مفید انٹرویو
جشنِ خدمتِ علمی
محترمہ ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) جشنِ خدمتِ علمی کے عجیب و غریب اور بے مثال پروگرام سے بے حد خوش اور شادمان ہیں، اور اس میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں، اور اس بارے میں مشرق و مغرب کے تمام عزیزان کو صمیمیتِ قلب سے “مبارکباد” پیش کرتی ہیں، یہاں جو یقینی اور حقیقی علم ہے، اس کو ڈاکٹر صاحبہ حضرتِ امامِ زمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کا زندہ عقلی معجزہ قرار دیتی ہیں۔
خوش خصال ڈاکٹر زرینہ نے ہمارے ادارے کی بڑی مشکل خدمات بھی انجام دی ہیں، یہ سچ ہے کہ دور سے آئے ہوئے بڑے بڑے مہمانوں کے طعام و قیام کا حسنِ انتظام بڑا مشکل کام ہے، لیکن زہے نصیب کہ آپ بڑی خندہ پیشانی سے ایسی ضروری خدمات انجام دیتی ہیں، ڈاکٹر زرینہ کے پاکیزہ دل میں رحم و ہمدردی جیسے بنیادی اوصاف موجود ہیں، آپ کو علم کی باتوں اور مناجات و گریہ و زاری سے قلبی سکون حاصل ہو جاتا ہے۔
میرے بہت ہی عزیز پوتا امین الدین ہونزائی (ابنِ ایثار علی مرحوم) جو اس وقت ایم۔ بی۔ اے کی ڈگری کر رہا ہے، وہ محترمہ
۳
ڈاکٹر زرینہ کا پسرِ خواندہ (منہ بولا بیٹا) ہے، اور اسی وجہ سے ڈاکٹر بمع اہلِ خانہ ہماری فیملی کے زمرے میں شامل ہوگئی ہیں، ڈاکٹر صاحبہ کے فرزندِ دلبند جناب غلام مرتضیٰ (ایم۔ ایس۔ سی) ہمارے نامور والنٹیئرز کے کرنل ہیں، واضح رہے کہ دنیا بھر میں جتنے لوگ (خواتین و حضرات) ہمارے حلقۂ شاگردی میں داخل ہیں، وہ سب کے سب مولائے پاک کے بے وردی رضاکار (والنٹیئرز) ہیں۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۱۴ نومبر ۱۹۹۳ء
۴
دیباچہ
۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اگر کوئی کتاب نیکی و خیر خواہی پر مبنی ہے، قلمی اور علمی خدمت کی غرض سے ہے، اور اس میں کسی کی دل آزاری نہیں، تو ایسی کتاب درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کی خاص نعمتوں میں سے ہے۔
میں یہاں صرف شمالی علاقہ جات کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں جناب شیر باز علی خان برچہ صاحب نے کتاب “تذکرۂ اہلِ قلم و شعرائے گلگت” کی تصنیف و تالیف اور طباعت و اشاعت کی زحمتوں کو اٹھا کر یہ ثابت کر دیا کہ اہلِ قلم نہ صرف اتحاد بین المسلمین کے میدان میں نمایان کردار انجام دے سکتے ہیں، بلکہ ملک و ملت کی ہرگونہ ترقی کے لئے بھی اپنی کارآمد اور مفید خدمات پیش کر سکتے ہیں، میری نظر میں محترم شیر باز علی خان برچہ اسم بامسمیٰ ہیں، یعنی آپ علی کے شیر بھی ہیں، اور باز بھی، اور اپنے جدِ اعلیٰ برچہ کی طرح معزز و محترم بھی، اور یہ سارے اوصاف ان کی عقل و دانش، فہم و فراست اور پین پاور میں ہیں۔
۲۔ اگر برچہ صاحب انٹرویو کے لئے ایسے عمدہ اور جامع سوالات نہ بناتے تو آج یہ کتاب نہ ہوتی، جو آپ کے سامنے ہے، پس میں جان و دل
۷
سے شیر باز علی خان برچہ صاحب کا شکر گزار اور ممنون ہوں، اور مجھے ان کی ادبی خوبیوں سے بڑی حیرت بھی ہے۔
اس کتاب کا نام “مفید انٹرویو” مقرر ہوا، کیونکہ اس میں کئی اعتبار سے مفید باتیں ہیں، اس کے آخر میں بندۂ ناچیز کا شجرہ وغیرہ بھی ہے، اور جدید طریقِ انتساب کے تحت لکھے ہوئے الفاظ و تاریخی کلمات بھی، تا کہ “جشنِ خدمتِ علمی” کا جس طرح پروگرام ہوا ہے، وہ نئی اور پرانی کتابوں کی طباعت اور عزیزوں کی حوصلہ افزائی کی صورت میں سال بھر منایا جائے۔
۳۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی ایک قرآنی دعا میں جس عیدِ سعید (۰۵: ۱۱۴) کا ذکر آیا ہے، وہ بڑی انوکھی اور نرالی عید ہے، کیونکہ وہ دنیا کی ہر عید سے قطعاً مختلف ہے، یقیناً وہ روحانی اور علمی غذائیں کھا کر شادمان ہو جانے کا دن ہے، ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ “جشنِ خدمتِ علمی” کا انحصار پلاؤ، حلوہ، وغیرہ پر نہ ہو، بلکہ اس میں ایسا دستر خوان بچھایا جائے کہ وہ مشرق سے لے کر مغرب تک پھیل جائے، اور اس پر عقل و روح کی گوناگون نعمتیں موجود ہوں، پس ایسا معجزانہ دسترخوان صرف روحانی علم ہی کا ہو سکتا ہے، اور ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
۴۔ جو عزیزان ہمارے ساتھ جان و دل سے علمی خدمت کرتے
۸
آئے ہیں اور جو ابھی ابھی اس خدمت میں شریک و شامل ہوئے ہیں، ہم ان سب کو پروردگار کی یاری سے نیک نام بنائیں گے، ہم بجا طور پر ان کی حوصلہ افزائی اور تعریف کریں گے، اور ان کے کارناموں کو تاریخ کا حصہ بنائیں گے، تاکہ آج ان کو اور کل ان کی نسل کو فخر حاصل ہو، اور یقیناً بہت پہلے سے یہ کام ہو رہا ہے۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے یہاں جس طرح ایک منظم علمی خدمت ہو رہی ہے، وہ ایک آسمانی معجزہ ہے، دراصل یہ ہم ایسے حقیر انسانوں کا کام ہے نہیں، گمانِ غالب یہ ہے کہ یہاں مونوریالٹی (یک حقیقت) کے تحت بڑی بڑی اور پاکیزہ پاکیزہ روحیں آ کر کام کر رہی ہیں۔
۵۔ جس طرح ظاہری شہد بنانا کسی ایک شہد کی مکھی کے بس کی بات نہیں، اسی طرح کوئی بھی استادِ کامل پیارے پیارے شاگردوں کی روحوں کی تائید کے سوا خود تنہا روحانی علم (یعنی تاویلی حکمت) پیش نہیں کر سکتا ہے، پس دینِ فطرت کا یہی قانون ہے، اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور یہ بھی عالمِ شخصی کی ایک روشن حقیقت ہے کہ ایسی تائیدی روحوں کا دائرہ بڑا وسیع ہے، یاد رہے کہ روح کا دوسرا نام فرشتہ ہے۔
۶۔ قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ ہر روز خدا کی ایک نئی شان اور ایک
۹
نئی تجلّی ہوا کرتی ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے، لیکن ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اللہ کی شان یا تجلّی جو کوہِ طور پر ہوئی، وہ خداوند تعالیٰ کے لئے نئی تھی یا حضرتِ موسیٰؑ کے لئے؟ اس کا جواب خود بخود روشن ہو کر سامنے آتا ہے کہ نئی نئی تجلّیات نئے نئے عارفوں کی نسبت سے ہوتی رہتی ہیں، جبکہ ذاتِ خدا کے سامنے کوئی شے جدید نہیں، کیونکہ اس کی صفات میں کوئی تغیّر نہیں، پس وكُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شَأْنٍ (۵۵: ۲۹) کا مطلب ہے کہ ہر زمانے میں خدا کا ایک مظہر موجود ہے، اور اسی کی ذات میں ہر روز اللہ کی ایک نئی شانِ تجلّی ہوتی رہتی ہے۔
ہاں، یہ درست اور حقیقت ہے کہ مظہر کے بھی مظاہر ہوا کرتے ہیں، تا کہ رحمت و علم کی فراوانی ہو، اور اگر مظہر کے مظاہر نہ ہوتے تو معرفت ناممکن ہوتی، اور دین میں کوئی عارف نہ ہوتا، اور نہ ہی حق الیقین کا مرتبہ ہوتا، کیا فنا فی اللہ و بقا با للہ سب سے بڑا اور آخری درجہ نہیں ہے؟ کیا اسی کا دوسرا نام مونوریالٹی نہیں؟ کیوں نہیں۔
۷۔ یہ انٹرویو جو آج سے تقریباً چھ سال قبل مجھ سے لیا گیا تھا، اپنی جگہ درست ہے، الا آنکہ میں نے اپنے خاندانی پس منظر پر مزید ریسرچ کر کے ایک مختصر سی تاریخ کا اضافہ کیا ہے؟ آپ انٹرویو کے بعد ضمیمہ میں اسے دیکھ سکتے ہیں، دوسری بات سفرِ مغرب کے بارے میں ہے کہ میں قبلاً امریکا اور فرانس نہ جا سکا تھا، لیکن اب یہ
۱۰
بات بھی نہ رہی، کیونکہ خدا کے فضل و کرم سے اور تمام عزیزوں کی خواہش و کوشش سے اب تک میں تین بار امریکا جا چکا، ایک دفعہ فرانس گیا، اور کل چھ بار کنیڈا کا دورہ کیا، لیکن لنڈن کے دورے کتنے ہوئے؟ یہ ایک دلچسپ مسئلہ ہے، کیونکہ میں وہاں خداوندِ قدوس کی رحمت و مہربانی اور عظیم دوستوں کی پُرخلوص دعوت سے بار بار جاتا رہا۔
۸۔ کتابِ روحانیّت کہتی ہے: فردوسِ برین کے مرتبۂ عقل پر ایک نہایت پُرنور و پُرکشش شخصیّت ہے، جس کے بہت سے اسماء و امثال ہیں، جیسے وجہ اللہ، صورتِ رحمان، نفسِ واحدہ، روحِ اعظم، نفسِ کلّی، عالمِ وحدت، یدّ اللہ، لسان اللہ، لوحِ محفوظ، قلمِ الٰہی، کرسی، عرش، جنت، رضوان، حور، غلمان، واحد، جمع، اوّل، آخر، ظاہر، باطن، درختِ زیتون، سدرۃ المنتہیٰ، بیت العتیق، وغیرہ، اور یہی عالمِ وحدت خود یک حقیقت ہے۔
۹۔ عالمِ روحانی کی تجلّیات: عارف کے مشاہدۂ باطن میں مثال کے طور پر ایک خوبصورت پہاڑ تھا، وہ چشمِ زدن میں دریا بن گیا، پھر دریا ایک انتہائی حسین باغ کی شکل میں نظر آیا، اب پھر منظر بدل گیا، اور سامنے زرق برق لباس پہنے ہوئے لوگ نظر آ رہے ہیں، پھر یکایک وہ سب غائب ہو گئے، صرف ایک نورانی شخص ہے، پھر آنکھ کی جھپک میں اس کا ظہور ایک تابناک کتاب کی صورت میں ہوا، قس علیٰ ہٰذا القیاس۔
۱۱
یاد رہے کہ مقاماتِ روح پر تجلّیاتِ صوری ہیں، اور منازلِ عقل میں تجلّیاتِ معنوی، یعنی یہاں بار بار چیزوں کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں، اور وہاں جو کچھ ہے وہ ایک جیسا ہے، تاہم اس کے معنی میں تجلّیاتی گوناگونی ہے، کیونکہ وہ کل اسماء کا مسمیٰ تمام معنوں کا حامل، اور ساری مثالوں کا ممثول ہے۔
۱۰۔ آخر میں تمام دوستانِ عزیز کی خدمت میں جھک جھک کر مؤدبانہ و مخلصانہ سلام و احترام بجا لاتا ہوں، اور مشرق و مغرب کے جملہ عملداران و ارکان کی گرانقدر خدمات کو جان و دل سے سراہتا ہوں، کیونکہ آج ہماری جیسی ترقی ہوئی ہے، وہ ان حضرات کی پاکیزہ دعاؤں اور کوششوں کی وجہ سے ہے، ورنہ یہ خاکسار کیا کر سکتا ، ان شاء اللہ ہر عزیز نامۂ اعمال کو دیکھ کر بے حد شادمان ہو گا، آمین! !جشنِ خدمتِ علمی کا سلسلہ تمام ساتھیوں کو مبارک ہو! اس میں ہزار بلکہ بے شمار برکتیں ہوں.
نصیر الدین نصیر ہونزائی (کراچی(
ہفتہ ۲۷ جمادی الاول ۱۴۱۴ھ
بمطابق ۱۳ نومبر ۱۹۹۳ء
۱۲
بابائے بروشسکی
علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی
علامہ نصیر الدین نصیرؔ صاحب کی مشکبار شخصیت محتاجِ تعارف تو نہیں، لیکن آپ کی زندگی کا “سفر نامہ” جو کہ تحیّر خیز واقعات سے پُر ہے، کا علم بہت کم لوگوں کو ہے، آپ ایک طویل عرصے سے کراچی میں مقیم علم و ادب کی خدمت میں مصروف ہیں، گلگت کبھی کبھار ہی تشریف لاتے ہیں، ۱۹۸۶ء کے موسمِ گرما میں آپ جب گلگت تشریف لائے تو قراقرم رائٹرز فورم نے آپ کے اعزاز میں ایک پارٹی دی، اس دوران آپ سے گفتگو کا شرف حاصل رہا، ڈیڑھ سو کتابوں کا مصنف اتنی انکساری سے ملا کہ ایک بے نام جذبے کے تحت آنسو چھلک پڑے۔
دوسری مرتبہ بنفسِ نفیس آپ پبلک لائبریری تشریف لائے، وہیں آپ سے انٹرویو کے لئے وقت مانگا، آپ چونکہ قلیل عرصے کے لئے آئے تھے، اس لئے فیصلہ ہوا کہ بالمشافہ انٹرویو کی بجائے راقم کی طرف سے کئے گئے سوالات کی روشنی میں آپ کراچی سے فاصلاتی انٹرویو کا مسودہ ارسال کریں گے، اس پر راقم نے صاد کیا۔
۱۳
ایک مناسب وقفے کے بعد علامہ صاحب نے مسودہ ارسال کیا، جو کہ من و عن قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
)شیر باز علی خان برچہ(
۱۴
سوال و جوابِ اوّل
برچہ: محترم علامہ صاحب! اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیے؟
نصیر صاحب:
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس بندۂ عاجز، ناتوان، اور کمترین اعنی نصیر الدین نصیر ہونزائی کا پہلا نام پرتوِ شاہ (Partaw-i Shah) ہے، جو برکت حاصل کرنے کی نیّت سے عالیجناب شہزادہ لیث کے جدِ امجد پیر شاہ پرتوِ شاہ کے اسم سے اخذ کیا گیا ہے، یہی نام (پرتوِ شاہ) اس خاکسار کے والدِ محترم کے استادِ معظم خلیفہ شاہ آفرین نے بھی اپنے ایک فردِ خاندان کے لئے پسند فرمایا تھا، خلیفہ شاہ آفرین صاحب اپنے وقت میں ایک بڑے عالم شخص تھے، اگر یہاں اس نام کا اصل مطلب بیان کیا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا، چنانچہ “پرتو” کی مثال وہ عکسِ خورشید ہے، جو آئینے سے منعکس ہو جاتا ہے، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا
پرتو افگن ہو اگر روشنئ طبع تری
برق آئینہ ہو اور سنگِ سیہ ہوا برق
۱۵
شاہ اسماعیلی اصطلاح میں امامِ عالی مقام کو کہا جاتا ہے، پس پَرتوِ شاہ کا مفہوم ان بزرگوں کے نزدیک “عکسِ نورِ امام” جیسا رہا ہوگا، تاہم اس میں تعریف کی کوئی بات نہیں، کیونکہ ہر مسلمان اپنی عقیدت اور نیّت میں یہ سعی ضرور کرتا ہے کہ اس کی اولاد کا نام بہت ہی خوب اور اعلیٰ ہو، صرف یہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمیشہ یہ دعا بھی کرتا رہتا ہے کہ اس کا فرزند اسم بامسمیٰ ہو، یعنی وہ اپنے نام کا مصداق بنے۔
میں فطری طور پر فلسفۂ وحدتِ انسانی کا شیدائی ہوں، اور اس سلسلے میں درسِ اوّل صلۂ رحمی کا فلسفہ ہے، لہٰذا میں اپنے آبائی خاندان کے تذکرے سے قبل امہات کے خاندانوں کا مختصر ذکر کروں گا، جنہوں نے میری ہستی کے درخت کے لئے دور رس اور وسیع جڑوں کی حیثیت سے کام کیا ہے، چنانچہ میری مادرِ مہربان روزی بای بنتِ حیدر محمد کے توسط سے میری ایک جڑ خاندانِ بختہ کڎ میں استوار ہے، دوسری جڑ محترمہ نانی فضہ بنتِ سلطان محمد کی جانب سے ہکل کڎ کے خاندان میں ہے، تیسری جڑ محترمہ روزی بای دخترِ درݽ علی (ابنِ خان لسکری) سے قلی کڎ میں پیدا ہوئی ہے، اور چوتھی جڑ میری پر دادی گل بی بی کی طرف سے خروٹݣ میں آگی ہے، تاہم مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس شجرہ کی یہ دلچسپ ریسرچ دوسری کئی جڑوں کے بارے میں اب تک نامکمل ہے۔
۱۶
اس حقیر کے آبائی خاندان کا سلسلہ اس طرح ہے: نصیر الدین (پرتوِ شاہ) ابنِ خلیفہ حبِ علی، ابنِ خلیفہ محمد رفیع، ابنِ ترنگفہ فولاد بیگ (جو شہزادہ ریحان شاہ ابنِ میر غضنفر خان کے پدرِ رضاعی تھے) ابنِ ترنگفہ شمشیر بیگ، ابنِ ترنگفہ غریب، ابنِ حاجی، ابنِ منو، ابنِ فقیر، ابنِ پونو، ابنِ سرل، ابنِ فقو، ابنِ شاہ بہرام ثانی، ابنِ شاہ روپ، ابنِ بہرام اوّل، ابنِ برگل اوّل، ابنِ سفر / صفر، جو بروݣ ہرای کے خاندان سے تھا، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ چین سے آیا تھا۔
آپ ایک آیۂ کریمہ کی اس تفسیر میں خوب غور کریں: اور اللہ تعالیٰ کی بے مثال قدرت ایسی ہے کہ اس نے آدمی کو پانی (یعنی نطفہ) سے پیدا کیا، پھر اسے بیٹوں کی جانب سے سلسلہ ہائے خاندان اور بیٹیوں کی طرف سے شاخ در شاخ سسرال بنا کر پوری دنیائے انسانیّت میں پھیلا دیا، اور خدا قادرِ مطلق ہے (۲۵: ۵۴) اس حکمت سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ظاہر اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان نہ صرف اپنے پھیلاؤ کی تاریخ سازی میں ماضی سے زمانۂ حال میں داخل ہوگیا ہے، بلکہ اپنے آپ کو سمیٹنے کی تاریخ دانی میں حال سے ماضی کی طرف بھی ذہنی سفر کر سکتا ہے، شاید عنقریب ایسے فلاسفر بھی پیدا ہو جائیں گے، جو زبردست شوق اور بے حد انہماک سے انسانی وحدت و سالمیّت کے اسرارِ عظیم کے انکشاف کے لئے تحقیق (ریسرچ) کریں گے ان شاء اللہ، اس وقت بیگانگی کا تصوّر رفتہ رفتہ ختم ہو جائے گا۔
۱۷
میرے مرحوم قبلہ گاہ (حبِّ علی) اسماعیلی پیروں کے نمائندوں میں سے تھے۔ نمائندۂ پیر کو خلیفہ (نائب یا جانشین) کہتے ہیں، لفظِ پیر اور خلیفہ دونوں دراصل اصطلاحاتِ تصوّف میں سے ہیں، اس زمانے میں حضراتِ پیران امام علیہ السّلام کے نمائندے ہوا کرتے تھے، اور مختلف علاقوں میں خلفاء اپنے اپنے پیروں کی نیابت و نمائندگی کیا کرتے تھے، جس میں ہر خلیفہ اپنے حلقۂ جماعت میں تمام مذہبی امور کی سرپرستی کرتا تھا، اور اس دینی منصب کے لئے یہ لازمی شرط تھی کہ وہ مسائلِ ضروریہ کا علم، معلومات، اور تجربات رکھے، اور علم کے ذرائع نہ ہونے کی مجبوریاں بھی تھیں، بہرکیف میرے جدِ بزرگوار محمد رفیع بھی اپنے وقت میں خلیفہ تھے، اور ان کے والدِ محترم فولاد بیگ ہی نے ہمارے خاندان میں سب سے پہلے علم کی شجر کاری شروع کی تھی۔
اگر قدیم ہونزہ کے کسی خاندان یا فرد کے بارے میں کوئی تاریخی کارنامہ بیان کرنا ہے، تو ہم چاہیں یا نہ چاہیں، بہرحال لازمی طور پر اس عہد کے تھم (راجہ) کا تذکرہ کرنا پڑتا ہے، کیونکہ بتقاضائے زمان و مکان ان لوگوں کی معاشرتی زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا تھا کہ انہیں حاکمِ وقت کی کوئی قربت و نزدیکی حاصل ہو، یہی وجہ ہے کہ اس دور میں اگر خدمت، قربانی، جان نثاری، وفاداری اور بہادری کا کوئی معیار تھا، تو وہ راجہ ہی کا مقرر کردہ معیار ہوا کرتا تھا۔
۱۸
مجھے فکر ہے کہ کوئی سادہ دل ہونزائی شاید یہ خیال کرے گا کہ میں نے صرف اپنے ہی خاندان کے بارے میں لکھا ہے، اور بس، حالانکہ میں کوئی مکمل تاریخ نہیں لکھ رہا ہوں، نہ میرے پاس وقت ہے، نہ اتنی وسیع معلومات ہیں، اور نہ یہ میرا موضوع رہا ہے، لیکن نوجوان سکالر نے جس دانشمندی سے سوالات کئے ہیں، میں ان کے جوابات کے لئے پابند ہوں، چنانچہ عرض ہے کہ گرکس تھم کے زمانے میں وزیرِ چوسنگھ تھے، جو راجہ کے پدرِ شیر بھی تھے، نور بیگم اور ایشو (میوری تھم) کے عہدِ حکومت میں وزیر بوٹو ابنِ چوسنگھ تھے، جن کو چوشای بوٹو کہا جاتا ہے، شاہ ملک تھم کے وقت میں وزیرِ ممو ابنِ ھنو تھے، جن کو بروشسکی میں ھنوی ممو کہتے ہیں (بحوالۂ انگریزی کتاب: “ہونزہ” صفحہ ۳۰۲) اسی طرح شروع کے چار حکمرانوں کی وزارت قبیلۂ برونگ کے پاس تھی، یہ ہمارا قبیلہ ہے (اس انٹرویو کے آخر میں جو ضمیمہ ہے، وہ اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں)۔
۱۹
سوال و جوابِ دوم
برچہ: اب کتابِ زندگی کا ایک اور ورق پلٹئے اور بچپن کے حالات کے بارے میں کچھ بتائیے؟
