کنوز الاسرار

مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات

میرے بیحد عزیز ساتھیو! تم سب شرق و غرب سے روحانی طور پر آکر جمع ہو جاؤ تاکہ ہم سب یک دل اور یک جان ہوکر مناجات اور گریہ و زاری کریں کیونکہ ہم سب ایک ہیں اور جو بے شمار نعمتیں عطا ہوئی ہیں وہ بھی ہم سب کے لئے ہیں، آؤ عزیزان! ہم عاجزی اور عاشقی کے آنسوؤں کے ساتھ خداوندِ قدوس کے حضور میں سجدۂ شکرانہ بجا لائیں، اگرچہ ہم کماحقہ اس کی لاتعداد نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے تمام فرزندانِ روحانی سے میری جان قربان ہو! مولائے پاک کی پُرنور دعا اور روحانی تائید سے کنز الاسرار کے مضمون کی سو (۱۰۰) قسطیں مکمل ہوئیں، اور اب اس مجموعے کا نام کنوز الاسرار مناسب ہے، تاکہ اس نام سے قرآنِ حکیم اور روحانیّت کی طرف ایک حسین اور دلکش دعوت ہو، یعنی دعوتِ فکر بھی اور دعوتِ عمل بھی۔

امامِ آلِ محمد سلام اللہ علیہ کی غلامی اور پاک محبت میرے لئے سب سے بنیادی معجزہ اور اساسی راز تھا، میں اب علم و معرفت کی روشنی میں اس حقیقت کو جانتا ہوں اور مانتا ہوں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم موجود اور حاضر ہے، کہتے ہیں کہ امام کے سات سو حجابات ہیں، لہٰذا امام کے معجزات سب کے سب

 

ک

 

حجابات میں ہیں، اور جو امامِ زمانؑ کا عارف ہو سکے وہی امام کے معجزات کو دیکھ سکتا ہے، حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے معجزات ظاہری اور حسی نہیں ہوا کرتے بلکہ یہ باطنی، روحانی، نورانی، علمی، عقلی اور عرفانی معجزات ہوتے ہیں، تاکہ امام کا عارف ایک ساتھ قرآن کے باطن کا بھی عارف ہو سکے، اسی معنیٰ میں آیتِ شریفہ (۰۵: ۱۵) کا مفہوم ہے کہ نور اور کتاب (قرآن) ایک ساتھ ہیں۔ و ما توفیقی الا باللہ (۱۱: ۸۸)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۲۶ اپریل ۲۰۰۲ء

املا از چیف ریکارڈ آفیسر

عرفت روحی امین الدین

ل

اللہ تبارک و تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم میں جملہ اسماء جمع ہیں

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) کے ارشاد میں اللہ تعالیٰ کو اس کے اسماءُ الحسنیٰ کے ذریعے سے پکارنے کا حکم آیا ہے، اور جیسا کہ عنوانِ بالا میں ہے کہ اللہ کے زندہ اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) میں کل اسماء جمع ہیں، پس جو شخص امامِ زمان علیہ السّلام کے عطا کردہ اسمِ اعظم پر نورانی عبادت کرتا ہے، وہ بحکمِ قرآن اسماءُ الحسنیٰ پر اللہ تعالیٰ کی مقبول ترین عبادت ہے، آپ حضرت مولا علی علیہ السّلام کی تاویلات کو ضرور پڑھیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی عاشقِ صادق علئ مرتضیٰ صلوات اللہ علیہ کے بابرکت ارشادات کو بار بار نہ پڑھے۔

کتابِ ہٰذا کا جدید انتساب: الحمدللہ اب ہمارے عزیزوں میں حقیقی علم کی ہزار گونہ قدردانی ہے، چنانچہ دانشگاہِ خانۂ حکمت ہیڈ کوارٹرز کراچی کی پریسیڈنٹ کمیٹی نے بار بار اس کتاب کے مضامین کی تعریف کی اور بالآخر اس کی سرپرستی کے لئے زبانی درخواست بھی کی گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تجربہ کار بھی ہیں اور حقیقی علم کے قدردان بھی ہیں، انہوں نے اس اہم علمی ادارے کی گوناگون خدمات انجام دی ہیں، مشرق و مغرب کے تمام عزیزان کی گرانقدر خدمات کا کچھ اندازہ اُس وقت ہو سکے گا جبکہ اس ادارے پر کوئی مکمل تاریخ لکھی جائے گی، ان شاء اللہ ہماری یہ امید دو طرح سے پوری ہو سکتی ہے، اوّل

 

م

 

یہ کہ کتابیں اور ان کے ترجمے تاریخ کا بنیادی حصّہ ہیں،  دوم اس ادارے کے سکالرز جو درجۂ اوّل، دوم، سوم، چہارم، پنجم وغیرہ پر ہیں، یہ سب بجائے خود تاریخ ہیں، اور رسمی تاریخ بھی ضرور ہوگی، ان شاء اللہ۔

اصل بات یہ ہے کہ ہمارا ہر کام امامِ زمانؑ کے معجزے سے ہوتا رہا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
جمعہ، ۲۶ اپریل ۲۰۰۲ء

ن

کنز الاسرار ۔ قسط ۱

سوال منجانبِ عزیزانِ اٹلانٹا، امریکہ: سورۂ رحمان عروس القرآن میں جس طرح اللہ تعالیٰ کی عظیم تر نعمتوں کا ذکر آیا ہے، اس میں انسانوں اور جنّات کو ساتھ ساتھ رکھا گیا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟ جواب: اس میں یہ عظیم حکمت ہے کہ انسان، جنّ اور فرشتہ الگ الگ بھی ہیں، اور ایک بھی ہیں۔

سوال منجانبِ عزیزانِ یوسٹن: اللہ جب کسی بشر سے کلام کرتا ہے تو حجاب کے پیچھے سے کلام کرتا ہے، لیکن قرآن اللہ ہی کا کلام ہے جس کو انسان کسی حجاب کے بغیر پڑھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے، اس میں کون سا حجاب ہے؟ جواب: قرآن کا ظاہر گویا حجاب ہے، اور تاویلِ باطن گویا خدا کا پُرحکمت کلام ہے۔

سوال از عزیزانِ ڈالاس: امامِ زمانؑ کے نورِ باطن اور عوام کے درمیان کتنے حجابات ہیں؟ جواب: سات سو حجابات ہیں۔

سوال از عزیزانِ برمنگھم: آپ نے ایک نورانی خواب میں سمندر پر ایک تخت اور اُس پر ایک مقدّس معجزانہ شخص کو دیکھا تھا، جب اس خواب کی تاویل آئی تو تب وہ پاک شخص کون تھا؟ جواب: وہ نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام (روحی فداہ) تھا۔

۱

سوال: یہ پانی پر تخت تھا، یا کشتی تھی؟ جواب: ایک تاویل میں عرش= تخت تھا، اور دوسری تاویل میں کشتی تھی۔ سوال: عالمِ شخصی کے سفر کے دوران پانی پر ظہورِ عرش کا معجزہ کب ہوتا ہے؟ جواب: تقریباً آخری مرحلے میں یہ معجزہ ہوتا ہے۔

عزیزانِ آسٹن کا سوال: انسان کی خیالی پرواز برق سے بھی زیادہ تیز کیوں ہے؟ کیا کبھی یہ خیال روحانی جہاز کا کام کرے گا؟ جواب: سوال میں خود بخود جواب آ رہا ہے۔

کسی عزیز نے کوئی سوال نہیں کیا، بلکہ میں نے خود ہی اسی علمی صورت میں اُن سب کو یاد کیا کیونکہ وہ سب چھوٹے بڑے میرے لئے یکسان لٹل اینجلز ہیں، اور میرے حبِّ علی اور درِ علوی ہی کی طرح بے حد عزیز، اسی طرح میرے لئے دنیا میں بھی لٹل اینجلز کی ایک اضافی جنّت ہے، الحمد للہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار، ۱۷، فروری ۲۰۰۲ء

۲

کنز الاسرار ۔ قسط۲

عزیزانِ لندن کا سوال: بحوالۂ سورۂ رحمٰن (۵۵: ۳۳) گروہِ جنّ و انس جو فلکِ اعظم = کائنات کے دائرے میں مکان و زمان کی قیود کے پابند ہیں، وہ یہ چاہتے تھے کہ اس قید خانۂ کائنات سے نکل کر عالمِ لامکان کا نظارہ کریں، اور اس کی معرفت حاصل کریں، اس پر قرآن نے اُن کو بتا دیا کہ یہ کام تمہارے لئے ممکن نہیں مگر سلطان کے ذریعے سے۔ یہاں سلطان کے کیا معنی ہیں، یا اس لفظ سے کیا مراد ہے؟ جواب: یہ لفظ = اسم اپنے تمام معنوں کے ساتھ حضرتِ قائم القیامت کے حجت کا اسمِ مبارک ہے، جس کی تعریف سورۂ قدر میں ہے اور اس آیۂ مبارکہ کا یہ مطلب ہے کہ حجتِ قائم اور حضرتِ قائم کے زمانے میں جو روحانی قیامت برپا ہوگی، اسی سے جملہ جنّ و انس کو نجات ملے گی۔

سوال از عزیزانِ اسلام آباد: ہمیں یقین ہوا ہے کہ قیامِ چین کے دوران امامِ مبین علیہ السّلام نے آپ کے لئے بے شمار معجزات کئے ہیں، کیا آپ ہمیں یہ بتا سکتے ہیں کہ ان میں سب سے زیادہ حیران کن معجزہ کون سا تھا؟ جواب: ان میں انتہائی زبردست معجزے دو تھے، ایک دفعہ بوقتِ شام حجتِ قائم علیہ السّلام جثّۂ ابداعیہ میں تشریف لائے اور کچھ وقت کے بعد میری

 

۳

 

قیدِ تنہائی میں حضرتِ قائم علیہ السّلام جثّۂ ابداعیہ میں تشریف فرما ہوئے یہ دیدارِ پاک چند لمحات کے لئے تھا۔

زندانہ ایم یاد جہ مو بیلٹے تل آلجم
جنت نکہ آر دین نمی زندان لو ئیڎم

عزیزانِ گلگت کا سوال: کیا جثّۂ ابداعیہ کی کوئی قابلِ فہم مثال ہو سکتی ہے؟ جواب: جی ہاں، فرض کرو کہ کوئی عظیم فرشتہ چند سیکنڈوں کے لئے آپ کے سامنے حاضر ہو کر پھر غائب ہو جاتا ہے، یا کوئی مومن جنّ جسمِ لطیف میں آپ کی کسی مدد کے لئے آتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ مریم سلام اللہ علیہا کے سامنے فرشتہ ایک مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا تھا، اور یہی جثّۂ ابداعیہ کا معجزہ تھا (۱۹: ۱۷)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
کراچی
اتوار، ۱۷ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۳

سوال منجانبِ عزیزانِ کراچی: لفظِ سفینہ کے دو معنی ہیں (۱) کشتی = ناؤ = جہاز، (۲) بیاض = نوٹ بک، اب ایک قول سن لیجئے: علم در سینہ است نہ در سفینہ، یعنی خاص بھیدوں سے بھرا ہوا علم سینہ ہی میں رہتا ہے، وہ تحریر میں نہیں آ سکتا ہے، لہٰذا یہ سچ ہے کہ علم کی بعض خاص باتیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ پھر بھی میں نے کوشش کی ہے کہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (ارواحنا فداہ) کے بعض معجزات کو تحریراً ریکارڈ کیا جائے، یہ صرف اُن معجزات کی بات ہے، جو میں نے بحیثیت ایک درویش ذاتی طور پر دیکھے ہیں، لیکن میں ایسا کیوں کہتا ہوں، یہ میرا گمان ہے، مجھے صرف قرآن کا حوالہ دینا چاہئے کہ حجتِ قائم اور حضرتِ قائم کا ذکرِ جمیل قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ موجود ہے۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے زمانۂ مبارک میں کیا کیا معجزات ہونے والے تھے، ان کے بارے میں کتابِ وجہِ دین میں بھی دیکھیں۔

ہمارے سب عزیزان کو بڑے عمدہ الفاظ میں اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اس مجموعی علمی خدمت کے سلسلے میں ہمارے کراچی کے عزیزان نے بڑا زبردست کام کیا ہے، اور کارنامۂ عظیم انجام دیا ہے۔

۵

دورِ قیامت کے لئے اللہ تعالیٰ کے دو اسمِ اعظم حجتِ قائم اور حضرتِ قائم ہیں، جن کے قرآنی نام الحیّ القیوم (۰۲: ۲۵۵)۔ (۰۳: ۰۲)۔ (۲۰: ۱۱۱) اور ان دو اسموں کی جگہ دو پاک حرف: حٰمٓ سات بار آئے ہیں اور (ح = ۸، م = ۴۰ = ۴۸) یہ عددی تاویل، حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ کے لئے ہے، جو اڑتالیسواں امام ہیں۔ اور یہ ذکر قبلاً ہو چکا ہے کہ سورۂ قدر (۹۷) اور سورۂ دخان (۴۴: ۰۳) کے علاوہ قرآنِ حکیم کی وہ تمام آیاتِ کریمہ جن میں قیامت کا ذکر ہے، وہ سب کی سب حجتِ قائم اور حضرتِ قائم سے متعلق ہیں، یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ قرآنِ عزیز میں قیامت کے بہت سے نام ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پورے قرآن میں قیامت کا بیان پھیلا ہوا ہے، پھر حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائمؑ کا بیان کس طرح محدود ہو سکتا ہے اور روحانی قیامت کی کائنات تو بے پایان ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
پیر، ۱۸ فروری ۲۰۰۲ء

۶

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۴

یہ سوال ہمارے ادارے کے تمام انٹرنیشنل لائف گورنرز کی جانب سے ہے: یہ حقیقت تو سب کو معلوم ہے کہ ارکانِ تصوّف چار ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، اور بعض ان کو چار منازلِ اسلام بھی کہتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں اس حقیقت کی جانب کوئی لطیف اشارہ موجود ہے یا نہیں؟ جواب: سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں شرعۃ و منھاجا = خاص شریعت اور خاص طریقت (ترجمۂ اشرف علی تھانوی) کو دیکھیں اس حکمِ قرآن کے مطابق اگر شریعت کے باؤجود طریقت بھی ہو سکتی ہے تو پھر حقیقت اور معرفت کے ہونے میں کیا حرج ہو سکتا ہے، دینِ اسلام جو دینِ فطرت ہے، اس میں لوگ علم و عمل کے مختلف درجات پر ہیں۔

سورۂ انعام میں ارشاد ہے: وَ لِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْاؕ  (۰۶: ۱۳۲) ترجمہ: ہر شخص کا درجہ اُس کے عمل کے لحاظ سے ہے۔ یہاں علم و حکمت کا ذکر عمل میں پوشیدہ ہے، ورنہ علم و حکمت کیونکر ضائع ہو سکتا ہے، قرآن و اسلام میں سیڑھی کی مثال کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور سیڑھی سے درجات مراد ہیں۔

سورۂ معارج (۷۰: ۰۱ تا ۰۴) دیکھئے کہ اللہ کے ناموں میں ایک نام ذی

 

۷

 

المعارج بھی ہے، یعنی عروج کی سیڑھیوں کا مالک، یا معراجوں کا مالک، ارواح و ملائکہ کے لئے پچاس ہزار برس کا زمانہ درکار ہے تاکہ وہ درجات کی ان سیڑھیوں سے چڑھ کر اللہ کے حضور پہنچ جائیں، اس قرآنی حکمت کے بیان سے معلوم ہوا کہ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت حق ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۸، فروری ۲۰۰۲ء

۸

کنز الاسرار ۔ قسط۵

سوال منجانبِ ریکارڈ آفیسرز اینڈ پرسنل سیکریٹریز: کیا آپ ہمیں بنی آدم کے بارے میں کوئی مفید علمی بات بتائیں گے؟ جواب: ان شاء اللہ، بنی آدم دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک قسم میں روایتی، ظاہری، اور جسمانی بنی آدم ہیں، جن کا رشتہ تقریباً سات ہزار سال گزر جانے کی وجہ سے بے حد پرانا ہو چکا ہے، اور دوسری قسم میں بنی آدم، آدمِ زمانؑ یعنی امامِ حاضرؑ کے فرزندانِ روحانی ہیں، جن کا روحانی رشتہ تازہ بتازہ، نو بنو ہے، اور یہ بڑا عجیب و غریب رازِ حکمت ہے، کہ امامِ مبین صلوات اللہ علیہ جو آدمِ زمانؑ ہے، اُس میں نورِ امامت کی منتقلی کے موقع پر کل فرشتے اس کے لئے سجدہ کر رہے تھے، اور اس سجود میں حضرتِ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے جملہ مریدوں کی خوش نصیب روحیں بھی جمع تھیں، وہ فرشتوں کے ساتھ مل کر آدمِ زمانؑ کے لئے سجدہ بھی کر رہی تھیں، اور اپنے روحانی باپ کی ہستی میں بھی تھیں، سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) میں اس عظیم راز کے لئے تلاش کریں، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس قانونِ الٰہی = سنتِ اللہ کو یاد رکھیں کہ ہر روحانی قیامت میں آپ سب کی نیک بخت روحوں کا تجدّدِ امثال ہو جاتا ہے، یہ عظیم راز آپ سب کو مبارک ہو! آمین! آمین! یا ربّ العٰلمین!

۹

قرآنِ حکیم میں آدم اور بنی آدم کا لفظ کل ۲۵ مرتبہ آیا ہے، آپ ان تمام آیاتِ کریمہ میں اسرارِ معرفت کی تلاش کریں تاکہ آپ روحانی طور پر شادمان ہو جائیں گے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۸ فروری ۲۰۰۲ء

۱۰

کنز الاسرار ۔ قسط۶

سوال منجانبِ وزڈم سرچ: کیا آپ قرآنِ حکیم کی کوئی ایسی پُرحکمت آیت بیان کریں گے، جو آدمِ زمانؑ کے فرزندانِ روحانی کی شان میں ہو؟ جواب: ان شاء اللہ۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) کا ترجمہ ہے: یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں، اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایان فوقیّت بخشی۔

اگر ہم یہاں انبیاء و اولیاء اور عرفاء کے تصوّر کو ذرا چھوڑ کر دنیا بھر کے لوگوں کو یکسان بنی آدم قرار دیں تو پھر ایسے میں ان کی بزرگی، برتری اور فضیلت کس مخلوق کے مقابلے میں ہوگی؟ پس یہ امرِ واقعی ہے کہ برائے نام بنی آدم دنیا میں بڑی کثرت سے ہیں، اور جو لوگ حقیقی معنوں میں بنی آدم ہیں، وہ قلیل تعداد میں ہیں، اور یہ ترجمہ جس آیۂ کریمہ کا ہے، وہ حقیقی بنی آدم کی شان میں ہے، اور اس میں معرفت کے چند اسرارِ عظیم ہیں، اُن میں ایک بہت بڑا راز یہ بھی ہے کہ عرشِ سماوی جب پانی پر ہوتا ہے، تو یہ معرفت کا بہت بڑا امتحان ہے (۱۱: ۰۷)۔ (۳۶: ۴۱)۔ اللہ تعالیٰ کا انتہائی عجیب و غریب معجزۂ رحمت ہے کہ عرشِ اعلیٰ کی عظمت و جلالت سے لوگ لرزتے تھے، اللہ کے لطفِ عمیم نے لوگوں سے گویا فرمایا، تم سب ذرا آنکھیں بند کرو، پھر اِس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز نے عرش

 

۱۱

 

کو پانی پر کشتی کی شکل دے کر اہلِ بیتِ رسولؐ = امامِ زمانؑ کو کشتیبان بنایا اور تمام ذرّاتِ ارواح کو امامِ مبینؑ میں جمع کیا (۳۶: ۴۱)۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۱۹، فروری ۲۰۰۲ء

۱۲

کنز الاسرار ۔ قسط۷

سوال منجانبِ لٹل اینجلز: کیا آپ ہمارے روشن مستقبل کی دعا کے ساتھ ساتھ کوئی نصیحت بھی کریں گے؟ جواب: ان شاء اللہ، میرے گھر میں بفضلِ خدا آپ سب کے دو نمونے اور دو نمائندے ہیں، وہ حبِّ علی ثانی اور درِ علوی ہیں، میں یک حقیقت کے اصول کے مطابق ان کو آئینہ بنا کر آپ سب کا تصوّر کرتا ہوں، لٹل اینجلز کے اس بہت پیارے نام میں یہ اور آپ سب ایک ہیں، اے کاش میری روح کے بے شمار چھوٹے چھوٹے ذرّات ہوتے تو میں اپنے بہت سے ذرّات کو سفیر بنا کر بہت سے عزیزوں کے ساتھ رابطہ کرتا۔ لیکن مومنین و مومنات کی دعا و خیر خواہی ایک ہمہ رس اور ہمہ گیر طاقت ہے۔

اگر کوئی زمین کا جسمانی فرشتہ = اینجل عبادت، یا ذکر، یا تسبیح کرتا ہے، یا خدا کی زندہ اسمِ اعظم = امامِ زمانؑ کو یاد یا اس کی کوئی تعریف نظم و نثر میں پڑھتا ہے تو ایسی پاکیزہ آواز اور لفظ صاحبِّ عرش کے حضور تک بلند ہو جاتا ہے اور نیک عمل اُس کو اٹھا کر لے جاتا ہے پھر وہاں اللہ کا کوئی حکم یا کوئی فیصلہ بن کر کائنات کی طرف آتا ہے، لہٰذا ہر عبادت، ہر ذکر، ہر مناجات، ہر سجدہ اور ہر تسبیح امید و یقین کے ساتھ کرنا، میں بڑی عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ آپ سب کو تمام دعاؤں کی بادشاہ دعا یعنی امامِ مبینؑ کی پاک نورانی دعا جس میں آسمانی درود ہے، وہ حاصل ہوتی رہے، آمین!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
منگل ، ۱۹ ، فروری ۲۰۰۲ء

۱۳

کنز الاسرار ۔ قسط ۸

سوال منجانبِ جملہ ارکانِ ادارہ: آیا آدمِ اوّل میں الٰہی = خدائی روح پھونک دینے کے لئے روحانی قیامت برپا ہوئی تھی؟ جواب: جی ہاں۔ آدمِ اوّل کی روحانی قیامت کا اشارہ قرآنِ حکیم میں کہاں ہے؟ جواب: نفخت ۔۔۔ (۱۵: ۲۹) میں ، نیز (۳۸: ۷۲) میں۔

سوال: آیا ہر نفسِ واحدہ کی روحانی قیامت میں نفوسِ خلائق = ارواحِ خلائق کا تجدّد ہوتا ہے؟ جواب: جی ہاں۔ کیا ہر نفسِ واحدہ وارثِ آدم ہوتا ہے؟ جواب: جی ہاں۔

سوال: کیا ہر روحانی قیامت میں عہدِ الست کا تجدّد ہوتا ہے؟ جواب: جی ہاں۔

سوال: اللہ کی سنت میں تبدیلی ہے، یا اُس کا تجدّد ہوتا ہے؟ جواب: اللہ کی سنت میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، بلکہ وقت آنے پر اُس کا تجدّد ہوتا ہے، اور یہ صرف اللہ کے خاص بندوں کے عالمِ شخصی کا معجزہ ہے۔

سورۂ زمر (۳۹: ۰۶) کے ارشاد کا ترجمہ ہے: اُسی نے تم کو ایک جان = نفسِ واحدہ سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اس جان سے اس کا

 

۱۴

 

جوڑا بنایا۔ یہاں خود بخود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنی آدم ماں (حوّا) کی پیدائش سے پہلے کیسے پیدا ہوگئے؟ جواب: یہ جسمانی پیدائش کی بات نہیں، بلکہ تجدّدِ ارواح کا ذکر ہے، کیونکہ ہر روحانی قیامت میں کل ارواحِ خلائق کا تجدّد ہوتا ہے۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۲۰ ، فروری ۲۰۰۲ء

۱۵

کنز الاسرار ۔ قسط ۹

سوال منجانب ہائی ایجوکیٹرز اینڈ ٹریننگ آفیسرز: سورۂ رعد (۱۳: ۰۷) میں ارشاد ہے: اِنَّمَاۤ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ترجمہ: سوائے اس کے نہیں کہ تو ڈرانے والا ہے، اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہے۔ ہزار حکمت (ح ۹۴۰) کو بھی دیکھیں۔ اس آیۂ شریفہ کا تعلق سورۂ فاتحہ کے کس ارشاد سے ہے؟ جواب: آیتِ ششم سے۔ جس میں بالفاظِ دعا یہ اشارۂ حکمت ہے کہ ہادئ برحق = امامِ زمانؑ کی معرفت نصیب ہو! کیونکہ امامِ زمانؑ ہی صراطِ مستقیم اور سفینۂ نوح = کشتئ نجات ہے (دیکھو: جواہرِ احادیث، ص ۶۲-۶۳)۔ (۰۱: ۰۶)

کتابِ لعل و گوہر ص ۱۳۵ – ۱۴۷ پر صراطِ مستقیم کا پُرحکمت مضمون ہے۔

سوال: سورۂ ہود (۱۱: ۵۶) میں ہے: اِنَّ رَبِّیْ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ = یقیناً میرا ربّ سیدھی راہ پر ہے۔ اس کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ جواب: حکمت اوّل ، اس پاک ارشاد سے ہادئ برحق کی پُرنور ہدایت کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، حکمتِ دوم: اس دنیا میں ہمیشہ اللہ کا نورِ منزل موجود ہے، یہی نور اللہ کا دین، اللہ کا نمائندہ، اللہ کا راستہ، اور خدا کا نورِ ہدایت ، اور اللہ کا اسمِ اعظم ہے، اور اہلِ ایمان کے لئے روحانی مربّی ہے۔

 

۱۶

 

حکمتِ سوم: حضرتِ مولانا امام محمد باقر علیہ السّلام کے ارشادِ مبارک ما قیل فی اللہ کے مطابق صراطِ مستقیم پر حضرتِ رب کے ہونے کی تاویل یہ ہے کہ امامِ آلِ محمدؐ خود برائے اہلِ حق صراطِ مستقیم ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۲۰ ، فروری ۲۰۰۲ء

 

۱۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۰

 

سوال چراغِ نورِ امامِ زمانؑ (ارواحنا فداہ) کے پروانوں کی جانب سے:
پوچھنا یہ ہے کہ آیا حضرتِ امام علیہ السّلام کے کلامِ پاک میں تاویلی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، یا یہ خود تاویل ہے؟ جواب: ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ یہ دور کون سا ہے؟ اگر یہ بات درست ہے کہ یہ دور، اب دورِ قیامت = دورِ تاویل ہے تو پھر امامِ زمانؑ کی تمام تر ہدایات و تعلیمات خود تاویلات ہو سکتی ہیں، تاہم امامِ عالی مقام حکیم ہے، اور حکیم کے کلام میں ہمیشہ حکمت اور دانائی ہوا کرتی ہے۔

جیسے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ جب میں منہ کھولتا ہوں تو جواہرات کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ اس فرمانِ عالی کا ظاہری مطلب سب جانتے ہیں، لیکن اس کی باطنی تاویل حظیرۂ قدس کے عظیم معجزات کے درمیان ہے، میں اپنے ایک شعر میں اشارہ کرتا ہوں:
اے نصیر الدین تجھ کو سرِ اعظم یاد ہے؟
عالمِ علوی میں تنہا ایک گوہر ہے کتاب

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہ) کا ایک اور ارشادِ مبارک ہے:

۱۸

 

مومن کی روح ہماری روح ہے۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل، راجکوٹ، ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء)
اگر صرف ایک مومن “ہمت والا” ہو تو ہم اس اکیلے کو ایک لاکھ مومنوں کے برابر سمجھتے ہیں۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ دوم، پونا، ۲۱۔۱۔۱۹۱۲ء)
تم ہماری روحانی اولاد ہو، اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے۔” (اس میں بہت بڑی تاویل ہے) (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل، ممباسہ ۱۲۔۱۱۔۱۹۰۵ء)

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۲۱ ، فروری ۲۰۰۲ء

۱۹

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۱

امامِ آلِ محمد (روحی فداہ) کے علم و حکمت کی تجلّیات کے عاشقوں کا ایک عاقلانہ سوال: ہمارے مذہب میں کامیابی کا بڑا راز کیا ہے؟ جواب: اللہ تعالیٰ، رسولِ پاک اور صاحبِّ امر = امامِ زمانؑ کی حقیقی اور کلی اطاعت (۰۴: ۵۹) اس کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے، لیکن پھر بھی یہ کام بے حد مشکل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں بار بار شکوک و شبہات کا گھنا جنگل پیدا ہوتا رہتا ہے جس کو آتشِ عشق سے جلائے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور امامِ زمانؑ کی آتشِ عشق کوئی مومن کہاں سے لائے؟ جواب: اللہ کے فضل و کرم سے بہت آسان ہے، امام علیہ السّلام کا پاک عشق اس کی بے مثال خوبیوں، اس کے علمی کمالات اور باطنی معجزات سے پیدا ہوتا ہے، لہٰذا آپ قرآن و حدیث، اور ارشاداتِ أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام کی روشنی میں نورِ امامت کی تعریف کو پڑھیں اور پھر ذاتی طور پر اسمِ اعظم کے ذریعے خصوصی ریاضت، موت قبل از موت اور روحانی قیامت کے ذریعے سے عالمِ شخصی میں جائیں، خدا کی قسم آپ کی روح میں امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہو جائے گا، اور پھر آپ کا عالمِ شخصی معجزات ہی معجزات کا عالم ہوگا۔ اب علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کے بعد کوئی شک کہاں سے آئے گا؟

۲۰

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے تمام ارشادات کو عشق و محبت سے پڑھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۱ ، فروری ۲۰۰۲ء

۲۱

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۲

سوال منجانبِ جملہ عزیزانِ علمی جو بفضلِ مولا علم پرور اور علم گستر ہیں، قرآنِ حکیم اور نورِ امامت کے سنگم کا کوئی عظیم راز بتائیں جس کو ہم کبھی فراموش نہ کر سکیں؟ جواب: اگرچہ میں نے یہ سب سے عظیم راز قرآنِ پاک کی طرف سے بیان کیا ہوا ہے، لیکن اب میں اسے مولا کے فرمانِ اقدس کے ساتھ بیان کرتا ہوں:
سورۂ ہود (۱۱: ۰۷) میں جیسا کہ ارشاد ہے اس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ عالمِ دین اور عالمِ شخصی کی تخلیق و تکمیل کے بعد عرشِ اعلیٰ کا ظہور علم کے سمندر پر ہوا پھر معجزانہ طور پر عرش (تختِ الٰہی) اور سفینۂ نوح کا سنگم ہوا یعنی یہ بحکمِ قرآن پانی پر عرش تھا (۱۱: ۰۷) نیز یہ پانی پر کشتئ نجات تھی (۳۶: ۴۱) اس کشتی میں امامِ آلِ محمد شاہ کریم الحسینی حاضر امام جلوہ فرما تھا، اور اس کی مبارک ہستی میں تمام ذرّاتِ ارواح جمع تھے، یہ ہوا فنا فی اللہ و بقا باللہ کے معنی میں عرش پر جا بیٹھنا، نیز بھری ہوئی کشتی میں سوار ہو جانا۔

پاک مولا کا فرمان ہے:
تم عرشِ عظیم پر پہنچو، عرشِ عظیم پر پہنچنے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے اس لئے تم اپنا دل ہمیشہ پاک رکھو، اگر تمہارا دل پاک ہوگا تو اس دنیا میں ہی

 

۲۲

 

عرشِ عظیم دیکھ سکو گے، یہ بہت دور نہیں ہے۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل، منجیوڑی ، ۳۔ ۱۱۔ ۱۹۰۳ء)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۱، فروری ۲۰۰۲ء

۲۳

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۳

سوال منجانبِ عزیزانِ شرقی و غربی: علم پروری اور علم گستری کے اس شاہانہ ٹائٹل کے لئے ہم اپنے مولائے پاک کے شکر گزار ہیں، اور آپ کے لئے ان شاء اللہ آنسوؤں کی زبانی دعا کریں گے۔ استادِ عزیز! ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم آپ کی بتائی ہوئی حکمتوں کو یاد کرنے کے لئے جان و دل سے کوشش کریں گے، مولا ہماری مدد فرمائے! آمین!

