گلشنِ خودی

تینوں اسماء بڑے پیارے

ادارۂ عارف امریکا کے سعادتمند نائب الصدر حسن (سابق کامڑیا) ان کی نیک بخت بیگم محترمہ کریمہ (سابقہ کامڑیانی) جو علامہ نصیر ہونزائی کی پرسنل سیکریٹری برائے امریکا ہیں اور ان کے قرۃ العین لٹل اینجل سلمان تینوں کے اسماء بڑے پیارے ہیں، کیونکہ یہ نام اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کے مبارک اسماء میں سے بطورِ تبرک لئے گئے ہیں، پس مونوریالٹی کی خاص دعا ہے کہ یہ عزیزان، ان کے خاندان، آبا و اجداد، اور آئندہ نسلیں امامِ برحقؑ کی لازوال علمی دولت سے مالامال ہو جائیں! آمین!!

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

کراچی

۱۰ جنوری ۱۹۹۴ء

 

۱

 

پیش لفظ

 

عالمِ اسلام اور دنیائے علم و ادب کا کوئی گوشہ ایسا نہ ہو گا کہ جہاں تک مولانا جلال الدین رومی علیہ الرحمۃ کے نامِ گرامی اور مرتبۂ علمی کی شہرت نہ پہنچی ہو، آپ زمانے کے با عمل اور کامیاب صوفیٔ اعظم اور جلیل القدر شخصیت تھے، اُن کا روحانی عروج و ارتقاء اس وقت شروع ہوا جبکہ انہوں نے خوش نصیبی سے مرشدِ کامل پیرِ روشن ضمیر حضرت شمس تبریزی (قدس اللہ سرہ) سے طریقت اور حقیقت کی تعلیم حاصل کی، جس کے نتیجے میں آپ روحانیت کے سیر و سلوک کے سلسلے میں درجۂ اعلیٰ پر فائز ہوگئے۔

 

مولائے رومی کو مرشدِ موصوف سے انتہائی عقیدت و محبت تھی، چنانچہ مولانا نے اپنے تمام منظوم کلام میں نہ صرف اشارہ اور کنایہ کی زبان میں شمس تبریز کی روحانی عظمت و مرتبت کا ذکر کیا ہے، بلکہ واضح الفاظ میں بھی اُن کی بے حد تعریف و توصیف کی ہے، خصوصاً اپنے کلیات میں جو کلیاتِ شمس کے نام سے مشہور ہے، غیر معمولی انداز میں پیر و مرشد حضرت شمس قدّس اللہ سرّہ کی مدح سرائی کی ہے، یہاں تک کہ ہر نظم کے آخر میں بجائے اس

 

الف

 

کے کہ اپنا تخلص لکھے عاشقانہ انداز میں حضرت شمس کا پیارا نام لیا ہے، جس سے بعض قارئین کو یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ اشعار سب کے سب شمس تبریز ہی کے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے، بلکہ رومی نے اپنے عظیم مرشد اور بزرگ محسن کی تعظیم و تکریم کی وجہ سے یہ طریقہ اختیار کیا ہے، نیز اس کا سبب یہ بھی ہے کہ مولانا کے عقیدے میں گویا شمس خود مولائے روم کی زبان سے شعر کہتے تھے، پس ان وجوہ سے کلیاتِ مولائے رومی کلیاتِ شمس تبریزی کہلاتا ہے۔

 

بہر کیف اس بابرکت پیری اور مریدی نے دنیا والوں کو عام طور پر اور اہلِ تصوف کو خاص طور پر بہت کچھ سکھایا اور بہت کچھ عطا کیا ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے علمی و فنی ترقی کے زمانے میں اقوامِ عالم کے بڑے بڑے علمی و ادبی ادارے مولوی معنوی کی کتابوں سے بے نیاز نہیں ہیں، رومی کی گرانقدر تصنیفات میں مثنوی اور مذکورۂ بالا کلیات زیادہ مشہور اور بڑی ضخیم کتابیں ہیں، مثنوی کے چھ دفتروں کے کل اشعار کی تعداد ۲۵۶۳۱ (پچیس ہزار چھ سو اکتیس) اور کلیاتِ شمس کے شعروں کا مجموعہ ۴۷۴۹۷ (سینتالیس ہزار چار سو ستانوے) ہے، جس میں اشعار، ملمعات، غزل، قصیدہ، مقطعات، ترجیعات اور رباعی شامل ہیں، ان دو عظیم اور گرانمایہ کتابوں میں سے مثنوی شریف

 

ب

 

کے کئی ترجمے اور شرحیں چھپ کر شائع ہو چکی ہیں، اور ان سے شائقینِ علم و ادب خاطر خواہ فائدے حاصل کرتے ہیں مگر افسوس اور حسرت ہے کہ اب تک کلیات جیسے بے مثال علمی ذخیرے کا کوئی ترجمہ نہیں ہوا ہے، ممکن ہے کہ اس کی بہت بڑی ضخامت کی وجہ سے فی الحال کچھ دشواریاں اور مجبوریاں ہوں۔

 

کلیاتِ شمس میں اسلام کی گہری حقیقتوں کی وضاحت کر کے تصوف اور روحانیّت کے بہت سے خزانوں کی نشاندہی کی گئی ہے، اور انسان کو عالمِ لاہوت سے جو اٹوٹ ازلی رشتہ قائم ہے، اس کو دنیاوی اور نفسانی ہوا و ہوس کے دھندلا پن سے پاک صاف کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے، الغرض ایسی لاتعداد خصوصیات و خوبیاں ہیں، جن کی بناء پر میں عرصۂ دراز سے اس گنجینۂ گوہر کا دلدادہ تھا، لہٰذا بطورِ نمونہ میں نے ایک بہت ہی معمولی بلکہ حقیر سا کام کیا ہے، وہ یہی چھوٹی سی کتاب ہے، جو “گلشنِ خودی” کے اسم سے موسوم ہے۔ جس کو کلیاتِ شمس کی ۲۵ منتخب رباعیوں کے ترجمہ اور تشریح سے ترتیب دی گئی ہے، اور یہ رباعیات مختلف موضوعات پر مبنی ہیں۔

 

اگر میں کہوں کہ میں نے مولائے روم کے سدا بہار علمی باغ کے بے پناہ میوؤں میں سے، جو عقل و دانش کی غذائیت سے

 

ج

 

بھرپور ہیں، اہلِ زمانہ کے سامنے بطورِ نمونہ صرف ایک میوہ پیش کیا ہے، یا یہ ان کی روحانیّت و خودی کے چمن سے ایک گلِ رعنا تقدیم کیا ہے، تو یہ دعویٰ بھی میرے لئے بہت بڑا اور مشکل ہے، کیونکہ نہ معلوم باغ و گلشن سے پھل چننے اور پھول توڑنے کے سلسلے میں جو جو احتیاطی نزاکتیں اور نفاستیں مشروط ہیں، ان سے کام لیا گیا کہ نہیں۔

 

“گلشنِ خودی” کا مطلب انائے روحانی ہے، جو انسان کی موجودہ خودی کی نفسانی فنا سے حاصل آتی ہے، جس طرح کسی تنگ و تاریک پرانے مکان کی اصلاح و ترقی اس کے بغیر ناممکن ہے، کہ اس کو گرا کر ازسرِ نو ایک عالی شان عمارت تعمیر کی جائے، اسی طرح اس فرسودہ خودی کو فنا کر کے انائے علوی کی غیر فانی حیات حاصل کرنا مقصود ہے، جس کے لئے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر خدا و رسول کے پاک فرمان کے تحت مرشدِ کامل کی رہنمائی اور علم و عمل کا وسیلہ چاہئے۔

 

مولای رومی اپنی ان فکر انگیز اور نتیجہ خیز رباعیات میں، جو روحانی مشاہدات و تجربات پر مبنی ہیں، فنا کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں، تا کہ اہلِ دانش پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ مومن کی حقیقی اور کامیاب زندگی فنا ہی میں پوشیدہ ہے، آپ

 

د

 

جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی اصلی خودی نہیں ہے مگر بے خودی اور خود فراموشی میں، جیسے اس کتاب کے آخر میں ان کے اپنے الفاظ ہیں کہ:

 

“میں نے طبیبِ عشق کے پاس جا کر پوچھا کہ آپ اپنی بصیرت و دانائی سے عشق کے اس مریض کے لئے کیا تجویز فرماتے ہیں؟ انہوں نے مجھے اپنی تمام صفات کو چھوڑ دینے اور اپنی ہستی کو یکسر مٹا دینے کے لئے فرمایا، یعنی (فرمایا) کہ تیرا جو کچھ بھی ہے اس (کی قیدِ تعلق) سے قطعاً آزاد ہو جا۔”

 

رومی نہ صرف ذاتی طور پر اس دنیا میں مرشدِ کامل کی دائمی موجودگی کے قائل ہیں، بلکہ اس نظریئے کے مخالفین کے خیالات کی بڑی سختی کے ساتھ تردید بھی کرتے ہیں، چنانچہ آپ نے فرمایا:

 

” (خدا نے) کب فرمایا کہ وہ زندۂ جاوید (یعنی نور) مر گیا؟ اُس نے کب فرمایا کہ امید کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا؟ وہ سورج کا دشمن چھت پر نکل آیا اور دونوں آنکھیں بند کر کے کہنے لگا کہ سورج مر چکا ہے۔”

 

میں اپنے طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ مولانا جلال الدین رومی کی ہر رباعی حقائق و معارف کا ایک خزانہ ہے، جو خود شناسی اور خدا شناسی کی دولت سے بھرپور ہے، اور اسی لازوال عرفانی

 

ہ

 

دولت میں انسان کی سعادتِ دارین پوشیدہ ہے، بزرگانِ دین اُس وقت کے لوگوں کے لئے اور آنے والی نسل کے لئے یہی جواہر اور یہی موتی فراہم کر سکتے تھے، تا کہ وہ اس انمول ذخیرے کو اپنا مذہبی سرمایہ قرار دے کر قدردانی اور شکر گزاری کے ساتھ استعمال کرے۔

 

اتوار

۴ رمضان  ۱۳۹۹ھ

۲۹ جولائی ۱۹۷۹ء

 

فقط بندۂ عاجز

نصیر الدین نصیر ہونزائی

 

و

 

انوارِ الٰہی

 

رباعی

 

آن دل کہ شد قابلِ انوارِ خدا

پر باشد جانِ او ز اسرارِ خدا

زنہار تنِ مرا چو تنہا مشمر

کو نمک شد بنمک زارِ خدا

 

ترجمہ: جس شخص کا دل انوارِ خداوندی کو قبولنے کے لائق ہوا، تو اُس کی جان معرفتِ الٰہی کے بھیدوں سے بھر جاتی ہے (کیونکہ نور کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں عقل و دانش، علم و حکمت اور رشد و ہدایت کے بھید پوشیدہ ہوا کرتے ہیں) میرے جسم کو ہرگز ہرگز دوسرے اجسام کی طرح نہ سمجھ لے، کیونکہ یہ تو خدا کے نمک کی کان میں رہ کر سراپا نمک بن چکا ہے (یعنی میری ہستی اور شخصیت مرشدِ کامل کے مبارک وجود میں فنا ہو چکی ہے)۔

 

تشریح: مثل مشہور ہے کہ: “ہر چہ در کانِ نمک رفت نمک شد۔” یعنی جو چیز نمک کی کان میں جا کر دب جاتی ہے تو وہ کچھ مدت کے بعد نمک بن جاتی ہے، بالکل اسی طرح صحبت و ہم نشینی اور تعلیم و تربیت کے نتیجے میں سعادتمند اور ہوشیار مرید اپنے مرشدِ کامل میں فنا ہو جاتا

 

۴

 

ہے، یہ حکمت آگین صوفیانہ تعلیم کتنی خوبصورت، کیسی عالی شان اور کس قدر پُرمغز و پُرمایہ ہے! قربِ الٰہی اور حصولِ نور کا یہ عمدہ تصور، صراطِ مستقیم اور منزلِ طریقت و حقیقت کا یہ بہترین اور کامیاب نظریہ کتنا دلنشین اور مفید ہے! کیوں نہ ہو جبکہ اس میں انوارِ الٰہی کے جلال و جمال کا ذکرِ شیرین آیا ہے، اور وہ بھی خداوندِ عالم کے نورِ اقدس کی شانِ کریمی کے پہلو سے متعلق، کہ جب کسی بندۂ خاص کے پاک و پاکیزہ دل پر انوارِ خداوندی کا آفتابِ تجلّیات طلوع ہو جاتا ہے، تو اس کی لاتعداد کرنیں اپنے اندر اسرارِ ربّانی کے انمول جواہر لے کر آتی ہیں، سو یہی وجہ ہے کہ ایسے باسعادت انسان کی جان خدائے علیم و حکیم کے اسرارِ روحانیّت سے بھرپور ہو جاتی ہے۔

 

