کارنامۂ زرین –  حصّۂ سوم

عملی بشارت

(انتساب)

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم۔

قرآنِ حکیم کا ہر مضمون علم و حکمت کے عجائب و غرائب سے آراستہ و پیراستہ اور اسرارِ معرفت سے مملو ہے، آئیے ہم عنوانِ بالا (عملی بشارت) سے بحث کرتے ہوئے اس حقیقت کی مثالیں دیکھنے کے لئے سعی کرتے ہیں: ۔

مثالِ اوّل: بشارت سے متعلق ایک آیۂ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے: اور وہی تو وہ (خدا) ہے جو اپنی رحمت (ابر) سے پہلے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے (۷: ۵۷) یہ تو تنزیلی حجاب ہوا، اب ہم جواہرِ محجوب کو دیکھتے ہیں: (الف) ہواؤں سے صورِ اسرافیل کی آواز مراد ہے کہ پھونک (نفخ) ہوا ہے (ب) ہوائیں روحانی خوشبوئیں ہیں (ج) یہ روحانی آوازیں ہیں (د) یہ منزلِ عزرائیلی کی ہوائیں ہیں (ھ) ہوائیں (ریاح) متحرک روحیں ہیں (د) ہوا سے خود ہوا کی گفتگو مراد ہے (ز) ہوا کی ایک خوشخبری یہ بھی ہے کہ مومن بحالتِ خواب ہوا میں پرواز کرتا ہے (ح) اور ہوا چلنے کی سب سے بڑی مثال حظیرۃ القدس میں ہے، روحانیّت

 

۳

 

میں ایسی بہت سی چیزیں ہیں، جن کے ذریعے سے کسی مومن کو کامیابی کی عملی خوشخبری دی جاتی ہے۔

مثالِ دوم: ایک متعلقہ آیۂ کریمہ کا ترجمہ: بے شک جن لوگوں نے (اسماءُ الحسنیٰ کے ذکر سے ) کہا کہ ہمارا ربّ اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو جاؤ اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے، ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) یہ ان خوش نصیب مومنین و مومنات کے لئے خصوصی عملی بشارت ہے جو راہِ روحانیّت پر کامیاب ہو گئے ہیں۔

مثالِ سوم: لغاتُ الحدیث میں ہے: اَلرُّو یا جُز عٌ مِّنَ النَبُّوَّۃِ۔ خواب نبوّت کے اجزاء میں سے ایک جز ہے (یعنی پیغمبری کی صفات میں سے ایک صفت ہے) پس حقیقی مومن کے خواب میں عملی خوشخبری ہو سکتی ہے، لیکن ظاہر کرنے سے اس کا سلسلہ ختم ہوسکتا ہے، مصلحت یہ ہے کہ خاموشی اور سنجیدگی کے ساتھ علم و عبادت میں بہت زیادہ ترقی کی جائے، الغرض عملی بشارت ایک روشن حقیقت ہے، جس سے کوئی بھی عاقل انکار نہیں کرسکتا ہے۔

بعد ازین خدائے حنان و منان کی بیرون از شمار نعمتوں کی شکر گزاری کرتے کرتے پگھل جانا چاہتا ہوں، اے کاش! ایسا ہوسکتا! لیکن انسانِ

 

۴

 

ضعیف البنیان ہر بار ورطۂ حیرت میں پڑنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتا، بہر کیف ایک معزز دوست یا ایک پسندیدہ شاگرد کے تعارف سے دل بیحد شادمان ہے۔

ایک بابرکت شخص یا شخصیت یا عالمِ شخصی جناب کریم بیگ ابنِ مراد بیگ ابنِ علیکو (بڑا پیارا نام ہے) ابنِ مراد بیگ، ابنِ سلطان بیگ ابنِ خوش بیگ ابنِ جٹوری ۔ کریم بیگ صاحب کی تاریخ پیدائش: ۸: اپریل ، ۱۹۶۴ ء ، جائے پیدائش: کریم آباد، ھونزہ، تعلمی قابلیت: بی۔ ایس ۔سی (آنرز) ایگریکلچر ۔

کریم بیگ کے افرادِ خاندان:

۱۔       یاسمین کریم (بیگم صاحبہ) پیدائش: ۳ ؍نومبر ۱۹۶۶ء، تعلیم: ایف ۔ اے

۲۔       فہیم بیگ (بیٹا) پیدائش: ۶؍ ستمبر ۱۹۸۸ء، تعلیم: دوسری جماعت

۳۔       وسیم بیگ (بیٹا) پیدائش: ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۹؍، تعلیم: پہلی جماعت

۴۔       ارسلان بیگ (بیٹا) پیدائش: ۲۶؍ مئی ۱۹۹۲ء

۵۔       کائنات بیگ (بیٹی، یہ بڑا پیارا نام ہے) پیدائش: ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۳ء۔

میرے بہت ہی عزیز چیف ایڈوائزر غلام قادر صاحب نے محترم کریم بیگ کی اخلاقی اور روحانی خوبیوں کا ذکرِ جمیل کیا ہے، مزید برآن ان کی گرانقدر جماعتی خدمات کی تفصیلات بھی موصول ہو چکی ہیں، ان تمام معلومات سے مجھے اور میرے جملہ ساتھیوں کو انتہائی خوشی ہے، الحمد للہ، اب سنہری خدمات کے سنہری مواقع سامنے آرہے ہیں، اور وہ سب نورانی خواب اسی کی

 

۵

 

طرف اشارہ کر رہے ہیں، ان شاء اللہ العزیز نورانی خوابوں کی نورانی تعبیروں سے نسلاً بعد نسلٍ علم کے انمول خزانے ملتے رہیں گے۔

اے دوستانِ عزیز! ہم سب یکدلی اور عاجزی سے دعا کریں ، اور یہ تحریر بھی ہمیشہ زبانِ حال سے پر خلوص دعا کرتی رہے کہ اَللّٰھُمَّ (اے اللہ!) بحرمتِ محمد و آلِ محمد علیہم الصلاۃ و السلام اہلِ ایمان پر اپنے پاک نور کی بارش برسا دے ! پروردگارا! اپنے وعدۂ قرآن کے مطابق علمِ قائم القیامت کے نورِ غالب سے سیارۂ زمین کو منور کردے! اے قادرِ مطلق، اے دانائے برحق، تیرے لئے کیا عجب ہے کہ اس دنیا کو ایک لطیف بہشت بنا دے، تاکہ سب لوگ ہر قسم کی رنجشوں کو بھول کر ایک ہو جائیں اور تیری حمد و ثنا ء کے گیت گائیں، اللّٰھمّ صَلِّ علیٰ محمّدٍ وّآلِ محمّد۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

کراچی

منگل ۲۴؍ شعبان المعظم ۱۴۱۶ھ   ۱۶؍ جنواری ۱۹۹۶ء

 

۶

 

حرفِ آغاز

بِسم اللہ الر حمٰن الرَّحیم۔ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۳) میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد اس طرح ہے: (ترجمہ: ) اے ایمان والو بہ کثرت خدا کی یاد کیا کرو، اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔ اللہ وہ ہے جو (وسیلۂ نور سے) تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تمہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالے اور وہ مومنین پر ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔

یہ درود جس کا اوپر ذکر ہوا براہِ راست ممکن ہی نہیں بلکہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے وسیلے سے اہلِ ایمان کو حاصل ہو سکتا ہے، اور حضور اکرمؐ کے بعد آپؐ کا برحق جانشینؑ ایسے مقاصد کے لئے ہر زمانے میں موجود ہے، جیسے خداوندِ قدوس نے آنحضرتؐ سے فرمایا: وَصَلْ عَلَیھِمْ (۰۹: ۱۰۳) اور ان کو خدا کا بھیجا ہوا درود پہنچا دو کیونکہ تمہاری ایسی دعا و درود ان کے حق میں باعثِ تسکین ہے۔

بناء برین مسلمانوں کو اس مقدّس دعا کی تعلیم دی گئی: اللّٰھُمّ صَلِّ عَلیٰ مُحمّدٍ وَّاٰلِ محْمّد۔ اے اللہ محمد اور آلِ محمد پر

 

۱۱

 

درود بھیج (تاکہ اس کے فیوض و برکات تیرے منشا کے مطابق اہلِ ایمان کو حاصل ہوں)۔

خدا اور اس کے ملائکہ جس درود کو مومنین پر بھیجتے ہیں وہ یقیناً علم و حکمت کے اعلیٰ معنوں میں ہے، کیونکہ صرف یہی وہ اہم چیزیں ہیں جو کسی کو جہالت و نادانی کے اندھیروں سے نور کی طرف لاسکتی ہیں، اور اہلِ ایمان کے لئے جس علم و حکمت کی ضرورت ہے، وہ فقط نبیٔ اکرمؐ اور آپؐ کی آلؑ کے توسط سے ممکن ہے، چنانچہ اللہ جلّ جلالہ نے ارشاد فرمایا: (ترجمہ: ) بے شک اللہ اور اس کے فرشتے پیغمبر (اور ان کی آل) پر درود بھیجتے ہیں (تاکہ یہ تم کو حاصل ہو) اے ایمان والوں تم دعا کرو: اللّٰھُمّ صَلِّ عَلیٰ مُحمّدٍ وَّاٰلِ محْمّد اور آلِ محمد(اے اللہ اہلِ ایمان کے لئے محمد و آلِ محمد پر درود نازل فرما) اور فرمانبرداری کرو جیسا کہ حق ہے (۳۳: ۵۶) ۔

کتاب دعائم الاسلام عربی، المجلدالاول، ص ۲۸ پر یہ روایت درج کی گئی ہے کہ جب پیغمبرِ اکرمؐ پر درود سے متعلق آیۂ شریفہ (۳۳: ۵۶) نازل ہوئی تو اصحابِ رضوان اللہ علیہم کی ایک جماعت نے آنحضرتؐ سے پوچھا: یا رسول اللہ (صلعم) ہم یہ جان چکے ہیں کہ آپ پر کس طرح سلام کریں، اب حضورؐ یہ بتائیں کہ آپؐ پر کس طرح درود بھیجیں؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: یوں کہا کرو: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی

 

۱۲

 

آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاهِیمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِیمَ إِنَّکَ حمید مجید ۔اے اللہ حضرتِ محمد پر اور حضرتِ محمد کی آل پر درود بھیج جیسے تو نے حضرتِ ابراہیمؑ پر اور حضرتِ ابراہیمؑ کی آل پر درود بھیجا تھا بے شک تو تعریف کے لائق (اور) بڑی شان والا ہے۔

حبیبِ خدا، سردارِ انبیاء، حضرتِ محمد مصظفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اس ارشادِ گرامی سے نہ صرف درود کی اہمیت اور اصل صورت کا علم ہو جاتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ الصّلوٰۃ  عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّد (صلی اللہ علیہ و علیہم اجمعین) دراصل علم و معرفت کا ایک کلیدی مضمون ہے، اور یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ دین کی کوئی چیز سرِ حکمت کے سوا نہیں، پس یہ جو اشارہ ملا کہ “آل محمدؐ آلِ ابراہیمؑ جیسے ہیں” یہ تو بہت بڑا خزانۂ مفاتیح ہے، مثال کے طور پر آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) کو لیں: ۔

آیۂ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے: بے شک اللہ نے چن لیا آدم اور نوح اور ابراہیم کی آل اور عمران کی آل کو سارے جہان سے، یہ ایک ذریت ہے ایک دوسرے سے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔ یہ آفاقی برگزیدگی اور عالمی برتری ایسی کیونکر ہو سکتی ہے جس میں محبوبِ خدا سید الانبیاءؐ

 

۱۳

 

اور آپؐ کی آلِ پاک کا ذکرِ جمیل نہ ہو، یقیناً سب کچھ ہے لیکن صرف ان ہی حضرات کے لئے جو محمد و آلِ محمد صلوات اللہ علیہم کے حسن و جمالِ معنوی کے عاشق ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی پراز حکمت سنت و عادت یہی چلی آئی ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہر کائنات کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے، حشر اور نشر اس قانون سے مستثناء نہیں، درخت کی طرح آدمی بھی تخم میں مرکوز ہو جاتا ہے، اور پھر پھیل جاتا ہے، اور خدا ہر ساکن عالم کو بھی ایسا کر سکتا ہے، قرآنِ عظیم سب سے بڑی علمی کائنات ہے، چنانچہ خداوندِ عالم اہلِ علم و معرفت کی نظر میں قرآن کے تمام معنوں کو ام الکتاب میں مرکوز و مجموع کرتا ہے، اور پورے قرآن میں پھیلاتا بھی ہے، آیت الکرسی اور اسمِ اعظم میں بھی ایسا کرتا رہتا ہے، اور کسی بھی نمائندہ آیت میں یہی معجزۂ علمی ہوتا رہتا ہے، اسی طرح آیۂ مقدسۂ آلِ ابراہیمؐ (۰۴: ۵۴) میں بھی یہ معنوی معجزہ موجود ہے: ۔فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا   ہم نے تو مرحمت فرمادی ہے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت، اور عنایت فرمادی ہے عظیم الشّان سلطنت۔ آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمدؐ ایک ہی سلسلہ ٔ نور کی مقدّس کڑیاں ہیں، لہٰذا یہ آیۂ مبارکہ

 

۱۴

 

اسی پُرنور سلسلۂ ہدایت کی شان میں ہے، چونکہ یہ ایک نمائندہ آیت ہے اس لئے یقیناً اس میں انتہائی جامعیّت ہے، الکتاب وہ ہے جس میں ساری آسمانی کتابیں جمع ہیں، حکمت اس کتاب کی ظاہری اور باطنی تاویل کا نام ہے، اور ملک عظیم سے روحانی سلطنت مراد ہے، پس امامِ مبینؑ (جو آلِ رسولؐ ہے) کو خدا نے سب کچھ عنایت فرمایا ہے تاکہ وہ لوگوں کو بقدرِ اطاعت ظاہری اور باطنی فیوض و برکات پہنچائے۔

ھُبُوطِ آدمؑ: یعنی حضرتِ آدم علیہ السّلام کا بہشت سے دنیا میں اترنا، یہ ایک بہت ہی بڑا علمی اور عرفانی سوال رہا ہے کہ ابو البشر کس طرح سیّارۂ زمین پر وارد ہوا؟ چونکہ آدم ایک نہی ہے بلکہ بے شمار آدموں کا قصّہ ہے، لہٰذا زمین پر ان کا ھُبوط مختلف طریقوں سے ہوا ہے، کوئی آدم ایسا بھی تھا جس کو سیّارۂ زمین کا پہلا انسان کہنا چاہئے، وہ البتہ کسی دوسرے سیّارے سے جسمِ لطیف میں پرواز کر کے یہاں آیا، وہ ایک سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں، جس طرح اس دور میں اڑن طشتریوں کی مثال ہے، کوئی آدم ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دنیا میں لوگوں کے درمیان تھا، اس کی روحانی ترقی ہوئی اور اس کی روحِ قدسی بہشت سے نازل ہوئی، اور لفظِ آدم کا اطلاق اس روح پر ہوا، جیسے آدمِ سراندیبی شروع شروع میں امام کا ایک عام مرید تھا،

 

۱۵

 

مگر اس نے علم اور عبادت میں بہت زیادہ ترقی کی اور بہشت سے اس پر روحِ قدسی نازل کی گئی، جس کی وجہ سے گہا گیا کہ آدم سراندیب میں اتر گیا، یہ لفظ ھندی میں چرن دیپ تھا، اس کا مُعَرَّبْ سراندیب ہو گیا جو جزیرۂ لنکا (سیلون) ہے۔

آیۂ اِسْتِخْلاف: یعنی وہ آیۂ کریمہ جس میں صفِ اوّل کے مومنین کو عوالمِ شخصی میں اور ستاروں پر خلیفہ (جانشین) بنانے کا ذکر آیا ہے، وہ یہ ہے: تم میں سے جن لوگوں نے (حقیقی معنوں میں) ایمان لایا اور اچھے اچھے کام کئے ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو زمین میں ضرور (اپنا) خلیفہ مقرر کرے گا جس طرح ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جوان سے پہلے گزر چکے ہیں (۲۴: ۵۵) ۔

کتاب کا نام: علم و حکمت کی ان چند باتوں کے بعد مضمونِ دیباچہ کی طرف آتے ہیں، کہ یہ کتاب کارنامۂ زرین حصۂ سوم ہے اس میں علم الامام کی انتہائی پیاری پیاری باتیں ہیں، نیز بعض دوستوں کے اسمائے گرامی اور بعض تاریخی کارنامے ہیں، غرض ہماری یہ کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت علمی خدمت کے لئے صرف ہو، کیونکہ جو خدمت ہمارا ادارہ کر رہا ہے وہ بے مثال بھی ہے اور سب کے لئے انتہائی مفید بھی، جبکہ یہاں روحانی سائنس کی بات ہورہی ہے،

 

۱۶

 

اور یہ بہت بڑا انقلابی کام خداوندِ قدوس کی عنایتِ بے نہایت سے ممکن ہو رہا ہے۔

اب ہم اپنے اس سدا بہار درخت کی ہر پُرثمر شاخ کو دل و جان کی خاص محبت سے دست برسینہ سلام کرتے ہیں، الحمد للہ، تمام ہری بھری شاخیں علم و حکمت کے میٹھے پھلوں سے لدی ہوئی ہیں، زہے نصیب کہ ان سے شرق و غرب کی بہت ہی پیاری جماعت کو میوۂ بہشت ملتا رہتا ہے، وہ ہمارے عزیزان ہیں جن میں سے ہر فرد ایک معمور عالم شخصی اور کل کائنات کی زندہ کاپی (copy) ہے، جس میں ایک کلی بہشت اور ابدی سلطنت ہے، ہمیں بے حد خوشی ہورہی ہے کہ ہمارے بہت ہی پیارے ساتھی جان و دل سے حکمتِ قرآن کے شیدائی اور حضرتِ امام علیہ السّلام کے جانثار عاشق ہیں، وہ دینِ اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں، اسی غرض سے قرآنی حکمت اور روحانی سائنس کی روشنی پھیلانے کے لئے سعی کر رہے ہیں، وہ عزیزان خاموشی سے دینِ متینِ اسلام اور انسانیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ تمام حضرات میرے دل کے مکین بھی ہیں اور میری روح کے اجزاء بھی۔

 

۱۷

 

روحانی سائنس کی سب سے بڑی عجیب و غریب بات یہ ہے کہ ہر فردِ بشر (خواہ مرد ہو یا عورت) خدا کی ازلی عنایت سے بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی بھی ہے اور عالمِ اکبر کی کاپی بھی، جس میں وہ ایک بھی ہے اور بے شمار بھی، جہاں وہ ایک ہے وہاں خود سب سے عظیم فرشتہ ہے، جس کے بہت سے اسماء ہیں، اور جہاں وہ بڑی کثرت سے ہے یعنی بے شمار ہے، وہاں وہ خلائقِ عالم کی اشکالِ مختلفہ میں ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: مَاتَرَ فِیْ خَلْقٍ الرّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوْتٍ۔ تمہیں (خداوند) رحمان کی آفرینش میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا (۶۷: ۰۳) یہ ہے یک حقیقت کی ایک تفسیر یا مونوریالٹی کی ایک وضاحت۔ اَلْحَمد لِلّٰہ رَبّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

کراچی

اتوار ۲۹؍ شعبان المعظم ۱۴۱۶ھ   ۲۱؍ جنواری ۱۹۹۶ء

 

۱۸

 

بابِ اوّل

بکھرئے ہوئے موتی

 

۱۹

 

MONOGRAM

MESSAGE

Each one of you should have a deep knowledge and true understanding of his Faith.

To those who contribute to the acquisition of this knowledge and understanding by others, and to those who have made it their aim to know about their Faith, I send my best loving blessings.

 

Sd/.

Aga Khan

29th October 1958.

ISMAILIA ASSOCIATION,

KARACHI.

 

۲۱

 

قرآنِ ناطق یا کتابِ ناطق

اے عزیزانِ باسعادت! ہم ان مسلمین و مومنین میں سے ہیں جو امامِ برحق علیہ السّلام کو قرآنِ ناطق مانتے ہیں، اگرچہ یہ عقیدہ اپنی جگہ حکمت اور حقیقت ہے، تاہم آئیے واضح دلائل کی روشنی میں اس امرِ عظیم کی مزید تحقیق کریں: ۔

دلیل نمبر ا: ۔ سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) میں ارشاد ہے: وَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ = اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو سچ سچ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔ یہ کتاب امامِ عالی مقامؑ ہی ہے، جیسے مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا: انا ذالک الکتٰبُ لا ریب فیہ۔ میں وہ کتاب ہوں جس میں کسی قسم کا شک و ریب نہیں ہے۔ یعنی اس میں علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین ہے۔

مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں قرآنِ ناطق (نورِ امامت) کے تین اعلیٰ اوصاف بیان ہوئے ہیں: (۱) وہ مرتبۂ روحانی و عقلانی پر خدا کے پاس ہے (۲) وہ اپنی نورانیّت میں حقائق و معارف بیان کرتا ہے (۳) وہ سرچشمۂ علم و حکمت بھی ہے اور نامۂ اعمال

 

۲۲

 

بھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے لئے عدل و انصاف ہی ہے، اور خدا کے دین میں کوئی ظلم (کمی) نہ دنیا میں ہے اور نہ قیامت میں ہوگا۔

دلیل نمبر ۲: ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اپنے وقت میں قرآنِ ناطق تھے، یہ بات صرف عقیدہ نہیں، بلکہ حقیقت بھی ہے، وہ یہ کہ قرآنِ پاک ظاہر میں پُرحکمت کتاب اور باطن میں روح و نور ہے، چنانچہ جب آنحضرتؐ کے قلبِ مبارک پر بتدریج قرآن بصورتِ روحانیّت و نورانیّت نازل ہوا تو آپؐ یقیناً قرآنِ ناطق ہوگئے، اگرچہ کاتبانِ وحی کی تحریر سے رفتہ رفتہ قرآن کی ظاہری صورت مکمل ہوگئی، لیکن قرآنِ عظیم کی روح اور نور (۴۲: ۵۲) حضورِ انور ہی میں رہا، پس اسی معنیٰ میں رسولِ خداؐ کا اسمِ مبارک نور اور قرآن کا اسم کتابِ مبین ہے (۰۵: ۱۵) آپؐ قرآنِ پاک کے روحانی اور نورانی معلّم تھے اس لئے آپؐ کی ذاتِ اقدس میں روحانی اور نورانی قرآن موجود تھا، اور اس معنیٰ میں آپ قرآنِ ناطق تھے۔

دلیل نمبر ۳: ۔ سورۂ زخرف کی آخری آیت سے ما قبل کو غور سے دیکھ لیجئے: اور اسی طرح (اے نبیؐ) ہم نے اپنے امر سے ایک روح (قرآنی روح) تمہاری طرف وحی کر دی ہے، تمہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر

 

۲۳

 

اس روح کو ہم نے ایک نور بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو (۴۲: ۵۲)۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن منازلِ روحانیّت میں روح ہے اور مراحلِ عقلانیّت میں نورِ عقل، پس حضورِ اقدسؐ ان تمام روحانی اور نورانی مدارج پر قرآنِ ناطق تھے۔

دلیل نمبر ۴: مذکورۂ بالا ربّانی تعلیم کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ ایمانی بندوں میں سے خاص ترین و کامل ترین شخص (امام) میں قرآن کی روح اور نور منتقل کر سکتے ہیں، اور یہ دینی امور میں سب سے ضروری امر ہے، کیونکہ تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت (۰۵: ۰۳) کے یہ معنی ہیں کہ کتابِ مبین کے ساتھ ساتھ ہادیٔ برحقؑ کا نور بھی موجود ہو، جس طرح زمانۂ نبوت میں قرآنِ صامت بھی تھا اور قرآنِ ناطق (نور) بھی (۰۵: ۱۵)۔

دلیل نمبر ۵: سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۸) میں ہے:

كُلُّ اُمَّةٍ تُدْعٰۤى اِلٰى كِتٰبِهَاؕ۔ معنیٔ اوّل: ہر امت کو اس کی کتاب (یعنی امام) کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ معنیٔ دوم: ہر امت کو اس کی کتاب (نامۂ اعمال) کی طرف بلایا جائے گا۔ دو معنی اس لئے ہیں کہ لفظِ تُدْعیٰ مضارع ہے . . . ھوَ لَدَیْنَا كِتٰبٌ یَّنْطِقُ بِالْحَقِّ۔ یہ ہماری کتاب (نورِ امامت / نامۂ اعمال) تمہارے لئے سچ سچ بولتی ہے۔ یعنی اب کتابِ ناطق کی وجہ سے تم پر اسرارِ

 

۲۴

 

حقیقت منکشف ہو رہے ہیں۔

دلیل نمبر ۶: ۔ اللہ نے ہر چیز کو عالمِ شخصی میں گویائی (بولنے کی صلاحیت) دی ہے (اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ ۔ ۴۱: ۲۱) لہٰذا یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ قرآنِ صامت جو اللہ تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے وہ امام میں بولتا ہے، اسی وجہ سے امامِ اقدس و اطہرؑ قرآنِ ناطق کہلاتا ہے، اور یہ قرآنِ پاک کے عظیم معجزات میں سے ہے کہ وہ ایک مقام پر بولتا بھی ہے، اور دوسری مقام پر خاموش بھی ہے جس میں قرآن شناسی سے متعلق لوگوں کا بہت بڑا امتحان ہو رہا ہے۔

دلیل نمبر ۷: ۔ سورۂ نحل (۱۶: ۴۴) میں دیکھ لیں کہ لوگوں کو قرآنی ہدایت اور علم و حکمت بیان کرنے کی مستقل ذمہ داری رسول اکرم کے سپرد کی گئی ہے، چنانچہ حضور اکرمؐ نے اس فریضۂ مقدّس کو اپنے وقت میں حسن و خوبی سے ادا کیا، اور زمانۂ آئندہ کے لئے خدا کے حکم سے ایسے کامل ترین شخص کو اپنا وصی اور جانشین مقرر فرمایا: جس کا باطن نورِ امامت اور نورِ قرآن سے منور ہو چکا تھا۔

دلیل نمبر ۸: ۔ خدا کی بادشاہی کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ وہ قدیم یعنی ہمیشہ کی ہے، مگر ہاں یہ بات عالمِ شخصی کی نسبت سے ہے کہ بحوالۂ حدیث: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، دوسری حدیث ہے کہ: خدا نے سب سے

 

۲۵

 

پہلے قلم کو پیدا کیا، اور تیسری حدیث سے ظاہر ہے کہ: اللہ پاک نے سب سے پہلے نورِ محمدی کو پیدا کیا، آپ نے سوچا ہوگا کہ یہ ایک ہی حقیقت کے تین نام ہیں، اور وہ نورِ محمدی ہی ہے، پس جہاں نورِ نبوّت عقلِ کل اور قلمِ اعلیٰ ہے، وہاں نورِ امام نفسِ کل اور لوحِ محفوظ ہے، یہ دلیل اہلِ دانش کے نزدیک بہت ہی مستحکم ہے۔

دلیل نمبر ۹: ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی رحمتِ بے پایان سے عالمِ علوی کی ہر چیز کا ایک سایہ (ظل= مظہر۔ ۱۶: ۸۱) عالمِ سفلی میں پیدا کیا، چنانچہ مظہرِ قلم رسولِ اکرمؐ ہیں، اور مظہرِ لوحِ محفوظ امامِ مبین، جیسا کہ قلبِ قرآن میں ارشاد ہے: ۔ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ساری لطیف چیزوں کو امامِ ظاہر میں گھیر کر رکھ دی ہیں۔ پس امام میں قرآن کی روح اور عقل (نور) بھی موجود ہے اس لئے وہ قرآنِ ناطق ہے۔

دلیل نمبر ۱۰: ۔ آپ قرآنِ حکیم میں دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کا نور نہ بجھتا ہے اور نہ اس کو بجھایا جاسکتا ہے، جبکہ اس کے قیام و بقا کا قانون یہ ہے کہ وہ ایک کامل شخص سے دوسرے کامل شخص میں منتقل ہو تا رہتا ہے، اور اسی قانون کا نام قرآن میں نُورٌ عَلٰی نورٍ ہے (۲۴: ۳۵) پس قرآن کا نور جو آنحضرتؐ کے باطن

 

۲۶

 

میں تھا، وہ بتدریج مولا علیؑ میں منتقل ہوگیا، جبکہ قرآن کا ظاہر بصورتِ کتاب اپنی جگہ موجود تھا۔

دلیل نمبر ۱۱:۔ یہ ارشاد مبارک سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۹) میں ہے: بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْعِلْمَ۔ بلکہ وہ (قرآن بصورتِ) روشن آیات (معجزات) ان لوگوں کے دل میں ہے جن کو (خدا کی طرف سے) علم عطا ہوا ہے۔ اس آیۂ کریمہ سے یہ حقیقت نکھر کر چشمِ بصیرت کے سامنے آتی ہے کہ قرآن بشکلِ روشن آیات و معجزات أئمّۂ طاہرین کے قلبِ مبارک میں ہے۔ اس بابرکت آیت کی یہ تفسیر حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام کے ارشاد کے مطابق ہے، ملاحظہ ہو: کتاب دعائم الاسلام، جلد اوّل، ذکر ولایۃ الائمّہ۔

دلیل نمبر ۱۲: اصل توریت اور انجیل کے ظاہر میں لوگوں کے لئے ہدایت تھی اور ربّانی معلم کے باطن میں اس کا نور تھا (۰۵: ۴۴، ۰۵: ۴۶) آسمانی کتاب کے نور کا مشاہدہ کلی طور پر پیغمبر اور امام کرسکتے ہیں، پھر ان کے وسیلے سے یہ سعادت باب، حجت، اور داعی کو بھی حاصل ہو جاتی ہے، امام کا یہ مشاہدہ پیغمبر کو تنزیل پر شہادت (گواہی) ہے، اور ان حدودِ دین کا مشاہدہ امام کی تاویل کی گواہی ہے، دعائم الاسلام حصّۂ اوّل، ص؍۷۳ پر بھی دیکھ لیں۔

دلیل نمبر ۱۳: ۔ سورۂ نمل کی آخری آیت کیسی کیسی عظیم حکمتوں

 

۲۷

 

