گلہائے بہشت
آغازِ کتاب
۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللّٰھم صل علی محمد و اٰل محمد۔ یا اللہ! اپنے خزانۂ غیب کے اُن عالیقدر بھیدوں کی حرمت سے، جو درود سے متعلق محفوظ ہیں، اس بندۂ مسکین و محتاج کی دستگیری اور مدد فرما! خداوندا! یہ غلامِ کمترین بے حد عاجزی و حاجت مندی سے مناجات کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن تیری رحمت کے بغیر زبان کی گرہ کھل نہیں سکتی، پروردگارا! ابرِ کرم، ابرِ کرم، کہ اس غریب کے دل کا بوستان سوکھ رہا ہے، اے دانا و بینا! تیرے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں کہ درویشوں کی اصل زندگی گریہ و زاری میں پوشیدہ ہے، ورنہ وہ پتھر کی طرح بے جان چیزوں میں شمار ہو جاتے ہیں۔
۲۔ اما بعد الحمد للہ، یہ ایک کتاب پیشِ خدمت ہے، جو چند مقالوں سے مرتب ہوئی ہے، میرا خیال ہے کہ ہر
۴
مقالہ بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، اس کی وجہ مختلف ذرائع سے آپ خود معلوم کریں، تو زیادہ سود مند ثابت ہوگا، علم سے متعلق کھری اور کھوٹی باتوں کو جانچنے کے لئے آپ کے پاس کوئی کسوٹی ہونی چاہئے، گو کہ یہ کسوٹی شروع شروع میں بہت معمولی سی ہوگی، لیکن علم میں ترقی ہونے سے خود بخود اس کی بھی ترقی ہوگی، اور اگر خدا کے فضل و کرم سے دروازۂ روحانیّت کھل گیا، اور خاطر خواہ پیش رفت ہوئی تو پھر ایک فیصلہ کُنۡ معجزہ (فرقان، ۰۸: ۲۹) مقرر ہوگا۔
۳۔ اس کتاب کا نام خصوصی غور و فکر کے نتیجے میں “گل ہائے بہشت” مقرر ہوا، جس کی چند وجوہ ہیں، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ میں بہت سے دوسرے انسانوں کی طرح پھولوں کا شیدائی ہوں، دوسری وجہ: اس کتاب میں کئی مرتبہ پھولوں کا تذکرہ ہوا ہے، تیسری وجہ: دنیا میں سب سے خوبصورت شے گل ہے، جو باغِ بہشت کے حسن و جمال کی ایک چھوٹی سی مثال ہے، چوتھی وجہ: روحانیّت میں دیگر تمام لطیف چیزوں کے ساتھ ساتھ پھول بھی ظہورپذیر ہو جاتے ہیں، پانچویں وجہ: جنت میں جو تجلّیات ہیں، ان میں پھولوں کی بھی تجلی ہے (۴۳: ۷۱)، چھٹی وجہ: گل ہائے علم کے رس سے
۵
حکمت کا شہد تیار ہوتا ہے، اور ساتویں وجہ یہ ہے کہ میری ایک بہت پسندیدہ کتاب ’’بہشتے اسقرک‘‘ (جنت کے پھول) بھی ہے، جس کی مناسبت ملحوظِ خاطر رہی۔
۴۔ اس کتاب کی جمع آوری میں اکثر و بیشتر علمی مضامین کو ترجیح دی گئی ہے، تاہم کچھ کچھ تاریخی جھلکیاں بھی ہیں، یعنی بعض ایسے اشخاص کا ذرا سا تذکرہ، جو میرے ساتھ مل کر علمی خدمت انجام دے رہے ہیں، تا کہ آنے والی نسل پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ یہاں جو کچھ علم کا کام ہوا ہے، اسے ادارے کی شکل میں کیا گیا ہے۔
۵۔ اگر ہم قلمی طور پر ان تمام حضرات کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں جو علمی خدمت کرتے آئے ہیں، تو حال اور مستقبل میں کتنی اچھی بات ہوتی، یقیناً یہ صاحبان اپنے کارنامۂ عظیم سے مسرور و شادمان ہو جاتے، اور ان کی آئندہ نسلیں بھی علم سے وابستگی کو اپنے لئے فخر سمجھتیں، اور اسی طرح یہ علم و حکمت کی ایک عملی اور دائمی دعوت قرار پاتی، خدا کرے کہ اگر زیادہ نہیں تو ذرا سا یہ نیک کام ہم سے انجام پائے! تاکہ دل کو تسکین ہو کہ ہماری نیّت تو صاف تھی، مگر کام حسبِ دلخواہ نہ ہو سکا۔
۶
۶۔ اگر آپ اسمِ “اللہ” کے بارے میں کوئی رازِ معرفت جانتے ہیں، تو یہ راز نہ صرف قرآنِ حکیم کے ۹۸۰ مقامات پر کلیدی کام کرے گا، بلکہ اس سے ہر آیت کی حکمت کا دروازہ کھل جائے گا، کیونکہ لفظِ اللہ اگرچہ خود اسمِ ذات نہیں ہے، لیکن اسمِ ذات کے طور پر آیا ہے، اور باقی جتنے اسماء ہیں، وہ اس نام کی نمائندگی کرتے ہیں، چنانچہ آپ جو بھید خدا کے اس پاک نام میں جانتے ہیں وہ ہر آیت اور ہر اسم میں پوشیدہ ہے، جبکہ آیت کسی ایک اسم کی یا دو اسموں کی تفسیر ہوا کرتی ہے۔
۷۔ آپ قرآنِ پاک (۰۷: ۱۸۰) میں اسماءُ الحسنیٰ کا حکم دیکھ لیں، اللہ تعالیٰ کے یہ بزرگ نام آنحضرتؐ اور أئمّۂ طاہرینؑ ہی ہیں، اگر آپ کو کوئی حوالہ چاہئے، تو نوٹ کر لیں: کتابِ کوکبِ دری: ص ۶۷۔۷۴، ص۲۲۶، کتابِ وجہ دین: گفتار (کلام) نمبر :۱۴، نیز دیوانِ ناصر خسرو ق س کے یہ دو شعر
بر جانِ من چو نورِ امامِ زمان بتافت
لیل السرار بودم و شمس الضحیٰ شدم
نامِ بزرگ امامِ زمانست ازین قبل
من از زمین چو زہرہ بدو بر سما شدم
۷
ترجمہ: جب میری جان پر امامِ زمانؑ کا نور طلوع ہوا، تو میں جو اندھیری رات تھا روزِ روشن بن گیا، پس اسی وجہ سے امامِ زمان (حق تعالیٰ کا) اسمِ اعظم ہیں، میں تو انہی کی بدولت زہرہ کی طرح (پرواز کر کے) آسمان پر جا پہنچا۔
۸۔ ہدایت نامۂ سماوی کا ایک خاص نام “قرآنِ حکیم” ہے، اس لئے اس کی حکمتوں کو سمجھنا چاہئے، آپ اپنے قلب میں قرآنی علم و حکمت کے لئے عشق پیدا کریں، یہاں ایسا عشق خدا و رسول اور امام کی خاطر ہوگا کہ آپ قرآن اور نورِ امامت کی رہنمائی میں فنا اور ابدی نجات چاہتے ہیں، یعنی فنا فی الامام، فنا فی الرّسول، اور فنا فی اللہ و بقا باللہ۔
۹۔ آج آپ کے سامنے ایک جدید ترین حکمت پیش کی جاتی ہے، مگر وہ خود ہے قدیم ترین، وہ یہ ہے کہ بہشت میں وہی لوگ بادشاہ ہوں گے، جن کو فنا فی اللہ و بقا با للہ کا مرتبہ حاصل ہو چکا ہو، مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مومن سالک امامؑ کے توسط سے واصل باللہ ہو جائے، اور امامِ عالی مقام اس درجے کو نہ پائے، اس سے ظاہر ہوا کہ نورِ امامت میں سب کچھ ہے، آپ سورۂ ہل اتیٰ (۷۶: ۰۱ تا ۳۱) کو غور سے پڑھیں، جو امام کے بارے میں ہے، اور ان سب کے بارے
۸
میں بھی، جو مرتبۂ فنا کو حاصل کرتے ہیں، دیکھئے بہشت کی بہت بڑی سلطنت کا تذکرہ (۷۶: ۲۰) اور یہاں یہ سوال ہوگا کہ حضرت سلیمانؑ (جو امام تھے) نے یہ دعا کیوں کی کہ: اے میرے ربّ مجھے معاف کر اور مجھ کو ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو (۳۸: ۳۵)؟ جواب سن لیں کہ اس کی حکمت کی کلید لفظِ “بَعْدِیْ” میں پوشیدہ ہے، وہ اس طرح کہ بعد کے اصل معنی ہیں بعید (دور) یعنی عرض کی کہ اہلِ زمانہ میں سے جس کو یہ بادشاہی مل سکتی ہو، وہ مجھ میں فنا ہو کر میرے ساتھ ایک ہو جائے، تب ہی وحدت میں وہ بادشاہ ہو، مگر دوری اور دوئی میں نہیں۔
۱۰۔ خدا نے آلِ ابراہیم (آلِ محمدؐ کے أئمّۂ طاہرین) کو بہت بڑی سلطنت دی ہے، (۰۴: ۵۴) یہی بہشت کی بادشاہی ہے (۷۶: ۲۰) اور جو لوگ خدا و رسول اور اولوالامر کی اطاعت کے سلسلے میں امامِ زمانؑ میں فنا ہو جاتے ہیں، تو وہ بھی سلاطین ہوں گے، جیسا کہ مومنینِ موسیٰؑ کے بارے میں ارشاد ہوا۔۔۔ و جعلکم ملوکا (اور اس نے تم کو بادشاہ بنایا ، ۰۵: ۲۰) یقیناً وہ لوگ امامؑ میں فنا ہو کر پادشاہ ہو گئے تھے۔
۹
۱۱۔ عرفانی تحقیق کی روشنی میں معلوم ہوا ہے کہ انسان اپنی اصل سے الگ اور جدا ہو کر دنیا میں نہیں آیا ہے، بلکہ سورج کے عکس کی طرح یہاں آیا ہے، اور اس عظیم واقعہ پر فراموشی کا عجیب سا حجاب ہوگیا ہے، جس کو علم (معرفت) اور عمل سے اٹھایا جا سکتا ہے، شاید منصور کی نگاہِ حقیقت بین کے سامنے سے یہ پردہ ہٹ گیا ہو گا، یعنی سایۂ دوئی ختم ہوا، اور منصور نے نہیں، بلکہ حق نے کہا: ’’انا الحق۔۔۔
۱۲۔ مذکورہ حقائق و معارف کی تصدیق و توثیق کے لئے اس حدیثِ قدسی کو پیشِ نظر رکھیں، ترجمہ: اے ابنِ آدم! میری فرمانبرداری کر، تاکہ میں تجھ کو اپنی طرح کا زندہ اور اَمَر (غیر فانی) بناؤں گا، اور ایسا معزز بناؤں گا کہ تو کبھی ذلیل نہ ہوگا اور ایسا امیر بناؤں گا کہ تو کبھی مفلس و نادار نہ ہوگا (کتاب: المجالس المؤیدیہ، الماءۃ الاولیٰ، ص ۵۵) یہ ایک انتہائی عظیم راز ہے کہ روحِ انسانی کا بالائی سرا ہمیشہ اصل سے واصل ہے وہاں سے روح کبھی جدا ہی نہیں ہوئی، مگر دوسرا سرا سایۂ بدن میں یہاں آیا۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
کراچی، جمعہ ۵ ذوالحجہ، ۱۴۱۰ھ
۲۹ جون ۱۹۹۰ء
۱۰
پھول ہی پھول
پھول قدرت کا ایک پُرکشش شہکار ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس جاذبیّت و دلکشی کے پس منظر میں صناعِ ازل کے کچھ بھید پوشیدہ ہیں، اور ان بھیدوں میں سے ایک بات یہ بھی ہے، کہ ظاہری پھول باطنی پھولوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں، توجہ اس معنیٰ میں کہ باغ کے گل فانی ہیں، مگر روح کے گل غیر فانی۔
ویسے تو شمالی علاقہ جات میں موسمِ گرما کے آخر تک مختلف قسم کے پھول کھلتے رہتے ہیں، تاہم یہاں اصل موسمِ گل، بہار ہی میں ہے، جس میں سب سے پہلے درختِ بادام کے غنچے کھلتے ہیں، پھر خوبانی، سیب، آڑو وغیرہ کی کلیاں مسکراتی ہیں، کہیں کہیں گلِ انار بھی اپنی رنگینی سے آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے، گلِ سرخ کی بات کیجئے، جو پھولوں کا بادشاہ اور سرتاج ہے، جس کے رنگ و بو سے انسان کو بے حد مسرّت و شادمانی حاصل ہوتی ہے، خصوصاً کسی ایسے موقع پر
۱۱
جبکہ احباب و اعزہ اعترافِ خدمت، قدردانی اور شکر گزاری کے طور پر کسی کو ایسے پھولوں کا گلدستہ یا ہار پیش کرتے ہیں۔
خانۂ حکمت برانچ گلگت، تعمیراتی کمیٹی، بروشسکی ریسرچ کمیٹی، اوشی کھنداس اور نومل کے عزیزوں نے پھول ہی پھول کا ایک حسین ترین منظر پیش کیا، یعنی ظاہر میں بھی پھول نچھاور کر دیئے اور دلوں میں بھی حقیقی محبت و علم کے پھول کھل گئے تھے۔
میں نے کراچی، لنڈن، امریکا وغیرہ کے عزیزوں کو نہ صرف ہر اجلاس اور محفلِ ذکر میں شدت سے یاد کیا، بلکہ وہ اُس وقت بھی سختی سے یاد آگئے، جبکہ پھولوں کی بارش برسائی جاتی تھی اور جبکہ گلدستوں کی تقدیم کی جاتی تھی، کاش کراچی اور مغرب کے جملہ عزیزان میرے ساتھ زیرِ تعمیر دفتر کا معائنہ کرتے! وہ یقیناً خوشی سے پھولے نہ سماتے یہاں کے ہر عملدار اور ہر سرگرم رکن کی حسنِ کارکردگی کی داد دئے بغیر نہ رہتے۔
کاش میرے سب عزیزان اُس وقت میرے ساتھ ہوتے، جبکہ ہم صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبدالحکیم کے باغیچہ میں پھولوں کے درمیان باتیں کر رہے تھے، قربان علی خان
۱۲
کے دولت خانہ میں سب ساتھ ہوتے، جبکہ ہر طرح کا شاہانہ انتظام تھا! صوبیدار (ریٹائرڈ) یوسف علی کے ہال میں یکجا ہوتے، جبکہ محویت و فنائیت کا عالم تھا، علی گوہر کے مکان میں اکٹھے ہوتے، جبکہ علمی محفل خوب گرم ہو گئی تھی! اور بلبل جان کے مکان (نومل) میں ساتھ ہوتے، جہاں سوال و جواب اور خدا شناسی کی باتیں انتہائی بلندی پر پہنچ گئی تھیں! میرے خیال میں اُس بروشسکی کیسیٹ کا ترجمہ ضروری ہے، نہ معلوم اُس شب کیا ہوا تھا، کتنی روحیں حاضر تھیں! کن کن عاشقوں نے جادو جگایا! مجھے بلبل جان پر بھی گمان ہے وہ دریائے عاجزی میں ڈوبے ہوئے غیر معمولی کوشش کر رہے تھے۔
صوبیدار (ریٹائرڈ) علی داد کا ایک اعلیٰ سوال اِس خصوصی علمی گفتگو کا محرک تھا اور وہ :انتہائی مفید باتیں کچھ اس نوعیت کی تھیں
ا۔ خدا تعالیٰ یقیناً ایک ہے، مگر اس کے بہت سے نام ہیں، اسمائے صفاتی سو ہیں، لیکن ذاتِ خدا ایک ہی ہے، اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار ایک نام بھی ہیں اور بے شمار نام بھی ہیں اور اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو ایک خدا کا صرف ایک نام بھی ہے جو اسمِ اعظم ہے اور وہ امامِ زمانؑ ہے۔
۱۳
۲۔ خدا کے لئے کوئی حد نہیں کہ عقل اس کو اسی حد میں محدود کر سکے، وہ ہر حد اور ہر محدود سے برتر ہے، الفاظ میں یہ گنجائش کہاں کہ وہ خداوند تعالیٰ کی حقیقت کو کما حقہ بیان کر سکیں۔ حقیقتِ حقائق گویا ایک تراشا ہوا لعل ہے، جس کے بہت سے پہلو ہیں، ہر اعلیٰ مثال صرف ایک پہلو پر روشنی ڈال سکتی ہے اور باقی پہلوؤں کے لئے دوسری مثالیں چاہئیں۔
۳۔ پیر ناصر خسرو ق س نے “رسالۂ حکمتی” میں خدا شناسی کی بابت سب سے عمدہ اور آسان بات یہ بتائی ہے: “اگر پوچھا جائے کہ خدا کیا ہے؟ تو میں کہوں گا کہ خدا وہ ہے جو سب کچھ ہے” اگر ہم اس کلّیہ پر یقین رکھتے ہیں، تو اللہ کے بارے میں پیدا ہونے والے تمام سوالات تقریباً ختم ہو جاتے ہیں، کیونکہ “ہمہ اوست” (یعنی خدا سب کچھ ہے) میں حقائق کا ذکر ہے، چنانچہ اس کا مطلب ہے کہ ہر حقیقت خدا کا ایک جلوہ ہے۔
۴۔ سورۂ رحمان بفرمودۂ مولا علی صلوات اللہ علیہ قرآن کی دلہن ہے، جس میں قرآنِ حکیم کی ساری علمی خوبصورتی مرکوز کی گئی ہے، چنانچہ اسی سورہ میں ارشاد ہے: كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (۵۵: ۲۹) خدا ہر روز ایک (نئی شان) میں ہے۔ یوم
۱۴
کی تفسیر دن کے علاوہ دور بھی ہے، زمانہ بھی اور لمحہ بھی، چنانچہ ہر پیغمبر اور ہر امام اللہ پاک کی ایک شان ہوا کرتا ہے اور خدا کا ہر نام اس کی ایک شان ہے اس کا ہر جلوۂ روحانی ایک شان ہے اور اس کا ہر ظہور ایک شان ہے۔
۵۔ جب حقیقتِ حقائق کے مختلف پہلوؤں پر الگ الگ روشنی ڈالی جاتی ہے تو ایک سادہ لوح انسان کو یہ شک گزرنے لگتا ہے کہ کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہہ کر تضاد پیدا کیا جاتا ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں، بلکہ وہ ممثول ایسا ہے کہ اس کے لئے بہت سی مثالیں درکار ہیں، جس طرح قرآنِ حکیم میں ایک ہی حقیقت کی گوناگون مثالیں بیان کی گئی ہیں (۳۰: ۵۸، ۳۹: ۲۷)۔
۶۔ انسان کی حقیقت اصل سے منقطع ہو کر اس دنیا میں نہیں آئی ہے، وہ ہمیشہ ہمیشہ اصل سے واصل اور ازلی و ابدی طور پر نور کی بہشت میں ہے، مگر ہاں انسانی حقیقت کا ایک سایہ یہاں بھیجا گیا ہے، یہ اس کی شخصیت ہے، اسی معنیٰ میں روحِ انسانی ایک پل کی طرح ہے، کہ اس کا وہ سرا بہشت میں ہے اور یہ سرا اس دنیا میں ، جب حقیقتِ حال یہ ہے تو پھر حضرتِ آدم علیہ السّلام کے بارے میں سوچنا ہوگا
۱۵
کہ وہ نورِ ازل سے جدا ہو کر کیسے دنیا میں اتر آئے؟ ہم تو یہی کہیں گے کہ آدمؑ کی حقیقت یعنی انائے علوی بہشت سے باہر نہیں آئی، بلکہ اس حقیقت کا ایک سایہ (انائے سفلی) یہاں آیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آدمؑ ایک اعتبار سے جنت سے باہر آئے، اور دوسرے اعتبار سے باہر نہیں آئے، اور یہی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔
۷۔ حضرت آدمؑ جس پہلو یا جس اعتبار سے جنت سے نکالے گئے۔ اس کی چند تاویلیں ہیں، اُن میں سے ایک تاویل یہ ہے کہ وہ جیتے جی روحانیّت کے عروج و ارتقاء کی چوٹی پر پہنچ گئے، اور پھر خدا کی حکمت و مصلحت سے اس پہاڑ کی چوٹی سے نیچے آگئے، کیونکہ روحانیّت کی معراج پر پہنچ جانا اور وہاں کی ہر چیز کا مشاہدہ کرنا ضروری ہے، مگر وہاں ہمیشہ کے لئے ٹھہر جانا ضروری نہیں، اور یہ ایک آزمائشی راز ہے کہ ہر پیغمبر روحانیّت کے آسمان پر جا کر بہت ساری عرفانی دولت کے ساتھ زمین پر واپس آتا ہے۔
۸۔ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہر طرح سے معصوم ہوا کرتے ہیں، ان سے کوئی ایسی نافرمانی سرزد نہیں ہوتی، جو عام انسانوں سے سرزد ہوتی ہے، کیونکہ وہ خدا کے برگزیدہ اور
۱۶
اقرب ہونے کی وجہ سے مقامِ توکل پر ہوتے ہیں، یعنی وہ با اختیار نہیں، بلکہ بے اختیار ہو جاتے ہیں، ان کا حقیقی وکیل اللہ تعالیٰ ہوتا ہے، چنانچہ حضرت آدمؑ سے جو نافرمانی سرزد ہوئی تھی، وہ مصلحتی اور برائے نام تھی، جیسا کہ قرآن میں ہے:
وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (۲۰: ۱۱۵) اور ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ (اسے) بھول گئے اور ہم نے ان میں (اس عہد کو توڑنے کا) پختہ ارادہ نہ دیکھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنے ارادہ و اختیار سے اللہ تعالیٰ کی عہد شکنی نہیں کی تھی، کیونکہ وہ عہد ان کے خیال میں ان کے سامنے نہیں تھا، اس لئے کہ وہ فراموش ہو چکا تھا، اور نہ ان کا اختیار پہلے کی طرح تھا۔
۹۔ جس طرح خدا کی خدائی اور بادشاہی کا نہ کوئی ابتدائی سرا ہے اور نہ کوئی انتہائی سرا، اسی طرح اس کی صفتِ خالقیت ہے، جو فعلاً قدیم اور ہمیشہ ہے، پس اللہ تعالیٰ کسی قطعی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ تخلیق کا کام کرتا رہتا ہے، مگر ہاں زمانہ چھوٹے بڑے بہت سے ادوار میں تقسیم ہو جاتا
۱۷
ہے، ہر دور کے شروع میں جو انسانِ کامل ہوتا ہے، وہ آدمِ دور کہلاتا ہے، اور دنیا بھر کی انسانی روحیں اسی کی روحانی اولاد قرار پاتی ہیں۔
۱۰۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا : جو لوگ تم میں سے (کما حقہ) ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو خلیفۂ زمین بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں (یعنی آدموں) کو خلیفہ بنایا تھا (۲۴: ۵۵)۔ آپ اس میں خوب سوچیں اور مناسب ہو تو سوالات بھی کریں۔
۱۱۔ انسان کے حقائق سے انکار کی فکری و عقلی سزا یہ ہے کہ اس کو خدا تعالیٰ کی لامحدود بادشاہی میں سوچنے کا موقع نہ دیا جائے، چنانچہ اس بارے میں جو ارشاد ہوا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے:
اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی پھر ان پر پردہ ڈال دیا تو یہ دیکھ نہیں سکتے (۳۶: ۰۹)۔ آگے کی دیوار مستقبل کی ظلمت ہے، اور پیچھے کی دیوار ماضی کی تاریکی، اور پردہ سے جہالت مراد ہے، ظاہر ہے کہ یہ سزا ہے، مگر جو لوگ نور کی روشنی میں ہیں، وہ اس میں نہیں۔
۱۸
۱۲۔ اگر عددِ واحد کی شکل پر دو یا تین کو لکھا جائے ( ۲ٰ ۳ٰ) تو اسی طرح اتحاد نہیں ہوگا، بجائے اس کے اگر دو میں سے دو دفعہ ایک کو اور تین میں سے تین دفعہ ایک کو عددِ واحد پر رکھا جائے (۲=۱+۱، ۳=۱+۱+۱) تو ان میں یقیناًوحدت ہوگی، پس جس طرح ہر عدد میں عددِ واحد اور اس کی وحدت پوشیدہ ہے، اسی طرح ہر شخص میں خواہ مومن ہو یا کافر خدائے واحد کا پَرتَو (عکس = صورت) پوشیدہ ہے، اب اس کا انحصار ہر آدمی پر ہے کہ وہ علم و عمل کے ذریعہ پردۂ ظلمت کو ہٹا کر اپنے آپ میں صورتِ رحمان کو دیکھ سکتا ہے یا نہیں۔
اس مضمون کا سرنامہ “پھول ہی پھول” ہے، جس کا اشارہ یہ ہے کہ یہاں نہ صرف ظاہری اور مادّی پھولوں کی رنگینی اور خوشبو پھیل رہی تھی بلکہ اس سے بڑھ کر روحانی اور علمی پھولوں کا بھی موسم تھا، روحانی بہار اور گلوں کے یہ معنی ہیں کہ مومنین عبادت و بندگی اور گریہ و زاری کے وسیلے سے آفتابِ امامت کے قریب ہو جائیں، تاکہ وہ اپنی ذات میں سبزہ زار اور باغ و گلشن کے خوشنما مناظر کو دیکھ سکیں۔
اوشی کھنداس (گلگت) میں درختِ سنجد (گنڈاور) کے پھولوں کی بہار تھی، ہم نے ان درختوں کے نیچے کچھ دیر بیٹھ
۱۹
کر خدا تعالیٰ کی خصوصی نعمتوں کا شکر ادا کیا، گلِ سنجد کی عطر افشانی بڑی دلفریب تھی، اس کی مسرّت و شادمانی نے صدر فتح علی حبیب، صدر محمد عبد العزیز، دیگر عملداران اور عزیز ارکان کی محبتِ روحانی کی خوشبوؤں کو جگایا، انسانی تصوّر کا کرشمہ دیکھئے کہ اس وقت شرق و غرب کے بہت سے عزیزوں کو فرداً فرداً یاد کیا، اور اس وقت بھی یاد کرتا ہوں۔
خانۂ حکمت ادارۂ عارف
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کیمپ ، ہونزہ، ۸۵۔۴۔۲۵
۲۰
مومن مومن کا آئینہ ہے
عزیز ترینِ من صدر غلام قادر، عملدارانِ جملہ شاخہائے خانۂ حکمت و ارکان سلامت !باشند
میرا دل جو اس وقت مسرّت و شادمانی کے سمندر میں ڈوب گیا ہے، وہ اسی خوشی کے دباؤ اور فرمائش سے آپ تمام حضرات کو “یا علی مدد” لکھاتا ہے، آپ جانتے ہیں کہ یہ بے پناہ سرور مجھے کیسے حاصل ہوا، اور اس کی کیا وجہ ہے، اس کے وجوہ و اسباب مشرق و مغرب کے جملہ عزیزان ہیں، چنانچہ یہاں سے ہمارے دونوں عزیز و مہربان صدر صاحبان اور سیکریٹری صاحب آپ کی طرف آئے اور آپ عزیزوں نے ہر موقع پر اور ہر جگہ ایسا بے مثال اثر بخشا کہ اس کا بیان احاطۂ تحریر میں نہیں آسکتا، محترم صدر فتح علی حبیب، محترم صدر محمد عبد العزیز، اور محترم سیکریٹری رفیق جنت علی آپ کو خط لکھنے والے ہیں۔
میرے یہ حقیقی دوست جو اللہ کی رحمت سے چشمِ بصیرت سے سرفراز ہیں، صدر غلام قادر کے ہر قول و عمل کو
۲۱
سراہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ چشمِ بد دور! غلام قادر صاحب میں کچھ پاکیزہ روحیں اپنا مسکن بنا رہی ہیں، خدا کرے کہ موصوف آگے چل کر ایک عظیم الشّان لیڈر بن جائیں۔
میرے یہ ہوشمند ساتھی نائب صدر غلام رسول کے جذبۂ ایمانی اور گرانقدر خدمات سے بہت متاثر ہوگئے ہیں، اور ان کی دینداری اور عاجزی کی بہت تعریف کرتے ہیں، صوبیدار میجر عبدالحکیم سے مل کر ان کو بے حد خوشی ہوئی، یہ عزیزان قربان علی خان کی خدمت میں کوئی نمائندگی پیش کرنا چاہتے ہیں، میں نے صوبیدار علی داد کی مزید خصوصیات سے انہیں آگاہ کیا، بلبل جان کی شرافت و سنجیدگی نے مقناطیسیت کا کام کیا ہے، اسی طرح اور بھی مومنین ہیں، جو ان کے دل میں جم کر بیٹھ گئے، جس سے ان کو بے حد مزہ آرہا ہے، مگر ہر ایک کا نام نہیں جانتے ہیں۔
اوشی کھنداس کے عزیزوں کو یاد کر رہے ہیں، چیئرمین محمد جابر سے واقف ہوکر خوش ہوگئے اور صغیر الدین کو اب قریب سے دیکھا پہلے صرف سنا جاتا تھا، صوبیدار یوسف علی کو شاید دوسرے چند کے ساتھ خط لکھا جائے گا وہ امامِ عالی مقام کا ایک سچا خادم ہے، دراصل یہ خط بہشت کا نہیں ہے
۲۲
اس لئے اس میں بہت سے عالی ہمت مومنین کے نام نہیں ہوں گے، مگر جس وقت بہشت سے ایک خط ملے گا، وہ تو بہشت ہی کا خط ہوگا، اس میں کوئی فروگزاشت نہیں ہو گی، بہرحال گلگت، اوشی کھنداس، اور ہونزہ سے یہ حضرات بہت خوش ہو گئے ہیں، آپ سب کو مبارک ہو!
موکھی علی حرمت تو سریلی آواز کا خزانہ ہیں، خزانے سے کون خوش نہیں ہوتا۔ محفلِ ذکر ہر جگہ عجائب و غرائب سے بھرپور تھی، تاہم جہاں سریلی آواز کا گنجینہ موجود تھا، وہاں ان کے لئے بہت سی نئی نئی چیزیں تھیں، ہمارے یہ عزیزان، جن میں لنڈن، کنیڈا، امریکا، افریقہ، ہندوستان، اور پاکستان کے سب عزیزوں کے ذرّاتِ روح آپ کی طرف آئے ہوئے تھے، اپنے دورہ سے بہت شادمان نظر آتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا باطن پاک ہے، اور یہ حقیقی معنوں میں دینی شعور رکھتے ہیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم امامِ اقدس و اطہر کے لشکرِ علمی کا ایک چھوٹا سا دستہ ہیں، مگر بفضلِ خدا اس دستے کی بہت بڑی اہمیت ہے، تاریخ ہمارے ساتھ انصاف سے سلوک کرے یا نہ کرے، درحقیقت ہماری نظر خدا تعالیٰ کی
۲۳
خوشنودی پر ہے، اور ہماری ساری امیدیں اسی ذاتِ عالی صفات کے درِ اقدس سے وابستہ ہیں، پس دانا مومن وہی ہے جو آخرت کو دنیا پر ترجیح دے، دنیا میں کبھی خوشی ہو سکتی ہے اور کبھی نہیں ہو سکتی ہے، مگر آخرت سے متعلق جو اللہ کا وعدہ ہے وہ برحق ہے۔
کل کچھ عزیزان میرے پاس بیٹھے علمی باتیں سن رہے تھے، میں کہہ رہا تھا کہ: “مومن مومن کا آئینہ ہوا کرتا ہے۔” اس ارشاد کے کئی معنی ہیں، ایک تو یہ ہیں کہ جب کوئی مشفق و خیر خواہ استاد با صلاحیت شاگردوں کو یقینی علم دیتا ہے، اس کا ایک روحانی عکس معلم کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آئینہ آدمی کی صورت کو اس کی (یعنی اسی آدمی کی) طرف لوٹا دیتا ہے، اور جب استاد ایسے ردِ عمل (جوابی عمل) میں علم کو پاتا ہے، تو وہ علم بہت ہی اعلیٰ ہوتا ہے۔
مذہب کی تاریخ میں شروع ہی سے تکبر کی برائی سب کو معلوم ہے، چنانچہ تکبر مثال کے طور پر زہرِ قاتل ہے، اب جو دوا اس زہر کو مار کر ختم کر سکتی ہو، اس کے گران بہا اور مفید ہونے کی کیا تعریف ہو سکتی ہے، وہ تو بہت سی جانوں کو مرگِ مفاجات سے بچانے والی دوا ہو گی، ہاں یقیناً وہ دوا ایسی ہی
۲۴
ہے، اور وہ “عاجزی” ہے، کیونکہ یہ حکمت “علاج بالضد” کے اصول پر ہے، اور عاجزی جیسی سب سے اہم اور مفید ترین صفت اپنے آپ نہیں آسکتی ہے، جب تک کہ علم نہ ہو۔
اگرچہ اس مادّی دنیا میں سامانِ زینت و آرائش یعنی زیورات کی کوئی کمی نہیں، لیکن جہاں بہشت کے حقائق و معارف کی تشبیہہ و تمثیل زیورات سے دینی تھی، اس میں مدور (گول) چیزوں کو منتخب فرمایا گیا ہے، اور اس مقصد کے لئے بطورِ خاص کنگن کو لیا گیا ہے، جو کلائی کا ایک زیور ہے تاکہ اس مثال سے گوہرِ نور کے مظاہرۂ مستدیر (گول حرکت) کو سمجھ لیا جائے، جس کا تعلق ہاتھ سے ہے۔
خدا اُس قادرِ مطلق کا نام ہے جو محدود کو غیر محدود (یعنی لا محدود) بناتا ہے، اور لامحدود کو محدود کر لیتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز کو اس کی ضد سے پیدا کرتا ہے، اور ہر شے کو اس کی ضد میں سما دیتا ہے، جیسے دن میں رات کو داخل کر دیتا ہے اور رات میں دن کو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ علم محدود بھی ہے اور لا محدود بھی، اور علم کا محدود ہونا وہاں درست ہے، جہاں خدا تعالیٰ نے تمام چیزوں کو گھیر کر محدود کر لیا ہے (۳۶: ۱۲) کوئی بھی ہوشمند ہرگز یہ پسند نہیں کرے گا کہ وہ
۲۵
علم کے بے پایان بیابانوں میں کھو جائے بلکہ وہ اُس مرکزِ نور کی طرف جانا چاہے گا، جہاں سے علم و ہدایت کی روشنی نکل کر ساری کائنات میں پھیل جاتی ہے (۲۴: ۳۵) جس طرح آپ باور کر سکتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں تمام علم جمع ہے، اسی طرح آپ یہ یقین بھی کر سکتے ہیں کہ نورِ قرآن یعنی امام میں ہر علمی چیز سرچشمے کے طور پر موجود ہے۔
فقط آپ کا مخلص
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸۵۔۷۔۳۱
۲۶
ایک پیارا سا تعارف
بحوالۂ مکتوبِ خانۂ حکمت برانچ، گلگت۔ بابتِ جنرل اجلاس ۳۰ اگست ۱۹۸۵ء، بمقامِ رہائش گاہِ جناب نیاز علی، اوشی کھنداس۔
میرے بہت ہی بہت ہی عزیز، میری میٹھی روح، میری شیرین جان صدر غلام قادر، قوّتِ بازو نائب صدر غلام رسول، عزیز فرشتہ صفت سیکریٹری شیر اللہ بیگ اور عزیز ممبران کے حق میں بصد خلوص دعائے یاعلی مدد قبول ہو! آپ کے کارہائے نمایان جو تاریخِ خانۂ حکمت کا اہم حصّہ ہیں مبارک ہوں! اور یہ بنیادی کام بھی بہت بہت بابرکت ثابت ہو! جو آپ نے بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے سلسلے میں انجام دیا، صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز آپ سے بے حد خوش ہیں اور آپ کو اس موقع پر “مبارک باد!” کہتے ہیں۔
محترم صوبیدار (ریٹائرڈ) علی داد بہت سی صلاحیتوں اور خوبیوں کا خزانہ ہیں، آپ خاندانی اور موروثی طور پر دینی علم اور امامِ عالی مقام کی مقدّس خدمت سے منسلک رہے ہیں آپ کا
۲۷
گھرانا تین پشتوں سے قلم اور کتاب کے تقدس کا نمونہ رہا ہے آپ کے دادا جان اور والدِ بزرگوار اپنے اپنے وقت میں عالی مرتبت حضرت پیر کے نمائندوں میں سے تھے، اور اب بھی یہ اعزاز زمانے کی ترقی کے ساتھ ان کے خاندان میں باقی و جاری ہے، زہے قسمت کہ چاروں برادران بمع جملہ فرزندان علم کی لازوال دولت سے مالا مال ہیں۔
ہمارے بہت ہی عزیز صوبیدار علی داد بڑے علم دوست اور نکتہ شناس ہیں، ان کے دل و دماغ میں نورِ ایمان کی روشنی کام کرتی ہے، جن کی گفتگو سے کستوری کی سی خوشبو آتی ہے، جو علم و حکمت کی گیرائی اور پذیرائی میں مقناطیسی قوّت رکھتے ہیں، وہ اگر محفل میں موجود ہیں، تو احباب کا دل مسرّت و شادمانی سے مسکرائے، وہ اگر بولیں تو دانش و سنجیدگی اور نزاکت و نفاست کی ایک نرالی شان ہو، یہ ہیں صوبیدار علی داد، جو بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے چیئرمین مقرر ہوئے ہیں۔
بروشسکی زبان کی یہ اساسی خدمت بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے، وہ حضرات بڑے نیک بخت ہیں، جو عملدار اور ارکان کے طور پر منتخب ہوگئے ہیں، ان شاء اللہ کچھ عرصے کے
۲۸
بعد ان کا ایک عظیم اور بے مثال کارنامہ قائم ہوگا اور اسی بنیاد پر بروشسکی لٹریچر اور اس کی تاریخ کا آغاز ہوگا، یہ نہ صرف زبان اور قوم کی خدمت ہے بلکہ یہی خدمت علاقہ اور مذہب کے لئے بھی ہے، جس میں امامِ اقدس و اطہرؑ کی رضا و خوشنودی ہے، دیکھتے رہنا اور خدمت کرتے جانا کہ وہ امامِ برحقؑ ہیں، دین و دنیا میں نورانی برکتوں اور نوازشوں کی امید رکھتے ہوئے نیک کاموں کو انجام دینا۔
خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی علمی خوشبو جو لاثانی اور غیر فانی ہے بڑی تیزی اور مؤثر انداز سے مشرق و مغرب میں پھیل رہی ہے اور ہمیں کامل یقین ہے کہ یہ نورِ امامت کا ایک باطنی منصوبہ ہے، کیونکہ امامؑ صرف کارِ ظاہر تک محدود رہے یہ کبھی نہیں ہوا، اور نہ کبھی ایسا ہوگا، اسی طرح بروشسکی زبان میں ایک علمی اور ادبی انقلاب آیا ہے، اور جاری ہے، اس میں جو حضرات آگے بڑھ کر حصّہ لیں وہ بڑے خوش نصیب ہوں گے، ہم سے جو کچھ ہو سکے، ان کی مخلصانہ خدمت کریں گے، خدا کرے کہ ہم ان کو بامِ عروج پر پہنچانے کی خاطر سیڑھی کا کام کر سکیں! وہ اس طرح کہ ہم اپنے گھٹنے سے پہلا زینہ بنائیں، کندھے سے دوسرا زینہ، سر سے تیسرا زینہ،
۲۹
اور ہاتھ کو اونچا کر کے چوتھا زینہ بنائیں اور اپنے ہر عزیز کو ترقی کی چھت پر چڑھائیں، آمین! یہ ہماری دعا ہے، مگر ہر کامیابی کی روح خدا کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اس کے مبارک ہاتھ میں کیا نہیں ہے۔
اگر لوگ جانتے کہ “دستِ راستِ خدا کیا ہے؟” یہ بابرکت ہاتھ کس طرح کائنات بھر کی علمی اور عرفانی برکتوں کو لئے ہوئے ہے، تو اس وقت وہ خوشی اور عشق سے لرزہ براندام ہوتے ہوئے قرآنِ حکیم میں یہ دیکھنے کی کوشش کر لیتے کہ خدا کے ہاتھ کے بارے میں کیا کیا اشارے اور کیسے کیسے بھید موجود ہیں، ایسے سچے عاشق اس جستجو سے کبھی نہیں تھکتے، اور کبھی نہیں رکتے۔
جس شخص کو حقیقی علم سے عشق ہو وہ بڑا سعادت مند ہے، کیونکہ علم نور ہے، لہٰذا یہی عشق نورِ خداوندی سے بھی متعلق ہے، قرآنِ حکیم کے ظاہر میں اگرچہ لفظِ “عشق” موجود نہیں، لیکن مترادفات میں اس کی اہمیت و افادیت کا تذکرہ موجود ہے، اس کے علاوہ سورۂ شوریٰ کے آغاز (یعنی ۴۲: ۰۲) میں جہاں عٓسٓقٓ ہے، وہاں اس کی دوسری قرأت “عشق” ہو سکتی ہے اور یہ مناسب ہے جبکہ قرآن سات حرفوں
۳۰
پر نازل ہوا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ لہجۂ وحی اکثر یا خاص خاص کلمات میں “پہلودار” ہوا کرتا تھا تاکہ قرآنِ حکیم زیادہ سے زیادہ جامعیّت کا حامل ہوکر ہر چیز کو بیان کر سکے (۱۶: ۸۹)۔
عشقِ حقیقی اولیاء اللہ کی خصوصی غذائے روح ہے، اور حضرت موسیٰؑ نے عشق ہی سے دیدارِ خداوندی کے لئے درخواست کی تھی، پھر جسمانی طور پر ہرگز نہیں، بلکہ عشق کے معنی میں گر کر مدہوش اور فنا فی اللہ ہوگئے تھے (۰۷: ۱۴۳)۔ یعنی وَّخَرَّ مُوْسٰى صَعِقًاۚ (اور موسیٰؑ بے ہوش ہو کر گر پڑے) کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ آپؑ دیدار اور عشق کے زیرِ اثر خودی کی بلندی سے عاجزی اور بے خودی کی پستی میں گر کر چہرۂ خدا میں فنا ہوگئے، آپ اس آیۂ کریمہ میں غور کر سکتے ہیں کہ کلام یعنی علم سے عشق میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس سے دیدار کا اشتیاق شدید تر ہو جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ علم الیقین کی ہر بات سے شک و جہالت کا ایک پردہ ہٹ جاتا ہے، اور جیسے جیسے حجابات اٹھتے جاتے ہیں، تجلّیاتِ صفات کی معنویت اور محبت قوی سے قوی تر ہوتی جاتی ہے۔ ان شاء اللہ ہر مقام پر علم کی طرف بھرپور توجہ دی جائے گی۔
۳۱
صدر فتح علی حبیب صدر محمد عبد العزیز
خانۂ حکمت ادارۂ عارف
خادم نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸۵۔۹۔۲۶
۳۲
ایک اہم فرمان کے چند مفہومات
حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ شمالی علاقہ جات کی جماعت کی ہدایت کے لئے جو کچھ ارشاد فرماتے تھے، اس کی اکثر تحریر فارسی میں ہوتی تھی، چنانچہ آج سے تقریباً ۶۲ سال قبل کا ایک فرمانِ مقدّس پیشِ نظر ہے، یہ فرمانِ پاک تاریخی اعتبار سے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، یہ مبارک ارشاد قریۂ حیدرآباد (ہونزہ) :کے عملداروں کے نام پر ہے، اور وہ نام یہ ہیں
قلندر (ی) ولد محمد ضمیر، رحمت۔۔۔ (چھمرکھن) گل اکبر ولد بختی، عصمت اللہ بیگ ولد محمد رضا بیگ، خلیفہ قدیر شاہ ولد حیدر محمد، خلیفہ تیہان ولد تیو، خلیفہ حب علی ولد محمد رفیع، خلیفہ نوجوان ولد حسن شاہ۔ ان حضرات میں سے شروع کے چار اوّلین کونسل کے ارکان تھے، جس کو عالی مرتبت پیر
۳۳
سبز علی نے بفرمودۂ امامِ اقدس و اطہرؑ پہلی بار قائم کی تھی، جو اس زمانے کی مقامی سیاست کی وجہ سے زیادہ عرصے تک نہ چل سکی، مگر خلفاء کا دستور بہت پہلے سے چلا آرہا تھا، اور وہ صرف مذہبی رسومات ہی میں محدود ہو کر کام کرتے تھے، اس پاک فرمان میں ان عملداروں کے علاوہ اکابرین اور جماعت کے تمام رجال اور خواتین نیز خُرد و کلان کے حق میں انتہائی مشفقانہ دعائیں فرمائی گئی ہیں۔
نفسِ مضمون کا خاص تعلق حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کے ان احکام سے ہے، جو وہاں کی جماعتوں کی دینی اور دنیوی ترقی کے لئے بزرگوار پیر سبز علی صاحب کے توسط سے شمالی علاقہ جات میں نافذ ہوئے تھے، اُن میں سے ایک اہم فرمان ہر گاؤں میں جماعتی مکتب کے قیام سے متعلق تھا اور دوسرا حکم کونسل کی تشکیل کے بارے میں، لیکن بد قسمتی سے یہ دونوں چھوٹے چھوٹے ادارے اپنے قیام کے کچھ عرصہ بعد ختم ہوگئے، جس کی وجہ وہاں کی شخصی حکومت کی عدم دلچسپی کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔
اس فرمانِ مبارک میں مولائے پاک کی اُن تمام ہدایات و ارشادات کو جو پیرِ موصوف نے پہنچا دیئے تھے
۳۴
“قوانین و قواعدِ جدیدہ” کے نام سے یاد فرمایا گیا ہے، اور بڑی بلیغ نصیحتوں کے ساتھ تاکید کی گئی ہے کہ ان پر عمل کرکے رائج کریں تاکہ دین و دنیا کی برکتوں اور فضیلتوں سے بہرہ ور ہو جائیں۔
۳۵
عزیز و محترم صوبیدار مالک اشدر کی خدمت میں
میں بہت سی توجہ، خلوص، محبت اور یگانگت سے آپ اور خاندان کے ہر فرد کو یاعلی مدد کہتا ہوں، اور بہت سی مزید دعائیں کرتا ہوں، خداوند عالم قبول فرمائے!