جب سالکِ صادق اور مومنِ عاشق کا قلب تزکیۂ نفس، تطہیرِ باطن، نتیجۂ تقویٰ اور مرشدِ حقانی کی خصوصی تعلیمات سے آراستہ و پیراستہ ہو کر خلوت خانۂ روح اغیار و باطل کی آلائش، نافرمانی کی کدورت اور جہالت کی تاریکی سے بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے، اور جب صیقلِ ذکر سے آئینۂ ذات خوب چمکنے لگتا ہے، تو تب ہی انوارِ الٰہی کا فیضان شروع ہو جاتا ہے، یعنی نورِ خداوندی کے تدریجی ظہورات و تجلّیات کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔

 

۵

 

اس مقام پر نورِ اقدس کے روحانی ظہورات کے سلسلے میں کچھ نکات بیان کرنا مناسب ہے کہ نور اگرچہ اپنی اصل اور آخری حقیقت میں ایک ہی ہے اور اس کا مقصدِ اعلیٰ بھی ایک ہے، لیکن اس کی گوناگون تجلّیات لاتعداد ہیں، پھر بھی انوار و تجلّیات کی بڑی قسموں کا تعیّن کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آثار اور نتائج کے اعتبار سے نور کی تین بنیادی قسمیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ سب سے اعلیٰ درجے کا نور وہ ہے جس سے انسان کو عقلی، علمی اور عرفانی روشنی مہیا ہو جاتی ہے، دوسرے درجے کے نور سے روح اور روحانیّت کی روشنی حاصل ہوتی ہے اور تیسرا نور وہ ہے جس سے جسم کو طرح طرح کی معجزاتی تائیدات ملنے سے طبیعت روشن ہو جاتی ہے، یا مختصراً یوں کہنا چاہئے کہ کامیاب مومنین کی عقل، روح اور شخصیّت پر تین درجوں کے انوار اثر انداز ہوتے ہیں۔

 

آپ اگر چاہیں تو اس مطلب کے لئے سورہ ۳۹ آیہ ۶ (۳۹: ۰۶) میں دیکھ سکتے ہیں جہاں یقیناً انسان کی عقلی، روحانی اور جسمانی حیثیت کے نور کی عدمِ موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اس کی تخلیق ماں کے پیٹ میں تین قسم کی تاریکیوں کے اندر مکمل ہوئی ہے، اس ارشاد سے یہ یقینی حقیقت اجاگر ہو جاتی ہے کہ ان تین اندھیروں

 

۶

 

کے مقابلے میں تین انوار بھی ہیں جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے، یعنی عقلی، روحانی اور جسمانی روشنی، کیونکہ انسان تین چیزوں کا مجموعہ ہے، اور وہ تین چیزیں عقل، روح اور جسم ہیں۔

 

نور کے وسیع تر مفہومات کو سمجھنے کے لئے ہم ظاہری اور مادّی روشنی کے سرچشمے کی مثال پر غور کر سکتے ہیں، چنانچہ سورج ہی ہے کہ جس کی بے پناہ طاقت پر یہ عظیم کائنات قائم ہے جس کی بے شمار دنیاؤں میں سے ایک دنیا سیّارۂ زمین ہے، اب ہم کائنات بھر میں سورج کی قوّت سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کو چھوڑ کر صرف اِس زمین کی بات کرتے ہیں، کہ سورج کی تکوینی اور تخلیقی قوّتوں سے عالمِ جمادات کی ہر چیز پیدا ہوئی، جیسے مٹی، پانی، ہوا، پہاڑ اور طرح طرح کی معدنیات، نیز عالمِ نباتات کی چیزیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، مثلاً درخت، جھاڑیاں، فصلیں، پھول اور ہر قسم کی گھاس، اور اسی طرح عالمِ حیوانات کی تمام مخلوقات سورج کی بدولت زندہ اور قائم ہیں، یعنی سارے جانور اور بنی نوع انسان جسمانی طور پر سورج کی قوّتوں کے وسیلے سے زندہ رہتے ہیں، کیونکہ ان کی ضروریاتِ زندگی کی ہر شے سورج کے ذریعے پیدا ہوتی ہے اور ایسی چیزیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ہم ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

 

۷

 

اب اس مثال میں خوب غور و فکر کر کے کچھ نتائج اخذ کئے جائیں کہ جب ظاہری اور مادّی روشنی کا سرچشمہ اتنا زبردست، ایسا عالمگیر اور اس قدر ہمہ رس ہے، اور اس میں ایسے گوناگون فائدے پوشیدہ ہیں، تو اُس نورِ خداوندی کی بے پناہ طاقت و توانائی اور بے انتہا رحمت و برکت کا کیا عالم ہو گا، جس کی روشنی کے سمندر میں دونوں جہان مستغرق ہیں، جس کے ایک ادنیٰ کرشمے سے دنیا بھر کے لوگوں کی عقلی، روحانی اور اخلاقی ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں، ہر چند کہ ان کے عقائد و نظریات ایک جیسے نہیں ہوتے۔

 

۸

 

انائے عُلوی

 

رباعی

 

نُہ چرخ غلامِ طبعِ خود رایۂ ماست

ہستی ز برای نیستی مایۂ ماست

اندر پسِ پردہا یکی دایۂ ماست

ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست

 

ترجمہ: تو آسمان ہماری خود سر طبیعت کے غلام ہیں (یعنی کائنات اپنے ظاہر و باطن میں ہماری غلامی کر رہی ہے تا کہ جس سے ہماری خود سر طبیعت کے سارے تقاضے پورے ہو جائیں) ہستی ہماری نیستی کے لئے سرمائے کی حیثیت سے ہے (یعنی نیستی ہمارے لئے ایک ایسی اہم دنیا ہے کہ ہستی اُس پر قربان ہو جاتی ہے) پردوں کے پیچھے ہماری ایک دایہ ہے ) یعنی نادیدنی طور پر ہماری روحانی پرورش ہوتی رہتی ہے) ہم آئے ہوئے نہیں ہیں (بلکہ) یہ ہمارا سایہ ہے (یعنی ہماری اصلی خودی یا کہ انائے عُلوی عالمِ بالا میں ہے اور ہماری یہ شخصیّت اس کا سایہ ہے، اس لئے ہم اصلاً دنیا میں نہیں آئے ہیں)۔

 

تشریح: آسمان، سورج، چاند اور ستارے اس بات پر مامور ہیں کہ وہ شب و روز مسلسل کام کرتے رہیں، تا کہ کل کے لئے

 

۹

 

ہماری روحانی بادشاہت قائم ہو جائے، ان معنوں میں نو آسمان ہماری مرضی کے غلام ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ اصل لذّت و راحت فنا و نیستی میں پوشیدہ ہے، اور نیستی حاصل نہیں ہو سکتی ہے مگر ہستی کے ذریعے سے، لہٰذا یہ کہنا صحیح ہے کہ نیستی ہستی کا ماحصل ہے۔

 

باطن اور روحانیّت کے حجاب کے پیچھے ہماری ایک انتہائی مہر و شفقت والی دایہ ہے جو ہماری اخلاقی، علمی اور روحانی پرورش کے لئے متعین ہے، وہ ایک لحاظ سے مرشدِ کامل ہے اور دوسرے لحاظ سے ہماری اپنی روح، کیونکہ ہماری زندگی دوہری ہے، اس لئے کہ ہم کلی طر پر دنیا میں نہیں آئے ہیں بلکہ جزوی طور پر آئے ہیں،یعنی ہماری اصل خودی یا کہ انائے عُلوی ازلی مقام پر قائم ہے، مگر ہاں اس کا سایہ یعنی یہ جسم دنیا میں ایک طرح سے اس کی نمائندگی کر رہا ہے، جیسے سورج خود تو آسمانوں کی بلندیوں پر ہے لیکن آئینے میں جو عکس ہے وہ زمین پر سورج کی نمائندگی کرتا ہے، یہی حال ہمارے وجود کا بھی ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے تو عالمِ روحانی میں ہے مگر اس کا سایہ ہنگامی طور پر دنیا میں آیا ہے، بے شک مومن بیک وقت دونوں جہان میں زندہ ہے، اور یہ ارشاد حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہے۔

 

۱۰

 

حسنِ جانان

 

رباعی

 

خورشیدِ رُخَت ز آسمان بیرون است

چون حسنِ تو کز شرح و بیان بیرون است

عشقِ تو درونِ جانِ من جا دارد

و این طُرفہ کہ از جان و جہان بیرون است

 

ترجمہ: تیرے حسین چہرے کا سورج آسمان کی بلندیوں سے بالاتر اور باہر ہے، تیرے حسن و جمال ہی کی طرح جو تعریف و توصیف کی حد سے باہر ہے، تیرا پاک و پاکیزہ عشق میری جان کے اندر بستا ہے، اور اس کا یوں ہونا عجیب بات ہے، جبکہ یہ اصل مقام کے اعتبار سے جان اور کائنات سے بھی باہر اور برتر ہے۔

 

تشریح: مولای رومی صاحب ایسی انتہائی پیاری، پُرمغز، دلکش اور دلاویز رباعی کے مسرّت بخش اور روح افزا الفاظ میں حسنِ جانان کا ذکرِ جمیل چھیڑتے ہیں، اور فرماتے ہیں کہ اے جانانِ حقیقی! تیرے چہرۂ انور اور دیدارِ پُربہار کے معجزاتی خورشید کا کیا کہنا کہ وہ اپنے لامکانی

 

۱۱

 

اوصاف، جلالت، بزرگی، عظمت اور برتری کی وجہ سے کائنات کی حدود سے باہر اور ارفع و اعلیٰ ہے، جس کی رعنائی، خوبی، تابانی اور درخشانی کے سامنے اس مادّی آسمان کا سورج بہت ہی حقیر لگ رہا ہے، اے محبوبِ روحانی! اگر تیرے چہرۂ زیبا کے لاہوتی نور کا سورج آسمان کی وسعتوں کی گنجائش سے باہر ہے، تو یہ تیری ہی شان ہے اور یہ صفت تیری دوسری صفات ہی کی طرح ہے، کہ وہ بھی احاطۂ تعریف و توصیف سے باہر اور گنجائشِ تشریح و توضیح سے برتر ہیں، کیونکہ تیرے حسن و کمال اور جمال و جلال کے ظہورات و تجلّیات کو تقریر و تحریر کی حد بندیوں میں محدود کرنا محال ہے۔

 

اے ظہورِ نورِ ازل! تیرا مبارک و مقدّس نورِ عشق میری حقیر سی جان کے اندر رہتا ہے، حالانکہ تعجب ہے کہ وہ اصلاً جان و جہان سے باہر و برتر ہے، یعنی وہ ایک ایسی حقیقت ہے، جو نہ صرف زمان و مکان سے ماوراء ہے، بلکہ وہ نفوسِ جزوی سے بھی بالاتر ہے، چنانچہ حیرت پر حیرت ہے، کہ یہ مقدّس لامکانی اور ربّانی عشق شرف و عزت اور جلالت و بزرگی کی اتنی بلندی سے کیونکر اس مادّی دنیا میں ظہور پذیر ہوا اور کس مناسبت سے مجھ ایسی کمزور مخلوق کے دلِ مجروح میں جاگزین ہوا، حالانکہ میں کجا اور عشقِ لاہوتی کجا! جیسا کہ قول ہے:

 

“چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک”

 

۱۲

 

ہمہ اوست

 

رباعی

 

عشق آمد و شد چو خونم اندر رگ و پوست

تا کرد مرا تہی و پُر کرد از دوست

اجزای وجودِ من ہمہ دوست گرفت

نامیست زمن برمن باقی ہمہ اوست

 

ترجمہ: نظامِ دورانِ خون کی طرح میرے وجود میں عشقِ حقیقی کی آمدورفت ہوتی رہی، یہاں تک کہ عشق نے مجھے (یعنی میری خودی کو اپنی ہستی سے) خالی کر دیا اور دوست کی ہستی کو مجھ میں بھر دیا (اسی طرح) میرے وجود کے تمام اجزاء و ذرّات کو دوست نے لے لیا (اب میرے پاس کچھ بھی نہ رہا صرف) میرا ایک نام ہی ہے، باقی سب کچھ وہ خود ہے۔

 

تشریح: مولانا رومی علیہ الرحمۃ نے حقیقی عشق کے آنے جانے کی ایک خوبصورت اور دلکش مثال جسمِ انسانی کے دورانِ خون سے دی ہے کہ جس طرح بدن میں خون کا سلسلہ آتا جاتا رہتا ہے، یعنی یہ ایک طرف سے پیدا ہوتا ہے اور دوسری طرف جا کر جزوِ بدن بنتا رہتا ہے، یہ ہوا

 

۱۳

 

خون کا آنا جانا، یہی حال حقیقی عشق کا بھی ہے، کہ وہ بھی حقیقت میں ایک سلسلہ وار شے ہے، جبکہ عشق روحانی اور ذہنی طور پر رفتہ رفتہ عاشق کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی خودی ایسی نہیں رہ سکتی جیسی وہ پہلے تھی، بلکہ وہ ایک ایسی فنا کا شکار ہو جاتی ہے کہ وہ یکبارگی طور پر نہیں بلکہ تدریجی حالت میں یعنی رفتہ رفتہ کام کرتی ہے، جس کے سبب سے عاشق اپنی جگہ پر ہی معشوق میں فنا ہو جاتا ہے۔