نصیر صاحب: یہ ناچیز بندہ اپنے والدین کی سب سے آخری اور چھوٹی اولاد ہے، تاریخِ ولادت ۱۳۳۵ھ / ۱۹۱۷ء شاید مئی کا مہینہ تھا، مقام ہے قریۂ حیدرآباد (ہونزہ)۔ میری والدۂ محترمہ کہا کرتی تھیں کہ میری پیدائش سے قبل میرا ایک بھائی بنامِ حاصل خان تقریباً ۹ ماہ کی عمر میں گزر گیا تھا، جو مادرِ مہربان کی چشمِ محبت میں بڑا شکیل اور بہت ہی عزیز تھا، چنانچہ ماں زار و قطار مثلِ نو بہار روتی ہوئی پروردگارِ عالم کی بارگاہ میں سر بسجود دعا کرتی تھیں، کہ اے دونوں جہان کے مالک! اے آسمانی طبیب! میرے دلِ مجروح کا علاج فرما! اور مجھے حاصل خان جیسا ایک شیرین فرزند عطا کر دے! حالانکہ اللہ پاک نے اولاد کے خزانوں سے جس طرح میرے والدین کو نوازا تھا، ان میں سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں موجود تھیں، بہرحال مجھ پر ماں باپ کے علاوہ میرے بھائیوں اور بہنوں کے بھی بہت سے احسانات ہیں، کہ سب نے بڑی محبت و شفقت سے میری پرورش اور مدد کی ہے، پس میں اپنے کسی بڑے سے کیسے بڑا ہو سکتا ہوں،
۲۰
اور جس نے مجھ پر احسان کیا ہو، وہ مجھ سے چھوٹا کس طرح ہو سکتا ہے۔
دراصل مجھے اس بات سے بڑا تعجب ہے کہ میری والدہ کو یہ خیال کیسے پیدا ہوا کہ اگر کسی مؤمن یا مؤمنہ کو بوقتِ مصیبت رونا اور اشک بہانا ہے، تو وہ بحضورِ خدا دعا کی صورت میں ہو؟ یقیناً اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے، اور قلبی ہدایت و توفیق بھی وہی عنایت کر دیتا ہے۔
بیرونی لوگ کہا کرتے ہیں کہ باشندگانِ ہونزہ بڑے محنتی اور جفاکش ہوا کرتے ہیں، لیکن اب یہ تعریف تقریباً ختم ہونے کو ہے، محنت و مشقت پہلے زمانے میں تھی، تاہم خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں نے زمانۂ پسماندگی کے بعد زمانۂ ترقی کو بھی دیکھا، میرے نزدیک دونوں زمانوں میں برابر کی عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں، مثال کے طور پر کتنی اچھی اور سچی کہانی اور مثال ہے میرے بچپن، نوجوانی، اور بھرپور جوانی کی، جس میں گوناگون مشقتوں کو میں اپنے لئے سعادت اور راحت سمجھتا تھا، بھیڑ بکریوں کو چراتے ہوئے شاید یہ خیال کیا کہ یہ سب میری تابعدار رعایا ہیں، اور میں بے تاج بادشاہ ہوں، عصائے چوپانی کو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی لاٹھی جیسی اہمیت دی ہوگی، جلانے کے لئے لکڑی اور دیگر قسم کے بھاری بوجھ کو پشت پر اٹھاتے ہوئے فخر محسوس کیا کہ میں فلان فلان جوانوں سے زیادہ وزنی اور سنگین بوجھ اٹھا سکتا ہوں، بیل کی جگہ ہل کھینچتے وقت کہا کہ میرے مقابلے میں بیچارہ بیل کیا چیز ہوتا ہے، عام سے عام تر غذاؤں کو کھاتے ہوئے مسکرایا اور کہا کہ
۲۱
اس بہادری میں شیر کا بچہ فلان شہزادہ صاحب ہیں یا میں ہوں؟ درحالیکہ میں ایسی خوراک کھا رہا ہوں جو وہ نہیں کھا سکتے، اور ایسی بے شمار مثالیں ہیں، جن میں خندہ پیشانی اور فخر کے ساتھ سختی اور مشقت برداشت کی جاتی تھی۔
ہمارے گھر کی مالی حالت اگرچہ علاقہ اور گاؤں کے اچھے گھرانوں کی طرح تھی، لیکن زمانے کی وجہ سے پوری ریاست میں جو رسم و رواج اور مجبوریاں تھیں، ان کے لئے کیا ہو سکتا تھا، مثال کے طور پر جس آدمی کی کافی بکریاں ہوں، تو اسی گھر کا کوئی فرد چرواہے کا کام کرتا تھا، وہ دامنِ کوہ یا پہاڑ پر بکریاں چرایا کرتا تھا، اس کے ساتھ سب سے کم قیمت غلہ برو کی تھوٹی (Buck wheat cake) ہوتی تھی، یا جَو، باجرہ وغیرہ کی مکس روٹی ہوا کرتی تھی، اور چوپانوں کے لئے خوراک کی سب سے شدید تکلیف اس وقت ہوتی تھی، جبکہ وہ اپنی اور دوسروں کی بھیڑ بکریوں کو موسمِ گرما میں تقریباً ایک منزل دور ییلاق (تیر) یا چراگاہوں میں منتقل کر لیتے تھے، اس وقت اچت (آبادی) میں جَو کی فصل پک کر آٹا حاصل آنے تک بس خالص برو ہی برو کا آٹا استعمال ہوتا رہتا تھا، جس سے بیچارہ گڈریئے کو اکثر قبض کی شکایت رہتی تھی، اور اگر چراگاہ ایسی ہے کہ اس میں دن بھر ریوڑ کے پیچھے بھاگم بھاگ کی ضرورت پڑتی ہے، تو پھر اس کے نتیجے میں بھوک بے حد ستاتی تھی، جس کی تکلیف بیان سے باہر ہے، لیکن عرصۂ دراز کے بعد میں یہ راز سمجھنے کے قابل ہو گیا، کہ مؤمن کی ہر تکلیف میں
۲۲
ایک رحمت پنہان ہوا کرتی ہے۔
اس وقت کے بچوں کا ایک پسندیدہ کھیل چوگان بازی (پولو) تھا، جو پیدل دوڑتے ہوئے کھیلتے تھے، میں اپنے دوستوں کے ساتھ اس میں شوق سے شرکت کرتا تھا، میں تیراکی میں بہت ہی پیچھے رہا، رسہ کشی قابلِ دید کھیل ہے، غلیل سے صرف ایک چڑیے کو مارا، اور بندوق سے صرف ایک کبوتر کو، مجھ میں شرم کا عنصر ضرورت سے زیادہ تھا، اور یہ عادت آدمی کو معاشرے میں آگے بڑھنے سے روک سکتی ہے، گھوڑے کی سواری سفر کرنے کی حد تک سیکھ لی، مجھ میں پہاڑی دوڑ اور میدانی دوڑ کی صلاحیت موجود تھی، لیکن ہائی جمپ اور لانگ جمپ میں اکثر ناکامی ہوتی تھی۔
۱۳۴۱ھ / ۱۹۲۳ء میں حضرتِ امام کی طرف سے ہر گاؤں میں ایک مکتب قائم ہوا تھا، جس میں مجھے بھیجا گیا، لیکن افسوس کہ تھم کی عدم دلچسپی کے سبب سے وہ سارے مکاتب ختم ہو گئے، اور عمرِ گرانمایہ کے کئی سال حصولِ تعلیم کے بغیر ضائع ہو گئے، اس مکتب کے اردو قاعدے میں میرے لئے کتنی مقناطیسیت و دلکشی کے سامان موجود تھے، میں اس عزیز قاعدے کو اپنے پاس رکھتا تھا، اور اگر چند مہینوں کے بعد کوئی خواندہ شخص آتا تو اس سے کچھ الفاظ کا درس لیتا تھا، کافی سالوں کے بعد میں خود درخواست کر کے والد صاحب سے قاعدۂ بغدادیہ کا درس لینے لگا، ہر سبق کے چند
۲۳
ابتدائی الفاظ بتا دیتے تھے، اور باقی بڑی آسانی سے میں خود پڑھ لیتا تھا، یہ دیکھ کر پدرِ بزرگوار بے حد خوش ہو جاتے، اسی طرح میں نے ان سے قرآنِ پاک کا ایک حصہ پڑھ لیا، اور علم کی بہت سی ابتدائی باتیں زبانی طور پر سیکھ لیں، میرے قبلہ گاہ حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کے پُرحکمت قصّوں میں سے پیارے پیارے جواہر پارے سنایا کرتے تھے، وہ مذہبی قسم کی فارسی نظمیں بھی ترنم سے پڑھا کرتے تھے، جس میں میرے لئے ایک ساتھ تین خزانے موجود ہوتے تھے: زبان، علم، اور دینی محبت۔
اس زمانے میں حصولِ علم کا کام کتنا شدید مشکل تھا، اس کی دو مثالیں ملاحظہ ہوں: ہم قریۂ حیدرآباد کے چند طلباء قرآنی درس لینے کے لئے ایک قابل استاد کے پاس جانے لگے، وہ بہت ہی شریف اور بڑے نرم گو، اور بزم خو انسان تھے، ان کا اصولِ تعلیم تھا: “کم بگیر محکم بگیر”
ہم تقریباً پندرہ دن تک ان کے وہاں پڑھ چکے تھے، اس کے بعد انہوں نے بڑے پیار سے فرمایا کہ عزیزو! آج تم میری مدد کرو، وہ یہ کہ مویشی خانہ سے پُشتی ٹوکرے بھر بھر کر فلان کھیت تک کھاد اٹھاتے جاؤ۔ اس بات سے ہم سب کو تعجب اور صدمہ ہوا، اور ہم میں جو سب سے بڑا تھا، اس نے کہا: استاد جی! جو کام مناسب ہو، وہ بسر و چشم، لیکن کھاد ڈھونے کا ذلت آمیز کام ہم نہیں کر سکتے ہیں، یہ کہہ کر ہم وہاں سے اٹھ گئے، اور پھر
۲۴
ان کے پاس نہیں گئے۔
دوسری مثال: گاؤں ہی میں ایک استاد تھے، میں بوقتِ فرصت ان کے پاس قرآنِ مجید کے علاوہ پہلے پنج گنج، پھر گلستان، بوستان وغیرہ پڑھنے کے لئے جایا کرتا تھا، ان دنوں میں کوئی معلّمِ کامل نہیں مل سکتا تھا، اس لئے وہ جو کچھ علم رکھتے تھے، اس میں سے پڑھاتے اور سمجھاتے تھے، میں ان کا بڑا شکرگزار تھا، اور میرے والدین وقتاً فوقتاً ان کی خدمت میں شکرگزاری، قدردانی، اور حوصلہ افزائی کے حقیر تحفے بھیجتے تھے، ایک دن ہمارے غریب خانے میں ایک چھوٹی سی، حقیر سی نیاز تھی، جس میں صرف ایک قسم کے ڈاوڈو کا اہتمام کیا گیا تھا، چنانچہ والد صاحب نے دعا و فاتحہ کی غرض سے اپنے متبادل خلیفہ صاحب کو بلایا، یہ سن کر ہمارے محترم استاد رنجیدہ خاطر ہو گئے، اور جب میں دوسرے دن ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو فرمانے لگے، کہ تمہارے پاس اس وقت تین کتابیں موجود ہیں، لہٰذا میری تجویز یہ ہے کہ ان کتابوں میں سے ایک تمہارا والد تم کو پڑھائے، دوسری کتاب فلان خلیفہ پڑھائے گا، جس کو تم نے دعوت دی تھی، اور بے شک تیسری کتاب کو لے کر میرے پاس آتے رہنا، میں بڑا غمگین ہو گیا، مگر لب کشائی کی ہمت نہ ہوئی، اب میں کیا کر سکتا تھا؟ بس یہی کہ جانا ہی چھوڑ دیا، ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد انہوں نے میرے والد سے کہا کہ اپنے بیٹے کو غیاث اللغات کے ساتھ بھیج دیں، میرے شفیق و مہربان باپ نے یہ پیغام
۲۵
مجھے سنا دیا، لیکن فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا، میں نے بڑی عاجزی سے گزارش کی کہ قبلۂ محترم! میں اپنی لغات کو استاد کی جگہ پر استاد بنا لوں گا، اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جو مسبب الاسباب ہے، میری راہنمائی اور دستگیری فرمائے گا۔
میرے ایک جانی اور جگری دوست ہیں، حبِ علی ابنِ کلبِ علی، جو بعد میں پنیال میں مقیم ہوئے ہیں، اور پروردگارِ عالم نے ان کو اعلیٰ معنوں میں نوازا ہے، انہوں نے مجھے یہ نیک مشورہ دیا کہ آپ گورنمنٹ پرائمری اسکول، بلتت، جایا کریں، میں نے کہا: ارے یار! آپ کا کہنا بجا تو ہے، لیکن میں اب نوجوان ہو چکا ہوں، مجھے کس جماعت میں داخلہ ملے گا، اگر مجھے کسی چھوٹی کلاس میں بٹھایا گیا، تو لڑکے میرے قد و قامت اور کلاس کا موازنہ کر کے مذاق اڑائیں گے، جس سے مجھے بری طرح شرمانا پڑے گا، انہوں نے فرمایا: نہیں دوست، ہرگز ایسا نہیں ہو گا، میں خود بھی آپ کے ساتھ آتا ہوں، ماسٹر محمد نجات صاحب ابنِ ترنگفہ زوارہ بڑے قابل اور بے حد شریف انسان ہیں، ان کی نگرانی میں آپ کو ذرا بھی کوئی ذہنی تکلیف نہ ہو گی۔
ہم دونوں بلتت سکول گئے، موصوف و مرحوم ماسٹر صاحب میں واقعی دیگر بہت سے اوصاف و کمالات کے ساتھ ساتھ خاصۂ مردم شناسی بھی موجود تھا، انہوں نے بڑی شفقت سے مجھے درجۂ سوم میں بٹھایا، اور تقریباً چھ ماہ کے بعد درجۂ چہارم میں خصوصی طور پر بڑھا دیا، ایسی مہربانی کسی طالبِ علم کے حق میں نہیں ہو سکتی تھی، جس کی شاید تین وجہیں ہو سکتی ہیں: اوّل یہ کہ ہمارے
۲۶
مدرس صاحب بڑے مہربان و قدردان تھے، دوسری وجہ میری عمر کچھ بڑی تھی، اور تیسری یہ کہ میرا ذہن علم کے میدان میں بڑی تیزی سے کام کرتا تھا، بہر حال سکول کے تمام لڑکے بہت ہی اچھے تھے، سب کے سب دوست بن گئے، وہی دوستی اب بھی ہے، جیسے ترنگفہ مالک اشدر صاحب، عین الحیات صاحب، ماسٹر سکندر خان صاحب، احمد علی صاحب، ماسٹر دولت علی صاحب، ماسٹر سلطان علی صاحب، ابراہیم صاحب، امام داد صاحب، گشپور یعقوب خان صاحب، غلام حیدر صاحب، مالک شاہ صاحب، گروپ کیپٹن (ریٹائرڈ) شاہ خان صاحب، اور بہت سے دوسرے ساتھی بھی تھے، پس مجھ پر منشی حبِ علی ابنِ کلبِ علی ابنِ سلطان علی کا بڑا احسان ہے۔
۲۷
سوال و جوابِ سوم
برچہ: علامہ صاحب! سنا ہے کہ آپ کسی زمانے میں یا غالباً بالشویک انقلاب کے دوران سنکیانگ (کاشغر) میں چینی حکومت کی حراست میں رہے، اس واقعے کی تفصیل کیا ہے؟
نصیر صاحب: چین پاکستان کا ایک اچھا ہمسایہ اور ایک خیرخواہ دوست ہے، اور ہونزہ جو اب وطنِ عزیز کا اہم حصّہ ہے، وہ ہمیشہ سے: عظیم چین کا دوست رہا ہے، قربان جائیں اس حدیثِ نبوّی سے، جس میں بطورِ مثال یہ ارشاد ہوا ہے کہ
“علم کو طلب کرتے رہو، اگرچہ اس کے لئے تمہیں چین جانا کیوں نہ پڑے۔”
چنانچہ میرا حسنِ ظن اس حدیثِ شریف کے بارے میں بڑا عجیب و غریب ہے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے چین میں ایک علم ملا، جس کی تعریف و توصیف الفاظ سے نہیں بلکہ اعمال سے ہونی چاہئے، لیکن مجھ ایسا بے ہمت اور ناشکرا انسان کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کر سکتا ہے۔
شمالی علاقہ جات کے اسماعیلی لیڈروں نے ۱۹۴۷ء میں اپنا نمائندہ بنا کر اس بندۂ درویش کو یہ اعزاز دیا کہ میں کراچی جا کر اسٹیٹ ایجنٹ برائے
۲۸
ہز ہائنس وزیر کریم کے پاس جماعتی حساب کتاب پیش کروں، یہی بہت بڑی سعادت دوسرے سال یعنی ۱۹۴۸ء میں بھی حاصل ہوئی، کچھ دنوں کے بعد مسگار کے جناب فتح علی خان صاحب بھی کسی کام سے کراچی آئے، انہوں نے مجھ سے کہا، آئیے! آپ میری مدد کریں، میری مذہبی معلومات بہت محدود ہیں، ہم دونوں جا کر ان شاء اللہ سریقول اور یارقند کی اپنی جماعتوں کے لئے جماعت خانوں کی تعمیر اور چھوٹے چھوٹے دینی مدرسوں کے قیام کے واسطے جد وجہد کریں گے، اور یہ کام وہاں کے موروثی موکھی حضرات کی شرکتِ عمل ہی سے ممکن ہے، اور سب سے پہلے تو ہمیں حضرت امامِ عالی مقام کے حضور سے اس کی اجازت و ہدایت لینی ہوگی، میں نے کہا کہ ارادہ بڑا نیک ہے، آپ وزیر کریم صاحب کے توسط سے اس خدمت کی اجازت لیں، مگر میں اپنے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا، جب تک کہ میں اپنے والدین سے نہ پوچھوں، چنانچہ دربارِ عالی سے اس کام کے لئے فرمانِ مکتوب صادر ہوا، اور ہم ہونزہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
ماں باپ سے بخوشی مجھے اجازت مل گئی، اور ہم فروری کے دوسرے ہفتہ ۱۹۴۹ء میں تاشغورغان وارد ہو گئے، مذکورۂ بالا کام کے لئے یہ حضرات نامزد ہوئے تھے: ہونزہ سے فتح علی خان صاحب ( میں ان کا معاون تھا) یارقند سے موکھی مولا بخش صاحب، موکھی ابو سعید خان صاحب، اور موکھی یاقوت شاہ صاحب، اور سریقول سے موکھی عاصف جان صاحب، موکھی
۲۹
سلطنت خان صاحب اور سید ادریس خان صاحب، چنانچہ ہم نے سریقول میں عرصۂ پانچ ماہ تک کوشش کی لیکن بعض لوگوں میں خوفِ بے جا ہونے کی وجہ سے کوئی کامیابی نہیں ہوئی، پھر یہ طے ہو گیا کہ میں فرمانِ مبارک لے کر یارقند جاؤں، پس میں طلا خان اقسقال کے ہمراہ یارقند گیا، اق= سفید، سقال = ڈاڑھی، اقسقال (سفید ریش) یہ ایک ترکی ٹائٹل ہے، طلا خان صاحب ایک ہوشمند، متدین اور خیر خواہ شخص تھے، انہوں نے سب سے پہلے اپنے دولت خانہ میں فرمان خوانی کے لئے اہتمام کیا، جس کو سننے کے لئے نزدیک، دور، اور بہت ہی دور سے سیکڑوں کی تعداد میں افرادِ جماعت حاضر ہو گئے، جن میں موروثی موکھی صاحبان اور سادات صاحبان بھی تھے، اس گاؤں کا نام قراجاش تھا۔
اقسقال صاحب کے بعد قرانگغو توغراق میں میرے بہت ہی عزیز و مہربان دوست جناب عزیز محمد خان بای نے جملۂ جماعت کو دعوت دی، اور فرمان سنایا گیا، موصوف بای (امیر، ثروت مند) کو پروردگارِ عالم نے دولتِ دین اور نعمتِ دنیا سے نوازا تھا، ہمارے سریقول پہنچ جانے کے فوراً بعد ان کو یہ خبر ملی کہ ہونزہ کے دو دینی خادم اس مقصد کے پیشِ نظر آئے ہوئے ہیں، چنانچہ انہوں نے کسی انتظار و تاخیر کے بغیر مقامی طرز کی ایک عمارت بنوائی تھی، جس میں جماعت خانہ، مکتب اور رہائش کے لئے دو کمرے تھے۔
دوسرے چند بڑے گھرانوں میں بھی فرمان خوانی ہوئی، ان میں سے ایک
۳۰
گھرانا جناب عندلیب آخون کا تھا، یارقند کی اسماعیلی جماعت ایمانی اوصاف میں منفرد اور بے مثال ہے، لہٰذا مجھے توقع سے زیادہ کامیابی نصیب ہوئی، اور اس خدمت میں عزیز محمد خان صاحب کا بہت بڑا حصّہ ہے، اور ان کی زرین خدمات کی تفصیل کے لئے کئی کئی صفحات درکار ہوں گے۔
خدائے بزرگ و برتر کے فضل و کرم سے کامیابی ہی کامیابی ہو رہی تھی، لیکن رشک و حسد کہاں نہیں ہے؟ وہ جگہ کون سی ہے، جس میں مخالفت نہ ہو؟ ایسا معاشرہ کہاں ہے، جس میں ترقی پسندی اور رجعت پرستی کی رسہ کشی نہ ہو؟ چنانچہ کچھ حضرات یہ کہنے لگے کہ اس ملک میں جماعت خانہ نہیں ہو سکتا ہے، اس سے مذہب آشکار ہو جائے گا، اور جماعت کو تکلیف ہو گی، میں نے عاجزانہ گزارش کی، جناب! تعمیرِ جماعت خانہ کا حکم آج سے نہیں، بلکہ ۱۹۲۳ء سے ہے، جبکہ پیر سبز علی صاحب آپ کی طرف آئے تھے، میرے عقیدے کے مطابق جماعت خانہ کی وجہ سے جماعت کو کوئی تکلیف نہ ہو گی، اگر شروع شروع میں ایسی کوئی بات ہو بھی گئی، تو اس کا بہت بڑا ثواب مل جائے گا، اور پھر جماعت کا تشخص سامنے آئے گا، اور تعارف ہو گا، تاہم وہ صاحبان خوش نہیں تھے، پس انہوں نے بارہا یہ کوشش کی، کہ مجھے جاسوس قرار دے کر حکومت سے کوئی بڑی سزا دلائے، لیکن چین کی گورنمنٹ تحقیق و جستجو اور ثبوتِ جرم کے بغیر کسی کو سزا نہیں دیتی، ہاں یہ بالکل سچ ہے کہ ایسے دو قسم کے مخالفین نے
۳۱
جب بھی میرے خلاف کوئی رپورٹ کی، تو مجھے نظر بند یا قید کیا کرتے تھے، مگر وہ نہ قیدِ بامشقت تھی، نہ ہی جیل کے اندر، بلکہ وہ صرف تنہائی کی قید ہوا کرتی تھی، جس سے (الحمد للہ) مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات، عبادت اور ذکرِ دائم کے لئے ایسا بہترین وقت اور موقع ملتا تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی، اور ہر ایسی قید میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی جو پُرحکمت بارش ہوتی رہی، اس کی شکرگزاری میں دل بار بار روتا ہے۔
کوئی شک نہیں کہ میں بے صبری اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے اس وقت ان تمام مخالفین سے سخت ناراض اور غمگین ہوا کرتا تھا، مگر بعد میں مجھے مکمل یقین ہوا کہ یہ سب کچھ میرے پروردگار کی طرف سے ایک حکیمانہ پروگرام تھا، جس میں اس بندۂ ناچیز کو کوئی چیز بنانا مقصود ہے، لہٰذا اب میں انتہائی عاجزی اور خلوصِ دل سے دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ! تو اس بندۂ ظلوم و جہول (۳۳: ۷۲) کو اپنی رحمتِ بے پایان سے ایسی عالی ہمتی اور توفیق عطا فرما کہ جس سے یہ ہمیشہ اپنے عزیز دوستوں کے علاوہ ہر ہر مخالف کے حق میں بھی نیک دعا کر سکے، پروردگار! میں تنہا اپنے نفس کے اژدھے کو نہ تو قتل کر سکتا، اور نہ میرے ہٹانے سے وہ ہٹنے والا تھا، لیکن تیری بے مثال حکمت نے کچھ لوگوں کو کیا ہی پُرحکمت دعوت دی، جنہوں نے طرح طرح کے ہتھیاروں سے اس کو یا تو قتل کر دیا، یا زخمی اور کمزور، یا راستے سے ہٹا دیا، تا کہ میں گنجینۂ گوہر کی طرف آگے بڑھ سکوں، یا ربّ العالمین! تو اپنے خزائنِ رحمت سے
۳۲
ان تمام بندوں پر!! مہربانیوں کی بارش برسا دے! آمین!
پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ: تم سفر کرو، تا کہ تمہیں مالِ غنیمت حاصل ہو۔ میرے خیال میں اس سے وہ سفر مراد نہیں، جو کسی دنیاوی مقصد کے لئے ہو، بلکہ یہ دینی سفر اور روحانی مسافرت ہے، جس کا مالِ غنیمت علم اور ثواب ہو سکتا ہے، اور اگر اس بندۂ مفلس کا معاملہ بھی سچ مچ اس حکم کے تحت آسکتا ہے تو پھر مجھے انتہائی عجز و انکساری اور خلوصِ دل سے مرحوم فتح علی خان صاحب اور ان کے خاندانِ محترم کے حق میں بار بار نیک دعا کرنی چاہئے، کیونکہ اس نیک عمل کا اصل سبب وہی تھے۔
۳۳
سوال و جوابِ چہارم
برچہ: آپ نے جوانی کے دور سے ہی بڑے شدّ و مد کے ساتھ خود کو مذہب کے لئے وقف کر دیا، اس جذبے کے محرکات کیا تھے؟
نصیر صاحب: مجھ میں مذہبی میلانات و رجحانات مستحکم ہو جانے کے کئی اسباب ہیں، اوّل یہ کہ منشائے خداوندی ہی کچھ ایسا تھا، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ (۲۲: ۱۴( بے شک خدا ہی کرتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے۔
دوسرا سبب (جیسا کہ قبلاً ذکر ہو چکا) وہ مذہبی ماحول ہے، جس میں میری پیدائش، پرورش، اور بالیدگی ہوئی، یعنی میرے والدین کی تربیت، تاثیر، اور تعلیم تیسرا سبب معاشرہ ہے، جس سے نہ صرف گاؤں ہی مراد ہے، بلکہ اس میں علاقے کی طرف بھی اشارہ ہے، اور آخری سبب میری فطری صلاحیت اور شوق ہے، جس نے ہمیشہ اور ہر وقت مجھ میں ایک ایسے مؤکل کی طرح کام کیا، جو اپنے فرضِ منصبی سے کبھی غافل نہیں ہوتا۔
مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے، میں شاید کہیں چار سال کے قریب تھا، میرے بزرگوار والد با جماعت نمازِ فجر سے واپسی پر شرو یا فٹی
۳۴
(علاقے کی خاص موٹی روٹی) کا ذرا سا ٹکڑا میرے لئے بطورِ تبرک لا کر دیا کرتے تھے، اور فرماتے کہ لو بیٹے، اسے کھا لو، اس میں خدا کے گھر کی برکتیں ہیں، تم اس سے اچھا لڑکا اور نیک آدمی بن جاؤ گے، میں اب سوچ کر یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ میرے لئے یہ مختصر مگر عملی تعلیم کتنی بنیادی اہمیت کی حامل تھی، ایک دن اتفاقاً میرے قبلہ گاہ تبرک کے بغیر گھر آئے، اب میرے ماں باپ کویہ فکر ہونے لگی، کہ ان کا پیارا بچہ اگرچہ فی الوقت خوابِ راحت میں مزہ لے رہا ہے، لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد جاگ اٹھے گا، اور معمول کے مطابق تبرک کا تقاضا کرے گا، تو اس کے لئے کیا ہوگا، چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ اتنی جلدی سے شرو یا فٹی تو تیار نہیں ہو سکتی، اس لئے ایک روٹی پکا کر فوراً ہی اس کا مرمک (مٹھا) بنائیں، اور اپنے بیٹے کو دیں، جب ننھا بچہ جاگ اٹھا، تو ماں باپ نے مجبوراً خانۂ خدا کے تبرک کی بجائے گھر کی وہ روٹی اسے تھما دی، جس کو ہاتھوں میں دبا دبا کر تبرک جیسی بنانے کی کوشش کی گئی تھی، میں نے اسے الٹ پلٹ کر غور سے دیکھا اور بچگانہ گستاخی سے اسے پھینکتے ہوئے کہا کہ یہ تبرک نہیں، پھر رونے لگا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے اس تبرک کی وجہ سے عقیدت ہو رہی تھی۔
ہونزہ کے قدیم گھروں کی چھت کے درمیان سغم / سگم (روزن یا روشن دان) ہوا کرتا ہے، میرے والد درویش صفت آدمی تھے، وہ اگرچہ نماز اور عبادت ہمیشہ جماعت کے ساتھ کرتے تھے، لیکن ان کے معمول
۳۵
میں یہ بات بھی شامل تھی کہ آپ پچھلی رات کو اٹھ کر گھر کی چھت پر بدرگاہِ الٰہی مناجات پڑھا کرتے تھے، میں یہ بات اب سمجھتا ہوں کہ ان کی آوازِ شیرین پر سوار ہو کر شاید ایک مذہبی روح براہِ روزن میرے کانوں میں داخل ہو جاتی تھی، جبکہ میں نیم خوابی کی حالت میں ہوتا تھا، اور اس سے مجھے بے حد لذّت و مسرّت کا احساس ہوتا تھا، اس کے علاوہ میرے والدین بوقتِ شام اکثر فارسی میں مذہبی نظمیں خوش الحانی سے پڑھتے تھے، اور ایسا لگتا تھا جیسے کوئی طاقت مجھے ان چیزوں کی طرف پُرزور توجہ دلاتی رہتی ہو۔
ہمارے ایک عزیز و محترم اوشم (رضاعی) ماموں جناب حرمت اللہ بیگ صاحب (مرحوم) کو نہ صرف مذہب بلکہ علم بھی ازحد عزیز تھا، وہ ہر چند کہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، تاہم انہوں نے زبانی طور پر بہت ساری معلومات حاصل کر لی تھیں، آپ میرے ایک استاد بھی تھے اور ایک شاگرد بھی، اس لئے زبردست شوق سے فرمائش کرتے تھے کہ میں ان کو اور یارانِ محفل کو قصصِ انبیاء، داستانِ امیر حمزہ وغیرہ پڑھ کر سنایا کروں، وہ اکابرینِ جماعت کی صفِ اوّل میں بولنے والوں میں سے تھے، لہٰذا انہوں نے رفتہ رفتہ مجھے حوصلہ دیا، اور ایک دن جماعت کے سامنے کہنے لگے کہ آج پَرتوِ شاہ کچھ علم کی باتیں کریں گے۔
میرے ماموں جان خلیفہ قدیر شاہ ابنِ حیدر محمد دینی عقیدت اور ربّانی محبت کا ایک عمدہ نمونہ تھے، ان دنوں میں مذہبی مرکز بمبئی میں تھا،
۳۶
لہٰذا خلیفہ قدیر شاہ صاحب میر محمد نظیم خان صاحب کے حکم سے جماعتی مالِ نذورات لے کر دو دفعہ بمبئی گئے، یہ ایک خاص اعزاز تھا، اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا، مجھے ان کی کچھ پیاری پیاری باتیں یاد ہیں: وہ نماز و بندگی کے علاوہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شمسی ذکر (ذکرِ جلی) بھی کر لیا کرتے تھے، اس ذکر میں ساری جماعت شامل ہو جاتی تھی، جس میں یہ حضرات پیش پیش ہوتے تھے: حرمت اللہ بیگ صاحب، خلیفہ گل اکبر صاحب، خلیفہ حبِ علی صاحب، علی عصمت صاحب، خلیفہ شاہ دل امان صاحب، مجاور گلو صاحب، وغیرہ۔
میرے محترم چچا خلیفہ عافیت شاہ (ابنِ خلیفہ محمد رفیع) دین اور علم کے عاشقوں میں سے تھے، وہ بڑے شوق کے ساتھ آقا عبد الصمد شاہ صاحب، پیر سبز علی صاحب، پیر بلبل شاہ صاحب اور الواعظ شیر علی صاحب کے حوالے سے علمی باتیں کرتے تھے، اور میں ان کی باتیں سن کر بہت خوش ہوتا تھا۔
ہمارے سامنے جناب قدرت اللہ بیگ صاحب اور جناب محمد دارا بیگ صاحب علم و دانش، فہم و فراست، جرأت و ہمت اور عزت و حرمت کے دو عظیم نمونے تھے، گریلت میں محترم سگِ علی صاحب اپنے علم و عمل سے اسلام کی خدمت کرتے تھے، اور ان کے خاندان نے پاکستان
۳۷
کی خاطر بڑی خدمات انجام دی ہیں، بلتت میں جناب منشی حبِّ علی صاحب کے پاس جو زبردست علم تھا، اس کی مثال یہ ہے کہ ان کے انتخاب کردہ دو سوال ایک دور مقام کے چند علماء سے حل نہ ہو سکے، سوال یہ ہیں: ۱۔ شیطان کے گلے میں جو طوقِ لعنت پڑا وہ کس چیز سے پیدا ہوا تھا؟ ۲۔ حضرتِ آدم کا درختِ ممنوعہ کس بیج سے اگا تھا؟
۳۸
سوال و جوابِ پنجم
برچہ: آپ کا مطالعہ بے حد عمیق اور وسیع ہے، اس حوالے سے آپ بتائیں کہ کس یونانی اور مسلمان فلسفی کی تعلیمات سے متاثر ہوئے؟
نصیر صاحب: کسی باقاعدہ مدرسہ کی تعلیمی سہولت مہیا نہ ہونے کی مجبوری نے مجھے ہمیشہ لغات بینی کی طرف توجہ دلائی، اور یہ عادت میرے حق میں ایک رحمت ثابت ہوئی، میرا مشورہ ہے کہ اگر کسی کو اپنے ادبی ذخیرے میں اضافہ کرنا ہے، اور تقریر و تحریر کو شُستگی اور نکھار بخشنا ہے تو اسے کتبِ لغت سے ہر موقع پر خوب استفادہ کرنا چاہئے، اگرچہ ہمارے طالبِ علمی کے زمانے میں کوئی کتاب انتہائی مشکل سے ملتی تھی، تاہم میں نے بڑی جد و جہد سے فارسی کے علاوہ اردو اور انگریزی لغات بھی رکھ لی تھیں، اور اشتیاقِ مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ کتاب تو کتاب ہی ہے، میں ہر ایسی تحریر کو دقتِ نظر سے دیکھتا اور پڑھتا تھا، جو کسی چیز پر ثبت ہو، مثلاً کوئی ایسا ڈبا، بوتل، پیکٹ، ٹین، سائن بورڈ، کتبہ، وغیرہ وغیرہ۔
کچھ عرصے کے بعد بتدریج کتابیں دستیاب ہونے لگیں، جن کی فہرست کافی طویل ہے، اگرچہ بہت سی کتابوں کا گہرا اور مفید مطالعہ ہوا، تاہم ادب کے لحاظ سے شیخ سعدی کی کتابیں، شعری خوبیوں کے اعتبار سے دیوانِ حافظ،
۳۹
اور تصوّف میں مولائے رومی کا کلام دلنشین ہوا، اور فلسفہ و حکمت میں حکیم ناصر خسرو قدس اللہ سرہ کے کتبِ گرانمایہ سے خاطر خواہ اثر قبول کر لیا، کیونکہ ہر ہوشمند مسلمان شعوری یا غیر شعوری طور پر کسی ایسے حکیم کی تلاش کرتا رہتا ہے، جس کی حکمت قرآنی حکمت کی روشنی میں ہو، تا کہ اس سے قرآن فہمی میں مدد ملے، اور یقیناً پیر ناصر خسرو کی ساری کتابیں ایسی ہیں۔
میں ایک مفلس اور نارسا انسان فلسفۂ یونان کے ذخائر کی چھان پھٹک کر کے کسی ایک فلسفی کا انتخاب کہاں اور کیسے کر سکتا تھا، اور اگر ایسا کرنے کے لئے وقت ملتا اور مجھ میں ہمت بھی ہوتی، تو بہتر ہوتا، تاہم میرا عقیدہ یہ ہے کہ خدا وہ قادرِ مطلق ہے، جو ہر نامرادی کو کامیابی کی صورت دے سکتا ہے، اور میرے معاملے میں بھی کچھ ایسا احسان ہوا ہے، جبکہ مجھے حکیم ناصر خسرو قس کے خزائنِ کتب کا راستہ ملا ہے، ہاں! اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف کے علمی ذخیرے میں کچھ فلسفۂ یونان کے حوالے بھی ملتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ آپ اس فلسفے میں محدود تھے، بلکہ غرض یہ ہے کہ اس زمانے میں یونانی فلسفیوں کا بہت بڑا چرچا تھا، لہٰذا بعض لوگوں کو اسی فلسفے کی روشنی میں مطلب کی بات سمجھانے کی ضرورت پڑتی تھی، میرے خیال میں محض حوالہ دینے سے یا مثال پیش کرنے سے فلسفۂ یونان اور اسلامی علوم کے آپس میں خلط ملط ہو جانے کا کوئی امکان نہیں۔
۴۰
حکیم ناصر خسرو قس کی ایک شہرۂ آفاق کتاب “جامع الحکمتین” ہے، اس کی وجہِ تسمیہ کیا ہے؟ اس کا بیان مصنف نے اپنے دیباچہ کے آخر میں فرمایا ہے، اور اسی کے حوالے سے دکتر محمد معین استادِ فقیدِ دانشگاہِ تہران نے صفحہ نمبر ۳ پر ذکر کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے: “جامع الحکمتین” وہ کتاب ہے جو دو قسم کی حکمتوں کو اپنے اندر جمع کر لیتی ہے، کیونکہ اس میں حکیم ناصر خسرو قس نے جہاں حکمائے دین سے گفتگو فرمائی ہے، تو وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہے، اور حکمائے فلسفہ اور فضلائے منطق سے بحث کی گئی ہے، اس وقت عقلی دلائل سے کام لیا گیا ہے۔
۴۱
سوال و جوابِ ششم
برچہ: ماشاء اللہ، آپ کم و بیش ڈیڑھ سو چھوٹی بڑی کتابوں کے مصنف اور مولف ہیں، آپ نے خود فرمایا کہ کبیر سنی کے بعد ہی پڑھنا شروع کیا، تو آپ یہ بتائیں کہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ کب شروع ہوا؟
علامہ صاحب: علم سے بے حد دلچسپی اور زبردست لگن دل و دماغ میں موجود تھی، لیکن تقاضائے زمان و مکان نے مجھے ۸ اپریل ۱۹۳۹ء کو گلگت سکاؤٹس میں بحیثیتِ سپاہی بھرتی کر دیا، ۹ ماہ کے عرصے میں طرح طرح کی مشکلات سے گزر جانے کے بعد ریکروٹنگ کا امتحان ختم ہو گیا، اب ۱۹۴۰ء میں کبھی کبھی فرصت کے چند لمحات میسر ہو رہے تھے، لہٰذا میں نے فوجی بیرک گلگت میں اوّلین بروشسکی نظم لکھ دی، مگر فوجی زندگی کی بے کلی میں شاعرانہ موڈ ناممکن نہیں تو ازبس مشکل ہے، چنانچہ ایک دفعہ چیلاس میں بھی کوشش کی، مگر نظم ادھوری رہی، تاہم میں بوقتِ فرصت کسی بھی کتاب کی ورق گردانی کرتا رہا۔
اگرچہ میں ریکروٹنگ کے فوراً بعد سگنل کے لئے اور کچھ عرصے کے بعد وائرلیس کے لئے منتخب ہو گیا تھا، اور ہمارے کمانڈر صوبیدار شیر احمد خان صاحب بڑے نیک دل اور خیر خواہ انسان تھے، اور ہمارے تمام
۴۲
ساتھی مخلص دوست تھے، جیسے میرے خالہ زاد بھائی حوالدار خیر الحیات صاحب، حوالدار حاجت امان صاحب، حوالدار سعدان شاہ صاحب، وغیرہ، لیکن نجانے میرا ضمیر ایک بے آواز کیفیت میں مجھ سے کیوں کہتا تھا کہ چلو اب اس منزل کو چھوڑ کر آگے جانا ہے، پس میں یکم ستمبر ۱۹۴۳ء کو وہاں سے مستعفی ہو کر گھر گیا، اور تقریباً ۲۰ دن کے بعد ہونزہ سے پیدل چل کر سرینگر (کشمیر) پہنچا، اور ۵ اکتوبر ۱۹۴۳ء کو انڈین آرمی میں بھرتی ہو گیا، پھر جہلم بھیجا گیا، اور اس کے بعد دہلی، جہاں ایک گریزن کمپنی میں ریکروٹ انسٹریکٹر مقرر ہوا، پھر لانس نائک، پھر نائک ہو گیا، مگر میری بے قراری جوں کی توں تھی، پس میں وہاں سے بھی اپنی مرضی سے ۷ فروری ۱۹۴۶ء کو ڈسچارج ہو گیا، اور بمبئی کی طرف روانہ ہوا۔
اب میں بدرجۂ انتہا مسرور و شادمان تھا، اس لئے پھر سے شاعری شروع کی، چار مہینے کے بعد میں ہونزہ چلا گیا، اسی سال شمالی علاقہ جات میں ڈی۔جے۔ اسکول کھل گئے تھے، اور مجھے اپنے گاؤں (حیدرآباد) میں اسکول ماسٹر مقرر کیا گیا تھا، اس دوران میں بروشسکی، فارسی اور اردو میں شعر کہتا تھا، پھر یہ سلسلہ یارقند میں رک گیا، تاہم بفضلِ خدا میں نے وہاں ترکی میں چار مذہبی نظمیں لکھ دیں، جب میں جون ۱۹۵۴ء کو چین سے واپس ہو کر گھر پہنچا تو اس وقت میری
۴۳
شاعری میں سر تا سر روحانیّت کا ایک مکمل انقلاب برپا ہو چکا تھا، نثر نگاری کا کام ۱۹۵۷ء میں شروع ہوا، پوشیدہ نہ ہو کہ ابتداءً اس میں مجھے کچھ دقت پیش آئی تھی، یعنی ہر چند کہ علم کی خوشبوؤں اور لذّتوں کی موجودگی کا ٹھیک ٹھیک احساس ہوتا تھا، مگر زبان و بیان کے اسلوب کو جن خوبیوں سے معمور و مملو ہو جانا چاہئے، وہ شاید کم تھیں، تاہم خدائے بزرگ و برتر کی رحمتوں اور مہربانیوں سے رفتہ رفتہ جملہ مشکلات آسان ہو گئیں۔
۴۴
سوال و جوابِ ہفتم
برچہ: محترم نصیر صاحب! آپ کی زندگی مسلسل اور بھرپور جدوجہد سے عبارت ہے، اس حوالے سے کوئی اہم واقعہ آپ کو یاد ہو تو بتائیے؟
علامہ نصیر صاحب: کسی فرشتہ صفت بزرگ نے بہت پہلے مجھے یہ مشورہ دیا تھا کہ: “دیکھو! اگر تم کو عبادت، بندگی، یادِ خدا، روحانیّت، علم، اور حکمت عزیز ہے، اور تم اس طریق پر کچھ ترقی و پیشرفت کرنا چاہتے ہو، تو سورۂ مزمل کے حکم کے عین مطابق شب خیزی کا عمل شروع کرو، مگر ہاں، اس کے لئے کسی مرشدِ کامل سے کوئی اسمِ اکبر، یا ورد وظیفہ، وغیرہ حاصل کرنا ضروری ہے۔”
چنانچہ عرصۂ دراز کے بعد ۱۹۴۶ء میں مجھ مسکین کو یہ بہترین وسیلہ میسر آیا، لیکن حق بات تو یہ ہے کہ کم علمی، سستی، غفلت، اور غلبۂ خواب کی وجہ سے دو سال کے بعد کہیں جا کر عالمِ شخصی کی ابتدائی روشنی نظر آنے لگی، گو کہ یہ شروعات کی آزمائشی روشنیاں تھیں، تاہم مجھے اس عجیب و غریب اندرونی مشاہدے سے بے حد مسرّت و شادمانی ہونے لگی۔
شب خیزی اور قرآن خوانی کا یہ انتہائی عظیم معجزہ اپنی ضیا پاشیوں
۴۵
کے ساتھ نہ صرف جاری و ساری ہی تھا، بلکہ اس میں روز افزون ترقی بھی ہو رہی تھی، میں اسی حالت میں سریقول پہنچ گیا، اب میرے خواب و خیال میں غیر معمولی انقلاب رونما ہو رہا تھا، تاشغورغان، خصوصاً یارقند میں جن بے شمار عجائب و غرائب کا مشاہدہ اور تجربہ ہوا ہے، ان سب کا تذکرہ کرنا میرے بس کی بات نہیں، سو بہتر یہ ہے کہ ان عظیم الشّان واقعات کی صرف چند مثالیں پیش کی جائیں، چنانچہ سریقول میں ایک رات کو بڑا انوکھا خواب دیکھا، حیرت ہے کہ میں نے اپنے آپ کو ایسا مقتول پایا کہ میری لاش سر کے بغیر ایسی پڑی تھی، جیسے نمازِ جنازہ کے لئے رکھتے ہیں، سر جانبِ مشرق ایک پکی دیوار کی کھونٹی سے آویزان تھا، میں مغرب کی طرف کچھ بلندی پر ایک عجیب قسم کی چمکتی ہوئی فضا میں سے دیکھ رہا ہوں، مجھے اپنی شہادت کا گمان ہوتا ہے، اور خوشی ہوتی ہے، جب میں بیدار ہو گیا تو دل خود بخود اس کی تعبیر کی طرف متوجہ ہوا، خیال آیا کہ اس میں یا تو جسمانی موت کا اشارہ ہے، یا نفسانی موت کا، اس کے بعد بھی میں نے دو دفعہ خواب میں اپنی موت کا منظر دیکھا، ایک میں کسی شہزادے نے مجھے گولی کا نشانہ بنا دیا، دوسرے میں شاید اسی نے میرے اوپر ٹرک چلایا۔
مذکورہ خوابوں کا اشارہ یہ تھا کہ میں کسی بھی موت کے لئے تیار ہو جاؤں، اللہ تبارک و تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ میں مایوس نہیں ہوا، کیونکہ کچھ دوسرے نورانی خوابوں میں بڑی بڑی بشارتیں بھی ہوتی تھیں، تاہم مجھے
۴۶
ہر حال میں موت کے لئے تیار رہنا تھا، پس میں نے مختلف طریقوں میں خدا کو کثرت سے یاد کیا، اس دوران دنیا اور اس کی ہر چیز سے دل برداشتہ ہو گیا، میں ایک دفعہ یارقند کی قید میں تھا اور ۱۹۵۱ء کا زمانہ، کہ موت سے متعلق میرے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کر دینے کے لئے حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام اور اس کی افواج آ گئیں، پہلے لشکر پھر سردار، عزرائیل کا وجود صرف ایک آواز میں، اس کا فعل ایک اسمِ الٰہی میں، اور اس کا حکم بصورتِ ذکر تھا، اور اس کی افواج انتہائی چھوٹے چھوٹے روحانی ذرّات کی شکل میں تھیں، سالارِ اعلیٰ کان میں رہ کر اسمِ بزرگ کا ذکر کرتا رہا اور اس کے لشکر جسم کے تمام خلیات میں داخل ہو کر اس غریب کی جانِ حقیر کو اوپر کی طرف کھینچنے لگے۔
قبضِ روح کا یہ عمل شب و روز جاری تھا اور تقریباً ایک ہفتہ تک چلتا رہا، جس میں سر کو چھوڑ کر بدن باقی تمام اعضاء کے ساتھ بار بار مر کر پھر زندہ ہو جاتا تھا، اور سر کلی طور پر اس وجہ سے نہیں مر رہا تھا، کہ روح اگرچہ چوٹی کی جانب سے بلند کی جاتی تھی، لیکن اس کا زیرین سرا دماغ سے وابستہ رہتا تھا، تا کہ وہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بخوبی مشاہدہ کر سکے، بعد کے غور و فکر سے پتہ چلا کہ اس مقام پر بہت سے خزانے ہوا کرتے ہیں۔
کیا یہ صرف ایک ہی بڑا عجیب سا واقعہ تھا؟ نہیں نہیں، یہ تو ایسے بہت سے واقعات کا مجموعہ تھا، بہر کیف وہ عالمِ شخصی (پرسنل ورلڈ) کا
۴۷
روحانی انقلاب تھا، جس کی سختی مجھ پر گزری، وہ قیامت سے کم نہ تھی، ایسے میں حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن کے درمیان جو پردہ ہے، اس کو یاجوج و ماجوج چاٹ چاٹ کر ختم کر لیتے ہیں، یہ لوگ لشکرِ عزرائیلی میں شامل ہیں، اور اس پردے کا کوڈ ورڈ (Code Word) سدِ سکندر ہے۔
اب اس موت اور انقلاب کے بعد میرے اندر کی دنیا یکسر بدل گئی، کیونکہ میں مر چکا تھا، مگر زندہ تھا، تعجب ہے کہ میں اس کورس کے دوران گویا جسم اور روح کے درمیان تھا، یہی وجہ تھی کہ میں دونوں کو دیکھتا اور سنتا تھا، کیونکہ اس حال میں حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن مل کر کام کرتے ہیں۔
اب ہم بعض واقعات کو علمی لباس پہنا کر پیش کریں گے، اور یہ طریقِ کار بہتر رہے گا، وہ یہ کہ روح کے ظہورات ایک جیسے نہیں، بلکہ مختلف ہیں، جیسے ظہورِ روح ذرۂ لطیف میں، آواز میں، روشنی میں، خوشبو میں، خیال میں، خواب میں، جسمِ لطیف میں، وغیرہ، ان سب میں روح کے دو دیدار عظیم ہیں، کہ ایک جسمِ لطیف ہے، اور دوسرا مشاہدۂ خاص، بمقامِ کوہِ جواہر، جسمِ لطیف کی مثال جن ہے یا اڑن طشتری، اور بے جان چیزوں میں جیسی ہوا ہے، کنارۂ شعلۂ چراغ ہے، جو دکھائی نہیں دیتا، جن پوشیدہ ہے، مگر ظاہر بھی ہو سکتا ہے، اڑن طشتری بھی ایسی ہے، ہوا اگرچہ نظر نہیں آتی، لیکن گرد اور بادل کی شکل میں نمایان ہو
۴۸
