علمی علاج

دیباچہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعماتِ عظمیٰ کا تذکرہ یا اشارہ اگر خلوصِ نیّت اور عشق سے کیا جاتا ہے، تو یہ اہلِ ایمان کی بہت بڑی سعادت ہے کہ وہ شکرگزاری اور قدردانی جیسی عبادت کے لئے سعی کر رہے ہیں، اور اس نیک عمل سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو سکتی ہے، جی ہاں، منعمِ حقیقی کی صرف ایک ہی بڑی نعمت یا چند نعمتہائے عظمیٰ کی بات نہیں، بلکہ ایسی لاتعداد اور بے پناہ نعمتوں کا ذکرِ جمیل ہونا چاہئے، اور وہ ہے ہر آدمی کا وجود، یعنی جسم، روح، اور عقل کا مجموعہ، جو عالمِ صغیر کے نام سے مشہور ہے، اور یہی عالمِ شخصی بھی ہے۔

۲۔ شخصی دنیا کا ایک خاص نام عالمِ ذرّ ہے، جو ایک ذرّاتی کائنات ہے، یہی عالمِ اکبر کا خلاصہ، جوہر، اور نچوڑ ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ بیرونی دنیا ایک ایسی عجیب، عظیم، اور بے مثال سلطنت ہے کہ اس کے سلطان کا پایۂ تخت اور تمام خزائن پرسنل ورلڈ میں

 

۵

 

ہیں، اور اسی معنیٰ میں قادرِ مطلق کائناتِ ظاہر کو مکمل انسانوں میں لپیٹ لیتا ہے (القرآن) دوسری مثال میں ظاہری دنیا ایک بہت بڑا باغ ہے، جس میں بے شمار پُرثمر درخت ہیں، جن کی لطیف شاخیں اپنے گوناگون اور بے حد شیرین پھلوں کے ساتھ عالمِ دل میں جھکی ہوئی ہیں (حکمت : ۷۶: ۱۴)۔

۳۔ تیسری مثال میں دنیا ایک وسیع گلشن ہے، جس کے پھول گلہائے بہشتِ برین کی طرح دلکش و دل آویز ہیں، ان تمام تر و تازہ گلوں کو عطارِ ازل اپنے اس کارخانۂ قدرت میں جمع کر لیتا ہے، جو عالمِ شخصی میں ہے، تاکہ ان خوش رنگ و خوش بو پھولوں سے ایک ایسا معجزانہ عطر بنایا جائے، کہ جس میں ہر پھول فنا ہوکر ازسرِ نو گلِ بہشت کی طرح کھل جائے، اور ہمیشہ کے لئے سدا بہار رہے، پس آدمی کائناتی گلستان کا عطر بھی ہے، اور خود اصل گلبن بھی۔

۴۔ چوتھی مثال میں عالمِ اکبر ایک بے پایان سمندر ہے، جس کی خوبصورت صدف (سیپ) کا گوہرِ یکدانہ، اور درِ یتیم آدم و ابنِ آدم ہی ہے، چونکہ یہ چیز درِ شہوار (بہت گرانمایہ موتی، بادشاہ کے قابل موتی) ہے، لہٰذا ایک اندازے کے مطابق اس کی قدر و قیمت کائناتِ اکبر سے بھی بہت زیادہ ہے، جس کے اسباب یہ ہیں: الف: یہ انمول موتی بھی ہے اور خود بحرِ گوہر زا بھی۔ ب: حقیقی بادشاہ اسی موتی کو بطورِ خاص اپناتا ہے اور کسی دوسری چیز کو نہیں۔ ج:

 

۶

 

یہ آئینۂ جلال و جمالِ خداوندی ہے۔ د: خلافتِ کبریٰ اور خلافتِ صغریٰ اسی کے لئے ہے۔ ھ: یہ خدائے بزرگ و برتر کی ایک ایسی کامل و مکمل مخلوق ہے کہ اس کو دیگر تمام مخلوقات پر کرامت و فضیلت دی گئی ہے۔ و: یہ مرتبۂ روحانیّت پر ایک زندہ اور گویندہ کتاب ہے، جس میں ہر بھید خود از خود بولتا ہے۔ ز: یہ خدا کا بھید ہے، اور خدا اس کا بھید ہے۔

۵۔ جب انسان کی اتنی بڑی اہمیّت ہے، اور اس کا مرتبۂ اصلی ایسا ارفع و اعلیٰ ہے، تو اس کے لئے یہ امر بے حد ضروری ہوا کہ وہ اپنی روحانی اصلاح و ترقی کی طرف ہر وقت توجہ دے، اور شب و روز شدید محنت سے کام کرے، کیونکہ اس کے عالمِ شخصی میں ایک سلیمانی سلطنت مخفی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کتاب میں سلطنتِ سلیمانی کا ذکر کیا ہے، تاکہ ہر عالی ہمت مومن ذکر و عبادت اور علم و عمل کے وسیلے سے آگے بڑھے، اور ان شاء اللہ اپنے عالمِ شخصی کی بادشاہی حاصل کرے۔

۶۔ حدیثِ شریف میں ہے: ان للّٰہ مائۃ الف نبی و اربعۃ و عشرین الف نبی من ولد آدم ۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر دنیا میں آئے ہیں۔ تاکہ خدا کے حکم سے عالمِ ذرّ کو حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں لانے کے لئے آدمی کی تمام خوابیدہ قوّتوں کو جگائیں، اور اس کی جملہ پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کریں،

 

۷

 

چنانچہ محسنِ انسانیّت حضرتِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآنِ حکیم جیسی انتہائی پُرحکمت اور کامل و مکمل کتاب اور اسلام جیسے دینِ فطرت کی روشن ہدایات و تعلیمات سے انسان کی اخلاقی، مذہبی، اور روحانی ترقی کو بہت زیادہ آسان بنا دیا، جیسا کہ سورۂ قمر (۵۴: ۱۷) میں چار مرتبہ یہی ارشاد ہوا ہے: وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ (۵۴: ۱۷) اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان کر دیا ہے سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟ اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ خدا نے روحِ قرآن کو اپنے اسمِ بزرگ سے مربوط فرمایا، تاکہ اسم کا ذکر (یادِ الٰہی) جوہرِ قرآن کا ذکر ہو، اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کتنا بڑا معجزہ اور احسان ہے۔

۷۔ اگرچہ درحقیقت علومِ مخفی خدا ہی کے ہیں، لیکن وہ بخالت سے پاک و برتر اور احسانات و نوازشات کا مالک ہے، اس لئے نزولِ قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی بڑی زبردست فیاضی اور عنایت ہوئی، اور قرآنِ کریم اپنے وسیع دامن میں عالمِ غیب کے لاتعداد جواہرِ اسرار کو سمیٹ کر دنیا میں نازل ہوا، چنانچہ سورۂ تکویر (۸۱: ۲۴) میں ذرا غور سے دیکھئے کہ تنزیلِ قرآن کے سلسلے میں غیب کے بھیدوں کو بیان کرنے سے ہرگز بخیلی نہیں کی گئی ہے، اگر اس کے باؤجود ہم قرآنِ پاک کے علم و حکمت سے فائدۂ کافی نہیں اٹھا سکتے تو شاید ہم بیمار ہیں، پس ہمیں اپنی بیماری کا اعتراف کرتے ہوئے

 

۸

 

علاج و شفا اور صحت کے قوانین کے مطابق عمل کرنا چاہئے، تاکہ ہم کو قلبِ سلیم نصیب ہو (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴)۔

۸۔ قرآنِ حکیم کا بے مثال اور انوکھا طرزِ بیان اگرچہ بشر کے احاطۂ تعریف و توصیف سے باہر ہے، تاہم یہ بات اہلِ دانش کو معلوم ہے کہ قرآنِ کریم ایک ہی حقیقت کو طرح طرح کی مثالوں میں پیش کرتا ہے (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) تاکہ لوگ ایک نہ ایک مثال سے مقصدِ اصلی کو سمجھ سکیں، چنانچہ دین ایک دور و دراز سفر جیسا ہے، یہ ایک پسندیدہ اور عمدہ تجارت کی طرح ہے، یا باغبانی اور کھیتی باڑی جیسی ہے، یہ کبھی جنگ، کبھی صلح، اور کبھی فتح ہے، دین اللہ کی غلامی ہے، یہ خدا کی دوستی ہے، یہ ایک سلطنتِ روحانی ہے، یہ خلافتِ الٰہیہ ہے، یہ ایک خدائی مدرسہ ہے، یہ ایک عروج و ارتقاء ہے، یہ ایک انتہائی عظیم دارالشّفاء (Hospital) ہے، اور اسی طرح حقیقتِ دین کی مثالیں بے شمار ہیں۔

۹۔ حضرتِ آدمؑ کی مثال میں دین کا مرکز مدرسۂ ملائکہ ہے، حضرتِ نوحؑ کے اشارے میں نورِ اسلام کشتئ نجات ہے، حضرتِ ابراہیمؑ نمونۂ امامت ہیں، حضرتِ اسماعیلؑ کا بے مثال کارنامہ ہر گونہ قربانی کا درس دے رہا ہے، حضرتِ یعقوبؑ جسمانی بیٹے کے لئے نہیں، بلکہ فرزندِ نورانی کے دیدار کے لئے رویا کرتے تھے، کوئی کامیاب روح کتنی حسین و جمیل ہے؟ اور اس کے علمی اوصاف و کمالات کیا کیا ہو سکتے ہیں؟ اس کا جواب حضرتِ یوسفؑ ہیں، حضرتِ موسیٰؑ کا پہاڑ

 

۹

 

(طور) اسلام کی روحانیّت میں بھی، اور عقلانیّت میں بھی اپنے تمام معجزات کے ساتھ موجود ہے، حضرتِ داؤدؑ عالمِ ذرّ کی آواز، اسرافیل کا ساز، اور داعئ عشقِ الٰہی ہیں، حضرتِ سلیمان کمالِ انسانیّت اور روحانی سلطنت کا نمونہ ہیںِ حضرتِ ایوبؑ اپنے عظیم عمل سے صبر و ثبات کا سبق پڑھا رہے ہیں، حضرتِ یونسؑ ایک بہت بڑی وھیل مچھلی (نفسِ امّارہ) کے خطرے سے خبردار کر رہے ہیں، حضرتِ مریمؑ اس صوفی یا مومن کی مثال ہیں، جس کے کان سے بتوسطِ علم و اسم نور داخل ہو جاتا ہے، اور حضرتِ عیسیٰؑ وہ نور ہیں، جو علم و اسم میں ہوتا ہے، پس عالمِ شخصی کا نور گویا مومن کا بیٹا قرار پاتا ہے، ہر چند کہ نورانی رشتے اور بھی ہیں، اور میں حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس و اطہر کے باب میں یہ عرض کروں گا کہ حضورِ انورؐ میں تمام پیغمبروں کے فضائل و کمالات اور ساری عمدہ مثالیں جمع ہیں، اور آپؐ ہر ہر عالمِ شخصی کے لئے رحمتِ بے پایان ہیں۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم حوضِ کوثر کی طرح ایک انتہائی عظیم تالاب ہے، جو علم و حکمت کے نورانی پانی سے پُر اور لبا لب ہے، اس کے گرداگرد طرح طرح کی مثالوں کے مخارج بنے ہوئے ہیں، آپ جس مثال کو چاہتے ہیں، اسی کے مخرج (نکاس) کو کھول کر رکھیں، پورے تالاب کا پانی آہستہ آہستہ آپ کی طرف آنے لگے گا، اسی اصول کے مطابق میں نے زیرِ نظر کتاب میں علمی علاج کی مثال سے بحث کی ہے، کیونکہ

 

۱۰

 

قرآنِ عزیز نے واشگاف الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ وہ مومنین کی شفا کے لئے نازل کیا گیا ہے (۱۷: ۸۲) ہر چند کہ میں کوئی طبیب یا حکیم نہیں ہوں، مگر ہاں، یہ درست ہے کہ میں قرآن، اسلام، اور انسانیّت کی ایک بہت ہی چھوٹی سی اور بہت ہی محدود سی خدمت کرنا چاہتا ہوں، بشرطیکہ خدائے تعالیٰ کی رضا اور تائید ہو۔

۱۱۔ میں جس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں اس کے کچھ پہاڑوں میں یاقوتِ سرخ کی چند کانیں دریافت ہوئی ہیں، اس وجہ سے میں نے دقتِ نظر سے دیکھا کہ یاقوتِ احمر، یاقوتِ جگری، اور یاقوتِ رمانی ناقابلِ یقین حد تک خوبصورت، اور زبردست دلکش و دل آویز ہوا کرتا ہے، خصوصاً اس وقت، جبکہ ابھی ابھی کان سے تازہ بتازہ نو بنو نکالا ہوا ہوتا ہے، اگر اس وقت سنگِ سفید کے ساتھ ہو تو بڑا عجیب ہوتا ہے، اور جن لوگوں کو ایسے جواہرِ گرانمایہ ملتے ہیں، ظاہر ہے کہ وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے ہیں، اب آئیے کچھ دوسرے یاقوتوں اور جواہر کی بات بھی کرلیں، وہ یاقوتہائے علم اور جواہرِ حکمت ہیں، جو دنیائے ظاہر کے قیمتی پتھروں اور موتیوں سے انتہائی ارفع و اعلیٰ اور نہایت قیمتی ہیں، وہ جس پہاڑ سے نکالے جاتے ہیں، یقیناً اس کا مرتبہ عظیم ہے، کیونکہ وہ کوہِ طور کی طرح ہے، آیا آپ ان لوگوں کی حالتِ شادمانی اور کیفیتِ نشاط کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں، جو ان جواہرِ لطیف کو پھیلانے کے سلسلے میں ہر گونہ بڑی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں؟

 

۱۱

 

میں سمجھتا ہوں کہ ایسے خوش نصیب حضرات کی مسرّتوں اور خوشیوں کو ہم بآسانی احاطۂ بیان میں نہیں لا سکتے ہیں۔

۱۲۔ اب میں سب سے پہلے با وقار اور شہرت یافتۂ روزگار روزنامۂ “اخبارِ جنگ” کا اخلاص و صداقت کے نکھرے ہوئے الفاظ میں شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نامی گرامی اخبار نے ازراہِ علم گستری و ترقی پسندی جناب رئیس امروہوی جیسے دانشور، کہنہ مشق صاحبِ قلم، اور ادیبِ اعظم کی تحریرِ دلپذیر و دلنشین میں میری کئی کتابوں کا شاندار تعارف کرایا، پس میں اور میرے تمام احباب مؤقر اخبارِ جنگ اور محترم رئیس صاحب کے ازحد شکرگزار و ممنون ہیں، دراصل ان تعارفی مضامین میں علم دوستی، اسلامی اخوّت، اور نیکوکاری کے کئی پہلو جھلک رہے ہیں۔

۱۳۔ ادارے کا اصول اور تاریخ کا تقاضا یہی ہے کہ جو خوش نصیب حضرات کار ہائے نمایان انجام دیتے ہیں، ان کی مفید خدمات تاریخ کے صفحات پر ثبت کی جاتی ہیں، تاہم اس سلسلے میں سب سے انوکھی بات اور سب سے نرالی چیز بندۂ مومن کا اپنا نامۂ اعمال ہی ہے، جس کو دیکھ کر ہر مومن انتہائی مسرور و شادمان ہوگا، وہ ایک جیتی جاگتی (بولتی) کتاب ہوگی (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) جس کی تحریریں بڑی عجیب و غریب ہوں گی، کہ آدمیوں، روحوں اور فرشتوں کی صورت میں خود گفتگو کریں گی، جیسے کسی روشن خواب میں کتابِ اعمال کی کوئی چھوٹی سی مثال دکھائی جاتی

 

۱۲

 

ہے، جو دنیوی تحریر میں نہیں ہوتی، اگرچہ خواب اور روحانیّت (یا آخرت) کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے، لیکن پھر بھی خواب کی مثال عام فہم ہونے کی وجہ سے بہت خوب ہے، کیونکہ ایک ناخواندہ شخص بھی اس کا معمولی مطلب سمجھ سکتا ہے۔

۱۴۔ جناب فتح علی حبیب صدرِ خانۂ حکمت، ان کی بیگم محترمہ گل شکر ایڈوائزر، جناب محمد عبد العزیز صدرِ ادارۂ عارف، ان کی بیگم محترمہ یاسمین سیکریٹری اور دیگر معزز عملداران و ارکانِ مشرق و مغرب (پاکستان، لنڈن، امریکہ، کنیڈا، فرانس، وغیرہ) یہ سب پہلے خوش بختی سے نورِ اسلام و ایمان میں پگھلے ہوئے تھے، اب بفضلِ الٰہی نورِ علم میں بھی گداختہ ہوچکے ہیں، یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے، میں ان سب کا انتہائی پُرخلوص شکریہ جان کی جان اور دل کے دل سے ادا کرتا ہوں، یہ زبانِ قال کی بات ہوئی، اور میری شدید خواہش یہ بھی ہے کہ میرے آثارِ علمی (کتابیں وغیرہ) زبانِ حال سے ہمیشہ شکریہ اور عمدہ سے عمدہ دعائیں کرتے رہیں، حدیثِ شریف کے مطابق ہر نیکی ایک صدقہ ہے (کل معروف صدقۃ) اور اگر کوئی نیکی ہمیشہ جاری رہنے والی ہے تو یہ صدقۂ جاریہ کہلاتی ہے، اور یہ ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والے نیک کاموں میں شمار ہوتی ہے (و الباقیات الصالحات ۱۸: ۴۶) اس لئے پروردگارِ عالم کی بارگاہِ اقدس سے امید وابستہ ہے کہ خدائے

 

۱۳

 

بزرگ و برتر ان سب کو دونوں جہان کی سعادتوں اور برکتوں سے سرفراز فرمائے گا، آمین!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
ہفتہ ۲۰ محرم الحرام ۱۴۰۹ھ / ۳ ستمبر ۱۹۸۸ء

۱۴

علمی علاج کیوں کر؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سوال: علم نہ تو کوئی دوا ہے، اور نہ ہی کوئی غذا، پھر تعجب خیز بات ہے، آپ کا یہ کہنا کہ اس سے علاج معالجہ کا کام لیا جا سکتا ہے! حالانکہ علم تو صرف جاننے کے لئے ہوا کرتا ہے! پس بتائیے کہ علمی علاج کس طرح ممکن ہے؟ اس بنیادی سوال کا مدلل، مفصل، اور مکمل جواب مندرجہ ذیل دلائل میں موجود ہے، توجہ فرمائیں:

دلیل نمبر ۱: علم امراضِ باطن کے لئے دوا بھی ہے، اور عقل و جان کے لئے غذا بھی، کیونکہ دنیا میں کوئی ایسا طریقِ علاج نہیں، جس پر علم و حکمت کا زبردست احسان نہ ہو، اور وہ طریقہ علم و کتاب اور معلّم کے بغیر چلتا رہے، پس ظاہر ہوا کہ ہر قسم کے طریقۂ علاج میں جو جو اسباب و ذرائع درکار ہیں، ان سب میں بنیادی اہمیّت علم ہی کو حاصل ہے۔

دلیل نمبر ۲: علم کا ایک خاص نام نور ہے، جس کی روشنی

 

۱۵

 

میں دیکھنے سے دین و دنیا کی حقیقتوں اور معرفتوں سے آگہی ہوتی ہے، اور سب نعمتوں سے بڑھ کر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کی خوشنودی کن کن اقوال و اعمال سے حاصل ہو سکتی ہے، تاکہ ہر وقت رضائے الٰہی کی پیروی کی جائے، کیونکہ ایسے اشخاص کو اللہ تعالیٰ سلامتی کی راہوں پر گامزن کر دیتا ہے (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) اور لفظِ سلامتی (سلام) میں روحانی اور عقلانی صحت کے معنی موجود ہیں۔

دلیل نمبر ۳: معلوم ہے کہ باطنی بیماریوں سے شفایابی اور روحانی صحت مندی کا سب سے عظیم راز گریہ و زاری میں پوشیدہ ہے، اور یہ وصف بدرجۂ کمال ان حضرات کے واسطے خاص ہے، جو علمِ لدنّی کے خزائن سے نوازے گئے ہیں (۱۷: ۱۰۷)۔

دلیل نمبر ۴: خوفِ خدا ایک ایسا نسخۂ کیمیا ہے کہ اس کے استعمال سے یقیناً تمام تر اخلاقی اور روحانی امراض کے جراثیم مر جاتے ہیں، مگر جو لوگ صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، وہ صرف حقیقی علم والے ہی ہیں (۳۵: ۲۸)۔

دلیل نمبر ۵: بہشت صحت و سلامتی اور مسرّتوں کا گھر ہے (۰۶: ۱۲۷) مگر دوزخ مقامِ بیماری، جائے ہلاکت، اور منزلِ موت ہے (۲۵: ۱۳ تا ۱۴) پس اس دنیا ہی میں ہر شخص کے پاس علم الیقین کا ہونا انتہائی ضروری ہے، تاکہ اس کے ذریعہ نہ صرف جنت کو دیکھ سکے اور پہچان سکے (۴۷: ۰۶) بلکہ اس کے علاوہ جحیم (دوزخ) کو بھی دیکھ

 

۱۶

 

کر اس میں گر جانے سے خود کو بچائے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۶)۔

دلیل نمبر ۶: شیاطینِ انسی و جنّی نہ صرف سنگباری ہی کرتے رہتے ہیں، بلکہ یہی وہ مخلوقات ہیں، جو ہر قسم کے امراض کو بھی پھیلاتی ہیں، چنانچہ اس جنگ اور ان بیماریوں سے مومنین کو محفوظ و سلامت رکھنے کی خاطر خدائے بزرگ و برتر نے اپنے انبیاء و اولیاء کو روحانی اور علمی لباس بنانے کا ہنر سکھا دیا (۱۶: ۸۱، ۲۱: ۸۰)۔

دلیل نمبر ۷: علم ہر چیز پر محیط و حاوی ہے، یعنی ربِّ عزّت نے جملۂ اشیاء کو علم کی گرفت اور کنٹرول میں رکھ دیا ہے، پس کوئی شک ہی نہیں کہ وہ بیماریوں پر بھی غالب اور کنٹرولر ہے (۰۶: ۸۰، ۰۷: ۸۹)۔

دلیل نمبر ۸: حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لشکرِ روحانی میں جن بھی تھے، انسان بھی، اور پرندے بھی (۲۷: ۱۷) لیکن سب سے زیادہ توانا و طاقتور شخص وہی ثابت ہوا ، جس کے پاس آسمانی، کائناتی، اور ذاتی کتاب کا علم تھا، اور اُسی نے آنکھ جھپکنے سے پہلے ہی ملکۂ سبا کے تخت کو حضرت سلیمان کے حضور لا کھڑا کر دیا (۲۷: ۴۰) چنانچہ اس عجیب و غریب کارنامے سے علم کی زبردست طاقت و تاثیر کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔

دلیل نمبر ۹: کوئی ایسی چیز کہیں بھی نہیں، جس کے خزائن اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس نہ ہوں، اور پروردگارِ عالم اُس شیٔ کو نازل نہیں فرماتا، مگر افراد و اقوام کے علم، آگہی، معلومات، اور اعمال کی مقدار

 

۱۷

 

کے مطابق (۱۵: ۲۱) یعنی جتنا کسی کا علم و عمل ہوگا، اتنی ہی ربّانی نعمتیں عطا ہو سکتی ہیں، پس باطنی صحت کی عظیم نعمتیں علمِ حقیقی کی تابع ہیں۔

دلیل نمبر ۱۰: علم سرچشمۂ عقل سے آتا ہے، اور عقل کے بارے میں حدیثِ شریف کا یہ ارشاد ہے: اللہ نے جب عقل کو پیدا کیا تو اسے نطق بخشا اور اس سے کہا: آگے آ، وہ آگے آئی، پھر کہا، پیچھے جا، وہ پیچھے چلی گئی، پھر کہا: میرے عزّت و جلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ محبوب کوئی شیٔ نہیں پیدا کی ہے اور میں تجھے اسی کے اندر مکمل کروں گا جو مجھے پسند ہو۔

دلیل نمبر ۱۱: جو شخص طلبِ علم کے لئے کسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے راہ ہائے بہشت میں سے ایک راستے پر لے چلتا ہے، اور فرشتے طالبِ علم کی خوشنودی کے لئے اپنے بازو بچھا دیتے ہیں، اور اہلِ علم کے آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات اور زیرِ آب مچھلیاں بھی طلبِ مغفرت کرتی ہیں (حدیث)۔

دلیل نمبر ۱۲: عابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسی چودھویں کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر، اور علماء تو انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ (حدیث)۔

دلیل نمبر ۱۳: قرآنِ پاک یقیناً دوا اور شفاء ہے، لیکن یاد رہے کہ اس کی خاص و اعلیٰ شفا بخشی روح اور عقل سے متعلق ہے، ہر چند کہ قرآنِ حکیم سے جسمانی علاج بھی ہو سکتا ہے۔

۱۸

دلیل نمبر ۱۴: حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زمانۂ نبوّت میں طبیبِ روحانی تھے، آپ علم و حکمت کے لاہوتی نسخوں سے جہالت و نادانی کے مریضوں کا علاج فرماتے تھے (۰۲: ۱۵۱، ۰۲: ۱۲۹، ۶۲: ۰۲)۔

دلیل نمبر ۱۵: سورۂ یونس کی ایک آیۂ شریفہ (۱۰: ۱۰۰) کے مفہوم کے مطابق بے عقلی و نادانی پلیدی اور بیماری ہے، جس کا علاج عقل اور علم ہی سے ہو سکتا ہے۔

دلیل نمبر ۱۶: سورۂ حج (۲۲: ۴۶) میں دیکھئے: کیا یہ لوگ (عالمِ شخصی کی ) زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے یا ان کے کان سننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں (۲۲: ۴۶) اس مقدّس تعلیم میں مرضِ کور دلی کا ذکر فرمایا گیا ہے، جس کا علاج ریاضت و مشاہدۂ باطن اور عقل و دانش سے ہو سکتا ہے۔

دلیل نمبر ۱۷: دوزخ جہالت و نادانی اختیار کرنے کی سزا ہے، دیکھئے کہ دوزخی اپنے کس گناہ کا اعتراف کر لیتے ہیں: اور وہ کہیں گے اگر ہم سنتے یا عقل سے کام لیتے تو ہم دوزخ والوں سے نہ ہوتے (۶۷: ۱۰) اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اسلام میں عقل و دانش اور علم و حکمت کی بہت بڑی اہمیّت و منزلت ہے، کیونکہ تمام نیکیاں اسی سے وابستہ ہیں، اور ہر قسم کی باطنی بیماری اسی سے رفع دفع ہو سکتی ہے۔

۱۹

دلیل نمبر ۱۸: علم کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ جن حضرات کو علم عطا ہوا ہے، ان کا آئینۂ سینہ اس قدر صاف ہو جاتا ہے کہ اس میں قرآنِ پاک کا روحانی و عقلانی عکس پڑتا ہے، مگر کس طرح؟ روشن آیات و معجزات کی حیثیت میں (۲۹: ۴۹)۔

دلیل نمبر ۱۹: علم کی عظمت و بزرگی اور برتری کا ایک روشن ثبوت وہ عظیم فرشتے ہیں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، ان کو کائنات و موجودات کی ہر شے کے ظاہر و باطن میں علم ہی علم نظر آتا ہے، اور وہ اسی وجہ سے کہا کرتے ہیں: ربنا وسعت کل شیء رحمۃ و علما (۴۰: ۰۷) اے ہمارے پروردگار تو نے رحمت اور علم میں ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے۔

دلیل نمبر ۲۰: صاحبانِ عقل (اولوا الالباب) کی بہت بڑی تعریف یہ ہے کہ وہ وجوہِ قرآن اور وجہِ احسن کو جانتے ہیں، اور اس کی پیروی کرتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: پس (اے نبی) بشارت دے دو میرے ان بندوں کو جو بات کو غور سے سنتے ہیں اور اس کی بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی دانشمند ہیں (۳۹: ۱۷ تا ۱۸)۔

دلیل نمبر۲۱: جس طرح سورج کی روشنی دو درجوں میں نظر آتی ہے، درجۂ اوّل بحرِ آفتاب، اور درجۂ دوم بکھری ہوئی شعاعیں، اسی طرح نورِ علم کے بھی دو مقام ہیں، پہلا مقام سرچشمۂ نور

 

۲۰

 

ہے ، جو اصل اور گوہرِعقل ہے، جس میں ازلی و ابدی حقیقتوں اور معرفتوں کی یکجائی ہے، اور دوسرے مقام پر علم بحیثیتِ نورِ منتشر کام کر رہا ہے، کیونکہ عالمِ کثرت میں وحدت نہیں، بلکہ انتشار ہے، تاہم خدا و رسول کی ہدایتِ کاملہ وہ ہے، جو اہلِ ایمان کو راہِ مستقیم سے گزار کر سرچشمۂ نورِ علم تک پہنچا سکتی ہے، پس اسی جوش و جذبہ، اور یقینِ کامل کے ساتھ ہر چیز پر اس کی فوقیت و برتری کو تسلیم کرتے ہوئے علمی علاج سے بحث کی گئی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
اتوار ۲ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۱۷ جولائی ۱۹۸۸ء

۲۱

قوانینِ روح و روحانیّت

۱۔ روح اور روحانیّت کا علم عام و آسان نہیں، بلکہ یہ بڑا خاص اور بہت ہی مشکل ہے، تاہم اسلام میں ناممکن نہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم کی پاک روح، جس کا دوسرا نام نور ہے، روحانیّت کا چشمۂ زایندہ ہے، اگر آپ جاننے کی خاطر سوال کرنا چاہیں، تو بے شک پوچھ سکتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی ایک زندہ روح سے کیا مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہوگا کہ حضرتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جب جب قرآنِ مجید کی کوئی آیت نازل ہوتی تھی، تو وہ روح اور نور کی صورت میں ہوتی تھی، پھر اسے آنحضرتؐ اپنی زبانِ پاک و مبارک سے پڑھتے اور کاتبانِ وحی سے لکھا لیا کرتے تھے، مطلب یہ ہے کہ اصل روح و روحانیّت قرآنِ حکیم سے وابستہ ہے (۴۲: ۵۲)۔

۲۔ اگر کسی خوش نصیب مسلمان کو روحانیّت کا کوئی تجربہ حاصل ہو جاتا ہے تو یہ نعمت، دولت، ہدایت، علم، حکمت، اور معرفت قرآن ہی کی ظاہری اور باطنی برکتوں کی وجہ سے ہے، کیونکہ اسمائے

 

۲۲

 

قرآن میں سے ایک اسم “مبارک” (۳۸: ۲۹) ہے، یعنی برکت والی کتاب، اور قرآنی برکات کے حصول کے لئے ضروری شرط یہ ہے کہ اہلِ دانش اس میں غور و فکر کریں (۳۸: ۲۹) جو شخص قرآنِ حکیم کے معنوی حسن و جمال کا عاشق ہو، اسے چاہئے کہ قرآنی برکتوں کی مثال کو اچھی طرح دلنشین کر لے، کہ برکت کی مادّی مثال کوئی ایسی چیز ہو سکتی ہے، جو ہمیشہ جاری و ساری رہے، اور کبھی ختم نہ ہو، جیسے کسی عظیم پہاڑ کی مسلسل چیزیں: پانی کا ہر وقت بہتے رہنا، درختوں اور جڑی بوٹیوں کا لگاتار پیدا ہو جانا، شکاری جانوروں کا سلسلہ، معدنیات کی فروانی، وغیرہ (۴۱: ۱۰)۔

۳۔ اب ہم قرآنِ پاک سے بار بار رجوع کرتے ہوئے انسانی روح کا کچھ ذکر کریں گے، کہ روح خدا کی خدائی میں سب سے عجیب اور سب سے نرالی چیز ہے، اور روح کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ اپنے مرتبۂ اعلیٰ پر آئینۂ جمال و جلالِ خداوندی کا فریضہ انجام دیتی ہے، جس میں ہر آن ربِّ کریم کی صفاتِ بابرکات کے پرتو کی ایک نئی شان ہوتی ہے، اور ظہورات و تجلّیات کے اس سلسلۂ غیر متناہی کا قرآنِ حکیم نے اس طرح ذکر فرمایا : کل یوم ھو فی شان (۵۵: ۲۹) اس آیۂ کریمہ کی کئی تفسیروں میں سے ایک صوفیانہ تفسیر بھی ہے، وہ یہ کہ قادرِ مطلق کے ایام چھوٹے سے چھوٹے بھی ہیں، اور بڑے سے بڑے بھی، اس کا سبب یہ ہے کہ وہی تو خدا ہے، جو زمانی اور مکانی وسعتوں کو لپیٹتا بھی ہے، اور پھیلاتا بھی ہے، چنانچہ مذکورہ

 

۲۳

 

آیۂ مقدسہ کے چند معنوں میں سے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آئینۂ روح (جان) میں جس پُرنور جلوے کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، وہ ہر لحظہ بحسن و جمالِ دیگر ضیا فگن ہو جاتا ہے، آئینۂ قلب و جان میں یہ گوناگون ظہورات و تجلّیات آخر کیا ہیں؟ اور کیوں ہیں؟ یہ حقیقتِ حقائق کی بے شمار تشبیہات و تمثیلات ہیں۔

۴۔ آیا یہ بات درست ہے کہ ایک کامیاب صوفی اپنی روح کو دیکھ سکتا ہے؟ جی ہاں! ایک ایسا مسلمان جو علم و عمل سے آراستہ ہو چکا ہو، ایک حقیقی مومن، اور ایک صوفئ صاف دل اپنی روح کا مشاہدہ کر سکتا ہے، یہ مشاہدہ کس آنکھ سے ہو سکتا ہے؟ چشمِ ظاہر سے؟ یا دیدۂ دل سے؟ پہلے نگاہِ سِر سے اور پھر نظرِ سَر سے بھی، روح کی شکل و صورت کیسی ہوتی ہے؟ یا یوں پوچھنا چاہئے کہ وہ کس مخلوق کے روپ میں نظر آتی ہے؟ کیونکہ روحِ انسانی کائنات و موجودات کے جوہر (نچوڑ) سے بنائی گئی ہے، دوسرے لفظوں میں انسان یعنی روح عالمِ صغیر /عالمِ شخصی ہے، جس میں بکیفیتِ لطیف یا بحالتِ ذرات عالمِ کبیر کی ہر ہر چیز موجود ہے، لہٰذا روح بمشاہدۂ باطن ہر چیز کی شکل میں ظہور پذیر ہو جاتی ہے، تاہم اس کی ایک خاص صورت بھی ہے، وہ انسانی شکل ہے، جو اصلاً رحمانی صورت کہلاتی ہے، جس میں بدرجۂ تمام و کمال حسن و جمالِ معنوی و صوری پایا جاتا ہے۔

۵۔ روح ایک قائم بالذّات جوہر ہے، اس لئے وہ دراصل ہر چیز

 

۲۴

 

سے مجرّد ہے، تاہم وہ اس کے ساتھ ساتھ مجسّم بھی ہے، اس کی تجرید کے چار درجات ہیں: خیال، خواب، روحانیّت، اور جائے عقل، اور اس کی تجسیم کے چار مقامات ہیں: ذرّاتِ کثیف، جسمِ کثیف، ذرّاتِ لطیف، اور جسمِ لطیف، اور یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ جہاں ارواح ذرّات میں ہوتی ہیں، اس کو عالمِ ذرّ کہا جاتا ہے۔

۶۔ روح ناقابلِ تقسیم ہے، یعنی روح کی اپنی ذات میں ذرّات و اجزاء نہیں، لیکن یہ جسمِ لطیف و کثیف کے توسط سے لاتعداد مظاہر میں ظہور پذیر ہو جاتی ہے، اس حقیقت کی مثال سورج ہے کہ وہ فی نفسہٖ قسمت پذیر نہیں، مگر ہاں، وہ تقسیم ہو جاتا ہے، جہاں ہر صاف و شفاف چیز میں اس کا عکس جھلکتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ روحِ اعظم یا نفسِ واحدہ میں تمام نفوسِ انسانی کی ایک ہی حقیقت ہے، پس مولائے روم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ: “ہم اس دنیا میں آئے کہاں ہیں، ہماری یہ ہستی تو ہماری اس اصل ہستی کا سایہ ہے۔” انہوں نے صحیح فرمایا، کیونکہ بفرمودۂ قرآن آفتابِ روح کا سرچشمہ عالمِ امر میں ہے (۱۷: ۸۵) اور اس کے لاتعداد نورانی سائے آئینہ ہائے وجودِ انسانی میں منعکس (Reflect) ہوتے رہتے ہیں، پس انسانی روح جسمِ عنصری میں اگرچہ ایک سائے کی طرح ہے، جس کا ذکر ہوچکا، لیکن شعوری نہیں تو غیر شعوری حالت میں اپنے کل کے ساتھ اس کا رابطہ قائم اور جاری ہے، اور اگر کوئی کامل مرشد روحِ کلّی کے توسط سے اپنی آواز

 

۲۵

 

کسی انسان کو پہنچا دیتا ہو، تو اس میں کیا تعجب ہو سکتا ہے، جس طرح کسی دور ملک میں ہونے کے باوجود ٹی وی کی آواز اور تصویر بذریعۂ مصنوعی سیّارہ (Satellite) آپ کے سامنے سنائی اور دکھائی دیتی ہے۔

۷۔ قرآنی مفہوم (۳۵: ۱۰) کے مطابق انسانی روح کی انتہائی عظمت اسی میں ہے کہ اس کا پاکیزہ قول اور نیک عمل بلند ہوتے ہوتے بارگاہِ خداوندی تک پہنچ جائے، تاکہ شرفِ قبولیت و فنائیّت کے بعد بوسیلۂ امر اس کا رخ ایک نئی دنیا بسانے کی طرف ہو سکے۔

۸۔ آپ اگر چاہیں تو میری ایک کتاب “روح کیا ہے؟” میں تفصیلات دیکھ سکتے ہیں کہ نبات، حیوان، اور انسان میں ایک ایک روح نہیں، بلکہ ہر درجے کی روح اپنی قسم کے بے شمار ذرّات کا مجموعہ ہوا کرتی ہے، پس مجموعی طور پر روح کا بدن سے نکل جانا تو الگ بات ہے، جس سے ایک کلّی موت واقع ہو جاتی ہے، لیکن جزوی طور پر ذرّاتِ روحانی کا آنا جانا ہر وقت جاری رہتا ہے، اسی اصول کے مطابق آدمی کے قریۂ ہستی میں اچھی اور بری روحوں کی آمد و رفت ممکن ہو جاتی ہے، نیک روحیں گویا فرشتے ہیں، اور بد روحیں شیاطین، ساتھ ہی ساتھ یہ قانون بھی ہے کہ انسان ان متضاد ارواح میں سے جس کو چاہے دعوت دے کر لا سکتا ہے، اور بٹھا سکتا ہے، اور جس کو نہ چاہے نکال باہر کر سکتا ہے۔

۹۔ مذکورۂ بالا بیان سے واضح طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ایک ہی

 

۲۶

 

شخص میں دو قسم کی روحیں ہو سکتی ہیں: ایک اس کی اپنی روح، اور دوسری اضافی، خواہ اچھی ہو، یا بری، مثلاً کوئی فرشتہ، یا شیطان، یعنی کوئی مومن جنّ، یا کافر جنّ، جس طرح کسی گھر میں افرادِ خانہ کے علاوہ کچھ باہر کے آدمی بھی ہو سکتے ہیں، اس مثال میں پادشاہ، وزیر، امیر، فقیر، پیر، اور بزرگ کوئی بھی گھر آ سکتا ہے، اور دوسری طرف سے کوئی ظالم ، چور، بدمعاش وغیرہ بھی۔

۱۰۔ جن بھی روح ہے، لہٰذا یہاں اس کا بھی ذکر ہوگا، چنانچہ جنّ جسمِ لطیف میں ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے جنّات کو چھوٹے بڑے مختلف درجات میں پیدا کیا ہے، پس سب سے چھوٹا جنّ وہ ہے، جو انتہائی چھوٹے ذرّے میں ہوتا ہے، تاکہ ایسے جنّات ہمارے خلیات کے اندر صفائی کا کام کر سکیں، اور مسامات سے آتے جاتے رہیں، اور بڑے سے بڑا جنّ ایک قوی ہیکل اور قد آور جوان آدمی کے برابر ہوتا ہے، اگر وہ عفریت ہے تو مومن اور بڑا زبردست طاقتور اور بے حد کام کرنے والا ہوتا ہے، کیونکہ اس کی تخلیق آگ سے ہے، اور ہم موجودہ زبان میں کہہ سکتے ہیں کہ وہ برقی مخلوق ہے، یا کہنا چاہئے کہ ایٹمی ہے، بہ ہر حال وہ اپنے وقت پر دکھائی بھی دے سکتا ہے، اور وہیں پر غائب بھی ہو جاتا ہے، اور تعجب ہے کہ ہر شخص سے اس کی بولی میں گفتگو کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔

۱۱۔ جنّ کے بارے میں عوام میں بہت سی غلط فہمیاں پائی

 

۲۷

 

جاتی ہیں، اوّل یہ کہ جنّات کو بدصورت اور جداگانہ مخلوق مانا جاتا ہے، اور پریوں کو ان سے الگ اور خوبصورت سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ جنّ کا لفظ عربی ہے، اور اس کا فارسی ترجمہ “پری” ہے، یعنی جس موجودِ لطیف کو عربی میں جنّ کہا جاتا ہے، اسی کو قدیم فارسی میں پری کہا گیا ہے، مگر کہانیوں کی تخلیق کرنے والوں نے نجانے کیوں ایک قسم کی مخلوق کو دو گروہ میں تقسیم کر کے رکھا ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم میں ہر چیز کا بیان فرمایا گیا ہے (۱۶: ۸۹) چنانچہ اس میں پریوں کا ذکر بھی ہے، اور یہ جنّ کے موضوع میں ہے، جو پچاس مختلف مقامات پر پھیلا ہوا ہے، جنّات یعنی پریوں کا سب سے طویل ذکر سورۂ جنّ (۷۲) میں موجود ہے، اسی سورہ (۷۲: ۰۶) میں یہ الفاظ بھی ہیں: رِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ (جنّات میں سے کچھ مرد) اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنّوں (یعنی پریوں) کے مرد بھی ہیں، اور عورتیں بھی، عربی میں پری مرد کو جنّی، اور پری عورت کو جنّیۃ کہتے ہیں، ملاحظہ ہو: المنجد، المورد، مد القاموس، وغیرہ۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم کی تعریف و توصیف کرنے سے ہر دانشمند قاصر ہے، کیونکہ وہ بے مثال آسمانی کتاب ہے، اور اس میں کائنات و موجودات کے تمام اسرار بزبانِ حکمت بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی سلطنتِ روحانی کے ضمن میں بہت

 

۲۸

 

سے لطیف و بلیغ اشارے ملتے ہیں، اگر ان میں کما حقہٗ غور کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ جنّات کا زیادہ تر تعلق عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) کی تعمیر و ترقی سے ہے، اور ظاہری دنیا سے بہت کم، پس جو شخص یہ چاہتا ہو کہ کسی طرح جنّ کی تسخیر کرے ، تاکہ اسے دولت، شہرت، اور عزت حاصل ہو، اور دشمن مغلوب ہو جائے، تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہے، کیونکہ یہ کام جسم و جان، اور دین و ایمان کے لئے ازحد خطرناک ہے۔

۱۴۔ چلہ (چالیس روز کی مسلسل عبادت) اگر اعتکاف کے معنی میں رضائے الٰہی کی خاطر ہے، تو بہت ہی اعلیٰ عمل ہوگا، اور ان شاء اللہ، اس سے کچھ روحانی ترقی ہو گی، ورنہ دوسری قسم کی چلہ کشی قانونِ روحانیّت کے خلاف ہے، اگر آپ کو منازلِ روحانیّت میں کہیں جنّات کا مشاہدہ اور تجربہ ہو جاتا ہے، تو یہ انعاماتِ خداوندی میں سے ہے، کہ آپ پر ایک بھید کھل گیا، اور آپ نے مخلوقِ لطیف کو دیکھا، پس ان شاء اللہ آپ کے لئے ایسا تجربہ بڑا مبارک ہوگا۔

۱۵۔ کہا گیا ہے کہ کوہِ قاف جو اس دنیا پر محیط ہے، اس میں سارے جنّ و پری رہتے ہیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ سیّارۂ زمین پر ایسا کوئی پہاڑ نہیں، جس پر جنّات ہی جنّات کی بستیاں ہوں، لہٰذا کوہِ قاف سے روحانیّت مراد ہے، جس میں ہر قسم کی لطیف مخلوق دکھائی دیتی ہے، یعنی جنّ (پری)، روح، روحانی، وغیرہ، کیونکہ اس میں آنکھوں کے سامنے سے حجاب ہٹ جاتا ہے۔

۲۹

۱۶۔ ہم، آپ، اور دوسرے سب لوگ، جو بھی ہیں، اور جیسے بھی ہوں، تسبیحِ ہزار دانہ کی طرح ایک دوسرے سے منسلک و منظم ہیں، اسی معنیٰ میں کہ ہم سب کے اجسام نفسِ واحدہ کے رشتے (دھاگا) میں پروئے ہوئے ہیں، دانہ ہائے تسبیح الگ الگ ہیں، لیکن رشتۂ تسبیح ایک ہی ہوتا ہے، اس پُرمغز مثال کے پیشِ نظر اگر ہم اپنے بدنوں کو دیکھیں تو جدا جدا ہیں، اور اگر روح کا تصوّر کریں، تو کوئی شک نہیں کہ ہم سب ایک ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ صرف ایک ہے، یعنی نفسِ واحدہ، اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس سلکِ وحدت و سالمیّت سے نہ تو فرشتہ باہر ہے، نہ جنّ، اور نہ شیطان، پس یہی رشتۂ روح (روح کا دھاگا) تارِ برقی سے کہیں زیادہ کام کرتا رہتا ہے، اور اس کے ذریعے ہر آدمی کو اچھے اور برے خیالات کے ٹیلیگرامز موصول ہوتے رہتے ہیں۔

۱۷۔ سورۂ ناس (۱۱۴: ۰۱ تا ۰۶) کے حوالے سے عرض کرتا ہوں کہ خنّاس (شیطان) جو لوگوں میں سے بھی ہے، اور جنّوں میں سے بھی، اگر رشتۂ روح اور تارِ جان میں سب کے ساتھ پرویا ہوا نہ ہوتا، یعنی اس ہمہ گیر دھاگے میں منسلک نہ رہتا، تو وہ کس طرح لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈال سکتا، یہ مثال اگرچہ شرّ سے متعلق ہے، لیکن اس بیان میں جو حکمت ہے، وہ بڑی عجیب و غریب ہے، جس میں اہلِ دانش کو سوچنے کی دعوت دی گئی ہے، ایک نکتہ تو یہ کہ شیطان پہلے فرشتہ تھا، اب

 

۳۰

 

جنّ بھی ہے، اور آدمی بھی، اور دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایک انسان برائی میں اتنا آگے بڑھ سکتا ہے کہ وہ ایک اکیلا دنیا بھر کے لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈال سکتا ہے، کیونکہ فرشتہ، جنّ، شیطان، اور انسان سب کی روح ہے، اور روح رشتۂ تسبیح کی طرح، یا سلکِ مروارید جیسی، یا نظامِ دورگو = ٹیلیفون کی مانند ہے، جس سے ایک شخص دوسرے بہت سے آدمیوں تک کوئی اچھی یا بری لہر دوڑا سکتا ہے، اور سب قائل ہیں کہ خدا کا حکم ہر چیز پر اور ہر قانون پر مقدم ہے۔

۱۸۔ سورۂ جاثیہ کے اُس ارشادِ مبارک (۴۵: ۱۳) کو دیکھئے، جس میں بطرزِ حکمت تسخیرِ کائنات کا ذکر فرمایا گیا ہے، یعنی خدائے بزرگ و برتر نے اپنی بے پایان رحمت سے آسمانوں اور زمین کو ظاہراً و باطناً انسان کے لئے مسخر کر دیا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ آج انسان جس طرح مادّی سائنس کی مدد سے ستاروں پر کمند ڈالنے کی سعی کر رہا ہے، اور اس کی یہ کوشش منشائے الٰہی کے مطابق ہے، کیونکہ اُسی نے تو یہ سارے وسائل عطا کر دیئے ہیں، اسی طرح اگر آدمی روحانی سائنس کے ذریعے کائنات کے اُس باطنی پہلو کو مسخر کر لے، جو اس کی اپنی ذات (عالمِ شخصی) میں پوشیدہ ہے، تو یہ بھی اسی قانونِ تسخیر کے عین مطابق ہوگا، جو خالقِ کائنات نے ہر طرح سے ممکن بنا کر انسان کو عنایت کر دیا ہے۔

۱۹۔ اللہ تعالیٰ بڑا حکمت والا اور بے حد مہربان ہے، اس نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے ہر انسان کی ذات میں کائنات کو

 

۳۱

 

روحانی اور عقلانی صورت میں تبدیل کرتے ہوئے ایک ایسی عظیم، بیمثال، اور ہر طرح سے کامل و مکمل سلطنت بنا دی ہے کہ اس کو کوئی زوال نہیں، مگر یہ قانون کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ ظاہری حکومت کو حاصل کرنے اور محفوظ رکھنے کے لئے تو بیدریغ خزانے لٹا دیئے جائیں، اور بے شمار انسانی جانیں قربان کر دی جائیں، لیکن روحانی سلطنت کے حصول کے لئے کوئی جہاد اور کوئی قربانی ہی نہ ہو، یہ امر غیر ممکن تھا، لہٰذا روحانیّت کی بادشاہی کے لئے یہ لازمی شرط مقرر کی گئی، کہ ہر شخص ایک کافر جنّ کو یا تو مسلمان بنا لے، یا قتل کر ڈالے، اور یہ نافرمان جنّ ہر آدمی کا نفسِ امّارہ ہے، مگر یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا زبردست مشکل بھی ہے، اور بڑا آسان بھی۔

۲۰۔ اہلِ ایمان پر نزولِ ملائکہ کے کون کون سے مواقع ممکن ہیں؟ یہ سوال بڑا دلچسپ، خوب نتیجہ خیز، اور بے حد مفید ہے، آپ قرآنِ حکیم میں ایک خاص موضوع کے طور پر اسے دیکھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر جنگِ بدر میں لشکرِ اسلام کی مدد کے لئے بحکمِ خدا فرشتے نازل ہوئے تھے (۰۳: ۱۲۵) نیز غزوۂ احزاب (خندق) میں بھی (۳۳: ۰۹) غزوۂ حنین میں بھی (۰۹: ۲۶) وغیرہ، چونکہ یہ ظاہری جہاد تھا، اس لئے مسلمانوں کو جنودِ ملائکہ نظر نہیں آتے تھے، لیکن جب روحانی جہاد میں مومنین کی نصرت و تائید کے لئے فرشتے اترتے ہیں، تو اس

 

۳۲

 

میں لازماً ان کا ظہور ہو جاتا ہے، جیسے روحانی مجاہدین جب جیتے جی شہید ہو جاتے ہیں، تو فرشتے ان سے کلام کرتے ہیں (۱۶: ۳۲،۴۱: ۳۰ تا ۳۲)۔

۲۱۔ اہلِ دانش حضرات اگر دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں کہ قرآنِ کریم میں روحانیّت کے تمام تر بیانات و اشارات موجود ہیں، چنانچہ اس میں ایسی پُرحکمت اور بابرکت موت کا بھی تذکرہ ہے، جو کسی عالی ہمت اور دائم الذکر مومن پر جسمانی موت سے پہلے واقع ہو جاتی ہے، وہ نفسانی موت کہلاتی ہے، پس اصحابِ رسول نہ صرف ظاہری شہادت کی تمنا کرتے تھے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کی یہ بھی آرزو ہوتی تھی کہ پہلے باطنی شہادت کی سعادت نصیب ہو، اب اگر یہ حقیقت سورۂ آلِ عمران کے ایک ارشاد (۰۳: ۱۴۳) کی روشنی میں تسلیم کر لی جائے کہ بعض اصحابِ کبار کو زندگی ہی میں نفسانی موت اور روحانی شہادت کا مرتبہ حاصل ہو چکا تھا، تو پھر ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ اس روحانی یا نفسانی موت سے کیا مراد ہے؟ اس کا درست جواب یہ ہو گا کہ قیامتِ صغریٰ یا قیامتِ ذاتی کے بغیر ایسی باکرامت موت واقع نہیں ہو سکتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: مَنۡ مَّاتَ فَقَدۡ قَامَتۡ قیامتہ ، مفہوم: جو شخص نفسانی حالت میں مر جاتا ہے، یا جسمانی طور پر مر جاتا ہے تو اس کی انفرادی قیامت برپا ہو جاتی ہے۔

