وجہِ دین
علمی انتساب
)حصۂ اوّل(
اس بات پر تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ ام الکتاب یعنی سورۂ فاتحہ تمام قرآن کی سورتوں کی سردار ہے، آیت الکرسی (۰۲: ۲۵۵) جملہ قرآنی آیات کی سردار ہے اور اسمِ اعظم تمام اسمائے الٰہی کا سردار ہے۔
باطناً علی ام الکتاب ہے، اور آیت الکرسی میں علی کے نور کا ذکرِ جمیل ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم جو الحیُّ القیوم ہے، وہ امامِ حیّ و حاضر ہے، نیز الحیّ سے حجتِ قائم مراد ہے، اور القیوم خود حضرتِ قائم ہے اور یہ دونوں عظیم الشّان امام ایک بھی ہیں، اور دو بھی ہیں، اور اس میں بہت بڑی حکمت ہے، قرآنِ حکیم میں زندہ اسمِ اعظم (الحی القیوم) کا ذکر تین مقام پر ہے: ۰۲: ۲۵۵ ، ۰۳: ۰۲، ۲۰: ۱۱۱ اس کے علاوہ قرآن میں سات دفعہ حٰمٓ بھی ہے، یہ الحی القیوم کا مخفف ہے، یعنی خدا کا زندہ اسمِ اعظم حجتِ قائم، اور انتہائی اسمِ اعظم حضرتِ قائم القیامت ہے۔
ان عزیزوں کے اسماء جن کے لئے یہ انتساب لکھا گیا ہے:۔
۱۔ قربان علی نظر علی مؤمن، تاریخِ پیدائش: ۳۰؍ دسمبر ۱۹۵۵ء، بیگم نور بانو قربان علی مومن، پیدائش: ۲۴؍ دسمبر ۱۹۶۱ء، بیٹی ایل اے ایس کرن قربان علی مومن، ۳۰؍ جولائی ۱۹۸۲ء، بیٹی نیلم ایل اے ایس، پیدائش ۲۰؍ ستمبر ۱۹۸۷ء، بیٹا حسین قربان علی مومن ایل اے ایس، پیدائش: ۴ ؍ستمبر ۱۹۹۰ء۔
۲۔ آئی ایل جی سلطان علی لاڈجی، تاریخ پیدائش: ۲۰؍ فروری ۱۹۵۸ء ، بیگم آئی ایل جی شوکت بانو سلطان علی لاڈجی، پیدائش: ۹؍ اپریل ۱۹۵۹ ء بیٹا عظیم
۳
سلطان علی آئی ایل جی، ایل اے ایس، پیدائش: ۴؍ مارچ ۱۹۹۲ء۔
نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۹ ء
۴
علمی انتساب
(حصۂ دوم)
دَوَاءُکَ فِیکَ وَمَا تَشعُرُ وَدَاءُکَ مَنکَ وَمَا تُبصِرُ
وَتَحسَبُ اَنَّکَ جِرمٌ صَغِیرٌ وَفِیکَ انطَوَی العَالَمُ الاَکبَرُ
وَاَنتَ الکِتَابُ المُبِینُ الَّذِی بِاَحرُفِہٖ یَظھَرُ المُضمَرُ
فَلَا حَاجَۃَ لَکَ فِی خَارِجٍ یُخَبِّرُ عَنکَ بِمَا سُطِّرُ
۱۔ تیری دوا تیرے اندر ہی ہے اور تجھ کو خبر نہیں، اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوتی ہے اور تو دیکھتا نہیں۔
۲۔ اور تو خیال کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے۔
۳۔ اور تو ہی وہ کتابِ مبین ہے کہ جس کے حرفوں سے پوشیدہ راز ظاہر ہوتے ہیں۔
۴۔ تو تجھ کو خارج کی ضرورت نہیں ہے، جو تیرے متعلق لکھی ہوئی باتوں کی خبر دے۔
(از دیوانِ حضرتِ مولانا علی علیہ السلام)
۵
اُن عزیزوں کے اسماء جن کے لئے یہ انتساب لکھا گیا ہے:۔
۱۔ آئی ایل جی ظاہر علی رحیم، تاریخ پیدائش: ۷؍ستمبر ۱۹۶۴ء، بیگم آئی ایل جی یاسمین ظاہر علی، تعلیم: بی اے، اور ان کے پیارے بچے: ایل اے ایس زوہیب ظاہر علی اور ایل اے ایس فرح ظاہر علی، ان دونوں کی تاریخِ پیدائش: ۲۴؍ جون ۱۹۹۰ ء، تیسری اولاد ایل اے ایس سلمان ظاہر علی، پیدائش: ۱۱ ؍مئی ۱۹۹۳ء۔
۲۔آئی ایل جی ظاہر کریم علی، تاریخِ پیدائش: ۱۷ ؍ستمبر ۱۹۷۲ء ، تعلیم انٹر میڈیٹ۔ عنقریب دانش گاہِ خانۂ حکمت کے عملداروں کی ایک منظم تاریخ بصورتِ کتاب جب منظرِ عام پر آئے گی، ان شاء اللہ اس وقت تمام دوستوں کی جملہ خدمات کا مفصل تذکرہ ہوگا۔
نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۲۱؍ جون ۲۰۰۰ ء
۶
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ
بنامِ آنکہ دارای جہانست خداوندِ تن و عقل و روانست
خرد ز ادراکِ او حیران بماندہ دل و جان دررہش بے جان بماندہ
بہر و صفی کہ گویم زان فزونست زہر شرحی کہ من دانم برونست
(حکیم ناصر خسرو قدس اللہ سرہ)
قارئینِ کرام سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ حضرت سیدنا پیر ناصر خسروؔ علوی (قدس اللہ سرہ العزیز) حجتِ خراسان و بدخشان (منجانبِ مولانا الامام المستنصر باللہ علیہ السلام) ان باکرامت اسماعیلی پیروں اور بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں خورشیدِ امامت کے نورِ ہدایت سے بالعموم اہلِ جہان کو بالخصوص اسماعیلی عالم کو اس طرح مستفیض فرمایا، جس طرح چاند اور ستارے سورج کی مادّی روشنی سے اس جہان کو مستفیض کرتے رہتے ہیں۔ ان باعظمت و جلالت بزرگوں کے اکثر علمی آثار اپنی پوری قدرو قیمت کے ساتھ گنجہائے گرانمایہ کی طرح اب بھی موجود و باقی ہیں۔ جن کے مشاہدہ و مطالعہ سے اہلِ بصیرت بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں، کہ وہ حضرات علم و حکمت کے کن کن اعلیٰ درجات پر فائز ہوئے تھے۔
حضرت سیدنا شاہ ناصر خسرؔو ۳۹۴ ھ مطابق ۱۰۰۳ ء میں پیدا ہوئے، ان کی اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا یہ عالم تھا، کہ نو ۹ سال کی عمر میں قرآنِ پاک کو حفظ کر لیا۔ مزید
۱۱
پانچ سال کے عرصہ میں علمِ لغت، صرف و نحو، علمِ عروض و قافیہ اور علم حساب سیکھا۔ اس کے بعد مدت تین سال میں علمِ نجوم، علمِ ہیٔت، علم الرمل، اقلیدس اور کتابِ مجسطی کی تعلیم مکمل کر لی۔
جب وہ سترہ برس کے ہوئے تو انہوں نے علمِ ادب، علمِ فقہ اور حدیث شریف کا درس شروع کیا، اور اسی ضمن میں اس زمانے کی دو ۲ مشہور کتابیں جامعِ کبیر، اور سیرِ کبیر بھی پڑھی گئیں، قرآنِ شریف کے حقائق کی جستجو کے سلسلے میں تقریباً تین سو تفاسیر پڑھیں، جن میں سے کچھ تو نصاب میں آئی تھیں اور بعض کا ذاتی طور پر مطالعہ کیا۔
پھر موصوف نے فلسفۂ یونان کو پڑھا۔ جب ان کی عمرِ شریف پندرہ سال ہوچکی تھی اس وقت بلخ ہی میں مقیم تھے۔ ناصر خسرو عربی کے علاوہ ترکی، یونانی، عبرانی اور سندھی زبان بھی جانتے تھے اور فارسی تو ان کی مادری زبان تھی۔
جب حضرت ناصرِ خسرو کی عمرِ شریف ۳۲ سال ہوگئی تو انہوں نے تورات، زبور اور انجیل کو یہودی علماء سے پڑھا۔ اس کے بعد ذاتی طور پر پورے چھ سال تک ان تینوں کتبِ سماوی کا محققانہ و مناظرانہ انداز سے مطالعہ فرمایا۔
بعد ازان حکیم جاماسب کی کتابِ موسومہ ’’منطقِ الٰہی و طبیعی‘‘ علمِ طب اور ریاضیات کو مکمل کر لیا۔ پھر تصوف، روحانیت، علمِ تسخیر، اور طلسمات کو حاصل کیا اور تقریباً چوالیس ۴۴ سال کی عمرِ شریف میں ناصرخسرو ایک عدیم النظیر حکیم، مشہور فلسفی، متبحر علامہ، زبردست مناظر اور نامور شاعر بن گئے۔
یہ تمام علوم بلخ، بخارا، عراق اور خراسان کے ضلعوں سے حاصل کئے تھے، اور انہوں نے مذکورہ تمام علوم میں اس درجے کا کمال حاصل کر لیا، کہ یہود و نصاریٰ کے علماء بھی ان سے اپنی مذہبی کتابیں پرھتے تھے۔
سیدنا حکیم ناصرخسرو کی فطرت میں تلاشِ حقیقت کی جملہ خداداد صلاحیتیں موجود تھیں، اس لئے وہ تقلیدی اور ظاہری علوم سے مطمئن نہیں تھے انہوں نے
۱۲
قرآن و حدیث کے اشارات، قانونِ قدرت کے مشاہدات اور عقل و دانش کے فیصلے سے یہ یقینی نتیجہ نکالا کہ ہر زمانے میں ایک ایسی فاضل ترین و کامل ترین شخصیت کا موجود و حاضر ہونا از بس ضروری و لازمی ہے جو حق تعالیٰ اور اس کے رسول کی جانب سے ہر گروہ اور ہر فرد کے لئے اس کی حقداری کے مطابق ہدایت کرے، چنانچہ آپ اپنے دیوان کے ایک طویل قصیدے میں، جس کے ایک سو تیس اشعار ہیں۔ اپنے بعض ابتدائی حالات کا تذکرہ فرماتے ہیں، جس کا مطلع درجِ ذیل ہے:۔
ای خواندہ بسی علم و جہان گشتہ سراسر تو برزمی و ازبرت این چرخِ مدور
مذکورہ قصیدے کے اکثر اشعار رموز و کنایات سے بھرے ہیں جن کا مختصر مطلب یہ ہے کہ حضرت پیر ناصر خسرو (قدس اللہ سرہ) شروع شروع میں اثناء عشری عقائد کے قائل تھے، مگر جب مصر میں سیدنا ھبۃ اللہ الموید فی الدین شیرازی سے ان کی ملاقات ہوئی تو سیدنا الموید کے معجزاتِ علمی سے ان کو یقین آیا کہ وہ اپنے ایک تاریخی خواب کے نتیجہ میں جس مقدس اور لافانی چیز کی تلاش میں نکلے تھے، وہ یہیں سے مل سکتی ہے، چنانچہ انہوں نے بخوشی اسماعیلی مذہب قبول کر لیا، اس کے بعد نورِ امامت کے فیوض و برکات سے ان کے لئے علمِ لدنی اور کشف و کرامات کے دروازے کھل گئے اور ان کے خواب میں کسی بزرگ نے قبلہ کی جانب جس روحانی طبیب و حکیم کی نشاندہی فرمائی تھی، وہ ان کو مل گیا، وہ روحانی طبیب و حکیم فی الحقیقت مولانا الامام المستنصر باللہ علیہ السلام تھے، اب حضرت پیر ناصر خسرو روحانی طور پر حضرتِ محمدؐ و آلِ محمدؐ کے شہرستانِ علم و حکمت میں داخل ہو چکے تھے، چنانچہ انہوں نے مذکورہ قصیدے میں اس عظیم روحانی شہر کے عجائب و غرائب کے متعلق جو کچھ نقشہ کشی کی ہے، اس کی ایک مثال مندرجہ ذیل شعر سے ملتی ہے:۔
شہری کہ در و دیبا پوشند حکیمان نہ تافتہ مادہ و نہ بافتۂ نر
۱۳
(یعنی میں روحانیّت کے جس شہر میں داخل ہوا تھا) وہ ایک ایسا شہر تھا، کہ اس میں حکمأ دیبا پہن لیا کرتے ہیں، وہ دیبا نہ تو عورت کا کاتا ہوا ہے، نہ مرد کا بنا ہوا۔
اس شعر سے ظاہر ہے، کہ حضرت پیر ناصر خسرو یہاں عالمِ روحانیّت اور مقامِ علمِ لدنی کا تذکرہ فرماتے ہیں، انہوں نے اپنی اکثر تصانیف میں بار ہا اس امرِ واقعی کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کہ ان کو نورِ امامت کی طرف سے روحانی علم و حکمت کا سلسلہ جاری تھا، چنانچہ اپنے دیوان میں فرماتے ہیں:۔
برجانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم
نامِ بزرگ امامِ زمان است ازین قبل من از زمین چو زہرہ بدو برسما شدم
یعنی جب میری جان پر (بطریقِ باطن) امامِ زمان کا نور طلوع ہوا، تو میں جو (قبلاً غفلت و جہالت کی) اندھیری رات تھا (اس نور کی بدولت) روزِ روشن بن گیا (پس) اسی وجہ سے امامِ زمانؑ (حق تعالیٰ کا) اسمِ اعظم ہیں، میں تو انہی (کی روحانی طاقت) سے زہرہ (۱) کی طرح پرواز کر کے روحانیت کے آسمان پر جا پہنچا۔
زیرِ نظر کتاب اسی نامور حکیم، خدا رسیدہ بزرگ، پیرِ کامل اور حجتِ خراسان و بدخشان کی پُرحکمت تصانیف میں سے ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس بے نظیر کتاب کو موصوف حکیم کی جملہ تصانیف میں بابِ آخر کا درجہ حاصل ہے، کیونکہ یہ ان کی بے پایان علمی و عرفانی معلومات و تجربات کا خلاصہ و جوہر ہے، اس حقیقت کے ثبوت میں ہم یہاں صرف دو دلیل پیش کرتے ہیں: پہلی دلیل یہ ہے ، کہ پیر ناصر خسرو کے مذکور کلام سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہے، کہ امامِ زمان کے نورِ تاویل ان پر منکشف ہونے سے قبل (جو بطریقِ کشفِ باطن ان کی روح میں
؎۱: زہرہ: شہرِ بابل کی ایک جمیلہ پارسا خاتون کا نام ہے، جس کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے، کہ ہاروت و ماروت سے، جو دو آزمائشی فرشتے تھے، اسمِ اعظم حاصل کر کے آسمان میں پرواز کر گئی۔
۱۴
طلوع ہوا تھا) ان کی ظاہری علمی حیثیت اندھیری رات کی سی تھی، چنانچہ قرآن کے علمِ ظاہر اور علمِ تاویل کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
شور است چو دریا بہ مثل ظاہرِ تاویل تاویل چو لو لو ست سویِ مردمِ دانا
’’یعنی تاویل کے ظاہر مثال کے طور پر سمندر کا کھارا پانی ہے اور تاویل اس کے اندر دانا آدمی کے لئے بیش بہا موتیوں کی طرح ہے‘‘۔
اب نتیجہ کے طور پر یہ کہنا حق بجانب ہوگا، کہ حضرت پیر کے نزدیک ان کی سب سے بڑی اہمیت والی کتاب دراصل وہ ہونی چاہئے جس کی تصنیف میں انہوں نے زیادہ سے زیادہ تاویل سے کام لیا ہو، پس ایسی کتاب تو صرف ’’وجہِ دین‘‘ ہی ہے۔
حضرت پیر کی گرانقدر اور پُرحکمت تصنیفات میں ’’وجہِ دین‘‘ کو حرفِ آخر کا درجہ حاصل ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ کتاب موصوف پیر نے اپنے علمی و عرفانی کارناموں کے ارتقاء کے تقریباً آخری درجے پر تصنیف کی ہے، کیونکہ ’’دیوان‘‘ میں ایسے دو ۲ شعر ملتے ہیں جن سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے، کہ پیرِ کامل نے اپنی بہت سی تصنیفات کے بعد ’’زاد المسافرین‘‘ بمقامِ یمگان ۴۵۳ ھ بمطابق ۱۰۶۱ء میں مکمل کر لی تھی۔ اور ’’وجہ دین‘‘ کی تکمیل اس کے بعد ہوئی ہے(۲) ، چنانچہ آنجناب اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’زاد المسافرین‘‘ کی تعریف میں فرماتے ہیں:۔
زتصنیفاتِ من زاد المسافر کہ معقولات را اصل است و قانون
اگر برخاکِ افلاطون بخوانند ثنا خواند مرا خاکِ فلاطون
؎۲: کتابِ ہٰذا ص ۵۶ پر پیر ناصر خسرؔو فرماتے ہیں: ہم نے اس کی تشریح ایک اور کتاب زاد المسافرین میں کی ہے۔ ظاہر ہے، کہ ’’زاد المسافرین‘‘ پہلے اور ’’وجہ دین‘‘ بعد میں لکھی گئی ہے۔ اور ’’وجہ دین‘‘ کی تصنیف سے آج تک تقریباً ۹۰۰ سال ہوئے۔
۱۵
’’یعنی میری تصنیفات میں سے ’زاد المسافرین‘‘ جو معقولات (۱) کی اصل و بنیاد اور قانون و آئین کا درجہ رکھتی ہے، اگر (یہ کتاب مشہور یونانی حکیم) افلاطون کی قبر پر پڑھی جائے تو افلاطون ( کے بوسیدہ جسم) کی مٹی بھی میری تعریف و توصیف کئے بغیر نہ رہے گی‘‘۔
جب ہمیں یہ معلوم ہوا، کہ حکیم ناصر خسرو نے یونانی فلسفیوں اور حکمایِ ظاہر کا مقابلہ کتاب ’زاد المسافرین‘‘ سے کیا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے جو کتاب قرآن، حدیث اور فقہ کے تاویلی اسرار و رموز کی وضاحت میں لکھی ہو، وہ ’’زاد المسافرین‘‘ سے بھی بڑھ کر ہوگی، اور ایسی اعلیٰ درجے کی خالص مذہبی کتاب جس میں امامِ زمان کے نور و حضور کے روح افزا اسرارِ حقائق و معارف بیان ہوئے ہیں، صرف ’’وجہ دین‘‘ ہی ہے، کیونکہ حکیم ناصر خسرو اپنے زمانے کے امام کی جانب سے مرتبۂ حجتی پر فائز و مامور تھے، اور امامِ زمان سے ہر حجت کو جو اصلی چیز ملتی ہے وہ نورانی اور عملی تاویل کی صورت میں ہوتی ہے، چنانچہ اس شعر سے یہی مطلب عیان ہے:۔
’’از دلِ حجت بحضرت رہ بود او بتائیدِ دلش آگہ بود
یعنی حجت کے قلب سے حضرتِ (امامِ زمان) تک (عرض و التجاء جانے اور نورانی تاویل آنے کا روحانی) راستہ موجود ہے، اور وہ (امامِ زمان) اس کو (روحانی و عقلانی) مدد پہنچانے سے (ہر گز غافل نہیں، بلکہ ہمیشہ) آگاہ ہیں۔‘‘
پس معلوم ہوا، کہ حکیم ناصر خسروحجتِ خراسان و بدخشان کو اپنے زمانے کے امام سے علمِ تاویل کے جو بے پایان خزانے حاصل ہوئے تھے وہ اس مقدس کتاب کے موضوعات میں رکھے ہوئے ہیں، مگر یہ بات بھی ضروری یاد رکھئے، کہ اس پُرحکمت کتاب کے بعض موضوعات کے تنزیلی پہلوؤں کا تعلق زمانۂ ماضی سے ہے، لیکن ان کے باطن میں جو تاویلات ہیں وہ ہمیشہ کے لئے مطلوب و مقصود ہیں، چنانچہ اگر
۱۔ معقولات وہ علم ہے، جس میں عقلی چیزوں سے بحث کی جائے۔
۱۶
آپ اس کتاب کے تمام نکات کو تقابلی نظر سے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ موجودہ دور سے متعلق اس میں کیا فرمایا گیا ہے۔
کتاب ’’وجہ دین‘‘ اعلیٰ درجہ کی خود شناسی، مذہب شناسی، امام شناسی اور خدا شناسی کا کامل ترین علمی و عرفانی ذریعہ ہے، کیونکہ سید العارفین پیر ناصر خسروؔ نے نورِ امامت کی روشنی میں دین و آئین کے ماضی، حال اور مستقبل کا عرصۂ دراز تک کشفِ باطن اور عارفانہ طریق پر مشاہدہ کیا ہے، پھر اپنی بہت سی گرانمایہ تصنیفات کے بعد جیسا کہ قبلاً ذکر ہوچکا، یہ پرحکمت کتاب لکھی ہے اور اس میں زمانۂ آئندہ کی علمی ضروتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہت سی ضروری پیش گوئیاں کی ہیں، جن کی روشنی میں حقیقی مومنین پیش آمدہ مذہبی مسائل کو بآسانی حل کر سکتے ہیں، وہ اسماعیلی اصطلاحات جن میں پیشین گوئیاں ہیں، اس قسم کی ہیں: ۔
روزِ شنبہ، حضرتِ قائمؑ، دورِ روحانی، خلیفۂ قائمؑ، حجتِ قائمؑ، شبِ قدر پانچ حدودِ جسمانی وغیرہ۔
مختصر یہ کہ ’’وجہ دین‘‘ ہی وہ واحد پرحکمت کتاب ہے جس کے بغیر دنیا بھر کی کوئی مذہبی کتاب مندرجہ ذیل قسم کے پیچیدہ سوالات کا جواب نہیں دے سکتی ہے، یہ اور اس قسم کے بہت سے دوسرے سوالات موجودہ دور کے اس عظیم الشان سائنسی انقلاب و ترقی کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں اور آنے والے ہیں جن کو اس کتاب کے صحیح مطالعہ کے بعد سہل طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے، وہ سوال یہ ہے:۔
’’ یہ حقیقت پایۂ ثبوت پر آگئی ہے، کہ چاند بھی ہماری اس زمین کی طرح ایک دنیا ہے، اور یہ بات بھی یقینی ہوگئی ہے، کہ آئندہ چند سالوں کے اندر اندر چاند کی دنیا میں یا کسی اور سیارے میں اس دنیا کی بعض قومیں بسنے لگیں گی، کیا درانِ حال اس سیارے پر اور ان لوگوں کے درمیان حق تعالیٰ کی جانب سے کوئی
۱۷
پیغمبر یا کوئی امام ہوگا یا نہیں؟ اگر جواب نفی میں ہوا، تو کس طرح درست ہوسکتا ہے، جبکہ ہمارا عقیدہ اور یقین ہے، کہ دنیا اوراس کے باشندے امامِ زمان کے وجود و ظہورِ مبارک کی بدولت قائم اور زندہ ہیں۔ (دیکھو حدیث: لَوْ خَلَت . . . . ) اور اگر جواب اثبات میں ہے، تو اس سے بہت سے ذیلی سوالات پیدا ہو جاتے ہیں ان میں سے ایک تو یہ کہ: کیا اس وقت دو ۲ امام ہوں گے؟ اگر ایسا ہوا تو چاند پر کس خاندان سے امامت کا آغاز ہوگا؟ وغیرہ‘‘۔
پس یقیناً ’’وجہ دین‘‘ ہی وہ واحد کتاب ہے، جو اس قسم کے پیچیدہ اور مشکل سوالات کے تسلی بخش جوابات کا ذریعہ بن سکتی ہے جس کی وجہ وہی ہے جو سطورِ بالا میں عرض کی گئی ہے، کہ یہ کتاب پیرِ کامل نے امامِ برحق کے ہمہ رس و ہمہ گیر نور کے ذریعے پورے دور کا مشاہدہ کرکے آئندہ پیش آنے والے مسائل کے جواب میں لکھی ہے، اور اس کا مقصدِ اعلیٰ یہ ہے کہ مومنین انقلاباتِ زمانہ کے پیدا کردہ دینی مسائل کو حل کرتے ہوئے خدا کی رسی (سلسلۂ امامت) کو مضبوطی سے تھامے رہا کریں۔
بحمد للہ اب یہ گران مایہ اور نایاب کتاب نہ صرف آسان اردو زبان میں آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے، بلکہ اس کے مشکل الفاظ و اصطلاحات کی تشریح و توضیح بھی کی گئی ہے، فٹ نوٹ لکھے گئے ہیں، اور ضرورت کے مطابق بڑے پیروں کے چند چھوٹے چھوٹے پیرے کر دیئے گئے ہیں، نیز نقل و طبع کی سابقہ غلطیوں کی حتی الوسع اصلاح کی گئی ہے۔
میں آخر میں رسمی طور پر نہیں بلکہ دل و جان اور اخلاص و ایمان سے شکریہ ادا کرتا ہوں ان تمام علم پرور احباب کا، ان تمام پیرِ کامل ناصر خسرو کے علم و حکمت کے شیدائیوں کا اور ان سارے ’’ادارۂ دارالحکمت الا سماعیلیہ ہونزہ گلگت‘‘ کے ممبروں اور معاونوں کا جنہوں نے اس ناتوان خادمِ ملت کی ہر طرح سے معاونت اور حوصلہ افزائی فرمائی اور اس ہمہ رس علمی خدمت کا مشورہ دیا، نیز میں اسی خلوص
۱۸
سے شکریہ ادا کرتا ہوں، ان تمام روحانی احباب کا جن کی دینی و علمی صلاح و مشورہ اور قلمی تعاون کے بغیر اگر میں کوئی کام کر بھی سکوں تو میری روحانی مسرت و خوشی میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔
وَالسَّلامُ عَلیٰ مَنِ اتّبَعَ الْھُدَیٰ
خَادِمُ المِلّت
نصیرؔ ہونزائی
یکم جنوری ۱۹۶۸ء مطابق ۲۹ ؍ رمضان ۱۳۸۷ھ
۱۹
بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
حمد و سپاس
اس خالقِ (برترو توانا) کی تعریف و توصیف ہے ، جس نے عالمِ باطن ہی سے عالمِ ظاہر کو پیدا کر کے اس میں عالمِ باطن کے نشانات دکھائے (۱)، اور انہی نشانوں کی تحقیق و تدقیق میں انسانی عقل کو اپنا جلوہ دکھانے کا موقع عطا فرمایا، اسی نے اپنی قدرتِ کاملہ سے جوہرِ(۲) پائندہ (یعنی روحِ ناطقہ) کو گھٹنے والے عرض (۳) (یعنی جسم) کی ظہور گاہ کے اندر چھپائے رکھا، اور آخری اعراض (یعنی انسانی اجسام) کو اس جوہرِ پائندہ کے قابل بنا دیا، تاکہ ہر دانشمند دل کی آنکھ سے یہ حقیقت دیکھ سکے، کہ کس طرح توانا جوہر ناتوان عرض کا محتاج ہے، اور (وہ اس قانونِ الٰہی کی بناء پر ) لطیف شے کو کثیف شے سے ہرگز بے نیاز نہ سمجھے، جیسا کہ کثیف شے لطیف سے بے نیاز نہیں، اور متضاد و مقابل چیزوں کے جوڑے بنانے والا ہر وجہ سے اس بات سے پاک (۴) ہے، کہ وہ خود کسی چیز کا مقابل اور جوڑ ہو، کیونکہ مقابل
۱۔: حق تعالیٰ نے عالمِ باطن سے عالمِ ظاہر کس طرح پیدا کیا اس کی تفصیل کلام نمبر ۴ میں آئیگی۔
۲۔ جوہر وہ شے ہے، جو بذاتِ خود قائم و باقی ہو، جیسے انسانی روح۔
۳۔: عرض وہ شے ہے، جو بذاتِ خود قائم و باقی نہ ہو، بلکہ اس کا قیام و بقا دوسری شے پر ہو، جیسے انسانی جسم جس کا قیام و بقا روح پر ہے۔
۴۔ یہ مطلب اس ارشادِ الٰہی کے مطابق ہے: سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لاَ يَعْلَمُونَ (۳۶: ۳۶ ’سورہ ۳۶ آیت ۳۶‘) پاک ہے وہ ذات جس نے ساری چیزوں کو جفت جفت پیدا کیا، نباتات سے، ان کی جانوں سے اور ان چیزوں سے جنہیں وہ نہیں جانتے ہیں۔‘‘
۲۰
اور جوڑے کی چیزیں تو ایک دوسرے کی ضد ہوا کرتی ہیں، اور دور ہے اس سے وہ اثبات بھی جس کی ضد نفی ہے بلکہ وہ دونوں کا پیدا کرنے والا ہے۔
خدا کے برگزیدہ رسول پر درود ہو! جو عرب اور غیر عرب کے تمام لوگوں میں سے انتہائی درجے کی فصاحت و بلاغت کے مالک ہیں، جن پر نفی و اثبات کی وحی نازل ہوئی، جو ایک کتاب کی صورت میں بھی ہے، اور ایک کلمہ کی حیثیت سے بھی، اپنے پورے شمار و مقدار کے ساتھ ایک حرف (یعنی اسمِ اعظم) میں بھی ہے، اور تمام پیغمبروں اور أئمۂ برحق کی مبارک زبان پر بھی۔
حضرتِ محمد مصطفےٰ کے مبارک نام پر درود ہو! جو خدا کی (کائناتی) کتاب اور اس کے دین کے سمجھانے والے ہیں، جو قرآنِ پاک کی زبان اور شریعت کے بانی ہیں، آن حضور کے اس نورانی اور جوہری جسم (۱) پر خدا کی رحمت نازل ہو جو جسمِ عنصری کا خلاصہ ہے (مگر اس سے آزاد ہے، اور گرمی، سردی، خشکی اور تری کی ترکیب سے مبرّا ہے، وہ ظاہر بھی ہے اور غائب بھی، اس لئے کہ وہ جثّۂ لطیف و فلکی ہے)۔
امام علی المرتضےٰ سرِ خدا کی پاک جان پر رحمتِ ایزدی نازل ہو! جن کی
۱۔: اس حقیقت کا مشاہداتی تجربہ صرف اہلِ کشف ہی کو حاصل ہے کہ پیغمبرؑ اور امامِ برحقؑ جسمِ عنصری کے علاوہ ایک اور جسم بھی رکھتے ہیں، جس کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جسمِ نورانی، جسمِ جوہری، جسمِ فلکی، جسمِ مثالی، جسمِ مماثل، جسمِ معجزاتی، جثّۂ نورانی، جثّۂ ابداعیہ وغیرہ، اور ان ناموں کے جیسے جدا جدا معنی ہیں، ان معنوں کے مطابق جسمِ لطیف کے ظہورات ومعجزات ہوتے ہیں، اس مطلب کی تفصیل کے لئے کتاب ’’میزان الحقائق‘‘، مضمون ’’اڑن طشتری یا کوئی اور نام‘‘ نیز کتاب ’’مفتاح الحکمت‘‘، مضمون ’’سیّاروں میں انسان کی سیاحت‘‘ پیشِ نظر ہو۔ (مترجم)
۲۱
ذاتِ شریف علوم و معارف کا خزانۂ ودیعت و امانت ہے، اور نبیؐ و علیؑ کی آلِ پاک پر رحمتِ خداوندی ہو! جو دنیا و عقبیٰ کے جلالی فرشتے ہیں اور راہِ راست کے راہنما ہیں۔
۲۲
آغازِ کتاب
ہم حقیقت کے عظیم اور لا انتہا سِرّ کے طلب گاروں کو یہ بیان کریں گے، کہ حق تعالیٰ نے انسان کو خوف اور امید کے لئے پیدا کیا ہے، چنانچہ خدا نے اس کو بہشت کے ذریعہ امید دلائی ہے اور دوزخ کے ذریعہ ڈرایا ہے، پس میرا قول یہ ہے ، کہ انسان کے نفس میں جو خوف پایا جاتا ہے، وہ دوزخ (کی ہستی) کا نشان ہے، اور انسان میں جو امید پائی جاتی ہے، وہ بہشت (کے وجود) کا اثر ہے۔
یہ دونوں چیزیں (یعنی جزوی خوف اور جزوی امید) جو انسانی فطرت میں پوشیدہ ہیں، ایک کلّی خوف اور ایک کلّی امید کی نشاندہی کرتی ہیں، وہ دوزخ اور بہشت ہیں، جب رسول محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا، تو آنحضرتؐ نے بموجبِ فرمانِ الٰہی یہی دو چیزیں، جو لوگوں کی سرشت میں پنہان تھیں، ان کے سامنے لا رکھیں، یعنی ایک چیز تو امید تھی، جو دونوں جہان کی دولت، رحمت، آسائش اور بقا کا سرمایہ تھی، اور دوسری چیز تلوار تھی، جس کو قبول کرنے کے نتیجے پر اُن (کے قتل) سے ہاتھ روک لینا، اور انہیں جینے دینا تھا، یہ تو صرف اس جہان کے امن و بقا کی علامت تھی۔
پس جو شخص آنحضرت علیہ السّلام کی تلوار سے قتل کیا گیا، تو وہ دونوں جہان میں فنا ہوا، اور جس شخص نے آنحضرتؐ کے فرمان کو امید سے قبول کر لیا، تو اس
۲۳
نے دونوں جہان میں بقا پائی، اور جس شخص نے تلوار کے خوف سے دین قبول کر لیا، تو اس کو محض اس جہان کی بقا ملی، مگر وہ دوسرے جہان کی بقا کو نہیں پہنچ سکا، کیونکہ جب گزرجانے والی بقا تلوار کے خوف سے قبول کر لی جائے، حالانکہ تلوار سرمایۂ قتل ہے، تو وہ ایک ایسی بقا ہوگی کہ جس کی علت (یعنی سببِ پیدائش) فنا و نیستی ہے، اور اصول یہ ہے، کہ ہر چیز اپنی علت ہی کی طرف رجوع کر جاتی ہے (اس لئے ایسی بقا اپنی علت یعنی فنا کی طرف رجوع کرکے نیست ہوجائے گی)۔
پس ثابت ہوا کہ جس شخص نے اسلام تلوار کے خوف سے قبول کر لیا (اور مرتے دم تک اسی حالت پر رہا) تو وہ امید سے بے بہرہ رہا اور اس کو ابدی بقا نہیں ملی، اور جس شخص نے دین کو دائمی بقا کی امید پر قبول کر لیا، تو اس کی گزر جانے والی بقا کی علت دائمی بقا ہی تھی (یعنی وہ دین قبول کرنے کے بعد ابدی زندگی کی امید پر جی رہا تھا) سو اسے دائمی بقا ہی حاصل ہو جاتی ہے، کیونکہ اس کی دنیاوی زندگی کی علت تو یہی دائمی بقا تھی۔
)نیز یہ حقیقت بھی ہے کہ) جو شخص کوئی کام محض کارفرما کے خوف ہی کے سبب سے کرتا ہو، تو اس کے کام میں کوئی عقل و دانش ہی نہیں ، اور ایسا کام تو ان لوگوں کے کام سے ملتا جلتا ہے، جو کام کی حقیقت سمجھے بغیر کسی خوف کے مارے کر ہی ڈالتے ہیں، اور جو شخص اس امید پر کام کرتا ہو، کہ اس کو نیکی ملنے والی ہے تو اس کا کام بحقیقت دانشمندوں کا کام ہے، اور جب اکثر لوگ نادان ہیں، تو (لازماً) نادان لوگ بگاڑ کی طرف مائل ہوا کرتے ہیں، اور بگاڑ کا بدلہ خوف کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔
جب اکثر لوگوں نے دین خوفِ شمشیر کے سبب سے قبول کر لیا ہے، تو لازماً بہت سے لوگ ایسے ہیں، جو یہ نہیں جانتے، کہ دینِ اسلام کیا ہے، بلکہ انہوں نے ڈر کر اس کو قبول کر لیا ہے، اور وہ اس کو سمجھے بغیر اپنا رہے ہیں، یعنی امیرالمومنین حضرت علی علیہ السّلام کی تلوار کے خوف سے، جو بموجبِ
۲۴
فرمانِ رسولؐ یہ تلوار چلائی جاتی تھی، جس سے ان کے آبا و اجداد کے دلوں میں خوف بھرا ہوا تھا، اور ان کی یہ نسلیں اسی (آبائی) خوف کے ساتھ پیدا ہوئی ہیں (اسی لئے تو) یہ لوگ کچھ بھی نہیں جانتے، اور داناؤں سے یہ لوگ پوچھ لیا نہیں کرتے، تاکہ خوف سے، جو دوزخ کا نشان ہے، نجات پاتے، اور امید کو، جو بہشت کا نشان ہے، حاصل کر سکتے، اور دائمی و ابدی نعمت کو پہنچ سکتے۔
جاننا چاہئے کہ دوزخ اس دنیا میں (جزوی طور پر) تلوار کے خوف کی صورت میں موجود ہے، اور دانش کے بغیر کام کرنا اسی (جزوی) دوزخ کا عذاب ہے، اور بہشت اس دنیا میں (جزوی طور پر) امید کی حیثیت سے موجود ہے، اور علم و دانش سے کام کرنا اسی (جزوی) بہشت کا ثواب وصلہ ہے، چنانچہ تمام اہلِ اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ جب کسی گنہگار کو دنیا ہی میں سزا دی جائے، تو وہ شخص بہشت میں داخل ہو کر دائمی نعمتیں حاصل کرنے لگتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے، کہ اکثر لوگوں نے حقیقت دیکھے اور سمجھے بغیر محض تلوار کے ڈر ہی سے دین قبول کر لیا ہے، اور اسی طرح دین قبول کرلینا ان کی بدعت ہے، مگر جب وہ دانش سیکھ لیں اور علم سے کام کریں، تو وہ دوزخ سے چھٹ کر بہشت میں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، جزوی طور پر اس دنیا میں بھی اور کلی طور پر اس جہان میں بھی۔
جب کوئی دانشمند سوچے تو اسے یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی، کہ اس عالم میں جب کوئی شخص کام کو سمجھے بغیرکرتا ہے، تو وہ کام اس کے جرمانے کا سبب بن جاتا ہے، اور اس کو کوئی صلہ نہیں دیا کرتے، اور جو شخص دانش سے کام کرے، تو وہ اس قسم کے جرمانے سے بچ سکتا ہے، اور اپنے کام کا صلہ حاصل کر سکتا ہے۔
پس ہر دانشمند پر یہ واجب ہے، کہ وہ حضرتِ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شریعت کے معنی سمجھ لیا کرے، اور اس کے بعد علم و دانش سے شریعت پر عمل
۲۵
کرتا رہے، تاکہ وہ اپنے عمل کے اس صلے کے قابل ہو سکے جو بہشت کی حیثیت سے ہے، اور اس جرمانہ و سزا کے خوف سے چھٹکارا پا سکے، جو دوزخ کی حیثیت سے ہے۔
جب مسلمان میں یہی (واقعہ) تھا، جو کچھ میں نے اوپر ذکر کر دیا، تو میں نے اس کتاب کو تالیف کرنا اپنے ذمہ ایک اہم ترین فرض سمجھا، جو شہادت، طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد، ولایت، امر، نہی وغیرہ جیسی شرعی بنیادوں کی تشریح و تاویل پر مشتمل ہے، اور ہم نے اس کتاب کا نام ’’وجہِ دین‘‘ یعنی دین کا چہرہ رکھ لیا اس لئے کہ انسان تمام چیزوں کو صرف ان کے چہروں ہی سے پہچان سکتا ہے۔ چنانچہ جو دانشمند اس کتاب کو پڑھے، تو وہ دین کو (صحیح معنوں میں) پہچان سکے گا، اور پہچانے ہوئے (دین) پر عمل کر سکے گا، اور اللہ تعالےٰ کی خوشنودی حاصل کر کے اپنے عمل کے معاوضے کے قابل ہو سکے گا۔
ہم نے اس کتاب کی گفتاروں کی بنیاد اکیاون ۵۱ کے عدد پر رکھی، یہ عدد نماز کی ان رکعتوں کے برابر ہے جو ایک دن رات کے عرصہ میں لوگوں پر واجب ہوا کرتی ہیں، تاکہ اس علم و عمل اور تاویل کی بدولت لوگوں کو نجات مل سکے، جو شریعت کے باطن میں پوشیدہ ہیں، اور ہم نے اس کتاب کے مندرجات کی فہرست اس کے شروع میں رکھی، تاکہ قاری کو ہر مضمون کے دیکھ پانے میں آسانی ہو سکے۔
وَبا للہِ التّوْفیْق
۲۶
کلام۔ ۱
اس امر کا ثبوت کہ امام علیہ السلام ہر زمانے میں لوگوں پر خدا تعالیٰ کی حجت ہیں
میرا کہنا ہے، کہ جب انسانوں کو عنایتِ الٰہی سے ایک ایسا حصّہ ملا، جو دوسرے تمام حیوانات کو نہ مل سکا، اور وہ حصّہ پیدائش عقل۱ تھی، یعنی انسان کی وہ قوّتِ عاقلہ جو سمجھ بوجھ حاصل کرنے والی ہوا کرتی ہے، تو عقل کے فیصلے سے یہ لازم آتا ہے، کہ حق تعالیٰ، جس نے انسانوں کو یہ مقدّس حصّہ عطا کر دیا ہے، انہیں ایک مرد (یعنی معلم) بھی بھیجے، تاکہ وہ (معلم) ان کی اس فطری عقل کی علمی پرورش کرتا رہے، چنانچہ جب خدا نے جانوروں کو کھانے پینے والا نفس دیا، تو اس نے عناصر، ستاروں اور آسمانوں کو نباتات اگانے کے کام پر لگا دیا، جن سے جانوروں کے اجسام کی پرورش ہوتی رہتی ہے، کیونکہ صانعِ حکیم۲ کی حکمت میں یہ (ہرگز) مناسب نہیں، کہ وہ ایک ایسے حاجتمند کو پیدا کرے، جس کی حاجت پوری کرانے والے کو پیدا
۱۔: پیدائشی عقل یا کہ فطری عقل ’’عقلِ غریزی‘‘ کا ترجمہ ہے جس سے انسان کی وہ ابتدائی شعوری صلاحیت مراد ہے، جو ترقی پذیر مگر تعلیم کی محتاج ہے۔
۲۔: صانعِ حکیم = حکمت والا کاریگر یعنی خدا، جس کی ہر صنعت میں حکمت ہے۔
۲۷
نہ کیا ہو، کیونکہ (اگر اس نے ایسا نہ کیا تو) یہ حقیقی مہربانی نہ ہوگی، بلکہ بخالت ہوگی۔ مگر (ظاہر ہے) کہ وہ مہربان صانعِ حکیم بخالت سے پاک و برتر ہے، پس ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ اس مقدس حصہ یعنی فطری عقل کی پرورش کے لئے انسانوں کے درمیان کسی مربّی یعنی پرورش کرنے والے کا موجود ہونا لازمی ہے۔
اس کے بعد مجھے یہ کہنا ہے، کہ جس طرح یہ پیدائشی عقل تمام حیوانات کو چھوڑ کر صرف انسان ہی کو دی گئی ہے اور حیوانات فطری عقل کی مانوسیت کے برعکس اور ناچار پیدا کئے گئے ہیں، بلکہ یہ تمام حیوانات میں سے صرف انسان ہی کے لئے خدا کی عطا ہے، اسی طرح پروردگار (کے قانون) سے یہ لازم آتا ہے، کہ ان ابتدائی عقول کے لئے جس علم کی ضرورت ہے، وہ بھی صرف ایک ہی شخص پر عطائی۱ (طریق سے نازل ) ہوگا، نہ کہ اکتسابی۲ (قسم کا) یعنی کسی ظاہری ذریعہ سے سیکھا اور کمایا ہوا علم نہ ہوگا) کیونکہ اگر یہ اکتسابی علم ہوتا تو ہر شخص اپنی ہی کوشش سے اس علم تک پہنچ سکتا، جب تمام حیوانات میں سے انسان ( جو حیوانات کی ایک نوع ہے) کے سوا اور کسی کو یہ عطا نہیں ہوئی، تو یہ لازم آتا ہے کہ تمام انسانوں میں سے بھی صرف ایک ہی شخص کے سوا اور کسی کو اس علم کی معلمی (یعنی سکھانے کی مرتبت) عطا نہ ہوگی تاکہ طریقِ استقرا۳ کے مطابق یہ ترتیب دلیلاً درست ہو، کیونکہ نوع جنس کے تحت ہے، اور شخص نوع کے تحت ہے۔
۱۔: باطنی اور قدرتی ذریعہ سے کسی خاص انسان کو جو علم عطا کر دیا جاتا ہے، اسے ’’علمِ عطائی‘‘ کہتے ہیں۔
۲۔: ظاہری اور انسانی ذریعہ سے انسان خود جدوجہد کر کے جو علم کما لیتا ہے اسے ’’علمِ اکتسابی‘‘ کہتے ہیں۔ (مترجم)
۳۔: استقرا = موجودات کی چند چیزوں پر تجربہ کر کے پھر موجودات کی تمام چیزوں پر وہی قاعدہ مقرر کر نے کا اصول ہے۔ مثلاً دیکھا گیا کہ اجناس میں سے ایک جنس افضل ہوا کرتی ہے تو لازمی ہے کہ انواع میں سے ایک نوع بھی افضل ہو اور افراد میں سے ایک فرد بھی۔
۲۸
چنانچہ جب جنسِ حیوان سے ایک نوع یعنی انسان علمی استفادہ کی عطا کے لئے مخصوص ہوا ہے، تو نوعِ انسان سے بھی ایک شخص قدرتی معلم کی مرتبت کے
لئے مخصوص ہونا چاہئے، تاکہ ترتیب دلیلاً درست ہو سکے اور وہ واحد شخص پیغمبر ہوا کرتا ہے۔ اس لئے کہ جب تمام حیوانات میں سے صرف نوعِ انسان ہی عقل کے لئے مخصوص ہونے میں کوئی تعجب نہیں، تو مرتبۂ نبوّت کے لئے صرف ایک ہی شخص کے مخصوص ہونے میں کیوں تعجب ہو۔
چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
’’أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنذِرَكُمْ (۰۷: ۶۹) کیا تم اس سے تعجب کرتے ہو، کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس تم میں سے ایک شخص کے توسط سے کوئی یاد دہانی آگئی تاکہ وہ شخص تم کو ڈرا دے؟‘‘
پس ظاہر ہے کہ وہ واحد شخص اپنے دور میں پیغمبرؐ ہیں، اپنے عصر میں ان کے وصیؑ ہیں اور ہر زمانے میں امامِ زمانؑ ہیں، جب تک دنیا قائم ہے، نوعِ انسان اس واحد شخص سے (جو اس مرتبت کے لئے مخصوص ہے) خالی نہیں، چنانچہ جنسِ حیوان انسانی نوع سے خالی نہیں، اور نہ کبھی خالی ہوگی، اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ کائنات و موجودات کی تخلیق سے صانعِ حکیم کی جو غرض ہے وہ صرف یہی ایک شخص جانتا ہے، اور جو شخص ناحق اس کی جگہ پر قابض ہوجائے اور اس مرتبے کا دعویٰ کرے، تو ایسا شخص گویا اپنے آپ کو ہلاک کر دیتا ہے، چنانچہ اگر بہت سی گایوں میں سے ایک گائے زیادہ طاقتور ہے، تو وہ ہرگز اپنی ساتھی گایوں کی حفاظت نہیں کر سکتی، اور یہ ناممکن ہے، کہ وہ ان مویشیوں پر ایک مرد کی مثال بن بیٹھے تاکہ انہیں دوسرے موذی جانوروں اور درندوں سے محفوظ رکھ سکے، اور وقت پر انہیں چراگاہ میں لے جایا کرے، اور وقت پر ان کو مویشی خانہ میں واپس لایا کرے۔
پس ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ اس واحد شخص سے دنیا ہرگز خالی نہیں، کیونکہ
۲۹
مخلوق اس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی، اور صرف وہی واحد شخص مخلوق کی بہتری کی نگہداشت و حفاظت کر سکتا ہے۔ جس طرح نوعِ انسان مویشیوں کی بہتری کی نگہداشت و حفاظت کر سکتی ہے، اور اس قول کی حقانیت پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس حدیث سے گواہی مل سکتی ہے اور وہ یہ ہے:۔
“امرت لصلاح دنیاکم و نجات آخرتکم۔
میں تمہاری دنیاوی بہتری اور اخروی نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔”
پھر اگر وہ واحد شخص اس جہان سے چلا جائے، تو لازماً تمام مخلوق کی بہتری بھی ختم ہوجائے گی، چنانچہ بفرضِ محال اگر نوعِ انسان کو جانوروں سے اٹھالی جائے، تو دران حال جانور بھی نہ رہیں گے، اور وہ تمام جانور جو انسانی حفاظت و بہتری کے زیرِ اثر رہتے ہیں، شرانگیز درندوں کی وجہ سے ہلاک ہو کر ختم ہو جائیں گے۔
مباحثہ
اگر کوئی شخص یہ کہے، کہ آج تمام گروہ ایک ایک امام مانتے ہوئے ایک دوسرے کے مخالف ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ دو مخالفوں میں سے صرف ایک ہی حق پر ہو سکتا ہے (دران حال دنیوی بہتری بھی صرف انہی کی ہونی چاہئے، جن کا امام برحق ہو، مگر واقعہ اس کے بر عکس ہے) کہ سارے انسان دنیا میں بہتری کے ساتھ ہیں! تو میں یہ جواب دوں گا، کہ ان لوگوں کے لئے یہ بہتری کچھ ایسے باطل پیشواؤں سے حاصل ہوتی رہی ہے، جو اب تک اس بات پر ٹھہرے ہوئے ہیں، کہ انہوں نے سچے پیشواؤں کی چند عادات کو اپنا کر اپنے آپ کو سچے پیشواؤں کے نمونے پر ظاہر کر دیا ہے، اور اسی طرح وہ اپنے کاموں کو رواج دیتے رہتے ہیں، لیکن وہ اپنے دعوے میں باطل پر ہیں، کیونکہ جب جھوٹ، فریب، مکر اور حیلہ ان کے درمیان جاری ہے، تو ان کے پیروؤں کے یہ ناپسندیدہ حالات
۳۰
گواہی دیتے رہتے ہیں، کہ ان کے پیشوا جو کچھ دعویٰ کرتے ہیں، وہ سراسر جھوٹ ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔
’’إِنَّهُمْ لَنْ يُغْنُوا عَنكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (۴۵: ۱۹) بلاشبہ ظالم لوگ ایک دوسرے کے مدد گار ہیں، اور اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کا مددگار ہے۔‘‘
امامِ باطل کسی درخت کے پتوں کی مثال ہے، کہ پتے اپنے درخت کی زینت تو بن سکتے ہیں مگر اس کی آئندہ نوع کو باقی و جاری نہیں رکھ سکتے، اور امامِ حق درخت کے میوؤں کی مثال ہے کہ میوے اپنے درخت کی زینت بھی بن سکتے ہیں، اور اس کی آئندہ نوع کو بھی باقی و جاری رکھ سکتے ہیں، وہ اس طرح کہ جب ان پھلوں کی ہر گٹھلی سے وہ درخت اگے، تو اس کی نسلی جڑ نہیں کٹتی ہے۔ مگر پتے کوئی درخت نہیں اگا سکتے، بلکہ اگر پتوں نے پھلوں کو چھپا لیا تو پھل (شروع ہی میں) خشک ہو کر ضائع ہو جاتے ہیں، اور باغ کا مالک پھل نہ دینے کی وجہ سے ایسے درخت کو کاٹ دیتا ہے، پس معلوم ہوا کہ پتوں کی زیادتی کی وجہ سے درخت کی نوع بھی ختم ہو جاتی ہے، اور درخت کے فرد بھی، مگر پھل میں درخت کی نوع کی بہتری بھی ہے، اور اسکے فرد کی بہتری بھی، اور پتے صرف درخت کی زینت کے لحاظ سے پھل جیسے ہوسکتے ہیں، لیکن ان دونوں کے درمیان بہت سا فرق ہے، جس کا ذکر ہوچکا۔ اللہ تعالیٰ آیۂ ذیل میں یہی مثال بیان فرماتا ہے:۔
’’ أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵ ) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی مثال بیان فرمائی ہے پاک کلمے کی، اس پاک درخت کی طرح جس کی جڑ مضبوط اور شاخ آسمان میں جا پہنچی
۳۱
ہے، اور ہمیشہ اپنے پروردگار ہی کی اجازت سے پھل دیا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، تاکہ وہ سمجھ سکیں۔‘ ‘
اس پاک درخت سے اللہ تعالیٰ کی مراد رسول (صلعم) ہیں، جس کی جڑ مضبوط ہے۔ جس کو دینی دشمن اکھاڑ نہیں سکتے اور اس کی شاخ آنحضرتؐ کی آلؑ ہیں، جو عالمِ روحانی سے تائید حاصل کرنے کے سلسلے میں روحانی آسمان سے متصل ہوئی ہیں، اور یہی آنحضرتؐ کے فرزند بموجبِ فرمانِ الٰہی لوگوں کو ہمیشہ حکمت کا پھل پہنچاتے رہے ہیں، جو شخص اس مثال کو سمجھ سکے، تو وہی شخص اس درخت تک رسا ہو کر پھل کھا سکتا ہے، کیونکہ یہی پھل ہے جس میں ابدی زندگی پوشیدہ رکھی گئی ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔
’’وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(۱۴: ۲۶)
ناپاک کلمے کی مثال اس ناپاک درخت کی طرح ہے، جس کو زمین سے اکھاڑ لیا گیا ہو، اور اس کی کوئی پائیداری ہی نہ ہو، ایسے بدترین درخت سے اللہ تعالیٰ کی مراد خاندانِ (رسول) کے مخالفین ہیں، جہنوں نے امامت کا دعویٰ تو کر ہی لیا، مگر ان کی اولاد میں (وہ غیر قدرتی) امامت جاری و باقی نہ رہی۔
مذکورہ بیان سے یہ ثابت ہوا، کہ امام بحقیقت وہ ہے جس کا فرزند بھی امام ہو، اور اس کی نسل منقطع نہ ہو، ورنہ جو شخص امامت کا دعویٰ کرے، اور اس کی نسل منقطع ہوجائے تو وہ جھوٹا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔
’’ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الأَبْتَرُ (۱۰۸: ۰۱ تا ۰۳)
(اے محمد صلعم) ہم نے آپ کو بہت سی اولاد والا مرد عطا کر دیا ہے‘‘۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی مراد اساس (علی) ہیں۔ ’’پس آپ اپنے پروردگار کے لئے نماز قائم کیجئے۔‘‘ یعنی دعوتِ حق برپا کیجئے اور نحر کے طریقے پر اونٹ ذبح
۳۲
کیجئے۔ یعنی اساس کا عہد لیجئے۔ ’’کیونکہ آپ کا دشمن دم کٹا (دم بریدہ) ہے‘‘۔ یعنی وہ بے اولاد ہے اس لئے امامت اس میں نہ رہے گی بلکہ وہ آپ ہی کی ذریّت میں باقی رہے گی۔
جب ہم نے (مذکورہ دلائل سے) خدا تعالیٰ کی حجت (امام) کا اثبات۱ کر دیا، تو اب ہم لوگوں کو ان سے روشناس کر دیں گے۔
۱۔: مذکورہ کلام نمبر ۱ کے مطالب کی مزید وضاحت کے لئے میری ایک تصنیف ’’ثبوتِ امامت‘‘ مفید ہوسکتی ہے۔
۳۳
کلام ۔ ۲
امامت کے تمام دعویداروں میں سے امامِ برحق کی نشاندہی کے بارے میں
میرا بیان ہے، کہ لوگوں میں سے ہر شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ’’طریقِ حق (سچا راستہ) یہی ہے، جس پر میں ہوں، اور میرا مخالف باطل (غلطی) پر ہے‘‘۔ تو یہ صورتِ حال اس بات کی دلیل ہوئی، کہ سارے دعاوی۱ حق نہیں ہو سکتے، کیونکہ اگر سارے دعاوی حق ہوتے ، تو دران صورت ان تمام دعویداروں میں سے کوئی بھی باطل پر نہ ہوتا، اس لئے کہ ہر ایک مدعی۲ اپنے مخالف کے دعوے کو باطل کرانے میں حق بجانب ہو سکتا (مگر یہ واقعہ تو ناممکن ہے)۔
جب ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ سارے دعاوی حق نہیں ہوسکتے، تو ہم یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ دعاوی سب کے سب باطل بھی نہیں ہو سکتے، کیونکہ دعاوی تو ایک دوسرے کے مخالف ہیں، اگر یہ سب کے سب باطل ہوتے، تو (ان کی حیثیت ایک جیسی ہوتی) اور یہ ایک دوسرے کے مخالف ہی نہ ہوسکتے۔
۱۔: دعاوی = دعویٰ کی جمع۔
۲۔: مدعی = دعویٰ کرنے والا۔
۳۴
نیز اگر تمام دعویدار ایک دوسرے کے قول سے جھوٹے ثابت کئے ہوئے ہوتے، تو اس صورت میں وہ سب کے سب ایک دوسرے کو جھوٹے ثابت کر دینے میں سچے ہو سکتے، کیونکہ اگر دو مخالف آدمی ایک دوسرے کو جھوٹے قرار دیتے ہوں اور فی الواقع دونوں نے جھوٹ دعویٰ کیا ہو، تو وہ دونوں ایک دوسرے کو جھوٹے ثابت کر دینے میں سچے ہیں۔
جب ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ دعویدار سارے کے سارے سچے نہیں ہوسکتے، نیز سبھی جھوٹے بھی نہیں ہو سکتے، پھر امرِ واقعی یہ ہے، کہ ان تمام دعویداروں میں سے صرف ایک ہی شخص حق بجانب ہے، اور باقی سب باطل پر ہیں، مگر وہ سب اپنے گمان میں اس واحد حق و راستی والے کو باطل گردانتے ہیں، اب جبکہ دعوےٰ والے صرف دو فریق ثابت ہوئے، تو حق بھی باطل سے (جدا ثابت ہو کر) نمایان ہوا۔
پس میرا قول یہ ہے، کہ مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں سے ایک فرقہ وہ ہے، جو ان سب کے لئے مخالف ہے، اور یہ فرقہ ان لوگوں کا ہے، جو کہتے ہیں، کہ امام آلِ رسولؐ ( یعنی علی ابنِ ابو طالب اور فاطمہ زہرا علیہما السلام کی اولاد) سے ہونا چاہئے اور وہ امام علیہ السلام دینی امور کے لئے زندہ اور حاضر ہونا چاہئے، مگر دوسرے سب ایک ہی فرقے کی حیثیت سے ہیں اس لئے کہ جتنے بھی فرقے کسی گزشتہ امام کی پیروی کرتے ہیں، وہ سب (عملی طور پر) ایک دوسرے کو سچے قرار دیتے ہیں (یعنی وہ سب اپنے اس اصول کے ذریعے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں کہ گزشتہ امام کی پیروی کرنا کافی ہے) اور وہ اس ایک فرقے کو جھوٹا قرار دیتے ہیں، جس کا نام فرقۂ امامیہ ہے، جس کا قول یہ ہے کہ امامِ زمان زندہ ہیں اور وہ رسول علیہ السلام کی آل ہیں، جب بہتر فرقے اس ایک فرقے کے مخالف ہیں، تو ہمیں معلوم ہوا کہ حقانیّت فرقۂ امامیہ ہی میں ہے، اور ان دوسرے فرقوں میں نہیں، جب یہ بہتر فرقے (اپنے اس
۳۵
مشترکہ عقیدے کے متعلق) کہتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں، تو میں یہ کہوں گا، کہ حق محض دعویٰ ہی سے ثابت ہو نہیں سکتا، بلکہ حق پر وہ شخص ہو سکتا ہے جس کے پاس اپنے دعویٰٔ حقانیت کی عقلی دلیل موجود ہو۔
میں (اصل واقعہ کا) تذکرہ کرتا ہوں کہ مسلمان رسول علیہ السلام کی رحلت کے بعد دو ۲ گروہ ہو گئے، پہلے گروہ نے کہا، کہ رسول علیہ السلام کے بعد ان کے فرزند ہی امام ہو سکتے ہیں، یہ قول امامی گروہ کا ہے، اور دوسرے گروہ نے کہا، کہ رسول علیہ السلام کے بعد امامت امت کے درمیان ہے، تاکہ یہ جائز ہو کہ جو شخص زیادہ دانا اور زیادہ پرہیزگار ہوا، تو وہی شخص امام بنے، چنانچہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، قولہٗ تعالیٰ:۔
’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنْكُمْ (۰۴: ۵۹)
اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ کی اور فرمانبرداری کرو رسول کی اور فرمان والوں کی جو تم میں سے ہیں۔ ‘‘ پس امامی گروہ نے کہا، کہ یہ فرمان والے رسول ہی کی ذریت سے ہیں، اور دوسرے مسلمانوں نے کہا، کہ امام کا رسول کی اولاد سے ہونا اور غیر سے ہونا دونوں جائز ہیں، پھر گروہِ امامیہ نے کہا، کہ تم نے جو یہ اقرار کر لیا، کہ امام کا رسول کی اولاد سے ہونا جائز ہے، ہم اس پر تمہارے ساتھ متفق ہیں، اور یہ جو تم کہتے ہو کہ رسول کی اولاد کے علاوہ دوسروں سے بھی امام کا ہونا جائز ہے، ہم اس پر تمہارے ساتھ متفق نہیں، پس ہمیں اس پر کوئی دلیل لانے کی ضرورت ہی نہیں (کیونکہ تم نے خود ہی اقرار کر لیا، کہ رسول کی اولاد میں سے امام کا ہونا جائز ہے، اب تمہیں اپنے امام کے اثبات کی دلیل چاہئے، تو انہوں نے کہا، کہ یہ ایک حدیث ہے، جو رسول اللہ علیہ السلام نے فرمایا: ’’اَلْعُلَماءُ وَرَثَۃُ الاَنْبِیَاءِ = دانا لوگ پیغمبروں کے وارث ہوا کرتے ہیں‘‘، تو امامیہ گروہ نے یوں جواب
۳۶
دیا، کہ اس حدیث کے معنی سے یہ مراد ہے کہ رسول علیہ السلام کے حقیقی وارث کے سوا دوسرا کوئی دانا نہیں۔ (چنانچہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ: صرف انبیاء کے وارث ہی بحقیقت دانا ہوا کرتے ہیں، اور دوسرے مسلمانوں نے کہا، کہ جو شخص دانا ہو، تو وہی شخص رسول کا وارث ہے، پھر فرقۂ امامیہ نے یہ جواب دیا، کہ تم ہمارے ساتھ اس بات پر متفق ہوئے، کہ رسول علیہ السلام کے ورثاء۱ میں سے بھی ان داناؤں کا ہونا جائز ہے، مگر ہم تمہارے ساتھ اس بات پر مخالف ہیں، جو کہتے ہو، کہ رسول علیہ السلام کے ورثاء کے علاوہ بھی کوئی دانا ہے، ہمیں اس پر کوئی دلیل لانے کی ضرورت ہی نہیں (کیونکہ تم خود ہی اقرار کرتے ہو، کہ رسول علیہ السلام کے ورثاء میں سے بھی ان داناؤں کا ہونا جائز ہے) اس لئے تمہیں دلیل لانی چاہئے، پس ہم نے یہ دونوں حجتیں (یعنی دلیلیں) امت کے دوسرے فرقوں پر قائم کر دیں، کہ امام رسول ہی کی اولاد سے ہونا چاہئے۔
جو شخص آلِ محمدؐ کا محب۲ نہیں، اور جائز سمجھتا ہے کہ امام رسولؐ کی اولاد کے علاوہ بھی ہوسکتا ہے، تو میں اس سے یہ پوچھوں گا کہ کیا تو مسلمان۳ اور مومن۴ ہے؟ تاکہ وہ کہے، کہ ہاں پھر میں سوال کروں گا، کہ تو کس سبب سے ان ناموں کے لائق ہوا ہے؟ تاکہ وہ یہ کہے، کہ مسلمان اس لئے کہلاتا ہوں، کہ خدا کے سوا جو کچھ ہے، میں نے اس خدا کے حوالے کر دیا، اور خدا کے سوا کسی اور کو نہیں پوجتا ہوں، اور مومن اس معنیٰ میں ہوں، کہ خدا نے ثواب و عذاب کے
۱۔: ورثا = وارث کی جمع
۲۔ محب = دوست دار
۳۔: مسلمان کے لغوی معنی ہیں، تسلیم یعنی حوالہ کرنے والا
۴۔: مومن کے لغوی معنی ہیں، باور کرنے والا
۳۷
بارے میں جو کچھ مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس پر میں نے باور کیا۔
پس میں اسے کہوں گا، کہ سارے یہود اور آتش پرست ایسے اسلام میں تیرے ساتھ برابر کے شریک ہیں، کیونکہ ان میں سے کوئی شخص ہرگز یہ نہیں کہتا، کہ میں خدا کے سوا کسی اور کو پوچتا ہوں، اور نہ خدا کی کسی صفت سے انکار کرتا ہے، پھر اگر وہ یہ کہے، کہ میں محمد رسول اللہ علیہ السلام کا بھی مقر ہوں، اس سبب سے مومن ہوں، تو میں اس سے یہ کہوں گا، کہ سارے عرب والوں نے یہی اقرار کر لیا تھا، اور وہ یہی کہا کرتے تھے، کہ ہم سب مومن ہیں، یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے ان کے اس قول کی تردید کر دی، اور فرمایا:
’’قَالَتْ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (۴۹: ۱۴)
اعرابیوں نے کہا، کہ ہم مومن ہو چکے (اے محمدؐ!) آپ ان سے کہئے کہ تم ابھی مومن نہیں ہوئے، بلکہ تم یہ کہو کہ ہم مسلمان ہوئے جب تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہ ہو‘‘۔ پس یہ بات ثابت ہوئی کہ ایمان وہ نہیں جس کا تو دعویٰ کرتا ہے۔
پھر اس سے میرا یہ سوال ہوگا کہ تو ایک مسلمان کی حیثیت سے کس کو پوجتا ہے؟ تاکہ وہ یہ کہے کہ خدا ہی کو پوجتا ہوں، پھر میں پوچھوں گا، کہ جس خدا کو تو پوجتا ہے، کیا تو نے اسے دیکھا ہے؟ تاکہ وہ کہے کہ خدا دکھائی دینے والا نہیں، کیونکہ اس کی حد و صفت نہیں پس میرا قول یہ ہوگا کہ جس خدا کو تو نے دیکھا ہی نہیں، اور اس کی کوئی حد و صفت نہیں، پھر تو نے اسے کس طرح پہچان لیا، تاکہ تو اس کی پرستش کر سکتا؟ وہ یہ کہے گا، کہ میں نے خدا کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے قول کے ذریعہ پہچان لیا، کیونکہ وہ خدا کے بھیجے ہوئے تھے، میں اسے کہوں گا کہ کیا تو نے اس رسولؐ کو دیکھا ہے؟ وہ مجبوراً یہ کہے گا کہ میں نے رسولؐ کو نہیں دیکھا ہے، پھر میں اسے کہوں گا، کہ رسولؐ
۳۸
کی غیر موجودگی میں تو نے کس طرح خدا کو پہچان لیا، تاکہ تو اس کی پوجا کر سکتا؟ وہ یہ کہے گا، کہ مجھے رسول علیہ السلام کے اقوال سے داناؤں نے زبانی حدیث و خبر دی ہے، میں سوال کروں گا، کہ جن داناؤں نے رسول علیہ السلام سے تجھے یہ حدیث و خبر دی ہے، کیا وہ دین کے سلسلے میں آپس میں متفق تھے، یا مخالف؟ وہ یہ کہہ نہ سکے گا، کہ امت والے سب کے سب متفق تھے، کیونکہ امت کے درمیان بہت سا اختلاف موجود ہے، پس میں کہوں گا، کہ ایک ایسے گروہ کی روایت اور خبر کس طرح سچ اور مستند ہوسکتی ہے، جس کے افراد ایک دوسرے کے مخالف ہوں؟ اس لئے کہ جب تجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے مخالف تھے، درین صورت اگر تو یہ کہتا کہ اس اختلاف میں ان سب نے سچ بولا ہے، پھر تو (منطقی طور پر) سب کو جھوٹے قرار دیتا ہے، اس لئے، کہ جب دو مخالف آدمی یا (دو مخالف گروہ) ایک دوسرے کو جھوٹے قرار دیتے ہوں اور اگر تو نے یہ کہا کہ وہ دونوں سچے ہیں تو وہ دونوں ایک دوسرے کے قول سے جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں، اور کوئی اس منطقی فیصلے کی تردید نہیں کر سکے گا۔
نیز میں پوچھوں گا کہ کیا یہ مناسب ہے (جو ہم یہ مانیں) کہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول (محمد صلعم) کو اس دور کے سب لوگوں کے لئے (یکسان ہدایت و مساویانہ افادیت کے ساتھ) بھیجا ہے، یا نہیں؟ وہ بالضرور کہے گا، کہ مناسب ہے، تو اسے کہوں گا کہ آنحضرتؐ نے اپنی مدتِ زندگی میں ان حاضرین کو راستہ دکھایا، جو آنحضرتؐ کے زمانے میں تھے، اور جب آنحضرتؐ اس دنیا سے رحلت فرما ہوئے، تو کیا اب لوگ بغیر ہادی کے رہ گئے ہیں؟ اگر وہ یہ جواب دے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہی ہادی ہے تو میں اسے یہ کہوں گا کہ کتاب تو بولنے والے کے بغیر خود نہیں بول سکتی ہے، اور اگر وہ یہ کہے کہ بیان کرنے والے کے بغیر ہی کافی ہے، تو وہ گویا اللہ تعالیٰ کے اس قول سے انکار کر رہا ہے، چنانچہ فرمایا:
۳۹
’’وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (۱۶: ۴۴)
ہم نے قرآن آپ ہی کی طرف نازل کیا، تاکہ آپ ہی لوگوں کے لئے بیان کریں جو کچھ ان کے لئے نازل ہوا ہے، تاکہ وہ فکر کر لیا کریں‘‘۔ پس میں کہوں گا، کہ خدا فکر کرنے کے لئے اس وجہ سے ارشاد فرماتا ہے، تاکہ تجھے معلوم ہو کہ جب رسول علیہ السلام کے زمانے میں کتاب کا بیان کرنے والا تھا، تو آج بھی ویسا ہی ہونا چاہئے، اور اللہ تعالیٰ نے رسول سے فرمایا، کہ آپ لوگوں کے لئے کتاب بتدریج (دھیرے دھیرے) پڑھتے رہیے، یعنی فرمایا کہ اپنے پورے دور میں (قیامت تک) کتاب لوگوں کو پڑھ کر سنا کر دیتے جائیے، تاکہ وہ اسے پڑھ سکیں، جیسا کہ فرمایا، قولہٗ تعالیٰ: ۔
’’وَقُرْآناً فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ (وَنَزَّ لْنٰہُ تَنزِیْلًا ) (۱۷: ۱۰۶)
اور ہم نے قرآن میں (بتقاضائے زمانہ تنزیلی و تاویلی) مطالب کو جدا جدا رکھا ہے تاکہ آپ ہی قرآن کو لوگوں کے لئے بتدریج پڑھتے رہا کریں (اور ہم نے تو اس کو اسی لئے تدریجاً نازل کیا ہے)‘‘ پس اب تدریج جاری ہے، اس لئے چاہئے کہ ہمارے واسطے ایک ایسا شخص قرآن پڑھا کرے، جس کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے مقرر فرمایا ہو، اور ایسے شخص کے قرآن پڑھنے کے یہ معنی ہیں کہ ہمیں قرآن کی حقیقت معلوم کرائے۔
اگر وہ شخص (جس کے ساتھ بحث جاری ہے) یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث ہے، جو فرمایا ہے: ۔
’’اِنَّمَا اَصْحَابِیْ کَا لنّجُومِ بِاَیِّھِمْ إِ قْتَدَ یتُمْ إِھْتَدیْتُمْ۔
میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں، ان میں سے جس کی بھی تم پیروی
۴۰
کرو راہ یاب ہو جاؤ گے۔‘‘ میں اس سے سوال کروں گا، کہ آنحضرت کے اصحاب کون سے لوگ تھے؟ تاکہ وہ کہے کہ اصحاب (ساتھی) وہ لوگ ہیں جنہوں نے آنحضرتؐ کو دیکھا تھا اور ان کے ساتھ صحبت رکھتے تھے، پھر میں اسے کہوں گا کہ جن ساتھیوں کا تو ذکر کر رہا ہے، کیا وہ آپس میں مخالف تھے؟ یا متفق؟ وہ نہیں کہہ سکتا کہ متفق تھے، اس لئے کہ ان کے آپس میں جنگ اور قتل واقع ہوا تھا، جب وہ آپس میں مخالف تھے اور ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے، تو یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے، کہ قاتل کا پیرو سیدھے راستے پر ہو اور مقتول کا پیرو بھی اس کے برابر ہے، یہ تو ناممکن ہے، بلکہ یہ قتل تو ایک طرف سے جائز ہوگا اور دوسری طرف سے ناجائز، چنانچہ جو شخص عثمان کے قاتل کا پیرو تھا، اس کے نزدیک عثمان کا قتل جائز اور عثمان کے پیرو کے نزدیک ناجائز تھا، اور حسینؑ ابنِ علی علیہ السلام کا قتل یزید ابنِ معاویہ ….. کے نزدیک جائز اور علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام اور اس کی اولاد کے نزدیک ناجائز تھا، پس یہ کس طرح روا ہو سکتا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ایک ایسے (مخلوط اور غیر ممتاز) گروہ سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے فرمایا ہو، جس کا ایک شخص تو کسی چیز کو حرام ٹھہراتا ہے، اور اسی گروہ کا دوسرا شخص اسی چیز کو حلال ٹھہراتا ہے، تو کیا وہ شخص یہ کہہ سکتا ہے، کہ خدا نے یہ نہیں جانا، کہ رسول کے بعد ان لوگوں کی کیا حالت ہونے والی ہے، اس لئے اس نے رسول سے فرمایا کہ خلقِ خدا کو ان لوگوں کے حوالے کر دیں، یہاں تک کہ شک اور اختلاف میں خدا کی مخلوق ہلاک ہو جائے، پس اس حدیث کی دو امکانی صورتوں میں سے صرف ایک ہی صورت ناگزیر ہے، کہ یہ حدیث یا تو رسول سے نہیں ہے یا یہ گروہ جس کا اگر رسول نے ذکر فرمایا ہو تو وہ گروہ نہیں، جس نے کوئی خلاف ورزی کی ہو۔
اگر وہ یہ کہتا ہے، کہ وہ شخص جس کو مسلمانوں نے امام مقرر کر لیا، حقیقی امام تھا اور اس کی فرمانبرداری واجب تھی، اس لئے رسول علیہ السلام کی حدیث ہے:۔
۴۱
’’ لَا یَجْتَمِعُ اُمَّتِی عَلی الضَّلَا لَۃِ۔
میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی‘‘۔ میں اس شخص سے یوں کہوں گا، کہ امام (اس شخص کا نام ہے، جو) رسول کا جانشین ہوا کرتا ہے، پس اگر خدا تعالیٰ نے پیغمبر کو امت کی پسند پر بھیجا تھا، تو امت کے لئے یہ جائز ہے، کہ وہ اپنی ہی مرضی سے پیغمبر کے مقام پر کسی شخص کو مقرر کرے، اور اگر پیغمبر صرف خدا ہی کی مرضی سے ہوئے ہیں، نہ کہ لوگوں کی مرضی سے، تو رسول کا جانشین بھی خدا ہی کے امر سے ہونا چاہئے، نہ کہ امت کی پسند پر، چنانچہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں جو کچھ فرماتا ہے، وہ اس قول کی حقانیت کی گواہی ہے، قولہٗ تعالیٰ:۔
’’ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ (۳۳: ۳۶(
کسی مومن اور کسی مومنہ کے لئے یہ درست نہیں ہے، جبکہ اللہ اور اس کا رسول کوئی امر فیصل کریں کہ پھر ان مومنین کو اپنے کام میں کوئی اختیار باقی رہے‘‘۔ پس ثابت ہوا کہ امامت خدا تعالیٰ کے فرمان کے سوا درست نہیں ہوتی ہے۔
اگر اس شخص کا قول یہ ہو کہ جو لوگ خلافت پر متمکن ہوئے، وہ رسول ہی کے فرمان سے ہوئے تھے (تو ہم یہ جواب دیں گے کہ) اگر وہ رسول کے فرمان سے خلیفہ ہوئے ہوتے، تو یہ لازمی امر تھا ، کہ وہ شرف و عزت، جو خدا اور رسول سے ان کو حاصل ہوئی تھی، ان کی اولاد میں بھی قیامت تک باقی رہ سکتی (اور ان کو ماننے والی) مخلوق بے سروسرکار نہ ہوجاتی، جب ان سے وہ شرف چلا گیا، تو ہمیں یہ دلیل ملی کہ انہوں نے جو کچھ کیا، وہ خدا اور اس کے رسول کے فرمان پر نہیں کیا۔
نیز میں یہ کہوں گا، کہ ممکن نہیں کہ مخلوق بذاتِ خود سیدھا راستہ دیکھ پائے، اور جو شخص یہ کہتا ہے، کہ میں خود ہی اپنی بہتری جانتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو رد کر دیا ہوگا، اس لئے کہ اگر خدا تعالیٰ کے علم میں یہ ممکن ہوتا، کہ لوگ
۴۲
بذاتِ خود سیدھا راستہ دیکھ پاسکتے ہیں، تو اس کا کوئی پیغمبر بھیجنا مناسب ہی نہ ہوتا، اور جب اس نے پیغمبر بھیجا، تو ثابت ہوا، کہ لوگ گمراہ تھے، اور اس بات کی دلیل کہ کوئی شخص کسی رہنما کے بغیر بذاتِ خود خدا کی پہچان کے سلسلے میں سیدھا راستہ حاصل نہیں کرسکتا، یہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے اپنے اختیار سے بہشت کے ایک ایسے درخت کا پھل کھایا، جس کا پھل کھانا اسے جائز نہیں تھا، مگر اس نے اسی میں اپنی بہتری سمجھی جس میں خدا کی ناراضگی پوشیدہ تھی، جس کی وجہ سے وہ بہشت سے نکال دیا گیا، دوسری دلیل یہ ہے کہ نوح علیہ السلام نے اپنے اختیار سے اپنے بیٹے کو کشتی میں بلایا اور کہا:۔
’’يَابُنَيَّ ارْكَبْ مَعَنَا وَلاَ تَكُنْ مَعَ الْكَافِرِينَ (۱۱: ۴۲(
اے میرے بیٹے ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جا، اور کافروں کے ساتھ مت ہوجا‘‘۔ نیز نوح علیہ السّلام نے مناجات کی، کہ میرا یہ بیٹا میرے گھروالوں میں سے ہے، اور آپ کا وعدہ بالکل سچا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
’’إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ ‘‘ (۱۱: ۴۵(
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس قول کو مسترد کر دیا‘‘ ، جیسا کہ فرماتا ہے: ۔
’’يَانُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ (۱۱: ۴۶(
اے نوح وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں، کیونکہ اس نے اچھا کام نہیں کیا‘‘۔
اس بارے میں تیسری دلیل کہ (دینی معاملات میں) لوگوں کے اپنے اختیارات درست نہیں، یہ ہے ، کہ ابراہیم علیہ السّلام نے جب ایک ستارے کو دیکھا، تو کہا، کہ یہ میرا خدا ہے، اور اس نے جب چاند کو دیکھا، تو کہا کہ یہ میرا خدا ہے، پھر جب اس نےسورج کو دیکھا، تو کہا کہ بس یہ میرا خدا ہے، جو سب سے بڑا ہے، یہاں تک کہ اخیر میں اسے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ گمان کرتا تھا، وہ
۴۳
غلط ہی تھا۔
اس بارے میں چوتھی دلیل، کہ لوگوں کے اپنے اختیارات (دینی معاملات میں) غلط ہوجاتے ہیں، یہ ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام ’’سینا‘‘ کے پہاڑ پر گیا، تو اس نے بنی اسرائیل کو راستے میں اپنے پیچھے چھوڑا، اور وہ ان سے پیشتر مناجات کرنے کے لئے آیا جس پر اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا: کہ تو نے اپنی قوم سے پہلے یہ جلدی کیوں کی؟ جیسا کہ ارشاد ہے، قولہٗ تعالیٰ:۔
’’وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَامُوسَى (۲۰: ۸۳“(
ان مثالوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انسان کو آگاہ کرنا چاہتا ہے، کہ (اپنے اختیار سے) تو نے جو کچھ کیا وہ درست نہیں، کیونکہ اس آیت کے بعد فرماتا ہے:
’’قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمْ السَّامِرِيُّ (۲۰: ۸۵(
تیری قوم کو تیرے بعد ہم نے آزمایا، اور ان کو سامری نے گمراہ کر دیا‘‘۔ نیز موسیٰ علیہ السلام نے باختیارِ خود خدا تعالیٰ سے عرض کی، کہ مجھے آپ دکھائی دیں تاکہ میں آپ کو دیکھوں، اور یہ اس کی غلطی تھی، جبکہ حالت یہی ہے کہ پیغمبروں نے جو کچھ اپنی رائے سے کیا، تو وہ سرے ہی سے غلط کیا، پھر امت کے لئے یہ زیادہ ممکن ہے، کہ وہ اختیارات سے جو کچھ بھی کرے تو غلط ہی کرے گی، اور اسے ہرگز کوئی اچھا بدلہ نہیں ملے گا۔
پس ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ امت کا اختیار غلط ہو جاتا ہے، اور یہ حدیث جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے نقل کرتے ہیں، کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی دو حالات سے باہر نہیں کہ یہ حدیث یا تو صحیح نہیں یا آنحضرتؐ کی امت بحقیقت وہ لوگ ہیں، جن میں گمراہی نہیں پائی جاتی ہے، اور وہ أ ئمۂ برحق ہیں، نہ کہ جاہل عوام۔
اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ تمام مسلمان فرقوں میں سے وہ گروہ حق پر ہے،
۴۴
جس کے ساتھ دوسرے سب فرقے مخالف ہیں، اور وہ گروہ بھی دوسرے تمام فرقوں کا مخالف ہے اور اس حق بات کی گواہی رسول علیہ السلام کی اس حدیث سے ظاہر ہے، جو فرمایا کہ:۔
’’ سَیَفْرُقُ اُمَّتی بَعدی ثلٰثۃِ وَسَبعُوْنَ فِرْ قۃً فِرْقَۃٌ مِنھَا نَا جیۃٌ وَسَا ئِرُھَا فِی النّارِ۔
میرے بعد میری امت تہتر ۷۳ فرقوں میں متفرق ہوگی، ان میں سے صرف ایک ہی فرقہ ناجی و رستگار ہوگا، اور باقی سب کے سب آگ میں ہوں گے۔‘‘ یہ حدیث بس اس امر پر دلیل کرتی ہے کہ بہتر ۷۲ فرقے اس ایک فرقے کے مخالف ہیں، اور (اس فرقے کی مخالفت کے لئے) وہ سب آپس میں متفق ہیں، تاکہ یہی ایک فرقہ اس عالم میں پہنچ کر اس نظریئے کی بدولت سب سے ممتاز ہو جائے، جس کی وجہ سے یہ ایک ناجی ہو کر دوسرے سب پھنس رہے ہوں، اور مسلمانوں کے بہتر ۷۲ فرقوں میں کوئی ایسا فرقہ نہیں، جس کو کافر قرار دیا جاتا ہو، سوائے یہی ایک امامیہ گروہ کے، جس کا کہنا ہے، کہ وہ امام جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ذریت سے ہیں، دنیا میں زندہ اور حاضر ہیں، اور آئندہ امامت بھی اسی کی اولاد میں رہے گی۔
دوسرے تمام فرقے یوں کہا کرتے ہیں، کہ اس قوم کو قتل کر دینا واجب ہے کیونکہ ہم سب مسلمان ہیں اور یہ گروہ کافر ہے، پھر جب کہ مسلمانوں کے بہتر ۷۲ فرقوں کے نزدیک یہی ایک امامیہ گروہ سارے لوگوں سے برا ہے، تو یہ اس حقیقت کی دلیل ہوئی، کہ یہی امامیہ گروہ ہی ناجی ہے اور اس دعویٰ کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہوسکتی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ دوزخیوں کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے، کہ وہ قیامت کے دن یوں کہا کریں گے:۔
’’وَقَالُوا مَا لَنَا لاَ نَرَى رِجَالاً كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِنْ الأَشْرَار (۳۸: ۶۲(
۴۵
اور دوزخی لوگ دوزخ میں یہ کہا کریں گے کہ کیا ہوا ہے، کہ ہم ان لوگوں کو دوزخ میں نہیں دیکھ پاتے، جن کو ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے۔‘‘ جب آج ساری امت کے نزدیک امامیہ گروہ سے بدتر اور کوئی گروہ نہیں، تو ثبوت ملا کہ قیامت کے دن یہ قوم دوزخ میں نہ ہوگی، اور یہ ایک روشن دلیل ہے۔
نیز میں کچھ عقلی بحث کروں گا، اور اس پر خدائے عزو جل کی کتاب سے دلیل پیش کروں گا، کہ دنیا کی سب چیزیں فضیلت و شرافت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں، اور چیزوں کی یہ فضیلت و شرافت جو ایک دوسرے پر رکھتی ہیں، صرف انسان ہی سمجھ سکتا ہے، اس لئے کہ دنیا میں انسان سے زیادہ اشرف کوئی اور چیز نہیں ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
’’وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً (۱۷: ۷۰(
اور ہم نے آدم کی اولاد کو اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت (فوقیت) دی۔‘‘ بنی آدم کی یہ فضیلت و شرافت علم کی وجہ سے ہے اور جمادات پر نباتات کی فوقیت یہ ہے، کہ نباتات جمادات سے اپنے فائدے کو جذب کر سکتی ہیں، اسی لئے وہ لازماً ایک حد تک زندہ ہیں، لیکن ناسمجھ جمادات بے جان پڑے ہوئے ہیں، اور نباتات اتنی سی سمجھ کی بدولت، جو اسے مل گئی ہے، انسان کے نزدیک قابلِ قدر ہوئی ہیں، اس لئے کہ نباتات کو انسان کے ساتھ اسی سمجھ کی وجہ سے کسی قدر ہم جنسیت حاصل ہوئی ہے، حیوان کو نباتات سے زیادہ سمجھ ملی ہے، کہ وہ اپنے دشمن کو پہچانتا ہے، اور گرمی و سردی سے اپنا بچاؤ کر سکتا ہے، لازماً وہ نباتات پر بادشاہ ہوا ہے، کیونکہ ان کی سمجھ حیوان کی سمجھ سے کم ہے، اور انسان نے، جو ان دونوں پر فوقیت رکھتا ہے، حیوان کو نباتاتی غذاؤں میں اپنے ساتھ شریک کر دیا ہے، اور اس لئے کہ حیوان سمجھ کے اعتبار سے انسان کے بہت نزدیک ہے، اور انسان ایک ایسی مزید دانش کی بدولت حیوان پر فوقیت رکھتا ہے، جو صرف اسی کو ملی ہے، چنانچہ وہ اسی قوّت کے ذریعہ جو اس کے نفسِ ناطقہ
۴۶
میں ہے، کسی ظاہر چیز کی پوشیدہ حقیقت کو سمجھ سکتا ہے، لیکن حیوان میں یہ دانش نہیں۔
اس قول کی تشریح یہ ہے ، کہ جب انسان کسی ایسے (دشمن) شخص کو دیکھتا ہے، کہ تیر و کمان کے ساتھ تیار ہے اور اس نے تیر کو تانت میں رکھا ہے، تو وہ ضرور سمجھ لے گا، کہ وہ تیر و کمان والا دور ہی سے اس پر تیر چلاسکتا ہے، نیز وہ یہ بھی سمھ سکتا ہے کہ اب کس چیز سے ڈھال کا کام لینا چاہئے، تاکہ وہ اس کے ذریعہ زخمی ہونے سے بچ سکے، اب اس تیر انداز کے اس فعل کو، کہ وہ دور ہی سے تیر و کمان کے دو آلات کے ذریعہ مارسکتا ہے، نیز انسان کے دوسرے پوشیدہ ہتھیاروں کو بھی نفسِ ناطقہ کے سوا اور کوئی مخلوق پہچان نہیں سکتی ہے۔
پس حیوان کی سمجھ پر انسان کے علم و فضل کی فوقیت یہ ہے ، کہ انسان چیزوں کی ظاہریت سے ان کی پوشیدہ حقیقتیں معلوم کر سکتا ہے۔ کہ انسان چیزوں کی ظاہریت کے سوا کچھ نہیں جانتا، اور انسان اسی دانش کے سبب سے مویشیوں اور حیوانوں پر حکمرانی کرتا ہے، اور (محض اسی دانش کے تقاضے سے) اللہ تعالیٰ نے انسان کی طرف پیغمبر اور کتاب بھیجی ہے، اور چیزوں کی ظاہریت سے ان کی پوشیدہ حقیقتوں کو معلوم کر لینا غیب دانی (علمِ غیب) کی مثال ہے اور غیب دانی دراصل خدا ہی کی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’ وَلِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰواتِ وَالاَرضِ (۱۱: ۱۲۳(
آسمانوں اور زمینوں کی غیب دانی خدا ہی کو ہے۔‘‘ پس جس شخص کے پاس ظاہر چیزوں کا پوشیدہ علم زیادہ ہو تو وہی شخص خدا کے زیادہ نزدیک ہے، چنانچہ جب حیوان کی سمجھ نباتات کی سمجھ سے بڑھ کر تھی تو انسانوں نے اسے اپنی طرف نزدیک تر کر دیا ہے، اور انہوں نے اپنی خوراک سے اس کے لئے ایک حصہ مقرر کر دیا ہے، اور جو شخص زیادہ دانا ہے، تو وہی شخص خدا کا خوف زیادہ رکھتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
۴۷
’’ اِنَّمَا یَخْشیَ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓئُوا (۳۵: ۲۸(
خُدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو دانا ہیں۔‘‘ اور جو شخص خدا کا خوف زیادہ رکھتا ہے، تو وہی شخص خدا کے زیادہ نزدیک ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (۴۹: ۱۳(
اللہ کے نزدیک تم سب میں بڑا معزز وہی شخص ہے، جو تم سب سے زیادہ خدا کا خوف رکھتا ہے۔‘‘
پس ہم نے ثابت کر دیا، کہ جو شخص علمِ غیب زیادہ جانتا ہے، وہی شخص خدا کے زیادہ نزدیک اور زیادہ معزز ہے، جب ہم نے یہ حال بیان کیا، تو اب سنیئے کہ امت میں سے وہ گروہ خدا کے زیادہ نزدیک ہے، جو خدا کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی شریعت کے پوشیدہ معنوں کو جانتا ہے، اور ان معنوں پر دانش سے عمل کرتا ہے، اس لئے کہ دانش سے کام کرنے کو ’’حکمت‘‘ کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا، کہ امت کو حکمت سکھا دی جائے چنانچہ ارشاد ہے:۔
’’وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (۶۲: ۰۲(
ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔‘‘ پس جو کوئی شریعت کا عمل دانش سے کرے، تو وہی حکیم ہے، اور جس شخص کو حکمت مل گئی ہو، تو اس کو بہت سی بھلائی اور بہت سی منفعت مل گئی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
’’ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا (۰۲: ۲۶۹(
اور (سچ تو یہ ہے کہ) جس کو حکمت مل جائے، اس کو بہت سی خیر مل گئی۔‘‘ ساری امت میں (سوائے امامیہ گروہ کے) کوئی ایسا گروہ نہیں جو قرآن و شریعت کی حقیقتوں کو طلب کرتا ہو، مگر وہ سب کتاب و شریعت کی ظاہریت ہی پر ٹھہرے ہوئے ہیں، اور محض چیزوں کی ظاہریت ہی جاننا جانوروں کا کام ہے، پھر جو کوئی
۴۸
صرف قول کی ظاہریت ہی پر عمل کرتا ہے، تو اس نے گویا جانور ہی کے درجے پر اکتفا کی ہے، اللہ تعالےٰ ایسے گروہ کے بارے میں جو چیزوں کی ظاہریت کے سوا کچھ نہیں جانتا ، اس آیت کے بموجب ارشاد فرماتا ہے: ۔
’’يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنْ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنْ الآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ (۳۰: ۰۷(
وہ لوگ صرف دنیوی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں ، اور وہ لوگ آخرت سے بالکل بے خبر ہیں۔‘‘
پس لوگوں پر ان اسرار کا طلب کرنا واجب ہے، جو شریعت میں پوشیدہ ہیں، اور اس کے ظاہر پر دانش سے عمل کرنا ایسا ہے، جیسے انسان خود اس دنیا میں ظاہر ہے، اور وہ اسی ظاہر دنیا میں اس پوشیدہ عالم کو ڈھونڈھ پاتا۱ ہے، اور اگر لوگ شریعت کے ظاہر سے اس کی حقیقتوں کی تلاش نہ کریں، اور صرف شریعت کے ظاہر ہی پر ٹھہرے رہیں تو ان کی مثال ایک ایسے شخص کی طرح ہے جو اس دنیا کے ذریعہ (یعنی بر وقت اور اسی دنیا میں ہوتے ہوئے) آخرت کو طلب نہیں کرتا ہے، اور وہ اس جہان میں زیان کار رہتا ہے، کیونکہ ایسے لوگوں سے یہ دنیا تو گزر ہی جائے گی اور وہ پوشیدہ عالَم انہوں نے حاصل کیا ہوا نہ ہوگا۔
جب اس فصل کا بیان ہوچکا، تو اب میں ان شاء اللہ تعالیٰ اپنے روحانی بھائیوں اور عزیزوں کے لئے اس کتاب میں ان اقوال اور شرعی بنیادوں کی تشریح کروں گا جو شریعت، شہادت، طہارت، زکوٰۃ، صدقات، صلوٰۃ، جزیہ وغیرہ اور ان کے لوازم کے متعلق ہیں، نیز ہر اس قول و فعل کی حقیقت بیان کر
؎۱: یعنی جس طرح انسان کو عالمِ ظاہر میں رہتے ہوئے عالمِ باطن کی حقیقتوں کی تلاش لازمی ہے، اسی طرح شریعت کے ظاہر سے اس کا باطن حاصل کرنا ضروری ۔ (مترجم(
۴۹
دوں گا، جو اصولِ دین میں سے ہے، تاکہ مومنین، دینِ اسلام کے چہرے کو دیکھ سیکیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس نیک نیت کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا فرمائے! اور اس کتاب کے پڑھنے والوں کو ہوشیاری نصیب ہو! تاکہ وہ یہ گمان نہ کریں، کہ جب انہوں نے شریعت کے باطن کو سمجھ لیا، تو اس پر عمل کرنا ان سے ساقط ہوگیا، بلکہ وہ اس پر اس وقت زیادہ عمل کرتے رہیں جبکہ وہ اس کے باطن جانتے ہوں۔
والسلام
۵۰
کلام ۔ ۳
علم یعنی دانش کے بارے میں کہ وہ کیا ہے؟
سب سے پہلے مومن کو یہ جاننا چاہئے، کہ علم (کی تعریف) کیا ہے، تاکہ وہ جب اس کو پہچان لے، تو اسے حاصل بھی کر سکے گا، کیونکہ جب تک کوئی شخص کسی چیز کو نہ پہچانے، تو وہ اس چیز تک ہرگز رسا نہیں ہوسکتا، پس (علم کی تعریف کے بارے میں ) میرا کہنا یہ ہے کہ: چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کرنے کا نام علم ہے، اور چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کرلینے والی (قوّت) عقل ہی ہے، پس علم عقل کے گوہر میں ہے ( یعنی علم روحانیّت کی اس اعلیٰ ترین مثال میں پایا جاتا ہے، جو بارہ پہلوؤں کے ایک لعل کی صورت میں پیش کی جاتی ہے) اور عقل کی گواہی باری سبحانہ تعالیٰ کا وہ کلمہ ہے، جس کے تحت تمام روحانی و جسمانی مخلوقات موجود ہیں ( یعنی جب گوہرِ عقل کے بارہ پہلوؤں سے بارہ قسم کی روحانی تعلیمات دی جاتی ہیں، تو ہر تعلیم کے ساتھ ساتھ کلمۂ باری کی ایک تصدیق بھی ملتی جاتی ہے، کیونکہ گوہرِعقل کی یہ تعلیمات رموز و اشارات پر مبنی ہیں اور کلمۂ باری ہی ان سب کی گواہی دیتا ہے اور تصدیق کرتا ہے) اور جو کچھ علم کے تحت نہ آتا ہو، تو اسے ہست (موجود) نہیں کہنا چاہئے، پس خدا کے سوا سب کچھ علم کے گھیرے میں پایا جا سکتا ہے، اور جب یہ جائز نہیں، کہ خدا تعالیٰ بھی علم کے تحت ہو، کیونکہ علم وہ ہے کہ ساری چیزیں
۵۱
اور ہستیاں اس کے تحت پائی جاتی ہیں، نیز ’’نیست‘‘ بھی اس کے تحت ہے، تو جائز نہیں، جو میں یہ کہوں کہ خدا ہے، یا یہ کہوں کہ خدا نہیں ہے، کیونکہ یہ دونوں حالات (ہست و نیست) علم کے تحت ہیں، لیکن خدا علم کے تحت نہیں۔
پس میں (خدا کی حقیقت کے بارے میں) یہ بتاؤں گا، کہ (علم) محض امرِ خدا ہے، اور جس شخص کو (دوسروں کے مقابلے میں) علم کا زیادہ حصہ ملا ہے، تو وہی شخص خدا کے امر کے زیادہ نزدیک ہے، اور اسی شخص نے خدا کے امر کو زیادہ قبول کر لیا ہے، اور وہی شخص (دوسروں سے) زیادہ فرمانبردار ہے، اور جو شخص زیادہ دانا ہو، وہی شخص خدا کا زیادہ فرمانبردار ہوجاتا ہے، اور جو شخص مکمل طور پر دانا ہو، تو وہی شخص دائمی نعمت کو حاصل کر سکتا ہے، چونکہ دانا کے کاموں کا انجام خدا کی رحمت ہے، انسان اس کائنات کی دوسری تمام مخلوقات کی تکمیل کے بعد پیدا ہوا ہے، اور اس کی جائے واپس امرِ کل ہے، جو دونوں جہان کی علت (یعنی سببِ پیدائش ) ہے، اور قانون یہ ، کہ تمام چیزیں اپنی اصل ہی کی طرف رجوع کر جاتی ہی، بھائیو! تم حصولِ علم کے سلسلے میں کوشش کرتے رہو، تاکہ جس سے تم خدائے برتر و بزرگ کے زیادہ نزدیک ہو سکو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو علم ہی ہے۔
۵۲
کلام ۔ ۴
لطیف روحانی عالَم کے بارے میں
جب ہم نے یہ واضح کر دیا کہ سب سے پہلے جو چیز پیدا ہوئی، وہ باری تعالیٰ کا امر ہے، اور وہ علم ہے، اور ہم نے اس قول کی سچائی پر یہ دلیل پیش کر دی، کہ ساری چیزیں علم کے تحت ہیں، تو اس سے یہ لازم آتا ہے، کہ سب سے پہلے علم ہی موجود ہوا ہے (کیونکہ علم جو گوہرِ عقل میں ہے، تمام موجودات سے برتر اور مقدم ہے، اور عقل کی گواہی کلمۂ باری یعنی امرِ کل ہے، لہٰذا امر اور علم (عقل) دونوں تمام موجودات سے برتر اور مقدم ہیں)۔
اب اس حقیقت کا بیان کیا جاتا ہے، کہ پہلے باری سبحانہ کے امر سے روحانی عالم وجود میں آیا ہے، پھر اُس عالَم سے یہ کائنات پیدا ہوئی ہے، اور توضیح کی جاتی ہے ، کہ وہ عالَم دانا، مکمل، پائندہ اور لطیف ہے، یعنی وہ عالَم سرتا سر روح اور دانش ہی ہے۔
اب اس حقیقت کی دلیل کہ پہلے روحانی عالم موجود ہوا، اور اس کے بعد یہ کائنات پیدا ہوئی، یہ ہے، کہ یہ جسمانی عالم ایک حالت سے دوسری حالت میں بدل جانے والا واقع ہوا ہے، اور اس تبدیلی کے ذریعے ازقسمِ معدنیات، نباتات اور حیوانات، بہت سی چیزیں پیدا ہوتی رہتی ہیں جن میں (کسی فاعل کا) قصد و منشاء اور مراد کی علامتیں پائی جاتی ہیں (یعنی دنیا کی چیزوں پر غور کرنے
۵۳
سے یہ معلوم ہوتا ہے، کہ یہ کسی اتفاقیہ اور بلا قصد حادثہ اور ناخواستہ تصادم کے نتیجہ میں بکھری ہوئی پڑی نہیں ہیں، بلکہ ہر چیز کو کسی حکیم کاریگر نے ایک خاص ارادی شکل و ساخت میں کسی نہ کسی کام کی غرض سے پیدا کی ہے، پس قصد ہر چیز کی شکل و ساخت ہی ہے، اور ’’مراد‘‘ اس شکل و ساخت کا فعل ہے، چنانچہ نباتات اگتی رہتی ہیں، جن پر حیوانات کا قیام ہے، اور انسان پیدا ہوتے ہیں، جو نباتات اور حیوانات دونوں کی حفاظت کرتے ہیں، اگر انسان نہ ہو تو ساری نباتات اور حیوانات کا خاتمہ ہوگا۔
پس ہمیں معلوم ہوا، کہ ان چیزوں میں یہ ’’قصد‘‘ اس دنیا کی طرف سے نہیں ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے، کہ یہ ’’قصد‘‘ طبائع کی طرف سے ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا، کہ یہی دنیا خود ’’قصد کرنے والا‘‘ بھی ہے، اور خود ’’مقصود (مراد)‘‘ بھی، مگر یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی منافی ہیں، جب یہ معلوم ہوا، کہ اس دنیا کی خلقت و صنعت میں جو کچھ ’’قصد‘‘ پایا جاتا ہے، وہ اس جہان کا ہے، تو ہم نے اس ’’قصد کرنے والے‘‘ (یعنی منشاء والے) کو بھی عالَم کہا، جس کی وجہ یہ ہے، کہ ایک ایسی چیز دوسری چیزوں میں قصد کی کوئی صورت پیدا کر سکتی ہے، جس کی مناسبت و مشابہت ان مقصود چیزوں کے ساتھ ہو۔
پس ہمارے مذکورہ بیان کے بموجب یہ لازم آتا ہے، کہ وہ عالَم (جس کا فعل یہ دنیا ہے) ایک اعتبار سے اس دنیا سے ملتا جلتا ہے، جب اس دنیا میں علم سے بڑھ کر کوئی شے اشرف نہ تھی، تو ہم نے اس کا یہ نتیجہ نکالا، کہ وہ جہان دانش حاصل کرنے والا بھی ہے، اور دانش دینے والا بھی، اور جب اس دنیا میں دانش حاصل کرنے والی تو روح ہی تھی اور دانش دینے والی عقل ہی تھی، تو ہم نے اس وجہ سے کہا، کہ وہ عالَم سرتا سر عقل و روح ہی ہے، اور دوسری کوئی چیز ہرگز نہیں، اس لئے کہ دنیا میں بس یہی دو اصل چیزیں پائی جاتی ہیں۔
(چنانچہ کائنات کی تمام چیزیں فائدہ بخشی اور فائدہ پذیری کے اعتبار سے
۵۴
دو حصوں میں منقسم ہیں، یا یہ کہنا چاہئے کہ ہر چیز اگر ایک طرف سے فائدہ بخش ہے، تو دوسری طرف سے فائدہ پذیر ہے، اور ان دو قسم کی چیزوں یاکہ دو حیثیتوں کے سوا دنیا میں اور کوئی شے نہیں ہے مثلاً: آسمان فائدہ دینے والے ہیں، اور طبائع فائدہ لینے والی ہیں، اور نباتات فائدہ لینے والی ہیں، نباتات فائدہ دینے والی ہیں، اور حیوانات فائدہ لینے والے ہیں، حیوانات فائدہ بخش ہیں، اور انسان فائدہ پذیر ہیں، استاد فائدہ دینے والا ہے، اور شاگرد فائدہ لینے والا ہے، پیغمبر فائدہ دہندہ ہے، اور امت فائدہ پذیز ہے، حیوانات میں نر فائدہ دینے والا ہے، اور مادہ فائدہ لینے والی ہے، صانعِ فائدہ بخش ہے، اور مصنوع فائدہ پذیر ہے۔
جب یہ معلوم ہوا کہ یہ عالَم مجموعی طور پر فائدہ پذیر ہے، کیونکہ یہاں جو کچھ معدنیات، نباتات اور حیوانات پیدا ہوجاتے ہیں، ان میں سے کوئی ایک چیز بھی عناصر کی ذات میں نہیں پائی جاتی ہے، سو ہم نے کہا، کہ یہ سب کچھ عالَمِ روحانی ہی پیدا کرتا ہے، اور وہی فائدہ دہندہ ہے، پھر ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ جہان اپنی کلّیت و خودی میں دو قسم کا ہے، ایک قسم فائدہ دہندہ ہے، اور وہ عقل ہے، اور دوسری قسم فائدہ پذیرندہ ہے، جو نفس ہے، جب ہمارے علم میں یہ آیا، کہ یہ جہان (مجموعی حیثیت سے) فائدہ پذیر ہے، تو معلوم ہوا کہ وہ عالَم ( مجموعی حیثیت سے) فائدہ بخش ہے، پھر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ عالَم اس عالَم سے پیشتر موجود ہوا ہے اور ہم اس پہل کو تقدمِ زمانی نہیں کہیں گے، بلکہ تقدمِ شرفی کہیں گے (یعنی وہ عالَم) اس دنیا سے وقت کے لحاظ سے پہلے نہیں، بلکہ فضل و شرف کے اعتبار سے پہلے ہے) چنانچہ استاد کو شاگرد پر تقدمِ شرفی حاصل ہے، جبکہ کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر ایک ہی وقت اور ایک ہی حالت میں سکھانے والے کا نام استاد اور سیکھنے والے کا نام شاگرد لازم آتا ہے۔
اب ہم اس بارے میں دلیل پیش کریں گے، کہ وہ عالَم دانا ہے،
۵۵
چنانچہ اس کائنات میں حکیمانہ کاریگری کے نشانات ظاہر ہیں ( مثلاً: ) آسمانوں کی ساخت، جو ایک مکمل ترین اور موزون ترین شکل میں ہے، جو گول شکل ہے، نیز چار طبائع کی مناسبت، کہ اگر ہر ایک طبع کی دوسری کے ساتھ ایک وجہ سے مخالف ہے، تو دوسری وجہ سے مناسبت بھی ہے، تاکہ اس (مخالفت و مناسبت) کے ذریعہ فائدہ حاصل ہو، چار طبائع سے مراد آگ، ہوا، پانی، اور مٹی ہیں، آگ گرم اور خشک اور مٹی سرد و خشک ہے، یہ دونوں خشکی میں ایک دوسرے کے ساتھ موافق، اور گرمی و سردی میں مخالف ہیں، ہوا گرم و تر اور پانی سرد و تر ہے، یہ دونوں تری میں باہم موافق، اور گرمی و سردی میں مخالف ہیں، ہم نے اس کی تشریح ایک اور کتاب (زاد المسافرین) میں کی ہے۔
جب کاریگری سے بنائی ہوئی اس کائنات میں حکمت ظاہر ہے، اور ہم نے (اس سلسلے میں جب یہ) ثابت کیا، کہ اس کا کاریگر (یعنی) وہ جہان (اس کائنات سے) پیشتر ہے، تو ثابت ہوا کہ وہ جہان دانا ہے (اب) ہم اس بارے میں دلیل لائیں گے، کہ وہ جہان مکمل ہے، پس توضیح کی جاتی ہے کہ ہمیں یہ عالم نامکمل نظر آتا ہے، اس لئے کہ یہاں اس عالَم سے بہتر چیزیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، چنانچہ حیوان پیدا ہوتا ہے، جو اس عالَم سے بہتر ہے، اس لئے کہ یہ عالم چار طبائع کی باہمی رفاقت سے منظم ہوا ہے، لیکن انسان اور حیوان چار طبائع کی باہمی رفاقت سے نہیں، بلکہ ان کی باہمی آمیزش سے منظم ہوئے ہیں، پس اگر دو ساتھ رہنے والی چیزوں کو (ان کی باہمی رفاقت کی وجہ سے) منظم کہنا شایان ہے) اور اس تنظیم میں ان دونوں کے لئے نیکی اور بہتری ہے، پھر جب ان کی قطعی آمیزش ہوجائے تو انہیں زیادہ منظم کہنا شایان ہوگا، اور اس تنظیم میں زیادہ نیکی اور بہتری ہوگی۔
حیوان جسم کے اعتبار سے لازماً اس عالَم کے مانند ہے، کیونکہ (جسم) طبائع ہی کا بنا ہوا ہے، مگر حساس (محسوس کرنے والی) اور منتقل (جگہ بدلنے والی) روح
۵۶
کے اعتبار سے وہ دنیائے طبائع پر فضیلت رکھتا ہے، پس اس کا یہ ثبوت ہوا کہ اس عالَم سے حیوان زیادہ مکمل ہے، کیونکہ اس کی روح ہے، اور اس عالَم کی روح نہیں، جب ہم نے اس نامکمل عالَم سے ایک مکمل چیز (کا پیدا ہونا) دیکھا، تو ہم کو معلوم ہوا کہ کسی دوسرے مکمل (فاعل) کی عنایت کے بغیر نامکمل (دنیا) سے یہ چیز پیدا نہیں ہوسکتی، اور جب ہم نے یہ ثابت کر دیا تھا، کہ اس کائنات میں کاریگری اس عالَم کی ہے، تو ہم نے (اس بناء پر ) کہا کہ وہ عالم جس کی کاریگری میں کمال پایا جاتا ہے، لازماً مکمل ہے، اور جو کچھ مکمل ہو وہ باقی رہ سکتا ہے۔
اس بات کی دلیل کہ وہ عالَم باقی ہے، یہ ہے کہ جب ہمارے مشاہدے میں یہ آتا ہے، کہ یہ کائنات ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتی رہتی ہے، تو یہی اس کی تبدیلی اس کی جزوی فنا ہے، کیونکہ کسی موجود کی حالت کا اس معنی سے بدل جانا، جسے وجود کہتے ہیں، فنا ہی کی حقیقت ہے، اور جو چیز جزوی طور پر فنا ہوتی ہو تو لازم آتا ہے، کہ وہ ایک دن کلی طور پر فنا ہوگی، اور اس دنیا میں فنا کی بہت سی قسمیں (جاری) ہیں، جیسے اضداد کا آپس میں بدل جانا، جیسے زندہ کا مرجانا، تاریک کا روشن ہوجانا، خوشبو کا بدبو ہوجانا، وغیرہ اور یہ سب فنا کی دلیلیں ہیں، اس لئے فنا بقا کی ضد ہے، جس طرح تاریکی روشنی کی ضد ہے، اور عدم (نیستی) وجود (ہستی) کی ضد ہے، پس یہ جزوی فنائیں اس عالم کی کلی فنا کی نشاندہی کرتی ہیں، جب اس مصنوع کے لئے فنا لازمی ہوئی تو اس عالم کے لئے بقا لازمی ہوئی، جو اس کا صانع ہے، اس لئے صانع مصنوع سے اشرف ہے، جس طرح بقاء فنا سے اشرف ہے، اور اس عالم میں کاریگری (تخلیق) عارضی ہے، اور اس جہان کا قیام بھی عارضی ہے، اور اس کی حالت کی تبدیلی ہی اس حقیقت کی شہادت ہے، کہ اس کا قیام عارضی ہے مثلاً گرمی اور روشنی آگ سے لوہے میں عارضی طور پر آتی ہیں، جو دونوں چیزیں آگ میں جوہری یعنی ذاتی ہیں، پس میں نے یہ ثابت کر دیا، کہ اس عالم کی یہ عارضی
۵۷
بقا اس عالم سے پیدا ہوئی ہے، پھر اس عالم کے لئے یہ لازمی آتا ہے کہ اس کی بقاء جوہری یعنی ذاتی ہو۔
اب اس بارے میں دلیل پیش کی جاتی ہے، کہ وہ عالَمِ لطیف ہے، چنانچہ توضیح کی جاتی ہے، کہ لطیف وہ چیز ہے جس کے اثرات جب کسی جسم میں سے گزرتے ہیں، تو وہ جسم ان کو روک نہیں سکتا، اس قول پر محسوسات میں سے ایک دلیل یہ ہے، کہ آگ میں لطافت ہے اور کوئی جسم اس کی قوّت کو روک نہیں سکتا، آپ کو معلوم ہے کہ جب آگ لوہے کو چھوتی رہتی ہے، تو اس قدر آہنی سختی اور قوّت کے باؤجود آگ کی قوّت لوہے کو پار کر جاتی ہے، خواہ لوہا کتنا ہی موٹا اور مضبوط کیوں نہ ہو، اور جب ہم نے یہ مشاہدہ کیا، کہ گہرے سمندروں میں مچھلیاں اور دوسرے جانور (شروع میں ماں باپ کے بغیر) پیدا ہوئے، نیز ان کے نروں کی پشت اور مادوں کے پیٹ میں نسلی حیات داخل ہوئی، جبکہ نر جانوروں کی پشت میں نطفہ بنتا ہے، اور وہ یہاں سے منتقل ہو کر مادہ جانوروں کے پیٹ میں جانور بنتا ہے، تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ اس عالَم کی لطافت کی وجہ سے ہے، جو اس دنیا کا کاریگر ہے۔
اب اس بات کی دلیل کہ وہ عالَم زندہ ہے، یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں یہ دیکھتے ہیں کہ جو کچھ جان رکھتا ہے، وہ اس چیز سے اشرف ہے، جس کی کوئی جان نہیں، اور وہ عالَم جو صانع ہے اس دنیا سے اشرف ہے، کیونکہ یہ مصنوع بے جان ہے، لازم آتا ہے کہ وہ عالَم جو صانع ہے، یکسر جان اور دانش ہی ہے۔
نیز جب اس دنیا میں ایک بہترین چیز دانا جاندار ہے، جس کا نام انسان ہے، تو ہم نے (نتیجے کے طور پر یہ) کہا، کہ جب صانع مصنوع سے بہتر ہے، اور دنیا کی مصنوعات میں سے ایک بہترین چیز دانا جاندار ہے، تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ دانا جاندار اپنے صانع کے زیادہ نزدیک ہے، کیونکہ وہ دوسری مصنوعات سے زیادہ بہتر ہے، اور جب دانا جاندار یعنی انسان بہتر ہے، اور (جب یہی قانون
۵۸
ہے کہ مصنوعات میں سے) وہ مصنوع اپنے صانع کے زیادہ نزدیک ہو سکتی ہے، جو بہتر ہو، پس ثابت ہوا کہ وہ عالَم زندہ اور دانا ہے، اور اس دعویٰ کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہوسکتی ہے، جو فرماتا ہے: ۔
’’وَإِنَّ الدَّارَ الآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (۲۹: ۶۴(
اور بلا شبہ آخرت کا گھر زندہ ہے، اگر ان کو اس کا علم ہوتا‘‘۔
پس ہم اب اس بارے میں دلیل پیش کریں گے، کہ وہ عالَم جاننے والا، دیکھنے والا، سننے والا اور بولنے والا ہے، چنانچہ جب انسان میں پیدا ہونے والی یہ قابلِ ستائش صفات اُس عالَم سے آتی ہیں، اور یہ صفات جن کا ہم نے ذکر کیا (جبکہ) اِس دنیا کے چار عناصر میں نہیں، اور چار عناصر مصنوع ہی ہیں، تو لازمی ہے کہ یہ صفات جن کا ذکر ہوچکا، اس کائنات کے صانع سے ہیں، اور جب یہ صفات اِس جہان میں جزوی طور پر موجود ہیں، تو ہمیں معلوم ہوا، کہ وہ عالَمِ کلی ہے،، اور توانائی، بینائی، شنوائی اور گویائی اُس عالَم کی ہیں، اور باری سبحانہ و تعالیٰ کے اس امر کے بموجب، جو دونوں جہان کا سرمایہ ہے، اور عقل کی تائید کے ذریعے مذکورہ تمام صفات نفسِ کل ہی کو حاصل ہیں، (اور وہی اِس جہان کا صانع اور لطیف عالَم ہے) اور توضیح کی جاتی ہے، کہ وہ لطیف، باقی، توانا، دانا اور مکمل عالَم مکان نہیں (یعنی فی نفسہٖ اس کائنات کی طرح مکانی حیثیت سے نہیں، بلکہ لامکانی صورت میں موجود ہے) اور مکان کے اندر نہیں (یعنی کسی جسم کی طرح اس کا انحصار مکان ہی پر نہیں) اور مکان سے قطعاً باہر بھی نہیں (یعنی روحانی طور پر عالمگیر وسعت اور ہمہ رس صفت میں ہر جگہ موجود ہے) اور وہ خدائے بے مثال کا پیدا کیا ہوا ہے (پس) مومنِ مخلص پر واجب ہے، کہ اُس عالَم کو پہچانے اور یہ سمجھ لے، کہ حقیقت میں بہشت وہی عالَم ہے، اور جس نے بحقیقت اُس عالَم کو پہچان لیا، تو اس کی روح جو جسم میں ہے، گویا ابھی سے اُس عالَم
۵۹
میں جا پہنچی ہے، اور جب اس نے شریعت پر عمل بھی کر لیا، تو وہ خود بھی اُس عالَم میں پہنچ جائے گا، اور ہمیشہ کے لئے لازوال نعمتوں میں رہے گا، اللہ تعالیٰ مومنوں کو توفیق عطا فرمائے!
