روحانی علاج

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دیباچہ

۱۔ پروردگارِ عالمین کی ہر نعمتِ عظمیٰ کی حقیقی شکرگزاری کے کئی معنوی اجزاء ہوا کرتے ہیں، چنانچہ ان میں ایک جزو روحانی مسرت و شادمانی کا بھی ہے، جس کی اصل حالت و کیفیت ظاہری اور جسمانی خوشی سے بالکل جدا اور قطعاً مختلف قسم کی ہوتی ہے، مثال کے طور پر روحانی فرحت کا معجزہ دریائے عجز و انکسار اور بحرِ عشق بن کر مؤمنِ شاکر کو اپنے اندر ڈبو لیتا ہے، جس سے بندۂ عاشق راہِ خدا میں آنسوؤں کے انمول موتیوں کو نچھاور کرتے ہوئے دل و جان کے انتہائی شوق سے بارگاہِ ایزدی میں سجدہ ریز ہو جاتا ہے، یا ایسے معجزانہ اور عارفانہ شکر سے آتشِ محبت تیز تر ہو جاتی ہے، جس سے مومنِ صادق اپنے باطن میں یکسر پگھل جاتا ہے، یا اس کو برقِ روحانیّت کے لطیف، شیرین، اور پُرکیف جھٹکے لگتے ہیں، یا اس کو اندر ہی اندر سے معجزۂ طہور کا بے حد میٹھا اور پُرحکمت بخار آتا ہے، اور ایک خاص زلزلہ خواب و بیداری کے درمیان وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔

۵

۲۔ بیانِ مذکورۂ بالا سے ایک مزید نسخۂ کیمیا کا پتا چلا کہ ربّانی نعمتوں کی حقیقی اور عاشقانہ شکرگزاری رہی سہی بیماریوں کے لئے علاجِ کامل کا کام انجام دیتی ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید کا پُرحکمت ارشاد ہے: اور وہ وقت یاد کرو جب کہ تمہارے ربّ نے حکم کیا کہ اگر تم شکر کرو گے تو تم کو زیادہ نعمت دوں گا (۱۴: ۰۷) یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھ لیجئے کہ عقل و جان اور جسم کی بے شمار نعمتوں اور لذّتوں کا مجموعہ خدائے رحمان و رحیم کے نزدیک ایک ہی نعمت ہے، لیکن بندوں کے لئے یہ ایک ایسی کائنات کی حیثیت سے ہے، جو گوناگون نعمتوں سے مملو ہے، پس جو نعمت سامنے یا قریب تر ہو، اگر اس کے لئے علم و عمل کے حقیقی معنوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر کیا جائے، تو یقیناً مجموعی نعمت میں اضافہ ہونے لگے گا، جی ہاں، ہر قسم کی صحت بھی نعمتِ خداوندی ہی ہے، لہٰذا دیگر نعمتوں کی طرح اس کی بہتری اور ترقی کا انحصار بھی عملِ شکر ہی پر ہے، تاہم آپ کے لئے اب یہ جاننا باقی ہے کہ فریضۂ شکر گزاری کماحقہ کس طرح ادا ہو سکتا ہے؟

۳۔ مشرق و مغرب کے بے حد عزیز دوستو اور ساتھیو! آؤ ہم سب مل کر بطرزِ مناجات، یا بطریقِ گریہ و زاری خدائے بزرگ و برتر کی اس عقلی اور روحانی نعمت کا شکر کریں کہ اس کارسازِ بندہ نواز کی رحمت و مہربانی سے اب قرآنی علاج، اور علمی علاج کے بعد روحانی

 

۶

 

علاج بھی مکمل ہوچکی ہے، کاش! ہم سب منزلِ محو و فنا میں مٹ مٹ کر ذرّات اور عالمِ ذرّ بن جاتے، اور صورِ اسرافیل کی گونج سے ہم آہنگی کرتے ہوئے اس ذاتِ پاک کی تسبیح و تہلیل کرتے، جس نے اپنے فضل و کرم سے یہ آسمانی نعمتیں برسا دی ہیں، ہر چند کہ ہم وہ حقیقی شکر نہیں کر سکتے، جو کرنا چاہئے، تاہم ہمارے دل و دماغ میں اس عالیشان عبادت کی کمی کے احساس سے ایک خاص درد پیدا ہوتا ہوگا، اور ان شاء اللہ تعالیٰ ، ایسے مبارک درد سے دوسرے تمام دردوں کا علاج ہوگا، جس کی مثال اس کتاب کے آخر میں موجود ہے۔

۴۔ یہ عجیب طرح کا حسنِ اتفاق ہے کہ گزشتہ سال (۶ ستمبر تا ۴ اکتوبر ۱۹۸۸ء ) میں لنڈن میں اپنے عزیز احباب کے ساتھ تھا، اس دوران کتابِ روحانی علاج کے سات ابتدائی مضامین مکمل ہوئے، اور اس کتاب کا باقی حصّہ پاکستان میں لکھا گیا، لیکن اب پھر لنڈن کی انہی پاکیزہ روحوں نے اپنی جاذبیّتِ روحانی سے مجھے کھینچ کھینچ کر یہاں لایا، تاکہ میں کتاب کی آخری چیز (یعنی دیباچہ) اس کے شروع میں لکھ کر دائرہ بناؤں، اور جس مبارک گھر میں یہ نیک کام شروع ہوا تھا، اسی میں یہ پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے۔

۵۔ جن دانشور حضرات نے اس بندۂ حقیر کی کتابوں کا نعمتہائے بہشت کی طرح انتہائی شیرین و دلکش ترجمہ کیا ہے، اس کی جیسی اہمیت،

 

۷

 

افادیت، اور عظمت ہے، وہ ہر چند کہ کسی تعریف کی محتاج تو نہیں، تاہم میرے نزدیک اس کتابی انقلاب کی کوئی تشبیہہ و تمثیل ضروری ہے، اور وہ یہ ہے کہ: کتاب کے باغ و چمن پر موسمِ خزان مسلط تھا، اب بحمداللہ اس میں دائمی بہار کی سلطانی قائم ہوئی، یا یوں کہا جائے کہ کچھ جواہر کسی تاریک گوشے میں بکھرے پڑے تھے، ان پر کسی بابصیرت جوہری کی نظر پڑی، وہ وہاں سے چن کر ایک اعلیٰ مقام پر سجائے گئے، یا اس کی مثال یہ ہے کہ ایک دخترِ نیک اختر جو بدیع الجمال بھی تھی، اور نیکو خصال بھی، چنانچہ پدرِ رضاعی نے اس لباسِ فاخرہ اور بیش بہا زیورات سے آراستہ و پیراستہ کر کے دلہن بنایا، اور شہزادۂ علم پذیر کے نکاح میں دیا۔

۶۔ میں ذاتی مصائب و آلام کے مواقع پر اشک فشانی نہیں کرتا، مگر شاید میں بوقتِ مناجات گریہ و زاری کرتا ہوں، اگر منجانبِ احباب میری کوئی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، تو اس سے میں سوز و گداز کے عالم میں ہوتا ہوں، اور آنسوؤں کی روانی ہوتی ہے، مگر یہ سعادت کبھی کبھی نصیب ہوتی ہے، اس سلسلے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ میری کتابوں کا بہترین ترجمہ میرے لئے ایک معجزہ تھا، جس سے میں بدرجۂ انتہا متاثر ہوکر دریائے گریہ و زاری میں مستغرق ہو جاتا ہوں، شاید اس لئے کہ میں ایک ناچار آدمی ہوں، مجھ میں کوئی اہلیت نہیں، میں علم و عمل دونوں سے عاری تھا، پھر یہ خزانہ کس

 

۸

 

نے عطا کر دیا؟ اور اس عطیہ کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

۷۔ اگر میرے تلامیذ جو پاکستان، انگلستان، امریکہ، کنیڈا، فرانس وغیرہ میں رہتے ہیں، اس علمی خدمت میں مجھ سے تعاون نہ کرتے، تو واللہ میں ہر طرح سے ایک کمزور انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا، مجھے یقین ہے کہ کوئی ہوشمند مؤرخ جس کو اس کام سے دلچسپی ہو، وہ میرے حوالے سے ان حضرات کے اسمائے گرامی اور کارناموں کو آئندہ نسل کی تاریخ میں رقم کر دے گا، تاہم مؤمنین کی اُس تاریخِ نورانیّت کی بات کیجئے، جسے خطا و نسیان کے پتلے انسان نہیں، بلکہ معزز فرشتے ہی لکھ رہے ہیں (۸۲: ۱۱) یعنی کتابِ اعمال، جو بہشت میں بڑی شان سے پڑھی جائے گی، آپ قرآنِ حکیم میں نامۂ اعمال سے متعلق آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کریں، خصوصاً آیۂ علّیّین (۸۳: ۱۸) کا مطالعہ، جس کی حکمت بڑی عجیب و غریب ہے۔

۸۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے (ترجمہ): ہرگز ایسا نہیں نیک لوگوں کا نامۂ اعمال علّیّین میں ہے، اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ علّیّین کیا ہے، وہ ایک لکھا ہوا دفتر ہے جس کو مقرّب لوگ دیکھتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) آپ کو یہ بات سن کر یقیناً حیرت انگیز خوشی کا احساس ہوگا کہ دو سماوی اور دو ارضی چار انتہائی عظیم فرشتے مذکورۂ بالا زندہ کتاب ہیں، یعنی عقلِ کل اور نفسِ کل، اور ان کے دو مظہر، کیونکہ لفظِ علّیّین میں جو “ین” ہے، وہ ایک ایسی علامتِ جمع ہے، جو ذوی

 

۹

 

العقول کے لئے استعمال ہوتی ہے، پس یہ امر ازحد ضروری ہے کہ آپ نامۂ اعمال کی معرفت حاصل کریں۔

۹۔ شاید آپ نے یہ قرآنی حکمت خوب ذہن نشین کر لیا ہوگا کہ اللہ جلّ جلالہ ہمیشہ ضدین یعنی دو مختلف چیزوں کو ایک دوسرے سے پیدا کرتا ہے، جیسے وہ رات کو دن میں داخل کر دیتا ہے اور دن کو رات میں داخل کر دیتا ہے (۰۳: ۲۷) اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ شاگرد کا اضافی وجود (علمِ ظاہر) استاد کے توسط سے بنتا ہے، اور استاد کا اضافی وجود (علمِ باطن) شاگرد کی وجہ سے، تاکہ یہ بھی ایک دائرہ ہو جائے، جیسے بچے کو اگرچہ ماں ہی جنم دیتی ہے، لیکن دوسری طرف سے بھی دیکھنا ضروری ہے کہ بچہ ہی ہے، جس کے سبب سے کوئی عورت ماں کہلاتی ہے، اور اس میں دودھ پیدا ہو جاتا ہے، اور اس مثال میں بھی بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ انسانی شیرِ مادر کا ذخیرہ دل کے سامنے سینے پر دو پستان میں ہے، جبکہ مادہ جانور میں دودھ کا مقام اس کے برعکس ہے، پس طفل کے لئے شیرِ مادر کے ۶+۶=۱۲ چشمے مقرر ہیں، جس طرح حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے قصۂ قرآن میں بارہ چشموں کا تذکرہ موجود ہے (۰۲: ۶۰، ۰۷: ۱۶۰)۔

۱۰۔ حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام اپنے وقت میں مومنین کے روحانی والدین تھے، ظاہر ہے کہ ناطق کو باپ کا درجہ حاصل ہے، اور اساس کو ماں کا درجہ، چنانچہ شیرِ مادر کی مثال کے

 

۱۰

 

مطابق جناب ہارونؑ کے قلبِ مبارک میں مومنین کی پرورشِ روحانی کے لئے علم کا ذخیرہ موجود تھا، اور اس علم کے مظاہر آپ کے بارہ نقیب (حجت) تھے (۰۵: ۱۲) علمِ روحانی کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگرچہ بظاہر ایک پتھر سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوئے تھے، لیکن اس کا ممثول حضرتِ ہارونؑ کا پاکیزہ دل تھا، جس سے ربِّ جلیل نے حضرتِ موسیٰؑ کے توسط سے بارہ درجات پر مشتمل علم کو جاری کر دیا، پس بارہ نقیب جن کا ذکر ہوچکا ہے علمِ ہارونی کے بارہ چشمے تھے۔

۱۱۔ چونکہ یہ کتاب کا دیباچہ ہے، لہٰذا اس میں قارئین اور آئندہ نسل کی آگہی کے لئے اصولاً یہ لکھنا پڑتا ہے کہ اتنا اہم، وسیع، اور ہمہ رس کام کس طرح کیا گیا؟ اور اس تنظیم میں وہ خوش بخت حضرات کون کون تھے، جنہوں نے کسی بھی حیثیت سے بھرپور کردار ادا کیا؟ چنانچہ میں نے اس بارے میں مختلف مواقع پر اشارہ کیا ہے، تاہم اب وقت آچکا ہے کہ اس باب میں کوئی کتابچہ مرتب کیا جائے، جس کے لئے مندرجہ ذیل حضرات سے درخواست کی جاتی ہے:

۱۲۔ فتح علی حبیب صدرِ خانۂ حکمت، نصر اللہ قمر الدین نائب صدر، محمد عبد العزیز صدرِ ادارۂ عارف، محی الدین شاہ صوفی نائب صدر، غلام رسول صدرِ خانۂ حکمت برانچ گلگت، صوبیدار (ریٹائرڈ) یوسف علی نائب صدر، غلام قادر ایڈوائزر /سابق صدر، صوبیدار (ریٹائرڈ) علی داد چیئرمین بروشسکی ریسرچ اکیڈمی، سلطان اسحاق چیئرمین ادارۂ

 

۱۱

 

عارف برانچ گلگت، امین کوٹاڈیا چیئرمین ادارۂ عارف برانچ لنڈن، نور الدین راجپاری ادارۂ عارف برانچ امریکا، نور علی مامجی کوآرڈنیٹر امریکا، اور امام داد کریم کوآرڈنیٹر فرانس، یہ حضرات اپنے دیگر عملداروں اور ممبروں سے بھی تعاون حاصل کر کے نام بُردہ تاریخ تیار کریں گے، ان شاء اللہ یہ کام اتنا مشکل نہیں۔

۱۳۔ میں اس پیاری کتاب کی تکمیل کے موقع پر تمام دوستانِ عزیز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور میری عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم ہماری اس ناچیز کوشش کو پُرخلوص اور سب کے لئے نافع بنائے! آمین یا ربّ العالمین!!

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن  ۸ ذوالحجہ ۱۴۰۹ھ / ۱۱ جولائی ۱۹۸۹ء

۱۲

 

روحِ قرآن

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۱۔ رحمانی طب اور روحانی علاج کے اس سلسلے میں قرآن کی روح و روحانیّت کا تذکرہ بے حد ضروری ہے، تاکہ قارئینِ کرام پر اصل حقیقت منکشف ہو جائے کہ قرآنِ عظیم جن معنوں میں شفا ہے (۱۷: ۸۲) ان میں وہ سب سے پہلے نور و نورانیّت، روح و روحانیّت، اور علم و حکمت ہے، اس کے بغیر ارواحِ مومنین کی مردگی کو زندگی میں اور تاریکی کو روشنی میں تبدیل کرنے کا کوئی تصوّر ہی نہیں ہو سکتا (۰۶: ۱۲۲، ۰۸: ۲۴)۔

۲۔ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کے امر یعنی کلمۂ کن سے بطورِ روح و روحانیّت نازل ہوا، اور یہی روح نورِ ہدایت ہے (حکمت: ۴۲: ۵۲) ارشادِ باری تعالیٰ سے یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ قرآنِ پاک کا نزول آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قلبِ مبارک پر ہوا تھا (۰۲: ۹۷) اور دل میں صرف روحانی اور عقلی چیزیں اتر سکتی ہیں مادّی اشیاء نہیں۔

۳۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ

۱۳

 

اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ (۰۵: ۱۵) تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور ایک ظاہر کتاب آئی ہے۔ یہاں نور سے حضورِ انور کی ذاتِ اقدس مراد ہے، اور کتابِ مبین قرآنِ پاک ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کی زندہ روح اور نورِ ناطق آنحضرت کی بابرکت شخصیت میں جلوہ گر تھا، اور اسی معنیٰ میں پیغمبرِ خدا روشن چراغ تھے (۳۳: ۴۶) کیونکہ قرآن جس طرح لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اور ام الکتاب میں بھی (۴۳: ۰۴) اسی طرح اس کی روح یا نور آنحضرت میں بھی تھا۔

۴۔ جو خوش بخت لوگ درجۂ فنا فی المرشد کے بعد مرتبۂ فنا فی الرسول کو حاصل کرتے ہیں، وہ اس مقام پر نفسانی موت سے گزر چکے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کو ایک طرح سے نامۂ اعمال مل جاتا ہے، یہ ایک جیتی جاگتی، بولتی کتاب، روحِ قرآن، اور نور ہے (۲۳: ۶۲، ۵۷: ۱۲) کیونکہ قرآنِ مجید اپنے نور کے معجزات میں ایسا محیط ہے کہ یہی سب کچھ ہے، پس یہ مومنین کی اصل روح بھی ہے، روحانیت بھی، نور بھی ہے، نورانیت بھی (۶۶: ۰۸) اور نامۂ اعمال بھی (۴۵: ۲۹)۔

۵۔ سورۂ عبس (۸۰: ۱۱ تا ۱۶) میں دیکھئے! ہرگز ایسا نہیں، یہ (قرآن مقامِ روح و عقل پر) ایک ناقابلِ فراموش تذکرہ ہے، پس جو شخص چاہے نصیحت حاصل کرے، یہ باعزت و باکرامت صحیفوں میں ہے، جو برتر اور پاک و پاکیزہ ہیں، وہ ایسے لکھنے والے (فرشتوں)

 

۱۴

 

کے ہاتھوں میں ہیں، جو معزز و مکرم اور نہایت نیکوکار ہیں (۸۰: ۱۱ تا ۱۶) یہ معرفت کا وہ عالیشان مقام ہے، جہاں نورِ قرآنِ کریم کتابِ مکنون (۵۶: ۷۸) میں پایا جاتا ہے۔

۶۔ سورۂ محمد میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اے لوگو جو ایمان لا چکے ہو! اگر تم (دین کے ذاتی اور اجتماعی امور میں) اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہیں آسمانی تائیدات سے نوازے گا اور ثابت قدمی عطا فرمائے گا (تا کہ تم راہِ روحانیّت پر منزلِ مقصود تک پہنچ سکو ،۴۷: ۰۷) یہاں آپ کو اچھی طرح سوچنا ہو گا کہ انسانی مدد کتنی حقیر اور کیسی محدود ہے! اور ربّانی تائید کی وسعت و ہمہ گیری کا کیا عالم ہوگا؟ یقیناً تائید نور ہی کا دوسرا نام ہے، اور نور کا خاصہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی جائے، وہاں کی تمام چیزوں کو اپنی شعاعوں میں غرق کر لیتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ نورِ تائید کے آنے سے مومنین کے امراضِ باطن رفتہ رفتہ جل کر ختم ہو جاتے ہیں۔

۷۔ خدائے علیم و حکیم اپنے بندوں کے دلوں میں صورت و معنئ ایمان کو رقم فرماتا ہے، اور اپنے حضورِ خاص کی ایک مقرب روح سے ان کی مدد (تائید) کرتا ہے (۵۸: ۲۲) تا کہ وہ اس روحانی تحریر کو دیکھ سکیں، اور اس کے سرِ اسرار کو سمجھ سکیں، لیکن یہ کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے کہ ایسی نورانیّت روحِ قرآن کے بغیر ہو؟ یقیناً یہ قرآن ہی کی روح ہے، جس کی رہنمائی سے بھیدوں کا آخری خزانہ

 

۱۵

 

مل جاتا ہے۔

۸۔ ارشاد ہے: ہرگز ایسا نہیں، بیشک نیکوکاروں کی کتاب (نامۂ اعمال) علّیّین میں ہے، اور تمہیں کیا معلوم کہ علّیّینِ برترین کیا ہے؟ وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے، اس کا مشاہدہ مقربین ہی کرتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) یعنی اللہ کے مقرب بندے اپنی کتابِ اعمال کو اس دنیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں، جو روح اور عقل کی بلندی پر قرآن کا سب سے بڑا معجزہ ہے، کیونکہ قرآنِ مجید ہی ہے، جس کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹)۔

۹۔ حضرتِ آدم میں روحِ خداوندی پھونک دی گئی تھی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اور دوسرے تمام پیغمبروں کو بھی یہی سب سے پاکیزہ روح حاصل ہوئی، جس کی ایک نمایان مثال حضرت عیسیٰؑ ہیں ( روح منہ ، ۰۴: ۱۷۱) اگرچہ آنحضرت کے لئے بھی وہی عظیم خدائی روح تھی، تاہم حضورِ اکرم سردارِ رسل، خاتمِ انبیاء اور رحمتِ عالم تھے، لہٰذا یہ پاک روح بحکمِ خدا آپ کی ذاتِ عالی صفات میں قرآنِ عزیز جیسی بے مثال کتاب لے کر نازل ہوئی (۴۲: ۵۲) جو تمام اگلی آسمانی کتابوں کا خلاصہ اور نچوڑ بھی ہے، پس قرآنِ حکیم ظاہر ( مبین ، ۰۵: ۱۵) ہوا، اور نور (روح ، ۰۵: ۱۵) کو لازمی طور پر حضورِ اکرمؐ ہی کی ذاتِ اقدس میں رہنا تھا، تاکہ بوقتِ ضرورت قرآن پر اس کے اپنے نور کی روشنی ڈالی جائے۔

۱۰۔ انبیاء کے بعد اولیاء کا مقام اس معنیٰ میں بلند ہوتا ہے کہ

 

۱۶

 

وہ حضرات قرآن کی روح و روحانیّت کی روشنی میں پیغمبروں سے متعلق تجدّدِ امثال کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور اسی وسیلے سے وہ ایک طرف آسمانی کتاب کے مقاماتِ روحانی و عقلی کے عارف ہو جاتے ہیں، اور دوسری جانب انبیاء و رسل کے مراتبِ عالیہ کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں، جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) میں دوستانِ خدا سے فرمایا گیا ہے: اور ہم نے تم کو (جسم میں کلّی طور پر ) پیدا کیا پھر ہم نے تمہاری (روحانی) صورت مکمل کر دی پھر ہم نے (گویا تمہارے سامنے ہی) فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو (۰۷: ۱۱) یہ ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ اس میں اہلِ دانش کو ذرا بھی شک نہیں ہو سکتا۔

۱۱۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۴ تا ۴۸) میں خوب غور و فکر سے دیکھ لیجئے، ہر آسمانی کتاب تمام احوالِ ظاہر و باطن پر محیط و حاوی ہوا کرتی ہے، کتاب کی ظاہری شکل مادّی تحریروں میں اور اس کی باطنی صورت روحانی اور عقلانی نوشتوں میں ہوتی ہے، اور ہمیشہ اس کی جملہ ظاہری ہدایات کا رخ روح اور نور کی طرف ہوتا ہے، تاکہ لوگ ہدایت نامۂ الٰہی کو ظاہراً و باطناً دیکھ سکیں، اور حقائق و معارف کے تمامتر خزانے مہیا رہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: ہم نے توریت نازل فرمائی تھی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا (۰۵: ۴۴) اور انجیل کے بارے میں فرمایا گیا ہے: اور ہم نے ان (عیسیٰ) کو انجیل دی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا (۰۵: ۴۶) یعنی کتابِ سماوی کے ظاہری پہلو میں ہدایت ہوتی ہے، اور باطنی پہلو میں نور ہوتا ہے،

 

۱۷

 

جیسے مصحف اور لوحِ محفوظ دراصل مل کر قرآن یا کتابِ مبین ہے (۲۷: ۷۵) جبکہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) اور وہاں وہ روحِ اعظم اور نورِ اکبر ہے۔

۱۲۔ آیاتِ نور کی یہ ایک جداگانہ خصوصیت ہے کہ ان میں بجا طور پر تفکر و تدبر کرنے سے (اگر اللہ نے چاہا تو) انتہائی عظیم اسرار منکشف ہو سکتے ہیں، اس حقیقت کی ایک روشن مثال یہ ہے: اور جو لوگ خدا پر اور اس کے رسولوں پر (کامل اور مکمل) ایمان رکھتے ہیں ایسے ہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں، ان کے لئے ان کا اجر اور ان کا نور ہے (سورۂ حدید ، ۵۷: ۱۹) اس پُرحکمت ربّانی تعلیم میں ایسے ایمانِ کامل کا ذکر فرمایا گیا ہے، جو درجاتِ عین الیقین سے بھی آگے ہوتا ہے، کیونکہ یہ اولیاء (صدیقین) اور شہیدانِ روحانی کا ایمان ہے، اور یہ شہید وہ ہیں، جو راہِ خدا میں جیتے جی مر جاتے ہیں اور شہید کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ آسمانی کتاب کے روحانی معجزات پر گواہ بن جاتے ہیں ( و کانوا علیہ شھداء ، ۰۵: ۴۴)۔

۱۳۔ اجر کیا ہے؟ قرآنِ کریم کی روح و روحانیّت کی غیر فانی دولت، اور ثوابِ دنیا و آخرت (۰۳: ۱۴۸) اور نور کیا ہے؟ آفتابِ علم و حکمت، پس ایسے ہی خوش نصیب لوگ امراضِ باطن سے پاک و محفوظ اور عقل و جان کی سلامتی سے مسرور و شادمان ہوتے ہیں۔

۱۸

۱۴۔ تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور ایک ظاہر کتاب (۰۵: ۱۵) پس نور زمانۂ نبوّت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، اور آپ کے بعد بھی اس نور کا ہونا لازمی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۲۹ محرم الحرام ۱۴۰۹ھ / ۱۱ ستمبر ۱۹۸۸ء

۱۹

 

طمانیتِ قلبی

۱۔ ہر قسم کا خوفِ بیجا، ہر گونہ پریشانی، احساسِ کمتری، دنیوی حرص، گھبراہٹ، برے خیالات یا وسوسوں کی اذیت، غمگینی، بے چینی، مایوسی، ناخواستہ غصہ، سبک مزاجی، زبان کی لغزش، کم ہمتی، بد باطنی، فخر، غرور، جہالت و نادانی، غفلت ، سستی، تنگدلی، اضطراب، نسیان (بھول جانا) کند ذہنی، دماغی الجھن، اور ان جیسی تمام اخلاقی اور روحانی بیماریوں کا واحد علاج طمانیتِ قلبی ہی ہے، جو ذکرِ الٰہی کی برکتوں سے حاصل ہو جاتی ہے، جیسا کہ سورۂ رعد (۱۳: ۲۸) میں ارشاد ہوا ہے: الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب (۱۳: ۲۸) یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو (درجہ بدرجہ) اطمینان ہو جاتا ہے۔ چونکہ قلوب مختلف درجات کے ہوا کرتے ہیں، اس لئے یہ طمانیت شروع سے لے آخر تک سارے مراتب پر محیط ہے، یعنی اطمینان ہر شخص کے علم و عمل کے مطابق ملتا ہے۔

۲۔ سوال: خداوندِ قدوس کی یاد سے طمانیتِ قلبی کس طرح پیدا

 

۲۰

 

ہو جاتی ہے؟ اگر ایک مومن کسی بڑی تکلیف میں مبتلا ہے، اور وہ کثرت سے خدا کو یاد کرے، تو یہ ذکر کن معنوں میں اس کے اطمینان و سکون کا باعث ہو سکتا ہے؟

۳۔ جواب: شاید آپ نے قرآنی علاج یا علمی علاج میں اس حدیثِ شریف کا حوالہ دیکھا ہوگا کہ ہر شخص کے دو قرین (ساتھی) ہوا کرتے ہیں، ایک تو فرشتہ ہوتا ہے اور دوسرا جنّ (شیطان) سو فرشتہ ہر وقت انسان کو بھلائی کی ترغیب دیتا ہے، اور شیطان اس کے برعکس برائی کے لئے اکساتا رہتا ہے، چنانچہ جب جب بندۂ مومن ذکرِ خداوندی میں مسلسل مصروف رہتا ہے، تو اس حال میں بھی اگرچہ شیطان ڈر کے مارے کچھ ہاتھ پاؤں ضرور مارتا ہے، لیکن آخر کار شکست خوردہ ہوکر خاموش اور مایوس ہو جاتا ہے، اور دوسری طرف ذکر کی بدولت فرشتے کو بولنے کا موقع مل جاتا ہے، پس وہ دل میں علم و حکمت کی باتیں ڈالنے لگتا ہے، اگر کوئی تکلیف یا بیماری ہے تو اس کے دور ہو جانے کی خوشخبری سناتا ہے، ہر دکھ ایک عبادت قرار پانے کی بات کرتا ہے، اور روحانیّت و آخرت کی کامیابی کی بشارت دیتا ہے، چونکہ یہ آسمانی الہام ہے، جو صداقت کی روح سے پُر اور حقیقت کے نور سے منور ہے، لہٰذا اس میں زبردست طمانیتِ قلبی اور ہر بیماری کے لئے شفائے کلّی موجود ہے، ہر چند کہ شروع شروع میں اس فرشتے کی آواز صاف طور پر سنائی نہیں دیتی،

 

۲۱

 

لیکن بہ اشارۂ ضمیر یہ حالت محسوس ہو جاتی ہے کہ دل کو غیر معمولی تسکین و تسلی اور خوشی حاصل ہو رہی ہے۔
۴۔ یادِ الٰہی لاہوت اور ناسوت کے درمیان لٹکائی ہوئی ایک نورانی رسی ہے، یہ ایک روحانی پل بھی ہے، جو شہرستانِ فنا کو ملکِ بقاء سے ملا دیتا ہے، یہی راہِ راست بھی ہے، جس پر قدم بقدم اور منزل بمنزل نورِ ہدایت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، یہ بھی صحیح ہے کہ ذکر میں بہشت جیسا ایک نورانی عالم پوشیدہ ہے، جس کے عجائب و غرائب احاطۂ بیان سے باہر ہیں، پروردگار کے اسمِ مبارک میں ایک ایسی بے مثال دوا پنہان ہے، جو دنیا کے کسی بھی طبیب ، حکیم، اور ڈاکٹر سے دستیاب نہیں ہو سکتی، ذکر سے خالق اور مخلوق کے رشتۂ ازل کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، اس میں عقل و جان کی لازوال مسرتوں اور شادمانیوں کے انمول خزانے رکھے ہوئے ہیں، اگر ذکر حقیقی معنوں میں ہو، تو یہ ایک نور ہے، پھر عجب نہیں کہ روحِ ذاکر رفتہ رفتہ اس نور میں حل ہو جائے، یا فی الوقت روشنی کو قبول کرے۔

۵۔ ربِّ جلیل کے بابرکت ذکر سے جو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ تعلق روحانی اور عقلی نعمتوں سے ہے، کیونکہ اگر آرام و راحت میں ہمیشہ جسم ہی کا پلہ بھاری رہا، تو پھر آخرت میں نامرادی ہوگی، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم جسمانی تکالیف کو دور کرنے کے لئے کوشش ہی نہ کریں، لیکن اس کے معنی

 

۲۲

 

یہ ہیں کہ ہمیں کسی بھی دنیوی تکلیف و آزمائش میں خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہئے، پس ظاہری بیماری میں بھی کثرت سے خدا کا نام لینا ضروری ہے، تاکہ عرصۂ قلیل میں شفا ملے، اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت سے ہم مزید وقت کے لئے بیمار رہتے ہیں، تو پھر ان شاء اللہ فرشتہ (جس کا تذکرہ ہو چکا ہے) مریض مومن کے ضمیر میں کہنے لگے گا کہ: “صبر و ہمت سے کام لو، اس بیماری سے تمہاری تطہیر ہو رہی ہے، اور یہ جسمانی مرض بحکمِ خدا کئی اخلاقی اور روحانی امراض کو مار رہا ہے۔”

۶۔ سورۂ فجر میں اطمینان کی تعریف و توصیف اس شان سے فرمائی گئی ہے: اے اطمینان یافتہ روح! تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا (رجوع کر) درحالے کہ تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی ہے، تو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہو جا، اور میری جنّت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) اس قرآنی تعلیم میں یہ حکمت ہے کہ مومن کی زندگی کے تمام نیک اقوال و اعمال کا نتیجہ حقیقی اطمینان ہے، اور اس کے بعد رجوع الی اللہ (خدا کی طرف لوٹ جانا) ہے، تاہم قرآنِ پاک میں دیکھ لیجئے کہ اطمینان و رجوع سے پہلے کیسی کیسی آزمائشیں سر سے گزر سکتی ہیں (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷)۔

۷۔ یہاں اس حکمت کی وضاحت بھی ضروری ہے، جو “فادخلی فی عبادی” (تو میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا) میں پوشیدہ

 

۲۳

ہے، سو جاننا چاہئے کہ خدا کے خاص بندے انبیاء و اولیاء ہیں، جو حضرتِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورِ اقدس میں فنا ہو کر یکجا ہو چکے ہیں، چنانچہ نفسِ مطمئنہ سے فرمایا جاتا ہے کہ وہ بھی فنا فی المرشد اور فنا فی الرسول ہو کر نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک ہو جائے (۳۱: ۲۸) کیونکہ “فی” کے معنی ہی ایسے ہیں، کہ اس میں روح اور نور میں جا کر فنا ہو جانے کا اشارہ موجود ہے۔

۸۔ اطمینان کا ایک اور اعلیٰ مقام یہ ہے، جس کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: (اے رسول) آپ فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے ہوتے کہ اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر نازل کرتے (۱۷: ۹۵) یہ ارضی فرشتے سب سے پہلے انبیاء علیہم السّلام ہیں، جن کی ایک بہت بڑی صفت طمانیتِ قلبی ہے، جس کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے۔

۹۔ دراصل اطمینان بہت سے معنوں پر محیط ہوا کرتا ہے، اور ان میں مختلف درجات کی بشارتیں بھی ہیں، ان میں ایک بڑی بشارت فرشتوں کے توسط سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی غیبی مدد کے بارے میں ہے، جیسے جنگِ بدر میں خدا نے نزولِ ملائکہ سے لشکرِ اسلام کی مدد فرمائی تھی، جیسا کہ ارشاد ہے: اور اللہ تعالیٰ نے یہ امداد محض اس کے لئے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو اطمینان ہو جائے (۰۸: ۱۰) کہتے ہیں کہ فرشتے دکھائی

 

۲۴

 

دیئے تھے، یقیناً ایک ہی فرشتے کا ظہور ہوتا ہے، جس میں بے شمار فرشتے ہوتے ہیں، گویا سب سے بڑا فرشتہ ایک زندہ قلعہ ہے، اور اس کے اندر کے تمام فرشتے لشکر ہیں۔

۱۰۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۲ تا ۱۱۵) میں دیکھ لیں، آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: وہ بولے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس (سماوی دسترخوان) میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو پورا اطمینان ہو جائے اور یقین کر لیں کہ آپ نے ہم سے (اپنی رسالت کے سلسلے میں جو کچھ کہا تھا) سچ فرمایا تھا اور ہم گواہی دینے والوں میں سے ہو جائیں (۰۵: ۱۱۳) اس مثال کی حکمت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے حواریین پر روحانی علم کا دسترخوان نازل ہوا تھا، اسی سے ان کے دلوں کو کامل اطمینان ہونا تھا، کیونکہ قرآنِ حکیم کا فرمانا ہے کہ پروردگار نے ہر چیز علم میں رکھی ہے (۰۶: ۸۰) چنانچہ اس باب میں ہمیں دوسری اشیاء کی طرف توجہ دینے سے پیشتر قرآنی چیزوں میں غور کرنا ازحد ضروری ہے، ان میں سے ایک چیز اور ایک مثال دسترخوان (مائدہ) ہے، جو آسمان سے نازل ہوا تھا، جس سے روحانی (لدنّی) علم مراد ہے، جو عقل و جان کی ربّانی نعمتوں کا بابرکت دسترخوان ہے، جس کی ہر نعمت عقل و جان کے لئے غذا بھی ہے، اور دوا بھی، پھر اس سے طمانیتِ قلب کیوں نہ ہو۔

۱۱۔ جیسا کہ یہ بیان ہو چکا کہ اطمینان کے مختلف درجات ہیں،

 