 

اس حقیقت کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگرچہ شروع شروع میں معلّم اور متعلّم کے دو الگ الگ ذہنی وجود ہوا کرتے ہیں، لیکن جب ہوشمند شاگرد استاد سے تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے تو بتدریج اس کی ذہنیت استاد کی ذہنیت میں فنا ہو جاتی ہے، اس معنیٰ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ استاد ایک طرح سے علمی اور ذہنی طور پر شاگرد میں سمو گیا ہے یا یہ کہ متعلّم معلّم کے علم میں فنا ہو چکا ہے اور یہ بات کلّی طور پر اُس وقت درست ہو سکتی ہے جبکہ شاگرد کے باطن میں جہالت کی جگہ پر علم، سوال کی جگہ پر جواب اور ظلمت کی جگہ روشنی پیدا ہو چکی ہو۔

 

مولای رومی نے اپنی خوبصورت اور دلکش رباعی میں ہمہ اوست کے جملے کو استعمال کیا ہے تا کہ یہ “ہمہ اوست” کے نظریئے کی طرف ایک لطیف اشارہ بھی ہو سکے، اور جو مثال یہی پیش کی گئی ہے وہ بھی اس

 

۱۴

 

مقصد کے پیشِ نظر ہے، کیونکہ مولوی معنوی کے نزدیک “ہمہ اوست” کا نظریہ حقیقت ہے، وہ اسی نظریئے کی حقیقت کو سمجھانے کے لئے مختلف مثالیں بیان کرتے ہیں، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ “اس عالمِ خاکی میں گنجِ مخفی ہم ہی ہیں” وہ کہتے ہیں کہ “ہم دنیا میں آئے کہاں ہیں یہ شخصیّت تو ہمارا سایہ ہے۔” ان کا قول ہے کہ “دوئی را چون بدر کردم یکی دیدم دو عالم را” یعنی جب میں نے عرفانی طور پر دوئی کو اپنی ذات سے نکال باہر کر دی تو اس وقت میں نے دونوں جہان کو ایک دیکھا، ان اقوال سے مولانا رومی سامعین و قارئین کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہمہ اوست میں سب سے پہلے یہ بات آتی ہے کہ انسان کی انائے عُلوی خدا سے جدا نہیں ہے اور نہ کبھی جدا ہو سکتی ہے۔

 

جب انسان کا نام لیا جاتا ہے تو اس وقت اس لفظ کے ذریعے انسانیّت کے اُن تمام مقامات کی طرف اشارہ ممکن ہوتا ہے جہاں سے انسان گزرا ہے یا جہاں پر وہ موجود ہے، مثلاً تخلیق کی ساری منزلیں جیسے جسم، روح، عقل وغیرہ، لیکن یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ جہاں پر انسان کا جیسا تذکرہ ہوا ہے اس سے اس کی کون سی حیثیت مقصود ہے، چنانچہ جب قرآن صبر و ثبات والے مومنوں کی طرف سے کہتا ہے کہ “انا الیہ راجعون (یعنی بے شک ہم خدا کی طرف لوٹ جانے والے ہیں) تو اس کا مطلب یہ

 

۱۵

 

ہرگز نہیں ہوتا کہ جسم خدا تک پہنچ جاتا ہے یا روح یا عقل اُس تک رسا ہو جاتی ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے اور ہر اضافت علمی اور عرفانی طور پر فنا ہو جاتی ہے اور اسی طرح یکے بعد دیگرے تمام پردے ہٹ جاتے ہیں تا آنکہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ انسان کی انائے عُلوی ازلی و ابدی طور پر خدا کے نور میں موجود ہے۔

 

۱۶

 

مطمئن

 

رباعی

 

آسودہ کسی کہ در کم و بیشی نیست

در بندِ توانگری و درویشی نیست

فارغ ز غمِ جہان و از خلقِ جہان

با خویشتنش بہ ذرۂ خویشی نیست

 

ترجمہ: (صحیح معنوں میں) مطمئن وہ شخص ہے جو دنیا کی کمی بیشی کی فکر میں نہیں، جو امیری اور غریبی کی قید میں نہیں، جو دنیا اور اہلِ دنیا کے غم سے فارغ ہے (اور) جو اپنے آپ سے بھی ذرہ بھر دوستی نہیں رکھتا۔

 

تشریح: آسودہ کے ترجمے کے لئے کئی الفاظ ہیں، مثلاً آرام کرنے والا، خوش حال، مطمئن، دولت مند، خوش، باآرام، فارغ البال، سویا ہوا وغیرہ، لیکن میں نے لفظِ “مطمئن” کو منتخب کیا ہے اور یہی ان تمام الفاظ میں بہترین اور سب سے زیادہ مناسب ہے، کیونکہ اس لفظ کا قرآنی حکمت سے براہِ راست تعلق ہے، اور ان مترادفات میں سے ایک قرآنی لفظ کو ترجیح دینے کا خاص مقصد یہ ہے، کہ جس حقیقی آسودگی کا اس رباعی میں ذکر کیا گیا ہے، اُس پر حکمتِ قرآن کی روشنی ڈال کر دیکھا جائے کہ اصل میں آسودہ شخص یعنی مطمئن کون ہے اور اطمینان سے

 

۱۷

 

کیا مراد ہے، نیز یہ تحقیق اس لئے بھی بڑی ضروری ہے، کہ دنیا میں کوئی ایسا آدمی نہیں ملے گا جو مذہبی اور روحانی وسائل کے بغیر اطمینان و آسودگی کی یہ صفت رکھتا ہو جس کا مولای روم نے اوپر نقشہ کھینچا ہے لہٰذا ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ حقیقی معنی میں اطمینان کس طرح حاصل ہوتا ہے، چنانچہ ارشادِ ربّانی ہے کہ:

 

آپ کہہ دیجئے کہ واقعی اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گمراہ کر دیتا ہے اور جو شخص اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کو اپنی طرف ہدایت کر دیتا ہے مراد اس سے وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے (۱۳: ۲۸)

 

اس فرمانِ خداوندی سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ دنیا میں بندگانِ حق پرست ہی ہیں جو حقیقی معنوں میں آسودہ اور مطمئن ہیں، اس لئے کہ وہ واقعی مومن ہیں، اس لئے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس سے ان کو الٰہی ہدایت ملتی رہتی ہے اور اطمینان کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ایسے مومنین خدا کو کثرت سے یاد کیا کرتے ہیں، کیونکہ ذکرِ الٰہی سے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے۔

 

چنانچہ جس خوش نصیب انسان کی نظر ہمیشہ دولتِ دین پر رہتی ہو اس کے نزدیک دولتِ دنیا کی کوئی اہمیت ہی نہیں، لہٰذا وہ نہ تو

 

۱۸

 

مادّی دولت کی کمی سے غمگین ہو جاتا ہے اور نہ ہی اس کے زیادہ ہونے سے شادمان، وہ تو ایمان و ایقان کی نعمتوں سے اور ذکرِ خفی و جلّی کی لذّتوں سے محفوظ و مسرور ہے، اور وہ کثرتِ ذکر کے وسیلے سے دنیا و ما فیہا سے الگ تھلگ ہو چکا ہے ہر چند کہ وہ بظاہر اسی دنیا میں رہتا ہے۔

 

تسکین و تسلی اور دل جمعی کی عظیم نعمت اس وقت حاصل ہوتی ہے، جبکہ بندۂ مومن امیری اور غریبی دونوں کی ذہنی اور فکری قید و بند سے آزاد اور فارغ رہے، کیونکہ قانونِ حکمت کی نظر میں نہ صرف غربت کو مصیبت اور عذاب قرار دینے سے ذہنی پریشانی لاحق ہو جاتی ہے بلکہ دولت کی محبت میں شب و روز مبتلا رہنے اور اس کا پرستار بن جانے سے بھی دل کا سکون چھن جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں مولانا رومی دولت اور غربت دونوں کے افکار و خیالات سے آزاد رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔

 

یہ بات صحیح ہے کہ مردِ مومن دنیا اور اس کے باشندوں کے غم سے فارغ ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی ایسی فکر لاحق ہوگئی تو یادِ الٰہی کا سہارا لے کر اطمینانِ قلب حاصل کر لیتا ہے، کیونکہ ذکر میں یہ قدرت رکھی ہوئی ہے کہ وہ اپنی معجزاتی تاثیر سے ذاکر کو تسکین و تسلی کی دولت سے مالامال کر دیتا ہے، اس لئے کہ ذکر میں بہت سی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ ہیں۔

 

۱۹

 

قرآنِ حکیم میں اطمینان کے موضوع کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے معانی و مطالب بہت ہی اعلیٰ و ارفع ہیں، سو یہی سبب ہے کہ مولوی معنوی نے ان حقائق و معارف کو ملحوظِ نظر رکھتے ہوئے یہاں اس موضوع سے بحث کی ہے۔

 

رومی صاحب کا فرمانا ہے کہ جو کامل صوفی ہے وہ اپنے آپ سے ذرا بھی دوستی نہیں رکھتا، یعنی وہ خودی اور خودنمائی کی فکر سے آزاد ہوتا ہے، کیونکہ جو فنا کی قدر و قیمت جانتا ہے اور جس کو اپنے سامنے سے پردوں کو ہٹانے کا شوق ہے تو وہ مزید ایک دیوار کیوں کھڑی کرے، وہ ہمیشہ یہی کوشش جاری رکھتا ہے کہ شعوری طور پر تجرید اور توحید کی طرف نزدیک سے نزدیک تر ہو جائے۔

 

۲۰

 

انا الحق

 

رباعی

 

منصورِ حلاجی کہ انا الحق میگفت

خاکِ ہمہ رہ بنوکِ مژگان می رُفت

در قلزم نیستیٔ خود غوطہ بخورد

آنگہ پس ازان درِ انا الحق می سُفت

 

ترجمہ: منصورِ حلاجی نے جو انا الحق (یعنی میں صداقت و حقیقت ہوں، میں خدا ہوں) کہا، اُس نے (پہلے) اپنی پلکوں کی نوک سے (عبادت و ریاضت اور علم و عمل کے) سارے راستے کی مٹی جھاڑ دی، اپنی فنائیت و نیستی کے قلزم (یعنی سمندر) میں غوطہ لگایا، پھر اس کے بعد اُس نے انا الحق کے موتی پروئے۔

 

تشریح: رومی کا ارشاد ہے کہ بعض لوگ البتہ یہ خیال کرتے ہوں گے، کہ منصور حلاج نے نعرۂ انا الحق یونہی سوچے سمجھے بغیر ہنگامی جذبہ یا جنون جیسی کیفیت کے زیرِ اثر بلند کیا تھا، حالانکہ اس کی حقیقت کچھ اور ہے، وہ یہ کہ اس کا انا الحق کہنا دراصل تزکیۂ نفس، صفائی باطن، فنا فی اللہ

 

۲۱

 

اور بقا باللہ کا نتیجہ تھا، اور اِس اعلیٰ مقام تک پہنچ جانے کے لئے منصور نے بہت کچھ کیا تھا، جو کچھ کہ ایک کامیاب سالک کو کرنا چاہئے۔

 

مولای روم منصورِ حلاج کے نعرۂ “انا الحق” کی قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، اپنے کلام میں جگہ جگہ ان کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے اس تصوّر کی تبلیغ کرتے ہیں اور طرح طرح کی مثالیں بیان کر کے اپنے قارئین کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ انسان کی ازلی و ابدی “انا” حقیقتوں کی وحدت میں ہے، جس کو حقیقتِ حقائق کہا جاتا ہے۔

 

۲۲

 

زندۂ جاوید

 

رباعی

 

کی گفت کہ آن زندۂ جاوید بمرد

کی گفت کہ آفتابِ امید بمرد

آن دشمنِ خورشید درآمد بر بام

دودیدہ ببست و گفت خورشید بمرد

 

ترجمہ: (خدا نے) کب فرمایا کہ وہ زندۂ جاوید (یعنی نور) مر گیا؟ اُس نے کب فرمایا کہ امید کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا؟ وہ سورج کا دشمن چھت پر نکل آیا اور دونوں آنکھیں بند کرکے کہنے لگا کہ سورج مر چکا ہے۔

 

تشریح: یہاں “گفت = کہا” کا اشارہ کلامِ خداوندی کی طرف ہے جو قرآنِ مقدّس ہے، اور زندۂ جاوید سے نورِ ہدایت مراد ہے، جو انسانِ کامل کے لباسِ بشریت میں ملبوس ہے، چنانچہ یہ رباعی قرآنِ حکیم کی اُن آیات کی طرف ایک جامع اشارہ ہے جن میں نورِ خداوندی کے ہمیشہ حیّ و حاضر ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

 

۲۳

 