سے مملو ہے اس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے، تاہم اس میں ربِّ کریم کا جیسا وعدہ ہے، وہ اہلِ معرفت کے لئے سب کچھ ہے، ترجمہ:۔ اور تم کہدو کہ الحمد للہ وہ عنقریب تمہیں اپنی آیات (معجزات) دکھا دے گا تو تم انہیں پہچان لوگے (۲۷: ۹۳) یہ آیات و معجزات قرآن، امام، آفاق اور انفس کی ہیں، اور اس مجموعے سے کوئی آیت مستثنا نہیں، اس میں عالمِ شخصی کے شروع سے آخر تک پھر مرتبۂ عقل اور حظیرۃ القدس کے مشاہدات اور کامل معرفت کا ذکر ہے، یاد رہے کہ یہ قرآن ہی کی بے مثال عظمت و بزرگی کی دلیل ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد بھی اس کا ایک ربّانی اور نورانی معلّم مقرر ہے جو کتابِ ناطق ہے تاکہ زمانے کے ساتھ ساتھ قرآنِ حکیم کے باطنی علم و حکمت کی روشنی پھیلا دی جائے۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

جمعہ  ۵؍ذی الحجہ ۱۴۱۵ ھ   ۵؍مئی ۱۹۹۶ء

 

۲۸

 

طعامِ واحد

۱۔ عنوانِ بالا کے پہلے معنی: ایک ہی کھانا، دوسرے معنی: ایک ایسا کھانا جس میں کل کھانوں کا جوہر موجود ہو، کیونکہ لفظِ واحد (بروزنِ فاعل) کے معنی ہیں: ایک کرنے والا، اور اس سے یہاں ایسا طعام مراد ہے جس نے اپنے اندر تمام غذاؤں کو بصورتِ جوہر ایک کر لیا ہے، وہ المَنَّ وَ السَّلویٰ ہے (۰۲: ۵۷، ۰۷: ۱۶۰ ۲۰: ۸۰) یعنی مشاہدۂ گوہرِعقل اور دیدارِ نفسِ کل، جس میں ہر نوع کی نعمتوں کا جوہر جمع ہے، چونکہ یہ وہ مقامِ اعلیٰ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے امام ِمبین علیہ السّلام کے نورِ اقدس میں کل اشیاء کو گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) ۔

۲۔ بنی اسرائیل سے خداوندِ عالم کا خطاب ہے: اور جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم سے ایک ہی کھانے پر صبر نہیں ہو سکتا (۰۲: ۶۱) یہ لوگ حدودِ دین میں سے کسی کے عالمِ شخصی میں پہلے منتشر پھر متحد ذرات تھے، ورنہ عوام الناس از خود گوہرِ عقل اور نفسِ کل تک رسا نہیں ہو سکتے ۔

۳۔ پھر ان لوگوں کو جو ذراتِ متحد میں تھے حکم ہوا: اِھْبِطْوْا مِصْراً = کسی شہر میں جا اترو (۰۲: ۶۱) یعنی مرتبۂ ازل اور مقامِ

 

۲۹

 

عقل سے نیچے اتر جاؤ۔

۴۔ راستوں والا آسمان: ۔ یہ آیۂ مبارکہ سورۂ ذاریات میں ہے: وَالسَّمَآ ءِ ذَاتِ الْھُبُکِ (۵۱: ۰۷) اور (اس) آسمان کی قسم جس میں راستے ہیں۔ یعنی امام ِزمانؑ جو علمی مرتبت کا آسمان ہے، جس میں کُنُوزِ حقیقت و معرفت کے راستے ہیں، اور یقیناً یہی سلامتی کے راستے ہیں(۰۵: ۱۵ تا ۱۶)۔

۵۔ اے نورِ عینِ من! اس سرِ عظیم کو قدردانی سے سننا اور یاد رکھنا ہوگا کہ اوّل راستہ ہے، اور اس کے بعد راستے ہیں، یعنی پہلے صراطِ مستقیم پر چل کر خدا تک پہنچ جانا ہے، اور بعد ازان اس کی بادشاہی میں سیر کرتے ہوئے اسرارِ حقائق و معارف کو حاصل کرنا ہے۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

ذوالفقار آباد۔ گلگت

۴؍ جون  ۱۹۹۶ء

 

۳۰

 

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی سے استاذ نصیر کا ایک تحفۂ دلپذیر

نوٹ ۱: میں چاہتا ہوں کہ میری تحریروں کو غور و فکر سے دیکھا جائے اور ان میں جو قرآنی آیات و کلمات آئے ہیں ان کو ٹھیک ٹھیک تلفظ اور اصل معنی کے ساتھ پڑھا جائے۔

نوٹ ۲: ہماری تعلیمات میں یقیناً ریسرچ کی بڑی گنجائش ہے، جس کی وجہ عظیم روحانی انقلاب ہے، لہٰذا عزیزان ریسرچ ورک شروع کریں۔

نوٹ ۳: ا ریسرچ (تحقیق) میں ایک اہم بات تو یہ ہے کہ تاویلی حکمت اور فکرِ جدید کے تقاضوں کے مطابق کچھ نئی اصطلاحات سے کام لیا گیا ہے، اور کچھ منتخب اصطلاحات پرانی بھی ہیں، جن کی طرف بھر پور توجہ دلائی گئی ہے۔

نوٹ ۴: خدائے بزرگ و برتر کی عنایتِ بے نہایت سے ان تعلیمات کی جملہ خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے وسیلے سے قرآن، حدیث، ارشاداتِ أئمّہ علیہم السّلام اور بزرگانِ دین کی کتابوں کے جواہر کو سمجھنے میں بڑی مدد مل جاتی ہے۔

نوٹ ۵: ہر دیندار اسماعیلی لازماً اپنے پاک امام علیہ السّلام

 

۳۱

 

اور پیارے دین کی روحانیّت و نورانیّت کے بارے میں سننا اور سمجھنا چاہتا ہے ہم نے امام ِ برحقؑ کی تائید و دستگیری سے اس سلسلے میں اپنی پیاری جماعت کے لئے مفید کام انجام دیا ہے، الحمد للہ۔

نوٹ ۶: حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کی علمی عظمت و بزرگی کے بارے میں جتنی بھی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے، میرا خیال ہے کہ ان کے نورِ اقدس میں ایک بہت بڑی باطنی، علمی اور عرفانی قیامت پوشیدہ تھی، کیونکہ آپؑ بمطابق اشارتِ قرآنی “شبِ قدر” کی تاویل تھے، جس میں ملائکہ اور روحِ اعظم کا نزول ہوا، تاکہ سیّارۂ زمین پر مادّی سائنس اور روحانی سائنس کا انقلاب آئے۔

نوٹ ۷: کتابِ وجہِ دین آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل لکھی گئی ہے، جس میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام کے اوصافِ کمال کے بارے میں عظیم پیش گوئیاں موجود ہیں، آپ اس پُرحکمت کتاب میں “حجتِ قائم ” وغیرہ کے تحت دیکھیں۔

نوٹ ۸: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہماری کتابیں بہت ہی چھوٹی چھوٹی اور مختصر ہیں اور ضخامت کے اعتبار سے ان کی کوئی تعریف نہیں، مگر ہاں یہ سچ ہے کہ ہر کتاب بفضلِ خدا ایک ذخیرۂ علمی کا نچوڑ اور جوہر ہے، کیونکہ جہاں بڑی بڑی ضخیم

 

۳۲

 

کتابیں کام نہیں آسکتیں، وہاں یہ مختصر کتابیں (ان شاء اللہ) از بس مفید ثابت ہو سکتی ہیں، پس میں ان کتابوں کی اہمیت و افادیت سے سب کو آگاہ کر دینا چاہتا ہوں۔

نوٹ ۹: امامِ عالیمقام علیہ السّلام علم و حکمت کا دروازہ ہے، اس لئے ہر مرید اس کے روحانی معجزات کا مشاہدہ کرنا اپنے حق میں بہت بڑی سعادت سمجھتا ہے، لیکن امامؑ کے اصل معجزات نہ صرف علم و عبادت ہی سے مشروط ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی آزمائشوں سے بھی گزر جانا پڑتا ہے۔

نوٹ ۱۰: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ الصلواۃ والسّلام نے فرمایا کہ: “اگر تم میں قرآن کے بارے میں پوچھنے والے ہوتے تو ہم ان کو بتا دیتے۔” میرا یقین ہے کہ یہ ایک تاویلی فرمان ہے، کیونکہ حضرتِ امامؑ سے ظاہر میں بہت کم پوچھا جاتا ہے، جبکہ امامِ زمان علیہ السّلام  سے سوال کرنے کا خاص طریقہ باطن اور روحانیّت میں ہے، الحمد للہ، یہ عاجزانہ شکرگزاری کی بات ہے کہ ہم نے قرآن ناطق سے قرآنی سوالات کئے اور اس نے ہر سوال کا انتہائی تسلی بخش جواب دیا، بے شمار سوالات و جوابات ہوئے اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے، ہم پوچھتے نہیں ہیں، ہماری عقل و روح پوچھتی رہتی ہیں جس کا بے مثال جواب ملتا رہتا ہے۔

نوٹ ۱۱: اسماعیلی مذہب میں سب سے اصل چیز امام شناسی

 

۳۳

 

ہے، جس کا تعلق باطن اور روحانیّت سے ہے، یہ عمل اگرچہ انتہائی مشکل ہے لیکن غیر ممکن ہرگز نہیں، اس مقصد کے حصول کے لئے کئی بڑی اہم شرطیں ہیں، تاہم مفتاحِ سعادت اور کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

نوٹ ۱۲: معرفت کی روشنی میں دیکھا جائے تو امام علیہ السّلام کی مبارک ہستی وہ روحِ کل اور بحرِ نور ہے جو کائنات پر محیط ہے، جس میں تمام انسان چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کی طرح حرکت کر رہے ہیں، لیکن جس طرح مچھلیوں کو عقل نہیں ہے، اسی طرح آدمیوں کو اس لطیف سمندر کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، پس اگر کسی کو علم و معرفت حاصل ہو جائے تو وہ یقین کرے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مظہر (امام) کو روح الارواح اور بحرِ نور بنایا ہے۔

نوٹ ۱۳: ایک اسماعیلی مرید جہاں بھی جائے اس کے ساتھ امام موجود ہے، جیسے سمندر کی مچھلی ہمیشہ دور و نزدیک تیرتی پھرتی رہتی ہے، مگر پانی ہر وقت اس کے لئے باعثِ زندگی اور کلی سہارا رہتا ہے، ہاں بے شک دیکھنے والوں نے امام علیہ السّلام کو ہر جگہ دیکھا، مگر جن کے سامنے حجاب ہے، تو وہ لا محالہ محجوب ہیں۔

نوٹ ۱۴: مولا علیؑ نے فرمایا: “میں وہ بعوضہ ہوں، جس کی مثال قرآن (۰۲: ۲۶) میں موجود ہے۔” یہاں بعوضہ (مچھر) سے بطورِ

 

۳۴

 

خاص اس کے پروں کی وہ آواز مراد ہے جو بوقتِ پرواز ہوا کے ساتھ ٹکرانے سے پیدا ہوتی رہتی ہے، فطرت کا منظر اور تما شا بڑا عجیب و غریب ہے، کہ جس طرح طیارہ کے انجن کے گھومنے سے ایک بہت بڑی آواز پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح مچھر کے پروں کی تیز حرکت سے ایک بہت ہی باریک اور بہت ہی چھوٹی آواز پیدا ہوجاتی ہے، چنانچہ حضرت امام علیہ السّلام کے روحانی کلام کا معجزہ اس جیسی باریک اور چھوٹی آواز یعنی کان کے بجنے سے شروع ہو جاتا ہے، یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم نے روحانیّت کے ابتدائی کلام کی تمثیل بعوضہ سے دی ہے۔

نوٹ ۱۵: اے کاش! بہت سارے اسماعیلی بلکہ سب کے سب حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ الصلوات و السّلام کے باطنی، روحانی، عقلانی، عرفانی، قرآنی اور علمی معجزات کا مشاہدہ کر سکتے ! تاکہ اس حال میں ان کو عوالمِ شخصی میں بہشتِ برین کے دلکش مناظر ہوتے۔

نوٹ ۱۶: ہمارے عظیم المرتبت پیروں اور بزرگوں کو امامِ برحق علیہ السّلام کے نورانی اسرار اور عقلی معجزات کا تجربہ اور علم تھا، اسی وجہ سے وہ جنگل کے بادشاہ یعنی شیر کی طرح بے خوف اور اپنے کام میں مست ہوتے تھے، یہ قابلِ تعریف مستی ان کو امامِ عالیمقامؑ کے باطنی حسن و جمال کے لازوال عشق سے حاصل

 

۳۵

 

آئی تھی، وہ کسی سے نہیں ڈرتے تھے، انہوں نے بے شمار نفوسِ انسانی کو ہلاکت سے نجات دلا کر راہِ مستقیم پر گامزن کر دیا اور نورِ امامت کے علم کے آبِ حیات سے ان کو ابدی زندگی بخش دی۔

نوٹ ۱۷: کتنی عظیم کامیابی اور کتنی بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایک درویش آپ کے سامنے بہت سی مثالوں میں حجتوں اور پیروں کے معجزانہ علم و معرفت کی سچی شہادت پیش کر رہا ہے۔

نوٹ ۱۸: دنیا کے دکھوں کی کوئی بات ہی نہیں کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ کی طرح ہے، اس لئے یہاں تکلیف ہی تکلیف ہے، لیکن اپنی روح کی شناخت اور امامؑ کی معرفت ایسی عظیم دولت ہے کہ جس کے حصول کے لئے جتنی بھی مشقت و تکلیف برداشت کی جائے وہ بہت ہی کم ہے۔

نوٹ ۱۹: دینی عشق یا محبت دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک تقلیدی ہے اور دوسری تحقیقی، جس کی مثال یہ ہے کہ ایک بچہ جب کسی اسماعیلی گھرانے میں پیدا ہو جاتا ہے تو وہ شروع شروع میں ماں باپ کو دیکھتے ہوئے تقلیدی طور پر امامؑ سے محبت کرنے لگتا ہے، لیکن آگے چل کر جب وہ علم و معرفت کی روشنی میں امامؑ کی خوبیوں کو دیکھتا ہے تو اس وقت وہ تحقیقی معنوں میں امامِ وقتؑ کا محب و عاشق ہو جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولا کی محبت اور عشق کے بہت سے درجات ہیں۔

 

۳۶

 

نوٹ ۲۰: اس دنیا میں قدر و قیمت کے اعتبار سے تمام چیزیں مختلف درجات پر واقع ہیں، یعنی کچھ چیزیں ادنیٰ سے ادنیٰ بھی ہیں، اور کچھ اشیاء اعلیٰ سے اعلیٰ بھی، لیکن اس جہان سے جتنی اچھی چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں اور جس قدر بھی عمدہ سے عمدہ چیزیں ممکن الحصول ہیں، ان سب کی چوٹی پر بلکہ اس سے بھی بہت بلندی پر حضرتِ مولا کی پاک معرفت کا مقام ہے، پس جو نیک بخت مومن امام ِمبین علیہ السّلام کی معرفت کو حاصل کر لیتا ہے، دونوں جہان کی مکمل قیمت بلکہ دائمی سلطنت کو پاتا ہے۔

نوٹ ۲۱: قرآنِ حکیم میں جو اعلیٰ سے اعلیٰ حکمت کی باتیں ہیں، ان میں یہ سرِ عظیم بھی ہے کہ خداوندِ عالم ہمیشہ اور بار بار دونوں جہان کے جوہر کو اپنے بابرکت ہاتھ میں لپیٹتا رہتا ہے، اور خدا کا بہت بڑا عجیب و غریب کام اس کے مظہر ہی میں ہوتا ہے، یعنی امامِ مبین علیہ السّلام کی ذاتِ عالی صفات سے کائنات و موجودات کا کوئی علم و حکمت اور کوئی راز باہر نہیں ہے۔

نوٹ ۲۲: جب یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ امامِ مبینؑ میں تمام چیزیں مجموع ہیں تو جاننا چاہئے کہ اللہ کا دیدار، قرآن کا شُھُود، اور رسولؐ کا تصوّر بھی امامؑ ہی میں ہے، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۳۷

 

ریکارڈ آفیسرز: روبینہ برولیا اور زہرا جعفر علی نے استادِ محترم کی زبان سے ۲۲ اپریل ۱۹۹۵ ء کو نقل کی، اور ۱۳۔۱۴ ستمبر ۱۹۹۵ء کو خود استاد نے اس مضمون کے بعض اسرار حذف کر لئے۔

 

۳۸

 

طوفانِ نوح اور طوفانِ روح

عالمِ شخصی کی مکمل اور کامیاب روح و روحانیّت میں انبیائے قرآن علیہم السّلام کی تمام مثالیں مخفی ہیں، اس سے قرآنِ حکیم کے وہ سارے قصّے مراد ہیں جو پیغمبروں سے متعلق ہیں، بابرکت قرآن کے ان حکیمانہ قصوں اور مثالوں میں خدا شناسی، پیغمبر شناسی، امام شناسی، اور خود شناسی کے بارے میں کس بات کی کمی ہوسکتی ہے؟ واللہ! خدا کی کتاب میں دولتِ لازوالِ معرفت کی کوئی کمی ہر گز نہیں۔

مولا علی صلوٰۃ اللہ علیہ کے اس ارشاد پر خوب غور کریں: من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ۔ جس نے اپنی ذات (یعنی انائے علوی) کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ کیا یہ معرفت نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے سوا ممکن ہوسکتی ہے؟ نہیں، نہیں، ہرگز نہیں، پھر یقیناً “نفسہٗ” میں کوئی بہت بڑا راز ہوگا، جی ہاں، نفسہ میں فنا فی الامام اور فنا فی الرسول کا اشارہ موجود ہے جیسے اس جہان کا قانونِ فطرت ہے کہ عروج و ارتقاء اور فنا برائے بقاء کے اعتبار سے تمام چیزیں اس طرح درجہ بدرجہ موجود ہیں کہ ہر شے کو ملنے والا نفس (روح) اس کے اوپر والے

 

۳۹

 

درجے میں ہے، جیسے جماد کو ملنے والی روح نبات میں رکھی ہوئی ہے، نبات کی آئندہ روح حیوان میں ہے، حیوانی روح کی ترقی انسان میں ہے، ہر عام آدمی کا نفسِ مطمئنہ انسانِ کامل ہے، اور یہی ہے نفسہ (انائے علوی) کی حکمت۔

حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ظاہری کشتی مثال تھی اور باطنی (روحانی) کشتی ممثول، جس طرح مادّی کشتی چند اجزاء کا مجموعہ ہوا کرتی ہے، اسی طرح امامؑ حدودِ دین کا مجموعہ ہوتا ہے، جس سے روحانی علم اور اسمِ اعظم الگ نہیں ہوسکتا، پس امام زمان علیہ السّلام طوفانِ روح و روحانیّت سے بسلامت آگے لے جانے والی کشتی بھی ہے اور کشتی بان بھی، اور قصّۂ نوح میں یہی سرِ عظیم پنہان ہے۔

حضرتِ نوح علیہ السّلام نے اپنے تابعدار مومنین کے لئے دو قسم کے علم سے امام شناسی کی کشتی بنا دی: ۱۔ نظامِ فطرت کے علم سے، ۲۔ آسمانی وحی کے علم سے (۱۱: ۳۷، ۲۳: ۲۷) یعنی امامِ برحقؑ کی اہمیت و موجودگی کی شہادتیں اور دلیلیں قرآن و حدیث میں بھی ہیں اور کائنات و موجودات میں بھی۔

سوال: طوفانِ نوح کے قصّۂ قرآن میں دو دفعہ لفظِ “تنّوُر” آیا ہے (۱۱: ۴۰ / ۲۳: ۲۷) اس سے کیا مراد ہے؟

جواب: تنور وہ ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے، یہ ذکرِ اسمِ

 

۴۰

 

اعظم کی ایک مثال ہے، جس سے روحانی غذائیں تیار ہوتی ہے چنانچہ جب حضرتِ نوحؑ کے ذکر نے جوش مارا تو یہ اس واقعہ کی علامت تھی کہ عالمِ شخصی میں روحانی طوفان کا آغاز ہوا۔

سوال: یہ کشتیٔ ظاہر کا قصّہ ہے یا سفینۂ باطن کا کہ اس میں تمام اشیائے مخلوقات میں سے نرو مادہ دو دو جوڑے لینے کا حکم ہوا؟ اس کی اصل وجہ کیا ہوسکتی ہے؟

جواب: یہ سفینۂ عالمِ ذرّ کا ذکر ہے، جس میں ساری چیزیں بشکل ذرات داخل کرلی گئی تھیں (۱۱: ۴۰ / ۲۳: ۲۷) جس کا مقصد یہ ہے کہ انسانِ کامل کی ذاتی کائنات کا تجدّد ہو۔

سوال: حضرتِ نوح علیہ السّلام نے دعا کی: میرے ربّ، ان کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔۔۔۔ ( ۷۱: ۲۶) اور ایک آیۂ کریمہ  (۳۷: ۷۵) میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی، پھر اس کے باوجود روئے زمین پر کفار کیسے پیدا ہوگئے؟

جواب: آپؑ کی اس دعائے مستجاب کا زیادہ سے زیادہ تعلق عالمِ شخصی سے تھا، جو ہمیشہ کے لئے کفر و کافری سے پاک ہو گیا، اور ہر انسانِ کامل کا عالمِ شخصی اسی معنیٰ میں پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے۔

سوال: اس آیۂ شریفہ کی حکمت بیان کریں: سَلٰمٔ عَلٰی نُوحٍ فی

 

۴۱

 

الْعٰلمیْنَ (۳۷: ۷۹)۔

جواب: ترجمہ: سلام ہے نوح پر تمام دنیا والوں میں حکمت: نوح ہر عالمِ شخصی میں ابدی طور پر زندہ اور سلامت ہے، اور جملہ کاملین ایسے ہی ہیں۔

سوال: ترجمۂ آیۂ پاک ہے: اور ہم نے اسی (یعنی نوح) کی ذریت کو باقی رکھا (۳۷: ۷۷) اس کی تاویلی حکمت کیا ہوسکتی ہے؟

جواب: جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ نوح عالمِ شخصی میں زندۂ جاوید اور سلامت ہے، جس سے ہادیٔ زمان مراد ہے، اور اسی کی روحانی ذریت باقی رہنے والی ہے۔

سوال: ۔ یہ کون لوگ ہیں جن سے یوں خطاب ہوتا ہے: ذُرَّیَۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْ حٍ (۱۷: ۳) ۔ ( اے وہ ذراتِ روحانی جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا)؟

جواب: یہ کاملین و مومنین ہیں، کیونکہ اس میں خداوندِ عالم اپنے احسانِ عظیم کو یاد دلاتا ہے جس کا تعلق اہلِ ایمان سے ہے کہ وہ زمانۂ حال ہی میں روحانی کشتی پر سوار ہیں۔

سوال: حضرتِ نوح علیہ السّلام کی توصیف میں ارشاد ہے: اِنَّہٗ کَانَ عَبْداً شکُوراً (۱۷: ۳) نوح ایک شکر گزار بندہ تھا۔ شکر قولی ہے یا عملی یا علمی؟ یہ روحانیّت کے کس درجے پر جا کر بحقیقت ممکن ہو جاتا ہے؟

جواب: شگرگزاری اگرچہ ایک قولی عبادت بھی ہے تاہم یہ

 

۴۲

 

علم و عمل کی متقاضی ہے، شکر کا مفہوم ہے اعلیٰ باطنی نعمتوں کی معرفت اور قدردانی، لہٰذا حضرتِ نوحؑ کے “شکور” ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آپ کو اپنے عالمِ شخصی میں گنجِ اسرارِ ازل مل گیا تھا۔

سوال: اس آیۂ کریمہ کی حکمت بتائیں: وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ (۳۶: ۴۱)۔

جواب: ترجمۂ ظاہر: اور ان کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا۔ حکمت: اور ان کے لئے یہ بھی ایک قابلِ دید معجزہ ہے کہ ہم نے ان کے ذراتِ روح کو کاملین کی بھری ہوئی کشتی (عالمِ ذر) میں اٹھا لیا۔

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اَلاَ اِنَّ مَثَلَ اَھْلِ بَیْتِیْ فِیْکم مَثَلُ سَفِیْنَۃِ نُوحٍ مَنْ رَکبَھَاَ نَجیٰ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْھَا ھَلَکَ۔ تمہارے درمیان میرے اہلِ بیتؑ کی مثال کشتیٔ نوحؑ کی سی ہے جو کوئی اس کشتی پر سوار ہوا ، اس نے خلاصی پائی اور جس نے مخالفت اور روگردانی کی وہ ہلاک ہوا۔

سورۂ نوح کے آخر ( یعنی ۷۱: ۲۸) میں خوب غور و فکر سے دیکھئے کہ وہاں جس طرح حضرتِ نوحِ علیہ السّلام کی ایک خاص دعا کا ذکر آیا ہے اس کی حکمت کے مطابق حضرتِ نوحؑ خود، آپ کے والدین

 

۴۳

 

اور خاص مومنین و مومنات نورانی گھر میں ہیں، لیکن عام مومنین و مومنات ابھی خانۂ نورانیت میں داخل نہیں ہوسکے ہیں، اسی سے زمانۂ نوحؑ کے اہلِ بیت اور کشتیٔ روحانیّت کا تصوّر قابلِ فہم ہو جاتا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہادیٔ برحق خود راہ بھی ہے اور راہنما بھی، کشتی بھی ہے اور کشتیبان بھی۔

اللہ تعالیٰ جو قادرِ مطلق ہے اس کے لئے یہ امر کیونکہ ناممکن یا مشکل ہو سکتا ہے کہ وہ بیحد مہربان ہمیشہ دنیا میں اپنے نورِ اقدس کے مظہرِ حیّ و حاضر کو مقرر کرے اور اس کی ذاتِ عالی صفات کو تمام حقیقتوں اور معرفتوں کا مرکز و منبع بنائے، جیسا کہ اس کا ارشادِ مبارک ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ ( ۳۶: ۱۲) اور ہم نے (قرآن اور عالمِ دین کی) ہر چیز کو امام ِمبین میں گھیر کر رکھا ہے۔

اگر دنیا میں بہشتِ برین کی معرفت ممکن ہے تو اس کا مشاہدہ کہاں ہو سکتا ہے؟ ناسوت تو ظاہر ہے لیکن ملکوت، جبروت اور لاہوت کا لامکانی اور عرفانی تصوّر کہاں ہے؟ اگر معرفتِ نفس اور معرفتِ ربّ ممکن ہے تو اس سے پیشتر ملاقاتِ روح اور دیدارِ الٰہی ضروری ہے پھر اس کی ہدایت و بصیرت کہاں سے مل سکتی ہے؟ پس یہ اور اس جیسے بہت سے بلکہ تمام مشکل سوالات کے معجزانہ جوابات کے لئے رجوع کا حکم یا اشارہ ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ

 

۴۴

 

اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ ( ۳۶: ۱۲) ۔

اے نورِ عینِ من! غور سے سن لو، یہ حکم سورۂ نحل ( ۱۶: ۴۳) میں بھی ہے اور سورۂ انبیاء (۲۱: ۰۷) میں بھی وہ یہ ہے: فسٔلوآ اَھْلَ الذِکْرِ ان کُنتُم لَا تَعلَعْمونَ ۔ اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے ہو۔ اہلِ ذکر أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام ہی ہیں کیونکہ ذکر کے خاص معنی تین ہیں: قرآن، رسولؐ اور اسمِ اعظم ہیں۔

وہ امام ِمبین، وہ قرآنِ ناطق، وہ وارثِ رسولؐ، وہ عالمِ علمِ لدنی، وہ ہادیٔ برحق، وہ بابِ علم و حکمتِ نبیؐ، وہ اولادِ علیؑ، وہ مجموعۂ اسماء الحسنیٰ، وہ گنجِ اسرارِ ازل، وہ مظہرِ نورِ اِلٰہ، وہ آئینۂ حسن و جمالِ خداوندی، وہ سرچشمۂ عشقِ سماوی، وہ کعبۂ جان، وہ قبلۂ ایمان، وہ معشوقِ عاشقان، وہ محبوبِ محبان، وہ مطلوبِ طالبان، وہ معروفِ عارفان، اور وہ استادِ عالمِ شخصی اس دنیا میں ہمیشہ حیّ و حاضر ہے، اس لئے عالمِ شخصی میں جاکر اس عارفانہ طریق پر تمام سوالات کئے جا سکتے ہیں تاکہ علم و معرفت کا سب سے بڑا خزانہ حاصل ہو جائے۔

اے نورِ عینِ من! یاد رکھو کہ قرآنِ حکیم میں جس قدر بھی عمدہ مثالیں بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب ایک ہی حقیقت سے متعلق ہیں، اور وہ حقیقت نورِ امامت ہی ہے، جیسے بہت سے

 

۴۵

 

مقامات پر نور کی مثال، اللہ کی رسی کی مثال، پاک کلمہ اور پاک درخت کی مثال، راہِ راست کی مثال، کشتیٔ نوحؑ کی مثال، اور اسی طرح کی بہت سی مثالیں آئی ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

جمعرات ۲۴؍ ربیع الثانی ۱۴۱۶ھ   ۲۱؍ جنواری ۱۹۹۵ء

 

۴۶

 

ایک حیرت انگیز خواب

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انسان کے عالمِ خواب کو بڑا عجیب و غریب بنایا ہے، آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں خواب کے عجائب و غرائب پر یقین رکھتے ہوں گے، میں بھی یقین رکھتا ہوں، اور کبھی کبھار کسی نورانی خواب کو ضبطِ تحریر میں بھی لاتا ہوں، کیونکہ اچھے خوابوں میں خوشخبری کے علاوہ علم و حکمت کے جواہر بھی پنہان ہوتے ہیں، اس لئے کہ خواب روحانیّت کا حصہ ہوا کرتا ہے۔

بڑا عجیب حسنِ اتفاق ہوا یا یوں کہا جائے کہ خدمتِ قرآن کا معجزہ ہوا جبکہ میں تاویلی انڈیکس کے سلسلے میں عشقِ الٰہی اور شرابِ جنت کے نکات پر لکھ رہا تھا کہ پیر کی رات ۱۱؍ دسمبر (۱۹۹۵ ء) کو چیف پیٹرن ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) کے دولتخانہ میں یہ مبارک خواب دیکھا:۔

میں اس گوہرِ یکدانہ کے تصوّر کے زیرِ اثر جو لامکانی اور بے مثال ہے بعض دفعہ خواب میں پہاڑ پر انمول جواہر کی تلاش کرتا ہوں، اگر یاقوتِ احمر یا زمردِ اخضر وغیرہ کے کچھ اعلیٰ دانے مل گئے تو یقیناً اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ خداوندِ قدوس کے فضل و کرم اور عزیزوں کی پاکیزہ دعا سے اس دن کی

 

۴۷

 