۲۵

اب یہاں یہ بتانا ہے کہ اس کا آخری اور بلند ترین درجہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی مثال میں موجود ہے (۰۲: ۲۶۰) انبیائے کرام اور اولیائے عظام اپنی مقدّس زندگیوں سے حقائق و معارف کے نمونوں کو پیش کرتے ہیں، اور ایسا کرنا بیحد ضروری ہے، تاکہ وہ حضرات خدا کے حکم سے بیمار اور دکھی انسانیت کو سلامتی کی راہوں پر گامزن کر سکیں، چنانچہ قرآنِ حکیم نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ منعم علیہم (۰۴: ۶۹) کا راستہ سب کے لئے کھلا ہے، ان کے پیچھے پیچھے چلو (یعنی روحانی ترقی کرو، اور ان کی رفاقتِ روحانی سے مستفیض ہو جاؤ، تاکہ معرفت کی لازوال دولت اور اسرارِ ازل کے بے مثال خزانوں سے مالامال ہو جاؤ گے)۔

۱۲۔ جس طرح جسمانی ڈاکٹر پرہیز، پھر علاج پر زور دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے ہیں کہ: “دیکھو کسی بھی چھوٹی سی بیماری کو نظر انداز کر کے نہ بیٹھنا، بلکہ فوراً ہی اس کے علاج کے لئے رجوع کرنا، کیونکہ بسا اوقات تھوڑی سی طبیعت کی خرابی ایک بڑی بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔” اسی طرح قرآنِ مجید نے بزبانِ رمز و اشارہ کہہ دیا کہ: ظاہری مرض کے برعکس باطنی بیماری جلد آسکتی ہے، اس لئے دائم الذکر ہو جاؤ، اور طمانیتِ قلبی پر ہر وقت نظر رکھو، کیونکہ یہی کسوٹی تمہاری باطنی صحت کے لئے مقرر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم ذرا غافل

 

۲۶

 

ہو جاؤ، اور شیطان موقع پا کر اپنی پسند کے جراثیم تمہارے دل میں پھیلائے، پھر اس وقت مشکل ہو جائے گی، کیونکہ یہ جراثیم بڑی جلدی سے کسی شدید روگ کو جنم دے سکتے ہیں، اس لئے بار بار دیکھتے رہا کرو کہ ذکرِ خدا سے دل کو ٹھیک ٹھیک سکون ملتا ہے یا نہیں؟ اگر یادِ الٰہی جیسی سب سے بڑی نعمت سے لذّت و شادمانی اور تسکین نہیں ملتی ہے، تو پھر سمجھ لو کہ یہ تمہاری علالت کی نشانی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۳ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱۵ ستمبر ۱۹۸۸ء

۲۷

قرآن اور تعبیرِ خواب
قسط : ۱

۱۔ الحمد للہ کہ روحانی علاج کے اس پسندیدہ موضوع کا تعلق براہِ راست اور بالواسطہ قرآنِ حکیم ہی سے ہے، جس میں بیرون از شمار رحمتیں اور برکتیں عیان بھی ہیں اور پنہان بھی، چنانچہ آج بھی ہمیشہ کی طرح میرا جی چاہتا ہے کہ بیحد عاجزی اور گریہ و زاری سے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے اللہ پر توکل کروں، کیونکہ نہایت مہربان و معین وہی ہے۔

۲۔ میرا ایمان کہتا ہے کہ قرآنِ پاک کو بہت بڑا معجزہ ماننا مختصر بات ہے، جبکہ یہ بے مثال آسمانی کتاب دراصل “عالمِ معجزاتِ عقلی” ہے، کیونکہ اس میں جو علومِ مخفی کے خزائن اور خزانوں میں جیسے جواہر وغیرہ ہیں، وہ بڑے عجیب و غریب اور انتہائی محیر العقول قسم کی انمول چیزیں ہیں، پس انہی گنج ہائے اسرار میں تعبیرِ خواب کے بھید بھی ہیں، اور یہ بندۂ ناچیز شاید اپنی چھوٹی سی

 

۲۸

 

عقل اور محدود معلومات کی وجہ سے ایسی کئی چیزوں کو قرآنی انکشافات تصوّر کر رہا ہے، تاہم یہ بات کس حد تک صحیح ہے، اس کی تحقیق (ریسرچ) کی جائے گی۔

۳۔ اگر کوئی شخص یہ پوچھے کہ قرآنِ مقدّس جب خواب نامہ نہیں، تو پھر کس طرح کوئی مومن اس سے علمِ تعبیر کا کام لے سکتا ہے؟ جواب: یہ بات اہلِ دانش کے نزدیک محقق ہے کہ قرآنِ حکیم علومِ ضروریہ کا سرچشمہ ہے، اور میں عرض کرتا ہوں کہ علمِ تعبیر بھی ایک ضروری علم ہے، اس لئے اس کو قرآن میں موجود ہونا چاہئے، اور یہ موجود ہے، اب آپ غور سے اس حقیقت کی مثالوں کو دیکھیں:

۴۔ خواب میں اپنے آپ کو عمدہ اور صاف لباس زیبِ تن کئے ہوئے دیکھنا، پرہیزگاری کا نتیجہ ہے، کیونکہ قرآن میں تقویٰ کے ساتھ لباس کا ذکر ہے (۰۷: ۲۶) اور میاں بیوی تقویٰ کے معنی میں ایک دوسرے کے لباس ہیں (۰۲: ۱۸۷) اس کے برعکس اگر کوئی آدمی خواب میں خود کو بے لباس ، یا پھٹے پرانے کپڑوں میں، یا جامۂ غلیظ میں پاتا ہو، تو یہ حالت عدمِ پرہیزگاری پر تنبیہہ کرتی ہے (۰۷: ۲۷) کسی تکلیف، بیماری، اور مصیبت کے دوران کوئی بھی مسرت انگیز خواب دیکھنا، اس امر کی بشارت ہے کہ وہ صابرین میں شمار ہو رہا ہے (۰۲: ۱۵۵)۔

۵۔ خواب میں پانی علم ہے، اگر آسمان سے برس رہا ہے،

 

۲۹

 

تو یہ علمِ لدنّی ہے (۲۵: ۴۸) اگر صاف چشمہ ہے تو بھی ایسا ہے، اگر نہر میں صاف پانی بہہ رہا ہو، تو یہ روایتی علم ہے، جو آمیزش سے پاک ہے، اگر پانی آلودہ ہے، تو یہ اشارہ سمجھ لینا کہ کوئی غیر خالص علم سے واسطہ پڑا تھا، اگر آپ نے ایک بہت بڑے سمندر کو خواب میں دیکھا ہے، جس پر ایک تخت تھا، اور اس پر ایک نور (۱۱: ۰۷) تو یہ سب سے بڑی بشارت ہے، مبارک ہو! سمندر علمِ الٰہی ہے، اور باقی تعبیر خود قرآنِ مجید میں دیکھ لیں، اور اگر آپ نے تخت کے بغیر ایسے سمندر کو دیکھا ہے، تو خوشخبری ہے کہ یہ قرآنِ عظیم اور خدائی علم ہے۔

۶۔ خواب میں آسمان اور اس کی چیزوں کو دیکھنا روحانی عروج و ارتقاء کی دلیل ہے، یعنی خود آسمانِ صاف یا ابر آلود، سورج، چاند، ستارے وغیرہ (۰۶: ۷۵) یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جنّت، روحانیّت، قرآن، اور نورانی خواب سنتِ الٰہی کے مطابق ایک ہی طرح سے کام کر رہے ہیں، اسی بناء پر آیاتِ قرآن سے خواب کی تعبیر ہو سکتی ہے۔

۷۔ خواب میں پہاڑ دیکھنا عظمتِ روح کی مثال ہے، پہاڑ پر چڑھ جانا روحانی ترقی کا اشارہ ہے، پہاڑ سے اترنا تنزل ہے، قیمتی پتھروں (جواہر) کو جمع کرنا علمی کامیابی ہے، کیونکہ جواہرات اور زیورات کی تعبیر روحانیّت اور علم و حکمت ہے، جبکہ حقیقی زینت اسی سے ہوتی ہے۔

۸۔ خواب میں باغ و بوستان دیکھنا، یا ہرا بھرا کھیت دیکھنا روحانی آبادی کی بشارت ہے (۲۷: ۶۰، ۴۸: ۲۹) طرح طرح کے پھلوں کو

 

۳۰

 

دیکھنا بہشت کی خوشخبری ہے (۴۷: ۱۵) خواب میں پرواز کرنا جنت میں فرشتہ بن جانے کی نشانی ہے (۳۵: ۰۱) کتاب دیکھنا نامۂ اعمال مل جانے کی مثال ہے، خواب میں اپنی موت کا منظر دیکھنا، جسمانی موت سے قبل نفسانی موت ضروری ہونے کی دلیل ہے (۰۲: ۹۴) اور اپنے آپ کو مریض دیکھنا، کسی باطنی بیماری کی طرف اشارہ ہے (۱۰: ۵۷)۔

۹۔ آپ نے خواب میں جس شخص کو دیکھا تھا، اس کا کیا نام ہے؟ کیونکہ ایسے آدمی کے اسم کی بھی تعبیر ہوا کرتی ہے، یعنی اگر نام نصر اللہ ہے، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ملے گی، اگر فتح یا فیروز نام ہے، تو کشائش ہوگی، اور اگر اسم رحمت ہے تو مہربانی ہوگی، قس علیٰ ہٰذا (اسی پر قیاس کر لو) اور یہ بات بڑی اہمیت والی ہے، کیونکہ ناموں کے معانی علمِ اسماء میں سے ہیں (۰۲: ۳۱) نیز آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ وہ شخص کس طرف سے آپ کے پاس آیا؟ آگے سے؟ داہنی طرف سے؟ بائیں طرف سے؟ یا پیچھے سے؟ کیونکہ اس میں بھی تعبیر ہے (۵۶: ۰۸ تا ۰۹، ۶۹: ۱۹، ۶۹: ۲۵، ۸۴: ۱۰) اور اگر آپ کو طرف یاد نہیں، تو کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ آدمی نیک مومن ہے؟ تاکہ ہم اس کو فرشتہ تصوّر کریں؟ اس لئے کہ فرشتہ خواب و روحانیّت میں بصورتِ آدمی نظر آتا ہے۔

۱۰۔ اگر کسی شخص نے ایسا خواب دیکھا کہ وہ کراہت اور گھن کے ساتھ کوئی کچا گوشت کھا رہا تھا، تو یہ اس نافرمانی اور بیماری کا ناخوشگوار نتیجہ ہے کہ اس نے اپنے مومن بھائی کی غیبت کی تھی (۴۹: ۱۲)۔

۳۱

۱۱۔ خواب میں نماز پڑھنا، عبادت کرنا، آیت پڑھنا، ذکر کرنا، روحانی پیشرفت کی علامت ہے (۰۳: ۱۹۱) خواب میں شعائر اللہ (خدا کی نشانیاں) دیکھنا، یعنی وہ چیزیں جو اللہ کی عظمت کے لئے نشان قرار دی گئی ہیں، جیسے قرآن، خانۂ کعبہ، مسجد، وغیرہ، یہ قلبی تقویٰ کا اشارہ ہے (۲۲: ۳۲)۔

۱۲۔ حدیثِ شریف میں ہے کہ جس نے خدا کو خواب میں دیکھا، وہ جنت میں داخل ہوگیا، اور آنحضرت نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے مجھ کو دیکھا تو اس نے گویا خدا کو دیکھا، یہ فرمانِ نبوّی بیداری اور خواب دونوں کے بارے میں ہے، اور اس سے دیدار کی نمائندگی لازم ہو جاتی ہے، تاکہ حقیقت صرف خواب ہی کی حد تک محدود ہو کر نہ رہ جائے، پس دینِ فطرت کا اصل تقاضا یہی ہے کہ خلیفۂ رسولؐ ہر وقت دنیا میں موجود ہو ، تاکہ بحکمِ “فادخلی فی عبادی” (میرے بندگانِ خاص میں داخل ہو جا) فنا فی الخلیفہ، فنا فی الرّسول، اور فنا فی اللہ کا عمل ہمیشہ جاری و ساری رہے۔

۱۳۔ خواب میں ، یا روحانیّت میں حربی نشان (بندوق وغیرہ) کے ساتھ کسی فرشتے کو دیکھنا، یا کسی لشکر کو دیکھنا، یا گھوڑے پر سوار ہو جانا روحانی جہاد کو ظاہر کرتا ہے (۰۳: ۱۲۵،۱۰۰: ۰۱ تا ۰۵) اور براہِ راست جنگ کا منظر دیکھنا خود جہاد ہی ہے۔

۱۴۔ خواب میں زلزلہ آئے، زمین پھٹ جائے (۲۲: ۰۱، ۵۰: ۴۴) یا

 

۳۲

 

بانسری، شہنائی، اور نرسنگا جیسی آواز سنائی دے (۲۳: ۱۰۱) تو یہ قیامت کی علامتیں ہوں گی (۰۶: ۷۳، ۳۶: ۵۱) اگر کسی مومن پر روحانیّت کا زلزلہ طاری ہو جاتا ہے، تو اس کی تطہیر ہو گی (۳۳: ۱۱، ۹۹: ۰۱)۔

۱۵۔ خواب میں عمدہ مکان، بنگلہ، یا کوٹھی دیکھنا، روحانی تعمیر و ترقی کی بشارت ہے، اور اس کے برعکس ویرانوں اور کھنڈروں کو دیکھنا روح کی پس ماندگی کا اشارہ ہے (۶۶: ۱۱، ۰۲: ۲۵۹)۔

۱۶۔ سورۂ انفال (۰۸: ۲۹) میں فرمایا گیا ہے: اے ایمان والو اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو وہ تمہارے واسطے ایک کسوٹی (فرقان) مقرر کردے گا، اس ہدایتِ سماوی میں دیگر وسائل کے علاوہ خواب کی طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے کہ تمہارا خواب ایک خدائی اور معجزانہ معیار کی حیثیت سے کام کرے گا تاکہ اس سے تم کو اپنے اعمالِ نیک و بد کے نتائج سے آگہی ہوتی رہے، جس کی روشنی میں تم اپنی روح کو سنوار سکو۔

۱۷۔ سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ارشاد ہوا ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تمہاری ذات میں بھی ہیں، تو کیا تم کو دکھلائی نہیں دیتا (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اس میں بزبانِ حکمت یہ فرمایا جاتا ہے کہ سیّارۂ زمین پر جیسی اور جتنی کثیف اشیاء ہیں، ایسی اور اتنی لطیف چیزیں تمہارے عالمِ شخصی میں بھی ہیں، یعنی خواب و روحانیّت کی طرف پُرزور توجہ دلا کر کہا جاتا ہے کہ دیکھو تمہاری ذات میں سب کچھ موجود ہے، اور اگر زمین پر کوئی خلیفۂ رسول

 

۳۳

 

ہے، تو اس کا بھی عکسِ لطیف یہاں ہونا چاہئے کیونکہ وہ قدرتِ خدا کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔

۱۸۔ آپ کو ہر بار یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ خواب کا مجموعی تاثر کیسا ہے؟ اچھا ہے؟ یا برا؟ یا درمیانی؟ تاکہ آپ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے خود کو نہ صرف باطنی بیماریوں ہی سے محفوظ رکھ سکیں گے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی پیاری روح کو خاطر خواہ ترقی دینے کے قابل بھی ہو جائیں گے، لیکن یہ عظیم کارنامہ اس وقت ممکن ہوگا، جبکہ آپ اپنے خوابوں کو بہت بڑی اہمیت دیتے ہوئے ان کے اشاروں کو سمجھ لیں، اور ہر اشارہ جس بات کا متقاضی ہو، اس کے مطابق کام کریں، ان شاء اللہ العزیز۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۵ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱۷ ستمبر ۱۹۸۸ء

۳۴

قرآن اور تعبیرِخواب
قسط: ۲

۱۔ خالقِ اکبر نے انسان کے لئے چار عالم پیدا کر دیئے ہیں، وہ یہ ہیں: عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، اور عالمِ روحانیّت، جو آگے چل کر عالمِ آخرت کہلاتا ہے، ان سب کی فلاح و صلاح، اور ترقی و کامیابی کا انحصار حالتِ بیداری پر ہے، کیونکہ اسی کا ردِ عمل ہمیشہ خیال میں گھومتا رہتا ہے، اسی کے نتائجِ اعمال ہر خواب میں سامنے آتے رہتے ہیں، اور بالآخر اسی کے اقوال و افعال کی سزا و جزا آخرت میں مل جاتی ہے، پس ہر فردِ مسلم کے لئے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ وہ خدا و رسول کی اطاعت شایانِ شان طریقے سے کرے، تاکہ اللہ تعالیٰ کے وہ عظیم الشّان وعدے جو اہلِ ایمان کے دین و دنیا کے بارے میں ہیں، اس کے حق میں پورے ہو جائیں۔

۲۔ آئینۂ ظاہر آدمی کی شکل و صورت کی عکاسی تو ضرور کرتا ہے، لیکن وہ چہرۂ جان و دل کو کیسے دکھا سکتا تھا، یہی تو سبب ہے کہ

 

۳۵

 

اس ضروری کام کے لئے قادرِ مطلق نے ایک جداگانہ اور معجزانہ آئینہ بنا کر دیا، اور وہ خواب ہے، تاکہ ہر ہوشمند انسان اس آئینے میں اپنے قول و فعل کی خوبی و زِشتی کو اس طرح تفصیل سے دیکھ سکے، جس طرح کہ وہ کل قیامت کے دن نامۂ اعمال کو دیکھے گا، لیکن ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ کتابِ خواب میں بار بار اصلاح و درستی ہو سکتی ہے، مگر کتابِ اعمال مل جانے کے بعد اس میں کوئی ترمیم ممکن نہیں۔

۳۔ خواب و روحانیّت میں آسمانی چیزوں کو دیکھنے کی جو بشارت ہے، وہ سات درجوں میں پائی جاتی ہے، وہ درجاتِ رفیع نیچے سے اوپر کی طرف اس ترتیب سے ہیں: اوّل آسمان ابر آلود، دوم آسمان بارش برساتا ہوا، سوم آسمان صاف شفاف اور اس میں کچھ نہ ہو، چہارم آسمان ستاروں سے بھرا ہوا، پنجم آسمان ماہِ تابان کے ساتھ، ششم آسمان خورشیدِ انور کے ساتھ اور ہفتم وہ مرتبہ جو مشرق بھی ہے اور مغرب بھی، جس کو تمام انبیاء و اولیاء نے دیکھ لیا ہے۔

۴۔ آدمی کے خوابوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی اصلاح کرتا رہے، اگر کوئی بشارت ملی ہے، تو اس نعمت پر بڑی عاجزی سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر کرے، اور اگر کسی قسم کی تنبیہہ کی گئی ہے، تو پھر توبہ اور کثرتِ ذکر کا طریقہ اختیار کرے، تا کہ خداوندِ عالم اس کے حال پر رحم فرمائے۔

۵۔ اس موضوع کے سلسلے میں ایک بڑا اہم اور بنیادی قانون یہ

 

۳۶

ہے کہ تمام انبیاء علیہم السّلام اپنے اپنے وقت کے لوگوں کو خوشخبری دینے اور ڈرانے کی غرض سے بھیجے گئے تھے (مبشرین و منذرین، ۰۲: ۲۱۳) اور یہ کام چار طریقوں سے انجام پاتا ہے: کتبِ سماوی سے، پیغمبروں کی زبانِ مبارک سے، ان حضرات کے خلفاء سے، اور خواب کے توسط سے، پس یہ خوب سوچنے کا مقام ہے کہ جب کسی مسلمان کو خواب میں ایک بشارت ملتی ہے، تو اس کا پس منظر کیا ہو سکتا ہے؟ یعنی اس بشارت کے اصل بشیر کون ہیں؟ میرا یقین ہے کہ یہ وہی ذاتِ عالی صفات ہے، جس کو رحمتِ عالم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نورانی خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے، لہٰذا اس کی ترقی بے حد ضروری ہے، جو علم و عمل سے ہو سکتی ہے۔

۶۔ سورۂ نباء (۷۸: ۰۹) میں ارشاد ہے: وَّ جَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (۷۸: ۰۹) اور ہم نے تمہاری نیند کو آرام (کا باعث) قرار دیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ نیند کی تو بہت سی قسمیں ہیں، ان میں سے کونسی نیند ایسی ہو سکتی ہے، جو خدائے علیم و حکیم کی تعریف و توصیف کے اس معیار کے مطابق ہو؟ اس کا جواب تین باتوں پر مشتمل ہے: یہ اصل نیند ہے جو بگڑی ہوئی نہیں، یہ اصلاح و ترقی یافتہ نیند ہے، اور روحانیّت ہے، جو نیند کی طرح ہوا کرتی ہے۔

۷۔ انبیاء علیہم السّلام کی آنکھیں سو جاتی ہیں، مگر ان کے قلوب نہیں

 

۳۷

 

سوتے، اگر ایسا ہے تو پھر لازمی طور پر ان حضرات کی مبارک پیشانی میں نورِ ذکر خود بخود بولتا رہتا ہوگا، اب آپ کو یہ سوچنا پڑے گا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے جس خواب کی بناء پر اپنے فرزندِ عزیز کو ذبح کرنا چاہا، وہ خواب کس نوعیت کا ہو گا (۳۷: ۱۰۲)؟ آیا وہ ایسا خواب تھا، جو روحانیّت کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتا ہے؟ کیونکہ جب مکمل اور بھرپور روحانیّت آ جاتی ہے تو وہ صرف خواب ہی پر نہیں، بلکہ بیداری اور خیال پر بھی محیط و حاوی ہو جاتی ہے۔

۸۔ نیند نہ تو مختلف جانوروں میں ایک جیسی ہے، نہ سب انسانوں میں، کیونکہ پیشہ یا عمر کی وجہ سے، اور عبادت و ریاضت کے سبب سے اس میں بڑا فرق پایا جاتا ہے، چنانچہ خدا کے دوستوں کو اس بات کا بخوبی تجربہ حاصل ہو جاتا ہے کہ ایک منزل میں جا کر نیند اور روحانیّت ایک ہو جاتی ہے، اور اسی دوران وہ نیک بخت لوگ اپنی نفسانی موت اور اس کے عجیب و غریب بھیدوں کو دیکھتے ہیں، پس منام (نیند، ۳۹: ۴۲) عوام کی حالتِ خواب ہے اور خواص کی روحانیّت، جس میں دونوں گروہ کی روح قبض کی جاتی ہے (۳۹: ۴۲)۔

۹۔ ملکوت آسمان میں بھی ہے اور زمین پر بھی (۰۶: ۷۵) اگر مومن کا خواب نورانی ہے، تو وہ اس میں ملکوتِ سماوی و ارضی کی چیزوں کو دیکھ سکتا ہے، اور یہ مشاہدہ دیدۂ دل سے عالمِ شخصی میں ہوگا، اس حال میں تمام چیزیں آیات کہلائیں گی (۴۱: ۵۳) اور ہر آیت کے معنی میں

 

۳۸

 

علم ہوگا اور حکمت ہوگی، کیونکہ آیت معجزہ ہے۔

۱۰۔ جب نورانی خواب اجزائے نبوّت میں سے ہے، اور اس کی ہر چیز ایک آیۂ قدرت (نشانی) ہے، تو اس کی کئی تعبیریں ہو سکتی ہیں، در حالے کہ اس کی فوری اور عمومی تعبیر اپنی جگہ پر صحیح ہوگی، تاکہ اس پہلودار قانون کی بدولت ہر درجہ اور ہر پیشہ کے لوگوں کو ان کے احوال کے مطابق خواب کا اشارہ ہو سکے، یہی تو سبب ہے کہ ہر آدمی کو اس کے روزمرہ ماحول کے مطابق خواب دکھائے جاتے ہیں۔

۱۱۔ ان چند صفحات پر عالمِ خواب کی ہر چیز کی تعبیر ممکن ہی نہیں، لیکن یہاں مقصد صرف اتنا ہے کہ قرآنی تعبیرِ خواب کے ثبوت میں کچھ دلیلیں اور مثالیں پیش کی جائیں، تاکہ لوگ اس علمِ شریف سے (جو قرآن میں ہے ) فائدہ حاصل کریں، اور اسی معیار پر اپنی صحت و بیماری کو پرکھ سکیں۔

۱۲۔ سورۂ نحل (۱۶: ۰۵ تا ۰۸) میں دیکھ لیں کہ وہاں چوپایوں کی ایک بنیادی تعبیر کا اشارہ موجود ہے، وہ یہ ہے کہ بھیڑ، بکری، گائے وغیرہ کو اپنی جگہ ٹھیک ٹھاک خواب میں دیکھنا فائدے کی علامت ہے، جو روحانی طور پر بھی ہو سکتا ہے، اور مادّی طور پر بھی، اور غیر مفید اشارہ وہ ہے، جس میں چوپائے تتر بتر اور ضائع ہو جاتے ہیں، اور اگر گھوڑا وغیرہ خواب میں آتا ہے تو یہ ایک طرف روحانی جہاد و سفر کی دلیل ہے، اور دوسری طرف جسمانی سفر کی۔

۳۹

۱۳۔ خواب میں کتا جیسے درندے کا حملہ کرنا اچھی بات نہیں (۰۷: ۱۷۶) ایسے خوابوں کے متعلق بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ کسی بیرونی دشمن کی مثال ہے، حالانکہ بہت ممکن ہے کہ یہ آدمی کا اندرونی کتا (خوئے مردم آزاری) ہو، کیونکہ عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے، چنانچہ ذیل میں ایک مثالی نقشہ درج ہے، جس کے ذریعہ آپ یہ معلوم کر سکیں گے کہ خواب و روحانیّت میں کونسا جانور کس خصلت کو ظاہر کر رہا ہے، تاکہ آپ کو علمِ تعبیر کے ان خاص اصولوں سے آگہی ہونے کی وجہ سے اصلاحِ نفس کا عمل آسان تر اور تیز تر ہو سکے:

نقشۂ مظاہر:

مظہر غالب خصلت
گائے نفسِ خورندہ، پرخوری ۱
خرگوش خوابِ غفلت، نیند کی کثرت ۲
اونٹ، ریچھ، سانپ دشمنی، کینہ ۳
طاؤس (مور) فخر و ناز ۴
ہاتھی تکبر، خودبینی ۵
لومڑی مکر و فریب ۶
کتا، شیر، وغیرہ غیض و غضب، مردم آزاری ۷
کوا، وغیرہ حرام خوری ۸

 

۴۰

 

 

گدھا، مرغا، وغیرہ شہوت پرستی ۹
سور، بطخ، چیونٹی حرص، طمع ۱۰
بھیڑیا کج روی، بے راہی ۱۱
بندر، طوطا نقالی، بھانڈپن ۱۲
ہدہد جاسوسی ۱۳
بلی چاپلوسی، خوش آمدی ۱۴
چوہا چوری ۱۵

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۷ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱۹ ستمبر ۱۹۸۸ء

۴۱

قرآن فہمی سے علاج

۱۔ جس شخص کو وسوسۂ شیطانی ستاتا ہے، جو آدمی خود کو ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے، جس بندے کو آفاتِ سماوی و ارضی کا اندیشہ ہو، جو انسان دل ہی دل میں دشمنوں اور مخالفوں سے ڈرتا ہو، جو کوئی کسی بیماری سے نالان ہو، جس کو گوناگون برکتوں کی ضرورت ہو، جس کو آسمانی ہدایت کی روشنیوں سے عشق ہو، اور جو مومن خدائی علم و عرفان کا شیدائی ہے، وہ سب کے سب عقیدۂ راسخ، پاک دلی، اور امیدِ واثق کے ساتھ قلعۂ قرآن میں داخل ہو جائیں، اور شب و روز اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہیں، یہ دعوت بزبانِ حکمت خود قرآن ہی کی ہے۔

 

۲۔ قانونِ فطرت کی اس روشن مثال کو سبھی جانتے ہیں کہ دنیوی تعلیم کی بہت سی سطحیں ہوا کرتی ہیں، یعنی اس کے بہت سے درجے ہوتے ہیں، اور ہوشمند لوگ عمرِ گرانمایہ کے ایک بڑے حصّے کو حصولِ علم میں اور باقی ماندہ زندگی کو تجربات و معلومات میں صرف کرتے

 

۴۲

 

ہیں، پھر بھی وہ بحقیقت یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ انہوں نے دریائے علم کو اپنے کوزۂ دل میں انڈیل لیا، یہ تو صرف دنیاوی علم کی بات ہوگئی اب اسی مثال کی مدد سے قرآنی علم کے بحرِ بے پایان کا تصوّر کریں، جس کے ساحل سے بے شمار لوگ قطار در قطار اپنی اپنی ظرفیت کے مطابق آبِ علم لے رہے ہیں، مگر سوال ہے کہ ہم لوگوں کے پاس کیا کیا ظروف ہیں؟ جواب: مشک، مشکیزہ، بالٹی، پخال، چھاگل، دیگچہ، مٹکا، کوزہ، جگ، گلاس وغیرہ، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آیا یہ کہا جائے گا کہ لوگوں نے سارا سمندر پی لیا؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔

۳۔ سورۂ کہف (۱۸: ۱۰۹) میں دیکھ لیجئے: (اے رسول ان لوگوں سے) کہو کہ اگر میرے پروردگار کی باتوں (کو لکھنے) کے واسطے سمندر بھی روشنائی بن جائے تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں ختم ہوں سمندر ہی ختم ہو جائے گا اگرچہ ہم ویسا ہی (ایک اور سمندر) اس کی مدد کو لائیں۔ یہ علمِ الٰہی کی تعریف ہے، جو قرآنِ پاک کی روح و روحانیّت اور کلماتِ تامّات میں ہے، کیونکہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) جس سے کوئی علم باہر نہیں (۳۶: ۱۲) جب خدائی علم کے سمندر کی عظمت و بزرگی اور وسعت کا یہ عالم ہے کہ فرشتہ، جنّ، اور بشر سب کے سب مل کر بھی اس کا احاطہ نہیں کر سکتے، تو پھر ہم بدرجۂ انتہا خلوص و عاجزی کے ساتھ قرآنِ عزیز سے پوچھتے ہیں کہ اس سمندر کی غرقابی سے بچکر منزلِ قرب و فنا سے ہمکنار ہو جانے کا طریقہ کونسا ہے؟ وہ ازراہِ

 

۴۳

 

عنایت و ہدایت فرماتا ہے: اور اسی کی ہیں اونچی کی ہوئی کشتیاں جو پہاڑوں کی طرح سمندر میں کھڑی رہتی ہیں (۵۵: ۲۴) پس یہاں سمندر سے علمِ الٰہی مراد ہے، اور عالی مرتبت کشتیاں انبیاء و صدیقین (اولیاء، ۰۴: ۶۹) ہیں، جو بحرِ روحانیّت کی کشتی بھی ہیں اور کشتیبان بھی۔

۴۔ یہ پُرحکمت ارشاد بھی مذکورۂ بالا زندہ کشتیوں کے بارے میں ہے: جتنے ان کشتیوں میں ہیں وہ فنا (فی اللہ) ہو جاتے ہیں اور صرف تمہارے پروردگار کی وجہ جو عظمت اور کرامت والی ہے باقی رہتی ہے (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) اس صوفیانہ فنا سے متعلق حقائق و معارف کو جاننے کی ضرورت ہے، تاکہ کامل یقین ہو کہ وہ فنا حق ہے، اور وہ یہی ہے۔

۵۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) میں بھی ان عالیقدر کشتیوں کا حکمت آگین اشارہ موجود ہے، اور وہ ارشاد یہ ہے: اور ہم نے یقیناً آدم کی اولاد کو عزت دی اور خشکی اور سمندر میں ان کو (جانوروں اور کشتیوں کے ذریعے) لئے گئے اور انہیں پاکیزہ چیزیں کھانے کو دیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر اچھی خاصی فضیلت دی (۱۷: ۷۰) اگرچہ بظاہر اولادِ آدم سارے انسان ہیں، لیکن بحقیقت حضرتِ آدم علیہ السّلام کا دینی اور علمی ورثہ صرف ان حضرات کو نصیب ہوا، جن کو قرآنِ حکیم نے منعم علیہم (۰۴: ۶۹) کے خطاب سے ممتاز فرمایا ہے، پس یہی صاحبان حضرتِ آدم کی معنوی اولاد ہیں، خشکی سے علمِ ظاہر مراد ہے، سمندر علمِ باطن ہے، کشتیاں انبیاء و اولیاء ہیں، پاکیزہ چیزوں سے علم و

 

۴۴

 

حکمت مراد ہے، اور مخلوقات دوسرے لوگ ہیں، جن کو حضرتِ آدم علیہ السّلام کی یہ مقدّس وراثت نہیں ملی، کیونکہ اسلام سے باہر کوئی دینی کرامت و فضیلت نہیں۔

۶۔ قرآنِ حکیم کا یہ پُرحکمت اشارہ کتنا عالیشان، کیسا دلنشین و دلنواز،اور کس قدر نوازشات سے بھرپور ہے، کہ اس میں بحرِ روحانیّت کی راہ سے منزلِ قرب و فنا میں پہنچا دینے کی بشارت دی گئی ہے، پس اہلِ ایمان پر واجب ہے کہ وہ آیاتِ قرآن میں خوب تفکر و تدبر کریں۔

۷۔ سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۱۴) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا جاتا ہے: و قل ربّ زدنی علماً ۔ اور آپ یہ دعا کیا کیجئے کہ اے میرے ربّ میرا علم بڑھا دے (۲۰: ۱۱۴) اس حکمِ عالی سے ظاہر ہے کہ حضورِ انور ہر وقت یہ دعا کرتے رہے، اور اسی طرح آپ کے علم میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہا، تا آنکہ فرشِ زمین سے لے کر عرشِ برین تک روحانی علم کی سیڑھی لگ گئی، اور اس مبارک دعا میں مومنین کے لئے یہ تاکیدی اشارہ ہے کہ وہ قرآن فہمی کے سلسلے میں علم کے بے حد محتاج ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ یہی دعا کرتے رہیں۔

۸۔ قرآنِ حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک ایسی باکمال اور بے مثال کتاب ہے، کہ اس کی گہرائیوں کے علومِ مخفی برکتوں اور حکمتوں کے نام سے حاصل ہو جاتے ہیں، اور اس لطیف و شیرین تحصیل کا گہرا

 

۴۵

 

تعلق غور و فکر سے ہے، چنانچہ اس امرِ خاص و ضروری کی طرف قرآنِ پاک میں جابجا پُرزور توجہ دلائی گئی ہے، جس کی ایک مثال سورۂ صٓ (۳۸: ۲۹) سے یہ ہے (ترجمہ): یہ ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تاکہ اہلِ دانش نصیحت حاصل کریں (۳۸: ۲۹) دوسری مثال سورۂ محمد (۴۷: ۲۴) سے لیجئے: تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگ رہے ہیں (۴۷: ۲۴) ان دونوں مثالوں سے کسی شک کے بغیر یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ قرآن فہمی کے لئے عقل و دانش اور غور و فکر ازبس ضروری ہے۔

۹۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۲۰۴) میں ارشاد ہوا ہے: (لوگو) جب قرآن پڑھا جائے تو کان لگا کر سنو اور چپ چاپ رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے (۰۷: ۲۰۴) رحم کرم کو کہتے ہیں، یہ مہربانی کا نام ہے، یہی دیا، بخشش، اور عفو بھی ہے، کیوں نہ ہو، جبکہ رحم کی صفتِ عالیہ رحمان و رحیم ہی کی ہے، یقیناًسامعینِ قرآن کے جملہ احوال پر رحم کیا جائے گا، خواہ کوئی بیماری کی حالت میں ہو، یا کسی اور تکلیف میں، بہرکیف خداوندِ مہربان اس پر نظرِ رحمت ڈالے گا۔

۱۰۔ خدائے بزرگ و برتر کا ایک نام شافئ مطلق ہے، کیونکہ شفا اور صحت حقیقی معنوں میں اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے، اور وہی شفا و صحت اور تسکین دیتا ہے، جیسا کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے

 

۴۶

 

بارے میں ارشاد ہوا ہے: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ (۲۶: ۸۰) اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھ کو شفا دیتا ہے (۲۶: ۸۰) یہ بیماری جسمانی، روحانی، اور عقلانی میں سے کوئی بھی ہوسکتی ہے، پس آپ قرآنِ مجید کو ہر قسم کی بیماری سے شفایابی کی نیت سے پڑھا کریں، اور اس کے صحیح معنوں کو سمجھنے کے لئے غور و فکر سے کام لیں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی، کیونکہ قرآنِ عزیز شافئ مطلق کا شفا بخش کلام ہے، جس میں ہر قسم کے امراض کے لئے نسخہ ہائے لاہوتی موجود ہیں۔