مجھے یہ سن کر زبردست صدمہ اور بڑا افسوس ہوا کہ ہمارے باغِ زندگانی کا وہ پھول طبعی خزاں سے بہت پہلے یکایک جھڑ گیا ہے، جس کا پیارا نام “شاہ فقیر” تھا۔ کوئی خوبصورت نوجوان فرزند جن معنوں میں اپنے والدین اور خاندان کے حق میں پھول ہوتا ہے، وہ معانی اُس پھول میں کہاں ہوتے ہیں، جو گلشن میں کھلتا ہے۔ اے فرزند! تم اپنے ماں باپ کے پارۂ جگر کیوں ہو! ان کے دل کا پیوند کس لئے ہو! اے اولاد! تو اتنی شیرین کس وجہ سے ہے! تجھ میں یہ
۳۶
زبردست دلکشی کس نے بنائی ہے؟ یہ کیوں ایسا ہے کہ والدین محبت سے بے تاب ہوکر تجھ پر اپنی جان چھڑک دینا چاہتے ہیں؟ یہ تیرا کیا جادو ہے کہ عظیم سے عظیم تر باپ بھی تیری قدم بوسی کے لئے جھک جاتا ہے۔
عزیزِ من! اگر آپ ایک مردِ مومن نہ ہوتے، تعلیم سے آشنا نہ ہوتے، ایک تجربہ کار فوجی افسر نہ ہوتے، اور ہمارے خاندان کا ایک معزز فرد نہ ہوتے، تو پھر یہ بارِ غم آپ کے لئے ناقابلِ برداشت ہو جاتا، شکر ہے کہ آپ ہر لحاظ سے مردِ مجاہد ہیں اور آپ کو اس امر کا بھی یقین ہے کہ عزیزم شاہ فقیر کی موت ایک طرح کی شہادت ہے۔ پس مجھے امیدِ واثق ہے کہ آپ ہر حال میں صبر کا مظاہرہ کریں گے۔
میری تصنیف کردہ کتاب “ایثار نامہ” اس موقع پر مطالعہ کے لئے بہت مناسب ہے، اسے غور و فکر سے دیکھ لیجئے، تاکہ کسی قسم کی مایوسی نزدیک نہ آسکے، جبکہ مومن کی اصل شہادت ایمان کی وجہ سے ہے، اور شہید مرتا نہیں، وہ تو زندہ ہے، پس بہشت میں انتہائی شاندار ملاقات ہوتی ہے، اور اس پر یقین رکھنا ضروری ہے، بہت ہی ضروری۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص روح شناس ہو، اس کو نہ
۳۷
کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ غم، کیونکہ خدا تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے، اس میں بڑی حکمت ہے، دعا ہے کہ پروردگارِ عالم آپ سب کو صبرِ جمیل عنایت فرمائے! اور مرحوم کو ظہوراتِ جنّت میں نورانی دیدار حاصل ہو! آمین !!
فقط آپ کا اپنا
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۸۵۔۱۱۔۱۶
۳۸
چودہ سوالات
میرے بہت ہی عزیز جانی اور علمی دوست، نوجوان سکالر جناب عبد الرحمان نے لنڈن سے ایک زبردست، پُرخلوص اور دلکش مکتوب بھیجا ہے، جو انگریزی میں ہے، اس بے حد پیارے خط میں انہوں نے جس نکتہ شناسی اور فہم و فراست سے علمی سوالات کئے ہیں، اس کو دیکھ کر مجھے بڑی حیرت اور انتہائی خوشی ہو رہی ہے کہ ان کے مطالعے میں کتنی عمدگی، گہرائی اور گیرائی ہے، اور وہ حقیقی علم کے کیسے قدردان اور دلدادہ ہیں، خداوندِ برحق ان کے پاکیزہ باطن کو علم و حکمت کا ایک عظیم الشّان خزانہ بنا دے! :آمین!! ان شاء اللہ العزیز۔ یہ بندۂ ناچیز ذیل میں جوابات کے لئے کوشش کرے گا۔
ا۔ بحوالۂ “علم کے موتی” حصّۂ دوم، بنیادی اور آخری حقائق: جی ہاں، عرشِ عظیم دائرۂ عالمِ خلق سے باعتبارِ شرافت و فضیلت باہر اور بالاتر ہے، جس کی مثال عالمِ شخصی ہے کہ انسانی عقل، جو عقلِ جزوی اور نمونۂ عرش ہے، وہ
۳۹
دل و دماغ میں ہونے کے باؤجود جسم پر محیط اور برتر ہوتی ہے، جبکہ آدمی کی عقل روح کی نگہداشت کرتی ہے، اور روح بدن کی، اسی طرح عرش سے کرسی کا قیام ہے اور کرسی سے آسمان و زمین قائم ہے (۰۲: ۲۵۵) اور آپ یہ تو جانتے ہیں کہ یہ دونوں عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی ہیں اور یہی عالمِ امر ہیں جس میں تخلیق نہیں بلکہ ابداع ہے۔
اگر جسدِ ابداعی کا ظہور اس مادّی دنیا میں ہو جاتا ہے، تو پھر بھی وہ ایک طرح کا عرش ہے، لہٰذا وہ شرف و فضل میں تمام آسمانوں سے برتر ہے، کیونکہ وہ عرشِ اعظم کے ظہورات میں سے ہے۔
۲۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امامِ مستقر کے خاندان سے ہیں جس کی وجہ سے آپؐ کی آلِ پاک میں سلسلۂ امامت جاری و باقی ہے، اس کے برعکس حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام امامِ مستودع کے خاندان سے تھے، یہی سبب ہے کہ آنحضرت کی بعثت کے ساتھ ساتھ عیسائی مذہب میں جو امامت تھی، وہ بھی اسلام کی طرف لوٹ آئی، کیونکہ حضرت ابراہیمؑ کے فرزند حضرت اسماعیل ؑ کی امامت ہمیشہ کے لئے تھی، مگر آپؑ کے بھائی حضرت اسحاقؑ کی امامت چند
۴۰
پشتوں کے لئے۔
۳۔ حضرتِ خدیجہ الکبریٰ، ام المومنین، طاہرہ لقب نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے، اور یہ سبقت و اوّلیت کوئی معمولی چیز نہیں، جبکہ یہ علم الیقین کی روشنی میں تھی، کیونکہ حضرت بی بی خدیجہ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے توسط سے اس حقیقت کا علم ہو گیا تھا، کہ آنحضرتؐ پر وحی نازل ہو رہی ہے، چنانچہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ خدیجۃ الکبریٰ بطورِ خاص ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھیں، جن کو قرآنِ حکیم نے سابقون اور مقربون (۵۶: ۱۰ تا ۱۱) کا عظیم درجہ دیا ہے۔ پس بی بی خدیجہ اپنے وقت میں حضورِ انورؐ کی ایک حجت کا مرتبہ رکھتی تھیں۔
۴۔ جی ہاں، اس میں زبردست نورانی حکمت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی مثال میں اہلِ تاویل کو حکم دیا کہ تم کوہِ عقل پر اپنے چھتے بنا لو، اور وہاں سے واپس کائنات و موجودات کے پھولوں اور پھلوں کی طرف آکر حقائق و معارف کے رس کو بار بار کارخانۂ تاویل میں لے جاتے رہو تاکہ اس میں تمہارے لئے تاویلی شہد تیار ہو سکے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب سے پہلے ضروری طور پر عقلی پہاڑ تک
۴۱
رسائی حاصل کرکے چھتہ بنانا ہے، اور اس کے بعد رس کی جمع آوری کی غرض سے مسلسل آتے جاتے رہنا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں نہ صرف صراطِ مستقیم کا ذکر ہے جو صیغۂ واحد میں ہے بلکہ سلامتی کے راستوں کا بھی تذکرہ ہے کہ وہ جمع کے صیغے میں ہے، پس صراطِ مستقیم معراجِ یقین تک جا کر ایک بار طے ہو جاتی ہے، اور پھر سلامتی یعنی تائید کے راستوں کا آغاز ہوتا ہے (۰۵: ۱۶) جیسے شہد کی مکھی کے بارے میں ارشاد ہے (۱۶: ۶۸ تا ۶۹) اور جس طرح واقعۂ معراج سے ثابت ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اگرچہ معراج سے اس مادّی دنیا میں تشریف فرما ہوئے، لیکن حقائق و معارف کو تولنے یا پرکھنے کے لئے عقلی طور پر بار بار معراج سے رجوع کرتے تھے۔
۵۔ سورۂ حجر (۱۵: ۷۵ تا ۷۶) میں جس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کا تاویلی مفہوم یہ ہے: قریۂ قومِ لوطؑ کی تباہی و بربادی میں، جس کی مثال مقامِ روحانیّت پر موجود ہے، متوسمین (انسانانِ کامل) کے لئے تو بہت سے خاص اور روشن معجزات ہیں، اور مومنین کے لئے کم از کم ایک معجزہ ضرور ہے، کیونکہ جس طرح کسی واقعے کو انسانِ کامل جانتا ہے
۴۲
اُسی طرح ایک مومن نہیں جانتا، چنانچہ یہ فرق اس حکم میں “آیات” اور “آیت” کے دو لفظوں سے ظاہر کیا گیا ہے۔
۶۔ بے شک تمام چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے خزائن میں ہیں اور کوئی چیز ان سے باہر نہیں، یہ خزانے خدا کے پاس ہیں (۱۵: ۲۱) اب اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ گنجہائے سماوی زندہ اور بولنے والے ہیں، تو پھر یہ بھی قبول کرنا ہوگا کہ یہ خزانے عقل و روح کی کیفیت میں ایک دوسرے میں سما سکتے ہیں اسی طرح ان کی ایک وحدت بھی ہے جو ایک طرف یک حقیقت ہے اور دوسری طرف ذاتِ وحدت کا پَرتو یعنی “صورتِ رحمان” پس ہم ذاتِ حق تعالیٰ کی شناخت کے لئے اسی میں سوچ سکتے ہیں کیونکہ قرآنِ حکیم میں ایک ایسا پُرحکمت لفظ بھی موجود ہے کہ جس نے ذات اور صورت کو ایک کرکے بتایا ہے، اور وہ “وجہ اللہ” ہے، یعنی “ذاتِ خدا / چہرۂ خدا۔” پس جہاں ہر شخص عقلی اور عرفانی کیفیت میں فنا ہو جاتا ہے، وہاں چہرۂ خدا یعنی اس کی ذات کا ظہور ہے۔
۷۔ ہاں، عزیزِ من! یقیناًغذائے لطیفِ جسمانی دو قسم کی ہوا کرتی ہے (۲۳: ۵۱) جو بصورتِ روحِ نباتی اور بشکلِ روحِ حیوانی ہوتی ہے، جب یہ دونوں روحیں انسانِ کامل کی طرف آتی
۴۳
ہیں، تو یہ ان کی ترقی اور بہتری کا موقع ہوتا ہے، محولۂ بالا آیۂ کریمہ میں روحانی اور عقلانی خوراک کا بھی تذکرہ ہے، جو عارفانہ ذکر و عبادت کی کیفیت میں اور حقیقی علم و حکمت کی صورت میں ہوتی ہے مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ غذائے لطیف زندہ ہو اور غذائے عقل و جان زندہ نہ ہو، اس سے ظاہر ہے کہ مقامِ روحانیّت پر تینوں یعنی جسمانی، روحانی اور عقلانی غذائیں زندہ روحوں کی حیثیت سے ہیں۔
۸۔ دستِ خدا اور چہرۂ خدا سے اُس کا مظہر مراد ہے، اگر حقیقت یوں نہ ہوتی اور ذاتِ سبحان کے اپنے اعضاء و جوارح ہوتے، تو سورۂ قصص کی آخری آیت (یعنی ۲۸: ۸۸) کے مطابق جہاں چہرۂ خدا یا ذاتِ الٰہی کے سوا تمام چیزیں ہلاک ہو جاتی ہیں، وہاں (نعوذ باللہ منھا) اللہ کی ایک چیز کو چھوڑ کر باقی ساری چیزیں ہلاک ہو جاتیں، مگر یہ بات ہرگز درست نہیں اور حق تو یہ ہے کہ مظہرِ خدا چہرۂ خدا ہے، چنانچہ جملہ اشیاء کی ہلاکت و فنائیت اسی مظہر میں ہو جاتی ہے اور مظہر کو چہرۂ خدا قرار دینے کے کئی اسباب ہیں، ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ اسی کے وسیلے سے لوگوں کو خدا کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے، جس طرح ہر شخص کی پہچان اس کے چہرے ہی
۴۴
سے ہو سکتی ہے، اور دین میں خدا کی شناخت انتہائی ضروری چیز ہے۔
۹۔ سورۂ عنکبوت کی آخری آیت (یعنی ۲۹: ۶۹) میں اللہ تعالیٰ کی راہوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے، جیسا کہ جواب نمبر ۴ میں بتایا گیا کہ سب سے پہلے راہِ مستقیم پر چل کر منزلِ مقصود میں پہنچ جانا ضروری ہے، اور اس کے بعد اسرارِ خداوندی کے بہت سے راستے ہیں، جن کو قرآن نے سبل السّلام (۰۵: ۱۶) یعنی سلامتی کی راہیں کہا ہے، جن کی ہدایت نورِ امامت کی روشنی میں مل سکتی ہے۔
۱۰۔ جی ہاں سائنسدانوں کی یہ تحقیق اور دریافت حقیقت پر مبنی ہو سکتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسی طاقت، جیسی آسمانی بجلی کی ہے، مٹی کی ایک اینٹ کو حیات بنا سکتی ہے، کیونکہ بعض مادّی چیزیں اپنے روحی پس منظر کی وجہ سے کرشمۂ ابداع کے بہت ہی قریب ہیں، اور ایک ایسی چیز بجلی ہے، چنانچہ جب کوئی اینٹ آسمانی بجلی کی زد میں آ جاتی ہے تو اُس سے اینٹ کی ایک خاص تحلیل ہوتی ہوگی اور اس میں جو روحِ منجمد ہے، وہ آزاد ہوتی ہوگی، ویسے بھی مادّہ اور روح کے درمیان کوئی حدِ فاصل ہے نہیں، لہٰذا جب مادّہ لطیف
۴۵
سے لطیف تر ہو جاتا ہے تو یہ روح میں بدل جاتا ہے، اور جس وقت روح بدرجۂ انتہا کثیف ہو جاتی ہے تو مادّہ بن جاتی ہے۔
قرآنِ کریم (۱۶: ۸۱) میں جن دو زندہ کرتوں کا ذکر ہوا ہے، ان میں سے ایک وہ ہے جو ہر قسم کی گرمی سے بچاتا ہے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ یہی کہ وہ خود جوہرِ آتش یعنی برق سے ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ قمیص ایک مسلمان جنّ ہے، جو بڑا نیک اور فرمانبردار ہے، جس میں کوئی انسان ملبوس ہو کر برق رفتاری سے کرۂ ارض کیا جملہ ستاروں کی بھی سیاحت کر سکتا ہے، ایسے کرتے یعنی جنّات حضرت سلیمان علیہ السّلام کے لئے کام کرتے تھے، یاد رہے کہ ہر عظیم بھید ایک حجاب کے اندر پوشیدہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ آج اکثر لوگوں کے لئے جنّات کا مثبت پہلو پردۂ ظلمت میں پوشیدہ ہے اور ان کو معلوم نہیں کہ جنّ کی حقیقت کیا ہے۔
۱۱۔ بہشت بدرجۂ انتہا پاک و پاکیزہ مقام ہے، لہٰذا اس میں فردائے قیامت صرف وہی لوگ داخل ہو سکیں گے، جو آج دنیا میں خوشی سے عقلی، روحانی اور جسمانی طور پر پاک ہو جاتے ہیں، اور جو لوگ عقل، روح اور بدن کی اس پاکیزگی کو نہیں جانتے ہیں، وہ جنّت سے دور رہیں گے، تاہم اس فتح
۴۶
و شکست کے بعد ان کو زبردستی سے پاک و پاکیزہ کیا جائے گا، اور پھر وہ روحانی سلطنت کے ماتحت لوگ بن کر بہشت میں داخل ہو جانا غنیمت سمجھیں گے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جنّت کی غلامی دنیا کی بادشاہی سے بدرجہ ہا اعلیٰ ہے، جس کی دلیل حوروغلمان ہیں، جو شاہانِ بہشت کے ماتحت لوگ ہیں جن کی تعریف و توصیف اللہ تعالیٰ کی عزیز کتاب (قرآن) میں موجود ہے۔
دنیا میں لوگوں کی عقلی پاکیزگی اس طرح ہو سکتی ہے کہ وہ اخلاص و محبت سے خدا، رسول اور امر کے مالک کی ظاہری و باطنی تعلیمات کو اپناتے رہیں، روحانی پاکیزگی یہ ہے کہ وہی عبادات بجا لائیں، جو وہ حضرات فرماتے ہیں، اور جسمانی طہارت (پاکیزگی) کے لئے بھی ان کے احکام کی تعمیل کرتے رہیں، پس اسی فرمانبرداری کے اجر و صلہ کے سلسلے میں ان کو جسمِ لطیف میں زندہ کر دیا جائے گا، اور رفتہ رفتہ سب اس لطیف جسم میں داخل ہو جائیں گے جس میں بدرجۂ کمال ہر قسم کی پاکیزگی ہے۔
۱۲۔ تاویلی حکمت کی گوناگونی ہوا کرتی ہے، لہٰذا آپ نے جو تاویل پڑھی ہے، وہ بالکل درست ہی ہے، کہ امامِ اقدس
۴۷
و اطہرؑ کی شخصیّت میں تمام چیزیں محدود ہیں، اس میں عقلِ کلّی بھی ہے اور نفسِ کلّی بھی، اور زیرِ بحث آیۂ کریمہ (۱۵: ۷۹) میں یہ دونوں قریۂ عقل اور قریۂ روح کے معنی میں ہیں، چنانچہ امامِ مبینؑ کے عالمِ شخصی ہی میں مذکورہ دو بستیوں کے باشندوں کی اصلاح کی جاتی ہے۔
۱۳۔ جب ہم چشمِ بینا سے قانونِ فطرت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو صاف طور پر یہ حقیقت عیان ہو جاتی ہے کہ مٹی جیسے جمادات کا رخ نباتات کی طرف ہے، نباتات کا ارتقاء حیوانات کی جانب، حیوانات انسانوں میں فنا ہو جاتے ہیں، اور انسان کا عروج یہ ہے کہ وہ فرشتہ بن جائے۔ پس روحوں کی ترقی کی سیڑھی یہی ہے۔
۱۴۔ جی ہاں، حضرت ابراہیمؑ کو جو کلماتِ تامّات عطا ہوئے تھے، وہ اسمائے بزرگ تھے، جو حدودِ دین ہوا کرتے ہیں، ایک پیغمبر کی روح دوسرے پیغمبر کی روح سے مختلف نہیں، وہ بھی درست ہے، اور مختلف ہے، یہ بھی درست ہے، مختلف اس معنیٰ میں ہے کہ اس میں اپنے زمانے کے واقعات و احوال درج ہوتے ہیں۔ والسلام۔
نوٹ: ان صفحات میں سوالات درج نہیں ہوئے ہیں
۴۸
صرف نمبرات پر اکتفاء کیا گیا ہے اور صرف چار صفحوں کا مضمون لکھنا تھا لہٰذا یہاں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔
صدر فتح علی حبیب صدر محمد عبد العزیز
خانۂ حکمت ادارۂ عارف
خادمِ مسؤل: نصیر الدین نصیر ہونزائی
۲ جنوری ۱۹۸۶ء
۴۹
موسمِ گل
گلگت اور ہونزہ میں اگرچہ کچھ نہ کچھ پھول موسمِ بہار سے لے کر خزان تک پائے جاتے ہیں، تاہم یہاں اصل موسمِ گل وہ ہوتا ہے جس میں گلاب کے پھول کھلتے ہیں۔ گلاب یقیناً سارے پھولوں کا بادشاہ ہے، جس کے ظہور اور جلوہ نمائی سے پہلے اور بعد میں گویا رعیت اور لشکر کے طور پر بہت سے دوسرے حسین پھول کھل جاتے ہیں، غرض اس موسم کے رنگ برنگ پھولوں اور گوناگون خوشبوؤں سے بہشتِ برین کا تصوّر ہونے لگتا ہے، اگرچہ پھولوں کو ہر وہ آدمی فطری طور پر چاہتا ہے، جو ذوقِ سلیم رکھتا ہے، لیکن اہلِ بصیرت کی نگاہ میں گلوں کی اہمیت و دلکشی اور بھی زیادہ ہوا کرتی ہے، کیونکہ گلہائے باغ و چمن نظارۂ جنّت کا ایک دلفریب نمونہ پیش کرتے ہیں اور کسی شک کے بغیر وہ دنیا میں مطالعۂ قدرت کے بہترین ذرائع میں سے ہیں۔
اس دفعہ اتفاقاً ہمارا دورہ ایسے وقت میں ہوا، جبکہ
۵۰
موسمِ گل کا خوبصورت ترین حصّہ گزر چکا تھا، لہٰذا گلِ سوسن غائب اور گلابِ زرد ناپید تھا، گلِ سنجد کے لئے نگاہ اور قوّتِ شامّہ ترس رہی تھی، بنفشہ اور سجوپونر (مقدس پھول) یا تو پہاڑوں کی بلندیوں پر تھے یا عظیم پہاڑوں کے پیچھے، اس موقع پر کہساروں اور دور دور کی وادیوں کی سیاحت یاد آرہی تھی وادئ مچوبر (مچور) اور بلدیر (سریقول) کی چراگاہوں کے بنفشہ زار کا تصوّر ہو رہا تھا، ہاں مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت نے فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ فلان جشن کے موقع پر میں نے ایک بنفشی رنگ کی پگڑی کیوں باندھ لی تھی؟ میں نے عرض کیا، نہیں حضور، میں نہیں جانتا ہوں، تو فرمانے لگے: کیونکہ تم بنفشہ کے پھولوں کو بہت چاہتے ہو۔
کوئی شک نہیں کہ طائرانِ باغ و چمن کی نغمہ سرائی بامِ عروج پر پہنچ گئی تھی، خصوصاً مایون (زاغِ زرین = Oriole) یعنی سنہرے کوے کی نغمہ سنجی، جو جانِ بہار کا درجہ رکھتی ہے، ہر چند کہ کالی چڑیا (دیو) بھی خوب گاتی ہے اور بھی کئی خوش الحان پرندے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ مایون کو جو اس علاقے کے تمام خوش نوا طیور کا سرتاج ہے، میری طرح سب لوگ چاہتے ہوں گے، کیونکہ یہ زرد رنگ کا
۵۱
انتہائی خوبصورت پرندہ جہاں کسی بلند درخت پر ہنگامِ سحر نغمہ سرا ہو جاتا ہے، وہاں اہلِ ذوق لازماً مست و مسحور ہو جاتے ہیں۔ زمانۂ قدیم کے لوگ مایون کو محبوب رکھتے تھے، وہ اپنے عشقیہ گیتوں میں اس پرندے سے تشبیہات کا کام لیتے تھے۔ انہوں نے بطورِ دلچسپی یہ مفروضہ قائم کیا جیسا کہ مایون ان کی گفتگو سمجھ رہا ہو اور کہنے لگے: دادا مایون! کیا آپ کی بیوی زچہ ہو گئی ہے؟ شہزادی پیدا ہوئی ہے یا شہزادہ؟ پھر آپ نے ہمیں چھمرکی (ایک غذا) کیوں نہیں بھیجا؟ وغیرہ۔
مجھے مطالعۂ قدرت سے بے حد دلچسپی ہے، لہٰذا میں ٹیرو (Tiiro= چنڈول = Lark ) کے بارے میں فکرمند ہوں کہ وہ چند سالوں سے مجھے نظر نہیں آ رہی ہے، خدا نہ کرے کہ وہ یہاں سے ختم ہو جائے، ہر چیز ذاتِ سبحان کی تسبیح کرتی ہے، خواہ وہ جاندار ہو یا بے جان، چنانچہ چنڈول (ٹیرو) مرغانِ سحر خیز یعنی زود خیز پرندوں میں سے ہے، جو نمازِ فجر کے وقت عمودی شکل میں پرواز کر کے حمدِ باری تعالیٰ کی تسبیح کا گیت گایا کرتی ہے جس کی نوائے جانفزا میں دعوتِ ذکر و فکر ہے۔
ظاہری موسمِ بہار جیسا بھی ہو اس کا اپنا مقام ہے،
۵۲
مگر قلبی اور روحانی موسمِ بہار اس سے الگ ہے، جو اصل بھی ہے، اور خاص بھی، جس کی ایک مثال عزیز دوستوں کی ملاقات ہے، جس میں دین و دنیا کی مسرّتیں اور لذّتیں جمع ہو جاتی ہیں، ہر قابلِ قدر دوست کا دیدار اتنا انمول ہے کہ اس سے درحقیقت ایک عالمِ شخصی مل جاتا ہے، کیونکہ دینی اخوت و دوستی میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، جبکہ یہ دیدار جذبۂ لِلّٰہیت سے بھرپور ہو اور اس وسیلے سے اسلام کی ایک گونہ خدمت کی جائے۔
جب گلِ سرخ کا غنچہ مسکراتا (کھلتا) ہے اور جب بندۂ مومن ایمانی محرکات کے زیرِ اثر تبسم کرتا ہے، تو دونوں میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے، اس لئے کہ پہلی مسکراہٹ بے جان اور خاموش ہے، اور دوسری مسکراہٹ زندہ اور معنی خیز ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ نورِ ایمان کی ایک نورانی لہر ہے، پس ایمانی احباب کا مسکرانا بہارِ فردوسِ برین کی علامت ہے اور یہی دنیوی مرضِ غم کا علاج ہے۔
مورخہ ۸ جولائی ۱۹۸۶ء کو جب یہ درویش گلگت کے ہوائی اڈے پر وارد ہوا تو سب سے پہلے میرے بہت ہی عزیز دوست اے۔ رحمان سے ملاقات ہوئی، آپ کا چہرۂ فرخندہ نورِ
۵۳
ایمان سے منور تھا، ان سے مل کر میرے دل میں مسرّت و شادمانی کی کلیاں چٹخنے لگیں، کیوں نہ ہو، اے۔ رحمان صاحب میرے جگری دوست ہیں، اور یہ دوستی محض ترقی پسند کی بنیاد پر مستحکم ہے، آپ بیک وقت کئی عہدوں پر فائز ہیں، ان میں سے ایک خاص عہدہ الناصر ملٹی پرپز کواوپریٹو سوسائٹی کی صدارت ہے۔
اسی روز خانۂ حکمت شاخِ گلگت کے کئی احباب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اور میرے لئے وہ دن کتنا بڑا مبارک تھا، جس میں یہ بندۂ خاکسار یارانِ قدیم اور دوستانِ حمیم سے بصد شادمانی و شکرگزاری مل رہا تھا، دلوں میں خلوص و محبت کا ایک دریائے متلاطم لئے ہوئے، بعض مسکراہٹ کے جیتے جاگتے پھولوں سے مزین تھے، چشمِ بد دور! چشمِ بد دور! شمالی علاقہ جات میں خانۂ حکمت نے کتنی ترقی و پیشرفت کر لی ہے! یا اللہ! تو اپنی رحمتِ بے پایان سے ہمارے مشرق و مغرب کے تمام عزیزوں کو ہر قسم کی ترقی عنایت فرما! تاکہ وہ جان و دل سے قرآن، اسلام، اور انسانیت کی خدمت کر سکیں۔
۵۴
جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کے اسباب و ذرائع کو مہیا کرتا ہے، چنانچہ خانۂ حکمت برانچ گلگت میں صدر غلام قادر ہم پر خداوندِ عالم کا بہت بڑا احسان ہیں، اس احسانِ عظیم کے لئے اگر ہزار آدمی مل کر ہزار برس تک شکر کرتے رہیں تو پھر بھی کم ہے، مجھے یہ کہتے ہوئے بے حد مسرّت و شادمانی ہو رہی ہے کہ صدرِ موصوف نے ہماری گلگت برانچ کو جتنی ترقی دی ہے، اور جیسی فعالیت بخشی ہے، اس میں نائب صدر غلام رسول اور سیکریٹری شیر اللہ بیگ نہ صرف رسمی طور پر بلکہ جذبۂ ایمان سے بھی ممد و معاون رہے ہیں، اور ہر ممبر نے جان و دل سے تعاون کیا ہے۔
آج سے تقریباً پچاس برس پہلے صوبیداری اور صوبیدار میجری یہاں کے کسی شہزادے کو نصیب ہوا کرتی تھی لیکن بعد میں بفضلِ خدا یہ اعلیٰ فوجی منصب قابلیت کی بنیاد پر ملنے لگا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ کبھی خاندانی شہزادے فوج کے افسرِ اعلیٰ ہوا کرتے تھے، اور کبھی قابلیت و بہادری کے شہزادے، الحمد للہ، آج ہمارے درمیان صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) جناب عبدالحکیم شجاعت و دانشمندی کا ایک
۵۵
شہزادہ ہیں یہ ہماری کتنی بڑی سعادت مندی ہے کہ آپ نے ازراہِ کرم تعمیراتی کمیٹی کی صدارت قبول کر لی اور اپنے گرانمایہ اوقات میں سے صرف کر کے برائے دفتر ایک عالی شان عمارت تعمیر کروائی۔
سابق موکھی جناب قربان علی خان نہ صرف تعمیراتی کمیٹی کے سینئر معاون ہیں بلکہ آپ میرے ذاتی مشیروں میں بھی پیش پیش ہیں، آپ اکابرینِ جماعت کے ممتاز افراد میں سے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ مقامی حکومت بھی ہمیشہ ان کی عزت کرتی رہتی ہے، چین سے مجھے جیسے درویشی کے خزانے ملے، اور قریۂ مسگر میں جتنے میرے شاگردِ رشید پیدا ہوئے وہ سب کچھ آپ کے خاندان کی وجہ سے میسر ہوا۔
بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے صدر سابق صوبیدار علی داد اخلاص و محبت کا آئینہ اور عقل و دانش کا ایک خزانہ ہیں۔ آپ میرے اُن خاص عزیزوں میں سے ہیں جن کو میں اپنی روح کی طرح اپنا لیتا ہوں، کیونکہ وہ قرآنِ پاک اور امامِ عالی مقام کے سچے عاشق ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقی علم کے شیدائی ہیں اور روز بروز اپنے ذخیرۂ معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، مجھے وہ زمانہ یاد ہے جبکہ آپ کے والدِ بزرگوار اور
۵۶
میرے والدِ محترم قریۂ حیدرآباد (ہونزہ) میں مل کر دینی خدمات انجام دیا کرتے تھے، وہ دونوں بزرگ روحانی اور جسمانی برادری کا ایک عملی نمونہ تھے۔
بی۔آر۔ اے میں امیر الرحمان (اے۔ رحمان) بطورِ نائب صدر کام کر رہے ہیں، جن کا ذکرِ جمیل ہو چکا ہے، عزیزم بلبل جان اعزازی سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں، آپ کی قابلیت، تجربہ، جذبۂ خدمت اور گرانمایہ وقت کی قربانی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ آپ بیک وقت بہت سے جماعتی اداروں میں اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی گفتگو اور اخلاق کی ایک نرالی شان ہے، آپ کے قلم میں کمالِ سرعت بھی ہے اور جمالِ صنعت بھی، خدا نے ان کو ایک صاف اور رقت خیز دل عنایت کر دیا ہے، آپ علمِ امامت کے پروانوں میں سے ہیں، جب بلبل جان جیسے چند دوستوں پر مشتمل ذکر و علم کی محفل ہوتی ہے تو اس میں پاکیزہ روحوں کی مجموعی برکت سے بڑا لطف آتا ہے۔
مجھے سلطان اسحاق صاحب کے اوصافِ کمال سن کر اور دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی، آپ کی ایک خاص صفت ترقی پسندی اور علم دوستی ہے، آپ کو نہ صرف حلقۂ احباب میں بلکہ
۵۷
پورے علاقے میں بھی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، آپ خلوص اور دینی محبت کے عمل سے آہستہ آہستہ اس بندۂ درویش کے دل کی گہرائی میں اتر چکے ہیں، لہٰذا اب فراموشی محال ہے، ایسے عالی ہمت حضرات کی دوستی پر مجھے فخر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا ہے۔
میرے فرشتۂ ارضی صدر غلام قادر کی خواہش ہے کہ میں صوبیدار (ریٹائرڈ) یوسف علی کی خدمات کا بھی اعتراف کروں، بے شک عزیزم یوسف علی عشاقِ مولا میں سے ہیں اسی لئے وہ عشق و محبت سے علمی خدمت میں شرکت کر رہے ہیں، مجھے یقینِ کامل ہے کہ میرے عزیز بھائی صوبیدار یوسف علی کے نیک کاموں کی مسرّت و شادمانی سے میرے بزرگوار چچا کی روح جنت میں مسکراتی ہے، میری تجویز ہے کہ ہم اوشی کھنداس میں “خانۂ حکمت کیمپ” بنائیں گے، اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہم کبھی کبھار وہاں کسی گھر میں میٹنگ کریں گے، جس طرح سابق موکھی نیاز علی اور صوبیدار یوسف علی کے گھروں سے یہ کام لیتے آئے ہیں، اب صرف یہ تاریخی نام مقرر کرنا ہے، اوشی کھنداس کو “خانۂ حکمت کیمپ” کا درجہ دینے کی وجہ وہ تمام عزیزان ہیں جو خانۂ حکمت سے تعاون
۵۸
کرتے آئے ہیں۔ بعد میں یہ کیمپ دوسری جگہوں میں بھی ہو سکتا ہے۔
