے کسی بھی پاک اسم میں عالمِ انسانیّت کو نظر انداز نہیں کیا ہے۔
سوال: قرآنِ حکیم میں سب سے آخری فیصلہ کُن چیز کیا ہے؟
جواب: روحانی قیامت۔
ہاں موت دو قسم کی ہے، اختیاری موت اور اضطراری موت، پس جو شخص بحکمِ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوتوا، اختیاری موت سے مرجاتا ہے، تو اس کی روحانی قیامت قائم ہوجاتی ہے، اور ایسا سالک یا عارف اپنے عالمِ شخصی ہی میں قیامت کے ان تمام معجزات کو دیکھتا ہے، جو قرآن میں مذکور ہیں۔
ان تمام مشاہدات و تجربات کو آپ حکمت کہیں یا معرفت یا تاویل یا روحانی سائنس، بہرحال یہ بے مثال اور نایاب چیزیں ہیں، پس ہم اور ہمارے
۷۸
باعزت ساتھی عالمِ انسانیّت کی خاطر بھی کچھ علمی خدمت کر سکتے ہیں، الحمد للہ ربِّ العٰلمین۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۵ جون ۲۰۰۲ ء
۷۹
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۶
سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں حق تعالیٰ کا ارشادِ پُرحکمت ہے: وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ ۔ ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں (یعنی ایک ہی چیز کی تخلیق و تکمیل کے لئے اللہ کے پاس بہت سے مختلف خزانے موجود ہیں) اور اللہ ہر چیز کو ایک معلوم مقدار میں نازل کرتا ہے۔
الغرض اللہ کے خاص خزانے عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہیں۔ اللہ کے ظاہری خزانے کائناتِ ظاہر میں ہیں، اور باطنی خزانے عالمِ شخصی = امامِ مبین میں ہیں، یعنی جس عالمِ شخصی میں امامِ مبین کا نور طلوع ہوجاتا ہے،اس میں روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے جس کے اسرارِ عظیم بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس شایانِ شان الفاظ نہیں ہیں، پھر بھی کچھ نہ کچھ بیان کرنے کے لئے کوشش میں لگے ہوئے ہیں، اور اللہ کے فضل و کرم سے اس وقت ایک ضروری مضمون سامنے ہے اور وہ ہے:”قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت” یعنی یہ ظاہر کرنا ہے کہ قرانِ حکیم میں عالمِ انسانیّت سے متعلق کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں اور اللہ کی کیا کیا نوازشات ہیں وغیرہ وغیرہ ؟
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۵ جون ۲۰۰۲ ء
۸۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۷
الاتقان، اردو حصّۂ دوم، ص ۳۱۳ پر ہے: خدا تعالیٰ نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں سے چار کتابوں میں سب کا علم ودیعت فرمایا وہ چار کتابیں توراۃ ، انجیل، زبور، اور فرقان ہیں، اور پھر توراۃ، انجیل اور زبور تینوں کتابوں کا علم قرآن میں ودیعت رکھا۔
چنانچہ ارشاد ہے:وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ (۱۶: ۸۹) = اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کردی ہے، جس میں ہر چیز کا بیان ہے۔
قرآنِ حکیم نورِ منزّل (۰۵: ۱۵) کے ساتھ مربوط ہے، لَوْحِ مَحفوظ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) کے ساتھ مربوط ہے، کتابِ مکنون (۵۶: ۷۷ تا ۷۸) کے ساتھ مربوط ہے، امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) کے ساتھ مربوط ہے، قلم (۹۶: ۰۴) کے ساتھ مربوط ہے، قرآنِ حکیم باطن میں کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲؛ ۴۵: ۲۹) کے ساتھ مربوط ہے۔
سورۂ حجر (۱۵: ۹۱) میں ہے:الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ = جنہوں نے اپنے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے، یعنی قرآنِ حکیم باطن میں اپنے جن سرچشموں کے ساتھ وابستہ اور مربوط ہے، ان کو اس سے الگ قرار دیا ہے، کیونکہ یہ سرِّ اعظم معلوم ہوچکا ہے کہ دنیا ہی میں جو شخص عارفانہ
۸۱
قیامت کے ذریعے سے اپنی روح کو پہچانتا ہے وہ اپنے ربّ کو پہچانتا ہے، اور امامِ مبین کے نور میں قرآن کے باطنی معجزات کا مشاہدہ کرتا ہے۔
سبحان اللہ تمام ضروری معرفتیں یکجا اور ایک ہیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ۶ ، جون ۲۰۰۲ ء
۸۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۸
بحوالۂ کتابِ الاِتقان حصّۂ دوم ، ص ۴۴۰: رَسُولُ اللہ صلّی اللہ علیہ وَآلہٖ نے ابنِ عباس کے لئے دعا کی تھی کہ”اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِیالدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاوِیْلَ” یعنی باراِلٰھا تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور تاویل کا علم مرحمت کر۔ اور حدیثِ شریف میں آیا ہے کہ “َلْقُرآنُ ذَلُولٌ ذُوْ وُجُوْہٍ فَاحْمَلُوہُ عَلیٰ اَحْسَنِ وُجُوْھِہٖ” یعنی قرآن بہت ہی رام ہوجانے والی چیز ہے اور وہ متعدّد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے، لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو، یعنی اچھے سے اچھے پہلو کی حکمت کو بیان کرو۔ الاتقان حصّۂ دوم، ص ۴۴۲۔
سورۂ زُمر (۳۹: ۵۵) کا ارشاد ہے: وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ۔
ترجمہ: اور پیروی اختیار کرلو اپنے ربّ کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی۔ اس آیۂ شریفہ سے مذکورہ حدیث کی تصدیق ہوجاتی ہے۔
سورۂ زُمَر (۳۹: ۱۷ تا ۱۸) وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰىۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ
۸۳
وَ اُولٰٓىٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۔
ترجمہ: جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا ان کے لئے خوشخبری ہے، پس (اے نبیؐ) بُشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ۶ ، جون ۲۰۰۲ ء
۸۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۴۹
سورۂ رَحْمٰن = عروسُ القرآن کی چند حکمتیں: نہایت مہربان خدا نے قرآن کی تعلیم دی، اس کی تاویل یہ ہے کہ امام مبین نے بحکمِ خدا عرفاء کو اسمِ اعظم اور روحانی قیامت کے وسیلے سے قرآن کی باطنی اور نورانی = معجزاتی تعلیم دی، اسی طرح عارفوں کی روحانی تخلیق و تکمیل ہوئی، اور وہ علمِ تاویل بیان کرنے لگے، حظیرۂ قدس میں نہ صرف سورج اور چاند کا حساب ہی ایک ہے، بلکہ وہ دونوں خود بھی ایک ہی نور ہیں، وہاں ستارہ اور درخت یکسان سجدہ کرتے ہیں اور عالمِ شخصی کے آسمان کو زمین ہی سے بلند کیا اور علم و حکمت کی میزان = ترازو کو آسمان ہی میں مقرر کیا، تاکہ تم علم و معرفت کی بلندی پر اس میزان کو بحقیقت استعمال کرسکو، اور خدا نے عالمِ شخصی کی زمین کو سب مخلوقات کے لئے بنایا، جس میں گوناگوں نعمتیں ہیں، پس اے جنّ و انس (اے مخلوقِ لطیف و کثیف!) تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے؟
کہتے ہیں کہ انس و جنّ اور فرشتے ایک ہی مخلوق (انسان) کے مختلف درجات ہیں، سورۂ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں کا یکجا ذکر ہے، جس کا خطاب جنّ و انس سے ہے، اور خدا نے جس عبادت و معرفت کی غرض سے ان کو پیدا کیا ہے، اس مقصد میں بھی یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں (۵۱: ۵۶) وَ مَا خَلَقْتُ
۸۵
الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ) = میں نے جنّ اور انسانوں کو پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں (یعنی مجھ کو پہچانیں)۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ۷ ، جون ۲۰۰۲ ء
۸۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۰
جیسا کہ سورۂ نصر (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۳) کے حوالے سے روحانی قیامت کا اُصولی بیان ہوچکا ہے، اورامامِ زمانؑ کے ذریعے (۱۷: ۷۱) سے روحانی قیامت کا قیام اللہ کا قانون ہے، اور ایسی ہر قیامت عالمِ انسانیّت کے مفاد میں ہوتی ہے، کیونکہ جو لوگ از خود خدا کے قریب نہیں ہوسکتے، ان کو قیامت زبردستی سے نہایت مہربان خدا تک پہنچا دیتی ہے، بلکہ سب لوگ نفسِ واحدہ کے ذریعے سے فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں۔
حکیم پیر ناصر خسرو کے نزدیک خدا کی بے پایان بادشاہی میں، بے پایان قیامات ہیں۔
عالمِ انسانیّت میں روحانی قیامت کے بغیر روحانی ترقی ممکن نہیں، قرآن حکیم میں روحانی قیامت کے اسماء و امثال کثرت سے ہیں، اور ان سب میں عالمِ انسانیّت ہی کا ذکر ہے، چنانچہ انبیائے قرآن میں سے ہر نبی کے قصّے میں روحانی قیامت کی مثال ضرور موجود ہے، کس کو گمان ہے کہ قصّۂ آدم تاویلاً سر تا سر قصۂ قیامت ہے؟ اگر زمانۂ آدمؑ میں روحانی قیامت اللہ کی سنّت سے خارج رہی ہوتی تو پھر آئندہ کبھی قیامت نہ آسکتی، کیونکہ سنّتِ الٰہی میں صرف وہی چیز آتی رہتی ہے، جو زمانۂ اوّل کے لوگوں میں آچکی ہو۔
۸۷
قرآن میں سنّتِ الٰہی کے مضمون کو غور سے پڑھیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ۷ ، جون ۲۰۰۲ ء
۸۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۱
قرآن حکیم کی آیات کل چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (۶۶۶۶) ہیں، ہر آیت کا ظاہری بیان جیسا بھی ہو، لیکن اس کے باطن میں یقیناً عالمِ انسانیّت سے متعلق کوئی حکمت براہِ راست یا بالواسطہ ضرور موجود ہے، کیونکہ قرآن ذُو وُجُوہ ہے، یعنی قرآن کے متعدّد پہلو ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآن عالمِ انسانیّت کے لئے رحمت ہے، جبکہ اس کا صاحب عالمین کیلئے اللہ کی طرف سے رحمت ہے۔ (۲۱: ۱۰۷) اللہ الباسط بھی ہے، اور القابض بھی، لہٰذا وہ قرآن کے ہر مضمون کو سر تا سر قرآن میں پھیلاتا بھی ہے، اور اسے واپس اپنی جگہ پر محدود بھی کرتا ہے، جس کی وجہ سے باطناً ہر مضمون میں تمام مضامین کی روح ہوتی ہے، جس طرح ہر انسانی روح میں بحدِّ قوّت تمام روحیں موجود ہوتی ہیں، یعنی اگر ایک شخص نفسِ واحدہ کی طرح روحانی قیامت کا متحمل ہوجاتا ہے تو جملہ خلائق روحاً اس کے پاس جمع ہو کر اس کے لشکر یا اس کی ذرّیّت ہوجاتے ہیں، اور ہر روح میں یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
سورۂ ملک (۶۷: ۰۳): مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍؕ =تجھ کو رحمان کی تخلیق میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔
اُیُم دِشَنْ ئیڎبا ایلݺ سس اُیون بَبَربان
ازلݺ بَبَربَم جُوَن اَبدݺ بَبَربُٹ اُیم
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۸ ، جون ۲۰۰۲ ء
۸۹
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۲
کتاب مستطابِ سرائر ص ۲۱ پر مُجْمَلاً یہ ذکر ہے کہ اس دور کے آغاز میں جو آدمؑ تھا اس سے پہلے روحانی اکوار = ادوار تھے۔
ایسا ذکر کتابِ اثباتِ النبوأت میں بھی ہے، حضرتِ ربِّ تعالیٰ کا ایک دن دنیا کے ہزار سال کے برابر ہوا کرتا ہے (۲۲: ۴۷) قرآنِ حکیم میں ایک ایسے دن کا بھی ذکر ہے، جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے، یہ ایک بڑا دور ہے جس کو اللہ اپنی قدرتِ کاملہ سے چھوٹا بھی کر سکتا ہے جس میں فرشتے اور نفسِ واحدہ حظیرۂ قدس میں چڑھ کر جاتے ہیں۔