والسلام
۶۰
کلام ۔۵
بہشت، اس کا دروازہ اور اس کی کلید کے بارے میں
ہم جو کچھ (یہاں حقائق کے سلسلے میں) کہتے ہیں، اس میں ہماری اپنی کوئی توانائی و طاقت نہیں، جبکہ (بموجب لاَ حَول وَلَا قُوّۃ اِلّا باللّہ) توانائی و طاقت خدا ہی کی ہے، اور ہمارے قول میں جو کچھ بہتری ہے، وہ خدا کے ولی (یعنی امامِ زمانؑ) کی نسبت سے ہے، اور خطا و لغزش کا سبب ہمارا ضعیف نفس ہی ہے، پس ولیِ زمان کی کرم فرمائی سے ہم یوں بیان کر تے ہیں، کہ بہشت حقیقت میں عقل ہی ہے، اور بہشت کا دروازہ اپنے زمانے میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہیں، اور ان کے وصی اپنی مرتبت میں اسی حیثیت سے ہیں، اور امامِ زمانؑ اپنے عصر میں یہی درجہ رکھتے ہیں، اور بہشت کے دروازہ کی کلید کلمۂ لَا الٰہ اِلّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ ہے، پس جو شخص یہ شہادت اخلاص (بے ریائی) سے کہتا ہے، تو گویا اسے بہشت کا دروازہ یعنی رسولؐ مل چکا ہے، اور جس نے یہ شہادت اخلاص سے اپنالی، تو وہ شخص پیغمبر علیہ السّلام کے ساتھ واصل ہوا، چنانچہ جس کو دروازے کی کلید ملتی ہے، تو وہ دروازے کی طرف آجاتا ہے، اور جو شخص شہادت کو خلوص سے اپنا کر
۶۱
رسول علیہ السلام سے واصل ہوا، تو وہ شخص گویا بہشت میں داخل ہوا، چنانچہ جو کوئی کلید کے ساتھ دروازے کی طرف آجائے تو دروازہ کھولا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت کی دلیل، جو ہم نے کہا کہ عقل ہی بہشت ہے، یہ ہے کہ انسان کی یہ ساری راحت، سہولت اور امن و امان عقلِ کل ہی سے ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں، کہ انسانوں کو عقلِ کل سے حصہ ملا ہے (جس کی وجہ سے) انہوں نے چوپایوں پر کس قدر تکلیف، سختی اور خوف ڈال رکھا ہے، اور وہ خود ان پر سردار ہوئے ہیں، کیونکہ ان چوپایوں میں عقل نہیں، اور جو شخص زیادہ دانا ہے، تو اسے دنیا کوئی دکھ دے نہیں سکتی، دنیا کا کوئی غم اس کی طرف آنہیں سکتا، اور اسے دنیاوی نفع و نقصان کی کوئی پرواہ نہیں۔
لیکن نادان مالی نقصان کے غم، گناہ، دکھ اور دنیاوی طمع کی وجہ سے گویا مر ہی جاتا ہے، پس جب اتنی سی عقلِ جزوی کے ذریعہ ، جو لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بطورِ حصہ ملی ہے، اس قدر دکھ ان سے اٹھ گیا، تو یہ حقیقتِ حال اس امر کی دلیل ہوئی، کہ عقلِ کل ہی بحقیقت بہشت ہے، کیونکہ اسی کے اثر سے دنیا میں ساری نعمتیں اور راحتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، اور جو شخص زیادہ دانا اور عقل کے زیادہ نزدیک ہے، تو وہ بہشت کا دروازہ ہے، چنانچہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ساری مخلوقات میں سے عقل کے زیادہ نزدیک تھے، آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی لئے آنحضرتؐ سے فرمایا، کہ آپ لوگوں کو علم سکھایا کریں اور مسلمانوں کو اس میں کوئی شک ہی نہیں ، کہ پیغمبر علیہ السلام بہشت کا دروازہ ہیں، پس ثبوت ہوا کہ حقیقت میں عقل ہی بہشت ہے۔
اب اس بارے میں دلیل پیش کی جاتی ہے، کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہشت کا دروازہ ہیں، چنانچہ ہمارا بیان یہ ہے کہ کسی مقام کا دروازہ وہ ہوتا ہے جس کے بغیر اور کہیں سے کوئی شخص اس مقام میں داخل نہیں ہوسکتا، اور
۶۲
یہ حقیقت ہے، کہ کوئی شخص بہشت میں داخل نہیں ہوسکے گا، مگر وہی شخص، جو رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی فرمانبرداری کرے، آنحضرتؐ کے نزدیک ہوجائے، آنحضرتؐ کے فرمان کو قبول کرے، اور حضور کے قول و عمل کی حقیقت سمجھے، کیونکہ رسول کی فرمانبرداری اللہ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔
’’مَنْ يُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (۴: ۸۰)
یعنی جس شخص نے رسول کی فرمانبرداری کی، تو بے شک اس نے خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کی‘‘۔ اسی طرح ہر رسول اپنے دور میں بحدِ قوت بہشت کا دروازہ رہا ہے، اس وجہ سے کہ اس کی فرمانبرداری کے راستے پر چلتے ہوئے اس کی شریعت پر علم کے ساتھ عمل کرنے سے کوئی انسان بہشت میں پہنچ سکتا ہے، اور جو شخص رسول کی شریعت کو علمِ تاویل کے بغیر قبول کرے تو اس شخص کو بہشت کا دروازہ مقفل ملا ہوا ہوتا ہے، اور جو شخص عمل دانش سے کرے تو اس کے لئے بہشت کا دروازہ کھل جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، قولہٗ تعالیٰ:۔
’’وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا (۳۹: ۷۳(
اور جو لوگ اپنے ربّ سے ڈرتے تھے ان کو گروہ گروہ بنا کر بہشت کی طرف روانہ کئے گئے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئے تو بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے۔‘‘
یہ جو فرماتا ہے کہ ’’بہشت کے دروازے کھول دیئے گئے،‘‘ تو اس آیت سے یہ ظاہر ہوا کہ ان کے آنے سے پیشتر بہشت کے دروازے بند کئے ہوئے ہوں گے اور ان کے آنے کے بعد کھول دیئے جائیں گے، اس قول کے یہ معنی ہوئے کہ انبیاء علیہم السّلام کی شریعتیں سب کی سب اشارات و تمثیلات کے ذریعے بندھی ہوئی ہوتی ہیں، اور لوگوں کی نجات ان کے کھولنے میں
۶۳
پوشیدہ ہے، جس کی مثال ایک ایسے بند دروازے کی طرح ہے، کہ جب وہ کھل جاتا ہے، تو لوگوں کو آرام کی جگہ ملتی ہے اور کھانا پینا مہیا ہو جاتا ہے، جب بہشت کا دروازہ (کسی شخص کے لئے ) بند کیا ہوا ہو تو اصولاً دوزخ کا دروازہ (اس کے لئے) کھولا ہوا ہوگا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
’’ وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا (۳۹: ۷۱(
اور جو کافر تھے، وہ جہنم کی طرف گروہ گروہ بنا کر ہانکے گئے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئے، تو دوزخ کے دروازے کھول دیئے گئے۔‘‘ بہشت کے دروازے کا کھل جانا، کتاب (قرآن) اور شریعت کی تاویل سے متعلق ہے، اور تاویل کا مالک ہر رسول کا وصی ہوتا ہے، اور بہشت کے دروازے کھل جانے سے اصولاً دوزخ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، پس رسول بہشت کے دروازے کی حیثیت سے ہیں، اور بہشت کا دروازہ کھولنے والا ان کے وصی (علی علیہ السّلام) ہیں، نیز (ہر زمانے میں) سارے مومنوں کے لئے (درروازۂ جنت کھولنے والا) امامِ زمانؑ ہیں۔
جب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ رسول علیہ السّلام بہشت کے دروازے کی حیثیت سے ہیں اور آنحضرتؐ کے وصی اس دروازے کا کھولنے والا ہیں، تو اب ہم بہشت کے دروازے کی کلید کے بارے میں بیان کرتے ہیں، اور اس حقیقت کی دلیل لاتے ہیں، کہ بہشت کے دروازے کی کلید کلمۂ شہادت ہے، چنانچہ اس کی تشریح کی جاتی ہے، کہ کلید وہ چیز ہے جس کو حاصل کئے بغیر کوئی شخص کسی مقفل دروازے کے پاس جانا نہیں چاہتا، یہی وجہ تھی کہ جس شخص نے کلمۂ شہادت قبول کر لیا، تو وہ محمد رسولؐ اللہ کی طرف آیا، اور جس شخص نے کلمۂ شہادت اخلاص سے کہا، تو رسول علیہ السّلام نے اسے بہشت کا وعدہ کیا، اس حدیث کے بموجب جو فرماتے ہیں:۔
۶۴
’’مَنْ قَالَ لا اِلٰہَ اِلّاَ اللّٰہُ خَالِصاً مُخْلِصاً دَخَلَ الْجَنَّۃَ۔
جس شخص نے کلمۂ اخلاص پاک دلی سے پڑھا تو وہ بہشت میں داخل ہوا۔‘‘ پس یہ اس بات کی دلیل ہوئی، کہ یہی کلمۂ شہادت بہشت کے دروازے کی کلید ہے، یہاں تک کہ جب یہ کلید لوگوں کو مل جائے، تو وہ بہشت میں داخل ہو سکتے ہیں، اور جس کو یہ نہ ملی، تو وہ بہشت سے محروم رہ جاتا ہے۔
پس بتا یا جاتا ہے، کہ:۔
’’ لَا الٰہ اِلّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ‘‘ سات۷ الفاظ پر مشتمل ہے،( لا۔ الٰہ۔ الا۔ اللہ۔ محمد۔ رسول۔ اللہ) جو نو حرف سے بنا ہے، چنانچہ: ل، ا، ہ ، م، ح ، د، ر، س، و، اور اس میں دو۲ گواہیاں ہیں، (لا الٰہ الّا اللہ (۱) مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ (۲)اور کلید کو عربی میں مفتاح کہتے ہیں اور ان پانچ حروف یعنی ’’مفتاح‘‘ کے حساب کا مجموعہ پانچ سو انتیس ۵۲۹) ہوتا ہے اور پانچ سوانتیس کے (دس دس کے اعدادِ کاملہ کے حساب سے ، سات ’’عقد‘‘ بنتے ہیں جو مذکورہ دو شہادتوں کے سات الفاظ کے برابر ہیں، اور جو نو باقی رہتا ہے، وہ ان نو حروف کے برابر ہے، جن سے مذکورہ دو شہادتیں بنی ہوئی ہیں، اور یہ کلمہ دو شہاتوں پر مبنی ہے، جس طرح کلید ان دو چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے، جو حصے میں جدا جدا مگر اتصال میں ایک ہیں، وہ کلید کا دستہ اور دندانہ ہیں، اور مومنوں کا یہ کلمۂ اخلاص کہنا، قفل کھولنے والے کے ’’چابی‘‘گھمانے کی مثال ہے تاکہ اس سے دروازہ کھل جائے۔
پس ہمارا یہی قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہشت کا مقفل دروازہ ہیں، جس کی کلید کلمۂ اخلاص میں ہے، مومن نے یہ کلید پکڑ رکھی ہے، اور امامِ زمانؑ مومن ہی کے ہاتھ سے اس چابی کے گھمانے والے ہیں، تاکہ دروازہ کھل جائے، اس قول کی حقانیت کی گواہی یہی ہے، جو کچھ اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتا ہے:۔
۶۵
’’ قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ (۳۴: ۲۶(
یعنی کہہ دیجئے کہ ہمارا پروردگار ہمارے درمیان جمع کرے گا، اس کے بعد ہمارے درمیان کھول دے گا، اور وہ دانا کھولنے والا ہے۔‘‘ اس معنی سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے، کہ جب لوگ رسول کا دین قبول کرتے ہیں تو آنحضرتؐ کے ساتھ یہی ان لوگوں کا جمع ہونا ہے، اس کے بعد تاویل کا مالک شریعت کے بند کو شریعت کی تاویل کے ذریعہ کھول دے گا، تاکہ مومن کو معلوم ہو جائے، کہ اس طرح کی شریعت سے جو رسولؐ نے رکھی، اور اس قسم کی مثالوں سے جو آنحضرتؐ نے بیان فرمائیں، کیا مراد تھی، تاکہ مومن اس پر بصیرت سے عمل کرے، ہم نے اپنے زمانے کے انداز پر بہشت اور اس کے دروازے کی کلید کا بیان کر دیا۔
والسلام
۶۶
کلام ۔ ۶
عالَمِ جسمانی کی حقیقت کے بارے میں
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ عقلِ کلّ سے نفسِ کلّ کی ’’کمی‘‘ تخلیقِ کائنات کا سبب ہے،اور یہ کائنات نفسِ کلّ کے لئے وہ سرمایہ ہے، کہ جس سے وہ اپنی اس کمی کی درستی کر سکے، اور اس قول کی حقانیّت کی دلیل ان نفوسِ جزوی سے مل سکتی ہے، جو اس دنیا میں موجود ہیں، وہ یہ کہ انسانوں میں سے ہر ایک اس دنیا میں اپنی کمی کو دور کر دینے کے لئے کوشان رہتا ہے، اس لئے کہ جب تک اس دنیا سے نفسِ کلّ کا مقصد پورا نہ ہو، تو کوئی نفسِ جزوی اس عالَم میں بے نیاز نہیں ہوسکتا، اور ایسا ہی ہونا لازمی ہے، کیونکہ یہ ہرگز مناسب نہیں، کہ کوئی کُل کسی جزو کا محتاج رہے اور جزو بے نیاز ہو۔
چنانچہ آسمانوں اور ستاروں کی گردش، ان کی تاثیرات کے لئے عناصر کی پذیرائی، اور عناصر کے ذریعہ نباتات و حیوانات جیسے موالید (بچوں) کی بالیدگی (نشو و نما) زبانِ حال سے دانشمند کو یہ بتاتی ہیں، کہ جس نے اس عالَم کو مرتب و منظم کیا ہے، وہ ایک ایسی چیز کی جستجو کر رہا ہے، جو اس کے پاس موجود نہیں، اوراپنی اس احتیاج کی بناء پر انتہائی عظیم حرکت کر رہا ہے۔
اس صورتِ حال کی مثال ایسی ہے، کہ ایک دانشمند اتفاقاً پن چکی
۶۷
کے مکان میں جاتا ہے، اور چکی کو دیکھتا ہے، کہ تیزی سے گھوم رہی ہے، اور بڑا سخت کام کررہی ہے، تو اسے یہ جاننا چاہئے، کہ وہ چیز جو چکی کو گھمارہی ہے، اس حرکت کرنے والی چکی سے بھی زیادہ طاقتور ہے، پھر جب وہ اس مکان سے باہر آئے اور پانی کو دیکھے، کہ کیسے زور سے اپنے آپ کو اوپر سے نیچے کی طرف گرا رہا ہے، تو وہ سمجھ لے گا، کہ چکی کی حرکت سے پانی کی حرکت بڑھ کر ہے، اس لئے کہ چکی کے پاٹ کی حرکت عارضی ہے، اور اوپر سے نیچے کی طرف پانی کی حرکت طبعی ہے، (مگر پاٹ کو حرکت دینے کے اعتبار سے جوہری ہے) اور جوہری حرکت عارضی حرکت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے، پس ہمارے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمانوں، ستاروں اور طبائع کی حرکت کے مقابلے میں نفسِ کل کی اپنی قسم کی حرکت زیادہ طاقتور ہے، جب اس دنیا میں انسان سے بڑھ کر اور کوئی شے زیادہ اشرف نہیں، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ اس کائنات سے نفسِ کل کا مقصد انسان ہی ہے، اور سب سے زیادہ اشرف وہ انسان ہے، جو دانا ہے (اور نفسِ کلّ کا انتہائی مقصد بھی وہی انسانِ کامل ہے)۔
ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے، کہ تخلیقِ کائنات سے نفسِ کلّ کی غرض دانش ہی ہے، اور اس میں یہی دانائی کی کمی ہے، جب دانش صرف انسانی نفس ہی نے قبول کر لی، تو ہم نے دلیلاً کہا کہ ساری کائنات میں سے صرف انسان ہی کو نفسِ کلّ تک واپسی ہو سکتی ہے، اور جب صورتِ حال یہی تھی، جس کا ہم نے ذکر کیا، تو معلوم ہوا کہ جو نفس زیادہ علمیت کے ساتھ اس جہان سے گزر جائے، تو وہی نفس نفسِ کلّ کے ساتھ علمی مواقفت سے متحد ہونے کے لئے زیادہ لائق ہوتا ہے، اور وہی نفس ابدی راحت و نعمت میں رہتا ہے، اور ہر وہ نفس جو اس عالم سے نادان گزرے، تو وہ نفس کلّ کی پسند کے خلاف ہوتا ہے، اور نفسِ کلّ اس سے پرہیز کرتا ہے، اس لئے وہ یہ عظیم کائناتی عمل نادانی کے خوف سے کر رہا ہے، پس
۶۸
جب اسے کوئی نادان نفس مل جائے، تو اس کو نہیں اپناتا، اور ایسا نفس دائمی سختی اور عذاب میں رہ جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان رسول کی فرمانبرداری کے ذریعہ نفسِ کلّ کی موافقت حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ وہ نفسِ کلّ کے بھیجے ہوئے ہیں، اور اس سلسلے میں عقلِ کلّ کی تائید تھی، تاکہ رسولؐ لوگوں کو علمِ توحید کی طرف بلائیں، اور جب وہ اس عظیم علم کے ذریعہ دانا ہو جائیں، تو نفسِ کلّ ان کے ذریعہ اپنی کمی کی درستی کر سکے، اور جب لوگ نفسِ کلّ کی مدد کریں، تو وہ ان کی مدد کرے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (۴۷: ۰۷(
یعنی اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ پس ہمیں یہ کہنا چاہئے، کہ یہ دنیا ایک ایسے آئینے کی مثال ہے، جس میں عالمِ آخرت کی نعمتیں خیال و تصوّر کی طرح چمکتی ہیں، وہ کسی کے ہاتھ نہیں آتیں، کہ وہ محفوظ رکھی جاسکیں، جس طرح حسین صورتیں آئینے میں دیکھی جاسکتی ہیں، مگر ان کا مادّی وجود پایا نہیں جاسکتا، جب اس دنیا کی سجاوٹیں اور لذّتیں ناپائیدار ہیں، تو ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ ساری چیزیں عارضی ہیں، اور عارضی چیز کو جوہر سے اثر ملتا ہے، پس ہمیں معلوم ہوا کہ یہ نعمتیں عالمِ روحانی ہی کےاثرات ہیں، کیونکہ جوہر تو وہی ہے۔
پس دانا وہ شخص ہے، جو اس عمرِ فانی ہی میں اس حیاتِ جاودانی کی تلاش کرے، اور اس گزر جانے والی نعمت کو مدِ نظر نہ رکھے، بلکہ عبادت پسندی، خواہشاتِ نفسانی سے دوری اور ناپائیدار چیزوں سے بے نیازی اختیار کرتے ہوئے اُس پائندہ نعمت کے لئے ارادہ کرے، اور جاننا چاہئے کہ یہ جہان اُس جہان کے دروازے کے حیثیت سے ہے، جب تک تو اس دروازے سے نکل نہ جائے، اس مکان میں پہنچ نہیں سکتا، اور دوسرے اعتبار سے یہ جہان ایک پوشیدہ پڑی ہوئی چیز کی طرح ہے، اور ان لوگوں میں سے ہر ایک کو اس چیز کا ایک ایک حصہ ملا ہے، اور وہ ایک ایسی چیز ہے، کہ اگر تو نے فوراً سے فروخت
۶۹
نہیں کیا، تو وہ ضائع ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ کوئی خریدار بھی اسے پسند نہیں کرتا، اور نیک بخت سوداگر وہ ہے، جو فوراً اسے فروخت کرے، اور اس کے بدلے میں ایک ایسی چیز لے رکھے جو تباہ نہیں ہوتی، اور وہ لازوال چیز خدا اور رسول کی فرمانبرداری ہے، اور اگر تو نے اسے اسی طریقے سے خرچ نہیں کیا، تو وہ چیز گویا ختم ہوجاتی ہے، پھر اس وقت پشیمانی کوئی فائدہ نہیں دیتی، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (۳۹: ۵۸(
یعنی جب بدبخت نفس عذاب دیکھے، تو کہے گا کہ اگر مجھے ایک بار پھر دنیا میں واپس لے جاتے، تو میں نیک کام کرنے والوں میں سے ہو جاتا ۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرمائے گا:۔
’’بَلَى قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ (۳۹: ۵۹(
ہاں، بیشک تیرے پاس میری آیتیں پہنچی تھیں، سو تو نے ان کو جھٹلایا، اور تو نے تکبر کیا، اور کافروں میں شامل رہا۔ ‘‘
۷۰
کلام ۔ ۷
دوزخ اور اس کے دروازے کے بارے میں
خدا تعالیٰ کی توفیق سے ہم اس حقیقت کا بیان کرتے ہیں، کہ جو چیز اب موجود ہوئی ہے، وہ اس سے پہلے حدِ قوّت میں رہی ہے، اس کے بعد حدِّ فعل میں آئی ہے، چنانچہ اگر کوئی انسان اس وقت موجود ہوا ہے، تو وہ کچھ مدت پہلے نباتات کی صورت میں تھا، یہاں تک کہ اس کے والدین نے ان نباتات کو کھالیا اور ان سے ان میں ایک پانی حاصل ہوا، جس کے ذریعہ اولاد پیدا ہوئی، جب یہ حقیقتِ حال معلوم ہوئی، تو اب ہم یہ بیان کریں گے، کہ دوزخ حدِّ قوّت میں نادانی کی حیثیت سے ہے، اور بہشت حدِّ قوّت میں علم کی صورت میں ہے، اس لئے کہ دانا وہ عمل کرتا ہے، اور بہشت حدِّ قوّت میں علم کی صورت میں ہے، اس لئے کہ دانا وہ عمل کرتا ہے، جس میں خدا و رسول کی خوشنودی ہے، تاکہ وہ اس فرمانبرداری کے ذریعہ ابدی بہشت میں پہنچ سکے، اور نادان وہ کام نہیں کرتا، جس میں اس کی نجات پوشیدہ ہے، جس کی وجہ سے وہ دائمی جہنم میں گر جاتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ بہشت قوّت کی حد میں علم ہے، اور دانا حقیقی بہشت ہے، اور دوزخ قوّت کی حد میں جہالت ہے، اور نادان حقیقی دوزخ ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ نے کافروں (یعنی نادانوں) کے لئے دوزخ کا وعدہ کیا ہے اور قرآنِ پاک کے بہت سے مقامات پر اس کا ذکر فرمایا ہے، قولہٗ تعالیٰ:۔
’’وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لاَ يُقْضَى عَلَيْهِمْ
۷۱
فَيَمُوتُوا وَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ (۳۵: ۳۶(
اور جو لوگ کافرہیں ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے، نہ تو ان کی قضا آئے گی، کہ مر ہی جائیں، اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا، ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔‘‘ ایک اور مقام پر فرماتا ہے، کہ کافر لوگ نادان ہیں، جو اسی آیت کے معنی سے یہی مطلب ظاہر ہے:۔
’’قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (۳۹: ۶۴(
اے محمدؐ آپ کہہ دیجئے کہ اے نادانو! کیا تم مجھ کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کی فرمائش کرتے ہو۔‘‘ جب حقیقتِ حال یہی ہے، کہ دوزخ کے رہنے والے کافر ہیں اور کافر نادان ہیں، پس ظاہر ہوا کہ دوزخ کے رہنے والے نادان ہوتے ہیں، اور یہ کتابِ منطق کی شکلِ اوّل کا اصول ہے۔
پس ہم نے ثابت کر دیا، کہ دوزخ حدِّ قوّت میں جہالت ہے، اور جو شخص نادانی پر ٹھہرے، یا کسی نادان کے پیچھے چلے اور داناؤں کے ساتھ دشمنی کرے، تو وہ شخص دلیلاً دوزخ کا باشندہ ہے، اور لوگ تو ایسے ہونے چاہئیں، کہ وہ دانا کے دوستدار بن جائیں، اور دانا بحقیقت اپنے دور میں رسول علیہ السّلام ہیں، اور آنحضرتؐ کے وصی و أئمّۂ زمان میں سے ہر ایک اپنے عصر کے دانا ہیں، اور جو شخص اپنے زمانے کے امام کے ساتھ دشمنی رکھتا ہو اور اس کی فرمانبرداری نہیں کرتا، تو وہ شخص گویا خدا کے رسول کی فرمانبرداری نہیں کرتا ہے، اور جو شخص رسول کی فرمانبرداری نہ کرے، وہ گویا خدا کی فرمانبرداری نہیں کرتا، پس ایسا شخص کافر ہے، جو شخص امامِ برحق کی فرمانبرداری نہ کرے، اسے علمِ حقیقت نہیں ملتا ہےاور جس کو علمِ حقیقت نہ ملے، تو وہ بہشت میں پہنچ نہیں سکتا، اور دوزخ ہی میں رہ جاتا ہے، پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ زمانے میں امامِ برحق کا حقیقی پیرو بہشت کا دروازہ ہے،
۷۲
اس لئے کہ لوگ اسی شخص کے ذریعہ ہی علمِ حقیقت تک رسا ہو سکتے ہیں، پھر علم حقیقت کے ذریعہ بہشت میں پہنچ سکتے ہیں، اور ہر زمانے میں امامِ برحق کا مخالف دوزخ کا دروازہ ہے، اس لئے کہ باطل کے پیرو اسی شخص کے قول کی وجہ سے امامِ برحق سے دور ہوجاتے ہیں، اور نادان رہ کر دوزخی ہو جاتے ہیں، اور معرفت کے ساتھ گواہی دینا (یعنی خدا اور رسول کو پہچانتے ہوئے لَا الٰہ اِلّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہنا) ہی بہشت کے دروازے کی کلید ہے، اور بے معرفت رہنا (یعنی خدا اور رسول کو نہ پہچاننا) ہی دوزخ کے دروازے کی کلید ہے۔
ہم یہاں پر ایک مثال بیان کر دیتے ہیں، تاکہ مومن کے لئے یہ صورتِ حال واضح ہو جائے، کہ نادان دوزخی ہے اور دانا بہشتی ہے، وہ یہ ہے کہ جانوروں میں سے کوئی نوع بجز انسان کے نفسِ ناطقہ نہیں رکھتا، اور عقل کے اثرات کو نفسِ ناطقہ کے سوا اور کوئی چیز اپنا نہیں سکتی، اور جس مخلوق کی عقل نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف کوئی پیغمبر نہیں بھیجا ہے، اس قول کی صداقت کی دلیل یہ ہے، کہ بے دانش اطفال اور دیوانوں پر کوئی نماز و عبادت فرض نہیں، اور وہ اس اعتبار سے درجۂ حیوانیت میں ہیں، اور جس پر عبادت فرض نہ کی گئی ہو وہ درجۂ حیوانیّت میں ہے، اور حیوانات کے لئے بہشت سے کوئی بہرہ حاصل نہیں، وہ اس طرح کہ انسان حلال جانوروں کو رنج دے رہا ہے، اس لئے کہ انسان حدِّ قوّت میں بہشتی ہے، اور جانور بہشتی نہیں، اور بہشتی کو دوزخی پر بادشاہی ہے، اسی دنیا میں بھی انسان کی بادشاہی چلانے کے سلسلہ میں لازماً جانور پیدا ہوئے ہیں، اور انسان جانوروں کو رنج دیتا ہے، بیچتا ہے، ذبح کرتا ہے، اور انہیں کھا لیتا ہے، جس کے بارے میں اس پر کوئی ملامت ہی نہیں، جس طرح (دوزخ کے داروغے) دوزخیوں کو دوزخ میں لے جاتے ہیں، ان کو
۷۳
تکلیف پہنچاتے ہیں اور انہیں ہلاک کرتے ہیں، اور وہ دوزخیوں کی طرف سے خدا کی عبادت ہے۔
پس یہ حال ایسا ہے جیسے انسان بحکمِ خدا حج اور جہاد کے سلسلے میں جانوروں کو ذبح کرتا ہے، اور انہیں کاٹتا ہے، جس میں اس پر کوئی جرم نہیں، جبکہ وہ اس عمل کے ذریعہ خدا کی نزدیکی حاصل کرتا ہے، نیز جس طرح فرمایا گیا ہے، کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تشریف فرما ہوں گے اور دوزخ پر پھونک ماریں گے، اور آنحضرت کی پھونک دوزخ کو ٹھنڈا کر دے گی، اور اپنے کمبل کو پکڑ کر دوزخ میں لٹکا دیں گے، تاکہ امت کے گنہگاروں کو اسی طرح نکال لیا جائے، اور آن حضور صلعم کی پھونک اور کمبل پر دوزخ کی آتشی قوّت اثر انداز نہ ہو سکے گی، اور یہی مثال اس واقعے میں بھی ہے، کہ انسان کا ہاتھ اس دوسرے انسان کو تکلیف دینے سے رکا ہوا ہے، جس نے شریعت کا ظاہریت قبول کر لی ہے، اور وہ حدِّ قوّت میں بہشتی ہوا ہے، اور یہی مثال درست ہے۔
پس ہم نے یہ واضح کر دیا، کہ لوگ اسی جہان ہی میں جانوروں اور درندوں کے لئے دوزخ ہیں، اور یہ تمام جانور دوزخی ہیں، اس لئے کہ ان سے بوجھ اٹھوانے، ان کو ذبح کرنے، جلانے، پکانے، انہیں کھانے وغیرہ سے جو کچھ ان پر گزرتا ہے، گزرنے دیتے ہیں اور انہیں رنج دیتے رہتے ہیں، اور کوئی شخص ان جانوروں کو جو دوزخی ہیں، معاف نہیں رکھتا، جس طرح اللہ تعالیٰ دوزخیوں کو جواب دینے کے بارے میں فرماتا ہے، کہ وہ فریاد کریں گے:۔
’’قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلاَ تُكَلِّمُونِ (۲۳: ۱۰۸(
فرماتا ہے کہ جب وہ فریاد کریں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا، کہ دوزخ ہی میں دور رہو اور مجھ سے بات مت کرو۔‘‘
نیز یہ کہنا ہے، کہ وہ جانور جو انسان کے تحت ہیں اور جن کی اذیت کے لئے انسان کا ہاتھ کھلا ہوا ہے، سات قسم کے ہیں، جن میں سے دو قسم کے جانور پانی میں رہتے ہیں، ان میں سے ایک قسم کے
۷۴
جانوروں کے پاؤں نہیں ہوتے ہیں، جیسے سانپ، مچھلی وغیرہ اور دوسری قسم کے جانوروں کے پاؤں ہوتے ہیں، جیسے مگرمچھ، کچھوا، کیکڑا وغیرہ، اور ان سات اقسام میں سے پانچ قسم کے جانور خشکی پر رہتے ہیں، جن میں سے ایک قسم کے جانور چوپائے ہیں، جو گھاس اور دانہ کھاتے ہیں، جیسے گائے، بھیڑ، بکری وغیرہ، دوسرے چوپائے ہیں، جو گوشت کھاتے ہیں، جیسے شیر بھیڑیا وغیرہ، تیسرے وہ پرندے ہیں، جو گوشت کھاتے ہیں، جیسے باز، شاہین، وغیرہ، چوتھے وہ پرندہ ہیں جو گھاس اور دانہ کھاتے ہیں، جیسے کبوتر، فاختہ وغیرہ، پانچویں حشرات ہیں جن کو فارسی میں خزندگان کہتے ہیں ، یعنی زمین میں بِل بنا کر یا قدرتی سوراخوں میں رہنے والے جانور، اور انسان کا ہاتھ، جو ان جانوروں کا دوزخ ہے، ان پر کھلا ہوا ہے، جس طرح دوزخ کے سات دروازے دوزخیوں کے لئے کھلے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ (۱۵: ۴۴) دوزخ کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لئے ان لوگوں کے الگ الگ حصے ہیں۔‘‘
جب ہم نے ان جانوروں کی سات قسمیں واضح کر دی، جو دوزخی ہیں، اب یہ بتائیں گے، کہ انسان میں سے بھی انہیں اقسام میں بٹے ہوئے سات گروہ ہیں، جو ہر ایک گروہ ان درندوں اور جانوروں کی کسی قسم کی طرح عادت رکھتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ (۰۶: ۳۸(
اور جتنے قسم کے جانور زمین پر چلتے ہیں، اور جتنے قسم کے پرند جانور ہیں، کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں، ان میں کوئی قسم ایسی نہیں، جو کہ تمہاری ہی طرح کے گروہ نہ ہوں۔‘‘ پس جو شخص ان جانوروں اور درندوں کی
۷۵
خو و خصلت کے ساتھ نادان ہے، وہ دوزخی ہے، جس طرح ہم نے واضح کر دیا کہ جانور اسی دنیا ہی میں دوزخی ہیں، چنانچہ لوگوں میں سے جو شخص چور اور خائن ہو، وہ چوہے کے درجے میں ہے، جو شخص جھگڑالو اور اچکا ہو، وہ بھیڑیئے اور شیر کے درجے میں ہے، اور جو شخص حرام خوری کی طمع رکھتا ہو، سور کے درجے میں ہے، حقیقی انسان رسول علیہ السّلام، حضورؐ کے وصیؑ اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام ہیں، اور ان حضرات کا ہاتھ کھلا ہوا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ جو کوئی (اسلام و ایمان لانے کے سلسلے میں) ان کا فرمان قبول نہ کرے، تو اسے قتل کر دیا جائے، جس طرح عام انسانوں کا ہاتھ دوسرے جانوروں کے ذبح و قتل کرنے کے لئے کھلا ہے، اور جن جانوروں کا گوشت کھانا حلال ہے، جیسے گائے، بھیڑ، بکری، اونٹ وغیرہ، وہ ان لوگوں کی مثالیں ہیں، جو نیک، پرہیزگار اور فرمانبردار ہیں، مگر ان کے پاس علم نہیں، پس خدا تعالیٰ نے ان کا گوشت حلال کر دیا، یعنی حقیقی انسانوں سے فرمایا، کہ ان کو علم سکھاؤ اور اس کے ذریعہ ان کو اپنے ساتھ ایک کر دو (جس طرح انسان حلال جانوروں کو کھا کر اپنے ساتھ ایک کر دیتے ہیں) اور جن جانوروں کا گوشت حرام ہے، جیسے سور، شیر وغیرہ، وہ ان لوگوں کی مثالیں ہیں، جن میں خرابی اور برائی ہے، اور وہ نصیحت قبول نہیں کرتے ، جس طرح مذکورہ جانور فرمانبرداری نہیں کرتے ہیں، پس فرمایا کہ ان کو مارا جائے اور ان کا گوشت نہ کھایا جائے، یعنی ان کے دین کو ان کے لئے تباہ کر کے دکھایا جائے اور دینِ حق ان کو نہ سکھا یا جائے، اپنی جگہ پر اس حقیقت کی وضاحت کی جائے گی۔
پس یہ جہان داناؤں کے لئے بہشت کا دروازہ ہے، اور نادان بے فرمانوں کے لئے دوزخ کا دروازہ ہے، اس لئے کہ بہشت یا دوزخ میں وہ شخص جائے گا، جو اس جہان میں آیا ہو، اور (یہ اس لئے ایسا ہے، تاکہ) جو شخص عملاً چاہے تو اس دنیا کے ذریعے بہشت آباد کرے اور جو شخص چاہے تو دوزخ آباد کرے، کیونکہ اسی دنیا سے لوگ انہی دو جگہوں میں جایا کرتے ہیں، چنانچہ
۷۶
حق تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ (۴۲: ۰۷(
ایک گروہ جنت میں (داخل) ہوگا اور ایک گروہ دوزخ میں (داخل) ہوگا۔‘‘
۷۷
کلام ۔ ۸
پیغمبروں کے بھیجے جانے کی واجبیت اور ان کی تعداد کے بارے میں
ہم اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور مدد سے یہ بتائیں گے، کہ جب انسان دو بنیادی چیزوں سے بنا ہوا ہے، تو اس کے یہ معنی ہوئے، کہ وہ مفرد نہیں، بلکہ مرکب ہے، اور وہ بنیادی چیزیں اس ترکیب میں جسمِ کثیف اور نفسِ لطیف ہیں، جسمِ کثیف کی خوراک چار عناصر سے پیدا ہوئی، جن میں سے دو عنصر نفس کی طرح لطیف ہیں، وہ آگ اور ہوا ہیں اور دو جسم کی طرح کثیف ہیں، جو مٹی اور پانی ہیں، جب یہ جسمِ کثیف نفسِ لطیف کے ساتھ مل گیا، تو اس نے ان نباتات سے غذا حاصل کر لی، اور طاقتور ہوا، جو ان دو لطیف اور دو کثیف عناصر سے پیدا ہوتی ہیں، پس بتقاضائے حکمت یہ لازم آتا ہے، کہ اس نفسِ لطیف کی غذا بھی، جو جسم کے ساتھ مل گیا ہے، چار حدود سے پیدا ہو، جن میں سے دو حدیں تو نفس کی طرح روحانی ہوں، اور دو ۲ جسم کی طرح جسمانی، تاکہ نفس اس غذا سے طاقتور ہو سکے، جو ان حدود سے پیدا ہوتی ہے، پس اللہ تعالیٰ نے چار حدودِ شریف سے انسانی نفس (روح) کی غذا پیدا کردی، جن میں سے دو۲ لطیف تھے، وہ نفسِ کلّی اور عقلِ کلّی ہیں، جن کے آثار یہ انسانی نفسِ جزوی اور عقلِ جزوی ہیں، اور ان چار
۷۸
حدود میں سے دو مرکب ہیں، وہ ناطق اور اساس ہیں، جو جسم کے اعتبار سے بشر ہیں اور عقل و نفس کے اعتبار سے فرشتگانِ مقرب ہیں تاکہ وہ اپنے علمِ شریف کے ذریعہ لوگوں کو درجۂ دیوی سے درجۂ فرشتگی میں پہنچا سکیں، اسی طرح ان دونوں چیزوں (جسم و نفس) کو جن سے انسان کی ترکیب ہوئی ہے، ان کے خالق کی طرف سے صحیح معنوں میں اپنا اپنا حق مل گیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (۳۶: ۳۸(
یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اس خدا کا جو زبردست اور علم والا ہے۔‘‘
جب ہمیں یہ معلوم ہوا، کہ انسان چار کثیف عناصر، اور لطیف نفس سے مرکب ہوا ہے، جس کے سلسلے میں لطافت کثافت کے ساتھ متصل ہوئی ہے، اور عالمِ لطیف سے انسان کا اپنا حصہ پیدائشی عقل کی صورت میں مل چکا ہے، جو دوسرے حیوانات کے لئے میسر نہ تھا، تو یہ لازمی ہوا کہ اس اصل (یعنی عقلِ کلّ) سے ، جس سے انسانوں کو مذکورہ جزوی حصہ متصل ہو رہا ہے، انسانوں میں سے ایک شخص کو مکمل حصہ متصل رہا کرے، تاکہ یہ پیدائشی عقول اسی واحد شخص سے اپنی علمی ضروریات حاصل کر سکیں، وہ شخص جس کو عقلِ کلّ سے یہ مکمل عنایت اور حصہ متصل رہا، پیغمبر علیہ السّلام تھے، اور اگر وہ واحد شخص فائدہ بخش نہ ہوتے، تو یہ ساری دانش پذیر عقول ضائع ہو جاتیں، اور تخلیقِ کائنات کا یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کا ایک کھیل ہوتا ( جس طرح اطفال کھیل کے طور پر کوئی چیز بناتے ہیں، پھر اسے ضائع کر دیتے ہیں، یا وہ خود بخود ضائع ہو جاتی ہے) لیکن صانعِ حکیم کھیل سے برتر ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
’’أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لاَ تُرْجَعُونَ (۲۳: ۱۱۵(
تو کیا تم نے یہ گمان کیا تھا، کہ ہم نے تم کو یوں ہی کھیل کے طور پر پیدا
۷۹
کر دیا ہے، اور یہ کہ تم ہمارے پاس نہیں لائے جاؤ گے۔‘‘
جب انسان بلحاظِ نفسِ لطیف ایک دوسرے کے موافق تھے اور باعتبارِ جسم و صورت ایک دوسرے کے مخالف تھے اور اختلاف کی وجہ یہ ہے، کہ انسان مختلف مقامات اور جدا جدا اوقات میں پیدا ہوتے ہیں، نیز ان پر مختلف اوقات گزرتے ہیں تو لازم آتا ہے، کہ اس رسول کا علم، جس نے خدا کا کلام لایا تھا، دو قسم کا ہو، جس میں محکم نفس ہی کی طرح موافق ہو، اور متشابہ جسم ہی کی طرح مختلف ہو، اور اس کلام کا ظاہر جسم کی طرح ہو اور باطن نفس کی طرح ہو۔
چنانچہ جب انسان جسمِ کثیف اور نفسِ لطیف ہی کا مجموعہ ہے، تو عمل جسم کے حصے میں آیا، اور علم نفس کے حصے میں آیا، یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم السّلام لوگوں کو ایک ایسے عمل کے لئے فرماتے ہیں، جو علم کے ذریعہ کیا جاسکے، تاکہ وہ اپنے جسم کے ذریعے عمل کریں، اور نفس کے ذریعہ وہ علم سمجھ لیں، جو اس عمل میں پوشیدہ ہے، اور تقاضائے حکمت سے یہی لازمی ہوا کہ جسم اور نفس اپنی اپنی طاقت کے مطابق عمل اور علم کی تکمیل کریں، چنانچہ جسم نے نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ کے اعمال کو انجام دیا، اور انبیاء علیہم السّلام نے انسانی نفس کو ان اعمال کے معنی سے شناسا کرایا۔
جب انسانی جسم کی،جو کارکن تو وہی تھا، چھ اطراف تھیں، یعنی آگے، پیچھے، داہنے، بائیں، نیچے اور اوپر، تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف چھ کارفرما (یعنی کام بتانے والے) پیغمبر بھیجے، چنانچہ (عملی روحانیّت کی) مثال میں آدم علیہ السلام انسانی اطراف میں سے اوپر کی طرف سے آیا، نوح علیہ السلام لوگوں کی بائیں طرف سے آیا، ابراہیم علیہ السلام لوگوں کی پچھلی طرف سے آیا، موسیٰ علیہ السلام لوگوں کی نچلی طرف سے آیا، جو آدم علیہ السلام کا مقابل ہوتا ہے، عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کے داہنے ہاتھ کی طرف سے آیا، جو نوح علیہ السلام کا مقابل ہوتا ہے، اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم لوگوں کی اگلی جانب سے آئے جو ابراہیم علیہ السلام کے مقابل ہوتے ہیں، جب یہ چھ کارفرما رسول انسانی جسم کی چھ اطراف سے آئے، اور ہر ایک نے
۸۰
اپنے زمانے میں لوگوں کو کام بتایا، اور ان سے اس کام کے اجر کا وعدہ کیا، کہ ایک دن ان کو یہ اجر اسی طرح دیا جانے والا ہے، پس ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ جب انسانی جسم کی چھ اطراف ہیں، اور جسم ہی کام کرنے والا ہے، اور ہر طرف سے ایک ایک کارفرما آچکا ہے تو عقل کے فیصلے سے یہ لازم نہیں آتا، کہ اس کے بعد بھی کوئی آکر لوگوں کو دوسرا کوئی کام بتائے اور یہ عقلی دلیل ہے۔
ہماری مذکورہ بالا دلیل سے یہ ثابت ہوا کہ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا، اور جب لوگوں کی یہ عادت ہے کہ کام کر کے اس کی اجرت کا بتانے والے ہی سے طلب کرتے ہیں، تو لازمی ہے کہ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کوئی شخص آئے گا، جو ان کام کرنے والوں میں سے ہر شخص کو اس کے کام کے مطابق بدلہ دیا کرے گا، اور وہ قائم القیامت علیہ السلام ہیں، کیونکہ وہ حضرت (مذکورہ پیغمبروں کی وضع کردہ) شریعت کے مالک ہیں، بلکہ جملہ حساب کے مالک ہیں، جو ان کئے ہوئے کاموں کا حساب کر دیں گے اور کام کرنے والوں کو بدلہ دے دیا کریں گے، اور عقل کے فیصلے سے یہ لازم آتا ہےکہ حضرتِ قائم آئیں گے، جس طرح یہ ممکن نہیں، کہ پھر کوئی کارفرما آجائے، اس لئے کہ لوگوں کے جسم کی کوئی ایسی جانب باقی نہ رہی ہے، کہ اس جانب سے کوئی کارفرما نہ آیا ہو۔
جب خدائے عزیز و جلیل کے یہ کارفرما آگئے، تو انہوں نے لوگوں کو مختلف کام بتا دیا، اور ان کاموں میں سے ہر ایک کے کچھ ایسے معنی تھے، کہ انہی معنوں کے سبب سے کام کی وہی صورت (یعنی ظاہریت) بن گئی تھی، چنانچہ جانور اور نباتات کی صورتیں مختلف ہیں، جن میں سے ہر ایک چیز میں جو معنی ہیں، وہ دوسری چیز میں نہیں، جس طرح اخروٹ کی صورت سیب کی صورت سے جدا ہے، اس لئے اخروٹ میں کچھ ایسے معنی (باطنیت) ہیں کہ وہ معنی سیب میں نہیں، اور دوسیبوں کی دونوں صورتوں کے ایک ہی معنی اور ایک ہی ظاہریت
۸۱
ہے، جس طرح دو اخروٹ کی مثال ہے، پس جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں لوگوں کی طرف ایک کارفرما بھیجا تو ایک معنی دان (حقیقت سمجھنےاور سمجھانے والا) بھی بھیجا، تاکہ لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ان کاموں کے کیا معنی ہوتے ہیں، تاکہ ان پیغمبروں کے آنے کے بعد قیامت میں لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر باقی نہ رہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔
’’لئلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ( ۰۴: ۱۶۵ (
تاکہ پیغمبروں کے (بھیجے جانے کے) بعد لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر باقی نہ رہے۔‘‘ اور ان پیغمبروں سے اللہ کی مراد ما لکانِ تنزیل و تاویل (ناطقان و اساسان) ہیں۔ نیز أئمّۂ برحق ہیں، جو کتابِ آسمانی اور شریعت کی تاویل ظاہر کر دیتے ہیں، جس کے بارے میں ایک اور مقام پر فرماتا ہے، قولہٗ تعالیٰ: ۔
’’وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْكِتَابِ الْمُنِيرِ (۳۵: ۲۵(
اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں تو جو لوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں، انہوں نے بھی جھٹلایا تھا، ان کے پاس بھی ان کے پیغمبر دلائل، علوم اور کتابِ روشن (وعیان یعنی فصول) لے کر آئے تھے۔‘‘اس مقام پر جب اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کا ذکر فرمایا، تو انہیں ایک ہی جماعت قرار دیتے ہوئے ذکر فرمایا، اس لئے کہ ان کی شریعت کی ظاہریت مختلف ہے اور جب اس نے مالکانِ تاویل کا ذکر فرمایا، تو انہیں ایک فرد کی حیثیت دیتے ہوئے ذکر فرمایا، اس لئے کہ ان کی شریعت کی ظاہریت مختلف ہے اور کتاب کو روشن کہا، اس لئے کہ انبیاء کی ساری کتب اور شریعتوں کے موضوعات کی حقیقت ایک ہی ہے، گو کہ اقوال، اعمال، الفاظ اور ظاہریت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
(پیغمبروں کو جماعت قرار دینے اور مالکانِ تاویل کو ایک فرد کی حیثیت دینے
۸۲
کی دلیل یہ ہے کہ ’’بینات‘‘ کے معنی عملی معجزات اور واضح دلائل ہیں، اور ’’زبر‘‘ کے معنی کتابیں، صحیفے، علوم اور دانشیں ہیں، پس ’’دلائل‘‘ اور ’’علوم‘‘ کے دونوں الفاظ میں آنحضرت سے اگلے پیغمبروں کی لائی ہوئی تمام مقدس ظاہری چیزوں کا ذکر آیا اور بہت سی دلیلوں اور بہت سی کتابوں یا کہ علوم کے ذکر و مفہوم سے پیغمبروں کی انفرادیت اور جماعت ثابت ہوئی، اس کے بر عکس ’’کتابِ منیر‘‘ یعنی روشن کتاب کا ذکر صیغۂ واحد میں آیا، جس سے یہ مطلب صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت سے قبل کے پیغمبروں میں بظاہر کوئی مشترکہ واحد روشن کتاب جاری و ساری نہیں تھی، مگر نورانیّت باطن کی کتاب تھی جو نبوّت و امامت کا واحد نور ہے، اور یہی کتابِ منیر، حقیقت ، تاویل وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہے پس مالکانِ تاویل کی وحدت کے بارے میں یہی دلیل کافی ہے، علاوہ بران توراۃ، انجیل وغیرہ مشہور آسمانی کتب کی اصلی اور ظاہری حیثیت کے بارے میں فرمایا گیا ہے، کہ ان میں ’’نور‘‘ تھا، لیکن یہ کبھی نہیں فرمایا کہ ان کتابوں میں سے کوئی ایک کتاب ’’ کتابِ منیر‘‘ کی حیثیت سے تھی، اور ان دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے)۔
پس ہم یہ بیان کرتے ہیں، کہ آدمؑ کے وصی مولانا شیث علیہ السلام تھے، نوحؑ کے وصی مولانا سام علیہ السلام تھے، ابراہیمؑ کے وصی مولانا اسماعیل علیہ السلام تھے، موسیٰؑ کے وصی مولانا ہارون علیہ السلام تھے، عیسیٰؑ کے وصی مولانا شمعون علیہ السلام تھے، اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلعم) کے وصی علی المرتضیٰ علیہ السلام تھے، اور نبوّت کے ہر دورِ کہین کے درمیان انہی پیغمبروں (یعنی مالکانِ تاویل) میں سے ہر دو پیغمبروں کے درمیان چھ امام تھے، جس طرح دو ۲ جمعہ کے دنوں کے درمیان چھ دن ہوتے ہیں، (کیونکہ ایک اعتبار سے دورِ کہین کو ایک ہفتہ مانا گیا ہے جس میں ہر ناطق پیغمبر روزِ جمعہ کی طرح ہے، اور چھ مالکانِ تاویل ہفتہ کے باقی چھ دنوں کی طرح ہیں، پس دو ناطقوں کے درمیان چھ مالکانِ تاویل اس طرح ہیں جس طرح اگلے اور پچھلے دو ۲ جمعوں کے دنوں کے درمیان باقی چھ دن ہوتے ہیں) اور
۸۳
یہ چھ (ناطق) پیغمبر جو آئے ہیں، وہ بھی ہفتہ کے چھ دنوں کی طرح آئے ہیں، اور جو (قائمؑ) آنے والا ہے وہ ان کا ساتواں ہے، اور جب (حضرتِ قائم) آئیں تو یہ دورِ مہین ختم ہو جائے گا، اور قیامت برپا ہوگی، اور ہر شخص کو اپنے کام کا اجر ملے گا (کیونکہ دوسرے اعتبار سے دورِ مہین کو ایک ہفتہ مانا گیا ہے، جس میں چھ ناطق پیغمبر ہفتہ کے چھ دنوں کی طرح ہیں، اور حضرتِ قائم علیہ السلام سنیچر کی طرح ہیں)۔
پس آدم علیہ السلام اتوار کی طرح ہیں، اور اس قول کی حقانیت کی دلیل یہ ہے، کہ حدیث میں یہ ذکر آیا ہے، کہ حق تعالیٰ نے تخلیقِ کائنات اتوار کے دن شروع کی، جمعہ کے دن اس سے فارغ ہوا اور سنیچر کے دن آرام کیا، اس قول کی تاویل و حقیقت ان دنوں کے شروع ہی سے لوگوں سے مخفی رہی ہے، اور ہر شخص نے اس قول کو اپنی ہی عقل کے مطابق قبول کر لیا ہے، اور یہود اسی سبب سے سنیچر کے دن کو عظیم سمجھتے ہیں، وہ اس روز کام نہیں کرتے، جس سے ان کا مطلب یہ ہے ، کہ خدا نے اس روز آرام کیا ہے، اور انہیں یہ معلوم نہیں کہ جن پیغمبروں نے لوگوں کو یہ خبر دی ہے، وہ یہ چاہتے تھے، کہ سمجھ لیا جائے، کہ بموجبِ فرمانِ الٰہی چھ حضرات دنیا میں آئیں گے، تاکہ لوگوں کو کام بتا دیا جائے، اور جو ان کا ساتواں حضرت آئے گا، وہ کوئی کام نہیں بتائے گا، بلکہ وہ تو لوگوں کو (ان کے ہر کام کا) بدلہ دے دیا کریگا، اسی روز (یعنی زمانہ) کو سنیچر کہا گیا ہے، اور اس کے احترام کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، اور وہ قائم القیامت علیہ اسلام کا دن ہے۔
پس ہم (بطورِ خلاصہ) یہ کہتے ہیں، کہ آدم علیہ السلام عالمِ دین کے اتوار ہیں، نوح علیہ السلام سوموار ہیں، ابراہیم علیہ السلام منگل وار ہیں، موسیٰ علیہ السلام بدھوار ہیں، عیسیٰ علیہ السلام جمعرات ہیں، اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم عالمِ دین کے روزِ جمعہ ہیں، اور سنیچر کے آنے کا انتظار کیا جاتا ہے، اور
۸۴
اس روز صرف ان لوگوں کے لئے آرام و آسائش ہوگی، جنہوں نے ان دنوں کو بحقیقت پہچان لیا ہو اور بحقیقت ان کو جانتے ہوں، اور ان کے فرامین پر دانش سے عمل کئے ہوئے ہوں، اور جو شخص عالمِ جسمانی میں اپنے جسم کے ذریعہ عمل کرے اور نفس (جان) کے ذریعہ اس کے معنی سمجھے تو اس کا پورا ثواب کل عالمِ روحانی میں سے حاصل ہوگا۔
پیغمبروں کے بھیجے جانے کی واجبیت کے بارے میں ہم نے اپنے زمانے کے مطابق بیان کر دیا۔
۸۵
کلام ۔ ۹
قرآن اور اس کی تاویل کے اثبات کے بارے میں
ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق (یعنی مدد و یاری) سے یہ بتائیں گے، کہ عالمِ جسمانی کی پائداری کا انحصار قرآنِ پاک پر ہے، اس قول کی واقعیّت کے متعلق ہم ایک عقلی دلیل پیش کرتے ہیں۔
چنانچہ انسان دنیا کی تمام مخلوقات میں سے انتہائی آخری مخلوق ہے، کیونکہ عالَم کی تینوں مخلوقات یعنی معدنیات، نباتات اور حیوانات کا خلاصہ اسی میں پایا جاتا ہے، اس لئے کہ وہ خود اپنی ذات کے اعتبار سے (ایک گرانقدر) گوہر بھی ہے، اور اس گوہر کے پہچاننے اور قدر و قیمت کرنے والا بھی، نباتات کی طرح اگنے بڑھنے والا بھی، اور حیوانات کی طرح کھانے پینے والا بھی، نیز نطق و دانش کے عالَم میں نباتات اور حیوانات سے افضل بھی ہے۔
پس یہ بات درست ہوئی، کہ انسان سے زیادہ مکمل اور کوئی چیز اس عالَم سے وجود میں نہیں آئی ہے، اور جو چیز ایسی ہو، کہ اس سے بہت سی چیزیں پیدا ہوئی ہوں، اس سبب سے کہ وہ سب سے زیادہ مکمل ہے، تو ایسی چیز دراصل ان پہلی چیزوں سے بھی پہلی اور ان کی جڑ کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے
۸۶
اور ان پہلی چیزوں کا دارومدار ایسی چیز پر ہوتا ہے، اور چیزوں کی پائیداری کا انحصار تو اصولاً اس چیز پر ہوتا ہے، جو ان کی اصل (یعنی جڑ) کی حیثیت سے ہے۔
مذکورہ فضل کی ایک مثال یہ ہے ، کہ اخروٹ کے درخت سے بہت سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں، جیسے پتے، شاخیں، جڑیں اور چھلکے اور جو چیز اس درخت سے سب سے اخیر میں پیدا ہوتی ہے وہ اخروٹ ہی ہے، جس میں ان دوسری چیزوں کے تمام خلاصے (معنی) موجود ہوتے ہیں، اور یہ اپنے تیل اور ذائقہ کی وجہ سے ان چیزوں پر فضیلت رکھتا ہے، وہی سب سے مکمل چیز ہے، وہی اخروٹ کے درخت کی اصل ہے، اور درخت کی پائیداری کا انحصار اسی پر ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اگر وہ ابتدائی اخروٹ نہ ہوتا، تو یہ درخت وجود ہی میں نہیں آسکتا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر یہ درخت اخروٹ کا پھل نہ لائے، تو اسے کاٹ دیا جائیگا، اور اس کو جلانے کی لکڑی کر دیا جائیگا۔
ہم اپنے اصلی بیان کی طرف رجوع کر کے کہتے ہیں، کہ جب اس عالَم میں انسان سے بڑھ کر کوئی اکمل شیٔ پیدا نہیں ہوئی، تو لازم آتا ہے کہ اس عالم کا پیدا کرنے والا نفسِ کلّ ہی ہے، اور واقعہ یہ ہے ، کہ انسانی نفس جو نفسِ کلّ کی تخلیقات میں سب سے اخیر میں پیدا ہوا، نفسِ کلّ کا جزو ہے، جب یہ حقیقتِ حال ثابت ہوئی، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر انسان کو بفرضِ محال دنیا سے اٹھا لیا جائے، تو لازمی ہے کہ دنیا دو وجہوں سے نیست ہو جائے گی، ایک وجہ یہ ہوگی کہ انسان کا خاتمہ اس کے سرمایہ (یعنی خورد و نوش وغیرہ کی چیزیں) عالَم سے منقطع ہونے کے سبب سے ہوگا (اور یہ تو صرف) دنیا سے نفسِ کلّ کے دست بردار ہوجانے کے سبب سے ہوگا، پس اگر دنیا بنانے والے کی عنایت دنیا سے منقطع ہوجائے، تو وہ فنا ہو جائے گی، دوسری وجہ یہ کہ اگر عالَم میں انسان نہ ہو، تو عالَم بیابان ہوگا، اور نباتات نہیں اُگیں گی، اس لئے کہ یہی انسان ہے، جو (نہروں کے ) پانی سے زمین آباد کرتا ہے تاکہ اس میں نباتات اُگ سکیں
۸۷
اور جہاں کوئی انسان نہیں وہاں کوئی آبادی نہیں، اگر انسانی ذرائع نہ ہوں، تو درندے دوسرے ان جانوروں کو جن میں (تعمیری) بہتری ہے ، ہلاک کریں گے، اور انسان کے نہ ہونے کی وجہ سے عالَم نیست ہوجائےگا، اس لئے کہ عالِم (یعنی جاننے والا) تو انسان ہے اور عالَم (یعنی جانا ہوا) جہان ہے، پس جاننے والے کے بغیر جانا ہوا نہیں ہو سکتا، اور یہ ایک کفایہ کُن بیان ہے۔
جب ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ بقائے عالَم کا دار و مدار انسانی بقاء پر ہے، تو ہم یہ بھی بتا دیتے ہیں، کہ انسانی بقاء کا انحصار قرآنِ پاک پر ہے، اس لئے کہ قرآن اور اس کے احکام ہی کی بدولت ہر شخص دنیا میں اپنی ملکیت کا مالک ہے، اور اگر لوگوں کے درمیان خدا کی کتاب نہ ہو، تو وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے، اور کوئی شخص حصولِ علم اور طلبِ فضیلت کے قابل نہ ہو سکے گا، پھر لوگ مویشیوں ہی کی طرح ہوں گے، جس طرح ان علاقوں کا حال ہے جہاں کے لوگوں کے درمیان علم و حکمت نہیں، اور وہ لوگ مویشی اور درندے جیسے ہوئے ہیں، جس طرح ملکِ خراسان میں ’’یکجت‘‘ قوم کے لوگ ہیں، صوبۂ کرمان میں ’’کوفج‘‘ کے لوگ ہیں، اور عرب میں ’’بدو‘‘ ہیں، جن سے برائی کے سوا اور کچھ نہیں آتا ہے، کیونکہ وہ اپنی ہی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اور پھر جنگل و بیابان ہی میں انسانیّت کی حد بندیوں سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔
مباحثہ
اگر کوئی شخص یہ کہے، کہ ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں، کہ وہ بہتری کے ساتھ ہیں، حالانکہ وہ قرآن کو نہیں مانتے ہیں، جیسے رومن، روسی، ہندو وغیرہ، میں اسے یہ جواب دونگا، کہ جس گروہ کے پاس کوئی آسمانی دلیل (آسمانی کتاب) موجود ہو، تو یوں سمجھنا چاہئے کہ ان کے درمیان خدا کی کتاب موجود ہے، اور خدا کی ساری کتابیں (اپنی اصلی صورت میں) قرآن ہی ہیں، اور ان
۸۸
کتابوں میں بحقیقت کوئی اختلاف نہیں، اور نادان لوگ جو کچھ توراۃ، انجیل اور قرآن کے درمیان اختلاف سمجھتے ہیں، وہ حقیقت میں کوئی اختلاف ہی نہیں، سوائے اس کے کہ لفظ، مثال اور اشارہ کی ظاہریت میں اختلاف ہے، پس رومنوں کے درمیان انجیل، روسیوں کے درمیان توراۃ اور ہندوؤں کے درمیان صحفِ ابراہیم موجود ہے، اور جو دانا ہندوؤں کا حال پوچھے، تو اسے معلوم ہو گا کہ وہ لوگ سارے دنیا والوں میں سب سے زیادہ تقلید کرنے والے ہیں، کیونکہ وہ ایک ایسے شخص کے کہنے سے اپنے آپ کو جلا دیتے ہیں، جس نے ان کو بتایا ہے، کہ اگر تم اپنے آپ کو جلا دوگے تو بہشت میں پہنچو گے، تاکہ تناسُخ کے ذریعہ پھر دنیا میں آسکو، تناسخ ایک ایسا مذہب ہے جس کے ماننے والے یہ کہتے ہیں، کہ جسم کی فنا (یعنی جلانے) کے بعد (روح کی) ہر اس گرہ کو بے تعلق کیا جاتا ہے، جس کا تعلق اس جسم کے ساتھ ہے، اور (یہ حقیقت ہے کہ کسی آسمانی کتاب کی ظاہریت کے بغیر لوگ قیدِ تقلید میں نہیں ٹھہر سکتے، (اور یہ بھی معلوم ہے) کہ ہندو دانشمند انتہائی پرہیزگار ہوتے ہیں، ان کے درمیان زنا اور اغلام نہیں، وہ جھوٹ نہیں بولتے اور جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے، اور ان کے پاس ایک کتاب ہے جس کے متعلق وہ کہتے ہیں، کہ یہ خدا کا کلام ہے، میں نے ان کے دانشمندوں سے ایسی بہت سی باتیں سنی ہیں، پس یہ ثابت ہوا، کہ انسانی بہتری قرآن میں ہے، اور عالمی بہتری انسان میں ہے۔
پس نتیجہ یہ نکلا کہ عالَم کی پائیداری اور بہتری (دراصل) قرآن میں ہے، اور قرآن خدا کا وہ کلام ہے، جو علم و عمل قائم رکھنے کے لئے لوگوں کو فرمایا گیا ہے اس لئے کہ انسان ان دو طریقوں پر قادر ہیں: یا نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد وغیرہ کو عمل میں لاتے ہیں، یا ان کے معانی جانتے ہیں، نفسِ لطیف کو پہچانتے ہیں عالمِ لطیف کا تصور کرتے ہیں اور دلائل کے ذریعہ اس عالمِ کثیف ہی سے اس
۸۹
عالمِ لطیف کی رسائی کر لیتے ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان (بھی) قرآن میں دو وجہوں سے ہے: یا تو عمل کے لئے فرمایا ہوا ہے، چنانچہ: ۔
’’وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (۰۲: ۴۳(
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘ اور جیسا کہ فرمایا: ۔
’’وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ (۰۹: ۱۰۵(
)اے محمدؐ!) آپ کہہ دیجئے کہ عمل کئے جاؤ، سو دیکھ لے گا تمہارے عمل کو اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول۔‘‘ یا فرمایا ہوا ہے، کہ جان لو، جیسا کہ فرمایا:۔
’’وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلاَدُكُمْ فِتْنَةٌ(۰۸: ۲۸(
اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے۔‘‘
اور جس طرح فرمایا: ۔
’’فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (۰۵: ۳۴(
جان لو، کہ بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
پس ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ قرآن (درحقیقت) اس شخص نے قبول کر لیا ہے، جو کام کرنے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی، عربی میں کام کو عمل اور جاننے کو علم کہتے ہیں، اور یہ دونوں لفظ تین حروف سے بنے ہیں، جیسے (علم): ع،ل،م اور عمل بھی انہی تین حروف کا ایک لفظ ہے، جیسے: ع، م ، ل اسی طرح انسان کا دینی کام ایک ہی ہے، جو اس کی تین چیزوں سے متعلق ہے، جس میں سے ایک تو انسان کے کان کا کام ہے، جو دین کے بارے میں انسان حق بات سنتا ہے، دوسرا انسان کی زبان کا کام ہے، جو دین کے بارے میں انسان حق بات کہتا ہے، جس میں کلمۂ اخلاص اور دوسری باتیں آتی ہیں، تیسرا انسان کے جسم کا کام ہے، جو کرتے ہیں، جیسے نماز، روزہ، حج، جہاد وغیرہ، اور علم بھی تین حروف کا ایک لفظ ہے، جس طرح انسان کی دانش ایک ہے، جو انسانی
۹۰
نفس کی تین قوّتوں پر مشتمل ہے، جن میں سے ایک تو قوّتِ حسی ہے جس کے ذریعہ انسان دین سے متعلق محسوسات، از قسمِ شرعی موضوعات کی ظاہری صورتیں سمجھ لیتا ہے، کہ نماز کس طرح پڑھنی چاہئے، روزہ کس طرح رکھنا چاہئے، مناسک یعنی جن چیزوں کے ذریعہ حج درست ہوتا ہے، کیا ہیں اور کس طرح ہیں وغیرہ دوسری قوّتِ حلق ہے، جس کے ذریعہ انسان اقوال کہتے ہیں، اور نفسِ ناطقہ کو سناتے ہیں اور سننے والا ان اقوال پر حاوی ہو جاتا ہے، تیسری قوتِ عقل ہے، جس کے ذریعے انسان توحید کو تشبیہ اور تعطیل سے مجرّد کرتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدت کو نہ تو کسی چیز کے مانند قرار دیتا ہے اور نہ اس کی وحدت سے انکار کرتا ہے) اور وہ اس کے لئے ایک عطا ہے، کہ وہ عطا اسے ایک ایسی ہستی کی طرف سے ہے، جو خود اس (کی احتیاج) سے برتر ہے، اور یہ توحید کو مجرّد کرنے کا ایک اشارہ ہے۔
پس خلاصہ یہ ہوا، کہ (انسان کی دینداری سے متعلق) ساری چیزیں مجموعاً دو ہیں، جو ایک علم ہے اور دوسری چیز عمل، جب یہ دونوں چیزیں (کسی انسان میں) جمع ہوجائیں تو لوگ اسے دیندار کہتے ہیں، جس طرح انسان میں روح اور جسم ہے، جب دونوں چیزیں جمع ہو جائیں، تو اسے انسان کہا جاتا ہے، عمل دین کے لئے جسم کی طرح ہے اور علم دین کے لئے روح کی طرح ہے، اور جو شخص علم کے بغیر عمل کرتا ہے، تو اس کے دین میں جان نہیں، بلکہ مردار ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مردار کو حرام کر دیا ہے، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ بے علم عمل نامقبول یعنی حرام ہے، جس طرح مردار حرام ہے، اور جو شخص علم سیکھے اور عمل نہ کرے، تو اس کا کوئی دین ہی نہیں، اس لئے کہ دنیا میں کسی بلا جسم روح کا اثبات ہو نہیں سکتا، اور بے عمل علم سے بے علم عمل بہتر ہے، چنانچہ کچھ نہ ہونے سے مردار بہتر ہے۔
۹۱
حسابِ جمل کے مطابق ’’علم‘‘ اور ’’عمل‘‘ دونوں (لفظوں) میں سے ہر ایک کا مجموعہ ایک سو چالیس ۱۴۰ بنتا ہے، جن کے چودہ عقد ہوتے ہیں، یعنی وہ اس طرح، کہ سو ۱۰۰ کے دس عقد ہوتے ہیں اور چالیس کے چار عقد بنتے ہیں، کیونکہ ہر دس کا ایک عقد ہوتا ہے (اسی طرح دس اور چار) مجموعاً چودہ عقد ہوتے ہیں اور چودہ ۱۴ دو دفعہ سات ۷ ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے رسولؐ کو احسان جتاتا ہے، چنانچہ فرمایا ہے: ۔
’’وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (۱۵: ۸۷(
یعنی اے محمد! ہم نے آپ کو ایک ایسا سات ۷ دیا جو دہرا ہے، اور قرآن عظیم دیا‘‘۔ اور اس آیت کی تاویل یہ ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو ایک ایسا دین دیا، جو ان دو چیزوں سے آراستہ تھا، ان میں سے ایک تو علم تھا اور دوسرا عمل، کہ ہر ایک عقود کے حساب سے دو دفعہ سات ہے اور قرآنِ عظیم علم و عمل کا جامع ہے، جس کا ذکر قبل ازین ہوچکا۔
اب ہمیں یہ کہنا ہے کہ قرآن وہ ہے، جس کے ذریعے دنیا کا قیام ہے، مسلمانوں میں ( قرآن کی ماہیت کے متعلق) اختلاف ہوا، ایک گروہ نے کہا، کہ یہ خدا کا کہا ہوا ہے، اور دوسرے گروہ نے کہا، کہ یہ خدا کا پیدا کیا ہوا ہے، اور دونوں گروہوں نے سچ کہا، مگر انہوں نے خود ان ( دونوں باتوں) کے معنی نہیں سمجھا اور ہم اس مقام پر اس کا بیان کریں گے، کہ قرآن اس اعتبار سے خدا کا قول ہے، اور مخلوق نہیں، کہ عقلِ کلّ کی تائید نفسِ کلّ کی وساطت سے ان کلمات کی حقیقت کے ساتھ آتی ہے، جو آج مصحفوں میں لکھے ہوئے ہیں، اور (یہ تائید و حقیقت) رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے پاکیزہ نفس ہی کو پہنچی ہے، اور عقلِ کلّ مخلوق نہیں، نہ نفسِ کلّ مخلوق ہے، بلکہ وہ دونوں بندگانِ بسیط ؎۱
؎۱: بسیط: مفرد، غیر مرکب، یعنی وہ چیز جو یکتا ہو، مرکب کے برعکس، جو کئی چیزوں سے مل کر بنی ہوئی چیز کو کہتے ہیں۔
۹۲
ہیں، اور بغیر کسی چیز سے پیدا کئے گئے ہیں، اور مخلوق وہ چیز ہوتی ہے، جو کسی دوسری چیز سے پیدا کی گئی ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۔
’’وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنسَانَ مِنْ سُلاَلَةٍ مِنْ طِينٍ (۲۳: ۱۲(
یعنی ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا۔‘‘اور جب قرآن اس غیر مخلوق عقل و نفس سے ہے، تو درست ہوا، کہ مخلوق نہیں ہے، اور جب انسان کی طاقت اور دو طریقوں میں تھی ( جن میں سے ایک تو یہ) کہ جب کسی نے کچھ کہا اور کچھ کیا، تو انسان نے اسی (قول و عمل) کو مخلوق سمجھا، اور (دوسرا یہ کہ) جو چیز غیر مخلوق تھی، تو اسے احاطۂ قول سے برتر سمجھا، لیکن قرآن (اس کے باوجود بھی) مخلوق نہیں خدا کا قول ہے، اور ہم قرآن کو خدا کا قول اس وجہ سے کہتے ہیں، کہ قرآن عقلِ کلّ کی تائید اور نفسِ کلّ کی وساطت سے ہے، اور عقل و نفس خدا کے امر سے موجود ہوئے ہیں، اور خدا کا امر (ایک خاص) کلمہ ہے، جس کی (بلفظِ دیگر) ’’کُنۡ‘‘ سے عبارت کی گئی ہے، پس ہم نے کہا کہ قرآن وہی کلمہ ہے، جو (دوسرے لفظ میں) ’’کُنۡ‘‘ ہے تو وہ کسی چیز سے بنا ہوا نہیں (یعنی مخلوق نہیں)۔
اب ہم قرآن کے ظاہری پہلو کی طرف متوجہ ہوئے، تو بتائیں گے، کہ قرآن مخلوق ہے، اس اعتبار سے کہ آج مصحفوں میں لکھا ہوا ہے، اس میں سورے ہیں، جو آیات سے مرکب ہیں، آیات کلمات سے مرکب ہیں، اور کلمات حروف سے بنے ہیں، اور جو چیز بہت سی چیزوں سے مرکب ہوئی ہو، وہ مخلوق ہی ہے، پس آج جو کچھ مصحفوں میں لکھا ہوا ہے، وہ مخلوق ہے، مگر جس وقت رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے دل پر نازل ہوا، تو مخلوق نہ تھا لیکن رسول علیہ السلام نے بموجبِ فرمانِ الٰہی اسے عربی زبان میں کہا، تو مخلوق ہوا، اس لئے کہ رسول علیہ السلام مخلوق تھے، اور
۹۳
مخلوق سوائے مخلوق کے اور کسی چیز پر قادر نہیں ہوسکتا، آج اگر قرآن مخلوق نہ ہوتا، تو لوگ اس پر قادر نہ ہوتے اور اس سے واقف نہ ہوتے، اس سے قبل کہ رسول علیہ السلام نے قرآن کو عربی زبان میں کہا، آنحضرتؐ نے اپنے پاک نفس کے ذریعہ اس کو حاصل کر لیا تھا، جو حروف و کلمات کے بغیر بسیط ( مرکب) تھا، آج مخلوق ہے۔
اب ہم اس کا بیان لفظ ’’قرآن‘‘ہی سے ظاہر کریں گے، کہ لفظِ ’’قرآن‘‘ چار حروف سے بنا ہوا ہے، ان میں سے دو۲ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، جیسے ’’ق‘‘ اور ’’ر‘‘ (قر) اور دو ۲ ایک دوسرے سے جدا ہیں، جیسے’’ا‘‘ اور ’’ن‘‘ (آن) اور یہ لفظِ قرآن (یعنی قر اور آن) قرین سے لئے گئے ہیں، پس لازم آتا ہے، کہ قرآن چار قرین (ساتھی) سے گزر کر لوگوں کو پہنچا ہے، اور ان چاروں میں سے دو ۲ ’’قر‘‘ کی طرح مرکب ہیں، اور دو ’’آن‘‘ کی طرح بسیط ہیں، اور ہمیں قرآن ان دو مرکب سے ملا ہے، جن کو قرآن ان دونوں بسیط سے ملا تھا، اور وہ دونوں مرکب ناطق اور ان کے اساس ہیں، جو ایک دوسرے کے قرین (ہمنشین) ہیں، اور جسم و نفس سے مرکب ہیں، لفظِ قرآن کے ان پہلے دو حرفوں کی طرح جو مرکب ہیں، جیسے ’’قر‘‘ اور یہ دو مرکب (ناطق و اساس) ان دو بسیط کے ذریعہ مکمل ہو جاتے ہیں، جس طرح لفظِ ’’قرآن‘‘ الف و نون کے ذریعہ مکمل ہے۔
پس الف و نون عقل و نفس کی مثال ہیں، کہ ناطق اور اساس کی تالیف و تاویل میں انہی سے تائید حاصل ہے، اور وہ مرکب نہیں بلکہ بسیط ہیں، جس طرح یہ دونوں حروف مرکب نہیں، اور الف عقلِ کل کی دلیل ہے، کیونکہ وہ سارے حروف سے جدا ہے، کہ جب لکھنے والا اس تک پہنچے تو اس کا سلسلۂ تحریر ٹوٹ جاتا ہے، اس لئے کہ الف کے اوپر کی طرف سے کوئی چیز متصل نہیں، اور وہ تحریری چیزوں کا آغاز ہی ہے، حروف الف کے ساتھ نیچے سے مل جاتے ہیں، مگر الف دوسرے حروف کے ساتھ نیچے سے نہیں ملتا، جس طرح ساری چیزیں اپنے اوپر کی طرف سے عقل کے ساتھ متصل ہیں، مگر عقل اپنے اوپر کی طرف سے
۹۴
کسی چیز کے ساتھ متصل نہیں اور نون نفسِ کل کی دلیل ہے، چنانچہ وہ ایک ایسا خط ہے، جو سرے سے سرا متصل ہوا چاہتا ہے، اور ہنوز متصل نہیں ہوا ہے، جس طرح نفسِ کلّ کا حال عقلِ کلّ سے فائدہ لینے سے عقلِ کلّ کے درجہ میں پہنچ ہی رہا ہے، مگر ابھی نہیں پہنچا ہے۔
اسی طرح ترتیبِ تلفظ میں یعنی حرفِ ’’نون‘‘ کے حروفِ شماری میں پہلے نون آیا ہے اور اخیر میں بھی نون ہی ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ ہر آخر اپنے اوّل کی طرح ہوگا، (یعنی ہر دوسری چیز اپنی پہلی چیز کی طرح ہوگی) اوّل عقل ہے اور آخر نفس ہے، پھر نفس عقل ہی کی طرح ہوگا، اور ان چار حروف میں سب سے پہلے ’’قاف‘‘ ہے، جو اساس کی دلیل ہے، کہ مومن کو اسی سے ناطق کا راستہ مل سکتا ہے، اور اس کو پہچانتا ہے اور ’’را‘‘ ناطق کی دلیل ہے ’’قاف‘‘ کا حسابِ جمل سو ۱۰۰ ہے، اور ’’را‘‘ کا دو۲۰۰سو ہے، یعنی کہ ناطق تاویل و تالیف کے دومراتب کے مالک ہیں اور اساس ایک ہی مرتبے کے مالک ہیں، جو تاویل کا مرتبہ ہے، عالمِ دین میں ناطق کو رجولیت کا مرتبہ ہے، اور اساس کو نسوانیت کا مرتبہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ (۰۴: ۱۷۶(
یعنی ایک مرد کو دو۲ عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔‘‘ الف جو عقل کی دلیل ہے، حساب میں ایک کا عدد رکھتا ہے، جس کے معنی ہیں، کہ عقل ساری موجودات کی علت (سببِ پیدائش) ہے، جس طرح گنتی میں ’’ایک‘‘ سارے اعداد کی علت ہے، اور ’’نون‘‘ نفس کی دلیل ہے، کیونکہ وہ چار عناصر کا اور موالید کا، جو ان کا پانچواں ہے، پیدا کرنے والا ہے، جس طرح نون کا حساب پچاس ہوتا ہے، جس کے پانچ عقد بنتے ہیں، اور لفظِ قرآن کے ’’قاف‘‘ اور ’’را‘‘ عمل کی مثال ہیں، جو جسمِ مرکب کا حصہ ہے، اور اسی لفظ کے ’’الف‘‘ اور ’’نون‘‘ علم کی مثال ہیں، جو نفسِ بسیط کا حصّہ ہے، علم کے بغیر عمل چوپایوں کا حصّہ ہے، عمل کے بغیر علم فرشتوں کا حصّہ ہے اور علم و عمل دونوں انسانوں کا حصہ ہے، کیونکہ وہ جسم کے اعتبار سے
۹۵
حیوانات کے ساتھ شریک ہیں، اور نفس دانا کے لحاظ سے حیوانات کے ساتھ شریک نہیں، بلکہ وہ فرشتوں کے ہمسر ہیں (پس دونوں امکانی صورتوں کی وجہ سے ابتداً انسان،) حیوانات اور فرشتوں کے درمیان متوسط ہے، تاکہ وہ علم و عمل کے ذریعہ حیوانیت سے ملکوتیت میں پہنچ سکے۔
قرآن کے الفاظ مختلف آئے ہیں، نیز تمام پیغمبروں کی شریعتوں کے اعمال بھی مختلف واقع ہوئے ہیں، اس لئے کہ یہ دونوں انسان کے جسم کی طرح تھے، کہ انسانوں کے اجسام مختلف ہی ہوتے ہیں، مگر خدا کی کتابوں کے معنی اور انبیاء کی شریعتوں کی تاویل ایک ہی آئی ہے، اور وہ (حقیقتِ) حال خود ایک ہی ہے، اس لئے، کہ وہ روحِ انسانی کی مثال ہے، اور روح کا حال بدل جانے والا نہیں، پس لفظ کو تنزیل اور معنی (یعنی حقیقت) کو تاویل کہا گیا ہے۔
پس ہم ایک قریب ترمثال بیان کر یں گے، اور تنزیل و تاویل کے درمیان فرق ظاہر کریں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَالْقَمَرِ إِذَا تَلاَهَا (۹۱: ۱۔۲(
یعنی قسم ہے سورج کی اور اس کی چاشتگاہ کی، اور چاند کی جب اس کے پیچھے چلے۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے قسم ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اس سورج سے اللہ تعالیٰ کی مراد رسول ہیں، جو علمِ دین کے سورج ہیں اور چاشتگاہ سے مراد ان کے دین کی روشنی ہے اور چاند سے مراد دین میں ان کا وصی ہیں، اور چاند سورج کے پیچھے پیچھے چلنے سے اللہ تعالیٰ کی مراد عالمِ دین میں رسولؐ کے پیچھے ان کے وصی کا چلنا ہے، اور ان کی قابلِ تعریف سیرت مراد ہے، اور تنزیل کے بعد کتاب کی تاویل کرنا مقصود ہے، اور یہی زیادہ بہتر ہے، کہ خدا تعالیٰ اپنے رسولؐ اور آنحضرتؐ کے وصی کی قسم کھائے، بہ نسبت اس کے کہ بلا سمجھ گردش کرنے والا سورج اور چاند کی قسم کھائے، جن کی روشنی (کسی فرق و تمیز کے بغیر) ہر پاک و پلید پر پڑتی رہتی ہے، ہم نے
۹۶
قرآن کی ماہیت، کی تشریح و توضیح کر دی، اور اس کی تاویل کی واجبیت اور ابتدائی ترکیب کا بطورِ اختصار و اکتفا تذکرہ کر دیا۔
۹۷
کلام ۔ ۱۰
کتاب (قرآن) اور شریعت کے ظاہر و باطن کے بارے میں
باری سبحانہ و تعالیٰ کی توفیق سے بتایا جاتا ہے کہ دینِ اسلام کے بعض انجان اور سست لوگ شیعۂ حق کو باطل قرار دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ کافر ہیں، بغیر اس کے کہ وہ ان کے مذہب کی حقیقت تک رسا ہو جائیں، اور کسی دانشمند کے لئے بہتر طریقہ وہ ہوتا ہے، کہ اپنے مخالف کے احوال کی بابت پوچھا کرے، اور اس کے ساتھ گفتگو اس کی حقداری کے اندازے سے کرے، تاکہ وہ جاہلوں کی عادت کا عامل نہ بن جائے، اور اس کو بدخصلتی کی نسبت نہ دی جائے، جو شخص اسلام کے کسی مومن کو کوئی طعنہ دیتا ہو، اس کے بغیر کہ وہ اس کے اعتقادات جانتا ہے، اور بجز اس کے کہ اس کو اس شخص سے کوئی تکلیف پہنچی ہے، بلکہ بلاوجہ خوئی بد کو عمل میں لانے کے لئے اسے تکلیف دیتا ہے تو اس کی مثال کتے کی طرح ہے، کہ ایک شخص اپنے راستے پر نظر جمائے ہوئے اپنے کام کے لئے جارہا ہے، تو وہ ایک گلی سے نکل کر اس شخص پر حملہ آور ہوتا ہے، اس کے کپڑوں کو پھاڑتا ہے، اور اسے زخمی کر دیتا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔
۹۸
’’فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (۰۷: ۱۷۶)
یعنی اس کی مثال کتے کی مثال جیسی ہے، اگر تو اسے مارے تب بھی زبان ڈالتا ہے، یعنی بھونکتا ہے یا اسے چھوڑے تب بھی بھونکتا اور رنج دیتا ہے، اور یہ ان لوگوں کی مثال ہے، جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا (یعنی انہوں نے امامانِ حق کی اطاعت نہیں کی) پس آپ اے محمدؐ قصے بیان کیجئے، شاید وہ لوگ کچھ سوچیں۔‘‘ اور وہ نادان لوگ شیعوں کو ستاتے ہیں، اس لئے کہ یہ ان سے الگ ہوئے ہیں، جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، لازماً وہ تاریکی، نادانی اور نابینائی میں ہلاک ہو جاتے ہیں، ہم اس مقام پر باطن کے اثبات کے باب میں بیان کریں گے، تاکہ شاید اللہ تعالیٰ کسی کو ہوش دے، جس سے وہ حق دیکھے اور مومنوں کو انجانے نہ ستائے۔
ہمارا بیان ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے، وہ دو ۲ قسم کا ہے، یا تو ظاہر ہے یا باطن، جو کچھ ظاہر ہے وہ آشکار ہے، کہ آنکھ، کان، ہاتھ وغیرہ کے ذریعہ پایا جاتا ہے، جن کو حواس کہا جاتا ہے، اور جو چیزیں حواس کے ذریعہ پائی جاتی ہیں، انہیں محسوسات کہتے ہیں، اور جو چیزیں باطن یعنی پوشیدہ ہیں، اور لوگ ان کو حس کے ذریعہ پا نہیں سکتے، بلکہ حکمت والے ان کو عقل و علم ہی کی ذریعے پا سکتے ہیں، تو ان کو معقولات کہتے ہیں۔ پس ہم کہتے ہیں کہ جو کچھ آشکار ہے وہ بذاتِ خود آشکار ہے۔ اس وجہ سے نہیں، کہ لوگ اس کو حواس کے ذریعے پا لیتے ہیں، بلکہ لوگ اس کو پائیں یا نہ پائیں وہ تو خود آشکار ہی ہے، جس طرح یہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے، کہ اگر لوگ اس کو نہ دیکھیں، تو یہ پوشیدہ نہ ہوگی، بلکہ اس کی ظاہریت یہ ہے کہ اگر درست
۹۹
حس اس تک پہنچے تو اس کو پالیتی ہے، ہمارا کہنا ہے کہ اسی طرح وہ چیز جو پوشیدہ ہے، بذاتِ خود پوشیدہ ہے اور اگر لوگ اس کو عقل کے ذریعہ پائیں تو وہ چیز پوشیدگی کی حد سے باہر نہ آئے گی، اور انسان کے پالینے سے بھی وہ ظاہر نہیں ہوگی، جس طرح جو کچھ آشکار ہے، وہ انسان کے نہ پالینے سے پوشیدہ نہیں ہوتی، اور پوشیدہ کی مثالیں عالمِ لطیف، انسان کی جان، عالم کی محدثی، وقت کا گزر جانا، صانع کا اثبات وغیرہ ہیں، اور ان چیزوں کی پوشیدگی یہ ہے، کہ لوگ حواس کے ذریعہ ان کو نہیں پا سکتے ہیں۔
جب ہم نے یہ ثابت کر دیا، کہ جو کچھ ظاہر ہے وہ ہرگز پوشیدہ نہ ہوگا اور جو کچھ پوشیدہ ہے، وہ ہر گز آشکار نہ ہوگا، تو ہمارا کہنا ہے کہ اس بارے میں شیعہ (گروہِ امامیہ) کا قول یہ ہے، کہ جو عبادات عمل میں لائی جاتی ہیں اور حس کے ذریعہ پائی جاسکتی ہیں، تو وہ ظاہر کہلاتی ہیں، جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد وغیرہ، اور مادّی چیزوں میں سے آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے، کہ جن کے حواس درست ہیں وہ ان چیزوں کے پانے میں برابر ہیں اور یہ ساری چیزیں ظاہر ہیں، اس لئے کہ ہر حس والے کو دوسرے پر ان چیزوں کے دیکھ پانے میں کوئی فضل نہیں، اور جب ’’باطن‘‘ کہا جاتا ہے تو باطن سے ان کی مراد وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کو پانے کے لئے حس کو کوئی راستہ نہیں، جیسے ہر اس چیز کا سبب پیدائش جو عنصر، طبائع اور ارکان (مادّی اجزاء) سے بنی ہے، اور جو کچھ موجود پایا گیا ہے، اس کو تقسیم کیا گیا ہے، تاکہ معلوم ہو جائے کہ کوئی مطلوبہ چیز آشکار چیزوں میں سے ہے، یا پوشیدہ چیزوں میں سے، اور جان لیں کہ مطلوبہ چیز حس کے ذریعہ پائی نہیں جاتی ہے، اور نہ وہم و فہم کے ذریعہ پائی جاتی ہے، جیسے علمِ توحید، اثباتِ نبوّت، بہشت، دوزخ، ثواب، عذاب، حشر، حساب، فنائے عالم وغیرہ اور یہ ایسی چیزیں ہیں جن کی پوشیدگی کی وجہ سے لوگ ان کی دریافت میں ایک دوسرے پر فضل و شرف
۱۰۰
رکھتے ہیں، بہ سببِ حصول (معنی) کہ ان چیزوں میں سے ہر ایک میں جو کچھ معنی ہیں وہ دوسری میں نہیں، اور اگر باطن چیزیں نہ ہوتیں، تو کسی کو ایک دوسرے پر فضل نہ ہوتا، اس لئے کہ ظاہر چیزیں لوگوں کے لئے یکسان ہیں، اور اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہم نے لوگوں کو ایک دوسرے پر درجات میں رفعت دی ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
’’وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا (۴۳: ۳۲)
یعنی ہم نے ان میں سے ایک گروہ کو دوسرے پر درجات میں رفعت دی تاکہ ایک گروہ دوسرے گروہ کو مسخر کرے‘‘۔ پس یہ آیت پوشیدہ چیزوں کے اثبات پر دلالت کرتی ہے اور درجات میں نہیں مگر دین میں، اور اگر یہ درجات ظاہر چیزوں میں ہوتے، تو سب لوگ ظاہر میں یکسان ہیں (پھر) درجات لازم نہیں آتے، اور جب بموجبِ فرمانِ الٰہی درجات ثابت ہیں، پس عالمِ باطن بھی ثابت ہے، اور ’’ظاہر‘‘ ایسا ہے، جس طرح ہم کہتے ہیں ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ جب ہم ان کلمات کو منہ میں زبان کی حرکت اور آواز کے ذریعے ادا کرتے ہیں، تو تمام سننے والے ان کلمات کے سننے میں یکسان ہوتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ محسوس اور ظاہر ہیں، ان کلمات کی تاویل ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے صرف داناؤں کے لئے مخصوص ہے، نہ کہ ہر سننے والے کے لئے، اور دانا لوگ سننے والوں کے ساتھ اس کے سننے میں شریک ہیں، مگر سننے والے داناؤں کے ساتھ اس کے سمجھنے میں شریک نہیں، کیونکہ وہ تو پوشیدہ ہے،اور اگر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معنی کلمہ کے ظاہر کی طرح آشکار ہوتے تو ہر سننے والا اس کے معنی سمجھ سکتا ہے، اور کوئی دانشمند اس قول سے منکر نہ ہو سکے گا۔
کتاب و شریعت کے باطن کے ثبوت پر یہ دلیل پیش کروں گا، کہ
۱۰۱
کوئی ظاہر چیز نہیں، مگر اس کا قیام اس کے باطن پر ہے، آسمان سے لے کر زمین تک، اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے، اس لئے کہ آسمان سے جو کچھ ظاہر ہے، وہ یہی نیلا رنگ ہے، جو دکھائی دے رہا ہے، اور سورج، چاند اور ستاروں سے اس روشنی کے سوا اور کوئی چیز ظاہر نہیں، چنانچہ آسمان میں یہ ظاہر نہیں، کہ جب سورج برجِ حمل میں پہنچتا ہے، تو زمین کیونکر ہری بھری ہو جاتی ہے، اور جب سورج برجِ میزان میں پہنچتا ہے، تو درختوں کے پتے (کس وجہ سے) پیلے ہوجاتے ہیں، پھر وہ پتے (کس سبب سے) جھڑ جاتے ہیں، اور اسی طرح دوسرے موسموں کی حقیقت بھی حواس کے لئے ظاہر نہیں کہ سال میں (کس طرح) بارہ مہینے ہوتے ہیں، اور یہ ظاہر نہیں، کہ ماہِ رمضان جو عربوں کے سال کا نواں مہینہ ہے (کیونکر افضل ہے) بلکہ وہ ان ساری (معقولات) کی طرح معقول ہے، نہ کہ محسوس، اور ہر ظاہر کا قیام اس کے باطن پر ہے جس طرح مجموعی طور پر عالم کا قیام انسان پر ہے، چنانچہ اس کی دلیل قبلاً ہم نے اسی کتاب میں ظاہر کی ہے، اور ہر گوہر کی قیمت نہ اس کے ظاہر کی وجہ سے ہے، بلکہ اس کے باطن کی وجہ سے ہے، چنانچہ سونا نہ اس سبب سے قیمتی واقع ہوا ہے ، کہ وہ زرد اور پگھلنے والا ہے، کیونکہ اگر اس کی قیمت اسی وجہ سے ہوتی تو پیتل بھی زرد اور پگھلنے والا ہے، سو یہ بھی قیمت میں اس کے برابر ہوتا، بلکہ سونے کی قیمت اس معنی (یعنی حقیقت) کی وجہ سے ہے، جو اس کے اندر ہے، اور وہ پیتل سے جدا ہے، اور وہ ایک لطیف حقیقت ہے، اور نفسِ لطیف اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے، اور وہ حقیقت کسی لفظ میں لائی نہیں جاسکتی، مگر تقریبی مثال میں، اور اسی طرح زمین کے ظاہر میں یہ آشکار نہیں کہ اس سے اتنی قسم کی نباتات کس طرح اگتی ہیں اور نباتات میں بھی یہ آشکار نہیں کہ اس سے کس طرح حیوان کو زندگی ملتی ہے۔
۱۰۲
میرا کہنا ہے کہ اسی طرح ہی انسان کا جسمِ کثیف آشکار ہے، اور روحِ لطیف پوشیدہ ہے، یہ جہانِ فانی آشکار، اور وہ جہانِ باقی پوشیدہ ہے، مصنوع آشکار اور صانع پوشیدہ ہے، برے لوگ اچھے لوگوں کی نسبت آشکار ہیں اور اچھے لوگ برے لوگوں کی نسبت پوشیدہ ہیں، پس اسی طرح خدا کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شریعت آشکار ہے، اور ان کے معنی و تاویل نادانوں سے پوشیدہ ہے مگر داناؤں کے لئے عیان ہے، کیونکہ وہ تو اسی وجہ سے نادانوں سے ممتاز ہوئے ہیں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ کتبِ (سماوی) اور شریعت دو اجسام کی طرح ہیں، اور معنی و تاویل ان اجسام کی دو ارواح کی طرح ہیں، اور جس طرح بغیر روح کے جسم خوار ہو جاتا ہے، اسی طرح تاویل اور معنی کے بغیر کتاب و شریعت کی بھی خدا کے نزدیک کوئی قدر نہیں، چنانچہ رسول علیہ السلام نے فرمایا:۔
’’ اِنَّ اللّٰہ اَسَّسَ دِیْنَہٗ عَلٰی اَمْثَالِ خَلْقِہٖ لِیُسْتَدلّ بِخَلْقِہٖ عَلٰی دِیْنِہٖ وَبِدِیْنِہٖ عَلٰی وَحْدَانِیَتِہٖ۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی بنیاد اپنی خلقت کی طرح رکھی، تاکہ اس کی خلقت سے اس کے دین کی دلیل مل سکے، اور اس کے دین سے اس کی وحدانیت کی دلیل مل سکے‘‘۔ جب دنیا کی خلقت میں یہ عیان ہے، کہ چیزوں کے باطن ان کے ظاہر سے اشرف ہیں اور ہر چیز کے ظاہر کا قیام اس کے باطن پر ہے، تو لازم آتا ہے، کہ خدا کا کلام اور رسول کی شریعت بھی اپنے باطن ہی کی وجہ سے اشرف ہے، اور جو شخص اس کے باطن کو نہ سمجھتا ہو وہ دین کے کسی شمار میں نہیں اور رسول اس سے بیزار ہے، بموجبِ قولِ خدائے تعالیٰ:۔
’’ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنْ الْجَاهِلِينَ (۰۶: ۳۵)
پس آپ نادانوں سے نہ ہو جئے‘‘ اور اس شخص سے زیادہ نادان
۱۰۳
کوئی نہیں جو ایک ایسا کام کرتا ہے، کہ اس کے معنی نہیں سمجھتا، پس درست ہوا کہ مومن شریعت کے باطن ہی کوسمجھنے سے رسول مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے مل سکتا ہے، اس لئے کہ وہ دانا ہو جاتا ہے، جبکہ رسول کے لئے یہ فرمان ہے، کہ آپ نادانوں سے نہ ہوجئے، تو یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ وہ داناؤں میں سے ہے، اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے، تاکہ ہم دانش سے عمل کریں، مسلمانوں کو دکھ نہ دیں، اپنی دانش پر مغرور نہ ہو جائیں، اور ہم یہ سمجھ لیں کہ (بحکمِ: ’’ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ ۱۲: ۷۶) ہر دانا سے برتر ایک اور دانا ہے۔‘‘
جبکہ انسان جسم اور نفس ہے، جبکہ جسم اس جہان کا ہے اور نفس اُس جہان کاہے، جبکہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ’’لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ‘‘ کے ظاہر قول کے ذریعہ لوگوں کو قتل کئے جانے، فروخت ہو جانے اور ان کے مال و اولاد لٹ جانے سے بچایا، جبکہ قول کا ظاہر جسم کی مثال ہے، اور معنی روح کی مثال ہیں، اور جبکہ انسانی جسم ظاہر قول کے ذریعہ (ظاہری عذاب سے) چھٹکارا پاتا ہے، تو یہ ہمیں اس حقیقت کی دلیل ہوئی، کہ نفس، جو باطن ہے، جسم کے لئے ایسا ہے، جیسے قول کے معنی اور شریعت کی تاویل ہوتی ہے، پس نفس کا چھٹکارا کتابِ (سماوی) اور شریعت کے باطن میں ہے، اور یہ حقیقتِ حال ہر اس شخص پر پوشیدہ نہ رہے گی جو چشمِ بصیرت رکھتا ہے، مگر جو شخص حق کو چھپانا چاہتا ہو، اور خدا تعالیٰ نے اس کو اس کے برے کاموں کی سزا میں اندھا کر دیا ہو (تو اس کے لئے کوئی علاج ہی نہیں) چنانچہ عزو علا نے فرمایا: ۔
’’صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ (۰۲: ۱۷۱)
یعنی بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، پس وہ نہیں سمجھتے ہیں۔‘‘
والسلام
۱۰۴
کلام ۔ ۱۱
کلمۂ اخلاص یعنی لَا اِلٰہَ اِلا اللہ کے بارے میں
اب ہم بیان کرتے ہیں، کہ یہ (کلمہ) بندے کی طرف سے خدا تعالیٰ کی (ہستی و وحدت کی) گواہی ہے، پس بندہ ( اس بارے میں) گواہی دینے والے کی حیثیت سے ہے، اس کا قول (یعنی کلمہ پڑھنا) گواہی ہے، اور خدا تعالیٰ وہ ہے، جس کے لئے یہ گواہی دی جاتی ہے (یعنی بندہ شاہد ہے، اس کا لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ پڑھنا شہادت ہے، اور حق تعالیٰ مشہود۱ ہے) جس کی (لفظی) مثال خالق، تخلیق اور مخلوق کی طرح ہے۔
(جاننا چاہئے کہ) ہر چیز کی تمامیت و کمالیت تین چیزوں پر ہے، یعنی اس کا آغاز، درمیان اور انجام، چنانچہ اس حقیقت کا آغاز جس کا ہم یہاں تذکرہ کر رہے ہیں، گواہ (بندہ) ہے، درمیان گواہی (یعنی کلمہ) ہے اور اس حقیقت کا انجام وہ ہے، جس کے لئے گواہی دی جاتی ہے (یعنی حق تعالیٰ )۔
گواہی دو طرح کی ہوا کرتی ہے، کہ وہ یا تو سچی ہوتی ہے، یا جھوٹی، سچی
؎۱: مشہود۔ جس کے لئے گواہی دی جاتی ہے۔
۱۰۵
گواہی گواہ کے ایک قول کی صورت میں ہوتی ہے، مشہود کی اس چیز کے اثبات کرنے کے لئے، جو واقعاً اسی کی ہو، یا کہ کسی حق یا کسی صفت کی نفی کرنے کے لئے جو بحقیقت اسی کی نہ ہو، اور جھوٹی گواہی (بھی) گواہ کے ایک قول کی صورت میں ہوتی ہے، مشہود کی ایک ایسی چیز کے اثبات کرنے کے لئے، جو دراصل اس کی نہ ہو، یا کہ کسی حق یا صفت کی نفی کرنے کے لئے، جو اسی کی ہو، جب گواہی دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، جس کا ایک حصہ ’’لَا اِلٰہَ‘‘ کی طرح نفی اور ایک حصّہ ’’اِلَّا اللہ‘‘ کی طرح اثبات ہے، پس نفی جھوٹ کی مثال ہے اور اثبات سچ کی مثال ہے، اور دینِ اسلام میں مومن کے لئے (یہ ہرگز) روا نہیں، کہ وہ کسی چیز کے بارے میں گواہی دے، جس کو اس نے نہ دیکھا ہو۔
جب (واقعہ کو دیکھے بغیر گواہی نہ دینے کا) یہ حکم دینِ حق میں ثابت ہے، تو ہمارا یہ کہنا غلط ہوگا، کہ رسول علیہ السّلام نے عادل گواہوں کے ذریعہ اس حقیقتِ حال کو معلوم کئے بغیر حق تعالیٰ کے متعلق یہ گواہی دی تھی، مگر دینِ حق میں یہ جائز ہے، کہ ایک شخص دوسرے شخص کی جگہ گواہ ہو جایا کرے، جبکہ یہ گواہی دو عادل گواہوں نے دی ہو، پھر یہ شخص (یعنی نائب گواہ) حق والے کے لئے گواہی دے سکتا ہے اس شخص (یعنی گواہِ سابق) کے قول سے، جس نے اپنی جگہ پر اس کو گواہ بنایا ہو۔
پس میں کہتا ہوں، کہ روا نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہو، کیونکہ یہ امر ناممکن ہے، لیکن اس کے لئے حق تعالیٰ کی وحدانیت پر دو عادل گواہوں نے گواہی دی، اور ساری مخلوق ان دونوں گواہوں کی گواہی سننے سے قاصر و عاجز تھی، اور ان دو گواہوں میں سے ایک تو آفاق (عالمِ جسمانی) تھا۔ دوسرا انفس تھا، کہ وہ دونوں آنحضرت کے لئے ایک واضح قول میں گواہی دے رہے تھے، کہ خدائے واحد کے سوا کوئی خدا نہیں، یہاں تک کہ آنحضرت نے حق و صداقت کے ساتھ ان کی گواہی پر گواہی دی۔
۱۰۶
چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی یہ حدیث اس قول کی تصد یق کرتی ہے ( کہ کچھ لوگوں نے) آنحضرت سے پوچھا، کہ کون ہے، جو آپ کے اس دعوے اور قول کی گواہی دیتا ہے؟ تو رسول علیہ السلام نے فرمایا: لیَشْھَدُ لِیْ کُلُّ حَجَرٍ وَمَدَرٍ =یعنی ہر پتھر اور ڈھیلا میرے لئے گواہی دیتا ہے‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ کے قول سے اس حدیث کے ثبوت کی سند ملی ہے، جو اپنی کتاب (قرآن) کے آیۂ محکمہ میں فرماتا ہے۔
’’سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳)
ہم ان کو اس عالم میں اور خود ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھاتے رہیں گے، یہاں تک کہ انہیں ظاہر ہوجائے کہ وہ حق ہے‘‘۔ پس اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ پوشیدہ حقانیت آفاق و انفس کی گواہیوں ہی سے ظاہر ہو جاتی ہے۔
پس میرا کہنا ہے، کہ بندے کی طرف سے یہ قولی شہادت خدا کے لئے ہے، اور وہ دو حصوں میں ہے، ایک حصے کی نسبت مخلوق کی جانب ہے، کیونکہ گواہی دینے ولا مخلوق ہے، اور وہ نفی کا حصہ ہے، چنانچہ گواہی دینے والا ’’لَا اِلٰہَ‘‘ کی نفی کی طرح فانی ہے اور دوسرے حصے کی نسبت باری سبحانہ کی وحدانیت سے ہے، کیونکہ گواہی اسی کے لئے ہے اور وہ اثبات کا حصہ ہے، چنانچہ گواہی نے اس (وحدانیت ) کو ’’اِلّااللہ‘‘ کی طرح لازوال پائی ہے، پس شہادت سے مخلوق کا حصہ خدا تعالیٰ سے ان صفات کی نفی کرنا ہے، جو صفات جسمانیوں اور روحانیوں میں باقی ہیں، اور جو حصہ باری تعالیٰ کی وحدت کی جانب ہے، لطیف اور کثیف دونوں مخلوق کی صفات میں جو بھی چیز موجود ہے اس کے ساتھ کسی آمیزش کے بغیر اثباتِ محض کرنا ہے، نہ نفی کے طریقہ پر اور نہ اثبات کے طور پر، اور اس قول کے معنی یہ ہیں، کہ جسمانی (یعنی مخلوقِ کثیف)
۱۰۷
دکھائی دینے والی اور محسوس ہونے والی ہے، دکھائی نہ دینے والی اور محسوس نہ ہونے والی نہیں، اور روحانی (یعنی مخلوقِ لطیف) کے بارے میں کہوں گا، کہ دکھائی نہ دینے والی اور محسوس نہ ہونے والی ہے، دکھائی دینے والی اور محسوس ہونے والی نہیں، پس باری سبحانہ سے ان دونوں اثباتوں اور دونوں نفیوں کی نفی کرنا چاہئے، وہ تجھے یوں کہنا ہوگا کہ دکھائی دینے والا اور سمجھ میں آنے والا نہیں، دکھائی نہ دینے والا اور سمجھ میں نہ آنے والا نہیں، کیونکہ یہ سب مخلوق کی صفات ہیں، یہی سبب تھا کہ رسول مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے نفی و اثبات پر اس کلمے کی بنیاد رکھی اور آنحضرتؐ نے اس کا آغاز نفی سے کیا، یعنی فرمایا کہ ’’کوئی معبود نہیں‘‘اور اس کا خاتمہ اثبات پر کیا، یعنی فرمایا کہ ’’مگر اللہ ہے‘‘ اس لئے کہ انسان جو گواہ ہے، پہلے تو مخلوق ہی کو سمجھ سکتا اور پا سکتا ہے کہ وہ نفی کی طرح ہے اور اس کے بعد مخلوق سے خالق کی دلیل کرتا ہے، کہ وہ اثبات کی طرح ہے، پس انسان کے قلبی اعتقاد اور اس کے زبانی قول میں صداقت ہونی چاہئے، تاکہ وہ اپنے کہنے کے مطابق زبانی طور پر باری سبحانہ سے مخلوق کی صفات کی نفی کر سکے اور سچے اعتقاد کے ذریعہ اثباتِ محض کی نگہداشت کر سکے۔
نیز میں (یہ بھی) بتا دیتا ہوں، کہ رسول علیہ السّلام نے شہادت میں نفی کا ذکر پہلے کیا، اور اثبات اس کے بعد رکھا، اس لئے کہ انسان جو خدا تعالیٰ کے لئے یہ گواہی دے رہا ہے، اولاً جسمانی وجود رکھتا ہے، کہ وہ نفی کے مانند ہے اور اخیرمیں لطیف نفس کے مکمل ہوجانے پر ( اس کا روحانی وجود) پائندہ ہو جاتا ہے کہ وہ اثبات کے مانند ہے۔
اسی طرح بتا دیتا ہوں کہ رسول علیہ السلام نے شروع میں صرف یہی قول کہلانا چاہا کہ جب کہا گیا تو وہ (قول صوتی وجود سے) ختم ہوا، کیونکہ وہ نفی ہے، اور اخیر میں ہم سے ہمارے دل کا سچا اعتقاد چاہا، کہ وہ ختم نہیں ہوتا ہے،
۱۰۸
کیونکہ وہ اثبات ہے، اور اس قول کے قائل (یعنی کلمہ پڑھنے والے) کو جینے دیا اور اس کا مال نہ چھینا جو یہ دونوں چیزیں قولِ فانی کی طرح جسمِ فانی کے حصّے میں آئی ہیں اور خالص اعتقاد والوں کے لئے، کہ وہ باقی ہے، بہشتِ باقی کا وعدہ کیا، اور اس شہادت کی حقانیت کی دلیل، جو رسول علیہ السلام نے لائی اور ہم پر اس کا کہنا اور اس پر اعتقاد رکھنا لازم کردیا، یہ ہے کہ مذکورہ شہادت دو قسم کی مخلوق کے مطابق ہے، کہ ایک مخلوق جسمانی اور کثیف ہے، یعنی یہ عالم، جو نفی کی طرح فانی ہے، دوسری لطیف اور روحانی ہے، یعنی وہ عالم جو اثبات کی طرح باقی ہے، اور جس خدا کے لئے یہ شہادت ہے، وہ ان دونوں مخلوقات کا خالق ہے، اور وہی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ جیسے جفتِ بسیط (غیر مرکب جوڑے) کا پیدا کرنے والا ہے، کسی چیز سے نہیں (بلکہ امرِ محض سے) جس کی مثال یہی شہادت ہے، جو نفی و اثبات سے ہے، نہ کہ کسی اور قول سے لی گئی ہے، نیز شہادت ایک اور دو کے حساب کے ساتھ برابر ہے (کہ اس میں نفی مقامِ اوّل پر اور اثبات مقامِ دوم پر ہے) کہ یہ ایک اور دو بسیط اور روحانی اعداد میں سے ہیں، اسی طرح دو ایک کے مجموعے سے تین کا عدد بنا ہے، کہ مرکب اور طاق ہے، جو عالمِ دین کے جدّ، فتح اور خیال جیسے تین فروع کے برابر ہے، اور عالمِ جسمانی میں طول ، عرض اور عمق جیسی تین مسافتیں ہیں، اسی طرح شہادت کی ترکیب تین حروف سے ہے، اور وہ حرف غیر مکرر حالت میں الف، لام اور ھا ہیں، پھر حساب میں تین کے بعد چار آتا ہے، جو دو اور تین کی وساطت سے پیدا ہوا ہے چنانچہ عالمِ دین میں باری سبحانہ کے امر سے عقل و نفس کی وساطت سے، پھر ان تین روحانی فروع کی وساطت سے جن کا ہم نے ذکر کیا، اساسین یعنی ناطق، اساس اور فرعین (دو فرع) یعنی امام و حجت جیسے چار فروع پیدا ہوئے ہیں، اسی طرح عالمِ جسمانی میں دو اور تین کے بعد چار عناصر پیدا ہوئے ہیں، کہ دو: ہیولیٰ و صورت ہیں اور تین: طول،
۱۰۹
عرض اور عمق کی مسافتیں ہیں، اسی طرح شہادت کے دو حصوں اور تین حروف سے چار کلمات کی ترکیب ہوئی ہے، جب گنتی چار تک پہنچتی ہے، تو اس کا پہلا حصّہ مکمل ہو جاتا ہے، اس لئے کہ پہلا حصہ طاق اور جفت پر مشتمل ہے، جس میں ایک: طاقِ محض، دو: جفتِ محض، تین: طاقِ مرکب اور چار: جفتِ مرکب ہیں، اور چیزیں یا تو بسیط ہوتی ہیں یا مرکب، پس لازم آتا ہے کہ جب بسیط طاق۱ اور جفت۲ کے اعداد مرکب طاق و جفت (۳، ۴) کے اعداد کے ساتھ آئیں، تو اس کی اصل تمام ہو جاتی ہے۔
اعداد کی قسمتِ اوّل کی توضیح
پس بتا دیتا ہوں کہ گنتی میں چار کے بعد بھی ترکیب آتی ہے، اور سب سے
۱۱۰
پہلے اس ترکیب سے سات بنتا ہے، وہ اس طرح کہ طاقِ مرکب۳ اور جفتِ مرکب۴ جمع کرنے سے سات حاصل آتا ہے، اور عالمِ دین میں اس کے برابر سات امام ہیں، جو چار اصول اور تین روحانی فروع کے بعد انہی کا مقام ہے، اور عالمِ جسمانی میں سات چلنے والے ستارے ہیں، اسی طرح شہادت کے ان چاروں کلمات کے سات پارے ہیں، پھر میرا کہنا ہے، کہ گنتی میں سات کے بعد ( جو تین اور چار کی ترکیب سے ہے) بارہ ہے، کہ وہ تین کو چار میں ضرب دینے سے حاصل آتا ہے، عالمِ دین میں اس کے برابر بارہ حجت ہیں، اور عالمِ ترکیب میں بارہ برج ہیں، جس طرح یہ شہادت نفی و اثبات جیسے دو معنوں، تین حرفوں، چار کلموں، سات پاروں اور بارہ (مکرر) حرفوں سے ہے، تو معلوم ہوا کہ گنتی کی ترکیب کے ساتھ اور عالمِ جسمانی و عالمِ دین کی آفرنیش کے ساتھ شہادت کی مطابقت ہے۔
۱۱۱
کلمۂ اخلاص کی مطابقت و موافقت حساب، عالمِ دین اور عالمِ جسمانی کے ساتھ
حساب | کلمۂ اخلاص | عالمِ دین | عالمِ جسمانی |
ایک کلمہ | لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ ۔ | امرِ کلی | کائنات |