جاتی ہے اور شعلۂ آتش کی بھی دو حالتیں ہیں، کہ جہاں رنگ ہے، نظر آتا ہے، اور جدھر رنگ نہیں، دکھائی نہیں دیتا، (کتاب “روح کیا ہے؟” کو پڑھئے)۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ روح سرچشمۂ اصل میں ایک ہی ہے، لیکن وہ الگ الگ لباسوں میں ظاہر ہو جاتی ہے، جیسے مختلف رشتوں کی بناء پر ایک ہی شخص بیٹا، بھائی، دوست، داماد، شوہر، ماموں، چچا، باپ، خسر، دادا وغیرہ کہلا سکتا ہے، اسی طرح ایک ہی روح کے بہت سے روپ ہوا کرتے ہیں، دوسری مثال یہ ہے کہ آپ جب عالمِ خواب میں جاتے ہیں، تو اس میں آپ آسمان زمین کی لاتعداد چیزوں کو دیکھتے ہیں، جیسے سورج، چاند، ستارے، آسمان، بادل، بارش، پہاڑ، جنگل، دریا، باغ، گلشن، حیوانات، اور بہت سے آدمی، اس میں میرا سوال ہے کہ آیا یہ ساری چیزیں جو خواب میں نظر آتی ہیں، مادّی قسم کی ہو سکتی ہیں، نہیں، ہرگز نہیں، یہ سب کچھ آپ کی روح کے مختلف ظہورات ہیں، اور یہ آپ کی پرسنل ورلڈ (ذاتی دنیا) ہے۔
سب سے اعلیٰ درجہ کی روح کا قرآنی کوڈ ورڈ جنّ ہے، چنانچہ میں نے جنّات کے مسلمان بادشاہ کو کئی دفعہ دیکھا، جس سے پتہ چلا کہ کہانیوں اور غیر محققانہ باتوں سے جنّ کے بارے میں غلط تاثر دیا گیا ہے، چین میں رات کے وقت وہ عجیب طرح سے میرے گھر آیا، وہ برق ہے، اس لئے برق رفتاری سے آگیا، اور اس کے زیرِ اثر اندر سے بند کئے ہوئے دروازے
۴۹
بڑی سرعت سے کھل کر فوراً بند ہو گئے، بادشاہِ جنّ کے ساتھ کوئی خادم نہیں تھا، میں سخت حیرت زدہ اور مرعوب ہو گیا، اس نے کہا کہ تم کو دروازوں کے اس طرح کھل کر فوراً بند ہو جانے سے تعجب ہو رہا ہے، لو میں دوبارہ یہ عمل کرتا ہوں، پس وہ بجلی کی طرح باہر جا کر واپس آیا، اور دروازوں پر وہی حالت گزری، بادشاہ انتہائی فصیح بروشسکی میں گفتگو کرتا تھا، اس نے اپنی ہستی کی صفتِ دیدنی اور نادیدنی کا بھی مظاہرہ کیا، عزیز محمد خان بای کے بارے میں بھی کوئی بشارت دی، سلطانِ جنّات کے ہالۂ نور کی کیا تعریف کریں، مختصر بات چیت کے بعد یہ جنّ اسی رفتار سے چلا گیا، میں ہمیشہ چین کے ایسے عجیب و غریب اور عظیم واقعات کو یاد کرتا ہوں۔
۵۰
سوال و جوابِ ہشتم
برچہ: علامہ صاحب! ذرائع ابلاغ و مواصلات کی حیرت انگیز ترقی کے باعث دنیا سکڑ کر ایک آنگن کی شکل اختیار کر گئی ہے، اس سے جہاں بہت سارے فوائد حاصل ہو گئے ہیں، وہاں “باہر” کے مسائل میں بھی غیر ارادی شرکت پر مجبور ہیں، اس سے وطنِ عزیز کو سماجی اور معاشی مسائل کا سامنا ہے، ان مسائل سے نمٹنے کے لئے آپ کے ذہن میں کون سی تجاویز ہیں؟
علامہ صاحب: دیکھئے سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے دینِ فطرت (اسلام) میں روشن ہدایات موجود ہیں، لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم یہاں “فطرت” سے کیا مراد لیتے ہیں؟ یا اس کی تعبیر و تشریح کس طرح کرتے ہیں؟ کیونکہ ہر مسئلے کے پس منظر میں ایک بنیادی مسئلہ پوشیدہ ہوا کرتا ہے، اگر خوش بختی سے اسی اساسی مسئلے کی عقدہ کشائی کی گئی، تو دوسرا مسئلہ خود از خود حل ہو جاتا ہے، میرے خیال میں قرآنی دعوتِ فکر کے مطابق ہمیں ہمیشہ فراخدلی سے سوچنا چاہئے، کہ فطرت قرآنِ حکیم کا ایک وسیع المعنی لفظ بھی ہے، اور ایک انتہائی اہم موضوع بھی، چنانچہ اگر ہم “دینِ فطرت” کے معنی میں کماحقہ غور و فکر کر سکیں، تو ان شاء اللہ، اس سے مسائل کے
۵۱
حل کا طریقہ معلوم ہو سکتا ہے۔
اگر ہم قانونِ فطرت کا مشاہدہ و مطالعہ تفصیلاً کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آسمان و زمین سامنے ہیں، اور اگر اسے اجمالاً دیکھنا ہے، تو پھر ہمیں اپنے آپ کو دیکھنا ہو گا، کیونکہ قرآنِ حکیم میں فطرت اور قانونِ فطرت کے دو اہم حوالے یہی ہیں، اس کی وضاحت یہ ہے کہ دینِ فطرت کی روشن مثالیں کائنات میں بھی ہیں، اور انسانی ذات میں بھی، اب ہمیں اس سلسلے میں مزید سوچنا یہ ہے کہ خدائے علیم و حکیم نے جہاں فطرت کا خاص ذکر کرنا چاہا، وہاں اس حکمت والے نے اس کی مثال صرف ایک فرد سے نہیں دی، بلکہ نمونۂ فطرت کے طور پر سب لوگوں کو پیش کیا، جیسا کہ ارشاد ہے:
فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاؕ (۳۰: ۳۰)
اور خدا کی فطرت کو جس پر لوگوں کو پیدا کیا (اختیار کئے رہو) کیونکہ جب تک زمانۂ آدم سے لے کر قیامِ قیامت تک پیدا ہو جانے والے لوگ سب کے سب بتقاضائے زمان و مکان اپنی گوناگون صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر فطرت کی ترجمانی نہ کریں، تو فطرت اور دینِ فطرت کی کلی شناخت نہیں ہو سکتی ہے، جبکہ لفظِ فطرت میں قابلیت، استعداد اور ایجاد کے معنی بھی ساتھ ہیں، جس کی ایک مثال ہے: افتطر الامر ، ایجاد کرنا (ملاحظہ ہو: المنجد، مفردات القرآن، وغیرہ)۔
۵۲
روزنامۂ جنگ کراچی (اتوار ۲۷ ذی الحجہ ۱۴۰۷ھ / ۲۳ اگست ۱۹۸۷ء) میں جناب پرویز بخت قاضی کا ایک فکر انگیز مضمون بعنوانِ “پاکستان میں اجتہاد کی عملی صورت” شائع ہوا ہے، میرا پُرخلوص مشورہ ہے کہ اہلِ علم حضرات اس کو پڑھ لیں، نیز جدید مسائل کے لئے اسلامی فکرِ جدید کی چند عمدہ کتابوں کا بھی مطالعہ کیا جائے۔
راغبِ اصفہانی کا کہنا ہے کہ: فطر اللّٰہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عصرِ حاضر میں لوگ جو کچھ مفید سائنسی ایجادات کر رہے ہیں، وہ دینِ فطرت کے عین مطابق ہیں، اور اگر ایک طرف نت نئے ایجادات کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف دین میں تدریجی ہدایت بھی ہے، اور تعبیر، استنباط، اجتہاد وغیرہ بھی، میرا خیال ہے کہ اسی طرح سوچ کر عمل کرنے سے ہمارے ہر قسم کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
۵۳
سوال و جوابِ نہم
برچہ: اب ایک نہایت اہم سوال: آج کے نوجوان کو وقت کے لحاظ سے بڑے پیچیدہ مسائل کا سامنا ہے، معاشرے کے محاسن و معائب پر آپ کی گہری نظر ہے، اس تناظر میں نوجوانوں کی ذہنی تربیت کے لئے کوئی لائحۂ عمل آپ کے ذہن میں ہو تو بتائیے؟
علامہ صاحب: چھوٹے چھوٹے پیارے پیارے بچے ہی نوجوان ہو کر اپنے خاندانوں اور قوم کی ذمہ داریاں سنبھالنے لگتے ہیں، اس لئے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ شروع ہی سے ان کی اعلیٰ ذہنی تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی جائے، جس کے لئے مندرجۂ ذیل لائحۂ عمل پیشِ نظر ہو:
۱۔ سب سے پہلے اہلِ قریہ کا اس بات پر اتفاق و اتحاد ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں اور نوجوانوں کو علم و ہنر اور اچھی عادتوں کی دولت سے مالامال کر دینا چاہتے ہیں۔
۲۔ والدین اور بھائی بہن کی مدد کے بغیر کوئی بچہ علم و اخلاق کے انمول خزانوں کو حاصل نہیں کر سکتا۔
۳۔ آپ ہر قسم کی کوشش اور مالی قربانی سے اپنے گاؤں کے ابتدائی
۵۴
سکول کو بہتر بنائیں۔
۴۔ نائٹ اسکول اور ٹیوشن سینٹر ضروری ہے، اور اس میں نوجوان ٹیچرز اعزازی خدمات انجام دیں۔
۵۔ ٹائپنگ اسکول ہونا چاہئے، تاکہ وقت پر یہ ہنر کام آئے اور بچے مصروف رہیں۔
۶۔ بچوں کو ڈرل سکھائیں۔
۷۔ فنونِ لطیفہ کو نظر انداز نہ کریں۔
۸۔ مقابلۂ اسلامیات ہو۔
۹۔ مقابلۂ مضمون نگاری ضروری ہے۔
۱۰۔ اخلاقی تقاریر کا مقابلہ ہو۔
۱۱۔ بری عادتوں کے خلاف ڈراما۔
۱۲۔ ورزشی کھیلوں کے مقابلے۔
۱۳۔ لائبریری ایک خاموش اسکول ہے۔
۱۴۔ سکاؤٹنگ کی تنظیم ایک اخلاقی تربیت کا ذریعہ ہے۔
۱۵۔ والنٹئیرز کا ادارہ ہو۔
۱۶۔ مقابلۂ معلومات سے علم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
۱۷۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ بچوں کو مفید باتیں سکھائیں۔
۱۸۔ معاشرے کی اصلاح بے حد ضروری ہے۔
۵۵
۱۹۔ چائلڈ ریسپیکٹ۔
۲۰۔ اساتذہ کی حوصلہ افزائی۔
۲۱۔ آرٹ اینڈ کرافٹ۔
۲۲۔ سکولوں کا باہمی مقابلہ۔
۲۳۔ انعام یا حوصلہ افزاکمیٹی۔
۲۴۔ ماہرینِ تعلیم سے رابطہ۔
۲۵۔ صحت و صفائی۔
۲۶۔ گولڈن بک میں ہر سال سب سے بہترین بچے کے نام کا اندراج۔
۲۷۔ معلوماتِ زراعت کا مقابلہ۔
۲۸۔ معلوماتِ جغرافیائی۔
۲۹۔ تعلیمی سیر۔
۳۰۔ تعلیمی مشاورتی کمیٹی۔
۳۱۔ مویشیوں سے متعلق معلومات۔
۳۲۔ لڑکیوں کے لئے امورِ خانہ داری کی تعلیم۔
۳۳۔ ادارۂ تعلیمِ بالغان کا قیام و اجراء بہت بڑا کارنامہ ہو سکتا ہے۔
۳۴۔ اگر اتحاد بین المسلمین کا بھی کوئی ادارہ قائم ہو تو اس سے بڑے پیمانے پر فائدے ہو سکتے ہیں۔ آپ اس پروگرام میں مناسب ترمیم اور کمی بیشی کر سکتے ہیں، بہر حال آپ نے اس پر عمل کیا تو مجھے یقین ہے کہ تمام نوجوان
۵۶
سیکھنے اور سکھانے کے نیک اعمال میں لگ جائیں گے، اور خدائے مہربان اس اجتماعی شکل کے علمی جہاد (جو جہالت کے خلاف ہے) کے عوض میں نہ صرف نوجوانوں ہی کو دونوں جہان کی سرفرازی عطا فرمائے گا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اہلِ قریہ پر بھی ایسا ہی مہربان ہو گا، ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ بے روزگاری الگ ہے اور بے کاری الگ، پس ہمیں خیرخواہی اور دانشمندی سے دیکھنا ہو گا کہ ہمارے گاؤں میں کتنے نوجوان فی الوقت فارغ ہیں، تا کہ ان سے پُرخلوص درخواست کی جائے، کہ وہ اپنے گاؤں کی ترقی کے لئے ہم سے تعاون کریں، ایک طرف سے کچھ سیکھیں، اور دوسری طرف سے کچھ سکھائیں، ان شاء اللہ اگر ہم حقیقی معنوں میں قوم اور وطن کے خیرخواہ ہیں تو ہمیں کامیابی نصیب ہو گی۔
۵۷
سوال و جوابِ دہم
برچہ: جناب آپ اپنی علمی مصروفیت کے سلسلے میں بارہا مغرب جاتے رہے ہیں، ایک عام آدمی اور آپ کے مشاہدے میں بڑا فرق ہے، تو آپ بمہربانی بتائیں کہ مغرب کے موجودہ تہذیبی خد و خال سے آپ نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟
علامہ صاحب: جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ میرے پاس تعلیم کی کوئی بڑی یا چھوٹی ڈگری نہیں، اس کے لئے راستہ نہ ملنے کی وجہ سے میں نے بہت معمولی تعلیم حاصل کی ہے، کچھ مطالعہ کیا ہے، کچھ سفر سے تجربات حاصل ہوئے ہیں، اور کچھ دریوزے سے، اسی طرح میرا علمی گزارہ ہے، خصوصاً سفر میرے حق میں باعثِ ظفر رہا ہے، مادرِ وطن نے مجھے جنم دیا، میں اس (یعنی پاکستان) کو جان سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں، مشرق (چین) نے بحکمِ خدا مجھے درویشی اور دریوزہ گری کا علم سکھایا، اور مغرب نے ایک بہت بڑا وسیع میدان عطا کر دیا، لہٰذا میں ان تینوں کا شکرگزار اور ممنون ہوں۔
اگر سفرِ مشرق کی تجویز میرے ایک بزرگ بھائی کی طرف سے تھی، جن کا ذکر ہو چکا ہے، تو پھر دورۂ مغرب عظیم دوست کے مشورے سے ہوا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصۂ قرآن (۲۸: ۲۴) میں لفظِ “فقیر” کے
۵۸
کیسے دعائیہ معنی ہیں، اور اس میں عجز و انکسار کی کتنی بڑی حکمت ہے، وہی پیارا لفظ “فقیر محمد” کے نام میں بھی ہے، کسی صاحب نے اس ناچیز سے مخلصانہ سوال کیا کہ آیا اسم کا اثر مسما پر ہو سکتا ہے؟ عرض کی گئی کہ ہاں، مگر جب خدا چاہے، چنانچہ میں نے جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے، ہر چند کہ آپ ایک فقید المثال سکالر ہیں، لیکن سچ مچ فقیر و درویش ہیں، میں نے ان کی بہت سی خصوصیات دیکھی ہیں، آپ ایک زبردست تاریخ ساز شخصیت کے مالک ہیں۔
حق بات تو ہے کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ شمالی امریکا (کینیڈا) جیسے عظیم ملک کی ترقی کردہ جماعت میں جا کر کوئی علمی خدمت انجام دے سکوں، لیکن یہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی کا مجھ پر کتنا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ازراہِ کرم نہ صرف مشورہ اور حوصلہ دیا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عملی طور پر مدد بھی کی، اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ آپ میرے ہر لیکچر کو آستین چڑھائے ہوئے بیٹھ کر اسی رفتار سے لکھتے جاتے تھے، اور آخر میں کھڑے ہو کر اس سرے سے لے کر اس سرے تک بڑی مہارت کے ساتھ انگریزی میں ترجمہ کر دیتے۔
میں پہلی دفعہ کنیڈا میں ۷ دسمبر ۱۹۷۷ء سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۸ء تک رہا، جس میں شروع کے دو ماہ کے لئے باقاعدہ پروگرام تھا، جس میں جماعت کے شوق و دلچسپی کی وجہ سے اتنی زیادہ مصروفیت ہوتی تھی
۵۹
کہ بعض دفعہ ہم صرف دو گھنٹہ سو سکتے تھے، تاہم علمی ریاضت کے اعتبار سے کتنا مبارک وقت تھا، جو اب ہمارا ایک ناقابلِ فراموش ماضی بن چکا ہے۔
کنیڈا بہت بڑا ملک ہے، میں تو صرف شرقی کنیڈا گیا تھا، تاہم “مشتے از خر وارے” اس سے ٹھیک اندازہ ہوا کہ باقی ماندہ کنیڈا اور امریکہ کیسا ہے، کیونکہ یہ سب امریکا کہلاتا ہے، میرے خیال میں قارئینِ کرام اس سفر کی کچھ اہم تفصیلات سننا پسند کرتے ہوں گے، لیکن میرے اگلے جوابات بہت طویل ہو چکے ہیں، اس لئے مجھے اب زیادہ نہیں لکھنا چاہئے، مگر یہ ضرور کہوں گا کہ میں ۱۹۸۰ء اور ۱۹۸۲ء میں بھی کنیڈا گیا، لیکن میں اس میں مونٹریال یونیورسٹی کے شعبۂ لسانیات میں بروشسکی زبان پر ریسرچ کر رہا تھا۔
میں تین دفعہ تقریباً چار چار ماہ کے لئے جا کر مجموعاً ایک سال کنیڈا میں رہ چکا ہوں، اس تمام مدت میں مجھے لکھنا بھی ضروری تھا، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے شاگردوں یا عزیزوں کو لیکچر دینا بھی، اور ان کے ہر سوال کے لئے جواب مہیا کر دینا بھی، یہ ایک حقیقت ہے کہ علم دینے سے علم آتا رہتا ہے، چنانچہ جس معلّم پر خدا مہربان ہو جاتا ہے، اس کو باصلاحیت متعلمین عطا کر دیتا ہے۔
وجودِ آدمی گوناگون قوّتوں کا ایک بے پایان خزانہ ہے، وہ اس انمول خزانے کو اپنی تعمیر و ترقی کے لئے استعمال کر سکتا ہے، چنانچہ دانشمند قوموں
۶۰
کو یہ راز معلوم ہو گیا ہے کہ انسان بہت کچھ کر سکتا ہے، مگر محنت شرطِ لازمی ہے، یہی وجہ ہے کہ محنت کے قدردان نہ صرف آج کے چین میں ہیں، بلکہ مغرب میں بھی لوگ بہت زیادہ محنت کرتے ہیں، اور یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اچھے خاصے عزت دار لوگ اپنے اپنے گھروں میں ادنیٰ سے ادنیٰ کاموں کو بھی کسی عار کے بغیر انجام دیتے ہیں، مثال کے طور پر قالینوں پر چھاڑو دینا (یعنی مشین چلانا، کیونکہ وہاں جھاڑو نہیں) میں نے مشین کو جھاڑو کہا، اس لئے کہ یہ فرش کو جھاڑتی ہے، اور جھاڑو بھی یہی کام کرتا ہے، وہاں مرد بھی بڑے آرام سے برتن دھو لیتا ہے، اور کھانا بھی پکا سکتا ہے، گھروں میں کوئی نوکر نہیں، نہ نوکرانی ہے، نہ بھنگی، اور نہ چوکیدار، بہترین فلش سسٹم، گھر کا کوڑا کرکٹ پلاسٹک کی بڑی بڑی تھیلیوں میں خوب بند کر کے قریبی سرکاری سڑک کے کنارے پر چھوڑتے ہیں، اور صفائی کا کوئی محکمہ ان تھیلیوں کو گاڑیوں میں لے جانے کا ذمہ دار ہے۔
کوئی بھی دانشمند اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ آدمی اپنی ذات کا ایک ادنیٰ نوکر اور اپنے نفس کا غلامِ کمترین ہے، یعنی کیا وہ اپنے آپ کے لئے فطری طور پر دھوبی، نائی، بھنگی، وغیرہ کا کام نہیں کر رہا ہے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے، تو پھر ہمیں اپنے گھر کی خدمت سے کیوں شرمانا چاہئے؟ اگر ہم اپنے جسمانی وجود کے ظاہر و باطن کا ٹھیک طرح جائزہ لیں، اور غور سے مطالعہ کریں، تو کسرِ نفسی اور عاجزی کے بہت
۶۱
سے اسباق سامنے آئیں گے، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہم اپنی کتابِ ہستی کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں، اور یہی سبب ہے کہ ہم بار بار ظاہر داری اور خود بینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
رحمتِ عالم فخرِ بنی آدم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی سیرتِ طیبہ اور سنتِ مطہرہ سے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مؤمن اپنی ذات کے علاوہ خاندان اور قوم کا بھی خادم ہے، پس ہمیں غیر ضروری شرم و ناموس کو چھوڑ کر کام کرنا چاہئے، تا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری اس حرکت سے کوئی برکت پیدا کرے، کیونکہ گھر، گاؤں، علاقہ، اور ملک کی افرادی قوّت سے حقیقی معنوں میں کام نہ لینا بہت بڑی ناشکری ہے، کاش ہم اسلامی اخوّت اور ملی وحدت کی اہمیت کو سمجھتے، اور زمانۂ نبوّت کے مسلمانوں کی طرح سب مل کر ہمیشہ اسلام کی سر بلندی کے لئے کوشان رہتے، پھر بھی ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے، وہ سب کی یک جہتی اور وحدت کا کوئی سبب پیدا کرے گا۔
۶۲
سوال و جوابِ یازدہم
برچہ: آپ ایک عرصے سے کراچی میں مقیم ہیں، اس لحاظ سے علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ آپ کا رابطہ تو رہتا ہو گا، یہ بتائیے کہ کن مشہور علماء و ادباء کے ساتھ آپ کا رابطہ ہے؟
علامہ صاحب: میں اپنے علمی میزبان، نوجوان سکالر، دانشور، جناب شیر باز علی خان صاحب برچہ کا بےحد ممنون و شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ازراہِ کرم اس بندۂ خاکسار و خاک نشین کی حوصلہ افزائی کی خاطر منتخب عنوانات پر مبنی ایک سوالنا مہ ارسال کر کے سرفراز فرمایا ہے، یہ میری تاریخ دانی کی ایک کمزوری تھی کہ میں “برچہ” جیسے اہم لفظ کے مطلب کو نہیں سمجھ رہا تھا، لیکن اب مجھے معلوم ہوا کہ برچہ موصوف کے خاندان کا نام ہے، وہ اس طرح کہ آذر جمشید شری بدت کو ختم کر دینے کے بعد گلگت کا راجا مقرر ہوا تھا، اور برچہ آذر جمشید کا دودھ بھائی تھا۔
ہمعصر پاکستانی علماء، فضلاء، ادباء، شعراء، اور دوسرے حضرات کے حق میں میرے دل میں جیسا کہ احترام ہے، اس کے واضح اور قابلِ فہم اشارے میری ایک تازہ تصنیف “قرآنی علاج” کے صفحہ ۲۶ ۔ ۲۷ پر موجود ہیں، تعلق بالمشافہ بھی ہو سکتا ہے، خط و کتابت سے بھی، اور غائبانہ
۶۳
تعارف سے بھی، تاہم سچ بات تو یہ ہے کہ یہ ناچار روبرو تعلقات کی شیرین نعمت میں دوسرے بہت سے حضرات سے پیچھے ہے، یعنی تعلقات کا دائرہ جتنا وسیع ہو جانا چاہئے، ایسا نہیں، جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مجھے کافی دیر سے کچھ علم ملا، اس پر مزید یہ کہ میری زندگی کا ایک اہم حصہ سفر میں گزر گیا، کچھ وقت جماعتی خدمات میں صرف ہو رہا ہے، اور اب وسیع میدان میں آگے بڑھ جانے کے لئے نہ اتنی قابلیت ہے اور نہ وقت، تاہم مجھے بہت زیادہ شکر کرنا چاہئے۔
ڈاکٹر پروفیسر محمود بریلوی صاحب (مرحوم) ڈاکٹر محمد بشارت علی قریشی صاحب، اور دیگر چند حضرات شیر علی اختر صاحب کے دفتر میں آیا کرتے تھے، اور ہم سب مل کر علم کی دوستانہ باتیں کیا کرتے تھے، مجھے اپنی کمزور عادت خوب یاد ہے کہ میں کراچی جیسے شہر میں بھی ازخود دوستوں کی تلاش نہیں کر سکتا تھا، لیکن ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی نے مجھے مشورہ دیا کہ چلیں، ہم جناب رئیس امروہی صاحب سے ملاقات کریں، اب مجھے کسی خوفِ تردید کے بغیر یہ کہنا چاہئے کہ رئیس امروہی صاحب کی ذات سے وابستہ دوستوں کی ایک مکمل دنیا مل گئی، وہ شاہنشاہِ قلم ہیں، اس لئے میں تنہا نہیں، بلکہ تمام دنیائے علم و ادب ان کو دوست رکھتی ہے، رئیس امروہی صاحب کی کئی تصانیف شائع ہو چکی ہیں، خصوصاً قطعاتِ رئیس، جلدِ اوّل (جنوری ۱۹۵۹ء تا جون ۱۹۶۴ء) اور جلدِ دوم (جولائی