مولای روم یہاں پر جس “زندۂ جاوید” کا تذکرہ کرتے ہیں، اس کی مثال ان کے نزدیک آفتابِ عالم تاب ہے، اس سے ظاہر ہے کہ یہ زندۂ جاوید نورِ ہدایت ہی ہے، جس کی اہمیت عالمِ دین میں ایسی ہے، جیسی سورج کی اہمیت اس مادّی کائنات میں۔

 

جب ہم جان و دل سے یہ مانتے ہیں کہ اسلام دینِ فطرت ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ آفاق و انفس اور عالمِ دین کے لئے اللہ تعالیٰ کا ایک ہی قانون ہے اور وہی قانون خدا کی عادت و سنت بھی ہے، اور ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ قانونِ دین الگ، نظامِ کائنات الگ اور نفوسِ خلائق کے قیام و بقا کا آئین اس سے مختلف ہو، کیونکہ اگر ان مقامات پر مختلف قوانین ہوتے تو پروردگارِ عالم کی طرف سے اس بات کی پُرزور دعوت نہ دی جاتی کہ تم قرآن کے علاوہ آفاق و انفس میں بھی خوب غور و فکر کرو، اس سے یہ حقیقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے کہ قرآنِ پاک میں دین سے متعلق جو مثالیں اور حکمتیں موجود ہیں وہی اس کائناتِ ظاہر اور نفوسِ انسانی میں بھی ہیں، سو یہی وجہ ہے کہ آفاق و انفس میں غور و فکر کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:

 

اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تم میں بھی ہیں تو تم کیا دیکھتے نہیں (۵۱: ۲۰ تا ۲۱)

 

۲۴

 

یہاں تک کہ قرآن کے ایک مقام پر یہ اشارہ بھی فرمایا گیا ہے کہ انسان اپنے نفس یعنی باطن میں آسمان اور زمین کی ساری نشانیوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے وہ ارشاد یہ ہے: “یہ تو دنیا کی ظاہری زندگی کو جانتے ہیں اور آخرت (یعنی باطن) سے غافل ہیں کیا انہوں نے اپنی جانوں (یعنی مشاہدۂ روحانیّت) میں غور نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کو حکمت سے اور ایک وقتِ مقرر تک کے لئے پیدا کیا ہے اور بہت سے لوگ اپنے پروردگار سے ملنے کے قائل ہی نہیں (۳۰: ۰۷ تا ۰۸)۔

 

ان حقائق و معارف کو پیشِ نظر رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مولوی معنوی کی یہ ربّاعی صداقت اور حکمت کے مغز سے بھرپور ہے، کیونکہ جب دینِ فطرت اور آفاق و انفس کے لئے بنیادی قانون ایک ہی ہے، تو جس طرح کائناتِ ظاہر میں سورج اور نفسِ انسانی میں عقل کے بغیر چارہ نہیں ہے اسی طرح دینِ حق یعنی اسلام میں نورِ ہدایت کا موجود ہونا لازمی امر ہے اور مولای روم کے اس قول کی وضاحت یہی ہے۔

 

۲۵

 

تائیدِ مجسم

 

رباعی

 

ہان ای دلِ خستہ وقتِ مرہم آمد

خوش خوش نَفَسی بزن کہ آندم آمد

یاری کہ از و کار شود یاران را

در صورتِ آدمی بعالم آمد

 

ترجمہ: خبردار ہو، اے میرے زخم خوردہ دل! کہ اب تیری مرہم پٹی کا وقت آیا، آرام اور خوشی کا سانس لے، کیونکہ اب وہی (مسرت و شادمانی کا) وقت آیا، خدا کی مدد کہ جس سے اس کے دوستوں کے مقاصد حاصل ہوتے ہیں، انسانی صورت اختیار کر کے اس دنیا میں آئی۔

 

تشریح: مولای رومی اشارہ و کنایہ کی مخصوص زبان میں فرماتے ہیں، کہ اگر بندۂ مومن کے دل میں دینی درد جیسا کہ چاہئے پیدا ہوا اور عرصۂ ابتلا و آزمائش کو صبر و ثبات سے گزارا گیا، تو یقیناً نتیجے کے طور پر اس کے لئے دوا مہیا کی جائے گی، وہ یہ کہ خداوندِ عالمین اس کو توفیقاتِ غیبی اور فیوضاتِ لاریبی سے سرفراز فرمائے گا، اور جاننا چاہئے کہ

 

۲۶

 

پروردگارِ عالم کی یہ نصرت و تائید ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مرشدِ کامل کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی یاری ایک ایسی نصرت و تائید ہے، جو انسانِ کامل کی حیثیت میں مجسم اور زندہ ہو کر موجود رہتی ہے تا کہ دینِ اسلام میں مسلمین و مومنین کے لئے ہدایت اور رہنمائی کی جو عظیم ترین نعمت باقی و برقرار ہے اس میں ذرا بھی کمی واقع نہ ہو، اور خدا کے انعام و اکرام کا حق پورا ہو جائے۔

 

۲۷

 

سب کچھ میرا ہے

 

رباعی

 

ہر جا بجہان تخمِ وفا برکارند

آن تخم ز خرمنگہِ ما می آرند

ہر جا ز طرب ساز و نئی بردارند

آن شادیٔ ماست آنِ خود پندارند

 

ترجمہ: اس دنیا میں جہاں کہیں بھی لوگ مہر و وفا کے بیج بو دیا کرتے ہیں، تو وہ لوگ ان بیجوں کو (حقیقت میں) ہماری ہی خرمن گاہ (کھلیاں) سے حاصل کر لیا کرتے ہیں، اور جہاں کہیں بھی لوگ خوشی منانے کے لئے باجا بانسری ہاتھ میں لیتے (یعنی بجاتے) ہیں، تو وہ اصل میں ہماری ہی خوشی ہوتی ہے جسے سادہ لوح انسان اپنی خوشی سمجھ بیٹھے ہیں۔

 

تشریح: جناب رومی یہاں پر روحانیّت کا ایک اور اعلیٰ اور مفید تصوّر پیش کرتے ہیں، کہ جب کوئی مومنِ سالک شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے وسائل سے قربِ خدا کے اس

 

۲۸

 

بلند ترین مرتبے پر فائز ہو جاتا ہے، جہاں پر کہ روحانیّت و نورانیّت کے تمام خزانے حاصل ہوتے ہیں، تو اس وقت بموجبِ حدیثِ شریف (من کان للہ کان اللہ لہ۔ یعنی جو شخص خالصاً خدا کا ہو جاتا ہے تو خدا بھی بطورِ خاص اسی کا ہو جاتا ہے) ایسا بندۂ مخلص اللہ تعالیٰ کی انتہائی قربت و نزدیکی اور خصوصی نسبت کے اعلیٰ ترین شعور کی بدولت بجا طور پر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ خدائے پاک اور ظاہر و باطن کا سب کچھ اسی کا ہے، یقین و عرفان کے درجۂ کمال کا یہ عالی شان اور بابرکت شعور ہر طرح سے قرآن و حدیث کے مقدس ارشادات کے عین مطابق ہے۔

 

اگرچہ انا للہ (یقیناً ہم خدا کے ہیں) کا حکم ظاہراً سب انسانوں کے لئے یکسانیت اور برابری کا تصوّر پیش کرتا ہے، لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ اللہ کی طرف رجوع ہو جانے اور قرب حاصل کرنے کے درجات نہیں ہیں اور نہ اس میں کوئی تعمیم و تخصیص پائی جاتی ہے، اور اگر مانا گیا کہ دین کے معاملے میں علم و عمل کی بنیاد پر عوام و خواص کے تعین کا تصور صحیح ہے، تو خداوند تعالیٰ صحیح معنوں میں اسی کامل اور اشرف و افضل انسان کا ہوگا جو خدائی رشتے کے سب سے اونچے درجے پر فائز ہو چکا ہے اور وہی بندۂ خاص دوسروں سے بڑھ کر خدا کا برگزیدہ کہلائے گا، یہی مرتبہ فنا فی اللہ اور بقا باللہ بھی ہے، لہٰذا مردِ درویش کا یہ کہنا درست ہے کہ خدا تعالیٰ جب خصوصاً میرا ہے تو سب کچھ میرا ہے۔

 

۲۹

 

لوحِ وجود

 

رباعی

 

من بندۂ آن قوم کہ خود را دانند

ہر دم دلِ خود را ز غلط ہا برہانند

از ذات و صفات خویش خالی گردند

و ز لوحِ وجود انا الحق خوانند

 

ترجمہ: میں ان لوگوں کا غلام ہوں جو اپنے آپ کو پہچانتے ہیں، ہمیشہ اپنے دل کو باطل قول و فعل سے چھڑاتے رہتے ہیں، اپنی ذات و صفات سے خالی ہو جاتے ہیں، اور ہستیٔ مطلق کی لوح سے انا الحق کا راز پڑھتے ہیں۔

 

تشریح: حضرت رومی فرماتے ہیں کہ میں حرمت و تعظیم کے طور پر اُن مبارک ہستیوں کا غلام ہوں جو اپنی اونچی حقیقت کو پوری طرح سے جانتے ہیں، یعنی بحکمِ من عرف اپنی ذاتِ حقیقی کی شناخت حاصل کر لیتے ہیں، اپنے دل کو باطل خیالات، اقوال اور افعال کے بندھنوں سے چھڑاتے رہتے ہیں، اپنی بشری ذات و صفات سے خالی اور آزاد ہو جاتے ہیں، اور تخلقوا باخلاق اللہ (تم اپنے آپ میں اللہ تعالیٰ کی عادتیں پیدا کرو) کے بموجب عمل کر کے ہستیٔ مطلق

 

۳۰

 

کی لوحِ روحانیّت سے اسرارِ انا الحق کو پڑھ لیتے ہیں، ایسے حضرات سب سے پہلے انبیاء و اولیاء ہیں، اور اُن کے بعد حقیقی مومنین ہو سکتے ہیں، کیونکہ انبیاء و اولیاء کا وجودِ مبارک انسان کی روحانی عظمت و بزرگی اور فوقیت و برتری کا نمونہ ہوا کرتا ہے، یعنی وہ حضرات انسانیّت کی دینی اور روحانی ترقی اور حصولِ کمال کی زندہ مثال ہیں، اور ان کے نقشِ قدم پر چل کر کسی کے نجات پانے کے یہی معنی ہیں۔

 

۳۱

 

عجیب واقعہ

 

رباعی

 

مردانِ رہت کہ سرِ معنی دانند

از دیدۂ کوتاہ نظران پنہانند

این طرفہ تر ہر انکہ حق را بشناخت

مومن شد و خلق کافرش خوانند

 

ترجمہ: (اے خداوندِ عالم!) تیرے رستے کے عالی ہمت لوگ جو حقیقت کے اسرار جانتے ہیں (تعجب ہے کہ) وہ بے بصیرت لوگوں کو نظر نہیں آتے ہیں (یعنی یہ عجیب بات ہے کہ جاہل لوگ اہلِ حقیقت کو دیکھ اور پہچان نہیں سکتے) اور یہ واقعہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے کہ جس شخص نے خدا تعالیٰ کو پہچان لیا تو وہ حقیقی معنوں میں مومن ہو گیا مگر عوام الناس اسے کافر گردانتے ہیں۔

 

تشریح: حدیثِ شریف میں ہے کہ: آگاہ رہو کہ خدا کے اولیاء پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، یعنی بہت سے لوگ جہالت و نااہلی کی وجہ سے ان کو نہیں پہچان سکتے، حالانکہ یہی اولیاء ہیں جو حقیقت کے بھیدوں سے واقف و آگاہ ہیں، اور یہی حضرات ہیں جو معرفت کے درجۂ کمال

 

۳۲

 

پر فائز ہو چکے ہیں، لیکن نادان لوگ ان کو بے دین اور کافر قرار دیتے ہیں، اس لئے کہ صاحبِ اسرار کو اسرار والا ہی جانتا ہے اور جس کے پاس ایسا کوئی بھید نہ ہو، تو وہ محرمِ راز کو کیا جانے، اسی طرح عارف کو عارف ہی پہچان سکتا ہے اور جو شخص دین شناس اور خدا شناس نہ ہو وہ البتہ خدا شناسی کو غلط قرار دیتا ہے۔

 

۳۳

 

لازم و ملزوم

 

رباعی

 

نی آبِ روان ز ماہیان سیر شود

نی ماہی ازان آبِ روان سیر شود

نی جانِ جہان ز عاشقان تنگ آید

نی عاشق ازان جانِ جہان سیر شود

 

ترجمہ: نہ کبھی بہتا پانی مچھلیوں سے رنجیدہ ہو جاتا ہے، نہ کسی وقت مچھلیوں کا جی اس آبِ روان سے بھر جاتا ہے، نہ تو حقیقی معشوق عاشقوں سے بیزار ہو جاتا ہے، اور نہ ہی عاشقوں کو کسی حال میں محبوب (کے دیدار سے) سیر چشمی ہو جاتی ہے۔

 