یہ ایک تاریخی نوعیت کا مقالہ ہے، جس میں صرف گلگت کے عزیزوں کا سپاس ہے، ان شاء اللہ کسی دوسرے مقالے میں ہونزہ کے عزیزوں کا ذکرِ جمیل ہوگا، تاہم ہر دانشمند مومن رحمتِ خداوندی پر یقین رکھتے ہوئے نیک اعمال کرتا ہے، اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اچھے کاموں کی اصل تعریف و توصیف بہشت میں ہے جہاں حور و غلمان مل کر مومنین و مومنات کے عظیم کارناموں کے توصیفی گیت گائیں گے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
حیدرآباد۔ ہونزہ۔ ۸۶۔۷۔۲۱
۵۹
قریۂ مسگار
۱۔ اس وقت قریۂ مسگار کے بارے میں کچھ افکار بصورتِ الفاظ تحریرکرنے کا باعث یہ ہوا کہ ہم نہ تو چین جاتے ہوئے اُس پاکیزہ اور پیارے گاؤں کا مختصر سا دورہ کر سکے اور نہ ہی واپسی پر، حالانکہ عزیزم شریف اللہ خان صدرِ خانۂ حکمت برانچ مسگار نے بڑے اشتیاق اور امید و یقین سے بتوسطِ عزیزم محمد ایوب خان پوسٹ ماسٹر ہمیں بر وقت دعوت دی تھی اور ہمارا اپنا ارادہ و پروگرام بھی تھا پھر بھی ہم وقتی طور پر مسگار کی بے پناہ خوشیوں سے قاصر رہے، تاہم کوئی ایسی مایوسی نہیں۔ آئندہ موسمِ بہار یا گرما میں (ان شاء اللہ) مسگار اور امریکا کے عزیزوں سے ملاقات کی باری ہے۔
۲۔ ہونزہ جہاں سرزمینِ پاکستان کو عظیم ملکِ چین کی ایک سرحد سے ملا کر رشتۂ ہمسائگی عطا کرتا ہے وہاں اس کے بالائی حصے کے چار سرے ہیں۔ چپورسن، مسگار، سوست اور شمشال، یہ چاروں دیہات گویا ہونزہ کے چار بیرونی دروازے
۶۰
ہیں، لہٰذا ان کی بہت بڑی اہمیت ہے، تاہم ہماری گفتگو کا عنوان “قریۂ مسگار” ہے۔ لہٰذا ہم یہاں مسگار سے متعلق کچھ عرض کریں گے وہ یہ کہ جب عزیزم محی الدین (۱) اور خود میں نے کراچی پہنچ کر یہ ذکر کر دیا کہ ہم کچھ مجبوریوں کی وجہ سے مسگار نہیں جا سکے تو یہ سن کر صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز کو فکر ہوئی اور انہوں نے فرمایا کہ اب طریقہ یہ ہے کہ یہاں سے ایک خط لکھنا چاہئے۔
۳۔ قریۂ مسگار کی روحانی تاریخ یا یوں کہنا چاہئے کہ اس خوش نصیب گاؤں کے زندہ، انمٹ اور بولتا نامۂ اعمال کا تصور بڑا عجیب و غریب ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس میں روحانیّت کے عظیم بھید پوشیدہ ہیں، ہم نے اس سے پہلے بھی مسگار کے بارے میں ایسی بہت سی باتیں کہی اور لکھی ہیں، آپ معلوم کر سکتے ہیں، کیونکہ اس تعریف و توصیف کے لئے ایک سبب نہیں بلکہ بہت سے اسباب ہیں، مثال کے طور پر اسی گاؤں کے ایک معزز خاندان کا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے کہ یہ بندۂ کمترین پہلی بار چین جا سکا، جس کے روحانی خزائن احاطۂ بیان سے باہر ہیں، اسی گاؤں میں سب سے پہلے روحانیّت کی مشقیں کی گئیں، اسی مقام پر اوّلین بار پاک و پاکیزہ روحوں کی
۶۱
زوردار عبادت کے ثمرات سامنے آئے، یہیں سے ایک روحانی سیلاب ابلنے لگا اور شرق و غرب میں پھیل گیا اور یہی مسگار برانچ ہے، جو چینی اسماعیلیوں کو نہ صرف جغرافیائی اعتبار سے قریب ہے بلکہ زبان اور ثقافت کے بعض پہلوؤں کے لحاظ سے بھی نزدیک ہے اور یہ بات قابلِ رشک ہو سکتی ہے۔
۴۔ ہر فردِ اسماعیلی کی ایک بہت بڑی سعادت اور فضیلت یہ ہے کہ وہ اپنے امامِ عالی مقام کے پیارے مریدوں کی دینی اور دنیوی فلاح و بہبود کے لئے اپنی دماغی، جسمانی اور مالی طاقت میں سے کچھ خرچ کرے، چنانچہ حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے جشنِ الماس (ڈائمنڈ جوبلی ۱۹۴۶ء) کے زمانے میں یہ بندہ بڑی شدت سے رو رہا تھا، کیونکہ اپنی تنگدستی اور تہی دامانی کے احساس سے غم زدہ تھا، جبکہ جماعت کے ثروت مند حضرات کی جانب سے لاکھوں کے حساب سے چندے کا اعلان ہو رہا تھا، لیکن خداوندِ عالم نے اُس گریہ و زاری کو سن لیا اور اپنی عنایتِ بے نہایت سے اسے ایک دعائے مستجاب کی صورت دی اور اس ذرۂ بے مقدار کو عزیز شاگردوں اور دوستوں میں پھیلا کر علمی دولت سے پیاری جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
۶۲
۵۔ مقصد فخر و مباہات نہیں بلکہ تمام عزیزوں کو جو اپنے پیارے استاد سے وابستہ ہیں جماعت کی علمی خدمت کا پرزور احساس دلانا ہے، ایسا نہ ہو کہ ہم میں سے کوئی فرد خانۂ حکمت اور عارف کے مقصد کو فراموش کر بیٹھے، حالانکہ ہمارا مقصدِ اصلی جماعت میں امامِ اقدس و اطہر کا روشن علم پھیلانا ہے۔
۶۔ قریۂ مسگار کی عبادات میں سے کیوں کرامات کا ظہور ہوتا رہا ہے؟ وہاں کے اسماعیلی عقیدے کو خداوند تعالیٰ نے کیوں اتنا راسخ بنایا؟ اس کی وجہ البتہ پہلے نہیں تو اب سمجھ میں آ رہی ہے، وہ یہ کہ وہ عزیزان مستقبل میں بڑی اہم خدمات انجام دینے والے ہیں۔
۷۔ ہم نے قبلاً لکھا ہے جس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ ترکی زبان کا جو کورس شروع ہو رہا ہے، اس میں موقع ایسا ہے کہ مسگار کے عزیزوں کو پیش پیش ہونا ہے، وہ سوست میں بھی ہیں اور گلگت میں بھی، وہ سب اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر امامِ زمان کی پیاری جماعت کی اعلیٰ علمی خدمت کر سکتے ہیں، جس میں امام علیہ السّلام کی عالی شان خوشنودی پوشیدہ ہے۔
۶۳
۸۔ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے (حدیث) یعنی اگر کوئی نیک کام نیک نیت اور اچھے ارادے کے تحت کیا جاتا ہے تو ایسا کام نیک اعمال میں درج ہو جاتا ہے، پس زبانِ ترکی کے کورس کے سلسلے میں جو بھی مشقت و تکلیف اٹھانی پڑے، وہ سب ایک افضل عبادت ہوگی، کیونکہ یہ قابلِ تعریف جذبہ محض دینی خدمت کی وجہ سے ابھرا ہے اور ہر ایسی خدمت بموجبِ فرمان ہزار سالہ عبادت کے برابر ہے، یا کہ بڑھ کر ہے۔
۹۔ جس مومن پر اللہ تعالیٰ مہربان ہوتا ہے، اس کے دل و دماغ میں مومنین کی خدمت کی توفیق پیدا کرتا ہے، پھر وہ ظاہری و باطنی ہدایت کی روشنی میں بڑی عمدگی سے غور و فکر کرتا ہے، کہ جماعت کی کونسی خدمت ضروری ہے اور کونسی خدمت ہے، جس کی انجام دہی ممکن ہے، اور اگر کسی بندۂ عاشق کو مولا کا کوئی کام کرنا پڑتا ہے، خواہ وہ کام ظاہری حضور کا ہو یا دور کا، لیکن بحالتِ باطن ہر جگہ حضور ہی حضور ہے، تو ایسے میں مومن صادق اور بندۂ عاشق بڑا شادمان ہوتا ہے، اس لئے کہ اس کو جماعتی خدمت کی اعلیٰ توفیق عنایت کی گئی ہے، وہ ہر عبادت کے بعد بھی اور اس کے علاوہ بھی
۶۴
سربسجود ہو کر انتہائی عاجزی و انکساری سے دعا مانگتا ہے: اے پروردگار! تیرا یہ بندۂ مفلس ازبس ناتوان اور بے حد محتاج ہے، اے خدائے مہربان! رحم کیجئے اور مدد دیجئے تاکہ یہ ناچیز تیرے بندوں کی کچھ خدمت کر سکے۔
۱۰۔ قومی اور جماعتی خدمت اگر خلوصِ نیت اور جذبۂ خیر خواہی سے سرشار ہو کر کی جاتی ہے، تو اس سے بیشمار اخلاقی اور روحانی برکتیں ملتی رہتی ہیں، کیونکہ خدمت کا مفہوم ہے رضا کارانہ طور پر خادم ہو جانا، اور اگر ایسا کوئی خدمت گزار عاشقِ مولا ہے، تو وہ خود کو جماعت کا غلام سمجھتا ہے، پھر اس میں فخر و تکبر کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے، ظاہر ہے کہ ایسے خدام بدرجۂ انتہا خیر خواہ اور ترقی پسند ہوں گے، ان کے دل میں کسی کی عداوت نہ ہو گی، نہ ہی وہ کسی سے نفرت کریں گے، ان کے لئے مومنین کی نیک دعائیں شب و روز کام کریں گی، ایسے خوش نصیب انسان راہِ روحانیّت میں ترقی کر سکتے ہیں۔
۱۱۔ قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت یعنی اسلام کا اوّلین درسِ عبرت حضرت آدم علیہ السّلام کا قصّہ ہے، جس میں حضرت آدمؑ عاجزی کا نمونہ ہیں، اور ابلیس تکبر کی مثال ہے، یہ سبق ایسا ہے کہ اگر کوئی دانشمند اسے ہزار بار دہرائے تو پھر بھی
۶۵
اس کی حکمتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا، کیونکہ خلیفۂ خدا کی کسرِ نفسی میں عالمِ دین کی ساری خوبیاں پوشیدہ ہیں، اور ابلیس کے کبر و نخوت میں دنیا بھر کی برائیاں جمع ہیں، پس دانا مومن وہ ہے جو حقیقی معنوں میں خدمت کرتا ہے، تاکہ وہ اس وسیلے سے جو ایک عاجزانہ عملی بندگی ہے، عاجزی کی بنیادی اور اصلی دولت حاصل کر سکے۔
۱۲۔ اگر آپ کسی ادارے کے عملدار ہیں تو زہے نصیب کہ آپ اس قابل ہیں اور جماعتی مفاد بھی اسی میں ہے کہ، آپ اس وقت اسی فریضۂ منصبی کو انجام دیتے رہیں، تاہم جب تک شوز کمپنی کی سروس جیسی خدمت کو رشک کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے، اور پیارے مولا کے عزیز روحانی فرزندوں کی کفش برداری کو ایک بہت بڑی سعادت نہ مانا جائے اور ہر ایسی خدمت کو اہمیت نہ دی جائے، جس میں ظاہری عزّت کی قربانی دی جاتی ہے تو پھر آپ کے نزدیک خادم اور خدمت کا مفہوم کس طرح مکمل ہو سکتا ہے۔
۱۳۔ میں نے مشرق و مغرب میں ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا، جو دینی طور پر یا دنیوی اعتبار سے بڑے معزز تھے، لیکن مجھے یہ جان کر نہ صرف تعجب ہوا بلکہ خوشی بھی ہوئی
۶۶
کہ وہ صاحبان چھوٹے بڑے سب کام کر رہے تھے اور ان میں مجھے کوئی فخر نظر نہیں آیا، یقیناً انسانیت کا کمال اسی میں ہے کہ غرور کو قریب نہ آنے دیا جائے۔
۱۴۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے عزیزوں کے درمیان بہت سے عاشقانِ مولا موجود ہیں اور جو شخص امامِ برحق کا حقیقی عاشق ہوتا ہے، اس میں انسانیّت اور دینداری کی جملہ صفات خود بخود آجاتی ہیں اور نورانی عشق کا یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے، سب جانتے ہیں کہ عشق حسن و جمال کے سوا وجود میں نہیں آسکتا اور جہاں کسی کی خوبیوں کو دیکھے بغیر دعوائے عشق ہو وہ دراصل عشق نہیں، پھر مولا کا عشق کس مشاہدے کا نتیجہ ہوگا؟ مولا کے جلوہ ہائے جلال و جمال نوع بنوع اور گوناگون ہیں، مگر سب سے اعلیٰ مشاہدہ و دیدار عقلی اور علمی ، پھر روحانی ہے، پس جو مومنین علم کی روشنی میں امام علیہ السّلام کو دیکھتے اور پہچانتے ہیں اور اس کی علمی کمالات کا یقین کر لیتے ہیں تو وہی حضرات مولائے پاک کے حقیقی عاشق ہیں اور ہمارے عزیزوں کی علمی خدمت کا مقصدِ اعلیٰ بھی یہی ہے کہ علمی حجابات کو اٹھا اٹھا کر لوگوں کو نورِ خدا کا عاشق بنا دیا جائے۔
۶۷
۱۵۔ روئے زمین پر ہمیشہ خلیفۂ خدا کا موجود ہونا سنتِ الٰہی کا اوّلین اعلان ہے اور اللہ تعالیٰ کی سنت جس میں تمام صفات کے مجموعی فعل کا ذکر ہے، ماضی میں ہو گزری ہے اور کسی تبدیلی کے بغیر ہر زمانے میں جاری و ساری ہے (۱۷: ۷۷، ۳۳: ۶۲، ۴۳: ۳۵) پروردگارِ عالم کی یہ پاک و پاکیزہ عادت یا قانون انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے عالمِ شخصی میں رہ کر اپنا کام کرتا ہے، کیونکہ فی عبادہ (۴۰: ۸۵) کا مطلب یہی ہے اور انہی آیاتِ مقدّسہ میں یہ معنی بھی ہیں کہ انسانِ کامل اپنے وجودِ باطن میں ایک ایسا آئینۂ مصفا یعنی مظہر ہے کہ اس میں سے ہر وقت صفاتِ خداوندی بدرجۂ کمال منعکس ہوتی رہتی ہیں، آپ یہ حقیقت آیاتِ نور میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آپ “سنتِ الٰہی” کے موضوع کو بہ اندازِ دل نشین پڑھ لیجئے، کیونکہ یہ بہت ہی عالی اور عظیم حکمتوں سے پُر ہے۔
۱۶۔ ظاہر میں دیکھا جائے تو زمانہ گزرتا جاتا ہے اور احوالِ عالم بدلتے رہتے ہیں، لیکن باطن میں جو کچھ ہے وہ خداوند تعالیٰ کی بے بدل اور اٹل سنت کے مطابق ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک جیسا رہتا ہے، مثال کے طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اور حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان جو چھ
۶۸
سو (۶۰۰) سال کا زمانہ ہے وہ زمانۂ فترت کہلاتا ہے (۰۵: ۱۹) جس میں بظاہر کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا، لیکن اسی زمانے سے متعلق یہ بھی ایک ارشاد ہے کہ نورِ خدا نہ تو کبھی بجھتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے بجھا سکتا ہے (مفہوم: ۶۱: ۰۶ تا ۰۸) پس اس کے یقینی معنی یہ ہوئے کہ زمانۂ فترت میں بھی نورِ الٰہی بلباسِ شخصیت موجود تھا کہ ایسا ہونا سنتِ خدائی میں سے ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
ہفتہ ۶ صفر المظفر، ۱۴۰۷ھ / ۱۱ اکتوبر ۱۹۸۶ء
(۱)۔ نصر اللہ خانۂ حکمت کے نائب صدر اور محی الدین ادارۂ عارف کے نائب صدر ہیں۔
۶۹
علیؑ علیؑ
۱۔ ہمارے وطنِ عزیز میں ۲۳ مارچ کو جس شان سے یومِ پاکستان کا عظیم جشن منایا جاتا ہے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اس موقع پر کچھ وقت کے لئے میں ٹی۔ وی دیکھ رہا تھا، افواجِ پاکستان کے پریڈ کا مظاہرہ بے حد شاندار اور بے مثال تھا، تاہم میرا دل آتشِ جذبات کے شعلوں کے تحت مثلِ شمع اس وقت پگھلنے لگا جبکہ گوریلا دستہ علی علی کہتے ہوئے ڈبل مارچ کر رہا تھا اور جبکہ فوج کے مختلف گروپوں کی بہادری کے سلسلے میں درجہ وار تمغوں کا ذکر ہو رہا تھا اور سب سے بڑا فخریہ تاثر اس وقت دیا جاتا تھا، جبکہ “نشانِ حیدر” کا ذکر کرنا ہو، اس صورتِ حال نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا میرے دل نے کہا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں، بلکہ یہ لافتیٰ الا علی ۔۔۔ کی وہ عملی تفسیر و تشریح ہے جو آج اسلام، پاکستان، قوم اور حکومت کی جانب سے ہو رہی ہے۔
۲۔ آپ نے دیکھا ہوگا یا سنا ہوگا کہ “المستدرک”
۷۰
بصورتِ کتاب حدیثوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے، جس کی چار بڑی بڑی جلدیں ہیں اور صفحات مجموعاً ۲۴۶۲ (دو ہزار چار سو باسٹھ) ہیں اس کی جلدِ سوم میں اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل بیان کئے گئے ہیں، لیکن سب سے اعلیٰ فضائل حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام کے ہیں، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو:
۳۔ دوسرے بہت سے حوالوں کو فی الوقت چھوڑ کر مذکورہ کتاب کی اسی جلد کے صفحہ ۴ پر دیکھئے کہ ہجرت کی رات مولا علیؑ کس درجے کے جذبۂ قربانی اور کس بلندی کے عشقِ رسول سے سرشار ہوکر آنحضرتؐ کے بسترِ مبارک پر لیٹ جاتے ہیں، اور قرآنِ کریم کس شان سے اس بے مثال عمل کر سراہتا ہے (ترجمہ:) اور لوگوں میں سے (خدا کے بندے) کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اور خدا ایسے بندوں پر بڑا ہی شفقت والا ہے (۰۲: ۲۰۷)۔
۴۔ صفحہ ۳۲ پر یہ ارشادِ نبوّیؐ درج ہے۔ لمُبارزۃ علی بن ابی طالب لعمرو بن عبد ود یوم الخندق افضل من اعمال امتی الیٰ یوم القیامۃ = روزِ خندق علی
۷۱
ابنِ ابی طالب کا عمرو بن عبدود سے جنگ کرنا میری امت کے تا قیامت اعمال سے افضل و بہتر ہے۔ ان امور سے ظاہر ہوا کہ حضرت مولا علی صلوات اللہ علیہ شجاعت و مردانگی میں منفرد و یکتا تھے، اور فرشتہ رضوان کی زبان سے لا فتیٰ الا علی و لا سیف الا ذوالفقار کہنا بجا ہے (۱)، پس یہی سبب ہے کہ آج اسلامی اور قومی نعرہ “علی علی” ہے اور دلاوری کا سب سے بڑا تمغہ “نشانِ حیدر” ہے، یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک ایسا اٹل فیصلہ ہے کہ اس میں پوری قوم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
۵۔ صفحہ ۱۰۷ پر جو روایت ہے ، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو فضائل مولا علیؑ کے ہیں ایسے فضائل کسی کے بھی نہیں۔
۶۔ صفحہ ۱۰۹ پر تحریر ہے: لما رجع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم من حجۃ الوداع و نزل غدیر خم۔۔۔ انی قد ترکت فیکم الثقلین احد ہما اکبر من الآخر کتاب اللّٰہ تعالیٰ و عترتی فانظروا کیف تخلفونی فیھما فانھما لن یتفرقا حتیٰ یردا علی الحوض۔۔۔ ثم اخذ بید علی رضی اللّٰہ عنہ فقال من کنت مولاہ فھذا ولیہ، اللّٰھم وال من والاہ و عاد من
۷۲
عاداہ = جب آنحضرتؐ اپنے آخری حج سے واپس ہوئے اور غدیرِ خم کے مقام پر ٹھہر گئے۔۔۔ تو ارشاد فرمایا: تحقیق میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ ایک سے ایک بڑھ کر ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن اور میری عترت ہے، دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیسا سلوک کرتے ہو، وہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں یہاں تک کہ دونوں حوضِ کوثر پر اتر جائیں۔۔۔ پھر حضورِ اکرمؐ نے مولا علیؑ کے ہاتھ کو پکڑ لیا اور فرمایا کہ میں جس کا سرپرست ہوں تو یہ (علیؑ) اس کا سرپرست ہے۔ یا اللہ تو اس شخص کو دوست رکھ جو اس کو دوست رکھے اور ایسے آدمی کو اپنا دشمن قرار دے جو علیؑ سے دشمنی کرے۔
۷۔ صفحہ ۱۱۰ پر مرقوم ہے۔ ایُھا الناس انی تارک فیکم امرین لن تضلوا ان اتبعتموھما و ھما کتاب اللّٰہ و اہل بیتی عترتی = لوگو! میں تمہارے درمیان دو امر چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم ان دونوں کی پیروی کروگے تو ہرگز راہِ راست سے گمراہ نہ ہو جاؤگے اور وہ دونوں خدا کی کتاب اور میرے اہلِ بیتؑ ہیں۔ ثم قال ایقلمون انی اولی بالمومنین من انفسھم ثلاث مرات قالوا نعم، فقال
۷۳
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم: من کنت مولاہ فعلی مولاہ = پھر ارشاد فرمایا کہ آیا تم یہ بات جانتے ہو کہ میں مومنین پر ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتا ہوں؟ یہ تین بار پوچھا، انہوں نے عرض کیا کہ ہاں، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں جس کا سرپرست ہوں پس علیؑ اس کا سرپرست ہے۔
۸۔ صفحہ ۱۱۱ پر مذکور ہے: ان علیا منی و انا منہ = بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ مذکورہ احادیث میں سے ہر ایک اپنی جگہ جامعیّت و حکمت کی ایک دنیا ہے، اور اسی طرح یہ فرمانِ رسول بے حد اہمیت رکھتا ہے اور اس میں عقل کے لئے بے شمار نعمتیں موجود ہیں۔
۹۔ صفحہ ۱۲۱ پر فرمایا گیا ہے: من اطاعنی فقد اطاع اللّٰہ، و من عصانی فقد عصی اللّٰہ، و من اطاع علیا فقد اطاعنی، و من عصی علیا فقد عصانی = جس نے میری فرمانبرداری کی بے شک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے علی کے فرمان کو مانا یقیناً اس نے میرے حکم کو قبول کیا اور جس نے علی کے حکم سے انکار کیا
۷۴
تو اس نے میرے حکم سے انکار کیا۔ آپ ان ارشادات میں سوچ کر یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بحکمِ خدا آنحضرتؐ کا مقصد نبوّت کے بعد امامت کو اجاگر کرنا تھا۔
۱۰۔ صفحہ ۱۲۲ پر یہ ارشاد درج ہے: قال لعلی: انت تبین لامتی ما اختلفوا فیھا بعدی = یعنی رسولِ خدا نے مولا علی سے فرمایا کہ: تم میرے بعد میری امت کے اختلافات کا تصفیہ و فیصلہ کرو گے۔ ظاہر ہے کہ امت اور اس کے اختلافی مسائل صرف حضرت علی علیہ السّلام کی شخصیت کے زمانے تک محدود نہیں، بلکہ قیامِ قیامت تک ہیں، لہٰذا یہ ماننا حقیقت ہے کہ علیؑ سے سلسلۂ امامت مراد ہے جو ہمیشہ جاری ہے۔
۱۱۔ صفحہ ۱۲۳ پر یہ حدیثِ شریف ہے۔ ان منکم من یقاتل علی تاویل القرآن کما قاتلت علی تنزیلہ = بے شک تمہارے درمیان وہ شخص بھی ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا، جس طرح کہ میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اسلام میں ایک دعوت کے بعد دوسری دعوت ہے، اس لئے کہ اس میں ہدایاتِ نبوّت کے بعد تعلیماتِ امامت ہیں یعنی ظاہر کے بعد باطن۔
۷۵
۱۲۔ صفحہ ۱۲۴ پر یہ اہم حدیث مذکور ہے: انا السید ولد آدم و علی سید العرب = آنحضرتؐ نے فرمایا: میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کا سردار ہے۔ جو کامل و مکمل شخص حضورِ اکرمؐ کے زمانے میں عرب کا سردار ہو وہ آپ کے جانشین کی حیثیت سے سارے جہان کا سردار ہو سکتا ہے۔
۱۳۔ صفحہ ۱۲۶ اور ۱۲۷ پر یہ حدیث منقول ہے: انا مدینۃ العلم و علی بابھا فمن اراد العلم فلیاتھا من بابھا = میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے پس جو شخص علم کو چاہتا ہو تو اس کو چاہئے کہ اس شہر کے دروازے سے داخل ہو جائے۔ کوئی شک نہیں کہ یہ حدیثِ شریف سورۂ یاسین (۳۶) آیت ۱۲ کی ایک تشریح ہے۔
۱۴۔ صفحہ ۱۲۸ پر یہ ارشادِ نبوّیؐ درج ہے: من یرید ان یحیی حیاتی و یموت موتی و یسکن جنۃ الخلد التی وعدنی ربی فلیتول علی بن ابی طالب = حضورِ اقدسؐ نے فرمایا کہ: جو شخص میری طرح زندگی گزارنا، میری طرح مر جانا اور اس دائمی بہشت میں رہنا چاہے، جس کا وعدہ میرے پروردگار نے مجھ سے فرمایا ہے تو ایسے آدمی کو چاہئے
۷۶
کہ علی بنِ ابی طالبؑ سے دوستی کرے۔ یہاں یہ نکتہ خوب دلنشین کر لیں کہ امامِ وقتؑ ہی مولا علیؑ کا نور ہے، جس کے بغیر نہ تو علیؑ کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی دوستی ممکن ہے۔
۱۵۔ کتبِ احادیث میں سے کوئی کتاب علی مرتضیٰؑ کے فضائل و مناقب سے خالی نہیں، اگرچہ یہ بات ضرور ہے کہ کسی کتاب میں مولا علی علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل کم ہے اور کسی میں زیادہ، تاہم المستدرک کا مختصر سا تعارف بے حد ضروری تھا، لہٰذا یہاں اس کی ایسی بہت سی حدیثوں میں سے جو حضرت علیؑ کے بارے میں ہیں ، بطورِ نمونہ چند پیش کی گئیں۔
۱۶۔ جو شخص حدیثِ شریف کی جامعیّت اور حکمت کو نہیں سمجھتا ہو وہ اس کے جواہر کو نہیں چھو سکتا، حالانکہ اس کی جامعیّت کا یہ عالم ہے کہ صرف ایک ہی حدیثِ صحیحہ اپنے اندر بے شمار مطالب پنہان رکھتی ہے، اس کی وجہِ خاص یہ ہے کہ حدیثِ نبوّی آسمانی وحی کے زیرِ تعلیم اور اسی کی پیداوار ہوتی ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو صحیح حدیث ہے، وہ ایک قسم کی وحی کا درجہ رکھتی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے:
۱۷۔ خداوندِ تعالیٰ کی خدائی میں ایک انتہائی عظیم واقعہ
۷۷
ستارۂ عقل کا اپنے مقام پر گر جانا ہے جس کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ما ضل صاحبکم و ما غوای، و ما ینطق عن الھوای، ان ھو الا وحی یوحی (۵۳: ۰۲ تا ۰۴) آپ ان آیاتِ کریمہ کا ترجمہ جانتے ہیں اس لئے میں صرف ایک مفہوم بیان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ رحمتِ عالم کا ہر قول و فعل غلطی اور خطا سے پاک، خواہشِ نفسانی سے بالاتر اور ربّانی وحی کے عین مطابق ہوا کرتا تھا، اسی لئے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نورِ مجسّم اور قرآنِ ناطق تھے، پس آپ کا کلام دراصل خدا کا کلام ہے اور حضورِ انورؐ کے بعد یہ سب سے اعلیٰ درجہ امامِ عالی مقام کو حاصل ہے، جو ہر زمانے میں موجود اور حاضر ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
بدھ یکم شعبان المعظم ۱۴۰۷ھ
یکم اپریل ۱۹۸۷ء
(۱)۔ جنگ احد کی فتح پر آنحضرتؐ نے مولا علیؑ سے فرمایا: اے بھائی، سنتے ہو کہ ایک فرشتہ رضوان نام جو خازنِ بہشت ہے آسمان پر کہہ رہا ہے: لا فتیٰ۔۔۔ کوکبِ دری صفحہ ۴۳۔
۷۸
عارف خان (۱)
میرے بے حد عزیز عارف خان! میری ہستی تم سے قربان!
میں خاص و عام عبادت کی شادمانیوں اور حقیقی علم کی روشنیوں میں یا علی مدد کہتا ہوں، خداوندِ برحق قبول فرمائے! الحمد للہ! مجھے ان چند ایام میں گلگت اور ہونزہ کے بہت سے دوستوں اور عزیزوں کے دیدار کی سعادت حاصل ہوئی، جس سے میں کئی معنوں میں بے حد شادمان ہوں اور واجب ہے کہ میں خدائے بزرگ و برتر کا شکر ادا کروں۔
سب سے پہلے پیارے دفتر کی بات ہو، کیونکہ یہ بفضلِ خدا بڑا عالی شان بنا ہے، اور کسی شک کے بغیر یہ ہمارے مشرق و مغرب کے تمام عزیز شاگردوں اور دوستوں کا عظیم تاریخی کارنامہ ہے، جس کو نسلِ آئندہ ہرگز فراموش نہیں کرے گی، اور اس سے (ان شاء اللہ) امامِ عالی مقام کے حقیقی علم کی روشنی پھیلتی رہے گی، لہٰذا ہر فردِ اسماعیلی کے حق میں یہ دفتر مبارک ہو! آمین!!
۷۹
یہاں کے ان حضرات کے اسمائے گرامی کو صفحاتِ تاریخ پر آبِ زر سے لکھنا چاہئے۔ جنہوں نے اس دفتر کی تعمیر کے سلسلے میں کارہائے نمایان انجام دیئے ہیں، امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی اس خاموش خدمت میں بڑی بڑی سعادتیں پوشیدہ ہیں جبکہ مولا خصوصی طور پر شمالی علاقہ جات کی ترقی چاہتے ہیں۔
جو فردِ اسماعیلی اپنے امامِ وقت کو صحیح معنوں میں نہیں پہچانتا اس کے سامنے دینی اور روحانی مشکلات آ سکتی ہیں، اس کے برعکس جو مومن اپنے امام کو علم و معرفت کی روشنی میں جانتا پہچانتا ہو، یا عقیدۂ راسخ رکھتا ہو، تو وہ بہت بڑا دانا ہے۔
خدا تعالیٰ نے آلِ ابراہیمؑ، اور آلِ محمدؐ کے أئمّۂ طاہرینؑ کو عظیم روحانی سلطنت عطا کر دی ہے، اور یہ ایک قرآنی حکمت ہے جس کا جاننا ہر شخص کے لئے ضروری ہے، یہ بادشاہی بہت سے معنوں میں دنیا کی حاکمیت و حکومت سے مختلف ہے، مثال کے طور پر دنیا کا کوئی بادشاہ یہ قدرت ہرگز نہیں رکھتا کہ وہ بیک وقت اپنے بہت سے بیٹوں اور عوام کے لائق افراد کو اپنی ذات میں ایک کر کے یکتا بادشاہ بنائے اور
۸۰
اس کے لئے یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ اپنی سلطنت کو تقسیم کرکے سب کو جدا جدا سلطان بنا سکے، کیونکہ ظاہری بادشاہی محدود ہوا کرتی ہے مگر روحانی سلطنت غیر محدود ہے۔
ہمارے علمی دوستوں کے لئے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ وہ امامِ اقدس و اطہر کی بادشاہی کے عظیم بھیدوں کی تلاش کریں، یہ اسرارِ عظیم گنجِ مخفی کی طرح پوشیدہ ہیں، پس جس کو توفیق و ہمت عطا ہوئی ہو وہ قرآنِ حکیم میں بنظرِ حکمت دیکھے، اگر نورِ ہدایت کی روشنی میں کلیدیں مل جاتی ہیں اور خزائنِ علم و حکمت کے ابواب کھل جاتے ہیں تو زہے نصیب!