۱۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکمت سے مملو ارشاد ہے : فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ (۰۲: ۱۵۲) پس تم میری یاد کرو تو میں (بھی) تمہاری یاد کروں گا (۰۲: ۱۵۲) یہ ایمان افروز اور روح پرورخطاب مسلمین سے فرمایا گیا ہے، اور اب یہ بھی دیکھ لیں کہ منافقین کے بارے میں کیا ارشاد ہوا ہے: نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْؕ (۰۹: ۶۷) وہ لوگ خدا کو بھول گئے تو خدا بھی (گویا) ان کو بھول گیا (۰۹: ۶۷) تاہم یہاں یہ بہت ہی ضروری سوال ہے کہ خدائے پاک و برتر کس طرح اپنے بندوں کو یاد فرماتا ہے؟ اور وہ جلّ شانہ کیسے کسی منافق کو بھول جاتا ہے؟ یہ بات بڑی حیرت انگیز ہے! اس کا جواب یہ ہے کہ جب بندۂ مومن بصد عاجزی و خاکساری مٹ مٹ کر اللہ کو یاد کرتا ہے، تو ایسے میں اس کو خداوندِ عالم نظرِ رحمت سے دیکھتا ہے، رحمت اگرچہ ایک لفظ ہے، لیکن اس کی نورانی معنویت کا پھیلاؤ اور دوسرے معنوں سے لگاؤ (تعلق) ایک کائنات ہے، لہٰذا نظرِ رحمت

 

۴۷

 

کی بہت ہی مختصر تعریف ذیل کی طرح ہے:

۱۲۔ رحمت سب سے پہلے “اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ” (۰۱: ۰۴) سے شروع ہو جاتی ہے، اس لئے یہ لذّتِ بندگی اور نورِ تائید ہے، پھر یہ حلاوت اور روشنی کچھ آگے چل کر ایک ذاتی کائنات (عالمِ شخصی) بن جاتی ہے، جس میں بے شمار نعمتیں ہوا کرتی ہیں، اور اس کی سب سے بڑی نعمت ہے اللہ اور اس کے رسول کا پاک عشق، مگر اس پُرحکمت عشق کو یہ بات ہرگز پسند نہیں کہ آپ کو مجنون بنا ڈالے، اور آپ معاشرے سے منقطع ہوکر راہِ بیابان اختیار کریں، اور دوسری لاتعداد نعمتیں ہیں، جن کی ایک سردار نعمت کا نام علم ہے، جس طرح ظاہری علم کی بدولت آج سائنسی چیزوں کی دنیا لوگوں کے سامنے لائی گئی ہے، اسی طرح خدائی علم کی برکتوں سے آپ کی ذات میں ایک پُرنور ذاتی دنیا کے ہونے میں کیا تعجب ہو سکتا ہے، اگر آپ کو اس بات پر یقین ہے، تو پھر سن لیجئے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کو یاد کرنا درجہ بدرجہ ہے، جس کی ایک مثال یہاں درج ہوئی، اب رہا سوال منافق کے بارے میں کہ اس کو کس معنیٰ میں خدا یاد نہیں فرماتا؟ تو اس کے متعلق صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ اس پر نظرِ رحمت نہیں ہوتی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۱۱ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۲۲ ستمبر ۱۹۸۸ء

۴۸

مختلف حکمتیں

۱۔ سوال: انسان کے دل میں ناخواستہ اور بے اختیار باتیں کیوں آتی ہیں؟ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ جواب: دل زندگی اور حواس کا سرچشمہ ہے، اس لئے حیات و بقا اور شعور کی نہر جاری رہنے کے لئے اس میں کچھ ہونا ضروری ہے، چنانچہ دل جب آدمی کے باضابطہ استعمال کے بغیر ہوتا ہے، تو اس وقت موجودہ حالت و کیفیت کے مطابق اس میں تقویٰ یا فجور کی کوئی بات ڈالی جاتی ہے (۹۱: ۰۸) اسی لئے کہتے ہیں کہ دل میں جو بات گزرتی ہے، اس کی چار قسمیں ہیں: رحمانی، ملکی، شیطانی، اور نفسی، اور انہی چار وجوہ سے دل میں خود بخود کوئی بات ہونے لگتی ہے، وہ اگر رحمانی یا ملکی ہے، تو اسے القا یا الہام کہتے ہیں، شیطانی ہے تو وسوسہ ، اور اگر نفسی ہے تو حدیثِ نفسی کہا جاتا ہے۔

۲۔ سوال: انفرادی اور ذاتی اعتبار سے توفیق اور ہدایت کی تعریف و شناخت کیا ہے؟ اور ا س کا حصول کس طرح ممکن ہو جاتا ہے؟ جواب:

 

۴۹

 

توفیق و ہدایت بہت سے درجات پر مشتمل ہے، مگر اس کی خاص صورت قرآنی ارشاد میں یہ ہے: کوئی مصیبت نہیں آتی ہے مگر خدا کے حکم سے، اور جو شخص اللہ پر (کامل) ایمان رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے قلب کی ہدایت کرتا ہے اور خدا ہر چیز کو خوب جانتا ہے (۶۴: ۱۱) یعنی جب بندۂ مومن عبادت و ریاضت اور علم و عمل کے ساتھ راہِ خدا کی ظاہری اور باطنی آزمائشوں سے گزر جاتا ہے، تو ربّ العزّت اس کو خصوصی توفیقات و ہدایات سے نوازتا ہے۔

۳۔ انبیاء علیہم السّلام کی دعائیں: انبیائے قرآن کے پُرحکمت قصّوں میں اہلِ ایمان کی دینی زندگی کے لئے اعلیٰ اور عظیم نمونے موجود ہیں، انہی روشن مثالوں میں وہ دعائیہ کلمات بھی شامل ہیں، جن کو حضراتِ انبیاء بوقتِ شدائد و مصائب پڑھا کرتے تھے، یہ دعائیں ہر فردِ مسلم کے لئے آسمانی دارالشّفاء (ہسپتال، یعنی قرآن) کی بعض خاص ادویہ کی حیثیت رکھتی ہیں، کیونکہ یہ دعوات اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک پہلے بھی پسندیدہ اور مقبول تھیں، اور اب بھی ایسی ہی ہیں، مثال کے طور پر دیکھئے: لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (۲۱: ۸۷) تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک و پاکیزہ ہے بے شک میں قصوروار ہوں۔

۵۰

۴۔ ظہورِعالمِ ذرّ: ذرّہ کی جمع ذر ہے، یعنی ذرّات، ذرّہ ایک بہت چھوٹی سرخ چیونٹی کا نام ہے، نیز ذرّہ غبار کا ریزہ ہے، جو روشندان میں دھوپ کے اندر اڑتا ہوا نظر آتا ہے، ذرّہ کا ایک ہم معنی لفظ (مترادف) قرآن میں ہباء ہے (۲۵: ۲۳، ۵۶: ۰۶) چنانچہ عالمِ ذرّ کے معنی ہیں دنیائے ذرّات، اور اس سے ذراتِ روح کی دنیا مراد ہے، جو عالمِ صغیر بھی ہے اور عالمِ شخصی بھی، یاد رہے کہ اصل روحانی ترقی عالمِ ذرّ کے ظہور کے ساتھ شروع ہو جاتی ہے، یہ ظہور زبردست روحانی انقلاب ہے، اس سے پہلے جو تیز روشنیوں کا مشاہدہ ہوتا ہے، وہ محض بہت بڑا امتحان ہے۔

۵۔ حکمتِ منفی نما: قرآنِ حکیم کے ذو وجوہ ہونے کا ذکر کتابِ “علمی علاج” میں ہو چکا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر آیۂ کریمہ کے کئی معنوی پہلو (وجوہ) ہوا کرتے ہیں، اس کی ایک مثال سورۂ واقعہ (۵۶: ۰۵ تا ۰۶) میں دیکھ لیجئے: اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ ہو جائیں گے پھر ذرّے بن کر اڑنے لگیں گے۔ یعنی روح، جو پہاڑ کی طرح منجمد تھی، اب اس کے انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات ہو کر پرواز کرنے لگے، اور ہر ذرّہ ایک زندہ روح ہے، کیونکہ عالمِ ذرّ کا ظہور انہی ذرّات میں سے ہوتا ہے، اور یہی عالمِ ذرّ ہر آدمی کا نامۂ اعمال بھی ہے، جیسا کہ سورۂ فرقان (۲۵: ۲۳) میں ارشاد ہوا ہے: اور ہم ان کے ان کاموں کی طرف

 

۵۱

 

جو کہ وہ کر چکے تھے متوجہ ہوں گے سو ان کو ایسا کر دیں گے جیسا پریشان غبار (ہباء ، ۲۵: ۲۳) یہ حکمتِ منفی نما ہے، یعنی ایسی حکمت، جو بظاہر منفی دکھائی دیتی ہے، مگر حقیقت میں منفی نہیں ہے، اس لئے کہ یہ درپردہ نامۂ اعمال کے ایک عظیم راز کا تذکرہ ہے۔

۶۔ نامۂ اعمال (کتابِ اعمال): جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، نامۂ اعمال دنیا کی کتابوں سے قطعی مختلف اور بڑا عجیب و غریب ہوگا، کیونکہ وہ بکھرے ہوئے ذرّاتِ روح پر مبنی ہے، جیسے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۳) میں فرمایا گیا ہے (ترجمہ): اور ہم نے ہر آدمی کے نامۂ اعمال کو اس کے گلے میں لگا دیا ہے اور قیامت کے دن ہم اسے اس کے لئے نکال دیں گے کہ وہ اس کو ایک بکھری ہوئی (منشور) کتاب کی صورت میں پائے گا (۱۷: ۱۳) آیت میں جس طرح لفظِ منشور آیا ہے، اس کے معنی ہیں بکھری ہوئی کتاب، تاہم یہ کتابِ اعمال کی ابتدائی شکل ہو گی، اور آگے جا کر اس کا ظہور ایک نورانی شخص کی طرح ہو گا۔

۷۔ انس و جنّ اور فرشتہ: آپ قرآنِ حکیم کی روشنی میں یہ معلوم کر لیں کہ انسان، جنّ، اور فرشتہ کبھی کسی مقام پر ایک ہو سکتے ہیں، یا نہیں؟ آیا ان کے آپس میں اس وقت کوئی رشتہ ہے؟ یا ہر ایک ازل ہی سے ایک جداگانہ مخلوق ہے؟ یہ اور ان جیسے دوسرے سوالات

 

۵۲

 

بہت بڑی اہمیت کے حامل ہیں، چنانچہ اس بارے میں عرض یہ کرنا ہے کہ تخلیق دراصل دائرۂ فطرت پر واقع ہو جاتی ہے، جس کو قرآنِ پاک نے خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ (تخلیق در تخلیق، ۳۹: ۰۶) فرمایا، اور اس کی تفصیل سورۂ مومنون (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) میں ہے، پس اسی مدور سلسلے کی آخری کڑی خلقِ آخر یعنی مخلوقِ لطیف ہے، اور وہ ارشاد یہ ہے: ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ (۲۳: ۱۴) پھر ہم نے اس کو ایک دوسری مخلوق (یا آخری درجے کی مخلوق) بنا دیا۔

۸۔ درجۂ کمال کی مخلوق: خلقِ آخر یا درجۂ کمال کی مخلوق انسان ہے، مگر جسمِ لطیف میں، اور یہی لطیف جسم جنّ بھی ہے اور فرشتہ بھی، جس کی چند دلیلیں یہ ہیں: الف: فرمایا گیا ہے: اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے بنایا، پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنایا جو کہ ایک محفوظ مقام میں رہا (یہاں جوہرِ خاک نہیں رہا) پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنا دیا (اب اس منزل میں نطفہ نہیں ہے) پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا (یہاں لوتھڑا نہیں رہا) پھر ہم نے اس بوٹی کو ہڈیاں بنا دیا (اب وہ بوٹی یکسر بدل گئی) پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا (اس حال میں آدمی کی جسمانی تخلیق مکمل ہو گئی، اور وہ دنیا میں پیدا ہو کر مراحلِ زندگی میں آگے بڑھتا گیا) پھر ہم نے اس کو ایک دوسری ہی مخلوق بنا دیا (خلقاً اٰخر، یعنی آخری درجے کی

 

۵۳

 

مخلوق، یا مخلوقِ لطیف، اب یہ ہڈیوں اور گوشت سے آزاد ہے، کیونکہ اس ربّانی تعلیم میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ہر دوسری تخلیق میں پہلی حالت نہیں رہتی ہے)۔ ب: “خلقاً اٰخر” ( آخری درجے کی مخلوق) فرمانا ہی بجائے خود ایک روشن دلیل ہے کہ یہاں مخلوقِ لطیف ہی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ج: فتبٰرک اللّٰہ (تو خدا بہت برکت والا ہے) یہ تیسری دلیل ہے، کیونکہ اس صفتِ خداوندی میں لطیف مخلوقات کو برکتوں سے نوازنے کا اشارہ ہے۔ د: چوتھی دلیل ہے احسن الخٰلقین (خدا جو تمام بنانے والوں سے بڑھ کر ہے) اس لئے کہ خالقِ اکبر کی اس تعریف میں سب سے اعلیٰ مخلوقات کی تخلیق کا تذکرہ موجود ہے۔

۹۔ پروانہ اور ریشم کا کیڑا: اللہ تعالیٰ کا قدرتِ کاملہ کے بے حساب عجائب و غرائب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کی کارفرمائی سے پروانہ اور ریشم کا کیڑا ایک دوسرے سے پیدا ہو جاتے ہیں، کہ ان دونوں میں سے پروانہ مخلوقِ لطیف کی مثال ہے اور کیڑا مخلوقِ کثیف کی، اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ایک آگے اور ایک پیچھے نہیں، بلکہ دونوں برابر برابر دائرۂ آفرینش پر گھوم رہے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ دراصل ایک ہی مخلوق ہے، وہی اس دائرے پر گردش کر رہی ہے، یقیناً یہی قانون ہے، جو حضرتِ آدم

 

۵۴

 

اور روحانیین (روحانی کی جمع روحانیین ہے) سے فرمایا گیا: قلنا اھبطوا منھا جمیعا (۰۲: ۳۸) ہم نے حکم دیا کہ نیچے اترو اس بہشت سے سب کے سب۔ غرض بہشت میں یہ سب لطیف تھے، مگر دنیا میں آکر کثیف ہوگئے، نقشۂ ذیل کو دیکھئے:

نصیرالدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
سوموار ۱۴ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۲۶ ستمبر ۱۹۸۸ء

۵۵

 

عقل و دانش کی فضیلت

۱۔ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے کہ جب اللہ جلّ شانہ نے عقل کو پیدا کیا تو اسے نطق بخشا اور اس سے کہا: آگے آ، وہ آگے آئی، پھر کہا: پیچھے جا، وہ پیچھے چلی گئی، پھر کہا: میرے عزّت و جلالت کی قسم! میں نے تجھ سے زیادہ محبوب کوئی شیٔ نہیں پیدا کی ہے، اور میں تجھے اسی کے اندر مکمل کروں گا، جو مجھے پسند ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک اور ارشاد اس طرح سے ہے: خدائے بزرگ و برتر نے کسی مخلوق کو جو اس کے نزدیک عقل سے زیادہ باعزّت ہو پیدا نہیں کیا۔

۲۔ عقل کے بارے میں حضرت علی علیہ السّلام فرماتے ہیں: العقل عقلان۔ مطبوع و مسموع ۔ عقل کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو طبیعت میں ودیعت کی جاتی ہے، اور دوسری وہ جو سن کر حاصل ہوتی ہے۔ و لاینفع مسموع۔ اذا لم یک مطبوع ۔ اور جو سن کر حاصل ہوتی ہے وہ سودمند نہیں ہوتی، جبکہ طبیعت میں ودیعت کی جانے والی

 

۵۶

 

عقل موجود نہ ہو۔ کما لا ینفع ضوء الشمس۔ وضوء العین ممنوع ۔ جس طرح سے کہ آفتاب کی روشنی جب آنکھ میں روشنی نہ ہو تو بے فائدہ ہے (لغات القرآن، نعمانی، جلد دوم، ص ۱۴۷)۔

۳۔ عقل کا دوسرا نام لب ہے، جس کی جمع الباب ہے، یعنی عقلیں، لب کے معنی اس عقل کے ہیں، جو ہر طرح کی آمیزش سے خالص ہو، چونکہ لب ہر چیز کے خلاصہ اور جوہر کو کہتے ہیں، اور عقلِ خالص بھی انسان کا خلاصہ و جوہر ہی ہے، اس لئے اس کا نام لب ہوا، بعض لوگوں نے لب کے معنی پاکیزہ کے بتائے ہیں، غرض ہر لب عقل ہے، لیکن ہر عقل لب نہیں کہی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید نے ان تمام احکام کو جن کا صرف عقولِ ذکیہ ہی ادراک کر سکتی ہیں “اولوا الالباب” ہی سے متعلق رکھا ہے (نعمانی)۔

۴۔ عقل کو “نھیۃ” بھی کہتے ہیں، جس کی جمع النُہیٰ ہے، نھیۃ نہی (بمنی روکنا، منع کرنا) سے ماخوذ ہے، عقل بھی انسان کو فعلِ قبیح اور غیر مناسب چیز سے روکتی ہے، اس لئے عقل کو نھیۃ کہا گیا، اولی النھیٰ (اہلِ عقل ) کا لفظ قرآنِ حکیم میں دو دفعہ آیا ہے (۲۰: ۵۴، ۲۰: ۱۲۸)۔

۵۔ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۳) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: و تلک الامثال نضربھا للناس و ما یعقلھا الا العالمون ۔ اور ہم ان مثالوں کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور ان کو بس علماء ہی جانتے ہیں (۲۹: ۴۳)۔ اس آیۂ کریمہ میں عقلِ کامل کا اشارہ ہے، جس کا شروع میں ذکر

 

۵۷

 

ہوا، اور وہ علمائے ربّانی میں ہوا کرتی ہے، وہی حضرات خدا کی توفیق و تائید سے قرآنی مثالوں کو جانتے ہیں، پس ایسی عقلِ شریف کی بہت بڑی فضیلت ہوتی ہے، جو اس مقام پر کام کر رہی ہو۔

۶۔ عالمِ شخصی کی زمین ہی ارضِ روحانیّت ہے، جس کے مشاہدات و مطالعات سے عقل کو کمال ملتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: کیا یہ لوگ (عالمِ شخصی) کی زمین میں چلے پھرے نہیں تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن سے سمجھتے، یا ان کے ایسے کان ہوتے جن کے ذریعے سے سنتے، کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ جو دل سینے میں ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں (۲۲: ۴۶) پس اس ارشادِ گرامی میں معرفتِ نفس (ذات) کی طرف دعوت دی گئی ہے، تاکہ معرفتِ ربّ سے دیدۂ دل ہمیشہ کے لئے روشن ہو جائے۔

۷۔ خود شناسی اور خدا شناسی کا دروازہ اور کہیں نہیں، صرف عالمِ نفسی (عالمِ شخصی) ہی میں کھل سکتا ہے، پھر اس کے بعد ایسے خوش نصیب لوگ آفاق میں بھی غور و فکر اور تعقل کر سکتے ہیں، دیکھئے آیۂ کریمہ کا ترجمہ: بلاشبہ آسمانوں کے اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے میں اور جہازوں میں جو کہ سمندر میں چلتے ہیں آدمیوں کے نفع کی چیزیں لے کر اور پانی میں جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے برسایا پھر اس سے زمین کو زندہ کیا اس کے مر جانے کے بعد اور ہر قسم کے جانور اس میں پھیلا دیئے

 

۵۸

 

اور ہواؤں کے بدلنے میں اور ابر میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر رہتا ہے دلائل ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں (۰۲: ۱۶۴)۔

۸۔ یہ بات آیۂ مقدسہ ہی کی ایک حقیقی تفسیر ہے کہ دینی عقل و علم سب سے بڑی پاکیزگی کا ذریعہ ہے، اور اس کے مقابلے میں جہالت و نادانی سب سے بڑی ناپاکی ہے، اور یہ ہدایت و تعلیم سورۂ یونس کے اس ارشاد کی ہے: وَ یَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ (۱۰: ۱۰۰) اور جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ان ہی لوگوں پر خدا (کفر و جہالت کی) گندگی ڈال دیتا ہے (۱۰: ۱۰۰) یعنی اسلام اور ایمان کے دائرے سے باہر رہنا جہالت کی ایسی پلیدی ہے کہ وہ کسی طرح سے بھی دُھل نہیں سکتی۔

۹۔ ہمیں قرآنِ پاک ہی کی روشنی میں یہ بھی دیکھنا اور جاننا چاہئے کہ ایسا بنیادی گناہ کون سا ہے، جس کے ہونے سے (بدی تو بدی ہی ہے) نیکی بھی بدی بن جاتی ہے، اور ایسے مجرم کو آخر کار دوزخ میں جانا پڑتا ہے؟ ہمارے اس سوال کا جواب سورۂ ملک (۶۷: ۱۰) سے ملتا ہے، اور وہ فرمانِ خداوندی یہ ہے: وَ قَالُوْا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِیْۤ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ (۶۷: ۱۰) اور کہیں گے کہ اگر ہم بات سنتے یا عقل رکھتے تو (آج) دوزخیوں میں نہ ہوتے۔ اس حکم سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ عقل ہی بہشت بھی ہے اور راہِ بہشت بھی، اور جہالت دوزخ بھی ہے اور دوزخ کی زنجیر بھی۔

۵۹

۱۰۔ اب آپ قرآنِ مجید کے ان سولہ مقامات میں خوب غور سے دیکھیں، جہاں اولوا الالباب (صاحبانِ عقل) کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے تمام نیکیاں اور خوبیاں عقلِ کامل سے متعلق کرکے رکھی ہیں، اور کوئی نعمت ایسی نہیں، جو عقل و دانش کے اس وسیع دسترخوان پر نہ چنی گئی ہو، کیونکہ عقل ہی کو حکمت کہا گیا ہے، اور حکمت وہ ہے، جس کے عطا ہونے کے ساتھ ساتھ خیرِ کثیر بھی عطا ہو جاتی ہے، آپ یہ بھی سن لیں، اور شادمان ہو جائیے کہ عقل و علم کا ایک مخفی نام نور ہے، ہاں، یہ حقیقت ہے کہ عقل جب درجۂ کمال پر پہنچ جاتا ہے، تو اس کو اہلِ معرفت نورِعقل کے نام سے جانتے ہیں، کیونکہ عقل، علم، حکمت، معرفت، ہدایت، نور، یقین وغیرہ جیسے بہت سے معانی حقیقت میں ایک ہی ہیں۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم میں جابجا درجات کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ درجے علم یعنی عقل اور عمل کی بنیاد پر ہیں (آپ دیکھ سکتے ہیں ) اور اس موضوع کی ایک آیۂ مبارکہ کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ درجات عرشِ الٰہی تک جا پہنچتے ہیں (۴۰: ۱۵) ان درجوں کی تعداد الگ الگ مثالوں کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے، تاہم سورۂ معارج کے شروع میں جیسے ارشاد ہوا ہے (۷۰: ۰۳ تا ۰۵) اس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ درجات پچاس ہزار برس پر محیط ہیں، یعنی ایک دور افتادہ انسان کو فنا فی اللہ ہو جانے کے لئے روح اور عقل

 

۶۰

 

کے پچاس ہزار زینوں سے چڑھ جانا پڑتا ہے، اس مثال میں لوگوں کا تصوّر زینہ بزینہ اور درجہ بدرجہ صحیح ہے، لیکن ارادۂ خداوندی کا بیان اس سے الگ اور خاص ہے۔

۱۲۔ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نورِعقل اور نورِ ہدایت کے معنوں میں نورِ منزل اور روشن چراغ تھے (۰۵: ۱۵، ۳۳: ۴۶) چونکہ آپ کا نور دراصل خدائی نور تھا، اس لئے ہم یقینِ کامل کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقل و دانش کی یہ آسمانی روشنی نہ صرف ظاہر ہی میں اہلِ ایمان کے اجتماعات کو جگمگا رہی تھی، بلکہ اس کا سب سے بڑا کام اور سب سے عظیم معجزہ یہ تھا کہ بہت سے دلوں کو منور کر دے، اور یقیناًایسا ہی ہوا، کیونکہ بیماری دل میں ہوا کرتی ہے (جیسا کہ قرآن میں اس کا ذکر ہے، ۰۲: ۱۰) اور یہی مرض تاریکی بھی ہے، پس نور کا اصل کام بندۂ مومن کے دل میں ہے، اور وہ یہ کہ عقل و جان کی ہرگونہ ظلمت کو مٹا کر اس کی جگہ روشنی پھیلائے، تاکہ حواسِ باطن خوابِ غفلت سے جاگ اٹھیں اور اپنا کام شروع کر سکیں۔

۱۳۔ قلبِ سلیم (صحتمند دل) نورِعقل کا نام ہے، اور قلبِ سقیم (بیمار دل) ظلمتِ جہالت ہے، اور دونوں ضدین کے

 

۶۱

 

الگ الگ بہت سے نام ہیں، جن میں سے چند بطورِ مثال یہاں درج ہوئے ہیں، تاکہ اہلِ دانش کو یہ قانون معلوم ہو کہ قرآنِ حکیم کی ہر چیز (۲۰: ۹۸، یعنی ہر آیت) میں عقل و علم کا تذکرہ موجود ہے، خواہ ظاہری بیان جس شیٔ کا بھی ہو، مگر اس میں عقل و دانش کے انمول جواہر پنہان ہیں۔

قلبِ سلیم اور قلبِ سقیم

نورِ جہالت نورِ عقل
ظلمتِ کفر و نفاق نورِ اسلام و ایمان
ظلمتِ ضلالت نورِ ہدایت
ظلمتِ شرک نورِ توحید
ظلمتِ جہالت و نادانی نورِ علم و حکمت
ظلمتِ نسیان و غفلت نورِ ذکر و عبادت
ظلمتِ باطل نورِ حق و حقیقت
ظلمتِ کذب و شک نورِ صدق و یقین
ظلمتِ معصیت نورِ اطاعت
ظلمتِ بغض و عداوت نورِ عشق و محبت
ظلمتِ کور باطنی نورِ بصیرت
ظلمتِ شر نورِ خیر
ظلمتِ انکار (ناشناسی) نورِ معرفت

 

۱۴۔ اس دنیا میں اگر مضل (شیطان) نے لوگوں کے سینوں تک رسائی کر کے ان میں وسوسوں کی ظلمت پھیلائی، تو پھر دوسری جانب سے بموجبِ عدلِ الٰہی یہ ضروری امر بھی ممکن ہوا کہ ہادیانِ برحق بصورتِ نورِ ہدایت دلوں کی تاریکیوں کو مٹایا کریں، چنانچہ اس عظیم عمل کی ایک روشن مثال سورۂ انعام (۰۶: ۱۲۲) سے یہ ہے: اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ (۰۶: ۱۲۲) ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا ہم نے اس کو زندہ بنا دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کے ذریعہ

 

۶۲

 

لوگوں میں چلتا پھرتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کی حالت یہ ہو کہ وہ تاریکیوں میں ہے ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا۔

۱۵۔ مذکورہ آیۂ کریمہ کی عظیم حکمت پر ایک حجاب ہے، اور وہ یہ ہے: میتاً ، یعنی مردہ، جس کے تین معنی ہیں: الف: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۸) میں دیکھئے: و کنتم امواتا = اور تم بے جان تھے۔ ب: موت قبل از موت جو کامل انسانوں پر گزر جاتی ہے۔ ج: انسانِ کامل کی حیاتِ نورانی کے مقابلے میں سابقہ زندگی ایک مردگی سے زیادہ نہیں۔ اس کے بعد فی الناس کے معنی کو دیکھ لیں: آیا نور کی رسائی صرف یہی ہو سکتی ہے کہ لوگوں کے ظاہر میں چلے پھرے؟ یا اس کا کوئی بہت بڑا مقصد ہے؟ آپ اس میں خوب غور سے سوچ لیں۔

۱۶۔ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے کہ: مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ خداوند تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے۔ ایسا مومن جو ایمان کے درجۂ کمال پر ہو، کون ہو سکتا ہے؟ انسانِ کامل، یعنی ولی، اور دوسرے مومنین سب کے سب اس اعلیٰ مقام پر نہیں ہو سکتے ہیں، جبکہ اس حکم کے مطابق ان کو مرتبۂ نور سے ڈرنا چاہئے، مگر ہاں وہ ترقی کر کے مرشدِ کامل میں فنا ہو سکتے ہیں۔

۱۷۔ عقل اور علم کا کمال آیات و معجزات میں ہے، جو روحانیّت میں ظہور پذیر ہو جاتے ہیں، اور بھرپور روحانیّت اس منزل سے شروع ہو جاتی ہے، جہاں اسرافیل بھی ہے اور عزرائیل بھی، اور جس میں

 

۶۳

 

مردوں کو زندہ کر کے روحانی اور عقلی معجزے دکھائے جاتے ہیں، اور ایسا مشاہدہ کسی سعادتمند مومن کے لئے اس وقت ممکن ہو جاتا ہے، جبکہ وہ اپنے نفس کے بیل کو علم اور عبادت و ریاضت کی چھری سے ذبح کر ڈالتا ہے (۰۲: ۷۳)۔

۱۸۔ نورِ عقل ایک زندہ کلمہ ہوتا ہے، یہ صدیقین اور شہیدانِ روحانی کے دل و دماغ میں پُرنور و پُرحکمت باتیں کرتا رہتا ہے (۵۷: ۱۹) جس کی ایک روشن مثال حضرتِ مریم علیہا السّلام ہیں، کہ ان میں حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا نور بصورتِ ایک کلمہ القاء ہوا تھا (۰۴: ۱۷۱) اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے بھی اس نور کو توحید کی بات کے عنوان سے اپنی اولاد میں کلمۂ باقیہ قرار دیا تھا (۴۳: ۲۸) غرض نور صرف چشمِ باطن ہی کی روشنی کا نام نہیں، بلکہ نور ایک ایسا آفتابِ بے مثل و نظیر ہے، جو تمام روحی اور عقلی قوتوں کو جگمگاتا ہے۔

۱۹۔ سکینت کہتے ہیں اطمینان، تسکین، اور تسلئ خاطر کو، اگر اطمینان اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، تو یہ روحانی معجزہ کہلائے گا، اور ظاہری سکون سے بدرجہ ہا اعلیٰ ہوگا، چنانچہ قرآنِ حکیم میں ایسی عظیم الشّان سکینت کے نزول کا ذکر فرمایا گیا ہے، مثال کے طور پر سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں دیکھئے، کہ اس میں سکینت کے ساتھ ساتھ کلمۂ تقویٰ کا بھی تذکرہ ہے، یہ ایک اسمِ بزرگ تھا، جو مومنین کے دل و دماغ میں لازم کیا گیا، یعنی پہلے ذکرِ الٰہی کا سلسلہ زبردست کوشش

 

۶۴

 

کے باوجود بار بار ٹوٹتا رہتا تھا، اب بفضلِ خدا سکینت کی وجہ سے نورِ ذکر خود از خود اپنے آپ کو دہرانے اور اٹوٹ (مسلسل) جاری رہنے لگا۔

۲۰۔ سورۂ یاسین قلبِ قرآن ہے، اور اس کے آخر (۳۶: ۸۳) میں جو آیۂ مبارکہ ہے، وہ اس سورے کا خلاصہ اور جوہر ہے، جس میں خدائی قول و فعل کے آغاز و انجام اور جوہرِ کائنات و موجودات کا اشارہ موجود ہے، اور وہ جوہر (گوہر) خدا کے ہاتھ میں ملکوت ہے، جو عالمِ عقول ہے، جس میں عقلی وحدت پائی جاتی ہے، لہٰذا عالمِ عقل ایک ہی ہے، مگر اس میں بے شمار کی نمائندگی ہے، اور عقلی ظہورات کا بھی کوئی حساب نہیں، پس عقل و دانش کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ وہ ملکوتِ سماوی و ارضی ہے، جس میں سب کچھ ہے، اور یہ صرف اس شخص میں مکمل ہو جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لنڈن
۱۹ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء

۶۵

ام الکتاب

۱۔ جو نیک بخت لوگ دل و جان سے قرآنِ پاک پر ایمان و یقین رکھتے ہیں، ان کے لئے پروردگارِ عالمین نے اپنی اس بے مثال و لاثانی کتاب میں بے حد و بے حساب رحمتیں اور برکتیں رکھی ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ رحمتوں اور برکتوں کے ان اَن گنت ذخائر و خزائن میں ہر گونہ دوا و شفا بھی موجود ہے، اور یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ جو کچھ سر تا سر قرآنِ مجید میں پھیلا ہوا ہے، وہ سب کا سب ام الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں مرکوز و یکجا ہے، چنانچہ اگر کسی مسلمان / مومن کو بطریقِ آسان قرآنِ حکیم کی نعمتِ شفا سے مستفیض و مستفید ہو جانا ہے، تو وہ ہمیشہ سورۂ شفا (یعنی سورۂ فاتحہ) سے رجوع کرے، کیونکہ یہ امُ الکتاب اور جوہرِ قرآن ہے۔

۲۔ بہت سے عالموں نے حدیثِ : “ان اللّٰہ جمع علوم الاولین و الاٰخرین فی الکتب الاربعۃ و علومھا فی القراٰن و علومہ فی الفاتحۃ” (بے شک اللہ تعالیٰ نے اگلے اور پچھلے لوگوں کے علوم کو چار

 

۶۶

 

کتابوں میں جمع کیا اور ان کتب کے علوم کو قرآن میں یکجا کر دیا اور قرآن کے علوم کو سورۂ فاتحہ میں مرکوز فرمایا) کے بعد اس قدر اور بڑھایا ہے کہ: “فاتحۃ الکتاب کے علوم کو بسم اللہ میں اور بسم اللہ کے علوم کو اس کے حرفِ با میں جمع کیا ہے۔” اس کی توجیہہ یوں کی گئی ہے کہ مقصود تمام علموں سے یہی ہے کہ بندہ اپنے پروردگار سے واصل ہو جائے، اور “بسم اللہ” میں حرفِ با الصادق (ملانا) کے معنی میں آیا ہے، اس لئے یہ اشارہ بندہ کو جنابِ ربّ العزّت سے ملصق کر دیتا ہے اور یہی بات کمالِ مقصود ہے (الاتقان، دوم، ص ۴۹۴)۔

۳۔ مذکورۂ بالا حدیثِ شریف کی تصریح و توضیح میں یہ ایک انتہائی عمدہ اور بے حد معقول توجیہہ کی گئی ہے کہ جس طرح جملہ کتبِ سماوی کے علوم اور حکمتیں سورۂ شفا میں جمع ہیں، اور جیسے ان سب کا خزینۃ الخزائن بسم اللہ میں اور پھر بائے بسم اللہ میں لپیٹا ہوا ہے، اس کا مقصد و منشا اور اشارۂ آخرین یہ ہے کہ بندۂ مومن سارے باطنی امراض سے محفوظ و سلامت اور شفا یاب ہو کر خداوندِ مہربان سے واصل ہو جائے، بالفاظِ دیگر فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ حاصل کرے، کیونکہ خدا کی خدائی میں جتنی عجیب و غریب اور درجۂ انتہا پُرلذّت نعمتیں ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ اور سب سے بڑی نعمت بس یہی ہے۔

۴۔ امُ الکتاب کی بے شمار فضیلتوں اور خوبیوں کی بنا پر اس کے بہت سے اسمائے وصفی مقرر ہوئے ہیں، جیسے فاتحۃ الکتاب (۱) فاتحۃ

 

۶۷

 

القرآن (۲)کیونکہ اسی کے ساتھ مصحفوں کا افتتاح یعنی آغاز ہوتا ہے، اور قرآنی تعلیم اور نماز کی قرأت کا شروع بھی اسی سورہ سے ہوتا ہے، ام الکتاب (۳) اور ام القرآن (۴) اس تسمیہ کی ایک وجہ یہ ہے کہ ام الشیٔ کسی چیز کی اصل کو کہا جاتا ہے، اور سورۃ الحمد قرآن کی اصل ہے، اس لئے کہ اس کے اندر تمام قرآن کے اغراض اور اس کے جملہ علوم اور حکمتیں موجود ہیں، اور اس کے اس نام رکھنے کی یہ وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ تمام سورتوں سے افضل ہے، چنانچہ جس طرح قوم کے سردار کو ام القوم کہتے ہیں، اسی طرح اس کو ام القرآن اور ام الکتاب کہا گیا ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سورۃ کی عزت تمام قرآن کی عزت کے برابر ہے، اس لئے یہ نام رکھا گیا ہے، نیز کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہِ تسمیہ یہ ہے کہ یہ سورہ اہلِ ایمان کی جائے پناہ اور واپسی میں مجتمع ہونے کی جگہ ہے، جس طرح نشانِ فوج کو ام کہتے ہیں، کیونکہ فوج کے سپاہی اس کے زیرِ سایہ پناہ لیتے اور جمع ہوتے ہیں۔

