کوزۂ کوثر
(مقالاتِ نصیری)
خدمتِ قرآن اور حکمتِ قرآن
اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت عطا کی گئی اسے خوبیوں کی بڑی دولت ہاتھ لگی، اور عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت مانتا ہی نہیں (۰۲: ۲۶۹) يُّؤْتِي الْحِكْمَةَ = وہ حکمت دیتا ہے۔ دینے کا تعلق ید اللہ سے ہے، اور اس کا مشاہدہ مرتبۂ عقل پر، جہاں بے شمار حقائق و معارف مرکوز ہیں، وہاں الْمَثَلُ الْاَعْلٰى (۱۶: ۶۰) بھی ہے، جس میں وہ تمام مثالیں جمع ہیں جو قرآنِ حکیم میں بیان کی گئی ہیں۔
اب خدمتِ قرآن کی بات کرتے ہیں اور یہ شروع سے لے کر اب تک ایک وسیع کائنات ہے جس میں ہر گونہ خدمت کی گنجائش ہے، اور اس میں ہمیں اور ہمارے عزیز ساتھیوں کو “حکمتِ قرآن” کی خدمت سونپی گئی ہے، زہے نصیب!
سدا بہار پھولوں کا یہ گلدستہ میں صدر فتح علی حبِّیب، صدر محمد عبدالعزیز، صدر بابر خان، دیگر عملداران اور تمام ارکان کی جانب سے عزیزم نوشاد پنجوانی کو پیش کرتا ہوں، قبول ہو! میرے بہت ہی عزیز جانی دوست، میرے دل کے مکین اور میرے بہت پیارے سٹوڈنٹ نوشاد کی (ان شاء اللہ تعالیٰ) بہت ترقی ہوگی، ان کا پہلا انتساب “مفتاح الحکمت” میں دیکھیں۔
ن۔ن (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی ۹۴/۲/۲۴
دیباچۂ طبعِ دوم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللہ تعالےٰ کا پاک ارشاد ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا (۰۴: ۵۹)
ترجمہ: اے ایمان دارو!اللہ کی اطاعت کرو، اور رسولؐ کی، اور جو تم میں سے صاحبِّانِ امر ہیں ان کی اطاعت کرو، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیردو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہی ایک صحیح طریقِ کار ہے، اور تاویل کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
حکمتِ اوّل:
اللہ تبارک و تعالےٰ کا یہ ہمہ گیر و ہمہ رس حکم انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس میں خدائے بزرگ و برتر کی اطاعت و فرمانبرداری کا وہ اٹل قانون مذکور ہے، جو شروع سے لے کر آخر تک تمام مسلمانوں کیلئے بیحد ضروری اور لازمی ہے۔
حکمتِ دوم:
خدائےعلیم و حکیم نے کبھی اہلِ ایمان کو کسی ایسے شخص
۷
کی اطاعت کا حکم نہیں دیا، جس کو اُس نے نورِ علم و ہدایت کی لازوال دولت سے مالا مال نہ فرمایا ہو۔
حکمتِ سوم:
مسلمانوں کی وحدت و سالمیت کا سب سے بہترین اور مثالی زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا عہدِ مبارک تھا، جس میں سوائے اہلِ بیتِ اطہار کے کوئی ایسا مسلمان بادشاہ یا حاکم نظر نہیں آتا کہ رسولؐ کی اطاعت کے بعد اس کی اطاعت کی گئی ہو۔
حکمتِ چہارم:
یہ بات صرف اہلِ حقیقت ہی کے لئے خاص ہے کہ اولی الامر منکم (صاحبِّانِ امر جو تم میں سے ہیں) کے ایک انتہائی معنی بھی ہیں، وہ یہ کہ جب عالمِ شخصی کے اسرار منکشف ہوجاتے ہیں، تو اُس وقت یہ حقیقتِ حال روشن ہوجاتی ہے کہ زمانے کے ولیٔ امر کا نور ظاہراً و باطناً مِنکُمْ کا مصداق ہے۔
حکمتِ پنجم:
امر کے بغیر کوئی اطاعت نہیں، لیکن امر دراصل خدا ہی کا ہے، لہٰذا رسولِ اکرمؐ کے بعد صرف وہی حضرات امرِ الٰہی کے حامل ہوسکتے ہیں، جو نورِ خدا کے حامل ہیں، اور وہ أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی ہیں، جن کا پاک سلسلہ حبِّل اللہ (خدا کی رسی) کا مرتبہ رکھتا ہے۔
حکمتِ ششم:
یہاں یہ بڑا اہم سوال سامنے ہے کہ حضورِ انورؐ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کے آپس میں جو اوّلین نظریاتی تنازع پیدا ہوا، وہ کس چیز کے بارے میں تھا؟ اس کا جواب آیۂ اطاعت کے اشارے کے مطابق یہ ہے کہ نزاع کسی اور شے میں نہیں، صرف اولو الامر کے تعیّن و تقرّر کے بارے
۸
میں تھا، حالانکہ قرآن و حدیث میں اس حقیقت کی بہت سی روشن دلیلیں موجود ہیں، پس فرمایا گیا کہ تم تمام چیزوں کو چھوڑ کر نئے سرے سے قرآن و حدیث میں دیکھو کہ اولوالامر کون ہیں؟
کتاب کا نام
بہ نتیجۂ غور و فکر اس کتاب کا موجودہ نام “کوزۂ کوثر” رکھا گیا، جبکہ پہلے اس کا نام مقالاتِ نصیری تھا، یقیناً کوثر مولا علیؑ کا لقب بھی ہے، اور حضرت قائم القیامتؑ کے علمِ تاویل کا پانی بھی، یہ مقدّس پانی ایسا اور اتنا بابرکت ہے کہ اس کا صرف ایک ہی کوزہ دریائے روان سے بہت زیادہ ہے، آبِ حیات بحقیقت یہی ہے، جس کے پینے سے مومنین و مومنات اپنے آپ کو ازل و ابد میں زندہ اور پُرنور پاتے ہیں۔
حقیقی علم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک نور ہے، جس کی روشنی میں ہر چیز کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے، یہ دیدۂ دل، گوشِ ہوش، اور لسانِ ناطق ہے، روحانی علم سچ مچ بہشتِ برین ہے، جس میں ہر لطیف نعمت موجود ہے، اور کوئی بڑی یا چھوٹی شیٔ ایسی نہیں جو اس میں نہ ملے، علم و حکمت بہت بڑی دولت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی، آپ اس سے عالمِ اسلام کی خاموش خدمت کرسکتے ہیں، کیونکہ آپ علیٔ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ کے علمی لشکر میں شامل ہیں۔
اگر آپ امامِ برحق علیہ السّلام کے جان نثار عاشقوں میں سے ہیں، تو
۹
آئیے! ہم سب مل کر ایک بیحد ضروری اور ہمہ رس کام کریں، جس کا فائدہ نہ صرف جماعت تک محدود ہو، بلکہ یہ تمام اسلام کی بھی ایک اہم خدمت قرار پائے، اور کچھ آگے چل کر یہی عمل انسانیّت کے لئے بھی مفید ثابت ہوجائے، جی ہاں! یہ سچ ہے، ایسا عظیم کارنامہ علمی خدمت کی شکل میں ہوسکتا ہے۔
قرآنِ عظیم نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا کہ حکمت ہی میں خیرِ کثیر کی لازوال دولت موجود ہے، ایسے میں اگر ہم قرآنی حکمت کی خدمت سے پیچھے ہٹیں تو بہت بڑی ناشکری ہوگی، اور قیامت کے دن بڑی سختی کے ساتھ ہم سے پوچھا جائےگا۔
لفظِ معراج کی حکمت
قرآنِ عزیز اور دینِ اسلام میں لفظ “معراج” کے معنی اور مثال میں عظیم حکمتیں پنہاں ہیں، کیونکہ حضرت محمد مصطفےٰ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا پاک روحانی سفر اسی (معراج) کے عنوان سے ہے، معراج کا لفظی ترجمہ “سیڑھی” ہے، اور یہ بات پوشیدہ نہیں بلکہ ظاہر ہے کہ سیڑھی جتنی اونچی ہوگی، اُتنے اُس کے زینے زیادہ ہوں گے، اس مثال سے دین اور روحانیّت کے درجات مراد ہیں، جن کا کئی طرح سے قرآنِ پاک میں ذکر موجود ہے (درجات، معارج)۔
عزیزانِ من! میں آپ سے ایک بہت ہی مفید علمی سوال کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جب آپ سورۂ فاتحہ میں ربّانی تعلیم کے مطابق تمام انبیاء علیہم السّلام کے لئے مقرر شدہ راستے پر چلنے کی توفیق و ہدایت کی
۱۰
دعا کرتے ہیں، تو بتائے کہ اس مقدّس راستے کی منزلِ مقصود کہاں ہے؟ اس کا کیا نام ہے؟ ویسے تو سب کو معلوم ہے کہ آنحضرتؐ نے معراج تک رہنمائی فرمائی ہے۔
سوئی کے ناکہ سے اونٹ کا گزرنا
سورۂ اعراف (۰۷: ۴۰) میں اللہ تعالےٰ کا یہ ارشاد ہے: (ترجمہ) یقین جانو! جن لوگوں نے ہماری آیات (نورِ مُنَزَّل) کو جھٹلایا ہے، اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے، ان کے لئے آسمان کے دروازے ہر گز نہ کھولے جائیں گے، ان کا جنّت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکہ سے اونٹ کا گزرنا (۰۷: ۴۰) سوئی کا ناکہ دعوتِ حق کا انتہائی چھوٹا سا دروازہ ہے، اور اونٹ سے وہ شخص مراد ہے جو اپنے آپ کو بہت بڑا اور داعی کو بہت حقیر سمجھ کر دعوتِ حق کو قبول نہیں کرتا، جیسا کہ مذکورہ آیت میں تکبر (وَاسْتَکْبِرُوْا) کا ذکر ہے، پس اگر یہ شخص فخر و غرور سے باز آئے، اور عاجزی سے معلّم کی تعلیم قبول کرے تو اس حال میں سوئی کے ناکہ سے اونٹ گزر جائے گا، کیونکہ ایسے میں گویا اونٹ بہت چھوٹا ہوگیا، اور سوئی کا ناکہ بہت کشادہ ہوگیا۔
مضبوط اور مشکل حجابات
جس طرح خدا پردے کے پیچھے سے کلام کرتا ہے (۴۲: ۵۱) اسی طرح قرآنِ حکیم کے بڑے بڑے اسرار مضبوط اور مشکل حجابات میں ہیں، چنانچہ قصۂ
۱۱
ذوالقرنین کا ایک ایسا حجاب عَيْنٍ حَمِئَةٍ (کیچڑ والا چشمہ ۱۸: ۸۶) ہے، جس سے عالمِ علوی میں نفسِ کلّی اور عالمِ سفلی میں اساس اور امام مراد ہیں، جن میں آفتابِ نور غروب ہوجاتا ہے، اس تاویلی حکمت کے برعکس سیّارۂ زمین پر کیچڑ کا کوئی ایسا چشمہ موجود نہیں، جس میں ظاہری سورج ڈوب جاتا ہو۔
یاد رہے کہ مٹی مومن کی مثال ہے، اور پانی علم کی مثال، مٹی کی خوبی یہ ہے کہ وہ پانی کو قبولتی ہے، جس سے وہ بصورتِ نباتات زندہ ہوجاتی ہے اور مومن کی خوبی یہ ہے کہ وہ علم کو قبول کرتا ہے، جس میں اس کی اصل زندگی ہے، پس مرطوب مٹی ایسا مومن ہے، جس کے پاس تھوڑا سا علم ہو، گارا وہ مومن ہے، جس نے زیادہ علم جذب کرلیا ہو، اور کیچڑ جس میں بہت زیادہ پانی ہوتا ہے، اعلیٰ حدود کی مثال ہے، کیونکہ ان کا علم بڑا وسیع ہوتا ہے، لہٰذا وہ آفتابِ نور عقل کے لئے مغرب ہیں۔
مشارق و مغارب کی حکمت
قرآنِ پاک میں کئی مشرقوں اور مغربوں کا ذکر آیا ہے(۰۷: ۱۳۷، ۳۷: ۰۵، ۷۰: ۴۰) جس کی ایک تاویلی حکمت اس طرح ہے: عقلِ کلّ و نفسِ کلّ = مشرق و مغرب، نفسِ کلّ و ناطق = مشرق و مغرب، ناطق و اساس = مشرق و مغرب، اساس و امام = مشرق و مغرب، امام و باب = مشرق و مغرب، باب و حجت = مشرق و مغرب، حجت و داعی = مشرق و مغرب، داعی و ماذون = مشرق و مغرب، ماذون و مستجیب = مشرق و مغرب، پس عالمِ دین اور عالمِ شخصی کے مشارق و مغارب
۱۲
یہی ہیں، جہاں نورِ علم طلوع و غروب ہوتا رہتا ہے۔
اے عزیزان و دوستان! اسے جماعتِ باسعادت! اس بے مثال خوش بختی کا کیا کہنا، کہ آپ سب اپنے زمانے کے امامِ ھمام علیہ السلام کو پہچانتے ہیں، اور یقیناً اسی معنی میں آپ حضرات اللہ تعالیٰ کو اسماء الحسنیٰ سے پکارتے ہیں، خدا کا یہ پسندیدہ عمل آپ کو مبارک ہو! اب اس انتہائی عظیم نعمت کی شکر گزاری کے طورپر خلقِ خدا کی خیر خواہی لازمی ہے۔
آخراً یہ امر میرے لئے ازبس ضروری ہے کہ میں اپنے ان تمام ساتھیوں کا قلبی گہرائیوں سے شکریہ ادا کروں، جن کے شب و روز کی انتھک کوشش و محنت کی وجہ سے ہمارے تینوں ادارے نیک نام ہوگئے، وہ ھیں: خانۂ حکمت، عارف، اور بی۔آر۔اے۔ نیز میں بہت بہت بہت شکر گزار اور ممنون ہوں، ان تمام جان نثار عزیزوں کا، جو “جشنِ خدمتِ علمی” کو دور رس فوائد کی شان کے ساتھ منانے کے لئے کمر بستہ ہوچکے ہیں، خداوندِ عالم سب پر بے نہایت مہربان ہو!
نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
منگل ۳۰، شوال ۱۴۱۴ھ / ۱۲، اپریل ۱۹۹۴ء
۱۳
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پیش لفظ
بارگاہِ الہٰی میں دعا:
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ (۵۹: ۱۰)
اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو جنہوں نے ایمان لانے میں ہم سے سبقت کی ہے، بخش دے، اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لئے جو ہمارے پروردگار پر ایمان لائے ہیں، کوئی کینہ نہ رہنے دے، بے شک تو بڑا شفیق نہایت رحم والا ہے۔
آنحضرتؐ کی تعریف و توصیف:
لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ(۰۹: ۱۲۸) (اے لوگو) تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس (بشر) سے ہیں، جن کو تمہاری
۱۴
مضّرت کی بات نہایت گران گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے بڑے خواہشمند ہوتے ہیں، ایمانداروں پر تو بڑے شفیق و مہربان ہیں۔
محمد و آلِ محمد پر صلوٰۃ:
صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَصَلَوَاتَ مَلَا ئِکَتِہٖ وَاَنْبِیَائِہٖ وَرُسُلِہٖ وَجَمِیْعِ خَلْقِہٖ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ السَّلَامُ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَ کَاتُہٗ۔
اللہ تعالیٰ کی صلوٰت ہو اور اس کے ملائکہ، انبیاء و رسل اور تمام خلق کی صلوات ہو محمد و آلِ محمد پر! اور آنحضرتؐ اور آپ کے آلِ پاک پر سلام ہو، اور ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں!
اسماعیلی مذہب کی خوبیاں:
میرے دینی بھائیوں اور عزیزوں کو اس میں ذرا بھی شک نہ ہوگا کہ اسماعیلی مذہب علم و حکمت کے بے بہا جواہر کے گنجینوں اور رشد و ہدایت کے انمول موتیوں کے خزانوں سے دائم الوقت مالا مال ہے، یہ لافانی و لاثانی علمی مال و دولت کتابی دفینوں میں بھی رہی ہے، اور پاک و صاف سینوں میں بھی، اسماعیلیوں کا یہ عقیدہ درست اور یہ دعویٰ حق بجانب ہے، اور تاریخِ امامت سے بھی یہی ثبوت ملتا ہے کہ اسماعیلی علم و حکمت کے چراغ کی ضوفشانیوں سے دنیا کی آنکھیں اُس وقت خیرہ ہونے لگی تھیں جبکہ مولانا ھنید علیہ السّلام حضرت آدمؑ کو روئے زمین پر خلافت و نیابتِ الٰہیہ کی روحانی و معجزاتی تعلیم دے
۱۵
رہے تھے، اور یہ امامِ عالی صفاتؑ ہی کا نور تھا، جس کو یہاں ایک روشن چراغ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔
نظامِ ہدایت:
چنانچہ ہم یہاں اسماعیلی حدودِ دعوت کی رہنمائی اور علم و حکمت کی سرپرستی کے دائمی نظام کا ایک مختصر سا نقشہ پیش کرتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ اس عظیم دور کے رسولانِ ناطق علیہم السّلام چھ ہوئے ہیں: یعنی حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ، اور حضرت محمد مصطفےٰ صلوات اللہِ علیہم اجمعین اور ان کا ساتواں حضرت قائم ہیں، اِن ناطقوں میں سے ہر ایک کا ایک امامِ مقیم نے روحانیّت کی معجزانہ تعلیم دی ہے، اس کے بعد ہر ناطق یعنی صاحبِّ شریعت کا ایک اساس ہوا ہے، پھر اساسؑ کے بعد أئمّہ اطہار علیہم السّلام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اور ہر ناطق کے دور کے یہ امام اکثر دفعہ سات ہوا کرتے ہیں، یا دو دفعہ ساتھ یا چند دفعہ سات ہوتے ہیں، اور ان کا ساتواں امام چھوٹے دور کے قائم ہوتے ہیں، جس کی تاویل کے کئی پہلو ہیں جن کی ایک مثال یہ ہے:
خدا کے چھ دن
قرآنِ حکیم کی چند آیتوں میں یہ ارشاد۱ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں کائنات کی تخلیق مکمل کردی اور وہ ساتویں دن عرش پر متمکن ہوا، اس کی
۱؎: ۰۷: ۵۴، ۱۰: ۰۳، ۱۱: ۰۷، ۲۵: ۵۹، ۳۲: ۰۴، ۵۰: ۳۸، ۵۷: ۰۴
۱۶
تاویل یہ ہے کہ چھ پیغمبروں (جن کا اوپر ذکر ہوا) کی شریعتیں اور ان کی تاویلات آنے کے بعد یعنی چھ ادوار میں دنیائے انسانیت اور عالمِ دین مکمل ہوا، اور حضرت قائم الزمان علیہ افضل التحیتہ والسلام کے دور میں اللہ تعالیٰ اپنے اس کام سے فارغ ہو کر عرش پر متمکن ہوا، عرش پر اللہ کے متمکن ہونے کا مطلب ہے مظہرِ الہٰی سے مکمل طور پر نور کا ظہور ہونا۔
جب یہ معلوم ہوا کہ بڑے دور کے چھ ناطق اللہ تعالیٰ کے وہ چھ دن ہیں، جن میں اُس نے عالمِ دین کو پیدا کیا، اور حضرت قائم اللہ کے وہ ساتویں دن (سنیچر) ہیں، جس میں وہ سب کچھ مکمل کر کے دین کے زندہ عرش پر متمکن ہوا ہے، تو پھر یہ بھی جاننا چاہئے کہ ہر ناطق کے دور میں سات ائمّہ ہونے کا جو اصول مقرر ہے اس میں بھی یہی حکمت ہے کہ چھ امام خدا کے چھ دن ہیں، اور ساتواں امام خدا کے ساتویں دن (سنیچر) ہیں، چنانچہ ہر ناطق کے انفرادی عالمِ دین کی تخلیق و تکمیل کے لئے بھی سات اماموں کا ہونا ضروری ہے۔
نمونۂ قیامت:
یہاں پر قرآنِ پاک سے ایک ایسی دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جس سے یہ حقیقت بالکل صاف روشن ہو کہ ان بڑے پیغمبروں کے دینی عالم دو قسم کے ہیں:
۱۔ اجتماعی
۲۔ انفرادی
۱۷
چنانچہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰؑ کی آخری عمر میں یوں ارشاد فرماتا ہے کہ
وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اور جن لوگوں نے تمہاری پیروی کی اُن کو قیامت تک کافروں پر غالب رکھوں گا۔ (۰۳: ۵۵)
اس ارشادِ الہٰی کی حکمت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے تابعین اللہ تعالیٰ کے مذکورہ وعدہ کے مطابق اپنے مخالفین پر دینی لحاظ سے (یعنی دلیل و حجت کے اعتبار سے) غالب و فاتح رہے، تاآنکہ دورِ عیسیٰؑ کے چھ اماموں کا زمانہ گزر گیا، اور جب دورِ عیسیٰؑ کے ساتویں امام کا ظہور ہوا تو اُس وقت نصرانیت کی قیامت برپا ہوئی، کیونکہ پیغمبرِ اسلامؑ ایک نئی کتاب اور تازہ شریعت لے کر دنیا میں تشریف فرما ہوئے، اب حضرت عیسیٰؑ کے دین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو کچھ وعدہ فرمایا تھا، وہ پورا ہوچکا، اگر ہم اس آیۂ مبارکہ کے ایسے ہی معنی نہ لیں، بلکہ یوں کہیں کہ دنیائے عیسائیت میں ابھی تک کوئی قیامت واقع نہیں ہوئی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر نصاریٰ ظہورِ اسلام کے بعد مسلمان نہ بنیں، تو ان پر کوئی جرم نہیں، اور جو غیر عیسائی اسلام کو قبول کریں، تو وہ پھر بھی مسلمان نہیں ہوسکے، کیونکہ بموجبِ وعدۂ الہٰی عیسائیوں کو قیامت تک اپنے مخالفین پر غالب و فاتح ہونے کا حق حاصل ہے، تو کیا کوئی دانشمند مسلمان اس بات کو قبول کرے گا؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔
جاننا چاہئےکہ مذکورہ دلیل سے نہ صرف یہی حقیقت واضح و روشن ہوئی، کہ ہر ناطق پیغمبر کی دنیائے شریعت میں ساتویں امام کے آنے پر قیامت برپا ہو
۱۸
جاتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ قیامت خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، اختیاری ہو یا اضطراری، انفرادی ہو یا اجتماعی، جب بھی آجائے تو وہ غیر شعوری طور پر آتی ہے، چیختی چلاتی ہوئی نہیں آتی۔
بات دراصل اس بارے میں تھی، کہ پیغمبر اور امام علیہما السلام حدودِ دین کی سرپرستی کس طرح فرماتے ہیں، اور اسماعیلی دعوت و ہدایت کا نظام کس طرح قائم ہے، اور یہ کہنا تھا کہ اسماعیلی نظامِ دعوت کس عظیم الشّان طریق سے پورے دور کے ظاہر و باطن پر محیط و حاوی ہے، اور امامِ برحق کی ہمہ رس معجزانہ ہدایت کس قدر حیرت انگیز ہے، کہ دنیا کے بارہ جزیروں میں سے ہر ایک میں ایک ظاہر حجت اور ایک باطن حجت کے تحت تیس ۳۰ داعی ہوا کرتے ہیں۔
ایک مثال:
یہ بات سب جانتے ہیں کہ، سمندر کا پانی اس کرۂ ارض کے آباد اور غیر آباد دونوں حصوں کی ضرورت سے بھی بہت زیادہ ہے، مگر دنیا بھر کے پہاڑوں، جنگلوں، صحراؤں، باغوں اور کھیتوں کو پانی پہنچانے کا دارو مدارسورج پر ہے، کیونکہ سورج ہی ہے جو سطح سمندر کے پانی کو بخارات کی صورت دے کر فضا میں بلند کرتا ہے، پھر انہیں بادلوں کی شکل میں تبدیل کرکے تیز ہواؤں کے کندھوں پر مختلف اطراف میں بھیج دیتا ہے، ان بادلوں سے برف و بارش برساتا ہے اور برف ویخ کے بے پناہ ذخیروں سے ندیاں،
۱۹
نالے، اور دریا جاری کردیتا ہے، یہی چشمۂ نور و حرارت ہے، جو سال بھر کے موسموں پر کنٹرول رکھتا ہے، نباتات اگاتا ہے، اور انہیں نشوونما دیتا ہے ہر قسم کی فصل اور پھل اسی سورج کی روشنی اور گرمی کی بدولت پک کر تیار ہو جاتے ہیں، اور تمام ذی حیات مخلوقات اسی نور کے طفیل سے زندہ اور قائم ہیں۔ الغرض اگریہ نور نہ ہوتا تو کچھ بھی پیدا نہ ہوتا، پس یہی مثال امامِؑ عالیمقام کے علم اور نور کی بھی ہے، کہ امام کا علم عالمِ دین کا سمندر ہے، اور آپ کا نور دنیائے روحانیّت کا سورج ہے اور یہ امام علیہ السّلام کے علم کا صاف و شفاف پانی حدودِ دین کی نہروں کے توسط سے آیا کرتا ہے۔
آفاق و انفس کی آیات:
جب صاحبِّ امر کی بے مثال ہدایت و رہنمائی سے مومن میں دین شناسی اور امام شناسی کی آنکھ پیدا ہوجاتی ہے تو وہ آفاق وانفس کی آیات اور کائنات و حیات کے معجزات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے، پھر اُسے امامِ حیّ و حاضرکی ظاہری و باطنی ہدایت کی اہمیت اور نفوسِ خلائق میں اس کی واقعیت کے بارے میں یقینِ کامل حاصل ہوتا ہے۔
امام دنیا میں ہمیشہ کے لئے حاضر ہیں:
مثال کے طور پر بتایا جاتا ہے، کہ اس آفاق (کائنات) میں آسمان، سورج، چاند، ستارے، کہکشاں، بجلی، رعد، دن، رات، آگ، ہوا، پانی، مٹی، پہاڑ،
۲۰
نباتات، حیوانات اور انسان کے علاوہ دوسری بہت سی چیزیں اس طرح سے ہیں، کہ وہ جب سے پیدا کی گئی ہیں، تب سے حاضر اور موجود ہیں، اور ان میں سے کسی ایک چیز کا ختم ہوجانا یا غائب ہو جانا قطعی ناممکن ہے، خواہ وہ کتنی چھوٹی اور کس قدر معمولی کیوں نہ ہو، چہ جائیکہ سورج کا غائب ہوجانا، کیونکہ خدائے احکم الحاکمین نے دین اور اس مادّی عالم کے اندر جو کچھ بھی پیدا کیا ہے اس کی ایک خاص ضرورت تھی، اسی لئے پیدا کیا ہے، اب بھی اس کی ضرورت ہے، اور آئندہ بھی اس کی ضرورت رہے گی۔ پس اگر یہ کہاجائے، کہ اس دور میں عالم دین کا سورج لوگوں سے غائب ہوچکا ہے، تو یہ امر محالات میں سے ہوگا۔
دینی علم اور کتابوں کی اہمیّت:
الغرض اس دور میں دینی علم کی طرف توجہ دینا ازحد ضروری ہے، خصوصاً نئی نسل کے لئے تو اس کے بغیر ایمانی روح اور مذہبی زندگی کی کوئی توقع ہی نہیں، لہٰذا جنرل قسم کے دینی کتب کے علاوہ مذہبی نصاب کی کتابیں انتہائی ضروری اور لازمی ہیں، ان دونوں قسم کی کتابوں کے بغیر ہر وہ منصوبہ، جو مذہبی ترقی اور روحانی تعلیم کے لئے بنایا جاتا ہے، ناتمام بلکہ ناکام ہے۔
اسی سلسلے میں بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اردو جیسی قومی زبان میں جو ہمارے عزیز وطن پاکستان اور ہماری خداداد مملکت کی زبان ہے، چند کتابوں کے سوا کچھ نہیں، حالانکہ اس ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے
۲۱
اسماعیلی بستے ہیں کہ ان کا تعلق مختلف علاقوں اور جدا جدا زبانوں سے ہے، جیسے گجراتی، سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو، چترالی، شینا (گلگتی) بروشسکی اور وخی، مگر ان علاقائی زبانوں اور مقامی بولیوں میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو ان بے شمار اسماعیلی افراد کی دینی وحدت کے سلسلے میں کوئی خاص مدد کرسکے، نہ وہ ان کی مشترکہ زبان کا کردار ادا کرسکتی ہے، اور نہ ہی پاکستان کے کروڑوں مسلمان بھائیوں کو ان کی اپنی خواہش پر اسماعیلیت کا تعارف کراسکتی ہے، سوائے موجودہ قومی اور سرکاری زبان کے جو اردو ہے۔
یہ حقیقت تو مسلّمہ ہی ہے، کہ عربی (جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی دینی لسان ہے) اور فارسی میں اسماعیلی اماموں اور بزرگوں کے ایسے ایسے علمی و ادبی شاہکار موجود ہیں کہ جنکی عالمگیر شہرت اور بے پایان معنویت کی بالادستی کے سامنے زمانۂ قدیم و جدید کے نامور حکماء اور فلسفیوں نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، اور ایسی ہی اہم کتابوں میں سے بعض کے انگریزی، فرانسیسی، جرمنی وغیرہ زبانوں میں ترجمے بھی ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف سے دنیائے علم و ادب کے بڑے بڑے اداروں میں اسماعیلی مذہب کی مشہور و معروف شخصیتوں پر ریسرچ (تحقیق) کا کام ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں اسماعیلیت سے متعلق کتابیں چھپ کر شائع ہورہی ہیں، لیکن تعجب اور حیرت کا مقام ہے کہ اردو میں اب تک جو کچھ ترجمہ و تخلیق کا کام ہونا ضروری تھا اُس کا عشرِ عشیر (دسواں حصہ) بھی نہیں ہوا ہے۔
۲۲
کتابِ ہٰذا:
کتابِ زیرِ نظر اور دوسری چند تصنیفات و ترجمے مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے سلسلے میں اس بندۂ عاجز و ناتوان کی ایک ناچیز سی کوشش ہے، آپ کو شاید معلوم ہو کہ کچھ عرصہ قبل میرے بعض مقالے “اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کراچی” کی وساطت سے شائع ہوئے تھے، یہ کتاب ان مقالات میں سے چند کو لے کر مرتب کی گئی ہے، سوائے چند کے باقی سب مضامین شائع تو ہوچکے تھے، تاہم مصلحت یہ قرار پائی کہ یہ مقالات جو مختلف ضروری موضوعات سے متعلق ہیں، کتاب کی صورت میں یکجا اور مستقل طور پر شائع کئے جائیں۔
علم و عمل کے دو مرحلے:
اسماعیلی نظریات کے لحاظ سے علم و عمل کے دو مرحلے ہیں، چنانچہ مرحلۂ اوّل پر تنزیل و شریعت کے احکام سامنے آتے ہیں، اور مرحلۂ دوم پر تاویل اور حقیقت کے امور سے واسطہ پڑتا ہے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ آنحضرتؐ کی نبوّت و رسالت کے آغاز سے لے کر قیامتِ کبریٰ تک جو دور گزرنے والا ہے اس کے دو۲ حصّے کئے گئے ہیں: پہلے حصّے کا زیادہ تر تعلق تنزیل و شریعت سے ہے، اور دوسرے حصّے کا واسطہ تاویل و حقیقت سے، تاکہ دور کے دونوں حصّوں کے جملہ مومنین اپنے اپنے وقت کے
۲۳
مطابق اللہ تعالیٰ، رسولؐ اور اولی الامر کی علمی و عملی اطاعت کو جیسا کہ چاہئے بجا لاسکیں۔
شکریہ:
اب میں بالآخر ان تمام عزیز روحانی بھائیوں، بہنوں، دوستوں اور تلامذہ کا دل و جان اور صدق و ایقان سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ ہربار مختلف صورتوں میں علم کی قدردانی اور علمی خادم کی ہمت افزائی کرتے ہوئے آئے ہیں، اور دینی علم کے پھیلانے کے سلسلے میں جو کچھ بھی ضروری خدمات انجام دیتے ہیں، ان سے ان کا مقصدِ اعلیٰ صرف یہی ہے کہ انہیں امام عالیمقام کی خوشنودی حاصل ہو۔
میرا اعتقاد اور ایمان ہمیشہ مجھ سے یہ تقاضا کرتا رہا ہے کہ بموجبِ حدیث شریف “اَلْحبِّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ” حقیقی مومنوں کی اخوت و دوستی سے مجھے جو روحانی مسرّت و شادمانی حاصل ہوتی ہے، میں اس کی قدر دانی کے طور پر کچھ تذکرہ کروں، عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے: “ذکرالعیش نصف العیش” یعنی خوشی و راحت کا تذکرہ اس کے نصف کے برابر لذّت بخش ہوتا ہے، اس سے یہاں میری مراد روحانی خوشی اور دینی راحت ہے، اور میں صرف اسی کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔
میں پھر ایک بار ان تمام تعلیم یافتہ اسماعیلیوں، ترقی پسند بھائیوں، اور عزیز تلامذہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو اپنے ہر علمی خادم کی خدمت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے ہیں، اور دینی تعلیمات کو فروغ دینے کے سلسلے میں جو کچھ
۲۴
بھی ہو سکے، تو تعاون کر لیا کرتے ہیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ امام شناسی کی تعلیمات کی روشنی سے دنیائے اسماعیلیت کا کوئی گوشہ خالی نہ رہے۔
میں اسی ضمن میں اپنے عزیز و محترم دینی دوست جناب ممتاز علی صاحبِّ (بی کام) ابنِ صدرالدین محمد جعفر کا بھی ممنون ہوں کہ انہوں نے ازراہِ کرم کراچی جیسے گنجان شہر میں میری رہائش کے لئے بہترین بندوبست اور اعلیٰ انتظام کر دیا، خداوند تبارک و تعالیٰ جملہ نیکوکار اور خدمت گزار مومنین پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نظرِ رحمت اور سایۂ عاطفت رکھے! آمین یا رب العالمین!!