استادِ عزیز! آپ نے پانی پر عرش یا سفینۂ نوح کا بڑا مبارک نورانی خواب کب اور کہاں دیکھا تھا؟ جواب: تاریخ مجھے یاد نہیں ، ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ حاضر امام (روحی فداہٌ) ابھی تختِ امامت پر جلوہ افروز نہیں ہوئے تھے، اور میں سفرِ چین سے واپس ہونزہ آیا ہوا تھا، حاضر امام کی معرفت کچھ وقت کے بعد اس اشارۂ حکمت سے ہوئی کہ وہ صاحبِّ کشتی یا صاحبِّ عرش ایک اسمِ اعظم پڑھ رہا تھا، جس میں حاضر امام کے مبارک نام کا رازِ اعظم تھا۔ یعنی الاکرم الاکرم الاکرم الاکرم الاکرم۔۔۔

ہم آپ سے یہ پُرخلوص سوال بھی کرتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں جنّ و انس کے سنگم کا ذکر کہاں ہے؟ جواب: اس سنگم کا ذکر سورۂ رحمن میں ہے۔

۲۴

امامِ زمان علیہ السّلام اہلِ بیتِ رسول اور سفینۂ نجات = سفینۂ نوح ہے، بحوالۂ گنجینۂ جواہرِ احادیث ص ۶۲-۶۳۔

سورۂ مومن (۴۰: ۱۵) میں ارشاد ہے: رفیع الدرجٰت = بلند کرنے والا درجوں کو، عرش کا مالک، اس پُرحکمت آیت میں فنا فی اللہ و بقا باللہ کا اشارہ ہے اور یہ مرتبۂ حق الیقین ہے، جو حظیرۂ قدس کا مقام ہے۔ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ حظیرۂ قدس میں پہنچ کر صورتِ رحمان پر پیدا کیا گیا تھا، اور یہی معجزہ اُس کا مرتبۂ فنا فی اللہ و بقا باللہ تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۲۲، فروری ۲۰۰۲ء

۲۵

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۴

سوال منجانبِ عاشقانِ مولائے پاک: اے کاش! ہم کچھ مزید اسرارِ عرش کو جانتے؟ جواب: لغات الحدیث جلدِ سوم ص ۶۶-۶۷ پر حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام کا قول درج ہے: اللہ تعالیٰ نے عرش چار طرح کے انوار سے بنایا: نورِ سبز، نورِ زرد، نورِ سرخ اور نورِ سفید سے، اسی سے یہ چاروں رنگ دنیا میں ہیں، عرش اٹھانے والے آٹھ ہیں چار تو ہم (اہلِ بیت) میں سے ہیں، اور چار جن میں سے اللہ چاہے، دوسری روایت میں ان کی تفسیر ہے: پہلے چار تو حضرتِ علی اور حضرتِ فاطمہ اور حسنین علیہم السّلام ہیں، اور دوسرے چار: سلمان، مقداد، ابوذر اور عمار ہیں۔ یہ بھی حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے مروی ہے۔

اس میں اہلِ معرفت کے لئے کوئی شک ہی نہیں کہ سلمان، مقداد ، ابوذر اور عمار اپنے وقت میں حاملانِ عرش میں شامل ہوئے تھے، حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے پاک ارشادات میں بار بار یہ اشارہ ملتا ہے کہ حقیقی مومنین کے لئے روحانی ترقی کے ابواب ہمیشہ مفتوح ہیں۔

حاملانِ عرش کی ایک تاویل یہ بھی ہے کہ وہ سات ہوتے ہیں مگر جب

 

۲۶

 

کسی عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہوتی ہے تو اس وقت اللہ جس کو چاہے سات میں شامل کر دیتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۲۲ ، فروری ۲۰۰۲ء

۲۷

کنز الاسرار ۔ قسط۱۵

سوال منجانبِ لشکرِ اسرافیلی و عاشقانِ مولا: آیا اسرافیل = جدّ، فرشتۂ عشقِ سماوی ہے؟ جواب: جی ہاں۔ کیا ناقور = صورِ اسرافیل، خود امام کا نورانی معجزہ ہے؟ جبکہ مولا نے فرمایا کہ وہ خود ناقور ہے؟ یقیناً کیونکہ وہ روحانی قیامت کو قائم کرنے والا سب سے عظیم معجزہ ہے، جس سے تمام ارواح و ملائکہ حرکت میں آتے ہیں، اور عزرائیل اپنے لشکر کے ساتھ قبضِ روح کا کام شروع کرتا ہے۔

کیا یہ راز بھی ہے کہ ہر چیز صورِ اسرافیل کی ہم نوائی میں اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح خوانی کرتی ہے؟ جواب: جی ہاں یہ حقیقت ہے (۱۷: ۴۴)۔

یہ حدیثِ قدسی ہم سب کے لئے ایک سدا بہار باغِ بہشت ہے: عبدی! اطعنی اجعلک مثلی حیا لا تموت و عزیزاً لا تذل و غنیاً لا تفتقر = اے بندۂ من! میری (حقیقی و کلّی) اطاعت کر، تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال پر زندۂ جاویدِ لافانی بنا لوں گا، ایسا صاحبِّ عزت بناؤں گا کہ تو کبھی ذلیل نہ ہو، اور ایسا غنی بناؤں گا کہ مفلسی قریب بھی نہ آسکے۔ اے صاحبانِ عقل! اس حدیثِ قدسی کا خطاب کس سے ہے؟ امامِ آلِ محمدؐ (ارواحنا فداہ) کی پُرحکمت تعلیمات نے آپ کو اور ہم کو اس قابل بنا دیا ہے کہ آج ہم امید و یقین کے ساتھ ایسے اسرار کو پڑھتے ہیں اور دل چاہتا ہے کہ اسے بار بار پڑھیں۔

۲۸

الٰہی شکرِ نعمت کے لئے اب چشمِ گریان دے!

ہمارے ارضی فرشتوں کے عاشقانہ آنسوؤں کا تصوّر! عاشقانہ اشک فشانی کا تصوّر! سجودِ شکرگزاری کا تصوّر! امامِ زمانؑ کے کسی پاک دیدار کا تصوّر! نورِ مجسّم کے پاک قدموں پر گر جانے کا تصوّر!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔آئی)
سنیچر، ۲۳ ، فروری ۲۰۰۲ء

۲۹

کنز الاسرار ۔ قسط۱۶

سوال ہمارے اہلِ مناجات کی جانب سے ہے، جو ذکر و عبادت اور عشقِ سماوی کے زیرِ اثر مقدّس اور معجزانہ گریہ و زاری کا تجربہ رکھتے ہیں اور اس معجزے کے دوران وہ سعادتمند سر بسجود بھی ہو جاتے ہیں، سوالِ علمی یہ ہے: کیا عرشِ الٰہی جسمانی ہے؟ جواب: نہیں جسمانی بالکل نہیں، بلکہ روحانی اور نورانی ہے، کیونکہ وہ فرشتۂ عقلِ کلّ = نورِ محمدیؐ = قلمِ اعلیٰ، اور نور الانوار ہے، اس کے گوناگون معجزاتی تجلّیات و ظہورات ہیں، لہٰذا قرآن و حدیثِ صحیحہ میں جو جو تعریفیں عرش کے بارے میں ہیں وہ سب حقیقت ہیں، کیونکہ عرش کوئی مقرر اور محدود جسمانی چیز نہیں ہے، وہ تو کلمۂ کُنۡ کا سب سے عظیم معجزہ ہے، اس لئے وہ سب سے وسیع کائنات بھی ہو سکتا ہے، اللہ کے مبارک ہاتھ میں لپیٹی ہوئی کائنات بھی، گوہرِ عقل بھی، پانی پر تخت بھی، پانی پر بھری ہوئی کشتی بھی، کشتی میں کشتیبان بھی، نورِ اخضر بھی، نورِ اصفر بھی، نورِ احمر بھی، اور نورِ ابیض بھی اور صبغۃ اللہ (رنگِ خدا) (۰۲: ۱۳۸) بھی ہے۔

عرش حظیرۂ قدس بھی ہے، جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نفسِ واحدہ میں جمع کرکے تمام لوگوں کو اپنا پاک دیدار دیتا ہے اور پوچھتا ہے کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں، اسی طرح آنحضرتؐ میں فنا ہو کر تمام روحیں معراج پر گئی تھیں اس کا

 

۳۰

 

ثبوت سورۂ نجم (۵۳: ۰۱ تا ۰۲) کا ارشاد ہے: وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰى  مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غَوٰى = قسم ہے تارے کی جب کہ وہ غروب ہوا، تمہارا رفیق (محمد) نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔

میں عاجزانہ عرض کرتا ہوں کہ اس ارشاد میں اشارۂ حکمت یہ ہے کہ کل روحیں آنحضرتؐ میں فنا ہو کر حضورِ اکرمؐ کے ساتھ حظیرۂ قدس کی معراج پر گئی تھیں، یہاں اس حقیقت کی پانچ حکیمانہ شہادتیں ہیں، آپ کو کسی وقت اس کی وضاحت کریں گے، ان شاء اللہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
عید الاضحی سنیچر، ۲۳ ، فروری ۲۰۰۲ء

۳۱

کنز الاسرار ۔ قسط۱۷

سوال منجانبِ متعلّمینِ علم و حکمت: بحوالۂ قرآن (۱۰۱: ۱۷) اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کو جو نو معجزات عطا ہوئے تھے، کیا آپ ان کے نام بتا سکتے ہیں؟ جواب: ان شاء اللہ، وہ یہ ہیں: عصا، یدِ بیضا، سنین (قحط)، نقصِ ثمرات (پھلوں کا نقصان)، طوفان، جراد (ٹڈی دل) ، قمل (جوں)، ضفادع (مینڈک)، دم (خون)۔

کتاب قصص القرآن جلدِ اوّل ص ۴۵۱ پر ہے کہ ان ۹ (نو) آیات = ( معجزات) ، میں سے عصا اور یدِ بیضا آیاتِ کبریٰ ہیں، اور باقی سات آیاتِ (معجزاتِ) عذاب ہیں، اہلِ دانش سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ فرعون اور اُس کی قوم پر معجزاتِ عذاب کیوں نازل ہوئے تھے؟ اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ بعض معجزات عذاب کی صورت میں بھی ہوتے ہیں، وہ لوگوں کو راہِ راست پر لانے کی غرض سے ہوتے ہیں۔

پس زیادہ دانا مومن وہ ہے، جو گریہ و زاری میں اپنی دعا کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر بنا لیتا ہے آپ بار بار مناجات کرتے ہوئے بڑی کثرت سے خدا کو یاد کریں، بڑی کثرت سے ، نتیجے کے طور پر آپ میں جو فرشتہ ہے، وہ آپ کے لئے نیک توفیقات کا وسیلہ بن جائے گا اور جو جنّ ہے اس کا

 

۳۲

 

منہ وسوسوں سے اتنی دیر کے لئے بند ہو جائے گا، جتنی دیر آپ خدا کو یاد کر رہے ہیں۔

سورۂ شمس (۹۱: ۰۸) میں ہے: پھر خدا نے انسان کی جان میں اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری الہام کر دی، یعنی ایک جنّ اور ایک فرشتہ مقرر فرمایا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار ، ۲۴ ، فروری ۲۰۰۲ء

۳۳

کنز الاسرار ۔ قسط۱۸

سوال منجانبِ عاشقانِ مولائے زمان (ارواحنا فداہ) اگرچہ ہم اس تعلیم کو تو قبول کر چکے ہیں کہ ہر شخص کے دو قرین (ساتھی) ہیں، ایک جنّ اور ایک فرشتہ، اس کی شہادت کے لئے آپ نے ایک آیت (۹۱: ۰۸) کو پیش کیا ہے، آیا آپ اس باب میں کوئی اور قرآنی دلیل پیش کر سکتے ہیں؟

جواب: ان شاء اللہ ۔ سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں ارشاد ہے: وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ = اور جو شخص خدائے رحمان کے ذکر سے اندھا ہو جاتا ہے ہم اس کے لئے ایک شیطان (جنّ ) مقرر کر دیتے ہیں، پس وہی اس کا ہمنشین ہوتا ہے۔ اس آیت کی باطنی تاویل یہ ہے، کہ ہر شخص میں ایک جنّ (شیطان) اور ایک فرشتہ پہلے ہی سے مقرر ہیں، اور اس قانونِ فطرت سے جن مومنین کو آگہی نصیب ہو جاتی ہے امید ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ نام یعنی اسمِ اعظم (امامِ زمانؑ) کی نورانی رسی کو لمحہ بھر کے لئے بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے، تاکہ جن کو دل کے کان میں کچھ کہنے کے لئے ذرا بھی موقع نہ ملے، اور اس کے مقابلے میں ہر وقت اور ہمیشہ فرشتہ ہی غالب رہے، اور ان شاء اللہ یہ کام ہر دانا مومن کے ہاتھ میں ہے۔ یہ تو آپ سب جانتے ہیں کہ فرشتہ

 

۳۴

 

کس قسم کے قول و فعل کو پسند کرتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
اتوار ، ۲۴ ، فروری ۲۰۰۲ء

۳۵

کنز الاسرار ۔ قسط۱۹

کتاب عشقِ سماوی : ص ۱۱۳۔ اُس نے کہا : “میں تیرا دل ہوں” = سلمان غریبم قلبِ تو۔۔۔

اس قالبِ خاکی میں دل عالمِ اکبر ہے
دل دائرۂ کلّ ہے، اور ارض و سما ہے دل
اس مرتبۂ دل کو عارف ہی سمجھتا ہے
گر پاک کرے کوئی تب عرشِ خدا ہے دل
اشعارِ نصیری میں اسرارِ نہانی ہیں
دل عقدۂ لا ینحل اور عقدہ کشا ہے دل

جن لوگوں نے اللہ اور رسول اور صاحبانِ امر کی ہدایات و تعلیمات کی اطاعتِ حقیقی کرتے ہوئے اسماءُ الحسنیٰ = اسمِ اعظم (۰۷: ۱۸۰) سے اللہ کو پکارا اور اصولی ریاضت کی تو ان کی روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں (۴۱: ۳۰) اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے، ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تمنا کرو گے تمہاری ہوگی، یہ ہے سامانِ

 

۳۶

 

ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے (۴۱: ۳۰ تا ۳۱)۔

آیۂ اطاعت (۰۴: ۵۹) اسماءُ الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰) انہی اسماء میں اسمِ اعظم ہے، اور وہ اللہ کا حقیقی، نورانی اور زندہ اسمِ اعظم امامِ زمانؑ ہے، جو ظاہر ہونے کے با وصف لوگوں سے سات سو حجابات میں محجوب ہے، جس شخص کی نظر سے بذریعۂ علم و معرفت رفتہ رفتہ یہ سات سو حجابات غائب ہو جاتے ہیں وہی شخص امامِ مبینؑ کے عظیم معجزات و اسرار کو دیکھ سکتا ہے، اور خزائنِ قرآن کے ابواب اس کے لئے مفتوح ہو جاتے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۲۵ ، فروری ۲۰۰۲ء

۳۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۲۰

سوال از جانبِ علمی لشکر: بہشت میں ہر کامیاب لطیف = نورانی شخص یہ پسند کرے گا کہ اُس کی کتابِ اعمال (Record of Deeds)  یا نورانی مووی کو سب لوگ دیکھیں، کیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت وارد ہوئی ہے؟ جواب: جی ہاں، سورۂ حاقہ (۶۹: ۱۹) میں ہے: اُس وقت جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا لو دیکھو، پڑھو میرا نامۂ اعمال، میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔

سوال: کیا بہشت میں کتابِ اعمال ہوگی یا نورانی مووی؟ جواب: دونوں چیزیں ہو سکتی ہیں، کیونکہ خزائنِ الٰہی میں دونوں کا ریکارڈ موجود ہے، اور دونوں وہیں سے اس دنیا میں آئی ہیں۔ اور تمام چیزیں خزائنِ الٰہی سے آتی ہیں (۱۵: ۲۱)۔

بحوالۂ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلدِ دوم ص ۱۱۳۶ ، قرآنِ حکیم میں ستر ہزار علوم ہیں، کتاب الاتقان حصّۂ دوم ص ۳۱۹ پر بھی علوم القرآن کی یہی تعداد (ستر ہزار) درج ہے۔

سورۂ اعراف (۰۷: ۵۳) میں خوب غور سے دیکھنا ہوگا کہ قرآن کی تاویل روحانی قیامت کی صورت میں آنے والی تھی، اس لئے وہ حجتِ قائم اور حضرتِ قائم کے مبارک زمانے میں آچکی ہوگی، اب صرف نتیجے کے طور پر دنیا میں کوئی

 

۳۸

 

مفید تبدیلی متوقع ہے، اور مادّی سائنس کی مزید ترقی کے ساتھ ساتھ روحانی سائنس یا ظہوراتِ معجزات کا یقین کیا جا سکتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۵ ، فروری ۲۰۰۲ء

 

۳۹

 

کنز الاسرار ۔ قسط۲۱

بحوالۂ المیزان فی تفسیر القرآن، الجزء الخامس، ص ۲۷۰: قال الصادق علیہ السّلام: لو لا ان الشیاطین یحومون حول قلوب بنی آدم لراوا ملکوت السمٰوٰت و الارض ۔ ترجمہ: حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا اگر شیاطین بنی آدم کے دلوں کے گرد نہ پھرتے ہوتے تو آدمیوں کو آسمانوں اور زمین کی روحانی سلطنت نظر آتی۔

ساتھ ہی ساتھ رسولِ اکرم صلعم کا یہ ارشاد بھی ہے: لو لا تکثیر فی کلامکم و تمریج فی قلوبکم، لرایتم ما اری و لسمعتم ما اسمع = اگر تمہاری اپنی باتوں میں کثرت نہ ہوتی اور تمہارے دل غافل اور بے قابو نہ ہوتے تو تم وہ کچھ دیکھتے اور سنتے جو میں دیکھتا ہوں، اور سنتا ہوں۔

سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۹) میں ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ ترجمہ: جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔

بحوالۂ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۲): یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا

 

۴۰

 

اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا  وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا ۔ ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۵ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۱

کنز الاسرار ۔ قسط۲۲

علم و حکمت کا سوال، منجانبِ عزیزانِ من جن کی خدمات اور قربانیاں علم کے لئے بے شمار ہیں۔ بحوالۂ کتاب صنادیقِ جواہر ص ۳۵۰-۳۵۱۔

سوال۔ ۴۷۸: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا؟ اس سوال کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پانچ ارشادات ہیں: (الف) اوّل ما خلق اللہ نوری (ب) اوّل ما خلق اللہ القلم (ج) اوّل ما خلق اللہ العقل (د) اوّل ما خلق اللہ اللوح (ھ) اوّل ما خلق اللہ الروح ۔ آپ یہ بتائیں کہ پانچ مختلف چیزیں ایک ساتھ اوّل کس طرح ہو سکتی ہیں؟ کیا قلم اور لوح عقل و جان کے بغیر ہیں؟ ۔ جواب: (۱) یہ ایک ہی حقیقت ہے جس کے ازلی نام یہاں پانچ ہیں، اس کا تذکرہ کسی بھی نام سے ہو سکتا ہے، چنانچہ آنحضرتؐ نے موقع و محل کے مطابق اس کا ایک نام ظاہر فرمایا (۲) قلم اور لوح عقل و جان کے سوا نہیں ہیں، یہ نبیؐ اور علیؑ کے نورِ واحد کے اسمائے ازل ہیں۔

سوال۔ ۴۷۹: آپ نے تو بتایا تھا کہ نورِ محمدؐ قلم ہے اور نورِ علیؑ لوح، کیا یہ ضروری نہیں کہ یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہوں؟ اگر نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِ امامِ مبین کرسی، تو کیا یہ دونوں درجے جدا جدا نہیں ہیں؟۔ جواب: (۱)

 

۴۲

 

عالمِ شخصی کے بہت سے مراحل کے بعد حظیرۃ القدس / عالمِ وحدت آتا ہے، جس کے بارے میں عرفاء یہ کہتے ہیں کہ وہاں ایک ہی عظیم فرشتہ قلم بھی ہے اور لوح بھی، یہی مَلَک محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد بھی ہے، اور عقلِ کلّ و نفسِ کلّ بھی یہی ہے (۲) یقیناً نورِ نبیؐ عرش ہے اور نورِ علیؑ کرسی، لیکن یہ نورِ واحد ہے اور فرشتۂ واحد، جو عرش بھی ہے اور کرسی بھی، بلکہ وہی عظیم فرشتہ روحانی آسمان بھی ہے اور زمین بھی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۲۶ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۳

کنز الاسرار ۔ قسط۲۳

سوال منجانبِ مرکزِ علم و حکمت (لندن): کیا آپ نے ایک بڑا عجیب و غریب نورانی خواب تاشغورغان (سریقول) میں دیکھا تھا، سال شاید ۱۹۴۹ء تھا، اس خواب میں آپ کی جسمانی قربانی ہو چکی تھی، سر ایک دیوار کے ساتھ آویزان، اور جسم زمین پر پڑا ہوا تھا، آپ کی باشعور روح یا انا فضاء میں کچھ بلندی پر تھی، یہ فضاء چمکتے ہوئے ذرّات سے پُر تھی، آپ کسی خوف کے بغیر یہ منظر دیکھ رہے تھے، کیا آپ تصدیق کرتے ہیں کہ آپ نے امامِ مبینؑ کا یہ معجزہ ہم کو بتا دیا تھا؟ جواب: جی! جناب یہ بالکل سچ اور ناقابلِ فراموش معجزہ ہے، لیکن اس کی تاویل الگ ہے، مگر یہ یاد نہیں کہ میں نے اس کی تاویل کے لئے کہیں کوشش کی ہے یا نہیں۔

استاذِ عزیز کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے اپنے قریبی عزیزوں کو حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائمؑ کے خاص اسرار سے آگاہ کر دیا ہے، تاکہ یہ گواہی جماعت کے خاص افراد میں منتقل ہو جائے؟ جواب: جی ہاں میں نے ایسا کیا ہے، کتابِ وجہِ دین سب کے سامنے ہے۔

میں عرصۂ دراز تک امام علیہ السّلام کے روحانی = باطنی = نورانی معجزات کو تحریر میں لانے سے ڈرتا رہا، آخرکار وہ وقت گزر گیا، اور ہادئ زمانؑ کی جانب سے توفیق و ہمت عطا ہوئی، پس میں نے امامِ مبینؑ کے بے شمار

 

۴۴

 

معجزات میں سے چند کو ظاہر کرنے کے لئے سعی کی ہے، قرآن اور اسلام میں شہادت (گواہی) بڑی اساسی اور اصلی چیز ہے، پس اگر میں نے امامِ آلِ محمدؐ کا کوئی معجزہ دیکھا ہے اور کسی خوف کی وجہ سے اس کی شہادت (گواہی) کو چھپاتا ہوں، تو یہ امام کے عاشقوں پر بڑا ظلم ہے، لہٰذا اب دورِ قیامت یعنی دورِ تاویل ہے تو اس میں اپنی بساط کے مطابق حضرتِ امام علیہ السّلام کے معجزات کو دوستوں پر ظاہر کرنا ہوگا، ان شاء اللہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۲۶ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۵

کنز الاسرار ۔ قسط۲۴

سوال منجانبِ اہلِ دانش: آپ نے امامِ وقت علیہ السّلام کا اوّلین معجزہ کب اور کہاں دیکھا تھا؟ جواب: سال ۱۹۴۶ء شہرِ پونا میں ، اس سے متعلق میرا ایک بروشسکی مصرع ہے: جار جلوۂ اوّل غنم لو زلزلہ ئیڎم = جب مجھ کو پہلا دیدار ہوا تھا تو اس وقت میں نے معجزۂ زلزلہ دیکھا تھا۔

سوال: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے آپ کو کب اور کہاں اسمِ اعظم کے سرِ اعظم سے آگاہ فرمایا تھا؟ جواب: ڈائمنڈ جوبلی کا زمانہ تھا، اور بندۂ ناچیز کو اسمِ اعظم کا عطیہ حسن آباد زیارت (بمبئی) میں ملا تھا۔ سوال: آپ کو نورِ باطن یا اسمِ اعظم کی پہلی روشنی کب نظر آئی تھی؟ اور کہاں؟ جواب: کھارادر پرانا جماعت خانہ میں (سال ۱۹۴۸ء)۔

آپ نے اپنے دوستوں کو درسِ محنت دینے کی غرض سے اپنی ایک مثال پیش کی ہے، وہ یہ ہے کہ شروع شروع میں آپ کا یہ خیال تھا کہ میری محنت کے بغیر اسمِ اعظم خود از خود معجزات کرے گا، حال آنکہ آپ کا یہ خیال درست نہ تھا، پھر آپ کو احساس ہوا کہ مولائے پاک (ارواحنا فداہ) کی روشن ہدایات میں محنت، محنت، محنت اور ہمیشہ محنت کا حکم ہے، پس آپ نے کہا ہے: میں

 

۴۶

 

اپنے آپ سے بڑا شرمندہ ہوگیا، اور عزمِ مصمم کر لیا کہ اب مجھے شب خیزی اور سخت ریاضت سے کام لینا ہے، میں نے رات کے وقت کمرہ اور بستر کو خیر باد کہا، جماعتخانہ کی سیڑھیوں پر بسیرا لینے لگا، پرندہ پاؤں پھیلا کر نہیں سویا کرتا، وہ کسی درخت کی نازک ٹہنی پر صرف بسیرا لیتا ہے، جماعت خانہ کی سیڑھیوں میں ایمانی جماعت کے پیروں سے میرے لئے برکت جمع ہوئی تھی، پس میں تقریباً ایک چلہ پاک جماعت خانہ کی نورانی عبادت میں ٹھیک طرح سے حاضر رہا، پھر بفضلِ مولا پہلی روشنی نظر آئی، اور اس کی مقناطیسی کشش کی کیا تعریف کر سکتا ہوں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۲۶ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۷

کنز الاسرار ۔ قسط۲۵

سوال منجانبِ عاشقانِ نورِ امامِ زمان روحی فداہ : قرآنِ حکیم کا کوئی بھی لفظ معنوی حقیقت اور تاویلی حکمت کے بغیر نہیں ہے، پس آپ یہ بتائیں کہ بحوالۂ سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۳۸) صبغۃ اللہ (رنگِ خدا) سے کیا مراد ہے؟ جواب: اس سے نورِ عبادت = نورِ اسمِ اعظم مراد ہے، جس کا ظہور چار رنگوں میں ہوتا ہے، نورِ اخضر (سبز نور)، نورِ اصفر (زرد نور)، نورِ احمر (سرخ نور)، نورِ ابیض (سفید نور)۔ یہ چار رنگ کے انوار دراصل عرشِ عظیم ہی کے ہیں، اور وہاں سے ان کی نہریں عالمِ شخصی اور دنیا تک جاری ہیں، پس آیتِ صبغۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸) میں اللہ کی عبادت کا بھی ذکر ہے، اور سب سے کامیاب عبادت تو اسماءُ الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰) اسمِ اعظم ہی سے ہوتی ہے، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب بھی اسمِ اعظم کی ابتدائی روشنی نظر آئے گی اس میں زبردست دلکشی کیوں نہ ہو جبکہ وہ رنگِ خدا ہے۔

سوال: بحوالۂ سورۂ نمل (۲۷: ۶۰) حَدَآىٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍۚ = باغاتِ خوشنما = انتہائی مسرت بخش باغات، کیا یہ صرف دنیائے ظاہر کے باغ ہیں، یا عالمِ شخصی میں بھی باغات ہیں؟ جواب: اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے عالمِ شخصی میں جو باغات بنائے ہیں وہ چار رنگ کے

 

۴۸

 

انوار سے ہیں: یعنی نورِ سبز، نورِ زرد، نورِ سرخ اور نورِ سفید پر مبنی ہیں۔

الحمد للہ الاوّل بلا اوّل کان قبلہ و الاخر بلا اٰخر یکون بعدہ۔

ترجمہ: جس جس پہلو سے تعریف ممکن ہے اس کا سزاوار وہ معبود ہے جو سب سے اوّل ہے بغیر کسی اوّل کے جو اس سے پہلے ہو، اور سب سے آخر ہے بغیر کسی آخر کے جو اس کے بعد ہو۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۲۷ ، فروری ۲۰۰۲ء