تحریر میں کچھ موتی آجاتے ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا رات کے خواب میں حسبِ معمول یہ بندہ کسی پہاڑ پر قیمتی پتھروں کی جستجو کر رہا تھا کہ یکا یک میں نے ایک نرالا منظر دیکھا: میرے آگے اور دائیں بہشت کے دو باشندے ہیں، ایک نورانی خاتون اور ایک نورانی مرد، انہوں نے پتھر سے یا پتھروں سے خمرِ بہشت کے چند ظروف نکالے اور بادۂ جنّت کے نام سے اس ناچار کو پلا دیا، جیسے ہی رحیقِ مختوم اس خاکسار کے باطن میں چلی گئی، سُبحانَ اللہ! اندر سے لحنِ داؤدی جیسی نغمگی کی مسرت بخش آوازیں آنے لگیں، یہ بے مثال شادمانی زیادہ دیر تک قائم نہ رہی، کیونکہ میں اس کے اثر سے فوراً بیدار ہوگیا، لیکن یہ خواب میرے لئے ناقابلِ فراموش ہے۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

۱۲؍ دسمبر ۱۹۹۵ ء کراچی

 

۴۸

 

سورۂ فاتحہ کا بُروشسکی ترجمہ

سورۃ الفاتحہ بروشسکی ترجمہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 

 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ

 

 

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 

مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِﭤ

 

اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُﭤ

 

 

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ

 

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ

 

 

خدائے ایک نکن (شروع ایپچا)ان ابٹ شل بلیکݽ رݳ کلݳ نرݶکݽ بݳی۔

 

تھائکو تعریفݣ خدار بڎن، ان (شخصی) عالمݣ یݹشیس انݺ بݳی۔

 

ان ابٹ شل بلیکݽ دݳ کلݳنرݶکݽ بݳی۔

 

گمݽے گنڎے دمن بݳی۔

 

می فقط ان گوݶلیکیݳ باندݳ فقط ان ڎم مدت دمر چبان۔

 

می ݼن گنے مݵگڎر۔

 

اوݺ سسے گنے (مݵگڎر)می گوئمو انعامݣے اوسلجبا کے۔

 

 

 

۴۹

 

غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ اݹیٹے گموس منم اوے (اتے گنے) بے، دݳ ٹھس گݼرم اوے اݵت (گنے)کے بے۔

 

 

 

 

جمعرات: یکم جمادی الثانی ۱۴۱۶ھ، ۲۶؍ اکتوبر ۱۹۹۵ ء

 

 

 

۵۰

 

اسرارِ رفیق اعلیٰ

۱۔ حدیثِ شریف کی کتابوں میں ہے کہ مرض الوفات کے آخری وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ دعا تھی: اَللّٰھُمَ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ والْحِقْنِیْ بِاالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰے۔ اے اللہ! میری مغفرت فرمائیے مجھ پر رحم کر اور رفیقِ اعلیٰ سے مجھے ملا دیجئے۔

۲۔ رحمتِ عالم فخرِ بنی آدم صلعم کے ہر مبارک قول و فعل میں اہلِ ایمان کے لئے روشن ہدایت اور خاص علم و حکمت موجود ہے، لہٰذا یقیناً حضورِ انورؐ کے ان بابرکت الفاظ میں بھی معرفت کے عظیم اسرار پوشیدہ ہوں گے، ان بھیدوں کی طرف رہنمائی کے لئے ہم ولیّءِ زمانؑ سے عاجزانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ مہربانِ عقل و جان ہماری دستگیری فرمائے تاکہ ہم پر یہ اسرارِ حقائق منکشف ہو جائیں، آمین یا ربّ العالمین!۔

۳۔ یہاں یہ عرفانی سوالات خود بخود ابھر کر سامنے آتے ہیں کہ آیا رفیقِ اعلیٰ کوئی عظیم فرشتہ ہو سکتا ہے؟ یا اس سے خود حضور اکرمؐ کی

 

۵۱

 

انائے علوی مراد ہے؟ کیا یہ رفیقِ انبیاء و اولیاء ہو سکتے ہیں؟ آیا خداوندِ عالم بذاتِ خود رفیقِ اعلیٰ نہیں ہے؟ کیا رفیق ہمراہ کو نہیں کہتے ہیں؟ یعنی ایسی اعلےٰ ہستی یا روح جو راہِ روحانیّت پر حضورِ پاکؐ کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ہو؟ ان عجیب و غریب اور انتہائی مشکل سوالات کے لئے صرف ایک ہی جواب ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ قانونِ یک حقیقت کے مطابق ایک میں سب ہیں اور بہشت میں کوئی چیز غیر ممکن نہیں۔

۴۔ اے نورِعینِ من! ہر چند کہ آپ عزیزوں نے یہ حدیثِ قدسی کئی مرتبہ سن لی ہے، لیکن اس میں کبھی ختم نہ ہونے والی روحی و عقلی غذا موجود ہے اس لئے میں آپ سب کو اس کی گہری حکمتوں کی طرف دعوت دیتا ہوں، آپ اس میں بار بار غور و فکر کریں، وہ مبارک ارشاد یہ ہے: عبدی اطعنی اجعلک مثلی حیّاً لاتموت، وعزیزاً لا تذل، وغنیّاً لا تفتقر ۔ اے بندۂ من! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنا (یعنی خدا کا ) مثیل بناؤں گا ایسا زندہ کہ تو کبھی نہ مرے، ایسا معزز کہ تو کبھی ذلیل نہ ہوجائے، اور ایسا غنی کہ تو کبھی مفلس نہ ہوجائے۔ (اربعہ رسائل)۔

۵۔ یہی وہ کنزِ مخفی ہے جس کے حصول کی شرط کامل معرفت ہی ہے، یہی وہ بے مثال اور لازوال ثمرہ ہے جو حکمِ تخلّقوا باخلاق اللہ کی تعمیل پر کسی مومن کو مل سکتا ہے، اسی مقام کا مبارک نام مرتبۂ

 

۵۲

 

حق الیقین ہے، اسی سب سے بڑی سعادت کو فنا فی اللہ و بقا باللہ کہتے ہیں، اسی ارشاد میں رفیقِ اعلیٰ سے مل جانے کی وضاحت ہے، یہی ہے بہشت میں داخل ہو جانا بلکہ خود بہشت بن جانا بلکہ بہشت سے بھی برتر حقیقت ہوجانا، یہی اللہ کی طرف انتہائی رجوع اور اس کا قربِ خاص بمعنیٔ واصل باللہ ہے، اور یہی ہے وہ خلافت و سلطنت جو عالمِ شخصی میں مل سکتی ہے۔

۶۔ اے نورِ چشمِ من! حضرتِ امام ِاقدس و اطہر علیہ السّلام کو اپنی عقلِ جزوی کی ترازو میں تولنے کی کوشش ہرگز ہرگز نہ کرنا، کیونکہ یہ ایک غیر منطقی عمل ہے، خدانخواستہ اگر آپ میں سے کسی عزیز کو امامؑ کے بارے میں شک ہو تو اصولِ دانش یہ ہے کہ وہ علم الیقین کی روشنی میں یہ تحقیق کرے کہ آیا حضرتِ آدم، حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ عیسیٰ علیہم السّلام کے ساتھ اور ان کے بعد امام موجود نہیں تھا؟ اگر ان پانچ حضرات کے ادوار میں امام کی موجودگی کا ثبوت ملتا ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ اور آپؐ کے بعد پورے دور کے لئے کیوں امام نہ ہو، یہ تو صدہا دلائل میں سے صرف ایک ہی دلیل ہے۔

۷۔ قال النّبیُ صلّی اللّٰہُ علیہ و آلہٖ وسلّم:  اِنَّ عَلِیّاً مِنّیْ وَاَنَا مِنْ عَلِیٍّ وَھُوَ وَلِیٍّ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤمِنَۃٍ بَعْدِیْ ۔ حضرتِ رسولؐ نے فرمایا کہ: علیؑ مجھ (محمدؐ) سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ

 

۵۳

 

میرے بعد ہر مومن اور مومنہ کا ولی اور حاکم ہے۔

یہ نہ صرف میرا عقیدہ ہی ہے بلکہ حقیقت بھی یہی ہے کہ رسولِ اکرمؐ کا ہر وہ ارشاد جو مولا علیؑ کے بارے میں فرمایا بڑا عجیب و غریب اور بے مثال ہے، یقیناً احادیثِ شریف کی یہ پُرحکمت تعریف و توصیف نورِ امامت کی شان میں ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں جو کچھ حضرتِ علیؑ سے متعلق ہے، وہ بے شک أئمّہ آلِ محمدؐ کے بارے میں ہے، جس طرح قرآنِ حکیم کا مومنین سے خطاب فرمانا نہ صرف زمانۂ نبوّت ہی کے لئے تھا بلکہ ان تمام مومنین کی بھی اس میں شرکت و شمولیت ہے جو بعد میں پیدا ہوتے جارہے ہیں۔

۸۔ اے نورِ عینِ من! آپ سب عزیزان زندگی بھر اسرارِ حقیقت کی تلاش کرتے رہیں، عادت ایسی ہو کہ مشغلۂ علم کے بغیر چین ہی نہ آئے، قرآن و حدیث کی حکمتوں کی سیکھ لیں، میرا کامل یقین ہے کہ ہر نمائندہ آیت اور حدیث سے ہر بار ایک نئی روشنی کا ظہور ہوتا ہے، جیسے آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: ۔

عن علی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: یا علی اِنْ لک فی الجنّۃ کنزٌ و اِنّک ذوقرنیھا ۔ جناب امیر سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:

اے علی تیرے لئے بہشت میں ایک خزانہ ہے اور تو اس کا ذوالقرنین ہے ۔ (ارجح المطالب ، ایڈیشن ۱۹۹۴ء ص ۴۷)۔

 

۵۴

 

اہلِ تاویل کے نزدیک آیت اور حدیث کی کئی تاویلیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ اس حدیثِ شریف کی ایک معقول تاویل یہ ہے کہ: اے علی تیرے لئے بہشتِ روحانیّت میں حظیرۃ القدس کا خزانہ موجود ہے اور تو قرنِ روحانی اور قرنِ عقلانی دونوں کا مالک ہے۔ کائنات کی بہشت دور ہے، عالمِ شخصی کی بہشت نزدیک جس میں علم و حکمت کی دولت جا بجا بکھری ہوئی بھی ہے اور خزانۂ حظیرۃ القدس میں یکجا بھی ہے، جیسے کسی ملک کا سرمایہ پھیلا ہوا بھی ہوتا ہے اور شاہی خزانے میں جمع بھی ہوتا ہے۔

۹۔ اے عزیزانِ من! آپ خداوند تعالیٰ کے سات دنوں کو جانتے ہیں جن کے آخر میں سنیچر یعنی حضرتِ قائم علیہ السّلام ہے، ہفت روز قرآن کریم میں ایام اللہ کہلاتے ہیں (۱۴: ۰۵، ۴۵: ۱۴) نیز یہ ایامِ معلومات بھی ہیں (۲۲: ۲۸) اور کلام اللہ میں جس کثرت سے روزِ قیامت کے نام آئے ہیں، وہ سب کے سب حضرتِ قائم علیہ افضل التحیۃ و السّلام کے اسمائے مبارک میں سے ہیں جیسے حضرتِ مولا علیؑ نے فرمایا: اَنَا السَّاعَۃُ اُلَّتِیْ لِمَنْ کَذَّبَ بِھَا سَعِیْراً۔ یعنی میں وہ ساعت (قیامت) ہوں کہ جو شخص اس کو جھٹلائے اور اس کا منکر ہو، اس کے لئے دوزخ واجب ہے ( کوکبِ دری، بابِ سوم، منقبت ۲۷)۔

۱۰۔ اے نورِ عینِ من! آپ جملہ عزیزان حضرتِ قائم علینا منہ السّلام

 

۵۵

 

کے بارے میں جتنی گرانمایہ معلومات رکھتے ہیں، وہ گنجِ مخفی کے انمول جواہر میں سے ہیں، یہ جواہر مزید مل سکتے ہیں، جبکہ آپ قرآن و حدیث اور بزرگانِ دین کی کتابوں میں جستجو کریں گے، یہ امر بیحد ضروری ہے ، کیونکہ اب عالمِ دین کا ساتواں دن یعنی یومِ شنبہ چل رہا ہے، اور آفاق و انفس میں قیامت کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں، اگرچہ قیامتِ صغریٰ ہر امام کے زمانے میں برپا ہوتی آئی ہے، لیکن یہ ایک بہت بڑی قیامت کی بات ہے۔

۱۱۔ اے برادران و خواہرانِ روحانی! آپ یقین جانیں کہ عصرِ حاضر میں جو شاندار سائنسی انقلاب آیا ہے، وہ باطنی اور روحانی قیامت کے زیرِ اثر ہے، جب سے اس کا آغاز ہوا ہے تب سے لے کر ایک ہزار سال تک دنیا یکسر تبدیل ہوجائے گی اس میں ہر قسم کی برائی کا خاتمہ لازمی اور ضروری ہے، روحانی معجزات کا ظہور ممکن ہے، یہی چیزیں روحانی سائنس بھی ہیں، لیکن جو قیامت جاری و ساری ہے وہ ایک دیوار کے پیچھے ہے، جیسے ارشاد ہے: فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ  ط  بَاطِنُہٗ فِیْہِ الرَّحْمَۃُ وَظَاھِرُ ہٗ مِنْ قِبَلِہِ الْعَذابُ (۵۷: ۱۳) ۔ پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا (اور) اس کے اندر کی جانب تو رحمت ہے اور باہر کی جانب عذاب۔

 

۵۶

 

۱۲۔ حضرتِ قائم القیامتؑ کے بارے میں قرآنِ عظیم کی یہ پیش گوئی بڑی عجیب و غریب حکمتوں سے مملو ہے:

ترجمہ: یہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں مگر جس روز تمہارے پروردگار کی نشانیاں آجائیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو (اے پیغمبر) ان سے کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں (۰۶: ۱۵۸)۔

۱۳۔ رسول، امام، اور قائم علیہم السّلام وہ حضرات ہیں، جن پر خدا اپنی محبت یا عشق کا پَرتو ڈالتا ہے تاکہ لوگ ان کے محِبّ و عاشق ہو جائیں ، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ القَیتُ عَلَیْکَ محبّۃَ مِنِّیْ (۰۲: ۳۹) اور میں نے تم پر اپنی محبت (کا پَرتو) ڈال دیا۔

الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

منگل  ۱۷؍ ذی القعد  ۱۴۱۵ھ   ۱۸؍اپریل  ۱۹۹۵ء

 

۵۷

 

بابِ دوم

علمی انتسابات

 

۵۹

 

چیف میڈیکل پیٹرن

الحمد للہ ربّ العٰلمین، بیحد خوشی و شادمانی کی بات ہے کہ محترم ڈاکٹر زرینہ صاحبہ (حسین علی مرحوم) ۲۶ ؍ اگست ۱۹۹۴ ء سے “بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزرز اینڈ پیٹرنز” کی چیف مقرر کی گئی ہیں، اس ترقی کی یہ سعادت ان کو مبارک ہو!

ڈاکٹروں کی عظیم و اعلیٰ خدمات کی شکرگزاری میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے، کیونکہ یہ ایک روشن حقیقت ہے، کہ وہ عزیزان اپنی عمرِ گرانمایہ میں سے کثیر جواہر پارے (یعنی اوقات) جو بڑے انمول ہیں، وہ ہماری صحت کی خاطر بیدریغ قربان کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو چشمِ بصیرت عطا فرمائے! تاکہ ہم ہر عزیز کی زرین خدمات کو حقیقی معنوں میں دیکھ سکیں اور قدر کر سکیں۔

محترمہ ڈاکٹر زرینہ صاحبہ کا پاکیزہ دل نیکی و خیرخواہی کا سرچشمہ ہے، آپ علم الیقین کی لازوال و غیرفانی دولت سے

 

۶۱

 

مالا مال ہو جانا چاہتی ہیں، ان کو حقیقی علم کی ہر چیز سے بیحد دلچسپی ہے، آپ بڑے یقین کے ساتھ پاک جماعت خانہ جایا کرتی ہیں، ایک دفعہ خصوصی مجلس میں ہر فرد گریہ وزاری اور مناجات کر رہا تھا، چنانچہ جب ڈاکڑ زرینہ کی باری آئی تو انہوں نے انتہائی عاجزی سے مناجات شروع کی اور رفتہ رفتہ ان پر کپکپی کی روحانی کرامت گزرنے لگی، پس یہی باطنی پاکیزگی کی دلیل ہے۔

دعائے درویشی ہے کہ خدا وندِ عالمین آپ اور آپ کے فرزندِ جگربند کرنل غلام مرتضیٰ کو دین و دنیا کی سلامتی و سرفرازی سے نوازے! آپ تمام عزیزوں کے علم اور ہر گونہ نیکی میں روز افزون ترقی ہوتی رہے ! آمین!!

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

اتوار۲۴؍جمادی الاول  ۱۴۱۵ھ   ۳۰؍ اکتوبر  ۱۹۹۴ء

 

۶۲

 

امامِ اوّلین و آخرین

انتساب

 

۱۔ اے نورِ عینِ من! (یعنی ہر عزیز) مجھے یقین ہے کہ آپ علیٔ زمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کے علمِ باطن سے بے حد شادمان اور خرسند ہیں، کیوں نہ ہو جبکہ اسی علم میں دینِ اسلام کے اسرارِ عظیم پنہان ہیں، اور اسی علم کے حصول سے اہلِ ایمان کو اللہ اور اس کے رسولؐ کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے، پس اے نورِ چشمِ من! آپ ان گران مایہ حقیقتوں اور معرفتوں کو بھر پور توجہ اور شوق سے سن لیں۔

۲۔ حدیثِ شریف ہے: نَزَلَ الْقُرْاٰنُ عَلیٰ سَبْعَۃِ اَحُرُفٍ، یعنی قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ الاتقان میں ہے کہ اس حدیث کے معنی میں چالیس ۴۰ کے قریب مختلف اقوال  آئے ہیں، میں عرض کرتا ہوں کہ جن سات حرفوں پر قرآن نازل ہوا ہے وہ

 

۶۳

 

درجِ ذیل ہیں:۔

حرفِ اوّل حضرتِ آدمؑ، حرفِ دوم حضرتِ نوحؑ، حرفِ سوم حضرتِ ابراہیمؑ، حرفِ چہارم حضرتِ موسیٰؑ، حرفِ پنجم حضرتِ عیسیٰؑ، حرفِ ششم حضرتِ محمدؐ، اور حرفِ ہفتم حضرتِ قائمؑ، یہ قرآنِ حکیم کے وہ سات زندہ حروف ہیں جن پر قرآن نازل ہوا ، جس کی وضاحت اس طرح ہے: ۔

مذکورہ حدیث میں حرف سے باطنی اور تاویلی معنی مراد ہیں، پس قرآن کی سات تاویلات ہیں: تاویلِ آدمؑ، تاویلِ نوحؑ، تاویلِ ابراہیمؑ، تاویلِ موسیٰؑ، تاویلِ عیسیٰؑ، تاویلِ محمدؐ، اور تاویلِ قائمؑ ، ہر تاویل سرتا سر قرآنِ عزیز میں پھیلی ہوئی ہے، جیسے سورۂ اسراء (۱۷: ۸۹) اور سورۂ کھف (۱۸: ۵۴) میں یہ مفہوم ہے کہ اللہ ایک ہی حقیقت کی طرح طرح سے مثالیں بیان فرماتا ہے۔

۳۔ قرآن کی روحانیّت و عقلانیت شروع سے لے کر آخر تک ایک جیسی ہے، مگر اس کی بنیادی اور بڑی مثالیں صاحبانِ ادوار کے اعتبار سے سات قسم کی ہیں، اور لازمی طور پر ان کی تاویلیں بھی سات ہیں، پس اسی وجہ سے فرمایا گیا کہ قرآن سات حرفوں (یعنی سات تاویلی معنوں) پر نازل ہوا ہے، چنانچہ ہم یہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی مثال کو دیکھتے ہیں کہ خداوندِ عالم نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا:

 

۶۴

 

قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًاؕ (۰۲: ۱۲۴) خدا نے (ابراہیمؑ سے ) فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا امام (پیشوا) بنانے والا ہوں۔ یعنی نہ صرف حاضرین ہی کا امام بلکہ اوّلین و آخرین کا بھی، اس کی پہلی دلیل یہ ہے کہ جب حضرتِ ابراہیمؑ کے زمانے میں امام کا ہونا لوگوں پر اللہ کا احسان تھا، تو پھر اوّلین و آخرین پر یہ احسانِ عظیم کیوں نہ ہو، دوسری دلیل لفظِ “النّاس” ہے، یعنی خدا کا حضرتِ ابراہیمؑ کو لوگوں کے لئے امام بنانا، یہ لفظ در حقیقت محدود نہیں مطلق ہے، یعنی اس سے ہر زمانے کے لوگ مراد ہیں، چنانچہ اللہ جَلَّ جلاَ لہ یہ چاہتا تھا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو نہ صرف محدود وقت کے لئے امام بنائے بلکہ حقیقت سے حجاب ہٹا کر یہ ظاہر کر دے کہ اس کو اپنے آباؤ اجداد کی حیثیت میں بھی امامت عطا ہوئی تھی، اور آئندہ نسل میں بھی یہ مرتبہ ملنے والا ہے، پس یہ قرآنِ حکیم کی تیسری تاویل کی ایک روشن مثال ہے۔

۴۔ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے والدین کی نگاہوں میں کتے حسین لگتے ہیں، یہ تو روضۂ آدمیت کے دل آویز غنچے ہیں، اس لئے ان کو سب چاہتے ہیں، انار کلی ہو یا غنچۂ گلِ سرخ یا شگوفۂ گلِ سوری یا کچھ اور نَوعروسانِ چمن (تازہ کلیاں) وہ خوش منظر اور دلکش ضرور ہیں لیکن پیارے پیارے بچوں کی طرح ہر گز نہیں، ادارۂ

 

۶۵

 

عارف کے نائب صدر محیّ الدین (ابنِ شاہ صوفی ابنِ خلیفہ قدیر شاہ ابنِ حیدر محمد) کی سات سالہ بیٹی سارہ، پانچ سالہ بیٹا قدیر شاہ، اور دو سالہ بیٹی سدرہ کا ذکرِ جمیل ہے، الحمد للہ ان عزیز بچوں کی نعمت پر ان کے والدِ محترم اور دونوں فرشتہ خصلت مائیں بے حد شادمان اور شکر گزار ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

چہار شنبہ ۱۱؍ ذی القعد ۱۴۱۵ھ   ۱۲؍ اپریل ۱۹۹۵ء

 

۶۶

 

مکانی بہشت اور لامکانی بہشت

(انتساب)

حضرتِ امام جعفر صادق علیہ و علیٰ آبائہ السّلام سے پوچھا گیا: آدم کی بہشت کیا دنیا کے باغوں میں سے ایک باغ تھی یا آخرت کے باغوں میں سے تھی؟ آپؑ نے فرمایا: وہ دنیا کا ایک باغ تھی (کسی ستارے پر جو ہمارے نظامِ شمسی میں ہے جیسے زہرہ، مشتری وغیرہ) اس میں سورج اور چاند نکلتا تھا، اگر آخرت کا باغ ہوتی تو ابلیس وہاں نہ جاسکتا نہ آدمؑ وہاں سے کبھی نکلتے (لغات ُ الحدیث، جلد اوّل، کتاب الجیم، ص ۱۱۷)۔

اس سے معلوم ہوا کہ کائنات کے بہت سے ستاروں پر بہشت اور لطیف جسم کی زندگی ہے، اور یہ بھی پتہ چلا کہ بہشت دو قسم کی ہے: مکانی اور لامکانی، جب آپ جسمِ لطیف میں کسی ستارے پر ہوں گے تو یہ آپ کی جسمانی اور مکانی بہشت ہوگی، اور جب بھی جہاں بھی آپ عالمِ باطن، روحانیّت اور نورانیّت کی طرف متوجہ ہو کر جسم اور مکان کو بھول جائیں گے اور روحانی عجائب و غرائب کا مشاہدہ کریں گے تب وہاں آپ کے سامنے لا مکانی بہشت ہو گی۔

 

۶۷

 

آپ جب کوئی ایمان پرور نورانی خواب دیکھتے ہیں تو یقیناً یہ لامکانی بہشت کی ایک چھوٹی سی مثال ہوتی ہے، اگر خصوصی علم و عبادت اور کامل تقویٰ سے آپ کا خیال ایک روشن جہان بن گیا ہے تو یہ بھی لامکانی بہشت کا ایک عام اشارہ ہے۔

ہمارے بہت ہی عزیز و محترم ڈاکٹر رفیق جنّت علی چیف سیکریٹری آف خانۂ حکمت نہ صرف ایک تجربہ کار ڈاکٹر ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ ایک روشن دماغ سکالر بھی ہیں، موصوف ڈاکٹر دسمبر ۱۹۷۸ء میں ہمارے حلقۂ علم میں آگئے تھے۔ اس وقت سے لے کر آج تک انہوں نے علم و ادب میں جو ترقی کی ہے، وہ یقیناً حیران کن ہے، الفاظ کے انتخاب اور تقریرو تحریر کی روانی میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔

ڈاکٹر رفیق کی رفیقۂ حیات ڈاکٹر شاہ سلطانہ ایک باکمال مثالی مومنہ ہیں، مدت مدید کی خاموشی کے بعد ایک دن انہوں نے جس شان سے علمی گفتگو فرمائی، اس سے سب کو بڑی حیرت ہوئی، بارہا اس حقیقت کا تجربہ ہوا ہے کہ ان کے پاکیزہ قلب میں امامِ برحق علیہ السّلام کے لئے غیر معمولی محبت ہے، اسی وجہ سے وہ خاموش اور سنجیدگی کا ایک ایسا فرشتہ لگتی ہیں، جو کسی عظیم کام کے واسطے زمین پر آیا ہوا ہو۔ آپ چیئرپرسن (آف خانۂ حکمت برانچ کریم آباد) بھی ہیں۔

 

۶۸

 

چیف سیکریٹری ڈاکٹر رفیق (جنت علی) اور ان کی نیک بخت بیگم محترمہ ڈاکٹر شاہ سلطانہ یقیناً ہمارے عالمِ شخصی کے فرشتوں میں سے ہیں، ان کے بیحد پیارے بچے بہشت کے دو غنچے ہیں یا جنت کے دو پودے ہیں، یعنی گلاب خانم رفیق (پیدائش  ۹۲۔ ۱۲۔ ۳) اور شفیق ابنِ رفیق (پیدائش ۹۴ ۔۱۲۔ ۳۱)  جب یہ دونوں غنچے ( ان شاء اللہ) اپنے وقت پر کھل جائیں گے تو ان میں دین و دنیا کے علم و ہنر کی خوشبوئیں ہوں گی، اور درخت کی مثال میں ان سے بہشت کا لذیذ میوہ ملے گا، جب ان کی جسمانی، اخلاقی، علمی اور روحانی پرورش اس نیت سے کی جائے کہ: “ہمارے یہ جسمانی بچے مولا کے روحانی فرزند ہیں، لہٰذا ہم ان کو اعلیٰ تربیت دیکر صفِ اوّل کے اسماعیلی بنانے کے لئے کوشش کریں گے۔” ان شاء اللہ ، ایسی نیّت کی وجہ سے خداوندِ قدوس کی تائید حاصل ہوگی۔

ہماری دانش گاہ میں جتنے ڈاکٹرز ہیں، وہ سب کے سب میری جسمانی صحت کے لئے شب و روز خیال رکھتے ہیں، وہ بار بار میری صحت کو چیک کرتے رہتے ہیں، میری عاجزانہ دعا ہے کہ ربّ العزت اپنی بے پایان رحمت سے جملہ عزیزان کو نوازے ! آمین یا ربّ العالمین!

 

دعا گو

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

شنبہ ۶، ذی الحجہ ۱۴۱۵ ھ    ۶؍ مئی ۱۹۹۵ء

 

۶۹

 

کلماتِ جامع

(انتساب)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے:

بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْکَلِمِ۔ مجھے جوامعُ الکلِم (مختصر الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا ) کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ دوسری حدیثِ شریف میں ہے: اُوْتِیْتُ جَوَامِعِ الْکَلِمِ۔ مجھے وہ باتیں ملیں جن میں لفظ کم ہیں لیکن معانی بہت ہیں (یعنی قرآن جس کے الفاظ تھوڑے اور معانی و مطالب بے شمار ہیں)۔

کَانَ یَتَکَلَّمُ بِجَوَامِعِ الکَلِمِ ۔ آنحضرتؐ ایسے کلمے ارشاد فرمایا کرتے جو بہت ہی جامع ہوتے (یعنی الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہوتے ) اس سے معلوم ہوا کہ “جَوامِعُ الکَلِم”  قرآن اور حدیث دونوں کا نام ہے، کیونکہ حضور اکرمؐ کے جملہ اقوال و افعال قوانین قرآن کے مطابق تھے، جبکہ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام اہلِ ایمان کو خود حکم دیتے ہیں کہ: تخلّقوا باخلاق اللہ (تم اوصافِ خداوندی سے آراستہ ہو جاؤ) ۔

 

۷۰

 

قرآن و حدیث کی مذکورۂ بالا جامعیت میں بطورِ خاص تاویلی حکمت کا اشارہ ہے، کیونکہ جوَامِعُ الکَلم کے  معانی سے تاویل الگ نہیں ہو سکتی، جبکہ قرآنِ حکیم میں تاویل کا مضمون زبردست اہمیت کا حامل ہے، آپ ان تمام آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کر کے دیکھیں جو تاویل سے متعلق ہیں، آیا قرآنِ پاک کے تاویلی اسرار غیر ضروری ہو سکتے ہیں؟ نہیں، قرآنِ کریم کی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں بے حد ضروری ہیں۔

لغات الحدیث، کتاب “الف” ص ۸۵ پر یہ حدیث درج ہے: اَللّٰھُمَّ فقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَ عَلِّمہُ التَّاوِیْلَ ۔  یا اللہ! ابنِ عباس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور اس کو تاویل سکھلا دے۔ مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: مَامِنْ اٰیَۃٍ اِلّاَ وَعَلَّمَنِیْ تَاوِیْلَھَا۔ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں جس کی تاویل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے مجھ کو نہیں سکھلائی ہو۔

یہ حدیث شریف مثنوی کے دفترِ سوم میں بھی ہے: اِنَّ لِلْقُراٰنِ ظَھْراً وَّ بَطْناً وَ لِبَطْنِہٖ بَطْنٌ اِلیٰ سَبْعَۃِ اَبْطُنٍ۔ یقیناً قرآن کا ایک ظاہر اورایک باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے سات باطنوں تک ( اور دوسری روایت میں ستر باطنوں کا ذکر ہے)۔

یہاں تک اس جدید انتساب کا خاص علمی حصّہ ہے، اب میں اپنے بہت ہی عزیز و شفیق دوست الامین (ابنِ صدرالدین ابنِ رجب

 

۷۱

 

علی خاکوانی ) جنرل سیکریٹری آف خانۂ حکمت کا ذکرِ جمیل کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے کراچی کے سینٔیر ساتھیوں میں سے ہیں، علمی خدمت کی مقدس راہ میں ثابت قدم، حقیقی مومن، امام شناسی کا شیدائی، مولا کا جان نثار، وفادار، محبِ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السّلام) علم و حکمت کے قدردان، کم گو، صابر، پاک باطن، متّقی، عابد، ہوشمند، خیر خواہِ خلق، اور علیٔ زمان (علیہ السّلام ) کے راسخ العقیدت دامن گیر، الحمد للہ، میرے یہ عزیز ایسے بہت سے اوصاف کے مالک ہیں۔

آپ کی خوش اخلاق بیگم محترمہ نسیم بڑی ایماندار اور سلیقہ مند خاتون ہیں، تاریخِ پیدائش: ۲۶ ؍ جون ۱۹۵۳ ء تعلیم: ایم ۔ اے (پولیٹکل سائنس، سماجی خدمات: کونسلر برائے یونین کونسل ’’ کونکر‘‘ ضلع ملیر، سندھ، (۱۹۷۹ تا ۱۹۸۳) پیشہ: بینک میں ملازمت ، عہدہ: پرنسل سیکریٹری برائے مینجنگ ڈائریکٹر، علم کی مقدس خدمت کی نسبت سے ٹو ان ون (TWO IN ONE) یعنی خانۂ حکمت کی بیمثال خدمات کے عظیم ثواب میں یہ دونوں فرشتے (الامین اور نسیم) ایک ہیں، کیونکہ یہ علمی ادارہ دونوں عزیزوں کو بیحد عزیز ہے۔

ان کی بہت ہی پیاری بیٹی نورین (۱۱ سالہ) اور بہت ہی عزیز

 

۷۲

 

بیٹا شاہ نواز (۷ سالہ) ان کے لئے محبتوں اور خوشیوں کے دو زندہ خزانے ہیں، ان شاء اللہ، علم و ہنر کے اس روشن زمانے میں یہ دونوں نیک بخت بچے غیر معمولی ترقی کریں گے، اور پیاری جماعت کی اعلیٰ خدمت اور پاک مولا کی مبارک دعا سے دونوں جہان میں سرفراز ہو جائیں گے، آمین!