تھلاک تھلاک تھلاک نݵ تھلاک تھلاک تھلاک ژُݸ
یہ چھ کروڑ سال کا ایک بہت بڑا دور ہے۔
یہ بڑے بڑے ادوار عالمِ انسانیّت پرحق سبحانہٗ و تعالیٰ کے بے پایان احسانات و انعامات اور نوازشات کی غرض سے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نےاپنے فضل و کرم سے انسانی روحوں سے فرشتے بنائے، اشرافِ جِنّ بنا دیئے، اہلِ جنّت بنا دیئے، سلاطینِ بہشت بنا دیئے، کائناتی زمین کی خلافت سے سرفراز فرمایا۔ (۲۴: ۵۵)(۰۶: ۱۶۵) اس میں صاحبانِ عقل کے لئے کوئی شک ہی نہیں کہ اللہ کا ہر وعدہ حق ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۸ ، جون ۲۰۰۲ ء
۹۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۳
سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۳۳) وَسَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُۙ- اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَۙ = دوڑ کر چلو ( یعنی سبقت کرو) اس راہ پر جو تمہارے ربّ کی (خصوصی) بخشش اور اس جنّت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔۔۔۔۔۔
سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) سَابِقُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِۙ-اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ-ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔
ترجمہ: دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے ربّ کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے، جو مہیا کی گئی ہے ان لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۰) فَفِرُّوا اِلَى اللّٰهِ-اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ ۔
ترجمہ: پس ڈرو اللہ کی طرف یعنی سبقت کرو =اچھے اچھے اعمال اور علم و حکمت میں تمام خلائق سے آگے بڑھو تاکہ تم کو خدا کائناتی بہشت
۹۱
اور اس کی ہزاروں کاپیاں عطا کرے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ۹ ، جون۲۰۰۲ ء
۹۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۴
سورۂ مومنون (۲۳: ۱۱۵) کا ارشاد ہے:اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ۔
ترجمہ: کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟
اس آیۂ کریمہ کی حکمتِ بالغہ سے زیرِ بحث مضمون کو زبردست تقویت مل رہی ہے، اور عالمِ انسانیّت سے متعلق پیدا ہونے والے تمام مختلف سوالات خود از خود ختم ہورہے ہیں، کیونکہ اللہ، ھُوَ اللہ تعالیٰ شانہٗ کا یہ پُرحکمت سوال یقیناً حظیرۂ قدس کی جنّت میں ہے، چونکہ رجوع الی اللہ کا آخری مقام وہی ہے۔
اَلْمُؤمَنْ (۴۰: ۱۶) کا ارشادِ مبارک ہے:لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ۔
ترجمہ: آج بادشاہی کس کی ہے؟ اللہ واحِدِ قھّار کی ہے۔ خدائے واحد و قھّار کی بادشاہی یا شاہنشاہی جو عالمِ آخرت = بہشت میں ہوگی، اس میں سب لوگ ہوں گے یا نہیں؟ ج: ضرور سب لوگ حاضر ہوں گے، آیا خدا کی شاہنشاہی میں کہیں ظلم یا کسی قسم کی تکلیف کا تاریک سایہ
۹۳
موجود ہوسکتا ہے؟ ج: نہیں نہیں ہر گز نہیں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اللہ ایک ہے، وہ تمام لوگوں (عالمِ انسانیّت) کو ان کے اختیار کی مہلت ختم ہوجانے کے بعد ایک کر لیتا ہے، وہ قھّار =زبردست اور غالب ہے، اور اللہ کی یہ صفتِ قھّاریت روحانی قیامت کی شکل میں ہے، جس کی برکت سے عالمِ انسانیّت آخراً فنا فی اللہ ہوجاتا ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۱۰ ، جون۲۰۰۲ ء
۹۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۵
سورۂ زُمر (۳۹: ۶۷ تا ۶۹) ترجمہ: اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ (اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین (باطناً) اُس کی مُٹھی میں ہوگی، اور (سب) آسمان اس کے دستِ راست میں لِپٹے ہوئے ہوں گے، یہ تاویلاً عُرفاء کے مشاہدۂ باطن کا تذکرہ ہے، عارفین اللہ تعالیٰ کے ایسے عظیم معجزات کو اپنے عالمِ شخصی ہی میں دیکھتے ہیں، یہ قیامت کوئی اور قیامت نہیں صرف روحانی قیامت =عارفانہ قیامت ہے اور یقیناً عالمِ شخصی ہی عالمِ انسانیّت ہے۔
اللہ جو قادرِ مطلق اور فَعّالٌ لِّمَا یُرِیْد (۱۱: ۱۰۷) ہے اس کے معجزات روحانی قیامت میں انتہائی حیران کن ہیں، مثال کے طور پر ہم اسرافیلی اور عزرائیلی منزل کے کچھ اسرار کو بیان کریں، قیامت گاہ اور دعوت گاہ ایک ایسے عالمِ شخصی میں ہوتی ہے جس میں امامِ زمانؑ کا نورِ اقدس طلوع ہوکر کام کر رہا ہوتا ہے، پس جیسے ہی نفخۂ صور کا آغاز ہوا تو کائنات بھر کی روحیں روحِ سالک میں جمع ہوگئیں، پھر سالک کی روح قبض کرکے کائنات میں نشر کی گئی، پھر تمام کائنات کی ارواح سالک =عارف کے عالمِ شخصی میں ڈالی گئیں، اس سے یہ بہت بڑا راز معلوم ہوا کہ روحانی قیامت میں اللہ کی بے پایان رحمت کے
۹۵
چار سانچے ہیں، پہلا سانچہ عارف کی روح، دوسرا سانچہ عارف کا عالمِ شخصی، تیسرا سانچہ کائنات، چوتھا سانچہ کائناتی روح، پس روحانی قیامت میں جہاں اسرافیل اور عزرائیل کے عظیم معجزات ہیں وہاں ان سانچوں کے عجیب و غریب یعنی انتہائی عجیب و غریب معجزات ہوتے ہیں، آپ نے سانچہ کا مطلب ضرور سمجھ لیا ہوگا۔
پس امامِ زمانؑ جو امامُ الناس بھی ہے، اس کی ایک تعریف یہ ہے کہ روحانی قیامت میں عیال اللہ (یعنی لوگوں) کو کسی عارف کے سانچے میں ڈھال ڈھال کر عارف بنا دیتا ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ۱۰ ، جون۲۰۰۲ ء
۹۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۶
سورۂ سبا (۳۴: ۴۶) کا حکمتِ بالغہ سے لبریز ارشاد ہے: قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۚ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰهِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا ۣ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۭ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ ۔
تاویلی مفہوم: اے نبیؐ ان سے کہو کہ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں جس میں تمام نصیحتوں کا جوہر جمع ہے کہ تم خدا کے لئے (روحانی قیامت سے مرکر) دودو اور ایک ایک کھڑے ہوجاؤ (یعنی زندہ ہوجاؤ) اور پھر اسرارِ معرفت کے لئے غورو فکر کرو تاکہ تم کو اپنے صاحب (رسولؐ) کی معرفت حاصل ہوگی کہ وہ اللہ کا برحق پیغمبر ہے۔
یہ قانونِ قیامت یاد رہے کہ روحانی قیامت پہلے کثرت و دوئی میں ہوتی ہے، اور آخراً حظیرۂ قدس میں جاکر فرد اور فردانیت میں ہوتی ہے تاکہ انسان فردِ واحد ہوجانے کے بعد ہی خدائے واحد میں فنا ہوسکے، ہر روحانی قیامت میں ایک مرکزی روح ہوا کرتی ہے، جس کا نام قرآن میں نفسِ واحدہ ہے، آغازِ قیامت میں اگرچہ بے شمار روحیں جمع ہوتی ہیں لیکن ان میں ایک ہوجانے کی خاصیت بھی ہے۔
سورۂ تکویر (۸۱: ۰۷) وَاِذاالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ = اور جب
۹۷
رُوحیں دو دو ہوجائیں۔ بہشت میں دو باغ ہونے کا کیا اشارہ ہے؟ (۵۵: ۴۶) اور ان کے تحت دو اور باغ کا کیا اشارہ ہے؟ (۵۵: ۶۲) اس میں کیا رازِ حکمت ہے کہ بہشت کے پھلوں کے جوڑے ہیں؟ (۵۵: ۵۲) اس میں کیا تاویل ہے کہ ذاتِ سُبحان کے سوا ہر چیز کا جوڑا ہوتا ہے؟ (۳۶: ۳۶)
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل۱۱ ، جون۲۰۰۲ ء
۹۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۷
اللہ تعالیٰ کا ایک مقدّس گھر ظاہر اور مثال ہے جو خانۂ کعبہ ہے، اور دوسرا پاک گھر باطن اور ممثول ہے، جو امامِ زمانؑ کا نور ہے۔
اگر خداوندِ قدوس نے امامِ مبین کو جملہ اعلیٰ ممثولات کا جامعُ الجوامع بنایا ہے تو اس میں صاحبانِ عقل و دانش کے لئے کیا شک ہوسکتا ہے؟
یقیناً خداوندِ تعالیٰ ہر روحانی قیامت میں کائنات کو امامِ مبین میں لپیٹ لیتا ہے، کائنات کا دوسرا نام کُلُّ شَیءٍ ہے، اور ہر عارف کے لئے اس معجزۂ اعظم کا تجدُّد ہوتا ہے، پس یقیناً امامِ مبینؑ میں تمام حقائق و معارف جمع ہیں اور امام علیہ السّلام کی تعریف کرنے والے جتنی بھی زیادہ تعریف کریں وہ کم ہے، کیونکہ امامِ مبین اللہ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، وہ قرآنِ ناطق ہے، اللہ کا دین ہے، وجہُ اللہ ہے، مظہرِ نور ہے، آلِ رسولؐ ہے، وارثِ علیؑ ہے، آدمِ زمان ہے، وارثِ کتابِ سماوی ہے، ہادیٔ برحق ہے،مؤوِّلِ قرآن ہے، نورِ منزّل ہے، سفینۂ نوحؑ ہے، صراطِ مستقیم ہے، طبیبِ روحانی ہے، چراغِ دلِ اہلِ ایمان ہے، نورِ چشم ِ عاشقان ہے، جنّت کے بادشاہوں کا شاہنشاہ ہے، اس کا نور روحانی قیامت ہے اور ناقور ہے، وہ حَبْلُ اللہ ہے، اس کے معجزات عالمِ شخصی اور حظیرۂ قدس میں ہیں، اس کی معرفت کنزِ مخفی ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل۱۱ ، جون۲۰۰۲ ء
۹۹
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۸
حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا یہ معروف ارشاد ہے، ترجمہ: اے انسان! آیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے؟ حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپیٹا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ انسان ایک مستقل عالَم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر انسان ایک عالمِ شخصی اور عالمِ انسانیّت ہے، اور بحدِ قوّت اس میں عالمِ اکبر =کُلّ کائنات موجود ہے، اور یہ سب کچھ بحدِّ فعل دیکھنے کے لئے روحانی قیامت ضروری ہے۔
سورۂ تکویر (۸۱: ۱۱) میں ارشاد ہے:وَاِذَاالسَّمَآءُ کُشِطَتْ = اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا۔ یعنی اس کائناتِ اکبر کا ظاہر چھلکا ہے اور اس کا باطن مغز اور اصل ہے، علیُ المرتضیٰؑ جو نبیٔ اکرم صلعم کے علم و حکمت کا دروازہ ہے، وہ انسان کو اس اصلی صورت میں دیکھاتا ہے جس میں اَحسَنُ الخَالقین نے اس کو پیدا کیا ہے (۲۳: ۱۴) اور وہ انسان جو حظیرۂ قدس کی بہشت میں داخل ہوجاتا ہے، اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوتا ہے، اور آدم اس بہشت میں جاتے ہی صورتِ رحمان پر پیدا ہوا تھا، پس ہر ابنِ آدم کا حظیرۂ قدس میں جاکر اپنے باپ آدمؑ (خلیفۃ اللہ) کی صورت پر ہونا عالمِ انسانیّت کے لئے اللہ جلّ شانہٗ کا سب سے بڑا انعام ہے، چونکہ
۱۰۰
قرآن میں سبقت کا قانون ہے، لہٰذا ہر روحانی قیامت میں صرف ایک ہی شخص سابق ہوسکتا ہے، پھر بھی ایک ہی روح میں سب روحیں پوشیدہ ہوتی ہیں، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِین۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۱۲، جون۲۰۰۲ ء
۱۰۱
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۵۹
