قرآن اور روحانیّت
آدم یا آدموں کا قصّہ؟
(انتساب)
آفرینش کی نہ تو کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ یہ ایک ایسا سلسلہ عمل ہے جو اوّل و آخر کے بغیر ہمیشہ جاری ہے، لہٰذا اللہ جلّ جلالہ کی عظیم الشّان بادشاہی میں لاتعداد آدم ہوتے آئے ہیں، اور ہر آدم کے لئے ایک دور ہوا کرتا ہے، چونکہ خدا کی سنت ایک ہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں، چنانچہ بتقاضائے حکمت سارے آدموں کی اہم خصوصیات ایک جیسی ہیں، بنا برین ان سب کا مشترکہ قصّہ ایک ہی ہے، جس کو پڑھ کر عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ بس پورے دور میں صرف ایک ہی آدم ہو گزرا ہے۔
قرآنِ حکیم میں بے شمار انسانوں کی مشترکہ عادات کے پیشِ نظر جیسے اصلاحی ذکر فرمایا گیا ہے، اس میں صرف لفظِ “انسان” آیا ہے، جو اسم واحد ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے: وَ الْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ۔ قسم ہے زمانہ کی کہ انسان بڑے خسارے میں ہے (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) آپ دیکھتے ہیں کہ یہ بظاہر ایک ہی انسان کے خسارے کا قصّہ ہے، لیکن حقیقت میں اس کا تعلق تمام زمانوں کے سارے
۳
انسانوں سے ہے، اسی طرح قرآنِ پا ک میں جیسے آدم کا قصّہ ہے وہ بے حساب آدموں کا نمائندہ قصّہ ہے۔
حق سبحانہ و تعالیٰ کا مبارک ارشاد ہے: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ ۔ اور (اے رسول) تمہارے ربّ نے جس وقت فرشتوں سے فرمایا کہ میں (ہمیشہ) زمین پر خلیفہ مقرر کروں گا (۰۲: ۳۰)۔ سنّتِ الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، لہٰذا ہم یقین سے کہتے ہیں کہ خلافتِ آدم کا یہ اعلان اگلے بے پایان ادوار ہی کی طرح تھا، اور خدا کا کوئی کام ایسا نہیں ہوتا جو پہلے کبھی نہ کیا گیا ہو۔
یہ قرآنی حکمت کا انمول تحفہ ان پیارے بچوں کے لئے ہے:
۱۔ تاریخِ پیدائش ۷ جولائی ۱۹۸۷ء سحرین بنتِ سراج ناتھانی
۲۔ ۸ جون ۱۹۹۰ء سلمان ابنِ سراج ناتھانی
۳۔ ۲۳ نومبر ۱۹۹۲ء دانش ابنِ ملک ناتھانی
۴۔ ۴ اکتوبر ۱۹۹۴ء رابعہ بنتِ گلزار ناتھانی
۵۔ ۲۶ جنوری ۱۹۹۵ء شاہ زیب ابنِ گلزار ناتھانی،
یہ بہت ہی عزیز اطفال آگے چل کر بڑے عالی ہمت افرادِ جماعت ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ، ہر گھر کے پیارے پیارے بچے چمنِ انسانیّت کی پُرامید کلیاں، گلشنِ خاندان کے بامقصد شگوفے، اور باغِ دین کے ترو تازہ اور حسین پودے ہوا کرتے ہیں۔
۴
جہاں حلال جانوروں کے بچے بہت ہی اچھے اور بہت ہی خوبصورت لگتے ہیں، وہاں اشرف المخلوقات (انسان) کے بچوں کے حسن و جمال اور دلکشی کا کیا کہنا، خصوصاً والدین کی نگاہ میں اولاد بدیع الجمال اور بے مثال لگتی ہے، یہ قانونِ قدرت کا ایک نمایان اعجاز ہے تاکہ ماں باپ اپنے چہیتے اور دلارے بچوں کی خوب سے خوب تر پرورش کر سکیں، فرزندِ عزیز کے لئے ایسے پیار بھرے الفاظ استعمال کرتے ہیں: نورِ نظر، جگر بند، آنکھوں کا تارا، نورِ چشم، قرۃ العین (آنکھوں کی ٹھنڈک) ، دلنبد، لختِ جگر، جگر گوشہ، وغیرہ۔
نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
ہفتہ ۵ جمادی الثانی ۱۴۱۷ھ ، ۱۹ اکتوبر ۱۹۹۶ء
۵
لبِ لباب
تمہید:
قرآن اور روحانیّت کی تمہید میں سب سے پہلے بارگاہِ ربّ العزّت سے علمی خدمت کی توفیق و ہمت طلب کی گئی ہے، پھر کتاب کی وجہِ تسمیہ، اہمیت اور افادیت کا ذکر ہوا ہے، اس کے بعد متعلقہ موضوع پر روشنی ڈالنے کے طریق کار اور بزرگانِ دین کے اصولِ تقریر و تحریر کا مختصر ترین بیان کیا ہے، اور تمہید کے آخری حصے میں قرآنی روح کے ثبوت میں چند روشن دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔
قرآن اور روحانیّت:
کتاب کا نام “قرآن اور روحانیّت” اس معنی میں ہے کہ اس میں قرآن کی روح، روحانیّت اور نورانیّت سے بحث کی گئی ہے، اور اسی عنوان سے کتاب کا آغاز ہوا ہے، اور اس کے شروع کے تیرہ پیراگراف موضوعِ سخن کے تعارف کے طور پر ہیں، جن کی ابتدا روح سے متعلق ایک آیۂ کریمہ سے ہوئی ہے، اور اس کی تشریح میں کہا گیا ہے کہ روح عالمِ خلق سے نہیں عالمِ امر سے ہے، اس کے بعد روح اور روحانیّت کے
۶
ساتھ قرآنِ پاک کا جو باطنی تعلق ہے، اس کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے۔
چنانچہ لکھا ہے کہ قرآن باطن میں روح، روحانیّت اور نورانیّت ہے، پھر لفظ روحانیّت کا تجزیہ کیا ہے، اور مختلف درجات کی روحوں کا تزکرہ کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ روح القدس انسان کی سب سے اونچی روح ہے، اور بتایا ہے کہ روحانیّت اسی کے وسیلے سے ہے اور یہی روح انسانِ کامل کا نور ہے، درج ہے کہ کائنات و موجودات کا کوئی ذرہ روح کے وجود سے خالی نہیں، پھر نورِ خداوندی کی روشنی میں اس عالم کی بلندی و پستی کے بھیدوں سے واقف ہونے کی اشارت کی گئی ہے، وغیرہ۔ اس کے بعد ایسے پیراگراف ہیں جن کے آغاز میں نمبر درج ہیں۔
نمبر ۱ تا نمبر ۵ :۔
۱۔ اسلام آنحضرتؐ کا آبائی دین تھا، اس لئے آپ بچپن ہی سے دینِ حق پر قائم تھے۔
۲۔ حضورِ اقدسؐ غارِ حرا کے اعتکاف میں ملتِ ابراہیمی (یعنی اسلام) کے مطابق ذکر و عبادت کر لیا کرتے تھے، جس کی تعلیم حضورِ اکرمؐ کو حضرتِ ابو طالبؑ نے دی تھی۔
۳۔ دینِ حق خدا کا نور ہے، وہ کبھی بجھتا نہیں، وہی نور ہادیٔ برحقؑ میں ہے۔
۴۔ حضور نبیٔ کریمؐ سے فرمایا گیا ہے کہ آپ ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی
۷
کریں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے زمانے میں حضرتِ ابراہیمؑ کی تعلیمات زندہ تھیں۔
۵۔ نزولِ وحی سے بہت پہلے حضرت محمد مصطفیٰؐ کی روحانیّت کا آغاز ہوا تھا، وحی کے تین درجے ہوتے ہیں، حضورؐ کی روحانیّت قرآن کی روحانیّت تھی، روحانیّت روشن تصوّرات کی ایک زندہ کائنات ہوا کرتی ہے، جو کچھ عرصے تک خاموش تصاویر اور رنگا رنگ مناظر کو پیش کرتی رہتی ہے، اور اس کے بعد اس کی ہر چیز بول اٹھتی ہے، وحی کے لئے ایک نہیں اصل میں پانچ فرشتے مقرر ہیں۔
نمبر ۶ تا نمبر ۱۰:۔
۶۔ ابتدائی روحانیّت کے بعض مراحل میں انتہائی تابناک تجلّیوں کی وجہ سے دل کی آنکھ خیرہ ہو جاتی ہے، روحانیّت میں آسمان و زمین اور دنیا و آخرت کا سب کچھ موجود ہے۔
۷۔ روحانیّت ان چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے: ملکوتی اور قدسی آوازیں، تصوّراتی شکلیں، طرح طرح کے پُرحکمت اشارات، ہر قسم کی تاویلی مثالیں، روحانی اور نورانی تحریریں، اسمائے عظام اور کلماتِ تامّات، جسم، روح اور عقل کے گوناگون عجائبات و معجزات، وغیرہ۔
۸۔ قرآن کی روحانیّت تین درجوں میں ہے، یعنی جبرائیل فرشتہ کے توسط سے وحی کا آنا، حجاب کے پیچھے سے کلامِ الٰہی کا سننا اور ظہورِ نور کے
۸
اشارات۔
۹۔ رسولِ خدا روشن چراغ تھے، اس کے معنی ہیں کہ آپ قلوبِ مومنین کو روشن کر دیتے تھے۔
۱۰۔ نور سے باطنی اور روحانی ہدایت کی روشنی مراد ہے، نہ کہ ظاہری اور مادّی روشنی۔
نمبر ۱۱ تا نمبر ۱۵:۔
۱۱۔ قرآنِ حکیم میں کچھ حضرات کو “علم میں پختہ کار” ہونے کا درجہ دیا گیا ہے، جب یہ صاحبان خدائے حکیم کے معیار کے مطابق علم کی اس اعلیٰ صفت سے موصوف ہیں تو ان کا قرآنی علم کتنا وسیع اور کس قدر عمیق ہوگا۔