دو معنی (نفی و اثبات) | لَا الٰہَ۔ اِلاّ اللہ | عقلِ کل۔ نفسِ کل | ہیولیٰ ۔ صورت |
تین حروفِ اصل | ا ل ہ | جد۔ فتح۔ خیال | طول۔ عرض۔ عمق |
چار الفاظ | لَا، اِلٰہ، الّا ، اللہ | ناطق، اساس، امام، حجت | آگ۔ ہوا۔ پانی۔ مٹی |
سات پارے | لا، ا ، لہ، ا، لا، ا، للہ | سات امام | سات سیارے |
بارہ حروفِ مکرر | ل، ا، ا، ل، ہ، ا، ل، ا، ا، ل، ل، ہ | بارہ حجت | بارہ برج |
پس گنتی اور مذکورہ دونوں عالم کی گواہی سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ گواہی برحق ہے، پھر بتاؤں گا، کہ جس طرح یہ شہادت نفی و اثبات جیسے دو معنوں سے ہے اور الف، لام اور ھا جیسے تین حروف سے ہے، اسی طرح امہات میں سے اس کی برابر دو ۲ بسیط ہیں، یعنی آگ اور ہوا، اور دو مرکب ہیں، یعنی پانی اور مٹی اور ان کے پانچویں کی حیثیت سے موالید (جمادات، نباتات اور حیوانات) ہیں۔
اسی طرح انسان جو کائنات کا پھل ہے، جو جسم اور روح ہے، وہ دس قوّتوں پر قائم ہے، جن میں سے پانچ لطیف ہیں، جیسے فکر، ذہن، خاطر، حفظ اور ذکر، اور پانچ ان میں سے کثیف ہیں، جیسے سمع، بصر، شم، ذوق اور لمس، اسی طرح شہادت میں پانچ الف ہیں، پانچ لام ہیں اور دو ھا ہیں، پس شہادت کے دو ھا کا اشارہ یہ دو حصّے (روح اور جسم ) ہیں جو انسان رکھتا ہے، اور شہادت میں
۱۱۲
پانچ الف ہیں، یہ پانچ الف ان پانچ حواسِ باطن کی مثال ہیں، جو انسان میں لطیف ہیں، اور پانچ لام ان حواسِ ظاہر کے مانند ہیں، جو انسان میں کثیف ہیں، اور شہادت کے دو ۲ (میں سے ایک) تو جسمِ انسانی کی مثال ہے، کیونکہ پانچ حواسِ ظاہر اسی کے ہیں، اور (دوسرا ھا) نفسِ انسانی کی مثال ہے کیونکہ پانچ حواسِ باطن اسی کے ہیں۔
پیغمبر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے عظیم دلائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آنحضرتؐ نے ان تین حروف سے توحید کے بارے میں ایک ایسا قول کہا، جس میں آنحضرتؐ کا مشکل ترین علم موجود ہے، اتنے معنوں کے ساتھ جو اس میں ہیں، کہ اگر دنیا کے سب لوگوں کو اس امر کے لئے تکلیف دی جائے، تاکہ وہ ان تین حروف پر مشتمل کوئی ایسی بات بنائیں، کہ وہ جس بارے میں بھی ہو (کلمۂ شہادت کی طرح) معنی دار ہو تو دنیا والے اس سے عاجز رہیں گے، پھر دانشمند کے لئے ظاہر ہے، کہ آنحضرت کی یہ علمی قوّت خالقِ کائنات ہی کی عطا ہے۔
نیز بتاؤں گا، کہ شہادت مجموعی طور پر اجزائے عالم کے مطابق ہے، اس لئے کہ عالم حدِ ترکیب (تخلیق) میں قائم ہوا ہے، تاکہ انسانِ تمام (یعنی انسانِ کامل) کو ظاہر کیا جائے، کیونکہ اس عالمِ جسمانی کا حاصل وہی ہے، اسی طرح شہادت حدِ تالیف میں قائم ہوئی ہے تاکہ قولِ تمام کو ظاہر اور ثابت کر دیا جائے، کیونکہ ساری شہادت سے مراد وہی ہے، اور وہ قول ’’اللہ‘‘ ہے، جس طرح ساری کائنات سے مراد انسان ہے، جب ہم نے کلمۂ شہادت کا مشاہدہ کیا، تو اس کو ترکیب ، فصول اور حروف (کے حساب میں) عالمِ جسمانی کے برابر دیکھ پاتا، اس لئے کہ عالم ایک ہے اور شہادت بھی ایک ہے، اور عالم کے دو حصے ہیں، جن کا ایک حصہ کارکن اور پائیدار ہے، جیسے سماوات اور ستارے، اور دوسرا حصہ کار پذیر اور ایک حالت سے دوسری حالت میں بدل جانے والا ہے، جیسے امہات (مائیں، یعنی عناصرِ اربعہ) اسی طرح شہادت دو ۲ حصوں میں ہے، ایک حصہ نفی کا ہے (مذکورہ)
۱۱۳
کارپذیر اور ناپائیدار کی طرح، اور دوسرا حصّہ اثبات کا ہے، کارکن اور پائیدار کی طرح، اور چار امہات کی قوّت سے جو آگ، ہوا، پانی اور زمین ہے، دنیا کی خلقتیں پیدا کی گئی ہیں، (جیسے جمادات، نباتات اور حیوانات) اسی طرح کلمۂ شہادت چار کلمات سے بنا ہے، جیسے لا۔۱ الٰہ۔۲ اِلاّ ۔۳ اللہ ۔۴ ، اور عالم اپنی تخلیقات پر سات سیّاروں کے ذریعہ اثر ڈالتا ہے، جس طرح شہادت سات پاروں سے مکمل ہوئی ہے، اور موالید میں تاثیر کرنے والے ان سات سیّاروں کا اپنا چکر مکمل ہوچکا ہے، نیز جس طرح عالمِ جسمانی کی ترکیب تین مسافتوں سے پیدا ہوئی ہے، جو لمبائی، چوڑائی اور گہرائی ہیں، اسی طرح شہادت کی تالیف تین حروف سے پیدا ہوئی ہے، جو الف ، لام، اور ھا ہیں، جس طرح انسان کائنات کی ترکیبی سالمیت کا ایک جزو ہے، اور کائنات سے مقصود وہی ہے، اسی طرح کلمۂ ’’اللہ‘‘ شہادت کا ایک جزو ہے اور شہادت سے مقصود وہی ہے، اور یہ دو مقاصد یعنی نامِ اللہ اور انسان ایک دوسرے کے مانند ہیں۔
اس قول کا بیان یہ ہے، کہ انسان ایک شخصیت ہے، جس طرح نامِ ’’اللہ‘‘ ایک قول ہے اور انسان کی دو حقیقتیں ہیں، ایک جسم، دوسری روح، اور کلمۂ ’’اللہ‘‘ کے دو پارے ہیں، جیسے کہ: ا۔للہ اور انسان کی ترکیب چار طبیعتوں سے ہے، جیسے صفرا، سودا، خون اور بلغم، اسی طرح کلمۂ ’’اللہ‘‘ کی ترکیب چار حروف سے ہے، کہ ایک الف، دو۲لام، اور ایک ھا ہیں اور انسان کا قیام ان سات۷ اعظائے رئیسہ پر ہے، جو اس کے اندر ہیں، اور لفظِ ’’اللہ‘‘ کے چار حروف بمع ان حروف کی درمیانی کشادگی سات ہیں، اس طرح: ا ل ل ھ، اور انسان میں بارہ مجرا (جاری ہونے کی جگہ) ہیں، جن میں سے نو۹ کھلے ہیں، جیسے دو۲ آنکھیں، دو۲کان، دو۲ نتھنے، ایک منہ اور دو شرمگاہیں اور ان بارہ مجراؤں میں سے تین بند ہیں، جیسے: دو پستان اور ناف، اسی طرح حروفِ ’’اللہ‘‘ کا حساب بارہ ہے، اس وجہ سے الف کا حساب ایک ہے، دو۲ لام کا ساٹھ اور ھا کا پانچ
۱۱۴
ہے، جس کا مجموعہ چھیاسٹھ ہوتا ہے، اور ساٹھ کے چھ عقد ہوتے ہیں (یعنی چھ دفعہ دس) اور اس چھیاسٹھ کی اکائیاں یعنی چھ جو الف اور ھا ہیں یکم اور پنجم ہیں جن کا مجموعہ اکائیوں کے حساب سے بارہ ہوتا ہے (۱+ ۵ +۶ = ۱۲) اور انسان میں نامی، حسی اور ناطقی تین نفوس ہوتے ہیں، کلمۂ اللہ الف، لام اور ھا کے تین حروف سے ہے، جس طرح عالمِ جسمانی کا آغاز طول، عرض اور عمق کی تین مسافتوں سے ہے، اور اس کا انجام اس کے موالید (یعنی معدنیات ، نباتات اور حیوانات) ہے، جو چار عناصر سےپانچویں چیز ہے، اسی طرح شہادت کا آغاز حرفِ لام سے ہے، جو حساب میں پانچ ہے، پس تین عقد ہوتے ہیں اور شہادت کا خاتمہ ھا ہے، جو حساب میں پانچ ہے، پس عالمِ ترکیب (یعنی کائنات) نے اپنے آغاز و انجام اور اپنے تمام اجزاء کے ذریعہ گواہی دی، کہ یہ شہادت میرے خالق کے لئے ہے اور آفرنیش (یعنی عالمِ انفس) نے بھی اس کی سچائی پر گواہی دی۔
نیز کہوں گا، کہ (لفظِ اللہ کے) الف اور لام عربی زبان میں علامتِ معرفہ ہے اور لام و ھا معرفہ نہیں ( اور یہ تجھے اس وقت معلوم ہوگا) جبکہ تو خوب سمجھے، کہ الف اور لام کو عربی زبان میں ’’حرفِ تعریف‘‘ کہتے ہیں، چنانچہ کوئی اسم جس کے معنی معرف نہ ہوں، مثلاً: رَجُلْ اور وہ چاہتے ہیں، کہ اسے معین کریں، تو الف اور لام اس کے شروع میں لگا کر اَلرَّجُلُ کہتے ہیں، جس سے ایک معین مرد مراد لیتے ہیں، اور جب الف و لام اس نام میں لگ جائیں تو وہ نام ان کے نزدیک معروف یعنی پہچانا ہوا ہوتا ہے، چنانچہ کہوں گا: اَلرَّجُلُ، اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، پس عرب والے ہر اس نام کو مُعَرَّف یعنی پہچانا ہوا کہتے ہیں، جس کے شروع میں الف اور لا آیا ہو، یہ اس لئے ایسا ہے، کہ الف عقل کی دلیل ہے، چنانچہ ہم نے اس کتاب میں قبلاً اس کا ذکر کر دیا ہے، کیونکہ الف سب سے پہلا حرف ہے، جس طرح عقل بغیر کسی چیز سے سب سے پہلے پیدا کی گئی ہے، لام، الف کے مانند ہے، کیونکہ لام دو لکیروں سے مرکب ہے،
۱۱۵
جیسے: ’’ل‘‘ اور الف ایک لکیر ہے، جیسے: ’’ا‘‘ اور لام نفسِ کلّ کی دلیل ہے، جو عقل کی وساطت سے پیدا ہوا ہے، اور یہ دوسری چیز ہے، جیسا کہ لام دو لکیروں کی شکل میں ہے، جیسے: ’’ل‘ اور تمام چیزوں کی پہچان عقل اور نفس کے ذریعہ سے ہوتی ہے، اسی طرح یہ دو حرف (الف و لام بھی) سارے حروف میں آتے ہیں، (جس طرح الباء، الثاء، الجیم، الحاء، الخاء، الدال، الذال وغیرہ) پھر وہ ان حروف کے بنے ہوئے الفاظ میں بھی کثرت سے آتے ہیں۔
حروف کی ترتیب میں الف اور لام کے درمیان اکیس ۲۱ حروف واقع ہیں، اور اس ترتیب میں پہلے الف ہے، پھر لام، مگر کلمۂ شہادت میں پہلے حرف لام ہے اور اس کے بعد الف ہے، کیونکہ یہ لوگوں کے لئے اس بات کا اشارہ ہے کہ انسان میں پہلے تو نفس اپنا اثر ڈالتا ہے، اور انسان اس وقت نادان ہوتا ہے، او ر اس کے بعد عقل اس کے ساتھ متعلق ہو جاتی ہے، تاکہ وہ دانا ہو، اور کچھ اس دنیا میں پہلے پیدا ہوتا ہے، تو جاننا چاہئے کہ وہ اُس عالم میں اخیر میں ہے پس اِس عالم میں نفس کا عقل سے پہلے پیدا ہوجانا، اس حقیقتِ حال کی دلیل ہے کہ اس عالم میں پہلے عقل ہے اور نفس اسی سے پیدا ہوا ہے۔
جب ہمیں یہ ترتیب معلوم ہوئی، تو بتائیں گے، کہ شہادت میں پہلے حرفِ لام لایا گیا ہے، جو نفس کی دلیل ہے، اس کے بعد حرفِ الف لایا گیا ہے جو عقل کی دلیل ہے، تاکہ ہم سمجھیں اور جانیں، کہ ہم نفس ہی کے راستے سے عقل کو حاصل کر سکتے ہیں، اسی طرح ہم اساس ہی کے راستے سے (جن کو اس عالم میں نفسِ کلّ کا درجہ ہے) ناطق کو پہچان سکتے ہیں جن کو اس عالم میں عقلِ کلّ کا درجہ ہے، اور حروف کی ترتیب میں الف اور لام کے درمیان اکیس ۲۱ حروف واقع ہیں، اس لئے کہ عقل کی فائدہ بخشی اور نفس کی فائدہ پذیری کے درمیان اس عالم میں شخصیت ہی کا راستہ ہے (جس میں اکیس ۲۱ شخصیتیں آتی ہیں) یعنی عالمِ دین میں اکیس ۲۱ حدود ہیں، جیسے ناطق، اساس، سات امام، اور بارہ حجت، اسی طرح عالمِ ترکیب
۱۱۶
(تخلیق) میں، جس میں نفس کو عقل کی تائید حاصل ہے، عقل کی اس تائید اور تخلیق کی تکمیل کے درمیان اکیس ۲۱ حروف کے برابر جسم، روح، سات اعضائے رئیسہ، یعنی دماغ، دل، کلیجہ، پھیپڑے، پِتا، تلی، گردے اور بارہ مجرا ہیں، لام نفس کی دلیل ہے اور ھا ناطق کی دلیل ہے اور حروف کی ترتیب میں لام و ھا کے درمیان تین حروف واقع ہیں (ل [م ن و ] ہ) جس طرح نفسِ کلّ اور ناطق کے درمیان تین روحانی حدود ہیں، جیسے، جد، فتح اور خیال، اور حروف ’’ھا‘‘ کے بعد ’’یا‘‘ ہے، اور وہ اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ ناطق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد صرف ایک ہی حد ہے، اور وہ قائم علیہ السّلام ہیں، اور اس قول کی سچائی پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث گواہی دیتی ہے: ’’بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَا تَیْن، یعنی میں اور قیامت (قائم) ان دو(انگلیوں) ہی کی طرح ساتھ ساتھ بھیجے گئے ہیں۔‘‘ یعنی کہ ان دونوں حضرات کے درمیان کوئی دوسرا درجہ نہیں۔
پس کہوں گا، کہ ان چار عظیم حدود میں سے عقل و نفس دونوں روحانی ہیں، اور ناطق و اساس دونوں جسمانی ہیں، اور ایک روحانی، ایک جسمانی کے ساتھ ایک ہی مرتبے میں ہیں، چنانچہ عقل اساس کے ساتھ اور نفس ناطق کے ساتھ ایک ہی مرتبے میں ہیں اور ایک (یعنی عقل) تو صاحبِّ تائید ہے، جو ابتدا و آغاز وہی ہے، اور دوسرا (اساس) صاحبِّ تاویل ہیں، کہ چیزوں کے معنی کو حالِ اوّل پر لے جایا کرتے ہیں، اور نفس ناطق کے ساتھ ایک ہی مرتبے میں آجاتا ہے، کیونکہ ایک تو ترکیبِ عالم کا مالک ہے ، اور دوسرا تالیفِ شریعت کا مالک ہے، اور اجسام کی ترکیب اور قول کی تالیف دونوں ایک جیسی ہیں، پس کہوں گا کہ شہادت کے چار کلمات چار اصول کی دلیل ہیں، جس میں ہر کلمہ ایک اصل کے مقابل ہے، لا اساس کی دلیل ہے، کیونکہ وہ
۱۱۷
اپنی تاویل کے ذریعے عالمِ لطیف و کثیف دونوں کی چیزوں کو توحید کے مشابہ ہونے سے نفی کرتے ہیں، جس طرح یہ کلمہ (لا) دو حرف پر مشتمل ہے، ایک الف ہے، لطیف و بسیط کی طرح اور دوسرا لام ہے، کثیف و مرکب کی طرح اور جو کوئی ان دو ۲ تشبیہوں کو توحید سے نفی کرتا ہے، تو اس نے خدا تعالیٰ کی توحید کے متعلق نفی بجا لائی ہے، اور کلمۂ ’’الٰہ‘‘ ناطق پر دلیل ہے، کہ وہ جسمانیوں میں سب سے پہلا شخص ہیں جنہوں نے لوگوں کو خدا کی پرستش کی طرف بلایا، اور یہ کلمہ تین حروف پر مبنی ہے، جس طرح رسالت، وصایت اور امامت ناطق کے تین مرتبے ہیں اور اساس کے دو مرتبے ہیں، ایک وصایت، یعنی اساسیت کا دوسرا امامت کا۔ جس طرح لفظِ اساس دو حرفوں (الف اور سین ) سے ہے، نیز ناطق کا مادّہ (تائید) جد، فتح اور خیال جیسے تین روحانی فروع سے ہے، اور اساس کا مادّہ (تائید) فتح اور خیال سے ہے، اور جد سے اُن کی بہرہ یابی تو ناطق کی وساطت سے ہے، ذاتی طور پر نہیں، اور کلمۂ الا ثانی (نفسِ کلّ) پر دلیل ہے، اس لئے کہ ثانی ہی تھا، جس نے خدا کو اوّل (عقلِ کلّ) سے برتر مانا، اور جبکہ انتہائی عاجزی کے ساتھ اس نے خدا کی فرمانبرداری کی تو اس نے عقل کے مبدِع (یعنی عقل کو کسی مادّہ کے بغیر پیدا کرنے والے) کو دیکھ پایا، اور کہا، کہ نہ میں خدا ہوں، نہ مرا سابق، کوئی نہیں، مگر جس نےاپنی وحدت سے میرے سابق یعنی (فرشتۂ) عقل کو پیدا کیا، اور یہ کلمہ (الا) بھی تین حروف پر مشتمل ہے، جس طرح لفظِ ثانی یعنی نفس تین حروف (ن ف س) سے ہے۔ ثانی ترکیب کا مالک ہے، اور ناطق تالیف کے مالک ہیں اور تالیف و ترتیب کے درمیان مناسبت ہے، اور لفظِ ثانی کے تین حروف کے معنی یہ ہیں کہ وہ تین مراتب کا مالک ہے، چنانچہ وہ عقل سے بلاواسطہ فائدہ حاصل کرتا ہے، عالمِ ترکیب کا مالک ہے، اور عقلِ کل سے ناطق کی طرف تائید بھیجنے والا ہے اور کلمۂ ’’اللہ‘‘ عقلِ کلّ پر دلیل ہے، کیونکہ وہ ساری لطیف
۱۱۸
اور کثیف مخلوقات کی انتہا ہے، جس طرح یہ کلمۂ ’’اللہ‘‘ شہادت کی انتہا ہے، اور اثبات کا کلمہ ہے جیسے اِلّا نفی کا کلمہ ہے، یعنی توحید کا اثبات عقلِ کلّ سے ظہور میں آیا ہے، اگر ثانی عاجزی کے ساتھ عقل کے پیدا کرنے والے (مُبدِع) کی فرمانبرداری نہ کرتا تو کوئی (روحانی و جسمانی) مخلوق خدا تعالیٰ کو عقل سے برتر قرار نہ دے سکتی اور کلمۂ اللہ چار حروف کا ہے، جس کی وجہ یہ ہے، کہ اساس کی تاویل، ناطق کی تالیف، ثانی کی ترکیب اور اوّل (عقل کلّ) کی تائید سب کی سب سابق یعنی عقلِ کلّ کی ہویّت (حقیقت) میں یکجا ہیں، اور یہ بہشت کی وہ چار نہریں ہیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے پرہیزگاروں سے کیا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِنْ لَبَنٍ لَمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِنْ خَمْرٍ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِنْ عَسَلٍ مُصَفًّى (۴۷: ۱۵)
اس جنّت کی مثال جس کا وعدہ متقیوں سے کیا گیا ہے (یہ ہے) کہ اس میں بہت سی نہریں تو ایسے پانی کی ہیں، جس میں ذرا تغیر نہ ہوگا، اور بہت سی نہریں دودھ کی ہیں، جن کا ذائقہ ذرا بدلا ہوا نہ ہوگا۔ اور بہت سی نہریں شراب کی ہیں جو پینے والوں کو بہت لذیذ معلوم ہوں گی اور بہت سی نہریں شہد کی ہیں جو بالکل صاف ہوگا۔‘‘
بہشت کی تاویل کلمۂ باری ہے، اور مذکورہ چار نہریں یہی چار حدود ہیں، کیونکہ انہی (چار نہروں کے ذریعہ عالمِ روحانی کی نہروں میں سے ہر ایک میں کلمۂ باری کے مایہ سے ایک ایک حصہ روان ہے، اس لئے کہ ساری روحانی و جسمانی چیزوں کی زندگی اسی سے ہے، اور اس پانی سے مراد جو کلمۂ باری سے عقل کی نہر میں بہہ گیا، عقل کے ماتحت حدود ہیں، جس طرح پانی مٹی کے ساتھ مل جانے سے نباتات اور حیوانات پیدا ہوئے ہیں، اسی طرح عقل کلمۂ باری کے ساتھ
۱۱۹
متحد ہونے سے ثانی، جد، فتح، خیال اور دوسرے علوی و سفلی حدود پیدا ہوئے ہیں، پس یہ پانی (جو عقل کی نہر سے بہہ رہا ہے) گندہ ہونے والا نہیں، یعنی اپنے حال سے بدل جانے والا نہیں، نہ اس کی ذات میں تغیر آتا ہے، اس قول کی درستی پر دلیل یہ ہے، کہ جب انسان کسی چیز کو اپنی عقلی قوّت سے معلوم کر لیتا ہے تو ہمیشہ کے لئے اس چیز کو ویسی ہی حالت میں دیکھ پاتا ہے، جیسے کہ اس نے پہلے دیکھ پایا تھا، کیونکہ وہ چیز (عقلی مشاہدہ میں) اپنی حالت سے بدلتی نہیں، چنانچہ پانی فعل میں سرد ہے، اب پانی جس قدر بھی عارضی گرمی قبول کرے عقل جانتی ہے، کہ اس کا جوہر سرد اور تر ہی ہے، اور اس کو وہ ویسا ہی دیکھ پاتی ہے، جیسا کہ وہ (اپنی اصلی طبیعت میں) ہے اور کلمۂ باری سبحانہ سے نفسِ کلّ میں دودھ بہہ گیا ہے، جو ہر بچہ کی غذا ہے، اور حیوان کو دودھ کے ذریعہ اپنی قسم کا ایک بچہ حاصل آتا ہے، اور (نسلی طور پر) اس کی ذات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اسی طرح نفسِ کلّ سے اس عالم کی ترکیب (تخلیق) پیدا ہوئی، تاکہ اس تخلیق کے نتیجے میں ایک ایسا فرزند ظہور میں آئے، جو نفسِ کلّ کے تمام فوائد کو قبول کر سکے اور وہ قائمِ قیامت علیہ السّلام کی حیثیت سے ایک مرد ہیں، جو نفسِ کلّ کے سارے فوائد کو صرف وہی قبول کر سکیں گے، اور کلمۂ باری سبحانہ سے ناطق میں شراب بہہ گئی ہے جس سے جسم کی قوّتیں میسر ہوتی ہیں، اور جس سے لوگ حیران یا بکواسی ہو جاتے ہیں۔ پس اس طرح ناطق سے شریعت کی تالیف ہو چلی ہے، جس کے ذریعہ عادات و خواہشات محفوظ رہ سکتی ہیں، جس طرح شراب سے جسم طاقتور ہو جاتا ہے، اور ان تمثیلات و اشارات کی وجہ سے جو کتاب (قرآن) اور شریعت میں ہیں، لوگوں میں اختلاف پڑا ہے جس کے سبب سے لوگ حیران اور بیہوش ہوئے ہیں، جس طرح شراب کے پینے سے بیہوش ہو جاتے ہیں، اور کلمۂ باری سبحانہ سے اساس میں شہد بہہ گیا ہے، جو میٹھا اور دلپسند ہے، اور اس میں ان بیماریوں سے صحت یابی ( کی تاثیر)
۱۲۰
ہے ، جو تری کی زیادتی سے پیدا ہو جاتی ہیں، اور اس میں طبیعت کی گرمی بڑھانے کی قوّت موجود ہے، اسی طرح اساس سے کتاب اور شریعت کی تاویل آئی جس کے ذریعہ حیرت اور اختلاف ختم ہوگیا، اور حق کی سچائی ظاہر ہوئی اور جن پرہیزگاروں سے اللہ تعالیٰ نے بہشت کا وعدہ کیا ہے ان سے سات امام اور بارہ حجت مراد ہیں، اور یہی چار چیزیں ہیں، جن کے ناموں کے حروف گیارہ ہیں، جیسے: ما ، لبن، خمر، عسل (م ال ب ن خ م ر ع س ل = ۱۱ ، پس یہ گیارہ حروف) چار حدود اور سات اماموں کی دلیل ہیں، اور اس میں یہ اشارہ ہے، کہ عالمِ علوی کی ان چار نہروں کے ذریعہ سات اشخاص کا ظہور ہوا ہے، ادوار میں سے ہر دور میں ان کے نور کو پھیلانے کے لئے اور خدا تعالیٰ نے انہی چار حدود کی قسم کھائی ہے، چنانچہ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
’’وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ (۹۵: ۰۱ تا ۰۳)
قسم ہے انجیر کی، اور زیتون کی اور طورِ سینین کی اور اس امن والے شہر کی۔‘‘ پس بتاؤں گا، کہ انجیر سے اللہ تعالیٰ کی مراد سابق (عقلِ کلّ) ہے، جو کسی واسطہ کے بغیر کلمۂ باری سے ملا ہوا ہے، اور اس کو انجیر کا نام اس لئے دیا کہ انجیر کا بیرونی و اندرونی حصہ کھانے کے قابل ہے، طبیعت اس کی کوئی چیز واپس نہیں کرتی، اسے قبول کرتی اور پورے انجیر کو اپنی غذا بنا لیتی ہے، جس طرح کوئی پاکیزہ نفس عقل کے سارے فوائد کو قبول کرتا ہے، اور ان میں سے کسی چیز کی تردید نہیں کرتا اور عقل کے فوائد ہی نفس کے لئے غذا ہیں ، [ روحانی بالیدگی اور تکمیل کے بعد] صورتِ لطیف پیدا کرنے کے لئے۔
زیتون نفسِ کلّ کی مثال ہے، کیونکہ عقلِ کلّ کے فوائد بلاواسطہ وہی قبول کر سکتا ہے، اور اس کی مثال زیتون سے اس لئے دی گئی ہے، کہ زیتون کا کچھ حصہ تو کھانے کے قابل ہے، جیسے تیل اور چھلکا، اور کچھ حصہ پھینک دینے کے قابل
۱۲۱
ہے، جیسے گٹھلی اور پھوک، جس کے معنی یہ ہوئے، کہ ہر وہ نفس جو پاکیزہ ہو، عقل کی اطاعت کرتا ہے، جو کچھ اس کو عقل فرما دیتی ہے، اور وہی نفس عقل کے نزدیک پسندیدہ اور مقبول ہو جاتا ہے، زیتون کے تیل اور اس کے پھل کے چھلکے کی طرح، جو کھانے کے قابل ہے، اور ہر وہ نفس جو ناپاک اور کمینہ ہے عقل کی اطاعت نہیں کرتا، جو کچھ وہ اسے فرما دیتی ہے، نہ وہ رکتا ہے، جس چیز سے وہ اسے روک لینا چاہتی ہے، وہ عقل کے فوائد قبول نہیں کرتا، اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے، تو وہ شخص زیتون کی گٹھلی اور پھوک کی طرح دھتکارا ہوا، پھینکا ہوا اور ذلیل کیا ہوا ہے، یہی وجہ تھی کہ جس سے بعض نفوس کو ثواب اور بعض کو عذاب لازمی ہوا۔
طورِ سینین ناطق کی مثال ہے، کیونکہ انہوں نے نفسِ کلّ کے فوائد کو پوشیدہ طور پر قبول کیا ہے، اور انہوں نے یہ فوائد دنیا والوں کی شریعت کے ذریعہ پہنچایا، اور اساس مقرر کر دیا، تاکہ وہ شریعت کی تاویل لوگوں کو پہنچاتے رہیں اس لئے کہ طورِ سینین ایک پہاڑ ہے اور اس پہاڑ کا ظاہر بدنما، کھردرا اور سیاہ ہے، کہ ہمیشہ کے لئے سامنے کھڑے نظر آنے کی وجہ سے اس کے دیکھنے والے کو اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے، مگر اس پہاڑ کے اندر ایسے گرانمایہ اور بہترین جواہر ہیں، کہ دیکھنے والے کو ان کے دیکھنے سے مسرت ہوتی ہے، جیسے یاقوت، زمرد، بیجاوہ، سونا، چاندی، پیتل، تانبا اور دوسرے جواہر، پس اسی طرح ناطق کی شریعت ظاہراً شک اور اختلاف پر ہے اور دانشمند کو اس کے قبول کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ لیکن جب تاویل کے ذریعے وہ اس کے حقائق تک رسا ہو جائے اور اس کے معنوں کو سمجھے، تو دانشمند کا نفس اسے قبول کرتا ہے، اور مطمئن ہو جاتا ہے، پھر وہ اس سے اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا، جس طرح پہلے بغیر معنی کے ظاہر شریعت سے وہ اکتا گیا تھا، چنانچہ پہاڑ اپنے باطن ہی میں پوشیدہ طور پر ستاروں کے فوائد قبول کرتا ہے، اور ناطق بھی اپنے باطن ہی میں پوشیدہ طور پر حدودِ علوی کے فوائد کو قبول کرتے ہیں۔
۱۲۲
ھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ اساس کی مثال ہے، کیونکہ انہی کے ذریعہ دانشمند کو ظاہر کے شکوک و شہبات سے امن ملا، اور جو کوئی ان کی تاویل تک پہنچ نہ سکا، تو وہ اختلافات اور شبہات کے راستے پر چلنے لگا، اور جو شخص ان کی تاویل تک رسا ہوا تو اس نے ظاہری اختلافات سے چھٹکارا پایا، اور ان چار چیزوں میں سے، جن کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے، دو چیزیں تو نباتات ہیں، اور دو چیزیں مقامات ہیں، اور کسی مقام کے بغیر نباتات کا اگنا ناممکن ہے، پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ عقل و نفس روحانی ہیں، جیسے کہ نباتات کی روح ہوتی ہے، اور ناطق و اساس جسمانی ہیں، لیکن یہ دونوں نباتات (انجیرو زیتون) پہاڑ اور شہر میں پیدا ہوتی ہیں اسی طرح عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے فوائد اور انوار ناطق و اساس ہی کے ذریعے ظہور پذیر ہو جاتے ہیں، مذکورہ روحانی و جسمانی دونوں قسم کے میوؤں کے لذّت صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں، جو ان میوؤں کو کھاتے ہوں ’’وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ‘‘ دونوں ایک ایک کلمہ ہیں، وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الأَمِينِ‘‘ دونوں دو ۲ دو ۲ کلمے ہیں، تاکہ دانشمند یہ سمجھ سکے، کہ عقل و نفس جو روحانی ہیں، ایک ہی حال پر قائم ہیں، اور ناطق و اساس جو جسم اور روح ہیں، دو حالات کے مالک ہیں۔
اسی طرح ذیل کی آیت سے اللہ تعالیٰ کا مقصود چار اصول ہی ہیں جس میں ارشاد فرماتا ہے، اور اصحاب الیمین (یعنی داہنے والوں) کے لئے بہشت کا وعدہ فرماتا ہے، اور وہ علمِ حقائق والے ہیں، قولہ تعالیٰ:۔
’’فِي سِدْرٍ مَخْضُودٍ وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ وَمَاءٍ مَسْكُوبٍ (۵۶: ۲۸ تا ۳۱)
وہ ان باغوں میں ہوں گے جہاں بے خار بیر کے درخت ہوں گے، اور تہ بتہ کیلے ہوں گے، اور لمبا لمبا سایہ ہوگا، اور چلتا ہوا پانی ہوگا۔‘‘ (مذکورہ آیت میں) اللہ تعالیٰ سب سے پہلے عقلِ کلّ مراد لیتا ہے، پھر نفسِ کلّ مراد لیتا ہے، کیونکہ اسی سے عالم تہ بتہ اور منظم ہوا ہے، تیسرے درجے پر ناطق کا اشارہ فرماتا
۱۲۳
ہے، کیونکہ شریعت کا بوجھ قیامت تک تو انہوں نے اٹھایا ہے، اور چوتھے درجے پر اللہ تعالیٰ اساس (کا ذکر) چاہتا ہے، کیونکہ لواحق یعنی امیرانِ دین، جیسے امام، حجت اور داعیٔ حق کے ذریعہ انہی کی تاویل انسانی نفوس پر برس رہی ہے، جب ان چار اصول کے ذکر سے حق تعالیٰ فارغ ہوا، (تو سلسلۂ امامت کی طرف اشارہ فرماتا ہے) جیسا کہ ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
’’وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ لاَ مَقْطُوعَةٍ وَلاَ مَمْنُوعَةٍ ( ۵۶: ۳۲ تا ۳۳)
اور کثرت سے میوے ہوں گے، جو نہ ختم ہوں گے، اور نہ ان کی روک ٹوک ہوگی۔‘‘ اس اشارہ سے اللہ تعالیٰ کی مراد أئمّہ علیہم السّلام ہیں، کیونکہ ان کی (جانب سے ملنے والی) بھلائی کائنات سے منقطع ہونے والی نہیں، اور ان کی بہت سی تعداد ہے، پس جہاں اللہ تعالیٰ نے چار اصول کی مثال چار نہروں سے دی ہے وہاں اس نے عقل کی مثال پانی سے دی، اور اس مقام پر جبکہ اس نے ان چاروں اصول کی مثال مذکورہ چار چیزوں سے دی، تو اساس کی مثال پانی سے دے دی تاکہ دانشمند کو معلوم ہو، کہ دائرۂ عقل کے دونوں سرے اساس ہی پر ملے ہوئے ہیں، اور پانی پانی کے ساتھ ملا ہوا ہے (یعنی وہ بادل، بارش اور دریا کی صورت میں چکر کاٹنے کے بعد سمندر میں داخل ہوتا رہا ہے)۔
دائرۂ عقل کے دونوں سرے اساس ہی پر آپس میں ملے ہوئے ہیں، یعنی اساس ہی عقل کی ابتداء و انتہا ہیں۔
۱۲۴
پس بیان کروں گا، کہ ان چاروں اصول کے درمیان بحقیقت یکسان حال پایا جاتا ہے، اور وہ تمام اصول کلمۂ باری سبحانہ و تعالیٰ سے جو کچھ فائدہ قبول کرتے ہیں، اس کی حقیقت ایک ہی ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’سَوَاءٌ مِنْكُمْ مَنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفٍ بِاللَّيْلِ وَسَارِبٌ بِالنَّهَارِ (۱۳: ۱۰)
تم میں سے جو شخص پوشیدہ بات کہے، اور جو آشکارا بات کہے، اور جو شخص رات میں کہیں چھپ جائے، اور جو دن میں چلے پھرے، یہ سب برابر ہیں۔‘‘ پس جس کے بارے میں ’’پوشیدہ بات‘‘ کا ذکر فرماتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد عقل ہے، کیونکہ اسی سے نفس، ناطق اور اساس جیسے ماتحت حدود کو پوشیدہ تائید ملتی ہے، اور جس کے بارے میں ’’آشکارا بات‘‘ کہتا ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد نفس ہے، کیونکہ عالمِ ترکیب اسی سے ظاہر ہوئی ہے، اور جس کی مثال ’’رات میں چھپ جانے‘‘ سے دی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ کی مراد اساس ہیں، کیونکہ ان کا دور پوشیدہ طور پر چل رہا ہے اور ان کا علم لوگوں کو سِرّ (یعنی باطنی طریقے ) سے حاصل ہو جاتا ہے، اور ’’دن میں ظاہر ہونے‘‘ کی مثال سے اللہ تعالیٰ کی مراد ناطق ہیں، کیونکہ ان کی شریعت اور کتاب کی ظاہری دعوت آشکار ہے، پس ہم بتائیں گے کہ پوشیدہ طور پر اساس کا علمِ تاویل دینا عقل کے مانند ہی ہوا، کیونکہ اس کی تائید بھی ماتحت کو پوشیدہ طور پر ہی ملتی ہے، اور ناطق کتاب و شریعت کے ظاہر کرنے میں نفس کے مانند ہیں کیونکہ نفس نے عالمِ ترکیب ظاہر کی ہے۔
نیز ہم یہ بتا دیتے ہیں، کہ شہادت کے چار کلمات بہشت کی چار نہروں کی دلیل ہیں، جن کا ذکر قرآن میں ہے، اس مقام پر فرماتا ہے:۔
’’وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (۵۵: ۴۶)
اور جو کوئی اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہتا ہے،
۱۲۵
اس کے لئے دو بہشت ہیں۔‘‘ اور ان دو بہشتوں سے اللہ تعالیٰ کی مراد عقل و نفس ہی ہیں۔
’’ ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ‘‘ (۵۵: ۴۸)
فرماتا ہے کہ ’’یہ دونون بہشت شاخوں والی ہیں۔‘‘ اور ان شاخوں سے اللہ تعالیٰ کی مراد ناطق، اساس اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام ہیں۔
’’ فِيهِمَا عَيْنَانِ تَجْرِيَانِ‘‘ ( ۵۵: ۵۰)
فرماتا ہے کہ ’’ان دونوں بہشتوں میں دو ۲ چشمے بہتے جارہے ہیں۔‘‘ پانی اور دودھ کے چشمے جو باری سبحانہ و تعالیٰ کے کلمے سے عقل اور نفس کے لئے جاری ہوئے، چنانچہ ہم نے قبلاً اس کی تشریح کر دی ہے۔
جب ان دو روحانی حدود سے فارغ ہوا تو فرمایا:۔
’’ وَمِنْ دُونِهِمَا جَنَّتَانِ ‘‘ ( ۵۵: ۶۲)
فرمایا: کہ ’’ان دو بہشتوں کے تحت ان سے کمتر دو بہشت اور ہیں۔‘‘ اور ان دونوں بہشتوں سے اللہ پاک کی مراد ناطق اور اساس ہیں۔
’’ مُدْ ھَآ مَّتَانِ (۵۵: ۶۴)
وہ دونوں گہرے سبز ہیں۔‘‘ سبز رنگ نیلے اور پیلے جیسے دو خالص رنگوں سے بنتا ہے، اور (ان دونوں بہشتوں کا) یہ سبز رنگ دو رنگوں سے مرکب ہے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ ناطق اور اساس جسمانی اور مرکب ہیں، اور جو کوئی ان کے ساتھ واصل ہو جائے، تو اسے (حقیقی) روح مل جاتی ہے۔ چنانچہ نباتات میں سے جو کچھ ہرا ہے، تو اس میں روح موجود ہوتی ہے۔
’’فِيهِمَا عَيْنَانِ نَضَّاخَتَانِ‘‘ (۵۵: ۶۶)
فرماتا ہے کہ ’’ان دونوں بہشتوں میں دو چشمے ہیں جوش مارتے ہوئے۔‘‘ وہ شراب و شہد کے چشمے ہیں، جو کلمۂ باری سبحانہ سے ناطق اور اساس کے لئے جاری ہوئے ہیں۔
۱۲۶
اسی طرح خدائے تعالیٰ اس آیت میں حدود کا ذکر فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ (۴۱: ۳۷)
فرماتا ہے کہ اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، رات اور دن، سورج اور چاند، پس تم نہ سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو، اور (صرف) اس خدا ہی کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا۔‘‘ پس رات سے حق تعالیٰ ناطق مراد لیتا ہے، کیونکہ انہوں نے (رموز و امثال میں علمی) چیزیں چھپا رکھی ہیں، اس مثال کے برعکس کہ دن چیزوں کو آشکار کر دیتا ہے، اور دن سے حق تعالیٰ اساس مراد لیتا ہے، کیونکہ وہی رموز (وامثال) کا بیان کرنے والے ہیں، جیسا کہ دن ان چیزوں کا آشکار کرنے والا ہوتا ہے، جن کو رات چھپا رکھتی ہے۔
سورج سے عقل اور چاند سے نفس مراد ہیں، کیونکہ عقل نفس کو اسی طرح فائدہ دے رہا ہے، جس طرح سورج چاند کو نور دیتا رہتا ہے، اور یہ جو فرماتا ہے ، کہ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کیا کرو، بلکہ اس خدا کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے، اس سے یہ چاہتا ہے، کہ خدا کو عقل و نفس کی صفات سے موصوف نہ کیا کرو، اور اس قسم کا اعتقاد مت رکھو، کیونکہ خدا ایسا نہیں جیسے تائید کا مالک ہے یا جیسے ترکیب کا مالک ہے، کیونکہ یہ دونوں تو مخلوق ہیں، مگر افسوس کہ آج بہت سے لوگ عقل پرست اور نفس پرست ہیں، ایسے لوگ گمان کرتے ہیں، کہ وہ مؤحد (یعنی وحدت شناس) ہیں، جیسے معتزلہ اور کرامی متکلمین، اللہ تعالیٰ ہمیں ما سوا اللہ کی پرستش سے بچائے رکھے۔
اللہ تعالیٰ ایک اور مقام پر انہی حدود کا ذکر فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ (۵۵: ۱۷)
فرماتا ہے ، کہ ’’دو مشرقوں کا پروردگار‘‘ جن سے اللہ تعالیٰ کی مراد عقل و نفس
۱۲۷
ہیں، کیونکہ نورِ وحدت انہی سے طلوع ہوا، اور فرماتا ہے، کہ دو۲ مغربوں کا پروردگار،‘‘ جن سے ناطق اور اساس مراد ہیں، کیونکہ جو نور ان دونوں مشرقوں سے طلوع ہوا، وہ ان دونوں مغربوں میں غروب ہوا۔
نیز ہم یہ بیان کریں گے، کہ اس بارہ حرفی کلمۂ شہادت کے سات پارے ایسے ہیں، کہ ان میں سے تین پارے ایک ایک حروف کے ہیں، جیسے:۔ ااا، تین پارے دو دو حرفوں کے ہیں، جیسے: لا، لہ، لا اور ایک پارہ تین حروف کا ہے، جیسے اللہ، چنانچہ ان یک حرفی پاروں کی مثال عالمِ جسمانی میں طول، عرض اور عمق کی تین مسافتیں ہیں، کیونکہ یہ مسافتیں ایک ایک خط (لکیر) ہیں، دو حرفی پاروں کی مثال اعضائے رئیسہ ہیں، جو کمیّت، کیفیّت اور اضافت کے حامل ہیں، اور سہ حرفی ایک پارے کی مثال جسم ہے، جو تین مسافتوں کا حامل ہے۔
(اسی سلسلے میں) بتائیں گے، کہ اللہ تعالیٰ ذیل کی آیت میں مالکانِ تائید کے متعلق ذکر فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’فَلْيَنْظُرِ الإِنسَانُ إِلَى طَعَامِهِ (۸۰: ۲۴)
سو انسان کو چاہئے کہ اپنے کھانے (یعنی روحانی غذا) کی طرف نظر کرے،‘‘ تاکہ اسے معلوم ہو، کہ عالمِ بالا کس طرح اس کے ساتھ ملا ہوا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:۔
’’أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا (۸۰: ۲۵)
کہ ہم نے عجیب طور پر پانی برسایا،‘‘ یعنی نفسِ کلّ سے ناطق کی طرف تائید نازل ہوئی، چنانچہ فرماتا ہے: ۔
’’ثُمَّ شَقَقْنَا الأَرْضَ شَقًّا (۸۰: ۲۶)
پھر ہم نے عجیب طور پر زمین کو پھاڑا۔‘‘ اور اس زمین سے اللہ کی مراد ناطق کا دل ہے، کہ (وہی تو آنحضرتؐ کی روحانی، جائے سکونت اور مقامِ تائید ہے، اور تائید قبول کرنے کے لئے شق ہوا ہے، چنانچہ فرماتا ہے:۔
۱۲۸
’’فَأَنْبَتْنَا فِيهَا حَبًّا (۸۰: ۲۷)
پھر ہم نے اس میں دانہ اگایا۔‘‘ اور اس دانہ سے خدائے تعالیٰ کی مراد اساس ہیں، جو ناطق کی دل کی زمین میں اور ناطق کی تعلیم سے اُگ آیا، جس سے سات خوشے نکلے اور وہ اس دور کے امامانِ برحق ہیں، ’’وعِنَباً‘‘ فرمایا، کہ ’’اور انگور‘‘، جس سے خدا تعالیٰ نے پہلا امام (حضرت حسن علیہ السلام) مراد لیا، اور ان کی مثال انگور سے اس لئے دی، کہ جب انگور کو نچوڑ لیا جاتا ہے، تو تمام رس اس سے نکل جاتا ہے، اور دوبارہ وہ انگور نہیں بنتا، اسی طرح جب امامت ان سے منتقل ہوئی تو ان کی اولاد کو لوٹ نہیں آئی۔ ’’وَقضباً‘‘ فرمایا ’’ اور سپست‘‘ (وہ تین پتی گھاس جس کا پھول آسمانی رنگ کا ہوتا ہے) اور اس سے خداتعالیٰ کا مقصود دوسرا امام ہیں، جن کی اولاد میں امامت برقرار ہے، ’’سپست‘‘ کی طرح کہ جب اسے کاٹ لیا جائے تو دوبارہ اگتا رہتا ہے ’’ وَزَیْتُوْناً۔‘‘ جس سے تیسرا امام مراد ہیں، کہ وہ زیتونِ مبارک تھے، کیونکہ امامت ابھی انہیں ملی تھی، کہ تائید ملنے لگی، جن کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے فرمایا:۔
’’شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لاَ شَرْقِيَّةٍ وَلاَ غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ (۲۴: ۳۵)
فرمایا کہ زیتون کے مبارک درخت سے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی، اس کا تیل روشن ہوتا ہے، اگرچہ اس کو آگ نہ چھوئے۔‘‘ وَنَخْلاً‘‘ (۸۰: ۲۹) فرمایا ’’اور کھجور کا درخت‘‘ جس سے چوتھا امام مراد ہیں۔ ’’وَحَدَآئِقَ غُلْباً‘‘ (۸۰: ۳۰) فرمایا ’’اور گنجان باغ‘‘ جس سے پانچواں امام مراد ہیں۔ ’’وَفَاکِھَۃً‘‘ فرمایا ’’اور میوہ‘‘۔ جس سے چھٹا امام مراد ہیں کہ ان کے والد کی موجودگی ہی میں امامت ان سے ہو کر ان کے فرزند کو منتقل ہوئی ( جس طرح درخت کی موجودگی ہی میں پھل کی گٹھلی سے ایک اور درخت پیدا ہو جاتا ہے) ’’وَاَبّاً (۸۰: ۳۱) اور چارہ (یعنی گھاس) ‘‘جس سے خدائے تعالیٰ ساتواں
۱۲۹
امام مراد لیتا ہے، کہ ان کو مرتبۂ قیامت حاصل ہے۔
نیز ہمیں یہ بیان کرنا ہے، کہ نفی کے دونوں کلمات تین پاروں پر مشتمل ہیں، جیسے: لا الٰہ، اور تسیرا مرتبہ ناطق کا ہے، کیونکہ وہ چار اصول میں تیسرا ہیں، اور اثبات کے دونوں کلمات چار پاروں پر مبنی ہیں، جیسے: اِلاّ اللہ، اور چوتھا مرتبہ اساس کا ہے، کیونکہ وہ چار اصول میں چوتھا ہیں اور یہ دانشمند کے لئے اس بات کا اشارہ ہے، کہ ناطق کی تنزیل و شریعت میں جو کچھ تشبیہہ پائی جاتی ہے، وحدت سے اس کی نفی کرنا واجب ہے، اس کے بعد اساس کی تاویل کے ذریعہ اثبات کر دینا چاہئے، جنہوں نے مخلوقات کی ساری صفات سے ایک ہویت (یعنی حقیقتِ ہو) جدا کردی ہے، اور شہادت کی تالیف (ساخت) لام، الف اور ھا کے تین حروف سے ہے اور اس کے پارے بھی تین درجوں میں ہیں جن میں سے تین پارے ایک ایک حرف کے ہیں، جیسے تین الف ، تین پارے دو حرفوں کے ہیں، جیسے: لا، لہ، لا اور ایک پارہ تین حروف کا ہے، جیسے: اللہ۔ پس عالم کلمۂ شہادت کی سچائی پر اپنی ترکیب (کی اس عددی موافقت) سے گواہی دیتا ہے، جو طول و عرض و عمق کی مسافتوں سے متعلق ہے، اور فرداً فرداً تینوں (مسافتیں بھی گواہی دیتی ہیں) اور وہ عالمی مخلوقات بھی ( یہی گواہی دیتی ہیں جو ) تین مراتب پر ہیں، یعنی جن کی روح ہے، جیسے نباتات، حیوانات اور انسان، پس ان میں سے نباتات شہادت کے ان تین پاروں کی مثال ہیں، جو یک حرف ہیں، اس لئے کہ نباتات میں صرف ایک ہی قوّت ہے، اور وہ قوتِ نامیہ (نشوونما) ہے، لیکن اس کے باوجود کہ اس میں صرف یہی ایک قوّت ہے، یہ تین قسموں میں ہے، ایک تو بغیر بیج والی گھاس ہے، دوسری بیج والی گھاس ہے، اور تیسرا پھلدار درخت ہے، یہ ان تین پاروں کی مثال ہوئی جو ایک ایک حرف کے ہیں، اور عالَم میں حیوانات ان تین پاروں کی مثال ہیں جو دو حرفی ہیں، اس لئے کہ حیوانات میں دو نفس ہیں، ایک نامیہ اور دوسرا حسّیہ، اور یہ جانور بھی
۱۳۰
تین قسم کے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک تو پیٹ کے بل رینگتا ہے، دوسرا وہ ہے جو چار پیروں سے چلتا ہے اور تیسرا وہ ہے جو دو پیروں سے چلتا ہے، اور عالَم میں انسان شہادت کے اس ایک پارے کی مثال ہیں جو سہ ۳ حرفی ہے، اس لئے کہ انسان میں تین نفس ہیں، جیسے، نامیہ، حسیہ اور ناطقہ، اور انسان کی نوع میں کوئی اور قسم کی مخلوق نہیں، جس طرح شہادت میں اس سہ ۳ حرفی پارے کے بعد کوئی اور حرف نہیں، اور ان تین حروف کی مثال، جو کلمۂ اخلاص کی بنیاد کی حیثیت سے ہیں، عقل، نفس اور جدّ ہیں۔
نیز ہم یہ بتائیں گے، کہ شہادت کے سات پارے بارہ حروف پر مبنی ہیں، یہ اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ سات امام ان بارہ حجتوں سے خطاب کر رہے ہیں، جن کو دعوتِ حق کی غرض سے بارہ جزائر میں قائم کیا گیا ہے، پس جاننا چاہئے ، کہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھا، لیکن آنحضرتؐ نے آفاق و انفس کی اس گواہی کے ذریعہ یہ گواہی دی اور ہمیں بھی فرما دیا، جو حضورؐ نے ان دونوں میں دیکھا، کہ وہ اپنے عملِ تخلیق (کی زبانِ حال) سے گواہی ( کے یہی الفاظ) کہہ رہے تھے۔
اب ہم بقولِ مختصر یہ کہیں گے، کہ عالَم، انسانی جسم، زمانہ، نماز اور قرآن میں سے ہر ایک اپنی ترکیب و تشکیل کے ذریعہ کلمۂ شہادت پڑھتا ہے، چنانچہ عالَم کا کلمۂ شہادت پڑھنا اس طرح ہے ، کہ عالَم مجموعاً ایک ہے، جیسے کلمۂ شہادت ایک قول ہے، اور عالَم دو قسموں میں ہے، یعنی اس میں نفی کی طرح غیر آبادی ہے اور اثبات کی طرح آبادی ہے، اور عالَم کی تین مسافتیں ہیں: طول و عرض و عمق، شہادت کے الف، لام اور ھا کی طرح، اور عالَم چار حصّوں میں ہے، جیسے مشرق، مغرب، جنوب اور شمال، جس طرح کلمۂ شہادت کے چار حصّے ہیں، اور عالَم کی سات اقلیم ہیں، شہادت کے سات پاروں کے برابر اور عالَم کے بارہ۱
؎۱: بارہ جزیرے،عرب، ترک، بربر، زنگ، حبشہ، خزر، چین، فارس، روم، ہند، سندھ، اور صقالیہ۔
۱۳۱
جزیرے ہیں، شہادت کے بارہ حروف کے برابر۔
انسانی جسم، یعنی عالَمِ صغیر کا کلمۂ شہادت پڑھنا اس طرح ہے، کہ انسان من حیث المجموع ’’لَا اِلَہَ اِلَّا اللہ‘‘ کی واحد شہادت کی طرح ایک ہے، اور انسان کا یہ جسم دو حصّوں میں ہے: اگلا حصّہ اور پچھلا حصّہ، پچھلا حصّہ نفی کی مثال اور اگلا حصّہ اثبات کی مثال ہے، نیز انسان میں نامی، حسی، اور ناطقی کے تین نفوس ہیں شہادت کے تین حروف کے برابر اور انسانی جسم چار کششوں میں ہے، جیسے صفرا، سودا، خون، اور بلغم، ان چار کلمات کے برابر جو شہادت میں ہیں اور انسانی جسم میں سات اعضائے رئیسہ ہیں، جیسے: دماغ، دل ، کلیجہ، پھیپھڑے، تلی، پتا اور گردے، شہادت کے سات پاروں کے برابر، اور انسان کے جسم میں بارہ مجرا ہیں، جسے دو۲ کان، دو۲ آنکھ، دو۲ نتھنے، ایک منہ ، دو۲ شرمگاہیں، دو پستان اور ایک ناف، شہادت کے بارہ حروف کے برابر۔
سال کا کلمۂ شہادت پڑھنا، جس پر زمانہ گردش کر رہا ہے، اس طرح ہے، کہ سال اپنے اجزأ کے جامع ہونے کی حیثیت سے ایک ہے، شہادت کے واحد کلمے کے برابر، جو اپنے حروف کا جامع ہے، اور سال دو قسموں میں ہے، جیسے رات اور دن، جس میں رات شہادت کی نفی کی مثال اور دن اثبات کی مثال ہے، اور سال میں تین حالات پائے جاتے ہیں، جیسے رات کےسات دن کی برابری اور ان کی ایک دوسرے کے مقابلے میں کمی بیشی، یہ شہادت کے تین حروف کے برابر ہے، اور سال میں چار موسم ہوتے ہیں، جیسے بہار، گرما، خزان اور سرما، یہ شہادت کے چار الفاظ کے برابر ہیں، اور سال میں سات دن چکر کاٹتے ہیں، جن کے شروع میں اتوار اور آخر میں سنیچر ہے، جو شہادت کے سات پاروں کے برابر ہیں، اور سال میں بارہ مہینے روان ہیں ان بارہ حروف کی طرح جو شہادت میں ہیں۔
کلمۂ شہادت کی سچائی پر نماز کی گواہی اس طرح ہے،کہ نماز قائم کرنا
۱۳۲
ایک حق ہے، جس شہادت کے حقوق کے سلسلے میں ادا کیا جاتا ہے، چنانچہ نماز ایک ہے اور وہ دو۲ قسم کے اوقات میں پڑھی جاتی ہے، یا فریضہ کے طور پر مقررہ وقت پر یا نفل کے طور پر غیر معین وقت پر (نماز کی یہ صورتیں) شہادت کی نفی اور اثبات کی برابر ہیں، چنانچہ غیر معین وقت نفی کی مثال اور معین وقت اثبات کی مثال ہے، اور نماز کے اسباب تین ہیں، جیسے فریضہ، سنت اور نفل، جو ان تین حروف کی مثال ہیں، جن پر شہادت کی بنیاد ہے، اور نماز ایک سلام میں چار رکعت سے زیادہ نہیں، ان چار کلمات ہی کے برابر جو شہادت میں ہیں، اور نماز میں نمازی کے اعضاء کے سات مقامات زمین کو چھوتے ہیں، جیسے دو قدم، دو گھٹنے، دو ہتھیلیاں، اور ایک ماتھا، شہادت کےسات پاروں کے برابر، اور نماز میں بارہ امور ایسے ہیں کہ جن سے نماز مکمل ہو جاتی ہے جیسے:۔ پہلی تکبیر (۱) کھڑے رہنا (۲) الحمد پڑھنا (۳) سورہ پڑھنا (۴) رکوع کرنا (۵) تکبیر رکوع (۶) سجدہ (۷) تکبیر سجود (۸) سمع اللہ لمن حمدہ کہنا (۹) کھڑے ہو جانا (۱۰) تحیات پڑھنا (۱۱) سلام پھیرنا (۱۲) جو شہادت کے بارہ حروف کے برابر ہوئے۔
قرآن کلمۂ شہادت کی حقانیّت پر اس طرح سے گواہی دے رہا ہے، کہ قرآن کلمۂ شہادت کی طرح ایک ہے اور شہادت کی نفی و اثبات کی طرح دو حصوں میں ہے، اور یہ تین اسباب سے ظاہر ہوا ہے، ایک سبب یہ ہے، کہ جبرئیل علیہ السّلام نے اس کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاک دل پر نازل کیا، چنانچہ ارشاد ہوا ہے، قولہٗ تعالیٰ:۔
’’نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الأَمِينُ عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنْ الْمُنذِرِينَ (۲۶: ۱۹۳ تا ۱۹۴)
(اے محمد صلعم) اس (قرآن) کو روح الامین نے تیرے قلب پر لایا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں۔‘‘ دوسرا سبب ہے (حقیقتِ مجردّہ کی زبانِ حال سے) اس کو عربی زبان میں پیغمبر علیہ السّلام کا ترجمہ کرنا ، جیسا کہ فرمایا، قولہ تعالیٰ:۔
۱۳۳
’’ لِتَكُونَ مِنْ الْمُنذِرِينَ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ (۲۶: ۱۹۴ تا ۱۹۵)
تاکہ آپ واضح عربی زبان میں ڈرانے والوں میں سے ہوں۔‘‘ اور تیسرا سبب ہے قرآن کا لکھنا، چنانچہ ارشاد ہوا، قولہ تعالیٰ:۔
’’وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الأَوَّلِينَ (۲۶: ۱۹۶)
اور قرآن اگلے لوگوں کے نوشتوں میں ہے۔‘‘ یہ تین حالات شہادت کے تین بنیادی حروف کے برابر ہیں، اور پیغمبر علیہ السّلام نے قرآن کو چار ذرائع سے (لوگوں پر) ظاہر کیا، تنزیل (یعنی خالص روحانی ہدایت) شریعت، دعوت اور رسالت (یعنی اپنی طرف سے کسی اور شخص کے ذریعہ پیغام رسانی) یہ ذرائع شہادت کے چار کلمات کے برابر ہیں، اور قرآن شہادت کے سات پاروں کی طرف سات سات کا مجموعہ (یعنی سبع المثانی) ہے اور قرآن بارہ اسباب پر واقع ہے، جیسے: امر، نہی، وعدہ (یعنی امید دلانا) وعید (یعنی ڈرانا) ناسخ، منسوخ، محکم، متشابہ، خبر، قصہ، حروفِ معجم (حروفِ منقوط) اور حروفِ مفرد (حروفِ غیر منقوط) جو شہادت کے بارہ حروف کے برابر ہیں۔
لیکن آسمان کا کلمۂ اخلاص کہنا اس طرح ہے ، کہ آسمان مجموعاً ایک چیز ہے، چنانچہ شہادت ایک کلمہ ہے اور آسمان میں حرکت نفی کی مثال اور سکون اثبات کی مثال ہے، اور آسمان میں تین انوار ہیں، جیسے: سورج، چاند اور ستارے، ان تین حروف کی طرح جن پر شہادت کی بنیاد ہے، اور آسمان میں چار طبیعتیں ہیں، جیسے: گرمی، سردی، تری، اور خشکی، جو شہادت کے چار کلمات کے برابر ہیں، اور آسمان میں سات ستارے بادشاہ ہیں، جیسے: زحل، مشتری، مریخ، شمس، زہرہ، عطارد، اور قمر جو شہادت کے سات پاروں کے برابر ہیں، اور آسمان میں بارہ برج ہیں جیسے: حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو اور حوت، ان بارہ حروف کے برابر جو شہادت میں ہیں۔
۱۳۴
پس ہمارا کہنا یہ ہے، کہ عالم نے اپنی تخلیق کے ذریعہ گواہی دی، انسانی جسم نے گواہی دی، زمانے نے گواہی دی، نماز نے گواہی دی، قرآن نے گواہی دی اور آسمان نے گواہی دی، اس بات پر کہ کلمۂ شہادت یعنی ’’لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ حق اور سچ ہے، اور (مذکورہ گواہوں نے) پیغمبر علیہ السّلام کی دعوت کی تصدیق کر دی، اور تمام مذکورہ بالا گواہان خدا کی یکتائی کے اقرار، رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی گواہی اور ان کے دعویٰ کی تصدیق کے لئے کھڑے ہیں۔ اور یہ گواہ باقی (غیر فانی) ہیں جو ہرگز نہیں مرتے ہیں، نہ گواہی دینے سے رک جاتے ہیں، اور یہ ’’ لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ کی شہادت خدائے بزرگ و برتر کی یکتائی پر ایک ہی گواہی ہے (جس سے مراد) ایک ایسی یکتائی ہے جو اسی کے لئے خاص ہے، اور شہادت جو نفی و اثبات کے دوحصّوں میں آئی ہے، اس امر پر دلالت کرتی ہے، کہ خدا کی مخلوقات کے دو گروہ ہیں، ایک گروہ روحانی اور ایک گروہ جسمانی، یعنی دکھائی نہ دینے والا اور دکھائی دینے والا، اور جب رسول نے کہا کہ لَا الٰہ، تو آنحضرتؐ یہ معنی چاہتے ہیں، کہ ان دو قسم کی مخلوقات میں سے کوئی خدا نہیں، نہ روحانی اور نہ جسمانی جو دکھائی نہ دینے والی اور دکھائی دینے والی ہیں، اور جب انہوں نے کہا کہ اِلّا اللہ، تو ان کا یہ مطلب ہے، کہ: مگر وہ خدا جس نےروحانی و جسمانی کو پیدا کیا، اور یہ کہ شہادت کی بنیاد تین حروف پر قائم ہوئی، تو یہ تین فرشتوں پر دلیل ہے، جیسے: جد، فتح اور خیال، کیونکہ وہ پیغمبر علیہ السّلام کو وحی پہنچانے والے ہیں، اور یہ کہ شہادت چار کلمات پر مشتمل ہے، تو یہ دین کے چار اصول پر دلیل ہے، جیسے: اوّل، ثانی، ناطق اور اساس، اور یہ کہ شہادت سات پاروں پر مبنی ہے، جو سات اماموں پر دلیل ہے، کیونکہ وہ دین کے ان چار اصول سے علم حاصل کرتے ہیں، اور لوگوں کی طرف گزار دیتے ہیں، اور یہ کہ شہادت بارہ حروف سے مرکب ہوئی ہے، جو بارہ حجتوں کی دلیل ہے کیونکہ وہ (سات) اماموں سے علم حاصل کرتے ہیں اور لوگوں تک پہنچاتے رہتےہیں، تاکہ لوگ حق شناسی سے روکے ہوئے نہ رہ جائیں۔
۱۳۵
لَا الٰہ اِلّا اللہ کہنے کا مقصد جو رسول علیہ السلام نےکہا اور کہنے کے لئے فرمایا، یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے، کہ روحانی وجسمانی مخلوقات کےان دو گروہوں، تین فرشتوں، جیسے جد، فتح اور خیال، دین کے چار اصول، یعنی اول، ثانی، ناطق اور اساس، سات اماموں، بارہ حجتوں میں سے کوئی شخص خدا نہیں، اور جب رسول کہتے ہیں: ’’لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘کوئی خدا نہیں، مگر اللہ، تو وہ اس میں یہ معنی رکھتے ہیں، کہ روحانی و جسمانی مخلوقات کے یہ دونوں گروہ، تین فرشتے، دین کے چار اصول، سات أئمّہ اور بارہ حجت لا الٰہ ہیں، یعنی ان میں سے کوئی خدا نہیں، اِلّاَ اللہ، مگر خدا وہ ہے، جس نے ان کو پیدا کیا ہے۔
پس جو کوئی ’’لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ کو اسی طرح سمجھے اور پڑھے اور پہچان لیا کرے، کہ یہ ایک کس پر دلیل ہے، دو کس پر دلیل ہے، تین کس پر دلیل ہے، چار اور سات کس کس کی دلیل ہیں اور بارہ کس پر دلالت کرتا ہے، تو وہ شخص ابدی عذاب سے بچ سکتا ہے، انہی حدود پر عالَم اور انسانی جسم نے گواہی دی، اور زمانہ، سال، قرآن، نماز، آسمان، زمین اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں نے بھی یہی گواہی دی، اور یہیں سے دانشمند انسان کو ثبوت ملتا ہے، کہ یہ شہادت حق ہے، چنانچہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ (۴۴: ۳۹)
یعنی ہم نے آسمان و زمین کو پیدا نہیں کیا، مگر حق کے ساتھ، لیکن ان میں اکثر لوگ اس حقانیت کو نہیں جانتے ہیں۔‘‘ اور حقانیّت کا جاننا یہ ہے کہ آفاق اور انفس نے اس پر گواہی دی اور جو کچھ انسان سِرّ کی آنکھ سے دیکھتا ہے، وہ حق پر گواہی دے رہا ہے، اور منافقوں کے دعویٰ کے لئے کوئی گواہی نہیں، مگر زبانی طور پر وہ کہتے جاتے ہیں اور اس کی حقیقت نہیں جانتے ان بولنے والے پرندوں کی طرح جو اپنی بولی کے معنی نہیں جانتے، اور اللہ تعالیٰ نے ان حدود کا
۱۳۶
نشان ہمارے جسم میں رکھا ہے اور عالم میں ہر چیز میں ان کا نشان رکھا ہے اور اس کے بعد اس نے ہم سے گواہی طلب کر لی ہے، اور فرمایا ہے کہ: لَا الٰہ اِلّا اللہ کہا کرو، اور جس نے اس کلمے کو قبول نہیں کیا، اور نہ کہا تو اس کو قتل کرنا واجب کردیا اور اس کی اولاد و مال پر قبضہ کرنے کے لئے فرمایا (یا یہ کہ) جس گروہ نے یہ نہ پڑھا، تو ان پر جزیہ رکھنے کے لئے فرمایا، جزیہ کا مطلب ہے، بارہ درموں کا وہ سالانہ ٹیکس، جو وہ لوگ (یعنی اسلامی حکومت کے غیر مسلم محکوم) اپنے مال سے دے دیا کرتے ہیں، جو شہادت کے بارہ حروف کے برابر ہے، اور دنیا میں کوئی ایسی چھوٹی یا بڑی چیز نہیں جس میں ’’ لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ کا نشان نہ پایا جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، قولہٗ تعالیٰ:۔
’’سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (۴۱: ۵۳)
ہم ان کو اس عالَم میں اور ان کی جانوں میں اپنے نشانات دکھاتے رہیں گے، تاکہ انہیں ظاہر ہو جائے کہ وہ حق ہے۔‘‘ اور دوسرے مقام پر فرمایا، قولہ تعالیٰ:۔
’’وَفِي الأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلاَ تُبْصِرُونَ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)
اور یقین والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تمہارے نفوس و اجسام میں بھی، اور کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ جیسا کہ فرمایا، قولہ تعالیٰ:۔
’’وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ (۱۲: ۱۰۵)
اور بہت سی نشانیاں ہیں آسمانوں میں اور زمین میں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے، اور وہ ان نشانیوں سے روگردان ہوتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ فرمایا،
۱۳۷
قولہ تعالیٰ:۔
’’أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ (۰۷: ۱۸۵)
اور کیا وہ لوگ غور نہیں کرتے، آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں۔‘‘ دوسری جگہ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلاَّ يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لاَ تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ (۱۷: ۴۴)
اور کوئی چیز ایسی نہیں جو (قال یا حال کے ذریعہ) اس کی حمد میں تسبیح خوانی نہ کرتی ہو، لیکن تم لوگ ان کی تسبیح خوانی کو نہیں سمجھتے ہو۔‘‘ ان کی تسبیح خوانی سمجھنا یہ ہے کہ ان حدود کے نشان کو سمجھ لیا جائے، جو ہر چیز میں رکھا ہوا ہے، تاکہ حقانیت پر دلیل ہو، اور وہ تسبیح یہ ہے کہ ہر چیز ’’لَا الٰہ اِلّا اللہ‘‘ کے ساتھ ساتھ گواہی دیتی ہے، کیونکہ ہر ایک چیز میں ایک ، دو۲، تین۳، چار، سات اور بارہ کی خاصیت و علامت پائی جاتی ہے، تاکہ ہر چیز ان حدود پر دلیل ہو، کیونکہ وہ خدا اور مخلوق کے درمیان وسیلے ہیں، ہم نے شہادت کے بیان میں سے ایک کافی مقدار کا ذکر کر دیا۔
۱۳۸
کلام ۔ ۱۲
سورۂ اخلاص کے بارے میں
ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے ، کہ کلمۂ اخلاص جو لَا الٰہ اِلّا اللہ ہے، دینِ اسلام کے دروازے کی کلید ہے، اور جو کوئی اس کلید کو لے لے، تو وہ بیت الاسلام کے مکان میں داخل ہو سکتا ہے، اور اس کوکلمۂ اخلاص اس لئے کہتے ہیں کہ اخلاص کے معنی عربی زبان میں پاکیزہ کرنے کے ہیں، اور اس قول کے کہنے والے کو چاہئے کہ وہ اس کلمے کے ذریعے اپنے دین کو بت پرستی کی آلائش، آتش پرستی کی سیاہی (گدلاپن)، ثنویوں (دو خدائیں ماننے والے) کے قول کی پلیدی اور دہریوں وغیرہ کے مذاہب کی تاریکی سے پاک کرے، جب لطیف و کثیف دونوں قسم کی مخلوقات کی صفات کو توحید سے دور کر دینے کے ذریعے اس کلمہ گو کا اعتقاد اپنے قول (یعنی کلمہ خوانی) کے مطابق ہوجائے، تب وہ شخص قول اور اعتقاد (دونوں) میں سچا ہوسکتا ہے، اور اس کے بعد اس اعتقاد اور قول کے مطابق اسے کوئی عمل کرنا چاہئے، تاکہ اس کا یہ عمل اس کے قول کو بلند کرکے عالمِ بالا تک لے جائے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (۳۵: ۱۰)
۱۳۹
اچھا کلام خدا تک پہنچ جاتا ہے، اور اچھا کام ہی اس کلام کو اٹھا لے جاتا ہے۔‘‘ جس طرح کلمۂ اخلاص دین کا آغاز ہے (اسی طرح) سورۂ اخلاص دین کا انجام ہے، اور صانعِ حکیم کے فرمان کی رو سے یہ لازمی ہے، کہ دین کے آغاز اور انجام ایک دوسرے کے مطابق ہوں۔
ہمارا کہنا ہے، کہ سورۂ اخلاص سارے قرآن کا خلاصہ اور انجام ہے، جو (اخیر میں) نازل ہوا ہے، تاکہ دین کے دروازے کا کھولنا اور بند کرنا دونوں پاکیزگی سے ہوں، لیکن سارے کام اور ساری چیزیں پہلے تو حدِّ قوّت میں ہوا کرتی ہیں، اور جو کچھ حدِّ قوّت میں ہو وہ کمزور ہوتا ہے، اور آخر کار حدِّ فعل میں آکر وہ طاقتور ہو جاتا ہے، پس اسی طرح کلمۂ اخلاص شہادت کی صورت میں حدِّ قوّت میں ہے، اور سورۂ صمد کے مقام پر حدِّ فعل میں ہے، پس ہم توضیح کر دیں گے، کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ۔ اے محمد (صلعم!) کہہ دیجئے کہ وہ خدا ایک ہے۔‘‘ اس کی تاویل اس طرح ہے کہ جیسے: ’’ھو‘‘ کہتا ہے، اس سے خدائے تعالیٰ کی مراد ایک ایسا کلمہ ہے، جو خالص ہویّت ہے، اور ہویّت کے لئے حقیقت کے بغیر چارہ نہیں (یعنی وہی کلمۂ باری ہی خدائے تعالیٰ کی ہویّت اور اس کی حقیقت ہے) اور لفظِ اللہ کے ان چاروں حروف سے مراد چار اصولِ دین ہیں، کیونکہ وہی کلمۂ باری کے اثرات کے لئے چُنے ہوئے ہیں، جن میں سے اپنے اپنے مرتبے کے مطابق دو روحانی اور دو جسمانی ہیں اور اَحَدٌ سے یہ مراد لیتا ہے، کہ جب ان چار اصول میں سے ہر ایک نے کلمۂ باری سے اپنا اپنا حصّہ، جو کچھ حاصل کرنا تھا، حاصل کر لیا، تو انہوں نے توحید کو جملہ صفات سے (پاک اور ) بے نظیر مانا، اور ہر اس چیز سے بھی (پاک و بے نظیر مانا) جس کی جفت ہے، خواہ لطیف ہو یا کثیف ، اور انہوں نے سبحانہ کو ایسی صفات والے ناموں سے موسوم کرنے سے بھی برتر سمجھا، جو (صفات) قول کے اعتبار سے عمل کے اعتبار سے اور روحانی و طبیعی لحاظ سے ایک دوسرے کی مقابل (یعنی
۱۴۰
ضد یا مخالف) ہوں، جیسے: ہست اور نیست، مکانی اور لامکانی، تعریف کیا ہوا اور تعریف نہ کیا ہوا وغیرہ، پھر وہ اصول ساری روحانی اور جسمانی مخلوقات میں سے اسی بزرگی کے سبب سے ممتاز ہوئے اور اسی وجہ سے بے نظیر ہوئے، پس فرمایا: ’’اللّٰہُ الصَّمَدُ۔ یعنی خدا صمد ہے۔‘‘ اور صمد کے معنی سید کے ہیں،(یعنی جس کی طرف مہمات میں رجوع کیا جائے، نیز صمد کے معنی ٹھوس کے ہیں) یعنی جس میں جوف یا کہ کھوکھلا پن نہ ہو( نیز یہ بے نیاز کے معنی میں بھی آیا ہے) اس آیت کی تاویل یہ ہے، جو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، کہ ان چار حدود نے، جن پر ( لفظِ اللہ کے ) یہ چار حروف دلالت کرتے ہیں، جب خدا کی توحید کو بحقیقت پہچان لیا، تو انہوں نے اس کو ہر قسم کی آلائش سے پاک مانا، اور ان میں سے ہر ایک حد روحانیوں کا سیّد (سردار) اور آقا ( بارِ خدای) ہوا، اور سارے روحانیوں اور جسمانیوں نے فائدہ حاصل کرنے کے لئے انہی کی طرف رجوع کیا، مگر وہ خود بے نیاز ہیں، اور ان کی حقیقتِ حال معلوم کرنے کے لئے ان کے ماتحت روحانیوں اور جسمانیوں کو ان کی ذات کی طرف کوئی راستہ نہ ملا، یہ ایک ایسی (ٹھوس) چیز کی مثال جیسی ہے، جس کے درمیان (جھانکنے کے لئے) کوئی راستہ ہی نہ ہو تو جو کچھ اس کے اندر پوشیدہ ہے، کوئی شخص اس کی کیفیت سے اطلاع نہیں پاسکتا، پھر فرمایا، قولہ تعالیٰ:۔
’’لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، یعنی نہ اس نے کسی کو جنا، اور نہ کسی نے اس کو جنا۔‘‘ اس کی تاویل یہ ہے، کہ باری سبحانہ جو کسی ابتدائی مایہ اور ذریعہ کے بغیر چیزوں کا پیدا کرنےوالا ہے، اور اس نے ابتدائی چیز ( عقل) کو دوسری چیزوں کے لئے علت (یعنی سبب و مایہ) ٹھہرادی ہے، اور وہ خود اس بات سے برتر ہے، کہ کسی چیز کی علت و مایہ ہو، چنانچہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے، کہ چیزیں اسی (باری سحانہ) سے پیدا ہوئی ہیں، اگر واقعاً ایسا ہی ہوتا تو وہ خود ہی چیزوں کی علت ہو جاتا ( حالانکہ ) علت چیزوں کے باپ کے مانند ہے، اور باپ جننے والے کے مانند ہے، اور
۱۴۱
فرزند گویا اس کا جنا ہوا ہے، اور وہ جلیل القدرت خدا چیزوں کی علت نہیں، یہ لَمْ یَلِدْ کی تاویل ہوئی۔
وَلَمْ یُوْلَدْ کی تاویل یہ ہے ، کہ وہ جلتِ عظمتہ کسی چیز سے پیدا نہیں ہوا، تاکہ وہ چیز اس کی علت کہلائے، اور وہ جل جلالہ معلول بنے، چنانچہ فرزند باپ کا معلول ہوتا ہے، اور ہر وہ چیز جس کی کوئی علت ہو، تو گویا وہ اپنی علت ہی سے جنی ہوئی ہوتی ہے، پس خدائے تعالیٰ جس طرح چیزوں کی علت نہیں، اس طرح وہ ان کا معلول بھی نہیں، اور جو کوئی خدائے تعالیٰ کو عالِم کہتا ہے، یا حکیم یا قادر کہتا ہے، تو علم، حکمت اور قدرت کو اس کی علت مانتا ہے، اس لئے کہ عالِم کی علت اس کا علم ہے، حکیم کی علت اس کی حکمت ہے اور قادر کی علت اس کی قدرت ہے، پس اس شخص نے (نتیجے کے طور پر ) یہ کہا ہوگا، کہ خدا کو جنم دیا گیا ہے، پھر فرمایا: ’’وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (۱۱۲: ۰۴) یعنی اس کے برابر کا کوئی نہیں۔‘‘ اس کی تاویل یہ ہے ، کہ احدیت (یکتائی) جو ابداع (یعنی کسی مایہ ماخذ کے بغیر چیزوں کو پیدا کرنے کی طاقت) ہے وہ عقلِ کلّ کی علت ہے، اور عقلِ کلّ اپنی تمام لطافت اور جلالت کے باؤجود مبدِعِ حق کے برابر نہیں، اور ابداع وہ ہے، کہ انسان اوہام (یعنی تصوارت) کے لئے فوری طور پر اس (حقیقت) تک راستہ مل نہیں سکتا، اس لئے دانا حکماء نے ابداع کو ’’نیست‘‘ کا نام دیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے، کہ وہ سب سے پہلا موجود، جس سے دوسری تمام موجودات پیدا ہوئیں، عقلِ کلّ تھا، اور عقلِ کلّ احدیت سے پیدا ہوا، اور انسانی عقل کے فیصلے سے یہ لازم آتا ہے، کہ ہست نیست ہی سے پیدا ہو، اور جب احدیت کے لئے کوئی اثبات ہی نہ تھا، تو انہوں نے اس کو ’’نیست‘‘ کا نام دیا، اور کسی انسانی وہم و تصوّر کی یہ طاقت نہیں کہ مایۂ اوہام (وہموں کی بنیاد) یعنی عقلِ کلّ سے آگے گزر سکے، چہ جائیکہ عقلِ کلّ کے پیدا کرنے والے تک پہنچ جائے، اگر کوئی شخص (اس مقام تک پہنچنے کے لئے) قوّتِ واہمہ چلائے، تو یہ ایک ناممکن
۱۴۲
چیز کی طلب ہوگی، مگر چیزیں تو محسوس کے مشاہدے سے ( اس کو) جانتی ہیں، اس لئے گواہی دیتی ہیں، کہ مماثل ہستیوں کے مانند قرار دیئے جانے سے خدا پاک ہے۔
فصل
توضیح کی جاتی ہے، کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ’’أَلاَ لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ( ۳۹: ۰۳) یاد رکھو کہ خالص دین خدا ہی کا ہے۔‘‘ یعنی ایسا دین جو پاک اور کسی آمیزش کے بغیر اور نفی و اثبات ( کی صورت میں) ہو، قول میں بھی، اعتقاد میں بھی اور عمل میں بھی، چنانچہ جب کوئی شخص اپنے قول، اعتقاد اور عمل کو ہر قسم کی آمیزش سے پاک کرے، تب ہی وہ بحقیقت خدا کے خالص دین میں آیا ہوا ہوتا ہے، اور جو شخص اپنی زبان کو نامناسب باتوں سے پاک رکھے، تو اس کا قول خدا کے قول کے مانند ہوجاتا ہے، اور وہ خدا ( کی صفات) کے لائق ہو سکتا ہے، جس طرح خدائے تعالیٰ نے مٹی کو ہر قسم کی آلائشوں سے پاک کیا، یہاں تک کہ وہ آدمؑ کی صورت کی لائق بن گئی، پس یہ لازم آیا کہ آدم اور اس کی اولاد کے دین کی بنیاد ایک ایسے کلمے پر ہو، جو نفی و اثبات دونوں پر حاوی ہوا ہو، اور وہ کلمۂ اخلاص ہی ہے، جس میں خدا کا نام پہلے تو نکرہ میں آیا ہے، یعنی معرفہ کے الف و لام کے بغیر ہے، جیسے: اِلٰہ، اور اس کے بعد یہی نام اسمِ معرفہ ہے، جیسے اللہ، اور الٰہٗ کے نام کے الف و لام نکرہ ہیں، کیونکہ یہ معرفہ کے الف و لام نہیں، اور معرفہ کے الف و لام تنزیل و تاویل، رسول و وصی اور محسوس و معقول پر دلیل ہیں، اس لئے کہ چیزوں کی پہچان مذکورہ چھ وجوہ سے ہوسکتی ہے، ( یعنی موجوداتِ ذہنی و خارجی کی پہچان کے لئے مجموعاً یہی چھ چہرے ہیں) اور ان مذکورہ چیزوں کی صرف شکل و صورت سے پہچان لیا جا سکتا ہے، اور جب ان کی صورت ظاہر نہ ہو، تو وہ اَن پہچانی رہ جاتی ہیں، ( اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ فلان چیز) کس سبب سے ہے، اور کس شکل کی ہے، مگر یہی ہے، کہ جس ہیولا ( بلا
۱۴۳
صورت مادّہ) کو اس عالم میں صورت مل چکی ہو، تو وہی اپنی حد میں اور صورت کے بعد پہچانا جا سکتا ہے۔
جب عالم میں یہی ( قانون) تھا، تو ( اس لئے) کلمۂ اخلاص میں نکرہ معرفہ سے پہلے آیا ہے، ( یہ بتانے کے لئے کہ ہر چیز پہلے تو نکرہ یعنی اَن پہچانی ہوتی ہے، پھر معرفہ یعنی پہچانی ہوئی ہوتی ہے) جس میں نکرہ تو اِلہَ ہے، اور معرفہ اللہ ہے، اور خدا کے نام کے نفی کرنا لام و الف کے ذریعہ ہے، جو (یہ دونوں حرف) ایک دوسرے پر واقع ہوتے ہیں، جیسے: لا (جو رسولؐ اور وصیؑ کی مثال ہے، کہ ان کا نور ایک دوسرے کی ذات میں اس طرح داخل ہے، جس طرح کلمۂ اخلاص کے یہ لام اور الف = لا اور انہی کے ذریعہ تنزیل و تاویل اور محسوس و معقول کے چہروں کی شناخت حاصل ہو سکتی ہے، نیز انہی کے ذریعہ ہر چیز کی نفی اور اثبات ہو سکتا ہے، جس طرح کلمۂ اخلاص میں نکرہ و معرفہ اور نفی و اثبات کا ذریعہ صرف الف اور لام ہی ہیں یعنی لا اور اِلّا) اور اس کے بعد نکرہ آتا ہے، جیسے اِلٰہ، اور (جس طرح نفی لام و الف سے ہوئی تھی، اسی طرح، اثبات بھی الف و لام ہی سے ہوتا ہے، جو لام و الف کا برعکس ہے، جیسا کہ نکرہ معرفہ کا برعکس ہے، اور سورۂ اخلاص میں خدائے تعالیٰ نے اپنی یکتائی آشکار کر دی، اور فرمایا، قولہ تعالیٰ: ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ‘‘ اور کلمۂ اخلاص میں یہی حقیقت اشارے کے طور پر ہے، جس میں فرمایا کہ کوئی معبود نہیں سوائے خدا کے، یعنی وہ یکتا ہے، ہم اس لئے اس سے پہلے بتا چکے ہیں، کہ توحید سورۂ اخلاص میں فعل میں آئی ہے، اور کلمۂ اخلاص میں قوّت میں موجود ہے، اس لئے کہ چیزیں پہلے تو حدِّ قوّت میں پائی جاتی ہیں اور کمزور ہوتی ہیں، پھر وہ حدِّ فعل میں پہنچ کر طاقتور ہو جاتی ہیں۔
پس ہمارا بیان یہ ہے، کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے متعلق احد یعنی یکتا کہا، اور وہ تبارک و تعالیٰ جل ذکرہٗ اپنی خلقت اور فرمان کی طرح اپنی ذات میں یکتا ہے
۱۴۴
(چنانچہ اپنے فرمان کے بارے میں فرماتا ہے:
’’وَمَا أَمْرُنَا إِلاَّ وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ (۵۴: ۵۰)
اور ہمارا امرِ’’کُنْ‘‘ صرف ایک ہی بار ہے، جیسے: آنکھوں کا جھپکانا پس اس فرمانِ واحد اور اس کے تحت پیدا شدہ خلقتِ واحدہ کی دلیل پر خدائے تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا ہے) امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسی طرح پڑھا ہے: ’’ قُلْ ھُوَ اللّٰہُ الْاَحَدٌ‘‘۱ اور اسی طرح لازم آتا ہے، کیونکہ اللہ معرفہ ہے، اور احد نکرہ ہے، اور جب معرفہ کو نکرہ سے موصوف کیا جائے تو اس صفت کے معنی اس پر واقع ہونے سے معرفہ اور نکرہ کے درمیان معنوی شرکت ہوتی ہے، جب تو معرفہ کو معرفہ ہی سے موصوف کرے گا، تو وہ صفت اس معرفہ کے لئے کسی دوسری چیز کی شرکت کے بغیر مخصوص ہو جاتی ہے، اور دلیل ملتی ہے، کہ نزول کی اصل ’’قُلْ ھُوَ اللّٰہُ الْاَحَدٌ‘‘ہے، اس لئے کہ فرماتا ہے: ’’ اَللّٰہُ الصَّمَدُ‘‘۔ چنانچہ نام معرفہ ہے، اور صفت بھی معرفہ ہے، اور صمد کے یہ معنی ہیں، کہ دوسرے سب اپنی حاجات کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور اس کے معنی یہ بھی ہیں، کہ وہ جزو جزو ہو ہی نہیں جاتا، نیز صمد وہ ہوتا ہے، جس کے درمیان کوئی خلا نہ ہو، اور یہ صمد لفظ احد کی احدیت کے معنی کو مضبوط کر دیتا ہے اور وہ اس طرح کہ گنتی کی جفتیں ایک سے پیدا ہو جاتی ہیں، اور وہ سب ایک کی محتاج رہتی ہیں، کیونکہ ان کی ہستی اسی سے ہے، پس صمد کے یہی معنی ہیں اور جب یہ سورۂ اخلاص کلمۂ اخلاص کا دوسرا رخ ہے، تو لازم آتا ہے، کہ اس سورے کا آغاز نفی اور نکرہ ہے، جیسے لا اِلٰہَ، اور اس کا خاتمہ اثبات
؎۱: اس مطلب کے سلسلے میں مزید معلومات کے لئے، نیز سورۂ اخلاص والے پورے اسما اللہ کی شرح کی تحقیق و تصدیق کے لئے کتاب الزینۃ جلدِ دوم، صفحہ ۳۲ تا ۴۵ ملاحظہ ہو۔
۱۴۵
اور معرفہ، جیسے: الّا اللہ۔
نیز ہم یہ بتائیں گے، کہ احد اور صمد کے معنوں کو خدائے تعالیٰ کا یہ قول محکم کر دیتا ہے: ’’لَمْ یَلِدُ وَلَمْ یُوْ لَدْ۔‘‘ اس لئے، کہ ولادت (جنم) تو جفتوں کے درمیان موجود ہے، اور طاق سے کوئی تولید ہی نہیں، اور مولود کو اس جوڑے کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے جس سے وہ پیدا ہوا ہو کیونکہ یہ ان دونوں کا تیسرا ہے، اور باری سبحانہ تعالیٰ کا ان جفتوں کو پیدا کرنا کسی جفت کے ذریعہ سے نہیں، تاکہ ان جفتوں کو اس کے ساتھ مناسبت ہو، بلکہ وہ کوئی ایسے ’’ایک‘‘ سے پیدا ہوئی ہیں، کہ کسی وجہ سے بھی اس کی تقسیم اور تجزیہ نہیں ہو سکتا، اور ہر مولود اس شخص کے مانند ہوتا ہے، جس سے یہ پیدا ہوا ہے، جیسے: معلول علت کے مانند ہوتا ہے، اور خدائے تعالیٰ کا چیزوں کو پیدا کرنا علت کے اپنے معلول کو پیدا کرنے کی طرح نہیں، کیا تو نہیں دیکھتا، کہ خدائے تعالیٰ یوں فرماتا ہے: ’’وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُواً اَحَدٌ۔ یعنی کوئی شخص اس کے لئے لائق و ہمسر نہیں،‘‘ اس لئے کہ وہ ذات اور فعل میں یکتا ہے، جس نے اپنے امر کے ذریعہ لاشَیْ سے شَیْ پیدا کی، اور یہ اسمِ احد سورے کے اخیر میں نکرہ ہے، جس طرح شروع میں معرفہ ہے، اس لئے کہ احدیت (یعنی ایک کی صفت و خاصیت) مخلوقات میں پائی نہیں جاتی اور وہ پہچانی ہوئی نہیں، بلکہ وہ خدا ہی کی ہے، اور احد کے معنی ’’کوئی شخص‘‘ کے ہیں، اور واحد کے معنی ایک کے ہیں، اور ان دو لفظوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے، مثلاً اگر ہم یہ کہیں، کہ ’زید کو کوئی شخص پسند نہیں آتا‘ یہ مطلب اس سے بڑا ہے، جو ہم کہیں، کہ ’’زید کو ایک شخص پسند نہیں آتا ہے‘‘ پس جو کچھ فرماتا ہے، کہ اس کا ’’کفو‘‘ نہیں، تو اس سے خدائے تعالیٰ کی مراد یہ ہے، کہ اَحَدْ (حقیقی معنوں میں) مخلوق کے لئے نہیں، یہ فصل دانش والوں کے لئے لکھی گئی، اور جس کی دانش نہیں، یا (دانش حاصل کرنے کی صلاحیت) نہیں رکھتا، تو اس کے لئے اس حقیقت کا سمجھ لینا دشوار ہے، مگر وہ شخص
۱۴۶
(سمجھ سکتا ہے) جس کو علمِ تاویل میں کچھ تجربہ حاصل ہوا ہو۔
والسلام۔
۱۴۷
کلام ۔ ۱۳
اَعُوْذ با للّٰہِ مِنَ الشّیطانِ الرَّجِیْم کی تاویل کے بارے میں
اس بارے میں ہمارا بیان یہ ہے، کہ بموجبِ فرمانِ الٰہی آنحضرتؐ نے لوگوں کو کلمۂ اخلاص ( لَا اِلٰہَ اِلّا اللہ) کی دعوت کی، اور اس کلمے میں آنحضرتؐ نے باری سبحانہ و تعالیٰ سے مخلوقات کی صفات کی نفی کر دیا، اور اس کی یکتائی کا اثبات کر دیا، پس لوگ نفی و اثبات کی طرح دو گروہ ہوئے، جن میں ایک گروہ اہلِ حق کا ہوا (اور دوسرا گروہ اہلِ باطل کا) اہلِ حق نے ان صفات کی نفی کر کے توحید کو مجرّد کر دیا، جن کا اہلِ باطل نے اثبات کیا تھا، جبکہ اہلِ باطل کے لئے وہ اشارہ واضح نہ ہوسکا، جو کلمۂ اخلاص میں تھا، اور خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو دیو راندہ (شیطانِ الرجیم) سے بچ کر خداوند کے حضور میں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے فرمایا، اس آیت کے بموجب، قولہ تعالیٰ:۔
’’فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (۱۶: ۹۸)
(اے رسول!) جب آپ قرآن پڑھیں تو اپنے آپ کو شیطانِ راندہ سے خدا کے حضور میں محفوظ رکھئے۔‘‘ پھر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے قرآن پڑھنے سے
۱۴۸
پہلے ’’اَعُوْذ با للّٰہِ مِنَ الشّیطانِ الرَّجِیْم‘‘ کہنے کے لئے فرمایا، اور عربی لغت کے اعتبار سے ’’رجیم‘‘ وہ شخص ہوتا ہے، جو بغیر دیکھے اور بغیر سنے اپنی ہی طرف سے باتیں بناتا ہو، اور یہ لفظ ’’رجیم‘‘ عربی میں فعیل کے وزن پر ہے، جس کے معنی فاعل کے ہیں، چنانچہ علیم اور عالِم کا مطلب ایک ہی ہے، اسی طرح قدیر اور قادر کا مطلب ایک ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس قول سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے:۔
’’خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ‘‘ (۱۸: ۲۲)
اصحابِ کہف کے قصّے کے سلسلے میں فرماتا ہے: ’’ایک گروہ نے کہا، کہ وہ لوگ پانچ نفر تھے، اور ان کا چھٹا ان کا کتا تھا، انہوں نے غائبانہ یعنی بغیر دیکھی اور بغیر سنی باتیں کیں۔‘‘ اور اَن دیکھی چیزوں کے بارے میں ذکر کرنا جائز نہیں، مگر یہ ہے ، کہ تو نے وہ چیز دیکھی ہو یا اس کے بارے میں تو نے کسی سچ بولنے والے سے سنا ہو، نیز رجیم کے معنی ہیں، سنگسار کیا ہوا، اور راندہ کیا ہوا، اور یہ تمام معانی ایک دوسرے کے نزدیک اور آپس میں ملے ہوئے ہیں، کیونکہ جب کوئی شخص نادیدہ اور ناشنیدہ بات کرتا ہے تو اس کو گویا سنگسار کر دیا جاتا ہے اور نکال دیا جاتا ہے، اور (اسی طرح) دین کے مالک کے فرمان کے بغیر جب کوئی شخص دین میں اپنے نفس کی غرض پر چلتے ہوئے اپنی ہی دعوت کرنے لگتا ہے، تو اسے (دین) سے نکال دیا جاتا ہے، اور اس کو دور کر دیا جاتا ہے، اور یہ لفظ ’’رجیم‘‘ جس کی صفت سے شیطان کو موصوف کیا گیا ہے، اس شخص پر دلیل ہے، جس نے رسول (صلعم) کے فرمان کو چھوڑا ہے اور اپنی رائے اور قیاس کے پیچھے چلا ہے، اور ’’اَعُوْذ با للّٰہِ ‘‘ کے اس قول میں تو یہ کہتا ہے کہ: ’’میں اپنے آپ کو خدا کے حضور میں محفوظ رکھتا ہوں‘‘۔
یہ ایک ایسے شخص کی پیروی پر دلیل ہے، کہ وہ جو کچھ کہتا ہے تو اپنی ہی طرف سے نہیں کہتا ، جس طرح خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کی تعریف کی، کہ آنحضرت خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے تھے، اور اپنی غرض کی بات نہیں کرتے تھے، قولہ تعالیٰ: ۔
۱۴۹
’’وَمَا يَنْطِقُ عَنْ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحَى (۵۳: ۳ تا ۴)
(رسول) اپنے نفس کی خواہش سے نہیں بولا کرتے ہیں، وہ یعنی قرآن اور کچھ نہیں مگر وحی ہے، جو بطریقِ وحی بھیجا گیا ہے۔‘‘ پس جس شخص نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی اجازت (فرمان) سے دینی باتیں کیں تو وہ خدا کے راستے پر ہی چلا اور جس نے دین میں اپنی ہی غرض کی باتیں کیں، تو وہ راندہ شیطان ہوا، اور کلمۂ ’’اَعُوذ باللہ ‘‘ عربی زبان میں اس مطلب کے لئے بولا کرتے ہیں، کہ میں اس شخص کے پاس جاتا ہوں، جو مجھے (بچانے کے لئے) کافی ہے، پس دیندار لوگ اسی شخص کے پاس جاتے ہیں، جس کو اللہ تعالیٰ نے (اسی کام کے لئے ) قائم کر دیا ہے، جس کی ذمہ داری لوگوں کو اسی طرح بچانا ہے، اور وہ دیندار لوگ اسی شخص کے ذریعہ مکار شیطان (کے فریب) سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں (اور خدا) نے اس پناہ دینے کے کام کو اپنا کام قرار دیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے قول کے ذریعہ اس مطلب کو واضح کر دیا ہے: ۔
’’قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ= (اے رسول!) آپ کہئے کہ میں اپنے آپ کو لوگوں کے پروردگار کے پاس محفوظ رکھتا ہوں، مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ =جو لوگوں کا بادشاہ اور ان کا خدا ہے ۔‘‘ اس کی تاویل یہ ہے، کہ لوگوں کی روحانی پرورش اس شخص سے ہونی چاہئے، جس کو اس بارے میں خدا کا فرمان حاصل ہوا ہو، جو خدا کی خاص بادشاہی میں رہتا ہو، اور اس کے فرمان پر عمل کرتاہو، چنانچہ بندہ آقا کے حکم پر عمل کرتا ہے اور وہ اپنی ذات سے کچھ بھی نہیں کرتا، جس طرح آزاد لوگ اپنی آزادی سے کام کرتے ہیں۔
’’مَلِکْ‘‘ اور ’’ربّ‘‘ اللہ تقدس و تعالیٰ ہی ہے، اس ترتیب میں سب سے پیچھے لفظ ’’الٰہ‘‘ فرمایا گیا۔ ’’ربّ‘‘ سب سے پہلے ارشاد ہوا، اور ’’مَلِک‘‘ درمیان میں فرمایا گیا، اس لئے کہ پروردگار ایک ایسا نام ہے، جو ہر شخص کے لئے استعمال ہو سکتا ہے، جیسے: بچوں، مویشیوں وغیرہ کا پالنے والا ( پروردگار) پھر مَلِک رَبّ سے
۱۵۰
زیادہ خاص ہے، اور اِلہ مَلِک سے زیادہ خاص ہے، اور اس نام میں کوئی مخلوق حصہ دار نہیں ہوسکتی۔
جب شیطانِ رجیم سے بچنے کے لئے اس طرح کی پناہ لی جائے تو راندہ شیطان ایسے شخص پر غالب نہ آسکے گا، کہ اس کو فریب دے اور گمراہ کر سکے، اور جب کوئی انسان خدا کو نہ پہچانے، اور شیطان کو نہ پہچانے، تو وہ حق تک نہیں پہنچ سکے گا، اور مومن کا نفس اس شخص کے ذریعہ پاک ہونا چاہئے، جس کے پاس وہ پناہ لیتا ہے، اور اس شخص کی وجہ سے ناپاک نہ ہوجانا چاہئے، جس سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہوا ہے، اور جب اس مومن نے ان دونوں کو پہچان لیا، تو وہ پاک ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:۔
’’إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (۱۶: ۹۹)
یقیناً ان لوگوں پر شیطان کا کوئی غلبہ نہیں، جو (حقیقی) مومن ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔‘‘ پس خاندانِ برحق کے دشمن سے مومن کی حفاظت امامِ زمانؑ ہی کے ذریعہ ہے۔
۱۵۱
کلام۔ ۱۴
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کی تاویل کے بارے میں
ہم اللہ تعالیٰ کی (عطا کردہ) توفیق سے بیان کرتے ہیں، کہ کلمۂ اخلاص (لاَ اِلٰہَ الّا اللہ) سے دانشمند کے لئے یہ ظاہر ہو جاتا ہے، کہ جو کچھ (بظاہر موجود) ہے، جب اس کو خدا سے نسبت دی جائے تو وہ چیز منفی (نفی کی گئی) قرار دی جاتی ہے، یعنی وہ چیز فی الحقیقت یا تو ’’نیست‘‘ ہے، یا نیست ہونےوالی ہے، اور خدائے تعالیٰ مثبت (ثابت و برقرار رکھنے والا) ہے، کیونکہ وہی تو ہست و نیست کا بادشاہ ہے، اس لئے، کہ ہست کو نیست سے اسی نےپیدا کر دیا ہے، اس کے بعد اَعُوْذ بِاللہ کے قول سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے، کہ راستہ دکھانے والا کون ہے، اور راستے سے بھٹکانے والا کون ہے، نیز (یہ کہ) وہ شخص کونسا ہے، جس کی طرف لوگوں کو رجوع کرنا چاہئے، اور وہ شخص کونسا ہے، جس سے لوگوں کو بھاگ جانا چاہئے، پھر اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں، کہ تم اس شخص کا اثبات کر لو جو تم کو پناہ دینا اور ثابت قدم رکھنا اسی کےلئے شایان ہے۔
پس ہم ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ‘‘کا بیان کردیتے ہیں، جس میں اسم ’’اللہ‘‘ اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ خدائے تعالیٰ نے ابتدائی چیزوں کو
۱۵۲
نیستی ہی سے پیدا کر دیا، کیونکہ ’’اللہ‘‘ ایک ایسا نام ہے جو کسی دوسرے لفظ سے بنا ہوا نہیں (یہ اس لئے ایسا ہے) تاکہ باعتبارِ لفظ خدائے تعالیٰ کے ساتھ معنی کی نسبت ہو جائے، یہ مثال ’’کسی چیز سے بغیر‘‘ چیز پیدا ہو جانے کی ہے، یعنی یہ مثال اس حقیقت کی دلیل ہے، کہ خدائے تعالیٰ نے روحانیوں کو کسی چیز سے بغیر پیدا کردیا، اور یہ دونوں مثالیں (یعنی غیر مشتق نام اور بغیر چیز سے چیز کا پیدا کرنا) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں، پھر اس ترتیب میں ’’رحمٰن‘‘ دوسرا نام ہے، جو رحم سے مشتق ہے، چنانچہ رسول علیہ السلام نے فرمایا ہے:۔
’’اِنَّ اللہ اَحَبَّ الاَر حَامَ وَاَمَرَ بِوَصْلِھَا وَ اشْتَقَّ لِنَفْسِہِ اِسْماً مِنْھَا وَھُوَ الرَّحْمٰنُ‘‘۔
بے شک اللہ تعالیٰ قرابت داروں کو (ان کی باہمی قرابت کی وجہ سے) دوست رکھتا ہے، اور اس نےاس قرابت (یعنی صلۂ رحم) کو قائم رکھنے کے لئے امر کیا ہے، اور اس نے اس (لفظِ رحم) سے اپنے لئے ایک اسم مشتق کیا ہے، اور وہ (اسم) رحمٰن ہے، تو (یہ حقیقت اس امر کی) دلیل ہے، کہ اللہ تعالیٰ ظاہرچیزوں کو پوشیدہ چیزوں سے پیدا کردیتا ہے، جس طرح رحم (بچہ دان) اپنی ظاہر چیزوں کو پوشیدہ چیزوں سے پیدا کر دیتا ہے۔
اسمِ ’’رحیم‘‘ لفظِ رحمت سے بنا ہے، اور رحمت نے ظاہر چیزوں کو بھی آغاز ہی سے گھیر لی ہے، اور پوشیدہ چیزوں کو بھی اس نے ہمیشہ سے گھیر لی ہے، اور رحمت مہر کا نام ہے، جو دل میں پیدا ہوا کرتی ہے، (جس کی خاصیت یہ ہے) کہ یہ دوسروں کے لئے ہر قسم کی نیکی کرا لیتی ہے، یا دوسروں سے بدی زائل کرا دیتی ہے، پس خدائے تعالیٰ ہماری ظاہری ضروریات میں ہم پر رحمٰن ہے، یعنی ہمیں کھانے، پینے، پہننے،اور دنیا کی دوسری چیزیں عطا کر دینے والا ہے، نیز وہ ہمارے باطن پر رحیم (رحمت کرنے والا) ہے، یعنی ہمارے نفوس کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ چیز اپنے انبیا ٔ اور ان کے نمائندوں کی زبان پر ہمیں
۱۵۳
پہنچا دینے والا ہے، اس مطلب کی تشریح ( یہ ہے، کہ جن حضرات کی زبان پر خدا کی رحمت ہمارے لئے نازل ہوا کرتی ہے ان میں اوّلین شخص) پیغمبر (صلعم) ہیں، پھر ان کے وصیؑ ہیں، پھر امامِ زمانؑ ہیں، اور انہی (یعنی امامِ زمانؑ ) کے ذریعہ ان کے ماتحت درجات کو یہ رحمت پہنچتی ہے۔
یہ آیت یعنی بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ چار کلمات (بسم۔ اللہ۔ الرّحمٰن۔ الرّحیم) پر مبنی ہے، اور دس حروف سے ہے، جیسے: ب، س، م، ا، ل، ہ، ر، ح، ن، ی، اور نو پاروں میں ہے، جیسے بسم۱۔ ا۲۔ للہ۳۔ا۴۔ لر۵۔ حمٰنّ۶۔ ا۷۔ لر۸ حیم۹، اور اس کے حروف مجموعی طور پر اُنیس (۱۹) ہیں، اور اس آیت کے دس بنیادی حروف میں سے پانچ حروف غیر مکرر ہیں، یعنی دہرائے ہوئے نہیں ہیں، جیسے: ب، س، ہ، ن ، ی ، اور پانچ حروف مکرر ہیں، یعنی دہرائے ہوئے ہیں، جیسے: م، ا، ل، ر، ح۔
پس ہم اس کی تاویل کرتے ہیں، کہ اس آیت کے چار کلمے چار اصولِ دین پر دلیل ہیں، جو دو روحانی اور دو جسمانی ہیں، اور اس کے نو پارے، دو جسمانی حدود اور سات بڑے ادوار کے مالکوں پر دلیل ہیں، اور وہ پانچ حروف جو ایک بار آئے ہیں، پانچ حدودِ روحانی پر دلیل ہیں، جو بے بدل اور باقی ہیں، جیسے: اوّل، ثانی، جدّ، فتح اور خیال، اور وہ پانچ حروف جو اس میں دہرائے گئے ہیں، پانچ حدودِ جسمانی پر دلیل ہیں، کہ ہر دور میں ان کا مرتبہ جاری ہے، جیسے ناطق، اساس، امام، حجت اور لاحق (داعی) اور ’’بسم‘‘ کے تین حروف کا ’’اللہ‘‘ کے چار حروف سے پہلے آنا اس بات کی دلیل ہے، کہ تین فروع یعنی لاحق، حجت اور امام ہی کے ذریعہ چار اصولِ دین کی پہچان حاصل کی جاسکتی ہے، اور طہارت میں بھی تین سنتیں ہیں: وضو کرنا، کلی کرنا اور ناک میں پانی لگانا، جو ان چار فرائض سے پہلے آتی ہیں، چہرہ دھونا، ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا، سر پر مسح کرنا، اور پاؤں پر مسح کرنا، اور بسم اللہ کے سات حروف کے بعد الرّحمٰن الرّحیم کے بارہ حروف ان بارہ حجتوں پر دلیل ہیں،
۱۵۴
جو سات اماموں کے بعد ہیں، جو ان اماموں سے (روحانی) تائید حاصل کر کے لوگوں کو پہنچا دیا کرتے ہیں (اسی طرح تمام بسم اللہ کے) مجموعی حروف انیس (۱۹) ہوتے ہیں، جو بڑے دور کے سات صاحبان اور ان کے بارہ (مشترکہ) حجتوں پر دلیل ہیں، کیونکہ ناطقِ اوّل سے ناطقِ آخر تک (بمع قائم کے سات۱ ناطق) اور ان کے بارہ حجت، کل انیس ہوتے ہیں۔
نیز (یہ انیس ۱۹ حروف دلیل ہیں) چھوٹے دور کے سات اماموں اور ان کے ان بارہ حجتوں پر، جو ان کے فرزندوں میں سے ہیں، کہ یہی لوگ اہلِ دوزخ پر یعنی نادانوں پر مؤکل ہیں، تاکہ یہ مؤکل ان نادانوں کو دوزخ سے چھڑا دیا کریں، جبکہ اہلِ دوزخ فرمانبرداری کریں اور خدائے تعالیٰ نے اس آیت کے بموجب ان (انیس حضرات) کی مثال مالکانِ دوزخ سے دی ہے، جو فرماتا ہے:۔
’’عَلَیْھَا تِشْعَۃَ عَشَرَ (۷۴: ۳۰) اس (دوزخ) پر انیس ۱۹ فرشتے (مؤکل) ہیں۔‘‘ اور خلائق کے نفوس کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں لانے کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہی سات اور بارہ مؤکل (کارکن) مقرر ہیں، تاکہ خلائق (انہی کے ذریعہ، ابدی نعمتوں کو حاصل کر سکیں، جس طرح خلائق کے اجسام کی پرورش کے لئے سات سیّارے اور بارہ بروج مؤکل ہیں، تاکہ وہ لوگ اس جہان کی چند روزہ نعمت کو حاصل کرسکیں، اور لوگ اپنے کاموں میں تسمیہ کے چار کلمات میں سے دو ۲ یعنی بسم اللہ پہلے پڑھا کرتے ہیں، جس کے دو ۲ سبب ہیں، ایک سبب یہ ہے کہ یہ دونوں پہلے کلمے (بسم اور اللہ) دو حدِ جسمانی (ناطق اور اساس) پر دلیل ہیں، اور انسان کا کسی روحانی حد تک پہنچ جانا جسمانی حد ہی کے وسیلے سے ممکن ہو سکتا ہے، اور جسمانی ہم جنسیت کے سبب سے انسان جسمانی حد کے ساتھ زیادہ آشنا ہو
؎۱۔ سات ۷ ناطق یہ ہیں: آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ ، عیسیٰ ؑ، محمدؐ اور قائم ؑ(اساس التاویل فٹ نوٹ ص ۷۵ و متن ص ۷۹)
۱۵۵
جاتا ہے، اور دوسرا سبب یہ ہے کہ بِسم اللہ کے یہ سات حروف جن سے یہ دونوں کلمے بنے ہیں، سات بڑے ادوار کے صاحبان پر دلیل ہیں، کہ وہ خود تو آشکار ہیں، مگر ان کے (بارہ مشترکہ) حجت پوشیدہ ہیں، لیکن وہ مومنوں سے پوشیدہ نہیں ہیں، پس انسان ان سات حضرات کو ان بارہ حضرات کی بہ نسبت زیادہ پہچانتا ہے، جس طرح سات ۷ سیّاروں کو تو ہر شخص دیکھ سکتا اور پہچان سکتا ہے، مگر بارہ بروج کو سوائے ان لوگوں کے جہنوں نے علمِ نجوم پڑھا ہے، دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے ہیں اور نہیں پہچان سکتے ہیں۔
نیز ہم یہ بیان کریں گے، کہ بسم اللہ (کا مطلب) خدا کا (ایک خاص) نام ہے، اور خدا کا (وہ) نام اپنے دور میں رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں، اور ان کے وصیؑ اپنے زمانے میں خدا کا (وہی) نام ہیں، اور امامِ زمانؑ ہر زمانے میں خدا کا (وہی حقیقی) نام ہیں، اس قول کی حقانیّت پر دلیل یہ ہے، جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’ وَلَا تَا کُلُوْ امِمَّا لَمْ یُذْ کَرِ اسْمُ اللہِ عَلَیْہِ (۰۶: ۱۲۱)
اور مت کھایا کرو، اس چیز سے جس پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو۔‘‘ پھر جس چیز سے رسول علیہ السّلام نے کھانے کے لئے نہ فرمایا ہو، اگر اس پر سو دفعہ خدا کا (کوئی لفظی) نام پڑھا جائے تو (پھر بھی) وہ چیز حلال نہ ہو سکے گی، پس خدا کا بزرگ ترین نام رسول علیہ السّلام ہوئے، کیونکہ ان کے فرمان کے بموجب جو چیز حرام ٹھہرائی گئی وہ پھر خدا کے کوئی اور نام پڑھنے سے حلال نہ ہو سکی، اور جبکہ رسول علیہ السّلام خدا کا (حقیقی ) نام ہیں، تو رسول کے وہ فرزند جو آنحضرتؐ کے فرمان کے بموجب حضور کے مقام پر قائم ہوئے ہیں، خدا کا وہی نام ہیں، اور قول و فعل میں سے جو کچھ وہ حلال ٹھہرا تے ہیں، وہی حلال ہو جاتا ہے، اور جو کچھ وہ حرام قرار دیتے ہیں، وہی حرام ہو جاتا ہے، اور مذکورہ بالا آیت (وَلَا تَاکُلُوْا۔۔۔۔۔) کی تاویل یہ ہے (کہ خدا وند تعالیٰ رمز کے طور پر فرماتا ہے ) کہ تم اس شخص کو (حقیقی)
۱۵۶
علم کی باتیں نہ بتایا کرو، جس سے امامِ زمانؑ کا عہد نہ لیا گیا ہو، کیونکہ ذبح کرنے کی تاویل ہے: عہد لینا، اور کھانے کی تاویل ہے: علم حاصل کرنا، جس طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کہ جس (ذبیحہ) پر خدا کا نام نہ لیاگیا ہو، تم اس سے مت کھایا کرو، اس سے خدا تعالیٰ کی مراد یہ ہے، کہ (روحانی طور پر ) اس چیز سے مت کھایا کرو جو خدا کا نام یاد نہیں کرتی ہے، اور امامِ زمان ہر زمانے میں خدا کا نام ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس شخص نے امامِ زمانؑ کو نہ اپنایا ہو، اس کو علمِ تاویل کی باتیں نہ بتایا کرو۔
نیز بتا دیا جاتا ہے، کہ رحمٰن خدا کا ایک خا ص نام ہے، جس کی حقیقت مخلوق کے لئے عام ہے، اور رحیم خدا کا ایک عام نام ہے، جس کی حقیقت مخلوق کے لئے خاص ہے، اس قول کا مطلب یہ ہے کہ رحمٰن خدا کے سوا کسی اور کو نہیں کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ خدا کا خاص نام ہے، اور اس کے معنی دنیا میں روزی دینے والے کے ہیں، اور یہ حقیقت خدا کی طرف سے تمام فرمانبرداروں اور نافرمانوں کے لئے عام ہے، اور رحیم ایسا نام ہے، جو خدا کو بھی کہا جاتا ہے، اور مخلوقات میں سے بخش دینے والوں کو بھی، اور یہ عام نام ہوا کرتا ہے، اور اس کے معنی آخرت میں خدا کے بخش دینے اور معاف کر دینے کے ہیں، خاص فرمانبرداروں کے لئے ہے، نہ کہ عام فرمانبرداروں کے لئے۔
حدیث میں یہ روایت آئی ہے، کہ قیامت کے روز دوزخ (شیر کی طرح) غرائے گا، اور (اژدہے کی طرح) پھنکارے گا، جب رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تشریف لائیں گے تو پانی کا ایک پیالہ ہاتھ میں لے کر بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ لیں گے اور اس پانی پر دم فرمائیں گے اور اس پانی کو دفعتہً دوزخ پر ڈال دیں گے، تو فوراً آگ بجھ کر اس کی آواز دھیمی ہو جائے گی خدائے عزوجل کے فرمان سے اس کو ندا آئے گی، کہ اے آتشِ دوزخ! تجھے کیا ہوا کہ تو خاموش ہوگئی اور دھیمی رہی ، دوزخ جواب دے گا، کہ (یا رب!) تیرے نام کے مقابلے کے لئے میری کوئی طاقت نہیں۔
۱۵۷
اس حدیث کی تاویل یہ ہے، کہ خاندانِ حق کا دشمن ہی دوزخ ہے، جو محض اپنے لوگوں کے سامنے غراتا ہے، اور انہیں اپنی طاقت دکھاتا ہے، مگر جب حقیقت کے پانی سے (جو علمِ حق ہے) بقدر ایک پیالہ اس پر ڈال دیا جائے ( تو وہ لا جواب ہوجاتا ہے) یعنی جب کوئی مستجیب (امام کا ایک عام مرید) جو علمِ حق کے (سمندر کے ) پانی سے پیالہ بھر پانی کی مثال ہے، اس سے کوئی مسئلہ پوچھا کرے، تو وہ عاجز ہو جاتا ہے، اور اس کی آواز دھیمی ہو جاتی ہے، اس لئے کہ امامِ زمان خدا کا نام ہے، اور مستجیب پانی کا وہ پیالہ ہے، جس پر خدا کا نام پڑھا جاتا ہے، اور امام کے خاندان کا دشمن جو کہ امامِ باطل ہے، جب دوزخ ہے جب یہ پانی اس پر ڈال دیا جائے تو اس کی ساری قوّت کمزور ہو جائے گی، بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بارے میں واضح اور صاف بیان یہی ہے، جس کا ذکر کیا گیا، اللہ تعالیٰ اپنے اسمِ اعظم کی قوّت سے دوزخِ جہالت کے دروازے کو مومنوں سے (دور اور ) بند رکھے! اور ہمیں توفیق عطا فرمائے!!