عالمِ انسانیّت پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے اپنے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السّلام کو خود عالمِ انسانیّت ہی میں مبعوث فرمایا عَلَی الخصوص رحمتِ عالم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ کو جو عالمِ انسانیّت کے لئے رحمت اور محسنِ اعظم ہیں۔
ہزار حکمت (ح:۲۵۸) حضرتِ علیؑ کہتے ہیں: کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ نے فرمایا جنّت میں ایک بازار ہوگا جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہوں گی، جو جسے پسند کرے گا اسی کی طرح ہوجائے گا، جامع تِرمذی، جلد دوم، جنّت کا بیان، حدیث ۲۳۶۳۔
تاویلی حکمت: بہشت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی ہر چیز عقل و جان اور علم و حکمت کے ساتھ ہوا کرتی ہے، لہٰذا جنّت کی مذکورہ تصویریں بے جان و بے عقل تصویریں نہیں ہیں، بلکہ یہ بہشت میں اللہ کا وہ عظیم معجزہ ہے جس میں تمام عالمِ انسانیّت کثیف سے لطیف ہوجاتا ہے، کیونکہ بہشت خود عالمِ لطیف ہے، جس میں عالمِ انسانیّت سراسر صبغۃُ اللہ =رنگِ خدا=رنگِ انوارِ خدا (۰۲: ۱۳۸) میں رنگا ہوا ہوتا ہے، پس
۱۰۲
بہشت میں تمام زمانوں کے لوگ ہوں گے، اور اس کے لئے ایک بہت بڑی بھاری لاہوتی ضمانت ہے کہ اللہ جلَّ جلالہٗ نے ارشاد فرمایا: اَلخلقُ عیالی یعنی تمام مخلوقات میرا کنبہ ہیں۔ عالمِ لطیف کے لئے ملاحظہ ہو کتابِ وجہ دین کلام ۴۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۱۲، جون۲۰۰۲ ء
۱۰۳
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۰
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے عالمِ انسانیّت کو ایک بہت ہی بڑا عجیب و غریب سرچشمہ برائے خلقِ آخر بنایا ہے(۲۳: ۱۴ تا ۱۶) چنانچہ جملۂ انبیاء و اولیاء علیھم السّلام ظاہراً اسی سرچشمۂ عالمِ انسانیّت ہی سے تھے، تمام حدودِ دین ظاہری و باطنی کا تعلق عالمِ انسانیّت ہی سے ہے، فرشتے نیک انسانوں کی روحوں سے ہوتے ہیں، مخلوقِ لطیف =اشرافِ جنّ و پری وغیرہ بھی،عالمِ انسانیّت ہی سے ہیں، بے شمار حوران و غلمان اور اہلِ جنّت سب کے سب عالمِ انسانیّت ہی سے ہیں ۔
یہاں مجھے عارفِ رومی کا ایک شعر یاد آیا:
اے پسر! در آسمانِ ہفتمین
با ملائک بارہا پَرّیدہ ام
ترجمہ: اے لڑکے! میں آسمانِ ہفتم میں فرشتوں کے ساتھ بار ہا پروازیں کر چکا ہوں۔
قرآنِ حکیم کے ناموں میں سے ایک نام وَحِیْ ہے، کیونکہ قرآنِ پاک بذریعۂ وحی نازل ہوا ہے، اس بابرکت نام کی دوسری وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ وحی اشارہ کو کہتے ہیں، بحوالۂ قرآن (۱۹: ۱۱) چونکہ قرآنی الفاظ میں بڑے دوررس
۱۰۴
اور ہمہ گیر حکیمانہ اشارے ہیں، لہٰذا قرآنِ حکیم کا نام وحی=اشارہ ہوا۔
مثال: قرآن فرماتا ہے کہ اگر خدا تمہارے لئے ایک نور مقرّر کرتا ہے تو یہ نہ صرف تمہارے چلنے کے لئے ہے بلکہ اس میں پرواز کا اشارہ بھی ہے، اور پرواز میں فرشتہ ہوجانے کا اشارہ ہے اور خدا کی خدائی=بادشاہی کے بے شمار عجائب و غرائب دیکھنے کا اشارہ ہے، اِنْ شاء اللہ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات۱۳، جون۲۰۰۲ ء
۱۰۵
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۱
عارفِ رومی کا شعر ہے:
تَن چُو سایہ بَر زمین و جانِ پاکِ عاشقان
در بہشتِ عدن تجری تحتِھَا الْانہار مست
ترجمہ: جسم سایے کی طرح زمین پر ہے، اور عاشقوں کی پاک روح جنّتِ عدن میں مست ہے، اس جنّت کے تحت نہریں جاری ہیں۔
حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ نے ارشاد فرمایا: کہ تم نورانی بدن کے ساتھ (یعنی جسمِ لطیف میں) بہشت میں جاؤگے۔ چنانچہ قرآن پاک (۰۲: ۲۵) میں ہے:وَ لَهُمْ فِیْهَا اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌۗ =اور ان کے لئے اُس (بہشت) میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی۔
بہشت کی بیویاں جسماً و روحاً و عقلاً ہوں گی، اور اسی طرح ان کے شوہر بھی۔
سورۂ واقعہ (۵۶: ۳۵ تا ۳۷)اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًاۙ عُرُبًا اَتْرَابًاۙ
ترجمہ: ان کی بیویوں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا کریں گے(یعنی انہیں جسمِ لطیف عطا کریں گے) اور انہیں باکرہ بنادیں گے، اپنے
۱۰۶
شوہروں کی عاشق اور عمر میں ہم سن۔
جس طرح ذکر ہوا تھا کہ حوران و غلمان بھی عالمِ انسانیّت ہی سے ہیں، پس اس ارشاد میں وہی اسرار پوشیدہ ہیں، تمام روحوں کا ظہور ایک ساتھ صبحِ ازل میں ہوا، لہٰذا سب روحیں ہم سِن ہیں، پس کوئی روح چھوٹی یا بڑی نہیں ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات۱۳، جون۲۰۰۲ ء
۱۰۷
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۲
حکیم پیر ناصر خسرو کے دیوان میں ہے:
برجانِ من چُو نورِ امامِ زمان بتافت
لیلُ السَّرار بودم وشمسُ الضُّحیٰ شدم
ترجمہ: جب میری روح میں امامِ زمانؑ کا پاک نور طلوع ہوگیا تو میں قبلاً شبِ تاریک تھا، مگر اب روزِ روشن ہوگیا۔
یہ اتفاق کی بات ہر گز نہیں بلکہ اس سنتِ الٰہی کا ذکرِ جمیل ہے، جوحضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام میں اس کے معجزات ہوئے تھے، اور ہمیشہ اللہ کی یہی سنت اس کے بندوں میں جاری رہی ہے، اللہ کی سنّت سے متعلق جو قرآنی آیات ہیں ان کی حکمت از بس ضروری ہے، مثال کے طور پر آدم میں اللہ کی یہ سنّت قائم ہوئی کہ امامِ زمانؑ کے ذریعے سے آدم کو اسمِ اعظم کی تعلیم دی گئی، تب سے اللہ کی یہ سنّت اس کے بندوں میں جاری رہی۔
ذاتِ سبحان کے سوا ہر چیز کا جوڑا ہوا کرتا ہے (۳۶: ۳۶) لہٰذا حضرتِ آدم علیہ السّلام کے پاس دو اسمِ اعظم تھے، ایک اسمِ اعظم تحریری اور صامت تھا، دوسرا نورانی اور ناطق تھا (یعنی امامِ زمان) یہاں یہ قصّہ
۱۰۸
آدمِ دور کا ہے، آدمِ اوّل کا نہیں۔
مولا علی صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: میں ہی آدمِ اوّل ہوں، اور دوسرے ایک خطبے میں فرمایا کہ میں عالم میں قدیم ہوں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ علی ہی وہ آدمِ اوّل ہے جو عالم میں قدیم (ہمیشہ) ہے، یہ سلسلۂ نورٌعلیٰ نور ہے، جس میں علی نور ہے اور اس سلسلے کے بے شمار اشخاص بے شمار آدم ہیں، اب آپ قرآنِ حکیم میں غور سے دیکھیں کہ آیا اللہ بنی آدم (عالمِ انسانیّت) میں سے خلفاء (خلیفے) بناتا ہے یا نہیں؟ (۰۶: ۱۶۵، ۲۴: ۵۵) تمام لوگوں پر فرض ہے کہ وہ بڑی کثرت سے اللہ کا شکر کریں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعۃ المبارک ۱۴، جون۲۰۰۲ ء
۱۰۹
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۳
سورۂ مریم (۱۹: ۹۳ تا ۹۵) کا پُرحکمت ارشاد ہے:اِنْ كُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّاۤ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا لَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّا وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فرداً۔
ترجمہ: زمین اور آسمانوں کے اندر جو بھی ہیں وہ سب خدا کے پاس غلاموں (بندوں) کی حیثیت سے آنے والے ہیں، وہ اپنی سنّتِ قدیم کے مطابق بذریعۂ روحانی قیامت سب کو گھیر لیتا ہے، اور ایک خاص عدد میں (یعنی عددِ واحد) میں شمار کرتا ہے، پس روزِ قیامت سب کے سب نفسِ واحدہ میں فنا ہو کر فردِ واحد بن جاتے ہیں، تاکہ اسی طرح خدائے واحد میں فنا ہوسکیں۔
پس یہ ایک فیصلہ کُن ارشاد ہے کہ اللہ پاک عالمِ انسانیّت پر نہایت مہربان ہے۔
روحانی قیامت تمام لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے، اس کے بغیر معرفت ممکن ہی نہیں۔
دنیا میں اللہ کی رسّی ہے، اللہ کا زندہ اسمِ اعظم ہے، اللہ کے نور کا مظہر ہے، سفینۂ نوح ہے، آلِ رسولؐ ہے، نورِعلیؑ ہے، سُلَّمُ النَّجَات ہے، اللہ کا زندہ گھر ہے، آدمِ زمان ہے، صراطِ مستقیمِ نورانی
۱۱۰
ہے، مُؤوِّلِ قران ہے، آئینۂ خدا نما ہے، کتابِ ناطق ہے، طبیبِ روحانی ہے، ہادیٔ برحق ہے، چراغِ ہدایت ہے، گنجِ علمِ بے پایان ہے، امامِ مبین ہے، نورِ مُنزل ہے، صاحبِ روحانی قیامت ہے، صاحبِ کشف و کرامات ہے، صاحبِ جثۂ ابداعیہ ہے، ولیٔ امر ہے، صاحبِ کاف نون ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعۃ المبارک ۱۴، جون۲۰۰۲ ء
۱۱۱
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۴
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشاد : انسان آدم علیہ السّلام کی اولاد ہے، آدم کا درجہ فرشتے سے بھی زیادہ اونچا تھا، اس اعتبار سے آپ کا بھی اصل درجہ فرشتے سے اوپر ہے لیکن آپ دنیا میں گناہ کرتے ہیں، ایمان میں غفلت برتتے ہیں، دنیا اور شیطان کے دھوکے میں آجاتے ہیں، اس لئے آپ کی روحِ آدمیّت بوجھل (سنگین) ہوجاتی ہے۔
ہر ایک انسان کی روح کے ساتھ امام کا نور منسلک (مربوط) ہے، مومن کا دل امامؑ کے رہنے کا بنگلہ ہے، اور وہ عشق پر مبنی ہے، یعنی اس کا دارومدار عشق پر ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا قول ہے: لَنْ یَلِجَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ مَنْ لَمْ یُولَدْ مَرَّتَیْن=جو شخص دو دفعہ پیدا نہ ہوجائے وہ آسمانوں کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہیں ہوسکتا ہے۔اس بارے میں حکیم پیر ناصر خسرو کا شعر ہے:
گرچت یکبار زادہ اند بیابی
عالمِ دیگر اگر دوبارہ بزائی
۱۱۲
ترجمہ: اگرچہ تو جسماً ایک بار پیدا ہوا ہے، اگر تو روحاً دوبارہ پیدا ہوجائے تو تجھ کو دنیا ہی میں عالمِ روحانی مل جائے گا۔
مولوی رومی کہتا ہے:
چُون دُوُم بار آدمی زادہ بزاد
پای خود بر فرقِ عِلّتھا نِہاد
پس روحانی قیامت حق ہے اور جیتے جی مرکرزندہ ہوجانا حق ہے۔
الحَمدُ للّٰہِ عَلیٰ مَنِّہٖ وَاِحْسَانِہٖ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۱۵ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۱۳
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۵
میں جان و دل، ایمان و یقین اور بصیرت و معرفت سے کہتا ہوں کہ قرآنِ حکیم نہ صرف ایک انتہائی عظیم معجزہ ہے، بلکہ یہ اللہ جلَّ جلالہٗ کے معجزات کی سب سے عظیم کائنات ہے، نرم اور قابلِ برداشت معجزات کو عجائب و غرائب کہتے ہیں۔
لغاتُ الحدیث (کتاب “ب” ص ۲۹) میں ہے: رَوِحُوْااَنْفُسَکُمْ بِبَدِیْعِ الْحِکْمَۃِ فَاِنَّھَا تَکْمُلُ کَمَا تَکْمُلُ الْاَبْدَانُ۔
ترجمہ: حکمت کی عجیب اور غریب باتوں سے اپنی جانوں (روحوں) کو راحت دو، جان = روح اس طرح سے مکمل ہوتی ہے، جیسے بدن مکمل ہوتا ہے۔
اَھْلُ الْجَنَّۃِ جُرْدٌ مُّرْدٌ = بہشتی لوگ بن بال کے، بن داڑھی مونچھ کے ہوں گے۔ بحوالۂ لغات الحدیث (کتاب “ج” ص ۳۶) کیونکہ بہشت کے لوگ سب کے سب نورانی بدن = جسمِ لطیف میں ہوتے ہیں۔
مجھے احساس ہے کہ میں مخلوقِ لطیف کا بار بار ذکر کرتا ہوں، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ ج: اس کی چند وجوہ ہیں، پہلی وجہ: لوگ جنّ و پری کو نہیں پہچانتے ہیں۔ دوسری وجہ: سورۂ رحمٰن عروس القرآن اللہ تعالیٰ کی
۱۱۴