۱۲۔ یہی وہ کامل انسان ہیں، جو قرآنِ مقدّس کی روحانیّت تک رسا ہوچکے ہیں اور یہی پاک ہستیاں ہیں، جن کی پاکیزگی کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔
۱۳۔ آنحضرتؐ کی روحانیّت و نورانیّت یعنی نورِ قرآن سلسلۂ امامت میں جاری و باقی ہے۔
۱۴۔ قرآن کا جو حصّہ آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر نازل ہوتا تھا، وہ روح اور نور کی کیفیت میں ہوتا تھا، اور نبیٔ کریمؐ اسی نور کے ذریعہ صراطِ مستقیم کی ہدایت فرماتے تھے، اور اب بھی وہی نور دنیا میں حاضر اور موجود
۹
ہے۔
۱۵۔ خلیفۂ رسول میں سوائے پیغمبری کے آنحضرتؐ کے بہت سے اوصاف ہوا کرتے ہیں۔
نمبر ۱۶ تا نمبر ۲۰:۔
۱۶۔ قرآن کی روحانیّت صراطِ مستقیم پر واقع ہے، لہٰذا جو بھی اس راہِ راست پر آگے بڑھے وہ روحانیّت کا مشاہدہ اور تجربہ کرے گا، اور ہادیٔ برحق تو اس کا وارث اور عملی رہنما ہے۔
۱۷۔ جب قرآن میں دل کی آنکھ اندھی ہونے کی مذمت کی گئی ہے تو جاننا چاہئے کہ اسی زندگی سے عالمِ روحانیّت دیکھنے کا تقاضا کیا گیا ہے۔
۱۸۔ معرفت نہیں کہتے ہیں مگر اس پہچان کو جو دل کی آنکھ سے روحانی حقیقتوں کو دیکھ لینے کے بعد حاصل آتی ہے، اور جہاں معرفت سے خدا کی شناخت مراد ہوتی ہے وہاں اس میں تمام ذیلی اور ضمنی معرفتیں شامل ہیں۔
۱۹۔ معرفت کے معنی میں صفاتِ خدا کی تجلّیوں کے دیکھنے کا واضح اشارہ موجود ہے اور یہی تجلّیات قرآن کی روح اور نورانیّت بھی ہیں۔
۲۰۔ اگر خدا تعالیٰ کا دیدار ایک حقیقت ہے تو پھر کوئی چیز ایسی نہیں جس کا مشاہدہ نہ ہو اور وہ احاطۂ معرفت سے باہر رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا درجہ سب سے بلند ہے۔
۱۰
نمبر ۲۱ تا نمبر ۲۵:۔
۲۱۔ اگر کسی آدمی کو دنیائے روحانیّت کے وجود کے بارے میں شک ہو تو اسے کم از کم اپنے خواب کی کیفیت پر سوچنا چاہئے کہ خواب بجائے خود ایک الگ تھلگ دنیا ہے یا نہیں، اسی طرح روحانیّت بھی ایک عالم ہے، مگر وہ خواب و بیداری سے بدرجۂ انتہا بہتر اور روشن تر ہے۔
۲۲۔ پیغمبرِ اکرم اور امامِ برحق کے نورِ ہدایت سے اہلِ ایمان کے دل میں نورانیّت کی ایک دنیا آباد ہو سکتی ہے۔
۲۳۔ قرآن کی روحانیّت آج دنیا میں بھی جنت ہے اور کل آخرت میں بھی، لہٰذا دنیا ہی میں اس کی پہچان ضروری ہے۔
۲۴۔ علمِ تاویل اللہ کی جانب سے عطا ہوتا ہے اور عملی تاویل قرآن کی روحانیّت و نورانیّت ہے۔
۲۵۔ اگر ایک عام انسان دنیائے روحانیّت سے ناواقف ہے تو اس کو اپنے تصوّرات کے عالم پر اس کا قیاس کرنا چاہئے۔
نمبر ۲۶ تا نمبر ۳۱:۔
۲۶۔ جس طرح یہ ظاہری کائنات سورج، چاند اور ستاروں کی روشنی سے روشن ہے، اسی طرح عالمِ دین پیغمبر، امام اور حدودِ دین کے نور سے منور ہے اور نور کا سرچشمہ ہمیشہ ایک ہی ہوا کرتا ہے۔
۲۷۔ جس طرح پانی مہیا کر دینے کے لحاظ سے آسمان کا نمائندہ پہاڑ ہے،
۱۱
اسی طرح علم و ہدایت کے لئے پیغمبر کا نمائندہ اساس ہے۔
۲۸۔ اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو ضرور معلوم ہو جائے گا کہ ہادیٔ برحق سے ہمیشہ حضرتِ عیسیٰؑ کے معجزات ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔
۲۹۔ بصیرت ایک قرآنی لفظ ہے، جس کا خاص مطلب ہے دل کی آنکھ اور باطن کی روشنی، چنانچہ آنحضرتؐ نے بھی اور آپؐ کے حقیقی جانشینوں نے بھی بصیرت سے کام لے کر دعوتِ حق کا فریضہ انجام دیا۔
۳۰۔ اگر مومن پیغمبرِ اکرمؐ اور أئمّۂ ہدا کی صحیح معنوں میں پیروی کرتا ہے تو یقیناً وہ بھی بصیرت کی روشنی حاصل کر سکتا ہے۔
۳۱۔ یاد رہے کہ امامِ زمانؑ کے نورِ اقدس میں قرآن کی روحانیّت و نورانیّت سموئی ہوئی ہے۔
۱۲
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تمہید
اے خداوندِ برحق! اے قادرِ مطلق! حضرتِ رسولِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حرمت سے، اور أئمّۂ ہدا صلوات اللہ علیہم کی حرمت سے، اس بندۂ عاجز و ناتوان کو ایسی توفیق و ہمت عطا فرما کہ جس سے یہ خاکسار اہلِ ایمان کے لئے کچھ مفید علمی خدمات انجام دے سکے! پروردگارا! تیری بے پایان رحمت سے کچھ بعید نہیں کہ تیری بارگاہِ عالی کے اس مسکین سائل کی یہ دعا قبول ہو۔
فاما بعد یہ امرِ واقعی واضح اور روشن ہے کہ زیرِ نظر کتاب “قرآن اور روحانیت” جیسا کہ اس نام سے ظاہر ہے قرآنِ حکیم کی روح اور روحانیّت کے موضوع سے متعلق ہے، اصل میں یہ ایک مقالہ تھا، جو کسی اجتماع میں لیکچر کے طور پر پڑھایا گیا تھا، بعد میں اس کو کتاب کی شکل دی گئی، میں ان شاء اللہ تعالیٰ مطمئن ہوں کہ یہ چھوٹا سا کام اہلِ علم کے لئے کافی حد تک مفید ثابت ہوگا۔
جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ نہ صرف عصرِ حاضر ہی میں (جس میں
۱۳
مادّیت کا دور دورہ ہے) بلکہ ہمیشہ سے آسمانی کتاب کی روحانیّت کتنا سخت مشکل موضوع رہا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، کہ ہم ایسے درویش اہلِ بیتِ رسول کے غلاموں میں سے ہیں، جن کے مقدّس گھر میں قرآنِ مجید نازل ہوا تھا، اور ہمارے نزدیک یہ صرف عقیدہ اور نظریہ ہی نہیں بلکہ ایک عرفانی مشاہدہ اور روشن حقیقت بھی ہے کہ زمانے کا امام صلوات اللہ علیہ، جو اہلِ بیت میں سے ہے، قرآن کی روح اور روحانیّت کا وسیلہ اور سہارا ہوا کرتا ہے، ورنہ ہم کہاں اور قرآن کی روح کہاں، اگر اس حقیقت سے پردہ نہ اٹھایا جائے، تو ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی ناشکری ہو جائے گا کہ ہم نے اپنے آقا و مولا اور مربّی کو فراموش کرکے روحانی علم کو اپنی ذات سے منسوب کرنے کی کوشش کی، پس خدا نہ کرے کہ ہم اپنے مہربان مولا کو کسی وقت بھول جائیں۔
قرآن اور روحانیّت کی حقیقتوں کو پیش کرنے کے لئے کئی طریقے تھے، لیکن سب سے زیادہ مناسب یہی تھا کہ روحانی مشاہدات، تجربات، عملی تاویلات وغیرہ کو ذاتی اطمینان و یقین کا وسیلہ اور موضوع کا پس منظر قرار دے کر زیادہ سے زیادہ قرآنی شہادتوں سے کام لیا جائے، اور ہمارے بزرگانِ دین کا اصول بھی یہی رہا ہے، کہ وہ اکثر ذاتی روحانیّت کو اپنے موضوعات کے پس منظر کے طور پر استعمال کرتے تھے، اور ظاہری علوم کی زبان میں موضوعِ بحث کو پیش کرتے تھے، مگر شعر و شاعری کا اصول
۱۴
اس سے قدرے مختلف ہے۔
کچھ لوگوں کو اس بات سے بڑا تعجب ہوگا، جب کہا جائے کہ قرآن کی ایک عظیم روح ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، یا وہ اس روح سے قرآن کا معنوی مغز اور جوہر مراد لیتے ہوں گے، کیونکہ ان کی نظر میں قرآن کی کوئی ایسی روح ہے ہی نہیں جو حرکت کرے اور بات چیت کرے، جب کہ قرآن ان کے سامنے خاموش ہے۔ لیکن جاننا چاہئے کہ بہت سی حقیقتیں ایسی ہیں، جن کی روح ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ خود انہی کے اندر ہو، اس حقیقت کے دلائل ملاحظہ ہوں:۔
الف۔ آدمی جب نیند کی کیفیت میں ہوتا ہے، تو اس کی روح ایک اعتبار سے اس سے الگ ہو جاتی ہے، اس دوران سوائے جسمانیّت کے سب کچھ روح میں ہوتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی بھی ایک الگ روح موجود ہے۔