۲۲۔ اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم کس کی شہادت کی آرزو کرتے تھے؟ اپنی یا دوسروں کی؟ اپنی نفسانی موت کی تمنا رکھتے تھے، متعلقہ

 

۳۳

 

آیۂ کریمہ کا خطاب کن حضرات سے ہے؟ روحانیّت کے زندہ شہیدوں سے ہے؟ یا جسمانی شہیدوں سے؟ اس فرمانِ الٰہی کا زیادہ سے زیادہ تعلق ان مومنین سے ہے، جو نفسانی موت کا تجربہ کر چکے ہیں، مگر زندہ ہیں، اور جو لوگ ظاہری طور پر شہید ہو گئے ہیں، وہ تو اس حکم کے سامنے موجود نہیں، پس جاننا چاہئے کہ: فقد را یتموہ میں عملِ عزرائیلی کی تفصیلات کو دیکھ لینے کا ذکر ہے، اور و انتم تنظرون (۰۳: ۱۴۳) میں نتیجے کے طور پر چشمِ باطن کھل جانے اور مشاہداتِ روحانیّت سے فیضیاب ہو جانے کا بیان ہے۔

۲۳۔ جیسا کہ پہلے اس کا ذکر ہو چکا ہے کہ انسان کی روح لاتعداد ذرّات کا مجموعہ ہوا کرتی ہے، جس میں نہ صرف دنیا بھر کے لوگ پوشیدہ ہیں، بلکہ کائنات و اجزائے کائنات کی ہر ہر چیز موجود ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر انسان ایک لطیف عالم ہے، اور سب لوگ مل کر عالمین کہلاتے ہیں (قاموس القرآن، صفحہ ۳۴۴) پس ہر شخص میں سب ہیں، اور سب کچھ ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر کسی کے لئے اپنی ذات کی تسخیر کائنات کی تسخیر ہے، اور اس کے لئے علم و عمل دونوں کی سخت ضرورت ہے، تاکہ انسان اپنے آپ پر فتح حاصل کر کے دیدۂ دل کو کھولے، اور اپنی روح کو پہچان سکے، کیونکہ اسی شناخت میں ربّ العزّت کی معرفت پنہان ہے، اور پروردگار کی معرفت وہ لازوال اور غیرفانی دولت ہے، جس کے حصول کے بغیر کوئی آدمی

 

۳۴

 

گنجِ مخفی کو نہیں اپنا سکتا۔

۲۴۔ اگر بحکمِ حدیث (من عرف نفسہ فقد عرف ربہ) بندۂ مومن کی اپنی روح کی معرفت پروردگارِ عالم کی معرفت ہے، تو ایسے میں، کیا قرآن کی معرفت اس سے الگ ہو سکتی ہے؟ یا وہ بھی اسی میں شامل ہے؟ اگر کوئی یہ خیال کرتا ہو کہ خدا کی معرفت سے اس کے کلام کی معرفت جدا ہے، تو یہ بات کس طرح درست ہو سکتی ہے؟ پس اس سے اہلِ دانش کے لئے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ معرفتِ روح معرفتِ ربّ بھی ہے، اور معرفتِ قرآن بھی، جب اس دلیل کی روشنی میں قرآنِ مجید کی معرفت ممکن ثابت ہوئی، تو پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ قرآنِ پاک میں جن چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان میں سے کوئی چیز دائرۂ معرفت سے باہر نہیں، اب مشاہدہ، مطالعہ، اور معرفت کے لئے تین مقام مقرر ہوئے: مرتبۂ عقل پر، منازلِ روحانیّت میں، اور قرآن میں، یعنی عالمِ عقل، اور عالمِ روح میں جو جو واقعات رونما ہوئے تھے اور ہوتے رہتے ہیں، انہی کا تذکرہ، اور معرفت قرآنِ حکیم میں موجود ہے۔

۲۵۔ روحِ منجمد، روحِ نباتی، روحِ حیوانی، روحِ انسانی (روحِ ناطقہ) اور روحِ قدسی، ان ارواح میں سے صرف روحِ قدسی ہی میں معرفت کا عظیم خزانہ موجود ہوتا ہے، اور یہ انتہائی پاکیزہ روح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد مرشدِ کامل میں ہوتی ہے، جس کے فیوض و برکات کو حاصل کرنے کے لئے اسلامی تعلیمات کے مطابق انتہائی سخت محنت

 

۳۵

 

کی جاتی ہے، تب کہیں جا کر مومنِ صادق کی روح میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔

۲۶۔ قوانینِ روح و روحانیّت جیسے ایک اہم موضوع سے بحث کرنے کے لئے عمدہ سے عمدہ الفاظ اور بہتر سے بہتر مثالوں کی ضرورت تھی، لیکن میں خود کو جانتا ہوں کہ میں کتنا کمزور ہوں، لہٰذا میں اپنے اس مقالے کی ادبی آرائش و زیبائش کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے شہسوارانِ میدانِ قلم سے معافی کا خواستگار ہوں، والسّلام۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۳۰ مئی، ۱۹۸۷ء

نوٹ: یہ مضمون دوستِ قدیم، یارِ حمیم، و برادرِ بزرگ عالیجاہ رئیس امروہوی صاحب کی فرمائش پر لکھا گیا ہے۔ دوسرے عزیزان معمول کے مطابق اسے شوق سے پڑھیں، اور ضروری طور پر حوالہ جات کے تقاضوں کو پورا کریں۔
نصیر

۳۶

بے خوابی کا علاج

۱۔ بیخوابی یا بیدار خوابی کو قدیم طب کی زبان میں سَہَر کہا جاتا ہے، اور انگریزی میں اس کا نام ایگرپنیا (Agrypnoea) ہے، یعنی نیند نہ آنے کی بیماری، جس کے مریض کو نیند نہیں آتی ہے، ایسے میں عام طور پر طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے، اور وہ اپنے اپنے اصول کے مطابق علاج و معالجہ شروع کر دیتے ہیں، اور بعض دفعہ نیند کی گولیاں دی جاتی ہیں، اس طریقِ علاج سے بے شک نیند تو آتی ہے، مگر بیماری کی جڑ اپنی جگہ قائم رہتی ہے، یعنی ہمیشہ خواب آور گولیوں کی ضرورت رہتی ہے، اور مریض اس دوا کے بغیر سو نہیں سکتا، اسی طرح یہ بیماری مستقل ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے مریض کی ذہنی اور جسمانی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔

۲۔ آئیے ہم قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کی روشنی میں اس مرض (یعنی سَہَر) کی تحلیل و تجزیہ کریں، یا اس کے پس منظر کو دیکھیں، کیونکہ یہ علت جسمانی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ بیماری دراصل ذہنی اور خیالی ہے، اس

 

۳۷

 

حقیقت کے ثبوت کے سلسلے میں یہاں کئی روشن دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں، منجملہ ایک دلیل یہ کہ اگر کسی غریب آدمی کو یکایک بانڈ یا قرعہ اندازی سے یا کسی اور طریقے سے ایک بہت بڑی رقم مل جاتی ہے، تو لازماً اس کے دل میں خوشیوں اور مسرّتوں کے وسوسوں کا ایک گونہ طوفان امڈ جاتا ہے، جس کی وجہ سے بوقتِ شب اُس پر نیند کی کیفیت طاری نہیں ہو سکتی ، اسی طرح کسی شخص کو بڑے یا چھوٹے غم سے بھی وسوسے پیدا ہو جاتے ہیں، اور آپ یہ تو جانتے ہیں کہ وسوسہ صرف جنّی اور انسی شیطان کے سبب سے ہو سکتا ہے (۱۱۴: ۰۴ تا ۰۶) کیونکہ شیطان انسان کا دینی دشمن ہے، لہٰذا وہ ایسے مواقع پر پے در پے حملے کر کے بنی آدم کو یادِ الٰہی سے غافل اور بیمار بنا دینا چاہتا ہے، پس خنّاس اس کے دل و دماغ میں مسلسل وسوسہ ڈالتا رہتا ہے، اور وہ اپنے اس فعل سے تھک جانے والا نہیں۔

۳۔ اللہ تعالیٰ کے قانونِ قدرت اور دستورِ حکمت کے بموجب ہر آدمی کے ساتھ نہ صرف ایک انفرادی شیطان مقرر کیا گیا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایک ذاتی فرشتہ بھی مؤکل ہے، چنانچہ جب کوئی انسان یادِ خدا سے غافل ہو کر اندھا پن اختیار کرتا ہے تو اُس وقت فرشتہ کچھ بھی مدد نہیں کر سکتا، اور شیطان فوراً ہی وسوسوں کی بوچھاڑ کرنے لگتا ہے (۴۳: ۳۶) دیکھئے حدیثِ شریف: مشکوٰۃ، جلدِ اوّل، کتاب الایمان، باب (۳) وسوسہ ، صفحہ ۳۸۔

۳۸

۴۔ مومن کے لئے حکمت و دانائی اسی میں ہے کہ وہ ہمیشہ نیک کاموں میں مصروف رہے، شب و روز خود کو فرائض و نوافل سے وابستہ رکھے، اور لمحہ بھر کے لئے بھی خدا کے بابرکت اسم سے غافل نہ ہو جائے، تاکہ اس وسیلے سے شیطان خاموش اور مایوس ہو، اور فرشتہ کو اپنے عمل کے لئے پورا پورا موقع مل سکے، کیونکہ قانونِ عدل کا یہی تقاضا ہے، کہ شیطان کو راستہ دینے سے جتنا نقصان ہو جاتا ہے، فرشتے کی راہ ہموار کرنے سے اُتنا فائدہ حاصل ہو جانا چاہئے، چنانچہ فرشتہ بحکمِ خدا بندۂ مومن کے دل و دماغ میں امید، یقین، توفیق، اور ہدایت کے چراغوں کو روشن کر دیتا ہے۔

۵۔ ہر بیداری کو آپ سَہَر کی بیماری نہیں کہہ سکتے، کیونکہ عمر کے لحاظ سے بھی اور ذکر و عبادت کے اعتبار سے بھی آگے سے آگے نیند کی ضرورت کم سے کم تر ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ ایک متقی اور دائم الذکر مومن کی نیند بہت ہی قلیل ہو جاتی ہے، آپ قرآنِ حکیم (۳۲: ۱۶،۵۱: ۱۷، ۷۳: ۲۰) میں ایسے مومنین کا تذکرہ دیکھ سکتے ہیں، جو بہت کم سوتے ہیں، اس لئے کہ نیند کا جو مقصد ہے، وہ ذرا سا وقت میں بھی پورا ہو سکتا ہے، کیونکہ انسان جو ابنِ آدم ہے، اس کو خدا تعالیٰ نے تمام دوسری مخلوقات پر کرامت و فضیلت عنایت کر دی ہے (۱۷: ۷۰) پس بندۂ مؤمن منازلِ روحانیت میں جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا ہے، ویسے ویسے اُس پر انسانی صلاحیتوں کے عجائب و غرائب منکشف ہوتے

 

۳۹

 

رہتے ہیں، اور نیند سے متعلق بہت سے بھید کھل جاتے ہیں۔

۶۔ آپ شام کو بروقت سو جاتے ہیں، اگر اُس حال میں حسبِ منشا آپ کی نیند نہ آئے، تو یہ بے خوابی کی بیماری نہیں، اور نہ مقررہ وقت سے پہلے جاگنا کوئی مرض ہے، لیکن جب آپ اس حالت کو ایک روگ سمجھ کر مغموم ہو جاتے ہیں، اور اس سے ذکرِ خداوندی کا فائدہ نہیں اُٹھاتے، تو بے شک ایسے میں یہ ذہنی اور نفسیاتی بیماری بن جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ شام کو نیند کے نہ آنے اور رات کو ناوقت نیند اچٹ جانے میں یہ امتحان ہے کہ آیا آپ اسے اپنے لئے ایک مرض بنا لیتے ہیں؟ یا ذکر و فکر کی روشنی؟

۷۔ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں خوب غور سے دیکھئے کہ کائنات و موجودات کے اسرارِ مخفی و مقفل کی کلید اہلِ عقل کی فکر ہے، اور فکر کی کلید ذکرِ الٰہی ہے، جو تین حالات پر محیط ہے، یعنی اہلِ دانش کھڑے کھڑے، بیٹھے، بیٹھے، اور لیٹے لیٹے خدائے بزرگ و برتر کو یاد کرتے رہتے ہیں، اور اس ترتیب میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں، ہم یہاں صرف لیٹ کر ذکر میں مشغول ہو جانے والوں کو پیشِ نظر رکھتے ہیں، چنانچہ کروٹوں پر (علیٰ جنوبھم) ذکر کرنے والے دانشمند یہ ہیں: الف: وہ دائم الذکر مومن جو آرام کی خاطر لیٹ گیا ہے۔ ب: وہ دیندار جو بہت تھکا ماندہ ہو۔ ج: کوئی مریض جو اٹھ نہیں سکتا۔ د: بوڑھا آدمی جو کمزور ہو۔ ھ: جو نیند کے لئے لیٹا ہو۔ و: جس نے نیند سے

 

۴۰

 

آنکھ کھولی ہے۔ ز: جس کی نیند نہ آئے۔ ح: جو فاقہ اور طویل اعتکاف سے بے تاب ہو چکا ہو۔ ط: جو نفسانی موت مر رہا ہو۔ ی: جو جسمانی طور پر مر جانے کے عالم میں ہو، وغیرہ۔

۸۔ حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام نہ صرف موت کا فرشتہ ہے، بلکہ یہ نیند کا بھی مؤکل ہے (۳۹: ۴۲) اسی طرح حضرت اسرافیل علیہ السّلام جو صاحبِ صور ہے، وہ آج بھی اور کل بھی لوگوں کو جگانے کے لئے مقرر ہے (۳۶: ۵۲) پس کسی آدمی کی بہت بڑی سعادت اسی میں ہے کہ وہ پرہیزگار ہو اور کثرت سے خدائے پاک کو یاد کرے، تاکہ فرشتے اس کو وقت پر بڑے آرام سے سلائیں، اور وقت پر دین و دنیا کی اعلیٰ امیدوں کے ساتھ جگائیں، کیونکہ علم و عمل کے بغیر کسی کو فرشتوں کی دوستی اور تائید حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔

۹۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ آخر نیند کا مقصد کیا ہے؟ یعنی یہ اتنی ضروری کیوں ہے؟ اور اس سے کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ یہ مسئلہ بظاہر بڑا آسان لگتا ہے، جیسے کوئی فوراً یہ کہنے لگے کہ نیند سے دماغی اور جسمانی تھکن دور ہو جاتی ہے، اور کھائی ہوئی غذا اچھی طرح سے ہضم ہو جاتی ہے، لیکن ہم کہیں گے کہ ہر قسم کی تھکاوٹ نیند کے بغیر بھی اتر سکتی ہے، اور خوراک دن کے وقت سوئے بغیر بھی جزوِ بدن ہو جاتی ہے، مثال کے طور پر خانگی جانوروں میں سے بیل، گھوڑا، خچر، اور گدھے کو دیکھئے، یہ بیچارے جانور کتنا سخت کام کرتے

 

۴۱

 

ہیں، مگر ان کی نیند نہیں، وہ صرف کام کے بعد آرام کے لئے محتاج ہیں، پس میں عرض کروں گا کہ نیند کا اصل مقصد ذرّاتِ روح میں سے بعض کا تبادلہ ہے (۳۹: ۴۲) اور یہ عمل بہت کم نیند میں بھی انجام پذیر ہو سکتا ہے۔

۱۰۔ قرآنِ کریم انسان کو کسی ایسے کام کے لئے مکلف نہیں کرتا، جس کے کرنے کی فطری صلاحیت اس میں موجود نہ ہو (۰۲: ۲۸۶) جب یہ بات ایک قرآنی حقیقت ہے، تو پھر آئیے، ہم سورۂ مزمل (۷۳: ۲۰) کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ بعض اصحابِ کبار جو عبادت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اٹھا کرتے تھے، وہ تقریباً کتنے گھنٹے سوتے تھے؟ کب یعنی رات کے کس وقت جاگتے تھے؟ اور کتنی دیر تک ذکر و عبادت کر لیا کرتے تھے؟ اس کا جواب اسی سورہ میں موجود ہے، وہ یہ کہ وہ حضرات کبھی رات کی دو تہائی ذکر و عبادت میں صرف کرتے تھے، کبھی آدھی رات، اور کبھی ایک تہائی، اس فرق کا زیادہ سے زیادہ تعلق موسم سے ہے، اور کم سے کم تعلق ان کے مختلف احوال سے، موسم کا مطلب یہ ہے کہ سال بھر دن رات کی مقدار میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، بہر کیف قرآنی لائحۂ عمل کے مطابق نیند کا وقت بہت محدود ہے۔

۱۱۔ ہر چند کہ نیند ایک ہی چیز کا نام ہے، جس کی کیفیت طاری ہو جانے سے آدمی کے حواس معطل ہو جاتے ہیں، تاہم اس کے

 

۴۲

 

مختلف درجات ہوا کرتے ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ درجہ پیغمبرانہ یا اولیائی نیند کا ہے، جس میں بدن اور حواس سب کے سب سو جاتے ہیں، مگر ذکرِ الٰہی کا شاندار سلسلہ جاری رہتا ہے، اور قرآنِ حکیم اسی نیند کی تعریف و توصیف میں ارشاد فرماتا ہے: وَّ جَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (۷۸: ۰۹) اور ہم ہی نے تمہاری نیند آرام و راحت کی چیز بنائی۔ اس سے اعلیٰ درجے کی نیند مراد ہے، جس میں ذکرِ خدا کی برکتوں سے نہ صرف عقل و جان کو سکینت مل جاتی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ جسم کو بھی سکون حاصل ہو جاتا ہے۔

۱۲۔ وہ بندۂ مومن جو پارسا اور دائم الذکر ہوتا ہے، جب عبادتِ کثیرہ کے بعد سو جاتا ہے، تو بعض دفعہ فوراً ہی کفِ پا سے سر کے بالائی حصے تک ایک میٹھا سا جھٹکا لگ جاتا ہے، جس کی وجہ سے مومن ایک دم بیدار ہو جاتا ہے، اس میں اس کے لئے یہ اشارہ ہے، کہ تمہاری نیند کا مقصد پورا ہو چکا ہے، اب تم چاہو تو مزید عبادت کر سکتے ہو، یہاں سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ خوشگوار جھٹکا یا پُرمسرت لہر کیا ہے؟ یہ فرشتوں کا ایک معجزاتی عمل اور ذرّاتِ روح کا تبادلہ ہے۔

۱۳۔ اس سارے مضمون کا خلاصۂ مطالب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تندرست ہونے کے باوجود سو نہیں سکتا، اور اس کی نیند نہیں آتی ہو، تو اسے فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں، اگر وہ فکر کرے تو یہی جاگنے کی رحمت اس کے حق میں زحمت اور ایک نفسیاتی بیماری

 

۴۳

 

کی شکل میں بدل جائے گی، پس دانشمند مومن وہ ہے، جو ایسی بیداری میں عبادت کرتا ہے، اور کائنات و موجودات کے حقائق و معارف میں سوچتا ہے (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱)۔

نوٹ: اس نوعیت کے مضامین اب قرآنی علاج کے بعد “علمی علاج” کے لئے مخصوص ہوں گے (ان شاء اللہ) براہِ مہربانی آپ سب دعا کریں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۱ جون ۱۹۸۷ء

۴۴

برے خوابوں کا علاج

۱۔ اس انتہائی اہم ، زبردست دلچسپ، اور بے حد مفید موضوع کے سلسلۂ بحث میں سب سے اوّل یہ ذکر کرنا ازبس ضروری ہے کہ اچھے خواب کون سے ہیں؟ اور برے خواب کیا ہوتے ہیں؟ تاکہ دونوں قسم کے خوابوں کے مابین جو فرق و امتیاز موجود ہے، وہ ظاہر اور واضح ہو، جس کا بہت بڑا فائدہ (ان شاء اللہ) یہ ہوگا کہ ہر ہوشمند انسان اپنی اس صحت و سقم کے مطالعۂ عمیق کے بعد اپنا علاج آپ کر سکے گا، کیونکہ آدمی میں نہ صرف بیماری کا بنیادی سبب پایا جاتا ہے، بلکہ اس میں اصل دوا بھی موجود ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: (ترجمہ) تیری دوا تیرے ہی پاس ہے اور تجھ کو خبر نہیں۔ اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوئی ہے اور تو دیکھتا نہیں۔

 

۲۔ صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتاب التعبیر میں ارشاد ہے کہ: اچھا خواب نبوّت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہے۔ نیز آنحضرت صلی اللہ

 

۴۵

 

علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ: اچھا خواب اللہ کی جانب سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے۔۔۔ اسی باب میں یہ حدیث بھی ہے کہ: مومن کا اچھا خواب نبوّت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ اب ان پُر ازحکمت حدیثوں کے یہ چند نتائج ملاحظہ ہوں: الف: اچھے خواب خدا کے وہ خصوصی انعامات ہیں، جو انبیائے کرام علیہم السّلام کے بعد اہلِ ایمان کو بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ ب: مومن کا اچھا خواب تجربۂ روحانیّت بھی ہے، اور مرتبۂ فنا فی الرسول بھی۔ ج: یہ اجزائے نبوّت میں سے ہے، لہٰذا اس میں علم و حکمت اور رشد و ہدایت ہے۔ د: اگر کوئی بندۂ مومن دائم الذکر ہو جائے، اور ایسی حکیمانہ نیند اپنے آپ پر مسلط کر لے کہ اس میں حواسِ ظاہر و باطن سب سو جائیں، مگر ذکرِ خدا جاری و ساری رہے، تو ایسے میں وہ جو خواب دیکھے گا، اس کا درجہ بہت اعلیٰ ہوگا۔ ھ: اچھے خواب کو رویا کہتے ہیں، جس کا مادّہ ر۔أ۔ی ہے، اور اسی سے ایک لفظ مرآۃ (آئینہ) ہے، پس یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ مومن کا اچھا خواب آئینۂ روح و روحانیّت کا کام کر رہا ہے، اور یہی دستور چلا آیا ہے کہ آدمی خود کو آراستہ و پیراستہ کر لینے کے لئے آئینہ سامنے رکھتا ہے۔

۳۔ صحیح مسلم، جلدِ سوم، کتاب الرویا میں بھی خواب کے بارے میں بہت سے ارشاداتِ نبوّی درج ہیں، منجملہ ایک ارشاد یہ کہ: خواب تین قسم کا ہوتا ہے، ایک نیک خواب جو اللہ کی جانب سے خوشخبری

 

۴۶

 

ہے، دوسرا رنج والا خواب جو شیطان سے ہے، اور تیسرا وہ جو اپنے دل کا خیال (حدیثِ نفسی) ہو، تو جب تم میں سے کوئی شخص برا خواب دیکھے، وہ اٹھ کر نماز پڑھے، لوگوں کو ایسا خواب نہ بتائے۔

۴۔ اسی کتاب میں یہ حدیثِ شریف بھی درج ہے: من رانی فقد رای الحق ۔ جس نے مجھے خواب میں دیکھا اُس نے سچ دیکھا۔ حدیثِ نبوّی کی بدرجۂ انتہا جامعیّت کے پیشِ نظر اس کا یہ صوفیانہ ترجمہ بھی بالکل درست ہے، وہ یہ ہے کہ: جس مومن نے خواب میں میرا دیدار کیا، اُس نے گویا خدا کا دیدار کیا۔ کیونکہ اگر ہم جلوہ، تجلّی، ظہور، اور مظہریت کے قائل ہیں، تو پھر ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ مظہرِ اوّل حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالی صفات ہی ہے۔

۵۔ یہاں پر یہ سوال بہت مناسب ہے کہ زمانۂ نبوّت کے مومنین میں سے جو حضرات رسولِ پاک کو خواب میں دیکھتے تھے، وہ تو حضرت کو پہچانتے اور یقین کر لیتے تھے کہ یہ حضور ہی کا دیدار ہے، لیکن دوسرے زمانوں کے اہلِ ایمان کیسے یقین کر لیں گے کہ ان کو خواب میں پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دیدارِ اقدس حاصل ہوا ہے، جبکہ انہوں نے رسول اللہ کے چہرۂ مبارک کو بیداری میں نہیں دیکھا ہے؟ اس کا درست جواب یہی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت کا پُرحکمت دیدار مرشدِ کامل کی صورت میں ہوگا، کیونکہ خلافت، نیابت، اور نمائندگی اسلام کا بنیادی قانون ہے۔

۴۷

۶۔ صحیح بخاری، جلدِ سوم کے باب ۱۰۶۴ میں یہ حدیثِ شریف تحریر ہے کہ: نبوّت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں، لوگوں نے پوچھا مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اچھے خواب۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہوا کہ تمام نیک خواب بشارت و خوشخبری کے معنی رکھتے ہیں، دوسرا یہ کہ رویائے صادقہ مومن کے لئے فنا فی الشیخ اور فنا فی الرسول کا تجربہ ثابت ہو سکتا ہے، جس طرح روحانیّت میں ہوتا ہے، اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ جہاں اچھے خواب اللہ کی جانب سے ہیں، وہاں یہ پیغمبرِ اکرم کے توسط سے ہیں، اور مرشدِ کامل کے وسیلے سے، اور نبوّت کے ۴۶ معجزات میں سے نورانی خواب کا معجزہ اسی معنیٰ میں ہے۔

۷۔ جناب رسالت مآب کے ان حکمت آگین ارشادات کی روشنی میں اب برے خوابوں کا علاج مشکل نہیں رہا، کیونکہ یہ بات صاف و صریح طور پر معلوم ہو گئی کہ برے خواب شیطان سے ہیں، پس مومن کا قولاً و فعلاً، یعنی بذریعۂ علم و عمل شیطان سے خود کو بچا کر پروردگارِ عالم کے حضور میں پناہ گیر ہو جانا ہی اس روگ کا علاج ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (۹۱: ۰۹) یقیناً وہ شخص مراد کو پہنچا جس نے اس (یعنی اپنی جان) کو پاک کر لیا۔ کیونکہ اگر نفس کدورتوں سے آلودہ ہے، تو شیطان کو حملہ آور ہو جانے کے لئے موقع مل جاتا ہے، اور اگر نفس (جان) پاکیزہ ہے، تو وہ مایوس ہو کر رہ جاتا ہے۔

۴۸

۸۔ آپ اس موضوع کو وسیع تر مفہومات کے ساتھ سمجھنے کے لئے کتابِ “قرآنی علاج” میں سے “خواب کے اشارات” کے مضمون کو بھی پڑھ لیں، تاکہ یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ دراصل برے خواب کا کوئی قصور نہیں، وہ تو انسان کی پوشیدہ بیماریوں کی عکاسی کرنے والی قدرتی ایکسریز مشین کا ریزلٹ ہے، قصور خود آدمی کا ہے، جو عالمِ بیداری میں یادِ الٰہی سے غافل ہو کر شیطان کو وسوسہ ڈالنے کا موقع دیتا ہے۔

۹۔ برے خواب یقیناً شیطان سے ہیں، لیکن سوال ہے کہ اس شیطانی عمل کا سبب کیا ہے؟ آیا وہ کسی پر ظلم و زبردستی کر سکتا ہے؟ کیا انسان بے وسیلہ اور مجبور ہے؟ اگر یہ بات نہیں تو اسے اپنی تمام تر ذمہ داریوں کو قبول کرتے ہوئے شیطان کے خلاف جہاد کرنا ہوگا، اور اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید سے اس دشمنِ دین و ایمان کو شکستِ فاش دینی ہو گی، جس کے لئے ایسے اعلیٰ علم کی ضرورت ہے کہ اس سے شیطان کے بچھائے ہوئے تمام دامہائے فریب تارِ عنکبوت (=مکڑی کا جالا) کی طرح پارہ پارہ ہو جائیں، اور ساتھ ہی ساتھ ایسا عمل چاہئے، جو حکمِ خداوندی کے عین مطابق اور نفس و شیطان کی خواہش کے برعکس ہو، تاکہ ایسا مومنِ مجاہد ہمیشہ کے لئے شرِ شیطان سے چھٹکارا حاصل کر سکے، اور وہ ہر رات مبشرات (رویائے صالحہ) کے عجائب و غرائب

 

۴۹

 

سے مستفیض اور اسرارِ معرفت سے مستفید ہو۔

۱۰۔ اپنا گناہ دوسرے کے سر تھوپنا، پھر اس پر مستزاد دشنام طرازی کرنا سراسر ظلم ہے، ادب، تواضع، عدل، اور عقلمندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ مومن اپنے نفسِ امّارہ ہی کو برائی کی جڑ قرار دے (۱۲: ۵۳) تاکہ اس مفید علم کی بدولت اس کی نظر ہر وقت اصل دشمن پر رہے، اور وہ نفس ہے، اور اپنی تمام تر علمی اور عملی قوتوں کو، جو مختلف اور متضاد تصورات کی وجہ سے بکھری ہوئی ہیں، مرکوز و متحد کر کے اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد کرے، یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائے، پس برے خوابوں کا بنیادی اور دائمی علاج یہی ہے۔

۱۱۔ قانونِ فطرت کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء میں یکسان کام کرتا ہے، چنانچہ ہر بڑا جسم شروع شروع میں ایک انتہائی چھوٹا ذرّہ ہوا کرتا ہے، ہر عظیم درخت پہلے ایک تخم ہوتا ہے، تخم میں مغز، مغز میں مرکز، اور مرکز میں روحِ نباتی کا ذرّہ سویا ہوا ہوتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ سیّارۂ زمین کی تخلیق کا آغاز ایک ایٹم (ذرّہ) سے ہوا ہو، ماہرینِ حیاتیات کہتے ہیں کہ ایک جرثومہ سے لاتعداد جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں، حالانکہ زیادہ وقت نہیں گزرتا، اسی طرح یہ بھی قانونِ فطرت ہی ہے، کہ نفسِ انسانی کا ایک ہی برا خیال کم وقت میں ہزاروں برے خیالات کو جنم دے، خدا نہ کردہ، اگر ایسا ہو گیا، تو نفس بہت زیادہ قوّی، سرکش، اور توسنِ بد رِکاب و بد لگام کی طرح ہو جائے گا۔

۵۰

۱۲۔ آپ برے خوابوں سے نجات پانے کے لئے، اچھے خوابوں کے خدائی معجزات دیکھنے کے واسطے، اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسولؐ کی دوستی و محبت کی خاطر کثرت سے ذکر کریں، اشکبار ہو جائیں، تقویٰ کا راستہ اختیار کریں، اور خدمتِ خلق کو اپنا شعار بنا لیں۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۵ جون ۱۹۸۷ء

۵۱

 

اسرارِ ملکوت اور طب

۱۔ قرآنِ حکیم کے ان چار مقامات پر ملکوت کا تذکرہ فرمایا گیا ہے: سورۂ انعام (۰۶: ۷۵)، سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۵)، سورۂ مؤمنون (۲۳: ۸۸)، سورۂ یاسین (۳۶: ۸۳) اور ملکوت کے معنی یہ ہیں: عظیم الشّان سلطنت، بادشاہی، حکومت، حکمرانی، فرشتوں کا عالم، ملائک، روح و روحانیّت کا مقام، پس “اسرارِ ملکوت اور طب” کے اس عنوان میں گویا یہ سوال ہے: اللہ تعالیٰ کی عظیم الشّان بادشاہی کے بھیدوں کی معرفت کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ خداوندِ عالم جو کائنات و موجودات کا خالق ، مالک، اور بادشاہ ہے، اس کی حاکمیت و حکم کے ساتھ طب کا کوئی ربط و رشتہ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح؟

۲۔ جہاں انسان اپنی ذات کو پہچانتا ہے، وہاں وہ ربِّ کائنات کو پہچانتا ہے، اور اسی معرفت میں اسرارِ ملکوت کی شناخت بھی ہے، اب رہا سوال طب اور اس کے عوامل کے باب میں کہ آیا قانونِ ملکوت سے طب کا رشتہ ہے یا یہ لاتعلق ہے؟ سو بطورِ جواب میری عاجزانہ

 

۵۲

 

گزارش یہ ہے کہ جب آسمان و زمین کی سب چیزوں کی بادشاہی اور حکمرانی (ملکوت) خدائے پاک و برتر کے ہاتھ میں ہے (۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳) تو پھر طب یا ڈاکٹری اس قانونِ کل سے کیسے مستثنا ہو سکتی ہے، پس اس عام فہم منطق سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح ظاہر و عیان ہو جاتی ہے کہ کوئی آدمی اس رازِ ملکوت سے واقف و آگاہ ہو یا نہ ہو، بہ ہر حال طب اور ڈاکٹری ہمیشہ اور ہر وقت اذنِ الٰہی کے بغیر اپنی تاثیرات کا کوئی کرشمہ نہیں دکھا سکتی ہے۔

۳۔ ہر قسم کی طبی جڑی بوٹی اور ہر نوع کی دوا میں جو قوّتِ فاعلہ یا روح موجود ہوتی ہے، وہ ایک مقررہ مدت کے لئے ہوا کرتی ہے، اور اس کے بعد روح کے ختم ہو جانے سے وہ چیز بے اثر ہو جاتی ہے، چنانچہ ہر دوا کو دیکھنا پڑتا ہے کہ اس میں اپنی نوعیت کی پُر اثر روح موجود ہے یا نہیں؟ کیونکہ بے روح دوا میں کوئی شفاء نہیں، اسی طرح اب یہاں یہ قرآنی سر (بھید) بھی سن لیجئے کہ دعا اور دوا دونوں میں ملکوتی اور امری روح کا موجود ہونا بے حد ضروری ہے، جس کے بغیر نہ کوئی دعا مقبول و مستجاب ہے، اور نہ ہی کوئی دوا مؤثر و مفید۔

۴۔ اس مقام پر اگر کوئی شخص محض علم و آگہی کی خاطر یہ سوال کرے تو بہت اچھی بات ہے کہ ملکوتی اور امری روح سے کیا مراد ہے؟ میں جواباً عرض کروں گا کہ جب ملکوت اور عالمِ امر کے خزائن (۱۵: ۲۱) سے کوئی چیز نازل کر کے اسے دنیا میں مادّیت کا کوئی لباس پہنایا جاتا

 

۵۳

 

ہے، تو اسی دوران نہ صرف اس کی وہ حالت و کیفیت جو عالمِ بالا میں تھی، کائناتی لوحِ محفوظ میں ریکارڈ ہو جاتی ہے، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی تنزیل اور ہر دنیوی سرگزشت کی بھی روحانی عکاسی ہو کر لوحِ نور پر بحفاظت موجود رہتی ہے، اور اگر خدا چاہے تو اس میں اصلاح بھی فرماتا ہے (۱۳: ۳۹) یہی لطیف و مجرّد تصویر، جو زندہ ہے، ہر چیز کی روح ہوا کرتی ہے، جس کا تصوّر عام ہے، اور اس کا بالائی سرا خداوندِ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے (۲۳: ۸۸، ۳۶: ۸۳) اور زیرین سرا دنیا کی کسی شیٔ سے لگاؤ رکھتا ہے، اب اگر صاحبِ ملک و ملکوت (یعنی خدا) اپنے پاک امر و فرمان سے کسی چیز کی روح کے اوپر سے نیچے تک ایک تازہ روحانی لہر دوڑاتا ہے، تو یہ ملکوتی اور امری روح ہوئی، جو روح کے اندر ایک اضافی یا جدید روح کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔

۵۔ پروردگارِ عالم خدائے برحق اور بادشاہِ مطلق ہے، وہ دنیائے ادعیہ اور ادویہ کی کسی چیز میں اذن و شفا بخشی کی روح پھیلا بھی سکتا ہے، اور قبض بھی کر سکتا ہے (۰۲: ۲۴۵) کیونکہ کائنات اور اس کی تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے قبض و بسط کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے (۳۹: ۶۷، ۲۱: ۱۰۴) اور وہی جس کو چاہے سلطنت دیتا ہے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لیتا ہے (۰۳: ۲۶) پس ہر مسلمان طبیب اور ہر دیندار ڈاکٹر کے لئے یہ امر ازحد ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشے کو اسلامی برکتوں سے مالامال اور کامیاب بنانے کے لئے نہ صرف زبانی زبانی آسمانی تائید کا قائل

 

۵۴

 

رہے، بلکہ کامل تقویٰ اور علم و عمل کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی توفیق، ہدایت، دستگیری، اور یاری کے مقام کو بھی حاصل کرے، تاکہ اسے بفضلِ خدا دونوں جہان کی سرخروئی اور سربلندی نصیب

ہو۔

۶۔ یہاں کسی کے سوال کرنے سے پیشتر ایک پیشگی جواب عرض کرتا ہوں کہ اس دنیا میں دیندار اور لادین دو قسم کے لوگ رہتے ہیں، چنانچہ ان میں جو مذہب والے ہیں، خصوصاً مسلمین، وہ اگرچہ دنیا و عقبیٰ دونوں کی بہتری چاہتے ہیں (۰۲: ۲۰۱) تاہم دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں (۱۷: ۱۸ تا ۲۱) لہٰذا اہلِ ایمان نہ صرف دینی امور میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہیں، بلکہ دنیاوی کاموں میں بھی اس کی یاوری کے لئے درخواست کرتے رہتے ہیں، اور یہ اسلامی تعلیمات میں سے ہے، کیونکہ مسلمانوں کی دنیوی ترقی بھی دینداری، خوفِ خدا، علم، اور عمل سے مشروط ہے، مگر کافروں کے لئے مہلت ہے (۷۳: ۱۱) اس لئے کسی دینی شرط کے بغیر انہیں دنیا دی گئی ہے۔

۷۔ ربّانی فضل و کرم اور جود و عطا کا یہ عالم ہے کہ دستِ قدرت آسمان اور زمین کی ہر جگہ ہر چیز تک رسا اور کشادہ ہے (۰۵: ۶۴) اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ جو اشیاء بظاہر بے جان کہلاتی ہیں، ان میں بھی ایک قسم کی روح موجود ہے، جیسا کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں ارشاد ہے: (ترجمہ): اے بیٹا اگر کوئی عمل رائی کے دانہ کے برابر ہو پھر وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا وہ آسمان میں ہو یا وہ زمین میں ہو تب بھی

 

۵۵

 

اللہ اس کو حاضر کر دے گا۔ یہاں رائی کے دانہ سے روح مراد ہے، جو پتھر، فضا، اور زمین جیسی چیزوں میں بھی موجود ہوتی ہے۔

۸۔ کائنات و موجودات کا ذرّہ ذرّہ روح کی روشنی سے منوّر ہونے کی سب سے روشن ترین دلیل تو یہی ہے کہ اللہ کی نورانیّت کے سمندر میں بلندی و پستی کی جملہ اشیاء ظاہراً و باطناً مستغرق ہیں (۲۴: ۳۵) اس تصور کے مطابق دیکھنے سے یقین آتا ہے کہ ہر مخلوق اور ہر شیٔ غریقِ بحرِ نور ہے، پس اس پُرحکمت آیۂ نور کے پیشِ نظر ہر شخص اور ہر چیز بیک وقت دو روحوں سے متصّل اور وابستہ ہے، ایک تو انفرادی روح ہے، اور دوسری اجتماعی، یعنی کائناتی، جیسے ایک بہت بڑی آگ میں بہت سے انگارے ہوتے ہیں، آگ کی وحدت و سالمیّت میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آگ میں مختلف انگارے بھی ہیں، پس عالمگیر روح (یعنی روحِ اعظم) کی آغوش میں جو کچھ بھی ہو، اس کو اس ازلی نور میں تحلیل ہو کر روح بنے بغیر کوئی چارہ نہیں، جس طرح ایک زبردست آگ میں جو چیز ڈالی جاتی ہے، وہ فی الفور آگ ہو جاتی ہے۔

۹۔ کوئی آدمی محض اس روشن مثال کے سمجھنے سے وہ نور نہیں بن سکتا جو مرتبۂ انسانیّت کے لئے مقرر ہے، کیونکہ یہ تو صرف علم ہی ہے، اور ہنوز عمل کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی، چنانچہ عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) کا دھواں بحکمِ خدا نور کے آسمان میں صرف اس وقت مُبدَّل ہو سکتا

 

۵۶

 

ہے جبکہ بندۂ مومن بڑی سختی کے ساتھ احکامِ دین پر عمل پیرا ہو جاتا ہے (۴۱: ۱۱) کیونکہ قرآن میں جس طرح تخلیقِ کائنات کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس کے دہرے معنی ہیں، اوّل یہ کہ خالقِ اکبر نے عالمِ کبیر کو پیدا کیا، اور دوسرے معنی یہ کہ اس کے حکم اور تائید سے عالمِ صغیر میں روحانی تعمیر و ترقی کی گئی، اور آسمان پیدا ہوا۔

۱۰۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے وقت میں روحانی طبیب تھے، آپ کا ایک بہت بڑا معجزہ یہ تھا کہ آنجناب جسمانی مردوں کو یا روحانی مردوں کو یا دونوں قسم کے مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے (۰۵: ۱۱۰) لیکن ہر ایسی دعا کے ساتھ کہتے تھے: بِاِذْنِ اللّٰہ، یعنی خدا کے حکم سے، اس سے ظاہر ہے کہ دعا یا دوا چاہے کتنی اعلیٰ کیوں نہ ہو، لیکن جب تک ملکوت سے منظوری کی تازہ ترین روح نہ آئے، تو کوئی درد کافور اور کوئی مرض زائل نہیں ہو سکتا۔

۱۱۔ بے شک اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوقات اور تمام چیزوں کے لئے نورِ ہدایت ہے (۲۴: ۳۵) لیکن موجودات یکسان نہیں، اس لئے ان کی حالت و ضرورت کے مطابق ہدایت کے بہت سے مختلف درجات مقرر ہیں، چنانچہ ہدایت کی دو بڑی قسموں کے اعتبار سے انسان کے لئے اختیاری ہدایت ہے، اور غیر انسان کے لئے جبری یا اضطراری ہدایت ہے، پھر ذیلی تقسیم میں جمادات کو کَونی (بن جانے کی) ہدایت حاصل ہے، نباتات کو نشونمائی کی،

 

۵۷

 

حیوانات کو حسّی ہدایت، اور انسان کو شعوری یا عقلی ہدایت دی گئی ہے، تاہم ہدایت کے ہر درجے میں تازہ لہروں کی سخت ضرورت ہے، اور یہی نکتہ ہمارے اس موضوع کا مرکز و محور ہے۔

۱۲۔ قرآنِ مجید کی تمام سورتوں کے شروع میں فواتح اور آخر میں خواتم موجود ہیں، سورۂ یاسین کا وصفی نام “قلبِ قرآن” ہے، الاتقان، جلد دوم، نوع ۷۵، خواصِ قرآن میں سورۂ یاسین کے خواص (تاثیرات) کو دیکھ لیں، اور اس سے عظیم فوائد حاصل کریں، اس سورہ کا خاتمہ یہ ہے: فَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَیْءٍ وَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (۳۶: ۸۳) پس وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے اور تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ چونکہ یہ قلبِ قرآن کا خاتمہ ہے، لہٰذا اس میں زبردست حکمتوں کے جواہر جمع ہیں، اور اس میں جسم و جان کے لئے دوا اور شفا موجود ہے، آپ اس میں خوب غور و فکر کریں کہ ذاتِ سبحان کے بابرکت ہاتھ میں کیا نہیں ہے؟ جبکہ تمام عقلی، روحانی، اور مادّی چیزیں اسی کے ہاتھ میں اور اسی کے اختیار میں ہیں، یاد رہے کہ تُرْجَعُوْنَ مضارع مجہول ہے، لہٰذا اس میں دو قسم کے رجوع کے معنی موجود ہیں، یعنی خدا کی طرف لوٹایا جانا نہ صرف مر جانے کے بعد ہے، بلکہ زندگی میں بھی بہت سی چیزیں مومن کو خدا تعالیٰ سے رجوع کراتی ہیں، مثلاً بیماریاں، مشکلات، علم، بندگی، توبہ، نیکی، خدا کی محبت، وغیرہ۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۷ جولائی ۱۹۸۷ء

۵۸

 

ایک زبردست شفا بخش زلزلہ

۱۔ آئیے، آج ہم قرآنِ حکیم، کائنات، اور اپنی ذات میں آیۂ حرکت کا بنظرِ عمیق مطالعہ کریں، کہ حرکت نہ صرف زندگی کی علامت و نشانی ہے، بلکہ یہ خود حیات و زندگی بھی ہے، جی ہاں، حرکت سرچشمۂ برکت ہے، حرکت خیالات و افکار بھی ہے، اور گفتار و کردار بھی، حرکت ہی ترقی و پیشرفت کا وسیلہ ہے، حرکت کائنات میں روحِ اعظم کی حیثیت سے کام کر رہی ہے، اور اگر حرکت کی ضرورت، اہمیت، اور افادیت کو قریب سے دیکھنا ہے تو دل کی دھڑکن، نبض کا دھکیل، دورانِ خون، اور نظامِ تنفس کو دیکھ لیں، اور حواسِ ظاہر و باطن کے سلسلۂ عمل پر غور و فکر کریں، غرض حرکت ہر مخلوق و موجود کے قیام و بقا کے لئے بے حد ضروری ہے، اور یہی سبب ہے کہ عقلی، روحانی، اور جسمانی چیزوں میں سے کوئی شیٔ اپنی نوعیت کی حرکت کے بغیر ٹھہر نہیں سکتی ہے۔

۲۔ سونے کی کان اپنے اندر کی چیز کو سونا بنا لیتی ہے، پہاڑ اپنے

 

۵۹

 

سینے میں جواہرات پیدا کرتا ہے، سمندر انمول موتیوں کو جنم دیتا ہے، زمین ہر قسم کی نباتات اور خوبصورت پھول اگاتی ہے، خوش الحان پرندے ہوائے مردہ میں سے نغماتِ دلکش بناتے ہیں، حلال مویشی اپنے کارخانۂ شکم سے کام لے کر گھاس جیسی معمولی چیز سے گوشت اور دودھ بنا دیتے ہیں، ان سارے عجیب و غریب اعمال میں درحقیقت کس کی قدرت و توانائی کام کر رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ کی، یاد رہے کہ یہ مثال قادرِ مطلق کی بے پناہ صناعی (کاریگری) کے لئے بہت ہی چھوٹی ہے۔

۳۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنی آدم کو اپنی تمام دوسرے مخلوقات پر کرامت و فضیلت عطا کر دی (۱۷: ۷۰) اسی طرح اس نے انسان کی عقلی، روحانی، اور جسمانی حرکت کو بھی جملہ اشیاء کی حرکتوں پر بادشاہ بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے آدمی کے لئے ہر چیز مسخر ہو جاتی ہے، چنانچہ خدائے بزرگ و برتر نے اہلِ ایمان کی حرکت کو ترقی دے کر بہت بابرکت بنا دیا، یہاں تک کہ اس رحمان و رحیم نے بندۂ مومن کے نیک اقوال و اعمال کی حرکتوں کے جوہر سے ایک زبردست شفا بخش زلزلہ پیدا کیا، جس میں بدرجۂ انتہا پاکیزگی بھی ہے، اور شفائے کلّی بھی (۰۲: ۲۱۴، ۳۳: ۱۱)۔

۴۔ وہ زلزلۂ روحانی بڑا پُرحکمت اور بہت بابرکت ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، جو روحانیّت کا ایک مقدّس بخار ہے، جس کی طرف

 

۶۰

 

اشارہ کرتے ہوئے حدیثِ شریف میں فرمایا گیا ہے کہ: بخار ربِّ غفور کی جانب سے طہور (پاک کرنے والا) ہے، پس اس زلزلہ یا بخار کی تین قسمیں ہیں: روحانی، جسمانی، اور مصنوعی یا ورزشی، اور ان میں سے ہر ایک کی کئی ذیلی قسمیں بھی ہیں۔

۵۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے کہ: اور یقین لانے والوں کے لئے زمین میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں (۵۱: ۲۰) اور خود تمہاری ذات میں بھی تو کیا تم کو دکھائی نہیں دیتا (۵۱: ۲۱)اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو چیزیں مادّی طور پر دنیائے ظاہر میں پائی جاتی ہیں، وہ اشیاء روحانی حالت میں عالمِ نفسی (عالمِ شخصی) میں بھی ہیں، چنانچہ زمین میں بھونچال پوشیدہ ہے، اور انسان کی ذات میں مذکورہ مقدّس زلزلہ مخفی ہے، جو زمانۂ آدم سے روحانیّت کے ساتھ وابستہ این جانب روان دوان آیا ہے (۰۲: ۲۱۴)۔

۶۔ یہ مبارک و مقدّس بھونچال روحانیّت کے ایک اعلیٰ درجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے، جس کا مقصد بدرجۂ انتہا تطہیر و تزکیہ اور شفا بخشی ہے، اور یہ بظاہر آزمائش بھی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے: (ترجمہ) اس موقع پر مومنین آزمائے گئے اور بڑی شدت سے ہلائے گئے (۳۳: ۱۱) دین و دنیا میں کوئی امتحان و آزمائش نہیں، مگر کسی کو ترقی دینے کے لئے، پس یہ زلزلہ بڑا بابرکت ہے۔

۷۔ اس معجزانہ بھونچال میں روحانی انقلاب کا تصوّر ہے، لہٰذا اس

 

۶۱

 

کی تخریب برائے تخریب نہیں، بلکہ برائے تعمیرِ نو ہے، اور اس کی فنا برائے فنا و انہدام نہیں، بلکہ برائے بقا باللہ ہے، ذرا دنیا کی مثال لیجئے کہ اگر ہم جھگیوں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اور وہ کسی سماوی یا ارضی آفت سے یا کسی اور سبب سے تباہ ہو جاتی ہیں، تو کیا ہی اچھا موقع ہے کہ اب کے ہم اپنی حکومت سے برائے تعمیرِ مکان خاصا امداد حاصل کریں گے، پھر جب ہم ایک عمدہ گھر میں رہائش پذیر ہو جائیں گے، تو اس وقت ہم اس آفت کو، جس نے ہمیں سڑی ہوئی جھونپڑی سے نجات دلائی ہو، دعائیں دیتے رہیں گے۔

۸۔ دراصل زلزلۂ روحانیّت اور زلزلۂ قیامت ایک ہی چیز ہے، لہٰذا جب تک تمام متعلقہ آیاتِ کریمہ کو اس موضوع میں شامل نہ کر لیں، تب تک اس مبارک بھونچال کی بہت سی حکمتیں پردۂ اخفا ہی میں پوشیدہ رہیں گی، چنانچہ گزارش ہے کہ سورۂ حج کے آغاز (۲۲: ۰۱ تا ۰۲) اور سورۂ زلزال (۹۹: ۰۱ تا ۰۵) میں جیسے ارشادات ہیں، وہ یقیناً قیامت کے باب میں ہیں، تاہم تمام تر بھید ایسے ہیں جو روحانیّت اور قیامت دونوں کے درمیان قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں، پس بھونچال کا تذکرہ قرآنِ حکیم میں جس بارے میں بھی ہو، ہمیں اس کی گہری حکمتوں سے استفادہ کرنا ہو گا، تا کہ روحانی طب کے متعلق کچھ عرض کی جائے۔

۹۔ اس سلسلے کی میری دوسری کتاب “قرآنی علاج” میں کپکپی سے علاج کے پورے مضمون کو دیکھئے، اور “پاؤں کی حرکت سے علاج” کے