فقط آپ کا ایک دینی خادم
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی
بموقع عیدِ میلادالنبیؐ بروز جمعرات
۱۲، ربیع الاول ۱۳۹۲ھ / ۲۷ اپریل ۱۹۷۲ء
۲۵
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ذکرِ الہٰی میں شفا
ذکرِ الہٰی نتیجۃً صحت و سلامتی کا ذریعہ، اطمینانِ قلب کا باعث اور علم و حکمت کی کلید ہونے کے علاوہ لفظی طور پر بھی خدا شناسی و معرفت کی ایک روشن دلیل ہے۔
لفظِ ذکر کے اشارے:
لفظِ “ذکر” کے معنی میں خدا کی شناخت اور پہچان کے اشارات اس طرح سے ہیں کہ ذکر کے معنی ہیں کسی جانی پہچانی ہوئی چیز کے تصوّر کو شکل و صورت، اور الفاظ و معنی کے ذریعہ دل و دماغ میں لانا، مگر کسی چیز کو دیکھے، جانے اور پہچانے بغیر یاد کرنا محال ہے، اب اس بیان سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلا کہ خدا کی حقیقی یاد وہ ہے جو معرفت (یعنی پہچان) کی روشنی میں کی جاتی ہے۔
ذکرِ الہٰی کی مثال:
حقیقی ذکر کی ایک خاص شرط خدا شناسی اور معرفت ہونے کی دلیل یہ ہے
۲۶
جو خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “فَاِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَذِكْرِكُمْ اٰبَاۗءَكُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِكْرًا (۰۲: ۲۰۰) پس تم اللہ تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آباء کو یاد کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ یاد کرو۔” اس ارشادِ الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے آباء کو دیکھے، پہچانے اور مانوس ہوئے بغیر اس کثرت و شدّت سے یاد نہیں کرسکتے، جس کو اللہ تعالیٰ اپنے ذکر کی مثال اور نمونہ قرار دے، اور اگر وہ چار و ناچار اپنے آباء کو یاد کرنے میں کوئی معیاری نمونہ پیش کرتے ہیں، تو اس کی وجہ پہچان، مانوسیّت اور محبّت ہے، چنانچہ اس مثال سے یہ امر لازمی ہوا کہ خدا کو معرفت اور عشق سے یاد کیا جائے۔
ذکرِ الہٰی کی اس مثال میں ان تمام حقائق کے اشارے سموئے ہوئے موجود ہیں، کہ ایک صاف دل اور خیر خواہ باپ اپنے چھوٹے سے بچے کو کسقدر عزیز رکھتا ہے، اس کے حق میں کتنا شفیق و مہربان ہوتا ہے، اور کس طرح اس کی بہتری و کامیابی کا طلب گار رہتا ہے، اور اس کا وہ چھوٹا سا معصوم اور سادہ لوح بچہ، جب اپنے پیارے باپ سے دور رہنے لگتا ہے تو کس قدر بے تاب و مضطرب ہو کر اور کیسے اشتیاق کے عالم میں باپ کو یاد کرتا رہتا ہے، ہر چند کہ اس کی ماں، بہنیں، اور گھر کے دوسرے عزیز افراد اسے بہلا پھسلا کر باپ کی یاد سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، مگر یہ اپنے باپ کو اور اس کی شفقتوں اور نوازشوں کو ہر گز فراموش نہیں کرسکتا، اور جب کوئی شخص بھول سے اس کے باپ کا کوئی تذکرہ کرتا ہے، تو اس کے نازک اور پاکیزہ دل میں باپ کی محبِّت کی آگ شعلہ زن ہونے لگتی ہے، اور وہ بہانہ جوئی کرتے ہوئے رونے
۲۷
لگتا ہے، محبِّت اس کے اشتہا کو اپنے قبضے میں کرلیتی ہے، اس لئے وہ کچھ کھا پی نہیں سکتا، جب بہت سی کوشش کے بعد اس کو سلا دیا جاتا ہے تو وقفہ وقفہ پر جھٹکوں کے ساتھ چونک اٹھتا ہے، کیونکہ ہر بار وہ خواب و خیال میں اپنے باپ ہی کو دیکھتا ہے، اور اس کے ساتھ چمٹ جانے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے جاگ اٹھتا ہے، یہاں تک کہ بعض دفعہ شدّتِ یاد کے بخار سے اس کا جسم تپتا رہتا ہے۔
خدا کی یاد اور باپ کی یاد میں فرق:
جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ، معصوم اور سادہ لوح بچہ مانوسیت کے بعد جب باپ سے جدا اور دور رہنے لگتا ہے تو وہ بعض دفعہ شدّتِ اشتیاق کی بیماری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے، لیکن ذکرِ الہٰی کے بارے میں عقل و دانش یہ کہتی ہے، کہ اگرچہ خدا کی یاد کی مثال باپ کی یاد سے دی جاسکتی ہے، تاہم انسانی یاد کے آثار و نتائج کے برعکس ذکرِ الہٰی سے حقیقی مومنین کے لئے جسم و جان کی صحت و سلامتی اور سکون و اطمینان حاصل ہونا چاہئے، اور قرآنی ارشادات کا اشارہ بھی یہی ہے، چنانچہ قولِ قرآن ہے کہ:
اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (۱۳: ۲۸)
خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔
پس مطلب صاف طور پر ظاہر ہے کہ کسی انسان کے دل کو اطمینان اُس وقت ہوجاتا ہے جب کہ وہ ذہنی اور جسمانی تکلیفوں اور بیماریوں سے بالکل
۲۸
محفوظ ہو، یا پھر اس کو برداشت کی معجزانہ قوّت ملے، اس کے بغیر اطمینانِ قلب کے کچھ معنی نہیں۔
ذکر کا تعلق پاک دل اور پاک زبان سے:
جب تک انسان اپنی زبان اور دل کو ناشائستہ اقوال و افعال کے زنگ و کدورت سے پاک نہ رکھے تو وہ مذکورہ بالا مثال کے مطابق خدا کو یاد نہیں کر سکتا، اور جب حقیقی معنوں میں خدا کو یاد نہیں کرسکتا تو ذکرِ الہٰی کے ظاہری و باطنی فوائد سے محروم رہ جاتا ہے، اور اس محرومیّت میں ہر قسم کی ناکامی پوشیدہ ہے۔
ذکر میں شفا ہونے کی دلیل:
اگر پوچھا جائے کہ یادِ الہٰی کس طرح باعثِ شفا ہوسکتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثر دفعہ انسان اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے کسی بیماری یا تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے، غلط کاری نفسِ امّارہ کے حکمران ہونے سے صادر ہوتی ہے، نفسِ امّارہ کی حکمرانی نہیں ہوسکتی، جب تک کہ عقل اور روح الایمان کمزور نہ ہوں، یہ دونوں کمزور اسوقت ہوتی ہیں، جب کہ ان کو اصلی اور پُرقوّت غذا نہ ملے، اور ایسی غذا کا واحد ذریعہ ذکرِ الہٰی ہے، جس میں عقل اور روح الایمان کے لئے سب کچھ موجود ہے، پس معلوم ہوا کہ جب اللہ کے بندوں کو ذکر سے عقل اور روح کی لذّتیں اور راحتیں میسر ہونے لگتی ہیں، تو اس وقت ان کی نفسانی خواہشات روحانی قوّتوں کے نیچے دبی ہوئی رہتی ہیں، پھر
۲۹
اس وقت ایسی بیماریاں اور تکالیف نہیں آتیں، جو غلط کاریوں کی پاداش کے طور پر پہنچتی ہیں۔
ذکر میں جسمانی مدد:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (۰۸: ۴۵) اے ایمان والو! جب تم (جہاد میں) کسی گروہ کے مقابل ہوتے ہو، تو ثابت قدم رہو، اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو، پس ظاہر ہے کہ ذکرِ الہٰی سے نہ صرف عقل و روح ہی کو نورانی قوّت ملتی ہے، بلکہ اس سے جسم کو بھی معجزانہ قسم کی مدد ملتی رہتی ہے۔
مادّی خوف:
ذکرِ الہٰی اور خوفِ خدا کے ذریعہ بیماریوں سے شفایابی کی ایک اور مثال یہ ہے کہ جب انسان پر یکایک ظاہری قسم کا کوئی خوف طاری ہوجاتا ہے تو اُس وقت اس کے دل کے مرکز سے عجیب قسم کی ہیجانی لہر اس کے تمام جسم میں پھیل جاتی ہے، نہ معلوم کہ کچھ لوگوں کے علم میں یہ بات کس طرح آگئی کہ خوف کی ایسی کیفیت کے دوران روحِ حیوانی کے ذرّات خون کی نالیوں وغیرہ میں دوڑنے لگتے ہیں، چنانچہ انہوں نے بعض بیماریوں کا نفسیاتی علاج خوف کے اصول سے شروع کردیا، مثلاً بخار کے مریض کے پاس جبکہ اسے خبر نہ ہو، بندوق چلائی،
۳۰
اور یہ طریقہ بعض دفعہ باعثِ شفا ثابت ہوا کہ خوف کے ایک ہی جھٹکے کے ساتھ اس کی بیماری کے سارے جراثیم نکل گئے، اور وہ صحت یاب ہوگیا، اس کا سبب شاید یہی ہو، کہ روحِ حیوانی کا کچھ حصہ مدافعہ کے لئے یا گریز کی صورت میں جسم سے خارج ہوجاتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ بیماری کے اکثر جراثیم بھی نکل جاتے ہیں۔
روحانی خوف:
مثالِ مذکورۂ بالا ظاہری اور مادّی خوف کی تھی، اب اس عجیب و غریب اور معجزانہ خوف کا حال سنئے، جو کثرتِ ذکر کے بعد حق پرست بندوں پر طاری ہوجاتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ (۳۹: ۲۳)
اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام نازل فرمایا ہے، جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جلتی ہے، بار بار دہرائی گئی ہے، جس سے ان لوگوں کے جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں، بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔
آیۂ مذکورۂ بالا اگرچہ ظاہراً قرآنِ پاک کی تعریف میں ہے تاہم اس میں حکمت کا پہلو بھی بجائے خود موجود ہے، وہ یہ ہے کہ ہر مومن کے لئے عبادت و بندگی کے وہ الفاظ، وظائف، اور ادا اور اسماء “احسن الحدیث” کی
۳۱
حیثیت سے ہیں جو امامِ زمان علیہ السّلام مقرر فرماتے ہیں، اور یہی خاص عبادت و ذکر وہ عظیم معجزہ ہے جو کئی طرح کے معنوں سے دہرائی جانیوالی کتاب کی صورت اختیار کرتا ہے، اور اسی سے مومنین کے بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہوکر ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، پس اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرح انسان کا دل ذکرِ الہٰی کے فیضان کو قبول کرسکتا ہے، اسی طرح اس کا جسم بھی یادِ الہٰی کے فیوض و برکات سے بہرہ ور ہوسکتا ہے، چنانچہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے ذکر کے معجزے سے انسانی جسم کے خلیات و ذرّات کی تجدید ہوجاتی ہے، جس سے بہت سی روحانی و جسمانی بیماریوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
علاج و معالجہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا مجموعی اصول یہ ہوتا ہے کہ کسی تدبیر سے جراثیم کو مریض کے اندر ہی ہلاک و تباہ کردیا جائے یا ان کو بدر کردیا جائے، اب اگر جراثیم میں زندگی پائی جاتی ہے، اور ان میں ایک قسم کی روح موجود ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرثومہ روح اور جسم دونوں میں مشترک ہے، یعنی روحانی اور جسمانی دونوں طریقوں سے اس پر تصرف کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ پروردگارِ عالم کا قول ہے کہ:
مَا مِنْ دَاۗبَّةٍ اِلَّا هُوَ اٰخِذٌۢ بِنَاصِيَتِهَا ۭ اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ (۱۱: ۵۶) زمین پر چلنے والا کوئی بھی ایسا نہیں، مگر یہ کہ (خدا) اس کی پیشانی کے بال پکڑنے والا ہے، یقیناً میرا پروردگار سیدھی راہ پر ہے۔ پس اس آیت کی حکمت کے بموجب یہ ضروری نہیں کہ ہر جاندار مخلوق کی پیشانی کے بال
۳۲
ہوں، مگر یہ ضرور ہے کہ، ہر ذی روح مخلوق میں اپنی نوعیت کا احساس ہے اور قادرِ مطلق ہر جانور کے اسی احساس کو پکڑ کر راہِ راست کی طرف کھینچ سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر قسم کا جرثومہ بھی اپنی نوعیت کا احساس رکھتا ہے، پس اگر خدا چاہے تو اس کے احساس پر تصرف کرسکتا ہے، اور اس میں خوف و گریز کی خواہش ڈال سکتا ہے۔
ذکر میں قوّتِ برداشت:
ذکرِ الہٰی کے اس قدر شفابخش اور معجز نما ہونے کے باوجود بھی اگر کوئی مومن خدا کی مصلحت و حکمت سے بیمار رہتا ہو، تو پھر بھی خدا کی یاد سے مایوسی کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوسکتی، کیونکہ ایسے موقع پر عبادت اور ذکر مومن کو صبر و تحمل اور تسلیم و رضا کی ایسی بے مثال طاقت بخشتا ہے کہ جس سے وہ اپنی بیماری کی تکلیف کو محسوس ہی نہیں کرتا، جیسا کہ انبیاء، اولیاء اور حقیقی مومنین کے تذکروں سے یہ مثال ظاہر ہے۔
ذکر کا سب سے بڑا مقصد:
حقیقی مومن اپنے پروردگار کو صرف اس لئے یاد نہیں کرتا، کہ اس کے جسم کی صحت و سلامتی قائم رہے اور بس، بلکہ اس کا سب سے بڑا مقصد خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہے، جس میں مومن کے لئے سعادتِ دارین کے راز سربستہ ہیں۔ تاہم یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ خدا کی خوشنودی کے طلب گار رہنے سے تمام روحانی و جسمانی فیوض و برکات حاصل ہوتی ہیں، تاکہ مومن شکر گزاری کے طریق پر بھی خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کرتا رہے۔
۳۳
نعتِ نبیٔ اکرم صلعم
کلامِ خدا دان کلامِ محمدؐ
سخن گفتہ یزدان زکام محمدؐ
ترجمہ: حضرت محمدؐ کے کلام کو اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھ لینا (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ کی زبانِ مبارک سے خطاب فرمایا ہے۔
کتابِ خدا معجزِ بے مثالی
گواہِ کمالِ کلامِ محمدؐ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی کتاب (یعنی قرآن) جو ایک بے نظیر معجزہ ہے، حضرت محمدؐ کے کلام کی کمالیت کی گواہ ہے۔
خداوندِ برتر نوازش نمود
بتکریمِ لَولَاک بکامِ محمؐد
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کے حصولِ مقصد کے لئے لَولَاکَ (لَمَا خلقت الافلاک) کی تعظیم و تکریم سے نوازش فرمائی۔
۳۴
خدا یش نشانید برعرشِ عزت
مقامیست محمود مقامِ محمدؐ
ترجمہ: حق تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو (بموقعِ معراج) تختِ عزت یعنی عرشِ اعظم پر بٹھایا (پس محمد کا مقام وہ مقام ہے جس کی تعریف کی گئی ہے۔
گہرہائے حق اوصیا و رسل
خدا سفتہ اندر نظامِ محمدؐ
ترجمہ: حق تبارک و تعالیٰ نے حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے ربّانی موتیوں کو حضرت محمدؐ کی لڑی (سلسلہ) میں پروئے ہیں۔
برون ازحساب و فَزون ازشمار
درودِ الہٰی بنامِ محمدؐ
ترجمہ: حضرت محمد صلعم کے اسمِ گرامی پر اللہ تعالیٰ کی بے حساب اور لاتعداد رحمت نازل ہو۔
در آمَد بدینِ خدا عالمے
باحکامِ شرع و حسامِ محمدؐ
ترجمہ: حضرت محمدؐ کے احکامِ شرعی اور تیز تلوار سے (جو حضرت علیؑ کے ہاتھ میں تھی) دینِ خدا میں ایک پوری دنیا داخل ہوگئی۔
۳۵
کشد بوئے رحمٰن رَسویِ یمن
غذائی جلالی مشامِ محمدؐ
ترجمہ: حضرت محمدؐ کا شامہ (یعنی سونگھنے کی قوّت) یمن کی جانب سے جلالی غذا کے طور پر رحمٰن کی خوشبوئیں سونگھ لیا کرتا ہے۔
کسی راکہ بختش کندیارمندی
فتداز عقیدت بگامِ محمدؐ
ترجمہ جس شخص کو اپنا بخت مدد کرتا ہے، وہ خلوص و عقیدت سے حضرت محمدؐ کے مبارک قدموں پر جا گرتا ہے۔
نبی و علی ہست مولائے حاضر
بوَد در دو عالم دوامِ محمدؐ
ترجمہ: مولائے حاضرؑ حضرت نبیؐ اور حضرت علیؑ (کا نور) ہیں، کیونکہ دونوں عالم میں حضرت محمدؐ کی دائمیّت برقرار ہے۔
پیامِ محمدؐ پیامِ امامت
پیامِ امامت پیامِ محمدؐ
ترجمہ: حضرت محمدؐ کا پیغام نورِ امامت کا پیغام ہے، نورِ امامت کا پیغام حضرت محمدؐ کا پیغام ہے۔
۳۶
کنون شہ کریم آلِ پاک نبی دان
برو میکنم احترامِ محمدؐ
ترجمہ: موجودہ وقت میں مولانا شاہ کریمؑ (حاضر امام) کو حضرت نبیؐ کی پاک اولاد سمجھ لے میں تو انہی کے واسطہ سے حضرت محمدؐ کا احترام بجا لاتا ہوں۔
شدہ کشفِ اسرارِ حق بردلم
چوشد جانِ من مستِ جامِ محمدؐ
ترجمہ: جب سے میری جان (روح) حضرت محمد صلعم کے (عشق کے) پیالے سے مست و مخمور ہوئی، تو میرے دل پر حق تعالیٰ کے اسرار منکشف ہوئے۔
فدای امامی کہ از آلِ اوست
تن و جانِ زارِ غلامِ محمدؐ
ترجمہ: حضرت محمدؐ کے اس غلام کا جسم و جان اس امام پر فدا ہو جو آنحضرتؐ کی آلؑ سے ہیں۔
چہ خوش خو اند نورش بگوشِ نصیرؔ
کلامِ خدا ہم کلام محمدؐ
ترجمہ: (سبحان اللہ) اُس (امامِ زمانؑ) کے نور نے نصیرؔ کے کان میں خدا کے کلام (یعنی حکمتِ قرآن) کو نیز آنحضرتؐ کے کلام (یعنی حکمتِ حدیث) کو کس خوش اسلوبی سے پڑھا۔
۳۷
سردارِ رسلؐ کے وزیر
وزیرکے لغوی معنی ہیں بوجھ اٹھانے والا اور اصطلاح میں وزیر اُس شخص کو کہتے ہیں جو کسی بادشاہِ مطلق العنان یا صدرِ جمہور کے امورِ مملکت اور نظامِ حکومت کی ذمہ داریوں کے بارِ گران کا متحمل ہوتا ہے، یہی مثال اور مفہوم خلافتِ الہٰیہ یعنی دینی حکومت کا بھی ہے، کہ اس میں ہر دَور کا پیغمبر دینی بادشاہ اور اس کا وصی (یعنی وہ امام جس کو پیغمبر وصیت کرکے اپنا جانشین مقرر کرے) دینی وزیر ہوا کرتا ہے۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام جب پہلی بار کوہِ طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہمکلام ہوئے تو حق تعالیٰ نے ان کو پیغمبری کے درجہ پر مامور فرمایا اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اس موقع پر پروردگارِ عالم سے جو کچھ عرض و التجا کی، اس میں یہ بھی ہے کہ: وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ هٰرُوْنَ اَخِي اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ وَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ (۲۰: ۲۹ تا ۳۲) اور میرے لئے میرے اہل میں سے ایک وزیر بنادے (یعنی) میرا بھائی ہارونؑ، اس کے ذریعے سے میری کمر مضبوط کردے، اور اسے میرے کام میں میرا شریک کردے۔
اسماعیلی اور اثنا عشری کتابوں کے علاوہ، سنی مکتبۂ فکر کے مآخذ (Source
۳۸
Books) میں بھی یہ روایت مذکور ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے سلسلۂ قصّہ میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر مذکورۂ بالا آیت نازل ہوئی، تو آنحضرتؐ نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کی کہ: اے بارِ خدا! میں بھی اسی طرح التجا کرتا ہوں، جس طرح موسیٰؑ نے التجا کی تھی: وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ ۙهٰرُوْنَ اَخِي اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ وَاَشْرِكْهُ فِيْٓ اَمْرِيْ (۲۰: ۲۹ تا ۳۲) اور میرے اہلِ میں سے ایک وزیر بنادے (یعنی) میرا بھائی (علیؑ)، اور اس کے ذریعہ سے میری کمر مضبوط کردے، اور اسے میرے کام میں شریک کردے۔
حضرت امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام سے یہ روایت منقول ہے، آپؑ فرماتے ہیں کہ، جب آیت کریمہ: “وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ (۲۶: ۲۱۴) اور آپ اپنے نزدیک ترین کنبہ والوں کو ڈرائیے۔” نازل ہوئی تو آنحضرت صلعم نے ایک پیالہ دودھ اور بکری کی ایک ران دسترخوان پر رکھ کر خاندانِ بنی عبدالمطلب کو مدعو کیا، جو چالیس مردوں پر مشتمل تھا، مگر دس نوجوان تو ایسے تھے کہ ان میں سے ہر فرد ایک بکری اکیلا ہی کھا سکتا تھا، اور ایک مشک دودھ پی سکتا تھا، پھر بھی ان لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا پیا۔ اس روز ابو الہب بھی ان کے ساتھ تھا۔
جب خوردنوش سے فارغ ہوچکے تو رسولِ اکرم صلعم نے ان سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے بنی عبدالمطلب! میری اطاعت کرو تو تم سب زمین کے بادشاہ اور حکمران بن جاؤگے، اور میں تم سے پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اب تک پروردگارِ عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں، ان
۳۹
میں سے ہر ایک کے لئے ایک وصی، وزیر، بھائی، وارث اور ولی مقرر فرمایا تھا، تو آج تم میں سے کون ایسا جوانمرد ہے جو میرا وصی، میرا وارث، میرا ولی، میرا بھائی اور میرا وزیر بنے گا؟ اتنا سننا تھا کہ سب پر خاموشی طاری ہوئی، مگر آنحضرت صلعم نے اتمامِ حجت کے طور پر ان میں سے ایک ایک کے سامنے فرداً فرداً یہ دعوت پیش کی، لیکن کسی نے آپ کی دعوت کو قبول نہ کیا، بجزآنکہ میں باقی رہ گیا تھا، اُس وقت میں سب سے کم سِن تھا، مگر جب رسول اللہ صلعم نے میرےسامنے اپنی یہ دعوت پیش کی تو میں نے مؤدبانہ عرض کیا کہ اے پیغمبرِ خدا صلعم! میں آپ کا وصی، وزیر، بھائی، وارث، اور ولی بنوں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ، ہاں، اے علی! تم ہی میرے وصی، میرے وزیر، میرے وارث، میرے بھائی اور میرے ولی ہو۔
جب بنی عبدالمطلب مجلس سے باہر نکلے تو ابولہب نے ان سے کہا کہ تم نے آج جو کچھ دیکھا ہے، کیا اس سے تم کو اپنے صاحبِّ محمد کی جادوگری کا ثبوت نہیں ملتا کہ، اس نے تمہارے سامنے دسترخوان پر بکری کی ران رکھی اور دودھ کا پیالہ جس سے تم لوگ خوب سیر شکم ہوگئے، پھر کیا تھا وہ سب کے سب ابولہب کی اس بات کو سن کر ٹھٹھا کرنے لگے، اور حضرت ابوطالب سے کہنے لگے: کہ تمہارا بیٹا تم پر مقدم ہوگیا۔ (ازدعائم الاسلام حصّہ اوّل، ص ۳۱۔۳۲)۔
مذکورۂ بالا حدیث مظہر ہے کہ پرور دگارِ عالم نے دنیا میں جتنے پیغمبر بھیجے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک وزیر مقرر فرمایا تھا، چنانچہ حضرت آدمؑ کے وزیر مولانا امام شیث علیہ السّلام تھے، حضرت نوحؑ کے وزیر مولانا سام علیہ السّلام،
۴۰
حضرت ابراہیمؑ کے وزیر مولانا امام اسمٰعیل
علیہ السّلام تھے، حضرت موسیٰؑ کے وزیر مولانا امام ہارون علیہ السّلام تھے، حضرت عیسیٰؑ کے وزیر مولانا امام شمعون علیہ السّلام تھے، اور حضرت محمد مصطفےٰ صلعم کے وزیر مولانا امام علی علیہ السلام تھے۔
یہاں پر ایک اور حدیث کی وضاحت کی جاتی ہے، جو “حدیثِ مماثلتِ ہارونی” کے نام سے مشہور ہے، کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: یَا عَلِیٌّ اّنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزَلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُّوْسیٰ اِلاّ انَّہ لَا نَبّی بَعْدِیْ۔ اے علی! تیرا درجہ مجھ سے ایسا ہے جیسے ہارون کا درجہ موسیٰ سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد (کوئی) پیغمبر نہیں ہے۔
مذکورہ حدیث زبانِ حکمت سے ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ بے شک مولانا علیؑ پیغمبرؐ نہیں ہیں، اس لئے وہ ذاتی طور پر ظاہری پیغام پہنچانے کے ذمہ دار نہیں، لیکن جہاں تک خدا و رسولؐ سے ان کی قربت و نزدیکی اور امرِ نبوّت میں شریک ہونے کا تعلق ہے، اس کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے تو اُن آیات پر غور کیا جائے جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے بارے میں ہیں، اس کے بعد ان تمام آیات کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے، جو آنحضرتؐ کے ظاہری و باطنی فضائل و کمالات اور مومنین کے اوصاف کی آئینہ دار ہیں، پھر آپ کو اس حقیقت میں ذرہ بھر بھی شک نہ رہے گا، کہ علیؑ جو عجائب و غرائبِ الہٰیہ کے مظہر ہیں، وزیر کی مرتبت میں حضورِ اقدس صلعم کے ساتھ ساتھ وحیٔ آسمانی اور علمِ لدنی سے آراستہ و پیراستہ ہوکر سر چشمۂ رشد و ہدایت بھی ہیں، اور امیر المومنین کی حیثیت سے اسلام، ایمان، عبادت، ریاضت، حیا، تقویٰ،
۴۱
صبر، شجاعت، احسان، سخاوت، علم، حلم، حکمت، فضیلت، کرامت وغیرہ جیسی صفاتِ حسنہ میں اہلِ ایمان کے آگے آگے بھی ہیں، کیوں نہ ہو، جب کہ آپ ہی سردارِ رسل اور شاہِ سبل کے وزیر ہیں، اور وزیر کا فرضِ منصبی ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ نہ صرف سلطنت کے نظم و نسق میں بادشاہ کا اوّلین رازدار، معاون اور مددگار ہوا کرتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ قوانینِ سلطنت کی پیروی میں رعایا سے سبقت وفوقیت لیجا کر عملی مثال بھی پیش کرتا ہے۔
جب ہم شروع شروع میں قرآنِ مجید کی اِن پُرحکمت آیتوں کو سطحی نظر سے دیکھتے ہیں، جو حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے قصّے میں آئی ہے، تو ہمیں صرف اسقدر معلومات فراہم ہوتی ہیں کہ موسیٰؑ کی طرح ہارونؑ پر بھی وحی نازل ہوا کرتی تھی، اور وہ موسیٰؑ کے وزیر اور خلیفہ تھے، لیکن اس طائرانہ نظر سے یہ ہرگز معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ وزارت کے اس منصبِ اعلیٰ پر مامور ہونے کے بعد کن کن موقعوں پر اور کیسے کیسے حالات میں اپنے بھائی موسیٰؑ کی حمایت و یاری کرتے رہے؟ یہ سوال بظاہر نہایت ہی پیچیدہ اور سخت دکھائی دیتا ہے، کیونکہ موسیٰؑ خود ہر موقع پر تبلیغِ رسالت میں مصروف نظر آتے ہیں، اور ہارونؑ اکثر ان کے ساتھ ہوتے تو ہیں، مگر خاموش۔
لیکن جب ہم بعد میں ان آیات کی معنوی گہرائیوں میں اتر کر حکمت سے خوب استفادہ کرتے ہیں تو ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف و آگاہ ہوجاتے ہیں کہ تمام امورِ دین کے دو دو پہلو ہوا کرتے ہیں: ظاہر و باطن، یا تنزیل اور تاویل، تنزیل آسمانی کتاب کی ظاہریت کا نام ہے، جس میں احکامِ الہٰی کے
۴۲
ظاہری پہلو نظر آتے ہیں، تاویل کتاب کی باطنیت کو کہتے ہیں، جس میں ان احکام کے باطنی پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں، چنانچہ حضرت موسیٰؑ کا تعلق تنزیل سے تھا اور حضرت ہارونؑ کا تعلق تاویل سے، اور یہ ایک لازمی بات ہے کہ جس شخص کا تعلق پوشیدہ کاموں سے ہو، تو اس کی حیثیت بھی پوشیدہ ہوا کرتی ہے۔
اب اس حقیقت کی دلیل پیش کیجاتی ہے کہ موسیٰؑ کا تعلق تنزیل سے تھا اور ہارونؑ کا تعلق تاویل سے، وہ اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ:
وَاَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْٓ ۡ اِنِّىْٓ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ (۲۸: ۳۴) اور (موسیٰؑ نے کہا) میرا بھائی ہارون جو میری نسبت زبان میں زیادہ فصیح ہے، پس اسے میرے ساتھ مددگار بناکر بھیجۓ (تاکہ) وہ میری تصدیق کرے، یقیناً میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں مجھے نہ جھٹلائیں۔
یہاں موسیٰؑ نے اپنے بھائی ہارونؑ کی جس فصاحت کا ذکر کیا ہے، اس سے تاویل مراد ہے، کیونکہ جہاں لوگ تنزیلی امور کے نہ سمجھنے سے نبوّت کی تکذیب کرتے ہیں، وہاں تاویل کی روشنی میں ان پر حقیقت ظاہر کر کے نبوّت کی تصدیق کی جاتی ہے، ورنہ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ جب موسیٰؑ کہتے ہیں کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں، اور ساتھ ہی ساتھ زبردست معجزات کی صورت میں اس کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں، تو لوگ ان کی تکذیب کرتے ہیں، مگر جب ہارونؑ صرف اپنی ظاہری فصاحت و بلاغت ہی سے ان کو سمجھاتے ہیں، تو وہ جھٹلانے سے باز آکر موسیٰ علیہ السّلام کی نبوّت کے قائل ہوجاتے ہیں، بلکہ اس واقعہ کی حقیقت تو یہ ہے کہ ہارونؑ نے تاویل کی روشنی میں نہ صرف اپنی
۴۳
جسمانی زندگی کے دوران موسیٰؑ کی نبوّت کی تصدیق کی بلکہ وہ پورے دور میں جو حضرت عیسیٰؑ کے زمانے تک ہے، اپنے سلسلۂ اولاد کی حیثیت میں بھی یہی کام انجام دیتے رہے، کیونکہ یہ تو ہر گز نہیں ہوسکتا کہ نبوّت کی تکذیب و تصدیق نبی کی زندگی تک محدود رہے، اور بعدِ وفات یہ بحث بالکل ختم ہوجائے چنانچہ امرِ واقعہ اس کے برعکس ہے، اور وہ یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جاتا ہے، تو عوام الناس بھی پیغمبر سے دور تر ہوتے جاتے ہیں۔ اس صورت میں لوگوں پر اتمامِ حجت اور فرمانبرداروں کی رہنمائی کے لئے پیغمبر کے وزیر اپنی اولاد کی حیثیت میں موجود ہوتےہیں، تاکہ پورے دور میں یکسان اور مسلسل طور پر تصدیقِ نبوّت کا کام جاری و ساری رہ سکے۔
اس بیان میں سردارِ رسل صلعم کے وزیر مولانا علیؑ کے بارے میں، جو امامِ زمان علیہ السّلام کی نورانی حیثیت میں ہیں، بہت سے روشن حقائق موجود ہیں، جن کا بلاواسطہ اور بالواسطہ دو طرح سے ذکر کیا گیا ہے، اس موقع پر اہلِ دانش کے لئے علم و عرفان کے یہی تذکرے اور اشارے کافی ہیں۔
بموقع عید میلاد النبیؐ
سہ شنبہ ۱۲، ربیع الاوّل ۱۳۹۰ھ
مطابق ۱۹، مئی ۱۹۷۰ء
۴۴
قرآن کی تنزیل اور تاویل
ظاہر اور باطن:
شیعی امامی اسماعیلیوں کے عقائد میں سے ایک یہ بھی ہے، جو کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی ہر آیت بلکہ ہر لفظ کے دومعنی ہوا کرتے ہیں، معنیٔ ظاہر اور معنیٔ باطن، ظاہر کو تنزیل کہتے ہیں، اور باطن کو تاویل، جیسا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس مشہور و معروف حدیث سے واضح ہے:
“ومانزلت علیَّ من القراٰن اٰیَۃٌ اِلاّ و لَھَاظھروبطن” مجھ پر قرآن کی (آیات میں سے) کوئی آیت ایسی نہیں اتری ہے، مگر اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔
تمام باتوں میں تاویل:
چنانچہ خود قرآنِ مجید کی تعلیمات سے بھی یہی حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ خدا، انبیاء، اور أئمّہ برحق علیہم السّلام کی مقدّس باتوں کے علاوہ ہر طبقے کے لوگوں کی باتوں میں بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ نہ کچھ تاویل کا دخل ہوتا ہے، خواہ لوگوں کی یہ باتیں حالتِ بیداری میں ہوں یا عالمِ خواب میں۔
۴۵
حضرت یوسفؑ تمام باتوں کی تاویل جانتے تھے:
حق تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السّلام کو خاص و عام ہر قسم کی باتوں کی تاویل سکھائی تھی، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: رَبِّ قَدْ اٰتَيْتَنِيْ مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِيْ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ(۱۲: ۱۰۱) (یوسفؑ نے کہا) اے میرے پروردگار! یقیناً تونے مجھے (روحانی)سلطنت عطا کی ہے، اور مجھے تمام باتوں کی تاویل سکھائی ہے۔
خواب کی تاویل:
اگر یہاں یہ خیال کیا جائے کہ خدا نے حضرت یوسفؑ کو صرف خوابوں کی تعبیر سکھائی تھی تو درست نہ ہوگا، کیونکہ احادیث کے معنی ہیں باتیں، جن میں خواب کی باتیں بھی شامل ہیں، اور خواب کی تعبیر و تاویل اس وقت ہوسکتی ہے جبکہ اس میں کچھ باتیں پائی جائیں، ورنہ خاموش و بے حِس نیند کی کوئی تاویل نہیں۔
پیغمبر اور امام ہر قسم کی تاویل جانتے ہیں:
جب یہ معلوم ہوا کہ اعلیٰ و ادنیٰ ہر قسم کی باتوں میں درجہ بدرجہ تاویل ہوا کرتی ہے، اور اللہ تعالیٰ نے یہ تمام تاویل حضرت یوسفؑ کو سکھائی تھی، تو اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ قرآنِ پاک کی ہر آیت بلکہ ہر لفظ میں تاویل پوشیدہ ہے، دوسرا نتیجہ یہ کہ پیغمبر اور امام علیہما السّلام قرآن کی تاویل جانتے ہیں، اور
۴۶
تیسرا یہ کہ پیغمبرؐ اور امامِؑ زمان سے یہ تاویل صرف ان لوگوں کو مل سکتی ہے جو اس کو حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، اور پوچھتے ہیں جیسا کہ پوچھنے کا اصول مقرر ہے۔
تاویل اہلِ یقین کو بتائی جاتی ہے:
حضرت یوسفؑ نے خواب وغیرہ کی تاویل صرف ان لوگوں کو بتائی جنہوں نے ان کی سچائی پر اعتماد کیا، اور یقینِ کامل سے پوچھا، چنانچہ جو دو۲ جوان حضرت یوسفؑ کے ساتھ قید خانے میں داخل کئے گئے تھے، انہوں نے حضرت یوسفؑ کی علمیت سے متاثر ہو کر اپنے اپنے خواب کی تاویل پوچھی، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: “ہمیں اس کی تاویل بتا دیجئے، یقیناً ہم آپ کو نیکو کاروں میں سے دیکھتے ہیں (۱۲: ۳۶)۔” پھر اس کے بعد اُن دونوں میں سے جس کو حضرت یوسفؑ کی تاویلی پیشن گوئی کے مطابق نجات ملی تھی اُس نے بادشاہِ مصر کے خواب کی تاویل پوچھتے ہوئے کہا۔ “یوسفؑ! اے بڑے سچے! ہمیں اس کی تعبیر دیجئے کہ ……۔”
حصولِ تاویل کا طریقِ کار:
ان تذکروں سے بخوبی ظاہر ہوا کہ تاویل کا کوئی حصہ حاصل کرنے کی واحد شرط یہ ہے کہ صاحبِّ تاویل کی پہچان کے بعد اس کی علمی مرتبت کے لئے اقرار اور اس کی ہدایت پر پورا پورا عمل کیا جائے، اور یہ سمجھ لیا جائے کہ ہر زمانے کا
۴۷
امامؑ ہی اپنے وقت کا صاحبِّ تاویل ہوا کرتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا: انا صاحبِّ التّنزیل وَعلیٌّ صاحبِّ التّاویل۔ میں تنزیل کا مالک ہوں اور علی تاویل کا مالک ہے۔
عملی تاویل:
جاننا چاہئے کہ خدا، پیغمبرؐ، اور امامؑ کی باتوں کے علاوہ ان حضرات کے کاموں میں بھی تاویل (یعنی حکمت) ہوتی ہے، چنانچہ سورۂ کہف (۱۸) کے رکوع ۹ اور ۱۰ کو ذرا غور سے پڑھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام مزید علم و حکمت حاصل کرنے کے لئے ایک معجزانہ شخصیت کے پاس گیا، تو اس بزرگ نے کچھ ایسے کام کرکے دکھائے جو حضرت موسیٰؑ کے نزدیک قابلِ اعتراض تھے، مگر جب اس بزرگ نے اپنے ان کاموں کی تاویل (یعنی حکمت) بتائی تو موسیٰ علیہ السّلام اپنے روحانی معلّم کے ہر قول و فعل کے متعلق مطمئن ہوئے۔
تاویل ہی حکمت ہے:
تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے، اور اس کے مقابلے میں تنزیل کو کتاب کہا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَيْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا (۰۴: ۵۴) یقیناً ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت دی اور انہیں ایک بہت بڑی سلطنت دی۔”
۴۸
اس ارشادِ الہٰی کی وضاحت یہ ہے کہ، آلِ ابراہیمؑ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی ذریت کے انبیاء اور أئمّہ علیہم السّلام ہیں، کتاب تنزیل ہے، جو پیغمبروں کا حصّہ ہیں، حکمت تاویل ہے، جو اماموں کا حصّہ ہیں، اور ملکِ عظیم روحانی سلطنت ہے، جو پیغمبروں کو نبوّت کے مرتبے میں اور اماموں کو امامت کے درجے میں حاصل ہوتی ہے۔
محکمات و متشابہات:
اگرچہ ہر قرآنی آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، تاہم بعض آیتیں محکمات کہلاتی ہیں، اور بعض متشابہات، آیۂ محکم وہ ہے جو بظاہر اپنی صراحت کے سبب سے محتاجِ تاویل نہ ہو، اس کے برعکس آیۂ متشابہ وہ ہے، جس کے لئے تاویل کی ضرورت ہو، محکمات کی مثال یہ ہے کہ: وَاقمُواالصَّلوٰۃ و اٰتُو الزّکوٰۃ = اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ دو۔ اگرچہ اس کا بھی ایک باطن یعنی تاویل ہے، اور وہ یہ ہے: “دینِ حق کی دعوت قائم کرو، اور اہلِ مذہب کو علمِ حقیقت سکھاؤ۔” تاہم یہ آیت تاویل کی محتاج نہیں، اور متشابہات کی مثال یہ ہے کہ: وَاعْتصمُوا بحبِّل اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّ لَا تفرَّقُوا۔ اور سب مل کر خدا کی رسی مضبوطی سے تھامے رہو اور متفرق نہ ہوجاؤ۔ ظاہر ہے کہ خدا کی رسی سے کوئی ایسی چیز مراد ہے جو اپنے معنی کے لحاظ سے کسی قدر رسی سے ملتی جلتی ہے، اب خدا کی رسی سے جو چیز مراد لی گئی ہے، وہی چیز اس لفظ کی تاویل کہلائے گی، اور خدا کی رسی سے سلسلۂ ولایت مراد
۴۹
ہے، پس اس آیت کی تاویل یہ ہے کہ “تم سب مل کر یقینِ محکم کے ساتھ سلسلۂ ولایت کی حقیقی اطاعت کرو، اور اس بارے میں جدا جدا عقیدہ نہ رکھا کرو۔”
راسِخوْن فِی الْعِلْمِ:
حق تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ ڤ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا (۰۳: ۰۷) اور قرآن کی تاویل سوائے اللہ اور ان لوگوں کے جو علمِ دین میں پختہ کار ہیں، اور کوئی نہیں جانتا، وہ کہتے ہیں کہ ہم (بصیرت سے) اس پر ایمان لائے، یہ سب (محکم اور متشابہ آیات اور تنزیل و تاویل) ہمارے ربّ کی طرف سے ہیں۔
تمام شیعہ مکاتبِ فکر اس بات پر متفق ہیں کہ “راسخون فی العلم” میں سب سے پہلے آنحضرتؐ کا ذکر ہے، کیونکہ آنحضرتؐ علمِ دین میں پختہ کار تھے، اور قرآن کی تاویل جانتے تھے، اور اس کے بعد جملہ أئمّۂ طاہرینؑ کا ذکر ہے کہ یہ حضرات آپؐ کے بعد علمِ دین میں پختہ کار ہیں، اور قرآن کی تاویل جانتے ہیں، اور انہوں نے چشمِ بصیرت سے مشاہدہ کرتے ہوئے باور کرلیا ہے، کہ جس طرح آسمانی کتاب خدا ہی کی طرف سے پیغمبرؑ کو دی گئی ہے، اسی طرح اس کی حکمت بھی خدا ہی کی طرف سے رسولؐ اور أئمّۂ برحق کو دی گئی ہے۔
۵۰
میلاد الامام الحاضر
کسی پیغمبرؐ یا امامِ برحقؑ کی جسمانی ولادت میں عموماً اہل زمانہ کے لئے اور خصوصاً مومنین کے لئے جو کچھ سعادت مندی پوشیدہ ہوتی ہے، اس کے متعلق اعتقاد کی بنیاد صرف روایت اور قیاس ہی پر نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی استوار اور روشن حقیقت ہے کہ اس کے ثبوت کے دلائل سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہ کرسکے گا۔
چنانچہ قرآنِ پاک کی روشنی میں اس حقیقت کی توضیح کی جاتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی ظاہری ولادت کی سعادتمندی حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ولادت کی مثال میں بیان فرمائی ہے، کیونکہ حکمتِ الہٰیہ کا تقاضا یہ تھا کہ انبیاء اور أئمّۂ برحق علیہم السّلام کی جسمانی ولادت اور ان کی بشریت کی سعادتوں اور برکتوں کا ذکر ایک ایسے پیغمبر کی پیدائش کی مثال میں کردیا جائے جس کی ولادت اور بشریت کے متعلق بے معرفت لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شک اور اعتراض ممکن تھا، وہ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام تھے، کیونکہ ان کی پیدائش اور بشریت اس مطلب کے لئے ایک بہترین مثال ہوسکتی تھی، اس لئے کہ مختلف زمانے کے منکرین نے دوسرے انبیاء اور اولیاء کی جسمانیّت پر جو کچھ اعتراض اٹھایا، وہ تو اکثر یہی ہوا کرتا تھا، کہ
۵۱
انہوں نے انبیاء و اولیاء کو اپنی طرح کے انسان قرار دیا، جس کی ترجمانی قرآنِ پاک اس طرح کررہا ہے:
قَالُوْا مَآ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا (۳۶: ۱۵) ان لوگوں نے کہا کہ تم تو کچھ بھی نہیں، مگر ہماری طرح (محض) معمولی آدمی ہو۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش و بشریت پر منکرین نے جو کچھ اعتراض اٹھایا، اس کے متعلق قرآنِ حکیم کا ارشاد یہ ہے: قَالُوْا يٰمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَـيْـــــًٔـا فَرِيًّا (۱۹: ۲۷) لوگوں نے کہا کہ اے مریم! تم نے بڑے غضب کا کام کیا۔ یعنی انہوں نے کہا کہ ہماری طرح کا انسان تو درکنار یہ مولود سِرے سے حلال زادہ ہی نہیں، پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش اور بشریت انبیاء و اولیاء کی مجموعی زندگی کی ایک ایسی جامع مثال ہے کہ جس میں اگر ایک طرف سے منکرین کے سخت سے سخت اعتراض کا ذکر موجود ہے، تو دوسری طرف سے اس میں اس اعتراض کی تردید کرکے انبیاء و اولیاء کی پیدائش و بشریت کے فیوض و برکات کا بھی انتہائی جامع الفاظ میں ذکر کردیا گیا ہے، اور ا س سلسلے میں قرآنِ پاک کا ایک ارشاد یہ ہے: وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ (۱۹: ۳۱) اور خدا نے مجھے برکت والا بنایا، میں جہاں کہیں بھی ہوں۔ اس مطلب کی تشریح یہ ہے، کہ حضرت عیسیٰؑ مذکورہ اعتراض کی تردید میں اپنی پیدائش اور جسمانیّت کے فیوض و برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے برکت والا بنایا، پس میں جہاں جاؤں، جن لوگوں کے درمیان رہوں، اور جن اشخاص کی طرف روحانی توجہ کروں، تو وہاں پر اور اُن لوگوں کو برکت مل سکتی ہے، پھر ظاہر ہے کہ پیغمبرؐ اور امامِ برحقؑ کے ظاہری
۵۲
وجود ہی امت و جماعت کے لئے باعثِ فیض و برکت ہے، اس لئے کہ اَیْنَ مَا کُنْتُ کا اشارہ سب سے پہلے روحانی پیشواء کے مبارک وجود اور جائے سکونت کی طرف ہے، چنانچہ مذکورہ آیت سے یہ ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰؑ جہاں رہتے تھے، ان کے ساتھ برکت تھی، تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ برکت حضرت عیسیٰؑ سے جدا نہ تھی، اور صرف انہی کی خوشنودی سے کسی کو مِل سکتی تھی، پھر اس جسمانی وسیلے کے بعد حضرت عیسیٰؑ کی روحانی توجہ اور نظر ممکن تھی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ برکت کی حقیقت و کیفیت کیا ہے؟جس کا جواب یہ ہے کہ برکت ایمان، جان، اولاد، اور مال کی لازوالی اور زیادتی کا نام ہے، پس انسان کو جن چیزوں میں برکت کی ضرورت ہے، وہ بس یہی چیزیں ہیں، اور انسان کی ان چیزوں میں ہر ممکن برکت حاصل ہونے کا جو ذریعہ ہے، وہ پیغمبرؐ اور امامِ برحقؑ کی ظاہری ہدایت ہے، یہی وجہ تھی جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنے اس قول میں یہ منطق پوشیدہ رکھی، کہ اپنے زمانے کی ساری برکات مجھ میں ہیں، یعنی فیوض و برکات شروع شروع میں ہدایت کی صورت میں ہوتی ہیں، تو معلوم ہوا کہ پیغمبرؐ اور امامِ برحقؑ کا ظاہری وجود ہی سرچشمۂ ہدایت اور ذریعۂ برکت ہے۔
مزید بر آن برکت کی ایک خاص حقیقت اور بھی ہے، وہ ہے ایمان، جان، اولاد اور مال کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ دینی اور روحانی فوائد کا حاصل ہونا، پس یہی لازوال اور ابدی برکت ہے، اور یہ برکت تمام دنیاوی برکتوں سے برتر ہے، پس انبیاء اور أئمّۂ برحق اپنی ہدایت کے ذریعہ مومنین کو یہی
۵۳
برکت دیا کرتے ہیں، اور اسی برکت کو حاصل کرنے کے لئے انہیں تاکید فرماتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کے بارے میں ایک اور قرآنی جامع حقیقت یہ ہے، کہ انسانِ کامل (یعنی نبی اور ولی) پر تین موقعوں میں ملائکہ اور روحانیین کا زیادہ سے زیادہ نزول ہوا کرتا ہے، وہ مواقع ان کے یومِ پیدائش، یومِ وفات اور یوم بعث ہیں۔ چنانچہ قولِ قرآن ہے: “وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَيَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا (۱۹: ۳۳) اور تائید (یعنی نزولِ ملائکہ کا موقع) ہے، میرے لئے جس دن میں پیدا ہوا، اور جس روز رحلت کروں گا، اور جس روز زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا۔” سلام کے خاص معنی تائید یعنی نزولِ ملائکہ و ارواح کے ہوتے ہیں، جس طرح خدا تعالیٰ کے اس فرمان سے ظاہر ہے:
تَنَزَّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ ڕهِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ(۹۷: ۴ تا ۵) وہ رات (یعنی شبِ قدر) ایسی ہے، کہ اس میں ملائکہ اور ارواح اپنے پروردگار کے اذن پر پورے عالمِ امر سے نازل ہوتے رہتے ہیں (اس لئے) وہ رات طلوعِ فجر تک موقعِ تائید ہے، یہاں پر ثبوت ہوا کہ نزولِ ملائکہ و ارواح کا نتیجہ ہی سلام یعنی تائید ہے۔
پس امامِ زمانؑ کے یومِ پیدائش کی سعادت و برکت مذکورہ آیات کی روشنی میں معلوم کی جاسکتی ہے، کیونکہ پیغمبرؐ اور امامِ برحقؑ کا نور فی الاصل ایک ہی زندہ روح کی حیثیت سے ہے۔
والسلام
۵۴
امامِ برحقؑ کا دیدارِ فیض آثار
امامِ حیّ وحاضر کے دیدارِ فیض آثار کی اہمیت و افادیت اور قدر و منزلت کے بارے میں کچھ حقائق پیش کرنے سے قبل یہ لازمی امر ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں بطریقِ اختصار یہ ذکر کردیا جائے کہ دینِ اسلام میں اللہ تعالیٰ کے نورانی دیدار اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے ظاہری دیدار کا کیا تصوّر و عقیدہ ہے، تاکہ مومنین اس واضح بیان سے امامِ زمانہ کے دیدارِ اقدس کی حقیقت و حکمت کو بخوبی سمجھ سکیں۔
دیدار کا تذکرہ:
چنانچہ اگر کوئی ذی علم اور صاحبِّ بصیرت انسان قرآنِ حکیم کی معنوی گہرائیوں تک رسا ہوکر غور و فکر کرے، تو یقیناً اس پر یہ حقیقت منکشف ہوگی، کہ قرآنِ حکیم کی تمام آیاتِ مقدسہ حکمت کے انداز میں نورانی دیدار کے تذکروں سے بھری ہوئی ہیں، اور ان میں کوئی بھی آیت ایسی نظر نہیں آتی جو اس تذکرہ سے بالکل خالی ہو، چنانچہ ذیل میں قرآن شریف کا ایک ایسا کلّیہ درج کیا جاتا ہے، کہ جس سے یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہوگا کہ کائنات و موجودات اور قرآن کا
۵۵
کوئی ایسا جز نہیں، جو اپنے کسی نہ کسی پہلو سے حق تعالیٰ کے جمال و جلال کی آئینہ داری نہ کرتا ہو اور وہ کلّیہ یہ ہے:
“فَاَيْنَـمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ (۰۲: ۱۱۵) پس تم جس طرف بھی متوجہ ہوجاؤ، وہیں خدا کا چہرہ موجود ہے۔” خدا کے چہرے سے نورانی دیدار، اور معرفت مراد ہے، اور “اَیْنَ” کا لفظ تمام عرصۂ زمان و مکان اور جملہ حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے، پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ اوّل، آخر، ظاہر اور باطن کے تمام مقامات و حالات میں نورِ الہٰی کی کوئی نہ کوئی جلوہ نمائی موجود ہے، اور اہلِ بصیرت ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حالت میں دیدارِ خداوندی کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوسکتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ جس طرح عین الیقین کے درجے میں کائنات کی ہرچیز کے باطن میں دیدارِ الہٰی کا جلوہ نظر آتا ہے، اسی طرح علم الیقین کے مقام پر قرآنِ حکیم کی ہر آیت، ہر جملہ، اور ہر لفظ کی حکمت میں اس پاک دیدار کے متعلق کوئی نہ کوئی تذکرہ پایا جاتا ہے۔
مذکورۂ بالا تاویلی حقیقتوں کے علاوہ قرآنِ پاک میں ایسی بہت سی آیتیں ہیں، جن میں دیدارِ ربّانی کا واضح طور پر بیان آیا ہے، ہم یہاں اُن تمام آیات میں سے صرف چار آیتوں کی وضاحت پر اکتفا کرتے ہیں، کیونکہ وجود و ہستی کے چار حالات کے اعتبار سے دیدارِ الہٰی کے مقامات چار ہیں، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ (۵۷: ۰۳)۔ وہی سب سے پہلے ہے، اور وہی سب سے پیچھے ہے، اور وہی
۵۶
سب سے آشکار ہے اور وہی سب سے مخفی ہے۔
“ھُوَالَاوّل” کا اشارہ:
پہلی آیت جو مقامِ اوّل کے دیدار کے بارے میں ہے، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں ارواح کو مخاطب کرکے فرمایا “اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ (۰۷: ۱۷۲) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ قَالُوْا بَلٰىۚ شَهِدْنَاۚ (۰۷: ۱۷۲) انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم (سب اس واقعہ کے ) گواہ بنتے ہیں۔” ظاہر ہے، کہ اس وقت ارواح سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور ربوبیّت کی عینی گواہی لی گئی تھی، اور اُن تمام روحوں کو ربّ العزّت کے نورانی دیدار کا شرف حاصل ہوا تھا، کیونکہ حکیمِ مطلق کے حقیقی عدل کی رو سے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ کچھ لوگوں سے کسی ایسے واقعے کی شہادت پوچھ لی جائے، اور اُن کو گواہ بنالیا جائے، جب کہ وہ واقعہ اُن پر تاریک اور چھپا ہوا ہے، اور وہ لوگ اُس سے بالکل نابلد اور قطعاً ناواقف ہیں۔ پس یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ روحوں کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیّت کی یہ گواہی دیدار اور جملہ صفاتِ کمالیہ کی روشنی میں تھی۔
“وَالْاٰ خِرُ” کا اشارہ:
دوسری آیت جو مقامِ آخر کے دیدار کے بارے میں ہے، یہ ہے: “مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ (۲۹: ۰۵) جو شخص
۵۷
خدا کے دیدار کی امید رکھتا ہو، تو خدا کے وعدے کا دن ضرور آنے والا ہے۔” اس ارشادِ ربّانی میں اُس دیدار کا ذکر آیا ہے جو مستقبل اور آخرت میں مومنین کے لئے میسر ہونے والا ہے۔
“وَالظَّاھِرُ” کا اشارہ:
تیسری آیت جو مقامِ ظاہر کے دیدار کے باب میں ہے، یہ ہے جو فرمایا گیا کہ : اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اور نور کی تعریف یہ ہے کہ وہ بذاتِ خود روشن اور ظاہر ہے، اور کائنات کی تمام چیزوں کو بھی منور و آشکار کردیتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص آفتابِ عالم تاب کو دیکھنا چاہے تو خود اسی کی روشنی میں دیکھ سکتا ہے، نہ کسی اور چیز کی روشنی میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا نورانی دیدار حالتِ ظہور میں بھی ہے، مگر یہ دیدار خود نور ہی کے وسیلے سے حاصل کیا جاسکتا ہے، نہ کسی اور ذریعہ سے، جیسا کہ ارشاد ہے:يَهْدِي اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ (۲۴: ۳۵) اللہ تعالیٰ اپنے نور تک جس کو چاہتا ہے، راہ دے دیتا ہے۔
“وَالْبَاطِن” کا اشارہ:
چوتھی آیت جو مقامِ باطن کے دیدار کے سلسلے میں ہے، یہ ہے: جو حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: “فَاَرْسَلْنَآ اِلَيْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا
۵۸
بَشَرًا سَوِيًّا (۱۹: ۱۷) پس ہم نے مریمؑ کے پاس اپنی روح یعنی نور بھیجا، اور وہ ایک (ہر طرح سے) صحیح انسان کے روپ میں اس کے سامنے ظاہر ہوا۔” اس مقام پر یہ بات قابلِ ذکر ہے، کہ اگر روح القدس حضرت مریمؑ کے سامنے انسانی صورت میں ظاہر ہوئی، تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں، کہ پھر وہ اس وقت روح نہ رہی، اور جسم بن گئی، بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ روح القدس مقامِ روحانیّت پر روح ہی تھی، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے جسمانی مظہر کے ذریعہ ظہور پذیر بھی تھی، پس اس بیان سے یہ ثابت ہوا کہ اس آیت کی حکمت میں دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن دونوں کی دلیل موجود ہے، چنانچہ یہاں ایک مناسب مثال بیان کردی جاتی ہے، کہ سورج اگرچہ ظاہر ہے، تاہم وہ باطن بھی ہے، کیونکہ اس کا اندرونی اور عقبی حصّہ حجابِ نور میں پوشیدہ ہونے کی وجہ سے ظاہر نہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ سورج نے اپنے آپ کو بیک وقت ظاہر بھی کردیا ہے اور چھپا بھی لیا ہے، یہی مثال دیدارِ ظاہر اور دیدارِ باطن کی بھی ہے۔
رسولِ اکرمؐ کا دیدار:
اب ہم حضرت محمد مصطفےٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مبارک دیدار کے بارے میں ایک مشہور حدیث اور کچھ فکر انگیز الفاظ درج کرتے ہیں، کہ آنحضرتؐ کا ارشادِ گرامی ہے: “مَنْ رَّاٰنِیْ فَقَدْ رَایَ اللّٰہ” جس شخص نے میرا دیدار کیا پس اُس نے خدا کا دیدار کیا۔” اس حدیثِ
۵۹
شریف میں دو باتوں کا خصوصیت کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے پاک دیدار کا حصول حقیقی مومن کے لئے ایک انتہائی ضروری امر ہے، دوسری یہ کہ اُس مقدس دیدار کے لئے واسطہ اور وسیلہ صرف انسانِ کامل ہی ہے، کیونکہ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس دنیا میں ہمیشہ کیلئے روح القدس یعنی خدا کے نور کا نزول ہوا ہے، تو لازمی طور پر یہ بھی ماننا ہی پڑے گا، کہ انسانِ کامل یعنی پیغمبرؐ اور امامؑ کے سوا اور کوئی مخلوق اس مقدس اور عظیم نور کے لئے نہ تو حامل بن سکتی ہے، اور نہ ہی (اس سے دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یعنی نور حضرت مریمؑ کے پاس بھیجا تو وہ انسانِ کامل ہی کی صورت میں ظاہر ہوا، اور قانونِ الہٰی کی رو سے یہی ممکن اور مناسب تھا، کہ جو روح یا نور عالمِ ملکوت سے عالمِ ناسوت میں نازل ہو آئے، تو اُسے سب سے پہلے بشریت کے بلند ترین درجے میں آنا چاہئے اور وہ بلند ترین درجہ اور عظیم ترین مرتبہ نبوّت اور امامت کے نام سے ہے۔
قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ صاحبِّ امرؑ کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت ہے اور رسولؐ کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے، اور ارشاد ہوا ہے کہ اگر رسول اللہ کو کچھ دے کر ان کی خوشنودی حاصل کرنی ہے، تو بس یہی کہ تم رسولؐ کے قرابت داروں سے دوستی اور محبِّت رکھا کرو، نیز ارشاد ہے کہ خدا کی خاص دوستی حاصل کرنے کے لئے رسولؐ کی فرمانبرداری کی جائے۔ اس نوع کی آیتوں کی تعلیمات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ جس طرح پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کی فرمانبرداری خدا کی
۶۰
فرمانبرداری ہے، ان حضرات کی محبِّت خدا کی محبِّت ہے، اور ان کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے، بالکل اسی طرح ان کا دیدار بھی خدا کا دیدار ہے۔
امامِ زمانؑ کا دیدار:
سیدنا قاضی نعمان کی ایک مشہور تصنیف “کتاب الھمہ فی آدابِ اتباع الآئمہ” کے صفحہ ۴۶۔ پر اِس حدیثِ مرفوع کا ذکر کیا گیا ہے: “انّ النّظر الیٰ الامام عبادۃٌ والنّظر اِلی المصلف العبادۃٌ۔ تحقیق امام کی طرف دیکھنا ایک قسم کی عبادت ہے، اور قرآن کی طرف دیکھنا بھی ایک طرح کی عبادت ہے۔” قاضی نعمان صاحب پھر اپنے الفاظ میں فرماتے ہیں کہ بھول اور غفلت کی نگاہ سے امام کی طرف دیکھنے میں کوئی عبادت نہیں بلکہ غور و فکر کی نظر سے دیکھنے میں عبادت ہے، جس طرح سوچے سمجھے بغیرقرآن کی طرف دیکھنے والے کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، جیسے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا (۴۷: ۲۴) پس کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل ہیں۔” پس اس بیان سے جو امامؑ اور قرآن کی طرف دیکھنے اور غور و فکر کرنے کے بارے میں ہے، یہ ظاہر ہوا کہ امامِ حیّ و حاضرؑ کے مبارک اور پُرحکمت دیدار کے فیوض و برکات حاصل کرنے میں تمام مومنین و مومنات ایک جیسے نہیں، بلکہ وہ سب اپنی اپنی عقیدت، محبِّت، معرفت اور فرمانبرداری کے لحاظ سے مختلف درجات پر ہیں، کیونکہ جس طرح قرآن فہمی کے اعتبار سے لوگوں کے بے شمار درجے ہوتے
۶۱
ہیں، اسی طرح امام شناسی کے لحاظ سے بھی ان کے لاتعداد مراتب ہیں۔
اخیر میں جو کچھ مناسب اور موزون بات کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ امامِ زمانؑ کی تشریف آوری اور دیدارِ اقدس کی رحمتوں اور برکتوں سے دینی اور دنیاوی طور پر صرف وہی حقیقی مرید پورا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس مبارک موقع پر اپنے تمام اعمال کا باریک بینی سے احتساب کریں، اپنی ناپسندیدہ عادتوں، اور نافرمانیوں سے دست بردار ہوجائیں، اور اپنے دل میں امامِ زمانؑ سے یہ وعدہ کریں کہ وہ آئندہ کسی بھی قسم کی نافرمانی کے مرتکب نہ ہوں گے، عبادت میں کوئی کوتاہی نہ کریں گے، اور امام کے کسی بھی مرید کی دل آزاری نہ کریں گے، پس اسی صورت میں اہلِ ایمان کو امامِ عالیمقامؑ کے پاک دیدار کا لازوال ثمرہ حاصل ہو سکتا ہے، اور اپنے مریدوں کے پاس امامِ زمانؑ کے تشریف لانے اور ان کو دیدار کرانے کا اصل مقصد بھی یہی ہوتا ہے۔
(پاکستان میں امامِ زمانؑ کی تشریف آوری کے موقع پر)
تحریر: ۱۵، جنوری ۱۹۷۰ء
۶۲
ایک نایاب، گران مایہ اور قدیم علمی خزانے کا ایران میں انکشاف
اسماعیلی دنیا کے علمی مراکز میں سے ایک عظیم مرکز ایران رہا ہے، اور یہ سب کچھ ایران میں أئمّۂ برحق کی تشریف آوری اور زمانۂ دراز تک وہاں ان کے قیام پذیر ہونے کی بدولت ہے، چنانچہ حال ہی میں بعض اہلِ علم ایرانی اسماعیلیوں نے “دیوانِ قائمیات” کے نام سے ایک منظومہ کتاب کے قلمی نسخے کا انکشاف کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ دیوان مولاناعلیٰ ذکرہٖ السّلام کے عہدِ مبارک کے نامور شعراء کی چیدہ چیدہ نظموں کا ایک بہترین مجموعہ ہے، جنابِ محترم سید جلال الحسینی بدخشانی صاحب نے درج ذیل قصیدہ اُسی دیوان سے ہدیتہً و نمونتہً اسماعیلیہ ایسوسی ایشن پاکستان کو بھیجا ہے، جسے ادارۂ ہذا نے اردو ترجمے کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔
قصیدہ منتخب ازدیوانِ قائمیات
ہر دل کہ بارضایِ امامِ آشنا شود
بے ہیچ شک نشانۂ امرِ خدا شود
ترجمہ: ہر دل جو امامِ زمان علیہ السّلام کی خوشنودی سے واقف ہوجائے اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ وہ خدا کے امر کا نشانہ یعنی توفیق و ہدایت نازل ہونے کا مقام بن جاتا ہے۔
۶۳
آن بندہ باشد آنکہ بمعنیٔ منزلت
ہر ساکنانِ عالمِ جان بادشاہ شود
ترجمہ: وہ بندہ (اس خوشنودی کی بدولت) اس قابل ہوجاتا ہے، کہ وہ حقیقت اور مرتبت میں روحانی عالم کے باشندوں پر بادشاہ ہوگا۔
جائے رسد بقوۂ روح القدس کہ خاک
در زیرِ نعلِ مرکب اوکیمیا شود
ترجمہ: وہ شخص روح القدس کی قوّت و تائید سے ایک ایسے (بلند) مقام پر پہنچتا ہے کہ اس کے گھوڑے کے نعل کے نیچے مٹی کیمیا (یعنی سونا) بن جاتی ہے۔
نقشِ شریف اوبمعانی درار تقاء
زین عشوۂ شواغلِ حس مرتقا شود
ترجمہ: اُس کا شریف نقش (یعنی روحانی مشاہدہ) حقائق کے ذریعہ ارتقاء و عروج کے سلسلے میں حسی مشغلوں کے اس فریب سے (گزرکر) بلند ہوجاتا ہے۔
نورِ ضمیر اوبکرامات و معجزات
خورشیدِ اوجِ کنگرۂ کبریا شود
ترجمہ: اُس کے ضمیر کا نور (روحانی) کرامات و معجزات (کے سلسلے) میں بزرگی کی چوٹی کی بلندی کا سورج بن جاتا ہے۔
۶۴
انصارِ دین و دعوتِ حق را دراعتقاد
ہم پیشوایٔ مطلق و ہم مقتدا شود
ترجمہ: وہ شخص اعتقادی طور پر دین کے مددگاروں اور دعوتِ حق کرنے والوں کے لئے حقیقی پیشواء اور رہنما ہوجاتا ہے، یعنی اس کی روح کی اصلیت امامِ زمانؑ کی ہستی میں موجود نظر آنے لگتی ہے۔
ہان اے حسن نہ موسمِ آن است کز ہوس
جان و دلِ تو جعبۂ تیرِ ہوا شود
ترجمہ: خبردار اے حسن (اب) وہ وقت نہیں کہ حرص و ہوس کی وجہ سے تیری جان اور دل نفسانی خواہشات کے تیروں کا ترکش ہوجایا کریں۔
یا بازِ فِکرو وہمِ تو درکسبِ جاہ ومال
موقوف این نشیمنِ خوف و رجاشود
ترجمہ: یا (یہ کہ) تیری فکر اور وہم کا باز (دنیوی) عزت اور مال کمانے کے لئے اس خوف اور امید کے ٹھکانے میں ٹھہرا دیئے۔
یا ہمتِ تو ازرہِ آزو نیاز و حرض
مشتاقِ این سرایِ مجاز و فنا شود
ترجمہ: یا (یہ کہ) طمع، احتیاج اور حرص کے طریقے پر تیری ہمت اس مجاز و فنا کے گھر (یعنی دنیا) ہی کی مشتاق ہو جایا کرے۔
۶۵
می دان کہ حبِّ جاہ بلائی بوَد عظیم
کا بلیس باشد آنکہ بآن مبتلا شود