آپ کو میرا پُرخلوص مشورہ یہ ہے کہ آپ قرآنِ پاک میں م۔ل۔ک مادّہ سے بنے ہوئے الفاظ خصوصاً مُلک اور مَلِک کو دیکھیں اور اُس آیۂ کریمہ میں خوب غور کریں، نیز اسی طرح لفظِ سلطان میں غور و فکر کریں اور اس سلسلے میں ہماری کتابوں، مقالوں اور کیسیٹوں سے بھی فائدہ حاصل کریں، کیونکہ امامِ زمان علیہ السّلام کی روحانی سلطنت کے بھید بدرجۂ انتہا مفید ہیں اور یہ موضوع بے حد نافع اور مسرّت انگیز ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
دنیا میں اگر کسی چیز کو بڑھانا ہے تو اس کے کئی طریقے
۸۱
ہیں ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اُس چیز کی بہت سی بلکہ بے شمار کاغذی تصویریں بن سکتی ہیں اور اس طریقِ کار کی سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ کسی شیٔ کی بے حساب فلمیں بنائی جاتی ہیں، پھر بھی اس میں اصل اور نقل کے مابین آسمان زمین کا فرق رہتا ہے، مگر قدرتِ خدا دیکھئے کہ روح اور روحانی سلطنت جہاں مساواتِ رحمانی (یک حقیقت) میں اپنی اصل کی کاپی(Copy) ہو جاتی ہے، وہاں اس میں اور اُس میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا، کیونکہ نفوسِ انسانی عروج و کمال کے بعد اپنی جگہ پر نفسِ واحدہ کے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں، جبکہ ہر روح مقامِ ازل پر نفسِ واحدہ کی ایک کاپی ہے اس لئے کہ بحکمِ خدا تمام روحیں آدم کے سانچے میں ڈھل کر پیدا ہوئی ہیں نہ کہ طریقِ تولید پر، پس ہر شخص بحدِّ قوّت حضرت آدمؑ (نفسِ واحدہ) کی ایک کاپی ہے۔ (مفہومِ قرآن ۰۴: ۰۱، ۳۱: ۲۸)۔
آپ ضرور مانیں گے کہ یہ بہت بڑا انقلابی تصوّر ہے، اگر یہ کہنا درست ہے تو آپ سوچیں اور اس کا علمی فائدہ اٹھا لیں چونکہ یہ دورِ قیامت ہے لہٰذا اس میں انقلابی علم کی ضرورت ہے۔ والسّلام۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۸۲
حیدرآباد، ہونزہ
۸۷۔۴۔۲۲
(۱) ۔ عارف = ادارۂ عارف، خان = فارسی میں خانہ ہے، جس سے خانۂ حکمت مراد ہے، پس “عارف خان” مخفف ہے ادارۂ عارف اور خانۂ حکمت کا۔
۸۳
سایۂ قرآن
۱۔ سورۂ نحل (۱۶: ۸۱) میں دیکھئے کہ ہر چیز کا سایہ ہوا کرتا ہے، خواہ وہ شیٔ جسمانی ہو یا روحانی یا عقلانی، کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ہر مخلوق کا سایہ ہے تو اس کا یہ مقدّس فرمان ایک ایسا قانونِ کل کا درجہ رکھتا ہے کہ اس میں کوئی استثناء نہیں، پس جاننا چاہئے کہ نورانی چیزوں کے سائے روشن، اور ظلمانی اشیاء کے سائے تاریک ہوا کرتے ہیں، جیسے سورج کا عکس یعنی سایہ آئینہ جیسی چیزوں میں درخشان و تابان ہو جاتا ہے، مگر کسی چٹان کا سایہ ایسا نہیں ہو سکتا۔
۲۔ خود قرآنِ حکیم اور احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ پاک نہ صرف بصورتِ روح لوحِ محفوظ میں موجود ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ اس کا عقلی وجود قلمِ الٰہی میں بھی ہے (۰۴: ۹۶) پس جس طرح وجودِ قرآن کے تین درجے ہیں، اسی طرح اس کے تین سائے ہیں: ظاہری، روحانی
۸۴
اور عقلی، جو علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ہیں۔
۳۔ سورۂ نحل میں جہاں (۱۶: ۸۱) تمام سایوں کا یکجا ذکر فرمایا گیا ہے وہاں اس آیۂ کریمہ کے آخر میں ایسی نعمتوں کے اتمام کا تذکرہ ہے کہ ان کی مدد سے خداوندِ عالم کی فرمانبرداری ہو سکتی ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ یہ سائے بطورِ خاص علمی نوعیت کے ہیں، کیونکہ حقیقی نعمت علم ہی ہے، اور علم کے ذریعے دو ہیں: نور اور کتابِ مبین (۰۵: ۱۵) جس طرح کسی چیز کے سائے کا تعین صرف اس وقت ہو سکتا ہے، جبکہ سورج طلوع ہو جاتا ہے اس کے معنی یہ ہوئے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے برحق جانشین کے وسیلے سے قرآنِ مقدّس کے تینوں سائے حاصل ہو سکتے ہیں۔
۴۔ آپ نے شاید یہ دیکھا ہوگا کہ بعض عقیدت مند مسلمان دلہا، دلہن اور گھر سے سفر جیسے اہم کام کے لئے نکل جانے والے کے سر پر قرآنِ کریم کا سایہ کر دیتے ہیں، یہ روایت کتنی اچھی ہے اور کس قدر پُرحکمت ہے کہ اس میں یہ دعا مطلوب ہے: “تم قرآنِ عظیم کے زیرِ سایہ محفوظ و سلامت رہو!” اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم میں سے ہر شخص
۸۵
سایۂ قرآن کے علم و حکمت کو جانتا تو اس سے بہت ساری بھلائی وابستہ ہو جاتی، جبکہ خیرِ کثیر کسی دوسری چیز میں نہیں، صرف حکمت ہی میں ہے (۰۲: ۲۶۹)۔
۵۔ پرانے زمانے میں ظاہری اور دنیاوی بادشاہ کو بعض لوگ ظلِ الٰہی (خدا کا سایہ) کہتے تھے، مگر یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے، کیونکہ “سایۂ خدا” صرف حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہوا کرتے ہیں، چنانچہ اللہ جل شانہ کائنات کا نور ہے (۲۴: ۳۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نورِ منزل ہیں (۰۵: ۱۵، ۳۳: ۴۶) یعنی اس کائناتی نور کا نورانی اور روشن سایہ یا عکسِ درخشان، جیسے بدرِ منیر (ماہِ تابان) ایک نورانی سایہ ہے سورج کا، مگر یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ جس طرح سایہ اور سایہ فگن کے درمیان ربط و رشتہ ہوتا ہے اسی طرح چاند اور سورج کے مابین وصل ہے فصل نہیں، ہر چند کہ زمین سے نور کا یہ وسیع پل ہمیں نظر نہیں آتا اور اگر ہم رات کے وقت فوراً ہی چاند پر جا کر دیکھیں تو کسی شک کے بغیر یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ چاند کی روشنی دراصل سورج سے آتی رہتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی سالک رسولؐ میں فنا ہو جائے تو وہ سرچشمۂ نور، یا نورالانوار کا مشاہدہ
۸۶
کر سکتا ہے، جی ہاں! سایۂ خدا ایسے وسیلے کو کہتے ہیں، پس یہی ظلِ الٰہی اسی شان میں حضورِ اکرمؐ کے بعد امامِ اطہرؑ ہیں (۵۷: ۲۸)۔
۶۔ نورِ علم و حکمت کے سب سے عظیم مرتبے دو ہیں، ایک مرتبہ یہ کہ نور وہ بحرِ محیط ہے، جس میں ساری کائنات ڈوبی ہوئی ہے، دوسرا یہ کہ نور کا سرچشمہ بھی اور مجموعہ بھی گوہرِ یکدانہ ہے، جیسا کہ سورۂ نور (۲۴: ۳۵) کا ارشاد ہے، نیز یہ نورِ علم و عرفان بشکلِ بہشت آسمان و زمین کے طول و عرض میں پھیلا ہوا بھی ہے اور عالمِ شخصی میں یکجا و نزدیک بھی (۵۰: ۳۱) کیونکہ خدائے بزرگ و برتر اپنے سایۂ نور کو نہ صرف پھیلا ہی دیتا ہے بلکہ اسے اپنے دستِ قدرت میں لپیٹ بھی لیتا ہے (۲۵: ۴۵ تا ۴۶)۔
۷۔ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں خوب غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سایۂ خداوندی کی معرفت آسان ہو جس کا مفہوم یہ ہے: اے رسولؐ! کیا تم نے مقامِ معراج پر اپنے پروردگار کی طرف نہیں دیکھا کہ اس نے اپنے نورِ ازل کے روشن سائے کو کہاں کہاں اور کس طرح پھیلایا ہے؟ اور اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا رکھتا پھر ہم نے اس پر نورِ ازل
۸۷
ہی کو رہنما بنا دیا، پھر ہم نے سایۂ نورانیّت کو نورِ عقل (یعنی نورِ ازل) میں فنا کر کے بڑی آسانی سے اپنے قبضۂ قدرت (مٹھی) میں لے لیا۔
۸۔ اس دور میں کرۂ ارض پر وہ ظلِ الٰہی جو ٹھہرا ہوا ہے قرآنِ حکیم اور امامِ عالی مقام ہیں، خداوندِ تعالیٰ کے یہ دونوں نورانی سائے، جو علم و حکمت کے دو سرچشمے ہیں، اجتماعی قیامت تک باقی اور ضوفگن رہیں گے، کیونکہ اللہ کی یہ کتاب اور ہادئ برحق ظلِ ممدود (۵۶: ۳۰، سایۂ دراز) ہیں اور ظلِ ممدود کی درازی کا یہ عالم ہے کہ یہ بہشت سے لے کر اس دنیا تک اور عرشِ برین سے فرشِ زمین تک پھیلا ہوا ہے۔
۹۔ سورۂ مراسلات کے ایک ارشاد (۷۷: ۳۰) سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ سایۂ عذاب ایک ہے، جس کی تین شاخیں ہیں یعنی دوزخ کا وجود جہالت و نادانی کا گھپ اندھیرا سایہ ہے، جس میں عقلی، روحانی اور جسمانی عذاب موجود ہے اور اس کے مقابلے میں سایۂ ثواب بھی ایک ہے، اور اس کی بھی تین شاخیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشتِ برین نورِ عقل کا روشن سایہ ہے جہاں انسانی عقول، نفوس اور اجسامِ ابداعی
۸۸
کے لئے ثواب و رحمت کی کوئی کمی نہیں، ثواب و عذاب کی تین تین شاخیں کیوں مقرر کی گئی ہیں؟ اس لئے کہ انسان تین درجوں سے مکمل ہوا ہے: عقلِ جزوی، روحِ ناطقہ اور جسم۔
۱۰۔ قرآنِ کریم میں بہشت کی نعمتہائے عظمیٰ کے سلسلے میں اگر سایوں کا بھی تذکرہ فرمایا گیا ہے تو یہ سائے کیا ہیں؟ یہ اہلِ جنت کے لئے وہاں کے سب سے بڑے معجزات ہیں کہ وہ اس وقت انائے علوی میں ہوں گے جس کے گوناگون ظہورات ہیں، بہشت کے تمام اشجار زندہ، گویندہ اور تابندہ انسان ہوتے ہیں۔ پس جو آدمی جس درخت کے سائے میں رہنا چاہے، اس کا ظہور و جلوہ اسی مخصوص انسانی شکل میں ہوگا اسی طرح وہ ہر پسندیدہ درخت یعنی انسان کو اپناتا جائے گا جس میں بے حد لذّت و شادمانی ہے۔
۱۱۔ اس میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ایک کا دوسرے میں فنا ہو جانے کا تصوّر کیوں ہے؟ جیسے امام میں فنا ہو جانا، یا فنا فی الشیخ ، یا فنا فی المرشد اور پھر فنا فی الرسول؟ یہ مومن کی اُس لاانتہا زندگی کے لئے جو بہشت میں اسے عطا ہو گی، ایک مثال، دلیل اور نمونہ ہے، اس حقیقت کے علاوہ آپ براہِ راست
۸۹
بہشت کے اُس قانون میں بھی سوچ سکتے ہیں، جس میں مجموعی طور پر تمام ممکنات کا ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ حکم یہ ہے: لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ (۵۰: ۳۵) ان کو بہشت میں سب کچھ ملے گا جو چاہیں گے اور ہمارے پاس اور بھی زیادہ (نعمت) ہے۔ نیز ان آیاتِ کریمہ کو بھی دیکھیں: ۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲۔ پس اللہ تعالیٰ کی مصلحت و حکمت یہی ہے کہ دنیا میں مومن کی محدود خواہشیں پوری ہوں اور جنت میں غیر محدود۔
۱۲۔ انسان کی دو انائیں، یا اس کی روح کے دو (۲) سرے کیوں ہیں؟ یعنی آدمی کی جزوی حقیقت عالمِ سفلی میں اور کلی حقیقت عالمِ علوی (روحِ اعظم) میں کس لئے ہے؟ اور اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ اس میں یہ عظیم حکمت پنہان ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا اور خداوند تعالیٰ انسان کو احسنِ تقویم (۹۵: ۰۴، نمونۂ بہترین) پر پیدا نہ کرتا تو اس کے لئے جنت کسی غیر کا باغ جیسی لگتی، اسے اپنائیّت اور وحدت کی لذّت نصیب نہ ہوتی، جیسے کوئی خاندانی غلام اگر بادشاہ بن جائے تو پھر بھی اسے احساسِ کمتری سے چھٹکارا نہیں مل سکے گا، پس یہ حقیقت ہے کہ انسان بوسیلۂ انائے علوی ہمیشہ
۹۰
اپنی اصل سے واصل رہا ہے، جیسے آدمی ہو یا درخت، اس کا سایہ اپنی اصل سے منقطع نہیں ہو سکتا اور جو سائے بظاہر اصل چیزوں سے الگ نظر آتے ہیں مثلاً کاغذی تصویر، فلم وغیرہ، وہ بھی درحقیقت جدا نہیں بلکہ وہ کئی معنوں میں اصل سے وابستہ ، مربوط اور متحد ہیں۔
۱۳۔ آپ جس وقت عالمِ خواب میں جاتے ہیں اور اس میں مختلف قسم کے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو وہ دنیائے ظاہر کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ ان کے روحانی سائے ہوا کرتے ہیں، اسی دلیل کی روشنی میں آپ یقین کریں کہ بہشت میں آپ کو سب لوگوں کے نورانی سائے ملیں گے، مگر اس کے ادراک و شعور کی حقیقت سب سے زیادہ روشن ہو گی۔ اس مثال سے یہ علم ہو جاتا ہے کہ سائے کا تصوّر نہ صرف باطن سے ظاہر کی طرف ہے بلکہ ظاہر سے باطن کی طرف بھی ہے، یعنی یہ درست ہے کہ عقل کا سایہ روح ہے اور روح کا سایہ جسم ، جس میں سایہ لطیف سے کثیف ہوگیا اور یہ بھی صحیح ہے کہ جسم کا سایہ روح ہے اور روح کا سایہ عقل، اس میں سایہ کثیف سے لطیف ہوگیا، کیونکہ اللہ آسمان و زمین (بلندی و پستی) کا نور ہے، چنانچہ اس نور کی وجہ سے جو عالمِ بالا میں ہے، انسان کا
۹۱
سایہ زمین کی طرف آیا ہے اور اس نور کے سبب سے، جو عالمِ سفلی میں ہے، آدمی کا سایہ عالمِ علوی میں جا چکا ہے۔
۱۴۔ اگر آپ صوفی ہیں، یا درویش یا حقیقی مومن، اور ترقی پسند مسلمان، تو کوئی شک نہیں کہ آپ پر نور کے وسیلے سے قرآنِ مجید کا روحانی سایہ پڑ سکتا ہے، کیونکہ ہر چیز کا سایہ ہوا کرتا ہے اور قرآن کا سایہ بے حد ضروری ہے مگر یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ نور یعنی نائبِ رسول کے سوا اور کوئی آپ کو قرآنِ حکیم کے ظلِ روحانی میں بٹھا نہیں سکتا، جیسے آفتابِ عالم تاب یا ماہِ تابان کے بغیر آدمی اور درخت کا سایہ نہیں پڑ سکتا ہے۔
۱۵۔ اب آخر میں میرا پُر زور مشورہ یہ ہے کہ آپ اس جیسے ہر اہم مضمون کو متعلقہ آیاتِ کریمہ کے ساتھ ملا کر پڑھیں، تا کہ قرآنی حکمتوں کے سمجھنے میں مدد مل سکے، پروردگارِ عالم ہم سب کو اس مقصد کے لئے اعلیٰ توفیق عنایت فرمائے! آمین!!
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
بدھ، ۱۵ رمضان المبارک ۱۴۰۷ھ / ۱۳ مئی ۱۹۸۷ء
۹۲
روشن چہرے اور نورانی یادیں
۱۔ سورۂ حجرات (۴۹: ۰۷) کے حوالے سے عرض کرتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایمان کو مومنین کے لئے بدرجۂ انتہا محبوب بنا دیا ہے، کیونکہ جب یہ قلبِ انسانی میں جاگزین ہو جاتا ہے تو یہ وہاں اپنی صورتِ اصلی میں ظہور پذیر ہو جاتا ہے، وہ صورت ایک تابندہ نور ہے، جس کو قرآن نے “زینتِ قلبی” قرار دیا، اس لئے کہ قادرِ مطلق کے نزدیک آدمی کے دل، دماغ اور روح کے واسطے جس آبادی، سرسبزی، ترقی، جمال کمال اور زینت کی ضرورت ہے، وہ سب ایمان میں موجود ہے، جبکہ ایمانِ کامل ایک نور ہے اور نور سرچشمۂ تجلیات ہے، کیونکہ تجلیات کے بغیر نور نہیں اور نور کے سوا باطنی زینت کے کچھ معنی نہیں ہوتے۔
۹۳
۲۔ بے شک تجلیات کا تعلق باطن سے ہے، تاہم ہر مومن صادق کے چہرے پر ایمان کی ایک بھرپور رونق ضرور ہوتی ہے۔ مگر ہاں، ہمیں اس کا درست مشاہدہ اس وقت ممکن ہے جبکہ ہمارا دل ہر قسم کی رنجش اور بد گمانی سے برتر ہو، اگر ہم کسی مومن سے ناراض ہیں تو یہ کتنی بڑی شومی ہے کہ ہمیں اس کا چہرۂ روشن اچھا نہیں لگتا ہے، یہ سب کچھ عداوت کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، ورنہ ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوا کرتا ہے (المومن مرآۃ المومن) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک شخص معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر تنِ تنہا کسی جنگل میں ساری عمر گزارتا ہے تو وہ نہ آئینہ بن سکتا ہے، اور نہ آئینہ دیکھ سکتا ہے۔
۳۔ مسلک ہر کسی، سکول کی طرح ہے، یہی سبب ہے کہ دانشمندوں نے اسے مکتبۂ فکر کہا اور دینِ اسلام اپنی مجموعی حیثیت میں ایک انتہائی عظیم ملک جیسا ہے، اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ ہمیں شروع شروع میں مکتب ہی میں درسِ اخوّت و محبت حاصل کرنا ہے، اور اس کے بعد اسے اسلام کی سطح پر عملی جامہ پہنانا ہے، قائدِ اعظم محمد علی جناح ابتداءً کسی ایک مکتبۂ فکر میں محدود سوچتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ
۹۴
نے نورِ اسلام سے ان کے دل و دماغ کو منور کر دیا، اور ان کے ساتھ ایسے روشن دماغ حضرات بہت تھے، جن کی عالی ہمتی اور وسیع القلبی کی بدولت پاکستان معرضِ وجود میں آیا، اگر بانیانِ پاکستان سب کے سب اسلام اور نظریۂ پاکستان کے حق میں مخلص نہ ہوتے، اور فروعی اختلافات کو نظر انداز نہ کرتے، تو وہ اپنے اس عظیم الشّان مقصد کو کبھی حاصل نہ کر سکتے، اور نہ کوئی شخص آج اسی طرح ان کو یاد کرتا۔
۴۔ اسلام اور ایمان کے اوصافِ کمال کی ایک برکت یہ ہے کہ جو لوگ اس کو جان و دل سے اپنا چکے ہیں، وہ اہلِ بصیرت کی نگاہ میں بڑے پسندیدہ اور پیارے لگتے ہیں، جس کی وجہ دونوں طرف کا ایمان ہے، جو بقولِ قرآن ایک بے حد محبوب شیٔ ہے، پس روشن چہرے مومنین ہی کے چہرے ہیں اور نورانی یادیں بھی انہی کی یادیں ہیں، اور اگر ہم آئینۂ ایمانی کی اس نعمتِ عظمیٰ کی شکرگزاری اور قدر دانی نہ کریں تو پھر کیا ہوگا، بس یہی کہ ناشکری ہو گی۔
۵۔ آپ میرے بارے میں یہ فیصلہ نہیں دے سکتے ہیں کہ میں صرف اپنے شاگردوں ہی کو چاہتا ہوں اور بس، حالانکہ میں حسبِ مراتب سب کو عزیز رکھتا ہوں اور اس
۹۵
حقیقت کا گواہ خداوندِ تعالیٰ ہے کہ اہلِ اسلام تو مسلمان ہی ہیں، میں تو ساری انسانیّت کو بھی بہشت کی ایک عظیم حکمت کے پیشِ نظر دوست رکھتا ہوں، اگر آپ ازل اور ابد کا تصوّر کر سکتے ہیں تو کر کے دیکھیں کہ اس میں سب انسان ایک ہی حقیقت ہیں، حضرت آدم علیہ السّلام یا نفسِ واحدہ (۳۹: ۰۶) میں بھی سارے آدمی ایک ہیں، اس کے علاوہ بعثتِ انبیاء علیہم السّلام سے قبل بھی تمام لوگ ایک ہی امت تھے (۰۲: ۲۱۳) پس آپ یہ گمان نہ کیجئے کہ میں اپنے شاگردوں کے سوا کسی دوسرے کو نہیں چاہتا ہوں۔
۶۔ میں نمونۂ ہدایت کے لئے ہمیشہ امامِ وقت صلوات اللہ علیہ کی طرف دیکھتا ہوں، امامِ اقدس و اطہر کی نگاہِ محبت اور نظرِ کرم ظاہراً و باطناً کس پر نہیں، آپ سب پر مہربان ہیں، تاہم یک طرفہ دوستی اور جانبین کی دوستی میں بڑا فرق ہوا کرتا ہے اور اس بیان میں ذرہ بھر شک نہیں۔
۷۔ اب میں اس وضاحت کے بعد اپنے دورۂ شمالی علاقہ جات کا کچھ تذکرہ کر سکتا ہوں، تا کہ عظیم باغ و گلشن کے بے حساب پھلوں اور پھولوں سے کوئی مثال اور نمونہ پیش ہو، چنانچہ یہ میرے لئے ایک بہت ہی خاص اور بہت ہی بڑی
۹۶
سعادت تھی کہ ہمیشہ کی طرح میں چند جماعت خانوں میں گیا اور چند علمی محفلوں میں شرکت کی، لیکن میں حیرت زدہ ہوں کہ ان لاتعداد دینی نعمتوں میں سے کس نعمت کا ذکر کروں، اور کس روشن چہرے کا نام لوں، حالانکہ ہر ہر مومن میرے لئے ایک روشن چہرہ بھی ہے اور ایک صاف آئینہ بھی، بہر حال حق یہ ہے کہ اس دفعہ سب سے پہلے ایک بڑے دیندار خاندان کے چشم و چراغ کا ذکرِ جمیل کریں، وہ ہیں جناب دلدار خان صاحب، جنہوں نے مجلسِ علم و ادب کے لئے بصد شوق اہتمام کیا تھا، ان کی پاکیزہ نیت اور دعائے مخفی کی وجہ سے گویا ہم سب یارانِ محفل عشقِ حقیقی کی آگ سے پگھل کر مساواتِ رحمانی کے سانچے میں ڈھل کر ایک ہو گئے تھے، ہم ایسی تمام مجالس کو ہرگز فراموش نہیں کر سکتے ہیں جو کئی مقامات پر منعقد ہوئیں۔
۸۔ برادرِ بزرگ و محترم سابق موکھی مہربان شاہ صاحب اور ان کے جملہ عزیزان کی مہمان نوازی اور پر خلوص آداب و حرمت کو دیکھ کر چینی ترکستان کی جماعت یاد آ گئی، بڑا اشتیاق تھا اچھا ہوا کہ وہیں پر قربان علی صاحب اور رحمت علی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی اور کچھ اعلیٰ سطح کے سوالات
۹۷
و جوابات بھی ہوئے۔
۹۔ ہمارے بہت ہی عزیز صدر غلام قادر جو ارضی فرشتوں میں سے ہیں، بہت ہی عزیز نائب صدر غلام رسول جو ایک عظیم مجاہد ہیں اور اعزازی سیکریٹری شیر اللہ بیگ جو میرے بہت ہی عزیز با سعادت شاگردوں میں سے ہیں، ان تینوں معزز عملداروں کی ہمیشہ یہ خواہش اور فرمائش ہوتی ہے کہ میں ان کی نہیں بلکہ ان کے ان احباب اور ساتھیوں کی تعریف و توصیف کروں جو شب و روز قومی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ حضرات بے شمار خدمات انجام دیتے آئے ہیں، تاہم کسی کامیاب لیڈر کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے رفقائے کار کی خیرخواہی اور عزت کرتا ہے۔
۱۰۔ گلگت، نومل، دنیور اور اوشی کھنداس کے روشن چہروں کی اس یاد کے بعد ہم تصوراتی طور پر ہونزہ جاتے ہیں، وہاں بھی مرتضیٰ آباد، علی آباد، ڈورکھن، حیدرآباد، کریم آباد، اور التت کے بہت سے عزیزان تابناک چہروں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ جیسے موکھی علی حرمت صاحب، موکھی عرب خان صاحب، میر امان صاحب، موکھی امان اللہ صاحب، مجیب صاحب، غلام مرتضیٰ صاحب، نصیر الدین القطوشی صاحب،
۹۸
شریف اللہ خان صاحب اور دیگر تمام عزیزان۔
۱۱۔ جو حضرات حضرتِ اسرافیل علیہ السّلام کے لشکر میں شامل ہیں، ان کی یادِ دلنشین کیسے دل سے مٹ سکتی ہے، جیسے عزیزانم موکھی غلام قادر صاحب، عبد اللہ شاہ صاحب، امیر حیات صاحب، موکھی محمد ایوب صاحب، کامڑیا محمد صادق صاحب اور دوسرے عزیزان، ان کی منقبت خوانی سے دلوں کی پاکیزگی ہو جاتی ہے اور روحوں کو پُرقوّت غذا ملتی ہے۔
۱۲۔ اگر مومنین ایک دوسرے کے آئینے ہیں تو کس طرح؟ وہ اس طرح کہ ایک مومن دوسرے مومن کی خوبیوں کو اجاگر کرتا ہے، نیز خیرخواہی اور شائستگی کے ساتھ اصلاح بھی کرتا ہے، یعنی اہلِ ایمان آپس میں دوست ہوا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد سے اخلاقی، روحانی اور عقلی طور پر سنورتے جاتے ہیں۔ جیسے انسان جب اپنے آپ کو سنوارتا ہے تو آئینے کو سامنے رکھ لیتا ہے اس سے کہیں زیادہ کام وہ آئینے کرتے ہیں جو زندہ، گویندہ اور عاقل ہیں، جو ایک دوسرے کی ذات میں اتر جاتے ہیں اور وہ مومنین ہی ہیں۔
۱۳۔ قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں خدا، رسول اور امام کی دوستی کے بعد مومنین کے آپس کی دوستی کا ذکر
۹۹
موجود ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر اُس نیّت، قول اور فعل کی مذمت فرمائی گئی ہے، جس سے اس دوستی میں خلل پڑتا ہو، اس کا سبب ظاہر ہے کہ دین کی سلامتی، مضبوطی اور ترقی اسی میں ہے کہ تمام اہلِ ایمان آپس میں متحد ہو جائیں۔ جیسے زمانۂ نبوّت میں ہم سب مل کر ایک تھے اسی لئے اسلام کو کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ مگر افسوس کہ آج ہم فرقہ فرقہ ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے دین کو طرح طرح کے نقصانات پہنچ رہے ہیں۔
۱۴۔ مومن کی غیبت کی تشبیہہ و تمثیل اس کی لاش میں سے گوشت کھانے سے دی گئی ہے (۴۹: ۱۲) اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کی کئی حکمتیں ہیں، اور ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ ہر آدمی کے اعمال میں نیکیاں بھی ہوتی ہیں اور برائیاں بھی، جن کا محاسبہ قیامت میں ہونے والا ہے، چنانچہ وہ اپنی نیکیوں میں زندہ ہے اور برائیوں میں مردہ، اب جبکہ ایک مومن دوسرے مومن کی غیبت کرتا ہے یعنی پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرتا ہے تو یہ شخص گویا اپنے مومن بھائی کی لاش میں سے گوشت کو کھاتا ہے، اس مثال میں کہ اُس کا گناہ اِس کی ہستی میں داخل ہو جاتا ہے۔
۱۰۰
۱۵۔ اگر غیبت کرنا ایسا فضول اور بہت بڑا گناہ ہے کہ اس سے دوسرے کے گناہ کا بوجھ بھی ہم ہی پر آ پڑتا ہے تو پھر اس کا کوئی خاص علاج کیا ہو سکتا ہے؟ اس روگ سے بچ کر رہنے کے لئے قرآنِ کریم میں بہت سے نسخے موجود ہیں، مگر مختصر یہ کہ ہم اسلامی اخوّت و محبت کے بھیدوں کو سمجھیں، وہ یہ ہے کہ ہم سب بحقیقت بھائی بھائی ہیں، دوسری مثال میں سارے انسان فی الاصل ایک ہیں جبکہ سب کو خدائے واحد نے نفسِ واحدہ سے پیدا کیا ہے، یہ مقامِ ازل ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ۔۔۔ اوّلین و آخرین اپنی اصل کی ایک جیسی کاپیاں ہیں اور اسی معنیٰ میں ارشاد ہوا: مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍؕ (۶۷: ۰۳) مفہوم: اے رسول تم مرتبۂ عقل اور مقامِ ازل پر جس خلق کا مشاہدہ کر رہے ہو اس میں اور اس کی ظہوری کاپیوں میں دراصل کوئی فرق نہیں۔
۱۶۔ مومنین بھائی بھائی ہیں، یہ قرآن کا پہلا درس ہے کیونکہ بھائیوں کے آپس میں رشتہ تو ہے ہی، مگر وہ ہر لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہوتے، جہاں لوگوں کی کاپیوں کا ذکر ہے (۰۴: ۰۱) وہ دوسرا سبق ہے اور جس مقام پر انبعاث کا تذکرہ فرمایا گیا ہے وہ آخری تعلیم ہے اور اس میں وحدانیت
۱۰۱
کا راز پوشیدہ ہے (۳۱: ۲۸)۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۸۷۔۵۔۲۱
۱۰۲
گلدستے ہی گلدستے
۱۔ پھول عالمِ نباتات میں دستِ قدرت کے شہکار ہیں، پھولوں کے گلدستے زبردست دلکش اور بے حد پیارے ہوا کرتے ہیں، بعض گلدستے وہ ہیں، جو قدرتی طور پر تیار ہوتے ہیں جبکہ وہ گچھوں کی صورت میں یکجا کھلتے ہیں اور بعض گلدستوں کو لوگ بناتے ہیں، اسی چیز کی مناسبت سے بعض انسانوں کا نام گلدستہ یا دستہ گل (دستۂ گل) ہوتا ہے، اور ہر ایسا نام پھولوں کی نسبت اور تصوّر کی وجہ سے بڑا خوبصورت اور بہت ہی عزیز لگتا ہے اس میں البتہ یہ راز پوشیدہ ہے کہ کائنات کے کلی حسن و جمال سے انسان کا انتہائی قریبی رشتہ ہے، بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ کائنات انسان کی بکھری ہوئی خوبیوں کو پیش کرتی ہے اور انسان وہ نمونۂ قدرت ہے جس میں خدائے علیم و حکیم آسمان اور زمین کی جملہ رعنائی و زیبائی کو لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷)
۲۔ خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شدید
۱۰۳
مشتاقانہ انتظار کے بعد اب زبردست انقلابی کتاب “قرآنی علاج” اور اس کا انگریزی ترجمہ “قرآنک ہیلنگ” چھپ کر شائع ہو رہی ہے، جس کی بدولت بے شمار علم دوست حضرات کے دلوں میں مسرّتوں اور شادمانیوں کا طوفان برپا ہوا ہے، اسی خوشی کے عالم میں یہ بندۂ درویش ۲۱ جولائی ۱۹۸۷ء کو کراچی سے راولپنڈی بذریعۂ طیارہ پہنچ گیا، وہاں سے ۲۳ جولائی کو ویگن سے گلگت وارد ہوا، اگرچہ یہ سفر طویل مسافت اور شدید گرمی کے سبب سے بہت تکلیف دہ تھا، تاہم گلگت پہنچتے ہی سفر کی ساری زحمتیں احباب و اقارب کی ملاقات کی وجہ سے فراموش ہوگئیں۔
۳۔ میں عارضی طور پر ہونزہ اِن (Hunza Inn) میں ٹھہرا تھا، مگر عزیزم غلام رسول نائب صدر نے ازراہِ کرم اپنے گھر بلا لیا، جن کی علم دوستی اور مہمان نوازی مسلمہ ہے، چنانچہ راقم ۲۴ تاریخ کو ان کے خوبصورت باغ میں رہائش پذیر تھا، یہ باغ بھی ہے اور گلشن بھی، لہٰذا وہ مقام دلکش پھولوں اور پسندیدہ پھلوں کے حسین امتزاج سے بڑا دلفریب و دلاویز منظر پیش کر رہا تھا۔
۴۔ گلزار (پھولوں کی جگہ) مناظرِ قدرت میں سب سے
۱۰۴
حسین اور سب سے رعنا منظر ہوا کرتا ہے۔ میں نے ریٹائرڈ صوبیدار میجر عبد الحکیم کے باغ و گلشن کو بھی دیکھا ہے، بہت پسندیدہ اور مسرّت انگیز ہے، ان کی باوقار شخصیت بھی ظاہراً و باطناً ایک زندہ باغ و گلشن ہے، یہی وجہ ہے کہ بوقتِ ملاقات ہمیں بے حد مسرّت و شادمانی حاصل ہو جاتی ہے۔
۵۔ میرے بہت ہی عزیز غلام قادر صدر امامِ برحق کا ایک زندہ اخلاقی اور علمی معجزہ ہیں، آپ ہمیشہ اپنی گفتگو میں انسانیّت، آدمیّت، اخلاص، عقل اور دانشمندی کے گلدستے پیش کرتے ہیں، جن سے عطر افشانی ہوتی ہے، مجھے یقین ہے کہ ان کے اور دوسرے بہت سے عزیزوں کے پاکیزہ دلوں میں علمِ حقیقی کا باغ و گلشن معمور ہو رہا ہے، جس کے اشجارِ پُرثمر ہمیشہ سر سبز اور گلہائے خوشرنگ سدا بہار ہیں، جب میں عزیز القدرم شیر اللہ بیگ اعزازی سیکریٹری کو دیکھتا ہوں، تو مجھے انتہائی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے اور اس واقعہ کو وحدتِ ایمانی کا ایک کرشمہ سمجھتا ہوں۔
۶۔ بی۔ آر۔ اے۔ بہشتِ برین کے منتخب پھولوں کا ایک مسرّت بخش گلدستہ ہے، جس میں چند زندہ و تابندہ پھول اکٹھے ہیں اور ہر گلِ رعنا اپنی ذات میں ایک لطیف اور
۱۰۵
پائندہ گلستان ہے، بالکل اسی طرح الناصر دوسرا گلدستہ ہے اور عارف بھی انہی صفات کے ساتھ تیسرا گلدستہ ہے، غرض یہاں نہ صرف شمالی علاقہ جات کے پیارے دوستوں کی بات ہے، بلکہ اس ذکرِ جمیل کے پسِ منظر میں دنیا بھر کے عزیزوں اور مومنوں کی ایک عجیب و غریب اور معجزاتی وحدت ہے اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ ہر عزیز میں مجسّم ہو سکتی ہے، میری جان اس وحدت و سالمیّت سے بار بار قربان! اس وحدت و سالمیّت میں بے حد لذّت و شادمانی ہے۔
۷۔ کوئی شک نہیں کہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی ایک ایسی دنیائے شخصی ہیں، جس میں تمام اعزہ و احبا کی وحدتِ ذرّات پائی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر جگہ جملہ احباب پروانہ وار ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں، اس حقیقت کی ایک روشن دلیل موصوف کا دورۂ شمالی علاقہ جات ہے، جو حال ہی میں ختم ہوا، اس دورے میں آپ کے ساتھ آپ کی رفیقۂ حیات محترمہ رشیدہ (صمصام) بھی تشریف فرما تھیں، جو ایک زبردست اسکالر ہیں ، وہ بہت سے خصائلِ محمودہ کی مالک ہیں، من جملہ ایک یہ کہ آپ بحالتِ گریہ و زاری انتہائی عمدہ خطابت فرماتی ہیں، جو سب سے مشکل ترین کام ہے۔
۱۰۶
۸۔ موضعِ جٹیال کی اُس مجلسِ مبارکہ سے ہم سب کو بے قیاس روحانی خوشی حاصل ہو رہی تھی، جس کے میزبان برادرِ بزرگ سابق موکھی مہربان شاہ صاحب اور جناب رحمت علی تھے، یہ مقدّس محفل ہمیشہ ہمارے تصوّرات میں بلکہ نامۂ اعمال میں ان شاء اللہ تابان و درخشان رہے گی، جس کی کئی وجوہ ہیں اور ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اس پاکیزہ انجمن میں امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ کے علمی لشکر کے دو عظیم سینئر جرنیل موجود تھے، یعنی ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی اور رشیدہ صمصام۔
۹۔ قریۂ اوشی کھنداس مجھے بے حد عزیز ہے، جس کی خاص وجہ وہاں کے علمی قدردان ہیں، وہ ایک شاداب اور سرسبز مقام بھی ہے، جہاں موسمِ بہار اور گرما بے حد خوشگوار ہوتا ہے، پھولوں کی مہک اور پرندوں کی چہک بڑی دلفریب ہوتی ہے، اگر ایسے میں وہاں دوستانِ حمیم کی کوئی علمی محفل بھی سجائی جائے تو پھر یقیناً خمرِ بہشت کی سی خوشبو اور لذّت و شادمانی دینے لگتی ہے۔ جی ہاں، اوشی کھنداس میں شروع ہی سے ایسی پگھلا دینے والی کامیاب مجالس ہوتی رہی ہیں اور میرے بھائیوں کے گھروں میں کثرت سے یہ علمی
۱۰۷
خدمت ہوتی آئی ہے، برادرِ عزیزم ایکس صوبیدار یوسف علی اور ان کی اہلیہ محترمہ بلقیس اس معاملے میں بڑے خوش نصیب ہیں، جو دینی علم کے جذبۂ قدردانی سے سرشار ہو کر ہر بار پھولوں کو نچھاور کر دیتے ہیں، اس دفعہ وہ دونوں عزیز، نیز عزیزانم نیاز علی، سید علی اور فدا علی سب دن بھر بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے کہ جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی، ہماری بہت ہی عزیز بیٹی رشیدہ صمصام اور دیگر معزز مہمانان کب تشریف لاتے ہیں، آخر کار ان کی دعا قبول ہوئی اور وہ تمام حضرات تشریف فرما ہو گئے۔