۶۴
۱۹۶۴ء تا ۳۰ جون ۱۹۷۱ء) آپ دیکھتے ہیں کہ رئیس صاحب اپنی زرین خدمات کو کسی سے دریغ نہیں رکھتے۔
جناب سید محمد تقی صاحب پاکستان کی چوٹی کے سکالرز میں سے ہیں، اور جناب جون ایلیا صاحب اسی خاندان کے تیسرے دانشور ہیں، مجھے اس موقع پر جناب جی الانہ صاحب (مرحوم) یاد آتے ہیں، وہ بین الاقوامی شہرت کے مالک تھے، جناب غلام سرور صاحب ایم۔ اے۔ پی ۔ ایچ۔ ڈی (علیگ) پروفیسر اینڈہیڈ، ڈیپارٹمنٹ آف پرشین، یونیورسٹی آف کراچی نے بھی، دوسرے کئی حضرات کی طرح میری ایک کتاب پر ایک بہترین تبصرہ تحریر فرمایا ہے، یہاں پشتو زبان کے بابائے غزل اور اردو کے ممتاز شاعر و ادیب جناب امیر حمزہ شنواری کا بھی نام ہونا چاہئے۔
مجھے اپنے علاقے کی علمی و ادبی کوششوں اور سرگرمیوں کے بارے میں بھی کچھ عرض کرنا ہے، وہ یہ کہ جب میں رمضان المبارک ۱۴۰۷ھ کو “قراقرم رائٹرز فورم گلگت” کے دانشور و معزز ارکان کی ملاقات سے مشرف ہو رہا تھا، تو اس وقت مجھے اس یقین سے زبردست خوشی ہو رہی تھی کہ (ان شاء اللہ) اس مبارک ادارے کی پُرخلوص کوششوں سے علاقے میں علم و ادب تقریر و تحریر، اور شعر و شاعری کی ترقی ہو گی۔ اس باوقار ادارے کے منتخب عملداروں کے اسمائے گرامی درجِ ذیل ہیں:
۶۵
صدر جناب غلام محمد بیگ صاحب، نائب صدر جناب عثمان علی خان صاحب، جنرل سیکریٹری جناب محمد اکرام خان صاحب، جائنٹ سیکریٹری جناب محمد امین ضیاء صاحب، پبلسٹی سیکریٹری جناب سید فاضل شاہ صاحب، فنانس سیکریٹری جناب ڈاکٹر ثابت رحیم صاحب اور آفس سیکریٹری جناب شیر باز علی خان برچہ صاحب۔
فروغِ علم و ادب کا ایک مؤثر اور ہمہ رس وسیلہ آج کے زمانے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن ہے، لہٰذا ہمیں اپنے علاقے کے ان اداروں سے نہ صرف تعاون حاصل کرنا ہو گا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم پر بھی بحیثیتِ قوم ایک فریضہ عائد ہو جاتا ہے، وہ یہ کہ ہم اپنے ایسے اداروں کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کریں جو قوم کی تعمیر و ترقی کے لئے شب و روز مصروفِ عمل ہیں، تاکہ سب سے پہلے علاقے کی سطح پر اسلامی اخوّت اور جذبۂ حب الوطنی کا دور دورا ہو۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
جمعہ یکم صفر المظفر ۱۴۰۸ھ / ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء
۶۶
علامہ نصیر الدین (پَرتوِ شاہ) کا شجرۂ نسب
بروݣ ھراݷ / صفر ھراݷ ، یعنی بروݣ یا صفر خاندان
۶۷
۱۔ صفر
صفر یا سفر، میں ذاتی طور پر اس روایت کو ترجیح دیتا ہوں کہ ہون زاد (آج کل کی زبان میں ہونزوکڎ) تقریباً ۴۹۱ء میں چین کی طرف سے آئے تھے، ہون، یا ھُن ایک قدیم قوم کا نام ہے، اسی لفظ سے التت میں “ہنوکوشل” ہے، یعنی وہ جگہ جہاں شروع شروع میں ھنوکڎ بستے تھے، وزیر چوسنگھ اور وزیر بوٹو کے بعد جو شخص ہونزہ کا وزیر ہوا، اس کا نام ممو تھا، لیکن لوگ اسے ھنوی ممو کہتے تھے، یعنی ھنو کا بیٹا ممو، جیسے حجای غریب کا مطلب ہے حجی کا بیٹا غریب، اور اس میں تعظیم کا تصور بھی ہے، اور ممکن ہے کہ لفظِ ھون (Hoon) بھی ھن قوم سے منسوب ہو، اور یہ بات الگ ہے کہ ھن قوم اچھی تھی یا بری، میرے خیال میں ھون جو پہاڑ کا نام ہے، اس کی توجیہہ بھی یہی ہو سکتی ہے اور ہون زا دراصل “ھون زاد” تھا، یعنی قومِ ھن کی نسل، پس ہونزہ کے ابتدائی باشندوں کا اصل وطن منگولیا ہو سکتا ہے، بہر حال سفر ھراݷ (خاندانِ سفر) سے پہلے اس قبیلے کا نام “بروݣ ھراݷ” تھا، بروݣ ان کے کسی جد کا نام ہو سکتا ہے، اور یہ لفظ از قسمِ ترکی یا منگولی لگتا ہے۔
۶۸
۲۔ بُرگَل
اس کا کوئی قصّہ معلوم نہیں، صرف اتنا ہے کہ اشا پہاڑ پر ایک جگہ ہے، جس کو لوگ “برگل ولم ژکت” کہتے ہیں، لیکن بُرگَل دو ہیں۔
۳۔ بہرام
(۱) بہرام ستارۂ مریخ کو کہتے ہیں۔
(۲) نیز یہ عراق کے ایک بادشاہ کا نام تھا۔
۴۔ شاہ روپ
اس نام کا مطلب ہے: وہ آدمی جس کی شخصیت بادشاہ کی طرح ہو، یہ وہ وقت تھا، جس میں ہنوز ہونزہ تک دینِ اسلام اور شرعِ محمدی کی روشنی نہیں پہنچی تھی، چنانچہ شاہ روپ نے ایک بڑے آدمی کی خوبرو بیٹی سے عشقیہ اور خفیہ شادی کر لی، جب بچہ پیدا ہوا، تو ماں اپنے باپ کے ڈر سے جھوٹ موٹ باتیں کرنے لگی، جس کی وجہ سے کچھ غلط باتیں مشہور ہو گئیں۔
۶۹
۵۔ بہرامِ ثانی
وہ ستارۂ مریخ اور شاہِ عراق کے معنوں کو اپنی ذات میں پوشیدہ رکھتا تھا، اور اس میں ماں باپ کی خاندانی خوبیاں جمع تھیں، چونکہ لوگ اس کو حقیر سمجھتے تھے، اس لئے خداوند تعالیٰ اس پر بڑا مہربان تھا، اور رحمتِ الٰہی آنے والے زمانے کی منتظر تھی۔
۶۔ فقرا شاہ
اس کو فقو بھی کہتے ہیں، حالات معلوم نہیں۔
۷۔ سرل
سرل (Saral) کی بیوی میلی کے نام سے تھی، جو قریۂ گنش کے ایک شخص بڈھو کی بیٹی تھی، بڈھو نامور چبوی بتی کی نسل سے تھا، پہاڑ پر “بڈھو دیدم” اسی کے نام سے ہے، انہوں نے اپنی عزیز بیٹی میلی کو بطورِ جہیز غمٹ پہاڑ پر ایک رُݣ (Run) بھی دیا تھا، لیکن اب وہ واپس کیا گیا ہے۔
۸۔ پونو
پونو قدیم ہونزہ ثقافت کا ایک پسندیدہ نام ہے، یہ لفظ دراصل “پن” ہے،
۷۰
اور حرفِ واؤ بعد میں بطورِ لاحقہ ملایا گیا ہے، جس کی وجہ سے یہ لفظ اسمِ مصغر ہو جاتا ہے، “پن” بروشسکی میں شریف کو کہتے ہیں، اور خود بروشسکی میں اس کا دوسرا لفظ منوکر بھی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پن اور من (منو = منوکر) ہم معنی نام ہیں، اس کے سوا پونو کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، مگر یہ بات ہمارے لئے باعثِ خوشی ہے کہ ہماری ایک مضبوط جڑ چبوی کڎ میں پیدا ہوئی، کیونکہ پونو کی والدہ میلی جیسا کہ ذکر چبوی بتی کی نسل سے تھی۔
۹۔ فقیر
لفظِ فقیر عربی، قرآنی اور اسلامی نام ہے، اس لئے اس نام کی خوبیوں کا کیا کہنا، اس بابرکت نام میں ایک خاص دعا پوشیدہ ہے، جس طرح قرآنِ پاک (۲۸: ۲۴) میں ہے، میں کئی وجوہ سے اس پیارے نام کو بے حد عزیز رکھتا ہوں، بہر حال فقیر ابنِ پونو کی اہلیہ خاندانِ بشوکڎ (درمتݣ) کے ایک معزز شخص کی بیٹی تھی، پونو فقیر (فقیر ابنِ پونو) کی بہادری کا تذکرہ “تھمو کتاب” میں موجود ہے، نیز جناب قدرت اللہ بیگ (مرحوم) کی کتاب ص ۱۰۰ پر ملاحظہ ہو، جہاں پندرہ بہادروں کی شاندار تعریف کی گئی ہے۔
۷۱
۱۰۔ منو
من / منو، اور منوکر کا ایک ہی مطلب ہے، یعنی شریف النفس آدمی، منو کا خاندان ہر لحاظ سے بہتر اور مضبوط تھا، اس لئے التت کے مشہور قبیلہ حسیکڎ سے ایک نیک خصلت لڑکی (بی بی بل) اس کے نکاح میں لائی گئی، وہ نیک بخت، عقلمند اور دور اندیش خاتون تھی، قصہ یوں ہے کہ منو اپنے والد فقیر ہی کی طرح جسیم، طاقت ور، دلیر اور بہادر شخص تھا، وہ موسمِ گرما میں اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ اس تیر (چراگاہ) میں ہوتا تھا، جو بشوکڎ نے بطورِ جہیز اپنی بیٹی (منو کی والدہ) کو دیا ہوا تھا، جو قریۂ حسن آباد کے بالکل قریب تھا، جس کو منو ھرای کہا جاتا تھا، ایک رات ایسا واقعہ ہوا کہ دشمن کو دور سے منو ھراݷ کی روشنی نظر آنے لگی، تو وہاں سے چار چنے ہوئے جوان آگئے اور منو کو رسی میں باندھ کر لے جانے لگے، تب تک اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی، لیکن جب دریا میں تیراکی شروع ہوئی تو بندھا ہوا منو نے سب کو ڈبو دیا، اور وہ وہاں سے واپس آیا، اس نے خودی اور فخر کے نشے میں خداوند تعالیٰ کو بھلا دیا ہو گا، لہٰذا جان کی سلامتی کی کوئی تدبیر نہیں سوجھی، صرف اسی پر اکتفا کیا کہ رات کے وقت ھراݷ (Haraay) سے باہر کہیں سویا کرے، چنانچہ جب دشمن دوسری دفعہ زیادہ تعداد میں آکر تلاش کرنے لگا، تو
۷۲
پتہ چلا کہ منو قریب کے ایک غار میں سو رہا ہے، کیونکہ وہ نیند میں خراٹے لینے کی عادت رکھتا تھا، پس وہ اس دفعہ بڑی سختی کے ساتھ قید ہو گیا، اور اب دریا سے واپس نہیں آ سکتا تھا، کچھ عرصے کے بعد قیدیوں کے تبادلے میں مؤخر کر کے قتل کیا گیا، جس سے خاندان کو بڑا نقصان ہوا۔
۱۱۔ حاجی
جب منو قتل کیا گیا، تو بل بیوہ ہو گئی، اور حاجی بچپن ہی میں یتیم ہو گیا، اس زمانے میں یتیمی بہت بری بلا سمجھی جاتی تھی، اور سچ مچ وہ وقت ایسا ہی تھا، ہر چند کہ “دتم بریشو” چراگاہ کے حصول کے سلسلے میں منو جیسے بہادر شخص کا کردار نمایان تھا، لیکن جب اس کی ہرکݽ (کاشت کی جگہ) تقسیم کرنے کا وقت آیا تو برادری والوں نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے خاندان کا ایک یتیم بچہ بھی اس میں حصہ دار ہے، لہٰذا ہوش مند عورت (بل) فوراً التت گئی، اور اپنے والدین کے گھر سے گندم کا آٹا، گھی، وغیرہ لے کر اور چھوٹے بچے کو کندھے پر بٹھا کر “دتم بریشو” میں حاضر ہو گئی، اور کہنے لگی، مما ماورے! تھریݽ مڅو کے دیبای نا! (میری ماں تم سے قربان! تمہارا یتیم بھائی بھی آگیا ہے) ان سب کو اس باہمت خاتون کی دور اندیشی اور جسمانی مشقت سے بڑا تعجب ہوا، چنانچہ انہوں نے بل کے نام پر ایک ھراݷ کو تعمیر کیا، جبکہ دوسرا ھراݷ وزیر ممو کے نام پر تعمیر ہوا تھا،
۷۳
اور اردگرد کی زمین میں سے حاجی کو حصہ دیا۔
قانونِ الٰہی کے سامنے دنیا کا ہر دستور ہیچ ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۴۹: ۱۳) کا مفہوم ہے کہ “تمام لوگ ایک ہی ماں باپ کی اولادیں ہیں۔۔۔ اور بزرگی تقویٰ میں ہے۔” لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہونزہ کے قدیم رواج میں جہاں بھی کوئی یتیم اور بے سہارا آدمی پایا گیا تو اس کے حقوق پامال کئے گئے، یہی حال یتیم حاجی کے سر سے بھی گزرنے لگا، حاجی کی بیوی بھی خاندانِ بشو کڎ کی بیٹی تھی، خدا کی رحمت سے اب ان کا بیٹا غریب بھرپور جسم اور زبردست طاقت کے ساتھ نوجوان ہو گیا۔
۱۲۔ غریب
ایک دن کسی وجہ سے بل مل کے یرپا سے غریب کی تکرار ہوئی، یرپا نے غریب کو لڑکا سمجھتے ہوئے گالی دی، غریب طیش میں آ گیا، اور یرپا کو اٹھا کر زور سے زمین پر دے مارا، یرپا حجای غریب (غریب ابنِ حاجی) کے خلاف شکایت لے کر شاہ سلیم خان کے پاس گیا، جس پر میر سلیم خان نے غریب کو طلب کیا اور وہ حاضر ہو کر ہر سوال کا جواب کمالِ ادب اور دانشمندی سے دینے لگا، جس سے میر بہت متاثر ہو گیا، اور اسی وقت انہوں نے یرپا کو نا اہل قرار دے کر نوجوان غریب کو یرپگی کے عہدے سے سرفراز فرمایا، اور یہیں سے اس کی ترقی شروع ہوئی، کچھ آگے چل کر
۷۴
ناصر آباد کا ترنگفہ مقرر ہوا، چونکہ مرکز سے دوری کی وجہ سے ناصر آباد کے قلعہ پر دشمن کے حملے ہوتے تھے، لہٰذا یہ امر بے حد ضروری تھا کہ وہاں کوئی باہوش اور بہادر شخص کو ترنگفہ مقرر کیا جائے، ترنگفہ غریب نے شاہ سلیم خان کی شہزادی زیب النساء کی پرورش کی تھی، اس عمل کو بروشسکی میں تھمو اوشم کہتے ہیں، اور اس خاندان کو یہ اعزاز بار بار حاصل ہوتا رہا۔
۱۳۔ شمشیر بیگ
جیسا کہ شجرۂ نسب میں درج ہوا، حجای غریب کے چار بیٹے تھے: شمشیر بیگ، سلام بیگ، جوہر بیگ، اور وزیر بیگ، جب شاہ سلیم خان نے بمل دس کو ۱۲۲۱ھ (بارہ سو اکیس ہجری ، ۱۸۰۶ء) میں حیدرآباد کے بابرکت نام سے آباد کیا تو اس وقت انہوں نے شمشیر بیگ کو ترنگفہ بنا کر یہاں بھیجا، اور وہ عرصۂ دراز تک اس عہدے پر فائز و نائل رہا، کہا جاتا ہے کہ ۳۳ سال حکمرانی کرنے کے بعد ۱۲۳۹ھ / ۱۸۲۳ء میں شاہ سلیم خان کا انتقال ہوا، اور میر غضنفر خان ان کا جانشین ہو گیا۔
۱۴۔ فولاد بیگ
ترنگفہ شمشیر بیگ کے دو بیٹے تھے، فولاد بیگ بڑا تھا، اور رستم
۷۵
بیگ چھوٹا، فولاد بیگ کی اہلیہ گل بی بی مسمی خوشحال (خاندانِ خروٹک) کی بیٹی تھی، کسی نامور شخص کا کوئی کارنامہ اس کے زمانے کی ضرورت کے مطابق ہوا کرتا ہے، چنانچہ فولاد بیگ اور اس کی نیک بخت زوجہ گل بی بی نے شہزادہ ریحان شاہ ابنِ میر غضنفر کی اعزازی پرورش شیرخوارگی ہی سے کی، ایسی باعزت خدمت اس خاندان میں سب سے پہلے ترنگفہ غریب نے انجام دی تھی کہ انہوں نے شاہ سلیم خان کی ایک شہزادی زیب النساء کو دخترِ شیر (دودھ بیٹی) بنا لیا تھا، حجای غریب کی اولاد میں اس کی اور بھی مثالیں ہیں۔
دنیا عالمِ حوادث ہے، چنانچہ شاہ غضنفر خان ۶۶ (چھیاسٹھ) سال کی عمر اور تقریباً چالیس سالہ امارت کے بعد اپنے بیٹے غزان خان کی وجہ سے چیچک کی مہلک بیماری میں مبتلا ہو گئے، اور اسی سے ان کی موت واقع ہوئی، اور اسی وقت یعنی ۱۲۸۰ھ / ۱۸۶۳ء میں غزان خان میرِ ہونزہ مقرر ہو گیا، غزان خان نے اپنے بھائیوں سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے نونہال شاہ اور توکل شاہ کو قتل کروایا، اور ریحان شاہ کو جلا وطن کر کے مہاراجہ کشمیر کے پاس بھیجا، اور اس حال میں پدرِ رضاعی فولاد بیگ بھی ساتھ تھا۔۔
ریحان علی شاہ اپنے والد شاہ غضنفر کے وقت سے چپروٹ کی محافظت کر رہا تھا، کیونکہ چپروٹ پر حملے کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا تھا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: تاریخِ عہدِ عتیق۔۔۔ ہونزہ۔ ص ۲۵۲ ۔۲۵۳) لیکن
۷۶
ریحان شاہ نے اپنے پدرِ رضاعی فولاد بیگ کے ساتھ کسی قصور کے بغیر جلا وطنی قبول کر لی، اور مہا راجۂ کشمیر نے ان کو سرینگر کے ایک مقام بٹ مالوہ میں قطعۂ زمین دیا اور وظیفہ بھی مقرر کیا۔
۱۵۔ محمد رفیع
اگرچہ ترنگفہ فولاد بیگ کے تمام بیٹے جسمانی طاقت میں مانے ہوئے تھے، جیسے کثیر خان، اور خیر اللہ بیگ وغیرہ، تاہم خلیفہ محمد رفیع ہر لحاظ سے ان میں نمایان تھا، اسی لئے ان کو گھر ہی میں قید کیا گیا، اور در و بام پر محافظ مقرر کئے گئے، تا کہ لوگوں کے ساتھ ساز باز نہ کر سکے یا کشمیر کی طرف بھاگ نہ جائے، چونکہ محمد رفیع کی کوئی ایسی نیت ہی نہ تھی، لہٰذا میر غزان خان نے ایک عرصے کے بعد انہیں اپنے پاس طلب کر کے نرمی کا سلوک شروع کیا، اور کہنے لگا کہ آج سے تم میرا بیٹا ہو، پھر اپنے پستان پر خمالی میں کچھ مکھن رکھ کر کھلایا اور کہا کہ تم اس کو شیرِ مادر سمجھنا، نیز کہا کہ اب کچھ مانگو، بتاؤ کیا چاہئے؟ ہمارے دادا نے عرض کیا کہ مجھے کوئی چیز نہیں چاہئے، مگر زمین کا ایک ٹکڑا، پوچھا: ہے کہیں کوئی زمین؟ عرض کی گئی کہ اب عمدہ زمین تو تقسیم ہو چکی ہے، اس لئے وہ کہیں بھی نہیں، ہاں ایک ناکارہ جگہ ہے، جہاں گاہ و بیگاہ پہاڑ سے پتھر گرتے ہیں، اس جگہ کو ہم “گور یارے” کہتے ہیں، پس وہ جگہ میر غزان خان نے
۷۷
خلیفہ محمد رفیع کو بیٹا بنانے کے انعام میں دے دی۔
میر غزان خان کی امارت کو تقریباً ۲۳ (تیئس) سال کا عرصہ ہوا تھا، کہ ان کے خلاف سازش ہوئی، اور ان کے بیٹے صفدر خان نے دارا بیگ اور چند دوسرے لوگوں کی مدد سے ان کو قتل کیا، پھر صفدر خان میر اور دارا بیگ وزیر ہو گئے۔
ماہِ اگست ۱۸۹۱ء میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السلام کے حضورِ عالی سے میر، وزیر اور جماعتِ ہونزہ کے نام پر ایک تاکیدی فرمان آیا، اور اس میں یہ حکم تھا کہ برٹش گورنمنٹ اور اس کے نمائندوں کی ڈاک میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالا جائے۔۔۔ امامِ عالیمقام کے اس پُرحکمت فرمان کے باوجود ڈاک ہونزہ سے گلگت واپس کی گئی، جو برٹش ایجنٹ ڈیورینڈ گلگت سے کونسل جنرل چینی باغ کاشقر جا رہی تھی، اس کے بعد بڑی تیزی سے جنگ کی تیاری ہوئی، اور بالآخر ہونزہ نگر پر برٹش ایجنٹ کا قبضہ ہوا، اسی کے ساتھ نہ صرف صفدر خان اور دارا بیگ بلکہ نگر سے آذر خان (ولی عہد) بھی چین کی طرف بھاگ گئے، ان کے ساتھ تقریباً چار سو آدمی خزانہ اور ہتھیار اٹھائے جارہے تھے، میر صفدر خان کی حکومت پانچ سال کے بعد ختم ہو گئی۔
خلیفہ محمد رفیع کی زوجۂ محترمہ کا نام روزی بای تھا، جو اپنے وقت کے بہادر شخص قلی لسکر کی پوتی اور درس علی کی بیٹی تھی، محمد رفیع کے دو بیٹے
۷۸
ہوئے: حبِ علی اور عافیت شاہ۔
۱۶۔ حبِ علی
“حبِ علی” بڑا پیارا نام ہے، ان کی اہلیہ (ہماری والدہ) کا نام بھی روزی بای تھا، جو حیدر محمد کی بیٹی تھیں، حیدر محمد کا خاندانی تعلق بختہ کڎ سے تھا، حیدر محمد (میرے نانا) کی زوجہ فضہ (میری نانی) سلطان محمد کی بیٹی تھیں، سلطان محمد ھکل کڎ سے تھا، یہ خاندان احمد آباد اور التت میں ہے۔
نوٹ: یہ مختصر تاریخ اپنے خاندان اور عزیز شاگردوں کے لئے لکھی گئی، کیونکہ جو بات از قسمِ معلومات میرے سینے میں ہے، وہ ایک امانت ہے، یہ سچ ہے کہ اس میں کچھ باتیں کتابوں سے بھی ہیں، جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۵ اپریل ۱۹۹۳ء
۷۹
جدید طریقِ انتساب
۱۔ تحفۂ دل پذیر:
ادارۂ عارف برانچ امریکا کے ایڈوائزر اکبر ۔ اے۔ علی بھائی اور ان کی بیگم شمسہ اے۔ علی بھائی کے توسط سے عالمِ اسماعیلیت کے لئے۔
۲۔ دائمی دعا:
ادارۂ عارف برانچ امریکا کی سرگرم ممبر شمسہ (اکبر اے۔ علی بھائی) کے والدِ مرحوم حسام الدین پونجا (Poonja) کی پیاری یاد میں۔
۳۔ سدا بہار گلدستہ:
ادارۂ عارف برانچ امریکا کے چیف ایڈوائزر شمس الدین جمعہ اور ان کی بیگم سیکریٹری کریمہ شمس الدین جمعہ، اور ان دونوں کے نیک بخت عزیزوں کے توسط سے ان تمام حضرات کے لئے، جو اپنے ماحول کو ایسے پھولوں سے معطر بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
۸۰
۴۔ درجِ گوہر:
یہ گویا انمول موتیوں کا صندوقچہ ہے، جو ادارۂ عارف امریکا کی “یاسمین نور علی برانچ” کے توسط سے گوہر شناسوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، نور علی مامجی اور ان کے خاندان کی بے شمار خدمات ہیں۔
۵۔ علمی ہدیہ:
ادارۂ عارف برانچ امریکا کے آڈیو ویجول انچارج عبد المجید پنجوانی، اور ان کے باسعادت خاندان کے توسط سے نورِ علم کے پروانوں کے لئے۔
۶۔ سونے کے سکے:
یہ کتاب گویا اشرفیوں کا ڈھیر ہے، جو ادارۂ عارف امریکا کی “ایم۔ بی۔ برانچ” (بدرالدین نور علی اور خاندان) کے توسط سے قدر دانوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
۷۔ باطنی پاکیزگی:
نور علی مامجی اور یاسمین نور علی مامجی کے دونوں فرزند: نادر علی اور نسرین کتنے پیارے ہیں! زہے نصیب کہ ان عزیزوں نے امریکا میں رہتے ہوئے
۸۱
ایک علمی نہر کی تعمیر میں تعاون کیا، تا کہ اس سے روحانی آبادی اور باطنی پاکیزگی ہو۔
۸۔ علم دوستی:
علم دوستی کا یہ نمونہ اور نشانہ لائقِ تحسین اور ناقابلِ فراموش ہے، جو ادارۂ عارف برانچ امریکا کے رکن نوشاد پنجوانی کی وساطت سے حلقۂ علم و حکمت کو پیش ہوا، آپ بہت ایمانی اور شیرین گفتار ہیں۔
۹۔ کتابی خزانہ:
میرے عزیز دوست فردوس مؤمن ادارۂ عارف برانچ امریکا کے رکنِ رکین ہیں، ان کی نظر میں ہر پُرحکمت کتاب ایک انمول خزانہ ہے، اسی سبب سے آپ علم و حکمت کے عاشقوں کی صفِ اوّل میں ہیں۔
۱۰۔ علمی شہد:
ادارۂ عارف برانچ امریکہ کے لئے میرے پرسنل سیکریٹری حسن (سابق کامڑیا) اور ان کی اہلیہ کریمہ حسن (سابقہ کامڑیانی) علمی شہد کے دلدادہ ہیں، ان کی دلی خواہش ہے کہ ان کا نورِ چشم اور لختِ جگر سلمان بھی ایسا ہو!