 

۶۲

 

موضوع کو بھی پڑھئے، اس سے (ان شاء اللہ) حرکت اور زلزلہ کی حکمتوں سے آگہی ہوگی۔

۱۰۔ جو لوگ رزقِ حلال کے لئے روزمرہ ایسے کاموں کو انجام دیتے ہوں، کہ اس میں بدنی حرکت ہے، چلنا پھرنا پڑتا ہے، اور کافی مشقت برداشت کی جاتی ہے، تو یہ ان کی خوش نصیبی ہے، کیونکہ جسمانی حرکت اور محنت کی بدولت وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں، اور صحت ایک ایسی گرانمایہ نعمت ہے، کہ وہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی، مگر بسا اوقات یہ کسانوں اور مزدوروں کو ادائے قیمت کے بغیر مفت ہی دی جاتی ہے، جبکہ اہلِ دولت حصولِ صحت کی خاطر لاکھوں کے حساب سے زر خرچ کرتے ہیں، پھر بھی کامیابی کبھی ہوتی ہے، اور کبھی نہیں ہوتی۔

۱۱۔ یقین ہے کہ جب مادّی سائنس ترقی کر کے روحانی سائنس کے ساتھ مل جائے گی، تو اُس وقت عالمِ انسانیّت سے ساری بیماریاں ختم ہو جائیں گی، کیوں نہ ہو، جبکہ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں خدا تعالیٰ کے لئے سجدہ اور اطاعت کرتی ہیں (۱۶: ۴۹) پس روحانی علم اور ذکرِ خدا سے امراض پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے، اور یہ روحانی سائنس میں سے ہے، کیونکہ سائنس علم یا حکمت کو کہتے ہیں، پھر قرآنی حکمت کیسے روحانی سائنس نہیں ہو سکتی ہے۔

۱۲۔ جب بندۂ مومن خدائے مہربان کے حضور شدید گریہ و زاری

 

۶۳

 

کرتا ہے، تو اسی میں ایک سنجیدہ زلزلہ اپنا کام کرتا ہے، کیا آپ نے ایسے کسی عاجز درویش کی مناجات نہیں سنی ہے، جس کی آواز میں بڑی سوزش اور لرزش (تھرتھراہٹ) ہوتی ہے؟ اگر وہ اس حالت میں اپنے ہاتھوں کو بھی لرزائے، تو غالباً اس کا سارا بدن قدرتی زلزلہ (کپکپی) کی زد میں آئے گا، اور یہ مشق ہر مومن کر سکتا ہے، تا کہ یہ عمل بحکمِ خدا بہت سے ظاہری اور باطنی امراض کے لئے باعثِ شفا ہو، اس لئے کہ روحانی بھونچال قرآنی تعریف کے مطابق جتنا شدید، طاقتور، پُرحکمت، اور بااثر ہے، اتنا جراثیم کُش اور شفا بخش بھی ہے۔

۱۳۔ صحیح مسلم جلدِ سوم، کتاب الجنۃ، حدیث ۲۴۴۵ میں ارشاد ہے کہ: اللہ صاحبِ عزّت و جلالت نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی صورت پر بنایا۔۔۔ نیز فرمایا گیا ہے کہ: جو کوئی بہشت میں جائے گا، وہ آدم کی صورت میں ہو گا۔ اس حدیثِ نبوّی میں خوب غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ کلی بہشت مومن کے مر جانے کے بعد ہے، تاہم یہ مناسب سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ آیا کسی بندۂ صالح کی روحانی ترقی اور خدا کی نزدیکی ایک طرح کی بہشت نہیں ہے؟ کیوں نہیں، یقیناً یہ حقیقت ہے، پس یاد رہے کہ قربِ خدا سے صورتِ روح بہتر سے بہتر ہو کر صورتِ آدم ہو جاتی ہے، جو صورتِ رحمان ہے، اور یہ حدیث اُس آیۂ کریمہ کی تفسیر ہے، جس میں ارشاد ہوا ہے کہ: وَ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْۚ (۶۴: ۰۳) اس کے مرادی

 

۶۴

 

معنی یہ ہیں کہ خدا نے تمہاری روح کی صورت بنائی، پھر (اس کے بعد مقامِ قرب میں) رنگِ نور سے آراستہ کر کے اسے صورتِ آدم کا درجہ عطا کر دیا (۰۲: ۱۳۸) اس بیان سے ظاہر ہے کہ مومنین کی روحانی ترقی کے لئے بڑی گنجائش ہے۔

۱۴۔ حدیثِ تقرب کو لیجئے، جس کا حوالہ قرآنی علاج ص ۹۰ پر موجود ہے جس کا ایک مختصر مطلب یہ ہے کہ خدا اپنے بندۂ مومن کا ہاتھ ہو جاتا ہے، جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ جس سے محبت کرتا ہے، اس کے ہاتھ میں نور کام کرتا ہے، پس جو شخص ہمیشہ اپنے ہاتھ کو پاک رکھے، تو اس میں دستِ قدرت کی نورانی برکتیں اور حکمتیں آتی ہیں، پس آپ اسی یقینِ محکم اور امیدِ واثق کے ساتھ روحانی مشقوں میں ہاتھ کی حرکت کا سہارا لیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ، کسی درجے کے زلزلۂ روحانی کا تجربہ ہو گا، جس میں ہر بیماری سے شفا ہے، ان شاء اللہ العزیز۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۴ جولائی ۱۹۸۷ء

۶۵

بھوک ایک ربّانی علاج

۱۔ خالقِ کائنات نے عالمِ انسانی میں اگرچہ بے شمار چیزیں پیدا کر دی ہیں، لیکن اُس علیم و حکیم نے اپنی حکمتِ بالغہ سے پانچ اشیاء کو منتخب فرمایا، تاکہ وہ دانا و بینا ان چیزوں پر اپنے بندوں کو صبر و ثبات کے میدانِ عمل میں آزمائے، وہ پانچ چیزیں یہ ہیں: ہر قسم کا خوف، ہر طرح کی بھوک، ہر نوع کا مالی نقصان، ہر گونہ جانی نقصان، اور ہر درجہ کے ثمرات کی کمی (۰۲: ۱۵۵) آپ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۵۳ تا ۱۵۷  (۰۲: ۱۵۳ تا ۱۵۷) دقتِ نظر اور غور سے ضرور دیکھ لیں، تا کہ یہ حقیقت بحسن و خوبی روشن ہو جائے، کہ جہاں خدائے بزرگ و برتر صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (ان اللّٰہ مع الصابرین) وہاں صبر کس نوعیت کا فعل ہے؟ صبر کا وجود کن کیفیات کے تحت بنتا ہے؟ اور اس کے وسائل و ذرائع اور مواقع کیا کیا ہیں؟

۲۔ محولۂ بالا آیاتِ مبارکہ کے چند پُرحکمت مفہومات یہ ہیں کہ اوّل تو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ صبر و صلوٰۃ ہی آسمانی تائید کا وسیلہ ہے، پھر صبر

 

۶۶

 

کی سب سے بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے، کہ خدا تعالیٰ صابروں کے ساتھ ہے، اور اللہ جن لوگوں کے ساتھ ہو، آپ سوچ کر بتائیں کہ ان کو کس حقیقی نعمت کی کمی ہو سکتی ہے؟ اس کے بعد یہ واضح مفہوم ہے کہ صبر کا ایک اعلیٰ مقام راہِ خدا میں مستانہ وار جامِ شہادت نوش کر لینا ہے، اور پھر مذکورہ پانچ قسم کی ربّانی آزمائشوں کا بیان ہے، نیز اہلِ صبر کے لئے بشارت اور انعاماتِ خداوندی کا تذکرہ ہے، اور بڑی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنی اعلیٰ سطح پر اور ایسے اونچے درجے پر لسانِ حکمت بیانِ قرآن سے جُوع (بھوک) کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، وہ اس معنیٰ میں کہ حکیمانہ جُوع کی تکلیف برداشت کر لینے والے مومنین صابرین میں سے ہو جاتے ہیں۔

۳۔ پروردگارِ عالم نے مسلمین و مومنین کی گرسنگی (بھوک) کو اتنا اعلیٰ مرتبہ اور ایسی عظیم فضیلت عطا کر دی ہے کہ انسانی عقل دنگ ہو جاتی ہے، چنانچہ یہاں برمحل یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ بھوک میں ایسے کون سے بھید پوشیدہ ہیں، جن کی وجہ سے اس کو اتنی زبردست اہمیّت دی گئی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بھوک کے تین بڑے بنیادی فائدے ہیں: (الف:) یہ ایک افضل عبادت ہے (ب:) یہ تقویٰ اور پرہیز ہے (ج:) یہ ظاہراً اور باطناً ایک شافی علاج ہے، اور ان تین اساسی فوائد میں سے ہر ایک لاتعداد نعمتوں اور منفعتوں کا سرچشمہ ہے۔

۶۷

۴۔ انسانی صحت کی بہت سی خرابیوں کا باعث پُرخوری اور بھرا ہوا پیٹ ہے، جس کی اصلاح و درستی کا سہل ترین اور بہترین طریقہ روزہ یا فاقہ ہے، تاکہ اس سے عملِ ہاضمہ کا بگڑا ہوا نظام ازسرِ نو ٹھیک کام کر سکے، جیسا کہ پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ مبارک ہے: روزہ رکھو تاکہ تم صحت یاب ہو جاؤ گے۔ اس حدیثِ شریف میں نہ صرف جسمانی صحت ہی کا ذکر ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی سلامتی بھی مقصود ہے، کیونکہ کلامِ خدا اور فرمانِ رسول کے پُرحکمت الفاظ میں معنی کی انتہائی جامعیّت، مطلب کی تمامیت، اور منطق کی کمالیت موجود ہوتی ہے۔

۵۔ ایک ہوتی ہے نصیحت، جس میں براہِ راست کسی سے خیر خواہی کی باتیں کی جاتی ہیں، اور دوسری ہوتی ہے عبرت، کہ اس میں بالواسطہ یعنی دوسروں کے احوال و امثال سے پند و نصیحت کی جاتی ہے، پس قرآنِ حکیم میں نصیحتوں کی بھی اور عبرتوں کی بھی فراوانی ہے، جیسا کہ سورۂ محمد کے ایک ارشاد (۴۷: ۱۲) میں فرمایا گیا ہے: (ترجمہ) اور جو لوگ کافر ہوئے وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور کھاتے ہیں جیسا کہ چوپائے کھاتے ہیں (۴۷: ۱۲) اس سماوی تعلیم میں ایک طرف نصیحت ہے اور دوسری طرف عبرت، اور مثال حیوان یعنی گائے، بکری، اونٹ، گھوڑا، گدھا، وغیرہ سے دی گئی ہے، اور اس حکیمانہ تشبیہہ و تمثیل میں تہ بہ تہ عجیب و غریب حکمتیں پوشیدہ ہیں، جن کا احاطہ نہیں ہو سکتا، مگر اس کی تھوڑی سی وضاحت

 

۶۸

 

قرآنی طب کے نکتۂ نظر سے یہ ہے:

۶۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ آیا قرآنِ حکیم کو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ حیوان میں اتنی ساری حیوانی عادتیں کیوں اور کس لئے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں، کیونکہ چوپایہ اپنے دائرۂ فطرت کے عین مطابق ٹھیک عمل کر رہا ہے، تو پھر اس آیۂ مقدّسہ میں مذمت کس کی کی گئی ہے؟ کافروں کی، اچھا، تو اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ حقیقی اور عرفانی حلاوتوں سے روگردان ہو کر صرف حیوانی لذّتوں ہی میں محدود ہو چکے ہیں، جس کے سبب سے وہ بہت سی باطنی بیماریوں میں مبتلا ہیں، جیسے امراضِ عقلی، امراضِ روحانی ، وغیرہ، ظاہر ہے کہ کفر و نفاق قلبی مرض ہی ہوتا ہے۔

۷۔ کافر زمانۂ نبوّت کے ہوں یا آج کے، وہ کس طرح مریضِ عقل اور حیوان بشکلِ انسان قرار پا سکتے ہیں، جبکہ علم و دانش یا عقلی اعتبار سے گئے گزرے نہیں؟ اگرچہ بظاہر عقل دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک حقیقی اور دینی ہے، اور دوسری مجازی اور دنیاوی، مگر قرآنِ پاک کے نزدیک ہر وہ شخص بے عقل اور جاہل ہے، جو دینِ اسلام کو نہیں مانتا (۰۵: ۵۰، ۳۹: ۶۴) زمانۂ جاہلیت (۰۳: ۱۵۴، ۴۸: ۲۶) کی مثال لیجئے، آیا ظہورِ اسلام سے قبل کے اکثر لوگوں کو دنیوی شعور نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کہا گیا ہے؟ ایسا نہیں، وہ دنیائے ظاہر کے امور میں اپنے ہمعصروں سے کیسے پیچھے ہو سکتے تھے، مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ اُس عقل کی لازوال

 

۶۹

 

دولت سے محروم تھے، جس سے دین شناسی اور خدا شناسی کا مرتبۂ اعلیٰ حاصل ہو جاتا ہے۔

۸۔ جانوروں کی قوّتِ ہاضمہ بے حد مضبوط، اور زبردست تیز ہوا کرتی ہے، جو دن رات مسلسل اپنا کام کرتی رہتی ہے، اس کی ایک خاص وجہ البتہ یہ بھی ہے کہ بعض چوپائے جگالی کرتے ہیں، جیسے آپ نے گائے یا بکری کو دیکھا ہو گا، اور جو چوپایہ جگالی نہیں کرتا، وہ شدید مشقت کا کام کرتا ہے، جیسے گھوڑا، گدھا، وغیرہ، مگر پھر بھی عجیب بات تو یہ ہے کہ جب کسی حیوان کو انسانی خوراک کی کوئی چیز کچھ زیادہ کھلائی جاتی ہے، جیسے دانہ، روٹی، وغیرہ، تو اُس وقت بے چارا جانور نہ تو جگالی کر سکتا ہے اور نہ ہی سخت محنت کا کام، بس وہ فوراً ہی بیمار ہو جاتا ہے، اور بعض دفعہ کوئی ایسا حیوان مر بھی جاتا ہے، اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ انسانی غذا کیسی لذیذ اور کتنی طاقتور ہوا کرتی ہے، پس ہر دانشمند مومن کے لئے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ وہ خوراک کے معاملے میں ہر وقت احتیاط و اعتدال کا طریقہ اپنائے، اور وقفہ وقفہ کی پُرحکمت بھوک کو اپنے حق میں ایک عبادت اور خدا کی رحمت سمجھے۔

۹۔ ادیانِ عالم میں بھوک کی اہمیت و افادیت کا یہ حال ہے کہ اسے روزہ جیسی ایک بہت بڑی عبادت کا درجہ دیا گیا ہے (۰۲: ۱۸۳) نیز طب اور ڈاکٹری میں بھی فاقہ، پرہیزی غذا (Diet) پرہیز، وغیرہ کی صورت میں بھوک کی شدید ضرورت محسوس کی گئی ہے، اس کے علاوہ جب تک آدمی

 

۷۰

 

کے شکم میں سکون و خاموشی کی راحت نہ ہو، تو وہ اس حال میں نہ تو آرام سے کوئی ذہنی کام انجام دے سکتا ہے، اور نہ کوئی کامیاب عبادت کر سکتا ہے۔

۱۰۔ قرآنِ کریم کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کا ظلم سب سے پہلے اپنے آپ پر ہو جاتا ہے، اور پھر دوسروں پر، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان تین چیزوں کا مجموعہ ہے: عقل، روحِ انسانی، اور روحِ حیوانی، چنانچہ ہر شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اس بات پر مامور ہے کہ وہ اپنی ہستی کے ان تینوں اجزاء کے واسطے حسبِ مراتب عدل و انصاف کے عمل کو ہر وقت قائم رکھے، ان میں سے ہر ایک کو جیسا کہ چاہئے اس کا حق دلائے، اور ہر ایک کے لئے جو مقررہ اور مناسب غذا مطلوب ہے، اسی غذا سے اس کی تربیت و پرورش کا اہتمام کرے، تاکہ کلّی صحت حاصل آئے، یعنی عقل کے لئے علم و حکمت، روح کے لئے ذکر و عبادت، اور نفسِ حیوانی کے واسطے محدود رزقِ حلال کا بندوبست کرے، اور اگر کوئی انسان عقل و روح جیسی شریف و اعلیٰ چیزوں کو فراموش کرتا یا ان کو کوئی خاص اہمیت ہی نہیں دیتا ہے، اور صرف نفس ہی کی غلامی کرتا رہتا ہے، تو یہ اس کا اپنے آپ پر بہت بڑا ظلم ہے۔

۱۱۔ ایک مثال کے مطابق ہر انسان کے اندر تین مخلوقات پنہان ہیں: ایک توسنِ بد رکاب و بدلگام، یعنی نفسِ سرکش، ایک آدمی (روحِ

 

۷۱

 

انسانی) اور ایک فرشتہ (عقل) اس سلسلے میں انتہائی اہم توجّہات اور خدمات فرشتے کے لئے ہونی چاہئیں، کیونکہ وہ اس آدمی کو جو آپ کے باطن میں پوشیدہ ہے عالمِ عُلوی کی طرف پرواز سکھانے کے لئے آیا ہے، لیکن جب تک آپ کو اپنے بدمست گھوڑے کے الجھے ہوئے مسائل سے فرصت ہی نہ ہو، تو پھر آپ فرشتۂ عقل سے کوئی درسِ حکمت ہی نہیں لے سکتے، لہٰذا یہ ایک انتہائی ضروری امر ہے کہ آپ جلد از جلد اپنے بے قابو گھوڑے کی بدمستی کا علاج کریں، علاج یہ ہے کہ آپ کافی حد تک اس کا چارا دانہ کم کریں، اگر یہ اس سے نہیں سدھرتا ہے، تو پھر بھوک پیاس کا مزہ چکھانا پڑے گا، اور اس کے بعد دیکھ لیا جائے گا کہ وہ کیسے سرکشی کرتا ہے۔

۱۲۔ اللہ تعالیٰ کے اس امرِ عظیم میں یقیناًبڑی بڑی حکمتیں مخفی ہیں کہ اس نے تمام چیزوں کو جفت جفت بنایا (۳۶: ۳۶، ۵۱: ۴۹) اور قرآنِ حکیم نے اپنی مختلف مثالوں میں قانونِ اضداد کی اہمیّت و افادیت کی طرف بارہا توجہ دلائی (۰۳: ۲۷، ۳۹: ۰۵) اس کا مطلب یہ ہوا کہ شکم سیری اور بھوک میاں بیوی کی طرح لازم و ملزوم ہیں، پس ہر آدم زاد کی کامل صحت، لذّت، شادمانی، اور مقصدِ حیات کو جنم دینے کے لئے نہ صرف طعام تناول کرنا ہی کافی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ (یعنی قبلاً و بعداً) مکمل بھوک کا وجود بھی ازبس ضروری ہے، تاکہ قانونِ جفت کے مطابق ان دونوں چیزوں سے ہر قسم کی ظاہری اور باطنی خوشی اور ہر گونہ فائدہ حاصل ہو سکے۔

۷۲

۱۳۔ آخر میں بھوک کے متعلق ہم یہی مکرر عرض کریں گے کہ یہ ایک افضل عبادت بھی ہے، تقویٰ اور پرہیز بھی ہے، اور ظاہراً و باطناً ایک شفا بخش علاج بھی، اور اس کے مجموعی فائدے بے شمار ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نورِ قرآن کی روشنی سے عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیّت کو منور فرمائے!

فقط بندۂ کمترین
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۷ اگست ۱۹۸۷ء

 

۷۳

 

غصے کا علاج

۱۔ سب سے پہلے لفظِ “غصہ” کے لغوی معنی کو دیکھئے: الغصۃ = وہ چیز جس سے پھندا لگے (یعنی ایسی شیٔ جو گلے میں اٹک جائے) گلوگیر، اندوہ، غم، جیسے سورۂ مزمل کے ایک ارشاد (۷۳: ۱۳) میں ہے: وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ (۷۳: ۱۳، اور گلے میں پھنس جانے والا کھانا ہے) اس میں کوئی شک نہیں کہ غصہ مزاجِ آدمی میں فوراً ہی ایک ایسی کیفیت پیدا کر دیتا ہے، جس سے اس کا دم گھٹ جاتا ہے، دل غم و اندوہ میں ڈوبنے لگتا ہے، اور مایوسی کا اندھیرا چھائے رہتا ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ غصہ ایک شدید قسم کی اخلاقی بیماری ہے، جس کا جلد از جلد علاج بے حد ضروری ہے، تاکہ وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ اس کی جڑیں مضبوط نہ ہونے پائیں۔

۲۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اولادِ آدم کی اخلاقی مسکراہٹ تبسمِ گل سے کہیں زیادہ حسین و دلکش ہوا کرتی ہے، یہ گویا غنچۂ دل کھل جانے کی علامت ہے، یا یوں کہا جائے کہ ایسے میں بنی آدم کے چہرے پر نور کی

 

۷۴

 

ایک لہر دوڑتی ہے، کیونکہ مسکرانا صرف انسان ہی کا خاصہ ہے، لیکن یہ ظلم کس سے منسوب ہو کہ جب کسی بات پر اسے غصہ آتا ہے، اور وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے، تو اس وقت خندہ پیشانی کی دل آویز بہار یکسر لٹ کر تباہ و برباد ہو جاتی ہے، اور موجِ نور کے بجھ جانے سے چہرے پر تاریکی چھا جاتی ہے۔

۳۔ حکمتِ قرآن اس امر کی مقتضی ہے کہ اہلِ دانش قانونِ اضداد کا گہرا اور مکمل مطالعہ کر لیں، کیونکہ اس میں جاننے کے لئے بہت سے کلیدی بھید پوشیدہ ہیں، مثال کے طور پر عدل اور ظلم دو متضاد چیزیں ہیں، جن کی شناخت ایک دوسرے سے ہوتی ہے، اور ایک کو کم کرنے سے دوسرے میں اضافہ ہو جاتا ہے، چنانچہ عدل روزِ روشن جیسا ہے اور ظلم شبِ تاریک کی طرح، اور یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ دن کی جگہ رات چھا سکتی ہے، اور رات سے دن پیدا ہو سکتا ہے، اسی طرح اگر انسان کو ناخواست غصہ آتا ہو، تو وہ غصہ پی بھی سکتا ہے۔

۴۔ جب بندۂ مومن اپنے غیظ و غضب کو ضبط کر لیتا ہے، تو پروردگارِ عالم کے حکم سے اس میں عفو و درگزر کر دینے کی ایک مستقل صفت پیدا ہونے لگتی ہے، اور اگرچہ عفو فرمانے کی صفت دراصل اللہ تعالیٰ کی ہے (۰۴: ۴۳، ۰۴: ۹۹، ۲۲: ۶۰) تاہم بحکمِ تخلقوا باخلاق اللّٰہ (اپنی عادتیں اخلاقِ خداوندی کے مطابق بناؤ) صفاتِ الٰہیہ کے کچھ جلوے

 

۷۵

 

آئینۂ بشریت میں بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ سورۂ آلِ عمران میں فرمایا گیا ہے: اور اپنے پروردگار کے سببِ بخشش اور جنّت کی طرف دوڑ پڑو جس کی وسعت سارے آسمان و زمین کے برابر ہے اور ان پرہیزگاروں کے لئے مہیا کی گئی ہے جو خوشحالی اور کٹھن کے وقت میں بھی (خدا کی راہ پر) خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو روکتے ہیں اور لوگوں کی خطا سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے (۰۳: ۱۳۳ تا ۱۳۴)۔

۵۔ مذکورۂ بالا حکمت آگین سماوی الفاظ و تعلیمات کا مربوط و مجموعی اشارہ یہ ہے کہ اگر غصہ کو روک لیا جائے، تو اس سے قانونِ اضداد کے مطابق آدمی کی طبیعت میں عفو و درگزر کی صفتِ عالیہ بن جاتی ہے، جس سے نیکو کاری یعنی احسان ہوتا ہے، نیکو کاری کا عظیم اور انتہائی پُرلذّت ثمرہ خدا کی محبت ہے، جو بے مثال اور لا زوال ہے، اور جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ دوست رکھے، اس کے لئے کیا کچھ نہیں، سب کچھ ہے، چنانچہ ایسے لوگ ہی اپنے پروردگار کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑ سکتے ہیں، اور اہلِ تقویٰ میں سے ہو کر ہمیشہ کے لئے بہشت میں داخل ہو سکتے ہیں۔

۶۔ سورۂ شوریٰ (۴۲: ۳۷) میں درجۂ توکل کے مومنین کے بارے میں ارشاد ہے: اور جو لوگ بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے بچے رہتے ہیں اور جب غصہ آ جاتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں

 

۷۶

 

(یغفرون ۴۲: ۳۷) پس بندۂ مومن کا کسی کو معاف کر دینا کتنی قابلِ تعریف صفت ہے، کیونکہ اس عمل کا معنوی رشتہ خدائے بزرگ و برتر کے اسمِ غفور و غفار سے ہے، ہر چند کہ اللہ تعالیٰ کا فعل دونوں جہان پر محیط ہے، اور انسان کا عمل بشری رسائی کی حد تک محدود، تاہم مناسبت اور رشتہ اپنی جگہ پر ایک مسلّمہ حقیقت ہے، غرض غصہ کی بہترین دوا اور علاج یہ ہے کہ اپنے اندر معاف کر دینے کی عادت پیدا کر لی جائے، جس کے لئے نہ صرف تنہا علم کی ضرورت ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ عمل بھی لازمی ہے۔

۷۔ قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ مقدّسہ میں غضبِ الٰہی کا ذکر آیا ہے، لیکن تعجب ہے کہ اسمائے صفات میں کہیں خدائے تعالیٰ کا کوئی ایسا نام نہیں ملتا، جو غضب کے معنی کا حامل ہو، چنانچہ اس کے بارے میں میرا ذاتی عقیدہ یہ ہے کہ خلیفۂ خدا ہی وہ اسمِ مجسّم ہیں، جن سے کبھی کبھار اللہ کے غضب کا ظہور ہوتا رہا ہے، اب رہا سوال قاہر اور قہار سے متعلق، تو اس میں غیظ و غضب کے معنی نہیں، بلکہ غلبہ اور زبردستی کے معنی ہیں، جیسا کہ روزِ قیامت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: لِمَنِ الْمُلْكُ الْیَوْمَؕ-لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (۴۰: ۱۶) آج کے دن کس کی بادشاہی ہے؟ بس اللہ ہی کی ہے جو یکتا (ایک کر دینے والا اور ) غالب ہے۔

۸۔ اب ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جماد، نبات، حیوان، انسان،

 

۷۷

 

اور فرشتہ کے درجات میں سے کس درجے میں قوّتِ غضبیہ کا وجود بنتا ہے؟ ظاہر ہے کہ پتھر اور درخت میں غصے کی کوئی صلاحیت موجود نہیں، مگر حیوان میں یہ قوّت رکھی ہوئی ہے تاکہ وہ اس سے دفاع کا کام لے سکے، چونکہ انسان میں نفسِ حیوانی بھی ہے، لہٰذا یہاں بھی غیظ و غضب کا وجود لازمی ہوا، تاہم جانور میں عقل نہیں اور آدمی کی عقل ہے، اس لئے یہ امر ضروری ہوا کہ غصے کو مہذب اور شائستہ بنایا جائے، کیونکہ روحِ حیوانی کی وجہ سے انسان میں جتنی ادنیٰ قوّتیں پائی جاتی ہیں، وہ کارخانۂ عقل کے لئے خام مال یا خام اشیاء (Raw Materials) کی طرح ہیں، جن سے انتہائی اعلیٰ اور انمول چیزیں بنانا مقصود ہے۔

۹۔ طبی علاج کے سلسلے میں جتنی چیزیں بطورِ دوا مستعمل ہوتی ہیں، ان کی دو بڑی قسمیں ہیں، سمیات (زہریلی چیزیں) اور غیر سمیات، مگر جو چیز سمی (زہریلی) ہو، اسے طبیبِ حاذق ایسی ہی استعمال نہیں کرتا، بلکہ پہلے اسے مدبر (اصلاح کی ہوئی دوا) بناتا ہے، پھر اس سے دوا کا کام لیتا ہے، مثال کے طور پر سنکھیا، دھتورہ، نیلا تھوتھا، بادامِ تلخ، وغیرہ سمی ہیں، لیکن جب ان کی اصلاح کی جاتی ہے، تو یہ چیزیں زبردست مؤثر دوائیاں بن جاتی ہیں، اسی طرح قوتِ غضب کی بھی اصلاح کی جاتی ہے، جس سے عفو کا مادّہ بن جاتا ہے، اور اسی سے آئندہ غصے کا مداوا ہو سکتا ہے۔

۷۸

۱۰۔ غصے کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں، مثلاً حکیمانہ غصہ، سطحی غصہ، مصنوعی غصہ، بچگانہ غصہ، اور گہرا غصہ، ان میں غصۂ عمیق برا اور خطرناک ہوتا ہے، وہ جاہلانہ طیش ہوتا ہے، جس میں غم اور مایوسی کا ایک تباہ کن لاوا (Lava) پھٹ کر ماحول کی تمام چیزوں کو برباد کر دیتا ہے، اس قسم کے غیظ و غضب سے عارضۂ قلب اور بلڈ پریشر کا اندیشہ ہے، کیونکہ شدید غصہ اور غم کی وجہ سے دل کی حرکت بہت بری طرح متاثر ہو جاتی ہے۔

۱۱۔ جو ہندو آج تک اپنے مذہب کے پابند ہیں، وہ گوشت نہیں کھاتے، اس کی ایک وجہ یہ ہے، کہ ان کے عقیدے میں کسی جانور کو جان سے مار دینا گناہ ہے، اور دوسری وجہ شاید یہ ہے کہ گوشت کے کھانے سے آدمی کے غصے میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس طرح کتا، چیتا، شیر، وغیرہ جیسے گوشت خوار جانور بڑے غضبناک ہوا کرتے ہیں، جبکہ گھاس چرنے والے حیوان ایسے نہیں ہوتے، یہ ہندوانہ فلسفہ ہے، لیکن دینِ اسلام میں حدود سے تجاوز کئے بغیر حلال گوشت کھانے میں کوئی قباحت نہیں، اور غصے کی صلاحیت جیسی نفس کی مخالفانہ قوّتوں کو بنیاد ہی سے نیست و نابود کر دینے میں کوئی حکمت نہیں، بلکہ حکمت و مصلحت اسی میں ہے کہ ان کی بدرجۂ اعلیٰ اصلاح کی جائے، اور اسلام میں رہبانیت نہ ہونے کا مطلب یہی ہے۔

۷۹

۱۲۔ اگر کسی مومن میں کچھ زیادہ غصہ ہے، تو اسے ہرگز مایوس نہ ہونا چاہئے، کیونکہ مایوسی گناہ ہے (۳۹: ۵۳) بلکہ اسے قدرت کی طرف سے یہ جو اشارہ ہے اسے خوب جاننا ضروری ہے کہ بسلسلۂ جہادِ اکبر اسے ہر بار اپنے غصے کے خلاف عمل کرنا ہے، یعنی غصے کو پینا ہے، پس اگر اس نے چالیس مرتبہ ایسا کیا، تو ان شاء اللہ، وہ اس میدان میں فاتح و کامیاب ہو گا، اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی پاک دوستی کی مرتبت سے اسے نوازے گا۔

۱۳۔ جب تم میں سے کسی کو غصہ آ رہا ہو، تو وہ خاموش ہو جائے (حدیث) کیونکہ اس حال میں عقل کام نہیں کرتی ہے، راس الحکمۃ مخافۃ اللّٰہ = سب سے بڑی حکمت خدا کا خوف ہے (حدیث) پس جو شخص اپنے ربّ کے غضب سے ڈرتا ہو تو وہ دوسرے پر کیسے غضبناک ہو سکتا ہے۔ رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے (حدیث) صدقۃ البر تطفی غضب الربّ = نیک عمل کا صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے (حدیث) یعنی غیظ و غضب کو روک لینا نیکو کاری اور صدقہ ہے، جس سے پروردگار کا غضب ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ عفو و درگزر سے آدمی کی عزت بڑھتی ہے (حدیث) لیس الشدید بالصرعۃ انما الشدید من یملک نفسہ عند الغضب = پہلوان وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے، پہلوان تو دراصل وہ ہے جو اپنے نفس پر غصے میں قابو پا لے (حدیث)۔

۸۰

نوٹ: جس میں شدید غصہ ہو، وہ بار بار اس مضمون کو پڑھا کرے، ان شاء اللہ بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔

نصیر الدین نصیرؔ (ہونزائی)
۳ ستمبر ۱۹۸۷ء

۸۱

 

 

خیر خواہی سے علاج

۱۔ خیر خواہی ایک ایسی بے مثال اور معجزاتی دوا ہے کہ اس سے بہت سی باطنی بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے، کیونکہ یہی تو نیکوکاری کی اصل، اساس، اور بنیاد ہے، جبکہ خیر خواہی کی ضد بدخواہی ہے، جس کے جراثیم بڑے تباہ کن ہوا کرتے ہیں، یہی مطلب اگر دوسرے الفاظ میں بیان کرنا ہے، تو وہ اس طرح ہے کہ ایک طرف خیر خواہی ہے، جس میں خیر ہی خیر ہے، یعنی ساری نیکیاں ہیں، اور دوسری طرف بدخواہی ہے، جس میں تمام برائیاں جمع ہیں، ان شاء اللہ، ہم یہاں قرآنِ کریم اور حدیثِ شریف کی روشنی میں خیر خواہی کی کچھ حکمتیں اور منفعتیں بیان کریں گے۔

۲۔ قرآنِ پاک کے بابرکت ناموں میں سے ایک نام موعظۃ (۱۰: ۵۷) یعنی نصیحت ہے، اور نصیحت کے معنی ہیں خیر خواہی، اس سے یہ بھید کھل گیا کہ خیر خواہی سب سے بڑی صفت ہے، اسی وجہ سے یہ قرآنِ حکیم کا نام ہے، قرآنِ مجید کا ایک اور نام ذکر (۲۱: ۵۰) ہے،

 

۸۲

 

بمعنی نصیحت و خیر خواہی، نیز خیر خواہی انبیاء علیہم السّلام کی صفت ہے (۰۷: ۶۸) اور پھر یہ ضروری ہے کہ مؤمنین کی بھی صفت ہو (۰۹: ۹۱)۔

۳۔ صحیحِ مسلم اور صحیحِ بخاری کی کتاب الایمان میں ہے: ان النبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم قال الدین النصیحۃ، قلنا: لمن؟ قال: للّٰہ و لکتابہ و لرسولہ و لائمۃ المسلمین و عامتھم ۔ تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: دین خیر خواہی اور خلوص کا نام ہے، ہم نے عرض کیا: کس کی؟ فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب اور اس کے رسول کی، أئمّۂ مسلمین اور سب مسلمانوں کی۔ خیر خواہی سے متعلق اور بھی احادیثِ شریفہ ہیں، اگر آپ سب کو دیکھنا چاہتے ہیں، تو الفاظِ حدیث کے ایک بڑے انڈیکس ( المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی ) کی مدد سے دیکھئے، یہ آپ کو سات بڑی جلدوں میں ملے گا، جس کے صفحات مجموعاً تین ہزار سات سو پچاس (۳۷۵۰) ہیں۔

۴۔ اگر خیر خواہی کا موضوع خود دین کا موضوع ہے، تو آئیے کہ ہم اپنے دل کو اس عظیم حکمت سے آگاہ کریں، تا کہ وہ اپنے دائرۂ خیر خواہی کو زیادہ سے زیادہ وسعت دے، کیونکہ اس عنوان سے دین کا مفہوم و مطلب بڑا آسان اور خوش آئند لگتا ہے، اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علم و حکمت کی جامعیت کے

 

۸۳

 

ساتھ کس شان سے دین کی بے شمار باتوں کو خیر خواہی کے معنی میں یکجا فرمایا، سبحان اللہ! یہ تو آسمانی تائید کا معجزہ ہے۔

۵۔ دین کا ہر قول و فعل نیک نیت کے بغیر مقبول نہیں، اور نیک نیتی کا دوسرا لفظ ہی خیر خواہی کہلاتا ہے، چنانچہ جس دل میں خیر خواہی ہو، وہ فرشتوں کا مسکن ہو جاتا ہے، اس میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ وہاں ٹھہر سکتا ہے، کیونکہ شیطان ایسے دل میں رہ سکتا ہے، جس میں شر کی آلودگی ہوتی ہے، جیسے مکھیوں کی بھنبھناہٹ اس جگہ ہوتی ہے، جہاں غلاظت و گندگی پائی جاتی ہے، مگر جہاں انتہائی صفائی ہو، وہاں مکھیاں نہیں ٹھہر سکتیں۔

۶۔ قرآنِ مقدّس میں دیکھئے کہ عظیم فرشتوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت دعا گوئی ہے (۴۰: ۰۷ تا ۰۹) اور دعا خیر خواہی کی ایک نمایان صورت ہے، یہ صفت ان کی پاک باطنی اور علم کی وجہ سے ہے، قرآنِ حکیم (۵۳: ۲۶) میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ بہت سے آسمانی فرشتے انسانوں کے حق میں سفارش کرتے رہتے ہیں، کیونکہ بڑے فرشتے اپنے وسیع علم کے سبب سے ہمیشہ خیر خواہ ہوا کرتے ہیں، مگر یہ بات الگ ہے کہ کوئی انسان اس آسمانی سفارش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے یا نہیں، بہر کیف یہ خیر خواہی کی تعریف ہے کہ جو مومن ہمیشہ خیر خواہی کرتا ہو، وہ فرشتے کی طرح ہے۔

۷۔ ہر حکمت نہ صرف ایک تنہا خیر ہے، بلکہ وہ خیرِ کثیر بھی ہے (۰۲: ۲۶۹)

 

۸۴

 

چنانچہ مومنین اور مسلمین کی خیر خواہی کرنے میں بہت بڑی حکمت اور خیرِ کثیر ہے، اور اگر آپ اعلیٰ علم کی روشنی میں تمام لوگوں کی خیر خواہی کر سکتے ہیں، تو یہ سب سے بڑی حکمت ہے، وہ حکمت اس بات کو اچھی طرح جاننے اور ماننے کے بعد حاصل ہو سکتی ہے کہ مومنین کی خیر خواہی اور سفارش سے اہلِ دوزخ بھی آخر کار بہشت میں جائیں گے، کیونکہ لوگ جس طرح ازل میں ایک تھے، اسی طرح ان کو ابد میں بھی ایک ہو جانا ہے۔

۸۔ اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ میں کیا نہیں، سب کچھ ہے، قدرت کی پرحکمت مٹھی میں جملہ اشیاء باہم مل کر ’’یک حقیقت‘‘ ہو گئی ہیں، حقیقتِ واحدہ کے بے شمار ناموں میں سے ایک نام خیر بھی ہے (۰۳: ۲۶) پس جو مومن علم کی روشنی میں لوگوں کا خیر خواہ ہو، اس کو خداوندِ عالم اپنے مبارک ہاتھ سے، جس میں روحانی سلطنت ہے، خیر عطا فرمائے گا، اور بدخواہی کی بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھے گا۔

۹۔ جس دل میں ہمہ گیر خیر خواہی نہ ہو، اس میں بدخواہی کے بہت سے امراض پیدا ہو جاتے ہیں، جن کے سبب سے آدمی ہر وقت ذہنی عذاب میں مبتلا رہتا ہے، حسد، کینہ، اور دشمنی جیسی اخلاقی بیماریوں کی وجہ سے قلبی اور ذہنی سکون چھن جاتا ہے، اور انسان روحانی حلاوتوں اور علمی لذتوں سے بے نصیب رہتا ہے۔

۱۰۔ علم و معرفت ہی سے آپ کی خیرخواہی کا دائرہ وسیع تر ہو سکتا

 

۸۵

 

ہے، یہاں تک کہ تمام انسانوں کی خیر خواہی پیدا ہو جاتی ہے، کیونکہ عالمِ شخصی کے قانون کے مطابق آپ ہی کی روح کو پھیلا کر سب لوگ بنائے گئے ہیں، اور سب کو لفیف کئے (۱۷: ۱۰۴) یعنی لپیٹے بغیر آپ کامل و مکمل نہیں ہو سکتے ہیں، اور نہ اللہ کے حضور پہنچ سکتے ہیں، لہٰذا ہر بندۂ مومن کے لئے عرفانی طور پر بنی نوع انسان کی خیر خواہی ضروری ہے۔

۱۱۔ انسان جسم، روح، اور عقل تین چیزوں کا مرکب یا مجموعہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ تین عالم سے تعلق رکھتا ہے: عالمِ جسمانی، عالمِ روحانی، اور عالمِ عقلانی، چنانچہ ہم تصوّف کی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان درحقیقت (یعنی عالمِ وحدت یا عالمِ عقل میں) صرف ایک ہی ہے، عالمِ روحانی میں وحدت و کثرت دونوں کا حامل ہے، اور عالمِ کثرت میں وہ اپنے کثیر مظاہر میں منتشر ہے، پس دانشمند جب تمام لوگوں کی خیر خواہی کرتا ہے، تو حقیقت میں وہ اپنے آپ کی خیرخواہی کرتا ہے، کیونکہ لوگ اس کے اجزاء ہیں۔

۱۲۔ قرآنی حکمت یہ بتاتی ہے کہ جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معراج ہوئی، تو اس وقت مقامِ روح پر تمام روحیں آپ کے ساتھ تھیں، اور مرتبۂ عقل پر جملہ عقول آپ کی ذاتِ عالی صفات میں فنا ہو چکی تھیں، اور آپ جانتے ہیں کہ فنا کا مطلب ایک ہو جانا ہے، یہ ہوئی حضورِ انورؐ کی عملی رہنمائی کی شان کہ آنحضرتؐ نے لوگوں کو بحدِّ قوّت

 

۸۶

 

خدا تعالیٰ سے واصل کر دیا تھا، اب یہ ہر شخص کا فریضہ ہے کہ وہ راہِ مستقیم پر چلے، اور علم و حکمت کے دروازے سے داخل ہو کر اپنے آپ کو رسول میں فنا ہو جانے کی معرفت حاصل کرے، یہ اسوۂ حسنہ کی روشنی میں چل کر سب کے ایک ہو جانے کی بہترین مثال ہے۔

۱۳۔ بدخواہی سے بچ کر کامل طور پر خیر خواہی کو اپنانے کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے، کہ انسانی وحدت و سالمیت کو خوب سمجھ لیا جائے، وہ اس طرح کہ عالمِ وحدت یعنی مرتبۂ ازل میں صرف ایک ہی انسان پیدا کیا گیا ہے، ہر چند کہ آج یہاں عالمِ کثرت میں اس کے بہت سے ظہورات ہیں، اور جب یہ لوٹ کر عالمِ وحدت میں جائے گا، تو پھر پہلی حالت کی طرح ایک اکیلا فرد ہو جائے گا، درحالیکہ دنیا بھر کے لوگ اس میں بہ کیفیتِ عقلی مدغم و متحد ہوں گے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ لوگوں کو ایک ایک ہو کر خداتعالیٰ کے حضور جانا ہے (۰۶: ۹۴) مگر یہ نکتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ ایک ہو جانے کے کم سے کم تین طریقے ہیں: اوّل یہ کہ ایک کو لے کر باقی سب کو چھوڑ دیا جائے، دوم یہ کہ سب کو ایک کر کے لیا جائے، اور سوم یہ ہے کہ ظاہراً ایک کو اور باطناً (یعنی عقلی طور پر) سب کو متحد کر لیا جائے، پس یہی تیسرا طریقہ انسانی وحدت کے لئے مقرر ہے، اور اسی کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔

۱۴۔ جو شخص بدباطنی کی وجہ سے لوگوں کی برائی چاہتا ہے، اور

 

۸۷

 

اس کا دل ہمیشہ کینہ سے خالی نہ ہو، تو یہی اس کا اخلاقی مرض، اور ذہنی عذاب ہے، اور یہ اس کی بدنیتی کی سزا ہے، اس کے برعکس جو انسان دینی ہدایات کی روشنی میں لوگوں کے حق میں نیک خیالات رکھتا ہو، وہ یقیناًخیرخواہی کی بہشت میں ہے، ایسا آدمی بڑا خوش نصیب ہے، کہ وہ خالق اور مخلوق کے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا مفہوم ہے کہ اللہ وہ ہے جس کے قانونِ رحمت کے تحت لوگوں کو دو طرح سے جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے: جاننے والوں کو رضا و رغبت سے، اور نہ جاننے والوں کو زبردستی سے (۰۳: ۸۳، ۲۳: ۱۱۵) اس حقیقت کی ایک روشن مثال دعوتِ اسلام ہے، جبکہ اسلام بحدِّ قوّت بہشت ہے، جس میں لوگ نہ صرف خوشی سے داخل ہو گئے تھے، بلکہ بذریعۂ جہاد زبردستی سے بھی مسلمان بنائے گئے تھے، اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس طرح ارادہ فرمایا ہے، وہ آخرکار پورا ہو کر رہے گا، جس کی خاطر بعض لوگ دوزخِ جہالت میں سزا پا کر بھی اہلِ جنّت میں شامل ہو جائیں گے، اور یہی ہے، خیرخواہی سے بہت سی باطنی بیماریوں کا علاج، الحمد للہ ربّ العالمین۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۲۳ جنوری ۱۹۸۸ء

۸۸

دائرۂ خیرخواہی

(۴۲: ۵)

۸۹

 

انواعِ ذکر

۱۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی کوئی حد و حساب ہی نہیں، تاہم اس کی سب سے بنیادی اور سب سے بڑی نعمت اور عظیم ترین احسان، بلکہ بزرگ ترین نعمتیں اور احسانات اسی حکمتِ بالغہ میں مرکوز ہیں کہ اس دانا، بینا، اور مہربان نے ازراہِ عنایتِ بے نہایت اپنے بابرکت ذکر کو انواعِ کثیر پر مشتمل بنایا، تاکہ اس کے مخلص بندے مختلف اوقات و احوال میں نوع بہ نوع اذکار کے فیوض و برکات سے مالامال ہوتے رہیں، اور اگر خدا کی یہ ہمہ رس، ہمہ گیر، اور محیطِ کل مہربانی نہ ہوتی، اور ذکرِ الٰہی صرف ایک ہی قسم پر مبنی ہوتا، تو اس صورت میں اہلِ ایمان کے لئے ذکر سے اکتسابِ فیض بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا۔

۲۔ کوئی شک نہیں کہ اسلامی عبادات میں سب سے اوّل نماز ہے، جس کی کئی قسمیں ہیں، اور یقیناً نماز کی ہر قسم بجائے خود اللہ تبارک و تعالیٰ کی یاد ہے (۲۰: ۱۴) پھر اس کے بعد دوسرے اذکار

 

۹۰

 

ہیں، جیسے ذکرِ فرد، ذکرِ جماعت، ذکرِ جلی، ذکرِ خفی، ذکرِ کثیر، ذکرِ قلیل، ذکرِ لسانی، ذکرِ قلبی، ذکرِ بصری، ذکرِ سمعی، ذکرِ بدنی، ذکرِ خواب، ذکرِ منفصل، ذکرِ مسلسل، ذکرِ تنفس، ذکرِ علمی، ان کے علاوہ اور بھی اذکار ہیں، جیسے حمد، تسبیح، مناجات، شکر گزاری، گریہ و زاری، سجود، دعا، قرآن خوانی، درود، وغیرہ، اور ان میں سے ہر ایک کی کئی قسمیں ہیں، تاکہ بندۂ مومن جس حال میں بھی ہو، اس کے مطابق کوئی ذکر اس کو مہیا ملے۔

۳۔ ذکرِ فرد: اگرچہ اجتماعی ذکر کی فضیلت بہت بڑی ہے، جبکہ اس کا ثواب بہت عظیم ہے، تاہم جملہ اوقات اور سارے حالات میں یہ موقع میسر نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی دن بھر اجتماع ممکن ہے، نیز آدمی بعض اوقات سفر پر بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا انفرادی ذکر ضروری ہوا، تاکہ مومن اپنے وقت اور حال کے مطابق آزادی سے پروردگارِ عالم کو یاد کر کے عقل و جان کو معطر و منور کر لے۔

۴۔ ذکرِ جماعت: اجتماعی ذکر و عبادت کے باطن میں بے شمار برکتیں اور منفعتیں پوشیدہ ہیں، چنانچہ بندۂ مومن کی دانشمندی اسی امر میں ہے کہ وہ اس پاک و پاکیزہ عمل کے لئے خود کو ہر وقت اور ہر موقع پر جماعت کے ساتھ منسلک و وابستہ رکھے، تاکہ اس کو ذاتی ثواب کے ساتھ ساتھ وہ خصوصی انعامی ثواب بھی عطا کیا جائے گا، جو جملہ جماعت کے ثواب کے برابر ہوا کرتا ہے، یعنی

 

۹۱

 

قیامت کے دن وہ اجتماعی اور قومی روح میں زندہ ہو جائے گا، اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے، یقیناً آپ کو بارہا یہ تجربہ ہو چکا ہوگا کہ جماعتی ذکر و بندگی سے بے حد لطف و لذّت اور زبردست مسرّت و شادمانی کا احساس ہوتا ہے۔

۵۔ ذکرِ جلی: قربِ خداوندی کا اصل اور خاص وسیلہ و ذریعہ ذکرِ خفی ہے، اور اس کے لئے ممد و معاون ذکرِ جلی، انسان کی روحانی ترقی کا راستہ ظاہر سے شروع ہو کر باطن کی طرف جاتا ہے، اس لئے جب تک ظاہری ذکر اور گریہ و زاری سے کسی کی قساوتِ قلبی کا مرض زائل نہ ہو جائے، تب تک باطنی ذکر یعنی ذکرِ خفی کا روحانی معجزہ ناممکن ہے۔

۶۔ ذکرِ خفی: یہ ذکر دراصل انبیاء و اولیاء کی خصوصی پیروی اور مشاہدۂ معجزاتِ روحانی کے لئے مقرر فرمایا گیا ہے، اگر اس کی شرائط اور تیاریاں ہر طرح سے مکمل کی گئی ہیں، تو یہ اپنا کام بڑی سرعت اور ایک زبردست انقلابی انداز میں کر سکتا ہے۔

۷۔ ذکرِ کثیر: اس کا مطلب ہے کثرت سے ربِّ عزّت کو یاد کرنا، خواہ ایک ہی قسم کے ذکر سے ہو، یا مختلف اذکار سے، بہ ہرکیف قرآنِ حکیم نے ذکرِ کثیر کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے، اور یہ حکم بارہا فرمایا گیا ہے، اس لئے یہ تاکیدی امر ہے، پس ذکرِ کثیر میں لاتعداد حکمتیں پنہان ہیں۔

۹۲

۸۔ ذکرِ قلیل: اگر قلیل ذکر کی وجہ محض سستی ہی ہے، تو یہ اچھی علامت ہرگز نہیں، اگر کوئی اور سبب ہے، اور اس میں اضافے کا یقین ہے، تو خیر ہے، تاہم ہونا یہ چاہئے کہ قلیل + قلیل + قلیل + قلیل + قلیل = کثیر ہو جائے۔

۹۔ ذکرِ لسانی: خدائے بزرگ و برتر نے انسان کو لسان و بیان اس لئے عطا کر دیا ہے، تاکہ ہمہ وقت زبان کو اس کے اسمِ دلنواز اور یادِ روح پرور میں مشغول رکھا جائے، اور اس روحانی حلاوت و شیرینی سے اپنی ذات کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے، لسانی ذکر کا خاص فائدہ اس وقت حاصل ہو جاتا ہے، جبکہ اس سے قلب میں سوز و گداز کا عالم ہو۔