۱۰۔ یارانِ محفل کی جتنی بھی خوب سے خوب تر تعریف کی جائے کم ہے، کیونکہ ہر فرد نور کا ایک پَرتَو (عکس) تھا، جیسا کہ پیر ناصر خسرو ق س فرماتے ہیں: زنورِ او تو ہستی ہمچو پرتو۔۔۔ حجاب از پیش بردار و تو او شو۔ ترجمہ: تو اُس (یعنی خدا) کے نور کا عکس (صورت = تصویر) ہے، سامنے سے پردہ ہٹا لے اور تو وہ ہو جا، یعنی فنا فی اللہ اور بقا با للہ کا مرتبہ حاصل کرلے۔ غرض مجلس غیر معمولی اور معجزاتی قسم کی تھی، جس کی اجتماعی حکمتوں کی بدولت ہر فرد کا دل و دماغ منور و تابان ہو رہا تھا۔
۱۱۔ اب یہاں ایک خاص علمی نکتہ بیان کرنا ہے، وہ یہ کہ
۱۰۸
جس طرح رحمان اور رحیم دونوں اسم ہم معنی ہیں، اسی وزن پر سلمان و سلیم (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) بھی ہم معنی ہیں، اور لفظِ سلیمان بھی یہی معنی رکھتا ہے، کیونکہ وہ سلمان کا اسمِ مصغر ہے، پس “سلمان غریبم قلبِ تو۔۔۔ ” کا مطلب قلبِ سلیم ہے، جس کی حکمت “قرآنی علاج” میں بیان ہوئی ہے، آپ بغور مطالعہ فرمائیں۔
۱۲۔ سلمان فارسی کے نام کے بارے میں “میوۂ بہشت” صفحہ ۱۴۸ پر دیکھئے کہ آپ کا پہلا نام کچھ اور تھا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اُن کا نام سلمان رکھا اور ظاہر ہے کہ ایسے نام میں بہت بڑی حکمت ہوتی ہے جو رسولِ خدا نے مقرر فرمایا ہو، چنانچہ سلمان یقیناً قلبِ سلیم کا مرتبہ رکھتے تھے، اور ان کی روحانیّت میں ایک سلیمانی سلطنت پوشیدہ تھی۔
۱۳۔ جب کوئی مومن علم و عمل کے ذریعہ امامِ عالی وقار میں فنا ہو جاتا ہے تو اس وقت حضرت امامؑ ہی اس کا قلب ہو جاتا ہے کیونکہ دراصل یعنی روحانیّت میں حدودِ دین ہی مومنین کے حواسِ ظاہر و باطن کا کام کرتے ہیں، اور قرآنِ حکیم میں اس کا ذکرِ جمیل اس طرح فرمایا گیا ہے:
۱۰۹
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـٕدَةَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ (۲۳: ۷۸) اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تم لوگ بہت ہی کم شکر کرتے ہو۔ یہی ارشاد ۱۶: ۷۸ اور ۳۲: ۰۹ میں بھی ہے، یاد رہے اس میں روحانی ترقی اور نشاۃِ ثانیہ (۵۶: ۳۵، ۲۹: ۲۰) کا ذکر ہے، پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ حدیثِ نوافل کے بموجب جہاں نورِ خدا بندۂ صالح کے کان، آنکھ، ہاتھ اور پاؤں ہو جاتا ہے، وہاں ذاتِ سبحان نہیں بلکہ حدودِ دین یہ کام کرتے ہوئے خدا کی نمائندگی کرتے ہیں۔
۱۴۔ قرآنِ حکیم کی ہر آیۂ کریمہ دوسری کئی آیتوں کی تفسیر ہوا کرتی ہے، مثلاً سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا نور ہے۔ یہ خود بھی بہت سی آیات کی تفسیر کرتی ہے جس کی تفسیر وہ آیۂ مبارکہ ہے، جس میں سراجِ منیر (روشن چراغ، ۳۳: ۴۶) یعنی آنحضرتؐ کا ذکر ہے اور اس کی وضاحت اُس آیۂ مقدّسہ میں ہے جس میں نورِ امامت کا تذکرہ ہے (۵۷: ۲۸)۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۷، اگست ۱۹۸۷ء
۱۱۰
چند خزائن
۱۔ دینِ فطرت (۳۰: ۳۰) اسلام
۲۔ سنتِ الٰہی اور سنتِ رسول (۱۷: ۷۷)
۳۔ اولوالامر (۰۴: ۵۹)
۴۔ مَلک یعنی روحانی سلطنت (۰۴: ۵۴)
۵۔ راسخون فی العلم (۰۳: ۰۷)
۶۔ استنباط (۰۴: ۸۳)
۷۔ تفکر و تدبر اور اجتہاد (۴۷: ۲۴)
۸۔ حکمت (۰۲: ۲۶۹)
۹۔ کتابِ مکنون (۵۶: ۷۸)
۱۰۔ امامِ مبین (۳۶: ۱۲)
۱۱۔ نور علیٰ نور (۲۴: ۳۵)
۱۲۔ بابِ علم و حکمتِ رسول (حدیث)
۱۳۔ جوامع الکلم (حدیث)
۱۴۔ فقۂ قدیم اور فقۂ جدید
۱۱۱
۱۵۔ تدریجی ہدایت (۱۷: ۱۰۶)
۱۶۔ ناسخ اور منسوخ (۰۲: ۱۰۶)
۱۷۔ وارث اور وزیر (۲۵: ۳۵) کون ہے؟
۱۸۔ رسول کے دو گواہ (۱۳: ۴۳)؟
۱۹۔ قرآنِ ناطق، یا نور (۲۳: ۶۲، ۰۵: ۱۵)؟
۲۰۔ دورِ شریعت اور دورِ قیامت (۰۷: ۵۳)
۲۱۔ قرآن مہجور کیوں (۲۵: ۳۰)؟
۲۲۔ اہلِ ذکر (۱۶: ۴۳)؟
۲۳۔ اہلِ بیت (۳۳: ۳۳)
۲۴۔ اسمِ اعظم / اسماء الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰)
۲۵۔ جنگِ تنزیل اور جنگِ تاویل (حدیث)
۲۶۔ تاویل کی پیشین گوئی (۰۷: ۵۳)
۲۷۔ شریعتِ نوح (۴۲: ۱۳)
۲۸۔ شریعت و منہاج (۰۵: ۴۸)
۲۹۔ خدا، رسول اور نور پر ایمان (۶۴: ۰۸)
۳۰۔ ایمان کے بعد اور ایمان لانا (۰۴: ۱۳۶)
۳۱۔ الکوثر (۱۰۸: ۰۱ تا ۰۳) مردِ کثیر الذریت یعنی علیؑ
۳۲۔ شاہد (۱۱: ۱۷) گواہ (علیؑ)
۱۱۲
۳۳۔ صادقین۔۔۔ أئمّہ (۰۹: ۱۱۹)
۳۴۔ أئمہ اور امر (۲۱: ۷۳)
۳۵۔ أئمّۂ وارثین (۲۸: ۰۵)
۳۶۔ امام المتقین (۲۵: ۷۴)
۳۷۔ امامِ زمان (۱۷: ۷۱)
۳۸۔ ہادئ زمان (۱۳: ۰۷)
۳۹۔ اسلام دینِ ترجیہات (۳۹: ۵۵، ۱۷: ۵۳)
۴۰۔ امام خانۂ خدا (۰۲: ۱۲۵)
۴۱۔ امام صراطِ مستقیم (۰۵: ۱۵ تا ۱۶)
۴۲۔ قیامت سے اندھے (۲۷: ۶۶)
۴۳۔ امام اسم و ذکرِ خدا (۲۰: ۱۲۴)
۴۴۔ ملوک کون ہیں (۰۵: ۲۰)؟
۴۵۔ شبِ قدر (۹۷: ۰۱ تا ۰۵) حجتِ قائم
۴۶۔ امام لوحِ محفوظ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲)
۴۷۔ امام نامۂ اعمال (۴۵: ۲۹)
۴۸۔ امام کتاب (۱۱: ۱۷)
۴۹۔ قرآنِ کریم کتابِ مکنون میں (۵۶: ۷۷ تا ۷۸)
۵۰۔ مطہرون کون ہیں (۵۶: ۷۹)؟
۱۱۳
۵۱۔ امام اہلِ بیت (۳۳: ۳۳)
۵۲۔ صراطِ مستقیم (۱۵: ۴۱) امام
۵۳۔ سابقوا، سارعوا (۵۷: ۲۱، ۰۳: ۱۳۳)
۵۴۔ یسعیٰ نورھم (۵۷: ۱۲ تا ۱۳، ۶۶: ۰۸)
۵۵۔ نور کا درجۂ کمال پر پہنچ جانا(۶۶: ۰۸)
۵۶۔ نور کا درجۂ کمال پر پہنچ جانا (۰۹: ۳۲، ۶۱: ۰۸)
۵۷۔ توراۃ، ہدایت، اور نور (۰۵: ۴۴)
۵۸۔ انجیل، ہدایت، اور نور (۰۵: ۴۶)
۵۹۔ قرآن، ہدایت، اور نور (۰۵: ۴۸)
۶۰۔ صالح المومنین امام ہے (۶۶: ۰۴)
۶۱۔ اوتوا العلم کون ہیں (۲۹: ۴۹)؟
۶۲۔ قرآن حضراتِ أئمّہ کے سینوں میں (۲۹: ۴۹)
۶۳۔ اوتوا العلم من قبلہ (۱۷: ۱۰۷) أئمہ
۶۴۔ امامِ مبین کا احاطۂ علمی و جسمی (۰۲: ۲۴۷)
۶۵۔ امام کا قرطۂ ابداعی (۱۶: ۸۱)
۶۶۔ خدا کی رسی زمانۂ نبوت میں آنحضرتؐ تھے (۰۳: ۱۰۳)
۶۷۔ رسول اللہ کے بعد حبل اللہ کون ہے (۰۳: ۱۰۳)؟
۶۸۔ فرقہ فرقہ ہو جانا بہت بڑی نافرمانی ہے (۰۳: ۱۰۳)
۱۱۴
۶۹۔ (۰۳: ۱۰۲، ۰۳: ۱۰۳) کس کو مضبوط پکڑے رہیں؟
۷۰۔ تمام چیزیں دو دو ہیں (۳۶: ۳۶، ۵۱: ۴۹، ۵۵: ۵۲)
۷۱۔ پیغمبر اور امام مومنین کے روحانی ماں باپ (حدیث)
۷۲۔ متوسم / متوسمین أئمّہ (۱۵: ۷۵)
۷۳۔ اعراف پر رجال (۰۷: ۴۶) أئمّہ ہیں
۷۴۔ امۃ وسطا أئمّہ ہیں (۰۲: ۱۴۳)
۷۵۔ المومنون (۰۹: ۱۰۵) أئمہ
۱۱۵
۷۶۔ ولی / امام (۰۵: ۵۵)
۷۷۔ للناس اماما ۔۔۔ سب لوگوں کے لئے امام (۰۲: ۱۲۴)
۷۸۔ لسان صدق (۱۹: ۵۰، ۲۶: ۸۴) امام ہے
۷۹۔ کلمۂ باقیہ۔۔۔ امامت (۴۳: ۲۸)
۸۰۔ دابۃ الارض امام (۲۷: ۸۲)
۸۱۔ عالمون أئمہ اطہار (۲۹: ۴۳)
۸۲۔ من عندہ علم الکتاب امام ہے (۱۳: ۴۳)
۸۳۔ وجہ اللہ امام ہے (۵۵: ۲۷)
۸۴۔ اذن واعیۃ امام ہے (۶۹: ۱۲)
۸۵۔ کلمۂ تقویٰ امام کا ایک پوشیدہ نام (۴۸: ۲۶)
۸۶۔ ذالک الکتاب لا ریب فیہ امام ہے (۰۲: ۰۲)
۸۷۔ دعوتِ روحانی (۰۸: ۲۴)
۸۸۔ شجرۂ طیبہ اور اس کی شاخ؟ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)
۸۹۔ سات أئمہ (۸۰: ۲۴ تا ۳۱)
۹۰۔ حضرتِ قائم کی معرفت کے ذرائع: اساس، امام، باب، حجت، اور داعی
۹۱۔ مشاہدۂ ابداع و انبعاث (۴۲: ۵۱)
۹۲۔ عقلی زندگی اور عقلی ہلاکت (۰۸: ۴۲)
۹۳۔ مردگانِ زندہ نما(۱۶: ۲۱)
۹۴۔ کالانعام (۰۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴)
۱۱۶
سوالنامہ
چہل سوال
۱۔ آپ تسمیہ (بسم اللہ) کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں، اس میں سے پانچ حکمت بیان کریں، نیز یہ بتائیں کہ اس میں کل ۱۹ حروف ہونے کے کیا معنی ہیں؟
۲۔ قرآنِ کریم اور امامِ مبین کے آپس میں کیا رشتہ ہے؟ یہ رشتہ کب سے قائم ہے؟ اور اس باب میں قرآن و حدیث کا کیا ارشاد ہے؟
۳۔ آپ کم از کم پانچ آیاتِ قرآنی کا حوالہ بتائیں، جن میں واضح طور پر نورِ امامت کا ذکر فرمایا گیا ہو، اور ایسی پانچ حدیثیں بھی۔
۴۔ آپ نے دعائم الاسلام جلدِ اوّل کے شروع کا حصّہ (کتاب الولایۃ) پڑھا ہوگا، جو از حد ضروری ہے، وہیں سے آپ مولا علی علیہ السّلام کے کچھ فضائل بیان کریں۔
۱۱۷
۵۔ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے ارشادات کے حوالے سے یہ ثبوت فراہم کریں کہ روحانی ترقی کا دروازہ ہر زمانے میں کھلا ہے۔
۶۔ یہ فرمانِ مبارک کس امام کا ہے؟ اور کون سی کتاب میں درج ہوا ہے؟ “ہم علی اور نبی دونوں کے نور ہیں۔” نیز یہ بتائیں کہ نورِ ازل کا ذکر کس فرمان میں ہے؟
۷۔ حاضر امام صلوات اللہ علیہ و سلامہ نے کس مقام پر نفسِ واحدہ کا ذکر فرمایا؟ اور اُس آیۂ شریفہ کا کیا مطلب ہے؟
۸۔ یہ فرمان کس کتابچے میں درج ہوا ہے؟ “اس دنیا میں دو قسم کے مومن ہیں، جس میں ایک جسم کے مومن ہیں، اور دوسرے روح کے۔”
۹۔ کیا آپ نے یہ فرمان پڑھا ہے؟ “جب تک اصل کا علم نہ ہو، تو کیا فائدہ؟” اس ارشاد کی وضاحت کریں۔
۱۰۔ تم جب سجدہ کرو اس وقت مانگو کہ خدایا! ہمیں اصل مقام پر پہنچاؤ، جس طرح بچہ (جب) اپنی ماں سے بچھڑ جاتا ہے یا گم ہو جاتا ہے، اس وقت وہ روتا ہے، کہ کب ماں کے پاس پہنچے، تم بھی ایسے بنو (روحانی روشنی، صفحہ ۷۳) اس کی وضاحت کیجئے۔
۱۱۸
۱۱۔ اپنے کسی پیر کے قول کی روشنی میں امامِ وقت کی فرمانبرداری اور محبت کا مختصر بیان کریں، نیز قرآن و حدیث سے دلیل پیش کریں۔
۱۲۔ یہ ارشاد کس کا ہے؟ “سلونی قبل ان تفقدونی” اس کے کیا معنی ہیں؟ اور اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ وضاحت کریں۔
۱۳۔ جب کسی مومن کی علمی ترقی ہوتی ہے، تو وہ ایک ہی مثال میں بہت سی حقیقتوں کو سمجھ سکتا ہے، چنانچہ “عالمِ ذر” آپ کے لئے ایک انقلابی تصوّر ہے، پس آپ عالمِ ذرّ کے بارے میں کچھ حقائق بیان کریں۔
۱۴۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ آسمان و زمین میں نہیں سماتا ( اور نہ کسی دوسرے انسان میں سماتا ہے) مگر صرف بندۂ مومن کے قلب میں سما جاتا ہے؟ اس کی وجہ اور حکمت بیان کریں۔
۱۵۔ جب قیامِ قیامت انتہائی قریب ہوگا، تو اس وقت اللہ تبارک و تعالیٰ زمین سے ایک جانور نکالے گا (۲۷: ۸۲) یہ زمین کون سی ہے؟ اور وہ جانور کیا ہوگا؟
۱۶۔ قرآنِ کریم میں امامِ عالی مقام کے بہت سے
۱۱۹
اسمائے گرامی ہیں، ان میں سے ایک اسم مَلِک (بادشاہ) ہے کیونکہ خداوند تعالیٰ نے روحانیّت کی عظیم سلطنت آلِ ابراہیم کو عطا کر دی ہے (۰۴: ۵۴) اور آلِ ابراہیم انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں، پس آپ یہ بتائیں کہ مومنین اپنے وقت کے امام کی روحانی سلطنت سے کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اور کس طرح؟
۱۷۔ آپ نے اب تک جو انقلابی حکمتوں اور علمِ حقیقت کا کورس کیا ہے، اس کی روشنی میں حضرتِ آدم علیہ السّلام سے متعلق پانچ ایسی حکمتیں بیان کریں جو عجیب و غریب ہوں۔
۱۸۔ خدا کی چیزیں دراصل بدرجۂ اکمل عقل و جان کی صفات سے آراستہ ہوا کرتی ہیں، وہ بے شمار ہونے کے باوصف ایک ہوگئی ہیں، اور اہلِ مذاہب کے واسطے یہ امر بہت بڑا امتحان ہے، پس آپ بتائیں کہ اللہ کی چیزیں کہاں اور کس طرح ایک ہیں؟
۱۹۔ آپ نے دنیا کی جمع دیکھی ہے، مگر خدا کی جمع اس سے مختلف ہے، مثلاً ۱+۱+۱+۱+۱+۱+۱+۱+۱=۹=۱، یہ نو مختلف چیزوں کا مجموعہ اور پھر اس کا واحد (۱) ہے، ایسی وحدت سے متعلق قرآنِ حکیم میں کئی اشارے موجود ہیں،
۱۲۰
جیسے لپیٹنا (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) متراکب (۰۶: ۹۹)، لفیف (۱۷: ۱۰۴) رکام (۲۴: ۴۳) عدداً (۷۲: ۲۸) وغیرہ، آپ نے اس کورس میں یہ نکتہ کس طرح سمجھا ہے؟
۲۰۔ رفعِ زمان کا تصوّر کس طرح ہے؟ آپ وضاحت کر کے بتائیں، آیا یہ درست ہے کہ خدا کے نزدیک کوئی وقت ماضی اور مستقبل کی طرح نہیں؟ بلکہ ہمارا ماضی و مستقبل اس کے حضور میں حال ہی حال ہے؟ بتائیں کہ وہ کس طرح اور کیوں کر ایسا ہے؟
۲۱۔ آپ ازل و ابد کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں، وہ بیان کریں، عالمِ شخصی کا ازل سے کیا رشتہ ہے؟
۲۲۔ کتابِ وجہِ دین گفتار نمبر ۳۳ کے آخر میں دیکھ کر بتائیں: وہ پانچ حضرات کون ہیں، جن کے توسط سے ایک کو پہچانا جاتا ہے؟ اور لاحقِ قائم کون ہے؟
۲۳۔ کہتے ہیں کہ ہر تاویل مرتبۂ عقل پر جا کر جمع ہو جاتی ہے، آیا آپ اس کی کوئی مثال دے کر سمجھا سکتے ہیں؟
۲۴۔ آپ نے قرآنی علاج کا بغور مطالعہ کیا ہوگا، اس میں کون سا مضمون بہترین لگتا ہے؟ اور کون سا نقشہ سب سے اچھا ہے؟
۱۲۱
۲۵۔ آج کل اڑن طشتریوں کا قصّہ بڑا عجیب و غریب ہے کیا ان کا قرآن میں کوئی ذکر موجود ہے؟ اگر ہے تو کس سورہ میں؟
۲۶۔ اصحابِ کہف کا معجزہ عالمِ شخصی میں واقع ہوتا ہے، سو آپ بتائیں کہ سگِ اصحابِ کہف کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟
۲۷۔ “ام الکتاب ظاہراً الحمد للہ ہے، اور باطناً مرتضیٰ علی علیہ السلام”۔۔۔ یہ ارشادِ نبوّی آپ نے کس کتاب میں پڑھا ہے؟
۲۸۔ کلمۂ باری کا دوسرا نام کیا ہے؟ جدّ کس فرشتے کو کہتے ہیں؟ تائید سے کیا مراد ہے؟ تاویل کی تشبیہ شہد سے دی گئی ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟
۲۹۔ کہا جاتا ہے کہ عالمِ صغیر / عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے، اگر ایسا ہے تو شہرِ بابل اور ہاروت و ماروت کی مثال کیا ہو سکتی ہے؟
۳۰۔ ایک مشہور حدیثِ قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ذاتِ پاک گنجِ مخفی ہے اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ خزانہ کس کے لئے ہے؟ کیونکہ خزانہ اپنے آپ کے لئے تو نہیں ہوتا۔
۱۲۲
۳۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے، وہ بس خیر ہی خیر ہے (۰۳: ۲۶) مگر شر نہیں، پھر یہ شر کہاں سے اور کس طرح پیدا ہوا؟ آپ اس کی حقیقت بیان کریں۔
۳۲۔ قارون کون تھا؟ آیا وہ ایسے شخص کی مثال نہیں جو روحانی طور پر بہت آگے جاتا ہے مگر علمی زکات دینے سے کنجوسی کرتا ہے؟
۳۳۔ آپ کے نزدیک تصوّرِ آفرینش کیسا ہے؟ آیا خط (لکیر) کی طرح ہے؟ یا دائرہ جیسا ہے؟ کیا آپ تخلیق در تخلیق کو مانتے ہیں؟ وضاحت کریں۔
۳۴۔ آپ نے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کی کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے؟ آپ کو کونسی کتاب زیادہ پسند ہے؟ آپ نے کتنے کیسٹوں کو سنا ہے، جبکہ کیسیٹ ایک ہزار سے زیادہ ہیں؟ یہ تو ماسٹرز کی بات ہے، اور کاپیوں کا اندازہ نہیں۔
۳۵۔ آیا آپ ہماری کتابوں کے پھیلاؤ کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟ جب کوئی کتاب چھپ جاتی ہے، تو وہ کم از کم ایک یا دو ہزار کی تعداد میں چھپتی ہے، اس حساب سے تقریباً ایک لاکھ کتابیں دنیائے اسماعیلیّت میں پھیل رہی ہیں، خداوندِ پاک کا بہت بڑا احسان ہے، جس کے لئے ہمیں بہت
۱۲۳
زیادہ شکر گزار ہونا ہے۔
۳۶۔ افاداتِ کتب کن وسائل و ذرائع سے پھیل سکتے ہیں؟ علماء، فضلاء، مبلغین، واعظین، معلّمین، معلّمات، طلبہ، طالبات، اور خواندہ حضرات کے توسط سے۔
۳۷۔ اسلام، ملک، جماعت اور انسانیّت کی بہتر خدمت قلم ہی سے ہو سکتی ہے، کیا آپ اس بات کو مانتے ہیں؟ یا اس سے کوئی بہترین خدمت تجویز کر سکتے ہیں؟
۳۸۔ آپ یہ بتائیں کہ امامِ عالی مقام کے دروازے ظاہراً و باطناً دو ہیں، یا صرف ایک ہے؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ دو ہیں، تو پھر آپ کس کو ترجیح دیں گے؟
۳۹۔ کیا آپ ہر صبح اپنے مخالفین کے حق میں نیک دعا کرتے ہیں؟ اگر نہیں کرتے ہیں، تو یہ آپ کی روحانی اور علمی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
۴۰۔ آیا آپ جملہ حکمتوں کی کلید (ذکرِ الٰہی) کو جانتے ہیں؟ اگر جانتے ہیں اور اس سے بطریقِ احسن کام لیتے ہیں تو یہ آپ کی بہت بڑی سعادت ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی، ۸۸/۲/۱۰
۱۲۴
قرآنی حکمتیں
عددی تاویل
جملِ کبیر
ی | ط | ح | ز | و | ھ | د | ج | ب | ا |
۱۰ | ۹ | ۸ | ۷ | ۶ | ۵ | ۴ | ۳ | ۲ | ۱ |
ر | ق | ص | ف | ع | س | ن | م | ل | ک |
۲۰۰ | ۱۰۰ | ۹۰ | ۸۰ | ۷۰ | ۶۰ | ۵۰ | ۴۰ | ۳۰ | ۲۰ |
غ | ظ | ض | ذ | خ | ث | ت | ش | ||
۱۰۰۰ | ۹۰۰ | ۸۰۰ | ۷۰۰ | ۶۰۰ | ۵۰۰ | ۴۰۰ | ۳۰۰ |
جملِ ایقغ
ھ ن ث | د م ت | ج ل ش | ب ک ر | ا ی ق غ |
۵ | ۴ | ۳ | ۲ | ۱ |
– | ط ص ظ | ح ف ض | ز ع ذ | و س خ |
– | ۹ | ۸ | ۷ | ۶ |
۱۲۵
مقطعاتِ اساسی
ع | ط | ص | س | ر | ح | الف | حروفِ مقطعات |
۷ | ۹ | ۹ | ۶ | ۲ | ۸ | ۱ | جملِ ایقغ |
ی | ھ | ن | ق | م | ل | ک | حروفِ مقطعات |
۱ | ۵ | ۵ | ۱ | ۴ | ۳ | ۲ | جملِ ایقغ |
یہ حروف چودہ ہیں
ب | ۲ | پ |
ت | ۴۰۰ | ٹ |
ج | ۳ | چ |
د | ۴ | ڈ |
ز | ۷ | ژ |
ر | ۲۰۰ | ڑ |
ک | ۲۰ | گ |
۱۲۶
پیغمبر اور امام
وَ اَحْصٰى كُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا (۷۲: ۲۸)
اسمِ امام | اسمِ پیغمبر | حسابِ جمل | مقطعات | کتنے حروف کا | شمار |
علی | محمد | ۹۰ | ص | یک حرفی | ۱ |
۱۰۰ | ق | یک حرفی | ۲ | ||
ع=۷۰ | م=۴۰ | ۵۰ | ن | یک حرفی | ۳ |
ل=۳۰ | ح=۸ | ۴۸ | حم | دو حرفی | ۴ |
ی=۱۰ | م=۴۰ | ۶۹ | طس | دو حرفی | ۵ |
۱۱۰ | د=۴ | ۱۴ | طہ | دو حرفی | ۶ |
۰ | ۹۲ | ۷۰ | یس | دو حرفی | ۷ |
۱ | ۲ | ۲۳۱ | الر | سہ حرفی | ۸ |
۱ | ۹ | ۷۱ | الم | سہ حرفی | ۹ |
۲ | ۱۱ | ۱۰۹ | طسم | سہ حرفی | ۱۰ |
جملِ اصغر | ۱ | ۲۷۱ | المر | چہار حرفی | ۱۱ |
۱ | ۱۶۱ | المص | چہار حرفی | ۱۲ | |
۲ | ۲۷۸ | حم۔عسق | پنج حرفی | ۱۳ | |
جملِ اصغر | ۱۹۵ | کھیعص | پنج حرفی | ۱۴ |
۱۲۷
اسمِ امام | اسمِ پیغمبر | حسابِ جمل | مقطعات | کتنے حروف کا | شمار |
۱۷۵۷ | |||||
۷ | |||||
۵ | |||||
۷ | |||||
۱ | |||||
۲۰ | |||||
۰ | |||||
۲ | |||||
۲ | |||||
جملِ اصغر |
نزولِ قرآن سے قبل عبرانی لوگ حروف سے تحریر کے علاوہ گنتی کا کام بھی لیتے تھے، اُس زمانے تک اعداد کی شکلیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں، لہٰذا انہوں نے ہر حرف کا ایک عدد متعین کر لیا تھا، عبرانی حروف جب عرب میں منتقل ہوئے، تو یہ روایت بھی عربوں میں منتقل ہوگئی۔
سورۂ جنّ کی آخری آیۂ کریمہ (۷۲: ۲۸) میں بنظرِ حکمت دیکھئے، اس کی دیگر حکمتوں کے ساتھ یہ بھی ہے کہ ہر چیز ایک عدد کے تحت ہے یا عدد میں محدود و معدود ہے، اور اہلِ دانش کو اس حقیقت کا علم ہے کہ خدا کے اعداد زندہ ہیں، جس طرح خدا کے ایام زندہ ہیں، اور اللہ کی ہر چیز زندہ ہوا کرتی ہے۔
(بحوالۂ کتاب اردو رسم الخط، سید محمد سلیم مقتدرہ قومی زبان)
۱۲۸
حسابِ جمل | علیا ولی اللہ | حسابِ جمل | محمد رسول اللہ | جملِ اصغر | حسابِ جمل | مقطعات | شمار |
۷۰ | ع | ۴۰ | م | ۹ | ۹۰ | ص | ۱ |
۳۰ | ل | ۸ | ح | ۱ | ۱۰۰ | ق | ۲ |
۱۰ | ی | ۴۰ | م | ۵ | ۵۰ | ن | ۳ |
حسابِ جمل | علیا ولی اللہ | حسابِ جمل | محمد رسول اللہ | جملِ اصغر | حسابِ جمل | مقطعات | شمار |
۱ | ا | ۴ | د | ۳ | ۴۸ | حم | ۴ |
۶ | و | ۲۰۰ | ر | ۶ | ۶۹ | طس | ۵ |
۳۰ | ل | ۶۰ | س | ۵ | ۱۴ | طہ | ۶ |
۱۰ | ی | ۶ | و | ۷ | ۷۰ | یس | ۷ |
۱ | ا | ۳۰ | ل | ۶ | ۲۳۱ | الر | ۸ |
۳۰ | ل | ۱ | ا | ۸ | ۷۱ | الم | ۹ |
۳۰ | ل | ۳۰ | ل | ۱ | ۱۰۹ | طسم | ۱۰ |
۵ | ھ | ۳۰ | ل | ۱ | ۲۷۱ | المر | ۱۱ |
۲۲۳ | ۵ | ھ | ۸ | ۱۶۱ | المص | ۱۲ | |
۳ | ۴۵۴ | ۸ | ۲۷۸ | حم۔عسق | ۱۳ | ||
۲ | ۴ | ۶ | ۱۹۵ | کھیعص | ۱۴ | ||
۲ | ۵ | ۷۴ | |||||
۷ | ۴ | ۴ | |||||
۱۳ | ۷ | ||||||
۱۱ |
۱۲۹
حسابِ جمل | علیا ولی اللہ | حسابِ جمل | محمد رسول اللہ | جملِ اصغر | حسابِ جمل | مقطعات | شمار |
۷ | ۳ | ۱ | |||||
۴ | ۱ | ۱ | |||||
۱۱ | ۴ | ۲ | |||||
۱ | نور علیٰ نور | جملِ اصغر | |||||
۱ | |||||||
۲ | نور علیٰ نور کےمعنی |
اگرچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآنِ پاک میں ظاہر ہیں پوشیدہ ہرگز نہیں، لیکن آپ ہی کے ارشادِ مبارک کے حوالے سے مولا علیؑ آنحضرتؐ کے علم و حکمت کا دروازہ ہیں، لہٰذا حروفِ مقطعات نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ نبی اور علی نورٌعلیٰ نور کی عملی تفسیر و تاویل ہیں۔
نورٌعلیٰ نور (روشنی پر روشنی ہے) ان تین الفاظ میں بطریقِ حکمت دو قسم کے تجدّدِ امثال کا ذکر فرمایا گیا ہے: شعلۂ چراغ کا تجدّد، اور ایک چراغ سے دوسرے چراغ کو روشن کرنے کا تجدّد، یعنی اشخاصِ نبوّت کے بعد اشخاصِ امامت میں سلسلۂ نور کا ہمیشہ جاری رہنا۔
۱۳۰
عددی تاویل حدودِ دین سے متعلق
ترتیبِ عددی | حدودِ دین | جملِ کبیر | حروفِ نورانی | شمار |
۱ | مستجیب | ۱ | الف | ۱ |
۲ | ماذونِ اصغر | ۸ | ح | ۲ |
۳ | ماذونِ اکبر | ۲۰۰ | ر | ۳ |
۴ | داعئ مکفوف | ۶۰ | س | ۴ |
۵ | داعئ مطلق | ۹۰ | ص | ۵ |
۶ | حجتِ جزیرہ | ۹ | ط | ۶ |
۷ | حجتِ اعظم | ۷۰ | ع | ۷ |
۸ | امامِ زمان | ۲۰ | ک | ۸ |
۹ | اساس / علی | ۳۰ | ل | ۹ |
۱۰ | ناطق / محمد | ۴۰ | م | ۱۰ |
۱۰۰ | نفسِ کل | ۱۰۰ | ق | ۱۱ |
۱۰۰۰ | عقلِ کل | ۵۰ | ن | ۱۲ |
۵ | ھ | ۱۳ | ||
۱۰ | ی | ۱۴ | ||
۶۹۳ |
۱۳۱
جملِ کبیر | ||||
۳ | ||||
۹ | ||||
۶ | ||||
۱۸ | ||||
۸ | ||||
۱ | ||||
۹ | ||||
جملِ اصغر |
قرآنِ حکیم میں جو حروفِ مقطعات ہیں وہ اساسی طور پر چودہ ہیں جن کے حسابِ جمل کا مجموعہ ۶۹۳ بنتا ہے، اور اس کا جملِ اصغر ۹ نکلتا ہے، جو اساس یعنی علی کے مرتبے کی طرف اشارہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حروفِ مقطعات جیسے قرآنی اسرار حضرتِ علی علیہ السّلام کے نور سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
علمِ الٰہی کا دروازہ آنحضرت ہیں، علمِ نبوّت کا باب اساس ، اور علمِ اساس کا واحد گیٹ امامِ زمانؑ ہیں، اور یہ حکمت آیۂ اطاعت (۰۴: ۵۹) کی گہرائی میں موجود ہے، ملاحظہ ہو:
۱۳۲
منگل ۲۱ رجب المرجب ۱۴۰۹ھ / ۲۸ فروری ۱۹۸۹ء
۱۳۳
علمی فکر کے کرشمے
۱۔ کائنات ظاہراً و باطناً تین انتہائی عظیم چیزوں پر مبنی ہے: جسمِ کلّی، عالمگیر روح، اور عالمگیر عقل، اسی قانون کے مطابق انسانی وجود بھی تین اشیاء کا مجموعہ ہے : جسم، روح، اور عقل، سب کو معلوم ہے کہ جسم سے روح افضل و برتر ہے اور روح سے عقل ارفع و اعلیٰ ہے، اور عقلی قوّتوں میں سے قوّتِ فکر کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے، چنانچہ اگر اسے نورِ ہدایت کی روشنی سے فیض مل رہا ہو، تو وہ اپنے دائرۂ اختیار میں بہت کچھ کام کر سکتی ہے، مسائل کے بہت سے عقدے کھول سکتی ہے، اور علم و حکمت کی بے پناہ اور لازوال دولت حاصل کر سکتی ہے، یہی سبب ہے کہ قرآنِ پاک نے بنی نوع انسان کو بار بار تفکر و تدبّر کی طرف توجہ دلائی ہے، اور مختلف طریقوں سے اس کی تاکید کی گئی ہے، فکر کی تشویق و ترغیب اور پُرزور دعوت صرف یہاں تک محدود نہیں، بلکہ اس سلسلے میں ان لوگوں کی بڑی سخت مذمت کی گئی ہے، جو
۱۳۴
اس عظیم خداداد صلاحیت سے کام نہیں لیتے، تاکہ اس سے اہلِ دانش کو عبرت حاصل ہو۔
۲۔ مقاماتِ فکر: علمی غور و فکر کے لئے کوئی خاص مقام ہونا چاہئے، ہاں وہ مقامِ مخصوص قرآنِ حکیم ہے اور آفاق و انفس بھی (۳۸: ۲۹، ۴۱: ۵۳) کیوں کہ تفکر و تدبر کا گہرا تعلق آیاتِ قدرت و حکمت سے ہے، اور ان آیات کے یہی تین مقامات ہیں: قرآن، عالمِ ظاہر، اور عالمِ شخصی، یعنی انسان کا باطن یا روح۔
جب خداوندِ عالم بکلامِ حکمت یہ حکم دیتا ہے کہ تم قرآن، کائنات اور اپنی ذات میں بار بار سنجیدگی سے غور و فکر کرتے رہو تو اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ان کی آیات یعنی نشانیوں کو نگاہِ ظاہر سے دیکھنا کافی نہیں، جبکہ “فکر” کسی چیز کی معنوی یا باطنی گہرائی میں عقلی طور پر جا کر تحقیق کرنے کا نام ہے، چنانچہ جب قرآنی آیات میں تفکر و تدبر لازمی ہے (۱۶: ۴۴) تو اس کا مقصد یہ ہوا کہ اس کے ذریعے باطنی حکمتوں کا راستہ ملے اور تنزیل کے ساتھ ساتھ تاویل سے بھی آگہی ہو، اور اگر قرآنِ پاک کے صرف ظاہری معنی ہی پر اکتفا کرنا مقصود ہوتا، تو اس میں غور و فکر کا کوئی حکم نہ ملتا (۴۷: ۲۴)۔
۱۳۵
۳۔ علمی غور و فکر کا خاص وقت: ویسے تو علم و حکمت سے متعلق غور و فکر جیسا عقلی عمل ہر وقت ممکن ہے، تاہم جولانئ فکر کے لئے ایک خاص وقت مقرر ہے، اور وہ ہے ہر مکمل اور بھرپور عبادت و بندگی علی الخصوص گریہ و زاری کے فوراً بعد کا وقت، جس میں نورِ خداوندی کی نورانی تائید فکرِ مومن کی رہنمائی کرتی ہے (۰۳: ۱۹۱) کیونکہ ذکرِ خدا ایک ایسا ذہنی انقلاب اور باطنی تطہیر و تزکیہ ہے کہ اس کی بدولت نہ صرف فکر ہی پاک صاف ہو جاتی ہے بلکہ اس کی برکتوں سے جملہ حواسِ ظاہری و باطنی کی بخوبی پاکیزگی ہو جاتی ہے، پس عبادت اور یادِ الٰہی کی نورانیّت میں علمی غور و فکر اور خصوصی مطالعہ ضروری ہے۔
۴۔ فکر اور آیات و امثال: فکر دراصل آیات و امثال کے باطن میں جانے کے لئے کلیدی اہمیت رکھتی ہے، جس سے علم و عرفان کے ابواب مفتوح ہو جاتے ہیں، اور قرآنِ کریم (۱۰: ۲۴، ۱۳: ۰۳، ۱۶: ۱۱، ۱۶: ۶۹، ۳۰: ۲۱، ۳۹: ۴۲، ۴۵: ۱۳) میں جس شان سے اہلِ فکر کی تعریف کی گئی ہے، اس سے یہ حقیقت صاف عیان و ظاہر ہو جاتی ہے کہ آیاتِ قرآنی کی تمام تر حکمتوں کا رخ سوچنے والوں کی طرف ہے
۱۳۶
اور حکمت و مصلحتِ خداوندی کا قانون یہی ہے۔
قرآنِ حکیم دو قسم کی مثالوں سے مملو ہے: ایک طرح کی مثالیں وہ ہیں جن کو لوگ جانتے ہیں کہ یہ مثالیں ہیں، کیونکہ وہ ظاہر ہیں، مگر دوسری مثالیں ایسی صورت میں پوشیدہ ہیں کہ صرف خواص ہی ان کی شناخت کر سکتے ہیں، جیسی جنّت کی چار نہریں اور دوسری بہت سی نعمتیں، جو دنیوی اور مادّی چیزوں کے نام سے مذکور ہیں، حالانکہ وہ مثالیں ہیں اور ان کے ممثولات عقلی اور روحانی نعمتیں ہیں، تاکہ اسی طرح اہلِ فکر ہی بطورِ خصوصی ان کی معرفت حاصل کریں۔ (۵۹: ۲۱)۔
۵۔ فکر تائید میں فنا ہو جاتی ہے: اگر تائید خفیف ہے تو فکر کا وجود قائم رہتا ہے اور وہ خوب کام کرتی رہتی ہے، اور جہاں مکمل تائید کا ظہور ہونے لگتا ہے، وہاں فکر فنا ہو کر خوب سے خوب تر تائیدی عمل ہو جاتا ہے، جیسے برف اور یخ کا منجمد وجود پانی کی شکل میں فنا ہو جاتا ہے، یا جس طرح پانی فنا ہو کر بھاپ کی صورت اختیار کر لیتا ہے، یا جیسے تیل جل جل کر روشنی بن جاتا ہے۔
۶۔ عدمِ فکر اور مسلسل ذکر: اگر یہاں یہ سوال کیا جائے کہ
۱۳۷
جب کوئی حقیقی مومن فکرِ علمی سے بے نیاز ہو کر دائمی ذکر ہی میں مصروف و مستغرق رہتا ہے، تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ جواب ہے کہ اگر ایسے ذاکر کا ذکر ہر طرح سے درست اور کامیاب ہے، تو اس حال میں خود بخود تائیدی اور لدنی علم کے لمحات سامنے آتے رہیں گے، کیونکہ فکر اگرچہ اس وقت فنا یا غائب ہو چکی ہے، لیکن اس کا مقصد موجود ہو جاتا ہے۔
۷۔ علمی فکر ایک خاص عبادت: عبادت و بندگی کے بہت سے مدارج اور اقسام ہیں، چنانچہ وہ خاص بھی ہے، اور عام بھی، ظاہری بھی ہے، اور باطنی بھی، علمی بھی ہے اور عملی بھی، جسمانی بھی ہے اور روحانی بھی، پس وہ فکر جو علم سے متعلق ہوتی ہے، ایک خاص ترین عبادت ہے کیونکہ وہ باطنی، علمی اور عقلی عبادت ہے۔
۸۔ فکر اور علم الیقین: فکر کی اصلاح، درستی اور ترقی کا انحصار بندگی کے علاوہ علم الیقین پر بھی ہے، جس کے بغیر فکری کوشش رائگان جاتی ہے، لہٰذا علم الیقین اپنی جگہ بے حد ضروری ہے، جس کی روشنی اور مدد کے بغیر انسانی فکر دینی میدان میں کوئی مفید کام نہیں کر سکتی ہے۔
۹۔ فکر اور تقویٰ: جس دل میں خوفِ خدا اور عاجزی
۱۳۸
و انکساری نہ ہو، وہاں علمی فکر کچھ بھی کام نہیں کر سکتی ، لہٰذا کامیاب ذکر و عبادت کے واسطے جن ظاہری و باطنی کیفیات و صفات کی ضرورت ہوتی ہے، وہی اوصاف علمی فکر کے لئے بھی ضروری ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ علمی فکر کے لئے دل و دماغ کی مثالی حالت و کیفیت وہ ہے جو کسی بہترین اور کامیاب ترین عبادت اور گریہ و زاری کے دوران پائی جاتی ہے کہ اس میں خودی اور انا خاموش یا کسی حد تک فنا ہو جاتی ہے یعنی اس وقت بدرجۂ انتہا عجز و انکساری پائی جاتی ہے، اور بے حد سنجیدگی کا عالم ہوتا ہے پس فکر ایسے ہی حال میں نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔
۱۰۔ فکر اور عقلی لذّت: شاید آپ یہ حقیقت جانتے ہیں کہ بنی نوعِ انسان کی لذّتیں اور مسرّتیں تین درجات پر منقسم ہیں: ادنیٰ لذّتیں جو مادّی نعمتوں سے حاصل ہوتی ہیں، اعلیٰ لذّتیں جو روحانی نعمتوں یعنی عبادات کی پیداوار ہیں، اور اعلیٰ ترین لذّتیں، جو عقلی نعمتوں سے ملتی ہیں اور یہ بلند ترین آلاء (نعمتیں) علمی صورت میں ہیں، پس نتیجہ خیز اور مفید فکر سے جو لذّت و شادمانی حاصل ہوتی ہے، وہ عقلی قسم کی ہوا کرتی ہے، اور ایسی لذّت و مسرّت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے عقل کو تقویت
۱۳۹
ملتی ہے، جیسے ایک تندرست آدمی کو جسمانی غذا کھانے سے مزہ اس لئے آتا ہے کہ یہ خوراک اس میں جزوِ بدن بن جانے والی ہے، اور کسی بیمار شخص کو مزہ اس سبب سے نہیں ملتا کہ طعام اسے فائدہ نہیں دے سکتا۔
۱۱۔ کامیاب فکر کی مثالیں: کامیاب علمی فکر کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی خوش نصیب آدمی کنجی (کلید) سے اپنے خزانے کے مقفل دروازے کو کھول رہا ہو، یا جیسے کوئی غواص سمندر کی گہرائی میں غوطہ لگا کر گوہرِ یکدانہ نکالتا ہو، یا جس طرح کوئی عطار مہکتے ہوئے پھولوں سے عطر کشید کر رہا ہو، یا مثلاً بامراد تاجر ریشمی رومال کی پوٹلی سے سونا، چاندی، اور موتی نکالتا ہو، یا کوئی سائنسدان اس مادّی کائنات کا کوئی بھید ظاہر کرتا ہو۔
۱۲۔ علمی فکر کے درجات: علمی فکر کے مختلف درجات مقرر ہیں ظاہر ہے کہ مومنین کے فکری عمل میں سب سے زیادہ آسانی اُس وقت پیدا ہو جاتی ہے جبکہ وہ روحانیّت کے مراتبِ عالیہ پر فائز ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ صرف اسی حال میں بحقیقت “اہلِ فکر” قرار پاتے ہیں۔
انتہائی عاجزانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم بحرمتِ رسولِ
۱۴۰
اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جملہ اہلِ ایمان کو تمام آیات میں خواہ وہ قرآنِ پاک کی ہوں یا آفاق و انفس کی، فکری ہدایت و تائید اور فتح و کشائش عنایت فرمائے! آمین!!