ترجمہ: جان لے کہ (دنیوی) عزت کی محبِّت ایک عظیم بلا ہے، کیونکہ جو شخص اس میں گرفتار ہوجائے تو وہ ابلیس بن جاتا ہے۔
موراست حبِّ مال مروارا امان مدہ
کان مور مار گرود و مار اژدہا شود
ترجمہ: دولت کی محبِّت گویا حریص چیونٹی ہے تو (اپنے اندر) اس کو نہ رہنے دے، کیونکہ وہ چیونٹی تو سانپ بن جاتی ہے، اور وہ سانپ اژدہا بن جاتا ہے۔
وقت است گردلِ تو بتوفیقِ ذوالجلال
زین کائناتِ عالمِ خاکی جدا شود
ترجمہ: اگر خدائے بزرگ کی توفیق سے تیرا دل اس عالمِ خاکی کی موجودات سے یکسو ہوجائے توعین موقع ہے۔
ذاتِ تو در جماعتِ قائم باختیار
شائستۂ متابعتِ اولیاء شود
ترجمہ: دران حال تیری ذات جماعتِ قائمہ کے ساتھ منتخب ہوکر اولیاء اللہ یعنی أئمّۂ برحق کی پیروی کے قابل ہوگی۔
۶۶
تائیدِ نور بخش خداوندِ حق ترا
بخشندۂ سعادتِ بے منتہا شود
ترجمہ: (پھر اس وقت) امامِ برحق کی وہ تائید جو نور عطا کردینے والی ہے، تجھے کبھی ختم نہ ہونے والی سعادت بخشے گی۔
صاحبِّ زمان کہ بہرِ سجودِ جنابِ او
ہر لحظہ پشتِ عالمِ اعلیٰ دوتاشود
ترجمہ: صاحبِّ زمان (کی یہ شان ہے) کہ ان کے حضور میں سجدے کے لئے عالمِ بالا کی پشت ہمیشہ جھکی ہوئی ہوتی ہے۔
مولا محمدؐ آنکہ اثر خاک پائی او
درچشمِ عقلِ سرمۂ کشف الغِطاشود
ترجمہ: مولانا محمد علیہ السّلام وہ ہیں جن کی خاکِ پا کا اثر عقل کی آنکھ سے (روحانی تاریکی کا) پردہ ہٹا دینے والا سرمہ بن جاتا ہے۔
ای آنکہ بے اجابتِ تونیست دروجود
کز ہیچ باب حاجتِ عالم روا شود
ترجمہ: اے وہ ہستی جو آپ کی قبولیت کے سوا یہ امر ممکن اور موجود نہیں کہ دنیا والوں کی حاجت کسی اور سبب سے روا ہوجائے۔
۶۷
گر سایہ سحظ فگنی پر فرشتہ
دیو زمانہ گرد دو کارش ہبا شود
ترجمہ: اگر آپ کسی فرشتہ پر ناخوشنودی کا سایہ ڈالیں تو وہ زمانے کا شیطان بن جاتا ہے، اور اس کا (تمام سابقہ نیک) عمل ناچیز ہوجاتا ہے۔
ور دیو را بچشمِ عنایت کنی نگاہ
ہمچون فرشتہ معدن صدق و صفا شود
ترجمہ: اور اگر آپ شیطان کو مہربانی کی نظر سے دیکھیں، تو وہ فرشتہ ہی کی طرح صدق و صفا کی کان بن جاتا ہے۔
زندان سرائے حادثہ بر بندگانِ تو
ازرحمتِ تو روضہ دار البقا شود
ترجمہ: (اگرآپ چاہیں تو) حادثات کا قید خانہ (یعنی یہ دنیا ) آپ کے بندوں کیلئے آپ کی رحمت سے عالمِ بقا کی بہشت بن جاتا ہے۔
این بندۂ ضعیف کہ از ترسِ فعل خویش
رنگ رخش ہمی بصفت کہر باشود
ترجمہ: (آپ کا) یہ عاجز بندہ ایسا ہے کہ اپنے عمل کے خوف سے اس کے چہرے کے رنگ کہربا کے رنگ کی طرح ہوجاتا ہے۔
۶۸
از غایتِ فسادِ خیالات، ہر زمان
بروئ ہمی صواب دوگیتی خطا شود
ترجمہ: ہمیشہ خیالات کی انتہائی خرابی کی وجہ سے اس کے دونوں جہان کا درست کام غلط ہوجاتا ہے۔
لیکن بعِز و قدرِ مطیعان عہد تو
گیر دامید باسرورد و دعا شود
ترجمہ: لیکن وہ آپ کے زمانے کے حقیقی فرمانبرداروں کی عزت و قدر کے وسیلے سے توقع رکھتا ہے اور وِرد و دعا کے خیال میں رہتا ہے۔
تابو کہ از شفاعتِ ایشان در آن نفس
کین مرغِ جان ازین قفسِ تن جدا شود
ترجمہ: تاکہ ان کی سفارش حاصل ہو، اُس وقت جبکہ روح کا پرندہ جسم کے اس قفس سے نکل جاتا ہے۔
۶۹
جشنِ نوروز کا ایک اور پہلو
اِس سیّارۂ زمین کی پیدائش سے لے کر اب تک نوروز کے موقع پر جتنے بھی عجیب و غریب اور انتہائی عظیم واقعات رونما ہوئے ہیں، اتنے واقعات کسی اور موقع پر نہیں ہوئے ہوں گے، چنانچہ علامہ مجلسیؔ کی کتاب “زادالمعاد” کے حوالے سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے، کہ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ نوروز وہ مبارک دن ہے، جس میں خداوندِ عالم نے بندوں کی روحوں سے یہ اقرار لیا کہ وہ اس کو خدائے واحد سمجھیں، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:
“اور (وہ وقت یاد کرو) جب کہ تمہارے پروردگار نے اولادِ آدمؑ کی پشتوں سے اُن کی اولاد کو لیا، اور انہیں ان کی اپنی اپنی ذات پر گواہ قرار دیا (اور ان سے پوچھا) کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، انہوں نے کہا، ہاں ہم گواہی دیتے ہیں (آپ ہمارے پروردگار ہیں، یہ اقرار اس لئے لیا) تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ یقیناً ہم اس سے بالکل بے خبر تھے۔” (الاعراف ۰۷: ۱۷۲)
مذکورہ روایت کے مطابق نوروز ہی تھا، جس میں حضرت نوحؑ کی کشتی طوفان تھم جانے کے بعد کوہِ جودی پر ٹھہری، حضرت ابراہیمؑ نے اسی روز ملک عراق کے شاہی بتوں کو توڑ ڈالا تھا، حضرت موسیٰؑ نے اپنے زمانے میں اسی
۷۰
دن فرعونِ مصر کے جادوگروں کو شکستِ فاش دے دی تھی، اور آنحضرتؐ نے بھی اسی نوروز کے موقع پر مولانا علیؑ کو اپنے مبارک کندھوں پر چڑھا کر خانہ کعبہ کے تین سو ساٹھ بتوں کو توڑوایا تھا، نوروز کے متعلق ایسی قسم کی بہت سی روایات مشہور ہیں، لیکن پھر بھی اس یومِ سعید کی بہت سی حقیقتیں ہوسکتی ہیں، جو اب تک پردۂ راز میں پوشیدہ رہی ہوں۔
اس امرِ واقع میں کوئی شک ہی نہیں، کہ پیغمبرِ خدا، اور آپ کے حقیقی جانشین کے نور کے بغیر اگر اس دنیا اور اس کے باشندوں کے ماضی و مستقبل کی طرف دیکھا جائے، تو ایک انتہائی تاریک تصوّر کے سوا وہاں کچھ بھی نظر نہیں آئے گا، جیسا کہ قرآنِ پاک کے اس ارشاد میں یہی مثال مذکور ہے:
“اور ہم نے ان کے سامنے ایک دیوار کردی، اور ان کے پیچھے ایک دیوار کردی، پھر ہم نے انہیں ڈھانپ لیا، پس وہ دیکھ نہیں سکتے۔”( یٰسین ۳۶: ۰۹) سامنے سے مستقبل اور ابد مراد ہے، اور پیچھے سے ماضی اور ازل مراد ہے، پس ظاہر ہے، کہ جولوگ خدا اور رسولؐ کے حقیقی فرمانبردار ہیں، ان کے دل و دماغ میں یہ صلاحیت موجود ہے، کہ اگر وہ ازل اور ابد کی حقیقتوں کو دیکھنا چاہیں تو نورِ محمد و علی صلوات اللہ علیہما کی روشنی میں یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے اور پیچھے تقلید و جہالت کی کوئی دیوار نہیں، اور وہ پردۂ غفلت میں ڈھانپے نہیں گئے ہیں۔
اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو جشنِ نوروز کے متعلق ہے، چنانچہ اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں، کہ لاکھوں یا کروڑوں سال قبل یا
۷۱
اس سے بھی بہت پہلے ایک زمانہ ایسا تھا، جس میں ہمارا یہ سیّارۂ زمین موجود نہیں ہوا تھا، پھر خدا کی قدرت سے یہ سیّارہ پیدا ہوا تو لازماً ہمیں یہ بھی ماننا ہی پڑے گا کہ ہماری زمین کا کوئی آغاز و انجام ہے، پس جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا ہو، وہ اس کا “نوروز” تھا، یعنی اس کرۂ ارض کی تخلیق و تکمیل کا پہلا دن ہی اس کی طویل عمر کا ابتدائی اور نیا دن تھا، کیونکہ نوروز دراصل وہی ہے، جس میں زمین کی تخلیق مکمل ہوکر اس کی مدتِ عمر کا پہلا دن شروع ہوا، جس میں پہلی دفعہ سورج روئے زمین پر چمکنے لگا، پہلی بار سائے نمودار ہوئے، اور وہیں سے دن رات کا آغاز ہوا، وہ اس طرح کہ کرۂ ارض کے پیدا ہوتے ہی سورج کی جانب کے نصف کرہ پر دھوپ پڑی اور دوسری جانب زمین کا اپنا سایہ پڑا، پس دھوپ کا نام دن اور سائے کا نام رات مقرر ہوا، اسی طرح بیک وقت دن اور رات کا آغاز ہوا۔
اسی نوروز کے دن زمین اپنے مدار پر مغرب سے مشرق کی طرف گردش کرنے لگی، اور وہیں سے شمسی اور قمری سال شروع ہوئے، اس اصول کے مطابق وہ ابتدائی نوروز اتوار کے دن ہونا چاہئے، کیونکہ دنوں کی گنتی کا آغاز تو اتوار ہی سے صحیح ہے، اور انبیاء و اولیاء کی تعلیمات سے بھی یہی ظاہر ہے کہ اتوار کے دن دنیا پیدا ہوئی ہے، نیز یہ کہ دونوں کے تعین اور ترتیب کے متعلق مذاہبِ عالم میں بھی کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے، اور یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ یقیناً شروع سے لے کر اب تک سات دنوں کے سلسلۂ شمار میں کوئی غلطی اور فراموشی واقع نہیں ہوئی ہے، اور
۷۲
شروع ہی سے ہفتے کے دنوں کی صحیح گنتی اور یادداشت کے لئے یہ ضروری نہیں کہ جس روز سیّارہ زمین پیدا ہوا، تو اسی روز انسان بھی زمین پر اترآیا ہو، تاکہ یہ کہا جاسکے، کہ تمام باتیں انسانوں کی تواریخی یاد داشت کے طور پر یہاں پہنچی ہیں، بلکہ اس بارے میں یہ باور کرنا لازمی ہے کہ حقائق کا براہِ راست تعلق وحی والہام سے ہے، جو انبیاء و اولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام کے لئے مخصوص ہے۔
نیز بتادیا جاتا ہے کہ جس وقت سیّارۂ زمین پیدا ہوا، تو وہ یہی نوروز کا دن تھا، جس میں سورج اور چاند دونوں بیک وقت برجِ حمل کے مقابل ہونے لگے تھے، اور اُسی روز سب سے پہلی چاند رات گزری تھی، یہی سبب ہے کہ دورِ حقیقت کے آغاز ہی سے چاند رات اور آبِ شفاء کی اہمیت و افادیت کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے، کیونکہ قمری اور اسلامی حساب کے مطابق چاند رات وہ تاریخ ہے جس میں خداوندِ عالم نے روحوں سے توحید اور معرفت کا اقرار لیا، اور جس میں اکثر معجزات ظاہر ہوئے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْـبَانٍ (الرحمٰن ۵۵: ۰۵)
“یعنی سورج اور چاند ایک ہی حساب رکھتے ہیں۔”
اسکا مطلب یہ ہوا کہ شمسی اور قمری سالوں کا حساب ایک ہی نقطے اور ایک ہی درجے (Degree) سے شروع ہوا ہے، یعنی جس روز سیّارۂ زمین پیدا ہوا، وہ نہ صرف سورج ہی کے حساب سے نوروز (یعنی نیا دن) تھا
۷۳
بلکہ چاند کے حساب سے بھی نوروز ہی تھا، کیونکہ مذکورۂ بالا آیت کے مطابق سورج اور چاند کا ایک ہی حساب ہونے کے یہی معنی ہیں، کہ اس کرۂ ارض کے شمسی اور قمری دونوں سال اسی طرح بیک وقت شروع ہوئے، جس طرح گھڑی کی گھنٹے والی سوئی اور منٹ والی سوئی دونوں بارہ کے ہندسے سے بیک وقت چلنے لگتی ہیں، اور ہر بارہ گھنٹے کے اختتام پر یہ دونوں اسی بارہ کے ہندسے پر یکجا ہوتی جاتی ہیں، اُس وقت ان دونوں سوئیوں کا جس طرح حساب ایک ہوتا ہے، اسی طرح اُن کا نقطۂ روانگی (Starting point) بھی ایک ہوتا ہے۔
اس مطلب کے بیان پر مزید روشنی ڈالنے کے لئے اس آیۂ کریمہ کی حقیقتوں کو واضح کردی جاتی ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا ۭذٰلِكَ تَــقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ (۳۶: ۳۸) اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے، یہ اندازہ باندھا ہوا ہے اُس (خدا) کا جو زبردست علم والا ہے۔ سورج کی گردش سے زمین کی گردش مراد ہے، اور سورج خود دراصل اپنے مقام پر ساکن ہی ہے، پس ظاہر ہے، کہ زمین ہی اپنے ٹھکانے کی طرف چلتی رہتی ہے، اور اس کا ٹھکانہ یہ ہے کہ جب زمین کے تمام باشندے مادّی اور روحانی ترقی کے نتیجے پر نوری اجسام (نوری پیکرAstral Body ) حاصل کئے ہوئے ہوں گے، یعنی جب ان کی حیات و بقا فلکی قسم کے جسموں میں منتقل ہوگی تو اُس وقت یہ زمین اپنے مدار سے ہٹ کر سورج سے دور ان بے شمار ستاروں میں شامل
۷۴
ہوگی جو حاشیۂ عالم کے قریب واقع ہیں، پھر یہ عجب نہیں کہ وہ سب سے عظیم واقعہ بھی نوروز اور چاند رات ہی کے موقع پر واقع ہو، چنانچہ پیر ناصرؔ خسرو (قدس اللہ سرہٗ) کی مشہور کتاب وجہِ دین اور زادالمسافرین نیز سید سہراب کی کتاب صحیفتہ الناظرین میں سیّارۂ زمین کے اٹھائے جانے کا ذکر موجود ہے۔
جب یہ معلوم ہوا کہ نوروز وہ دن ہے، جس میں پرور دگارِ عالم نے روحوں سے اپنی یکتائی کا اقرار لیا ہے، جس میں حضرت نوحؑ اور کے تابعین کو آخری نجات ملی ہے، جس میں حضرت ابراہیمؑ نے شاہی بتوں کو توڑا ہے، جس میں حضرت موسیٰؑ کو جادوگروں پر فتح دی گئی ہے، جس میں آنحضرتٌ پر سب سے پہلی وحی نازل ہوئی، جس میں آنحضرتؐ اور اُن کے وصی مولانا علیؑ نے خانۂ خدا کو بتوں کے وجود کی ناپاکی سے پاک کردیا، اور جس میں بمقامِ غدیر خم مولانا علیؑ کی ولایت و امامت کا اعلان ہوا، تو آئیے اس مبارک اور مقدس عید نور روز کے موقع پر ہم بھی اقرارِ الست کو تازہ کرتے ہوئے خدا کی معرفت کی طرف توجہ کریں، اپنے دلوں میں خود بینی اور دنیا پرستی کے جو بت پائے جاتے ہیں، ان کو توڑ ڈالیں، نفسانی خواہشات کے جادؤں پر فتح حاصل کریں، اور کعبۂ دل کو باطل خیالات کے بتوں سے پاک و صاف کرلیں، نیز یہ دیکھ لیا کریں، کہ امام حیّ و حاضر کے مبارک فرمان کے مطابق گزشتہ نو روز سے لے کر اس نوروز تک ہم نے کون کون سی قومی اور جماعتی خدمات انجام دی ہیں، اور آئندہ زیادہ سے زیادہ خدمات کس طرح کیجا سکتی ہیں، کیونکہ جشنِ نوروز عزم و عمل کا پیغام لاتا ہے۔
۷۵
اتحادالمسلمین
مورخہ ۲۸۔اکتوبر ۱۹۶۹ء کو سرکار مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شادی مبارک کے پُرمسرت موقع پر “شاہ کریم الحسینی ھوسٹل، گلگت میں جناب فضیلت مآب موکھی سید کرم علی شاہ صاحب نائب صدر ہزرائل ہائنس پرنس آغا خان سپریم کونسل برائے ہونزہ، گلگت، چترال، اور وسطی ایشیا کے زیرِ سرکردگی ایک جشنِ منعقد ہوا، جس کی صدارت گلگت و بلتستان کے ریزیڈنٹ راجہ حبِّیب الرحمٰن خان صاحب تمغۂ پاکستان نے کی۔ اس موقع پر اس بندہ نے اتحاد المسلمین کے موضوع پر جو تقریر کی تھی اس کا اصل مضمون درج ذیل ہے:
دِینِ اسلام کے مختلف فرقوں کی مجموعی حیثیت ایک ایسے ثمردار درخت کی طرح ہے جس کی بہت سی شاخیں ہوں، ہر چند کہ درخت کی شاخیں فضا کے مختلف اطراف و جوانب میں ایک دوسرے سے جدا جدا ہوتی ہیں، تاہم وہ تنے کی صورت میں باہم ملی ہوئی ہوتی ہیں، بالکل اسی طرح اسلام کے تمام فرقے خدائے واحد کے عقیدۂ وحدانیّت، حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوّت اور اس کے ضمنی عقائد میں ایک دوسرے کے ساتھ متحد اور متفق ہیں، مگر یہ
۷۶
فرقے اشخاصِ امامت و خلافت کے تعین کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں۔
اب متذکرہ بالا بیان سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ دینِ اسلام کی مجموعی حیثیت کے اندر اگرچہ ایک طرف سے فروعی طور پر اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم دوسری طرف سے اصولی طور پر اس کے اندر قوّتِ اتحاد بھی کار فرما ہے، جس طرح ایک عظیم مشین کے اجزاء اپنی اپنی شکل و صورت میں مختلف اور جدا جدا ہوتے ہیں، مگر مشین اپنی مجموعی حیثیت میں ایک ہی ہوتی ہے، اور اس کے ایسے ہونے میں یہ حکمت مضمر ہے، کہ بہت سے ذیلی مقاصد کے حصول کے نتیجے پر ایک مقصدِ اعلیٰ حاصل کیا جاسکے، یہی مثال اسلام کے مختلف فرقوں کی بھی ہے، تاکہ اس فروعی اختلاف کی محرکات کے باعث علمِ و عمل کے میدان میں تقابلی جذبے سے کام لیتے ہوئے توحیدِ باری تعالیٰ کے عظیم اسرار کے نایاب خزانوں کا انکشاف کیا جاسکے، اور جس کے سلسلے میں اسلامی علم و ادب کے بے پایان اور گرانمایہ ذخائر ادیانِ عالم کے مقابلے میں پیش کئے جاسکیں۔
اب اس مقام پر پہنچ کر یہ امر ضروری معلوم ہوتا ہے، کہ نظریۂ امامت کی بھی کچھ وضاحت کی جائے، کیونکہ آج کی اس تقریبِ مسعود کا تعلق براہِ راست اسی نظریئے سے ہے، چنانچہ قبلاً یہ بیان ہوچکا ہے، کہ اسلام کے تمام فرقے اشخاصِ امامت و خلافت کے تعین کے بارے میں ایک دوسرے سے مختلف اور جدا جدا ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ اسلام کا ہر فرقہ رسول اللہ صلی اللہ
۷۷
علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد کسی نہ کسی صورت میں ایک امام یا خلیفہ کے ہونے کا قائل ہے، چنانچہ اسماعیلی فرقہ حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی کو اپنا امامِ وقت مانتا ہے، اور اس سلسلے میں اس فرقے کا عقیدۂ راسخ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام سے، بلکہ ازل سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تک نورِ امامت پوشیدہ طور پر موجود تھا، اور آنحضرت صلعم کے زمانے میں یہ نور حضرت مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام کے جامۂ بشریت میں ظاہر ہوا، پھر جناب مرتضیٰ شیرِ خدا اور حضرت فاطمۃ الزہرا علیہا السّلام کی آلِ اطہار کے سلسلے میں یہ نور جامہ بجامہ منتقل ہوتا چلا آیا ہے، کیونکہ خدائے واحد اور اس کے رسولِ برحق کی مرضی اسی میں تھی کہ دنیا اور زمانہ نورِ امامت کی مقدس ہدایت سے کبھی خالی نہ رہ جائے۔
اسماعیلی فرقے کے اعتقاد کے مطابق زمانے کا امام ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہے، کیونکہ انسانی ہدایت کی ضرورت کے پیشِ نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کے زمانے میں اپنے اور مخلوق کے درمیان جو کچھ واسطہ اور وسیلہ مقرر فرمایا تھا، وہ ہمیشہ کے لئے موجود ہونا چاہئے، چنانچہ حق تعالیٰ نے ابتداء ہی میں فرشتوں سے فرمایا تھا کہ “اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃ =میں روئے زمین پر ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں۔” پس انسانی ہدایت کی ضرورت و اہمیت اس وقت بھی اُسی طرح ہے، جس طرح کہ حضرت آدمؑ کے زمانے میں تھی، یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی اپنے امامِ زمانؑ کو خلیفۂ خدا، اور خلیفۂ رسولؐ مانتے ہیں، اور وہ امامِ عالیمقامؑ کے ہر فرمان پر اسی لئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔
۷۸
اسماعیلی فرقے کا کلیدی عقیدہ یہ ہے، کہ خدا کی فرمانبرداری، رسولؐ کی ہدایت کے مطابق کیجائے، اور رسولؐ کی فرمانبرداری امامِ زمانہؑ کی ہدایت کے مطابق کی جائے، وہ اپنے اس نظریئے کی تصدیق میں اس آیتِ قرآنی کو پیش کرتے ہیں:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، اور رسولؐ کی اطاعت کرو، اور اولوالامر کی اطاعت کرو، جو تم میں سے (یعنی تمہارے درمیان) ہیں، پس اسماعیلی اولوالامر سے اپنے سلسلے کے تمام أئمّۂ طاہرین مراد لیتے ہیں، اور امامِ وقت کو صاحبِّ امر مانتے ہیں۔
چنانچہ حضرت مولانا شاہ کریم الحسینی اسماعیلی جماعت کے امامِ زمانؑ اور صاحبِ امر ہیں، جن کی عروسیٔ مبارک کا جشنِ سعید آج کے دن اسماعیلی عالم میں انتہائی عقیدت و محبِّت سے منایا جارہا ہے۔
اسماعیلیوں کے مذکورۂ بالا عقائد کا سب سے آخری نتیجہ یہ نکلا، کہ وہ امامِ زمانؑ کو رشد و ہدایت کا ایک ایسا عظیم مرکز مانتے ہیں، جس کو خدا اور رسولؐ نے اس غرض سے قائم کردیا ہے، کہ اس کے ذریعے سے اسلامی اخوت کے باہمی اختلافات ختم کئے جائیں، اور مسلمانانِ عالم کے درمیان صحیح معنوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہے۔
۷۹
آبِ شِفاء
آب شفاء کے معنی ہیں تندرستی اور صحت یابی کا پانی، اور اس سے وہ متبرک پانی مراد ہے، جو امامِ زمانؑ کے فرمانِ مبارک کے مطابق جماعت خانے میں بعض خاص موقعوں پر روح اور جسم کی صحت کی نیت سے پی لیا جاتا ہے، یا چہرے پر چھڑکایا جاتا ہے۔
لفظِ شفاء کی حکمت:
قرآنِ مجید کی حکمت میں شفاء کی تین قسمیں بتائی گئی ہیں، پہلی قسم کی شفاء عقلانی ہے، جو حق تعالیٰ سے وحی و الہام کی صورت میں انبیاء اور أئمّۂ علیہم السّلام کو حاصل ہے، دوسری قسم کی شفاء روحانی ہے، جو روحانی طبیبوں یعنی پیغمبروں اور اماموں کے وسیلے سے ہدایت کی حیثیت میں مومنین کو حاصل ہوتی رہتی ہیں اور تیسری قسمِ کی شفاء جسمانی طبیبوں کے ذریعہ سے مختلف دواؤں کی حیثیت میں عوام الناس کو ملتی ہے، چنانچہ قرآن کی وہ حکمت ذیل کی طرح ہے:
عقلانی شِفاء:
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے (جو نبوّت اور امامت دونوں کی بہترین مثال تھے) فرمایا، اور جب میں بیمار ہوجاؤں، تو وہی (یعنی خدا) مجھے شفا دیتا
۸۰
ہے (۲۶: ۸۰) انسانی وجود تیں چیزوں کا مجموعہ ہے، عقل، روح، اور جسم، اورتینوں میں عقل اعلیٰ وافضل ہے، اس کے بعد روح کا درجہ ہے، اور اس کے بعد جسم کا مقام، ان تینوں میں سے ہر ایک کو اپنی نوعیت کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں، پس معلوم ہوا کہ جو شفا حق تعالیٰ سے بلاواسطہ حضرت ابراہیمؑ کو حاصل تھی، وہ عقلانی قسم کی شفاء تھی، کیونکہ انسانِ کامل پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل واحسان یہ ہے، کہ خدا اسے عقلی نعمتوں سے نوازتا ہے۔
روحانی شفاء:
دوسری قسمِ کی شفاء روحانی ہے، جو پیغمبرؑ یا آنحضرتؐ کے جانشینؑ (یعنی امامِ زمانؑ) کے وسیلے سے ہمیشہ نصیحت و ہدایت کی صورت میں مومنین کو ملتی ہے، چنانچہ مومنین کی روحانی تاریکیاں اور تکلیفیں بیماریوں کی مثال ہیں، ان سے چھٹکارا پانے کی ہدایات دواؤں کی طرح ہیں، اور زمانے کا ہادی طبیب کی مانند ہیں، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: “اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لئے شفاء اور رحمت ہے (مگر) نافرمانوں کو تو گھاٹے کے سوا کچھ بڑھاتا ہی نہیں (۱۷: ۸۲)۔”
اب معلوم ہوا کہ قرآن میں وہ شفا بخش چیزیں ہیں جن کے ذریعہ صرف مومنین ہی کو روحانی بیماریوں سے شفا مل سکتی ہے، پس ظاہر ہوا کہ قرآن روحانی دوا خانہ اور شفا خانہ ہے، انسانِ کامل یعنی پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ روحانی طبیب ہیں، تاکہ ہر زمانہ اور ہر جگہ کے مومنین کے ہر درد و رنج کی دوا اور شفا میسر ہوسکے۔
۸۲
جسمانی شفاء:
حق تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی حکمت میں نہ صرف عقلانی و روحانی شفاء کا بیان فرمایا ہے، بلکہ ایک بہترین مثال میں جسمانی شفاء کا بھی ذکر فرمایا ہے، تاکہ ہر دانش مند کو یہ معلوم ہو کہ لفظ شفاء کی مثال اور حکمت میں شفاء سے متعلق تمام چیزوں کا بیان ہے، یعنی شفاء کے لفظ میں دوا کی طرف بھی اشارہ ہے، اور طبیب کی طرف بھی، کیونکہ دوا تشخیص کے بعد تجویز کی جاسکتی ہے، اور کسی بیماری کی تشخیص صرف طبیب ہی کرسکتا ہے، پس روحانی اور عقلانی شفاء کا بھی یہی حال ہے، چنانچہ جسمانی شفاء کے متعلق ارشاد ہے “شہد کی مکھیوں کے پیٹوں سے ایک مشروبہ تن کر نکلتا ہے، جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے، یقیناً اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے ایک نشانی ہے ۱۶: ۶۹)” اور اس نشانی کا ایک پہلو یہ ہے، کہ اگرچہ شہد کو کھالینا سب جانتے ہیں، لیکن صرف طبیب ہی کسی مریض کو اس کا صحیح نسخہ بتا سکتا ہے، اسی طرح جہاں قرآنِ پاک کے ساتھ ساتھ روحانی شفاء نازل ہوئی ہے اس کا تعلق روحانی طبیب سے ہے۔
آبِ شفاء کی برکات:
امامِ زمانؑ آبِ شفاء کے کسی ایک جزو پر بطورِ خاص مذکورہ تین قسم کی شفاؤں کے لئے دعائے برکات فرماتے ہیں، اس کے علاوہ جماعت خانہ کے فیوض بھی اس
۸۲
میں شامل ہیں، نیز موکھی کامڑیا اور تمام مومنین اس تبرک سے فیض و برکت حاصل کرنےکے لئے یکجا طور پر نیت کرتے اور دعا مانگتے ہیں،اور ہر مومن انتہائی عاجزی، خلوص، اور یقین کے ساتھ آبِ شفا پیتا ہے، پس ان تمام دعاؤں کے بعد آبِ شفاء پُراثر اور معجزنما ہوجاتا ہے۔
روحانی طبیب کی شان:
جسمانی طبیب کی صرف یہی خوبی ہے، کہ وہ بہت سی بیماریوں کے لئے بہت سے نسخے تیار کرسکتا ہے، مگر روحانی طبیب یعنی امامِ زمانؑ کی یہ شان ہے، کہ وہ ایک ایسا جامع ترین اور کامل ترین نسخہ بتاتا ہے جو تمام بیماریوں کے لئے کافی اور شافی ہوتا ہے، اور وہ نسخہ یہ ہےکہ مومنین مقررہ اوقات پر جماعت خانہ میں حاضر ہو کر مقررہ عبادت بجالائیں اور آبِ شفاء سے استفادہ کریں، کیونکہ جسمانی بیماریاں درحقیقت روحانی بیماریوں سے پیدا ہوتی ہیں، اور روحانی بیماریوں کی جڑ غفلت ہے، یعنی خدا کی یاد بھول جانا، جیسا کہ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:
“اور اس کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل پایا ہے، اور اس نے اپنی ہی خواہش کی پیروی کی ہوئی ہے، اور اس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے، (۱۸: ۲۸)” یعنی راہِ راست کی ہدایت خدا کی یاد ہی میں تھی، جب اُس نے ذکر چھوڑا تو اسی وقت راہِ راست سے بھٹک گیا، اور اپنی خواہش ہی کے پیچھے غلط راستے پر چلنے لگا، اب اس غلط راستے پر پہلے روحانی بیماریاں
۸۳
اور پھر جسمانی بیماریاں ستانے لگتی ہیں۔
آبِ شفا کا معجزہ:
معجزہ دو۲ طرح سے ظاہر ہوجاتا ہے، ایک معجزہ وہ ہے جو خدا کی مرضی سے عوام و خواص سب پر واقع ہوتا ہے، دوسرا معجزہ وہ ہے جس کا تعلق صرف خواص ہی سے ہے، جس کی شرط یقین اور عمل ہے، پس آبِ شفاء کا اثر ایک ایسا معجزہ ہے، جس کی شرط یقینِ کامل اور عملِ صالح ہے، چنانچہ آبِ شفاء شروع شروع میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضراتِ اہلبیت کے لئے استعمال فرمایا، جو معجزانہ طور پر اثر انداز ہوتا تھا، جس کی ایک مثال یہ ہے، کہ جب حضرت امام حسین علیہ السّلام بچپن کے زمانہ میں سخت بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلعم نے ان پر آبِ شفا چھڑک دیا، اور امام حسین علیہ السّلام فوراً صحت یاب ہوگئے۔
عقیدت و محبِّت کا تقاضا:
مومنین امامِ زمان علیہ السّلام سے جو عقیدت و محبِّت رکھتے ہیں اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ امامِ عالیمقامؑ ان پر باطنی طور سے دستِ رحمت رکھیں اس کے علاوہ ظاہر میں بھی ان کو بار بار اپنے پاک دیدار سے نوازا کریں، ان کے سر اور کندھوں پر دستِ شفقت رکھیں، انہیں اپنے مبارک ہاتھ سے تبرکات عطا فرمائیں، اور ساتھ ہی ساتھ کچھ ایسے تحائف بھی عنایت کریں کہ ان تحفوں اور مہربانیوں کی وجہ سے خداوندِ عالمین کی یہ نعمتِ عظمیٰ بار بار
۸۴
یاد آئے، اور وہ ہر وقت شکر گزار رہیں کہ راہِ راست کی ہدایت کرنے کے لئے امامِ حیّ و حاضرؑ ان کے درمیان موجود ہیں، پس ان تمام مقاصد کے حصول کے لئے جماعت خانہ کے آداب و تبرکات مقرر ہوئے اور آبِ شفا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
۸۵
۸۶
اسماعیلی تاج وطغرا
ہم یہاں (ان شاء اللہ تعالیٰ) اسماعیلی تاج و طغرا کے متعلق چند اصولی حقیقتوں کا انکشاف کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اِسماعیلی تاج و طغرا سامنے دیئے ہوئے نقشے کی طرح ہے۔
تاج
اس کرۂ ارض کی سطح پر صرف اسماعیلی تاج ہی ایک ایسا تاج ہے، جو حقیقی اسلام اور روحانی نظام کے دائمی وجود کی نشاندہی کرتا ہے، اور یہ اُس دینی اور روحانی سلطنت کا تاج ہے، جس کے متعلق قرآنِ مجید کا یہ ارشاد ہے:
فَقَدْ اٰتَيْنَآ اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَاٰتَيْنٰھُمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا (۰۴: ۵۴) بے شک ہم نے ابراہیمؑ کی اولاد کو (قیامت تک) کتاب اور حکمت (اور اس کی وراثت) دی ہے، اور ان کو ایک عظیم سلطنت دی ہے۔
اس آیۂ مقدّس کی ترتیب میں کتاب کے بعد حکمت کا ذکر آیا ہے، اور اس کے بعد ملک عظیم یعنی روحانی سلطنت کا ذکر آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک
۸۷
دنیا میں آسمانی کتاب موجود ہے، تب تک اس کے باطن میں حکمت کے پوشیدہ خزانے بھی موجود ہیں، اور جب تک اس کتاب سے حکمت کے پوشیدہ خزانے پائے جاسکتے ہیں تب تک آلِ ابراہیمؑ یعنی آلِ محمدؐ کا سلسلہ بھی جاری اور باقی ہے، تاکہ اسی سلسلے کے ذریعے سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اس کی حقداری کے مطابق کتاب و حکمت سے ہدایت دی جاسکے، اور یہی خصوصیت اس سلسلے کی آسمانی سلطنت کی دلیل ہے۔
اس بیان سے جب یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ روحانی سلطنت آلِ ابراہیمؑ یعنی آلِ محمدؐ ہی کو حاصل ہے، تو اب ہم اسماعیلی تاج و طغرا کا بیان کرتے ہیں، چنانچہ اسماعیلی تاج کا دایاں چشمہ درجۂ نبوّت کی علامت ہے، اور بایاں چشمہ درجۂ امامت کی نشانی ہے، اور یہ تاویل دورِ نبوّت کی نسبت سے ہے، جس میں آنحضرتؐ جسمانی طور پر موجود تھے، مگر دورِ امامت کے اعتبار سے، جو رسولِؐ خدا کی رحلت کے بعد سے شروع ہوا، دایاں چشمہ مرتبۂ امامت کی علامت ہے، اور بایاں چشمہ مرتبۂ حجتی، یعنی پیری کی نشانی ہے، نیز دایاں چشمہ قرآن کے ظاہری علم کی طرف اشارہ ہے جو پیغمبرؐ کا حصّہ ہے، اور بایاں چشمہ قرآن کی حکمت کی طرف اشارہ ہے، جو امامؑ کا حصّہ ہے ۔۱
تاج کے دائیں چشمہ کا دامن بہت مختصر اور تاج کے نچلے کنارے سے بلند
۱؎: دائیں اور بائیں کی تاویل کے لئے دیکھئے: کتاب “وجہِ دین حصّۂ اوّل” ص: ۱۹۰، ۱۹۱، ۱۹۲۔ نیز “وجہِ دین حصّۂ دوم” ص ۲۳۔
۸۸