۵۔ قرآن العظیم (۵) اور السبع المثانی (۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ھی ام القراٰن ، وھی السبع المثانی، وھی القراٰن العظیم ۔ امُ الکتاب کا نام سبع المثانی اس لئے ہے کہ اس میں سات آیتیں ہیں، جو دہرائی جاتی ہیں، اور یہ قرآنِ عظیم اس وجہ سے ہے کہ وہ ان تمام معانی پر مشتمل ہے، جو قرآن میں پائے جاتے ہیں۔

۶۔ الوافیہ (۷) کیونکہ قرآن کے تمام معانی اس کے اندر اچھی طرح

 

۶۸

 

سے موجود ہیں، الکنز (۸) یعنی علوم اور حکمتوں کا خزانہ، کافیہ (۹) اس لئے کہ وہ نماز کے اندر بغیر دوسری سورۃ ملانے کے بھی کافی ہو جاتی ہے، مگر دوسری سورۃ بغیر اس کو ساتھ ملانے کے کفایت نہیں کرتی، الاساس (۱۰) کیونکہ قرآن کی اصل اور پہلی سورہ ہے، نور (۱۱) کیونکہ اس میں علم و حکمت کی روشنی ہے ، سورۃ الحمد (۱۲) اور سورۃ الشکر (۱۳) اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور شکر گزاری اسی سے کی جاتی ہے۔

۷۔ سورۃ الحمدِ الاُولیٰ (۱۴) اور سورۃ الحمد القصریٰ (۱۵) یعنی ابتدائی حمد اور مختصر حمد اسی سے ہو جاتی ہے، الرقیہ (۱۶) الشفاء (۱۷) اور الشفا فیہ (۱۸) کیونکہ اس میں ہر درد و بیماری کے واسطے رقیہ یعنی منتر، شفا، اور صحت بخشی ہے، سورۃ الصلوٰۃ (۱۹) صلوٰۃ (۲۰) اور سورۃ الدعا (۲۱) اس لئے کہ نماز اس سورہ پر موقوف ہے، اور بعض علماء کا قول ہے کہ اس سورۃ کا ایک نام صلوٰۃ بھی ہے، اور اس میں دعا بھی شامل ہے، اور وہ “اھدنا” ہے۔

۸۔ سورۃ السؤال (۲۲) سورۃ تعلیم المسئلۃ (۲۳) سورۃ المناجاۃ (۲۴) اور سورۃ التفویض (۲۵) اس میں سوال بھی ہے، یعنی خدا سے مانگنا، اور طریقۂ سوال بھی، جس کی بنیاد حمد و ثناء ہے، اس میں مناجات بھی ہے، اور تفویض بھی، کہ بندہ “و ایاک نستعین” کے معنی میں اپنا تمام معاملہ خدا کے حوالہ کر دیتا ہے۔

۶۹

۹۔ امُ الکتاب کے مذکورۂ بالا ۲۵ اسماء اور ان کی توجیہہ و وضاحت کا حوالہ ہے: الاتقان ، اوّل، ص ۱۳۲ ۔ ۱۳۵۔ اب ہماری اپنی معروضہ یوں ہے کہ سورۂ فاتحہ کی بے شمار رحمتوں اور برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے بیش از بیش یقین چاہئے، اور یقین کا انحصار علم ہی پر ہے، پس دانشمندی اسی میں ہے کہ آپ قرآنِ حکیم اور امُ الکتاب سے متعلق اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہیں، تاکہ قرآن خوانی، نماز، دعا، اور شفا کا عمل حقیقی معنوں میں ہو سکے، کیونکہ روحانی علاج ایمان و یقین کے بغیر ممکن ہی نہیں، جیسا کہ دعائم الاسلام ، ثانی، کتاب الطب، فصلِ اوّل میں روایت مذکور ہے:

۱۰۔ امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ آپ ایک دن امیرِ مدینہ محمد بن خالد کے پاس تشریف لے گئے، پس اس نے آپ سے اپنے دردِ شکم کی شکایت کی، تو آپ نے فرمایا کہ میرے پدرِ بزرگوار امام باقر علیہ السّلام نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے، اور انہوں نے اپنے والدِ محترم امام زین العابدین علیہ السّلام سے سن لی تھی، اور یہ روایت حضرتِ علی علیہ السّلام کے توسط سے ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں دردِ شکم کی شکایت کی، تو حضور نے فرمایا کہ شہد کا شربت بناؤ، اور اس میں تین یا پانچ یا سات سیاہ دانہ (کلونجی = حبۃ السوداء) ڈال کر پی لو، خدا کے حکم سے تم شفا پاؤ گے، چنانچہ وہ آدمی اس پر عمل کر کے شفایاب

 

۷۰

 

ہو گیا تھا، لہٰذا تم بھی اس پر عمل کرو، اس وقت اہلِ مدینہ میں سے ایک شخص جو حاضر تھا معترض ہوا، اس نے کہا کہ اے ابو عبداللہ! یہ خبر تو ہم کو بھی پہنچی تھی، اور ہم نے اس پر عمل بھی کیا تھا، لیکن ہم کو کوئی فائدہ نہ ہوا، یہ سننا تھا کہ ابو عبداللہ علیہ االسّلام غضبناک ہو گئے، اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس علاج سے صرف اہلِ ایمان ہی کو فائدہ پہنچاتا ہے، اور جو اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں، ان کو فائدہ پہنچتا ہے، اور خداوند تعالیٰ اہلِ نفاق کو اور ان کو جو رسول کی تصدیق کے بغیر عمل کرتے ہیں، ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔۔۔۔

۱۱۔ قرآنِ پاک کی مقدس چیزیں تین قسموں میں ہیں: اسماء اللہ، آیات، اور سورتیں، پس اسماء میں جس طرح اسمِ بزرگ اعظم الاسماء ہے، اسی طرح آیات میں آیت الکرسی اعظم الآیات، اور سورتوں میں سورۂ فاتحہ اعظم السور ہے، ہر چند کہ اسمِ اعظم (اعظم الاسماء) قرآن میں ظاہر نہیں، لیکن آیۂ اعظم ، اور سورۂ اعظم ظاہر ہیں، لہٰذا ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ جس شوق سے اسمِ بزرگ کو جاننا چاہتا ہے، اسی شوق سے ام الکتاب اور آیۃ الکرسی سے فائدہ اٹھائے، کیونکہ جو بڑی بڑی نعمتیں عطا ہوئی ہیں، ان کی شکر گزاری اور قدردانی کے بغیر دوسری عظیم تر رحمتیں نازل نہیں ہو سکتی ہیں۔

۱۲۔ کتابِ قرآنی علاج میں عشقِ الٰہی کے عنوان کے تحت امُ الکتاب کی عاشقانہ تفسیر کی گئی ہے، اور یہاں (ان شاء اللہ العزیز) اس کی عارفانہ

 

۷۱

 

تفسیر کے لئے کوشش کی جاتی ہے:
الف: بسم اللہ الرحمن الرحیم: نقطۂ بائے بسم گوہرِ عقل کی مثال ہے، اور وہی قلمِ الٰہی بھی ہے، جو مرتبۂ ازل کی بلندی پر عارفوں کو خداوندِ رحمان و رحیم سے واصل کر دیتا ہے (کیونکہ اسم سَمُوّاً ، بلند ہونا سے ہے) اور وہ گوہر کائنات و موجودات کی اصل و اساس بھی ہے، اور خلاصہ و لبِ لباب بھی، جس طرح نقطے سے دنیائے حروف پیدا ہو جاتی ہے، اور پھر عقلی طور پر نقطے میں سمٹ جاتی ہے۔
ب: الحمد للہ ربّ العالمین: ہر شخص اپنی ہمت و رسائی کے مطابق خدا کی تعریف بیان کرتا ہے، اسی طرح اہلِ معرفت عالمِ لاہوت کے مشاہدۂ انوار اور تحیر جمال و جلال کی بنا پر اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں، کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ عقل و روح کی پرورش کے لئے پروردگار نے عالمِ شخصی میں انتہائی عمدہ اور اعلیٰ نعمتیں پیدا کی ہیں۔
ج: الرحمن الرحیم: خداوندِ عالم کے ان دونوں ناموں میں آسمانی عشق و محبت کا ذکر ہے، جس کی بے پناہ لذّتوں اور حلاوتوں کا احساس و ادراک ویسے تو ہر منزل میں ہوتا ہے، تاہم منزلِ اسرافیلی میں محویّت و فنائیّت کا جو مزہ ہے، وہ بے مثال اور ناقابلِ فراموش ہے۔
د: مالک یوم الدین: آج دنیا میں ہر شخص اپنے اختیار کا مالک ہے، لیکن جب قیامت برپا ہو جائے گی، تو اس وقت کسی کا کوئی اختیار نہ رہے گا، پس اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ اور جزا و سزا کا مالک ہو گا۔

 

۷۲

ھ: ایاک نعبد و ایاک نستعین: ہم نورِ معرفت کی روشنی میں تجھ کو واحد و یکتا جانتے ہوئے صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔
و: اھدنا الصراط المستقیم: وہ اگرچہ خدا کی عنایت اور پیغبرِ برحق کی رہنمائی سے ہدایت یافتہ ہیں، تاہم معلّمانہ طور پر اور من حیث القوم درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں راہِ راست پر چلا، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود ہادی تھے، مگر اپنی امت کی طرف سے یہ دعا کیا کرتے تھے۔
ز: صراط الذین انعمت علیہم: ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے عقل و جان کی سب سے خاص نعمتیں برسا دی ہیں، اور ان تمام نعمتوں کا مقصدِ اعلیٰ معرفت ہی ہے۔
ح: غیر المغضوب علیہم و لا الضالین: جن لوگوں پر تیرا غضب ہوا ہے، ان کی راہ نہ ہو، اور نہ ان لوگوں کی (راہ) جو گمراہ ہو گئے ہیں، کیونکہ وہ تیرے پاک عشق و محبّت کی نورانی دولت سے بے نصیب تھے، اسی لئے وہ راہِ حق سے بھٹک کر معرفت کے انمول خزانوں سے محروم رہ گئے۔

۱۳۔ ایک انتہائی اہم کلیدی حدیثِ شریف جس سے اہلِ علم باخبر ہیں یہ ہے: انما الاعمال بالنیات ۔ اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے، یعنی اسلام میں اچھی نیت کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ

 

۷۳

 

کوئی بھی نیک عمل نیک نیت کے بغیر مقبول نہیں ہو سکتا، اور بندۂ مومن کا دل نیک نیتی سے معمور و روشن علم و معرفت ہی سے ہو جاتا ہے، پس ہر اس شخص کے دل میں اچھی نیت کا غلبہ ہو گا، جو ام الکتاب کو علم و معرفت کی روشنی میں پڑھتا ہو، اور اس کے فضائل و فوائد کا پختہ یقین رکھتا ہو، کیونکہ جب کسی نیک بخت مسلمان کے لئے سورۂ فاتحہ کا حجاب اٹھایا جائے، تو وہ یقیناًاس کی خوبیوں سے عاشقانہ فدا ہو جائے گا، اب ایسے میں اس کا قلب نورِ عشق سے منور ہونے لگے گا، اور پھر نیّت کی درخشانی ، سبحان اللہ! اب آپ اسی طرح عشق سے امُ الکتاب کو پڑھتے رہیں، جو ایک بہت مختصر سورۃ ہے، مگر جامعیّتِ جواہر میں ایک مکمل آسمانی کتاب ہے، بلکہ امُ الکتاب ہے، الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ کہ اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوں گے، جن میں بیماریوں سے شفا یابی کی بہت بڑی نعمت بھی شامل ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزئی
کراچی
۲۸ صفر المظفر ۱۴۰۹ھ / ۱۱ اکتوبر ۱۹۸۸ء

۷۴

معوذتان سے علاج

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سورۂ فلق اور سورۂ ناس کو معوذتان یا معوذتین کہتے ہیں، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں پُرحکمت سورتوں میں تمام شرور سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی پناہ لینے کی تعلیم دی گئی ہے، لہٰذا ان میں زبردست حفاظتی اور شفائی برکتیں اور تاثیرات موجود ہیں، آپ ان کے ہر لفظ میں بجا طور پر غور کرتے ہوئے دیکھیں، اور متعلقہ احادیثِ صحیحہ اور تفاسیر میں بھی ان کے خواص پر نظر ڈالیں، تا کہ اس معاذ (پناہ گاہ) پر کامل یقین ہو۔

۲۔ سورۂ فلق میں سب سے پہلے لفظِ “قل” آتا ہے، جو قرآنِ عظیم کے ۳۳۲ مقامات پر مذکور و موجود ہے، یہ اللہ جلّ شانہ کا امرِ خاص ہے، کیونکہ اس میں پروردگارِ عالم حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خطاب فرما رہا ہے کہ اے رسول بطورِ تعلیم ذاتی طور پر بھی اور دیگر ذرائع سے بھی لوگوں سے کہو، پس آنحضرت نے اپنی حیاتِ طیبہ میں قولاً و فعلاً جو کچھ لوگوں کے سامنے پیش کیا، وہ حکمِ الٰہی یعنی قل

 

۷۵

 

کے تحت ہے، اس کے علاوہ رسولِ خدا نے جن معنوں میں دو گرانقدر چیزیں اپنے پیچھے چھوڑی ہیں، ان کے توسط سے بھی مذکورہ حکم کی تعمیل کا سلسلہ جاری ہے۔

۳۔ دوسرا لفظ اعوذ (میں پناہ لیتا ہوں) ہے، اس میں تین چیزیں مقصود ہیں، اوّل نیّت، دوم قول، سوم عمل، اور ان کی سب سے کامیاب صورت علم و معرفت کی روشنی میں بن سکتی ہے، کیونکہ ایمان و ایقان اور عقل و دانش کے بغیر ہر قسم کی برائی سے بھاگ کر خدا کی پناہ گاہ تک پہنچ جانا، اور وہاں اپنے آپ کو محفوظ کر لینا ممکن ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو علیم و حکیم ہے، پناہ گیر ہو جانے کے نمونے کو دین کی انتہائی بلندی پر رکھا، اور یہ بلندی حضور صلعم کی سنتِ مطہرہ ہے، یعنی کہیں نہیں فرمایا: قولوا نعوذ ، بلکہ فرمایا: قل اعوذ ، یعنی اے رسول سب سے پہلے تم ہی کہو اور تم ہی کر کے دکھاؤ کہ اللہ کی پناہ لینے کا طریقِ کار کیا ہے۔

۴۔ برب الفلق: صبح کے پروردگار کے پاس، یعنی میں صبحِ ازل کے ربّ کے حضور میں پناہ لیتا ہوں، اگرچہ صبحیں بہت سی ہیں، لیکن وہ صباح سب سے زیادہ قابلِ ذکر اور انتہائی عجیب و غریب ہے، جو نورِ ازل کے طلوع ہو جانے کے ساتھ روشن ہوئی، کیونکہ اللہ کی حقیقی پناہ کسی خوش نصیب بندے کو وہاں ملتی ہے، جہاں وہ فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، اسی مقام پر ایسا سالک اسرارِ ازل و ابد کا یکجا مشاہدہ کرتا ہے۔

۷۶

۵۔ من شر ما خلق: تمام خلق کردہ شر سے، اس آیت میں مجملاً ساری برائیوں سے بچنے کا تذکرہ ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ جو کچھ سورۂ فلق اور سورۂ ناس میں تفصیل سے ارشاد فرمایا گیا ہے، وہ بطریقِ اجمال مذکورہ دو آیتوں میں بیان ہوا ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ فلق یعنی روحانیّت اور ازل کی صبح (روشنی) ہی تمام شرور کی ظلمتوں کو مٹا مٹا کر ختم کر سکتی ہے۔

۶۔ و من شر غاسق اذا وقب: اور شبِ تاریک کی برائی سے جب وہ چھا جائے، غاسق اسمِ فاعل ہے، بمعنی تاریکی پھیلانے والا، اور اس سے وہ شخص مراد ہے، جو جہالت و نادانی کی ظلمتوں کو پھیلاتا ہے، اور ایسا آدمی اندھیری رات سے کہیں زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ جتنی خیر علم و حکمت میں ہے، اتنا شر جہالت و نادانی میں ہے، پس قانونِ استعاذ کی رو سے یہ ضروری اور لازمی ہوا کہ جاہل اور جہل سے گریز کر کے خدا کی پناہ لی جائے۔

۷۔ و من شر النفٰثٰت فی العقد: اور میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں گرہوں میں نفث کرنے والیوں کی برائی سے، اس کی تفسیر کے لئے ملاحظہ ہو: قاموس القرآن، ص ۶۰۹۔۶۱۰۔

۸۔ و من شر حاسد اذا حسد: اور حسد کرنے والے کے شر سے جب حسد کرنے لگے، اس آیۂ کریمہ کی حکمت کا کہنا یہ ہے کہ برے لوگوں کی ظاہری برائیوں کے علاوہ باطنی برائیاں بھی تم پر اثر انداز ہو

 

۷۷

 

سکتی ہیں، جس کی مثال یہاں حسد سے دی گئی ہے، کہ اگر حاسد کا حسد تیر کی طرح نہ آیا ہوتا، تو اس کے سامنے سے ہٹ کر اللہ کی پناہ گاہ میں داخل ہو جانے کا حکم ہی نہ دیا جاتا، پس معلوم ہوا کہ شر ظاہری اور باطنی دونوں راستوں سے آ سکتا ہے۔

۹۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قل اعوذ برب الناس: کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ لیتا ہوں، یعنی اس ربِّ جلیل کی پناہ میں خود کو محفوظ و مامون رکھتا ہوں، جو آدمیوں کی جسمانی، روحانی، اور عقلی تربیت و پرورش کرنے کی کامل قدرت رکھتا ہے، جس کی عقلی نعمتیں خزائنِ ازل سے آتی ہیں، کیونکہ ربّوبیت کا سرچشمۂ اعلیٰ وہیں ہے۔

۱۰۔ ملک الناس، الٰہ الناس: لوگوں کے پادشاہ لوگوں کے معبود کی پناہ لیتا ہوں، یہاں لفظِ ملک (پادشاہ) میں قوانینِ خداوندی کی بہت بڑی اہمیت کی طرف اشارہ ہے، اور اسمِ الٰہ (معبود) میں عبادت کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قوانینِ الٰہی کی پابندی اور حقیقی معنوں میں عبادت کے بغیر خدا کے حضور میں کسی کو کوئی پناہ نہیں مل سکتی ہے۔

۱۱۔ من شر الوسواس الخناس: وسوسہ ڈالنے پیچھے ہٹ جانے والے (شیطان) کے شر سے، وسواس (وسوسہ انداز) اور خناس (پیچھے ہٹنے والا) شیطان کے ناموں میں سے ہیں، اور شیاطینِ انسی و جنّی کی جتنی چکنی چپڑی باتیں ہیں (۰۶: ۱۱۲) وہ سب کی سب وسوسہ میں شامل ہیں۔

 

۷۸

۱۲۔ الذی یوسوس فی صدور الناس، من الجنۃ و الناس: جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، وہ (خناس) جنّوں میں سے ہو یا آدمیوں میں سے، اس سورہ میں شروع سے لے کر آخر تک جتنی پُرحکمت ربّانی تعلیمات ہیں، وہ سب شرِ شیطان سے بچنے کے بارے میں ہیں، اور سورۂ فلق میں یقیناً یہی باتیں اشارات میں ہیں، کیونکہ شر کی بنیاد ایک ہی ہے، اور وہ شیطان ہے، اور ہر قسم کی برائی جہاں بھی ہو اسی سے ہے۔

۱۳۔ اگر آپ ہر قسم کی بیماری سے محفوظ و سلامت رہنا چاہتے ہیں، اولاد، جان، اور مال کی حفاظت کو عزیز رکھتے ہیں، اور تمام برائیوں، بلاؤں ، آفتوں، اذیتوں، اور مصیبتوں سے بچنے کے لئے خدائے قادرِ مطلق کی پناہ گاہ میں داخل ہو جانے کے خواہشمند ہیں، تو پھر بڑے شوق اور یقینِ کامل کے ساتھ معوذتین کو پڑھتے رہیں، اور اس کے خصوصی فیوض و برکات حاصل کرنے کے لئے درست معنی اور علم و حکمت لازمی اور ضروری ہے، تاکہ اس کے اصل خزانوں کا راستہ معلوم ہو، کیونکہ کسی سورت، آیت، یا اسم کی زبردست تاثیر و افادیت کا اصل راز اس کے معنی اور علم و حکمت میں پوشیدہ ہوا کرتا ہے۔

۱۴۔ آپ نقشۂ پناہ کو دقتِ نظر سے دیکھیں کہ پناہ چار درجوں پر مبنی ہے، وہ درجے ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاہوت ہیں، ناسوتی پناہ کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی مسلمان بوقتِ ضرورت کسی غیر اسلامی

 

۷۹

 

ملک سے ہجرت کر کے مسلمین کے درمیان پناہ لیتا ہے، یا کوئی مومن ہنگامی طور پر خانۂ کعبہ یا مسجد میں پناہ گیر ہو جاتا ہے، فنا فی المرشد ملکوتی پناہ ہے، فنا فی الرسول جبروتی پناہ، اور فنا فی اللہ لاہوتی اور آخری پناہ گاہ ہے، اور دوسرے اعتبار سے فنائیں چار ہیں: فنائے ذکر، فنائے فکر، فنائے عشق، اور فنائے معرفت۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
۲۳ ربیع الاول ۱۴۰۹ھ / ۵ نومبر ۱۹۸۸ء

۸۰

 

عشقِ سماوی

۱۔ خدا، رسول، اور سردارِ مومنین کی محبت اگر حقیقی معنوں میں اور درجۂ کمال پر ہے، تو یہ ہر لحاظ سے آسمانی عشق ہے، کیونکہ اس کا حکم کتابِ سماوی یعنی قرآنِ پاک میں ہے، اور اس کا ذکرِ جمیل اور عالیشان چرچا تمام آسمانوں کے فرشتوں میں ہوا کرتا ہے، جیسا کہ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے کہ: جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے، تو جبریل کو ندا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلان سے محبت کرتا ہے، لہٰذا تو بھی اس سے محبت رکھ، تو جبریل اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر حضرتِ جبریل تمام اہلِ آسمان کو ندا دیتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ فلان کو دوست رکھتا ہے، تم بھی اسے دوست رکھو، تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر دنیا میں بھی اس کی مقبولیت پیدا کر دی جاتی ہے (بخاری، دوم، کتاب بدء الخلق، حدیث ۴۴۲)۔

۲۔ دنیا میں جن لوگوں کا کوئی مذہب نہیں، وہ تو لادین کہلاتے

 

۸۱

 

ہیں، ان کے وہاں نہ تو اللہ تعالیٰ کی دوستی کی کوئی منطق بنتی ہے، اور نہ دشمنی کی، کیونکہ وہ تو سرے ہی سے خدا کو نہیں مانتے، باقی لوگ جو اہلِ ادیان ہیں، وہ سب کے سب خداوندِ عالم کی دوستی کا دعویٰ کر رہے ہیں، لیکن سنتِ الٰہی کے مطابق کسی کا یہ دعویٰ اس وقت حق بجانب ہو سکتا ہے، جبکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کامل اطاعت کرے، اور یہ قرآنِ حکیم ہی کا فیصلہ ہے (۰۳: ۳۱) اور یہاں یہ بھی ایک بنیادی نکتہ ہے کہ پیغمبرِ برحق کی محبت کے بغیر کوئی حقیقی اطاعت نہیں۔

۳۔ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: والذی نفسی بیدہ لا یؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ = اُس ذاتِ پاک کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں (بخاری، حصّۂ اوّل، کتاب الایمان) غرض حقیقی محبت اور عشقِ سماوی سے متعلق آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبوّی اس کثرت سے ہیں، کہ یہاں ان سب کا کسی طرح سے بھی احاطہ ممکن نہیں۔

۴۔ حق بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت، اور اس کے محبوب رسولؐ کی محبت کی مقدّس و ملکوتی تعلیم اس زندہ دانشگاہ سے مل سکتی ہے، جس کو تصوّف کی زبان میں مرشدِ کامل کہا جاتا ہے، کیونکہ آسمانی عشق جس طرح جملہ امراضِ باطن کے لئے سب سے بڑا اور انتہائی مؤثر نسخۂ کیمیا ہے، اسی طرح اس کا حصول بھی انتہائی دشوار ہے، اور اس

 

۸۲

 

حقیقت کی دلیل ظاہر ہے کہ فنا فی اللہ براہِ راست ممکن ہی نہیں، مگر بواسطۂ فنا فی الرسول، اور فنا فی الرسول غیر ممکن ہے، الا بوسیلۂ فنا فی المرشد، کیونکہ الوھیت کا دروازہ نبوّت ہے، اور نبوّت کا باب ولایت، اے میرے عزیز! کیا آپ نے یہ نہیں پڑھا ہے کہ آسمانوں کے دروازے ہوا کرتے ہیں؟ آیا یہ دروازے آسمانِ باطن کے نہیں ہیں (۰۷: ۴۰)؟ ورنہ ظاہری آسمان کے بند دروازے کہاں ہیں؟

۵۔ اس حقیقت سے کسی مومن کو ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہو سکتا کہ دینِ فطرت (اسلام) میں انبیاء علیہم السّلام کے بعد صدیقین یعنی اولیاء کا درجہ لازمی ہے (۰۴: ۶۹) لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا ہر ولی راہِ مستقیم پر پیغمبرِ خدا کے پیچھے پیچھے اور لوگوں کے آگے آگے نہیں ہوتا؟ کیا متعلقہ آیۂ کریمہ (۰۴: ۶۹) کا نقشۂ پیروی ذیل کی طرح نہیں بنتا؟

۶۔ یقیناًعشق و فنا کے تین درجے ہیں: ولایت، نبوّت، اور الوھیت، آپ نے قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف میں اولیاء اللہ کے فضائل کو خوب غور سے دیکھا ہوگا، جیسے سورۂ یونس میں ارشاد ہوا ہے:

 

۸۳

 

الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیہم و لا ھم یحزنون (۱۰: ۶۲) یاد رکھو کہ اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں (وہ جو ایمانِ کامل رکھتے ہیں اور متقی ہیں، ان کے لئے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے۔ ۱۰: ۶۳ تا ۶۴) خوف کا تعلق مستقبل اور ابد سے ہے، اور غم ماضی و ازل کی محرومیوں سے متعلق ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو اسرارِ ازل و ابد کا یکجا مشاہدہ کراتا ہے، جس میں وہ حضرات اپنی انائے علوی کو خوف و غم سے بالاتر اور آزاد دیکھتے ہیں، کیونکہ وہاں ایسی لازوال بہشت ہے کہ اس میں تمام نعمتیں بلا کم و کاست ہمیشہ موجود ہیں۔

۷۔ جب پروردگارِ عالم کی جانب سے کسی ولی کو خوشخبری آتی ہے، تو وہ عملی اور انفرادی نوعیت کی ہوا کرتی ہے، ایسی خوشخبری کے معنی ہیں: خیال، خواب، روحانیّت، اور بیداری میں پیہم عالمِ لطیف کے عجائب و غرائب کا احساس و ادراک ہونا، جس میں عقل و روح کی حکیمانہ مخاطبت اور تمام اسرارِ عظیم کی معرفت شامل ہے، اور یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ ہر پیغمبر ولی (خدا کا دوست) ہوتا ہے، مگر ہر ولی کا پیغمبر ہونا ضروری نہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ (۱۰: ۶۲) میں تمام خدا کے دوستوں (انبیاء و صدیقین) کا ذکر ہے، لہٰذا اس کی وضاحت اور بشارت، روحانیّت اور عقلانیّت کی جملہ منزلوں پر محیط ہو جاتی ہے، یعنی پیغمبروں کے ساتھ ملا کر ذکر کرنے کی وجہ سے اولیاء

 

۸۴

 

کی روحانیّت بھی انتہائی بلندی پر لازمی ہوتی ہے۔

۸۔ آسمانی عشق ایک نور ہے، ایک مؤید فرشتہ ، ایک روحانی سوزش و جنبش، ایک میٹھا درد جو دوائے کلّی ہے، ایک قیامتِ صغریٰ جو سراسر بیداری اور آگہی ہے، ایک نغمۂ بہشت جو صرف روح سنتی ہے، ایک نرالی خوشبو جس میں تمام خوشبوؤں کا جوہر ہے، ایک انمول موتی جس سے علم و حکمت کی نہریں جاری ہو جاتی ہیں، ایک خورشیدِ انور جس میں عقل و جان کی معموریت ہے، ایک روح پرور خلیاتی لذّت، ایک بلند ترین بصیرت، ایک انتہائی مفید عزرائیلی معجزہ، ایک رقت انگیز اور اشک آور اسرافیلی ساز، ایک عظیم الشّان ملکوتی غلغلہ، ایک سماوی تطہیر جو نورِ عشق کی شعاعوں سے ہوتی ہے، ایک خاموش دعا جس میں دیدارِ الٰہی مطلوب ہے، ایک برقِ طور کا طبی کرنٹ، ایک پیراہنِ یوسفی، ایک پُرحکمت محویّت و فنائیّت، ایک مژدۂ حیاتِ سرمدی، ایک صدائے بازگشتِ عرشِ معلیٰ، اور ایک رحمتِ خداوندی۔

۹۔ عشقِ سماوی علم و حکمت اور ذکر و عبادت سے ہر بار تروتازہ ہوتا رہتا ہے، اور یہی وہ واحد وسیلہ ہے، جس سے حجاباتِ جمال و جلالِ جبروت و لاہوت اٹھا دیئے جاتے ہیں، کیونکہ طورِ ازل پر جو تجلّی ہوئی تھی، اس کے زیرِ اثر کوہِ عقل کے لاتعداد گوہر پارے ہوئے تھے، جو سب کے سب قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، پس اگر چشمِ بصیرت سے ایسے کسی نگینے میں دیکھا جائے، تو یقیناً اس میں تجلئ ازل کا عرفانی

 

۸۵

 

عکس نظر آئے گا، اور یہ قرآنِ عظیم کا سب سے بڑا ظاہری معجزہ ہے، اور اسی علمی دیدار سے آپ ہمیشہ عشقِ حقیقی کو تر و تازہ کر سکتے ہیں۔

۱۰۔ تین مراحل کی فناؤں میں سب سے زیادہ دشوار “فنا فی المرشد” کا مرحلہ ہے، کیونکہ اوّل تو حقیقی اور کامل مرشد کی پہچان کوئی آسان بات ہے نہیں، اور اگر خوش بختی سے ربّانی مرشد مل گیا، تو پھر بھی محویّت و فنائیّت حاصل نہیں ہو سکتی، تا آنکہ علمی و عرفانی کوشش کے نتیجے میں اس کی پوشیدہ خوبیوں کا یقینِ کامل نہ ہو، اور دل میں آتشِ عشق نہ لگ جائے، اور اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی تائید سے یہ جملہ مشکلات آسان ہو جاتی ہیں، تو پھر ان شاء اللہ ، یہ علامت آگے جانے کی خوشخبری ہے۔

۱۱۔ خدائی عشق کی تشبیہہ و تمثیل آگ سے دی گئی ہے، چنانچہ جب کوئی آدمی ایمان، علم، اور تقویٰ کے معنوں میں ابنِ آدم قرار پاتا ہے، تو اس وقت آسمانِ روحانیّت سے نارِ مقدّس نازل ہو کر اس کی قربانی (گوسپندِ نفس) کو کھا لیتی ہے، جس طرح حضرتِ ہابیل علیہ السّلام کی قربانی قبول ہوئی تھی (۰۵: ۲۷) اور یہ ایک عظیم روحانی واقعہ ہے، تاہم اس کی جزوی مثالیں بھی ہیں، یعنی معجزۂ عشق کے بہت سے ذیلی درجات ہیں، تاکہ لوگوں کے باطنی امراض کا کم کم علاج ہوتا رہے۔

۱۲۔ سوال: حدیثِ شریف میں ہے: من احب القراٰن فلیبشر = جس شخص کو قرآن سے محبت ہو اس کو خوشخبری ہے (دارمی، فضائل القرآن) اس ارشاد سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ قرآنِ

 

۸۶

 

پاک کی محبّت بے حد ضروری ہے، پھر یہاں یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا ایسی محبت کے وسیلے سے فنا فی القرآن ممکن ہے، جبکہ یہ سامنے موجود ہے؟ جواب: جی ہاں، بالکل ممکن ہے، مگر یہ فنا الگ نہیں، بلکہ مذکورہ تین فناؤں کے ساتھ ساتھ ہے، پس ہر دانشمند پر واجب ہے کہ وہ “موتوا قبل ان تموتوا” کے حکم پر عمل کرے، تاکہ اپنے آپ کو قرآنِ مجید میں فنا شدہ پائے، اور ایسے ہیں عشقِ سماوی کے کمالات و معجزات، پس یہی عشق تمام امراضِ باطن کے لئے سب سے بہترین نسخۂ کیمیا ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
۹ ربیع الثانی ۱۴۰۹ھ / ۲۰ نومبر ۱۹۸۸ء

 

۸۷

 

 

خواب اور خزائن

۱۔ ویسے تو روحانیّت کے موضوعات سب کے سب زبردست دلکش و مسرت انگیز ہوا کرتے ہیں، اور اگر حسنِ اتفاق سے اس میں خزانہ یا خزائن کا قصّہ بھی چھڑ جائے تو پھر اس کا تجملِ معنوی اور کمالِ حقیقی نقطۂ عروج پر پہنچ جاتا ہے، کیوں نہ ہو جبکہ خزانوں ہی سے ہر چیز پیدا ہو جاتی ہے، اور خزانوں ہی میں ہر شیٔ جمع ہو جاتی ہے (۱۵: ۲۱) اور خزانے کی سب سے بڑی تعریف و مثال یہ ہے کہ پروردگارِ عالم بذاتِ پاکِ خود ایک مخفی خزانہ تھا، جیسا کہ حدیثِ قدسی کا یہ ارشاد مشہور ہے:
کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق ۔ میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا اور پسند کیا کہ پہچانا جاؤں پس میں نے خلق کو مخلوق کیا۔ یعنی جسمانی تخلیق کے بعد روحانی تخلیق کی، کیونکہ عام خلقت سے خدا شناسی کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا، جب تک کہ عارفین پیدا نہ ہو جائیں، اس سرِ عظیم میں بدقتِ

 

۸۸

 

تمام سوچنے کی ضرورت ہے کہ خداوندِ عالم کن اعلیٰ معنوں میں گنجِ مخفی تھا اور ہے؟ اور عارفوں کو خدا کس طرح مل جاتا ہے؟

۲۔ جو نیک بخت سالکِ عارف مرتبۂ فنا فی اللہ کو حاصل کرتا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے کنزِ مخفی میں داخل ہو جاتا ہے، اور بحکمِ “من کان لِلّٰہ کان اللّٰہ لہ” ( جو خدا کا ہو جائے تو خدا بھی بطورِ خاص اسی کا ہو جاتا ہے) اسے حیاتِ طیبۂ سرمدی مل جاتی ہے۔

۳۔ جب اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس گنجِ ازل ہے، تو پھر اس کی اسی پسندیدہ سنت و عادت کے مطابق ہر اسم ایک کنز، ہر کلمہ ایک گنجینہ، ہر آیت ایک دفینہ، اور ہر سورت ایک مخزون ہے، یہاں تک کہ انبیاء و اولیاء بھی خزائنِ الٰہی کہلاتے ہیں، مثال کے طور پر حضرتِ آدم علیہ السلام قصّۂ قرآن میں پہلا خزانہ ہیں، قس علیٰ ہٰذا۔

۴۔ قرآنِ حکیم میں کنوز و خزائن کا پُرحکمت ذکر موجود ہے، اس کے علاوہ جہاں جہاں در و دیوار اور قفل و کلید جیسے الفاظ آئے ہیں، ان کا واضح اشارہ بھی خزانوں ہی کی طرف ہے، کیونکہ یہ ساری چیزیں خزینوں سے متعلق ہیں۔

۵۔ حدیثِ شریف کی کتابوں میں دعائے “لا حول” کا ذکر کثرت سے آیا ہے، اور ارشاد ہوا ہے کہ یہ کلمہ بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، اور المستدرک، جزء الاوّل، کتاب الدعا میں ارشاد ہوا ہے کہ اس میں ننانوے (۹۹) بیماریوں کی دوا ہے، ان میں سب

 

۸۹

 