۴۹

کنز الاسرار ۔ قسط۲۶

سوال منجانبِ صاحبانِ عقل: اگر عرفاء جیتے جی مر کر زندہ ہو جاتے ہیں، تو کیا وہ اس دنیا میں اپنے ربّ کو دیکھ سکتے ہیں؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے، تو پھر اس کا قرآنی ثبوت کیا ہے؟ جواب: سورۂ شوریٰ (۴۲: ۵۱) وَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْیًا۔ ترجمہ : کسی بشر کے لئے یہ قانون نہیں کہ جب اللہ اس کو دیدار دیتا ہے تو اسی حال میں اللہ اس سے کلام بھی کرے، مگر ہاں وحی ہوگی۔ یعنی دیدار ہی میں بہت سے اشارے ہیں، اور جب بھی کلام ہو تو وہ حجاب کے پیچھے سے ہوگا۔

اس آیہ شریفہ میں یہ روشن دلیل ہے کہ خدا کے دوستوں کو دنیا ہی میں اپنے ربّ کا پاک دیدار ہوتا ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا (۱۷: ۷۲) ۔ ترجمہ: اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔ اب آپ اس قانونِ قرآن کی روشنی میں سوچ کر یہ بتائیں کہ دنیا ہی میں نورِ الٰہی کا دیدار اور معرفت ممکن ہے یا نہیں؟ جب خدا ظالم نہیں ہے تو امرِ ناممکن کی وجہ سے کسی کو آخرت میں کیسے اندھا بنائے گا؟ ہاں یہ حقیقت ہے کہ اللہ نے اپنے پاک نور کو اپنا مظہر اور نمائندہ بنا کر ہمیشہ دنیا میں رکھا ہے، اور اللہ

 

۵۰

 

ذاتِ سبحان کو نہ تو کوئی دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی معرفت ممکن ہے، پس امامِ مبین اللہ کا نور ہے، لہٰذا اسی کا دیدار اللہ کا دیدار ہے اور اسی کی معرفت حضرتِ ربّ کی معرفت ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۲۷ ، فروری ۲۰۰۲ء

۵۱

کنز الاسرار ۔ قسط۲۷

سوال منجانبِ جملہ عزیزانِ من! اب جو سوال ہو گا، وہ سب سے اہم، سب سے اساسی، سب سے عظیم، سب سے مشکل، اور سب سے مفید ہے، وہ ہے: آیا امامِ زمانؑ اللہ کی تاویل ہے؟ اگر آپ جواباً یہ کہتے ہیں کہ ہاں یہ حقیقت ہے تو اس پر بزرگانِ دین کی شہادتیں کہاں ہیں؟

جواب: کتابِ سرائر ص۲۲ پر ہے: فاللہ تعالیٰ خالق آدم بیدہ من الطین اللازب، و ھو واقع علیٰ امام الزمان اذ ھو منصوب من قبل اللہ و عامل بامر اللہ وقع علیہ اسم اللہ = اللہ تعالیٰ نے بدستِ خود آدم کو چپکنے والی مٹی سے پیدا کیا، یہ فعل امامِ زمانؑ پر واقع ہوتا ہے جبکہ وہ اللہ کی جانب سے مقرر ہے، اور وہ خدا ہی کے حکم سے کام کرتا ہے، لہٰذا اس پر اسمِ “اللہ ” کا اطلاق ہو جاتا ہے۔

ص ۲۹: فقال (اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ ۔ ۰۲: ۳۰) و ہٰذا الخطاب من امام الزمان الذی ھو القائم لاھل زمانہ مقام اللہ، اذ کان اللہ نصبہ و اقامہ فسمی باللہ اذ ھو من فعل اللہ

کتابِ وجہِ دین (ص ۱۳۹) سورۂ اخلاص کے تاویلی اسرار کو سمجھنے

 

۵۲

 

کے لئے کوشش کریں ، خصوصاً ھویت، اور لفظِ اللہ کے چار حروف = عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق ، اساس۔

کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳ پر جو حدیثِ قدسی ہے، اس کے تحت دیکھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۲۸ ، فروری ۲۰۰۲ء

۵۳

کنز الاسرار ۔ قسط۲۸

سوالِ کلّی منجانبِ جملہ عزیزانِ قلبی و روحی جو قسط ۲۷ کے ساتھ پیوستہ ہے:

بحوالۂ ہزار حکمت (ح: ۶۶۸) حضرتِ امام محمد باقر علیہ السّلام کا ارشادِ مبارک ہے: ما قیل فی اللہ فھو فینا = جو بات اللہ تعالیٰ کے متعلق کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے۔ اس ارشادِ مبارک میں یہ حقیقت چمک رہی ہے کہ امامِ زمان یقیناً اللہ کی تاویل ہے، مذکورہ کتاب (ح: ۶۶۴) کو بھی پڑھ لیں۔

کتابِ ہزار حکمت (ح:۶۲۱) میں حدیثِ شریف ہے: النظر الیٰ وجہ علی عبادۃ = علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ یہاں اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ یقیناًعلی وجہُ اللہ ہے، اور اس میں بہت سی عظیم حکمتیں ہیں، پس یہ حقیقت ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام اللہ کی تاویل ہے، آپ ہزار حکمت میں : ح: ۶۲۰-۶۲۴ کو دیکھیں۔

حضرتِ مولا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشاد ہے: انا النور الذی اقتبس منہ موسی فھدیٰ یعنی میں وہ نور ہوں جس سے موسیٰ نے روشنی طلب کی ، تو ہدایت پائی۔ کوکبِ دری ، بابِ سوم، منقبت ۔ ۳۰۔

۵۴

سورۂ نمل (۲۷: ۰۸) فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِیَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ-وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ = وہاں جو پہنچا تو ندا آئی کہ مبارک ہے وہ جو آگ = نور میں ہے اور جو اس کے ماحول میں ہے (یعنی قریب ہے) پاک ہے اللہ جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ،یکم مارچ ۲۰۰۲ء

۵۵

کنز الاسرار ۔ قسط۲۹

 

سوغاتی اور نمائندہ سوال: برائے عاشقانِ امامِ زمان اقدس و اطہر (ارواحنا فداہ)۔

جب مولا علی علیہ السّلام کا فرمانِ مبارک ہے : انا النور الذی اقتبس منہ موسیٰ فھدیٰ = یعنی میں وہ نور ہوں، جس سے موسیٰ نے روشنی طلب کی تو (کلی) ہدایت پائی۔

سوال: کیا اس کا واضح مطلب یہ نہیں ہے کہ یہی پاک نور حضرت موسیٰؑ کی تمام زندگی پر محیط تھا، اور اہلِ دانش جانتے ہیں کہ قرآنِ حکیم میں سب سے طویل قصّہ حضرتِ موسیٰؑ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام کا ہے، پس عاشقانِ نور کو میرا عاجزانہ مشورہ ہے، کہ وہ قرآنی آئینۂ موسیٰؑ و ہارونؑ میں محمدؐ و علیؑ کے نورِ پاک کو دیکھنے کے لئے سعئ بلیغ کریں۔

سوال: حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کو ایک آگ نظر آئی تھی (۲۰: ۱۰) (۲۷: ۰۸) (۲۸: ۲۹) کیا یہ مادّی آگ تھی؟ آیا یہ عالمِ شخصی کا مشاہدہ = معجزہ تھا؟
جواب: یہ نورِ علیؑ تھا، جس کا مشاہدہ آفاق و انفس دونوں میں ہوتا ہے۔

مولوئ معنوی جلال الدین رومی کہتے ہیں: کوکبِ دری ص ۱۳۱:

۵۶

ہم اوّل و ہم آخر و ہم ظاہر و باطن

ہم عابد و ہم معبد و معبود علی بود

موسیٰ و عصا و یدِ بیضا و نبوّت

در مصر بفرعون کہ بنمود علی بود

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ،یکم مارچ ۲۰۰۲ء

۵۷

کنز الاسرار ۔ قسط۳۰

سوغاتی اور نمائندہ سوال برائے عاشقانِ مولائے زمان علیہ السّلام (روحی فداہ)۔

بحوالۂ کتابِ کوکبِ دری بابِ دوم منقبت ۹۸ میں یہ حدیثِ شریف ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے مولا مرتضیٰ علیؑ کے چہرۂ مبارک کے نور سے ستر ہزار فرشتے پیدا کئے، آیا یہ تاویل درست ہے کہ اللہ جلّ جلالہ ہر امامِ زمانؑ کے نور سے اسی طرح اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے؟ جواب: جی ہاں یہ تاویل درست اور حقیقت ہے۔

قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان اللہ خاطبنی لیلۃ المعراج بلغۃ علی قلت یا رب خاطبتنی ام علی قال یا محمد انا شی لست کالاشیاء اقاس بالناس و اوصف بالشبھات خلقتک من نوری و خلقت علیا من نورک فاطلعت علیٰ سریر قلبک فلم اجد فی قلبک احدا احب الیک من علی ابن ابی طالب فخا طبتک بلغتہ و لسانہ لیطمئن قلبک، ترجمہ: مناقب خطیب بحر المناقب اور خلاصۃ المناقب میں مرقوم ہے کہ رسولؐ نے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ نے شبِ معراج مجھ سے علی کی زبان میں

 

۵۸

 

خطاب فرمایا، میں نے عرض کی اے پروردگار تو نے مجھ سے بات کی ہے یا علیؑ نے؟ فرمایا، اے محمد، میرا وجود اشیاء کی طرح نہیں ہے، جو آدمیوں پر مجھے قیاس کیا جائے، اور تشبیہات سے میرا وصف بیان کیا جائے، میں نے تجھ کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے اور علی کو تیرے نور سے، اور میں تیرے دل کے اسرار پر واقف ہوا، پس تیرے نزدیک علی سے بڑھ کر کسی کو دوست نہ پایا، اس لئے اس کی لغت اور زبان میں گفتگو کی، تاکہ تیرا دل تسلی پائے اور انس پکڑے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ،یکم مارچ ۲۰۰۲ء

۵۹

کنز الاسرار ۔ قسط۳۱

سوالِ سوغاتی، یعنی تحفہ بے مثل از سفرِ عالمِ شخصی برائے عزیزانِ قلبی و روحی:

حدیثِ معراج میں لفظِ سریر کا اصل ترجمہ تخت تھا، اس صورت میں یہ مفہوم ہوتا ہے کہ اللہ جلّ شانہ نے آنحضرتؐ کے پاک و پاکیزہ دل کے تخت پر علیؑ کو دیکھا اسی وجہ سے خدا نے علیؑ ہی کی آواز میں اپنے محبوب رسولؐ سے کلام کیا، کیا یہ خیال درست ہے؟ جواب: جی ہاں بالکل درست ہے، اور مولای روم نے بھی یہی کہا ہے:

محمد بود قبلہ گاہِ عالم ولی بر تختِ دل سلطان علی بود
ترجمہ: محمدؐ سارے جہان کے لئے، قبلہ اور کعبہ کا درجہ رکھتے تھے، لیکن ان کے دل کے تخت پر علی بادشاہ تھا۔ کتاب سلسلۂ نورِ امامت ص ۹۶ پر بھی یہ شعر ہے۔

لفظ سریر (واحد) تخت، اور اس کی جمع سُرُرْ، قرآن (۱۵: ۴۷) میں موجود ہے، وہ ارشاد یہ ہے: اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ (۱۵: ۴۷) ترجمہ: وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔ اس میں سلاطینِ

 

۶۰

 

بہشت کا ذکر ہے، کیونکہ سریر = تخت ، بادشاہ = سلطان کے سوا نہیں ہوتا ہے، اگر ہوتا ہے، تو وہ بحقیقت سریر  = تخت نہیں ہے، آمنے سامنے کی تاویلی حکمت ہمرتبہ یا یک حقیقت ہو سکتی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ،۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۶۱

کنز الاسرار ۔ قسط۳۲

سوالِ سوغاتی = تحفۂ لاثانی از سفرِ روحانی: حدیثِ معراج کی برکت سے ایک خاص الخاص اعلیٰ سطحی سوال دل میں آیا، وہ اور اس کا جواب عزیزانِ قلب و جان کے لئے تحفہ ہے، گر قبول افتد زہے عز و شرف! وہ پُرحکمت سوال یہ ہے کہ قرآنِ حکیم کے پانچ مقامات پر یہ ذکر آیا ہے کہ اہلِ جنّت مسندوں یعنی سریروں پر ہوں گے، آیا اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جن کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتِ بے پایان سے سلاطینِ بہشت بناتا ہے؟ جواب: جی ہاں، یقیناً لفظِ تاج یا تخت بادشاہی کی دلیل ہے، اور قرآنِ عزیز کے وہ پانچ مقام یہ ہیں: (۱۸: ۳۱) ۔ (۳۶: ۵۶)۔ (۷۶: ۱۳)۔ (۸۳: ۲۳)۔ (۸۳: ۳۵)، ان مقامات میں سے ایک مثال سورۂ یاسین (۳۶: ۵۵ تا ۵۶) اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَ هُمْ وَ اَزْوَاجُهُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَى الْاَرَآىٕكِ مُتَّكِــٴُـوْنَ، ترجمہ: تحقیق بہشت کے لوگ آج ایک مشغلہ میں ہیں باتیں کرتے (بہشت کے بہترین مشاغل روحانی، علمی، حکمتی، عقلی، عرفانی، کشفی، تجلیاتی، اور معجزاتی وغیرہ ہیں)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ،۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۶۲

کنز الاسرار ۔ قسط۳۳

سوالِ سوغاتی = تحفۂ لاثانی از سفرِ عرفانی:

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا ہے، تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل منجیوڑی ۔ ۲۸۔۱۲۔۱۸۹۳ء)۔

کیا آپ نورانی بدن کے بارے میں کچھ وضاحت کریں گے؟ جواب: جی ان شاء اللہ، نورانی بدن کے کئی نام ہیں: جسمِ لطیف = مخلوقِ لطیف = روحانیین = جثّۂ ابداعیہ، اگر میں کہوں جنّ تو اس سے لوگ ڈرتے ہیں، حالانکہ جنّ اچھے بھی ہوتے ہیں، اور برے بھی، اور اچھے مومن جنّ فرشتے ہوتے ہیں، اور بڑی عجیب بات ہے کہ لوگ لفظِ پری کو پسند کرتے ہیں، جبکہ لفظِ جنّ کو پسند نہیں کرتے، حالانکہ یہ ایک ہی مخلوق ہے، جس کا نام عربی میں جنّ اور فارسی میں پری ہے۔ پس جو لوگ اللہ، رسول اور امامِ زمانؑ کی حقیقی اطاعت کر کے نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جائیں گے، وہ سلاطینِ بہشت ہوں گے، درحالے کہ نورانی بدن = جثّۂ ابداعیہ خود حضرتِ سلیمان علیہ السّلام ہی کی طرح روحانی بادشاہ اور اپنا نورانی بدن، کائنات میں پرواز کرنے والا سلیمانی تخت، اپنی ہستی، نورانی محل، اپنی بے شمار الحاقی روحیں، لشکر وغیرہ ہوں گے۔

۶۳

مادّی سائنس کی روز افزون ترقی کے تناظر میں کہ کس طرح بہت سی الگ الگ مشینیں رفتہ رفتہ مل کر ایک ہوتی جا رہی ہیں، ہم اسی دلیل سے نورانی بدن کے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ میں سب کچھ ہے، جیسا کہ حکیمِ نامور پیر ناصر خسرو فرماتے ہیں:

ز نورِ او تو ہستی ہمچو پرتو

حجاب از پیش بردار و تو او شو
تو اس کے نور کا عکس = تصویر ہے، حجاب کو سامنے سے ہٹا کر تو وہ ہو جا۔ جیسا کہ میرا شعر ہے:

تو ھو میں فنا ہو جا تب گنجِ نہان تو ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ،۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۶۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۳۴

نمائندہ سوال برائے عزیزانِ حلقۂ حکمت:

سوال: قرآنِ حکیم یا حدیثِ قدسی، یا حدیثِ نبوّی میں یہ اشارہ کہاں ہے کہ انسان جسمِ لطیف میں پرواز کرے گا؟ جواب: خداوند تعالیٰ اپنے جن نیک بندوں کے لئے ایک نور مقرر فرماتا ہے (۵۷: ۲۸) اس کے بہت سے عظیم مقاصد میں سے ایک مقصد چلنا بھی ہے، اور چلنے میں روحانی ترقی بھی ہے اور علمی و عرفانی ارتقاء بھی ہے، اور فرشتہ بن کر پرواز کرنا بھی۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ارشاداتِ عالی کو پڑھیں اور خوب غور کریں کہ مومن کی روح کس طرح فرشتہ ہو سکتی ہے؟ فرشتہ تو ہمیشہ پرواز کرتا ہے۔

عملی تصوّف کی پیاری کتاب میں معجزۂ نوافل کو پڑھیں: تو خداوند تعالیٰ فرماتا ہے، جب میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، یہاں زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے! جب خدا سالک کا روحانی پاؤں بن جائے اور عقلی پاؤں بن جائے تو کیا اس میں چلنے اور پرواز کرنے کے

 

۶۵

 

معنی ایک نہیں ہوتے؟ ہاں یہاں روحانی پرواز، جسمِ لطیف کی پرواز اور عقلی پرواز کے معانی جمع ہیں، حاضر امام (روحی فداہ) کا فرمانِ اقدس ہے: آپ کو دانا ہونا ہے اور دانائی سے سوچنا ہے مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ نے بار بار ارشاد فرمایا ہے: دانا ہو جاؤ، دانائی اور حکمت سے کام لو! میں سمجھتا ہوں کہ یہ تاکیدی فرمان تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۳ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۶۶

کنز الاسرار ۔ قسط ۳۵

نمائندہ سوال برائے عزیزان و رفیقانِ روحانی: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام (ارواحنا فداہ) نے فرمایا: تم ہماری روحانی اولاد ہو، اور یاد رکھنا کہ “روح ایک ہی ہے۔” (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل۔ ممباسہ۔ ۱۲۔۱۱۔ ۱۹۰۵ء)۔

حجتِ قائم علیہ السّلام کا یہ بابرکت اور پُرحکمت فرمان تاکیدی، تاویلی اور کلیدی نوعیت کا ہے، لہٰذا آپ یہ بتائیں کہ اس فرمانِ مبارک کا تعلق قرآنِ حکیم کی کس آیۂ کریمہ کے ساتھ ہے؟

جواب: اس کا براہِ راست تعلق آیاتِ نفسِ واحدہ کے ساتھ ہے، اور وہ پانچ ہیں: (۰۴: ۰۱) (۰۶: ۹۸) (۰۷: ۱۸۹) (۳۱: ۲۸) (۳۹: ۰۶)۔

اگرچہ یہ آیاتِ شریفہ پانچ ہیں، لیکن ان کا پُرحکمت مضمون و بیان ایک ہی ہے، اور وہ نفسِ واحدہ ہی ہے، سب سے اوّلین نفسِ واحدہ حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام تھا، بحوالۂ کتابِ سرائر، ص:۲۲

و ان آدم فی نفس الحقیقۃ بشرح التاویل انما کان احد مستجیبی امام الزمان، متحمل الذکر و کان مجتھدا شدید الاجتھاد = آدم دراصل امامِ زمانؑ کے مستجیبان میں سے

 

۶۷

 

ایک مستجیب تھا، اور اُس کو اسمِ اعظم کا ذکر عطا ہوا تھا، اور وہ اس مبارک ذکر میں بڑی سخت کوشش کرتا رہتا تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۳ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۶۸

کنز الاسرار ۔ قسط۳۶

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ (روحی فداہ) کا پُرحکمت فرمان ہے: مومن کی روح ہماری روح ہے (کلامِ امامِ مبین ۔ حصّۂ اوّل ۔ راجکوٹ۔ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء)۔

سوال: کیا آپ اس فرمانِ اقدس کی حکمت بیان کر سکتے ہیں؟ جواب: جی ہاں! ان شاء اللہ! آپ علیہ السّلام نفسِ واحدہ تھے اور حجتِ قائم بھی، نفس = جان = روح ، واحدہ بروزنِ فاعلہ، بمعنئ فاعلہ اور فاعل، یعنی وہ روح جو اپنی ذات میں ایک ہے، اور تمام ارواح کو بھی اپنے ساتھ ایک کر لیتی ہے، اس کی تاریخی مثال آدم ہے کہ آدم میں بذریعۂ حشرِ روحانی کل ارواح جمع ہوئی تھیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان جملہ ارواح کو آدم کی ذرّیت بنا دیا تھا اس مثال سے نفسِ واحدہ کے وہ معنی درست ثابت ہوئے جو یہاں اوپر بیان ہوئے ہیں۔

مولائے پاک کا یہ فرمان کہ “مومن کی روح ہماری روح ہے۔” کئی حکمتوں کا حامل ہو سکتا ہے، منجملہ یہ اشارہ نمایان ہے کہ آپ سب میں مولا کی ایک نمائندہ روح ہے، پھر آپ کے لئے فنا فی الامام کا عظیم الشّان مرتبہ ممکن ہے اور یہ فنائے مبارکہ تاویلاً فنا فی اللہ ہی ہے لیکن اس کی شرائط کیا کیا ہیں، ان کو سمجھنے اور بجا لانے کے لئے مولائے پاک کے ارشادات کو بار بار

 

۶۹

 

پڑھیں، بار بار، کیونکہ امام کے ارشادات کا بار بار مطالعہ ایک فرشتگانہ عبادت ہے، اس سے آپ میں عالی ہمتی آئے گی، اور عشق پیدا ہوگا، علم و حکمت اور ذکر و عبادت سے اپنے آپ کو تیار کریں۔ آمین ! ثم آمین!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۷۰

کنز الاسرار ۔ قسط۳۷

سوالِ عقیدت مندانہ و عاشقانہ، دربارۂ سلسلۂ آلِ ابراہیم آلِ محمد: تمام علمائے کرام اس تاریخی حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ آلِ ابراہیمؑ کے دو سلسلے چلے آئے تھے، ایک سلسلہ حضرتِ اسماعیلؑ کی اولاد کا تھا، اور دوسرا سلسلہ حضرتِ اسحاقؑ کی اولاد کا، آپ یہاں ہمیں یہ بتائیں کہ ان دونوں سلسلوں کی رسمی وراثت آنحضرتؐ کو کن واسطوں سے مل گئی تھی؟ جواب: یہاں یہ امر ضروری ہے کہ آنحضرتؐ کا سلسلۂ نسب لکھا جائے اور وہ یہ ہے: محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لُویّ بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ ابنِ خزیمہ ابنِ مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔ بحوالۂ کتاب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (جلدِ اوّل۔ ص ۱۰۸) از علامہ شبلی نعمانی و علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ۔

حضرتِ اسماعیلؑ کی اولاد سے امامانِ مستقر ہوئے، اور اسی سلسلے کا آخری امام حضرتِ ابو طالب علیہ السّلام تھا، آپ کا نام عمران تھا، خاندانی نام عبد مناف، رسولؐ کی کفالت کی وجہ سے ذوالکفل بھی کہلاتے تھے، آپ نے رسولؐ کے لئے کئی حیثیتوں میں کام کیا، آپ نے حضرتِ محمدؐ کو ذکرِ اسمِ اعظم

 

۷۱

 

کا باطنی طریقہ سکھایا ، یہ ہوا آنحضرتؐ کو خاندانِ اسماعیلؑ سے وراثت کا ملنا ، اسی طرح خاندانِ اسحاقؑ سے نبوّت و رسالت کی میراث بھی آپ کو مل گئی تھی، یہ امانت بحیرا سے ملی تھی، ایک قول یہ بھی ہے کہ آپؐ کے دادا ہاشم کو اولادِ اسحاقؑ کی نبوّت و رسالت مل چکی تھی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۷۲

کنز الاسرار ۔ قسط۳۸

سوالِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی: سورۂ زخرف (۴۳: ۲۸) میں ارشاد ہے: وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ مفہوم: اور ابراہیم نے امامت کو اپنی اولاد میں باقی رہنے والا کلمہ قرار دیا۔ اگرچہ کتاب سرائر ص ۷۱ پر اسی طرح سے ہے، پھر بھی ضروری سوال یہ ہے کہ یہ کون سا کلمہ ہے جس کے ساتھ امامت کا تعلق ہے؟ جواب: یہ کلمہ اسمِ اعظم ہے جس کے ذریعے سے حضرتِ ابراہیم نے بحکمِ خدا نورِ امامت کو اپنی اولاد میں منتقل کر کے باقی رہنے والا کلمہ قرار دیا تھا، تاکہ ہر زمانے میں لوگ اپنے امامِ وقت سے رجوع کریں، اور یہ سنتِ الٰہی زمانۂ آدم سے چلی آئی تھی، سورۂ نساء (۰۴: ۵۴) میں ارشاد ہے: فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا۔ یقیناً ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں ایک بہت بڑی سلطنت دی۔

آلِ ابراہیم امامانِ مستقر از سلسلۂ اولادِ اسماعیلؑ ہیں اور امامانِ مستودع از سلسلۂ اولادِ اسحاقؑ، چونکہ أئمّۂ مستودع کو تنزیلِ ظاہر کا کام کرنا تھا، اس لئے وہ مشہور ہو گئے، لیکن امامانِ مستقر تاویلِ باطن کے لئے مقرر ہوئے تھے لہٰذا وہ مخفی رہے، پس آلِ ابراہیمؑ کے امامانِ مستقر کا سلسلہ کتابِ سرائر سے اس

 

۷۳

 

طرح مرتب ہوا ہے: حضرتِ اسماعیلؑ امامِ اساس ابنِ ابراہیمؑ کے بعد امام قیدار ابنِ اسماعیلؑ، امام الحمل ابنِ قیدار، امام سلامان ابنِ الحمل ، امام نبت ابنِ سلامان، امام الھمیسع ابن نبت، امام أدد ابنِ الھمیسع ، امام آد ابنِ أدد، امام عدنان ابنِ آد، امام معد ابنِ عدنان، امام نزار ابنِ معد، امام مضر ابنِ نزار، امام الیاس ابنِ مضر، امام مدرکۃ ابنِ الیاس، امام خزیمہ ابنِ مدرکۃ، امام کنانۃ ابنِ خزیمہ، امام نضر ابنِ کنانۃ، امام مالک ابنِ نضر، امام فھر ابنِ مالک، امام غالب ابنِ فھر، امام لویّ ابنِ غالب، امام کعب ابنِ لویّ، امام مرۃ ابنِ کعب، امام کلاب ابنِ مرۃ، امام قصی ابنِ کلاب، امام عبد مناف ابنِ قصی، امام ہاشم = عمرو = ہاشم الاکبر = العلا ابنِ عبد مناف، امام عبد المطلب = عامر = شیبۃ ابن ہاشم، امام مقیم ابو طالب = عمران = عبد مناف = ذوالکفل ابن عبد المطلب۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ،۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۷۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۳۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلہ: حضرتِ امام عبد المطلب علیہ السّلام نے جو بارہ نقیبان مقرر کئے وہ کون کون تھے؟ جواب: وہ یہ حضرات تھے: ۱۔ عمرو بن نفیل۔ ۲۔ أُ بی بن کعب ۔ ۳۔ زید بن عمر۔ ۴۔ عبداللہ بن عثمان۔ ۵۔ حارث بن عبدالمطلب۔ ۶۔ حمزۃ بن عبد المطلب۔ ۷۔ زبیر بن عبدالمطلب۔ ۸۔ ابو طالب = عمران بن عبد المطلب۔ ۹۔ عبد اللہ بن عبد المطلب۔ ۱۰۔ صہیب الرومی۔ ۱۱۔ زید بن اسامۃ۔ ۱۲۔ ورقۃ بن نوفل۔

ان بارہ نقیبوں میں سے پانچ نقیب خود امام عبد المطلب کے بیٹے تھے: حارث، حمزۃ، زبیر، عبداللہ ، ابو طالب = عمران = عبد مناف = ذوالکفل۔

رسولِ پاک صلعم کے پانچ حدودِ عالمِ روحانی: نورِ قلم = فرشتۂ عقل، نورِ لوح = فرشتۂ نفسِ کل، جد، فتح، خیال۔ ان کی مثال عالمِ جسمانی میں: حضرتِ ابو طالب (مثلِ عقلِ کلّ)، حضرتِ خدیجۃ (مثلِ نفسِ کلّ) ، زید بن عمرو (مثلِ جدّ) ، عمرو بن نفیل (مثلِ فتح)، میسرۃ (مثلِ خیال)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ،۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

نوٹ: بحوالۂ کتابِ سرائر، ص ۸۰-۸۱۔

۷۵

کنز الاسرار ۔ قسط۴۰

سوال و جوابِ علمی و عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آیا یہ بات حقیقت ہے کہ حضرتِ عبد المطلب سید الوادی شیبۃ الحمد نورِ امامت کی روشنی میں یہ جانتے تھے کہ ابرھہ اور اس کے لشکر پر عذابِ الٰہی نازل ہونے والا ہے، اسی وجہ سے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ ہاتھی والوں سے دور ہو کر معجزۂ الٰہی کو دیکھیں؟ جواب: جی ہاں، یہ حقیقت ہے۔ سوال: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسا اشارہ ہے، جس سے اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے؟ جواب: جی ہاں، سورۂ انفال (۰۸: ۳۳) میں ارشاد ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ ۔۔۔ ترجمہ: اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جب تک کہ تو ان کے درمیان موجود تھا۔ (اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ ان کو عذاب دے دے۔)

سوال: اللہ تعالیٰ کے جس ظاہری معجزے نے ہاتھی والوں کو تباہ و برباد کر دیا، آیا اس میں صرف دنیا کے کچھ پرندے اور زمین کی کنکریاں تھیں؟ جواب: یہ کلمۂ کُنۡ (ہو جا) کا ابداعی معجزہ تھا اور اللہ

 

۷۶

 

تعالیٰ جو مبدِع (ابداع کرنے والا ) ہے، وہ جس صورت میں بھی ظہورِ معجزہ چاہے اسی صورت میں معجزہ کر سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی چڑیوں نے ہی منکرین اور ان کے ہاتھیوں کو نیست و نابود کر دیا، اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ،۷ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۷۷