ب۔ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی روح حضرتِ آدم میں پھونک دی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ روح اس معنی میں خدا کی ہو کہ وہ خدا کے ساتھ ایک تھی پھر جدا ہوگئی، بلکہ اس کی مراد یہ ہے کہ وہ ازلی نور جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر تھا، ایک جامۂ تن سے دوسرے لباس میں منتقل ہونے لگا، جس کے متعلق خصوصی نمائندگی کی نسبت سے کہا گیا کہ آدم میں خدا نے اپنی روح پھونک دی،
۱۵
اسی طرح قرآن کی بھی ایک روح ہے جس طرح خدا کی روح آدم میں تھی۔
ج۔ خدا کی روح جب بی بی مریم کی طرف بھیجی گئی، تو اس وقت وہ ایک کامل انسان کی صورت میں تھی، پس یہ اس حقیقت کا ایک روشن ثبوت ہے کہ قرآن کی روح الگ ہے اور وہ ایک کامل انسان کی صورت میں ہے۔
د۔ حضرتِ عیسیٰؑ اپنے وقت میں روح اللہ (یعنی خدا کی روح) کا درجہ رکھتا تھا، اس معنی میں کہ وہ لوگوں کے درمیان خدا تعالیٰ کا قائم مقام اور نمائندہ تھا، اسی طرح وہ اپنے اندر اس دور کی آسمانی کتاب کی روح و روحانیّت بھی رکھتا تھا، یہی مثال تمام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے زمانے کا عیسیٰؑ روح اللہ تھا، اور اس میں جو خدا کی روح تھی وہی کتاب خدا کی بھی روح تھی۔
ہ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمانا ہے کہ اس کے پاس ایک بولنے والی کتاب ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) جب حقیقت یہ ہے کہ خدا کے پاس قرآن کے علاوہ ایک بولنے والی کتاب بھی ہے تو ان دونوں کے درمیان کوئی رشتہ ضرور ہونا چاہئے، کیونکہ وہ بھی خدا ہی کی ہے اور یہ بھی، اور دونوں کے درمیان رشتہ یہ ہے کہ کتابِ ناطق کتابِ صامت کی روح کی حیثیت سے ہے، اور کتابِ ناطق امامِ مبین ہے۔
۱۶
و۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: بلکہ وہ (قرآن) روشن معجزات ہیں ان لوگوں کے دلوں میں جن کو خدا کی طرف سے علم دیا گیا ہے (۲۹: ۴۹) اس آیۂ کریمہ سے ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو ربّ العزّت کی جانب سے علم عطا ہوا ہے وہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں اور قرآن انہی حضرات کے دلوں میں روح اور روحانیّت کے زندہ معجزات کی صورت میں ہے، اسی وجہ سے زمانے کے امام کو قرآنِ ناطق کہا جاتا ہے، پس یہ حقیقت پوری طرح سے روشن ہوگئی کہ قرآن کی روح معلّمِ قرآن میں پوشیدہ ہوتی ہے اور اس کتاب میں اسی موضوع سے بحث کی گئی ہے اور اس سلسلے میں ٹھوس اور روشن دلیلیں پیش کی گئی ہیں۔ وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِؕ (۱۱: ۸۸)۔
فقط بندۂ درگاہِ مولا
نصیر الدین نصیر ہونزائی
سنیچر مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۷۷ء
۱۷
قرآن اور روحانیّت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ حق سبحانہ و تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: اور (اے رسول) آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ روح (عالمِ خلق سے نہیں بلکہ یہ) میرے پروردگار کے (عالمِ ) امر سے ہے اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے (اس لئے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے ہو) (۱۷: ۸۵)۔
حضرات! آج میرا موضوع۔۔۔ جیسا کہ اعلان کیا گیا۔۔۔ “قرآن اور روحانیت” سے متعلق ہے، جس کا مقصد و منشاء یہ دیکھنا اور سمجھ لینا ہے کہ قرآنِ حکیم میں روح اور روحانیّت کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا گیا ہے یا یہ کہ قرآنِ پاک کی آیاتِ کریمہ میں روحانیّت کی کیا کیا حکمتیں مذکور ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ روحانیّت کے ساتھ قرآنِ مقدّس کا کیا تعلق ہے۔
چنانچہ اہلِ بصیرت پر یہ حقیقت واضح اور روشن ہے کہ قرآنِ حکیم خود باطن میں روح و روحانیّت اور نور و نورانیّت ہے، یہ صرف اس اعتبار سے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ آخری مبارک کتاب حضرت محمد صلی اللہ
۱۸
علیہ و آلہ و سلم کے واقعات و معجزاتِ روحانیّت کا مجموعہ ہے، بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ اس میں روح اور روحانیّت کی بابت ہدایات و تعلیمات کے بے پایان خزانے موجود ہیں، پس ثابت ہے کہ قرآنِ مجید میں روحانیّت ہی روحانیّت ہے، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ روحانیّت فی الاصل کیا شے ہے اور اس کا مطلب کیا ہے وغیرہ۔
جاننا چاہئے کہ لفظِ روحانیّت کی تحلیل اس طرح سے ہے کہ روح سے روحانی ہے اور روحانی سے روحانیّت ، جیسے جسم سے جسمانی اور جسمانی سے جسمانیّت ، روحانیّت اس مخلوق کی صفت ہے جسے روح کی نسبت سے روحانی کہا جاتا ہے، خواہ وہ فرشتہ ہو یا بشر، بالفاظِ دیگر روحانیّت روح کی صفت ہے، روح کی خاصیت ہے اور اس کا فعل ہے، لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روحانیّت کس روح کی نسبت سے ہے؟ کیا اس سے روحِ نباتی کی روحانیّت مراد ہے؟ آیا یہ روحِ حیوانی کی ہے یا روحِ انسانی کی؟ یا ان تین روحوں سے کوئی برتر روح بھی ہے؟
جواباً عرض کی جاتی ہے کہ وہ روح جس میں روحانیّت کا مکمل نور پنہان ہے نہ نباتات کی روح ہے نہ حیوانات کی اور نہ عام انسانوں کی، بلکہ وہ روحِ قدسی ہے، جس میں اسرارِ روحانیّت اور ہر درجہ کی معرفت کے خزانے موجود ہیں، یہ چوتھی روح ہے جو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بعد حقیقی مومنین کو بھی بقدرِ علم و عمل حاصل ہو سکتی ہے، اور یہی روحِ قدسی
۱۹
ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ روح عالمِ امر سے ہے جو ہمیشہ سے ہے یعنی قدیم ہے۔
روح کے عالمِ امر سے ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ عالمِ خلق سے نہیں، یعنی وہ ایک غیر مادّی حقیقت ہے، وہ ایک قدیم جوہر ہے، اس کا تصوّر جسمانی چیزوں کی طرح نہیں، وہ جسم سے بالکل مختلف ہے، وہ مکان و زمان سے ماوراء ہے، وہ اپنی ذات میں لامکان کا نمونہ ہے، بلکہ وہ خود ہی لامکان ہے، وہ علم و حکمت کا سرچشمہ اور خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے، کیونکہ وہ نور ہے۔
روح القدّس جو انسانِ کامل کی روح ہے، معرفتِ الٰہی کا ذریعہ اس معنی میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی شناخت و معرفت قرآن، پیغمبر اور امامِ زمان کی پاک ہدایت و رہنمائی کے بغیر محال ہے، اور روحِ قدسی ان تینوں رہنما درجات (یعنی قرآن، رسول اور امام) کا نور ہے۔
جاننا چاہئے کہ دینِ اسلام کے مطابق کائنات و موجودات کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی روح سے خالی نہیں، مگر جیسا کہ بتایا گیا روح کے درجات ہیں، اور جن چیزوں کو جمادات کہا جاتا ہے ان میں بھی خوابیدہ روحیں موجود ہیں، ان تمام حقیقتوں کا مشاہدہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ امامِ زمان علیہ السّلام کے نورِ ہدایت کی روشنی میں کسی مومن کو روحانیّت کا دروازہ کھل جاتا ہے، یہی روحانیّت اگر ایک
۲۰
طرف سے اسرارِ کائنات کی حیثیت سے ہے تو دوسری طرف سے یہ حقیقت روحِ قرآن کی زندہ مثالیں بھی پیش کرتی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ خدا اور رسول اور امامِ زمانؑ کی معرفت اور انسان کی اپنی ذات کی شناخت بھی اسی روحانیّت میں ہے۔
جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے کہ:
اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے (۲۴: ۳۵)۔ اس انتہائی جامع اور پُرحکمت آیۂ مقدسہ کے اشارات یہ ہیں کہ جو نور خداوندی صفات کا ہے وہی نورِ ہدایت بھی ہے، جس کی روشنی میں کائنات کے ظاہر و باطن، بلندی و پستی اور دور و نزدیک کی روحانی حقیقتوں کا یکجا مشاہدہ ہوتا ہے، جس میں ازلی و ابدی حقائق و معارف بھی چشمِ بصیرت کے سامنے آتے ہیں، اور کوئی چیز اس نورِ الٰہی کے احاطے سے باہر نہیں رہتی۔
نورِ الٰہی کی روشنی میں کائنات اور ذاتی اسرار کا یہ مشاہدہ و مطالعہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب کہ خدا و رسول اور صاحبِ امرؑ کی اطاعت کے نتیجے میں مومن کی روحانی آنکھ کھل جاتی ہے، وہ اس وقت کہیں دور نہیں بلکہ اپنی روح کی روحانیّت ہی میں لامکانی طور پر تمام ممکنات کو نورانیّت میں دیکھتا ہے، اور یاد رہے کہ حقیقت میں یہی عجیب واقعہ قرآن کی روحانیّت بھی ہے اور روح و نور کی معرفت بھی ہے، کیونکہ مادّی اور جسمانی اشیاء الگ الگ اور ایک دوسرے سے دور واقع ہیں،
۲۱
اور اس کے برعکس روحانی چیزیں یکجا اور متحد ہیں، بلکہ یہ کہنا حقیقت ہے کہ روحانیّت کی چیز اصل میں ایک ہی ہوتی ہے، مگر اس کے ہزاروں نام اور بے شمار کام ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسی جامع الجوامع حقیقت کی بے شمار مثالیں بیان کی گئی ہیں، کیونکہ اس کے بہت سے پہلو اور بہت سے جلوے ہیں۔
اس بیان سے اہلِ دانش کے لئے یہ حقیقت قابلِ یقین ہوگئی کہ قرآن فی الاصل آنحضرت صلعم پر ایک زندہ روحانیّت کی صورت میں نازل ہوا تھا، اور اب بھی یہ روحانیّت اسی طرح اپنے مقام پر محفوظ اور موجود ہے، کیونکہ قرآن کی روح و روحانیّت لازوال معجزہ ہے، جب یہ بات درست اور صحیح ہے کہ قرآن بموجبِ ارشاد (۴۲: ۵۲) روح اور نور ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ حکیم کی ہر آیت روح اور روحانیّت کے معانی و مطالب سے لبریز ہے۔
جن صاحبان کو روحانیّت کا کوئی تجربہ حاصل نہ ہوا ہو، ان کے لئے قرآنِ حکیم کی روحانیّت سمجھ لینا کوئی آسان بات تو نہیں، لیکن اگر وہ علم الیقین کی روشنی میں دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ سرورِ انبیاء صلعم پر نزولِ قرآن کا جو عظیم واقعہ گزرا تھا، اس کی کیفیت و حقیقت کا تصوّر کیا جائے، چنانچہ پہلے پہل آنحضرتؐ کے پاک باطن میں ذکر و عبادت کے نتیجے پر رفتہ رفتہ ایک نورانی عالم نظر آنے لگا، قرآنی
۲۲
روحانیّت کی یہ دنیا شروع شروع میں بالکل خاموش تصاویر اور چپ چاپ مناظر پر مبنی تھی، یہ آنحضرتؐ کا عالمِ دل تھا جو اس ظاہری جہان کی نسبت بے حد روشن اور انتہائی درجے کا آبادان اور پر رونق تھا ، یہ روح القدس کا خاموش فیضان تھا، کچھ عرصے کے بعد آنحضرتؐ پر وحیٔ جلی نازل ہونے لگی، یعنی نمایان طور پر روح القدس کا نزول شروع ہوا، وہ قرآنِ پاک اور جبرائیل امین کی مقدّس روح تھی، یہ عظیم الشّان روح ہرگز اکیلی نہیں تھی، بلکہ اس کے ساتھ دوسرے تین بڑے فرشتے بھی تھے، علاوہ برآن لاتعداد چھوٹے فرشتے اور بے شمار روحیں بھی ہمراہ تھیں، جیسے ہی ان فرشتوں اور روحوں کا آپؐ پر نزول ہوا، حضورؐ کے دل و دماغ کی خاموش دنیا خود بخود علم و حکمت کی باتیں کرنے لگی اور اس کی روشنی اور رونق میں اور اضافہ ہوا، اور آنحضرتؐ وحی اور روحانیّت کے درجاتِ عالیہ سے گزرتے گئے۔
چونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ امرِ عظیم منظور ہوا تھا کہ نبیٔ اکرمؐ کو ایک ایسی جامع الجوامع کتاب نازل کر دی جائے، کہ اس میں نہ صرف سابقہ آسمانی کتابوں کی اصل حقیقتیں پوشیدہ ہوں، بلکہ دونوں جہان کے اسرار و احوال کی تفصیلات بھی موجود ہوں، لہٰذا پیغمبرِ برحقؐ پر نزولِ قرآن کا جو عالم گزرتا تھا، وہ لاتعداد عجائب و غرائب کا حامل تھا، اس کا کوئی مکمل نقشہ پیش کرنا محال ہے، ماسوائے اس کے کہ الگ الگ چند مثالیں بیان
۲۳
کر دی جائیں:۔
۱۔ حضورِ اکرمؐ کو نبوّت سے بہت پہلے اپنے بزرگوار جدِ اعلیٰ حضرتِ ابراہیمؑ خلیل اللہ کی ملت کی ہدایت دی گئی تھی، غالباً یہ آپؐ کے بچپن کا زمانہ ہوگا۔
۲۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپؐ غارِ حرا کے اعتکاف میں جو ذکر و عبادت کر لیا کرتے تھے، وہ گمان یا نقل کی عبادت تو نہیں تھی، نہ یہ بات یوں ہی آپؐ کے دل میں آئی تھی، اور نہ ہی یہ ذاتی وحی کی چیز ہو سکتی ہے، بلکہ آنحضرتؐ کی ایسی منظم عبادت ملتِ ابراہیمی کی تعلیمات کے مطابق تھی، جس کی ہدایت حضورؐ کو حضرت ابو طالبؑ نے دی تھی۔
۳۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ دینِ اسلام کا سلسلہ حضرتِ ابراہیمؑ اور حضرت محمد صلعمؐ کے درمیان منقطع ہو چکا تھا، تو یہ مفروضہ قرآنِ پاک کے ان ارشادات کے منافی ہوگا، جن میں فرمایا گیا ہے کہ خدا کا نور بجھایا نہیں جا سکتا، اور ظاہر ہے کہ خدا کا نور ہادیٔ برحق ہے، جس کے ساتھ ساتھ آسمانی کتاب کی روح بھی ہے اور اسلام بھی، چنانچہ اگر کوئی شخص دینِ اسلام کو خدا کا نور قرار دیتا ہے یا کتابِ سماوی کو خدا کا نور مانتا ہے، تو پھر بھی ہادیٔ دین اور وارثِ کتاب کا حاضر و موجود ہونا لازمی ہو جاتا ہے، اور ویسے بھی حقیقت میں قرآن، اسلام اور ہادی ایک ہی نور کے مختلف نام ہیں۔
۲۴
۴۔ حضور نبیٔ کریمؐ سے قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ آپ ملتِ ابراہیمؑ کی پیروی کریں، اس کے علاوہ ایسے بہت سے ارشادات ہیں، جن سے یہ حقیقت ظاہر ہے کہ دینِ حنیف یعنی ملتِ ابراہیمی سرورِ کائنات صلعم کے زمانے میں زندہ تھی، کیونکہ حضرت ابراہیمؑ کے فرزندِ ارجمند حضرت اسماعیلؑ کی پاک نسل میں سلسلۂ امامت جاری و باقی تھا۔
۵۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ و منشاء کے مطابق اسمِ اعظم کے ذکرِ قلبی کے نتیجے میں آنحضرتؐ پر روحانیّت کا دروازہ کھل گیا اور وحی نازل ہونے لگی، اور آپؐ کی اس روحانیّت کی کئی صورتیں اور بہت سی منزلیں تھیں، اور وحی کے اعتبار سے جیسا کہ قرآنِ حکیم (۴۲: ۵۱) میں ہے روحانیّت تین بڑی قسموں پر منقسم ہے، جن میں سب سے پہلے تو عام وحی ہے جو جبرائیل وغیرہ کے توسط سے ہوتی ہے، پھر کلامِ الٰہی ہے جو حجاب کے پیچھے سے سنائی دیتا ہے اور آخری درجہ میں خاص وحی (اشارہ) ہے جو سب سے عظیم دیدار کے وسیلے سے ہوتی ہے، اس کے بعد یہ ضروری نہیں کہ یہی ترتیب قائم رہے، جب کہ خداوندِ تعالیٰ کا بے حجاب دیدار صرف دو دفعہ میسر آتا ہے، لیکن ہاں کلمۂ باری اور گوہرِعقل کی ازلی و ابدی حکمتوں کا خزانہ ایسے آخری دیدار میں پوشیدہ ہے۔
۶۔ آنحضرتؐ کی روحانیّت بمعنیٔ قرآن کی روحانیّت کی ابتداء میں جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ایک نہایت روشن اور انتہائی تابناک کائنات کا ظہور
۲۵
ہوتا تھا، جس کی روشنی کی لہریں بعض دفعہ ناقابلِ برداشت ہو جاتی تھیں، روحانیّت کی تجلّیوں کے اس عالم کی خوبصورت اور دلکش مگر خاموش تصاویر و مناظر میں ہر لحظہ ایک نیا حسین انقلاب رونما ہوتا تھا، مختصر یہ کہ یہاں کہ عجائب و غرائب تعریف و توصیف کے بیان سے باہر تھے، لیکن آپ کو تعجب ہوگا کہ یہ سب کچھ حقیقت میں کچھ بھی نہیں تھا، کیونکہ یہ صرف اس مادّی دنیا کا رنگین اور خوبصورت عکس تھا، جو حضورِ انورؐ کے آئینۂ نورانیت میں اتنا روشن اور اس قدر دلکش نظر آ رہا تھا، یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ آپ کی روحانیّت میں اس ظاہری اور مادّی دنیا کی مثال تھی۔