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

پیر ۶؍ ذی الحجہ ۱۴۱۵ ھ    ۸؍مئی ۱۹۹۵ء

 

۷۳

 

بابِ علم و حکمت

(انتساب)

اخوانُ الصّفا کا آخری رسالہ “جامعۃ البحامۃ” کے نام سے ہے، اس کے تحقیقی مقدمہ کے ص ۲۲ کے آخر اور ۲۳ کے شروع میں یہ حدیثِ شریف درج ہے: ۔

قیل یا رسول اللہ: من قال لا الٰ الّا اللہ دخل الجنّۃ؟ فقال: نعم . . . من قالھا مخلصاً دخل الجنّۃ۔ قیل لہ: و ما اخلاصھا؟ قال: معرفۃ حدودھا و ادا ء حقو قھا۔ فقیل یا رسول اللہ: ما معرفۃ حدودھا و اداء حقوقھا؟ فقال: انا مدینۃ العلم و علّی ٌ بابھا، فمن اراد ما فی المدینۃِ فلیائ الباب۔

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا گیا یا رسول اللہ: آیا جس نے لا الہٰ الّا اللہ کہا تو وہ بہشت میں داخل ہو جائیگا ؟ حضورؐ  نے فرمایا: ہاں . . . جس شخص نے اخلاص کے ساتھ کہا تو وہ جنت میں

 

۷۴

 

داخل ہوجائے گا۔

آپؐ سے سوال ہوا کہ: اس کا اخلاص کیا ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: اس کی حدود کی معرفت اور اس کے حقوق کی ادائیگی۔ پھر پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ: اس کی حدود کی معرفت اور اس کے حقوق کی ادائیگی کیا ہے؟ پس حضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ: میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، پس جو شخص اس شہر کی چیزوں کو چاہتا ہو تو اسے دروازے سے آنا چاہئے۔

اے رفیقانِ عزیز! آپ کو رسولِ خداؐ کے جوامِعُ الْکَلِم (الفاظِ کثیر الحکمۃ) میں خوب غور و فکر سے دیکھنا ضروری ہے ورنہ سطحی مطالعے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا، اور بہت سے مسائل جوں کے توں رہیں گے، الغرض اس حدیث سے یقیناً یہ معلوم ہوا کہ “لا الٰہ الّا اللہ” کی تفسیرو تاویل بابِ علم و حکمتِ محمدؐ یعنی علیؑ کے توسط سے ممکن ہے، اس حقیقت کی عملی مثال اور تصدیق کے لئے کتابِ وجہِ دین، کلام۔ ۱۱ کے تحت “کلمۂ اخلاص” کے مضمون کو پڑھ لیں جو ۴۷ صفحات پر پھیلا ہوا ہے، یاد رہے کہ علیؑ کا نور ہر زمانے میں موجود ہے، جیسا کہ حضرتِ مولا علی صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کا ارشادِ گرامی ہے:۔ ترجمہ: بے شک میرے لئے دنیا میں بار بار آنا اور رجعت کرنا ہے، میں رجعتوں والا، باریوں والا، حملوں والا، سزاؤں والا اور عجیب و غریب دولتوں والا ہوں (کوکبِ دری، خطبۂ رجعیہء

 

۷۵

 

امیرالمومنینؑ ، ص ۵۹)۔

ہمارے بہت ہی عزیز و محترم تا حیات صدر فتح علی حبیب کے جذبۂ ایمانی کا ذکرِ جمیل بڑا شیرین و دلکش ہے، یہ کتنی پسندیدہ صفت ہے کہ آپ خصوصاً ایامِ نوجوانی ہی سے عابدِ شب خیز اور خادمِ جماعت ہیں، کیا اس امر میں عنایتِ ازلی کا بہت بڑا راز پوشیدہ نہیں ہے کہ آپ شروع ہی سے ہمارے عظیم المرتبت پیروں کے پُرحکمت اور روح پرور گنانوں کے عاشق ہوگئے؟ یہ عشق در حقیقت مولائے پاک ہی کے لئے ہے، لہٰذا اس کی نورانی قوّت سے دین کی ہر مشکل آسان ہوگئی، اور فتح علی کو آسمانی فتح و نصرت حاصل ہوئی، کیا یہ کچھ کم ہے کہ خوش الحانی اور گنان خوانی کی صورت میں خنجرِ عشق ہاتھ آگیا؟ اسی عشق کی برکتوں سے فتح علی حبیب جماعت خانہ اور اس میں جو عبادت و خدمت ہے، اس کے عاشقِ صادق ہوگئے۔

صداقت اور حقیقت پر مبنی تعریف و توصیف بہشت کی نعمتوں میں سے ہے، چنانچہ صدر فتح علی حبیب کی نیک خصلت بیگم محترم گل شکر ایڈوائزر جو فرشتگانہ عادات اور بے شمار خدمات میں اپنی مثال آپ ہیں، انہوں نے ادارے کے لئے جو کارہائے نمایان انجام دیئے ہیں، ان کا قصّہ بڑا طویل ہے، تاہم بطورِ نمونہ ان کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ ان کے مبارک گھر میں ۱۹۷۷ء سے لے کر آج تک تقریباً ۱۷۲۸ کلاسیں ہو

 

۷۶

 

چکی ہیں، ہر کلاس کے لئے وقت کا اوسط تین گھنٹوں کا ہوتا ہے، اس حساب سے محترمہ گلِ شکر نے نہ صرف گھر ہی ۵۱۸۴ (پانچ ہزار ایک سو چوراسی) گھنٹوں کے لئے ادارے کے سپرد کر دیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کا اپنا اور دیگر اہلِ خانہ کا اتنا قیمتی وقت بھی متعلقہ خدمات میں صرف ہوگیا، آپ جانتے ہیں کہ وقت سیم و زر اور لعل و گوہر سے بڑھ کر ہے، کیونکہ وہ عمرِ عزیز ہے۔

صدر فتح علی حبیب اور ان کی سعادت مند اہلیہ گل شکر ایڈوائزر کے تینوں باصلاحیت اور ہوشمند بچے بڑے پیارے ہیں، یہ نزار، رحیم اور فاطمہ ہیں، جو خوش خلقی اور دینداری میں اپنے نیک نام والدین کے نقشِ قدم پر گامزن ہو رہے ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

کراچی

شنبہ ۱۲، ذی الحجہ ۱۴۱۵ ھ    ۱۲؍مئی ۱۹۹۵ء

 

۷۷

 

حکمتِ نباتات

(انتساب)

۱۔ سورۂ نمل (۲۷: ۶۰) میں خوش منظر اور مسرت بخش باغوں کا ذکر آیا ہے (حَدَآئقَ ذَاتَ ۔۔۔۔ ) یہ حسین و جمیل باغات جسم، روح، اور عقل کے تین مقامات پر موجود ہیں، مگر ان میں اعلیٰ و ادنیٰ کا بے انتہا فرق پایا جاتا ہے، ظاہری باغ و گلشن اپنے خوبصورت اور پُربہار پھلوں اور پھولوں کے ساتھ کتنے جاذبِ نظر اور دلکش ہوتے ہیں کہ ہر روز آپ ایسے مناظر کا نظارہ کرتے رہتے ہیں، پھر بھی جی نہیں بھرتا، یہ واقعہ کیوں ایسا ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس بارے میں غور و فکر کیا ہے؟ شاید سوچا نہیں ہے۔

۲۔ دنیا کے باغ و بوستان اور ان کی حسین و دل آویز چیزیں زبانِ حال سے کہتی رہتی ہیں کہ اے انسان! اچھی طرح سے دیکھو اور خوب غورکرو کہ ہم صرف مثالیں اور دلیلیں ہیں، اور ممثولات و مدلولات عالمِ روحانی میں ہیں اور اعلیٰ نعمتیں بھی وہی ہیں، اس لئے اصل خوشی و لذّت بھی انہی میں ہے، پس تم مثال سے ممثول اور دلیل سے مدلول کی طرف جانے میں کامیاب ہوجاؤ۔

۳۔ سورۂ نوح (۷۱: ۱۷) میں ہے: اور اللہ نے تم کو بطورِ نبات

 

۷۸

 

زمین سے اگایا۔ نیز حضرتِ مریم سلامُ اللہ علیہا کے بارے میں ارشاد ہے: اور اس کو ایک اچھی نبات کے طور پر اگایا (۰۳: ۳۷) یعنی علم الیقین سے دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ والدین نباتات میں سے کھاتے ہیں، جس سے نطفہ بنتا ہے، اور اس سے اولاد پیدا ہوجاتی ہے، عین الیقین سے دیکھا جائے تو روحانیّت کے پھل، پھول اور ہر قسم کی حسین ہریالی نظر آتی ہے، یہ اشارہ ہے کہ مومن مرتبۂ روحانیّت پر اپنے آپ کو اگتے ہوئے دیکھ رہا ہے اور اگر حق الیقین سے دیکھا جائے تو مرتبۂ عقل پر بھی زمین سے انسان کے اگنے کی مثال موجود ہے، کیونکہ وہ المَثَلُ الاَعْلیٰ (۳۰: ۲۷)  اور نمائندۂ کُلّ ہے، جس میں تمام مثالیں سمیٹی ہوئی ہیں، اس لئے اس کا عالم گیر اشارہ بڑا عجیب و غریب ہے۔

۴۔ انتساب: نصیر فیملی کلینک اور نصیر میڈیکل سنٹر اینڈ میٹرنٹی ہوم کے مالک جناب ڈاکٹر رفیق جنت علی خانۂ حکمت کے چیف سیکریٹری بھی ہیں اور ہمارے میڈیکل پیٹرن بھی، ان کی باسعادت بیگم محترمہ ڈاکٹر شاہ سلطانہ خانۂ حکمت برانچ کریم آباد کی چیئرپرسن بھی ہیں اور میڈیکل پیٹرن بھی، ہمارے ان دونوں عزیزوں کو خداوند قدوس نے اخلاقِ حسنہ، ایمان، ایقان، تقویٰ، علم و دانش اور دینداری کی دیگر تمام صفات سے سرفراز فرمایا ہے ، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۷۹

 

۵۔ مکانی بہشت اور لامکانی بہشت (انتساب) کے عنوان کے تحت ان کے دونوں پیارے بچوں کا ذکرِ جمیل ہوچکا ہے، وہ بہت ہی عزیز بچے گلاب خانم رفیق اور شفیق ابنِ رفیق ہیں، ہم سب کو بچوں سے شدید پیار کا تجربہ ہے کہ وہ نورِ نظر اور لختِ جگر ہوا کرتے ہیں، وہ اگر کچھ وقت کے لئے ہماری آنکھوں سے دور ہیں، تو ناخواستہ ہمارے دل  میں دردِ محبت پیدا ہو جاتا ہے، چنانچہ ڈاکٹر رفیق اور ڈاکٹر شاہ سلطانہ اپنے پیارے فرزند (مرحوم) شفیق کو بہت یاد کرتے ہیں جس کی تاریخ پیدائش ۳؍ دسمبر ۱۹۹۲ ء اور تاریخِ وفات ۳؍مارچ ۱۹۹۳ء ہے، اور یہ بھول نہ جانے کی علامت ہے کہ مرحوم شفیق کا پیارا نام موجودہ بچے کو دیکر یادگار بنایا گیا ہے۔

۶۔ یہاں ایک علمی و عرفانی بات یاد آئی: دنیا کی ہر حکومت اپنے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی سے ڈر رہی ہے، کیونکہ لوگ یک طرفہ سوچتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ایک زمانہ وہ بھی آنے والا ہے جس میں سیّارۂ زمین لوگوں سے بھر جائے گا، لیکن انہوں نے خدا کے قانون یعنی سنتِ الٰہی کو نہیں سمجھا، کہ اللہ اگر ایک دور تک اپنی چیزوں کو پھیلا دیتا ہے تو وقت آنے پر ان کو لپیٹتا بھی ہے۔

۷۔ لوگ قانونِ فطرت کے مطابق کثیف سے لطیف ہونے والے ہیں، تب وہ موجودہ غذاؤں سے بے نیاز ہو جائیں گے، ان کو

 

۸۰

 

خوشبوؤں کی شکل میں بہشتی طعام ملنے والا ہے، روحانی سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ناک سے داخل ہوجانے والی لطیف خوراک کی فراوانی ہے، پس اہلِ بہشت، فرشتے ، جنّات وغیرہ یہی غذا سونگھ لیتے ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

بدھ  ۱۵؍ محرم الحرام  ۱۴۱۶ ھ    ۱۴؍جون  ۱۹۹۵ء

 

۸۱

 

آفاق و انفس کے معجزات

(انتساب)

۱۔ اے نورِ عینِ من ! کامل توجہ سے سن لو اور خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے جو جو معجزات مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے ہیں، وہ زمانۂ آدمؑ سے اس طرف انبیاء واولیاء علیہم السّلام کے عالمِ شخصی میں ظاہر ہوتے آئے ہیں، کیونکہ ایسا کوئی معجزہ کبھی ہونے والا ہی نہیں جو سنتِ الٰہی کے مطابق خدا کے خاص بندوں میں رونما نہ ہوا ہو (بحوالۂ آیاتِ قرآنی متعلقہ ٔ سنتِ الٰہی)۔

۲۔ اے نورِ عینِ من! قرآنِ حکیم میں ہر سوال کا جواب اور ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) بشرطے کہ اس کو نورِ معلّم (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں پڑھا جائے، یقیناً ربّ العزّت کی سنتِ بے بدل یہی رہی ہے کہ اس تعالیٰ شانہٗ نے جب بھی کوئی آسمانی کتاب نازل فرمائی تو اس کے ساتھ ساتھ نور بھی بھیجا ، یعنی ناطق اور اساس، پھر امام، کیونکہ خدائے سبحان واحد اور احد ہے، اور اس کے بعد تمام اعلیٰ و ادنیٰ چیزیں دو دو ہیں (دیکھو قرآن:   ۵۵: ۵۲،

 

۸۲

 

۱۱: ۴۰، ۱۳: ۰۳، ۳۶: ۳۶)۔

۳۔ اے نورِ عینِ من! تم اللہ، رسولؐ، اور صاحبِ امرؑ کی حقیقی اطاعت کرکے اپنے عالمِ شخصی میں روحانی انقلاب برپا کرو اور معجزات کو دیکھو، کون سے معجزات؟ سَیْرالیَ اللہ و سَیر فی اللہ کے معجزات تاکہ خزانۂ معرفت حاصل ہو۔

۴۔ اے نورِ عینِ من! سائنس کے عجائب و غرائب اللہ تعالیٰ کے وہ معجزے ہیں جو آفاق میں دکھا رہا ہے تاہم ان کی وجہ سے منکرین خدا کی ہستی کے قائل نہیں ہوں گے جب تک کہ خود ان کے نفوس میں معجزات کا ظہور نہ ہو، اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ شخصی کے معجزات زبردست مؤثر ہوا کرتے ہیں۔

۵۔ اے نورِ عینِ من! خداوندِ تعالیٰ کا ایک دن ہماری گنتی کے مطابق ہزار سال کا ہوتا ہے ( ۲۲: ۴۷) چنانچہ چھ ناطق اللہ کے چھ دن ہوگئے، جن کا زمانہ چھ ہزار برس کا ہوا، اب حضرت قائمؑ یعنی خدا کا ساتواں دن شروع ہوچکا ہے، جو ہزار برس تک چلے گا، جس میں اجتماعی روحانی انقلاب آنے والا ہے، پس ان لوگوں کی بہت بڑی سعادتمندی ہے جو اس دن کو پہلے ہی سے پہچانتے آئے ہیں۔

۶۔ اے نورِ عینِ من! امام ِزمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ مظہرِ

 

۸۳

 

نورِ خدا اور اسمِ اعظم اس معنیٰ میں ہے کہ تم حقیقی معنوں میں اس کی فرمانبرداری کرتے ہوئے روحانی ترقی کا فائدہ حاصل کرو، روحانی علم میں بہت زیادہ آگے بڑھو ، حضرتِ امام ِاقدسؑ کے نیکنام اداروں کی مدد کرو اور خاموش خدمت کرتے جاؤ تاکہ اسی وسیلے سے خدا کی خوشنودی حاصل ہوجائے، جس میں سب کچھ ہے۔

۷۔ انتساب: میرے عم زادہ برادرِ کلان ماسٹر موکھی تولد شاہ صاحب (ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع) بڑے دیندار، پرہیزگار، شب خیز، عبادت گزار، علم دوست، درویش صفت، پاک باطن، محبِ اہلِ بیتِ اطہار (علیہم السّلام ) اور جماعتِ باسعادت کے حقیقی خادم ہیں، انہوں نے زندگی بھر تعلیمات، مذہبی رسومات، جماعت خانہ اور مولائے پاک کے مریدوں کی پُرخلوص خدمات انجام دی ہیں۔

۸َ ۔ میرے برادرِ بزرگ تولد شاہ اور ان کی اہلیہ نوران کو خداوندِ قدوس نے اولاد و احفاد اور خاندان کے افراد کے خزانوں سے مالا مال ہے، جیسے محمد سلیم ہونزائی ابنِ تولد شاہ، نامور سکالر شہناز سلیم ہونزائی، جو علم و حکمت کے آسمان پر ایک درخشان ستارہ ہیں، مصباح سلیم (دس سالہ) صائمہ سلیم (آٹھ سالہ) اور مکے تاج سلیم (پانچ سالہ) ان شاء اللہ العزیز، یہ نیک بخت بچیاں اپنے اپنے وقت میں عظیم شخصیات میں سے ہوںگی، کیونکہ

 

۸۴

 

یہ روشن زمانے میں ایک اچھے خاندان میں پیدا ہوئی ہیں، الحمد للہ علیٰ مَنِّہٖ و احسانِہٖ۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی ہیڈ آفس

مولانا شنبہ  ۱۸؍ محرم الحرام ۱۴۱۶  ھ    ۱۷؍جون  ۱۹۹۵ء

 

۸۵

 

زرین خدمات اور زرین کلمات

عنوانِ بالا کا مطلب ہے: عزیزوں کی زرین خدمات اور استاد کےزرین کلمات، اصل خدمت کی مثال ایک روشن چراغ کی طرح ہے، تاہم چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے اور خدمت تلے کوئی اندھیرا نہیں، خدمت کا چراغ گویا آفتاب ہے، جس کا کوئی سایہ نہیں، یعنی خدمت اگر مخلوق کی نسبت سے خدمت ہے تو خالق کی نسبت سے عبادت ہے، پس اگر عبادت ہے تو نور ہے، جب نور ہے تو اس کا سایہ نہیں بلکہ ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جماعتی یا قومی خدمت سے خدا راضی ہوتا ہے، تمام لوگ خوش ہوتے ہیں، خادم خود بھی خوش ہوتا ہے، اس کی فیملی اور آئندہ نسل فخر محسوس کرتی ہے اور خدمت سے کوئی ناراض نہیں ہوتا، مگر ممکن ہے کہ اس سے کوئی نادان و جاہل شخص ناخوش ہوجائے۔

علم خدا کا بنایا ہوا ایک نور ہے، لہٰذا علمی خدمت نورانی خدمت ہے، پس بڑے مبارک ہیں وہ سب عزیزان جو جان و دل سے علم کی ضروری خدمات سرانجام دے رہے ہیں، جیسے ادارۂ

 

۸۶

 

عارف کے صدر محمد عبدالعزیز اور ان کی سعادتمند بیگم کو آرڈینیٹر یاسمین، یہ دونوں عزیزان نورِ علم کے پروانوں میں سے ہیں، انہوں نے بڑی مشقت سے ریکارڈنگ کی مشینیں قائم کیں، اور اپنے پیارے استاد کی تقریباً ہر تقریر، ہر علمی گفتگو، ہر درسِ حکمت، ہر مناجات ہر گریہ و زاری، ہر سوال و جواب ، وغیرہ کو ریکارڈ کیا، اب ایسے کیسیٹوں کی تعداد تقریباً دوہزار ہو چکی ہوگی، علم کے ان دونوں فرشتوں نے اتنا زیادہ کام کیا ہے کہ اس کا قلمی احاطہ کرنا بہت مشکل ہے، میرا عقیدہ ہے کہ ہمارے سب عزیزوں کو ہمارے ادارے کے کل ثواب کی ایک ایک کاپی مل جائے گی، تب معلوم ہوجائے گا کہ علمی خدمت کیا چیز ہوتی ہے، کیونکہ بہشت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں ہر شخص کے پاس کل چیزیں موجود ہوتی ہیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی ہیڈ آفس

بدھ   ۲۲؍ محرم الحرام ۱۴۱۶  ھ    ۲۱؍جون  ۱۹۹۵ء

 

۸۷

 

ایک عجیب پروانہ جو جل کر بھی نہیں مرتا

(انتساب)

یقیناً آپ نے ایسے بہت سے پروانوں کو بارہا دیکھا ہوگا جو شمعِ محفل کے عاشقان خِود سوز ہونے کی وجہ سے ظلمتِ شب سے گریزان ہوتے ہوئے شعلۂ ضوفگن میں بھر پور عشق سے اپنے آپ کو قربانیٔ سوختنی کر دیتے ہیں، اور بس اسی یکبارگی فنائے عشق ہی کے ساتھ ان کی مختصر سی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے، لیکن میں نے اسی دنیا میں چشمِ بصیرت سے کچھ دوسرے عجیب و غریب پروانوں کو بھی دیکھا ہے، جو علم و حکمت کے چراغِ جہان افروز کے شعلۂ عشق و محبت میں بار بار جل جانے کے باوجود بھی نہیں مرتے، بلکہ ان کو ہر بار ایک نئی بابرکت اضافی روح ملتی رہتی ہے، جو حقائق و معارف کی دولت سے مالا مال ہوتی ہے۔

اللہ، رسولؐ اور امام ِزمانؑ کا نورِ اقدس ہی وہ کائناتی روشن چراغ ہے، جس کے مبارک شعلۂ عشق و محبت میں جل کر بحقیقت زندہ ہوجانے والے دانا پروانے یعنی عشاق تمام زمانوں میں پائے جاتے ہیں، الحمدللہ! ہمارے تمام عزیزان (تلامیذ) بھی نورِ مطلق کے عاشقانِ صادق ہیں، منجملہ اس انتساب کی مناسبت سے میں یہاں اپنے بہت ہی عزیز امین کانجی کا ذکرِ جمیل کرتا ہوں:۔

 

۸۸

 

امین کانجی بے شمار خوبیوں کا خزانہ، علم و ادب کا گنجینہ، بندۂ خدا پرست، عابد و ساجدِ شبِ خیز، مناجاتی درویش، محبِ اہلِ بیت علیہم السّلام، خادمِ قوم و جماعت اور خیر خواہِ اسلام و انسانیّت ہیں، آپ کے نیک بخت والدین: نور الدین کانجی اور بیگم زہرا نورالدین کانجی بڑے ایمانی ہیں، امین کانجی کی خوش خصال اورنرم گو اہلیہ تیریز (TAYREEZ) کانجی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ لٹریچر میں بھی بڑی قابلیت رکھتی ہیں، مسٹر امین کانجی اور مسز کانجی کے لئے ان کی دونوں پیاری بیٹیاں: رحمت بیگم اور پریزہ (PAREZA) وسیلۂ محبت بھی ہیں اور باعثِ برکت بھی، دعا ہے کہ خداوندِ قدوس جملہ اہلِ ایمان پر اپنے پاک عشق کی شعاعیں برسائے! آمین!!

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِ علی) ھونزائی

کراچی

جمعرات ۱۵؍ جمادی الثانی  ۱۴۱۶ ھ   ۹؍ نومبر ۱۹۹۵ء

 

۸۹

 

فرشتگانہ خصوصیات

(انتساب)

اے نورِعینِ من! اس بابرکت و پُرحکمت کلیدی آیت جان و دل سے یاد رکھنا اور ہر گز ہر گز بھول نہ جانا جو نورِ منزل اور کتابِ مبین (قرآن) کے دائمی ربط و تعلق کے بارے میں وارد ہوئی ہے (۰۵: ۱۵) تاکہ ان شاء اللہ روحانی ترقی میں آگے چل کر آپ کو ہر مشکل سے مشکل علمی سوال کا معجزانہ جواب از خود مل سکے، کیونکہ نورِ ہدایت اور کتابِ سماوی کا اصل مقصد یہی ہے کہ دینِ کامل (۰۵: ۰۳) کا سرچشمۂ علم و حکمت ہمیشہ کی طرح ایک ہی شان سے جاری و ساری رہے۔

بعض عزیزوں نے ایک بہت ہی عمدہ اور مفید سوال پیش کیا ہے، وہ یہ ہے: “کون کون سی فرشتگانہ خصوصیات ایسی ہیں جو مومنین و مومنات میں کلّی یا جزوی طور پر پیدا ہو سکتی ہیں؟ ”

اس کا مفصل جواب کلامِ الٰہی میں موجود ہے: (الف: ) فرشتوں کی اوّلین خصوصیات یہ ہیں کہ انہوں نے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی اطاعت کرکے روحانی علم حاصل کرلیا، کیونکہ قانون یہی ہے کہ خلیفۂ خدا کے سوا اور کہیں سے حقیقی علم نہیں ملتا ہے۔ (ب: ) جو فرشتے درجۂ کمال پر پہنچ چکے ہیں وہ ہر چیز میں شاید علم و حکمت کی تجلّی دیکھتے ہیں۔ (۴۰: ۰۷) اس لئے چھوٹے فرشتوں کی

 

۹۰

 

ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھی علمی ترقی سے اس مقام تک پہنچ جائیں ۔ (ج: ) سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۹ تا ۲۰)  میں عظیم فرشتوں کے ذکر و عبادت اور علم و حکمت کا آفتاب طلوع ہوچکا ہوتا ہے۔

الغرض فرشتوں کی کوئی ایسی خصوصیت اور صفت نہیں جو مومنین و مومنات میں بتدریج پیدا نہ ہو سکے، جبکہ فرشتے اہلِ ایمان ہی کے ترقی یافتہ نفوس (ارواح) ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

ملائکہ ارض و سماء میں منتشر ہیں، وہ روحانی بھی ہیں اور جسمانی بھی، چنانچہ ہماری اپنی پیاری کائنات کے پیارے پیارے فرشتوں میں سے چار عزیز فرشتے اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک بڑے وسیع علمی دسترخوان کو چاروں کونوں سے پکڑ کر پھیلا دیا، یہ عزیزان بار بار احسان کرتے رہتے ہیں، دعا ہے کہ ان کو ہر لحظہ حضرتِ امام علیہ السّلام کی پاک دعا حاصل رہے! وہ ہمارے بہت ہی عزیز اور ممد و معاون فرشتے ظہیر لالانی، عشرت رومی ظہیر، روبینہ برولیا، اور زہرا جعفر علی ہیں، جو ہمارے شہرۂ آفاق ادارے میں ریکارڈ آفسیرز کے عہدوں سے سرفراز ہیں، ان شاء اللہ العزیز دنیا میں ہمارے جملہ رفیقوں کی ایک تاریخِ زرین بنے گی اور آخرت میں ایک انتہائی عظیم الشّان کائناتی نامۂ اعمال تیار ملے گا۔

میرے عزیزان جس ملک میں بھی ہیں وہ گویا میرے ساتھ ہیں،

 

۹۱

 

میں سب کو ہمیشہ اپنی عاجزانہ دعاؤں میں یاد کرتا رہتا ہوں، ہم سب مولائے پاک اور پیاری جماعت کے ساتھ ساتھ اسلام اور انسانیّت کی مقدّس خدمت کی خاطر فردِ واحد کی طرح ایک ہوگئے ہیں، جس کے نتیجے میں ہمیں بفضلِ خدا عدیم المثال کامیابی نصیب ہوئی ہے، ہم کو کسی عظیم دوست نے لطفاً اپنے باغ کا ایک شجر بنا دیا ، الحمدللہ! اس کی بہت سی پُرثمر شاخیں پیدا ہوگئیں، ان میں سے ایک “شاخِ عالیۂ لندن” اور ایک “شاخِ عالیۂ شمال” بھی ہیں، مجھے شرق و غرب سے اشارہ مل گیا کہ ان کی یہ تعریف لکھوں۔