کنز الاسرار ۔ قسط۴۱

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: پانچ اولی الۡعزم رُسُل کون ہیں؟ جواب: نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ ، عیسیٰؑ، اور محمد صلعم۔ (تاویل الدعائم۔ ۲، ص ۶۹)

مسئلۃ: آیا قرآنِ حکیم میں بارہ نقیبان کا ذکر آیا ہے؟ جواب: جی ہاں، قرآن (۰۵: ۱۲) میں بارہ نقیبان کا ذکر ہے۔ سوال: متعلقہ آیتِ مبارکہ (۰۵: ۱۲) کی روشنی میں نقیبان کی کیا تعریف ہو سکتی ہے؟ جواب: ان سے اسمِ اعظم کا پختہ عہد لینا، اور جیتے جی مر کر زندہ ہو جانے کی معرفت کا حصول، اور یہ روحانی قیامت ہی سے ممکن ہے، یہ کلیدی حکمت لفظِ بعث = بعثنا میں پوشیدہ ہے۔

آپ نے قصیدۂ جشنِ سیمین میں اپنے محبوبِ جان = حاضر امام سے کہا ہے کہ تو ہوائی گھوڑے پر سوار ہو کر غیبی برکت کو اپنے ساتھ لیتے ہوئے میرے پاس آ جانا۔

سوال: یہ ہوائی گھوڑا کیا ہے؟ جواب: یہ برقی بدن = جثّۂ ابداعیہ ہے۔

سوال : یہ انتہائی عظیم معجزہ کب اور کہاں ہوا کہ آپ کا نورانی

 

۷۸

 

معشوق ہوائی گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کے پاس آیا؟ جواب: شہرِ یارقند (چین) میں یہ معجزہ ہوا تھا، مجنون سے تاریخیں نہ پوچھو۔

جب جب دیوانہ نصیر محفلِ عشق میں آتا ہے تو آتشِ عشق اچھالتا رہتا ہے تا آنکہ مجلسِ عشاق میں آگ لگ جاتی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعۃ المبارک ،۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۷۹

کنز الاسرار ۔ قسط۴۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے عزیزانِ روحانی)

مسئلۃ: حدودِ دین میں مریم سلام اللہ علیہا کا کیا درجہ تھا؟ جواب: وہ حجت تھی۔ سوال: آیا زکریا امامِ مستودع تھا؟ اگر جواب مثبت ہے تو بتائیں کہ اس کو یہ مرتبہ کس سے ملا تھا؟ جواب: پدرِ مریم (عمران) سے (سرائر ص ۲۰۷) (ص۲۰۱)۔

اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کو مبعوث کیا، ان میں سے دس صاحبانِ کتاب تھے، پانچ سریانی زبان میں: وہ آدم، شیث، ادریس، نوح اور ابراہیم تھے، اور پانچ عربی زبان میں تھے: ہود، صالح، اسماعیل، شعیب، اور محمد صلعم۔ (سرائر ص ۲۰۰)

الحجۃ من الامام، و النقیب من الحجۃ، و الجناح من النقیب ، و المستجیب من الجناح، فھولا ذریۃ بعضھا من بعض و لادۃ روحانیۃ۔ (ص ۱۶۰)۔

ایک بروشسکی شعر کا ترجمہ: نور میں معجزات ہی معجزات ہیں، میں نے صاحبِّ نور = امامِ زمان علیہ السّلام ہی سے قرآنِ حکیم کے اسرار کو سیکھ لیا۔

۸۰

ایک شعر کا ترجمہ یہ بھی ہے: کل میں نے امامِ زمانؑ کے ایک جان نثار عاشق کو دیکھا جو مولائے پاک کے مقدّس دیدار کی سرمستی اور شادمانی میں زار و قطار رویا کرتا تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعۃ المبارک ،۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۱

کنز الاسرار ۔ قسط۴۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: یوشع بن نون کا سلسلۂ نسب کس کے ساتھ مل جاتا ہے؟ جواب: یوشع بن نون بن افراہیم بن یوسف علیہ السّلام، اس نے حضرتِ موسیٰ کی قابلِ قدر شاگردی اور خدمت کی تھی، بالآخر خدا کے حکم سے موسیٰؑ نے اپنے آخری وقت میں یوشع بن نون کو امامِ مستودع بنایا تا آنکہ فرزندِ ہارون بالغ ہو جانے پر یہ بہت مقدس امانت اس کو دی جائے۔ (سرائر ص ۱۷۶)۔

اس کے بعد حضرتِ موسیٰؑ ایک دن اکیلا صحرا کی طرف نکلا، وہاں دیکھا کہ ایک شخص ہے جو ایک قبر بنا رہا ہے، پس موسیٰؑ نے پوچھا کہ آیا تم چاہتے ہو کہ میں اس کام میں تمہاری مدد کروں؟ اس نے کہا: ہاں، تو موسیٰؑ نے مدد کی اور قبر تیار ہوئی، پھر وہ شخص یہ ارادہ ظاہر کرنے لگا کہ قبر میں اترے اور لیٹ کر اندازہ کرے، موسیٰؑ نے کہا یہ کام میں کرتا ہوں، اس شخص نے کہا ٹھیک ہے تم اس میں اُتر کر اندازہ کرو، کہتے ہیں کہ قبر بنانے والا جبرائیل تھا، پس جب موسیٰؑ اس قبر میں اتر کر لیٹ گیا، تو اس کی روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف قبض کر لیا، اور جبرائیلؑ نے اس کے جسم کو دفن کر دیا۔

۸۲

یہ اولیاء اللہ کے عجیب و غریب اسرار ہیں، ان میں عظیم تاویلی حکمتیں ہو سکتی ہیں۔

سورۂ فجر (۸۹: ۲۲) میں ارشاد ہے: وَّ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۔ ترجمہ: اور تمہارا رب جلوہ فرما ہوگا اس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے ہوں گے۔ یہ صرف ترجمۂ تنزیل ہے، اور اس کی تاویل یہ ہے کہ حضرتِ قائم القیامت عالمِ شخصی میں جلوہ فرما ہو جائے گا یا جلوہ فرما ہو گیا، اسی کے نورِ واحد میں سب فرشتے جمع ہیں، صفاً صفاً میں وحدت کا اشارہ ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۹، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۳

 

کنز الاسرار ۔ قسط۴۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے عزیزانِ قلبی و روحانی:

مسئلۃ: ارشاد ہے: وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِؕ-اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ (۳۶: ۶۸) تاویلی مفہوم: اور جس کو ہم بڑی لمبی عمر دیتے ہیں تو اُس کو عالمِ امر سے عالمِ خلق کی طرف سرنگون کر دیتے ہیں۔ اس میں دو عظیم حکمتیں ہیں، ایک حکمت یہ ہے کہ عالمِ امر اور عالمِ خلق کے درمیان دائرۂ اعظم ہے، جس پر جو بھی گردش کرتا ہے وہ بڑی لمبی عمر پاتا ہے، لیکن مثال کے طور پر جب آسمان کی طرف جاتا ہے تو سر آسمان کی جانب ہوتا ہے، کیونکہ منزل آسمان میں ہے، اور جب زمین کی طرف آتا ہے تو سر زمین کی طرف ہوتا ہے، اس لئے کہ منزل زمین پر ہے، جیسے شکمِ مادر سے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا سر زمین کی جانب ہوتا ہے، اسی لئے مولانا رومی کہتے ہیں:

گر ہمی پرسی زحال زندگی

نُہ صد و ہفتاد قالب دیدہ ام

ترجمہ: اگر تم میری زندگی کا حال پوچھتے ہو تو وہ یہ ہے کہ میں نو سو ستر بار پیدا ہو چکا ہوں۔

۸۴

اے پسر در آسمانِ ہفتمین با ملائک بارہا پریدہ ام
ترجمہ: اے لڑکے! میں آسمانِ ہفتم میں بارہا فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتا رہ چکا ہوں۔

قرآن فرماتا ہے کہ اگر اللہ اپنی رحمتِ بے پایان سے کسی کو نور مقرر کر دیتا ہے تو وہ سلامتی کے راستوں پر چلنے کے لئے ہوتا ہے (۰۵: ۱۵ تا ۱۶)۔ سلامتی کا گھر کسی باغ یا کسی گھر میں قید ہو جانے کا نام نہیں، بلکہ خدا کی خوشنودی سے اس کی خدائی میں سیر کرنے کو سلامتی کہتے ہیں جس طرح تصوّف میں ہے کہ سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ، یعنی اوّل تو خدا کی طرف سفر ہے، اور پھر خدا میں سفر کرنا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۵

کنز الاسرار ۔ قسط۴۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی

مسئلۃ: ان حکمتوں کے لئے سورۂ یوسف (۱۲: ۱۰۵ تا ۱۰۸) میں دیکھیں: یہاں حکمتِ اوّل یہ ہے کہ کائنات کی ہر ہر چیز بزبانِ حال انسان سے کہتی ہے کہ مجھ میں عقل و دانش سے خوب غور کرو، حکمتِ دوم یہ ہے کہ قیامت انسانوں کی غیر شعوری میں اچانک آ سکتی ہے، حکمتِ سوم یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ اور آپ کے برحق جانشین = امامِ زمانؑ کی دعوت جو اللہ کی طرف ہے، وہ بصیرت اور حقیقت پر مبنی ہے، اس لئے یہ ضروری ہے کہ تمام اہلِ ایمان بصیرت اور معرفت کے ساتھ اس دعوت کے راستے پر چلیں۔

اسی لئے حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: کہ ہمارا مذہب روحانیّت کا مذہب ہے اس لئے تمہیں اس کا پورا پورا علم ہونا چاہئے۔ (کلامِ امامِ مبین حصّۂ دوم۔ زنجبار۔ ۱۹۔۲۔۱۹۲۵ء)۔

“فنا فی اللہ” کی تاویل = “فنا فی الامام” ہے، کیونکہ یہ دینِ اسلام کا سب سے بلند ترین درجہ امامِ زمانؑ ہی کی حقیقی اطاعت اور محبت = عشق سے حاصل ہو جاتا ہے۔

حضرتِ امام باقر علیہ السّلام کے فرمانِ مبارک کو ہرگز ہرگز

 

۸۶

 

بھول نہ جانا: “ما قیل فی اللہ فھو فینا ۔۔۔۔” اسی روشن دلیل کی وجہ سے فنا فی اللہ کی تاویل، فنا فی الامام ہو جاتی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۷

کنز الاسرار ۔ قسط۴۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں ارشاد ہے: وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ۔ ترجمہ: سلیمان کے لئے جنّ اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ سوال: سلیمانؑ کے یہ لشکر جمع ہونے سے پہلے کہاں تھے؟ اور یہ کس طرح جمع ہو گئے؟ جواب: دراصل یہ حضرتِ سلیمانؑ کی روحانی قیامت کا بہت بڑا راز ہے، چنانچہ بحکمِ خدا اسرافیلؑ نے صور پھونکا جس سے روحانی قیامت برپا ہونے لگی اور تمام لشکرِ ارواح جمع ہو گئے۔

مسئلہ: آیا ہر روحانی قیامت میں یہی لشکر جمع ہوتے ہیں؟ جواب: جی ہاں، کیونکہ روحانی قیامت خود روحانی جنگ بھی ہے جس سے نہ صرف عالمِ شخصی فتح ہو جاتا ہے، بلکہ ساری کائنات بھی مسخر ہو جاتی ہے۔

سوال: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت ہے، جس کی روشنی میں ہم یہ یقین کریں کہ روحانی قیامت میں حضرتِ سلیمانؑ کی روحانی سلطنت ہے؟ جواب: جی ہاں، وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) اِعْمَلُوْۤا

 

۸۸

 

اٰلَ دَاوٗدَ شُكْرًاؕ-وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ۔ تاویلی مفہوم: اے داؤدِ زمان کے فرزندانِ روحانی! تم اپنی نعمتوں کی شکرگزاری پر عمل کرو کیونکہ میرے شکرگزار بندے کم ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۸۹

کنز الاسرار ۔ قسط۴۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آدمِ سراندیبی نہ کسی نبی کا جسمانی فرزند تھا اور نہ کسی امام کا، مگر وہ امامِ زمانؑ کا ایک مستجیب تھا، جس کو اسمِ اعظم کا بابرکت ذکر عطا ہوا تھا، اس کو زمین پر خلیفۃ اللہ کا مرتبہ دیا گیا، اس میں کیا حکمت ہے؟ جواب: اس میں بے شمار حکمتیں ہیں، مگر سب کی سب ایک جیسی ہیں، یعنی بے شمار ادوار میں آدمِ سر اندیبی کی طرح بے شمار آدم ہوئے ہیں، کیونکہ اللہ کی لاتبدیل سنت کے تناظر میں یہ آدم نیا نہیں ہو سکتا ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: (۲۴: ۵۵)، ترجمہ: اللہ نے وعدہ فرمایا ہے، تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو بحقیقت ایمان لائیں اور کماحقہ نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، الخ۔

سورۂ انعام (۰۶: ۱۶۵) کو بھی پڑھ لیں، ان دونوں آیتوں میں غور کرنے سے اللہ تعالیٰ کی قدیم اور لازوال بادشاہی میں بہت سے آدموں کا تصوّر ملتا ہے۔

۹۰

سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۴) ترجمہ: اللہ نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔ (ہزار حکمت، ح : ۱ ، ص۲۵)

اللہ تعالیٰ امامِ زمانؑ کے چہرۂ مبارک کے نور سے ستر ہزار فرشتے پیدا کرتا ہے جو ستر ہزار زندہ کائناتیں ہیں، ان شاء اللہ اہلِ حقیقت کی خلافت و سلطنت انہی کائناتوں میں ہو گی۔ آمین!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۱۱ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۹۱

کنز الاسرار ۔ قسط ۴۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کی والدۂ محترمہ نوابہ عالیہ شمس الملک کا دینی مرتبہ کیا تھا؟ جواب: آپ حجت تھیں، ہمارے علاقے کے دینی بزرگ ان کو حجت مانتے تھے، اور یہی یقینی حقیقت ہے۔

سوال: آیا قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت ہے جس کی حکمت سے یہ معلوم ہو جائے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور عرفاء روحانی قیامت کو خوش آمدید کہتے ہیں، کیونکہ اسی میں ان کی ملاقات فرشتوں سے ہوتی ہے، اور اسی میں ان کو حضرتِ ربّ کی رویت اور معرفت حاصل ہو جاتی ہے؟ جواب: جی ہاں، وہ ارشاد سورۂ فجر (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) ہے جس میں ان تمام حضرات کا ذکر ہے، جن کو نفسِ مطمئن (اطمینان والی روح) کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے، اور ان سے خدا فرماتا ہے کہ اب تم میرے بندوں میں داخل ہو جاؤ اور میری جنت میں داخل ہو جاؤ، یہ ایک ساتھ دو امر اس لئے ہیں کہ خدا کے خاص بندے اور حظیرۂ قدس کی جنت ایک ہیں، پس جو بھی حظیرۂ قدس میں داخل

 

۹۲

 

ہو جاتا ہے، وہ خدا کے خاص بندوں میں بھی شامل ہو جاتا ہے، الغرض نفسِ مطمئن روحانی قیامت کا میوۂ شیرین ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۱۱ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۹۳

کنز الاسرار ۔ قسط۴۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: بحوالۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۲۴ تا ۱۲۵) تین ہزار یا پانچ ہزار فرشتوں کی تعداد کی معرفت کس طرح ہو سکتی ہے؟ اور یہاں یہ سوال بھی ہے کہ صاحبِّ نشان فرشتوں سے کیا مراد ہے؟ جواب: بے شمار فرشتوں کا مجموعہ اور زندہ قلعہ ایک ہی فرشتہ ہوتا ہے، اور اس میں سے اللہ جتنے فرشتوں کو چاہے تو اپنی قدرت سے ظاہر کر سکتا ہے، صاحبانِ نشان فرشتوں کا یہ مطلب ہے کہ فرشتے کسی حربی علامت کے ساتھ تصوّر یا خیال یا خواب میں یا بیداری میں نظر آتے ہیں، جو بصورتِ امام یا بصورتِ قائم ایک ہی فرشتہ ہوتا ہے، مگر اس میں ہزاروں فرشتے مخفی ہوتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ، رسولِ کریم، اور امامِ مبین کے معجزات کو چھپانا عاشقوں پر اور اپنے آپ پر بڑا ظلم بھی ہے، اور ناشکری بھی ہے۔

میں نے اب سے کافی پہلے خلیفہ اجابت شاہ ابنِ خلیفہ رضا شاہ کی ایک بیاض = نوٹ بک میں دیکھا تھا کہ حضرتِ سلطان حجتِ قائم کا ایک انقلابی فرمان تحریر تھا: “اب ہم ذوالفقارِ آہنی سے نہیں بلکہ ذوالفقارِ علمی سے

 

۹۴

 

جنگ کریں گے۔” شاید اس سے قبل یا بعد میں میں نے ایک نورانی خواب میں شمشیر بدست فرشتۂ علمی کو مرحوم حاجی قدرت اللہ بیگ کی صورت میں دیکھا تھا، یقیناً یہ ہمارے عزیز ساتھیوں کی علمی فتح کی خوشخبری تھی، کافی وقت سے یہ بات میرے پاس امانت رہی ہے، مگر اب میں اسے تحریر میں لانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ مجھے مرحوم پروفیسر موسیٰ بیگ ابنِ لطفِ علی نے بتایا تھا کہ مولانا حاضر امامؑ نے حاجی قدرت اللہ بیگ کے حق میں فرمایا تھا ، وہ ایک دانا شخص ہے، اُس لیڈروں کی میٹنگ میں خود حاجی صاحب حاضر نہ تھے، خدا کرے کہ ہم رفتہ رفتہ امانتوں کے بوجھ کو اپنے اوپر سے کم از کم کرتے جائیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۱۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۹۵

 

کنز الاسرار ۔ قسط۵۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

کتابِ کوکبِ دری ، بابِ سوم منقبت ۹۷: حضرتِ مولانا علی صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ مبارک ہے: انا الذی عندی اثنان و سبعون اسما من العظام ۔ یعنی میں وہ شخص ہوں کہ میرے پاس اسمائے اعظمِ الٰہی سے بہتر (۷۲) اسم ہیں۔

مسئلۃ: سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى۔ سوال: اس کا تاویلی مفہوم کیا ہے؟ جواب: تاویلی مفہوم یہ ہے: اور ان کے دل و دماغ میں کلمۂ تقویٰ لازم کر دیا، یعنی عزرائیلی اسمِ اعظم کو چسپان = خود گو = خود کار کر دیا۔

وضاحت: سالکینِ دینِ مبین میں سے جب کسی مومنِ سالک پر روحانی قیامت واقع ہو جاتی ہے، تو اس میں پہلے اسرافیلی معجزہ شروع ہو جاتا ہے، پھر عزرائیلی معجزہ، پس یہ دونوں معجزے ساتھ ساتھ جاری و ساری رہتے ہیں، حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کے لئے ایک اسمِ اعظم خود گو (خود بولنے والا) ہو جاتا ہے، وہ قبضِ روح کے لئے بدن اور خلیات میں نہیں اترتا ہے، صرف

 

۹۶

 

اس کے لشکر سارے بدن میں داخل ہو کر قبضِ روح کا کام کرتے ہیں، حضرتِ اسرافیل علیہ السّلام کا معجزہ ناقور میں ہوتا ہے، اس کے بے شمار لشکر ناقوری تسبیح خوانی میں ہمنوائی کرتے ہیں، اس قیامتی طوفان کا مکمل بیان ہمارے لئے ممکن نہیں کیونکہ وہ حضرتِ قائم القیامتؑ کے طوفانی معجزات ہیں۔

سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۴۴) کو غور سے پڑھو، اس میں یہ ذکر ہے کہ کائنات اور اجزائے کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں مگر ناقوری تسبیح کے ساتھ ہم نوائی کرتی ہے، جس میں اللہ کی حمد ہے۔ منقبت ۵۶: مولا مرتضیٰ علی نے فرمایا: انا الناقور الذی قال اللہ تعالیٰ فاذا نقر فی الناقور (۷۴: ۰۸) = جب صور میں پھونک ماری جائے گی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۱۳ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۹۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۵۱

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آیا عرفاء کے عالمِ شخصی میں تمام پیغمبروں کے معجزات تازہ بتازہ ریکارڈ اور محفوظ ہیں؟ جواب: جی ہاں۔

مسئلۃ: آیا عارف کا عالمِ شخصی آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کی عملی تفسیر و تاویل ہے؟ جواب: جی ہاں! چونکہ یہ عملی تفسیر و تاویل خود امامِ زمانؑ ہی کر رہا ہوتا ہے، لہٰذا یہ امامِ زمان علیہ السّلام ہی کا زندہ اور تابندہ معجزہ ہوا کرتا ہے۔

سوال: حضرتِ ہود علیہ السّلام کی نافرمان قوم کا نام عاد ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے برحق پیغمبر کے لئے یہ معجزہ کیا کہ ایک شدید طوفانی آندھی کا عذاب مسلسل سات رات اور آٹھ دن (۶۹: ۰۷) تک قومِ عاد کے لوگوں پر مسلط رہا اور وہ برباد ہو گئے، اس میں کیا حکمت ہے، کہ تقریباً یہی مدت معجزۂ عزرائیلی کے تسلسل کی بھی ہے؟ جواب: اس میں کئی حکمتیں ہیں جو سوچنے سے آپ کو معلوم ہو سکتی ہیں، اور خاص بات یہ ہے کہ پیغمبروں کے تمام معجزات عالمِ شخصی میں تازہ بتازہ ریکارڈ اور محفوظ ہیں۔

انہی علوم کو علوم التاویل المحض المجرّد کہتے ہیں (سرائر

 

۹۸

 

ص۲۸) قرآنِ حکیم یسیروا کے عنوان کے تحت اور سیروا کے عنوان کے تحت تقریباً چودہ = ۱۴ مقامات پر سوالاً بھی اور حکماً بھی لوگوں کو پُرزور توجہ دلاتا ہے کہ وہ زمین یعنی عالمِ شخصی میں چل پھر کر اگلے لوگوں کے انجام کو دیکھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۱۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۹۹

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: خشتِ اوّل چون نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج
سوال: کیا آپ قصّۂ آدم کا بنیادی حصّہ دوبارہ بتائیں گے؟
جواب: ان شاء اللہ۔
آدم کا مخصوص نام: تخوم بن بجلاح بن قوامہ بن ورقۃ الرویادی، قبیلہ ریاقۃ، اسمِ امامِ العصر مولانا ھُنَید، آدم کے ضد (ابلیس) کا نام: حارث بن مرہ، آدم کا پہلا اساس مولانا ہابیل، دوسرا اساس مولانا شیث = ہبۃ اللہ تھا۔

آدم کی جسمانی پیدائش سراندیپ کے مضافات میں جزیرۂ بوران، شہرِ سوباط میں ہوئی تھی (سرائر ص ۲۷) سراندیپ لفظِ چرن دیپ کا معرب ہے، ڈاکٹر محمد معین پروفیسر آف تہران یونیورسٹی، فرہنگ فارسی جلدِ پنجم (اعلام) ص ۷۴۴ پر سراندیپ = سری لنکا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: روایات میں ہے کہ آدم ابوالبشر بہشت سے سراندیپ میں اتارا گیا تھا (ہبوط

 

۱۰۰

 

ہوا تھا) اور کہتے ہیں کہ وہاں آدم کا نقشِ پا موجود ہے۔

قرآنی مینار ص ۱۹۶، اور قانونِ کل ص ۴۱ پر بھی دیکھیں۔

حضرتِ ادریس علیہ السّلام امام تھا، بعد ازان متوشالح ابنِ ادریس امام ہوا، پھر لامک بن متوشالح، پھر اخنوخ بن لامک، پھر نوح بن اخنوخ، اور نوح کے بعد سام، سام کے بعد ارفخشد۔

ہم اپنے بزرگانِ دین کی علمی جلالت و برتری کے لئے سرِ تسلیم خم کر کے سلامِ عقیدت ادا کرتے ہیں، اور اگر ان کی کوئی پُرحکمت کتاب ہے تو اس پر بوسہ کرکے سینہ سے لگا لیتے ہیں، ان کے مرتبۂ علمی کی تعریف سے ہماری زبان قاصر اور عاجز ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات، ۱۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۰۱

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آدمؑ اور آنحضرتؐ کے درمیان چالیس حدودِ دین کون سے ہیں؟ جواب: وہ حدود یہ ہیں: آدم، اس کا وصی، اور اس کے دور کے چھ امام، نوح، اس کا وصی، اور اس کے دور کے چھ امام، ابراہیم، اس کا وصی اور اس کے دور کے چھ امام، موسیٰ اور اس کا وصی، اور اس کے دور کے چھ امام، عیسیٰ، اس کا وصی، اور اس کے دور کے چھ امام۔ یہ مجموعاً چالیس حدود ہوگئے۔ سورۂ احقاف (۴۶: ۱۵) جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو مرتبۂ نبوّت سے سرفراز فرمایا تو اُس وقت آپ کی عمر چالیس سال کی ہوئی تھی، اور تاویلاً آدم سے تب تک چالیس حدود مکمل ہوئے تھے، جن کا یہاں ذکر ہوا۔ کتابِ سرائر: ۸۳۔

یہ سلسلۂ نور کی ایک عظیم الشّان اصولی اور عددی تاریخ ہے جو قرآنی حکمت کے مطابق ہونے کی وجہ سے بے مثال اور لازوال ہے۔

قرآنِ حکیم نے سلسلۂ نور کا جو لاہوتی نظام بتا دیا ہے، وہ لاجواب اور معجزاتی ہے، وہ ہے نورٌعلیٰ نور = ایک نورِ مجسم کے بعد دوسرا نورِ مجسم۔

آیا سلسلۂ نور کا یہ قانون اظھر من الشمس نہیں ہے؟ کیا اس

 

۱۰۲

 

میں کہیں یہ اشارہ بھی ہے کہ نورِ مجسم کبھی ہوگا، اور کبھی نہیں ہوگا؟ جواب: نہیں اس میں ہمیشہ نور موجود ہونے کے معنی ہیں، الحمد للہ! اس روشن حقیقت کو ہم سب سمجھتے ہیں۔

قرآنِ حکیم، حدیثِ شریف، اور ارشاداتِ أئمّۂ آلِ محمدؐ کی برکت سے امام شناسی جو نور شناسی ہے وہ بفضلِ خدا آسان ہوگئی ہے۔ الحمدللہ علی منہ و احسانہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ، ۱۵ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۰۳

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آیا “نورٌعلیٰ نور” (۲۴: ۳۵) ہر نبی اور ہر امام کی شان میں ہے؟ جواب: جی ہاں! یقیناً یہ ایک چراغ سے دوسرا چراغ روشن کرنے کی مثال پر ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جتنی آیاتِ نور ہیں ان سب میں جو اعظمُ الآیات ہے، وہ روشن چراغ کی مثال میں ہے، پس تمام انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ایک ہی سلسلۂ نور کی کڑیاں ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی سلسلۂ نور سے الگ نہیں ہے، جبکہ نورِ محمدیؐ نورِ اوّل ہونے کی وجہ سے تمام انوار کا سرچشمہ ہے، جیسے حضورِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: اوّل ما خلق اللہ نوری = اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا۔ اسی نور کی اوّلیّت کے ساتھ ساتھ کئی نام ہیں، ہم نے لکھا ہے، جیسے عقلِ اوّل = عقلِ کلّ = قلم وغیرہ۔

کتابِ کوکبِ درّی بابِ دوم منقبت ۔۱ اور ۲ میں جو دو حدیث ہیں، ان کا مفہوم ایک ہی ہے، وہ یہ ہے کہ محمدؐ و علیؑ کا نورِ واحد جو آفرینشِ آدم سے بہت پہلے تھا، اس کو اللہ نے آدم کی پشت میں رکھا، پھر یہ نور بحکمِ خدا پشت بہ پشت منتقل ہوکر عبدا لمطلب کی پشت میں آیا، پس اللہ نے اس نور کو دو حصوں

 

۱۰۴

 

میں کر دیا، پھر نور کا ایک حصّہ عبد اللہ میں آیا، اور دوسرا حصّہ ابو طالبؑ میں، چنانچہ عبد اللہ سے نور محمدؐ میں آیا اور ابو طالبؑ سے نور علیؑ میں آیا، پس رسولؐ نے فرمایا: فعلی منی و انا منہ = پس علیؑ مجھ سے ہے، اور میں علیؑ سے ہوں، بحوالۂ کوکبِ درّی بابِ دوم منقبت ۔۱ اور ۲۔ مولا علیؑ کا پاک ارشاد ہے: انا و محمد نور واحد من نور اللہ = میں اور محمدؐ ایک نور ہیں، اللہ کے نور سے۔ فآدم، و شیث و نوح و سام و ابراہیم و اسماعیل و موسیٰ و یوشع و عیسیٰ و شمعون و محمد و انا کلنا واحد = ہم سب حاملانِ نور ایک ہی ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۱۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۰۵

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: کتاب العلاج کے حوالے سے بتائیں کہ عقلی بیماری کا علاج کس طرح ہو سکتا ہے؟ جواب: از کتاب العلاج ص ی بعنوان طبِ قرآنی:

۱۔ اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید، اللّٰھم بارک علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ (صحیح بخاری، سورۂ احزاب)۔ درور شریف کے بغیر طبِ قرآنی کا دروازہ نہ تو مفتوح ہو جاتا ہے، اور نہ ہی کوئی دعا بارگاہِ خداوندی تک جا سکتی ہے، اسی درود کا ایک عظیم راز اور ایک نہایت شیرین بہشتی میوہ ہے، جس کی معرفت کے لئے آپ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں دیکھیں۔

۲۔ سب سے بڑی بیماری: خوب یاد رہے کہ اگر کسی انسان میں جہالت و نادانی ہے تو یہی سب سے بڑی بیماری ہے، کیونکہ یہ عقلی بیماری ہے، اور عقل انسان میں سب سے خاص اور سب سے عظیم چیز ہے، پس سب سے پہلے عقلی بیماریوں کا علاج سیکھنا از بس ضروری ہے اس لئے کہ عقل کے بیمار