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۶ رمضان المبارک ۱۴۰۹ھ
۱۳ اپریل ۱۹۸۹ء
نوٹ: مقالوں اور کتابوں کا عظیم ترین مقصد یہ ہے کہ قارئین کو قرآنی حکمت سے آگاہ کیا جائے، جس کے لئے جا بجا حوالہ جات دیئے ہوئے ہیں، تا کہ متعلقہ آیاتِ کریمہ کا بغور مطالعہ کیا جائے، پس عزیزوں کے لئے یہ امر از حد ضروری ہے کہ محولہ آیتوں کو قرآنِ کریم میں دیکھیں اور پڑھیں، تاکہ ان کے ذخیرۂ قرآن فہمی میں خوب اضافہ ہو۔
کوئی تحریر کتنی مفید اور اعلیٰ کیوں نہ ہو لیکن قرآنی علم کے بغیر ہر بیان بے جان ہے کیونکہ علم و حکمت کا سرچشمہ قرآن ہی ہے۔ لہٰذا آپ کنوزِ آیات کے در و گوہر سے دامنِ مقصود کو بھرتے رہنا، تا کہ رفتہ رفتہ آپ کو خزائنِ حکمت حاصل ہوں، آمین
خانۂ حکمت برانچ
ذوالفقار آباد، گلگت
۱۴۱
امریکا سے چار سوال
ہمارے بہت ہی عزیز روحانی بھائی اور علمی دوست شمس الدین جمعہ مومن مخلص اور عاشقِ علم و حکمت ہیں، محترم نور الدین راجپاری نے قبلاً جیسی اُن کی تعریف کی تھی، واقعاً شمس الدین ایسے ہی قابلِ توصیف ہیں، آپ امریکا جیسے عظیم ملک کی مادّی ترقی کے طوفان میں رہتے ہوئے بھی روحانی علم کے لئے بے قرار ہیں، اور خلوص و محبت کے جذبات سے سرشار ہو کر علمی سوالات کرتے ہیں:
سوال نمبر ۱: کتابِ مفتاح الحکمت صفحہ ۱۰۶ اور ۱۰۷ پر جو سولہ مدارج کا ذکر ہے: سات آسمان + سات زمین + عقلِ کل + نفسِ کل = ۱۶، اس کی مختصر تشریح ڈایاگرام کی مدد سے فرمائیں۔
جواب: الف: اس ڈایاگرام (Diagram) کے لئے ایک پیاز کو گولائی کے درمیان سے کاٹ لیں، اور فرض کریں کہ وہ تہ در تہ یا پوست در پوست سولہ حصوں پر مبنی ہے، اور یہی
۱۴۲
مثال حکمائے قدیم کے نزدیک کائناتِ ظاہر کی ہے، مگر اس میں یہ بات ضرور یاد رہے کہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ یعنی عرش و کرسی جسمانی نہیں ہیں، بلکہ یہ عقلی اور روحانی مرتبت میں عالمِ جسمانی پر محیط ہیں۔۔ جواب: ب: آپ کاغذ پر پرکار سے ایک کامل دائرہ بنا لیں، پھر اسی دائرے پر پندرہ دائرے اس طرح بنائیں کہ کہیں علٰحیدگی اور دوئی ہی نظر نہ آئے، اب صرف آپ ہی کو علم ہے کہ دائرہ ایک بھی ہے اور سولہ بھی، اور دوسرا کوئی جو اس راز سے واقف نہ ہو، وہ سمجھے گا کہ یہ ایک ہی دائرہ ہے۔ جواب: ج: چھ عظیم حضراتِ رسل اور حضرتِ قائم علیہم السّلام سات آسمان ہیں، ان کے حجج (حجتان) سات زمین ہیں، نفسِ کلّی کرسی اور عقلِ کلّی عرش ہے، یہ سولہ مدارج ہوئے۔
سوال نمبر ۲: رسولِ اکرمؐ کی ایک حدیثِ شریف ہے: “علم کو طلب کرتے رہو اگرچہ اس کی خاطر تمہیں چین جانا پڑے۔” اس حکم میں ملکِ چین کی کیا خصوصیت ہے؟ اس حدیث کی تاویلی حکمت بیان کریں۔ جواب: یہ ارشادِ نبوّی ظاہر میں ایک تاکیدی حکم اور ایک مثال ہے، اور باطن میں ایک حقیقتِ واقعی ہے، چنانچہ حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ
۱۴۳
صلوات اللہ علیہ کی امامتِ عالیہ کے زمانے میں ملکِ چین میں قیامتِ صغریٰ برپا ہوئی، جس سے علم و معرفت حاصل کرنے کے لئے بے شمار روحیں چین چلی گئیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین ہو کہ جس طرح پرسنل ورلڈ (عالمِ شخصی) میں عالمِ کبیر سما جاتا ہے، اسی طرح قیامتِ صغریٰ میں قیامتِ کبریٰ پوشیدہ ہوتی ہے، اور اس قانون کی بدولت ہر عارف کی معرفت کامل و مکمل ہو جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا و رسول کا ہر حکم انتہائی جامعیّت رکھتا ہے۔
سوال نمبر ۳: اگر یہ مان لیا جائے کہ یو۔ایف۔اوز (UFOs = اڑن طشتریاں ) روحانی مخلوق ہیں تو ایک عام آدمی کے لئے یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ انہیں دیکھ سکتا ہے، جبکہ اس کے پاس روحانی علم نہیں؟ جواب: الف: جس طرح لوگ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو معرفت کے بغیر بھی دیکھ سکتے تھے اور امامِ عالی مقام کو بھی چشمِ ظاہر سے دیکھا جا سکتا ہے، اسی طرح اڑن طشتری کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے معرفت کے بغیر، اور معرفت کے ساتھ۔ جواب: ب: حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور حضرت لوط علیہ السّلام کا قصّۂ قرآن پیشِ نظر ہو کہ
۱۴۴
جب فرشتوں کا ظہور ہوتا ہے، اس میں بعض دفعہ فرشتے پیغمبروں کو بھی انجان لگتے ہیں، مگر ایسے میں خدا کے حکم سے ملائک خود اپنا تعارف کرا دیتے ہیں، یہ عجیب پُرحکمت اشارہ ہے(۱) ، لیکن حضرتِ لوطؑ کے منکرین نے فرشتوں کو قطعاً نہیں پہچانا، وہ ان کو بشر اور خوبرو نوجوان سمجھ رہے تھے۔
سوال نمبر ۴: اگر آپ جماعت کے موکھی صاحب ہوتے تو آپ جماعت کو امامِ عالی مقام کے قریب لانے کے لئے کون سا طریقہ اختیار کر لیتے؟ آپ کا علمی طریقِ کار کیا ہوتا؟ جواب: یہ سوال ایک اعتبار سے مجھے مشکل لگتا ہے، حالانکہ ہے سب سے آسان، تاہم عرض کرنا ہی پڑے گا کہ اگر میں موکھی ہوتا تو ہر ہوشمند اور علم دوست موکھی کی طرح جماعت میں حقیقی علم کو پھیلانے کے لئے ہر ذریعہ سے کام لیتا، ایسے واعظین حضرات کی حوصلہ افزائی کرتا، جو مفید علم کو بیان کرتے ہوں، ان کو پیار سے کچھ مشورے بھی دیتا، متعلقہ ادارے سے رابطہ بھی رکھتا، بصورتِ ممکن ادارے سے بصد عاجزی گذارش کرتا کہ جماعت کو فلان فلان علم کی شدید ضرورت ہے مخیر حضرات سے درخواست کرتا کہ فروغِ علم کے لئے ادارے سے تعاون کریں، کبھی کبھی خود بھی علم کی باتیں کرتا،
۱۴۵
نئی نسل کی علمی اور دینی پرورش کے لئے سعی کرتا، وغیرہ وغیرہ، لیکن موکھی صاحب کا دائرۂ اختیار محدود ہوتا ہے جبکہ اس سلسلے کے تمام پروگرامز طریقہ بورڈ میں بنتے ہیں۔ والسلام۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
خانۂ حکمت برانچ، ذوالفقار آباد ، گلگت
۱۵ رمضان المبارک، ۱۴۰۹ھ
۲۲ اپریل، ۱۹۸۹ء
(۱)۔ اشارہ یہ ہے کہ امام کی معرفت امام ہی کے وسیلے سے حاصل ہوتی ہے۔
۱۴۶
عزیزانِ کراچی، لنڈن اور امریکا
میری اپنی جان جیسے پیارے بچے۔۔ میری عزیز روح کے پسندیدہ اجزاء۔۔ میری شخصی دنیا کے عظیم خزانے۔۔ میرے کمزور ہاتھ اور قلم کے محرکین۔۔ میری پیاری پیاری کتابوں کی بولتی روحیں۔ میرے امامِ برحقؑ کے علمی لشکر اور میری بہشت کے پُرثمر باغات۔۔ میں گریہ و زاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں سجدہ کر کے شرق و غرب اور شمال و جنوب کے عزیزان کے حق میں یا علیؑ مدد کی خصوصی دعا کرنا چاہتا ہوں۔
کراچی، لنڈن اور امریکا سے میرے عزیزان کے ایسے خطوط موصول ہوئے ہیں کہ ان کو پڑھ پڑھ کر میں احسان مندی اور شکر گزاری کے آنسو بہا بہا کر عاجزی کا مزہ لیتا ہوں،
۱۴۷
کسی عزیز کا خط زیادہ سے زیادہ شیرین اُس وقت ہوتا ہے جبکہ اس میں کارکردگی اور خدمات کا ذکر ہو، پروردگارِ عالم ہمارے علمی ساتھیوں پر کتنا شفیق و مہربان ہے کہ اس نے ان کو خدمت کے گوناگون مواقع فراہم کر دیئے ہیں، تا کہ قیامت کے دن عزت کی کمی کا کوئی افسوس نہ ہو، اور ہر خادم وہاں مخدوم (پادشاہ ۰۵: ۲۰) ہو جائے۔
ہر کہ خدمت کرد اُو مخدوم شد + ہر کہ خود را دید اُو محروم شد۔ (ترجمہ) جس نے خدمات انجام دیں، وہ سردار ہو گیا اور جس نے خود بینی کی وہ عزت سے محروم ہو گیا، قرآنِ کریم میں دیگر عظیم موضوعات کی طرح عزت کا موضوع بھی بڑا پُرحکمت ہے آپ بغور اس کا مطالعہ کریں، شاید حکمت کا کوئی دروازہ کھل جائے اور البتہ یہ راز معلوم ہو جائے کہ خداوندِ عالم مومنین کی عزت کی روحانی اور عقلی پرورش کرتا ہے، اور اسے درجہ بدرجہ آگے بڑھاتا ہے، یہاں تک کہ مرتبۂ فنا فی اللہ حاصل ہو جاتا ہے، اور ساری عزت مل جاتی ہے۔ (۳۷: ۱۸۰، ۳۵: ۱۰)۔
سورۂ صافات کے اخیر (۳۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے: سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ۔ تمہارا پروردگار جو
۱۴۸
عزت کا پالنے والا ہے پاک ہے اس سے جو وصف وہ بیان کرتے ہیں۔ عزت خدا و رسول، امیر المومنین اور اہلِ ایمان کے لئے ہے (۶۳: ۰۸) اور ظاہر ہے کہ عزت کے درجات ہیں۔ پس خدائے بزرگ و برتر ہی جس کو چاہے علم و حکمت کی پرورش سے اس کی عزت کو درجۂ اعلیٰ تک بلند کر دیتا ہے، جیسا کہ حدیثِ قدسی کا ترجمہ ہے: اے ابنِ آدم! میری فرمانبرداری کر تاکہ میں تجھ کو اپنی طرح کا زندہ اور امر بناؤں گا، اور ایسا معزز بناؤں گا کہ تو کبھی ذلیل نہ ہوگا، اور ایسا امیر بناؤں گا کہ تو کبھی مفلس نہ ہو گا (المجالس المؤیدیہ، الماءۃ الاولیٰ، ص ۵۵)۔
سوال: جب یہ بات درست اور حقیقت ہے کہ مومن سالک رسولِ اکرمؐ اور امامِ برحقؑ کے وسیلے سے فنا فی اللہ اور بقا باللہ کی انتہائی بلند ترین مرتبت حاصل کرتا ہے اور وہ اس مقام پر خدا سے واصل ہو جاتا ہے، تو کیا پیغمبر اور امام خود واصل باللہ ہیں یا نہیں؟ اگر آپ دونوں کی ذاتِ عالی صفات مرتبۂ بقا باللہ پر خدا سے واصل ہے، تو پھر مومن سالک کے لئے تین فنائیں کیوں کر ہو سکتی ہیں؟
جواب: کسی شک و شبہ کے بغیر پہلے رسول پھر امام بقا باللہ
۱۴۹
کا مرتبہ رکھتے ہیں، یعنی واصل باللہ ہو چکے ہیں، لہٰذا فنا کی سیڑھی دراصل مل کر ایک ہی ہے لیکن ظاہراً تین فناؤں کی تعلیم دی گئی ہے، جس طرح اطاعت ایک بھی ہے اور تین درجوں میں بھی (۰۴: ۵۹) فنا کی تشبیہ و تمثیل سیڑھی سے اس لئے دی گئی کہ یہ کوئی ایک دن کا واقعہ نہیں، بلکہ یہ فنائیت کے چھوٹے بڑے معجزات کا ایک طویل سلسلہ ہے، پس سلسلہ (زنجیر) ایک ہوتا ہے لیکن کڑیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
انائے عُلوی اور انائے سفلی کے نام سے ہر شخص کی دو انائیں ہیں، چنانچہ صوفیانہ فنا کا اطلاق صرف انائے سفلی ہی پر ہوتا ہے، کیونکہ انائے علوی ازلی اور ابدی طور پر اصل سے واصل ہے، یعنی وہ کبھی یک حقیقت (Monoreality) سے الگ ہو کر نیچے نہیں آتی جیسے آفتابِ عالم تاب آسمان سے بذاتِ خود نازل نہیں ہوتا لیکن اس کی روشنی، حرارت اور کرنیں زمین پر اترتی ہیں اور آئینہ وغیرہ میں اس کا عکس نظر آتا ہے۔
فارسی میں یہ ایک عام مثال ہے، مگر خوب ہے: آب آمد، تیمم برخاست (پانی آیا اور تیمم کا حکم اٹھ گیا، یعنی ختم ہو گیا) اسی طرح آپ کے معمولی اور چھوٹے چھوٹے نظریات اس وقت ختم یا متاثر ہو سکتے ہیں، جبکہ اعلیٰ نظریات آپ کے
۱۵۰
سامنے پیش کئے جاتے ہیں، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ ۔ (۲۸: ۸۸) سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں بجز اس کے چہرہ کے۔ یعنی جب روحانی ترقی کے سلسلے میں سب سے بڑے دیدار (وجہ = چہرہ) کا مقام آتا ہے تو اس وقت تمام نظریات یکسر ختم ہو جاتے ہیں، مگر چہرۂ خدا کا نظریہ اپنے بہت سے علم و حکمت کے ساتھ باقی رہتا ہے، پس حقیقی علم کا سلسلہ انقلاب در انقلاب ہے، یہاں تک کہ آخری انقلاب آئے، جس کا ذکر ہوا، یہ تمام عزیزوں کے لئے ایک علمی خط ہے، بہت ساری یقینی دعائیں آپ بھی کریں اور ہم بھی کریں، آمین! اور یقینی دعا یہ ہے کہ ہر مومن کی دعا مرفوع ہو کر کلمۂ کُنۡ سے واصل ہو جاتی ہے (۳۵: ۱۰) آپ یقین سے دعا کریں، یقین سے، کہ یہ دعا حکمِ الٰہی میں فنا ہو کر حکم بن جاتی ہے۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۷ رمضان المبارک، ۱۴۰۹ھ
۲۴ اپریل، ۱۹۸۹ء
۱۵۱
عزیزانِ شرق و غرب
عزیزانِ شرق و غرب کو خداوندِ قدوس ہر طرح سے سلامت رکھے!
میں اپنے تمام عزیزوں کو اس طرح یاعلیؑ مدد کہنا چاہتا ہوں، جس طرح کبھی کچھ روحوں نے زبانِ روحانی سے کہا تھا، میں نے حلقۂ احباب میں امامِ عالی مقام کے روحانی معجزات کا تفصیل سے ذکر کر دیا ہے، جس میں یقین کرنے والوں کے لئے بے شمار فائدے ہیں، راز گوئی کا یہ طریقہ مطالعۂ کتبِ حقیقی اور خصوصی تقریروں سے بھی بلند تر ہے، امام کے روایتی معجزات اور حقیقی معجزات میں بڑا فرق ہے، وہ نقل در نقل ہیں اور یہ اصل ہیں، ان سے یقینِ کامل حاصل ہو جاتا ہے، بہت سے شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں اور بنیادی سوالات کے لئے جوابات مہیا ہو جاتے ہیں، خوش بختی سے کئی ساتھیوں کے لئے ایسا ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔
میرے بہت ہی عزیز دوستوں نے ہمیشہ کی طرح لنڈن
۱۵۲
سے خط لکھا ہے کہ میں وہاں جا کر ان سے ملاقات کروں اور اس دفعہ ایسا خط امریکا کے عزیزوں نے بھی تحریر کیا ہے، میرا خیال ہے کہ اگر مولا نے چاہا تو میں دونوں جگہ جاؤں گا اور ضروری طور پر کراچی بھی جاؤں گا اور سفر کا پروگرام بھی وہیں سے بناؤں گا، فی الحال صرف اس خط کی کاپی بطورِ اطلاع دونوں ملک کے جملہ عزیزوں کے پاس جائے گی۔ ان شاء اللہ تاکہ ویزا کے لئے خط بھیجیں اور باقی باتیں میں خود کراچی سے فون پر کروں گا، میرا خیال ہے کہ سفر کراچی سے لنڈن پھر امریکا کی طرف ہو، اور واپسی کے لئے پھر لنڈن اور کراچی ہو، تاکہ یک لخت دور سفر کی زحمت نہ ہو۔
قیامت کے بہت سے پہلو ہیں، ان میں ایک علمی پہلو بھی ہے، چنانچہ قیامتِ صغریٰ جس میں بڑی قیامت پوشیدہ ہے، ہر پہلو سے برپا ہوئی اور حضرتِ قائمؑ نے اپنا کام انجام دیا، پس دانشمندی اسی میں ہے کہ ہم دورِ قیامت کے علم کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کو حاصل کریں، ورنہ مر جانے کے بعد افسوس کرنا پڑے گا، بہت ہی افسوس، اللہ ہمیں نیک توفیق دے!
میں بڑی سنجیدگی سے اس مبارک معجزہ کو بھی دیکھ رہا
۱۵۳
ہوں، علم کے لئے گریہ و زاری، تڑپ، بے قراری، کپکپی، شوق، علمی مجلس کی طرف لپکنا، دن رات انتھک کوشش، اور کتب بینی، ان شاء اللہ جماعت کی علمی خدمت کا شرف حاصل ہو گا۔
آپ کا خادم
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۸۹/۵/۵
۱۵۴
اشارۂ عید
۱۔ عید کی لفظی تحلیل:
مادہ ع و د، العود (ن) کسی کام کو ابتداءً کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہا جاتا ہے، خواہ وہ پلٹنا بذاتہٖ ہو، یا قول و عزم سے ہو (مفردات القرآن) العید وہ ہے جو بار بار لوٹ کر آئے، اصطلاحِ شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم الاضحی پر بولا جاتا ہے، یہ دن شرعی طور پر خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔
۲۔ روحانی عید:
باطنی ترقی کی ہر منزل ایک حقیقی عیدِ سعید ہے، جن کا ذکر قرآنِ حکیم میں مجموعاً فرمایا گیا ہے، جیسے سب انسانوں کو ملا کر بصیغۂ واحد انسان کہا جاتا ہے، اسی طرح روحانیّت کی تمام عیدیں ایک ہی عید میں جمع ہیں (۰۵: ۱۱۴) جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: عیسیٰؑ نے عرض کیا: اے خدا! اے پروردگار! ہم پر آسمان سے مائدہ (خوانِ نعمت) نازل فرما تاکہ وہ ہمارے اوّل و آخر کے لئے عید قرار پائے اور تیری طرف سے نشانی (یعنی معجزہ) ہو اور ہمیں روزی عطا فرما تو بہترین روزی دینے والا ہے (۰۵: ۱۱۴)۔
حواری کون تھے؟ حضرتِ عیسیٰؑ کے بارہ حجت
۱۵۵
(۰۵: ۱۱۲) آسمان سے کیا مراد ہے؟ روحانیّت کی بلندی، مائدہ کا کیا مطلب ہے؟ تمام روحانی نعمتوں کا مجموعہ، اوّل و آخر کے لئے عید ہونے کے کیا معنی ہیں؟ روحانیّت و معرفت حدودِ جسمانی کے اوّل سے شروع ہوکر آخر تک پہنچ جائے، یہ روزی کون سی ہے؟ عقلی روزی ہے، یعنی تاویلی حکمت، آیا حکمت سکھائی جاتی ہے یا دی جاتی ہے؟ مرتبۂ علم الیقین پُرحکمت سکھائی جاتی ہے، عین الیقین کے مقام پر اس کا مشاہدہ ہے، اور حق الیقین کی بلندی پر آخری حکمت دی جاتی ہے (۰۲: ۲۶۹)۔
۳۔ حضرتِ آدم کی عید:
روحانی عید سب سے پہلے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں بصد خوشی و شکر گزاری منائی گئی، پھر اللہ تعالیٰ کی غیر متبدل سنت کے مطابق سلسلۂ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام میں یہ عیدِ سعید بار بار لوٹ کر آتی رہی، اور حجج و دعاۃ میں بھی، کیونکہ عید تجدّد امثال ہے، لہٰذا یہ پلٹ کر آتی رہتی ہے، اور سب سے بڑی عید مظاہرۂ ازل ہے، جس میں آسمان و زمین کے خزانے مل جاتے ہیں، اور قرآنِ عزیز (۰۵: ۱۱۴) میں ایسی ہی عیدِ سعید کا ذکر ہے۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۴ مئی ۱۹۸۹ء
۱۵۶
یہ سوالات ہوئے
سوال نمبر ۱: روح اور عذابِ قبر کے بارے میں بنیادی باتیں بتائیں۔
جواب: اسلام میں عذابِ قبر کی روایت اور حکایت موجود ضرور ہے، مگر یہ مسئلہ تاویل طلب ہے، کیونکہ جب انسان کی جسمانی موت کا وقت آتا ہے، تب عزرائیلؑ اس کی روح کو قبض کر لیتا ہے، اسی کے ساتھ جسم روح سے خالی ہو جاتا ہے، پس خاکی قبر میں جو جسد رکھا جاتا ہے، اس میں روح نہیں، وہ تو وہاں پہنچائی جاتی ہے، جہاں اس کا نامۂ اعمال ہے یعنی علیّین یا سجین میں (۸۳: ۱۸، ۸۳: ۰۷)۔
سوال نمبر ۲: سورۂ یاسین (۳۶: ۵۱) میں ارشاد ہے کہ صورِ قیامت سن کر قبروں کے مردے اٹھ کر اپنے ربّ کی طرف دوڑیں گے۔ اس کی وضاحت کریں۔
جواب: یہ قبریں (اجداث) بظاہر زندہ اور چلتی پھرتی ہیں، یعنی عوام الناس کے اجسام، جن میں ارواح بصورتِ ذراتِ لطیف سوئی ہوئی ہیں،
۱۵۷
اور جب انفرادی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اس میں صورِ اسرافیل کی آواز کے زیرِ اثر تمام روحیں جاگ اٹھ کر اسمِ اعظم اور مرکزِ قیامت کی طرف دوڑتی ہیں۔
سوال نمبر ۳: جب صاحبِ تاویل صرف وصئ رسول (علیؑ) اور أئمّۂ اولادِ علیؑ ہی ہیں، تو پھر کوئی اور شخص کس طرح تاویل کر سکتا ہے؟
جواب: بموجبِ حدیثِ شریف جس طرح تنزیلِ قرآن پر جنگ کی گئی تھی، اسی طرح اس کی تاویل پر جنگ کی جاتی ہے، پس تاویل ایک قسم کی جنگ ہے، اور جنگ نہ تو سردار کے بغیر ہوسکتی ہے، اور نہ لشکر کے سوا، لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ اس میدان کے تمام سپاہی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کارنامے انجام دے سکتے ہیں، نیز تاویل کی مثال شہد ہے، جس کو بہت سی شہد کی مکھیاں مل کر بناتی ہیں۔
سوال نمبر ۴: خدا قادرِ مطلق ہے، پھر فرشتوں کا تصوّر کہاں تک حق بجانب ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انتہائی کمال یہ ہے کہ اس نے فرشتوں اور دیگر مخلوقات کو پیدا کر کے بہت سے کاموں کی قدرت دی، پس خدا قادرِ مطلق ہے، کیونکہ نہ صرف وہ خود قدرت رکھتا ہے بلکہ وہ دوسروں کو بھی مناسب قدرت دے
۱۵۸
سکتا ہے، جس کی مثال فرشتے ہیں۔
سوال نمبر ۵: ہندوؤں کا نظریۂ تناسخ (آواگون) کہاں تک درست ہے؟ اگر غلط ہے تو کیسے؟
جواب: روح عالمِ امر سے ہے (۱۷: ۸۵) اور جو چیز عالمِ امر سے ہو وہ بذاتِ خود عالمِ خلق میں نہیں آتی، بلکہ یہاں اس کا مادّی سایہ بنتا ہے، اور یہی اسلامی نظریۂ روح ہے، جو تناسخ سے پاک ہے، جس میں روح کو عالمِ عُلوی سے منقطع اور محدود بہ جسم جانا جاتا ہے، اور یہ غلط ہے۔
سوال نمبر ۶: چونکہ خدا کُل ہے، اور مخلوقات اس کی اکائیاں ہیں، ہر اکائی کا کُل سے وہی رشتہ ہے جو کُل کو اکائی سے ہے، تو پھر دنیا میں کوئی کافر، کوئی یہود، کوئی نصاریٰ اور کوئی ہندو کیسے؟
جواب: خدا کُل سے برتر ہے، کیونکہ وہ خالقِ کُل ہے، کُل عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی کا نام ہے، انسان انہی کے اجزاء ہیں، خدا کے اجزاء نہیں، رشتہ بھی انہی سے ہے، اور یہ بھی یاد رہے کہ رشتہ فرمانبرداری سے جڑ جاتا ہے، اور نافرمانی سے ٹوٹ جاتا ہے، پس مومن اور کافر وغیرہ میں فرق لازمی ہے۔
سوال نمبر ۷: حقائقِ ربّانی کو عیان کرنا ہر انسان کے
۱۵۹
بس کی بات نہیں، تو اس آدمی کے عقیدے کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے، جو ان حقائق کو کھول کھول کر بنی آدم کے سامنے رکھ دیتا ہے (میرا مطلب سائنسدانوں سے ہے)؟
جواب: اگر کوئی سائنسدان خدا و رسول پر ایمان رکھتا ہے اور رضائے الٰہی کی نیت سے کام کرتا ہے تو یہ اس کا عملِ صالح ہے، ورنہ بنیاد ہی سے اس کا عقیدہ نا درست ہے، اور سائنسی ایجادات مومن کی چشمِ بصیرت میں معجزات ہیں، لیکن کافر کے نزدیک یہ سامانِ تعیش سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
سوال نمبر ۸: دنیا میں کوئی چیز حتمی طور پر بری نہیں ہے، اور نہ ہی حتمی طور پر اچھی ہے، اس نظریے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: یہ نظریہ قرآنی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ خداوندِ عالم نے خیر و شر کو الگ الگ پیدا کیا ہے، مثال کے طور پر اسلام خیر ہے، اور کفر شر ہے، اور یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں۔
سوال نمبر ۹ : خدا کی ذات سے دنیا کا کوئی فرد بھی انکار نہیں کر سکتا ہے، کیا یہ تصوّر درست ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
جواب: خدا کی ہستی سے بعض لوگ منکر ہیں، بعض مقر ہیں، مگر مقلدانہ اقرار کافی نہیں، بلکہ معرفت ضروری ہے۔
۱۶۰
سوال نمبر ۱۰: آپ کے ایک مقالے میں ہے: ایک وقت ایسا آئے گا، جس میں ناممکن کا تصوّر ختم ہوگا، اگر یہ سچ ہے تو میرے خیال میں اُس وقت کوئی ممکن بھی باقی نہیں رہے گا، یہ بات وضاحت طلب ہے، ایسی صورت ہوئی تو انسان کا رخ کس نہج پر ہوگا؟ مادّہ کی طرف یا روح کی طرف؟
جواب: جی ہاں یہ بات سچ ہے، یہ انسان کے علم و معرفت میں ترقی کی بات ہے، اس سے عالمِ امکان کے وجود کو کیوں کر کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ بندگانِ حق شناس کے لئے کائنات ظاہراً و باطناً (مادّہ، روح، عقل) مسخر ہو جائے گی (۴۵: ۱۳)۔
سوال نمبر ۱۱: (سورۂ قدر کی چند حکمتیں اور کیسیٹ لیلۃ القدر کے حوالے سے) کیا امامت کے یہ ایک ہزار ایک جامے ظاہری زمان و مکان کے لحاظ سے ہیں یا پھر مرتبے اور فضیلت کے اعتبار سے؟ اگر زمان و مکان کے لحاظ سے ہیں، تو یہ گنتی کب سے کب تک ہے؟ اور کس طرح؟
جواب: اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدیم بادشاہی ( جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا) میں بیشمار آدموں کا سلسلہ جاری رہا ہے، چنانچہ نورِ امامت کے ایک ہزار ایک جاموں کا دورِ اعظم بنتا ہے، جو
۱۶۱
پچاس ہزار (۵۰،۰۰۰) سال کا ہے (۷۰: ۰۴) یہی ایک ہزار ایک امام خدا تعالیٰ کے ایک ہزار ایک نام بھی ہیں۔
سوال نمبر ۱۲: اساس کا مرتبہ قائم کے پیدا ہوتے وقت کس طرح ظاہر ہو گا؟ اس کی وضاحت کریں۔
جواب: اساس (علیؑ ) کا مرتبہ کتنا بلند تھا؟ اور آپ کی ذاتِ عالی صفات میں کیسے کیسے خزائنِ علم و حکمت پوشیدہ تھے؟ اس سے کسی کو علم و آگہی اس وقت ہو سکتی ہے، جبکہ اس پر ذاتی قیامت گزرتی ہے، اور عالمِ شخصی میں حضرتِ قائم کا ظہور ہوتا ہے۔
سوال نمبر ۱۳: (بحوالۂ حدیث) رسول کی قبر آپؐ کے وصی یعنی مولا علی تھے اور منبر قائم القیامت ہیں، اور آنحضرت کے ان دونوں فرزند کے درمیان بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے، سوال یہ ہے کہ یہاں منبر یعنی قائم القیامت سے ظاہری طور پر کونسی شخصیت مراد ہے؟ کیا زمانۂ نبوّت سے سینکڑوں برس بعد یعنی اس دور کے خاتمہ پر حضرتِ قائم کے ظہور کے بارے میں اشارہ ہے؟
جواب: جی ہاں، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی قبرِ مبارک مولا علی ہیں، پھر امامِ زمان اور بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ظاہراً دعوتِ حق ہے، اور باطناً روحانیّت ، ہاں یہ اشارہ ظہورِ قائم کی
۱۶۲
طرف ہے، یہ وہی پاک شخصیت ہے جس کا ذکرِ جمیل ہو چکا ہے۔
سوال نمبر ۱۴: (بحوالۂ وجہِ دین) قائمِ قیامت دو روحانیوں (عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ) سے ایسے ملے ہوئے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی جدائی نہیں، اور قائم ہی کی وجہ سے نفسِ کلّ مکمل ہوگا، یعنی وہ عقلِ کلّ کے درجے پر پہنچے گا اور یہ واقعہ عالمی حرکات رک جانے اور عالمِ جسمانی فنا ہو جانے کا سبب بنے گا۔
اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ اگر قائمِ قیامہ عقلِ کلّی اور نفسِ کلّی سے ملے ہوئے ہیں تو پھر کس طرح قائم ہی کی وجہ سے نفسِ کلّ مکمل ہوگا؟ اس کی وضاحت کریں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آیا دورِ قائم القیامت کے مکمل ہونے کے بعد نفسِ کلّ مکمل ہوگا؟ اور یہ واقعہ عالمی حرکات رک جانے اور عالمِ جسمانی فنا ہونے کا سبب بنے گا؟ اور کیا اس کے بعد دورِ لطیف کا آغاز ہوگا؟ اور دورِ لطیف دورِ کثیف کے برعکس یعنی عالمی حرکات کے برعکس ہو گا؟ ان تمام باتوں کی مختصر وضاحت کی ضرورت ہے۔
جواب: عالمِ دین کا نمونہ یقیناًعالمِ شخصی ہے، لہٰذا ان شاء
۱۶۳
اللہ ہم اس کا جواب عالمِ نفسی کے مشاہدات سے دیں گے، چنانچہ حضرتِ حکیم پیر ناصر خسرو ق س نے اپنی روحانیّت میں قیامت کے تجدّد امثال کو یوں دیکھا: ظہوراتِ روحانی میں سے عظیم انقلابی ظہور قائم القیامۃ کہلاتا ہے، دوسرا ظہور نفسِ کلّی ہے اور تیسرا ظہور عقلِ کلّی، یہ ظہورات الگ الگ بھی ہیں، اور ایک بھی، پس ان میں انقلابی طاقت کا مالک حضرت قائمؑ ہی ہے۔ جس کی بدولت نفسِ کلّی کا مقصد پورا ہو جاتا ہے، یعنی وہ عقلِ کلّی کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے، اور انفرادی لحاظ سے عالمی حرکات رک جاتے ہیں اور عالمِ شخصی منزلِ فنا سے گزرتا ہے، یعنی عارف کو مرتبۂ فنا فی اللہ حاصل ہو جاتا ہے۔
جب ذاتی قیامت کے مشاہدے میں کائنات لپیٹ لی جاتی ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) تو اسی وقت اس عالمِ شخصی کے حق میں عالمی حرکات رک جاتے ہیں، مگر دوسروں کے لئے یہ بات نہیں، کیونکہ جو مومنِ عالی ہمت فنا بحق ہو جاتا ہے، اسی کے نزدیک ہر چیز (۲۸: ۸۸) یعنی کائنات ہلاک و فنا ہو جاتی ہے، جبکہ اس کا نامۂ اعمال مکمل اور عالمی پروگرام ختم ہو جاتا ہے، اور اب وہ دوسروں کے لئے جینے لگتا ہے۔
نوٹ: آپ ان سوالات و جوابات کو غور سے پڑھیں یہ امر
۱۶۴
ضروری ہے، اور ان پر مذاکرہ کریں، کیونکہ یہ نایاب جواہرِ گرانمایہ صرف امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام ہی کے خزائن سے مل سکتے ہیں، اور بس۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
گلگت
۱۸ شوال ۱۴۰۹ھ
۲۴ مئی ۱۹۸۹ء
۱۶۵
تحفۂ احباب
:ا۔ یقطین (۳۷: ۱۴۶، کدو کی بیل، بیلدار درخت)
ظہورِ عقل کی مثال ہے، جس کی تشبیہ یقطین سے دی گئی ہے اگرچہ اس کی تشبیہات و تمثیلات بہت زیادہ ہیں، تاہم اس کا عملی اشارہ کھڑے درخت کی طرح نہیں بلکہ بیل کی طرح ہے، جس کی شاخیں زمین پر پھیلتی ہیں، یا کسی سہارے سے اوپر چڑھتی ہیں۔
۲۔ من اور سلویٰ (۰۲: ۵۷، ایک آسمانی غذا اور ایک پرندہ):
یعنی عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے غذائی معجزات، جو عقلی، روحانی، اور لطیف جسمانی غذائیں ہیں۔
۳۔ بیکار کنواں اور (بیکار) قصرِ بلند (۲۲: ۴۵): عالمِ شخصی میں ایک انتہائی پاک و پاکیزہ کنواں ہے، جو ہمیشہ آبِ شیرین سے بھرا ہوا رہتا ہے، اور اس کے پاس ایک بلند ترین محل بھی ہے، مگر افسوس کہ یہ دونوں بیکار پڑے ہیں، اور آدمی ان کے استعمال اور استفادے سے محروم ہے، کنواں
۱۶۶
دہنِ مبارکِ نفسِ کلّی ہے، اور قصرِ بلند نورِ عقلِ کلّی ۔
۴۔ عروش: (۰۲: ۲۵۹، ۱۸: ۴۲، ۲۲: ۴۵) عرش کی جمع، چھتیں
جب قریہ ہائے ہستی ہلاک و فنا ہو جاتے ہیں، جیسا کہ قانونِ فنا ہے، تو اس وقت وہ اپنی چھتوں پر گر جاتے ہیں، یعنی روح بدن سے نکالی جاتی ہے، مگر اس کا آخری سرا دماغ میں باقی رہتا ہے، پھر اس پر باہر سے تازہ روح ڈالی جاتی ہے، جس کے دباؤ سے روح کا وہ حصہ جو دماغ میں چھت کی طرح تھا پاؤں کی طرف گر جاتا ہے، اور یہی عمل بار بار ہوتا ہے، یہ ہوا قریات کا اپنی چھتوں پر گر جانا۔