تشریح: عارفِ رومی فرماتے ہیں کہ موجودات و مخلوقات کی تمام چیزوں کے باہمی تعلق کا قانون یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرۂ لزومیت میں ایک دوسرے سے منسلک و متعلق ہوتی ہیں، باہمی وابستگی اور لگاؤ رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم رہتی ہیں اور یہ سلسلہ بلا کسی تنگی و بیزاری کے اس کائنات میں ہمیشہ سے جاری و ساری ہے اور ہمیشہ کے لئے ہے، جیسے پانی اور مچھلی کا ربط و تعلق کہ پانی کبھی

 

۳۴

 

مچھلیوں سے بیزار نہیں ہوتا اور نہ کبھی پانی سے مچھلیوں کا جی بھر جاتا ہے، اسی طرح معشوقِ حقیقی جو کائنات کی جان ہے عاشقوں سے بیزار نہیں ہوتا، اور نہ ہی کوئی عاشق اس جانِ جہان کے دیدارِ مقدّس سے سیر ہو جاتا ہے۔

 

۳۵

 

حقیقتِ توحید

 

رباعی

 

تابندہ ز خود فانیٔ مطلق نشود

توحید بنزدِ او محقق نشود

توحید حلول نیست نابودنِ تُست

ورنہ بگزاف باطلی حق نشود

 

ترجمہ: جب تک بندہ اپنے آپ سے فنا نہ ہو، تو اس کے نزدیک توحید صحیح معنوں میں ثابت نہیں ہوتی ہے، توحید حلول نہیں (بلکہ) تیرا نہ ہونا (یعنی فنا ہو جانا) ہی توحید ہے، ورنہ ڈینگ مارنے سے کوئی باطل حق نہیں بن سکتا ہے۔

 

تشریح: اس ربّاعی سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ کس طرح ایک باسعادت اور کامیاب سالک ذکر و بندگی اور تزکیۂ نفس کے وسیلے سے جیتے جی فنا ہو کر حقیقتِ توحید کا روحانی اور عرفانی مشاہدہ کر سکتا ہے، مولوی معنوی فرماتے ہیں کہ توحید یہ ہرگز نہیں کہ خدائے پاک و برتر تیرے اندر حلول کرتا ہو، بلکہ یہ اس طرح سے ہے کہ تیری ہستی اور خودی کی وجہ سے جو دوئی اور کثرت کا پردہ بنا ہوا ہے، اس کو بوسیلۂ فنا سامنے سے ہٹانے سے حقیقتِ توحید کے جلوۂ جمال کا مشاہدہ ہو جاتا ہے۔

 

۳۶

 

تصوّف میں فنا کی بہت بڑی اہمیت ہوا کرتی ہے، اس لئے مولای رومی نے اپنے کلام میں بار بار اس کا تذکرہ کیا ہے، چنانچہ مناسب ہے کہ یہاں فنا کی کوئی مثال پیش کی جائے، اور وہ یہ کہ جس وقت آدمی سکون کی نیند سو جاتا ہے، تو اُس وقت وہ ایک طرح سے فنا ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے آپ کو اور دنیا و مافیہا کو بھول چکا، اس کی انائیت و خودی وہ نہ رہی جو عالمِ بیداری میں تھی، اور نہ ہی اب اس کا کوئی اختیار باقی ہے، وہ اگر دیکھتا اور سنتا ہے تو اپنے آپ سے نہیں، اس کے بولنے اور چلنے میں بھی کوئی اور طاقت کارفرما ہے، اب وہ مجبور ہے مختار نہیں، اسی طرح جب خدا کا کوئی خاص بندہ عبادت و ریاضت اور علم و عمل کے وسیلے سے اپنے نفس کے اژدہے کو قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو یقیناً وہ خدائی نور میں فنا ہو جاتا ہے، اب اس کا کوئی اختیار نہیں اور نہ اس کی اپنی کوئی خودی ہے، اور اگر نورِ معرفت کی روشنی میں دیکھا جائے تو کسی شک کے بغیر معلوم ہو جائے گا کہ اولیاء اللہ فنا کے ایسے ہی مقام پر ہیں، اور وہی حضرات توحید کی حقیقت سے بخوبی واقف و آگاہ ہیں۔

 

۳۷

 

مستعد ہو جا

 

رباعی

 

ہشدار کہ فضلِ حق بنا گاہ آید

نا گاہ آید بر دلِ آگاہ آید

خرگاہِ وجودِ خود ز خود خالی کن

چون خالی شد شاہ بخرگاہ آید

 

ترجمہ: ہوشیار رہنا کہ رحمتِ خداوندی اچانک نازل ہو جاتی ہے، یکایک آ جاتی ہے مگر اُس دل پر جو حقیقت سے واقف و آگاہ ہے، اس لئے اپنی ہستی کے خیمۂ شاہی کو اپنی خودی و انائیّت سے خالی کر دے، جب یہ خالی ہوا تو تبھی اس شاہی خیمہ میں بادشاہ تشریف فرما ہوگا۔

 

تشریح: رومی صاحب کا ارشاد ہے کہ فضلِ ربّانی کے حصول کے لئے تجھے ہر وقت اور ہر لحظہ مستعد اور آمادہ رہنا چاہئے، کیونکہ جب بھی نزولِ رحمت ہوتا ہے تو وہ ناگاہ ہوتا ہے، لہٰذا ایسا نہ ہو کہ خدا کی کوئی رحمت آئےاور بندے کو آمادہ نہ پا کر یوں ہی گزر جائے، سو یہ ضرور جاننا چاہئے کہ فضلِ ایزدی جو پوشیدگی سے نازل ہوتا ہے، وہ صرف ایک ایسے صاف اور پاک دل پر ہوتا ہے جو علم و آگہی سے معمور اور ذکر و عبادت سے مسرور ہے، پس تم اپنے خانۂ ہستی کو انائیّت و خودی سے بالکل خالی کر کے رکھنا تا کہ اس میں بادشاہِ حقیقی جلوہ گر ہو جائے، اور حصولِ فضل و رحمت کے لئے دائمی مستعدی اور آمادگی یہی ہے۔

 

۳۸

 

ایک ہی حقیقت کے بہت سے نام

 

رباعی

 

گہ بادہ لقب نہادم و گہ جامش

گاہی زرِ پختہ گاہ سیمِ خامش

گہ دانہ و گاہ صید و گاہی دامش

این جملہ چراست تا نگویم نامش

 

ترجمہ: میں نے اس (محبوبِ روحانی) کو کبھی تو شراب کا لقب دیا اور کبھی پیالے کا، کبھی اس کو کھرا سونا کہا اور کبھی کچی چاندی، کبھی تو اس کا نام دانہ رکھا کبھی شکار اور کبھی جال، یہ سب (القاب، اسماء اور امثال جانتے ہو) کیوں ہیں؟ (یہ اس لئے ہیں) تاکہ میں اس کا اصل نام ظاہر نہ کروں۔

 

تشریح: قدرت و فطرت اور دین و دنیا کا قانون ہمیشہ کے لئے یہی رہا ہے کہ اعلیٰ اور عظیم چیزیں اکثر پوشیدہ رہتی ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ مذہب کی بنیادی حقیقتیں پردۂ راز میں محفوظ ہوا کرتی ہیں، اسی میں ربّ العزّت کی حکمت و مصلحت ہے، تاکہ کافروں، جاہلوں اور نااہلوں کو خدا و رسول کی اطاعت کے بغیر ان بھیدوں کا علم نہ ہو، چنانچہ مولوی معنوی اپنی صورتِ حال سے اسی امرِ واقعی کی ترجمانی کرتے

 

۳۹

 

ہیں، اور وہ یہ نکتہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کا سب سےبزرگ نام (اسمِ اعظم) خود خدا ہی کے بہت سے ناموں کے درمیان پوشیدہ رکھا گیا ہے، اسی طرح معرفت کا عظیم ترین بھید اسرارِ الٰہی کے کثیر پردوں کے اندر محفوظ ہے، یا یوں کہا جائے کہ حقیقتوں کی مرکزی اور جامع حقیقت کی شناخت اس لئے بہت مشکل ہے کہ وہ حقائق و معارف کے بہت سے حجابوں کے پیچھے ہے۔

 

ہاں، یہ بات بالکل درست اور صحیح ہے کہ ایک بھید کے جاننے سے دوسرا بھید آسان ہو جاتا ہے اور ایک حقیقت کی روشنی میں دوسری حقیقت کا کھوج لگایا جا سکتا ہے، اور اُس کے لئے مردِ مسلم کو ایسے کامل اور مکمل مرشد کی ہدایت و رہنمائی چاہئے، جس کو ہر وقت اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہو، تاکہ سالک منزلِ مقصود تک پہنچ سکے۔

 

قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ: اور ہم نے تو لوگوں (کے سمجھانے) کے واسطے اس قرآن میں ہر قسم کے مثالیں ادل بدل کے بیان کر دیں (۱۷: ۸۹) اس سے ظاہر ہے کہ سب سے اعلیٰ اور عظیم ترین حقیقت صرف ایک ہی ہے، مگر اس کی مختلف مثالیں بہت زیادہ ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر مثال اپنے اندر ایک حقیقت لئے ہوئے ہے اور ہر حقیقت اپنے انداز میں سب سے اونچی حقیقت

 

۴۰

 

کی ترجمانی اور نشاندہی کرتی ہے، چنانچہ قرآن کی ساری مثالیں اور ان کی تمام حقیقتیں زبانِ حکمت سے حقیقتِ عالیہ کی تعریف و توصیف کرتی رہتی ہیں۔

 

۴۱

 

عاشق خود ہی معشوق

 

رباعی

 

ز اوّل کہ حدیثِ عاشقی بشنودم

جان و دل و دیدہ در رہش فرسودم

گفتم کہ مگر عاشق و معشوق دو اند

خود ہر دو یکی بود من احول بودم

 

ترجمہ: پہلے پہل جب میں نے عشق و عاشقی کا تذکرہ سنا، تو میں نے اُس (حقیقی معشوق کی محبت) کی راہ میں جان و دل اور آنکھیں گھلائیں، میرا خیال تھا کہ شاید عاشق اور معشوق دو ہیں (لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ) ایک ہی اپنے آپ میں یہ دونوں تھا (اور قبلاً) میں خود بھینگا (یعنی نقصِ نظر سے ایک کو دو دیکھنے والا) تھا۔

 

تشریح: یہاں مولانا حسبِ معمول اپنے احوال کی مثال پیش کر کے انتہائی دلکش انداز میں روح اور روحانیّت کے سرِ عظیم کی نقاب کشائی کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ طلب و جستجو کے ابتدائی مراحل میں ظاہری اور روایتی علوم سے جو کچھ مجھے پڑھایا اور سکھایا جاتا تھا، اس میں بس سب کی سب دوئی کی باتیں ہوا کرتی تھیں، لہٰذا میں لازمی طور پر دوئی اور

 

۴۲

 

کثرت کو مانتے ہوئے عاشق اور معشوق کو دو الگ الگ حقیقتیں سمجھتا تھا، اور یہ میری غلطی تھی، یہ غلطی اس لئے مجھ سے سرزد ہوئی کہ میں اُس وقت نظریاتی طور پر ایک کو دو دیکھنے والا تھا، جس کو احول اور بھینگا کہا جاتا ہے، لیکن جب میں علم و عمل کی راہ میں آگے سے آگے بڑھ گیا اور نورِ عشق کی روشنی میں دیکھنے لگا تو حقیقت میں دوئی اور کثرت کی کوئی بات ہی نہ تھی، وہاں تو ایک ہی تھا دو نہ تھے، یعنی “عاشق خود ہی معشوق”  تھا، یا یوں کہہ لیجئے کہ معشوق خود ہی سب کچھ تھا۔

 

حق بات تو یہ ہے کہ مولای روم نے نہ صرف یہاں بلکہ ہر رباعی کے کوزے میں علمِ تصوّف کے دریائے فراوان کو سمو دیا ہے، آپ کی دی ہوئی مثالیں زندگی کی عملی صورت میں ہونے کی بدولت بڑی خوبصورت، دلکش اور مفید ترین ہوتی ہیں، ذرا یہ اندازہ کیا جائے کہ انہوں نے اپنے ماضی کی مقلدانہ نظر کو کس صفائی اور فراخدلی سے بھینگا پن قرار دیا ہے، اور کس خوبصورتی سے انسانی کمزوری کے مغزِ معنی سے روغنِ زیتون کا کام لیا ہے، تاکہ یہ مثال گم گشتگانِ وادیٔ حیرت کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو سکے۔

 

یہ کتنی بڑی خوشی کی بات ہے کہ عاشق حقیقت میں خود ہی معشوق ہے، اس کے معنی ہیں کہ معشوق خود اپنے آپ کا عاشق اور

 

۴۳

 