شاید دنیا میں صرف ہم ہی وہ لو گ ہیں جو مونوریالٹی (یک حقیقت) پر یقینِ کامل رکھتے ہیں، اور اس کے اسرارِ عظیم کو درجہ بدرجہ ادراک کر لیتے ہیں، جس کی برکت سے “ایک میں سب” کی موجودگی کا انمول خزانہ حاصل ہوا، اس کی بدولت ہم پر یہ حقیقت روشن ہونے لگی کہ ہم میں سے کسی ایک کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے، علاوہ بران “نظریۂ عالمِ شخصی” ہمارے لئے ایک عظیم علمی انقلاب تھا، جس سے علم و عرفان کے سارے عقدے کھل گئے، اب ہماری روحانی سائنس کا چرچا ہونے لگا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ، آئندہ ہونے والی تحقیق (ریسرچ) سے یہ پتا چلے گا کہ ہماری تمام تر تحریروں کے ظاہر و باطن میں روحانی سائنس کے خزانے موجود ہیں۔ یہ سب کچھ تیرے فضل و کرم سے ہے یا ربّ العالمین! اللّٰھُمَّ

 

۹۲

 

صَلِّ عَلیٰ مُحَمّدٍ وَّ عَلیٰ آلِ مُحَمّدٍ۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

جمعرات ۲۶؍ جمادی الثانی  ۱۴۱۶ ھ   ۲۳؍ نومبر ۱۹۹۵ء

 

۹۳

 

بابِ سوم

دو عظیم استاد

 

۹۵

 

اشعارِ یادگار

بیادِ جناب چیف موکھی محمد دارا بیگ فدائی (مرحوم) ابنِ وزیر محمد رضا بیگ، تاریخِ پیدائش ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۷ ء، تاریخِ وفات ۲؍ جون ۱۹۸۰ء۔

اے شناسائے امامِ روزگار              ساختی مارا زہجرت دل فگار

اے کہ رفتی باچنین جاہ و جلال                گریہ ہا کردند خویشان زار زار

گنجِ علم و دولتِ دین داشتی             اے تو فخرِ ملت و قوم و تبار

عالمِ دوران و استادِ عظم                مایۂ فضل و ہنر دانش شعار

واعظِ کامل فقیہِ نامور                   ذاکرو شاکر ہمہ لیل و نہار

خادمِ دین جان نثارِ شہ کریم                      اے محبِ آن امام ِنامدار

جانِ محفل شمع جمع دوستان                    طالبان رابس شفیق و غمگسار

در وطن بودی چو سروسر بلند                  در زمانہ چون درخت میوہ دار

چشمۂ اخلاق و نہر ِ علمِ دین           در معارف ہمچو باغِ پر بہار

اے سخنہایت بمعنی دل پذیر                     ہمچو شیر و ہمچو شکر خوش گوار

در حق اولاد میکر دی مدام             مہر و شفقت ہائے بے حد و شمار

چترِ عزت برسرِ اہل و عیال           دوستانِ راتکیہ گاہِ استوار

 

۹۷

 

مفخرِ اولاد و شاگرادانِ خویش                  چونکہ ایشانند از تو یاد گار

باداز ما صد سلام اے محترم!                   تو کہ رفتی جانبِ دار لقرار

مردِ عارف راچہ غم گر بگزرد                 از جہانِ بیوفائے تابکار

روحِ عارف بر بُرانِ معرفت                    بررود تا بارگاہِ کرد گار

او فنافی اللہ شود بہرِ بقاء               جسمِ خاکی را مبین اے ہوشیار

جنت جنات نورِ کبریا ست              قصہ ہائے باغہارا درگذار

آنکہ یابد گنجِ مخفی را تمام             اوست حقا در دو عالم کا مگار

اے خوشا روزے کہ از تن بگزریم            تارسد بر جان فروغِ وصلِ یار

 

از قلمِ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

 

۹۸

 

ماسڑ سلطان علی

ماسڑ سلطان علی ابنِ علی فتاح ابنِ عبد اللہ خان ابنِ میر سلیم خان ابنِ خسرو خان ابنِ شہ بیگ ابنِ شہباز (شبوس) ابنِ سلطان ابنِ عیا شو ابنِ مَیوُری تھم۔

محترم ماسٹر سلطان علی صاحب مثالی دیندار، متقی، عابد، عالم، دانا، حلیم، روشن ضمیر، پاک باطن، حقیقت شناس، راسخ العقیدت، اور درویش صفت مومن ہیں، آپ نے عرصۂ دراز تک قوم اور جماعت کے عزیز بچوں کی گرانقدر تعلیمی خدمات سرانجام دی ہیں، اس لئے ہر شخص آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

موصوف سے میری اوّلین ملاقات بوقتِ طالبِ علمی گورنمنٹ پرائمیری سکول بلتت میں ہوئی تھی، آپ بڑے ذہین تھے، اپنے اسباق کو آرام سے یاد کرکے آیۃ الکرسی کی تحریری مشق کرتے ہوئے دیکھا گیا اس سے ظاہر ہے کہ آپ خاندانی طور پر شروع ہی سے قرآن اور امام کے عاشقِ صادق ہیں۔

پھر گلگت سکاؤٹس میں ہم دو طرفہ علم دوستی کی وجہ سے جانی دوست ہو گئے، خدا کے فضل و کرم سے وہاں قلبی دوستوں کا ایک

 

۹۹

 

حلقہ تھا، ایک دن کا ذکر ہے کہ جناب سلطان علی صاحب نے اس بندۂ ناچیز کو کھانا بنوا کر دعوت دی، اور جذبۂ دوستی سے یہ شعر کہا:

خوردہ ہمان بہ کہ با دوستان خوری                    خاک بران خوردہ کہ تنہا خوری

کافی عرصے کے بعد ہونزہ میں ایک پُراثر خواب دیکھا کہ میں ایک گول سفر کی کسی منزل میں ہوں، اتنے میں ماسٹر سلطان علی صاحب پچھلی منزلوں سے پرواز کر کے میرے پاس پہنچ گئے اور وہی شعر کہا ، اس خواب کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں جملہ احباب آپ کے ساتھ ہوتے ہیں، نیز یہاں یہ اشارہ بھی ہے کہ جناب ماسڑ سلطان علی جیسے بااخلاق مومن کی علمی خدمات روحانی ترقی کے لئے پرواز کا کام کرتی ہیں، الحمد للہ۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

ذوالفقار آباد۔ گلگت

یکم جون ۱۹۹۵ء

 

۱۰۰

 

بابِ چہارم

جواہرِ بدخشان

 

۱۰۱

 

سید زمان الدین عدیمؔ

شاعرِ بدخشانی

در حضورِ اہلِ دانش نزدِ اربابِ قلم            غیرِ شعر از شاعران چیزی د گراہد نشد

بحضورِ محترم علامۂ دوران شاعرِ شیواز بان سخن سنچِ نکتہ دان نصیر الدین ہونزائی ، از طرفِ سید زمان الدین عدیمؔ شاعرِ بدخشانی گوشۂ شغنان پارچۂ شعر طورِ تحفہ بہ یادگاری نزدش از من بعد از سرِ مرگ باد گارم باشد۔

نصیرالدین بُوَد یک شخصِ دانا        زآب و خاکِ دانش خیز ہنزا

بجز شعر و ادب در فلسفہ ینز                   بود این مردِ دانشمند جویا

شناسد علتِ غانئی عالم                  بقولِ رادِ مردانِ شناسا

یقیناً حتی الامکان شناسد                مدارد محورِ دنیا و عقبا

میانِ فرقہ اسماعیلیہ            بُوَد فضل و کمالش آشکارا

چنین گویند نورِ حسنِ اخلاق           بُوَد از جبۂ رویش ہویدا

برای اہلِ بیتِ دینِ اسلام                 بُوَد این مردِ عارف راہ پیما

بہ سویٔ قبلۂ حاجاتِ عالم               ہمہ وقت و زمان دار دتو لا

کند تصنیف اشعارِ دلاویز               بُوَد یکسر دل انگیز و دلارا

 

۱۰۳

 

کتابش خواندہ ام در متن شعرش                 بُوَد از حمد و نعت و مدحِ مولا

مثالِ دُرِ مکنون فخر نِ علم             بُوَد چون گنج پنہان درسویدا

ہمی خواہد کہ نامش جا و دانہ                   بما ند ثبت در تاریخِ دنیا

بُوَد با حسن ِ خط باشعر جالب                   کنند این ہر دو صنعت جذبِ دلہا

ملا قاتِ چنین شخصِ مفکر            تمامِ عمر بود ازمن تمنا

ولی این آرزو خواب و خیال است              روم در زیرِ خاک امرو زو فرادا

عدیمؔ این شعر خود اندر حضورش             طریقِ ارمغانِ بنمودا اہدا

فرستاد یمت از کوہِ بدخشان            چو لعل این گو ہر قیمت بہارا

بہ چشم ہٰذہٖ اعمیٰ ہنوز ہم                رموزِ عَلّمَ الاسماست اخفا

بشر پر ور کریم ابنِ علے شاہ                   امام ِدین و دنیا رہبرِ ما

 

بااحترام  ۲۵؍ جنوری ۱۹۹۵ ء

 

۱۰۴

 

ترجمہ: ۔

اربابِ قلم یعنی شاعروں کے نزدیک دانش مندوں کی خدمت میں ہدیہ کرنے کے لئے گوہرِ شعر سے زیادہ بہتر کوئی شے نہیں ہوسکتی۔

گوشۂ شغنان کے سید زمان الدین عدیمؔ، شاعرِ بدخشان کی طرف سے علامۂ دوران، شاعرِ شیوا بیان، شیرین زبان وخوش گفتار اور دقیقہ رس مفکر کے حضورِ عالی میں ہدیۂ شعر ارسال کیا گیا ہے تاکہ یہ تحفۂ اشعار یادگار ہے۔

تاریخِ شخصیت کا ایک یادگارباب

۱۔ نصیر الدین، ہونزہ کی دانش خیز (دانش کو پیدا کرنے والی) سرزمین سے ایک دانش مند شخص ہیں۔

۲۔ شعر و ادب کے علاوہ یہ دانش مند شخص فلسفے سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

۳۔ آپ اس جہان کی انتہائی غرض یعنی مقصودِ آخرین کو اسی طرح جانتے ہیں جس طرح دیگر ہوش مند مردانِ راہِ حق نے اسے سمجھ لیا تھا۔

۴۔ اپنے وسیع علم و تجربات کی بنا پر وہ یقیناً حتی الامکان دنیا و

 

۱۰۵

 

عقبیٰ کے مرکز و محور کو جانتے ہیں۔

۵۔ اسمٰعیلی طریقے کے تمام افراد میں علمی فضل و کمال کی وجہ سے آپ کی شخصیت نمایان ہے۔

۶۔ یوں کہتے ہیں کہ حسنِ اخلاق کا جو نور ہے وہ ان کی پیشانی اور چہر ے سے نمایان ہے۔

۷۔ دینِ اسلام کے اہلِ بیت کی مدح سرائی اور عظمت و بزرگی کے بیان میں یہ عارف (قلمی طور پر) ابھی تک گامزن ہے۔

۸۔ وہ اس محبوبِ حقیقی کا دوست ہے جو دنیا کے تمام لوگوں کا قبلۂ حاجات ہے۔

۹۔ وہ ایسے دل کو لبھانے والے اشعار تخلیق کرتے ہیں جو پوری طرح سے دل کو (ادبی ومعنوی) مسرتوں سے سرشار و بیدار کر دیتے ہیں۔

۱۰۔ مجھے انکا دیوان اشعار پڑھنے کا موقع ملا ہے جو (اپنی معنوی گہرائی میں) سرتا سر حمد و نعمت اور مدحِ مولا کے حسین تصوّرات پیش کرتا ہے۔

۱۱۔ علم کا خزانہ جو چھپے ہوئے موتی کی طرح ہے دل کی گہرائی میں پنہان ایک گنجینے کی مانند ہے۔

۱۲۔ ان کا نام دنیا کی تاریخ میں ایک یاد گار باب کی حیثیت سے ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید رہے گا۔

 

۱۰۶

 

۱۳۔ وہ درستگیٔ خط کے ساتھ پُر کشش شعر کہتے ہیں اور یہی دو ادبی خوبیاں انسانی دلوں کو متوجہ کرتی ہیں۔

۱۴۔ ایسے ایک عالم و مفکر شخص سے ملا قات، میری پوری زندگی کی ایک تمنا رہی ہے۔

۱۵۔ مگر یہ آرزو محض ایک خواب و خیال ہی رہی کیونکہ میں تو آج یا کل دنیا سے چلا جاؤں گا۔

۱۶۔ عدیمؔ نے اپنے ان اشعار کو ان کی خدمتِ عالیہ میں ہدیۂ محبت بنا کر پیش کیا ہے۔

۱۷۔ میں (اشعار و جذبات کے) ان قمیتی موتیوں کو آپ کی طرف کوہِ بدخشان کے بیش بہا لعل کی حیثیت میں بھیج رہا ہوں۔

۱۸۔ “جو اس جہان میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا” (القرآن) کے بموجب بہت سے لوگوں کی آنکھون سے علم الاسماء کے رموز ابھی تک پوشیدہ ہیں۔

۱۹۔ انسانیت کے روحانی و عقلانی مربی کریم ابنِ علی شاہ ہیں، جو امام ِدین و دینا اور ہمارے رہبر ہیں۔

 

با احترام

۲۵؍ جنوری  ۱۹۹۵ء

اردو ترجمہ: ۔ شہناز سلیم ہونزائی

نوٹ: ۔ بدخشان تاجکستان کے ہشتاد سالہ مشہور و معروف

 

۱۰۷

 

بزرگ شاعر سید زمان الدین عدیمؔ (جنکو حکومتِ روس کی طرف سے “صاحبِ جیحون” کا لقب ملا ہے) نے حکیم القلم، لسان القوم ، بابائے بروشسکی علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لئے سرزمینِ بدخشان سے ہدیۂ شعر ارسال کیا ہے۔

 

۱۰۸

 

بابِ پنجم

عظیم دوست کے لئے تحفہ

 

۱۰۹

 

سپاسنا مہ

“جانِ عزیز” جیسے پیارے دوست کے نام پر جب مَیں اپنے آپ سے پوچھ لیتا ہوں کہ آیا کبھی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کی اپنی جان پیاری جان اندرونی طور پر ایک ہی رہے اور بیرونی طور پر دو جسموں میں مجسم ہو کر عوام کو ورطۂ حیرت میں ڈالے، تو میرے ضمیر سے، جو بار بار فنا کی زد میں آتا رہتا ہے، آواز کی انتہائی دھیمی کیفیت میں جواب ملتا ہے کہ ہاں تمہاری “یک جان اور دو قالب” ہونے کی زندہ مثال جانِ عزیز ہیں، اور تمہارے نزدیک “جان عزیز” کے معنی بھی یہی ہیں۔

جان کی باطنی وحدت اور ظاہری کثرت کے بارے میں اہلِ دانش کو ہرگز کوئی تعجب نہیں، کیونکہ جان کا اصل مطلب روح ہے اور روح تو ازلی و ابدی طور پر ایک ہی ہے، اس لئے کہ وہ حقیقت میں تقسیم نہیں ہوسکتی ہے، اور قرآنِ مقدس کی بہت سی آیات میں اس کا تذکرہ مل سکتا ہے، خصوصاً نفسِ واحدہ ۳۱: ۲۸ کے عنوان کے تحت اس

 

۱۱۱

 

کی یہی حکمت پوشیدہ ہے۔

دنیا کے تمام انسانوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے قلبی جذبات کے اظہار کے لئے الفاظ کا انتخاب کریں اور اپنے عزیزوں کو اپنی پسند کے مطابق کسی نام سے پکاریں، چنانچہ مَیں اپنے عظیم المرتبت دوست ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد صاحب ہونزائی کو “جانِ عزیز” کے نام سے پکارتا ہوں، کیونکہ وہ میری اپنی روح ہیں، کیونکہ وہ میرا عکس ہیں اور مَیں ان کا عکس ہوں، اور دو عکس کی حقیقت ایک ہی ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی کتنی عظیم حکمت ہے، کہ انسان پر ایک وہ وقت بھی گزرتا ہے جس میں کہ وہ روح کی ہمہ گیری، جامعیت اور وحدانیّت سے ناآشنا ہوتا ہے، اور ایک یہ وقت بھی آتا ہے کہ اس میں اس کو یقینِ کامل حاصل ہوتا ہے کہ تمام انسانی روحیں آپس میں ازلی وحدت و یگانگت برقرار رکھتی ہیں، خواہ اس حقیقت کو کوئی سمجھے یا نہ سمجھے لیکن حقیقت اپنی جگہ پر حقیقت ہی ہے، اس روحانی وحدت کا عملی ثبوت سب سے پہلے مومنین کے اقوال و افعال سے مل سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک حقیقی مومن اپنے عزیزوں کو اپنی جان اور اپنی روح قرار دینے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔

 

۱۱۲

 

وحدت کی صفت جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات میں سب سے عالی اور عظیم ہے، اسی طرح وحدت روحوں کے مقام پر بھی سب سے بڑی اہمیت کی حامل ہے، چنانچہ روحوں کی توحید کا فلسفہ ایسی نرالی شان رکھتا ہے، کہ اس کے جاننے سے یعنی یہ معلوم کرلینے سے کہ ہم مومنین روحانی طور پر نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہیں، بے پناہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔

“جانِ عزیز” کا ذکرِ جمیل چِھڑتے ہی مسٔلہ توحید کیوں درمیان آگیا؟ اس لئے کہ آپ ہماری پیاری روح (یعنی جانِ عزیز) ہیں، اور اپنی روح کے ساتھ ہماری جو وحدت و سالمیت قائم ہے اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے، لہٰذا ہم اپنی اس روحانی وحدت کا اظہار و اعلان کر دینا چاہتے ہیں۔

“جانِ عزیز” کے بارے میں کچھ کہنے سے قبل پیار اور محبت کے تذکرے کیوں شروع ہو گئے؟ اس لئے کہ “جانِ عزیز” خود محبت ہی کا عنوان ہے، یعنی نہ صرف اسم ہی بلکہ مسما بھی الفت و محبت کا موضوع ہے۔

“جانِ عزیز” کی شکرگزاری اور تعریف و توصیف سے پیشتر روح کی باتیں کیوں کی گئیں؟ اس وجہ سے کہ جانِ عزیز ہماری روح ہیں، وہ ہماری روحِ مجسم ہیں، لہٰذا ہم اپنی اسی روح کی وضاحت کر رہے ہیں، نہ کہ کسی اور روح کی۔

 

۱۱۳

 

کیا  یہ تحریر ڈاکڑ فقیر محمد ہونزائی کے سپاسنامہ کی حیثیت سے ہے یا کوئی علمی مقالہ کی حیثیت سے؟ یہ تحریر دونوں حیثیتوں سے ہے جبکہ ہم سپاسنامہ کو چاہتے تھے اور ڈاکٹر صاحب جماعت کے لئے علم کو، کیونکہ ان کو ذاتی توصیف کے مقابلے میں جماعت کو علم مہیا کر دینا زیادہ عزیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کو میرے علاوہ جماعت کا باشعور طبقہ بھی “جانِ عزیز”  کہنے لگا ہے۔

جب مَیں حلقۂ احباب میں “جانِ عزیز” کو اسی پیار بھرے نام سے یاد کرتا ہوں تو اس پُرخلوص آواز سے نہ صرف مجھے حقیقی خوشی اور راحتِ روح ہوتی ہے بلکہ تمام دوستوں کو بھی اس سے مسرت و شادمانی کی خوشبو محسوس ہو جاتی ہے، اور ان کے چہروں پر تصدیق و تائید کی روشنی نمودار ہونے لگتی ہے۔

فقیر صاحب عادات و اطوار اور اخلاق و کردار کے حقیقی معنوں میں ایک نورانی فقیر ہیں، ان کو مادّی دولت کی ذرا بھی طمع نہیں، مگر وہ علم و عرفان کے بادشاہ ہیں، کیونکہ جو بصیرت ان کو عطا ہوئی ہے وہ کسی کو نہیں ملی ہے۔ کتاب شناسی کے میدان میں جو تجربہ ان کو حاصل ہوا ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جتنا عزمِ عمل آپ میں ہے وہ کہیں بھی نہیں۔

 

۱۱۴

 

آپ کے آباو اجداد نے علمی خدمت کے سلسلے میں بزرگانِ دین کی انتھک خدمات انجام دی تھیں، اور ہمیشہ وہ پیر و بزرگ حضرات دعا فرمایا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں خداوند تعالیٰ نے علم و فضل اور ایمان و ایقان کا یہ عظیم خزانہ اس خاندان میں سے پیدا کر دیا، سو کس قدر خوش نصیب ہے وہ خاندان جس کا جانِ عزیز چشم و چراغ ہیں۔

آپ خاندانی طور پر بدرجۂ اتم دین سے وابستگی رکھتے ہیں، آپ ایمانِ کامل اور اخلاقِ حسنہ کے قابلِ تقلید نمونہ ہیں، آپ سخت محنت اور کامیابی کی ایک بہترین زندہ مثال ہیں، آپ امامِ عالی مقام کے علمی لشکر کے ایک نامور سردار ہیں، اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ ان تمام خوبیوں کے باوجود ان کو ذرا بھی فخر نہیں، وہ ایک حقیقی درویش کی سی زندگی گزار کر امام اور مذہب کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔

جانِ عزیز دینی اور دنیاوی علوم اور مختلف زبانوں میں سے جو کچھ جانتے ہیں اگر اس کو تفصیلاً تحریر کیا جائے تو اس کے لئے ایک بڑی ضخیم کتاب لکھنے کی ضرورت ہوگی، لہٰذا میں یہاں جانِ عزیز کے بارے میں صرف چند ہی باتیں لکھنا چاہتا ہوں، امید ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں پوری دنیائے اسماعیلیت ان کی ذاتِ گرامی کی طرف متوجہ ہو جائے گی۔ اور ہر علم دوست فرد ان

 

۱۱۵

 

کے علمی کارناموں سے مستفیض ہوجائے گا۔

جانِ عزیز فقیر محمد ہونزائی کے بارے میں ایک ولایت نامہ بیان کرتا ہوں جو کسی بھی معجزے سے ہر گز کم نہیں ، وہ یہ کہ جس زمانے میں مولانا حاضر امامؑ کی پُرحکمت تشریف اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے ہیڈ کوارٹرز میں آرہی تھی، تو اس میں تمام اسٹاف اور واعظین نچلی منزل میں انتظار کر رہے تھے اور ہم چند ریسرچ ایسوسیٔٹ اوپر کے آفس میں منتظرِ دیدار تھے کہ یکایک امام ِبرحق صلوات اللہ علیہ کی عالی شان اور باکمال شخصیت دفتر کے دروازے سے داخل ہوئی، اور میں عقیدہ کے سہارے سے نہیں بلکہ یقینِ کامل کی روشنی میں کہتا ہوں کہ اس وقت جانِ عزیز کی انا امام ِزمانؑ کے نور میں عجیب طرح فنا ہوگئی، آپ پر ایک ایسی نرالی شان والی گریہ وزاری کی کیفیت طاری ہوگئی کہ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی، مگر شاید ذکر کی انتہائی کامیاب مشقوں میں یہ چیز ملے، جانِ عزیز مرغِ نیم بِسمل کی طرح تڑپ رہے تھے، عشق و محبت اور گریہ میں عاجزانہ تھرتھراہٹ تھی اور یہ تمام کیفیات معجزانہ نوعیت کی تھیں، سرکارِ نامدار نے پوری خوشی اور خوشنودی سے آپ کے حق میں خصوصی دعائیں فرمائیں۔

 

۱۱۶

 

مجھے اب تک کوئی ایسا یگانۂ روزگار اور منفرد و ممتاز شخص نہیں ملا ہے جو ظاہری علوم میں بہت بڑے پائے کا سکالر ہونے کے علاوہ دینی علوم میں بھی ایک خاص اور اعلیٰ مقام رکھتا ہو، بزرگانِ دین کے آثار علمی سے باخبر، ذکر و عبادت کی حقیقی لذّتوں سے واقف اور حقیقت و معرفت کے بھیدوں سے آشنا ہو، جیسے کہ جانِ عزیز ہیں۔

آپ شخصیت کے اعتبار سے ایک ہی ہیں مگر اہمیت اور قدر و قیمت کے لحاظ سے لاکھوں کے برابر ہیں، کیونکہ آپ امام ِروزگار کے ایک لائق روحانی فرزند ہیں، اور اس بات میں کوئی خاص تعجب بھی نہیں، جبکہ آپ پر امامِ عالی مقام کی خصوصی نظر ہے، جبکہ آپ روحوں کی ایک عظیم دنیا ہیں اور جبکہ آپ مرتبۂ اسماعیلیت کا ایک زندہ اور اعلیٰ نمونہ ہیں۔

آپ علم و ادب اور حکمت و معرفت کے ایک گرانقدر خزانے کی حیثیت سے نہ صرف ہونزہ، گلگت، چترال اور مملکتِ پاکستان کے اسماعیلیوں

 

۱۱۷

 

کے لئے باعثِ فخر اور مایۂ ناز ہیں، بلکہ آپ کی عظیم نیک نامی اور علمی شہرت سے سرتاسر عالمِ اسماعیلیت نازان ہے، اور ان شاء اللہ تعالیٰ مستقبلِ قریب میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح دنیا پر عیان ہوگی۔

آپ نے اب تک جو مقالے اور رسالے لکھے ہیں اور جتنے ترجمے کئے ہیں، ان سب میں انتہائی تحقیقی اور درست انداز سے کام کیا گیا ہے، چونکہ موصوف نہ صرف ایک محقق کی حیثیت سے علم کے سلسلے میں تحقیقی کام کو زیادہ پسند کرتے ہیں، بلکہ شروع ہی سے آپ کی یہ عادت چلی آئی ہے کہ ہر لفظ کو دقتِ نظر سے دیکھتے ہیں اور ہر پہلو سے اس کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں۔

آج چونکہ موصوف ڈاکٹر صاحب از راہِ کرم ہمارے درمیان تشریف فرما ہوئے ہیں، لہٰذا آج ہماری ایک یادگار علمی عید کا دن ہے، جس کی وجہ سے ہمارے دلوں میں مسرت و شادمانی کا ایک سمندر موجزن ہو رہا ہے، اور ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ عالی قدر ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی ہمارے علمی اور روحانی دوست ہیں، چونکہ آپ واقعاً جانِ عزیز ہیں، اس لئے آپ ہم سب کو بہت چاہتے ہیں۔

 

۱۱۸

 

جانِ عزیز! آپ سے یہ امر ہر گز پوشیدہ نہیں، کہ خانۂ حکمت اور عارف کا ایک ہی مقصد و مدعا ہے، لہٰذا ہم پاکستان اور کینیڈا کے ان دونوں علمی اداروں کے ارکان (ممبران) ایک ہی ہیں، اور ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لئے ہم ایک ہی رہیں گے، ایک دوسرے کی عزت کریں گے، اور ایک دوسرے کو اپنی جان کی طرح عزیز رکھیں گے، کیونکہ “جانِ عزیز” کے اسم میں بھی اور مسمّا میں بھی ہمارے لئے یہی سبق رکھا ہوا ہے۔

جنابِ والا! آپ ہمارے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے علمی و ادبی طور پر پھلنے پھولنے کے لئے دعا کریں اور اپنی کریمانہ عادت کے مطابق ان دونوں اداروں سے تعاون بھی فرمائیں۔ تاکہ ہم امام ِحیّ و حاضر کے تمام عزیز مریدوں کی کچھ علمی خدمت کر سکیں، آپ کے علم میں یہ بات روشن ہے کہ آج کی دنیا میں اس مقدس خدمت کی سخت ضرورت ہے۔

جناب نیکنام فقیر محمد ہونزائی صاحب! ہم سب اس جمعیت کے افراد آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ متفق و متحد رہیں گے، ہر وقت خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی کامیابی کے لئے طرح طرح کی قربانیاں پیش کرتے رہیں گے، علمی خدمت کو آگے سے آگے بڑھائیں گے اور حقیقی علم کی روشنی پھیلانے میں بڑی ہمت اور

 

۱۱۹

 

جانفشانی سے کام لیں گے۔

معزز اراکین! آئیے ہم سب مل کر عاجزی اور خلوصِ دل سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور میں دعا گزاریں، کہ وہ کریمِ کارساز اور رحیم بندہ نواز فقیر محمد ہونزائی کو دنیائے اسماعیلیت کی بھر پور علمی خدمت کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ توفیق و ہمت عنا یت فرمائے ! پروردگارِ عالم ان کو دونوں جہاں کی سلامتی، کامیابی اور سرفرازی عطا کرے! آمین یا ربّ العٰلمین !!