۵۔ باغات: جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں (جیسے انگور)، باغات جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے، کھجور کا درخت ، کھیتی، زیتون اور انار (۰۶: ۱۴۱):
یہ عالمِ شخصی میں عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، امام اور حجت ہیں، ان میں سے ہر مثال کی ایک خاص توجیہہ ہے، جو ممثول کے مطابق ہے، چنانچہ عقل کی بیل درختِ نفس کے سہارے پر قائم ہے، مگر نفس بذاتِ خود برپا ہے، کھجور تمام درختوں سے افضل ہے، اس لئے یہ ناطق کی مثال ہے، کھیتی کی تمثیل اساس کے لئے ہے جس میں ہر قسم کی روحانی فصلیں تیار ہوتی ہیں، شجرۂ مبارکۂ
۱۶۷
زیتون امام کی مثال ہے، جس کے نور سے چراغِ ہدایت روشن ہوتا ہے، اور درختِ انار جس کا پھل مضبوط چھلکے میں کثیر بیجوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے، باب کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے پردۂ روحانیّت کے پیچھے بہت سی روحیں جمع ہو جاتی ہیں۔
۶۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم: (ب س م ا ل ل ہ ا ل ر ح م ن ا ل ر ح ی م) کے ۱۹ حروف
یہ سات صاحبانِ دورِ بزرگ اور ان کے بارہ حجتوں پر دلیل ہیں، نیز سات صاحبانِ دورِ صغیر یعنی ہفت أئمّہ اور ان کے مامور حجتانِ جزائر پر دلیل ہیں، اس کی تفصیل کے لئے دیکھو کتابِ وجہِ دین، گفتارِ چہاردہم۔
۷۔ کتابِ مکنون (۵۶: ۷۸) کیا ہے؟
کتابِ مکنون یعنی پوشیدہ کتاب عالمِ روحانی میں قلمِ الٰہی ہے، جو نورِ ازل اور گوہرِ عقل ہے، اور اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں، اور عالمِ دین میں مظہرِ قلم حضرتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں، پھر آپ کے جانشین یعنی مولا علیؑ، اور پھر امامِ زمانؑ ہیں۔
۸۔ مراتبِ روح:
جمادات کی نگاہ داشتہ روح نباتات میں ہے، نباتات کے لئے ترقی کی روح حیوانات میں ہے، حیوانات کا ارتقائی رخ انسانوں کی طرف ہے، اور انسان کی روحانی
۱۶۸
پیش رفت یہ ہے کہ وہ انسانِ کامل میں فنا ہو جائے اور یہی طریقہ فرشتہ بن جانے کا بھی ہے، پس امامِ زمان صلواۃ اللہ علیہ مومن (بلکہ ہر آدمی) کی اصلی اور ازلی روح ہیں، جس کی پہچان بندۂ مومن کی اپنی پہچان اور حضرتِ ربّ کی پہچان ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔
۹۔ روح کے دو (۲) سرے:
جب یہ حقیقت روشن ہوئی کہ امامِ عالی مقام ہی انسان کی حقیقی روح ہے تو نتیجے کے طور پر یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ روح کے دو سرے ہیں، کیونکہ امامِ اقدس و اطہر جو ہماری اعلیٰ روح ہیں، وہ خدا کی رسی ہیں، جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا لوگوں کے درمیان، اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روح کا بالائی سرا عالمِ امر میں ہمیشہ خداوند تعالیٰ سے واصل ہے، جس طرح کرنیں ہر وقت سورج سے وابستہ رہتی ہیں اور روشنی کا پل کبھی سورج کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔
۱۰۔ جمع میں واحد کا راز:
و سخر لکم ۔۔۔ (۴۵: ۱۳) اور اُس نے آسمانوں اور زمین کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے (یعنی تم میں سے ہر ایک کے) لئے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے (۴۵: ۱۳) اس حکم میں جو اجتماعی
۱۶۹
ہے ہر فردِ مومن کے لئے روحانی سلطنت کی بشارت ہے، کیونکہ ہر آدمی میں ایک ذاتی عالم اس لئے ہے کہ وہ عبادت اور معرفت کے نتیجے میں بادشاہ ہو، پس ہر شخص کے عالمِ شخصی میں تمام چیزیں اور ساری انسانیت رام و مسخر کی گئی ہیں، اور یہ مساواتِ رحمانی کا سب سے بڑا راز ہے (۶۷: ۰۳)۔
۱۱۔ آسمانِ دنیا (قریب کا آسمان ۶۷: ۰۵):
عالمِ شخصی میں قریب کے آسمان سے مراد سرہائے انگشت (انگلیوں کی پہلی پوریں) ہیں جہاں سے بہ نتیجۂ ذکر و عبادت ہالۂ نور کے شعلے نکلتے ہیں، اور ان کی مار سے شیاطین دفع ہو جاتے ہیں، ایسا ہالہ(Aura) جراثیم کُش اور شفا بخش بھی ہے، اور اسی ہالۂ نور کی وجہ سے نہ صرف حضرتِ عیسیٰؑ بلکہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے دستِ حق پرست میں ہر قسم کی شفا ہوا کرتی ہے۔
۱۲۔ برے جراثیم بھی شیاطین ہیں:
ایک جدید تفسیر (تفسیرِ نمونہ) میں ہے کہ جراثیم لشکرِ شیطان میں شامل ہیں، اور یہ بات عقل کے نزدیک قابلِ قبول ہے، پس اگر بیماریاں پانچ قسم کی ہیں (جیسا کہ قرآنی علاج میں ہے) تو جراثیم بھی پانچ نوع کے ہیں، اور ان سب کا دافع قرآن اور نور ہے۔
۱۳۔ سامری نے کیوں کہا ہاتھ نہ لگانا: (لا مساس ۲۰: ۹۷):
۱۷۰
اس کا ظاہر یہ ہے کہ بطورِ سزا اُس پر ایک بیماری ڈالی گئی تھی، اس لئے اگر کوئی اس کو چھو لیتا تو ایسے شخص کو سامری کے جراثیم لگ جاتے، اور باطن یہ ہے کہ وہ عقلی مریض یعنی جاہل تھا، اور چھونے کے معنی ہیں تعلیم لینا، پس اگر کوئی شخص سامری سے تعلیم لیتا، تو اس کو عقلی جراثیم لگ جاتے، اور وہ مرضِ جہالت میں مبتلا ہو جاتا۔
۱۴۔ گوسالۂ باطل پرستی:
ایسا ہرگز نہ کہا جائے کہ اب کوئی سامری نہیں، چونکہ سامری اب بھی ہے، وہ شخص کون ہے جو ظاہراً زیورات جیسے خوبصورت مگر اندر سے بے حقیقت الفاظ سے باطل کا بچھڑا بنا کر لوگوں کو راہِ حق سے دور کر دیتا ہے؟ یقیناً ایسی کھوکھلی لفاظی سے کام لینے والا جادوگر سامری ہی ہوگا، پس یقین جانیں کہ کوئی بھی قرآنی قصّہ اور مثال حکمت کے اشاروں سے خالی نہیں۔
۱۵۔ چشمۂ سلسبیل (۷۶: ۱۸) :
یہ بہشت کے ایک چشمے کا نام ہے، مگر یہاں یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ مادّی چیزیں الگ الگ ہوا کرتی ہیں، جبکہ روحانیّت اور جنت کی چیزیں مل کر ایک ہوتی ہیں، چنانچہ فردوسِ برین کا یہ چشمہ زندہ، گویندہ، علم و حکمت سے بھرپور اور سب کچھ ہے، جیسا کہ اس
۱۷۱
کا نام ہے۔ سل (سوال کر) + سبیل (راستہ یعنی ہادی سے) = سلسبیل، دیکھو: مفردات القرآن، ص ۴۸۸۔
:۱۶۔ اسماءُ الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰)
خدا کے اچھے اچھے نام، اسمائے بزرگ، یعنی رسولِ اکرمؐ اور أئمّۂ طاہرین، جیسا کہ مولا علیؑ کا ارشاد ہے: انا اسماءُ الحسنٰی، میں اسمائے حسنائے الٰہیہ ہوں، اور حضرتِ امام جعفر الصادقؑ نے فرمایا: و اللّٰہ نحن اسماءُ الحسنٰی، خدا کی قسم ہم ہی خدا کے اسمائے حسنیٰ ہیں۔ لا یقبل اللّٰہ عملا الا بمعرفتنا، کوئی عمل بحضورِ خدا ہماری معرفت کے بغیر مقبول نہیں ہوتا، پس امامِ حیّ و حاضر اسمِ اعظمِ زمان ہیں، لہٰذا آپ کی معرفت بے حد ضروری ہے۔
۱۷۔ ایک پُرحکمت حدیث:
ارشادِ نبوّی ہے: یا عجبا لقوم یقادون الی الجنۃ بالسلاسل ۔ اس قوم پر تعجب ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف کھینچے جا رہے ہیں۔ جس طرح جہادِ جسمانی میں لوگوں کو زور و زبردستی سے اور قید و بند کے ذریعہ بحدِّ قوّت بہشت (یعنی اسلام) میں لایا جاتا تھا، اسی طرح جہادِ روحانی میں انہیں زنجیروں میں جکڑ کر فعلاً جنت میں داخل کیا جائے گا، تاکہ وہاں ان پر مومنین کی
۱۷۲
سلطنت قائم ہو۔
۱۸۔ مناجات کی فضیلت:
دوستانِ خدا کے سامنے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات اور گریہ و زاری سے قلب و روح کی خوب پاکیزگی ہو جاتی ہے، کیونکہ اس میں جو کچھ کہا جاتا ہے، وہ صورتِ حال کی حقیقی ترجمانی ہوتی ہے، نیز اس میں خوش نصیب مومن بتوفیقِ الٰہی دریائے عاجزی میں ڈوب جاتا ہے اور عاجزی وہ کیفیت ہے، جس میں روحانی صلاحیتیں اجاگر ہونے لگتی ہیں۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۷ ذیقعد ۱۴۰۹ھ
۱۲ جون ۱۹۸۹ء
۱۷۳
جانِ عالم کے سوالات
ا۔ عزیزم جانِ عالم ولایت شاہ کا تعلق بروکشل، بلتت (ہونزہ) سے ہے، آپ دینی اور دنیوی علم کے قدر شناس اور دلدادہ ہیں، شریف النفس اور ہوشمند ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی کتب کا مطالعہ باریک بینی سے کرتے ہیں، ان کی بہت بڑی خواہش ہے کہ قرآنی اسرار سے آگہی ہو، کاش نوجوانوں کی اکثریت کے دل میں یہی شوق و جذبہ موجزن ہوتا! محترم جانِ عالم نے کچھ عرصہ پہلے امید و اعتماد کے ساتھ تین صفحات پر مبنی ایک سوالنامہ پیش کیا تھا، جس کا جواب بڑی تاخیر سے معذرت کے ساتھ دے رہا ہوں، سوالات کی کاپی آپ کو اس تحریر سے الگ ملے گی، ذیل میں صرف جوابات درج کئے جاتے ہیں:
۲۔ جواب نمبر ۱:
اصحابِ کہف (غار والے، ۱۸: ۰۹ تا ۲۵) عالمِ شخصی کی بڑی بڑی روحیں ہیں، امامِ زمان صلوات اللہ علیہ عظمت و بزرگی کا پہاڑ اور پناہ و امن کا غار ہیں، ان کی پاک و پاکیزہ
۱۷۴
شخصیت میں مومنین کے ذراتِ روح خوابیدہ ہیں، جو ایک خاص وقت میں جاگ اٹھتے ہیں، روح اپنی ازلی وحدت میں ایک بھی ہے اور اس سے نچلے درجات میں کثیر بھی، چنانچہ منازلِ معرفت میں جب کسی مومن پر امامِ حاضرؑ کی نورانیّت کا عکس پڑتا ہے تو اس وقت تمام قرآنی مثالیں فعلاً پیش آتی ہیں اور اسی سلسلے میں واقعۂ اصحابِ کہف بھی شامل ہے، کہ عارف کی روحانیّت میں بڑی بڑی روحیں اصحابِ کہف ہیں، اور اصلاح و پاکیزگی سے آراستہ نفس سگِ اصحابِ کہف ہے، یعنی وہ مومن جس نے عظیم روحوں کے معجزات و کمالات کا مشاہدہ کر لیا ہے جسم و نفس کے ساتھ ہونے کے باؤجود وفادار کتے کی طرح روح و روحانیّت کے پیچھے پیچھے غارِ عقل و حکمت تک پہنچ جاتا ہے۔
۳۔ جواب نمبر ۲:
سورۂ رعد (۱۳: ۰۴) کے اس ارشادِ مبارک میں بہ اعتبارِ میوہ درختوں کی فوقیّت و فضیلت کا تذکرہ ہے، جس کا اشارہ یہ ہے کہ لوگ مختلف قسم کے درخت ہیں جن میں سے بعض جنگلی ہوتے ہیں، بعض آبادی میں اگائے جاتے ہیں، کچھ بے ثمر، کچھ ثمردار، اور کچھ اعلیٰ ثمر والے درخت ہوا کرتے ہیں، اور یہی سب سے افضل درخت پیغمبر
۱۷۵
اور امام علیہما السّلام کی مثال ہیں، جیسے سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴) میں شجرۂ طیبہ (پاک درخت) کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس درخت کا پھل علم و حکمت ہے، جو اپنی مثال خود ہے۔
۴۔ جواب نمبر ۳:
خدائے واحد و یکتا نے قرآنِ حکیم میں اپنے متعلق کبھی صیغۂ واحد “انا” (میں ۲۰: ۱۵) کو استعمال فرمایا ہے، اور کبھی صیغۂ جمع “نحن” (ہم ۱۵: ۲۰) کو، جس کی وجہ یہ ہے کہ انا ذاتِ وحدت کا اشارہ ہے، اور نحن کثرتِ صفات و افعال کی دلیل، کیونکہ ذات ایک ہے اور اسمائے صفات و افعال کے مظاہر (جیسے عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اساس وغیرہ) کثیر، جیسے آفتابِ عالم تاب ایک ہے، مگر اس کے مظاہر یعنی چاند اور ستارے بے شمار ہیں۔
۵۔ جواب نمبر ۴:
قصّۂ یوسف (۱۲: ۴۳) میں ہے: “اور بادشاہ نے کہا کہ میں (خواب میں کیا) دیکھتا ہوں کہ سات گائیں موٹی ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا گئیں اور سات بالیں سبز ہیں اور ان کے علاوہ سات اور ہیں جو کہ خشک ہیں۔ اس کی دہری تاویل ہے، پہلی تاویل کے لئے خود سورۂ یوسف کی آیت ۴۷ تا ۴۹ ملاحظہ ہو، اور دوسری تاویل یہ ہے: عالمِ شخصی میں چھ ناطقوں اور قائم کی کلی معرفت موجود ہے، چنانچہ یہ
۱۷۶
حضرات علیہم السّلام ایک مثال کے مطابق سات دن ہیں، اور دوسری مثال کے مطابق سات سال ہیں، یعنی تنزیلی معجزات کے سات مرحلے گویا ایسے سات سال ہیں، جن میں خوب محنت سے فصل اگا کر کثرت سے حاصل کی جاتی ہے اور تاویلی معجزات کے سات مرحلے وہ ہیں جن میں صرف اگلا ذخیرہ کام آتا ہے، پھر اس کے بعد مرتبۂ عقل تک رسائی ہو جاتی ہے، جہاں خوب بارش ہوتی رہتی ہے اور ہر چیز کو نچوڑ کر رس اور جوہر نکالنے کا کام شروع ہو جاتا ہے (۱۲: ۴۹) پس سات کا عدد جہاں بھی ہو اس کا اشارہ سات صاحبانِ ادوار کی طرف ہے۔
۶۔ جواب نمبر ۵:حضرتِ خضر علیہ السّلام کا یہ نام قرآنِ کریم میں مذکور نہیں، حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کا دو دریاؤں کے سنگم کی طرف جانا روحانی سفر تھا اس لئے یہ ان کی روحانیّت کے واقعات ہیں، معلّمِ تاویل بھی روحانیّت ہی میں تھا، کیونکہ ظاہر میں کسی بچے کو اس بناء پر قتل کرنا کہ وہ آگے چل کر نافرمانی کرنے والا ہے، کسی بھی شریعت میں جائز نہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بشر جسمِ عنصری میں ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا اور یہ بھی درست ہے کہ ہادئ زمانؑ ہی
۱۷۷
علم و حکمت کا سرچشمہ ہے۔
۷۔ جواب نمبر ۶:
سورۂ رحمان (۵۵: ۴۶) میں جن دو باغوں کا ذکر ہوا ہے وہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں، یہ دونوں باغ کثیر شاخوں والے ہیں (۵۵: ۴۸) یعنی ہر عالمِ شخصی میں ان کا ظہور ہے ان دونوں باغوں یعنی عقل و نفس میں علم و حکمت کے دو چشمے جاری ہیں (۵۵: ۵۰) ان کے نیچے دو باغ اور ہیں (۵۵: ۶۲) یعنی ناطق اور اساس (ملاحظہ ہو: کتابِ وجہِ دین، گفتار نمبر ۱۱)۔
۸۔ جواب نمبر ۷:
بحوالۂ سورۂ حاقہ (۶۹: ۳۲) دوزخی کی زنجیر جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے، زنجیرِ تقلید ہے، جس میں ہر مقلّد ستر پشتوں تک جکڑا ہوا رہے گا، اور اس کے بعد بڑی قیامت برپا ہوگی، تب اہلِ دوزخ کو نجات ملے گی۔
۹۔ جواب نمبر ۸:
اسی سورہ کے حوالے سے داہنے ہاتھ کو بطورِ سزا پکڑنا مظاہرۂ گوہرِ عقل سے محروم کر دینا ہے، اور شہ رگ کاٹنا تائید کے راستے کو منقطع کرنا ہے (۶۹: ۴۴ تا ۴۶) اور دستِ راست میں نامۂ اعمال دینا یہی گوہر اسی ہاتھ میں تھما دینا ہے (۶۹: ۱۹)۔
۱۰۔ جواب نمبر ۹:
سورۂ دہر (۷۶: ۱۸) میں چشمۂ
۱۷۸
سلسبیل کی تعریف و توصیف بیان ہوئی ہے، یہ انتہائی اعلیٰ پانی بھی ہے، شراب بھی، دوا بھی، اور غذا بھی ہے، اور یہ چشمہ نورِ امامت سے متعلق ایک کلمۂ تامّہ ہے، آپ لفظِ سل سبیل کے اشارے کو دیکھ سکتے ہیں: سل (پوچھ) سبیل (راستے یعنی امام سے) کیونکہ امامِ عالی مقام نہ صرف ہادئ برحق ہے، بلکہ خود راہِ حق (سبیل اللہ) بھی ہے، اور امام سے پوچھنے کے معنی ہیں ظاہر و باطن میں امام علیہ السّلام کی اطاعت کرنا۔
۱۱۔ جواب نمبر ۱۰:
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ حکیم رسولِ عربی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر عربی زبان میں عرب کے باشندوں کے فطری مزاج کے مطابق نازل ہوا ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ تمام انسانوں کے فطری مزاج ایک جیسے ہوتے ہیں، یعنی جو چیزیں عرب والے چاہتے ہیں، ان جیسی چیزیں دنیا کے دوسرے لوگ بھی چاہتے ہیں، اس میں در حقیقت کوئی فرق نہیں، جیسا کہ سورۂ ابراہیم (۱۴: ۰۴) میں ارشاد ہے:
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْؕ (۱۴: ۰۴) اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان میں تا کہ ان کو بیان کرے۔ اس آیۂ پُرحکمت کی
۱۷۹
تاویل یہ ہے کہ قرآنِ عظیم جو سب سے بڑا معجزہ ہے، وہ ظاہراً عربی میں ہے، اور باطناً دنیا کی تمام زبانوں میں، کیونکہ آنحضرتؐ سب لوگوں کے لئے بھیجے گئے ہیں (۰۷: ۱۵۸) اور سارے جہانوں کے لئے رحمت ہیں، (۲۱: ۱۰۷) اور یہ رحمت قرآن کریم تک ظاہری و باطنی رسائی ہے، غرض حضورِ اکرمؐ مدینۂ علم اور دارِ حکمت ہیں، اور علیؑ دروازہ اور علیؑ سے نورِ امامت مراد ہے، جو ہمیشہ حیّ و حاضر ہے، پس اگر دنیا بھر کے لوگ اسی دروازے سے اس شہر اور اس گھر میں داخل ہو جائیں، تو اس حال میں قرآنِ عزیز کا یہ معجزہ ہوگا کہ وہ ہر شخص کو اس کی اپنی زبان میں بیان کرنے لگے گا، پھر ایسے میں قرآن کا بیان دائرۂ عرب سے بڑھ کر عالمگیر اور سب کے مزاج کے مطابق ہو جاتا ہے۔
۱۸۰
سوال در جواب
۱۔ عالمِ شخصی کی بڑی بڑی روحیں کیا ہیں؟
۲۔ پناہ اور امان کے غار سے کیا مراد ہے؟
۳۔ خوابیدہ روحیں کب جاگ اٹھتی ہیں؟
۴۔ روح ایک بھی ہے اور کثیر بھی، وہ کس طرح؟
۵۔ مومن پر امامِ زمانؑ کا عکسِ نورانیّت کیسے پڑتا ہے؟
۶۔ سگِ اصحابِ کہف کا ممثول؟
۷۔ غارِ عقل و حکمت سے کیا مراد ہے؟
۸۔ درخت میں پیوند لگانے کی کوئی حکمت بیان کریں۔
۹۔ “انا” اور “نحن” کی وضاحت کریں۔
۱۰۔ فراوان فصلی؟ اور قحط سالی؟
۱۱۔ دو دریاؤں کا سنگم؟ معلّمِ روحانی؟
۱۲۔ عالمِ شخصی میں دو اور دو چار باغ کس طرح ہیں؟
۱۳۔ ستر ہاتھ = ستر پشت کس طرح؟
۱۴۔ ہر چیز کو کس طرح نچوڑ لیا جاتا ہے؟
۱۵۔ روحانیّت کے چودہ مرحلے کون سے ہیں؟
۱۸۱
۱۶۔ حقیقت میں دستِ راست اور دستِ چپ کے درمیان کیا فرق ہے؟
۱۷۔ پاک درخت کون سا ہے؟
۱۸۔ امامِ عالی مقام سے پوچھنے کے لئے کونسا طریقہ مقرر ہے؟
۱۹۔ کلمۂ تامّہ کی تعریف کریں۔
۲۰۔ آیا کوئی جسمِ عنصری ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکتا ہے؟
۲۱۔ علم و حکمت کی خوب ترین بارش کس منزل میں ہوتی ہے؟
۲۲۔ تنزیلی معجزہ اور تاویلی معجزہ کی وضاحت کریں۔
۲۳۔ شہ رگ کاٹنے کے لئے داہنے ہاتھ کو پکڑنا کیوں ضروری ہے؟
۲۴۔ قرآن ظاہراً عربی میں ہے اور باطناً کس زبان میں ہے؟
۲۵۔ نامۂ اعمال داہنے ہاتھ میں دینے کی حکمت بیان کریں۔
۲۶۔ فعلِ خدا کے مظاہر کی کوئی مثال بیان کریں۔
۲۷۔ کیا قرآن کی روحانیّت دنیا کی ہر زبان میں ہے؟
۲۸۔ گائے کس چیز کی مظہر ہے؟
۲۹۔ سات خشک بالیں کس چیز کا اشارہ ہیں؟
۱۸۲
۳۰۔ چھوٹی قیامت آتی رہتی ہے، بڑی قیامت کب برپا ہو گی؟
نصیر الدین نصیر ہونزائی
ذوالفقارآباد، گلگت
۲ صفر ۱۴۱۰ھ / ۳ ستمبر ۱۹۸۹ء
۱۸۳
خدا شناسی
۱۔ میری عزیز روح کے پسندیدہ اور بہت ہی پیارے بچے! میں محبتِ سماوی، کامل روح شناسی، اور امام شناسی کی روشنی میں شرق و غرب کے جملہ عزیزوں کو قلبی و روحی یاعلی مدد کہتا ہوں، اس میں یہ واضح اشارہ پاک و اعلیٰ معرفت کی طرف ہے، جو ہر مومن کی اس زندگی اور بقا کا سب سے بڑا مقصد ہے اور یقیناً یہی مقصودِ آفرینش بھی ہے۔
۲۔ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں دیدارِ الٰہی اور ملاقاتِ ربّانی کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں خدا تعالیٰ کی پہچان یعنی معرفت مقصود ہے، اور جس شان سے چہرۂ خدا (۲۸: ۸۸، ۵۵: ۲۷) کا بیان ہوا ہے، وہ بھی معرفت ہی کا کلیدی موضوع ہے، کیونکہ چہرہ کا ثمرہ دیدار و مشاہدہ ہے اور اس کا نتیجہ معرفت۔
۳۔ قرآنِ پاک میں نورِ خدا کا موضوع سب سے روشن ترین موضوع ہے، جس کا مطلب ہے حقیقتوں اور معرفتوں
۱۸۴
پر مکمل روشنی ڈالنا، چنانچہ نور اور ہدایت سے متعلق تمام آیاتِ کریمہ معرفت کی حکمتوں سے بھرپور ہیں، کیونکہ نور کے معنی ظہور کے ہیں اور ہر پوشیدہ چیز کو ظاہر کر کے شناخت کرانے کے، اور اگر دراصل دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ کوئی آیۂ کریمہ منزلِ معرفت کے معنئ نشاندہی کے بغیر نہیں ہے۔
۴۔ قرآنِ کریم کی جملہ ہدایات و تعلیمات سے صراطِ مستقیم پر روشنی پڑتی ہے اور یہ راہِ راست منزلِ معرفت ہی کی طرف جاتی ہے جو مومن کی منزلِ آخرین ہے، اور معرفت کا آخری نتیجہ و ثمرہ وہ گنجِ مخفی ہے، جس میں خداوندِ تعالیٰ کا انتہائی راز اور ساری خدائی کے بھید پوشیدہ ہیں، اور یہی عارفِ کامل کی ازلی و ابدی دولت ہے۔
۵۔ قرآنِ مقدّس کی جملہ حکمتوں کا رخ اور رجحان خدا شناسی کی جانب رہتا ہے، تاکہ معرفتِ الٰہی کا عظیم مقصد پورا ہو جائے، بالفاظِ دیگر یوں کہنا چاہئے کہ آئینۂ قرآنِ نورِ معرفت کے سامنے رکھا ہوا ہے، تاکہ ہر ہر آیت سے خدا شناسی کی حکمتیں منعکس ہو جائیں۔
۶۔ دین کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی وحدانیّت پر قائم ہے،
۱۸۵
کیونکہ جو کچھ توحید کے سوا ہے، وہ بت پرستی اور شرک ہے، چنانچہ معرفت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی روشنی میں توحید باری تعالیٰ کا مکمل یقین حاصل ہو جاتا ہے، کیونکہ نورِ عرفان وہ ہے جس کی بدولت اہلِ بصیرت کے سامنے حقیقتِ توحید کے تمام تر پہلو روشن ہو جاتے ہیں، پس ظاہر ہے کہ جہاں آفتابِ معرفت طلوع ہو جاتا ہے، وہاں وحدانیت کی بادشاہی ہوتی ہے، اور ظلمتِ شرک کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا۔
۷۔ قرآنِ مجید (۵۱: ۵۶) سے ظاہر ہے کہ جنّ و انس کی تخلیق کا مقصدِ عظیم خدا کی عبادت ہے، جو خدا شناسی (معرفت) کی روشنی میں ہونی چاہئے، اور اس کے سوا جو بھی عبادت ہو، وہ بے معنیٰ اور بے فائدہ ہے، چنانچہ شرک سے پاک اور نورِ معرفت سے منور عبادت کا اوّلین اشارہ سورۂ فاتحہ میں ملتا ہے، جو “ایاک نعبد” میں پوشیدہ ہے، جس کا مفہوم ہے کہ: ہم نورِ معرفت کی روشنی میں تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تیری یکتائی کا یقینِ کامل رکھتے ہیں، یہ کلامِ حکمت نظام سب سے پہلے اور سب سے بلندی پر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر صادق آتا ہے، کیونکہ حضورؐ ہی نے
۱۸۶
ایسی ہی عبادت بجا لائی۔
۸۔ قرآنِ حکیم کچھ لوگوں کو بہرے، گونگے، اور اندھے (۰۲: ۱۸) قرار دیتا ہے، جس کی حکمت ترتیب وار ہے، وہ اس طرح کہ وہ لوگ پہلے خدا شناسی کی باتوں کے سننے سے بہرے ہیں، اسی وجہ سے وہ زبانِ معرفت سے گونگے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ چشمِ دل سے نابینا ہی رہ گئے ہیں، اور عرفانی مشاہدات سے محروم ہو چکے ہیں۔
۹۔ حدیثِ شریف : اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربہ (جو شخص تم میں سب سے زیادہ اپنے آپ کو پہچانتا ہے وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کو پہچانتا ہے) سے ظاہر ہے کہ مومنین خدا شناسی یعنی معرفت کے مختلف درجات پر ٹھہرے ہوئے ہیں اور ان میں سب سے آگے وہ عارفِ ربّانی ہے، جو روح کی حقیقتوں کو سب سے زیادہ جانتا ہے
۱۰۔ کتابِ عزیز (قرآن) کے بموجب معرفت کا ایک اور نام “یقین” بھی ہے لہٰذا علم الیقین سے معرفت کا آغاز ہوتا ہے، اور عین الیقین سے ہوتے ہوئے حق الیقین پر جا کر اس کی تکمیل ہو جاتی ہے، اور یہ درجۂ کمال پر پہنچ جاتی ہے۔
۱۱۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لفظِ “معرفت” میں اہلِ ایمان
۱۸۷
کے لئے بے حد معنوی جاذبیّت و دلکشی پائی جاتی ہے، اور اس کی گہرائیوں سے ہمیشہ امید و یقین اور حقیقی محبت کی سدا بہار خوشبوئیں آتی رہتی ہیں، معرفت ایک ایسی پُرحکمت اور با اثر اصطلاح ہے جو ہر وقت اہلِ ایمان کو دعوتِ فکر و عمل اور خدا شناسی کی ترغیب و تشویق دیتی رہتی ہے، اور کہتی ہے کہ اپنی روح کو پہچانتے ہوئے اپنے ربّ کو پہچان لو، اور تاجِ معرفت سے سرفراز ہو جاؤ۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸۹/۹/۹ = ۸۱/۴/۱۰
۱۸۸
چند قرآنی سوالات
س نمبر ۱: حضرتِ آدم علیہ السّلام کا نام قرآنِ پاک میں کتنی دفعہ آیا ہے؟ اور بی بی حوّا علیہا السّلام کا نام کتنی بار؟
س نمبر ۲: قرآنِ کریم کی ۳۳: ۳۳ میں کیا تذکرہ ہے؟ اور اس کی وضاحت ہماری کس کتاب میں کی گئی ہے؟
س نمبر ۳: انبیائے کرام علیہم السّلام میں وہ نامور ہستی کون سی ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے خدا پرستی اور توحید شناسی کا نمونہ قرار دیا ہے؟
س نمبر ۴: قرآنِ مقدّس کو “سی پارہ” کیوں کہا جاتا ہے؟ ہر پارہ کی پہلی چوتھائی کو کیا کہتے ہیں؟ ۲/۱ پارہ کا کیا نام ہے؟ اور ۴/۳ پارہ کا کیا نام؟
س نمبر ۵: قرآنِ کریم میں لفظِ “خلیفہ” کن کن پیغمبروں کے لئے استعمال ہوا ہے؟ اور لفظِ “امام” کن کن کے لئے؟
س نمبر ۶: رحمتِ عالم کس پیغمبر کا لقب ہے؟ اور
۱۸۹
اس کا ذکر قرآنِ پاک میں کہاں ہے؟
س نمبر ۷: کتنی ایسی سورتیں ہیں، جو حروفِ مقطعات سے شروع ہو جاتی ہیں؟
س نمبر ۸: قرآنِ عظیم کی سب سے طویل سورت کون سی ہے؟ اور سب سے مختصر سورہ کونسی ہے؟
س نمبر ۹: دو ایسی آیتیں دکھا دو، جو پنجتنِ پاک کے بارے میں نازل ہوئی ہوں؟
س نمبر ۱۰: قرآنِ حکیم کی کسی ایسی سورت کا نام بتا دو، جس میں ایک آیت کئی دفعہ دہرائی گئی ہے۔
س نمبر ۱۱: “خوشی سے بھی اور مجبوری سے بھی خدا کی طرف رجوع کر جانا ہے” یہ مفہوم قرآنِ پاک میں کہاں مذکور ہے؟
س نمبر ۱۲: قرآنِ حکیم میں حکمت کی تعریف و توصیف کس مقام پر کی گئی ہے؟ وہ چیز کون سی ہے، جس میں بہت ساری بھلائی پوشیدہ ہوتی ہے؟
س نمبر ۱۳: قرآنِ مجید میں نفسِ مطمئنہ کا تذکرہ کہاں ہے؟ اور اطمینان کی تشریح کہاں کہاں ہے؟
س نمبر ۱۴: ظاہر ہے کہ قرآن میں لفظِ “معجزہ”
۱۹۰
موجود نہیں، لیکن اس کے مترادفات ضرور ہیں، آپ اس کا کوئی مترادف (ہم معنی لفظ) بتائیں۔
س نمبر ۱۵۔ آیا قرآنِ حکیم میں حقیقی عشق کا تذکرہ موجود نہیں؟ اگر ہے تو کس لفظ میں؟ کیونکہ لفظِ “عشق” قرآن میں مذکور نہیں۔
س نمبر ۱۶۔ قرآنِ پاک میں وجہ اللہ کا جو تذکرہ ہوا ہے، اس کے کیا معنی ہیں؟ کچھ وضاحت کر کے بتائیں۔
س نمبر ۱۷۔ قرآنِ کریم میں “بسم اللہ” کل کتنی دفعہ آئی ہے؟ کس سورہ کے آغاز میں بسم اللہ موجود نہیں؟ قرآن کی کتنی سورتیں ہیں؟ نزولِ قرآن سے قبل کس پیغمبر نے اپنے خط کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم تحریر کیا تھا؟ اور اس کا تذکرہ قرآنِ مجید کی کس سورہ میں موجود ہے؟
س نمبر ۱۸: اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا اور ایک کتابِ مبین آئی (۰۵: ۱۵) یعنی قرآنِ کریم، قرآن موجود ہے، اور نور کہاں ہے؟
۸۹/۹/۱۰ = ۸۱/۷/۱۴
نصیحت: ہوشمند مومنین ہمیشہ علم کے باتوں کو سیم و زر پر فوقیت دیتے ہیں، کیونکہ علم مالِ روحانیّت اور متاعِ
۱۹۱
آخرت ہے، اس کا ہر ذرّہ خورشیدِ جلال اور ہر قطرہ دریائے زلال ہے، یہ دوائے جان بھی ہے اور غذائے عقل بھی، اس کی خوشبو کستوری اور گلاب کی خوشبو سے زیادہ لطیف، پائندہ، دلنواز اور روح افزا ہے، علم کی باتیں اشرفیوں اور موتیوں سے بڑھ کر گرانمایہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ اہلِ دانش ہر وقت مادّی جواہر کے مقابلے میں گوہر ہائے علم کو بہت زیادہ چاہتے ہیں۔
علمِ حقیقی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی میراث ہے، اس سے قربِ خداوندی کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے یہ چشمِ جان کے لئے نور اور دل کے لئے سرور ہے، بہشت کی بے حد تعریف اس لئے کی جاتی ہے کہ وہاں تمام نعمتیں عقلی، علمی، روحانی، اور لطیف جسمانی ہیں اور اس میں علم و حکمت کے بغیر کوئی چیز نہیں، جن نیک بخت لوگوں کو علم و حکمت سے عشق ہو، اُن پر پروردگارِ عالم کا بہت بڑا احسان ہے، لہٰذا اُن پر واجب ہے کہ بار بار خدا کا سجدۂ شکرانہ بجا لائیں، تاکہ اس عمل سے علمی نعمتوں کی لذّت و چاشنی میں اضافہ اور میوہ ہائے علم میں روز افزون ترقی ہو۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۸۹/۹/۱۰
۱۹۲
عبادت اور جماعتی خدمت
عبادت کے لغوی اور اصطلاحی دو معنی ہیں، اس لفظ کے پہلے معنی غلامی کے ہیں اور دوسرے معنی پرستش کے، چنانچہ ظاہر ہے کہ اسلامی عبادت کے دو پہلو ہیں، ایک یہ کہ نیت کی پاکیزگی سے اللہ تعالیٰ کی غلامی اختیار کی جائے، جس سے ہر قسم کی دینی خدمت مراد ہے، دوسرا یہ کہ معبودِ برحق کی خالص اور با معرفت پرستش کا فریضہ انجام دیا جائے، سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کامل اور مکمل عبادت وہ ہے، جس میں خدا تعالیٰ کی پرستش کے ساتھ ساتھ جماعتی خدمت کا بھی کوئی حصہ ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: اِلَیْهِ یَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُهٗؕ (۳۵: ۱۰)۔
پاک و پاکیزہ بات خدا تک پہنچتی ہے اور نیک کام اس کو
۱۹۳