۱۰۔ ذکرِ قلبی: اگر یہ صحیح معنوں میں ہے، تو حواسِ باطن کے جاگ اٹھنے کے لئے زیادہ وقت نہیں لگتا، چونکہ قلب عالمِ شخصی کا مرکز ہے، اس لئے قلبی ذکر کی بہت بڑی اہمیت ہے، چنانچہ اگر دل کی معجزاتی زبان کھل گئی ہے، اور خدا کا بزرگ نام قلب میں اتر گیا ہے، تو پھر مبارک ہو کہ یہیں پر ذکرِ خفی اور ذکرِ قلبی کے عظیم معجزات ظہور پذیر ہونے والے ہیں۔

۱۱۔ ذکرِ بصری: چشمِ ظاہر اور دیدۂ دل سے آیاتِ قدرت کا مشاہدہ و مطالعہ کرنا ہی ذکرِ بصری ہے، کیونکہ بصارت اور بصیرت دونوں اس لئے عطا ہوئی ہیں، کہ ان سے خالقِ اکبر کی تخلیقات و

 

۹۳

 

مصنوعات کے عجائب و غرائب کا نظارہ کرتے ہوئے اس کو یاد کیا جائے۔

۱۲۔ ذکرِ سمعی: یہ متبرک ذکر کان سے متعلق ہے، مثلاً اگر ایک شخص ذکر کر رہا ہے اور دوسرے اشخاص شوق سے سن رہے ہیں، تو یہ سننے والے سب ذکرِ سمعی کر رہے ہیں، اسی طرح قرآنِ کریم کا سننا اور حمد و ثناء کی سماعت کرنا ذکرِ سمعی ہے، لیکن یہ نکتہ ہمیشہ یاد رہے کہ ہر ذکر میں بھرپور توجہ اور مکمل اثر پذیری بے حد ضروری ہے۔

۱۳۔ ذکرِ بدنی: یعنی جسمانی ذکر، جس کے چند پہلو ہیں، مگر یہاں صرف اتنا ہی بتا دینا ضروری ہے کہ ہر قسم کے ذکر و عبادت کے سلسلے میں جو بھی محنت و مشقت لازماً اٹھانی پڑتی ہے، وہ سب جسم ہی برداشت کرتا ہے، لہٰذا یہ بدنی ذکر کا حصہ ہے، خصوصاً قومی اور جماعتی خدمت، جو ترقئ ذکر کی جان ہے، جس کے بغیر کوئی روحانی پیش رفت نہیں۔

۱۴۔ ذکرِ خواب: اس کا تذکرہ دراصل عجائب و غرائب میں ہونا چاہئے کہ کبھی کبھار خواب میں بھی ذکر ہوتا ہے، مگر یہ آدمی کے اختیار سے بالاتر ہے، اس لئے یہ صرف ایک اشارہ اور علامت کے طور پر مختصر ہوتا ہے، تاکہ معلوم ہو کہ بندۂ مومن بندگی میں چست ہے یا سست۔

۱۵۔ ذکرِ منفصل: یہ بیان بھی فائدے سے خالی نہیں کہ ان اذکار میں ذکرِ منفصل بھی ہے، جو چھوٹے چھوٹے وقفوں کا ذکر

 

۹۴

 

ہے، جس کی مثال ایک ایماندار اور نیکوکار تاجر کے عمل سے دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی دکان میں کام کرتے ہوئے مسلسل ذکر تو نہیں کر سکتا، مگر منفصل ذکر سے مستفیض ہو سکتا ہے، یعنی وہ طرح طرح سے خدا کو یاد بھی کر رہا ہے، اور خریداروں کے ساتھ ضروری گفتگو بھی، اور یہ کام عالی ہمت مومن کے لئے چندان مشکل نہیں، بہت سے مومنین دن کے وقت لوگوں کے درمیان نظر آتے ہیں، مگر وہ ہر بہانے سے خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں، اس دنیا میں ایسے صالح بندوں کا وجود باعثِ برکت ہے۔

۱۶۔ ذکرِ مسلسل: یہ ہر ایسے ذکر کا نام ہے، جس کا سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہتا ہو، کیونکہ آپ کو فی المثل ذکر کا ایک ایسا سلسلہ (زنجیر) بنانا ہے، یا بکتر (زرہ) بنانا ہے، جو حلقہ در حلقہ ہو، یعنی اس کی کڑیاں باہم ٹھیک ٹھیک مربوط ہوں، جیسے حضرت داؤد علیہ السّلام کو حکمِ خداوندی ہوا تھا کہ ذکرِ مسلسل سے روحانی بکتر بنائیں (۳۴: ۱۱) کیونکہ شیطان کے خلاف جنگ کرنے کے لئے مومنِ مجاہد کو زرہ پوش ہونا ہے۔

۱۷۔ ذکرِ تنفس: یہ صوفیانہ ذکر سانس کے ذریعہ کیا جاتا ہے، ہر ذکر کا ایک مخصوص فائدہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ اس ذکر کا بھی ایک بہت بڑا فائدہ ہے، جس کا ایک روحانی پہلو ہے اور ایک جسمانی۔

۱۸۔ ذکرِ علمی: یہ ایک اعلیٰ درجے کا ذکر ہے، جو قرآنی آیات اور

 

۹۵

 

ذات و کائنات کے علمی معجزات اور کلماتِ تامّات سے خدا کو یاد کرنے سے متعلق ہے۔

۱۹۔ دوسرے اذکار: حمدِ باری تعالیٰ، تسبیح، مناجات بدرگارہِ قاضی الحاجات، شکر گزارئ نعمتہا، گریہ و زاری، سجود، دعا، قرآن خوانی، درود شریف وغیرہ، اور ہر ذکر کئی درجوں میں ہے، تاکہ حق پرست بندوں کو ان کے احوال کے مطابق ایک ایک ذکر مہیا ملے، نیز ہر مومن اپنے مختلف احوال میں مختلف اذکار سے مستفید ہو جائے، تاکہ وہ بحیثیتِ مجموعی دائم الذکر ہو سکے۔

۲۰۔ مقصودِ اصلی: ان تمام اذکار کا اصل مقصد صرف ایک ہی ہے، اور وہ تقرّب الی اللہ ہے، تاکہ فنائے اوّل، فنائے دوم اور فنائے سوم حاصل ہو، جس میں نہ صرف بہشتِ برین ہی ہے، بلکہ رضوانِ اکبر بھی ہے، یہ ہے عقل و جان کی انتہائی صحت مندی اور ابدی سلامتی، جس کی طرف رہنمائی کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنا نور اور قرآن نازل فرمایا (۰۵: ۱۵) الحمد للہ ربّ العالمین۔

نوٹ: ذکر کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو میری ایک کتاب: “ذکرِ الٰہی”

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۲۰ فروری ۱۹۸۸ء

۹۶

۱۔ ذکرِ قلیل
۲۔ ذکرِ کثیر
۳۔ ذکرِ اکثر
۴۔ ذکرِ قولی
۵۔ ذکرِ فعلی (عملی)
۶۔ ذکرِ علمی
۷۔ ذکرِ لفظی
۸۔ ذکرِ معنوی
۹۔ ذکرِ حقیقی
۱۰۔ ذکر قیام و قعود
۱۱۔ ذکرِ رکوع
۱۲۔ ذکرِ سجود، اور دوسرے سب اذکار اس نقشہ میں شامل ہیں، اور کوئی ذکر اس سے باہر نہیں، یہاں فنا کے تین مدارج بھی ہیں، فنا فی المرشد، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ۔

۹۷

 

راہِ رسل اور روحانی صحت

۱۔ آپ خوش بختی سے جس صراطِ مستقیم اور منزلِ مقصود کی روشن ہدایات کے لئے بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے رہتے ہیں (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) وہ انبیاء و رسل کی راہ اور رشد و ہدایت ہے (۰۴: ۶۹) جو حقیقت میں دینِ مبین یعنی اسلام ہی ہے (۴۲: ۱۳) کیونکہ دین دراصل ایک ہی ہے (۰۹: ۳۶) وہ خدا کا دین ہے (۰۶: ۱۶۱) جس پر تمام انبیاء علیہم السّلام ایک تھے (۰۶: ۹۰) اور لوگ بھی پہلے اس دنیا میں ، یا عالمِ ذرّ میں ، یا ازل میں ایک ہی امت تھے (۰۲: ۲۱۳) اور تمام پیغمبروں کی اصل کتاب بھی ایک ہی تھی، وہ الکتاب ہے (۰۲: ۲۱۳) نیز الکتاب قرآنِ حکیم ہے (۰۳: ۰۳) کیونکہ یہ بابرکت آسمانی ہدایت نامہ ہر طرح سے کامل و مکمل، جامع الجوامع، اور مھیمن (۴۸: ۰۵) ہے، یعنی سابقہ کتبِ سماویہ کا محافظ و نگہبان، اس لئے قرآنِ کریم جملہ انبیاء علیہم السّلام کے احوال پر محیط ہے، چنانچہ ہم یہاں قرآنِ حکیم کی روشنی میں چھ ایسی مثالوں کو بیان کرنا چاہتے ہیں، جو چھ عظیم پیغمبروں کے ادوار

 

۹۸

 

میں لوگوں کے لئے روحانی صحت کی کسوٹیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔

۲۔ معیارِ حضرتِ آدمؑ: ہر پیغمبر اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے صراطِ مستقیم پر اپنی امت کی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ خوش نصیب لوگ جو فرمانبردار اور نیکو کار ہیں، بتدریج آگے بڑھتے جاتے ہیں، کیونکہ دینِ حق قربِ خدا کا راستہ ہے، اور بندۂ مومن کی نیّت، قول، اور عمل اس راستے پر حرکت ہے، اسی خالص اور پاکیزہ حرکت میں مذہبی زندگی بھی ہے، آپ قرآنِ حکیم کے بہت سے پُرحکمت الفاظ میں خوب غور کر کے اس حقیقت کا مطالعہ و مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اسلام کا مقصدِ عالی قربِ الٰہی ہے، جس کے لئے حرکت کرنا اور چلنا بے حد ضروری ہے، اور قرآنِ مجید کے بے شمار الفاظ میں یہی معنی کارفرما ہیں، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: صراط، سبیل، طریق، قرب، مذہب (راستہ، ۳۷: ۹۹)، مسلک، شریعت اور طریقت (منہاج، ۰۵: ۴۸)، ہدایت، ہادی، اتباع، سیق، سعی، تمشون، سابقوا، سارعوا، سابقون، وغیرہ۔

۳۔ قرآنی علاج کے صفحہ ۹۰ پر حدیثِ تقرب کے حوالے کو دیکھئے، حدیثِ قدسی کا ترجمہ یہ ہے: “اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں،

 

۹۹

 

جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔” ظاہر ہے کہ یہ نوافل، حرکت، ترقی، قرب، اور پاک محبت صرف اور صرف صراطِ مستقیم ہی پر آگے بڑھتے ہوئے ممکن ہے، اور نور کے باقی معجزات جو بندۂ مومن کے کان، آنکھ، ہاتھ ، اور پاؤں سے متعلق ہیں، وہ منزلِ مقصود پر وقوع پذیر ہو سکتے ہیں، پس جن حضرات کو قرب و فنا کا یہ مرتبہ حاصل ہو جاتا ہے، وہ روحانی اور عقلی بیماریوں سے کُلّی طور پر شفایاب ہو جاتے ہیں۔

۴۔ یہ فکر و تصوّر اور اجتہاد سورۂ اعراف کے نشان ۱۱ (یعنی ۰۷: ۱۱) کی روشنی میں ہے کہ خداوند تبارک و تعالیٰ اپنے دوستوں کی جسمانی تخلیق کرتا ہے، پھر روحانی صورت بناتا ہے، اور اس کے بعد وہ صاحبِ جلالت و کرامت ان کی سماعت و بصیرت ہو کر اپنے اسرارِ معرفت سے واقف و آگاہ کر دیتا ہے، اور وہ نورِ خدا کی ضیاء پاشیوں میں اس واقعۂ عظیم کو دیکھتے ہیں کہ جملہ فرشتے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے لئے کس طرح اور کن معنوں میں سجدہ کر رہے ہیں، کیونکہ قصۂ آدم اگرچہ ظاہر میں ماضئ بعید کا ایک واقعہ ہے، لیکن عالمِ شخصی میں جب خدا کسی مومن کی آنکھ ہو جاتا ہے، تو اس صورت میں ہر ماضی اور ہر مستقبل سامنے آ کر حال بن جاتا ہے، چنانچہ حضرتِ آدمؑ کی مثال میں باطنی صحت کا معیار یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں واقعۂ آدم کا

 

۱۰۰

 

مشاہدہ کیا جائے۔

۵۔ معیارِ حضرتِ نوحؑ: آپ اگر اجازت دیں تو میں انتہائی عاجزی اور کمالِ ادب سے یہ گزارش کروں گا کہ مذکورۂ بالا حدیثِ قدسی کے تناظر میں کوئی سچا مومن اور کوئی عاشقِ صادق کس طرح یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ روحانی طور پر مریض نہیں، اس کے باطنی کان اور آنکھ کشادہ ہیں، اور علم و معرفت کا کام ٹھیک طرح سے آگے جا رہا ہے، حالانکہ اس کے حواسِ باطن ہنوز منجمد ہیں، لیکن جب اللہ کے دوستوں کی روحانی تخلیق مکمل ہو جاتی ہے، اور وہ عالمِ ذرّ کے طوفان میں اپنے آپ کو بہ شکلِ ذرّات کشتئ نوحؑ میں دیکھ لیتے ہیں، جیسا کہ قرآنِ پاک خدائے بزرگ و برتر کے اس احسانِ عظیم کا ذکر فرماتا ہے (۱۷: ۰۳) اور اس روحانی معجزے کا واضح ذکر سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱) میں بھی ملتا ہے کہ پروردگارِ عالم نے ذرّاتِ ارواح کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا، تو پھر ایسے باسعادت مومنین روحانی صحت کی دولتِ پائندہ سے مالامال ہو جاتے ہیں۔

۶۔ معیارِ حضرتِ ابراہیمؑ: ارشادِ نبوّی ہے: “اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربہ = تم میں جو سب سے زیادہ اپنے آپ (یعنی روح) کو پہچانتا ہے وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے۔”  پروردگارِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس نورانی تعلیم میں ایک طرف مومن کی خود شناسی اور خدا شناسی

 

۱۰۱

 

کا ذکر ہے، اور دوسری طرف معرفت کے مختلف مراتب کا بیان، چنانچہ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ اسی کامل معرفت میں حضراتِ انبیاء و رسل کی معرفت بھی شامل ہے، کیونکہ معرفت ممکن ہی نہیں، مگر منازلِ روحانیّت میں انبیاء و اولیاء کے نقشِ قدم پر چل کر، اور اس عمل کے بہت سے نام ہیں، جیسے ہدایت، اطاعت، پیروی، قرب، وغیرہ، پس حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: فمن تبعنی فانہ منی (۱۴: ۳۶) = پھر جو شخص میری راہ پر چلے گا پس وہ یقیناً مجھ سے ہوگا۔ یعنی وہ میری ہستی کا حصہ ہوگا، بمعنئ دیگر وہ فنا فی الرسول کے مرتبے پر فائز ہو جائے گا، اور یہی ہے اس روحانی معیارِ صحت کی ایک مثال، جو حضرت ابراہیمؑ کے دور سے متعلق ہے۔

۷۔ معیارِ حضرتِ موسیٰؑ: انسانی روح کا مقام انتہائی اعلیٰ ہے، اس کا بالائی سرا عالمِ امر میں ہے، جہاں کلمۂ کُنۡ (ہو جا) کی بادشاہی ہے (۱۷: ۸۵) چنانچہ مرتبۂ روح کی تشریح بڑی عجیب و غریب اور انتہائی حیران کُن ہے، کیونکہ روح ایک بسیط جوہر ہے، جبکہ یہ نورِ خدا کا ایک مکمل عکس ہے، جیسے آفتابِ عالمتاب اور آئینۂ مصفا میں اس کا درخشان و تابان عکس، اگرچہ یہ عکس بمقابلۂ خورشیدِ انور ایک حقیر سی چیز ہے، تاہم یہ سورج سے کب جدا ہے، بلکہ ذرا سوچنے سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آ جائے گی کہ عکس کو سورج سے الگ سمجھنا دراصل فریبِ نظر ہے، کیونکہ آئینے میں کچھ بھی نہیں، مگر

 

۱۰۲

 

یہ ہے کہ وہ ہماری نگاہوں کو سورج کی طرف اچھال رہا ہے، جو آسمان میں ہے۔

۸۔ مذکورۂ بالا مثال کے مطابق مومنین عالمِ علوی میں ملوک و سلاطین ہیں، مگر عالمِ سفلی میں غریب، جیسے زمانۂ موسیٰ سے متعلق ایک قرآنی ارشاد ہے: (ترجمہ:) اور وہ وقت بھی ذکر کے قابل ہے جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے اور تم کو (روحانیّت میں) سلاطین بنایا (۰۵: ۲۰) یہ ہر قسم کے باطنی امراض سے محفوظ ہو کر فنا فی اللہ ہو جانے کی بشارت ہے۔

۹۔ معیارِ حضرتِ عیسیٰ: انبیاء علیہم السّلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے عقلی اور روحانی طبیب ہوا کرتے ہیں، جس کی واضح مثال حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی پاکیزہ زندگی سے مل سکتی ہے، کہ آپ جسم سے بڑھ کر روح کا چارہ و علاج کیا کرتے تھے، کیونکہ بدنی صحت کے مقابلے میں روحانی صحت کہیں زیادہ ضروری ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ تمام ظاہری قسم کی مسیحائی معجزات کے پس منظر میں روحانی معجزات پوشیدہ ہیں، مثال کے طور پر جب ایک مومن سفرِ روحانیّت کے سلسلے میں منزلِ فنا (مرحلۂ عزرائیلی) میں پہنچ جاتا تھا، تو اسی مقام پر وہ مشاہدہ کرتا تھا کہ حضرتِ عیسیٰ خدا کے اذن سے مردے کو جِلاتا ہے، یہ عظیم معجزہ عالمِ شخصی میں اسمِ اعظم کے زیرِ اثر رونما ہو جاتا تھا، ایسے میں مؤمن تمام باطنی امراض سے چھٹکارا پاتا ہے۔

۱۰۳

۱۰۔ معیارِ حضرتِ محمد مصطفی: حبیبِ خدا، اشرفِ انبیاء، شاہِ رسل، ہادئ سبل، رحمتِ عالم، فخرِ بنی آدم، یعنی حضرتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس و اطہر میں جملہ انبیاء و رسل علیہم السّلام مجتمع ہیں، اور ان سب کے اوصاف، کمالات، اور معجزات بھی، کیونکہ اگر دین کا آغاز ہے تو پیغمبروں کے سارے فضائل بحدِّ قوّت حضرتِ آدمؑ میں پائے جاتے ہیں، اور جب انجام ہے، اور دین مکمل ہوا ہے تو یہ تمام فضائل فعلاً حضرتِ خاتمؐ میں جمع ہو جاتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ صرف کائنات ہی کو لپیٹتا ہے، بلکہ تمام ارواح و عقول کو بھی عالمِ شخصی میں لفیف کرتا ہے (۱۷: ۱۰۴)۔

۱۱ خدائے بزرگ و برتر کے علم میں یہ حقیقت روشن تھی کہ انسانیّت جہالت و نادانی کے مرض میں مبتلا ہو گئی ہے، لہٰذا پروردگارِ عالم نے حضرتِ خاتم الانبیاء کو مبعوث فرمایا، تاکہ آپ قرآنِ حکیم کے نسخۂ کیمیا سے اس کا علاج و معالجہ فرمایا کریں، چنانچہ عہدِ رسالت میں براہِ راست اور بعد کے زمانوں میں بالواسطہ دینِ مبینِ اسلام کی روشنی پھیلائی گئی، اور عشقِ محمد و اہلِ بیت ، اور فنا فی الرسول کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہا، جس کی برکت سے معرفت کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوا، اور کلی شفایابی ہوتی رہی۔

۱۲۔ بعض دفعہ سوال و جواب کی صورت میں حکمت کی باتیں بآسانی ذہن نشین ہو جاتی ہیں، لہٰذا اپنے آپ سے پوچھتا بھی ہوں، اور

 

۱۰۴

 

خود کو جواب بھی دیتا ہوں: صراطِ مستقیم یعنی راہِ راست اور اس پر ہدایت کی منزلِ مقصود کیا ہے؟ خدا تعالیٰ (۱۱: ۵۶، ۷۹: ۴۴) لوگوں کو اللہ کے حضور ایک ایک ہو کر جانا ہے (۰۶: ۹۴) تو پھر سب کو کس طرح لپیٹ لیا جاتا ہے (۱۷: ۱۰۴)؟ اس فعلِ خدائی سے سب کا ایک ہی ہو جاتا ہے (۳۱: ۲۸) آنحضرتؐ مقامِ معراج پر اکیلے ہی تشریف لے گئے تھے، اس میں کیا راز ہے، حالانکہ آپ نے مسلمانوں کو ساتھ لے کر خدا سے واصل کر دینا تھا؟ یقیناًحضورِ انورؐ معراج میں اکیلے تھے، مگر آپ کی ذاتِ عالی صفات میں عالمِ ذرّ موجود تھا، جس میں آپ کو چاہنے والے سب بشکلِ ذرّات پنہان تھے، یعنی وہ لوگ بحدِّ قوّت رسول میں فنا ہوئے تھے، اور بعد میں بحدِّ فعل فنا فی الرسول ہو کر ہمیشہ کے لئے سلامتی سے ہمکنار ہو گئے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۴ رجب المرجب ۱۴۰۸ھ / ۴ مارچ ۱۹۸۸ء

۱۰۵

جسمِ مثالی

۱۔ جسمِ مثالی کے بارے میں یہ بندۂ ناچیز کم و بیش لکھتا رہا ہے، تاہم یہاں اگر خدا نے چاہا تو کچھ ضروری تفصیلات مقصود ہیں، چنانچہ جسمِ مثالی کے بہت سے نام ہیں، جیسے جسمِ فلکی، جسمِ نورانی، جثّۂ ابداعی، جسمِ لطیف، قرطۂ ابداعی، بدنِ برقی، جامۂ بہشتی، پیراہنِ یوسفی، عنصرِ پنجم، وغیرہ، اور ان اسماء میں سے ہر اسم کی ایک وجہ ہے۔

۲۔ قرآنی یا علمی علاج کے سلسلے میں یہ امر بے حد ضروری ہے، کہ بلند ترین موضوعات سے بحث کی جائے، تاکہ اسلام کی اعلیٰ سے اعلیٰ بے مثال، اور لازوال نعمتوں کے پیشِ نظر اہلِ ایمان میں جذبۂ علم و عمل شدید تر ہو، اور ساتھ ہی ساتھ اس حقیقت کا بھی اندازہ ہو جائے کہ روحانی صحت کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ہے، کیونکہ ہم اپنے گمان سے جس چیز کو عقل و روح کی کامل سلامتی سمجھتے ہیں، وہ ایسی نہیں ہے، باطنی صحت و سلامتی کے کچھ خاص معنی ہوا کرتے ہیں، اور اس کے معجزات و کرامات کا کوئی شمار نہیں۔

۱۰۶

۳۔ جسمِ مثالی: انسان کے کرتۂ ثانی یا قُرطَۂ دوم کو جسمِ مثالی اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کا مثالی جسم اس شخص جیسا ہوا کرتا ہے، تاہم اللہ تعالیٰ نے اسے لاتعداد صلاحیتوں سے نوازا ہے، اس لئے وہ کسی بھی روپ میں ظاہر ہو سکتا ہے، چنانچہ ملکۂ سبا کو اپنا جسمِ لطیف انجان کر کے دکھایا گیا تھا، تا کہ اس کی شناخت کا امتحان ہو، جسمِ مثالی کا ایک قرآنی نام تخت (عرش، ۲۷: ۴۱ تا ۴۲) بھی ہے، چنانچہ بلقیس کا یہی تخت (جسمِ مثالی) حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے حضور لایا گیا تھا (۲۷: ۴۰) غرض قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں جسمِ مثالی کا حکیمانہ ذکر موجود ہے۔

۴۔ جسمِ فلکی: آسمانی جسم، جو خاکی، آبی، بادی، اور آتشی عناصر کے برعکس ہے، پانچواں عنصر، ہیولیٰ، ایتھر (Ethrial Body) ، پیکرِ نورانی (Astral Body)، کوکبی بدن، نسمہ، جنّ، بدنِ برقی، اور جسمِ نورانی، جس ساری کائنات میں پرواز کرنے کی قوّت رکھتا ہے، جو دیدنی بھی ہے اور نادیدنی بھی، جس کو صحیح معنوں میں عالمِ ذرّ اور عالمِ شخصی کہا جاتا ہے، جو جامۂ جنّت یعنی بہشت کا لباسِ لطیف ہے، یہی پیراہنِ یوسفی بھی ہے (۱۲: ۹۳) اور اسی میں تمام روحیں بطورِ لشکر جمع ہیں (الارواح جنود مجندۃ = تمام روحوں کے ایسے لشکر تھے جو یکجا تھے۔ صحیح بخاری، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء)۔

۵۔ پیکرِ نورانی: آیا ہر انسان کا جسمِ مثالی موجود ہوتا ہے، یا

 

۱۰۷

 

بعض کا؟ جی ہاں، جسمِ مثالی تو ہر شخص کا ہوتا ہے، مگر بحدِّ قوّت، اور اولیاء اللہ کا یہ جسم بحدِّ فعل ہوتا ہے، یعنی وہ خدا کے اذن سے عظیم کارنامے انجام دیتا رہتا ہے، یہ برقی بدن جو قرآنِ حکیم کی زبان میں نور (۰۶: ۱۲۲) کہا گیا ہے، دنیا بھر کے لوگوں تک رسائی کر سکتا ہے، جس طرح جنّ اور شیطان برقی بدن کی وجہ سے نہ صرف اپنے دوستوں کے پاس پہنچ ہی سکتا ہے، بلکہ وہ ان کے وجود میں داخل بھی ہو جاتا ہے، یہ تو شر کی مثال ہوئی، اور اس کے مقابلے میں خیر کی مثال یہ ہے کہ خدا کے اولیاء بھی پیکرِ نورانی میں اپنے دوستوں کے پاس جا سکتے ہیں، اور یہ بات صرف ایک راز ہی نہیں، بلکہ بحقیقت انتہائی عظیم خزانہ ہے۔

۶۔ جثّۂ ابداعی: یہ قُرطۂ (کرتۂ) ابداعی ہے، یعنی وہی جسمِ مثالی، جس کا تعلق ابداع سے ہے، ابداع کا مطلب ہے امرِ کُنۡ (ہو جا) سے کسی شیٔ کا ظاہر ہو جانا، یا غائب ہو جانا، اور یہ معجزہ اکثر عقل، روح، اور جسمِ لطیف سے متعلق ہے، چنانچہ جثّۂ ابداعی کے بہت سے اسباب اور ظہورات ہیں، اور بہت سی تعبیرات، کیونکہ مقامِ ابداع وحدت و سالمیّت کا وہ عالم ہے، جس میں تمام بڑی بڑی نعمتیں یکجا ہو جاتی ہیں، پس کرتۂ ابداعی ایک سلطان بھی ہے، اور اس میں ایک سلطنت بھی۔

۷۔ جامۂ جنت: سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں دو قسم کے کرتوں

 

۱۰۸

 

کا ذکر ملتا ہے، جو اہلِ ایمان کو گرمی اور جنگ سے بچانے کے لئے ہیں، یہ اجسامِ فلکی ہیں، اور اڑن طشتریوں کی طرح گرمی، سردی، خشکی، تری اور جنگ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، یہ وہ زندہ قلعے اور اس کے لاتعداد لشکرِ ارواح ہیں، جو حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لئے تیار ہوتے تھے (۳۴: ۱۳) یہی اللہ تعالیٰ کے آسمانی اور زمینی جنود ہیں (۴۸: ۰۴) بہشت کے وہ ریشمی لباس بھی جو عقل و جان کے اوصاف و کمالات سے آراستہ ہیں، یہی ہیں یعنی اجسامِ لطیف۔

۸۔ پیراہنِ یوسفی: حضرتِ یوسف علیہ السّلام کی قمیص سے جسمِ مثالی مراد ہے (۱۲: ۹۳) جس کے ساتھ خوشبوؤں کی ایک جیتی جاگتی دنیا وابستہ ہے، اور یہی خوشبوئیں غذا ہائے جسمِ لطیف کا کام کرتی ہیں، یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ آدمی جب شکمِ مادر میں ہوتا ہے، تو اس حال میں وہ اپنی خوراک ناف کے ذریعے جذب کر لیتا ہے، جب پیدا ہو جاتا ہے تو ناف کی راہ بند ہو جاتی ہے، اور غذا کے لئے منہ یعنی حلق کا راستہ کھل جاتا ہے، جس وقت وہ جسمِ لطیف کا تجربہ کرتا ہے، تو وہ ناک کی راہ سے خوشبوؤں کی صورت میں لطیف غذا حاصل کرتا ہے، اور جب بھی چاہے کان کی راہ سے روحانی اور عقلی نعمتوں سے حظ اٹھاتا ہے۔

۹۔ جنّ یا پری: جنّ کا لفظ عربی ہے، جو غیر مرئی مخلوق کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس کا اصل اور قدیم فارسی ترجمہ “پری” ہے، حالانکہ اکثر لوگوں نے جنّ کو مرد اور پری کو عورت مانا، یا یہ کہ دونوں

 

۱۰۹

 

کو الگ الگ مخلوق خیال کیا، مگر سچ بات تو یہ ہے کہ وہ ایک ہی ذات کی مخلوق ہے، چنانچہ درست یہی ہے کہ جنّ مرد اور جنّ عورت (جنیۃ) کہا جائے، یا پری مرد اور پری عورت، کیونکہ قرآنِ حکیم میں یہ تصور ایسا ہے (۷۲: ۰۶) اور یہ نکتہ یاد رہے کہ جنّ یا پری کے باب میں حقیقی معلومات ازبس ضروری اور بے حد مفید ہیں، آپ سورۂ جنّ (۷۲: ۰۱ تا ۱۵) اور دیگر متعلقہ آیاتِ مقدسہ کا دقتِ نظر سے مطالعہ کریں، اور عبادت، ریاضت، مشاہدہ، اور تجربۂ مجموعی معرفت کی شرطِ اوّلین ہے۔

۱۰۔ سلطنتِ سلیمانی: اللہ تعالیٰ نے آلِ ابراہیم کو عطیۂ کتاب و حکمت اور روح و روحانیّت کی عظیم سلطنت سے سربلند فرمایا ہے (۰۴: ۵۴) چنانچہ سلطنتِ سلیمانی اسی سلسلے کی ایک نمایان مثال ہے، پس حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی اصل پادشاہی روحانیّت میں تھی، آپ کے ریحِ عاصفہ (تیز ہوا، ۲۱: ۸۱) مسخر کی گئی تھی، جس سے جسمِ مثالی مراد ہے، اور تختِ روحانی بھی وہی ہے، آپ علیہ السّلام ذکر، بندگی، اور اسمِ اعظم کے ذریعہ کچھ وقت کے لئے اپنے حواسِ ظاہر پر سکوت و خاموشی طاری کر کے جسمِ لطیف سے رابطہ قائم کر لیتے تھے، جس میں روح اس بدن سے کلّی طور پر نہیں نکلتی، بلکہ اس کا صرف ایک سرا جسمِ مثالی سے منسلک ہو کر نکل جاتا ہے، باقی روح دماغ میں مرکوز ہو جاتی ہے۔

۱۱۔ عالمِ شخصی: قاضی زین العابدین نے قاموس القرآن،

 

۱۱۰

 

صفحہ ۳۴۴ پر بحوالۂ حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام یہ لکھا ہے کہ: “عالمین سے ۔۔۔ صرف انسان ہی مراد ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک فرد اپنی جگہ ایک مستقل عالم ہے۔” نیز دیکھئے مفردات القرآن، ص ۷۲۰۔ پس یقیناً ہر آدمی عالمِ صغیر یعنی عالمِ شخصی ہے، جس میں لطیف ذرّاتی، روحانی اور عقلانی صورت میں ظاہری عالم کی اشیاء کے تمام نمونے موجود ہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ ازل میں جو کچھ ہوا تھا، نیز شروع سے لے کر آخر تک اس جہان کے تمام واقعات اور قیامت سے لے کر ابد تک سارے حالات عالمِ شخصی میں محدود، ملفوف، مخزون اور مخفی ہیں، اور انہی اسرارِ عظیم کے مشاہدۂ باطن سے کوئی خوش بخت مسلمان تاجِ معرفت سے سرفراز ہو سکتا ہے، مگر خوب یاد رہے کہ جسمِ لطیف ہی عالمِ شخصی ہے، کیونکہ جسمِ خاکی مستقل نہیں، فنا پذیر ہے، لہٰذا جسمِ مثالی کی شناخت بے حد ضروری ہے۔

۱۲۔ دار الابداع: جثۂ ابداعی یعنی عالمِ شخصی اپنی حدود کے اندر “ہو جا” کے جملہ معجزات کا گھر اور ظہورگاہ ہے، یعنی اس میں ہر لحظہ عجائب و غرائب کی ایک جدید دنیا جلوہ آرا نظر آتی ہے، کیونکہ کلمۂ کُنۡ (ہو جا) کا سلسلۂ غیر متناہی ہمیشہ جاری و ساری ہے، جس کے سوا اشیائے امری کا وجود و مشاہدہ نا ممکن ہے، اسی لئے فرمایا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلماتِ امر کبھی ختم نہیں ہوتے، اور نہ ان کے فیوض و برکات کی کوئی انتہا ہے (۱۸: ۱۰۹، ۳۱: ۲۷)۔

۱۱۱

۱۳۔ جسمِ لطیف کے اوصاف: خالقِ اکبر نے اپنی قدرتِ کاملہ سے جسمِ لطیف کو ہرگونہ باکمال و باجمال اور لازوال بنایا ہے، وہ پیکرِ نور اور بہشتی لباس ہے، اس لئے وہ سورج کی شعاعوں کی طرح پاک و پاکیزہ اور لطیف ہے، وہ ہم خاک نشین انسانوں کی طرح کھاتا پیتا نہیں، بلکہ اس کو بطورِ غذا طرح طرح کے روحانی جواہر (=روحانی پھل) مہیا ہوتے رہتے ہیں، جو خوشبوؤں اور ذراتِ لطیف کی شکل میں ہیں، آپ کا جسمِ لطیف آپ ہی کی زبان میں گفتگو کرتا ہے، وہ سانس کے ذریعے نہیں بولا کرتا، بلکہ جوہری طور پر کلام کرتا ہے، وہ ہرگز نہیں سوتا، وہ ظاہر بھی ہو جاتا ہے، اور غائب بھی، اس کا ہالۂ نور اپنے کنٹرول میں ہے، اگرچہ وہ لطیف ہے، اور اس کے لئے کوئی بھی دیوار رکاوٹ نہیں بن سکتی، تاہم یہ بات بڑی عجیب ہے کہ وہ دروازے ہی سے آتا ہے، اور تمام بند دروازے شاید اس کی برقی قوت کے معجزے سے آناً فاناً کھل کر بند بھی ہو جاتے ہیں۔

۱۴۔ اڑن طشتری: وہ مخلوق کیا ہے، جس کا نام زمین پر بسنے والوں نے اڑن طشتری رکھا ہے؟ کیا وہ انتہائی ترقی یافتہ انسان ہے؟ آیا یہ فرشتہ ہے؟ یا جنّ؟ یا جسمِ مثالی؟ آیا یہ تختِ سلیمانی ہو سکتا ہے؟ کرتۂ ابداعی؟ بہشتی تخت؟ جامۂ جنّت؟ پریوں کا اڑن کھٹولا؟ عالمِ شخصی؟ آخر یہ کیا چیز ہے؟ وہ جثّۂ ابداعی ہے،

 

۱۱۲

 

اس لئے سب کچھ ہے، کیونکہ وہ مظاہرِ مخلوقات کا سرچشمہ اور بہشت کا خزانہ ہے، اور خدائے بزرگ و برتر کی ان نشانیوں (معجزات، ۴۱: ۵۳) میں سے ہے، جن کے ظہور کی پیش گوئی نزولِ قرآن کے زمانے میں کی گئی تھی، الغرض اڑن طشتریوں کی تسخیر سے سائنسی اور روحانی ترقی کا سب سے عظیم انقلاب رونما ہونے والا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

بندۂ عاجز و ناتوان
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۱۹ رجب المرجب ۱۴۰۸ھ / ۹ مارچ ۱۹۸۸ء

 

۱۱۳

 

علاجِ وسوسہ

۱۔ وسوسہ کیا ہے؟: الوسوسۃ: زیور کی جھنکار، یا ہلکی سی آہٹ، آہستہ بولنا، عقل کی خرابی سے بے تکی باتیں کرنا، برا خیال جو دل میں آئے، دل میں آنے والی برائی یا بے نفع بات، اور اصطلاحِ شرع میں وسوسہ عبارت ہے شیطان کے انسان کو ورغلانے، بہکانے، نیکی سے ہٹانے اور بدی پر ابھارنے سے، اس سے یہ بات یقینی طور پر معلوم ہوئی کہ وسوسۂ شیطانی تمام بیماریوں کی جڑ ہے، جس کا علاج کرنا جملہ امراضِ ظاہری و باطنی کا سدِ باب کرنا ہے۔

۲۔ وسوسے کی اصل وجہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کے سینوں میں خناس وسوسہ ڈالتا ہے، جو جنّوں میں سے بھی ہے، اور آدمیوں میں سے بھی (۱۱۴: ۰۴ تا ۰۶) لیکن یہ بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا ایک پس منظر اور اصل وجہ بھی ہے، اور وہ نفسِ امّارہ ہے، جو دراصل وسوسہ پیدا کرتا ہے، اور وہی برائی کے لئے ہر وقت حکم کرتا رہتا ہے (۵۰: ۱۶، ۱۲: ۵۳) کیونکہ اسی نفس میں ایک

 

۱۱۴

 

ایسی قوّت مخفی ہے، جو ہر شخص کے ذاتی شیطان کی حیثیت سے کام کرتی ہے، جس کا اشارہ سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں اور وضاحت حدیثِ شریف میں موجود ہے (مشکوٰۃ، اوّل، کتاب الایمان) جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر آدمی کا ایک ذاتی شیطان ہوا کرتا ہے، جس کی اصلاح ممکن اور ضروری ہے۔

۳۔ تزکیۂ نفس: قرآنِ حکیم نے نہ صرف نفسِ امّارہ اور شیطان کے وسوسہ، اور مکر و فریب ہی سے خبردار کیا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ طریقِ علاج بھی بتا دیا کہ اس بیماری سے کسی مومن کو کس طرح شفا حاصل ہو سکتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: قد افلح من زکھا و قد خاب من دسھا (۹۱: ۰۹ تا ۱۰) یقیناًوہ مراد کو پہنچا جس نے اس (نفس) کو پاک کر لیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو (فجور میں) دبا دیا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ دین کے اتنے سارے نیک اعمال صرف تزکیۂ نفس اور تطہیرِ باطن ہی کے لئے مقرر ہیں، کیونکہ نفس کی صفائی و پاکیزگی کے سوا کوئی کامیابی نہیں، اور قرآنِ کریم میں یہ حقیقت روشن ہے کہ اہلِ ایمان کی روحانی اور عقلانی تزکیہ علم و حکمت سے ہو سکتا ہے (۰۲: ۱۵۱، ۰۲: ۱۲۹، ۰۳: ۱۶۴) اور اس اعلیٰ مقام کو پانے کے لئے صحیح معنوں میں خدا و رسول کی اطاعت لازمی شرط ہے، جس کے بغیر حقیقی علم و حکمت کا کہیں کوئی تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔

۴۔ درجاتِ نفس: نفسِ انسانی کی اخلاقی اور روحانی اصلاح

 

۱۱۵

 

و تہذیب اور عروج و ارتقاء کی بہت سی منزلیں ہیں، اور قرآنِ حکیم میں قانونِ جامعیّت کے مطابق ان تمام منازل پر محیط تین بڑے بڑے درجوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، چنانچہ آدمی کا نفس چند ابتدائی منزلوں میں امّارہ کہلاتا ہے (۱۲: ۵۳) جس کے مرادی معنی ہیں اپنی خواہشات کی تکمیل کی خاطر بہت حکم کرنے والا، پس اگر خوش بختی سے اس کی اصلاح و پاکیزگی میں معتدبہ پیشرفت ہو جائے، تو یہ (نفسِ امارہ) نفسِ لوامہ (۷۵: ۰۲) بن جاتا ہے، جو درمیانی مراحل پر مبنی ہے، اس کا مطلب ہے اپنے آپ کو بہت ملامت کرنے والا، یعنی اب نفس اس قابل ہو چکا ہے کہ خدائے لطیف و خبیر کی راہ کی باریکیوں، نفاستوں، اور نزاکتوں کے پیشِ نظر وہ دل ہی دل میں بار بار خود کو ڈانٹتا ڈپٹتا رہتا ہے، اور نفس کی یہ کامل بیداری، بھرپور احساس، شدید تڑپ، سخت ریاضت، اور قرب کے لئے سعئ پیہم اللہ تعالیٰ کی نظرِ کرم میں بہت پسندیدہ ہے، اسی لئے ذاتِ سبحان نے سورۂ قیامت میں نفسِ لوّامہ کی قسم کھائی ہے (۷۵: ۰۲)۔

۵۔ نفسِ مطمئنہ: اگر عنایتِ خداوندی سے دستگیری اور رہنمائی کا مذکورہ سلسلہ جاری رہا، تو اس کے بعد تیسرا درجہ آتا ہے، جو روحانی ترقی کی آخری منازل پر مشتمل ہے، جس میں مومنِ سالک کی جان (روح) کا نام نفسِ مطمئنہ ہو جاتا ہے (۸۹: ۲۷) یعنی ایسا نفس یا ایسی روح، جس کو خدائی معیار کے مطابق اطمینان حاصل ہو چکا ہے،

 

۱۱۶

 

(۰۳: ۱۲۶، ۰۵: ۱۱۳،۰۸: ۱۰، ۱۳: ۲۸، ۰۲: ۲۶۰، ۱۷: ۹۵)، جیسا کہ پروردگارِ عزّت کا مبارک ارشاد ہے (ترجمہ): اے اطمینان والی روح تو اپنے پروردگار کی طرف رجوع ہو جا درحالے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش ہے، پھر تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنّت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) یہ سب سے آخری اور عظیم ترین سعادت خدا کے دوستوں کو نہ صرف مر جانے کے بعد آخرت ہی میں نصیب ہو جاتی ہے، بلکہ دنیا میں بھی اس کا ایک مکمل تجربہ حاصل ہو سکتا ہے، اس سلسلے کا ایک نہایت مفید نقشہ “قرآنی علاج” ص ۱۴۹ پر موجود ہے، ملاحظہ ہو۔

۶۔ ذکرِ کثیر اور گریہ و زاری: عبادت خدائے بزرگ و برتر کی پُرحکمت غلامی کا نام ہے، اس بے مثال و لاثانی غلامی کے سلسلے میں جو شخص اپنی انا کو اپنے مالکِ حقیقی کے لئے قربان نہیں کرتا، مٹ مٹ کر ذکرِ الٰہی کی لذّتوں کو پانے کے لئے ساعی نہیں ہوتا، راہِ عشق و وفا میں ذلت و خواری کی خاک نہیں بن جاتا، بےجا عزّتِ نفس کے بت کو بغل میں چھپائے رکھتا ہے، اور عاشقانہ گریہ و زاری کی انتہائی عظیم حکمت کو نہیں سمجھتا ہے، تو اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، مگر ہر درویش صفت مومن یقیناً یہی دعا کرے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سب کو اپنی عبادت میں عجز و انکسار، اور خضوع و خشوع کی اعلیٰ توفیق و ہمت عنایت فرمائے! اور وسوسہ ہائے شیطانی سے بچا کر اپنی پناہ میں رکھے!

۱۱۷

۷۔ ذکرِ کثیر اور گریہ و زاری سے نہ صرف وسوسوں ہی کا بہترین علاج ہو جاتا ہے، بلکہ (ان شاء اللہ) روحانی ترقی بھی یقینی ہو جاتی ہے، کیونکہ جان و جگر اور آنکھوں میں آنسوؤں کے گوہرہائے گرانمایہ صرف ایک ہی مقصد کے پیشِ نظر پیدا کئے گئے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ انہیں بھرپور عشق و محبت سے بار بار راہِ خدا میں نچھاور کر دیا جائے، آپ قرآنِ حکیم میں گریہ و زاری کے موضوع سے متعلق آیاتِ کریمہ کے ترجمہ، تفسیر، اور حکیمانہ اشاروں میں غور و فکر کر سکتے ہیں، خصوصاً سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹) اور سورۂ مریم (۱۹: ۵۸) میں، جہاں انبیائے کرام اور اولیائے عظام کے اس عظیم الشّان مثالی اور قابلِ تقلید عمل کی تعریف و توصیف کی گئی ہے کہ وہ حضرات کس عاجزی اور محویّت و فنائیّت سے ٹھوڑیوں سے آبشارِ اشک گراتے ہوئے ربِّ عزّت کی بارگاہِ عالی میں سر بسجود ہو جاتے ہیں۔

۸۔ خوفِ خدا: جب کسی مصلی، عابد، اور ذاکر کے قلب میں خدا کا ڈر نہ ہو، تو اس حال میں وہ لازماً اندرونی طور پر وساوس سے دوچار ہو سکتا ہے، اور یہ شرکِ خفی ہے، کیونکہ ایسے میں وہ عبادت نہیں ہو سکتی ، جو خالص ہونے کی وجہ سے انتہائی مسرت انگیز اور روح پرور ہوا کرتی ہے، پس ہر مسلمان کے دل میں خوفِ الٰہی کا ہونا ازحد ضروری ہے، تاکہ اس کی برکت سے مخلصانہ اور موحدانہ عبادت ہو (۰۷: ۲۹، ۹۸: ۰۵) جب آدمی کا دل دنیاوی خوف و

 

۱۱۸

 

خطر کے دوران ہر وسوسہ اور ہر خیالِ باطل کو وقتی طور پر ترک کر کے خدا تعالیٰ کی طرف کاملاً متوجہ ہو جاتا ہے (۱۰: ۲۲، ۲۹: ۶۵، ۳۱: ۳۲)، تو پھر خوفِ خدا کی عظمت، بزرگی، معجزاتی تاثیر، اور نتیجۂ ذکر و عبادت کی کیا شان ہوگی! خوب یاد رہے کہ خوفِ خدا کی معجون کا جزوِ اعظم علم ہے (۳۵: ۲۸)۔

۹۔ اللہ، رسول، اور مرشد کی محبت: جس پاکیزہ دل میں خداوندِ عالم کی بابرکت محبت کا چراغ روشن و ضیاء فگن ہو، تو اس میں وسوسۂ شیطانی کی اندھیاری کیسے ٹھہر سکتی ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ ذاتِ سبحان کی محبت بے وسیلہ و بلا واسطہ ممکن ہی نہیں، لہٰذا اس کا واحد وسیلہ ہیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اور اسی طرح آنحضرتؐ کی محبت آپ کے باکرامت نمائندوں کے توسط سے حاصل ہو سکتی ہے، ویسے تو اسلامی محبّت و اخوت کا دائرہ بہت وسیع ہے، تاہم شیخ کہیں، یا مرشد، یا امام، ان کی محبت کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ فنا فی الشیخ کے بعد ہی فنا فی الرسول کا راستہ مل جاتا ہے، اور یہ مدارج صرف عشق و محبت اور اطاعت ہی سے طے ہو سکتے ہیں۔

۱۰۔ شدید ترین محبت یا عشق: قادرِ مطلق نے انسان کو بے حد و بے حساب صلاحیتوں اور قوّتوں کے خزائن سے مالامال فرمایا ہے، ان تمام قوّتوں میں ایک قوت سردار ہے، جو سب

 

۱۱۹

 

سے شدید ترین اور قوّی ترین ہے، اس کا نام محبّت اور عشق ہے، اور یہ وہ خاص وسیلہ ہے، جس سے جب کوئی بندۂ مومن خدا کا ہو جاتا ہے، تو خدا بھی بطورِ خاص اسی کا ہو جاتا ہے (من کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ، حدیث) نیز یہ وہ ذریعہ ہے، جس سے اہلِ ایمان اشد حبّا للّٰہ (خدا کے ساتھ نہایت قوّی محبت [عشق] ہے، ۰۲: ۱۶۵) کے مرتبۂ عاشقانِ الٰہی پر فائز ہو سکتے ہیں، ہمیں یہاں ذرا ٹھہر کر بڑی سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ جن بندگانِ حق پرست کے دل میں حضرتِ باری تعالیٰ کا مقدّس عشق جاگزین ہو، ان کی کتنی بڑی سعادت و خوش بختی ہوگی! یہ آسمانی اور لاہوتی عشق، جو قولاً آسان لگ رہا ہے، لیکن فعلاً کتنا دشوار ہوگا! جی ہاں، وہ انتہائی مشکل کام ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں اور اس کے ہونے سے جملہ دشواریاں اور بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں۔

۱۱۔ خدا، یا اس کی رسی کو کس طرح محکم پکڑیں؟: سورۂ آلِ عمران کی آیت ۱۰۱ میں اللہ کو محکم پکڑنے (۰۳: ۱۰۱)  اور آیت ۱۰۳ میں اس کی رسی کو محکم پکڑنے کا حکم ہوا ہے (۰۳: ۱۰۳)، لیکن عقل کو بڑی حیرت ہے کہ کمزور انسان کے پاس ایسی کونسی بڑی طاقت ہے، جس سے وہ کسی بھی معنیٰ میں اللہ تبارک و تعالیٰ تک رسا ہوکر اس کو مضبوط و محکم پکڑ سکتا ہو؟ مگر ہاں، عشقِ لاہوتی ہے، جو خدا کی جانب سے نازل شدہ اور بندوں کو عطا کردہ بہت بڑی طاقت ہے، اور حبل اللہ

 

۱۲۰

 

کی طرح اس کا ایک سرّا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور دوسرا سرّا بندوں کے ہاتھ میں، چونکہ قرآن، اسلام، اور دین کی ہر ہر چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی ہے، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ عشقِ الٰہی کی نورانی رسی بھی حضورِ پاکؐ ہی کے وسیلے سے خوش نصیب مسلمین کے ہاتھ آ سکتی ہے، تا کہ ربّانی عشق سے تمام امراضِ باطن کا علاج ہو۔ والسلام۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۲۴ رجب المرجب ۱۴۰۸ھ / ۱۴ مارچ ۱۹۸۸ء

۱۲۱

کابوس کا علاج

۱۔ کابوس کے لغوی معنی ہیں دبانے والا، بھینچنے والا، اصطلاحِ طب میں ایک مرض ہے، جس سے سوتے ہوئے آدمی کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی زوردار اور گران چیز اس کے سینے پر سوار ہے، یا وہ کسی بوجھ کے نیچے دبا ہوا ہے، اور اس حالت میں اس کا دم گھٹ کر رک جاتا ہے، اور وہ نہ بول سکتا ہے، اور نہ حرکت کر سکتا ہے، اسی حالت میں گھبرا کر چونک پڑتا ہے، اور بیدار ہو جاتا ہے ، انگریزی میں اس کا نام  Incubus ہے، Night mare اور Aphialtes بھی کہتے ہیں (طبی و ڈاکٹری لغات)۔

۲۔ روحانی تجربہ صاف طور پر بتاتا ہے کہ کابوس دراصل کوئی خطرناک باطنی بیماری نہیں، بشرطے کہ اس کا اشارہ و مقصد سمجھ لیا جائے، اور اس پر ٹھیک ٹھیک عمل بھی ہو، اشارت و مدعا یہ ہے کہ وہ آدمی جسے کابوس کی شکایت ہو اپنے فرائضِ دینی سے غافل نہ بیٹھے، خدا تعالیٰ کو شب و روز کثرت سے یاد کرتا رہے، قرآنِ کریم کو انتہائی شوق سے پڑھے،

 

۱۲۲

 