 

فقط آپ کا مخلص

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی

۲۳؍ اپریل ۱۹۷۸ء

 

۱۲۰

 

بابِ ششم

سنہری تاریخ

 

۱۲۱

 

ہونزہ فلاحی کمیٹی میٹروویل، کراچی

یہ نیک نام اور قابلِ صد ستائش کمیٹی شروع ہی سے ازبس مفید کام کررہی ہے، جس کی سنہری تاریخ اور زرین کارناموں کی تفصیلات کو احاطۂ تحریر میں لانے کے لئے وقت چاہئے، لہٰذا ہم یہاں بطورِ نمونہ صرف ان عالی ہمت عملداروں اور ممبروں کا ذکرِ جمیل کریں گے جو اس وقت منیجنگ کمیٹی میں حسن و خوبی سے کام کر رہے ہیں۔

جناب محمد یاربیگ ابنِ حرمت اللہ بیگ (حیدرآباد، ہونزہ) اس کمیٹی کے صدر ہیں، چونکہ آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ، نہایت قابل اور بڑے دانشمند ہیں، اس لئے آپ کو بی۔ آر۔ اے، کراچی کے نائب صدر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، نیز میٹروویل والینٹئرز کور کے کیپٹن بھی رہ چکے ہیں، نامور باپ کے باسعادت فرزند کو بہت سی خوبیوں کا ورثہ ملا ہے، آپ صفِ اوّل کے دیندار ہیں، اس لئے ہمیشہ جماعتی خدمت سے بڑی دلچسپی رکتھے ہیں، علم کے

 

۱۲۳

 

بہت بڑے قدردان ہیں، آپ ترقی پسند، نیکوکار، نرم گو، خیرخواہ، پرہیز گار، خدا ترس، عاشقِ مولا، اور صاحبِ فہم و فراست ہیں، آپ کی قدآور شخصیت میں اخلاقی خوبیوں کی مقناطیسی کشش ہے، ایسی صفات اور عمدہ خدمات کی وجہ سے آپ کو اس صدارت کے لئے تیسری بار منتخب کیا گیا۔

جناب سردار خان ابنِ رحمان اللہ بیگ (حیدرآباد، ہونزہ) یہ بہت بڑی سعادت ہے کہ آپ ہونزہ فلاحی کمیٹی کے بانیوں میں سے ہیں، انہوں نے اس کمیٹی کا تصور پیش کیا، آپ ہی کے دور میں یہاں دعوتِ بقا (چراغِ روشن) کی روح پرور رسم کا سلسلہ شروع ہوا، ابتداء میں آپ نے کمیٹی کے کنوینر (CONVENER)کے فرائض انجام دیئے تھے، بعد ازان ان کی اعلیٰ خدمات کے پیشِ نظر فلاحی کمیٹی کے صدر منتخب ہو گئے، آپ بہت سی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔

حضور موکھی احمد حسین ابنِ نیت شاہ (کریم آباد، ہونزہ) اس نیک نام کمیٹی کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہیں، آپ بڑے دیندار اور راسخ العقیدۃ مومن ہیں، دینی علم سے ان کو عشق ہے، پروفیسر ڈاکٹر علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی کتابوں کو گہرائی سے پڑھتے ہیں، ان کے چہرے پر ہر علمی مجلس میں روحانی بہار کی شادمانی ہوتی ہے، آپ ممبروں اور دیگر تمام دوستوں کی نگاہ میں بڑے

 

۱۲۴

 

معزز ہیں، فرصت کے لمحات کو ذکر و فکر میں گزارتے ہیں، آپ مولائے پاک کے ایک سچے عاشق ہیں، ان کی بے لوث خدمات ہونزہ فلاحی کمیٹی کے لئے ایک بڑا سرمایہ ہیں، آپ دوسرے اداروں سے بھی تعاون کر رہے ہیں، الحمد للہ، جماعتِ باسعادت کو ایسے ہی پاک باطن خادموں کی سخت ضرورت ہے۔

جناب علیم الدین ابنِ علی داد ایکس صوبیدار (حیدر آباد، ہونزہ، حال کونوداس گلگت) آنریری سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں، آپ کا تعلق ایک معزز علمی خاندان سے ہے، علیم الدین صاحب ایک متدین نوجوان، اور بڑا مخلص کارکن ہیں، ان کے دل میں ہمیشہ مذہب اور قوم کا دکھ درد ہوتا ہے، یہ اپنی ذات میں لا تعداد خاموش خوبیوں کی ایک کائنات ہیں۔

جناب عبدالمجید خان ابنِ نعمت خان (حسن آباد، ہونزہ) فینانس سیکریٹری ہیں، آپ خوش خلقی، مومنی، شرافت، حلیمی، اور علم دوستی کا ایک اعلیٰ نمونہ ہیں، مذہب اور قوم کی ہر گونہ خدمت اپنے لے باعثِ سعادت سمجھتے ہیں، آپ کمیٹی کے اوّلین کارکنوں میں سے ہیں، علم و عبادت کی مجلسوں کے شیدائی ہیں انہوں نے شروع سے ہی کام کیا اور اب بھی کررہے ہیں، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۱۲۵

 

مینجنگ کمیٹی کے عہدہ داران و ارکان

 

تاحیات چیئر مین                          گلشیر خان               (کریم آباد)

صدر                                         محمد یار بیگ                    (حیدر آباد)

نائب صدر                                 حضور موکھی احمد حسین   (کریم آباد)

سیکریٹری                                  علیم الدین                (کونوداس)

جوائنٹ سیکریٹری                       امیر اللہ بیگ            (کریم آباد)

فنانس سیکر یٹری                        عبد المجید خان         (حسن آباد)

پبلسٹی سیکر یٹری                        جلال الدین               (علی آباد)

رکن                                           گلاب شاہ                (کریم آباد)

رکن                                           محمود عالم              (کریم آباد)

رکن                                           فاروق نجات شاہ       (کریم آباد)

رکن                                           دیدار علی                (اوشی کھنداس)

رکن                                           ندیم اللہ بیگ             (علی آباد)

رکن                                           فرمان علی              (علی آباد)

رکن                                           سرور خان              (علی آباد)

 

۱۲۶

 

ہونزہ ہیلتھ کا پس منظر

ہر چند کہ تمام شمالی علاقہ جات ہر اعتبار سے یا کئی اعتبارات سے ایک جیسے ہیں اور ان میں کوئی بڑا فرق نہیں تاہم نہ معلوم باشندگان ہونزہ کے متعلق یہ داستان کیوں مشہور ہے کہ ان کی صحت اور طویل العمری قابلِ رشک ہوا کرتی ہے اگر یہ بات کسی حد تک سچ ہے تو میرا خیال ہے کہ اس کا زیادہ تر اطلاق وہاں کے پرانے لوگوں پر ہو سکتا تھا، کیونکہ موجودہ وقت میں اہلِ ہونزہ کے رہن سہن اور کھانے پینے میں بڑی حد تک تبدیلی رونما ہوئی ہے، چنانچہ میں اس مضمون میں یہ بتانے کے لئے مخلصانہ کوشش کروں گا کہ قدیم ہونزہ کے لوگ کس قسم کی غذائیں کھایا کرتے تھے، اور کیسے کیسے کاموں میں ان کی شدید ورزش ہوتی رہتی تھی کیونکہ یہ قصہ نہ صرف دلچسپ ہی ہے بلکہ مفید بھی ہے اور اس میں دیگر شمالی علاقوں کی نمائندگی بھی ہے، ان شا ء اللہ ۔

آب و ہوا:       موسمِ سرما میں جہاں پانی کے جم جانے سے یخ بن جاتی ہے، تو یہ نئی یخ کہلاتی ہے، جو بہار آنے کے ساتھ پگھل کر ختم ہو جاتی ہے، لیکن جن پہاڑوں کی بلند چوٹیوں پر

 

۱۲۷

 

بکثرت برف باری سے یخ پیدا ہوئی ہے اور وہ بصورتِ یخ اور گلیشیر (GLACIER)  صدیوں سے موجود ہے، تو اسے پرانی یخ کہا جاتا ہے اور مقام قدیم روایت کے مطابق پرانی یخ اور اس کا پانی بعض بیماریوں کے لئے دوا بتا تے ہیں، چنانچہ ہونزہ کا پانی جہاں (آبادی میں داخل ہونے سے پہلے) صاف اور کسی قسم کی آلودگی کے بغیر ہو وہاں قدرتی طور پر بہترین، شیرین اور صحت بخش اس لئے ہے کہ وہ بہت ہی قریب کے پہاڑوں سے آتا ہے (جو برف، یخ ، گلیشیر اور چشموں کے ذخائز سے مالا مال ہیں) جس کی بہت سی خوبیوں کا اندازہ ایسا شخص ہر گز نہیں کرسکتا، جس نے ہونزہ سے باہر کبھی قدم نہ رکھا ہو، مگر ہاں، وہ آدمی ضرور ہونزہ کے پانی کی قدرو قیمت کو خوب جانتا ہے جس نے کم سے کم کراچی تک سفر کیا ہو، ہونزہ کی فضا اور ہوا بھی اسی طرح قابلِ ستائش ہے کیونکہ وہ ہر قسم کی کدورت و آلودگی سے پاک و صاف ہے، ہونزہ میں بلا شبہ موسمِ سرما کسی قدر سرد ہوتا ہے لیکن وہ مضر صحت نہیں، باقی تین موسم یعنی بہار، تابستان اور خزان کے موسم بے حد خوشگوار ہوتے ہیں، جو صحت و تندرستی کے لئے بدرجۂ اعلیٰ مفید ہیں۔

حرکت و محنت: یہ بات ایک عالمی حقیقت کی حیثیت سے مسلمہ ہوچکی ہے کہ تندرستی اور صحت مندی کی نعمتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے ورزش ازبس ضروری اور لازمی ہے، اور ظاہر

 

۱۲۸

 

ہے کہ قدیم اہلِ ہونزہ ابتدأ ہی سے بہت زیادہ محنت و مشقت کرنے کے عادی ہوگئے تھے، پس یہی حرکت و محنت ان لوگوں کی جسمانی صحت کے لئے ایک قدرتی ورزش اور ایک بہترین ایکسرسائز تھی، جسکی برکتوں سے وہ ان تمام بیماریوں سے محفوظ و سلامت رہتے تھے جو شہروں میں بعض لوگوں کو چلے پھرے اور ورزش کئے بغیر پڑے رہنے سے لاحق ہو جاتی ہیں۔

غلہ جات: ہونزہ کے قدیم لوگ گندم کے علاوہ جو، باجرا، باقلا، بَرُ (و) وغیرہ کی روٹیاں بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے، اس لئے ان میں اکثر بیماریاں نہیں ہوتی تھیں، مثال کے طور پر تلخ بَرُ (و) کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ اس میں کئی بیماریوں کے لئے دوا ہے، میرا اندازہ یہ ہے کہ شاید اس کا تلخ عنصر مرضِ ذیابیطس (پیشاب میں شکر آنا) کے لئے انتہائی مفید دوا ہے، چنانچہ میرا خیال ہے کہ اگر سائنس کی روشنی میں بَرُ و (BUCK WHEAT) کا طبی تجزیہ کیا جائے، تو عجب نہیں کہ اس کی قیمت گندم سے بھی زیادہ ہو، اور ہر شہر کے حکیم اور ڈاکٹر بعض مریضوں کو بک وِیٹ کیک (بَرُو ے گِیال) کھانے کا مشورہ دیں۔

بھوک ایک زبردست دوا: بار بار کی پُر خوری نہ صرف ایک عادت حیوانیہ کہلاتی ہے بلکہ یہ بہت سی بیماریوں کو بھی جنم دیتی ہے پس یہی حکمت ہے کہ دینِ اسلام نے جُوع (بھوک)

 

۱۲۹

 

کو اتنی بڑی اہمیت کے ساتھ صوم کے عنوان سے ایک بہت بڑی عبادت کا درجہ دیا، اور بھوک ہی ہے جو تقویٰ کی اصل و اساس قرار پائی، اور طب و ڈاکٹری میں پرہیز و فاقہ کے نام سے بہت مشہور ہوگئی، چنانچہ فطری طور پر قدیم ہونزائیوں میں ایک رحمت یعنی بھوک عام تھی، جس کی برکت سے وہ لوگ بڑے تندرست و طاقتور ہوا کرتے تھے، اور پہلوانوں کی طرح جو کچھ کھاتے تھے، وہ اس وقفہ وقفہ کی بھوک اور جسمانی محنت کی وجہ سے بڑے آرام سے ہضم ہو جاتا تھا۔

ترکاریاں: ترکاری سے ساگ پات اور سبزی کا سالن مراد ہے، مجھے یہ بات خوب یاد ہے کہ آج سے تقریباً پچاس ساٹھ برس قبل ہونزہ کے گھروں میں کئی قسم کی عام ترکاریوں کا رواج تھا، جو سب کی سب زودہضم اور مُلَیِّن (قبض کشا) ہوا کرتی تھیں، لیکن افسوس ہے کہ ایک طرف کچھ ترقی اور دوسری طرف طبی شعور و معلومات کی کمی یا بالکل نہ ہونے کے سبب سے ایسی کئی مفید غذائیں متروک ہوتی جارہی ہیں، ترقی کو کون نہیں چاہتا ؟ مالی حالت کی بہتری کس کو عزیز نہیں؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنا از حد ضروری ہے کہ زمانۂ ماضی کے مقابلے میں آج جس تیزی سے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے کیا کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ میرے خیال میں قومی سطح پر ایک ایسا طبی ادارہ ہونا چاہئے، جو ہونزہ کی قدیم غذاؤں وغیرہ پر تحقیق (ریسرچ) کر کے لوگوں کو مفید

 

۱۳۰

 

معلومات فراہم کر سکے۔

سبزیوں کے بارے میں ایک خاص اور ضروری بات یہ بھی ہے کہ مختلف علاقوں کی آب و ہوا اور زمین کی وجہ سے وہاں کی سبزیاں اور پھل مختلف درجات کے ہوا کرتے ہیں: مثلاً اگر ہونزہ کی کوئی سبزی، آلو اور پھل کراچی میں فروخت ہوجائے تو یقیناً لوگوں کو پتا چلے گا کہ یہ چیزیں اپنی اپنی قسموں میں بہت ہی اعلیٰ ہیں، اور ان کی قیمت بربنائے عمدہ غذائیت کچھ زیادہ ہوسکتی ہے۔

تازہ اور خشک میوہ جات:   ہونزہ کا موسمِ تابستان معتدل ہوتا ہے، اس لئے وہاں جو کچھ میوے ہوتے ہیں، وہ بہت ہی عمدہ اور خوش ذائقہ ہوا کرتے ہیں، جیسے توت، خوبانی، سیب، آڑو، ناشپاتی، انگور، اخروٹ، بادام، وغیرہ، ان میں سے بعض کی کئی قسمیں ہوتی ہیں، جس زمانے میں ہونزہ باہر کی دنیا سے بالکل منقطع اور الگ تھلگ تھا، اس وقت یہ سارے پھل بڑی قدردانی اور احتیاط سے چن کر ذخیرہ کر لئے جاتے تھے، ان میں سے کسی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتے ، بعض پھلوں کو سکھا کر اور کچھ کو تازہ حالت میں کئی مہینوں تک بلکہ بعض چیزوں کو سال بھر کی غذا کا حصہ بنالیتے تھے، کیونکہ تنہا غلہ تمام سال کیلئے کافی نہیں ہوسکتا ، لہٰذا خشک و تر میوؤں کا سہارا ضروری ہوتا تھا لیکن بفضلِ خدا اب ایسی کوئی تنگی تو نہیں رہی، جسکی وجہ سے لوگ

 

۱۳۱

 

تُوت اور عام خوبانی کی طرف بہت کم توجہ دے رہے ہیں پھر بھی تُوت کے رس کا قندہ / خندہ ، یا بینگ (اوکھلی میں کُوٹا ہوا تُوتِ خشک) بنایا جا سکتا ہے، اور سالم خشک توت بھی بہت میٹھے ہوتے ہیں، اور ماضی میں خوبانی کی کوئی عام قسم بیگار نہیں تھی، نہ اب بیکار ہو سکتی ہے، جبکہ آپ طب کی کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں کہ ہر قسم کے پھلوں میں غذائیت بھی ہے اور دوا بھی۔

دودھ اور چھاچھ کی اہمیت: پرانے لوگ چائے جیسی مضرِ صحت چیز سے قطعاً ناواقف اور دور تھے، وہ تو مزہ لے لیکر چھاچھ پیتے تھے، اور سالن کی جگہ پر بھی استعمال کر لیتے تھے، گاہے گاہے جما ہوا دودھ کے ساتھ روٹی کھاتے تھے، ایسی سادہ اور پرقوت چیزوں سے ان کی بہترین صحت بن جاتی تھی، لیکن بسا اوقات دودھ سے مکھن نکالنا ضروری ہوتا ہے، مکھن دو قسم کا ہوتا ہے: گائے کا اور بکری کا، مختلف حیوانات کے دودھ کی خاصیت مختلف ہوتی ہے، آپ طب کی مستند کتابوں میں دیکھیں ، مثال کے طور پر اگر دودھ، چھاچھ، اور مکھن بکریوں کا ہے خصوصاً اس وقت کا جبکہ بکریاں تیر (ییلاق) میں طرح طرح کے پہاڑی پھولوں اور بوٹیوں پر چرتی ہیں، تو پھر ایسے دودھ اور اس کی پیداوار کا کیا کہنا، ایسی چیزیں یقیناً انسانی صحت کے لئے اکسیر کا کام کر دیتی ہیں، حق بات تو یہ ہے کہ ہونزہ کے

 

۱۳۲

 

پرانے لوگ مذکورہ صحت بخش غذاؤں کی برکت سے بڑے تندرست و طاقتور ہوتے تھے، کاش باشندگانِ شمالی علاقہ جات اس زمانے میں بھی اپنی تابستانی چراگاہوں کی قدرو قیمت کو سمجھتے ! کاش زمانۂ ماضی کی طرح اب بھی وہاں بہت ساری بھیڑ، بکریاں ہوتیں! اور تیر (تابستانی چراگاہ) میں موسمِ گل کے پھولوں میں چرائی جاتیں ! تاکہ گلوں کا ادویاتی جوہر دودھ، چھاچھ، اور مکھن میں آجاتا۔

ڈاؤڈو کے فوائد: سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ “ڈاؤڈو” کیا ہے؟ ڈاؤڈو بروشسکی میں ہر ایسی پتلی غذا کا نام ہے ، جو چمچہ سے کھائی جاتی ہے، یا چائے کی طرح پیالے میں گھونٹ گھونٹ کر کے پی لی جاتی ہے، اس غذا کو فارسی اور ترکی میں آلش کہا جاتا ہے، اور انگریزی میں  GRUEL   کہتے ہیں، ڈاؤڈو کی بہت کئی قسمیں ہیں، اور ہر قسم کی اپنی مخصوص و جداگانہ تاثیر و افادیت ہے اور ان کے مجموعی فائدے بھی ہیں، وہ یہ ہیں کہ ڈاؤڈو کھانے سے پیٹ نرم رہتا ہے، قبض کی بیماری نہیں ہوتی، پیاس نہیں لگتی، پسینہ آتا ہے، جس سے سردی اور گرمی کے مضر اثرات نہیں پڑتے، تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے، اور یہ ایک زود ہضم غذا ہے، یہی وجہ ہے کہ جسمانی مریضوں کو کوئی طبی ڈاؤڈو دیا جاتا ہے، چنانچہ ہمارے وہاں پہلے ڈاؤڈو کا رواج بہت زیادہ تھا، جس میں کفایت شعاری بھی تھی اور صحت بھی۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

۶؍فروری  ۱۹۸۸ء

 

۱۳۳

 

سلطان علی آف سلطان آباد

اگر کوئی تعارف کسی حقیقی مومن کا ہے اور وہ شخص قلبی دوست بھی ہے تو بے شک آپ صداقت و حقیقت پر مبنی اس کی تعریف و توصیف کیجئے تاکہ اس نیک عمل سے دو طرفہ خوشی ہو، کیونکہ بہشت میں بھی متّقین و مومنین کی تعریف ہوتی ہے، یہاں شاید آپ عزیزوں میں سے کوئی یہ سوال کرے کہ جنّت میں داخل شدہ مومنین کی مدح سرائی کس کی جانب سے ہوگی اور مداحین کون ہوں گے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دائمی مہمان نوازی اللہ جلّ شانہ کی طرف سے ہوگی اور وہ خود سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے عزیز مہمانوں کی تعریف و توصیف فرمائے گا اور اس کے فرشتے بھی اور حوران و غلمان نیز بہشت کی مخصوص نظم و نثر میں مومنین و مومنات کی ثناء خوانی کریں گے۔

سوال: اگر کوئی متعلّم یہ کہے کہ: “استاذ! آپ کا بیانِ بالا بڑا مسرت انگیز تو ہے ہی لیکن ہمیں اطمینانِ کلّی اس وقت حاصل ہوگا جبکہ آپ اس پر قرآنی دلائل کی کچھ روشنی ڈالیں گے۔” تو

 

۱۳۴

 

میں ذیل کی طرح جواب دوں گا: ۔

جواب:          بہشت خدائے بزرگ و برتر کی نوازشات کی جگہ ہے اس میں اللہ کے نیک بندوں کو ہر وہ نعمت حاصل ہوجاتی ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہوں، اور یہ مفہوم قرآنِ حکیم کی کئی آیاتِ مبارکہ میں موجود ہے، مثال کے طور پر چند حوالہ جات یہ ہیں (۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲ ، ۵۰: ۳۵ ، وغیرہ۔

میں کسی عزیز دوست کو اپنے “کتاب گھر” میں دعوت دینے سے قبل کچھ علم کے سدا بہار پھولوں کو جمع کرتا ہوں تاکہ یارِ جانی کے احترام میں گل پاشی بھی کریں، پھولدان بھی سجائیں، اور عمدہ سے عمدہ ہار بھی بنائیں، کیونکہ ہمارے روحانی باپ کے باغ و چمن میں پھلوں اور پھولوں کی فراوانی ہے، اللہ ہمیں شکر گزاری کی توفیق عنایت فرمائے!

ارشادِ خداوندی ہے کہ: ہر روز اس کی ایک نئی شان ہوا کرتی ہے ( ۵۵: ۲۹) یعنی ہر پیغمبر اور ہر امام خدا کا ایک یوم (روز) ہے، اس میں خدائے پاک کے نورِ اقدس کی تجلّی نئی شان سے ہوا کرتی ہے، یعنی اگرچہ اللہ کا نورِ قدیم ہمیشہ ایک جیسا ہے، اور اس کی ذاتِ پاک میں کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں، لیکن الگ الگ مظاہر میں بمقتضائے زمان و مکان ظہورِ نور کی ایک نئی شان ہوتی آئی ہے۔

قال رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہُ علیہ و آلہٖ وسلمَ اِنّ اللّٰہَ اَمرَنِیْ

 

۱۳۵

 

بِحُبِّ اَرْبَعَۃٍ وَّ اَخْبَرَنِیْ اَنَّہُ یُحِبُّھُمْ قِیْلَ یَا رَسُوْ لَ اللّٰہِ سَمِّھُمْ لَنَا قَالُ عَلِیٌّ مِنْھُمْ یَقُوْلُ ذَالِکَ ثَلٰثاً وَ اَبُوذرٍّ وَالمِقْدَادُ وَسَلْمَاَنُ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے چار اشخاص سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے، آپؐ سے پوچھا گیا: ہمیں بتائیں کہ وہ کون ہیں، آپؐ نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہیں، اور ابوذر، مقداد اور سلمان ۔ ( جامعِ ترمذی، جلد: دوم، ابواب المناقب)۔

یہ ہے ایک پسند یدہ تحفۂ علمی برائے عزیزم سلطان علی (فدائی مک) ابنِ موکھی حبِّ علی ( مرحوم) آف سلطان آباد، دنیور، گلگت، سلطان علی کی جائے پیدائش: برو کثشل، کریم آباد ہونزہ ۔

موکھی حبِّ علی ( علی کی محبت) اخلاق و دینداری کے اوصاف کے ساتھ اسم بامسمیٰ تھے، آپ کو فارسی اور بروشسکی میں حمد، نعت، اور منقبت کی تقریباً ۴۰ (چالیس) نظمیں یاد تھیں، جنہیں آپ عشق سے پڑھا کرتے تھے، انہوں نے اپنے فرزندِ جگر بند سلطان علی کی بڑی احتیاط سے اخلاقی اور مذہبی پرورش کی اور اللہ کے فضل و کرم سے توقع سے زیادہ کامیابی نصیب ہوئی کہ یکے بعد دیگرے کئی جماعتی عہدوں پر سلطان علی صاحب فائز ہوگئے، الحمد للہ! اب آپ ہمارے ساتھ بروشسکی ریسرچ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔

 

۱۳۶

 

آپ کے سوال کا جواب: حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام پہلے انسان ہیں پھر پیغمبر، لہٰذا ان کی جسمانی پیدائش کا ذکر قرآنِ حکیم میں ہر اس مقام پر موجود ہے جہاں کسی استثنا کے بغیر سب انسانوں کے نطفۂ مخلوط یعنی ماں باپ سے پیدا ہونے کا تذکرہ آیا ہے، اس حقیقت کے کم سے کم حوالہ جات یہ ہیں: ۱۶: ۰۴، ۳۶: ۷۷، ۷۶: ۰۲، آپ ان تین مقاما ت پر دیکھیں، اس قانونِ فطرت سے نہ حضرتِ آدمؑ  مستثنا ہے نہ حضرتِ عیسیٰؑ۔

سورۂ مریم میں حضرتِ عیسیٰؑ کی ولادتِ روحانی اور پھر ولادتِ عقلی کا ذکر ہے جو حضرتِ مریمؑ کو عالمِ شخصی میں ہوئی تھی، یہ اسمِ اعظم کے عجائب و غرائب میں سے ہے کہ جب باب یا حجت یا داعی یا ان جیسا کوئی مومن کارِ بزرگ ( بڑا کام) میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس وقت امام برحق علیہ السّلام کا نورِ اقدس ایسے مومن کے عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے، اس نورِ عقل کے ساتھ بندۂ مومن کے کئی رشتے ہوتے ہیں، مِن جملہ ایک رشتہ یہ بھی ہے کہ امامؑ کی وہ مبارک کاپی (COPY) اس شخص کے بیٹے کے طور پر ہے، کیونکہ اس نیک بخت نے مریمؑ کی طرح بڑی مشقت سے اپنے عالمِ شخصی میں ایک نورانی بیٹے کو جنم دیا، جس طرح ظہورِ جسمانی سے پہلے آنحضرتؐ کا نور اہلِ کتاب کے باب، حجت اور داعی کو عالمِ شخصی میں جلوہ گر ہوا تھا، اور وہ اس زندہ و گویندہ نور کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے (۰۲: ۱۴۶، ۰۶: ۲۰)

 

۱۳۷

 

اگرچہ نور ازل سے ہے۔

ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے وقت پر اہلِ ایمان کے حق میں اللہ کا اسمِ اعظم ہوتا ہے، آپ جانتے ہیں کہ اسم کلمہ ہے اور کلمہ اسم ہے، چنانچہ بقولِ قرآن حضرت عیسیٰؑ اپنے وقت میں خدا کا کلمہ تھا (۰۳: ۴۵، ۰۴: ۱۷۱) یعنی اسمِ اعظم، یہی اسمِ اعظم حضرت ذکریاؑ (امام ِ مستودع) نے بی بی مریمؑ کو دیا، جس میں بحدِّ قوّت حضرت عیسٰےؑ کی روحانیّت و نورانیّت موجود تھی۔

حضرتِ مریم سلام اللہ علیہا اسمِ بزرگ کی خصوصی عبادت اور روحانی ترقی کی وجہ سے اپنے لوگوں سے الگ ہو کر اعلیٰ روشنیوں کے مقام تک پہنچ گئی (مکاناً شرقیاً ۔ ۱۹: ۱۶) پھر اس نے حجاب ہی میں ایک عرصے تک اسرارِ روحانیّت کا مشاہدہ و مطالعہ کیا، اور اب اس پر ابداع و انبعاث کا وقت آیا، پس اللہ تعالیٰ نے فرشتۂ ابداع اس کے پاس بھیجا جو کلّی طور پر آدمی ہی کی طرح تھا (۱۹: ۱۷) ابداعی معجزہ بہت ہی عظیم اور بڑا عجیب ہوتا ہے، اس لئے وہ ڈر گئی (۱۹: ۱۸) فرشتہ نے کہا کہ میں تو تیرے ربّ کا ایلچی ہوں تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے کے لئے آیا ہوں (۱۹: ۱۹) حضرتِ مریمؑ اس کلام کی تاویل نہ سمجھ سکی، کیونکہ تاویلی حکمت بڑی دیر سے آتی ہے، حالانکہ اس کی تاویل یہ تھی کہ مریمؑ کے عالمِ شخصی میں مرتبۂ علوی پر عقلی فرزند کی ولادت ہوگی (۱۹: ۲۰)۔

 

۱۳۸

 

فرشتہ نے تاویل کی زبان میں اشارہ کیا کہ وہ عقلی بیٹا ہوگا یہ امر تیرے ربّ کے لئے آسان ہے، اللہ کا یہ معجزہ اور رحمت (یعنی روحانی اور عقلانی ترقی کا یہ مرتبہ) تمام لوگوں کے لئے ممکن ہے بشرطیکہ وہ ایمان لائیں اور ترقی کریں (۱۹: ۲۱) پس وہ اسی حکم سے عقلی طور پر حاملہ ہوگئی اور اسے لے کر بہت دور یعنی روحانی منازل کی انتہا اور عقلانی مراحل کی ابتداء میں یکسو ہوکر پھر ذکر و عبادت کرنے لگی (۱۹: ۲۲) پھر وہ غیر شعوری طور پر نفسِ کلّی کے قریب پہنچ چکی تھی، جہاں اس پر ایک درد والا معجزہ گزر رہا تھا، جس کی تمثیل عورت کے دردِ زہ سے دی گئی ہے اور یہ واقعہ اس کے لئے بڑا پریشان کُن تھا (۱۹: ۲۳) پھر اس کے نیچے سے آواز آئی کہ غمگین مت ہو جا کہ تیرے ربّ نے تیرے نیچے ایک چشمہ بنا دیا ہے، اس کا اشارہ یہ ہے کہ مریمؑ جو باب یا حجت کی مثال ہے وہ مرتبۂ عقل پر پہنچ چکی تھی، اس لئے فرشتے اور علم کے ذرائع اس کے تحت آگئے تھے (۱۹: ۲۴)۔

آواز نے کہا: اور ہلا اپنی طرف کھجور کی جڑ اس سے گریں گی تجھ پر پکی کھجوریں (آپ کو معلوم ہے کہ کسی بھی ظاہری درخت سے پھل گرانے کی غرض سے جڑ کو نہیں ہلاتے ہیں، لہٰذا اس کلام کا تعلق تاویلِ باطن سے ہے، اور وہ گوہرِعقل کی مثال ہے، جس میں ہر مثال و ممثول جمع ہے، اور اسی میں حضرتِ عیسٰیؑ کی ولادتِ عقلی کا اشارہ

 

۱۳۹

 

بھی ہے، ۱۹: ۲۵ ) اب کھا اور پی اور اپنی آنکھ ٹھنڈی رکھ (یعنی تاویل و تنزیل دونوں سے فائدہ اٹھا کر خوشی حاصل کر لے) پھر اگر تو دیکھے کوئی آدمی تو کہیو میں نے رحمان کے لئے روزہ رکھا ہے سو بات نہ کروں گی آج کسی آدمی سے (یہ حقیقت ہے کہ تاویل کے آنے سے قبل روحانیّت و عقلانیّت کی باتیں نہیں کی جاتی ہیں، اور تاویل کسی آسمانی کتاب سے متعلق ہوا کرتی ہے ، ۱۹: ۲۶)۔

پھر لائی اس کو (عالمِ شخصی میں) اپنی قوم کے پاس اس کے معجزات حفظ کر کے، وہ اس کو کہنے لگے اے مریم یہ چیز جھوٹ ہے (یعنی یہ پیغمبر نہیں اور تو جھوٹ بولتی ہے، ۱۹: ۲۷) اے ہارون کی بہن تیرا باب برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں سرکش تھی (انہوں نے معجزۂ ابداع کو نہیں سمجھا، اس لئے الزام لگایا کہ تو نے کسی غیر سے ناجائز تعلیم لی ہے اور یہ اسی کی پیداوار ہے، ۱۹: ۲۸) پھر اس نے فرزندِ عقل کی طرف اشارہ کیا (کہ یہ تم کو بتائے گا) وہ لوگ بولے کہ ہم کیونکہ بات کریں اس طفل سے جو مہد میں ہے (یعنی نوزائدہ ہے، ۱۹: ۲۹) تب حضرتِ عیسٰیؑ کے نورِ عقل نے مریم کے عالمِ شخصی میں طفل کی آواز میں کلام کیا، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۱۹: ۳۰ تا ۳۴) میں ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

نوٹ: متی کی انجیل ، باب ۱، آیت ۱۸ تا ۲۵ کو بھی پڑھ لیں۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

کراچی

منگل ۱۶؍ ذیل الحجہ ۱۴۱۵ ھ   ۱۶؍ مئی ۱۹۹۵ ء

 

۱۴۰

 

گلدستہ ای از گلستان

میرے علمی عزیزان صدر فتح علی حبیب، ایڈوائزر گل شکر فتح علی، صدر محمد عبدالعزیز، کوآرڈینیٹر یاسمین محمد، اور دیگر عملداران و ہمہ ارکان کو جذبۂ آسمانی سے یاعلی مدد کہتا ہوں، اور تمام عزیزوں کو مناجاتی شکر گزاری کے لئے دعوت دیتا ہوں کہ خداوندِ قدوس کے فضل و کرم سے ہونزہ میں بھی ہمارے ادارے کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی، مولائے پاک کے مقدّس اداروں اور تمام افرادِ جماعت نے جان و دل سے تعاون کیا، مبارک ہو!