دور ہے، اس کے برعکس بائیں چشمے کا دامن تقریباً تاج کے نچلے کنارے تک پہنچا ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے، کہ زمانۂ نبوّت ۲۳ سال کا ایک مختصر وقت تھا، مگر دورِ امامت قیامت تک چل رہا ہے، پس اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، کہ پیغمبرؐ تک رسا ہوجانے کے لئے امامِ وقت کی فرمانبرداری کی جائے۔
تاج کا طرّہ دونوں چشموں کے درمیان سے نکل کر بائیں جانب کو مائل ہوتے ہوئے بلند ہوا ہے، یہ نورِ ہدایت کا نشان ہے، جو حضرت محمدؐ (پیغمبرؐ) اور حضرت مولانا علیؑ (امام) کا واحد نور ہے، اور اس طرّہ کے بائیں جانب مائل ہونے کے یہ معنی ہیں، کہ نورِ ہدایت سے مستفیض ہونے کے لئے پہلے امامؑ کی معرفت حاصل کی جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ” ۱۳: ۰۷ (اے رسول) سوائے اس کے کچھ نہیں، کہ آپ صرف ڈرانے کے ذمہ دار ہیں، اور ہر قوم (یعنی ہر زمانہ کے لوگوں) کے لئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اگر چہ نورِ ہدایت پیغمبرؐ اور امامؑ کے درمیان مشترک ہے، تاہم اس کا زیادہ تر تعلق امامؑ کی شخصیت کے ساتھ ہے، کیونکہ امامؑ سرچشمۂ ہدایت کی حیثیت سے ہر وقت حاضر اور موجود ہیں۔
نیز اس طرّہ کے بائیں جانب مائل ہونے کے یہ معنی ہیں، کہ ہادیٔ برحق (یعنی امامِ زمانؑ) کی تفصیلی معرفت کے لئے حجت (پیر) کی طرف رجوع کیا جائے، کیونکہ پیر اور معلّم کی تعلیم کے بغیر امامِ زمانؑ کی معرفت انتہائی مشکل ہے، اس سے قبل بتایا گیا ہے، کہ دورِ نبوّت میں دائیں طرف کا درجہ پیغمبرؐ
۸۹
کے لئے ہے، اور بائیں جانب کا درجہ امامِ زمانؑ کے لئے ہے، اس کے برعکس دورِ امامت میں امامؑ کا مرتبہ دائیں جانب ہے، اور پیر کا رتبہ بائیں طرف ہے۔
طغرا:
اسماعیلی طغرا میں سب سے پہلے ہلال آتا ہے، ہلال ترقی و تکمیل کا اشارہ ہے، چنانچہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے وقت میں عالمِ دین کے سورج تھے، اور امام علیہ السّلام اس زمانے میں آنحضرتؐ کے وزیر کی حیثیت سے دین کے چاند تھے، مگر امامؑ اپنے زمانے میں عالمِ دین کے سورج ہیں اور پیر (یعنی حجتِ اعظم) دین کے چاند ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلامؐ کی رحلت کے بعد امامِ زمانؑ نور کے مرکز یعنی عالمِ دین کے سورج ہیں، جس کے نور میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی، مگر حجتِ اعظم کے نور میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، کیونکہ وہ چاند کی طرح ہیں۔
نیز اس ہلال کی تاویل یہ بتاتی ہے کہ اسماعیلی مذہب میں روحانی ترقی و تکمیل ازبس ممکن ہے، اور وہ دو طرح سے ہے: ایک روحانی ترقی انفرادی طور پر ہے، جو ہر زمانے میں کی جاسکتی ہے، اور اس کا دارو مدار ہر مومن کی اپنی کوشش پر ہے، دوسری روحانی ترقی اجتماعی حیثیت میں ہے، جس کے لئے ایک خاص وقت آنیوالاہے۔
چنانچہ ہلال میں انفرادی ترقی کی مثال یہ ہے، کہ ہر حقیقی مومن کو پیر کا علم اور امامؑ کی معرفت ایک دن میں نہیں آتی، بلکہ آہستہ آہستہ حاصل ہو
۹۰
سکتی ہے، یعنی جب کوئی مخلص مومن امامِ زمانؑ کی فرمانبرداری کرتے کرتے روحانی طور پر نور دیکھنے کے قابل ہوجاتا ہے تو شروع شروع میں اس کو صرف اتنا ہی نور دکھایا جاتا ہے جتنا کہ نئے چاند سے حاصل ہوسکتا ہے، اسی طرح مومن کے روحانی مشاہدہ میں نور دن بدن بڑھتا چلاجاتا ہے، یہاں تک کہ چودھویں کے چاند کی مانند اور اس کے بعد سورج کی طرح ہوکر نور مکمل ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن کے اس ارشاد سے یہی حقیقت ظاہر ہے:
رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ اِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (۶۶: ۰۸)، اے ہمارے پروردگار! تو ہمارے لئے، ہمارا نور کامل کردے، اور ہمیں بخش دے، تو ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھنے والا ہے۔
اس طغرا کے ہلال پر دائیں طرف پانچ اور بائیں طرف پانچ کل دس موتی ہیں، جن کی مراد دین کے دس مرتبے ہیں جو پانچ روحانی اور پانچ جسمانی ہیں، پانچ روحانی مرتبے: عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل ہیں، اور پانچ جسمانی مرتبے: ناطقؐ (محمدؐ) اساس (علیؑ) امام، حجت اور داعی ہیں۔
اس طغرا کے نیچے ایک ستون ہے، جس پر پانچ موتی دکھائی دے رہے ہیں، جس کا اشارہ ولایت کی طرف ہے، جو شیعیت کا مرکزی ستون ہے۔ اور وہ پانچ موتی پنجتن پاک کی نشاندہی کرتے ہیں، جن سے دوستی و محبِّت رکھنا ولایت کی اصل و بنیاد ہے، یعنی ولایت کا عقیدہ انہی حضرات کی عصمت و نورانیّت کے اقرار سے شروع ہوتا ہے، چنانچہ خداوند تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
۹۱
قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى ۴۲: ۲۳ (اے رسول!) کہہ دیجئے، کہ میں اِس (تبلیغ رسالت) پر کچھ نہیں مانگتا، سوائے اس کے، کہ میرے اقرباء سے محبت کرو۔
طغرا کے اوپر کا حصّہ موتیوں کے ایک ہار کی طرح ہے، جس میں ایک سہ پہلو لعل کا نقشہ دیا ہوا ہے، یہ موتیوں کا ہار سلسلۂ امامت کی مثال ہے، جو ظاہراً حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانے سے لے کر قیامت تک چل رہا ہے، اور وہ سہ پہلو لعل ایک ایسے روحانی خزانے کی نشانی ہے، جو امامِ زمانؑ کی نورانی معرفت کے بعد حاصل ہوسکتا ہے، جس میں عقل، روح، اور جسم کی تمام حقیقتیں اور قیامت کی ساری معرفتیں موجود پائی جاتی ہیں، چنانچہ ارشاد ہے:
وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ(۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز (یعنی عقلانی، روحانی، اور جسمانی حقیقتوں اور معرفتوں کو) امامِ ظاہر (یعنی امامِ ناطق) کی ذات میں مجموع و ملفوف کررکھا ہے۔
جس طرح اس ہار کے موتیوں میں کثرت اور اس کے رشتے (دھاگے) میں وحدت ہے، یعنی موتی تو بہت سے ہیں، مگر اس کا رشتہ اپنی ذات میں ایک ہی ہے، جس نے تمام موتیوں کو متحد کرلیا ہے، اسی طرح نورِ امامت کی شخصیتوں میں کثرت پائی جاتی ہے، لیکن نور اپنی ذات میں ایک ہی ہے، اور اس میں کوئی کثرت نہیں، اور کثیر چیزوں کو ایک کرلینا اس کی خاصیت ہے، اس لئے اُس نے امامت کی تمام شخصیتوں کو ایک کرلیا ہے۔
۹۲
اس ہار کا رشتہ یعنی دھاگہ خدا کی رسی کی مثال ہے، جو نورِ امامت کی صورت میں ہے، اور اس کے موتی جیسا کہ ذکر ہوا، اشخاصِ امامت کی مثال ہیں جو سِلکِ نور یعنی نور کے دھاگے میں پروئے ہوئے ہیں، اور یہ خدا کی رسی ہر وقت عالمِ علوی اور عالمِ سفلی کے درمیان اپنی گولائی میں گردش کرتی رہتی ہیں، جس میں نور کے مختلف جامے دنیا میں آتے اور دنیا سے گزرتے رہتے ہیں، تاکہ اپنے وقت کے جامۂ نور (یعنی امامؑ) سے وابستہ ہوکر بہت سی ارواح دنیا میں آسکیں، اور آخرت کی منزلِ نجات میں پہنچ سکیں، چنانچہ اسی معنی میں یہ ارشاد ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحبِّلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (۰۳: ۱۰۳) اورتم سب لوگ اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو۔
اسماعیلی تاج و طغرا کی شکل اور بناوٹ میں دین کی بہت سی اصولی حقیقتیں سمودی گئی ہیں، امامِ زمانؑ کی رحمت و مہربانی سے یہاں چند ضروری حقیقتوں کی وضاحت کی گئی ۔
والسلام۔
۹۳
اسماعیلی پرچم
پرچم کو عربی زبان میں “عَلَم” کہتے ہیں، اور عَلَم کے لغوی معنی ہیں نشان، جھنڈے (علم) کو نشان کے معنی دینا اس لئے صحیح اور درست سمجھا گیا ہے، کہ یہ اپنے ایک خاص رنگ یا جدا گانہ علامتوں سے جو اس پر بنائی ہوئی ہوتی ہیں، کچھ مخصوصی معنی و مطالب کو ظاہر کرتا ہے، مثلاً ظاہری اور عام رواج کے مطابق سرخ رنگ کا جھنڈا خطرہ، انقلاب اور جنگ جیسے حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور سفید رنگ کا جھنڈا صلح، امن اور سلامتی کی نشاندہی کرتا ہے۔
چنانچہ ہر مذہب، ہر قوم اور ہر حکومت نے اپنے جھنڈے کے تعیّن کے سلسلے میں اپنے نظریئے کے مطابق ایک جدا گانہ رنگ اور کچھ مخصوص علامتوں کا انتخاب کیا ہے، تاکہ اس رنگ اور ان علامتوں سے اس مذہب یا قوم یا حکومت کے خاص مقصد اور نصب العین کی ترجمانی ہوسکے، اب ہم ذیل میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقدّس جھنڈوں کے متعلق کچھ روایات درج کرتے ہیں:
جابرؔ کہتا ہے کہ رسول اللہ صلعم ایک سفید جھنڈے کے ساتھ مکۂ مکرمہ میں داخل ہوئے۱، اس کے معنی ظاہر ہیں، کہ آنحضرت صلعم مکہ والوں کے لئے ہر طرح کی صلح و صلاح، اور ہر قسم کا امن و سلامتی لے کر تشریف لائے تھے۔
۹۴
ابنِؔ عباس کہتا ہے، کہ حضورِ اکرم صلعم کے دو جھنڈے تھے، ایک بڑا جھنڈا جو سیاہ رنگ کا تھا، اور دوسرا چھوٹا جھنڈا جو سفید رنگ کا تھا۲، جس کا واضح اشارہ یہ ہے کہ اس مادّی دنیا میں مومنین کے لئے دکھ زیادہ اور سکھ کم ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ یہاں غمگینی کے مقابلے میں خوشی برائے نام ہے۔
البراءؔ ابنِ عازب سے روایت ہے کہ رسول اللہ کا ایک سیاہ چوکور جھنڈا تھا، جس پر مختلف رنگ کے دھبے بنائے ہوئے تھے۳، اس کے معنی یہ ہیں کہ دینِ اسلام کی رواداری اور رسولِ برحقؐ کے اخلاقِ حسنہ نے امت کے جملہ افراد کو اس صورتِ حال کے باؤجود ایک کرلیا تھا، کہ وہ رنگ، نسل، زبان اور رسم و رواج کے لحاظ سے جدا جدا اور مختلف تھے۔
نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ استنبول کی قدیم مقدّس یادگار چیزوں میں جنابِ رسالت مآبؐ کا ایک خاص جھنڈا اب تک محفوظ ہے، یہ مقدّس و متبرک جھنڈا صرف خاص خاص موقعوں پر دکھایا کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کا قدیم ترین جھنڈا ہے۔۴
اس متبرک جھنڈے کی کیفیت کے بارے میں موجودہ دور کے ایک صاحبِّ قلم کا کہنا ہے، کہ یہ پرچم چار مختلف رنگوں پر مشتمل ہے، سب سے اوپر کے حصّے کا رنگ سبز ہے۵، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ حضورِ اکرم صلعم نے اس جھنڈے کا تعیّن کرتے وقت تمام رنگوں میں سے بلحاظِ معنی چار کو منتخب فرمایا، اور پھر سبز رنگ کو ان منتخب شدہ رنگوں پر باعتبارِ حکمت فوقیت و ترجیح دی۔
۹۵
حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ایک ارشادِ گرامی سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورۂ بالا جھنڈے کے چار رنگوں کی ترتیب و ترکیب میں سبز رنگ کو فوقیت دینے کے علاوہ پیغمبرِ اسلامؐ ایک خالص سبز رنگ کا جھنڈا بھی رکھتے تھے، پس یہی سبب ہے کہ خاندانِ بنی فاطمہؑ نے شروع ہی سے اپنے جھنڈے کے لئے اسی سبز رنگ کا انتخاب کیا، جو حضورِ انورؐ کے نزدیک معنی خیز اور پُرحکمت تھا، مگر یاد رہے کہ حضرت امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کے عظیم واقعہ کے بعد پیغمبرؐ کے سب رنگ کے ساتھ سرخ رنگ کو بھی یادگار اور تاویل کے طور پر تسلیم کیا گیا، پس اس صورت میں سبز رنگ کا اشارہ پیر کی شناخت ہے، اور سرخ رنگ کا ایماء شاہ کی معرفت ہے۔۶
اب یہ سوال خود بخود سامنے آتا ہے کہ اگر تمام خاص و عام جھنڈوں کے رنگوں اور علامتوں کے کچھ مخصوص معنی ہوتے ہیں، تو پھر اسماعیلی جھنڈے کے اس سبز اور سرخ رنگ میں کیا کیا اشارے پوشیدہ ہیں؟ نیز سبز اور سرخ رنگ کی فضیلت کی کیا دلیل ہے؟ اس کا جواب پیر حکیم ناصر خسرو قدس اللہ سرّہٗ کے قول کے مطابق یہ ہے کہ سبز رنگ کے معنی ہیں پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے دین اور دنیا کو آباد کرنا، اور یقیناً دونوں جہان کا آباد ہونا، اور محمدؐ و علیؑ کے نور سے جو امامِ زمانؑ کی حیثیت سے حاضر ہے، حقیقی روح حاصل کرکے زندۂ جاوید ہوجانا، اور سرخ رنگ کے معنی ہیں، ظاہری اور باطنی خطروں سے بچاؤ کرتے
۹۶
ہوئے روحانی اور جسمانی ترقی کے لئے جدوجہد کرنا، یا کہ اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا، اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لئے قربانیاں پیش کرنا وغیرہ۔۷
سبز اور سرخ رنگ کی برتری وافضیلت پر قرآنی دلیل یہ ہے کہ سورۂ رحمٰن میں بطریقِ حکمت ان دونوں رنگوں کی خاص تعریف کی گئی ہے، اور سورۃ رحمٰن کا دوسرا نام “عروس القرآن” ہے، کیونکہ حق تعالیٰ نے اس سورہ کو ظاہری و باطنی حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ فرمایا ہے، چنانچہ اس سورۃ میں یَاقُوْتْ اور مَرْجَانۡ کےلفظوں میں سرخ رنگ کی تعریف کی گئی ہے اور مُدْھَا مَّتَا نٍ اور خضْرٍ میں سبز رنگ کی تعریف ہے، پس ظاہر ہے کہ الفاظ و معانی کی اس عروسِ زیبا کو سجانے میں خدائے حکیم نے بھی رنگوں سے کام لیا ہے، وہی رنگ دوسرے تمام رنگوں سے احسن و افضل ہیں۔۸
ان دونوں رنگوں کی افضلیت پر عقلی دلیل یہ ہے کہ اس عظیم کائنات میں جو کچھ ہے، اس کے تین درجے ہیں، سب سے نیچے درجۂ جمادات ہے جس میں بے جان چیزیں ہیں، اس سے اوپر درجۂ نباتات ہے، جس میں اگنے اور نشوونما پانے والی اشیاء ہیں، اور اس کے اوپر درجۂ حیوانات ہے جس میں تمام جاندار مخلوق شامل ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا تین درجوں کی چیزوں کی ترقی و عروج کے سلسلے میں قانونِ فطرت کا اٹل فیصلہ یہی ہے، کہ جب بے جان چیزیں روحِ نباتی قبول کرلیتی ہیں، تو قانونِ قدرت ان کو سبز رنگ کی خلعت سے نوازتا ہے، اور جب نباتات روحِ حیوانی کی غذا بن جاتی ہے، تو ان کو قانونِ الہٰی جانوروں یا انسانوں کی ہستی میں سرخ
۹۷
رنگ (یعنی خون) سے مزین کرکے حِس و حرکت اور فہم و شعور کی زندگی عطا کر دیتا ہے۔
بیانِ بالا سے صاف طور پر ظاہر ہوا کہ اسماعیلی جھنڈا اپنے تاریخی پس منظر میں بھی اور اپنی موجودہ صورت میں بھی قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے، یعنی یہ شروع میں سبز تھا، پھر اس میں سرخ رنگ کا بھی اضافہ ہوا، جیسے شاہراہِ زندگی کی پہلی منزل پر سبز رنگ کی نباتات واقع ہیں، اور دوسری منزل پر سرخ خون والے حیوانات، جن کی بہترین صورت انسان ہیں، پس اسماعیلی جھنڈا یہ مثال پیش کرتے ہوئے، کہ کس طرح مادّی زندگی منزل بمنزل آگے بڑھتی جاتی ہے، روحانی زندگی اور اس میں ترقی حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے، اور یہی تعلیم اس آیۂ کریمہ میں ہے کہ:
“يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ (۰۸: ۲۴)۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لاچکے ہو! جس وقت رسولؐ تمہیں ایسی بات کی طرف بلائے، جو تم کو زندہ کرے تو اللہ اور اس کے رسولؐ کا کہا مانو۔” اس آیۂ مقدّسہ کی حکمت کا اشارہ یہ ہے کہ عوام النّاس عالمِ دین کے جمادات ہیں جن کو اُس خاص قول و عمل کی طرف دعوت دیجاتی ہے، جس میں ان کے لئے حقیقی روح اور ابدی حیات پوشیدہ ہے، پس اگر وہ اس دعوت کو قبول کریں تو روحانی طور پر ان کو سب سے پہلے نباتات کے درجے میں زندہ کیا جائے گا، پھر ان کو مقامِ حیوانیّت سے آگے گزارتے ہوئے عالمِ دین کے انسانی رتبے تک پہنچا دیا جائے گا، جس کے لئے دو چیزیں ضروری اور لازمی ہیں، پہلی
۹۸
چیز فرمانبرداری ہے، اور دوسری قربانی، فرمانبرداری اور قربانی میں یہ فرق ہے، کہ ہر فرمانبرداری قربانی نہیں، مگر ہر قربانی فرمانبرداری ہے، چنانچہ اسماعیلی جھنڈے کے سبز رنگ سے فرمانبرداری مطلوب ہے۹، اور سرخ رنگ سے قربانی مراد ہے۔۱۰
فرمانبرداری تین قسم کی ہوا کرتی ہے:
۱۔ عقلی اور روحانی طور پر۔
۲۔ جسمانی اعتبار سے۔
۳۔ مالی لحاظ سے۔
اسی طرح قربانی بھی تین قسم کی ہے:
۱۔ عقل و نفس کی قربانی۔
۲۔ جسم کی قربانی۔
۳۔ مال کی قربانی۔
دین حقیقی مومنین سے بحیثیتِ مجموعی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اکثر اوقات کو امامِ حیّ و حاضر کی فرمانبرداری میں گزاریں، اور قربانی صرف بوقتِ ضرورت دیا کریں، یہی سبب ہے کہ ہمارے مقدّس پرچم کا سبز حصّہ زیادہ اور سرخ حصّہ کم ہے۔
نیز اس مبارک پرچم کے سرخ رنگ کا اشارہ یہ بھی ہے کہ مومن کو حقیقی زندگی شاہراہِ صراط المستقیم پر چلنے ہی سے مِل سکتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس کا دین بھی آباد ہوجاتا ہے، اور دنیا بھی، جیسے سرخ رنگ حقیقی
۹۹
زندگی کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ یہاں سرخ رنگ کا ایک راستے کی شکل میں ہونا صراطِ مستقیم اور اس پر چلنے کی مثال یہ ہے، اور اس کے دونوں طرف کا سبز رنگ حقیقی مومنین کے دونوں جہان آباد ہونے کی علامت ہے۔
پرچم کا یہ سرخ راستہ (یعنی پٹی) پھریرے کے اس نچلے کونے سے شروع ہوجاتا ہے، جو کھمبے سے دور ہے، پھر یہ راستہ بتدریج ڈنڈے کی طرف قریب سے قریب تر ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اخیر میں ستون سے جا ملتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی مومنین صراطِ مستقیم پر جتنے آگے بڑھ سکیں، اتنے امامِ حیّ و حاضر کے نور سے قریب تر ہوتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ نورِ امامت سے واصل ہوجاتے ہیں، اور یہی وہ نور ہے، جس پر دین و دنیا کا قیام ہے، جیسے پرچم کا قیام و اقرار اس کے ستون پر ہے۔
توضیحات و حوالہ جات
۱؎ ۲؎ ۳؎ ۴؎ ۵؎ ڈکشنری آف اسلام۔
۶؎ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام کا ایک پاک خط
۷؎ کتاب “وجہِ دین” اردو حصّہ اوّل ص ۱۴۰۔ ۱۴۲
۸؎ سورۂ رحمان آیت ۵۸، ۶۴، ۷۶۔
۹؎ سبز رنگ کی تاویل فرمانبرداری اس طرح سے ہے، کہ سورۂ تحریم کی آیت ۱۲ میں
۱۰۰
حضرت مریم کی فرمانبرداری کا ذکر آیا ہے، اور آلِ عمران کی آیت ۳۷ میں اس کے سرسبز ہونے کا اشارہ ہے جو اس کی روحانی زندگی کی مثال ہے۔
۱۰؎ سرخ رنگ قربانی اور حقیقی زندگی کی علامت اس طرح سے ہے، کہ شہادت اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے بموجب وہ اصل زندگی ہے جس میں حق تعالیٰ کی قربت و نزدیکی بدرجۂ اتم میسر ہو جاتی ہے، جس کا ذکر آلِ عمران آیت ۱۶۹ ۔ ۱۷۱ میں ہے۔
۱۰۱
صراطِ مستقیم
تعریف:
صراطِ مستقیم میں دو لفظ ہیں، صراط اور مستقیم، صراط کے معنی راستہ اور مستقیم کے معنی ہیں سیدھا، پس صراطِ مستقیم کے معنی ہوئے سیدھا راستہ، یعنی ایسا راستہ جو ٹیڑھا نہ ہو، جس میں کوئی اونچ نیچ اور اتار چڑھاؤ نہ ہو، جو بالکل منزلِ مقصود کی سیدھ میں ہو، اور جس پر چلنے والے کے لئے ہر طرح کی سہولت مہیا ہو۔
مختلف صورتیں:
صراطِ مستقیم = سیدھا راستہ قرآنِ پاک کی بے پایان حقیقت و حکمت کی مثالوں میں سے ہے، یہ مثال سب سے پہلے ام الکتاب یعنی سورۃ الفاتحہ میں سامنے آتی ہے، اور دوسری بہت سی سورتوں میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، جس کی لفظی صورتیں مختلف ہیں، مثلاً صراط اللّٰہ ۴۲: ۵۳ (خدا کا راستہ) الصراطِ السوی ۲۰: ۱۳۵ (راہِ راست یا سیدھاراستہ) صراط الحمید ۲۲: ۲۴ (خدا کے لائقِ حمد کی راہ) سواء الصراط ۳۸: ۲۲ (سیدھی راہ) صِراطاً سَوِیاً ۱۹: ۴۳ (سیدھا راستہ ) سَواء السبیل ۲: ۱۰۸ (سیدھا راستہ ) سبیل اللّٰہ ۰۲: ۱۵۴ (اللہ کی راہ) سبیل المومنین ۰۴: ۱۱۵ (مومنوں کا راستہ) سبیل الرشدِ ۰۷: ۱۴۶ (ہدایت کا راستہ) قصدالسبیل ۱۶: ۰۹ (سیدھا راستہ ) سبیل الرشاد (۴۰: ۳۸) (ہدایت کا راستہ) سبیلی ۱۲: ۱۰۸ (میری راہ یعنی پیغمبرؐ کی راہ) سبل السلام
۱۰۲
۰۵: ۱۶ (سلامتی کی راہیں یعنی تائیدِ الہٰی کی راہیں)۔
صراطِ مستقیم کا مقصد:
قرآنِ پاک کے مذکورہ حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ صراط اور سبیل دونوں لفظوں کا ایک ہی مطلب ہے، اور یہاں یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ یہ صراطِ مستقیم یا سبیلِ رشد و ہدایت اللہ تعالیٰ کی ہے کہ اس نے سچے دین کا یہ راستہ بنایا، اور لوگوں کو اس پر چلانے کے لئے پیغمبرؐ بھیجے تاکہ ان کو خدا تعالیٰ کی قربت و نزدیکی حاصل ہو، نورانیّت کا عظیم ترین دیدار حاصل ہو، اور خدا کی ملاقات و معرفت کے ذریعہ ابدی نجات اور دائمی سکون ملے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ (۱۱: ۵۶) یقیناً میرا پروردگار صراطِ مستقیم پر ہے۔” یعنی صراطِ مستقیم پر چلنے سے خدا ملتا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہی اپنا راستہ نبیّین، صدّیقین، شہداء اور صالحین کے علاوہ تابعین کو بھی عنایت فرمایا ہے۔
چنانچہ جب ہم قرآنِ حکیم کی اس پُرحکمت تعلیم پر غور کرتے ہیں: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (ہمیں راہِ راست پر چلا لیجئے، ان لوگوں کی راہ (پر) جن پر تو نے انعام فرمایا ہے) توہمیں لازمی طور پر یہ شوق پیدا ہوتا ہے، کہ معلوم کرلیں، کہ یہ حضرت کون ہیں جن پر خدا کا انعام و اکرام ہوا ہے، جن کے نقشِ قدم پر چلنے کے لئے ہمیں یہ
۱۰۳
تعلیم مل رہی ہے، پھر جب ہم قرآنِ مجید میں اللہ کے انعام یا نعمت سے متعلق عنوانات کی تلاش کرتے ہیں، تو ہمیں ایک آیۂ کریمہ ملتی ہے، جس میں ان حضرات کا ذکر ہے جن پر خدا کا انعام و اکرام ہوا ہے، جو اپنے وقت میں صراطِ مستقیم پر چل کر خدا سے واصل ہوچکے ہیں، اور وہ آیۂ مقدسہ یہ ہے:
وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ (۰۴: ۶۹)
اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہا مان لے گا، تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء اور صدّیقین اور شہداء اور صلحاء۔
حبِّل اللہ:
حبِّل اللہ کے معنی ہیں خدا کی رسی، جس سے ایک ایسی بے مثال اور زندۂ جاوید رسی مراد ہے، جو معجزانہ قسم اور مافوق الفطری درجے کی ہے، کہ وہ نہ کبھی ٹوٹ جاتی ہے، اور نہ ہی کوئی ایسا زمانہ یا جگہ ہے جس میں یہ نہ پہنچ سکے، کیونکہ “خدا کی رسی” کے لفظی معنی میں جو مثال اور تصوّر پوشیدہ ہے، اس کی وضاحت اس طرح سے ہوتی ہے، کہ تمام بنی نوع انسان فی الوقت جس دنیا یا جس حالت میں رہتے ہیں، اس کا نام حکمائے دین کے نزدیک عالمِ سفلی ہے اور حقیقی مسرّتوں کا عالم اس سے بالا و برتر ہے، جس کو عالمِ علوی کہا جاتا ہے پس یہی سبب ہے کہ خدائے حکیم نے اپنی بے پایان رحمت و عنایت سے
۱۰۴
عالمِ علوی اور عالمِ سفلی کے درمیان ہمیشہ کے لئے پاک نور کی رسی قائم کر دی ہے تاکہ بندگانِ خدا فرمانبرداری، عبادت اور معرفت کے وسیلے سے اس کمندِ الہٰی سے وابستہ ہوکر عالمِ علوی یا عالمِ بالا پہنچ سکیں۔
صراطِ مستقیم کا ممثول:
بیانِ مذکورۂ بالا سے جب ہمیں یہ حقیقت صاف طور پر ظاہر ہوئی کہ صراطِ مستقیم یعنی سیدھا راستہ خدائے واحد کے بعد انبیاء، اولیاء، شہداء اور صلحاء کے علاوہ تمام تابعداروں سے بھی منسوب ہوسکتا ہے، یعنی اُسے مومنین کا راستہ بھی کہا جاسکتا ہے، تو پھر ہم اس کے متعلق یہ اقرار کیوں نہ کریں کہ خدائے علیم و حکیم کی سیدھی راہ اور اس کی مضبوط رسی اپنے وقت میں حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے، اور آنحضرتؐ کے بعد آپؐ کے وصی حضرت مولانا علی علیہ السّلام تھے، اور ان کے سلسلۂ اولاد کے أئمّہ طاہرین قیامت تک اسی حیثیت سے ہیں، کیونکہ خدا کی سیدھی راہ اور خدا کی مضبوط رسی کا ممثول نورِ نبوّت و امامت ہے، جیسا کہ بزرگانِ دین کی کتب سے ظاہر ہے۔
فا النّبی فی عَصرہٖ ھُوا الصّراط المُستقیم وَالوصی بعدہ کذٰلک، ثُمّ ینتظم فی امَامٍ بَعد امامٍ کلّ منھم یسند الیٰ من تقدّمہ وَیشیرا الیٰ من تَا خّر عنہ، فالشی ء متسلسل وحبِّلٌ مّن اللّٰہ مَمدود، احد طرفیُہ بید اللّٰہ تعالیٰ والآخر بایدینا۔
۱۰۵
یقوُل اللّٰہ تعالیٰ، وانَّ ھٰذا صراطیْ مُستقیماٍ فا تَّبعُوہ وَلا تتَّبعُوا السّبیل قتفرَّق بکُم عنْ سَبیلہٖ، فا حقّ من یَّتو جّہ الاشارۃ الیہ فی ھٰذا الباب ھُو امیرُالمُومنین عَلی ابن ابی طالب، وھُو صراط اللّٰہ المُستقیم الّذی یقول بظاھرا لتّنزیل وَینفخ فیہ بالبیَان رُوح التّاویُل نَمن سلکہ اٰمنٔ مِنَ الضّلال والتّضلیل وکانّ نعم القُدوۃ لدار مَعادۃ وَالدّلیل۔
ترجمہ: پس پیغمبر (صلعم) خود ہی اپنے عصر میں “صراطِ مستقیم” ہیں، آپؐ کے بعد وصی ایسے ہی ہیں، پھر ایک امام کے بعد دوسرے امام میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، اور ان میں سے ہر امام اگلے امام کی تصدیق و تائید کرتا ہے، اور اپنے بعد آنیوالے امام کے متعلق اشارہ کرتا ہے، پس یہ چیز اسی طرح مسلسل ہے، اور وہ رسی جو خدا کی طرف سے ہے بہت لمبی ہے جس کا ایک سِرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا سِرا ہم بندوں کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “اور یہ کہ یہ میرا راستہ ہے جو کہ سیدھا ہے، پس تم اسی راہ پر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی (۰۶: ۱۵۳)” پس اس بارے میں جس شخص کی طرف اشارے کا رخ ہے، وہ زیادہ حقدار شخص علی بن ابی طالبؑ ہی ہیں، اور وہی خدا کا سیدھا راستہ ہیں، جو کہ نہ صرف تنزیل کے ظاہری معنی کے لئے قائم ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس میں اپنے بیان سے تاویل کی روح بھی پھونک دیتے ہیں، پس جو کوئی اس راستے پر چلے تو اسے خود گمراہ ہوجانے اور کسی کے گمراہ کردینے کا کوئی
۱۰۶
ڈر نہیں، اور اس کے آخری گھر (یعنی منزلِ مقصود) تک رہنمائی کے لئے مولانا علیؑ بہترین رہنما و پیشواء ہیں۔ (المجالس المستنصر یہ ص ۱۶۹، ۱۷۰)۔
ہم کیسے خدا کو پکڑ لیں:
صراطِ مستقیم اور خدا کی رسی نورِ امامت کی حیثیت و صورت میں ہونے کی ایک اور قرآنی دلیل اس آیۂ کریمہ میں ہے کہ: “وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ (۰۳: ۱۰۱)” اور جس شخص نے خدا کو مضبوط پکڑلیا وہ سیدھے راستے لگ گیا، آپ کسی تعصب کے بغیر صاف دلی سے سوچ کر بتائیے کہ کس طریقے سے ہم خدائے بزرگ و برتر کو مضبوطی سے پکڑ سکتے ہیں، کیونکہ اگر یہ امر ممکن ہوتا کہ ہم اللہ کے پاک دامن کو مضبوطی سے پکڑے رہیں تو یہ شروع ہی سے ممکن ہوتا، اور اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے انبیاء علیہم السّلام لوگوں کی رہنمائی کے لئے نہ آتے، آسمانی کتابیں بھی نازل نہ ہوتیں، اور أئمۂّ ہدا علیہم السّلام بھی مقرر نہ ہوتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے انسانی ہدایت و رہنمائی کے یہ تمام وسائل و ذرائع موجود ہیں، پھر آپ ہی بتائے کہ مذکورہ ارشاد کی حکمت کیا ہے؟ معلوم ہے کہ آپ بھی یہی بتائیں گے کہ خدا کو مضبوطی سے پکڑ لینا یہ ہے کہ ہم خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہیں، اور اللہ کی مضبوط رسی سلسلۂ نبوّت و امامت کا نور ہی ہے، جوازل سے ابد تک قائم و دائم ہے، اور یہی نور خود خدا کا سیدھا راستہ ہے، جیسا کہ مذکورہ آیت کے قریب ہی اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ:
۱۰۷
وَاعْتَصِمُوْا بِحبِّلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (۰۳: ۱۰۳) اور تم سب کے سب مل کر خدا کی رسی مضبوطی سے تھامے رہو، اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ، تاکہ تمہیں ضلالت و گمراہی کی پستیوں سے رشد و ہدایت کی بلندیوں پر اٹھا لیا جائے۔
کیا آپ نظامِ کائنات پر غور و فکر نہیں کرتے کہ سمندر کی رسی یا کہ راستہ دریا ہے، اور سورج کی رسی اور راستہ روشنی ہے، چنانچہ پانی کے قطرے دریا سے وابستہ ہو کر سمندر میں داخل ہوسکتے ہیں، یہ ہوا ان قطروں کا سمندر کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر ہدایت پا جانا، یا کہ سمندر کے مقرر کردہ راستے پر چل کر سمندر سے جا ملنا، اسی طرح انسانوں کی نگاہیں نور کی رسی، روشنی کے راستے اور شعاعوں کے پل سے سورج تک پہنچ سکتی ہیں۔
مذکورہ بالا تفصیلات کا خلاصہ و نتیجہ یہ ہے کہ، ہمیں امامِ حیّ و حاضر کے مقدّس دامن کو مضبوطی سے پکڑنا چاہئے، اور وہ یہ ہے کہ ہم اس کے امروفرمان پر جان و دل سے عمل کریں، تاکہ جس سے ہم امامِ زمانؑ کے نور کی رسی سے وابستہ ہوسکیں، کیونکہ یہی نور اللہ کی وہ رسی ہے جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا ہم بندوں کے ہاتھ میں ہے، جیسے کہ سورج کی روشنی کا ابتدائی سرا خود سورج میں ہے، اور انتہائی سرا زمین کی سطح کو چھوتا ہے، اور دوسری مثال میں امام کا نور خدا کا وہ راستہ ہے کہ جس پر چلنے والوں کو خدا مِل جاتا ہے، اور جن کو خدا مِلتا ہے، ان کو کیا نہیں ملتا!