۸۲
۱۱۔ باقی رہنے والی نیکیاں:
خانۂ حکمت برانچ اسلام آباد کے صدر نذیر صابر علم کے عظیم قدر دانوں میں سے ہیں، آپ اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، کہ علم و حکمت کی کتاب باقی رہنے والی نیکیوں میں سرِ فہرست ہے۔
(ملاحظہ ہو کتاب: لعل و گوہر، ص ۱۹)
۱۲۔ ایک مثالی خط:
برادرِ بزرگ مہربان شاہ (مرحوم) کے علمی ذوق و شوق کا یہ عالم تھا کہ دن ہو یا رات آپ ہمیشہ دینی کتب کا مطالعہ کرتے رہتے تھے، اور اپنے خیالات کو سپردِ قلم بھی کرتے تھے، ان کے جذبۂ دینداری اور اوصافِ مؤمنی کی کوئی مثال نہیں، وہ عشقِ مولا میں خود کو فنا کر دینا چاہتے تھے، موصوف کے انتقال پر میں نے ان کے فرزندِ ارجمند موکھی سرفراز شاہ اور جملہ خاندان کی خدمت میں “ایک مثالی خط” تحریر کیا ہے، جسے ہم عنقریب کسی کتاب میں شائع کریں گے، ان شاء اللہ۔
۱۳۔ علمی آبِ حیات:
خانۂ حکمت کے تا حیات صدر فتح علی حبیب، ان کی فرشتہ سیرت بیگم
۸۳
ایڈوائزر گل شکر اور نیک بخت خاندان کے توسط سے تشنگانِ علم و حکمت کے لئے ماءُ الحیات، آبِ خضر (آبِ بقا = امرت جل)۔
۱۴۔ آسمانی دسترخوان:
حقیقی علم کا ایک خاص نام سماوی دسترخوان ہے، جس کو امامِ زمان علیہ السلام کے بعض علمی خادموں نے سجایا، اور اس عمل میں شروع سے ساتھ ہیں: خانۂ حکمت کے نائب صدر نصر اللہ قمر الدین اور محترمہ امینہ نصر اللہ، اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ ان کے پیارے بچے اس میں والدین کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔
۱۵۔ جماعت خانے کی قلمی خدمت:
میں مانتا ہوں کہ رشیدہ نور محمد ہونزائی (صمصام) ارضی فرشتوں میں سے ہیں، اسی لئے ان کے مبارک قلب میں القاء ہوا کہ آپ پین پاور (Pen Power) سے پاک جماعت خانہ کی ایک بہت ضروری خدمت انجام دیں، لہٰذا انہوں نے یہ کام کیا، جو آپ کے سامنے ہے۔
۱۶۔ آباء و اجداد کو بھول نہ جائیں:
محترم عزیز پونجا میرے قلبی دوست ، بڑے دانشمند شخص ، اور پین پاور میں
۸۴
منفرد ہیں، آپ بہت سے اوصاف و کمالات کے باوجود درویش دکھائی دیتے ہیں، وہ دنیا بھر کی چیزوں میں سے علم کو بہت بڑی اہمیت دیتے ہیں، اور اسی کی سبب سے زیادہ قدر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے عظیم دادا کاؤنٹ پونجا کے اسمِ گرامی کو کتابوں کی دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا۔
۱۷۔ خدا کا تخت پانی پر تھا اور ہے:
پانی پر عرش یا عرش کے نیچے پانی ہونے (۱۱: ۰۷) کی تاویل یہ ہے کہ گوہرِ عقل جو عرشِ رحمان ہے، وہ سرچشمۂ علم ہے، اس لئے بحرِ علم اس کے تحت ہے، یہ ہوا پانی پر عرش کا ہونا، پس صدر فتح علی حبیب اور ایڈوائزر گل شکر کے فرزندانِ دلبند نزار، رحیم ، اور فاطمہ کتنے نیک بخت ہیں کہ ان کو بچپن ہی سے تاویلی حکمت سکھائی جا رہی ہے، اور وہ بڑے شوق سے سیکھ رہے ہیں۔
۱۸۔ بابرکت گھر:
ایڈوائزر گل شکر فتح علی کی سب سے بنیادی اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ صبح و شام اپنے خاندان کے ساتھ جماعت خانہ جایا کرتی ہیں، واللہ! اس عمل سے گھر میں بے شمار برکتیں آتی رہتی ہیں، جیسے ہم محترمہ
۸۵
گل شکر کے بابرکت گھر میں دیکھ رہے ہیں: ایمان، دینداری، شوقِ عبادت، شب خیزی، مجلسی فیض، عشقِ مولا، گنان خوانی، علم دوستی، ذکر، مناجات، گریہ و زاری، دینی کتابوں کی بھرپور خدمت، علمی ڈاک کی ترسیل وغیرہ۔
۱۹۔ ہمہ رس علمی خدمت:
خانۂ حکمت کے صدر فتح علی حبیب کی تجویز ہے کہ ہم ادارۂ عارف کے صدر محمد عبد العزیز اور ان کی اہلیہ سیکریٹری یاسمین کی قابلِ قدر خدمات پر کوئی سرٹیفکیٹ دیں، اور اسی طرح دوسرے کئی عزیزوں کو بھی، جو علمی خدمت میں پیش پیش ہیں، لیکن میری گزارش یہ ہے کہ سرٹیفکیٹ سے کچھ کام نہیں بنے گا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے ایسے عزیزوں کے بارے میں وقتاً فوقتاً کتابوں میں لکھیں گے، تا کہ ان کے زرین کارناموں کو سب دیکھ سکیں، اور ان سے آئندہ نسل کو درسِ عالی ہمتی ملتا رہے۔
صدر محمد عبد العزیز اور ان کی نیک بخت بیگم سیکریٹری یاسمین زمین پر چلنے والے فرشتوں میں سے ہیں، ان کی گرانقدر خدمات کی فہرست بڑی طویل ہے، یہ انہی کا وسیلہ اور احسان تھا، جس سے مجھے امریکا کی جماعت میں ایسے عزیز و عظیم دوست ملے، جو حقیقی علم کے بڑے قدردان ہیں، اور امید ہے کہ وہ عزیزان وہاں اس علم کی روشنی کو
۸۶
پھیلائیں گے، عزیزانم محمد عبد العزیز اور یاسمین کا ایک اور زرین کارنامہ تقریباً ڈیڑھ ہزار (۱۵۰۰) آڈیو کیسیٹوں کا ریکارڈ ہے، اگر ریکارڈنگ کا یہ انتظام نہ ہوتا، تو کم از کم ایک ہزار گھنٹے کی مفید تقریر ہوا میں بکھر جاتی۔
۲۰۔ کریم آباد برانچ:
ارشادِ نبوّی ہے: “طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمۃ۔” علمِ دین کا سیکھنا فرض ہے ہر مسلمان مرد و زن پر۔ (کتابِ حدیث: ابنِ ماجہ) اس حکم کی تعمیل کے لئے کریم آباد برانچ کے عزیزان دور سے آتے ہیں، ان کو کسی بھی علمی خدمت میں پیچھے رہنا پسند نہیں ہے، ایسا لگتا ہے جیسے نورِ ہدایت نے ان کو علم و عبادت کے لئے منتخب کیا ہو، یہ امامِ زمان علیہ السّلام کے سچے عاشقوں میں سے ہیں، ان کو علم و حکمت کے بھیدوں سے بڑا مزہ آتا ہے، دعا ہے کہ ربّ العزّت ہر مؤمن اور مؤمنہ کو گنجِ معرفت عنایت فرمائے!
۸ دسمبر ۱۹۹۲ء
۲۱۔ کتابی صورت میں بہشتی میوے:
خانۂ حکمت کے نائب صدر نصر اللہ قمر الدین اور ان کی بیگم امینہ ان اوّلین آہنی ستونوں (Iron-pillars) میں سے ہیں، جن پر ہمارا یہ مقدّس
۸۷
ادارہ قائم ہوا، اور اب بہ فضلِ خدا اس کی روز افزون ترقی ہو رہی ہے، لہٰذا یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنے ان محسنوں کی مختصر سی تاریخ رقم کرتے ہوئے ان سے یہ کہیں کہ آئیے! آپ اپنے پیارے پیارے بچوں یعنی امین محمد نصر اللہ، یاسمین نصر اللہ، اور فاطمہ نصر اللہ کے ساتھ کتابی صورت کے ان بہشتی میوؤں کو تقسیم کریں۔
۲۲۔ جناب اکبر راجن اور ان کی نیک بخت فیملی کے نام:
کسی ایک مذہبی کتاب کا حسن و خوبی سے ترجمہ کرنا بہت بڑا کام ہے، اور ایسی بہت سی کتابوں کا ترجمہ کرنا انتہائی عظیم کارنامہ ہے، ترجمہ اگرچہ تصنیف کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے، تاہم یہ افادیت میں اوریجنل (Original) سے ہرگز کم نہیں، اور بعض مثالوں میں اس سے بھی بڑھ کر ہے، پس جو حضرات اعزازی طور پر دینی کتابوں کا ترجمہ کر رہے ہیں، وہ سب کی نظر میں بڑے معزز ہیں، اس لئے کہ وہ دراصل امامِ زمان علیہ السّلام کی علمی خدمت کر رہے ہیں، چنانچہ شکر گزاری اور خوشی کی بات ہے کہ محترم اکبر راجن نے آج تک ۱۹ کتابوں کا گجراتی ترجمہ کر دیا ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۲۴ مارچ ۱۹۹۳ء
۸۸
۲۳۔ کوہِ قاف کا راستہ:
کوئی کہتا ہے کہ کوہِ قاف ہے، اور کوئی کہتا ہے کہ دنیا میں کوہِ قاف کا کوئی وجود ہی نہیں، میں عرض کروں گا کہ کوہِ قاف اپنے بے شمار عجائب و غرائب کے ساتھ ایک ایسے مخفی مقام پر موجود ہے کہ اس کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں، مگر حقیقی علم اور روحانیت، پس کتنی بڑی نیک بختی ہے، ایسے خاص مؤمنین کی، جو ہمیشہ حقیقی علم اور روحانیت کی مقدس خدمت میں لگے ہوئے ہیں، جیسے جناب کیپٹن محمد یار بیگ ابنِ حرمت اللہ بیگ، حیدر آباد (ہونزہ)، جناب احمد حسین ابنِ نیت شاہ، کریم آباد (بلتت)، جناب عبد المجید ابنِ نعمت خان، حسن آباد، اور جناب فرمان علی ابنِ علی حرمت، آغا خان آباد (علی آباد)۔
۲۴۔ علم چشمۂ شیرین:
ان لوگوں کی بہت بڑی ازلی سعادت ہے، جو علم کے چشمۂ شیرین کی لذّت کے دلدادہ ہیں، وہ اس آبِ زلال سے عالمِ شخصی کے ہر ملک و شہر اور ہر باغ و چمن کی آبادی اور شادابی دیکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ علم ہی کے پانی سے ہر چیز زندہ ہو سکتی ہے (۲۱: ۳۰)، پس ایسی سعادت محترمہ کلثوم ناتھانی اور ان کی فیملی کو بہت
۸۹
بہت مبارک ہو! آمین!! ثم آمین!!!
۲۵۔ حقوق کیا کیا ہیں؟
حقوق دو قسم کے ہیں: حقوق اللہ، اور حقوق العباد، جو حقوق بندوں کے ہیں، ان میں ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آباء و اجداد کے لئے دعا کریں، کیونکہ اگر ہم ان کی ذریت ہیں تو وہ ہماری روح کے ذرات تھے (۳۶: ۴۱) پس میں اپنے تمام آباء و اجداد، امہات، اور حجای غریب کے لئے انتہائی عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ پروردگار ان سب کو غریقِ رحمت کر دے! حجای غریب کو خاص طور سے اس لئے یاد کیا گیا کہ اس نے اپنے خاندان کا نام روشن کر دیا ہے، الحمد للہ علیٰ احسانہٖ۔
۲۶۔ عظیم خدمات کا اعتراف:
میں ادارۂ عارف امریکا کی “یاسمین نور علی برانچ” کی زرین خدمات کا معترف رہا ہوں، کیونکہ اس نیک نام برانچ نے حقیقی علم کی روشنی پھیلانے کے سلسلے میں شاندار کارنامے انجام دیئے ہیں، یہ برانچ ہمارے ان چار عزیزوں پر مبنی ہے: نور علی مامجی، یاسمین نور علی، اور ان کے پیارے بچے، نادر علی اور نسرین۔
۶ اپریل ۱۹۹۳ء
۹۰
۲۷۔ ریکارڈ آفیسرز:
اب بفضلِ خدا تین ہیں: عزیزانم روبینہ برولیا، ظہیر لالانی، اور عشرت رومی، ویسے تو ہر ایمانی روح کی تعریف و توصیف پھیلانے کے لئے صفحۂ کائنات بھی کم ہے، لیکن یہاں بات بہت ہی مختصر ہو گی، اور وہ بھی ایسی جو مشترک ہو کہ یہ پاکیزہ روحیں ایمان کی لازوال دولت سے مالامال، ذکر و عبادت اور مناجات کی حلاوتوں سے آگاہ، علم و حکمت کی لذّتوں سے باخبر، اور سب سے عظیم خدمت کی فضیلت سے واقف ہیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔
۲۸۔ مشرق و مغرب کے عزیزان:
خدا گواہ ہے کہ مجھے اپنے جملہ عزیزان کے تذکرے سے بے حد قلبی قوّت و خوشی حاصل ہوتی ہے، پوچھئے کیوں؟ اس لئے کہ مونوریالٹی کے علم نے ہم سب کی روحوں کو بحدِّ قوّت ایک کر دیا ہے، لہٰذا ہم سب کل قیامت میں فعلاً فردِ واحد بن کر زندہ ہو جانے والے ہیں، پھر آپ خود ہی اندازہ کریں کہ اس حال میں مسرتوں اور شادمانیوں کا کیا عالم ہو گا؟ یہی تو بہشتِ برین کی ایک عملی بشارت ہے، پس ایسی وحدت میں ہر شخص کا ظہور ہو گا، اور ہر ظہور میں خداوند تعالیٰ کی تجلّی ہو گی۔
۷ اپریل ۱۹۹۳ء
۹۱
۲۹۔ تلاشِ معرفت:
جی ہاں، روحِ انسانی تلاشِ معرفت کی غرض سے دنیا میں بھیجی گئی ہے، لیکن اس گنجِ گرانمایہ کے راستے میں عجیب و غریب طلسمات سامنے آتے رہتے ہیں، کیونکہ یہ خزانہ انتہائی انمول اور نایاب ہے، اسی لئے آزمائش کا سلسلہ بڑا طویل اور بے حد دشوار ہے، تاہم ہادئ برحق کے دامنِ اقدس سے وابستگی اور علمی خدمت سب سے بڑی سعادت مندی ہے، یہ پُرمغز اور شایانِ شان الفاظ جان نثار سیکریٹری آنسہ زہرا جعفر علی اور ان کے نیک بخت خاندان کے لئے بہت ہی مناسب ہیں۔
۳۰۔ رابعۂ زمان:
ہماری محفلِ ذکر و مناجات کی نظر میں رابعۂ وقت (رابعہ امین محمدی) بے حد عزیز اور قابلِ تعظیم ہیں، اہلِ مجلس کے تصوّر میں ایک فرشتہ بصورتِ انسان، ان کے خاندان کا ہر فرد اوصافِ دینداری سے آراستہ، رابعہ کی خاموش گریہ و زاری کے یہ برستے ہوئے گوہرِ آبدار عشقِ الٰہی کے بحرِ گوہر زا کی بشارت دے رہے ہیں، سبحان اللہ، معجزۂ محویت کی کیا شان ہے! عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ خدا کی خدائی میں شرافت و دینداری کے کیسے کیسے نمونے پائے جاتے ہیں۔
۱۰ جون ۱۹۹۳ء
۹۲
۳۱۔ پہاڑ کی طرح مضبوط:
میرے بہت ہی عزیز دوست کریم امام داد ایمان میں کوہِ ہمالیہ کی طرح مضبوط ، حق کی حمایت میں شیرِ ببر جیسے دلیر، اہلِ بیت کی مقدس محبت میں طفلِ شیر خوار کی طرح اشک ریز، حقیقی علم کی خاطر ماہئ بے آب کی طرح مضطرب، اور دین و دنیا کے اچھے کاموں میں بڑے نیک نام ہیں، ان کے پاکیزہ دل میں امامِ عالی مقام علیہ السلام کے لئے جو خزانۂ عقیدت و محبت ہے، اس پر میں بار بار سلامِ احترام بھیجنا چاہتا ہوں۔
محترم دوست امام داد کریم نے مجھے نہ صرف دورۂ فرانس کی دعوت ہی دی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر گونہ اہتمام بھی کر دیا، جس کی وجہ سے اس مبارک سفر کے نتائج و ثمرات ایسے حکمت آگین اور پُرمایہ تھے کہ میں مسرت و شادمانی کی دولت سے مالامال ہو گیا اور میرے جملہ احباب بھی ازحد مسرور و شادمان ہو گئے، الحمد للہ۔
لنڈن، یکم ستمبر ۱۹۹۳ء
۳۲۔ ایک خاص حسین عالم:
عزیزانِ علمی، محترم جنت علی (حسینی غلام) ان کی فرشتہ جیسی نیک سیرت اہلیہ محترمہ شاہ بی بی، اور معزز افرادِ خاندان کی یہ ایک بہت بڑی سعادت ہے کہ ایک نامور علمی ادارے کی تاریخ میں ان کے حسنِ عمل کا
۹۳
ذکرِ جمیل (ان شاء اللہ) ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہے گا۔
مولائے پاک و مہربان کے فضل و کرم سے اس مشترکہ دنیا میں ہمارے عزیزوں کی پیاری پیاری کتابوں کا ایک انتہائی حسین عالم بھی ہے، اس میں جب اور جہاں “شاہ بی بی برانچ” یا کسی دوسری برانچ، جو فردِ واحد کی کوشش سے قائم ہوئی ہو، یا کسی عظیم کارکن کا نام اور تذکرہ آتا ہے، تو اس مقام پر ہر ذی شعور انسان نہ فقط محوِ حیرت ہو جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے دل میں حقیقی عزت و احترام کا ایک بے مثال جذبہ بھی ابھرتا ہے، الحمد اللہ ربّ العالمین۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی “لسان القوم”
۲۰ اکتوبر ۱۹۹۳ء
۳۳۔ نورِ علم کے پروانے:
ایسے تمام مومنین و مومنات بحقیقت نورِ علم کے پروانے ہیں، جن کو امامِ زمان علیہ السلام کے علم سے شدید عشق ہو، پروانۂ شمعِ ظاہر ایک بار جل کر ختم ہو جاتا ہے، لیکن پروانۂ نورِ علم ہر بار جل کر ایک تازہ اور اعلیٰ روح کو حاصل کرتا رہتا ہے۔
ببین تفاوتِ راہ از کجا ست تا بکجا
مِس یاسمین کریم اور افرادِ خاندان نورِ علم کے ان پروانوں میں سے ہیں، جن کی پاک و گرانمایہ زندگی مولائے زمان کے مقدس عشق میں پگھل جانے سے بنتی ہے، پس ایسے نیک بخت لوگ بڑے مبارک اور
۹۴
کامیاب ہیں، یاسمین کریم قبلاً اکیلی برانچ کا درجہ رکھتی تھیں، اب خدا کے فضل و کرم سے چند قابل ارکان بھی ساتھ ہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے یہ برانچ وینکور، کنیڈا میں ہے۔
۳۴۔ خاموش خدمت:
کنیڈا کے کسی شہر میں ایک بہت خوش نصیب خاندان رہتا ہے، جس کے ایمانی افراد فی الوقت چار ہیں (والدین، بیٹا، اور بہو) ان کی دینی عقیدت اور محبت بڑی عجیب و غریب ہے، ان کے بابرکت گھر میں ذکرِ کثیر کی کرامت ہے، ان کی آنکھیں عشقِ مولا سے پُرنم رہتی ہیں، گفتگو نہایت عاجزانہ ہے، وہ علم و حکمت کے بے حد دلدادہ ہیں، علمی خدمت میں پیش پیش، اخلاقی خوبیوں کے پیکر، نیک کاموں میں عالی ہمت، اور بہت سے اچھے اوصاف کے مالک ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ ہم خاموش خدمت کرتے ہیں، لہٰذا ان کے پیارے ناموں کو یہاں درج نہیں کر سکتے ہیں، خداوند تعالیٰ ان کو دونوں جہان کی سربلندی عنایت فرمائے! آمین!!
۹۵
۳۵۔ جشنِ خدمتِ علمی:
محترمہ ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) جشنِ خدمتِ علمی کے عجیب و غریب اور بے مثال پروگرام سے بے حد خوش اور شادمان ہیں، اور اس میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں، اور اس بارے میں مشرق و مغرب کے تمام عزیزان کو صمیمیتِ قلب سے “مبارک باد” پیش کرتی ہیں، یہاں جو یقینی اور حقیقی علم ہے، اس کو ڈاکٹر صاحبہ حضرت امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ کا زندہ عقلی معجزہ قرار دیتی ہیں۔
خوش خصال ڈاکٹر زرینہ نے ہمارے ادارے کی بڑی مشکل خدمات بھی انجام دی ہیں، یہ سچ ہے کہ دور سے آئے ہوئے بڑے بڑے مہمانوں کے طعام و قیام کا حسنِ انتظام بڑا مشکل کام ہے، لیکن زہے نصیب کہ آپ بڑی خندہ پیشانی سے ایسی ضروری خدمات انجام دیتی ہیں، ڈاکٹر زرینہ کے پاکیزہ دل میں رحم و ہمدردی جیسے بنیادی اوصاف موجود ہیں، آپ کو علم کی باتوں اور مناجات و گریہ و زاری سے قلبی سکون حاصل ہو جاتا ہے۔
میرے بہت ہی عزیز پوتا امین الدین ہونزئی (ابنِ ایثار علی مرحوم) جو اس وقت ایم۔ بی۔ اے کی ڈگری کر رہا ہے، وہ محترمہ ڈاکٹر زرینہ کا پسرِ خواندہ (منہ بولا بیٹا) ہے، اور اسی وجہ سے ڈاکٹر بمع اہلِ خانہ ہماری فیملی کے زمرے میں شامل ہو گئی ہیں، ڈاکٹر صاحبہ کے فرزندِ دلبند جناب
۹۶
غلام مرتضیٰ (ایم۔ ایس۔ سی) ہمارے نامور والنٹیئرز کے کرنل ہیں، واضح رہے کہ دنیا بھر میں جتنے لوگ (خواتین و حضرات) ہمارے حلقۂ شاگردی میں داخل ہیں، وہ سب کے سب مولائے پاک کے بے وردی رضاکار (والنٹیئرز) ہیں۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۹۳ / ۱۱ / ۱۴
۳۶۔ ماہِ محل بدر الدین برانچ:
ماہِ محل بدر الدین کی بہت بڑی ازلی سعادت ہے کہ انہوں نے کریم آباد ریلجس نائٹ سکول جیسی عظیم درسگاہ میں کئی سال تک آنریری ٹیچر کی حیثیت سے بہترین خدمات انجام دیں، درحالے کہ آپ کی پاکیزہ روح حقیقی علم کے زیور سے آراستہ تھی، بعد ازان امریکا میں بقدرِ امکان اپنے عزیز استاد کی علمی نمائندگی کرتی رہیں، اور اب بفضلِ خدا “ایم۔ بی برانچ” کے درجے میں آپ دونوں عملدار کام کر رہے ہیں، یعنی محترم بدر الدین ایڈوائزر اور محترمہ ماہِ محل سیکریٹری ہیں، مجھے کامل یقین ہے کہ ان عزیزوں کی جملہ زرین خدمات دراصل امامِ عالی مقام علیہ السّلام ہی کے لئے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ان کی نورِ چشم بیٹی ملکۂ سبا بھی اپنے وقت میں عظیم و نامور اسماعیلیوں کی طرح حضرت امامِ اقدس علیہ السّلام کی خدمت کرے گی، آمین!