خاص خاص نعمتوں کی ایک عالیشان جنّت ہے، جس میں جنّ و پری اور تمام انسان ساتھ ساتھ ہیں، اگر اس اختلاط میں کوئی زبردست حکمت نہ ہوتی تو ایسا نہ ہوتا، پس ممکن ہے کہ بہشت کی بعض حوریں پری عورتوں میں سے ہوں، اور بعض غلمان پری قوم کے مردوں میں سے ہوں۔
ایک عظیم عالمِ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اشرافِ جنّ= شُرفائے جنّ اہلِ باطن ہیں، ان کے پاس زبردست علم و معرفت ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ۱۵ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۱۵
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۶
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے زمانے میں اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم (کلمۃ) تھا۔ بحوالۂ قرآن (۰۳:۴۵) نیز (۰۴: ۱۷۱)، خدا کی طرف سے کلمہ سے اسمِ اعظم مراد ہے۔
یوحنّا کی انجیل کے آغاز میں دیکھیں: ابتداء میں کلام (یعنی کلمہ=اسمِ اعظم) عالمِ دین کی ابتداء میں بھی اور عالمِ شخصی کی ابتداء میں بھی۔ مرقوم ہے:
ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا (یعنی اسمِ اعظم خدا کے ساتھ مربوط تھا) اور کلام خدا تھا، یہی ابتداء میں خدا کے ساتھ تھا، سب چیزیں اس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی، اس میں زندگی (حیات) تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی، اور نور تاریکی میں چمکتا ہے۔۔۔۔
اسمِ اعظم کی ایک تعریف سورۂ زمر (۳۹: ۲۳) میں ہے: اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ۔
۱۱۶
تاویلی مفہوم: بہترین کلام اسمِ اعظم بھی ہے اور قرآن بھی ہے، کیونکہ اصلاً اسمِ اعظم اور قرآن ایک ہی چیز ہے، جبکہ اسمِ اعظم میں قرآن ہے، اور قرآن میں اسمِ اعظم۔
آپ سورۂ قمر۵۴ میں دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن ذکر کی غرض سے آسان بنایا گیا ہے۔ (۵۴: ۱۷)، یعنی قرآن اسمِ اعظم کی صورت میں بھی ہے، اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰن= خدائے رحمان نے اسمِ اعظم ہی کے ذریعے سے انسانِ کامل کو قرآن کی نورانی اور عرفانی تعلیم دی۔ (۵۵: ۰۱ تا ۰۲)
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار۱۶ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۱۷
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۷
سورۂ فرقان (۲۵: ۳۰) میں ارشاد ہے:وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا =اور اس دن رسولؐ بارگاہِ خداوندی میں عرض کریں گے کہ اے میرے پروردگار! میری قوم نے تو اس قرآن کو بیکار بنا دیا یعنی نورِ ہدایت (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں، اس کے باطنی علم و حکمت پر عمل نہیں کیا گیا۔
مولا علی صلواتُ اللہ علیہ نے قرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا: ظَاہِرُہُ عَمَلٌ مَوْجُوبٌ وَ بَاطِنُہُ عِلْمٌ مَکْنُوْنٌ مَحْجُوْبٌ وَ ھُوَ عِنْدَنَا مَعْلُومٌ مَکْتُوْبٌ۔
ترجمہ: قرآن کا ظاہر وہ عمل ہے، جو لازم اور واجب ہے، اور اس کا باطن در پردہ پوشیدہ علم ہے اور وہ ہمارے پاس معلوم و مرقوم ہے۔
حَمَلَۃُ القُرْاٰنِ عُرَفَاءُ اَھْلِ الْجَنَّۃِ =حاملانِ قرآن اہلِ جنّت کے عارفین ہیں۔ یعنی جو لوگ قرآن کی روح و روحانیّت اور اسرارِ معرفت کے حامل ہیں، وہی لوگ اہلِ بہشت کے عارفین بھی ہیں کہ جنّتی لوگ ان سے معرفت کے اسرار کی تعلیم حاصل کرتے رہیں گے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار۱۶ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۱۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۸
حدیثِ شریف: اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ،وَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ نَفَعَ عِیَالَہٗ وَاَدْخلَ السُّرُور عَلیٰ اَھلِ بَیْتِہٖ۔
ترجمہ: مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہیں، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق وہ ہے، جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے اور اہلِ بیت کو خوش رکھے، ہزار حکمت (ح۔۶۳۲) بحوالۂ کتاب دعائمُ الاسلام، عربی، جلدِ دوم ، ص ۳۲۰۔
قَالَ اللّٰہ عَزّ وَجَلَّ: اَلْخَلْقُ عِیَالِی فَاَحَبُّھُمْ اِلَیَّ اَلْطَفُھُمْ بِھِمْ وَاَسْعَاھُمْ فِیْ حَوَائِجِھِمْ= اللہ کا ارشاد ہے: تمام مخلوق میرا کنبہ ہیں، لہٰذا میرے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جو ان پر سب سے زیادہ مہربان ہے، اور ان کی حاجات کو پورا کرنے میں زیادہ کوشش کرتا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اور رسولِ پاک صلعم کی پُرحکمت تعلیمات درجہ بدرجہ ہیں، اور یقیناً یہ تعلیم سب سے آخری درجے کی ہے جس کی مثال بڑی عالی شان ہے۔
بحوالۂ کتاب احادیثِ مثنوی، ص ۲۹: قَالَ دَاوُدُ
۱۱۹
عَلَیْہِ السّلام یَا ربِّ لِمَا ذَا خَلَقْتَ الْخَلْقَ؟ قَالَ کُنْتُ کَنْزاًمَخْفِیّاً فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلقْتُ الْخَلْقَ لِکَیْ اُعْرَفَ۔
ترجمہ: حضرتِ داؤد علیہ السّلام نے سوال کیا: یا ربّ! آپ نے مخلوق کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا؟ فرمایا: میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، تو میں نے خلق (عارف) کو پیدا کیا تاکہ میں شناختہ ہوجاؤں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۷، جون۲۰۰۲ ء
۱۲۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۶۹
سورۂ فاطر (۳۵: ۱۰) یہ پُرحکمت ارشاد ہے:اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗ
ترجمہ: اس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے، وہ صرف پاکیزہ قول ہے (علم و عبادت کا) اور عملِ صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے۔
سورۂ انفال (۰۸: ۲۹)یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اگر تم خدا سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تمہارے لئے ایک فرقان =معجزہ=معیار=کسوٹی مقرّر کرے گا، اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کرے گا، اور تمہارے قصور معاف کرے گا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔
ہمیشہ تمام لوگوں پر مہربانی کا ارادہ دل میں رکھے رہو، یہ نُزُولِ رحمت کا بہترین ذریعہ ہے، ارشادِ حضرتِ علی علیہ السّلام ۔
قرآنی حکمتِ بالغہ کا یہ اشارہ ہے کہ ہر دانا شخص ہمیشہ عِیالُ اللہ کی خیر خواہی کرے۔
۱۲۱
كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ(۲۱: ۳۳)= ہر چیز ایک دائرے پر گردش کر رہی ہے۔
(۳۶: ۴۰) وَ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ =اور ہر چیز ایک دائرے پر گردش کررہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ انسانیّت کی روحوں کی یک حقیقت خدا سے آئی ہے، اور یہ حقیقت ہر روحانی قیامت میں اس دائرے کی گردش مکمّل کر جاتی ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۷، جون۲۰۰۲ ء
۱۲۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۰
قرآنِ عزیز میں ۲۴۰ مرتبہ لفظِ ناس آیا ہے، انس ۱۸ بار ہے، انسان ۶۵ بار ہے، بشر ۲۶ دفعہ ہے، آدم و بنی آدم کا لفظ ۲۵ دفعہ آیا ہے،عالمین کا لفظ ۷۳ مرتبہ، لفظِ دنیا ۱۱۵ مقامات پر ہے، ارض کالفظ ۸۶ مقام پر ہے، ان تمام مقامات پر عالمِ انسانیّت ہی کاذکر ہے اور صر ف انسان ہی کا ذکر ہے۔
یہ قرآن حکیم کے معنوی اور باطنی معجزات میں سے ہے کہ ہر عالی اور پُرحکمت مضمون بوقتِ توجّہ و تحقیق سر تا سر قرآن میں محیط ہوجاتا ہے، اور اس وقت عالمِ انسانیّت کا مضمون بھی تمام قرآن میں پھیلا ہوا نظر آرہا ہے، اسی طرح واللہ روحانی قیامت از ابتداء تا انتہا عالمِ انسانیّت کے مفاد میں ہے اور عالمِ شخصی یقیناً عالمِ انسانیّت ہی کے لئے کام کرتا ہے، الحمْدُللہ یہ ساری قربانیاں عیالُ اللہ ہی کے لئے ہیں، لیکن یہاں ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا عیالُ اللہ ذاتِ سبحان کی نسبت سے ہے؟ ج: نہیں، خلیفۃ اللہ کی نسبت سے ہے، جیسا کہ حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کا ارشاد ہے: ماقیل فی اللہ فھو فینا۔۔۔۔۔
عالمِ شخصی کی تمام خدمات عالمِ انسانیّت ہی کے لئے ہیں، اور
۱۲۳
حظیرۂ قدس کے اسرارِ عظیم بھی عالمِ انسانیّت ہی سے متعلق ہیں، پس اللہ تعالیٰ عالمِ انسایت پر نہایت مہربان اور بیحد فضل فرمانے والا ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۱۸، جون۲۰۰۲ ء
۱۲۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۱
لغاتُ الحدیث (کتاب “ر”) میں یہ حدیثِ شریف ہے: کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۔
ترجمہ: تم میں سے ہر شخص سردار= نگہبان ہے اور قیامت کے دن اس کی رعیّت کی اس سے باز پرس ہوگی۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے ہر انسان کے عالمِ شخصی میں بحدِّ قوّت ایک بادشاہی رکھی ہے، پس جو شخص اس بادشاہی کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں نہیں لاتا ہے، قیامت کے دن اس کی رعیّت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا، کیونکہ اللہ جَلَّ جَلالہٗ ایسا قادرِ مطلق ہے کہ اگر دنیا کے سب انسان اپنے اپنے عالمِ شخصی کے بادشاہ ہوجائیں، تو ہر بادشاہ کی رعیّت میں دنیا بھر کے لوگ موجود ہوں گے۔
مثال کے طور پر رسولِ اکرمؐ نے فرمایا کہ تم میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے بادشاہ ہوجاؤگے۔ یہ فرمانِ رسولؐ منشائے الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھا، پس اگر دنیا کے سب لوگ رسولِ خدا کی کما کان حقَّہٗ اطاعت کرتے تو خدا ان سب کو حسبِ وعدۂ رسول صلّی اللہ علیْہ وَآلہٖ وَسَلّم عالمِ شخصی کا بادشاہ بنادیتا، خدا کی قدرت کے لئے نہ عجز ہے، نہ دشواری
۱۲۵
اور نہ کوئی تنگی، مُوْتُوا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا اور روحانی قیامت کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے، کیونکہ اس کے علم وحکمت اور معرفت کے خزانوں کی برکت سے تمام سوالات ختم ہوجاتے ہیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۱۸، جون۲۰۰۲ ء
۱۲۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۲
کچھ لوگ زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنّت میں لے جائے جائیں گے:۔
“مجھے ایسے لوگوں پر ہنسی آتی ہے جو تمہارے پاس مشرق کی طرف سے آئیں گے، انہیں جنّت کی طرف کھینچ کر لے جایا جائے گا اور وہ اسے ناپسند کریں گے۔”
رسولِ اکرمؐ
“مجھے ایسے لوگوں پر ہنسی آتی ہے جنہیں زنجیروں میں جکڑکر بہشت کی طرف لے جایا جائے گا۔” رسول اکرمؐ
“خدا ایسے لوگوں پر تعجب کرے گا جو بہشت میں زنجیروں کے ساتھ داخل ہوں گے۔” رسولِ اکرمؐ
“تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ مجھے کس بات پر ہنسی آئے گی؟ میں اپنی امت میں ایسے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں جنہیں زنجیروں میں جکڑ کر بہشت میں لے جایا جائے گا اور وہ اسے ناپسند کریں گے۔” پوچھا گیا: “یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے؟” فرمایا: “عجم کے کچھ لوگ۔” رسولِ اکرمؐ
(بحوالۂ میزانُ الحکمت ، جلد دوم ص ۲۲۰)
آنحضرت صلّی اللہ علیہ وآلہٖ کے ان ارشادات کی تاویل میں روحانی قیامت کی زبردستی سے لوگوں کے بہشت میں داخل ہونے کی
۱۲۷
مثال دی گئی ہے، ہر زمانے میں طوعاً (خوشی سے) خدا کی طرف لوٹ جانے والے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں مگر قیامت کی سختی سے (کرھاً) مجبور ہوکر لوٹ جانے والے لوگ بے شمار ہوتے ہیں، بہر حال جب مخلوقات تمام کی تمام عیالُ اللہ ہیں اور اب سب بہشت میں ہیں، تو پھر بہشت کے امن و سلامتی کا قانون چلے گا۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۱۹، جون۲۰۰۲ ء
۱۲۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۳
سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں ارشاد ہے:وَ لِلّٰهِ یَسْجُدُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا=اور آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں خوشی سے یا مجبوری سے سب اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں۔
سورۂ نور (۲۴: ۴۱) کا ارشاد ہے:اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یُسَبِّحُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ-كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَفْعَلُوْنَ۔
ترجمہ: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کررہےہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اُڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح جانتا ہے، اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۴) کا ارشاد ہے:وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ-اِنَّهٗ كَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا۔
ترجمہ: کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کررہی ہو، مگر تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو، حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی حلیم
۱۲۹
اور درگزر کرنے والا ہے۔
ہم اس کتاب کے مقصد اور طریقِ استدلال کو دیباچہ میں بھی زیرِ بحث لائیں گے، ان شاء اللہ یہ کتاب حدیثِ شریفِ اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ کی ایک تفسیر ہوگی، اس موضوع میں ہماری حقیرانہ کوشش یہ ہے کہ روحانی قیامت اور قرآن حکیم میں عالمِ انسانیّت کے لئے اللہ تعالیٰ کی جو بے پایان نعمتیں ہیں، ان میں سے چند مثالیں پیش کرکے یہ بتا دیا جائے کہ عالمِ انسانیّت کے باطن کا باطن خدا کی نظر میں بہت ہی عزیز ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۱۹، جون۲۰۰۲ ء
۱۳۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۴
بحوالۂ کتاب عملی تصوّف اور روحانی سائنس، بعنوانِ معجزۂ نوافل، قسط اوّل۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے، اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی ان چیزوں سے جو مجھے پسندیدہ ہیں، میرا قرب نہیں حاصل کرسکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسماءُ الحُسنیٰ =اسمِ اعظم کا زبردست اور قیامت خیز خزانہ ٔ نوافل ہر دور میں بےمثال اور لاجواب رہا ہے، لہٰذا آئیے ہم عرفاء سے سوال کرتے ہیں کہ مذکورہ حدیثِ قدسی کے مطابق جب اللہ جلَّ جلالہٗ اپنے کسی محبوب بندے کا کان ہوجاتا ہے تو وہ باسعادت بندہ اس خدائی کان سے ابتداءً کیا سنتا ہے، اور آگے چل
۱۳۱
کر کیا سنتا ہے؟
جواب: اسرافیلی معجزات اور بعض فرشتوں کی تسبیحات اور آگے چل کر ہر گونہ عارفانہ اسرار سنتا ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۰ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۳۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۵
بحوالۂ صحیح البخاری، جلد سوم، کتابُ الرّقاق، جس طرح کتاب عملی تصوّف میں معجزۂ نوافل قسطِ اوّل اور قسطِ دوم کے عنوان کے تحت لکھا گیا ہے، وہ ہر عاشقِ صادق کے لئے از بس ضروری ہے، از بس ضروری، کیونکہ وہ حدیثِ قدسی ہے یعنی کلامِ الٰہی، جس میں روحانی قیامت کے اصولات = اساسی قوانین کا بیان ہے اور اس بیانِ پُرحکمت سے اسمِ اعظم کے ذاکرکو بہت بڑا حوصلہ مل سکتا ہے۔
اگر اللہ پاک اپنے کسی محبوب بندے کا کان بن جاتا ہے، آنکھ بن جاتا ہے، ہاتھ بن جاتا ہے اور پاؤں بن جاتا ہے تو کیا یہ بہت بڑا روحانی اور باطنی انقلاب نہیں ہے؟ کیا اس انقلاب سے معرفت کے عظیم معجزات کا مشاہدہ نہیں ہوگا؟ آیا ایسے میں اللہ کا دیدار نہیں ہوگا؟ جبکہ اللہ کا پاک نور اپنے عاشقِ صادق کے لئے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں کا کام کررہا ہوتا ہے، اللہ جلَّ جلالہ کی ایسی عظیم الشّان نعمتوں کا ذکرِ جمیل بیحد ضروری ہے، تاکہ لوگوں کو اللہ کی قدرت، حکمت اور رحمت پر زیادہ سے زیادہ یقین ہو، الحمدللہ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۰ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۳۳
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۶
صنادیقِ جواہر: سوال ۴۷۸: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ اس سوال کے جواب میں آنحضرت صلّی اللہ علیْہ و آلہٖ وسلّم کے پانچ ارشادات ہیں: (۱) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوری، (۲) اوّلُ مَا خَلَق اللّٰہُ القَلَمَ، (۳) اوّلُ مَا خَلَق اللّٰہُ الْعَقْلَ، (۴) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ اللَّوحَ، (۵) اوّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ الرُّوْحَ۔ آپ یہ بتائیں کہ پانچ مختلف چیزیں بیک وقت اوّل کس طرح ہوسکتی ہیں؟
جواب: یہ ایک ہی ازلی حقیقت ہے جس کے یہاں پانچ نام ہیں، اس کا تذکرہ کسی بھی نام سے ہوسکتا ہے، چنانچہ آنحضرتؐ نے موقع و محل کے مطابق اس کا ایک نام ظاہر فرمایا، قلم اور لوح عقل و جان کے سوا نہیں ہیں، یہ نبیؐ اور علیؑ کے نورِ واحد و یکتا کے اسمائے ازل ہیں، ازل کا دوسرا نام دھر ہے، جو زمانِ ساکن ہے=زمانِ ناگزرندہ۔
کتابِ کوکبِ درّی بابِ سوم منقبت ۳۴ میں مولا علیؑ کا ارشاد ہے: اَنَا الْمُتَکلِّمُ بِکُلِّ لُغَتٍ فِی الدُّنْیَا۔ یعنی میں ہوں وہ شخص جو دنیا کی ہر لغت و زبان میں کلام کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دنیا کے سب لوگ امامِ زمان علیہ السّلام کا باطنی کلام سننے کے قابل ہوجائیں تو امام بحکمِ خدا
۱۳۴
تمام لوگوں سے ایک ساتھ ان کی اپنی زبان میں کلام کر سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان میں امامِ زمانؑ کے نور کی ایک چنگاری ہے۔
امامِ زمان علیہ السّلام باطن میں لوگوں پر گواہ ہوتا ہے۔ (۲۲: ۷۸)، (۰۲: ۱۴۳)۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۰ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۳۵
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۷
سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) کا پُر ازحکمت ارشاد ہے:وَ مَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ ۔
ایک ترجمہ: اور ہم نے تمام رسولوں کو ان ہی کی قومی زبان میں رسول بنا کر بھیجا ہے، یہاں یہ جائز اور عاقلانہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا حضورِ اکرم صلعم اللہ کی طرف سے تمام اہلِ جہان کے لئے رحمت نہ تھے؟ (۲۱: ۱۰۷)
سورۂ اعراف (۰۷: ۱۵۸) کا ارشاد ہے:قُلْ یٰاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا۔
(اے محمدؐ!) کہو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا پیغمبر ہوں جو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے۔۔۔۔۔ سوال جو پیدا ہوا تھا، وہ یہ ہے کہ یقیناً خداوندِ عالم نے جب اپنے کسی رسول کو بھیجا تو اس کی اپنی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح آنحضرتؐ کو بھی اپنی قوم کی زبان (عربی) میں بھیجا اور آپؐ پر جو کتاب نازل ہوئی یعنی قرآن وہ بھی عربی میں ہے، اور کتاب کی تفسیر و تاویل کی غرض سے الٰہی نور بھی نازل ہوا، یہ نورِ مجسّم زمانۂ نبوّت میں آنحضرتؐ خود تھے، اور آپؐ کے بعد امامِ برحقؑ جو جانشینِ رسولؐ ہے، وہ نور ہے (۰۵: ۱۵)، خدائی رحمت دنیا میں پھیل جانے کے لئے آئی تھی سو اسلام پھیلنے لگا،
۱۳۶
آنحضرتؐ کی قوم بھی اور قومی زبان بھی پھیلنے لگی، لہٰذا کون یہ کہتا ہے کہ ظاہر میں قرآن و حدیث کے ترجمہ و تفسیر کا کوئی جواز نہیں؟ اور کون کہتا ہے کہ باطن میں تاویل کا کوئی جواز نہیں جبکہ تاویل وہی کرتا ہے جس کے پاس الٰہی نورہے (۰۵: ۱۵)؟
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۲۱ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۳۷
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۸
سورۂ قیامت (۷۵: ۱۹)ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ= پھر اس کا بیان=تاویل کرنا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے۔ لفظِ تاویل اور اس کی حکمت کے لئے ملاحظہ ہو، کتاب ہزار حکمت (ح:۱۸۴) تا (ح:۲۰۴) کل ۲۱ حکمتیں ہیں، آپ ان کے جوہر سے اپنے سرمایۂ عقلی میں اضافہ کریں، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔
اہلِ معرفت کے نزدیک یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ علیٔ زمان جو آلِ محمدؐ ہے، وہ اللہ کا زندہ اسمِ اعظم، صاحبِ روحانی قیامت، نورِ الٰہی اور مؤوِّلِ قرآن ہے، لہٰذا وہ تو علمِ تاویل کا خزانہ دار ہے، لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ آیا تاویلی حکمت تک لوگ رسا ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ ج: کیوں نہیں، سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶۹) کا ارشاد ہے:یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا-وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ ۔
ترجمہ: خدا جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو خدا کی طرف سے حکمت عطا کی گئی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اسے خوبیوں کی بہت بڑی دولت ہاتھ لگی اور عقل مندوں کے سوا کوئی نصیحت مانتا ہی نہیں۔
پس تاویلی حکمت یا نورانی تاویل کے لئے فنا فی الامام کا قانونِ قدیم مقرّر ہے، جس کے نتیجے میں اللہ عرفاء کو حظیرۂ قدس کی بہشت میں خزائنِ
۱۳۸