سوال:
قرآنِ مجید میں منزلِ مقصود کی طرف جانے یا اللہ کی نزدیکی و قربت حاصل
۱۰۸
کرنے سے متعلق جتنی مثالیں آئی ہیں وہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں، چنانچہ ایک مثال کا تصوّر یہ ہے جیسے کوئی انسان ایک سیدھے راستے پر خدا کی طرف چل رہا ہو، دوسری مثال یہ تصوّر پیش کرتی ہے، کہ جیسے عرشِ اعلیٰ سے زمین تک ایک رسی قائم ہو، اور بندگانِ خدا اسی کے ذریعہ خدا کے حضور تک پہنچتے ہوں، تیسری مثال سیڑھی کا تصوّر دیتی ہے، جسے عربی میں معراج کہتے ہیں، جیسے قرآنِ حکیم میں ہے کہ فرشتے اور روح پچاس ہزار برس کی مدت میں سیڑھیوں سے چڑھ کر خدا کے پاس جاتے ہیں، اور چوتھی مثال ایک پل کا نقشہ انسانی ذہن کے سامنے لاتی ہے، جسے پلِ صراط کہتے ہیں، تو آپ بتائیے کہ ہم ان مختلف مثالوں میں سے کس کے تصوّر کو قائم کریں۔
جواب:
جاننا چاہئے کہ قرآن کی مذکورہ مثالیں اور ان کے علاوہ جتنی بھی مختلف مثالیں ہیں، وہ سب کی سب ایک ہی حقیقت رکھتی ہیں اور وہ حقیقت نور ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ (۱۸: ۵۴) اور یقیناً ہم نے اس قرآن میں لوگوں کے لئے ایک مثال پھیر پھیر کر بیان کردی ہے، اس ارشادِ الہٰی کا مطلب صاف ظاہر ہے، کہ روحانی حقیقت کی ہر مثال قرآن میں طرح طرح سے بیان کی گئی ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ ایک حقیقت کو سمجھانے کے لئے کئی مثالوں سے کام لیا گیا ہے، اس کا سبب یہ
۱۰۹
ہے کہ مادّیت محدود ہے، اور روحانیّت یا روحانی حقیقت لا محدود، اس لئے یہ ممکن نہیں کہ ایک مادّی چیز کی مثال کسی روحانی حقیقت کی پوری پوری ترجمانی کرسکے، پس نور کی حقیقت سمجھانےکے لئے جسمانیّت کی بے شمار مثالیں درکار ہیں، کیونکہ قرآن زبانِ حکمت سے کہہ رہا ہے کہ کائنات کے ظاہر و باطن کا سب کام نور ہی کر رہا ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ اگرچہ نور صرف ایک لفظ ہے یا ایک اسم ہے، لیکن یہ اپنی وسعتِ معنوی کے لحاظ سے تمام الفاظ اور سارے اسماء پر محیط و حاوی ہے۔
نور کی مختلف مثالیں:
چنانچہ اگر مانا جائے کہ منزلِ مقصود انسانوں سے دور واقع ہے، تو اس صورت میں نور کی مثالیں اس قسم کی ہوں گی، سیدھی راہ، رہنما، ہدایت، روشنی، وغیرہ۔
اگر عقیدہ رکھا جائے کہ انسانوں کو ایک انتہائی بلند مقام پر پہنچ جانا ضروری ہے، تو اس حالت میں نور کا تصور ایک ایسی مضبوط رسی کی طرح ہوگا جو عرشِ برین سے فرشِ زمین تک پہنچی ہوئی ہو، یا ایک ایسی سیڑھی کا تصوّر ہوگا جو زمین سے فلک الافلاک کی چھت پر چڑھنے کے لئے قائم کی گئی ہو، یا ایک ایسی مثالی براق کو فرض کرنا ہوگا جو چشمِ زدن میں زمین سے آسمان پر پہنچتا ہو۔
اگر کہا جائے، کہ دنیا ایک طوفان خیز سمندر ہے تو اسی نسبت سے ماننا
۱۱۰
پڑے گا کہ سچا مذہب اس طوفان میں سمندری جہاز کی طرح ہے، اور ہادئ برحق اس جہاز کا چلانے والا ہے۔
اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ روحانیّت کا ایک روشن عالم موجود ہے، تو یقین کرنا ہوگا کہ نور ہی اس روحانی عالم کے آسمان کا سورج ہے۔
اگر یہ مثال مان لی جائے، کہ دنیا کے ایک تاریک گوشے میں آبِ حیات کا سرچشمہ موجود ہے، لیکن خضرؑ کی رہنمائی کے بغیر وہاں تک کوئی شخص نہیں جاسکتا، اور جو شخص آبِ حیات کو حاصل کر کے پی سکے تو وہ کبھی نہیں مرے گا، تو اِس مثال کا ممثول بھی نور کی معرفت ہوگا۔ وہ اس طرح کہ تاریک گوشے سے ایک ایسی ذہنیت مراد ہے جس میں غفلت و جہالت کے سوا کچھ نہ ہو، خضرؑ سے نور کی شخصیت مراد ہے، اور آبِ حیات کے معنی نور کی معرفت ہے، پس جو شخص امامِ زمان (جو نور کی شخصیّت ہیں) کی رہنمائی میں نور کی معرفت حاصل کرسکے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ اس نے خضرؑ کی رہبری میں آبِ حیات پیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لافانی و پائندہ رہا۔
خلاصہ یہ ہے، کہ نور کی بے شمار مثالیں ہیں، اور وہ سب اپنی اپنی جگہ پر درست اور صحیح ہیں اور ہمیں ان تمام تصورات پر یقین رکھنا ہے، لیکن ایک ضروری بات یاد رہے، اور وہ یہ ہے کہ ان تمام مثالوں کے باوجود نور کو بے مثال بھی ماننا ہے، ورنہ نور کے متعلق ہمارا نظریہ محدود ہو کر رہ جائے گا۔
۱۱۱
منقبت
(باب الحکمت)
مظہرِکرد گار امامِ زمان
رہبرِ کامگارِ امامِ زمان
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے (اسمِ الظاہر ۵۷: ۰۳ کے) مظہر امامِ زمانؑ ہیں، بامقصد اور کامیاب رہنما امامِ زمانؑ ہیں۔
وارث و عترتِ نبیؐ و علیؑ
صاحبِّ ذوالفقارامامِ زمانؑ
ترجمہ: حضرت نبی محمد اور حضرت مولانا علی علیہما السّلام کے وارث و جانشین اور اولاد، اور ذولفقار کے مالک امامِ زمانؑ ہیں۔
وضاحت: ذوالفقار مولانا علی علیہ السّلام کی مشہور و معروف تلوار کا نام ہے، لیکن یہاں ذوالفقار سے مراد علم و حکمت کی تلوار ہے، جیسا کہ مثنوی کا قول ہے:
۱۱۲
نکہتا چون تیغِ فولاد است تیز
چون مذاری تو سپر واپس گریز
نیز بروشسکی میں ہے:
عقلہ غتنڅ اِریݣ نکن روہ ہغرٹہ سوار نمن
جیہ کھننڎ ایون نین مین بی جا امام جون
(عقل کی تلوار ہاتھ میں لے کر روح کے گھوڑے پر سوار ہو کر نفسِ انسانی کے تمام قلعوں کو مسخر کرکے میرے امام کا ہمثل کون ہے؟)
حضرت مولانا سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ایک پاک فرمان میں بھی ہے کہ امامِ زمانؑ اس دور میں شمشیرِ علم و حکمت سے کام لے رہے ہیں۔
قبلۂ دین و کعبۂ ایمان
مقصدِ کردگار امامِ زمان
ترجمہ: دین کا قبلہ اور ایمان کا کعبہ یعنی نورِ الہٰی کا گھر، اور اللہ تعالیٰ کا مقصد و منشاء امامِ زمانؑ ہیں۔
معدنِ علم و مخزنِ عرفان
مایۂ افتخار امامِ زمان
ترجمہ: ظاہری اور باطنی علم کی کان، ربّانی معرفت کا خزانہ اور بزرگی و عزّت کا سرمایہ امامِ زمانؑ ہیں۔
۱۱۳
مصحفِ ناطق و کتابِ مبین
ہادئ نامدار امامِ زمان
ترجمہ: بولنے والا قرآن اور بیان کرنے والی آسمانی و الہامی کتاب اور نامور ہادی و پیشوا امامِ زمانؑ ہیں۔
دوست دارانِ با حقیقت را
مونس و غمگسار امامِ زمان
ترجمہ: با خبر اور حقیقت شناس دوست داروں کے واسطے، راحت رسان اور غمخوار امامِ زمانؑ ہیں۔
نورِ خلاقِ کائنات بوَد
دائماً آشکار امامِ زمانؑ
ترجمہ: کائنات بنانے والے کا نور ہیں، ہمیشہ ظاہر اور آشکار ہو کر امامِ زمانؑ۔
زمرۂ مومنانِ عالم را
ذکرِ لیل و نہار امامِ زمانؑ
ترجمہ: اس دنیا کے گروہِ مومنین کے لئے، امامِ زمانؑ شب و روز کا ذکرِ الہٰی ہیں۔
وضاحت: (ا) جیسا کہ بیت نمبر۱ سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ امامِ زمانؑ، خدا کے اس اسم کے مظہر ہیں، جس کو “اَلظَّاھِر” کہا جاتا ہے، پس اگر کوئی بندۂ مومن شب و روز یا ظاہر، یا ظاہر، یاظاہر، یا ظاہر، یا ظاہر کا ذکر کرتا رہتا ہے تو آپ ہی بتائیے کہ وہ کس کے وسیلے سے کس کو یاد
۱۱۴
کرتا ہے؟ امامِ زمانؑ کے وسیلے سے خدا کو یاد کرتا ہے، اگر اس بات میں آپ کو شک ہے تو وسیلہ کی تحقیق کے لئے قرآنِ حکیم کی آیت (۰۵: ۲۵) اور (۱۷: ۵۷) میں دیکھئے، پھر آپ خود یہ فیصلہ دیجئے کہ خدا، اور بندے کے درمیان اگر کوئی وسیلہ ڈھونڈا جاسکتا ہے تو یہ وسیلہ کن کن باتوں میں جائز اور کن کن امور میں ناجائز ہوتا ہے۔
(ب) قرآن و سنت دونوں گواہ ہیں، اور مختلف روایات کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ اور آنحضرتؐ کے درمیان کئی وسائل تھے، مثلاً اخلاقِ حسنہ اور عبادت، جس نے حضورؐ کو مقامِ وحی کے قریب لایا، پھر الفاظِ وحی، جو کہ آنحضرتؐ اور جبرئیل کے درمیان وسیلہ تھے، یا خود جبرائیل، میکائیل، اسرافیلؑ، لوح اور قلم، پھر واقعۂ معراج کے متعلق روایت ہے کہ حضورؐ براق پر سوار ہو کر خدا کے انتہائی قریب گئے، پھر حجاب کے پیچھے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے بطورِ وحی آنحضرتؐ سے کلام کیا۔ اب اس مقامِ “اَوْاَدْنیٰ” پر بھی ہم کو وسیلہ ہی نظر آتا ہے، چنانچہ اگر مان لیا جائے کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا ہی تھا جیسے قرآن میں ہے، تو اس سے ثابت ہوگا کہ خدا اور پیغمبر کے درمیان اس وقت حروف وسیلہ تھے یا آواز کو لیجئے، اور کہتے ہیں کہ شبِ معراج میں حضورِ اکرمؐ جو خدا کی پاک آواز سن رہے تھے، وہ حضرت امیر المومنین علیؑ کی آواز سے مشابہ تھی، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدائے لا شریک اور اس کے محبِّوب کے درمیان ایک تیسری شخصیّت کا تصوّر اور وسیلہ کیوں ضروری ہوا؟
۱۱۵
(ج) قرآنِ حکیم کی آیت (۰۳: ۳۱) میں جو ارشاد ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص خدا سے محبِّت رکھنے کا دعویدار ہو، اسے آنحضرتؐ کی تابعداری کرنی چاہئے، تاکہ خدا فی الواقع ایسے شخص سے محبِّت رکھے، اور اس کے گناہ معاف کردے، اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی محبِّت کا وسیلہ بس یہی ہے کہ رسول کی تابعداری کیجائے، اور حضورؐ سے محبِّت ہو، جب خدا کی فرمانبرداری، محبِّت اور مغفرت براہِ راست ممکن نہیں تو لازماً دوسرے تمام امور کے لئے بھی خدا اور بندے کے درمیان وسیلہ ہونا چاہئے۔
خانۂ حکمت محمد را
باب عالی وقار امامِ زمان
ترجمہ: حضرت محمد کے خانۂ حکمت کے واسطے، عالی قدر دروازہ امامِ زمانؑ ہیں۔
عاشقانِ جمالِ معنی را
دلبرِ گلغدار امامِ زمان
ترجمہ: باطنی حسن و جمال کے عاشقوں کے لئے، یکتا حسین و جمیل معشوق امامِ زمانؑ ہیں۔
در ظہوراتِ نورمی بینم
واحد و صد ہزار امامِ زمان
ترجمہ: میں نور کی تجلیوں اور جلوہ نمائیوں میں مشاہدہ کر رہا ہوں کہ امامِ زمانؑ ایک بھی ہیں، اور لاکھ بھی۔
وضاحت: (ا) امامؑ دراصل نور کا نام ہے، اور نورِ کامل ہمیشہ
۱۱۶
کے لئے ایک ہوتا ہے، یہی ایک نور ہے جس نے تمام پیغمبروں اور اماموں کے جسمانی لباس میں ملبوس ہوکر دنیا والوں کی ہدایت و رہنمائی کی، اور اس نور کے جسمانی ظہورات یہ ہوئے اور اسی معنی میں وہ ایک بھی ہوا اور لاکھ بھی ہوا۔
(ب) دینی اور دنیاوی طور پر اس عظیم دور میں جو واقعات ہوگزرے ہیں، اور جوواقعات مستقبل میں آنیوالے ہیں، ان سب کے زندہ اور لطیف نمونے روحانی مشاہدات و تجربات میں پیش آتے ہیں، پھر یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نور ایک مردِ صوفی کے عالمِ تصوّر میں تجلیاتی طور پر ایک بھی ہواور لاکھ بھی۔
(ج) ہم عالمِ روحانیّت کی مثال اس مادّی دنیا سے لے سکتے ہیں، چنانچہ عالمِ ظاہر کا نور ایک ہے، لیکن یہ ایک لاکھ بھی بن سکتا ہے، وہ اس طرح کہ آپ ایک لاکھ آئینے سورج کی طرف رخ کراکے رکھ دیجئے، ان میں ایک لاکھ سورج نظر آئیں گے، لیکن پھر بھی سورج اپنی اصلیت میں ایک ہی رہے گا، برشسکی قول ہے:
تھہ لکن شیل دیودنڎِرݳ سہ اُیونُلو بیہ بے؟
عالمݣ سݣ نہ ہمیش نورہ اکھیݽ سان ئیڎم
(ترجمہ: ایک کروڑ سنگ بِلور پھیلا کر دیکھو کیا سورج ان سب میں ہے یا نہیں؟۔ میں نے ایک عجیب و غریب نورانی سورج دیکھا جو ساری دنیاؤں کو منور کررہا ہے)۔
۱۱۷
من چو بلبل زجان و دل شیدا
گلشنِ خود بہار امامِ زمان
ترجمہ: میں بلبل کی طرح حقیقی پھولوں پر جان و دل سے عاشق ہوں، اور امامِ زمانؑ ایسے پھولوں کا سدا بہار گلشن ہیں۔
ازچہ تر سیم تا ابد بودہ
شہر مارا حِصار امامِ زمان
ترجمہ: ہمیں کِس چیز کا ڈر ہے! کیونکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمارے دینی شہر کی فصیل اور شہر پناہ امامِ زمانؑ ہیں۔
من گدائی کریم دور انم
شاہِ عالی تبار امامِؑ زمانؑ
ترجمہ: میں ( یعنی نصیرؔ) زمانے کے کریم یعنی سخی کا گدا ہو ں اور امامِ زمانؑ ہمارے عالی نسب بادشاہ ہیں۔۱؎
۱؎۔ یہ منقبت اور ایک دوسری نظم جس میں مولانا حاضر امام کی تشریف آوری کی تعریف و توصیف ہے، احمد آباد جماعت خانہ کے کمپاونڈ گیٹ کی دونوں جانب کے کتبوں کے لئے تیار کی گئی تھیں، گیٹ کا نام “باب الحکمت” یعنی حکمت کا دروازہ رکھا گیا تھا، اس مناسبت سے کہ نورِ علیٔ زمان آنحضرت کے خانۂ حکمت کا گیٹ ہے۔
۱۱۸
اصول و فروعِ دین
حق تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں عالمِ دین اور اس کی حقیقتوں کی مثالیں اس ظاہری دنیا کی چیزوں سے دی ہیں، مگر چونکہ دین کی حقیقتیں نہایت ہی وسیع اور مادی چیزیں بہت ہی محدود ہوا کرتی ہیں، اس لئے یہ امر ضروری تھا کہ دین کی کسی حقیقت کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لئے ایک نہیں بلکہ بہت سی ایسی مادّی مثالیں دی جائیں کہ جن کی مشابہت و مطابقت کی مدد سے انسان اس حقیقت کو بخوبی سمجھ سکے۔
درختِ دین:
چنانچہ قرآنِ مجید میں دینِ حق کی ایک مثال ایک ایسے سدا بہار اور پاک درخت سے دی گئی ہے کہ جس کی جڑیں زمین میں ہمیشہ کے لئے مضبوط و مستحکم اور شاخیں آسمان میں جا لگی ہوں، جو اپنے پروردگار کے اذن سے ہر وقت اور ہر موسم میں پھل دیتا رہتا ہو، جو اس طرح ہر وقت فائدہ پہنچانے کے اعتبار سے ایک ایسے معجزانہ کلمے کی مانند ہوکہ اس کلمے سے ہمیشہ علم و
۱۱۹
حکمت کے سرچشمے جاری و ساری ہوں، دین کے پاک درخت کی وہ قرآنی مثال درج ذیل ہے:
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ تُؤْتِيْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍۢ بِاِذْنِ رَبِّهَا ۭ وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)
(اے رسول!) کیا آپؐ نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاک کلمے کی مثال کیسے دی ہے، کہ وہ ایک پاک درخت کے مانند ہے، اس کی جڑ مضبوط ہے، اور اس کی شاخ آسمان میں پہنچی ہے، وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
جب معلوم ہوا کہ دینِ حق کی مثالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دین گویا ایک سدا بہار اور ہمیشہ ہمیشہ پھل دینے والا پاک درخت ہے، تو تمام دین داروں کے لئے یہ امر ضروری و لازمی ہوا کہ وہ اپنے درختِ دین کی جڑوں اور شاخوں کی کیفیت و حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا کریں، تاکہ ان پر اس کی تمام خوبیاں ظاہر ہونے کے سبب سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکے۔
اصولِ دین:
“اصل” درخت کی جڑ کو کہتے ہیں، اور اصل کی جمع “اصول” ہے، جس
۱۲۰
کے معنی ہوئے جڑیں، چنانچہ اصولِ دین چار ہیں:
۱۔ عقلِ کل۔
۲۔نفسِ کل۔
۳۔ناطقؐ۔
۴۔اساسؑ۔
ان میں سے پہلی دو اصلیں روحانی ہیں اور دوسری دو اصلیں جسمانی۔
پہلی اصل =عقلِ کلّ:
عقلِ کلّ علمِ الہٰی کا انتہائی عظیم فرشتہ اور عقولِ جزوی کا سرچشمہ ہے، اس عالیشان فرشتے کے اور بھی بہت سے نام ہیں، جیسے عرشِ الہٰی، آدمِ اوّل، قلمِ قدرت، نورِ محمدیؐ یا کہ نورِ نبوّت وغیرہ، اور ان تمام ناموں کی حقیقت ایک ہے، چنانچہ ان مشہور احادیث کی شہادت سےاس بات کی تصدیق و توثیق ہوجاتی ہے کہ: اَوَّلَ مَاخَلَقَ اللّٰہ الْعَقل، یعنی سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ عقل ہے۔اَوَّلَ مَاخَلَقَ اللّٰہ نُوْرِیْ، سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ میرا نور ہے۔ اَوَّلَ مَاخَلَقَ اللّٰہ الْقَلَم، سب سے پہلی چیز جو اللہ نے پیدا کی وہ قلم ہے۔
یہاں پہلی حدیث میں ہے، کہ خلقت کے لحاظ سے عقل پہلی چیز ہے، دوسری میں ہے، کہ نورِ محمدیؐ سب سے پہلے پیدا ہوا، اور تیسری میں ہے کہ ہر چیز سے قبل قلم وجود میں آیا، اگر یہاں یہ سمجھا جائے کہ ان حدیثوں میں تین الگ الگ چیزوں کے سب سے پہلے پیدا کئے جانے کا
۱۲۱
ذکر ہے، تو ان میں سے کسی کی بھی اوّلیّت ثابت نہ ہوسکے گی، کیونکہ اس صورت میں یہ حدیثیں ایک دوسرے کی تردید و نفی کرتی ہیں، پس سوائے اس کے کوئی اور نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ عقلِ کلّ، نورِ محمدیؐ اور قلمِ الہٰی جیسے ناموں کی حقیقت ایک ہی ہے۔
دوسری اصل = نفسِ کلّ:
نفسِ کلّ دوسرے درجے کا وہ عظیم فرشتہ ہے، جسے ہم مثال کے طور پر نفوسِ خلائق کا سب سے بڑا سمندر کہہ سکتے ہیں، اور اس مقام پر یہ بات بھی خوب یاد رہے کہ جہاں عقلِ کلّ کو عرش کہا جائے وہاں نفسِ کلّ کرسی کہلائے گا، جب عقل کو آدم کا نام دیا جائے تو تب نفس حوّا کے اسم سے موسوم ہوگا، اگر اُسے قلم کی مثال دی گئی تو اس کو لوح سے تشبیہہ دینی پڑے گی، اور ہاں اگر عقلِ کلّ نورِ محمدیؐ کا نام ہے تو نفسِ کلّ نورِ علیؑ کو کہتے ہیں، جیسا کہ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے:
اَنَا وَاَنْتَ یَا عَلِیُّ اَبُوا الْمُؤمِنِیْنَ اے علی! میں اور آپ تمام مومنین کے (روحانی) ماں باپ ہیں۔
جاننا چاہئے، کہ مومنین کے یہ روحانی ماں باپ ازل سے موجود ہیں، کیونکہ یہ حقیقت سب کے نزدیک مسلّمہ ہے، کہ جملہ ارواح ازل میں پیدا ہوئی تھی، پس لازم آتا ہے، کہ روحوں کے ماں باپ پہلے سے موجود ہوں۔
۱۲۲
نیز جاننا چاہئے کہ مذکورہ حدیث میں جن مومنین کا ذکر آیا ہے وہ تمام انبیاء، أئمّۂ طاہرین اور ہر زمانے کے تابعدار بندے ہیں، چنانچہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ “اَنَا مِنَ اللّٰہِ وَالْمُؤُمِنُوْنَ مِنِّیْ۔ یعنی میں خدا سے ہوں، اور جملہ مومنین مجھ سے ہیں۔” اس کا صاف و صریح مطلب یہ ہے، کہ یہ مومنین نہ صرف امتِ مسلّمہ میں سے ہیں، بلکہ یہ دوسرے تمام پیغمبروں کی امتوں میں سے بھی ہیں، کیونکہ مذکورۂ بالا حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت ثابت ہوئی کہ ابتداء میں خدا کے نور سے بعنوانِ عقلِ کلّ و نفسِ کلّ محمدؐ و علیؑ کا نورانی ظہور ہوا، اور ان دونوں حضرات کے نور سے سارے ابنیاء، أئمّہ اور ہر امت کے مومنین کی ارواح پیدا ہوئیں۔
تیسری اصل = ناطق:
ناطق کے لغوی معنی بولنے والا ہیں، اور اصطلاح میں اِس سے ایسا پیغمبرؐ مراد ہے، جو صاحبِّ کتاب و شریعت ہونے کی حیثیت سے لوگوں کو اپنے دین کی طرف دعوت کرے، اور ایسے ناطق پورے دور میں چھ ۶ آئے ہیں، یعنی حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم السّلام اور آخری ناطق آنحضرتؐ ہیں۔
۱۲۳
چوتھی اصل = اساس:
اساس کے لفظی معنی بنیاد کے ہیں، اور اصطلاحاً اس سے وہ امام مراد ہے جو ناطق کے ساتھ بحیثیت وزیر کے رہتا ہے، جس کو ناطق اپنے بعد وصی اور جانشین مقرر کرتا ہے، اساس ناطق کے دور میں آنے والے تمام اماموں کے لئے بنیاد کا درجہ رکھتا ہے، ایسے اساس بھی ناطقوں کے برابر چھ ہوئے ہیں، یعنی مولانا شیث، مولانا سام، مولانا اسماعیل، مولانا ہارون، مولانا شمعون اور مولانا مرتضیٰ علی علیہم السّلام، اور آخری اساس مولانا مرتضیٰ علی علیہ السّلام ہیں۔
واضح ہو کہ جس طرح ہر ناطق اپنے تابعداروں کو آسمانی کتاب کے ظاہری علوم کی تعلیمات دیتا ہے اس طرح اس کا اساس اپنے پیروؤں کو اسی آسمانی کتاب کے باطنی علوم سے واقف و آگاہ کردیتا ہے، چنانچہ آخری دور کے ناطق یعنی حضرت محمدؐ نے اپنے وقت کے لوگوں کو قرآن کی تنزیل سے روشناس کردیا، اور مولانا علیؑ نے اپنے عصر کے مومنین کو قرآن کی تاویل سے فیضیاب فرمایا، یعنی انہوں نے اپنے سلسلۂ اولاد کے توسط سے ہر زمانے کے مومنین پر تاویل و حکمت کے دروازے کھول دیئے۔
فروعِ دین:
“فرع” درخت کی شاخ کو کہتے ہیں،اور فرع کی جمع “فروع” ہے، جس سے درختِ دین کی شاخیں مراد ہیں، چنانچہ فروعِ دین چھ ہیں: جد، فتح، خیال، امام، حجت اور داعی۔ ان میں پہلی تین فرعیں روحانی اور دوسری تین فرعیں جسمانی ہیں۔
۱۲۴
پہلی فرع =جد:
جدّ حضرت اسرافیل علیہ السّلام کا نام ہے، یہ فرشتہ صاحبِّ صور کہلاتا ہے، یعنی نرسنگھا پھونکنے والا، چونکہ تمام تر ترجموں میں صور کے لئے “نرسنگھا” لکھا گیا ہے، لہٰذا میں نے بھی ایسا ہی لکھ دیا، ورنہ صورِ اسرافیل کے لئے یہ لفظ مناسب اور موزون نہیں، کیونکہ نرسنگھا دنیا کے سب باجوں اور سازوں سے نچلے درجے پر ہے، اور صورِ اسرافیل روحانیّت کے اسرارِ عظیم کے سلسلے میں ایک ایسا معجزانہ ساز ہے جو یقیناً ساکنانِ آسمان و زمین کو آن واحد میں مست و مدہوش کردیتا ہے، تمام خلائق کی روحوں کو اپنی طرف مرکوز کرلیتا ہے، اور کشتگانِ عشقِ الہٰی کے لئے ابدی طور پر حیاتِ نو کا پیغام لاتا ہے۔
جدّ روحانی فروع میں سب سے اونچی فرع ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: “وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحبِّةً وَّلَا وَلَدًا ۷۲: ۰۳) اور یہ کہ ہمارے پروردگار کی شان (یعنی جدّ) بہت بلند ہے، اس نے نہ کسی کو بیوی بنایا اور نہ اولاد۔” یہاں جدّ، جس کا لفظی ترجمہ “شان” بھی ہوسکتا ہے، اسرافیل کے بارے میں آیا ہے۱، اور اس میں تعجب کی کیا بات ہے، کہ خدا
۱؎: وجہِ دین حصّہ دوم ص ۲۸ پر یہ عبارت درج ہے: “و تعالی جدک، کہتا ہے کہ برتر ہے تیرا جدّ (فرشتہ) کہ اس کے مقام تک ناطقوں کے سوا اور کوئی شخص پہنچ نہیں سکتا۔” نیز “اعلامِ اسماعیلیہ” کے صفحہ ۴۲ پر ہے کہ “جد” کا یہ نام مذکورہ آیت سے لیا گیا ہے۔
۱۲۵
کی شان ایک فرشتہ ہو، جب کہ خدا کا تخت (عرش) کرسی، قلم، لوح وغیرہ زندہ موجودات ہیں۔
دوسری فرع = فتح:
فتح حضرت میکائیل علیہ السّلام کا دوسرا نام ہے، فتح کے معنی کھولنے کے ہیں، جس سے علم و حکمت اور تاویل کی کشائش مراد ہے، اور یہ تمام باتیں میکائیل سے متعلق ہیں، اسی وجہ سے اس کو فتح کہتے ہیں، قرآنِ حکیم کے ارشادات کا یہ اشارہ ہے کہ فرشتوں کی ہستی پر اقرار کرکے ان کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے ان کی دوستی سے فائدہ حاصل کیا جائے، چنانچہ اس آیۂ کریمہ میں کافروں کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ خدا، انبیاء، ملائکہ، جبرائیل اور میکائیل سے بغض و عداوت رکھتے ہیں، وہ ارشاد یہ ہے:
“مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَرُسُلِهٖ وَجِبْرِيْلَ وَمِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ (۰۲: ۹۸) جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو تو بیشک اللہ (بھی ان) کافروں کا دشمن ہے۔” سوال ہے کہ کس طرح کوئی شخص خدا اور اس کے فرشتوں کا دشمن ہوسکتا ہے؟ یہ تو قطعاً ناممکن بات ہے۔ ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ، خلیفۂ خدا یعنی امامِ زمانؑ سے دشمنی رکھنا خدا سے دشمنی رکھنا ہے، اور اس کے مقرر کردہ حجت (پیر) داعی وغیرہ سے دشمنی فرشتوں سے دشمنی ہے، جس کا نتیجہ علمِ حقیقت سے محرومی ہے۔
۱۲۶
تیسری فرع = خیال:
خیال حضرت جبرائیل علیہ السّلام کا نام ہے، جو امورِ وحی کا ابتدائی فرشتہ ہے، جیسا کہ آنحضرتؐ کے اس ارشادِ گرامی سے ظاہر ہے کہ: “بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اللّٰہِ خَمْسَ وَسَائِطْ: جبرائیل و میکائیل و اسرافیل و اللوح و القلم = میرے اور خدا کے درمیان پانچ واسطے ہیں: جبرائیل ، میکائیل، اسرافیل، لوح (نفسِ کلّ) اور قلم (عقلِ کلّ)۔
چوتھی فرع = امام:
امام حاضر و موجود جسمانی فروع میں سب سے بالا و برتر فرع ہیں، اور امامِ عالیمقامؑ کی برتری و بالادستی کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے مرتبۂ امامت میں روحانیّت کے آسمان تک پہنچے ہوئے ہیں، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: “اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ ۔ یعنی درختِ دین کی جڑ زمین میں مضبوط و مستحکم ہے، اور اس کی شاخ آسمان میں جا پہنچی ہے۔”
اگر چہ درخت کی شاخوں کے میوے بلندی میں پک کر تیار ہوجاتے ہیں، لیکن بالآخر وہ زمین پر آ گرتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ امامِ زمانؑ کے مراتبِ عالیہ کی بلندی پر علم و حکمت کے جو پھل پائے جاتے ہیں، وہ زمینِ دین پر گرتے رہتے ہیں، اور زمینِ دین مومنین و مستجیبین ہیں۔
درخت کا میوہ تین طرح سے حاصل کیا جاتا ہے، وہ یہ کہ درخت خود بخود پھل گرا دیتا ہے، کوئی شخص درخت پر چڑھ جاتا ہے، اور پتھر
۱۲۷
لاٹھی وغیرہ مار کر گرایا جاتا ہے، اسی طرح درختِ دین کے پھل بھی تین طریقوں سے حاصل ہوسکتے ہیں، کہ امامِ زمانؑ خود بخود اپنے مریدوں کی ہدایت فرماتے ہیں، مومنین میں سے کوئی عبادت و اطاعت کے وسیلہ سے روحانیّت حاصل کرکے درختِ دین پر چڑھ جاتا ہے، اور ظاہری طور پر امامؑ سے ضروری مسائل پوچھے جاتے ہیں۔ چنانچہ پیر ناصر خسرو ق س فرماتے ہیں:
دانش ثمر درختِ دین است
برشو بدرختِ مصطفائی
ترجمہ:علم و حکمت اور عقل و دانش دینی درخت کا پھل ہے، تم اسے حاصل کرنے کے لئے حضرت محمد مصطفےٰؐ کے درخت پر چڑھ جاؤ۔
تا میوہ جانفزائی یابی
در سایۂ برگِ مرتضائی
ترجمہ: تا کہ تمہیں روح بڑھانے والا پھل حاصل ہو (جسے تم) مرتضیٰ علیؑ کی شاخوں کے پتوں کے سائے میں دکھاؤ گے۔
چیز عجبی نشانت دادم
زیرا کہ تو آشنائی مائی
ترجمہ: میں نے تمہیں ایک عجیب و غریب چیز کی نشاندہی کی، کیونکہ تم ہمارے دوست ہو۔
زان میوہ قوی شوی و باقی
گربررہ جتن بقائی
۱۲۸
ترجمہ:اس (درختِ حیات کے) پھل سے تم روحانی طور پر طاقت ور اور زندہ ہوجاؤگے، اگر تم دائمی بقاء و حیات کی جستجو کرتے ہو۔
درخت کی جڑیں اپنی تمام قوّتیں شاخوں کی طرف بھیجتی رہتی ہیں، جس کی تاویل یہ ہے کہ عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطقؐ اور اساسؑ (جو درختِ دین کی جڑیں ہیں) ہمیشہ اپنے انوارِ امامِ زمانؑ کی طرف بھیجتے رہتے ہیں۔
پھل اگرچہ بظاہر درخت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے، لیکن بحقیقت پھل میں درخت اپنے تمام اجزاء کے ساتھ سمایا ہوا ہے، یہ بات اوّل تو اس اعتبار سے درست ہے کہ پھل میں پورے درخت کا خلاصہ اور جوہر موجود ہوتا ہے، نیز پھل درخت کے تمام افعال کا نتیجہ و ماحصل ہوتا ہے، دوم اس اعتبار سے کہ پھل کے دانہ (گٹھلی) میں درخت بحدِّ قوّت موجود ہے، چنانچہ اگر گٹھلی کو زمین میں بودیا جائے تو اس سے وہی درخت پیدا ہوکر حدِّ فعل میں آجاتا ہے، اس کی تاویل یہ ہے کہ امامِ زمانؑ کا نور درختِ دین کی جڑوں اور شاخوں کا ماحصل اور نتیجہ ہیں، پس اگر کوئی حقیقی مومن اپنے دل کی زمین میں امامِ زمانؑ کی محبِّت و فرمانبرداری کے بیج کو جیسا کہ چاہئے بوکر پرورش کرے، تو یقیناً روحانی کیفیت میں اس کے دل سے پھر یہی پاک درخت بلند ہوکر ہمیشہ کے لئے علمِ و حکمت کا پھل دینے لگتا ہے، جس کے بارے میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ(۳۶: ۱۲)۔ اور ہم نے تمام
۱۲۹
چیزوں (کے علم و حکمت) کو امامِ ناطق (کے نور) میں گھیر کر رکھا ہے۔” مطلب یہ کہ امامِ حاضرؑ کی پاک محبِّت اور تابعداری کے نتیجے پر یہ سب کچھ چشمِ باطن سے دیکھا جاتا ہے، اور اسی معنی میں مولوی معنوی اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں:
عقلِ کلّ و نفسِ کلّ مردِ خداست
عرش و کرسی رامدان کزوی جداست
یعنی انسانِ کامل ہی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہے، تم ایسا نہ سمجھنا کہ عرش و کرسی اس انسانِ کامل سے جدا کہیں اور جگہ ہے۔
پانچویں فرع = حجت:
لفظِ حجت کے کئی معنی ہیں، مگر یہاں حجت سے جو معنی ہیں، وہ اس آیۂ مقدسہ سے ظاہر ہیں:
لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللّٰهِ حُجَّــةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ ۭوَكَانَ اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِيْمًا (۰۴: ۱۶۵) تاکہ رسولوں کے (آنے کے) بعد اللہ تعالیٰ پر لوگوں کی کوئی حجت نہ رہ جائے، اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔” اس آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہے، کہ اگر اللہ تعالیٰ پورے دور کے لوگوں کے لئے پیغمبروں کے ذریعہ سے ہدایت کا کوئی مستقل نظام مقرر نہ فرماتا، تو خدائے تعالیٰ پر لوگوں کی حجت ہوتی، یعنی (نعوذ باللہ) لوگ دلیل میں خدا پر غالب آتے، کیونکہ حجت کا مطلب ہے دلیل میں غالب
۱۳۰
آنا، یعنی قیامت کے روز جب خدا بندوں سے پوچھے گا، کہ تم نے دنیا میں کیوں میری مرضی کے مطابق عمل نہیں کیا؟ تو لوگ یہ دلیل پیش کریں گے کہ پروردگار! آپ کی جانب سے کوئی ایسا شخص نہیں تھا جو ہمیں آپ کی مرضی سمجھنے کی ہدایت دے سکے، تو یہ ہوئی خدا پر لوگوں کی حجت یا کہ دلیل میں خدا پر لوگوں کا غالب آنا، مگر مذکورہ ارشاد سے صاف ظاہر ہے، کہ اللہ پر لوگوں کی کوئی حجت نہیں، بلکہ لوگوں پر خدا کی حجت ہے، اور وہ حجت یہ ہے کہ اس نے پیغمبر بھیجے ہیں، پس اسی معنی میں انبیاء علیہم السّلام لوگوں پر خدا کی حجتیں ٹھہرے۔
چنانچہ اس دور میں لوگوں پر خدا کی حجت حضرت محمد مصطفےٰ صلعم ہیں، آنحضرتؐ کی حجت اساسؑ ہیں، یعنی مولانا علیؑ، اساسؑ کی حجت زمانے کا امامؑ ہے، اور امامؑ کی حجت وہ بزرگ ہے جسے صاحبِّ جزیرہ یا پیر کہا جاتا ہے، اور اسماعیلی عقائد میں حجت کا یہ لقب اسی درجے کیلئے زیادہ مستعمل ہے۔
چھٹی فرع = داعی:
داعی کے معنی ہیں دعوت کرنے والا، چنانچہ مرکزِ دعوت کی طرف سے جو شخص امرِ دعوت کے لئے مامور ہوجائے وہ داعی کہلاتا ہے، اور داعی حجت کے تحت ہوتا ہے، دعوت کے متعلق قرآن میں بہت سی آیات موجود ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے:
اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ
۱۳۱
جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ (۱۶: ۱۲۵) (اے رسول!) آپ اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحتوں کے ساتھ بلالیجئے، اور اس طریقے سے بحث کیجئے جو بہت ہی اچھا ہے۔
اس ارشادِ الہٰی سے ظاہر ہے کہ دینِ حق کی طرف دعوت کرنے کی بڑی شرط حکمت ہے، اور حکمت صرف پیغمبرؐ اور امامؑ ہی کے ذریعے سے کسی کوملِ سکتی ہے، پس اسی وسیلے سے حکمت حجت کو مِل سکتی ہے، اور حجت سے داعی کو حاصل ہوسکتی ہے۔
والسّلام
۱۳۲
امام کے معجزانہ نشانات
شہ کریم نورِ حق امامِ زمان
رہبرِ کا ملانِ کون و مکان
سِبطِ ختم رسلؐ وہ آلِ علیؑ
نائبِ مرتضیٰ ولئ زمان
حیّ و حاضر ہے اِس جہان میں مدام
چونکہ ہے عقلِ عقل و مایۂ جان
فائض النّوردونوں عالم کا
مثلِ خورشید ہے عیان و نہان
مجھ سے گر پوچھے کوئی اس کا نِشان
بے مثل ہے کہ ہے خدا کا نِشان
بے نِشان بھی ہے با نِشان بھی ہے
مظہرِ حق کی ذاتِ عالی شان
اِک نِشان یہ کہ ہے وہ آلِ نبیؐ
ہادئ دین قسیمِ نارو جنان
۱۳۳
اِک نِشان یہ کہ حیّ و قائم ہے
از ازل تا ابد شہِ دوران
حسنِ سیرت ہے اِک نِشان اس کا
جس کا ثانی نہیں چہ انس وچہ جان
اِک نِشان یہ کہ جہد کرتا ہے