اس بابرکت تقریب کی تفصیلات بعد میں ارسال ہوں گی ، امید ہے کہ اس کامیابی سے ہمارے تمام دوستوں کو بیحد خوشی ہوگی، گلگت اور ہونزہ کے عزیزوں نے بہت کام کیا ہے، آپ ان کی مزید ترقی کے لئے دعا کریں، عزیزم غلام قادر بیگ میرے چیف ایڈوائزر تو چشمِ بد دور!

چیف میڈیکل پیٹرن ڈاکٹر زرینہ حسین علی (مرحوم) ریکارڈ آفیسر روبینہ برولیا، اور ریکارڈ آفیسر زہرا جعفر علی نے ہمیشہ

 

۱۴۱

 

کی طرح اس دفعہ بھی اپنے استاذ کی بہت خدمت کی ہے میں جان و دل سے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ہم نے راولپنڈی میں روبینہ اور زہرا سے آپ کے لئے کچھ علمی باتیں تحریر کرادی ہیں اس طریقِ کار سے ڈاکٹر زرینہ بہت خوش تھیں، ان کی نیک بخت بہو ڈاکٹر امینہ مرتضیٰ (کرنل) اب علمی مجلس میں آتی ہیں اور ادارے کے سرپرستِ اعلیٰ کی طبی خدمت بھی کرتی ہیں۔

چیف سیکریٹری ٹو علامہ اور چیف ریکارڈ آفیسر کی گرانقدر خدمات بے مثال بھی ہیں اور بے شمار بھی، الغرض ساتھیوں کی اجتماعی کوشش سے آج کی یہ عظیم الشّان فتح نصیب ہوئی، ان شاء اللہ، ہم دونوں جہان میں شاکرین میں سے ہو جائیں گے۔

یہ نکتہ ہرگز بھول نہ جائیں کہ ہر شے کے ظاہر و باطن میں علم ہی علم ہے اسی طرح چشمِ بصیرت کے سامنے کائنات گویا علم کا سمندر ہے، جس پر اللہ کا عرش قائم ہے، یعنی ہیکلِ نور اور گوہرِ نور، اور اسمِ معظم و مکرم، تاہم اس مقام پر گوہرِ مخفی اور اسمِ اعظم ظاہر ہے۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

ذوالفقار آباد ، گلگت

۲۸؍مئی  ۱۹۹۵ء

 

۱۴۲

 

حسنِ گفتار

اے نورِ عینِ من! (یعنی ہر عزیز) دینداری کا ایک بنیادی وصف حسنِ گفتار ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: و قو لوا للنّاس حُسناً (۰۲: ۸۳) اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا۔ سب سے اچھی اور قیمتی باتیں تو وہ ہیں جو علمِ حقیقی پر مبنی ہوں اور اس کے بعد ان باتوں کی تعریف ہے جو اخلاقی خوبیوں سے بھری ہوتی ہیں، ایسے خطاب سے نہ صرف مخاطَب (سننے والا) شادمان ہو جاتا ہے، بلکہ اس سے خود مخاطِب (بولنے والا) کو بھی خوشی حاصل ہوتی ہے۔

اے نورِ چشمِ من! عقل و دانش والی بات ہی تمام باتوں کی سردار ہے کیونکہ عقل ہی اللہ تعالیٰ کی سب سے معزز و محبوب مخلوق ہے اور عقل ہی کو ہر چیز پر اوّلیت و فوقیّت حاصل ہے، یہی وہ نورِ ازل ہے، جس کی روشنی کا نام عِلم ہے، یعنی عقلِ اوّل کی مثال سورج ہے اور علم کی مثال کرنیں اور روشنی، اس بیان سے معلوم ہوا کہ حسنِ گفتار کا رشتہ علم و عقل سے ہے۔

چین سے آکر زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ میں ایک سچا

 

۱۴۳

 

خواب دیکھا، میں اپنے باغ میں رو بقبلہ بیٹھا ہوں، اتنے میں ایک عجیب و غریب نورانی ہستی جو قدسی صفت تھی وہ میری داہنی طرف جلوہ افروز ہوگئی، جس کی غیر مرئی شعاعوں نے میرے باطن میں خوشیوں کا ایک انوکھا طوفان برپا کر دیا، میں نے بے اختیار اس کا نام پوچھا تو اس نے فرمایا: “میرا نام شیرین سخن ہے” یقیناً یہ واقعہ عظیم معجزات میں سے تھا۔

قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم ہے، اور اشارۂ علم کے بغیر کوئی چیز نہیں، پس معجزۂ “شیرین سخن” اسرارِ علم و حکمت کا ایک صندوق ہے جس کا ہر بھید بڑا مسرت انگیز ہے، اسمِ شیرین سخن (جس کا کلام بہت میٹھا ہو) کا اوّلین اشارہ حسنِ گفتار کی طرف ہے، جس کی تعریف ہو چکی ہے۔ الحمد اللہ ربّ العٰلمین۔

 

نصیر الدّین نصیر (حُبِّ علی) ھونزائی

ذوالفقار آباد ، گلگت

۳۰؍مئی  ۱۹۹۵ء

 

۱۴۴

 

بابِ ہفتم

درختِ پُرثمر کی شاخیں

 

۱۴۵

 

ہمارا شجرۂ کار

۱۔                خانۂ حکمت ہیڈ کوارٹر کراچی

۲۔                ادارۂ عارف ہیڈ کوارٹر کراچی

۳۔                بی۔ آر ۔ آے ہیڈ کوارٹر کراچی

۴۔ خانۂ حکمت  ریجنل برانچ گلگت

۵۔ ادارۂ عارف  ریجنل برانچ گلگت

۶۔ بی۔ آر۔ اے  ریجنل برانچ گلگت

۷۔ خانۂ حکمت برانچ مسگار

۸۔ حکمت سٹڈی سینٹر نظیم آباد

۹۔ خانۂ حکمت برانچ التت

۱۰۔ خانۂ حکمت برانچ کریم آباد

۱۱۔ خانۂ حکمت برانچ حیدر آباد

۱۲۔ خانۂ حکمت برانچ علی آباد

۱۳۔ بی۔ آر۔ اے برانچ علی آباد

۱۴۔ خانۂ حکمت برانچ مرتضیٰ آباد

۱۵۔ خانۂ حکمت برانچ  نومل

۱۶۔ حکمت سٹڈی سینٹر سلطان آباد

۱۷۔ خانۂ حکمت برانچ  دنیور

۱۸۔ خانۂ حکمت برانچ اوشی کھنداس

۱۹۔ خانۂ حکمت برانچ زیارت خان

۲۰۔ خانۂ حکمت برانچ یاسمین شیر ولی

۲۱۔ خانۂ حکمت وومین ایڈوائزری فورم

۲۲۔ خانۂ حکمت برانچ جٹور کھنڈ

۲۳۔ خانۂ حکمت برانچ نذیر صابر اسلام آباد

 

۱۴۷

 

۲۴۔ بورڈ آف میڈیکل ایڈوائزر اینڈ پیٹرنز

۲۵۔ خانۂ حکمت برانچ کریم آباد کراچی

۲۶۔ خانۂ حکمت برانچ شاہ بی بی کراچی

۲۷۔ عارف برانچ لنڈن

۲۸۔ بی۔ آر۔ اے برانچ لنڈن

۲۹۔ امام داد کریم برانچ فرانس

۳۰۔ عارف برانچ شکاگو امریکہ

۳۱۔ ماہِ محل بدالدین برانچ ڈالاس

۳۲۔ عزیز راجپاری برانچ الاباما

۳۳۔ مرینہ شفین برانچ کولمبیا

۳۴۔ ایڈمنٹن برانچ کنیڈا

۳۵۔ یاسمین کریم برانچ وینکوور

۳۶۔ رابعہ محمدی برانچ واشنگٹن

۳۷۔ یاسمین نور علی برانچ یوسٹن

 

۱۸ ؍ نومبر ۱۹۹۵ء

 

۱۴۸

 

فہرستِ خاندانِ سلطان اسحٰق

صدرِ خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت

۱۔       بیگم شمیم سلطان اسحٰق       اہلیہ

۲۔       شاہ سلطان                        بیٹی

۳۔       سلیمہ سلطان                      بیٹی

۴۔       انجم سلطان                      بیٹی

۵۔       ادیبہ سلطان                       بیٹی

۶۔       محمد شاکر سلطان              بیٹا

۷۔       ارم سلطان                         بیٹی

۸۔       کرن سلطان                       بیٹی

۹۔       ہیلن سلطان                        بیٹی

۱۰۔    محمد عارف سلطان                      بیٹا

۱۱۔    محمد شریف سلطان                      بیٹا

 

۱۴۹

 

فہرستِ خاندانِ غلام قادر بیگ

چیف ایڈوائزر ٹو علامہ

۱۔       بیگم شیرین غلام قادر بیگ            اہلیہ

۲۔       عرفان قادر بیگ                          بیٹا

۳۔       شہزاد قادر بیگ                           بیٹا

۴۔       زہرا قادر بیگ                             بیٹی

۵۔       سلمان قادر بیگ                           بیٹا

۶۔       رضوان قادر بیگ                        بیٹا

۷۔       عمران قادر بیگ                          بیٹا

 

۱۵۰

 

فہرستِ خاندانِ شیر اللہ بیگ

آنریری سیکریٹری

۱۔       تاج بیگم                           اہلیہ

۲۔       رضوان کریم بیگ              بیٹا

۳۔       کریمہ بیگ                        بیٹی

۴۔       تحسین کریم بیگ                بیٹا

۵۔       تقدس کریم بیگ                 بیٹا

۶۔       افشان بیگ                        بیٹی

 

۱۵۱

 

فہرستِ عہدہ داران و ارکانِ خانۂ حکمت حیدر آباد برانچ

۱       صدر شاہ میر بیگ ابنِ شاہ گل حیات

۲       سیکریٹری حضور موکھی علی حرمت ابنِ رحمت اللہ امان

۳       جوائنٹ سیکریٹری نظام الدین ابنِ تحویل شاہ

۴       خزانچی افسر جان ابنِ مراد خان

۵       ممبر شاہ گل حیات ابنِ دلاور خان

۶       ممبر محمد خان ابنِ برات

۷       ممبر غریب محمد ابنِ محمد خان

۸       ممبر بی بی زبون زوجۂ مرحمت شاہ

۹       ممبر بی بی معراج زوجۂ دولت امان

۱۰     ممبر مہر نمازوجۂ محمد جان

۱۱     ممبر بی بی اپی زوجۂ امان علی

۱۲     ممبر بابر خان ابنِ محبت شاہ

۱۳     ممبر حاجی بی بی زوجۂ بابر خان

۱۴     ممبر مصری بانو زوجۂ محمد حنیف خان

۱۵     ممبر صاحب خان ابنِ شاہ برات

۱۶     ممبر محمد اسحاق ابنِ سخاوت شاہ

 

۱۵۲

 

۱۷     ممبر زرنگار زوجۂ ایثار علی (مرحوم)

۱۸     ممبر عائشہ بیگم (مرحوم) زوجۂ علامہ نصیر الدین

۱۹     ممبر شاہ مراد عرف منشور ابنِ شاہ داد

۲۰     ممبر بی بی نساء زوجۂ دولت شاہ (مرحوم)

۲۱     ممبر زربانو زوجۂ مراد خان

۲۲     ممبر موکھی عرب خان ابنِ سگِ علی

۲۳     ممبر بی بی حفیدہ زوجۂ موکھی عرب خان

۲۴     ممبر علی بیگ ابنِ گری خان

۲۵     ممبر فرمان علی ابنِ ہدایت خان

۲۶     ممبر میر باز ابنِ رضا شاہ

۲۷     ممبر خیر النساء زوجۂ رضاشاہ

۲۸     ممبر صفدر کریم ابنِ مہدی خان

۲۹     ممبر بی بی اشرف زوجۂ سعدن شاہ

۳۰     ممبر باگل حور زوجۂ دادو خان

۳۱     ممبر بی بی اپی زوجۂ دادو خان

۳۲     ممبر بی بی شکرت زوجۂ لطفِ علی

۳۳     ممبر جابر انصار ابنِ حبِ علی

۳۴     ممبر موکھی میر امان (آزاد ممبر) ابنِ سلمان

۳۵     ممبر کامڑیا امان اللہ (آزاد ممبر) ابنِ علی غلام

۳۶     ممبر سینٔر کیپٹن صحت علی ابنِ سگِ علی

 

۱۵۳

 

فہرستِ عہدہ داران و مبرانِ خانۂ حکمت علی آباد برانچ

۱       صدر شاہ جہان ابنِ محمد علی، ڈورکھن

۲       نائب صدر موکھی الیاس خان ابنِ رستم خان، علی آباد

۳       سیکریٹری احمد دین ابنِ بلبل جان (والینٹیٔرز میں صوبیدار) ، ڈورکھن

۴       جوائنٹ سیکریٹری ایوب خان ابنِ سلمان، علی آباد

۵       خزانچی کامڑیا ہمت علی ابنِ نائب شاہ، علی آباد

۶       ممبر حضور موکھی امیر علی ابنِ مغل خان، ڈورکھن

۷       ممبر میرامان ابنِ ہمایون بیگ، علی آباد

۸       ممبر حضور موکھی پہلوان بیگ ابنِ رجب شاہ، علی آباد

۹       ممبر فقیر الدین ابنِ امیر علی، ڈور کھن

۱۰     ممبر علی مدد ابنِ محمد شریف، کریم آباد

۱۱     ممبر بابر خان ابنِ علی منبر، علی آباد

۱۲     ممبر پونو خان ابنِ احمد خان، علی آباد

۱۳     ممبر بیکو ابنِ پونو خان، علی آباد

۱۴     ممبر شیر اللہ بیگ ابنِ ظفر اللہ بیگ، علی آباد

۱۵     ممبر مالک شاہ ابنِ رب نواز، علی آباد

 

۱۵۴

 

۱۶     ممبر کریم خان ابنِ دینار خان، علی آباد

۱۷     ممبر یوسف علی ابنِ پونو خان، علی آباد

۱۸     ممبر شاہ عالم ابنِ قدیر خان، علی آباد

۱۹     ممبر اسلام شاہ ابنِ شاہ عالم ، علی آباد

۲۰     کامڑیا حاجی جان ابنِ خلیفہ احمد علی، ، علی آباد

۲۱     ممبر فدا علی ابنِ سگِ علی، ڈورکھن

۲۲     ممبر سرباز خان ابنِ ثناء خان، ، علی آباد

۲۳     ممبر نائب شاہ ابنِ خلیفہ عافیت شاہ، ، علی آباد

۲۴     ممبر اختر کریم ابنِ رستم خان، علی آباد

۲۵     ممبر سعادت شاہ ابنِ رجب شاہ ، علی آباد

۲۶     ممبر بی بی سونی (مرحوم) زوجۂ نائب شاہ، علی آباد

۲۷     ممبر بی بی زاہدہ زوجۂ کلبِ علی، علی آباد

۲۸     ممبر گل اندام زوجۂ امیر حیات، علی آباد

۲۹     ممبر بی بی میرل زوجۂ درویش، علی آباد

۳۰     ممبر بی بی طیفہ زوجۂ دولت خان، علی آباد

۳۱     ممبر مصری بانو زوجۂ پونو خان، علی آباد

 

۱۵۵

 

فہرستِ عہدہ داران و ممبرانِ خانۂ حکمت برانچ کریم آباد۔ ہونزہ

۱       صدر میر امان ابنِ گوہرامان

۲       سکریٹری مجید اللہ بیگ ابنِ صاحب جان

۳       خزانچی فدا عالم ابنِ غلام شاہ

۴       جائنٹ سیکریٹری امیر حیات ابنِ مومن حیات

۵       ممبر محبوب علی ابنِ مقبول شاہ

۶       ممبر امین خان ابنِ دولت امان

۷       ممبر کریم امان ابنِ میر امان

۸       ممبر اسحاق ابنِ کامل شاہ

۹       ممبر اسلام الدین ابنِ دینار خان

۱۰     ممبر نظیم امان ابنِ میر امان

۱۱     ممبر نیک پرور بنتِ میر امان

۱۲     ممبر گل زادی بنتِ غلام قادر

۱۳     ممبر میر عالم ابنِ غلام شاہ

۱۴     ممبر مظفر ابنِ مبارک شاہ

۱۵     ممبر شیر عالم ابنِ ہدایت شاہ

 

۱۵۶

 

۱۶     ممبر عزیز کریم ابنِ غلام حیدر

۱۷     ممبر کامڑیا غلام حیدر ابنِ علی رحمت

۱۸     ممبر صوبیدار صاحب جان ابنِ بلبل حیات

۱۹     ممبر غلام قادر ابنِ علی منبر

۲۰     ممبر میرزا امان ابنِ علی حرمت

۲۱     ممبر کریم خان ابنِ سگِ علی

۲۲     ممبر موسیٰ خان ابنِ سگِ علی

۲۳     ممبر شیر خان ابنِ ثنا خان

۲۴     ممبر امتیاز علی ابنِ فدا علی

۲۵     ممبر شیر باز ابنِ شیر اللہ بیگ

۲۶     ممبر شیر احمد ابنِ شیر اللہ بیگ

۲۷     ممبر امین ابنِ مولا داد

۲۸     ممبر شیر اللہ بیگ ابنِ دولت شاہ

۲۹     ممبر لعل بیگم زوجۂ گوہر امان

۳۰     ممبر کامڑیانی بی بی نوان زوجۂ غلام شاہ

۳۱     ممبر نور النساء زوجۂ خیرالحیات

۳۲     ممبر کامڑیانی لعل بانو زوجۂ غلام حیدر

۳۳     ممبر مکھیانی لعل بانو زوجۂ مراد شاہ

 

۱۵۷

 

۳۴     ممبر گوہر زوجۂ ولایت

۳۵     ممبر بی بی امینہ زوجۂ صاحب جان

۳۶     ممبر جانان زوجۂ امان اللہ

۳۷     ممبر بنفشہ زوجۂ دینار خان

۳۸     ممبر لعل بیگم زوجۂ میر امان

۳۹     ممبر بی بی چینی زوجۂ کامل شاہ

۴۰     ممبر رشیدہ زوجۂ محبت شاہ

۴۱     ممبر گوہر زوجۂ امان اللہ

۴۲     ممبر شمیم بانو بنتِ مراد شاہ

۴۳     ممبر بی بی تایک زوجۂ امیر باز

۴۴     ممبر مہر بانو زوجۂ شاہ جہان

۴۵     ممبر کریم خان ابنِ میر امان

۴۶     ممبر سلطان یاسین

۴۷     ممبر شاہ عالم ابنِ غلام شاہ

۴۸     ممبر شکر اللہ بیگ ابنِ نظر شاہ

۴۹     ممبر جبار ابنِ عبدالخالق

 

۱۵۸

 

فہرستِ عہدہ داران و ممبرانِ خانۂ حکمت التت ہونزہ برانچ

۱       صدر نصیر الدین القطوشی ابنِ ہاشم شاہ، التت

۲       نائب صدار کامڑیا مجیب اللہ ابنِ غلام رسول، التت

۳       سیکریٹری فدا علی حیدری ابنِ ثناء خان، احمد آباد

۴       ممبر غلام مرتضیٰ ابنِ قنبر علی، التت

۵       ممبر موکھی غلام رسول ابنِ قلندر علی، التت

۶۔       ممبر غلام مرتضیٰ ابنِ قلندر علی، التت

۷       ممبر خلیفہ علی مدد ابنِ علی حرمت، التت

۸       ممبر عالیجاہ ہاشم شاہ ابنِ امیر علی، التت

۹       ممبر الیاس ابنِ خلیفہ علی مدد، التت

۱۰     ممبر اعجاز ابنِ امیر حیات، احمد آباد

۱۱     ممبر نور خان ابنِ علی صفت، احمد اباد

۱۲     ممبر صاحب خان ابنِ امیر حیات، احمد اباد

۱۳     ممبر صوبیدار درویش علی ابنِ قلندر علی، التت

۱۴     ممبر مولا مدد ابنِ رمضان، مومن آباد

۱۵     ممبر موکھی کابل حیات ابنِ محمد جان، مومن آباد

۱۶     ممبر کامڑیا نور الدین ابنِ شاہ برات، مومن آباد

 

۱۵۹

 

۱۷     ممبر فرمان علی ابنِ حکومت شاہ، مومن آباد

۱۸     ممبر رحمت کریم ابنِ غلام مرتضیٰ ، التت

۱۹     ممبر گل زادی بنتِ محمد ظہیر

۲۰     ممبر کوثر بانو بنتِ علیم شاہ

۲۱     ممبر امیر اللہ ابنِ علی جوہر، التت

۲۲     ممبر عباس ولی ابنِ دولت خان، التت

۲۳     ممبر رحمت کریم ابنِ دینار خان، التت

۲۴     ممبر رحمت کریم ابنِ غلام مرتضیٰ، التت

۲۵     ممبر عرفان کریم ابنِ غلام مرتضیٰ، التت

۲۶     ممبر عجاز الدین ابنِ تولد خان، التت

۲۷     ممبر شاہد کریم ابنِ عظیم خان، التت

۲۸     ممبر امین خان ابنِ محمد فقیر، التت

۲۹     ممبر سعید خان ابنِ عبد اللہ جان، التت

۳۰     ممبر سلمان خان ابنِ عبد اللہ جان، التت

۳۱     ممبر کامڑیا بابر خان ابنِ مغل خان، التت

۳۲     ممبر موکھی یاقوت ابنِ سخاوت شاہ، التت

۳۳     ممبر صوبیدار صدر الدین ابنِ حیدر شاہ، التت

 

۱۶۰

 

فہرستِ عہدہ داران و ممبرانِ خانۂ حکمت مرتضیٰ آباد برانچ

۱       صدر عالیجاہ موکھی قلندر شاہ ابنِ سگِ علی

۲       سیکریٹری کامڑیا سلطان علی ابنِ تولد شاہ

۳       ممبر حضور موکھی تولد شاہ ابنِ خلیفہ عافیت شاہ

۴       ممبر حضور موکھی عبداللہ شاہ ابنِ امان علی شاہ

۵       ممبر میر عطا خان ابنِ منیر شاہ

۶       ممبر محمد ایوب خان ابنِ درویش خان

۷       ممبر دولت شاہ ابنِ عافیت شاہ

۸       ممبر نیت شاہ ابنِ بختاور شاہ

۹       ممبر محبوب علی ابنِ تولد شاہ

 

۱۶۱

 

 

فہرستِ عہدہ داران و ممبرانِ خانۂ حکمت نومل برانچ

۱       صدر بلبل جان ولد خلیفہ تیہان شاہ، مدینۃ الکریم

۲       نائب صدر موکھی سلیم الدین ولد نعمت خان، مدینۃ الکریم

۳       جنرل سیکریٹری اسلام الدین ولد سجاد علی، مدینۃ الکریم

۴       جوائنٹ سیکریٹری اسلام شاہ ولد امیر خان، صدر الدین آباد

۵       فائننس سیکرٹیری درویش علی ولد گوہر حیات، صدر الدین آباد

۶       ممبر موکھی شوکت خان ولد درویش علی، امین آباد نمبر ۲

۷       ممبر کامڑیا غلام جعفر ولد خدا یار، صدر الدین آباد

۸       ممبر عنایت اللہ ولد نیت شاہ، مدینۃ الکریم

۹       ممبر خلیفہ مالک شاہ ولد علی شاہ، مدینۃ الکریم

۱۰     ممبر حمایت شاہ ولد سخاوت شاہ، مدینۃ الکریم

۱۱     ممبر خان ولد اکبر خان، امین آباد نمبر ۲

۱۲     ممبر موکھی مالک شاہ ولد نیت شاہ، صدر الدین آباد

۱۳     ممبر نورالدین شاہ ولد عبد اللہ شاہ، صدر الدین آباد

۱۴     ممبر فدا حسین ولد محمد ایوب، صدر الدین آباد

۱۵     ممبر حافظ نجیب اللہ ولد فقیر شاہ، صدر الدین آباد

۱۶     ممبر عاقل شاہ ولد عبادت شاہ، صدر الدین آباد

 

۱۶۲

 

۱۷     ممبر شیر باز ولد غلام رضا، صدرالدین آباد

۱۸     ممبر عبدالرحیم ولد محمد فقیر، صدرالدین آباد

۱۹     ممبر چینی گل زوجۂ مومن حیات، صدر الدین آباد

۲۰     ممبر بی بی زاہدہ زوجۂ علی رہبر، صدر الدین آباد

۲۱     ممبر سلطان خان ولد بہادر، مدینۃ الکریم

۲۲     ممبر نور الدین ولد ثناء کان ، مدینۃ الکریم

۲۳     ممبر نظام الدین ولد رجب علی، مدینۃ الکریم

۲۴     ممبر بی بی بانو زوجۂ بہادر، مدینۃ الکریم

۲۵     ممبر بی بی اشرف زوجۂ سجاد علی، مدینۃ الکریم

۲۶     ممبر شہنشاہ ولد نادر شاہ، امین آباد نمبر ۱

 

۱۶۳

 

AMALDARS FOR IDARAH-I ARIF FOR

THE UNITED STATES OF AMERICA

 

S. NO. NAMES DESIGNATIONS
1 Noordin Rajpari East and West Research Incharge
2 Shamsuddin Juma President for ARIF
3 Karima Juma Secretary
4 Hasan Jesani Vice-President for ARIF
5 Karima Jesani Personal Secretary for Allamah Saheb
6 Akber Ali Bhai Chief Advisor
7 Shamsa A. Ali Bhai Record Officer
8 Badruddin Noorali Advisor for Dallas Branch
9 Mahamahal Badruddin Secretary, and Dallas Branch
10 Aziz Rajpari Advisor and Birmingham Branch
11 Nafisa Aziz Rajpari Record Officer for Birmingham Branch
12 Yasmeen Noorali Record Officer and Houston Branch
13 Nadir Noorali Advisor for Houston Branch
14 Nasreen Namji Secretary for Houston Branch
15 Rozina N. Panjwani Record Officer for Houston Branch

 

۱۶۴

 

16 Khairunnisa Anwar Co-ordinator for Houston Branch
17 Rukhsana Barkat Gilani Co-ordinator for Chicago Branch
18 Karim Issa Secretary for Chicago Branch
19 Aziz Abdul Majeed Panjwani Record Officer for Chicago Branch
20 Rabiya Muhammedi Seattle, Washington Branch
21 Marina Shaffin Columbia Branch
22 Sikander Muhammad Advisor for Austin Branch

 

۱۶۵

 

LIST OF ARIF MEMBERS

1 Noorali Mamji (Houston)

2 Yasmeen Noorali (Huston)

3 Nasreen Noorali Mamji (Huston)

4 Nadirali Noorali (Huston)

5 Yasmin Nadirali Noorali (Huston)

6 Mustafa Momin (Atlanta)

7 Naushadali Panjwani (Huston)

8 Rozina Naushad Panjwani (Huston)

11 Sher Azad Khan (Huston)

12 Khiairunissa Anwar Sarfarani (Huston)

13 Firdaus Alimohammad Momin (Huston)

14 Fatehali Tejani (Huston)

15 Neelofer Ali Tejani (Huston)

16 Saleem Shamsuddin Meghani (Huston)

17 Salima Shahmsuddin Meghani (Huston)

18 Zahir Momin (Huston)

19 Kabiruddin Dhanani (Orlando, Florida)

 

۱۶۶

 

خانۂ حکمت وومین ایڈوائزری فورم

گلگت مرکز

۱۔       چیف ایڈوائزر ڈاکٹر نیلوفر زوجۂ بابر خان

۲۔       سیکریٹری ڈاکٹر یاسمین

۳۔       ایڈوائزر شیرین زوجۂ غلام قادر بیگ

۴۔       ایڈوائزر شمیم زوجۂ سلطان اسحاق

۵۔       ایڈوائزر ثریا زوجۂ صوبیدار میجر شاہین خان

۶۔       ایڈوائزر بی بی صفورہ زوجۂ رحمت علی

۷۔       ممبر فردوس زوجۂ قلندر بیگ

۸۔       ممبر تاج بیگم زوجۂ میر احمد خان

۹۔       ممبر کامڑیانی مہیدہ زوجۂ کامڑیا حاصل مراد

۱۰۔    ممبر ملکہ زوجۂ صفی اللہ بیگ

۱۱۔    سرواندام زوجۂ صوبیدار علی مدد

۱۲۔    ممبر بی بی کنیزہ زوجۂ جمہور خان

۱۳۔    ممبر بی بی چنبیلی زوجۂ علی یار خان

۱۴۔    ممبر شیر نما زوجۂ محمد ایوب

۱۵۔    ممبر تاج بیگم زوجۂ شیر اللہ بیگ

 

۱۶۷

 

۱۶ ۔   ممبر گوہر نگاہ زوجۂ غلام رسول

۱۷۔    ممبر لعل بیگم زوجۂ رستم علی

کونوداس

۱۸۔    ممبر یاسمین زوجۂ ایڈوکیٹ شیر ولی

۱۹۔    ممبر خیرالنسا ءزوجۂ دلدار شاہ

۲۰۔    ممبر شیرین بنتِ دلدار شاہ

۲۱۔    ممبر خورشید بانو زوجۂ کامڑیا محبوب علی

۲۲۔    ممبر سعیدہ نورین زوجۂ کامڑیا محبوب علی

۲۳۔    ممبر بحورجان زوجۂ گری خان

۲۴۔    ممبر چشمان پری زوجۂ شاہ زمان

۲۵۔    ممبر شاہینہ زوجۂ داور شاہ

۲۶۔    ممبر شہزادی زوجۂ عیاش خان

۲۷۔    ممبر لعل بیگم زوجۂ نمبردار زیارت شاہ

۲۸۔    ممبر جانان بانو زوجۂ صوبیدار علی داد

اوشی کھنداس

۲۹۔    ممبر بلقیس بانو زوجۂ صوبیدار یوسف علی

۳۰۔    ممبر شافیہ زوجۂ موکھی نیاز علی

 