سے معمولی بیماری غم ( ھمّ ) ہے، یقیناً اس میں روحانی طاقت ہوگی، جس طرح کسی ظاہری بینک میں مالی طاقت جمع رہتی ہے، اور یہاں یہ نتیجہ بھی اخذ کر لینا ہے کہ جب لا حول و لا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم جنّت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، تو پھر کسی شک کے بغیر بہشت کے دوسرے تمام خزائن بھی کلماتی، روحانی، علمی، عرفانی اور عقلی کیفیت میں ہیں۔

۶۔ خواب اور خزائن کے اس موضوع کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ واجبی طور پر کوشش کریں تو ان شاء اللہ، آپ خواب میں ایسے کسی خزانے کے عجائب و غرائب کا کوئی نمونہ دیکھ سکتے ہیں، اس کی بنیادی شرط تقویٰ ہے، پھر آپ سورتوں، آیات، کلمات، اور اسماء میں سے کوئی ایک چند دن کے لئے کثرت سے پڑھا کریں، تاکہ اس کا مخصوص فیض خواب و بیداری میں حاصل ہو، اسی طرح نوبت بنوبت اور جدا جدا بہت سے خزانوں کی روحانی اور علمی جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں، اور اس سلسلۂ عمل کے بے شمار فائدے ہیں۔

۷۔ جب جب بندۂ مومن نورانی خواب دیکھتا ہے، تو اکثر اس کو یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ کس نیک عمل کا جزوی اجر و صلہ تھا، جو خداوندِ عالم کی طرف سے عطا ہوا؟ کیونکہ اس کے نیک اقوال و افعال مخلوط ہوا کرتے ہیں، جیسے کوئی معجون اور مرکب دوا کہ بیماری کے لئے مؤثر و مفید تو ہے، لیکن سوائے طبیب اور کیمسٹ (chemist  = دواساز)

 

۹۰

 

کے کسی کو کیا معلوم کہ اس میں کیا کیا اجزاء ہیں، یا اس کی مثال ایسے رس سے دی جا سکتی ہے جو مکس پھلوں سے تیار کیا گیا ہو، یا کئی عطروں کا آمیختہ اور مجموعہ اس کی مثال ہے۔

۸۔ یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ کسی سورۃ، یا آیت، یا کلمہ، یا اسم کو کس طرح اور کتنی بار پڑھنا چاہئے؟ اس کا جواب قرآنِ حکیم (۰۳: ۱۹۱) میں اس طرح ارشاد ہوا ہے: وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد کرتے ہیں کھڑے بھی بیٹھے بھی اور لیٹے بھی۔ اور یہ بابرکت یاد روح کی زبان سے عاجزی اور خوف کے ساتھ ہو یا کم آواز سے ہو (۰۷: ۲۰۵) اور کم از کم ایک گھنٹے تک مسلسل جاری رہے، تو تب کوئی وظیفہ دل میں اتر کر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

۹۔ کسی دعا کی تعداد معلوم کرنے کی ایک مثال ملاحظہ ہو: لا ۔ حو ۔ ل ۔ و ۔ لا ۔ قو ۔ ۃ ۔ ا ۔ لا ۔ با ۔ للہ ۔ ا ۔ لعلی ۔ ا ۔ لعظیم ۔ پس اس کلمہ کے پندرہ ٹکڑے ہیں، چنانچہ اس خزانے کا مؤکل (مقرر کردہ فرشتہ) پندرہ، ایک سو پندرہ، پندرہ سو، پندرہ ہزار اور پندرہ لاکھ کے کسی مقام پر مل سکتا ہے، اور یقیناًاس گنجِ روحانی کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ بیداری میں نہیں تو خواب میں ضرور ہو سکتا ہے۔

۱۰۔ تعداد کی دوسری مثال: الوھاب (عطا فرمانے والا) ا ۔ ل ۔ و ۔ ھ ۔ ا ۔ ب = ۱+۳۰+۶+۵+۱+۲ = ۴۵ x۱۰۰۰ = ۴۵۰۰۰، کیونکہ

 

۹۱

 

فرشتۂ اعظم کا عدد ایک ہزار ہے، لہٰذا پینتالیس کو ہزار سے ضرب دیا گیا، اب اس اعتبار سے اسمِ الوھاب کا ورد ۴۵ ہزار پر جا کر اپنا کام کرنے لگے گا، اور خواب و بیداری میں اس کی بشارتیں ملیں گی۔

۱۱۔ تیسری مثال: قرآنِ حکیم میں ایک بڑا عدد پچاس ہزار ہے (۷۰: ۰۴) جس میں عروج و ارتقاء کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور وظیفہ خوانی بھی اسی مقصد کے لئے ہے، پس اگر کوئی مختصر کلمہ ہے، یا کوئی اسم ہے، تو اسے پچاس ہزار بار پڑھنا چاہئے، تاکہ اس کا خزانہ خواب میں معلوم ہو جائے (ان شاء اللہ العزیز)۔

۱۲۔ چوتھی مثال: اللہ تعالیٰ کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہوئے ہیں، اور اس تعداد میں بہت حکمت ہے ،کہ انسانیّت اتنی ساری دینی منزلوں سے گزر کر حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالی صفات تک پہنچ گئی ہے، اس لئے یہ عدد بڑا مبارک اور اوراد کا ایک آخری مرحلہ ہو سکتا ہے، جس میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

۱۳۔ پانچویں مثال: پیمانۂ وقت اور گنتی کے بغیر بھی ذکر کامیاب ہو سکتا ہے، چنانچہ میں نے کچھ برس پہلے ایک دن کسی حساب کے بغیر درودِ شریف یعنی اللّٰھم صلی علیٰ محمد و اٰل محمد کا ورد کثرت سے کیا، جس کے نتیجے میں رات کو بڑا عجیب خواب دیکھا، ایک تیز اور صاف ستھری ہوا مجھے آسمان کی طرف عمودی

 

۹۲

 

پرواز دے رہی تھی، کافی بلندی پر پہنچتے ہوئے سوائے زبردست شادمانی کے اور کسی چیز کا احساس نہیں ہوا، اور یہ خزانۂ درود کا ایک پُرحکمت کرشمہ تھا، اور اس کا اشارہ بڑا عجیب و غریب ہے۔

۱۴۔ چھٹی مثال: اچھے خواب بہت زیادہ ہیں، لیکن قصّہ ایسے خوابوں کا ہے، جو کسی مخصوص وظیفہ کے تحت ہوں، چنانچہ میں نے ۲۱ نومبر ۱۹۸۸ء کی رات بعد از عبادت ایک بہت ہی انوکھا خواب دیکھا، میں چند عزیزوں کے ساتھ (جن میں عزیزم غلام قادر بھی ہیں) ایک مقام پر ہوتا ہوں، ہم کسی نشیبی علاقے سے کچھ سامان کے ساتھ آہستہ آہستہ بلندی کی طرف چڑھتے جاتے ہیں، راستے میں کچھ بھیڑ بکریاں دکھائی دیتی ہیں، جو زندہ اور چلتی پھرتی تو ہیں، مگر بہت غمگین ہیں، کیونکہ ان کے جسم پر کھال کا نام و نشان نہیں ہوتا، میں بڑی حیرت سے پوچھتا ہوں کہ ان کو کیا ہوگیا ہے؟ کوئی شخص جواباً کہتا ہے کہ: ان کی کھال اتاری گئی ہے، تاکہ اون، بال، اور کھال سے فائدہ ہو، میں نے پھر پوچھا کہ: آیا یہ بے چارے جانور بہت جلد نہیں مریں گے، جواب ملا: نہیں، کچھ وقت کے بعد ان کی جلد اور اس پر سب کچھ بحال ہو جائے گا۔

ہم وہاں سے کچھ اور اوپر جا کر ایک جگہ تازہ دم ہونے کی خاطر بیٹھ گئے، اتنے میں مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے منہ میں کوئی چیز ہے، اسے نکالنا چاہئے، سو میں نے دستِ راست سے اس چیز کو کھینچا، اور

 

۹۳

 

باہر نکال کر دیکھا، تو یہ موتیوں کا ایک انتہائی خوبصورت ہار تھا، میں جب بیدار ہوا تو خیال آیا کہ میں نے لا حول کثرت سے پڑھا تھا، اسی لئے یہ معنی خیز خواب دیکھا۔

۱۵۔ اے عزیزِ من! اگر آپ سچے دل سے قرآن و حدیث کے عاشق ہیں، تو خزائنِ حکمت سے علی الدوام فیوض و برکات حاصل کرتے رہنا، کیونکہ اس مبارک عمل میں نہ صرف باطنی بیماریوں سے محفوظ و سلامت رہنے کا راز پوشیدہ ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لاتعداد فائدے بھی ہیں، توجہ سے سن لیجئے، خدا کی خدائی میں جو بے شمار خزانے ہیں، وہ درحقیقت کس کے لئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بے نیاز و برتر ہے، وہ ہر چیز کا مالک تو ہے ہی، لیکن عنایت کر دینے کے معنی میں، اس کا سب سے روشن ثبوت یہ ہے کہ وہ بذاتِ پاکِ خود عارفوں کا گنجِ مخفی ہے، اور اس میں عقل والوں کے لئے کافی بلیغ اشارے ہیں۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
۱۷ ربیع الثانی ۱۴۰۹ھ / ۲۸ نومبر ۱۹۸۸ء

۹۴

مقبول دعائیں

۱۔ جہاں روحانی علاج سے بحث ہو رہی ہے، اور جیسے خواب و خزائن کا ذکر ہوا، وہاں کوئی ہوشمند ضرور یہ سوال کرے گا کہ آیا کوئی ایسا مختصر اور آسان طریقہ ہے، جس کی روشنی میں ہر مؤمن کو قرآنِ مجید کی خاص اور مقبول دعاؤں کی معرفت حاصل ہو سکے؟ تا کہ ان مبارک و مستجاب کلمات کے فیوض و برکات سے اہلِ ایمان کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف کاملاً متوجہ ہو، پھر بلائیں رد اور مشکلات آسان ہو جائیں؟

۲۔ اس مناسب سوال کا جواب یہ عرض کرتا ہوں کہ اس کے دو طریقے ہیں، ایک طریقہ بڑا مشکل ہے، اور دوسرا آسان، جو مشکل ہے، اس کا تعلق روحانیّت اور معرفتِ ذات سے ہے، لہٰذا یہاں اس سے بحث نہیں کرتے، کیونکہ بات پہلے اسی کی ہونی چاہئے، جو آسان ہے، چنانچہ قرآنِ پاک کی خاص اور مقبول دعاؤں کی شناخت کا آسان طریقہ ذیل کی طرح ہے:

۳۔ حمد و ثناء: جہاں قرآنِ حکیم میں کسی سورۃ یا کسی آیت کا

 

۹۵

 

آغاز خدائے بزرگ و برتر کی حمد و ثناء اور تسبیح و تہلیل سے ہوتا ہے، وہاں علم و حکمت کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک پہلو دعائے خاص سے متعلق ہوتا ہے، جیسے سورۂ فاتحہ کاآغاز ہے۔

۴۔ اللّٰھم: چند مقبول دعائیں اسمِ پاکِ “اللّٰھم” سے شروع ہو جاتی ہیں، جیسے حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام نے جب حواریین کے سوال پر نزولِ مائدہ (دسترخوان) کے لئے ربّ العزّت کی بارگاہِ عالی میں درخواست کی، تو اس وقت آپ نے یہ دعا اللّٰھم کے بابرکت اسم سے شروع کی (۰۵: ۱۱۴)۔

۵۔ ربّنا / ربّی: ویسے تو قرآنِ پاک میں ربّنا /ربّی کے الفاظ بر سبیلِ بیان بھی کثرت سے آئے ہیں، لیکن جہاں جہاں یہ اسمِ ندا کے طور پر مذکور ہیں، وہاں یقیناً مخصوص و مستجاب دعائیں موجود ہیں، جیسے سورۂ بقرہ کے آخر میں ہے: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ ۔۔۔ (۰۲: ۲۸۶) اور اسی طرح کی بہت سی آیاتِ کریمہ ہیں، جن کے شروع میں دعائیہ اسم آیا ہے۔

۶۔ اللہ: لفظِ “اللہ” اسمِ ذات کا قائمِ مقام ہے، چنانچہ یہ بزرگ نام جب خصوصی تعریف و توصیف کے ساتھ آتا ہے، تب وہ آیۂ کریمہ ایک خاص دعا قرار پاتی ہے، جیسے آیت الکرسی کے آغاز میں ہے: اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ- ۔۔۔ (۰۲: ۲۵۵)۔

۷۔ لا الٰہ: جن مبارک کلمات کی اساس باری تعالیٰ کی توحید پر

 

۹۶

 

قائم ہے، وہ بھی زبردست مؤثر دعائیں اور خاص اذکار ہیں، مثال کے طور پر حضرتِ یونس علیہ السّلام کی دعا: لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ  اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (۲۱: ۸۷)۔

۸۔ قل: چار قل (سورۂ کافرون، سورۂ اخلاص، سورۂ فلق، سورۂ ناس) اور بعض ایسی آیاتِ مقدّسہ، جو لفظِ قل سے شروع ہوتی ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور مقبول دعاؤں میں سے ہیں، کیونکہ قل (کہہ) کے دو معنی ہیں: لوگوں سے کہنا اور دعا کے طور پر کہنا یا پڑھنا، جیسے سورۂ طٰہٰ میں حکم ہے: وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (۲۰: ۱۱۴) اور آپ یہ دعا کیجئے کہ اے میرے ربّ میرے علم میں اضافہ فرما۔ دوسری مثال: قل اللّٰہ ثم ذرھم (۰۶: ۹۱) طبی تفسیر: جب مخالفین تم کو وسوسوں کی صورت میں اذیت دینے لگیں، تو دل ہی دل میں اللہ اللہ کا ورد کرتے رہو تاکہ تم ان لوگوں (یعنی وسوسوں) کو پیچھے چھوڑ کر آگے جا سکو۔

۹۔ صلوا علیہ: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی نبی پر درود بھیجا کرو اور سلام بھیجا کرو جیسا کہ حق ہے (۳۳: ۵۶) اس امرِ خداوندی سے صلوات کی بہت بڑی اہمیت ظاہر ہو جاتی ہے کہ صلوات خدا کی خدائی میں بتقاضائے حکمت اتنی ضروری ہے کہ اسے خود پروردگارِ عالم اور اس کے ملائکہ بھیجا کرتے ہیں، اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ مومن کی درود خوانی آسمانی درود سے واصل ہو کر کوئی بڑا کرشمہ دکھا سکتی ہے، اللّٰھم صل علیٰ

 

۹۷

 

محمد و آل محمد ۔

۱۰۔ دعاہائے انبیاء علیہم السّلام: جس طرح حضراتِ انبیاء علیہم السّلام اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ بندے ہیں، اسی طرح ان کی وہ تمام دعائیں بھی منتخب و مقبول ہیں، جو قرآنِ حکیم میں مذکور ہیں، چنانچہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کی مبارک دعا کے دو پہلو ہیں، ایک ظاہری ہے (۰۷: ۲۳) اور دوسرا روحانی (۰۲: ۳۷) اس دوسرے حوالے کے مطابق آپ کو جن پاک و پاکیزہ کلمات کی تعلیم دی گئی تھی، وہ کلماتِ تامّات اور اسمائے عظام تھے، اسمِ اعظم اگرچہ ایک ہی ہوتا ہے، تاہم اس کے تحت یا اس کے خزانے میں بہت سے اسماءُ الحسنیٰ ہیں، پس حضرت آدمؑ کو خدا کے جملہ بزرگ ناموں اور کلماتِ تامّات کا علم عطا ہوا تھا، اور یاد رہے کہ توبہ کے اصل معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں، جس کے کئی مقامات ہیں، اور اس کا آخری مقام ازل ہے، چنانچہ توبۂ آدم کی حقیقت یہ ہے کہ آپ مذکورہ علم کے وسیلے سے مشاہدۂ اسرارِ ازل تک رسا ہو گئے اور اللہ کے اسمِ صفتِ تواب کے حقیقی معنی یہی ہیں (۰۲: ۳۷)۔

۱۱۔ ایک عجیب دعا: حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ایک پُرحکمت دعا کا ترجمہ یہ ہے: اور نوح نے کہا کہ اے میرے پروردگار کافروں میں سے زمین پر ایک باشندہ بھی مت چھوڑ (کیونکہ) اگر تو ان کو روئے زمین پر رہنے دے گا تو تیرے بندوں کو گمراہ ہی کر دیں گے اور ان کی اولاد بھی گنہگار اور کٹی کافر ہی ہوگی (۷۱: ۲۶ تا ۲۷) ۔ سوال:

 

۹۸

 

یہ کس نوعیت کی دعا ہے؟ ہنگامی؟ یا دائمی؟ اگر یہ مانا جائے کہ طوفان میں سب کافر ہلاک ہوگئے تھے، تاہم سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ جس زمین کو کفر کی نجاست سے پاک ہونے کی دعا کی گئی تھی، اس میں کفار کیسے پیدا ہوگئے؟ اس کا کوئی جواب نہیں، لیکن صرف ایک ہی جواب ہے کہ یہ حضرتِ نوح علیہ السّلام کے عالمِ شخصی کی زمین (روحانیّت) کی بات ہے، جس پر سے کافر ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئے تھے۔

۱۲۔ امر و اشارہ: یہاں یہ نکتہ بھی جاننا چاہئے کہ بعض آیاتِ کریمہ میں ذاتِ سبحان کی عبادت اور اس کی تحمید و تمجید کا حکمِ صریح موجود ہے، جبکہ بعض دوسری آیتوں میں اس عمل کے لئے صرف اشارہ ملتا ہے، مثال کے طور پر سورۂ احزاب (۳۳: ۴۲) میں سبحان اللہ کی تسبیح کا واضح حکم دیا گیا ہے، مگر اس کی انتہائی اہمیت کا ذکر ان آیاتِ مبارکہ کے اشاروں میں موجود ہے، جو ہر چیز کے تسبیح کرنے پر دلالت کر رہی ہیں، اور ایسی آیات کئی ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ تسبیح ہر شیٔ کی بقائے معنوی کا ذریعہ ہے، ورنہ وہ نیست و نابود ہو جائے گی، اور کائنات و موجودات کے حق میں یہی بہت بڑی اہمیت صلوٰۃ و سجود کی بھی ہے (۲۴: ۴۱، ۱۶: ۴۹)۔

۱۳۔ مؤمنین کی دعائیں: مثال: حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل (۰۳: ۱۷۳) خدا ہمارے واسطے کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ اس بابرکت دعا سے خوفِ بے جا کی بیماری زائل ہو جاتی

 

۹۹

 

ہے، اور دل اطمینان و سکون کا مسکن قرار پاتا ہے۔

۱۴۔ فواتح و خواتم: سورتوں کے افتتاحات اور اختتامات (فواتح و خواتم) حکیمانہ عجائب و غرائب سے بھرپور ہیں، اور ان میں سے بعض میں خاص خاص دعائیں بھی ہیں، مثلاً الحامدات (یعنی الحمد سے آغاز ہونے والی سورتوں) اور مُسَبَّحَات ( سَبَّحَ سے شروع ہونے والی سورتوں) کے اوائل میں دعائیں ہیں، جیسا کہ اس کا ذکر ہو چکا کہ جہاں بھی خداوندِ تعالیٰ کی تحمید و تسبیح ہو، وہاں دعا کی صورت بنتی ہے، یہ سورتوں کے فواتح میں خاص خاص دعائیں، کلمات، یا تسبیحات ہونے کی بات ہوئی، اور اب خواتم کے بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں کہ جس طرح درخت شروع شروع میں خلاصہ اور جوہر ہوا کرتا ہے، درمیان میں درخت ہوتا ہے، اور پھر آخر میں جوہر یعنی بیج یا تخم پیدا ہوتا ہے، اسی طرح نہ صرف قرآن ہی بلکہ ہر سورہ اپنے اوّل و آخر میں ست، لبِ لباب، اور جوہر ہے، اسی مثال سے ہر سورۃ کے خاتمہ کی اہمیّت و عزّت کو سمجھ لیں۔

۱۵۔ آپ سورۂ رحمان کے آخر میں دیکھ لیں: تبٰرک اسم ربک ذی الجلال و الاکرام (۵۵: ۷۸) تمہارا پروردگار جو صاحبِ جلال و کرامت ہے، اس کا نام بڑا بابرکت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم، جس کا اشارہ الحیّ القیّوم میں ہے، جس کے نور کی روشنی میں تمام اسماءُ الحسنیٰ کا یقین ہو جاتا ہے، وہ عقلی، عرفانی، علمی، اور روحانی فیوض و برکات کا سرچشمہ ہے، چنانچہ سورۂ رحمان میں جتنی نعمت ہائے عظمیٰ

 

۱۰۰

 

کا ذکر ہوا، وہ سب کی سب اسی بزرگ اسم کی برکتیں ہیں، پس جو شخص اللہ کے اسمِ اکبر کی معرفت حاصل کرے، وہ ہمیشہ کے لئے سماوی برکتوں سے مالامال ہو گا، اس کی نیک دعائیں قبول اور تمام دینی مرادیں پوری ہوں گی، وہ ہر باطنی بیماری سے محفوظ و سلامت رہے گا۔

۱۶۔ اس سلسلے کی مزید معلومات کے لئے حدیثِ شریف اور فقہ کی کتابِ طب میں بھی دیکھ لیں، اور ہر مقبول دعا یقینِ کامل کے ساتھ کریں، کیونکہ پاکیزہ قول (یعنی علم و عبادت) خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہِ عالی کی جانب بلند ہو جاتا ہے، اور نیک عمل اسے اٹھا کر لے جاتا ہے (۳۵: ۱۰) تاکہ وہ کن فیکون میں فنا ہو، اور دستِ قدرت کوئی کام کرے، پس خصوصی اور مقبول دعا صاحبِ عرش (خدا) کے حکم سے بہت سے مفید کارنامے انجام دے سکتی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
۳ جمادی الاول ۱۴۰۹ھ / ۱۴ دسمبر ۱۹۸۸ء

۱۰۱

حکمتِ عزرائیلیہ

۱۔ نتیجہ خیز سوالات: اے میرے عزیز! کیا آپ نے قرآنِ حکیم میں حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام اور اس کے لشکر کے باب میں غور و فکر کیا ہے؟ آپ یہ وضاحت کریں کہ نفسانی موت اور جسمانی موت کے درمیان کیا فرق پایا جاتا ہے؟ کس قسم کی موت کے نتیجے میں عزرائیل اور دیگر فرشتوں کی معرفت ممکن ہے؟ جزوی موت کس حالت کو کہا جاتا ہے؟ نیند کے بارے میں قرآنِ مجید کا کیا ارشاد ہے؟ اگر نیند موت ہے تو یہ کس قسم میں شامل ہے؟ روحانی (نفسانی)؟ یا جسمانی؟ آیا قرآنِ پاک میں روحانی شہادت کا کوئی ذکر موجود ہے؟ اگر ہے تو سورۃ اور آیہ کون سی ہے؟ آیا فرشتۂ موت سب کا فقط ایک ہی ہے؟ یا ہر شخص کا ایک ذاتی عزرائیل ہوا کرتا ہے؟ عزرائیل ہر آدمی پر کس معنیٰ میں مؤکل (مقرر، ۳۲: ۱۱) ہے؟

۲۔ کیا یہ حقیقت ہے کہ نیند ایک قسم کی موت ہے، اس لئے سلانے کا مؤکل عزرائیل ہی ہے؟ پھر جگانے کا کام کس فرشتے کے سپرد ہے؟ اسرافیل؟ حضرتِ عزرائیل کس طرح کسی کی روح قبض

 

۱۰۲

 

کر لیتا ہے؟ اور اس کے لشکر کا کیا کردار ہوتا ہے؟ جو لوگ حادثات میں مرتے ہیں، ان کی جان کس طرح قبض کی جاتی ہے؟ آیا جانوروں کی موت بھی عزرائیل ہی کی نگرانی میں واقع ہوتی ہے؟ کیا یہ بات درست ہے کہ ایک کامیاب مومنِ سالک منزلِ عزرائیلی میں اپنی روحانی موت کا تفصیلی مشاہدہ کر سکتا ہے؟

۳۔ آپ عزیزوں نے کتابِ “قرآنی علاج” میں جراثیم اور قوّتِ عزرائیلی کے مضمون کو باریک بینی اور رمزدانی سے پڑھا ہوگا، وہ بے حد ضروری موضوع ہے، لہٰذا آپ اسے پھر ایک بار پڑھ لیں، تا کہ حکمتِ عزرائیلیہ آپ کے لئے زیادہ سے زیادہ قابلِ فہم ہو سکے، کیونکہ حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کے بھیدوں کے جاننے میں مومنین کے لئے بے شمار فائدے ہیں، مثلاً یہ جاننا کیا کم ہے کہ ہر شخص میں عزرائیل کا ایک عکس ہے، جس کو قوّتِ عزرائیلیہ کہتے ہیں، یہ وہی قوّت ہے، جس سے اہلِ دانش اپنے اندر جراثیم کشی کا کام لے سکتے ہیں، آپ وسوسوں کو بھی جراثیم کہہ سکتے ہیں، جن کا خاتمہ قوّتِ عزرائیلی ہی کر سکتی ہے، جبکہ حقیقی معنوں میں اس کو ذکرِ الٰہی سے حرکت دی جاتی ہے، اور کسی شک کے بغیر یہی طاقت دوسرے تمام جراثیم کو بھی ہلاک کر ڈالتی ہے، کیونکہ ہلاکت جہاں بھی ہو، اور جس چیز کی بھی ہو، وہ بس عزرائیل ہی کا کام ہے، اور یہ بڑی جامعیت کے ساتھ ایک جواب ہے۔

۴۔ شمس (سورج) فی الاصل آسمان میں ایک ہی ہے، مگر زمین پر

 

۱۰۳

 

اس کے مقابل آئینے جس کثرت سے بھی ہوں گے، ان میں اسی کثرت سے شموس دکھائی دیں گے، چنانچہ حضرتِ عزرائیل عالمِ علوی میں صرف ایک ہی ہے، تاہم اس کی زندہ تصویریں، جو اثر انگیزی اور فعالیّت میں یکتا ہیں، تمام لوگوں میں موجود ہیں، پس اسی معنیٰ میں ملک الموت ہر شخص پر موکل اور مقرر ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عزرائیل صرف جان لینے کی غرض سے ہماری موت کے دن کا منتظر نہیں، بلکہ اس کے اور بھی بہت سے کام ہیں، جیسے آرام کے وقت ہم پر نیند مسلط کر دینا، ذکر کے دوران وسوسوں کو مٹانا، ذاکر کے ذکر یا اسمِ اعظم کو قلب سے مرفوع کر کے پیشانی (دماغ) تک پہنچا دینا، کلمۂ تقویٰ کو لازم کر دینا، تطہیر و تزکیہ کا عمل، بدنی روح کو کائنات میں پھیلاتے ہوئے کائناتی روح کو بدن میں ڈالنا، جراثیم یا امراض کی روح کو قبض کر لینا، وغیرہ۔

۵۔ آپ سورۂ حم السجدہ (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) میں خوب غور سے دیکھ لیں کہ خدا شناس مومنین پر فرشتے نازل ہوتے ہیں، مگر یہ بہت بڑی سعادت راہِ روحانیّت پر منزلِ عزرائیلی سے پہلے نصیب نہیں ہوتی، کیونکہ بندۂ مومن پر ملکوت کا دروازہ نفسانی موت ہی کی بدولت کھل جاتا ہے، اور خوب یاد رہے کہ ایسے میں دوسرے بڑے فرشتے اور ان کے لشکر بھی ساتھ کام کرتے ہیں۔

۶۔ سورۂ نازعات کے شروع کی پانچ آیاتِ کریمہ (۷۹: ۰۱ تا ۰۵) کے ترجمہ

 

۱۰۴

 

و تفسیر کے بعد ان کے حکمتی پہلو کو بھی دیکھ لیجئے: قسم ہے ان فرشتوں کی جو (خلیہ خلیہ میں ) ڈوب کر جان کھینچتے ہیں، اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو روح کے بند کو کھولتے ہیں (یعنی انسانی جسم میں روح کا ایک سرا آزاد ہے، جو خواب میں لا تعلق ہو جاتا ہے، اور دوسرا سرا جسم کے ساتھ بندھا ہوا ہے، جس کی وجہ سے نیند کے دوران وہ نکل ہی نہیں سکتا) اور قسم ہے ان فرشتوں کی جو روح کو لے کر تسبیح سے پرواز کر جاتے ہیں، پھر وہ فرشتے روح کو مکان اور زمان سے آگے لے جاتے ہیں، پھر وہ ملائکہ اس روح کو امرِ ازل کی تدبیر کے سپرد کر دیتے ہیں، یعنی اس انتہائی اعلیٰ مقام پر جملۂ اسرارِ ازل کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، کیونکہ تدبیرِ امر کا اشارہ کلمۂ کن کے تجدّد کی طرف ہے۔

۷۔ ایسا کوئی مسلمان شاید کہیں بھی نہ ہوگا جو اس حقیقت سے انکار کرے کہ قرآنِ پاک علم و حکمت کی ایک بہشت ہے، یقیناًاس میں اپنی نوعیت کی تمام نعمتیں موجود ہیں، اور اس میں رحیقِ مختوم بھی ہے (۸۳: ۲۵) جس کی مہر سے مشامِ جان کو کستوری کی خوشبو آتی رہتی ہے (۸۳: ۲۶) چنانچہ ایک ایسی بابرکت آیت و ان من شیءٍ (۱۵: ۲۱) کی ہے، جس کا ایک مختصر مطلب یہ ہے ک خزائنِ الٰہی میں سب کچھ موجود ہے، اور ان سے متعلق جتنا کسی کا علم ہو گا، اتنی وہاں سے چیزیں نازل ہو سکتی ہیں، تاہم اس سلسلے میں مشاہدۂ ازل و اسرارِ ازل سب سے بڑا انقلاب ہے، چونکہ یہ تجربہ عالمِ شخصی ہی میں ہوتا ہے، جو مراتبِ روحانی کی زمین ہے، لہٰذا

 

۱۰۵

 

مذکورہ مشاہدہ ان چیزوں میں شامل و شمار ہوتا ہے، جو خداوند عالم کے ازلی خزانوں سے اترتی ہیں، اور یہاں یہ نکتۂ دلپذیر خوب یاد رہے کہ معجزۂ تجدّدِ ازل زمان سے متعلق تمام سوالات اور الجھنوں کو یکسر ختم کر ڈالتا ہے۔

۸۔ مذکورۂ صدر لاہوتی خزانوں میں ہر بیماری کے لئے کئی کئی نسخہ ہائے کیمیا بھی موجود ہیں، اور ان میں ایک خاص نسخۂ حکمتِ عزرائیلیہ ہے، پس آپ ہر نماز کے بعد تسبیحِ فاطمہ علیہا السّلام کو پڑھ کر یہ تصوّر کریں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے عزرائیل اور اس کے لشکر آپ کے جسم و روح کی بیماریوں کو کھینچ کر نکال رہے ہیں، اور اسی کے ساتھ جراثیم بھی ختم ہو رہے ہیں، وہ مبارک تسبیح یہ ہے: ۳۳ بار اللہ اکبر، ۳۳ بار الحمد للہ، ۳۳ بار سبحان اللہ، اور ایک بار لا الٰہ الا اللہ (دعائم الاسلام ، جزء اول، ص ۲۰۳، عربی)۔

۹۔ عزرائیل علیہ السّلام کا صوتی وجود ایک بولتا اسمِ اعظم ہے، اور یہی اسمِ اکبر کلمۂ تقویٰ بھی ہے، جس کا تذکرہ سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں فرمایا گیا ہے، پس جب کسی مومن پر روحانی موت واقع ہو جاتی ہے، تو اس حال میں عزرائیل بائیں کان کے اندر رہ کر مذکورہ بزرگ اسم کا مسلسل ذکر کرتا رہتا ہے، اور اس کے لشکر جو ذرّاتِ روحانی ہیں، جسم کے بے شمار خلّیات میں اتر کر روح کو سر کی راہ سے نکال لیتے ہیں، مگر روح کا آخری سرا دماغ سے وابستہ رہتا ہے، پھر آفاقی روح میں سے جسم کے سانچے میں

 

۱۰۶

 

ڈالی جاتی ہے، اور یہی عمل (قبضِ روح کا تجدّدِ امثال) تقریباً ۱۸۰ (ایک سو اسی) گھنٹے تک دہرایا جاتا ہے، اور اس میں دوسرے فرشتوں کی بھی عملی شرکت ہوا کرتی ہے، بالخصوص حضرتِ اسرافیل کی۔

۱۰۔ عزرائیل اور اسرافیل نے جہاں بحکمِ خدا ایسی زبردست قوموں کو، جو سرے ہی سے نافرمان تھیں، صفحۂ ہستی سے مٹا دیا ہو، وہاں کوئی درد، مرض، جرثومہ، بیکٹیریا (Bacteria)، وائرس (Virus) اور سرطان (Cancer) کس طرح ٹھہر سکتا ہے، مگر مجبوراً یہی کہنا پڑے گا کہ ہم میں علم، یقین، اور روحانیّت کی بڑی حد تک کمی ہے، ورنہ ساری دنیا میں یہی طریقِ علاج سب سے زیادہ مفید و مقبول ہو جاتا، تاہم کوئی مایوسی نہیں، کیونکہ اب روحانی سائنس کی آمد آمد ہے۔

۱۱۔ جب آدمی کسی شدید بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو وہ دن رات سخت درد محسوس کرتا ہے، مگر جب اس پر نیند طاری ہو جاتی ہے، تو اس وقت اس کو کافی آرام مل جاتا ہے جس کی وجہ بس یہی ہے کہ حضرتِ عزرائیل نیند کے عنوان سے کچھ دیر کے لئے اس کی روح کو قبض کر لیتا ہے (۳۹: ۴۲) اور اسی کے ساتھ اوپر اوپر سے بیماری یا جراثیم کی روح بھی وقتی طور پر نکالی جاتی ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ ہر مرض کی روح ہے، اور اس پر صرف عزرائیل ہی کا کنٹرول ہے۔

۱۲۔ آپ لفظِ نعاس کی قرآنی حکمت (۰۳: ۱۵۴، ۰۸: ۱۱) میں ٹھیک ٹھیک غور و فکر کر لیں، نعاس لغوی طور پر نیند کی جھپکی اور غنودگی تو ہے ہی،

 

۱۰۷

 

لیکن پروردگارِ عالم نے اسے جنگِ بدر اور جنگِ احد میں مومنین کے لئے ایک پُرسکون معجزہ بنا رکھا ہے، پس جو نیک بخت شخص راہِ خدا میں اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد کرے، وہ نہ صرف نعاس اور عزرائیل ہی کے معجزوں کو دیکھے گا، بلکہ ان سے بڑھ کر روحانیّت کی شخصی اور ذاتی کائنات اس پر منکشف ہو جائے گی، جس میں وہ تمام روحانی اور عقلی نعمتیں موجود و مہیا ہیں، جن کا تذکرہ اور وعدہ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۶ جمادی الاول ۱۴۰۹ھ / ۲۷ دسمبر ۱۹۸۸ء

۱۰۸

عین الیقین اور معرفت

۱۔ توحید اور خدا شناسی یعنی عملی معرفت عقل و جان کی سب سے موثر دوا بھی ہے اور سب سے اعلیٰ صحت بھی، کیونکہ خالقِ اکبر نے انسان کو دین و دنیا کے تمام وسائل و ذرائع کے ساتھ اسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے کہ وہ ان سے کام لے کر ربّ العزّت کے عرفان کی لازوال دولت سے ہمیشہ کے لئے مالامال ہو جائے، تاکہ اس کو پروردگارِ عالم کی وہ جملہ نعمتیں حاصل ہوں، جو لامحدود، غیر فانی، اور بے پایان ہیں، جن کا تذکرۂ جمیل قرآنِ حکیم میں بکثرت موجود ہے۔

۲۔ معرفت کا دلنشین و روح پَرور موضوع انسانِ اوّل، ابو البشر، حضرتِ آدم علیہ السّلام ہی سے شروع ہوتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
و علم اٰدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علی الملٰئکۃ (۰۲: ۳۱) اور اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدمؑ کو سارے ناموں کی تعلیم دی پھر ان موسومات کو فرشتوں کے سامنے کر دیا۔ دیدۂ بینا کے سامنے یہ حقیقت روشن ہے کہ آدمِ صفی اللہ کی یہ ربّانی تعلیم جو حقائق و معارف سے متعلق

 

۱۰۹

 

تھی بطریقِ روحانیّت دی گئی تھی، اسی وجہ سے یہ علم فرشتوں کے حق میں مخزنِ سماوی ثابت ہوا، اور اس میں کسی کو شک نہ ہو کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیفے کو خصوصاً اسماءُ الحسنیٰ کا علم عطا فرمایا تھا (۰۷: ۱۸۰) جن کی نورانیّت میں خلیفۂ خدا نے بمشاہدۂ عین الیقین معرفت ہی کے تمام اسرار دیکھ لئے تھے۔