تاویل سے نوازتا ہے، اس کے لئے تین اصول ہیں: اللہ کی حقیقی اطاعت، رسولؐ کی حقیقی اطاعت، صاحبِ امر = امامِ زمانؑ کی حقیقی اطاعت، اور قرآنِ حکیم میں یہی حکم ہے (۰۴: ۵۹) اس حکم میں سب سے پہلے اللہ کی اطاعت ہے، پھر رسولؐ کی اطاعت ہے، بعد ازان اولواالامر کی اطاعت ہے، جس میں مولا علیؑ سب سے اوّل ہے، اور مولا علیؑ کی ظاہری معرفت کے لئے تین عظیم سرچشمے ہیں، اوّل قرآنِ حکیم، دوم حدیثِ شریف، اور سوم خود مولا علیؑ کا تعارفی کلام۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۲۲ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۳۹
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۷۹
مولا علی علیہ السّلام کا اپنا تعارفی کلام: اَنَا الْاسماءُ الْحُسْنیَ الَّتِیْ اَمَرَ اللہُ اَنْ یُّدْعیٰ بِھا۔ یعنی میں خدا کے وہ اسماءِ حسنیٰ ہوں جن کے بارے میں خدا نے ارشاد فرمایا ہے کہ انہی ناموں سے اس کو پکارا جائے (۰۷: ۱۸۰)۔
اَنَااللَّوْحُ الْمَحْفُوْظُ۔ یعنی میں لوحِ محفوظ ہوں (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)۔
اَنَا خَازِنُ عِلْمِ اللہ۔ یعنی میں علمِ الٰہی کا خزانہ دار =خزانچی ہوں۔
اَنَا النَّاقُوْرُ (۷۴: ۰۸)۔ یعنی میں صورِ اسرافیل ہوں۔
اَنَا النُّورالَّذِیْ اِقْتَبَسَ مِنْہُ مُوسیٰ فَھَدٰی۔ یعنی میں وہ نور ہوں جس سے موسیٰؑ نے روشنی طلب کی، تو ہدایت پائی۔
سورہ نمل (۲۷: ۰۸) کا ارشاد ہے:فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ترجمہ: (موسیٰ) جو وہاں پہنچا تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے، اور جو اس کے ماحول میں ہے، پاک ہے اللہ سب جہان والوں کا پروردگار۔
اس آیۂ شریفہ میں جو لفظِ بُوْرِك (وہ برکت دیا گیا=مبارک) ہے، وہ
۱۴۰
ذاتِ سبحان کے لئے نہیں ہے، پس یہ مولا علیؑ ہی کا نور تھا، جیسا کہ مولا نے خود ہی فرمایا۔
آپ مولا علی علیہ السّلام کے اپنے تعارفی کلام کو عشق و محبت کے ساتھ پڑھیں تاکہ آپ کی امام شناسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوسکے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۲۲ ، جون۲۰۰۲ ء
۱۴۱
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۰
اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ کے بابرکت و پُرحکمت ارشاد میں کَما کَانَ حَقَّہٗ سوچنا از بس ضروری ہے، از حد ضروری ، کیونکہ اس ارشادِ عالی میں یہ زبردست ضمانت ہے کہ خدا کے کنبہ یعنی تمام انسانوں کو بالآخر جنّت میں لے جانا ہے، اور اس حقیقت کی آسمانی تصدیق اس آیۂ شریفہ سے ہوتی ہے جس میں عالمِ انسانیّت کے لئے یہ انتہائی عظیم بُشارت ہے کہ اللہ جَلَّ جلالہٗ نے اپنے محبوب رسولؐ کو تمام انسانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) اور ساتھ ہی ساتھ امامُ المُتَّقین کو امامُ النَّاس بھی بنایا، تاکہ وہ بحکمِ خدا روحانی قیامت کی بے پایان نعمتوں سے عیالُ اللہ یعنی تمام مخلوقات کو فیض یاب کردے (۱۷: ۷۱) کیونکہ امامِ آلِ محمدؐ خود روحانی قیامت ہے، اور قرآن میں قیامت کے جتنے اسماء آئے ہیں، وہ سب امامِ عالی مقامؑ کے قیامتی اور تاویلی اسماء ہیں۔
حضرتِ امامِ مبین علیہ السّلام جو روحانی قیامت کا مالک ہے، مراحلِ قیامت کی ہر سختی کو عارِف = نفسِ واحدہ پر ڈالتا ہے، اور عیالُ اللہ کو غیر شعوری قیامت کے حجاب میں رکھتا ہے، جب لوگ سب کے سب بہشت میں جائیں گے، تو اس وقت صرف عارفوں کے نامۂ اعمال = نورانی موویز میں قیامت کے معجزات ریکارڈ ہوں گے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۲۳، جون۲۰۰۲ ء
۱۴۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۱
بحوالۂ کتاب صنادیقِ جواہر: سوال۔۴۷۹: آپ نے تو بتایا تھا کہ نورِ محمدؐ قلم ہے اور نورِ علیؑ لوح، کیا یہ ضروری نہیں کہ یہ دونوں پاک چیزیں الگ الگ ہوں؟ اگر نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِ امامِ مبین کرسی، تو کیا یہ دونوں عظیم درجے جدا جدا نہیں ہیں؟
جواب: (۱) عالمِ شخصی کے بہت سے مراحل کے بعد حظیرۂ قدس =عالمِ وحدت آتا ہے، جس کے بارے میں عرفاء یہ کہتے ہیں کہ وہاں قانونِ وحدت کی وجہ سے ایک ہی عظیم فرشتۂ نور قلم بھی ہے اور لوح بھی، یہی مَلَک = فرشتہ محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد بھی ہے، اور عقلِ کلّ و نفسِ کلّ بھی یہی ہے۔
(۲) یقیناً نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِ علیؑ کرسی، لیکن یہ نورِ واحد ہے اور فرشتۂ واحد، جو عرش بھی ہے اور کرسی بھی، بلکہ وہی عظیم فرشتہ بحقیقت روحانی و نورانی آسمان بھی ہے اور زمین بھی۔
سوال۔ ۴۸۰: اکثر لوگوں کے نزدیک تصوّرِ ازل انتہائی بعید ماضی کی طرح ہے، لیکن اس کے برعکس آپ تو یہ کہتے ہیں کہ عالمِ شخصی کے روحانی سفر کے آخر میں براہِ راست ازل اور لامکان کا مشاہدہ ہوتا ہے، آپ اس عجیب و غریب حکمت کی وضاحت کریں؟
۱۴۳
جواب: (۱) عالمِ شخصی کا روحانی سفر جسم سے روح کی طرف، مکان سے لامکان کی طرف، زمین سے آسمان کی طرف، اور آخر سے اوّل کی طرف ہے۔
(۲) چونکہ یہ سفر مدَوّر (گول) ہے، لہٰذا ہم کو گھوم کر واپس وہاں جانا پڑتا ہے، جہاں سے ہم آئے تھے۔ (۳)۔ امامِ مبینؑ میں سب کچھ ہے، اس کا تجربہ عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، خصوصاً جبین میں، جو عالمِ علوی ہے، جس میں ازل و ابد کے اسرار ہیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۲۳، جون۲۰۰۲ ء
۱۴۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۲
چونکہ یہ سفر مُدَوّر (گول) ہے، لہٰذا ہم کو گھوم کر واپس وہاں جانا پڑتا ہے، جہاں سے ہم آئے تھے۔ سوال: آیا یہ تمام انسانوں کی بات ہے؟
ج: جی ہاں۔
سوال: ہم سب انسان کہاں سے آئے تھے؟ ج:ح۔ق کی جنّت سے۔
سورۂ دھر (۷۶: ۰۱) کا پُر ازحکمت ارشاد ہے:هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا ۔
ترجمہ: آیا انسان پر دھر (زمانِ ناگزرندہ) میں سے ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔
اس آیۂ شریفہ کا حکمتی اشارہ معجزۂ ظہورِ حظیرۂ قدس کی طرف ہے، اس میں اسرارِ معرفت کا بہت بڑا خزانہ ہے، یہ معجزہ تجدّد کا قدیم سلسلہ ہے، ہر روحانی قیامت میں تمام روحیں نفسِ واحدہ کے ساتھ آکر یہاں فنا ہوجاتی ہیں، حظیرۂ قدس مکان و زمان سے بالاتر ہے، یہاں ازل و ابد کا سنگم ہے، مشرق و مغرب کا سنگم ہے، فنا و بقا کا، آسمان و زمین کا، یہاں صاف وپاک اور میٹھے پانی کا ایک کنواں اور ایک محل ہے، کتابِ مکنون اور گوہرِ عقل بھی یہاں ہیں۔
۱۴۵
جب انسان سب کے سب عیال اللہ ہیں تو پھر وہ نفسِ واحدہ میں فنا ہوجانے کے بعد فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں، اوریہ غیر شعوری فنا ہے، آپ تمام انسانوں کے حق میں ہمیشہ نیک خیالات رکھنا اور ان کے لئے کوئی مفید خدمت کرنا۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۲۴، جون۲۰۰۲ ء
۱۴۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۳
اللہ تبارک و تعالیٰ کے بابرکت اسمائے صفات سب کے سب ہمیشہ عالمِ انسانیّت ہی کے لئے بے پایان اور لازوال آسمانی خزانے ہیں، چنانچہ اللہ جلَّ جلالہٗ کے ہر اسمِ صفت کا خزانہ اپنی نعمتوں کی مسلسل بارش عالمِ انسانیّت ہی پر برسا رہا ہے، جس طرح آفتابِ عالمتاب کا سر چشمہ لگاتار اپنی روشن اور گرم شعاعوں کی بارش برساتا رہتا ہے، بالکل سورج ہی کی طرح دائم الوقت اسمائے الٰہی خدا کی خدائی میں کام کر رہے ہیں۔
سب سے پہلے آغازِ قرآنِ عزیز میں دیکھیں جہاں حضرت ربّ نے اپنی ذاتِ پاک کی پُرحکمت تعریف فرمائی کہ وہ ہرہر عالمِ شخصی یعنی ہر انسان کا بطورِ خاص پرورش کرنے والا ہے، ربُّ العٰلَمِین کا نظامِ پرورش بڑا عجیب و غریب ہے، یہ نظامِ ربوبیّت عام سے عام تر بھی ہے اور خاص سے خاص تربھی۔
پس عالمِ جمادات، عالمِ نباتات، عالمِ حیوانات اور عالمِ انسان کی پرورش درجہ بدرجہ ہے، یقیناً ہر انسان عالمِ صغیر بلکہ عالمِ کبیر ہے، کیونکہ اس میں عالمِ اکبر لپیٹا ہوا موجود ہے۔
اے صاحبانِ عقل و دانش، دیکھو اور خوب سوچو! کہ قرآنِ حکیم
۱۴۷
میں تمام آسمانی کتابوں کا علم جمع ہے، اور قرآن کا تمام علم اُمُّ الکتاب میں جمع ہے اور اُمُّ الکتاب کی چوٹی پر عالمِ انسانیّت کی خاصُ الخاص پرورش کا ذکرِ جمیل ہے، کیا اس میں انتہائی عظیم حکمت نہیں ہے؟ ان شاء اللہ العزیز!
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل،۲۵، جون۲۰۰۲ ء
۱۴۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۴
بحوالۂ کتابِ ہزار حکمت (ح: ۷۰۱) مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ۔ جو (جیتے جی) مرگیا تو اس کی روحانی قیامت قائم ہوئی۔ یقیناً یہ حدیثِ شریف روحانی قیامت کے بارے میں ہے، جو عارفانہ قیامت ہے، کیونکہ جو شخص جسمانی موت سے مرجاتا ہے اس کے لئے اسرافیلی اور عزرائیلی معجزات نہیں ہوسکتے، اور نہ ہی مرنے والا اسمِ اعظم کا ذکر کر سکتا ہے، جو روحانی قیامت کا سرچشمہ ہے، حکیم پیر ناصر خسرو کے نزدیک خدا کی بادشاہی میں بے پایان قیامات کا سلسلہ خدا کی ایک بہت ہی عظیم تعریف ہے، کیونکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السّلام کے تمام اسرارِ حکمت و معرفت روحانی قیامت میں پوشیدہ ہیں۔
عالمِ انسانیّت اور عیالُ اللہ کی عزّت و برتری روحانی قیامت میں ہے، اور آدمؑ و بنی آدم کی یکجا کرامت و فضیلت بھی اسی میں ہے، (۰۷: ۱۱) کا تاویلی مفہوم: ہم نے نفسِ واحدہ = تمہارے باپ آدم کے ساتھ تمہاری روحانی تخلیق کی، پھر تمہاری روحانی صورت بنائی، پھر فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو، اس آیہ شریفہ میں جس طرح خدائے علیم و حکیم نے آدم اور بنی آدم کو ساتھ رکھا ہے، ان کو کوئی شخص معنی اور بیان کے ذریعے الگ الگ نہیں کرسکتا ہے۔
۱۴۹
آج میں آپ کو معرفتِ آدمؑ کا ایک عظیم راز بتاتا ہوں، کہ جب آدم میں الٰہی روح پھونک دینے کا وقت ہوا تو خدا کے حکم سے اسرافیلؑ نے صور پھونکا جس سے ایک ساتھ کئی عظیم معجزات ظہور پزیر ہوئے۔
(۱) روحانی قیامت برپا ہوئی۔
(۲) تمام روحیں آدم میں جمع ہوکر اس کی ذرّیت =اولاد ہوگئیں۔
(۳) فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا، وغیرہ۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل،۲۵، جون۲۰۰۲ ء
۱۵۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۵
سورۂ زمر (۳۹: ۰۶) کا ارشاد ہے: خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا
ترجمہ: اسی نے تم (سب) کو ایک جان (آدم) سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا (یعنی حوّا)۔
قسط: ۸۴ کا آخری پیراگراف ملاحظہ ہو: آج میں آپ کو معرفتِ آدمؑ کا ایک عظیم راز بتاتا ہوں کہ جب آدم میں الٰہی روح پھونک دینے کا وقت ہوا تو خدا کے حکم سے اسرافیلؑ نے صور پھونکا جس سے ایک ساتھ کئی عظیم معجزات ظہور پذیر ہوئے۔ (۱) روحانی قیامت برپا ہوئی۔ (۲) تمام روحیں آدم میں جمع ہوکر اب اس آدم کی ذریّت و اولادِ روحانی ہوگئیں۔ (۳) ان سب کا اگلا نسب و رشتہ ٹوٹ گیا (۲۳: ۱۰۱)۔ (۴) سوائے ابلیس کے کل فرشتوں نے آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو سجدہ کیا۔ (۵) یہ سجدہ انتہائی عجیب و غریب تھا، عرفاء نے مشاہدہ تو کیا ہے لیکن بیان کی عکاسی بہت مشکل ہے، بہر حال آدم کے عالمِ شخصی میں روحاً و باطناً کائنات، اس کے اجزاء اور ذرّات باربار گرتے تھے، یہ ایک طرف سے چھوٹے بڑے کلّ فرشتوں کا سجدہ تھا اور دوسری طرف سے تسخیرِ کائنات تھی، اور اس میں بہت سے اسرار