فریفتہ ہے، اس نے اپنے بے پناہ حسن و جمال کا نظارہ کرنے کے لئے یہاں شخصیّت کا ایک آئینہ بنا لیا ہے، اور آئینہ بھی ہے تو بڑا عجیب و غریب، یہ احساس و شعور کی دولت سے مالامال ہے، جب یہ شخصیّت و شعور جیسی دو چیزوں سے مرکب ہے، تو لازمی طور پر اس کے دو تصوّر پیدا ہو سکتے ہیں، ایک تصوّر کثرت کا ہے جو شخصیّت کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے اور دوسرا تصوّر وحدت سے متعلق ہے، جو شعور کی وجہ سے ہے، اور اسی سے انسان کی اخلاقی، مذہبی اور روحانی ترقی ہوتی ہے، چنانچہ یہ وحدت ہی کا تصوّر ہے، جو یہاں فرمایا گیا ہے کہ عاشق اور معشوق ایک ہی مسمّا کے دو اسم ہیں، یا ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں، نکتہ اگرچہ بہت ہی مختصر ہے، لیکن اس میں اہلِ دانش کے لئے علم کی ہر سطح سے ابھرنے والے سارے سوالات کے مکمل اور اطمینان بخش جوابات موجود و مہیا ہیں۔

 

آپ کم از کم وقتی طور پر رسم و رواج اور روایت و تقلید سے آزاد اور بالاتر ہو کر صوفیانہ نظر سے دیکھیں اور سوچیں، کہ عاشق و معشوق اور طالب و مطلوب کے ایک ہونے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ آیا یہ صرف ایک ہی شخص کا قصّہ ہے یا اس میں سب کی نمائندگی ہے؟ کیا ہم اس تصوّر کی تصدیق فنا فی اللہ کی مثال سے نہیں کر سکتے ہیں کہ وہ بات زیادہ مشہور ہے؟ یہ سوالات اس لئے کئے گئے کہ ان سے اہلِ

 

۴۴

 

سعادت کے اذہان اس حقیقت کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہو سکتے ہیں اور مولای رومی کی تعلیمات سے کماحقہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

۴۵

 

خدا کی آنکھ سے دیکھنا

 

رباعی

 

چندانکہ بکارِ خود فرو می بینم

بی دیدگیٔ خویش نکومی بینم

با زحمتِ چشمِ خود چہ خواہم کردن

اکنون کہ جہان بچشمِ او می بینم

 

ترجمہ: میں جس قدر بھی اپنے متعلقہ کام (یعنی حقائق و معارف) پر نظر ڈالتا ہوں (اپنی آنکھوں سے) خود دیکھے بغیر اچھی طرح سے دیکھتا ہوں، اپنی آنکھ سے (دیکھنے کی) تکلیف گوارا کر کے کیا کروں گا، جبکہ کائنات (کے ظاہر و باطن) کو اُس (یعنی خدا) کی آنکھ سے دیکھتا ہوں۔

 

تشریح: مولای روم کی تمام فکر انگیز تعلیمات کے دو بڑے مقصد ہیں، ایک یہ کہ انسانِ کامل کو جیسا کہ چاہئے پہچان لیا جائے اور دوسرا یہ کہ انسان خود کو روحانی ترقی کا اہل قرار دے اور مرشدِ کامل کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرے، وہ مایوسی کو قریب نہ آنے دے اور رحمتِ خداوندی کی امید پر علم و عمل کا راستہ اختیار کرے تاکہ عارضی خودی کا سیاہ پردہ سامنے سے ہٹ کر انائے عُلوی کا جلوہ نمودار ہو جائے

 

۴۶

 

اور پھر معرفتِ ذات کی منزلیں رفتہ رفتہ طے ہوتی چلی جائیں۔

 

اس عالی شان ربّاعی میں مومنِ پاک باطن کے خدا کی آنکھ سے دیکھنے کا ذکر ہے جیسے حدیثِ نبوّی کا ارشادِ مبارک ہے کہ: “مومن کی فراست سے بچ کر رہنا کیونکہ وہ خدا کے نور کی روشنی میں دیکھتا ہے۔” اور حدیثِ قدسی میں اس سے زیادہ تفصیل سے حقیقی مومن کی صفات پر روشنی ڈالی گئی ہے، وہ یہ کہ: “میرا بندہ ہمیشہ زائد عبادات کے وسیلے سے میری نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب قرار دیتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا محبوب بناتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کی زبان جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے پاؤں جن سے وہ چلتا ہے، پس وہ میرے ہی ذریعے سے سنتا ہے اور میرے ہی ذریعے سے دیکھتا ہے اور میرے ہی ذریعے سے پکڑتا ہے اور میرے ہی ذریعے سے بولتا ہے اور میرے ہی ذریعے سے چلتا ہے۔”

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صفات کا اطلاق سب سے پہلے انسانِ کامل پر ہوتا ہے کیونکہ تمام بندوں میں سے اللہ تعالیٰ کا بہترین بندہ وہی ہے اور پھر اس کے بعد اسی کے وسیلے سے دوسرے ہیں۔

 

اُس کریمِ کارساز اور رحیمِ بندہ نواز کی بے پایان رحمت اور

 

۴۷

 

بے دریغ نوازش کا کیا کہنا کہ وہ ایک خاص مقام پر اپنے پیارے دوستوں کی ایسی پُرشفقت دستگیری اور شاندار مدد فرماتا ہے کہ عقل دنگ ہو جاتی ہے، کیا ایک عام انسان اس حقیقت کا تصوّر کر سکتا ہے کہ معرفت اور عبادت کے اعلیٰ درجے پر بندۂ مومن کا قول و فعل خدا کا قول و فعل ہو جاتا ہے، اور جب یہ بات حقیقت ہے کہ ایسی فضیلت عبادت و ریاضت کے بعد ہر مومن کے لئے ممکن ہے تو پھر یقین رکھنا چاہئے کہ ہادیٔ برحق کامل طور پر اس کا مصداق ہوا کرتا ہے۔

 

۴۸

 

گنجِ مخفی

 

رباعی

 

در عالمِ گل گنجِ نہانی مائیم

دارندۂ ملکِ جاودانی مائیم

چون از ظلماتِ آب و گل بگذشتیم

ہم خضر و ہم آبِ زندگانی مائیم

 

ترجمہ: اس عالمِ خاکی میں (وہ) مخفی خزانہ (جس کا ذکر حدیثِ قدسی “کنت کنزاً” میں ہے) ہم ہی ہیں، لازوال روحانی سلطنت کے مالک ہم ہی ہیں، جب ہم قالبِ عنصری کی تاریکیوں سے گزر چکے تو (معلوم ہوا کہ) خضر بھی اور آبِ حیات بھی ہم ہی ہیں۔

 

تشریح: مولوی معنوی کہتے ہیں کہ جسمِ خاکی اور نفسِ امّارہ کی پیدا کردہ ظلمتوں کو چھوڑ کر معرفت کے اصل مقام پر پہنچ جانے کے بعد ہم نے بصیرت اور خود شناسی کی آنکھ سے دیکھا اور معلوم ہوا کہ ہم ہی اس دنیا میں وہ پوشیدہ خزانہ ہیں، جس کے متعلق حدیثِ قدسی میں فرمایا گیا ہے کہ:

 

کنت کنزاً مخفیاً فاحببت ان اعرف

 

۴۹

 

فخلقت الخلق، یعنی میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا سو میں نے یہ چاہا کہ پہچانا جاؤں پس میں نے خلقت کو پیدا کیا۔ کوئی بھی عاقل اس حقیقت سے انکار نہ کر سکے گا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت و شناخت کے لئے جس پیدائش کی ضرورت تھی وہ صرف جسمانی تخلیق نہیں بلکہ روحانی تکمیل بھی ہے، کیونکہ اگر ربّ العزّت کی پہچان کے لئے لوگوں کا بدنی طور پر پیدا کیا جانا کافی ہوتا تو آج سب دنیا والے خدا کے عارف بن جاتے اور نتیجے کے طور پر آسمانی بھیدوں کے مخفی خزانے کی حیثیت سے ان کو خدا مل جاتا، مگر حق بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے، لہٰذا ہمارا یہ کہنا حقیقت ہے کہ صحیح معنوں میں پیدا صرف وہی حضرات ہوئے ہیں جن کی جسمانیّت اور روحانیّت دونوں کامل اور مکمل ہوئی تھیں، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ لوگ اپنی جسمانی پیدائش کے سلسلے میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں، لیکن روحانی تخلیق و تکمیل کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔

 

آپ نے سورج کے عکس کو آئینے میں دیکھ تو لیا ہے، لیکن شاید آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا ہے کہ سورج کی یہ نورانی شکل آئینہ جیسی صاف و شفاف چیز میں کس طرح آتی ہے اور آئینے کو الٹانے یا ہٹانے سے یہ شکل کہاں جاتی ہے، حالانکہ اس عجیب و غریب مثال کے جاننے میں انتہائی عظیم فائدہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان کی اصل خودی یا کہ

 

۵۰

 

انائے حقیقی جسے انائے علوی کہنا چاہئے ازل سے ابد تک خدا کے نور میں یعنی حقیقتِ کل میں موجود ہے اور وہ ایک ہی ہے مگر جب ظاہری شخصیّت کے آئینے میں اُس اونچی انا کا عکس پڑتا ہے تو ایک انا کی دو انائیں ہو جاتی ہیں، جیسے اصل سورج آسمان پر اور اس کا عکس آئینے میں نظر آتا ہے، چنانچہ اگر آپ اپنی عارضی انا کو دائمی انا سے ملانا اور درمیان سے دوئی کو ختم کر دینا چاہتے ہیں، تو درست اور قدرتی اصول کے مطابق فنا سے کام لیا کریں، اور اپنی ہستی کی ظلمتوں کو نورِ معرفت کے ذریعے سے دور کر دیں، تاکہ جو انا ازلی و ابدی طور پر قائم و دائم ہے اسی میں عقل و شعور منتقل ہو جائے۔

 

حقیقتِ کل نور کا سورج ہے، جس سے ہماری دائمی انا کی کرن ہرگز ہرگز الگ نہیں ہو سکتی ہے، لہٰذا اصل میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری حقیقی خودی یا کہ انائے عُلوی جسم میں آئی ہے، مگر ہاں شخصیت کے آئینے میں اس کا جو عکس پڑ رہا ہے اور اس کی وجہ سے جس طرح ہماری انائے سفلی بنی ہے، اس کے اعتبار سے یہ کہنا درست ہے کہ ہم دنیا میں آئے ہیں، سو اگر وہ انا یہاں نہیں آ سکتی ہے تو یہ انا بھی وہاں نہیں جا سکتی ہے اور نہ ایسا ہونے کی ضرورت ہے کہ وہ آئے اور یہ جائے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں انائیں جس معنیٰ میں دو ہیں اسی

 

۵۱

 

معنی میں یہ ایک دوسرے کی نمائندگی کرتی ہیں اور اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ انا حقیقی طور پر یہاں نہیں آتی ہے مگر مجازی یا اعتباری طور پر۔

 

اس بیان کا خلاصۂ مطالب یہ ہے کہ نیک بندوں کا اصل سے واصل ہو جانا، فنا فی اللہ کا درجہ پانا، گنجِ مخفی حاصل کرنا اور خدا کے حضور لوٹ کر جانا برحق ہے، مگر ان تمام مثالوں کی حقیقت ایسی نہیں جیسا کہ عوام سمجھ رہے ہیں، بلکہ وہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی انائے علوی میں ہمیشہ اصل سے واصل رہا ہے، وہ کبھی اصل سے جدا نہیں ہوا، وہ ازل سے فنا فی اللہ و بقا باللہ جیسے درجے میں ہے، اس لئے کہ وہ اللہ کا بھید ہے اور اللہ اس کا بھید ہے اور اس لئے کہ وہ خود گنجِ مخفی ہے۔

 

۵۲

 

بھیدوں کا خزانہ

 

رباعی

 

گنجینۂ اسرارِ الٰہی مائیم

بحرِ گہرِ نا متناہی مائیم

بگرفتہ ز ماہ تا بماہی مائیم

بہ نشستہ بہ تختِ پادشاہی مائیم

 

ترجمہ: ہم ہی خداوندِ عالم کے بھیدوں کا خزانہ ہیں، ہم ہی موتیوں کا بے پایان سمندر ہیں، ہم ہی نے آسمان و زمین کو مسخر کر لیا ہے، (اور) ہم ہی دائمی سلطنت کے تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

 

تشریح: سب سے پہلے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ “مائیم = ہم ہیں” سے مولای روم کیا مراد لینا چاہتے ہیں؟ آیا اس کا مطلب صرف رومی ہی ہیں؟ یا اس میں سب انسانوں کا ذکر ہے؟ کیا اس میں پیر و مرشد اور انسانِ کامل کی عظمت و بزرگی کی ترجمانی بھی ہے؟ یا اس میں صرف دوسرے درجے کے انسانوں کا تذکرہ ہے؟ اس کا جواب ذیل کی تفصیل میں موجود ہے:

 

مولای رومی کی اس حکمت آگین رباعی کے دو معنوی پہلو ہیں، ایک

 

۵۳

 