اس کے بعد جب وقت آیا تو اس میں جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل چاروں مقرب فرشتے آ گئے اور انہوں نے عملی طور پر اپنا اپنا کام کرکے دکھایا، جس سے تمام دوسرے فرشتے اور روحیں حاضر ہو گئیں، تو آپ کی اس ذاتی دنیا میں یکسر تبدیلی آ گئی، یعنی گویا حضورؐ کی روحانیّت اس سے پہلے دنیا تھی اب آخرت بن گئی، کیونکہ روحانیّت میں دنیا و آخرت دونوں سموئی ہوئی ہوتی ہیں۔
۷۔ اس وقت حضورِ اقدس کی ذاتِ بابرکات میں قرآنِ حکیم کی روح اور روحانیّت ملکوتی اور قدسی آوازوں کے علاوہ اشاروں، مثالوں، روحانی و نورانی تحریروں اور کلماتِ تامّات کی صورت میں تھی، یا یوں کہنا چاہئے کہ قرآن اس مقام پر ایک ایسی مکمل روحانی کائنات کی حیثیت سے تھا،
۲۶
جس کی ہر چیز عقل و جان کی دولت سے مالامال اور علم و حکمت کے نور سے منور تھی، یعنی کائنات و موجودات کی تمام حقیقتیں خود بخود بولتی جاتی تھیں، اور آفاق و انفس کی آیتیں اپنے آپ کو ظاہر کر دیتی تھیں۔
اس مقام پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قرآن کی یہ روح اور روحانیّت جس کا یہاں ذکر ہوا آنحضرتؐ کے مبارک دل میں اس وقت بھی بلا کم و کاست موجود تھی، جب کہ کاتبانِ وحی کے ذریعہ قرآن پاک کی تمام آیات لکھائی گئی تھیں، کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو ذکر کے لقب سے ملقب فرمایا (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) نیز ارشاد ہے کہ پیغمبر بھول نہیں جاتا (۸۷: ۰۶) ، جاننا چاہئے کہ ذکر قرآن کا بھی نام ہے، (۱۵: ۰۹) اور ذکر کی مراد یادِ الٰہی بھی ہے خواہ وہ اسمِ اعظم کی ہو یا کسی اور طرح کی، پس ان تمام معنوں میں رسولِ پاک ذکر ہی ذکر تھے، یعنی آپ قرآنِ ناطق بھی تھے، کہ قرآن کی زندہ روح اور بولتی روحانیّت آپؐ ہی میں آئی تھی اور ہمیشہ کے لئے آپؐ ہی کی ذات بابرکات میں قائم و باقی تھی، حضورؐ ایک ایسا زندہ و پائندہ ذکرِ الٰہی بھی تھے جو خود بخود معجزاتی کیفیت میں مسلسل بولتا رہتا ہے، اور آنحضرتؐ ایک ایسی غیر معمولی اور بے مثال یاد بھی تھے کہ آپؐ کوئی چیز کوئی بات نہیں بھولتے تھے اور نہ ہی قرآن کی کوئی بات فراموش کرتے تھے۔
۸۔ ہم اس سے پہلے بھی یہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآن کی روحانیّت یعنی
۲۷
آنحضرتؐ کی روحانیّت کے تین بڑے درجوں میں سے ابتدائی درجے میں روح القدس کے توسط سے وحی آتی تھی، دوسرا درجہ حضورِ اکرمؐ کی معراجِ روحانیّت سے متعلق تھا، جس میں خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپؐ کو مخاطب کرکے حجاب کے پیچھے سے کلام فرماتے تھے، تیسرا درجہ وہ ہے جس میں پروردگارِ عالم نے رسولِ پاکؐ کو کسی حجاب کے بغیر خصوصی وحی فرمائی اور یہ روحانیّت کا آخری درجہ ہے، پس قرآنِ حکیم ان تینوں درجات کے ارشادات کا ماحصل اور مجموعہ ہے، یعنی اس کتابِ سماوی میں وہ آیات بھی ہیں جو جبرائیل فرشتہ کے ذریعہ نازل ہوئیں، وہ احکام بھی جو خداوندِ عالم نے حجاب کے پیچھے سے صادر فرمایا اور وہ حکمتیں بھی جو بغیر حجاب کے خاص طور پر وحی کی گئیں۔
۹۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ رسولِ خدا نور ہے (۶۱: ۰۸) نیز ارشاد ہے کہ آپ ایک روشن چراغ ہیں (۳۳: ۴۶) یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کی یہ روشنی مادّی اور دنیاوی قسم کی تو نہ تھی، بلکہ عقل و روح اور دین و ایمان کی روشنی تھی، علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی روشنی تھی، اور یہ قرآن کی نورانیّت تھی، چونکہ پیغمبرِ خدا نور اور روشن چراغ تھے، یعنی آپؐ ایسے نور تھے جس کا تعلق براہِ راست اور بالواسطہ عالمِ روحانیّت سے تھا، جس سے دنیائے انسانیت کسی بھی وقت تابان و درخشان ہو سکتی ہے، جس نے مومنین کے دلوں کو منور کر دیا تھا، کیونکہ یہ
۲۸
نور عقلی، روحانی اور باطنی قسم کا تھا، لہٰذا اسے دلوں ہی میں طلوع ہو جانا تھا، عقل و جان کو روشن کر دینا تھا اور جہالت و نادانی کی تاریکیوں کو دور کر دینا تھا۔ پس یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضورِ انورؐ نے قرآنِ مقدّس کا مکمل نور رفتہ رفتہ اپنی ذاتِ اقدس سے اپنے وصی اور جانشین میں منتقل کر دیا، جس کا اشارہ سورۂ حدید (۵۷) کی آیت نمبر ۲۸ میں ہے (۵۷: ۲۸)۔
۱۰۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہو کہ نور کا مطلب صرف یہی ہے کہ اس سے ظاہری طور پر دینی ہدایت کی روشنی پھیلائی جاتی ہے اور اس کا روح اور باطن سے کوئی تعلق نہیں، تو ایسے شخص کا یہ خیال قرآنِ پاک کے خلاف ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں نور، منیر، مصباح اور سراج جیسے الفاظ آئے ہیں، تو ان کا مطلب ایسا ہرگز نہیں، چنانچہ ارشاد ہے کہ: اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵)۔ اس سے ظاہر ہے کہ خداوندِ پاک کی جس صفت کو نور کہا گیا ہے وہ کوئی مادّی روشنی تو نہیں اور نہ وہ صرف ظاہری ہدایت ہے بلکہ وہ نظامِ کائنات و موجودات کی باطنی اور روحانی ہدایت کی روشنی ہے۔
اس کے علاوہ جس آیتِ پُرحکمت میں آنحضرتؐ کو سراجِ منیر یعنی روشن چراغ کے نام سے یاد فرمایا گیا ہے، اس میں آپ کی رسالت و نبوّت کے تمام ظاہری کاموں کے ذکر کے بعد حضورؐ کے روشن چراغ
۲۹
ہونے کا تذکرہ ہوا ہے، جیسے ارشاد ہے کہ:۔
اے رسول تحقیق ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور خدا کی طرف اس کے اذن سے بلانے والا اور روشن چراغ کی حیثیت سے بھیجا ہے (۳۳: ۴۶)۔
اس آیۂ کریمہ کے الفاظ کی ترتیب سے صاف ظاہر ہے کہ رسالت، گواہی، بشارت، انذار، اور دعوت میں حضورِ اکرمؐ کا ظاہری کام پورا ہو جاتا ہے، اس کے بعد آپؐ کے روشن چراغ ہونے کا مقصد باقی رہتا ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ حضرتِ اقدس اپنے نورِ پاک سے، جس میں قرآن کی روحانیّت تھی، قلوبِ مومنین کو منوّر کر دینے والے تھے، اور جس طرح ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن کر دیا جاتا ہے، اسی طرح یہ نور رسولِ خداؐ کے مقدس باطن سے امامِ برحقؑ کی مبارک شخصیت میں منتقل ہونے والا تھا، جیسا کہ “نورٌعلیٰ نور” کی حکمت سے ظاہر ہے کہ نور ہمیشہ ایک پاک شخصیت کے بعد دوسری پاک شخصیت میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔
۱۱۔ قرآنِ حکیم (۰۳: ۰۷) میں راسخون فی العلم کا ذکر آیا ہے جس کا مطلب ایسے حضرات ہیں جو علم میں پختہ کار ہیں، اب اس آیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پوچھنا پڑتا ہے کہ آیا آنحضرتؐ قرآن کی اس اصطلاح کے مطابق علم میں پختہ کار تھے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یقیناً اثبات میں
۳۰