تاکہ ہو اِس جہاں میں صلح و امان
کشفِ باطن ہے اِک نِشان اس کا
تاکہ ظاہر ہو ہم پہ گنجِ نہان
اِک نِشان یہ ہے کہ وہ دنیا میں
مثلِ کشتیٔ نوح و کشتی بان
بے نیازی ہے اِک نِشان اس کا
کہ نہیں مدعی چنین و چنان
اِس کے صدہا نِشان ہیں ایسے
جن کا مجھ سے نہ ہوسکا ہے بیان
حقِ توصیفِ شہ ادا نہ ہوا
معترف ہے نصیرؔ بے سامان
۱۳۴
توضیحِ الفاظ
شہ =مخفف ہے شاہ کا۔
سبطِ =بیٹے کی یا بیٹی کی اولاد۔
عقلِ عقل=عقل کی عقل، یعنی عقلِ کلّ
مایۂ جان =روح کا سرمایہ، یعنی نفسِ کلّ
فائض النور=روشنی بخشنے والا۔
عیان و نہان = ظاہر و باطن۔
قسیم =تقسیم کرنے والا۔
نار و جنان=دوزخ اور بہشت۔
چہ انس و چہ جان =کیا انسان اور کیا جنّات۔
کشفِ باطن =پوشیدہ حقیقتوں کا انکشاف کرنا۔
گنج نہان =چھپا ہوا خزانہ، یہ اشارہ حدیثِ قدسی: کُنْتُ کَنْزاً کی طرف ہے۔
کشتی بان =کشتی چلانے والا۔
امام کا ایک نشانِ بے نیازی ہے، یعنی اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ میں ہی امام ہوں، تو حقیقی امامؑ اس کے خلاف مقدمہ بازی نہیں کرتے، دیکھئے “وجہِ دین” حصّہ دوم ص ۱۴۲۔
صدہا = سینکڑوں۔
معترف = اعتراف کرنیوالا، یعنی قائل۔
۱۳۵
آیاتِ دعا کے بنیادی حقائق
حضور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ کے ارشاداتِ گرامی میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ہم اسماعیلی اپنی مروجہ دعا کے معانی و مطالب اور بنیادی حقائق کو بخوبی سمجھ لیا کریں، کیونکہ اس مبارک و مقدّس دعا کے الفاظ، اسماء، کلمات اور آیات نہ صرف حقیقی عبادت کے لحاظ سے پُرمغز اور پُرحکمت ہیں، بلکہ یہ اسماعیلی عقیدہ اور نظریہ کے اعتبار سے بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، چنانچہ ہم دعا کے اُن اجزاء کی کچھ اساسی حقیقتیں بیان کرتے ہیں، جو آیاتِ قرآن کی صورت میں ہیں۔
حصّۂ اوّل
سورۂ فاتحہ
سورۂ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی اور بعض روایتوں کے مطابق مدینہ میں بھی نازل ہوئی، اسی وجہ سے اس کو سبع المثانی کہتے ہیں، چنانچہ سبع کے معنی ہیں سات اور مثانی کے معنی ہیں دہرائی ہوئی، جس سے یہی سورۂ فاتحہ مراد ہے، کہ اس کی سات آیتیں ہیں، اور یہ دو دفعہ نازل ہوئی ہے، مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی۔
۱۳۶
اس سورت کے بہت سے نام ہیں، جیسے سورۃ الحمد، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی گئی ہے، سورۃ الفاتحہ، کیونکہ اسی سے قرآن شریف کا آغاز ہوتا ہے، اساس القرآن، کہ یہی کتابِ الہٰی کی بنیاد ہے، سورۂ شفاء، اس کی تاثیر سے روحانی اور جسمانی شفاء حاصل ہوتی ہے، سورۃ الکنز، چونکہ یہی سورۃ قرآنِ پاک کے سارے علوم کا خزانہ ہے، اور امُ الکتاب یا امُ القرآن، چونکہ قرآن شریف کے تمام مضامین اجمالی طور پر اس میں سمودیئے گئے ہیں، سورۃ فاتحہ کے نام ان کے علاوہ اور بھی ہیں، جن سے اس سورت کی عظمت و فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
سورۂ فاتحہ میں خداوندِ عالم نے اپنے بندوں کو بطریقِ جامع ضروری امور کی تعلیم دی ہے، بالفاظِ دیگر یہ سورت قرآنِ پاک کی تمام حقیقتوں کا سرچشمہ اور ساری حکمتوں کا خزانہ ہے، یہی سبب ہے، کہ اس کے ناموں میں سے ایک خاص نام امُ الکتاب یا کہ امُ القرآن ہے، جس کے معنی ہیں کتاب کی اصل یا کہ قرآن کی اصل۔
حصّۂ دوم
۱۔آیۂ اطاعت
حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے آپؑ نے فرمایا، کہ پروردگارِ عالم نے “يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا” (اے ایمان والو!) فرما کر قیامت تک کے مومنین سے یعنی ہر زمانہ کے مومنین سے خطاب کر کے فرمادیا ہے کہ: “اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ
۱۳۷
اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ (۰۴: ۵۹) یعنی اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو صاحبِّانِ امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔
امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ، اس آیتِ کریمہ میں اللہ و رسولؐ کی اطاعت کے بعد جن صاحبِّانِ امر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، وہ ہم أئمّۂ اہلِ بیت ہی ہیں۔
(ب) امامِ مبین
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر رکھا ہے۔
جناب امام محمد باقر علیہ السّلام سے بروایتِ اپنے والدِ ماجد و جدِ امجد کے منقول ہے، کہ جب جناب رسولِ خدا پر یہ آیت نازل ہوئی تو اصحاب میں سے چند حضرات اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور عرض کرنے لگے، یا رسول اللہ آیا امامِ مبین سے مراد توریت ہے؟ فرمایا نہیں، انہوں نے عرض کی، پھر انجیل ہے؟ فرمایا نہیں، پھر انہوں نے عرض کی، آیا قرآن ہے؟ فرمایا نہیں، اتنے میں جناب امیرالمومنین مولانا علیؑ تشریف لے آئے، آنحضرتؐ نے فرمایا: دیکھو وہ امام جس میں خدائے تعالیٰ نے ہر چیز کے علم کا احصا فرما دیا یہ ہے:
جناب امیر المومنین علیؑ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا، کہ خدا کی قسم وہ امامِ مبین میں ہوں، میں حق و باطل کو صاف صاف بیان کردیتا ہوں،
۱۳۸
اور میں نے یہ عہدہ جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے وراثتاً پایا ہے۔
(بحوالہ تفسیر صافی و تفسیرِ عمدۃ البیان وحاشیۂ ترجمۂ قرآن از مقبول احمد صاحبِّ)۔
حصّۂ سوم
امرِ ولایت
جب مذکورۂ بالا آیۂ اطاعت کے ذریعہ خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے بعد صاحبِّ امرؑ یعنی امامِ وقت کی اطاعت فرض کی گئی تو لوگ نہ سمجھ سکے، کہ ولایت کیا ہے، ہر چند کہ رسول اللہ مختلف موقعوں پر مولانا علی علیہ السّلام کی ولایت کے متعلق لوگوں کو سمجھا دیا کرتے تھے اور یہ کام نزولِ وحی کے آغاز ہی سے جاری تھا، جیسے آنحضرتؐ نے فرمایا کہ مجھ سے علیؑ کو وہی درجہ ہے جو موسیٰ سے ہارون کو تھا، پھر بھی لوگ علیؑ کی ولایت سمجھنے سے قاصر رہے، اس وقت پروردگارِ عالم نے آنحضرتؐ کو یہ حکم دیا کہ آپ امت کو ولایت کا مفہوم بھی اس طرح سمجھا دیں، جس طرح کہ آپؐ نے دوسرے امور کی صورت و کیفیت سے واقف کیا، تو اس وقت آپؐ کا دل بیٹھ گیا، اور آپؐ کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا، کہ کہیں خدانخواستہ لوگ آپ کے دین سے مرتد نہ ہوجائیں، اور آپؐ کی نبوّت کی تکذیب نہ کر بیٹھیں، اس اندیشہ کی وجہ سے آپ امرِ ولایت کے متعلق دوبارہ ربّ العزّت سے مخاطب ہوئے، تو خداوندِ تعالیٰ نے یہ وحی نازل کہ:
۱۳۹
يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ۭوَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ ۭوَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ(۰۵: ۶۷) ترجمہ: اے رسول جو کچھ (امرِ ولایت کے بارے میں) آپ کے رب کی جانب سے آپ پر نازل کیا گیا ہے، آپ اس کو پہنچا دیجئے، اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا ایک پیغام بھی نہیں پہنچایا، اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔
چنانچہ آنحضرت صلعم نے امرِ الہٰی کو ظاہر کردیا، اور مقامِ غدیرِ خم میں امیرالمومنین علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام کی ولایت و امامت کا اعلان کردیا، آپ نےپہلے تو اس پیغام کو پہنچانے کے لئے “الصلوٰۃ جامعہ” کی ندا کروائی، اور آپ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ جو حاضر ہے وہ اس پیغام کو غائب تک پہنچادے۔
حصّۂ چہارم
بیعتِ رضوان
ہجرت کے چھٹے سال میں صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیک وقت چودہ سو اصحاب سے، جو اس وقت حاضر تھے، بیعت لی، اس کے بعد سورۂ فتح نازل ہوئی جس میں بعض دوسرے امور کے ساتھ بیعت کی حقیقت و حکمت کے بارے میں بھی ارشاد ہے:
۱۴۰
(اے رسول!) جو لوگ آپ سے بیعت کررہے ہیں، تو وہ (واقع میں) اللہ تعالیٰ سے بیعت کررہے ہیں، خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے، پھر (بیعت کے بعد) جو شخص عہد توڑے گا، تو اس کے عہد توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا، اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا جس پر (بیعت میں) خدا سے عہد کیا ہے سو عنقریب خدا اس کو بڑا اجر دے گا۔ (۴۸: ۱۰)۔
اس بیعت کے متعلق حق تعالیٰ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا، اسی لئے اس کو بیعتِ رضوان کہتے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے کہ: “لَقَدْ رَضِيَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ (۴۸: ۱۸) یقیناً اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے راضی ہوگیا، جس وقت کہ انہوں نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی۔
آیۂ بیعت کی مذکورہ تعلیم سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہوئی کہ مومنین دینِ اسلام کی حفاظت کے لئے اپنے آپ اتفاق و اتحاد کے رشتے میں منسلک ہر گز نہیں ہوسکتے، بجز آنکہ وہ ایک ایسی مقدّس ہستی کے مبارک ہاتھ پر بیعت کریں، اور اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں، جس کو حق تعالیٰ نے اپنی رحمت سے مومنین کے لئے حقیقی اتحاد کا مرکز قرار دیا ہے، جس کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے، جس سے بیعت کرنا خدا سے بیعت کرنا ہے، اور جس کا فرمان ماننا خدا کا فرمان ماننا ہے، اور ایسی پاک ہستی صرف پیغمبر اور امام علیہما السّلام ہی کی ہے۔
چنانچہ اسماعیلی مذہب کا یہ عقیدہ ایک زندہ حقیقت کی حیثیت سے
۱۴۱
ہے کہ مومنین کی ہدایت کرنے اور ان سے فرمانبرداری اور اتحاد کی بیعت لینے کے لئے آنحضرتؐ کی وصی ہمیشہ دنیا میں حاضر اور موجود ہیں، جو محمدؐ و علیؑ کے نور کے حامل اور امامِ زمانہ کا درجہ رکھتے ہیں۔
حصۂ پنجم
امانات
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ اور (اس کے) رسول کی (امانتوں میں) خیانت نہ کرو، اور نہ اپنی امانتوں کی خیانت کرو، حالانکہ تم جانتے ہو (۰۸: ۲۷)۔”
اس ارشادِ الہٰی کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ قرآن کے علم و حکمت اور رتبۂ آلِ محمدؐ (یعنی امامت) خدا اور اس کے رسول کی امانتیں ہیں، پس ایمان والوں کو چاہئے کہ وہ ان امانتوں میں خیانت نہ کریں، یعنی وہ ان مقدّس امانتوں کے مالک ہونے کا دعویٰ نہ کریں، بلکہ ان کو خدا اور رسولؐ کی ملکیت سمجھیں، چنانچہ قرآن کے متعلق یہ عقیدہ رکھیں، کہ قرآن کے علم و حکمت کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے، اور اس کے رسولؐ جانتے ہیں، اور وصیٔ رسولؐ جانتے ہیں، اور رتبۂ امامت کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ امامت حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہے، اور آنحضرتؐ کے بعد یہ امانت ان کی آلِ پاک کی ہے، اور ایمان والوں کو ان امانتوں میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں، پس اس عقیدہ اور تصوّر کی مثال ایسی ہے،
۱۴۲
جیسے خدا اور رسول کی امانتیں ادا کردی گئیں، اس کے برعکس اگر وہ ان امانتوں میں خیانت کریں، تو گویا وہ خود اپنی ان امانتوں میں خیانت کرتے ہیں جو قرآن اور امامت کے ذریعہ روح الامین کے فیوض و برکات کی صورت میں ان کو مِل سکتی تھیں۔
چنانچہ خدا اور رسولؐ کی یہی مقدّس امانتیں تھیں جن کے بارے میں آنحضرتؐ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ: “میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو گرانمایہ چیزیں چھوڑ دیتا ہوں، خدا کی کتاب (یعنی قرآنِ مجید) اور میری عترت و اہلِ بیتؑ اگر تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے، تو تم میرے بعد ہر گز ہرگز گمراہ نہ ہوجاؤ گے، کیونکہ یقیناً یہ دونوں ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ یہ دونوں حوضِ کوثر پر مجھ سے آن ملیں۔
اب معلوم ہوا کہ یہ دونوں گران مایہ چیزیں وہی ہیں جن کو مذکورۂ بالا آیت میں خدا اور رسول کی امانتیں کہا گیا ہے، اور یہ دونوں مقدّس چیزیں امانت اس معنی میں ہیں کہ ملکیت جس کی ہو اس کو اختیار ہے کہ وہ جیسا چاہے استعمال کرے، مگر امانت جس کے پاس ہو اس کا فریضہ ہے کہ صاحبِّ امانت سے یہ بات پوچھ لیا کرے کہ، اس امانت کا مقصد و منشاء کیا ہے، اس سے کس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اور اس کی کیا کیا شرطیں ہیں۔
حصّۂ ششم
سورۂ اخلاص
سورۂ اخلاص مکہ یا مدینہ میں نازل ہوئی اور اسکی چار آیتیں ہیں، اخلاص
۱۴۳
کے معنی کسی چیز کو آمیزش اور ملاوٹ سے خالص اور پاکیزہ کرنے کے ہیں، چنانچہ اس سورہ میں توحید کو شرک اور دہریت کی آمیزش سے خالص اور پاکیزہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، اس لئے اس کو سورۂ اخلاص کہتے ہیں، اس اہمیت کی بناء پر اس کو قرآنِ پاک کی تمام تعلیمات کا خلاصہ اور نتیجہ کہا گیا ہے۔
حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ یہودیوں نے رسولِؐ خدا سے پوچھا، کہ تم اپنے پروردگار کا نسب بیان کرو، اور انہوں نے تین بار یہی پوچھا، لیکن حضرتؐ جواب نہیں دیتے تھے، یہاں تک کہ جبرئیلؑ یہ سورہ لے کرآئے۔
سورۂ اخلاص کا مقصد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت (یکتائی) کا مفہوم سمجھانا ہے، اور وہ نظریہ وحدت الوجود کے مطابق درست ہے، یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ساری موجودات و مخلوقات کی حقیقی ذات ایک ہے جو خدا کے نور اور رحمت میں مستغرق ہے، اور اس تصوّر کی مدد سے یہ حقیقت سمجھ لینے کی کوشش کرنا، کہ کوئی چیز خدا کی قدرت و حکمت سے خالی نہیں، اب اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ہر چیز میں خدا کی قدرت و حکمت موجود ہے تو لازمی ہے کہ تمام مظاہرِ قدرت کو ایک مان لیا جائے، اور قدرت کو قادرِ مطلق سے جدا نہ سمجھا جائے، چنانچہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوٰۃ اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے: “کہا جاتا ہے کہ ہم سب خدا میں رہتے ہیں، خدا میں حرکت کرتے ہیں، ہمارا وجود خدا میں ہے۔” نیز فرماتے ہیں کہ “خدا کے ارادہ اور اس کے منشاء کے باہر کوئی شے اور کوئی وجود نہیں۔”
۱۴۴
تاویلِ استِرجاع
یعنی
قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ کی تاویل
(از وجہِ دین کلام ۴۹)
ہم خدائے تعالیٰ کی توفیق سے بیان کریں گے کہ لوگوں کو جسمانی حالت میں مصیبت اور مشکلات آتے وقت اس قول کا کہنا واجب ہے، جیسا کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (۰۲: ۱۵۶) وہ لوگ جن پر جب کوئی مصیبت آ پڑتی ہے، تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور اسی کی طرف واپس ہوجانے والے ہیں۔ عرب والے مشکل کاموں کو رات کی تاریکی سے تشبیہہ دیتے ہیں، اس لئے کہ اس کام سے بڑھ کر اور کوئی مشکل نہیں، جس کے گھیرے سے نکل جانے کا راستہ ہی لوگوں کو نظر نہ آئے، یہی تو تاریکی ہے، تاریکی دو طرح کی ہے، جسمانی تاریکی اور روحانی تاریکی، جسمانی تاریکی کی وجہ رات ہے، جسے سورج ہی روشن کرسکتا ہے، کیونکہ جسمانی تاریکی تو اسی سے روشن
۱۴۵
ہو سکتی ہے، اور وہ (سورج) جسمانی رکاوٹوں کو ختم کر ڈالتا ہے،لیکن روحانی تاریکی نادانی اور معقولات کے مشکل مسئلے ہیں، اس قسم کی تاریکی کے لئے روشنی خدا سے ہے، جو اساس (یعنی علیؑ) کی وساطت سے آتی ہے، اس کے بعد روحانی ظلمت میں چشمِ باطن (بصیرت) کا سورج امام الزمانؑ ہیں، جن کے سہارے ایسے سخت عقدے کھل جاتے ہیں، جب کوئی جسمانی ظلمت (مصیبت) اور سختی کسی کے سامنے آئے تو اُسے واجب ہے کہ مشیت ایزدی کے لئے راضی ہوجائے، اور جو کچھ اس کے لئے حکم ہوا ہو اسے قبول کرے، اور کہے: “اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ” یعنی ہم خدا کے ہیں، اور ہم نے قبول کرلیا، جو کچھ اس نے حکم کیا ہو۔ اگر ان مشکلات سے ہمیں کوئی ایسی جسمانی تکلیف پہنچے جس کی وجہ سے ہم جسمانی طور پر مرجائیں، تو اس صورت میں ہم اس کی طرف واپس ہونے والے ہیں، اور تاویل میں مومن کو واجب ہے کہ جب معقولات کا کوئی ایسا مسئلہ اس کے سامنے آجائے جس کو وہ حل نہیں کرسکتا ہو، تو پھر اسی قول کو دہرائے، اس طریقہ پر (یعنی اس معنی میں) کہ “ہماری جانیں صاحبِّ العصر کی ہیں، کیونکہ ہمیں روحانی زندگی اسی سے ملی ہے، اور مشکلات میں ہم اس کی طرف رجوع کرنے والے ہیں،” نیز وہ مومن یہ سمجھے کہ “ہم اس مشکل مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں، اس کا علم امامِ زمانؑ کے پاس ہے،” تاکہ اس کیلئے روحانی فیض کا دروازہ کھلے، اور ان مشکلات کو سمجھ سکے، اور وہ غیب اس پر کھلے گا، اور اگر کھل نہ جائے تو یہ اپنی ہی کمزوری سمجھے، اور اقرار کرے، کہ جو شخص ایسی مشکلات کا چارہ جانتا ہو، اسے یہ
۱۴۶
زیب دیتا ہے کہ روحانی مشکلات میں لوگ اسی کی طرف رجوع کریں، اور یہ صرف مومن ہی کے لئے ایک شفا بخش بیان ہے۔
والسلام
مذکورۂ بالا آیت کی تاویل کی تحقیق:
تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے، اور حکمت کا سمجھ لینا عوام کے لئے کوئی آسان بات نہیں، چنانچہ پیر حکیم ناصر خسرو قدّس اللہ سرّہٗ نے مذکورہ بالا آیت کی جو تاویل بیان فرمائی ہے، ہم ذیل میں اس کے اصولات کو ظاہر کرکے دکھاتے ہیں:
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ۙالَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ۭاُولٰۗىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۣوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُهْتَدُوْنَ (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷)
ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے، اور (اے رسول) ایسے صبر کرنے والوں کو کہ جب ان پر (ان مصیبتوں میں سے) کوئی مصیبت آ پڑی تو وہ (بے ساختہ) بول اٹھے کہ ہم تو خدا ہی کے ہیں، اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، خوشخبری دے دو کہ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہیں، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
مذکورہ ارشادِ الہٰی کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں سے ضرور امتحان لینے والا ہے، فرمایا گیا ہے کہ اس امتحان و آزمائش کی پانچ قسمیں
۱۴۷
ہیں، جن میں سے ہر ایک قسم کے روحانی و جسمانی دو دو پہلو ہیں، چنانچہ پہلا امتحان خوف کا ہے جس میں جسمانی اور روحانی قِسم کے تمام خوف و ہراس شامل ہیں، دوسرا امتحان بھوک کا ہے جس میں روحانی اور جسمانی غذاؤں کی کمی کا ذکر ہے، تیسرا امتحان مالوں کی کمی کے متعلق ہے، جس میں روحانی اور جسمانی دونوں قِسم کے مالوں کا ذکر ہے، چوتھا امتحان نفوس کی کمی کے بارے میں ہے، جس میں نفوسِ قدسیہ اور نفوسِ بشریہ دونوں قِسم کا بیان ہے، اور پانچواں امتحان پھلوں کی کمی کے باب میں ہے، جس میں روحانی اور جسمانی دونوں قسم کے پھلوں کا تذکرہ ہے۔
اب ان پانچ قسم کے امتحاناتِ الہٰیہ کے روحانی پہلوؤں کے بارے میں سنئے کہ جس طرح مومن اپنے جسم کو تکلیف پہنچ جانے، اس کے ذلیل و خوار ہوجانے اور ہلاک ہوجانےکا خوف رکھتا ہے، اسی طرح وہ اپنی روح کو ایذا پہنچنے، اس کے خوار و رسوا ہوجانے اور فنا ہوجانے سے بھی ڈرتا ہے، پس ثابت ہوا، کہ خوف روحانی و جسمانی دو قسم کا ہے، اس کے بعد بھوک کا ذکر ہے، چنانچہ جسمانی بھوک جسم کے لئے غذا کی ضرورت محسوس ہونے کا نام ہے، اور روحانی بھوک روح کے لئے غذا کی ضرورت محسوس ہونے کا نام ہے، اور روحانی غذا عبادت و معرفت ہے، اس کے بعد مال کا ذکر ہے، ظاہری مال کی کمی یہ ہے کہ اس میں جسمانی ضروریات فراہم نہیں ہوتیں، اور باطنی مال کی کمی یہ ہے کہ اس میں روحانی ضروریات پوری نہیں ہوتیں، اور روحانی ضروریات علمِ حقیقت سے پوری ہوجاتی ہیں، اس کے بعد پھلوں کا ذکر ہے، ظاہری پھل یہی ہیں، جو
۱۴۸
درختوں سے حاصل ہوتے ہیں، اور باطنی پھل وہ ہیں، جو علم و دانش کے درختوں سے حاصل ہوتے ہیں، علم و دانش کے درخت امامِ زمانؑ اور اس کے حدود ہیں، جو کلماتِ تامّہ اور اسماء الحسنیٰ کی صورت میں مومنین کے قلب و روح میں موجود ہیں، اور ان روحانی درختوں کے پھل تاویل اور حکمت کی صورت میں پائے جاتے ہیں۔
پس جس مومن کو ان پانچ قسم کی جسمانی مصیبتوں ہی کی طرح اُن پانچ قسم کی روحانی مصیبتوں کا بھی احساس ہوجائے، یعنی جب وہ روحانی قسم کا خوف محسوس کرنے لگے، جب روحانی بھوک یعنی عبادت و معرفت کی کمی محسوس کرے، جب اپنے آپ میں روحانی مال یعنی علمِ حقیقت کی کمی محسوس کرے، جب نفوسِ قدسیہ تک رسا نہ ہوسکنے سے سخت پشیمان ہوجائے، اور جب تاویل و حکمت سے قاصر رہ جانے کا احساس کرے، تو اسے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ عزم و ارادہ اور صبر سے کام لیتے ہوئے یہ قول کہنا چاہئے:
“اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ” : ہم خدا ہی کے ہیں، اور ہم اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں۔” اس قول کی ایک حکمت یہ ہے کہ مومنین خدا کے ہیں، اور خدا مومنین کا ہے، چنانچہ ارشاد نبوّی ہے: “مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَاَن اللّٰہ لَہٗ =جو شخص خصوصیت کے ساتھ خدا کا ہوجائے، تو خدا بھی خصوصیت کے ساتھ اسی کا ہوجاتا ہے۔”
پس ایسا مومن نہ صرف جسمانی موت کےبعد خدا کی طرف رجوع کرتا ہے، بلکہ وہ اس زندگی میں بھی خدا کی طرف رجوع کرسکتا ہے، وہ اس طرح کہ جب
۱۴۹
مومن پر کوئی جسمانی یا روحانی مصیبت آ پڑتی ہے تو اس کی نفسانی خواہشات اور حیوانی صفات کچھ وقت کے لئے یکسر خاموش ہو بیٹھتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مومن اُس وقت اس قابل ہوجاتا ہے، کہ امامِ زمان علیہ السّلام اور ان کے حدود کے ذریعہ خدائے تعالیٰ سے صلوات، رحمت اور ہدایت حاصل کرسکے، پس حقیقی مومن کو چاہئے کہ روحانی یا جسمانی مصیبت کے پیش آتے وقت یہ قول کہا کرے، اور اس کے معنی و تاویل کو اسی طرح ہی سمجھے اور اس پر عمل کرے۔
جب حقیقی مومن یہ قول کہتا ہے، اور اس کے حقائق کو سمجھ لیتا ہے، اور ان پر عمل کرتا ہے، تو وہ ان صبر کرنیوالوں میں سے ہوجاتا ہے، جن کو حضرت رسول علیہ السّلام عملی طور پر خوشخبری سناتے ہیں کہ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہیں، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
تفسیر عمدۃ البیان میں حضرت امام جعفر الصادقؑ سے روایت ہے کہ فرمایا رسولِ خدا صلعم نے کہ جو کوئی چار چیزوں پر عمل کرے، وہ شخص البتہ بہشتیوں میں سے ہو، اوّل کہنا لا اِلہ اللّٰہ، اور دوسری یہ کہ اگر کوئی نعمت حاصل ہو توکہے کہ الحمدُللّٰہ، اور تیسری یہ کہ اگر کوئی گناہ کرے، تو کہے کہ استغفراللّٰہ اور چوتھی یہ کہ جس وقت کوئی مصیبت پہنچے تو کہے، کہ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ، اس جیسی روایات تفسیرِ صافی اور کتاب دعائم الاسلام جلد اوّل ص ۲۲۳، ۲۲۴ میں بھی پائی جاتی ہیں۔
۱۵۰
ہمتِ مردان مددِ خدا
تائیدِ الہٰی ہے سدا ہمتِ مردان
ہے باعثِ انعامِ خدا ہمتِ مردان
مشکل ہی سہی منزلِ مقصود کی راہیں
ہے سہل جو ہو راہ نما ہمتِ مردان
آسان ہے ظلماتِ حوادث سے گزرنا
ہوجائے اگر نورِ ھدیٰ ہمتِ مردان
اقوام کے اِ س معرکۂ علمِ و عمل میں
دیکھو گے سدا قلعہ کشا ہمتِ مردان
گنجینۂ اقبال و سعادت تو یہی ہے
اللہ کا ہے جود وعطا ہمتِ مردان
کب جاگتی تعمیر جہان خوابِ عدم سے
دیتی نہ اگر اس کو جگا ہمتِ مردان
یہ رونقِ تہذیب و تمدن بھی نہ ہوتی
ہوتی نہ اگر جلوہ فزا ہمتِ مردان
معشوقِ ہنر بزمِ ثقافت میں نہ آتا
دیتی نہ اگر بانگِ درا ہمتِ مردان
ہمت سے گئے اہلِ ہنر سوئے کمالات
تم بھی تو بڑھو کرکے ذرا ہمتِ مردان
سمجھو گے اگر معجزۂ ہمتِ مردان
کرلو گے طلب کرکے دعا ہمتِ مردان
اے ہمتِ مردان کہ تو ہے دمِ عیسیٰ
ہر دور کی ہے تو ہی دوا ہمتِ مردان
اِس گلشنِ امید میں تو موسمِ گل ہے
جو غنچہ کِھلا تجھ سے کِھلا ہمتِ مردان
سرمایۂ ایجاد ہے تو روئے زمین پر
تجھ ہی سے گئے سوئی سما ہمتِ مردان
ہر عارفِ کامل جو ہوا واصلِ یزدان
لاریب کہ وہ تجھ سے ہوا ہمتِ مردان
۱۵۱
ہمت سے ہوئے جو بھی ہوئے زِندۂ جاوید
مانا کہ تو ہے آبِ بقا ہمتِ مردان
وہ عقدۂ مشکل کہ نہ کھلتا تھا کسی سے
فی الفور وہ تجھ ہی سے کھلا ہمتِ مردان
ہمت کے ترانے ہیں یہ اشعارِ نصیری
خود آ کے ہوئی نغمہ سرا ہمتِ مردان
مرقوم ہے بس صفحۂ عالم پہ یہی قول
“تائیدِ الہٰی ہے سدا ہمتِ مردان”
۱۵۲
توحید
“توحید” ایک عربی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ایک ہونا، ایک بنانا، ایک ماننا اور ایک تصور کرنا اور اس کے اصطلاحی معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے وحدانیّت و یکتائی کا اقرار و اعتقاد، یعنی خدائے واحد پر ایمان لانا، اور اس کی وحدت کا قائل ہونا، یہ تو صرف توحید کی لفظی تحلیل ہوئی، اب یہ دیکھنا ہے کہ اس لفظ کے معنی سے خدا کی جو یکتائی مراد ہے، وہ آپ کو کس طرح سمجھائی جا سکتی ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں اہلِ تصوّف کے نظریئے سے کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
توحیدِ مطلب:
صوفیائے کرام کے نزدیک “توحیدِ مطلب” یہ ہے کہ مرید پوری تابعداری اور سچی محبت کے وسیلے سے اپنے پیر و مرشد کے ساتھ وابستہ ہوجائے، رشد و ہدایت حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے شخص کی طرف ہر گز توجہ نہ کرے، اور رفتہ رفتہ اپنی تمام خواہشات کو اپنے مرشد کی خوشنودی میں فنا کردے، یہ ہوئی “توحیدِ مطلب” یعنی ذریعۂ ہدایت کے ساتھ اپنے آپ کو ایک کر دینا۔
۱۵۳
توحیدِ وجودی:
توحیدِ وجودی یا وحدت الوجود کے معنی ہیں تمام ہستی کوایک ماننا، یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ ساری موجودات و مخلوقات کی حقیقی ذات ایک ہے، جو خدا کے نور اور رحمت میں مستغرق ہے، اور اس تصوّر کی مدد سے یہ حقیقت سمجھ لینے کی کوشش کرنا کہ کوئی چیز خدا کی قدرت و حکمت سے خالی نہیں، اب اگر یہ معلوم ہوجائے، کہ ہر چیز میں خدا کی قدرت و حکمت موجود ہے تو لازمی ہے کہ تمام مظاہرِ قدرت کو ایک مان لیا جائے، اور قدرت کو قادرِ مطلق سے جدا نہ سمجھا جائے، چنانچہ جامی صاحب کی یہ رباعی اسی مطلب کی ترجمانی کرتی ہے:
مجموعۂ کونین بقا نونِ سبق
کردیم تفحصّ ورقاً بعد ورق
حقا کہ ندیدیم و نخوا ندیم درو
جز ذاتِ حق و شیون ذاتیۂ حق
ترجمہ : ہم نے درس کے اصول پر دونوں جہان کی کتاب کے اوراق کو تحقیق و تجسس سے پڑھ لیا، خدا کی قسم ہم نے اس میں حق تعالیٰ کی ذات اور (علمی مراتب کے مطابق) اس کے مختلف ظہورات کے سوِا اور کوئی شے کو نہیں دیکھا۔
۱۵۴
توحیدِ عیانی:
جب کوئی خاص بندہ خدا کے نور کی قربت حاصل کرکے اپنی صفات کو خدا کی صفات میں فنا کردیتا ہے تو اس کی خودی خدا کی تجلیوں میں گم ہوجاتی ہے ایسے میں بعض عارف انا الحق (میں خدا ہوں) جیسا کوئی نعرہ بلند کرنے لگتے ہیں، یہ مقام فنا فی اللہ و بقا باللہ کہلاتا ہے، یعنی اپنی صفات سے فنا ہو کر خدا کی صفات میں زندہ ہوجانا۔
توحید کی مذکورہ مثالوں سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ جس طرح کثرت وحدت ہی سے پیدا ہوئی تھی، اسی طرح یہ رفتہ رفتہ وحدت ہی میں فنا ہونے والی ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ فَبِاَيِّ اٰلَاۗءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۸) یعنی سب جو اس زمین پر ہیں فنا ہونے والے ہیں، اور باقی رہے گی آپ کے پروردگار صاحبِّ جلالت و احسان کی ذات، پس تم دونوں (جنّ و انس) اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ ظاہر ہے کہ یہ فنا وہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی فنا فی اللہ و بقا باللہ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فنا بھی حق تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔
رسولؐ اللہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنے خلق کی طرح بنایا، تاکہ اس کی خلق سے اس کے دین کا استدلال کیا جاسکے، اور اس کے دین سے اس کی وحدانیّت کا استدلال کیا جاسکے۔
۱۵۵
خلق سے دینِ حق کی دلیل:
کائنات و مخلوقات سے دینِ حق کی دلیل یہ ہے کہ آسمانوں اور ستاروں کے اثرات عناصر میں تحلیل ہوجاتے ہیں، عناصر سے نباتات اگتی ہیں، نباتات سے حیوانات کی پرورش ہوتی ہے، حیوانات کے فائدے انسانوں کو ملتے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ اس ترتیب میں ہر مخلوق اپنے سے برتر مخلوق میں فنا ہوکر ایک اعلیٰ قسم کی ہستی میں بدل جاتی ہے۔
دین حق سے خدا کی وحدانیت کی دلیل:
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے “اور تم سب مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی (ولایت) کو مضبوطی سے پکڑے رہو، اور متفرق نہ ہو، اور یاد کرو اللہ تعالیٰ کی نعمت کوجو تم پر ہے، جبکہ تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے پس اسی نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی، پھر تم اس کی نعمت کے طفیل بھائی بھائی ہوگئے۔”
اس ارشادِ الہٰی میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ لوگ قبولِ اسلام سے قبل ایک دوسرے کے دشمن تھے، خدا اور رسولؐ نے دینِ حق کی نعمت سے (جو ایک ہی ماں کے دودھ کا درجہ رکھتی تھی) ان کو بھائی بھائی بنایا۔ اب اس نعمت کے بعد اُن کو ایک ایسی عظیم اور بے مثال نعمت کی طرف بلایا جاتا ہے، کہ جس سے وہ ایک جان کے مانند ہوسکتے ہیں،
۱۵۶
کیونکہ وحدت کے سلسلے میں بھائی بھائی ہونے کے بعد ایک جان کے مانند ہوجانا ضروری ہے، چنانچہ رسول اللہ کا ارشاد ہے:
“اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ وَالْاَنْبِیَائِ کَنَفْسٍ وَّاحِدَۃٍ = یعنی مومنین بھائی بھائی ہیں، اور انبیاء (واولیاء) ایک جان کے مانند ہیں،” پس جاننا چاہئے کہ سب سے بڑی قیامت برپا نہیں ہوگی، جب تک کہ مومنین ایک جان کے مانند ہوکر یک دلی اختیار نہ کریں، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ (۳۱: ۲۸)۔ اور نہیں تمہاری (ازلی) پیدائش اور بعث (یعنی مرکر پھر زندہ ہوجانا) مگر ایک جان کے مانند۔” یعنی جس طرح تم ازل میں ایک جان کی طرح پیدا کئے گئے تھے، اسی طرح وحدت کے مقام پر بھی تم آخر کار ایک ہوجاؤ گے۔