تو یہ ہے کہ اس میں ساری موجودات و مخلوقات سے بنی نوع انسان کے اشرف و اعلیٰ ہونے کا ذکر ہے، اور دوسرا یہ کہ عالمِ انسانیّت میں انسانِ کامل کے سب سے مخصوص، ممتاز اور اشرف ہونے کا بیان ہے، چنانچہ جہاں تک انسانِ کامل کی افضلیّت کا تعلق ہے، اس کی ترجمانی کرتے ہوئے مولای روم گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آفاق و انفس کے ظاہر و باطن میں کامل انسان کو اللہ تعالیٰ کی خلافت و نیابت عطا ہوئی ہے، اور وہ اسی معنیٰ میں خدا کے بھیدوں کا خزانہ ہے، جیسے حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: انسان میرا بھید ہے اور میں اس کا بھید ہوں۔

 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ارشاد کے بموجب ساری انسانیّت کو خدائے علیم و حکیم کے علم و حکمت کے اسرار کا خزانہ ہونے کا شرف حاصل ہے، لیکن جن آدمیوں پر یہ بھید ہمیشہ کے لئے بھید ہی رہے اور وہ کسی وقت بھی منکشف نہ ہو جائے تو اس سے اُن کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے، یہ تو ان کی ناکامی اور نامرادی ہے، لہٰذا ہم یہ کیوں نہ مانیں کہ خدا کا سرِ عظیم (بڑا بھید) سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر نبی اور ولی ہیں اور انسانِ کامل کا اعلیٰ نمونہ بھی یہی حضرات ہیں، ہاں یقیناً انہی کی رہنمائی و پیروی میں کوئی خوش نصیب انسان منازلِ معرفت کو طے کر سکتا ہے اور عملی طور پر سرِ الٰہی ہونے کا درجۂ عالی حاصل کر سکتا ہے۔

 

خدائی بھیدوں کا یہ خزانہ کون سا ہے؟ وہی تو نہیں جن کو “گنجِ مخفی”

 

۵۴

 

کہا جاتا ہے؟ یا یہ کوئی اور گنجینہ ہے؟ اس کا جواب بھی مولای رومی خود ہی دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے کلیات میں فرمایا ہے کہ:

 

گنجِ نہانی طلب از دل و از جان خویش

تا نہ شوی بے نوا بر درِ دوکانِ خویش

 

ترجمہ: اپنے دل اور جان یعنی روح سے “گنجِ مخفی” کو حاصل کر، تاکہ تو اپنی دوکان کے دروازے پر سوالی نہ بن جائے، یعنی ایسا نہ ہو جیسے تیری دوکان میں تو سب کچھ موجود ہے اور اس میں دولت و نعمت کی کوئی کمی نہیں مگر تجھ سے دکان کا دروازہ کھولا نہیں جاتا کہ تو نے اس کی چابی گما دی ہے، اس لئے تو اس کے دروازے کے سامنے سائل بن کر بیٹھا ہے۔

 

موتیوں کے بے پایان سمندر سے کیا چیز مراد ہو سکتی ہے؟ آیا اس کا مطلب روحِ اعظم ہے، یعنی نفسِ کلّی؟ اگر ایسا ہے تو پھر کیا موتیوں کا اشارہ نفوسِ خلائق کی طرف ہے، جو نفسِ کلّ کے سمندر سے پیدا ہوتے ہیں؟ بہرکیف اس رباعی میں روحانیّت کی بلندیوں کی باتیں کی گئی ہیں، اور اس میں بحیثیتِ مجموعی انسان کی عظمت و بزرگی کے بھیدوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

 

تیسرے مصرع میں انسان کے لئے کائنات کے مسخر ہونے کا ذکر ہے، جس کے بارے میں قرآنِ مجید کا ارشاد ہے کہ: اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے (۴۵: ۱۳)۔

 

۵۵

 

حق بات تو یہ ہے کہ انسان کی “انائے علوی” انتہائی بلندی پر ہے، وہ اُس عالم میں ہے جو مکانی اور زمانی کیفیت سے برتر ہے، جس کو لامکان اور لازمان کہا جاتا ہے، وہ عالمِ روحانی اور بہشت ہے، وہ خود تو مادّی جگہ نہیں مگر ہر جگہ ہے، وہ دنیاوی قسم کا زمانہ نہیں مگر اس میں تمام زمانے مل کر ہیں، یعنی وہاں ماضی و مستقبل نہیں بس حال ہی حال ہے جس کو دہر کہتے ہیں، جہاں ازل اور ابد باہم ملے ہوئے ہیں، چنانچہ جب کوئی کامل انسان اپنی ذات کی معرفت کے درجۂ کمال پر پہنچتا ہے تو وہ اپنی حقیقی انا کی بلندی کو دیکھ لیتا ہے، وہ گویا خدا کے نور کی روشنی میں روحوں کی اُس وحدت کو دیکھتا ہے جس میں سب انسان نفسِ واحدہ کی حیثیت سے ایک ہیں جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:

 

تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد) جِلا اٹھانا ایک جان کی طرح ہے (۳۱:۲۸) اس کا اشارہ یہ ہے کہ انسانیّت ازل میں ایک تھی اور ابد میں بھی یہ ایک ہو جانے والی ہے، مگر جیسا کہ بتایا گیا اگر حقیقت کے سامنے سے پردہ اٹھا لیا جائے تو اب بھی کوئی مردِ کامل یہ دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح سب انسان ایک اعلیٰ مقام پر ہمیشہ سے ایک ہیں اور وہ کس طرح عالمگیر روح یعنی نفسِ کلّی کی صورت میں کائنات پر محیط ہیں۔

 

آخری مصرع میں انسان کی روحانی سلطنت کا ذکر کیا گیا ہے، کہ

 

۵۶

 

حضراتِ عارفین دیدۂ باطن سے یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ خود دائمی اور لازوال سلطنت کے تخت پر ہیں، اور یہ ایک قابلِ فہم حقیقت ہے کہ انسان کی روح کلّی طور پر دنیا میں نہیں آئی ہے کیونکہ وہ ایک مادّی چیز کی طرح محدود اور مرکب نہیں ہے وہ تو بسیط اور غیر مرکب ہے، وہ دنیا میں جسم اور شخصیّت کے اعتبار سے سورج کے عکس کی طرح آئی ہے، اور کسی چیز کے سائے کی طرح آئی ہے، لہٰذا عظیم صوفی کا کہنا صحیح ہے کہ انسان کی روحِ بسیط و محیط کلّی طور پر دنیا میں کیسے آ سکتی تھی، وہ تو انائے عُلوی کے اعتبار سے روحانی بادشاہت کے تخت پر متمکن ہے۔

 

۵۷

 

دل اور عشق

 

رباعی

 

شمعی است دل مراد افروختنی

چاکیست ز ہجرِ دوست بر دوختنی

ای بی خبر از ساختن و سوختنی

عشق آمدنی بود نہ آموختنی

 

ترجمہ: (پہلی مثال میں) دل ایک موم بتی کی طرح ہے جس کا مقصد جلانا اور روشن کر دینا ہے (دوسری مثال میں) دل ایک ایسا چاک (یعنی چیر اور زخم) ہے جسے دوست کی جدائی ہی سے سی لیا جاسکتا ہے، اے وہ شخص جو (آتشِ عشق میں) جلنے اور صبر و سازگاری کرنے (کی حکمت) سے بے خبر ہے، عشق ایک عطائی چیز ہے وہ اکتسابی شیٔ نہیں۔

 

تشریح: مولوی معنوی صاحب کا ارشاد ہے کہ انسانی دل و دماغ کی فطری حالت بہت ہی عجیب و غریب ہے، چنانچہ آدمی کا دل گویا ایک موم بتی ہے، اور اس کے یوں ہونے کا مقصد یہ ہے کہ اس کو ہمیشہ فروزان اور روشن کر کے رکھا جائے، تاکہ اس سے حقیقی عشق کا شعلہ بلند ہوتا رہے، کہ اس سے عاشقِ صادق کا باطن منور اور تابان ہو، اگر موم بتی کا یہ مقصد

 

۵۸

 

فوت ہو جائے اور اُس سے روشنی حاصل نہ کی جائے تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔

 

آپ فرماتے ہیں کہ عاشق کی صلاح و فلاح دراصل وصالِ یار میں نہیں بلکہ ہجر و فراق میں ہے، کیونکہ اسی سے اس کو آتشِ عشق میں جلتے رہنے اور صبر و سازگاری کے نتیجے میں اپنی خودی کو نور بنانے کا موقع فراہم ہوتا ہے، اور اسی سے عشقِ حقیقی کے ظہور کی صورت بنتی ہے۔

 

اُن کا کہنا ہے کہ حصولِ مقصد کی راہ میں جتنی تکالیف سامنے آتی ہیں اُن میں بندۂ مومن کے لئے عمدہ مصلحت اور بڑی حکمت ہے، کہ خلوص و محبت سے ایسی مسلسل مشقتوں کو برداشت کرنے کی صورت میں طرح طرح کی قربانیاں پیش ہوتی ہیں، اور ایسی عملی عبادت و ریاضت کے انجام پر اور ان قربانیوں کے نتیجے میں حقیقی عشق کا عطیہ ملتا ہے، کیونکہ وہ کسب و ہنر کی طرح سیکھنے کی چیز نہیں کہ اس کو اکتسابی سمجھ لیا جائے، بلکہ وہ قدرتی اور عطائی ہے۔

 

اس رباعی میں شمع کی مثال دے کرکیا خوب تصور پیش کیا گیا ہے کہ ایک دین شناس انسان رہنمائے راہِ حق کی ہدایت کے مطابق اپنے دل کو جس سے روح مراد ہے، منور اور روشن کر سکتا ہے، اور جو حضرات اس اعلیٰ مقام پر پہنچ گئے ہیں وہ مرتبۂ انسانِ کامل میں فنا ہو چکے ہیں اور فنا

 

۵۹

 

ہو جانے کے معنی بھی یہی ہیں کہ طالبِ حقیقت کی تاریک ہستی روشنی میں بدل جاتی ہے۔

 

۶۰

 

معشوق کی ملامت

 

رباعی

 

گفتم صنمی شدی کہ جان را وطنی

گفتا کہ حدیثِ جان مکن گر زمنی

گفتم کہ بہ تیغِ حجتم چند زنی

گفتا کہ ہنوز عاشقِ خویشتنی

 

ترجمہ: میں نے کہا کہ تو مجھے ایک ایسا محبوب ملا ہے جو کہ میری جان کے لئے جائے قرار ہے، اُس نے کہا کہ اگر تو میرا بن چکا ہے تو اپنی جان کی بات ہی نہ کر، میں نے کہا کہ تو مجھے (اس طرح ہر بات میں) کب تک دلیل کی تلوار سے مارتا رہے گا؟ اُس نے کہا کیونکہ ابھی تک تو اپنا ہی عاشق ہے۔

 

تشریح: حقیقی عشق کا قانون اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ معشوق کی تعریف و توصیف کے دوران ہمیشہ انائیت، خودی اور خودنمائی سے قطعاً گریز اختیار کیا جائے، ورنہ عاشق منزلِ فنا اور وصلِ نورانیّت سے دور رہے گا، اور اگر ترکِ خودی میں بار بار کی ناکامی ہوتی رہتی ہے،

 

۶۱

 

تو پھر محبوب کی تند و تیز ملامتوں کو خوشی خوشی برداشت کیا جائے، یہ ملامتیں مختلف صورتوں میں ہوسکتی ہیں، مثلاً معشوق کے قول و فعل کے سخت رویہ کے علاوہ اپنے طور پر اندر ہی اندر سے روحانی تلخیوں کا احساس ہو جانا اور طرح طرح کی قدرتی مشکلات کا پیش آنا۔

 

۶۲

 

جان و جانان

 

رباعی

 

گفتم صنما مگر تو جانانِ منی

اکنون کہ ہمی نظر کنم جانِ منی

مرتد گردم گر ز تو من برگردم

ای جانِ جہان تو کفر و ایمانِ منی

 

ترجمہ: میں نے کہا کہ اے بُت (یعنی محبوب) شاید تو میرا معشوق ہے، اب جو دیکھ رہا ہوں (تو ایسا لگتا ہے کہ) تو میری اپنی ہی جان ہے، اگر میں تجھ سے برگشتہ ہوا تو مرتد ہوجاؤں، اے ساری کائنات کی جان! تو ہی بس میرا کفر ہے اور تو ہی میرا ایمان (یعنی تو ہی میرا سب کچھ ہے)۔

 

تشریح: اگر یقین کیا جائے کہ نظریۂ “یک حقیقت” مونوریالزم درست اور صحیح ہے تو نتیجے کے طور پر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اصل میں جان اور جانان ایک ہی ذات اور ایک ہی حقیقت ہے، ہر چند کہ شروع شروع میں اس وحدت کے ظاہر میں دوئی اور کثرت نظر آتی ہے، لیکن کمالِ معرفت کے بعد دیکھا جائے تو یقینِ کامل حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ خود سب کچھ ہے اور دوسرا کوئی نہیں، کیونکہ کثرت و دوئی کا ہر