ملے گا، پھر ظاہر ہے کہ راسخون کے لفظ میں حضورؐ تنہا نہیں ہیں، بلکہ آپؐ کے علاوہ کچھ دوسرے حضرات بھی ہیں، اور وہ آنحضرتؐ کے اہلِ بیتِ اطہار ہیں، اور اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ علم کی یہ پختہ کاری دنیاوی ہرگز نہیں بلکہ یہ قرآنی روحانیّت کے علم کی پختہ کاری ہے، جس کا سرچشمہ حضورِ انورؐ ہی تھے، چنانچہ معلوم ہوا کہ دنیا والے سمجھے یا نہ سمجھے ہر حال میں نورِ نبی اپنا کام کرتا رہتا تھا، یعنی آنحضرتؐ کے توسط سے قرآنی روحانیّت کی مکمل روشنی اہلِ بیتِ کرامؑ کے باطن میں پہنچ چکی تھی۔
۱۲۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےکہ: قرآن کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا (۵۶: ۷۹) اس کے معنی یہ ہرگز نہیں کہ ظاہری حالت میں کوئی ناپاک شخص قرآنِ صامت کو ہاتھ نہ لگا سکتا ہو، بلکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ سوائے پاک باطن حضرات کے کوئی آدمی قرآن کی روحانیّت و نورانیّت اور تاویلی حکمت تک رسا نہیں ہو سکتاہے، اس سے یہ ثابت ہوا کہ اہلِ بیتِ عظام علیہم السّلام کا باطن نورِ قرآن کی روشنی سے منور ہو چکا تھا، کیونکہ خود قرآن ہی اس حقیقت کی شہادت دیتا ہے کہ انہیں آیۂ تطہیر کے بموجب اللہ تعالیٰ نے پاک و پاکیزہ کر دیا تھا، اور تمام أئمّۂ اطہار اہلِ بیت میں سے ہیں (۳۳: ۳۳)۔
۱۳۔ قرآنِ پاک سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نور انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل فرمایا ہے اس کو منکرین بجھا نہیں سکتے
۳۱
ہیں (۰۹: ۳۲، ۶۱: ۰۸)۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ نورِ ہدایت جو آنحضرتؐ میں قرآنی روحانیّت کی حیثیت سے موجود تھا آپؐ کے بعد بالکل اسی روحانیّت کی تابانی و درخشانی کے ساتھ سلسلۂ امامت میں جاری و باقی ہے۔
۱۴۔ ربّ العزّت کا ارشاد ہے کہ قرآن عالمِ امر سے ایک زندہ روح اور ایک کامل نور کی صورت میں آنحضرتؐ کے دل پر نازل ہوا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آنحضورؐ صراطِ مستقیم کی ہدایت کرتے ہیں (۴۲: ۵۲)۔ اب کوئی ایسا عقیدہ درست نہیں جو کہا جائے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کی وہ روح اور نور اٹھا لیا ہے، سو یہی کہنا حقیقت ہے کہ وہ قرآنی روح اور نور رسولِ خدا کے بعد أئمّۂ طاہرین کے پاک سلسلے میں زندہ اور موجود ہے، تاکہ خدا تعالیٰ کے نظامِ ہدایت میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔
۱۵۔ قرآنِ مجید میں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے غیب کی باتوں پر یعنی عالمِ غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے کسی برگزیدہ رسول کے (۷۲: ۲۶ تا ۲۷) ۔ اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ پر قرآن کی جو روحانیّت نازل ہوئی تھی وہی آنحضورؐ کا عالمِ غیب پر مطلع ہونا تھا، اور وہی آپؐ کی ذاتی روحانیّت کے عالم کا مشاہدہ تھا، اس سے معلوم ہوا کہ آپؐ کے حقیقی جانشین کو بھی یہی مرتبہ حاصل ہے کیونکہ خلیفۂ رسول میں
۳۲
قرآنی نور کی منتقلی کے یہی معنی ہیں۔
۱۶۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کے قرب و حضور تک پہنچ جانے کے لئے صرف ایک ہی رستہ مقرر ہے، اور وہ صراطِ مستقیم ہے، رسولِ خدا نے اسی راہ پر لوگوں کی ہدایت و رہنمائی فرمائی تھی، اور قرآن کی روحانیّت و نورانیّت کی مختلف منزلیں بھی اسی صراطِ مستقیم پر واقع ہیں، لہٰذا پیغمبرِ برحقؐ کی اس رہبری کے نتیجے میں جن کامل انسانوں اور حقیقی مومنوں کو خدا کا قربِ خاص حاصل ہوا ہے، انہوں نے لازمی طور پر قرآنِ پاک کی روحانیّت و نورانیّت کا مشاہدہ کیا ہے، کیونکہ قرآن کی روح اور نور صراطِ مستقیم سے ہٹ کر نہیں ہے۔
۱۷۔ قرآنِ مجید کی تعلیمات میں یہ بھی ہے کہ بعض لوگ دل کی آنکھ سے اندھے ہوتے ہیں (۲۲: ۴۶)۔ آپ ذرا سوچیں کہ آیا اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بعض لوگ دل کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں، تو کیا وہ دل کی آنکھ سے اس ظاہری دنیا کو دیکھتے ہیں؟ نہیں، نہیں، وہ تو عالمِ باطن کو دیکھتے ہیں جو روحانیّت کی دنیا ہے اور وہی قرآن کی روحانیّت بھی ہے۔
۱۸۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ پیغمبر کی معرفت خدا کی معرفت سے پہلے ہو، امام کی معرفت پیغمبر کی شناخت سے قبل ہونی چاہئے اور سب سے پہلے انسان کی اپنی پہچان چاہئے، کیونکہ معرفت کے مراتب ہی ایسے ہیں، اور شناخت سے متعلق اقرار کی ترتیب بھی یہی ہے، تاہم یہ بھی جاننا
۳۳
ضروری ہے کہ یہ تمام معرفتیں آپس میں مل کر ہیں الگ الگ نہیں، بہرحال معرفت نام ہے پہچان کا، اور بغیر دیکھے کوئی پہچان نہیں، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی، کہ جس شخص کو عارف کہا جاتا ہے اگر وہ واقعاً عارف ہے تو اس کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے وہ اپنی روح اور اپنی روحانیّت کی حیثیت سے قرآنی روحانیّت کی دنیا کا سیرِ حاصل مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے حقائق و معارف کی روشنی میں مذکورہ چار درجے کی معرفت کو حاصل کرتا ہے، کیونکہ قرآن کی معرفت کے بغیر کوئی معرفت نہیں۔
۱۹۔ مذکورۂ بالا حقائق سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی تجلیوں کے مشاہدہ کے بغیر کوئی معرفت حاصل نہیں ہوتی، اور انہیں تجلّیات میں قرآن کی روح اور نور موجود ہے، بلکہ یہی تجلّیات خود قرآن کی روحانیّت و نورانیّت ہیں، کیونکہ قرآن کی روحانیّت خدا کی تجلّیوں سے ہرگز ہرگز الگ نہیں۔
۲۰۔ بہت سے لوگ شناخت و معرفت کے معنی میں دیدارِ الٰہی کے قائل ہیں، مگر بعض لوگ اس تصوّر میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ کے مقدس دیدار کی جستجو کے سلسلے میں اس کی سب سے عظیم نشانیوں کا بھی مشاہدہ ہوتا ہے، جیسے عرش و کرسی، یا قلم و لوح، ازل و ابد کی ضروری اور لازمی حقیقتیں، مکان و لا مکان، زمان و لا زمان،
۳۴
کائنات کی بقا و فنا، بہشت و دوزخ، حشر و نشر، ارواح و ملائکہ، وغیرہ۔ پس قرآن کی روح کی شناخت میں یہ تمام معرفتیں شامل ہیں، جیسے ارشاد ہے کہ: ۔
وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا (۷۸: ۲۹)
اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر کر رکھا ہے۔ یہی کتاب انسان کا اعمال نامہ بھی ہے، انسانِ کامل کا نور بھی اور قرآن کی روحانیّت بھی، جس میں سب کچھ ہے۔
۲۱۔ انسان جب نیند کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ خواب دیکھتا ہے، اور خواب کے مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، یعنی وہ ایسے خواب بھی دیکھتا ہے جو غیر منظم اور منتشر ہوتے ہیں، اور ایسے خواب بھی ہیں جو کسی عمدہ اور منظم قصّے کی طرح ہوتے ہیں، بعض خواب تاریک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں اور بعض روشن اور پُرمسرّت۔ چنانچہ فرض کرو کہ ایک خدا رسیدہ بزرگ نے انتہائی روشنی میں ایک عظیم الشّان خواب دیکھا، وہ ایسا پُراثر اور دلنشین تھا کہ اس کا تصوّر دل و دماغ سے مٹ نہیں سکتا تھا، پھر اس نے اپنے اس خواب کو نہایت ہی مناسب و موزون الفاظ میں کتاب کی صورت دے دی، تو کیا اب اس بزرگ شخص کے دل و دماغ میں اس واقعۂ خواب کے اثرات و تصوّرات قائم ہیں کہ کتاب کے ذریعہ سے ان کی ترجمانی کرنے سے وہ سب ذہنی نقوش مٹ گئے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ وہ تصوّراتی کیفیت جو اس نورانی خواب سے پیدا ہوئی تھی کسی کمی