یا سنے، حقیقی اور مفید علم سے خصوصی دلچسپی رکھے، خدمتِ خلق اور ہر قسم کے نیک اعمال انجام دینے کی عادت بنا لے، ہمیشہ تقویٰ کو ملحوظِ خاطر رکھے، سو جانے سے قبل سو (۱۰۰) مرتبہ درودِ شریف اور ایک دفعہ معوذتان (سورۂ فلق اور سورۂ ناس) کو پڑھ کر اپنے سینے پر دم کرے، ان شاء اللہ تعالیٰ، کابوس کا موکل یعنی محافظِ روحانی مسخر یا دوست ہو جائے گا۔

۳۔ چونکہ کابوس صرف ایک خوف ہے، جو بحالتِ خواب آدمی پر طاری ہو جاتا ہے، لہٰذا ہمیں یہاں قرآنی علم و حکمت کے انمول خزانوں کی طرف رجوع کرنا چاہئے، تاکہ معلوم ہو کہ یہ خوف کس نوعیت کا ہے؟ آیا یہ خدائی اور قدرتی ہے؟ یا انسان کا خود ساختہ؟ اس میں پروردگارِ عالم کی کیا مشیّت ہے؟ اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ چنانچہ ذیل میں سورۂ بقرہ کی تین ایسی پُرحکمت آیاتِ کریمہ کا ترجمہ درج کیا جاتا ہے، جن میں خدائے علیم و حکیم نے پانچ قسم کی ربّانی آزمائشوں کا ذکر فرمایا ہے، اور ان میں سب سے پہلے خوف ہے، ملاحظہ ہو:

۴۔ اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا دے ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے یہ لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی درودیں ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷) آپ دیکھ رہے ہیں کہ احکم الحاکمین مسلمانوں سے پانچ طرح کے امتحانات

 

۱۲۳

 

لیتا ہے، جو انفرادی حالت میں ہر مومن کے سامنے آسکتے ہیں، ان میں سب سے پہلے خوف کے امتحان کا ذکر فرمایا گیا ہے، خوف کے چار مقام ہیں: بیداری یعنی ظاہر، خیال، خواب اور روحانیّت ، اور ہر مقام پر کئی قسم کا خوف موجود ہے، پس اللہ تعالیٰ جس نوعیت کے ڈر سے اپنے کسی بندے کو آزمانا چاہے تو آزما سکتا ہے، اور ہر بندۂ مومن کی سعادت اسی امر میں ہے کہ مذکورہ مصائب میں سے کسی مصیبت کے آنے پر صابر و شاکر رہے، اور علم و حکمت کی روشنی میں یہ کہے کہ: “ہم خدا کے ہیں اس لئے نہ صرف مر جانے کے بعد ہی ہمیں خدا کی طرف لوٹ جانا ہے، بلکہ اس زندگی کی ہر آزمائش پر بھی ہم اس کی طرف جان و دل سے متوجہ ہو سکتے ہیں۔” تاکہ ایسے مومنین کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بشارت دیں، جیسا کہ اس قرآنی تعلیم میں یہ حکمِ خداوندی موجود ہے، یعنی و بشر (اور خوشخبری سنا دے)۔

۵۔ قرآنِ کریم کی ہر بات اپنی جگہ پر ایک درخشندہ حقیقت ہے، لہٰذا ہمیں قرآنِ پاک ہی کی روشنی میں یہ جاننا ازبس مفید ہوگا کہ آیا خدا و رسول کی طرف سے دی جانے والی بشارت مومنین کی اجتماعی حالت سے متعلق ہے؟ یا حسبِ آزمائش جدا جدا ممکن؟ اس سوال کے جواب کے لئے یہ عرض کروں گا کہ اصل بشارت روحانی صورت میں یا خواب میں ملتی ہے، اور انفرادی طور پر (قرآنی علاج میں خواب کے اشارات کو پڑھئے) کیونکہ عظیم بشارتیں جہادِ اکبر کے نتیجے پر وقوع پذیر ہو جاتی

 

۱۲۴

 

ہیں، اور وہ مومن کا اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد ہے، چنانچہ زمانۂ نبوّت کے ظاہری جہاد میں تو اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم کو نزولِ ملائکہ سے اجتماعی خوشخبری دی گئی تھی (۰۳: ۱۲۴ تا ۰۸،۱۲۶: ۰۹ تا ۱۰) اس سے ظاہر ہے کہ خوشخبری انتہائی بڑی چیز ہوا کرتی ہے۔

۶۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: المجاہد من جاہد نفسہ = مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے (جامعِ ترمذی، جلدِ اوّل، ابواب فضائل الجہاد) چنانچہ جو مومنِ سعید اس روحانی جہاد میں اپنے نفس کو ایک خاص معنیٰ میں قتل کرے، تو اس پر جیتے جی موت کا عظیم معجزہ واقع ہوگا، اور وہ بحقیقت زندہ شہید کی مرتبت سے سرفراز ہو جائے گا (۵۷: ۱۹) اگر یہ بات حقیقت ہے، تو آئیے اب ہم اسی تصوّر کی روشنی میں قرآنی بشارتوں کو دیکھتے ہیں کہ کسی شک کے بغیر بہت سی خوشخبریاں عملی روحانیّت کی حیثیت میں دی جاتی ہیں، کیونکہ خوشخبری کا مقصد مومن کو ایمانی اور روحانی طور پر ایک بار مطمئن کر دینا ہے، اور قرآنی حکمت کا یہی اشارہ ہے کہ اطمینان اور بشارت کا اصل مقام بڑی بلندی پر واقع ہے، اور وہ روحانیّت ہی ہے۔

۷۔ خوشخبری یا بشارت کس درجے کی بلندی پر مل سکتی ہے، اور اس کی عظمت و جلالت کی کیا شان ہوا کرتی ہے، اس کی ایک عظیم المرتبت مثال ملاحظہ ہو، حدیثِ شریف میں ہے: من رأی ربہ

 

۱۲۵

 

فی المنام دخل الجنۃ = جو شخص اپنے ربّ کو خواب میں دیکھے گا وہ جنّت میں داخل ہوگا۔ یہ ایک بہت ہی بڑی عملی خوشخبری ہے، (سنن دارمی، کتاب التعبیر) مگر یہاں یہ بات بھی خوب یاد رہے کہ یہ امرِ عظیم ناممکن ہے تا آنکہ “موتوا قبل ان تموتوا (نفسانی طور پر مر جاؤ قبل اس سے کہ جسمانی طور پر مر جاؤ گے)” پر عمل ہو جائے، کیونکہ یہ حکمِ صریح بھی حدیث ہی میں ہے: “و لا ترون ربکم حتیٰ تموتوا = تم مرنے سے قبل خدا کو نہیں دیکھ سکتے۔” (سنن ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، ابواب الفتن، ۱۸۷۸) اس ارشادِ نبوّی میں موتِ نفسانی اور موتِ جسمانی دونوں کا ذکر ہے، یعنی اگر آپ چاہیں تو اللہ کی یاری سے دنیا کی زندگی ہی میں اس کا دیدارِ پاک حاصل کر سکتے ہیں، اور اس کی بہت بڑی شرط قتلِ نفسِ امّارہ ہے، جیسا کہ ذکر ہو چکا، تاہم یہ دیدار جو خواب و روحانیّت میں ہو سکتا ہے، عملی بشارت کے معنی میں ہے، اور اگر یہ نہیں ہوسکتا ہے، تو پھر نیک اعمال کو انجام دیتے ہوئے گلدستۂ موتِ جسمانی کی خوشبو کا انتظار کریں ( الموت ریحانۃ المومن = موت مومن کا گلدستہ ہے، یعنی وہ موت بھی، اور یہ موت بھی)۔

۸۔ کابوس ایک قدرتی خوف ہے، جس میں ایک بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، کیونکہ وہ ربّانی آزمائشوں میں سے ہے، اور اس میں حکیمانہ اشارے موجود ہیں، اور اس کا صدمہ عقل، روح الایمان، اور جسم کو نہیں بلکہ صرف نفسِ امّارہ ہی کو پہنچتا ہے، وہ اپنے اس عمل سے

 

۱۲۶

 

ایک طرف کثرت سے ذکر و عبادت اور نیکی کرنے کا اشارہ کرتا ہے، اور دوسری طرف یہ سگنل (Signal) دیتا ہے کہ موجودہ نفس بار بار بغاوت کرتا ہے، لہٰذا اسے راہِ خدا میں قتل کر دو، جس طرح حضرتِ خضر علیہ السلام نے کیا تھا (۷۴:۱۸، ۱۸: ۸۰) تاکہ اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ایک پاک و پاکیزہ نفس، جس کو نفسِ مطمئنہ کہا جاتا ہے، عطا فرمائے۔

۹۔ حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کی تمام شرائع میں سے ہر شرع اس بات سے پاک و برتر ہے کہ اس کے حکم کے مطابق ظاہراً کسی ایسے شخص کو قتل کیا جائے، جو فی الوقت بے گناہ ہے مگر اس کے متعلق یہ ڈر ہے کہ آگے چل کر کسی جرم کا مرتکب ہو جائے گا، اس سے ظاہر ہوا کہ وہ لڑکا جو قتل کیا گیا (۱۸: ۷۴، ۱۸: ۸۰) عالمِ شخصی میں نفسِ امارہ تھا، جس کے والدین عقل اور روح الایمان ہیں، قرآنِ مجید (۰۲: ۶۷ تا ۷۳) میں جہاں ذبحِ بقرہ کا قصّہ موجود ہے، اس کے باطنی پہلو میں بھی نفس کشی اور “موتوا قبل ان تموتوا”  کا منشائے ربّانی کارفرما ہے۔

۱۰۔ اہلِ بصیرت کے نزدیک اس حقیقت میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ نفسانی موت کا یہ عظیم الشّان عمل، جو اسرارِ روحانیّت اور گنجینہ ہائے معرفت سے بھرپور ہے، زمانۂ آدم سے ہمیشہ کے لئے جاری و ساری ہے، یہ طریقہ سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر انبیاء و اولیاء کا ہے، اور پھر ان خوش نصیب لوگوں کا، جو ان ہدایت یافتہ قدسیوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں، اور اسی طرح درجہ وار انبیاء، صدیقین، شہداء،

 

۱۲۷

 

صالحین، اور مطیعین یا تابعین بالآخر منزلِ مقصود میں یکجا رہتے ہیں (۰۴: ۶۹)۔

۱۱۔ ہم نے شاید اب تک اس ربّانی تعلیم میں ٹھیک طرح سے غور و فکر نہیں کیا ہے، ارشاد ہے (ترجمہ: کہو): ہمیں راہِ راست پر چلا، ان لوگوں کی راہ (پر) جن پر تو نے انعام کیا ہے (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) یہ وہی صراطِ مستقیم ہے، جس پر گامزن ہوتے ہوئے حضراتِ انبیاء و اولیاء کو پروردگارِ عالم کی طرف سے علمی و عرفانی نعمتیں حاصل ہوئی تھیں، پس جو باسعادت مومنین ان ہادیانِ دین کی معیّت و رفاقت (۰۴: ۶۹) میں چلیں، تو ان کو بھی بہت کچھ روحانی نعمتیں عطا کر دی جائیں گی، کیونکہ مبشرات میں روحانیّت کی ایک مکمل دنیا موجود ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم کے حکیمانہ الفاظ عجیب و غریب معنوی اشارات سے مملو ہیں، چنانچہ قرآنِ پاک میں جہاں (۳۲: ۱۱) حضرتِ عزرائیل کا ذکر آیا ہے، وہاں اس کے بارے میں وکل بکم (وہ تم پر مقرر کیا گیا ہے) ارشاد ہوا ہے، یعنی وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے، کیونکہ عالمِ صغیر یا عالمِ شخصی اپنی نوعیت کا ایک مکمل جہان ہے، جس میں سب کچھ موجود ہے، لہٰذا یہاں قوّتِ عزرائیلیہ بھی ہے، جس کی بدولت وقت پر آدمی کی نیند آتی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ روحانیّت میں کافی آگے چل کر اسی قوّت میں عزرائیل کا ظہور ہو کر قبضِ روح کا بھرپور تجربہ ہو جاتا ہے، واللہ! منزلِ عزرائیلی میں اسرارِ معرفت کا ایک انتہائی عظیم خزانہ مخفی ہے، پس یہ مقالہ بلکہ پوری کتاب جو قرآنی

 

۱۲۸

 

حکمت کے اشارات پر مبنی ہے، ایک کامیاب طبی مشورے کی طرح ہے، جس پر عمل کرنے میں (ان شاء اللہ) بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں۔

نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۴ شعبان المعظم ۱۴۰۸ھ / ۲۳ مارچ ۱۹۸۸ء

۱۲۹

 

اولیائی نوم

۱۔ آیا یہ حقیقت ہے کہ انبیاء و اولیاء کی نیند نورِ “الحیّ القیوم” کے زیرِ اثر بدرجۂ انتہا لطیف و شیرین، ازبس عجیب، اور خواب و بیداری کے درمیان ہوا کرتی ہے؟ کیا یہ درست ہے کہ ان مقدّس ہستیوں کی آنکھیں سو جاتی ہیں، مگر ان کے قلوب بیدار رہتے ہیں؟ کیا یہ بات بھی صحیح ہے کہ وہ حضرات اسی طرح شب و روز دائم الذکر ہوتے ہیں؟ آیا عالمِ انسانیّت کے تمام اشخاص و افراد نیند کی ضرورت و کیفیت کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں؟ یا مختلف؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ نیند کے مختلف درجات ہیں، تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا ایک بچہ شکمِ مادر میں زیادہ سوتا ہے؟ یا پیدا ہو جانے کے بعد؟ اس کے بعد نیند بتدریج کیا ہوتی ہے؟ کم سے کم؟ یا زیادہ سے زیادہ؟

۲۔ قرآنِ حکیم اپنی متعدد آیاتِ کریمہ میں کائنات و موجودات کی ہر چیز میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، اور فرماتا ہے کہ اس میں

 

۱۳۰

 

اہلِ دانش کے لئے قدرت کی نشانیاں ہیں (۰۲: ۱۶۴) چنانچہ آپ نے سوچا ہو گا کہ عالمِ حیوان میں بھی نیند کے بہت سے نمونے پائے جاتے ہیں، جو ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں، جیسے خوابِ خرگوش، کہ وہ بیچارہ جانور غلبۂ خواب کی وجہ سے لوگوں میں بدنام ہے، حالانکہ شدید سرد علاقوں کے بعض چھوٹے موٹے جانور زیرِ زمین (سوراخوں) یا کھوکھلے درختوں کے جوف میں مہینوں تک سوئے یا نیم مردہ پڑے رہتے ہیں، دوسری طرف یہ تعجب خیز بات ہے کہ گھوڑا اور بیل اتنی ساری مشقت کے باوجود نیند کی ضرورت کو محسوس ہی نہیں کرتے، آپ نے درخت پر بسیرا لینے والے پرندوں کو دیکھا ہو گا، کیا ان پر خوابِ غفلت طاری ہو جاتا ہے؟ نہیں نہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوا، تو ان کے پنجوں کی گرفت سے درخت کی شاخ چھوٹ جائے گی، اور وہ رات کی اندھیری میں زمین پر آگریں گے، اور سب سے زیادہ عجیب و غریب حال چمگادڑ کا ہے کہ وہ ایسا پرند ہے، جو رات بھر شکار کے لئے اڑتا پھرتا ہے، اور دن کو کسی چھت یا کسی درخت کی شاخ میں الٹا لٹک کر رہتا ہے، آپ ہی بتائیں کہ اس حالت میں شپر (چمگادڑ) سوتی ہے؟ یا نہیں؟ مگر یقین نہیں آتا کہ سو جاتی ہے۔

۳۔ دنیائے انسانیّت اور عالمِ دین کے سب سے اعلیٰ مراتب پر انبیاء و اولیاء ہی فائز ہو جاتے ہیں، لہٰذا ان حضرات کے اسرار کی

 

۱۳۱

 

معرفت انتہائی مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں، کیونکہ دینِ اسلام میں رحمتِ الٰہی سے مایوسی و ناامیدی نہیں (۱۲: ۸۷) جبکہ اس میں وسیلۂ ہدایت کا روح پرور ربّانی معجزہ بڑا حیرت انگیز کام کر رہا ہے، چنانچہ قرآن و حدیث کی حکمت کی روشنی میں اولیائی نوم کے سرِ عظیم کا انکشاف ممکن ہے، کہ یہ کس کیفیت کی نیند ہے؟ اس میں حواس پر کیا اثر پڑتا ہے؟ آیا یہ عالمِ بیداری میں ہے؟ یا عالمِ خواب میں داخل ہے؟ یا دونوں کی حدِّ فاصل پر واقع ہے؟ ان شاء اللہ تعالیٰ ایسے بہت سے سوالات اس مقالے سے خود بخود حل ہو جائیں گے، تاکہ قارئینِ کرام کو روحانی صحت و سلامتی کے حقیقی معیار کا اندازہ ہو سکے۔

۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: تنام عینی و لا ینام قلبی = میری آنکھ سو جاتی ہے، لیکن میرا دل بیدار رہتا ہے۔ سبحان اللہ! صاحبِ تاجِ معراج کی شانِ اقدس دیکھئے! ایسے میں بلا تکلف نورِ ذکر خود از خود بولتا ہے اور یہ سلسلۂ معجزاتی ہر لحظہ جاری رہتا ہے، اس مبارک حدیث کے حکمت آگین الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہ پیغمبرانہ اور اولیائی نوم (نیند) جو انتہائی لطیف، پر سکون، جانفزا، مسرّت انگیز، حیران کُنۡ، کراماتی، اور نورانیّت سے بھرپور ہے، وہ خواب و بیداری کے درمیان واقع ہوتی ہے، جس کو کیفیتِ نیم خوابی کہا جا سکتا ہے، اسی طرح جملہ پیغمبروں کے بارے میں حدیثِ شریف

 

۱۳۲

 

میں ہے: الانبیاء تنام اعینھم و لا ینام قلوبھم = تمام انبیاء کا یہی حال ہے کہ ان کی آنکھیں سو جاتی ہیں اور ان کے قلب نہیں سوتے (صحیحِ بخاری ، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء، باب ۳۷۷۔ المعجم المفہرس، لالفاظ الحدیث النبوی، الجزء السابع، ص ۴۸) یقیناًنہ صرف صدیقین (اولیائے کرام) ہی روحانیّت میں انبیاء علیہم السّلام کے ساتھ ہیں، بلکہ یہ بہت بڑی سعادت شہداء و صالحین کو بھی حاصل ہے، اور فرمانبردار مومنین بھی اس گروہِ باشکوہ میں شامل ہو سکتے ہیں (۰۴: ۶۹) یعنی خودشناسی اور ہر گونہ معرفت ممکن ہے۔

۵۔ قرآنِ حکیم کے پُرحکمت الفاظ ذو وجوہ (کئی معنوں کے حامل) ہوا کرتے ہیں (ملاحظہ ہو: الاتقان، اوّل، نوع ۳۹) چنانچہ مجمع البحرین (۱۸: ۶۰) کے کئی معنی ہیں، اور ان میں سے ایک معنی عالمِ شخصی کے اس مقام کے ہیں، جہاں بحرِ بیداری اور بحرِ خواب کا سنگم ہے، اور اس سنگم کی ذرا سی تعریف یہ ہے کہ جو مومنِ ذاکر یہاں تک پہنچ کر قائم رہے، اس کے وسوسے سب کے سب دریا برد ہو جاتے ہیں، اور اس کا ذکر معجز نما ہونے لگتا ہے، جس کا سبب حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام ہے کہ وہ قلب میں روحِ ذاکرہ کو چھوڑ کر باقی نفس اور اس کے خیالات کو قبض کر لیتا ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا مفہوم ہے کہ:

 

۱۳۳

 

اللہ تعالیٰ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے، اور جن کی ابھی موت نہیں آئی ہے، ان کو نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے (۳۹: ۴۲) اسی طرح خدا کے دوستوں کی نیند روحانیّت میں تحلیل ہو جاتی ہے، پس قرآنِ کریم میں جہاں جہاں انتہائی شاندار الفاظ میں نوم کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہ خوابِ غفلت کی تعریف و توصیف تو نہیں ہو سکتی، بلکہ اس میں ایک ایسی نعمت کی خوبیاں بیان ہوئی ہیں، اور اس کی طرف حکیمانہ دعوت و ہدایت دی گئی ہے، جو عظیم ترین اور خاص ترین ہے، اس لئے سب سے پہلے انبیاء و اولیاء کو عطا ہوئی ہے، اور وہ نومِ روحانیّت ہی ہے، یعنی معجزاتی نیند۔

۶۔ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں بعض اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اولیائی نوم کا تجربہ حاصل ہوا تھا، جس کا تذکرہ لفظِ نعاس (۰۸: ۱۱، ۰۳: ۱۵۴، اونگھ) میں فرمایا گیا ہے، یہ کوئی معمولی اور عام قسم کی نیند نہ تھی، بلکہ ان حضرات پر کراماتی نوم اور علمِ لدنّی کے لمحات گزرتے تھے، اور اسی وجہ سے امن و سکون حاصل ہو رہا تھا، آپ متعلقہ آیاتِ کریمہ کو غور و فکر سے دیکھیں۔

۷۔ قرآنِ پاک (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں ہے کہ اولی الالباب ، یعنی اہلِ عقل کھڑے بھی بیٹھے بھی اور لیٹے بھی اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، چنانچہ یہ آسمانی وصف اولیائے کرام کے لئے خاص ہے، اور وہی حضرات اس کے مصداق ہیں، ورنہ کچھ ایسے لوگ جو محدود وسائل میں الجھے

 

۱۳۴

 

ہوئے ہیں، وہ خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک کیسے اولی الالباب کہلا سکتے ہیں، اور کس طرح لیٹ کر نیم خوابی کی کیفیت میں وہ کامیاب ذکر کر سکتے ہیں، جس میں آنکھ سو جاتی ہے، مگر دل / دماغ بیدار رہتا ہے، لیکن ہاں کوئی شخص فنا فی المرشد، اور فنا فی الرّسول ہو جائے، تو بیشک و شبہہ وہ معرفت کے ان بھیدوں سے واقف و آگاہ ہو سکتا ہے۔

۸۔ سورۂ رحمٰن کا نام عروس القرآن اس وجہ سے ہے کہ اس میں تمام روحانی نعمتوں کا اجمالاً ذکر ہے، اور جملۂ حسن و جمالِ علمی و عرفانی کا خلاصہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): اسی نے دو دریاؤں (یعنی بیداری اور نیند) کو ملایا کہ باہم ملے ہوئے ہیں (اور) ان دونوں کے درمیان ایک برزخ (حجاب) ہے کہ دونوں بڑھ نہیں سکتے، سو اے جنّ و انس تم اپنے ربّ کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاتے ہو (اسی مقام پر) ان دونوں سے موتی اور مونگے برآمد ہوتے ہیں (۵۵: ۱۹ تا ۲۲) پس یہی برزخ دو دریاؤں کا سنگم اور مقامِ روحانیّت ہے، جہاں مشاہداتِ عین الیقین کے درّ و مرجان حاصل ہو جاتے ہیں۔

۹۔ خزائنِ قرآن کی کلیدیں اس کے حکیمانہ اشاروں میں پوشیدہ ہیں، اور اسی مقصد کے پیشِ نظر بار بار تفکر و تدبر کی دعوت دی گئی ہے، چنانچہ یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ روحانیّت نہ صرف دریائے بیداری اور دریائے خواب ہی کے درمیان برزخ یعنی پردہ ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے وجود کا بھی حجاب ہے، جبکہ اس کے بہت

 

۱۳۵

 

سے نام حجاب کے طور پر آئے ہیں، اور برزخ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں، جیسے خود لفظِ برزخ: ۲۳: ۱۰۰، ۲۵: ۵۳، ۵۵: ۲۰، حاجز یعنی پردہ: ۲۷: ۶۱، حجاب: ۱۹: ۱۷، حجابِ مستور: ۱۷: ۲۵، سور (دیوار): ۵۷: ۱۳، سد یعنی دیوار: ۳۶: ۰۹، وغیرہ۔

۱۰۔ حدیثِ شریف میں آیا ہے کہ: “القراٰن ذلول ذو وجوہ فاحملوہ علیٰ احسن وجوھہ۔”  یعنی قرآن بہت ہی رام ہو جانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے، لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو (الاتقان، دوم، نوع ۷۸) چنانچہ قرآنِ حکیم کا ایک پُرحکمت ارشاد ہے: وَّ جَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (۷۸: ۰۹) پہلے معنی: اور ہم ہی نے تمہاری نیند کو باعثِ سکون بنایا۔ دوسرے معنی: اور ہم ہی نے تمہاری روحانیّت کو سببِ راحت بنایا۔ کیونکہ قرآنِ حکیم کا خطاب بیک وقت اولیاء اور عوام دونوں سے ہے، پس دونوں گروہ کے نزدیک نوم کا مطلب الگ الگ ہے، کہ ایک کے واسطے یہ روحانیّت ہے، اور دوسرے کے لئے نیند۔

۱۱۔ مبشرات کا اصل مقام روحانیّت ہے، جیسا کہ حضورِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: لم یبق من النبوۃ الا المبشرات، قالوا و ما المبشرات؟ قال الرویا الصالحۃ ، نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں، لوگوں نے پوچھا: مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اچھے

 

۱۳۶

 

خواب (صحیح بخاری، سوم، کتاب الرویا) اچھا خواب نبوّت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہے، تو مبشرات سے اولیاء اللہ کی روحانیّت کی تصدیق ہو جاتی ہے، کیونکہ ان کی ایسی نیند نہیں، جیسی عوام کی ہوتی ہے، مگر وہ روحانیّت میں مبشرات دیکھتے ہیں، اور جیسا کہ بیان ہو چکا ہے، مومنین ان کے پیچھے پیچھے چل سکتے ہیں، جبکہ راہِ مستقیم صرف ایک ہی ہے، اور منزلِ مقصود بھی ایک ہی ہے، عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ ربّ العالمین سب کو روحانی اور عقلی صحت کی لازوال دولت سے مالامال فرمائے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۱۰ شعبان المعظم ۱۴۰۸ھ / ۲۹ مارچ ۱۹۸۸ء

۱۳۷

 

خدمتِ خلق

۱۔ قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کی حکیمانہ تعلیمات میں کوئی حکم ایسا نہیں ملے گا، جس میں براہِ راست، یا بالواسطہ خدمتِ خلق اور حقوق العباد کے کسی پہلو پر روشنی نہ ڈالی گئی ہو، اس حقیقت کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ دین کے احکام سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد کے انتہائی عظیم امرَین میں جمع ہو جاتے ہیں، اور فرائضِ دینی کی کوئی چیز ان دونوں کلیوں سے باہر نہیں رہ سکتی، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ نہ صرف بندوں ہی کے حقوق بلکہ خدا کے حقوق بھی اس مقصد کے پیشِ نظر مقرر ہوئے ہیں کہ ان کی ادائیگی سے انسان ہی کو دنیا و آخرت میں بے حد و بے شمار فائدے حاصل ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک تو ہر قسم کے نفع و ثمرہ سے بے نیاز و برتر ہے۔

۲۔ حدیثِ شریف میں ہے: الخلق عیال اللّٰہ، و احب الخلق الی اللّٰہ من نفع عیالہ، و ادخل السرور علیٰ اہل

 

۱۳۸

 

بیتہ۔ و مشی مع اخ مسلم فی حاجتہ، احب الی اللّٰہ من اعتکاف شھرین فی المسجد الحرام = ساری مخلوق (گویا) اللہ کا کنبہ ہے، لہٰذا خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے محبوب و پسندیدہ شخص وہ ہے، جو اس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے، اور اس کے اہلِ خانہ کو مسرور و شادان کر دے، اور کسی مسلمان بھائی کے ساتھ اس کی حاجت برآری کی خاطر چلنا خداوندِ تعالیٰ کے نزدیک دو ماہ تک اندرونِ خانۂ کعبہ اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے (دعائم الاسلام، ثانی، کتاب العطایا، مزید حوالہ جات کے لئے دیکھئے: کتاب مجمع البحرین، ص ۷۰، از مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی)۔

۳۔ صاحبِ جوامع الکلم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مذکورۂ بالا ارشادِ مبارک کی شانِ جامعیّت کا حقِ تعریف و توصیف تو ادا ہی نہیں ہو سکتا، تاہم مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید، پیغمبرانہ علم و حکمت کی جس کمالیّت و تمامیّت، اور رعنائی و زیبائی سے خالقِ اکبر اور مخلوقِ احقر کے رشتے کی تشبیہہ و تمثیل دی گئی ہے، اس کی جان پرور و دلنواز علمی اور عرفانی نورانیّت و تابش سے عقلِ جزوی کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں، سبحان اللہ! یہاں تو مرتبۂ انسانیّت اور احترامِ آدمیّت انتہائی عروج و ارتقاء پر نظر آتا ہے، بخدا! ہمیں رحمتِ عالم کی اس بے مثال اور درخشندہ تعلیم میں عشق و محبت سے بار بار سوچنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اس رازِ مخفی کو بحسن و خوبی سمجھ سکیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ درپردہ اپنی مخلوق

 

۱۳۹

 

کو محبوب رکھتا ہے، کیونکہ اس مثال میں جو بھی عیال اور اہلِ خانہ ہیں، وہ ربّ العزّت کی محبوبیّت کے درجے میں ہیں، لیکن اس محبوبیّت و دوستی میں وہ نیک بخت لوگ بہت ہی آگے جا سکتے ہیں، جو دوسروں کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔

۴۔ اس نورانی تعلیم میں خدمت کی یہ شرط بتائی گئی ہے کہ اس سے لوگوں کو فائدہ ملے اور مسرّت و شادمانی حاصل ہو، اس میں دین و دنیا سے متعلق عظیم اور دور رس خدمات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، اور ایک چھوٹی خدمت کی مثال یہ دی گئی ہے کہ اگر ایک شخص اپنے کسی مسلم بھائی کے ساتھ اس کی حاجت برآری کے لئے چلتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے عبادت و اعتکاف کے ایک اعلیٰ مقام پر بلند کر کے محبوب رکھتا ہے، اس سے آپ پُرخلوص خدمتِ خلق کی اہمیّت و افادیّت کا اچھی طرح اندازہ کر سکتے ہیں۔

۵۔ قرآنِ مجید میں احسان (نیکی) کے میوۂ شیرین کا بار بار تذکرہ ہوا ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں (محسنین) کو محبوب رکھتا ہے (۰۵: ۹۳) اور یقیناً خدمتِ خلق سب سے بڑی نیکوکاری ہے، جس کا ذکر ہو چکا، پس خدمت احسان ہے، جس کا سب سے عظیم اور لاثانی و غیر فانی انعام اللہ جلّ جلالہ کی دوستی اور محبوبیّت ہے۔

۶۔ خدمتِ خلق کے اس وسیع و بے پایان میدان میں جن حضرات کو تمام خدمت گزاروں پر فوقیّت و برتری حاصل ہے، وہ انبیاء و اولیاء ہیں، جو ایک اعتبار سے قوم کے سردار ہیں، اور دوسرے اعتبار

 

۱۴۰

 

سے قوم کے خادم، جیسا کہ حدیثِ نبوّی کا ارشاد ہے: سید القوم خادمھم = قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے (مجمع البحرین، ص ۴۱) اس سے ظاہر ہے کہ صرف پیغمبر اور ولئ کامل ہی صحیح معنوں میں انسانیّت کی آفاقی خدمت کر سکتے ہیں، اور پھر ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے درجہ بدرجہ دوسرے خُدّام (خَدَم)۔

۷۔ حدیثِ نبوّی میں یہ پُرحکمت کلّیہ بھی موجود ہے: کُل معروف صدقۃ = ہر نیک کام ایک صدقہ و خیرات کا درجہ رکھتا ہے (صحیح بخاری، سوم، باب ۵۸۹۔ دعائم الاسلام، ثانی، کتاب العطایا) چنانچہ ملک و ملت اور انسانیّت کی خدمت نیک عمل ہے، اس لئے وہ عظیم صدقہ ہے، اور اگر کسی خدمت کا فائدہ ہمیشہ کے لئے جاری و ساری رہ سکتا ہے، تو پھر ان شاء اللہ تعالیٰ وہ صدقۂ جاریہ ہو جائے گا، اور ایسے ہی اعمال باقیات الصالحات (باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ، ۱۸: ۴۶) کہلا سکتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ اگر خدمت بے ریا ہے تو وہ سب کچھ ہے، اسی خدائے پاک و برتر ہر سچے خادم کو دوست رکھتا ہے، درحالے کہ اس کی دوستی و محبت دین اور روحانیّت کی سب سے بڑی نعمت ہے، بلکہ تمام نعمتوں کی جان ہے۔

۸۔ خدائے تعالیٰ کے نزدیک سب سے محبوب اور پسندیدہ شخص کون ہے؟ وہی جو اس کے کنبے یعنی مخلوق کی خدمت کرے، آیا ہر ایسا آدمی جو خدا کو محبوب ہو، باطنی، روحانی، اور عقلی امراض سے

 

۱۴۱

 

شفا یاب نہیں ہوگا؟ کیوں نہیں، ضرور وہ قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹) کو حاصل کرے گا، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ پاک ہے، اس لئے وہ جب کسی سے دوستی و محبّت کرنا چاہتا ہے، تو پہلے اسے روحانی بیماریوں اور گناہوں سے پاک کر دیتا ہے، پھر اسے محبوب رکھتا ہے۔

۹۔ پروردگارِ عالمین جن بندوں کی مخلصانہ خدمت کو قبول فرماتا ہے، انہیں تمام تر اخلاقِ حسنہ اور صفاتِ ستودہ سے نوازتا بھی ہے، تاکہ وہ پاک و برتر ان سے دوستی و محبت کرے، جیسے نیکوکاری (۰۷: ۱۹۶) احسان (۰۳: ۱۳۴) تقویٰ (۰۳: ۷۶) صبر (۰۳: ۱۴۶) توکل (۰۳: ۱۵۹) عدل و انصاف (۰۵: ۴۲) طہارت و پاکیزگی (۰۹: ۱۰۸) اطاعت و محبت (۰۳: ۳۱) ایمانِ کامل اور عشقِ الٰہی (شدید ترین محبت۰۲: ۱۶۵) جذبۂ جہادِ ظاہری و باطنی (۶۱: ۰۴) حبِ رسول (۰۳: ۳۱، ۰۹: ۲۴) توبہ و پاک دلی (۰۲: ۲۲۲) اور دوسرے بہت سے اوصاف، جن سے خدا کے دوست موصوف و آراستہ ہوتے ہیں، جیسا کہ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت فرماتا ہے، تو جبریل کو اس کا حکم ہوتا ہے، پس جبریل اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور پھر تمام آسمان اور زمین والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں (صحیحِ مسلم، جلدِ سوم، باب ۳۲۰)۔

۱۰۔ حدیثِ شریف میں یہ بھی ہے کہ: جب اللہ تعالیٰ مومن کو اس کی قبر سے اٹھائے گا، تو وہ قبر سے باہر آئے گا، درحالے کہ اس کے ساتھ ایک پیکرِ نورانی (ہستئ لطیف) ہوگی، پس جب

 

۱۴۲

 

وہ مومن وہاں کی سختیوں سے گزرے گا، تو نورانی پیکر اس سے کہے گی: ڈرنا نہیں، تم پر کوئی آنچ نہیں آئے گی، پس یہ اس کو برابر امن و تسکین اور بشارت دیتی جائے گی، یہاں تک کہ تمثالِ نورانی ( مثال حسن ) اس کو بارگاہِ خداوندی میں پہنچا دے گی، پس اللہ تعالیٰ اس مومن سے ایک آسان سا حساب لے گا، پھر خدا کا حکم ہوگا کہ اس کو بہشت میں داخل کر دیا جائے، اس وقت مومن پیکرِ نورانی سے پوچھے گا، آپ کون ہیں؟ آپ پر خدا کی رحمت ہو! آپ نے مجھ سے نہ صرف وعدہ ہی کیا، بلکہ ایفا بھی ہوا، اور میرے خوف کو امن و سکون میں بدل دیا، تب پیکرِ نورانی کہنے لگے گی کہ: میں ایک مخلوق ہوں میرے رب نے مجھے اس (اجتماعی) خوشی سے پیدا کیا جو تم (اپنی خدمات اور نیکیوں سے )مومنین کو دیا کرتے تھے، چنانچہ آج میں تم کو مسرّت و شادمانی پہنچا رہی ہوں (دعائم الاسلام، جلدِ ثانی، کتاب العطایا)۔

۱۱۔ کتاب الشّافی، جلدِ دوم، باب ۸۹ ، “خدمتِ مومن” کے بارے میں ایک ارشادِ نبوّی اور اس کا ترجمہ درج ہے، ترجمہ یہ ہے: حضرت امیر المومنین (علی) علیہ السّلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: جو مسلمان مسلمانوں میں کسی قوم کی خدمت کرے گا، تو اللہ تعالیٰ بقدرِ ان کی تعداد کے جنّت میں خدمت گار عطا فرمائے گا۔

۱۴۳

۱۲۔ جس طرح جسمانی علاج کے سلسلے میں تنہا مؤثر ادویہ ہی ضروری اور کافی نہیں ہوتیں، بلکہ حیاتین (وٹامن) سے بھرپور اغذیہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا “علمی علاج” کی اس کتاب میں یہ پُرحکمت خلوص سعی کرنا ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں، اور عقل و نقل کے حوالے سے، نیز حقیر تجربات و معلومات کی مدد سے کچھ صحت افزا علمی و عرفانی غذائیں بھی مہیا ہوں، و ما توفیقی الا باللّٰہ (۱۱: ۸۸)۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۱۸ شعبان المعظم ۱۴۰۸ھ / ۶ اپریل ۱۹۸۸ء

۱۴۴

 

دائرۂ خدمتِ خلق

(۴۲: ۰۵)

۱۴۵

 

کالا جادو اور اس کا توڑ

۱۔ جادو: واقعات کے غیر فطری طور پر ظہور میں لانے کا فن، یہ علم ہر زمانے میں ہر قوم کے افراد کے عقیدے میں داخل رہا ہے، اور مختلف اشخاص ہر جگہ اس کا دعویٰ کرتے چلے آئے ہیں، قدیم مصر کے پجاری اسی دعوے پر اپنی عبادت اور مذہب کی بنیاد رکھتے تھے، چنانچہ قربانیاں جادو ہی کی بنیاد پر کی جاتی تھیں، قدیم مصری، بابلی، ویدک، اور دیگر روایتوں میں دیوتاؤں کی طاقت کا ذریعہ بھی جادو ہی کو خیال کیا جاتا تھا، یورپ میں باوجود عیسائیّت کی اشاعت کے جادو کا رواج جاری رہا، افریقہ میں اب تک ایسے ڈاکٹر موجود ہیں، جو جادو کے ذریعے علاج کرتے ہیں۔

سیاہ علم یا کالا جادو جنّوں، دیوتاؤں، اور بد

 

روحوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ ہے، اور علمِ سفید یعنی سفید جادو نیک روحوں اور فرشتوں کے ساتھ ملاتا ہے، اس کے علاوہ قدرتی جادو قدرت کے واقعات میں تصرف کے قابل بناتا ہے، رمل، جفر، جوتش،

 

۱۴۶

 

اور نجوم بھی اسی کی شاخیں ہیں، جو توہّم پرستی پر مبنی ہے، ہمارے ہاں بھی جادو کئی شکلوں میں تسلیم کیا جاتا ہے، مثلاً تعویذ، گنڈے، جنّ اور بھوت کا چمٹنا اور اتارنا وغیرہ (فیروز سنز، اردو انسائیکلوپیڈیا)۔

۲۔ اگر غور سے دیکھا جائے، تو پتہ چلے گا کہ مذکورۂ بالا بیان سحر (جادو) سے متعلق ایک بڑے ذخیرۂ معلومات کا مفید ترین خلاصہ ہے، اسی لئے یہ اس موضوع کے آغاز میں بطورِ تمہید درج ہوا ہے، تاہم یہ عجیب اتفاق ہے کہ سامری نے روحانیت میں جو کچھ دیکھا تھا، وہ محض ایک آسمانی معجزہ ہونے کی وجہ سے جادوئے سیاہ سے پاک تھا (۲۰: ۹۵ تا ۹۶) لیکن اس نے جبرائیلی معجزے سے ایک باطل جادو کا کام لیا، نیز سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۵ تا ۱۷۶) میں بلعم باعور یا کسی اور شخص کا قصّہ پڑھئے، تاکہ معلوم ہو جائے کہ بعض لوگ کس طرح اپنی ناشکری سے خیر کو شر بنا لیتے ہیں۔

۳۔ کالا جادو، سفید جادو، اور قدرتی جادو کی ان اصطلاحات میں غور و فکر کرنے سے یقینی طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ سب درجہ بدرجہ روحانیّت میں داخل تو ہیں، لیکن ان میں اعلیٰ و ادنیٰ، حق و باطل، اسلام و کفر، اور حلال و حرام ہونے کی وجہ سے آسمان زمین کا فرق پایا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدرتی جادو جو سحرِ حلال ہے، اس سے انبیائے عظام کا معجزہ اور اولیائے کرام کی کرامت مراد ہے، جس سے واقعاتِ قدرت میں تصرّف (خرقِ عادت) ہو سکتا ہے، مگر قدرتی جادو یا سحرِ

 

۱۴۷

 

حلال کا یہ نام البتہ شاذ و نادر استعمال ہوتا ہے، جیسے حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے: و ان من البیان سحرا (مفہوم:) اور بعض بیان سحرِ حلال ہوتے ہیں (صحیح مسلم، جلدِ اوّل، کتاب الجمعہ، حدیث ۱۹۰۹، اور دیگر کتبِ احادیث)۔

۴۔ خدائے برحق اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سحرِ سیاہ کو کفر، حرام، اور باطل قرار دیا ہے، کیونکہ یہ سر تا سر برائی اور خرابی کی نیّت پر مبنی ہوتا ہے، اور اس میں ان گنت قباحتیں ہوتی ہیں، چنانچہ اسی جادو کے وہم و گمان نے فرعون کو اتنا بیباک اور مغرور بنا دیا کہ اس نے خدا ہونے کا دعویٰ کیا، اور حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام جیسے عظیم المرتبت پیغمبر کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے بھی ٹھان لیا، مگر معرکۂ حق و باطل میں ہمیشہ حق غالب اور باطل مغلوب ہو جاتا ہے، پس جادوگر سجدے میں گر گئے اور کہا کہ ہم ایمان لے آئے ہارون اور موسیٰ کے پروردگار پر (۲۰: ۷۰)۔

۵۔ یہ بات نہ صرف دیہات ہی کے باسیوں سے متعلق ہے، بلکہ شہروں میں بھی ایسے بے شمار بھولے بھالے آدمی موجود ہیں، جن کے پاس کوئی خاص علم نہیں، اس لئے وہ طرح طرح سے خوفِ بے جا میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور یہ ایک زبردست نفسیاتی ظلم و زیادتی ہے کہ ان کو جنّ، بھوت کے سایہ و آسیب سے متاثر یا سحر زدہ قرار دے کر ڈرایا جاتا ہے، حالانکہ بسا اوقات یہ بات بے حقیقت ہوتی ہے، اور ہوتا کچھ بھی

 

۱۴۸

 

نہیں ہے، لیکن انسان میں قوّتِ واہمہ ایک ایسی صلاحیت ہے کہ اگر شدید خوف کے ساتھ اس کی طرف توجہ دی گئی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل میں سامنے آ سکتی ہے، کیونکہ انسان بحدِّ امکان (بحدِّ قوّت) ایک عالم ہے، جس میں سب کچھ موجود ہے، پھر خوابیدہ جنّ اور خفتہ جادو کیسے نہ ہو، مگر یہ کسی کی بہت بڑی نادانی ہو گی کہ ان کو چھیڑے اور جگائے، بلکہ دانشمندی اسی میں ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرا کرے، اور اسی کی یاد میں کثرت سے مصروف رہے۔

۶۔ “کالا جادو اور اس کا توڑ” کے اس موضوع میں دراصل چار چیزوں کے بیان کی ضرورت تھی، اوّل: جادو کا پس منظر، یا تجزیہ و تحلیل، یا تعریف، یا مجموعی معلومات، دوم: اس فرضی اور وہمی جادو کا ازالہ کرنا، جس کو کسی ساحر نے تو کیا ہی نہیں، مگر شکوک و شبہات اور بدگمانیوں سے پیدا ہوکر دل و دماغ کو پریشان اور تاریک بناتا ہے، یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے، جو بے بنیاد و بے حقیقت باتوں سے خوفزدہ ہوتے رہنے سے لاحق ہو جاتی ہے، اور اس کا علاج اعلیٰ علم سے اور خدا پر یقین رکھنے سے ہو سکتا ہے، لہٰذا اس بارے میں عوام کو سمجھانے کی سخت ضرورت ہے، سوم: جہاں عقل و دانش اور سنجیدگی سے یہ باور کیا جاتا ہو کہ سچ مچ سیاہ جادو ہے، تو ایسی صورت کے لئے یہ بتا دینا لازمی ہو گا کہ اسلام نے اس کے سدِ باب کا طریقہ اور ہر شر سے خدا کی پناہ لینے کا راستہ دکھایا ہوا ہے، اور چہارم: اس مضمون کے آخری حصے

 

۱۴۹

 

میں یہ بیان ہو گا کہ مسحور کا علاج و شفا کس طرح ممکن ہے۔

۷۔ آپ کو جادوئے سیاہ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ اس کا حصول ایسا آسان نہیں، جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے، جبکہ قرآنی اشارہ یہ ہے کہ اصل جادو یا تو ان جنّات سے حاصل کیا جاتا ہے، جو سلطنتِ سلیمانی سے وابستہ ہیں، یا پھر ان دو فرشتوں سے، جو ہاروت اور ماروت کے نام سے ہیں، اگر لاتعداد انسانوں میں سے کسی کو کالا علم مل گیا تو پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کسی کو کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتا (۰۲: ۱۰۲) پس جو نیک بخت لوگ صدقِ دل سے خدا و قانونِ خد ائی پر یقین رکھتے ہیں، وہ نہ صرف جادو ہی سے بچنے کے لئے بلکہ دوسرے تمام شرور سے بھی محفوظ و سلامت رہنے کے واسطے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں، جس کی شرطیں چار ہیں: علم کی روشنی، نیّت، قول، اور عمل، یہی تمام لوگوں کے حق میں ہر قسم کی برائی کا سدِ باب اور پناہِ ربّانی کی ضمانت ہے۔

۸۔ بندوں کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی جو پناہ گاہ ہے، وہ اس کا حصنِ حصین (مضبوط قلعہ) اور مقامِ قرب ہے، جس میں داخل ہو جانے کے لئے علم و عرفان کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ قول و فعل کا تجربہ تو بہت سے لوگ کرتے رہتے ہیں، لیکن علم نہ ہونے کی وجہ سے مقصد پورا نہیں ہو سکتا، پس لمحہ بہ لمحہ اور قدم بقدم اعلیٰ علم کی ضیا پاشی اور رہنمائی نہایت ہی ضروری ہے، تا کہ شیاطینِ انسی و جنّی

 

۱۵۰

 

کے سحر اور ہر شر سے گریز کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی میں پناہ گیر ہو جانے کا طریقِ مستقیم مل جائے۔

۹۔ قرآنِ پاک کے بہت سے پُرحکمت اسماء ہیں، ان میں سے ایک اسم شفاء (۱۷: ۸۲) ہے، اور ایک دوسرا نام علم (۰۳: ۶۱) ہے، چنانچہ قرآن = شفاء = علم ہے، یعنی قرآن ہر اعتبار سے شفاء ہے، اور علمی صورت میں بھی شفاء ہے، لہٰذا جب بھی کوئی ہوشمند مومن طبِ قرآنی یعنی قرآنی علم و حکمت سے رجوع کرے، تو یقیناً وہ باطنی اور روحانی صحت و سلامتی سے متعلق روشن تعلیمات و ہدایات کے جواہر سے مالامال ہو جائے گا، پس جو شخص سو جانے سے قبل آیۃ الکرسی کو پڑھے، وہ سیاہ جادو اور تمام دوسرے شرور سے (ان شاء اللہ) محفوظ و سلامت رہے گا، کیونکہ یہ اعظم الآیات ہے (ملاحظہ ہو: الاتقان، دوم، نوع: ۷۲، ۷۳ نیز ۷۵)۔

۱۰۔ یہ علم و حکمت کی برکتوں سے مملو آیتیں جادو سے شفاء دینے والی ہیں، ان کو پڑھ کر پانی سے بھرے ہوئے ایک برتن میں دم کیا جائے، اور پھر وہ پانی جادوزدہ شخص کے سر پر ڈالا جائے، وہ آیاتِ مقدّسہ یہ ہیں:

سورۂ یونس کی آیت ۸۱۔۸۲ ، یعنی فلما القوا تا المجرمون (۱۰: ۸۱ تا ۸۲)، سورۂ اعراف کی چار آیتیں: ۱۱۸۔۱۲۱، یعنی توقع تا العالمین (۰۷: ۱۱۸ تا ۱۲۱) ، اور سورۂ طٰہٰ کی آیت ۶۹ میں سے صرف انما سے آخر تک (۲۰: ۶۹)، ان شاء اللہ ،

 

۱۵۱

 

مسحور آدمی شفا یاب ہو جائے گا (بحوالۂ الاتقان، دوم، ص ۵۱۰)۔

۱۱۔ بحکمِ خدائے بزرگ و برتر اگر جادو کا سدِ باب کرنا ہے، یا کسی مسحور کا جادو توڑنا ہے، یا ہر برائی یعنی شیطان کے ہرگونہ شر سے محفوظ رہنا ہے، تو سورۂ فلق اور سورۂ ناس کو یقینِ کامل سے پڑھا جائے، ان شاء اللہ تعالیٰ، قرآنی طب کا معجزہ ظہور پذیر ہو گا، کیونکہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ گرامی اور سنتِ مطہرہ کے حوالے سے کئی مستند کتابوں میں یہ نسخۂ کیمیا درج ہے، مثلاً: الاتقان، دوم، ص ۵۱۴ پر، اور دعائم الاسلام، ثانی، کتاب الطب فصل (۳) میں۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
۲۴ شعبان المعظم ۱۴۰۸ھ / ۱۲ اپریل ۱۹۸۸ء

۱۵۲

ذکرِ سریع سے علاج

۱۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ حکیم میں حکمتِ ربّانی کے لاتعداد گنج ہائے گرانمایہ مخفی ہیں، جن کی کلیدیں دستِ قدرت میں محفوظ ہوا کرتی ہیں، اور اہلِ دانش اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ ان قرآنی خزانوں میں اولادِ آدم کے جسم و جان اور عقل کے لئے انتہائی مؤثر و مفید نسخہ ہائے کیمیا، شفائے کلّی، اور غیر فانی نعمتیں پوشیدہ ہیں، جس کی ایک روشن مثال “ذکرِ سریع” کی حکمت ہے، کہ ذکرِ سریع سب سے بہترین علاج ہے غفلت، نسیان، وسوسہ، حدیثِ نفسی، ملالت، سستی، غلبۂ خواب وغیرہ کے لئے، کیونکہ ذکرِ الٰہی جو دراصل نفسِ امّارہ اور شیطان کے خلاف ایک روحانی جہاد ہے، جس کا ہر لفظ بحقیقت ضربِ شمشیر و سنان ہے، پھر دشمن کے مقابلے میں تلوار اور نیزے کو بڑی سرعت اور بھرپور طاقت کے ساتھ کیوں نہ استعمال کیا جائے، جبکہ ساری بیماریوں کی جڑ یہی ہے۔

۲۔ ذکرِ سریع کا مطلب ہے دل و جان سے ساری سستی اور غفلت

 

۱۵۳

 

کو بدر کر کے انتہائی سرعت اور عشق و خوف کے ساتھ سلسلۂ یادِ الٰہی کو جاری و ساری رکھنا، تاکہ شیطان کو اس میں خلل اندازی کا کوئی موقع ہی نہ مل سکے، یقیناً یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک انبیائے کرام علیہم السّلام کی تعریف و توصیف فرماتا ہے، کہ وہ حضرات ہر نیک کام کو کسی تاخیر کے بغیر جلد از جلد انجام دیتے تھے، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): یہ سب نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے اور رغبت (عشق) و خوف کے ساتھ ہماری عبادت کیا کرتے تھے (۲۱: ۹۰)۔