۱۵۸
کلام ۔ ۱۵
طہارت اور اس کے آداب کے بارے میں
ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بیان کر دیتے ہیں، کہ طہارت نماز کا دروازہ ہے جس طرح ایمان لانا دینِ اسلام کا دروازہ ہے (اور موجودات میں کوئی چیز ایسی نہیں، جس کا ظاہر اور باطن نہ ہو، پس جس طرح طہارت کا ظاہر ہے، اسی طرح اس کا باطن بھی ہے) طہارت کا ظاہر ( یہ ہے، کہ اس میں متعلقہ اعضاء کو) پانی سے دھو لیا اور مسح کر لیا جاتا ہے، جبکہ پانی مل سکے، اور مٹی سے تیمم کر لیا جاتا ہے، جبکہ پانی حاصل نہ کیا جاسکے، طہارت کے باطن کا خلاصہ (دعوت قبول کرنے والے سے ) امامِ زمان کا عہد لینا، اور خدا کے اولیا ٔ کے دوشمنوں سے بیزار ہو جانا ہے، اور نماز خدا کے اولیا ٔ کے ساتھ مل جانے پر دلیل ہے۔
طہارت پاک پانی کے بغیر جائز نہیں، اور پاک پانی علمِ بیان (تاویل) کی مثال ہے، جسم کی نجاست پانی سے دھل جاتی ہے، اور جان کی نجاست علمِ بیان سے دھل جاتی ہے۔
نیز جس طرح ظاہری نماز طہارت کے بغیر جائز نہیں ہوسکتی، اسی طرح عہد لئے بغیر کسی کو علمِ حقیقت کی تعلیم دینا جائز نہیں، کیونکہ عہد لینا طہارت کا باطن اور علمِ حقیقت نماز کا باطن ہے، جسم کی نجاستیں، بول، براز، خون، پیپ اور دُبر سے خارج ہونے والی ہوا سے واقع ہوتی ہیں، اور جان کی نجاستیں جہالت،
۱۵۹
نافرمانی، شرک، تشبیہ۱، تعطیل۲ خدا کے اولیاء کے دشمنوں سے دوستی اور خدا کے اولیاء کے دوستوں سے بیزاری ہیں۔
فصل ۱۔
جس چیز کی وجہ سے طہارت واجب ہوتی ہے، وہ ایک ایسی نیند ہے جو انسان کی عقل کو مٹا دیتی ہے، یا اس چیز سے طہارت واجب ہوتی ہے، جو اگلے یا پچھلے مجرا سے نکل آتی ہے (اب سن لو کہ نیند کی تاویل کیا ہے، یا یہ کہ حقیقت میں نیند کسے کہتے ہیں) حکمت، علمِ حقیقت اور امامِ حق کی پہچان سے غفلت (بے توجہی) تاویل میں نیند کہلاتی ہے، اور وہ بے شعور سویا ہوا شخص، جس کو دنیا کی کوئی خبر ہی نہیں، اس شخص کا نمونہ ہے، جو سچے دین کے راستے سے غافل رہتا ہے، اور جو چیزیں اگلے اور پچھلے مجرا سے نکل آتی ہیں، وہ دینی مخالفوں کے اعتقادات اور ان کے اپنے پلید نفوس ہی سے نکالی ہوئی بدعتوں کے نمونے ہیں، خواہ یہ چیزیں نادرست ظاہری طاعت کی وجہ سے ہوں، جو پچھلے مجرا کی مثال ہے، یا بے حقیقت تفسیر کے سبب سے، جو اگلے مجرا کی مثال ہے، پس جس شخص پر غفلت پڑی ہو تو وہ شخص یا تو جسمانی طور پر یا روحانی طور پر مخالفوں کی بدعت سے متاثر ہوا ہوگا پھر اس پر واجب ہے، کہ علمِ حقیقت کے ذریعہ ان نجاستوں اور غفلتوں کو اپنے آپ سے دور کر دے۔
؎۱، ؎۲: فلسفیوں کی اصطلاح میں تشبیہ وہ عقیدہ ہے، جس میں خداوند تعالےٰ کو کسی چیز کے مانند قرار دیا جاتا ہے، اور تعطیل وہ عقیدہ ہے، جس میں یہ سمجھا جاتا ہے، کہ تخلیق کے کام میں خداوند تعالیٰ کی کوئی مداخلت ہی نہیں، نہ مخلوق کے ساتھ اس کی ذات کا کوئی رابطہ ہے۔
(از، فرہنگِ امیرِ کبیر)
۱۶۰
فصل ۲۔
رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا فرمان ہے: ’’ لَا طھارۃ اِلَّا بِنِیَّۃ، یعنی نیت کے بغیر طہارت جائز نہیں۔‘‘ تو نیت کی تاویل خاندانِ حق کی دوستی ہے، کیونکہ ان کی ولایت اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی ہے، اور کوئی بھی عمل ان کی ولایت کے بغیر مقبول ہو نہیں سکتا، اور جو شخص طہارت کی نیت کرے، تو وہ اس میں بِسم اللہ پڑھتا ہے، ( اور بِسمِ اللہ خدا کا نام ہے) اور خدا کا حقیقی نام تو امامِ زمانؑ ہیں، نیز وصی اور رسول دونوں اپنے اپنے وقت میں خدا کا حقیقی نام ہیں، کیونکہ انہی کے ذریعہ کسی کو خدا کی پہچان ہو سکتی ہے، جس طرح چیزوں کی پہچان چیزوں کے ناموں ہی سے ہو سکتی ہے، اور طہارت کرتے وقت مومن کا بِسْم اللہ پڑھ لینا اس کے اس اعتقاد کو ظاہر کرتا ہے، ( جس میں وہ سمجھتا ہے) کہ وہ خدا کے ولی کے ذریعہ خدا تک پہنچ سکتا ہے، تاکہ وہ اپنے آپ کو خدا کے ولی کے دشمنوں سے (بچا کر) خدا کے حضور میں پاک رکھ سکے۔
فصل ۳۔
طہارت کا تعلق سات اعضا سے ہے، جن میں سے چار اعضا کی طہارت فریضہ ہے، جیسے: چہرہ دھونا، ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا، سر پر مسح کرنا اور پیروں پر ٹخنوں تک مسح کرنا، یہ چار فریضے ناطق کی مثال ہیں ، کیونکہ ان کے چار مرتبے ہیں، نبوت، وصایت، امامت اور بابیت اور تین اعضا کی طہارت سنت ہے، جیسے: وضوکرنا، کلی کرنا، اور ناک میں پانی لگانا، یہ تین سنتیں اساس کی مثال ہیں، کیونکہ ان کے تین مرتبے ہیں، وصایت، امامت اور بابیت، مگر ان کو نبوّت کا حصہ نہیں۔
طہارت کا آغاز سنتوں سے ہوا کرتا ہے، اس لئے کہ اساس ہی کے ذریعہ ناطق کے بیان اور ان کی پہچان تک کسی کو رسائی ہو سکتی ہے۔
طہارت کی ترتیب یہ ہے، کہ سب سے پہلے ہاتھوں کو دھولیا جاتا ہے،
۱۶۱
خواہ ہاتھ میلے ہوئے ہوں یا صاف رہے ہوں، بہر حال ان کو دھو لینا چاہئے، دایاں ہاتھ ناطق کی دلیل ہے، اور بایاں ہاتھ اساس کی دلیل ہے، اور دونوں ہاتھوں کو دھولینے کی تاویل یہ ہے، کہ اگر مومن کو کسی ایسے طعنے کی وجہ سے ، جو کسی مخالف نے دیا ہے، ناطق و اساس کے متعلق کوئی شک واقع ہوا ہو، اور اس نے اس پر (کسی حد تک) باور بھی کیا ہو، تو سمجھ لو کہ وہ ان کے حق سے (کسی حد تک) منکر ہوا ہے، پھر اس کو چاہئے کہ اس سے باز آئے اور توبہ کرے (اور اگر اس نے توبہ کر لی) تو روحانی طور پر یہی اس کا ہاتھ دھونا ہے، پس مومن کا وہ اعتقاد، جو ناطق اور اساس کے بارے میں تھا، خواہ بگڑا ہو ( یا نہ بگڑا ہو) مگر اس صورت میں اس کو توبہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جس طرح (ظاہری طہارت کی مثال ہے، کہ) اگر ہاتھ میلے ہوئے ہوں یا صاف رہے ہوں (بہر حال) ان کو دھو لینا چاہئے، اور پانی کے برتن کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہئے۔
پانی کے برتن کو دائیں ہاتھ کی طرف رکھنا چاہئے، پانی کا برتن داعی کی مثال ہے، اور اس میں جو پانی ہے، وہ داعی کے علم کی مثال ہے، (دائیں ہاتھ ناطق کی مثال اور بائیں ہاتھ اساس کی مثال ہونے کے علاوہ) دوسری وجہ سے دائیں ہاتھ داعی کی مثال ہے، اور بائیں ہاتھ مستجیب کی مثال ہے، اور دھوتے وقت دونوں ہاتھوں کا ایک دوسرے سے لپٹ جانا، مستجیب فائدہ حاصل کرنے کے لئے داعی کے ساتھ مل جانے اور داعی فائدہ دینے کے لئے مستجیب کے ساتھ مل جانے کی مثال ہے، اور جس قدر بائیں ہاتھ دائیں ہاتھ کے اندر ملتا جاتا ہے، اس قدر دائیں ہاتھ اس کو پاک کر دیتا ہے، اس کی تاویل یہ ہے، کہ مستجیب داعی سے جس قدر پوچھے تو داعی علمِ بیان کے ذریعہ اس کے نفس کو اس قدر پاک کر دیتا ہے۔
جب دونوں ہاتھ دھل کر پاک ہو جائیں، تو دائیں ہاتھ پانی ڈالتا ہے، اور بائیں ہاتھ وضو کی جگہ دھو لیتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ داعی تعلیم دیتا ہے، اور مستجیب یہ تعلیم حاصل کرتاہے، اور اس علم کے ذریعہ وہ اپنی جان کو گناہ کی نجاست اور
۱۶۲
نافرمانی کی آلائش سے دھویا کرتا ہے۔
ایک اور وجہ سے دائیں ہاتھ امام کی مثال ہے، اور بائیں ہاتھ حجت کی مثال ہے، اور پانی امام کے علم کی مثال ہے، اور حجت کو علم امام سے آتا ہے، جس طرح طہارت کے وقت بائیں ہاتھ کو پانی دائیں ہاتھ سے آتا رہتا ہے، اور حجت جو عہد مومن سے لیا کرتا ہے، وہی اس مومن کی (روحانی) طہارت ہے، کیونکہ (اسی عہد کے ذریعہ ) اس کی جان نافرمانی کی نجاست سے پاک ہو جاتی ہے۔
اگر بائیں ہاتھ میں کوئی درد ہے، تو دائیں ہاتھ سے طہارت کر لی جاتی ہے جس کی تا ویل یہ ہے، کہ اگر امام نے کس سبب سے حجت قائم نہیں کر دیا ہو تو وہ خود ہی عہد لیا کرتے ہیں۔
پاک ہو جانے کے لئے کوئی حد مقرر نہیں، کہ کس حد تک دھونا چاہئے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ یہ ظاہر نہیں، کہ مومن کے نفس کے لئے کتنا علم چاہئے، تاکہ وہ اس تشبیہ و تعطیل سے پاک ہو، جو خدا کے اولیاء کے دشمنوں نے رکھی ہے۔
جب وضو کر لیا جائے تو ہاتھوں کو دوبارہ دھولیا جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ جب مومن علمِ حقیقت تک پہنچ جائے، تو اسے اس کی قدردانی کے لئے داعی کی طرف رجوع کرنا واجب ہے، کہ اگر تیرا یہ علم نہ ہوتا، تو میں اسی اگلی گمراہی میں رہ جاتا۔
اس کے بعد دائیں ہاتھ سے تین دفعہ یا ایک دفعہ منہ میں پانی لگایا جاتا ہے، اس کا اشارہ یہ ہے، کہ داعی یہ ظاہر کر دیتا ہے، کہ یہ علم، جو تو نے مجھ سے سنا، مجھ سے منسوب نہ کر، کیونکہ یہ علم مجھے حجت سے ملا ہے، اور حجت کو امامؑ سے ملا ہے، کیونکہ تین دفعہ کلی کرنا، ان تینوں حضرات کی مثال ہے۔
منہ حجتِ جزیرہ کی مثال ہے، اس لئے کہ منہ جسمانی خوراک کا دروازہ ہے، اور حجتِ روحانی خوراک کا دروازہ ہے، اور امامؑ کا علم لوگوں کو صاحبِّ جزیرہ کے بغیر نہیں پہنچتا۔
۱۶۳
منہ میں دانت ہوتے ہیں، اور وہ ان حدود کی مثال ہیں، جو صاحبِّ جزیرہ (حجت) کے تحت مقرر ہوتے ہیں، اور مسواک کرنا، حجت کے اپنے داعیوں کو علم دینے کی مثال ہے، تاکہ وہ سب اس کی وجہ سے پاک اور نیک نام ہوجائیں، نیز جس طرح مسواک کرنے سے منہ صاف اور خوشبودار ہو جاتا ہے، اسی طرح حجت اپنے داعیوں کی وجہ سے زیادہ پاک اور نیک نام ہو جاتا ہے۔
منہ میں زبان ہوتی ہے، یہ اس داعی کی مثال ہے، جو حجت کے حلقۂ خاص میں رہتا ہے۔
اس کے بعد ناک میں پانی لگایا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ داعی مستجیب کے لئے یہ ظاہر کر دیتا ہے، کہ جب تو نے علم حجت سے سیکھ چکا تو اس کو حجت کی نسبت نہ دے، اور ایسا گمان نہ کر کہ یہ علم حجت کا ہے، بلکہ حجت کے علم کو امام سے منسوب کر دے۔
ناک، امام کی مثال ہے، اور منہ حجت کی مثال ہے، منہ اور ناک سے حجت و امام کی مثال اس لئے دی گئی ہے، کہ حجت اور امام نفوس میں وہی کام کر تے ہیں جو کام منہ اور ناک انسانی جسم میں کرتی ہیں، اس لئے کہ اگر منہ اور ناک بند ہوجائیں تو انسانی جسم بگڑ جاتا ہے، اسی طرح اگر حجت اور امام کا علم خلائق کے نفوس سے روک لیا جائے، تو یہ سب نفوس مر جائیں گے (یعنی روحانی قسم کی موت ان پر واقع ہوگی، اور وہ ابدی بہشت میں نہ پہنچ سکیں گے۔
منہ سے بولا جاتا ہے، اور ناک سے نہیں بولا جاتا، مگر وہ کافی دور سے بو محسوس کر لیتی ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ حجت داعیوں اور لوگوں کو بات کے ذریعہ علم دیا کرتا ہے، مگر امام (علیہ السّلام) حجت کو امر۱ اور خیال۲ کے ذریعہ علم دیتا رہتا ہے۔
؎۱: امر سے کلماتِ تامّہ مراد ہے، جو علم و حکمت کے کلیدی اصولات ہیں۔
۲: خیال نورانی تصورات اور روحانی اشکال کو کہتے ہیں، امرو خیال کے ذریعہ کس طرح روحانی معجزاتی تعلیم دی جاتی ہے، اس کا تفصلی بیان ایک چھوٹی سی کتاب ’’درختِ طوبیٰ‘‘ میں آئے گا۔
۱۶۴
ناک سے منہ تک راستہ جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ امام سے حجت تک پوشیدہ تائید کا سلسلہ لگا ہوا ہے۔
خواہ انسان سویا ہوا ہو یا بیدار ہو، ناک برابر سانس لیتی رہتی ہے اور اس کو زندہ رکھتی ہے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ خواہ سارے لوگ حق سے آگاہ ہوں یا بے خبر ہوں، مگر امام (علیہ السّلام) متواتر و مسلسل اپنا کام کرتے رہتے ہیں، ہمیشہ لوگوں پر فیض برساتے ہیں اور ان کے نفوس کو زندہ رکھتے ہیں۔
منہ کا ایک ہی سوراخ ہے، مگر ناک کے دو سوراخ ہیں، یہ اس بات پر دلیل ہے، کہ امام کے لئے علم کا مادّہ دو اصلوں سے ہے، یعنی ناطق اور اساس سے، اور حجت کے لئے علم کا مادّہ امامؑ سے ہے۔
مذکورہ تین اعضاء کو طہارت کے شروع میں دھولینا سنت ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ یہ تینوں گماشتے ( یعنی داعی، حجت اور امامؑ) ان چار اصول کی طرف سے ہیں، جن کی مثال طہارت کے چار فرائض سے دی گئی ہے۔
پہلے ان تین سنتوں پر، پھر ان چار فرائض پر عمل کیا جاتا ہے، جس طرح (تسمیہ میں) پہلے ’’بِسم‘‘ کے تین حروف، پھر ’’اللہ‘‘ کے چار حروف پڑھے جاتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں، کہ مومن کو سب سے پہلے داعی کے مرتبے کا اقرار کرلینا چاہئے، پھر حجت اور امامؑ کے مرتبے کا، کیونکہ جب تک تم ان تینوں حدود کو نہ پہچانو، تب تک ان چاروں اصول کو نہیں پہچان سکو گے، اور دنیا ان تینوں فروع سے ہر گز خالی نہ رہے گی۔
اس کے بعد منہ (چہرہ) دھو لیا جاتا ہے، اور چہرہ ناطق کی مثال ہے جس کی تاویل یہ ہے، کہ جس طرح لوگوں کو ان کے چہروں سے پہچان لیا جاتا ہے اسی
۱۶۵
طرح دین کو ناطق کے ذریعہ پہچان لیا جاتا ہے۔
چہرے کے سوا باقی سارے اعضاء کو چھپایا جاتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ناطق کے سوا باقی سب حدود، دین میں چھپے ہوئے ہیں۔
تمام اعضاء چہرے ہی سے پہچانے جاتے ہیں، (یعنی جب کسی کے چہرے کے بغیر ہاتھ یا پاؤں، وغیرہ نظر آئے، تو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس کا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ تمام عُلوی اور سفلی (یعنی روحانی اور جسمانی) حدود کو ناطق ہی کے اشارے سے پہچانا جاتا ہے، اس لئے کہ وہ دین کا چہرہ ہے۔
چہرہ چار حواس کا جامع ہے، جیسے: باصرہ (دیکھنے کی حس) سامعہ (سننے کی حس) شامہ (سونگھنے کی حس) اور ذائقہ (چکھنے کی حس) اس کے معنی یہ ہیں، کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ناطق علیہ السّلام کو چار بڑے مرتبے عطا ہوئے ہیں، چنانچہ باصرہ مرتبۂ ناطق کی مثال ہے، کہ اگر سامنے سے کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو باصرہ مشرق سے مغرب تک دیکھ سکتا ہے، اور سامعہ کو یہ مرتبہ حاصل نہیں، کیونکہ جس حد تک باصرہ دیکھ سکتا ہے اس حد تک سامعہ سن نہیں سکتا اور سامعہ اساس کے مرتبے کی مثال ہے کیونکہ جس حد تک سامعہ سن سکتا ہے اس حد تک شامہ سونگھ نہیں سکتا ، اور شامہ امام کے مرتبے کی مثال ہے (کیونکہ جس حد تک شامہ سونگھ سکتا ہے، اس حد تک ذائقہ چکھ نہیں سکتا) اور ذائقہ حجت کے مرتبے کی مثال ہے، کیونکہ جب تک تم کسی چیز کو منہ میں نہ ڈالو، تو اس کے ذائقے کو نہ سمجھو گے، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق، اساس، اور امام کے لئے تائید حاصل ہے، جس کے ذریعہ وہ ان چیزوں تک پہنچ سکتے ہیں، جو ہنوز (اب تک) ان کے پاس نہیں پہنچی ہوں، اور حجت کو یہ تائید حاصل نہیں، نیز اس مطلب کی تاویل، کہ جب تک اشیائے خوردنی میں سے کوئی چیز منہ میں نہ ڈالی جائے تو اس کا مزہ معلوم نہیں ہوتا، یہ ہے کہ جب تک حجت کسی (قول و عمل کے) ظاہر کو نہ دیکھ پائے، تو وہ اس کی تاویل نہیں کر سکتا ۔
ہاتھوں کو بازوؤں (کہنیوں) تک دھونا اساس کی مثال ہے، اس لئے کہ انسان
۱۶۶
قوتِ بازو سے کما کر پھر اپنے آپ پر خرچ کرتا ہے، اور بازو ہی کی مدد سے جسم کو پاک کرتا ہے، جس کے معنی یہ ہوئے، کہ نفوسِ خلائق کی تخلیق میں جو کچھ حکمت ہے، اس کا فائدہ اساس ہی کے ذریعہ مومنوں کے نفوس کو حاصل ہوتا ہے، اور مومنوں کی جانوں کی نجاست اساس ہی کے علم کے ذریعہ دور ہو جاتی ہے۔
چہرہ ایک ہوتا ہے اور ہاتھ دو ہوتے ہیں جس کی تاویل یہ ہے، کہ ناطق ظاہر کی طرح علم ایک بار ( ایک دفعہ) بتاتے ہیں اور اساس ظاہر اور اس کی تاویل دونوں بتاتے ہیں۔
پہلے منہ دھونا اور اس کے بعد بازو دھونا فرض ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے ناطق کے ظاہر کے لئے اقرار کرنا اور اسے قبول کرنا چاہئے، اس کے بعد اس ظاہر سے اساس کی تاویل میں جانا چاہئے۔
چہرہ دھونے کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی، جس طرح ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونے کی حد مقرر کی گئی ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ ناطق نے حدود کو ظاہر نہیں کیا، اور ان کے بارے میں پوشیدہ طور پر بتایا، اور اساس نے ان کو ظاہر کر کے مشہور کر دیا۔
سر کی دماغی طاقت چہرے میں جاری ہے، اور یہ طاقت ان حواس کو پہنچتی رہتی ہے، جو چہرے میں ہیں، اگر یہ قوّت نہ ہوتی تو یہ حواس ناکارہ ہو جاتے، جس کی حقیقت یہ ہے، کہ ناطقوں، اساسوں، اماموں، اور حجتوں کے لئے تائید ثانی، یعنی نفسِ کلّ سے مسلسل جاری ہے (جو موجودات کے ) سر کا درجہ رکھتا ہے۔
دھوئے جانے والے اعضا سے فارغ ہوجانے کے بعد سر پر مسح کیا جاتا ہے، جس کا اشارہ یہ ہے، کہ جب مومن جسمانی حدود تک پہنچے تو اس پر یہ واجب ہوجاتا ہے، کہ ان حدود کو نفسِ کلّ کی نسبت دے، کیونکہ ان کا قیام نفسِ کلّ پر ہے۔
سر تمام اعضا سے برتر ہے، اس کے معنی یہ ہیں، کہ نفسِ کلّ جسمانی حدود سے برتر ہے۔
۱۶۷
مسح کرنا ہستی کے اقرار کا اشارہ ہے، اور دھونا فرمانبرداری اور تابعداری کا اشارہ ہے، مسح اس لئے ہے، کہ جو اعضا جسمانی حدود کی مثال تھے، ان کو دھونے کے لئے فرمایا گیا، جس کے معنی یہ ہیں، کہ جسمانی حدود کی فرمانبرداری کرنی چاہئے، اور جو اعضا روحانی حدود کی مثال تھے، ان پر مسح کرنے کے لئے فرمایا گیا، جس کے معنی یہ ہیں، کہ انسان کی یہ طاقت نہیں، کہ کسی روحانی تک پہنچ سکے، مگر اس کی ہستی کے اقرار کے ذریعہ۔
سر بالوں میں چھپا ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ نفسِ کلّ پردے میں ہے، اور وہ بحقیقت پہچانا نہیں جاتا، مگر ان نظر آنے والی چیزوں کی دلائل سے۔
اس کے بعد پیروں پر مسح کیا جاتا ہے، جو عقلِ کلّ کی ہستی کے اقرار کا اشارہ ہے۔
سراور تمام اعضاء کو پیروں نے اٹھا رکھا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ نفسِ کلّ اور اس کے ماتحت حدود کا قیام عقلِ کلّ پر ہے، نہ کہ ان کی اپنی ذات پر۔
پاؤں دو۲ اور سر ایک ہے، جس طرح ہاتھ دو اور چہرہ ایک ہوتا ہے، اور پیروں کا مسح ٹخنوں تک محدود ہے، جس طرح ہاتھوں کا دھونا کہنیوں تک محدود ہوتا ہے، اور سر کے مسح کی کوئی حد نہیں ہوتی، جس طرح چہرہ دھونے کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، چہرہ اور سر ناطق اور نفسِ کلّ کی مثالیں ہیں، جو ایک تو صاحبِّ تنزیل اور دوسرا صاحبِّ ترکیب (تخلیق) ہے، اور ترکیب و تنزیل ایک دوسرے کے مانند ہیں، اور صاحبِّ تنزیل کا قول رمزو مثال میں غیرمحدود ہے ، جس طرح چہرہ دھونا غیر محدود ہوتا ہے مگر یہ قول عقلِ کُلّ کے نزدیک محدود ہے اور سر کا مسح غیر محدود ہے، اسی طرح ترکیبیں (تخلیقات) غیر محدود ہیں، اور پاؤں کا مسح محدود ہے (جس طرح رمزو مثال عقلِ کلّ کے نزدیک محدود ہوتی ہے، مگر اپنے طور پر) رمز و مثال نامحدود ہے، اور ناطق و اساس کے لئے محدود اور معلوم کر دی گئی ہے۔
ان سات اعضاء کو دھونے اور ان پر مسح کرنے کےیہ معنی ہیں، کہ مومن
۱۶۸
خدائے تعالیٰ کو علم میں ان حدود سے برتر سمجھے، جن کی مثال ان اعضا سے دی گئی ہے، اور وہ یہ کہے، کہ خدائے تعالیٰ کے ساتھ اس علم میں ان کی کوئی شرکت نہیں، بلکہ وہ خدا کے بندے ہیں اور قائم کئے گئے ہیں، تاکہ علم ہاتھوں ہاتھ گزار دیں اور مومنوں کی جان تک پہنچا دیا کریں۔
نیز جو دھوئے جانے والے اعضاء کو پہلے دھویا کرتے ہیں اور اس کے بعد سر اور پاؤں کا مسح کرتے ہیں، اس میں ناطق کی طرف سے یہ اشارہ ہے کہ پہلے میرے مرتبے کا اور میرے اساس کے مرتبے کا اقرار کریں، اور اس کے بعد عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے مرتبے کا اقرار کیا جائے۔
فصل ۴۔
ہم بتا دیتے ہیں، کہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پہلے عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ سے صحیح معنوں میں واقف نہیں تھے، اس لئے آنحضرتؐ نے ان کو محدود اور محسوس سمجھ لیا، پس اسی سبب سے آنحضرت اپنے سر اور پیروں کو ان اعضا ہی کی طرح دھویا کرتے تھے، جن سے جسمانی حدود کی مثال دی گئی ہے، جب ناطقیت کا مرتبہ ان کے لئے مکمل ہو چکا، اور روحانی معراج کے طور پر نفسِ کل کے آسمان پر راجع ہوئے تو آنحضرت نے روحانی حدود کو جیسا کہ ان کے پہچاننے کا حق تھا پہچان لیا، اس کےبعد (ہر طہارت کے موقع پر ) سر اور پیروں پر مسح کیا، اور اس سے امت کے لئے یہ ظاہر کر دینا تھا، کہ یہ دو حدود محسوس نہیں ہیں، (اس لئے صرف ان کی ہستی کا) اقرار کر لینا چاہئے، پس ان کے وصی علیہ السّلام نے اس اشارے کی حقیقت کو سمجھ لیا ، اور رسول کی مراد سے آگاہ ہوئے، اور انہوں نے (بھی) اپنے سر اور بالوں پر مسح کیا، اور ان کے مخالفین، جن کو اس حالت کی خبر نہ تھی اگلی حالت پر ہی ٹھہرے رہے اور انہوں نے یہ رائے و قیاس کیا، کہ اگر مسح جائز ہے، تو دھو لینا اس سے زیادہ مکمل اور زیادہ صفائی بخش ہوگا۔
۱۶۹
نیز ہم بتا دیتے ہیں، کہ رسول علیہ السّلام اپنی نبوّت کے آغاز میں موزے (جراب وغیرہ) اور پگڑی (کے ساتھ پاؤں اور سر) پر مسح کر لیا کرتے تھے، جبکہ دو اصل (عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ) کی تائید بذریعۂ خیال (جبرائیل) ان کو نہیں پہنچی تھی، اور ان دو عظیم روحانی اصل کا حال ان سے پوشیدہ تھا، پس اس لئے آنحضرتؐ نے جراب اور پگڑی پر ہی مسح کر لیا، اور اس سے یہ اشارہ فرمایا، کہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ مجھ سے پوشیدہ ہیں، اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کی بصیرت سے پر دہ کھول دیا اور روحانیوں کا حال ان پر روشن کر دیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ۔
لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ (۵۰: ۲۲)
آپ قبلاً اس واقعہ سے بے خبر تھے، اور ہم نے آپ پر سے آپ کا پردہ ہٹا دیا، تو آج آپ کی نگاہ بڑی تیز ہے۔‘‘ پھر اس کے بعد آنحضرتؐ نے ننگے سر پر اور ننگے پیروں پر مسح کیا، اور ان کے وصی نے اس حقیقتِ حال کو سمجھ لیا، اور ان کی یہ اشارت قبول کرتے ہوئے انہوں نے بھی پگڑی اور جرابوں پر مسح کرنا ترک کر دیا، اور حقیقی شیعوں نے ان کی پیروی کی، اور حق کے مخالفین پردے میں رہ گئے، اس لئے کہ یہ صورتِ حال ان سے پوشیدہ رہی، مگر رسول کے وصی کے لئے روشن ہوئی، آج وہ لوگ جو نہ تو عقلِ کلّ کو پہچانتے ہیں اور نہ نفسِ کلّ کو، لا علاج وہ جراب اور پگڑی ہی پر مسح کر رہے ہیں، یہ ان کی اپنی جہالت اور حق سے ناواقفیت کا اقرار ہے اور حقیقی شیعے ننگے سر اور پاؤں پر مسح کر لیتے ہیں، جو اشارۃً یہ کہتے ہیں ، کہ ’’حقیقتِ حال ہم سے پوشیدہ نہیں۔‘‘ وہ اسی وجہ سے جراب اور پگڑی پر مسح نہیں کرتے۔
فصل ۵۔
جب کوئی شخص سویا ہوا ہو اور نماز کا وقت آئے، تو وہ شخص جو بیدار ہے،
۱۷۰
اس سوئے ہوئے شخص کو ہلا کر جگا دیتا ہے، تاکہ وہ طہارت کر کے نماز کے لئے تیار ہو جائے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ نماز دعوتِ حق کی مثال ہے اور جگا دینے والا اس شخص کی مثال ہے، جس کو حق سے کچھ آگاہی حاصل ہے، جیسے ماذون اور داعی، اور وہ بے شعور سویا ہوا شخص جس کو دنیا کی کوئی خبر ہی نہیں، اس شخص کی مثال ہے، جو دینی امور سے غافل ہے، پھر ماذون پر واجب ہے، کہ ایسے غافل پر کوئی ایسی ’’کسر‘‘ کر کے اس کو ہلا دیا کرے تاکہ وہ (خوابِ غفلت سے) جلدی اٹھے، اور ’’کسر‘‘ یہ ہے کہ کسی شخص کے باطل اعتقاد کے متعلق اس کو یہ اندیشہ پیدا کر دے، کہ میرا اعتقاد حق ہے یا نہیں، تاکہ وہ طلبِ حق کے لئے جلدی کرے، اور علمِ حقیقت تک رسا ہوسکے۔
۱۷۱
کلام ۔ ۱۶
جنابت سے نہانے کے بارے میں
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کرتے ہیں، کہ جنابت سے نہانا جماع (کی ان صورتوں) میں واجب ہو جاتا ہے: پشت سے آب منی (اچھلتے ہوئے) اتر جانے سے، اگرچہ مکمل جماع واقع نہ ہوا ہو، دونوں ختنہ گاہوں کے آپس میں مل جانے سے (یعنی فرج میں حشفہ داخل ہو جانے سے) اگرچہ انزال نہ ہو، اور احتلام سے۔
لفظِ ’’جنابت‘‘ کے معنی دور ہونے کے ہیں، کیونکہ عرب والے دوری کو ’’مجانبت‘‘ کہتے ہیں، اور بیگانہ (یعنی دور والے) ’’اجنبی‘‘ کہتے ہیں، اور حقیقت میں (ان باتوں کی) تاویل یہ ہے کہ دعوتِ حق کے سلسلے میں بات کرنے والا شخص علم کو حق کے مالک (یعنی امامِ زمان) سے منسوب کرتا ہے، اور اپنے آپ کو اس علم کے دعویٰ سے دور کر دیتا ہے، جو بظاہر تو اسی نے بتایا ہے، اور اس کا اپنے آپ کو دھونا یہی ہے۔
جب انسان سے ایک ایسے پانی کے خارج ہو جانے پر اپنے آپ کو دھونا واجب ہوتا ہے، جس سے اس جیسا شخص پیدا ہوسکتا ہے، تو اس کی تاویل یہ ہے ، کہ جب انسان کی زبان سے ایسی بات نکلتی ہو، کہ جس سے روحانی تولید ہو سکتی ہے، اور لوگوں کے دل میں یہ بات نقش ہو جاتی ہے
۱۷۲
جس طرح نطفے سے جسمانی اور ظاہری قسم کی تولید ہوا کرتی ہے، تو اس شخص پر واجب ہوتا ہے، کہ اپنے آپ کو اس علمی بات کے دعویٰ سے دور کر دے اور اس بات کو سات اماموں سے منسوب کرے، پس اس کا روحانی طور پر اپنے آپ کو دھونا یہی ہے، جس طرح جسمانی مجامعت کے بعد اپنے آپ کو دھویا جاتا ہے، اور پانی کے ذریعہ سات اعضا یعنی سارے جسم کو پاک و صاف کیا جاتا ہے۔
حلال جماع کرنے والا اس شخص کی مثال ہے جو صاحبِّ زمان کی اجازت سے دینی و علمی بات کرتا ہے، اور حرام جماع کرنے والا اس شخص کی مثال ہے، جو اس اجازت کے بغیر دینی بات کرتا ہے، اور جس کو احتلام ہوتا ہے، وہ اس شخص کی مثال ہے، جو بلا ارادہ تاویل کی کوئی بات کر دیتا ہے، اس کے بعد وہ چونکتا ہے، کہ وہ تاویل کی بات تھی، تو اس پر ایسی بات کی وجہ سے کوئی گناہ لازم نہیں آتا، لیکن ایسی علمی بات کو بھی امامؑ سے منسوب کرنا چاہئے، جس طرح خواب میں جماع کرنے والے کو بھی نہانا ضروری ہے، چنانچہ روحانی مجامعت میں (یعنی دعوتِ حق میں ) علمی بات کرنے والا مرد کی طرح ہے، اور اس بات کو قبول کرنے والا عورت کی طرح ہے، اور دونوں پر جسمانی و روحانی جنابت میں نہانا واجب ہوتا ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ روحانی مجامعت میں دونوں کو چاہئے ، کہ اس کہی ہوئی اور سنی ہوئی علمی بات کو امام سے منسوب کریں، جس طرح جسمانی مجامعت میں مرد اور عورت نہایا کرتے ہیں، اور جماع کے بغیر انزال ہونے کی تاویل وہ بات ہے، جو کہی جاتی ہے، مگر سننے والے کو اس سے کوئی حقیقت نہیں کھلتی ، اور ان تمام وجوہ سے روحانی طور پر نہانا واجب ہوتا ہے، اور حقیقی مومن وہ ہے، جو جسمانی اور روحانی جنابت میں نہانا اپنے آپ پر واجب سمجھتا ہے۔
۱۷۳
کلام۔ ۱۷
مٹی سے تیمم کرنے کے بارے میں
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کرتے ہیں، کہ تیمم وہ طہارت ہے جو مجبوری کی حالت میں مٹی سے کی جاتی ہے، اور یہ دو اشخاص کے لئے جائز ہے، اس بیمار کے لئے جائز ہے، جس کو پانی کے غسل سے جسمانی ہلاکت کا اندیشہ ہوتا ہو، اور اس مسافر کے لئے جائز ہے، جس کو پانی نہیں ملتا ہو، پس اگر یہ دو اشخاص تیمم کریں تو روا ہے، اور بیمار کی تاویل وہ کمزور مستجیب ہے جس کو کوئی با اجازت شخص نہیں ملتا، تاکہ یہ اس سے دینی تعلیم حاصل کرتا، تو اس کے لئے جائز ہے، کہ ان مومنوں سے علمی فائدہ حاصل کرے جو مطلق یعنی دعوت کرنے کے لئے آزاد نہیں ہوئے ہیں، اور اسی طرح اس مسافر کی تاویل، جو اپنے لوگوں اور گھر سے جدا ہوا ہے، وہ شخص ہے، جو اپنے داعی اور حجت سے جدا ہوا ہے، تو اس کے لئے بھی جائز ہے کہ کسی پاکیزہ اعتقاد والے مومن سے علمی فائدہ حاصل کرتا رہے، یہاں تک کہ اس کو کوئی ایسا شخص مل جائے، جس کو تعلیم دینے کی اجازت حاصل ہے، پھر اس کو جائز نہیں کہ فرمان یافتہ شخص کے سوا کسی اور سے دینی تعلیم حاصل کرے، چنانچہ جب پانی مل جاتا ہے تو اس وقت مٹی سے تیمم نہیں کیا جاتا۔
پانی امام کے علم کی مثال ہے، اور مٹی حجت کے علم کی مثال ہے، جبکہ امام کا علم حاضر نہ ہو، نیز پانی حجت کے علم کی مثال ہے، اور مٹی داعی کے علم کی مثال ہے، جبکہ
۱۷۴
حجت حاضر نہ ہو، اسی طرح اس مثال کی واقعیت یہاں تک آتی ہے، کہ جب ماذون حاضر ہو، تو اس کے علم کی مثال پانی ہوگا، اور نا مطلق مومن کے علم کی مثال مٹی ہوگی، کیونکہ مٹی ہی پانی کے ساتھ مل سکتی ہے، اور علم کی مثال پانی سے دی گئی ہے، اس لئے کہ علم کے ساتھ مومن کے سوا اور کوئی شخص مل نہیں سکتا، پس مومن کی مثال مٹی ہے، کیا تو نہیں دیکھتا، کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَالَيْتَنِي كُنتُ تُرَابًا (۷۸: ۴۰)
قیامت کے روز کافر کہے گا، کہ کاش میں خاک ہو جاتا۔‘‘ اس کی تاویل یہ ہے، کہ کافر خواہش کرے گا کہ کاش وہ اس روز اپنے آپ کو مومن پاتا! اور جو کوئی حجت کے بیان تک نہ پہنچ سکے، تو اس کا نفس بیمار ہے، پھر اس کے لئے جائز ہے، کہ داعی سے علم حاصل کرتا رہے۔
چنانچہ تیمم یہ ہے ، کہ جس کو پانی نہ ملے، تو وہ پاک مٹی کے پاس جاتا ہے، اور دونوں ہتھیلیوں کو صرف ایک ہی دفعہ مٹی پر مارتا ہے، پھر ہاتھوں کو (ایک دوسرے پر مار کر ) جھاڑ دیتا ہے، تاکہ ان سے مٹی گر جائے، اس کے بعد انگلیوں کے سروں کو اپنے چہرے پر بھوؤں سے ٹھوڑی تک ایک بار مل کر گزار دیتا ہے، اور اس کے بعد بائیں ہاتھ کی انگلیوں کی سیدھی طرف کو دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پشت پر رکھ کر انگلیوں کو ابتدائی گانٹھوں سے انگلیوں کے سروں تک ایک بار ملتا ہے، پھر دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی سیدھی طرف کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پشت پر رکھ کر انگلیوں کی ابتدائی گانٹھوں سے انگلیوں کے سروں تک ایک بار ملتا ہے، بس یہی اس کا مکمل تیمم۱ ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ تیمم کرنے والے کا مٹی کے پاس جانا، اس بیمار کمزور مومن ( جو اپنے صاحبِّ دعوت سے جدا اور نا رسا ہوا ہے) کے ایک پاکیزہ اور نامطلق مومن کے پاس فائدہ حاصل کرنے کے لئے جانے کی مثال ہے، اور تیمم کرتے وقت
؎۱: تیمم کا یہی طریقہ کتابِ ’’دعائم الاسلام‘‘ اردو جلد اوّل ص ۲۰۱ پر ملا حظہ ہو۔
۱۷۵
اس شخص کا دونوں ہتھیلیوں کو ایک دفعہ مٹی پر مارنا، امام اور حجت پر اس مومن کے اقرار کی دلیل ہے، اور ہاتھوں سے مٹی کو جھاڑ دینا، اس مومنِ نامطلق کے بارے میں اس ضعیف مومن کے اعتقاد نہ کرنے کی مثال ہے، جس سے فائدہ حاصل کرتا ہے، کہ یہ علم جو میں سن رہا تھا، اس کا اپنا نہیں بلکہ اس فائدہ دینے والے نامطلق مومن کا یہ مرتبہ امام اور حجت کی طرف سے ہے، کیونکہ دعوتِ حق میں وہی حضرات مطلق ہیں، ہر چند کہ آج یہ شخص علمی فائدہ اسی نامطلق مومن سے حاصل کرتا ہے۔
تیمم کرنے والے کے دونوں ہاتھوں کی آٹھ انگلیاں اپنے منہ پر اوپر سے نیچے کی طرف ملنا، امام کے ان چوبیس ۲۴ حدود پر ضعیف مومن کا اقرار کرنا ہے، جو دن رات کے چوبیس ۲۴ گھنٹوں کی مثال ہیں، کیونکہ ہر ہاتھ میں (انگوٹھے کے بغیر) چار انگلیوں کی بارہ پوریاں ہوتی ہیں، جن کا مجموعہ چوبیس ۲۴ ہوتا ہے، اور چہرہ جس میں سات سوراخ ہیں ( جیسے دو ۲ آنکھ، دو۲ کان، دو ۲ نتھنے اور ایک منہ) سات صاحبانِ شریعت کی مثال ہے، اور اگرچہ مومن علمی طور پر کمزور ہے، تو پھر بھی ان سات حدود کو پہچاننے اور ان پر اقرار کرنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔
مسح کرنا اقرار کرنے کی مثال ہے، اور دھونا فرمانبرداری کی مثال ہے، ہاتھ اور منہ دونوں جو طہارت میں دھولئے جاتے تھے، وہ تیمم میں مسح کئے گئے ، اور دو مسح ساقط ہو گئے، یعنی سر اور پاؤں کا مسح، اس کی تاویل یہ ہے، کہ کمزور مستجیب صاحبانِ تاویل کی بلاواسطہ فرمانبرداری نہیں کر سکتا ہے، جس طرح حجت اور داعی پر صرف امام، اساس اور ناطق کی فرمانبرداری اور اول و ثانی (عقلِ کلّ و نفسِ کلّ) کی ہستی کے متعلق اقرار واجب ہوتا ہے، (اسی طرح) کمزور مستجیب پر صاحبانِ تاویل کے متعلق صرف اقرار ہی واجب ہے، بلاواسطہ فرمانبرداری واجب نہیں، اور دونوں ہاتھوں کو ایک ہی دفعہ مٹی پر مارنا، اس کمزور مومن کے لئے علمی فائدے کی وہی مقدار کافی ہونے کی دلیل ہے، جو دین کے ابتدائی مرتبے سے اس کو حاصل ہوئی ہے، اور وہ مرتبۂ حدِّ مومن ہے، اور کس دوسرے درجہ کی طرف نہ جانے کی دلیل ہے، جیسے داعی وغیرہ۔
۱۷۶
یہی تیمم طہارت بھی ہے، اور غسل جنابت بھی، جس کی تاویل یہ ہے، کہ علمی کمزوریوں کو پاک کرنے کے لئے صرف پاک نامطلق مومنوں ہی کا قول کافی ہوتا ہے، اور گندی مٹی سے تیمم کرنا جائز نہیں، اس کے یہ معنی ہیں کہ کمزور مومن کے لئے یہ شایان نہیں کہ وہ کسی ایسے مومن سے دینی باتیں سنا کرے، جو خدا کے اولیاء پر اعتقاد کرنے میں پاک نہ ہو۔
والسلام
۱۷۷
کلام ۔ ۱۸
اذان کی تاویل کے بارے میں جس کے دہرے کلمات ہیں
اذان اس دہرائی کے بغیر جائز نہیں، اس لئے کہ یہ ناطق کی دعوت کی مثال ہے، جن کی قوّتیں دہری ہیں: ایک قوّتِ ظاہر، دوسری قوّتِ باطن اور ایک قوّت تنزیل، دوسری قوّتِ تاویل، اور جو شخص اقامت اکہری (یعنی ایک بار) کہے، تو یہ اساس کی مرتبت کی مثال ہے، کیونکہ ان کی قوّت تو صرف تاویل ہی کی ہے اور جو شخص اقامت کو بھی دہری کہتا ہے تو وہ یہ ظاہر کر دیتا ہے، کہ اساس تاویل کے کام جاننے کے ساتھ ساتھ ظاہر کو بھی اپناتے ہیں اور باطن کو بھی، اور مؤذن ناطق کی مثال ہے، اور مؤذن کی جگہ مینار پر ہونا، مرتبۂ ناطق کی بلندی کی مثال ہے، اور مسجد ’’بیت الاسلام‘‘ کے مکان کی مثال ہے، جو خدا کا حرم خانہ ہے، چنانچہ جو کوئی اسلام قبول کرتا ہے، تو وہ اس جہان میں بے خوف ہو جاتا ہے، اور جب وہ اسلام کی حقیقت سمجھتا ہے، تو اس جہان میں بھی نڈر ہو جاتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آمِنًا (۲۸: ۵۷)
’’ کیا ہم نے انہیں حرم میں امن کی جگہ نہیں دی ہے۔‘‘ یعنی ہم نے مسلمانی کو امن کی جگہ بنائی ہے، تاکہ جو کوئی مسلمان ہو جائے تو وہ مارے جانے اور فروخت
۱۷۸
ہونے سے بچ سکے، اور اذان چھ دفعہ ’’اللہُ اکبر‘‘ ہے، چار دفعہ آغاز میں اور دو دفعہ لَا الٰہ اِلاَّ اللہ پر اس کے ختم ہونے سے پہلے، اور وہ بارہ کلمے ہوتے ہیں، کیونکہ چھ کلمے ’’ اللہ‘‘ کے ہیں اور چھ کلمے ’’اکبر‘‘ کے ہیں، اور چھ دوسرے کلمے ہیں، جن میں سے ہر ایک دو ۲ دو ۲ دفعہ کہا جاتا ہے۔
چنانچہ (چار دفعہ ’’اللہ اکبر‘‘ کے بعد یہ کلمات ہیں: ) أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہ ، ُ أَشْہَدُ أَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ اللہ، أَشْہَدُ أَنَّ عَلِیّاً وَلِیُّ اللہ،ِ حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃَ،ِ حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ، ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ،ِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ،حَیَّ عَلیٰ خَیْر الْعَمل۱، أَللّٰہُ أَکْبَرُ أَللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ
اس طرح آخری کلمے کے سوا باقی سب کلمات دو ۲ دو ۲ دفعہ کہے جاتے ہیں، پس ان چھ کلموں کو مجموعاً بارہ دفعہ پڑھتے ہیں، جو چھ اماموں پر دلیل ہیں، کہ ان میں سے ہر ایک امام کا ایک باب ہے، جو دین میں ان کے بعد ان کا جانشین ہوا ہے، اور ان میں سے ہر ایک امام خدا کے فرمان گزارتے وقت یکتا تھے، اور جو باب حق کے ساتھ امام کا جانشین ہوا، تو وہ ان کا حقیقی پیرو تھا، جس طرح یہ پچھلے چھ کلمات ان اگلے چھ کلمات کے پیچھے چلتے ہیں، اور ان کی پیروی کرتے ہیں (جس سے وہ اگلے کلمات ہی کی طرح ہو جاتے ہیں) اور وہ چھ بارہ اللہ اکبر، جس کو طاق میں نہیں کہتے ہیں، بلکہ جفت جفت میں کہتے ہیں، بارہ صاحبانِ جزائر
؎۱: اصل ہٰذا (یعنی وجہ دین مطبوعہ کا ویانی ) میں ’’ مُحمَّدٌ وَ عَلیٌ خَیْرُ الْبَشرْ‘‘ کا اضافہ ہے، مگر کلماتِ اذان کی مذکورہ گنتی اور اس کی تاویل سے ظاہر ہے، کہ یہ کلمہ کسی نساخ نے ازخود داخل کردیا ہے۔
۱۷۹
(حجتوں) کی دلیل ہے، جن کو امامِ زمانؑ کے بغیر اپنے آپ پر کوئی قیام نہیں، جبکہ وہ بیک وقت ظاہر و باطن کو برپا کرتے ہیں۔
قبلہ قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ و السّلام کی دلیل ہے، اور جب موذن اذان دینے لگتا ہے تو آغاز میں وہ قبلہ کی طرف منہ کر لیتا ہے، یعنی ناطق نے یہ ظاہر کیا کہ میری دعوت حلقِ خدا کے لئے قائم القیامت کی طرف ہے، اور جب موذن ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘ پر آئے تو دائیں ہاتھ کی طرف منہ کر لیتا ہے، اور جب ’’حی علی الفلاح‘‘ پر آئے تو بائیں ہاتھ کی طرف منہ کر لینا ہے، دائیں ہاتھ ناطق کی مثال اور بائیں ہاتھ اساس کی مثال ہے، نیز دائیں ہاتھ امام کی مثال اور بائیں ہاتھ حجت کی مثال ہے۔
جب مؤذن دائیں ہاتھ کی طرف منہ کر کے ’’ حی علی الصلوٰۃ‘‘ کہتا ہے، تو وہ یہ دکھاتا ہے کہ نمازِ ظاہر قائم کرتے ہوئے ناطق اور امام کے لئے قبول کرو، کہ وہ ظاہر کے مالک ہیں، اور جب وہ بائیں ہاتھ کی طرف منہ کر کے ’’حی علی الفلاح‘‘ کہتا ہے، تو وہ یہ بتاتا ہے، کہ علمِ حقیقت حاصل کرتے ہوئے اساس اور حجت کے لئے قبول کرو، کہ یہ باطن کے مالک ہیں، تاکہ تم اِس جہان میں دوزخِ نادانی سے اور اُس جہان میں دائمی آگ کے عذاب سے بچ جاؤ، اور جائز نہیں کہ مؤذن اذان کے درمیان بات کرے یا بے طہارت اذان دے، نیز روا نہیں کہ وہ اقامت کے درمیان بات کرے یا بے طہارت اقامت کہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ مومن کے لئے یہ روا نہیں، کہ وہ اہلِ ظاہر کے درمیان اپنے آپ کو ان کے برابر ظاہر کرے، یا صاحبِّ جزیرہ کے فرمان کے بغیر کسی اہلِ ظاہر پر کسر کرے ( یعنی اس کے عقیدے کی تردید کرے) نیز مومن کے لئے یہ بھی جائز نہیں، کہ وہ کسی دوسرے مومن کو ایک درجے سے دوسرے درجے پر بلند کر دینے کے لئے اس پر کسر کرے، بغیر اس کے کہ اس کو اس صاحبِّ جزیرہ سے کوئی حکم ملا ہو۔
اذان و اقامت نہیں کہتے ہیں، مگر ان پنج نمازوں میں جن کو اللہ تعالیٰ نے ’’موقت و مکتوب‘‘ فرمایا ہے، یعنی تحریر کے ذریعہ وقت معین کیا گیا، یعنی کسی
۱۸۰
اور کے لئے فرمانبرداری کرنا جائز نہیں، مگر ناطقوں اور اساسوں کے لئے اور کسی دوسرے کے لئے دعوت کرنا درست نہیں، مگر انہیں کے لئے، کیونکہ ناطق کی دلیل اذان اور اساس کی دلیل اقامت ہے، اور ہر زمانہ میں امام ناطق کے قائم مقام ہیں، اور حجت اساس کا قائم مقام ہے، جب ناطق اور اساس یا ان کے قائم مقام ہمیشہ موجود ہیں، تو اذان اور اقامت بھی موجود ہیں، اذان و اقامت مذکورہ پنج نمازوں کے سوا مناسب نہیں، اور نمازِ عیدین کے لئے اذان اور اقامت نہیں کیونکہ یہ دونوں عیدیں اساس اور قائم القیامت کی مثالیں ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اساس لوگوں کی تقلید کے بندھن سے رہا کر دیں گے تاکہ ان کے اس بیان کے بعد لوگ پھر گزشتہ پیغمبروں کے ادیان میں چلے نہ جائیں، جیسے کہ صاحبِّ قیامت امت کو دعوتِ ظاہر اور دعوتِ باطن سے روکیں گے، اس لئے کہ وہ ظاہر ہوتے وقت دعوت نہیں کریں گے۔
جب اذان دی جائے تو لوگ ایک ایک ہو کر مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں، اور اقامت سے پیشتر ہر شخص (نفل وغیرہ کی) نماز انفرادی طور پر پڑھا کرتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ لوگ بکھرے ہوئے ادیان سے ناطق علیہ السّلام کی دعوت کی طرف آجائیں گے، اور جو شخص ہر چند کہ ناطق کے لئے قبول کرتا ہے، جب تک اساس کے لئے قبول نہ کرے، تو وہ اپنی خواہش ہی کا پیرو رہے گا، چنانچہ اقامت سے پہلے ہر شخص اپنے طور پر طرح طرح کی نماز پڑھا کرتا ہے، اور وہ ان مخالفوں کی عبادت کی مثال ہے، جو اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔
اقامت وصی علیہ السلام کی دعوت پر دلیل کرتی ہے، جو شریعت کی تاویل کی طرف ہوتی ہے، اور اقامت میں وہی مطلب دہرایا جاتا ہے جو کچھ اذان میں کہتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ وصی کی دعوت بھی اسی حقیقت کی طرف ہوا کرتی ہے، جس کی طرف ناطق کی دعوت ہوئی تھی، اور اذان بلندی پر دی جاتی ہے، مگر اقامت پستی پر پڑھی جاتی ہے، یعنی وصی کا مرتبہ (بظاہر) اس بلندی پر نہیں جہاں پر
۱۸۱
ناطق کا مرتبہ ہے، اور اقامت میں ’’قَدْ قَامَتِ الصَّلوٰۃ‘‘ کے الفاظ بڑھا دیتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ خدا کا دین اور اس کی اطاعت ٹھیک طرح سے قائم ہوئی، کیونکہ (ناطق اور وصی ) دونوں کی یہ دعوتیں قبول کی گئیں، عمل کو علم کے ساتھ ملا دیا گیا، مومنوں کے درمیان سے اختلاف اٹھ گیا، اور خدا کی اطاعت میں سب کے سب یک زبان ہوئے، چنانچہ آپ کو معلوم ہے، کہ اقامت کہنے کے بعد نمازِ فریضہ پڑھا کرتے ہیں، سب ٹھیک طرح سے صفوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، (جدا جدا عبادت کرنے کا) اختلاف ان کے درمیان سے دور ہو جاتا ہے، اور جو کچھ پیش نماز کرتا ہے، وہی سب کرتے ہیں، تاکہ ظاہر و باطن دونوں برابر ہوں، جیسا کہ تن جان کے ساتھ (یعنی نماز جو دعوت کا ظاہر ہے، اور دعوت جو نماز کا باطن ہے، ایک دوسرے کی مثال و ممثول ہوں) چنانچہ خدائے تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
’’الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الإِسْلاَمَ دینا (۵: ۳)
آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے (اس) دین اسلام کو پسند کیا۔‘‘ اور یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ ناطق نے اپنے وصی کو مقرر فرمایا، اور مسلمانوں نے عہد و پیمان کر لیا، کہ وہ ان کی تابعداری کریں گے۔
۱۸۲
کلام ۔ ۱۹
کتاب الصلوٰۃ (نماز) کی تاویل کے بارے میں اور وہ چند فصلیں ہیں
پہلی فصل: ————————نماز کے بارے میں
نمازیں مجموعاً تین وجوہ سے ہیں، جو فریضہ، سنت اور تطوع کہلاتی ہیں، تطوع کو نافلہ بھی کہتے ہیں، اور نماز کی تاویل دعوت ہے (یعنی نماز کے حقیقی معنی دعوت کے ہیں) ان نمازوں میں سے نمازِ فریضہ متم۱ (امام) پر دلیل ہے، جن کو پہچان لینا لوگوں کے لئے ازحد ضروری ہے، نمازِ سنت حجت پر دلیل ہے، جس کو متم نے مقرر فرمایا ہے، اور نماز تطوع جناح یعنی داعی پر دلیل ہے، جو مومن کی تابعداری کے لئے اولین حد ہے، اور تطوع کو نافلہ بھی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب بیٹے کا بیٹا ہوتا ہے، جو ماذون پر دلیل ہے، کہ وہ داعی کا قائم مقام ہوا کرتا ہے، جس طرح داعی اپنے باپ یعنی حجت کا جانشین ہو جاتا ہے، اور ان تین
؎۱: متم سے یہاں امامِ زمان مراد ہیں، نیز متم کا مطلب ہے ہر ساتواں امام، جو چھوٹے دور کو تمام کر دیتے ہیں، یعنی چھ أئمہ کے بعد ساتواں امام ہوتے ہیں، وہ متم کہلاتے ہیں، اس لئے کہ وہ ہفتۂ دین کا سنیچر ہیں، جن پر ہفتۂ دین تمام ہو جاتا ہے۔
۱۸۳
درجوں میں جو نو قسم کی نمازیں ہیں، وہ سات أئمۂ برحق، ناطق اور اساس کی دلیلیں ہیں۔
(نیز یہ نو نمازیں ان نو حدود کی دلیلیں ہیں) چنانچہ نمازِ فریضہ امام کی دلیل ہے، سنت حجت کی دلیل ہے، نافلہ داعی کی دلیل ہے، نمازِ جمعہ ناطق کی دلیل ہے، نمازِ عید الفطر اساس کی دلیل ہے، نمازِ عید اضحٰی قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام کی دلیل ہے، نمازِ جنازہ مستجیب کے ایک درجے سے دوسرے درجے میں بڑھ جانے کی دلیل ہے، طلبِ بارش کی نماز خلیفۂ قائم۱ کی دلیل ہے، جس کی بدولت علمی قحط سے چھٹکارا مل جاتا ہے، جس طرح بارش کے ذریعہ جسمی قحط سے رہائی مل جاتی ہے، اور نمازِ کسوف (جو سورج گرہن یا چاند گرہن کے موقع پر پڑھی جاتی ہے) ایک ایسے وقت کی دعوت پر دلیل ہے، جس میں امام مستور ہوتا ہے۔
(ان نو نمازوں کے ) بعد نمازِ خوف بھی فرض ہے، لیکن جب دشمن کے خوف و ہراس سے نماز پڑھی جاتی ہے، تو وہ حالتِ امن کی نماز سے مختلف ہوتی ہے، اس لئے کہ نمازِ خوف ایک رکعت ہے، نمازِ مسافر دو ۲ رکعت ہے، اور نمازِ حاضر پوری (چار رکعت) ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جب مومن اہلِ ظاہر کے درمیان ہو، اور ان سے ڈر جائے، تو وہ ظاہر کو صرف ایک ہی پہلو سے قائم کرتا ہے، اور امام کی فرمانبرداری اہلِ ظاہر کی طرح ظاہر میں کرتا ہے، (یہ مختصر تاویل نمازِ خوف کی ہوئی اب نمازِ مسافر کی کچھ تاویل سنئے، کہ) مسافر اس مومن کی مثال ہے، جو ظاہر سے کچھ آگے بڑھا ہے اور حصولِ باطن کے لئے اس نے ابھی شروع کیا ہے، تو ایسے مومن کے لئے چاہئے، کہ ناطق اور اساس کو پہچانے، کیونکہ ان کی مثال نماز کی وہ پہلی دو رکعتیں ہیں ( جن کو مسافر پڑھ لیتا ہے) اور اس مسافر پر ان دوسری دو رکعتوں کا
؎ ۱: خلیفۂ قائم کا اشارہ ایک ایسے شخص کی طرف ہے، جو زمین پر یا کسی نئے سیارے پر حضرتِ قائم کا جانشین ہو گا، جس سے پھر وہی سلسلۂ نبوت و امامت جاری رہے گا۔
۱۸۴
پڑھنا واجب نہیں جو عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کی مثال ہیں، اس لئے کہ مذکورہ مومن نے ابھی روحانی حدود (عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ) کی معرفت حاصل نہیں کی ہے( یہ مختصر تاویل نمازِ مسافر کی ہوئی، اب نمازِ حاضر کے بارے میں سنیئے کہ) جو شخص (مسافر نہ ہو ) حاضر ہو تو وہ اس مخلص مومن کی مثال ہے، جو دعوتِ حق یعنی روحانی تعلیم میں ہے، جس نے مذکورہ روحانی اور جسمانی چاروں حدود کی معرفت حاصل کر لی ہے، اور وہ ان میں سے دو روحانی حدود کے لئے تو اقرار کرتا ہے اور دو جسمانی حدود کی فرمانبرداری کرتا ہے، ( یہ نمازِ حاضر کی چار رکعتوں کی تاویل ہوئی)۔
فصل (۲): ————–نماز کی حدود کے بارے میں
رسولِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا:۔
’’اِنَّ لِصَّلٰوۃِ حُدُوْداً کَحُدُودِ الدَّارِ فَمَنْ عَرَ فَھَا وَ ادَّ اھَا عَلیٰ حَقِّھَا وَ شر طِھَا فَقَدْ قضَیھَا و اِلاَّ نَقَضَھَا۔ یقیناً نماز کی حدود (حدبندیاں ہیں) جس طرح گھر کی حدود ہوا کرتی ہیں، پس جس شخص نے ان حدود کو پہچان لیا، اور نماز اس کے حق اور شرط پر ادا کر لی، تو اس نے نماز پوری طرح سے ادا کر لی، ورنہ نماز توڑ دی۔‘‘
پس ہم بیان کریں گے، کہ نماز کی وہ حدبندیاں سات أئمّہ اور سات نطقاء کی تعداد کے برابر سات ہیں، ان میں سے چار تو فریضے ہیں، جن کے بغیر نماز مکمل ہو نہیں سکتی اور تین سنتیں ہیں، جن کے بغیر نماز روا نہیں، پس ان چار فرائض میں سے دو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اور وہ وقت اور قبلہ ہیں، وقت نفسِ کل پر دلیل ہے، جس نے زمانہ پیدا کیا ہے، اور قبلہ عقلِ کل پر دلیل ہے، کیونکہ مخلوقات کے لئے انتہا تو وہی ہے، اور ان چار فرائض میں سے دو بندے کی طرف سے ہیں، وہ نیّت اور طہارت ہیں، نیّت ناطق پر دلیل ہے اور طہارت اساس پر دلیل ہے،
۱۸۵
اور نماز ہو نہیں سکتی، مگر اپنے اس ظاہر و باطن کے ساتھ جس کو ناطق اور اساس نے عقلِ کلّ و نفسِ کلّ کی تائید سے مقرر کر دیا ہے، یعنی ناطق نے نماز کے ظاہر کو نفسِ کلّ کی قوّت سے مقرر کر دیا، اور اساس نے نماز کے باطن (تاویل) کو عقلِ کلّ کی تائید سے بیان میں لایا، اور وہ تین سنتیں اذان، اقامت اور جماعت ہیں، اذان متم (امام) پر دلیل ہے، جو لوگوں کو ظاہر کی طرف دعوت کرتا ہے، اقامت حجت پر دلیل ہے، جو باطن کو قائم رکھتا ہے، اور جماعت داعی پر دلیل ہے، کہ مومنوں کا جمع ہونا اسی کے ذریعے سے ہے، مگر بیمار اور مسافر کے لئے یہ تین سنتیں لازمی نہیں، اور ان کی نماز ان سنتوں کے بغیر روا ہے۔۱
فصل (۳): ——-نماز کے فرائض کے بارے میں
جاننا چاہئے، کہ سات اماموں کی مثال پر نماز کی سات ۷ چیزیں فرض ہیں: (۱) شروع کی تکبیر فرض ہے، اور وہ مومن سے عہد لینے کی دلیل ہے، چنانچہ جب تکبیر پڑھی جائے، تو پھر بات نہیں کرنی چاہئے، اور نماز پڑھنی چاہئے، اسی طرح جب مومن سے عہد لیا جائے، تو پھر اسے دین کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے، جب تک اس کو آزادی نہیں دی جاتی (۲) سیدھا کھڑا ہونا فرض ہے، جو دعوت کے عہد پر مومن کے قائم رہنے کی دلیل ہے (۳) فاتحہ اور دوسرا کوئی سورہ پڑھنا فرض ہے، جس کی تاویل داعی کی تقریر ہے، جو قوم کے لئے کی جاتی ہے، (۴) رکوع فرض ہے، جس کی تاویل ہے بڑے دور میں اساس کو پہچاننا اور چھوٹے
؎۱: بڑے دور کے نطقاء سات ہیں، چھوٹے دور کے أئمہ بھی سات ہیں، حدودِ دین بھی سات ہیں، اور نماز کی حدود بھی سات ہیں، چنانچہ حدودِ دین اور نماز کی حدود کی مطابقت یہ ہوئی:
عقلِ کل = قبلہ، نفسِ کل = وقت، ناطق = نیت، اساس = طہارت، امام = اذان، حجت = اقامت، داعی = جماعت
۱۸۶
دور میں حجت کو پہچاننا (۵) سجدہ کرنا فرض ہے، جس کا اشارہ ہے، بڑے دور میں ناطق کو پہچاننا اور چھوٹے دور میں امام کو پہچاننا (۶) تشہد کے لئے بیٹھ جانا فرض ہے، جو داعی کو پہچاننے کی دلیل ہے، (۷) سلام پھیرنا فرض ہے، اور وہ مثال ہے مومن کو اجازت ملنے کی، دینی باتیں کرنے کے لئے، چنانچہ جب نماز پڑھی جائے اور سلام پھیرا جائے، تو نمازی جو چاہے بات کر سکتا ہے۔
جب نمازی نماز پڑھ لیتا ہے، اور سات فرائض کو بجا لا تا ہے، تو اس کی نماز مکمل ہو جاتی ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جب مستجیب نے ان حدود کی معرفت حاصل کر لی، تو وہ ماذونی کے درجے پر پہنچا اور (دعوت کی) اجازت دی جانے کے قابل ہوا۔
نماز کے سات فرائض | سات أئمہ | تاویل |
تکبیرِ اول | امامِ اوّل | مومن سے عہد لینا |
سیدھا کھڑا ہونا | امامِ دوم | دعوت پر مومن کا قائم رہنا |
فاتحہ اور سورہ پڑھنا | امامِ سوم | قوم کے لئے داعی کی تقریر |
رکوع کرنا | امامِ چہارم | اساس اور حجت کی پہچان |
سجدہ کرنا | امامِ پنجم | ناطق اور امام کی معرفت |
تشہد کیلئے بیٹھ جانا | امامِ ششم | داعی کی شناخت |
سلام پھیرنا | امامِ ہفتم | مومن کو دینی باتوں کیلئے اجازت ملنا |
فصل (۴): ————نماز کی سنتوں کے بارے میں
جاننا چاہئے، کہ نماز میں بارہ چیزیں سنت ہیں، اور ان کو نماز کے آداب کہا جاتا ہے (۱) سر جھکائے رکھنا سنت ہے، اور یہ اپنے داعی کے سامنے مستجیب
۱۸۷
کے تکبر نہ کرنے کی دلیل ہے (۲) سجدے کی جگہ پر نظر جمانا سنت ہے، جس کا اشارہ ہے، اپنےداعی کے فرمان کے واسطے مستجیب کا انتظار کرنا (۳) دائیں بائیں طرف نہ دیکھنا سنت ہے، جس کی تاویل ہے دینی دشمنوں اور منافقوں کی طرف مستجیب کا نہ دیکھنا (۴) نماز میں نہ ہنسنا سنت ہے اگر چہ ہنسی تھوڑی سی ہو، جس کی تاویل ہے، مستجیب کا کوئی دینی بیان نہ کرنا، جب تک وہ مستجیبی کی حد میں ہے، کیونکہ جب نمازی ہنسے، تو اس کے دانت نظر آتے ہیں، جو بات کرنے کی مثال ہوتی ہے (۵) نماز میں انگلیوں کو نہ چٹخانا سنت ہے، اور وہ دعوت کے حدود کو طعنہ نہ دینے کی دلیل ہے، کیونکہ انگلیاں حدود کی مثال ہیں (۶) داڑھی کے ساتھ نہ کھیلنا سنت ہے، اور وہ روحانی مجامعت نہ کرنے کی دلیل ہے ( یعنی دینی تعلیم نہ دینے کی) جب تک اجازت نہ مل جائے (۷) تشہد میں ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے سروں کو قبلے کی طرف رکھنا سنت ہے، جو تمام حدود امام کی طرف رخ کر کے رہنے کی مثال ہے (۸) پیروں کو ایک جگہ پر رکھنا سنت ہے جو حجت اور داعی کے درمیان جدائی نہ رکھنے کی مثال ہے، چونکہ دونوں پاؤں ان کی دلیل ہیں، اور مومن کے نفس کا قیام انہی پر ہے، جس طرح جسم کا قیام پاؤں پر ہوا کرتا ہے، (۹) صف میں اپنے ساتھی کے پہلو بہ پہلو ہو کر قریب رہنا سنت ہے، تاکہ ان کے درمیان شیطان گھس آنے کی جگہ نہ پائی جائے، جس کی تاویل ہے، مومنوں کی باہمی موافقت اور ان کا یک دل ہونا، تاکہ دشمن کو ان کے بیچ میں گھس آنے کی گنجائش ہی نہ ہو (۱۰) التّحیات کے موقع پر بائیں پاؤں پر بیٹھ جانا سنت ہے، جس کا اشارہ ہے، داعی کے قول پر مستجیب کا قائم رہنا، کیونکہ بائیں پاؤں داعی کی مثال ہے (۱۱) حالتِ رکوع میں انگلیاں کھول کر گھٹنوں پر رکھنا سنت ہے، جس کا اشارہ نمازی کے ذریعہ یہ کہا گیا ہے، کہ اساس (کے مرکز) سے حدودِ دین (روحانی طور پر) جزیروں میں جا کر پھیل گئے، کیونکہ رکوع اساس کی حد ہے اور اس کی تاویل یہ بھی ہے، کہ حجت کی جانب سے تمام داعی دعوت کے سلسلے میں پھیل گئے، کیونکہ چھوٹے
۱۸۸
دور میں حجت ہی بڑے دور کے اساس کی منزلت پر ہوتا ہے (۱۲) سجود کے موقع پر انگلیاں ملاکر زمین پر رکھنا سنت ہے، جس کی تاویل ہے، شریعت کے ظاہر بیان کرنے کے لئے عالم میں حدودِ دین کا پھیل نہ جانا، جس طرح حدودِ دین دعوتِ باطن کے لئے (روحانی طور پر) پھیل جایا کرتے ہیں، کیونکہ ظاہر ناطق اور امام کی حد ہے، اور سجود ان کے حدود کی دلیل ہے (اور باطن اساس اور حجت کی حد ہے، اور رکوع ان کے حدود کی دلیل ہے)۔
فصل (۵): ———— خضوع کے بارے میں
ہم بیان کرتے ہیں، کہ خضوع (عاجزی کرنا) تین صورتوں میں ہے، ایک تو نماز کے لئے کھڑا ہونے میں ہے، جس میں نماز پڑھنے والا یہ خضوع کرتا ہے، کہ نظر اس جگہ پر رکھتا ہے، جہاں پر وہ سجدہ کرنے والا ہے، اور دائیں بائیں نہیں دیکھا کرتا ، اور اس کی تاویل ہے، مومن کا سرِ تسلیم خم کرنا، اپنے اس رہنما کے کے لئے جو اس کو حق کی طرف لے جاتا ہے، اور حق کے مخالفوں کی طرف نہ دیکھنا، نماز گزار کا دوسرا خضوع رکوع ہی ہے، کہ وہ اس کے اپنے آپ کو (کسی کے آگے) چھوڑ رکھنے کی صورت ہے، اور جس کی تاویل ہے، مومن کا اپنے آپ کو بڑے دور میں اساس کے حوالے کر دینا اور چھوٹے دور میں حجتِ جزیرہ کے حوالے کر دینا، کیونکہ رکوع اساس اور حجت کی مرتبت ہے، اور نماز پڑھنے والے کا تیسرا خضوع سجدہ کرنا ہے، جس کا اشارہ ہے مومن کا سرِ تسلیم خم کرنا، چھوٹے دور میں امام کے لئے اور بڑے دور میں ناطق کے لئے، اور یہ انتہائی حد کی عاجزی (خضوع) ہے، کہ تو اپنے آپ کو مٹی کے ساتھ برابر کر دے۔
نیز میں بیان کروں گا، کہ جب مومن سجدہ کرتا ہے، تو وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ میں پہلے اپنے جسم کے اعتبار سے مٹی تھا، نیز وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ میں نے پہلے تو ناطق کا فرمان مان لیا، کیونکہ سجدے کی منزلت ان ہی کی ہے، اور جب سجدے
۱۸۹
سے سر اٹھاتا ہے، تو سیدھا ہو کر بیٹھا ہے (جس سے وہ گویا یہ کہہ رہا ہے) کہ خدائے تعالیٰ نے مجھے مٹی ( کے پست درجے) سے اٹھا کر انسان بنایا، نیز وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ جب اساس نے ( ناطق کی دعوت کے بعد) مجھے پھر دعوت کی، تب میں نے ان کو پہچان کر ناطق کو صحیح معنوں میں پہچان لیا، جب وہ دوسری دفعہ سجدہ کرتا ہے، تو یہ ظاہر کرتا ہے، کہ میں جسم کے اعتبار سے طبعی (جسمانی ) زندگی کے بعد جسمانی موت کی صورت میں مٹی میں واپس جاؤں گا، نیز وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ جب اساس نے مجھے ناطق کے عظیم مرتبے سے شناسا کردیا، تو میں نے (صحیح معنوں میں) ناطق کی فرمانبرداری کے لئے رجوع کیا، جب آخری دفعہ سجدے سے سر اٹھاتا ہے، تو وہ یہ ظاہر کرتا ہے، کہ جسمانی موت کے بعد مجھے جی اٹھنا ہے، نیز یہ ظاہر کرتا ہے ، کہ جب میں نے ناطق کو معرفتِ حق سے پہچان لیا، تو میں فنا ہونے سے بچ گیا، اور (ہمیشہ کے لئے) زندہ رہا۔
فصل (۶): ———- نماز کی اوقات کے بارے میں
(اب) میں یہ بیان کروں گا، کہ ہر نماز کے لئے تین اوقات مقرر ہیں (یعنی ہر نماز کے لئے جتنا وقت رکھا گیا ہے، وہ تین حصوں میں پایا جاتا ہے) مقررہ مدت کا ابتدائی وقت، درمیانی وقت اور آخری وقت، پس ابتدائی وقت کی تاویل ناطق ہیں، درمیانی وقت کی تاویل اساس ہیں، اور آخری وقت کی تاویل قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام ہیں، پس جس شخص سے یہ آخری وقت (نماز پڑھے بغیر) گزر جائے تو پھر اس کی نماز باطل ہو جاتی ہے یعنی جو شخص امامِ ہفتم کے ظہور تک حق کو حاصل نہ کر سکے، تو اس کو دین نہ ملے گا، اور دوسری وجہ سے ابتدائی وقت کی تاویل داعی ہے، جو مومن کے لئے ابتدائی حد ہے، درمیانی وقت کی تاویل حجت ہے، اور آخری وقت کی تاویل امام ہیں۔
۱۹۰
فصل (۷): ———- نمازوں کو ملا کر پڑھنے کے بارے میں
جو شخص (سفر پر نہ ہو) حاضر ہو تو وہ ہر نماز کو اپنے وقت پر پڑھا کرتا ہے، مگر مسافر نمازِ پیشین (ظہر) کو نمازِ دیگر (عصر) کے ساتھ ملا دیتا ہے، اور نمازِ شام (مغرب) کو نمازِ خفتن (عشا) کے ساتھ ملا دیتا ہے، چنانچہ حاضر روحانی دعوت والے کی مثال ہے، جو مومنوں کو حدود کے مراتب بیان کر دیتا ہے، اور مومن ہر ایک حد کی مرتبت کو پہچان لیتا ہے، جس طرح کوئی شخص اپنے اوقات ہی پر نمازیں پڑھا کرتا ہے، اور مسافر اس شخص کی مثال ہے، جو ظاہریت ہی پر ہے، جو (ذہنی طور پر) ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں گشت لگاتا ہے، مسافر کی طرح، جو ایک منزل سے دوسری منزل میں چلا جاتا ہے، ایسے شخص کو منزلتِ ناطق اور منزلتِ اساس ایک ساتھ بتا دیتے ہیں، جب دو نمازیں مل کر پڑھی جاتی ہیں، تو اس میں ایک ہی اذان دیتے ہیں، مگر اقامتیں دو پڑھتے ہیں، ایک اذان کا مطلب ناطق کی دعوت ہے، کیونکہ اذان کی تاویل یہی ہے، اور دو اقامتوں کی تاویل ہے، اساس کی دعوت اور قائم القیامت (کی قربت) اور اساس کی دعوت تو ظہورِ قائم سے پیشتر کسی کو مفید ہو سکتی ہے۔
جاننا چاہئے، کہ نماز کی بنیاد ان دو چیزوں پر ہے، ایک تو اذان ہے، جو ناطق کی دعوت کی مثال ہے، دوسری اقامت ہے، جو اساس کی دعوت کی تاویل ہے، یعنی دعوت ناطق کی ہے، اسی لئے اساس کی دعوت بھی انہی کی طرف ہے، جب نمازِ پیشین کے وقت کا آخری حصہ گزر جائے اور نمازِ دیگر کےوقت کا پہلا حصہ آئے تو دونوں نمازیں ملا کر پڑھی جاتی ہیں جس کی تاویل یہ ہے، کہ جو شخص پوری طرح سے ناطق کی شریعت میں داخل ہو چکا ہو تب اس پر باطن کے بارے میں کسر کی جاسکتی ہے (یعنی سوال کے ذریعہ شریعت کے باطنی پہلو کی اہمیت ظاہر کی جاسکتی ہے) تاکہ یہ واجب ہو کہ وہ شخص پہلے تو ناطق کی شریعت کو اپنائے اور
۱۹۱
اس کے بعد اساس کی دعوت (تاویل) کو قبول کرے، جس کی مثال نمازِ پیشین کو نمازِ دیگر کے ساتھ ملا دینے سے دی گئی ہے، اور اس نماز کو نمازِ دیگر اس لئے کہتے ہیں، کہ اس کے بعد دوسری (دیگر) نماز یعنی نافلہ نہیں پڑھی جاتی ہے، کیونکہ اساس کی دعوت کے بعد کسی اورکی دعوت نہیں، اور جب نمازِ شام کے وقت کا آخری حصہ گزر جائے اور نمازِ خفتن کے وقت کا پہلا حصّہ آئے تو نمازِ شام کو نمازِ خفتن کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ نمازِ شام نفسِ کلّ کی مثال ہے، اور نمازِ خفتن امام کی مثال ہے، چنانچہ اگر کسی شخص کو اساس کی دعوت جو انہوں نے نفسِ کلّ کی تائید سے کی تھی معلوم نہ ہو، اور اس نے صرف امامِ زمانؑ کی دعوت قبول کر لی ہو، تو اس پر یہ اقرار کرنا واجب ہے، کہ امامِ زمانؑ کو اساس کی وساطت سے نفسِ کلّ کی تائید حاصل ہے، جس کی مثال نمازِ شام کو نمازِ خفتن کے ساتھ ملا دینے سے دی گئی ہے، اور جس شخص کو دو نمازیں ملانا پڑیں، تو وہ ان دونوں نمازوں کے درمیان ستر تسبیح پڑھتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ جو شخص ناطق، اساس، امام اور حجت کی حدود کو پہچان لیتا ہو تو اس نے گویا دعوتِ ظاہر اور دعوتِ باطن کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دی ہے، پس وہ ان دعوتوں کے ظاہر و باطن کے درمیان ستر تسبیح کے ذریعہ فرق و امتیاز کرتا ہے، یعنی وہ ان دونوں دعوتوں کو سات أئمۂ برحق کے بیان کے ذریعہ جدا جدا پہچان سکتا ہے، (کیونکہ ستر کے سات عقد ہوتے ہیں)۔
جس شخص کے لئے ایسی کوئی نماز کا وقت گزر جائے، اور دوسری نماز کا وقت آئے تو وہ پہلے پیش آمدہ نماز پڑھ لیتا ہے، اس کے بعد نماز قضا پڑھتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جو شخص حدودِ دین میں سے ایک حد کو نہ پہچانے اور اس کے بعد کے حدود کو پہچانے، تو اس پر واجب ہے، اس گزشتہ حد کے لئے اقرار کرنا، اور اپنے زمانے والے حد کی فرمانبرداری کرنا، اور جمعہ کے روز حضر و سفر دونوں حالتوں میں نمازِ پیشین کو نمازِ دیگر کے ساتھ ملا کر پڑھی جاتی ہے، سفر کی تاویل ہے، ظاہر، اور حضر کی تاویل ہے باطن، روزِ جمعہ دلیل ہے حدِّ
۱۹۲
ہفتم کی، نمازِ پیشین دلیل ہے ناطق کی اور نمازِ دیگر دلیل ہے اساس کی، اس کے یہ معنی ہوئے، کہ اساس کا مرتبہ حدِّ ہفتم یعنی قائم ظاہر ہوتے وقت اہلِ ظاہر و باطن کے لئے نمایان ہوگا، جس طرح ناطق کا مرتبہ قائم کے ظہور سے پہلے ہی اہلِ ظاہر و باطن پر پوری طرح سے نمایاں ہو چکا ہے، اور یہ حدیث امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے، کہ فرمایا: ’’وَقْتُ صلوٰۃِ الْعصْرِ مِنْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ وَقْتُ صَلوٰۃِ الظُّھْرِ = جمعہ کے روز نمازِ دیگر کا وقت ہی نمازِ پیشین کا وقت ہے۔‘‘ یعنی اساس کا مرتبہ قائم کے پیدا ہوتے وقت ظاہر ہوگا۔
فصل (۸) — اذان اور اقامت کے درمیان وقفہ دینے کے بارے میں
رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کی گئی ہے، جو موذن بلال سے فرمایا: ’’ اِجْعَلْ بَیْنَ اَذَانِکْ وَاِقاَمتِک نَفساً لِیَفْرَغَ الْمُتَوَضّی ءُ مِنْ وُ ضُوْئِہٖ و الْآکِلُ مِنْ اَکْلِہٖ وَ ذُو الحٰاجَۃِ مِنْ حٰاجَتِہٖ ۔ تو اپنی اذان اور اقامت کے درمیان ذرا ٹھہر لیا کر، تاکہ طہارت لینے والا طہارت سے، کھانے والا کھانے سے اور حاجت والا حاجت سے فارغ ہو جائے‘‘۔ جس کی تاویل یہ ہے، کہ داعی کو مستجیب پر (خاص باتیں ظاہر کرنے کے لئے) جلدی نہیں کرنی چاہئے، تاکہ وہ تیار ہو کر (روحانی) حرم میں داخل ہو جائے، علم کا پانی پی لے اور اپنے نفس کو علم کے ذریعہ پاک کرے۔
فصل (۹): فرقۂ امامیہ کا قصر کرنا جو کہتے ہیں کہ مسافر کو نماز میں قصر (کمی) نہیں کرنا چاہئے، مگر جب وہ حج یا جہاد کے راستے میں ہو
حج کرنے والا امام ڈھونڈھنے والے کی مثال ہے، اور جہاد کرنے والا
۱۹۳
داعی کی مثال ہے، کیونکہ دعوت میں وہی جد و جہد کرتا ہے، اہلِ ظاہر کے خلاف (علمی) جنگ کرتا رہتا ہے، اور روحانی طور پر لوگوں کو خدا، رسول، وصی، امام اور حجت کی طرف بلاتا ہے، (چنانچہ حج یا جہاد کے) مسافر پر صرف بارہ رکعتوں میں قصر کرنا واجب ہوتا ہے، نہ کہ تمام نمازوں میں، یہ قصر نمازِ پیشین، نمازِ دیگر اور نمازِ خفتن میں ہوا کرتا ہے، جن میں مجموعی طور پر بارہ رکعتیں ہیں، جو بارہ حجتوں کی دلیل ہیں، جن میں سے چھ حجتوں کے لئے مردانہ منزلت ہے اور چھ کے لئے زنانہ منزلت ہے، اور مرد کی حد عورت کی حد سے برتر ہے، پس داعی پر، جو (روحانی) مجاہد ہے، یہ واجب ہوا کہ وہ ان چھ زنانہ حدود کو مومنوں پر ظاہر نہ کرے جن کی مثال ان بارہ رکعت نمازوں میں سے چھ رکعت چھوڑ دینے سے دی گئی ہے، جن کا ذکر کیا گیا۔
نیز نمازِ پیشین، نمازِ دیگر اور نمازِ خفتن، تینوں میں قصر کرنے اور صبح و شام کی نمازوں میں قصر نہ کرنے کے بارے میں ہم بیان کرتے ہیں، کہ نمازِ صبح عقلِ کُل پر دلیل ہے، اور نمازِ شام نفسِ کلّ پر دلیل ہے ان دونوں روحانی حدوں میں کوئی تقصیر و کمی واقع نہیں ہوتی ہے وہ اس سے برتر ہیں، کہ ان پر کوئی آزمائش و تکلیف آئے اور ان کی قوت کا سلسلہ لوگوں سے ٹوٹ جائے، مگر ناطق، اساس اور امام اس تکلیف و آزمائش کے گھر (دنیا) میں آئے ہوئے ہیں، لہٰذا ان کے کام میں (کبھی کبھی ) کوئی کمی واقع ہو جاتی ہے، اور یہی حضرات ہیں، جو ایسے موقعے پر لوگوں سے دعوت روکی رکھتے ہیں، اور مذکورہ تین نمازیں ان تینوں جسمانی حدود پر دلیل ہیں، اور ان نمازوں میں قصر کرنا، ان حدود کی دعوت ہنگامی طور پر رک جانے کی دلیل ہے۔
نیز ہم یہ بتا دیں گے، کہ صبح و شام کی نمازیں پانچ رکعت ہیں، اور ان دونوں نمازوں میں قصر نہیں کیا جاتا، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جو دو حد اوّل و ثانی (یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے نام سے) ہیں، وہ کمی و کوتاہی نہیں کرتے ہیں، اور پانچ حدود یعنی ناطق، اساس، امام، باب اور حجت کو تائید بھیجنے سے وہ
۱۹۴
عاجز نہیں ہوتے، اور ان پر ان پانچ حدود کا حال پوشیدہ نہیں، مگر بحالتِ سفر قصر ان تینوں نمازوں میں کیا جاتا ہے، جن میں مجموعاً بارہ رکعتیں ہیں، سفر دلیل ہے، ان تینوں حدود سے تائید رکنے پر، جن کی مثال مذکورہ تین نمازیں ہیں، اور ایسے موقعے پر ان بارہ حجتوں کو مادّہ دینے میں ان سے کمی واقع ہوتی ہے، جن پر یہ بارہ رکعتیں دلیل ہیں، نمازِ حضر میں (جو حالتِ سفر نہ ہو) کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے، (یعنی اس میں قصر نہیں) جس کی تاویل یہ ہے، کہ یہ تینوں جسمانی حدود یعنی ناطق، اساس اور متم (امام) جبکہ تائید ان کو مسلسل مل رہی ہو، جس کی مثال نمازِ حضر سے دی گئی ہے، بارہ جزائز کے بارہ حجتوں کو (نورانی) مادہ بھیجنے میں کوئی کمی نہیں کرتے ہیں۔
فصل (۱۰): —— بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں
ہم بیان کریں گے، کہ بیٹھ کر نماز وہ شخص پڑھتا ہے، جس میں کھڑا ہونے کی قوّت نہیں، یا وہ شخص جس کا امام یعنی پیش نماز کچھ بیمار ہو، جس سے وہ کھڑا ہو کر نماز نہیں پڑھا سکتا ہے، اور بیٹھ کر نماز پڑھا تا ہے (تو یہ صورت یعنی بیٹھ کر نماز پڑھانا) اس شخص پر دلیل ہے، جو اپنی ذاتی کمزوری کی وجہ سے اس عالم میں دعوت قائم نہیں کر سکتا ، پس اس پر واجب ہے، کہ پوشیدہ طور پر دعوت کرے، چنانچہ جو شخص کھڑا ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر پڑھتا ہے۔
حکایت
روایت کی گئی ہے، کہ ایک دفعہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھوڑے سے گر گئے تھے اور ان کے دائیں پہلو کو صدمہ پہنچا تھا، اصحاب نے آنحضرتؐ کے حضور میں آکر مزاج پرسی کی اور انہوں نے عرض کیا، کہ نماز کا وقت ہو چکا ہے، تو رسول علیہ السلام اٹھ بیٹھے، تاکہ ان کو نماز پڑھائیں، اور اصحاب ان کے پیچھے کھڑے
۱۹۵
ہو گئے، رسول علیہ السلام نے اشارہ فرمایا کہ بیٹھ جاؤ، اصحاب بیٹھ گئے، جب آنحضرت نماز سے فارغ ہوئے، تو فرمایا: ’’قوم کا پیش نماز اس لئے ہوتا ہے، کہ وہ ان کے لئے پیشوا ہوجائے اور وہ (نماز میں ) جب تکبیر کہتا ہے، تو وہ لوگ بھی تکبیر کہتے ہیں، جب وہ پڑھتا ہے، تو وہ سنتے ہیں، جب وہ سَمِع اللہِ لِمَنْ حَمِدَہ کہتا ہے تو وہ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کہتے ہیں، جب وہ سلام پھیر دیتا ہے، تو وہ بھی سلام پھیر دیتے ہیں، اور جب پیش نماز بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اس کی قوم بھی بیٹھ کر ہی پڑھتی ہے۔
اس قول کی تاویل یہ ہے کہ جب پیش نماز تکبیر کہے، یعنی جب وہ (حقیقی امام) خدا کو بزرگ سمجھے، تو ان کو قوم بھی اسی طرح اس کو بزرگ سمجھے، ور جو فرمایا کہ جب پیش نماز پڑھتا ہے، تو وہ سنتے ہیں، اس سے آنحضرت کی مراد یہ ہے، کہ جب امام دین کے بارے میں کوئی بیان فرماتا ہے، تو ان کی قوم والے ان کی پیروی کرتے ہیں، اور ان کے ساتھ بحث نہیں کرتے ، اور جو فرمایا، کہ جب پیش نماز سَمِع اللہ لِمَنْ حَمِدَہ کہتا ہے، تو اس کی قوم رَبَّنَا لَکَ الْحَمْد کہتی ہے، اس سے آنحضرت یہ فرمانا چاہتے ہیں، کہ جب امام کسی مومن کو حکمت سناتے ہیں، تاکہ جس سے وہ اپنی موجودہ مرتبت سے برتر ہو جائے، تو اس کے لئے وہ اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے، یعنی امام سے کہتا ہے، کہ الحمد آپ کی ہے، یعنی خداوند کی پانچ تائیدیں آپ کو حاصل ہیں (جس سے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جدّ، فتح اور خیال کی تائید مراد ہے) اور جو فرمایا، کہ جب پیش نماز سلام پھیرتا ہے، تو اس کی جماعت بھی سلام پھیرتی ہے، جس سے آنحضرت کی مراد یہ ہے، کہ جب امام بموجبِ فرمانِ الٰہی اپنا مقام اپنے جانشین کے حوالے کر دیتے ہیں، تو تمام اہلِ دعوت کے لئے چاہئے، کہ ان کے اس فرمان کے لئے قبول اور تسلیم کریں، اور جو فرمایا، کہ جب پیش نماز بیٹھ کر نماز پڑھا تا ہے، تو اس کی قوم بھی بیٹھ کر ہی پڑھتی ہے، جس سے حضور یہ فرمانا چاہتے ہیں، کہ جب امام تقیہ کے طور پر
۱۹۶
دعوت کریں، تو ان کی قوم والے بھی تقیہ ہی کرتے ہیں، اور ظاہر (دعوت) نہیں کرتے ہیں۔
حکایت
روایت کی گئی ہے، کہ ایک دن رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نماز دیگر سے فارغ ہو کر قوم سے مخاطب ہوئے، اور فرمانے لگے، کہ تم میں سے کون سا شخص تھا، جس نے میرے پیچھے ( اس نماز میں) ام الکتاب (یعنی الحمد) پڑھی؟ ایک شخص نے عرض کی، کہ( یا حضرت!) میں پڑھ رہا تھا، رسول السّلام نے فرمایا: کہ تم میں سے جو شخص میرے پیچھے امُ الکتاب پڑھے، تو گویا وہی شخص پیش نماز ہونا چاہتا ہے، اور ظاہر میں اَلْحَمْدُ لَلّٰہِ (یعنی سورۂ فاتحہ) امُ الکتاب ہے، اور باطن میں مرتضیٰ علیؑ ام الکتاب ہیں، اس لئے کہ دراصل أئمّہ ہی کتاب ہیں، اور روحانی تولید کے اعتبار سے اساسؑ أئمّہ کی ماں ہیں۔ اور ناطق علیہ السّلام ان کا باپ ہیں اور اس قول کی تاویل یہ ہے (جو رسول علیہ السّلام نے اشارہ فرمایا) کہ میرے بعد میری قوم کے بہت سے لوگ (مرتبۂ ) اساس کو حاصل کرنا چا ہیں گے، مگر کوئی شخص (بجز اس کی اولاد کے) اس کے مقام پر نہ ٹھہر سکے گا۔
رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث ہے، جو فرمایا: بَیْنَ قَبْرِیْ وَ مِنْبَرِیْ رَوْضۃٌمِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃ = میری قبر اور منبر کے درمیان بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔‘‘ اور اس حدیث کی تاویل یہ ہے، کہ رسول کی قبر ان کے وصی تھے، کیونکہ آنحضرتؐ کی حکمتیں انہی میں پوشیدہ تھیں، اور آنحضرتؐ کے منبر قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ و السّلام ہیں کیونکہ دینِ حق انہی سے آشکار ہوگا، اس سے رسولؐ کی مراد یہ ہے، کہ میرے اساس اور قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ والسّلام کے درمیان، جو یہ دونوں میرے
۱۹۷
فرزند ہیں، بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، اس سے رسول کی مراد دعوتِ حق تھی، جس میں حکمت کے پھلوں سے لدے ہوئے درخت اور حقیقت کے مہکتے ہوئے پھول موجود ہیں۔
۱۹۸
کلام۔ ۲۰
اُن تاویلات کے بارے میں، جو پنج وقتی نماز، اس کی رکعتوں کی تعداد اور اس کے اوقات میں ہیں
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کر دیتے ہیں، کہ نماز پڑھنا، توحیدِ خدا کی طرف دعوت کرنے اور خدا کے اولیاء کے ساتھ مل جانے پر دلیل ہے، چنانچہ نمازِ صبح دلیل ہے اوّل پر، اور اس کے پڑھنے کا وقت وہ بتایا گیا ہے، جس میں دن کی روشنی نظر آنے لگتی ہے، اس سے ناطق علیہ السّلام نے یہ ظاہر کر دیا، کہ سب سے پہلے نور، جو امرِ باری سبحانہ سے پیدا ہوا وہ اوّل تھا، جس کو قلم اور عقل کہتے ہیں۔
نمازِ صبح چار رکعتوں پر مشتمل ہے، جن میں دو سنت رکعتیں فریضہ سے پہلے آتی ہیں، اور وہ ناطق و اساس پر دلیل ہیں، کہ پہلے تو انہی کو پہچان لینا چاہئے، تاکہ ان کی رہنمائی سے اوّل و ثانی (عقل و نفس) کو پہچان لیا جاسکے، اور یہ نمازِ فریضہ و سنت کی چار رکعتوں پر مبنی ہے، یہ اس بات پر دلیل ہے، کہ اصولِ دین چار ہیں، ان میں سے دو روحانی ہیں، جیسے اوّل و ثانی اور دو جسمانی ہیں، جیسے ناطق و اساس، اور وہ سنت والی دو۲ رکعتیں بھی وہی مرتبت رکھتی ہیں، جو دو فریضہ رکعتوں کی ہے، جس کے معنی یہ ہیں، کہ عالمِ جسمانی میں ناطق اور اساس کا بھی وہی مرتبہ ہے، جو
۱۹۹
مرتبہ عالمِ روحانی میں اوّل و ثانی کا ہے۔
سنت کی پہلی رکعت ناطق پر دلیل ہے، کیونکہ اس میں تین چیزیں پڑھی جاتی ہیں، خدا کی حمد و ثنا، الحمد اور سورہ، جس کی تاویل یہ ہے، کہ ناطق کی روح کے تین مراتب ہیں، جیسے نبوّت، وصایت اور امامت، چنانچہ حمد و ثنا پڑھنا مرتبۂ ناطق پر دلیل ہے، الحمد پڑھنا مرتبۂ اساس پر دلیل ہے، اور سورہ پڑھنا مرتبۂ امام پر دلیل ہے، سنت کی دوسری رکعت میں ثنا نہیں، مگر الحمد اور سورہ ہیں، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ اساس مرتبۂ نبوّت نہیں رکھتے، مگر ان کے دو مرتبے ہیں، ایک مرتبہ وصایت ہے، اور دوسرا مرتبہ امامت، سنت کے بعد فرض کی دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں، جن کے درمیان بیٹھنا نہیں، یہ اس حقیقت کی دلیل ہے کہ عقلِ کلّ اور باری سبحانہ کے درمیان کوئی واسطہ اور وسیلہ نہیں، نمازِ صبح کے فریضہ کی پہلی رکعت باری تعالیٰ کی وحدت پر دلیل ہے، جس سے تمام ہستیوں کی بنیاد (یعنی عقلِ کلّ) کو ہستی ملی، اور وہ خود (یعنی وحدت) ہست نہیں تھی، اور ہستیاں تو اسی سے پیدا ہوئیں، یہی وجہ ہے، کہ پہلی رکعت میں حمد و ثنا، الحمد اور سورہ، تین چیزیں پڑھتے ہیں، دوسری رکعت عقلِ کلّ پر دلیل ہے، اور اس میں الحمد اور سورہ ہے، مگر حمد و ثنا نہیں ، جس کے معنی یہ ہیں کہ عقلِ کلّ کی ہستی اپنے آپ سے نہیں بلکہ باری سبحانہ و تعالیٰ کی وحدت سے ہے، اور تمام موجودات کے وجود کی علت (سبب) وہی (عقلِ کلّ) ہے اور عقل کے تحت چار مراتب ہیں، جو دو مقامات پر عقل سے تائید حاصل کرتے ہیں، یہ چار مراتب نفسِ کلّ، ناطق، اساس، اور قائمِ قیامت علیہ السّلام ہیں، ان دو مقامات میں سے ایک تو ترکیب و تالیف کا مقام ہے، جو نفسِ کلّ اور ناطق کے لئے ہے، اور دوسرا تاویل و تائید کا مقام ہے، جو اساس اور قائم علیہ السّلام کے لئے ہے۔
نمازِ صبح کی تاویل میں بندے کی طرف سے خدائے تعالیٰ کا شکر ہے، کہ اس نے عقلِ کلّ کے ابداع (یعنی مادّی ذرائع کے بغیر ایجاد) کر کے اس کو اپنے اور خلق کے درمیان واسطہ اور وسیلہ بنایا، اور اس کے نور سے لوگوں کو حصّہ
۲۰۰
(یعنی عقلِ جزوی) دیا، جس کی بدولت لوگ جانوروں سے ممتاز ہوئے اور اسی نور کے ذریعہ سے انہوں نے توحید کی پہچان کر لی، اور اگر یہ نور نہ ہوتا، تو کوئی شخص باری سبحانہ کی پہچان تک نہیں پہنچ سکتا، نہ وہ مویشی سے ممتاز ہو سکتا اور جب باری سبحانہ تعالیٰ نے ہمیں بواسطۂ عقلِ کلّ اپنے نور سے بہرہ مند فرمایا، تو ہم پر یہ واجب ہوتا ہے، کہ ہم اس وقت (یعنی نمازِ صبح میں) جو اس عظیم ہستی یعنی قبلۂ نمازِ صبح پر دلیل ہے، باری سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔
نمازِ شام نفسِ کلّ کی مثال ہے، اور اس نماز کا وقت وہ ہے، جس میں سورج مشرق سے نکل کر مغرب میں ڈوب جاتا ہے، (اس وقت کے تعیّن سے) ناطق نے یہ ظاہر کر دیا، کہ توحید کا نور عقلِ کلّ سے طلوع ہو کر نفسِ کلّ میں غروب ہوا ہے، اس لئے کہ خدا کے نور کا مشرق عقلِ کلّ ہے، اور خدا کے نور کا مغرب نفسِ کلّ ہے، اور (خدا کا نور اس روحانی مشرق و مغرب کا سورج ہے، چنانچہ) سورج کی روشنی خدا کی توحید پر دلیل ہے، نمازِ صبح عقلِ کلّ پر دلیل ہے، اور نماز شام نفسِ کلّ پر دلیل ہے، نمازِ صبح میں دو ۲ رکعتیں فرض ہیں، جو کلمۂ ’’کُنۡ‘‘ اور عقلِ کلّ پر دلیل ہیں، مگر نمازِ شام میں تین رکعتیں فرض ہیں، جو نفسِ کلّ، عقلِ کلّ اور وحدتِ باری پر دلیل ہیں، اور یہ دونوں نمازیں جو پانچ رکعتوں پر مشتمل ہیں، اس حقیقت پر دلیل ہیں، کہ ان مراتبِ عالیہ سے پانچ حدودِ جسمانی کو تائید ملتی رہتی ہے، جیسے ناطق، اساس، امام، حجت، اور قائمِ قیامت علیہ السلام اور یہ دونوں نمازیں دن رات کے کناروں پر پڑھی جاتی ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ اہلِ ظاہر اور اہلِ باطن کی انتہا و غایت یہی دو اصول (عقلِ کلّ و نفسِ کلّ) ہیں کیونکہ یہاں دن اہلِ ظاہر کی مثال ہے اور رات اہلِ باطن کی مثال ہے۔
نیز ہم یہ بیان کر دیں گے، کہ نمازِ صبح کے فریضہ میں دو رکعتیں ہیں، اور نمازِ شام کے فریضہ میں تین رکعتیں ہیں، اس میں ناطق نے یہ اشارہ رکھا، کہ ان دو فرشتوں (عقلِ کلّ و نفسِ کلّ) سے جس قدر نور برستا ہے، اس کو اس جہان میں
۲۰۱
پوری طرح سے قبول کرنے والی تین ہستیاں ہیں، جیسے جدّ، فتح اور خیال، جو نفسِ کلّ کے تحت ہیں۔
نمازِ پیشین اور نمازِ دیگر ان دو مذکورہ نمازوں کے درمیان ہیں، مگر نمازِ خفتن ان سے جدا ہے، اور یہ دلیل ہے، ناطق اور اساس کے ایک وقت میں ہونے کی، اور امامِ زمان ان کے عصر گزر جانے کے بعد ہونے کی۔
نمازِ شام کی پہلی رکعت ناطق پر دلیل ہے، جس میں خدا کی ثنا، الحمد اور سورہ ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ ناطق کی جان کو تین روحانی حدود سے حصہ مل رہا ہے، وہ حدود جد، فتح اور خیال ہیں۔
نمازِ شام کے فریضہ کی دوسری رکعت اساس پر دلیل ہے، جس میں حمد و ثنا کے بغیر الحمد اور سورہ ہیں، چنانچہ اساس کو مرتبۂ جد سے کوئی حصہ نہیں اور اس کی جان کو دو مراتب سے حصہ ملتا ہے، یعنی نورِ فتح اور نورِ خیال سے۔
ان دو رکعتوں کے بعد بیٹھنا ہے، اور یہ ظاہر و باطن کے دو حد یعنی ناطق و اساس پر دعوت کے قرار پانے (مکمل ہونے) کی دلیل ہے۔
تیسری رکعت کا صرف ایک ہی مرتبہ ہے، یعنی اس میں صرف الحمد ہے، اور یہ امام پر دلیل ہے، کہ اس کی جان کو نورِ خیال ہی کے ایک مرتبے سے بہرہ مل رہا ہے، اور نمازِ شام تین رکعت ہے، دو ۲ رکعت اونچی آواز سے پڑھنی چاہئے، اور ایک رکعت پست آواز سے پڑھنی چاہئے، جس سے ناطق نے یہ ظاہر کردیا، کہ میں نے اپنا مرتبہ ظاہر کر دیا، اور اساس کے مرتبے کے لئے وصیت کی، مگر امام کے مرتبے کو ظاہر نہیں کیا، بلکہ اس کو دین کے دشمنوں سے پوشیدہ رکھا۔
نمازِ شام کے فریضے کے بعد چھ رکعتیں سنت ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ نفسِ کلّ نے اپنے تحت کے چھ ناطقوں کو تائید بھیجی، تاکہ یہ حضرات اس کے نور کو لوگوں تک پہنچا دیں، یہ چھ ناطق آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد مصطفیٰ علیہم السّلام ہیں۔
۲۰۲
نمازِ شام کا وقت سورج کا غروب ہوچکنا، آسمان پر سرخ شفق کا ہونا اور ستاروں کا ظاہر ہونا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جب ناطق (محمد علیہ السّلام ) نے اپنا دور ختم کر لیا، اور عقلِ کلّ کی تائید ، جو دین کا سورج ہے، ڈوب گئی تو نفسِ کلّ کی تائید جس کی مثال ستاروں کی روشنی ہے، اساس کے ذریعہ جزائر کے داعیوں (لاحقوں) کی زبان سے لوگوں کے لئے ظاہر ہوگی۔
نمازِ شام بندے کی طرف سے خدائے تعالیٰ کا شکر ہے، کہ اس نے نفسِ کلّ کے نور سے لوگوں کو حصہ دیا، اور لوگوں کے لئے وہ نور ’’روحِ ناطقہ‘‘ ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعہ بات چیت کر سکیں، اور ہر اس چیز کے لئے کوئی نام اور کچھ صفتیں عبارت کریں، جو خود بخود ان کو نظر آتی ہے، (یعنی اشیائے ظاہر کو ایک دوسری سے تعبیر دیں) پس نمازِ شام کا قبلہ نفسِ کلّ ہوا، تاکہ لوگ خدا کا شکر کریں، کہ اس نے نفسِ کلّ پیدا کر کے اس کو اپنے اور بندوں کے درمیان واسطہ ٹھہرایا، اور اس سے لوگوں کو نور پہنچا دیا، جس کی بدولت لوگ بولنے والے ہوئے، اور اسی بولنے کی بدولت حیوانات سے ممتاز ہوئے۔
نمازِ پیشین ناطق پر دلیل ہے، اور اس کو پیشین اس لئے کہتے ہیں کہ ناطق ہی وہ پہلا شخص تھے جنہوں نے عالمِ بالا سے نور حاصل کر لیا، نیز وہ دین میں لوگوں کے لئے اس جہان کی طرف پیشرو تھے، اور یہ نماز بھی سب سے پہلی نماز تھی، جو آنحضرت علیہ السّلام نے پڑھی، اور پڑھنے کے لئے فرمایا، نیز آنحضرت علیہ السّلام نے خدا کی توحید کی طرف (سب سے پہلے اسی نماز کے ذریعہ علمی) دعوت کی تھی۔
اس نماز کو عربی میں ظہر کہتے ہیں، اس معنی میں کہ ناطق کی دعوت ظاہر میں ہوا کرتی ہے، جو شریعت ہے۔
اس نماز کا پہلا وقت ان چھ گھنٹوں کے بعد ہے، جو سورج کے وقتِ طلوع سے گزر جاتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ آنحضرت علیہ السّلام کے دنیا
۲۰۳
میں آنے کا وقت دورِ عیسیٰ کے چھ اماموں کے گزر جانے کے بعد تھا، کہ وہ اپنے دور کا سورج تھا۔
اس نماز کا آخری وقت وہ ہوتا ہے، جس میں ہر چیز کا سایہ اس چیز کے برابر ہو جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جب دورِ عیسی علیہ السلام کے لاحقوں میں سے ہر ایک حد کو اپنے حصے کی تائید چھ اماموں سے مل چکی، اور تاویل و توحید کے ذریعہ ظاہر و باطن برابر ہوا، تو دوسرے ناطق کا پیدا ہونا واجب ہوا۔
اس نماز کے فریضے میں چار رکعتیں ہیں، جس میں ناطق کا یہ اشارہ ہے، کہ میں تم کو ان دو فرشتوں کی طرف دعوت کرنے والا ہوں، جن کا میں تیسرا ہوں، اور اساس ہمارا چوتھا ہے۔
اس کے فریضے کی پہلی دو رکعتیں ناطق و اساس کی دلیل ہیں، اور پہلے ان دو رکعتوں کو پڑھنا چاہئے، جس سے ناطق نے یہ ظاہر کیا، کہ جب تک لوگ مجھ کو اور اساس کو نہ اپنا لیں، تو عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کی پہچان تک رسا ہو نہیں سکتے ہیں۔
پہلی رکعت میں ثناء، الحمد اور سورہ ہیں، یہ تین انوار کی دلیل ہیں، جو جد، فتح اور خیال سے ناطق کی روح کے ساتھ متصل ہوئے ہیں۔
دوسری رکعت میں ثناء نہیں اور الحمد و سورہ ہیں، یہ دو انوار کی دلیل ہے، جو اساس کی جان کے ساتھ متصل ہیں، ایک نور فتح سے اور دوسرا خیال سے۔
اس کے بعد تشہد کے لئے بیٹھنا ہے، جو نماز پڑھنے والے کی طرف اشارہ ہے، جس نے گواہی دینی ہے، کہ یہ دو روحانی حدود جو عالمِ روحانی میں ہیں مذکورہ دو حدود (ناطق و اساس) کے برابر ہیں۔
پھر اٹھ کر دوسری رکعتوں کا پڑھنا ہے، جن میں صرف الحمد ہی ہے، جس میں ناطق کا یہ اشارہ ہے، کہ میں اور اساس الحمد اور سورہ کی مثال پر جسم و روح کی طرح ہیں، کیونکہ الحمد روح ہے، اور سورہ جسم ہے، اور عقلِ کلّ و نفسِ کلّ روحانی
۲۰۴
ہیں، جن کو جسمانی تصوّر کرنا کفر ہے، اسی سبب سے ان دو رکعتوں میں تنہا الحمد پڑھی جاتی ہے، جو ان دو روحانی حدود پر دلیل ہیں۔
اس نماز میں سنت کی چھ رکعتیں فریضے کی چار رکعتوں سے پہلے ہیں جس کی تاویل یہ ہے، کہ محمد علیہ السّلام ناطقوں میں چھٹے تھے، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ عیسیٰ علیہ السّلام کے بعد چھ امام گزر گئے تھے۔
نمازِ پیشین کے فریضے کے بعد سنت کی چار رکعتیں ان چار اشخاص پر دلیل ہیں، جن کی فرمانبرداری ناطق کی فرمانبرداری کے بعد مومنوں پر واجب ہے، اور وہ اساس، امام، حجت اور داعی ہیں۔
نمازِ پیشین بندے کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے لئے اس بات کا شکر ہے کہ اس نے ناطق بھیجا، تاکہ آنحضرتؐ لوگوں کو دوسرے جہان کے احوال سے آگاہ کر لیا کریں تاکہ اس ناطق کے ذریعہ لوگوں کو یہ راستہ پیدا ہو سکے، کہ ہمارا کوئی خالق ہے، یکتا، بے شریک، پاک اور برتر، اگر ناطق نہ ہوتے تو لوگوں کو ان کی اس حالت سے کون آگاہ کر سکتا ، جس میں وہ پہلے تھے نہ لوگ خود اپنی حالت کو سمجھ سکتے، اور انسانوں کی طبیعت علم و دانش سے محروم رہ جاتی، پس نمازِ پیشین کے قبلہ ناطق ہیں۔
نمازِ دیگر اساس پر دلیل ہے، اور اس کو نمازِ دیگر اس لئے کہتے ہیں کہ اساس ناطق سے دوسرے (دیگر) شخص ہیں، جو ناطق کے بعد دینی کام کے لئے قائم ہوئے۔
اس نماز کا پہلا وقت وہ ہے جس میں ہر چیز کا سایہ اس چیز سے دگنا ہو جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اساس ہی کی بدولت مومن کے لئے ظاہر و باطن یکسان ہو جاتے ہیں، کیونکہ مومن کی حکمت اس کے علم کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے، اب مومن علمی طور پر اتنا اور بڑھ جاتا ہے، جتنا کہ وہ اس سے پہلے یعنی بغیر باطن کے ظاہر جانتے وقت تھا۔
۲۰۵
اس نماز کا آخری وقت وہ ہے، جس میں سورج زرد نظر آتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ جب ناطق کے ظاہر (شریعت وغیرہ) میں کمزوری آجائے تو وہ اساس کے دور کا آخری کام ہوگا، اور یہی وقت قائمِ حق پیدا ہونے کا ہے، کیونکہ سورج ناطق کے ظاہر کی مثال ہے۔
سنت کی چار رکعتیں فریضے سے پہلے ہونا اس بات کی دلیل ہیں، کہ اساس سے پہلے بھی لوگوں کو بلانا گزشتہ ادوار میں چار اصولِ دین کی طرف تھا۔
نمازِ دیگر کے فریضے میں بھی چار رکعتیں ہیں، یعنی اساس کی دعوت بھی ان چار اصولِ دین کی طرف ہے، جن کی طرف ناطق کی دعوت تھی۔
پہلی دو رکعتیں الحمد اور سورے کے ساتھ ہیں، اور پہلی دو رکعتیں ناطق و اساس پر دلیل ہیں، کیونکہ وہ الحمد اور سورے کی مثال پر جسم اور روح ہیں۔
آخری دو ۲ رکعتوں میں تنہا الحمد ہی ہے، جو عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ پر دلیل ہے، کیونکہ وہ روحانی ہیں۔
نمازِ دیگر کے بعد کوئی سنت نہیں، یعنی اساس کی تاویل کی تاویل نہیں، بلکہ وہ خود مکمل حقیقت ہے۔