۳۵
کے بغیر اب بھی قائم ہے، تو اس مثال میں غور کرنے کے نتیجے پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ قرآنِ پاک ظاہری تحریر میں آنے کے بعد بھی مکمل نور کی صورت میں آنحضرتؐ کے باطن میں موجود تھا، لیکن یقین رکھنا چاہئے کہ خواب کی اس ادنیٰ مثال سے قرآنِ حکیم کی زندہ روحانیّت نہایت ہی بلند اور انتہائی عظیم ہے۔
۲۲۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایان رحمت سے جو مادّی علم و حکمت عطا کر دی تھی، اس کی مدد سے آج کے انسان نے ٹیلی ویژن وغیرہ کی ایک عجیب و غریب دنیا بنائی ہے، جس میں ماضی کے واقعات حال ہی کی طرح سامنے آتے ہیں، جب مادّی علم و حکمت (سائنس) کے نتیجے کا یہ حال ہے، تو اس علمِ لدّنی اور حکمتِ بالغہ کا کیا حال ہو گا، جو خدا تعالیٰ نے اپنے حبیب کو عنایت کیا تھا، پھر سوال ہے کہ آیا یہ ممکن نہیں کہ اس خدائی علم و حکمت کی مدد سے رسولِ خدا مومنوں کے دل میں ایک ایسی روشن دنیا پیدا کریں، جس میں روحانیّت ہی روحانیّت ہو، اگر آپ کہیں کہ کیوں نہیں، تو ایسی روحانیّت قرآن ہی کی روحانیّت ہوگی۔
۲۳۔ سورۂ محمد (۴۷: ۰۶) میں بہشت کی معرفت کا ذکر آیا ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اسی دنیا میں جنّت کی پہچان ہونی چاہئے، تا کہ قیامت کے روز مومن اپنی پہچانی ہوئی بہشت میں داخل ہو سکے، لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ پہچان مشاہدہ کے بغیر ناممکن ہے، اس سے ظاہر ہے
۳۶
کہ جنّت کا مشاہدہ ضروری ہے، مگر یاد رہے کہ قرآن کی روحانیّت سے یہ جنّت الگ نہیں ہے، کیونکہ قرآن کی روحانیّت میں تمام روحانی نعمتیں موجود ہیں اور جنّت کا مقصد بھی یہی ہے اور یہی روحانیّت جنّت ہے۔
۲۴۔ تاویل کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو اوّل کی طرف لوٹا دینا، کسی مثال کو ممثول (حقیقت) کی طرف لے جانا اور رمز و کنایہ سے مقصود و منشا کو ظاہر کرنا، چنانچہ سورۂ یوسف کے مطابق گائے کی تاویل ہے انسان کا کھانے پینے والا نفس، کیونکہ ایسے نفسِ انسانی کی مثال جس پر فراوانی کے سات برس آرام و راحت سے گزر جانے والے تھے سات موٹی گائیوں سے دی گئی ہے، اور اسی نفس پر بعد کے سات سالوں میں سخت قحط سے جو کچھ تکلیف گزرنے والی تھی، اس کی مثال سات دبلی گائیوں سے دی گئی ہے، یہ قصّہ بادشاہِ مصر کے خواب سے متعلق ہے، جس کی تاویل دنیا زمانے کا کوئی دانشور نہیں کر سکتا تھا، سوائے حضرت یوسف علیہ السّلام کے، جو انسانِ کامل اور زمانے کے امامِ مستودع تھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حضور سے علمِ تاویل عطا کیا تھا، یہی حال قرآنی تاویل کا بھی ہے، کہ اس کے عملی تاویل کا علم سوائے راسخون کے (۰۳: ۰۷) کوئی نہیں جانتا، اور راسخون فی العلم سب سے پہلے آنحضرتؐ ہیں اور آپؐ کے بعد آپؐ کے جانشین ہیں یعنی علیٔ مرتضیٰؑ، پھر أئمّۂ اولادِ علیؑ ہیں۔
عملی تاویل سے قرآن کی روحانیّت مراد ہے، جس کا تذکرہ اس
۳۷
کتابچہ میں بار بار ہوتا رہا ہے، اور کتابی تاویل وہ ہے جو أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام اور ان کے حدود کے وسیلے سے ظاہر ہو کر ضبطِ تحریر میں آ چکی ہے۔
۲۵۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک عام انسان روحانیّت کی روشن دنیا سے غافل و نا آشنا رہتا ہے، لیکن اس کے باؤجود یہ ضرور ہے کہ اس کے دل و دماغ میں تصوّرات کا ایک وسیع عالم موجود ہے، جس میں نہ صرف اس کی گزشتہ زندگی کے تمام مشاہدات، واقعات اور حالات سموئے ہوئے ہیں، بلکہ پوری کائنات کا تصوّر بھی محدود ہے، جس میں ہر چیز موجود ہے، مثلاً آسمان، سورج، چاند، ستارے، فضا، بادل، دن، رات، زمین، پہاڑ، جنگل، بیابان، دریا، باغ، گلشن، کھیت، مکان، شہر، طرح طرح کے آدمی، جانور، سیر و سفر کے واقعات، اور لاتعداد باتوں اور بے شمار کاموں کا ریکارڈ، چنانچہ وہ جس چیز کا تصوّر کرتا ہے، اس کی ایک دھندلی سی تصویر اور ایک معمولی سی تشبیہ سامنے آتی ہے، بعض چیزیں جن سے اس کی زیادہ محبت ہے اسی طرح بار بار خود بخود ذہن کی سطح پر ابھرتی رہتی ہے، بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی طرف اس نے کم توجہ دی تھی، لہٰذا یہ ان کو فراموش کر چکا ہے، تاہم غور و فکر سے ان کی بازیابی ممکن ہے۔
اب آپ خود سوچ کر اندازہ کریں، کہ اگر ایک ناقص انسان کے باطن میں پوری دنیا کی چیزیں اس طرح سے ہیں کہ روشنی کی کمی کی وجہ
۳۸
سے بڑی مشکل سے نظر آتی ہیں، تو پھر کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک کامل انسان کی پاک و پاکیزہ روح میں خاطر خواہ روشنی ہو اور اس میں ہر چیز صاف صاف نظر آئے، پس جاننا چاہئے کہ یہ قرآن کی روحانیّت کی طرف ایک واضح اشارہ اور اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔
۲۶۔ قرآنِ حکیم کی (۴۱: ۵۳) میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات آفاق میں بھی ہیں اور انفس میں بھی، اس عظیم الشّان فرمانِ خداوندی کا مقصد یہ ہے کہ خدا شناسی اور دین شناسی کے لئے آفاق و انفس کی ان شہادتوں اور حقیقتوں سے کام لیا جائے، مثال کے طور پر ہمیں کتابِ کائنات سے یہ معلوم کر لینا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باطنی طور پر قرآنی روحانیّت کے نور کا عکس (روشنی) اپنے جانشین پر ڈال سکتا ہے یا نہیں؟ اگر یہ ممکن ہے تو اس کی صورتِ حال کیا ہے؟ چنانچہ اس حقیقت کے لئے جب ہم مادّی روشنی کے سرچشمہ پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سورج ہمیشہ دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ چاند پر بھی روشنی ڈالتا ہے، مگر رات کے وقت جب سورج سامنے موجود نہیں ہوتا تو اس وقت چاند کے سوا دوسری کوئی چیز سورج کی نمائندگی نہیں کر سکتی ہے، یعنی سورج کی جگہ پر چاند روشنی دیتا ہے اور ستاروں کی روشنی کمتر ہوتی ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمیشہ کی طرح آنحضرتؐ کے زمانے میں بھی حدودِ دین تھے جن کی مثال چاند اور ہر درجہ کے ستارے ہیں، اس مثال سے
۳۹
ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ دین کے سورج تھے، اساس چاند، اور باقی حدود ستارے، اور دین کے یہ چاند ستارے اس وقت سے روشن ہوئے، جب سے کہ دین کا سورج طلوع ہوا تھا۔
سوال ہے کہ رات کے وقت چاند سورج سے روشنی حاصل کرکے زمین والوں کو پہنچا دیتا ہے مگر آسمان یہ کام نہیں کر سکتا اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان لطیف جسم ہے اس لئے اس پر روشنی کا کوئی زاویہ نہیں بنتا، اس کے برعکس چاند کثیف جسم ہے، لہٰذا وہ اپنے گول گول کثیف جسم کے ذریعہ روشنی کے مختلف زاویئے بنا کر اہلِ زمین کو سورج کا عکس پیش کرتا ہے، یہ اس حقیقت کی مثال ہے کہ روحانی فرشتے جسمانیّت و بشریت نہ ہونے کے سبب سے پیغمبرِ اکرمؐ کی خلافت و نمائندگی نہیں کر سکتے ہیں مگر انسانِ کامل جو جسمانی اور بشر ہے وہ رسولِ خدا کی نیابت و نمائندگی کا عظیم فریضہ انجام دے سکتا ہے اور ایسی مبارک شخصیت امامِ زمانؑ کی ہے۔