۳۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کا بہترین نمونہ خود انسان ہے، جس کے معنی یہ ہوئے کہ قوانینِ دین اور قوانینِ عالمِ شخصی ایک جیسے ہیں، چنانچہ جسمانی تربیت کے ماہرین ہر ایسی ورزش کو آدمی کی صحت و تندرستی کے لئے بے حد مفید قرار دیتے ہیں، جس میں دوڑ یا تیز حرکت سے کام لیا جائے، بعینہ ذکرِ سریع ہے، جس میں روحانی سلامتی اور باطنی قوّت کا راز پوشیدہ ہے، کیونکہ انسان کی حقیقی زندگی اور معیاری صحت کا انحصار تین قسم کی منظم، پُر زور، اور نتیجہ خیز حرکتوں پر ہے، یعنی جسمانی حرکت، جس کو سب دیکھتے اور جانتے ہیں، روحانی حرکت، جو ذکر و عبادت کی حیثیت سے ہے، اور عقلی حرکت، جو غور و فکر اور علم کی صورت میں ہے۔

۴۔ یہ حکم سورۂ ذاریات میں ہے: ففروا الی اللّٰہ (۵۱: ۵۰) پس تم اللہ ہی کی طرف دوڑو۔ یعنی تم لوگ ہر دینی کام کو بڑی تیزی سے

 

۱۵۴

 

کرو، کیونکہ نیک اعمال میں سست رفتاری اور تاخیر ہونے سے عمر ضائع ہو جاتی ہے، نیز اس میں ہر وقت یہ خطرہ درپیش ہوتا ہے کہ نفسِ کمینہ یا شیطان کسی دامِ فریب میں مبتلا کر لے، لہٰذا ارشاد ہوا ہے کہ بندۂ مومن قربِ الٰہی کی جانب دوڑے، اور وہ صرف ایسے قول و عمل سے ممکن ہے، جس میں کاہلی اور غفلت کا نام و نشان تک نہ ہو، اور اپنے اندر یہ صفت پیدا کرنے کے لئے ذکرِ سریع ازبس ضروری ہے، جو صحیح معنوں میں خدا کی طرف دوڑنا ہے۔
۵۔ جس طرح ظاہر میں پا پیادہ یا کسی سواری سے مسافتوں کو طے کیا جاتا ہے، اسی طرح باطن میں ذکر و عبادت اور علم و حکمت سے منازلِ روحانیّت میں پیشرفت ہو جاتی ہے، چنانچہ سورۂ عادیات (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۵) میں اگر ایک طرف جسمانی گھوڑوں کا تذکرہ ہے، تو دوسری طرف روحانی گھوڑوں کا بھی بیان فرمایا گیا ہے، اور وہ اذکارِ سریع ہیں، جن کی سرعتِ رفتار، زور، اور تسلسل کی وجہ سے نفسِ بہیمی کی تحلیل ہو کر چنگاریاں چھوٹتی ہیں، پھر بوقتِ صبح روحانی قسم کا مالِ غنیمت ملتا ہے، جس سے غبارِ خاطر نکل جاتا ہے، اور ایسے میں اسلام کی روحانی فتوحات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

۶۔ قرآنِ کریم کا مفہوم ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مسلمانوں کے لئے آسانی چاہتا ہے اور دشواری نہیں چاہتا (۰۲: ۱۸۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے پہل کچھ دشواریاں برداشت کی جائیں، تاکہ ان سے آگے

 

۱۵۵

 

گزر جانے کے بعد آسانی اور راحتِ روحانی حاصل ہو سکے (۶۵: ۰۷،۹۴: ۰۵ تا ۰۶) پس ذکرِ سریع یعنی تیز تر اور پرزور ذکر اسی قانون کے مطابق ہے کہ اس سے نفس کی تحلیل و تطہیر ہو جاتی ہے۔

۷۔ چقماق (FLINT)اور فولاد کے درمیان سے چنگاریاں پیدا ہو جاتی ہیں، لیکن کیسے عمل سے؟ کیا دونوں چیزوں کو آہستہ آہستہ باہم ملانے سے؟ نہیں نہیں، ایک دوسرے کے ساتھ رگڑنے اور ضرب لگانے سے، اور آسمانی بجلی کا بھی یہی حال ہے جو بادلوں میں رگڑ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جن میں اصل چیز برقِ منفی اور برقِ مثبت موجود ہوتی ہے، اسی طرح اگر نفس برقِ منفی یا سنگِ چقماق کا کام کرتا ہے، تو ذکرِ سریع برقِ مثبت اور فولاد جیسا عمل کرتا ہے، جس سے عالمِ شخصی میں نور کی چنگاریاں اور روشنیاں بکھر جاتی ہیں۔

۸۔ یہ حدیثِ شریف بہت بڑی اہمیت والی ہے، لہٰذا اس کی طرف یہاں آپ کو دوبارہ توجہ دلائی جاتی ہے: القراٰن ذلول ذو وجوہ فاحملوہ علیٰ احسن وجوھہ = یعنی قرآن بہت ہی رام ہو جانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے، لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو۔ پس اس حکم کے مطابق اس آیۂ مقدسہ میں غور کیجئے: خلق الانسان من عجل (۲۱: ۳۷) آدمی جلدی سے پیدا کیا گیا ہے، یہاں جلدی سے سرعتِ ذکر اور سعئ نور مراد ہے، جو انسانِ کامل کی تخلیقِ روحانی کے بنیادی اسباب

 

۱۵۶

 

میں سے ہے، اور اس میں دراصل کسی خامِ ناتمام انسان کی بات نہیں۔

۹۔ جو خوش نصیب مومن جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جاتا ہے، تو اس کی ذاتی اور عرفانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور اس انقلابِ عظیم کے بغیر معرفتِ نفس اور معرفتِ ربّ کا دروازہ ہرگز کھل نہیں سکتا، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: من مات فقد قامت قیامتہ = جو مر جائے تو بس اس کی قیامت قائم ہو جاتی ہے۔ اور قرآنِ عزیز میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ بعض اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم کو جیتے جی مرگِ نفسانی کا بھرپور تجربہ حاصل ہوا تھا (۰۳: ۱۴۳) اور اس کا امکان ہر زمانے میں موجود رہا ہے، اس بیان کے بعد اب یہ عرض کرنا ہے کہ سعئ نور یعنی نور کا دوڑنا یا انتہائی سرعت سے کام کرنا کس طرح ہے، اس حکمتِ عالیہ کو سمجھنے کے لئے سورۂ حدید (۵۷: ۱۲) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) میں بغور دیکھنا ضروری ہے، تاکہ معلوم ہو کہ یہ نورِ معرفت ہے، جس کے لاتعداد نام ہیں، کیونکہ یہی نورِ عقل بھی ہے، جو تمام حقائق و معارف کا نمائندہ ہے، چنانچہ بے شمار نمائندگیوں کے سبب سے اس کے بے حساب ناموں کے ہونے میں تعجب نہیں ہونا چاہئے۔

۱۰۔ مذکورۂ صدر نور آدمی کی طرح نہیں دوڑتا، بلکہ سرعت سے طلوع و غروب ہو جاتا ہے، اس کا جو مشرق ہے، وہی مغرب بھی

 

۱۵۷

 

ہے، سرعت دو معنوں میں ہے، اوّل یہ کہ اس کے ایک طلوع اور دوسرے طلوع کے درمیان کا وقت کم و بیش پانچ سیکنڈ کا ہو سکتا ہے، اور دوسرا یہ کہ نور کی اتنی قلیل سی مدت دنیائے ظاہر کے ہزار سالہ واقعات پر محیط ہو سکتی ہے، اور دوسری مثال میں یہ پچاس ہزار برس کے برابر ہو جاتی ہے، اس کا مطلب طے مراحل ہے۔

۱۱۔ یہ سارے حقائق و معارف اس لئے بیان ہوئے، تاکہ معلوم ہو جائے کہ ذکرِ سریع اور سعئ نور کے درمیان اگرچہ آسمان زمین کا فرق ہے، لیکن اس کے باؤجود ان میں مناسبت و یکجہتی اور وحدت پائی جاتی ہے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے، جبکہ یہ منزلِ اوّلین ہے، اور وہ منزلِ آخرین، اور دونوں ہی تکمیلِ شخصیت کے لئے ہیں، پس مومن کی دانشمندی اسی میں ہے کہ وہ تمام فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ذکرِ سریع کے نسخۂ کیمیا سے کام لے کر اپنے امراضِ باطن کا علاج معالجہ کرے، تاکہ وہ کماحقہ شفایاب ہو کر نورِ معرفت کو حاصل کر سکے، جس میں اس کی تمامیّت و کمالیّت ہے (۶۶: ۰۸)۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم میں دیکھ لیجئے: و سارعوا (اور جلدی کرو، ۰۳: ۱۳۳) سابقوا (دوڑو، ۵۷: ۲۱) فاسعوا (شتابی کرو، ۶۲: ۰۹) والسابقون (اور آگے نکل جانے والے، ۵۶: ۱۰) ففروا (پس دوڑو، ۵۱: ۵۰) اور ان جیسے بہت سے دوسرے احکام ہیں، جن میں سرعت و تیزی اور محنت و جانفشانی سے اعمالِ صالحہ انجام دینے کے لئے فرمایا گیا

 

۱۵۸

 

ہے، پس یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ ذکرِ سریع ایک ایسا روحانی علاج ہے، جس سے بہت سی بیماریاں دور ہو سکتی ہیں، ان شاء اللہ۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۸ شوال ۱۴۰۸ھ / ۴ جون ۱۹۸۸ء

۱۵۹

 

شہدِ حکمت سے علاج

۱۔ جب اللہ جلّ جلالہ کے ان ارشادات سے، جو آیاتِ شفاء میں ہیں، یہ حقیقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ قرآنِ حکیم سر تا سر شفاء ہے امراضِ روحی کے لئے، (قرآنی علاج ص ۵۶) تو پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ بابرکت کتابِ سماوی وہ واحد، منفرد، انتہائی باکمال، بے مثال، اور معجزاتی جامعۂ طبِ رحمانی اور شفاء خانۂ روحانی ہے کہ اس میں نہ صرف طبابتِ لاہوتی کی نرالی تعلیم و تربیّت ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ذخائرِ ادویۂ جبروتی بھی ہیں، اور ہرگونہ ربّانی علاج کے معجزنما نسخے بھی، پس ان قرآنی دواؤں میں سے ایک بے انتہا شیرین، زبردست پر لذت، اور بے حد مؤثر و مفید دوا شہدِ حکمت کے نام سے ہے۔

۲۔ اس سلسلے کی ایک خصوصی دعوتِ فکر سورۂ نحل کے اس ارشاد میں موجود ہے: فیہ شفاء للناس = یعنی شہد میں لوگوں کے لئے شفاء ہے (۱۶: ۶۹) یقیناًیہ حکم شہدِ مادّی اور شہدِ روحانی دونوں کے

 

۱۶۰

 

بارے میں ہے، جس کے ثبوت میں یہاں چند دلائل پیش کئے جاتے ہیں:
الف: جود و رحمتِ الٰہی کے قانون میں یہ بات قطعاً ناممکن ہے کہ جسمِ کثیف کے لئے شہدِ شیرین موجود ہو، مگر روحِ لطیف اور عقلِ شریف کے واسطے اپنی نوعیت کا کوئی شہد نہ ہو۔ ب: قرآنِ کریم بہشتِ برین کا قانون رکھتا ہے، کیونکہ یہ علم و عرفان کی نعمتوں سے معمور ایک عقلی جنت ہے، اور جنت کے تمام پھلوں کے دو دو جوڑے ہوا کرتے ہیں (۵۵: ۵۲) ج: خدا کی خدائی اور بادشاہی کی کل اشیاء جفت جفت ہیں (۳۶: ۳۶) پس شہدِ ظاہر کی مثال پر شہدِ باطن کا ہونا لازمی امر ہے۔ د: بہشت کی چار نہروں میں سے ایک نہر شہد کی ہے، جس سے نہرِ حکمت مراد ہے، کیونکہ عقلی شہد حکمت ہی ہے (۴۷: ۱۵) ھ: اللہ تعالیٰ حقائق و معارف کی مثالیں بیان فرماتا ہے، یہاں تک کہ اپنی ذاتِ اقدس کی مثال دینے سے بھی دریغ نہیں فرماتا، (۲۴: ۳۵) چنانچہ مادّی شہد عسلِ مصفا یعنی حکمت کی مثال ہے، جس میں ہر قسم کے امراضِ باطن کے لئے شفاء ہے۔

۳۔ اس سماوی اور ربّانی تعلیم میں کامل توجہ دے کر خوب غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، جس میں بڑی جامعیت کے ساتھ حکمت کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، وہ ارشاد یہ ہے: یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ (۰۲: ۲۶۹) وہ جس کو چاہے

 

۱۶۱

 

حکمت دیتا ہے، اور جس کو حکمت دی گئی تو بے شک اسے بہت زیادہ خیر (بھلائی) دی گئی۔ یعنی خیرِ کثیر حکمت کے ساتھ وابستہ ہے، اور جہاں حکمت نہیں، وہاں کوئی خیر و خوبی نہیں، کیونکہ حکمت نہ صرف تنہا ایک خیر ہے، بلکہ یہ جامعۃ الخیرات کا درجہ رکھتی ہے، یعنی یہ جملہ خوبیوں اور نیکیوں کو اپنے اندر جمع کر سکتی ہے، جس طرح ظاہری شہد میں لاتعداد پھولوں کا رنگ و بو اور رس یکجا ہو جاتا ہے، اسی طرح باطنی شہد (حکمت) میں خیرِ کثیر مجتمع پائی جاتی ہے۔

۴۔ مذکورۂ بالا بیان کے مطابق حکمت خیرِ کُل ہے، جو خدا کے ہاتھ میں ہے ( بیدک الخیر۰۳: ۲۶) اور جو کچھ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ میں ہے، وہ کیا کچھ نہیں، جبکہ وہ ملک (بادشاہی ۶۷: ۰۱) بھی ہے اور ملکوت بھی (۳۶: ۸۳) پس بلا شک و شبہہ قرآنی حکمت کا ایک سرّا دستِ قدرت میں ہے، اور دوسرا سرّا قرآن میں، تاکہ وہ علیم و حکیم جس کو چاہے حکمت عطا فرمائے، اور نوازا کرے۔

۵۔ حکمت دراصل دانائی، ہر چیز کی حقیقت، اور نورِ عقل کو کہتے ہیں، لہٰذا اس سے جملہ امراضِ باطن کا علاج کیا جاتا ہے، خصوصاً جہالت و نادانی سے لاحق ہو جانے والی بیماریوں کے لئے یہ آسمانی دوا از حد ضروری ہے، کیونکہ ایسی بیماریاں عقل و جان (یعنی روح الایمان) کے لئے مہلک ثابت ہو سکتی ہیں، جبکہ موت وجودِ آدمی کے اعتبار سے تین قسم کی ہوا کرتی ہے، جسمانی موت، روحانی موت، اور عقلی موت،

 

۱۶۲

 

ان اموات میں سے مرگِ جسمانی کو تو سب جانتے ہیں، مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ روح اور عقل کی ہلاکت کو نہیں سمجھتے، حالانکہ قرآنِ حکیم میں اس واقعے کا ذکر موجود ہے، اس کی ایک مثال کالانعام ہے، یعنی درجۂ انسانی و ایمانی سے گر کر چوپایوں کی طرح ہو جانا (۰۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴، ۴۷: ۱۲) ایسے لوگ مرضِ نادانی کی موت مر کر نہ تو دینی عقل رکھتے ہیں اور نہ ایمانی روح۔

۶۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بارگاہِ ربّ العزّت میں ایک خاص دعا اس طرح کی (ترجمۂ آیت): اے ہمارے ربّ تو ان (امتِ مسلمہ) میں ان ہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں پڑھے، اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور انہیں پاک کر دے، بے شک تو ہی غالب (اور) صاحبِ حکمت ہے (۰۲: ۱۲۹) یہ دعا مسلمانوں کی خیرخواہی میں کی گئی ہے، اور اس کی جامعیّت سے دین و دنیا کی کوئی بھلائی باہر نہیں رہ سکتی، اس میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ظہورِ قدسی مطلوب ہے، اس دعا کی روشنی میں دیکھنے سے ثمرۂ نبوّت اور مقصدِ رسالت نقشۂ ذیل کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے:

۱۶۳

 

۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس دنیا میں تشریف لانے کا اوّلین مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو دینِ اسلام کی طرف دعوت دی جائے، پھر ان پر خدا کی آیات پڑھی جائیں، پھر ان کو قرآنِ پاک کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے، پھر انہیں ظاہراً و باطناً حکمت سکھائی جائے، اور آخر میں تمام نیک اعمال بالخصوص علم و حکمت کے نتیجے میں ان کو ہر طرح سے پاک و پاکیزہ فرمائیں، اس سے حکمت کی بہت بڑی اہمیت و فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے، کہ جس کے بغیر اہلِ ایمان کی روحانی اور عقلی پاکیزگی ناممکن ہے۔

۸۔ قرآنِ عزیز میں حکمت کا ایک اہم موضوع قصّۂ لقمان علیہ السّلام ہے، جس کی روشنی میں سب سے پہلے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حکمت اگرچہ بظاہر ایک لفظ ہے، لیکن حقیقت میں خیرِ کثیر اور باطنی نعمتوں کا ایک عالم ہے، لہٰذا اس کے ملنے پر شکر واجب ہو جاتا ہے، اور ویسے بھی شکرگزاری اور قدردانی حکمت ہی کی زبان میں ہو سکتی ہے، حکمت کا سب سے اہم پہلو علمِ توحید ہے، جس سے نورِ معرفت ضیا فگن ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا راستہ بتاتا ہے، یہی سبب ہے کہ حضرتِ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے اولاً مسئلۂ شرک (و توحید) سے بحث کی، کیونکہ حکمت خصوصاً اسی امر کی مقتضی ہوا کرتی ہے۔

۹۔ قرآنِ حکیم کا ہر اعلیٰ لفظ اپنی قسم کے کئی مترادفات رکھتا ہے،

 

۱۶۴

 

چنانچہ حکمت کے معنی و مطلب صرف لفظِ حکمت ہی میں محدود نہیں، بلکہ اس کے لئے اور بھی بہت سے الفاظ مقرر ہیں، جیسے علم، کیونکہ حکمت علم کا نچوڑ اور جوہر ہے، یقین، کہ حکمت خود حق الیقین کا درجہ ہے، معرفت، جو حکمت ہی کا ایک خاص نام ہے، نور، کیونکہ حکمت ظلمت میں ٹھہر نہیں سکتی، ہدایت، اس لئے کہ حکمت میں رہنمائی ہے، روح اور عقل، وغیرہ، کیونکہ حکمت کا جو سرّا خدائے تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ میں ہے، وہ انتہائی قرب کی وجہ سے بے جان اور بے عقل نہیں ہو سکتا۔

۱۰۔ حدیثِ شریف میں ارشاد ہے: نعم المجلس مجلس ینشر فیہ الحکمۃ = سب سے بہترین مجلس ایک ایسی مجلس ہے، جس میں حکمت پھیلائی جاتی ہو (دارمی، مقدمہ) نبئ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: جب تم کسی شخص کو دنیا میں بے رغبت دیکھو اور کم گو پاؤ تو اس کے پاس بیٹھو، کیونکہ اس پر حکمت کا نزول (القاء) ہوا ہے (ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، ابواب الزھد) حدیثِ نبوّی میں یہ بھی فرمایا گیا ہے: انا دارالحکمۃ و علی بابھا = میں حکمت و دانائی کا گھر ہوں اور علی میرا دروازہ ہیں (ترمذی، جلدِ دوم، ابواب المناقب)۔

۱۱۔ قرآن کو اختیار کرو کیونکہ قرآن عقل کی تیزی، حکمت کا نور، علم کا چشمہ، اور تمام (آسمانی) کتابوں سے نئی (کتاب) ہے، اور اللہ تعالیٰ نے توریت میں فرمایا ہے کہ محمد! میں تمہارے پاس نئی توریت بھیجتا

 

۱۶۵

 

ہوں، جو اندھی آنکھوں اور بہرے کانوں اور بند دلوں کو کھول دے گی (دارمی، فضائل القرآن)۔

۱۲۔ انتہائی عجز و تضرع سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ حسبِ وعدۂ قرآن اپنے نورِ حکمت سے سیّارۂ زمین کو بہت جلد معمور و منوّر فرمائے، اور بنی نوع انسان کو تمام جسمانی اور روحانی امراض سے کُلی طور پر شفا بخشے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۵ شوال ۱۴۰۸ھ / ۱۱ جون ۱۹۸۸ء

۱۶۶

 

موت قبل از موت

۱۔ مولوئ معنوی فرماتے ہیں: اے خنک آنرا کہ پیش از مرگ مُرد۔ یعنی او از اصلِ این رز بوی بُرد۔ وہ شخص قابلِ مبارکباد ہے، جو مرنے سے پہلے مر گیا، یعنی اس کو اس انگورستان کی اصل کا پتا چل گیا (مثنوئ دفترِ چہارم، مضمون: قصّۂ صوفی کہ درمیانِ گلستان سربزا نو نہادہ مراقب بود) اور یہ ایک واضح اشارہ ہے موتوا قبل ان تموتوا ( مر جانے سے پہلے مرو) کی طرف، جیسا کہ ارشاد ہے: حاسبوا اعمالکم قبل ان تحاسبوا و زنوانفسکم قبل ان توزنوا و موتوا قبل ان تموتوا ۔ تم اپنے اعمال کا حساب کتاب کر لو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے اور اپنے آپ کو تولو اس سے پیشتر کہ تم کو تولا جائے اور مرو اس سے پہلے کہ مر جاؤ (احادیثِ مثنوی، فارسی، ص ۱۱۶) اس حکم میں ذاتی اور عرفانی قیامت کا اشارہ ہے۔

۲۔ علمی علاج کے سلسلے میں موت قبل از موت کا تذکرہ کیوں ضروری ہے؟ اس لئے کہ روحانی عروج و ارتقاء کی ساری رکاوٹیں

 

۱۶۷

 

اور تمام باطنی امراض کی جڑیں نفس ہی میں استوار ہیں، لہٰذا مرگِ نفسانی کے ساتھ ساتھ جس طرح جملہ خرابیاں دور ہو جاتی ہیں، اس کے پیشِ نظر یہ بیان بے حد ضروری ہے، اور یہ امر بے انتہا ضروری کیوں نہ ہو، جبکہ یہی قربِ الٰہی اور فنا فی اللہ کا آخری وسیلہ ہے۔

۳۔ آپ جانتے ہیں کہ قرآنِ حکیم ذو وجوہ ہے، یعنی اس کے متعدد پہلو ہیں، چنانچہ اس قرآنی تعلیم میں غور سے دیکھئے: اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، اے میری قوم! تم نے بچھڑے کو (معبود) بنا کر یقیناً اپنی جانوں پر ظلم کیا، پس تم اپنے پیدا کرنے والے کی درگاہ میں توبہ کرو، پھر تم اپنے (مشرک) آدمیوں کو خود قتل کرو (فاقتلوا انفسکم ، ۰۲: ۵۴) اور اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ تم جسمانی طور پر مر جانے سے پہلے مرو، اور خواہشاتِ نفسانی کا قلع قمع کرو (ملاحظہ ہو: مفردات القرآن، ص ۸۲۶) اس سے ظاہر ہوا کہ قرآنِ مجید میں موتوا قبل ان تموتوا کا حکیمانہ اشارہ موجود ہے۔

۴۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی پُرحکمت سنت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ وہ دانا و بینا حجاب کے بغیر کسی بشر سے کلام نہیں فرماتا (۴۲: ۵۱) تو پھر قرآنِ کریم میں جہاں جہاں اسرارِ عظیم موجود ہیں، وہ کیوں کر بے حجاب ہو سکتے ہیں، پس ظاہر ہے کہ یہاں علم و حکمت اور روحانیّت کے بڑے بڑے بھید پردوں میں ہیں، اسی لئے قرآنِ پاک میں تفکر و تدبر کی پُر زور

 

۱۶۸

 

دعوت دی گئی ہے، چنانچہ ان حجابات میں سے ایک حجاب بصورتِ عتاب ہے، جیسے بنی اسرائیل کے ستر رجال پر گزرا (۰۲: ۵۵) درحالیکہ ان کے قصّے میں بھیدوں کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے (۰۲: ۵۵، ۰۷: ۱۵۵)۔

۵۔ آج اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) دنیاوی معاملات میں بے شک بڑے ہوشیار ہیں، لیکن بڑی عجیب بات یہ ہے کہ وہ سنتِ الٰہی یعنی قانونِ دین کے ابجد کو بھی نہیں جانتے، اگر وہ ہوشمند ہوتے، تو سلسلۂ انبیاء علیہم السّلام کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بھی ایمان لے آتے، اور قرآنی معجزات کو دیکھنے کے لئے کوشش کرتے، پھر شاید وہ بے ساختہ اس بے مثال و بے نظیر آسمانی کتاب کو، جو اگلی کتابوں یا الکتاب کی محافظ ( مھیمناً ، ۰۵: ۴۸) ہے، سر آنکھوں پر رکھ لیتے، کیونکہ اس بابرکت کتاب یعنی قرآن میں ان حضرات کے مراحلِ روحانیّت اور فنا فی اللہ کا تذکرہ ہے، جن پر ربّ العالمین نے اپنی خاص خاص نعمتوں کی بارانِ رحمت برسائی ہے (۰۴: ۶۹)۔

۶۔ جو خوش نصیب لوگ راہِ مستقیم پر چلتے ہوئے روحانی چمک، کڑک، زلزلہ، وغیرہ کی زد میں آ جاتے ہیں، ان کے حق میں قانونِ قدرت کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ نفس کے اعتبار سے ہلاک مگر روح الایمان اور عقل کے اعتبار سے حیاتِ نو میں زندہ ہو جاتے ہیں، اور یہی ہے جسمانی طور پر مر جانے سے قبل نفسانی طور پر مر جانا، جس کی بہت سی مثالیں قرآنِ مجید میں مذکور ہیں۔

۱۶۹

۷۔ خدائے قادرِ مطلق کس طرح مردوں کو جِلا سکتا ہے، اس کی ایک قریب ترین مثال یہ ہے کہ اللہ پاک ہم میں سے ہر ایک کی روح سوتے میں قبض کر لیتا ہے، اور پھر اسے واپس بھیج کر زندگی بخشتا ہے (۳۹: ۴۲) جسے ہم عادتاً بیداری کہتے ہیں، اسی طرح کوئی حقیقی صوفی، یا درویش، یا کوئی عاشقِ صادق یادِ الٰہی میں محو و مدہوش ہو کر کچھ دیر کے لئے بھی فنا ہو سکتا ہے، جیسے کسی آدمی میں جب پری یا جنّ داخل ہو جاتا ہے، تو اس وقت ایسا شخص جزوی طور پر یا کلّی طور پر اپنی انا کھو بیٹھتا ہے، پس یوں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ انسان وقتی طور پر مر جاتا ہے، پھر اس مخلوق کے نکل جانے پر زندہ ہو جاتا ہے۔

۸۔ بنی اسرائیل نے خدائے تعالیٰ کے حکم سے جس قسم کے بیل کو ذبح کیا تھا، اور اس عمل کے نتیجے میں جیسے قادرِ مطلق نے ایک مقتول کو زندہ کرکے اپنی قدرتِ کاملہ کی شان ظاہر فرمائی تھی (۰۲: ۶۷ تا ۷۳) اس میں نفس کشی اور موتوا قبل ان تموتوا کا حکمت آگین اشارہ موجود ہے، کیونکہ گائے یا بیل نفسِ خورندہ کی علامت و مثال  ہے، چنانچہ نفسِ حیوانی کے بیل کو خنجرِ ریاضت سے ذبح کر دینے کے بعد ہی کوئی عالی ہمت مومن ایک پاکیزہ روح کے ساتھ دروازۂ روحانیّت سے داخل ہو سکتا ہے۔

۹۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا قول ہے: لن یلج ملکوت السمٰوات من لم یولد مرتین = جو آدمی دو بار پیدا نہ ہو جائے تو وہ آسمانوں

 

۱۷۰

 

کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتا۔ یعنی اسی دنیا میں جسمانی پیدائش اور تکمیل کے بعد نفسانی موت اور روحانی پیدائش از حد ضروری ہے، جیسا کہ مولائے روم فرماتے ہیں: چون دوم بار آدمی زادہ بزاد + پائے خود بر فرقِ علتہا نہاد۔ جب انسان دو بار پیدا ہوا، اس نے علتوں کے سر پر اپنا پاؤں رکھ دیا ہے (مثنوی، دفترِ سوم، زیرِ عنوانِ ہر چہ غفلت و کاہلی۔۔۔)۔

۱۰۔ جب یہ معلوم ہے کہ جہاد ظاہری اور باطنی دو قسم کا ہوتا ہے تو اسی طرح شہادت بھی جسمانی اور روحانی دو درجوں میں ہوا کرتی ہے، پس قرآنِ پاک میں جہاں جہاں شہادت کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں دونوں شہادتیں مراد ہیں، جیسے آلِ عمران (۰۳: ۱۴۳) کے اس ارشاد میں ہے: اور یقیناً تم موت کی خواہش کیا کرتے تھے پیشتر اس کے کہ تم اس سے ملاقات کرو، پس یقیناً تم نے اسے اپنی نظر سے دیکھ ہی لیا ہے (۰۳: ۱۴۳) آپ خوب غور کریں کہ اس خطاب کا زیادہ سے زیادہ تعلق شہیدانِ روحانی سے ہے، جنہوں نے اپنی موت کا منظر دیکھ لیا تھا۔

۱۱۔ اس موضوع کا مقصدِ آخرین یہ ہے کہ معجزۂ فنا فی اللہ پر یقین رکھا جائے، اور ہر مومن علم و عمل کے وسیلے سے صراطِ مستقیم پر آگے سے آگے بڑھ کر اس مرتبۂ برترین کو حاصل کرے، جیسا کہ سورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں ارشاد ہے: کل شیء ہالک الا وجھہ۔ لہ الحکم و الیہ ترجعون ۔ سوائے وجہ اللہ کے ہر چیز

 

۱۷۱

 

ہلاک ہو جانے والی ہے، حکم اسی کے لئے ہے اور تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے (۲۸: ۸۸) اگر ایک شخص یہ کہتا ہے کہ لکڑیاں جل کر فنا ہوگئیں، مگر آگ باقی ہے، تو ہر آدمی اس واقعہ کو بہ آسانی سمجھ لے کہ حقیقت کیا ہے، چنانچہ مذکورہ آیۂ کریمہ جو پہلے پہل عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) سے متعلق ہے بزبانِ حکمت یہ بتاتی ہے کہ حقیقی محبت، عشق، روحانیت، رویّت، اور معرفت سے فنا فی اللہ کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے، اور یہ تمام معانی وجہ اللہ میں موجود ہیں اور اس فنا کے بعد حکم یعنی کلمۂ امر اور رجوع ہے۔

۱۲۔ سوال: روحِ انسانی کہاں سے آئی ہے؟ اور جب یہ کامیاب ہو تو کہاں جائے گی؟ جواب: عالمِ امر اور کلمۂ کُنّ سے آئی ہے (۱۷: ۸۵، ۳۶: ۸۲) اور یہ وہیں جانے والی ہے، کہ اصل مقام اور منزلِ فنا بھی وہی ہے۔

۱۳۔ فنا کسی شیٔ کے نیست و نابود یا معدوم ہو جانے کو نہیں کہتے، بلکہ یہ اس کے ایک حال سے دوسرے حال میں تبدیل ہو جانے کا نام ہے، پس فنا فی اللہ کا مطلب ہے اپنے وجودِ نفسانی سے مر کر خدا کے نور میں زندۂ جاوید ہو جانا، جیسا کہ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) کا یہ مفہوم ہے: وہ تمام ارواح جو عالمِ شخصی کی زمین پر ہیں فنا ہو جانے والی ہیں اور باقی رہے گی تیرے پروردگار صاحبِ جلالت و کرامت کی وجہ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) انسان اپنی ذات میں ایک مستقل عالم ہے،

 

۱۷۲

 

جس میں بصورتِ ارواح بے شمار لوگ رہتے ہیں، جن کو وجہ اللہ میں فنا ہو جانا ہے، اور نفسِ واحدہ کی حیثیت سے خدائے بزرگ و برتر کے حضور جانا ہے (۰۶: ۹۴، ۳۱: ۲۸)۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
جمعہ ۲ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۱۷ جون ۱۹۸۸ء

۱۷۳

 

امکانی ترقی اور درسِ عالی ہمتی

۱۔ کیا آپ نے اس کلّیۂ احساناتِ ربّانی میں کمالِ توجہ اور انتہائی غور و فکر سے دیکھا ہے، جو سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۴) میں ارشاد ہوا ہے؟ اگر اسی طرح نہیں سوچا ہے تو آئیے اب اس قانونِ حکمت آگین کو دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ اپنی نوعیّت کا سب سے بڑا کلّیہ ہے، جس کے حکیمانہ اشارات کو سمجھنے سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی بے شمار نعمتوں میں سے بندگانِ حق پرست کو کیا کیا حاصل ہو سکتی ہیں؟ اور کتنی نعمتہائے عظمیٰ ایسی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رحمت و نوازش کے باؤجود کسی وجہ سے نہیں مل سکتی ہیں؟ وہ آیۂ کریمہ یہ ہے: وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُؕ-وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ (۱۴: ۳۴) ترجمہ: اس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو احاطہ نہیں کر سکتے، حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے (۱۴: ۳۴) تفسیری مفہوم: تم نے زبانِ قال اور

 

۱۷۴

 

لسانِ حال سے جو کچھ طلب کیا، وہ سب اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہیں بحدِّ فعل اور بحدِّ قوّت دے رکھا ہے، تمہارے لئے خدائے تعالیٰ کی ایسی نعمتیں جو علم و عمل سے مشروط ہیں، اتنی زیادہ ہیں کہ تم ان کا شمار ہی نہیں کر سکتے، پھر کیا یہ بہت بڑی نا انصافی اور نا شکری نہیں ہے کہ انسان ان ممکن الحصول، فراوان، روحانی ، اور عقلی نعمتوں سے غافل اور ہٹ کر رہتا ہے؟

۲۔ قرآنِ حکیم کا اوّلین درسِ عالی ہمتی یہ ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) چلا ہم کو سیدھا راستہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ہے۔ یہ دعا نہایت ہی عالیشان ہے، اس کی جامعیّت و حکمت میں تمام نعمتیں طلب کی گئی ہیں، کیونکہ اس میں اللہ کی نورانی ہدایت کے لئے درخواست ہے، تاکہ اہلِ ایمان جو خدا کے دوست ہیں، وہ انبیاء علیہم السّلام کے نقشِ قدم پر چشمِ بصیرت سے دیکھتے ہوئے چلیں، اور منازلِ روحانیّت کی تمام نعمتوں کا عارفانہ مشاہدہ کرتے ہوئے جائیں، تاآنکہ فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل ہو، اس لئے کہ ہدایت کے معنی مراحلِ قیامت سے بھی آگے گزر کر بہشتِ برین تک پہنچ جاتے ہیں۔

۳۔ نورانی ہدایت کے لئے ایک خاص شرط مجاہدہ (ریاضت، نفس کُشی) ہے، سورۂ عنکبوت کے آخر (۲۹: ۶۹) میں دیکھئے: جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً

 

۱۷۵

 

اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ پروردگارِ جہان کی یہ روحانی اور نورانی ہدایت و رہنمائی نورِ منزل (۰۵: ۱۵) یعنی حضرت محمد مصطفی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے ممکن ہے، اور اسرارِ خداوندی کے راستے ملکوت، جبروت، اور لاہوت میں ہیں، نیز روشن ہدایت کے معنی ازل و ابد تک بلیغ و رسا ہیں، کیونکہ نورِ ہدایت زمان و مکان کے حدود و قیود سے بالاتر اور باہر ہے۔

۴۔ عالمِ صغیر کا دوسرا نام عالمِ شخصی ہے، چنانچہ آپ بحدِّ قوّت ایک عالم ہیں، پس اگر آپ نے اسلام کی حقیقی روح قبول کر لی (۰۸: ۲۴) اپنی ذات کی دنیا کو مرگِ جہالت سے بچا لیا، اور اسے بتائیدِ الٰہی زندہ کر کے حدِّ قوّت سے حدِّ فعل میں لایا، تو اس انتہائی عظیم عمل کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی شخص نے دنیا بھر کے لوگوں کو ایک بہت بڑی ایٹمی ہلاکت سے بچا لیا ہو، یہ واقعہ کیوں اتنا اہم اور بڑا ہے؟ کیونکہ عالمِ شخصی میں سارے جہان کے لوگ رہتے ہیں، چنانچہ ہابیل ایک عالمِ شخصی تھا، جس کو قابیل نے قتل کرکے اس کے اندرونی جہان اور تمام اہلِ جہان کو ہلاک کر ڈالا۔

۵۔ ہابیل اور قابیل کا قصّۂ قرآن (۰۵: ۲۷ تا ۳۱) ضرور پڑھ لیں، اور پھر ملاحظہ ہو: اسی (قتل کی) وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے، یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے، اس نے

 

۱۷۶

 

گویا تمام لوگوں کو قتل کیا، اور جس نے ایک جان کو زندہ کر دیا، پس وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے سب لوگوں کو زندہ کر دیا (۰۵: ۳۲) پس یہ عالمِ شخصی کی اہمیت و فضیلت سے متعلق ایک قرآنی ثبوت ہے جس میں بصورتِ ذرّاتِ روحانی دنیا بھر کے لوگ رہتے ہیں، یہ سب دراصل آپ کی روح کے اجزاء ہیں۔

۶۔ آپ خیال اور خواب میں جس طرح جانے اور انجانے لوگوں کو دیکھتے ہیں، وہ آپ کے عالمِ شخصی میں ہمیشہ کے لئے موجود ہیں، کیونکہ ہر لطیف عالم آپ کی ذات میں سمایا ہوا ہے، اور کوئی شی اس یکجائی کے بغیر نہیں، یہ خدا کی زمین، اور اس کی خلافت ہے (۳۹: ۱۰، ۲۴: ۵۵) نیز یہ ملک و ملکوت ہے (۰۳: ۲۶، ۰۷: ۱۸۵) اور یاد رہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے سماوی اور ارضی ملکوت کا مشاہدہ اپنی ذات یعنی عالمِ شخصی میں کیا تھا (۰۶: ۷۵)۔

۷۔ اگر مومن کو نورِ ایمان کے سبب سے کسی خاص صلاحیت کا مالک نہ بنایا جاتا، اور اس میں قدرتِ الٰہی کا کوئی کرشمہ نہ ہوتا، تو یہ نہ فرمایا جاتا کہ: اے ایمان والو تم اللہ کے انصار (مددگار) ہو جاؤ (۶۱: ۱۴) یقیناً یہ نصرتِ دین کی بات ہے، تاہم اس حکم کے معنی محدود نہیں ہو سکتے، کیونکہ مومن کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں، اسے راہِ مستقیم پر چل کر آگے جانا ہے، یہاں تک کہ فنا فی اللہ کا مرتبہ حاصل ہو جائے، جیسا کہ ارشاد ہے: اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جما دے گا (۴۷: ۰۷) اس سماوی تعلیم میں

 

۱۷۷

 

اہلِ ایمان کی انقلابی ترقی اور منزلِ مقصود تک رسائی کا ذکر ہے۔

۸۔ جس طرح خدا کے خاص بندے نورِ ہدایت کی دستگیری سے مقاماتِ فنا فی اللہ و بقا باللہ تک پہنچ سکتے ہیں، اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ قولِ خدا میں ان کا قول اور فعلِ خدا میں ان کا فعل ہو جائے، اور اس حقیقت کے باب میں کئی دلائل ہیں، مثال کے طور پر: الف: خدا کے رنگ میں رنگین ہو جانا (۰۲: ۱۳۸) کہ یہ آگ اور لوہے کی طرح ہے، جب لوہا آگ کا رنگ لیتا ہے تو ظاہراً و باطناً سرخ انگارا ہو جاتا ہے، اور اس کا اپنا رنگ کھو جاتا ہے۔ ب: بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ (۲۷: ۰۸) جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد ہے برکت دیا گیا ہے۔ ج: پاکیزہ قول اسی کی طرف چڑھتا ہے اور نیک کام اسے بلند کرتا ہے (۳۵: ۱۰) تا آنکہ بندۂ مومنِ مخلص کا قول و فعل اللہ کے قول و فعل میں جا کر فنا ہو جاتا ہے۔

۹۔ حضرت مریم علیہا السّلام صدیقہ (ولیّہ) تھیں (۰۵: ۷۵) ان کی برگزیدگی، روحانی مرتبت، آسمانی تائیدات، اور فرشتوں کے توسط سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی نورانی ہدایات کا تابناک تذکرہ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۲ تا ۴۷) اور سورۂ مریم (۱۹: ۱۶ تا ۲۶) میں موجود ہے، پس اس روشن حقیقت سے صدیقین یعنی اولیاء (۰۴: ۶۹) کے روحانی احوال پر روشنی پڑتی ہے، کہ وہ وحی کے بھیدوں سے آگاہ اور مقاماتِ معرفت سے باخبر ہوتے ہیں، اور اس تصوّر کو حضرتِ یوسف علیہ السّلام کے لقبِ

 

۱۷۸

 

“صدیق” (۱۲: ۴۶) سے مزید تقویّت ملتی ہیں، کہ صدیق نہ صرف ظاہری باتوں میں سچا ہوتا ہے، بلکہ وہ خدائے علیم و حکیم کی تائید سے باطنی حقیقتوں کو بھی سچ سچ بیان کرتا ہے، اسی طرح وہ انبیاء علیہم السّلام کی عارفانہ تصدیق کرتا ہے۔

۱۰۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللّٰہ (جامع ترمذی، جلدِ دوم، تفسیر سورۂ حجر)مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ ایسے مومنین کون ہو سکتے ہیں، جو خدا کے نور سے دیکھتے ہوں؟ اولیاء، اور ان کے بعد صفِ اوّل کے اہلِ ایمان کے لئے بھی یہ امر ممکن ہے، مگر یہاں یہ نکتہ ضرور یاد رہے کہ اس نورانی نظر کا خاص اور عالی مقصد یہ ہے کہ حقائق و معارفِ ملکوت کا مشاہدہ کیا جائے (۰۷: ۱۸۵) اس لازوال روحانی دولت سے مالامال ہو جانے کے لئے حقیقی مرشد میں فنا ہو جانا انتہائی ضروری کام ہے، تاکہ فنا فی الرّسول اور فنا فی اللہ کی سب سے بڑی سعادت حاصل ہو، الغرض نہ صرف اسی موضوع میں بلکہ پوری کتاب میں قرآنِ حکیم کی روحانی غذاؤں اور دواؤں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے، اللہ تعالیٰ اسے سب کے لئے نافع بنائے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۸ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۲۳ جون ۱۹۸۸ء

 

۱۷۹

 

ایک ہی ممثول کی تین مثالیں:

 

سفرِ روحانی اور منزلِ مقصود آپ کی اپنی ذات میں پوشیدہ ہے، اللہ کا کتنا بڑا کرم اور احسان ہے کہ اس نے آپ کو ایک زندہ کائنات بنایا ہے۔

 

۱۸۰

 

بہشت کے دو دو میوے

۱۔ حق سبحانہ و تعالیٰ احد و صمد اور ہر قسم کی دوئی و کثرت سے پاک و برتر ہے، اسی خدائے واحد و یکتا نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے تمام مخلوقات و موجودات کے جوڑے بنائے، اور کوئی چیز اس کلیۂ پر حکمت سے مستثناء نہیں ہو سکتی، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۳۶) کا یہ مبارک ارشاد ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ۔ پاک ہے وہ ذات جس نے زمین سے اگنے والی چیزوں اور خود ان لوگوں کے اور ان چیزوں کے جن کی انہیں خبر نہیں سب کے جوڑے پیدا کئے (۳۶: ۳۶) یہ ایک ایسا قانون ہے، کہ قانونِ وحدت کے بعد اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، جس طرح عددِ واحد (۱) کے بعد دو (۲) کا ہونا بے حد ضروری ہے، تاکہ تمام اعداد وجود میں آسکیں۔

۲۔ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کے آخر میں بزبانِ حکمت یہ ذکر فرمایا گیا

 

۱۸۱

 

ہے کہ عقلی، علمی اور روحانی چیزوں کے بھی جوڑے ہیں، جیسے سورۂ رحمان کا ارشادِ مقدّس ہے: فِیْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰنِ (۵۵: ۵۲) ان دونوں باغوں میں ہر میوے کی دو دو قسمیں ہیں۔ یعنی عقلی اور روحانی، نیز ظاہری اور باطنی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے ساری کائنات کی اشیاء کو مسخر کر دیا ہے، اور اس مہربان نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دیں ہیں (۳۱: ۲۰)۔

۳۔ آدم و آدمی تین منزلہ عمارت کی طرح ہے یعنی اس کا جسم مکان کا حصۂ زیرین ہے، روح دوسری منزل ہے اور عقل تیسری منزل، جیسے سفینۂ نوح (علیہ السّلام) کے تین طبقات تھے: تحتانی، وسطی، اور فوقانی، جو انسانی وجود کی مثال ہے، کیونکہ روحانی کشتی تو عالمِ شخصی میں ہے، چنانچہ مذکورہ سہ منزلہ بلڈنگ کی زمینی منزل میں جسمانی نعمتیں مہیا ہو جاتی ہیں، درمیانی منزل میں روحانی نعمتوں کے لئے اہتمام ہے، اور بالائی منزل میں عقلی نعمتوں کا بندوبست کیا گیا ہے، تاکہ جو لوگ اللہ کی خاطر مجاہدہ کرتے ہیں، وہ نہ صرف خود شناسی کی دولتِ پائندہ سے مالامال ہو جائیں، بلکہ ان عالی شان روحانی اور عقلانی نعمتوں کے توسط سے بہشتِ جاودانی کو بھی پہچان لیں (۴۷: ۰۶) جبکہ نورِ معرفت میں معارف کی وحدت پائی جاتی ہے۔

۴۔ یہ کتاب اپنی نوعیت کے علاج معالجہ سے متعلق ہے، لہٰذا اس میں ایسی مثالوں کی ضرورت ہے، جن میں بجا طور پر علمی غذاؤں

 

۱۸۲

 

اور عرفانی دواؤں کی تعریف و توصیف ہو، اور اگر یہ بات قرآنِ حکیم کی روشنی میں ہو سکتی ہے، تو پھر یہ بہت بڑی سعادت ہوگی، جس کے لئے تمام مومنین کی نیک دعائیں مطلوب ہیں۔

۵۔ جو آدمی صرف اور صرف جسمانی نعمتوں سے حظ اٹھاتا ہو، درحالیکہ اس کو روحانی نعمتوں (عبادات و اذکار) اور عقلی نعمتوں (علوم) کی لذات کا احساس ہی نہ ہو، تو حق بات کو نہیں چھپانا چاہئے کہ ایسا شخص باطنی مریض ہے، پس وہ ذکر و بندگی اور فکر و علم سے اپنا علاج کرے۔

۶۔ آدمی بحقیقت ایک ایسے محل میں رہتا ہے، جس کے طبقِ اوّل کے دریچے ناسوت کے مناظر کی طرف کھلے ہیں، طبقِ دوم کے جھروکوں سے اسرارِ ملکوت کا مشاہدہ ہو سکتا ہے، اور طبقِ سوم کے غرفے اس شان سے بنائے گئے ہیں کہ ان سے جلوہ ہائے حسن و جمالِ جبروت کا نظارہ ممکن ہے، لیکن انسان بڑا غافل و کاہل رہتا ہے، لہٰذا وہ زبردست خسارے میں ہے (۱۰۳: ۰۱) کہ پہلی منزل میں محدود ہو کر دوسری اور تیسری کی سیڑھیاں چڑھنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کرتا، یا یہ کہ وہ بیمار ہے، اس لئے اپنے مکان کی بالائی منزلوں کو استعمال نہیں کر سکتا، الا ما شاء اللہ۔

۷۔ ہر ظاہری نعمت کے مقابلے میں، یا پس منظر میں ایک بہترین باطنی نعمت کس طرح پوشیدہ ہوتی ہے، اس کی ایک مثال یہ ہے

 

۱۸۳

 

کہ سب آدمیوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ ایک عظیم المرتبت پیغمبر یعنی حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد ہیں، جو خلیفۂ خدا اور مسجودِ ملائک تھے، اور اس کی باطنی حقیقت یہ ہے کہ اللہ جلّ شانہ جس مقامِ روحانیّت پر ساری کائنات کی مکانی اور زمانی مسافتوں کو لپیٹتا ہے (۳۹: ۶۷، ۲۱: ۱۰۴) وہاں آدم اور اولادِ آدم کو بھی یکجا کر کے ان کے رشتۂ روحانی کی تجدید فرماتا ہے (۰۷: ۱۱) اسی حکمت کے پیشِ نظر قرآنِ حکیم نے آدمیوں کو آدم کے بیٹے کہا، اور آدم کے پوتے نہیں کہا، حالانکہ قرآنِ پاک میں پوتے (۔۔۔ حفدۃ ۱۶: ۷۲) کا لفظ بھی اپنی جگہ استعمال ہوا ہے۔

۸۔ سورۂ رعد (۱۳: ۰۳) سورۂ زخرف (۴۳: ۱۲) اور سورۂ طور (۵۱: ۴۹) میں خوب تفکر و تدبر کرکے دیکھ لیجئے، تاکہ آپ پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ علمی بہشت کے میوے دو دو کے جوڑے ہوا کرتے ہیں، اور اس میں اصل راز اضداد کا ہے، یعنی ہر دو مخالف چیزیں (ضدین) جوڑی، یا زوجین کہلاتی ہیں، اور اس قانون کی بہت سی حکمتیں ہیں، مثال کے طور پر جہاں کشتئ ظاہر کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں کشتئ باطن کا بھی تذکرہ موجود ہے، کیونکہ ظاہر اور باطن ضدین اور جوڑا ہیں، پس قرآنِ مجید میں سفینۂ نوح ایک علمی میوہ ہے، مگر وہ طاق نہیں، بلکہ جفت ہے۔

۹۔ سورۂ نساء (۰۴: ۶۹) میں ان حضرات کا درجہ وار ذکر ہے، جن

 

۱۸۴

 

کو ربّ العزّت نے اپنی تمام نعمتوں سے نوازا ہے، وہ درجات طاق نہیں، جفت جفت ہیں، یعنی انبیاء و اولیاء (نبیّین و صدیقین) اپنی اپنی امت کے روحانی والدین ہیں، اس مثال میں ہر نبی کو باپ کا درجہ حاصل ہے، اور ہر ولئ کامل ماں کی مرتبت رکھتا ہے، کیونکہ مومنین کا روحانی جنم ولایت کے بطن (یعنی باطن، شکم) سے ہو جاتا ہے، اور دینی اسبابِ معیشت کا اہتمام نبوّت کی طرف سے ہوتا ہے، یعنی تنزیلی اور شرعی نعمتیں پدرِ روحانی کی جانب سے ہوتی ہیں۔
۱۰۔ روحانی بہشت اور قرآنی جنت کا ہر ہر میوہ بظاہر ایک اور بباطن دو کا جوڑا کس طرح ممکن ہے، اس کے دلائل میں سے ایک ایسی دلیل جو سب سے نزدیک ترین بھی ہے اور روشن ترین بھی، اور وہ خود انسان کا وجود ہے، جس پر خالقِ اکبر نے قلمِ قدرت و حکمت سے نہ صرف آیاتِ وحدت و سالمیّت کو رقم فرمایا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوئی اور کثرت کے قوانین کو بھی درج فرمایا ہے، وہ ذیل کی طرح ہے:

۱۱۔ آدمی کا بدن ایک ہے، مگر اس کے دو حصّے ہیں، ایک ہی بصارت کے لئے دو آنکھیں کام کر رہی ہیں، سماعت صرف ایک ہے، لیکن کان دو ہیں، ناک کی مثال اس سے مختلف نہیں، منہ (دہن) بولنے میں ایک ہے، تاہم اس کے بھی دو حصّے ہیں، قوّتِ گیرائی ایک ہے، جو دونوں ہاتھوں کا فعل ہے، چلنا ایک ہے، مگر

 

۱۸۵

 

پیر دو ہیں، اور سانس مل کر ایک ہے، لیکن اس کا کام دونوں پھیپھڑے کر رہے ہیں، غرض انسان کے ظاہر و باطن میں کوئی عضو اور کوئی جزو ایسا نہیں، جس میں وحدت، دوئی اور کثرت کی علامت و اشارت نہ ہو، یقیناًیہ تین بڑے قوانین ہیں، اور کثرت سے میری مراد خلیات (Cells) ہیں، جو کھربوں کے حساب سے پورے جسم میں بھرے ہوئے ہیں۔

۱۲۔ ارشادِ نبوّی ہے: اِنَّ لِلْقرآنِ ظهرا و بطنا لِبَطْنِهِ بطنا الى سبعَة اَبْطُن ۔ قرآن کا ظاہر اور باطن ہے اور اس کے باطن کا باطن ہے، سات باطنوں تک۔ (مثنوی، دفترِ سوم۔ احیاء العلوم، جلدِ اوّل، بابِ دوم، دوسری فصل۔ احادیثِ مثنوی، فارسی، ص ۸۳)۔

۱۳۔ قرآن علمی اور عرفانی بہشت ہے، جس کے میوے سب کے سب دو دو یعنی جفت جفت ہیں، ایک ظاہر ہے اور دوسرا باطن، جس طرح اس موضوع میں بار بار قرآنی حوالہ جات کے ساتھ ذکر ہوا، اور جیسے قرآنِ کریم کا ایک ظاہر اور سات باطن ہیں، تو وہ میوے بھی جفت جفت ہیں، مثال کے طور پر نقشۂ ذیل کو دیکھئے:

نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۴ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۲۹ جون ۱۹۸۸ء

۱۸۶

 

 

حکمتِ گریہ و زاری

۱۔ حدیثِ شریف میں ہے: اَلاَ وَاِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ كُلُّهُ، وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ‏‏ اَلاَ وَهِيَ الْقَلْبُ  (بخاری اوّل، کتاب الایمان، ۳۹) خبردار ہو جاؤ کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے جب وہ سنور جاتا ہے، تو تمام بدن سنور جاتا ہے، اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے، تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔ ارشادِ نبوّی کی اس مقدّس تعلیم و ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ ہر مومن اپنے دل کو جملہ خرابیوں اور بیماریوں سے محفوظ و سلامت رکھنے کے لئے روز و شب سعئ بلیغ کرتا رہے، اور یہ سخت کوشش اسلامی اصولوں کے مطابق ہو سکتی ہے، جن میں گریہ و زاری کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔

۲۔ گریہ و زاری کمالِ انسانیّت اور وصفِ عبودیّت کی صد ہا خوبیوں کا مخفی اور انمول خزانہ کیوں نہ ہو، جبکہ خود قرآنِ حکیم بسلسلۂ اخلاق و اوصافِ انبیاء علیہم السّلام اس کی تعریف و توصیف اللہ

 

۱۸۷

 

تعالیٰ کی خوشنودی کی ضیا پاشیوں کے ساتھ بیان فرماتا ہے، آیۂ کریمہ ماقبل سے مربوط ہے، ایک مستند ترجمہ ملاحظہ ہو: یہ وہ پیغمبر ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم کی اولاد میں سے، اور ان لوگوں کی نسل سے، جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا، اور ابراہیم کی نسل سے اور یعقوب کی نسل سے، اور یہ ان لوگوں میں سے تھے، جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا، ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے (سجدہ) (۱۹: ۵۸) یہ ہے مقدّس آنسوؤں کا سب سے اعلیٰ مقام یعنی انبیاء و اولیاء کی پاک آنکھیں۔

۳۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹) میں دیکھ لیجئے: اے نبی، ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے (یعنی قرآن کو) مانو یا نہ مانو، جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے، انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں ا ور پکار اٹھتے ہیں ’’پاک ہے ہمارا رب، اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا‘‘، اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے (سجدہ) (۱۷: ۱۰۷ تا ۱۰۹) یہاں اشک فشانی علم کی چوٹی پر نظر آتی ہے۔

۴۔ کتابِ دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الجہاد، ذکر الرغائب فی الجہاد، میں یہ ارشادِ نبوّی درج ہے: ما من قطرۃ احب

 

۱۸۸

 

الی اللّٰہ من قطرۃ دم فی سبیل اللّٰہ، او قطرۃ دمع فی جوف اللیل من خشیۃ اللّٰہ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ: راہِ خدا میں خون کا جو قطرہ مجاہد کے جسم سے نکلتا ہے اس سے بڑھ کر خدا کے نزدیک اور کوئی قطرہ زیادہ محبوب و پسندیدہ نہیں ہے، یا پھر وہ آنسو کا قطرہ جو شبِ تاریک میں خوفِ الٰہی کے سبب ٹپکے۔

۵۔ گریہ و زاری کی کیفیت میں دینداری اور پاکدلی کے تمام تر اوصاف و کمالات کس طرح مرکوز ہو سکتے ہیں، اس کی مثال کے لئے نقشۂ ذیل ملاحظہ ہو:

۱۸۹

 

 

۶۔ تکبر اخلاقی اور روحانی اعتبار سے بڑا مہلک مرض ہے، جس کا سدِ باب اور حفظِ ما تقدم دل کی نرمی، عاجزی، اور گریہ و زاری ہی سے ہو سکتا ہے، نیز قساوتِ قلبی (دل کی سختی) بہت بری بیماری ہے، اگر اس کا علاج بروقت نہ کیا گیا، تو یہ کام آگے چل کر بڑا مشکل ہو جاتا ہے، القصہ گریہ و زاری میں بہت سی باطنی بیماریوں کے لئے شفاء ہے۔

۷۔ جب انسانی بچہ شکمِ مادر سے پیدا ہو جاتا ہے، تو قانونِ قدرت فوراً ہی اسے رونا سکھاتا ہے، جس میں عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں، اگرچہ ابتداءً گریۂ طفل کے اشارات و معانی محدود ہوتے ہیں، تاہم آگے چل کر ان اشارتوں اور معنوں کا دائرہ وسیع تر ہو جاتا ہے، جبکہ بچے کی ضرورتیں اور حاجتیں بڑھ جاتی ہیں، اس مثال سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یقیناً بندۂ مومن کی گریہ و زاری کی معنوی وسعت کائنات کے برابر ہوگی، کیونکہ عالمِ شخصی کی معموری و آبادی اور ترقی کے لئے کل جہان کی فراخی و کشادگی چاہئے (۲۴: ۵۵، ۳۹: ۱۰)۔

۸۔ اب آئیے اس سلسلے میں یہ دیکھ لیں کہ جب ایک بچہ روتا ہے تو اس کے کیا کیا معنی ہوتے ہیں؟ ملاحظہ ہو: الف: مجھے بھوک لگ رہی ہے، دودھ پلاؤ۔ ب: مجھے گرمی لگ رہی ہے۔ ج: میں سردی محسوس کر رہا ہوں۔ د: پانی پلاؤ۔ ھ: سلا دو۔ و: میں بیمارہو رہا ہوں۔ ز: مجھے کھول دو، تاکہ ہاتھ پاؤں ہلاؤں۔ ح: روشنی چاہئے۔

 

۱۹۰

 

ط: مجھے جھولے میں سلا کر جھولا دو۔ ی: میری ماں کہاں ہے؟ اس کو بلاؤ۔ ک: میرے بستر ٹھیک نہیں۔ ل: میں ڈر رہا ہوں۔ م: مجھے غذا کھلاؤ۔ ن: میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

۹۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آفتابِ عالم تاب ہی ہے، جو سطحِ سمندر کے کثیف پانی کو لطیف بنا کر بخارات اور بادلوں کی شکل میں بلند کر لیتا ہے، پھر موسلادھار بارش برساتا ہے، چنانچہ یہ نورِ عشق ہی کا کرشمہ ہے کہ عاشقِ صادق کے بحرِ ہستی پر اپنی شعاعیں برسا برسا کر اس میں لطافت پیدا کرتا ہے، جوش و جذبے کی گھٹاؤں کو چلاتا ہے، اور رعد و برق کے ساتھ بارانِ رحمت برساتا ہے، جس کا ہر قطرہ گوہرِ یکدانہ سے کہیں زیادہ بے بہا اور انمول ہے، کیونکہ یہ قطرۂ خونِ شہید کی طرح خدا کے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہے، اور اس محبوبیّت کی وجہِ خاص یہ ہے کہ ایسے آنسوؤں سے تقریباً سب بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے۔

۱۰۔ قرآنِ کریم کی جن آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے، ان میں اور خصوصاً ان کے بعد، روحانیت کے کچھ عظیم اسرار موجود و مقصود ہوتے ہیں، جیسے سورۂ شمس (۹۱: ۰۱ تا ۱۰) کے ارشادات ہیں: ۔۔۔ فالھمھا فجورھا و تقوٰھا۔ قد افلح من زکھا ۔ و قد خاب من دسھا (۹۱: ۰۸ تا ۱۰) پھر اُس (نفس) کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی، یقیناً فلاح پا گیا وہ جس

 

۱۹۱

 

نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔

۱۱۔ اس مقام پر سوچنے اور سمجھنے کے لئے ایک نہایت اہم سوال سامنے ہے، وہ یہ کہ خدائے دانا و بینا کس طرح ہر شخص کی بدی اور اس کی پرہیزگاری کو الہام کی شکل دیتا ہے؟ آیا اس سے انسانی اختیار متاثر نہیں ہوتا؟ اس کا مفصل جواب اس حدیثِ شریف میں موجود ہے:
مشکوٰۃ، جلدِ اوّل، باب وسوسہ، میں ارشاد ہے: ما منکم من احد الا وقدو کل بہ قرینہ من الجن و قرینہ من الملٰئکۃ۔ قالوا و ایاک یا رسول اللّٰہ قال و ایای و لٰکن اللّٰہ اعاننی علیہ فاسلم فلا یامرنی الا بخیر ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کا ایک ہمنشین (یا ساتھی) جنّ اور ایک ملائکہ میں سے مقرر نہ کیا گیا ہو، صحابہ نے یہ سن کر پوچھا: اور یا رسول اللہ آپؐ کے لئے؟ فرمایا: ہاں، میرے لئے بھی، لیکن اللہ نے اس پر مجھ کو (اپنی مدد سے) غلبہ بخشا ہے، پھر اس نے اسلام اختیار کیا، اور وہ مجھ کو (ہمیشہ) بھلائی کی ہدایت کرتا ہے۔

۱۲۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کائنات کی ہر چیز انسان کے لئے مسخر کی گئی ہے (۴۵: ۱۳) اسی طرح مذکورہ دونوں مؤکل بھی مسخر ہیں، وہ یوں کہ آدمی خود اپنے اختیاری اقوال و اعمال کی وجہ سے آئینۂ دل کو یا

 

۱۹۲

 

تو مکدر کر دیتا ہے یا صاف و پاک، اور دونوں ساتھی ہر وقت دل کی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں، پس اگر دل پر برائی کا غبار ہے، تو انفرادی شیطان اسی حالت کی بنا پر وسوسہ ڈالتا ہے، اور اگر مرآتِ قلب صاف و پاکیزہ ہے، تو فرشتہ امید و یقین اور علم و ہدایت کی باتیں کرنے لگتا ہے، اسی لئے بار بار گریہ و زاری کی شدید ضرورت ہوتی ہے، تاکہ یہ شیطان مایوس ہو جائے، اور تائید کے لئے فرشتہ کو موقع فراہم ہو۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۰ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۵ جولائی ۱۹۸۸ء

۱۹۳

تجدّدِ امثال

۱۔ عنوانِ بالا کی اصل عربی ہے، مگر اصطلاح صوفیوں کی، اور اس کی حقیقت قرآنی، اسلامی، اور کائناتی ہے، جس کی شہادت (گواہی) آفاق سے بھی مل سکتی ہے، اور انفس سے بھی (۴۱: ۵۳)چنانچہ یہ موضوع علمی اور عرفانی لحاظ سے بے حد دلچسپ اور انتہائی مفید ہے، کیونکہ اس بحث کے سلسلے میں شعوری اور غیر شعوری قسم کے بہت سے سوالات خود از خود حل ہو کر ختم ہو سکتے ہیں۔

۲۔ تجدّد کے معنی ہیں: نیا ہونا، جدّت، نیا پن، اختراع، اور امثال جمع ہے مَثل کی اور مِثل کی، یعنی ہم صورت، ہم شکل، اور تجدّدِ امثال کا مطلب ہے: کسی موجود شیٔ کے وجود کا مسلسل نیا ہونا، درحالیکہ اس کی شکل وہی ہو، جو پہلے تھی، جیسے شعلۂ چراغ کی ہر آن جدّت ہوتی رہتی ہے، بغیر اس کے کہ اس کی شکل میں فرق آئے، یا جیسے کوئی آبشار ، جو ایک ہی شان سے گر رہا ہو، یا کوئی بہتی ہوئی نہر، اب ان چیزوں میں غور کرنے سے تجدّدِ امثال کی حقیقت سمجھ

 

۱۹۴

 

میں آسکتی ہے کہ حیات و بقا دراصل منجمد اور ٹھہری ہوئی چیز نہیں، بلکہ یہ چراغ کی طرح ایک حقیقت ہے، جس کی روشنی ہر لحظہ روان دوان ہے (ملاحظہ ہو میری ایک کتاب: روح کیا ہے؟)۔

۳۔ قاضی سجاد حسین بحوالۂ مولانا بحر العلوم (عبد العلی) لکھتے ہیں: “تجدّدِ امثال یہ ہے کہ کائنات کی صورتیں ہر آن تبدیل ہو رہی ہیں، ایک صورت زائل ہوتی ہے، اور دوسری صورت اس کی جگہ لے لیتی ہے اور ذات اسی طرح باقی رہتی ہے، چونکہ مٹنے والی صورت آنے والی صورت جیسی ہے، اس وجہ سے اس تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا ہے، اور بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلی صورت علیٰ حالھا باقی ہے۔”  جیسے مولای روم کی مثنوی میں ہے: پس ترا ہر لحظہ مرگ و رجعتے ست + مصطفی فرمودہ دنیا ساعتے ست۔ پس تیرے لئے ہر لحظہ ایک موت اور ایک رجوع ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: دنیا ایک ساعت کی ہے (دیکھئے: مثنوی، دفترِ اوّل، ہم در بیانِ مکرِ خرگوش)۔

۴۔ سیّارۂ زمین اور اس کے باشندے جس نظامِ شمسی کی کائنات میں رہتے ہیں، اس کی آیاتِ قدرت میں سب سے عظیم آیت خود سورج ہی ہے، کہ اگر قرآنِ حکیم کی تفسیر عالمِ اکبر سے کی جائے تو آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کی مثال آفتاب سے، آیۂ سراجِ منیر (۳۳: ۴۶) کی تمثیل ماہتاب سے، اور دیگر آیاتِ نور کی تشبیہہ ستاروں سے دینی

 

۱۹۵

 

ہوگی، پھر ہمیں سکونِ قلبی کے عالم میں خوب غور کرنا چاہئے کہ نہ صرف ان مثالوں میں ، بلکہ خود لفظِ مصباح (چراغ)، نورٌعلیٰ نور، اور سراج میں بھی تجدّدِ امثال کی حقیقت کا تذکرہ موجود ہے یا نہیں؟

۵۔ سورج کوئی ٹھوس مادّہ نہیں، بلکہ ایک انتہائی زبردست طوفانی گیس ہے، اور قرآنِ مجید نے اسے چراغ (سراجاً، ۷۱: ۱۶، ۷۸: ۱۳) کا نام دے کر اشارہ فرمایا کہ اس میں ہمیشہ تجدّدِ امثال کا عمل جاری ہے، پھر اس کی وہ روشنی جو چاند اور ستاروں پر نظر آتی ہے، قانونِ اصل کے مطابق مسلسل نئی نئی ہوتی رہتی ہے، اسی طرح دھوپ، برقی روشنی، اور شعلۂ چراغ میں جدّت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، تمام مادّی روشنیوں کی اس دائمی حرکت اور تجدّد کے پس منظر میں شاید کوئی بہت بڑا راز پوشیدہ ہے، اور ہاں، یقیناً یہ ساری مثالیں نورِ عقل اور کلمۂ کُنّکُنۡ (ہو جا) کی خاطر ہیں۔

۶۔ چونکہ آدمی اپنی ہستی میں بے شمار روحانی اور عرفانی بھیدوں کا ایک انمول خزانہ پوشیدہ رکھتا ہے، لہٰذا اسے “کتابِ نفس” کہا جاتا ہے، سو آئیے ہم دیکھ لیں کہ اس عملی کتاب میں تجدّدِ امثال کے کیسے نمونے درج کئے گئے ہیں، سب سے پہلے نظامِ تنفس کو دیکھ لیجئے، پھر دل کی دھڑکن، نبض، اور دورانِ خون پر غور کیجئے، کوئی شک نہیں کہ زندگی کی ان علامتوں اور حرکتوں میں سے ہر ایک تجدّدِ امثال

 

۱۹۶

 

کا ایک طویل سلسلہ ہے۔

۷۔ قرآنِ مجید اور دینِ اسلام میں چلّہ (چالیس دن کا عرصہ) بڑی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی کافی مدت ہے، جس میں اگر انسان چاہے تو نہ صرف امراضِ باطن ہی سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے، بلکہ ان شاء اللہ روحانیّت میں اس کی بہت کچھ ترقی بھی ہو سکتی ہے، جبکہ اربعین (چلّہ، چالیس دن) میں آدمی کا پرانا وجود کلّی طور پر فرسودہ اور ریختہ ہو کر اس کی جگہ ایک جدید ہستی بنتی ہے، اگرچہ عموماً اس واقعے کا پتہ نہیں چلتا، اس لئے کہ یہ عمل کسی احساس کے بغیر بتدریج ہوتا رہتا ہے، اور اسی طرح ہر شخص ایک سال یعنی ۳۶۰ دن میں نو مرتبہ کلّی طور پر تجدّدِ امثال سے گزر جاتا ہے، جس میں ذرّاتِ ہستی کی ایسی مخلوط فنا و بقا کا احساس ممکن نہیں، جو سلسلہ وار بھی ہے، اور پیچیدہ بھی۔

۸۔ آپ یہ رازِ سربستہ بڑے شوق و مسؤلیّت کے ساتھ نوٹ کر لیجئے کہ سفرِ روحانیّت اور منازلِ معرفت کے سلسلے میں جب مرحلۂ عزرائیلی آتا ہے، تو ہر پیغمبر اور ہر ولی (صدیق، ۰۴: ۶۹) کا خصوصی تجدّدِ امثال ہونے لگتا ہے، جس میں اس پاکیزہ روح سے، جو ان حضرات سے پیاپے نکلتی رہتی ہے، بہ امرِ خدا بے شمار اجسامِ لطیف اور فرشتے بنائے جاتے ہیں، اور یہ قرآنی حکمت کی زبان میں سرابیل (کرتے، ۱۶: ۸۱) کہلاتے ہیں۔

۱۹۷

۹۔ جنت ویسے تو مکانی طور پر کائنات کے طول و عرض کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) مگر لامکانی طور پر روحانیّت میں یا قیامت میں نزدیک لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱، ۸۱: ۱۳) یعنی بحالتِ روح ہر شخص میں کائناتی بہشت سما سکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انبیاء و اولیاء ہی کی طرح جنت کا بھی تجدّدِ امثال ہوتا رہتا ہے، کیونکہ تمام اعلیٰ چیزیں امرِ کُنۡ (ہو جا) کے انتہائی قریب ہیں، لہٰذا ان میں ہمیشہ ابداعی ظہورات ہوتے رہتے ہیں۔

۱۰۔ آدمی لطیف بھی ہے، اور کثیف بھی، وہ جہاں جہاں لطیف ہے، وہاں اس کے تجدّدِ امثال کے لئے کچھ زیادہ وقت نہیں لگتا، مگر وہ جس معنیٰ میں کثیف ہے، اس کی جدّت و تبدیلی کے واسطے وقت چاہئے، اور اسی مقصد کے پیشِ نظر چلہ یعنی چالیس دن کی مدت مقرر ہے، جیسے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام پروردگارِ عالم کے حکم سے چہل روزہ عبادت کے لئے طورِ سینا پر گئے تھے، تاکہ آپ کی مبارک ذات میں بدرجۂ انتہا روحانی انقلاب آجائے (۰۲: ۵۱، ۰۷: ۱۴۲)۔

۱۱۔ آپ اگر چاہیں تو چلہ ( چالیس روز کا عمل) کر سکتے ہیں، لیکن کیسے؟ اور کس نیت سے؟ کیا آپ اس ریاضت کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو بسم اللہ کیجئے، اور وہ اس طرح کہ کسی بھی فردِ بشر کو آپ کے اس

 

۱۹۸

 

عمل کی خبر ہی نہ ہو، ورنہ صرف ناکامی ہی نہیں، بلکہ الٹا نقصان بھی ہوگا، اور یہ بھی یاد رہے کہ ہر قسم کی کامیاب نماز، عبادت، ذکر، اور اعتکاف کے لئے سب سے پاک و اعلیٰ اور سب سے بابرکت و بہترین مقام خدا کا گھر ہی ہے، جس میں بے شمار فیوض و برکات مہیا ہیں، پس کوئی دانشمند مومن خانۂ خدا کو چھوڑ کر بندگی کے لئے کوئی اور جگہ کیسے منتخب کر سکتا ہے، چنانچہ دینی عقل اس امر کی مقتضی ہے کہ مومن اہلِ ایمان کے درمیان رہتے ہوئے گمنام چلّہ کشی کر لیا کرے، اس طریق پر کہ وہ اپنے کام کاج کو حسبِ معمول انجام دیتے ہوئے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کے پُرنور ذکر کو بڑی کثرت اور بے حد عاجزی سے جاری و ساری رکھے، پھر چالیس دن کے بعد اپنے ظاہر و باطن کو دیکھے، ان شاء اللہ العزیز، اس عمل سے ترقی ہوگی، اور یہ کام بار بار یا ہمیشہ بھی ہو سکتا ہے۔

۱۲۔ عربی زبان السنۂ عالم کی بادشاہ ہے، اور پھر اس سے بڑھ کر قرآنِ حکیم کے معجزاتی بیان کی خوبیاں تو اس قدر زیادہ ہیں کہ جنّ و بشر باہم مل کر بھی ان کا احاطہ نہیں کر سکتے، ایسی عظیم الشّان، بے مثال، اور نرالی آسمانی کتاب کی ایک مختصر اور پُرحکمت آیۂ کریمہ پر کچھ دیر کے لئے غور کیجئے، وہ یہ ہے: و اذا السمآء کشطت (۸۱: ۱۱) اور جس وقت آسمان کی کھال اتاری جائے، یعنی جب کائنات کے حجابِ ظاہر کو ہٹا کر محجوبِ باطن کا مشاہدہ کرایا جائے، یہاں ایک متعلقہ علمی سوال

 

۱۹۹

 

ہے: آپ جب جب خواب میں آسمان، سورج، چاند اور ستاروں کو دیکھتے ہیں، تو کیا یہ ان چیزوں کا روحانی پہلو ہے؟ یا مادّی پہلو؟ اس کے لئے آپ کا جوابِ باصواب یہ ہونا چاہئے کہ خواب روحانیّت کا نمونہ ہے، لہٰذا خواب میں جس آسمان کو دیکھا جاتا ہے، وہ باطنی اور روحانی ہے، نیز یہ خصوصی اور ابداعی تجدّدِ امثال کا معجزہ ہے، جس طرح نکتہ نمبر ۸ اور نمبر ۹ میں اس کا ذکر ہو چکا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
اتوار ۲۵ ذیقعدہ ۱۴۰۸ھ / ۱۰ جولائی ۱۹۸۸ء

۲۰۰

 

 

قرآنی عجائب و غرائب کے نمونے
قسط : ۱

۱۔ صبغۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸): یہ عجائب و غرائب کسی شک کے بغیر مشاہداتِ عین الیقین میں سے ہیں کہ ربّ العزّت ارواحِ مومنین اور عالمِ شخصی کی ہر ہر شے کو انوارِ مختلفہ میں رنگ دیتا ہے، جیسے نورِ اخضر، نورِ اصفر، نورِ احمر، اور نورِ ابیض، جو نور الانوار کہلاتا ہے، یہ رنگین روشنیاں عرش سے نازل ہوئی ہیں (کتاب الزینۃ۔ باب العرش) چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے: رنگ تو خدا ہی کا رنگ ہے جس میں تم رنگے گئے اور خدائی رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہو گا اور ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں (۰۲: ۱۳۸)۔

۲۔ نورِ ایمان: خالقِ اکبر نے اپنی قدرتِ کاملہ سے نورِ ایمان کو نہایت ہی باکمال اور بمرتبۂ انتہا محبوب و مزیّن بنا دیا ہے، جس کے حسن و جمالِ عرفانی کے فرحت بخش جلوے دیدۂ دل کے سامنے مذکورۂ بالا الوانِ غیر مصبوغ میں ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: لیکن خدا نے تمہیں ایمان نہایت محبوب بنا دیا

 

۲۰۱

 

ہے اور اسے انوار سے آراستہ کر کے تمہارے دلوں میں باعثِ زینت کر دیا ہے (۴۹: ۰۷)۔

۳۔ عملِ عزرائیلی: سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۱) میں حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کا تذکرہ اس طرح فرمایا گیا ہے: آپ فرما دیجئے کہ تمہاری جان موت کا فرشتہ قبض کرتا ہے جو تم پر متعیّن ہے ( وکل بکم ) یعنی تم پر ہر وقت مؤکل ہے، چنانچہ عزرائیل کے اس عمل میں ہر قسم کی موت داخل اور شامل ہے، تاہم منجملۂ اموات صوفیانہ موت قابلِ ذکر ہے، کیونکہ وہ جسمانی مرگ سے پہلے ہی واقع ہو جاتی ہے، جس میں ایک ساتھ روحانیّت اور معرفت کے بہت سے بڑے بڑے معجزات رونما ہو جاتے ہیں، اس وقت ملک الموت کا ظہور ایک اسمِ بزرگ میں ہوتا ہے، جو اسماءُ الحسنیٰ میں سے ہے، یہ بڑا نام سر میں رہ کر اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہے، اور اس کا ذرّاتی لشکر سراسر بدن کے خلیات میں ڈوب کر جان نکالنے میں مصروف رہتا ہے۔

۴۔ چار مرغِ خلیل (۰۲: ۲۶۰): حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے چار پرندوں میں عالمِ شخصی کی قوّتِ جبرائیلی، قوّتِ میکائیلی، قوّتِ اسرافیلی، اور قوّتِ عزرائیلی کی مثالیں ہیں، پس جس وقت خداوندِ قدوس کی تائید سے نفس کے چار پرند ذبح کئے جاتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں یہ چاروں قوّتیں بیدار اور زندہ ہو جاتی ہیں۔

۲۰۲

۵۔ معرفتِ انبیاء و اولیاء (۰۷: ۱۱): من عرف نفسہ فقد عرف ربہ (جس نے اپنی روح کو پہچان لیا، بے شک اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا) لیکن سوال ہے کہ اپنی کون سی روح؟ یا کون سی ذات؟ روحِ کامل اور نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) کیونکہ اس کے بغیر خلق و بعث کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی، اور نفسِ واحدہ وہ وسیلۂ عرفان ہے، جس میں تمام ممکنہ معرفتیں حاصل ہو جاتی ہیں، جیسے حضرت آدم علیہ السّلام کی شناخت کے بارے میں ارشاد ہے (مفہومِ آیۂ کریمہ): اور ہم نے تمہاری جسمانی تخلیق کی پھر تمہاری روحانی صورت مکمل کر دی، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا، بجز ابلیس کے (اور یہ سب کچھ تمہاری چشمِ بصیرت کے سامنے ہوا، ۰۷: ۱۱) پس اسی طرح انبیاء و اولیاء کی معرفت بمظاہرۂ نفسِ واحدہ مکمل ہو جاتی ہے۔

۶۔ سرابیل (۱۶: ۸۱): پروردگارِ عالم کی ایسی نعمتہائے عظمیٰ کا ذکرِ جمیل بار بار کیوں نہ ہو، کہ اس قادرِ مطلق نے اہلِ ایمان کے لئے دو قسم کے زندہ کُرتے یعنی اجسامِ لطیف بنا دیئے ہیں، ایک بہشت کے واسطے ہے، اور دوسرا دنیا میں اسلام پھیلانے کے لئے، اور جو کُرتۂ لطیف بہشت سے متعلق ہے، اس میں مومن کی انائے عُلوی یا روح کا بالائی سرا اس وقت بھی جنت میں ہے، جس کے بارے میں حدیثِ نبوّی کا ارشاد ہے: انما نسمۃ المومن طائر یعلق فی

 

۲۰۳

 

شجرۃ الجنۃ (مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت میں اڑتی پھرتی ہے) اگر طائرِ روح کا تعلق شجرۂ بہشت سے ہے تو یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ وہ درخت عقل و جان کے بغیر نہیں، یعنی وہ ایک کامل انسان بھی ہے، اور ایک عظیم فرشتہ بھی۔

۷۔ کیف مد الظل (۲۵: ۴۵): انسانوں کی اجتماعی روح، جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے، انسانِ کامل اور شخصِ مکمل کا وہ سایہ ہے، جو آفتابِ نورِ حق کے طلوع ہو جانے کی وجہ سے نمودار ہو جاتا ہے، چنانچہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم سے یہ سایہ دور دور تک پھیل بھی جاتا ہے، اور مرکوز بھی ہو جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر آدمی نفسِ واحدہ سے نہ صرف دور ہو سکتا ہے، بلکہ نزدیک اور وابستہ بھی ہو سکتا ہے، سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) کو غور سے پڑھ لیں۔

۸۔ عفریت من الجن (۲۷: ۳۹): سوال: آیا جنّوں میں سے وہ عفریت مسلمان تھا، جس نے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے حکم پر ملکۂ سبا کے تخت کو لانے کے لئے اپنی خدمات پیش کی تھیں؟ جواب: جی ہاں، جب وہ سرداروں میں سے تھا (۲۷: ۳۸) تو اس کی سرداری دینی اور ایمانی مرتبت کی وجہ سے تھی، ورنہ پیغمبر کے لشکر میں یا دربار میں غیر مسلم یا ایمان کا کمزور سردار کیونکر ہو سکتا ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ عفریت (قوی ہیکل) اور وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم تھا (۲۷: ۴۰) دونوں معجزاتی کرتے تھے، جن کا ذکر سورۂ نحل

 

۲۰۴

 

(۱۶: ۸۱) میں موجود ہے، اور یہاں جنّ کی طرف توجہ دلائی گئی۔

۹۔ کلمۂ امر اور کوہِ عقل (۱۶: ۸۱): اور خدا ہی نے تمہارے آرام کے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے اسی نے تمہارے (چھپ کے بیٹھنے کے) واسطے پہاڑوں میں گھروندے (غار وغیرہ) بنائے (۱۶: ۸۱) یعنی خدائے دانا و بینا نے تمہارے عالمِ شخصی میں ہر عظیم مخلوق کا نورانی عکس بنایا، اور سب سے پہلے کلمۂ کُنۡ اور کوہِ عقل کا نمونہ بنا دیا، جس سے زمانی و مکانی مسائل ختم ہو کر صرف ازل و ابد کی حیققتیں سامنے آجاتی ہیں، اور جہاں تجدّدِ امثال کا معجزہ کام کرتا رہتا ہے۔

۱۰۔ نٓ و القلم (۶۸: ۰۱): ارشادِ خداوندی: “نٓ و القلم و ما یسطرون” کے بارے میں حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے پوچھا گیا: فقال: نون نھر فی الجنۃ اشد بیاضا من الثلج و احلیٰ من الشہد۔ قال اللّٰہ لہ: اجمد افجمد۔ ثم قال للقلم: اکتب! فکتب القلم ما ھو کائن الیٰ یوم القیامۃ ثم قال للقلم: اصمت! فصمت ۔ تو آپؑ نے فرمایا: نون جنت میں ایک نہر ہے جو برف سے زیادہ سفید اور شہد سے بڑھ کر شیرین ہے، خدا نے اسے حکم دیا: منجمد ہو جا! تو وہ منجمد ہو گئی، پھر اللہ نے قلم کو فرمایا: لکھ دے! تو قلم نے (وہ سب کچھ ) لکھ دیا جو قیامت تک ہونے والا تھا، پھر قلم کو حکم ہوا: خاموش ہو جا، تو وہ خاموش ہو گیا

 

۲۰۵

 

(کتاب الزینۃ۔ باب القلم) قلم نے جو کچھ لکھا، اس میں علمِ الٰہی کے اسرار ہیں۔

۱۱۔ کتب قیمۃ (۹۸: ۰۳): فیھا کتب قیمۃ کے معنی یہ ہیں کہ قرآنِ پاک تمام کتبِ سماویہ کے مطالب پر حاوی ہے، کیونکہ قرآنِ پاک تمام کتبِ متقدمہ کا ثمرہ اور نچوڑ ہے (مفردات القرآن) پس کسی نیک بخت شخص کا قرآنِ مجید سے بصد شوق وابستہ ہو جانا اور عشق رکھنا جملہ آسمانی کتابوں کا عشق ہے، یہ قرآنی عشق شروع ہی سے قلب و جان میں ایک پُرلذّت اور خوشگوار درد رہا ہے، لیکن خدا کی قسم! اسے رہنے دیجئے، کیونکہ اس کی موجودگی میں دوسری بہت سی بیماریاں لاحق نہیں ہو سکتی ہیں۔

۱۲۔ شعآئر اللّٰہ (۲۲: ۳۲): ذالک و من یعظم شعآئر اللّٰہ فانھا من تقوی القلوب (۲۲: ۳۲) یہ (یاد رکھو) اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم کی تلاوت، سماعت، علم، حکمت اور عمل سے جو دولتِ پائندہ حاصل ہو جاتی ہے، اس کی مثال تو الگ ہے، مگر یہاں قرآنِ عزیز کی صرف اعتقادی تعظیم و حرمت اور تقدیس کی بات ہو رہی ہے کہ یہ بھی ایک آسان قلبی تقویٰ ہے، حالانکہ دوسری طرح سے دل کی پرہیزگاری بہت مشکل ہے، پس جو مومن قرآنِ حکیم کو کلامِ الٰہی اور رسول اللہ کا سب سے عظیم ترین معجزہ

 

۲۰۶

 

مانے، اور دل وجان سے اس کی تعظیم بجا لائے، تو اللہ تعالیٰ ایسے ہوشمند مومن کو بہت سی برائیوں اور بیماریوں سے محفوظ و سلامت رکھے گا، کیونکہ “دلوں کی پرہیزگاری” کہنے میں یہی اشارہ فرمایا گیا ہے، جبکہ دل کی پرہیزگاری طبِ روحانی میں سب سے بڑی چیز ہوا کرتی ہے، ان شاء اللہ العزیز۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
جمعہ ۷ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۲۲ جولائی ۱۹۸۸ء

۲۰۷

 

 

قرآنی عجائب و غرائب کے نمونے
قسط: ۲

۱۔ غذاہائے لطیف: خداوندِ عالم کا پرحکمت ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ (۲۳: ۵۱) اے (میرے) پیغمبرو، پاک و پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھے اچھے کام کرو۔ اگر یہ حکم صرف ظاہری اور مادّی رزقِ حلال ہی کے بارے میں ہوتا تو اس صورت میں پیغمبروں کے ساتھ ساتھ ان حضرات کے مومنین کا بھی ذکر فرمایا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ اس میں رسولوں کی تخصیص ہے، پس ظاہر ہوا کہ اس آیۂ مقدّسہ میں غذا ہائے لطیف کا تذکرہ ہے، جو خوشبوؤں کی صورت میں حاصل ہو جاتی ہیں، چنانچہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ظاہری خوشبو بھی پسند تھی، اور سرورِ کائنات کی یہ پُرحکمت عادت روحانی خوشبوؤں کی مثال و علامت کے طور پر ہے۔

۲۔ پیراہنِ یوسفی: ترجمۂ آیۂ کریمہ: یوسف اور ان کے بھائیوں کے قصّہ میں پوچھنے (یعنی مانگنے) والوں کے لئے

 

۲۰۸

 

یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں (۱۲: ۰۷) یہاں لفظِ سائلین پر کماحقہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کے معنی ہیں: مانگنے والے، پوچھنے والے، پس اگر کوئی مسلمان درویش یا فقیر اپنے پیغمبرِ برحق کے مقدّس در پر جا کر سورۂ یوسف کے بھیدوں کا صدقہ مانگتا ہے تو یقین ہے کہ اسے یہ خیرات اور بھیک علم وحکمت کی نشانیوں میں مل جائے گی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ان بندوں کو جو صحیح معنوں میں مانگنے والے ہیں، روحانی بھیک دلوانا چاہتا ہے، اس دلیل سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ پیراہنِ یوسفی کا تجربہ دنیا میں ہو یا نہ ہو، لیکن یہ ہر مومن کا جامۂ جنت ہے (۱۲: ۹۳ تا ۹۴) جس کو آپ جسمِ مثالی وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں، اور اس کے ساتھ خوشبوؤں سے بھرپور لطیف غذائیں بھی ہیں۔

۳۔ اڑن طشتریاں: اگرچہ فی الحال سائنسدان اڑن طشتریوں کی حقیقت و معرفت سے نا بلد ہیں، لیکن آگے چل کر ان پر یہ عظیم راز منکشف ہو جائے گا یہ انسانوں کے لئے وہ زندہ کُرتے ہیں، جن کا تذکرہ سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں فرمایا گیا ہے، ہر چند کہ یہ ہمیشہ سے موجود ہیں، لیکن اب کچھ مدت سے آسمان پر یہ مظاہرِ قدرت نظر آرہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کو مسخر کر لینے سے دنیا میں بہت بڑا انقلاب آئے گا، یہ تسخیر کسی وسیلے سے ہو سکتی ہے (۳۱: ۲۰، ۴۵: ۱۳)۔

۲۰۹

۴۔ بہشت میں پرندوں کا گوشت (۵۶: ۲۱): پرندوں کا گوشت اگرچہ اس دنیا میں ایک لذیذ اور مقوّی خوراک ہے، لیکن پھر بھی یہ غذائے لطیف تو نہیں، کہ اہلِ جنت اسے کھائیں ، کیونکہ بہشت میں کثیف غذائیں نہیں کھائی جاتیں، پس بتائیں کہ پرندوں کے گوشت کا اشارہ کس حقیقت کی طرف ہے؟ جواب: پرندوں سے فرشتے اور روحیں مراد ہیں، اور گوشت ہے ان کی ملاقات اور علم و حکمت، جس کی حلاوت و شیرینی اور قوّتِ روحانی و عقلانی بے مثال ہے (۵۶: ۲۱)۔

۵۔ صندوقِ سکینہ (۰۲: ۲۴۸): قرآنِ حکیم کے نو مختلف مقامات ایسے ہیں، جہاں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے، جو اپنی کج فہمی سے قصّہ ہائے قرآنِ پاک کو اساطیر الاوّلین (پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیاں) قرار دیتے تھے، یہ تو کفار کی انتہائی جہالت و نادانی تھی، حالانکہ سر تا سر قرآنِ کریم میں اور اس کے ہر قصے میں بے شمار نصیحتوں اور عبرتوں کے علاوہ انمول روحانی جواہر بھی موجود ہیں، مثال کے طور پر قصۂ صندوقِ سکینہ کو لیجئے: اگر مرشدِ کامل کا انتخاب خدا و رسول کے منشا کے مطابق ہو چکا ہے، تو افرادِ حلقہ میں سے بعض پر بابِ روحانیّت مفتوح ہو جائے گا اور یہی وہ صندوقِ سکینہ (تسکین والا صندوق) ہے، جس میں پروردگارِ عالم کی طرف سے تسکینِ معرفت اور انبیاء و اولیاء کے تمام روحانی اور

 

۲۱۰

 

عقلی تبرکات رکھے ہوئے ہیں (۰۲: ۲۴۸) آپ نے دیکھا کہ اس قصّے کا تعلق نہ صرف ماضی ہی سے ہے، بلکہ یہ حال و مستقبل سے بھی متعلق ہے۔

۶۔ خزائنِ الٰہی (۱۵: ۲۱): اور کوئی چیز نہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس موجود ہیں اور ہم اس کو نہیں اتارتے ہیں مگر (لوگوں کی ) دانستہ مقدار کے مطابق (۱۵: ۲۱) اگر اس تعلیمِ سماوی میں ظاہری نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے: ایسی چیزیں اور نعمتیں کون سی ہیں، جو ہر وقت نازل ہو سکتی ہیں؟ آیا قرآنِ پاک زمین پر ہے؟ یا آسمان پر؟ کیا یہ خدا کے عظیم خزانوں میں سے نہیں، جن سے چیزیں نازل ہوتی رہتی ہیں؟ جواب: ان چیزوں اور نعمتوں کا نہ تو کوئی شمار ہے اور نہ کوئی اندازہ، جو خزائنِ الٰہی سے ہمیشہ نازل ہوتی رہتی ہیں، وہ نہ صرف ظاہری، مادّی اور دنیوی ہیں، بلکہ باطنی، روحانی اور دینی بھی ہیں، قرآنِ مجید مکانی اعتبار سے زمین پر ہے، مگر شرافت و عندیت کے لحاظ سے آسمان پر، اور کسی شک کے بغیر یہ پروردگارِ عالم کا ایک انتہائی عظیم خزانہ ہے، پس مذکورہ خزائن سے ہر وقت لوگوں پر بقدرِ علم و عمل گوناگون نعمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں۔

۷۔ حقیقتِ حقائق کی گوناگون مثالیں: اس مادّی دنیا میں چیزیں دو طرح سے پیدا ہو جاتی ہیں، قسمِ اوّل کی مثال: جب بوئی ہوئی گٹھلی سے پودا پیدا ہو جاتا ہے، تو پھر گٹھلی ختم ہو چکی ہوتی

 

۲۱۱

 

ہے، اور جس وقت انڈے سے چوزہ نکلتا ہے، تو اس حال میں انڈے کا صرف چھلکا نظر آتا ہے، قسمِ دوم کی مثال: جب قلم سے کوئی کتاب لکھی جاتی ہے، تو قلم اپنی جگہ موجود رہتا ہے، اور جہاں کسی سانچے یا کارخانے میں اشیاء بنائی جاتی ہیں، وہاں نہ ہی سانچا (قالب) ختم ہو جاتا ہے، اور نہ کارخانہ، اب ہمیں ان روشن مثالوں کی روشنی میں یہ بحث کرنی ہے کہ آیا وہ لولوئے عقل اب ختم ہو چکا ہے، جس سے خالقِ اکبر نے کائناتِ ارض و سما کو پیدا کیا تھا؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں، کیونکہ گوہرِ عقل کی تشبیہہ و تمثیل نہ تخمِ درخت سے دی جاسکتی ہے، اور نہ ہی بیضۂ مرغ سے، مگر ہاں ، کوئی شک نہیں کہ قلم ہی لولوئے مکنون کی مثال ہو سکتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ نورِ عقل کو قلمِ الٰہی کہا گیا ، اور یہی حقیقتِ حقائق ہے، جس کی ذیلی مثالیں گوناگون ہیں۔

۸۔ کائنات کو لپیٹنا (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷): اگر آپ کو عالمِ امر سے متعلق فعلِ خدائی کے ایک عظیم راز کو جاننا ہے، تو قرآنِ کریم کے ان مبارک الفاظ میں غور کیجئے: و کان امر اللّٰہ مفعولا (۳۳: ۳۷) اور خدا کا ہر کام (ازل ہی میں عملی جامہ پہنا کر) کیا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لولوئے مکنون میں کائنات اس وقت بھی لپٹی ہوئی ہے، مگر لوگوں کی اکثریت اس انتہائی عظیم معجزے کے تجدّدِ امثال کو صرف مر جانے کے بعد ہی دیکھ سکے گی، اور یہاں

 

۲۱۲

 

اسی مناسبت سے فعلِ خداوندی کا ذکر صیغۂ مستقبل میں ہے، یعنی فرمایا گیا: وہ دن جب کہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے، جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیئے جاتے ہیں (۲۱: ۱۰۴)۔

۹۔ معراج اور دیدارِ خداوندی: نظریۂ دیدارِ الٰہی جتنا بلند ہے، اتنا اہم بھی ہے، لہٰذا آئیے، ہم اس کے تذکرے سے اپنی عقل و جان کا مداوا کریں، وہ یہ ہے کہ مسئلۂ دیدار و ملاقات کے دو پہلو ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار ایک اعتبار سے خارج از امکان ہے ، اور دوسرے اعتبار سے ممکن ہے، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پہلے عالمِ خلق میں اور پھر عالمِ امر یعنی معراج میں خدائے بزرگ و برتر کا دیدارِ پاک حاصل ہوا تھا، حضورِ انورؐ کو عالمِ آب و گل میں جو دیدار ہوا، اس کے حوالے یہ ہیں: ۔۔۔ الا وحیا (مگر اشارۂ ظہور سے، ۴۲: ۵۱) ۔۔۔ بالافق المبین (۸۱: ۲۳) ۔۔۔ بالافق الاعلیٰ (۵۳: ۰۷) اور عالمِ جان و دل میں جیسے آپ کو دیدارِ باطن ہوا، اس کا حوالہ یہ ہے: ۔۔۔ عند سدرۃ المنتھیٰ (۵۳: ۱۴)۔

۱۰۔ حضرت موسیٰؑ کو دیدار اور مرتبۂ فنا فی اللہ (۰۷: ۱۴۳): حضرتِ موسی علیہ السّلام کو بھی ایک معنی میں دیدار نہیں ہوا تھا، اور دوسرے معنی میں دیدار ہوا تھا، چنانچہ جب پروردگارِ عالم نے کوہِ عقل پر تجلّی فرمائی (یعنی ظاہر ہوا) تو خدا کی اس تجلئ علم و حکمت

 

۲۱۳

 

سے پہاڑ کے علمی و عرفانی جواہر پارے ہو گئے، جس کو حضرت موسیٰ نے دیکھا اور اس دیدارِ خداوندی کے زیرِ اثر آپ پر محویت و فنائیت طاری ہو گئی۔

۱۱۔ رویت (دیدار) علمِ لدنّی کی خاطر ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ کا جو پاک دیدار ممکن ہے، وہ صرف مظاہرۂ اسرارِ ازل و ابد ہی کے لئے خاص ہے، پس جو ہوشمند مومنین و مسلمین عقلی بیماریوں سے بچ کر علم و معرفت کے بھیدوں کی تلاش کرتے رہیں، وہ ان شاء اللہ، ایقان و عرفان کی سیڑھی چڑھتے چڑھتے ایک دن دیدارِ اقدس کے شرف سے مشرف ہو جائیں گے، آمین!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
منگل، ۱۱ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۲۶ جولائی ۱۹۸۸ء

 

۲۱۴

 

امثلۂ اسرارِ وحی
قسط: ۱

۱۔ عزیز دوستو اور ساتھیو! آئیے، ہم اپنے بہت سے امراض کے علاج و شفا کی نیّت سے تھوڑی سی علمی عبادت اور ذہنی ریاضت کریں، اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے نصرت و تائید طلب کرتے ہوئے حضراتِ انبیاء علیہم السّلام خصوصاً حضرتِ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معرفت کے جان و دل سے سعی کریں، تاکہ ہمیں عشقِ رسول کا عملی تجربہ نصیب ہو، آمین!