۹۷
۳۷۔ صبغۃ اللّٰہ:
پروردگارِ عالم نے اپنی رحمتِ بے پایان سے تمام مومنین و مومنات کے لئے یہ بہت بڑی فضیلت ممکن بنا دی ہے کہ وہ علم، عبادت، اور عشقِ مولا کے وسیلے سے صبغۃ اللّٰہ (رنگِ خدا = نورِ خدا،۰۲: ۱۳۸) میں رنگین ہو جائیں، الحمد للہ، ہمارے تمام ساتھی ایسے ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر ہمارے بہت ہی عزیز دوست شمس الدین جمعہ صدر ادارۂ عارف امریکا، اور ان کی فرشتہ خصلت بیگم محترمہ کریمہ سیکریٹری کو دیکھئے کہ کس طرح ذکر و عبادت اور علم و حکمت کی لذّتوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، اور کس شان سے امامِ زمان علیہ السّلام کے پاک عشق کے نور کی شعاعوں سے مستفیض و مستنیر ہو جاتے ہیں، آپ دونوں عزیز صفِ اوّل کے علمی خادموں میں سے ہیں، اللہ کا شکر ہے۔
۹۳ / ۱۲ / ۲۵
۳۸۔ فردوس کے معنی:
فردوس مومن میرے ایک بہت عزیز علمی دوست کا پیارا نام ہے، آپ ادارۂ امریکا کے ایک سرگرم رکن بھی ہیں، جن کا پہلا انتساب بطرزِ جدید کتاب “علمی خزانہ” میں درج ہے، یہاں ان کے خوبصورت نام کا
۹۸
مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ “فردوس” جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، قاموس القرآن ص ۳۹۶ پر ہے کہ فردوس رومی زبان میں باغ کو کہتے ہیں، حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کیا کرو تو فردوس کا سوال کیا کرو، کیونکہ وہ جنت کا اعلیٰ اور درمیانی حصہ ہے، اور وہیں سے جنت کی نہروں کے سوتے پھوٹتے ہیں، یعنی بہشتِ کل اپنے تمام درجات کے ساتھ ایک انتہائی عظیم نصف دائرہ کی شکل میں ہے، اور فردوس اس کے درمیان بلندی پر ہے، جیسے نقشۂ درجِ ذیل سے ظاہر ہے:
فردوس
۳۹۔ مولا کس کو چاہتے ہیں؟
مولائے پاک اگرچہ سب کو چاہتے ہیں، لیکن دینی خدمت کے لئے جوانوں کو زیادہ پسند فرماتے ہیں، ایک ایسا عالی ہمت جوان، جن سے علمی خدمت کی بھرپور توقع کی جا سکتی ہے، عزیزم غلام مصطفی قاسم علی
۹۹
(مومن) ہیں، جن کا مختصر تعارف قبلاً ہو چکا ہے، ان سے نیک بختی اور علم دوستی کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں، باقاعدہ ملاقات سے پیشتر میں نے ان کی تعریف سنی تھی، سچ مچ وہ ایک ارضی فرشتہ ہیں، آپ سب اس پُرخلوص دعا میں شامل ہو جائیں کہ: خداوند تعالیٰ ان کے اور ان کے عزیزوں کے قلوب کو نورِ علم کی ضیاء پاشی سے منور کر دے! آمین یا ربّ العالمین!!
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۲۷ رجب المرجب ۱۴۱۴ھ / ۱۰ جنوری ۱۹۹۴ء
۴۰۔ نورِ امامت و چراغِ ہدایت کے پروانے:
میرے بہت ہی عزیز دوست، ادارۂ عارف امریکا کے چیف ایڈوائزر اکبر اے، علی بھائی، اور ان کی نیک سیرت رفیقۂ حیات محترمہ شمسہ ریکارڈ آفیسر نورِ امامت و چراغِ ہدایت کے پروانوں میں سے ہیں، آپ دونوں ارضی فرشتوں کو علم و حکمت سے نہ صرف ذاتی طور پر عشق ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ بڑی شدت سے یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ نعمتِ عظمیٰ پیاری جماعت میں عام ہو جائے، چنانچہ وہ اس سلسلے کے نیک عمل میں ہر وقت بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِ علی) ہونزائی
کراچی
۹۴ / ۲ / ۲۱
۱۰۰
تاریخی کلمات
(۱)
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ انے جا قلمر قو ایتی کے ایس یٹسے گݼرچی + ایر بیشکی متھن گن بلݳ کلی ایس بیسے ورچی۔ ترجمہ: اگر وہ (محبوبِ حقیقی) میرے قلم کو (خدمت کے لئے) بلائے تو وہ (قلم) اپنے سر کے بل چلے گا، اس کے لئے جتنا بھی دور و دراز راستہ ہو، وہ کیونکر تھکے گا۔
مظہرِ نورِ خدا، آئینۂ حق نما، آلِ پاکِ مصطفی، وارثِ مرتضیٰ، صاحبِ جود و سخا، امامِ اتقیا کے نورِ محبت کی روشنی میں آج بوقتِ شبِ شبینہ ۱۸ ستمبر ۱۹۹۳ء سے ایک بے حد پسندیدہ منصوبہ ذہن و خاطر میں آیا، وہ یہ کہ ان شاء اللہ العزیز، ہم عنوانِ بالا کے تحت وقتاً فوقتاً اپنے ان عزیز ساتھیوں کے بارے میں چند حوصلہ افزاء کلمات لکھا کریں گے، جو ہماری کتابوں کی علمی خدمت کے سلسلے میں اہم امور انجام دیتے ہوں، ہم بہت پہلے سے یہ کام کرتے آئے ہیں کہ کسی خط میں یا کسی کتاب کے دیباچے میں خدمات کا تذکرہ ہوتا تھا، یقیناًوہ بھی تاریخ کا حصہ تو ہے، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا مضمون الگ ہو۔
۱۰۱
شمس الدین جمعہ:
آپ اس وقت ادارۂ عارف امریکا کے صدر ہیں، قبلاً چیف ایڈوائزر کے عہدے پر فائز تھے، صفِ اوّل کے مومن، علم دوست، ہوشمند، اور نکتہ شناس ہیں، دینی علم و حکمت سے بے حد دلچسپی رکھتے ہیں، اس لئے علمی گفتگو سے بہت شادمان ہو جاتے ہیں، ان کی زوجۂ محترمہ کریمہ سیکریٹری بھی ایک علمی فرشتہ ہیں، لہٰذا یہ دونوں فرشتے مخصوص اوقات میں اعلیٰ علم اور عاشقانہ عبادت میں مصروف ہو جاتے ہیں، محترمہ کریمہ شادی سے پہلے کراچی میں ایک عرصے تک مذہبی تعلیم حاصل کر رہی تھیں، یہاں کے عزیزان شمس اور کریمہ کو بہت یاد کر رہے ہیں۔
یاسمین نور علی برانچ:
خدا کے فضل و کرم سے یہ برانچ پھلنے پھولنے لگی ہے، اب اس کی علمی محفل میں کافی حاضری ہوتی ہے، ہمارے جانی دوست نور علی مامجی ایک مثالی مومن ہیں، جن کے دل کی صفائی کا تصوّر میرے نزدیک ایسا ہے، جیسے کوئی تازہ گلاب بارش کے پانی سے دھل کر پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے، یہی مثال محترمہ یاسمین نور علی اور ان کے دونوں نوجوان
۱۰۲
فرزند نادر علی اور نسرین کے لئے بھی بہت مناسب ہے، کیونکہ یہ چاروں عزیزان نورِ ایمان کے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، یاسمین ریکارڈ آفیسر کے عہدے سے سرفراز ہوئی ہیں، میرے خیال میں جو علمی ادارہ قرآن، اسلام، جماعت، اور انسانیّت کے لئے کام کر رہا ہو، اس کی قیامت کے دن بہت بڑی عزت ہو سکتی ہے، اور ایسے ادارے کی عملداری اور رکنیت میں بہت بڑی سعادت ہو سکتی ہے، نوجوان نادر علی ایڈوائزر مقرر ہوئے ہیں۔
بدر الدین اور ماہِ محل:
میں نے قبلاً بدر الدین کی تعریف سنی تھی، ملاقات سے معلوم ہوا کہ وہ اس سے بڑھ کر ہیں، ان کی جملہ عادات نیک ہیں، وہ اس دفعہ ایڈوائزر ہو گئے، اور ان کی بیگم محترمہ ماہِ محل کو سیکریٹری کا عہدہ دیا گیا، آپ اپنی بے شمار خدمات کی وجہ سے “ایم۔ بی برانچ” بھی ہیں، ہم کسی ایک فرد کو برانچ کا درجہ نہیں دے سکتے، مگر اس وقت، جبکہ وہ کثیر تعداد کے برابر کام کرتا ہو، اب اس برانچ میں برکت پیدا ہو گئی، اور دونوں عزیزوں کے ساتھ ان کی بہت ہی پیاری بچی ملکۂ سبا بھی ہے۔
۱۰۳
کامڑیا حسن:
کامڑیا حسن جو قبلاً پرسنل سیکریٹری تھے، اب نائب صدر کے عہدے پر فائز ہو گئے ہیں، اور ان کی نیک خصلت زوجہ کریمہ پرسنل سیکریٹری کا درجہ رکھتی ہیں، پیارا شیر خوار سلمان اس وقت امریکا میں سب سے جونیئر ممبر ہے، ہمارے یہاں جو بھی آیا ہوتا ہے، وہ بہت سی خوبیوں کا مالک ہوا کرتا ہے، یہ خداوندِ قدوس کی بہت بڑی رحمت ہے کہ اپنے کچھ بندوں کے دل میں نورِ علم کا عشق پیدا کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی روحیں پاک و پاکیزہ ہو جاتی ہیں۔
اکبر اے۔ علی بھائی:
آپ حقیقی علم کے بڑے قدردانوں میں سے ہیں، اسی وجہ سے اس سال (۱۹۹۳ء میں ) چیف ایڈوائزر کے منصب پر فائز ہو گئے، ہوشمند اور مولا کے سچے عاشق ہیں، آپ کی فرشتہ جیسی اہلیہ شمسہ ریکارڈ آفیسر ہیں، یہ دونوں عزیزان عالی ہمت ہیں، انہوں نے گذشتہ سال بھی اور امسال بھی خلوص و محبت کا بڑا انوکھا نمونہ پیش کیا، جو مشرق و مغرب کے تمام دوستوں کی طرف سے تھا، اس میں امریکا فروٹ مارکیٹ سے ۲۱ قسم کے پھل تھے، گذشتہ سال اکیس کے عدد کا کچھ علم نہ ہو سکا، مگر اس سال
۱۰۴
انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس بھید کو ظاہر کیا کہ جب کسی ملک کے سربراہ کے لئے ۲۱ توپوں کی سلامی دی جاتی ہے تو علم کے سربراہ جو درویش ہیں، ان کے لئے ۲۱ پھلوں کا تحفہ کیوں نہ ہو۔
۱۰۵
تاریخی کلمات
(۲)
یہ اس سلسلے کی دوسری قسط ہے، جس میں ہمارے ان معزز عملداروں کی گرانقدر خدمات کا تذکرہ ہو رہا ہے، جو مغرب کے مختلف ممالک میں رہتے ہوئے روحانی علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں، خداوندِ عالمین کی یہ کتنی بڑی رحمت ہے کہ ہمارے تمام عزیزان پر مونوریالٹی کا راز کھل گیا ہے، وہ اب اس حقیقت پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ عالمِ وحدت میں جانوں کی جان ایک ہی ہے، ہر چند کہ عالمِ کثرت میں کثیر اشخاص اور کثیر جانیں ہیں، جس کی مثال عالمِ شخصی ہے کہ اس میں سب کی ارواح موجود ہیں، مگر وہ خود ایک ہی روح ہے۔
نور الدین راجپاری:
آپ میرے قلبی دوست اور بہت ہی عزیز شاگرد ہیں، انہوں نے تقریباً دس سال تک ادارۂ عارف امریکا کے اوّلین صدر کی حیثیت سے گرانمایہ خدمات انجام دی ہیں، اور اب اس سے بڑھ کر ریسرچ انچارج آفیسر مقرر ہوئے ہیں، نور الدین صاحب حقیقی علم کے خاص قدردانوں
۱۰۶
میں سے ہیں، آپ کو خداوندِ قدوس نے نیک عادتوں کی دولت سے سرفراز فرمایا ہے، گفتگو، آواز، اور گریہ و زاری سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا باطن کتنا پاک ہے۔
نور الدین راجپاری میں بہت سی اعلیٰ صلاحیتیں موجود ہیں، ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ امامِ زمانؑ کے سچے عاشقوں میں سے ہیں، اسی وجہ سے آپ ہمیشہ علمِ امام علیہ السّلام کے شیدائی ہیں، امریکا جیسے عظیم اور انتہائی ترقی یافتہ ملک میں کسی مومن کے لئے علم و عبادت کے دریا میں مستغرق رہنا بڑا مشکل کام ہے، پھر بھی ہم نے وہاں اور مغرب کے بعض دوسرے ممالک میں کچھ مومنین و مومنات کو دیکھا کہ ان کی زیادہ سے زیادہ توجہ دین و ایمان کی طرف ہے۔
نوٹ: نور الدین راجپاری صاحب کے فیکس کا شکریہ! تمام دوستوں کے لئے دعا اور سلام قبول ہو! سب کو یاد کرتا ہوں۔
فقط دعاگو
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸ اکتوبر ۱۹۹۳ء
۱۰۷
تاریخی کلمات (۳)
دیندار ڈاکٹرز
خداوندِ بزرگ و برتر کی رحمت و مہربانی سے قرآنی علاج، علمی علاج، اور روحانی علاج کی کتابوں میں بطریقِ احسن یہ ذکر کیا گیا ہے کہ قرآنِ حکیم ہر زمانہ اور ہر درجہ کے لوگوں کے لئے ہدایت نامۂ سماوی ہے، جس میں جابجا ایسے عالی قدر نسخہ ہائے لاہوتی موجود ہیں کہ ان پر پوری طرح عمل کرنے سے ظاہری اور باطنی ہر گونہ بیماریوں سے شفائے کلی حاصل ہو جاتی ہے، مثلاً قرآنِ پاک میں آسمانی طبیب نے اکثر آیاتِ مقدسہ میں جس پُرحکمت تقویٰ کا حکم دیا ہے، وہ پانچ قسم کا ہے، یعنی جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلانی پرہیز، چنانچہ جو فردِ مومن منشائے قرآن کے عین مطابق پرہیزگار بن جائے، وہ ہر بیماری سے محفوظ اور سلامت رہے گا۔
تاہم ذاتِ سبحان کو اس بات کا علم تھا کہ بہت سے لوگ آسمانی طب اور روحانی علاج سے کلی فائدہ نہ اٹھا سکیں گے، لہٰذا اس کریمِ کارساز نے زمین پر بھی علاج و معالجہ کے ہرگونہ وسائل مہیا کر دیئے، اور
۱۰۸
اپنی عنایتِ خاص سے دیندار اور پرہیزگار ڈاکٹرز بنا دیئے، تا کہ وہ خوش نصیب حضرات اکثر و بیشتر اپنے ربّ کو یاد کرتے کرتے گڑگڑائیں، اور آنسو بہائیں، تا کہ خداوندِ عالم جو مسبب الاسباب ہے، وہ اپنے لطفِ عمیم سے ایسے خدا ترس اور متقی ڈاکٹروں کے ہاتھ میں آسمانی اور روحانی شفا رکھے، اور ایسی عظیم نعمت کے لئے مومنین و مومنات جان و دل سے شاکر رہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے عزیزوں میں بڑے دیندار اور پرہیزگار ڈاکٹرز کا ایک قابلِ احترام گروپ ہے، اور یہی ہمارا “بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزرز اینڈ پیٹرنز” ہے، جس کے اسمائے گرامی یہ ہیں: چیف آنریری سیکریٹری آف خانۂ حکمت، جناب ڈاکٹر رفیق جنت علی، ان کی بیگم محترمہ شاہِ سلطانہ، جو کریم آباد برانچ کی چیئرپرسن بھی ہیں، محترمہ ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) اور محترمہ ڈاکٹر نیلوفر بابر خان، ان چار انتہائی قابل ڈاکٹروں کے علاوہ دو ایسی دیندار و جان نثار اور لائق ہیڈ نرسز بھی ہیں، جو ہر وقت طبی مدد کے لئے تیار رہتی ہیں، وہ محترمہ عشرت رومی اور محترمہ روبینہ برولیا ہیں، اور آپ دونوں ریکارڈ آفیسرز بھی ہیں۔
نصیر ہونزائی
جمعہ ۵ جمادی الاول ۱۴۱۴ھ
۲۲ اکتوبر ۱۹۹۳ء
۱۰۹
تاریخی کلمات (۴)
برانچز
اگر آپ کسی چیز یا کسی شعبے کو برانچ کا نام دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس میں لازماً درخت کی تشبیہہ و تمثیل موجود ہے، ہاں اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہر درخت اپنی شاخوں کا مجموعہ ہوا کرتا ہے، تاہم سب جانتے ہیں کہ خوبصورت پھول اور رس بھرا ہوا پھل برانچ (شاخ) ہی سے حاصل ہو جاتا ہے، برانچ ہی ہے جو ہمیشہ سایہ فگن ہوتی ہے، اور برانچز موسمِ گل میں گل افشانی بھی کرتی رہتی ہیں، جس سے فضا معطر ہو جاتی ہے۔
مجھے اپنے بچپن کا وہ حسین زمانہ خوب یاد ہے جبکہ میرے قبلہ گاہ کے باغ میں بہت سے ثمردار درخت تھے، ان میں موسمِ بہار کے آنے پر بہار اندر بہار کا عالم ہوا کرتا تھا، یعنی اوّل غنچوں کا دلکش نظارہ، پھر کچھ دن پھولوں کی رعنائی اور خوشبو کا مسحور کن ماحول، اور اس کے بعد بتدریج لطیف و نازک پنکھڑیوں کے گرتے رہنے کا سماں، میں یہ ساری پُررونق بہاریں بڑے شوق سے دیکھتا تھا، مجھے یہ تمام دلفریب مناظر بہت عجیب و غریب لگتے تھے کہ اونچے اونچے درخت پہلے تو پھول
۱۱۰
نچھاور کر دیتے ہیں، اور پھر کچھ آگے چل کر میوہ ہائے شیرین دینے لگتے ہیں۔
اس زمانے میں صغیر سنی کی وجہ سے میں کچھ نہیں جانتا تھا، لیکن وقت آنے پر معلوم ہوا کہ کوئی چیز اشارۂ رحمت و علم کے بغیر موجود نہیں ہوئی، پھر باغ و چمن کی زبردست جاذبیت و دل آویزی کس طرح مغزِ حکمت کے بغیر ہو سکتی ہے، اس میں تو یہ دعوت ہے کہ تم سب خدا سے توفیق و ہمت طلب کرتے ہوئے بہارِ روحانیّت کی طرف آگے بڑھو، نورانی عبادت کے وقت غافلوں اور جاہلوں کی طرح سوئے رہنا حرام ہے، خدا کی قسم! ابتدائی روحانیت ہی میں عجیب و غریب قسم کے باغ و گلشن کا ظہور ہوتا رہتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو بہشت کا نام جنت و روضہ (باغ و گلشن) نہ ہوتا، مگر یہ بات خوب یاد رکھنا کہ جس طرح دنیا کے پھول دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، ایک پھول وہ ہے جو صرف زینت و خوبصورتی کے لئے ہوتا ہے، اور اس سے کوئی خاص میوہ پیدا نہیں ہوتا، اور دوسرا پھول وہ ہے جو پھول بھی ہے اور اس سے پھل بھی بنتا ہے، اس میں بڑا زبردست حکیمانہ اشارہ ہے۔
حکمت:
جو لوگ حقیقی علم نہ ہونے کی وجہ سے صرف ابتدائی روشنی ہی میں محدود رہتے ہیں، وہ گلشنِ بے ثمر میں ٹھہرے ہوئے خوش ہیں، اور جو
۱۱۱
نیک بخت لوگ ہادئ زمان علیہ السلام کی رہنمائی میں اس روشنی کے بعد نورِ عقل کو چاہتے ہیں، وہ روحانیت اور بہشت کے ہر گونہ پھولوں اور پھلوں سے مستفید ہو جائیں گے۔
اسلام کی روح و روحانیت بہشت ہے، اور بہشت میں کوئی نعمت ناممکن نہیں، چنانچہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ ہر مرید کا وکیل، ہر عاشق کی روحانیت اور ہر عارف کی نورانیت و عقلانیت ہے، پس یہی وجہ ہے کہ یہاں ہم سب کو پھولوں کے بعد میوہ ہائے علم و حکمت حاصل ہو رہے ہیں، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔
خانہٌ حکمت گلگت ریجنل برانچ:
اس کے تحت یہ برانچز ہیں: مسگار برانچ، التت ۔ کریم آباد برانچ، حیدر آباد ۔ علی آباد برانچ، مرتضیٰ آباد برانچ، اوشی کھنداس برانچ، نومل برانچ، حقیقتِ حال یہ ہے کہ شمالی علاقہ جات کے عزیزان جہاں بھی ہوں، اپنے استاد سے وابستگی اور حمایت میں بہت سینئر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بندۂ حقیر کی مختلف خدمات کا آغاز وہیں سے ہوا، اور خدا کے فضل و کرم سے اب بھی جاری ہیں، ان کا تفصیلی ذکر اس بیان سے الگ ہونا چاہئے۔
میں نے بروقت ہی یہ ذکر کیا ہے کہ “خانۂ حکمت برانچ اسلام آباد”
۱۱۲
کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور ہم نے وہاں کی صدارت کے لئے جس ہستی کا انتخاب کیا ہے، وہ عظیم ہے، ہمیں امید ہے کہ وہاں ترقی ہو گی، کیونکہ صدر نذیر صابر نیک بخت بھی ہیں اور دانشمند بھی۔
کراچی میں شاہ بی بی برانچ ہے، جس کی رفتہ رفتہ مضبوطی اور ترقی ہو رہی ہے، کریم آباد برانچ کو بہت ہی قابل افراد نے بنایا ہے، میں اس مقام پر ہر برانچ کو پرخلوص مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے تاریخی کارناموں کو درج کرے، تا کہ خانۂ حکمت اورا دارۂ عارف کی عظیم الشان تاریخ مرتب ہو سکے، کیونکہ یہ عجیب و غریب اور طوفانی کام (کارنامۂ علمی) جو ہوا ہے، اور ہو رہا ہے، وہ کس طرح معمولی کاموں میں شمار ہو سکتا ہے، ایسی تاریخ سے ذاتی شہرت مراد نہیں، بلکہ آئندہ اچھے کاموں کے لئے مثال قائم کرنا مقصود ہے۔
یہ بات بہت سی خوبیوں کے معنی میں بڑی عجیب و غریب ہے کہ قبلاً خانۂ حکمت مشرق میں بنا اور بعداً ادارۂ عارف مغرب میں، اور دونوں کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے، یہ دونوں ادارے الگ الگ بھی ہیں، اور ایک بھی ہیں، اس لئے صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز مل کر کام کر رہے ہیں، بے حد خوشی کی بات ہے کہ دونوں اداروں کے عملداران اور ممبران شرق و غرب میں بے شمار گرانقدر خدمات انجام دے رہے ہیں، جن کا احاطۂ تحریر بہت مشکل ہے، پس
۱۱۳
میری انتہائی عاجزانہ دعا یہ ہے کہ پروردگارِ دو جہان تمام عزیزوں کو اس تعداد سے ہزار گنا زیادہ نیکیاں عطا فرمائے! جس تعداد میں اوریجنل کتابوں، ترجموں، کیسیٹوں، اور زبانی علمی باتوں کے الفاظ میں مجموعی حروف ہیں، آمین!