سوال ہے کہ دن کے وقت چاند کیوں نظر نہیں آتا؟ اور اس کی تاویل کیا ہے؟
جواب: جس طرح دنیاوی لحاظ سے وقت کے دو حصّے ہیں، ایک حصّہ دن ہے اور دوسرا حصّہ رات، اسی طرح دینی اعتبار سے بھی موقع دو قسم کا ہوتا ہے، ایک موقع وہ ہے جس میں دین کا سورج سامنے ہوتا ہے اور
۴۰
روشنی دیتا ہے اور دوسرا موقع ایسا ہے کہ اس میں دین کا سورج سامنے نہیں ہوتا یا اگر ہوتا بھی ہے تو بعض مسائل پر روشنی نہیں ڈالتا، چنانچہ دن کے وقت چاند نظر نہ آنے کی وجہ اور تاویل یہ ہے: کہ چاند اپنے طور پر حدِ نظر سے بہت ہی بلندی پر ہے، لہٰذا دن کے وقت چاند اس لئے نظر نہیں آتا کہ ہماری نگاہیں سورج کی روشنی میں ڈوب جاتی ہیں اس کی تاویل یہ ہے کہ عہدِ نبوّت میں دینی طور پر دن کا وقت تھا، یہی وجہ ہے کہ حجتِ رسولؐ عام لوگوں کو نظر نہیں آتا تھا، تاہم بہت سے تاویلی مسائل ایسے تھے، جن پر آنحضرتؐ براہِ راست روشنی نہیں ڈالتے تھے، اس لحاظ سے یہ کہنا صحیح ہے کہ ایسا موقع رات کے مشابہ تھا جس میں اساس ہی چاند کی طرح کام کرتا تھا۔
۲۷۔ اللہ تعالیٰ کی آفاقی نشانیوں میں سے ایک پانی بھی ہے جس کا ذریعہ آسمان یعنی بلندی ہے، اور آسمان کا نمائندہ پہاڑ ہے، آسمان ناطق کی مثال ہے اور پہاڑ اساس کی، پانی آسمان سے کبھی تو بہت زیادہ برستا ہے، کبھی کم اور بعض دفعہ برستا ہی نہیں، مگر آسمان کا نمائندہ پہاڑ ہی ہے جو برف کے ذخیروں اور بڑے بڑے ؛چشموں کی شکل میں بارش کے پانی کو جمع کر لیتا ہے اور پھر منظم طور سے پانی کو سلسلہ وار جاری کر دیتا ہے، تا کہ ہر ضرورت کے لئے پانی ہمیشہ مہیا ہو، یہ قرآنی روحانیّت ہی کی مثال ہے، کہ کس طرح ناطق سے اساس میں منتقل ہوئی ہے، تاکہ لوگوں کی تدریجی ہدایت کا
۴۱
وسیلہ ہر وقت مہیا رہے، اور یکبارگی آسمانی علم کے طوفان میں ڈوب کر لوگ ہلاک نہ ہو جائیں، جیسے حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم روحانی علم کے طوفان کی غرقابی سے ہلاک ہوگئی تھی، پس معلوم ہوا کہ پیغمبرِ خدا نے اپنے جانشین کی ذات میں قرآنی روح ڈالی ہے۔
۲۸۔ قرآنِ پاک کی (۰۳: ۴۹) میں جو ارشاد فرمایا گیا ہے اس کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام اپنے زمانے میں گارے سے پرندہ کی شکل بناتے تھے اور اس میں اسمِ اعظم پھونکتے تھے جس سے وہ بحکمِ خدا پرندہ بن جاتا تھا، نیز آپ مادر زاد اندھے کو اور برص کے بیمار کو اچھا کر دیتے تھے اور خدا کے اذن سے مردوں کو زندہ کر دیتے تھے۔
مذکورۂ بالا امور کی تاویل یہ ہے کہ مٹی کی تاویل ہے درجۂ مومنی، پرندہ کی تاویل ہے فرشتہ اور روحانی ، مٹی میں پانی ڈال کر گارا بنانے کی تاویل یہ ہے کہ مومن کے عقیدہ اور ایمان کے ساتھ علم الیقین ملا دیا جائے، گارے سے پرندے کی شکل بنانے کا اشارہ ہے اس مومن میں فرشتگی اور روحانیّت کی اہلیت اور جذبہ پیدا کرنا، پرندے کی شکل میں پھونک مارنے کا مطلب ہے اسمِ اعظم کا ذکر اور خصوصی عبادت کا عطیہ مستعد مومن کو دینا اور پرندہ بن جانے کی تاویل ہے اس بندۂ مومن کا روحانی جنم یعنی فرشتگی اور روحانیّت کی زندگی کا آغاز اور دنیائے روحانیّت میں پرواز۔
۴۲
مادرزاد اندھے کو اچھا کرنے کے تاویلی معنی ہیں ایک نو مسلم کو مذکورہ قسم کی روحانی تربیت دے کر باطن کی روشن آنکھ عطا کر دینا، برص کے بیمار کو اچھا کرنا یہ ہے کہ جو مومن روحانیّت کے شروع شروع میں سخت تیز اور سفید روشنی میں پھنس جاتا ہے اس کی اصلاح کی جائے، اور مردوں کو زندہ کرنا یہ ہے کہ جو مومنین ایک بار روح الایمان کی حیات میں زندہ ہوکر پھر مردہ دل ہو چکے ہیں ان کا روحانی طور پر دوبارہ احیاء کیا جائے اور ان کو اپنے پہلے مقام پر پہنچا دیا جائے، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے مذکورۂ بالا معجزات کی حکمت وتاویل یہ ہے جو بیان کی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ آیا سردارِ انبیاء حضرتِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ایسے ہی معجزات کئے ہیں یا نہیں؟ آپ یقیناً جواب دیں گے کہ کیوں نہیں، آنحضرتؐ تو تمام پیغمبروں کے اوصافِ کمالیہ کے جامع ہیں اور خدائے قادرِ مطلق کے حبیبِ خاص، یہ تاویلی معجزے ایسے ہیں کہ ان کا تعلق أئمّۂ اطہار علیہم السّلام سے بھی ہے۔
۲۹۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ دل کی بینائی کو بصیرت کہتے ہیں، یعنی چشمِ باطن سے روحانی حقیقتوں کو دیکھ لینا بصیرت ہے، چنانچہ آنحضرتؐ کے بارے میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔
قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ، عَلٰى بَصِیْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْؕ (۱۲: ۱۰۸) ۔
۴۳
آپ کہہ دیجئے کہ میرا طریقہ تو یہ ہے کہ میں (لوگوں کو) خدا کی طرف بلاتا ہوں میں اور میرا پیرو (دونوں) بصیرت پر ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضورؐ کے ساتھ آپؐ کا پیرو یعنی مولانا علی علیہ السّلام بھی بصیرت پر تھے، کہ ان دونوں مقدّس ہستیوں نے چشمِ باطن سے قرآنی روحانیّت کے عالم کے حقائق و معارف کا بخوبی مشاہدہ کیا تھا اور دعوتِ حق کے بارے میں انہوں نے جو کچھ فرمایا وہ بصیرت پر مبنی تھا۔
۳۰۔ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:۔
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌ (۷۵: ۱۴)۔
بلکہ انسان اپنی ذات (روح) پر مطلع ہے۔ یعنی انسان فی الاصل یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ دیدۂ دل سے اپنے روحانی احوال کا مشاہدہ و مطالعہ کرے، اور اگر اس نے اپنی یہ قابلیت ضائع کر دی ہے تو یہ اس کی اپنی ہی غلطی ہے، چنانچہ اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کی روحانیّت کا تصوّر پیغمبر اور امام علیہما السّلام کے بعد نچلے درجات تک پہنچتا ہے۔
۳۱۔ سورۂ نبا (۷۸) کی آیت نمبر ۲۹ میں فرمایا گیا ہے کہ: اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب کی صورت میں گھیر کر رکھا ہے (۷۸: ۲۹)۔ اس آیت کی حقیقت سمجھنے کے لئے سب سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ یہ کتاب جس میں ہر چیز موجود ہے روحانی نوعیت کی ہے یا مادّی قسم کی، اگر کہا جائے کہ مادّی قسم
۴۴
کی ہے تو ایسی کتاب اس کائنات کے برابر بڑی ہو گی، کیونکہ ہر چیز کا مطلب ساری کائنات و موجودات ہے، اور اگر مان لیا جائے کہ یہ کتاب جس میں کل کائنات سموئی ہوئی ہے روحانی طرز کی ہے، تو درست ہے اور اس آیت کی یہی مراد ہے اور کائنات کی ساری چیزیں جو اس کتاب میں سمو گئی ہیں روحانی صورت میں ہیں، اور وہ کتاب قرآن کی روحانیّت ہے جسے پیغمبر اور امام کا نور بھی کہا جاتا ہے۔
اس مقالہ کے شروع سے لے کر آخر تک جو حقائق و معارف مذکور ہوئے، ان کی روشنی میں دیکھنے سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ رسولِ خداؐ اور أئمّۂ ہداؑ کا مقدّس نور قرآنِ حکیم کی روح اور روحانیّت کی حیثیت سے ہے اور یہی نور ہمیشہ سے لوگوں کے لئے ہدایتِ الٰہی کا سرچشمہ رہا ہے اور اسی نور کی روحانی تجلیوں میں معرفت کے خزانے پوشیدہ ہیں، پس مومن کو ہر وقت کوشان رہنا چاہئے تا کہ اس پاک نور کا روحانی مشاہدہ اور شناخت حاصل کر سکے۔
الحمد للہ ربِّ العالمین۔
۴۵