نمازِ دیگر بندے کی طرف سے خدائے تعالیٰ کا شکر ہے، کہ وہ بے مثال ہے، اس لئے کہ اس نے اساس کو پیدا کیا ہے، جنہوں نے مومنوں کو ناطق کی تنزیل کی تاویل بتائی، کہ اگر اساس نہ ہوتے تو کون ہمیں تاویل بتا سکتا دران صورت کوئی شخص دین کی حقیقت تک رسا نہیں ہوسکتا، جس طرح موسیٰ کی امت کے یہود و آتش پرست، اور ابراہیم کی امت کے آتش پرست تھے، اور جب ( اساس نہ ماننے کا حال یہ ہے، کہ) بہتر گروہ ایک ایسے قول پر ہیں، کہ انہوں نے ظاہر ہی کو لیا ہے، اور صرف اسی کو قبول کرتے ہیں، اور اس کی تاویل نہیں اپناتے ، اور کورا نہ حالت میں گھومتے ہیں، تو مومنوں پر فرض ہے خدا کا شکر کرنا، کہ اس نے ناطق کو امر کیا ہے، جس سے انہوں نے اساس کو قائم کر دیا، جن کی تاویل
۲۰۶
کے ذریعہ ان مومنوں نے روحانی اور جسمانی حدود کو پہچان لیا، جو اپنے اعضا سے فریضہ اور سنت کو گزارتے ہیں، اور اپنے دل سے ان حدود کو پہچان لیتے ہیں، جن کی مثال ہر نماز سے دی گئی ہے، کیونکہ تائید (دینی امداد) جسم کے ذریعہ بھی دی جا سکتی ہے، اور روح کے ذریعہ بھی۔
نمازِ دیگر کو وسطیٰ کہتے ہیں، یعنی کہ یہ نماز ان پانچوں نمازوں کے درمیان ہے، جو دن رات کی مدت میں لوگوں پر فرض ہوا کرتی ہیں، چنانچہ نمازِ صبح اور نمازِ پیشین اس سے پہلے ہیں، اور نمازِ شام اور نمازِ خفتن اس کے بعد ہیں، اور یہ نماز ان کے وسطہ (درمیان) میں ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اساس کو ناطق سے تعلیم اور نفسِ کلّ سے تائید ملتی ہے، جس طرح یہ نماز، نمازِ پیشین اور نمازِ شام کے درمیان ہے، نمازِ پیشین ناطق کی دلیل ہے، اور نمازِ شام نفسِ کلّ کی دلیل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام نمازوں کی محافظت کرنے کے لئے فرمایا ہے، خصوصاً نمازِ دیگر کی، قولہ تعالیٰ: ۔
’’حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الْوُسْطَى َ (۰۲: ۲۳۸)
محافظت کرو (عموماً) سب نمازوں کی، اور (خصوصاً) درمیان والی نماز کی۔‘‘ اس وصیت کے بموجب جو خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، نمازِ دیگر کی محافظت کرنی لازمی ہے، کیونکہ کسی کام کے متعلق وصیت قبول کی جانے کی شرط یہ ہے، کہ تم اسے بلا تاخیر کر لو، اور اس نماز کا بلا تاخیر پڑھنا یہ ہے، کہ جب سورج کا وقت وہ ہو جس میں تم نے نمازِ پیشین پڑھ چکی ہے، (تب نمازِ دیگر بڑھنی چاہئے) اور ایسی بروقت نماز، نمازِ پیشین کی طرف زیادہ نزدیک ہونی چاہئے، بہ نسبت اس کے کہ تم سورج ڈوبتے وقت نمازِ دیگر پڑھو، اس قول کی تاویل یہ ہے، کہ اساس کی تعلیم ناطق سے تھی، اور تائید نفسِ کلّ سے، لیکن اساس ناطق کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتے تھے، اس لئے کہ وہ بھی انہی کی طرح جسمانی تھے، پس نمازِ دیگر جو اساس پر دلیل ہے، نمازِ شام کے بہ نسبت نمازِ پیشین کی طرف زیادہ نزدیک ہونی چاہئے۔
۲۰۷
اللہ تعالیٰ یہ جو فرماتا ہے، کہ محافظت کرو (عموماً) سب نمازوں کی، اور (خصوصاً) درمیان والی نماز کی، اس سے اللہ کی مراد یہ ہے، کہ ان پانچ حدود کی فرمانبرداری کرو، جن پر پانچ نمازیں دلیل ہیں، خصوصاً اساس کی فرمانبرداری کرو، کیونکہ تمام حدود کو تم انہی کی تاویل کے ذریعے پہچان سکو گے، پس اسی وجہ سے اساس نمازِ دیگر کے قبلہ ہوئے، تاکہ خدا کا شکر کیا جائے، نیز رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حدیث آئی ہے۔
’’مَن فَاتَتْہُ صَلوٰۃُ الْعَصْرِ فَکَاَنَّمَا وُتِرَ اَھْلَہُ وَ مَالُہُ۔
جس کی نمازِ دیگر فوت ہوئی ہو، ایسا ہے، کہ اس کے اہل اور مال فوت (ضائع) ہو چکا ہے۔‘‘ اہل کی تاویل داعی ہے، اور مال کی تاویل علم ہے، یعنی جو شخص اساس کے ساتھ وابستہ نہ ہوجائے، تو وہ نہ علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ دعوت۔
نمازِ خفتن مرتبۂ امام پر دلیل ہے، اور اس کو نمازِ خفتن اس لئے کہتے ہیں، کہ مومنوں کے سوا سب لوگ سوئے ہوئے ہیں، یعنی امامِ زمانؑ کو نہیں پہچانتے ہیں۔
اس نماز کا پہلا وقت وہ ہے، جس میں رات کے دو گھنٹے گزر جاتے ہیں، اور رات دعوت کی مثال ہے، اور دو گھنٹے ناطق اور اساس پر دلیل ہیں، اس کی پوری تاویل یہ ہے، کہ امام کا مرتبہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے، جب کہ ناطق اور اساس کا دور گزر جائے۔
اس نماز کا آخری وقت وہ ہے، جس میں تقریباً آدھی رات گزری ہو، عربی میں اس وقت کو منتصف اللیل کہتے ہیں، یعنی متم (امام) کی آخری حد وہ ہوتی ہے، جس میں وہ اہلِ باطن کو اہلِ ظاہر سے اپنا حق دلا سکتا ہے، یعنی ان کے لئے انصاف کر سکتا ہے۔
نمازِ خفتن رات کی تاریکی میں پڑھی جاتی ہے، جو دین کے دشمنوں سے (امام کے اسرار) پوشیدہ رکھنے کی دلیل ہے۔
۲۰۸
نمازِ خفتن کا فریضہ چاررکعت کا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ امام کی دعوت بھی ان چار اصولِ دین کی طرف ہے، جن کی طرف ناطق اور اساس کی دعوت ہوتی ہے، نمازِ خفتن کے فریضہ میں سے پہلی دو رکعتیں ناطق اور اساس پر دلیل ہیں، اور دوسری دو رکعتیں عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ پر دلیل ہیں۔
فریضہ سے پہلے بھی سنت کی چار رکعتیں ہیں، اور فریضہ کے بعد بھی سنت کی چار رکعتیں ہیں، اور فریضہ ان چار چار سنتوں کے درمیان ہے، جس میں ناطق کی طرف سے یہ اشارہ ہے، کہ امام کی دعوت تین قسم کی ہوا کرتی ہے ایک یہ کہ خود اس کے زمانے میں چار اصول کی طرف دعوت ہوتی ہے، جس کی مثال فریضہ کی چار رکعتوں سے دی گئی ہے، اور اس سے پہلے بھی چار اصول کی طرف دعوت کی گئی ہے، سنت کی ان چار رکعتوں کی مثال پر جو فریضہ سے پہلے آتی ہیں، اور اس کے بعد بھی چار اصول ہی کی طرف دعوت ہوا کرتی ہے، جس طرح فریضہ کے بعد سنت کی چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں، پس بیان یہ ہے کہ نماز پڑھنے والے کو یہ اعتقاد رکھنا چاہئے، کہ اس زمانے میں چار اصول کی طرف دعوت ہے، اور نمازِ خفتن کے فریضہ کو اس اعتقاد سے پڑھے کہ اس سے پہلے بھی دعوت چار اصول کی طرف تھی، اور اس کے بعد بھی دعوت چار اصول کی طرف ہوگی۔
نمازِ پیشین، نمازِ دیگر اور نمازِ خفتن کے فریضے ملا کر بارہ رکعت ہیں، جو اس بات پر دلیل ہے، کہ ان تینوں مویدین سے بارہ حجتوں کو مادّۂ تائید ملتا رہتا ہے۔
نمازِ خفتن کے بعد وتر پڑھی جاتی ہے، اور وتر قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ و السّلام پر دلیل ہے، اور یہ نماز دن رات کی تمام نمازوں کے بعد پڑھی جاتی ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ لوگ قیامت کے دن ان تمام حدود سے یکسو ہو جائیں گے، جو عالمِ جسمانی میں ہیں، سوائے صاحبِّ قیامت کے شرف کے، اور قیامت کے دن مومنوں کو (اسی دنیا ہی سے شروع کر کے) عزت و بزرگی ملے گی، اور کافروں پر تاوان ہوگا، (عذاب اترے گا)۔
۲۰۹
شفع وتر کے ساتھ یعنی جفت طاق کے ساتھ تین رکعت ہے، اس کے معنی یہ ہیں، کہ قائمِ قیامت کے تین مراتب ہیں، پہلا مرتبۂ نبوّت دوسرا مرتبۂ وصایت اور تیسرا مرتبۂ قیامت، اور اس میں جو دو رکعتیں جدا پڑھی جاتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ قائم کو ایک ایسا مرتبہ بھی حاصل ہے، جو ناطق اور اساس کو نہ تھا، اسی لئے (آنحضرتؐ نے) اس ایک رکعت کو ان دو رکعتوں سے جدا پڑھنے کے لئے فرمایا۔
قنوت سے پہلے رکوع ہونے کے یہ معنی ہیں، کہ قائم سے پہلے ان کا حجت اس عالم میں آئے گا (اس اصول کے برعکس کہ ہر امام کا حجت اس کے بعد پیدا ہوا کرتا ہے، یعنی ہر امام کا بیٹا ہی اس کا سب سے بڑا حجت ہوتا ہے مگر حضرت قائم کی طرف سے ان کے والد ہی سب سے بڑے حجت ہوں گے) اور وہی لیلۃ القدر ہوں گے (جس کا نمایان ذکر سورۂ قدر ۹۷ میں ہے)۔
قنوت رکوع کے بعد ہے، اس لئے قائم علیہ السلام اساس کی اولاد سے ہوں گے، کیونکہ رکوع کے آخری معنی اساس کے ہیں (یعنی مولانا علی علیہ السّلام)۔
دائیں طرف سلام پھیرنا اس بات کی دلیل ہے کہ میں نے علی ابنِ ابی طالب ااور اس کے فرزندوں (أئمّہ برحق) کو مان لیا، اور خدا کے حضور سے انہوں نے جو تاویل لائی اس کو میں نے تسلیم کر لیا، اور بائیں طرف سلام پھیرنا اس بات کی دلیل ہے، کہ ناطق کے لئے اور اس کی شریعت کے ظاہری بیان کے لئے میں نے قبول کر لیا۔
وتر کے بعد بیٹھ کر دو ۲ رکعت نماز کا پڑھنا عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ پر دلیل ہے، جن کا شرف لوگوں سے منقطع نہ ہوگا، اس جہان میں لوگوں کو ان سے عقل آتی ہے، اور دوسرے جہان میں مومنوں کے لئے بزرگی اور بہتری ہے، اور کافروں کے لئے عذاب اور سزا ہے۔
۲۱۰
دن رات کی مقررہ اکیاون رکعتوں کی تکمیل کے لئے ان دو ۲ رکعتوں کو ایک رکعت شمار کرتے ہیں، جو بیٹھ کر پڑھی جاتی ہیں، اور وہ دونوں رکعتیں ایک رکعت گنی جاتی ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ قائمِ قیامت دو روحانی (عقلِ کلّ و نفسِ کلّ) سے ایسے ملے ہوئے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی جدائی نہیں، اور قائم ہی کی وجہ سے نفسِ کلّ مکمل ہوگا، یعنی وہ عقلِ کلّ کے مرتبے پر پہنچے گا، اور یہ واقعہ عالمی حرکات رک جانے اور عالمِ جسمانی فنا ہونے کا سبب بنے گا۔
وتر سنت ہے، جو بجائے فریضے کے ہے، جو تمام نمازوں کے اخیر میں ہے، یعنی قائمِ قیامت علیہ السّلام تمام حدود کی انتہا و انجام ہیں، جو شخص وتر کو ترک کر دے، وہ کافر ہو جاتا ہے، اس لئے کہ وہ فریضے کی طرح ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:۔
’’ تَارِکُ الْفَرِیْضَۃُ کَافِرٌ و تَارِکُ سُنَّتِیْ مَلَعُوْ نُ= فریضہ کا ترک کر دینے والا کافر ہے، اور میری سنت کا ترک کر دینے والا ملعون ہے۔‘‘
پانچ وقت نماز میں مجموعاً سترہ رکعتیں فرض ہیں، یہ ان سترہ حدود کی دلیل ہیں جو خدا کی اطاعت و معرفت کی حیثیت سے ہیں، جیسے پانچ روحانی حدود، ناطق، اساس، سات أئمّۂ برحق، خلیفۂ قائم، حجت اور داعی۔
دوسری وجہ سے نمازِ فریضہ کی سترہ رکعتیں، اساس، امام، بارہ حجت، داعی اور دونوں ماذون پر دلیل ہیں، کیونکہ یہ حدود تو ہر زمانے میں موجود ہیں، (یعنی حدودِ جسمانی نورانی اجسام میں موجود ہیں) اور جو شخص ان حدود کی فرمانبرداری سے ہاتھ اٹھائے تو وہ خدا کی فرمانبرداری سے ہاتھ اٹھا تا ہے، اور ایسا شخص کافر ہوتا ہے۔
سنت کی تیس رکعتیں ان تیس داعیوں پر دلیل ہیں، جو ہر حجت کے تحت اس جزیرے میں ہوا کرتے ہیں، جو سال کے ہر مہینے کے تیس دنوں کے برابر ہیں، اور یہ لوگ امام کی سنت (یعنی سال) ہیں۔
۲۱۱
جو شخص سنت سے ہاتھ اٹھائے ، تو ملعون اور راندہ ہو جاتا ہے، یعنی جو شخص داعی کی فرمانبرداری نہ کرے، تو وہ علمِ حقیقت سے دور رہا ہوگا۔
وتر کی تین رکعتیں ہیں، جن کی تاویل بتائی گئی، بیٹھ کر پڑھی جانے والی دو رکعتوں کے ساتھ، کہ ان کو بھی وتر کہا جاتا ہے، تاکہ مجموعاً اکیاون رکعتیں ہو جائیں، اور اکیاون تین دفعہ سترہ ہوتا ہے، یعنی مجموعی حساب سے فریضہ کی ہر ایک رکعت کے مقابلہ میں سنت اور تطوع کی دو دو رکعتیں آتی ہیں، جس طرح میراث میں ہر مرد کو دو عورتوں کے برابر شمار کرتے ہیں، اور رات کی نماز بارہ رکعت ہے، جس کو چھ سلام کے ساتھ پڑھنی چاہئے، اور وہ (کوئی مومن) اس وقت پڑھتا ہے، جبکہ نیند سے اٹھتا ہے، اور سارے لوگ سوئے ہوئے ہو تے ہیں، اور یہ بارہ حجتوں پر دلیل ہے کہ وہ دعوت سے کبھی آرام نہیں کرتے ہیں، جبکہ لوگ آرام کئے ہوئے ہوتے ہیں، اور ظالموں کے زمانے کی تاریکی میں عاجز ہوتے ہیں، مگر بارہ حجت خدا تعالیٰ کے کام میں کھڑے رہتے ہیں، اور رات پوشیدگی میں دعوت کرنے کی دلیل ہے۔
رات کی نماز میں سورہ کو لمبا اور آہستہ پڑھتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں، کہ ستر کے وقت خدا تعالیٰ کی اطاعت زیادہ مسلسل ہونی چاہئے، تاکہ قبول ہو سکے اور وہ ساری نمازیں جو مخلص مومنین دن رات میں پڑھا کرتے ہیں، تریسٹھ رکعات پر مشتمل ہیں، جن کا ذکر کیا گیا، جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی عمر کے سالوں کے برابر ہیں، اور اللہ تعالیٰ اس بیان کو مومنین کے لئے فائدہ بخش کر دے۔ والسلام۔
بانجامِ رسید کتاب ’’وجہ دین‘‘ حصّۂ اول
۲۱۲
وجہِ دین
حصّۂ دوم
وحدتِ ارواح یا اضافی روحیں
ازل میں ارواحِ خلائق کی جیسی وحدت و سالمیت تھی، ویسی ہی یگانگت ابد میں بھی ہونے والی ہے، یہ ’’رازِ رضوان‘‘ ہے، یعنی دوزخ اور بہشت سے بھی عظیم بھید ہے، میں یہ بات قرآن اور روحانیت کی روشنی میں کر رہا ہوں کہ مذکورہ وحدت کے لئے لوگ یا خوشی سے ایک ہو جائیں گے، یا زبردستی سے ایک کئے جائیں گے، مگر یہ بہت بڑا کام ایک دن میں کیسے ہو سکتا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے قریب والے ایک ہوجائیں، پس اس حقیقت کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر عالمِ شخصی میں مولا ہی مرکزِ وحدت ہے، اور ہم سب ایک دوسرے کی اضافی روحیں ہیں، مثلاً آپ سب میرے اضافی نفوس ہیں، یہ تمام باتیں آپ کے حق میں علم الیقین کے مقام پر ہیں، اور اگر ہم میں سے کوئی فرد ہمت سے کام لے تو وہ بڑی خوشی سے نہ صرف عین الیقین کی ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے، بلکہ حق الیقین سے بھی تمام حقیقتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔
میں یہ انمول موتیوں کا لازوال تحفہ جناب عزیز راجپاری اور ان کے خاندان کو پیش کرتا ہوں، کیونکہ آپ علم کے بڑے قدردان ہیں، الحمد اللہ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
۲۴ ؍ فروری ۱۹۹۴ ء
۲۱۷
حرفِ اوّل
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ مُفِیْدِ النِّعْمَۃِ، وَصْلَّی اللہُ عَلٰیْ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ، وَعَلیٰ وَصِیّہٖ عَلِیٍّ وَلِیِّ الْاُمَّۃِ، وَ عَلیَ الْاَئِمَّۃِ الطَّاھِرِیْنَ مِنْ اَبْنَائِہِ الطَّیِّبِیْنَ۔
(اساس التاویل۔ از سید نا قاضی نعمان)
اَمَّا بَعْدُ، قارئین و مستشرقینِ گرامی سے مخفی نہیں کہ نامدار حکیم حضرت سیدنا پیر شاہ ناصر خصرو علوی (قدس اللہ سرّہ العزیز) کی شہرۂ آفاق کتاب ’’وجہ دین‘‘ فقہی موضوعات و مسائل کی تاویلات کا ایک عدیم المثال مجموعہ ہے، جس کی چند خصوصیات اور مصنفِ ممدوح کے حالات کے متعلق حصّۂ اول کے پیش لفظ میں مختصراً لکھا گیا ہے۔
اگرچہ اس پُرحکمت کتاب کے ترجمے میں اس بات کی انتہائی کوشش کی گئی ہے کہ ہر عبارت کا مطلب صاف، واضح اور عام فہم ہو، تاکہ قوم اور مذہب کے اہلِ علم حضرات کا ہر طبقہ اس سے استفادہ کر سکے، اور واقعاً یہ کتاب فارسی متن سے اردو ترجمہ کے لباس میں آنے کے بعد کافی آسان ہوگئی ہے، تاہم تاویلی موضوعات کی بلندی اور بے بدل اصطلاحات کی دشواری اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے، خواہ حکمت کی کتاب ظاہری طور پر آسان ہو یا مشکل، بہر حال وہ اس امر کی مقتضی
۲۲۳
ہوا کرتی ہےکہ، بار بار اس کا خوب مطالعہ کیا جائے، تاکہ رفتہ رفتہ اعلیٰ سطح پر حقائق و معارف کے ابواب کھلتے جائیں، چنانچہ اگر آپ حضرات مطالعۂ حکمت کے اس اصول پر عمل پیرا ہوئے اس کتاب کو بار بار غور و فکر سے پڑھیں، تو آپ کو ایمان و یقین سے اس بات کی بشارت دی جاتی ہے، کہ ہر بار آپ کے دل و دماغ میں علم و دانش کی ایک نئی روشنی کا اضافہ ہوتا جائے گا، جس کی چند وجوہِ مفصلۂ ذیل ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے، کہ علم و حکمت کی باتیں کسی اعلیٰ درجے کی کتاب میں اس طرح تہ بتہ رکھی ہوئی ہوتی ہیں، جس طرح مختلف قسم کے بیش بہا جواہر کسی عظیم پہاڑ کے باطن میں تہ بتہ پوشیدہ ہوتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ تاویل اور حکمت کی کتابیں بامِ افلاک (یعنی عرشِ اعلیٰ) کی سیڑھی کے مانند ہیں، چنانچہ جب کوئی خوش نصیب انسان الفاظ و عبارت کی پستی سے حقیقت و معرفت کی بلندی پر چڑھنے کے لئے حکمت کے پہلے زینے پر قدم رکھتا ہے تو دوسرا زینہ خود بخود آسان ہو جاتا ہے، اسی طرح وہ علم و حکمت کی سیڑھی کے ذریعہ زینہ بزینہ بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے، چنانچہ مولوی معنوی اپنی کتابِ مثنوی کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
نرد بانِ آسمانست این کلام ہر کہ زین برمی رَود آید ببام
نے ببامِ چرخ کو اخضر بود بل ببامی کز فلک برتر بود
ترجمہ: یہ کلام (یعنی کتاب) آسمان کی سیٹرھی ہے، جو شخص اس سیڑھی سے روبفراز ہو جائے، تو وہ چھت پر ضرور چڑھ سکتا ہے۔
اس آسمان کی چھت پر نہیں، جو نیلے رنگ کا ہے، بلکہ اس (روحانی آسمان کی)چھت پر چڑھ سکتا ہے، جو (اس جسمانی) آسمان سے بھی برتر ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطری عادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ شروع شروع میں ذہنی وشعوری مشقوں کے نزدیک جانے سے گریز کرتا ہے، مگر جب اس کو کسی مشفق معلم کی مدد سے عقلی لذّتوں اور دماغی لطافتوں کا کچھ تجربہ حاصل ہوتا ہے،
۲۲۴
تو پھر وہ روز بروز عقلی چیزوں کے اکتساب میں اپنا جوہر دکھانے لگتا ہے، یہاں تک کہ ذہنی مشق و ریاضت اس کی عادت بن جاتی ہے، جس کے ذریعہ وہ علم و عرفان کی لازوال دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے، کہ دنیا میں کوئی ایسا پیشہ و ہنر نہیں، جس کے سیکھنے کے لئے باعتبارِ اہمیت و افادیت کم و بیش انسان کا وقت صرف نہ ہوتا ہو، جس کے حصول کے لئے مسلسل محنت و کوشش درکار و لازمی نہ ہو، اور کچھ مشکلات سہنے کے بعد وہ روز بروز آسان سے آسان تر نہ ہو جاتا ہو۔
پانچویں وجہ یہ ہےکہ ہر نیک، مفید اور مستقل کام کی تکمیل و انجام دہی ایک نئے باغ کی تعمیر کی طرح ہے، جس کے تیار کرنے میں کافی وقت اور متواتر عرق ریزی کے علاوہ سوجھ بوجھ کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
چھٹی وجہ یہ ہے کہ انسان میں حق تعالیٰ کی طرف سے یہ صلاحیت موجود ہے، کہ اگر اپنے نفسِ امّارہ کو مقہور و مغلوب کرے، تو وہ رسول اللہ و أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کی صحیح پیروی کرتے ہوئے روحانیّت اور کشفِ باطن کی ایک ایسی منزل پر پہنچ سکتا ہے جہاں سے قدرتی اور معجزانہ تعلیم شروع ہو جاتی ہے، اور رسول اللہ و أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کی صحیح پیروی کی جانے کی ایک جامع علامت یہ ہے کہ اس وقت ایسے خوش بخت حقیقی پیروی کے ضمیر میں ذکرِ الٰہی کی مسلسل آواز پیدا ہوئی رہتی ہے، مگر نفسِ امّارہ کو مقہور و مغلوب کرنے کے لئے صرف خشک عبادت و ریاضت ہی کافی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ساتھ علم الیقین کے اسلحہ سے لیس ہونا بھی ازبس ضروری ہے، تاکہ اس جہادِ اکبر میں فتح حاصل کی جاسکے، کیونکہ عبادت روحانی مجاہدین کی خوارک ہے، اور علم الیقین ان کا ہتھیار۔
پس یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ پُرمغز اور معنی خیز دینی کتابوں کے بار بار پڑھنے سے حقیقی مومنین کے دل و دماغ میں علم و دانش کی روشنی بڑھتی جاتی ہے، کیونکہ ایسی کتابوں کے مطالعہ کرنے سے نہ صرف علم ہی حاصل ہوتا ہے بلکہ ساتھ
۲۲۵
ہی ساتھ یہ ایک ایسی عظیم عملی عبادت بھی ہے جو خدا کی شناخت و رضا حاصل کرنے کی نیت سے پوری تندہی اور کامل توجہ سے کی جاتی ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اس میں شک نہیں، کہ: ۔
’’وجہِ دین‘‘ علمِ تاویل کی ایک بہترین کتاب ہے، لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ چند بار بغور مطالعہ کرنے کے بعد بھی اہلِ دانش اس کے تمام معنی پر حاوی نہ ہو سکتے ہوں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یقیناً وجہِ دین اب بفضلِ خدا اردو ترجمہ میں ظاہری طور پر آسان اور واضح ہوگئی ہے، اور اس کے کسی فقرے یا لفظ میں کوئی لغوی ابہام باقی نہیں، لیکن جیسا کہ میں قبلاً عرض کر چکا ہوں کہ یہ کتاب قرآنی تاویل اور ربّانی حکمت کی بنیادوں پر قائم کی گئی ہے، لہٰذا اس میں تہ بتہ حکمتیں پائی جاتی ہیں۔
مثلاً حصّۂ اول کے دیباچے میں ہے کہ حق تعالیٰ نے عالمِ باطن سے عالمِ ظاہر پیدا کیا ہے، پھر روح اور جسم کی مثال میں عالمِ باطن اور عالمِ ظاہر کی مختصر حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے، کہ انسانی روح ایک لطیف جوہر ہے، اور انسانی جسم ایک کثیف عرض ہے، مگر ان دونوں کی تخلیقی و تکمیلی ضرورتیں یکسان طور پر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ، جس طرح جسم کی تکمیل روح کے بغیر ناممکن ہے، اسی طرح روح کی تکمیل بھی جسم کے بغیر محال ہے، بالفاظِ دیگر جسم روح سے پیدا کیا گیا ہے، اور روح جسم سے، پھر اس نتیجے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا آخرت سے پیدا کی گئی ہے اور آخرت دنیا سے، چنانچہ پورا دیباچہ اور کتاب کے بہت سے موضوعات اسی حقیقت کی تائید میں ہیں، اب ان نتائج کے اخذ کئے جانے کے بعد ہر دانش مند اس حقیقت الحقائق کے قائل ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے، کہ موجوداتِ ذہنی و خارجی کی تمام چیزیں دائرہ امکان پر واقع ہیں، اور یہ دائرہ وہی ہے جس کے متعلق ارشادِ خداوندی ہے:۔
۲۲۶
’’وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (۳۶: ۴۰)
اور تمام چیزیں (یعنی موجودات) ایک دائرے پر چکر کاٹتی ہیں۔‘‘
اب وہ تمام سوالات خود بخود حل ہو گئے یا کہ ختم ہو گئے جو اولیت و ابدیّت کے تصوّر کے ساتھ وابستہ ہیں، اسی سلسلے میں یہ سوال بھی ختم ہوگیا کہ پہلے دنیا تھی یا آخرت؟ کیونکہ یہ دونوں دائرۂ امکان پر معاً یعنی ایک ساتھ واقع ہیں، اور جو چیزیں ایک دوسرے سے دور یا قریب کسی دائرے پر واقع ہوں، تو ان کے آگے پیچھے ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ دائرے کا کوئی سرا نہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا آخرت سے پیدا ہوتی ہے اور آخرت دنیا سے، اور کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر معاً دنیا و آخرت کا ایک دوسرے سے پیدا ہونا ہی دائرۂ امکان کہلاتا ہے، جس کی مثال روئے زمین کے پانی سے دی جاسکتی ہے، کہ سمندر کو آخرت فرض کیجئے، اور بادل ، بارش، چشمہ، ندی، نالہ دریا، وغیرہ کو، جو مرکز سے جدا ہو کر بکھرے ہوئے پانی کا مجموعہ ہے، دنیا فرض کیجئے اب بتایئے کہ دریاؤں سے سمندر بنتا ہے، یا کہ سمندر سے دریا وغیرہ بنتے ہیں نیز بتائیے کہ پانی کا یہ چکر دائرۂ امکان ہے یا نہیں؟ نیز اس جواب پر بھی غور کیجئے، کہ اگر ہم یہ کہیں: ’’نہ سمندر سے دریا بنتے ہیں، اور نہ دریاؤں سے سمندر بنتا ہے، بلکہ پانی جہاں بھی ہو پانی ہی ہے، بات صرف اتنی سی ہے، کہ پانی بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح دائرۂ امکان پر چکر کاٹتا ہے۔‘‘ کیا یہ ایک انتہائی مفید کلیہ نہیں، جس کے ذریعے ازلیت و ابدیت کے تمام بنیادی اور مشکل سوالات حل کئے جا سکتے ہیں؟
پھر اسی مضمون کے سلسلے میں صفحہ ۲ پر قرآنِ پاک کے حوالے کی غرض سے فرمایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ نے تمام چیزوں کو جفت جفت پیدا کیا ہے، پس اس اشارے کا تقاضا یہ ہے کہ ہم قرآنِ پاک کی ان تمام آیات پر غور کریں جو متضاد و مقابل چیزوں کے باب میں آئی ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے، کہ حق تعالیٰ جس
۲۲۷
طرح زندگی کی کیفیت کو موت کی حالت میں منتقل کر دیتا ہے، اسی طرح موت سے زندگی ظہور میں لاتا ہے، دن رات، نور و ظلمت، دھوپ اور سایہ، ایمان و کفر، خیرو شر وغیرہ جیسی اضداد کے لئے بھی یہی ایک قانون مقرر ہے، پس معلوم ہوا کہ ہمیشہ دنیا سے آخرت اور آخرت سے دنیا پیدا ہوتی رہتی ہے، اور ’’وجہِ دین‘‘ کے نظریات کا مدار و محور یہی ہے۔
اس کتاب کی گہری حقیقتوں کی دوسری مثال یہ ہے کہ اس میں حضرت قائم علیہ السّلام، ان کے حجت، ان کے خلیفہ اور قیامت کے بارے میں بہت سے رموز و اسرار ایسے ہیں، جن کو اہلِ توفیق ہی سمجھ سکتے ہیں، چنانچہ یہ اشارہ کہ حضرتِ قائم علیہ افضل التحیۃ و السّلام ایک ایسے امام ہوں گے، جو نہ روحانی طور پر دعوت کریں گے، نہ جسمانی طور پر،ان کے حجت جو عالمِ دین کی شبِ قدر ہیں، حضرتِ قائمؑ سے پہلے ہی دنیا میں آئیں گے، جن کا زمانہ حصولِ روحانیّت کے اعتبار سے بہترین زمانہ ہوگا، اس لئے کہ انہی کے زمانے میں ملائکہ و ارواح کا نزول ہوگا، اور انہی کے بعد حضرت قائم علیہ السّلام کے ایک خلیفہ ہوں گے، جن کے زمانے میں علم کی کوئی بھی کمی نہ ہوگی، پس یہ نکات بہت ہی عجیب ہیں، اور ان کے نتائج ان سے بھی زیادہ عجیب۔
چنانچہ ہم یہاں صرف خلیفۂ قائم ہی کے بارے میں سوال کرتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے، کہ حضرتِ قائمؑ کے بعد والے انسانِ کامل کو خلیفہ کہا گیاہے؟ حالانکہ یہ لقب بطورِ خاص حضرت آدم علیہ السّلام کا ہے؟ اگرچہ ہر امام اپنے زمانے میں روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں، کیا یہ درست ہے کہ خلیفۂ قائمؑ کہنے کا مطلب یہ ہےکہ حضرتِ قائم پر پہلا دور ختم ہوگا، اور خلیفۂ قائم سے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، اور وہ اس دورِ جدید کے آدم ہوں گے، جن کے زمانے میں دینی اور دنیاوی طور پر بڑی بڑی تبدیلیاں ہوں گی، اگر یہ صحیح ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمِ سراندیبی سے پہلے بھی ایک دور گزرا ہے، کیونکہ وہ اس گزشتہ دور کے آخری امام (یعنی قائم القیامت کے خلیفہ تھے) چنانچہ اساس التاویل عربی ص ۷۵ کے
۲۲۸
حاشیئے پر لکھا ہے، کہ حضرت آدمؑ سے اگلے امام علیہ السّلام کا نام ’’ھنید ‘‘ تھا، جنہوں نے آدمؑ کو علم الا سماء کی تعلیم دی۔
اب یہ فقیر جامع اور معنی خیز الفاظ میں مختلف ملکوں، شہروں، اور علاقوں کے ان تمام علم دوست، دانش گستر اور دین پرور حقیقی اسماعیلیوں کا صمیمیتِ قلب اور صفائی نیت سے شکریہ ادا کرتا ہے، جنہوں نے اس عزیز و حکمت خیز کتاب کے منصوبۂ ترجمہ اور طبع و نشر کے سلسلے میں جذبۂ یاری و قدر دانی کا عملی ثبوت دیا، جن میں ’’دارالحکمتہ اسماعیلیہ، ہونزہ۔ گلگت‘‘ کے اراکین بھی ہیں، اور غیر اراکین بھی، جنہوں نے اس گرانمایہ کتاب کے حصول کے لئے وفورِ اشتیاق کے عالم میں کافی عرصہ انتظار کی زحمت اٹھائی، اور مدتِ مدید کے بعد جب ان کو کتاب کا حصّۂ اوّل پہنچ گیا، تو ان کا چہرہ حقیقی اور روحانی مسرّت و شادمانی سے بھر پور ہوا، انہوں نے فخرو خوشی کی شد و مد میں کچھ ایسا محسوس کیا، جیسے ان حضرات کو پیرِ کامل حکیم ناصر خسرو کی ہم نشینی میسر ہوئی ہو، یہ خوش کن تذکرہ ان بزرگوں، دوستوں اور عزیزوں کے ضمیر کی صحیح ترجمانی ہے، جن کو اس فقیر نے بالکل اسی طرح دیکھا ہے، یا جن کے متعلق اس کو صحیحاً خبر آئی ہے، یا جن کے بارے میں ایسا ہی یقین ہے۔
بروز جمعرات ۱۴؍ ربیع الآخر ۱۳۸۸ ھ، ۱۱؍ جولائی ۱۹۶۸ ء
خادمِ قوم و ملت
فقیر نصیرؔ ہونزائی
۲۲۹
کلام ۔ ۲۱
نماز کی رکعات کے متعلق امت میں اختلاف کے بارے میں
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے مخلص مومنین کے لئے بیان کریں گے جو کچھ اہلِ بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہٖ سلم) ہی کے راویوں (یعنی أئمّۂ طاہرین) سے ہمیں پہنچا ہے، نماز کی رکعات کی تعداد کے بارے میں، کہ کتنی ہیں، اور ان میں جو جو مکہ و مدینہ میں نازل ہوئی ہیں، کتنی کتنی ہیں، مجموعی طور پر کتنی وجوہ سے ہیں، کتنی رکعات ہیں، اور اس بارے میں امت کے درمیان اختلاف کس بناء پر پیدا ہوا ہے، وغیرہ چنانچہ (ائمّۂ طاہرین سے) ہمیں روایت آئی ہے کہ رسول علیہ السّلام نے فرمایا:
’’ اُھْدِیَتْ اِلَیَّ خَمْسُ صَلَوَاتٍ و اُعْطِیْتُ مَالَمْ یُعْطَ اَحَدٌ مِنَ الْاَ نْبِیَاءِ قَبْلِی خَمْسَ صَلَوَاتٍ بِخَمْسۃٍ مَوَ اقِیْتَ عَلیٰ خَمْسَۃِ اَوْجَہٍ و ثلاثَ جِھاتٍ
مجھے پانچ وقت نماز ہدیہ کے طور پر عطا ہوئی، اور مجھے عطا ہوئی وہ چیز جو مجھ سے پہلے کسی پیغمبر کو عطا نہ ہوئی تھی، وہ پانچ نمازیں ہیں، پانچ اوقات میں جو پانچ وجوہ اور تین قسموں میں ہیں۔‘‘ اور پانچ نمازیں: پہلی نمازِ صبح، دوسری نمازِ پیشین،
۲۳۰
تیسری نمازِ دیگر، چوتھی نمازِ شام اور پانچویں نمازِ خفتن ہیں، اور ان کی اوقات کی تشریح ہم نے اس سے پیشتر کر دی ہے، اور ان کی تین قسمیں یہ ہیں، کہ نماز یا فریضہ یا سنت یا تطوع ہوتی ہے۔
ہم بیان کریں گے کہ نمازیں پانچ دفعات میں اتری ہیں، چار دفعہ مکہ میں اور ایک دفعہ مدینہ میں، جو نمازیں مکی ہیں وہ چار دفعات میں بتیس رکعات آئی ہیں، جو دس رکعات فریضہ، سات رکعات مقرونہ، بارہ رکعات سنت اور تین رکعات وتر ہیں، اور وتر کو رسول علیہ السّلام نے ’’ختم‘‘ بھی کہا ہے۔
رسول علیہ السّلام نے خدائے تعالیٰ کے فرمان سے جو نماز سب سے پہلے پڑھی، وہ نمازِ پیشین تھی، دن کے چھ گھنٹے گزر جانے کے بعد، ساتویں گھنٹے میں وہی (نمازِ پیشین کی) دو ۲ رکعتیں تھیں، پھر آنحضرتؐ نے دن کے نو گھنٹے گزر جانے کے بعد دو۲ رکعتوں میں نمازِ دیگر پڑھی، پھر رات کے پہلے گھنٹے میں دو رکعتوں میں نمازِ شام پڑھی، پھر رات کے دو گھنٹوں کے بعد نمازِ خفتن پڑھی اور اس کے بعد دن اور رات کے درمیان نمازِ صبح پڑھی، اور اس کو ممزوجہ یعنی ملی ہوئی بھی کہتے ہیں، اور فرمایا آنحضرتؐ نے کہ نمازِ صبح کا پڑھنا جو دو۲ رکعت ہے، دن اور رات کے فرشتے دیکھا کرتے ہیں، اور پہلے آنحضرتؐ نے پانچ وقتوں میں یہی دس رکعتیں پڑھیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ مزید سات رکعات پڑھی جائیں، اور رسول علیہ السّلام نے اپنے فرمانبرداروں کو اس کے ثواب کے متعلق سمجھا دیا، اور جس نے وہ بات قبول کر لی تو وہ رستگار ہوا، اور جس نے اس کی حقیقت دریافت نہیں کی تو وہ حیران رہا۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان سات رکعات کو مقرونہ کہا، جس کے معنی ہیں نزدیک کیا گیا، اور ان رکعات کو اللہ تعالیٰ کے فرمان اور عقلِ کلّ و نفسِ کلّ کی وساطت (یعنی تعلیم) سے پانچ وقت کی ان دس رکعتوں پر تقسیم کی،
۲۳۱
چنانچہ ان میں سے دو ۲ رکعت نمازِ پیشین کے ساتھ ملا دی ، جس سے وہ چار رکعت ہوئی، ایک رکعت نمازِ شام کے ساتھ ملا دی، جس سے وہ تین رکعت ہوئی، اور دو ۲ رکعت نمازِ خفتن کے ساتھ ملا دی، جس سے وہ چار رکعت ہوئی، اور یہ پانچ نمازیں پانچ اوقات میں فریضہ اور مقرونہ کے نام سے سترہ رکعات ہوئیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقعہ پر آنحضرت علیہ السّلام کو بارہ رکعت سنت پڑھنے کے لئے فرمایا، جس کو رسول علیہ السّلام نے خدائے تعالیٰ کے فرمان اور عقل و نفس کی وساطت (تعلیم) سے فریضہ و مقرونہ کے ان پانچ اوقات پر تقسیم کی، اور آنحضرتؐ نے اس سنت کی چھ رکعات نمازِ پیشین میں رکھیں، چار رکعات فریضہ سے پہلے اور دو ۲ رکعت فریضہ کے بعد، دو ۲ رکعت نمازِ شام کے بعد رکھیں، دو۲ رکعت نمازِ خفتن کے بعد رکھیں، اور دو رکعت نمازِ صبح سے پہلے رکھیں، پس اس طریقے پر سنت کی بارہ رکعات تقسیم کی گئیں، اس کے بعد پھر تین رکعات نازل ہوئیں، رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان کو وتر اور ختم کا نام دیا، اور ان کو نمازِ خفتن کے بعد رکھیں، اور مجموعی طور پر بتیس رکعت نماز ہے، جو مکہ میں نازل ہوئی ہے، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پڑھا کرتے تھے اور پڑھنے کے لئے فرماتے تھے۔
مکہ کی ان نمازوں میں آنحضرتؐ نے ہاتھوں کو سامنے (ناف کے اوپر) سے پکڑے رکھا، مسح جراب وغیرہ پر کیا، اقامت ایک دفعہ پڑھی، جنازے پر چار بار تکبیر پڑھی، اور قبریں خر پشت بنوائیں، یعنی قبر کی سطح ہموار نہیں بنوائی، اور یہ ساری باتیں جو مذکور ہوئیں، مکہ کی ہیں، پھر جب ان کو مدینہ کی طرف ہجرت کا فرمان آیا، تو وہاں پر (یعنی مدینے میں) آنحضرتؐ نے ہاتھوں کو نماز میں کھولے رکھا، مسح ننگے پیروں پر کر لیا، اور اقامت دوبار پڑھی، جنازے پر پانچ بار تکبیر پڑھی اور قبریں چار سر بنوائیں، اور فرمایا:۔
۲۳۲
’’ بُعِثْتُ بِالْقَوْل دُوْنَ الْفِعل مِنْ بدءِ اَمْرِیْ ثُمَّ اُمِرْتُ بِاِ قَامَۃِ الْاَ عْمَالِ مَبْنِیَّۃٌ عَلیَ الْقَوْلِ وَھُوَ الْاِخْلَاصُ۔
میں اپنے کلام کے شروع میں عمل کے بغیر قول کے ساتھ بھیجا گیا ہوں پھر مجھے قول پر مبنی اعمال کو قائم کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، اور بس اخلاص یہی ہے۔‘‘
اس کے بعد مدینہ میں مزید اکتیس رکعت نماز نازل ہوئی، اور رسول علیہ السّلام نے اس میں سے انیس رکعت کی اس مکہ والی پانچ وقت نماز پر تقسیم کی، اور اس کو تطوع کہا، یہاں تک کہ پنج وقت نماز اکاون رکعت کی ہوئی، اور باقی بارہ رکعت نماز کو تہجد کہا، اور وہ نماز رات میں پڑھی، اور رات کے وقت پڑھنے کے لئے فرمایا، پھر مدینہ میں اتری ہوئی اکتیس رکعت نماز کی ان انیس رکعت میں سے چار رکعات کو نمازِ پیشین پر رکھیں، دو ۲ رکعت فریضہ سے پہلے اور دو رکعات فریضہ و سنت کے بعد، جس سے نمازِ پیشین کا چودہ رکعت ہوئی، چار رکعات نمازِ دیگر پر رکھیں، فریضہ سے پہلے، جس سے وہ آٹھ رکعت ہوئی، چار رکعت نمازِ شام پر رکھیں، فریضہ اور سنت کے بعد، جس سے وہ نو رکعات ہوئی، چھ رکعات نمازِ خفتن پر رکھیں، چار رکعات فریضہ سے پہلے اور دو۲ رکعات فریضہ و سنت کے بعد، اور ایک رکعت بچی جس کا دو حصہ کر دیا اور اس کو وتر کے بعد رکھی، اور تطوع کی انیس رکعتوں میں سے اس ایک رکعت کو بیٹھ کر پڑھی، اور اس کو ایک رکعت شمار کرنے کے لئے فرمایا، چنانچہ ارشاد ہے: ۔
’’ رکعَتَانِ مِنْ جُلُوْسٍ بِغَیْرِ عِلَّۃٍ تَقُوْ مَانِ بِرَکْعَۃٍ مِنْ قِیَامٍ۔
بلا عذر بیٹھ کر پڑھی ہوئی دو۲ رکعتیں کھڑے ہو کر پڑھی ہوئی ایک رکعت کے برابر ہے‘‘۔ اور باقی بارہ رکعت نماز رات کے وقت پڑھنے کے لئے فرمایا،
۲۳۳
چنانچہ آنحضرتؐ نے فرمایا: ۔
’’عَلَیْکُمْ بِصَلوٰۃِ الَّیْلِ‘‘ (تین دفعہ یوں فرمایا) یعنی ’’تمہارے ذمہ ہے، رات کی نماز کا پڑھنا۔‘‘ یعنی وہ بارہ رکعات، جو تطوع کی اکتیس رکعات میں سے ۱۹ رکعتیں مکہ ولی نمازوں پر تقسیم کرنے کے بعد باقی رہی ہیں، پس نمازِ پیشین چار درجوں میں ہے: دو ۲ رکعت فریضہ، دو۲ رکعت مقرونہ، چھ رکعت سنت اور چار رکعت تطوع، نمازِ دیگر تین درجوں میں ہے، دو رکعت فریضہ، دو رکعت مقرونہ اور چار رکعت تطوع، نمازِ شام چار درجوں میں ہے، دو ۲ رکعت فریضہ، ایک رکعت مقرونہ، دو رکعت سنت اور چار رکعت تطوع فریضہ کے بعد، نمازِ خفتن چار درجوں میں ہے: دو۲ رکعت فریضہ، دو۲ رکعت مقرونہ، دو۲ رکعت سنت اور چھ رکعت تطوع،چار رکعت فریضہ سے پہلےاور دو ۲ رکعت سنت کے بعد، اور وتر تین رکعت ہے، اور وہ وتر کے بعد کی ایک رکعت جو بیٹھ کر دو۲ رکعت کی صورت میں پڑھی جاتی ہے وہ تطوع ہی ہے، تمام نمازوں کے بعد صبح کی نماز دو درجوں میں ہے: دو۲ رکعت فریضہ اور دو۲ رکعت سنت، اور رات کی نماز ایک درجے میں ہے، اور وہ تطوع ہی ہے، اور تریسٹھ رکعت نماز کے مجموعے میں سے بتیس رکعات مکی ہیں اور اکتیس رکعات مدنی ہیں، اور رسول علیہ السلام نے فرمایا، کہ جو شخص ان نمازوں کو پڑھے اور ان کی تاویل سمجھے تو اس کا اسلام مکمل ہوگا۔،اس حقیقتِ حال کی دلیل یہ ہے، کہ چھوٹے بچے اور اس بوڑھے (پر نماز واجب نہیں) جس کے بتیس دانت ( میں سے سب کے سب) نہ ہوں، جو انتہائی کمزوری کی علامت ہے، تو وہ بچہ اور بوڑھا (نماز کی) حد میں نہیں ہیں، اور وہ اس سے عاجز ہیں (کیونکہ بڑھاپا عملی کمزوری کی مثال ہے اور بچپن علمی عاجزی کی مثال ہے، پس ثابت ہوا کہ جس طرح عملی قوت کے بغیر نماز ہو نہیں سکتی ، اس طرح علمی طاقت کے بغیر بھی نماز درست نہیں)۔
پس امت کا ایک گروہ ان بتیس ۳۲ رکعات پر ٹھہرے رہا، جو مکہ میں نازل
۲۳۴
ہوئی تھیں، اور انہوں نے اس کے معنے نہیں سمجھا، اور نہ اس کے لئے انہوں نے کوشش کی، وہ جرابوں وغیرہ کے ساتھ پاؤں پر مسح کر لیتے ہیں، جنازے پر چار تکبیریں پڑھتے ہیں، قبریں خر پشت بناتے ہیں، نماز میں ہاتھ سامنے سے باندھ لیتے ہیں، اقامت ایک بار پڑھتے ہیں، اور اس کے معنی نہیں جانتے ہیں، اور نہ اس کی جستجو کرتے ہیں، اور دوسرے گروہ نے جو کچھ اس کے بعد نازل ہوا، اسی کو قبول کر لیا، اور انہوں نے اس کی حقیقت تلاش کی اور ان کو مل گئی، اور تمام گروہ اپنے اپنے راستے پر چل رہے ہیں، تاکہ کل (روزِ قیامت) ہر شخص کو اس کا بدلہ دیا جائے۔
پس ہم بتائیں گے، کہ ان سب میں فریضہ کی نمازیں پانچ وقت میں دس رکعات ہوئیں، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ سفر اور بیماری میں پنج وقت نماز میں سے وہی فریضہ کی دس رکعات ہوتی ہیں، جن کو پڑھی جاتی ہیں اور چھ مقرونہ ہیں، جن کو ساقط کر دی جاتی ہیں، دو۲ نماز پیشین میں، دو نمازِ دیگر میں، اور دو نمازِ خفتن میں ، اور باقی دس رکعات فریضہ ہیں، جو پڑھی جاتی ہیں، اور ہم کہہ چکے ہیں کہ مقرونہ کو ساقط کر دینا چاہئے، اور ایک مقرونہ کو ساقط کرنے کی رخصت نہیں، اور وہ نمازِ شام کی مقرونہ ہے، کیونکہ اس میں فریضہ کی وہ دونوں رکعتیں سفر اور بیماری میں مقرونہ کی اس رکعت سے مکمل ہو جاتی ہیں، جس کی تاویل اس کتاب میں اس سے پیشتر بتائی گئی، اور اس بات کی دلیل، کہ یہ سات مقرونہ فریضہ میں سے نہیں، یہ ہے کہ وہ دس رکعات جو فریضہ ہیں سب کی سب الحمد اور سورے کے ساتھ ہیں، اور وہ سات رکعات جو مقرونہ ہیں، صرف الحمد کے ساتھ ہیں، اور فریضہ کی ان گیارہ رکعات کا اشارہ سورۂ یوسف میں آیا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’ إِذْ قَالَ يُوسُفُ لأَبِيهِ يَاأَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ ( ۱۲: ۰۴)
۲۳۵
یعنی جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ ابا میں نے خواب میں گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے جو مجھے سجدہ کرتے تھے۔‘‘ یعنی ناطق، اساس اور گیارہ حجتوں نے امامِ زمان کی اطاعت کی (کیونکہ فریضہ کی مذکورہ گیارہ رکعات اور گیارہ حجتوں کی مثال گیارہ ستارے ہیں، اور سنت و نافلہ نیز اساس و ناطق کی مثال چاند اور سورج ہیں۱)۔
؎۱: اصلِ ہٰذا کے اس مقام پر نساخ نے عبارت غلط لکھی تھی، اس لئے قیاس اور مفہوم سے کام لیا گیا۔ (مترجم)
۲۳۶
کلام۔ ۲۲
نمازِ جمعہ کی تاویل کے بارے میں
خدائے تعالےٰ کی توفیق سے ہم بیان کریں گے، کہ نمازِ جمعہ ناطق پر دلیل ہے، اس لئے کہ روزِ جمعہ سات دنوں میں سے ایک ایسا دن ہے، جس میں لوگ ایک جگہ پر جمع ہو جاتے ہیں، جس طرح ناطق (حضرت محمد صلعم) سات اماموں میں سے ایک ایسے امام ہیں، جن سے پہلے چھ امام گزر چکے ہیں اور وہ ان سب کے مراتب کا جامع ہیں، اور اس دن کو ’’یَوْمُ الجُمُعَۃ‘‘ اس لئے کہتے ہیں، کہ اس روز امت کے سب لوگ ایک جگہ پر جمع ہو جاتے ہیں، جس طرح تمام پیغمبروں اور اماموں کے مراتب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں جمع ہوئے کہ روزِ جمعہ انہی کی دلیل ہے۔
نمازِ جمعہ دو۲ رکعت ہے، اور اس میں دو خطبے پڑھتے ہیں، اس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق لوگوں کو چار اصولِ دین کی طرف بلاتے ہیں، اس میں خطبہ پہلے اور نماز بعد میں پڑھتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق پہلے دو۲ روحانیوں (یعنی عقلِ کلّ و نفسِ کلّ) سے آگاہ ہوئے، پھر انہوں نے دو جسمانیوں کو یعنی اساس اور امام کو قائم کر دیا، اور جمعہ کےدن خطیب کا ہر زینے پر کچھ وقفہ کھڑا رہتا ہوا منبر پر چڑھنا، اس بات کی نشاندہی ہے کہ ناطق مستجیبی کے درجے سے بلند ہو کر ماذونی کے درجے پر پہنچے، درجۂ ماذونی سے درجۂ داعی گری میں، درجۂ داعی گری سے
۲۳۷
درجۂ حجتی میں، درجۂ حجتی سے درجۂ امامت میں، اور درجۂ امامت سے درجۂ نبوّت میں پہنچے، اور آپ نے ہر درجے میں ظاہر و باطن دونوں پر بحقیقت عمل کیا، یہاں تک کہ علم و عمل دونوں کے ذریعہ تمام مراتب سے گزر گئے۔
خطیب کا منبر پر کھڑا رہنا، ناطق کے اپنے مرتبے میں پہنچ جانے کی دلیل ہے، اور خطیب کا منہ مشرق کی طرف کر لینا ناطق پر دلیل ہے، کہ آپ نے اپنا منہ عقلِ کلّ کی طرف کر لیا، جو توحید کا مشرق ہے، اور منبر پر خطیب کا خطبہ پڑھنا عقلِ کلّ کے ساتھ ناطق کے مخاطبہ (یعنی گفتگو) کرنے کی مثال ہے، جس میں پہلا خطبہ ناطق کے عقلِ کلّ پہچاننے پر دلیل ہے اور دوسرا خطبہ ناطق کے نفسِ کلّ پہچاننے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے پر دلیل ہے، اور دو خطبوں کے بعد منبر سے خطیب کا اتر آنا ان روحانی مخاطبتوں کو عربی زبان میں ناطق کے جسمانی کر دینے کی مثال ہے، جو عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ سے ان کو حاصل ہوئیں، اور سننے والوں کے لئے نزدیک کر دینے پر دلیل ہے۔
پھر قوم کے لئے خطیب کا پیش نماز ہونا، اور ان کی طرف پیٹھ کر دینا، ان روحانی باتوں کو ناطق کے پوشیدہ کہنے پر دلیل ہے، یعنی ناطق نے دو طرفہ بات کی، جس طرح پیش نماز دوسری طرف منہ کیا ہوا ہے ( یعنی پیش نماز جو کچھ پڑھتا ہے، اس کا دوطرفہ اطلاق ہوتا ہے، ایک اعتبار سے آگے کی طرف کہ وہ سامنے کو منہ کیا ہوا ہے، اور دوسرے اعتبار سے پیچھے کی طرف، کہ وہ اس قوم کا پیش نماز ہے، یہ ناطق کی مثال ہے، جس کی تعلیم ظاہر اور باطن کے درمیان دو طرفہ ہے، اور نمازِ جمعہ میں پہلے تو خطبہ پڑھا جاتا ہے اور نماز اس کے بعد پڑھی جاتی ہے، یہ دلیل ہے عالمِ بالا سے ناطق کے علم حاصل کرنے پھر اسے لوگوں تک پہنچانے پر۔
دوسرے اعتبار سے روزِ جمعہ امامِ برحق پر دلیل ہے، کیونکہ وہ مستجیب سے درجۂ ہفتم پر ہیں، جس طرح ناطق امام سے درجۂ ہفتم پر ہیں (یعنی امامِ اوّل، آدم،
۲۳۸
نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم السّلام) اور دوسرے درجے یہ ہیں: مستجیب، ماذونِ مطلق، داعیٔ محدود، داعیٔ مطلق، حجتِ جزائر، حجتِ اعظم اور امام درجۂ ہفتم ہیں، اور یہ سات درجے امام تک پہنچ جانے کے لئے ہیں، جس طرح ناطق یعنی حضرت محمدؐ مذکورہ اماموں کے درجات کا جامع ہیں، اور ان سات درجات میں سے بات کرنے والا دراصل امام ہی ہیں، جبکہ وہ کسی کو سنانا اور بتانا چاہیں، کہ حق کا راستہ یہی ہے، جس طرح سات اماموں میں سے امامِ ہفتم (یعنی حضرتِ قائم علیہ السّلام ہر بڑے دور کے اخیر میں) ظاہر ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ظاہر کر دیتے ہیں اور ازسرِ نو نبوّت و شریعت رکھتے ہیں۔
اگر نمازِ جمعہ مسجد میں ہوئی تو دو۲ رکعت میں پڑھتے ہیں، اور اگر مسجد سے باہر ہوئی تو چار رکعات میں پڑھتے ہیں، یہ اس لئے کہ وہ دو خطبے جو خطیب پڑھتا ہے، دو۲ روحانیوں سے ناطق کے مخاطبہ کرنے پر دلیل ہیں، اور دو ۲ رکعت نماز بھی جو تنہا الحمد کے ساتھ ہے، دو ۲ روحانیوں کی نشاندہی کرتی ہے، نیز جامع مسجد درجۂ امام کے تحت ظاہری اجتماع پر دلیل ہے، لیکن یہ ظاہر میں کرنا چاہئے، دو۲ رکعت نماز جو الحمد اور سورے کے ساتھ ہے جسمانیوں اور اہلِ ظاہر پر دلیل ہے، اور مسجد سے باہر چار رکعت پڑھتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ایسے جزیرے میں جہاں اہلِ ظاہر موجود ہوں، امام کی یاد اور فرمانبرداری ظاہر اور باطن دونوں طرح سے کرنی چاہئے، کیونکہ چار رکعت دو۲ روحانیوں اور دو جسمانیوں پر دلیل ہیں، اور دو خطبوں کا پڑھنا اساس اور حجت پر دلیل ہے، جو تاویل کے مالک ہیں، اور دو رکعت ناطق اور امام کی دلیل ہیں، کیونکہ وہ ظاہرِ شریعت کی تالیف کے مالک ہیں۔
۲۳۹
کلام – ۲۳
عید الفطر اور اس کی نماز کی تاویل کے بارے میں
روزہ کھولنے والوں کی عید اساس پر دلیل ہے، اس لئے کہ عید ہی کی وجہ سے لوگ کھانے پینے کی ممانعت اور کمزوری سے چھٹکارا پائے اور طاقت ور ہوئے، اسی طرح اساس ہی کے ذریعے مومنین کو علمی کمزوری سے نجات ملی اور (روحانی طور پر) طاقتور ہوئے، جبکہ انہیں تنزیل کے ساتھ تاویل حاصل ہوئی، روزہ رکھنے والا دین میں خاموش رہنے والے کی مثال ہے، اور روزہ کھولنے والا بولنے والے کی مثال ہے، پس علم و دانش کی بدولت یہ خاموش رہنے والے بولنے والے (یعنی دعوت کرنے والے) بن گئے، جس طرح عید کی بدولت روزہ دار (جب چاہیں) کھانا کھانے والے ہوئے۔
ناطق نے جو فرمایا کہ تیس دن روزہ رکھنے کے بعد عید کے دن روزہ دار جمع ہو جائیں، اور خوشی منائیں، یہ مومنین کے لئے اشارہ ہے کہ جن تیس حدود کو وہ مان رہے تھے، ان کو اساس کی تاویل کے ذریعے پہچاننے کے بعد وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس پر خوشی کریں، اور جب اساس سے مومنین کی جانوں کو تاویل ملی جو خوشی کی مثال ہے، تو خوشی کرنی واجب ہے، وہ تیس حدود یہ ہیں:۔
۲۴۰
سات ناطق: (آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، محمدؐ اور قائم)۔
سات اساس: (مولانا شیث، مولانا سام، مولانا اسماعیل، مولانا ہارون، مولانا شمعون، مولانا علی اور خلیفۂ قائم)۔
ساتھ امام: (یعنی ہر چھوٹے دور کے سات أئمہ) باب، حجت، داعی، ماذون۔
اور پانچ حدودِ علوی: یعنی عقل، نفس، جد، فتح اور خیال۔
روزہ کھولنے والوں کی عید کے دن کو فطر کہتے ہیں، اور اساس کے نام (علی) کے تین حروف ہیں چنانچہ لفظِ فطر کے بھی تین حروف ہیں، نیز روزہ رکھنا ناطق کے ظاہر کو قبول کرنے پر دلیل ہے، جس کی حقیقت تلاش کرنا ہم پر واجب ہے، جو روزہ رکھنے کی مثال ہے، اور وہ تیس دن تین دفعہ دس ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم ان تین مراتب کی تحقیق کریں تو ناطق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میرے تین مرتبے ہیں، دو طرح سے (یعنی باطن اور ظاہر میں) ایک یہ کہ وہ تین اصول یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ اور ناطق کے تیسرے ہیں ( عالمِ روحانی سے علم پہنچانے کے سلسلے میں) دوسرا یہ کہ وہ اس عالم میں تین اصولِ دین میں اوّلین ہیں، جیسے ناطق، اساس اور امام، تیسرا یہ ہے کہ وہ ان دونوں قسم کے درجات کے درمیان ہیں اور یہ (دو طرح کے) تین مراتب تیس دن روزہ رکھنے کی مثال ہیں، جن میں سے تین حدِ جسمانی (ناطق، اساس اور امام) تیس دنوں کی مثال ہیں، کیونکہ یہ حدود دن کی طرح ظاہر ہیں، اور تین حدِ روحانی (عقلِ کلّ، نفسِ کلّ اور ناطق، کیونکہ ناطق روحانی اور جسمانی دونوں حیثیتوں میں ہے) تیس راتوں پر دلیل ہیں، جن میں کوئی چیز نظر نہیں آسکتی ہے، اور عید کا دن، جس میں لوگ روزہ رکھنے سے چھٹکارا پاتے ہیں، اساس پر دلیل ہے، کیونکہ اسی کی بدولت ان تیس حدود (عقلِ کلّ، نفسِ کلّ اور ناطق نیز ناطق، اساس اور امام) کی ناشناسی سے لوگ نجات پاتے ہیں۔
نمازِ عید کی اذان اور اقامت نہیں، اس لئے کہ اذان دعوتِ ظاہر کی دلیل ہے،
۲۴۱
اور اساس کی دعوتِ ظاہر نہیں، اور اقامت باطن (تاویل) کی دلیل ہے، اور اساس کی تاویل کی پھر تاویل نہیں، اور اس عید کے دن کی نماز خطبہ سے پہلے ہے، اور خطبہ دلیل ہے روحانیوں سے کلام اور مخاطبہ کرنے پر، پس خطبہ سے پہلے نماز پڑھنا اساس پر دلیل ہے، کیونکہ وہ پہلے تو ناطق کی شریعت اور جسمانی باتوں میں پلے ہوئے ہوتے ہیں، پھر ان کو ناطق روحانیوں کی تائید سے بہرہ ور کر دیتے ہیں، جب خطیب نماز پڑھتا ہے تو مغرب کی طرف منہ کرتا ہے، اور جب منبر پر چڑھتا ہے تو مشرق کی طرف منہ کر کے خطبہ پڑھتا ہے (ناطق علیہ السّلام اس سے) یہ ظاہر کر دیتے ہیں، کہ جب اساس ناطق کی شریعت میں مکمل ہوئے تو انہوں نے عقلِ کلّ کی طرف منہ کر سکا جو نورِ توحید کا مشرق ہے، یہی ہے روزہ کھولنے والوں کی عید کی تاویل۔
۲۴۲
کلام – ۲۴
عیدِ قربان کی تاویل کے بارے میں
خدائے تعالیٰ کی توفیق سے ہم بیان کر دیتے ہیں، کہ یہ عید قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ و السلام پر دلیل ہے، کیونکہ انہی کے ذریعہ شریعت کا باطن آشکار ہوگا، اور مومنین لا علمی کے رنج سے چھٹکارا پائیں گے، اور اس عید کے دن، جو اس دو جہان کے بزرگوار کی مثال ہے، لوگوں پر واجب ہوتا ہے ، کہ خوشی کریں اور پوشیدگی سے منظرِ عام پر آجائیں، اس لئے کہ جس طرح اس روز لوگوں کو پوشیدگی سے منظرِ عام پر آنا چاہئے، اس طرح قائم (علیہ السّلام ) رموز کو پوشیدگی سے ظاہر اور آشکار کر دیں گے، اس دن کو ’’اضحی‘‘ کہتے ہیں، اور لفظ ’’اضحی‘‘ کے چار حروف ہیں، جس طرح قائم علیہ السّلام کے نام کے چار حروف ہیں، اور اس عید کی نماز کی (بھی) اذان اور اقامت نہیں، اس لئے کہ قیامت کے مالک کی دعوت ظاہر و باطن نہیں ہے، بلکہ دعوتِ ظاہر ناطق کی اور دعوتِ باطن اساس کی ہے، اور قائم علیہ السّلام تو ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دینے والے ہیں، اور اس (عید) کا خطبہ بھی نماز کے بعد ہے ( جس کی تاویل یہ ہے کہ) قائم علیہ السّلام پہلے تو شریعت میں پرورش پائے ہوئے ہوں گے، اس کے بعد وہ اپنی مرتبت پر متمکن ہوں گے، اور حق کو ظاہر کر دیں گے، نطقاء اُسس اور أئمّہ پر (اپنی اپنی ) امت کے ظالموں، فرعونیوں، اور ابلیسیوں سے جو کچھ گزرا ہے، وہ سب اس
۲۴۳
کا انصاف چاہیں گے۔
اس بات کی تاویل کہ اس عید کے روز نماز سے پہلے تکبیر پڑھی جاتی ہے، یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی توحید اور عظمت حضرتِ قائم کے ذریعہ ظاہر ہوگی، اور اس میں پانچ تکبیریں پڑھی جاتی ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ پانچ جسمانی حدود (ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی) سے اس عالم میں بھی ہر وقت مومنین کو فائدہ پہنچے گا، اور قائم علیہ السّلام کے نور کی طاقت سے مومنین اس عالم (یعنی عالمِ بالا) تک پہنچ سکیں گے، اور تکبیریں مثال ہیں، مومنوں کی خوشی اور منافقین و اعدای دین پر قائم علیہ السّلام کی فتح یابی کی، اور قربانی ان عہدوں پر دلیل ہے جو ناطق سے لے کر مستجیب تک لئے جاتے ہیں، جن سے بندے کو خدا تعالیٰ کے امر کی نزدیکی ہوتی ہے، چنانچہ ناطق کی قربانی اساس ہیں، جنہوں نے ناطق کا عہد لیا ہے، اسی طرح اساس کی قربانی امام ہیں، امام کی قربانی حجت ہے، حجت کی قربانی داعی ہے، اور داعی کی قربانی ماذون و مستجیب ہیں، اونٹ ناطق پر دلیل ہے، گائے اساس پر دلیل ہے، اور بھیڑ امام پر دلیل ہے، عیدِ اضحی کی تاویل یہی ہے۔
۲۴۴
کلام۔ ۲۵
نمازِ کسوف کی تاویل کے بارے میں جو سورج اور چاند گرہن کے وقت پڑھی جاتی ہے
یہ نماز دو ۲ رکعت ہے، جو دس رکوع اور چار سجود پر مشتمل ہے، اور ہر رکعت میں پانچ رکوع ہیں، چنانچہ ہر پانچ رکوع میں دو سجدے کرنے چاہئیں، جب نماز پڑھنے والا گرہن کے وقت نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے، تو تکبیر پڑھتا ہے، پھر الحمد اور ایک طویل سورۃ بلند آواز سے پڑھتا ہے، اور اس کے بعد تکبیر پڑھ کر رکوع کرتا ہے، اور تسبیح زیادہ پڑھتا ہے، اور رکوع میں بھی اس قدر ٹھہرتا ہے، جس قدر قیام میں ٹھہرتا ہے، اس کے بعد اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ کر سیدھا ہو جاتا ہے، پھر الحمد اور کوئی طویل سورۃ بآوازِ بلند پڑھتا ہے، اور تکبیر کہہ کر رکوع کرتا ہے، اور اسی طرح چار دفعہ الحمد اور طویل سورۃ بآوازِ بلند پڑھتا ہے، اور تکبیر پڑھ کر رکوع کرتا ہے، اور سیدھا ہو جاتا ہے، جب پانچ دفعہ الحمد اور طویل سورۃ پڑھ لیتا ہے، اور رکوع کر کے لمبی تسبیح پڑھ لیتا ہے تو سَمِع اللہُ لِمَن حَمِدَہٗ کہہ کر سجدے میں جاتا ہے، پھر لمبی تسبیح پڑھتا ہے، اس کے بعد سجدے سے سر اٹھاتا ہے، اور پھر سے سجدے میں جاتا ہے، پھر دوسری رکعات کے لئے اٹھتا ہے۔
۲۴۵
اسی طرح کے دوسرے پانچ رکوع کرتا ہے، پھر سجدے میں جاتا ہے، اور دوسجدے کر کے تشہد کے لئے بیٹھتا ہے، اور التحیات پڑھتا ہے اور سلام پھیرتا ہے، مذکورہ دس رکوع کے سلسلے میں (نمازی) جب کسی جفت رکوع پر پہنچتا ہے، تو قنوت پڑھتا ہے، چنانچہ دوسرے رکوع میں ٹھہر کر قنوت پڑھتا ہے، اور اسی طرح چوتھے، چھٹے، آٹھویں اور دسویں رکوع میں ٹھہر کر قنوت پڑھتا ہے۔
جس کی تاویل یہ ہے کہ سورج ناطق کی مثال ہے، جبکہ ناطق کا زمانہ ہو، اور امام کی مثال ہے، جبکہ امام کا زمانہ ہو، اور چاند اساس کی مثال ہے، اپنے زمانے میں (یعنی) ناطق کے زمانے میں) اور حجت کی مثال ہے اپنے مرتبے میں (یعنی امام کے زمانے میں) اور گرہن مثال ہے، دشمنوں کے غلبے سے ان مراتب پر کوئی رنج و ستم آنے کی، جس کی وجہ سے نورِ توحید مومنوں کی جانوں سے منقطع ہو جاتا ہے، جس طرح گرہن کی وجہ سے سورج اور چاند کی روشنی اجسام سے منقطع ہو جاتی ہے، اور دو ۲ رکعت نماز دلیل ہے ظاہر و باطن کی یعنی اس وقت جبکہ امام مستور ہو جاتا ہے، ظاہر اور باطن دنوں کی نگہداشت کرنی چاہئے۔
پہلی رکعت کے پانچ رکوع میں ٹھہرنا پانچ حدودِ روحانی پر دلیل ہے، جو اوّل، ثانی، جد، فتح اور خیال ہیں ( یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل) اور اس بات کی تاویل کہ نمازی رکوع کے لئے جھکتا ہے اور (دوسری نمازوں کی طرح) سجدے میں نہیں جاتا، یہ ہے کہ داعی یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پانچ حدود (زمانے کے ) مالک سے دور رہے ہیں، نیز امام اور ناطق تک رسائی بھی ہو نہیں سکتی ، کیونکہ سجدہ انہی پر دلیل ہے، لیکن اساس کی تاویل کے ذریعے ان حدود کو پہچان لیا جاسکتا ہے، کیونکہ رکوع (فی نفسہٖ ) انہی پر دلیل ہے۔
دوسری رکعت کے پانچ رکوع میں ٹھہرنا پانچ حدودِ جسمانی پر دلیل ہے، جو
۲۴۶
ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی ہیں، اور نمازی کا رکوع پر جھکنا پھر سیدھا ہو جانا، ناطق اور امام کے نزدیک جا کر پھر اسی تکلیف کی طرف واپس آنے کا اشارہ ہے اور بیٹھنے کے بعد تشہد پڑھنا مومن کو اخیر میں قرار ملنے کی دلیل ہے، اور امام کے کام پھر سے جاری ہونے کی دلیل ہے، اور اس سے نورِ توحید ظاہر ہونے پر خدا کے لئے مومن کی شکرگزاری کی دلیل ہے، جس طرح گرہن کے بعد سورج اور چاند ظاہر ہو جاتے ہیں اور ان کا نور زمین پر پہنچتا ہے ( یہی مثال روحانی زمین کی بھی ہے) اور روحانی زمین دعوتِ حق ہے۔
۲۴۷
کلام۔ ۲۶
نمازِ جنازہ کی تاویل کے بارے میں
ہم خداتعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ اس نماز کی اذان و اقامت نہیں ہے، الحمد اور سورہ پڑھنا بھی نہیں، صرف دعا و صلوات ہے، اور رکوع و سجود بھی نہیں، اور ایک ہی سلام کے بعد اس سے فارغ ہو جانا چاہئے کہ (وہ سلام) دائیں طرف پھیرا جاتا ہے۔ اس نماز میں پانچ تکبیریں ہیں، اور ہر دو تکبیروں کے درمیان صلوات ہے، اگر مرد کے جنازے پر نماز پڑھنی ہو، تو پیش نماز اس کی چھاتی کے پاس کھڑا ہوتا ہے، اور اگر عورت کے جنازے پر نماز پڑھنی ہو، تو اس کے سر کے پاس کھڑا ہوتا ہے۔
اب مذکورہ اشارات کی تاویل بتائی جاتی ہے، پہلے تو ہم یہ بتائیں گے، کہ جس طرح لوگ جسمانی موت کے بعد اس دنیائے فانی کی شہوانی لذّتوں سے دور ہو جاتے ہیں، اور اس جہانِ باقی (پائندہ) میں جاتے ہیں، اسی طرح مومن اپنے مالک (امامِ زمانؑ) کے فرمان کے بموجب روحانی موت (یعنی ریاضت اور مکاشفہ) کے بعد کثیف ظاہر سے، جو اس جہان کی مثال ہے، چھٹکارا پاتا ہے، چنانچہ مردے پر نماز پڑھی جاتی ہے، اور اس کو قبر میں دفنا یا جاتا ہے، جس کی تاویل ہے، اس مومن کو دعوتِ حق ( یعنی روحانی معجزانہ دعوت) کا سنانا جس کا نفس جسمانی خواہشات سے مرچکا ہے، تاکہ وہ ایک درجے سے دوسرے درجے میں
۲۴۸
عروج کر جائے، جس طرح انسان جسمانی موت کے بعد اس ناپائیدار جہان سے اس پائیدار جہان میں پہنچ جاتا ہے۔
اس بات کی تاویل کہ اس نماز کی اذان اور اقامت نہیں ہے، اور نہیں کہنی چاہئیں، یہ ہے کہ مومن جب ظاہر و باطن کی حفاظت اور عمل کر چکا ہوتا ہے، جس کی مثال اذان اور اقامت ہے، تو اس کو علمِ تاویل میں ایک درجے سے دوسرے درجے میں اٹھا لیا جاتا ہے۔
اس بات کی تاویل کہ اس نماز میں قرآن نہیں پڑھا جاتا، یہ ہے، کہ الحمد اور سورہ حدودِ جسمانی پر دلیل ہے، جن کے متعلق مذکورہ مومن کو تو خبر مل چکی ہے، اور اس بارے میں اس کو پھر کسی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں، بجز آنکہ اس کو حدودِ دین کا کوئی درجہ دینا ضروری ہوا ہو (یعنی ہر مومن کو جسمانی حدود کی معمولی شناخت اور ریاضت کے بعد روحانی طور پر آگے بڑھا دیا جاتا ہے) مگر جب اس سے ماذونی، داعی گری، اور حجتی کا کام لینا مقصود ہوا، تو اس کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ پھر ایک بار جسمانی حدود کی شناخت بھی کرائی جاتی ہے)۔
اس نماز میں دعا و صلوات پڑھنے کے معنی ہیں، داعی کو گواہی کے ذریعہ اس مستجیب کی مرتبت کو روحانی حدود پر ظاہر کرنا، تاکہ وہ اس کو اپنا جزوِ وجود بنائیں۔
اس نماز میں رکوع اور سجود نہیں، یہ اشارہ ہے کہ وہ مستجیب حجت کی فرمانبرداری کی صورت میں روحانی رکوع کر چکا ہے، امام کی فرمانبرداری کی صورت میں روحانی سجدہ کر چکا ہے، اور اب وہ امام و حجت کے ظاہر و باطن پر عمل کر رہا ہے۔
اس نماز میں صرف دائیں طرف سلام پھیرا جاتا ہے اور بائیں طرف سلام نہیں پھیرا جاتا ، جس کی تاویل یہ ہے کہ دائیں طرف سلام پھیرنا ناطق کے ظاہر
۲۴۹
کو قبول کرنے کی دلیل ہے، اور بائیں طرف سلام پھیرنا اساس کی تاویل کو قبول کرنے کی دلیل ہے، اور نمازِ جنازہ میں جو بائیں طرف سلام نہیں پھیرا جاتا ، اس سے داعی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نارسید ہ مومن نے ظاہر کو تو پوری طرح سے قبول کیا ہے لیکن باطن کو ابھی پوری طرح سے حاصل نہیں کیا ہے، اور سلامتی کے ساتھ گزر گیا، جس طرح اس کا ظاہر سلامتی کے ساتھ گزر گیا، اسی سبب سے نمازِ جنازہ میں بائیں طرف سلام نہیں پھیرا جاتا ہے۔
جو اس میں تکبیر ظاہر کر کے پڑھتے ہیں اور ہر تکبیر کے بعد پوشیدہ دعا پڑھتے ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ اس مومن کو (جو جسمانی طور پر مرنے سے پہلے نفسانی طور پر مر چکا ہے) پانچ حدود کا نشان بتایا جاتا ہے، کیونکہ ظاہر تکبیر جسمانی حدود کا نشان ہے، اس لئے کہ وہ آشکار ہیں، یعنی ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی، اور وہ پانچ دعائیں جو تکبیروں کے درمیان پوشیدہ طور پر پڑھی جاتی ہیں، پانچ روحانی حدود کی دلیل ہیں، کیونکہ وہ حواس کے ذریعہ پائے نہیں جاتے، بلکہ ان کے لئے زبان سے اقرار کرنا اور دل سے اعتقاد رکھنا ہے۔
جنازے کا پیش نماز ان پانچ تکبیروں اور پانچ دعاؤں کے ساتھ داعی کی مثال ہے، جو یوں گواہی دیتا ہے کہ اس (نفسانی طور پر ) مرے ہوئے مومن نے ان دس حدود کو پہچانا ہے، اور یہ کہ پیش نماز جب مرد کے جنازے پر نماز پڑھائے تو اس کی چھاتی کے پاس کھڑا ہوتا ہے، اور جب عورت کے جنازے پر نماز پڑھائے تو اس کے سر کے پاس کھڑا ہوتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ دعوت کے سلسلے میں وہ شخص مرد ہو سکتا ہے جس نے روحانی حدود پہچان لیا ہو۔
چنانچہ آپ کو معلوم ہے کہ (دوسری) نمازوں کی تکبیر میں مرد کو اپنے کانوں تک ہاتھ اٹھانا چاہئے، کیونکہ اس کی روح کی غذا اس کے کانوں کے راستے سے
۲۵۰
ملتی ہے، اور عورت کو اپنی پستانوں تک ہاتھ اٹھانا چاہئے، اس لئے کہ جسم کی خوراک (دودھ) اس کی پستانوں کے راستے ملتی ہے، پس پیش نماز (مرد کے جنازے پر نماز پڑھا نے کے لئے) اس کی چھاتی کے پاس کھڑا ہوتا ہے، کیونکہ چھاتی میں نفسانی قوت ہے اور وہ بصیرت ہے (یعنی دل کی آنکھ) اور یہ کہ پیش نماز جب عورت کے جنازے پر نماز پڑھاتا ہے تو اس کے سر کے پاس کھڑا ہوتا ہے، جس کا اشارہ یہ ہے ، کہ داعی (نفسانی طور پر مرے ہوئے مومن کے بارے میں) یہ گواہی دیتا ہے، کہ وہ شخص ہے جس نے جسمانی حدود کو پہچان لیا ہے، کہ سر کی آنکھ سے ان کو دیکھ لیا ہے، مگر اس نے روحانی حدود کو ابھی نہیں پہچانا ہے، یہی ہے نماز جنازہ کی تاویل، جس کا ذکر کر دیا گیا۔
۲۵۱
کلام ۔ ۲۷
نماز کے آداب میں سے رکوع ، سجود وغیرہ کی تاویل کے بارے میں
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ نمازی جب نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے، تو اس سے یہ دکھانا مقصود ہے، کہ ناطق اور امام خدا تعالیٰ کے کام کے لئے صحیح معنوں میں کھڑے ہوئے ہیں، جس طرح میں یہاں کھڑا ہوا ہوں، اگرچہ وہ ویسی عبادت تو نہیں کر سکتا ، جس طرح ناطق اورامام نے کی۔
نمازی محراب کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوتا ہے اور محراب قبلے کی طرف ہوتی ہے، محراب اساس کی مثال ہے اور قبلہ قائم کی مثال ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ امام تائید کے فوائد اساس سے حاصل کرتے ہیں اور لوگوں کو قائم ( علیہ السّلام) کی طرف دعوت کرتے ہیں۔
جوشخص نماز میں قبلے سے منہ پھیرے تو اس کی نماز درست نہیں، یعنی جو شخص خداوند تعالیٰ کی فرمانبرداری قائم ( علیہ السّلام) کی وساطت سے نہ کرے، تو خداتعالیٰ اس کی فرمانبرداری قبول نہیں کرتا ہے۔
جب نمازی تکبیر پڑھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کانوں تک ہاتھ اٹھاتا ہے
۲۵۲
اور اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتا ہے، تو اس اشارے سے وہ یہ بتا تا ہے، کہ خدا تعالےٰ دس جسمانی اور روحانی حدود سے بہت بڑا ہے، یعنی وہ ان دو قسم کی مخلوق کی طرح دکھائی دینے والا اور نہ دکھائی دینے والا نہیں، چنانچہ دائیں ہاتھ کی پانچ انگلیاں ہیں، جس سے نمازی کی مراد روحانی عالم اور پانچ روحانی حدود ہیں، اور بائیں ہاتھ کی بھی پانچ انگلیاں ہیں، جس سے نمازی کی مراد جسمانی عالم اور پانچ جسمانی حدود ہیں۔
نمازی جو ہاتھوں کو کانوں تک اٹھاتا ہے وہ اس سے یہ بتانا چاہتا ہے کہ ان (دس حدود) کا فائدہ دو قسم کے کانوں سے حاصل کرنا چاہئے یعنی سر کے کانوں سے بھی اور دل کی کانوں سے بھی۔
نمازی جو ثناء پڑھتا ہے، تو (اس سے اس کا مقصد) دوقسم کے اصولِ دین (جسمانی و روحانی) کے ذریعہ باری سبحانہ سے تمام مخلوقات کی صفات کی نفی کرنا ہے (یعنی ثناء میں حدودِ جسمانی و روحانی کی معرفت حاصل ہونے کے بعد باری سبحانہ کو تمام مخلوقات کی صفات سے برتر سمجھنے کا اشارہ ہے)۔
پس وہ پڑھتا ہے: ۔
’’إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِي لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ(۰۶: ۷۹)
میں نے مائل ہوتے ہوئے اپنا رخ اس خدا کی طرف کرلیا، جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور اسی نے مرئی اور غیر مرئی حدود کو ایک پاک عبادت کی شناخت کرائی، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ اور تاویل میں آسمانوں سے مراد حدودِ علوی ہیں، اور زمین سے مراد نطقاء ہیں، یعنی وہ یہ کہتا ہے کہ ان حدود کو اس خدا نے پیدا کیا ہے، جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے، اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو حدودِ روحانی اور جسمانی کو خدا قرار دیتے ہیں۔
پھر کہتا ہے:۔
۲۵۳
’’سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ‘‘
اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا ایسا ہے کہ بس حمد اسی کی ہے، اَللّٰھُمَّ پانچ حروف ہیں اور یہ عقلِ کلّ کی تسبیح ہے، جو کہتا ہے کہ پاک ہے میرا پیدا کرنے والا اس بات سے کہ وہ مجھ جیسا ہو۔ بِحَمْدِکَ نفسِ کلّ کی تسبیح و تمجید ہے، جو یوں کہتا ہے کہ تیری حمد کے ذریعہ یعنی حمد کی وساطت سے جو عقلِ کلّ ہے، تمام مخلوقات پیدا ہوئیں، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ، نمازی کہتا ہے کہ بڑا بابرکت ہے تیرا نام، اور اس نام سے وہ نفسِ کلّ مراد لیتا ہے، کہ تو نے اس کو پیدا کر کے اپنا نام قرار دیا، یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے ذریعے سے خدا تعالیٰ کی عبادت ہو سکتی ہے، کیونکہ خدا کے نام تو بحقیقت وہی ہیں، وَتَعَالیٰ جَدُّکَ، کہتا ہے کہ برتر ہے تیرا جدّ (فرشتہ) کہ اس کے مقام تک ناطقوں کے سوا اور کوئی شخص پہنچ نہیں سکتا، وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ کہتا ہے کہ تیرے سوا کوئی خدا نہیں۔
أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم، کہتا ہے کہ میں سننے اور جاننے والا، خدا کی پناہ مانگتا ہوں شیطان سے جو حق سے راندہ کیا گیا ہے، اس راندہ شیطان سے اس کی مراد خدا کے ولی کا دشمن ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔ اس کی تاویل اس سے پیشتر بتائی گئی ہے۔
اس کے بعد اَلْحَمْد پڑھتا ہے، اور الحمد سات آیات پر ہے، جو سات أئمّہ کی مثال ہے، جس کے ذریعہ خدا کی نزدیکی طلب کی جاتی ہے۔
اس کے بعد کوئی دوسرا سورہ پڑھتا ہے، اور وہ حجتوں کی مثال ہے جو اماموں کے تحت ہوتے ہیں، جن کی اطاعت امام کے فرمان کے بموجب لازمی ہے۔
پھر رکوع کرتا ہے، جو اساس کی دلیل ہے، کیونکہ اماموں اور حجتوں کے
۲۵۴
لئے تائید اسی سے ہے، اور رکوع وہ ہے جس میں نمازی اپنی کمر جھکا کر اپنے آپ کو دہرا کر دیتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ اساس نے دکھایا کہ میں دوسرا ثانی ہوں ناطق کا، تاکہ میں اس سے مل کر دو چند (دگنا ) ہو جاؤں گا۔
پھر اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتا ہے، اور لفطِ اَللّٰہ میں چار حروف ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ اساس ہی نے (جو اصول میں چوتھے ہیں، اپنی تاویل سے) ظاہر کر دیا ہے کہ، خدا چار اصولِ دین سے بہت بڑا ہے۔
رکوع میں تسبیح پڑھتا ہےسُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہٖ۔ یعنی پاک ہے میرا برتر و بزرگ پروردگار، اور اس کی حمد یعنی عقلِ کلّ کے ذریعے سے ساری خلقت وجود میں آتی ہے، کیونکہ حمد عقلِ کلّ ہے اور اس تسبیح سے نفسِ کلّ کی بزرگی ظاہر کرنا مقصود ہے، کیونکہ اساس کی تائید اسی سے ہے، اور وہ اس عظیم عالم کی ترکیب کا مالک ہے۔
پھر سیدھا ہو کر کہتا ہے ’’سَمِع اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ یعنی خدا نے اس شخص کا بلانا سن لیا ہے جو طریقِ عقل سے اس کی تعریف و ستائش کرتا ہے اور شکر کرتا ہے اور اس کو پہچانتا ہے۔
تب سجدہ کرتا ہے، اور سجدہ ناطق پر دلیل ہے، کیونکہ اساس، امام اور حجت کو اسی کے ذریعہ تائید میسر ہوتی ہے، اور سجدہ کی کیفیت اپنے آپ کو زمین پر گرا دینا ہے، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ جب ناطق کو (اسی دنیا ہی میں) عالمِ روحانی اور نفسِ کلّ کی رویت (دیدار) حاصل ہوئی، تو اس نے اپنے تمام اعتقادات کو بیک وقت نفسِ کلّ کے حوالے کر دیا۔
زمین نفسِ کلّ کی مثال ہے، کیونکہ تمام نفوس کا حامل وہی ہے، جس طرح زمین تمام اجسام کی حامل ہے۔
نیز سجود کی کیفیت اپنے آپ کو تہرا (تگنا) کر دینا ہے، جس کے معنی ہیں، کہ ناطق عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کا تیسرا تھا، حالتِ سجود میں نمازی کا سر زمین پر ہوتا ہے،
۲۵۵
اور رکوع کرتے وقت ہوا میں ہوتا ہے، جس کے معنی ہیں کہ اساس نفسِ کلّ کا فائدہ بالواسطہ حاصل کرتا ہے، اور ناطق نفسِ کلّ کا فائدہ بلاواسطہ حاصل کرتا ہے۔
سجود میں وہ یہ تسبیح پڑھتا ہے، ’’ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَ عْلیٰ وَبِحَمْدِہٖ‘‘ کہتا ہے کہ پاک ہے میرا پروردگار جو سب سے برتر ہے، اور اس ’’میرا پروردگار سب سے برتر‘‘ سے اس کی مراد عقلِ کلّ ہے، کیونکہ وہی تو حدودِ روحانی اور جسمانی سے برتر ہے، اور باری سبحانہ و تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ وہ عقلِ کلّ جیسا ہو، جب وہ عقلِ کل جیسا نہیں، تو لازماً عقلِ کلّ سے نچلا کوئی درجہ (حد) اس کے مشابہہ ہو نہیں سکتا۔
رکوع ایک ہے اور سجدے دو ہیں، اس کے معنی یہ ہے کہ ناطق کو عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ دونوں سے فائدہ حاصل ہے، اور اساس کو صرف نفسِ کلّ ہی سے فائدہ حاصل ہے۔
پھر دوسری رکعت میں سجدہ کرکے تشہد کے لئے بیٹھتا ہے، اور پہلی رکعت میں تشہد نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ اس دنیا میں لوگوں کا قرار اساس کی تاویل پر ہے، اور ناطق کے ظاہر (تنزیل) پر کوئی قرار نہیں، کیونکہ وہ تو ظاہر اسی کی بناء پر اختلاف میں پڑتے ہیں، اور اگر ان کی روح اساس کے بیان کو حاصل کرسکتے تو اسے سکون مل جاتا ہے، یہی سبب ہے کہ نماز کی پہلی رکعت ناطق پر دلیل ہے، دوسری رکعت اساس پر دلیل ہے، تیسری رکعت عقلِ کلّ پر دلیل ہے اور چوتھی رکعت نفسِ کلّ پر دلیل ہے۔
نمازِ شام کی دوسری رکعت میں بیٹھنا ہے، اور تیسری رکعت میں بھی بیٹھنا ہے، مگر پہلی رکعت میں بیٹھنا نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق کے ظاہر کا قرار نہیں اور لوگوں کے قرار کا دارومدار اساس ہی کی تاویل پر ہے، اس کے بعد لوگوں کا قرار امامِ زمانؑ کی ہدایت ہے۔
پھر تشہد پڑھتا ہے، اور ’’اَلتَّحِیَّات‘‘ سات حروف ہیں، جس سے نمازی
۲۵۶
کا یہ اشارہ ہے کہ سات حدود خدا کے امر سے قائم ہوتے ہیں، ’’اَلصَّلوات‘‘ بھی سات حروف ہیں، جس سے نمازی کا یہ اشارہ ہے کہ سات ناطق خدا ہی کے ہیں، ’’اَلطَّیِّبَاتْ‘‘ بھی سات حروف ہیں، جس سے نمازی کا یہ اشارہ ہے کہ سات اساس خدا ہی کے ہیں، اور ’’التحیات‘‘ کے معنی ہیں، خیر بھیجنا ، اور یہ حدودِ عُلوی پر دلیل ہے، جن کی وساطت سے لوگوں کو گزشتہ ناطق آئے تھے، ’’اَلصَّلَوات‘‘ کے معنی ہیں درود بھیجنا، یعنی نفسِ کلّ نے لوگوں کو دوسرے جہان کے کام سے آگاہ اور خبردار کر دیا، ’’اَلطَّیِّبَاتْ‘‘ کے معنی ہیں ، پاکیزگی، اور یہ اساسوں کی دلیل ہے، کہ انہوں نے اپنی تاویل کے ذریعہ لوگوں کو شک اور شرک کی پلیدیوں سے پاک کر دیا۔
وَرَحْمَةُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ، اور خدا نے ان پر رحمت کی (اور برکات دی) اور لوگوں پر خدا کی رحمت اساس ہیں کہ ان کی تاویل کے ذریعے (خدا) لوگوں کو بخش دیتے ہیں، اور برکات أئمّہ علیہم السّلام ہیں، جو بموجبِ فرمانِ الٰہی یکے بعد دیگرے (مسندِ امامت پر ) متمکن ہوئے، اور لوگوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا، اور وہ جہالت کی تاریکی سے آزاد ہوئے اور دوسرے عالم کے ایک ایسے مقام پر جا پہنچے، جہاں پر ان سے نعمتیں کبھی منقطع نہیں ہو جاتیں۔ السَّلامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ، فرماتے ہیں کہ خدا کا سلام ہو ہم پر اور خدا کے ان بندوں پر جو نیک ہیں، سلام کے معنی ہیں ’’تائید‘‘ یعنی سلام ہم پر ہے کہ ہم ناطق ہیں، کیونکہ تائید ہم پر ہے اور خدا کے نیک بندوں پر جو اُسس اور أئمّہ ہیں یعنی نمازی کہتا ہے کہ خدا کی تائید ناطقوں، اساسوں اور اماموں پر ہے، کیونکہ وہی لوگ خداوندانِ تائید ہیں۔
لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہٗأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولَہٗ، کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ مذکورہ حدود میں سے کوئی ایک بھی خدا جیسا نہیں، اور ان کا خدا ایک ہے اور وہ کسی وجہ سے
۲۵۷
بھی ان کے مشابہہ نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بندگی بحقیقت وہی تھی، جو محمد علیہ السلام نے کی، اور پیغمبری بحقیقت وہی تھی جو محمد علیہ السلام نے کی۔
والسلام
۲۵۸
کلام ۔ ۲۸
زکوٰۃ اور اس لفظ کی تاویل کے بارے میں
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ زکوٰۃ دینے سے مومن پاک ہو جاتا ہے اور اس کی روح بڑھ جاتی ہے، اس لئے کہ اس کی روح کا پاک ہونا اس کے جسم کے پاک ہونے پر ہے، اس کے جسم کا پاک ہونا اس کی غذا کے پاک ہونے پر ہے، غذا کا پاک ہونا مال کے حلال کرنے پر ہے، اور مال کا حلال کرنا خدا کے حق کو اس مال سے جدا کرنے پر ہے، اور لوگوں سے خدا کے حق لینے کے حقدار اس کے رسول ہیں، اور (آپؐ کے بعد) وہ شخص ہیں، جو آپ کے فرمان کے بموجب آپؐ کے جانشین ہوئے ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ:۔
’’خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ (۰۹: ۱۰۳) ‘‘
اللہ تعالیٰ نے رسولؐ سے فرمایا کہ ’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس میں ان کے مال اور جان کی پاکیزگی ہے، اور اس کے عوض میں ان کو صلوٰۃ دیجئے، کیونکہ آپ کی صلوٰۃ (دعا) ان کے لئے باعثِ سکون ہے۔‘‘ اور خدا کے لئے
۲۵۹
رسولِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فرمانبرداری کے متعلق کسی بھی مومن کو کوئی شک ہی نہیں، پس تم سمجھ لو کہ جس نے رسول علیہ السلام کو زکوٰۃ دی تو آنحضرتؐ نے اس شخص کو صلوٰۃ (دعا) دی اور جس کو یہ صلوٰۃ ملی تو اس کو سکون حاصل ہوا، اور تم یہ بھی سمجھ لو کہ جس نے آنحضرتؐ کو زکوٰۃ نہ دی، تو اس کو یہ صلوٰۃ نہ ملی، اور جس کو یہ صلوٰۃ نہ ملی، تو اس کو سکون نہ ملا، اور اسی طرح یہ بھی سمجھ لو کہ جس نے (آنحضرتؐ کو ) صدقہ دیا تو وہ پاک ہوا، اور اس کو (مال و جان کی) برکت ملی، اور جس نے صدقہ نہیں دیا تو وہ پاک نہیں ہوا، اور اس کو برکت نہیں ملی، جس طرح خدا تعالیٰ نے اس ارشاد میں رسول علیہ السلام سے فرمایا کہ مومنین سے زکوٰۃ لے لیا کریں، اسی طرح قرآن کی بہت سی جگہوں پر ارشاد ہے کہ (مومنین رسول علیہ السلام کو) زکوٰۃ دے دیا کریں، چنانچہ: ۔
’’ وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (۰۲: ۴۳)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘ اور رسول علیہ السلام سے یہ حدیث آئی ہے، جو فرمایا: ’’ مَانِعُ الزَّکوٰۃِ فِی النَّارِ = یعنی زکوٰۃ کا منع کرنے والا آتشِ (دوزخ) میں ہے۔‘‘
پس نماز نادار اور دولت مند ہر شخص پر واجب ہے، مگر زکوٰۃ صرف دولت مند ہی پر واجب ہے نادار پر نہیں، خدا تعالیٰ نے زکوٰۃ نماز ہی کی طرح واجب کر دی ، اس پر لوگوں کو آزمایا، دینے والوں کو بہشت کا وعدہ کر دیا، ان کا نام پرہیز گار رکھا، اور اس کے روکنے والے ناپاکوں کو عذاب سے ڈرایا، اور ان کا نام شقی یعنی بدبخت رکھا، اور فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
’’فَأَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظَّى لاَ يَصْلاَهَا إِلاَّ الأَشْقَى الَّذِي كَذَّبَ وَتَوَلَّى وَسَيُجَنَّبُهَا الأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى (۹۲: ۱۴ تا ۱۸)
تو میں تم کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ سے ڈرا چکا ہوں، اس میں داخل نہیں ہو گا، مگر وہ بڑا بدبخت شخص جس نے (رسول کو ) جھٹلایا اور اس سے روگردانی کی، اور
۲۶۰
اس سے ایسا بڑا پرہیزگار شخص دور رکھا جائے گا جو اپنا مال زکوٰۃ کے طور پر دیتا ہے۔‘‘
قرآن میں جس زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس کی تفصیل فرمائی ہے، کہ کس مال سے زکوٰۃ دینی چاہئے اور کس مال سے نہیں دینی چاہئے، جس طرح آنحضرتٔ نے نماز کی تفصیل فرمائی ہے اور ان تمام فرامین سے وہ مثال مقصود ہیں جن کے تحت حکمتیں پوشیدہ ہیں، تاکہ لوگ مثالوں سے ممثول پر دلیل لیں (یعنی جس حقیقت کی مثال دی گئی ہے، اس حقیقت تک پہنچ جائیں) تاکہ خدا کے مقرر کردہ رہنماؤں کے ذریعہ دوزخ کی آگ سے بچ جائیں، جو شخص ظاہر پر عمل کرتے ہوئے باطن کی تلاش کرتا ہے اور معرفت کے بیان پر خدا تعالیٰ کو پہچانتا ہے تو وہ ناجی ہو جاتا ہے، اس لئے کہ لوگ دانش ہی کے ذریعہ خدا کے اولیاء کے ساتھ مل جاتے ہیں، اور زمانے کے ابلیس دیو کے گروہ سے بچ سکتے ہیں، اور اگر ایسا نہ ہوتا، تو خدا تعالیٰ نے بعض مالوں پر زکوٰۃ واجب کرتے ہوئے اور بعض مالوں پر واجب نہ کرتے ہوئے یہ کیوں چاہا کہ لوگ ان کے معنی جاننے کے لئے دین کے رہنماؤں اور علمِ یقین کے خزانہ داروں کے ساتھ مل جائیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تمام چوپایوں اور ہر قسم کے مال پر زکوٰۃ واجب کر دی مگر اس شخص پر کوئی زکوٰۃ واجب نہیں کی جو بقیمت ایک ہزار اشرافی سونے کے زیورات رکھتا ہے، اس کی عمر بھر کے لئے، خواہ وہ سو سال تک یا اس سے بھی زیادہ کیوں نہ جیئے اور جو شخص دو سو درم رکھتا ہے تو اس پر خداتعالیٰ نے پانچ درم (زکوٰۃ کی صورت میں) قرض ٹھہرایا، جبکہ اس رقم پر ایک سال یا کچھ زیادہ عرصہ گزر چکا ہو، اور جو شخص پانچ چرتے ہوئے اونٹ رکھتا ہے، تو اس پر ہر سال ایک بھیڑ کا صدقہ دینا واجب کر دیا، اور اگر وہ بوجھ اٹھانے والے سو اونٹ رکھتا ہے، تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں کی، نیز چرتی ہوئی گائیوں پر زکوٰۃ واجب کی گئی، مگر بیل اور گدھے پر (کوئی چیز) واجب نہیں کی، خواہ وہ کتنے زیادہ کیوں نہ ہوں، جب
۲۶۱
امرِ زکوٰۃ کا یہ حال ہے، جس کا ہم نےذکر کر دیا، تو دانش مند پر واجب ہے کہ خدا کی حکمت کے خزانہ داروں سے اس حکمت کی تلاش کرے، جو ان فرامین میں پوشیدہ ہے، تاکہ جس کے ذریعہ وہ دائمی دوزخ کی آگ سے چھٹکارا پائے۔
رسول علیہ السلام نے بموجبِ امرِ الہٰی زکوٰۃ کی قسموں کی جو تشریح فرمائی ہے، ہم یہاں خداوندِ تعالیٰ و تقدس کی مہربانیوں سے اس کا بیان کر دیں گے، اور زکوٰۃ والی تمام جنسوں کو ایک ایک کر کے دکھائیں گے، چنانچہ خدا تعالیٰ یوں فرماتا ہے:
’’ وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ (۰۲: ۴۳)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔‘‘ خدا تعالیٰ نماز کے ذریعہ ناطق کی اطاعت کے لئے فرماتا ہے، اس لئے کہ ناطق کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور اس کی اطاعت کے بغیر خدا کی کوئی بندگی ہو نہیں سکتی، اور آنحضرت علیہ السّلام انسانوں کی انتہا ہیں (اس معنی میں کہ تمام انبیاء اور اماموں کی اطاعت بھی انہی کے نام پر ہے) اور رسول علیہ السّلام نے فرمایا:
’’اَلْقَرْقُ بَیْنَ الْکُفْرِ وَ الْاِیْمَانِ تَرْکُ الصَّلوٰۃ۔
کفر اور ایمان کے درمیان فرق (قطعی طور پر ) نماز چھوڑ دینا ہے۔‘‘ اور نماز اپنے خدا کی بندگی ہے، یعنی کافر اور مومن کے درمیان فرق اپنے خدا کی بندگی سے دست بردار ہو جانا ہے، اور زکوٰۃ اساس پر دلیل ہے، اس لئے کہ شکوک اور شبہات کی آلائشوں سے نفس کا پاک ہونا اساس ہی کی تاویل کی بدولت ہے، اور زکوٰۃ کے معنی ’’پاکی‘‘ کے ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (۹۱: ۰۹)
یقیناً رستگار ہوا جس نے اس (نفس) کو پاک کر لیا۔‘‘ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے، کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ پھر امت پر لازم ہے کہ شریعتِ ناطق کے ظاہر کو قائم رکھے، اور اس کے باطن کو اساس کی تاویل کے ذریعہ سمجھ لے ( یہ
۲۶۲
ہوئے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کے مختصر معنے) اور شریعتِ ناطق کی تاویل یہ ہے ، کہ (حدودِ دین میں سے ) ہر ایک حد اپنے مافوق حد سے علمی فائدہ حاصل کر کے اپنے ماتحت حد کو پہنچا دیتا ہے، تا کہ اس سے ناطق اور اساس کی اطاعت ہو سکے اور باطنی نماز و زکوٰۃ کو بجا لا سکے، رسول علیہ السّلام کی حدیث ہے جو فرماتا ہے:
’’ لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّا یُئْوتِی الزَّکوٰۃِ =جو شخص زکوٰۃ نہ دے تو اس کی نماز (مقبول) نہیں۔‘‘ یعنی جو شخص اساس کی اطاعت نہیں کرتا تو گویا اس نے (بحقیقت) ناطق کی اطاعت نہیں کی۔ اس قول کے یہ معنی ہیں، کہ ناطق کی شریعت سرتا سر رموز، اشارات اور مثالوں کی حیثیت سے ہے، پس جو شخص رموز، اشارات اور مثالوں کے معانی اور مطالب نہیں سمجھتا، تو وہ (گویا ناطق کا) بے فرمان ہو جاتا ہے، اور اساس کی تاویل کے راستے کے بغیر ان معانی و مطالب تک پہنچ جانا ناممکن ہے۔
پس ثابت ہوا کہ جو شخص اساس کی اطاعت نہیں کرتا ہے، تو اس نے ناطق کی اطاعت نہیں کی، اور جو شخص ناطق کی اطاعت نہیں کرتا تو اس نے خدا کی اطاعت نہیں کی، اور جو شخص خدا کی اطاعت نہیں کرتا، تو وہ کافر ہے، پس رسول علیہ السلام کے اس قول کا مطلب یہی ہے، جس میں فرمایا کہ جو شخص زکوٰۃ نہ دے، تو اس کی نماز (مقبول نہیں، اور جس کی نماز نہ ہو تو وہ کافر ہے، نیز اس حدیث کے معنی جو فرمایا کہ زکوٰۃ کا منع کرنے والا آتشِ (دوزخ) میں ہے، یوں ہیں، کہ جو مومن تاویل کو، جس میں اس کے نفس کی پاکی ہے، قبول نہ کرے، تو وہ اہلِ ظاہر کے زمرے میں شامل ہو جاتا ہے اور (بغیر باطن کے ) ظاہر اس کو قیامت کی آگ میں پہنچا دینے کا سبب ہے۔
زکوٰۃ کو صدقہ بھی کہتے ہیں، یہ (زکوٰۃ) اس تائید کی دلیل ہے جو عقلِ کلّ سے ناطقوں، اساسوں اور اماموں کو ملتی ہے، جس سے ان کے نفوس شکوک اور شبہات سے پاک ہو جاتے ہیں، یہ تائید دوسرے حدود کے سوا صرف انہی
۲۶۳
کے لئے مخصوص ہے، کیونکہ یہ تو شک سے گزر کر یقین میں پہنچ چکے ہیں اور یہی زکوٰۃ حجتوں کو پہنچتی ہے، اور صدقہ تاویل پر دلیل ہے، جو داعیوں، ماذونوں اور مستجیبوں کا حصہ ہے، اور زکوٰۃ جو تائید ہے ان کا حصہ نہیں، لفظ ’’صدقہ‘‘ صدق سے نکلا اور صدق کے معنی ہیں سچ بولنا، یعنی تاویل کے مالک کو سچا قرار دینا ہے (بالفاظِ دیگر تاویل کے مالک کی تصدیق کرنی ہے) تاکہ مومن کا نفس شکوک و شبہات سے پاک ہو جائے، اور تاویل ہی شریعت کی تصدیق کرتی ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام ) کے قصے میں یوں فرماتا ہے: قو لہ تعالیٰ:
فَأَرْسِلْهُ مَعِي رِدْءًا يُصَدِّقُنِي (۲۸: ۳۴)
ارشاد ہوتا ہے کہ ، موسیٰ نے خدا تعالیٰ سے درخواست کی کہ ہارون کو بھی میرے ساتھ مددگار بنا کر رسالت دے دیجئے تاکہ وہ میری تقریر کی تصدیق کرے گا، یعنی میری شریعت کی تاویل بتائے گا، تاکہ لوگ اس کی حقیقت سمجھیں، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے امیر المومنین علی علیہ السّلام سے فرمایا: ’’ اَنْتَ الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَر = یعنی آپ ہی میری تصدیق کرنے والے ہیں، سب سے بڑے۔‘‘ یعنی آپ میری تصدیق کرنے والے ہیں، جس طرح دوسرے تمام اساس (اپنے اپنے وقت میں) ناطقوں کی تصدیق کرنے والے تھے، اور آپ تمام اساسوں سے بڑے ہیں، جس طرح میں سب پیغمبروں سے بڑا ہوں۔
پس ہم بتائیں گے، کہ محمد علیہ السّلام میں حدودِ عُلوی کی طرف سے جو کچھ علمِ حقیقت ہے وہ سب ’’صدق‘‘ ہے، اس لئے کہ مومنین اس تاویل سے جو
۲۶۴
ان کو حاصل ہوتی ہے، رسول کی تصدیق کرتے ہیں، اور صدق کو اسی کے ساتھ منسوب کرتے ہیں اور اختلاف ختم ہو جاتا ہے، اور حدودِ دعوت میں سے ہر حد اپنے اوپر کے درجے کے طرف سے نچلے درجے کے لئے صدقہ ہے (چنانچہ امام کا صدقہ حجت ہے داعی کے لئے اور حجت کا صدقہ داعی ہے ماذون کے لئے) اور یہ حدود اپنے مافوق کی طرف سے جو کچھ قبول کرتے ہیں، تو یہ خدا کی طرف سے ان پر فرض ہے، جو ہر ایک کو فرمایا ہے ، کہ اپنے مافوق کی اطاعت کرے، اور یہ حدود آٹھ درجوں میں ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ (۰۹: ۶۰)
صدقات تو صرف درویشوں کے لئے ہیں یعنی حدود ناطقوں کے لئے ہیں، اور ناطقوں کو درویش اس لئے کہا کہ اس عالم میں کوئی شخص نہیں جس سے ناطقین علمی فائدہ لیتے ہوں، مگر وہ تو صرف حدودِ علوی کے درویش ہیں، یہی معنی ہیں جو ابراہیم علیہ السلام کے قصے میں فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً (۰۴: ۱۲۵)
اس قول کا ظاہر یہ ہے کہ، خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا درویش لیا، اور خلیل کے معنے حاجت مند کے ہیں، کہ نفسِ کلّ نے ابراہیمؑ کو اپنا درویش لیا، یہی معنی ہیں جو اعرابی نے وصیت کی اور کہا:
’’ اِجْعَلُوْا نَخْلِیْ فِی الْاَ خَلِّ الْاَقْرَبْ‘‘ یعنی ’’میرے نخلستان کو میری قرابت کے اس زیادہ محتاج کے نام پر کر دینا۔‘‘ بس اتنا سا اہلِ ادب کے قول کا حوالہ دیا گیا۔
پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرتے ہیں اور کہتے ہیں، کہ خدا تعالی نے صدقات میں محتاجوں کے بعد مکینوں کا ذکر کر دیا ، جس سے اللہ کی مراد ہر زمانے
۲۶۵
کے اساس ہیں، کیونکہ امت کی تسکین انہی کی تاویل سے ہوتی ہے اور فرمایا:۔
’’ وَالعَا مِلِیْنَ عَلَیْھَا (۰۹: ۶۰)
اور صدقات ان کے لئے ہیں، جو اس میں کام کرتے ہیں۔‘‘ جس سے اللہ کی مراد أئمّہ (علیہم السّلام) ہیں، اس لئے کہ ناطق نے کتاب اور شریعت کی تالیف کی ، اور اساس نے رسول کے فرمان کے بموجب تاویل بتائی، اور (تالیف و تاویل) دونوں اماموں کے حوالے کردی گیئں، تاکہ وہ ان پر قیامت تک کام کرتے رہیں، اور فرمایا: ۔
’’ وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ (۰۹: ۶۰)