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۷ نومبر ۱۹۹۳ء
۱۱۴
علامہ نصیر سے چند سوالات
بہ اہتمام ریکارڈ آفیسرز: عشرت رومی اور روبینہ برولیا
۱۔ استادِ محترم و مکرم! ہمیں یقین ہے کہ آپ کی تمام زندگی جہدِ مسلسل کا نمونہ بھی ہے، اور انسانیت و دینداری کی مثال بھی، لہٰذا براہِ کرم ہمیں یہ بتائیں کہ ابتدائی تعلیم کے ایام میں آپ کو علم سے کس نوعیت یا کس درجے کی دلچسپی تھی؟ اور کیسے کیسے خیالات و جذبات کا تجربہ ہوتا رہتا تھا؟
جواب: ہر چند کہ اس وقت ہمارے علاقے میں حصولِ علم کے ذرائع اور وسائل مفقود یا انتہائی محدود تھے، لیکن خدائے بزرگ و برتر کی قدرتِ کاملہ ہمیشہ عجیب طرح سے کام کرتی ہے، ہوا یہ کہ میں شروع ہی سے بتوفیقِ الٰہی علم کا دلدادہ تھا، رفتہ رفتہ میں تعلیم کا ایسا عاشق ہو گیا جیسے مجنون لیلیٰ کا، کیونکہ علم سے عامیانہ دلچسپی اور معمولی محبت کافی نہیں ہو سکتی، سو میں بفضلِ خدا دیوانہ وار علم کا عاشق تھا، اسی نکتے میں ذرا غور کرکے دل کی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا ایسے میں حصولِ علم کے لئے شدید بے قراری اور طوفانی چاہت نہیں ہو گی؟ کیا ایسا شخص
۱۱۵
علم کی بھوک اور پیاس کو شدت سے محسوس نہیں کرے گا؟ لازمی ہے، اس کی روح ربِ کریم کے حضور میں بڑی عاجزی سے روتی ہو گی، کیونکہ عقل اور روح کے لئے جو چیز بے حد ضروری ہے، وہ اب تک حاصل نہیں ہوئی۔
۲۔ علامہ صاحب! آپ یہ بتائیں کہ آپ کی ابتدائی تعلیم اور دینی تربیت کے سلسلے میں آپ کے خاندان کا کردار کس حد تک مفید رہا؟ اور اس میں قابلِ ذکر افراد کون کون ہیں؟
جواب: یہ بھی اس کے عظیم احسانات میں سے ہے کہ پروردگار نے مجھے ایک ایسا خاندان عطا کر دیا جو انسانیت و دینداری کی خوبیوں سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ دینی خادموں میں سے بھی تھا، اس سے قبل میں نے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کر دیا ہے، اس لئے یہاں صرف اتنا کہنا کافی ہو گا کہ مجھے عقیدۂ راسخ کی لازوال دولت اپنے والدین سے حاصل ہوئی ہے۔
۳۔ آپ کی علمی خدمت کے بارے میں ایک سوال ہے کہ آپ نے اس خدمت کا آغاز نثر سے کیا یا نظم سے؟ نیز آپ یہ بتائیں کہ نظم و نثر میں سے آپ کس کو اوّلیت یا ترجیح دیتے ہیں؟
جواب: یہ کسی طے شدہ پروگرام کی بات نہیں، بلکہ اتفاق کی بات ہے کہ مجھے نثر میں کچھ لکھنے سے بہت پہلے شعر کہنے کی ہمت عطا ہوئی، اور میں
۱۱۶
بروشسکی میں مذہبی شاعری کرتا رہا، جس سے بے شمار دعائیں اور لاتعداد برکتیں حاصل ہوتی رہیں، اور اسی کے میٹھے میٹھے ثمرات میں سے ایک ثمرہ یہ بھی ہے کہ میں نثر نگاری کے میدان میں بھی داخل ہو گیا، حالانکہ میں اردو ادب میں مفلس تھا، لیکن میرے حق میں یہ ایک عقلی معجزہ ہوا، اگر ہدایت کی روشنی اور معرفت کی چاشنی حاصل ہے تو نظم و نثر دونوں کا درجہ عالی ہو سکتا ہے، تاہم نظم میں بہشت کی سی مستی اور آزادی ہے، جبکہ نثر نگاری میں سنجیدگی کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔
۴۔ ہم آپ سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ آیا مذہبی علم سے آپ کا یہ زبردست لگاؤ بچپن سے تھا، یا یہ شوق جوانی میں پیدا ہوا، یا اس کا جذبہ ورثے میں ملا تھا؟
جواب: اگرچہ اس کا جواب قبلاً آ چکا ہے، تاہم عرض یہ ہے کہ ہر بڑی اور کامل چیز بہت سے پہلوؤں کا حامل ہوا کرتی ہے، چنانچہ علم کا عشق ایک ایسے ڈائمنڈ کی طرح ہے، جس کے بہت سے رخ ہوں، پس یہ حقیقت ہے کہ مجھے علم کا شوق ورثے میں ملا، اسی لئے میں بچپن ہی سے علم کا دلدادہ ہوا، اور پھر جوانی میں اس شوق کو کمال حاصل ہوا۔
۵۔ یہ بھی ایک بنیادی سوال ہے کہ آیا آپ کا کوئی باقاعدہ معلم یا استاد تھا، جیسا کہ ہونا چاہئے؟ کیا آپ کسی کے منظوم کلام سے بہت متاثر ہیں؟
۱۱۷
جواب: ظاہری، دنیوی، اور جزوی تعلیم کا سوال نہیں، اور نہ ہی وقتی طور پر کسی کتاب سے اثر لینے کی بات ہے، قصہ دراصل درسِ حکمت اور اسرارِ معرفت کا ہے، لہٰذا میں حق کو چھپا نہیں سکتا، کہ میں حکیم پیر ناصر خسرو کی کتابوں سے زبردست متاثر ہوں، اور وہی حضرت میرے استاد ہیں، تاہم ایک نورانی استادِ کل بھی ہیں، جو پیر سے بھی بزرگ و بالا ہیں۔
۶۔ آپ نے کتنے سال کی عمر میں اپنی اوّلین کتاب تصنیف کی؟ کیا وہ کتاب نظم پر مبنی تھی یا نثر پر؟ کیا آپ اس کا سن بتا سکتے ہیں؟
جواب: مشقی شاعری کچھ پہلے ہی سے ہو رہی تھی، تاہم باقاعدہ نظم ۱۹۴۰ء میں منظرِ عام پر آگئی، میں اس وقت گلگت سکوٹس میں تھا، اور تقریباً ۲۳ سال کا جوان ، یہ وہی سال ہے جس میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے شمالی علاقہ جات کے بارے میں ایک خصوصی فرمان فرمایا تھا، نثر کی اوّلین کتاب بعنوانِ “سلسلۂ نورِ امامت” ۱۹۵۷ء میں چھپ گئی، اسی سال حضرتِ امامِ زمان علیہ السّلام مسندِ امامت پر جلوہ افروز ہوئے تھے، اور میری بروشسکی نظموں کا مجموعہ “نغمۂ اسرافیل” کے ٹائٹل سے ۱۹۶۱ء میں شائع ہوا۔
۷۔ علامہ صاحب! بمہربانی آپ یہ بھی بتائیں کہ آپ کی پیاری پیاری کتابیں جو علم و حکمت کی غیر فانی دولت سے مالامال ہیں، وہ کن کن اداروں نے چھپوائی ہیں؟ اور وہ پہلی کتاب کون سی ہے جو کسی
۱۱۸
دوسرے ادارے سے شائع ہوئی؟
جواب: خداوندِ قدوس کی عنایات سے ہمارے تین ادارے ہیں: خانۂ حکمت، عارف، اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی (Academy) یہ تینوں ادارے باہم مل کر علم و ادب کو پھیلانے کی خدمات انجام دے رہے ہیں، اور ہمیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نامدار طریقہ بورڈ وقتاً فوقتاً ہماری کوئی کتاب شائع کرتا ہے، اور ان کی یہ مہربانی میری اردو نظموں کا مجموعہ “جواہرِ حقائق” سے شروع ہوئی، اور خدا کے فضل و کرم سے یہ سلسلہ جاری ہے، مزید برآن یہ بات بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ نامدار لوکل کونسل گلگت نے ازراہِ کرم میری ایک کتاب (فصولِ پاک) کو شائع کیا۔
۸۔ آپ نے اب تک کل کتنی کتابیں لکھی ہیں؟ (نظم اور نثر دونوں میں)؟
جواب: اوریجنل کتب اور تراجم کی فہرست شائع ہو چکی ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ آپ تمام عزیزان اپنے استاد کے اس چھوٹے سے علمی کام کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حالانکہ میں اپنے پیر استاد کے علمی کارناموں سے نہ صرف حیرت زدہ ہوں، بلکہ مجھے اس بات کا احساسِ خجالت بھی ہے کہ ہم نے اپنے عظیم المرتبت استاد کی کوئی علمی خدمت نہیں کی۔
۱۱۹
۹۔ آپ کی زرین نگارشات خالصاً قرآنی اور دینی علوم پر مشتمل ہوا کرتے ہیں، لیکن پوچھنا یہ ہے کہ ان کا خاص موضوع یا موضوعات کیا ہیں؟
جواب: جی ہاں، میرا اصل اور اساسی موضوع قرآنِ حکیم اور نورِ امامت ہے، پھر ایک شجرِ پُرمیوہ کی بڑی اور چھوٹی شاخوں کی طرح بہت سے موضوعات ہو گئے ہیں، بڑے بڑے موضوعات کی فہرست ہر کتاب کے آغاز میں درج ہے، پھر بھی ایک ایسی مجموعی فہرست تیار کرنے کی ضرورت ہے، جس کو دیکھ کر ہر قاری کو یہ اندازہ ہو سکے کہ ان کتابوں میں اکثر کن حقائق و معارف سے بحث کی گئی ہے، مجھے امید ہے کہ میرے عزیزان یہ کام کریں گے۔
۱۰۔ آپ کی کتابوں سے ظاہر ہے کہ آپ نے چند ممالک کا سفر یا دورہ کیا، ہمیں یقین ہے کہ آپ کا ہر دورہ علمی خدمت کے سلسلے میں تھا، لیکن پھر بھی سوال ہے کہ آیا آپ نے ان مذہبی دوروں سے پہلے کوئی عام سفر کیا تھا؟ آپ نے کن کن ممالک میں قدم رکھا؟ کس کس ملک کے اوپر سے جہاز میں پرواز کر گئے؟
جواب: اس سوال کا تفصیلی جواب طوالت کی وجہ سے مشکل ہے، خصوصاً یہ حصہ کہ میں بذریعۂ جہاز کس کس ملک کے اوپر سے گزر گیا، اگر فرشتے بمہربانی پرواز کو بھی شامل دورہ کر دیتے ہیں، تو پھر سفر اور دورہ کی
۱۲۰
اہمیت بدرجۂ انتہا بڑھ جاتی ہے، مجھ میں مذہبی جنون شروع ہی سے تھا، اس لئے کیا عجب کہ میرا ہر سفر دینی حکمت کے تحت قرار پائے، چنانچہ میں نے اس دیوانگی کے زیرِ اثر ۱۹۴۳ء میں پہلی بار ہندوستان کا سفر کیا، جس کی غرض یارِ جانی کی ملاقات تھی، جو ۱۹۴۶ء میں حاصل ہوئی، اور کلیدِ بابِ روحانیت بھی عطا ہوئی، پھر ۱۹۴۹ء کے اوائل میں چین جانے کا اتفاق ہوا، تب بفضلِ خدا وہ محبوبِ نورانی جو مظہرِ عجائب ہے، وہاں بھی آ گیا، میں نے مغرب کے تین بڑے ملکوں کا بارہا سفر کیا، وہ کنیڈا، لنڈن، اور امریکا ہیں، ایک دفعہ میں کراچی سے روس کے جہاز سے لنڈن جا رہا تھا، جہاز معمول کے مطابق ماسکو میں اتر گیا، اور تقریباً ایک گھنٹے تک مسافروں کو بس پر سیر کرایا گیا، ہم درویش لوگ تمام چیزوں کو روحانی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔
۱۱۔ کراچی میں آپ کی رہائش کا مقصد یقیناًعلمی خدمت ہی ہے، کیا ایسے میں اپنے عزیز علاقے کی ہر چیز یاد نہیں آتی ہے؟
جواب: اگر ہماری روح صرف ایک فرد کی روح ہے، تو پھر دوری اور جدائی کی بہت سی مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا، اور اگر ہم یہ مانتے ہیں کہ بحدِّ قوّت ایک میں سب کچھ ہے، اور اس امکان کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں تو ان شاء اللہ، ہم ایک دن نفسِ واحدہ میں فنا ہو جائیں گے، اس حال میں ہم ہر جگہ ہوں گے، اور ہر جگہ ہم میں ہو گی۔
۱۲۱
۱۲۔ آپ کی تمام گرانقدر علمی خدمات کا خوشگوار اثر آپ کے خاندان اور خویش و اقارب پر بھی پڑا ہو گا، آیا ہمارا یہ خیال درست ہے؟
جواب: اثر سے مراد اگر خوشی ہے تو ہماری خدمات پر بہت سے لوگ فخر کرتے ہیں، اور اگر اس کا مطلب علم و عمل ہے تو پھر اس اثر کا دائرہ بہت محدود ہو سکتا ہے۔
۱۳۔ کیا آپ کی اولاد میں سے کسی نے آپ کے اس مشن میں حصہ لیا اور کام کیا، یا کر رہا ہے؟
جواب: ہاں، سارا کام اولاد ہی کر رہی ہے، اور ان شاء اللہ، ہم سے بڑھ چڑھ کر، اولاد میرے نزدیک کئی قسم کی ہوتی ہے، میں سب کو جان و جگر کی طرح عزیز رکھتا ہوں، اگر کوئی آج کام نہیں کر رہا ہو تو امید ہے کہ کل کرے گا، اگر کسی وجہ سے ہم اولاد یا کسی اور سے دشمنی رکھیں تو یہ دشمنی ہمیں اندر ہی اندر سے چٹ کر لے گی۔
۱۴۔ کیا آپ اپنے ان عزیز شاگردوں کی تعداد بتا سکتے ہیں جنہوں نے براہِ راست تعلیم حاصل کی ہے؟ یا کوئی تخمینہ؟
جواب: کوئی خاص تعداد معلوم نہیں، کیونکہ ہمارے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں، تاہم خدا تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم کی شکر گزاری ہم پر واجب ہے کہ آج کی اسماعیلی دنیا کے بہت سے مؤمنین و مؤمنات خانۂ حکمت کی کتابیں پڑھ رہے ہیں، ایسے اہلِ ایمان لاکھوں کے حساب سے ہو سکتے
۱۲۲
ہیں، کتابوں کے علاوہ ایک علمی لشکر بھی ہے، کیسیٹ بھی ہیں، اور نظمیں بھی، خداوندِ عالم ہمیں فخر کی بیماری سے بچائے، اور ہر ایسی بات صرف تحدیثِ نعمت اور معلومات کی خاطر ہو، آمین!
۱۵۔ صاحب! آپ لطفاً (Kindly) یہ فرمائیں کہ آپ کی کتنی کتابوں کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے؟ اور وہ خوش نصیب حضرات کون کون ہیں، جنہوں نے ایسی پرمغز کتابوں کا ترجمہ کیا ہے؟ نیز یہ بتائیں کہ اس کے علاوہ اور کس کس زبان میں ترجمے ہوئے؟ اور مترجمین کون کون ہیں؟
جواب: خدا کے فضل و کرم سے اب تک تقریباً چالیس کتابوں کا انگریزی ترجمہ کیا گیا ہے، یہ سارا انتہائی گران مایہ اور بے مثال کارنامہ جناب ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد ہونزائی صاحب اور ان کے نیک نام معاونین نے انجام دیا ہے، آپ ہر انگریزی کتاب کے سیکنڈ ٹائٹل پیج کو دیکھ سکتے ہیں، گجراتی ترجمے کا بہت زیادہ کام جناب اکبر راجن صاحب نے کیا ہے، اور فرینچ میں جناب عبد الرحمان نے، تاہم ترجمے کا قصہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
۱۶۔ سر! آپ ہمیں یہ بھی بتا دیں کہ آپ نے کن کن اداروں کی سرپرستی فرمائی ہے؟
۱۲۳
جواب: ایسے ادارے چند ہیں، اس ترقی کے زمانے میں سرپرستی کی پیش کش عام ہے، لیکن لوگ جس طرح توقع رکھتے ہیں، اس کے مطابق کام کرنا مشکل ہے، دراصل مجھے صرف بھرپور قلمی خدمت کے مواقع ضروری تھے۔
۱۷۔ استادِ گرامی! ہمارا ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی نیک نام جماعت کے کس ادارے میں علمی خدمات انجام دیں؟
جواب: پاکستان میں ہمارا واحد علمی ادارہ شیعہ امامی اسماعیلی طریقہ اینڈ ریلیجس ایجوکیشن بورڈ ہی ہے، مجھے اس میں شمولیت و شرکت کی سعادت یکم جولائی ۱۹۶۲ء میں نصیب ہوئی، خداوندِ قدوس کی رحمت و مہربانی سے تقریباً پندرہ سال تک بہترین خدمت کا موقع مل گیا، تاہم اپنی کسی تصنیف کی طباعت و اشاعت کا مسئلہ جوں کا توں تھا، لہٰذا میں ۳۰ جون ۱۹۷۷ء کو مستعفی ہو گیا، اگر میں ایک خاص وقت کے لئے ایسے عظیم اور عالی قدر ادارے میں نہ ہوتا، تو عیب یا ہنر کے عنوان سے میرا تذکرہ کون کرتا، اور میری شہرت و شناخت کہاں سے حاصل ہو سکتی، اور اگر میں بروقت ادارے سے باہر نہ آتا تو اتنی ساری اعلیٰ کتابیں مجھے کون لکھ کر دیتا، پس مجھے حضرتِ ربّ کی ان تمام نعمتوں کے لئے شکر کرتے ہوئے آنسو بہانا چاہئے اور بار بار سجدۂ شکرانہ بجا لانا چاہئے، ورنہ کفرانِ نعمت کا ارتکاب ہو سکتا ہے۔
۱۲۴
۱۸۔ جیسا کہ آپ نے اپنی کسی کتاب میں فرمایا ہے کہ آپ کو بروشسکی شاعری کا شوق بہت پہلے سے تھا، ہم یہاں یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کیا بات تھی جس نے آپ کے دل میں یہ امید پیدا کر رکھی کہ آپ مستقبل میں اس زبان کے لئے کوئی شاندار کارنامہ انجام دے سکیں گے؟
جواب: حق بات تو ہے کہ مجھے اس زمانے میں اپنے مستقبل کے بارے میں نہ کوئی علم تھا، نہ کوئی پروگرام اور منصوبہ، میرے دل میں شعر کہنے کا شوق اس نیت سے پیدا ہوا تھا کہ میں خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق اہلِ بیتِ اطہار کی مدح سرائی کروں، تا کہ اس نیک عمل سے جماعت کی خدمت اور پھر روحانی ترقی ہو، بس میں صرف اتنا ہی جانتا تھا، اور آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ خدا کی توفیقات کی وجہ سے ہے، کیونکہ مومن کے ہر نیک کام کا ثمرہ توفیق و ہدایت ہے۔
۱۹۔ آپ کے ایک تحریری انٹرویو سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا اصل نام “پرتوِ شاہ” ہے، جو آپ کو پسند بھی ہے، لیکن اس کی وجہ معلوم نہیں کہ پھر آپ کیوں نصیر الدین کہلانے لگے؟
جواب: میرے نزدیک مؤمن کے ایک سے زیادہ نام ہونے میں حکمت ہے، تا کہ معنوی وسعت پیدا ہو جائے، دوسری وجہ یہ ہے کہ لفظِ “نصیر” اور “دین” دونوں قرآنِ پاک سے ہیں، اور مومن کے لئے ہر وہ چیز باعثِ برکت ہو سکتی ہے، جو قرآن سے لی گئی ہو، اور تیسری
۱۲۵
وجہ یہ ہے کہ شاعری میں کسی لچکدار تخلص کی ضرورت ہوتی ہے، میرے خیال میں یہاں اتنی وضاحت کافی ہے۔
۲۰۔ آپ نے تذکرہ کیا ہے کہ بچپن میں والدِ محترم کی مناجات اور گریہ و زاری سے کوئی بہت خوشگوار چیز کانوں سے داخل ہوتی تھی، اگرچہ اس زمانے میں سوائے ایسی یادداشت کے اور کچھ نہیں جانتے تھے، لیکن اب علم و معرفت کی روشنی میں بتائیں کہ وہ احساس کیا تھا یا وہ چیز کیا تھی جو کان سے داخل ہو جاتی تھی؟
جواب: روح الایمان، جو خصوصی علم و عبادت کی آواز سے کسی میں پھونکی جا سکتی ہے، مگر اس کے لئے کافی وقت درکار ہے۔
۲۱۔ آپ کی تحریر میں جو روانی ہے، اس کو دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے، اور سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا آپ کو آسمانی تائید حاصل ہے؟ آپ پر روحانیت کے دروازے کب سے کھلے؟
جواب: میں سوال در سوال کر سکتا ہوں کہ آیا “تحریر میں روانی” سے عبارت کی خوبی مراد نہیں ہے؟ اگر بات صرف یہی ہے تو میں سچ کہتا ہوں کہ مجھ سے بہتر لکھنے والے بہت ہیں، اور اگر حیرت علم کے بارے میں ہے تو میں عرض کرتا ہوں کہ علم کا سرچشمہ امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہیں، پھر میرے پاس کیا رہا؟ نہ عبارت کی خوبی، نہ کوئی ذاتی علم، اور تائید ہو یا نہ ہو، بہرحال مالک (مؤیِّد) کی تعریف ضروری ہے، اب رہا سوال
۱۲۶
دروازۂ روحانیت کا، وہ تو جملہ مومنین و مومنات کے لئے کشادہ ہیں۔
۲۲۔ روحانی علم کے حصول کے بعد کیا دیگر علوم خود از خود آپ پر منکشف ہو گئے، یا ان کو جاننے کے لئے آپ نے الگ جستجو کی؟
جواب: اگر یہ مانا جائے کہ تمام ضروری علوم کا جوہر روحانی علم میں موجود ہے تو یہ بات اہلِ دانش کے نزدیک پسندیدہ اور معقول ہو سکتی ہے، اس کے برعکس کسی درویش کا یہ دعویٰ کرنا کہ وہ ہر ظاہری علم کو تعلیم کے بغیر جانتا ہے، درست نہیں۔
۲۳۔ کہا جاتا ہے کہ استادِ کامل یا پیر یا مرشد کے بغیر روحانی علم ممکن ہی نہیں، اب سوال یہ ہے کہ آپ کا استاد کون تھا؟
جواب: جیسا کہ قبلاً (جواب نمبر ۵ میں) بتایا گیا، میرے استادِ مکتب پیر ہیں، اور معلمِ روحانیت و نورانیت حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السلام، جو مظہرِ نورِ خدا، آلِ مصطفی اور اولادِ مرتضیٰ ہیں۔
۲۴۔ صاحب! مہربانی فرما کر یہ بتائیں، چونکہ آپ کی کتابیں یکسر پیر ناصر خسرو کی تعلیمات کے مطابق ہیں، کہ آیا ہماری جماعت کے افراد اب آپ کی کتابوں کی طرف رجوع کریں گے، کیونکہ امامِ زمانؑ نے حالیہ دورہ کے دوران ناصر خسرو کی تعلیمات سے بھی استفادہ کرنے کے لئے فرمایا ہے؟
جواب: ان شاء اللہ، اب رفتہ رفتہ ہماری کتابوں کی اہمیت و
۱۲۷
افادیت سے لوگ باخبر ہو جائیں گے، اگر ان تمام کتب کا علم پرتوِ شاہ (نصیر الدین) ابنِ حبِ علی ابنِ محمد رفیع کا خاندانی اور خود ساختہ ہے، تو دیکھتے رہنا کہ یہ بہت کم عرصے میں ختم ہو جائے گا، کیونکہ اب دورِ قیامت ہے، اور اس میں باطل چیزوں کے لئے بہت کم مہلت ہے، اور اگر یہ علم قرآن و روحانیت اور نورِ امامت سے ہے، اور ربّانی پروگرام کے مطابق ہے، تو پھر اس کے ہمہ رس اور عالم گیر ہو جانے میں کوئی شک نہیں، دیکھنے والوں نے چشمِ باطن سے دیکھا ہے کہ دنیا نورِ خداوندی کی گرفت میں ہے، قیامت برپا ہو چکی ہے، اثرات بتدریج مرتب ہو رہے ہیں، اور ساری دنیا میں بہت بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
ہفتہ ۱۱ رمضان المبارک ۱۴۱۳ھ
۶ مارچ ۱۹۹۳ء
۱۲۸