۱۵۱
پوشیدہ ہیں، اب آدم اکیلا نہیں تھا بلکہ اس کے بے شمار فرزندانِ روحانی بصورتِ روح اس کے ساتھ تھے، لہٰذا میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ تم فرشتوں کی کثرت میں ساجدین بھی تھے، اور آدم کی وحدت میں مسجود بھی۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ،۲۶، جون۲۰۰۲ ء
۱۵۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۶
حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: مومن کی روح ہماری روح ہے۔ (کلام امامِ مبین، حصّۂ اوّل، راجکوٹ، ۲۰۔۲۔ ۱۹۱۰ء)
یہ مولا علی علیہ السّلام کے اس ارشاد کی تاویلی حکمت ہے: وہ ارشاد یہ ہے: مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ =جس نے اپنی روح حظیرۂ قدس میں پہچان لی اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
حظیرۂ قدس جنّت ہے، حدیثِ شریف میں ہے کہ جو شخص جنّت میں داخل ہوتا ہے، وہ اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوتا ہے، اور آدم جنّت میں رحمان کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا۔
حجتِ قائم سلامُ اللہ علیھما کا یہ بابرکت ارشاد ایسی کامیاب روح سے متعلق ہے جو ح۔ق میں داخل ہوچکی ہے، آدم خلیفۃ اللہ علیہ السلام کی وحدت میں بنی آدم سب کے سب ح۔ق میں داخل ہوگئے تھے، مگر وہ سب آدمؑ میں فنا ہوچکے تھے۔
بحوالۂ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) سوال: یہ کونسا روحانی مقام ہے، جہاں خداوندِ عالم کل روحوں سے پوچھتا ہے: اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ=آیا میں
۱۵۳
تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟
جواب: یہ مقامِ حظیرۂ قدس ہے۔
سوال: کیا ہر روحانی قیامت میں عہدِ اَلَسْت کا تجدّد ہوتا ہے؟
جواب: جی ہاں، تمام خاص اور عظیم معجزات کا تجدُّد ہوتا ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات،۲۷، جون۲۰۰۲ ء
۱۵۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۷
حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: آپ اپنی روح کو بیدار اور ہوشیار رکھنا، آپ فرشتے بن جائیں بلکہ فرشتوں سے بھی بلند درجے پر پہنچ جائیں، جن کے کام اچھے اور پاک ہیں، جن کا ایمان کامل، دل، زبان، کان، ہاتھ، پاؤں اور منہ گناہ سے پاک ہیں، وہی جبرائیل سے بھی زیادہ اونچے درجے پر فائز ہوجائیں گے، اس لئے آپ علم و معرفت میں ہوشیار ہوجائیں تاکہ آپ جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل سے بھی زیادہ بلند درجے پر پہنچ سکیں۔
سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) کا ارشاد ہے: ترجمہ: اے ایماندارو! خدا سے ڈرو، اور اس کے رسول (محمدؐ) پر ایمان لاؤ، جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے، تو خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصّے عطا فرمائے گا، اور تم کو ایسا نور عطا فرمائے گا، جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تم کو بخش دے گا، اور خدا تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ اس ربّانی تعلیم میں جس پاک نور کا ذکر ہے وہ سب سے پہلے حضرت علی علیہ السّلام ہے۔
اسلام میں کامیابی کی سب سے بڑی شرط خوفِ خدا ہے، اور دوسری عظیم شرط رسولؐ پر حقیقی معنوں میں ایمان لانا ہے، آپ غور سے دیکھیں
۱۵۵
یہی دو عظیم شرطیں علیؑ کے نور کی معرفت کے لئے بھی ہیں، پس یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چراغِ نورِ امامت تو ہر زمانے میں موجود ہو، اور اس نور کے کچھ بھی پروانے نہ ہوں؟
مولائے پاک نے فرمایا: دنیا میں ہمیشہ تین سو تیرہ (۳۱۳) مومن ہوتے ہیں، اگر وہ نہ ہوں تو دنیا کا نظام نہ چلے۔ یہ کون ہیں؟ حدودِ دین ہیں؟ جسمِ کثیف میں ہیں یا جسمِ لطیف میں؟ فرشتے بن چکے ہیں یا بشر ہیں؟
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات،۲۷، جون۲۰۰۲ ء
۱۵۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۸
حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: اگر تمہیں قرآن مجید سیکھنے کی خواہش ہے تو اس کے حقیقی معنی جاننے والوں کے شاگرد بنو۔
امامِ عالی مقام علیہ السّلام جن سالکین کو بطریقِ باطن قرآنی حکمت کی تعلیم دینا چاہتا ہے، تو آنجناب اسمِ اعظم اور روحانی قیامت کے ذریعے سے ان کو نورانی تعلیم دیتا ہے، نورانی تعلیم عین الیقین سے شروع ہوکر حق الیقین تک جاتی ہے، حق الیقین کا درجہ حظیرۂ قدس میں ہے، چونکہ زندہ اسمِ اعظم امامِ زمانؑ خود ہی ہے، لہٰذا بڑا خوش نصیب سالک وہ ہے جو امامِ زمانؑ کا عاشقِ صادق ہے۔
یہ بات بتا دینا بیحد ضروری ہے کہ ایسا کوئی شخص حضرتِ امامؑ سے اسمِ اعظم حاصل کرنے کے لئے کوشش نہ کرے جس کو امام پر کامل یقین اور عشق نہ ہو، کیونکہ امامِ زمان علیہ السّلام کے پاک و پُرحکمت عشق کے بغیر اس میں کوئی کامیابی ممکن ہی نہیں، اسی طرح سالک کو نورِ اسمِ اعظم کی روشنی میں قرآنِ مجید کے تاویلی معجزات کو دیکھنے اور سمجھ لینے کے لئے قرآن سے حقیقی اور کامل عشق ہونا از حد ضروری ہے، وہ یہ کہ سالک قرآن کے ظاہری
۱۵۷
علم سے خوب آگاہ اور واقف ہو، پھر ایسا کوئی با سعادت سالک ان شاء اللہ رفتہ رفتہ فنا فی القرآن اور فنا فی الامام ہوجائے گا۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ،۲۸، جون۲۰۰۲ ء
۱۵۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۸۹
بحوالۂ ہزار حکمت (ح:۴۳۱) سرابیل=کُرتے (۱۶: ۸۱) نورانی ابدان، بہشتی لباس=اجسامِ لطیف=لبوس (۲۱: ۸۰) طَیْر =پرندہ (۰۵: ۱۱۰) جثۂ ہائےابداعیہ، خلقِ جدید (ہزار حکمت ح:۳۲۴) اجسامِ مثالی=اجسامِ فلکی=اہلِ ایمان از قومِ جنّ=پری۔
قرآنِ حکیم میں تسخیرِ کائنات کے مضمون کو پڑھیں، یہ سب بہشت کی نعمتیں ہیں، آپ دنیا ہی میں بہشت کی معرفت حاصل کریں، آپ ہر چیز کی ابتدائی معرفت علم الیقین ہی سے حاصل کر سکتے ہیں، پس علم الیقین تمام انسانوں کیلئے بیحد ضروری ہے، آپ نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جانے کے بعد کائنات کی سیاحت کر سکتے ہیں، اسرارِ کائنات معلوم کر سکتے ہیں، آدم خلیفۃُ اللہ کی نورانی مووی میں خود کو اور تمام انسانوں کو دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ بہشت میں کوئی بھی نعمت غیر ممکن نہیں، خصوصاً کوئی بھی علمی اور تاریخی سوال ایسا نہیں، جس کا بہترین جواب نہ ملے۔
الغرض بہشت میں ہر عظیم نعمت ہے، ہر خزانہ ہے، اور ہر معجزہ ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ،۲۸، جون۲۰۰۲ ء
۱۵۹
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۹۰
سوال: انسان کے کان بجنے میں کیا راز ہے؟
جواب: رازِ اوّل وہ مَثَلِ بَعُوضَہْ ہے: بحوالۂ سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶)۔
رازِ دوم: وہ ناقورِ قیامت کا نقطۂ آغاز ہے: (۷۴: ۰۸)۔
رازِ سوم:یہ قیامت کا داعی ہے، جو آپ کی اپنی زبان میں روحوں کو بلاتا ہے:(۲۰: ۱۰۸)۔
رازِ چہارم: قیامت کا منادی ہے، جو ایک قریب جگہ سے قیامت کی ندا کرنے والا ہے:(۵۰: ۴۱)۔
رازِ پنجم: ہر شخص میں دو ساتھی ہوتے ہیں: ایک جنّ ایک فرشتہ، یہ فرشتہ ہے، جب داعی ہے: (۲۰: ۱۰۸)۔
رازِ ششم: یہ نورِ امامِ زمانؑ کی چنگاری ہے، کیونکہ مولا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ بَعُوضَہْ میں ہوں (۰۲: ۲۶)۔
سوال: اسکی کیا شہادت=گواہی ہے کہ داعیٔ قیامت ہر کسی کی زبان میں ہوتا ہے؟
جواب: لَاعِوَجَ لَہٗ (۲۰: ۱۰۸)۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ،۲۸، جون۲۰۰۲ ء
۱۶۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۹۱
حجّتِ قائم سلامُ اللہ علیْھُما نے فرمایا: اگر تم دینی علم کی کتابیں پڑھ کر ان پر عمل کروگے تو فرشتے (ملائک) بن جاؤگے۔ (کلام امامِ مبین، حصّۂ اول ، کچھ مندرا، ۲۸۔۱۱۔۱۹۰۳ء)
جنہیں علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا، انہیں روحانی معاملات میں اپنی طرح کرنے کی کوشش کرو۔
تم پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو، اگر تمہیں قرآنِ شریف سیکھنے کی خواہش ہو تو اس کے حقیقی معنی جاننے والوں کے شاگرد بنو، اس طرح تمہیں اس کے حقیقی معنی معلوم ہوں گے۔
تم خوجوں کو دین کی بہت سی کتابوں کی خبر نہیں ہے، اسی لئے زیادہ تر لوگوں نے ایسی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا، ایسی کتب پڑھوگے تو تمہیں سمجھ آئے گی اور تم میں خرابی نہیں رہے گی، ان کتابوں کے پڑھنے سے تمہاری عقل گواہی دے گی کہ تمہارا دین سچا ہے، اس کا تمہیں پتہ چلے گا۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر،۲۹، جون۲۰۰۲ ء
۱۶۱
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۹۲
سورۂ روم (۳۰: ۳۰) کا ارشاد ہے: فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا-لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ-ذٰلِكَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُۗ-وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۗترجمہ و تفہیم: اللہ کا قانونِ فطرت وہ ہے، جس کے مطابق اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا، خدا کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی بالکل راست اور درست دین ہے = یہی قائمؑ کا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدانے تمام لوگوں کو ازل میں روحاً یکسان پیدا کیا ہے، اسی وجہ سے حجتِ قائم علیہ السّلام نے فرمایا کہ روح ایک ہی ہے، اور اسی مہربان نے مونوریالٹی کا انقلابی تصوّر دیا، اللہ اور اس کے محبوب رسولؐ نے تمام لوگوں کو عیال اللہ کا سب سے عظیم ٹائٹل عنایت کیا، حظیرۂ قدس کے تصوّر نے تمام روحوں کو عرشِ اعلیٰ پر دکھایا۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر،۲۹، جون۲۰۰۲ ء
۱۶۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۹۳
سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) کا پر حکمت ارشاد ہے:وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۔
بحوالۂ ہزار حکمت (ح:۵۶۸) ۔ عَرْشُۃٗ : اس کا تخت: سورۂ ھود (۱۱: ۰۷) کی اس ربّانی تعلیم کو خوب غور سے دیکھ لیں: اور وہ تو وہی (قادرِ مطلق) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کے عرش کا (تمثیلی) ظہور پانی پر ہوگیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں زیادہ اچھی کار گزاری والا کون ہے۔