 

۱۰۶

 

رہنے سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عذاب ہو سکتا ہے۔

۳۔ قلبِ سلیم کے معنی؟ قلبِ سلیم سے ایسی عقل مراد ہے جو ہر طرح کی عقلی بیماریوں سے صاف پاک ہو (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام بفضلِ خدا ایسی صحیح، سلامت اور صحتمند عقل کے وسیلے سے اپنے ربّ کے قربِ خاص میں آئے تھے، اور یہ سارے لوگوں کے لئے عملی ہدایت کا بہترین نمونہ ہے، پس عقلی بیماری کو محسوس کرکے اس سے شفایاب ہونا ہر مومن کے لئے ازحد ضروری ہے۔

۴۔ اشک افشانی: خوفِ خدا یا عشقِ الٰہی سے بار بار اشکبار ہو جانا بہت بڑی عبادت بھی ہے، اور تمام ظاہری، باطنی، اخلاقی، روحانی، اور عقلی امراض کے لئے بڑا زبردست اور نہایت مفید علاج بھی ہے، کیونکہ ایسی خالص اور عاجزانہ و عاشقانہ گریہ و زاری میں روحانی طبیب کا دستِ مبارک کام کرتا ہے، جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ ہر بیماری دور ہو جاتی ہے۔

۵۔ کرب = سخت غم : سخت غم (کرب) کی دوا بھی روحانی طبیب (اللہ تعالیٰ) کے پاس موجود ہے، ارشاداتِ قرآنی کے لئے دیکھ لیں:۰۶: ۶۴، ۲۱: ۷۶، ۳۷: ۷۶، ۳۷: ۱۱۵، سورۂ مومن (۴۰: ۶۰) میں ارشاد ہے : وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ = اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو تاکہ میں (تمہاری دعا کو ) قبول کروں۔ خداوندِ قدوس کو کس طرح پکارنا چاہئے؟ ایسی دعا و درخواست کی کیا کیا شرطیں ہیں؟ یہ سب کچھ قرآنِ حکیم میں مذکور ہے۔

۶۔ اسماءُ الحسنیٰ: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے کہ خدائے پاک و برتر کو اس کے اسماءُ الحسنیٰ سے پکارنا بے حد ضروری ہے، جن کی حکیمانہ تعریف قرآنِ عزیز کے چار مقامات پر آئی ہے:۰۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۰۸، ۵۹: ۲۴،

 

۱۰۷

 

پس ہوشمند مومن وہ ہے جو ہر بیماری، ہر مشکل، ہر حاجت، اور ہر آزمائش میں گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی بے پایان رحمت سے قبول فرمائے، اگر قبولیّت کے لئے کچھ وقت لگتا ہے، تو اس میں بھی یقیناً خداوند تعالیٰ کی کوئی حکمت ہو سکتی ہے، لہٰذا مایوسی منع ہے۔

۷۔ تضرع = عاجزی اور زاری: قرآنِ حکیم نے تضرع کو بہت بڑی اہمیت دی ہے، کیونکہ یہ بہت سے ظاہری اور باطنی امراض کے لئے دوا اور شفا ہے، جس کی کئی مثالیں قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، آپ ان حوالوں میں دیکھیں: ۰۶: ۴۲، ۰۶: ۴۳، ۲۳: ۷۶، ۰۷: ۹۴، ۰۶: ۶۳، ۰۷: ۵۵، ۰۷: ۲۰۵، آپ ان آیاتِ کریمہ کو یقین سے پڑھیں، اور غور سے دیکھیں کہ تضرع یعنی گڑگڑانے سے عذابِ الٰہی بھی ٹل جاتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۱۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۰۸

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ ضروریۃ : بحوالۂ سورۂ توبہ (۰۹: ۳۲) اور سورۂ صف (۶۱: ۰۸): ترجمۂ آیت (۰۹: ۳۲) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنے نور کو مکمل کئے بغیر ماننے والا نہیں ہے، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

ترجمۂ آیت (۶۱: ۰۸) یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

یہاں بڑا اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے کس نور کو بجھانا چاہتے ہیں، نورِ ازل کو؟ جواب: نہیں۔ نورِ عرش کو؟ جواب: نہیں ۔ نورِ سمٰوات کو؟ جواب: نہیں نہیں۔ نورِ ارض = نورِ منزل = نورِ امامِ مبین؟ جواب: جی ہاں، یہ بات ہے۔

سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں ہے: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، زمانۂ نبوّت کے اعتبار سے اس آیت کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ جواب: اس کی تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ زمین پر محمد رسولؐ اللہ ، اور علی امامِ مبینؑ خدا کا نورِ مجسم

 

۱۰۹

 

تھے، اور یہی حقیقت قرآنِ حکیم کی بہت سی آیات میں ہے۔

سورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے چار اسمائے صفات اٹل حکمت کے ساتھ آئے ہیں، کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا عالم ان کے معنی کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹا سکتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۱۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۱۰

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: بحوالۂ سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۳) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) مومنین اور مومنات کے آگے اور دائیں جو نور دوڑتا ہے، وہ کون سا نور ہے؟ اور یہ معجزہ کب اور کہاں ظہور پذیر ہوتا ہے؟ جواب: جب روحانی قیامت کے ذریعے سے عالمِ شخصی کے مراحل طے ہو جاتے ہیں اور حظیرۂ قدس آتا ہے، تو وہاں امامِ زمان علیہ السّلام کا نورِ پاک مومنین اور مومنات کے آگے اور دائیں سعی کرتا ہے، یعنی دوڑتا ہے، جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

سوال: مذکور بالا نور امامِ زمانؑ کا ہے یا مومنین و مومنات کا ہے؟

جواب: امامِ زمانؑ کا ہے اور اُس کے فرزندانِ روحانی کا ہے، جب ایک ہی مادّی سورج پورے نظامِ شمسی کے لئے کافی ہوتا ہے، تو کیا اللہ کا نورِ اعظم جو امامِ زمانؑ میں ہے، وہ روحانی باپ اور اس کے روحانی بچوں کے لئے کافی نہیں ہو سکتا ہے؟ جواب: کیوں کافی نہیں ہو سکتا۔

سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸) یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا = اے ہمارے پروردگار تو ہمارے لئے ہمارا نور کامل کر دے۔ سوال: کیا یہ نور فوری طور پر کامل نہیں ہے؟ جواب: نور ضرور کامل ہی ہے، لیکن مومنین و مومنات کو ابھی

 

۱۱۱

 

بہت سے تاویلی اسرار کو جاننا باقی ہے، جب آسمان میں ماہِ کامل یعنی چودھویں کا چاند ہوتا ہے تو پھر اس حال میں مطلع ابر آلود نہیں ہونا چاہئے، ورنہ ماہِ تمام کا نظارہ نہ ہو سکے گا۔

الغرض کسی سالک کے لئے یہ ترقی کافی نہیں ہے کہ اُس نے حظیرۂ قدس تک رسائی کی اور آفتابِ نور کے طلوع و غروب کو دیکھ لیا، حالانکہ اُس نے وہاں یہ عجیب واقعہ دیکھا کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہوگیا، یہ اُس کے لئے اشارہ ہے کہ ابھی ابھی قیامت قائم ہوئی، پھر روحانی قیامت اور عالمِ شخصی کے تمام تاویلی اسرار جاننے کے لئے کئی سال لگ سکتے ہیں، اور ان جملہ اسرارِ معرفت کو قرآنی تاویل کے ساتھ ملانا بھی ہے پس ہر دم خداوندِ قدوس کی یاری چاہئے، و ھو المستعان ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار، ۱۷ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۱۲

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۵۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: قرآنِ حکیم باطن میں ایک اعلیٰ روح اور ایک نور ہے، اس کا قرآنی حوالہ کیا ہے؟ جواب: ۴۲: ۵۲۔ قرآنِ حکیم امامِ زمانؑ کے نور میں بصورتِ نورانی معجزات موجود و محفوظ ہے، اس کا ذکر کس آیت میں ہے؟ جواب: ۲۹: ۴۹۔ حکیم پیر ناصر خسرو کے نزدیک الکوثر سے کیا مراد ہے؟ جواب: اساس = علی۔
وجہِ دین میں شبِ قدر کی کیا تاویل ہے؟ جواب: حجتِ قائم علیہما السّلام۔
بہشت کی کیا تاویل ہے؟ جواب: کلمۂ باری = کلمۂ امر (کُنۡ = ہو جا)۔

مسئلۃ: بحوالۂ سورۂ ھود (۱۱: ۱۷) پس کیا وہ شخص جو اپنے ربّ کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہو (یعنی آنحضرت صلعم) اور ایک گواہ اس کے پیچھے ہی پیچھے آتا ہو جو اسی میں سے ہو (یعنی مولانا علی علیہ السّلام) ، اور اس کے پہلے سے موسیٰ کی کتاب (یعنی ہارون) امام اور رحمت ہو۔

اس آیۂ کریمہ میں اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو عظیم اور پُرنور حکمتیں ہیں۔

رسولِ پاک اپنے ربّ کی طرف سے یقیناً روشن دلیل پر تھا، علیؑ جو آپ کے

 

۱۱۳

 

نور سے ہے وہ آپ کے بعد گواہ ہے اور وہ آپ کی کتاب (قرآنِ ناطق) اور رحمت ہے، جس طرح موسیٰؑ کی کتاب امام ہارون باعثِ رحمت تھا۔ اس تاویلی حکمت کی تصدیق حدیثِ مماثلتِ ہارونی سے ہو جاتی ہے۔

سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ ترجمہ: اللہ نے آدم اور نوح اور آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لئے) منتخب کیا تھا، یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے، جو ایک دوسرے کی ذرّیت سے پیدا ہوئے تھے، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۱۱۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۵۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: درجات الائمّہ کس طرح ہیں؟ جواب: الامام المقیم، الامام الاساس ، الامام المتم، الامام المستقر، الامام المستودع۔

سوال: اللہ تعالیٰ نے آدم، نوح، آلِ ابراہیم اور آلِ عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اپنی نبوّت، رسالت، امامت اور اساسیّت کے لئے منتخب کیا۔ اس آسمانی انتخاب میں آنحضرتؐ کا اسمِ گرامی کہاں ہے؟ جواب: یہ الٰہی انتخاب حضرت سید الانبیاء و المرسلین کے نورِ پاک کی برکت سے ہوا کیونکہ بحکمِ خدا حضورِ انورؐ کا نور آدم، نوح، ابراہیم، آلِ ابراہیم، عمران = ابو طالب، اور آلِ ابو طالب کے سلسلے میں پشت بہ پشت منتقل ہوتے ہوئے آیا ہے، پس ان تمام مقدّس ہستیوں میں محمدؐ و علیؑ کا نور تھا، خصوصاً آلِ ابراہیم اور آلِ عمران میں محمدؐ و علیؑ کا ذکر ہے، یہ بات خوب یاد رہے کہ عمران تین ہیں، اوّل موسیٰؑ کا باپ، دوم مریمؑ کا باپ، سوم ابو طالبؑ، جس کا نام عمران اور کنیت ابو طالب ہے۔ ابو طالبؑ ہی نے بمرتبۂ امامِ مقیم آنحضرتؐ کو اسمِ اعظم کی تعلیم

 

۱۱۵

 

دی تھی، اور سلسلۂ اولادِ اسماعیل کی میراث = امامت، اساسیت وغیرہ آنحضرتؐ کو پہنچا دی تھی، بحوالۂ کتابِ سرائر ص ۸۲-۸۳۔ نیز ص ۲۳۵۔

جس طرح بحیرا نے اولادِ اسحاق کی میراث = نبوّت، رسالت آنحضرتؐ کے سپرد کر دی تھی۔ پس حضورؐ کے پاس اسماعیلؑ اور اسحاقؑ دونوں کے مرتبے جمع ہوگئے، اور آپ نبی، رسول، امام ، اور اساس ہوگئے ص ۸۳۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر، ۱۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۱۶

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: حضرتِ عبد المطلب میں محمدؐ و علیؑ کا نور تھا، اسی وجہ سے ابرہہ کے فیلِ اعظم نے سجدہ کیا تھا، یہ روایت کس کتاب میں ہے؟ جواب: الملل و النحل ص ۶۶۴- ۶۶۵ اور حیات القلوب ص ۳۴ پر دیکھیں۔

سوال: آیا امامِ مبین کے معجزات میں یہ معجزہ بھی ممکن ہے کہ ہوا، پانی وغیرہ جیسی بے زبان چیزوں کی آواز میں کچھ بولی ہو، پرند خصوصاً مرغا کچھ بولے، اور گھوڑا کچھ بات کرے؟ جواب: یہ معجزہ نہ صرف ممکن ہے، بلکہ امرِ واقعی اور حصّۂ معرفت ہے، اگر یہ معجزات نہ ہوں تو پھر آفاقی معجزات بہت ہی کم ہوں گے، مگر یہ بات نہیں ہے۔

مسئلۃ: سرائر ص ۱۶۸ پر ہے: ترجمہ: روایت ہے کہ یوشع بن نون اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر بحیرۂ قلزم کی سطح پر چلنے لگا تھا، کیا یہ معجزہ انسانِ کامل کے لئے ممکن ہے؟ جواب: اگر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہے تو کوئی خدا کا دوست گھوڑے پر سوار ہو کر ہوا میں بھی چل سکتا ہے، یہ جسمِ لطیف

 

۱۱۷

 

کا معجزہ ہے۔

آپ قرآنِ حکیم میں آفاق و انفس کے معجزات سے متعلق آیاتِ کریمہ کو پڑھنا، اور تفسیر و تاویل کے طور پر حجتِ قائم صلوات اللہ علیہ کے ارشادات کو بھی پڑھتے رہنا، آپ حقیقی علم اور خصوصی عبادت کے ذریعے سے امامِ زمانؑ کے نورِ اقدس کے بہت ہی قریب ہو جائیں مگر خیال رہے کہ معجزات سے پہلے امتحانات بہت زیادہ ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی، منگل ، ۱۹ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۱۱۸

 

 

کنز الاسرار ۔ قسط۶۱

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: جماعت خانۂ قرانگغو توغراق ، یارقند (صین = چین) میں آپ نے حجتِ قائم علیہ السّلام کے عظیم معجزات کو بارہا دیکھا ہے، کیا آپ ان میں سے چند کا یہاں ذکر کردیں گے؟ جواب: ان شاء اللہ، ایک دفعہ جماعت خانہ نے وہی ذکرِ جلی کرکے سنایا جو ہم اکثر جماعت کے ساتھ کرتے رہتے تھے، ایک دفعہ صرف جماعت خانہ ہی میں زلزلۂ روحانی آیا، جس میں روحانی قیامت کی علامت ہوتی ہے، ایک شب یہ احساس و ادراک ہوا کہ کچھ روحانی لشکر جماعت خانہ کے گرد طواف کر رہے تھے فوجی انداز سے چلنے کی وجہ سے میں ان کے پیروں کی آواز سن رہا تھا، ان میں میرے والد صاحب بھی تھے، میں ان کے جوش و جذبے کی آواز کو نمایان طور پر سنتا تھا، اس وقت میرے والدِ محترم ہونزہ میں موجود تھے۔ یہ جماعت خانہ عجیب و غریب روحانی برکتوں سے مملو اور معجزاتی تھا اس کی تعمیر ۱۹۴۹ء میں تنہا ایک عاشقِ مولا نے ذاتی اخراجات سے کروائی تھی، جس کا پیارا نام عزیز محمد خان (بای = امیر) ابن عزیز آخوند تھا، اب وہ ان شاء اللہ بہشتِ برین میں ہے، وہ بڑا دیندار حقیقی مومن اور عاشقِ

 

۱۱۹

 

جان نثار تھا مجھے یہ اندازہ ہے کہ مولا نے اس کوحدودِ دین میں شامل کر لیا تھا، کیونکہ جماعت خانہ اور مذہب کے لئے اس کی بے شمار خدمات اور قربانیاں تھیں۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرتِ قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ و السّلام کا حجتِ اعظم جثّۂ ابداعیہ میں ظہور فرما ہوا یہ معجزہ ظاہر میں انتہائی حیران کُن اور بڑے بڑے عجائب و غرائب کا مظہر ہوتا ہے اور اگر آپ اس معجزے کو قرآنی تاویل کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی بلندی اور عظمت کا آپ کو بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے، میرا خیال ہے کہ میں نے رفتہ رفتہ امامِ زمانؑ کے بہت سے معجزات کو تحریری شکل میں لایا ہے اور میری بہت سی نظموں میں اکثر انہی معجزات کے اشارے ہیں، نیز میرے قریبی عزیزوں سے بھی آپ امامِ زمانؑ کے معجزات کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
منگل ، ۱۹ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۲۰

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: سورۂ توبہ (۰۹: ۰۳) الحجُ الاکبر = حجِ اکبر کی کیا تاویل ہے؟ جواب: جب حدودِ دین میں سے کسی کے عالمِ شخصی میں روحانی قیامت برپا ہو جاتی ہے تو یہ حجِ اکبر ہے، جس طرح حضرتِ ابراہیمؑ کو خدا نے حکم دیا تھا کہ حج  کے لئے لوگوں میں اعلانِ عام کرے یعنی روحانی قیامت کے لئے سب لوگوں کو جمع کر لیں (۲۲: ۲۷)۔

سورۂ نمل (۲۷: ۸۲) میں دابۃ الارض کا ذکر ہے، ترجمہ: اور جب ہماری بات (یعنی وعدۂ قیامت کی بات) پوری ہونے کا وقت اُن پر آ پہنچے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے (یعنی زمینِ دعوت سے) ایک جانور (یعنی معجزۂ امامِ زمانؑ) ظاہر کریں گے، جو ان سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیات (یعنی امامِ زمانؑ) پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

کتابِ کوکبِ دری ، بابِ سوم، منقبت ۲۲ میں مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: انا دابۃ الارض ، یعنی میں ہوں دابۃ الارض، جو علاماتِ قیامت میں سے ہے۔

۱۲۱

مولا کا ارشاد ہے: انا الذی اقوم الساعۃ ۔ یعنی میں ہوں وہ شخص جو قیامت کو برپا کرتا ہوں (منقبت ۵۳) مولا وہ کتابِ ناطقِ نورانی اور لدنّی ہے، جس میں کوئی شک نہیں، بلکہ یقین ہی یقین ہے۔ مولا اسماءُ الحسنیٰ = اسمِ اعظم ہے (۰۷: ۱۸۰) ، مولا خود روحانی قیامت ہے۔ مولا ناقورِ اسرافیل ہے۔ مولا قائم القیامت ہے۔ مولا لوحِ محفوظ ہے۔ مولا حاملِ عرش ہے، مولا راسخ فی العلم ہے، یعنی علمِ الٰہی میں پختہ کار۔ مولا مؤول یعنی صاحبِّ تاویل ہے۔ آپ کتاب کوکبِ دری کے باب اوّل، دوم اور سوم کو خوب غور سے پڑھنا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ ، ۲۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۲۲

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: سورۂ مومنون (۲۳: ۱۰۱) ترجمہ: پھر جونہی کہ صور پھونک دیا گیا، ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور وہ نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ اس کی کیا تاویلی حکمت ہے؟ جواب: ہر روحانی قیامت کے لئے ایک نفسِ واحدہ ہوا کرتا ہے، تمام ارواحِ خلائق اُسی کی ذرّیت قرار پاتی ہیں، اسی طرح سوائے رسولؐ اور امامؑ کے سب کا سابقہ رشتہ ختم ہو جاتا ہے۔

سوال: بحوالۂ سورۂ حدید (۵۷: ۲۸) ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول (محمد صلعم) پر ایمان لاؤ جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے، اللہ تمہیں اپنی رحمت کا دہرا حصّہ عطا فرمائے گا اور تمہیں وہ نور بخشے گا، جس کی روشنی میں تم چلو گے اور تمہارے قصور معاف کر دے گا اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔

مسئلۃ: کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کون سا نور ہے؟ اور اس کی روشنی میں کہاں کہاں چلنا ہے؟ جواب: یہ امامِ زمانؑ کا نور ہے، اور اس کی روشنی میں خدا کی ساری خدائی میں چلنا ہے، جب خدا اپنے کسی بندۂ مقرب کا پاؤں ہو جاتا ہے

 

۱۲۳

 

تو ظاہر ہے کہ اُس کی سیرگاہ لامحدود ہو جاتی ہے، جیسے سلامتی کی راہوں میں چلنے کا تصوّر لامحدود ہے (۰۵: ۱۶)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ ، ۲۰، مارچ ۲۰۰۲ء
نوروز مبارک ہو! آمین!

۱۲۴

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۶۱) مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔
ترجمہ: جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے (نیک) عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے، وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔

سوال: کیا اللہ کا یہ قانونِ افزونی ہر نیک کام کے لئے ہے؟ جواب: جی ہاں، جی ہاں۔

سوال: آیا یہ قانونِ رحمت روح کے پھیلاؤ کے لئے بھی ہے؟ جواب: جی ہاں یقیناً۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۵) مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪ وَ

 

۱۲۵

 

اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ۔
ترجمہ: تم میں کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات ، ۲۱ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۲۶

کنز الاسرار ۔ قسط۶۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: چار ارکانِ تصوّف کیا ہیں؟ جواب: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت۔

جیسا کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: الشریعۃ اقوالی، و الطریقۃ افعالی، و الحقیقۃ احوالی ، و المعرفۃ اسراری۔ یعنی شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت سے میرے افعال مراد ہیں، حقیقت میرے احوال کا نام ہے، اور معرفت سے میرے اسرار مراد ہیں۔

مسئلۃ: سابق موکھی “تولد شاہ ابنِ خلیفہ عافیت شاہ” ساکنِ مرتضیٰ آباد ہونزہ کے گھر میں امامِ زمان علیہ السّلام نے آپ کو طبِ روحانی کا ایک عظیم معجزہ دکھایا تھا اس کا ظہور کس طرح ہوا تھا؟ جواب: سابق موکھی تولد شاہ صاحب میرے چچا زاد بھائی ہیں، ایک دفعہ وہ مجھے اپنے گھر لے گئے، اور کہنے لگے دیکھیں کہ میرا بیٹا برکت علی سفر سے آیا ہے اور اس کا پاؤں اتنا سوجھا ہوا ہے، برکت علی کے پاؤں کو فیل پا کی بیماری ہوئی تھی، لہٰذا اس کا پاؤں

 

۱۲۷

 

ہاتھی کے پاؤں جیسا ہوگیا تھا، ہم دونوں بھائی تضرع اور گریہ و زاری کرنے لگے، کافی دیر تک مناجات کرنے کے بعد میرا عالمِ خیال بیداری ہی کی طرح بالکل روشن اور صاف نظر آیا اور اس میں میرے قبیلے کی ایک ماں: مم روزی جو صفِ اوّل کی ایک مومنہ اور لیڈی والنٹیئر تھی، سامنے آئی، یہ مم روزی کی صورت میں فرشتہ تھا، جس کے ہاتھ میں ایک پیاز تھی، اسی دوران ایک درختِ بادام نظر آیا جس پر بادام ہی بادام تھے، پس ہمیں گریہ و زاری اور مناجات کا معجزانہ جواب مل گیا، میں نے بھائی سے کہا مبارک ہو! مولائے پاک نے ہماری عاجزانہ مناجات سن لی، اب کچے پیاز کو کوٹ کر روغنِ بادام کے ساتھ برکت علی کے پاؤں پر لگانا، چونکہ یہ امامِ زمانؑ کا طبی معجزہ تھا، اس لئے برکت علی کا پاؤں ایک ہفتے کے اندر اندر بالکل ٹھیک ہو گیا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ، ۲۲ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۱۲۸

 

کنز الاسرار ۔ قسط۶۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: کیا جنّات میں بھی حدودِ دین ہوتے ہیں؟ جواب: جی ہاں یقیناً ہوتے ہیں، جنّات کے بارے میں معلومات کا ایک عظیم ذخیرہ: سورۂ احقاف (۴۶: ۲۹ تا ۳۲):
وَ اِذْ صَرَفْنَاۤ اِلَیْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَۚ-فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْۤا اَنْصِتُوْاۚ-فَلَمَّا قُضِیَ وَ لَّوْا اِلٰى قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِیْنَ قَالُوْا یٰقَوْمَنَاۤ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ یَهْدِیْۤ اِلَى الْحَقِّ وَ اِلٰى طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ یٰقَوْمَنَاۤ اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰهِ وَ اٰمِنُوْا بِهٖ یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ وَ مَنْ لَّا یُجِبْ دَاعِیَ اللّٰهِ فَلَیْسَ بِمُعْجِزٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَیْسَ لَهٗ مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءُؕ-اُولٰٓىٕكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
ترجمہ: (اور وہ واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے) جب ہم جنّوں کے ایک گروہ کو تمہاری طرف لے آئے تھے تاکہ قرآن سنیں، جب وہ اُس جگہ پہنچے

 

۱۲۹

 

(جہاں تم قرآن پڑھ رہے تھے) تو انہوں نے آپس میں کہا خاموش ہو جاؤ، پھر جب وہ پڑھا جا چکا تو وہ خبردار کرنے والے بن کر اپنی قوم کی طرف پلٹے، انہوں نے جا کر کہا، “اے ہماری قوم کے لوگو! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے، تصدیق کرنے والی ہے اپنے سے پہلے آئی ہوئی کتابوں کی، رہنمائی کرتی ہے حق اور راہِ راست کی طرف، اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کر لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں عذابِ الیم سے بچا دے گا،” اور جو کوئی اللہ کے داعی کی بات نہ مانے وہ نہ زمین میں خود کوئی بل بوتا رکھتا ہے کہ اللہ کو زچ کر دے، اور نہ اس کے کوئی ایسے حامی و سرپرست ہیں کہ اللہ سے اس کو بچا لیں، ایسے لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۲۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۰

کنز الاسرار ۔ قسط۶۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: آیا سورۂ جنّ (۷۲) میں اسرارِ جنّ کا ایک عظیم خزانہ موجود نہیں ہے؟ جواب: یقیناًعظیم خزانہ موجود ہے، ترجمۂ سورۂ جنّ:

اے نبی! کہو میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنّوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا ، پھر ( جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے) کہا: “ہم نے ایک بڑا عجیب و غریب قرآن سنا ہے جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔” اور یہ کہ “ہمارے ربّ کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے۔” اور یہ کہ “ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں بہت خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں۔” اور یہ کہ “ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جنّ کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔”  اور یہ کہ “انسانوں میں سے کچھ لوگ جنّوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اس طرح انہوں نے جنّوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا۔” اور یہ کہ “انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسول بنا کر نہ بھیجے گا۔” اور یہ کہ “ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہریداروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں کی

 

۱۳۱

 

بارش ہو رہی ہے۔” اور یہ کہ “پہلے ہم سن گن لینے کے لئے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لئے گھات میں ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔” اور یہ کہ “ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی برا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کا رب انہیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے۔” اور یہ کہ “ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فروتر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔” اور یہ کہ “ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں۔” اور یہ کہ “ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے ، اب جو کوئی بھی اپنے رب پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہو گا۔”  اور یہ کہ “ہم میں سے کچھ مسلم (اللہ کے اطاعت گزار ) ہیں اور کچھ حق سے منحرف، تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ) اختیار کر لیا انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈ لی، اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔”

اور (اے نبی کہو، مجھ پر یہ وحی بھی کی گئی ہے کہ ) لوگ اگر راہِ راست پر ثابت قدمی سے چلتے تو ہم خوب سیراب کرتے تاکہ اس نعمت سے ان کی آزمائش کریں، اور جو اپنے ربّ کے ذکر سے منہ موڑے گا اس کا ربّ اسے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا، اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لئے ہیں، لہٰذا ان میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو، اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لئے کھڑا ہوا تو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لئے تیار ہو گئے، اے نبی ، کہو کہ “میں تو اپنے ربّ کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔” کہو، “میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا،”  کہو، “مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی بچا نہیں سکتا اور نہ میں اس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں، میرا کام اس کے سوا

 

۱۳۲

 

کچھ نہیں ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں، اب جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی بات نہ مانے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔”

(یہ لوگ اپنی اس روش سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب اس چیز کو دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں اور کس کا جتھا تعداد میں کم ہے، کہو، “میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا ربّ اس کے لئے کوئی لمبی مدت مقرر فرماتا ہے، وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا، سوائے اس رسول کے جسے اس نے (غیب کا علم دینے کے لئے ) پسند کر لیا ہے۔ تو اس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیئے، اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گن رکھا ہے۔”

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۲۴ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۳

کنز الاسرار ۔ قسط۶۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: ہم سلسلۂ نورٌعلیٰ نور کے عاشقانِ صادق ہیں لہٰذا ہم قرآن، حدیث اور ارشاداتِ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے ساتھ ساتھ تاریخ میں بھی نور ہی کا نام و نسب پڑھنا چاہتے ہیں، تو کیا آپ ایک مستند روایت کے حوالے سے حضرتِ نوح علیہ السّلام کا نسب بتائیں گے؟

جواب: نوح بن لامک بن متوشالح بن اخنوخ یا خنوخ بن یارد بن مہلیل من قینان بن انوش بن شیث (علیہ السّلام) بن آدم (علیہ السّلام) بحوالۂ قصص القرآن، مولانا محمد حفظ الرحمن سیوھاروی۔

حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا نسب نامہ: ابراہیم خلیل اللہ بن تارخ بن ناحور بن سروج بن رعو بن فالح بن عابر بن شالح بن ارفکشاد بن سام بن نوح (بحوالۂ کتابِ مذکورۂ بالا)۔

ابھی ابھی خواب میں بھائی تولد شاہ، نائب شاہ وغیرہ کے ساتھ ایک گھر میں خداوند قدوس کی بے شمار نعمتوں کا جوش و جذبے سے سرشار ہو کر مناجاتی شکر کر رہے تھے، بہت کم الفاظ یاد رہے، میں تھا یا کوئی اور جو زوردار ترنم سے کہہ

 

۱۳۴

 