پس دین حق میں خدا کی وحدانیت کی دلیل و مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام انبیاء، اولیاء، اور مومنین کی وحدت کا مرکز ہیں، اور آنحضرتؐ کا نور امامِ حیّ و حاضرؑ کے لباس میں تا قیامت جلوہ گر ہے۔
۱۵۷
شاہ! سلام علیک
نام ہے تیرا کریمؑ شاہ سلامٌ علیک
شان ہے تیری عظیم شاہ سلامٌ علیک
تیرے سِوا کون ہے آلِ نبیؐ و علیؑ
نورِ خدائے حکیم شاہ سلامٌ علیک
ذکرِ خفی بن کے آ دیدہ و دِل فرشِ راہ
مالکِ ملکِ قدیم شاہ سلامٌ علیک
باغ و چمن کی بہار سرو و سمن کا نکھار
تو ہے گلوں کی شمیم شاہ سلامٌ علیک
برقِ تجلیٰءِ طور حسنِ خدا کا ظہور
نور بچشمِ کلیم شاہ سلامٌ علیک
مصحفِ ناطق ہے تو علمِ لدن تجھ سے ہے
تو ہی الف لام میم شاہ سلام علیک
تابشِ دیدار سے ظلمتِ غم ڈھل گئی
تیرے کرم سے کریم شاہ سلامٌ علیک
۱۵۸
مظہرِ نورِ خدا آئینۂ حق نما
مصدرِ لطفِ عمیم شاہ سلامٌ علیک
تیری محبِّت سے میں دیکھ کے پامال ہوں
رحم کر اے بورحیم شاہ سلامٌ علیک
عشق کا ہوں میں قتیل نفخۂ جان بخش بھیج
ہمرہِ بادِ نسیم شاہ سلامٌ علیک
تجھ سے شفا پاگئے دردِ جہالت سے ہاں
ہم جو ہوئے تھے سقیم شاہ سلامٌ علیک
پیکرِ نورِ خدا تو ہی تو ہے رہنما
سوئے رہِ مستقیم شاہ سلامٌ علیک
مطلعِ رحمت ہے تو گوہرِ حکمت ہے تو
تو ہے صبور و حلیم شاہ سلامٌ علیک
کون ہے تجھ سا شفیق، ہم پہ یہاں اور وہاں
حامی و یارِ حمیم شاہ سلام علیک
اِس دلِ ویران میں آ کہ وہ آباد ہو
چونکہ ہے تیرا حریم شاہ سلامٌ علیک
۱۵۹
وصل ہے گویا بہشت راحتِ جان سے بھری
ہجر عذاب الیم شاہ سلامٌ علیک
نقطۂ بسمل میں ہے عارفِ حق کے لئے
ایک کتابِ ضخیم شاہ سلامٌ علیک
معجزۂ عشق سے مردہ دِلوں کو جِلا
کون ہے تجھ سا حکیم شاہ سلامٌ علیک
جب سے کہ آیا نصیرؔ تیری غلامی میں بس
ہے ترے در پر مقیم شاہ سلامٌ علیک
۱۶۰
توضیح الفاظ
شاہ! سلامٌ علیک=اے بادشاہ! تجھ پر سلام ہو
حکیم کے معنی ہیں حکمت والا۔
ذکرِ خفی وہ ذکر ہے جو نہایت ہی پوشیدگی اور آہستگی سے دل میں کیا جاتا ہے۔
دیدہ و دل فرشِ راہ کا مطلب ہے = میری آنکھیں اور دل تیری راہ کا فرش بن جائیں۔
مالک ملکِ قدیم =قدیم سلطنت کا مالک۔
شمیم کے معنی ہیں خوشبودار ہوا، خوشبو اور مہک۔
تجلّائے طور سے اللہ تعالیٰ کی وہ جلوہ نمائی مراد ہے، جو اس نے سیناء کے پہاڑ پر ظاہر فرمائی تھی۔
کلیم کے معنی ہیں کلام کرنے والا، یعنی حضرت موسیٰؑ جو خدا سے کلام کرتے تھے۔
مصحفِ ناطق=بولنے والا قرآن۔
علمِ لدن =وہ علم جو بغیر اکتساب کے خدا کے حضور سے ملتا ہے۔
الف لام میم (المٓ) حروفِ مقطعات جو سورۂ بقرہ کے شروع میں ہیں، جن میں اسرارِ الہٰی پوشیدہ ہیں۔
ظلمت = تاریکی۔
۱۶۱
آئینۂ حق نما = وہ آئینہ جو خدا کا دیدار کرائے۔
مصدرِ لطفِ عمیم =کثرت اور عمومیت سے مہربانیاں نکلنے کی جگہ۔
پامال = روندا ہوا۔
بو رحیم = ابو رحیم کا مخفف ہے، مولانا حاضر امام کی کنیت، یعنی رحیم کا باپ۔
قتیل =قتل کیا گیا، مردہ۔
نفحۂ جان بخش = زندگی بخشنے والی خوشبو۔
ھمرہِ بادِ نسیم = پچھلی رات یا صبح کی نرم اور معطر ہوا کے ساتھ۔
سقیم = بیمار۔
پیکرِ نورِ ھدا = ہدایت کے نور کی صورت یا ہدایت کا مجسّم نور۔
مطلع = طلوع ہونے کی جگہ۔
صبور و حلیم = صبر والا اور رحم والا۔
شفیق =شفقت والا۔
یہاں اور وہاں = مراد ہے دنیا اور آخرت۔
یارِ حمیم =جانی دوست۔
ویرانہ = اجڑا ہوا۔
حریم = گھر، مکان۔
وصل = دیدار
ھجر = جدائی۔
عذاب الیم = درد ناک عذاب۔
۱۶۲
نقطۂ بسمل = بسم اللہ کا نقطہ۔
عارفِ حق = خدا کا عارف، یعنی خدا کو پہچاننے والا۔
مردہ دلِ = سست، کاہل، اور بے ذوق آدمی۔
جِلا = زندہ کردے۔
حکیم =طبیب۔
۱۶۳
مشاہدۂ نور
اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ آیا خدائے تعالیٰ کے نور کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب غیر محدود طریق پر دیا جائے گا، یعنی جواب نفی میں بھی ہوگا، اور اثبات میں بھی، اور اس سوال کا مناسب جواب بس اس طرح سے ہے جیسے سورج کے متعلق یہ کہنا حقیقت ہے، کہ ٹکٹکی باندھ کر زیادہ دیر تک سورج کو نہیں دیکھا جاسکتا، مگر بے شک ایک اچٹتی ہوئی نگاہ سے اسے دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ اگر نظر جما کر زیادہ دیر تک سورج کا مشاہدہ کیا جائے، تو آنکھوں کی بینائی زائل ہوجاتی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ہر قسم کی تیز روشنی سے جو کرنیں پھوٹتی ہیں، وہ اصل میں روشنی کے انتہائی چھوٹے اور باریک ذرات کی مسلسل لہریں ہیں، جن سے آنکھوں کے نازک پردوں کو چوٹ لگتی رہتی ہے، پس اس مادّی روشنی کی مثال سے ہر دانش مند اندازہ کرسکتا ہے، کہ جب سورج وغیرہ کی تیز روشنی کا یہ حال ہے، تو خدا کے نورِ قاہرہ سے حجاب اٹھا لینے کا کیا عالم ہوگا۔
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام جیسے اولوالعزم پیغمبرؑ نے اللہ تعالیٰ کے پاک نور کی تجلیوں کے سلسلے میں جب سب سے بڑی تجلّی کے لئے درخواست کی، تو پروردگارِ عالم نے فرمایا، کہ اے موسیٰ! تم میری تجلّی کے لئے متحمل
۱۶۴
نہ ہوسکو گے، لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو، کہ اگر یہ پہاڑ میرے نور کی تجلّیوں کو سہار سکے تو تم بھی البتہ مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب پروردگارِ عالم نے پہاڑ پر اپنا جلوہ ظاہر فرمایا تو پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوا، اور موسیٰؑ بے ہوش ہوکر گر گئے، اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ نے خدائے جمال و جلال کے آسمان کی چمکتی ہوئی بجلی کا ذرا سا مشاہدہ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ بے ہوش ہوکر گِر گئے، ورنہ بے ہوش کیوں ہوتے، اور یہاں پہاڑ سے موسیٰ علیہ السّلام کی روحانی ہستی مراد ہے، کیونکہ اس ظاہری پہاڑ پر اللہ تعالیٰ کا جلوہ فگن ہوجانا مناسب نہیں ہے۔
اس کے علاوہ جب بنی اسرائیل نے احتجاجاً موسیٰؑ سے یہ کہہ دیا، کہ اے موسیٰ! ہم تیرے لئے ہر گز باور نہیں کریں گے جب تک کہ ہم خدا کو ظاہر نہ دیکھیں، تو موسیٰ علیہ السّلام نے ان میں سے ستر مردوں کو چن لیا، اور یہ سب دیدارِ الہٰی کی غرض سے کوہِ طور پر گئے، اور وہاں حضرت موسیٰؑ کے ساتھ ان سب نے گریہ و زاری شروع کی، جس کے نتیجے میں ان کے نفوس پر اللہ تعالیٰ کی نورانیّت کی بجلی چمک گئی، جس سے یہ لوگ جسمانی طور پر نہیں بلکہ نفسانی طور پر مرگئے، پھر ایمانی طور پر زندہ ہوگئے، اگر ان لوگوں نے کچھ بھی نہ دیکھا ہوتا تو مرجانے اور زندہ ہوجانے کا سوال نہ ہوتا۔
۱۶۵
جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نور کے دیدار کے درجات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے، کہ حضرت موسیٰؑ نے شروع شروع میں دور سے ایک آگ جیسی روشنی دیکھی تھی، وہ جب اس روشنی کے قریب گئے، تو روشنی نے جو درخت پر تھی، فرمایا کہ میں یقیناً اللہ ربّ العالمین ہوں، پھر اس حال میں حضرت موسیٰؑ بے ہوش نہیں ہوئے تھے، کیونکہ ابتدائی درجے کا ایک دیدار تھا، اسی لئے اس کی مثال ایک ایسی آگ سے دی گئی ہے جو کسی دور گاؤں سے یا کسی دور پہاڑ سے نظر آتی ہے، اور آگے چل کر جو سب سے بڑا دیدار ہے، اس کی مثال بجلی کے کوندنے اور چمکنے سے دی گئی ہے، کیونکہ نور کا آخری دیدار بجلی کے چمکنے سے مشابہ ہے، زیادہ دیر تک مشاہدہ نہ کرسکنے کے لحاظ سے بھی اور جمال و جلال اور ہیبت کے اعتبار سے بھی۔
ہم جس سوال کی تحلیل کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ، آیا خدائے تعالیٰ کے نور کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ جس کا جواب نفی میں بھی اور اثبات میں بھی دیا گیا تھا، اب وضاحت سے یہ حقیقت صاف طور پر روشن ہوئی، کہ بیشک خدا کا نور کسی ایک عالم میں محدود نہیں، وہ سب سے اوّل بھی ہے اور سب سے آخر بھی، اور سب سے ظاہر بھی ہے، اور سب سے باطن بھی، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:
“هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (۵۷: ۰۳)۔” چنانچہ ظاہر کے معنی دکھائی دینے اور نظر آنے کے ہیں، اور باطن کے معنی دکھائی نہ دینے اور نظر نہ آنے کے، اور یہ حقیقت کئی اعتبارات سے درست ہے، اوّل یہ کہ دنیا بھر کے لوگ دو حصّوں پر منقسم ہیں، پہلے حصِّے کے لوگوں کے اعتقاد کے مطابق خدا حاضر و ناظر ہے، دوسرے حصّے کے لوگوں کے بقول کوئی خدا نہیں، پس جو لوگ خدا کی ہستی کے قائل ہیں، ان کے لئے گویا
۱۶۶
خدا ظاہر ہے، اور جو قائل نہیں، ان کے لئے باطن ہے، دوم یہ کہ جو لوگ خدا کی ہستی کے قائل ہیں، ان کے بھی دو گروہ ہیں، ایک گروہ کہتا ہے کہ خدا کے دیدار کا مشاہدہ ممکن ہے، دوسرا گروہ کہتا ہے کہ خدا کا دیدار ناممکن ہے، پھر یہاں پر بھی خدا کے ظاہر و باطن ہونے کا ثبوت مِل گیا، تیسری مثال یہ ہے کہ جو لوگ دیدار کے قائل ہیں، ان کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک قسم دیدار تک پہنچ سکتی ہے، اور دوسری قسم نہیں پہنچ سکتی، پھر جو لوگ دیدارِ الہٰی تک رسا ہوجاتے ہیں ان کے بھی دو درجے ہیں: درجۂ اوّل کے لوگ آخری دیدار کا تجربہ کر پاتے ہیں، اور درجۂ دوم کے لوگ نچلے درجات ہی میں رہ جاتے ہیں، اور جو خوش نصیب اعلیٰ ترین دیدار تک پہنچتے ہیں، ان کے بھی دو حال ہوتے ہیں: ایک حال یہ ہے کہ انہیں سب سے بڑے درجے کا دیدار ہوتا ہے، جو خدا کے ظاہر ہونے کی دلیل ہے، دوسرا حال یہ ہے کہ خدا کے نور کی جو کچھ حقیقت ہے، ا س کا پورا پورا مشاہدہ نہیں کیا جاسکتا، جو خدا کے باطن ہونے کی دلیل ہے، پس ان تمام مثالوں میں اس حقیقت کے دلائل موجود ہیں کہ خدا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔
اگر یہاں پر کوئی یہ سوال کرے کہ خدا کو بیک وقت ظاہر اور باطن ماننا ایسا ہے، جیسے کوئی شخص کہتا ہے کہ پانی جب گرم ہے تو اِسی وقت سرد بھی ہے، حالانکہ یہ بات ناممکن ہے، کیونکہ جب ہم کسی موجود میں دو متضاد صفتوں کا تصوّر کرتے ہیں تو منطقی طور پر ان دونوں صفتوں کی خود بخود نفی ہوجاتی ہے، چنانچہ اگر کہا جائے کہ یہ لوہا آگ کی طرح گرم ہے تو لوہے سے سردی کی صفت کی نفی ہو
۱۶۷
جاتی ہے، اور اگر اسی وقت یہ بھی کہا جائے کہ یہ لوہا برف و یخ کی طرح ٹھنڈا ہے، تو اس کی گرمی کی صفت کی نفی ہوجاتی ہے، اور ان دونوں متضاد باتوں کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ وہ لوہا نہ تو آگ کے مانند گرم ہے، اور نہ یخ کی طرح سرد، پس یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا ایک ہی وقت میں ظاہر بھی ہو اور باطن بھی؟۔
اس کے لئے میرا جواب یہ ہے، کہ منطق اور فلسفہ جیسے ظاہری علوم گلاس بھر پانی اور ایک لوہے کے ٹکڑے پر حکم کرسکتے ہیں، کیونکہ ایسی محدود چیزیں بیک وقت کئی صفات کی حامل نہیں ہوسکتیں، مگر ایک سمندر اور ایک لوہے کے پہاڑ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، چنانچہ دنیا بھر کے پانیوں کی وحدت کو ہم پانی ہی کہیں گے، اب یہ فرض کرو، کہ سمندر کہہ رہا ہے، یا کہ سارے پانیوں کی مرکزیت و وحدت کہہ رہی ہے، کہ میں گرم بھی ہوں اور سرد بھی، میں سمندر بھی ہوں اور بخارات، بادل، برف و بارش اور چشمہ بھی، میں ندی، نالہ اور دریا کی صورت میں بھی ہوں، اور گھاس پات، فصل، پھل، حیوان اور انسان کی شکل میں بھی، تو کیا پانیوں کی مرکزیت و وحدت کا یہ دعویٰ باطل ہوگا، جبکہ مذکورہ تمام چیزوں میں پانی موجود ہے؟
پس پانی کے مجموعی وجود یا کہ وحدت کے بارے میں یہ تعریف، کہ دنیائے تری کے علاوہ عالمِ نباتات اور عالمِ حیوانات میں سب کچھ پانی ہے، ہر گز غلط نہیں، اور اگر دنیا بھر کے پانی کی وحدت سے قطع نظر صرف ایک گلاس پانی کی نسبت، “ہمہ اوست” کی یہ تعریف کیجائے تو قطعی طور پر غلط اور سرا سر جھوٹ ثابت ہوگی۔
پھر یہ مطلب صاف طور پر ظاہر ہوا، کہ کوئی جزو اپنے کل کی مثال نہیں بن سکتا، نہ ہی کوئی محدود چیز کسی وسیع چیز کا ہو
۱۶۸
بہو نمونہ بن سکتی ہے، اس کے برعکس ایک وسیع چیز کی مثال، دوسری وسیع چیز سے پیش کی جاسکتی ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ صرف وسیع چیزیں ہی بیک وقت مخالف و متضاد صفات کی حامل ہوسکتی ہیں، چنانچہ دنیا بھر کے پانی کے متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ٹھنڈا بھی ہے اور گرم بھی، میٹھا بھی ہے، اور کھارا بھی۔
ہماری بحث خدا کے بیک وقت ظاہر و باطن ہونے سے متعلق تھی، جس میں اس حقیقت کی تصدیق و توثیق ہوئی کہ کسی شک کے بغیر خدا ظاہر بھی ہے، اور باطن بھی، اگرچہ کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جو خدا تعالیٰ کی صحیح مثال پیش کرسکے، کیونکہ اس کی کوئی مثال نہیں، اور وہ خود اپنی مثال آپ ہے، تاہم خدا شناسی کے سلسلے میں نظامِ کائنات اور اصولِ حیات میں غور و فکر کرکے خدا کی معرفت میں آگے سے آگے بڑھتے جانا ہر مومن کا لازمی فرض ہے۔
جاننا چاہئے کہ خدا کی قدرت (توانائی) میں کوئی چیز ناممکن نہیں، اور ہر ممکن و ناممکن امر کو پرکھنے کے لئے جو معیار مقرر کیا گیا ہے، اس کی بنیاد زمانۂ ماضی کے لوگوں کی محدود معلومات پر ہے، نہ کہ قانونِ قدرت اور حکمتِ قرآن کے عین مطابق، جس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ اب سے کوئی ہزار برس قبل کے لوگ جن چیزوں کو ناممکن قرار دیتے تھے، اب اس ایٹمی دور میں ان میں سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں، جو ناممکنات کی فہرست سے نکل کر ممکنات کی لسٹ میں مندرج ہوچکی ہیں، اور انسان علمی و فنی میدان میں جس برق رفتاری سے ترقی کررہا ہے، اس کے پیشِ نظر یہ امر تعجب نہیں، کہ ایک زمانے کے بعد ناممکنات کی
۱۶۹
فہرست بالکل ہی ختم ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ کے نور کے لئے یہ کوئی مشکل نہیں، کہ وہ ظاہر اور باطن دونوں حال میں حاضر و ناظر رہے، جبکہ اس کی مخلوق میں بھی یہ مثال پائی جاتی ہے، چنانچہ ہم سورج کے متعلق یہ کہہ سکتے ہیں، کہ اس میں ظاہر اور باطن کی دونوں صفتیں موجود ہیں، اور وہ اس طرح کہ سورج دن میں ظاہر اور رات میں باطن ہے، پھر صاف آسمان پر ظاہر اور بادلوں کے پیچھے باطن ہے، نیز آنکھ والوں کیلئے ظاہر، اور نابیناؤں کے لئے باطن ہے، اس کے علاوہ موصول شدہ روشنی و حرارت اور سامنے کے نصف قرص نظر آنے کے اعتبار سے ظاہر ہے مگر اصلی روشنی، بنیادی حرارت، اندرونی کیفیت، صحیح جسامت اور عقبی سطح نظر نہ آنے کے لحاظ سے باطن ہے۔
اسی طرح انسان ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، اس کا ظاہر ہونا جسم کی نسبت سے اور باطن ہونا روح کے سبب سے ہے، نیز انسان جب گفتگو کرتا ہے تو ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ دانا ہے یا نادان، اور اگر وہ نہ بولے تو باطن رہ جاتا ہے، اسی معنی میں مولانا علی علیہ السّلام کا ایک ارشادِ گرامی ہے، کہ آدمی اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے۔
اس حقیقت کی ایک اور دلیل، کہ خدائے تعالیٰ کے پاک نور کا مشاہدہ ممکن بھی ہے، اور ناممکن بھی، یہ ہے کہ وہ خود جل جلالہٗ فرماتا ہے کہ، لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ (۰۶: ۱۰۳) آنکھیں اس کی ذات تک نہیں پہنچ سکتی ہیں، اور وہ خود اپنی صفات سے آنکھوں کو پہنچ سکتا
۱۷۰
ہے، اس ارشادِ عالی سے یہ حقیقت ظاہر ہے، کہ کسی انسان کے دیدۂ دل میں یہ طاقت نہیں کہ خدا کے نور کے آسمانِ رفعت تک پہنچ سکے، مگر ہاں نور خود بخود چشمِ بصیرت کے سامنے آجاتا ہے، جس طرح کہ معلوم ہے، کہ ہماری ظاہری نگاہیں سورج تک نہیں پہنچ سکتی ہیں، بلکہ وہ اپنی ہی روشنی کی وساطت سے ہماری نظروں میں سمو آتا ہے۔
پس گویا یہ جسمانی سورج بھی ہم سے یہی کہا کرتا ہے، کہ اے ابنِ آدم! دراصل تمہاری نظریں مجھ تک نہیں پہنچ سکتیں، اور نہ ہی تمہاری آنکھیں اپنے اندر مجھے سموسکتی ہیں، کیونکہ میں ان سے نہایت ہی دور اور انتہائی عظیم ہوں، مگر امرِ واقع یہ ہے کہ میں خود ہی تمہاری آنکھوں تک پہنچ سکتا اور ان میں اپنے آپ کو سموسکتا ہوں، تاکہ یہ ایک قریبی مثال ہو کہ خدا کا نور کس طرح حقیقی مومن کے مشاہدے میں آسکتا ہے۔
والسلام
۱۷۱
مصنف کے متعلق پاکستان کے بعض سربلند دانشوروں کی آراء
جناب محمود بریلوی صاحب (ڈاکٹر پروفیسر):
“مفتاح الحکمت” کے مصنف جناب نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب محتاجِ تعارف نہیں ہیں، موصوف نے اس نوع کی متعدد کتابیں لکھ کر صوفی حلقوں سے خراجِ تحسین وصول کیا ہے، “میزان الحقائق” ان کی دوسری معروف و مقبول کتاب ہے۔
ہونزائی صاحب اسماعیلی واعظ و مبلغ کی حیثیت سے اپنی جماعت میں معزز و موقر ہیں، وہ شاعر بھی ہیں، اور انشاء پرواز بھی، روحانیّت و نفسیات ممدوح کے خاص موضوع ہیں، میزان الحقائق اور مفتاح الحکمت کی اشاعت سے اسماعیلی نظریات کی جو توجیہہ موصوف نے کی ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں، ان کی تحریر شائستہ اور اندازِ بیان دلپذیر ہے، جو ان مضامین کے دلدادہ ہیں، وہ یقیناً مطالعہ سے محظوظ و مسرور ہوں گے۔
محمود بریلوی (ڈاکٹر پروفیسر)
مصنف “افریقہ میں اسلام” انگریزی و دیگر کتب۔ جولائی ۱۹۶۶ء
۱۷۲
جناب جون ایلیا صاحب:
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
میزان الحقائق:
مصنف الواعظ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی۔
کتاب کے مصنف جناب نصیر الدین نصیرؔ ایک عالم و فاضل بزرگ ہیں، ان کا تعلق ریاستِ ہونزہ سے ہے، موصوف بروشسکی زبان کے پہلے شاعر ہیں، بروشسکی کے علاوہ اردو اور فارسی میں بھی شعر کہتے ہیں، ان کی شاعری بیان کے حسن، احساس کے خلوص اور فکر کی متانت کا بہترین امتزاج ہے، وہ بروشسکی زبان کے ایک منفرد شاعر ہیں، انہوں نے خالص علمی اور فلسفیانہ موضوعات پر اردو اور فارسی میں متعدد کتابیں لکھی ہیں، خاص طور پر اردو ان کا پسندیدہ اور محبِّوب ذریعۂ اظہار ہے، وہ صلے اور ستائش سے بے نیاز ہوکر اردو زبان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ریاستِ ہونزہ میں تصنیف و تالیف کی روایت انہیں نے شروع کی ہے، ان کی یہ مساعی اردو دوست حلقوں کی طرف سے خاص حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں، نصیر صاحب کی زیرِ تبصرہ تصنیف “میزان الحقائق” ان کے مفکرانہ اندازِ فکر کی پوری نمائندگی کرتی ہے، وہ اردو زبان میں باطنی علم اور فکر کے پہلے ترجمان ہیں۔
اس کتاب میں حقائقِ تنزیل اور اصولِ تاویل کی روشنی میں حیات اور کائنات کے مختلف پہلووں پر بحث کی گئی ہے، اور اس بحث میں قدیم و
۱۷۳
جدید افکار اور ان کے نتائج کو پوری طرح سامنے رکھا گیا ہے، کتاب کے چند عنوانات یہ ہیں: دائمی قیامت، عالمگیر روح کی عملی طاقت قیامت خیز ہے، الف میں نقطہ پوشیدہ اور صفر ایک سے آگے، مردہ ایٹم اور زندہ ایٹم، وغیرہ، ان عنوانات کے سلسلے میں موضوع سے متعلق مختلف اور گوناگون مسائل زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔
جون ایلیا
جناب وزیر غلام علی الانا صاحب:
میں نے فاضلِ محترم جناب نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کی گرانقدر تصنیف “مفتاح الحکمت” دیکھی، اور اس کے فکر انگیز مباحث سے استفادہ کیا، میں فاضل موصوف کے علمی اور فکری خلوص کا قائل رہا ہوں، اور ان سے مختلف مسائل پر گفتگو کی ہے، نصیرؔ صاحب کی علمی اور فکری تحریریں باطنی فلسفے کا بیش بہا پس منظر رکھتی ہیں، باطنی فلسفے نے مسلم ثقافت کو ایک گہری معنویت دینے میں جو کردار ادا کیا ہے، اسکا ابھی پوری طرح جائزہ نہیں لیا گیا۔ اس مکتبۂ فکر نے دنیائے اسلام کے عظیم ترین ذہنوں کی تربیت کی ہے، اور اسلامی مشرق کے دوسرے فلسفیانہ مکاتیب کو مختلف سطحوں پر متاثر کیا ہے۔ حمید الدین کرمانی، المؤید فی الدین شیرازی اور ناصر خسرو ایسے زعمائے فکر اسی عظیم الشّان مکتبۂ فکر کے پروردہ ہیں، دنیائے اسلام کی شہرۂ آفاق تنظیم “اخوان الصفا” مکتبۂ باطنیّت ہی سے تعلق رکھتی ہے۔
۱۷۴
فاضلِ محترم جناب نصیرؔ ہونزائی نے اپنے گرانقدر تصنیفات میں اس نظامِ فکر کی نمائندگی کی ہے، اور ان حقائق کو زیرِ بحث لائے ہیں جو آج تک دقیق فکر کا موضوع بنے ہوئے ہیں، ان کی زیر نظر تصنیف “مفتاح الحکمت” بھی اسی ذیل میں آتی ہے، انہوں نے اس کتاب میں براہِ راست قرآنِ کریم کے حوالے سے بعض مسائل پر اظہارِ خیال کیا ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ کوشش علمی اور مذہبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔
غلام علی الانا
۲۰۔ جنوری ۱۹۶۷ء
جناب غلام سرور صاحب
ایم۔اے، پی۔ایچ۔ڈی (علیگ):
“میزان الحقائق”: میں نے اس کتاب کا مطالعہ غائر نظر سے کیا ہے، کتاب کے مصنف اور کتاب کے متعلق میری رائے حسبِ ذیل ہے:
مصنف علومِ دینیہ سے کامل واقفیت رکھتے ہیں، قرآن مجید کے حقائق و معارف پر ان کو عبور حاصل ہے، احادیثِ نبوّیؐ کے سمجھنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں، علمِ فلسفہ اور علمِ منطق میں ان کو دسترس حاصل ہے، اردو زبان اچھی جانتے ہیں، اور اپنے مانی الضمیر کو آسانی کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔
کتاب کے موضوعات، کتاب کے نام سے ظاہر ہیں، یہ کتاب ایسے حقائق اور ان کی توضیحات پر مشتمل ہے جن کا جاننا موجودہ دور کے انسانوں کے لئے
۱۷۵
ازبس ضروری ہے، البتہ یہ بات بلا خوف و خطر کہی جاسکتی ہے، کہ اس کتاب کے موضوعات معنی اور مطالب کے اعتبار سے ادق اور مشکل ہیں، اور ان کا سمجھنا ایک عامی کے بس کی بات نہیں، خواص ہی انہیں سمجھ سکتے ہیں، اور ان سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
ایک چیز ضرور کھٹکتی ہے، اور وہ ہے ان مشکل مباحث کی توضیحات کا اختصار، قاری مطالعہ کے بعد تشنگی محسوس کرتا ہے، اور حقائق کی مزید وضاحت کا طالب ہوتا ہے، جو اسے موجودہ کتاب میں نہیں ملتی۔
بہتر ہوتا، اگر صاحب تصنیف ان موضوعات کی مزید توضیح فرماتے، اور تشنگانِ وادیٔ حقائق کی پیاس بجھاتے، یہ ایک دینی خدمت ہے، خداوندِ تعالیٰ فاضل مصنف کو اس سے زیادہ خدمت کی توفیق بخشے!
غلام سرور، ایم۔اے، پی۔ایچ۔ڈی (علیگ)
پروفیسر اینڈ ہیڈ، ڈیپارٹمنٹ آف پرشین، یونیورسٹی آف کراچی
۱۹۶۷/۴/۱۸
جناب جون ایلیا صاحب:
وجہِ دین، مصنف: حکیم ناصر خسروؔ
مترجم: الواعظ نصیرؔ ہونزائی
چوتھی صدی ہجری کا فلسفی شاعر، حکیم اور فلسفی ناصر خسرو ایک ہمہ گیر شخصیت
۱۷۶
کا مالک تھا، فلسفہ و حکمت کی کئی گران مایہ کتابیں ان کی یادگار ہیں، جن میں ذادالمسافرین، جامع الحکمتین اور خوان الاخوان کو نمایان حیثیت حاصل ہے، ان کے علاوہ ایک ضخیم دیوانِ اشعار ہے، جو فارسی ادب میں ایک بیش قیمت ذخیرے کی حیثیت رکھتا ہے، ناصر خسرو غالباً وہ پہلا شاعر ہے جسے حکیم کے لقب سے یاد کیا گیا۔ “وجہِ دین” ناصر کی مشہور و معروف تصنیف ہے جو امورِ دینیہ اور مسائلِ شرعیہ سے بحث کرتی ہے، ناصر ان امور اور مسائل میں بھی علم و حکمت کو ملحوظ رکھتا ہے۔
باطنی فلسفے کے دقیق النظر عالم اور بروشسکی اور فارسی زبان کے شاعر جناب الواعظ نصیرؔ ہونزائی نے وجہِ دین کا اردو ترجمہ کیا ہے، جو اِس وقت ہمارے پیشِ نظر ہے، موصوف قابلِ داد ہیں کہ انہوں نے ناصر کے علمی و استدلالی لہجے اور قدیم ترین فارسی طرزِ نگارش کو، جس کا ترجمہ سخت ریاضت چاہتا ہے، بڑی خوش اسلوبی اور روانی کے ساتھ اردو میں منتقل کیا ہے، مجھے بھی ناصر خسروؔ کی دو فلسفیانہ کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کا موقع ملا، اور مجھے پوری طرح اندازہ ہے کہ ناصر کو شگفتگی اور روانی کے ساتھ منتقل کرنا کس قدر دشوار ہے، ناصرؔ عام طور پر فلسفے کی مانوس عربی اصطلاحات کے بدلے فارسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، جن کے باعث مفاہم و معانی میں کافی دشواری پیش آتی ہے، یوں بھی ناصر کی فارسی سعدی —— کی فارسی ہے اور علمی فارسی، لیکن ان تمام حقائق کے وصف نصیر صاحب نے ایسی سلاست کے ساتھ ترجمہ کیا ہے کہ ترجمے میں خود اصل اشکال بھی رفع ہوگیا ہے، اور یہ محض اس لئے
۱۷۷
ممکن ہوگیا کہ فاضل مترجم خود بھی ایک جامع اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں، وہ اسلامی فلسفے پر گہری نظررکھتے ہیں، عالمِ دین ہیں، اور پھر ایک شعلہ بیان شاعر، اور پھر یہ کہ حکیم ناصر خسروؔ کی فکر کے پاکستان میں سب سے بڑے محرم ہیں، یہ ترجمہ “دارالحکمۃ الاسماعیلیہ ہونزہ، گلگت” نے شائع کیا ہے، کراچی میں ملنے کا پتہ “عباسی کتب خانہ جونا مارکیٹ” ہے۔
جون ایلیا
(عالمی ڈائجسٹ۔ شمارہ اگست ۱۹۶۸ء)
۱۷۸
پہلا دیدار اور پہلی کرامت
یہ ماہِ دسمبر ۱۹۴۵ء کا زمانہ تھا، جب کہ میں آرمی سے ریلیز (Release) ہو کر جبل پور سے بمبئی پہنچ گیا، جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ میں امام عالیمقام علیہ السّلام کے دیدارِ اقدس کی سعادت حاصل کروں، اور نظارۂ جشنِ جواہر (ڈائمنڈ جوبلی) سے آنکھیں پُرنور ہوجائیں، چنانچہ بمبئی پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کی تشریفِ مبارک پونا گئی ہے، اشتیاقِ دیدار شدید اور عروج پر تھا، لہٰذا کسی انتظار کے بغیر میں بطرفِ پونا روانہ ہوگیا، اس انتہائی سعید سفر میں بڑی عجیب بات ہوئی کہ ہم چار بھی تھے اور پانچ بھی، یعنی چار قبیلوں کے پانچ افراد:
۱۔ کاکوزبر خان، جو میرے عزیز دوست موکھی عرب خان کے بھائی ہیں، جن کا تعلق دِرا مِتِک سے ہے۔
۱۷۹
۲۔ کاکو نگاہ شاہ (براتِلک) اور ان کی والدہ مم فیروزہ۔
۳۔ نن گلاب شاہ، شاہ علی کڎ، خرو کڎ۔
۴۔ اور یہ بندۂ ناچیز بروݣ۔
ہم بذریعۂ ریل گاڑی تقریباً شام کے وقت پونا پہنچ گئے، رات انتظارِ دیدار کی بے قراری اور طرح طرح کی نیک دعاؤں میں بسر ہوگئی، اور صبح صادقِ نویدِ دیدارِ معشوق لیکر نمودار ہوئی، شاید آٹھ یا نو بجے کے درمیان کا کوئی وقت تھا، ہم اپنے دل کی عاجزانہ کیفیات و خواہشات کے ساتھ دیدار گاہ میں حاضر ہوئے، کچھ دیر سے آنے کی بنا پر صفِ آخرین میں کہیں جگہ ملی، دل شاہِ ولایت کے بادۂ عشق سے مخمور اور جان اس کی لِقاء کے شوق سے معمور ہورہی تھی، اب زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ امامِ زمان علیہ السّلام کی تشریف آوری کی علامت ظاہر ہوئی، اور مقدّس اجتماع نے ہم آہنگ و یک زبان ہو کر صلوات بابرکات کا ورد شروع کرلیا، اتنے میں ہمارے مولائے نامدار کی کار (Car)نظر آئی، تمام تر مشتاق نگاہیں اسی برگزیدہ محبوب کی جانب جا رہی تھیں، حضور پُرنور درخشان و تابان موٹر سے باہر
۱۸۰
نکلتے ہوئے قدمِ مبارک زمین پر رکھ رہے تھے کہ زمین کشتیٔ بر آب کی طرح دائیں بائیں ہلنے لگی، مجھ سے بے اختیار صدائے “یا علی یاعلی” بلند ہوئی، میرا گمان تھا کہ نورِ امامت کی یہ کرامت تمام حاضرین نے محسوس کی ہوگی، لہٰذا میں نے کچھ اضطراب کے عالم میں نن گلاب شاہ اور کاکو نگاہ شاہ (جو میرے پاس تھے) سے کہا کہ زلزلہ یعنی بھونچال آیا، انہوں نے کہا کہ نہیں، حالانکہ اس زلزلۂ قیامت سے میں دائیں بائیں گرنے پر تلا تھا اور دونوں ہاتھوں کا سہارا لیکر بچ گیا تھا، اس عجیب و غریب واقعہ سے مجھے انتہائی حیرت ہوئی اور میں خاموش ہوا۔
اُس زمانے میں یہ عاجز بندہ علم اور روحانیّت کا طفلِ شیر خوار تھا، لہٰذا اِس واقعہ کو امامِ برحقؑ کی کرامت قرار دینے کے باؤجود اس کی پُرحکمت اشارتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا، مگر جب بفضلِ خداوندِ قدوس یہ حقیر آگے چل کر روحانی انقلابات و تجربات سے گزر گیا، تو اس میں ہر طرح کی علمی پختگی آگئی، چنانچہ اسرارِ روحانیّت کی روشنی میں عرض کی جاتی ہے کہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں زلزلہ کا ذکر ہے (۰۲: ۲۱۴، ۲۲: ۰۱، ۳۳: ۱۱، ۹۹: ۰۱) وہاں چار قسم کے بھونچال کا بیان فرمایا گیا ہے:
۱۸۱
۱۔ زمین کے جسمِ کثیف کا زلزلہ۔
۲۔ زمین کے جسمِ لطیف کا زلزلہ۔
۳۔ انسان کا ظاہری بخار / لرزہ (زلزلہ) یا کپکپی، اور
۴۔ آدمی کا باطنی بخار، جو جسمِ لطیف سے تعلق رکھتا ہے، جس کے کئی مراتب ہیں۔
اس موقع پر میں بصد خلوص یہ بھی عرض کروں کہ درویشی اور روحانیّت کے اعلیٰ مراحل میں لطیف زلزلوں کا تجربہ لازمی ہے، کیوں کہ یہ ان روحانی وسائل میں سے ہیں، جن سے نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے:
جب زمین اس کے بھونچال سے ہلا ڈالی جائے، اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے، اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہورہا ہے؟ اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی کیونکہ تیرے ربّ نے اُسے حکم دیا (۹۹: ۰۱ تا ۰۵)۔
یہاں ارض سے عالمِ شخصی کی زمین (نفس) مراد ہے، اور اسی کی صلاحیتوں میں سے ایک خاص صلاحیت کپکپی یعنی زلزلہ ہے، انسان کے باطن میں بہت سے بوجھ (اثقال) ہیں، جو غفلت، جہالت، نافرمانی وغیرہ کے نام سے ہیں،
۱۸۲
جب کوئی خوش نصیب درویش بوسیلۂ زلزلہ نفسانی کدورتوں کے بارِ گران سے سبک دوش ہوجاتا ہے، تو تب ہی وہ معجزانہ خطاب سننے کے لئے آگے جاسکتا ہے۔
سوال: اگر عزیزوں میں سے کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ شروع ہی میں معجزۂ زلزلہ دکھایا گیا، اس کی تخصیص میں کیا حکمت پوشیدہ ہے، جب کہ کوئی دوسرا معجزہ بھی ممکن تھا؟ میں اس کا جواب عرض کروں گا کہ یہ معجزہ جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے قیامت کی علامتوں میں سے ہے، چونکہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام بلاواسطہ یا بالواسطہ زمانۂ قیامت کے امام تھے، لہٰذامعجزۂ زلزلہ سے ذاتی یا اجتماعی قیامت کا اشارہ فرمایا گیا۔
جس طرح ہر چیز کی حقیقی پہچان (معرفت) روحانیّت میں ہوسکتی ہے، اسی طرح قیامت کی شناخت بھی روحانیّت ہی میں ہوتی ہے، مگر اس کے نتائج کے طور پر بڑے بڑے انقلابات دنیائے ظاہر میں آتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ
۱۸۳
عصرِ حاضر کے باطن میں بہت بڑی قیامت برپا ہوئی ہے، اسی لئے بڑی تیزی سے ظاہری حالات بدل رہے ہیں۔
N.N.H
21-11-92 (Karachi)
۱۸۴