 

۶۳

 

تصوّر ہنگامی، وقتی، اعتباری اور مجازی قسم کا ہوا کرتا ہے، اور آخرکار ایسے تمام تصوّرات ختم ہو کر وحدت ہی وحدت رہ جاتی ہے، کیونکہ ازل میں جو حقیقتِ حال تھی، وہی ابد میں بھی ہوتی ہے، اس سلسلے میں قرآن مقدّس کے متعدد مقامات پر بہت سے لطیف و بلیغ اشارے موجود ہیں، جیسا کہ حقیقتِ انسانی کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جانے کا ذکر آیا ہے (۰۲: ۱۵۶) اور انسان کی ایسی انا جو خدا کی وحدت کی طرف رجوع کر سکے صرف اور صرف وحدت ہی ہے جو فنائے مطلق سے حاصل آتی ہے۔

 

۶۴

 

آئینۂ حق نما

 

رباعی

 

ای نسخۂ نامۂ الٰہی کہ توی

وی آئینۂ جمالِ شاہی کہ توی

بیرون ز تو نیست ہر چہ در عالم ہست

در خود بطلب ہر آنچہ خواہی کہ توی

 

ترجمہ: اے کتابِ الٰہی کا نسخہ! (یعنی خدائی کتاب کی اصل) کہ یہ تو خود ہی ہے، اور اے حقیقی بادشاہ کے جلال و جمال کا آئینہ! کہ یہ تو خود ہی ہے، کائنات میں جو کچھ ہے وہ (اپنی باطنی اور روحانی صورت میں) تجھ سے باہر نہیں (پس) تو جو کچھ چاہتا ہے وہ اپنے باطن (یعنی اپنی ذات) ہی میں طلب کر لے (کیونکہ سب کچھ) تو خود ہی ہے۔

 

تشریح: انسان کی ازلی و ابدی حقیقت کیا ہے؟ اس کے روحانی اور عقلی مراتب کی بلندی کہاں تک ہے؟ اور صفاتِ انسانیہ کا درجۂ کمال کیا ہے؟ یہ سب کچھ جاننے کے لئے انسانِ کامل کی معرفت و شناخت لازمی قرار دی گئی ہے، کیونکہ وہی مکمل فرد انسانیّت کے درجۂ منتہا کا نمونہ ہے اور وہی شخصیّت آدمیّت کے اُس اعلیٰ ترین مقام پر کھڑا

 

۶۵

 

ہے جو بشریت کے عروج و ارتقاء کا آخری زینہ ہے، چنانچہ انسان ایسے ہی مرتبے پر پہنچ کر کتابِ مبین یعنی بولنے والی کتاب کا مرتبہ حاصل کر سکتا ہے، وہ یقیناً ربِّ عزّت کے جمال و جلال کا آئینہ بن جاتا ہے، اور فعلاً عالمِ صغیر کی صورت اختیار کر لیتا ہے، جس کی بہترین عکاسی مولای رومی کی مذکورہ رباعی میں موجود ہے، اُس وقت ایسے روشن ضمیر مومن میں کیا کیا نہیں ہوتا، سب کچھ ہوتا ہے سب کچھ، وہ اپنے آپ میں کلّی بہشت بن چکا ہوتا ہے اور بہشت میں تمام نعمتیں موجود اور مہیا ہوتی ہیں۔

 

اس سلسلے میں قرآنِ حکیم کا ایک انتہائی لطیف اشارہ یاد آ رہا ہے اور وہ یہ ہے جو خداوند تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ: (یہ) وہ دن ہوگا جب ہم آسمان (کی وسعتوں) کو اس طرح لپیٹیں گے جس طرح کتابیں لکھنے کے لئے روشنائی کا خشک مادّہ لپٹا ہوا ہوتا ہے، جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا (اسی طرح) دوبارہ پیدا کریں گے (۲۱: ۱۰۴)۔

 

اس ارشادِ ربّانی کا واضح مفہوم یہ ہے کہ خداوندِ عالم اپنی قدرتِ کاملہ سے اس وسیع و عظیم کائنات کو ملفوف و محدود کر کے گوہرِ عقل کی صورت میں تبدیل کر لے گا، جس طرح کہ قبلاً یہ کائنات اسی موتی سے بنائی گئی تھی، مگر اس کے معنی صرف یہی نہیں کہ اجتماعی قیامت کے دن کائنات کی یہ حالت ہوگی، بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسانیّت کی روح اس

 

۶۶

 

وقت بھی خود وہ گوہر ہے جو اس کائنات کو نچوڑ کر بنایا گیا ہے، جس میں بصورتِ جوہر دونوں جہان کی ہر چیز سما گئی ہے، اور ان عظیم حقیقتوں کا مشاہدہ صرف نورِ معرفت ہی کی روشنی میں ممکن ہے، اور اس امرِ واقعی کی ایک ظاہری مثال یہ ہے کہ عالم اپنے تمام اجزاء کے ساتھ ایک حیرت انگیز عظیم درخت ہے اور انسان اس کا پھل ہے، اور پھل وہ ہے جو پورے درخت کو اپنے اندر سما لیتا ہے، یہ حقیقت اس وقت واضح اور روشن ہو جاتی ہے جبکہ پھل کی گٹھلی سے ایک عظیم درخت پیدا ہو جاتا ہے۔

 

۶۷

 

انائے علوی عرش پر

 

رباعی

 

اندر رہِ حق چو چست و چالاک شوی

نورِ فلکی باز بر افلاک شوی

عرش است نشیمنِ تو شرمت ناید

چون سایہ مقیمِ خطۂ خاک شوی

 

ترجمہ: جب تو خدا (کی فرمانبردای) کی راہ میں چست اور ہوشیار ہو جائے، تب ہی تو آسمان پر چڑھ سکے گا، کیونکہ تو آسمانی نور ہے، تیرا محلِ سکونت عرشِ اعلیٰ ہے، کیا تجھے شرم محسوس نہیں ہوتی، کہ تو سائے کی طرح خطۂ زمین پر پڑا رہتا ہے۔

 

تشریح: قرآنِ عزیز (۲۹: ۶۹  یعنی سورۂ عنکبوت کی آخری آیت) کے ارشادِ اقدس کے بموجب احکامِ خداوندی کی اطاعت اور مجاہدہ و ریاضت ہی کے نتیجے میں بندۂ مومن کو صلاح و فلاح اور نورانیّت کا راستہ مل جاتا ہے، خدا کی راہ میں چست اور ہوشیار ہونے کا مطلب یہی ہے، چنانچہ حصولِ کمال کے بعد آسمان اور عرشِ عظیم کی طرف انسان کے رجوع کر جانے کا ذکر بھی قرآنِ حکیم کی آیتِ استرجاع (۰۲: ۱۵۶) اور سورۂ اعراف

 

۶۸

 

کی آیت ۴۰ (یعنی ۰۷: ۴۰) میں موجود ہے، صرف یہی نہیں بلکہ قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں اس حقیقت کا واضح بیان آیا ہے۔

 

انسان جوں جوں اللہ تعالیٰ کے امر و فرمان کی بجا آوری کرتا ہے توں توں خدا کی خوشنودی اور نزدیکی کے مراحل طے ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ایک دن اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں اس کے نفسِ مطمئنہ سے رب العزت یوں خطاب فرماتا ہے کہ:

 

اے اطمینان پانے والی جان! تو اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر (درحالیکہ) تو اُس سے خوش اور وہ تجھ سے راضی ہے (اب) تو میرے خاص بندوں میں شامل ہو جا اور میرے بہشت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰)

 

۶۹

 

روحانی طبیب

 

رباعی

 

رفتم بطبیب گفتم از بینائی

افتادۂ عشق را چہ می فرمائی

ترکِ صفت و محوِ وجودم فرمود

یعنی کہ ز ہر چہ ہست بیرون آئی

 

ترجمہ: میں نے طبیبِ عشق کے پاس جا کر پوچھا کہ آپ اپنی بصیرت و دانائی سے عشق کے اس مریض کے لئے کیا تجویز فرماتے ہیں؟ انہوں نے مجھے اپنی تمام صفات کو چھوڑ دینے اور اپنی ہستی کو یکسر مٹا دینے کے لیے فرمایا، یعنی (فرمایا) کہ تیرا جو کچھ بھی ہے اُس کی (قیدِ تعلق) سے قطعاً آزاد ہو جا۔

 

تشریح: یہاں طبیب یا طبیبِ عشق سے روحانی طبیب مراد ہے اور وہ مرشدِ کامل ہے، جس سے مخلص اور کامیاب مرید محبت و دوستی کرتا ہے، مریضِ عشق (افتادۂ عشق) کا اشارہ نامراد مرید کی طرف ہے، جس کے چارۂ کار کے بارے میں پوچھنے پر جواب ملتا ہے کہ اپنی تمام صفات، جو کچھ بھی ہیں، چھوڑ دی جائیں، اور اپنی ہستی کو مٹا دیا جائے،

 

۷۰

 

یعنی محویّت و فنائیّت کے بغیر روحانی ترقی ناممکن ہے۔

 

مولوی معنوی کی اس تعلیم کا مرکز بھی دوسری تمام تعلیمات کی طرح فنا فی اللہ و بقا باللہ کا تصوّر ہی ہے، جس کے برحق ہونے کی بہت سی شہادتیں قرآنِ مقدّس اور آفاق و انفس سے مل سکتی ہیں، جیسے کلامِ پاک کا ارشادِ گرامی ہے کہ:

 

اور تم ہمارے پاس تنہا تنہا آ گئے جس طرح ہم نے اوّل بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے (۰۶: ۹۴) اس آیۂ کریمہ کی حکمت یہ ہے کہ انسان کے ظاہری اور باطنی عروج و ارتقا کے لئے بس یہی قانون ہے کہ وہ اپنی موجودہ حالت سے چھٹکارا نہیں پا سکتا جب تک کہ اپنے اوپر کے درجے میں فنا نہ ہو جائے، جیسے وہ پہلے جمادات کے درجے سے نباتات میں فنا ہوا تھا، وہاں سے حیوانات کے درجے میں فنا ہوا اور پھر وہ انسان میں فنا ہوکر انسان بنا، اور اب بھی اسی طرح اس کو ایک فنا کے بعد دوسری فنا اختیار کرتے ہوئے چند عظیم فرشتوں کے درجات سے اوپر جانا ہے، یہاں تک کہ وہ ہر چیز کو اپنے پیچھے چھوڑ جائے، یعنی تمام بشری اور ملکی صفات سے خالی اور مجرّد ہو جائے تاکہ وہ کلمۂ “کن” میں فنا ہو سکے، جیسا کہ وہ پہلی بار جب “کن” یعنی امر میں تھا تو وہ کسی چیز کے بغیر تھا۔

 

۷۱

 

قرآنِ پاک کے مختلف مقامات پر انسان کے اس حال کا ذکر آیا ہے کہ وہ ازل میں عالمِ نیستی کے اندر پایا جاتا تھا مگر کسی چیز کے بغیر، کیونکہ اس کا نہ تو کوئی نام تھا اور نہ ہی کوئی نشان، جیسے ارشاد ہوا ہے کہ:

 

کیا انسان پر دہر میں سے وہ وقت (دوبارہ) آیا ہے (جس میں) کہ وہ کوئی چیز قابلِ ذکر نہ تھا؟ (۷۶: ۰۱) یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ انسان پر وہ پہلا وقت دوبارہ آنے والا ہے جس میں کہ یہ کسی نام و نشان کے بغیر تھا، جس سے انسان کی وہ حقیقت مراد ہے جو بے مثال اور بیان سے باہر ہے جس کی تعریف و توصیف انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے، کیونکہ یہ انسان کا وہ بلند ترین مرتبہ ہے، جس میں کہ وہ ہمیشہ سے “فنا فی اللہ” ہے۔

 

اگر فنا فی اللہ کا مرتبہ برحق ہے تو خواہ الفاظ کچھ بھی ہوں لیکن یہ مرتبہ ازل میں بھی ہونا چاہئے اور اگر مانا جائے کہ ازل میں انسان کو یہ درجہ حاصل تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بے مثال صفت میں رہتا تھا، اور اسی وجہ سے اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا، تو پھر نتیجے کے طور پر ماننا پڑے گا کہ انسان کی سب سے اونچی حقیقت یعنی انائے عُلوی اب بھی ایسی ہی ہے، کیونکہ لازم نہیں آتا ہے کہ خدا کی رحمت سے کوئی حقیقت ہمیشہ کے لئے گِر جائے اور محروم ہو جائے، اور حقیقت سے یہاں میری مراد انسان کی

 

۷۲

 

اصل خودی ہے۔

 

یہی وجہ ہے کہ اس رباعی میں ترکِ صفت، محوِ وجود اور ہستی سے باہر نکل جانے کا تصوّر پیش کیا گیا ہے، تاکہ ان تمام چیزوں کے سامنے سے ہٹ جانے سے انسان اپنے آپ کو پہچان سکے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔

 

۷۳