رہا تھا: اُسی مولا نے تمہیں ہر ہر نعمت عطا کر دی، اسی نے تم کو فرشِ زمین سے عرشِ برین تک پہنچا دیا، الغرض کوئی نعمت ایسی نہیں جو تم کو نہ دی گئی ہو، اس نورانی خواب کی یہ تاویل ہے کہ یہ میرے جملہ عزیزان تھے جن کو میں آج کل برادران و خواہرانِ روحانی کہہ کر مخاطب کرتا ہوں، کیونکہ وہ جسمانی بھائی مثال ہیں اور یہ روحانی بھائی بہن ممثول، میں کوئی بھی اشارۂ حکمت ضائع کرنا نہیں چاہتا ہوں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۵ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۵

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۶۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے اپنی والدۂ ماجدہ کی شان میں کیا ارشاد فرمایا؟ جواب: مولا کا ارشاد یہ ہے:

“میری والدہ خود مسلم روایات کے مطابق اصلی صوفی تھیں، جس طرح ان کے بہت سے قریبی ساتھی تھے، وہ عادتاً اپنا بہت سا وقت عبادت میں صرف کرتی تھیں جو روحانی نور اور خدا سے قرب حاصل کرنے کے لئے ہوا کرتی تھی، اس قسم کی ذہنیت میں تعصب کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، بہت سے دوسرے صوفیوں کی طرح میری والدہ کے اندر ایک گہرا شاعرانہ ذوق موجود تھا، میں نے ان کو تقریباً وجدانی حالت میں رومی اور حافظ کے بعض اشعار پڑھتے ہوئے سنا ہے جن کے اندر وہ اعلیٰ تشبیہات ہوتی تھیں جو انسان کے متبرک تصوّرِ باری تعالیٰ اور اس عارضی حسن کے درمیان پائی جاتی ہیں جو پھولوں کے رنگوں میں، رات کے راگ اور جادو میں اور ایرانی صبح کی عارضی سج دھج میں نظر آتا ہے۔” (از آپ بیتی، باب: ہندوستان میں لڑکپن کا زمانہ، ص ۶۸-۶۹)۔

“میری والدہ جنہوں نے میرے ابتدائی لڑکپن میں میری تعلیمی تربیت پر

 

۱۳۶

 

زور دیا تھا اتنی ہوشیار اور نگرانی کرنے والی تھیں جتنی کہ وہ محبت کرنے والی تھیں، وہ اور میں دونوں سب سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ محبت والے خلوص کے ساتھ رہتے تھے اور اسی طرح پر ہم ان کی ساری طویل زندگی میں رہے اس زمانہ میں ہر رات کو میں ان کے کمرہ میں چلا جاتا تھا اور ان کے ساتھ عبادت میں شریک ہو جاتا تھا، وہ عبادت جو اتحاد کے لئے اور ملاء اعلیٰ کی مصاحبت کے لئے (Companionship on high) ہوتی ہے، اور جو مسلم مذہب کی جان ہے، میرا خیال ہے کہ اس مشترکہ تجربہ نے ہم دونوں میں وہ قوّت پیدا کی جس سے ہم اپنی دماغی اور روحانی تھکاوٹ اور بے چینی کے بوجھ کو، جو ان مشکل سالوں میں کسی طریقہ پر ہلکا نہ تھا، آسانی سے اٹھا سکیں، مگر میری والدہ کا مذہب نہایت مستقل طریقہ پر عملی قسم کا بھی تھا، ان کے نزدیک ایمان میں بغیر عمل کے کوئی نیکی نہ تھی اور اپنی قومی زندگی کی ابتداء سے میں نے اس اصولوں کو تسلیم کر لیا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کی۔” (از آپ بیتی، باب: میں مغربی دنیا کا سفر کرتا ہوں، ص ۸۶)

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۵ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: جب آنحضرتؐ معراج کی طرف تشریف لے جا رہے تھے تو اس دوران آپؐ نے آسمانِ چہارم پر جو بڑا حیران کُن معجزہ دیکھا تھا، وہ کیا ہے؟ جواب: و روی عن رسول اللہ انہ قال: لما عرج بیی الی السماء الرابعۃ رایت علیا جالسا علیٰ کرسی الکرامۃ و الملائکۃ حافین بہ یعظمونہ و یعبدونہ و یسبحونہ و یقدسونہ فقلت حبیبی جبرائیل سبقنی اخی علی الیٰ ھٰذا المقام فقال لی: یا محمد ان الملائکۃ شکت الی اللہ شدۃ شوقھا الیٰ علی لعلمھا بعلوہ و منزلتہ و سالت النظر الیہ فخلق اللہ ہٰذا الملک علیٰ صورۃ علی و الزمھم طاعتہ فکلما اشتاقوا الیٰ علی نظروا الیٰ ہٰذا فیعبدوہ و یسبحوہ و یقدسوہ و ذٰلک قولہ: وَ هُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآءِ اِلٰهٌ وَّ فِی الْاَرْضِ اِلٰهٌؕ-وَ هُوَ الْحَكِیْمُ الْعَلِیْمُ (۴۳: ۸۴)۔ و قد قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم): النظر الیٰ وجہ علی عبادۃ اعظم من الطاعۃ، وای طاعۃ تتم الابطاعۃ،

 

۱۳۸

 

فذٰلک توجھت العباد علیہ۔

ترجمہ: آنحضرتؐ سے روایت کی گئی ہے: آپؐ نے فرمایا: جب میں شبِ معراج آسمانِ چہارم پر پہنچ گیا تو وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ علیؑ کرسئ کرامت و عزّت پر جلوہ فرما ہے، اور فرشتے اس کو گھیرے ہوئے اس کی تعظیم و عبادت اور تسبیح و تقدیس کر رہے ہیں، پس میں نے کہا اے میرے دوست جبرائیل! کیا میرا بھائی علیؑ مجھ سے پہلے یہاں پہنچ گیا؟ تو جبرائیل نے مجھ سے کہا یا محمد اصل واقعہ یہ ہے کہ جب فرشتوں کو علیؑ کے مرتبۂ عالی کا علم ہوا تو ان میں علیؑ کے دیدار کا بڑا شدید شوق پیدا ہوا جس کی انہوں نے اللہ سے شکایت کی، پس اللہ نے علیؑ کی صورت پر اس فرشتے کو پیدا کیا اور ان پر اس کی طاعت لازم کر دی، پس جب جب ان کو علی کے دیدار کا اشتیاق ہوتا ہے تو وہ اس فرشتے کا دیدار کرتے ہیں (بحوالۂ کتاب السرائر ص ۱۱۵-۱۱۶)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲۶ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۳۹

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۱

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: سلسلۂ نزولِ قرآن کی آخری آیت کون سی ہے؟ جواب: وہ آیۂ کریمہ یہ ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ (۰۵: ۰۳)۔

ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

سوال: آیا بزرگانِ دین کی کسی کتاب میں یہ ذکر یا اشارہ ہے کہ قبل از آدم روحانی ادوار تھے؟ جواب: جی ہاں، ایسا ذکر ہے، کتاب سرائر ص ۲۱، کتابِ اثبات النبوات ص ۱۸۲، کتاب دعائم الاسلام جلد ثانی (عربی) ص ۲۹۱۔ سیّارۂ زمین پر آدم سے پہلے جنّات رہتے تھے، اور جنّات کی تاویل اہلِ باطن ہیں۔

سوال: بحوالۂ سورۂ شوریٰ (۴۲: ۲۹) کیا اللہ تعالیٰ نے ساری کائنات میں جاندار مخلوقات پھیلا دی ہیں؟ جواب: جی ہاں، اس آیۂ شریفہ کی

 

۱۴۰

 

مکمل تاویل کرنی ہوگی، کیونکہ اس میں بہت سے مسائل کا حل موجود ہے۔

سوال: کیا اس آیت (۴۲: ۲۹) کے مطابق ہر پہاڑ، ہر وادی، ہر دشت و صحرا، اور ہر بیابان میں مخلوقِ لطیف موجود ہو سکتی ہے؟ جواب: جی ہاں! یقیناً، اچھی بھی اور بری بھی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ، ۲۷ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۴۱

کنز الاسرار ۔ قسط۷۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: کل کائناتی جاندار مخلوقات سے متعلقہ آیتِ کریمہ کون سی ہے؟ جواب: وہ آیۂ شریفہ یہ ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَثَّ فِیْهِمَا مِنْ دَآبَّةٍؕ-وَ هُوَ عَلٰى جَمْعِهِمْ اِذَا یَشَآءُ قَدِیْرٌ (۴۲: ۲۹)۔ ترجمہ: اس کی آیاتِ قدرت میں سے ہے یہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور یہ جاندار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں، وہ جب چاہے انہیں (بذریعۂ روحانی قیامت عالمِ شخصی میں ) جمع کر سکتا ہے۔

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کے لئے بحکمِ خدا کل کائناتی ارواح و ملائکہ نے منزلِ اسرافیلی و عزرائیلی میں وقوعی سجدہ (یعنی گرتے ہوئے سجدہ) کیا تھا، اور یہی تسخیرِ کائنات کا معجزۂ اعظم بھی تھا، اور حظیرۂ قدس میں تمام ارواح و ملائکہ نے حضرتِ آدمؑ کے لئے یک حقیقتی سجدہ کیا = سب کے سب نفسِ واحدہ میں فنا ہو گئے تھے۔

سورۂ اعراف کی (۰۷: ۱۱) وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ۔۔۔۔ اس آیۂ کریمہ کو بار

 

۱۴۲

 

بار غور سے پڑھنے کی فکری عبادت کریں، آدم کے قصّے میں آپ کا قصّہ کیوں ملا ہوا ہے؟ یہ آیۂ کریمہ اسرارِ عظیم سے پر ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۲۸ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۴۳

کنز الاسرار ۔ قسط۷۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

تیمنا و تبرکا (برکت اور تبرک کے طور پر) شرح الاخبار سے کچھ بتائیں؟ جواب: آنحضرت کا ارشاد ہے: نادی مناد من السماء یوم احد: لا فتی الا علی ، و لا سیف الا ذوالفقار۔ ترجمہ: علی جیسا کوئی بہادر نہیں، اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں۔ بحوالۂ شرح الاخبار، جلدِ دوم، جز: نہم، ص ۳۸۱ جنگِ احد میں آسمان پر کوئی فرشتہ وصفِ علی کا یہ اعلان کر رہا تھا۔

کتابِ حیات القلوب، جلدِ دوم، باب ۳۲ حالاتِ جنگِ احد میں ص ۳۵۳ پر ہے: ۔۔۔ آنحضرت نے علیؑ سے فرمایا: اے علی تم نے اپنی تعریف نہیں سنی، وہ دیکھو آسمان سے فرشتۂ رضوان نعرہ لگا رہا ہے: لا سیف الا ذوالفقار و لا فتی الا علی۔ ص ۳۵۱ پر ہے کہ یہ تعریفی اعلان جبرائیل کر رہا تھا، بہرحال لا فتی میں جو علی کی آسمانی تعریف ہے وہ بہت ہی مشہور ہے، شرح الاخبارِ مذکورہ کے فٹ نوٹ میں بھی دیکھیں۔

کتاب شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطھار، جلد

 

۱۴۴

 

اوّل ، جز: ۲ میں یہ حدیثِ شریف ہے: ان اللہ عز و جل خلق حب علی شجرۃ اصلھا فی الجنۃ و اغصانھا فی الدنیا، فمن تعلق بغصن من اغصانھا فی الدنیا او ردہ الجنۃ ۔ خدائے عز و جل نے علی کی پاک محبت کو ایک درخت کی مثال پر پیدا کیا جس کی جڑ جنّت میں اور شاخیں دنیا میں ہیں، پس جو شخص دنیا میں ان شاخوں میں سے کسی شاخ کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو وہ اس شاخ کے ذریعے سے جنت میں وارد ہو جائے گا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعۃ المبارک ، ۲۹ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۴۵

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: از کتابِ مستطابِ گنجینۂ جواہرِ احادیث، ص ۳۷: ارشادِ نبیؐ ہے: ذکر علی عبادۃ = علیؑ کی یاد عبادت ہے۔ النظر الی وجہ علی عبادۃ = چہرۂ علیؑ کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ ان دونوں باتوں میں کیا حکمت ہے؟ جواب: علیؑ = امامِ زمانؑ کی یاد عبادت اس لئے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے، اور اسمِ اعظم کی یاد سب سے بڑی عبادت ہے، اور چہرۂ علیؑ = امامِ زمانؑ کی طرف دیکھنا اس وجہ سے عبادت ہے کہ امامِ زمان وجہ اللہ = صورتِ رحمان بھی ہے، اور قرآنِ ناطق بھی ہے، پس صورتِ رحمان کا دیدار اور قرآنِ ناطق کا مطالعہ کیونکر خصوصی عبادت نہ ہو!

یہ حدیثِ شریف شرح الاخبار جزءِ اوّل ص ۱۰۵ پر ہے: و قد خلفت فیکم ما ان تمسکتم بہ بعدی لن تضلوا، کتاب اللہ و عترتی اہلِ بیتی فانھما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض، حبل ممدود من السماء الیکم طرفہ بید اللہ

 

۱۴۶

 

و طرفہ بایدیکم۔ ترجمہ: میں نے تمہارے درمیان اُس (معجزانہ چیز ) کو اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا دیا ہے کہ اگر تم میرے بعد اس کو پکڑے چلو گے تو تم ہرگز گمراہ نہ ہو جاؤ گے، وہ کتاب اللہ (قرآن) اور میرے اہلِ بیت کی عترت (امام) ہیں، یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گی تا آنکہ حوضِ کوثر پر مجھ سے مل جائیں، یہ گویا آسمان سے زمین تک لگائی ہوئی ایک رسی ہے، اس کا بالائی سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور زیرین سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر، ۳۰ ، مارچ ۲۰۰۲ء

 

۱۴۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: عروۃ الوثقیٰ (۰۲: ۲۵۶) = مضبوط حلقہ سے کیا مراد ہے؟ جواب: ولایتِ علیؑ۔ (بحوالۂ شرح الاخبار۔ ۱، ج: ۲، ص ۲۴۰)۔ مثل قل ھو اللہ احد: عن سلمان الفارسی قدس اللہ روحہ، انہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ یقول لعلی علیہ السلام، یا علی فیک مثل قل ھو اللہ احد، من قراھا مرۃ کان لہ اجر من قرا ثلث القرآن، و من قرا ھا مرتین کان لہ اجر من قرا ثلثی القرآن، و من قرا ھا ثلاث مرات کان لہ ثواب من قرا القرآن کلہ، و کذٰلک انت یا علی من احبک بقلبہ، کان لہ ثواب ثلث الاسلام، و من احبک بقلبہ، و اثنی علیک بلسانہ، کان لہ ثواب ثلثی الاسلام، و من احبک بقلبہ، و اثنی علیک بلسانہ و اعانک بیدہ، کان لہ مثل ثواب الاسلام کلہ۔

ترجمہ: علی علیہ السّلام میں قل ھو اللہ احد کی مثل ہے:

 

۱۴۸

 

سلمان فارسی قدس اللہ روحہ کی روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے حضرتِ علیؑ سے فرمایا: یا علیؑ تجھ میں قل ھو اللہ احد کی مثل ہے کہ جو شخص ایک بار قل ھو اللہ ، کو پڑھتا ہے، اس کو ایسے شخص کا اجر ملتا ہے جس نے ایک تہائی قرآن پڑھ لیا ہو، اور جو دو بار قل ھو اللہ کو پڑھتا ہے، اس کو دو تہائی قرآن پڑھنے والے کا اجر ملتا ہے، اور جو تین بار قل ھو اللہ کو پڑھتا ہے، اس کو کل قرآن پڑھنے والے کا اجر ملتا ہے، اور اسی طرح تو ہے اے علیؑ، کہ جو شخص قلبی طور پر تجھ سے محبت کرتا ہے اس کو اسلام کا ایک تہائی ثواب مل جاتا ہے، اور جو شخص دل میں تیری محبت رکھتا ہے، زبان سے تیری تعریف بھی کرتا ہے، اس کو دو تہائی اسلام کا ثواب مل جاتا ہے، اور جو شخص دل میں تیری محبت رکھتا ہے، زبان سے تیری تعریف کرتا ہے، اور ہاتھ سے تیری مدد کرتا ہے، تو اس کو کل اسلام کے ثواب کے برابر ثواب مل جاتا ہے۔ بحوالۂ شرح الاخبار۔ ۲، ج: ۸، ص ۲۶۵۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۳۱ ، مارچ ۲۰۰۲ء

۱۴۹

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

مسئلۃ: حدیثِ شریف ہے: انا مدینۃ العلم و علی بابھا۔ یعنی میں علمِ دین = علمِ الٰہی کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ کیا قرآن و حدیث کا کوئی علم اس شہر سے باہر ہو سکتا ہے؟ جواب: نہیں ہرگز نہیں، جس کا واحد دروازہ علی = امامِ مبینؑ ہے۔

سوال: آیا قرآنِ عزیز میں اس حدیث کا کوئی حکیمانہ اشارہ موجود ہے؟ جواب: جی ہاں، اللہ کا حکم ہے، وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۪ = تم گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو (۰۲: ۱۸۹)۔ جامعِ ترمذی جلدِ دوم میں یہ حدیث ہے: ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے چار اشخاص سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے، آپ سے پوچھا گیا: ہمیں بتائیے کہ وہ کون ہیں؟ آپ نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہے، اور ابوذر، مقداد اور سلمان ہیں۔

حدیث الطیر : ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک پرندے (چکور) کا گوشت تھا، آپ نے دعا کی کہ یا اللہ! اپنی مخلوق

 

۱۵۰

 

میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ میرے ساتھ اس پرندے کے گوشت میں سے کھائے، چنانچہ علیؑ آئے اور آپؐ کے ساتھ اس پرندے کے گوشت میں سے کھانے لگے۔ حوالۂ ترمذی، باب ۔ ۱۸۰۹، نیز شرح الاخبار، جز: ۱۔

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۳) میں ارشاد ہے: وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ۔ تاویلی مفہوم: اور اسی طرح اے أئمّۂ آلِ محمدؐ ہم نے تم کو ایک عادل امت بنایا ہے، تاکہ تم ظاہراً و باطناً لوگوں پر گواہ رہو، اور نورانیّت میں رسولؐ تم پر گواہ رہے۔ امام محمد باقر علیہ السّلام کے ارشاد کو پڑھیں: دعائم الاسلام جلد اوّل مضمون ولایتِ أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، یکم اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۱

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ برادران و خواہرانِ روحانی:

سورۂ انبیاء (۲۱: ۰۷) کے مطابق اہلِ ذکر سے کس طرح علم و حکمت کا کوئی سوال ممکن ہے؟ جواب: دیکھو کتابِ ہزار حکمت ح: ۱۵۳-۱۵۵، آپ نے سوال موال کچھ بھی نہیں کرنا ہے، صرف امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے نورِ اقدس میں فنا ہو جانا ہے وہاں جواب ہی جواب ہے اور کوئی سوال ہے ہی نہیں۔

“سوال” علمی بھوک اور پیاس کا احساس ہے جو اس دنیا میں ہے، اور اپنی جگہ پر ہونا چاہئے، لیکن جب امامِ زمانؑ کا نور عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے، تو تب وہاں بہشت کا عالم ہو جاتا ہے، اور بہشت میں بھوک نہیں پیاس نہیں۔

امامِ زمانؑ کا نور صامت (خاموش) بھی ہے اور ناطق (بولنے والا) بھی ہے، عالمِ خیال میں جو نور طلوع ہو جاتا ہے، وہ صامت ہے، لیکن جب روحانی قیامت کے آغاز کے ساتھ نور طلوع ہو جاتا ہے تو وہ ناطق (بولنے والا) ہے۔

کتابِ دعائم الاسلام عربی، جلدِ اوّل ص ۱۶۷ پر دعائے نور درج

 

۱۵۲

 

ہے، یہ پاک دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی زبانِ وحی بیان سے ہے، اس لئے یہ یقیناً کلامِ الٰہی کی طرح ہے، یہ سرِ معرفت خوب یاد رہے کہ جب روحانی قیامت میں مومنِ سالک پر امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہو جاتا ہے تو اس میں بالکل ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ دعائے نور میں اس کا بیان ہے، اب آپ کتاب العلاج ، قرآنی علاج ص ۲۱۳ – ۲۲۱ “امواجِ نور کا تصوّر” خوب غور سے پڑھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۳

کنز الاسرار ۔ قسط۷۸

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلامت باشند!

مسئلۃ: کیا دعائے نور آنحضرت کے لئے صرف ذاتی ہے یا امت کے علم و عمل کے لئے بھی ہے؟ جواب: چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ تمام لوگوں کے لئے رسول اور معلّمِ ربّانی تھے اس لئے آپ کی یہ دعا امت کے علم و عمل کے لئے بھی ہے، اور اس کی عملی صورت غیر ممکن نہیں، بلکہ عین ممکن ہے، لہٰذا اس دعا کے اسرار کی معرفت بے حد ضروری ہے، بے حد ضروری، پس جب اللہ کے فضل و کرم سے تم پر روحانی قیامت قائم ہو گی، تو اس وقت امامِ زمان علیہ السّلام کا نور تمہارے عالمِ شخصی میں طلوع ہو جائے گا، جس سے تمہارے قلب میں نور ہوگا، کان، آنکھ ، زبان میں نور ہوگا، بلکہ تمہاری پوری ہستی کے خلیہ خلیہ اور ذرّہ ذرّہ میں نور ہوگا، واللہ تم طوفانِ نور میں مستغرق ہو جاؤگے، اس مرتبۂ عالی کے لئے تم شب و روز کوشش کرو، بہت زیادہ کوشش کرو، اپنے دل میں امامِ زمانؑ کا عشق و محبت قائم کرو، زبان سے ہمیشہ اس کی تعریف اور ہاتھ سے اس کی مدد کرتے رہو، پھر ان شاء اللہ تم امامِ زمانؑ کے نور میں فنا ہو جاؤ گے۔

دعائے نور: اللّٰھم اجعل لی نوراً فی قلبی، و نوراً فی

 

۱۵۴

 

سمعی، و نوراً فی بصری، و نوراً فی لسانی، و نوراً فی شعری، و نوراً فی بشری، و نوراً فی لحمی، و نوراً فی دمی، و نوراً فی عظامی، و نوراً فی عصبی، و نوراً من بین یدی، و نوراً من خلفی، و نوراً عن یمینی، و نوراً عن یساری، و نوراً من فوقی، و نوراً من تحتی۔

ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں، اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے بھی نور مقرر فرما! (کتابُ العلاج، قرآنی علاج ص ۲۱۳-۲۱۴)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۵

 

کنز الاسرار ۔ قسط۷۹

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلامت باشند!

قرآنِ حکیم (۶۶: ۰۴) میں صالح المومنین کس کا مبارک نام ہے؟ جواب: حضرت مولانا علی علیہ السّلام کا۔ س: اس پاک نام کی تاویلی حکمت کیا ہے؟ ج: مومنین کے باطنی احوال کی اصلاح کرنے والا (۴۷: ۰۵)۔

مسئلۃ: رسولِ پاک صلعم کی رسالت کا گواہِ اوّل تو اللہ تعالیٰ ہے، اور اس نے گواہِ ثانی کس کو بنایا ہے؟ ج: اس شخص کو جس کے پاس کتاب = قرآن کا باطنی علم و حکمت ہے۔ س: وہ کون ہے؟ ج: حضرتِ علی (۱۳: ۴۳)۔

سوال: قرآنِ حکیم میں و الراسخون فی العلم (۰۳: ۰۷) = اور وہ لوگ جو علم میں پختہ کار ہیں، یہ جملہ آیا ہے، جو حضرات اللہ کے اس ارشاد کے مطابق علم میں پختہ کار ہیں وہ کون ہیں؟ جواب: وہ سب سے اوّل اور سب سے افضل حضرتِ محمد صلعم ہیں، اور آپؐ کے بعد آپؐ کے خاندان کے أئمّۂ طاہرینؑ قرآن کی تاویل میں پختہ کار ہیں۔

سوال: شاید یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ کنیڈا کی ایک مشہور یونیورسٹی کے ایک بڑے پروفیسر نے آپ سے یہ سوال کیا کہ آپ کے امام کے پاس کیا معجزہ

 

۱۵۶

 

ہے؟ اس پر آپ نے یہ جواب دیا کہ میں امامِ زمانؑ کا ایک ادنیٰ سا مرید ہوں پھر بھی میں آپ کے سامنے ایک ایسا عجیب و غریب علم پیش کروں گا جو نہ آپ کے پاس ہوگا اور نہ دنیا میں کسی اور کے پاس، پھر آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ میرے امام علیہ السّلام کے پاس کیسے کیسے بڑے عجیب و غریب علمی معجزات ہیں۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ اس وقت گواہی کے لئے جنابِ محترم ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب، بحر العلوم بھی تشریف رکھتے تھے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۰

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ حقائق و معارفِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

مسئلۃ: سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۹) میں ارشاد ہے: بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَؕ۔

تاویلی مفہوم = بلکہ وہ (قرآن) پُرنور معجزات کی صورت میں ہے، ان لوگوں کے باطن میں جن کو علمِ لدنّی عطا کیا گیا ہے۔ یہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہیں جن کے باطن میں قرآن بصورتِ نورانی معجزات موجود و محفوظ ہے، اور انہی حضرات کو علمِ لدنّی عطا ہوا ہے، دعائم الاسلام عربی جلدِ اوّل کے شروع میں جو کتاب الولایۃ ہے اس کو تا آخر ضرور پڑھ لیں، تا کہ آپ کو أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام کی تفسیر و تاویل کی معرفت حاصل ہو۔

سوال: آیا امامِ زمانؑ = امامِ مبینؑ کے نورِ پاک میں قرآن بصورتِ نورانی معجزات موجود و محفوظ ہے؟ جواب: جی ہاں۔ س: ایسے نورانی معجزات کا مشاہدہ کون کر سکتے ہیں؟ ج: ہر وہ عارف جو روحانی قیامت کے ذریعے سے جیتے جی امامِ زمانؑ کے نور میں فنا ہو جاتا ہے۔

۱۵۸

سوال: یہ سوال دعائے نور کے حوالے سے ہے، کیا امامِ زمان علیہ السّلام کا نور سمعی، بصری، لسانی، قلبی وغیرہ ہوتا ہے؟ جواب: جی ہاں۔

سوال: یہ سوال از بس عجیب و غریب اور انتہائی عظیم ہے کہ جب روحانی قیامت قائم ہونے لگتی ہے، اور امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوتا ہے، تو اس وقت انسان میں جو جنّ ہے، اس پر کیا گزرتا ہے؟ جواب: وہ اس وقت مسلمان ہو کر فرشتہ بن جاتا ہے۔ س: اس پر قرآن کی کون سی شہادت ہے؟ ج: دیکھو (۰۷: ۱۴ تا ۱۵) جنّ = شیطان کو مہلت دی گئی ہے، وہ صرف قیامت تک ہے اور بس۔ نیز دیکھو (۱۵: ۳۶ تا ۳۷) اور (۳۸: ۷۹ تا ۸۰) پس روحانی قیامت کے شروع ہی میں جنّ مسلمان ہوکر فرشتہ بن جاتا ہے، اور جو فرشتہ ہے، وہ عظیم ہو جاتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۴ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۵۹

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۱

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ حقائق و معارفِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

وہ اسرارِ عظیم جو بڑے حیران کن اور عقل سے ماورا ہیں:

حدیث کی مشہور کتاب: المستدرک ، الجزء الثالث، ص ۱۱۶ کے آخر اور ۱۱۷ کے شروع میں یہ روایت ہے کہ حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام کی والدۂ ماجدہ کا اسمِ گرامی فاطمہ بنتِ اسد تھا، اسد حضرتِ ہاشم کا بیٹا تھا۔

جب وقت آنے پر فاطمہ بنتِ اسد زوجۂ حضرتِ ابو طالب نے داعئ اجل کو لبیک کہا، تو زہے نصیب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے بطورِ بے مثال رحمت اپنی مبارک قمیض سے ان کو کفن دیا، ان کی قبر میں اتر کر لیٹ گئے اور قبر کو بڑی بابرکت بنا دیا، اور دستِ مبارک سے فراخئ قبر کے معجزانہ اشارے کئے، حضورِ اکرم صلعم نے فاطمہ بنتِ اسد کے لئے جو نمازِ جنازہ پڑھی وہ بھی یکتا اور بے مثال تھی کہ حضورِ پاکؐ نے ستر تکبیرات کے ساتھ نمازِ جنازہ پڑھی، اصحابِ کبار میں سے بعض نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے اس خاتون کے لئے وہ کچھ کیا جو کسی کے لئے نہیں کیا تھا؟ آپؐ نے فرمایا: یہ خاتون میری ماں تھیں جس نے مجھے جنم دیا (شاید اس ارشاد میں تاویل ہے۔) پھر رسولِ پاک نے فرمایا کہ جبرائیل

 

۱۶۰

 

علیہ السّلام نے میرے ربّ سے مجھے یہ خبر دی ہے کہ یہ خاتون اہلِ جنّت میں سے ہے، اور جبرائیل نے مجھے یہ بھی بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اس خاتون کے حق میں نمازِ جنازہ پڑھیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ، ۵ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۱

کنز الاسرار ۔ قسط۸۲

سوالِ معظمِ عرفانی بغرضِ حقائق و معارفِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

سورۂ ضحیٰ (۹۳: ۰۶) میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى۔ ترجمہ: کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟ آنحضرت کی ولادتِ با سعادت سے پہلے ہی آپ کے والد وفات پا چکے تھے، چھ سال کی عمر تھی کہ والدہ نے رحلت کی، پھر آٹھ سال کی عمر تک اپنے دادا (عبد المطلب) کی کفالت میں رہے، آخر اس درِ یتیم اور نادرۂ روزگار کی ظاہری و باطنی تربیت و پرورش کی سعادت آپ کے بے حد شفیق چچا حضرتِ ابو طالب کے حصہ میں آئی، انہوں نے زندگی بھر آپ کی نصرت و حمایت اور تکریم و تعظیم میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا، ہجرت سے کچھ پہلے وہ بھی دنیا سے رخصت ہوئے۔