یعنی ان لوگوں کو جن کے دل ایک کر دیئے گئے ہیں، جس سے اللہ نے حجتوں کو چاہا، کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک کر دیا ، جیسے اس نے ان کو (علم و حکمت سے ) بہرہ مند کر دیا، جس سے وہ ایک ہوئے، اور انہوں نے تاویل اور بیان سے دعوت قائم کر رکھی، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ (۰۸: ۶۳)
فرمایا ’’اے محمد! اگر آپ خرچ کرتے جو کچھ زمین کے اندر ہے، تب بھی آپ ان کے دلوں کو ایک نہیں کرسکتے، لیکن خدا تعالیٰ نے ان کے درمیان الفت ڈالی۔‘‘ یعنی اگر آپ ان کو دین کی زمین (دعوت) کے تمام تر بیان کی تاویل کر دیتے، تب بھی وہ یک جا نہ ہوتے، اور ایک دوسرے کے مخالف ہوتے، مگر خداوندِ تعالیٰ نے تاویل کے ذریعے سے ان کے درمیان الفت ڈالی، اور فرمایا ’’وَفیِ الرِّ قَابِ‘‘ اس سے داعیوں کی طرف اشارہ فرمایا، کیونکہ وہی لوگ تو مومنوں کی گردن پر عہد کی ذمہ داری رکھتے ہیں، اور فرمایا: ’’وَالْغَارِمِیْنَ‘‘ اور تفسیر میں غارمین ایسے لوگوں کو کہتے ہیں، جن پر قرض ہو اور وہ اس کو نہ چکا
۲۶۶
سکتے ہوں، اس سے خدا تعالیٰ کی مراد ماذونانِ مطلق ہیں، کیونکہ ماذونِ مطلق ہی ایک ایسے فرزند کی پرورش کرتا ہے جو دوسرے کا ہے (یعنی ماذونِ محدود جو دراصل داعی کا فرزند ہے) اور یہ فرزند زیادہ سے زیادہ علم کا تقاضا کرتا ہے، ماذونِ مطلق اس کو علم سکھانے کا رنج اٹھاتا ہے، اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے اس کو روحانی علم دیا ہے اس سے اس کی پرورش کرتا ہے، اور فرمایا: ’’وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ = اور خدا کے راستے میں‘‘ ۔ جس سے ماذونِ محدود مراد ہے، کیونکہ مومن اسی خدا کا راستہ قبول کر لیتا ہے، اور فرمایا: ’’وَابْنِ السَّبِیْل = اور راستے کے بیٹے کو۔‘‘ جس سے مستجیب مراد ہے، جو خدا کے راستے کا بیٹا ہے، یعنی ماذونِ محدود خدا کا راستہ ہے اور مستجیب اس کا بیٹا ہے۔
پس ان آٹھ درجوں میں سے ہر ایک جن کا ہم نے ذکر کیا ، اپنے مافوق سے صدقہ لیتا ہے، اور اپنے ماتحت کو صدقہ دیتا ہے، اور یہ سب ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں، اور ایک دوسرے کے لئے اقرار کرتے ہیں، اور اپنے مافوق کے لئے ان میں سے ہر ایک جو اطاعت کرتا ہے وہ خدا کی طرف سے فرض ہے۔
روایت کی گئی ہےکہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس آیا، جبکہ آنحضرت کچھ صدقات تقسیم کر رہے تھے، اس شخص نے رسول علیہ السلام سے کچھ صدقہ مانگا، تو رسول علیہ السلام نے فرمایا:۔
’’اِنْ کُنْتَ مِنَ الثَّما نِیَۃَ وَاِلّاَ فَھُوَ دَآءٌ فِی الْبَطْنِ وَ صُدَاعٌ فِی الرَّأ سِ لَا صَدَقَۃٌ = اگر تو آٹھ حدود میں سے ہے ( جن کو صدقہ دینا جائز ہے تو تجھے بھی صدقہ لینا مناسب ہے) ورنہ وہ ( تیرے لئے) صدقہ نہیں (بلکہ) دردِ شکم اور دردِ سر ہے‘‘۔
ان آٹھ قسم کے صدقات کے ذکر سے آنحضرتؐ نے ان آٹھ مراتب کی طرف اشارہ فرمایا، جن کا ہم نے بیان کیا ہے، اور ’’شکم‘‘ سے آنحضرتؐ کی مراد دعوتِ باطن ہے، اور ’’دردِ شکم‘‘ سے ان کی مراد دعوتِ باطن میں کسی کو شک
۲۶۷
واقع ہونا ہے، اور ’’سر‘‘ سے آنحضرتؐ نے امام مراد لیا، اور ’’دردِ سر‘‘ سے ان کی مراد امام سے منکر ہو جانا ہے، اور اس حدیث کی تاویل یہ ہے کہ جو شخص ناطق ( کی دعوتِ باطن) کے بارے میں شک رکھتا ہے، اور امام سے منکر ہے، تو وہ مذکورہ مراتب میں سے (کسی بھی مرتبے پر ) نہیں اور اس کو تاویل سے کوئی حصہ نہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے حدیث ہے، جو فرمایا، کہ ’’صدقہ مجھ پر اور میرے اہلِ بیت پر حرام ہے۔‘‘ جس کی تایل یہ ہے کہ ’’مجھے اور امام کو اس بات کی حاجت ہی نہیں، کہ ہم جسمانیوں سے علم سیکھا کریں اور ان کی تصدیق کریں۔‘‘ یہ اس لئے ایسا ہے کہ تمام جسمانی محتاج ہیں، اور نطقاء اُسس اور أئمّہ علیہم السّلام ہی (بحقیقت) دولت مند ہیں، اور یہ وہی حقیقت ہے جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے:۔
’’وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ (۴۷: ۳۸)
اور اللہ توانگر ہے اور تم سب محتاج ہو‘‘۔ یعنی ناطق، اس کے جانشین، اساس، اور امام ہی دانا ہیں اور تم سب نادان ہو، اور خدا تعالیٰ فلسفیوں میں سے کچھ ملحدوں اور دہریوں کے بارے میں فرماتا ہے، جن کو گمان ہے کہ وہ خود تو کچھ جانتے ہیں، مگر رسولؐ نے کچھ بھی نہیں جانا، قولہ تعالیٰ: ۔
’’لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا (۰۳: ۱۸۱)
بےشک خدا تعالیٰ نے سن لیا ہے، ان لوگوں کا قول جنہوں نے یوں کہا کہ خدا مفلس ہے اور ہم مالدار ہیں، ہم ان کے کہے ہوئے کو لکھیں گے۔‘‘ جس کی تاویل یہ ہے کہ ایک گروہ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں، جو کچھ محمدؐ نہیں جانتا، اور خدا تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ ہم ان کے کہے ہوئے کو لکھیں گے، اس کی تاویل میں وہ یہ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ جو کچھ جانتے ہیں، ہم اس کو کتاب کی ظاہری تحریر میں محدود اور ظاہر کر کے دکھائیں گے، اور تحریر سے ظاہر مراد ہے، اور اس لئے کہ تحریر کثیف ہے، اور حق تعالیٰ کا قول لطیف ہے، پس فرماتا ہے کہ جس علم کو وہ
۲۶۸
لطیف سمجھتے ہیں ہم اس کو ظاہر میں کثیف کر دیں گے۔
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف رجوع کر کے بتاتے ہیں کہ رسول اللہ اور اس کی آل ہی توانگر ہیں، اور محتاج وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ، قولہ تعالیٰ:
’’وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (۷۰: ۲۴ تا ۲۵) اور جن کے مالوں میں سوالی اور روکے ہوئے کا حق ہے۔‘‘ کچھ مفسرین کا قول ہے کہ سوالی سے بلی مراد ہے اور روکے ہوئے سے کتا مراد ہے، اور صاحبانِ تاویل کے نزدیک مال سے علم مراد ہے، بلی سے مستجیب مراد ہے، کیونکہ وہ دعوت کے گھر والوں سے ہے، چنانچہ بلی انسان کے گھر والوں میں سے ہے، اور کتے سے وہ مومن مراد ہے جس سے عہد لیا گیا ہے اور وہ اپنے عہد پر قائم ہے، اور خدا تعالیٰ نے زکوٰۃ آٹھ چیزوں پر فرض کی ہے: ۔
۱۔ سونا ۲۔ چاندی ۳۔ اونٹ ۴۔ گائے
۵۔ بھیڑ بکری ۶۔ کھجور ۷۔ کش مش ۸ گندم، جو اور دوسرے دانے (یعنی غلہ جات)
اور یہ آٹھ چیزیں جن کی زکوٰہ فرض کی گئی ہے، ان آٹھ درجوں کی نشان دہی کرتی ہیں جن کا ہم نے ذکر کر دیا ، اور انہی کے ساتھ اَصْلَین (یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ) بھی ہیں، کیونکہ ان آٹھ درجات کا تائیدی مادّہ ان دونوں اصلوں سے آتا ہے۔
پس ہم بتائیں گے کہ زکوٰۃ پوری طرح سے شہادت یعنی لَا اِلٰہ اِلّاَ اللہ کے اجزاء کے برابر ہے، چنانچہ زکوٰۃ ایک اطاعت ہے جس طرح شہادت ایک قول ہے، اور زکوٰۃ دو چیزوں پر ہے، یا مال پر ہے یا آدمی پر ہے (چنانچہ زکوٰۃِ فطرفی کس کے حساب سے دی جاتی ہے ) اسی طرح شہادت نفی اور اثبات کے
۲۶۹
دو حصوں میں ہے، اور زکوٰۃ تین چیزوں سے ہے: معدنیات، نباتات اور حیوانات سے، جس طرح شہادت الف، لام اور ھا کے تین حروف سے ہے، اور زکوٰۃ کی چار قسمیں ہیں: زکوٰۃ (جو سال میں ایک دفعہ دیجاتی ہے) صدقہ (جو بوقتِ توبہ وغیرہ دیا جات ہے) اور یک یعنی دسواں حصہ ( جو اناج، پھل وغیرہ کی ہر آمدنی سے دیا جاتا ہے) اور خمس یعنی پانچواں حصہ ( جو مالِ غنیمت، جواہرات کی کان اور دفینے سے دیا جاتا ہے، جبکہ یہ چیزیں ہاتھ آتی ہیں ) جس طرح شہادت چار کلمات پر مشتمل ہے، اور زکوٰۃ سات قسم کی چیزوں پر ہے: ۔
۱۔ سونا ۲ ۔ چاندی ۳۔ اونٹ ۴۔ گائے
۵۔ بھیڑ بکری ۶۔ میوہ جات ۷۔ غلہ جات
چنانچہ شہادت بھی سات فصلوں میں ہے، اور زکوٰۃ بارہ مہینے میں واجب ہوتی ہے، جس طرح شہادت کے کل بارہ حروف ہیں۔
اب ہم تین قسم کی زکوٰۃ کی تاویل صحیح قول میں بتائیں گے، کہ معدنیات، نباتات اور حیوانات میں سے وہ کون کون سی چیزیں ہیں جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تاکہ جس سے مومنِ مخلص کو سیدھا راستہ دیکھنے کی روشنی میں اضافہ ہو۔
۲۷۰
کلام ۔ ۲۹
سونے اور چاندی کی زکوٰۃ اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ انہی دو جوہرو ں (سونا اور چاندی) سے دنیا میں خرید و فروخت ہوتی ہے، اور یہ دو جوہر دو روحانی اصلوں ( عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ) پر دلالت کرتے ہیں، کیونکہ یہی دونوں اصل دونوں جہان میں فائدہ دینے اور فائدہ لینے کے سرمائے ہیں، اپنی اس تائید کے ذریعہ جو عالمِ دین میں محققین کے لئے جاری ہے، اور وہ تائید یعنی بیان (تاویل کی صورت میں) ہے، پس ہم بتادین گے، کہ جو شخص حدودِ دین میں سے کسی حد کی دعوت قبول کرتا ہے، خدا کے اولیاء (أئمّہ علیہم السّلام) کو پہچانتا ہے، ان کی طرف حکمت سے دلیل لیتا ہے، اس حکمت کو سمجھ لیتا ہے جو شریعت کی مثالوں میں پوشیدہ ہے، اور حدود کی اطاعت کرتا ہے، تو گویا اس شخص نے ان دولطیف جوہروں (عقلِ کلّ و نفسِ کلّ) کے ذریعہ اپنے آپ کو دائمی آگ سے واپس خرید لیا ہے، جس طرح جسمانی چیزیں ان دو جسمانی جوہروں ( سونا اور چاندی) کے ذریعہ خریدی جاتی ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ:۔
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنْ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ
۲۷۱
بِأَنَّ لَهُمْ الْجَنَّةَ (۰۹: ۱۱۱)
’’ بلاشبہ خدا تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔‘‘ اور جو شخص حدود کی قدر و قیمت سے انجان رہا ہو، اور وہ ان سے منکر ہو جاتا ہو تو گویا اس نے اپنے ہمیشہ باقی رہنے والے حصے کو فنا ہونے والی چیزوں کے بدلے میں بیچ ڈالا ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کے متعلق فرماتا ہے جنہوں نے دنیا کے عوض میں آخرت فروخت کر دی ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’أُوْلَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوْا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بالآخِرَةِ (۰۲: ۸۶)
یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے آخرت کے عوض میں دنیا خرید لی ہے۔‘‘
پس ہمارا کہنا ہے، کہ سونا عقلِ کلّ کی مثال ہے، اس لئے کہ وہ چاندی سے برتر ہے، جس طرح نفسِ کلّ سے عقلِ کلّ برتر ہے، اور جو شخص بیس ۲۰ مثقال سونے کا مالک ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے، تو اس میں سے آدھی اشرفی بطورِ زکوٰۃ اس شخص پر واجب ہوتی ہے، اور بیس ۲۰ کے دو عقد ہوتے ہیں جو دو روحانی اصلوں پر دلیل ہیں اور یہاں بیس ۲۰ مثقال سونا والا شخص ناطق کی مثال ہے، کیونکہ انہی کو اپنا حصّہ دو ۲ روحانی اصلوں سے مل چکا ہے، اور زکوٰۃ کی آدھی اشرفی اس چیز کی مثال ہے، جو ناطق نے دو ۲ روحانی اصلوں سے حاصل کردہ علم سے (علمی زکوٰۃ کے طور پر ) نکالی، اور وہ تاویل بھی ہے اور تنزیل بھی، قولہ تعالیٰ: ۔
فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۰۴: ۱۷۶)
یعنی ( اہلِ حق نے تحقیق کر کے سیدھے راستے کی ہدایت کی، یعنی پورا حصّہ مرد کے لئے ہے، جس طرح) مرد کا حصّہ دو عورتوں کے حصّے کے برابر ہے، اللہ تعالیٰ تم کو راستہ ظاہر کر دیتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز
۲۷۲
پر دانا ہے، پس جو شخص علمِ حقیقت نہ جانے تو وہ گمراہ ہے۔
چاندی نفسِ کلّ کی مثال ہے، اور جو شخص چاندی کے دو سو درم رکھتا ہو، ایک سال کےبعد اس شخص پر پانچ درم واجب ہوتے ہیں، اور یہ دو سو ۲۰۰ بھی جو دو عقد ہوتے ہیں، دو۲ روحانی اصلوں پر دلیل ہے، اور یہ دو سو ۲۰۰ درم (بحقیقت) جس شخص کو حاصل ہوئے، وہ اساس تھے، جن کو اپنے درجے پر دو ۲ روحانی اصلوں سے حصہ ملا، اور وہ نفسِ کلّ کے ساتھ مل گئے، جس طرح ناطق عقلِ کلّ کے ساتھ مل گئے ہیں، پس اساس پر واجب ہے کہ وہ پانچ حدود کو قائم کریں اور ان کو فائدہ پہنچائیں، تاکہ وہ (اساس) اس فائدہ رسانی سے پاکیز ہو جائیں، اور جس شخص کے پاس بیس ۲۰ مثقال سونا نہ ہو، اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق کے لئے جائز نہیں کہ وہ اساس کو برپا کریں جب تک اپنا حصّہ دو ۲ روحانی اصلوں سے ان کو نہ ملا ہو، اور ناطق کے درجے پر نہ پہنچے ہوں اور ناطق کا درجہ یہ ہے کہ لوگوں کے لئے اس تائید کو قول کی صورت میں تالیف کے سکتے ہیں، اور وہ کتاب اور شریعت ہوتی ہے، اسی طرح جس شخص کے پاس دو سور درم کی چاندی نہ ہو، تو اس پر زکوٰۃ نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ اساس کے لئے جائز نہیں کہ وہ پانچ جسمانی حدود (امام، حجت، داعی اور ماذونِ مطلق اور ماذونِ محدود) کو برپا کریں، جب تکہ تاویل کے درجے میں عقل و نفس سے ان کو اپنا حصّہ پورا پورا نہ ملا ہو، اور جس کے پاس دو سو درم کی چاندی ہو، تو اس کو صد قہ لینا حرام ہے، بلکہ اس پر صدقہ دینا واجب ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جس کو دو۲ روحانی اصلوں سے تائید ملی، تو کسی شخص سے دینی تعلیم لینا اس پر حرام ہوا، بلکہ اس پر واجب ہے لوگوں کو تعلیم دینا تاکہ دوسرے لوگ اس سے پاک ہو جائیں، اور یہ اس کی زکوٰۃ ہوئی، اور اس شخص پر زکوٰۃ نہیں جس کے پاس بیس ۲۰ مثقال سونا یا دو سو درم چاندی ہو، جب تک اس پر سال نہ گزرے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جب تک ناطق کی شریعت اور
۲۷۳
اساس کی تاویل کمال کو نہ پہنچے، تو یہ اپنے ظاہر اور باطن نہیں دکھاتی ہیں۔
والسلام
۲۷۴
کلام ۔ ۳۰
مویشیوں کی زکوٰۃ اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم حق سبحانہ و تعالیٰ کی تو فیق سے بیان کریں گے کہ، تین قسم کے مویشیوں پر زکوٰۃ واجب ہے، وہ اونٹ، گائے، اور بھیڑ بکری ہیں، اور یہ تین قسم کے مویشی ناطق، اساس اور امام جیسے عظیم حدودِ دین پر دلیل ہیں، کیونکہ خلائق میں سے یہی تین قسم کے اشخاص (بحقیقت) زندہ ہوئے، اور وہ ایسی حقیقی زندگی کے ذریعہ روح القدس سے بہرہ یاب ہوئے، اوروہ ہرگز نہیں مرتے ہیں، اب ہم ان تین قسم کے صدقات کا بیان کر دیں گے، پہلے اونٹ کے صدقہ کے بارے میں بیان کریں گے، کہ اونٹ ناطق علیہ السّلام پر دلیل ہے، کیونکہ اونٹ ہی ہے، جو دور و دراز سفر میں بڑا بھاری بوجھ اٹھاتا ہے، اور وہ سفر، جس سے زیادہ دور و دراز کوئی سفر ہو نہیں سکتا، عالمِ جسمانی اور عالمِ روحانی کے درمیان ہے، نیز خدا کے قول سے بڑھ کر کوئی بھاری بوجھ نہیں، اور یہ بھاری بوجھ ناطق اٹھا رہے ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
’’إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلاً ثَقِيلاً ( ۷۳: ۰۵)
ہم تجھ پر ایک بھاری قول ڈالنے والے ہیں۔‘‘
۲۷۵
اونٹ کو پہلے نحر کرتے ہیں، نحر اس کے دل کے سرے کو چیرنا ہے، اس کے بعد اس کو ذبح کرتے ہیں، اور وہ بسمل کرنا ہے، نحر کرنا ایک ایسے عہد لینے کی مثال ہے جس میں معہود( یعنی وہ شخص جس سے عہد لیا گیا ہے) عہد سے پہلے ہی علمِ حقیقت کو پہنچتا ہے، اور جب بسمل (یعنی ذبح) کرتے ہیں تو سر کو جسم سے جدا کر دیتے ہیں، یہ اس بات کی مثال ہے، کہ جب مومن باطنی عہد کر لیتا ہے، تو وہ باطل دین کے سرداروں سے جدا ہو جاتا ہے، جو ظاہر میں اس کے سر کی حیثیت سے تھے، نیز نحر کرنا لوگوں کے عہد کر لینے کی مثال ہے، جو جسمانی حدود کی فرمانبرداری کے متعلق عہد کر لیتے ہیں، تاکہ جسمانی حدود ان لوگوں کو روحانی حدود سے واقف کر یں، اور ان میں تبدیلی لائیں یعنی ان کو بلند کر دیں، اور نحر کرنے سے (اونٹ کے) دل سے خون نکل جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ عہد کر لینے سے لوگوں کے دل سے شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں، یعنی مستجیب کے دل سے شکوک و شبہات نکل جاتے ہیں، جبکہ روحانی حدود سے واقف ہو جائیں، اور مستجیب کا تزکیہ ( پاک کرنا) یہی ہے۔
پس ہم یہ بتائیں گے، کہ اونٹ کا پہلے تو سینہ چیر لیتے ہیں، پھر اس کا سر کاٹ لیتے ہیں، اور یہ اس بات کی مثال ہے کہ ناطق پہلے تو روحانی حدود سے مل جاتے ہیں، اور ان کے دل سے شک نکل جاتا ہے، اس کے بعد وہ تمام خلائق سے جدا ہو جاتے ہیں، جس طرح اونٹ کو نحر کرنے کے بعد ذبح کر لیا جاتا ہے، مگر گائے اور بھیڑ بکری کا پہلے تو سر کاٹ لیتے ہیں، پھر اس کے بعد دل پر چھری مارتے ہیں، تاکہ وہ خون جو دل میں ہے، نکل جائے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ اساس اور امام کو چاہئے، کہ وہ پہلے تو (دینی) مخالفوں سے جدا ہو جائیں، بعد ازان عہد کر لیا کریں، تاکہ جس سے وہ ناطق کے ساتھ مل جائیں، اور اس کے بعد ان کو حدِ نفسِ کلّ سے واقف کر دیا جاتا ہے، اور ان کو مطلق کیا جاتا ہے، یعنی ان کو (نورانی معجزانہ) دعوت کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے، جبکہ معرفت کے ذریعہ
۲۷۶
روحانی حدود کے لئے ان کا دل پاک ہوتا ہے جس طرح ذبح کی ہوئی گائے اور بھیڑ بکری کا باطن خون سے پاک ہو جاتا ہے، جبکہ اس کے سر کاٹنے کے بعد اس کے دل کو چیر دیتے ہیں۔
اونٹ پیشاب تو پیچھے کی طرف کرتا ہے مگر نطفہ آگے کی طرف ڈالتا ہے، پیشاب شکوک و شبہات کی مثال ہے، اور نطفہ تاویل کی مثال ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ناطقؑ شکوک و شبہات کو اہلِ ظاہر کی طرف ڈالتے ہیں اور تاویل کو جس سے روحانی تولید ہوتی ہے، اساس کی طرف ڈالتے ہیں، کیونکہ وہی تو ان کی روحانی جفت ہیں، اور اونٹ کی چربی اس کی پیٹھ ہی پر جمع ہوتی ہے اور یہ اس کا کوہان ہے، اور پیٹھ کو عربی میں ظہر کہتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ ناطق حکمت کو شریعت کے ظاہر میں جمع کرتے ہیں، اور اونٹنی کا دودھ (باعتبارِ جسامت) بہت کم ہوتا ہے، مگر گائے اور بھیڑ بکری کا دودھ زیادہ ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں، کہ ناطق ظاہر میں حکمت کی دلیل نہیں بتاتے ہیں، یعنی وہ دلیل اور بحث نہیں کرتے ہیں، دلیل و بحث تو اساس اور امام ہی کرتے ہیں، کیونکہ گائے اور بھیڑ بکری انہی کی مثال ہیں، اور جس شخص کے چرنے والے پانچ اونٹ نہ ہوں تو اس پر زکوٰۃ نہیں، اور یہ دو ۲ اصلوں اور تین ۳ فروعِ روحانی کی مثال ہے (یعنی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جد، فتح اور خیال) کیونکہ ان کے بغیر نطق (روحانی کلام) میں کسی کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ہے۔
جب کسی شخص کے پانچ چرنے والے اونٹ ہوتے ہیں، تو اس پر ایک بھیڑ یا بکری کا صدقہ واجب ہو جاتا ہے، اور ہر پانچ بڑھتے ہوئے ایسے اونٹوں پر ایک بھیڑ یا بکری کا صدقہ زائد ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب ایسے اونٹ پچیس ۲۵ ہو جائیں تو اس وقت اونٹ کا ایک ایسا بچہ واجب ہوتا ہے جو مان کے پیٹ میں ہو، جس کو عرب والے بنت المخاض کہتے ہیں، اور ان چار بھیڑ بکریوں کی تاویل جو بیس ۲۰ اونٹوں پر واجب ہوتی ہے، حجت، داعی، ماذون اور
۲۷۷
مستجیب جیسے چار حدود کی مثال ہیں، یعنی ناطق جب پیغمبری کے مرتبے پر آتے ہیں اور پانچ حدودِ علوی سے اپنا حصہ حاصل کر لیتے ہیں تو اس میں سے چوتھا حصّہ اہلِ دعوت کیلئے نکال دیتے ہیں۔
جب اونٹ پچیس ۲۵ ہو جائیں تو اونٹ کا ایک بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہو، واجب ہو جاتا ہے، اور پیٹ دعوتِ باطن کی مثال ہے، اور اونٹ کا بچہ ہونے والے امام کی مثال ہے، تاکہ جب پوری طرح سے پہنچ جائے، تو دعوت انہی کی ہو۔
پھر جب دس بڑھ کر پینتیس ۳۵ اونٹ ہو جائیں، تو اونٹ کا ایک دودھ پیتا بچہ واجب ہوتا ہے، اور وہ امام کی مثال ہے جو اساس سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، کیونکہ روحانی ماں تو وہی ہیں، اور دودھ سے تاویل مراد ہے۔
جب اونٹ پینتالیس ۴۵ ہو جائیں تو ایک ایسی اونٹنی واجب ہوتی ہے جس کو عرب والے حقہ کہتے ہیں، اور یہ ایسی اونٹنی ہونی چاہئے جو بوجھ اٹھانے کی حد میں پہنچی ہوئی ہو، اور مادہ ہو جو حمل کو قبول کر سکے ، اور ایسی اونٹنی اساس کی مثال ہے، کیونکہ وہی تو ناطق کی شریعت کے بوجھ کو اٹھا سکتے ہیں، اور تمام ناطقوں کے بوجھ کو وہی اٹھاتے ہیں، اور ناطق کی اجازت سے ظاہریت کے بوجھ کو تاویل کے بیان کے ذریعہ امت سے ہلکا کر دیتے ہیں، اور ان کی گردنوں کو غل تقلید (یعنی سمجھے بغیر پیروی کرنے کے طوق) سے آزاد کرا دیتے ہیں، اور ان کی تاویل اس درجے کی ہوتی ہے کہ دوسرا کوئی شخص یہ تاویل کر نہیں سکتا ( اور وہ صدقہ والی اونٹنی یعنی حقہ) حمل ٹھہرانے کی قابل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ناطق کی تمام مثالیں اور اشارے، جو اساس کی ذمہ داری میں ہیں، روحانی تولید میں اساس ہی قبول کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔
اس کے بعد جب پندرہ ۱۵ اونٹ اور بڑھ کر ان کی تعداد ساٹھ ۶۰ تک پہنچ جائے تو ایک ایسا اونٹ واجب ہوتا ہے جو یک دندان ہو (یعنی جس کا ایک دانت اگا ہو) جس کی تاویل مرتبۂ ششم ہے) جس سے برتر جسمانیوں میں کوئی مرتبہ نہیں ، اس
۲۷۸
لئے کہ جسمانیوں سے لے کر پہلا مرتبہ ماذون کا ہے، دوسرا مرتبہ داعی کا ہے، تیسرا حجت کا، چوتھا امام کا، پانچواں اساس کا اور چھٹا ناطق کا ہے، چنانچہ ساٹھ کے چھ عقد ہوتے ہیں، جو چھ ناطقوں کی مثال ہیں، جن میں سے ہر ایک مذکورہ حدود میں مرتبۂ ششم ہے، نیز (اس بات کی تاویل کہ) ساٹھ کے چھ عقد ہوتے ہیں، یعنی حضرت محمد علیہ السلام چھ ناطقوں میں مرتبۂ ششم ہیں اور صدقہ میں اس یک دندان اونٹ سے برتر کوئی چیز نہیں، جس کو عرب ولے جَذَعَہْ کہتے ہیں، یعنی اس عالم میں ناطق کا جو مرتبہ ہے، اس سے برتر کوئی مرتبہ نہیں۔
ہر پانچ اونٹوں کی زکوٰۃ کے لئے ایک گوسفند۱ واجب ہوتا ہے، یہاں تک کہ (اس حساب سے) چار گوسفند ہو جائیں، اور جب اونٹوں کی زکوٰۃ میں اونٹ دینے کی نوبت آئی، تو اس میں ہر دس اونٹوں کے حساب سے زکوٰۃ کا ایک اونٹ نکلتا جا تا ہے، یہاں تک کہ چار اونٹ ہو جائیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ گوسفند اور اونٹ نوع میں جدا جدا ہیں، اور جس طرح (زکوٰۃ کے اس سلسلے میں پہلے جب ) چار گوسفند ہوتے ہیں تب زکوٰۃ میں ایک اونٹ دیا جاتا ہے اسی طرح اونٹ بھی تو چار قسم کے واجب ہوتے ہیں، جسے شتر بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہو، جس کو عربی میں بیت المخاص کہتے ہیں جیسے بنت اللبون، جو شیر خوار ہوتا ہے، جیسے حقہ جو بوجھ اٹھانے کی قابل ہوتی ہے، اور جیسے حَذَعَہٗ جو یک دندان اور بوجھ اٹھانے کی قابل ہوتی ہے، اور اونٹوں کے یہ چار مراتب ناطق، اساس، امام اور حجت کی مثالیں ہیں، جن کو تائید سے بہرہ ملتا ہے، اور یہ تین حدود جو ناطق کے تحت ہیں، ناطق ہی کی وساطت سے تائید حاصل کرتے ہیں، اور وہ چار گوسفند، جو نوع میں اونٹ سے جدا ہیں، داعی، دونوں ماذون اور مستجیب جیسے چار حدود کی مثال ہیں، کیونکہ یہ اس گروہ سے نہیں ہیں جس کو تائید سے بہرہ ملتا ہے، اور
؎ ۱: گوسفند: بھیڑ، دنبہ، بکرا، بکری کے معنوں میں آتا ہے۔
۲۷۹
وہ چار حددود (یعنی ناطق، اساس، امام اور حجت) مؤید یعنی مدد دیئے گئے ہیں۔
جب گوسفند واجب ہوتا ہے، تو اس میں پانچ پانچ (اونٹوں کے حساب سے زکوٰۃ) بڑھانی چاہئے، اور جب اونٹ واجب ہوتا ہے، تو دس دس کی بڑھانی چاہئے، جس کی تاویل یہ ہے کہ ان چار حدود کو، جن کی مرتبت کی مثال چار درجے کے اونٹ ہیں، یعنی ناطق، اساس، امام اور حجت کو تائید بھی حاصل ہے اور تاویل بھی، کیونکہ ان کی مرتبت دو طرح کی ہے، جس طرح دس کے عدد میں دو پانچ ہوتے ہیں، اور ان حدود کو، جن کی مرتبت کی مثال پر گوسفند واجب ہوتے ہیں، یعنی داعی، دو۲ ماذون اور مستجیب کے لئے صرف تاویل کی مرتبت میسر ہے، اور وہ بھی صاحبِّ تاویل و تائید کی مرتبت کے ذریعے سے ممکن ہے، یہی وجہ ہے کہ اس زکوٰۃ میں جہاں تک گوسفند واجب ہوتا ہے تو اس میں پانچ پانچ کے حساب سے (زکوٰۃ) بڑھتی ہے، اور جہاں تک اونٹ واجب ہوتا ہے، تو اس میں دس دس کے حساب سے زیادہ ہوتی ہے، اور اس بات کی تاویل کہ جب پندرہ ۱۵ اونٹ اور بڑھ جائیں ( جو تین دفعہ پانچ ہیں) تو ایک اونٹ واجب ہوتا ہے، جو یک دندان ہو، یہ ہے کہ یک دندان اونٹ ناطق کی مثال ہے، اور ناطق کے تین مراتب ہیں یعنی تائید، تاویل اور تنزیل ۔
اس کے بعد جب اونٹوں کی تعداد اور پندرہ ۱۵ بڑھ کر پچھتر ۷۵ ہو جاتی ہے تو دو ۲ شیر خوار شتر بچے واجب ہو تے ہیں، اور یہ دونوں شتر بچے امام اور حجت کی مثال ہیں، یعنی دعوت سات اماموں کو پہنچتی ہے، اور پانچ حدودِ علوی سے تائید لگاتار آتی رہتی ہے، اور پچھتر اونٹوں کی مثال بنتی ہے، ہر اس زمانے میں جبکہ امام اور ایک حجت برپا ہو جائیں، کیونکہ ان کی مثال وہ دو ۲ شتر بچے ہیں۔
جب اونٹوں کی تعداد اکانوے ۹۱ تک پہنچ جائے، تو دو۲ اونٹ جو بوجھ اٹھانے کے قابل ہوئے ہوں، واجب ہوتے ہیں، اور یہ ناطق و اساس کے مراتب کی مثال ہیں، کیونکہ وہی تو دعوت کے بوجھ کو اٹھا سکتے ہیں، اور نوے ۹۰
۲۸۰
کے نو عقدے بنتے ہیں، جو سات امام، ناطق اور اساس کی مثال ہیں۔
جب اونٹوں کی تعداد ایک سو بیس ۱۲۰ میں پہنچ کر ایک زیادہ ہو جائے، تو ہر پچاس ۵۰ کے پیچھے ایک ایسا اونٹ واجب ہوتا ہے جو بوجھ اٹھانے کے قابل ہو چکا ہو، اور ہر چالیس ۴۰ میں سے اونٹ کا ایک شیر خوار بچہ واجب ہوتا ہے، اور ایک سوبیس ۱۲۰ دو ۲ دفعہ ساٹھ ۶۰ ہوتے ہیں، اور ساٹھ ناطق کی مثال ہے، چنانچہ اس کا ذکر ہو چکا کہ ۶۰ ساٹھ چھٹا مرتبہ ہے، اور دو ۲ دفعہ ساٹھ ۶۰ اساس ان کی جفت ہونے کی مثال ہے، اور جب تعداد یہاں تک پہنچتی ہے، تو ہر چالیس پر ایک یک سالہ اونٹ واجب ہوتا ہے، اور یہ چالیس مثال ہے، پانچ حدودِ روحانی، ناطق، اساس، سات امام، روزو شب کے چو بیس حجت، داعی، اور ماذون کی، کہ یہ تمام چالیس ۴۰ ہیں، اور وہ شیر خوار شتر بچہ زندہ ( امام) کی مثال ہے، اونٹ کی زکوٰۃ کی تاویل دانشمند کے لئے اتنی ہی کافی ہے۔
گائے کے صدقہ کی تاویل
ہمارا کہنا ہے کہ دانشمند جانتا ہے، کہ گائے میں انسان کی بے حد دنیاوی بہتری ہے، اور انسانوں کی کثرت کا دار ومدار گایوں کی کثرت پر ہے اس لئے کہ سب سے پہلی پیدائش جو زمین سے پیدا ہوتی ہے، نباتات ہیں، اور دوسری پیدائش جو نباتات سے پیدا ہوتی ہے، والدین ہیں، اور جب سب سے پہلے پیدائش، جو نباتات ہیں، کم ہوجائیں تو انسانوں کی پیدائش جو نباتات سے ابھرتی ہے، کم ہوگی (اورنباتات یعنی فصلیں اس وقت کم ہو جائیں گی، جبکہ گائیں کم ہوجائیں) اس لئے کہ تمام کھیتی باڑی کا کام گائے کے سبب سے انجام پاتا ہے، اور یہ بہت بڑا کام ہے، اور اس سے لوگ دولت مند بن جاتے ہیں، ( اس سلسلے میں) دوسری بات یہ ہے، کہ انسان کی زندگی دو چیزوں پر ہے، ایک تو جسم ہے، اور
۲۸۱
دوسری روح ہے، جب انسانی اجسام کی پرورش (غذا) کی مدد کرنے والی اور ابھارنے والی گائے ہی ہے، یعنی جب انسان کی غذا کا دار و مدار گائے پر ہے، تو یہی سبب ہے، کہ روحوں کی پرورش کرنے والے کی مثال (بھی) گائے سے دی گئی ہے، کیونکہ روحانی غذا تو اسی سے ہے، اور یہ مثال اساس کی ہے، اور گائے کو عربی میں بقر کہتے ہیں، اور جب (ذبح کے بعد) اس کے پیٹ کو کھولتے ہیں، تو عربی میں کہتے ہیں: بَقَرَ بَطْنَہٗ (اس کا پیٹ کھولا) اس طرح اساس ظاہرِ کتاب اور بطنِ شریعت کا کھولنے والا، اور اس سے حکمت و تاویل کا نکالنے والا ہے اور امام محمد باقر علیہ السّلام کو اسی وجہ سے باقر (یعنی کھولنے والا ) کہتے ہیں، اس لئے کہ اس واقعہ کے بعد ظاہر کی تاریکی سے دنیا اندھیری رات کی طرح ہوئی تھی، تاویل (کی روشنی) انہوں نے ظاہر کر دی۔
پس ہمارا کہنا ہے کہ قربانی کے لئے ایک گائے سات اشخاص کی طرف سے کافی ہوتی ہے، اور اونٹ کی قربانی ایک شخص سے زیادہ کی طرف سے جائز نہیں، اور یہ اس بات کی مثال ہے کہ ناطق نے تو ایک حد برپا کر دیا، اور وہ اساس تھے، مگر اساس نے سات حدود برپا کر دیئے، اور وہ سات امام تھے، کہ خدا تعالیٰ نے تاویل اور دعوت انہی کے حوالے کر دی، اور گائے اساس پر دلیل ہے اور جب اس کے برپا کئے ہوئے سات امام تھے، اسی لئے تو ظاہر شریعت میں گائے کی قربانی سات اشخاص کی طرف سے کفایت کرتی ہے، تاکہ اہلِ دانش ظاہر سے باطن کی مثال لیں۔
اسی طرح ایک گوسفند (یعنی بھیڑ، یا بکری) کی قربانی ایک شخص سے زیادہ کی طرف سے روا نہیں، جس کے معنے یہ ہیں کہ گوسفند کی تاویل امام ہیں، اور ہر امام اپنی جگہ پر ایک ہی شخص (یعنی ایک ہی امام) برپا کرتے ہیں تاکہ دعوت انہی کے حوالے کریں، اور مومنین کو انہی کی طرف اشارہ کریں، اور رسول علیہ السّلام کی حدیث ہے، جو فرمایا: ۔
۲۸۲
اَلثَّوْرُ یَحْزِیْ عَنْ وَاحِدٍ وَ الْبَقَرَ ۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ۔
’’ بیل قربانی کے لئے صرف ایک شخص کی طرف سے کافی ہوتا ہے، اور گائے سات اشخاص کی طرف سے کافی ہوتی ہے۔‘‘ اس کے معنی یہ ہیں، کہ دین میں اساس کو اپنے ناطق کے مقابلے میں مادگی کا درجہ ہے، اور جب گائے اساس پر دلیل ہے تو بیل جو اس کا جوڑ ہے، ناطق پر دلیل ہے ( اور بیل صرف) ایک ہی شخص کی طرف سے قربانی کے لئے کافی اس لئے ہوتا ہے کہ ناطق نے صرف ایک ہی حد قائم کر دیا، چنانچہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔
گوسفند کا گوشت اونٹ کے گوشت سے زیادہ خوش مزہ ہے، یعنی ناطق کے علم سے امام کا علم زیادہ آسان ہے، اس لئے کہ ناطق کا قول مثال و رمز کی حیثیت میں امام کے قول سے برتر ہے، اور جس قدر یہ قول حدودِ سفلی میں زیادہ سے زیادہ نیچے آئے تو یہ حدود قبول کرنے والے نفس کے لئے اس کو اس قدر زیادہ سے زیادہ لطیف اور نزدیک کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب یہ قول مستجیب کو پہنچے، تو یہ اس دودھ کی مثال بن جاتا ہے، جو ماں کی پستانوں سے نکلتا ہے، اور مستجیب علم میں جس قدر مضبوط ہوتا جاتا ہے تو اس قدر اس کو سخت یعنی پُرمطلب علم بتاتے جاتے ہیں، چھوٹے بچے کی مثال پر کہ وہ جتنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے، اتنی زیادہ پُرقوّت غذا کھا سکتا ہے۔
پس ہم گائے کی زکوٰۃ کے بارے میں بتائیں گے، کہ جب گائیں تیس ۳۰ ہو جائیں تو ان پر زکوٰۃ کا ایک ایسا بچھڑا واجب ہوتا ہے، جو اپنی ماں کے ساتھ چل پھر سکتا ہو، اور تیس حد اساس کی مثال ہے، جس طرح اس کی تشریح اونٹ کی زکوٰۃ کے سلسلے میں ہوچکی، اور چالیس حد ناطق کی مثال ہے، اور وہ بچھڑا جو ماں کے ساتھ چل پھر سکتا ہے، داعی کی مثال ہے، یعنی اساس جب حدِّ حجتی میں ہوتے ہیں، تو وہ دعوت میں سب سے پہلے ناطق کے فرمان کے بموجب داعی کو برپا کر دیتے ہیں۔
۲۸۳
جب گائیوں کی تعداد چالیس ۴۰ تک پہنچتی ہے جو ناطق کی حدّ ہے، تو ایک مکمل گائے واجب ہوتی ہے، تو یہ حجت کی مثال ہے، اور اس بات پر دلیل کہ دعوت میں چالیس ۴۰ ناطق کی حد ہے، خدا کا یہ قول ہے، جو فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً (۴۶: ۱۵)
’’ یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور چالیس ۴۰ برس کو پہنچا۔‘‘ پس جب اساس درجۂ لاحقی (یعنی درجۂ حجتی ) میں ہوتے ہیں، تو داعی کو برپا کر دیتے ہیں، یہی سبب ہے کہ تیس ۳۰ گائیوں کی زکوٰۃ ایک بچھڑا ہے، اور جب اساس اپنے درجے میں پہنچ جائیں، جس میں وہ ناطق سے مل جاتے ہیں، تو وہ حجت کو برپا کر دیتے ہیں، یہی وجہ ہے، جو چالیس گائیوں کی زکوٰۃ ایک مکمل گائے ہوتی ہے۔
جب گائیوں کی تعداد ساٹھ ۶۰ کو پہنچتی ہے، تو دو ۲ بچھڑے واجب ہوتے ہیں، ساٹھ چھ اماموں کی دلیل ہے، اور دو ۲ بچھڑے حجت و داعی کی دلیل ہیں۔
جب گائیوں کی تعداد نوے ۹۰ تک پہنچ جائے تو ان کی زکوٰۃ میں تین گائیں واجب ہوتی ہیں، اور نوے ۹۰ ناطق پر دلیل ہے، کیونکہ وہ ۷ سات اماموں اور اپنے اساس سے درجۂ نہم ہیں، اور تین گائیں اساس، امام اور حجت پر دلیل ہیں، جو ناطق کے تحت ہیں۔
جب گائیوں کی تعداد ایک سو بیس ۱۲۰ کو پہنچے تو ہر چالیس ۴۰ گائیوں سے ایک مکمل گائے یا ہر تیس ۳۰ سے ایک بچھڑا جو ماں کے ساتھ ہو، دینا چاہئے، اس سے اوپر بس یہی حساب (چلتا ) ہے، خواہ گائیں جس قدر بھی زیادہ ہوتی جائیں، ایک سو بیس ۱۲۰ دفعہ چالیس ۴۰ کے برابر ہوتا ہے، چالیس کا عدد امام کی حد ہے، گائے حجت پر دلیل ہے اور بچھڑا داعی پر دلیل ہے، چالیس ۴۰ حدِ امامت کی دلیل ہے اور تیس ۳۰ حدِ حجتی کی دلیل ہے، جب امام کا عدد یعنی چالیس ۴۰ مکمل ہو جائے، تو ایک گائے واجب ہوتی ہے، جو حجت کی دلیل ہے، یہ وہی مثال ہے، جس طرح امام نے حجت برپا کر دیا، اور اگر حجت کا عدد یعنی تیس ۳۰ مکمل ہو جائے، تو بچھڑا
۲۸۴
واجب ہوتا ہے، اور یہ داعی کی حد ہے، جس طرح حجت نے داعی قائم کر دیا، گائے کے صدقہ میں یہی حکمت ہے، جس کا حقیقی مومنین کے لئے ذکر کر دیاگیا۔
گوسفند کے صدقہ کی تاویل
ہم یہاں بیان کریں گے کہ گوسفند امام پر دلیل ہے، جب گوسفند چالیس ۴۰ ہو جائیں، تو ان پر ( صدقہ کا) ایک گوسفند واجب ہوتا ہے، اور چالیس ۴۰ دلیل ہے، پانچ حدودِ روحانی ( یعنی عقل، نفس، جد، فتح، خیال) ناطق، اساس، سات امام دن رات کے چوبیس ۲۴ حجت، داعی اور ماذون پر، اور صدقہ ایک گوسفند داعی پر دلیل ہے، کیونکہ جزائر کے مالک (یعنی امام ) کا امر اسی کے ذمہ ہوتا ہے، یعنی جب مذکورہ حدود مکمل ہوئے، تو صاحبِّ جزیرہ (یعنی داعی) پیدا ہوا، اور وہ چالیس ۴۰ حدود کی طرف سے لوگوں کے لئے صدقہ ہے، جس طرح چالیس ۴۰ گوسنفد سے ایک گوسنفد صدقہ ہوتا ہے، اور گوسفند جب تک چالیس نہ ہو جائیں تو ان پر کوئی صدقہ نہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک امام اپنی منزلت یعنی چالیس کی مرتبت پر نہ پہنچیں، تو وہ جزیرے میں داعی نہیں بھیجتے ہیں۔
اس کے بعد جب گوسنفد کی تعداد چالیس ۴۰ سے بڑھ کر ایک سو بیس ۱۲۰ کو پہنچ جاتی ہے، تو پھر بھی ایک ہی گوسفند سے زیادہ واجب نہیں، اور ایک سو بیس ۱۲۰ تین دفعہ چالیس ہوتا ہے، اور یہ تین بار چالیس ۴۰ ناطق، اساس، اور امام کی مثالیں ہیں، اور صدقہ کا ایک گوسفند حجت کی مثال ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ جب یہ تین چالیس ۴۰ جمع ہوتے ہیں، تو اس وقت لوگوں کی دعوت کے لئے حجت بھیج دیتے ہیں۔
جب ایک سوبیس ۱۲۰ سے بڑھ کر دوسو ۲۰۰ ہو جائیں تو ان میں سے دو گوسفند واجب ہوتے ہیں اور دو سو ۲۰۰ دو اصلوں ( یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ) پر دلیل ہے،
۲۸۵
اور دو گوسفند دو اساس (ناطق و اساس) پر دلیل ہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ دو اساس کی تائید مذکورہ دو اصلوں کی طرف سے ہے۔
جب دو سو ۲۰۰ سے بڑھ جائیں تو ہر ایک سو ۱۰۰ کے پیچھے ایک گوسفند واجب ہوتا ہے، خواہ جس قدر بھی بڑھتے جائیں، اور دوسو ۲۰۰ نفسِ کلّ کی مرتبت پر دلیل ہے، اور گوسفند امام کی مرتبت پر دلیل ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر زمانے میں (امام کے لئے ) تائید نفسِ کلّ سے ہے، دور کے آخر تک، اور چھوٹا گوسفند ماتحت حد کی دلیل ہے، بڑا گوسفند مافوق حد کی دلیل ہے، نر گوسفند دلیل ہے ان حدود پر جن کو صرف تائید ملتی ہے اور مادگان دلیل ہے ان حدود پر جن کو صرف تاویل ہی ملتی ہے۔
صدقہ کے لئے گوسفند کے نر و مادہ دونوں کو شمار کرنا چاہئے، جس کی تاویل یہ ہے کہ مؤید و نا مؤید (یعنی تائید والا اور بغیر تائید والا) سب کے سب دعوتِ حق میں اپنی اپنی جگہ پر ہیں، اور صدقہ میں ایک آنکھ سے اندھا گوسفند ہرگز لائق نہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ دعوت ایسے شخص کے ذمہ نہیں دی جاتی ہے، جس نے (حقیقت کا) اچھی طرح سے مشاہدہ نہ کیا ہو، اور وہ اہلِ دعوت کے نزدیک ناقص ہو، اور ناقص بھیڑ بکریاں بھی اس لائق نہیں ( کہ ان سے زکوٰۃ لی جائے) جس کی تاویل یہ ہے، کہ ایسے شخص کا داعی نہ ہونا چاہئے، جس کے ساتھ ( ناطق، اساس، امام اور حجت کی نسبت سے ) دونوں روحانیوں ( یعنی عقلِ کلّ و نفسِ کلّ) کی اصل و نسل نہ ملتی ہو، چنانچہ انسان کی اولاد اور گوسفند کا بچہ جسمانی نسل میں کبھی نہیں ملتے ہیں۔
صدقہ لینے والا (جبکہ حساب کرتے ہوئے صدقہ لیتا ہے ) بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے دو حصے کر دیتا ہے، اور بڑا حصہ ریوڑ کے مالک کو دیتا ہے، اور چھوٹا حصہ خود لیتا ہے، اس صورتِ حال کی تاویل یہ ہے، کہ ان دو حصوں میں سے زیادہ تعداد کا حصہ اہلِ ظاہر کی مثال ہے، اور کم تعداد کا حصہ اہلِ باطن کی مثال
۲۸۶
ہے اور جو صدقہ لیتا ہے وہ اساس کی مثال ہے، اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کا مالک ناطق کی مثال ہے، یعنی اساس ان دونوں گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتے ہیں، اور اہلِ باطن کو جو کم تعداد میں ہیں، خود لیتے ہیں، اور زیادہ تعداد والا حصہ جو اہلِ ظاہر ہیں، ناطق کے ساتھ منسوب ہیں، اگرچہ یہ دونوں فرقے یعنی ظاہری بھی اور باطن بھی ناطق کی شریعت میں ہیں، چوپایوں کے صدقہ کی تاویل بندۂ حق کے لئے بقدرِ کفایہ بیان کی گئی۔
۲۸۷
کلام ۔ ۳۱
اگنے والی چیزوں کی زکوٰۃ اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ اگنے والی چیزیں وہ ہیں، جو بڑھ جاتی ہیں، چنانچہ انسان جسم میں بھی بڑھنے والا ہے، اور روح میں بھی، اور خدا تعالیٰ نے ان چیزوں کا دسوان حصہ (بطورِ زکوٰۃ ) واجب کر دیا ہے، جن سے انسانی جسم کی افزونی اور اضافہ ہوتا ہے، تاکہ اس سے مومن کو ان دس حدود کی مثال ملے جن سے روح کی افزائش اور اضافہ ہوتا ہے، اور جو شخص اس ترتیب کو سمجھے تو اس کے جسم اور روح کی پرورش سچائی اور عدل سے ہوگی۔
پس ہمارا کہنا ہے، کہ وہ دس حدود جن سے روح کی پرورش ہوتی ہے، پانچ روحانی ہیں، یعنی: قلم ، لوح، اسرافیل، میکائیل،اور جبرائیل اور پانچ جسمانی ہیں، یعنی رسول، وصی، امام، حجت اور داعی، اور جسمانئین (کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ) اپنے ماتحتوں کو اپنی توانائی کے مطابق فائدہ دینے میں ( جسم کے اعضا ٔ وغیرہ ) آلات کو استعمال کرتے ہیں، اور روحانئین اپنے ماتحتوں کو فائدہ دینے میں جسم کے محتاج نہیں، بلکہ صرف وحی اور تائید ہی سے فائدہ
۲۸۸
پہنچا سکتے ہیں، اور یہ حدود درجہ وار ہیں، یعنی ایک سے ایک اوپر اور ایک سے ایک نیچے ہیں، جس طرح ان درختوں (پودوں اور ساگ وغیرہ ) کے پتے اور دانے غذائیت میں اعلیٰ و ادنیٰ ہوا کرتے ہیں، جن سے جسم کی خوراک تیار ہوتی ہے، اور جس طرح ہر دانے میں اس کی صلاحیت کے مطابق جسم کو غذا دینے کی ایک قوّت موجود ہے، اسی طرح ان دس حدود میں سے ہر ایک میں خواہ روحانی ہو یا جسمانی اپنی مرتبت کے مطابق نفوس کی پرورش کے لئے ایک قوّت موجود ہے، اور جسم کی نشوونما کرنے والے تمام دانوں میں سے افضل و اشرف گندم ہے، اور وہ ان دس حدود میں سے ہر ایک کے اوپر والے حد کی مثال ہے، چنانچہ ناطق اساس کے لئے گندم کے درجے پر ہیں، اور اساس امام کے لئے بمنزلتِ گندم ہیں، اسی ترتیب کے مطابق ہر اوپر والا حد نچلے حد کے لئے گندم ہے۔
پس داعی پر واجب ہے، جس کی مثال کھیت کے مالک کی طرح ہے، کہ مستجیب کو مذکورہ دس حدود میں سے ایک حد کی طرف دعوت کرے، تاکہ اس حد کی طرف اس کو دعوت کرنے میں اور آگاہ کرنے میں اس کے دینی اعتقاد درست کراسکے، اور مستجیب کو، جو دانے کی طرح ہے، روحانی طور پر اگا کر ہرا بھرا کر دے گا، جب داعی نے یہ ایک حد مستجیب کو اس کی قابلیت کی حقداری کے مطابق معلوم کرا دیا، تو گویا داعی نے اپنے ان کھیتوں سے ، جو رکھتا تھا دسواں حصہ نکالا اور اس کا علم پاک اور بہتر ہوا۔
زمین سے اگنے والی چیزوں سے دہ یک ( یعنی دسواں حصہ نکالنا) ان تمام لوگوں پر واجب ہے جن کو کم و بیش کھیتی باڑی ہو، یعنی یہ دس حدود جن کا ہم نے ذکر کر دیا، مراتب میں ایک دوسرے سے برتر ہیں، اور ان میں سے ہر ایک اپنے مافوق سے (علمی فائدہ) لیتا ہے، اور اپنے ماتحت کو دیتا ہے، تو درمیان والے حدود لینے والے بھی ہیں اور دینے والے بھی، مگر سب سے اوپر
۲۸۹
کا حد جو باری سبحانہ و تعالیٰ کے امر سے پیدا ہوا ہے ( یعنی عقل) وہ صحیح معنوں میں دینے والا ہے، لینے والا نہیں، اور سب سے نچلا حد جو مستجیب ہے، بحقیقت لینے والا ہے، دینے والا نہیں، اسی طرح عالمِ دین کا آخری سرا اپنے ابتدائی سرے کی طرح ہو کر دائرہ بن گیا ہے۔
جب ہم نے بیان کر دیا کہ دسواں حصہ نکالنا ہر توانگر پر واجب ہے، اب ہم یہ بتائیں گے کہ جو زمینیں بارانی یا نہری ہیں، تو اُن پر دسواں حصہ واجب ہے، اور جس زمین کو رہٹ وغیرہ کا پانی دیا جاتا ہے تو اس پر بیسواں حصہ واجب ہے، اور اس بات کی تاویل کہ کسی زمین کو بارش اور نہر کا پانی ملتا ہے، یہ ان حدود کی مثال ہے، جن کو تائید اور تاویل دونوں حاصل ہیں، جیسے ناطق، اساس، امام اور حجت، اور اس چیز کی مثال جس پر نصف دسواں (یعنی بیسواں ) حصہ واجب ہوتا ہے، وہ حدود ہیں، جن کو تائید حاصل نہیں، جیسے داعی، ماذون اور مستجیب، جن کو صرف تاویل حاصل ہے، اور یہ لوگ نیم مؤید ہیں، اور جو لوگ مؤید ہیں، وہ حدودِ علوی سے خبر لاتے ہیں، اور قوّت بھیجتے ہیں، یعنی جن کو تائید حاصل ہو چکی ہے، اور فیض والے ہوئے ہیں، تو یہ لوگ ماتحتوں کے لئے دس میں سے ایک ( یعنی دسواں) کی حیثیت سے ہیں اور جو لوگ نیم مؤید ہیں، اور ماتحتوں کے لئے صرف جسمانی حدود کا بیان کرتے ہیں، تو تاویل میں یہ لوگ بیسویں حصے کی حیثیت سے ہیں۔
اس بات کی تاویل کہ نماز ہر اس شخص پر واجب ہے، جس نے ایمان لایا ہو، اور زکوٰۃ توانگروں پر واجب ہے، مفلسوں پر نہیں، یہ ہے کہ نماز پڑھنا اپنے آپ کو پاک کرنا ہے، تو اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش ہر شخص پر لازم ہے، اور زکوٰۃ دینا دوسرے کو پاک کرنا ہے، تو جب تک کوئی شخص خود علم نہ سیکھے وہ دوسرے کو نہیں سکھا سکتا ہے، پس نماز پڑھنے والے ساری امت کی مثال ہیں، اور زکوٰۃ دینے والے حدودِ دین کی مثال ہیں۔
۲۹۰
خمس کی تاویل کے بارے میں
اس چیز کی تاویل، جس سے پانچواں حصہ (یعنی خمس) دینا چاہئے، یہ ہے کہ اوّل اس مالِ غنیمت سے پانچواں حصہ دینا واجب ہے، جو کافروں سے حاصل ہوا ہو، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ (۰۸: ۴۱)
اور اس بات کو جان لو کہ جو شے (کفار سے ) بطورِ غنیمت تم کو حاصل ہو تو اس کا پانچواں حصّہ اللہ کا ہے، اور اس کے رسولؐ کا ہے، اور رسولؐ کے قرابت داروں کا ہے، اور یتیموں کا ہے، اور غریبوں کا ہے اور مسافروں کا ہے۔‘‘
اسی طرح کا پانچواں حصہ اس دفینے (یعنی خزانے) سے دینا چاہئے، جو کسی کو ملا ہو، نیز جواہر کی کان سے ان پانچ ہستیوں کو خمس دینا چاہئے۔
خدا تعالیٰ نے پانچواں حصّہ (یعنی خمس) واجب کرکے سب سے پہلے اس میں سے اپنے حق کے متعلق ذکر فرمایا، پس ہم بتائیں گے کہ، اللہ نے جو کچھ اپنے لئے مخصوص کر دیا ہے، وہ ہر زمانے میں رسولؐ کے لئے ہے، اور ہر وقت امام کے لئے ہے، کیونکہ یہ (دونوں) حضرات خدا کے ضروری کام انجام دینے والے ہیں، یہی سبب ہے، کہ امام کو مالِ غنیمت ( کے پانچ حصوں ) سے دو حصّہ لینا چاہئے، اور فوج کے اعلیٰ سرداروں میں یہی رواج جاری ہوا ہے، کیونکہ انہوں نے (بزعمِ خود) اپنے آپ کو امام کا قائم مقام قرار دیا ہے اور (خمس سے رسولؐ کو دو ۲ حصے ملنے کی ) تاویل یہ ہے کہ رسولِ خدا کے لئے تاویل اور تنزیل کے دو مرتبے ہیں، اور قرابت داروں سے اساس مراد ہیں، کیونکہ وہ
۲۹۱
دو۲ طرح سے ( یعنی روحانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی ) ناطق کے قرابت دار ہیں، یتیموں سے مراد أئمّہ ہیں، کیونکہ عالمِ جسمانی میں ان کے کوئی روحانی ماں باپ نہیں، اور ان کی پرورش عالمِ علوی کی تائید پر ہے، مسکینوں سے خدا کی مراد حجت ہیں، اس لئے کہ ان کے بیان، تاویل اور تشریح کی بدولت مومنین کے دلوں اور نفوس کو سکون حاصل ہوتا ہے، اور مسافر سے مراد داعی ہے، کیونکہ وہ خدا کے راستے میں ہے، تاکہ گمراہوں کو راستے پر لا ئے۔
مالِ غنیمت کافروں سے امت کو ملتا ہے، اور (علم) اہلِ ظاہر کو پہنچا ہے، اور مالِ غنیمت ( کی طرح اس پر قبضہ) مومنین کا ہوا ہے، اور مذکورہ پانچ حدود نے اس کو لے لیا ہے، پھر انہوں نے (یہ علم) مومنین کے ذریعہ امت کو بخشا ہے، کہ وہ ان کے ماتحت ہیں، اور خزانہ عقلِ اوّل کی مثال ہے، کیونکہ وہی تو خدا کا خزانہ ہے، چنانچہ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
’’أَوْ يُلْقَى إِلَيْهِ كَنزٌ (۲۵: ۰۸)
یا اس کے پاس (غیب سے) کوئی خزانہ آپڑتا ۔‘‘
یعنی کافروں نے کہا کہ اگر وہ پیغمبر ہوتا، تو اس پر کوئی خزانہ ڈالا جاتا، پس اس بات کی تاویل کہ جس شخص کو کوئی خزانہ ملے، تو اس کو چاہئے کہ اس کا پانچواں حصہ دیا کرے، یہ ہے، کہ وہ شخص جس کو خزانہ ملا ناطق تھے، کہ ان کو عقلِ کلّ سے تائید ملی، تو لازماً آنحضرتؐ نے ایک ایسا حد قائم کر دیا جس سے پانچ حدود کو تائید حاصل ہے، وہ حدِ اساس ہیں، جس کے تحت امام، حجت، داعی، ماذون اور مستجیب ہیں۔
جواہر کی کان حدودِ علوی کی مثال ہے، چنانچہ معلوم ہے کہ جو کچھ کان سے نکلتا ہے، اس کو آلائش سے پاک و صاف کرنا چاہئے، تاکہ وہ لوگوں کو پسند آئے، جس طرح ناطق نے حدودِ علوی سے جو کچھ حاصل کر لیا تو اس کو مہذب الفاظ میں آراستہ کر کے ظاہر کیا، اور اساس کے حوالے کردیا، اور اساس نے ان (سونا چاندی
۲۹۲
وغیرہ جیسی روحانی چیزوں) کو اپنے ذہن و خاطر کی آگ میں پگھلایا، اور مثالات و رموز کی آلائش ان سے دور کر کے یہ چیزیں تاویل کی صورت میں امام کو دے دیں، پھر امام انہیں دوبارہ پگھلائیں اور کھرا سونا چاندی کی طرح بنا دیں، تاکہ امت کے کمزوروں کو، جو مفلس تھے (انہیں پہچان) لینے میں آسانی ہو، اور جس چیز کو قبول کرنا دشوار ہے، اسے جدا کر کے اپنے حجت کے حوالے کر دی، اور ہر ایک حد نے اپنے حصے کی لطافت و سہولت کے ذریعہ اس میں تصرف کر دیا ، تاکہ جب یہ چیز مستجیب کو پہنچے تو وہ جو مفلس ہے، کسی شک کے بغیر لے سکے، اور خدا تعالیٰ کی مہربانی سے اگنے والی چیزوں کی زکوٰۃ کی (اور خمس کی) تاویل تمام ہوئی۔
و السلام
۲۹۳
کلام ۔ ۳۲
فطر کی زکوٰۃ اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم بیان کردیں گے، کہ فطر کی زکوٰۃ تو ہر شخص پر واجب ہے، اور مال کی زکوٰۃ صرف توانگروں پر واجب ہے، فطر کی زکوٰۃ کی تاویل امام کیلئے مومن کا یہ اقرار کرنا ہے، کہ امام کے تحت اتنے حدود ہیں، اور ایسے ایسے مرتبوں میں ہیں، چنانچہ معلوم ہے کہ فطر کی زکوٰۃ چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، آزاد اور غلام سب پر واجب ہے۔
جب مومن زکوٰۃِ فطر دیتا ہے، تو وہ اپنے امام کے لئے یہ اقرار کر لیتا ہے، کہ میں مستجیب ہوں اور میری بھلائی اور برائی کا دارومدار فرمانبرداری اور نافرمانی پر ہے، جب مومن دو اشخاص کی طرف سے فطر کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو وہ ماذون کی زکوٰۃ کی تاویل ہوتی ہے، کیونکہ اس کے دو ۲ مرتبے ہوتے ہیں، ایک تو مرتبۂ ماذونی، اور دوسرا مرتبۂ مستجیبی، جب وہ تین اشخاص کی طرف سے فطر کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو وہ داعی کی (علمی) زکوٰۃ کی تاویل ہوا کرتی ہے، کیونکہ اس کے تین مراتب ہیں، جیسے مرتبۂ داعی گری، مرتبۂ ماذونی اور مرتبۂ مستجیبی، اور جب وہ چار اشخاص کی طرف سے فطر کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو وہ حجت کی (علمی) زکوٰۃ کی تاویل ہوا کرتی ہے، کیونکہ اس
۲۹۴
کے مراتب چار ہیں، جیسے حجتی، داعی گری، ماذونی اور مستجیبی۔
پس ہر بڑے، چھوٹے، مرد، عورت، آزاد اور غلام کی زکوٰۃِ فطر گزارنے میں یعنی اس فرمودۂ حق کے ادا کرنے کی تاویل میں ان (حدود) میں سے ہر فرد کی طرف سے اپنے امام کے لئے یہ اقرار ہے کہ میرے تحت یہ یہ حدود ہیں، جس طرح مومن اپنے مال کی زکوٰۃ دیتے ہوئے امام کے لئے یہ اقرار کر لیتا ہے، کہ میرا علم دعوت کے اس درجے پر ہے۔
جب مال زیادہ ہو تو زکوٰۃ (بھی) زیادہ دینی چاہئے، چنانچہ ناطق کی مرتبت علم میں زیادہ بلند ہے، تو دعوت میں اس کی (طرف سے علمی) پرورش (بھی) زیادہ بڑی ہے، جس کا ظاہری مال کم ہے، تو زکوٰۃ (بھی) کم دینی چاہئے، چنانچہ جس کی علمی مرتبت کمتر ہے، تو اس کی پرورش (بھی) دعوت میں کمتر ہے، اور اس حال کی شرح یہ ہے، کہ (علمی) توانگری بحقیقت ناطق ہی کی ہے، اور اس کی (علمی) پرورش اساس ہی کے لئے (مخصوص) ہے، جو دعوت کے حدود میں عظیم حد ہیں، اور ناطق سے ان کا حصّہ تاویل کی مرتبت ہے، اس توانگر کی مثال پر جس کے مال کی بہت سی زکوٰۃ نکلتی ہے، اور دوسرے سب لوگ ناطق کے نیچے ہیں، اور ان کے محتاج ہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ ان کی مثال دے رہا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
وَاللَّهُ الْغَنِيُّ وَأَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ (۴۷: ۳۸)
’’ خدا ہی توانگر ہے۔‘‘ جس کی مراد ناطق ہیں۔’’اور تم سب محتاج ہو۔‘‘ جس سے خدا کی مراد دوسرے تمام حدود ہیں، کہ علم میں وہ سب اسی کے محتاج ہیں، پھر اساس توانگر ہیں، اور ان کے مال (یعنی علم) کی زکوٰۃ ناطق کے مال کی زکوٰۃ سے کمتر ہے، کیونکہ اساس کی پرورش امام کے لئے ہے، اور امام کی پرورش حجت کے لئے ہے، اور امام کے مال (یعنی علم) کی زکوٰۃ اساس کے مال کی زکوٰۃ سے کمتر ہے، اور حجت کے مال کی زکوٰۃ امام کے مال کی زکوٰۃ سے کمتر ہے، اور حجت کی پرورش داعی کے لئے ہے، اور یہی (علمی پرورش) حجت کے مال کی زکوٰۃ کہلاتی
۲۹۵
ہے، اور داعی کی پرورش ماذون کے لئے ہے، اور یہی داعی کے مال کی زکوٰۃ کہلاتی ہے، اور ماذون کی پرورش مستجیب کے لئے ہے، اور ماذون کے مال کی زکوٰۃ یہی ہے، اور مستجیب بحقیقت محتاج ہے، جس طرح ناطق بحقیقت توانگر۔
جب یہ بیان کر دیا گیا، تو اب ہم مختصر بات کہیں گے، اور وہ یہ ہے، کہ جب مومن امام کو ظاہری مال کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو وہ اقرار کر لیتا ہے، کہ ’’دنیا میں میرا معاون یہی دنیاوی مال ہے، کیونکہ میرے جسم کا قیام اسی پر ہے، (مگر امام کی فرمانبرداری کے مقابلے میں) یہ کچھ بھی نہیں۔‘‘ اور یہ (مومن کی طرف سے) امام کی اطاعت ہے، اور جب مومن اپنے لوگوں کے ہر فرد کی طرف سے فطر کی زکوٰۃ دیتا ہے، تو اس میں وہ امام کے لئے یہ اقرار کر لیتا ہے کہ میرا حکم اتنے لوگوں پر چلتا ہے، جو میرے گھروالے، میرے فرزند، میرے اور میرے عزیز ہیں، اور یہ بھی اس کی طرف سے ایک طرح کی شکرگزاری اور فرمانبرداری ہے، جو خدا کے ولی کی وساطت سے خدا ہی کے لئے مخصوص ہے، اور ظاہری مال کی زکوٰۃ دینے کی تاویل یہ ہے، کہ مومن امام سے کہتا ہے، کہ میرے تحت اتنے حدود ہیں، کہ میں ان کی روحانی پرورش کرتا ہوں، اور یہ پرورش میری علمی زکوٰۃ ہے، اور مومنوں کی زکوٰۃِ فطر دینے کی تاویل یہ ہے، کہ مومن اپنے مالک کا شکر کرتا ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میرے تحت اتنے مراتب (یعنی حدود) ہیں، جن کو مجھ سے علم پہنچتا ہے، چنانچہ لوگوں کے فطر کی زکوٰۃ اس شخص کو دیا کرتے ہیں جس کا ذریعۂ معاش اسی سے ہو، اور جو شخص ظاہر میں یہ دو طرح کی زکوٰہ دیتا ہے اور باطن میں ان کے معنی جانتا ہے، تو وہی مخلص مومن ہے، اور خدا تعالیٰ کے فرمان سے امامِ زمانؑ نے زکوٰۃِ فطر قبول کرتے ہوئے اس مومن کو خرید لیا ہے، نیز ظاہری مال کی زکوٰہ قبول کرتے ہوئے اس سے اس کے مال کو خرید لیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
’’إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنْ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ
۲۹۶
وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمْ الْجَنَّةَ (۰۹: ۱۱۱)
اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں، اور ان کی مال اس بات پر خرید کر لئے ہیں کہ (ان کی قیمت ) ان کے لئے بہشت ہے۔‘‘ مالِ ظاہر کی زکوٰۃ اور فطر کی زکوٰۃ دینے کی حقیقی تاویل یہ ہے، جو بیان کی گئی، اور اب مخلص مومن کے لئے زکوٰۃِ فطر کی مقدار اور اس کی تاویل کا مفصل بیان کر ینگے۔
۲۹۷
فصل
زکوٰۃِ فطر کی مقدار کے بارے میں
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمانِ الٰہی کے بموجب ارشاد فرمایا کہ چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، آزاد اور غلام، ہر فرد کی طرف سے زکوٰۃِ فطر دی جائے، جس میں ایک صاع کھجور، یا ایک صاع کش مش یا ایک صاع گندم یا ایک ساع جو ہو، اور صاع وہی ہونا چاہئے جو مکہ اور مدینہ کی خرید و فروخت میں مستعمل ہے، اور خود اسی صاع کو پہچان لیا جائے، اور اس صاع کو صاعِ نبیؐ کہتے ہیں، جو چار من سے بھر جاتا ہے۔
پیغمبر علیہ السلام نے ان چار قسم کے لوگوں (یعنی مرد، عورت، آزاد، اور غلام) کی طرف سے غلہ اور پھل کی چار قسموں میں سے ایک صاع دینے کے لئے فرمایا، جو چار من کا ہو، ان میں سے دو تو درختوں کے پھل ہیں، یعنی کھجور اور کش مش، اور دو نباتات کے دانے ہیں، یعنی گندم اور جو، اور اس کی تاویل یہ ہے، کہ آنحضرتؐ نے مومنوں سے چار حدود (کی ہستی) پر اقرار چاہا، کیونکہ مخلوق کے وجود کا پیدا ہونا انہی سے ہے، اور (اخیر میں مخلوق کی) واپسی بھی انہی کی طرف ہے، وہ حدود عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس ہیں، جن میں عقلِ کلّ کی مثال کھجور ہے، کہ وہ اپنی ذات پر قائم ہے، اور اس کی شرافت تمام شرافتوں
۲۹۸
سے برتر ہے، چنانچہ کھجور کے درخت کا پھل تمام درختوں کے پھل سے اشرف ہے، اور کشمش نفسِ کلّ کی مثال ہے، کہ اس کا درخت اپنے آپ قائم نہیں رہ سکتا ، بلکہ دوسرا کوئی (ذریعہ) چاہتا ہے، تاکہ اس کا سہارا لے، چنانچہ نفسِ کلّ اپنے آپ قائم نہیں بلکہ اس کا قیام عقلِ کلّ پر ہے، اور اسی کے ذریعے اس کی قوّت ہے، کشمش کی طاقت اور مزہ کھجور کی طاقت (اور مزے ) سے کمتر ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نفس کی قوّت، عقل کی قوّت سے کمتر ہے، اور گندم ناطق کی مثال ہے، کیونکہ گندم سے زیادہ اصیل کوئی غلہ نہیں، جس طرح عالم میں ناطق سے بڑھ کر اصیل کوئی آدمی نہیں، اور جو اساس کی مثال ہے، کہ وہ درجے میں گندم سے کمتر ہے، جس طرح اساس کی مرتبت ناطق کی مرتبت کے نیچے ہے، اور گندم کے ہر صاع کی قیمت دو صاع جَو ہوتی ہے، چنانچہ ناطق کی تألیف و تائید کے دو مرتبے ہیں، اور اساس کو تاویل کا ایک مرتبہ ہے۔
اس بات کی تاویل کہ ان چار چیزوں میں سے چار من کا ایک صاع دیا کرتے ہیں، یہ ہے کہ عالمِ دین میں مذکورہ حدود کے تحت اور چار حدود ہیں، کہ ان کے لئے بھی تائید کی قوّت انہی چار اصول سے حاصل ہے، وہ چار حدود امام اور حجت ہیں، عقلِ کلّ و نفسِ کلّ کی مثال پر ، اور داعی اور ماذون ہیں، ناطق اور اساس کی مثال پر۔
(پس) اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو کوئی ان چار (اجناس) میں سے چار من کا ایک صاع دے دے تو گویا اس نے ان چار ذیلی حدود میں سے ایک حد کے لئے اقرار کر لیا ہے، اور اس کے ساتھ ملا ہے، اور وہ چار حدود اوپر کے چار حدود کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اور اس بات کی تاویل کہ چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، غلام اور آزاد کے ہر فرد کی طرف سے یہ زکوٰۃ دینی چاہئے، یہ ہے کہ چھوٹا ماتحت حد کی مثال ہے، اور بڑا مافوق حد کی مثال ہے، چنانچہ مستجیب بحقیقت چھوٹا اور ناطق بڑا ہیں، اور مرد علمی فائدہ دینے والے کی مثال ہے،
۲۹۹
عورت، علمی فائدہ لینے والے کی مثال ہے، غلام مومنِ محدود کی مثال ہے، کہ وہ مطلق نہیں ہوا ہے، اور آزاد ماذونِ مطلق کی مثال ہے اور جو حدود اس سے برتر ہیں، وہ دو درجے ہیں، یعنی بڑا اور مرد، تو بڑا، مرد اور آزاد علی الاطلاق (یعنی دراصل ) دونوں عالم میں عقل ہے، اور جسمانی عالم میں بڑا، مرد اور آزاد مطلقاً ناطق ہیں۔ اسی طرح اخیر میں مستجیب تک کہ وہ بحقیقت چھوٹا، غلام اور عورت ہے، یہاں تک کہ ان بڑوں ، آزادوں اور مردوں کی قوّت سے یہ بھی انہی کی طرح بڑا، مرد اور آزاد ہو جائے، بشرطیکہ وہ فرمانبرداری پر ٹھہرے۔
اس بات کی تاویل کہ فطر کی زکوٰۃ نمازِ عید سے پہلے دینی چاہئے، یہ ہے ، کہ حدودِ دین کے لئے مومن کا اقرار قائم علیہ السّلام کے ظہور سے پہلے ہی ہونا چاہئے، اور عید قائم علیہ افضل التحیۃ و السّلام کی مثال ہے۔
(اس امر میں) زمانہ کے ابلیسوں کی شرکت یہ ہے (کہ انہوں نے صاع کو بدل دیا) اور اس اطاعت میں نادان وہ تھا، جس نے اپنے آپ کو داناؤں کے بھیس میں ظاہر کیا، چنانچہ ملکِ عراق ( کا ایک شخص) امامِ حق کی جگہ پر کھڑا ہوا، اور امت سے یہ کہا کہ ہر ملک میں اسی ملک کے صاع سے (زکوٰۃِ فطر) دینی چاہئے، اور عراق کا صاعِ نبیؐ کے صاع کی دو تہائی ہے، چنانچہ عراق کے تین صاع مکہ کے دو ۲ صاع ہوتے ہیں، اور وہ (عراقی صاع) ڈھائی من، چھ استار چار درم دو۲ دانگ وزن رکھتا ہے، (جبکہ صاعِ نبیؑ پورے چار من کا ہے) جب نادان لوگوں نے یہ بات سنی تو اس پرعمل کرنا ان کے لئے نسبتاً آسان ہوا، اور کم ہمت لوگ زمانے کے ابلیسوں کے حکم پرقائم رہے تب شبِ فتنہ کی تاریکی جزیرۂ خراسان پر چھا گئی، اور نورِ ایمان اس سرزمین سے منقطع ہوا، کیونکہ ان دینی کمزوروں سے ، جو اس سرزمین میں تھے، خدا کے اولیاء نے اپنا دستِ عنایات اٹھا لیا، اور ان کو کوئی ایسا شخص نہیں ملا کہ ان کو حقیقتِ حال سے آگاہ کرے، تو انہوں نے کہا کہ یہ صاع (پیمانہ) جس میں ہم فطر دیتے ہیں ڈھائی من سات استار
۳۰۰
کا ہے، اور بعض لوگوں نے اپنی علمی کمزوری ہی سے اس کی تاویل مقرر کر دی، بغیر اس کے کہ حکمت کی کان (یعنی امام) سے انہیں یہ فرمان دیا گیا ہو، اور کمزور مومنوں نے ان کی یہ بات مان لی اور اس پر مضبوط ہوئے، اور ملعون ابلیس نے لوگوں کو دھوکہ دیا، اور اس نے امت میں سے اکثر لوگوں کو اپنا گمان سچ کر دکھایا ، مگر تھوڑے لوگ تھے، جو نورِ ایمان پر قائم رہے، اور دھوکہ باز شیطان کے حیلے سے چھٹکارا پائے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلاَّ فَرِيقًا مِنْ الْمُؤْمِنِينَ (۳۴: ۲۰)
اور ابلیس نے اپنے گمان کو ( جو ان کے بارے میں کیا تھا) سچ کر دکھایا، تو ان لوگوں نے اس کی پیروی کی، مگر ایمانداروں کا ایک گروہ (نہ بھٹکا)۔‘‘
فطر کے بارے میں خدا تعالیٰ کے فرمان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا جو کچھ ارشاد ہے، ہم نے اس کا ذکر کر دیا، اور وہ اختلاف ظاہر کر دیا، جو زمانے کے ابلیسوں کے قول اور اشارے سے امت کے درمیان واقع ہوتا ہے، اور حدود کی تاویل پر کمزور مومنین کے قادر نہ ہونے کا بیان کر دیا۔
زکوٰۃِ فطر کے بارے میں سات جزائر یعنی ہفتِ اقلیم کے خاص مومنین کے لئے زمانے کے خداوند (یعنی مالک) علیہ السّلام کا جو کچھ فرمان ہے، اور وہ اس پر جس طرح عمل کرتے ہیں، اب ہم اس کی ایک فصل بیان کریں گے، تاکہ جس شخص کی آنکھ شبِ فتنہ کی تاریکی کے باوجود آفتابِ حقیقت دیکھنے سے عاجز نہ رہی ہو، تو وہ اس کو دیکھے، اور ہم اس کی تاویل بتائیں گے۔
۳۰۱
فصل
خداوندِ حق کے فرمان کے مطابق حقیقی فطر اور اس کی تاویل
جب صاحبانِ حق علیہم السّلام نے دیکھا، کہ زمانے کے ابلیسوں نے امت کو اپنے پیچھے جہالت کی وادی میں گمراہ کر دی ہے، اور انہوں نے صاعِ نبیؐ کو اپنے صاع سے بدل دیا ہے، اور یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ حال سب لوگوں کو معلوم کر دیا جائے، تو انہوں نے اپنے تابعین کے لئے ارشاد فرمایا، کہ مومنین کے ہر چھوٹے ، بڑے، آزاد، غلام، مرد اور عورت کی طرف سے اس ایک صاع پھل یا غلہ کی قیمت ایک درم ایک دانگ دیا کریں، اور اس میں فطر دینے والوں کے لئے صاحبانِ حق کی طرف سے دو عظیم حکمتیں تھیں، اور مومنین کے لئے اس سے ایک تو یہ ظاہر ہوا، کہ مکہ کا صاع اور عراق کا صاع اور کئی دوسرے صاع درمیان سے اٹھ گئے، تاکہ وہ غلطی میں نہ پڑیں اور شک سے نکل جائیں، کہ یہ صاع کتنے من کا ہے اور وہ صاع کتنے من کا، اور دوسری حکمت یہ تھی کہ، ایک صاع کھجور یا کشمش یا گندم یا جَو کے درمیان (قیمت میں ) بہت سا فرق ہے، کیونکہ بعض جگہیں ایسی بھی ہیں، جہاں ایک صاع کھجور کی قیمت اتنی ہے جتنی کہ بیس ۲۰ صاع گندم کی ہوتی ہے، جیسے سر زمینِ خراسان اور ماورأ النہر ، اور
۳۰۲
بعض جگہیں ہیں جہاں ایک صاع گندم کی قیمت بھی وہی ہے، جو بیس صاع کھجور کی ہوتی ہے، جیسے پنج نہر ویلمان ، یمامہ وغیرہ، اور جب صاحبانِ حق علیہم السّلام نے فطر کے اس پیمانے کو معلوم کر دیا تو درمیان سے یہ فرق اٹھ گیا، اور بموجبِ فرمانِ رسول اور اس کی آل کی بدولت سچائی ظاہر ہوئی، یہ سچائی جو آج لوگوں کے درمیان فعل کی حد میں ہے، اس سے پہلے (یعنی رسول کے زمانے میں) قوّت کی حد میں تھی۔
اب ہم خداوندِ زمان علیہ السلام کے امر سے زکوٰۃِ فطر کے اس ایک درم اور ایک دانگ کی تاویل کے بارے میں بیان کریں گے، جو صاحبانِ زمان علیہم السّلام مومنین سے لیا کرتے ہیں، کہ ایک درم اور ایک دانگ (مجموعاً) سات دانگ ہوتے ہیں، اور یہ دورِ رسولؐ کے بعد کے سات ائمۂ برحق کی دلیل ہے، اور ان سات دانگوں میں سے چھ دانگ ایک مجموعے میں ہیں، اور وہ ایک درم ہے، اور ایک دانگ ان سے جدا ہے، پس وہ درم جو ایک مجموعے میں چھ دانگوں کی حیثیت سے ہے، ان چھ أئمۂ برحق کی دلیل ہے، جو رسول علیہ السّلام کے بعد تھے، اور ایک جدا دانگ امامِ متم کی دلیل ہے، کیونکہ اسی کو قائم کا مرتبہ حاصل ہے، اور جو چھ اماموں سے مرتبت میں جدا ہے، ہر چند کہ وہ بھی امام ہے، اور اس (حقیقت) پر گواہ عالمِ آفاق کے چلنے والے چھ ستارے ہیں، جیسے: زحل، مشتری، مریخ، زہرہ، عطارد اور قمر ، کیونکہ یہ سب ایک ہی درجے کے ہیں، اس لئے کہ ان کی روشنی کمتر ہے، اور سورج بھی انہی کی طرح روشنی والا ہے، مگر شرف میں وہ ان سے برتر ہے، اور اس کی روشنی گرمی کے ساتھ ہے، اور اس کے ظاہر ہونے میں ان کا چھپ جانا ہے، اور اس (حقیقت) پر گواہ انسانی شخصیت کے چھ اعضائے رئیسہ ہیں، جیسے: جگر، پھیپھڑے، تلی، پتا، گردے، اور دماغ، کہ انسانی جسم میں ان میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص کام ہے، جس طرح دل کا ایک مخصوص کام ہے، لیکن ان چھ اعضاء کا قیام دل پر ہے، جو ان کا ساتواں عضو ہے۔
(نیز) ہم یہ بتائیں گے، کہ جب مومن زکوٰۃِ فطر کا ایک درم اور ایک دانگ اپنے
۳۰۳
امام کو ادا کر دیتا ہے، تو وہ چھ اماموں کی شناخت کے لئے اقرار کر لیتا ہے، جن کے ادوار صاحبِّ قیامت کےدور سے پہلے ہیں، جس طرح (زکوٰۃِ فطر کے سلسلے میں ’’ایک درم اور ایک دانگ‘‘ کہنے کے لئے) دانگ سے پہلے درم کا نام آتا ہے، نیز یہ مومن سے اس امامِ ہفتم کی شناخت کا اقرار ہے، جو صاحبِّ قیامت ہے، اور اس کا دور تمام ادوار کے اخیر میں ہے، جس طرح ’’ایک دانگ‘‘ جو ’’ایک درم‘‘ کے بعد آتا ہے۔
نیز ہم بیان کریں گے، کہ ایک درم کی بارہ نصف دانگیں ہوتی ہیں، اور یہ بارہ حجتوں کی دلیل ہے، جو صاحبِّ زمان کے فرمان کے بموجب عالَم میں ظاہر و باطن کو برپا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، اور ایک دانگ کی دو نصف دانگیں ہوتی ہیں، جو امام و باب ، ناطق و اساس اور لیلتہ القدر و قائم القیامت کی دلیل ہے، نیز تنزیل و تاویل اور ظاہر و باطن کی دلیل ہے، اور مومنون میں سے جو شخص زکوٰۃِ فطر کا یہ ایک درم اور دانگ اپنے امام کو گزار دیتا ہے، تو اس سے بارہ حجتوں، ناطق و اساس، امام و باب اور مذکورہ دو دو امور کا اقرار ہوتا ہے، اور جس طرح بارہ حجت اگرچہ مرتبت میں ناطق اوراساس سے جدا ہیں لیکن زبان کے ذریعہ یہ ان کی سنت کو ظاہر کرنے والے ہیں، اور ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتے ہیں، اور ان کے بغیر ان حجتوں کا کوئی قیام نہیں، جس طرح یہ ایک درم اگرچہ اس ایک دانگ سے جدا ہے لیکن اس امر میں یہ ایک درم اس ایک دانگ کے بغیر مکمل نہیں، اور نہ وہ ایک دانگ اس درم کے بغیر مقبول ہے، اور یہ ایک درم اور ایک دانگ چودہ نصف دانگیں ہوتی ہیں، جو سات اماموں اور سات حجتوں کی دلیل ہیں، کہ خدا تعالیٰ نے ان کی وجہ سے اپنے رسولؐ کو احسان جتایا ، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
’’وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ (۱۵: ۸۷)
یعنی اے محمد! ہم آپ کو ایک ایسا سات دیا ، جو دہرا ہے۔‘‘
ایک درم اور ایک دانگ کے اٹھائیس۲۸ طسوجے ہوتے ہیں، اور وہ
۳۰۴
ناطق، اساس، امام، بارہ حجتِ ظاہر، بارہ داعی اور ماذون کی دلیل ہیں، کیونکہ ہر حجت کا ایک (خاص) داعی ہوا کرتا ہے، نیز عقل، نفس، تین روحانی فروع (یعنی جد، فتح اور خیال، ) ناطق، اساس، سات أئمّہ، بارہ جزائر کے حجت، داعی اور ماذون کی دلیل ہے، پس جو شخص فطر کا ایک درم اور ایک دانگ اپنے امام کو گزار دیتا ہے، تو وہ ان حدود کی اطاعت کرتا ہے، جو بموجبِ فرمانِ خدا دعوت میں کھڑے ہیں۔
نیز ہم بیان کریں گے، کہ درم اور دانگ کے عربی الفاظ درہم و دانق ہوتے ہیں، اور اس کی تحریری صورت اسی طرح ہے۔ ’’درھم و دانق‘‘ اور ان دونوں الفاظ میں سے ہر ایک چار حروف پر مشتمل ہے، اور ان کے درمیان ایک واؤ کا واسطہ ہے، اور یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ درہم کے چار حروف چار اصولِ دین کی مثال ہیں، جیسے اوّل، ثانی، ناطق اور اساس، اور دانق کے چار حروف چار فروعِ دین کی مثال ہیں، جیسے حجت، داعی اور دو۲ ماذون ، اور ان دونوں چار حرفی الفاظ کے درمیان کا واؤ جو حسابِ جمل میں چھ۶ ہے، اور چھ أئمّۂ برحق کی دلیل ہے، کہ وہ ان چار اصول سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، اور ان چار ماتحت حدود کو فائدہ پہنچایا کرتے ہیں، اور اس قول کی سچائی پر دلیل یہ ہے کہ درہم دو ۲ روحانی اصلوں اور دو ۲ جسمانی اصلوں کی مثال ہے، یہی وجہ ہے کہ ’’دال‘‘ اور ’’را‘‘ جو اس لفظ کے شروع میں ہیں، ایک دوسرے سے جدا ہیں، اوّل و ثانی کی طرح کہ وہ بسیط ہیں، اور مرکب نہیں، اور ’’ھا‘‘ و ’’میم‘‘ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں، ناطق اور اساس کی طرح کہ وہ جسم اور نفس سے مرکب ہیں، پھر ’’دانق‘‘ کے شروع میں ’’دال‘‘ اور ’’الف‘‘ بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں، حجت اور داعی کی طرح، جن میں سے ایک کا درجہ جدا ہے، کہ حجت صاحبِّ تائید ہے اور داعی صاحبِّ تاویل ہے، اور دونوں ماذون ایک مرتبے میں ہیں، کہ دونوں کا پالنے والا داعی ہے، جس طرح نون اور قاف ’دانق‘‘ کے لفظ میں یک جا ملے ہوئے ہیں، نیز جس طرح دال اور را لفظِ ’’درہم‘‘ میں ھا اور میم سے آگے ہیں، اسی طرح اوّل و ثانی بھی ناطق و اساس سے آگے ہیں،
۳۰۵
اور جس طرح دال اور الف ’’دانق‘‘ میں نون اور قاف سے پہلے ہیں، اسی طرح حجت اور داعی دو ۲ ماذون سے پہلے ہیں، ناطق اور اساس کے لئے اوّل و ثانی وہی منزلت رکھتے ہیں، جو منزلت دو ۲ ماذون کے لئے حجت اور داعی رکھتے ہیں۔
نیز ہم بتائیں گے، کہ پہلے درہم ہے پھر دانق ہے، اور یہ دونوں کلمات ایک دوسرے کے بعد ایسے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، اس لئے کہ دونوں کلمات میں شروع کے دو ۲ حرف جدا جدا ہیں، اور اخیر کے دو ۲ حرف ملے ہوئے ہیں، جیسے ’’د،ر،ہم‘‘ اور د،ا،نق‘‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا دور دو ۲ قسم کا ہے، اور دونوں قسموں میں ہمارے لئے روحانی فراخی ہے، اور ہر کام کا شروع دو بسیط اصلوں (یعنی عقل و نفس ) سے ہوتا ہے، اس لئے کہ مذکورہ دو ۲ کلموں کا شروع دو۲ جدا جدا حرفوں سے ہے۔
پس ہم بتا دیتے ہیں، کہ یہ دور جس میں ہم داخل ہیں دو حصوں میں ہے، ایک حصہ تو اولیاء کا ہے، اور وہ اماموں کا دور ہے، اور دوسرا حصہ خلفاء کا ہے، اور وہ دورِ قیامت ہے، اور دونوں قسموں کا رجوع دو روحانی اصلوں (یعنی عقل و نفس) کی طرف ہے، اور ہم بتائیں گے، کہ اماموں کے دور (آنے) کا سبب خلفاء کا دور ہے، اس لئے کہ (ہر چیز کا) آغاز اور اس کی علت (یعنی سببِ پیدائش) وہی ہے جو کچھ اس کا انجام ہے (یعنی ہر چیز کا انجام ہی اس کا آغاز ہے) اور اس درم و دانگ میں یہی دلیل ظاہر ہے اس لئے کہ درم دانگ سے بنا ہے، اور درم میں دانگ بننے کی صلاحیت ہے، اور دانگ میں درم بننے کی صلاحیت ہے۔
پس میں نے ثابت کر دیا کہ دانگ درم کا سبب ہے، جس طرح قائم علیہ السلام ہی تمام انبیاء و اولیاء کے پیدا ہونے کا سبب ہیں، اور ایک دانگ اسی کی دلیل ہے اور ایک درم چھ صاحبانِ شریعت کی دلیل ہے، اور انبیاء کی پیدائش کا سبب قائم علیہ السلام ہی ہیں، جس طرح درم کی پیدائش کا سبب
۳۰۶
دانگ ہے۔
نیز بتائیں گے کہ جب تو درہم کی تشریح حسابِ جمل میں کرے گا، تو اس میں پہلے حرفِ ’’دال‘‘ آتا ہے، جس کا عدد چار ہے اور دوسرا حرف ’’را‘‘ ہے جس کا عدد دو سو ۲۰۰ ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ چار مؤید (یعنی مدد دیئے گئے) ہیں، جیسے ناطق، اساس، امام ، اور حجت، کہ ان کو تائید دو ۲ اصلوں سے ہے، جس طرح حرفِ ’’را‘‘ دو ۲ روحانی اصلوں کی مثال ہے، کیونکہ ’’را‘‘ کا عدد دوسو ۲۰۰ ہے، اور دو ۲۰۰ کے دو ۲ عقد ہوتے ہیں، اور وہ دو ۲ روحانی اصلوں کی دلیل ہے، اور ’’ھا‘‘ کا عدد پانچ ہے، اور ’’میم‘‘ کا عدد چالیس ۴۰ ہے، جو چار عقد ہوتے ہیں، اور یہ چار حدود کی دلیل ہے، کہ اساسین اور فرعین دو ۲ اصلوں کے تحت ہیں، یعنی ناطق، اساس، امام اور حجت اور پانچ کا عدد جو حرفِ ’’ھا‘‘ کا ہے، ان پانچ حدود پر دلیل ہے جو ان کے تحت ہیں: جیسے حجت، داعی، دو ماذون اور مستجیب، کہ ان سب کا رجوع چار اصول کی طرف ہے، یہ ایسا ہے جس طرح ھا میم کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
پھر جب تم جمل کے طریقے پر دانق کا حساب کرو گے، تو ’’دال‘‘ کا عدد چار ہے، اور ’’الف‘‘ کا ایک ہے، کیونکہ چار اصولِ دین کا مرجع ( یعنی لوٹنے کی جگہ ) باری سبحانہ و تعالیٰ کی وحدت ہے، اور ’’نون‘‘ کا عدد پچاس ۵۰ ہے، جو پانچ عقد ہوتے ہیں، اور ’’قاف‘‘ کا عدد ایک سو ۱۰۰ ہے، جو ایک عقد ہوتا ہے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ مذکورہ پانچ ماتحت حدود یعنی حجت، داعی، دو ۲ ماذون اور مستجیب کو علم کی قوّت امام سے حاصل ہے، جس کی مثال ایک عقد ہے، اور مخلص مومن وہ ہے، کہ اپنے آقا کے فرمان کے مطابق فطر زکوٰۃ دیا کرتا ہے، اور اس کے معنی اس کتاب سے معلوم کر لیتا ہے، تاکہ وہ حق گزار اور حق شناس ہو ، (یعنی حق ادا کرنے والا اور حق پہنچانے والا ہو) اور نسناس (یعنی بن مانس) جیسے نادان کی باتوں پر عمل نہ کرے،تاکہ جہالت
۳۰۷
کے بیابان میں علم کی پیاس سے مر نہ جائے۔
ہم نے فطر کے معنی اور اس کی تاویل کا ذکر کر دیا ، اور اس اختلاف کے سبب کا (بھی) جو ابلیس اور زمانے کے ابلیسوں کے فریب سے امت کے درمیان پڑا ہوا تھا، تاکہ اس بیان کے ذریعہ بصیرت والوں کو جہالت کے رنج سے خلاصی اور راحت حاصل ہو۔
والسلام
۳۰۸
کلام ۔ ۳۳
روزہ رکھنے کی واجبیت، اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم بیان کریں گے، کہ روزہ کو عربی میں ’’صَوْم‘‘ کہتے ہیں، اور ’’صوم‘‘ کے معنی ہیں، ہر اس چیز (یعنی قول و فعل ) سے لوگوں کا رک جانا جس کو وہ کر رہے تھے، اور ہر بالغ و حاضر مسلمان پر سال میں اس ایک مہینے کا روزہ واجب ہے، جو رمضان کے نام سے معروف ہے، وہ ایک مہینہ کسی کمی کے بغیر پورے تیس ۳۰ دنوں کا ہونا چاہئے، اور روزانہ رات ہی سے اس دن روزہ رکھنے کی نیت کرنی چاہئے، اور ان چیزوں سے اپنے آپ کو روکنا چاہئے، جو روزے کو توڑ دیتی ہیں، جیسے کھانا، پینا، جماع کرنا، غیبت کرنا اور ناپسندیدہ افعال کرنا۔
روزہ کی تاویل یہ ہے ، جو پہلے تم یہ سمجھ لو، کہ دین کے سلسلے میں نفس (یعنی روح) کی حالت جسم کی حالت سے ملتی جلتی ہے، چنانچہ تندرستی کی حالت میں جسم کی بہتری خوراک کھانے اور پانی وغیرہ پینے کے ساتھ وابستہ ہے، اور بیماری کی حالت میں جسم کا علاج کھانا نہ کھانے اور پانی وغیرہ نہ پینے کے ساتھ وابستہ ہے (دوسری طرف سے) نفس کا کھانا تنزیل اور شریعت کا ظاہر ہے اور نفس کا پینا تاویل کا کھولنا اور شریعت کا بیان کرنا ہے۔
۳۰۹
پس اسی طرح نفس کی بہتری کسی وقت تو شریعت اور ظاہر کو عمل میں لانے اور اس کی تاویل جاننے میں ہے، اور وہ ایک ایسے وقت میں ہوتا ہے، جس میں حدودِ دین برپا کئے ہوئے ہوتے ہیں، اور عالمِ دین جسم کی صحت مندی کی طرح بے خلل ہوتا ہے، اور پھر کسی وقت نفس کی بہتری شریعت کے باطن کو پوشیدہ رکھنے میں ہے، جبکہ مومنین اپنے ہلاک ہوجانے سے ڈرتے ہوں کہ ان کو دینی مخالفین ہلاک کر دیں گے، پس لوگوں کا روزہ رکھنا بظاہر خدا کی اطاعت ہے، اور اپنے آپ کو فرشتوں کی طرح کر دینا ہے، کہ وہ کھانے پینے سے بے نیاز ہیں، اور اپنے آپ کو حیوانی عادت سے دور رکھنا ہے، کہ حیوان جو کچھ پاتے ہیں اور جس وقت میں بھی ہو، ہڑپ کر لیتے ہیں، یہ عادت انتہائی ناپسندیدہ ہے، اور کم کھانا ایک پسندیدہ عادت ہے، نیز کم کھانے والے کو سب لوگ عزیز بھی رکھتے ہیں، اور روزے کا باطن (یعنی باطنی روزہ) کتاب اور شریعت کے باطن کی تشریح اور بیان کرنے سے حدودِ دین کا رک جانا ہے، اور اس قول کی سچائی کی دلیل خدائے تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے جو سورۂ مریم میں آیا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
فَإِمَّا تَرَيْنَّ مِنْ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنسِيًّا (۱۹: ۲۶)
’’خدا تعالیٰ حضرت مریم علیہا السلام سے فرماتا ہے، کہ پس اگر تو کسی آدمی کو دیکھے، تو کہہ دینا کہ میں نے خدا کے واسطے روزے کی نیت کر لی ہے، تو میں آج ہر گز کسی آدمی سے بات نہیں کر سکتی ۔‘‘
حدیثِ شریف میں مذکور ہے، کہ ماہِ رمضان خدا تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور وہ تمام مہینوں سے افضل ہے، اور حدیثِ شریف میں ( یہ ارشاد بھی) ہے، کہ اس مہینے میں فرشتے دیکھے جاسکتے ہیں، اور اس میں آسمان کے دروازے نیکیوں کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں، اور اس میں حسبِ مقدور غریبوں کے ساتھ فیاضی سے پیش آنے کے لئے فرمایا گیا ہے۔
۳۱۰
سال کے بارہ مہینے ہیں، اور رمضان کا مہینہ ان دوسرے گیارہ مہینوں سے اشرف ہے، اور اس کی تاویل کا بیان یہ ہے، کہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے بارہ حجت ہوا کرتے ہیں، اور پیغمبر کے بارہ حجتوں میں سے ایک تو اس کا وصی ہوتا ہے، اور وصی کے بارہ حجتوں میں سے ایک امام ہوتا ہے، تاکہ اس کے بعد اس کے مقام پر قائم ہو جائے، چنانچہ یوسف علیہ السلام (اپنے والد حضرت) یعقوبؑ کے حجت تھے، کیونکہ یعقوب علیہ السلام امامِ (مستودع) تھے، اور امام نے (حضرت یعقوب کو تصور و ) خیال کے ذریعے یہ دکھانا چاہا تھا، کہ دوسرے گیارہ حجت زمانے کے امام اور ان کا باب (حجتِ اعظم) حضرتِ یوسف کی اطاعت کریں گے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ (۱۲: ۰۴)
’’ میں نے گیارہ ۱۱ ستاروں، سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے ان کو دیکھا ہے ، کہ یہ سب مجھے سجد ہ کررہے ہیں۔‘‘ اور گیارہ ستاروں سے حضرت یوسفؑ کی مراد گیارہ حجت ہیں، جن کا بارہواں خود حضرت یوسفؑ تھے، اور سورج سے ان کی مراد امام ہیں، اور چاند سے ان کی مراد باب ہے، اور ان کو ان کے سجدہ کرنے میں یہ مطلب رکھا، کہ یہ حدود حضرت یوسفؑ کی اطاعت کریں گے، اور چاند وزیر کی مثال ہے، اور اللہ تعالیٰ کے اشارے کے مطابق وصی ہی ناطق کا وزیر ہوا کرتا ہے جس طرح قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے:۔
واجعل لی وزیرا من اہلی ہارون اخی (۲۰: ۲۹ تا ۳۰)
یعنی موسیٰ نے کہا: اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر (یعنی بوجھ بٹانے والا بنا دے) ۔
ماہِ رمضان کا روزہ رکھنے کی تاویل یہ ہے کہ جو شخص تاویل کی دعوت تک پہنچ جائے تو اسے چاہئے کہ شریعت کے حقائق کو پوشیدگی سے طلب کرے نہ
۳۱۱
کہ ظاہریت سے، چنانچہ دن ظاہر اور تنزیل کی مثال ہے، اور رات باطن اور تاویل کی مثال ہے، پس ہمیں فرمایا گیا کہ ہم رمضان کے مہینے میں دن کے وقت غذا کو جمع کئے رکھیں، تاکہ ہم رات کے وقت اس کو کھائیں، اور اسی طرح ہے کہ جو شخص تاویل کی دعوت (یعنی روحانی تعلیم) میں داخل ہوتا ہے، وہ ظاہری امور کو سن لیتا ہے، اور حقیقت کو انہی امور سے طلب نہیں کرتا، بلکہ تاویل کے طریقے سے طلب کرتا ہے، تاکہ وہ حقیقت کو حاصل کر سکے، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ظاہری حالت کو دیکھ کر یہ معلوم کر لینا چاہے کہ خدا تعالیٰ نے خنزیر (یعنی سؤر) کے گوشت کو کیوں حرام کر دیا ہے، اور بھیڑ بکری کے گوشت کو کیوں حلال ٹھہرایا ہے، تو وہ واقعہ کی ظاہریت سے اس حقیقت کا انکشاف نہیں کرسکے گا نہ وہ غیر تربیت یافتہ عقل سے ان دو گوشتوں کو سمجھ سکے گا، کہ نقصان پہنچانے والے سٔور کو کاٹ کر اس کا گوشت کیوں نہیں کھانا چاہئے، اور بے ضرر بھیڑ بکری کو کاٹ کر اس کا گوشت کیوں کھانا چاہئے، اور اگر ہم ظاہری حالت پر نظر رکھیں، تو ہماری اپنی عقل کے مطابق یہ لازم آتا ہے، کہ نقصان پہنچانے والے کو کھانا اور ستانا چاہئے، اور بے ضرر کو نہیں کھانا اور نہیں ستانا چاہئے۔
جب ایسا کوئی شخص علم حقیقت سیکھے، تو اس وقت سؤر کا گوشت نہ کھانے کے معنی سمجھ سکے گا، اور اس کے کھانے کا نقصان معلوم کرے گا، اور گوسفند (یعنی بھیڑ بکری) کا گوشت (کھانے کے معنی) بھی نہ اس کے جسم میں ہیں، بلکہ اس کے نفس میں ہیں، اور رمضان کے امر کی اطاعت کرنے والا مومن جو رمضان کی حقیقت جانتا ہے، وہ تاویل ہی کے طریقے سے ہے، نہ کہ اس چیز کے عینِ ظاہر سے جو کھانے (یعنی افطار) کے لئے پڑی ہے، جس کو دن میں جمع کی گئی ہے، اور دن اس پر گزر چکا ہو، تاکہ اس جسمانی خوراک کو شبِ زمانی (یعنی مادّی قسم کی رات) میں کھائے جو روزِ زمانی (یعنی ظاہری قسم کے دن) میں جمع کی گئی تھی، جبکہ مومن ماہِ رمضان کا ظاہری روزہ رکھتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ جسمانی خوراک کے باطن کو، جو روزِ
۳۱۲
دین، یعنی شریعت سے حاصل کیا ہے، شبِ دین میں یعنی تاویل حقیقت کے مقام پر کھائے گا، اور جب روحانی روزہ رکھے، تو وہ اس شخص کو پہچان لے گا جو خدا کا مہینہ ہے، چنانچہ ’’شھر‘‘ شہرت کے لفظ سے لئے ہیں، اور جو فرماتا ہے کہ: ’’شَھْرُ رَمْضَانَ‘‘ تو اس سے خدا کی مراد وہ شخص ہے، جو خدا کے نزدیک مشہور ہے، اور وہ شخص وہی ہے جس کے باطن میں قرآن بحقیقت خدا کا بھیجا ہوا ہے، اور قرآنِ شریف دراصل اس شخص کے باطن میں نازل ہوا ہے، جو قرآنی مثالوں سے اختلافات اور شبہات کو صرف وہی دور کر سکتا ہے، اور وہ ناطق علیہ السلام کے وصی ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنْ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (۰۲: ۱۸۵)۔
’’ ماہِ رمضان وہ شخص ہے جس (کی ذات) میں قرآن نازل کیا گیا، تاکہ (وہ شخص) لوگوں کو سیدھا راستہ دکھائے، اور سیدھے راستے کے متعلق بیانات کو وہی جدا کرے۔‘‘ یعنی خدا کا مشہور وہی شخص ہے، جس کی ذات میں قرآن نازل ہوا، تاکہ وہ شخص لوگوں کو سیدھا راستہ دکھائے اور پوشیدہ حقائق کو ظاہر کرے، اور حق کو باطل سے جدا کرے، پس فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
’’فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمْ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ‘‘ (۰۲: ۱۸۵)
پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے تو روزہ رکھے، یعنی جو شخص اساس کو پہچانے، تو وہ ان کی مرتبت کو دینی دشمنوں سے چھپا ئے رکھے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ( ۰۲: ۱۸۵)
اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو، گو کہ روزہ نہ رکھے، مگر دوسرے دنوں کو گنے، تاکہ پھر سے روزہ رکھے، اس کے معنی یہ ہیں، کہ جو شخص تاویل کے نہ ملنے سے
۳۱۳
روحانی طور پر بیمار ہو جائے، جس کے سبب سے وہ ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتا رہتا ہو، اور بیماروں کی طرح کمزور ہو جاتا ہو یا مسافرت میں ہو، یعنی حقیقت کا طالب رہتا ہو، تو روا نہیں کہ وہ خاموش رہے، بلکہ اسے ڈھونڈتے اور پوچھتے رہنا چاہئے، تاکہ حقیقت کو حاصل کر سکے، پھر تندرست ہو جائے۔ اور (اس علمی سفر سے) گھر کی طرف واپس آجائے، پھر اس کے بعد (روحانی طور پر اساس کو پہچان کر ) اس کی مرتبت کو دینی مخالفوں سے پوشیدہ رکھے اور اس بات کے معنی کہ بیمار اور مسافر دوسرے ایام گنے اور روزہ رکھے، یہ ہیں کہ جو شخص اساس کی تاویل حاصل نہ کرسکے تو روا ہے کہ وہ حجت، داعی اور ماذون سے تاویل حاصل کرے، کیونکہ وہی لوگ اساس کے دوسرے ایام ہیں، اور ان میں سے ہر ایک عالمِ دین کا ایک دن ہے۔
پس ہم بیان کریں گے، کہ بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ روزہ رکھنے کی تاویل یہ ہے، کہ (ناطق کے ) بارہ حجتوں کے مجموعے میں سے اساس ہی ایک ایسے حجت ہیں جن کی مرتبت پوشیدہ رکھنی چاہئے، اور وہ اس مرتبت کی بناء پر اپنے گیارہ ساتھیوں سے مخصوص ہیں، جس طرح لوگوں کے لئے ماہِ رمضان اپنے ساتھ والے گیارہ مہینوں سے افضل ہے، کیونکہ دوسرے مہینے وہ فضیلت نہیں رکھتے ہیں، اور اس بات کی تاویل کہ ماہِ رمضان تمام مہینوں میں نواں مہینہ ہے، یہ ہے کہ مستجیب سے لے کر عقلِ کلّ تک حدودِ دین کے مراتب بارہ ہیں، جیسے:
۱۔ مستجیب ۷۔ باب
۲۔ ماذونِ محدود ۸۔ امام
۳۔ ماذونِ مطلق ۹۔ وصی
۴۔ داعیٔ محدود ۱۰۔ ناطق
۵۔ داعیٔ مطلق ۱۱۔ نفسِ کلّ
۶۔ حجت ۱۲ ۔ عقلِ کلّ
۳۱۴
پس وصی (ان حدود میں ) نواں مرتبہ ہیں، جس طرح ماہِ رمضان سال کا نواں مہینہ ہے، اور ماہِ رمضان کے بعد سال کے تین مہینے ہیں، جیسے شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ، اسی طرح وصی کے بعد دین میں تیس مراتب ہیں، جیسے ناطق، نفسِ کلّ اور عقلِ کلّ، اور گنتی میں بھی یہی حال (یعنی ثبوت ) موجود ہے، اس لئے کہ (قرآنی) گنتی بارہ درجوں میں ہے، جس میں نو درجے اکائی کے ہیں، دسواں درجہ دھائی کا ہے، گیارہواں درجہ سیکڑے کا ہے، اور بارہواں درجہ ہزار کا ہے، اور ہزار کے بعد (بس انہی درجوں کا ) تکرار یعنی دہرائی ہے، اسی طرح اکائی جسمانیوں اور متعلّموں کا درجہ ہے، اور وصی ان کا آخری درجہ ہے، کیونکہ وہ نویں منزلت پر ہیں، اور ناطق کے لئے حساب کی دہائی کا مرتبہ ہے، کیونکہ وہ آدمیوں کی انتہائی ہیں، اور انسانی صورت کا درجۂ کمال ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ دس کے عدد کو، جو ناطق کا مرتبہ ہے، کامل قرار دیتا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
تلک عشرۃ کاملۃ (۰۲: ۱۹۶) (ترجمہ: یہ دس کامل ہے)، اور سیکڑے کا مرتبہ نفسِ کلّ کے لئے ہے، اور ہزار کا مرتبہ عقلِ کلّ کے لئے ہے۔
پھر اس بات کی تاویل کہ ( روزہ رکھنے والا) جس دن روزہ رکھتا ہےتو اس کو اس دن رات ہی سے نیت کرنی چاہئے، یہ ہے کہ کتاب (یعنی قرآن) اور شریعت کا ظاہر تاویل طلب واقع ہوا ہے، اور تاویل ہی کتاب و شریعت کا سبب تھی، جو ظاہر (یعنی تنزیل) کے بعد ممکن تھی، ایک ایسی بات کی مثال پر جو آواز، کلمات اور حروف کے ذریعہ کہا کرتے ہیں، پس اس آواز، کلمات اور حروف کا سبب معنی ہی ہوتے ہیں جو سننے والے کا نفس پہلے سن لیتا ہے، اور کہنے والے کی طرف سے وہ بات (مخاطب کو) اس معنی کی وجہ سے قابلِ قبول ہو سکتی ہے، پس ظاہری روزے کے لئے ظاہری رات ہی سے نیت کرنی چاہئے، تاکہ درست ہو اور اسی طرح پہلے تو روزہ کے معنی سمجھ لینا چاہئے، اس کے بعد روزہ رکھنا چاہئے، تاکہ وہ
۳۱۵
نیت جو روزے کی شناخت (یعنی تاویل) ہے روزہ رکھنے کا سبب ہو، کہ وہ روزہ رکھنا اساس کی مرتبت کی دینی دشمنوں سے پوشیدہ رکھنا ہے۔