۳۔ کتابِ “علمی علاج” میں “بہشت کے دو دو میوے” کے مضمون کو غور سے دیکھ لیں، یقیناً کوئی چیز جفت کے بغیر نہیں، کیونکہ یکتا صرف خدا ہی کی ذات ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کا کوئی علمی میوہ اکیلا نہیں، بلکہ ہر پھل دراصل دو کا مجموعہ ہے، مثال کے طور پر لفظِ بنی آدم کو لیجئے کہ اس کے عام و خاص دو معنی ہیں، بنی آدم کے عام معنی سب کو معلوم ہیں، اس لئے یہاں خصوصی معنی کا بیان ضروری ہے، اور وہ یہ کہ بنی آدم درحقیقت انبیاء و اولیاء ہی ہیں، کیونکہ صرف انہی پاک و پاکیزہ اور مبارک ہستیوں کے سلسلے میں حضرتِ آدم علیہ السلام کی برگزیدگی، خلافت، اور روحانیّت وراثتًہ چلی آئی ہے، اور انہی حضرات کے پاس آدمِ صفی اللہ کا خزانۂ علمُ الاسماء مخفی رہا ہے۔

۴۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) میں ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): اور جب تمہارے پروردگار نے بنی آدم (انبیاء و اولیاء) سے یعنی ان کی پیٹھوں سے ان کی اولاد (ذرّاتِ روح) نکالی اور ان کو اپنی روح کا مشاہدہ (اور تعارف) کرایا (اور ان سے پوچھا کہ) آیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ وہ کہنے

 

۱۱۰

 

لگے کیوں نہیں، ہم گواہ ہیں (اس لئے کہ ہم نے دیکھا کہ تو ہمارا ربّ ہے، یہاں یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ ہر پیغمبر اور ولی نے اپنے وقت میں جداگانہ طور پر یہ روحانی اور عرفانی معجزہ دیکھا، اور یہ بھی یاد رہے کہ المشہود و الشہادۃ کے معنی کسی چیز کا مشاہدہ کرنے کے ہیں خواہ بصر سے ہو یا بصیرت سے، اور صرف حاضر ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (مفردات القرآن) اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانانِ کامل عین الیقین سے روح کا مشاہدہ کر لیتے ہیں، اور ان حضرات میں سے ہر ایک کے عالمِ شخصی میں واقعۂ الست کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، تاکہ حصولِ معرفت کے ذرائع میں کوئی کمی نہ ہو۔

۵۔ معرفت کا ایک دوسرا ہم معنی لفظ “یقین” ہے، جیسا کہ سورۂ انعام کے اس ارشاد سے ظاہر ہے: اور ہم نے ایسے ہی طور پر ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی (روحانی) بادشاہی دکھلائی تاکہ وہ عارفوں (موقنین) میں سے ہو جائیں (۰۶: ۷۵) نیز سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰) میں دیکھئے: اور یقین والوں (اہلِ معرفت) کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ پس عین الیقین کا مطلب چشمِ معرفت ہے، اور یہ مرتبہ علم الیقین کے بعد ہے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۷)۔

۶۔ قرآنِ حکیم جو علم و معرفت اور حق بیانی کا سرچشمہ ہے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے اس کلیے کو کیا خوب یاد دلاتا ہے، ارشاد ہے: فمن تبعنی فانہٗ منی ۔ پس جو شخص میرے پیچھے چلے تو وہ مجھ

 

۱۱۱

 

سے ہے (۱۴: ۳۶) یعنی جو آدمی حقیقی معنوں میں میرے دین پر عمل کرے، وہ مجھ (یعنی رسول) میں فنا ہوکر میرے وجودِ روحانی و عقلی سے واصل ہو جائے گا، اور سوائے ظاہری نبوّت و رسالت کے اسے معرفت کے تمام مراتب حاصل ہوں گے، یہی مفہوم اس آیۂ کریمہ میں بھی ہے، جو خدائی انعام یافتگان کے بارے میں وارد ہوئی ہے (۰۴: ۶۹) یعنی انبیاء، اولیاء، شہداء، اور صالحین، جن کی روحانی اور عرفانی رفاقت ہر اس شخص کو نصیب ہو سکتی ہے، جو خدا و رسول کی حقیقی فرمانبرداری کرے۔

۷۔ سورۂ مائدہ کے ایک حکمت آگین ارشاد (۰۵: ۴۴) کا مفہوم ہے: اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر توریت نازل فرمائی، جس کا صرف روحانی پہلو ہی ہر قسم کی تحریف سے محفوظ و پاک تھا، پس تابندہ ہدایت، بولتا نور، اور معرفت کا خزانہ اس کتاب کی روحانیّت میں تھا، لہٰذا حضرتِ موسیٰؑ اور آپ کے پورے دور کے انبیاءؑ سب، جنہوں نے بمقامِ معرفت اپنی ذات و انا خدا کے حوالے کر دی تھی، اسی روحانی توراۃ سے یہود کو حکم دیا کرتے تھے، اور اہل اللہ و علماء بھی ایسا کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے کتاب میں سے علم و حکمت کو یاد کیا تھا، جبکہ وہ عین الیقین سے نزولِ توراۃ کے تجدّدِ امثال کو دیکھ چکے تھے، اور وہ اسی معنیٰ میں جائے نزول پر حاضر بھی تھے اور گواہ بھی (شہداء، ۰۵: ۴۴) اور یہ مثال ایک بہت بڑے خزانے کی کلید کی طرح زبردست اہمیت رکھتی ہے۔

۸۔ لفظِ شہید اگر بشر کے باطنی پہلو سے متعلق ہے، تو اس میں ایک

 

۱۱۲

 

ساتھ چار معانی مستعمل ہو سکتے ہیں: راہِ خدا میں قتل کیا گیا، وہ شخص جو روحانیّت و عقلانیّت کے مقامات پر حاضر رہا ہو، وہ جس نے روحانی اور عقلی معجزات کے تجدّدِ امثال کا مشاہدہ کر لیا ہو، اور وہ مومن جو ان واقعات کا عینی شاہد (گواہ) ہو، دراصل یہ مومنِ سالک کے چار فضائل ہیں، اس حقیقت کی ایک روشن مثال سورۂ حدید (۵۷: ۱۹) میں دیکھئے: اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر (کما کان حقہٗ) ایمان رکھتے ہیں ایسے ہی لوگ  اپنے ربّ کے نزدیک صدیق اور (زندہ) شہید ہیں، ان کے لئے (نہ صرف آخرت ہی میں ، بلکہ دنیا میں بھی) ان کا اجر اور ان کا نور ہے (۵۷: ۱۹) ظاہر ہے کہ یہاں شہید کے چاروں معنوں کا اطلاق ہو سکتا ہے، جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔

۹۔ سورۂ محمد میں مشاہدۂ عین الیقین اور معرفت سے متعلق ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن آیۂ مبارکہ ہے، جس کا متعلقہ لفظ “عرف” ہے (۴۷: ۰۶) اور اس کے معنی ہیں: اس نے پہچنوا دیا، شناخت کرایا، شناسا کر دیا، جو صیغۂ ماضی ہے، اور آیۂ مقدسہ یہ ہے: و یدخلھم الجنۃ عرفھا لھم (۴۷: ۰۶) اور ان کو بہشت میں داخل کرے گا جس کی پہچان کرا دی ہے۔ اس سے یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ معرفت نہ صرف ممکن الحصول ہی ہے، بلکہ وہ بے حد ضروری بھی ہے۔

۱۰۔ جس طرح عالمِ مادّیت میں چیزوں کو دیکھنے کے لئے سورج اور آنکھ دو وسیلے ہیں، اسی طرح عالمِ روحانیّت یا عالمِ شخصی کی آیات

 

۱۱۳

 

(معجزات، ۵۱: ۲۱) کا مشاہدہ کرنے کی غرض سے نورِ معرفت کے ساتھ ساتھ عین الیقین کا بھی ہونا بے حد ضروری ہے، کیونکہ نور کے جتنے عظیم مقاصد ہیں، وہ چشمِ یقین کے بغیر پورے نہیں ہو سکتے ، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں نور کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں لازماً عین الیقین کی بہت بڑی اہمیت کا اشارہ بھی موجود ہے، قرآنِ عظیم نے اس امرِ ضروری کے باب میں صرف اشارات ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ بے بصیرتی اور کور باطنی کی بڑی سختی سے مذمت بھی کی گئی ہے۔

۱۱۔ سرورِ انبیاء و رسل حضرتِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدا کے حکم سے دعوتِ اسلام کا آغاز ہی اس طرح فرمایا، جیسا کہ آنحضرتؐ نے نورِ معرفت کی روشنی میں چشمِ بصیرت سے دیکھا تھا، اس حقیقت کو خوب دلنشین کر لینے کے لئے سورۂ نساء (۰۴: ۱۰۵) اور سورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۸) میں غور کیا جائے، اس امرِ واقعی میں نہ تو کوئی شک و شبہہ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی کوئی تعجب، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول کو زندہ نور (۰۵: ۱۵) اور روشن چراغ (۳۳: ۴۶) بنا کر بھیجا تھا، اور تعجب اس حقیقت میں بھی نہیں ہونا چاہئے کہ کس طرح کوئی شخص نور (یعنی رسول) میں فنا ہو کر نور ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ حیرت ایک ایسے سوال کی طرح ہے، جس میں کوئی پوچھتا ہو کہ لکڑی کیوں آگ ہو جاتی ہے، جبکہ وہ جلتی ہوئی آگ میں ڈالی جاتی ہے؟

۱۲۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ انسان دراصل اشرفِ مخلوقات

 

۱۱۴

 

ہے، پھر کوئی دانشمند یہ کیسے باور کرے کہ آدمی اس زندگی میں نور اور بصیرت (چشمِ دل) کو حاصل نہیں کر سکتا، حالانکہ قرآنِ مجید نے انسانیّت کی امکانی ترقی اور اگلی صفوں کی کمالیت کے پیشِ نظر ارشاد فرمایا کہ وہ اپنی روح کو دیکھ سکتا ہے (۷۵: ۱۴) اور پہچان سکتا ہے، کیونکہ وہ اپنے وجود کے سلسلے میں نہ صرف گوشت پوست اور جسم ہی ہے، بلکہ وہ روح، عقل، اور بصیرت (دل کی بینائی) بھی ہے (۷۵: ۱۴) اور اس آیۂ کریمہ میں بہت بڑی حکمت ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۲ جمادی الاول ۱۴۰۹ھ / ۲ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۱۵

تجدّدِ امثال کے اشارات

۱۔ قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت (اسلام) میں لفظِ “سنت” کی بہت بڑی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ قانونِ دین کے معنی میں استعمال ہوا ہے، پس ہر عاقل مومن پر واجب ہے کہ وہ ان جملہ پُرحکمت آیات میں خوب تفکر و تدبر کرے، جو سنتِ الٰہی سے متعلق ہیں، تا کہ اس اصولی غور و فکر کے نتیجے میں ایسے سخت عقدے حل ہو جائیں، جن کے کھل جانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا، بالآخر اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آئے گی کہ اللہ تعالیٰ کی پاک عادت و سنت جو کسی تبدل و تحول کے بغیر ہمیشہ جاری و ساری ہے، وہ دراصل تجدّدِ امثال کی صورت میں ہے، جس کی ظہورگاہ عالمِ شخصی یعنی انسانِ کامل ہی ہے (۴۰: ۸۵)۔

۲۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۳) اور سورۂ یاسین (۳۶: ۴۰) میں یہ حکمت آگین کلّیہ مذکور و موجود ہے کہ تمام چیزیں یعنی موجودات ہمیشہ دائرۂ امکان پر گردش کر رہی ہیں، ان میں مثال کے طور پر نہ تو دن آگے ہے، اور

 

۱۱۶

 

نہ ہی رات، یعنی عالمِ خلق اور عالمِ امر کے درمیان کوئی زمانی تقدیم و تاخیر نہیں، کیونکہ دائرۂ آفرینش کا کوئی سرا اور کوئی ابتداء و انتہاء نہیں، بلکہ یہ فعلِ قدرت کے زیرِ اثر ازلی اور ابدی حقائق و معارف کا عکس یا سایہ ہے، اور اسی طرح ساری کائنات کی ہر چیز میں تجدّدِ امثال کا عمل جاری ہے۔

۳۔ آیاتِ کائنات کیونکر آیاتِ قرآن کے قوانین سے مختلف ہوسکتی ہیں، غور سے دیکھ لیجئے کہ ہر شیٔ زبانِ حال سے تجدّدِ امثال کی حقیقت بیان کر رہی ہے، جبکہ تمام اشیاء کے فعلِ مسلسل میں تجدّد پایا جاتا ہے، جیسے آسمان کی دائمی حرکتِ مستدیر، سورج، چاند، اور ستاروں کی لگاتار ضوفشانی، امواجِ ہوا کی متواتر روانی، پانی کا اپنے دائرۂ زیر و بالا پر کبھی ختم نہ ہونے والا سفر، اور وہی دن رات اور موسموں کا بار بار آتے جاتے رہنا، وغیرہ، غرض عالمِ ظاہر میں جتنی قدرت کی نشانیاں ہیں، ان سب میں تجدّدِ امثال کا عمل نمایان ہے، جو سنتِ الٰہی کی ایک روشن دلیل ہے۔

۴۔ عالمِ شخصی کی آیاتِ قدرت بھی ربّانی حکمتوں سے مملو ہیں، ان زندہ معجزات میں انتہائی قریب ہی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ تجدّدِ امثال کا مظاہرہ کس طرح دائماً جاری ہے، مثال کے طور پر دل کی دھڑکن کے معجزے کو دیکھ لیں، یہ ازلی تجدّد کا ایک بہترین نمونہ ہے، کہ اس سے جسمِ انسانی میں ہر آن حیات و بقا کی ایک نئی لہر دوڑتی ہے،

 

۱۱۷

 

جیسے مقامِ ازل پر کلمۂ کُنۡ کے سلسلے سے لاتعداد کائناتیں وجود میں آتی ہیں، یہی اشارہ نبض، تنفس، دورانِ خون، وغیرہ کا بھی ہے۔

۵۔ آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) اور آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) میں جس شانِ تقدس سے شعلۂ چراغ کا تصوّر دیا گیا ہے، اس میں تجدّدِ امثال ہی کی حقیقت جھلک رہی ہے، اور یہی حکمت نورٌعلیٰ نور میں بھی ہے، کاش قرآنی اسرار کی عظمت و بزرگی کے زیرِ اثر یہ ہاتھ اور قلم کانپ اٹھتا! اور اس فرسودہ جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی! کیونکہ روحانی علاج کا سب سے بڑا راز ایسے ہی انقلابی بھیدوں میں پوشیدہ ہے۔

۶۔ س: بہشت کی عمر کب تک ہے؟ ج: ہمیش ہمیش جب تک آسمان و زمین قائم ہیں (۱۱: ۱۰۸) ۔ س: اگر بہشت کی مدتِ عمر کائنات کے ساتھ وابستہ ہے، تو پھر اس وقت کیا ہو گا، جب کائنات لپیٹ لی جائے گی (۲۱: ۱۰۴)؟ ج: اللہ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ سے ہر وقت آسمانوں کو لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے ( و اللّٰہ یقبض و یبصط ،۰۲: ۲۴۵)۔

۷۔ س: اگر بہشتیں درجات پر ہیں، تو سب سے بلند ترین بہشت کون سی ہے؟ ج: فردوس، س: آیا بندۂ عاشق کے لئے فردوس سے اوپر بھی کوئی درجہ ہے؟ ج: جی ہاں، اس سے بہت بڑا درجہ رضوان کا ہے (۰۹: ۷۲)۔ س: وہ آیۂ مبارکہ کون سی ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ کچھ لوگ فردوسِ برین سے مرتبۂ رضوان پر فائز ہو جاتے ہیں، اور کچھ لوگ فردوس میں ان کے وارث و جانشین ہوتے ہیں؟ ج: یہ اشارہ سورۂ مومنون

 

۱۱۸

 

کی دو پرحکمت آیتوں میں ہے (۲۳: ۱۰ تا ۱۱)۔

۸۔ س: بعض علماء کا کہنا ہے کہ قرآنِ پاک میں صرف ایک ہی آدم کا قصّہ ہے، کیونکہ انسانِ اوّل ایک ہی تھا، مگر بعض کہتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں بطریقِ حکمت بہت سے آدموں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، اس باب میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ ج: اس بارے میں ذاتی طور پر میں یہ مانتا ہوں کہ خالقِ اکبر نے لاتعداد عظیم ادوار میں بے شمار آدموں کو پیدا کیا ہے، اور اس کا ذکر قرآنِ کریم کے حکیمانہ اشارات میں موجود ہے، مثال کے طور پر قرآنی مفہوم ہے کہ اس دور کے آدم سے لے کر آج تک جو لوگ پیدا کئے گئے ہیں، جو تاریخی اعتبار سے تمہارے سامنے ہیں، ان کو خدا نے اپنی سنتِ آفرینش (فطرت) پر پیدا کیا، جو پہلے ہی سے چلی آ رہی تھی (۳۰: ۳۰)۔

۹۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معراجِ مقدس کا مقصدِ عالی یہ تھا کہ آپ کی ذاتِ گرامی پر اسرارِ عظیم منکشف کئے جائیں، ان بے حساب بھیدوں میں ایک بہت بڑا راز سرِ دائرۂ لا ابتداء و لا انتہا بھی تھا، جس کا اشارہ قاب قوسین او ادنیٰ میں ہے (۵۳: ۰۹) یعنی دو کمان:()، پھر دائرہ: O ، اہلِ بہشت کے زیورات سونے کے کنگن اور موتی ہیں، اور لباس ریشمی (۲۲: ۲۳) پس کنگن سے حکمتِ مستدیر یعنی اسرارِ دائرہ مراد ہیں، موتیوں کا اشارہ گوہرِ عقل کی طرف ہے، اور ریشمی لباس ہے جسمِ لطیف۔

۱۰۔ اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت، رازقیت، اور دوسری تمام صفات

 

۱۱۹

 

جن کا تعلق انسان سے ہے، قدیم ہیں، حادث نہیں، یعنی ہمیشہ ہیں، پس کوئی ایسا وقت ممکن ہی نہیں، جس میں خالق کی خالقیت کا ثبوت ملے، مگر مخلوق کا کوئی وجود ہی نہ ہو، اور کسی بادشاہی کے بغیر وہ بادشاہ کہلائے۔

۱۱۔ یہ درست ہے کہ انسان بارہا فنا فی اللہ ہو کر عالمِ امر میں گویا مست و مدہوش رہ چکا ہے، مگر آدمی کی یہ فنا ذاتِ سبحان میں ممکن نہیں، اس کی صفات میں ممکن ہے، پس انائے علوی خود نہیں آئی، بلکہ اس کا ایک جیتا جاگتا سایہ یہاں آیا، چنانچہ قرآنِ مجید نے اس سرِ عظیم کو حجاب میں رکھتے ہوئے فرمایا: اور تم مردے تھے سو اس نے تم کو جلایا (۰۲: ۲۸) اگر لوگ اس سے پہلے عدمِ محض سے زیادہ کچھ نہ ہوتے، تو نہ فرمایا جاتا کہ تم مردے تھے، حالانکہ دنیا کا مردہ کم از کم ایک قفسِ عنصری تو ہوتا ہے، جس سے طائرِ روح پرواز کر گیا ہو، اسی طرح سورۂ یونس (۱۰: ۳۱) کا ایک ارشاد ہے: اور وہ کون ہے جو زندے کو مردے سے نکالتا ہے اور مردے کو زندے سے نکالتا ہے (۱۰: ۳۱)۔

۱۲۔ انسان دنیا میں کہاں سے آیا ہے؟ اور کس طرح؟ یہ سوال جتنا اہم ہے، اتنا مشکل بھی ہے، تاہم اگر قرآنی حکمت کی روشنی حاصل ہو، تو کوئی مشکل نہیں، پس جب ہم قرآنِ حکیم کو خود اس کے نورِ علم کی روشنی میں دیکھتے ہیں، تو یہ بنیادی قانونِ عقلانیّت و روحانیّت واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کا نزول ایک بسیط روح کی طرح ہوا ہے، چنانچہ وہ نہ صرف

 

۱۲۰

 

عالمِ ظاہر میں بصورتِ کتاب موجود ہے، بلکہ عالمِ امر میں بھی محفوظ ہے (یعنی کتابِ مکنون اور لوحِ محفوظ میں : ۵۶: ۷۷ تا ۷۸، ۸۵: ۲۱ تا ۲۲) سو یہ عظیم واقعہ خالی از حکمت کیسے ہو سکتا تھا، یہ تو قرآنِ کریم کی سب سے بڑی عملی رہنمائی ہے، جس سے ہم یہ حقیقت سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی روح کس طرح یہاں آئی ، اور کہاں کہاں موجود ہے۔

۱۳۔ مولائے روم نے خوب فرمایا ہے: ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست (ہم دنیا میں آئے ہی نہیں ہیں، یہ جسم ہماری اصل ہستی کا سایہ ہے) یہ قول دراصل قرآنی حکمت کا ماحصل ہے، کہ روح کا بالائی سرا ہمیشہ عالمِ امر میں ہے، اور زیرین سرا سائے کی طرح عالمِ خلق میں آتا رہتا ہے، پس اسی عمل میں تجدّدِ امثال کا عظیم راز پنہان ہے، اور یہی تخلیق در تخلیق کا سلسلۂ غیر متناہی بھی ہے (۳۹: ۰۶)۔

۱۴۔ بموجبِ ارشادِ ربّانی (۱۷: ۸۵) روح کے امرِ ربّ سے ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ازل میں روح نہ صرف کلمۂ کُنۡ (ہو جا) سے پیدا ہوئی، بلکہ اسی امرِ ازل کے تجدّدِ امثال میں اس کی حیات و بقا اور معرفت بھی ہے، پس یاد رہے کہ تجدّدِ امثال دونوں جہان کی جان اور حرکتِ حیاتِ جاودانی ہے، جس کی ایک روشن مثال آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں یہ فرما رہی ہے کہ کائنات کی بلندی و پستی کی ہر چیز میں نورِ خداوندی کی لہروں اور کرنوں کی مسلسل روانی اور تابانی ہے۔

۱۵۔ روحانی علاج کے سلسلے میں غور و فکر کی گہرائی اور انقلابی

 

۱۲۱

 

تحقیق سے کام لینے کی سخت ضرورت ہے، لیکن توفیقِ الٰہی کے بغیر کوئی نیک کام مکمل نہیں ہو سکتا، اس لئے ہم انتہائی عاجزی اور حاجتمندی کے ساتھ ربِّ عزأت کی بارگاہِ اقدس سے رجوع کرتے ہیں۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل یکم جمادی الثانی ۱۴۰۹ھ / ۱۰ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۲۲

قیامتِ صغریٰ

۱۔ ارشادِ نبوّی ہے: من مات فقد قامت قیامتہٗ (جو کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔ احیاء العلوم، جلدِ چہارم، فضیلتِ صبر) چونکہ موت نفسانی اور جسمانی دو قسم کی ہوا کرتی ہے، لہٰذا قیامتِ صغریٰ یا ذاتی قیامت اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر بدنی موت سے پہلے ہی واقع ہوتی ہے، اور عوام پر موت کے بعد، کیونکہ عین الیقین سے خزائنِ اسرارِ معرفت کا مشاہدہ ممکن ہی نہیں، مگر جیتے جی فنا ہو جانے سے، اور وہ یہی قیامتِ صغریٰ ہے، جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔

۲۔ سورۂ بقرہ کی جن آیاتِ مقدسہ میں ذبحِ بقرہ کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان میں ظاہری معجزے کے ساتھ ساتھ یہ پر حکمت مثال بھی ہے کہ نفسِ حیوانی، جو ایک بیل جیسا ہے، راہِ خدا میں بذریعۂ علم و عبادت اور ریاضت اس کی قربانی سے بندۂ مؤمن کس طرح حیاتِ طیبہ حاصل کر سکتا ہے، یعنی کیسے جیتے جی مر کر زندۂ جاوید ہو جاتا ہے،

 

۱۲۳

 

چنانچہ مولوئ معنوی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب مثنوی، دفترِ سوم میں اس حکمت کو ذیل کی طرح بیان کیا ہے:

۳۔ مجھے حضرتِ موسیٰؑ کا ایک ایسا بیل سمجھ جس کو ایک خاص جان عطا ہوئی ہے، میرا جزو جزو یعنی ذرہ ذرہ ہر ہر آزاد کا حشر (قیامت) ہے۔ حضرتِ موسیٰ کے بیل سے ایک قربان شدہ زندہ شہید مراد تھا، جس کا ایک چھوٹے سے چھوٹا جزو (ذرۂ لطیف) کسی مقتول کے لئے باعثِ حیات تھا۔ اس کی چوٹ سے مردہ جگہ سے اٹھ گیا، “اس کو اس کے بعض سے مارو” کے حکم کے مطابق۔ اے میرے بزرگو! اس بیل کو ذبح کر دو، اگر تم بصیرتی روحوں کی قیامت چاہتے ہو۔ میں پہلے جمادیت سے مرا اور نباتی بن گیا، اور نباتیت سے مر کر حیوان بن گیا۔ میں حیوانیت سے بھی مرا اور آدمی بن گیا، پھر میں کیوں ڈروں، میں مرنے سے کب گھٹا؟ دوسری مرتبہ میں بشریت سے بھی فنا ہو جاؤں گا، تاکہ فرشتوں میں ہو کر بال و پر حاصل کروں۔ فرشتے سے بھی مجھے آگے جانا چاہئے، کیونکہ بجز اس کی ذات کے ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ پس میں ملکیت سے بھی قربان ہو جاؤں گا، وہ جو عقل میں نہیں آ سکتا وہ ہو جاؤں گا۔ پھر میں عدم (نیستی) بن جاؤں گا، اور عدم ارغنون یعنی باجے کی طرح مجھ سے کہے گا کہ ہم سب اس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

۴۔ حضرتِ یعقوب علیہ السّلام کی عارفانہ موت قبل از جسمانی موت کے بارے میں قرآنِ حکیم فرماتا ہے: ام کنتم شہداء اذ حضر

 

۱۲۴

 

یعقوب الموت (۰۲: ۱۳۳) کیا تم (اس وقت) موجود تھے جس وقت یعقوب کے پاس (عارفانہ) موت حاضر ہوئی؟ یعنی کیا تم نے عالمِ شخصی کے تجدّدِ امثال میں انبیاء و اولیاء کی عارفانہ موت دیکھی ہے؟ سوال اس لئے فرمایا گیا ہے کہ یہ امر ممکن ہے، اور اس کا مقصد ہے مذکورہ حقیقت کی طرف توجہ دلانا، پس ایسی موت کے حاضر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس کے ساتھ علم و معرفت کی ایک ذاتی قیامت (قیامتِ صغریٰ) برپا ہو جاتی ہے۔

۵۔ اللہ جلّ جلالہ کا حکمتوں سے مملو ارشاد ہے (ترجمہ): جن لوگوں نے (سچے دل سے ) کہا کہ ہمارا پروردگار تو (بس) خدا ہے پھر وہ اسی پر (جیسا کہ حق ہے) قائم بھی ہو گئے تو ان پر (شبِ قدر کے تمام) فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور عملاً یہ کہتے ہیں کہ) کچھ خوف نہ کرو اور نہ غم کھاؤ اور جس بہشت کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، اس کی خوشیاں مناؤ، ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست ہیں اور آخرت میں بھی دوست ہوں گے (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) یہ خدا کے دوستوں کی نفسانی موت قبل از جسمانی موت اور ذاتی قیامت ہے، کیونکہ ان فرشتوں میں حضرتِ اسرافیل اور حضرتِ عزرائیل پیش پیش ہوتے ہیں، اور اللہ کے حکم سے وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بطریقِ دوستی مومنین کے خوف و غم کا ازالہ کرتے ہوئے اسرارِ معرفت کا دروازہ کھول دیا جائے۔

۶۔ ہر حقیقت ایک ایسے ہیرے (الماس) کی طرح ہے، جس کے بہت

 

۱۲۵

 

سے پہلو ہوں، چنانچہ یہاں حقیقتِ قیامت کے جس پہلو سے متعلق بات ہو رہی ہے، اس پر کسی عزیز کو تعجب بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ شروع شروع میں بمقتضائے حکمت نہ صرف اسرارِ قیامت ہی پردۂ اخفا میں رہے ہیں، بلکہ اور بھی بہت سے علوم مخفی تھے، جو بعد میں رفتہ رفتہ ظاہر ہوئے، اور کچھ کا ظہور جاری ہے، پس قرآنِ حکیم جو خزائنِ خداوندی میں سے ہے (۱۵: ۲۱) اس کے بھیدوں کی برکتیں کیونکر محدود ہو سکتی ہیں، حالانکہ قرآنِ کریم کا مجموعی اشارہ بہت سے علمی و عرفانی اکتشافاتِ جدیدہ کی طرف ہے۔

۷۔ حق بات تو یہ ہے کہ قیامت کا ایک مقرر وقت بھی ہے، اور یہ وقت سے بالاتر بھی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامتِ کبریٰ اپنے وقت سے پہلے نہیں آئے گی، جبکہ قیامتِ صغریٰ، جو حصولِ معرفت کے واسطے مقرر ہے، وہ خدا کے خاص دوستوں میں ہمیشہ سے قائم ہوتی چلی آئی ہے، تاکہ اہلِ معرفت پر حقائق و معارف کا دروازہ ہر وقت کھلا رہے، اور کبھی بند نہ ہو، پس خوب یاد رہے کہ سب سے اعلیٰ روحانی ترقی یعنی فنا فی المرشد، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ کی انتہائی عظیم سعادت ہر زمانے میں حاصل ہو سکتی ہے، اور یہی بڑا عالیشان اور بے مثال واقعہ قیامتِ صغریٰ ہے۔

۸۔ سوال: اگر یہ مانا جائے کہ ایک تو انفرادی قیامت ہے، اور دوسری اجتماعی قیامت، اس صورت میں کوئی عارف کس طرح ہمہ گیر

 

۱۲۶

 

قیامت کے بغیر گنجِ معرفت کو حاصل کر سکتا ہے، جبکہ وہ صرف قیامتِ صغریٰ ہی کا محدود مشاہدہ کرتا ہو؟ جواب: اللہ تعالیٰ جو قادرِ مطلق ہے، اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے جس طرح عالمِ صغیر میں عالمِ کبیر کو لپیٹ لیا ہے، اسی طرح قیامتِ صغریٰ میں قیامتِ کبریٰ کو محدود کر رکھا ہے، وہ یوں کہ عالمِ شخصی کا دوسرا نام عالمِ ذر ہے، جس کے لاتعداد ذرات کائنات و موجودات اور تمام انسانوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، یہ ذرات دراصل زندہ ارواح ہیں، پس عارف میں گویا سب لوگ جمع ہو جاتے ہیں، لہٰذا اس کے نزدیک انفرادی قیامت بشکلِ اجتماعی قیامت وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔

۹۔ ایک ہوتی ہے اختیاری موت، جو “موتوا قبل ان تموتوا” کے حکم کے مطابق ہے، جو دراصل فنا فی اللہ کہلاتی ہے، اور دوسری ہے اضطراری (یعنی بے اختیاری) موت، اگرچہ دونوں صورتوں میں قیامت واقع ہو جاتی ہے، لیکن ان میں آسمان زمین کا فرق پایا جاتا ہے، پس فنا فی اللہ روحانیت کا وہ بلند ترین درجہ ہے، جس میں انسانِ کامل کی انفرادی اور مجموعی قیامت کا تجددِ امثال ہو جاتا ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشادِ مبارک ہے: فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (۳۶: ۸۳) پس وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں تمام چیزوں کا ملکوت (یعنی مجموعۂ ارواح و ملائکہ) ہے اور تم کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (۳۶: ۸۳)۔ یعنی پروردگارِ عالم نے اپنی

 

۱۲۷

 

قدرت کی مٹھی میں جملہ حقیقتوں اور معرفتوں کو یکجا اور ایک کر لیا ہے، سو اسی میں چھوٹی اور بڑی قیامت بھی ایک ہو گئی ہیں، درحالیکہ چیزیں اپنی اپنی جگہ الگ الگ بھی ہیں۔

۱۰۔ عنقریب وعدۂ الٰہی کے مطابق اجتماعی قیامت قائم ہونے والی ہے، اس کے احوال بڑے عجیب و غریب ہوں گے، وہ اسرافیل، عزرائیل، اور دیگر فرشتوں کے ذریعہ لوگوں پر زبردستی سے مسلط کر دی جائے گی، اس میں یاجوج و ماجوج کا کام بھی نمایان ہے، یہ ذراتِ روحانی ہیں، جو روحِ حیوانی کی مضبوط دیوار کو چاٹ چاٹ کر ایک بار ختم کر ڈالیں گے، جس کی وجہ سے حواسِ باطن بیدار ہو کر نہ صرف اپنا کام کریں گے، بلکہ حواسِ ظاہر کے ساتھ مل کر ایک بھی ہو جائیں گے، مثال کے طور پر چشمِ سِر چشمِ سَر سے روحانی عجائب و غرائب کو ظاہر میں بھی دیکھ سکے گی، اور سراسر دنیا میں روحانی انقلاب برپا ہو جائے گا۔

۱۱۔ اجتماعی قیامت کا حال ایسا ہے، جیسے آسمانی طبیب کے حکم سے فرشتے بیمار انسانیت کا آپریشن (Operation) کرتے ہوں، جس میں بے ہوشی، جراحت، شدید درد، سخت مشقت، اور خوف کے ساتھ ساتھ مرہم پٹی، دوا ، اور تیمار داری بھی لازمی ہے، پس ہوشمند مؤمن پر واجب ہے کہ وہ ہر وقت اپنی روحانی صحت کا خیال رکھے، تاکہ اس انتہائی نازک اور مشکل ترین ڈاکٹری معائنے میں آسانی ہو، جس میں جان نکال نکال کر ذرّہ ذرّہ کی روحانی پیوند کاری (Grafting)

 

۱۲۸

 

کی جاتی ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم سر تا سر اسرارِ قیامت سے مملو اور لبالب ہے، اور اس کی کوئی آیۂ کریمہ مقصدِ آخرت کی حکمت سے خالی نہیں، کیونکہ دین کا سارا نظام اس لئے بنایا گیا ہے کہ روزِ قیامت بندہ اپنے معبود کے پاس ایک ایسا دل لے کر آئے، جو تمام باطنی بیماریوں سے پاک اور ہر طرح سے صحت مند ہو (بقلب سلیم، ۲۶: ۸۹) تاکہ وہ خزائنِ معرفت کی لازوال اور بے پایان دولت سے ہمیشہ ہمیشہ مالامال اور شادمان رہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۸ جمادی الثانی ۱۴۰۹ھ / ۱۷ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۲۹

 

انسانِ کامل

۱۔ نسفی نے جس طرح انسانِ کامل کی تعریف کی ہے، اس کا ایک نمونہ یہ ہے (ترجمہ از فارسی): جب تو نے انسانِ کامل کے بارے میں سن لیا، تو اب جان لے کہ انسانِ کامل کے بہت سے اسماء مقرر ہیں، کیونکہ مختلف اضافات و اعتبارات کی بناء پر اسے مختلف ناموں سے یاد کیا گیا ہے، اور یہ سارے نام درست ہیں، اے درویش، انسانِ کامل کو شیخ، پیشوا، ہادی، مہدی، دانا، بالغ، کامل، مکمل، امام، خلیفہ، قطب، اور صاحب زمان کہتے ہیں، نیز جامِ جہان نما، آئینۂ گیتی نما، تریاقِ بزرگ، اور اکسیرِ اعظم کہلاتا ہے، اور عیسیٰ کہا جاتا ہے، کیونکہ مردۂ جہالت کو زندہ کرتا ہے، اُس کو خضر کہتے ہیں، اس لئے کہ اس نے آبِ حیات پی لیا ہے، اور سلیمان کہتے ہیں کہ پرندوں کی بولی جانتا ہے، اور یہ انسانِ کامل دنیا میں ہمیشہ موجود ہوتا ہے، وہ ایک سے زیادہ نہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ تمام موجودات ایک ہی شخص کی طرح ہیں، اور انسانِ کامل ایسے شخص کا دل ہے، پس انسانِ کامل

 

۱۳۰

 