مذکورہ آیۂ شریفہ کا یہ ظاہری ترجمہ اور وضاحت اپنی جگہ پر درست ہے، ساتھ ہی ساتھ اس میں تاویلی اسرار بھی ہیں، کتابِ سرائر ص ۲۳۲ پر آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: و اقمت مع میکائیل عشرین سنۃ = اور میں میکائیل کے ساتھ بیس سال رہ چکا ہوں۔ اس کی ایک تاویل یہ ہے کہ آنحضرتؐ اپنے چچا

 

۱۶۲

 

حضرتِ عمران = ابو طالب (امامِ مقیم) کی کفالت یعنی روحانی پرورش میں بیس سال تک رہے۔

پس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد : “اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى = کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟” میں ان حضرات کی بے مثال خدمات کا اشارہ ہے: عبدالمطلب ، عمران = ابو طالب، فاطمہ بنتِ اسد (زوجۂ ابو طالب) اور خدیجہ زوجۂ نبی، انہی ارضی فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و ہدایت سے اس درِّ یتیم کی بے مثال خدمات سر انجام دیں جن کا ریکارڈ اللہ نے حکمتِ قرآن میں محفوظ کر لیا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۶ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۳

کنز الاسرار ۔ قسط۸۳

سوالِ معظمِ سری برائے اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

بحوالۂ کتابِ سیرۃ النبی علامہ شبلی نعمانی و علامہ سید سلیمان ندوی، جلدِ اوّل، ص ۱۱۷-۱۱۸، جناب عبدالمطلب کی کفالت: والدۂ ماجدہ کے انتقال کے بعد آپ کے دادا عبدالمطلب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کو اپنے دامنِ تربیت میں لیا، ہمیشہ آپ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے، عبدالمطلب نے بیاسی برس کی عمر میں وفات پائی اس وقت آنحضرت صلعم کی عمر آٹھ برس کی تھی، عبدالمطلب کا جنازہ اٹھا تو آنحضرتؐ بھی ساتھ تھے اور فرطِ محبت سے روتے جاتے تھے، عبدالمطلب نے بوقتِ انتقال اپنے بیٹے ابو طالب کو آنحضرتؐ کی تربیت سپرد کی، ابو طالب نے اس مقدس فرض کو جس خوبی سے ادا کیا اس کی تفصیل آگے آتی ہے، یہ واقعہ خاص طور پر لحاظ رکھنے کے قابل ہے ۔۔۔

ابو طالب کی کفالت: عبدالمطلب کے دس بیٹے مختلف ازواج سے تھے، ان میں سے آنحضرتؐ کے والد عبداللہ اور ابو طالب ماں جائے (حقیقی = سگے) بھائی تھے، اس لئے عبدالمطلب نے آنحضرت کو ابو طالب ہی کے آغوشِ تربیت میں دیا، ابو طالب آنحضرت سے اس قدر محبت رکھتے

 

۱۶۴

 

تھے کہ آپ کے مقابلہ میں اپنے بچوں کی پرواہ نہیں کرتے تھے، سوتے تو آنحضرت کو ساتھ لے کر سوتے اور باہر جاتے تو ساتھ لے کر جاتے۔

غالباً جب آپ کی عمر دس بارہ برس کی ہوئی تو آپ نے بکریاں چرائیں، عرب میں بکریاں چرانا معیوب کام نہ تھا، بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چراتے تھے، خود قرآنِ مجید (۱۶: ۰۵ تا ۰۶) میں ہے: وَ لَكُمْ فِیْهَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ = ان میں تمہارے لئے جمال ہے جب کہ صبح تم انہیں چرنے کے لئے بھیجتے ہو اور جب کہ شام انہیں واپس لاتے ہو۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ عالم کی گلہ بانی کا دیباچہ تھا، یعنی یہ اس حقیقت کی تمہید تھی کہ آپ آگے چل کر ساری کائنات کی سرداری کرنے والے تھے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۷ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۵

 

 

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

النظر الی وجہ علی عبادۃ ۔ المستدرک ، سرائر، شرح الاخبار وغیرہ۔ سوال: اس میں کیا راز ہے؟ جواب: پہلا راز یہ ہے کہ علیؑ = امامِ زمانؑ وجہ اللہ = اللہ کا نور ہے، دوسرا راز یہ ہے کہ وہ قرآنِ ناطق ہے، تیسرا راز یہ ہے کہ وہ اسمِ اعظم اور اسماء الحسنیٰ ہے، چوتھا راز یہ ہے کہ وہ آئینۂ خدا نما ہے، پانچواں راز یہ ہے کہ وہ بہشتِ مجسّم ہے، چھٹا راز یہ ہے کہ وہ اللہ کا دین ہے، اور ساتواں راز یہ ہے کہ وہ کنزِ معرفت ہے۔

علی مع القرآن و القرآن مع علی لن یتفرقا حتیٰ یردا علی الحوض۔ المستدرک۔

آئینۂ خدا نما: وہ زندہ اور معجزانہ آئینہ جس میں خدا کا دیدار ہو سکتا ہے۔

شعر: آئینۂ خدائے نما مرتضیٰ بود

در چشمِ جان تجلئ جانان کند علی
ترجمہ: مرتضیٰ علی وہ معجزانہ آئینہ ہے، جس میں دیکھنے سے خدا کا

 

۱۶۶

 

دیدار ہوتا ہے، علی ہی ہے جو چشمِ باطن میں جانان (خدا) کی تجلی کرتا ہے۔

النظر الی علی عبادۃ = النظر الی وجہ علی عبادۃ۔ یہ ایک ہی حقیقت کی دو حدیثیں ہیں، اور دونوں صحیح ہیں، المستدرک، الجزء الثالث، ص ۱۵۲۔

یہ تاویلی راز ہمیشہ یاد رہے کہ علی علیہ السّلام سے امامِ زمانؑ مراد ہے۔ حدیثِ مدینۃ العلم کونسی ہے؟ حدیثِ دارِ حکمۃ بتاؤ؟ حضرتِ امام محمد باقر علیہ السّلام کے ارشادِ ما قیل کو پڑھ کر سناؤ؟ اگر آپ کو حدیثِ قدسی کنت کنزاً یاد ہے تو سناؤ؟ حدیثِ من عرف کا زیادہ تر تعلق عارف سے ہے یا عاشق سے؟

کیا امامِ مبین (۳۶: ۱۲) اللہ تعالیٰ کا خزینۃ الخزائن ہے؟ خدا کے اس خزانۂ خزائن سے فیض حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۸ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۷

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۵

سوالِ معظمِ سری برائے اضافۂ معلوماتِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

جامعِ ترمذی جلدِ دوم باب ۱۸۱۲: جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے طائف کی لڑائی کے موقع پر علیؑ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے، آج آپ نے اپنے چچازاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی ، فرمایا: میں نے نہیں کی بلکہ اللہ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ مذکورہ کتاب میں مناقب علی بن ابی طالب کے عنوان کے تحت یہ حدیث بھی درج ہے: ان علیا منی و انا منہ و ھو ولی کل مومن من بعدی۔ ترجمہ: یقیناًعلی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی اور سرپرست ہے۔ وہاں یہ ارشاد بھی ہے: من کنت مولاہ فعلی مولاہ = یعنی میں جس کا مولا اور آقا ہوں، علی اس کا مولا اور آقا ہے۔

ان منکم من یقاتل علیٰ تاویلہ کما قاتلت علیٰ تنزیلہ۔ ترجمہ: یقیناً وہ شخص تم میں سے ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا، جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی۔ جو اصحاب حاضر تھے انہوں نے پوچھا: یا حضرت وہ کون ہے؟ حضورِ پاکؐ نے مولا علیؑ کی طرف اشارہ فرمایا:

 

۱۶۸

 

ھو ذالکم خاصف النعل = یہ وہ جوتی درست کرنے والا شخص ہے۔ وہ علی تھا، شرح الاخبار۔۱ ، جز ۔ ۳، ص ۳۲۱ پر دیکھیں۔

بے حد ضروری سوال: قرآن کی تاویلی جنگ دراصل کیا چیز ہے؟ جواب: قرآن کی تاویلی جنگ روحانی قیامت ہے۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) میں غور سے دیکھیں، یہ کتاب = قرآن کی تاویل روحانی قیامت بھی ہے اور تاویلی جنگ بھی، اور علیؑ = امامِ مبینؑ قائمِ قیامت بھی ہے اور قیامتی = تاویلی جنگ کا سردار بھی ہے، پس امامِ زمانؑ حدودِ جسمانی میں کہیں روحانی قیامت برپا کر کے تاویلی جنگ کے ذریعے سے دینِ خدا کی عالمی اور کائناتی فتح کا تجدّد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کا انتہائی عظیم پروگرام یہ ہے کہ ہر روحانی قیامت (۱۷: ۷۱) میں اس کا دین تمام ادیان پر غالب آتا ہے، دیکھو (۰۹: ۳۳)، (۴۸: ۲۸)، (۶۱: ۰۹) اور یہ سب سے عظیم کارنامہ بحکمِ خدا امامِ آلِ محمد انجام دیتا ہے، خدا اور رسول نے جس مقصد کے لئے امامؑ کو قائم کیا ہے، وہ عظیم مقصد بھی یہی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۹ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۶۹

 

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۶

سوالِ معظمِ اسراری برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

صحیح بخاری ، جلدِ دوم باب ۳۹۱ مناقبِ علی بن ابی طالب القرشی = القریشی، الھاشمی ابی الحسن (علیہ السّلام) قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم: لعلی انت منی و انا منک ۔ یعنی نبئ کریم صلعم نے علی سے فرمایا تھا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔

یہ حدیثِ شریف آنحضرتؐ کا ایک عظیم الشّان عرفانی معجزہ ہے جس کی روشنی میں ہر اس حدیث کی حکمت نمایان ہو جاتی ہے، جو مولا علیؑ کی شان میں ہے، کیونکہ اس حدیث میں محمدؐ و علیؑ کے نورِ واحد کا واضح اشارہ ہے، جو عاشقان و عارفان ہیں وہ سب کے سب اس سرچشمۂ آبِ حیان سے سیراب ہو سکتے ہیں۔

صحیح بخاری ، جلدِ دوم باب ۱۰۷ میں یہ حدیثِ شریف ہے: ناس من امتی یرکبون البحر الاخضر فی سبیل اللہ مثلھم الملوک علی الاسرۃ۔ ترجمہ: میری امت کے کچھ لوگ اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے بحرِ اخضر پر سوار ہوں گے، ان کی مثال (دنیا اور آخرت میں) تخت پر بیٹھے

 

۱۷۰

 

ہوئے بادشاہوں کی سی ہے۔ بحرِ اخضر = سبز سمندر، تاویلاً روحانیت ہے۔

یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ (۱۷: ۷۱) اس میں کم از کم چار چیزیں ہیں: اوّل یہ روحانی قیامت ہے، جس کا ذکر تمام قرآن میں محیط ہے، دوم یہ قرآن کی تاویلی جنگ ہے، سوم یہ جہادِ روحانی ہے، اور چہارم یہ لوگوں کو خدا کی طرف آخری اور زبردستی دعوت ہے، پس اس جہادِ باطن میں شرکت کے لئے حقیقی مومنین و مومنات کی روحیں اطرافِ عالم سے بحرِ اخضر (بحرِ روحانیّت) پر سوار ہو کر آتی ہیں۔

مرکزِ علم و حکمت (لندن) کی جانب سے ایک بڑا عجیب و غریب کنز الاسرار کا انمول تحفہ آیا ہے، ان شاء اللہ العزیز جلد از جلد جملہ عزیزان کو ارسال کر دیں گے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۱۰ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۱

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۷

سوالِ معظمِ سری برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلمھم اللہ تعالیٰ!

حضرتِ جعفرِ طیار بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم کے بارے میں المستدرک سے چند احادیث کا ترجمہ:

۴۹۳۳

حضرتِ ابنِ عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: “میں گزشتہ رات جنت میں داخل ہو کر کیا دیکھتا ہوں کہ جعفر (بن ابی طالب) فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہا ہے اور حمزہ ایک تخت پر تکیہ لگائے بیٹھا ہے۔”

۴۹۳۵

ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: “میں نے جعفر بن ابی طالب کو دیکھا کہ وہ ایک فرشتہ ہو گیا ہے اور دو فرشتگانہ بازؤوں سے فرشتوں کے ساتھ اڑ رہا ہے۔”

۴۹۴۱

جابر سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ خیبر سے واپس آئے تو اس وقت حضرتِ جعفر طیار بھی حبشہ سے واپس آئے ، رسول اللہ نے آپ کا استقبال کیا اور آپ کی پیشانی کو چوما اور فرمایا: “خدا کی قسم! میں نہیں جانتا ہوں کہ میں فتحِ خیبر اور جعفر کے واپس آنے میں سے کس سے زیادہ خوش ہوں( دونوں میں سے کس سے زیادہ خوش ہوں فتحِ خیبر یا قدومِ جعفر سے)۔”

۱۷۲

۴۹۴۳

ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: “آج رات جعفر فرشتوں کی ایک جماعت میں میرے پاس سے گزرے اس حال میں کہ (اس کے ) دونوں بازو خون میں رنگے ہوئے اور دل سفید تھا۔”

۴۹۳۷

ابنِ عباس سے روایت ہے کہ جب کہ رسول اللہ بیٹھے ہوئے تھے اور اسماء بنتِ عمیس آپ سے قریب تھیں، تب آنحضرتؐ نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: “اے اسماء یہ جعفر بن ابی طالب ہے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے ساتھ، انہوں نے ہمیں سلام کیا، اس لئے ان کے سلام کا جواب دو۔”

حضرتِ جعفر طیار نے اپنے بارے میں فرمایا: “میرا مشرکین سے مقابلہ ہوا اور میرے جسم کے اگلے حصوں میں تیر، نیزہ اور تلوار کے ۷۳ زخم لگے (چوٹیں لگیں) پھر میں نے علم کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیا، اس کو کاٹا گیا، پھر ( علم کو) بائیں ہاتھ میں لیا، وہ بھی کاٹا گیا، پس خدا نے دو ہاتھوں کے عوض مجھے دو فرشتگانہ پر دیئے، ان کے ذریعے میں جبرائیل اور میکائیل کے ساتھ اڑتا ہوں، جہاں چاہوں جنت سے اترتا ہوں اور جو چاہوں جنت کے پھلوں سے کھاتا ہوں۔”

اسماء نے کہا: خدا نے جعفر کو نیکی کا جو رزق عطا فرمایا ہے وہ اس کے لئے مبارک ہو (گوارا ہو) لیکن مجھے خوف ہے کہ لوگ اس کی تصدیق نہیں کریں گے اس لئے (براہِ کرم) منبر پر چڑھیئے اور اس کے بارے میں ان کو بتائیے ، پس آنحضرت منبر پر چڑھے، خدا کی حمد و ثنا کی اور پھر فرمایا: “اے لوگو! یقیناً جعفر جبرائیل اور میکائیل کے ساتھ ہے، خدا نے اسے اس کے دو ہاتھوں کے عوض دو بازو دئے ہیں، اس نے مجھے سلام کیا۔” پھر آنحضرتؐ نے حضرت جعفر کی مشرکین کے ساتھ مڈھ بھیڑ کا ان کو بتایا اور اس لئے ان کو “الطیار فی الجنۃ” کہا گیا، یعنی جنت میں پرواز کرنے والا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۱۰ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۳

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۸۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: تم نورانی بدن (جسمِ لطیف) کے ساتھ بہشت میں جاؤگے۔ اس بابرکت فرمان میں چوٹی کی حکمتیں جمع ہیں۔

مولائے پاک نے فرمایا ہے: “مومن کی روح ہماری روح ہے۔” آپ اس پر فکری عبادت کریں اور نتیجہ نکالیں کہ اس ارشاد کا آخری راز کیا ہے؟
جواب: اس کا آخری راز “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔” میں ہے، یعنی جس نے اپنی روحِ عُلوی کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔

جیسا کہ حدیثِ قدسی کا مفہوم ہے: اے آدمِ زمان کا روحانی فرزند حقیقی معنوں میں میری اطاعت (فرمانبرداری) کر تاکہ میں تجھے اپنی مثل بناؤں گا۔

سوال: کیا مومنات کا بھی روحانی جہاد سے تعلق ہے؟
سوال: بحرِ اخضر = سبز سمندر کی کیا تاویل ہے؟
سوال: آیا حدیثِ بحرِ اخضر میں شاہانِ بہشت کا ذکر ہے؟
سوال: حدیثِ جعفرِ طیار کی چند حکمتیں بیان کرو۔
عزیزوں میں سے ایک نے سوال کیا تھا کہ کتابِ اثبات النبوّت کس کی ہے؟
جواب: ابو یعقوب اسحاق السجستانی کی ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ، ۱۲ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۴

 

کنز الاسرار ۔ قسط۸۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حضرتِ علی مرتضیٰ صلوات اللہ علیہ کا پاک ارشاد ہے: “انا و محمد نور واحد من نور اللہ ۔۔۔ انا صاحب الرجفۃ (چار مقاماتِ قرآن) صاحب الآیات = معجزات (قرآن کے بہت سے مقامات) ۔۔۔ و انا النباء العظیم الذی ھم فیہ مختلفون (۷۸: ۰۳) ۔۔۔ اناالکتاب ۔۔۔ انا اللوح المحفوظ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) و انا القراٰن الحکیم ۔۔۔ انا محمد و محمد انا ۔۔۔ فآدم، و شیث، و نوح، و سام، و ابراہیم، و اسماعیل، و موسیٰ، و یوشع، و عیسیٰ ، و شمعون، و محمد و انا کلنا واحد۔”

آپ نورٌعلیٰ نور کی سب سے مستند تفسیر و تاویل کو جاننا چاہتے تھے، پس یہ ہے وہ تفسیر و تاویل اور تاریخِ سلسلۂ نور جو خود مولا علئ مرتضیٰ کے ارشادات پر مبنی ہے۔

قرآنِ عزیز کا تمام جوہر حکمت اور نور کی صورت میں جمع ہے کیونکہ اللہ نور اور حکیم ہے، رسول نور اور حکیم ہے، قرآن باطن میں نور اور حکیم ہے،

 

۱۷۵

 

نیز علی = امامِ مبین نور اور حکیم ہے، پس آپ قرآن کی بہشت میں نور اور حکمت کے دروازے سے داخل ہو جائیں، آمین!

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۱۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۶

کنز الاسرار ۔ قسط۹۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

روحانی قیامت کے سلسلے میں جتنے عظیم معجزات سامنے آتے ہیں ان سب کا ذکر قرآنِ عزیز میں موجود ہے، چنانچہ ان معجزات میں معجزۂ زلزلہ بھی کئی بار ہوتا ہے، جس کے قرآنی حوالہ جات یہ ہیں: (۹۹: ۰۱)، (۰۲: ۲۱۴)، (۳۳: ۱۱)، (۲۲: ۰۱) ایسے سخت گیر معجزات میں عظیم اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں، یہ ظاہری اور مادّی بھونچال ہرگز نہیں، یہ تو باطنی اور روحانی معجزۂ زلزلہ ہے، یہ معجزہ یقیناً سخت گیر ہے، مگر انجام میں زبردست حکمت آگین اور رحمتوں اور برکتوں سے مملو ہے، اور یہ مومنِ سالک کے لئے معجزانہ ریاضت ہے، اور انہی چند آزمائشوں کے بعد حظیرۂ قدس کی بہشت آتی ہے، جس کا بارہا ذکر ہوچکا ہے، آپ محولۂ بالا آیاتِ کریمہ کو ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیں تاکہ ان شاء اللہ تاویل کے لئے تیاری ہو سکے۔

آپ واقعاتِ قیامت سے ضرور ڈرتے رہیں، ساتھ ہی ساتھ اللہ پر حسنِ ظن بھی رکھیں، یہ حسنِ ظن اللہ کا لطفِ عمیم ہے، تاہم آپ علم و حکمت کے لئے سعئ بلیغ کرتے رہیں، آمین ! ثم آمین!

۱۷۷

جار جلوۂ اوّل غنملو زلزلہ ئیڎم = یعنی مجھے دیدارِ اوّل کے موقع پر معجزۂ زلزلہ ہوا تھا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۱۴ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۷۸

کنز الاسرار ۔ قسط۹۱

سوالِ معظمِ سری برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا: کہ “مومن کی روح ہماری روح ہے” یعنی مومن کی حقیقی روح = روحِ علوی (کلامِ امامِ مبین حصّۂ اوّل، راجکوٹ، ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء) یہ سرِّ اعظم حظیرۂ قدس کی جنّت کے اسرار میں سے ہے۔

امامِ عالی مقام کا یہ فرمانِ اقدس جوہرِ قرآن میں سے ہے، لہٰذا ہم آپ کو قرآنِ حکیم کی کئی آیاتِ کریمہ میں اس فرمانِ پاک کی حقیقت دکھا سکتے ہیں، مثلاً: (۱۷: ۸۵) مفہوم: روح کا بالائی سرا ہمیشہ میرے ربّ کے کلمۂ کُنۡ (ہو جا) میں ہے۔ اور کلمۂ کُنۡ حقیقی بہشت ہے جس میں بہشت کے عام تصوّر سے بڑھ کر نعمتیں ہیں، اور وہاں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، اس حقیقتِ حال میں مومن کی روح امام میں فنا ہو کر امام کی ہو سکتی ہے۔

سورۂ تین (۹۵: ۰۱ تا ۰۸) میں اسرارِ روح کا ایک بھرا ہوا خزانہ موجود ہے، تاویلی مفہوم: یہاں اسرارِ عظیم ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے چار اصول کی قسم کھائی ہے، وہ اصول عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس ہیں، پھر جوابِ قسم

 

۱۷۹

 

میں انسان کی روحانی تخلیق و تکمیل اور سلامتی کی سیڑھی پر ہمیشہ عروج و نزول کا ذکر فرمایا ہے، ان بھیدوں کو سمجھنے کے لئے کامل معرفت کی ضرورت ہے۔

اللھم انی اسئلک باسمائک الحسنیٰ = اے اللہ میں تیرے اسماءُ الحسنیٰ کی حرمت سے سوال کرتا ہوں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۱۵ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۰

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۲

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام، اور حظیرۂ قدس: سنتِ الٰہی کے مطابق امامِ زمان علیہ السّلام نے آدم کو اسمِ اعظم کا ذکر سکھا دیا تھا، جس میں اس نے بہت خوب سعئ بلیغ کی، جس کے نتیجے میں بذریعۂ روحانی قیامت آدم میں خدائی = الٰہی روح پھونک دی گئی، اور آدم صورتِ رحمان پر پیدا ہوا، پھر سوائے ابلیس کے کل فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوّا یعنی عقل اور روح کو اسی حظیرۂ قدس کی جنّت میں ٹھہرایا، لیکن آدم و حوّا نے شجرۂ ممنوعہ سے پھل کھایا، جس کی وجہ سے وہ دونوں اور ان کے تمام ساتھی اس تجرباتی اور عرفانی جنّت سے نیچے آئے، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۰۲: ۳۸) کا ارشاد ہے: قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِیْعًاۚ ۔ ترجمہ: ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔

حضرتِ ادریس علیہ السّلام کے حظیرۂ قدس میں داخل ہو جانے کا ذکر اس طرح ہے: (۱۹: ۵۶ تا ۵۷) وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِدْرِیْسَ٘-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا  وَّ رَفَعْنٰهُ مَكَانًا عَلِیًّا۔ ترجمہ: اور اپنی

 

۱۸۱

 

روحانیّت و نورانیّت کی کتاب میں ادریس کو یاد کرو کہ وہ صدیق (امام) اور نبی تھا، اور ہم نے اسے بلند مقام (حظیرۂ قدس) پر مرفوع کیا تھا۔

قصّۂ نوح کے تاویلی اشارے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرتِ نوحؑ کی روحانی قیامت کا طوفان حظیرۂ قدس میں جا کر تھم گیا تھا جہاں کوہِ جودی = کوہِ عقل (۱۱: ۴۴) موجود ہے، اسی سورہ یعنی سورۂ ھود کے ارشاد (۱۱: ۴۸) کو غور سے پڑھیں، حکم ہوا کہ: اے نوح اتر جا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل، ۱۶، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۲

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۳

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

حجتِ قائم صلوات اللہ علیہما کے پاک ارشادات اسرارِ معرفت سے لبریز ہیں، قرآنِ ناطق = امامِ مبین علیہ السّلام کے ان نورانی ارشادات میں اسمِ اعظم کی تعریف ہے اور بار بار یہ فرمایا گیا ہے کہ تم بذریعۂ خصوصی عبادت موت قبل از موت کا تجربہ کرو، یعنی معجزانہ موت سے مر کر بہشت کی معرفت کو حاصل کرو، تم آخرت اور بہشت کا مشاہدہ کر سکتے ہو، تم اس دنیا ہی میں عرشِ عظیم کو بھی دیکھ سکتے ہو، تم امامِ زمان علیہ السّلام کے باطنی معجزات کو دیکھ سکتے ہو، تم فنا فی اللہ ہو سکتے ہو، جو تاویلاً فنا فی الامام ہی ہے، تو پھر کون سا روحانی معجزہ ناممکن ہے؟

قرآنِ حکیم میں آنحضرتؐ کے اسوۂ حسنہ (بہترین نمونہ) کا ذکر ہے: (۳۳: ۲۱) اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے اسوۂ حسنہ کا بھی (۶۰: ۰۴)۔

اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السّلام کو جتنے باطنی عظیم معجزات دیئے تھے وہ سب کے سب صراطِ مستقیم پر تازہ بتازہ

 

۱۸۳

 

نو بنو محفوظ و موجود ہیں، صراطِ مستقیم اللہ کا سیدھا راستہ دراصل امامِ زمانؑ ہی ہے اور آپ خدا کے حکم سے ہمیشہ صراطِ مستقیم پر چلنے کے لئے اللہ سے توفیق و ہمت طلب کرتے رہتے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، ۱۷ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۴

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۴

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے ابنِ عباس کے لئے دعا کی تھی کہ “اللھم فقھہ فی الدین و علمہ التاویل” یعنی بارِ الٰہا تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور تاویل کا علم مرحمت کر۔ الاتقان حصّۂ دوم نوع اٹھتر (۷۸)۔

اس سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اگرچہ علمِ تاویل سخت مشکل ہے، لیکن غیر ممکن ہرگز نہیں، کیونکہ تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے، اور تیسرا نام معرفت ہے، اور یقین بھی اسی تاویل ہی کا نام ہے جو علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین کے تین درجوں میں ہے۔

امامِ زمانؑ = مؤول = صاحبِّ تاویل یعنی تاویلی جنگ کا سردار ہے اور آپ اور ہم سب تاویلی جنگ کے لشکر میں شامل ہیں، اور اس میں نمایان طور پر کام کرنے کی شرط یہ ہے کہ تم امامِ زمانؑ سے اسمِ اعظم اور پاک دعا حاصل کر کے خصوصی عبادت اور سخت ریاضت کرو، تاکہ تم روحانی قیامت کی سختی کو برداشت کر سکو، اگر آپ نے علم و عمل کے ساتھ امامِ زمانؑ کے پاک

 

۱۸۵

 

عشق میں ترقی کی اور ہر تکلیف امامِ آلِ محمدؐ کی خوشنودی کی خاطر برداشت کی تو ممکن ہے کہ آپ پر روحانی قیامت آئے اور آپ تجرباتی اور عرفانی طور پر امام میں فنا ہو جائیں، یہ فنا صرف تجربہ اور معرفت ہی کے لئے ہے، یاد رہے کہ ہر نبی، ہر ولی، اور ہر عارف زندگی ہی میں روحانی قیامت سے گزرتا ہے، ہر عارف روحانی قیامت کے ذریعے سے امامِ زمانؑ میں فنا ہوکر معرفت = حکمت اور تاویل کے خزانوں کو حاصل کرتا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۱۸ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۶

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۵

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ نحل (۱۶: ۸۹) میں ارشاد ہے: و یوم نبعث فی کل امۃ شھیدا علیہم من انفسھم و جئنابک شھیدا علیٰ ھولاء و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین۔

ترجمۂ ظاہر: (اے نبیؐ، انہیں اس دن سے خبردار کر دو) جب کہ ہم ہر امت میں خود اسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اس کے مقابلہ میں شہادت دے گا، اور ان لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لئے ہم تمہیں لائیں گے۔ (اور یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے (یعنی ظاہراً کتابِ صامت، اور باطناً کتابِ ناطق) (۲۳: ۶۲ / ۴۵: ۲۹) یعنی أئمّۂ آلِ محمد جو خدا اور رسول کی طرف سے ہر زمانے کے لوگوں پر گواہ ہیں، جبکہ قانونِ قرآن یہی کہتا ہے، دیکھو: (۰۲: ۱۴۳) امۃ وسطا (۲۲: ۷۸) ھو اجتبٰکم (۱۳: ۴۳) من عندہ علم الکتٰب۔

سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۵) ترجمہ: اور اے نبی، ان لوگوں سے کہہ دو

 

۱۸۷

 

کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین تمہارے اعمال نامہ کو دیکھیں گے۔

امام محمد باقر علیہ السّلام نے فرمایا کہ اے سائل اس آیت میں اللہ و رسول کے بعد جن مومنین کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ وہ قیامت کے دن مومنوں کا اعمال نامہ دیکھیں گے، ان مومنین سے ہم مراد ہیں۔ بحوالۂ کتاب دعائم الاسلام۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ، ۱۹ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۸۸

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۶

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۹) میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ۔ ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرتے رہو، اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ امام محمد باقر علیہ السّلام نے فرمایا کہ اے سائل اس آیتِ کریمہ میں صادقین سے ہم مراد ہیں۔ بحوالۂ کتابِ دعائم: کتاب الولایۃ۔

جس طرح أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کا ایک وصفی نام صادقین ہے (۰۹: ۱۱۹) اسی طرح ان کا ایک مبارک نام امۃ وسطا = عادل امت = جماعت ہے (۰۲: ۱۴۳) اسی آیت کے بموجب حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام لوگوں پر گواہ بھی ہیں، نیز اسی آیۂ کریمہ میں یہ ذکر بھی ہے کہ رسول أئمّہ پر شہید = حاضر = گواہ ہے، یعنی رسول کا نور امام کے نور کے ساتھ ہے، أئمّہ کا ایک پاک و پُرحکمت نام مومنون بھی ہے (۰۹: ۱۰۵)۔

حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام خانۂ کعبہ کی تعمیر کے دوران جو دعا کر رہے تھے اس میں یہ مبارک الفاظ بھی ہیں: و من ذریتنا

 

۱۸۹

 

امۃ مسلمۃ لک۔ اگر آپ بحقیقت عاشقِ مولا ہیں تو مولا کے قرآنی ناموں کو بھول نہ جانا کہ یہ مبارک نام (امۃ مسلمۃ) محمد و آلِ محمدؐ ہی کے لئے خاص ہے، کیونکہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السّلام کی ذرّیت ان کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا ہے۔ (۰۲: ۱۲۷ تا ۱۲۹) ، اولی الامر منکم = تم میں جو اللہ کے امر والے ہیں۔ (۰۴: ۵۹) امام محمد باقر علیہ السّلام سے منقول ہے کہ اس آیت سے خاص طور پر ہم مراد لئے گئے ہیں۔

اہل الذکر (۱۶: ۴۳) اور العٰلمون (۲۹: ۴۳) أئمّۂ آلِ محمدؐ ہیں، جو تمام امثالِ قرآن کو جانتے ہیں، اہل البیت = اہلِ کساء (پنجتنِ پاک) (۳۳: ۳۳) کی شان میں جو آیتِ کریمہ ہے اس کی نورانی معرفت کو سمجھنے کے لئے سعئ بلیغ کرنا۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۲۰ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۰

 

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۷

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۲۷ تا ۱۲۹) کے ترجمۂ ظاہر کے ساتھ حکمتِ باطن کو بھی سمجھنے کے لئے کوشش کریں، حضرتِ ابراہیم ناطق اور حضرتِ اسماعیل اساس علیہما السّلام کعبۂ ظاہر اور کعبۂ باطن کی تعمیر کے دوران دعا کرتے جاتے تھے جس میں چند خاص الخاص اسرارِ معرفت ہیں: ۔۔۔۔ کہ اے ہمارے ربّ ہم دونوں کو درجۂ حظیرۂ قدس میں اپنی انا تیرے سپرد کر دینے والے بنا، تاکہ ہم تجھ میں فنا ہو جائیں۔ لفظی معنی کے لئے کوئی مستند عربی لغات دیکھئے: مثلاً لغات القرآن نعمانی۔ جلدِ سوم ، ص ۲۲۵ پر آخری سطر میں لفظِ سلم کے تحت۔

اللہ تعالیٰ ہی انسانانِ کامل کو کنزِ معرفت عطا کر دینے کے لئے حظیرۂ قدس کی بہشت میں داخل کر دیتا ہے، تاکہ وہ وہاں اپنا چہرۂ جان = انائے علوی اللہ کے سپرد کر دیں، یہ ایک انتہائی اعلیٰ اور پر اسرار مثال ہے، پھر ایسے میں اللہ جلّ جلالہ، ہر انسانِ کامل کو اس کے باپ آدم کی طرح صورتِ رحمان پر پیدا کرتا ہے، اور یہی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا سب سے بڑا راز ہے۔

۱۹۱

جب تک کوئی مترجم اور مفسر نورِ قرآن اور نورِ اسلام سے واقف و آگاہ نہ ہو تب تک اس کو اسرارِ قرآن کے سمجھنے میں بے شمار مشکلات ہو سکتی ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اتوار ، ۲۱ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۲

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۸

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ انعام (۰۶: ۷۴ تا ۷۹) میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے روحانی معجزات کا تذکرہ ہے اور اس کے آخر (۰۶: ۷۹) میں یہ تاویلی مفہوم ہے: یقیناً میں نے اپنا چہرۂ روح خالقِ کائنات کے لئے خاص کر دیا تاکہ میں فنا فی اللہ ہو کر خدا کا عارف اور حقیقی موحد ہو سکوں۔

مسئلۃ: آیا قرآنِ حکیم کے متعدد کلمات و الفاظ میں فنا فی اللہ کا اشارہ موجود ہے؟

جواب: جی ہاں! لقاء اللہ (خدا کی ملاقات) جیسے الفاظ میں، کیونکہ اللہ کی ملاقات یا دیدار میں فنا فی اللہ کا اشارہ ہے، اور رجوع کے معنی والے الفاظ میں بھی یہی حقیقت ہے۔

سورۂ لقمان (۳۱: ۲۲) : وَ مَنْ یُّسْلِمْ وَجْهَهٗۤ اِلَى اللّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰىؕ = تاویلی مفہوم: اور جس نے اپنا چہرۂ جان اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا اور وہ نیکوکار بھی ہو، پس یقیناً اس نے بڑی مضبوط رسی کو محکم پکڑا۔

۱۹۳

سورۂ نساء (۰۴: ۱۲۵) : وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ ۔۔۔ تاویلی مفہوم : اور دین میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا چہرۂ روح = جان کو اللہ کے سپرد کر دیا اور وہ نیکوکار بھی ہے، اور اس نے ملتِ ابراہیمی کی پیروی کی، جو مثالی موحد تھا، اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو دوست بنا لیا تھا۔

اسلام در حقیقت اپنے جوہر میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی ملت ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۲ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۴

کنز الاسرار ۔ قسط ۹۹

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مکنونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۱) میں ارشاد ہے: وَ مِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ یَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِهٖ یَعْدِلُوْنَ ۔ ترجمہ: اور جن کو ہم نے پیدا کیا ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے، جو حق کے ساتھ ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے مطابق عدل کرتے ہیں۔ یہ امت ائمۂ آلِ محمد ہیں، جیسے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کی دعا میں اس امت = جماعت کا ذکر ہے (۰۲: ۱۲۷ تا ۱۲۹)۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ (ارواحنا فداہ) نے فرمایا: اگر دینی علم کی کتابیں پڑھ کر ان پر عمل کرو گے تو عرش تک جا پہنچو گے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ اول، کچھ مندرا، ۲۸۔۱۱۔۱۹۰۳ء)

جنہیں (حقیقی) علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا انہیں روحانی معاملات میں اپنی طرح کرنے کی کوشش کرو۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل، راجکوٹ، ۲۰۔۱۲۔۱۹۱۰ء)۔

تم پر لازم ہے کہ اپنے بچوں کو تعلیم دو، اگر تمہیں قرآنِ شریف سیکھنے

 

۱۹۵

 

کی خواہش ہو تو اس کے حقیقی معنی جاننے والوں کے شاگرد بنو، اس طرح تمہیں اس کے حقیقی معنی معلوم ہوں گے، تم خوجوں کو دین کی بہت سی کتابوں کی خبر نہیں لے اسی لئے زیادہ تر لوگوں نے ایسی کتابوں کا مطالعہ نہیں کیا، ایسی کتب پڑھو گے تو تمہیں سمجھ آئے گی اور تم میں خرابی نہیں رہے گی، ان کتابوں کے پڑھنے سے تمہاری عقل گواہی دے گی کہ تمہارا دین سچا ہے، اس کا تمہیں پتہ چلے گا۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ اول، زنجبار، ۱۴۔۹۔۱۸۹۹ء)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۶

کنز الاسرار ۔ قسط ۱۰۰

سوالِ معظمِ عرفانی برائے اضافۂ علمِ مخزونِ عزیزانِ روحانی سلّٰمُھُمُ اللہ تعالیٰ!

اے میرے عزیزانِ علمی! میں آپ سے یہ پُرخلوص سوال کرنا چاہتا ہوں جو میرے نزدیک بے حد ضروری ہے کہ سورۂ یٰسٓ جو قلبِ قرآن ہے اس کے اس نام میں اصل راز کیا ہے؟ جواب: اس کا اصل راز امامِ مبین ہے (۳۶: ۱۲) کیونکہ قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام اور قرآنِ صامت ہے، اور امامِ مبین اللہ کا پاک نور اور قرآنِ ناطق ہے، پس قرآن کا نورانی دل امامِ مبین میں ہے جبکہ قرآن اور امامِ مبین یقیناً ایک ہیں، پھر قرآن کا دھڑکنے والا دل امامِ مبینؑ میں ہے، چنانچہ اہلِ معرفت نے قرآن کے نورانی معجزات کو امامِ مبین کے نور میں دیکھا ہے، جبکہ امامِ زمانؑ کا نور روحانی قیامت کی صورت میں عالمِ شخصی پر طلوع ہو جاتا ہے۔

جس طرح ظاہر میں آفتابِ عالم تاب دنیا کی آبادی اور مادّی فیوض و برکات کا کبھی ختم نہ ہونے والا سرچشمہ ہے، اسی طرح ہر ہر عالمِ شخصی کی باطنی اور روحانی آبادی اور پرورش امامِ زمانؑ کے نور سے ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ جلّ جلالہ ہر روحانی قیامت میں ستر ہزار اعلیٰ ایمانی روحوں پر امامِ

 

۱۹۷

 

زمانؑ کا نور ڈال کر ان کو ایسے فرشتے بناتا ہے کہ ہر فرشتہ اپنے باطن میں ایک کائناتی بہشت اور ایک بہشتی خلافت و سلطنت رکھتا ہے۔

قرآنِ حکیم میں دیکھو: ۲۴: ۵۵، ۰۶: ۱۶۵۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۲۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۱۹۸

درِ مکنون ظہیر کے بہت ہی پیارے نام پر ایک نامۂ کارنامہ

ہم سب کو خصوصی دعاؤں کے ساتھ کہنا چاہئے کہ چشمِ بد دور! چشمِ بد دور!

اس چھوٹی سی عمر میں یہ حیران کن کارنامہ دراصل قرآنی برکات و معجزات میں سے ہے، میرا عقیدہ یہ ہے کہ درِ مکنون کے پیارے نام میں دو دفعہ جوہرِ قرآن = نورِ قرآن کا ذکر ہے، اور یہی امامِ زمانؑ کا نور بھی ہے، قرآنِ حکیم کے ناموں میں سے ایک نام مبارک ہے، یعنی گوناگون برکتوں والی کتاب۔

گوناگون برکتوں والی کتاب = قرآن (۰۶: ۹۲)، (۰۶: ۱۵۵)، (۲۱: ۵۰)، (۳۸: ۲۹)۔

ہم درِّ مکنون ظہیر کی اس کامیابی پر سب سے پہلے مرکزِ علم و حکمت لندن کو جان و دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں، اور ان کے نیک بخت والدین کو بھی جو ہائی ایجوکیٹرز ہیں، نیز تمام لٹل اینجلز کو بھی کہ یہاں ان کی بڑی کامیاب نمائندگی ہوئی۔

مرکزِ علم و حکمت لندن کی کیا تعریف ہو سکتی ہے کیونکہ اس کے زندہ پھول اور پھل بہت زیادہ ہیں اور امریکا میں بھی لٹل اینجلز کے باغاتِ بہشت

 

۱۹۹

 

ہیں، وہاں جو کوشش کرتے ہیں ان سب پر مولائے پاک کی نظرِ رحمت ہے اور غلام قادر بیگ کی کوششوں پر بھی۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۱۳ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۰

فرمانِ مبارک اور نورانی بدن = جسمِ لطیف

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ: تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤ گے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل۔ منجیوڑی ۔ ۲۸۔۱۲۔۱۸۹۳ء)۔

اگر دینی علم کی کتابیں پڑھ کر ان پر عمل کرو گے تو عرش تک جا پہنچو گے۔ (کلامِ امامِ مبین ، حصّۂ اوّل۔ کچھ مندرا۔ ۲۸۔۱۱۔۱۹۰۳ء)۔

لغات الحدیث کتاب “ق” میں ہے: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا۔ یعنی مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا، (صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا قالب کثیف تھا وہ لطیف اور نورانی ہوتا ہے) ہزار حکمت (ح ۶۷۲) میں بھی دیکھیں۔

تمہارے دل میں خداوندِ تعالیٰ کا نور ہے، اگر دین پر سچے دل سے چلو گے تو یہ نور ظاہر ہو گا۔ (کلامِ امامِ مبین، حصۂ اول۔ جامنگر۔ ۹۔۴۔۱۹۰۰ء)۔

“مومن کی روح ہماری روح ہے۔” (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل۔ راجکوٹ۔ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰ء)۔

اس فرمانِ عالی میں عجیب و غریب اسرارِ روحانی مخفی ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۲۵ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۱

مخمس

شلگویو مرکان منݽ           عشقے فرشتان منݽ
نورہ قصیدان منݽ             ہیرچمے سجدان منݽ
میغمہ میون دوݷ سن (دو بار)

ݼن کݽے ایمان منݽ                میس شلے دنیان منݽ
رازݣہ قرآن منݽ               قائمے پہچان منݽ
میغمہ میون دوݷ سن (دو بار)

ذکرِ خدا میرشچن                حمد و ثنا میرشچن
تھلا تھلا میرشچن               عشقے فنا میرشچن
میغمہ میون دوݷ سن (دو بار)
عشقِ علی جنتن                  کھوت بہ اکھیݽ راحتن
اودکھرس دولتن                  عقلے ایم عزتن
میغمہ میون دوݷ سن (دو بار)

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ، ۲۵ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۲

بروشسکی جدید مخمس کا ترجمہ
فرمائش منجانب عزیزانِ غربی

۱۔ آرزوئے جان و دل تو یہ ہے کہ حقیقی محبت والوں کی ایک محفل قائم ہو، جس میں لشکرِ اسرافیلی کا کوئی فرشتۂ عشق ہو، اور قصیدہ امامِ زمانؑ کے نور کی تعریف میں ہو، جس کے زیرِ اثر عشاق کو خوب رونا آئے، اور روتے ہوئے عاشقانہ سجدے ہوں،
زہے خوش بختی ہم سب کا عشقِ مولا میں پگھل جانا۔

۲۔ حقیقی ایمان ہو، دل حبِّ مولا کا ایک عالم ہو، اسرارِ قرآن سے وابستگی نصیب ہو، اور سب سے بڑی آرزو تو یہ ہے کہ حضرتِ قائمؑ کی پاک معرفت حاصل ہو!
زہے نصیب ہم سب پگھل جائیں گے۔

۳۔ ذکرِ الٰہی کی شرابِ طہور سے ہم مست ہو جائیں گے، اور حمد و ثنا سے ہم مست ہو جائیں گے، ہم ضرور رفتہ رفتہ مست ہو جائیں گے۔
زہے خوشی ہم سب پگھل جائیں گے۔

۴۔ عشقِ علی ایک روحانی بہشت ہے، یہ کیسی عجیب و غریب باطنی راحت ہے، یہ دولت ایسی ہے جو کبھی کم نہیں ہوگی، یہ عقل کی سب سے

 

۲۰۳

 

بڑی عزت ہے۔
زہے نیک بختی ہم سب پگھل جائیں گے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۹ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۴

دورِ قیامت = دورِ تاویل = دورِ کشف

سورۂ قدر (۹۷: ۰۱) اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ۔ تاویلی مفہوم: ہم نے نورِ قائم کو اس کے باپ حجت میں نازل کیا تاکہ جس طرح رات چیزوں کو چھپا لیتی ہے، اسی طرح شبِ قدر = حجتِ قائمؑ اپنے فرزند = قائمؑ کو چھپائے، تاکہ شبِ قدر (حجتِ قائمؑ) اور حضرتِ قائمؑ کی پُرازحکمت معرفت پر لوگوں سے خوب امتحان لیا جائے، جس طرح اسمِ اعظم کی معرفت پر لوگوں سے سخت امتحان ہے، حالانکہ وہ قرآنِ پاک میں موجود ہے، اور قرآن خوان حضرات اس کو پڑھ کر گزرتے ہیں، لیکن اسمِ اعظم کے خزانہ دار کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے اسمِ اعظم کی معرفت ناممکن ہو جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۂ بلد (۹۰) میں حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائم علیہما السّلام کی قسم کھائی ہے، کتابِ وجہِ دین کلام: ۳۳ کے آخر میں ہے: کہ قائم کو کوئی شخص نہ پہچان سکے گا، مگر پانچ حدود کے ذریعے سے، وہ یہ ہیں: اساس، امام، باب، حجت، داعی۔

وجہِ دین کے آخر میں حدودِ دین کا انڈیکس ہے اس کی مدد سے کتاب میں دیکھ لیں کہ حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائم سلام اللہ علیہما کے بارے میں کیا کیا اسرارِ معرفت درج ہوئے ہیں، اگر سچ مچ عصرِ حاضر دورِ قیامت = دورِ تاویل =

 

۲۰۵

 

دورِ کشف ہے تو ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر عقل مندی سے سوچنا اور کچھ کرنا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ حجتِ قائمؑ اور حضرتِ قائمؑ اپنے انتہائی عظیم معجزات کو ختم کرلیں اور ہمیں کچھ خبر نہ ہو، اس لئے کہ ہم کو مولا کے عشق اور معرفت کا کوئی غم نہ تھا، ہم کو حیوان کی طرح صرف کھانے پینے اور سونے کا غم تھا۔

اے دلِ نادان! اے دلِ حیوان! بیدار ہوجا! ہشیار ہوجا! حجتِ قائم اور قائم کو کم از کم علم الیقین سے پہچان لے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۲۷ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۶

رفیع الشّان ارشادات

حجتِ قائم کے وہ عالی قدر ارشادات ، جن میں کنوز الاسرار کی کلیدیں مخفی ہیں:

تم نورانی بدن کے ساتھ بہشت میں جاؤگے ۔ آپ سب اس فرمانِ پاک کو حفظ کر کے اس سے عالمانہ اور حکیمانہ فائدہ اٹھائیں اور فائدہ دلائیں، اسی مقصد کے پیشِ نظر مولا کے حکمت سے لبریز ارشادات بار بار لکھے جاتے ہیں۔

تم عرشِ عظیم پر پہنچو، عرشِ عظیم پر پہنچنے کے لئے پاک ہونا ضروری ہے، اس لئے تم اپنا دل ہمیشہ پاک رکھو، اگر تمہارا دل پاک ہو گا تو اس دنیا میں ہی عرشِ عظیم دیکھ سکو گے، یہ بہت دور نہیں ہے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل، منجیوڑی، ۳۔۱۱۔۱۹۰۳ء)۔

پاک بنو تو اس دنیا میں ہی بہشت ملے گی، اس دنیا میں بہشت حاصل کرنے میں بڑا فائدہ ہے، مگر دنیا میں رہ کر اس زندگی میں بہشت حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ اوّل، کچھ مندرا، ۲۵۔۱۱۔۱۹۰۳ء)۔

وارث محمد رحیمو نے ہماری بہت خدمت کی ہے، ان کی مثال اہلِ بیت کے ممبر کی سی ہے جس طرح وزیر بصریا اور وزیر رحیم بصریا اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ (کلامِ امامِ مبین، حصّۂ دوم، کراچی، ۲۶ جنوری ۱۹۳۸ء)۔

۲۰۷

تم ہماری روحانی اولاد ہو، اور یاد رکھنا کہ: “روح ایک ہی ہے۔”

اس پاک فرمان میں ایک انتہائی عظیم انقلابی حکمت پوشیدہ ہے، وہ البتہ یک حقیقت ہو سکتی ہے، مولا ہمیشہ فنا فی الامام ہونے کی تعلیم اور ہمت دیتے ہیں، اور مولا کا یہ فرمانا کہ “مومن کی روح ہماری روح ہے۔”  کیا یہ کوئی عام بات ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ مونوریالٹی = یک حقیقت کا بڑا انقلابی تصوّر ہے، فنا فی الامام کا مرتبہ ہی فنا فی اللہ ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
سنیچر ، ۲۷ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۰۸

 

امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ کی جبینِ مبارک میں نور اور بہشت

سورۂ یٰسٓ (۳۶: ۱۲) میں ارشاد ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ = ہر چیز = تمام چیزوں کو ہم نے امامِ مبین میں گھیر کر اور گن کر رکھا ہے۔

اس آیۂ شریفہ کا ایک نام کلیۂ امامِ مبین ہے، اس کی اصل تفسیر و تاویل روحانی قیامت اور فنا فی الامام کے عظیم معجزات میں ہے، جب امامِ مبینؑ میں خدا کی خدائی = بادشاہی کا سب کچھ ہے، تو فنا فی الامام میں سب کچھ ہے، اوّل اوّل اس اسمِ اعظم میں بحدِّ قوّت سب کچھ موجود ہے، جو خود امامؑ عطا کرتا ہے، پھر آغازِ قیامت کے ساتھ ناقور (صور) میں سب کچھ ہے، کیونکہ مولا کا نور ناقور ہے، اور ناقور ہی میں آ کر ہر چیز حمد کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتی ہے (۱۷: ۴۴) اور عالمِ ذرّ میں سب کچھ ہے، کیونکہ اس وقت عالمِ ذرّ کا ظہور ہوتا ہے، اور کائنات میں سب کچھ ہے، جبکہ وہ عالمِ شخصی میں مرکوز و محدود ہو جاتی ہے۔

یہ تمام معجزات امامِ مبینؑ کے ایسے خوش نصیب مرید دیکھتے ہیں جو امامِ زمانؑ کے نور میں فنا ہو چکے ہیں، بالآخر حظیرۂ قدس کے معجزات کا آغاز

 

۲۰۹

 

ہوتا ہے، اور وہ معجزات انتہائی عالی شان اور سب سے عظیم ہیں، یہ عالمِ شخصی کا آسمان ہے، عرش = بہشت، اور اس کے بہت سے نام ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
پیر ، ۲۹ ، اپریل ۲۰۰۲ء

۲۱۰

فنا فی الامام کے اسرارِ عظیم

سورۂ شوریٰ (۴۲: ۱۱) میں ارشاد ہے: لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ۔

تاویلی مفہوم: اس کے مثل (امامِ مبین ) کے مشابہ کوئی چیز نہیں ہے، وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

یہ حدیثِ قدسی شاید آپ سب کو معلوم ہے، جو اس طرح شروع ہوتی ہے: کہ اے ابنِ آدم میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بناؤں گا۔ یہ حدیثِ قدسی حکیم پیر ناصر خسرو کی شہرۂ آفاق کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳ پر ہے اور اربعہ رسائل اسماعیلیہ کے ص ۱۵ پر ہے۔

اس سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنی سنتِ قدیم کے مطابق (جس میں کوئی تبدیلی نہیں) ہر زمانے کے لوگوں کے لئے اپنی مثل (امامِ زمانؑ) مقرر کرتا ہے، جو آیۂ مذکورۂ بالا کے مطابق اپنے وقت میں یگانہ اور بے مثال ہوتا ہے، اور یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ اس حدیثِ قدسی کا خطاب آدمِ زمانؑ = امامِ زمانؑ کے ہر روحانی فرزند سے ہے تاکہ وہ حقیقی اور کلی اطاعت سے فنا فی الامام ہو جائے، تاکہ اس حدیثِ قدسی میں جو کچھ وعدۂ الٰہی ہے، وہ اس کے حق میں پورا ہوگا۔

۲۱۱

فنا فی الامام کے اسرارِ عظیم بے شمار اور بے پایان ہیں، مختصر یہ کہ فنا فی الامام فنا فی الاسمِ اعظم بھی ہے، فنا فی القرآن بھی، فنا فی الرسول بھی ہے، اور فنا فی اللہ بھی ہے۔

فنا فی اللہ کا نتیجہ بقاء باللہ ہے، چنانچہ صوفیوں کی ساری اصطلاحیں ان دو جامع اصطلاحوں میں جمع ہو جاتی ہیں، پہلی اصطلاح ہے: سیر الی اللہ یعنی خدا کی طرف چلنا، اس میں اسلام کے سارے اعمال آجاتے ہیں اور دوسری اصطلاح ہے: سیر فی اللہ یعنی خدا میں چلنا، اور اس کا ایک اشارہ امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے فرمان میں ملتا ہے، کہتے ہیں کہ ہم خدا میں حرکت کرتے ہیں یعنی خدا میں چلتے ہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ، ۳۰ ، اپریل ۲۰۰۲ء

 

۲۱۲

 

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۳۵:۲۴) کی آخری تاویل عالمِ شخصی میں ہے

اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵) کی آخری تاویل عالمِ شخصی میں ہے، کیونکہ جب امامِ زمانؑ کا نور (جو خدا کا نور ہے) عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے، تو حقیقتِ حال بالکل وہی ہوتی ہے جیسی اس آیۂ کریمہ میں ہے۔

اللہ (ہمیشہ) آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں روشن چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو، جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ روشن ہوتا ہو، چاہے آگ اس کو نہ لگے۔

اے عزیزان ہمیں ناشکری سے بار بار ڈر کر گریہ و زاری کا سہارا لینا ہے کیونکہ اس رفیع الشان آیت کی پُراز اسرار تاویل ایک محتاط طریقے سے آپ کو بتائی ہوئی ہے، کیا آپ نے گوہرِعقل اور کتابِ مکنون کے کچھ اسرار کو نہیں سنا ہے؟ اگر چراغِ روشن سے گوہرِعقل مراد ہے یا کتابِ مکنون، تو طاق کیا ہے؟ کیا درختِ زیتون نفسِ کلّی ہے؟ کیا ایک نہایت اعلیٰ چیز کی چند مثالیں ہو سکتی

 

۲۱۳

 

ہیں؟ جیسے گوہرِعقل = روشن چراغ = فانوس = کوکبِ درّی = کتابِ مکنون = نور = سورج = چاند = نجم = نجوم وغیرہ وغیرہ، طاق کی تاویل کے بارے میں آپ سے عہد لیا ہے کہ اس کو عام نہیں کرنا ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ، یکم ، مئی ۲۰۰۲ء

۲۱۴

فنا فی الامام کے عظیم معجزات و اسرار

سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۹) میں ارشادِ خداوندی ہے: وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ ترجمہ: جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے (نورانی) راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ کا ارشاد ہے: المجاہد من جاہد نفسہ فی اللہ۔ یعنی مجاہد وہ شخص ہے جس نے اللہ کی راہ میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔

ایک دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: رجعنا من الجھاد الاصغر الی الجہاد الاکبر = ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ صحابۂ کبار نے پوچھا: حضور! جہادِ اکبر کیا چیز ہے؟ فرمایا: الا و ھی مجاھدۃ النفس = اچھی طرح سن لو! جہادِ اکبر مجاہدۂ نفس ہے ۔ (بحوالۂ کشف المحجوب ص ۳۹۷)۔

جہادِ اکبر میں کامیابی کے لئے اسمِ اعظم کا وسیلہ بے حد ضروری ہے اور وہ پاک و پاکیزہ اور عظیم معجزاتی اسم صرف امامِ زمانؑ ہی عطا کر سکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم خود امامِ آلِ محمدؐ ہی ہے، اللہ تعالیٰ کے زندہ اسمِ اعظم کے اصولی ذکر سے روحانی قیامت برپا ہوتی ہے، جس میں بے شمار

 

۲۱۵

 

معجزات اور اسرارِ معرفت ہیں۔

آپ سب آدمِ زمانؑ کے فرزندانِ روحانی ہیں، لہٰذا حدیثِ قدسی میں اللہ آپ ہی سے فرماتا ہے کہ میری حقیقی اور کلی اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بناؤں گا۔ کیا یہ امر (کام) ممکن ہے یا ناممکن؟

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ۲ ، مئی ۲۰۰۲ء

۲۱۶

حدیثِ قدسی میں عاشقانِ نور کے لئے فنا فی الامام کی اشارت و بشارت

یابن آدم اطعنی اجعلک مثلی حیا لا تموت و عزیزا لا تذل و غنیا لا تفتقر۔ یعنی اے آدمِ زمان کا فرزندِ روحانی! میری حقیقی اور کلّی اطاعت کر، تاکہ میں تجھ کو اپنی مثل بنا دوں گا، ایسا زندہ کہ تو کبھی نہ مرے، اور ایسا عزت والا کہ کبھی ذلیل نہ ہو، اور ایسا غنی کہ کبھی مفلس نہ ہو۔ اور عاشقانِ نور کے لئے یہ ازلی و ابدی سعادت، صرف فنا فی الامام ہی کے ذریعے سے ممکن ہے، اس حدیثِ قدسی کا حوالہ ہے: کتاب زاد المسافرین ص ۱۸۳۔ نیز اربع رسائل اسماعیلیۃ ص ۱۵۔

یقیناً میرا کوئی بھی مقالہ کسی سے بحث و مناظرہ کی غرض سے ہرگز نہیں نہ اپنی جماعت میں اور نہ جماعت سے باہر، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ائمّۂ آلِ محمد (صلوات اللہ علیہ و علیہم) نے جس طرح مجھ پر روحانی قیامت برپا کر دی، اور جیسے بے شمار معجزات دکھائے ان کا تذکرہ بقدرِ امکان صرف اپنے شاگردوں ہی کے لئے کرتا ہوں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ (روحی فداہ) کے عہدِ امامت میں ایک بہت بڑی روحانی قیامت برپا ہوئی ہو، جس کی وجہ سے یہ زمانہ دورِ قیامت = دورِ تاویل = دورِ روحانی اور دورِ

 

۲۱۷

 

کشف ہو۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعہ ۳ ، مئی ۲۰۰۲ء

۲۱۸

فنا فی الامام میں کنزِ کل ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

تمام اصل اور اعلیٰ چیزیں خزائنِ الٰہی میں ہیں (۱۵: ۲۱) ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے جملہ خزانوں کو امامِ مبین میں جمع کیا ہے (۳۶: ۱۲) ۔ اب جو شخص فنا فی الامام ہو جائے گا وہ یقیناً ازلی و ابدی نیک بخت ہوگا، اس کو وہ سب سے بڑی نعمت حاصل ہوگی جو جنت سے بھی عالی ہے، وہ اللہ پاک کی خوشنودی ہے، جس کا قرآنی نام رضوان (۰۹: ۷۲) ہے۔

اے عزیزان! آیا یہ بات ممکن ہے کہ امامِ مبینؑ (۳۶: ۱۲) میں اللہ کے خزانوں میں سے کوئی خزانہ غیر موجود ہو، نہیں نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ کے وہ سب خزانے (۱۵: ۲۱) جو کبھی ختم نہیں ہوتے، وہ سب کے سب امامِ مبینؑ میں بلا کم و کاست ہمیشہ موجود ہیں۔

الحمدللہ علیٰ منہ و احسانہ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
اسلام آباد
اتوار ۵ ، مئی ۲۰۰۲ء

 

۲۱۹