وَّ كَانَ عَرْشُهٗ :اور اس کا عرش تھا/ہوگیا/ہے، چونکہ اصل اور بامقصد قصّہ عالمِ دین کا ہے جس کا عارفانہ مشاہدہ عالمِ شخصی ہی میں ہوتا رہتا ہے، پس نورانی خواب میں عارفین یہ دیکھتے ہیں کہ سمندر پر ایک کشتی نما تخت اور اس پر نور کی تجلّی ہے، یہ صاحبِ عرش کا تمثیلی ظہور اور اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ اب عالمِ شخصی مکمل ہوکر مرحلۂ علم و معرفت میں داخل ہوچکا ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر،۲۹، جون۲۰۰۲ ء
۱۶۳
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۹۴
بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۵۶۹۔۵۷۰) ۔عَرْشُہٗ۔ اس کا تخت: خدائے احد و صمد کے تخت کا پانی (سمندر) پر ہونا عالمِ شخصی کی چوٹی کی مثالوں میں سے ہے، جس کا ذکر ہوچکا اور یقیناً یہی تخت فُلْکِ مَشْحُوْن (بھری ہوئی کشتی ۳۶: ۴۱) بھی ہے اور اس کا نام جَارِیَۃِ (کشتی ۶۹: ۱۱) بھی ہے یعنی سفینۂ نجات ۔
سورۂ حاقۃ میں فرمایا گیا ہے: اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآءُ حَمَلْنٰكُمْ فِی الْجَارِیَةِۙ:جب پانی چڑھنے لگا تو ہم نے تم کو کشتی پر سوار کیا (۶۹: ۱۱) یعنی جب تمہارے زمانے میں قیامتِ صغریٰ کا طوفان ہونے لگا تو ہم نے تم کو کشتیٔ اہلبیتؑ میں سوار کرلیا، یہ سفینۂ نجات بحرِ علم کا عرش بھی ہے اور صاحبِ عرش وہ ذاتِ عالی صفات ہے، جس میں کشتی والوں کو فنا ہوکر ابدی طور پر زندہ ہوجانا ہے، یہی سبب ہے کہ بھری ہوئی کشتی میں سوائے وجہٗ اللہ کے اور کوئی نظر ہی نہیں آتا کیونکہ سب کے سب اسی میں فنا اور واصل ہوچکے ہیں۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر،۲۹، جون۲۰۰۲ ء
۱۶۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۹۵
سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ فیصلہ کن حقائق و معارف روحانی قیامت ہی میں ہیں اور یہی عظیم نعمتیں قرآنِ حکیم میں بھی ہیں، اس حقیقت کی ایک بہت ہی ضروری اور عظیم مثال یہ ہے کہ: اللہ جل شانہٗ نے آدم کو اہلِ زمانہ سے منتخب (صفی =برگزیدہ) فرمایا (۰۳: ۳۳) اور اسی نفسِ واحدہ =ایک جان سے تمام انسانوں کو روحاً پیدا کیا (۳۹: ۰۶)۔ پھر جملہ بنی آدم منزل بمنزل آگے بڑھ کر حظیرۂ قدس کی بہشت میں داخل ہوگئے، اور حضرتِ ربّ کی نوازشات جو آدم علیہ السّلام کو حاصل تھیں وہ بنی آدم کو بھی نصیب ہوئیں، اور خدا نے اپنی بے شمار نعمتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: اَلْسْتُ بِرَبِّکُمْ =آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ (۰۷: ۱۷۲) پس ہر روحانی قیامت میں اللہ تعالیٰ تمام انسانی ارواح کو اپنے قرب اور کلام: اَلْسْتُ بِرَبِّکُمْ ؟ کی نعمت سے نوازتا ہے، اس پاک و پُرحکمت کلامِ خداوندی میں بے شمار نعمتوں کا اشارہ ہے، اور یہ سب لوگوں کی حظیرۂ قدس یا عرش تک برتری ہے، اور اسی معنیٰ میں مولا نے فرمایا کہ تم دنیا ہی میں بہشت اور عرش کو دیکھ سکتے ہو۔
اگر آپ کو ایسے عظیم معجزات یاد نہیں ہیں، تو علمُ الیقین کے ذریعے سے ان پر یقین کر سکتے ہیں، اور بہشت میں ہر بھولی ہوئی نعمت آپ کی خواہش
۱۶۵
پر سامنے آئے گی، اور بہشت کی خصوصیت ہی ایسی ہے کہ وہاں ہر نعمت بدرجۂ انتہا خوشی دیتی ہے۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۳۰ ، جون ۲۰۰۲ ء
۱۶۶
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط :۹۶
حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: آپ اپنے دل میں اپنی روح یعنی ہمارے نور کو دیکھیں ۔ کیونکہ قرآنِ مجید میں نور کی چار نسبتیں ہیں: کہ نور کی نسبتِ اوّل اللہ سے ہے، نسبتِ دوم رسولؐ سے ہے، نسبتِ سوم امامؑ سے اور نسبتِ چہارم مومنین و مومنات سے ہے۔
حضرت مولا نے ارشاد فرمایا: کہ ہر ایک انسان کی روح کے ساتھ امامؑ کا نور منسلک ہے، مومن کا دل امام کے رہنے کا بنگلہ ہے اور وہ عشق پر مبنی ہے۔ (بمبئی ۴۔۴۔ ۱۹۰۸ء)۔
مولائے پاک نے فرمایا: انسان آدم علیہ السّلام کی اولاد ہے، آدم کا درجہ فرشتے سے بھی زیادہ بلند تھا، اس اعتبار سے آپ کا بھی اصل درجہ فرشتے سے اوپر ہے۔ لیکن آپ دنیا میں گناہ کرتے ہیں، ایمان میں غفلت برتتے ہیں، دنیا اور شیطان کے دھوکے میں آجاتے ہیں، اس لئے آپ کی آدمیّت کی روح بوجھل ہوجاتی ہے۔
آدمی را آدمیّت لازم است
بوئے صندل گر نباشد خشک چوب
ترجمہ: آدمی جب آدم علیہ السّلام سے منسوب ہے تو اس
۱۶۷
میں صفتِ آدمیّت کا ہونا ضروری ہے، صندل کو ایک خاص خوشبو کی وجہ سے یہ نام ملا ہے، اگر وہ خوشبو اس میں نہ ہو تو وہ بجائے صندل ہونے کے خشک لکڑی کہلائے گی۔
نصیرالدّین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر،یکم جولائی۲۰۰۲ ء
۱۶۸
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۹۷
سورۂ احزاب(۳۳: ۲۱)کا بابرکت ارشاد ہے:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًا۔
ترجمۂ اوّل:درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا = ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو،اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
ترجمۂ دوم:درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ میں روحانی ترقی کا ایک بہترین نمونہ تھا اور ہے ہر اس شخص کے لئے جو (دنیا ہی میں) اللہ اور یومِ آخر(امامؑ) کے دیدار کا امیدوار ہو، اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے یعنی اسمِ اعظم سے بکثرت خدا کو یاد کرے تو ایسا شخص ان شاء اللہ رسولؐ کے پیچھے پیچھے مقامِ معراج تک جائےگا۔
سورۂ نجم(۵۳: ۰۱ تا ۰۲)کا مبارک ارشاد:وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ، مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰىۚ۔
ترجمہ: قسم ہے تارے کی جب کہ وہ غروب ہوا،تمہارا رفیق(رسولؐ) نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔
۱۶۹
تاویلی مفہوم:رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بظاہر تنہا مقامِ معراج پر تشریف لے گئے، لیکن باطناً ان تمام روحوں کو اپنے ساتھ لیکرحظیرۂ قدس میں داخل ہوگئے جن کے لئے آپ خداکی طرف سے رحمت تھے، لہٰذا وہاں جو نور طلوع و غروب ہوتا ہے، اللہ نے اسکی قسم کھا کر اپنے محبوب رسولؐ کی کامیاب رہنمائی کی تعریف فرمائی اور لفظِ صاحب = رفیق کی حکمت میں فرمایا کہ تم سب لوگ رسولؐ کے سفرِ معراج میں منزلِ مقصود تک روحاً ساتھ تھے،آپ ہر لفظ کی حکمتی تحلیل کر کے دیکھیں۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی) ہونزائی(ایس۔آئی)
پیر،یکم جولائی ۲۰۰۲ء
۱۷۰
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۹۸
جہاں دیدار ہے وہاں ہی بہشت ہے۔(کلامِ امامِ مبین حصّۂ اول۔منجیوڑی۔۲۵۔۱۲۔۱۸۹۳)۔
تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے۔(کلامِ امامِ مبین حصّۂ اول۔منجیوڑی۔۲۸۔۱۲۔۱۸۹۳)۔
“خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت پیاری ہے۔” (یہ پاک فرمان میری اس کتاب کی جان = روح ہے) کیونکہ ہم ایسے حقائق ومعارف کی تلاش کر رہےتھے، جن سے سب پر یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ اللہ جو نہایت مہربان ہے، وہ بالآخر تمام انسانوں کو ابدی بہشت عطا کرتا ہے، پس یہاں ہم کو حجتِ قائمؑ کے ارشاد کی صورت میں ایک نورانی خزانہ مل گیا، جس سے اس کتاب کی ہر دلیل بحقیقت زبردست وزنی ہوگئی، اور یہ کتاب ان شاء اللہ کامیاب اور نیک نام ہو گئی، یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے، اور ہمارے نیک بخت ساتھیوں کی پُرخلوص اور مسلسل دعا ہے۔
“خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت پیاری ہے۔” پس ہر انسان کو امید و یقین کے ساتھ علم وعمل کے میدان میں سبقت لینا چاہئے۔
“خداوندِ کریم کو انسانی روح بہت پیاری ہے۔” اس کے معنی کو
۱۷۱
کما کان حقہٗ سمجھنا ہوگا،آمین! ثم آمین!!
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)
پیر،یکم جولائی۲۰۰۲ء
۱۷۲
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۹۹
سورۂ بنی اسرائیل(۱۷: ۸۵) کا ارشاد ہے:وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا۔
ترجمہ: یہ لوگ تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہو یہ روح میرے ربّ کے امر(عالمِ امر) یعنی کلمۂ کن سے ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے کم ہی بہرہ پایاہے، لہٰذا تمہیں اسرارِ روح بہت دشوار ہیں۔
ان لوگوں نے یہ سوال آنحضرتؐ کو آزمانے کی غرض سے کیا تھا، لہٰذا ان کی کم علمی ظاہر کرکے رازِ روح حجابِ حکمت میں محجوب کیا گیا، وہ یہ ہے کہ روح عالمِ خلق سے نہیں بلکہ عالمِ امر سے ہے، یعنی روح ہمیشہ معجزۂ کُنۡ کے تحت ہے،اور قرآنِ حکیم میں لفظِ روح آیا ہے، مگر لفظِ ارواح ظاہر نہیں، جبکہ حدیثِ شریف میں لفظِ ارواح موجود ہے، جیسے: الارواح جنود مجندہ = روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں ہوا کرتی ہیں (ہزار حکمت،ح:۵۱)۔ قانونی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حدیثِ صحیحہ میں لفظِ الارواح آیا ہے، تو اس کوقبلاً قرآن میں آنا ہے۔
جواب: جی ہاں قرآن میں آچکا ہے، کہ لفظِ روح برائے ارواح بھی ہے، جیسے مولا نے فرمایا کہ مومن کی روح ہماری روح ہے،(کلامِ امامِ مبین،
۱۷۳
حصّۂ اوّل، راجکوٹ،۲۰-۲-۱۹۱۰)،نیز فرمایا:
“تم ہماری روحانی اولاد ہو اور یاد رکھنا کہ روح ایک ہی ہے۔” (کلامِ امامِ مبین،حصّۂ اوّل،ممباسہ،۱۲-۱۱-۱۹۰۵)
نصیر الدین نصیرؔ(حبِ علی) ہونزائی(ایس۔آئی)
منگل،۲/جولائی،۲۰۰۲ء
۱۷۴
قرآنِ حکیم اور عالمِ انسانیّت
قسط:۱۰۰
حجتِ قائم سلامُ اللہ علیھما کا پُرحکمت ارشاد ہے: اگر تمہارا دل پاک ہوگا تو اس دنیا میں ہی عرشِ عظیم دیکھ سکو گے یہ بہت دور نہیں ہے۔ (کلامِ امامِ مبین،حصّۂ اوّل، منجیوڑی،۳-۱۱-۱۹۰۳)
پاک بنو تو اس دنیا ہی میں بہشت ملے گی،اس دنیا میں بہشت حاصل کرنے میں بڑا فائدہ ہے۔
عرشِ عظیم اور بہشت سے عالمِ شخصی کا حظیرۂ قدس مراد ہے، اسی حظیرۂ قدس کی معرفت کی وجہ سے آنے والا کل کی بہشت مل سکتی ہے، بحوالۂ سورۂ محمد(۴۷: ۰۶)۔ اور دنیا میں حظیرۂ قدس کی بہشت کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے حاصل ہونے سے جہالت ونادانی کادوزخ بالکل ختم ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ سورۂ انبیاء (۲۱: ۶۹) کا ارشاد ہے: قُلْنَا یٰنَارُ كُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلى اِبْرٰهِیْم۔
ترجمہ: ہم نے کہا “اے آگ ٹھنڈی ہوجااورسلامتی بن جاابراہیم پر۔” یہ غیر معمولی حکمت ہے کہ خدائے قادرِ مطلق نے آگ کو نہیں بجھایا، بلکہ اس کو ٹھنڈی آگ بنایا اور یہ ٹھنڈی آگ سب سے انوکھا اور سب سے عظیم معجزہ ہے اور اس کو سلامتی بنانا۔
۱۷۵
الغرض خدا کے بارے میں ہماراحسنِ ظن یہ ہے کہ وہ آتشِ دوزخ کو اپنی عیال کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بناتا ہوگا۔
نصیر الدین نصیرؔ(حبِّ علی)ہونزائی(ایس۔آئی)
منگل،۲/جولائی۲۰۰۲ء
۱۷۶