پھر اس بات کی تاویل کہ روزہ پورے تیس ۳۰ دنوں کا رکھا جاتا ہے، یہ ہے کہ پہلے ان تیس ۳۰ مراتب کو پہچاننا چاہئے، تاکہ ہم اس کے ذریعہ تاویل سمجھ سکیں، اور یہ تیس مراتب وہ ہیں جن کی سچائی پر آفاق و انفس گواہ ہیں، ان کو یاد فرمایا ہے، جیسے سلالہ، نطفہ، علقہ، مضغہ، عظام اور حلم (یعنی مٹی کا خلاصہ، منی، جما ہوا خون، گوشت کی بوٹی، ہڈی اور گوشت) تاکہ ساتویں درجے پر انسان مکمل ہو، اور نفوس کی تخلیق میں اس کے برابر چھ مراتب ہیں، جیسے: طہارت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد، تاکہ ولایت پر (روحانی تخلیق) پوری ہو، اور پیغمبری میں اس کے برابر چھ مراتب ہیں، جیسے آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد مصطفےٰ علیہم السّلام تاکہ نبوّت کی تخلیق مکمل ہو، اور پیغمبر کے بعد اس کے برابر چھ امام ہیں، جن کی تکمیل قائمِ حق علیہ السّلام کے پیدا ہونے میں ہے، اور مذکورہ چھ چھ کے مراتب میں سے ہر چھ کا ایک ساتواں ہے، کہ ہر درجے کے چھ کی تکمیل اس کے ساتویں میں ہے، چنانچہ تخلیقِ جسم کے چھ مراتب کا ساتواں درجہ روح ہے، جس میں ان چھ مراتب کی تکمیل ہے، نیز ان چھ جسمانی مراتب کے برابر جسم کے سات ۷ اعضائے رئیسہ ہیں، جیسے: دماغ، دل ، جگر، پھیپھڑے، تلی، پتا اور گردے، جن سے جسم کی زندگی ہے، اور ہفت ارکانِ شریعت (یعنی شریعت کے سات ستون) کے برابر ان کے معانی ہیں، جن کے سمجھنے سے ولایت کے ساتھ اتصال ہو سکتا ہے، چنانچہ طہارت کے برابر (اس کے معنی ) نفس کو پاک کرنا ہے، نماز کے برابر اطاعت (یعنی فرمانبرداری) روزے کے برابر برے کاموں سے اپنے آپ کو روکنا، زکوٰۃ کے برابر علم بیان کرنا، حج کے برابر اپنے آپ کو امام تک پہنچا دینا، اور جہاد کے برابر علمی طاقت سے دینی دشمنوں کو مقہور (یعنی مغلوب کر دینا) اور اسی طرح سات اماموں کے برابر
۳۱۶
ان میں سے ہر امام کے لئے اس کے عصر میں تائید ہے، کہ وہ اس کی جان اور نفسِ شریف ہے، جس کے ذریعے وہ لوگوں پر سرداری کرتا ہے، اور ناطق کے درجے کے مقابل میں قائم القیامت کا درجہ ہے، کیونکہ انبیاء کے آنے اور لوگوں کو خبردینے کا مقصد وہی (قائم علیہ السلام ) ہیں۔
ان تیس ۳۰ مراتب کے مجموعے میں سے جن پر شریعت کی بنیاد رکھی گئی ہے، چھ مراتب ناطقوں کے لئے ہیں، اور سات مراتب اماموں کے لئے ہیں، جن کے بارے میں ہم نے شریعت کے موضوع سے شہادتیں پیش کر دی ہیں۔
اب ہم بیان کریں گے، کہ اس کے بعد جسم اور نفس کی تخلیق میں نیز عالمِ دین میں بارہ ۱۲ بارہ ۱۲ مراتب ہیں، اور جسمانی تخلیق میں وہ بارہ ۱۲ مراتب یہ ہیں کہ انسانی جسم باہر سے اندر کی طرف بارہ سوراخ رکھتا ہے، جیسے کہ دو نتھنے، دو کان، دو آنکھیں، منہ، دو پستان، ناف اور دو شرمگاہیں، اور روحانی تخلیق میں اس کے مقابل وہ بارہ (مراتب یہ ) ہیں۔
۱۔ عقل ۷۔حفظ
۲۔ نفس ۸۔خیال
۳۔ فہم ۹۔وہم
۴۔ فکر ۱۰۔ متصرفہ
۵۔ ذہن ۱۱۔ تمیز
۶۔ خاطر ۱۲۔ تقسیم
اور عالمِ دین میں ان کے برابر بارہ جزیروں کے صاحبان ہیں (یعنی بارہ حجت ) کہ ہر ایک حجت کسی جزیزے کے لئے مخصوص ہے، اور حجتوں کے اس تعین سے آفاق و انفس کی بہتری کے لئے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس کی مثال ایسی ہے، کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص یہ جانتا ہو کہ ہر ایک جزیرے میں کھانے، پینے اور دوا کی چیزوں میں سے کون سی چیز پائی جاسکتی ہے، پھر جب اس کو ان میں
۳۱۷
سے کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو اس جزیرے میں جا کر اپنی ضرورت کی چیز طلب کر سکتا ہے، اسی طرح داعی کو چاہئے کہ صاحبانِ جزائر (یعنی حجتوں) کو پہچانے، کہ لوگ جو کچھ مجھ سے پوچھیں تو اس کا جواب ان حجتوں سے مجھے مل سکے گا، چنانچہ لوگ جس بارے میں بھی پوچھیں، تو وہ پروا نہیں کرتا، اور جانتا ہے، اور جو کچھ اس سے پوچھتے ہیں، تو وہ اس کا جواب دے سکتا ہے۔
اس کے بعد پانچ مراتب ہیں، جن کو جاننا چاہئے اور جسمانی تخلیق میں ان پانچ (مراتب) کی مثال پانچ حواس ہیں، جیسے: دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا اور چھونا، اور روحانی تخلیق میں تمیز، تقسیم، تنزیل، تالیف اور تاویل ہیں، اور عالمِ دین میں ان پانچ کے مقابل ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی ہیں، اور پیغمبری کی مرتبت میں ان پانچ کی طرح پانچ اولواالعزم ہیں، (یعنی نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمد علیہم السلام) نیز نبی، وصی، امام، حجت اور داعی ہیں، اور ان پانچ کی طرح اولواالعزم اور عالمِ عُلوی کے درمیان پانچ واسطے (ذرائع) تھے، اور (اب بھی) ہیں، جیسے قلم (عقلِ کلّ) لوح (نفسِ کلّ)، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل۔
پس یہ حدود مجموعی طور پر تیس ۳۰ ہیں، جیسے چھ ۶ ناطق، چھ ۶ امام، قائم، جزائر کے بارہ ۱۲ حجت اور پانچ روحانی حدود، جیسے عقل، نفس، جدّ، فتح اور خیال، اور ان تیس دنوں کا روزہ رکھنا، اور ان تیس ۳۰ حدود کو پہچاننے کی مثال ہے، اس لئے کہ جائز نہیں کہ تیس دن سےکم یا زیادہ روزہ رکھا جائے اور اس بات کی تاویل کہ جو شخص بالغ ہو اسے (سال میں ) ایک مہینہ روزہ رکھنا چاہئے، یہ ہے کہ جس کو دانش ملے، تو اس پر واجب ہوتا ہے کہ ان تیس حدود کو پہچانے اور ان سے فوائد حاصل کرے اور اپنے سے نچلے درجات کو فائدہ پہنچائے۔
اس بات کی تاویل کہ غذا کھانا، پانی پینا، اور جماع کرنا روزۂ ظاہر کو توڑ دیتا ہے، یہ ہے کہ جب مستجیب سے عہد لیا جائے، تو اس کو تنزیل و تاویل بیان کرنے سے اور روحانی جماع کرنے سے روکے رکھتے ہیں، کیونکہ (ان چیزوں سے)
۳۱۸
روحانی نطفہ حاصل ہوتا ہے، کہ جب معہود (یعنی وہ مستجیب جس سے عہد لیا گیا ہے) تنزیل و تاویل بیان کرتا ہے تو اس کی مثال یوں ہوتی ہے، جیسے کہ ظاہری روزہ رکھنے والے نے کھانا کھایا اور پانی پیا، اور جماع کیا) اور جماع کی حقیقت غذا کھانے اور پانی پینے (کی حقیقت ) سے نزدیک ہے، اس لئے کہ جماع سے انسانی صورت حا صل ہوتی ہے، اور غذا سے اس صورت کی پائیداری ہوتی ہے، اور پینے سے اس کا طاقت ور ہونا ہے، اور یہ تین باطنی حالتیں باطنی روزہ رکھنے والے پر حرام ہیں جس طرح وہ تین ظاہری حالتیں ظاہری روزہ رکھنےوالے پر حرام ہیں، اور روزہ کھولنا اساس کا مرتبہ ظاہر کرنے کی مثال ہے، اور جو شخص قصداً روزہ کھولے تو ایک دن کے بدلے میں اسے دو ماہ متواتر روزہ رکھنا چاہئے جس کی تاویل یہ ہے کہ جو شخص (روحانی روزے کے درمیان) ان تیس ۳۰ حدود میں سے کسی ایک حد کو ظاہر کرے، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ توبہ کے طور پر دو فرع کی طرف لوٹ آئے، کیونکہ وہ دو ماہ کی مثال ہیں، اور پیغمبر علیہ السلام کی حدیث ہے، جو فرمایا:۔
’’ اِذَ ا اَقْبَلَ اللَّیلُ من ھٰا ھُنا و اَدْبَرَ النَّھا رُ من ھا ھُنا فقد اَفْطَرَ الصَّا ئم۔
جب مشرق کی طرف سے رات آئے اور مغرب کی طرف سے دن چلا جائے تو روزہ رکھنے والا روزہ کھولے۔‘‘
اور اس حدیث کی تاویل یہ ہے، کہ رات باطن اور تاویل کی مثال ہے اور دن ظاہر اور تنزیل کی مثال ہے، اور جو فرماتا ہے، کہ جب مشرق کی طرف سے رات آئے تو روزہ دار روزہ کھولے، اس سے آنحضرتؐ کی یہ مراد ہے، کہ تمہیں تائید عقلِ کلّ سے ملے گی، کیونکہ نورِ توحید کا مشرق وہی ہے، اور جو فرماتا ہے، کہ مغرب کی طرف سے دن چلا جائے، اس سے آنحضرتؐ کی مراد یہ ہے کہ جب شریعت کا ظاہر ناپید ہوجائے تو نفسِ کلّ کی طرف متوجہ ہو جاؤ، کیونکہ نورِ توحید کا مغرب وہی ہے، اور اجسام کے ظاہر کا کوئی پیدا کرنے والا ہونا ضروری ہے، اور وہ نفسِ کلّ ہے، چنانچہ (نفسِ
۳۱۹
کلّ کے ذریعہ ) روزہ دار کا روزہ کھولا جائےگا، یعنی حق آشکار ہوگا، اور مومنوں کو اور حقداروں کو دینی دشمنوں سے کوئی خوف و ہراس نہ رہے گا، رسول علیہ السّلام سے ایک اور حدیث یہ ہے، جو فرمایا:۔
’’ لَیْسَ مِنَ البِرِّ الصّوم فی السَّفَرِ۔
سفر میں روزہ رکھنا طاعت و نیکی نہیں۔‘‘
اور اس حدیث کی تاویل یہ ہے کہ جب مومن طلبِ حقیقت کے مرحلے میں ہو) تو اسے روا نہیں کہ ڈھونڈنے اور پوچھنے سے رکے رہے بلکہ اسے چاہئے کہ حقیقت کو طلب کرتا رہے، تاکہ اس سے ظاہر و باطن میں خدا تعالیٰ کی طاعت ہو، رسول علیہ السلام کی ایک اور حدیث یہ ہے جو فرمایا:۔
’’ صُوْمُوْ اتَصِحُّوْا ۔
روزہ رکھو تاکہ تم تندرست رہو۔‘‘ یعنی اساس کی مرتبت اہلِ ظاہر کے لئے آشکار نہ کیا کرو، تاکہ تم ان کی اذیت سے سلامت رہو، نیز رسول السلام نے فرمایا: ۔
’’ سَافِرُ و ا تَغْنَمُوا۔
سفر کرو، تاکہ تم کو مالِ غنیمت مل جائے۔‘‘
یعنی دعوت میں داخل ہو جاؤ، تاکہ حقیقت کو جو مالِ غنیمت ہے، حاصل کرو، اور پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ شبِ قدر ماہِ رمضان میں ہے، اور اس رات میں تمام مخلوقات، جانور، درخت اور جواہر خدائے تعالیٰ کے لئے سجدہ اور خضوع کرتے ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ اساس (یعنی علی) کی اولاد میں سے ایک شخص ایسا ہے کہ وہ دین میں آشکار ہوگا، اور وہ تیس ۳۰ حدود جن کا ہم نے ذکر کر دیا، اس کی اطاعت کریں گے، اور بکھرے ہوئے مذاہب والے اور مختلف ادیان والے سب اپنا اپنا بدلہ پائیں گے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
’’ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ( ۹۷: ۰۳)
شبِ قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے۔‘‘
۳۲۰
یعنی قائم کا حجت علم میں ہزار امام سے بہتر ہے، اگرچہ اماموں کے مراتب کو مجموعاً ایک مرتبہ مانا جاتا ہے، اور پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا، کہ (ماہِ رمضان کی) آخری دس (راتوں) کے طاق اعداد میں شبِ قدر کی تلاش کرو، اور آخری دس (راتیں) اماموں کی حد کی مثال ہیں، درمیانی دس اساسوں کی حد کی مثال ہیں، اور ابتدائی دس ناطقوں کی حد کی مثال ہیں، ان تین قسم کے حدود میں سے ہر قسم میں سات ہیں، اور ہر سات نے اپنے تحت تین حدود قائم کر دیئے ہیں، تاکہ دس ۱۰ ہو جائیں، اور آخری دس کی طاق راتیں اماموں کی حد کی مثال ہیں، اور جفت راتیں حجتوں کی حد کی مثال ہیں، پس (ان تمام امور کے نتیجے میں آنحضرتؐ) یوں فرماتا ہے، کہ قائم کو کوئی شخص پہچان نہ سکے گا، مگر پانچ حدود کے ذریعے سے، جیسے اساس، امام، باب، حجت اور داعی، روزہ کی تاویل کے متعلق، حقدار مومن کو بقدرِ کفایہ بتا دیا گیا۔
والسلام
۳۲۱
کلام ۔ ۳۴
حج کرنے کی واجبیت اور اس لفظ کی تاویل
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ حج کرنے کے معنی ہیں، کسی چیز کی طرف قصد کرنا (یعنی ارادہ اور توجہ کرنا) بصیرت کے ساتھ (یعنی دیکھتے اور پہچانتے ہوئے) نہ کہ بیہودہ اور ڈینگ سے، چنانچہ بیت الحرام وہ مسجد ہے، کہ نمازی بوقتِ نماز اس کی طرف اپنا چہرہ کرتے ہیں، اور (اس اعتبار سے) نماز پڑھنے والے دوقسم کے ہیں، ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جو خانۂ کعبہ کے بالکل نزدیک رہتے ہیں، اور وہ خانۂ کعبہ ہی کی طرف اس طرح اپنا چہرہ کرتے ہیں، کہ اس کی چاروں طرف سے نماز پڑھا کرتے ہیں، دوسرے لوگ وہ ہیں، جو خانۂ کعبہ سے دور رہتے ہیں، اور وہ مسجد کی محراب کی طرف اپنا چہرہ کر لیتے ہیں، کیونکہ محراب خانۂ کعبہ کی جانب بنائی گئی ہے، اور محراب کی زیارت و مشاہدہ کے بغیر نماز درست نہیں، جس کا رخ مسجد الحرام کی طرف ہے، اور حج کرنا کوئی اور چیز نہیں، سوائے اس گھر کی زیارت کرنے اور اسے دیکھنے کے، پس مذکورہ بیان کی رو سے نماز اور حج کے درمیان پیوستگی سے، اور نماز پڑھنے والے کی نماز درست ہے، خواہ وہ خانۂ کعبہ کو دیکھے یا نہ دیکھے، مگر حج ہو نہیں سکتا، جب تک
۳۲۲
خانۂ کعبہ کو نہ دیکھا جائے، اور حدیث میں ہے، کہ خانۂ کعبہ بیت المعمور کے بالمقابل ہے، جو آسمان میں ہے، خانۂ کعبہ کے گرد بنی آدم طواف کرتے ہیں اور بیت المعمور کے گرد فرشتے طواف کرتے ہیں، اور حج کرنا ہر اس شخص پر فرض ہے، جس کو راستے کے اخراجات، سواری، جسمانی توانائی وغیرہ کے لحاظ سے خانۂ کعبہ کا راستہ میسر ہو، اس کو خانۂ خدا کہا گیا ہے، اور خدائے تعالیٰ نے فرمایا کہ مسجدیں میری ہیں، لیکن مسجدیں تو ملکیت کے طور پر خدا کی ہیں مگر خانۂ کعبہ خاص طور پر اس کا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ وحدہ کا گھر ہے۔
مذکورہ ظاہری امور کی تاویل یہ ہے، کہ خانۂ کعبہ سے متصل ہونا ہی نماز ہے، اور مومن کے لئے یہ اتصال حاصل نہیں ہوتا، سوائے امامِ زمان یا سوائے اس شخص کے، جو امام کے فرمان کے بموجب امام کی طرف دعوت کرتا ہے، کیونکہ امام ہی (بحقیقت) مسجد الحرام ہیں، اور داعی اس کی محراب ہے، محراب کا رخ مسجد الحرام کی طرف ہوتا ہے، اسی طرح داعی کا چہرہ امام کی طرف ہوتا ہے، یعنی وہ امام سے فائدہ حاصل کرتا ہے، محراب کی طرح جو کعبہ کی جانب رخ رکھتا ہے، اور مستجیب لوگ داعیوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
چنانچہ داعی امام سے فائدہ حاصل کرتا ہے، جس طرح کہ نمازی لوگ محراب کی طرف چہرہ کر لیتے ہیں، اور محراب کا رخ کعبہ کی جانب ہوتا ہے، اور جو کوئی کعبہ تک پہنچ جائے، تو اسے محراب کی طرف منہ نہیں کرنا چاہئے، اسی طرح جو شخص ایک ایسے مرتبے پر پہنچے، کہ امام خود اس کو علم سنا رہے ہیں، تو اس پر سے حجتوں اور داعیوں کی اطاعت ساقط ہو جاتی ہے، اور کعبہ بیت المعمور کے بالمقابل ہے، جو آسمان میں ہے، جس کی تاویل یہ ہے ، کہ آسمان امام کی (روحانی) مرتبت ہے، کہ تمام خلق کے نفوس اس کے تحت ہیں، جس طرح تمام اجسام (جسمانی) آسمان کے نیچے ہوتے ہیں، اور بیت المعمور کے معنی ہیں، ابدیت کا آباد گھر، اور وہ امام کا گھر ہے، کیونکہ خدا کی امانت اسی میں ہے، جس طرح لوگوں کا مال ان کے گھروں میں
۳۲۳
ہوتا ہے، اور وہ (خدا کا ) مال علمِ حقیقت ہے، جو اس گھر میں پوشیدہ ہے۔
کعبہ کا راستہ میسر ہونا توشۂ راہ (یعنی سفرِ خرچ) اور سواری پر دار و مدار رکھتا ہے، توشۂ راہ کی تاویل علم ہے، سواری کی تاویل حجت اور داعی ہیں، مکہ کے راستے کی منزلیں علمی منازل کی مثال ہیں، کہ مومن ان میں سے ہر ایک میں عمل کرنے اور علم سیکھنے کے لئے ٹھہرتا ہے، اور ان منازل سے حاجی کا گزر جانا، مستجیب کے ترک کرنے کی مثال ہے مخالفوں کے مذہب کو، یہاں تک کہ طریقِ حق کو پہنچے، اور وہ امامِ زمان ہیں، کیونکہ وہی تو خدا کے علم کا گھر ہیں، جب حاجی میقات (یعنی احرام باندھنے کی جگہ) پر پہنچتا ہے، تو احرام باندھ لیتا ہے، میقات چار ہیں، اور یہ ان چار حجتوں کی دلیل ہیں، جو امام کے حضور سے ہر گز جدا نہیں ہوتے، اور یہ امام ہی سے علم حاصل کرتے ہیں (یعنی روحانی طور پر) اور لوگوں کو علم پہنچا دیا کرتے ہیں، اور ہر شخص اس مقام پر پہنچ نہیں سکتا، کہ امام سے (روحانی طور پر) کوئی بات حاصل کر سکے، مگر ان چار حجتوں میں سے کسی ایک کے توسط سے۔
چنانچہ جو شخص کعبہ تک پہنچنا چاہے، تو اسے کسی ایک میقات سے گزر جانا چاہئے، اور حاجی کا احرام باندھنا یہ ہے کہ وہ سلے ہوئے کپڑے اپنے جسم سے اتارتا ہے (ایک تہہ بند باندھتا ہے، اور دوسرا تہہ بند یا چادر اوپر سے اوڑھ لیتا ہے) ننگا سر ہو جاتا ہے، اور عورت سے ہم بستری نہیں کرتا، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب مومن امام تک پہنچتا ہے، تو اسے چاہئے کہ کسی سے بات نہ کرے (یعنی کسی کو تعلیم نہ دے) کیونکہ وہ جماع کرنے کی تاویل ہے، ننگا سر ہوجانا اور سلے ہوئے کپڑے اتارنا اس بات کی مثال ہے کہ، مومن امام تک پہنچنے سے پہلے اپنے اعتقاد کو حجت سے چھپائے نہیں رکھتا، تاکہ حجت سے کوئی چیز پوشیدہ نہ رہ جائے، جس طرح احرام باندھنے والا کپڑے اتار دیتا ہے، چونکہ جسم روح کی مثال ہے، اور جسم کی صورتیں اور شکلیں (یعنی حالات و لوازم) روح کے اعتقادات کی مثال ہیں، اور اجسام کپڑوں کے نیچے چھپے ہوئے ہوتے ہیں، جب تم کپڑے
۳۲۴
اتارو تو تمہارا جسم نظر آنے لگے گا، اور شرمگاہوں کو چھپا لینا چاہئے، اور یہ مومن کے ان کاموں کو چھپائے رکھنے کی مثال ہے، جو اس نے ظاہر کو قبول کرنے کے سلسلے میں اور باطن کے آغاز میں نادانستہ طور پر کئے تھے۔
احرام باندھنے والا اپنے اوپر پانی ڈالتا ہے (یعنی غسل کرتا ہے) جس کی تاویل ہے، کہ مومن علمِ بیان کو اپناتا ہے، اور اس کے ذریعہ اپنی جان کو دھو لیتا ہے، پھر احرام باندھنے والا دو رکعت نماز پڑھ لیتا ہے، یہ امام اور حجت کے درجے پر مومن کے اقرار کرنے کی مثال ہے، پھر لَبَّیْک کہتا ہے، جس کو تلبیہ کہتے ہیں، جس کا اشارہ یہ ہے، کہ مومن اپنے راہنما کے لئے قبول کرتا ہے، خواہ وہ اسے جیسے بھی امام کی طرف بلا لیا کرے، اور احرام باندھے ہوئے شخص پر حرام ہیں:۔
شکار کرنا، کسی بھی جان کا قتل کرنا، جماع کرنا، درخت کاٹنا، ناخن تراشنا، اپنے آپ کو کھجلانا اور جوئیں مارنا۔
اور ان امور کی تاویل یہ ہے، کہ جو شخص امام (کی معرفت) تک پہنچ جائے، تو اس پر حرام ہیں: ۔
عہد لینا، بیان کرنا، کسرکرنا، خویش و اقرباء سے بیزاری چاہنا، مالکانہ حقوق کے بارے میں کسی کے ساتھ مقدمہ کرنا اور بحث و مناظرہ کے ذریعے کسی کو مقہور کرنا۔
مکہ کے گرد چوبیس ۲۴ میل ہے، اور وہ روز و شب کے بارہ بارہ حجتوں کی مثال ہے، اور ایک نبی کے دروازے سے مسجد میں داخل ہونا، مومن کے اس اقرار کی مثال ہے کہ امام تک رسائی ہو نہیں سکتی، مگر حجت کی اطاعت کے راستے سے، اور حجر الاسود کی طرف آنا مثال ہے، درجۂ اساس پر مومن کے اقرار کی، خانۂ کعبہ کے تین رکن پوشیدہ ہیں، مگر حجر الاسود پوشیدہ نہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ اساس تین اصول (یعنی عقل، نفس اور ناطق) کے متعلق بیان کرنے والا ہے، کیونکہ یہ ان کا چوتھا منارہ ہے، اور خانۂ کعبہ کے گرد سات بار طواف کرنا،
۳۲۵
سات اماموں کی حد پر مومن کے اقرار کی دلیل ہے، اور جب خانۂ کعبہ کے گرد طواف کرتا ہے، تو پورے بیت اللہ کو چار رکن کی صورت میں دیکھتا ہے، جو مومن کے چار حجتوں کو دیکھنے کی مثال ہے، جن کے ذریعے وہ امام کی معرفت میں پہنچتا ہے۔
اس کے بعد حاجی مقامِ ابراہیمؑ کے پیچھے دو ۲ رکعت نماز پڑھتا ہے، اور وہ مومن کے اس اقرار کی دلیل ہے، جو امام کے پاس دو اصلوں (ناطق و اساس) کے متعلق کرتا ہے، پھر وہ کوہِ صفا پر جاتا ہے، اور خانۂ کعبہ کی طرف متوجہ ہو کر دعا کرتا ہے، پس صفا لاحق (یعنی حجت ) کی مثال ہے، چہرہ اساس کی حد کی مثال ہے، اور کعبہ ناطق کی حد کی مثال ہے، اس کے بعد وہ وہاں سے کوہِ مروہ پر جاتا ہے، اور کعبہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو جاتا ہے، پھر کوہِ صفا پر واپس جاتا ہے، اسی طرح وہ صفا سے مروہ تک اور مروہ سے صفا تک سات بار گشت لگاتا ہے، اور یہ لاحقوں کے درمیان مومن کے گشت کرنے کی اور ان کے توسط سے سات اماموں کی حد کے لئے اقرار کرنے کی مثال ہے، اور صفا و مروہ کے دو میل کے درمیان (حاجیوں کا ) دوڑنا مومن کی اس سعی و کوشش کی مثال ہے جو فَرعَیْن (یعنی حجت و امام) کے درمیان اپنے آپ کو وسعت دینے کے لئے کرتا ہے۔
اس کے بعد حاجی سرچھپا لیتا ہے، اور وہ اس بات کی مثال ہے کہ جب مومن اپنے فرائض کو انجام دیتا ہے، تو صاحب العصر اپنی حد کو اس پر ظاہر کر دیتا ہے، اور اس حد کو نا اہلوں سے پوشیدہ رکھنے کے لئے فرماتا ہے، اس کے بعد حاجی احرام سے باہر نکلتا ہے، اور وہ سب کام اس پر حلال ہو جاتے ہیں، جو کچھ ( دورانِ حج) میں حرام ہوئے تھے، یعنی جب مومن اپنے واجبات کو انجام دیتا ہے، تو اس کو فرمایا جاتا ہے کہ، وہ فرعین ( یعنی حجت و امام) کی طرف دعوت کرے۔
اس کے بعد وہ ان کپڑوں کو پہن لیتا ہے، جو خود رکھتا تھا، یعنی (روحانیّت کے اس مقام پر) مومن کو فرمایا جاتا ہے، کہ وہ اسی ظاہر و باطن کی حفاظت کرتا رہے جس کی وہ پہلے حفاظت کرتا رہا تھا۔
۳۲۶
اس کے بعد حاجی قربانی کرتا ہے، اور اس میں سے کھا لیتا ہے، اور غریبوں کو دیا کرتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ مومن جد و جہد کرتا ہے، تاکہ مخالفوں کو مقہور کرے، اور ان کو اپنی دینی حقیقت کی طرف لائے، تاکہ مثال کے طور پر مخالف کو کھا لیا کرے( یعنی اس کو تعلیم دینے کے بعد اعتقادی طور پر اپنے ساتھ ایک کر دے) بس اس کو کھا لینے کے معنی یہی ہیں، اور مستجیبوں کو بھی بہرہ مند کر دیتا ہے، وہ اس طرح کہ اس مخالف کے اعتقاد کو اپنے اعتقاد کی طرح کر دیتا ہے، اور وہ بھی گویا اس سے روحانی طور پر کھا ئے ہوئے ہوتے ہیں، خدا کی مہربانی سے حج کرنے کی واجبیت، اس لفظ کے معنی و تاویل اور اس کی شرائط ایک ایک کر کے بتا دی گئیں۔
۳۲۷
کلام ۔ ۳۵
جہاد کرنے کی واجبیت اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم بتائیں گے، کہ چونکہ انسان کا جسم اِس عالَم کا تھا، اور اس کا نفس عقلانی عالَم کا تھا، اس لئے محسوسات نے نفسِ حسی کو اِس عالم کی طرف بلایا اور معقولات نے نفسِ ناطقی کو عقلانی عالَم کی طرف بلایا، اور لوگ ان دو بلانے والوں کے درمیان تین گروہوں میں تقسم ہوگئے، ایک گروہ حسّی خواہشات کے پیچھے چلا، اور اس نے نفسِ شہوانی کی دعوت کو قبول کرلیا، ایک گروہ صاحبان شرائع کے فرمان کے مطابق معقولات کے پیچھے چلا اور عقل و نفسِ ناطقہ کو بلانے والے کے لئے قبول کر لیا، اور ایک گروہ ان دونوں کے درمیان رہ گیا، جس نے برائیوں اور بھلائیوں کو ملا کر غلط ملط کر دیا۔
جب بلائے جانے والوں کا یہی حال تھا جس کا ہم نے ذکر کر دیا، تو اب ہم بتائیں گے، کہ لوگوں پر واجب ہے، کہ وہ اپنے روحانی درجے کے نفوس کی مدد کرنے کے لئے کو شش کریں، اور ان نفوس سے متعلق احوال و فرامین کو قبول کر لیا کریں، تاکہ وہ نفسِ شہوانی کو مقہور و مغلوب کر سکیں، یہ اس وقت ہو سکتا ہے جبکہ وہ اپنا غصہ پی سکتے ہوں اور صاحبانِ شریعت دین و دنیا کی مصلحتوں کے سلسلے
۳۲۸
میں جو کچھ فرماتے ہیں، اس کی تابعداری کریں۔
پس لوگوں میں سے ایک گروہ وہ تھا جس نے اپنی تمام تر توجہ نفسانی خواہشات کی طرف لگا دی، اس نے شریعت کی شرائط پر عمل نہیں کیا، بلکہ نامناسب باتوں پر عمل کیا، اسی سبب سے دانش مند اور دیندار لوگوں پر یہ واجب ہوا، کہ ان مفسدوں کے نامناسب کاموں کو ان سے چھڑا دیں، اور یہی وجہ ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو جہاد کرنے کے لئے فرمایا: جیسا کہ ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ:۔
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (۰۹: ۷۳)
’’ اے نبی! کفار (سے بالسنان) اور منافقین سے ( باللسان) جہاد کیجئے، اور ان پر سختی کیجئے۔‘‘
(اسی طرح) جہاد کے متعلق حق تعالیٰ کا یہی فرمان رسولؐ کے بعد امام کو حاصل ہے، کیونکہ امام کے بغیر جہاد جائز نہیں، اگر امام جہاد کریں یا نہ کریں، بلکہ جزیہ لیں، تو کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اس بارے میں کچھ کہے۔
جب لوگ دو چیزوں سے بنے ہوئے تھے، جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں، یعنی جسم اور نفس سے، تو جہاد بھی دو قسم کا ہوا، جسمانی جہاد دین کے جسم قبولنے (یعنی اپنانے) کے لئے لازم ہوا، اور وہ دین کا جسم شریعت کی صورت میں ہے، اور اس جہاد کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث ہے، جو فرمایا:
’’ اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْ الَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔
مجھے فرمایا گیا ہے، کہ لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ اللہ کہا کریں۔‘‘
یہ اس لئے ایسا ہے، کہ جسم کو مجبور کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی حالت بدل جاتی ہے اور اس میں زوال آجاتا ہے، چنانچہ دین کے جسم کے جہاد کے مالک
۳۲۹
ناطق ہیں، اور امام جو آپ کے (حقیقی) جانشین ہیں، جہاد کے مالک ہیں۔
دوسرا جہاد دین کی روح (جان) قبولنے کے لئے ہے، اور دین کی روح تاویل کی حیثیت میں ہے، اور یہ جہادِ روحانی ہے، اور اس میں اختیار ہے کوئی جبر نہیں، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشارد ہے:۔
’’ لَا اِکَراہَ فِی الدِّیْنِ ( ۰۲: ۲۵۶)
دین میں (بحقیقت) کوئی زبردستی نہیں۔‘‘ اس لئے کہ روح مختار ہے اور اس کے لئے تبدیلی اور زوال نہیں۔
روحانی جہاد کے مالک اساس ہیں، جب دین کی جان کے جہاد کے مالک اساس ہیں، تو جو حجت امام کو (بحقیقت) پہچانے، وہ اس منزلت پر ہوگا، جس پر اساس ناطق کے لئے تھے، اور رسول علیہ السلام سے حدیث ہے، جو فرمایا:۔
’’ اَفْضَلُ الْجَھَادِ مُجَاھَدَۃُ النَّفْس۔
بہترین جہاد وہ ہے، جو نفس کے خلاف کیا جائے۔‘‘
اور اس بات کی دلیل، کہ اساس روحانی جہاد کے مالک ہیں، یہ ہے کہ رسول علیہ السلام نے فرمایا:۔
’’ خَیْرُ کُمْ بَیْنَکُمْ مَنْ یُقَا تِلکُمْ عَلٰی تَاوِیْلِ الْقُرْاٰنِ کَمَا قَا تلتکُم عَلٰی تَنْزِ یْلِہٖ۔
تمہارے درمیان تم سب سے بہترین وہ شخص ہے جو شریعت اور قرآن کی تاویل کے لئے تم سے جنگ کرے گا، جس طرح میں نے تم سے تنزیل کے لئے جنگ کی ہے۔‘‘
چنانچہ رسول کے بعد آنجناب (یعنی اساس) پر فرض ہوا کہ وہ دین کی طرف سے کافروں اور منافقوں کے دو گروہ کے خلاف جہاد کریں، جس طرح جسم کے مقابلے میں نفس زیادہ شریف ہے، اور وہ جڑ کی طرح ہے، اور جسم شاخ کی مثال ہے، اسی طرح روحانی جہاد جسمانی جہاد کی اصل (یعنی جڑ ) ہے، اور یہ جسمانی جہاد
۳۳۰
کے مقابلے میں اشرف و افضل ہے۔
پس سب سے پہلے چاہئے کہ دین کے طریق پر کافروں کے سامنے ایمان پیش کیا جائے اور ان کو کلمۂ اخلاص کی طرف بلایا جائے، اگر وہ اس کو قبول نہ کریں تو اس وقت ان کے خلاف جسمانی جہاد کے لئے باہر نکلنا چاہئے، اور جس طرح جسمانی جہاد میں دھوکہ اور مکر لازمی ہے، چنانچہ رسول علیہ السّلام فرماتا ہے:۔
اَلْحَرْبُ خَدْعَۃُ۔
یعنی ’’لڑائی میں مکرو فریب ہوا کرتا ہے۔‘‘
روحانی جہاد میں مکرو فریب سے اس طرح کام لیا جاتا ہے، کہ تو کسی ظاہری شخص کے اعتقاد کے ذریعہ اس سے واقف ہوجائے کہ اس کا کیا حال ہے، اور وہ بات کونسی ہے جو اکثر اس کے دل کے لئے باعثِ سکون بن سکتی ہے، اور جس کے سبب سے تو اس کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے، پس اس طریقے کے مطابق تجھے اس سے گفتگو کرنی چاہئے، اس طرح کہ اسے معلوم بھی نہ ہو کہ تو اس طریق پر نہیں ہے، جس پر وہ ہے، تاکہ تو اس کو حق کی طرف بلند کر سکے، جب وہ فریفتہ ہو جائے اور مطلب اس پر واضح ہو جائے تو اس وقت فریب کاری جاری رکھنا جائز نہیں، بلکہ سچ بتانا چاہئے، اور اس کی صلاحیت کے مطابق حقیقت دکھانی چاہئے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔
إِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا (۴۷: ۰۴)
(اے ایمان والو!) جب تمہارا کافروں سے مقابلہ ہو جائے، تو ان کی گردنیں مارو، یہاں تک کہ تم ایسا کرو کہ وہ گر پڑیں اور نہ جا سکیں، تو خوب مضبوط باندھ لو، پھر اس کے بعد یا تو مطالبہ کے بغیر دے دینا، یا بدلے میں دے دینا، یہاں تک کہ دشمن لڑائی کے ہتھیار رکھ دیں۔‘‘
۳۳۱
مذکورہ آیت ظاہر میں ٹھیک طرح سے معنی نہیں دیتی ہے، اس لئے کہ جب کسی شخص کی گردان ماری جائے، تو اس کو قید نہیں کیا جاسکتا ( کیونکہ وہ تو قتل ہی ہو چکا) پس تاویل کے طور پر اس آیت کے یہ معنی ہیں، کہ انسان کی جسمانی گردن اس کے حواس کا راستہ ہے، اور دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے اور چھونے کی تمام قوتیں گردن ہی کے راستے سے جسم کے ساتھ متصل ہیں، کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب گردن ماری جائے تو یہ تمام قوتیں ختم ہو جاتی ہیں، (کیونکہ) کھانا پینا گردن ہی کے راستے سے جسم میں پہنچتا ہے، اور جسم کی زندگی گردن ہی کے راستے سے میسر ہے، پس بالکل اسی طرح ہی جو شخص کس شخص کو امام مان کر اس کی عادت و سنت کے مطابق عمل کرتا ہو، تو اس امام کے ساتھ ملنا اور اس کی عادت و سنت کو اپنانا گویا اس شخص کے نفس کی گردن کی حیثیت رکھتا ہے، اور وہ امام اس کے نفس کے لئے سر کی حیثیت سے ہے، کیونکہ جسم کے لئے محسوسات کی صورت میں جو کچھ موجود ہے، نفس کے لئے معقولات کی صورت میں بھی وہی کچھ موجود ہے۔
جب حجت یا داعی کسی ظاہری شخص کے قول کی تردید کرتا ہے، تو وہ شخص کسی ایسی چیز کے لئے کوشش کرتا ہے، کہ جس کے ذریعے وہ بھی اس (حجت یا داعی) کے قول کی تردید کرے، اور اپنے امام کے بارے میں بات کرتا ہے، تاکہ جس سے اپنے مذہب کو ثابت کر سکے، پس داعی پر سب سے پہلے یہ واجب ہے، کہ اس ظاہری شخص کے لئے یہ ثابت کر دے کہ تیرا امام باطل ہے، اور اس کے اعتقاد کو منقطع کر دے جو اس کے بعد اس شخص کے گمان میں اس کے امامِ برحق ہونے کے متعلق ہے، اس کے ان اعتقادات کے متعلق باتوں کی تردید کرے، جو اس نے اپنے امام سے اپنا لی تھیں، تاکہ اس کے اعتقاد کی اصل و فرع ختم ہو جائیں، پس داعی کی طرف سے اس ظاہری شخص کے امامِ ظاہر کو باطل ثابت کر دینا ہی اس شخص کی نفسانی گردن مارتا ہے، پھر سچی دلیلوں سے اس کی دلائل کی تردید کر دینا ہی گویا اس ظاہری شخص کا گر پڑنا اور کہیں نہ جاسکنا ہے، اور لفظ ’’اِذَا اَثْخَنْتُمُوْ ھُمْ‘‘
۳۳۲
کے یہ معنی ہیں کہ:۔
’’ جب تم نے یوں کیا جیسا کہ ہم نے کہا۔‘‘
یعنی جب ظاہری شخص گر پڑا کہ اس کے پاس دلیل ہی نہ رہی، تو حجت یا داعی خود ہی اس سے عہد و میثاق لیا کرتا ہے، ہر چند کہ امام سے (جسمانی طور پر) دور رہا ہو، اور حقیقت اس پر واضح کر دیتا ہے، اور حقیقت واضح کر دینا دو طرح سے ہے، یا تو اس شخص کے پوچھے بغیر داعی خود ہی اس سے کچھ حقیقت بیان کرتا ہے جس کے بارے میں خدا تعالیٰ عربی لفظ میں فرماتا ہے: فَاِمَّا مَنّاً، یا یہ ہوتا ہے، کہ سوال کرنے پر داعی اس شخص کو جواب دیا کرتا ہے، جس سے عہد لیا گیا ہے، جس کے بارے میں خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔ وَاِمَّا فِدَآءً، پس ’’مَنّ‘‘ کے معنی ہیں: مطالبہ کے بغیر کوئی چیز دینا، اور فِدَاءً کے معنی ہیں، کسی چیز کا معاوضہ دینا، داعی اور معہود ( جس سے عہد لیا گیا ہے، یعنی نَومرید) کے مابین یہی دو حال رہتے ہیں، اس لئے کہ جب معہود سیکھنے کے لئے شائق ہو، تو اس کے بغیر کہ اس نے پوچھا ہے داعی خود ہی اس پر تعلیم کی منت رکھتا ہے، اور بتاتا جاتا ہے، جب تک کہ وہ اس شوق کو ترک نہ کرے، تاکہ داعی بھی اس سے تعلیم منقطع کر لیتا، بلکہ وہ شخص داعی سے پوچھتا رہتا ہے، اور داعی جواب دیتا جاتا ہے، جب تک داعی اور مستجیب کے درمیان نفسانی جنگ جاری ہے، یہی دو حال رہتے ہیں، جب معہود کے شبہات زائل ہوگئے، تو یہ جنگ درمیان سے اٹھ جاتی ہے، اور وہ دونوں ہتھیار رکھ دیتے ہیں، پھر اس کے بعد حقیقت کا انکشاف کرتے ہوئے اور راحت بڑھاتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہا کرتے ہیں۔
خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے: قولہ تعالیٰ:۔
وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا (۱۷: ۱۳)
۳۳۳
اس آیت کی تفسیر یہ ہے ، کہ جو فرماتا ہے کہ: ’’اور ہم نے ہر انسان کے وبال (یعنی اعمال) کو اس کے گلے میں لگا رکھا ہے، اور (پھر) قیامت کے دن ہم اس کے واسطے ایک ایسی کھلی کتاب ( کی صورت میں ) ظاہر کر دیں گے، کہ سب دیکھ لیں گے‘‘ تفسیر کرنے والے اس آیت کے معنی ( میں پھنس کر اس) سے باہر نہ نکل سکے اور عاجز ہوئے، اور انہوں نے ایک دوسرے کے حوالے ہی پر اکتفا کی، اور اس آیت کی تاویل یہ ہے، جس طرح ہم نے ( اس سے پیشتر ) بتایا کہ سارے انسانوں اور حیوانوں کے لئے جسم کی پرورش گردن ہی کے راستے سے ہوتی ہے، پس جس چیز کی وساطت سے انسان کے نفس کی پرورش ہوتی ہے، وہ گویا اس کی گردن ہے، عُنُق کے معنی ہیں گردن، اور گردن سر کے ساتھ لگی ہوئی ہوتی ہے، خدا تعالیٰ جو فرماتا ہے، کہ ’ہم نے ہر انسان کے وبال کو اس کے گلے میں لگا رکھا ہے‘‘ اس سے اس کی مراد یہ ہے، کہ لوگوں کے وبال یہ ہیں، کہ لوگ ان کی وجہ سے امکانات کے جلد وقوع میں آنے کے لئے منتظر رہتے ہیں، اور اس وبال کی تاویل لوگوں کا کام کرنا ہے، کیونکہ لوگ اسی لئے اپنے ثواب کے منتظر ہوتے ہیں، کہ وہ کام کرتے ہیں اور اسی کے ذریعہ وہ اپنے امام سے وابستہ ہو جاتے ہیں، اور یہی وابستگی ہی ہر شخص کے نفس کی گردن ہے، پس انسان کا کام جو اس کا وبال ہے، اس کی گردن میں ہے، کہ اپنے آپ کو امامِ برحق یا امامِ باطل کے ساتھ ملا دیتا ہے۔
پس ہم بتائیں گے، کہ محسوسات کی چیزیں حواس کے ذریعہ دیکھی اور پائی جاسکتی ہیں، اور جسمانی گردن دل کی طرف حواس کی قوّتوں کا راستہ ہے، اور جب لوگ محسوس کو اس کی حقیقت (یعنی معمول) کے مطابق پاتے ہیں، تو اس بات کی دلیل ہے، کہ ان کے حواس اور اس کے حواس کا راستہ ٹھیک ہے، اور اسی طرح انسان معقولات کو نفسانی گردان کے راستے سے پاتا ہے، اور یہ گردان انسان کے نفس اور اس کے امام کے نفس کے درمیان جڑی ہوتی ہے، تاکہ اس کے
۳۳۴
امام کی قوّت اس کی اپنی قوّت میں پہنچ جائے، اور معقولات کو سمجھ سکے، اگر اس کا امام سچا اور دانا ہے، تو معقولات میں سے جو کچھ علم اس کو پہنچے وہ بغیر کسی شک کے ہوگا، اور اگر (امام) باطل، نادان اور جھوٹ ہے تو اس کی (علمی) صورتیں الٹی نظر آئیں گی، چنانچہ اگر کسی شخص کا دماغ خراب ہے تو تمام غلط باتیں دل کے لئے درست نظر آتی ہیں، پس بتائیں گے کہ ہماری اس تشریح سے یہ ثابت ہوا، کہ ہر وہ امام جو اپنی قوم کے لئے راستہ دکھانے والا ہے، خواہ حق ہو یا باطل اپنی قوم کی گردن کی حیثیت رکھتا ہے، اور قوم کی نیک بختی اس امام سے وابستہ ہے، اس لئے کہ قوم وہی کرتی ہے جو کچھ امام بتاتا ہے، اور اگر گردن درست ہے، تو سارا جسم صحت مند رہتا ہے، اور اس کے تمام کام ٹھیک ہوتے ہیں، اور اگر گردن ٹیڑھی اور نا درست ہے تو اس کے ٹیڑھا پن سے تمام جسم ٹیڑھا اور نادرست رہتا ہے۔
(اب) ہم جہاد کی تشریح کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور کہتے ہیں، کہ جب جہاد دو طرح سے ہے، ایک جسمانی اور دوسرا نفسانی، تو ہر ایک مومن پر واجب ہے کہ، کافروں سے جنگ کرے، تلوار سے ان کا خون بہائے اور ان کے اجسام کو بگاڑے، اس لئے کہ انہوں نے دین کے جسم کو جو شریعت اور کتاب (یعنی قرآن) کا ظاہر تھا، قبول نہیں کیا ہے، خون بھی دو قسم کا ہے، ایک طبعی خون ہے، اور دوسرا روحانی خون، طبعی خون وہ ہے جو زندہ مخلوق کی رگوں میں چلا ہے، اور روحانی خون شکوک و شبہات ہے، جو باطن کی رگوں میں فکر، وہم اور ذکر کے راستے سے چلتا ہے، پس خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے فرمایا، کہ کافروں کے خلاف جہاد کرے اور ان کا جسمانی خون بہائے، اس واقعہ کے بعد کہ وہ آنحضرتؐ سے منکر ہوئے، اور شریعت کے ظاہر کو انہوں نے قبول نہیں کیا، جو دین کے جسم کی حیثیت سے تھا، اور یہ جہاد جسمانی لوہے کی جسمانی تلوار کے ذریعہ کیا جاتا تھا، اور اسی طرح خدا تعالیٰ نے مومنین سے فرمایا، تاکہ وہ روحانی لوہے کے کسی بھی ہتھیار
۳۳۵
کے ذریعہ منافقین کے نفوس سے خون بہاتیں، جس طرح جسمانی لوہے کے کس بھی ہتھیار کے ذریعہ کافروں کے اجسام سے جسمانی خون بہایا جاتا ہے، اور جب تو کسی کافر کا خون بہاتا ہے، تو اس کا جسم طبعی حرکت چھوڑ کر ساکن ہو جاتا ہے، اسی طرح جب تو منافقین کا روحانی خون بہاتا ہے، تو اس کے دل سے شک و شبہ نکل جاتا ہے، اور وہ مخالف شخص اختلاف اور جھگڑا چھوڑ کر آرام کرتا ہے، اور جس طرح جسمانی خون اس طبعی لوہے کے ذریعہ بہایا جاتا ہے جو جسمانی پہاڑوں سے نکلتا ہے، اسی طرح روحانی خون اس روحانی لوہے کے ذریعہ بہایا جاتا ہے، جو روحانی پہاڑوں سے نکلتا ہے، چنانچہ روحانی پہاڑ حجت ہے اور روحانی لوہا امامِ برحق کی مثال ہے، جن کے ذریعہ اس چیز کا خون بہانا حلال ہے، جسے تو ذبح کرتا ہے (یعنی یہی وجہ ہے جو کہا گیا ہے کہ لوہے کے بغیر ذبح کرنا درست نہیں، جس کی تاویل یہ ہوئی کہ امامِ برحق یا اس کے حدود کے بغیر کسی شخص کو یہ جائز نہیں، کہ وہ لوگوں سے عہد لیا کرے، یعنی اپنے مذہب میں داخل کرے)۔
خداتعالیٰ نے مسلمانوں پر کافروں کے مقابلے سے بھاگ جانا حرام کر دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے:۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلاَ تُوَلُّوهُمْ الأَدْبَارَ ۔ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنْ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (۰۸: ۱۵ تا ۱۶)
اے ایمان والو! جب تم کافروں سے (جہاد میں) دوبدو مقابل ہو جاؤ، تو ان سے پشت مت پھیرنا، اور جو شخص ان سے اس موقع پر (مقابلہ کے وقت) پشت پھیرے گا، مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پیترا (یعنی جگہ ) بدلتا ہو یا جو اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنٰی ہے، باقی، اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا، اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوگا، اور وہ بہت ہی بری
۳۳۶
جگہ ہے۔‘‘
پس اسی طرح مومنین پر واجب ہے کہ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں جائیں، جب وہ چاہیں کہ منافقین کے خلاف جنگ کریں، اور ان پر کام سخت ہو جائے، تاکہ وہ روحانی ہتھیار لے سکیں اور زمانے کے منافقین سے نہ ڈریں اور منافقین کی حقوق مندی کے لئے اقرار نہ کریں، کیونکہ یہ مومنوں کے بھاگ جانے اور پشت پھیرنے کی مثال ہے، جس سے ان کے ظاہر کو قوّت ملتی ہے، یہی سبب تھا کہ رسول علیہ السّلام لڑائی میں ہر شخص کو اپنے ہم جنس کے ساتھ آنے جانے اور جہاد کرنے کے لئے فرماتے تھے۔
اس بات کی تاویل جو رسولؐ نے فرمایا، کہ: جب تم جنگ کرو تو ایک دوسرے کے چہروں پر نہ مارو، یہ ہے کہ ظاہر سے منکر نہ ہو جانا چاہئے، کیونکہ وہ تاویل کا چہرہ ہے، اور دوسرے اعضاء پر مارنے کے لئے فرمایا، یعنی اشارہ فرمایا، کہ ظاہر کو ترک نہ کیا کرو، اور اس کو ختم نہ کیا کرو، اور منا فقین کے لئے ( اس جہاد میں یعنی بحث میں ) جسم کی تخلیق سے دلیل پیش کرو، نیز رسول علیہ السلام نے جنگ میں چھوٹے بچوں، بوڑھوں ، احبار (علمائے یہود) اور رہبان (عیسائی عابدین) کو قتل کرنے سے نہی فرمایا، جس کے معنی یہ ہیں، کہ چھوٹے بچوں کی مثال ان لوگوں کے لئے ہے جن کی عقل نہیں، اور وہ علم حقائق کو (فوری طور پر ) قبول نہیں کر سکتے، اور بوڑھوں کی مثال ان لوگوں کے لئے ہے جن کا اپنا اعتقاد مضبوط ہو چکا ہے اور وہ اس سے پھر نہیں سکتے ہیں، اور احبار و رہبان کی مثال علمائے ظاہر کیلئے ہے، جو دنیا کی سرداری عزیز ہونے کی وجہ سے اپنے راستے سے باز نہیں آتے۔
پس رسول علیہ السلام نے ان ( چھوٹے بچوں یعنی سادہ لوگوں ) سے عہد لینے اور ان پر حقیقت کھولنے کے لئے فرمایا، تاکہ وہ تابعداری اختیار کریں، جس طرح چھوٹے بچے کو جنگ میں قتل تو نہیں کرنا چاہئے، مگر اسے لے آنا
۳۳۷
چاہئے، یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ مستجیب کو علم سکھانا چاہئے، مگر دعوت کے لئے اجازت نہیں دینی چاہئے، اور جہاد امام کے فرمان کے بغیر جائز نہیں، جو دلیل ہے، کہ کسی جزیرے میں دعوت جائز نہیں، مگر اس واقعہ کے بعد کہ امام اس جزیرے میں حجت قائم کردے، اور جس طرح جسمانی لڑائی میں (جبکہ جنگ اصول کے مطابق لڑی جا رہی ہو، تو ) لڑنے والا ایک ہوتا ہے، اسی طرح روحانی لڑائی یعنی مناظرہ میں بھی لڑنے والا ایک ہوتا ہے، اور وہ حجت ہے، جو اس جزیرے میں ہو، اور ظاہری جنگ میں (فوج کے دستے اس طرح ہوتے ہیں):
مُقَدّ مَہ ۔ (اگلا دستہ)
قلب۔ (درمیانی دستہ)
مَیمنہ۔ (دائیں طرف کا دستہ)
مَیسرہ ۔ (بائیں طرف کا دستہ)
سَاقہ۔ (پچھلا دستہ)
روحانی لڑائی میں بھی اسی طرح ہے، لڑائی کے مالک ناطق ہیں، کیونکہ اسی نے حدودِ دین کے مراتب پیدا کئے ہیں، مقدمہ اساس ہیں، کیونکہ وہ ناطق کے بعد حدودِ جسمانی کی اگلی صف میں ہیں، قلب امام ہیں، کیونکہ وہ لشکرِ مومنین کے دل ہیں اور تائید کے قرار کی کان ہیں، میمنہ حجت ہے، اس لئے کہ مومنین اسی کے یمن و برکت کے ذریعہ عذابِ الٰہی سے چھٹکارا پاتے ہیں، میسرہ داعی ہے کہ داعی مومنوں کی تنزیل کی دشواری سے تاویل کی آسانی کی طرف پہنچا دیتا ہے، اور ساقہ ماذون ہے، جو لوگوں کو خدا کی رحمت کی طرف بلایا کرتا ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا:۔
اَلْخَیْلُ مَعْقُوْدُ فِی نَوَاصِیْھَا الْخَیْرُ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیَا مَۃِ۔
’’ گھوڑے کی پیشانی کے بالوں میں قیامت تک نیکی بندھی ہوئی ہے۔‘‘
جس کی تاولیل یہ ہے کہ دعوت منقطع نہیں ہوگی، قائمِ قیامت علیہ افضل التحیۃ
۳۳۸
والسلام کے آشکار ہو نے تک (یعنی گھوڑے حجتوں کی مثال ہیں) اور ان کی پیشانی کے بال داعی ہیں، جہاد کا بیان یہی ہے، جو ہم نے خدا تعالیٰ کی مہربانی سے ذکر کر دیا۔
والسلام
۳۳۹
کلام ۔ ۳۶
امامِ زمان کی اطاعت کی واجبیت اور اس کا بیان
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کرتے ہیں، کہ انسان ایک ایسا لطیف جوہر ہے، جو ایک کثیف جوہر پر تیار کیا گیا ہے، اور اس نے محسوس و معقول کے دونوں عالم سے ترکیب پائی ہے، یعنی ایک تو انسان کا جسم ہے جو دکھائی دینے والا اور محسوس ہونے والا ہے، اور دوسرا انسان کا نفس ہے، جو دکھائی دینے والا نہیں اور محسوس ہونے والا نہیں، اور انسانی جسم جو دکھائی دینے والا اور محسوس ہونے والا ہے، ان دو ہم جنسوں کی وساطت کے بغیر تیار نہیں ہوسکتا، جن میں یہ تیسرا شمار ہوتا ہے، اور وہ دو ہم جنس اس کے والدین ہیں، پس لازم آتا ہے کہ وہ لطیف جوہر بھی، جو اس کثیف جوہر کے ساتھ جفت ہے، ان دو ہم جنسوں کے سوا آراستہ و مہیا نہ ہو، جن میں یہ ( نفس) تیسرا شمار ہوتا ہے۔
جب جسم کی تکمیل صرف اسی امر میں تھی، کہ وہ اپنے والدین کی وساطت سے اور جسمانی لذتوں ( کی راہ) سے اس جہان کی خوشیوں تک پہنچ سکتا ہے، تو لازماً ہمیں یہ کہنا ہوگا، کہ نفس (روح) کی تکمیل بھی صرف اسی امر میں ہے، کہ وہ اپنے روحانی ماں باپ کی وساطت سے روحانی لذتوں تک رسا ہو سکتا ہے، پس ضرورت کے
۳۴۰
فیصلے سے یہ ثابت ہوا کہ انسانی روح کے لئے ماں باپ کے سوا کوئی چارہ نہیں، جس طرح ظاہر ہے، کہ انسانی جسم کے لئے والدین کے بغیر کوئی چارہ نہیں، پھر جب انسان کا جسمانی باپ (جسمانی تخلیق کے سلسلے میں) فائدہ دینے والا ہوتا ہے، اور اس کی ماں فائدہ لینے والی ہوتی ہے، تو لازماً ہمیں یہ کہنا ہوگا کہ روحانی باپ بھی فائدہ دینے والا ہوا کرتا ہے اور روحانی ماں فائدہ قبولنے والی ہوا کرتی ہے، پس ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ دینی باپ جو مومن کی روح کے لئے والد کی منزلت پر ہے، رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہیں، اور وہ دینی ماں جو مومن کی روح کے لئے والدہ کی منزلت پر ہے، رسول کے وصی علیہ السّلام ہیں، اور ناطق کی تنزیل مومن کی روحانی تخلیق کے لئے نطفۂ پدر کی مثال ہے، اور وصی کی تاویل اس تخلیق کے لئے نطفۂ مادر کی مثال ہے، اور ان دونوں روحانی نطفوں کے امتزاج سے روحانی عالم کے لئے ایک تخلیق آراستہ ہو جاتی ہے، جس طرح دونوں جسمانی نطفوں کے امتزاج سے جسمانی عالم کے لئے ایک تخلیق آراستہ ہو جاتی ہے، اس حقیقتِ حال کی درستی کی شہادت رسول علیہ السّلام کے اس ارشاد سے ملتی ہے، چنانچہ فرمایا:۔
اَنَا وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ اَبُو وَ اُمُّ الْمُوْمِنِیْنَ۔
’’ اے علی! میں اور آپ مومنوں کے ماں باپ ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے اس حدیث کی توثیق و تصدیق ہو جاتی ہے، کہ فرماتا ہے:۔
’’النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ (۳۳: ۰۶)
نبی تو مومنین پر خود ان کی جانوں سے بھی بڑھ کر حق رکھتے ہیں، اور آپ کی بیبیاں گویا ان کی مائیں ہیں۔ ‘‘
جب پیغمبر کی بیبیاں مومنین کی مائیں ہیں تو لازماً پیغمبرؐ ان کے باپ ہیں، چنانچہ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔
اَلْاَرْضُ اُمُّکُمْ وَھِیَ بِکُمْ بَرَّۃٌ۔
۳۴۱
’’ زمین تمہاری ماں ہے، اور وہ تمہارے ساتھ نیک سلوک کرنے والی ہے۔‘‘ پس اس حدیث کے فیصلے سے ثابت ہوا، کہ رسولؐ آسمان ہیں، اور مومنین کے باپ ہیں، اس لئے کہ خدائے تعالیٰ نے پیغمبر کی بیبیوں کو مومنین کی مائیں قرار دے دی ہیں، اور پیغمبرؐ نے مومنین سے فرمایا کہ ’’زمین تمہاری ماں ہے۔‘‘ پس ثابت ہوا کہ رسول مومنین کے لئے آسمان ہیں اور ان کے باپ ہیں، اور آنحضرتؐ کی بیبیاں زمیں کی مثال ہیں، اور نیک سلوک (اور روحانی پرورش) کے اعتبار سے مومنین کی مائیں ہیں، اور نیکی دانشمندوں کے بغیر میسر نہیں آتی ہے، اور اگران کے بغیر میسر آئے، تو وہ (صحیح معنوں میں ) نیکی ہی نہیں کہلاتی ہے، آسمان بارش اور ستاروں کی تابش کے ذریعہ زمین کو مایہ بخشنے والا ہوتا ہے، اور زمین اس کو قبول کرتی ہے، پھر یہ مایہ معدنیات، نباتات اور حیوانات کو پہنچا دیا کرتی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔
وَتَرَى الأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ (۲۲: ۰۵)
” تم دیکھتے ہو مری ہوئی زمین کو پھر جب ہم نے اس پر پانی برسا دیا تو وہ حرکت کرنے لگی اور بڑھ گئی، اور ہر قسم کی اچھی جفت اگانے لگی۔”
اس آیت کی حقیقت یہ ہے، کہ تاویل کی پائیداری و ہستی تنزیل پر ہے، اور ناطق جیسا کہ ہم نے بیان کیا، آسمان کی رتبت رکھتے ہیں، پس تنزیل بارش کی منزلت پر ہے، اور جب وصی زمین کی منزلت رکھتے ہیں، تو تاویل ان چیزوں کی منزلت پر ہوگی، جو آسمانی مادہ سے اگتی ہیں اور ناطق پورے عالمِ دین کا بندوبست کرنے والا ہے، اور موت اس کے ساتھ وابستہ نہیں، بلکہ اس کے ساتھ زندگی وابستہ ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔
’’وَأَنزَلْنَا مِنْ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا (۲۵: ۴۸ تا ۴۹)
اور ہم نے آسمان سے صاف و پاک پانی برسایا، تاکہ اس کے ذریعہ سے
۳۴۲
مردہ زمین میں جان ڈال دیں۔‘‘ پس ہم بتائیں گے کہ تنزیل جسم کی مثال پر ہے اور تاویل اس کی روح کی مثال پر ہے، اور جسمانی موت جسم سے روح کے جدا ہونے پر واقع ہوتی ہے، شریعت کا ظاہر اپنی خودی میں (یعنی جبکہ تاویل نہ ہو) اجسام کی مثال پر ہے، اور تاویل اپنی خودی میں روح کی مثال پر ہے، زمین کی منزلت تاویل کی ہے، جس طرح ہم نے ذکر کر دیا، اور آسمان کی منزلت تنزیل کی ہے، یہی سبب تھا کہ موت زمین سے منسوب کی گئی، اور زندگی آسمان سے منسوب کی گئی۔
جب یہ بات ثابت ہوئی، کہ عالمِ جسمانی میں پیدا ہونےوالی چیزوں کے لئے آسمان اور زمین کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں، تو لازم آتا ہے کہ روحانی ماں باپ مومنین کے لئے ہر زمانے میں پائے جائیں، پس لوگوں کو چاہئے کہ اپنے روحانی ماں باپ کو پہچان لیا کریں، تاکہ وہ بے بہرہ نہ رہ جائیں، چنانچہ رسول علیہ السّلام نے فرمایا:۔
مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَنِہٖ مَاتَ مَیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَ الْجَاھِلُ فِی النَّارِ۔
” جو شخص مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے، تو وہ جاہلانہ موت میں مرتا ہے، اور جاھلانہ موت میں وہ شخص مرتا ہے، جو کسی پیغمبر کا مقرہی نہ ہو، اور ایسا شخص دوزخ میں جا گرتا ہے۔”
پس جو شخص امام کو پہچانے تو اس پر امام کی اطاعت واجب ہوتی ہے جبکہ وہ امام کے حضور میں ہو، اور اگر وہ امام کے حضور میں نہ ہو تو اس شخص کی اطاعت اس پر واجب ہوتی ہے، جس کو امام نے اس جزیرے میں قائم کر دیا ہے، جہاں پر یہ مومن رہتا ہے، اور مختلف ملل و مذاہب کا کوئی گروہ ایسا نہیں جو کسی نہ کسی طرح کے ایک امام کا معتقد نہ ہو، اور منکر ہو، مگر معطّلہ اور دہریّہ لوگ، کہ وہ لوگ تو خود سرے ہی سے علم نہیں رکھتے ہیں، کیونکہ وہ تو علم سے منکر ہیں، اور کہتے ہیں کہ علم کا خود کوئی وجود ہی نہیں، بہر حال کوئی مذہب ایسا نہیں جس
۳۴۳
میں کچھ لوگ زیادہ دانا اور کچھ لوگ زیادہ نادان نہ ہوں، چنانچہ دانا لوگ نادان لوگوں کے امام ہیں ( یعنی ہر مذہب اور ہر کیش میں زندہ امام کی ضرورت پائی جاتی ہے، لہٰذا نظریۂ امامت سب کے نزدیک قطعی درست ہے) مگر بات یہ ہے کہ ہر گروہ دعویٰ کرتا ہے کہ، امامِ برحق وہی ہے جس کے ہم پیرو ہیں، پس سب لوگ امامت کے نام کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، مگر امامت کے معنی میں متحد ہیں (یعنی امامت کی شرائط اور امام کے تقرر کے بارے میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے، مگر اس بات پر سب متحد ہیں کہ امام ہونا چاہئے) پس مومن پر فرض ہے کہ اپنے امامِ زمانؑ کو پہچانے، تاکہ امام کی اطاعت کرنا لازمی ہو، پس ہم تحقیق کریں گے، کہ امام دین کے لئے چاہئے، یا دنیا کے لئے، یا دونوں کے لئے۔
ہمارا بیان یہ ہے کہ اگر امام دین کے بغیر صرف دنیا ہی کے لئے ضروری ہوتے تو دین بیکار اور بے سردار ہو جاتا ہے، اور خدا تعالیٰ اس بات سے بہت پاک ہے، کہ کسی چیز کو بیکار و ضائع کر دے، خصوصاً دین کو، جو تمام چیزوں سے اشرف و افضل ہے، اور اگر امام دنیا کے بغیر صرف دین ہی کے لئے ضروری ہوتے تو دنیا کا انتظام باطل ہو جاتا ہے، اور یہ ناممکن تھا، کہ خدا تعالیٰ امام کو ایک اشرف چیز پر سردار بنا دیتا اور ایک ادنیٰ چیز اس سے روکے رکھتا، پس معلوم ہوا کہ امام دین کے لئے بھی لازمی ہے اور دنیا کے لئے بھی۔
پس ہم دین میں امام کے کام کے نتائج کی تحقیق کریں گے، کہ وہ آیاتِ محکمہ کے لئے ضروری ہے یا آیاتِ متشابہ کے لئے، اور (ظاہر ہے ) کہ آیاتِ محکمہ تو خود بے نیاز ہیں، اس لئے کہ وہ تو واضح اور مفصل ہیں، اور امام آیاتِ متشابہ کے لئے ضروری ہے، اس لئے کہ متشابہ کے علم کو صاحبِّ تاویل کے سوا کسی شخص نے استدلال سے حاصل نہیں کیا، اور رسولؐ کے اہلِ بیت کے ایک گروہ کے سوا امت میں ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں ملا، جو آیاتِ متشابہ کو کھولتے ہوئے دعوت
۳۴۴
کرتا ہو، پس ہم ان کی طرف متوجہ ہوئے، اور انہی کی قربت سے ہمیں قرآن اور شریعت کا علمِ متشابہ حاصل ہوا، اور ہمیں معلوم ہوا کہ پس یہی لوگ خدا تعالیٰ کے امر کے مالک و صاحب ہیں، اور ان کی اطاعت کرنا ہم پر واجب ہے، اس آیت کے بموجب، قولہ تعالیٰ: ۔
’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنْكُمْ (۰۴: ۵۹)
اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور صاحبانِ فرمان کی اطاعت کرو، جو خدا کی طرف سے تمہارے درمیان ہیں۔‘‘ پس ہم کہتے ہیں کہ اس ( صاحبِّ امر) کے سات نشان ہونے چاہئیں، تاکہ امامت (دراصل) اسی کے لئے ہو:۔
پہلا: گزشتہ امام کی طرف سے (امامت ) حوالہ کر دینے کا اشارہ ہو، یعنی کہ وہ (گزشتہ امام اپنی زندگی ہی میں یا بذریعۂ وصیت بعد میں) اس کو امامت کے لئے برپا کر دے۔
دوسرا: اس کا شریف حسب و نسب رسولؐ کے اہلِ بیت سے ہونا چاہئے، تاکہ وہ ابراہیمؑ کی دعا سے بہرہ مند ہو (یعنی وہ آلِ ابراہیم سے ہو)۔
تیسرا: اس کے پاس علمِ دین ہونا چاہئے، تاکہ جس سے درختِ امامت بلند ہو۔
چوتھا: پرہیزگار ہونا چاہئے، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا: قولہ تعالیٰ: ’’إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ (۴۹: ۱۳) ۔ اس میں کوئی شک نہیں، کہ تم سب میں بڑا عزت دار وہی ہے، جو بڑا پرہیزگار ہے۔‘‘
پانچواں: چاہئے کہ وہ جہاد کرنے والا ہو، ہاتھ سے کافروں کے خلاف اور زبان سے منافقوں کے خلاف۔
چھٹا: امامت کے علاوہ اس کی اچھی خصلتیں ہونی چاہئیں، جس طرح
۳۴۵
پیغمبر علیہ السّلام میں نبوّت کے علاوہ اچھی عادتیں تھیں، چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سے فرمایا: “وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ۔ (۶۸: ۰۴) ۔ اور بے شک آپ اخلاقِ حسنہ کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں۔”
ساتواں: یہ چاہئے کہ وہ خود اپنی امامت کے متعلق دعویٰ کرنے سے بے نیاز ہو، اس لئے کہ جب وہ دعویٰ کرے تو جھگڑا کرنے والا بن جائے گا، اور حاکم کے حکم کے تحت آئے گا، پھر جب وہ جھگڑا کرنے والا بنے تو حاکم نہ ہو سکے گا، اور یہ اس کے لئے گناہ ہوگا کہ وہ بھی دوسروں کی طرح دعویٰ کرے، ہم نے اس کتاب میں اصول و فروغ کا ذکر کردیا، دانشمند مستجیب کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
اب ہم اسلام کے ان سات ستونوں کا بیان کر دیں گے، جن پر دین کی بنیاد ہے، اور وہ ان سات حدود کی مثال ہیں جن کا ہم نے ذکر کر دیا، پہلے شہادت ہے، اور وہ سابق یعنی عقلِ کلّ کی مثال ہے، کیونکہ اسی کی جانب سے ناطق کو توحید کا یہ ثبوت ملا کہ اللہ تعالیٰ برتر ہے ( کیونکہ وہ) باصفت، بے صفت اور بے جفت ہے، نماز ثانی یعنی نفسِ کلّ کی دلیل ہے، کیونکہ ناطق کی شریعت اسی نے اپنے مادہ (یعنی تائید ) سے تالیف کی دی، اور یہ عالم کی ترکیب (یعنی تخلیق) کی طرح تھی، جو نفسِ کلّ سے پیدا ہوتی ہے، زکوٰۃ ناطق کی مثال ہے، جس نے اساس کی علمِ حقیقت کی طرف دعوت کرنے کے لئے قائم کر دیا، جس میں شرک و نفاق کی پلیدیوں سے پاک و صاف ہوجانے کا ذریعہ ہے، حج کرنا اساس کی مثال ہے، جس سے دین کا گھر مکمل ہو جاتا ہے، کیونکہ وہی دین کا چوتھا ستون ہے، اور گھر چار سنتوں پر مکمل ہو جاتا ہے، ماہِ رمضان کا روزہ امام کی مثال ہے، اس لئے کہ اسے کوئی کام معلوم نہیں، جس طرح (چار) اصولِ دین کو معلوم ہے کہ مگر اسے امانت کی حفاظت کرنی ہے، پس امام روزہ رکھنے یعنی خاموش رہنے کی حد پر ٹھہرا کیونکہ بیان کرنا، امام کی ذمہ داری نہیں ہے، جہاد
۳۴۶
کرنا حجت کی مثال ہے، کیونکہ حجت دعوت کرنے کے سلسلے میں آرام نہیں لیتا ہے، بلکہ ہمیشہ (علمی طور پر) جہاد کرتا رہتا ہے اور کسی بھی ملامت اور ملامت کرنے والے سے نہیں ڈرتا، اور اولی الامر کی اطاعت ( یعنی ولایت) داعی کی مثال ہے، اس لئے کہ امام کی اطاعت مومن پر اس سبب سے واجب ہو جاتی ہے، کہ داعی اس کو اس اطاعت کی طرف راغب کر دیتا ہے، اور اس کو دکھا دیتا ہے، جو کچھ امام کی اطاعت کے تحت اس کے لئے ہے، اب ہم ان چیزوں کا بیان کر دیں گے، جن کو جاننے کے بغیر مومن کے لئے کوئی چارہ نہیں، تاکہ ان کی تلاش کرنے سے راہِ حقیقت کے طالبوں کے نفوس پاک ہوجائیں۔
والسلام
۳۴۷
کلام۔ ۳۷
عورتوں کے حیض اور اس کی پاکیزگی کی کیفیت اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بیان کر دیں گے، کہ عورتوں کا حیض ایک ایسا خون ہے جو ان کے گوشت سے حاصل آتا ہے، اور اگر مرد کا نطفہ عورت کے نطفے کے ساتھ مل جائے، تو یہ اس خون کو واپس جذب کر دیتا ہے، اگر یہ دونوں نطفے اس طرح ایک دوسرے سے نہ ملیں تو وہ ایک ایسا ناپاک خون بنتا ہے، کہ جس میں کوئی پاکی نہیں۔
انسان و حیوان کے نروں کے اجسام کے مقابلے میں ان کی مادوں کے اجسام میں رطوبت کا حصہ زیادہ ہے، یہ اس لئے کہ مادوں کے اجسامِ حیوانی جسم گوندھے اور اس کی تکمیل کرنے کی جگہ ہیں، کیونکہ اس کے گوندھنے اور تیار کرنے کے لئے رطوبت و تر کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔
چنانچہ جب مرد کا نطفہ عورت کے نطفے کے ساتھ مل کر بچہ دانی میں جاتا ہے، تو وہاں وہ دونوں نطفے ایک ہو جاتے ہیں، اور اس حیات کی وجہ سے جو ان (دونوں مخلوط) نطفوں میں موجود ہے، وہ خوراک کے لئے محتاج ہوتے ہیں، پس وہ رطوبتیں، جو عورت کے جسم میں ہیں، ہمیشہ جمع ہو کر ان نطفوں
۳۴۸
کی طرف جاتی ہیں، اور ان نطفوں تک پہنچتی ہیں، تاکہ ان سے آگے گزر جائیں، اور اگر وہ نطفے غذا کے محتاج ہوئے ہیں تو ان رطوبتوں کو حاصل کرتے ہیں، اور اپنی غذا بنا لیتے ہیں، اور اسے کھانے لگتے ہیں، اور جب اسی طرح غذا میسر ہوتی رہی تو وہ مخلوط نطفے بڑھتے ہیں، اور اس عورت کے جسم کی رطوبتیں (خارج ہونے سے) رک کر اس کھانے والے کی طرف جاتی ہیں، اور وہ کھانے والا(یعنی پیٹ کا بچہ) ان کو کھا کر بڑھتا جاتا ہے، تاکہ مرد عورت کے جوڑے کی صورت جو ان کے نطفے میں بحدِّ قوّت موجود تھی، وہ خدائے عزیز و علیم کی تقدیر سے بحدِّ فعل باہر نکل آئے، اور جب وہ حیض کا خون (مذکورہ طریقے پر) جمع نہ ہو اور نیچے کو بہہ جائے، اور اس کے کوئی خریدار نہ ہو کہ اس کو خرید لے اور اس کو روکے تو یہ اگلے مجرای سے نکلنے لگتا ہے، اور وہ انتہائی ناپاک ہوتا ہے، اور عورتوں کو ان دنوں میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے، اور قرآن نہیں پڑھنا چاہئے، اور نہ انہیں مسجد میں جانا چاہئے، یہاں تک کہ خون رک جائے، اس وقت غسل کر لیا کریں، اور نماز پڑھیں (اور وہ بھی) صرف اس وقت سے جب سے پاک ہوئی ہوں، اور جو نمازیں ان سے قضا ہو چکی ہیں، وہ ان کو نہیں پڑھتی ہیں، مگر جو روزہ ان سے قضا ہوا ہے، وہ اس کو دوبارہ رکھتی ہیں۔
اس رطوبت کی تاویل، جو عورتوں کی خلقت میں پائی جاتی ہے، جو مقررہ اوقات میں جاری ہوتی ہے، یہ ہے جو تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ مستجیب دین میں عورت کے مقام پر ہے، اور داعی مرد کے مقام پر ہے، اور مستجیب کا نفس اس قابل ہے، کہ جو بھی علم حق یا باطل اسے بتا دیا جائے وہ اسے قبول کر سکتا ہے، اور اس کا ایسا ہونا بے صورتی کی وجہ سے ہے (یعنی اس کی اپنی کوئی علمی صورت نہیں) اور یہ بے صورتی نادانی ہے، جب وہ خود نہیں جانتا، اور اسے کوئی شخص بھی نہیں ملتا، تاکہ اس سے کچھ سیکھ لیتا ، تب وہ چاہتا ہے کہ اپنی ذات ہی سے کوئی علمی صورت تیار کرے، وہ طاقتِ جستجو استعمال کرتا ہے،
۳۴۹
جس سے پریشان خیالات جمع ہو جاتے ہیں، اور جب اس نے اصلی علم نہیں سنا ہے، تو وہ اپنے آپ سے جو کچھ بھی بیان کرے اس سے اس کے خیالات درست نہیں ہوتے، اور ان کی کوئی صورت نہیں بنتی، بلکہ وہ خیالات بکھر جاتے ہیں، پس اس قابلِ تعلیم انسان کے وہ بے مایہ اور فاسد افکار خونِ حیض کی مثال ہیں، جو جمع ہو جاتے ہیں، اور کوئی صورت نہیں بنتی۔
اسی طرح جب عورت کو مرد کا نطفہ حاصل نہ ہو، تو اس کی پذیرائی کی طاقت ضائع ہو جاتی ہے، جس طرح ظاہر میں حیض کا وہ خون ناپاک ہے، اسی طرح وہ افکار بھی ناپاک ہیں، جو اس مستجیب کی اپنی ذات سے پیدا ہوتے ہیں، جس طرح عورت کے حیض کا خون جب تک نہیں رکتا تو اس کو نہانا اور نماز پڑھنا نہیں چاہئے، اسی طرح جب تک مستجیب ان فاسد افکار سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا ، اور اس سے وہ ناقص آرزوئیں نہیں جاتیں تو جائز نہیں کہ وہ دعوت سننے کے لئے قصد کرے بلکہ وہ اس حالت میں کسی دوسرے شخص سے مدد بھی طلب نہیں کر سکتا، جب تک کہ وہ اپنے آپ سے مایوس نہیں ہوتا ، اور اس کا یہ مایوس ہونا ہی گویا نفسانی حیض سے اپنے آپ کو دھونا ہے۔
اس بات کی تاویل کہ جب بچہ دانی میں مرد کی پشت کی منی عورت کی چھاتی کی منی کے ساتھ مل جاتی ہے، تو یہ دونوں مل کر اس حیض کے خون کو جذب کر لیتی ہیں، اور پھر وہ خون نہیں اترتا، یہ ہے کہ جب مستجیب داعی کی علمی بات سن لیتا ہے، تو اس کی ظاہریت مرد کے نطفے کی طرح ہے، اور اس کی معنویت عورت کے نطفے کی طرح ہے، اور جب یہ دونوں نطفے مستجیب کے نفس میں ٹھہر جائیں تو مستجیب کے وہ افکار ظاہر اور باطن میں (تحقیق کرنے کے لئے ) مایہ بن جاتے ہیں، کیونکہ وہ کام انہی کے ذریعہ کرتا ہے، اور اس فکری مایہ سے علم کی صورت بنتی ہے، اور یہی مایہ ہے جس میں علم کی گونا گون صورتیں بنتی ہیں، اور وہ تھوڑی سی تاویل، جو اس کو ملی ہے، اس کے ان افکار کو قبول کرتی ہے (یعنی ان
۳۵۰
کو درست کرکے اپناتی ہے) یہاں تک کہ ایک دن ان افکار کے درمیان اس کی روحانی صورت مکمل ہو جاتی ہے، جس طرح جسمانی صورت اس حیض کے خون کے ذریعے مکمل ہو جاتی ہے، اور پھر وہ افکار ضائع نہیں جاتے، اور ان کا ضائع نہ ہونا داعی سے تعلیم لینے کے بعد ہے، جس طرح مرد سے نطفہ حاصل کرنے کے بعد عورت کا خونِ حیض نہیں جاتا۔
اس بات کی تاویل کہ حیض والی عورت کو مسجد میں نہیں جانا چاہئے، یہ ہے کہ اس مستجیب کو، جو اپنی طرف سے راستہ ڈھونڈتا ہے، داعی کی طرف نہیں جانا چاہئے، کیونکہ مسجد داعی کی دلیل ہے۔
اس بات کی تاویل کہ حائضہ کو قرآن نہیں پڑھنا چاہئے، یہ ہے کہ اس مستجیب کو جو اپنی طرف سے راستہ ڈھونڈتا ہے، امام کی طرف نہیں جانا چاہئے، کیونکہ قرآن امام کی مثال ہے، اور دین کے ہر ماتحت درجے کے لئے اس کا مافوق درجہ امام کی مثال ہے، اس بات کی دلیل کہ حائضہ کو نماز نہیں پڑھنی چاہئے، یہ ہے کہ جو شخص اپنے افکار کے شکوک و شبہات اور ناپاکی میں ہو، اسے دعوت کی مجلس میں نہیں آنا چاہئے، کیونکہ نماز دعوت کی مجلس کی مثال ہے، اور اس بات کی تاویل کہ جب حائضہ پاک ہو جائے، تو اس کو نماز کی قضائیں نہیں پڑھنا چاہئے، یہ ہے کہ جب مستجیب نے (مریدی اور فرمان برداری کا ) عہد کر لیا، تو وہ دعوت کی ان مجلسوں میں جو اس سے فوت ہو چکی ہیں حاضر ہو نہیں سکتا، مگر وہ اس کے بعد کی مجلسوں میں حاضر ہو سکتا ہے، اور تعلیم حاصل کر سکتا ہے، اور یہ اس کی روحانی نماز کی حیثیت رکھتی ہے، جس طرح حائضہ جب پاک ہو جاتی ہے، تو وہ نماز کی قضائیں نہیں پڑھتی ہے، مگر نماز (اس پاکیزگی کے) بعد اس پر واجب ہوتی ہے۔
اس بات کی تاویل، کہ اگر روزہ دار عورتیں حائضہ ہو جائیں، تو انہیں اس وقت روزہ رکھنا جائز نہیں، کیونکہ وہ پاک نہیں ہیں، اور جب وہ پاک ہو جائیں
۳۵۱
تو روزہ رکھنا چاہئے، یہ ہے کہ روزہ رکھنا حدود کو پوشیدہ رکھنے اور خاموش رہنے کی مثا ل ہے، چنانچہ جس وقت مستجیب کا کوئی عہد نہ تھا تو وہ پاک نہ تھا بلکہ روحانی حیض کی وجہ سے ناپاک تھا، تو اس نے حدودِ دین کو نہیں پہچانا اور ان کی مرتبت کی نگہداشت اس سے نہ ہو سکی، اور اسے یہ جائز نہ تھا، کہ خاموش رہے بلکہ اسے طلبِ حقیقت کرنا لازمی تھا، جس طرح حائضہ کو روزہ نہیں رکھنا اور جب اس نے حدود کو پہچان لیا، تو گویا وہ ان پلیدیوں سے پاک ہوا، پھر اس پر واجب ہے کہ اب ان حدود کو چھپائے رکھے، جن کو اس سے پہلے نہیں چھپایا تھا، اور وہ بات نہ بتایا کرے، جو اس سے پہلے بتایا کرتا تھا، یہی ہے، حائضہ کا قضا روزہ رکھنا اور اس امر کی تاویل کہ حیض کے دنوں میں مردوں کو عورتوں سے نزدیکی (یعنی مجامعت) نہیں کرنی چاہئے، یہ ہے کہ جب تک مستجیب کے دل سے وہ افکار، شکوک و شبہات پاک نہ ہو جائیں تو داعی اور معلم کو اس مستجیب سے علمی گفتگو نہیں کرنی چاہئے اور خونِ حیض کے رک جانے پر ادائے فریضہ کے لئے حائضہ کے غسل کر لینے کی تاویل یہ ہے کہ جب وہ مسلمان شکوک و شبہات میں رہے ہوں، تو وہ اپنے آپ سے مایوس ہو جائیں گے، یعنی کہیں گے کہ ایسا نہیں جس طرح ہم جانتے ہیں، تو یہ روحانی حیض سے ان کا پاک ہونا ہے، اور یہ ان پر واجب اور فرض ہوتا ہے کہ دانا کی طرف آئیں اور اس کے عہد کو قبول کر لیا کریں۔
۳۵۲
کلام۔ ۳۸
استبرا کی حقیقت اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، اسبتراء کی حقیقت عورت کی بچہ دانی کو دوسرے مرد کے نطفے کے ذخیرے سے خالی کر دینا ہے، اور ( وہ اس طرح کہ) جو شخص کسی لونڈی کو خریدے تو ظاہرِ شریعت میں اس پر واجب ہوتا ہے، کہ وہ اس لونڈی کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے، جب تک کہ اس لونڈی کے حائضہ ہو جانے سے اس کو یہ حقیقت معلوم نہ ہو جائے کہ اس کی بچہ دانی میں کسی دوسرے شخص کا نطفہ نہیں، اور جب یہ حقیقت معلوم ہوتی کہ اس کی بچہ دانی پاک ہے، تو جائز ہے کہ وہ اس کنیز کے ساتھ نزدیکی کرے۔
اس موضوع کی تاویل یہ ہے کہ، لونڈی اور عورت مستجیب کی مثال ہیں، یعنی مستجیب (لونڈی اور عورت ہے) ماذون کے لئے، ماذون داعی کے لئے اور داعی حجت کے لئے، اسی طرح ناطق تک کہ وہ عالمِ دین میں بحقیقت مرد ہے، پس جب کوئی مافوق درجہ اپنے ماتحت درجے کے لئے مسٔلہ حل کرتا ہے، تو اس کی مثال یہ ہوتی ہے کہ کوئی آقا اپنی لونڈی سے، اور کوئی خاوند اپنی بیوی سے مقاربت کر رہا ہے، اور جب مستجیب اپنے ماذون سے یا کوئی ماتحت درجہ اپنے
۳۵۳
مافوق درجے سے جدا ہو جاتا ہے، اور دوسرے ماذون یا دوسرے جزیرے کے مالک کو (کسی نہ کسی وجہ سے ) مل جاتا ہے، تو اس کی مثال یوں ہوتی ہے، کہ کوئی عورت یا کوئی لونڈی ایک خاوند یا مالک کے بعد دوسرے کو ملی، پس اس سبب سے اس دوسرے (ماذون یا) صاحبِّ جزیرہ کو نہیں چاہئے، کہ (اس مستجیب کے لئے یا ) اس داعی کے لئے (فوراً) حقیقت کھولے، بلکہ اسے صبر کرنا چاہئے تاکہ ( اس مستجیب نے یا) داعی نے اس سے پہلے جو کچھ سن رکھا ہے، وہ ظاہر ہو جائے اور وہ خود اس کو سچ ثابت کر دے گا یا باطل قرار دے کر اسے چھوڑ دے گا، جس طرح کسی لونڈی کا مالک اپنی لونڈی سے نزدیکی نہیں کرتا، جب تک کہ اس کی بچہ دانی (دوسر ے مرد کے) نطفے سے بالکل پاک اور صاف نہ ہوجائے، تاکہ دو مختلف باتیں دو حجتوں کی طرف سے داعی کے نفس میں یا دو داعیوں کی طرف سے مستجیب کے نفس میں باعثِ پریشانی نہ ہو جائیں، اور اس کی (ایک مشتبہہ) علمی صورت (نہ) بن جائے۔
نیز ہم بتائیں گے کہ اگر دو خاوند ایک ہی لونڈی سے نزدیکی کریں تو یہ ایک ایسے مستجیب کی مثال ہوگی جس کو (بیک وقت) دو داعی ( اپنی روحانی) لونڈی بنا رہے ہوں، یہ نہ ظاہر میں جائز ہے، اور نہ باطن میں، اور مومن (بحقیقت ) وہی ہے، جو ظاہر و باطن کی تمام برائیوں سے پرہیز کرے، اور ظاہر و باطن کی تمام نیکیوں کی طرف راغب ہو جائے، استبراء کی تاویل اور بیان یہی ہے، جو ذکر کر دیا گیا۔
والسلام
۳۵۴
کلام ۔ ۳۹
اس امر کی تاویل کے بارے میں، کہ مردوں کو زری اور ریشمی لباس میں نماز پڑھنا جائز نہیں، مگر عورتوں کے لئے جائز ہے
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ رسول علیہ السّلام سے روایت ہے کہ ایک دن آنحضرتؐ اپنے اصحاب کے پاس تشریف لائے، اور آنحضرتؐ کے دائیں ہاتھ میں زری کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا، اور بائیں ہاتھ میں ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا، اور فرمایا:۔
’’ھٰذَانِ مُحَرَّمَانِ عَلٰی ذُکُوْ رِ اُمَّتِیْ وَ حَلَا لُ لِاُ نَاثِھَا۔
یہ دونوں یعنی زری اور ریشمی کپڑے میری امت کے مردوں پر حرام ہیں، اور میری امت کی عورتوں پر حلال ہیں۔‘‘ اور اس قولِ ظاہر میں رسول علیہ السلام نے فرمایا، کہ اگر مرد سونے کے زیور یعنی انگوٹھی، چھری، کمربند وغیرہ کے ساتھ نماز پڑھے یا ایسے لباس میں نماز پڑھے، جس کا تانا اور بانا دونوں سوت کے بغیر خالص ریشمی ہیں، تو اس کی وہ نماز درست نہیں، اس لئے کہ حرام چیز
۳۵۵
کے ساتھ نماز پڑھنا جائز نہیں، اور جس چیز کے لئے رسول فرمائیں کہ حرام ہے، تو وہ حرام ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ کاارشاد ہے: قولہ تعالیٰ: ۔
’’ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۚ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ (۵۹: ۰۷)
ہاں جو تم کو رسول دیدیں وہ لے لیا کرو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔‘‘
اس امر کی تاویل کے بارے میں کہ (مذکورہ صورت میں) سونا اور ریشم حرام ہے، ہم بیان کریں گے کہ انسانی جسم کی زیب و زینت لباس اور زیورات سے ہے، چنانچہ ریشم (ریشمی کپڑا) ان تمام بنے ہوئے کپڑوں سے اصیل ہے جن سے لباس بنائے جاتے ہیں، اور سونا ان تمام پگھل جانے والے جواہر سے اصیل ہے، جن سے زیوارت بنائے جائے ہیں، یہ دونوں چیزیں ناطق کی مرتبت کی مثال ہیں، کیونکہ وہ ساری مخلوقات سے اصیل ہیں، ریشم جانوروں کے ذریعے نبات سے پیدا ہوتا ہے، اور نماز ان کپڑوں میں پڑھنی چاہئے جو ایسی نبات سے ہوں، کہ وہ مٹی سے اگی ہے، اور مٹی مومن کی مثال ہے، اور نبات باطنِ شریعت اور علمِ حقیقت کی مثال ہے، پس وہ دعوت جو نماز کی تاویل کی حیثیت سے ہے، مومن کے لئے باطنی علم کے ذریعہ مناسب ہے ( جس طرح ظاہری نماز مٹی سے پیدا شدہ کپڑوں میں درست ہے)۔
نیز نبات امام کی مثال ہے، کیونکہ نبات زمین سے کسی چیز کی وساطت کے بغیر اگی ہے، جس طرح امام اساس سے کسی شخص کے توسط کے بغیر پیدا ہوا ہے، اور ریشم حجت کی مثال ہے، جو امام کے ذریعے اساس سے پیدا ہوا ہے، پس (روحانی) دعوت کے لئے جو حقیقی نماز وہی ہے، امام زیادہ لائق ہے، بہ نسبت حجت کے، یہی سبب ہے کہ نبات (یعنی سوتی لباس) میں نماز پڑھنا مناسب ہے، اور ریشم (یعنی ریشمی لباس) میں مناسب نہیں۔
۳۵۶
چاندی اساس کی مثال ہے، اور چاندی کے ساتھ نماز مناسب ہے۔ اور چاندی کی قیمت سونے کے ساتھ ساتھ ہے، چنانچہ تاویل تنزیل کے معنی کی حیثیت سے ہے، اور مرد دعوت میں حدوددِ دین کی ہیں، جیسے ناطق، اساس، امام، حجت، داعی اور ماذون، اور عورت دعوت میں مستجیب ہے، اور نماز صاحبِّ دور سے مل جانے کی مثال ہے، اور اس قول کی حقیقت کہ ناطق نے فرمایا کہ:۔
’’ حدودِ دین کو چاہئے کہ وہ بطریقِ تاویل مجھ سے مل جائیں، نہ کہ تنزیل اور ظاہر شریعت کے ذریعے تاکہ وہ میری مرتبت کو پہچان لیں گے۔‘‘ اور جو فرمایا کہ:۔
’’ یہ دونوں چیزیں (یعنی زری اور ریشمی لباس) میری امت کی عورتوں کے لئے حلال ہیں۔‘‘ اس سے آنحضرتؐ کی مراد یہ ہے کہ’’مستجیبوں کے لئے روا ہے، کہ وہ ظاہر کے ذریعے میرے ساتھ تعلق قائم رکھیں، اس لئے، کہ حجت اور داعی، جو صاحبانِ دعوت ہیں، جب تاویل سیکھیں اور اس پر عمل کریں، تو یہ مرد کی مرتبت میں ہوں گے، اور ناطق و اساس کو بحقیقت پہچان لیں گے، اور اگر مستجیب ظاہریت کو قبول نہ کرے، اور ظاہر ہی کے ذریعہ دعوت سے وابستہ نہ ہو جائے اور باطن خود اس کے پاس نہیں، تو وہ دین میں نہ مرد ہوگا، اور نہ عورت۔
اس امر کی تاویل کہ عورت کو مناسب نہیں کہ وہ (کچھ نہ کچھ زیور کے بغیر) مسجد میں داخل ہوجائے، کیونکہ مسجد داعی کی مثال ہے، یعنی مستجیب کے لئے مناسب نہیں کہ شریعت کے ظاہر کے بغیر داعی سے رابطہ رکھے، اسی سبب سے کہا گیا ہے، کہ عورتوں کے لئے یہی زیادہ بہتر ہے، کہ (کچھ نہ کچھ ) زیورات اور ریشمی لباس میں نماز پڑھیں، اور ریشم ظاہر کی مثال ہے، جو باطن سے پیدا ہوا ہے، اس لئے کہ نباتات باطن کی مثال ہے، اور ریشم کا کیڑا نباتات سے کچھ کھا کر اپنے لئے اپنے باطن سے کوئی چیز ظاہر کرتا ہے، چنانچہ وہ اپنے منہ سے پیلہ (یعنی خام
۳۵۷
ریشم کا کویا) نکالتا ہے، اور یہ کیڑا دعوت کے مخالف کی مثال ہے، کہ وہ باطن سے ظاہر کو پیدا کر دیتا ہے، اور لطیف کو کثیف کر دیتا ہے، پس اسی سبب سے ( مردوں کے لئے) خالص ریشمی لباس میں نماز جائز نہیں، مگر یہ ہے، کہ اس میں سوت بھی ہو پھر روا ہے، جس طرح خدا کی پرستش بیک وقت ظاہر اور باطن (دونوں حالتوں ) میں ہونی چاہئے، یہی ہے وہ حقیقت، جس کا ذکر کر دیا گیا۔
والسلام
۳۵۸
کلام ۔ ۴۰
زانی کو سزا دینے اور سنگسار کرنے کی واجبیت اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم اللہ تعالےٰ کی توفیق اور ولیٔ زمان علیہ السّلام کی مہربانی سے بتلائیں گے، کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے، کہ اس مرد اور عورت کو سَو سَو دُرّے کی سزا دیجائے جو زنا کرتے ہیں، قولہ تعالیٰ: ۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلاَ تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ (۲۳: ۰۲)
’’ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد پس ان میں سے ہر ایک کو سو دُرّے مارو، اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے، اگر اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور دونوں کی سزا کے وقت مومنوں کا ایک گروہ حاضر رہنا چاہئے۔‘‘
خدائے پاک کا یہی فرمان ہے، اور محمد رسول علیہ السّلام نے خدا تعالیٰ کے فرمان کے بموجب اس کی تفصیل فرمائی، جس طرح خدائے تعالیٰ نے فرمایا، کہ نماز پڑھا
۳۵۹
کرو، اور زکوٰۃ دو، اور رسول علیہ السّلام نے (تفصیلاً) فرما دیا، کہ ہر نماز کس وقت پڑھنا چاہئے، اور زکوٰۃ ہر نقد، مویشی اور غلہ سے کیا دینی چاہئے، پس رسول علیہ السلام نے زنا کرنے والے مرد اور عورت میں سے ہر ایک کو سو دُرّے مارنے کے لئے فرمایا، جبکہ یہ بغیر بیوی کے مرد اور بغیر خاوند کی عورت ہوں، اور ان میں سے جس کا اپنا جوڑا موجود ہو (یعنی جو مرد اپنی بیوی رکھتا ہو، اور جو عورت اپنا خاوند رکھتی ہو) اور اس نے زنا کیا ہو تو اس کو سنگسار کرنے کے لئے فرمایا، اور سنگسار کا مطلب پتھراؤ کرنا ہے، جس میں اس (زانی اور زانیہ) کے نچلے نصف جسم کو زمین میں گاڑ دیتے ہیں، اور اس کے سر پر پتھراؤ کرتے ہیں، تاکہ وہ مرجائے، اور عام مومنوں کے لئے شریعت کا ظاہر یہی ہے، اور جو شخص اس فرمان سے باہر نکل جائے تو وہ نافرمان ہو جاتا ہے، جوڑے اور بغیر جوڑے کے زانی (اور زانیہ) کے لئے یہی دو سزائیں ہیں۔
شریعت کے باطن کی کتاب میں اس فرمان کی تاویل یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلم تمام لوگوں کے لئے دین میں بحقیقت مرد ہیں، اور امت والے سب اس اعتبار سے کہ آنحضرتؐ ہی سے دینی علم حاصل کرتے ہیں، آنجناب کے لئے عورتوں کی منزلت پر ہیں، جس طرح مرد عورتوں کے کام کے لئے کھڑے رہتے ہیں، اسی طرح رسولؐ امت کے کام کے لئے کھڑے ہیں، اور خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ:۔
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ (۰۴: ۳۴)
مرد عورتوں کے (کام) کے لئے کھڑے ہیں، جس کا سبب یہ ہے، کہ خدا نے بعض (یعنی مردوں) کو بعض (یعنی عورتوں ) پر فضیلت دی ہے۔‘‘ مزید برآن امت کے کام کے لئے رسول علیہ السّلام کے کھڑے رہنے کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
۳۶۰
’’يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنذِ (۷۴: ۰۱ تا ۰۲)
اے کپڑا اوڑھنے والے رسول اٹھو اور (لوگوں کو عذاب سے ) ڈراؤ۔‘‘
جب یہ ثابت ہوا کہ رسول علیہ السّلام اپنی ساری امت کا مرد ( یعنی خاوند) ہیں، تو ہم بتائیں گے، کہ رسول علیہ السّلام کے تحت ہر استاد اپنے شاگرد کا روحانی خاوند ہے، اور ہر شاگرد اپنے استاد کی (روحانی) بیوی ہے، اس لئے کہ یہ اس سے فائدہ لے رہا ہے، چنانچہ ناطق روحانی طور پر اساس کا خاوند ہیں، اور اساس ناطق کے لئے روحانی بیوی ہیں، اساس امام کے لئے خاوند ہیں، امام حجت کے لئے خاوند ہیں، حجت داعی کے لئے خاوند ہے، داعی ماذون کے لئے خاوند ہے، اور ماذون مستجیب کے لئے خاوند ہے، پس ہر مافوق حد ماتحت حد کے لئے خاوند ہے، اور ہر ماتحت حد مافوق حد کے لئے بیوی ہے، اور زبان تاویل میں مرد کے آلۂ تناسل کی منزلت پر ہے، اور کان عورت کے اندامِ نہانی کی منزلت پر ہے، اور بات کرنے والے کا سنا دینا اس کی مجامعت ہے، اور وہ عورت جس کا کوئی خاوند نہیں ( اور وہ زنا کرتی ہے) عہد کے بغیر دینی باتیں سننے والے کی مثال ہے، اور وہ مرد جس کی کوئی بیوی نہیں ( اور وہ زنا کرتا ہے) فرمان کے بغیر دعوت کرنے والے کی مثال ہے۔
بغیر بیوی کے مرد اور بغیر خاوند کی عورت کو سو دُرّے ( جو دس عقد ہوتے ہیں) کی سزا دینے کی تاویل، جبکہ وہ ایک دوسرے سے مجامعت کرتے ہیں، یہ ہے کہ جب کوئی ایسا شخص ہو، کہ وہ دعوت کی منزلت پر پہنچ چکا ہے، مگر اس کو فرمان نہیں، کہ دعوت کرے، لیکن وہ (اس کے باوجود) اس مستجیب کے لئے دعوت کرتا ہے جس کا کوئی داعی نہیں ( دران حال یہ دونوں آدم روحانی زنا کے مرتکب ہو جاتے ہیں، پس ان میں سے ہر ایک کو سو روحانی دُرّے مارتے ہیں، وہ یہ ہے کہ) ان دونوں کو روحانی اور جسمانی دس حدود سے گرا دینا چاہئے، اور ان کو عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، جد، فتح، خیال، ناطق، اساس، امام، حجت اور داعی کے ظاہر
۳۶۱
(یعنی ظاہری علم) کی طرف واپس لے جانا چاہئے، اور یہ ان کی روحانی سزا ہوئی۔
اس مرد اور عورت کو سنگسار کرنے کی تاویل جنہوں نے زنا کیا تھا، حالانکہ مرد کی اپنی بیوی اور عورت کا اپنا خاوند موجود ہیں، یہ ہے، کہ جب ایسا کوئی داعی یا ماذون ہو، جن کو فرمان ہوا ہو کہ وہ اپنے نچلے حدود کو دعوت کریں گے، یعنی صرف اس گروہ کو دعوت کریں گے جن سے ان کا عہد ہو چکا ہے، اور ان کے درمیان عہد و میثاق کے ذریعہ (روحانی طور پر) میاں بیوی کے تعلقات ہو چکے ہیں، پھر یہ داعی یا ماذون دوسرے داعی کے مستجیب کے لئے دعوت کرتا ہے، حالانکہ ان سے اس مستجیب کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، بلکہ اس کا معاہدہ دوسرے داعی سے ہے، تو ایسی دعوت کرنے والے کو اور سننے والے کو روحانی طور پر سنگسار کرنا واجب ہے، پس ان دونوں کو شریعت اور خدا کی کتاب کے ظاہر کی طرف واپس لے جانا چاہئے، اور یہ ان کے نچلے نصف جسم کو زمین میں گاڑ دینے کی طرح ہے، اس لئے کہ ان کا نچلا نصف حصہ شریعت کے ظاہر کی مثال ہے، جو دعوت میں ہے، اور خدا کی کتاب زمین کی مثال ہے، کہ زمین جسمانی لذّتیں دینے والی نعمتوں کے لئے سرمایہ ہے، (جس طرح خدا کی کتاب روحانی لذّتیں دینے والی نعمتوں کے لئے سرمایہ ہے) اور چاہئے کہ ان دونوں کے سر پر پتھر ماریں، تاکہ وہ مر جائیں، اور اس واقعہ کی تاویل یہ ہے، کہ پتھر مارنا سخت اور مشکل مسائل کی مثال ہے، یعنی مشکل سوالات کے ذریعہ ان کو اعتبار سے گرا دیا جائے، تاکہ اس میں ان کے نفوس علمِ حقیقت (کی روح) سے مرجائیں، اور پھر علمِ شریعت میں اس کے لئے شروع نہ کر سکیں، چنانچہ جسم پتھر کے مارنے سے مرجاتا ہے، اور حرکت نہیں کر سکتا ۔
پس جس شخص کو جسمانی طور پر سنگسار کر دیا جائے وہ جسمانی رنج دیکھتا ہے، اور جسمانی عالم کی لذّتوں سے محروم ہو جاتا ہے، اور جس شخص کو روحانی طور پر سنگسار کر دیا جائے، تو وہ روحانی رنج دیکھتا ہے، اور روحانی عالم کی لذّتوں سے منقطع
۳۶۲
ہو جاتا ہے، اور ابدی عذاب میں گرفتار ہوتا ہے، مومن کو یہ گمان نہیں کرنا چاہئے کہ جسمانی سنگساری سے روحانی سنگساری آسان تر ہے، بلکہ روحانی سنگساری سے جسمانی سنگساری زیادہ آسان ہے، اس لئے کہ جسمانی تکالیف گزر جانے والی ہیں، اور روحانی تکالیف ہمیشہ رہنے والی ہیں۔
نیز ہم بتائیں گے، کہ خدا تعالیٰ نے ان معاملات کے بارے میں، جو لوگوں کے آپس میں اور دنیاوی قسم کے ہوتے ہیں، دو گواہ کرنے کے لئے فرمایا، اور اس ارشاد کا ثبوت یہ ہے:۔
’’ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ (۰۲: ۲۸۲)
جب تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اپنے لوگوں (یعنی مسلمانوں) میں سے دو سچ بولنے والے مردوں کو گواہ کر رکھو۔‘‘ اور جب خدا تعالےٰ نے زنا کا ذکر فرمایا، تو اس نے چار گواہ چاہے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ:۔
لَوْلاَ جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُوْلَئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمْ الْكَاذِبُونَ (۲۴: ۱۳)
اور جن لوگوں نے تہمت لگائی تھی، اپنے دعوے کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ پیش کئے، پھر جب ان لوگوں نے گواہ نہ پیش کئے تو خدا کے نزدیک یہی لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘
اس آیت کے معنی باطن میں یہ ہوتے ہیں، کہ اگر وہ چار گواہ نہ ہوں تو وہ زنا خود اس شخص نے کیا ہوگا، جس نے یہ بات اٹھائی ہے، اور ظاہر میں اس کے معنی برابر نہیں آتے ہیں، اس لئے کہ ممکن ہے کہ کسی نے سچ مچ زنا کیا ہوگا اور وہ چار گواہ موجود نہ ہوں گے (اور اگر ) کوئی شخص وہ واقعہ بیان کرے، تو (عقلی طور پر) لازم نہیں آتا، کہ وہ شخص خدا کے نزدیک جھوٹا ہو، اس لئے کہ خدا جانتا ہے وہ سچ کہہ رہا ہے، ہر چند کہ اس کے لئے وہ گواہ موجود نہیں ہیں،
۳۶۳
کیونکہ سچ بولنے والے کے لئے خدا کے نزدیک کسی گواہ کی ضرورت ہی نہیں، کہ وہ جلّت کلمۃ غیب کا جاننے والا ہے ، اگر کوئی شخص کسی کو قتل کرے، تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس کے متعلق دو گواہ لانے کے لئے فرمایا، اور زنا کے متعلق چار گواہ لانے کے لئے فرمایا، اور اس امر کے معنی شریعت کے ظاہر میں اس طرح ہیں، کہ قتل کرنا قاتل کا فعل ہے (جو مقتول سے ثابت ہے) اب اس کے لئے صرف ایک شخص گواہ چاہئے، جو کہے کہ اس کو فلان شخص نے قتل کیا ہے، اور مقتول تو خود اس کے سامنے حاضر ہے، یہی سبب ہے، کہ اس کے لئے صرف دو ۲ گواہ کافی ہیں، اور دنیاوی معاملات میں بھی آنحضرتؐ نے دو گواہ مقرر کرنے کے لئے فرمایا، اس لئے کہ حقوق کا مالک اپنے دعویٰ پر کھڑا ہے، اور اس کا مخالف انکار کرتا ہوا موجود ہے، اور ایک گواہ چاہئے جو ان کا تیسرا ہے (پس اسی طرح دو گواہ ہوئے) چنانچہ جب مال وغیرہ کے جھگڑے میں ایک شخص انکار کرتا ہے تو اس میں دو گواہ لازم آتے ہیں، اور جب زنا میں (مرد اور عورت) دونوں مجرم منکر ہو جاتے ہیں تو اس میں چار گواہ لازم آتے ہیں، پس دانشمندوں کے لئے یہ ایک روشن بیان ہے ، مگر جس کا دل خاندانِ برحق سے برگشتہ ہوا ہو ( اس کے لئے یہ حقائق مشکل ہیں)۔
اس ظاہر کی تاویل یہ ہے، کہ ظاہر باطن کے لئے ایسا ہے جس طرح جسم کے لئے کھال ہوا کرتی ہے ( چنانچہ جس طرح کسی چیز کا باطن ہوگا، اسی طرح اس کا ظاہر ہوگا) جب کوئی جسم انسانی شکل کا ہو، تو اس پر کھال بھی انسانی شکل کی ہوگی، اور جب کھال گائے کی شکل کی ہو، تو اس کا سبب یہی ہے کہ جسم گائے کی شکل کا ہے، پس مذکورہ ظاہری امور بھی اپنے اپنے باطن پر اسی حیثیت سے ہیں، اور جب دانشمند مومن کسی ظاہری امر کو طریقوں میں سے کسی طریقے پر دیکھتا ہے تو سمجھ لیتا ہے کہ اس کا باطن بھی ایسا ہی ہے، اور جب اس کی حقیقت سمجھاتے ہیں تو اس کا نفس اس کو قبول کر سکتا ہے۔
۳۶۴
پس بتائیں گے کہ قرضہ دینے کا باطن ( یعنی تاویل ) یہ ہے، کہ کوئی شخص کسی کو تعلیم دیتا ہے، اس کے بعد وہ تعلیم اس شخص سے اسی طرح واپس پوچھتا ہے، چنانچہ داعی مستجیب کو تاویل کی باتیں بتاتا ہے، پھر اس سے پوچھ لیتا ہے، تاکہ وہ واپس بتائے، جس طرح اس نے یہ باتیں یاد کی تھیں، اور جس طرح داعی نے اسے بتائی تھیں، اس خوف سے کہ اس کی علمی صورت بگڑ نہ جائے، پس یہ ظاہری قرضے کی طرح ہے، کہ کسی کو دس درم قرضہ دیئے جاتے ہیں، اس کے بعد اس سے وہی دس درم طلب کئے جاتے ہیں، اور ظاہر میں ان دس درموں کے مالک کے لئے دو گواہ چاہئیں، تاکہ وہ یہ کہیں، کہ اس شخص نے اس کو وہ قرضہ دیا ہے، چنانچہ داعی کے لئے بھی دو گواہ چاہئیں، اس بارے میں کہ اس نے مستجیب کو بات بتا دی ، اور دس درموں کے مالک کے گواہ دو۲ سچ بولنے والے مرد ہونے چاہئیں، اور داعی کے گواہ حجت اور امام ہونے چاہئیں، کیونکہ وہی دونوں جہان کے گواہ ہیں، کہ انہوں نے داعی کو مامور کیا ہے، کہ وہ اس مستجیب کو وہ بات بتائے جس طرح اگروہ دو ظاہری گواہ نہ ہوں، تو اس سرمایہ والے کے دس درم ثابت نہ ہوں گے، اسی طرح اگر داعی کے لئے یہ دو گواہ نہ ہوں تو وہ داعی نہ ہوگا اور بے علم ہوگا، جس طرح یہ دوسرا شخص (گواہوں کے نہ ہونے کی صورت میں) بے درم ہو جاتا ہے۔
مقتول کی تاویل یہ ہے، کہ ایک شخص تاویل یعنی خدا کی کتاب کے معنی سے، جس میں ابدی زندگی ہے، گر جاتا ہے، چنانچہ کسی شخص کو قتل کرنا یہ ہے، کہ اس کی ظاہری زندگی ختم ہو جاتی ہے، اور جب داعی ٹیڑھے طریقے سے ظاہری بیان کرتا ہے، جس کی وجہ سے سننے والے آدمی کو اس تاویل اور معنی میں کوئی نقص نظر آتا ہے، یا داعی اس سننے والے کو یوں بتا دیتا ہے کہ یہ جو کچھ تو ظاہری طور پر سن رہا ہے، اس کے علاوہ کوئی معنی نہیں، پس جب اس سننے والے شخص پر یہ بات سخت اور بھاری آجائے اور خدا تعالیٰ کی کتاب سے مایوس ہو جائے، اور وہ یہ گمان
۳۶۵
کرے، کہ وہ خود باطل ہے، تو بس یہ اس مر جانے والے کی طرح ہے ، جو جسمانی زندگی سے مایوس ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر استاد چاہتا ہے کہ شاگرد کو مار کر سکھائے، تاکہ وہ اچھی طرح سے سیکھے، مگر وہ کمزور شاگرد اس مار سے مر ہی جاتا ہے، پس داعی اس سننے والے کو صاحبِّ تالیف (یعنی ناطق) اور صاحبِّ تاویل (یعنی اساس) کی طرف سے بیان کرتا ہے، یہی سبب ہے کہ ظاہر میں مقتول کے لئے دو گواہ چاہئیں، زیادہ نہیں چاہئیں، جس کا باطنی مطلب یہی ہے، جو ہم نے ذکر کر دیا۔
اس بات کی تاویل کہ زنا کے متعلق چار گواہ ہونے چاہئیں، یہ ہے کہ زنا کرنا صاحبِّ زمان علیہ السلام کے فرمان کے بغیر دعوت کرنے کی مثال ہے، اور جب کوئی شخص امر کے بغیر دعوت کے سلسلے میں بات کرتا ہے، تو وہ چار حدود کے متعلق بات کرتا ہے، جیسے ناطق، اساس، امام، اور حجت، جن میں سے دو ۲ تو اس وقت رحلت فرما چکے ہیں، اور دو ان کی جگہ پر ہر زمانے میں باقی ہیں، چنانچہ جب کوئی شخص زمانے میں صاحبِّ زمان علیہ السلام کے فرمان کے بغیر ان چار حدود کے بارے میں دعوت کرتا ہے، تو وہ زنائے باطن کرتا ہے، اور اس نے جو کچھ کیا ہے، اس پر یہ چار عظیم حدود گواہ ہوں گے، اور وہ بدترین گنہگاروں کی طرح گرفتار ہوگا، چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا، قولہ تعالی: ۔