اس عالم میں ہمیشہ کے لئے موجود ہے، اور دل ایک ہی ہوا کرتا ہے، لہٰذا انسانِ کامل دنیا میں صرف ایک ہی ہوتا ہے، اور جب وہ یگانۂ عالم اس جہان سے گزر جاتا ہے، تو دوسرا ایک اس کے مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے، اور اس کا جانشین ہو جاتا ہے، تاکہ عالم دل کے بغیر نہ رہے (شرحِ اصطلاحاتِ تصوّف، تالیفِ دکتر سید صادق گوہرین، استادِ دانشگاہ)۔

۲۔ انسانانِ کامل حضراتِ انبیاء و اولیاء ہیں، جو سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے برگزیدہ اور خاص دوست ہیں، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیہم و لا ھم یحزنون (۱۰: ۶۲) یاد رکھو کہ خدا کے دوستوں پر دراصل نہ تو ابد کا ڈر ہے اور نہ وہ ازل سے غمگین ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ اسرارِ گنجِ ازل و ابد سے واقف و آگاہ ہیں، اس لئے وہ کلّی طور پر مطمئن اور خرسند ہیں، اور انہیں ایسا علم الاسرار عطا ہوا ہے کہ اس کے سامنے خوف و غم زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا، اور علمِ لدنّی ان کی ولایت کی ایک روشن دلیل ہے۔

۳۔ جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں ذکر ہوا، انسانِ کامل کا ایک نام خلیفہ ہے، اور اگر بچشمِ حقیقت دیکھا جائے، تو معلوم ہو جائے گا کہ خلافتِ الٰہیہ دنیا میں ہمیشہ سے ہے، اور ہمیشہ کے لئے ہے، پس اسی قانونِ دین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے (ترجمہ): تم میں سے جو لوگ (حقیقی معنوں میں) ایمان لائیں اور نیک اعمال

 

۱۳۱

 

کریں ان سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ان کو زمین کی خلافت عطا فرمائے گا، جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت دی تھی (۲۴: ۵۵) حضرتِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالی صفات تک خلافتِ انبیاء کا دور چل رہا تھا، اور آپ کے بعد خلافتِ اولیاء کا دور شروع ہوا، اب رہا سوال بہت سارے مومنین کی خلافت کا کہ اگر وہ اس شرط پر پورے اتریں، تو کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ سب کے سب انسانِ کامل میں فنا ہو کر رسول اور اللہ میں فنا ہو جائیں، تو ان میں سے ہر ایک کو عالمِ شخصی کی خلافت عطا ہوگی، اور یہی ارض اللہ (۲۹: ۵۶) ہے، جس کی وسعت بے پایان ہے (۳۹: ۱۰)۔

۴۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے انسانِ کبیر نہ صرف ذاتی طور پر خلیفہ ہے، بلکہ ہر انسانِ صغیر کی انائے علوی بھی ہے، تاکہ جتنے مومنین اس میں فنا ہو جائیں، وہ سب اپنے اپنے عالمِ شخصی میں خلیفہ ہو سکیں، یہ روحانیّت اور آخرت کی بات ہے، جیسا کہ خداوندِ قدوس کا ارشاد ہے (ترجمہ): اور وہ ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں خلفاء بنایا اور درجات میں بعض کو بعض پر فوقیت دی (۰۶: ۱۶۵) آپ غور کر سکتے ہیں کہ اس حکیمانہ تعلیم میں درجات کی سیڑھی سے چڑھ کر خلافت کے مرتبۂ عظمیٰ سے مشرف ہو جانے کا اشارہ موجود ہے۔

۵۔ انسانِ مکمل کی روحانیّت میں حضرتِ آدم علیہ السّلام کے جملہ اسرارِ روحانی کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، اس لئے وہ مثلِ آدم اور

 

۱۳۲

 

نفسِ واحدہ ہے، چنانچہ اہلِ زمانہ کی روحانی تخلیق اور قیامت (یعنی ابداع و انبعاث) انسانِ کامل میں پوشیدہ ہے (۳۱: ۲۸) جس طرح قیامتِ صغریٰ کے مضمون میں کہا گیا کہ انفرادی قیامت بشکلِ اجتماعی قیامت وقوع پذیر ہو جاتی ہے، آپ اس عظیم راز کو سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں بغور دیکھ سکتے ہیں۔

۶۔ سوال: سورۂ رحمان کی ابتدائی چار آیاتِ مبارکہ کی ترتیب کی بنیاد پر یہ پوچھنا پڑتا ہے کہ حضرتِ رحمان نے قرآن کس کو سکھایا، جبکہ وہ قدرت والا خدا انسان کو بعد میں پیدا کر کے بولنا سکھاتا ہے؟ جیسا کہ اس ارشاد کا ترجمہ ہے: رحمان نے قرآن کی تعلیم دی، اس نے انسان کو پیدا کیا (پھر) اس کو گویائی سکھائی (۵۵: ۰۱ تا ۰۴) ۔ جواب: اللہ تعالیٰ اپنے جس بندۂ خاص کو قرآنِ کریم کی تعلیم دیتا ہے، وہ انسانِ کبیر ہی ہے، جس کے عالمِ شخصی میں ظہورِ قیامت، اعلیٰ روحانیّت، عالمِ امر، ازل، اور ابد کے انتہائی عظیم اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں، پس قرآنِ حکیم کی خدائی اور لدنی تعلیم اسی طرح ہے، اب ان عناصرِ روحی و عقلی کی سرشت سے خداوند تعالیٰ انسانِ کبیر کو بدرجۂ کمال خلق کر کے روشن دلائل اور محکم براہین کے ساتھ حکیمانہ بیان سکھاتا ہے، تا کہ وہ لوگوں کے لئے سرچشمۂ علم و حکمت قرار پائے۔

۷۔ سوال: سورۂ دہر کے شروع (۷۶: ۰۱) میں جیسا ارشاد ہوا ہے، اس کی عارفانہ تفسیر اور حکمت کا کوئی نمونہ کس طرح پیش کیا جا

 

۱۳۳

 

سکتا ہے؟ جواب: زیرِ بحث آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: کیا انسان پر دہر (زمانِ نا گزرندہ) سے وہ وقت آ چکا ہے جس میں کہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔ اس فرمانِ الٰہی میں انسانِ کامل کے احوالِ روحانی پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس پر عالمِ امر میں دہر (ازل / ٹھہرا ہوا زمان) سے ایک ایسا وقت گزرا ہے، جس میں وہ فنا فی اللہ ہو چکا تھا، اور اب بھی ایسا ہے، یا ایسا ہونے والا ہے، مگر یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ ایسی پُرحکمت فنا کا تعلق روح اور عقل سے ہے، کہ وہی رنگِ بشریت کو ختم کر کے رنگِ رحمانیت میں رنگین ہو جاتی ہے (۰۲: ۱۳۸)۔

۸۔ حدیثِ شریف میں ہے: اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللّٰہ عز و جل ۔ مومن کی فراست (دانائی) سے ڈرتے رہو، کیونکہ وہ خدائے عزیز و جلیل کے نور سے دیکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خوف رکھنے کا حکم تمام اہلِ ایمان کے لئے ہے، اور جس مومنِ اخص سے ڈرنا چاہئے، وہ ولی (انسانِ کبیر) ہے، اور یہاں ڈرنے کے اصل معنی یہ ہیں کہ ہادئ برحق کے علم و حکمت کو بہت بڑی اہمیت دی جائے، کیونکہ اسی میں نورِ خدا کی روشنی، تابندگی، اور حیاتِ جاودانی ہے۔

۹۔ بخاری، جلدِ سوم، کتاب الرقاق، حدیث ۱۴۲۲ میں یہ حدیثِ قدسی ہے: ان اللّٰہ قال من عادیٰ لی ولیا فقد اذنتہ بالحرب ۔ اللہ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی، میں اس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ اسی مقام پر حدیثِ تقرب بھی ہے، اور یہ

 

۱۳۴

 

اپنے خزائنِ حکمت کی وجہ سے ایسی اہم اور ضروری ہے کہ اگر ہزار مناسبتوں سے اس کی تعریف کی جائے، پھر بھی کم ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے پس ظاہر ہے کہ یہ حدیثِ قدسی ولئ کامل کی شان میں ہے، اور ایسے ہر مومن کے بارے میں بھی ہے، جو ولی میں فنا ہو جاتا ہے۔

۱۰۔ سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۹) میں اللہ تبارک و تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو حکم دیتا ہے کہ وہ خدا سے ڈریں اور صادقین کے ساتھ ہو جائیں، صادقین اور صدیقین (۰۴: ۶۹) کا ایک ہی مطلب ہے، یہ اولیاء اللہ ہیں، یعنی انسانانِ کامل، پس ان کے ساتھ ہو جانا اس طرح ہے کہ ان کی ہدایات و تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان میں فنا ہو جائیں، تا کہ اس وسیلے سے فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ کا عظیم ترین مرتبہ حاصل ہو، اور یقیناً اسی میں صداقتوں اور حقیقتوں کے تمام خزانے مرکوز و مجموع ہو جاتے ہیں۔

۱۱۔ انسانِ کامل ہی خلیفۂ رسول، اور طبیبِ روحانی ہے، اس لئے

 

۱۳۵

 

لازمی ہے کہ روحانی علاج سے متعلق موضوعات میں اس کا تذکرہ ہو، اگرچہ ہم اس آئینۂ جمال و جلالِ الٰہی کی تعریف و توصیف کرنے سے عاجز و قاصر ہیں، تاہم ان شاء اللہ ہم اپنی نیت میں مخلص ہیں، اور اس کی وہی ہر طرح سے مکمل، حکمت سے لبریز، اور بے شمار تعریفات کافی ہیں، جو خدا اور اس کے برحق پیغمبر نے حکیمانہ انداز سے فرمائی ہیں، الحمد للہ علیٰ احسانہ۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۱۴ جمادی الثانی ۱۴۰۹ھ / ۲۳ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۳۶

 

جواہرِ طریقت

۱۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا پُرحکمت ارشاد ہے: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ (۰۵: ۴۸) تم میں سے (اے اہلِ ملل مختلفہ) ہر ایک کے لئے ہم نے ایک شریعت اور ایک طریقت مقرر کر دی ہے۔ اس قرآنی تعلیم سے ظاہر ہے کہ تمام آسمانی مذاہب میں شریعت اور منہاج (طریقت / تصوّف) کا دستور رہا ہے، چنانچہ زمانۂ نبوّت میں درختِ شریعت کے ساتھ ساتھ نہالِ طریقت بھی پروان چڑھ رہا تھا، جس کی ایک روشن مثال اصحابِ صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مل سکتی ہے، اور یہ واقعہ مشہور و معروف ہے کہ آیۂ کریمہ و لا تطرد الذین ۔۔۔ (۰۶: ۵۲) ان حضرات کے فضائل کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

۲۔ چوتھی صدی ہجری / دسویں صدی عیسوی میں صوفیاء نے تزکیۂ نفس کے مختلف طریقے وضع کئے، جو سلسلہ یا خانوادہ کہلاتے ہیں، ان سلسلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جن کی آگے چل کر اور بہت سی شاخیں ہو جاتی ہیں، ان میں سے ہر شاخ کا ایک بانی ہے، ہر سلسلے

 

۱۳۷

 

کا منبع حضرتِ علی کی ذات ہے، صرف ایک سلسلۂ تقشبندیہ ایسا ہے، جس کی ابتداء حضرتِ ابوبکر صدیق سے ہوتی ہے (اسلامی انسائیکلو پیڈیا، ص ۵۰۷۔ سید قاسم محمود)۔

۳۔ آپ تصوّف کی کتابوں میں شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت جیسی اصطلاحات دیکھ سکتے ہیں، یہ دینی، علمی، اور روحانی سفر کی منزلیں ہیں، جو راہِ مستقیم پر واقع ہیں، جن پر چل کر مومنِ سالک خدائے بزرگ و برتر کا انتہائی قرب حاصل کر سکتا ہے، جیسا کہ دائرۂ معارفِ اسلامیہ، جلد ۱۱، ص ۱۹۳ پر ہے: “سلوک: (عربی: سفر کرنا)، صوفیہ کے نزدیک اس اصطلاح کے معنی راہِ طریقت پر وہ سفر ہے، جس کی ابتداء صوفی کسی طریقے میں داخل ہونے پر اپنے شیخ کے زیرِ ہدایت کرتا ہے، اور جس کی انتہا اس وقت ہوتی ہے، جب اپنی استعداد کے مطابق وہ بلند سے بلند روحانی درجہ حاصل کر لیتا ہے، سلوک سے مراد وہ تعلق باللہ کی جستجو ہے، جو عمداً اختیار کی جاتی ہے، اور جسے باقاعدہ جاری رکھا جاتا ہے، سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ ذکر، توکل، فقر، عشق، معرفت، وغیرہ ہر مقام سے گزرے، اور اس میں کمال پیدا کرے، اس سے پہلے کہ وہ ذاتِ الٰہی سے واصل ہو جائے، لہٰذا سلوک کو جذب کی ضد خیال کیا جاتا ہے۔”

۴۔ تصوف کی ایک مشہور کتاب کشف المحجوب میں حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کے بارے میں یہ روایت درج ہے: “آپ نے حق تعالیٰ کے

 

۱۳۸

 

ارشاد : فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن باللّٰہ (پس جو شخص شیطان کا کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے، ۰۲: ۲۵۶) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: کل من شغلک عن مطالعۃ الحق فھو طاغوتک (جو چیز بھی تجھے مطالعۂ حق [مشاہدۂ تجلی] سے باز رکھے، وہی تیرا شیطان اور بت ہے) اب تم غور کرو کہ تم اللہ تعالیٰ سے کس چیز کی وجہ سے لا تعلق اور حجاب میں ہو، کہ اگر اس چیز اور حجاب کو ترک کر دو تو مکاشفۂ الٰہی تک تمہیں رسائی ہو جائے، اور تم حق سے ممنوع اور محجوب نہ رہو، اور جو شخص مشاہدۂ حق سے روک دیا گیا، اسے قربِ حق کا دعویٰ نہیں کرنا چاہئے۔”

۵۔ مذکورہ کتاب کے بابِ توبہ میں ایک انتہائی دلنشین نکتہ یہ ہے: “توبہ تین طریق پر ہوتی ہے، ایک خطا سے صواب (نیکی، نیک کام) کی طرف، ایک صواب سے صواب کی طرف، (یعنی کم نیکی سے زیادہ نیکی کی طرف) اور ایک اپنی ہستی سے حق تعالیٰ کی طرف۔” میں تیسری قسم کی توبہ کی وضاحت کرتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ انبیاء و اولیاء کی توبہ بدرجۂ انتہا رجوع الی اللہ ہی ہے، وہ ان حضرات کے عالمِ شخصی میں کشفِ گنجِ ازل اور مشاہدۂ حق ہے، اور یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ وہ کلماتِ تامّات، جو برائے ذکر و مناجات اور بطورِ خزائنِ علم و حکمت حضرتِ آدم علیہ السلام کو حاصل ہوئے تھے (۰۲: ۳۷) وہ اسی پیغمبرانہ اور اولیائی توبہ کی غرض سے تھے، یعنی مشاہدۂ کنزِ مخفی اور فنائے حقیقی کے لئے۔

۱۳۹

۶۔ سورۂ عنکبوت کے آخر (۲۹: ۶۹) میں پروردگارِ عالم کا پاک ارشاد ہے: و الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا (۲۹: ۶۹) وہ لوگ جنہوں نے ہمارے معاملہ میں مجاہدہ کیا البتہ ہم انہیں اپنے (اسرارِ معرفت کے) راستے دکھا دیں گے۔ اور اسی حکمِ خداوندی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نفس کے خلاف جنگ کو جہادِ اکبر قرار دیا ہے، پس اگر نفس سب سے بڑا کافر اور امراضِ باطن کی جڑ نہ ہوتا، تو ہرگز اس سے یہ شدید مخالفت اور ایسی بڑی جنگ ضروری نہ ہوتی، لیکن ظاہر ہے کہ نفسِ امّارہ بڑا مکار کافر ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ کافر جہالت و نادانی کے روگ کا پتلا ہوا کرتا ہے، لہٰذا اس کا مکمل علاج جہادِ اکبر کی صورت میں لازمی ہوا، تاکہ وہ علمی و عرفانی طور پر صحیح و صحت مند مسلمان ہو جائے۔

۷۔ مؤمنِ سالک حق تعالیٰ کی عنایت و توفیق سے عالمِ شخصی (اپنی ذات) ہی میں روحانی منازل میں پیش رفت کرتا رہتا ہے، تا آنکہ اس سلوک (سفرِ روحانیّت) کا سب سے عجیب واقعہ اور عظیم ترین معجزہ رونما ہوتا ہے، وہ یہ کہ اگرچہ سفر، ازل سے ابد کی جانب ہو رہا تھا، لیکن بالآخر ابد و ازل دونوں کا ایک ساتھ کشف ہو جاتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ دائرۂ خلق و امر کی بدایت و نہایت (ابتداء و انتہاء) ایک ہی مقام پر ہے، جیسے گھڑی کے ڈائل (Dial) پر وقت کا نقطۂ آغاز (صفر) اور بارہ بجے کا نشان (0 / 12) ایک ہوا کرتا ہے، پس

 

۱۴۰

 

گنجِ ازل آپ کی ذات میں موجود ہے، مگر ۳۶۰ حجابات کے پیچھے، جن میں سے ۱۸۰ ظلمانی (تاریک) پردے ہیں، اور ۱۸۰ نورانی، اور ہر حجاب ایک منزل ہے، یاد رہے کہ تاریک منزلیں اتنی مشکل نہیں، جتنے مشکل روشن مراحل ہوتے ہیں، کیونکہ روشنی کو دیکھتے ہی صوفی کو یہ گمان ہو جاتا ہے کہ بس یہی خدا کا نور ہے، حالانکہ پردہ ہائے نورانیّت میں سے ابتدائی پردہ ہے، جس سے اس کو بہت آگے جانا ہے۔

۸۔ سالک کی منزلِ مقصود ازل و اسرارِ ازل کا کشف و مشاہدہ ہے، جو تجددِ امثال کا سب سے اعلیٰ اور سب سے افضل مقام ہے، جہاں تمام حقیقتوں اور معرفتوں کے خزائن کے ابواب ہر وقت مفتوح رہتے ہیں، اسی منزلِ آخرین میں روحِ قرآن کے حسن و جمالِ معنویت کی ہر گونہ جلوہ نمائی ہوتی رہتی ہے، یہ وہ بلند ترین مقام ہے، جہاں خداوندِ عالم کے قدیم قول و فعل کا ظہور ہوتا ہے، وہ امرِ کل اور فعلِ کل ہے، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کا کن (ہو جا) فرمانا اور کائنات کو پھیلانا اور لپیٹ لینا، پھر اس کا تجدّدِ امثال ہوتا رہتا ہے۔

۹۔ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے بارے میں مذکور ہے کہ: “کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم یصلی و فی جوفہ ازیزکازیز المرجل = جب پیغمبرِ خدا صلعم نماز پڑھتے تو آپ کا سینہ اس طرح جوش مارتا جیسا کہ پکتی ہوئی دیگ جوش کھاتی ہے۔”  اور حضرتِ علی علیہ السّلام کے بارے میں روایت

 

۱۴۱

 

ہے کہ آپ نماز کا ارادہ فرماتے تو آپ کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا، یہ پیغمبرانہ اور اولیائی عبادت کا سب سے اعلیٰ نمونہ ہے۔

۱۰۔ اہلِ تصوّف رویت (دیدارِ الٰہی) کے قائل ہیں، کیونکہ مشاہدۂ حق کے بغیر اصل معرفت محال ہے، اور معرفت وہ مقصدِ خداوندی ہے، جس کے پیشِ نظر جنّ و انس کی آفرینش عمل میں آئی، جیسا کہ حضرتِ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: و ما خلقت الجنّ و الانس الا لیعبدون ( ای لیعرفون ، ۵۱: ۵۶) میں نے جنّوں اور انسانوں کو اپنی عبادت یعنی اپنی معرفت کے لئے پیدا کیا ہے۔ عبادت میں یقیناًمفہومِ معرفت بھی موجود ہے، اس لئے آیۂ پاک و پُرحکمت کا یہ صوفیانہ ترجمہ بالکل درست ہے (دیکھئے کتابِ کشف المحجوب، پہلا کشفِ حجاب، معرفتِ الٰہی)۔

۱۱۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح ایمان، علم، نیک عمل، اور دیگر اوصافِ حمیدہ کی پختگی و کمالیت درجہ بدرجہ ممکن ہو جاتی ہے، اسی طرح معرفت کے بھی بہت سے درجات ہیں، البتہ ایک مومنِ سالک کی روحانیّت میں انہی درجوں کی سیڑھی ہے، جس کی مسافت پچاس ہزار سال کی ہے (۷۰: ۰۴) تاہم خداوندِ تعالیٰ جن مومنین کو نورِ ہدایت عطا فرماتا ہے، ان کا یہ نور ان کو لے کر ان درجات میں بڑی سرعت سے دوڑتا ہے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸، یسعیٰ نورھم میں “یسعیٰ” صیغۂ مضارع ہے، یعنی دوڑتا ہے، دوڑے گا) جس طرح سردارِ انبیاء و رسل ہادئ

 

۱۴۲

 

سبل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انتہائی برق رفتاری سے معراج پر گئے تھے، پس ہدایت اور منزلِ آخرین کا سب سے بڑا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔

۱۲۔ قرآنِ عزیز مذکورہ مؤمنین کی ترجمانی فرماتا ہے: یقولون ربنا اتمم لنا نورنا ۔ اے پروردگار ہمارے لئے ہمارے نور کو (درجۂ تمامیت پر پہنچا کر) کامل کر دے (۶۶: ۰۸) پس ظاہر ہے کہ اس نور کا مقصد ہدایت اور معرفت ہے، یعنی اس کا کام ہے مرتبۂ انتہا تک مؤمن کی رہنمائی کرنا اور تجلّیاتِ ازل کے بھیدوں سے اس کو واقف و آگاہ اور شناسا کر دینا، تاکہ عارف معرفت کی بے مثال اور لازوال دولت سے ہمیشہ مالامال رہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۲۲ جمادی الثانی ۱۴۰۹ھ / ۳۱ جنوری ۱۹۸۹ء

۱۴۳

برکاتِ قرآن

۱۔ عالمِ مادّیت کا ہر پھول ہمیشہ سے ایک ہی قسم کے رنگ و بو کا حامل ہوا کرتا ہے، لیکن گل ہائے روحانیّت بدرجۂ انتہا عجیب و غریب ہوتے ہیں، کہ ان میں سے ہر گل اپنی گوناگون اور لا محدود تجلّیوں کی بدولت ایک بھرپور گلستان کا کام دیتا ہے، مثال کے طور پر لفظِ “برکۃ” کو لیجئے، جو علمی و عرفانی بہشت کا ایک خوبصورت اور دل آویز پھول ہے، جس میں انتہائی عمیق معنویت و حکمت کے دل کشا اور جانفزا پھولوں کی ایک لطیف کائنات سمائی ہوئی ہے، پس برکت میں علم و حکمت کی اتنی زیادہ رنگینیاں اور خوشبوئیں ہیں کہ کوئی بشر ان کا شمار ہی نہیں کر سکتا، کیونکہ برکت کے معنی ہیں بے پایان خیرِ الٰہی، یعنی عقل، روح، اور جسم کی خاطر لا انتہا نعمتوں کا پیدا ہوتے رہنا۔

۲۔ برکت کی رفعتِ معنوی اور علوِ شان کا یہ عالم ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذاتِ پاک کے وصف کے لئے پسند فرماتے ہوئے قرآنِ حکیم کے کل نو مقامات پر ارشاد فرمایا: تبارک الذی (بابرکت ہے وہ

 

۱۴۴

 

ذات) تبارک اللّٰہ (بابرکت ہے خدا) تبارک اسم ربک (بابرکت ہے تمہارے ربّ کا نام) نیز پروردگارِ عالم نے قرآنِ کریم کو باطنی، ظاہری، علمی، عرفانی، اور آسمانی طب و شفا کی بے شمار برکتوں سے مالامال و مزین فرما کر “مبارک” (برکت والا) کے اسم سے موسوم کیا، اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی برکت انتہائی عظیم نعمت ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔

۳۔ قرآنی برکات کا ظہورِ اوّل کلمۂ کُنۡ، قلمِ الٰہی (کتابِ مکنون) اور لوحِ محفوظ میں ہوا، جس کا تجدّدِ امثال عالمِ امر میں جاری و ساری ہے، اور اگر یہ اصل برکت چشمۂ زایندہ کی طرح ہمیشہ جاری اور روان دوان نہ رہتی، تو دونوں جہان کی تمام ذیلی برکتیں لازماً منقطع ہو جاتیں، یعنی یہ ممکن ہی نہیں کہ امرِ کل (ہو جا کا حکم) جو کلامِ خدا اور سرچشمۂ قرآن ہے، وہ کبھی خاموش ہو جائے، کیونکہ اس کی بدولت نہ صرف جدید چیزیں عرصۂ وجود میں آتی رہتی ہیں، بلکہ جو اشیاء موجود ہیں، وہ بھی اپنے قیام و بقا کے لئے اسی حکم کی فیض رسانی کی سخت محتاج ہیں۔

۴۔ اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ یک حقیقت کے قانون کے مطابق امرِ کل، قرآن، اور اسمِ اعظم ایک ہی چیز ہے، اسی میں تخلیق و تعمیر کی تمام برکتیں پوشیدہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی امرِ کُنۡ (ہو جا) سے عالمِ شخصی کو پیدا کیا، وہ اس طرح کہ خالقِ اکبر نے اپنا یہ کام عالمِ امر

 

۱۴۵

 

میں ابداعی طور پر کسی تاخیر کے بغیر پورا کر لیا، اور عالمِ خلق میں چھ دن میں، چھ دن سے چھ روحانی منزلیں مراد ہیں، جو چھ عظیم رسولوں سے متعلق ہیں: منزلِ حضرتِ آدم (اتوار)، منزلِ حضرتِ نوح (سوموار)، منزلِ حضرتِ ابراہیم (منگل)، منزلِ حضرتِ موسیٰ (بدھوار)، منزلِ حضرتِ عیسیٰ (جمعرات)، اور منزلِ حضرتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (یومِ جمعہ)، ان چھ دنوں یعنی چھ منزلوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، پھر اس نے عرش پر متجلی ہو کر مساواتِ رحمانیہ کے اسرار کو منکشف کر دیا۔

۵۔ سورۂ طٰہٰ میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: الرحمٰن علی العرش استویٰ (۲۰: ۰۵)۔ حکمت: اس بڑی رحمت والے نے مرتبۂ عرش پر مساوات کا کام کیا۔ س۔و۔ی کے مادہ سے مساواۃ (مساوٍ کا تثنیہ) کے معنی ہیں دو چیزوں کے ایک دوسرے کے برابر ہونا، جیسے قرآنِ پاک میں ہے: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (۳۹: ۰۹) تم کہو کیا علم والے اور جہل والے برابر ہوتے ہیں۔ نیز ملاحظہ ہو: مفردات القرآن، مذکورہ مادہ۔ اور اسی کتاب میں لفظِ عرش کو بھی دیکھیں۔

۶۔ قرآنِ مجید ہی کی لاتعداد برکات میں سے ہے کہ اس میں جس طرح لوگوں کے مختلف درجات کا ذکر ہے، اسی طرح مساوات (یک حقیقت) کا بھی تذکرہ ہے، جس کی پہلی دلیل یہ ہے: لوگ (ازل میں) ایک

 

۱۴۶

 

ہی گروہ تھے پس (اس وحدت و سالمیت کی خاطر) خداوند تعالیٰ نے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا جو کہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے تھے اور ان کے ساتھ الکتاب نازل فرمائی جو حق پر مبنی تھی (۰۲: ۲۱۳) جہاں تمام پیغمبروں کی آسمانی کتابیں باطنی طور پر مل کر الکتاب کہلاتی ہیں، وہاں یہ مجموعۂ کتبِ مقدّسہ قرآنِ عظیم ہی ہے، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرکزِ انبیاء و مرسلین ہیں، اور اسلام ان شاء اللہ ایک دن جامعِ ادیانِ عالم ثابت ہوگا، خواہ یہ سب سے بڑا معجزہ ظاہر میں ہو یا باطن میں۔

۷۔ مساواتِ رحمانیہ کی دوسری دلیل اس قرآنی ارشاد میں ہے: مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ (۳۱: ۲۸) تم سب کا پیدا کرنا اور زندہ کرنا بس ایسا ہی ہے جیسا ایک شخص کا۔ یعنی انسانوں کا یہ فرق و تفاوتِ درمیان ضرور ہے، لیکن ان سب کی ازلی و ابدی حالت یکسان ہوتی ہے، جیسے حضرتِ آدمؑ کے نزدیک یعنی آپ کے عالمِ ذر اور عالمِ ابداع و انبعاث میں سارے لوگ نفسِ واحدہ کی طرح ایک تھے، اور ہر انسانِ کامل کی روحانیّت میں یہ عظیم معجزہ بالکل اسی طرح وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔

۸۔ تیسری دلیل یہ ہے کہ خالقِ یکتا نے ہر شخص کو جیسے ایک عالمِ صغیر کا درجہ عطا فرمایا ہے، ایسے اس کو بے حساب ذراتِ روحانی کی صورت میں جملہ خلائق کا مجموعہ بنا دیا ہے، پس اگر کسی عالمِ شخصی کی بدرجۂ

 

۱۴۷

 

کمال روحانی ترقی ہو جاتی ہے، تو یہ ان بے شمار روحوں کے حق میں، جو اس میں ہیں، مساواتِ رحمانی جیسی انتہائی عظیم رحمت ثابت ہو جاتی ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کا حکیمانہ اشارہ ہے کہ: جو شخص کسی آدمی کو ناحق مار ڈالے وہ گویا تمام لوگوں کو قتل کرتا ہے، اور جو کسی کو (یعنی عالمِ شخصی کو علم و معرفت سے ) زندہ کرے تو وہ گویا سب لوگوں کو زندہ کر دیتا ہے (۰۵: ۳۲) کیونکہ ایک آدمی میں دنیا بھر کے لوگ موجود ہیں۔

۹۔ خدائی مساوات کی چوتھی دلیل یہ حدیثِ شریف ہے: الخلق کلھم عیال اللّٰہ فاحبھم الی اللّٰہ انفعھم لعیالہ ۔ مخلوق سب کی سب (گویا) اللہ کا کنبہ ہے لہٰذا جو اس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے گا وہی اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہو گا۔ اس پُرحکمت حدیثِ نبوّی سے یہ روشن حقیقت بڑی عمدگی سے دلنشین ہو جاتی ہے کہ سارے لوگوں کا مبدا و معاد (جائے شروع اور مرجع) ایک ہی ہے، جس میں وہ سب امتِ واحدہ ہو جاتے ہیں (۰۲: ۲۱۳) کیونکہ انسان دراصل ایک ہی ہے، اور باقی سب طوعاً و کرہاً اس میں فنا ہیں۔

۱۰۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۹۶) میں حق تعالیٰ کا فرمانِ اقدس ہے (ترجمہ): اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیز کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔ ترجمہ و تفسیر کے علاوہ اس آیۂ مبارکہ کی ایک بہت بڑی حکمت بھی ہے، اور وہ یہ ہے: قریہ ہائے ہستی یعنی عوالمِ شخصی کے باشندے اگر حقیقی معنوں میں مومن ہوتے

 

۱۴۸

 

اور جیسا کہ چاہئے تقویٰ اختیار کرتے، تو ہم ان پر روحانیّت کے آسمان و زمین کی برکتیں یعنی علم و حکمت کی صاف، پاک، اور شیرین نہریں جاری کر دیتے۔

۱۱۔ برکۃ کی بنیادی قسمیں تین ہیں: عقلی (علمی)، روحی، اور مادّی، پھر ان تینوں سے ان گنت شاخیں پھوٹتی ہیں، چنانچہ قرآنی برکات عالمگیر اور ہمہ رس اس لئے ہیں کہ روحِ قرآن (۴۲: ۵۲) خداوندِ تعالیٰ کا قدیم کلام ہے، جو حیّ و ناطق ہے، جس کا اوّلین تعلق عقل، (قلم، نور، گوہر، کتابِ مکنون)، روحِ اعظم (نفسِ کل، لوحِ محفوظ) اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے ،اور پھر ان عظیم بھیدوں کی عملی اور کامل معرفت حضور کے جانشین اولیاء کو حاصل ہے۔

۱۲۔ خزائنِ قرآن کی برکتوں سے کائناتِ ظاہر اور عالمِ شخصی مملو اور معمور ہیں، لہٰذا ان فیوض و برکات کو نہ کوئی زوال ہے، اور نہ ان میں کوئی کمی واقع ہو سکتی ہے، قرآنی طب و شفا کی خصوصی برکت بصورتِ علم و حکمت حاصل ہو سکتی ہے، جس کی ایک خاص شرط تفکر و تدبر ہے، تاکہ اس فکری جدوجہد کے پُرخلوص عمل سے عالمِ لاہوت کے بے مثال نسخہ ہائے کیمیا منکشف ہو سکیں، البتہ یہ سوال پیدا نہیں ہو سکتا کہ آیاتِ قرآنی میں غور و فکر کیوں ضروری ہے، جبکہ قرآنِ حکیم خود اپنی متعدد آیاتِ کریمہ میں نہ صرف زور دے کر تفکر و تدبر کی اہمیت کو بیان کرتا ہے، بلکہ ان لوگوں کی تعریف و توصیف بھی فرماتا ہے، جو آیات میں

 

۱۴۹

 

سوچنے کے عادی ہیں، اس سے یہ نکتۂ دلپذیر بڑی صفائی سے ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ قرآنِ حکیم کے معنوی سمندر کی گہرائیوں میں کائنات و موجودات کے جواہرِ اسرار مخفی ہیں، تاکہ صاحبانِ عقل ہر صدف سے درِ یتیم حاصل کریں۔

۱۳۔ حضرتِ نوح علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں طوفانِ آبی طوفانِ روحانی پر حجاب کا کام کر رہا ہے، کیونکہ حجاب اور کشفِ حجاب خدا کی محبوبیت کی سنت ہے (۴۲: ۵۱) چنانچہ ظاہری طوفان کی مثال میں باطنی طوفان کا ذکر کرتے ہوئے حق تعالیٰ نے فرمایا (ترجمہ): کہا گیا کہ اے نوح (اب جودی پر سے زمین پر ) اترو ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں (کے خزائن) کے ساتھ جو تم پر (رفتہ رفتہ) نازل ہوں گی اور ان جماعتوں پر کہ تمہارے ساتھ ہیں (۱۱: ۴۸) یہاں جماعتیں انبیاء علیہم السّلام ہیں، کہ ان میں سے ہر فرد ایک امت ہے، اور یہ حضرتِ نوح علیہ السّلام کے طوفانِ روحانیّت سے اترنے کا تذکرہ ہے، کیونکہ عقل و جان کی سلامتی اور علم و معرفت کی بے شمار برکتیں صرف روحانی انقلاب (طوفان / ذاتی قیامت) ہی میں ہو سکتی ہیں۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ یکم رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۸ فروری ۱۹۸۹ء

۱۵۰

انبیاء کی پیروی اور رفاقت

۱۔ جو خوش بخت مومنین قرآنی حکمتوں کے شیدائی اور دلدادہ ہیں، ان کے لئے کلامِ الٰہی کی بہشتِ برین میں کس علمی نعمت کی کمی ہو سکتی ہے، آئیے ہم شکر کنان اللہ تعالیٰ کی کتابِ عزیز میں غور و فکر کرنے کی سعادت حاصل کریں، ان شاء اللہ یہی پاکیزہ عمل ہمارے امراضِ باطن کا علاج و معالجہ ثابت ہوگا، اور یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ اسرارِ قرآن میں آسمانی طب کے تیر بہدف (سریع التاثیر) نسخے پوشیدہ ہیں۔

۲۔ قرآنِ کریم میں سب سے پہلے بہ اشارۂ تعلیم یہ حکم ہے کہ کہو: اھدنا الصراط المستقیم ۔ صراط الذین انعمت علیہم (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) چلا ہم کو سیدھا راستہ، ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ہے۔ ظاہر ہوا کہ اہلِ ایمان کو بہ امرِ خداوندِ عالم راہِ اسلام پر چل کر آگے سے آگے جانا ہے، مگر یہ بہت بڑا کام صرف اور صرف نورِ ہدایت ہی کی روشنی میں ممکن ہے، جو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے توسط

 

۱۵۱

 