۲۔ وحی کے لفظی معنی: وحی کے اصل معنی ہیں: اشارۂ سریعہ (تیز اشارات) چنانچہ ایسے معاملہ کو جو تیز رفتار ہو، امر وحی کہا جاتا ہے، وحی مجموعی طور پر حواسِ ظاہر و باطن سے متعلق رموز و اشارات پر مبنی ہوتی ہے، کیونکہ وہ ایک ایسی روشن اور اتنی وسیع کائنات ہے کہ رفتہ رفتہ آفاق اور عالمِ شخصی پر محیط و حاوی ہو جاتی ہے۔

۳۔ وحی کے لئے تیاری: خداوندِ بزرگ و برتر کی سنت

 

۲۱۵

 

میں روحانی اور عقلی طور پر کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوتا (۱۷: ۷۷، ۴۰: ۸۵) لہٰذا ہمارا عقیدۂ راسخ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح حضرت آدمؑ کو علمِ اسماء کی ربّانی تعلیم سے سرفراز فرمایا تھا، اسی طرح دوسرے انبیاء کو اور خصوصیت کے ساتھ ہمارے پیغمبرِ اکرمؐ کو خداوند نے علمِ اسماء کے خزائن عطا کر دیئے ، اور تمام خزانوں کی کلیدیں اسمِ اعظم میں تھیں، پس آنحضرتؐ بوسیلہ اسمِ بزرگ خدا کی یاد و بندگی کر لیا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں نہ صرف قلبی اطمینان حاصل ہوا، بلکہ صبغۃ اللہ کی عظیم الشّان روشنیاں بھی نظر آنے لگیں (۱۳: ۲۸، ۰۲: ۱۳۸) اس سے ظاہر ہوا کہ وحی کے سلسلے میں سب سے پہلے ایک انتہائی تابناک دنیا کا مشاہدہ ہونے لگتا ہے، جس کی تیز اور رنگین روشنیوں سے چشمِ باطن خیرہ ہو جاتی ہے، تاہم یہ پیغمبرانہ وحی نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کی منزل تجربۂ مرگِ نفسانی کے بعد آتی ہے۔

۴۔ لفظِ “بعث” میں ایک عظیم راز: بعث کے معنی ہیں زندہ کرنا، اٹھا کھڑا کرنا، جی اٹھنا، بھیجنا (قاموس القرآن) پس بعث کے معنی ہوئے: اس نے زندہ کیا، اس نے بھیجا، اور اب دیکھئے: فبعث اللّٰہ النبین (۰۲: ۲۱۳) پھر اللہ نے پیغمبروں کو (موتِ نفسانی کے بعد) زندہ کر دیا۔ اور اسی رازِ خفی کا دوسرا لفظ ہے: بھیجا، تو آپ نے اچھی طرح سے دیکھ لیا کہ ہر پیغمبر کو اوّل اوّل تجربۂ

 

۲۱۶

 

موتِ نفسانی سے گزر جانا پڑتا ہے، کیونکہ اس پُرحکمت عمل میں روحانی بھیدوں کا ایک انمول خزانہ پنہان ہے۔

۵۔ چار فرشتوں کا صوتی ظہور: مذکورۂ بالا حوالے کے مطابق جب کسی پیغمبر کے لئے موت قبل از موت کا عظیم معجزہ رونما ہونے لگتا ہے، تو وہ انتہائی بڑی عزت کی موت جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل علیہم السّلام کے صوتی ظہور اور مشترکہ عمل کی وجہ سے واقع ہوتی ہے، جس میں موت و بعث کا سلسلہ کئی دن تک جاری رہتا ہے، اسی طرح حضرت محمد مصطفی خاتمِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قلبِ مبارک ملکوت سے مربوط ہو کر پیغمبرانہ وحی کے لئے تیار ہوا۔

۶۔ پانچ وسائط: کتاب الزینۃ، باب القلم، میں یہ روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جبرائیل سے وحی لیا کرتے تھے، جبرائیل، میکائیل سے لیتا تھا، میکائیل اسرافیل سے، اسرافیل لوح سے ، اور لوح قلم سے وحی حاصل کر لیتی تھی۔ چنانچہ آنحضرتؐ اور پروردگارِ عالم کے درمیان وحی کے پانچ وسائط تھے، جن کا ذکر ہوا، تاہم یقین کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ روایت البتہ حضورِ اکرمؐ کی ابتدائی نبوّت اور عام حالت سے متعلق ہے، لیکن عروج و ارتقاء اور خاص حالت کا ذکر اس سے الگ ہے، جس کی ایک روشن مثال واقعۂ معراج ہے۔

۲۱۷

۷۔ خواب میں وحی: حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کو خواب میں بھی وحی نازل ہوتی ہے، ایسے خواب نہ صرف شروع شروع میں دیکھے جاتے ہیں، بلکہ یہ سلسلہ آخر تک جاری رہتا ہے، کیونکہ اچھا خواب نبوّت کے معجزات میں سے ہے، مگر ہمیں ہرگز ایسا نہیں سوچنا چاہئے کہ انبیاء و اولیاء کی نیند ہماری نیند جیسی ہوتی ہے۔

۸۔ فرشتہ بصورتِ بشر: حدیثِ شریف میں ہے کہ کبھی فرشتۂ وحی آدمی کی صورت میں رسول اللہ کے پاس آکر کلام کرتا تھا۔

۹۔ جھنکار کی آوازیں: وحی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس میں پہلے پہل سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جھنکار جیسی آوازیں سنائی دیتی تھیں، یہ البتہ ابوابِ سماوات کھل جانے کی مثال و دلیل تھی۔

۱۰۔ فرشتہ کی خاموشی: بشکلِ بشر فرشتے کا ظاہر ہو کر رسولِ خدا سے کلام کرنا وحئ جلی ہے، ہاتھ سے کوئی اشارہ کرنا وحئ خفی ہے، اور خاموش رہنا وحئ اخفیٰ ہے۔

۱۱۔ معجزات کا تجدّدِ امثال: جب رحمتِ عالم منزلِ عزرائیلی میں داخل ہوئے تھے، تو اس وقت آپ نے اپنے عالمِ ذر میں انبیائے سلف کے ان تمام معجزات کا تجدّدِ امثال دیکھا تھا (۲۴: ۳۴) جن کا تعلق اسی منزل سے رہا ہے، جیسے حضرت آدمؑ کے

 

۲۱۸

 

لئے فرشتوں کا سجدہ کرنا (۱۵: ۲۹) معجزۂ طوفانِ نوح (۲۳: ۲۷) حضرتِ ابراہیم کے چار پرندوں کا زندہ ہو جانا (۰۲: ۲۶۰) حضرت موسیٰ کی قوم کے واسطے دریا کا شگافتہ ہو جانا (۰۲: ۵۰) حضرت داؤد کی تسبیح خوانی کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی ہمنوائی کا معجزہ (۲۱: ۷۹) حضرتِ سلیمان کی بے شمار روحانی افواج (۲۷: ۱۷) حضرت عیسی کا اپنے مؤمنین کے لئے پرندے یعنی اڑنے والے کرتے بنانا (۰۳: ۴۹) اور حضورِ انور کی دعوتِ بابصیرت میں دنیا بھر کے لوگوں کا داخل ہو جانا (۴۸: ۲۸، ۱۱۰: ۰۲)۔

۱۲۔ مرکزِ نبوّت و رسالت: یقیناً ہر پھیلی ہوئی چیز کا ایک مرکز ہوا کرتا ہے، چنانچہ نبوّت و رسالت اللہ تعالیٰ کی جن برگزیدہ اور پسندیدہ ہستیوں میں پھیلی ہوئی تھی، وہ بہ امرِ خدا رحمتِ عالم فخرِ آدم و بنی آدم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ عالی صفات میں مرکوز و مجتمع ہوئی، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ تمام پیغمبروں کے سارے روحانی اور عقلی معجزات سرورِ انبیاء کے نورِ اقدس میں جمع ہو گئے، اور یہی حقیقت آئینۂ “نورٌعلیٰ نور” میں جھلک رہی ہے، اسمائے الٰہی میں دیکھ لیجئے کہ خدائے پاک القابض بھی ہے، اور الباسط بھی، اس کا قرآنی مطلب یہ ہے: و اللّٰہ یقبض و یبصط (۰۲: ۲۴۵) اللہ کبھی جمع کرتا ہے اور کبھی بکھیر دیتا ہے (المفردات) آیا قرآنِ عظیم سابقہ کتبِ سماوی کے علمی معجزات کا جامع اور اس سے زیادہ نہیں ہے؟ اگر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، تو پھر صاحبِ

 

۲۱۹

 

کتاب یعنی امامِ انبیاء و رسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس و اطہر میں تمام اگلے پیغمبروں کے روحانی اور عقلانی معجزات مجموع ہونے کے ساتھ ساتھ مزید معجزے اور عجائب و غرائب کیوں نہ ہوں۔

۱۳۔ کمالِ انسانیّت کے دو پہلو: سیدِ عالم یقیناً کامل انسانوں کے سردار تھے، لہٰذا آپ کی پاک و پاکیزہ اور مبارک شخصیّت کا ایک پہلو بشری تھا، اور دوسرا پہلو ملکی، پس حضورِ انورؐ نے پہلے بدرجۂ انسانِ کامل، اور پھر بمرتبۂ فرشتۂ ارضی شروع سے لے کر آخر تک ہر قسم کی وحی حاصل کر لی، تاہم یہاں وحی اور کلام کے اعلیٰ مراتب کا ذکر کرنا ازبس ضروری ہے۔

۱۴۔ کلام از پسِ پردہ: حجابات بہت سے ہیں، اور وہ تین قسموں میں ہیں: حجاباتِ جسمانی، حجاباتِ روحانی، اور حجاباتِ عقلی (علمی) یہ سب سائے ہیں، جو انسان پر پڑتے رہتے ہیں، مگر خدا پر کوئی سایہ نہیں پڑ سکتا، آپ سورج کو دیکھیں کہ سایہ اور ظلمت اس کی طرف جا ہی نہیں سکتی، پس عظیم پیغمبروں سے خدائے پاک از پسِ حجاب کلام فرماتا ہے، کیونکہ وہ حضرات اللہ کے بہت ہی قریب ہو جاتے ہیں۔

۱۵۔ وحئ رویت / وحئ تجلّی: وحی اشارت کو کہتے ہیں، اور انتہائی عظیم اشارت خدا کی ملاقاتِ پاک ہے، جو وحئ رویت، وحئ تجلّی، اور وحئ ظہور کہلاتی ہے، یہ سب سے عالیشان اور سب

 

۲۲۰

 

سے پُرحکمت وحی جو دیدار کی کیفیت میں ہے، بے شمار اشاراتِ علمی و عرفانی کا مخزن ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ دیدار جو گنجِ اوّل و آخر ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عالمِ خلق میں بھی حاصل ہوا، اور عالمِ امر (معراج) میں بھی، تاہم ان دونوں حالتوں کے درمیان یہ نمایان فرق تھا، کہ آپ صلعم یہاں بشر تھے، اور وہاں یعنی معراج میں ملک (فرشتہ) کیونکہ وہ مقام اتنا اعلیٰ و برتر اور ایسا باجلالت و کرامت ہے کہ بشر تو بشر ہی ہے، جبرائیل جیسا فرشتہ بھی وہاں نہیں جا سکتا۔ دعا ہے کہ ربّ العالمین اپنے محبوب پیغمبر کی حرمت سے ہم سب کو ہر قسم کی بیماری سے شفا بخشے ! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
ہفتہ ۱۵ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۳۰ جولائی ۱۹۸۸ء

۲۲۱

امثلۂ اسرارِ وحی
قسط: ۲

۱۔ قلبِ مومن عرشِ رحمان: حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: لا یسعنی ارضی و لا سمائی و یسعنی قلب عبدی المؤمن التقی (میری زمین مجھ کو نہیں سما سکتی نہ میرا آسمان مجھ کو سما سکتا ہے لیکن میرے پرہیزگار مومن بندے کا قلب مجھے سما لیتا ہے) ایسے مومنین فعلاً کون ہو سکتے ہیں؟ انبیاء، اولیاء (صدیقین، ۰۴: ۶۹) اور پھر ہر عالی ہمت مومن کے لئے بھی یہ بلند ترین درجہ ممکن ہے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ عالمِ شخصی میں دل عرشِ الٰہی ہے، جس میں تجلّیات یعنی دیدارِ حق اور معرفت یقینی ہے، اور راہِ روحانیّت میں معجزاتِ وحی و الہام کا مشاہدہ لازمی ہے، کیونکہ کسی مومنِ سالک کو آگے بڑھ جانے اور منزلِ مقصود میں جا پہنچنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ طریقِ انبیاء علیہم السّلام ہے، جو صراطِ مستقیم کے نام سے معروف ہے (۰۴: ۶۹) جس کے ہر مرحلۂ روحانیّت پر اسرارِ نبوّت پائے جاتے ہیں، اور ان بھیدوں

 

۲۲۲

 

یعنی تجدداتِ وحی کا مقصد یہ ہے کہ اہلِ ایمان کو معرفت حاصل ہو، تاکہ ایسے مومنین روحانیّت میں بھی اور جنت میں بھی انبیاء، اولیاء، شہداء، اور صالحین کے ساتھ ہو سکیں (۰۴: ۶۹)۔

۲۔ انبیاء کے نقشِ قدم: یہ دنیا عالمِ حادث ہے، اس لئے یہاں کسی مجازی راہنما کے نقشِ پا زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتے ہیں، اس کے برعکس راہِ روحانیّت اور معجزۂ قدرت کی یہ شان ہے کہ اس میں بطریقِ تجدّدِ امثال پیغمبروں کے نقشِ قدم (یعنی بولتی نورانیّت) ہمیشہ کے لئے ثبت اور انمٹ ہیں، جیسے حضرت موسیٰؑ نے خدا کے حضور عرض کیا: کہا کہ وہ لوگ یہی تو ہیں جو میرے نقشِ قدم پر آ رہے ہیں (۲۰: ۸۴) اس میں ظاہری معنی بھی ہیں اور باطنی معنی بھی، یعنی انبیاء علیہم السّلام کے سفرِ روحانی اور نزولِ وحی کا ہر ہر ضروری نمونہ محفوظ ہے، تا کہ سالکینِ راہِ روحانیّت کے لئے علم و معرفت کے ذخائر و خزائن ہر وقت مہیا رہیں، اور اسلام میں حقیقی نعمتوں کی کوئی کمی نہ ہو۔

۳۔ ایک بہت بڑا مسئلہ اور اس کا حل: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسا اشارہ فرمایا گیا ہے، جس سے ہم یہ یقین کریں کہ مومنِ صادق یا انسانِ کامل جسم میں ہوتے ہوئے کسی حد تک فرشتہ ہو سکتا ہے؟ یا بڑی حد تک مَلک بن سکتا ہے؟ جی ہاں، ایسے لطیف اشارے بہت ہیں، مگر ان اشاروں کو سمجھنے کے لئے یہ

 

۲۲۳

 

جاننا ضروری ہوگا کہ انسان کو عقل و اختیار دینے کے بعد حیوان سے اوپر اور فرشتے سے نیچے رکھا گیا ہے، اب یہ اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ نافرمانیوں کی پستی میں حیوان بن جائے، یا فرمانبرداری کی بلندی میں فرشتہ ہو جائے، جس کی مثال نقشۂ ذیل میں موجود ہے۔

۴۔ انسان نما حیوان: آپ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) سورۂ فرقان (۲۵: ۴۴) اور سورۂ محمد (۴۷: ۱۲) میں غور سے دیکھ کر بتائیے کہ آیا اس حکمِ قرآنی میں کوئی شک ہے کہ بعض لوگ انسانی شکل میں ہونے کے باؤجود چوپایوں میں شامل ہو چکے ہیں؟ اگر اس حقیقت میں کوئی شبہہ نہیں ہے، تو پھر ترقی و تنزل کے اس قانون کے مطابق دوسری طرف سے یہ بھی ممکن ہوگا کہ کچھ تھوڑے ہی لوگ یعنی اولیاء و دوستانِ خدا

 

۲۲۴

 

انسانی شکل میں فرشتے ہوں، اور یہ ایک ایسا واضح اشارہ ہے، جو محولۂ بالا آیات میں موجود ہے۔

۵۔ تین قسم کے آدمی: مذکورۂ بالا نقشہ جو قرآنِ حکیم کی روشنی میں بنایا گیا ہے، اس میں دیکھنے سے بآسانی یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی کہ آدمی تین قسموں میں بٹے ہوئے ہیں: الف: وہ لوگ جو جسمانی طور پر تو ناسوت ہی میں رہتے ہیں، مگر ان کے تمامتر روحانی، علمی، عرفانی، فکری، اور عقلی روابط ملکوت کے ساتھ ہیں، اس لئے وہ گویا فرشتے ہیں۔ ب: وہ آدمی جو ناسوت میں رہتے ہیں، جن کی کوئی خاص روحانی ترقی ابھی تک نہیں ہوئی۔ ج: وہ لوگ جو بظاہر ناسوت میں تو ہیں، مگر بحقیقت حیوانیّت کی پستی میں گر چکے ہیں، یا گر رہے ہیں۔

۶۔ بشر اور فرشتہ میں فرق: عالمِ ظاہر میں جب تک کوئی سالک مَلک نہ ہو، تو اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ تجلّی کے ساتھ ساتھ کلامِ الٰہی بھی سنے، کیونکہ یہ دونوں معجزے ایک ساتھ کسی ملک کے لئے ہو سکتے ہیں، مگر ہاں بشر کے لئے صرف وحئ تجلّی یعنی صرف رویت ہو سکتی ہے، جس میں بے شمار خاموش اشارے پوشیدہ ہیں، اس سے پہلے کلام از پسِ حجاب ہو سکتا ہے، اور اس سے قبل کسی فرشتے کے توسط سے وحی ہو سکتی ہے (مفہومِ آیۂ کریمہ: ۴۲: ۵۱)۔

۲۲۵

۷۔ الہام کی حقیقت: لفظِ الہام قرآنِ مجید میں خیر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے، جیسا کہ سورۂ شمس (۹۱: ۰۸) میں فرمایا گیا ہے: فالھمھا فجورھا و تقوٰھا (۹۱: ۰۸) پھر اس (جان) کی اپنی ہی بدکرداری اور پرہیزگاری (کے مطابق) الہام کیا۔ جیسے حدیثِ شریف میں ہے: “تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک جنّ اس کا ساتھی ہوتا ہے اور ایک فرشتہ۔” چنانچہ جنّ انسان کی برائیوں کی بنیاد پر وسوسہ ڈالتا ہے، اور فرشتہ اس کی نیکیوں کی وجہ سے ملکوتی الہام و القاء کرتا ہے، اگر اس کی رعایت کی گئی، اور ریاضت و محنتِ شاقہ سے اسے ترقی دی گئی، تو یہ آگے جا کر اولیائی وحی کا ایک نمونہ بن جاتا ہے۔

۸۔ مومن کی فراست: پیغمبرِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللّٰہ تعالیٰ ۔ مومن کی فراست سے ڈرتے رہو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس میں اصل راز روح و روحانیّت اور علم و حکمت کے خزانوں کو دیکھنا ہے، یعنی تم اولیاء اللہ کے سامنے اپنے علم پر اترانے سے ڈرو کیونکہ ان کے پاس علمِ لدنّی ہوتا ہے، اور وہ جو اَسرار بیان کرتے ہیں، وہ نورِ خدائے قدوس کی روشنی میں دکھائے گئے ہوتے ہیں، جبکہ نور کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کی ضیا پاشیوں کی روشنی میں مَلکوتِ سماوی و ارضی کا مشاہدہ ہو (۰۶: ۷۵)۔

۲۲۶

۹۔ مشاہدۂ ملکوت: حدیثِ شریف میں ہے: لو لا ان الشیٰطین یحومون علیٰ قلوب بنی اٰدم نظروا الیٰ ملکوت السماء ۔ اگر شیاطین بنی آدم کے دلوں کے گرد نہ پھرتے ہوتے تو آدمیوں کو آسمان کے فرشتے اور اَسرار نظر آتے (احیاء العلوم، جلدِ سوم) پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس مبارک ارشاد کی حکمت یہ ہے کہ اگرچہ اکثر لوگ شیاطین کی وجہ سے ملکوتِ سماوی کو نہیں دیکھ سکتے ہیں، تاہم خدا کے دوست آسمانی فرشتوں اور عظیم بھیدوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اس سے اَسرارِ وحی کی معرفت ممکن نظر آتی ہے۔

۱۰۔ اولیائی وحی، یا وحئ دل: حضرتِ موسیٰؑ پر پیغمبرانہ وحی نازل ہوتی تھی، اور بالکل یہی وحی حضرتِ ہارون پر بھی نازل ہو جاتی، لیکن ذاتی اعتبار سے نہیں، بلکہ حضرتِ موسیٰؑ کی نبوّت و رسالت کی گواہی دینے اور تصدیق کرنے کی خاطر (۲۸: ۳۴) کیونکہ صاحبِ کتاب و شریعت صرف حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام ہی تھے، اور حضرتِ ہارون علیہ السّلام کے سامنے ہر درجہ کی وحی کا تجددِ امثال ہوا کرتا تھا، تاکہ آپ بھرپور مشاہدہ اور کامل معرفت کی روشنی میں حضرتِ موسیٰ کی تصدیق کریں ( یصدقنی ، ۲۸: ۳۴) چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرتِ ہارون کی وحی اولیائی درجے کی تھی، اور حضرتِ مریم علیہا السّلام پر بھی وحئ ولایت کا نزول ہوا تھا، صوفیائے کرام اسی وحئ حق کو پوشیدہ رکھنے کی غرض سے وحئ دل کہتے ہیں (ملاحظہ ہو: مثنوی،

 

۲۲۷

 

دفترِ چہارم، زادنِ شیخ ابو الحسن)۔

۱۱۔ حدیثِ تقرب اور معرفتِ وحی: بخاری، جلدِ سوم، کتاب الرقاق، باب ۸۴۴ میں جو حدیثِ قدسی درج ہے، اس کی زبردست روشنی سے مایوسی کی ساری ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں، اور یقینِ کامل حاصل ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندۂ مومن کے کان ہو کر اپنا لاہوتی کلام سناتا ہے، اس کی آنکھ ہو کر اپنی بے مثال تجلی دکھاتا ہے، اس کا ہاتھ ہو کر مقامِ عقل پر کتابِ مکنون کو پکڑاتا ہے، اور اس کا پاؤں ہوکر عالمِ امر کی سیر کراتا ہے، اس دلیلِ کامل سے یہ حقیقت پوری طرح روشن ہو گئی کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی میں معرفتِ وحی ممکن ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
جمعہ ۲۱ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۵ اگست ۱۹۸۸ء

۲۲۸

مملکتِ سلیمانی کے اشارے

۱۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ عقل و جان کی صحت و سلامتی کا راز قرآنی علم و حکمت میں پوشیدہ ہے، اسی وجہ سے آیات میں تفکر و تدبر ضروری اور لازمی قرار دی گئی ہے، تا کہ اس بحرِ عمیق سے ہر بار لولوہائے اسرار حاصل ہوتے رہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ، عاشقانِ کلامِ الٰہی کی دولتِ علمی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

۲۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی ظاہری بادشاہی سے بحث نہیں، بلکہ آپ کی سلطنتِ روحانی کے بعض انتہائی پوشیدہ بھیدوں کا تذکرہ مقصود ہے، عجب نہیں کہ کچھ ایسے رموز کے جاننے سے آپ کے کئی بڑے بڑے سوالات خود بخود حل ہو جائیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ علومِ مخفی کے سلسلے میں یہ اسرار کلیدوں کی طرح کام کریں، سو آئیے ہم سب مل کر توفیقِ الٰہی کے لئے عاجزانہ دعا کریں، کیونکہ یہ کام اس کی تائید کے بغیر قطعاً ناممکن ہے۔

۳۔ قرآنِ حکیم میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) اور روحانی سلطنت

 

 

۲۲۹

 

کا موضوع نمایان ہے، ہر چند کہ اس کے اکثر حالات بھیدوں میں بیان ہوئے ہیں، تاہم جب خدا و رسول کی سنتِ عالیہ میں فیاضی اور کریمی ہے، تو پھر ہم کیوں مایوس ہو جائیں۔ چنانچہ ہمیں یقینِ کامل حاصل ہوا کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی اصل سلطنت روحانیّت میں تھی، جو تمام انبیاء و اولیاء کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے عطا ہو جاتی ہے، اور مومنین کے لئے بھی طرح طرح سے اس کا اشارہ اور وعدہ فرمایا گیا ہے۔

۴۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی روحانی سلطنت کوئی نئی چیز ہرگز نہ تھی، بلکہ یہ وراثت سلسلۂ انبیاء علیہم السّلام کے آغاز ہی سے چلی آرہی تھی، جیسا کہ وورث سلیمان داؤد (اور وارث یعنی قائم مقام ہوا سلیمان داؤد کا ،۲۷: ۱۶) سے ظاہر ہے، اور اسی مقام (۲۷: ۱۶) پر چشمِ بصیرت کے سامنے یہ اشارہ بھی ہے کہ پرندوں کی بولی سمجھنا وراثتِ نبوّت کے عظیم الشّان معجزات میں شامل تھا، اور یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ منطق الطیّر (پرندوں کی بولی) سے فرشتوں کے ساتھ ہمکلام ہونا مراد ہے، اگرچہ روحِ قدسی ظاہری پرندوں وغیرہ کی آواز کو بھی ایک مختصر سی گفتگو کی صورت دیتی ہے، تاہم پرندوں کی بولی کا اصل راز فرشتوں کا کلام ہے، جو خدا کا سب سے بڑا احسان ہے، کیونکہ اس میں علم ہے۔

۵۔ ہر شخص بحدِّ قوّت یعنی امکانی طور پر ایک ذرّاتی کائنات

 

۲۳۰

 

ہے، جس کو عالمِ ذرّ کہا جاتا ہے، یہی عالمِ شخصی اور عالمِ صغیر (Microcosm) بھی ہے، اور اسی کو قرآنِ حکیم نے “چیونٹیوں کی وادی”  کہا ہے (۲۷: ۱۸) کیونکہ آدمی کی ہستی میں لاتعداد ذاتی روحیں رہتی ہیں، اور اگر خوش بختی سے کسی عالمِ شخصی میں روحانی انقلاب برپا ہوگیا، تو پھر ان روحوں پر مزید تین قسم کے سلیمانی لشکر آجاتے ہیں: جنّی لشکر، انسی لشکر، اور پرندوں (ملائکہ) کا لشکر، اور یہ سب نورانی ذرّات ہوتے ہیں (۲۷: ۱۷) اور ان کے بعض بڑے بڑے نمونے بعد میں آتے ہیں۔

۶۔ حضرتِ علی علیہ السّلام کے دیوان میں ہے (ترجمہ): “تیری دوا تجھ ہی میں ہے اور تجھ کو خبر نہیں، اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوئی ہے اور تو دیکھتا نہیں، اور تیرا گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے، اور تو ہی وہ کتابِ مبین (بولنے والی کتاب) ہے جس کے حرفوں سے پوشیدہ راز ظاہر ہو جاتے ہیں۔” ان مطالب میں بطریقِ حکمت قرآنِ عزیز کے دو نمایان حوالے موجود ہیں: کائناتِ اکبر کا انسان میں لپٹنا: ۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷، اور کتابِ مبین: ۱۰: ۶۱، ۳۴: ۰۳، اس سے ظاہر ہوا کہ عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے، پھر سلطنتِ سلیمانی کے نمونے کیوں نہ ہوں، کیونکہ وہ حصولِ معرفت کے سلسلے میں ازبس ضروری ہیں۔

۲۳۱

۷۔ یہ انعامِ خداوندی صرف زمانۂ موسیٰؑ ہی کے لئے مخصوص نہیں، بلکہ ہر پیغمبر کے مؤمنین کو سلطنتِ روحانی عطا ہو سکتی ہے (۰۵: ۲۰) لیکن اس کی کچھ شرطیں ہوں گی، جن کی تکمیل سے یہاں زندگی میں صرف معرفت حاصل ہوگی، اور مر جانے کے بعد وہاں بادشاہت، کیونکہ بہشت میں مومن غلام نہیں ہو سکتا، بلکہ وہ بفضلِ خدا بادشاہ ہو گا (۰۲: ۲۴۷، ۰۳: ۲۶، ۷۶: ۲۰)۔

۸۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی سلطنت کا اصل پہلو روحانی تھا، جیسا کہ ان کی اس دعا سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے: پھر اس نے رجوع کیا اور کہا کہ “اے میرے رب، مجھے معاف کر دے، اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لئے سزاوار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے (۳۸: ۳۵) ظاہر ہے کہ اس سے روحانی سلطنت مراد ہے، تا کہ وہ ان کی روح سے وابستہ ہو کر آخرت میں منتقل ہو جائے، اور جنّت کی عظیم بادشاہی (ملکاً کبیراً ، ۷۶: ۲۰) کی مرتبت میں ابدی طور پر حاصل رہے۔

۹۔ حضراتِ انبیاء علیہم السّلام کے قرآنی قصّے اسرارِ روحانیّت کے انمول خزائن سے مملو ہیں، اسی طرح حضرتِ سلیمانؑ کا قصہ بڑی عجیب و غریب روحانی حکمتوں سے لبریز ہے، جس کو سمجھنے کے لئے پہلے پہل آپ کو ضرور یہ یقین کرنا ہوگا کہ خالقِ اکبر اپنی قدرتِ کاملہ سے انبیائے کرامؑ اور اولیائے عظام کے مبارک باطن میں

 

۲۳۲

 

کائنات کو لپیٹ کر رکھتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) اس کے معنی ہیں کہ آسمان و زمین تو مادّی طور پر اپنی جگہ موجود و قائم ہے، لیکن اس کی روحانی اور عقلی صورت ہی عالمِ شخصی میں سمٹ جاتی ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس انتہائی عظیم فعل سے کائنات بھر کی چھوٹی بڑی روحیں یا ان کی نظیریں انسانِ کامل میں جمع ہو جاتی ہیں، چنانچہ پروردگارِ عزّت نے اسی بزرگ ترین انعام سے حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کو نوازا، اور تمام روحانی طاقتیں ان کے لئے مسخر کر دیں (۲۷: ۱۶)۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم کا فرمانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السّلام کو خاص علم کی لازوال دولت سے مالامال فرمایا تھا، لہٰذا ہمیں ان کے عظیم معجزات کو علمی و عرفانی نکتۂ نظر سے دیکھنا چاہئے، چنانچہ اس پُرحکمت قصّے کا ایک بڑا اہم مبحث جنّ ہے، سو یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ پری مردوں اور پری عورتوں کا مشترکہ نام عربی میں جنّ ہے، جو شکل و شباہت میں آدمی ہی کی طرح ہیں، لیکن وہ جسمِ لطیف رکھتے ہیں، اس لئے بے حد حسین و جمیل ہوتے ہیں، ایسے کیوں نہ ہوں جبکہ وہ پری قوم ہیں، ان میں سے بعض مومن ہیں، اور بعض کافر (۷۲: ۱۴) جو مومن ہو، وہ ایمان کے کسی بھی درجے پر ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ ولی اور فرشتہ بھی ہو سکتا ہے، اور جو کافر ہیں، وہ شیاطینِ جنی ہیں، اور یہ بالکل

 

۲۳۳

 

درست منطق ہے کہ جنّات میں سے اگر شیاطین ہو سکتے ہیں، تو فرشتے بھی ہوں، اس سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیان ہوئی کہ اس قصّے کے جنّات میں سے بعض شیاطین ہیں، اور بعض فرشتے۔

۱۱۔ اس کتاب میں پہلے یہ ذکر ہو چکا ہے کہ قرآنِ مجید کی ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، پس یہاں اس حقیقت کا ایک نمونہ قصّۂ حضرتِ سلیمان کے عظیم بھیدوں کو جاننے کی غرض سے درج کیا جاتا ہے:

۱۲۔ اس قصّہ میں حرث (کھیت، فصل) سے ذرّاتِ نفسِ حیوانی مراد ہیں، اور غنم یعنی بکریاں یاجوج و ماجوج جیسی ارواح ہیں، تختِ سلیمان جسمِ لطیف اور مرتبۂ عقل کا نام ہے، زوردار ہوا قوّتِ ملکی اور کلمۂ کن (ہو جا) ہے، بابرکت زمین روحانیّت اور روحِ اعظم (نفسِ کلّی) ہے، اور غواص نفسِ کلّی کے سمند سے موتی نکالتے ہیں (۲۱: ۷۸ تا ۸۲)۔

۱۳۔ پرندوں کی بولی فرشتوں کے کلام کی مثال ہے، کل شی (ہر چیز) احاطۂ روحانیّت ہے، چیونٹیوں کی وادی سے ذاتی روحیں اور کان مراد ہیں، ہدہد روحِ تجسس کو کہتے ہیں، ملکۂ سبا ہر ایسی عظیم شخصیت کی مثال ہے، جسے خلیفۂ خدا تابعِ فرمان بنانا چاہتا ہو، تختِ ملکۂ سبا جثّۂ ابداعیہ کا نام ہے، حضرتِ سلیمان کا خط (کتاب) وہ تحریر یا کتاب ہے جو خواب یا خیال میں دیکھی جاتی ہے، بسم اللہ

 

۲۳۴

 

کا مطلب ہے آغازِ روحانیّت، عفریت جسمِ مثالی اور جامۂ برقی کو کہتے ہیں، وہ شخص جس کے پاس کتاب کا علم ہے، جنگی جسمِ لطیف ہے، محلِ سلیمانی مثال ہے مخرج و مدخلِ نور کی (۲۷: ۱۴ تا ۴۴)۔

۱۴۔ عین القطر (تانبے کا چشمہ) علمِ وحدت کی مثال ہے (۱۸: ۹۶) قلعے حربی اجسامِ لطیف ہیں، تماثیل (تصویریں) غیر حربی اجسامِ لطیف کو کہا گیا ہے، تالاب جیسے بڑے بڑے لگن = انوارِ بیان و تصدیق، بڑی بڑی دیگیں = علم و حکمت کے سرچشمے، موت یہاں نفسانی موت ہے، جو مرگِ جسمانی سے پہلے واقع ہوتی ہے، دابۃ الارض سے یاجوج و ماجوج جیسی ارواح مراد ہیں، جو انسانِ کامل کی روحِ حیوانی (عصا = لاٹھی) کو شروع ہی میں چٹ کر جاتی ہیں (۳۴: ۱۲ تا ۱۴) کیونکہ سدِ ذوالقرنین کو بالآخر اٹھانا ہے۔
۱۵۔ اصیل گھوڑے = خودگو اذکار، اور سیرِ سیّارۂ عقل، کرسی = روح، جسداً (ایک جسم)= کسی ناگوار آزمائشی جسمِ لطیف کا آکر روح پر مسلط ہو جانا، تعمیر کرنا = ظہوراتِ اشکال اور مشاہداتِ عجائب و غرائب (۳۸: ۳۰ تا ۴۰)۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
ہفتہ ۲۹ ذی الحجہ ۱۴۰۸ھ / ۱۳ اگست ۱۹۸۸ء

۲۳۵

قرآنی پیش گوئی

۱۔ قرآنِ مجید اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلامِ حکمت نظام ہے، اس کے اوصاف، کمالات، اور فضائل بے حد و بے حساب اور اس کی صوری و معنوی خوبیاں بے شمار ہیں، یہ خدائے ہمہ بین و ہمہ دان کی وہ کامل و مکمل اور جامعِ جوامع کتاب ہے، جس میں لوحِ محفوظ کے نوشتہ ہائے روحانی و نورانی کی طرح ہر چیز کا حکیمانہ بیان موجود ہے ( تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ، ۱۶: ۸۹) چنانچہ قرآنِ عزیز کے نورِ بیان سے نہ صرف ماضی و مستقبل اور اوّلین و آخرین کے احوال ہی پر روشنی پڑ رہی ہے، بلکہ اس کے لاہوتی اشاروں میں ہر بار اسرارِ ازل و ابد کے جواہرِ ثمین بھی پائے جاتے ہیں، پس پیش بینی اور پیش گوئی اگرچہ ہمارے نزدیک ایک حیرت زا عجوبہ ہے، لیکن قرآنِ حکیم کے لئے اس میں کوئی تعجب نہیں، کیونکہ ایسی تمام چیزیں اس کے پروگرام کے مطابق وقوع پذیر ہو جاتی ہیں، بہر کیف قرآنِ مجید میں پیش گوئیوں کی فراوانی ہے۔

۲۳۶

۲۔ میرا ذاتی عقیدہ ہے کہ قرآنِ پاک کی وہ پیش گوئی، جو انتہائی جامعیّت کی حامل اور سب سے زیادہ قابلِ فہم ہے، اس آیۂ کریمہ میں ہے: سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ (۴۱: ۵۳) ہم عنقریب ہی اپنی (قدرت کی) نشانیاں اطراف (عالم) اور خود ان میں بھی دکھا دیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہی یقیناًحق ہے (۴۱: ۵۳) اس پُرحکمت ربّانی تعلیم میں پہلے آفاقی معجزات کے سلسلۂ دراز کا ذکر ہے، پھر روحانی معجزوں کے آغاز اور اس سلسلے کے نتیجے کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، اور نتیجہ یہ ہے کہ تمام منکرین حق و حقیقتِ اسلام کے لئے قائل ہو جائیں گے۔

۳۔ یہ نکتہ یاد رہے کہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں “حتیٰ” حرفِ انتہا ہے، جو مادّی اور روحانی معجزات کے سلسلۂ طولانی اور نتیجے کو ظاہر کرتا ہے، یعنی بحکمِ خدا پہلے تو ظاہری عجائب و غرائب کا ظہور ہوتا رہے گا، جس کو معجزۂ الٰہی ماننے کی بجائے انسانی علم و ہنر جیسا نام دیا جائے گا، جس طرح آج یہی کچھ ہو رہا ہے، اور پھر ایسے ہی معجزے انسانوں کے باطن میں رونما ہونے لگیں گے، جو عالمِ شخصی میں سائنسی معجزوں کی طرح کام کریں گے، جیسے دوربین، ٹیلیفون، ٹیلیگراف، وائرلیس، ریڈیو، ریکارڈر، ٹیلی وژن، کمپیوٹر، اور دوسری بہت سی چیزیں، خواہ ان کے اصل نام کچھ بھی ہوں، لیکن

 

۲۳۷

 

ان کی مثالیں کچھ ایسی ہیں۔

۴۔ یہ زمانۂ قیامت اور دورِ روحانیّت ہی کا تذکرہ ہے، جس میں ایسے ہی عظیم معجزات کا مشاہدہ ہوگا، لیکن اختیاری یا جبری ریاضت و مشقت کے بغیر اتنا بڑا مقام کیسے حاصل ہو سکتا ہے، لہٰذا بہت سی آیات میں قانونِ قرآن کا کہنا یہ ہے کہ اس دن ہر شخص کو اپنے اعمال کے مطابق ان شدائد میں سے ایک حصّہ برداشت کرنا پڑے گا، جن کا ذکر قیامِ قیامت کے موضوع میں فرمایا گیا ہے، اور وہ سختیاں بہت زیادہ ہیں۔

۵۔ اس مقام پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بسا اوقات قانونِ قدرت انسان کو کم عرصے کے لئے رلا کر ایک دائمی شادمانی کے لئے تیار کر دیتا ہے، مثال کے طور پر ایک خاتون دردِ زہ کی سختی اور زچگی کی تکلیف سے ضرور نالان ہو جاتی ہے، لیکن وہ جب اپنے چاند جیسے خوبصورت بچے کو دیکھ لیتی ہے، تو سارا درد دکھ بھول کر ہمیشہ کے لئے مسرور و شادان ہو جاتی ہے، الغرض سخت سے سخت تکالیف کے بعد ہی روحانیّت کے انتہائی عظیم معجزات کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔

۶۔ صورِ اسرافیل کی جان گیر و جان بخش گونج اپنے عالیشان بھیدوں کے ساتھ حق ہے، یاجوج و ماجوج کا خروج ایک یقینی امر ہے، جو انتہائی چھوٹے چھوٹے ذرّات ہیں، بے شک یہ عالمِ

 

۲۳۸

 

شخصی میں فساد کریں گے (۱۸: ۹۴) لیکن قرآنی روحانیّت یہ بتاتی ہے کہ یہ فساد (یعنی نفسِ حیوانی کو خراب کرنا) تعمیرِ نو اور روحانی ترقی ہی کے لئے ہو گا، جس کے سوا زمینِ آفاق اور زمینِ انفس پروردگار کے نور سے منور نہیں ہو سکتی ہے (۳۹: ۶۹)۔

۷۔ روزِ قیامت کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ لا ریب فیہ (۰۶: ۱۲) “اس میں شک نہیں” اس کے معنی ہیں کہ قیامت میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قیامت دراصل باطنی بیماریوں کو یکسر ختم کر ڈالتی ہے، اور لوگوں کو خوشی سے یا زبردستی سے خدا کی طرف رجوع کراتی ہے (۰۳: ۸۳) پس یقیناً ایسے میں دنیا سے برائی اور ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا، اور انہی معنوں میں زمین پروردگار کے نورِ اقدس سے روشن و تابان ہو جائے گی، کیونکہ اکثر اوقات زمین کے تذکرے سے لوگ ہی مراد ہوتے ہیں، اور روشنی کی حاجت لوگوں کو ہوتی ہے۔

۸۔ فی الحال دنیا میں کلی طور پر اور حقیقی معنوں میں امن و امان قائم نہیں ہو سکتا، جب تک کہ خدائے بزرگ و برتر کے لشکرِ بلندی و پستی روحانی جہاد کا مظاہرہ نہ کریں (۴۸: ۰۷، ۰۵: ۵۴، ۰۳: ۱۵۱) کیونکہ اللہ بڑی سخت گرفت سے ظالموں کو پکڑنے والا ہے (۴۴: ۱۶)۔

۹۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، اور وہ خود اس کا کافی گواہ بھی ہے کہ اس نے اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

 

۲۳۹

 

کو ہدایت اور دینِ حق دے کر اس لئے بھیجا ہے تاکہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کر دے (۰۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸) اور یہ سب سے بڑی فتح و فیروزی عموماً سب کے لئے اور خصوصاً مسلمین کے لئے بے پناہ رحمت کا باعث ہو گی، کیونکہ حضورِ اکرم کے وصفِ “رحمتِ عالم” کے یہی معنی ہیں (۲۱: ۱۰۷)۔

۱۰۔ معجزاتِ قیامت میں سے ایک بڑا عجیب و غریب معجزہ یہ بھی ہو گا کہ: اس روز سب لوگ ایک ایسے پکارنے والے کی پیروی کریں گے، جو بیک وقت تمام لوگوں کی زبان میں گفتگو کرے گا ( لاعوج لہ ) اور خدا کے سامنے آوازیں پست ہو جائیں گی، تو تم آوازِ خفی کے سوا کوئی آواز نہ سنو گے (۲۰: ۱۰۸) یعنی روحانی مخاطبت ہوگی۔

۱۱۔ ارشادِ خداوندی ہے: آج کس کی بادشاہت ہے؟ خدا کی جو یکتا اور غالب ہے ( للّٰہ الواحد القھار، ۴۰: ۱۶) یعنی اس دن ساری حکومتیں ختم ہو کر دنیا میں خدا ہی کی حقیقی بادشاہی قائم ہو جائے گی، جو لوگوں کو عالمِ شخصی میں بھی اور دنیائے ظاہر میں بھی ہر اعتبار سے متحد اور ایک کر لینے والا اور بڑا زبردست ہے (۴۰: ۱۶)۔

۱۲۔ آپ یہ بات ضرور جانتے ہوں گے کہ قیامت اسی دنیا میں واقع ہونے والی ہے، اور آخرت سے دوسرا جہان مراد ہے، اب اس مختصر سی وضاحت کے بعد آئیے سورۂ آل عمران

 

۲۴۰

 

کے اس ارشاد (۰۳: ۷۷) میں دقتِ نظر سے دیکھتے ہیں (ترجمہ): رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، تو ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا نہ اس کی طرف دیکھے گا (یعنی انہیں دیدار کی نوازش نہ ہو گی) اور نہ انہیں پاک کرے گا (۰۳: ۷۷) اب اس کے دوسرے پہلو میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ جو لوگ نیکوکار اور متقی ہیں، ان سے خداوندِ عالم قیامت کے دن از پسِ حجاب کلام کرے گا، ان کو اپنا دیدارِ اقدس بھی عنایت فرمائے گا، جو کلام کے بغیر ہو گا، پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں انتہائی عظیم وسیلوں سے روحانی اور عقلانی طور پر انہیں پاک و پاکیزہ کرے گا، اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ دوستانِ خدا کو اجتماعی قیامت سے پہلے انفرادی قیامت کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اور خوب یاد رہے کہ ذاتی قیامت میں عالمی قیامت کی مثال موجود ہے۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم ہر اعلیٰ موضوع سے متعلق علم کا بحرِ بیکران ہے، میں نے یہاں اس کے موضوعِ پیش گوئی کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا، وہ ایک قطرہ سے بھی کم ہے، اگر آپ اس بارے میں زیادہ جاننا چاہتے ہیں، تو خود بے پایان سمندر یعنی قرآنِ عزیز سے رجوع کریں، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ علم و حکمت کے گرانقدر خزانوں سے مالامال اور صحتِ روحانی و عقلانی سے ہمیشہ کے لئے بے حد شادمان

 

۲۴۱

 

ہو جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ، پروردگارِ جہان اپنی عنایتِ بے نہایت سے قرآنی روح و روحانیّت کے عظیم الشّان بھیدوں کو سب پر ظاہر فرمائے! آمین!!

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
جمعہ ۵ محرم الحرام ۱۴۰۹ھ / ۱۹ اگست ۱۹۸۸ء

۲۴۲

نورانی وقت اور نورانی عبادت

۱۔ حدیثِ شریف میں ارشاد ہے: یتنزل ربنا۔ تبارک و تعالیٰ۔ کل لیلۃ الیٰ سماء الدنیا، حین یبقی ثلث اللیل الآخر، فیقول: من یدعونی فاستجیب لہ؟ من یسالنی فاعطیہ؟ من یستغفرنی فاغفرلہ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ہمارا ربّ تبارک و تعالیٰ ہر رات کو آسمانِ دنیا پر اترتا ہے، جبکہ آخری تہائی رات باقی رہتی ہے، اور فرماتا ہے کہ: کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو میں اس کی قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو دے دوں؟ اور کون ہے جو مجھ سے بخشش چاہے تو میں اس کو بخش دوں؟ (بخاری، جلدِ سوم، کتاب الدعوات)۔

۲۔ یہی حدیثِ شریف مسلم، جلدِ اوّل، کتاب صلوٰۃ المسافرین میں بھی متعدد روایات سے مذکور ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: ینزل اللّٰہ الیٰ السماء الدنیا کل لیلۃ حین یمضی ثلث اللیل

 

۲۴۳

 

الاول، فیقول: انا الملک، انا الملک، من ذالذی یدعونی فاستجیب لہ؟ من ذالذی یسالنی فاعطیہ؟ من ذالذی یستغفرنی فاغفرلہ؟ فلا یزال کذالک حتیٰ یضی ء الفجر۔ ہر شب جب رات کی پہلی تہائی گزر جاتی ہے، تو اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور ارشاد فرماتا ہے کہ: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اسے دیدوں؟ اور کون ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے، میں اس کی مغفرت کروں؟ غرض کہ صبح کے روشن ہونے تک اسی طرح فرماتا رہتا ہے۔

۳۔ یہ بابرکت اور پُرحکمت حدیث سورۂ مزمل کی ان آیاتِ کریمہ کی سب سے خاص تفسیر ہے، جن میں شب خیزی اور نورانی عبادت کا حکم دیا گیا ہے، تاہم یہاں ایک بہت بڑا سوال سامنے آتا ہے کہ خداوندِ عالم کے آسمانِ دنیا پر اترنے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ جبکہ اللہ جل شانہ جسمانی اور مکانی حرکت سے پاک و برتر ہے؟ اس کا جواب ہے کہ حق تعالیٰ کا یہ نزول جسمانی نہیں، بلکہ روحانی تجلی (ظہور) ہے، اور پروردگار کا عالمِ غیب سے درجۂ شہود کی طرف متجلی ہو جانا ہی نزول کہلاتا ہے، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر جس لامکانی بلندی پر ہے، وہاں تک مقربین کی بھی رسائی ممکن نہیںِ لہٰذا اللہ اپنی تجلیوں میں نازل ہو کر خود ان کے قریب آتا ہے،

 

۲۴۴

 

اب رہا سوال “آسمانِ دنیا” کے بارے میں، تو اس کا مطلب ہے روحانیّت کا سب سے نزدیک آسمان، جبکہ دنیا نزدیک کو کہتے ہیں (۰۸: ۴۲)۔

۴۔ انبیاء و اولیاء اور مخلص مومنین اپنے اپنے درجے کے مطابق رات کے نورانی وقت اور نورانی عبادت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کیونکہ یہی ایک وقت ایسا ہے کہ اس میں دن رات کی جملہ عبادات کا ایک فوری اجر و صلہ مل جاتا ہے، تاکہ ہر مومن اپنے علم و عمل کی ترقی کو دیکھ سکے، اور مزید ہمت سے کام لے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا ارشاد ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لئے کسوٹی (فرقان) بہم پہنچا دے گا (۰۸: ۲۹) یہ معیار (Criterion) اجتماعی بھی ہوگا، اور انفرادی بھی، جو اسلامی زندگی اور روحانیّت کے تمام مراحل میں اپنا کام کرتا رہے گا، یہ صفت دراصل قرآنِ مجید ہی کی ہے کہ وہی فرقان ہے (۰۲: ۱۸۵، ۲۵: ۰۱) لہٰذا ایسی کسوٹی روحِ قرآن ہو گی، یا نورِ قرآن (۰۵: ۱۵، ۴۲: ۵۲، ۵۷: ۲۸)۔

۵۔ یہ سچ اور حقیقت ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام کی روحانی تخلیق چہل شب (چالیس رات) کی مدت میں مکمل کی گئی تھی، جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: خمرت طینۃ اٰدم بیدی اربعین صباحاً (میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چالیس صبحوں میں آدم کی مٹی کو گوندھا) یہ حضرت آدم کی نورانی عبادت کا سلسلہ تھا،

 

۲۴۵

 

جو رات کے نورانی وقت آپ بجا لایا کرتے تھے، جس میں بطورِ خاص خدا کا ہاتھ تھا، اب آپ سکون سے سوچ کر بتائیں کہ آیا یہ واقعہ ایک مثال کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ کا نزول نہیں ہے کہ اس نے روحِ آدم کو اپنے بابرکت ہاتھوں سے درست کیا؟ اگر کہا جائے کہ یہ کام فرشتوں نے انجام دیا تھا، تو پھر فرشتے فعلِ خداوندی کے مظہر قرار پا گئے، اور یہ نظریہ زیادہ صحیح بھی ہے، جیسے آنحضرتؐ کو قرآن نے دستِ خدا کہا (۴۸: ۱۰) تاہم مظہریت کے باب میں آپ کو خوب تر سوچنا پڑے گا کہ اس کے لئے قانونِ الٰہی کیا ہے؟ البتہ آئینہ اور مظہر ہے۔

۶۔ نورانی وقت وہ ہے، جس میں حواسِ باطن منور ہو جاتے ہیں، یا اس معجزے کو دیکھنے کے لئے خوب تیاری ہو جاتی ہے، اور یہ سب کچھ رات کے اکثر حصے کو عبادت میں صرف کرنے سے ممکن ہو جاتا ہے، کیونکہ رات ہی ذکر و بندگی کے لئے انتہائی سعید وقت ہے، اور اس سعادت کی واحد وجہ ربّ العزّت کی بے مثال اور عظیم الشّان تجلّی ہے، جس کی روشنی میں گنجینۂ ہائے مخفی کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اور حق بات تو یہ ہے کہ ہر رات کو خدائے بزرگ و برتر کا نزول فرمانا، خواہ جس معنیٰ میں بھی ہو، بڑی بڑی آسمانی نوازشات کے لئے خدائی اعلان ہے، اور یہ علمِ لدنّی کی دعوت و دستر خوان مائدۂ عیسیٰؑ سے بہت عظیم اور بہت وسیع ہے،

 

۲۴۶

 

پس جو شخص اس دعوت کو قبول نہ کرتا ہو، وہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی روحانی اور عقلانی طور پر بھوکا اور پیاسا ہی رہے گا۔

۷۔ سورۂ ذاریات (۵۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: بے شک متقی لوگ بہشتوں اور (علم و حکمت کے ) چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا ربّ انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے، وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکوکار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے، پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے، اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لئے (۵۱: ۱۵ تا ۱۹) یعنی متقی لوگ دنیا میں رات کے بیشتر حصے کو نورانی عبادت میں گزارتے تھے، وہ زکاتِ ظاہری اور زکاتِ باطنی (علمی) دیا کرتے تھے۔

۸۔ اسی مقام پر یہ ارشاد بھی ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں (معجزات) ہیں، اور خود تمہاری جانوں میں بھی، کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟ اور تمہارا (روحانی) رزق اور تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے (یعنی قیامت) وہ آسمان (روحانیّت) میں ہے، تو قسم ہے آسمان اور زمین کے پروردگار کی کہ وہ (قرآن) حق ہے جس طرح تم بولتے ہو (۵۱: ۲۰ تا ۲۳) یعنی قرآنِ کریم ایک روح اور نور بھی ہے (۴۲: ۵۲) اس لئے وہ مقامِ روحانیّت پر کتابِ ناطق (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) اور کتابِ مبین یعنی بولنے والی کتاب ہے (۱۵: ۰۱، ۲۷: ۰۱) پس یہ سب نورانی عبادت اور روحانیّت کی طرف پرزور دعوت ہے۔

۲۴۷

۹۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے رات کے نورانی وقت اور نورانی عبادت کی روشنی میں آسمانوں اور زمین کی روحانیّت (ملکوت) کا مشاہدہ کیا تھا، (۰۶: ۷۵ تا ۷۹) آپ نے عالمِ عقل کی مثلِ برترین میں آفلین یعنی ڈوبنے والوں کو دیکھا، اور آخر کار کہنے لگے: لا احب الاٰفلین (۰۶: ۷۶) میں غروب ہو جانے والوں سے محبت نہیں کرتا، پس توحید کا یہ اصول نورانی عبادت ہی کا نتیجہ تھا۔

۱۰۔ حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے چالیس شب کی نورانی عبادت کے لئے کوہِ طور پر گئے تھے، آپ نے کوہِ عقل پر ربِّ کریم کی تجلی دیکھی تھی (۰۷: ۱۴۳) اگرچہ اوقاتِ نماز و عبادت دن میں بھی ہیں، اور یادِ الٰہی تو ہر وقت ہو سکتی ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ شب خیزی کے بغیر کسی شخص پر روشنیوں کا باب مفتوح نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی نورانی عبادت کے سوا صبغۃ اللہ کی نورانیّت نصیب ہو سکتی ہے۔

۱۱۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ رحمتِ عالم، نورِ مجسّم، صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ بابرکات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (۲۳: ۲۱) یعنی جس کی یہ امید و خواہش ہو کہ خدا اس کے کان ہو کر اسرارِ ازل کو سنائے، اس کی آنکھ ہو کر نورانی وقت کی تجلیوں کو دکھائے، اس کا ہاتھ ہو کر گوہرِ عقل کو پکڑائے،

 

۲۴۸

 

اور اس کے پاؤں ہو کر عالمِ علوی کی سیر کرائے، تو پھر ایسے مومن کو حقیقی معنوں میں پیغمبرِ اکرم کے پیچھے پیچھے چلنا چاہئے، تاکہ اسے روحانی بیماریوں سے شفائے کلّی حاصل ہو جانے کے بعد مرتبۂ تقرب کی یہ ربّانی نوازشات حاصل ہوں۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
ہفتہ ۱۳ محرم الحرام ۱۴۰۹ھ / ۲۷ اگست ۱۹۸۸ء

 

۲۴۹