۱۶۸

 

۳۱۔    ممبر بانو زوجۂ فداعلی

۳۲۔    ممبر ناجرہ زوجۂ جابر خان

۳۳۔    ممبر بی بی سونی زوجۂ موسیٰ بیگ

۳۴۔    ممبر بی بی نوری زوجۂ علی گوہر

۳۵۔    ممبر بی بی زیبل زوجۂ شاہ گل حیات

۳۶۔    ممبر گل بی بی زوجۂ محمد ضمیر

۳۷۔    ممبر زر شہوار زوجۂ موکھی غلام محمد

۳۸۔    ممبر بی بی روشن زوجۂ باسو۔

 

۱۶۹

 

HIKMAT STUDY CENTER (HSC)

Sultanabad

LIST OF MEMBERS

 

S # Name of Member Status
1 Sultan Ali s/o Hub-e Ali [officer, Co-Operative Ban Convener
2 Hussain Ullah Baig S/o Musa Baig [Suprintendet] Secretary
3 Hajat Aman s/o Niyat Shah [Session Judge] Member
4 Sher Ali s/o Niyat Shah [Tehsildar] Member
5 Khalifa Baz Gul Hayat s/o Shaidul Aman Member
6 Karim Khan s/o Mehboob Ali Khan [Manager Al-Rahim Society] Member
7 Mehboob Ali Khan s/o Mahbat Shah [Headmaster] Member
8 Lal Must (Ex. Kamadia) Member
9 Ishaq Karim s/o Sher Ali Member
10 Kamil Shah s/o Babar Member
11 Ali Madad s/o Bakht Baig Member
12 Nasir ALi s/o Haji Sagi Ali (late) Member
13 Salman Ali s/o Ghulam Qadir Member
14 Nasiruddin s/o Inayat Member
15 Khan Zaman s/o Sirajuddin Member
16 Didar Ali s/o Akbar Khan [student] Member
17 Najibullah s/o Hidayat Shah [Student] Member

 

۱۷۰

 

18 Nazar Baig s/o Hub-e Ali [Shopkeer] Member
19 Sherullah Baig [Shop Keeper] Member
20 Shamim Bano w/o Hussain Ullah Baig [Lady Teacher] Member
21 Bibi Niati w/o Nazar Baig Member
22 Bibi Nouran w/o Inayatullah Member
23 Bibi Najat w/o Nazar Baig Member
24 Bibi Nani w/o Haji Sagi Ali  Late Member
25 Bibi Maryam w/o Inayat Shah Member
26 Bulbul Nisa w/o Akbar Khan Member
27 Mehr Bano w/o Ghulam Qadir Member
28 Shamoli Bibi w/o Ibrahim Member
29 Bibi Ghuncha w/o Ali Mamdad Member
30 Seema Gul d/o Alif Khan Member
31 Sultana Bano w/o Shahid Ali Member
32 Mahjabeen w/o Karim Khan [Lady Teacher] Member

 

۱۷۱

 

HIKMAT STUDY CENTRE (HSC)

Nazimabad (Shishkat)

LIST OF MEMBERS & OFFICE BEARERS

 

Status Name of Member S #
President Huzur Mukhi Ali Dad s/o Mubark Nazar 1
Vice-President Huzur Mukhi Ali Dad s/o Mubark Nazar Khalifa Qanbar Ali 2
Secretary Naib Shah s/o Khuda Aman 3
Treasurer Imam Yar Baig s/o Ali Mojoud 4
J.Secretary Mashghool Alam s/o Haji Baig 5
Member Imam Shah s/o Hashim Shah 6
Member Khosh Baig s/o Ali Maqsad 7
Member Huzur Mukhi Ghulam Qadir s/o Musair Khan 8
Member Titma s/o Hubi 9
Member Karim Khan s/o Dinar Khan 10
Member Afsar Jan s/o Farman Ali 11
Member Amir Hayat s/o Nazar Shah 12
Member Muhammad Alam s/o Haji Baig 13
Member Noor-ul Amin s/o Ghulam ALi 14
Member Alijah Ali Sifat s/o Mehrban Khan 15
Member Rahimullah s/o Qadir Shah 16
Member Qudratullah Baig s/o Gohar Shah 17
Member Ghulam Karim s/o Doust Mohd 18
Member Ahmed Ali s/o Ali Mohammad 19

 

۱۷۲

 

Member Aslam Khan s/o Nadir Aman 20
Member Ṣāḥib Khan s/o Willayat Shah 21
Member Sher Baz s/o Ain ul Hayat 22
Member Kamadia Ghulam Rasul s/o Lagashar Khan 23
Member Ghulam Murtaza s/o Shafa Ali 24
Member Bibi Taihoor w/o Haji Baig 25
Member Mehr Bano w/o Sher Ali 26
Member Aziza Bano w/o Mashghool Alam 27
Member Begoom w/o Farman Ali 28
Member Bibi Gulap w/o Babar Khan 29
Member Bibi Gohar w/o Nazar Shah 30

 

۱۷۳

 

ذوالفقار آباد والنٹئیرز کور میں موجود والنٹئیر کے ناموں کی فہرست

۱       امیر الطاف شاہ                            وائس کیپٹن

۲       عبداللہ بیگ                       صوبیدار

۳       حسن اللہ بیگ                              صوبیدار

۴       عبدالقیوم                 صوبیدار

۵       قمر خان                           فدائی

۶       محمد یونس                       فدائی

۷       حیدر طائی              فدائی

۸       محمد اکرم خان                  فدائی

۹       دلدار علی                          صوبیدار

۱۰     کریم اللہ بیگ           فدائی

۱۱     اسلم میر                            فدائی

۱۲     حوالدار یوسف                   فدائی

 

۱۷۴

 

۱۳     اکرام الحق               فدائی

۱۴     شاہ زمان گوہر                   فدائی

۱۵     مجیب اللہ خان          فدائی

۱۶     غازی جوہر             فدائی

۱۷     دیدار احمد میر                   فدائی

۱۸     کریم خان                فدائی

۱۹     عزیز جان               صوبیدار

۲۰     حوالدار علی اکبر                فدائی

۲۱     ولایت خان              فدائی

۲۲     عبدالامان                فدائی

۲۳     نسیم اللہ                            فدائی

۲۴     غلام سعید               فدائی

۲۵     محمدتاجان               فدائی

۲۶     شکیل احمد              فدائی

۲۷     سید اکرام الدین                   فدائی

۲۸     اکرام میر                 فدائی

۲۹     شیر باز خان            فدائی

۳۰     سر باز خان             فدائی

 

۱۷۵

 

۳۱     شاہ جہان                 فدائی

۳۲     فدا اللہ خان               فدائی

۳۳     ہدایت اللہ                 فدائی

۳۴     میر جہان شاہ           فدائی

۳۵     رحیم خان                فدائی

۳۶     سخی احمد جان                  فدائی

۳۷     عیسےٰ خان              فدائی

۳۸     نصیر احمد                        فدائی

۳۹     ارشاد علی                         فدائی

۴۰     نظیم الامین              فدائی

۴۱     شیر نایاب                فدائی

۴۲     علی احمد                          فدائی

۴۳     شاہ جہان                 فدائی

۴۳     شاہ جہان                 فدائی

۴۴     دیدار علی                         فدائی

۴۵     غلام عباس              فدائی

۴۶     شاہد احمد میر                    فدائی

۴۷     داور شاہ                           فدائی

۴۸     نعیم الدین                 فدائی

 

۱۷۶

 

۴۹     مشروف عالم           فدائی

۵۰     محمد اکرام خان                  فدائی

۵۱     علی احمد                          فدائی

۵۲     اکرام خان                فدائی

۵۳     کریم شیر                 فدائی

۵۴     پیار کریم                          فدائی

۵۵     عرفان قادر بیگ                فدائی

 

۱۷۷

 

بابِ ہشتم

اسپیشل ریکارڈ

 

۱۷۹

 

AKBAR A. ALIBAHI

Chief Advisor for U.S.A.

Akberali Alibhai was born on October 30th, 1964 in Karachi, Pakstan. He is seventh in the line of eight children. His father is a religious man who worked as a manager at the karachi Metropolitan Steel Coporation. His moter, Sakina, was a housewife who give initial religious education to all her children. Akbar was an athlete who played cricked, soccer, hockey, and many other sports as he was growing up. He completed his metriculation from Aga Khan School in first class honor. Later, he completed his intermediate form Premier College in first class. As he turned seventeen, he migrated to the states to be with his brother and pursue further education. In the states, he completed his associates in Business Administration from the University of Illinois. He plans to continue there for his bachelor degree. He also has an associate in computer programming and operations. By profession, he is an insurance agent for metropolitain Life. For recreation, he likes to play different sports. He got his primary religion education from Garden Jamat Khana in Karachi. There he came across, a few of the books written by Allama Saheb which include: Panj Makaala and Sau Savaal. Later in the states, he acquainted with Shamsuddin Juma who introduced him properly to Allama Saheb and his wonderful works. Shamsuddin opened

 

۱۸۱

 

Akber’s eyes to a horizon which was totally new and unknown. Akber met Allama Saheb in 1991. Akbar has been serving the jamat in different capacities for many years. He plans to serve the Imam for many years to come. he replaced Shamsuddin Juma as a chief advisor for Idara-e-Arif for U.S.A. in August, 1993.

 

AkberAli Alibhai

(Chief Advisor for Khanah-e-Hikmat/ Idarah-e-Arif

Chicago Branch, U.S.A)

  1. Aug. 1993

 

۱۸۲

 

SHAMSAH AKBER A. ALIBHAI

Record officer (USA)

Shamsah Akberali Alibhai was born on August 25th, 1971 in Karachi, Pakistan. Her father, Heshamuddin Poonja, was a trader by profession. He was deeply influenced by religion and served the jamat for many years. At the peak of his Khidmat years he was the mukhi of Paanch Baar Saal Majlis. He passed away on September 19th, 1989. Her mother was mukhiani of Paanch Baar Saal Majlis also. She is still serving the jamat in various ways. Shamsah was married to Akberali Alibhai on July 21st, 1990. Her husband introduced her to esoteric Ismailism through the teachings of Nasir Khusraw and Allma Saheb. Currently she is pursuing her bachelor degree in Business Administration from Robert Morris University. By profession she is an institutional trader at Kemper Securities. She is a graduate of Dar-al- Tarbia, a teachers training program instituted by the national Tariqa Board for Ismailis in America. She taught students for three years. She plans to serve the Imam and his jamat for years to come. She is deeply influenced by teachings of Allama Saheb and hopes to someday become a great scholar, so the jamat can benefit from her.

 

Shamsah Akberali Alibhai

(Record officer fro Khanah-e-Hikmat / Idarah-e-Arif

Chicago Branch, USA)

  1. August . 1993

 

۱۸۳

 

Farewell Address to Allama Nasir al-Din Nasir Hunzai

30th August, 1993

Buzurgūār callāmah Ṣāḥib,

Once again through the generosity of heart, in the spirit of Monorealism, I have been asked to give an overview of Ṣāḥib’s visit and during that mention a few words of appreciation, although I always feel who are we to ever show our appreciation really and truly to callāmah Ṣāḥib? English is no doubt an international language, but certainly my capacity and this language are not such to speak about the deep emotions in our hearts, to express our gratitude to  callāmah Ṣāḥib, but nevertheless, with Maūlā’s grace, we will try to put a few things on record.

callāmah Ṣāḥib comes to visit us here this year in June 1993, with an abundance of Barakah. He brought news of the poetry book which he has sponsored financially and in other ways. For the first time in the Northern Areas, a poetry book in which all the sects of Islam participated, has been published with his support. This poetry book is a wonderful example of the bridge building work Ṣāḥib does in the Northern areas of Pakistan. It is a beautifully published book and in it there are seven or eight of Ṣāḥib’s poems as well.

 

۱۸۴

 

Another piece of news which he brought us is that he was appointed on the Editorial Board of a book written by the General of the Northern Areas, General Fazli Ghafūr, who not only asked Ṣāḥib to be a member of the Board, but to also contribute an article for this book, which is not the subject of “Jihād”. Ṣāḥib wrote an article called “Forty Wisdoms of Jihad”, which you will later hear that cabbās Ṣāḥib has translated into English. In this article on Jihād, which some of you have already had a chance to read and which our der friend cazīz edited, he took it away on his annual holiday in order to edit it, in this article Ṣāḥib has presented for the whole world, but particularly for the reading public of Pakistan, because it is in Urdu, he has put in front of people the rich heritage of Islam. He has made points about esoteric Jihād, the Jihādi āmmārah, he has talked about the unity of Muslims, he has talked about how women participated in the Jihād of classical Islam – he has put all those concepts which we hear in the Fārāmīn of Maūlānā Hāẓir Imam and here we have an example of a personality in the present history of Ismailism, who is doing all these things practically and actively in the Northern Areas, which as you know is a volatile area, where there are sectarian difference and here is an Ismaili, and ‘alim, a scholar of the highest calibre, a man who has reached the heights of spirituality, who is setting an example for

 

۱۸۵

 

us, for the whole Jamācat and I know it is in all your hearts that we all pray that one day the whole global Ismacilī Jamācat will recognise Ṣāḥib’s contribution.

Another thing which Ṣāḥib started last year is an annual award to appreciate the work of people in the Northern Areas, towards the culture of the Northern Areas. It was so successful last year that Ṣāḥib and his compatriots decided it should be an annual award. It is going to be called the Āl-Qalam Award and one of the reasons why Ṣāḥib is anxious to return to Pakistan is not because he has no time for us, he has given us more that our fair share, but because this award is due to take place in the month starting the day after tomorrow, which is the month of September 1993. This award is called the Āl-Qalam Award and every year it will appreciate the work of two representatives of the three major communities of the Northern Areas. It is a literary award and it is something which has never happened in the Northern Areas before. I remember when we were there last year, Faquīr, ẓahīr and myself, when the award ceremony was finished, several lecturers of the Sunnī sect came up to me and said that they had come from Lahore and Islamabad and when they came to the Northern Areas, nothing literary was happening there and it felt like a desert, but that the award was the first time anything intellectual or literary had taken place there. Now Ṣāḥib has made it an annual

 

۱۸۶

 

award in which all the amaldars of Khānah-yi Hikmat, Āidārah-yi cārif and the Burushaski Research Academy are very very active in setting up and organising this award, but one personality I would like to mention today is Ghulām Qādir. Ghulām Qādir is a member of Khānah-yi Hikmat and a devoted student of cAllāmah Ṣāḥib. He is a journalist by profession and works for Pakistan radio and the wonderful news we have received recently is that Maūlānā Hāẓir Imām has appointed Ghulām Qādir on the regional Council of Gilgit and we believe Maūlā Bāpā has mentioned his bridge building efforts in this volatile area which we were talking about earlier. It is Ṣāḥib’s teachings which have provided a foundation of Ghulām Qādir to do the work he is doing, just as it is Ṣāḥib’s teaching which have brought each one of us to where we are today, in our conceptual level, in our thinking about our esoteric faith, in our vision for the global Jamācat, in our understanding of what the Imām of the time wishes from each one of us.

All this Ṣāḥib brought with him and you can imagine our excitement. Ṣāḥib remained here for sometime and then he went to France and as Chairman Amin Kotadia has mentioned, there is no word for the visit to France, except that it was miraculous. It has really revolutionised everything because in Paris, Ṣāḥib went to Jamācat khānah in Rue de Prony, met some camaldārs there and the article which he has written spe-

 

۱۸۷

 

cially for the visit to France, “forty wisdoms of Gratitude”, which was overnight translated into French by cabdul Raḥmān especially for the French Jamācat, was distributed to the members of the Jamācat, who not only wanted it in French, but also in English. There again you see that Imām’s ḥidaīat about learing English was well as the mother tongue. that is happing right here in the work which we are fortunate to be part of and while in France, Ṣāḥib had a four hour meeting with cālījāh Muhammad Keshawji, the International Co-ordinator of all the ṯarīqah Boards of the world. Ṣāḥib had lunch with him and the Chairman of the ṯarīqah Board of France, attended a gathering at the home of Varasiani Gulzar muller, which is near Hāẓir Imām’s residence in Chantilly. Her home is also the Jamācat khānah of Chantilly. There were many camaldārs there, who work for Hāẓir Imām and there Ṣāḥib congratulated them for working in the ẓāhirī huẓūr of the Imām. One of them said that certainly they were very lucky in the ẓāhirī sense, but that Ṣāḥib was the lucky one from the bāṯinī aspect.

There again we always have to keep this in mind that there is the ẓāhirī aspect and the bāṯinī aspect. May be sometimes we do not have too much of the zahir, we may fell that maybe we are always in the bāṯin and we do not get much outward recognition, but we have to understand that this is all part of the rūhānī struggle, for which Maūlā has chosen us

 

۱۸۸

 

under the leadership, under the tutorship of callāmah Ṣāḥib.

The other highlight of the Paris visit was meeting with the Ambassador of Pakistan. All the groundwork was done by our beloved karim Imamdad, who as you all know, works at the Pakistan Embassy. callāmah Ṣāḥib during his meeting with the Ambassador presented him with a copy of “Qur’anic Healing”. He at once said that he would forward it to His Highness the Aga Khan with his comments on it. When Ṣāḥib was away in America, we had a telephone call from karim Imamdad, who said that Ambassador had met Hāẓir Imām at a gathering and had said to him: ” I am going to send you “Qur’anic Healing”, written by one of your followers”, and Hāẓir Imām replied that he already has the book –  so this also is wonderful news.

All these precious gems I know when our spiritual brothers and sisters of Khānah-yi Hikmat and Āidārah-yi cārif in Karachi, Gilgit and Hunza, here then will greet them, with the precious pearls of tears as mihmānī in the huẓūr pur nūr of Maūlānā Hāẓir Imām.

Another thing which Ṣāḥib did was an interview with Madame Fremont in Paris. She knows Burushaskī and has done her doctorate from Sorbonne university in Paris and in her work for the doctorate, she had translated one of Ṣāḥib’s poems into French –  she recited it for the radio

 

۱۸۹

 

interview as part of it. I hope I have not left anything important out of this verbal description.

On the way to Chantilly, to Varasiani Gulzar’s house, the driver of Ṣāḥib’s car lost his way and suddenly they found themselves outside Hāẓir Imām’s residence. Ṣāḥib got out of the car and did a prostration in front of the gates to Maūlā’s house. The security guards were so amazed they opened the gates and Ṣāḥib walked some steps up the path and then returned to the car. This is an example of love in the bāṯin of an exemplary mūmin for the Imām, that we do not have to only yearn for and work for ẓāhirī dīdār. Being there on the doorstep, Ṣāḥib did not insist on ẓāhirī dīdār, that he did his prostration and returned form there.

Then Ṣāḥib came back and went to United States of America. now this is where I should say a few words  of appreciation because I feel it in my bones, in my blood and in my arteries, Ṣāḥib is seventy six year old. After and hours drive to Gatwick airport, he made a ten-hour flight to in Houston and as soon as he landed in Houston, in one week there were nine gatherings with an average of forty people at tending each. Then he proceeeded to Dallas, again a series of rūhānī majālis, cilmī majālis, esoteric, haqiqatī knowledge, recognition of Imām, recognition of soul. In Chicago another round of majalis and workshop and then Ṣāḥib went to Edmonton.

 

۱۹۰

 

And in Edmonton I know there the Āidārah-yi cārif group take a special holiday –  start workshops in the morning and go on until the night –  workshop after workshop after workshop. Yasmin Karim is compiling the diaries of the Edmonton visits and when they are published, you will see hour by hour how Ṣāḥib worāks at this age and I also need to tell you that we all know Ṣāḥib is not hundred per cent physically fit, that he has certain ailments parts of which are due to his age, part due to the Jihād, the struggle he has carried on for the sake of knowledge and for the sake of service to the  Imām, through his life, going back to when he was in the Gilgit Scouts, then the time he has in China with prison sentences and all that. That has had an impact on his physical life and yet with all that he did all these things. From Edmonton he came back to Chicago for one night and flew back to London travelling for seven hours. The minute he arrived we said could we have a class at six a.m. the next morning and he agreed. This is what I want all of us to hear.

Please forgive me Ṣāḥib, I am not appreciating you so much as saying to each one of us, let us not have a feeling for regret in us that we did not take the most advantage of his stay with us and maybe make a resolution that if Maūlā wills and Ṣāḥib’s health is good and if he comes next year we shall be better prepared to take more advantage of

 

۱۹۱

 

his visit, because this is very important indeed. And so when the Khānah-yi Hikmat members of Karachi and Karimabad and Gilgit, when they hear this they will take the greatest benefit of the years which are left for Ṣāḥib and for all of us to serve the Imām of the time.

Finally I want to say a few things – share some things which have come across very strongly to me during this visit of Ṣāḥib. This time Ṣāḥib has emphasised certain universal principles and it is time to recap briefly because this is our treasure of knowledge, on which we should ruminate, regurgitate as Ṣāḥib has told us vegetarian animals regurgitate on what they eat. This is what we need to do in the coming year.

For instance, Ṣāḥib has given an amazing principle of ” Nothing is impossible in Paradise” and he has taught us that our Imām, Maūlānā Jacfar Ṣādiq’s name has been mentioned, have told us that Paradise is not only after physical death. Paradise is also here and now and nothing is impossible and for that we need the highest knowledge.

Another universal principle Ṣāḥib has given us is that Ismailism is a universal religion. What proof is there for this? It is that the betterment of everybody is in the heart of an āismacilī. A true āismacilī believes that everybody will enter paradise and that Hell is temporary. This is Ṣāḥib’s teaching, it is so powerful. It is the highest teaching of our faith. When

 

۱۹۲

 

our children are young we should bring them up in a mould and when they understand that Ismailism is haqiqati truth and that the Imām of the time is the rightful, Divinely appointed guide and when our children are strong then we can give them this highest knowledge, that it is only our faith which believes that all people will go to Paradise.

Another principle is in the Preface to the book ” Jamācat khānah”, in which Ṣāḥib talks about the eight bearers of the throne. I am not going to say more because Ṣāḥib is still writing about it, but when it is published, please read it carefully.

Mubina Virani came home one afternoon and Ṣāḥib said to us that we āismacilīs want to break out of the universe just like a chicken breaks out of its shell. Do not let us be restricted to this universe, let us have the ambition that we want to go beyond.

Then another universal principle Ṣāḥib has given us is that the Imām of the time is the King and a King does not do things himself, he empowers others to do things, he enables others to do things. Why am I saying this? I would really like us to reflect on this and go into prostration that Hazir Imam in his infinite mercy has chosen us to be taught by callāmah Ṣāḥib in order to do the things which our beloved King wants us to do. We are his instruments and it is Ṣāḥib’s teaching and knowledge which has given us this understanding. We do not want to

 

۱۹۳

 

waste any time, we have a very serious mission in front of us for whatever span of life Maūlā wishes to give us, in which to really do our best to serve the Imām of the time.

Finally, Ṣāḥib you came to us in 1993 as Tajaddudi āmsāl –  renewal of similitudes. You brought a new freshness to our souls. Ṣāḥib in your own teaching – “Kulla iaūmin hūwa fī Shān” – he is in a new manifestation everyday. In 1993 Ṣāḥib came with new manifestations. It is not only the Imām who has new manifestations –  he empowers his mūmins to also have new and newer and newer manifestations.

Ṣāḥib, I want to end by saying with reference to your Burushaski qasidah in the Prefece to “Forty wisdoms of Gratitude”:

“O Maūlā if I cannot reach you to circumambulate your holy personality, then I will circumambulate those who are intoxicated with the wine of your love”.

Ṣāḥib, you are overflowing with the wine of love for the Imām of the time – you are overflowing with the wine of knowledge of the Imām of the time, and since each one of us, your humble students, cannot reach the Imām in a ẓāhirī sense, then may Maūlā give us courage to circumambulate this servant, this devoted servant of the Imām of the time. Amin.

 

۱۹۴

 

Farewell

Dearest Ṣāḥib.

Ṣāḥib, I would firstly like to say on behalf of Dad, Mum, Abuzarr, and myself, thank you for coming to London. I hope that this was short but pleasant visit of you. Ṣāḥib you have given us so much Knowledge that this will be in our head’s for the lifetime. Ṣāḥib you have given us so much Knowledge like last time, and I hope that people enjoyed accepting it as well as listening to it. I would like to say that this time I understood and have taken your Knowledge quite easily with the help of my parent’s, Faquīr Ṣāḥib and Rashida Aunty. Ṣāḥib, I would also like to say thank you for spending a day with us. You have given us so much Prayers, and please continue to. I would like to say that next time when you come, stay for a long time as well as give us the precious pearls. We pray that may Maūlā shower His blessings upon you, and give you good Health and Long life. Ṣāḥib, now I would like to end my address by saying have safe journey back to Pakistan.

Thank you

Ya-Ali-Madad

Salman Karim Kotadia.

Age: 10yrs old

Class: Year 5

 

۱۹۵

 

To my dearest Ṣāḥib.

Ṣāḥib we have had a wonderful time with you.

Please come back soon.

We will remember you.

We all love you very much.

We also like you to have a safe journey.

You gave us a huge amount of Knowledge and we have learnt a lot.

It is a very sad you are leaving.

Heave a good journey to Pakistan, and give the people there knowledge same as you gave us.

Have a good time.

From:

Abuzarr Ali Kotadia.

Age: 7 yrs old

Class: year 2

 

۱۹۶

 

BURUSHASKῙ RESEARCH ACADEMY, KARACHI

LETTER OF APPOINTMENT

For Mr. Babar Khan Hunzaī

On behalf of the headquarter of B.R.A, it gives me great pleasure to appoint Mr. Babar Khan Hunzaī as the CHIEF ADVISOR for the Burushaskī Research Academy for Karachi and northern Areas.

Mr. Babar Khan Hunzaī has an outstanding record of serving the Burushaskī language & culture for many years in capacity of a social worker and as a Chairman of the Academy. He had this privilege twice to become the chairman of B.R.A, Karachi fist in 1980 and then in Jan. 1993 till April 1995. The greatest achievement of his tenure is creating an enthusiastic team of educators and develop the taste for research work amongst the youth of the area. In addition, his tireless efforts to advance the literature of callāmah Ṣāḥib, are unforgettable.

Basically an M.P.A from the Gomal University, Mr. Babar Khan Hunzaī has served the National Council for Pakistan as a co-ordinator for Nothern Areas, Iran and

 

۱۹۷

 

Afghanistan and presently is working a co-ordinator, emergency Room Services at the Aga Khan University Hospital. Despite of his managerial tasks and vast social activities, he has deep interest in Islamic Studies, languages and diverse cultures.

He is further endowed with the ability to communicate effectively with the people of different backgrounds because of his knowledge of diverse languages, his vast public relationing and his charismatic personality with a sincere outlook for humanity.

With all these admirable qualities, we have great expectations of his continuing contribution, after his settlement in the Northern areas, in enhancing the cause of true knowledge and Burushaskī globally.

On this happy occasion, on  behalf of the Burushaskī research Academy, I wish him vigour and wisdom in his future work and pray to Allah to give him greater energy and strength and to crown all his efforts with success.

Amin.

Sd/-

Allama Nasiruddin N. Hunzai

Founder, B.R.A.

Karachi -2nd May, 1995

 

۱۹۸

 

MONOGRAM

Senior University

CERTIFIES BY THIS DOCUMENT TO ALL IT MAY CONCERN THAT

‘Allamah Nasir al- Din’Nasir’ Hunzai

IN RECOGNITION OF HIS EXEMPLARY AND ILLUSTRIOUS CONTRIBUTION TO THE DEVELOPMENT OF SPIRITUAL SCIENCES AND SERVICES TO HUMANITY HAS BEEN GRANTED THE HONORARY DEGREE OF

Doctor of Letters

AND HAS BEEN AWARDED ALL THE

RIGHTS AND PRIVILEGES PERTAINING

TO THIS DEGREE IN TESTIMONY WHEREOF ARE APPENDED THE

SIGNATURES OF THE OFFICERS OF THIS

 

۱۹۹

 

UNIVERSITY, TOGETHER WITH THE COMMON SEAL OF THE SAME.

GIVEN AT THE FIRST SPECIAL CONVOCATION HELD IN GILGIT,

PAKISTAN ON THE EIGHTEENTH OF AUGUST, ONE THOUSAND NINE

HUNDRED AND NINETY FIVE.

 

(Signed)

William E. Engbretson

PRESIDENT

 

(Signed)

Prof. Abdul Sultan Hassam

DEAN OF FACULTY

SEAL

 

۲۰۰

 

Monogram

Senior University

British Columbia, Canada Wyoming, U.S.A.

CERTIFICATE OF APPOINTMENT

This is to certify that

‘Allama Nasir al-Din “Nasir” Hunza’i D.Litt. (Hon.)

Has been appointed

Distinguished Senior

Professor

In witness whereof this certificate is issued affixed with the common seal of the university

 

۲۰۱

 

Presented on this 18th day of August, 1995

Sd/-

Professor Abdul S. hassam, Ph.D.

Executive Vice- President and Dean of Faculty

SEAL

 

۲۰۲

 

Respected Dr. Allama Saheb,

Ya Ali Madad, On behalf of the member of Houston Branch we very humbly offer our congratulations to you form the depths of our hearts for acquiring the Doctor’s degree in Literature. Our joy knew on bounds when we received a piece of literature from you on a letterhead which listed all your credentials commencing with the word “Doctor”, but this was the least that they could do for you because it’s very difficult to constrict the realms of your vast and profound wisdom into one word. Its impossible to put into words the depth of your understanding of various avenues of religion and to limit that wisdom by verbal praise. As we have stated this for you before “the ink of a scholar is more scared than the blood of a martyr.” The superior quality of your wisdom, Allama saheb, is such that it coerces a person  – to think very hard, to rationalize, to analyze, to visualize, each and every word in the sentences of your text which could bring out new avenues of knowledge to the person trying to acquire it thereby enhancing and broadening the scope on which one can base one’s research, causing and “awakening” in one to comprehend the reality of the contents of your books. Not only does this cause one to “compare” and to “realize” what one has to what his counterpart doesn’t, but it also leads one to try and share this valuable knowledge with those who have not been fortunate enough to acquire it. They Holy Prophet (peace be upon him) has said “Go as far as

 

۲۰۳

 

China in search of knowledge” but for us China has come to us for you are our China. Ruhani’s for countless ears have been waiting for the Spiritual Science that you have brought to us today. We pray to Mowla that may he grant you more and more strength to “awaken” the dormant souls in this world with your precious knowledge and cause in them a strong yearning to spread it as

much as they can. We also pray for your good health and long life. Ameen.

Accept our dast bosi and pa bosi. Ya Ali Madad.

Your humble student,

Yasmeen Noorali

October 12, 1995

 

۲۰۴