سے حاصل ہو سکتی ہے، سورۂ فاتحہ کی اس عظیم الشّان تعلیم میں منشائے ایزدی یہ بھی ہے کہ مومنین صراطِ مستقیم اور منازلِ روحانیّت میں نہ فقط ترقی کریں، بلکہ تمام تر روحانی اور عرفانی نعمتوں سے بھی مستفیض و بہرہ مند ہوتے جائیں، کیونکہ یہ راستہ منعم علیہم (انعام یافتگان) کا ہے، جس کے ہر قدم اور ہر مرحلے میں نعمتیں ہی نعمتیں ہیں، اور یقیناًاللہ کی ساری نعمتیں بندوں ہی کے لئے ہوا کرتی ہیں۔

۳۔ اگر آپ صراطِ مستقیم پر روحانی ترقی و پیشرفت اور اس کی لامحدود نعمتوں کے بارے میں بنیادی حقیقتوں کو جاننا چاہتے ہیں، تو پھر آپ کو سورۂ نساء کی آیت ۶۹ (۰۴: ۶۹) میں خوب غور کرنا ہوگا، اسی آیۂ کریمہ میں دیکھئے کہ خدا و رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کا اجر و صلہ کیا ہے؟ انبیاء ، اولیاء، شہداء، اور نیکوکاروں کے ساتھ ہونا، یعنی جن حضرات کو ربِّ کریم نے اپنی خاص خاص نعمتوں سے نوازا ہے، ان کے پیچھے پیچھے بمعنی ان کے ساتھ اور ان کی رفاقت میں سفرِ روحانیّت کی منزلوں کو طے کرنے کی سعادت، کیونکہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں لفظِ مع اور رفیق وارد ہوا ہے، اور ان دونوں لفظوں میں حکمت کی کلیدیں پوشیدہ ہیں، جن میں درست زاویۂ نگاہ سے دیکھنے اور صحیح اندازِ فکر سے نتیجہ نکالنے کی ضرورت ہے۔

۴۔ چونکہ روحانیّت مکان و زمان کی قید سے بالا و برتر ہوا کرتی ہے، لہٰذا ہر باسعادت پیرو اپنے پیشرو (ہادی) کے نقشِ قدم پر چلتے

 

۱۵۲

 

ہوئے بھی رہنما کے ساتھ ہوتا ہے، اور وہ اس کا رفیق (ساتھی، یار) ہوتا ہے، یہی مطلب سورۂ نساء کے رکوعِ نہم (۰۴: ۶۹) میں ہے، یہ بات دراصل نورِ ہدایت کے روحانی ظہور اور موجودگی سے متعلق ہے کہ وہی عالمِ شخصی میں انبیاء ، صدیقین، شہداء، اور صالحین کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہی نور واحد بھی ہے، اور جمع بھی، جبکہ وحدتِ انوار کا قانون نور علیٰ نور ہے (۲۴: ۳۵)۔

۵۔ حقائق و معارف کی انتہائی عظیم کائنات، اگرچہ مکان و زمان کی بے پناہ وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے قبضۂ قدرت میں اسے لپیٹ کر عالمِ صغیر میں محدود کر دیتا ہے (۳۹: ۶۷) یہ قیامتِ صغریٰ کا واقعہ ہے، جس میں نہ صرف لوگوں ہی کے اوّلین و آخرین مجموع ہو جاتے ہیں (۵۶: ۴۹ تا ۵۰) بلکہ تمام چیزیں بھی یکجا کر دی جاتی ہیں (۰۶: ۱۱۱) اور اس میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں کہ خدائے عز و جل ایک ہی حقیقت کو طرح طرح کی مثالوں میں بیان فرماتا ہے (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴)۔

۶۔ پروردگارِ عالم کا یہ بزرگ خطاب اہلِ معرفت سے ہے (ترجمہ): اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے ہی تمہاری (روحانی) صورت بنائی پھر ہم نے (تمہارے سامنے یعنی عالمِ شخصی میں) فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو (۰۷: ۱۱) پس اسی طرح انبیاء و اولیاء کی رفاقت نصیب ہو جاتی ہے، آپ اس واقعہ کو تجدّدِ امثال کا معجزہ، رفعِ زمان، مظاہرۂ نور، حقیقتوں کی یکجائی، کشفِ اسرار، مرتبۂ عین الیقین، نفسِ واحدہ،

 

۱۵۳

 

امامِ مبین، ام الکتاب، نامۂ انبیاء و اولیاء، اور فنا فی الرسول بھی کہہ سکتے ہیں۔

۷۔ جو مومنین خدا اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت و فرمانبرداری کے مرتبۂ فنا کو حاصل کرتے ہیں، وہ اپنے سفرِ روحانی میں حضرتِ نوح علیہ السّلام کے ساتھ کس طرح ہو سکتے ہیں، اس کے لئے سورۂ یس (۳۶: ۴۱، ۳۶: ۴۲) میں دیکھئے: اور ایک نشانی (اٰیۃ) ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کے ذرّاتِ روح کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا، اور ہم نے ان کے لئے اس جیسی (روحانی) کشتی بنائی جس پر یہ لوگ سوار ہو سکتے ہیں (۳۶: ۴۱ تا ۴۲) خدا کی آیت انمٹ نشانی اور لازوال معجزہ کا نام ہے، جو عالمِ شخصی میں دیکھنے کی غرض سے ہمیشہ موجود ہوا کرتا ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ اہلِ معرفت اپنی ذات میں طوفان اور کشتئ نوح کا مشاہدہ کرتے ہیں، سورۂ نور (۲۴: ۳۴) میں بنظرِ حکمت دیکھ لیں (مفہوم): جہاں قرآنِ مجید کے روحانی پہلو کا تعلق لوحِ محفوظ سے ہے، وہاں بولتی آیات موجود ہیں، ان میں زمانۂ سلف کے انبیاء و اولیاء کے تمام واقعات و معجزات کا تجدّدِ امثال پایا جاتا ہے۔

۸۔ عالمِ شخصی میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی ایک مثال یہ ہے کہ شروع شروع میں جب مومنِ سالک کی دیدۂ باطن کھل جاتی ہے، تو اس وقت تیز روشنی اور طرح طرح کی صورتیں نظر آتی ہیں، اگر حضرتِ

 

۱۵۴

 

ابراہیم جیسے موحدِ اعظم کی نگاہ سے دیکھا جائے، تو یہ کچھ تجلّیات نہیں، بلکہ سب کے سب اصنام ہی ہیں، اس لئے خلیل اللہ بڑے صنم کو چھوڑ کر باقی سب بتوں کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں (۲۱: ۵۸)۔

۹۔ ایک اور مثال یہ ہے کہ خدا کے دوستوں کی غیبت، بدخواہی، حسد، دشمنی، اور معاندانہ کوشش درحقیقت آتشِ نمرود کہلاتی ہے، لیکن قادرِ مطلق کی قدرت دیکھئے کہ ان کے عالمِ شخصی میں معجزۂ خلیلی کا تجدّد ہوتا ہے، اور اس آگ سے گلشنِ روح و روحانیّت بنایا جاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا بابرکت ارشاد ہے: قلنا یا نار کونی بردا و سلاماً علیٰ ابراہیم (۲۱: ۶۹) ہم نے کہا اے آگ تو ٹھنڈی اور سلامتی (تائیدِ روحانی) ہو جا ابراہیم کے حق میں۔

۱۰۔ انسان اپنی ہستی میں پوری کائنات کا خلاصہ بھی ہے، اور عالمِ دین کا نمونہ بھی، چنانچہ عالمِ شخصی کی امکانی روحانیّت میں اتنی بڑی لچک ہے کہ اس سے انبیاء علیہم السّلام کے معجزات کی ترجمانی ہو جاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضراتِ انبیاء نفسِ واحدہ ہیں، اس لئے ان کے معجزات ایک جیسے ہیں، اگرچہ مثالیں مختلف ہیں، چنانچہ عالمِ شخصی  میں حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی ایک عام مثال یہ ہے کہ آپ اس بچھڑے کو جلا کر دریا میں بکھیر دیتے ہیں، جو سامری نے زیورات سے بنایا تھا، زیورات سے ابتدائی روحانیّت کی چمکیلی چیزیں مراد ہیں، جو واقعاً سیم و زر اور در و گوہر کی مصنوعات جیسی نظر

 

۱۵۵

 

آتی ہیں، سامری شیطان ہے، اور بچھڑا وہ نفسِ حیوانی، جس کو شیطان سجائے، بچھڑے کو جلا کر دریا میں ڈالنے کے معنی ہیں: ہادئ برحق سے رجوع کر کے نفس کو آسمانی عشق کی آگ میں پگھلانا اور جلانا، پھر اس کے ذراتِ خاکستر کو ہمیشہ کے لئے دریائے علم و حکمت میں ڈال دینا (۲۰: ۹۷)۔

۱۱۔ حضرتِ موسیٰ کے قصّۂ قرآن میں ہے: اور وہ وقت بھی قابلِ ذکر ہے جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو، جبکہ اس نے تم میں (یعنی دین اور عالمِ شخصی میں) پیغمبر بنائے اور تم کو سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) یعنی یہ خدا کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس نے دین میں انبیاء بنائے، جو عالمِ شخصی تک رسا ہیں، تاکہ نتیجے کے طور پر تم کو بادشاہ بنا دیا جائے (و جعلکم ملوکا ، ۰۵: ۲۰) چنانچہ جو مومنین حضرتِ ہارونؑ، حضرتِ موسیٰؑ، اور اللہ میں فنا ہو چکے تھے، وہ بادشاہ ہو گئے تھے، اور اللہ تعالیٰ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی۔

۱۲۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام بحکمِ خدا نہ صرف ذاتی روحانیت میں بلکہ مؤمنین کے عالمِ شخصی میں بھی اسمِ اعظم پڑھ کر پرندے (ابداعی کرتے) بناتے تھے (۰۳: ۴۹) یہ اجسامِ لطیف اور مومن جنات ہیں (۷۲: ۱۱، ۷۲: ۱۴) اور حضرتِ عیسیٰؑ کے بارے میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے: و جعلنی مبارکاً این ما کنت (۱۹: ۳۱) اور اس نے مجھ کو برکت والا بنا دیا جہاں کہیں بھی

 

۱۵۶

 

ہوں، یعنی چاہے میں کلمہ میں ہوں (۰۳: ۴۵) یا روح اور اپنی والدہ میں (۰۴: ۱۷۱) خواہ میں عالمِ دین میں ہوں یا عالمِ شخصی میں، چاہے میں اپنوں کے سامنے ہوں یا ان سے دور، بہر حال خدا نے مجھے برکت والا بنا دیا ہے۔

۱۳۔ حضرتِ محمد مصطفی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سارے جہانوں کے حق میں رحمت کا انتہائی عظیم مرتبہ رکھتے تھے، لہٰذا آپ ہی کا نورِ اقدس و اطہر خداوند تعالیٰ کے حکم سے تمام پیغمبروں میں کام کر رہا تھا، اسی طرح حضورِ انور تمام انبیاء میں تھے، اور سب آپ کی ذاتِ اقدس میں جمع ہو گئے، جیسا کہ سرورِ انبیاء صلعم کا ایک مبارک نام حاشر ہے، یعنی جمع کرنے والا، جناب رسالت مآب اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے وہ روشن چراغ ہیں، جو عالمِ شخصی کو نورِ علم و حکمت سے جگمگا سکتا ہے (۳۳: ۴۶) خواب و روحانیّت میں اہلِ ایمان کو جتنی اور جیسی بشارتیں ملتی ہیں، وہ سب رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے ہیں، کیونکہ آپ ہی مبشر ہیں (۳۳: ۴۵) اگرچہ حقیقت بس یہی ہے کہ خلوتگاہِ معراج میں خدا اور پیغمبر کے سوا اور کوئی نہیں تھا، تاہم یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لوگ فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں، اور اللہ تبارک و تعالیٰ جن کی آنکھ ہو جاتا ہے، وہ معراج کا مشاہدہ نہ کر سکیں۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
بدھ ۸ رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۱۵ فروری ۱۹۸۹ء

۱۵۷

درد سے درد کا علاج

۱۔ “درد سے درد کا علاج” جسمانی حالت میں یوں ہے کہ تلخ دوائیوں اور پرہیز جیسی چھوٹی تکلیف کو برداشت کر کے کسی بیماری کی بڑی تکلیف سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے، اور اگر کسی مرض کا دفعیہ اپریشن ( چیڑ پھاڑ) ہی سے ہو سکتا ہے، تو اس کو بھی باعثِ صحت تسلیم کرتے ہوئے صبر و ہمت سے کام لینا پڑتا ہے، تاکہ مستقل علت کا سدِ باب ہو سکے، اور ناوقت ہلاکت نہ ہو، یہی حال روحانی علاج کا بھی ہے کہ اس میں بھی درد سے درد کا علاج کیا جاتا ہے۔

۲۔ یہ صوفیوں اور درویشوں کی گریہ و زاری کیا ہے؟ احساسِ دردِ پس ماندگی ہے، جو آگے بڑھ کر سب سے بڑے درد سے شفا پانے کی خاطر ہے، یہ عاشقوں کا کراہنا اور آہ بھرنا کیا ہے؟ اظہارِ درد ہے، تاکہ دردِ عشق میں شدت پیدا ہو، اور پھر دیدار سے دردِ جہالت کا علاج ہو جائے، کیونکہ جہالت ہی سب سے بڑی اور سب سے بری بیماری ہے، اور کسی شک کے بغیر سب سے بڑا عذاب بھی یہی

 

۱۵۸

 

ہے، اس لئے کہ داناؤں کے نزدیک جسمانی درد کے مقابلے میں روحانی درد بڑا سخت ہے، اور اس سے بھی شدید درد عقلی کیفیت میں ہے، اور وہ جہالت و نادانی ہی ہے۔

۳۔ آپ قرآنِ کریم میں تضرع کے موضوع کو خوب غور سے پڑھ لیں کہ جب خدا کے حکم سے انفرادی یا اجتماعی تکالیف، بیماریاں، اور بلائیں آتی ہیں، تو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس ظاہری اور جسمانی درد کی حکمت کو سمجھ لیا کریں، اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں مناجات اور گریہ و زاری کریں، تا کہ بفضلِ خدا اس درد سے روحانی اور عقلی درد کا علاج ہو جائے (۰۶: ۴۲ تا ۴۳، ۰۷: ۹۴، ۲۳: ۷۶)۔

۴۔ سورۂ بقرہ کی آیاتِ مبارکہ ۱۵۵ تا ۱۵۷ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) پیشِ نظر ہوں، جیسا کہ ارشادِ مقدّس کا ترجمہ ہے: اور البتہ ہم تم کو آزمائیں گے کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ایسے صبر کرنے والوں کو بشارت دو کہ ان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف پھر جانے والے ہیں ان لوگوں پر ان کے ربّ کی طرف سے درود بھی ہے اور رحمت بھی، اور یہی لوگ راہِ ہدایت پر چلتے ہیں۔ یہ سب نفسانی آلام یعنی دردوں کا بیان ہے، اور معلوم ہے کہ وہی نفسِ حیوانی، جو راحت و آسائش میں توسنِ بد رکاب کی طرح ہوتا تھا، اب درد و

 

۱۵۹

 

الم یعنی مصیبت کی برکت سے دم بخود ہو کر سرکشی سے باز آتا ہے، پس ایسے میں دانا مومن کثرت و کامیابی سے اللہ کو یاد کرتا ہے، تاکہ قولاً و فعلاً یہ ثابت ہو سکے کہ وہ خدا کا بندہ ہے، اور اسے زندگی میں بھی اور مر کر بھی اللہ تبارک و تعالیٰ سے رجوع کرنا ہے۔

۵۔ قرآنی معنوں کا اوّلین تعلق مقاماتِ روحانیّت سے ہوتا ہے، پھر وہ احوالِ ظاہر پر بھی محیط ہو جاتے ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا آزمائشوں کے ظاہری پہلو کو سب جانتے ہیں، لہٰذا میں یہاں ان کے روحانی پہلو کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ بعض اوقات درویشوں پر خواب و روحانیّت میں خوف و ہراس مسلط کیا جاتا ہے، یہ نفس کُشی کا ایک عمدہ وسیلہ ہے، بھوک یہ ہے کہ کوئی شخص روحانی غذاؤں کی نایابی کا بڑی سختی سے احساس رکھے، مالی نقصان یہ ہے کہ کوئی باسعادت مومن اپنی کم علمی کو شدت سے محسوس کرے، جان کی کمی اس طرح ہے کہ ہوشمند اپنی روح کے اصل مرتبہ اور موجودہ حالت کے درمیان جو فرق ہے اس پر صحیح معنوں میں افسوس کرے، اور پھلوں کا نقصان یوں ہے کہ تائیداتِ ربّانی کی بارش کبھی برستی رہتی ہے، اور کبھی تھم جاتی ہے، اور یہاں صبر کے معنی ہیں روحانیّت کی بلاؤں اور آزمائشوں سے ثابت قدمی کے ساتھ گزرتے ہوئے آگے جانا، بشارت انفرادی اور عملی ہے، جو خواب و روحانیّت کی مختلف صورتوں میں سنائی جاتی ہے۔

۱۶۰

۶۔ نیز جانی نقصان جس طرح ظاہر میں موت واقع ہونے کا نام ہے، اسی طرح باطن میں یہ وہ موت ہے، جو کسی خوش نصیب سالک پر مرگِ جسمانی سے قبل وارد ہو جاتی ہے، ہر چند کہ بحقیقت نقصان نہ اس میں ہے، اور نہ اس میں ، لیکن بتقاضائے ظاہر حکیمانہ بیان ایسا ہے، پس یہ ترتیب بالکل حکیمانہ ہے کہ پہلے خوف ہے، پھر روحانی بھوک، پھر مالی نقصان، جن کی وضاحت ہو چکی، اور اس کے بعد نفسانی موت، اب روحانی پھلوں کی بارش، پھر اس طوفان کا تھم جانا، اس کے بعد درود، پھر رحمت، اور آخر میں ہدایت، یعنی منزلِ مقصود تک رسا ہو جانا، یا واصل بحق ہو جانا۔

۷۔ درد کو قرآنِ حکیم کی زبان میں الم کہتے ہیں، اور اس کی جمع آلام ہے، چنانچہ سورۂ نساء میں فرمایا گیا ہے (ترجمہ): اور (مسلمانو!) دشمنوں کے پیچھا کرنے میں سستی نہ کرو، اگر لڑائی میں تم کو درد پہنچتا ہے تو جیسی تم کو تکلیف پہنچتی ہے ان کو بھی ویسی ہی اذیت پہنچتی ہے اور تم خدا سے وہ امیدیں رکھتے ہو جو ان کو (نصیب) نہیں (۰۴: ۱۰۴)۔ اس قرآنی تعلیم میں یہ عظیم حکمت ہے کہ درد مسلمانوں کے ایمان و روحانیت کے لئے باعثِ ترقی بھی ہے اور دشمنانِ دین کے کفر و انکار کے لئے ذریعۂ علاج بھی۔

۸۔ ایک اور درد ہے، جو عام ہونے کے باوصف بے حد مفید ہے، اور وہ ہے ہمدردی، یعنی دوسروں کے دکھ درد میں غم گساری،

 

۱۶۱

 

دردمندی، اور رحمدلی، جو اوصافِ آدمیّت کو صفائی اور جلا بخشتی ہے، جیسا کہ گلستان میں ہے:

بنی آدم اعضائے یکدیگرند

کہ در آفرینش ز یک گوہرند

چو عضوے بدرد آورد روزگار

دگر عضو ہا را نماند قرار

تو کز محنتِ دیگران بے غمی

نشاید کہ نامت نہند آدمی

ترجمہ: فرزندانِ آدم ایک دوسرے کے اعضاء ہیں، اس لئے کہ ان کی پیدائش ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے۔ جب کوئی عضو زمانہ کے ہاتھوں درد میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو دوسرے اعضاء بھی بے قرار ہو جاتے ہیں۔ اے شخص تو جو دوسروں کی تکلیف سے بے غم ہے، مناسب نہیں کہ تجھے آدمی کہا جائے۔

۹۔ میں نے ملکِ چین میں ایک ایسے درویش کو دیکھا، جو بالکل تندرست تھا، مگر اس کی عجز و انکساری بھری ہوئی گفتگو ایسی لگتی تھی، جیسے وہ کسی شدید بیماری میں مبتلا ہو، اور وہ مریضانہ لہجے میں ذکر و مناجات کرتا تھا، یعنی کراہتے اور آہ بھرتے ہوئے اللہ کو یاد کرتا تھا، یہ وہ طریقۂ درویشی ہے، جس سے دل کی بیماری رفتہ رفتہ نکل کر حقیقی صحت بحال ہو سکتی ہے، اس موقع پر مظاہرِ قدرت کا ایک اعجوبہ یاد آیا، وہ یہ کہ بعض دفعہ بکریوں میں ایک ایسی بکری بھی ہوا کرتی ہے، جو اغیل میں رات کے سکون کے وقت ایک خاص قسم کی نرم آواز نکالتی رہتی ہے، اس آواز کو جو بکری کی ناک سے نکلتی ہے، بروشسکی

 

۱۶۲

 

میں گرسکنس (Guruskinas) کہتے ہیں، یہ صوت بیمار آدمی کے کراہنے کی طرح ہوتی ہے، جسے اغیل کی تمام بکریاں جگالی میں مصروف ہونے کے باوجود سنتی رہتی ہیں، پس یقیناًہر چیز قالاً یا حالاً، شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر ، معرفت سے یا عقیدت سے اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے (۱۷: ۴۴) اور اس کے بغیر کوئی شیٔ ہے نہیں۔

۱۰۔ اس درویشِ باہمت کی تعریف اس لئے ہونی چاہئے کہ وہ اگرچہ ظاہراً بیمار نہیں تھا، لیکن شاید اس نے یہ یقین کر لیا کہ روح بیمار ہے، کیونکہ خالقِ اکبر نے دل یعنی روح کو آئینۂ اسرارِ ازل بنا دیا ہے، پس اگر یہ آئینہ اپنا مخصوص کام نہیں کر رہا ہو، تو ظاہر ہے، کہ اس کو یقیناًزنگِ بیماری لگ گیا ہے، پس یہ امر ازبس ضروری ہوا کہ ذکر کے سوہان (ریتی  File = ) سے دل کو پاک و صاف کیا جائے، تاہم یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انتہائی مؤثر اور کامیاب ذکر کے لئے کون سی کیفیتِ مزاج (Mood) اور کس قسم کی آوازِ جلی یا خفی بہترین ثابت ہو سکتی ہے۔

۱۱۔ حدیثِ شریف کے مطابق بخار ربِّ غفور کی طرف سے باعثِ پاکیزگی ہے، اور اصل بخار کا معجزہ روحانیّت میں ہے، جس کا قرآنی نام “زلزلہ” ہے (۰۲: ۲۱۴، ۲۲: ۰۱، ۳۳: ۱۱، ۹۹: ۰۱) غرض اہلِ ایمان کے حق میں جسمانی تکالیف اور منازلِ روحانیّت کی آزمائشیں بڑی مفید دواؤں کا کام کرتی ہیں، تاکہ کلی طور پر روحانی اور اس کے بعد عقلی صحت حاصل ہو، اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنی حکمتِ بالغہ

 

۱۶۳

 

سے خیر و شر کی ہر چیز کو رجوع کا ذریعہ بنایا۔

۱۲۔ خزائنِ اسرارِ قرآن میں سے ایک خزانہ حضرتِ مریم علیہا السّلام کا قصّہ ہے، اگرچہ یہ گنجِ گرانمایہ لاتعداد انمول جواہر سے بھرا ہوا ہے، لیکن ہم یہاں موضوعِ زیرِ بحث کی مناسبت سے صرف ایک ہی دُرجِ گوہر (موتیوں کا ڈبہ) کا ذکرِ جمیل کریں گے، وہ انسانِ کامل کی نورانی ولادت کا قصّہ ہے، جو کامیاب درویش کے عالمِ شخصی میں وقوع پذیر ہوتی ہے، چنانچہ حضرتِ مریم کا دردِ زہ (مخاض ، ۱۹: ۲۳) اس معجزاتی تکلیف کی مثال ہے، جو انفرادی نور کے جنم یا ظہور کے دوران کسی درویش پر گزرتی ہے، آپ کو شاید اس بات کا تعجب ہوگا کہ بھلا دردِ زہ سے نور کی نسبت ہی کیا! لیکن یہ بات نہیں، کیونکہ نور کا جس طرح جسمانی جنم ہوتا ہے، اسی طرح اس کا روحانی جنم بھی ہے، جس سے ظہورِ نور مراد ہے، اور یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ خداوندِ عالم نے نور کو جامع الامثال بنا دیا ہے، تاکہ اس کی روشنی میں ہر مثال کی حقیقت کا علم ہو سکے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
منگل ۱۴ رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۲۱ فروری ۱۹۸۹ء

۱۶۴

عالمِ شخصی اور بہشت

۱۔ سورۂ ذاریات میں پروردگارِ عالم کا ارشادِ عالی ہے (ترجمہ): اور یقین والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تمہاری جانوں میں بھی، تو کیا تم نہیں دیکھتے ہو (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)۔ اہلِ دانش پر یہ حقیقت روشن ہے کہ یہاں لفظِ “یقین” مشاہدۂ باطن اور معرفت کے معنی میں آیا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مومن کا لفظ عام بھی ہے، اور خاص بھی، مگر موقن (بحقیقت یقین والا) خاص ہے عام نہیں، اور یقین و موقنین پر حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کی عملی مثال سے بخوبی روشنی پڑتی ہے، جیسا کہ سورۂ انعام (۰۶: ۷۵) میں ارشاد ہوا ہے: اور اسی طرح ہم نے ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی (عظیم الشّان روحانی) سلطنت دکھلائی تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں (یعنی عارفوں ) سے ہو جائے۔

۲۔ سیّارۂ زمین پر آج جیسی بے شمار چیزیں ہیں، وہ سب کی سب قدرت کی نشانیاں ہیں، اور یہی لاتعداد نشانیاں بصورتِ لطیف

 

۱۶۵

 

عالمِ شخصی میں بھی ہیں ( و فی انفسکم = اور تمہاری جانوں میں بھی ہیں) پس یقینِ کامل یا معرفت کا انحصار عالمِ شخصی کے مشاہدے پر ہے، اور یہ امر نہ صرف ممکن ہے، بلکہ ضروری بھی ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کا فرمانا ہے کہ: اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہے سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور زیادہ راہ گم کردہ ہو گا (۱۷: ۷۲) دنیا کی روشنی اور آدمی کی ظاہری آنکھ دو الگ الگ چیزیں ہوا کرتی ہیں، مگر اس کے برعکس روحانیّت میں نور کہا جائے، یا چشمِ باطن، وہ ایک ہی چیز ہے، چنانچہ “اللّٰہ نور السمٰوات و الارض” میں رحمتِ خداوندی کا یہ اعلانِ عام ہے کہ لوگو آؤ نورِ الٰہی کو چشمِ بصیرت قرار دے کر عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کی حقیقتوں کا مشاہدہ کرو۔ یہ تفسیر حدیثِ تقرب کے عین مطابق ہے۔

۳۔ اجتماعی اور انفرادی نور دنیا ہی میں حاصل کیا جاتا ہے، اسی معنیٰ میں سورۂ حدید (۵۷: ۱۳) میں حکایتاً ارشاد ہوا ہے: قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًاؕ ۔ ان کو جواب دیا جائے گا کہ تم اپنے پیچھے لوٹ جاؤ پھر (وہاں سے) نور ڈھونڈ لاؤ۔ یہاں “پیچھے” سے دنیا اور تاریخ مراد ہے، جبکہ مذکورہ قیامت انفرادی اور شخصی قسم کی ہو، ورنہ قیامتِ کبریٰ میں پیچھے لوٹ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔

۴۔ بہشت عقلی بھی ہے، روحانی بھی، اور لطیف جسمانی بھی، لہٰذا اس کا پھیلاؤ کائناتِ ظاہر کے طول و عرض کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱)

 

۱۶۶

 

یعنی جنت آسمان و زمین کے جسمِ لطیف، نفسِ کلّی، اور عقلِ کلّی میں معمور و مستور ہے، ساتھ ہی ساتھ اس کا ظہور عالمِ شخصی میں بھی ہو جاتا ہے، کیونکہ جو کچھ عالمِ کبیر میں منتشر ہے، وہی کچھ عالمِ صغیر میں مجتمع بھی ہے، اس کی بہت سی مثالوں میں سے ایک وہ ہے، جس میں بہشتِ برین کو نزدیک لانے کا ذکر ہوا ہے، دیکھئے: ۲۶: ۹۰، ۵۰: ۳۱، ۸۱: ۱۳، پس آدمی کے لئے سب سے قریب ترین جنت وہی ہے، جو اس کی ذات میں ہو، یعنی عالمِ شخصی میں ،تاکہ وہ معرفتِ روح کے ساتھ ساتھ بہشت کی شناخت بھی حاصل کرے (۴۷: ۰۶)۔

۵۔ انسان کا جرثومۂ حیات جب پشتِ پدر سے شکمِ مادر میں منتقل ہو جاتا ہے، تو اس وقت وہ جسمانی، روحانی، اور عقلی تین قسم کی تاریکیوں میں پوشیدہ ہوتا ہے، لیکن خدا کے سامنے کوئی تاریکی نہیں، اس لئے وہ اس کی تخلیق در تخلیق کرتا ہے (۳۹: ۰۶) قرآنِ حکیم نے ان تین ظلمتوں کا تذکرہ اس مقصد کے پیشِ نظر فرمایا، تاکہ ہم یہ حقیقت سمجھ سکیں کہ ان کے مقابل میں انوار بھی تین ہیں: جسمِ لطیف کے لئے، روح کے لئے، اور عقل کے لئے، پس جب پیراہنِ یوسفی (کرتۂ ابداعی) سامنے آتا ہے، جب روح دکھائی دیتی ہے، اور جب مظاہرۂ عقل کا مشاہدہ ہوتا ہے، تو اس وقت تین انوار ہوتے ہیں، اور اسی حال میں جنّت عالمِ شخصی میں نزدیک لائی جاتی ہے۔

۶۔ انسان کو عالمِ وجود میں جو مقام ملا ہے، وہ حیوان اور فرشتہ

 

۱۶۷

 

کے درمیان واقع ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ وہ گر کر حیوان بشکلِ آدمی بن جائے، اور اس میں بھی کوئی تعجب نہیں کہ وہ بشری صورت میں ہوتے ہوئے ملک ہو جائے، اور یقیناً قرآنِ حکیم میں اس تنزل و ترقی کا ذکر موجود ہے، اسی واسطے ہمیں کہنا چاہئے کہ مولائے روم کا نظریۂ ارتقاء قابلِ تعریف ہے، جس کا تذکرہ قیامتِ صغریٰ کے عنوان کے تحت ہو چکا ہے، پس یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جب تک کسی کو فرشتگی کا کوئی تجربہ نہ ہو، تو وہ صرف عالمِ ناسوت ہی کو دیکھتا ہے، اور اگر وہ انسانِ کامل میں فنا ہو جائے، تو لا ریب وہ عالمِ ملکوت اور بہشت کا مشاہدہ کرے گا۔

۷۔ قرآن و حدیث کا اندازِ بیان بدرجۂ انتہا حکیمانہ ہے، اس لئے ہمیں حکمت سمجھنے کی بے حد ضرورت ہے، اور خود قرآن ہی کا ارشاد ہے کہ: خدا جس کو چاہے حکمت عطا کر دیتا ہے، اور جس کو حکمت عنایت ہوئی تو بے شک اس کو بڑی کثرت سے خیر مل گئی (۰۲: ۲۶۹) یہ حکمت کی تعریف و توصیف بھی ہے، اور اس کے حصول کے لئے تشویق و ترغیب بھی، تاکہ ہر ہوشمند مسلمان حکمت کی اہمیّت کو سمجھے اور اس کو حاصل کرتا رہے، کیونکہ حکمت مومن ہی کی گم شدہ متاع ہے۔

۸۔ قرآنِ کریم ایک علمی و عرفانی بہشت ہے، کیونکہ اس میں عقل و جان کے لئے بے حد و بے حساب نعمتیں موجود ہیں، اور خدائے

 

۱۶۸

 

بزرگ و برتر کی یہ بے عدیل و لاثانی کتاب کائناتی جنت کی وہ صورتِ مرقومہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے بہشتِ برین کو لفیف و محدود کر کے انسان کے سامنے رکھ دیا ہے، یہ اس حقیقت کی ایک روشن مثال ہے کہ خداوندِ عالم بہشت کو اپنے بندوں کے نزدیک لاتا ہے، اس لئے کہ وہ خود بھی آدمی کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے، مگر انسان کے لئے اس کا اپنا وسوسہ ایک تاریکی ہے (۵۰: ۱۶) جب نفس کا وسوسہ ختم ہو جائے، تو دیکھ لینا کہ کیا ہوتا ہے۔

۹۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ ان باتوں کو معمولی نہ سمجھیں: الف: ہر چیز کی ازلی حیثیت خزائنِ الٰہی میں موجود و محفوظ ہے (۱۵: ۲۱)۔ ب: ہر چیز کا امکانی وجود کلمۂ باری میں ہے (۳۶: ۸۲)۔ ج: ہرچیز کی پوشیدہ کتاب قلمِ قدرت میں ہے (۵۶: ۷۸)۔ د: ہر چیز کی روحانی تحریر لوحِ محفوظ میں ہے (۸۵: ۲۲)۔ ھ: ہر چیز کا بیان قرآنِ عزیز میں موجود ہے (۱۶: ۸۹)۔ و: ہر چیز کی مادی صورت صحیفۂ کائنات میں بنائی ہوئی ہے (۰۲: ۰۲)۔ ز: ہر چیز کا ذرۂ لطیف عالمِ شخصی میں موجود ہے (۵۱: ۲۱)۔ ح: ہر چیز کی کلیدی حکمت امامِ مبین میں محدود ہے (۳۶: ۱۲)۔ ط: ہر عملی چیز کا ریکارڈ نامۂ اعمال میں ہوتا ہے (۷۸: ۲۹) اور یہ تمام کلیات آپس میں اس طرح متحد ہیں کہ ان میں سے جس کو دیکھا جائے، اسی میں دوسرے سب موجود نظر آتے ہیں۔

۱۰۔ دنیا رنج و مشقت کی جگہ ہے، اس میں کوئی آرام و راحت

 

۱۶۹

 

نہیں، اور عالمِ شخصی میں جب بہشت نزدیک لائی جاتی ہے، وہ بھی جسمانی اور نفسانی تکالیف کے ساتھ ہے، کیونکہ وہ یہاں صرف یقین و معرفت کے پہلو سے آ سکتی ہے، اور بس، آپ انبیاء علیہم السّلام کی حیاتِ طیبہ پر غور کر سکتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے عالمِ شخصی میں یقیناً نورانیّت اور علم و حکمت کی جنّت موجود تھی، مگر ایسا کوئی قانون ہی نہ تھا کہ ظاہری تکالیف ختم ہو جائیں، اور مومن کے لئے دنیا ایک کلّی بہشت بن جائے۔

۱۱۔ عالمِ شخصی میں جملہ پیغمبروں کے معجزات بصورتِ تجدّدِ امثال مجموع ہیں، ان کے علاوہ وہ تمام واقعات بھی ہیں، جن کا تذکرہ قرآنِ پاک میں موجود ہے، مگر یہ ساری چیزیں روحانی شکل میں ہیں، مثال کے طور پر عصای موسیٰؑ کو لیجئے، کہ وہ سب سے پہلے اسمِ اعظم اور ذکر ہے، پھر روح و روحانیّت، اور آخر میں عقل و علم، کیونکہ قرآنِ حکیم میں حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی کی تین صورتوں کا ذکر ہے: حیۃ (سانپ، ۲۰: ۲۰) ثعبان (اژدھا، ۲۶: ۳۲) اور جآن (جن، ۲۷: ۱۰) یہ اس مبارک عصا کے تین پرحکمت معجزے تھے، جن کی خیر کا پہلو حضرت موسیٰ کی طرف اور شر کا پہلو فرعون کی طرف تھا، ان شاء اللہ تعالیٰ کسی اور موقع پر مزید باتیں ہوں گی۔

۱۲۔ عالمِ شخصی کی بہشت سے دراصل روح اور ربّ کی معرفت مراد ہے، اسی میں شفای کلّی اور نجاتِ ابدی ہے، اور اسی سے وہ بصیرت

 

۱۷۰

 

عطا ہو جاتی ہے، جس کی ہر مومن کو بے حد ضرورت ہے، تاکہ ہر علمی حجاب میں جو گنجِ حکمت محجوب و مستور ہے، اس کو دیکھا جائے، خواہ کوئی حجاب سانپ کا ہو، یا اژدھے کا، یا جن کا، والسلام۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
پیر ۲۷ رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۶ مارچ ۱۹۸۹ء

 

۱۷۱