وَلاَ يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (۲۵: ۶۸)
اور وہ زنا نہیں کرتے، اور جو شخص ایسے کام کرے گا، تو سزا سے اس کو سابقہ پڑےگا۔‘‘ زنا کرنے والے کے متعلق چار گواہ مقرر کئے جانے کی تاویل یہی ہے۔
اَمَّا اس بات کی تاویل کہ زنا عضوِ تناسل سے کیا جاتا ہے، مگر زانی کی پیٹھ پر دُرّے مارتے ہیں، یہ ہے کہ عضوِ تناسل کی قوّت پیٹھ سے ہے اس لئے پیٹھ ہی کو کمزور کر دیتے ہیں ، کیونکہ یہ مایہ وہیں سے آیا تھا، اور اس موضوع کی تاویل یہ
۳۶۶
ہے، کہ عضوِ تناسل پیٹ کی طرف ہوتا ہے، پیٹ باطن کی مثال ہے، اور پیٹھ ظاہر کی مثال ہے، اور جو شخص زنائے باطن کرتا ہے، یہی ہے کہ اس نے فرمان حاصل کئے بغیر تاویل بیان کی ہے، پس اس کو ظاہریت کی طرف واپس لے جانا چاہئے، اور اس کے اس ظاہر کو تباہ کر دینا چاہئے، اس طرح کہ وہ اس ظاہر سے باطن کی طرف دوبارہ نہ آسکے، جس طرح زانی کی پیٹھ پر مارتے ہیں، تاکہ اس کا عضوِ تناسل پیٹھ کی کمزوری سے کمزور ہو جائے، مخلص مومن کے لئے یہ ایک روشن بیان ہے جو ذکر کر دیا گیا۔
والسلام
۳۶۷
کلام ۔ ۴۱
سحاقہ اور لواطہ کو سنگسار کرنے کی واجبیت اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ جو مرد (دوسرے مرد کے لئے) عورت بن جانا اختیار کرے، اور جو عورت خود ( دوسری عورت کے لئے) مرد بن جانا پسند کرے، تو ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں، اور رسول علیہ السلام نے ان دونوں پر لعنت کی ہے، چنانچہ فرمایا: ۔
’’ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْمُتَشَبِّھِیْنَ مِنَ الرِّجاَلِ بِالنِّسَاءِ وَ الْمُتَشَبِّھَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ۔
خدا کی لعنت ہے ان مردوں پر جو اپنے آپ کو عورتوں کی مثال بنا دیتے ہیں، اور ان عورتوں پر بھی جو اپنے آپ کو مردوں کی مثال بنا دیتی ہیں۔‘‘
پس وہ مرد جو دوسرے مرد کو اپنا خاوند بناتا ہے، اس ظاہری حالت میں اس کو بیوی کی جگہ پر ہوتا ہے، اور وہ عورت جو اپنے آپ کو مردوں کے مشابہ بناتی ہے، سحاقہ عورت کہلاتی ہے، جو مرد کی مثال پر دوسری عورتوں سے ہمبستر ہو کر جنسی لذت لیتی ہے، یا دوسری عورتوں کو اپنے لئے مردوں کی جگہ پر رکھ لیتی ہے، اور ان دونوں گروہ کو خدا کے حکم کے مطابق سنگسار کر دینا چاہئے، کیونکہ
۳۶۸
امیر المومنین علی علیہ السلام نے یہی فیصلہ فرمایا ہے، اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے قومِ لوط کے بارے میں فرمایا، کہ ان کے مرد خواہشاتِ نفسانی کی خاطر مردوں ہی کے پاس جایا کرتے تھے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
’’ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ (۷: ۸۱)
یعنی خدا فرماتا ہے کہ لوط نے اپنی قوم کو ملامت کیا اور ان سے لاتعلقی ظاہر کی اور کہا ’’تم مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو، عورتوں کو چھوڑ کر۔‘‘
پھر فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
’’جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ مَنْضُودٍ (۱۱: ۸۲)
ہم نے زیرو بالا کر دیا اس شہر کو جس میں بے حیائی کے کام کرتے تھے، اور ان پر ہم نے دوزخ سے مسلسل پتھر برسائے۔‘‘
پس یہ آیت خدا تعالیٰ سے اماموں کے لئے تعلیم کی حیثیت رکھتی تھی، کہ جب امت کے لوگ لونڈے بازی کریں، تو ان پر پتھر برسائیں جائیں، جس طرح قومِ لوط پر سنگ باری ہوئی تھی، اور قومِ لوط کے مرد عورتیں اس عذاب میں یکسان تھے، اور یہ بات کہ ان دونوں کو سنگسار کرنا واجب ہوا، جن سے لواطت ( یعنی لونڈے بازی) وقوع میں آئی ہو، اس لئے ایسا ہے کہ جس نے لواطت کی، اس نے ظلم کیا کہ اس نے ایک مرد کو عورت کی جگہ پر رکھا، اور خدا تعالیٰ نے ظالموں پر لعنت کی ہے، چنانچہ فرمایا: ۔
’’ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیَ الظَالِمِیْنَ (۱۱: ۱۸)
ظالموں پر خدا کی لعنت ہے۔‘‘
اور جس شخص کے ساتھ اغلام کیا گیا، وہ مرد تھا اور اس نے اپنے آپ کو عورت کے مقام پر رکھا، تو اس پر پیغمبر کی لعنت ہے، جس طرح ہم نے اس سے پیشتر اس گفتار کے شروع میں ذکر کیا، اور جو شخص رسول علیہ السلام کی لعنت
۳۶۹
میں ہو، وہ خدا تعالیٰ کی لعنت میں ہوتا ہے، جب ان دونوں آدمیوں پر، جنہوں نے لواطت کی تھی، عذاب لازم ہوا، تو ہم سحاقہ عورتوں (کے بیان) کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ ان کو بھی یہی عذاب لازم آتا ہے، اس لئے کہ فرمایا کہ جو مرد عورت بن جانا اختیار کرے، اور جو عورت خود مرد بن جانا پسند کرے، تو ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
اس موضوع کی تاویل یہ ہے کہ وہ مرد جو اپنے آپ کو عورت کے مشابہہ کر دیتا ہے، تاکہ لوگ اس سے اس طرح نزدیکی کریں جس طرح عورت سے نزدیکی کرتے ہیں، حالانکہ وہ خود مرد ہے، اور اس منزلت پر ہے کہ خود عورتوں سے نزدیکی کر سکتا ہے، یہ واقعہ ایک ایسے داعی اور ماذون کی مثال ہے، جو مرد کی منزلت پر ہیں، جو دعوتِ حق کے لئے مامور ہوئے ہیں، مگر دنیاوی طمع کی وجہ سے اہلِ ظاہر کی طرف رغبت کرتے ہیں، اور اپنے آپ کو ان کے ماتحت کر دیتے ہیں، اور ان کی بات قبول کر لیتے ہیں، جس سے کوئی علمی صورت حاصل نہیں آتی ہے، اور وہ بات ایک ایسے نطفے کی طرح ہے، جو ایک مرد سے دوسرے مرد کے اندر چلا جاتا ہے، اور اس سے کوئی جسمانی اولاد پیدا نہیں ہوتی، تو یہ باطنی لواطت ہے، اور یہ دونوں آدمی خدا کی لعنت میں ہیں، اس لئے کہ لعنت کے معنی ہیں دوری، اور اس ظاہری شخص کے لئے امامِ زمان سے، جو رسول علیہ السلام کے فرمان کے بموجب روئے زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں، خود دوری ہی ہے، اور یہ حد (یعنی داعی یا ماذون) جو حقیقت سے روگردان ہو جاتا ہے، اور دنیاوی طمع کی وجہ سے ظاہر کی طرف رغبت کرتا ہے، وہ امامِ زمان سے دور رہ جاتا ہے، اور روحانی ہلاکت، جو وہی خود روحانی سنگساری ہے، دونوں پر واقع ہو جاتی ہے۔
جو عورت اپنے آپ کو مردوں کے مشابہہ کر دیتی ہے، وہ اس شخص کی مثال ہے، جس نے اپنے آپ کو ناطق کا قائم مقام بنایا، تاکہ اس کی اطاعت کی جائے، اس لئے کہ (اس شخص کے بقول) ناطق نے اس کو قائم کر دیا ہے، اور اس نے کہا کہ
۳۷۰
میں تم کو دعوت کروں گا، اور وہ روحانی حالت میں عورت کی حیثیت سے تھا، مگر اس نے اپنے آپ کو مردوں کے مشابہہ کر دیا، اور اس نے اپنے آپ پر اور امت پر ظلم کیا، پھر خدا اور رسولؐ کی لعنت اس پر پہنچتی، اور اس کے پیچھے چلنے والوں کے لئے بھی وہی ہے جو قائم کئے جاتے ہیں، کیونکہ وہ سب روحانی عورتیں ہیں، اس لئے کہ جب آپ ان سے کتاب کے متشابہ کے معنی پوچھیں، تو وہ نہیں جانتے، اور شریعت کی تاویل جانتے ہیں، یہ لوگ امت میں سب سے عاجز ہیں، جس طرح عورتیں مردوں سے عاجز ہوتی ہیں، اور یہ لوگ حقیقی مردوں کے مقام پر کھڑے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تم لوگ عورتوں کی طرح قبولنے والے ہو، اور ہم مردوں کی طرح فائدہ بخشنے والے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک سحاقہ ہے اور جنہوں نے ان کی بات قبول کر لی، تو وہ کچھ ایسی عورتیں ہیں، جنہوں نے ایک سحاقہ کی حکومت قبول کر لی ہے، اس لئے کہ لوگوں کو سیکھنے کے بغیر چارہ نہیں، جس طرح عورتوں کو مردوں کے بغیر چارہ نہیں، لیکن عورتوں کو مردوں کی تابعدار رہنا چاہئے، تاکہ خدا کے فرمان اور رسولؐ کی سنت کے مطابق عمل ہو، اور جو عورت دوسری عورت کی تابعدار ہو، وہ اس معنی کے مطابق جو ہم نے ذکرکر دیا ، خدا کی لعنت میں گرفتار ہو گی اور روح القدس کے فیض اس سے منقطع ہو جانے کی وجہ سے روحانی ہلاکت، رسوائی، اور خرابی اس میں داخل ہوئی ہوگی، اللہ تعالیٰ مومنوں کی حقیقت پر قائم رکھے۔
آمین یا رب العالمین
۳۷۱
کلام۔ ۴۲
غلطی سے قتل اور (قاتل کے اقربأ کے) عاقل اور عاقلہ پر خون بہا (یعنی خون کے معاوضہ) کے بارے میں
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق اور صاحبِّ شریعت علیہ السلام کے نور (یعنی امامِ زمان) کے ذریعے سے بیان کریں گے، کہ غلطی سے قتل کرنا یہ ہے، کہ ایک شکاری آدمی کسی شکار پر تیر مارنا چاہتا ہے، اور اس کا تیر غلطی سے کسی آدمی کو اس طرح لگ جاتا ہے کہ وہ مرجاتا ہے، اور (اس نوعیت کے قتل کے متعلق) خدا تعالیٰ نے فرمایا، کہ مقتول کا خون بہا مقتول کے وارثوں کو ادا کر دیا جائے، چنانچہ ارشاد ہے، قولہ تعالیٰ:۔
’’وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ (۰۴: ۹۲)
اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کر دے، تو اس پر ایک مومن غلام یا لونڈی کا آزاد کرنا ہے، اور خون بہا ہے، جو اس کے اقرباء کو حوالے کر دیا جائے۔‘‘
اور یہ سب کچھ فرامینِ مجمل ( یعنی مختصر فرامین) میں سے ہے، اور اس کا مفصل رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت سے وابستہ ہے، اس لئے کہ خدائے تعالیٰ کی کتاب میں یہ ظاہر نہیں، کہ مومن مرد کا خون بہا کتنا ہے، اور اگر اس قاتل کا جس نے غلطی سے قتل کیا ہے، کچھ بھی مال نہ ہو، تو یہ خون بہا کہاں سے دینا چاہئے،
۳۷۲
ظاہر میں یہ ہے ، کہ مومن مرد کا خون بہا ایک ہزار مثقال کھرا سونا مقرر ہے، چنانچہ یہ ہزار مثقال (سونا قیمت میں) بارہ ہزار درم کی ہم وزن خالص چاندی کے برابر ہے، اور عورت کا خون بہا مرد کے خون بہا کا نصف ہے، جس طرح (میراث کی تقسیم میں) عورت کو مرد کے حصے کا نصف ملتا ہے، اور جب کوئی شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کرتا ہے، تو اس مقتول کا خون بہا قاتل کے عاقل اور عاقلہ کے ذمے میں ہے، جو مقتول کے وارث ان سے لیا کرتے ہیں، اور قاتل کے عاقل و عاقلہ اس کے سگے بھائی، چچیرے بھائی، اور اقرباء ہوتے ہیں، جس شخص نے غلطی سے قتل کیا ہے، اس سے کچھ نہیں لیتے، بلکہ وہ خون بہا اس قاتل کے چچیرے بھائیوں سے (تین سال کے اندر) تین قسطوں میں لیا کرتے ہیں، یک مشت نہیں لیتے، اور مقتول کے وارثوں کو ادا کر دیتے ہیں، تاکہ خدائے تعالیٰ کے فرمان اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی سنت پر عمل ہو۔
اگر رسول علیہ السّلام کے حکم میں ایک عظیم حکمت پوشیدہ نہ ہوتی تو یہ لازم نہیں آتا کہ جس شخص نے یہ کام کیا ہے، اس کو چھوڑ دیا جائے، اور اس کے بے گناہ قرابت داروں کو پکڑا جائے، اور ان سے خون بہا لیا جائے اور جو شخص اس امر کی تاویل نہ سمجھے، تو اس کے لئے یہ فیصلہ ناممکن نظر آئےگا، لیکن شریعت کے موضوع ( جس کی بنیاد جسمانی فانی چیزوں پر ہے) کی مراد یہ ہے، کہ اس کے معنی روحانی غیر فانی چیزوں میں پائے جائیں، اور روحانی چیزوں میں وہ فرمان ایسا نظر آئے کہ وہ قاعدۂ عدل کے مطابق ہے، جبکہ وہ فرمان روحانی حالت میں بحقیقت قائدۂ عدل کے مطابق ہے، اس لئے کہ ( روح کے مقابلے میں) جسم (زیادہ) عدل کے لائق نہیں، اور اگر کوئی شخص جسم کے لئے زیادہ عدل ڈھونڈے تو اس نے روح کے لئے محال ڈھونڈا ہوگا، اس لئے کہ اگر کوئی شخص کہے کہ انسان نہیں مرنا چاہئے تو اس نے یہ چاہا ہوگا، کہ بس ہمیشہ اسی طرح روح اپنے مقام سے دور رہے، اور کسی چیز کو اپنی جگہ پر نہ چاہنا اور نہ رکھنا ہی ظلم ہے۔
۳۷۳
پس ہم بطورِ تاویل بیان کریں گے، کہ غلطی سے قتل کرنا باطن میں یہ ہے کہ داعی جو شکاری کی طرح ہے، مستجیب پر کچھ اس طرح بات ڈالتا ہے کہ اس کی وجہ سے اس کا اعتقاد ٹوٹ جاتا ہے جس کی مثال ایک ایسا تیر ہے جو شکار کے لئے مارا جاتا ہے (مگر یہ غلطی سے کسی شخص کو لگ کر مار دیتا ہے) پس اس بات میں معہود مستجیب جو مومن ہے حیران رہ جاتا ہے، اور اس کا نفس سچے راستے سے گر جاتا ہے، اور غلطی سے اس کو قتل کرنا یہی ہے، اس لئے کہ یہ بات داعی کی طرف سے اس مستجیب کے لئے مصیبت ہوئی، مگر اب برداشت ( کا راستہ صرف) یہی ہے، کہ یہ مستجیب اپنی روحانی زندگی اس داعی سے دوبارہ حاصل نہیں کر سکتا، اس لئے کہ جب یہ اس کی اس بات کے سننے سے حق سے گر گیا، تو یہ مزید اس سے کیا سنے گا، اور اس غلطی والا داعی کا چچیرا بھائی دوسرے جزیرے کے حجت کا داعی ہے، کیونکہ بارہ جزیروں کے صاحبان (یعنی بارہ حجت) ایک دوسرے کے بھائی ہیں، جن کے والدین امامِ زمان اور حجتِ اعظم ہیں، پس صاحبانِ جزائر کے تمام داعی روحانی نسبت میں بحقیقت ایک دوسرے کے چچیرے بھائی ہی، اور اسی طرح اسی نسبت سے اس داعی کے ماذون دوسرے داعی کے ماذونوں کے چچیرے پوتے ہوئے ہیں، اس لئے کہ صاحبانِ جزائر کے داعی ایک دوسرے کے چچیرے بھائی ہیں۔
پس چاہئے کہ دوسرے جزیرے کے حجت کا داعی اس روحانی مقتول کو تعلیم دے، اور اس حال کی حقیقت اس پر ظاہر کر دے، کہ وہ اس داعی سے جدا ہو چکا ہے، تاکہ اس کا دل اس داعی پر ٹھہرے، اور دوبارہ اس سے عہد لیا جاسکے، اور پھر سے طریقِ حق قبول کرے، اور یہ اس کا زندہ ہو جانا ہے، جس طرح جسمانی مقتول کے حق میں خون بہا ادا کر دینا، مقتول کو زندہ کر دینے کے برابر ہے۔
اس امر کی تاویل، کہ وہ خون بہا اس غلطی سے قتل کرنے والے کے چچیرے بھائیوں سے تین قسطوں اور تین حصوں میں لیا جاتا ہے، یہ ہے کہ اس زندہ
۳۷۴
کرنے والے داعی کو چاہئے کہ اس غلطی سے قتل کئے ہوئے مومن مستجیب کو یہ ظاہر کرے کہ ناطق کی مرتبت اور کتاب و شریعت کی امثال و رموز کس طریقے پر ہیں، پھر اس کو تاویلِ مجرّد ( یعنی خالص روحانی تاویل) میں اساس کی مرتبت دکھائے کہ کس طرح ہے، اور پھر اس کو امام کی مرتبت دکھائے، جو تیسرا صاحبِّ تائید اور ان تین مرتبتوں کا جامع ہے، تاکہ اس مرے ہوئے کو ان تین مرتبتوں سے (روح) حقیقت حاصل آئے، مثال کے طور پر ناطق کی بات خالص جسم کی طرح ہے، اساس کی بات خالص جان کی طرح ہے، اور امام جو ان دونوں مرتبوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیتا ہے، وہ جسم کا روح کے ساتھ مل جانے کی مثال ہے، کیونکہ ان دونوں کےمجموعے کا نام انسان ہے (اس داعی کی یہ تعلیم اس لئے ضروری ہے) تاکہ وہ انسان ان تین مراتب کی شناخت کے ذریعہ اس ہمیشہ رہنے والی روح کی طرف واپس جائیں، اور اس تاویل کی مثال وہ تین قسطیں ہیں، جن میں اس غلط قتل کے خون بہا کا لینا مناسب ہوتا ہے، نہ کہ یک مشت طریقے پر، اور یہ بیان سورج سے بھی زیادہ روشن ہے، اس شخص کے لئے جس کے دل کی آنکھ روشن ہے۔
اس امر کی تاویل کہ مرد کے خون بہا کے لئے سونے کی ہزار اشرفیان یا چاندی کے بارہ ہزار درم مقرر ہیں (جس میں اشرفی کا وزن ساڑھے چار ماشہ اور درم کا وزن ساڑھے تین ماشہ ہے) یہ ہے ، کہ ہزار امام کا درجہ ہے، جو حساب کی انتہا ہے، جس طرح امام امت کی انتہا ہے، اور سونا ناطق کی مرتبت کی مثال ہے، جو اپنے زمانے میں رکھتا ہے ( اور امام کی مرتبت کی مثال ہر زمانے میں) اور ایک مثقال سونے کی قیمت بارہ درم کی ہم وزن صاف چاندی ہے، اور خالص چاندی اپنے زمانے میں اساس کی مرتبت کی مثال ہے، اور ہر زمانے میں حجت کی مرتبت کی مثال ہے، اور چاندی کی یہ مقدار اس بات کی علامت ہے، کہ بارہ کا عدد (بارہ) حجتوں کے باطن میں امام ہونے کی تاویل ہے،
۳۷۵
چنانچہ جسمانی مقتول کا عوض یا تو ایک ہزار مثقال سونا ہے، یا بارہ ہزار درم کی ہم وزن خالص چاندی ہے، یہی ہے (غلطی سے قتل اور اس کے خون بہا کا) بیان جو ہم نے کر دیا۔
والسلام
۳۷۶
کلام ۔ ۴۳
گناہانِ کبیرہ کی شرح کہ وہ کتنے ہیں، اور ان کی تأویل کے بارے میں
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا گیا، کہ گناہوں میں کون کون سے گناہ بڑے ہیں؟ فرمایا: یہ ہے کہ تو خدا کے ساتھ شریک ٹھہرائے، یہ ہے کہ، تو اپنی اولاد کو قتل کر دے، اس خوف سے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے پینے میں شامل ہے، اور یہ ہے، کہ تو اپنے پڑوسی کی عورت سے زنا کرے، جب رسولؐ نے یہ ارشاد فرمایا، تو یہ آیت پڑھی ، قولہ تعالیٰ: ۔
’’وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ وَلاَ يَزْنُونَ (۲۵: ۶۸)
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کےساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے، اور جس جان ( کے قتل کرنے) کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے، اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں مگر حق پر اور وہ زنا نہیں کرتے۔‘‘ فرمایا کہ یہ تین گناہانِ کبیرہ میں سے ہیں:۔ خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی تاویل ہے، کسی باطل شخص کو امامِ حق کی جگہ پر قرار دینا۔
۳۷۷
اس بات کی تاویل کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو (شرکت میں ) کھانا کھانے کے ڈر سے قتل کرتا ہے، وہ ایک ایسا داعی ہے، جو مستجیب کو اس حسد سے علم نہیں سکھاتا ہے، کہ یہ میرے درجے میں پہنچ جائیگا اور میری جگہ لے گا۔
جو شخص اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرتا ہے، وہ ایک ایسے داعی کی مثال ہے، جو دوسرے داعی کے مستجیب کو تعلیم دیتا ہے۔
امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا: کہ گناہانِ کبیرہ سات ہیں، پہلا خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، دوسرا اس جان کو قتل کرنا، جس کو قتل کرنا اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے۔
تیسرا ایک پرہیزگار اور خاوند والی عورت پر زنا کا الزام لگانا، چوتھا یتیم کے مال کو کھا لینا، پانچواں سود کھانا، اور وہ یہ ہے، کہ ایک شخص کسی کو گندم کا کوئی پیمانہ (بطورِ قرض) دیتا ہے، پھر ( بوقتِ ادائیگی) اس پیمانہ سے زیادہ لیتا ہے، چھٹا کافروں کی لڑائی سے بھاگ جانا، ساتواں اعرابی کا صحرا نشین ہو جانا، اس واقعہ کے بعد کہ اس نے آنحضرتؐ کے ساتھ ہجرت کی تھی، اور جو شخص گناہانِ کبیرہ سے کنارہ کش ہو جائے، تو خدا تعالیٰ اس کی دوسری برائیوں کے لئے معاف فرمائے گا، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
’’ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلاً كَرِيمًا (۰۴: ۳۱)
جن گناہوں سے تم کو منع کیا جاتا ہے، ان میں جو بھاری بھاری گناہ ہیں، اگر تم ان سے بچتے رہو، تو ہم خفیف برائیاں تم سے دور فرمائیں گے، اور ہم تم کو ایک پُرمایہ جگہ میں داخل کر دیں گے۔‘‘
اس آیت کی تاویل یہ ہے، جو تمہیں معلوم ہونا چاہئے، کہ اس آیت کے بارہ کلمے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہیں، کہ مومنوں کی نجات بارہ حجتوں کے ذریعہ ہے، اور انہی کے ذریعہ تم گناہانِ کبیرہ کو ( جو انسان کو ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں)
۳۷۸
پہچان سکتے ہو، تاکہ تم ان سے دور رہ سکو۔
خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی تاویل یہ ہے، کہ امامِ زمان ( جو خدا تعالیٰ کے امر کے بموجب قائم کر دیا گیا ہے ) کی جگہ اگر تم کسی اور کو امام مانتے ہو، اور حق کو تم اسی سے منسوب کر دیتے ہو، اور یہ کہ اگر تم زمانے کے مالک کو اس کے مخالفین سے بے نظیر نہ سمجھو، اور تمہیں جاننا چاہئے، کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کے لئے کوئی معافی نہیں، اور (یہی ہے خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی تأویل، ورنہ دوسری صورت میں) کسی شخص نے خدا تعالیٰ کے ساتھ ہرگز کوئی شریک نہیں ٹھہرایا ہے، اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے مخلص بندوں کے لئے ایک اشارہ ہے، تاکہ وہ اس شرک سے ڈر رکھا کریں۔
دوسرا (گناہِ کبیرہ ہے) اس جان کو قتل کرنا، جس کو قتل کرنا حق تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، مگر حق پر، اس مطلب کی تاویل یہ ہے، کہ کوئی شخص کینہ اور حسد سے کسی مومن پر کسر کرتا ہے، (یعنی کوئی ایسا مسٔلہ پوچھتا ہے) کہ جس سے اس کا اعتقاد ٹوٹ جاتا ہے، یہ بھی گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔
پرہیزگار عورت پر زنا کا الزام لگانے کی تاویل یہ ہے، کہ کوئی ایسا رستگار داعی ہوتا ہے، جو اپنے صاحبِّ جزیرہ کی بہتری میں ہے، اور اس داعی کے کچھ مستجیب ہیں، اور وہ داعی خود حجت سے علم حاصل کر کے اپنے معہودوں ( یعنی اپنے مستجیبوں) کو سکھایا کرتا ہے، مگر یہ مستجیب اپنے اس داعی کی غیبت کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ یہ تو اہلِ ظاہر ہی سے تعلیم لیا کرتا ہے اور جن سے عہد نہیں لیا گیا ہے، ان کو تعلیم دیتا ہے، پس ایسا الزام بھی بڑے گناہوں میں سے ہے۔
یتیم کے مال میں سے کھانے کی تاویل یہ ہے، کہ کوئی ایسا شخص ہے، جو تعلیم کے لئے داعی کے پاس جانے سے ناموس اور تکبر کرتا ہے، اور کسی مستجیب سے پوچھا کرتا ہے، کہ داعی نے کیا کہا، اور یہ (مستجیب یا) ماذون اسی طرح اس داعی سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے اس شخص کو بتا دیتا ہے، کہ داعی نے یہ کہا اور وہ کہا،
۳۷۹
اور اسی طرح یہ شخص کہتا ہے، کہ تم مسٔلہ کو داعی سے پوچھ کر مجھے جواب دیا کرو، کہ اس نے کیا کہا، تاکہ یہ شخص اسی طرح مستجیب کو علمی بھکاری بنادے، اس لئے کہ ( یہ شخص گمان کرتا ہے کہ) اگر داعی کو یہ حال معلوم ہو جائے، تو وہ اپنا یہ علمی فائدہ اس سے روک لے گا۔
سود کھانے کی تاویل یہ ہے، کہ جب مستجیب ماذون سے ایک ایسا مسٔلہ پوچھتا ہے، جس میں بہت سے معنی ہیں، اور یہ ماذون اس میں سے کچھ تو بتا دیتا ہے، اور کچھ روکے رکھتا ہے، اور دریغ کرتا ہے، کہ مستجیب علم کے حقدار بن جائے، اس مثال کے یہ معنی ہوئے، کہ اس نے اس کو تھوڑا دے کر اپنے لئے زیادہ لیا، سود کی حقیقت یہی ہے۔
کافروں کی جنگ سے بھاگ جانے کی تاویل یہ ہے کہ حدودِ دین میں سے کوئی حد اتفاقاً ظاہریوں سے مناظرہ کرتا ہے، اور ہمت ہار کر حق بیان کرنے سے خاموش ہو جاتا ہے، جس سے ظاہری لوگ دلیر ہو جاتے ہیں، بلکہ اس پر واجب ہے کہ محکم دلیلوں سے ان کو عاجز کر کے ہرادے، تاکہ وہ فتح یاب ہو سکے۔
رسول علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کرنے کے بعد اعرابی کے صحرا نشین ہو جانے کی تاویل یہ ہے کہ جو کوئی مستجیب ظاہریوں سے جدا ہوتا ہے، اور عہد کر کے خاندانِ حق میں داخل ہو جاتا ہے، اور پھر اس سے سستی کرتے ہوئے روگردان ہو جاتا ہے، اور ظاہریوں کی طرف واپس جاتا ہے، اور خدا کے نام کو ترک کر دیتا ہے، اور یہ خدا کا نام بھی حدودِ دین میں سے ایک حد ہے، اور یہ سب بڑے گناہوں میں سے ہیں، نیز رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:۔
’’ مِنَ الْکَبَائِرِ اَلْیَاسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ وَالْاَمْنُ مِنْ مَکْرِاللہ۔
خدا کی رحمت سے ناامید ہو جانا، اور خدا کے مکر سے بے خوف رہنا گناہانِ کبیرہ میں سے ہے۔‘‘
۳۸۰
خدا کی رحمت سے ناامید ہو جانے کی تاویل یہ ہے ، کہ کوئی شخص شریعت میں سست اور نادان ہو، اور کہتا ہو کہ دنیا میں سب لوگ حیران ہیں، اور حق خود ہے ہی نہیں، اور تمام ادیان بنیاد ہی سے مختلف اور تباہ ہوئے ہیں، پس ایسے شخص نے یہ فیصلہ کیا ہوگا، کہ خدا اور رسولؐ نے لوگوں کو ضائع کر دیا ہے۔
خدا کے مکر سے بے خوف رہنے کی تاویل یہ ہے، کہ کوئی شخص کہتا ہو، کہ نہ ثواب ہے، اور نہ عذاب، اور اگر ثواب و عذاب ہوتا تووہ اچھے اور برے کام کرنے والے سب لوگ اس کو پالیتے، اور اگر خدا قادر ہوتا تو ان کو عذاب یا ثواب دیتا، یا کہتا ہو، کہ اگر امامِ زمان برحق ہوتا تو علی الاعلان اپنا حق طلب کرلیتا۔
نیز کہتے ہیں ، کہ جھوٹی گواہی بھی گناہانِ کبیرہ میں سے ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ کوئی شخص امامِ برحق کے مخالف (یعنی امامِ باطل) کے بارے میں کہتا ہو، کہ امامِ برحق تو یہی ہے۔
نیز کہتے ہیں، کہ والدین کو آزار کرنا بھی گناہانِ کبیرہ میں سے ہے، جس کی تاویل یہ ہے، کہ کوئی مستجیب اپنے داعی اور ماذون کے بارے میں زبان درازی کرتا ہے، اور ان کو آزار کرتا ہے۔
نیز کہتے ہیں کہ جھوٹی قسم کھانا بھی گناہِ کبیرہ ہے، اور اس کا ظاہر اس طرح ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے مال کو روک کر قسم کھاتا ہے کہ مجھ پر اس شخص کی کوئی چیز نہیں، جس کی تاویل یہ ہے، کہ کوئی شخص امامِ برحق کا عہد لیتا ہے، اور علم حاصل کرتا ہے، پھر اس کے بعد اس سے منکر ہو جاتا ہے۔
پس جو شخص مذکورہ بڑے گناہوں سے دور رہے تو اللہ تعالیٰ اسے امام کی دعوت کی طرف ہدایت دیتا ہے، جو ایک پُرمایہ مقام ہے، اور اس پُرمایہ مقام میں پہنچنے کی وجہ سے اس کی جگہ دائمی بہشت میں ہے، اور حقیقی مومن وہ ہے، جو مذکورہ تمام ظاہری و باطنی گناہوں سے دور رہتا ہے، تاکہ چھٹکارا پائے۔
والسلام
۳۸۱
کلام ۔ ۴۴
اس امر کے بارے میں بیان اور تاویل کہ حلال جانوروں میں سے جو کچھ حرام ہو جاتا ہے، وہ مردار اور سؤر کے گوشت ہی کی طرح حرام ہے
ہم ولیٔ زمان علیہ السّلام کی مہربانی سے، خاندانِ حق کے تابعین کے لئے بیان کریں گے، کہ خدا کے فرمان کو ظاہر اور باطن (دونوں حالت) قبول کرنا چاہئے، اور اس کے باطن کو جان لینا چاہئے، اور جب تک تم خدا تعالیٰ کے قول کی حقیقت نہ سمجھو، تو حلال کو حرام سے جدا نہیں کر سکو گے، اس کی مثال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ (۰۶: ۱۱۸)
’’ پس اگر تم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو، جس ذبیحہ پر (بوقتِ ذبح) خدا کا نام لیا گیا ہو، اسی کو کھاؤ۔‘‘ اور ہم جانتے ہیں کہ اگر کوئی شخص سور پر سو ۱۰۰ بار اللہ تعالیٰ کا نام پڑھے (اور ذبح کرے) تو بھی وہ حلال نہ ہوگا۔ پس یہ حالت اس بات کی دلیل ہوئی، کہ سؤر نے خدا کے نام کو قبول نہیں کیا ہے، اسی لئے
۳۸۲
اس کا گوشت حلال نہیں ہوتا ہے، اگر ہم ظاہری طور پر دیکھیں، تو گوسفند اور سؤر، جبکہ تم ان کو ذبح کرتے وقت خدا کا نام لیا کرو، ہاتھ پاؤں مارنے، خون نکال دینے، ساکن ہوجانے اور لمبے پڑجانے میں یکسان ہوں گے، پس درست ہوا کہ سؤر باطنی طور پر خدا کے نام کو قبول نہیں کرتا ہے، یہی سبب ہے کہ اس کا یہ ظاہر حرام ہوا ہے، اور خدا تعالیٰ نے سؤر کے گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس کا گوشت کھانا حلال نہیں، اور گوسفند کے گوشت حلال ہونے میں مومنوں کو کوئی شک ہی نہیں، لیکن سؤر کے گوشت اور گوسفند کے گوشت کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا، جبکہ گوسفند (ذبح کے بغیر) اس طرح مرجائے، جس کا ہم ذکر کرنے والے ہیں، دران حال اس کا گوشت سؤر کے گوشت ہی کی طرح حرام ہو جاتا ہے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ:۔
’’حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ (۰۵: ۰۳)
حرام کیا گیا تم پر مرا ہوا جانور، اور خون اور سؤر کا گوشت، اور جس (جانور) پر ذبح کے وقت) خدا کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے، اور گردن مروڑا ہوا، اور چوٹ کھا کر مرا ہوا، اور جو گر کر مرجائے، اور جو سینگ سے مار ڈالا گیا ہو، اور جس کو درندے نے پھاڑ کھایا ہو، مگر جسے (تم مرنے کے قبل) ذبح کرلو، اور جو (جانور) بتوں ( کے تھان) پر (چڑھا کر) ذبح کیا جائے، اور جسے تم (پالنے) کے تیروں سے باہم حصہ بانٹو، یہ سب نافرمانی ہے۔‘‘
اور یہ پانسا عرب کے لوگوں میں ایسا تھا، کہ ان کے پاس ایک تراشی ہوئی چار پہلو لکڑی ہوتی تھی، اس کے دو پہلوؤں پر لکھا ہوا ہوتا تھا، کہ خدا نے
۳۸۳
یہ فرمایا ہے، اور اس سے قرعہ اندازی کا کام لیتے تھے، اور ان دو پہلوؤں سے جو بات ظاہر ہو جائے اسی پر عمل کرتے تھے۔
پس خدائے تعالیٰ نے ان تمام چیزوں سے منع فرمایا، اور ان تمام چیزوں کو مردار اور سؤر کے گوشت کی برابر قرار دے دیا، اور فرمایا کہ یہ سب نافرمانی ہے، اور یہ گیارہ قسم کی چیزیں سب حرام ہیں، اور ان کا بارہواں حلال ہے، جبکہ تم اس کے ذبح کے وقت خدا کا نام لیتے ہو، اور یہی حلال دلالت کرتا ہے، بارہ اشخاص میں سے ایک شخص کی حقداری پر (یعنی بارہ حجتوں میں سے صرف ایک حجت ہی درجۂ امامت پر فائز ہو سکتا ہے) کہ ان گیارہ اشخاص کو اس ایک شخص کی فرمانبرداری کرنی چاہئے اور جو شخص اس کی فرمانبرداری نہ کرے، وہ مردار کی طرح ہو جاتا ہے، اور ناپسندیدہ ہو جاتا ہے، اور اس کی طرف (مومن کی) رغبت ہو نہیں سکتی، جس طرح مردار کو نہیں کھانا چاہئے، اور اس (بیان کی تاویل میں) وہی بارہ حدود ہیں، جو یعقوب پیغمبرؑ کے زمانے میں تھے، اور یوسف علیہ السلام اس زمانے میں (ان بارہ میں سے) ایک تھا، جس کو ان گیارہ اشخاص نے سجدہ کیا، چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔
إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ (۱۲: ۰۴)
اب ہم ان گیارہ چیزوں کی تاویل بتائیں گے، جنہیں نہیں کھانی چاہئیں، تاکہ مومن کی بصیرت میں اضافہ ہو جائے ( وہ یہ ہے کہ) سب سے پہلے خدائے تعالیٰ نے مردار کا ذکر فرمایا، جس سے اس کی مراد وہ شخص ہے، جس نے اپنے ناطق کے دور میں سب سے پہلے نافرمانی کی، اور اس کی اطاعت سے سرکشی کی، جس کی وجہ سے اس کو روح القدس سے کوئی حصہ نہیں ملا، اور وہ مردار ہو گیا، پس بموجبِ امرِ الٰہی اس کے ساتھ جانا حرام ہوا، جس طرح مردار کھانا حرام ہے۔
پھر خون کے بارے میں فرمایا، کہ حرام ہے، اور خون یہ ہے کہ جب تم گوسفند اور دوسرے حلال جانوروں کے ذبح کے وقت خدا کا نام لیتے ہو، اور
۳۸۴
یاد کرتے ہو، اس میں جب خون ان سے نکل جاتا ہے، تو وہ حلال ہو جاتے ہیں، اور اگر وہ اس طریقے کے بغیر مارے جائیں، تو حرام ہیں، اور یہ (خون کھانا) اس شخص سے جا ملنے کی مثال ہے، جو بحقیقت حلال کرنے والے یعنی امامِ برحق سے جدا ہوچکا ہے، پس ایسے شخص کے ساتھ مل جانا حرام ہے۔
تیسرا سؤر کے گوشت کے بارے میں فرمایا، اور سؤر اس شخص کی مثال ہے جو دنیاوی سرداری طلب کرنے کی طمع سے دعوتِ حق کرتا ہے، اور وہ دین کو بے نظام کر دیتا ہے، چنانچہ سؤر طمع سے لوگوں کی کھیتی باڑی کو جن میں لوگوں کی جان کی زندگی ہے، خراب کر ڈالتا ہے، ظاہری رزق کی کھیتی باڑی خراب ہونے میں اجسام کی ہلاکت ہے، اور دعوت خراب ہونے میں جو باطنی رزق کی کھیتی باڑی ہے، روحوں کی ہلاکت ہے۔
چوتھا اس جانور کے بارے میں فرمایا جو خدا کے نام کے بغیر ذبح کیا جاتا ہے، اور یہ جانور اس شخص کی مثال ہے جو امامِ برحق کے بغیر دعوت کرتا ہے، جبکہ امامِ برحق ہی بحقیقت خدا کا نام ہے۔
پانچواں گردن مروڑے ہوئے کے متعلق ارشاد فرمایا، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جس نے خدا کا عہد لیا تھا، مگر اس نے اس کی حفاظت نہ کی، اور اس کا روحانی سانس خدا کے عہد میں ٹھیک طرح سے نہیں چلا، یہاں تک کہ وہ روحانی ہلاکت کو پہنچا۔
چھٹا لاٹھی سے مرے ہوئے کے باب میں فرمایا، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جس پر کسی نہ کسی ظاہری پہلو سے کسر کی گئی ہو ( یعنی اس کا اعتقاد توڑ دیا گیا ہو ) جس سے وہ حیرت زدہ ہو کر دعوت کی بات سن نہیں سکتا ہو۔
ساتواں اس جانور کے بارے میں فرمایا، جو کسی اونچی جگہ سے گر کر مر جاتا ہے، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جو کسی مرتبے میں ہو، اور اس سے کوئی گناہ واقع ہو کر اس مرتبے سے گر جائے، تو اس سے دینی تعلیم نہیں لینی چاہئے۔
۳۸۵
آٹھواں اس جانور کے بارے میں فرمایا جو دوسرے جانور نے مار ڈالا ہو، اور یہ ان دو آدمیوں کی مثال ہے جو آپس میں دین کے متعلق جھگڑتے ہیں، اور اس جھگڑے میں حیران رہ کر فرمان سے گرجاتے ہیں، پس ان دونوں سے تعلیم نہیں لینی چاہئے۔
نواں اس جانور کے متعلق فرمایا ہے، جس میں سے کسی درندے نے کھایا ہو، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جس کو دہریوں یا فلسفیوں یا سائنس دانوں نے (دینی نظریات میں) اپنی طرف راغب کردیا ہو، اور علم کی باریکیوں میں اس کی نظر پڑی ہو، مگر تاریکی کے راستے سے، نہ کہ دعوتِ حق (یعنی روحانی معجزانہ دعوت ) کے طریقے سے، پس اس شخص سے دینی علم حاصل کرنا مناسب نہیں، مگر واقعہ کے بعد جبکہ وہ دعوت میں مل جائے، اور صاحب العصر کا عہد اس سے لیا جائے، جس طرح درندوں کے غول سے اگر (کوئی حلال جانور) زندہ بچ گیا ہو، تاکہ اس پر خدا کا نام لیا جائے، تو اس کو کھانا مناسب ہے، اگرچہ اس کا کوئی حصہ درندوں نے کھا چکا ہے۔
امّا وہ شکاری جو کتوں کو سکھاتا ہے، اور ان کتوں کو کسی نے خدا کا نام لے کر چھوڑا ہو، اگر یہ کتے شکار پکڑیں تو وہ حلال ہے، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جو داعی اور ماذون اس سے عہد لیتے ہیں، کہ یہ روحانی طور پر اس کا شکار کرنا ہے۔
دسواں اس کا ذکر فرمایا، جس کو بتوں کے پاس ذبح کرتے ہیں، اور یہ اس شخص کی مثال ہے، جو اپنے آپ کو امامی گروہ کے ساتھ شمار کرتا ہے، مگر امامِ زمانؑ کے لئے مقر نہیں، اور اس پاک خاندان کے بارے میں طعنہ دیتا ہے، ایسے ( برائے نام) پیرو اگرچہ امامیہ کی طرح ہیں، مگر وہ بحقیقت امامیہ نہیں ہیں، چنانچہ بت انسان کی طرح ہے مگر بحقیقت انسان نہیں۔
گیارہواں اس کا ذکر فرمایا، جو پانسا کے تیروں سے کام لیتے ہیں، جس کی شرح ہم کر چکے ہیں، اس کی تاویل یہ ہے، کہ جو شخص اپنی خواہش ہی کی
۳۸۶
پیروی کرتا ہو، اور اپنے آقا (یعنی امامِ زمان) کی طرف متوجہ نہیں ہوتا، بلکہ کہتا ہے کہ خدا نے یہی چاہا، جس طرح کوئی کہتا ہو کہ فال سے یہی بات نکلی، تو ایسے شخص سے تعلیم نہیں لینی چاہئے، اس کے بعد فرمایا، کہ یہ سب نافرمانی ہے، پس اس بات کی دلیل ہے، کہ جو شخص ان فرامین پر عمل نہ کرے وہ فرمانبردار اور رستگار نہیں، اور حقیقی مومن وہی ہے، جو ان تمام فرامین کے ظاہر اور باطن (دونوں) پر عمل کرے، اور ہر زمانے میں خدا کا مطیع ہو۔
۳۸۷
کلام۔ ۴۵
دجال کے وجود کا اثبات، اس کا فتنہ اور اس واقعہ کی تاویل کے بارے میں
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق و مدد سے بیان کریں گے، کہ دجال کا تذکرہ امت کے درمیان معروف و مشہور ہے، چنانچہ ہر شخص کہتا ہے، کہ دجال کے فتنے سے بچ جانا چاہئے، لیکن سب سے پہلے تو یہ بات لازمی ہے کہ تم کسی چیز کو پہچان لو، تاکہ تم اس سے بچ سکو گے، اور اگر کوئی شخص زہر کو نہیں پہچانتا ہو کہ وہ کیا ہے؟ تو خطرہ ہے کہ وہ نادانستہ طور پر اس میں سے کھالے، اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں، کہ جب ان کی آمیزش غلط طریقے پر ہوئی تو وہ زہر بن جاتی ہیں، چنانچہ گائے کا گھی شہد کے ساتھ بے حد عمدہ اور دلپسند غذا ہے، مگر ان دونوں میں سے جب ایک دوسرے کے ہم وزن کھایا جائے، اس طرح کہ ان دونوں کے وزن میں ذرہ بھر بھی فرق نہ ہو، تو اس وقت اس سے معدے میں اختلال (یعنی سخت ترین قسم کا سرکہ ) پیدا ہوجاتا ہے، اور وہ انسان مر جاتا ہے، پس دانشمند انسان پر اس شخص کا پہچاننا واجب ہے، جس سے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بچنے کے لئے فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا: ۔
’’ اِحْذَ رُوْا فِتْنَۃَ الْاَعْوَر الدَّ جَّال۔‘‘
۳۸۸
’’ پرہیز کرو دجال کے فتنے سے جس کی ایک آنکھ ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے لئے ایک دجال ہے۔
اور جب مومن نے دجال کو پہچان لیا، تو اس پر فریفتہ نہ ہوگا، جس طرح عدلِ ایزدی اور رحمتِ الٰہی کی رو سے یہ مناسب نہیں، کہ خدا تعالیٰ لوگوں کو ایک ایسا رہنما عطا کرے، کہ اس کے ساتھ جو لوگ مل جائیں، تو ان کو چھٹکارا ملے، اور پھر اس کے بعد لوگوں کو بغیر رہنما کے چھوڑ دے، اور ( اگر فی الواقعہ ایسا ہی ہوتا تو) یہ خدا کی طرف سے ظلم ہوتا، مگر ظلم خدائے تعالیٰ سے دور ہے، نیز ( دوسری طرف سے یہ بھی) مناسب نہیں کہ خدائے تعالیٰ ( صرف ایک ہی وقت میں) ایک ایسے فریب دینے والے کو ظاہر کرے، کہ لوگوں کو اس کے مکرو فریب سے ہلاک ہو جانے کا ڈر ہو، اور اس فریب دینے والے کے زمانے میں امن کا کوئی ذریعہ ہی نہ ہو، خدائے تعالیٰ نے قرآن میں ان دونوں معنوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
لاَ تَيْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لاَ يَيْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الكَافِرُونَ (۱۲: ۸۷)
اور خدا کی رحمت سے تم ناامید نہ ہونا، کیونکہ خدا کی رحمت سے سوائے کافر لوگوں کے اور کوئی ناامید نہیں ہوا کرتا۔‘‘
مذکورہ آیت میں لوگوں کے لئے یہ خوشخبری ہے، کہ خدا کے مقرر کردہ رہنما سے زمین ہر گز خالی نہیں، اور دوسری جگہ فرمایا، قولہ تعالیٰ:۔
’’ أَفَأَمِنُوا مَكْرَ اللَّهِ فَلاَ يَأْمَنُ مَكْرَ اللَّهِ إِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُونَ (۰۷: ۹۹)
کیا یہ لوگ خدا کی آزمائش سے بے خوف ہو گئے ہیں، خدا کی آزمائش سے صرف زیان کار لوگ ہی نڈر ہو بیٹھتے ہیں‘‘۔
اس آیت میں ان لوگوں کے لئے عبرت ہے جو گمان کرتے ہیں کہ آج
۳۸۹
دجال نہیں ہے، اور ایک وقت میں ہوگا، پیغمبر علیہ السّلام کی اس حدیث کی تاویل، جو فرمایا، کہ ’’پرہیز کرو اس ایک آنکھ والے دجال سے۔‘‘ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ اور دائیں آنکھ کتاب و شریعت کے باطن کی مثال ہے، بائیں ہاتھ اور بائیں آنکھ کتاب و شریعت کے ظاہر کی مثال ہے، اور ایک آنکھ والا دجال ایک تو وہ ہے، جو لوگوں کو ظاہریت کی طرف دھکیلتا ہے، جو بائیں ہاتھ کی طرف ہے، اور یہ دجال جو دائیں آنکھ سے اندھا ہے، ملعون ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث ہے، کہ فرمایا: ۔
’’اَلْاَ عْوَرُ بِالْیَمِیْنِ مَلْعُوْنٌ بِالْیَقِیْنِ۔‘‘
’’ جو دائیں آنکھ سے اندھا ہے، وہ یقیناً ملعون ہے۔‘‘
اس سے آنجنابؐ کی مراد ایک ایسا ظاہری شخص ہے، جس نے باطن کو باطل قرار دے دیا ہو، اور دوسرا ایک آنکھ والا دجال وہ ہے، جو لوگوں کو باطن کی طرف دعوت کرتا ہے، مگر بتحقیق وہ دیکھتا ہے، کہ (ظاہریت) اس کے بائیں ہاتھ کی طرف موجود ہے، تو وہ گویا بائیں آنکھ سے آندھا ہے، اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حدیث ہے، جو فرمایا:۔
’’ اَلْاَ عْوَرُ بِالشِمَالِ مَلْعُوْنٌ۔‘‘
’’جو بائیں آنکھ سے اندھا ہے، وہ ملعون ہے۔‘‘
اس سے آنحضرتؐ کی مراد ایک ایسا باطنی شخص ہے جو شریعت کی ظاہریت کو باطل قرار دیتا ہو، اور جو فرمایا، کہ ہر گروہ کا ایک دجال ہے، اس سے حضرت رسولؐ کی مراد یہ ہے کہ ظاہری لوگوں کا دجال وہ ہے جو باطل کو باطل ٹھہر اتا ہے، اور باطنی لوگوں کا دجال وہ ہے، جو ظاہر کو باطل قرار دیتا ہے، اور ان دونوں دجالوں کا کوئی دین نہیں، اور ان کے پیرو شریعت سے دور ہیں، اور یہ دونوں دجال اپنے گروہوں کے ساتھ (دوزخ کی) آگ میں ہیں۔
پس جس شخص نے رسول اور خدا کی کتاب پر ایمان لایا، اور اخیر میں حسد،
۳۹۰
دشمنی، اور تکبر سے کام لیا، اور لوگوں کو غلام بنا کر ان پر سرداری کرنا چاہا اور رسولؐ کے فرمان کی پیروی نہ کی، تو وہ دجال ہوگیا، اور جس شخص نے ظاہر کو نہیں اپنایا، اور اس نے چاہا کہ اپنے آپ کو امت کے بے نمازوں، کاہلوں، اور شوقیہ مدبروں میں سے کردے، تو ایسے شخص کے لئے بدبختی ہے ( اس نے گویا یہ) کہا کہ اہلِ ظاہر تو اہلِ باطن ہی کے لئے ہوتے ہیں، اور جب تم باطن جان چکے، تو ظاہر سے بے نیاز ہوئے، پس (ہمارا کہنا ہے، کہ) یہ دونوں گروہ خدا اور رسولؐ کے دشمن ہیں، چنانچہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا:۔
’’كَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا (۰۶: ۱۱۲)
اس طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انسی شیاطین اور جنی شیاطین میں سے ایک ایک دشمن مقرر کر دیا ہے، جو ( دونوں قسم کے شیاطین ) ایک دوسرے کو چکنی چپڑی قابلِ فریب باتیں اشارہ کر لیا کرتے ہیں۔‘‘
ان میں سے انسی شیاطین اہلِ ظاہر میں ہیں، اور جنّی شیاطین اہلِ باطن میں ہیں، جو دونوں (قسم کے شیاطین) جھوٹ اور فریب سے لوگوں کو بے دین کر دیتے ہیں، اور دینِ حق پر وہ شخص ہے جو ظاہر اور باطن دونوں کی حفاظت کرتا ہے، اور ہر دور میں خدا کی اطاعت و عبادت کرتا ہے۔
روایت کی گئی ہے، کہ امیرالمومنین علی علیہ السّلام کو اپنے مخالفین کی بیعت کرنے کی ضرورت پیش آئی، کیونکہ انہوں نے اس سے بیعت چاہا تو آنجنابؑ نے بائیں ہاتھ سے ان کی بیعت کی، اور فرمایا کہ میں اس ہاتھ سے کسی کی بیعت نہیں کروں گا، جس سے میں نے رسولِ خدا کی بیعت کی ہے، اور اس قول کی تاویل یہ تھی کہ، میں باطنی طور پر رسول کی بیعت کر چکا ہوں ، اور جو منزلت رسول علیہ السلام نے مجھے دی ہے، وہ کسی کو نہیں دوں گا، اور مخالفین کی بیعت میں نے بظاہر کر لی ہے، جس کی دلیل بائیں ہاتھ ہے، پس مخلص مومن وہ ہے جو ظاہر
۳۹۱
اور باطن کے دونوں دجالوں کو پہچانتا ہے، دونوں سے پرہیز کرتا ہے، اور ان سے دور رہتا ہے، کیونکہ دونوں ملعون ہیں۔
والسلام
۳۹۲
کلام ۔ ۴۶
نکاح اور سفاح اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ ظاہری نکاح یہ ہے، کہ کوئی عورت کسی مرد کو زوجیت کے طور پر دیتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں، کہ اس نکاح کے بعد وہ عورت اس مرد کے فرمان میں رہتی ہے، اور اس کی فرمانبرداری اپنا فرض سمجھتی ہے، اور اس کی مردانہ خصوصیات کے فوائد و حقائق کو قبولنے والی ہوتی ہے، اور اس عورت کا ایک ولی (یعنی ذمہ دار اور مختار) ہوتا ہے، کہ وہی اسے کسی زوجیت میں دیتا ہے، اور اس موقع پر دو معتبر مرد گواہ ہونے چاہئیں، تاکہ عقد و نکاح درست اور اس مرد کے لئےاس عورت سے نزدیکی جائز ہو، چنانچہ جو نکاح اس شرط کے مطابق نہ ہو، وہ سفاح ( یعنی زنا) کہلاتا ہے، جیسا کہ رسول علیہ السلام نے فرمایا:۔
’’ لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ وَشَا ھِدَی عَدْلٍ۔
نکاح درست نہیں، مگر (عورت کے ) مختار اور عدل کے دوگواہوں کے ذریعہ۔‘‘
چنانچہ خدائے تعالیٰ نے فرمایا:۔
۳۹۳
فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أهْلِهِنَّ (۰۴: ۲۵)
’’ پس تم ان کے مالکوں کی اجازت سے لونڈیوں سے نکاح کرو۔‘‘ اور جس شخص کا کوئی مختار نہ ہو تو سلطان اس کا مختار ہوتا ہے، چنانچہ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔
’’ اَلسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لَا وَلِیَّ لَہٗ۔‘‘
’’جس شخص کا کوئی مختار نہ ہو تو سلطان اس کا مختار ہے۔‘‘
اور عقد و نکاح مہر کے بغیر درست نہیں ہوتا، اور وہ ایک مقرر کردہ ( رقم یا ) مال ہوتا ہے، جو مرد قبول کرتا ہے، کہ (اتنی رقم یا) وہ مال اس عورت کو دے گا، کیونکہ نکاح ظاہر کا بندھن اس (رقم یا ) کم و بیش مال کے بغیر درست نہیں ہوسکتا ، اور جب یہ شرائط بجالائی جائیں تو نکاح درست ہوتا ہے، اور جو اولاد اس مرد اور عورت سے پیدا ہو جائے وہ حلال زادہ ہوتی ہے، اور ماں باپ کی میراث اس فرزند کے لئے حلال ہوتی ہے، اور ایسے فرزند کے پیچھے ظاہری نماز کا پڑھنا درست ہے۔
پس اگر عورت سے مرد کی نزدیکی ان شرائط کے مطابق نہ ہو، تو اس مجامعت کو سفاح (یعنی زنا) کہتے ہیں، اور ان سے جو فرزند پیدا ہو جائے، وہ حرام زادہ ہوتا ہے، اس کو ماں باپ کی میراث نہیں ملتی، وہ والدین سے منسوب نہیں کیا جاتا، اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں، چنانچہ رسول علیہ السّلام کا ارشاد ہے:۔
’’ لَا صَلٰوۃَ خَلْفَ اَوْلاَ دِ الزِنَا۔‘‘
’’ یعنے جو لوگ زنا سے پیدا ہوئے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں۔‘‘
اگر ان شرائط میں سے ہر ایک شرط کے معنی نہ ہوتے تو اس پر عمل کرنا بے فائدہ اور بیہودہ ہو جاتا ہے، اور ان کو ترک کر دینا بہتر ہوتا، اور قرآنِ شریف کی یہ تمام آیتیں اور رسولؐ کی حدیثیں ضائع اور بیہودہ ہو جاتیں۔
۳۹۴
اب ہم ولیِ زمان کی مہربانی سے نکاح اور اس کی شرائط کی تاویل کے بارے میں بات کرتے ہیں، کہ نکاح دو قسم کا ہوتا ہے، جسمانی اور روحانی اور اس قول کی حقانیت پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی یہ حدیث گواہی دیتی ہے، جو امیر المومنین علی علیہ السلام سے فرمایا: ۔
’’ اَنَا وَ اَنْتَ یَا عَلِیُّ اَبُوَا وَ اُمّ الْمُؤُمِنِیْنَ‘‘
’’ اے علی! میں اور آپ مومنین کے ماں باپ ہیں۔‘‘
جب رسول اور ان کے وصی علیھما السلام اپنے زمانے میں مومنین کے ماں باپ ہوتے ہوں، تو لازم آتا ہے، کہ ہر زمانے میں وہ شخص مومنین کا باپ ہو، جو رسولؐ کا قائم مقام ہے، اور ہر زمانے میں چاہئے، کہ مومنین کے ماں باپ ہوں۔
پس امامِ زمان ہر زمانے میں مومنین کے باپ ہوتے ہیں، اور ان کا حجت مومنین کی ماں ہوتا ہے، اور مومنین ان کے روحانی فرزند ہوتے ہیں، اوریہ امام لوگوں پر خدائے تعالیٰ کی حجت ہیں (تاکہ پیغمبروں کے بھیجے جانے اور ان کے جانشین مقرر کئے جانے کے بعد قیامت کے روز لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی عذر اور دلیل باقی نہ رہے، اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے زمانے میں ہدایت کا کوئی ذریعہ موجود اور حاضر نہیں تھا، صاحبِّ جزیرہ امام کی حجت ہے، اور داعی صاحبِّ جزیرہ کی حجت ہے، اور امام و حجت ہی سلطان ہوتے ہیں، پس روحانی نکاح کے سلسلے میں حدودِ دین میں سے ہر حد اپنے درجے میں مومنوں کا ولی (یعنی مختار یا کہ سرپرست) ہے چنانچہ رسول علیہ السلام کا ارشاد ہے:۔
’’ اَلسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لَا وَلِیَّ لَہٗ۔‘‘
چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اپنے زمانے میں لوگوں کے ولی تھے، اور جب آنحضرتؐ اس دنیا سے رحلت فرما ہوئے تو انہوں نے اپنی یہ ولایت امیر المومنین علی بن ابی طالب کے حوالے کردی، چنانچہ ایک دن غدیرِ خم کے مقام پر فرمایا: ۔
۳۹۵
’’مَنْ کُنْتُ مَوْ لَا ہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ۔
جس شخص کا میں مولا یعنی والی و مختار ہوں، یہ علی بھی اس کا مولا اور والی و مختار ہے۔‘‘
اور امیر المومنین علیؑ نے یہ ولایت (یعنی مختاریت) اپنے فرزندوں کے حوالے کردی، اور اسی طرح ہر ایک امام رسول علیہ السّلام کے بعد لوگوں کا ولی (یعنی مختار و متصرف ) ہوتا ہے، اس لئے یہ ولایت اپنے اس فرزند کے حوالے کر دیتا ہے، جو اس کے بعد امام ہوتا ہے، اور خدائے تعالیٰ نے أئمّۂ برحق کو (لوگوں پر) اپنے گواہ قرار دے دیا ہے، جیسا کہ خدائے تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔
’’وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (۰۲: ۱۴۳)
اور اسی طرح (اے أئمّۂ برحق) ہم نے تم کو مرکزی حیثیت کی امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہا کرو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو جایا کرے۔‘‘ اور جب رسول نے اپنا مقام خدا کی گواہی سے اپنے وصی کے حوالے کردیا، تو ہمیں معلوم ہوا کہ آنحضرتؐ وصی پر گواہ ہیں، اور جب آنجنابؐ کی یہ گواہی وصی پر درست اور ثابت ہے، تو ہمیں معلوم ہوا کہ لوگوں پر گواہ ان کے فرزند ہیں۔
پس ہم بتائیں گے، کہ روحانی نکاح کے سلسلے میں اس روز، جبکہ رسول علیہ السّلام نے غدیرِ خم کے مقام پر لوگوں کو جمع کر لیا، اور ان سے پوچھا: کیا تم سے بھی بڑھ کر تمہارا مختار اور ولی نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا، جی ہاں! ( بےشک آپ ہم سے بڑھ کر ہم پر مختار ہیں) اور یہ آنحضرتؐ کی طرف سے امت کی رضامندی پوچھنا تھا، تاکہ وہ روحانی خاوند کو دیدئے جائیں، تاکہ ان کی نسل دوسرے عالم سے متصل ہو جائیں، اس روز رسول علیہ السلام اس روحانی نکاح میں لوگوں کے ولی تھے، اور ان کے وصی نفوسِ امت کے روحانی خاوند تھے، اور عقلِ کلّ و نفسِ کلّ عدل کے دو گواہ تھے، پس لوگوں میں اس عقل و نفس کے آثار
۳۹۶
(یعنی عقول و نفوسِ جزوی) حاضر تھے (اس اعتبار سے) عدل کے مذکورہ دو گواہ موجود تھے، پس رسول علیہ السلام کا قول درست ہوا، جو فرمایا کہ: لَا نِکاَحَ اِلّاَ بِوَلِیٍّ وَ شَاھِدَی عَدْلٍ، اس نکاح سے آنحضرتؐ کی مراد روحانی نکاح ہے، جس کے ولی آنحضرتؐ تھے، اور ان کے وصی اس نکاح میں مرد تھے، اور تمام خلائق کے نفوس اس مرد کے لئے بیویوں کی طرح تھے، اور عقل و نفس اس عقد میں عدل کے گواہ تھے، اور جو فرزند اس پاکیزہ نکاح سے پیدا ہوا وہ حلال زادہ تھا، اس نے حلال طریقے پر اپنے باپ کا مال حاصل کر لیا، اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز تھا، اور جو نکاح اس کے سوا تھا، وہ (دراصل) زنا نہ تھا۔
اس بیان کی شرح یہ ہے، کہ رسول علیہ السلام لوگوں کے لئے خدا کے پیغمبر تھے، (سو آنحضرتؐ نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی شریعت رکھی جس کے ظاہر سے ایک شائستہ عمل اور باطن سے ایک اعلیٰ علم مقصود تھا) تاکہ اس سبب سے لوگوں کو علم سکھائے اور نفوسِ خلق شریعت کے ظاہر سے روحانی طور پر پیدا ہو جائیں، اور اس کے معنی سمجھنے سے سرائے آخرت کیلئے قابل ہو سکیں، اور رسول علیہ السلام دین میں سب لوگوں کے لئے باپ کی منزلت پر تھے، اس لئے کہ وہ دین کے بانی تھے، پس لڑکیوں کا خاوند وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو (لڑکیوں کا) باپ چاہے، نہ کہ وہ شخص جس کو لڑکیاں خود منتخب کرتی ہوں، اور جب لڑکیاں باپ کے فرمان کے بغیر خود اپنے لئے کوئی خاوند مقرر کریں، تو دو گواہ اور ولی کے بغیر (اس کام کے کرنے سے) وہ بدکار ثابت ہو جاتی ہیں، اور ان کے فرزند حرام زادے ہوتے ہیں۔
چنانچہ جو شخص رسول کے فرمان کے بغیر، جو دینی باپ ہیں، کسی امام کا انتخاب کرتا ہے، تو وہ گویا اپنے باپ کے فرمان کے بغیر خود ہی اپنا روحانی خاوند مقرر کر لیتا ہے، اور عقل و نفس ایسے نکاح کے صحیح ہونے کے متعلق گواہی نہیں دیتے ہیں، کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ (حقیقی) مومنین رسول اور وصی کے فرزند ہیں، اور رسول و وصی نے کس طرح آفاق و انفس کی گواہی کے ساتھ دین حاصل کیا ہے، اور عقل و
۳۹۷
نفس کے انوار اس میں ظاہر ہیں اور حلال زادگی کی علامت اس میں آشکار ہے، جس پر دین میں آفاق و انفس گواہ ہیں، اور ظاہری شخص جو ناپاک اور بے نکاح ماں سے پیدا ہوا ہے، اپنی پاک زادگی کے لئے کوئی گواہ نہیں رکھتا اور آفاق و انفس جن میں عقل نفس کے آثار ظاہر ہیں، خدا و رسول کے فرمان کے بغیر اس کے لئے کوئی گواہی نہیں دیتے، چنانچہ فرمایا، قولہ تعالیٰ: ۔
’’مَا أَشْهَدْتُهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلاَ خَلْقَ أَنفُسِهِمْ (۱۸: ۵۱)
ہم نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے ان کے (نظریئے) کی گواہی نہیں کی ہے اور نہ ان کے نفوس کی پیدائش سے۔‘‘
اور خداوندِ زمان علیہ السّلام ہر زمانے میں لوگوں کے ولی ہوتے ہیں، اور ہر جزیزہ ایک حجت کو دیا کرتے ہیں، اور قبول کرنے والے نفوس روحانی نکاح کے طور پر علم کو حجت سے حاصل کرتے ہیں، ناطق اور اساس کی گواہی پر، کیونکہ ناطق کو اس عالم میں عقل کا مقام ہے، اور اساس کو نفس کا مقام ہے، جس کا ثبوت آفاق و انفس میں ہے، اور یہ (آفاق و انفس) یہی دلیل کرتے ہیں کہ یہ دونوں عظیم مرتبے اس نکاح کے متعلق لوگوں پر گواہ ہیں، تاکہ روحانی عالم کی لذّتوں کو حاصل کرنے کے لئے ان سے پاکیزہ فرزند پیدا ہو جائیں، اور ان سے داعی پیدا ہوتے ہیں، اپنے باپ کی پاکیزہ نسل سے، جو حجت ہے، اور اپنی میراث حاصل کرتے ہیں، اور وہ میراث عالمِ ملکوت ہے، اور مومنین ان کے پیچھے نماز پڑھا کرتے ہیں، اور وہ نماز علمِ حق کو سننا اور حقیقت کو قائم رکھنا ہے، اور امت میں سے جن لوگوں نے اپنی مراد اور خواہش کے مطابق کسی کو امام مانا، تو انہوں نے گواہ اور ولی کے بغیر اپنا روحانی خاوند مقرر کر لیا، اور ان کے فرزند حرام زادہ ہیں، اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا نہیں چاہئے، یعنی ان سے دینی علم نہیں سننا چاہئے، اور مخلص مومن وہ ہے، جو روحانی نکاح میں کوشش کرے تاکہ وہ رسول علیہ السلام
۳۹۸
کی خوشنودی سے نزدیک ہو جائے، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ حدیث روایت کی گئی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:۔
’’ تَنَاکَحُوآ تَکْثُرُوا فَاِنِیّ اُبَا ھِی بِکُمْ یَوْمَ القِیامَۃِ عَلیَ سائرِ الاُمَمَ۔
ایک دوسرے سے شادی کرو تاکہ تم زیادہ ہو جاؤ کہ میں تمہاری وجہ سے دوسری تمام امتوں پر فخر کروں۔‘‘
اس نکاح سے آنحضرتؐ کی مراد روحانی نکاح ہے اور اس پیدائش (سے مراد ) علم ہے اور رسول علیہ السلام کا فخر علم پر ہوتا ہے اور آنحضرتؐ کے فرزند وہ ہیں جو صاحبِّ علم ہیں، جیسا کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: ۔
’’ اَلْعُلَمَا ءُ وَرَثَۃُ الاَنْبِیَاءِ۔
علماء پیغمبروں کے وارث ہیں۔‘‘
اس قول کی درستی کی دلیل کہ روحانی نکاح ہی سے لوگ حلال زادہ اور رستگار ہوتے ہیں، یہ ہے کہ احادیث میں آیا ہے کہ ایک دن رسول علیہ السلام نے ایک جوان کو دیکھا اور اسے پوچھا: کیا تمہارا کوئی جفت ہے؟ اس جوان نے کہا: نہیں ہے یا رسول اللہ۔ رسول علیہ السلام نے فرمایا: ۔
’’ تَزَوَّجُ فَاِنَّکَ مِنْ اِخْوَانِ الشَّیَاطِیْنِ۔
شادی کر، کیونکہ تو شیاطین کے بھائیوں میں سے ہے۔‘‘
اگر اس قول کے ظاہر کو دیکھیں تو ایسا لازم آتا ہے کہ جس کی بیوی نہ ہو وہ شیطان کا بھائی ہے اور اس کے برعکس جس کی بیوی ہے وہ فرشتوں کا بھائی ہے، ظاہری صورتِ حال کے مطابق یہ قیاس صحیح نہیں ہے کیونکہ بہت سارے مرد اور خواتین ہیں جن کا کوئی جفت نہیں، لیکن وہ پرہیز گار اور متقی ہیں اور بہت سارے مرد اور خواتین ہیں جن کا جفت ہے لیکن وہ فساد سے باز نہیں آتے ۔ اور رسول علیہ السلام کا قول ایسا ہونا ضروری ہے کہ وہ (حقیقت کا ) مخالف نہ ہو۔ نیز خدائے تعالیٰ
۳۹۹
نے عیسیٰؑ اور یحییٰؑ کو سید و حصور کہا ہے۔ ان حضرات کو شیاطین کے بھائی اس بنیاد پر نہیں کہنا چاہئے کہ وہ حصور (خواتین کے ساتھ تعلق نہ رکھنے والے) تھے اور شادی نہیں کی اور فرعون کو مشرف (اور) عالی اس لئے کہنا چاہئے کہ اس کی بیوی اس سے بیاہی گئی تھی۔ پس ہمیں معلوم ہوا کہ یہ بہتری جسمانی شادی میں نہیں بلکہ روحانی شادی میں ہے۔ اور رسول علیہ السلام نے اس مرد سے جو فرمایا: تمہارا کوئی جفت ہے؟ اس معنی میں نہیں فرمایا کہ تمہارا کوئی جسمانی جفت ہے بلکہ اس معنی میں فرمایا: کوئی ہے جو تجھے کچھ سکھاتا ہے اور تو اس سے قبول کرتا ہے یا کوئی ہے جسے تو سکھاتا اور فائدہ پہنچاتا ہے تاکہ تو انسانوں میں سے ہو جائے؟ اور جب اس نے کہا کہ کوئی ایسا شخص نہیں تو آنحضرت نے اس کو شیطان سے نسبت دی۔ کیونکہ رسول علیہ السلام نے (صرف) ایسے دوشخصوں کو انسان کہا ہے جیسا کہ اس حدیث میں فرمایا ہے: ۔
اَلنَّاسُ اِثْنَانِ عَالِمٌ وَمُتَعَلِّمٌ وَسَائِرُ ھُمْ کَالھَمَجِ۔
انسان دو ہیں، ایک عالم یعنی علم سکھانے والا اور ایک متعلم یعنی علم سیکھنے والا اور دوسرے سب حشرات (کیڑے مکوڑے اور زمین میں سوراخ کر کے رہنے والے جانور، مثلاً سانپ، جوہا، نیولا، وغیرہ) ہیں۔ پس جو شخص اپنے سے برتر سے علم حاصل کرتا اور اپنے سے فروتر کو سکھاتا ہے وہ فرشتوں کے بھائیوں میں سے ہے۔ کیونکہ عالمِ جسمانی میں سب سے عظیم فرشتہ رسول علیہ السلام تھے جو اس صفت سے متصف تھے، کیونکہ اس عالم میں آپؐ اس عالم سے فائدہ لیتے تھے اور اس عالم میں لوگوں کو پہنچاتے تھے، پس جو شخص چاہتا ہے کہ آنحضرتؐ کے بھائیوں میں سے ہو جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس صفت کا حامل ہو کہ (جسمانی نکاح اور ) روحانی نکاح میں ان دونوں (قسم کے) گواہوں اور ولی کے بغیر مرد اپنے لئے بیوی مقرر نہ کرے اور عورت اپنے لئے خاوند مقرر نہ کرے۔
۴۰۰
ہم بتائیں گے کہ روحانی نکاح میں مہر علمِ تاویل ہے، کیونکہ وہ تمام اموال میں سے قیمتی مال ہے، جو حجت امام سے حاصل کرتا ہے، اور جزیرہ والوں کو دیا کرتا ہے، اور وہ سب اسی سبب سے اس کو اپنا روحانی خاوند بنانا چاہتے ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جب خاوند بیوی کے مہر کے لئے قبول کر کے دے نہ سکے، تو عورت اس کو حاکم کے پاس لے جاتی ہے، اور مہر طلب کرتی ہے، اگر خاوند سے مہر ادا نہ ہوسکے تو عورت اس کے ساتھ نہیں رہتی، اور جدا ہو کر دوسرے مرد سے شادی کر لیتی ہے، اسی طرح ہی اگر مستجیبوں اور داعیوں کو جزیروں کے مالکوں سے آفاق و انفس کی گواہی کے ساتھ علم بیان نہ ملا کرے، تو یہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور امام کے حضور میں رجوع کرتے ہیں، تاکہ انہیں دوسرا جزیرہ والے کے سپرد کر دیا جائے، جبکہ ان کے اپنے صاحبِّ جزیرہ سے روحانی عاجزی اور علمی مفلسی ظاہر ہو، ہم نے نکاح و سفاح کے ظاہر و باطن کے متعلق جو کچھ ضروری تھا، واضح کردیا، اور اقتداء کرنے والے مومن کے لئے کافی حد تک بیان کر دیا، اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے۔
۴۰۱
کلام۔ ۴۷
مومنوں پر حقِ واجبات (مہمانی) اور اس کی تاویل
ہم خدا تعالی کی توفیق سے بیان کر دیں گے، کہ بندے پر خدا کی تین طرح کی فرمانبرداری واجب ہے، ایک تو روزانہ واجب ہے، جیسے پنج وقت نماز کی ادائیگی، دوسری سالانہ واجب ہے، جیسے عیدوں کی نمازیں، وغیرہ، زکوٰۃ دینا، اور تیسری عمر بھر میں ایک مرتبہ واجب ہے، جیسے حج کرنا اور واجبات (مہمانی) دینا، جس طرح کہ خلقتِ علم تین طرح پر ہے،یعنی عالمِ روحانی (جیسے آخرت) عالمِ جسمانی (جیسے دنیا) اور عالمِ تالیف جو روح و جسم کا مجموعہ ہے، جیسے انسان، یہی تین مراتب عالمِ دین میں بھی ہیں، مرتبۂ ناطق جو تنزیل کا درجہ ہے، مرتبۂ اساس جو تاویل کا درجہ ہے، اور مرتبۂ امام جو تالیف کا درجہ ہے، اور یہ درجہ تنزیل و تاویل دنوں مرتبوں کا جامع ہے، جیسے انسان جو روح و جسم دونوں کا مجموعہ ہے، اس کے علاوہ علمِ دین بھی تین قسم کا ہے، تفسیر، حدیث، اور فقہ، اور جب کسی کو یہ تینوں علم میسر ہوں تو وہ معزز بن جاتا ہے، ایزد تعالیٰ ان تینوں عالموں کا پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے، جیسا کہ اپنی کتاب کے آغاز میں فرماتا ہے: ۔
’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ
۴۰۲
یعنی سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، جو عالموں کا پالنے والا ہے،‘‘ اللہ تعالیٰ نے (بندوں سے) تین عبادتوں کو زیادہ پسند فرمایا ہے، پہلی عبادت روزانہ پنج وقت نماز ادا کرنا، دوسری سال میں زکوٰۃ ادا کرنا، اور تیسری عمر بھر میں ایک مرتبہ واجبات دینا، اور ان تینوں کو ایک ہی آیت میں یاد فرمایا ہے، جیسا کہ:۔
’’وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا (۷۳: ۲۰)
یعنی ’’نماز قائم کرو، زکوٰۃ دیتے رہو، اور اللہ کے لئے نیک قرض دیدو۔‘‘
ان تینوں عبادتوں میں سے، اہلِ ظاہر نے صرف نماز اور زکوٰۃ کو لیا، جو عام عبادتوں میں سے تھیں، اور تیسری عبادت جو خاص تھی اس کے جاننے سے قاصر رہے، اور نہ اس کی تلاش کی، اور علمِ الٰہی کے خزینہ داروں سے کنارہ کر گئے، اگر کوئی شخص بصیرت کی نگاہ سے دیکھے، تو معلوم ہوگا کہ یہ تینوں عبادات درجہ وار (یعنی سب سے پہلے قرضِ حسنہ، اس کے بعد زکوٰۃ اور پھر نماز) ہیں، اس لئے خدائے تعالیٰ نے ان تینوں کو ایک ہی آیت میں یاد فرمایا ہے، اور جان لیجئے کہ جس طرح زکوٰۃ نہ دینے والے کے لئے نماز جائز نہیں، اسی طرح نماز نہ پڑھنے والے کی زکوٰۃ قابلِ قبول نہیں ہے، جیسا کہ رسول علیہ السلام نے فرمایا ہے: ۔
’’ لاصلوٰۃ لمن لا زکوٰۃ لہ ولا زکوٰۃ لمن لا صَلوٰۃ لہ‘‘۔
یعنی ’’جو زکوٰۃ نہیں دیتا اس کی نماز قبول نہیں اور جو نماز ادا نہیں کرتا اس کی زکوٰۃ قابلِ قبول نہیں۔‘‘ اور جو شخص خدائے تعالیٰ کو وہ نیک قرض نہ دے، تو نہ اس کی نماز قبول ہے، اور نہ زکوٰۃ، اور یہ وہ تین مراتب ہیں جو عالمِ دین میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، یعنی جو شخص ناطق کی فرمانبرداری نہیں کر سکتا ، وہ نہ تو امام کی فرمانبرداری کر سکتا ہے، اور نہ اساس کی، اور یہ نافرمانی اس کے لئے خدا کی نافرمانی کا باعث بنے گی، بالفاظِ دیگر جو امام کی فرمانبرداری نہیں کرتا وہ اساس کی فرمانبرداری نہیں کرتا، اور جو اساس کی فرمانبرداری نہیں کرتا، وہ رسولؐ کی فرمانبرداری نہیں
۴۰۳
کرتا، اور جو رسولؐ کی فرمانبرداری نہ کرے، ایسا ہے، کہ اس نے خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری نہ کی، اور جو خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری نہ کرے وہ کافر ہے۔
صاحبانِ علمِ حقیقت نے آنحضرتؐ سے اس آیت کا بھید پوچھا، اور جب اس سے آگاہ ہوئے، تو انہوں نے یہ غنیمت جانا کہ اپنے آپ کو اس خدائی قرض سے آزاد کرا دیں، کیونکہ خدائے تعالیٰ کے نزدیک زکوٰۃ سے واجبات کی زیادہ وقعت ہے، اس لئے کہ زکوٰۃ کے متعلق ارشاد ہے، کہ یہ میرا حق ہے، اور واجبات (مہمانی) کے بارے میں فرماتا ہے، کہ مجھے قرض دے دو، نیز (یہ حقیقت بھی ہے، کہ) اگر کوئی شخص دوسرے شخص کا قرض ادا کرے، تو وہ ایسا احسان نہیں رکھتا جو دوسرے کو قرض دینے میں رکھتا ہے، کیونکہ قرض دینے کا احسان قرض ادا کرنے کے مقابلے میں زیادہ ہے، اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب سے پہلے جس نے یہ قرض دیا، وہ حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔
کہتے ہیں، کہ ایک اعرابی ہاتھ میں ایک اونٹ کی نکیل پکڑے راستے سے گزر رہاتھا، راستے میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے ملا اور عرض کیا کہ یا امیر المومنین! یہ اونٹ آپ کے ہاتھ فروخت کروں گا، اگر آپ لے لیں، امیر المومنین نے فرمایا کہ قیمت پاس نہیں ہے، اعرابی نے کہا جب مالِ غنیمت ملے تو دے دیں، امیر المومنین نے قیمت دریافت فرمائی، اعرابی نے کہا ایک سو انیس درم جو کے قرض ہیں، امیر المومنین نے فرمایا خرید لیا، اعرابی نے کہا بیچ دیا، اعرابی نے اونٹ کے نکیل امیرالمومنین کے ہاتھ میں دی، امیر المومنین اونٹ لئے آرہے تھے، کہ سامنے سے ایک دوسرا اعرابی آنکلا، اور عرض کیا کہ یا امیرالمومنین، کیا یہ اونٹ میرے ہاتھ بیچیں گے، امیر المومنین نے فرمایا بیچتا ہوں، اعرابی نے قیمت پوچھی، امیر المومنین نے فرمایا، ایک سو انیس درم میں ابھی ایک قرضدار سے لیا ہوں، اعرابی نے ایک سو نیس درم دے کر اونٹ خرید لیا، امیرالمومنین جب رسول کے دربار آئے تو آنحضرت نے یہ آیت پڑھی، امیر المومنین فوراً آیت کی تاویل سمجھ گئے، اور اس رقم کو رسول کے
۴۰۴
سامنے پیش کیا، رسولؐ نے پوچھا، یا علی ! یہ رقم کہاں سے لائے؟ امیر المومنین نے اعرابیوں کا قصہ سنایا، تو رسول نے فرمایا، کہ اس اونٹ کا بیچنے والا جبرائیل اور خریدنے والا میکائیل کے سوا دوسرا کوئی نہ تھا، جس وقت رسولؐ کے وصی نے اس آیت کی تاویل مومنوں تک پہنچائی تو اسی وقت جس جس کو خدائے تعالیٰ کی طرف سے توفیق ہوئی، خدا کے واجبات کا قرض دیا۔
(پیر حکیم ناصر خسرو اس آیت کی تاویل کے متعلق فرماتے ہیں، کہ: ) اَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضاً حَسَناً یعنی اور اللہ کے لئے نیک قرض دے دو کے یہ معنی ہیں کہ خدا نے بندوں سے قرض طلب فرمایا، لیکن اس قرض کی مقدار معلوم نہ تھی، اور یہ خداوندِ تاویل نے ہمیں معلوم کرایا کہ اس قرض کی مقدار ایک اسو انیس درم ہے، اور اس کی تاویل فرمایا، چنانچہ لفظِ حسنا کو بحسابِ جمل حساب کیا جائے، تو ۱۱۹ عدد ہوتے ہیں، جیسا کہ ح = ۸، س=۶۰ ، ن = ۵۰ ، ا =، مجموعہ = ۱۱۹، عالمِ دین میں اس کی تاویل یہ ہے کہ لفظِ حسنا سے مراد کلمۂ باری سبحانہ ہے، جس کا نام وحدت ہے، اور وحدت چار حروف پر مشتمل ہے، جو چار اصلِ دین پر دلالت کرتے ہیں جن میں سے دو روحانی اور دو جسمانی ہیں، اور یہ چار اصل دینِ عالم میں وحدت سے پیدا ہوئے ہیں ایک اور حساب کی رو سے ۱۱۹ عدد سے مراد عالمِ دین کے دورِ مہین اور دورِ کہین کے ۱۱۹ حدود ہیں، جو ان چار اصل سے پیدا ہوئے ہیں، لیکن دورِ مہین میں جو ناطق کا دور ہے ایک سو انیس حدود یہ ہیں: چھ ناطق یعنی آدمؑ، نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ، محمدؐ اور قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ و السّلام جو ان کا ساتواں ہے، اور ان ساتوں خداوندانِ دور میں سے ہر ایک کو پانچ حدودِ علوی، یعنی اوّل، ثانی، جد، فتح اور خیال سے مادت ؎۱ تھی، جس کو انہوں نے قبول کیا، اور اپنے بارہ حجتوں کو دیا، پانچ اور بارہ ملا کر سترہ ہوئے، پس ہر صاحبِّ دور کے لئے سترہ حدود ہوئے
؎۱: مادت = جسمِ لطیف کا وہ ذرہ ہے جسے روح باحتیاجِ جسمانیّت استعمال کرتی ہے۔
۴۰۵
ہیں، اور سات بار سترہ، کل ایک سو انیس حدود ہوتے ہیں، اور دورِ کہین میں جو امام کا دور ہے، ایک سو انیس حدود یہ ہیں، کہ ہر امام کو ان پانچ حدود، یعنی اوّل، ثانی، جد، فتح،اور خیال سے تائید ہوتی ہے، اور ہر امام کے بارہ حجت ہوتے ہیں، جن کے ذریعے نورِ توحید مخلوقِ عالم تک پہنچتا ہے، پس سات اماموں میں سے ہر ایک کے سترہ حدود ہیں، اور سات بار سترہ ملا کر ۱۱۹ حدود ہوتے ہیں، اس بیان کی درستی کی تائید میں عالمِ شریعت میں یہ دلیل اور شہادت موجود ہے کہ زمانے کی گردش سات دنوں پر ہے، اور ہر دن میں سترہ رکعت نماز فرض ہے، اس طرح ایک ہفتے میں نمازِ فریضہ کی کل ۱۱۹ رکعتیں ہوتی ہیں۔
(نیز پیر ناصر خسرو فرماتے ہیں) کہ انسان کی توانائی تین طرح پر ہے، جسم کے ذریعے، جان (عقل) کے ذریعے، اور مال کے ذریعے، اور جب مومن جسمانی طور پر ان فرائض کو ادا کرے (روحانی طور ان کی تاویل سمجھے اور مالی طور پر واجبات کو دے۱ تو گویا وہ اپنی طاقت و توانی کے ساتھ عبادتِ خداوندی میں کوشان رہا اور جو حسبِ مقدرت خدا کی عبادت میں کوشش کرے، تو خدا اس مومن سے اس سے مزید کچھ طلب نہیں کرتا۔
جیسا کہ فرمایا ہے، قولہ تعالیٰ: ۔
’’لاَ يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَهَا (۰۲: ۲۸۶)
یعنی خدا کسی شخص کو تکلیف نہیں دیتا، مگر اس کی طاقت کے برابر ۔ واجبات کا یہ بیان خدا کی توفیق سے میں نے تمہارے لئے واضح کردیا۔
والسلام
؎۲: قوسین کی درمیان عبارت تفہیم کی خاطر بڑھا دی گئی ہے۔
۴۰۶
کلام ۔ ۴۸
اہلِ کتاب پر جزیہ اور اس کی تاویل کے بارے میں
ہم خدا تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ عیسائیوں، یہودیوں، مغوں، آتش پرستوں اور کافروں سے جہاد کرنا مسلمانوں پر واجب ہے، اور ان میں سے جو اہلِ کتاب ہیں، ان سے جزیہ لے کر ان کو چھوڑ دینا امام کے لئے جائز ہے، جبکہ امام چاہیں، کہ اس جزیہ کو دینی بہتری کے لئے صرف کریں، دینی دشمنوں کو مقہور کرنے کے لئے مومنین و مسلمین کو طاقت ور بنائیں اور اہلِ دین کے ماحول سے ان دشمنوں کی برائی کو روکیں، چنانچہ شریعت کے ہر موضوع کا باطن لوگوں کے نفوس کے اندر اس موضوع کے ظاہر ہی کی طرح موجود ہے، اور اس ظاہری موضوع کی بنیاد اور پائیداری اس باطنی موضوع ہی پر ہے، جیسا کہ رسول علیہ السّلام سے حدیث ہے، جو فرمایا:۔
’’ اَلغُلَا ۃُ نَصَاریٰ ھٰذِہِ الْاُ مَّۃِ وَ النَّوَ اصِبُ یَھُوْدُ ھَا وَالْخَوَارِجُ مَجُوْسُھَا۔‘‘
’’ غالی لوگ امت کے نصاریٰ ہیں، ناصبی امت کے یہود ہیں، اور خارجی امت کے مُغ ہیں۔‘‘
۴۰۷
آنحضرتؐ نے مُغوں سے خوارج مراد لیا، جو قدریہ ہیں، اور مُغوں کی کوئی کتاب نہیں، کہ وہ اس پر عمل کریں، اور اس کی پیروی کریں، جیسے یہودیوں، نصرانیوں کی کتاب ہے، جس کی وہ پیروی کرتے ہیں، اس قول کی تاویل یہ ہے کہ غالی اور ناصبی امام ثابت کرتے ہیں، جس طرح یہود و نصاریٰ توراۃ اور انجیل کی کتاب رکھتے ہیں، اور تاویل میں کتاب امام کو کہتے ہیں، مگر خوارج امام کو ثابت نہیں کرتے، اور کہتے ہیں کہ امام جو کوئی بھی ہو روا ہے، جبکہ وہ عادل ہو، جس طرح مُغوں کی کوئی کتاب معلوم نہیں، جو خوارج کی مثال ہیں، ہمارا کہنا، کہ جس گروہ کی کوئی کتاب نہ ہو، اس سے کوئی جزیہ نہیں لیا جاتا ہے، جیسے مُغ اور بت پرست لوگ، مگر یہودیوں اور نصرانیوں سے، جن کے پاس کتاب ہے جزیہ لیا جاتا ہے، اور اس موضوع کے معنی اور تاویل یہ ہیں، کہ جو شخص کسی امام کو مانے تو اس کی بعض باتیں (بحث میں ) مان لینی چاہئیں، پھر خود اسی کے قول ہی سے ان باتوں کی تردید کر دینی چاہئیے، جس طرح جزیہ اہلِ کتاب سے لیا جاتا ہے، اور خود اسی جزیئے سے ان کو عاجز کر دیا جاتا ہے، اور جو شخص کسی بھی امام کو نہ مانے اس کی کوئی بات نہیں ماننی چاہئے، کیونکہ اس نے دانش کو باطل قرار دے دیا ہے، اور اس کی مثال یوں ہے، کہ ناصبی لوگ کہتے ہیں، کہ امام ثابت ہے اور معلوم ہے، کہ قریش کی قوم سے ہے اور تمام لوگوں سے ممتاز ہے، تو ہم ان کی یہ بات مان لیتے ہیں، جس کی مثال اہلِ کتاب سے جزیہ لینے کی طرح ہے، اس کے بعد خود انہیں کے قول سے ہم ان کی تردید کریں گے، وہ یہ ہے، کہ جو کہیں گے، کہ ہاں! امام قریش سے ہے، اور ان کو یوں عاجز کر دیں گے، ایک تو ہم اس طرح کہیں گے، کہ جیسے تم نے سارے لوگوں میں سے قریش ہی کو ممتاز مانا، اس فیصلے سے جو تم نے کہا کہ، امام انہی میں سے ہے، بس اسی طرح یہ ایک شخص جو وہی حقیقی امام ہے اور قریش سے ہے، تمام قریش میں سے بھی ممتاز ہے، تاکہ ہم اس قول سے ان کے اقرار کے ذریعہ ان کو شکست دیں، چنانچہ اہلِ کتاب سے جزیہ لے کر خود انہیں عاجز کر دیا جاتا ہے، اور یہ ان
۴۰۸
کے قول کی جزا ہے، کیونکہ لفظ جزیہ جزا سے لیا گیا ہے، اور اس قسم کی ملت والوں سے بارہ درموں کا جزیہ لیا جاتا ہے، اور اس تعداد میں درموں کا لینا بارہ حجتوں کے برحق ہونے کا اقرار ہے، کہ بامرِ خداوندِ زمان علیہ السّلام انہی کی وساطت سے ابدی زندگی مومنوں کی جان میں پہنچ جاتی ہے، اور انہی کے ذریعہ مومنوں کے نفوس دائمی عذاب سے چھٹکارا پاتے ہیں، جس طرح بارہ درم کے دینے سے، جو ان حجتوں کی تعداد کی مثال ہے، اہلِ ملت کی جانوں کو اس جہان میں ناپائیدار زندگی مل جاتی ہے، کتابِ جزیہ کی تاویل یہی ہے، جو ذکر کر دیا گیا۔
۴۰۹
کلام ۔ ۴۹
قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کی تاویل کے بارے میں
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ لوگوں کو جسمانی حالت میں مصیبت اور مشکلات آتے وقت اس قول کا کہنا واجب ہے، جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ۔
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (۰۲: ۱۵۶)
’’ وہ لوگ جن پر جب کوئی مصیبت آپڑتی ہے، تو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے ہیں، اور اسی کی طرف واپس ہونے والے ہیں۔‘‘
عرب والے مشکل کاموں کو رات کی تاریکی سے تشبیہ دیتے ہیں، اس لئے کہ اس کام سے بڑھ کر اور کوئی مشکل کام نہیں، کہ جس کے گھیرے سے نکل جانے کا کوئی راستہ ہی لوگوں کو نظر نہ آئے، یہی مشکل تو تاریکی ہے، تاریکی دو طرح کی ہے، جسمانی اور روحانی، جسمانی تاریکی کی وجہ رات ہے، جسے سورج ہی روشن کر سکتا ہے، کیونکہ جسمانی تاریکی تو اس سے روشن ہو سکتی ہے، اور وہ جسمانی رکاوٹوں کو ختم کر ڈالتا ہے، لیکن روحانی تاریکی نادانی اور
۴۱۰
معقولات کے مشکل مسٔلے ہیں، اس قسم کی تاریکی کے لئے روشنی خدا سے ہے، جو اساس کی وساطت سے آتی ہے، اس کے بعد روحانی ظلمت میں چشمِ باطن ( یعنی بصیرت) کا سورج امام الزمان ہیں جن کے سہارے ایسے سخت عقدے کھل جاتے ہیں۔
جب کوئی جسمانی ظلمت (یعنی مصیبت) اور سختی کسی مومن کے سامنے آئے، تو اسے واجب ہے کہ مشیتِ ایزدی کے لئے راضی ہو جائے، اور جو کچھ اس کے لئے حکم ہوا ہو اسے قبول کرے اور کہے:۔
’’ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ‘‘
یعنی ’’ہم خدا کے ہیں اور ہم نے قبول کیا جو کچھ اس نے حکم کیا ہو اور ہم اس کی طرف لوٹیں گے۔‘‘ اگر ان مشکلات سے ہمیں کوئی ایسی جسمانی تکلیف پہنچے کہ جس کی وجہ سے ہم جسمانی طور پر مرجائیں، تو اس صورت میں ہم اس کی طرف واپس ہو نے والے ہیں، اور تاویل میں مومن کو واجب ہے، کہ جب معقولات کا کوئی ایسا مسٔلہ اس کے سامنے آجائے جس کو وہ خود حل نہ کر سکتا ہو تو پھر اسی قول کو دہرائے، اس طریقے پر کہ ’ہماری جانیں صاحب العصر کی ہیں، کیونکہ ہمیں روحانی زندگی اسی سے ملی ہے، اور مشکلات میں ہم اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔‘‘ اور وہ مومن یہ سمجھے کہ ’’ہم اس مشکل مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں، اس کا علم صاحب العصر کے پاس ہے،‘‘ تاکہ اس کو روحانی فیض کا دروازہ کھلے، اور ان مشکلات کو سمجھ سکے، تاکہ حدودِ دین میں سے کوئی حد اس دروازے کو اس کے لئے کھول دے گا، اگر ایسی مشکلات حدودِ دین کے کسی ایک حد کے سامنے آئیں تو اسے چاہئے کہ تائید (یعنی روحانی امداد) کا مادّہ خداوندِ زمان علیہ السّلام سے طلب کرے، تاکہ اپنے اس قول کے سہارے کوشش کر سکے گا، اور وہ غیب اس پر کھلے گا، اور اگر کھل نہ جائے، تو یہ اپنی ہی کمزوری سمجھے اور اقرار کرے کہ جو شخص ایسی مشکلات کا چارہ جانتا ہے، اسے یہ زیب دیتا ہے،
۴۱۱
کہ لوگ اپنی روحانی مشکلات میں اسی کی طرف رجوع کریں، اور یہ صرف مومن ہی کے لئے ایک شفا بخش بیان ہے۔
والسلام
۴۱۲
کلام ۔ ۵۰
رسول علیہ السلام اور ان کی آل پر صلوٰۃ کی واجبیت کے بارے میں
ہم بیان کریں گے، کہ رسول پر صلوٰۃ پڑھنا خدائے تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے، اس لئے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے، قولہ تعالیٰ:۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (۳۳: ۵۶)
’’ خدئے تعالیٰ اور اس کے فرشتے رسولؐ پر صلوٰۃ بھیجتے ہیں، تو اے ایمان والو! تم اس پر صلوٰۃ دو اور برابر سلام کرتے رہو۔‘‘ اور رسول علیہ السّلام کی حدیث ہے، جو فرمایا:۔
’’ لَا تُصَلُّوْ ا عَلٰیَّ صَلوٰۃً بَتْرَاَء۔ ‘‘
’’ مجھ پر دم بریدہ (یعنی بے اولاد شخص ) کی صلوٰۃ نہ پڑھا کرو۔‘‘
اصحاب نے پوچھا، یا رسول اللہ: دم بریدہ شخص کی صلوٰۃ کون سی ہے؟ فرمایا: یہ ہے جو کہتے ہیں: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ، اور نہیں کہتے ہیں: وَعَلٓیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔
پس رسولؐ کے ذکر آتے وقت آنحضرتؐ پر صلوٰۃ پڑھنا واجب ہے، جیسے
۴۱۳
آنحضرتؐ نے خود ارشاد فرمایا ہے: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلٓیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ اور صلوٰۃ عربی زبان میں کسی کے پیچھے چلنے کو کہتے ہیں، اور آگے چلنے والے گھوڑے کو سابق کہتے ہیں، اور اس کو جو دوسرے کے پیچھے پیچھے چلے، اس طرح کہ ذرا بھی دائیں بائیں نہ ہو جائے، مُصَلّیَ کہتے ہیں، اور صلوٰۃ کی تفسیر و تشریح کے بارے میں ہرگروہ نے کچھ نہ کچھ کہا ہے، کہ خدا سے رسولؐ کے لئے صلوٰۃ کے معنی ہیں رحمت بھیجنا ، فرشتوں سے رسول کے لئے صلوٰۃ کے معنی ہیں بخشش طلب کرنا اور مومنین سے رسول کے لئے صلوٰۃ کے معنی ہیں، دعا کرنا، مگر یہ تفسیر صحیح نہیں، کہ (خدائے تعالیٰ یوں فرمائے: ) ’’میں رسول پر صلوٰۃ بھیجتا ہوں، فرشتے بھی ایسا ہی کرتے ہیں، اور اے مومنو! تم بھی ان پر صلوٰۃ بھیجا کرو (پس یہ تفسیر درست نہیں) اس لئے کہ اس فرمان کی رو سے جو ہمیں ارشاد ہوا، اور ان الفاظ کے مطابق جو لکھے گئے، کہ ’’تم صلوٰۃ بھیجا کرو‘‘ ایسا ہے، کہ گویا ہم نے خدا سے یہ کہا، کہ ’’تو خود رسولؐ پر صلوٰۃ بھیج‘‘ اور ہمارے یوں کہنے کا مطلب یہ ہوگا، کہ خدائے تعالیٰ نے ہمیں کرنے کے لئے جو کچھ فرمایا، اس کے متعلق ہم تبارک اسمہ و تعالیٰ جدّہ کو یہ کہتے ہیں، کہ تو خود ہی کر جو کچھ ہمیں فرماتا ہے۔
نیز ممکن نہیں، کہ ہم رسول کے لئے کوئی ایسی مرتبت کا مطالبہ کریں جو اسے حاصل نہ ہوئی ہو، کیونکہ ان کی مرتبت خدا کے نزدیک اس بات سے بہت بڑی ہے کہ ہمارے نفوس کو اس کے بارے میں سوچنے کی طاقت ہو، اور جب حقیقت یہی کہ رسول علیہ السلام خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے شفیع ہیں، تو یہ ناممکن بات ہے کہ ہم اس دعا کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے ان کی شفاعت کریں۔
نیز ہم بیان کریں گے کہ رسول علیہ السّلام کا فرمان بظاہر ایسا ہے کہ ہم یوں کہا کریں: ’’اے خدا ! تو یہ صلوٰۃ رسولؐ پر اس طرح بھیج جس طرح تو نے ان کے جدّ ابراہیم پر بھیجی۔‘‘ مگر جب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تمام پیغمبروں کے خاتم اور سردار ہیں، تو یہ ناممکن ہوگا کہ، ہم آنحضرتؐ کے لئے وہ درجہ طلب کریں،
۴۱۴
جو خدا نے ابرہیمؑ کو دیا ہے، کیونکہ آنحضرتؐ تو سب پیغمبروں سے انتہائی اشرف و افضل ہیں۔
پس رسولؐ اور آلِ رسولؐ پر صلوٰۃ کی تاویل یہ ہے، جو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اساس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے آنحضرتؐ کے پیچھے چلنا چاہئے، امام کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اساس کے پیچھے چلنا چاہئے اور حجت کی فرمانبرداری سے امام کو پہچاننا چاہئے، تنزیل کو تاویل کے لئے اور مثال کو ممثول کے لئے قبول کرنا چاہئے، اور محسوسات ہی سے معقولات کی دلیل لانی چاہئے، یہ فرمان خدائے تعالیٰ سے اسی طرح ہے تاکہ مومنین اعتقاد رکھیں، کہ فرزندانِ رسول یعنی أئمۂ برحق کی پیروی رسولؐ ہی کی پیروی کی طرح واجب ہے، اور حدود کی فرمانبرداری امام کی فرمانبرداری ہے، امام کی فرمانبرداری اساس کی فرمانبرداری ہے، اساس کی فرمانبرداری ناطق کی فرمانبرداری ہے، اور ناطق کی فرمانبرداری خداتعالیٰ جدّہ کی فرمانبرداری ہے، پس مومنوں کی چاہئے کہ وہ دین کے راستے میں ایک دوسرے کے پیچھے چلیں، تاکہ وہ (رسی یا زنجیر کی طرح) سب سے نچلے درجے سے لے کر سب سے اوپر کے درجے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے، اور اس فی الواقع پیروی یعنی رسول کے پیچھے چلنے کی وجہ سے بحقیقت ان کی تسلیم (یعنی سالمیت ) ہوگی، اور مخلص مومن وہ ہے، جو رسول پر صلوٰۃ پڑھ کر اپنی نماز کو آراستہ کرتا ہے، اور وہ یہ جانتا ہے کہ، صلوٰۃ کے بغیر نماز جائز نہیں، جس کے معنی یہ ہیں، کہ حقیقی دعوت آلِ رسول یعنی أئمۂ برحق کی پیروی کے بغیر جائز نہیں، اور وہ جو (صلوٰۃ) زبان سے پڑھتا ہے، اس کے معنی جانتا ہے، کہ اس کے معنی روحانی، مالی اور جسمانی طور پر پیروی کرنے یعنی پیچھے چلنے کے ہیں، ناطق، اساس، امام اور حجت کی فرمانبرداری اور اطاعت کے سلسلے میں، تاکہ مومن خدائے تعالیٰ کے ان فرامین پر عمل پیرا ہو سکے، جن کے الفاظ اس نے اپنی زبان سے ادا کئے، تاکہ وہ رستگار ہو جائے،
ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۴۱۵
کلام ۔ ۵۱
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم کی تاویل کے بارے میں
ہم خداتعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے، کہ رسولِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بہت ہی پسند فرماتے تھے، کہ کسی سختی اور تکلیف کے پیش آتے وقت مومنین یہ قول کہا کریں، اور آنحضرت علیہ السّلام سے اس قول کے متعلق حدیث ہے، جو فرمایا:
’’ کُنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ الْجَنَّۃِ عَلِّمُوَھَا صِبْیَا نَکُمْ وَامِیْطُوْا عَنْھُمْ وَسَاوِسَ الشَّیْطَانِ وَھُوَ اَجِسَہٗ۔‘‘
فرمایا کہ یہ قول: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ،
’’بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، تم یہ قول اپنے بچوں کو سکھا کر انہیں شیطان کے وسوسوں اور اس کے مکر و فریب سے پاک کردو۔‘‘ اور اس قول کی تفسیر یہ ہے، جو ہم بیان کریں گے، کہ: ’’ہماری کوئی حرکت اور توانائی نہیں، مگر خدا کی ہے، جو برتر و بزرگ ہے،‘‘ عربی زبان میں ’’حول‘‘ ساس (کے معنی کے قیاس سے) لیا گیا ہے، اس لئے (کہ جب کسی ضروری چیز پر پورا ایک سال گزر جاتا ہے، تو اس چیز کی سلامتی اور سچائی سے لوگوں کو کچھ آرام ملتا
۴۱۶
ہے ) ، نیز ’’حَوْل‘‘ پھیر دینے کو بھی کہتے ہیں، اور اس قول کی تاویل یہ ہے، کہ جب کہنے والا یہ قول کہتا ہے، تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے، کہ مومن کے نفوس سے شکوک و شبہات کو پھر جانا اور دور ہو جانا ہے، اور وہ اسی طرح دینی مخالفوں کے اسی مکرو فریب کے ساتھ لوگوں کے درمیان نہیں رہے گا، نیز وہ اس قول میں یہ کہتا ہے، کہ مجھے اپنے نفس سے ایسی چیزوں کو دور کر دینے کی کوئی طاقت و توانائی نہیں، نہ میں اپنے نفس کو بے باکی اور دلیری کے ساتھ ان چیزوں سے محفوظ رکھ سکتا ہوں، مگر خاندانِ تالیف و تاویل کے وسیلے سے، کیونکہ وہ خدائے تعالیٰ کے امر سے دین میں قائم ہوئے ہیں، خدائے تعالیٰ نے اس قول میں حدود کی صفت بیان فرمائی ہے، جو ’’اَلْعَلِیُّ‘‘ ہے، اس سے خدائے تعالیٰ کی مراد عقلِ کلّ ہے، جو تمام حدود سے برتر ہے، اور اس کی صفت تمام صفات سے برتر ہے، اور نماز میں سجود کی تسبیح یوں پڑھی جاتی ہے، کہ:۔
’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی وَ بِحَمْدِہٖ ‘‘
یہ اس لئے فرمایا کہ عقلِ کلّ تمام حدود سے برتر ہے، اور (اس قول میں حدود کی) دوسری صفت ’’ اَلْعَظِیْم‘‘ ہے، جس کی مراد نفسِ کلّ ہے۔
کتاب (یعنی قرآن) اور شریعت کے حقائق و اسرار دل میں کھل جانے سے پیشتر جبکہ حدودِ دین تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے حق کا راستہ نفسانی اور عقلانی طور پر مشکل ہو جاتا ہے، اس میں جب مومن مذکورہ قول کہتا ہے، تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں، کہ اس سختی اور لاعلمی کو (اپنی ذات سے) پھیر دینے کی مجھے کوئی طاقت و توانائی نہیں، مگر میرے صاحبِّ جزیرہ کے وسیلے سے یہ مشکل آسان ہوگی، جس کو زمین پر صاحبِّ تاویل (یعنی اساس) کا مقام ہے، جس کی صفت عظیم ہے، اور خداوندِ زمان علیہ السّلام کے تائید سے یہ لاعلمی دور ہوگی، جس کو اپنے زمانے میں صاحبِّ دور (یعنی ناطق) کا مقام ہے، جس کی صفت ’’عَلِیٌّ‘‘ ہے، یہی ہے ، اس قول کی تاویل جو بیان کی گئی۔
۴۱۷
ہم نے اس اکاون ویں گفتار کے اختتام پر اس کتاب کی تکمیل کر دی، جس کی گفتاروں کی تعداد ہم نے دن رات کی فریضہ و سنت رکعات کی برابر رکھی، تاکہ مومن کا فریضہ و سنت پڑھنا اور ان گفتاروں کے حقائق کا جاننا خدائے تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق ہو، اگر مومن جد و جہد کرے، تواس کا نفسِ ناطقہ اس کے نفسِ شہوانی کو اپنا تابع بنا سکے گا، اس سلسلے میں جو کچھ بہتری تھی میں نے خداوندِ زمان علیہ السّلام کی تائید سے اس کتاب میں ظاہر کر دی، اور خدائے تعالیٰ کی جانب سے حق والے (یعنی امامِ زمان) کے ذریعے اس کے ثواب ملنے کی ہم امید رکھتے ہیں، اگر اس میں کوئی غلطی، لغزش اور بھول ہوئی ہو، تو اس میں ہمارا ارادہ اور مقصد بہتری اور بھلائی تھا، مگر شاید ہمارے نفس کی کمزوری اور ناتوانی کی وجہ سے ایسی کوئی بات ہوئی ہوگی جس کی معافی ہم خدا کے ولی سے مانگتے ہیں، اور قیامت کے روز اس کے متعلق ہم سے درگزر کرنے کی سفارش بھی اسی سے چاہتے ہیں۔
مخلص مومنین کے لئے ہماری وصیت یہ ہے، کہ جب وہ اس کتاب کو پڑھیں، تو وہ صرف اس کے پڑھنے سے ہی راضی نہ ہو جائیں بلکہ ان کی تاویلات کے مطابق چلیں، اور شریعت پر دانش سے عمل کریں، تاکہ مومن کا نفسِ جزوی اس عالمِ طبیعت سے رہائی پائے، اپنے افعال کو اجسام ہی کے ذریعہ انجام دے سکے، اور شریعت کو جیسا کہ چاہئےعمل میں لائے، کیونکہ عالمِ طبیعت کچھ کام کرنے کا گھر ہے، اور یہ اجر اور آسائش کا گھر نہیں، کہ وہ اس گھر میں آسائش طلب کرے، اور جو شخص اس کے برعکس سمجھتا ہے، اور اس کے برخلاف عمل کرتا ہے تو اس کو دھوکہ باز دجال سمجھا جاتا ہے، اور مومنوں کو چاہئے کہ دانش سے عمل کریں، تاکہ (اسی دنیا میں) ان کے کام کے انجام کو خدائے تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم دیکھیں (اور منظور فرمائیں) تاکہ کل (قیامت کے روز) وہ شرمندہ نہ ہو جائیں۔
الحمدُ للہ ربّ العالمین حمد الشّاکرین و الصّلوٰۃ
۴۱۸
والسّلام علیٰ رسولہ محمّد النّبیّ الامین و علیٰ اٰلِہ الطّاھرین الأئمّۃ الصّادقین۔
بانجامِ رسید ترجمۂ ہٰذا بفضلہ و بمنہ
بدستِ فقیرِ حقیر نصیرؔ ہونزائی
بمورخہ ۲۹ رمضان المبارک ۱۳۸۶ھ
بمطابق ۱۱ جنوری ۱۹۶۷ء
۴۱۹