(بلند کر کے) پہنچاتا ہے، یعنی بندۂ مومن کی نیکیوں میں ایک تو پاک اقوال ہوا کرتے ہیں جن میں خدا کی پرستش بطورِ خاص شامل ہے اور دوسرے نیک اعمال ہوتے ہیں، اور اس میں حکمتِ الٰہی یہ ہے کہ اچھے اعمال ہی پاکیزہ باتوں کو بلند کر کے بارگاہِ ایزدی تک پہنچاتے ہیں پس اگر صرف پرستش ہو اور کوئی خدمت نہ ہو تو یہ عمل کے بغیر ایک قول ہوگا، اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضورِ عالی تک نہیں پہنچ سکتا۔
جب ہم صحیح معنوں میں اللہ الصمد (خدا بے نیاز ہے) کا تصوّر کرتے ہیں، اور ذاتِ سبحان کو ہر قسم کی احتیاج و ضرورت سے پاک و برتر مانتے ہیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نہ صرف خدا تعالیٰ کی غلامی کا پورا پورا فائدہ بندوں ہی کو حاصل ہوتا ہے بلکہ اس کی پرستش کے تمام نتائج و ثمرات میں بھی اس کی دنیوی اور اخروی صلاح و فلاح پوشیدہ ہے، اس حقیقت کی روشنی میں دیکھنے سے مذہبی خدمت کی اہمیت و افادیت زیادہ سے زیادہ نمایان ہو جاتی ہے۔
اس بیان سے صاف صاف یہ معلوم ہوا کہ پروردگارِ عالم کی غلامی اور پرستش کے سارے فائدے ظاہر و باطن میں خود انسان ہی کے لئے مقرر کئے گئے ہیں تو اس میں بندۂ مومن
۱۹۴
کی دانائی اور دور اندیشی یہ ہے کہ وہ ذکر و عبادت کو ذوق و شوق سے عمل میں لائے، جماعت کی بہتری اور ترقی کے لئے مناسب خدمات انجام دے، اور اپنے آپ میں جماعتی روح میں زندہ ہو جانے کا بھرپور جذبہ پیدا کرے تا کہ اس نیک عمل کا نتیجہ امامِ زمانؑ کی خوشی اور خوشنودی کی صورت میں نکلے، جس میں حقیقی مومن کے لئے سب کچھ موجود ہے۔
امامِ عالی مقام کی پیاری جماعت کی خدمت کا میدان بڑا وسیع اور دور دور تک پھیلا ہوا ہے، جس میں تمام خوش نصیب خدمت گزاروں کے لئے بڑی وسعت کے ساتھ گنجائش موجود ہے، اور وہ سب مل کر جتنی بھی عمدہ خدمات انجام دیں پھر بھی کم ہیں، لہٰذا جو دینی خادم دانا، مخلص اور خیر خواہ ہو، وہ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اُس نے جماعت کی بہت کچھ خدمت کی ہے، جبکہ یہ خدمت ایک طرف سے خدا کی عبادت ہے، اور ہوشمند عابد کسی پر احسان نہیں رکھتا ہے کہ اس نے خدا کی بہت عبادت کی ہے۔
حقیقی مومن کی ہر خدمت اور ہر نیکی خداوند تعالیٰ کے حضور میں مقبول ہوتی ہے، اور اس کو پورا پورا اجر و صلہ ملتا ہے، کیونکہ وہ اپنے اس نیک عمل کا احسان نہیں جتلاتا، کسی کو
۱۹۵
نیکی کر کے پھر اذیت نہیں دیتا، اور نہ ہی اس میں کسی قسم کے دکھاوے سے کام لیتا ہے اس لئے کہ کسی کو ایک روپیہ کے برابر راحت پہنچانے پھر اس کے بعد اس کو ایک روپیہ کے برابر تکلیف دینے کے کچھ معنی نہیں ہوتے، مگر ہاں اس کے معنی یہ ضرور ہوتے ہیں کہ اس نے ایک کام کیا اور پھر بگاڑ دیا۔
حق بات تو یہ ہے کہ باعزت خدمت بہت آسان ہے، جس کی خواہش ہر شخص کو ہو سکتی ہے، مگر ہر وہ خدمت جس میں عزت کی قربانی شرط ہو، بڑی مشکل ہے، تاہم ہمارے یہاں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی مقدّس محبت نے یہ مشکل بھی آسان کر دی ہے، چنانچہ اس سلسلے میں “شوز کمپنی” کی بے لوث خدمات کو ذرا غور سے دیکھا جائے، تو یہ حقیقت روشن ہو جائے گی کہ اس ادارے سے منسلک حضرات کا جذبۂ قربانی اور نمونۂ خدمت بے مثال ہے، جس سے ہمیشہ باہوش مومنین کو مذہب اور جماعت کے مفاد کی خاطر ننگ و ناموس کی قربانی پیش کرنے کا درس ملتا رہتا ہے۔
شوز کمپنی کی مقدّس خدمت کئی معنوں میں ایک اعلیٰ عبادت ہے۔
۱۹۶
اوّل: یہ کہ ہر مذہبی خدمت خدا کی غلامی اور عبادت ہے۔ دوم: یہ کہ اس کمپنی کی ایسی پُرخلوص خدمت سے مولا بہت راضی ہیں، لہٰذا ان کو امامِ زمان علیہ السّلام کی دعائے برکات حاصل ہے، سوم: ان کو جماعت کی طرف سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ نیک دعائیں حاصل ہیں، چہارم: ان کی خدمت کسرِ نفس کا ذریعہ اور اخلاص و محبت کا وسیلہ ہے، پنجم: جملہ جماعت کے صلۂ عبادت کے برابر ان کو اجر و ثواب ملتا ہے۔ ششم: انہوں نے بڑے شوق سے اپنی پیاری عزت و برتری مومنین کے لئے قربان کر دی ہے، ہفتم: ان کی یہ مخلصانہ خدمت صحیح معنوں میں خدمت ہے اور امامِ عالی مقام کی سچی غلامی کی منہ بولتی تصویر اور مثال ہے، جس سے گروہِ مومنین کو ہمیشہ ایثار و قربانی کا بہترین سبق ملتا ہے، ہشتم: یہ سعادت مند افراد شہیدوں کی طرح فضیلت رکھتے ہیں، کیونکہ شہید جان کی قربانی دیتے ہیں اور یہ صاحبان عزت کی قربانی پیش کرتے ہیں اور عقل و دانش کی نظر میں انسان کی عزت جان سے کچھ کم نہیں۔
شوز کمپنی گویا جماعت کی ایک ایسی تربیت گاہ اور ٹریننگ سنٹر ہے، جہاں جماعت کے پاک فطرت بچوں، بچیوں اور
۱۹۷
نوجوانوں کو مذہب اور جماعت کی بنیادی خدمت، احترام، ادب، تواضع، کسرِ نفسی، فروتنی اور جذبۂ قربانی کی عملی تعلیم دی جاتی ہے، تاکہ امامِ برحق کے یہ حقیقی مرید دین و دنیا کی ترقی میں آگے چل کر بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہو جانے کے باؤجود اپنی عزیز جماعت کے ایسے ہی خیر خواہ، خادم اور پاک امام کے جان نثار غلام رہ سکیں، اور نتیجے کے طور پر ان کو دونوں جہان کی سعادت و سرخروئی حاصل ہو۔
یہ قدرتی امر ہے کہ حقیقی مومنین کا دل کئی مذہبی مواقع پر موم کی طرح بڑی آسانی سے پگھل جاتا ہے، مثلاً اس وقت جبکہ خدا کے گھر میں اجتماعی طور پر عبادت کا مقدّس فریضہ انجام دیا جاتا ہے، جس وقت ساری جماعت یکدل و یک زبان ہو کر بآوازِ بلند تسبیح پڑھتی ہے، یا ذکرِ جلی کرتی ہے، جس گھڑی سب مل کر گنان پڑھتے ہیں، جہاں کہیں مذہبی تقدّس کا تصوّر اپنا کوئی جلوہ دکھاتا ہے، جس وقت بارگاہِ عزت میں نورِ امامت کا مقدّس دیدار حاصل ہوتا ہے، جہاں شانِ امامت کی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ ہوتا ہے، جب کسی سالگرہ کے سلسلے میں اہلِ ایمان جذبۂ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں جیسے ہی سبز پرچم کو بلند کر کے فضا میں لہرایا جاتا ہے، جب
۱۹۸
والنٹیرز کور اور پانی کمپنی جیسی تنظیمیں جوش و جذبے کے ساتھ حرکت میں آتی ہیں، اور جہاں جہاں جماعتی بینڈ یا آرکسٹرا کے پُرکیف نغمات سے فضا گونجنے لگتی ہے۔
چنانچہ جب میں نے پہلی بار شوز کمپنی کی اس بے مثال خدمت کے مظاہرے کو دیکھا تو میں مذہبی مسرّت و شادمانی سے یا عجز و انکساری سے پگھل گیا اور یکایک میری آنکھوں سے آنسو ابھرنے لگے میرے دل نے رشک و حسرت سے کہا کہ کاش! مجھے بھی یہ سعادت حاصل ہوتی، اگرچہ میں اپنے علاقے میں والنٹیئرز کی تنظیم کا فاؤنڈر ہوں، لیکن خادمیّت، خدمت اور عاجزی کا جتنا مزہ جماعت کی کفش برداری میں ہے اتنا مزہ کسی اور خدمت میں مشکل ہے۔
امامِ حیّ و حاضر صلوات اللہ علیہ کی نورانی ہدایت و رہنمائی کی بدولت ہماری منظم جماعت دوسری بہت سی خوبیوں کے علاوہ حسنِ انتظام میں بھی مثالی حیثیت رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں یہاں دینی اور دنیاوی طور پر بہت سی سہولتیں مہیا ہیں اور ان میں سے ایک اساسی راحت “شوز کمپنی” کی وجہ سے حاصل ہے، وہ یہ کہ خوش قسمت مومنین و مومنات جوتوں کی فکر سے بالا و برتر ہو کر سکون اور دلجمعی سے ذکر و عبادت میں
۱۹۹
مصروف اور محو ہو جاتے ہیں۔
سورۂ محمد (۴۷: ۰۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدمی عطا کرے گا۔ یعنی اگر تم نے دین کی خاطر ضروری خدمات انجام دیں، اور مطلوبہ قربانیاں پیش کیں، تو یہ خدا کے کام میں مدد کرنے کے برابر ہیں، لہٰذا تم کو اس کا ثواب و صلہ بھی اتنا ہی عظیم ملے گا، اور تمہیں صراطِ مستقیم پر بغیر لغزشوں کے آگے بڑھا دیا جائے گا، تاکہ تم منزلِ مقصود کو پہنچ سکو۔
نوٹ: یہ مضمون درخانہ شوز کمپنی کی سلور جوبلی ۱۹۵۴ء تا ۱۹۷۹ء سے متعلق نمبر میں شائع ہوا ہے، اپنی تحریروں میں محفوظ کر لینے کی غرض سے اسے دوبارہ لکھا گیا۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
ذوالفقارآباد، گلگت
۱۵ صفر ۱۴۱۰ھ
۱۶ ستمبر ۱۹۸۹ء
۲۰۰
ہماری ایک شاندار روایت
ایک ایسی باسعادت روحانی مجلس، اور ایسی مبارک شب، جس میں ہمارے کئی فرخندہ بخت ایمانی احباب بغرضِ علم و عبادت حاضر ہوئے تھے، یہ ہمارے مذہب کی پاک و پسندیدہ محفل، جو ناقابلِ فراموش اور تاریخی اہمیت کی حامل تھی۔ ۲۳ ستمبر ۱۹۸۹ء کی شام سے شروع ہو کر تقریباً چار گھنٹے جاری رہی، خانۂ حکمت گلگت کے دفتر کا ہال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، شمالی علاقہ جات کے نامور خوش الحان منقبت خوان حضرات جمع ہوئے تھے، یقیناً ناردرن ایریاز میں یہ پہلا موقع تھا، جس میں اسماعیلی مذہب کی مرکزی ریسرچ (تحقیق) کی غرض سے اس مقدس روایتی محفل کی باقاعدہ متحرک اور بولتی تصویر (فلم) ریکارڈ کی گئی، اس یادگار مجلس میں میرے لئے یہ حکم ہوا کہ میں قصیدہ خوانی کی مقدس روایت پر کچھ روشنی ڈالوں، چنانچہ میں نے درجِ ذیل تقریر (جس کے بعض الفاظ میں فرق و تفاوت ہے) میں اس
۲۰۱
عمل کے لئے کوشش کی:
ہم سب جو یہاں جمع ہیں، آج اور اس وقت اپنے اس علاقے کی مقدس روایات میں سے کچھ کو سائنس کی روشنی میں تازہ کر رہے ہیں، جیسا کہ محترم سیکریٹری غلام قادر صاحب نے اپنی تمہیدی تقریر میں آپ کو بتایا، اور ان کی خواہش و فرمائش سے میں بھی استادہ ہوں، تاکہ اس مقدس روایت کے بارے میں کچھ عرض کروں، آج کی یہ مبارک محفل گنان یعنی منقبت کی ہے، یا یوں کہیے کہ قصیدہ خوانی کی ہے، کیونکہ ان تینوں الفاظ کا ایک ہی مطلب ہے۔
میں آپ سے یہ پُرخلوص عرض کرنا چاہوں گا کہ اس پاک روایت کا ہماری تاریخ میں کیسا شاندار کردار رہا ہے، میں تو کسی جھجھک اور تاخیر کے بغیر یہ کہنا پسند کروں گا کہ ہماری اس گنان خوانی یا قصیدہ خوانی کی مقدس روایت نے ہمارے آباواجداد کو اور ہمیں روح الایمان کی نورانی دولت سے نوازا ہے، یعنی ان تمام اسماعیلیوں کو، جو پیر ناصر خسروق س کے حلقۂ دعوت میں داخل ہیں، مذہبی زندگی کا بہت بڑا حصہ اسی پُرحکمت روایت سے ملا ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے اس علاقے میں زمانہائے دراز کے بعد علم کی
۲۰۲
روشنی آئی ہے، لہٰذا سوال اٹھتا ہے کہ ان زمانوں میں جبکہ یہاں نورِ علم نہ تھا، تو پھر یہ بہت بڑا خلا کس طرح پُر کیا گیا؟ اور کس چیز نے علم کا سا کام کیا؟ اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ اسی قصیدہ خوانی کی روایت نے دعوت و تبلیغ اور علم و حکمت کا ابتدائی اور ضروری کام انجام دیا، اور یہ اس روایت کی کم سے کم تعریف ہے۔
یقیناً اسی روایت نے ہم سب کو مذہبی روح میں زندہ اور قائم رکھا، اگر منقبت خوان حضرات نہ ہوتے، اور منقبت خوانی نہ ہوتی، تو شاید ہم روح الایمان سے زندہ ہی نہ ہو سکتے، اور اگر زندہ ہو جانے کے بعد یہ کمی واقع ہوتی، تو ہم ہلاک ہو جاتے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جسمانی طور پر مر جاتے، نہیں نہیں، ہم ایمانی طور پر مر جاتے، لہٰذا ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہمارے اندر قصیدہ خوانی ہی سے روح الایمان پھونکی ہوئی ہے، یہی روح کچھ ترقی سے روح العشق بھی ہو سکتی ہے، آپ صاحبان کو علم ہے کہ منقبت خوانی میں امامِ عالی مقام علیہ السّلام کی ہرگونہ تعریف و توصیف ہے، پاک امام کے مقدّس عشق کا بہترین وسیلہ ہے، پس یہ مقدّس روایت کسی شک کے بغیر تمام تر دینی قوّتوں کا سرچشمہ ہے، جس سے مومنین
۲۰۳
کی روح الایمان اور روح العشق کو دائم الوقت، غذا، طاقت، اور روشنی حاصل ہوتی رہی ہے، لہٰذا ہمیں ہر وقت اور ہمیشہ اس روایت کو سلام کرنا چاہئے، اور اس کو موجودہ سائنسی آلہ جات کی مدد سے ہمیشہ کے لئے ریکارڈ اور محفوظ کر لینا چاہئے۔
یہ ایک ایسی مذہبی پرورش گاہ ہے کہ ہر درجے کے مومنین کے لئے اس میں سے ایمانی اور روحانی قوّت ملتی رہتی ہے، میں مزید آپ سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہر حقیقی مومن میں تین عظیم چیزیں ہیں: روح الایمان، عشقِ مولا، اور عقل، یہ تینوں اشیاء جسم سے بالاتر ہیں، چنانچہ روح الایمان کی بنیاد عقیدے پر قائم ہے، اور تمام ایمانی چیزوں پر استوار ہے، روح العشق کا قیام و بقاء ان تعلیمات پر ہے، جو ان توصیفی نظموں کے ظاہر و باطن میں بھری ہوئی ہیں، یعنی وہ ان عملی قصائد، مناقب اور گنانوں پر ٹھہری ہوئی ہے، امام کی تعریف ایسا اہم اور اتنا بڑا موضوع ہے کہ اس میں تمام حقائق و معارف زیرِ بحث آسکتے ہیں، اور یہ سب عقلی کائنات کی نعمتیں ہیں۔
امامِ زمان صلوات اللہ علیہ خداوندِ تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کوئی عاشقِ صادق مولائے پاک کی منقبت
۲۰۴
کو پڑھتا ہے، یا سنتا ہے تو اس کی نیک بخت روح میں تھرتھراہٹ اور کپکپی شروع ہو جاتی ہے، جو نورِ عشق کی شعاعوں سے اثر قبولنے کی علامت ہے، کیونکہ اللہ کے زندہ اسمِ اکبر کی خوبیوں کے انتہائی قریب ہو جانا اور تجلیاتِ نورِ عشق کے بارِ گران کو برداشت کرنا انفرادی قیامت کو جزوی طور پر اٹھانا ہے، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ قیامت چھوٹی بڑی قسطوں میں بھی ہے، آپ نے سنا ہوگا کہ قیامِ قیامت میں صورِ اسرافیل کا بہت بڑا کردار ہے، بلکہ قیامت کا دارومدار صور کے بجنے پر ہے، اسی طرح جب مضراب کی ضربِ عشق سے مقدس رباب کے تار نغمۂ داؤدی الاپنے لگتے ہیں، اور ڈفلی اپنی دل آویز آواز میں پوری طرح سے ہم آہنگی کرتی ہے، جب اسی کے ساتھ ساتھ مدحِ امامت کی کوئی پُرمغز نظم خوش الحانی سے پڑھی جائے، تو پھر وہ کونسا عاشق ہوگا، جس کا دل مثلِ شمع نہ جلتا ہو یا کم سے کم حرارت قبول نہ کرتا ہو، ان جیسے معنوں میں منقبت خوانی کی پاک روایت نے بہت بڑا تاریخی کارنامہ انجام دیا ہے۔
الغرض بہت سے ممالک میں اور مختلف زبانوں میں اسماعیلی گنان خوانوں نے اسرافیلی لشکر کا کام انجام دیا ہے،
۲۰۵
یعنی انہوں نے ناقورِ عشق سے عشاق کو منزلِ فنا تک پہنچا دیا، اور مردہ دلوں کو جلا اٹھایا ، یقیناً گنان خوان کی آوازِ حزین و شیرین صورِ اسرافیل کی طرح کام کرتی ہے، اور اس سے اہلِ محبت کی خوش نصیب روحوں میں ایک قابلِ برداشت جزوی قیامت برپا ہوتی رہتی ہے، اسرافیل ایک بہت بڑا فرشتہ ہے جو موسیقی اور عشق کا مؤکل ہے، اور اس میں بہت بڑا حکیمانہ راز پوشیدہ ہے کہ قبروں کے مردے کسی اور وجہ سے نہیں صرف اور صرف صورِ اسرافیل ہی کی آواز سے زندہ ہو کر اٹھتے ہیں، یہ عقل والوں کے لئے اشارۂ بلیغ ہے کہ جب تک کوئی مومن ساز و سوزِ عشق کا سہارا نہ لے تب تک اس کی اصل روح (یعنی عارفانہ روح) جسم کی قبر میں مدفون ہی رہتی ہے، اب اگر اس کو ذاتی اور اختیاری قیامت کے وسیلے سے زندہ کرنا ہے، تو اس کی دو صورتیں ہیں: مسلسل اور شدید قیامت سے گزرنا ہوگا، اگر وہ مشکل ہے، تو پھر چھوٹی چھوٹی قسطوں میں اس کو برداشت کرے، یہ گنان اور دوسری عبادات کی ریاضت کا تذکرہ ہے، خوب غور کریں اور سمجھ لیں۔
موسیقی کے بارے میں علمائے اسلام کے درمیان اختلاف ہے، میں اس معاملے میں ذاتی طور پر ان حضرات کا
۲۰۶
ہم خیال ہوں، جو اس کو نیک اور بامقصد کاموں کی ترغیب و تشویق کے لئے جائز سمجھتے ہیں، مثال کے طور پر مولانا شاہ محمد جعفر پھلواروی کی ایک جامع کتاب “اسلام اور موسیقی” کو دیکھئے، نیز غزالی کی “کیمیائے سعادت” کی آٹھویں اصل ملاحظہ ہو، حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی زبور میں اس کی تائید کے لئے بہت سی مثالیں تھیں، اور اب بھی موجود ہیں، یہ جاننا ضروری ہے کہ اصل زبور آسمانی کتاب ہے (۰۴: ۱۶۳) جو پیغمبرانہ دعا، گریہ و زاری، مناجات، نظم، لاہوتی گیت، نغمہ، محو و فنا، رازِ اسرافیلی، سازِ محبت، سوزِ عشق، علاج روحانی، غذائے جان، ستار اور بانسری کی روح، اور موسیقی کا جوہر ہے۔
ہر چیز کا ایک مؤکل (وکیل فرشتہ) ہوتا ہے، چنانچہ عشق
۲۰۷
حقیقی کا مؤکل اسرافیل (جدّ) ہے، جس کو موسیقی بے حد پسند ہے، کیونکہ خدائے علیم و حکیم نے اسے ایک ایسا ساز عطا کر دیا ہے، جو روحوں کو منزلِ فنا میں داخل کر کے از سرِ نو زندہ کرنے میں بے مثال ہے، اگرچہ اس ساز کا نام ناقور یا صور، یعنی ترئی، بگل، نفیری، قرنا ہے، لیکن جنہوں نے اس کو سنا ہے وہی جانتے ہیں کہ وہ دراصل دنیا کے تمام سازوں کا جوہر اور سرچشمہ ہے، اور کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ کا ایک ایسا عظیم معجزہ ہے جو صرف عاشقانِ الٰہی کے لئے خاص ہے، جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے۔ وَّ اَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا۔ اور یہ کہ ہمارے پروردگار کا فیضان بہت بلند ہے (۷۲: ۰۳) یعنی فرشتۂ عشق کے توسط سے فیضِ ربانی حاصل کرنے کے لئے علم و عمل کی پابندی چاہئے۔
حق بات تو یہ ہے کہ میں شروع شروع میں ایک نوجوان چوپان سے زیادہ کچھ نہ تھا، مگر مادری زبان (بروشسکی) ہی میں مجھے شعر کہنے کی توفیق عنایت ہوئی، حالانکہ قبلاً کوئی ایسا رواج قائم نہیں ہوا تھا، اس شاعری کی سب سے بڑی سعادت امام وقت صلوات اللہ علیہ کی تعریف و توصیف میں پوشیدہ تھی، چنانچہ نہ صرف اس بندۂ ناچیز ہی کو بلکہ رفتہ رفتہ
۲۰۸
دوسرے کئی حضرات کو بھی مذہبی شاعری کی نورانی ہدایت نصیب ہوئی، اور اسی طرح ان تمام مومنین پر بھی نورِ ولایت طلوع ہوا، جو بھرپور عشق سے امامِ زمان علیہ السّلام کی مدحیہ نظموں کو مقدّس رباب و دف کے ساتھ پڑھتے ہیں اور ان عاشقوں کے کانوں سے بھی روح القدّس کے نورانی ذرّات داخل ہوتے رہتے ہیں، جو اس زبورِ قیامت کو دل و جان سے سن رہے ہیں۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی، کراچی
جمعرات، ۱۰ شعبان المعظم، ۱۴۱۰ھ / ۸ مارچ ۱۹۹۰ء
۲۰۹
سورۂ جنّ میں سے سوالات
س نمبر ۱: آپ ہر بار کہا کرتے ہیں کہ جنّ جسمِ لطیف رکھتا ہے، اگر ایسا ہے، تو بتائیے کہ جنّات کے احساس کا انحصار صرف حواسِ ظاہر پر ہے، یا ان کو حواسِ باطن کا فائدہ بھی حاصل ہے؟ ج۔ جنّوں کے ظاہری حواس کے ساتھ ساتھ باطنی حواس بھی کام کرتے ہیں، تاہم جنّ و انس کے لئے بصیرت و معرفت خاص ہے، اور وہ صرف کاملین ہی کو حاصل ہو جاتی ہے۔
س نمبر ۲: سورۂ جنّ (۷۲: ۰۱ تا ۲۸) کے حوالے سے یہ پوچھنا ہے کہ یہاں آیت نمبر ۱ میں جنّات کی جس جماعت کا تذکرہ شروع ہوا ہے، وہ کلامِ خداوندی کی روشنی میں ایمان کے لحاظ سے کیسی جماعت ہے؟ کیا اعلیٰ ہے؟ یا ادنیٰ؟ یا
۲۱۰
متوسط؟
ج۔ ایمان کے درجۂ اعلیٰ پر ہے، کیونکہ اسی گروہِ جنّ کی زبانی قرآن کی خوبیاں بیان ہو رہی ہیں، اور اسی وسیلے سے باقی تمام جنّات کو دعوتِ اسلام و ایمان دی گئی ہے، اس معنیٰ میں یہ جماعت گویا پیغام رسان ہے۔
س نمبر ۳: ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ: جنّوں کی ایک جماعت نے قرآن ( کے عجائب و غرائب) کو سنا (۷۲: ۰۱) لیکن اہلِ معرفت کے لئے یہ تحقیق بے حد ضروری ہے کہ کس طرح سنا؟ آیا تلاوتِ قرآن کی سماعت ان کے ظاہر میں ہوئی؟ یا باطن میں؟ ج: ہمہ رس اور ہمہ گیر حقیقت یہ ہے کہ تلاوتِ آیات کا تجدّدِ امثال ہوا کرتا ہے، چنانچہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں فرمایا گیا ہے: جیسے ہم نے تم میں ایک رسول تمہیں میں سے بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے۔۔۔ (۰۲: ۱۵۱) یہ پیغمبرِ خدا کی تلاوت کا تجدّد ہے جو زمان و مکان کی حدود و قیود سے بالاتر ہے، یعنی یہ تلاوت روحانیّت میں ہے۔
س نمبر ۴: ان جنّوں نے ایسا کیوں کہا؟ “ہم نے ایک عجیب قرآن سنا؟” حالانکہ لفظِ “عجیب” قرآن کے غیر معمولی
۲۱۱
ہونے کا تصوّر پیش کرتا ہے؟ کیا انہوں نے اگلی آسمانی
کتابوں کو بھی سنا تھا؟ ج۔ یقیناً جنّات کا ایمان لانا اور مومن ہونا بہت پہلے سے ہے، اور کوئی شک نہیں کہ قرآن ہر اعتبار سے حیرت انگیز اور تعجب خیز ہے، نیز اس کے ظاہری پہلو سے روحانی پہلو بڑا عجیب و غریب ہے، پس “قراٰنا عجباً” میں یہ سارے اشارے موجود ہیں۔
س نمبر ۵: کیا جنّوں کے مذکورہ گروہ نے قرآن کو روحانی طور پر صرف سن ہی لیا؟ یا اس کا مشاہدہ بھی کیا؟ ج۔ ایمان کے کئی درجات ہیں، انہوں نے نورِ قرآن کو دیکھا کہ عجیب طرح سے بھلائی کا راستہ بتاتا ہے، پس وہ بدرجۂ یقین ایمان لے آئے، اور خدا شناس موّحدین میں سے ہو گئے (۷۲: ۰۲)۔
س نمبر ۶: لفظِ جنّ قرآنِ حکیم کا ایک خاص خفیہ لغت (کوڈ ورڈ =Codeword ) ہے، اس لئے جنّ کے بہت سے معنی ہیں، جیسے: فرشتہ، شیطان، نیک روح، بد روح، جسمِ مثالی، ہمزاد، اڑن طشتری، اہلِ باطن، وغیرہ، اب انہی معنوں کی مدد سے جنّات سے متعلق سوالات و جوابات کو سمجھنا ہوگا، سوال ہے کہ جنّوں کو کیسے علم ہوا کہ جدّ یعنی اسرافیل
۲۱۲
فرشتہ روحانیّت کی بلندی پر ہوتا ہے؟ ج: جب جنّات سے اہلِ باطن مراد ہیں، تو مطلب واضح ہوا کہ اہلِ باطن منازلِ روحانیّت سے خوب واقف و آگاہ ہوا کرتے ہیں، یقیناً صورِ اسرافیل کی معجزاتی آواز وہ وسیلہ ہے، جس کی بدولت مومنِ سالک منزلِ فنا اور مرتبۂ علمِ توحید میں داخل ہو جاتا ہے۔
س نمبر ۷: آیت نمبر ۴ اور نمبر ۵ کا حکمتی مفہوم بیان کریں۔ ج۔ جنّ و انس کا ہر بیوقوف فرد خدا کے بارے میں جو کچھ بھی کہے وہ جھوٹ ہے، جنّوں کو یہ گمان تھا کہ جو خدائے تعالیٰ کو مانتے ہیں، وہ اللہ کی نسبت جھوٹ نہیں بولتے، حالانکہ جو بات حقیقی علم کی روشنی میں نہ کہی گئی ہو، وہ دروغِ بے فروغ ہے، خواہ ظاہری اعتبار سے درست ہی کیوں نہ ہو۔
س نمبر ۸: جنّات اگر نیک اور مومن ہیں، تو وہ فرشتے ہو سکتے ہیں، اور فرشتے جب منتخب ہو جاتے ہیں، تو پیغام رسان فرشتے قرار پاتے ہیں (۲۲: ۷۵) اب اگر یہ انکشاف ہو جائے کہ مذکورہ جنّات دراصل پیغام رسان فرشتے ہیں، تو اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ ج۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب کوئی ایک کلیدی راز کھل جاتا ہے، تو اس سے بہت سے خزائنِ اسرار کے اقفال (تالے) کھل جاتے ہیں، اور اسی طرح بہت
۲۱۳
سے قرآنی جواہر حاصل ہو جاتے ہیں۔
س نمبر ۹: آیت نمبر ۶ کی حکمت بیان کریں، اور یہ بتائیں کہ رجالِ انسی رجالِ جنّی میں کس طرح پناہ لیا کرتے ہیں؟ ج: یہاں لفظِ رجال حدودِ اعلیٰ کے معنی میں ہے، یعنی وہ مومنین جو علم و عمل میں مردوں کی طرح ہیں، انہیں اعلیٰ درجے کے جنّات زندہ کرتوں (۱۶: ۸۱) اور زندہ قلعوں (۳۴: ۱۳) کی حیثیت سے عطا ہو جاتے ہیں، یہ ہوا انسی مردوں کا جنی مردوں میں پناہ لینا، اور باقی باتیں اس راز پر حجاب کی خاطر ہیں، کیونکہ ظاہر و باطن کا کوئی خزانہ در و دیوار اور قفل و کلید کے سوا نہیں ہو سکتا۔
س نمبر ۱۰۔ کیا وہ دونوں زندہ اور معجزاتی کرتے جنّ کہلاتے ہیں، جو قادرِ مطلق نے اہلِ ایمان کو گرمی اور جنگ کے اثر سے بچانے کی خاطر بنا دئے ہیں (۱۶: ۸۱)؟ ج۔ جی ہاں، جامۂ جنّی اس معنیٰ میں خدائے بزرگ و برتر کا بہت بڑا انعام ہے، اور یہ سلطنتِ سلیمانی (روحانی) کا عظیم راز ہے، جب یہ کرتے ابداعی ہونے کے ساتھ ساتھ حیات و شعور کے بھی حامل ہیں تو واللہ!ان میں دین و دنیا کے بے شمار فائدے ہیں۔
۲۱۴
س نمبر ۱۱۔ آیت نمبر ۷ میں انبعاث کے بارے میں کونسی حکمت پوشیدہ ہے؟ اس کی وضاحت کریں۔ ج: زمانے میں جب شخصِ کامل کا ذاتی انبعاث ہوتا ہے، تو اسی کے ساتھ اہلِ زمانہ کا ذراتی انبعاث ہو جاتا ہے، جیسا کہ اہلِ معرفت کے مشاہدے میں آیا ہے کہ عوام النّاس پر غیر شعوری قیامت عالمِ ذرّ میں واقع ہوتی ہے، اور وہ بہت سی قرآنی آیات میں اس حقیقت کی نشاندہی کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر سورۂ یاسین ، رکوعِ چہارم کے شروع (۳۶: ۵۱ تا ۵۳) میں دیکھ لیں: اور صور پھونکا گیا پھر یکایک وہ (زندہ جسدانی) قبروں سے (بشکلِ ذرّات نکل کر) اپنے ربّ کی طرف دوڑتے ہیں (ینسلون میں ایک خاص حکمت بھی پوشیدہ ہے) الغرض یہ گمان کرنا درست نہیں کہ: زمانے میں کسی ایک (یعنی انسانِ کامل) کا انبعاث نہیں ہوتا ہے، حالانکہ مردِ حقیقت کی شعوری اور دوسرے سب لوگوں کی غیر شعوری قیامت قائم ہو جاتی ہے۔
س نمبر ۱۲: آیت نمبر ۸ کے مطابق یہ نمائندہ جنّات کس طرح آسمان کو چھو لیتے ہیں؟ اور آسمان کیوں مضبوط چوکیداروں اور چمکدار شعلوں کے ذریعے محفوظ کیا گیا ہے؟ ج:
۲۱۵
آسمانِ ظاہر سے بالاتر آسمانِ روحانی ہے، اس کی انتہائی بلندی پر سمائے عقلانی ہے، اور معلوم ہے کہ مادّی، روحانی اور عقلی آسمان میں سے ہر آسمان سات درجوں پر مبنی ہے، چنانچہ اس آیۂ کریمہ کا تعلق مرتبۂ عقل سے ہے، جو ایک لولوئے مکنون کی طرح ہے، جس کو اہلِ باطن میں سے صرف وہی حضرات چھو سکتے ہیں، جو پاک کئے گئے ہیں (۵۶: ۷۹) اور یہی آسمانِ عقلی ہے، جس کے سات مراتب ہیں، اور ہر نچلا آسمان اپنے اوپر کے آسمان کے لئے حجاب، چوکیدار، اور حفاظتی شعلوں کا کام کر رہا ہے، تاہم یہاں ہر چیز علم و حکمت سے بھرپور ہے، حفظ و نگہبانی کا یہ سارا بندوبست اس مقصد کے پیشِ نظر ہے کہ شیاطین کو اسرارِ الٰہی سے روکا جائے، تاکہ یہ تمام خزائن بلا شرکتِ غیرے صرف اہلِ معرفت ہی کے لئے مخصوص رہیں۔
س نمبر ۱۳۔ آج جس طرح سائنسی بھید ظاہر ہو رہے ہیں اور جیسے روحانی اسرار منکشف ہونے والے ہیں، ان کی مناسبت سے اس دور کو قرآنِ حکیم نے کیا نام دیا ہے؟ ج: اس کا نام ہے: وہ زمانہ جس میں پوشیدہ اسرار کی جانچ پڑتال ہوگی ( یوم تبلی السرآئر ۸۶: ۰۹) دیکھ لیں: ۴۱: ۵۳،
۲۱۶
۷: ۵۳، ان آیاتِ کریمہ کا مجموعی مطلب یہ ہے کہ آج کا زمانہ سائنسی اور روحانی بھیدوں کا زمانہ ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
ذوالفقارآباد، گلگت
۳ شوال ۱۴۱۰ھ
۲۹ اپریل ۱۹۹۰ء
۲۱۷
مومن اور روح
۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حقیقی مومنین کے لئے کونسا مرتبۂ عالی مقرر فرمایا ہے؟ روح شناسی اور خدا شناسی کا وسیلہ کیا ہے؟ امامِ عالی مقام سے روحِ مومن کا کیا رشتہ اور تعلق ہے؟ آیا مومن فرشتہ ہو سکتا ہے؟ اگر یہ امر ممکن ہے تو کس طرح؟ اس راہ میں کونسا علم ضروری ہے؟ اور عمل کس قسم کا ہونا چاہئے؟ ان جیسے بے شمار علمی و عرفانی سوالات کے جامع الجوامع جوابات کے لئے ظاہراً و باطناً نورِ امامت سے رجوع کرنا ہو گا، چنانچہ ذیل میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کے چند بابرکت و پُرحکمت ارشادت بطورِ نمونہ درج کئے جاتے ہیں:
۲۔ مومن کے منہ سے لعنت یا (دوسرے) بُرے الفاظ نہیں نکلنے چاہئیں، مومن کا منہ باغیچے کی مثل ہے (دارالسّلام، ۲۸۔۹۔۱۸۹۹) امامِ برحقؑ کے اس فرمانِ مبارک میں لعن طعن اور ہر قسم کی گالی گلوچ، خواہ کافر اور
۲۱۸
شیطان کے حق میں کیوں نہ ہو، بڑی حکمت سے منع کی گئی ہے، اس پر شاید کوئی یہ کہے کہ قرآنِ پاک میں شیطان کے بارے میں ہے: قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌ وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ (۳۸: ۷۷ تا ۷۸) ارشاد ہوا پس نکل آسمانِ روحانیّت سے کیونکہ بیشک تو رجیم ہے، اور بے شک تجھ پر میری لعنت رہے گی قیامت کے دن تک۔ رجیم کے معنی ہیں سنگسار کرنے والا، اور سنگسار کیا گیا، اور لعنت سے یہ مراد ہے کہ شیطان خدا کی رحمت سے دور ہوگیا، اور دوسروں کو بھی اس رحمت سے دور کر دینے کا ذریعہ بن گیا، چنانچہ آیت میں جیسے ارشاد ہوا ہے، وہ صرف واقعۂ شیطان کا تذکرہ ہے، اور اس میں ایسا کوئی حکم نہیں کہ ہر شخص شیطان پر لعنت بھیجا کرے، اور نہ ہی دوسری کسی آیۂ کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ تم لعنت اور دعائے بد کرو، بلکہ قانون یہ ہے کہ سفارش (نیک یا بد دعا) کا ایک حصہ صاحبِ سفارش کو مل جاتا ہے (۰۴: ۸۵)۔
۳۔ مومن کی نگاہ ہمیشہ بلندی کی طرف ہوتی ہے، مومن ایسا خیال رکھتا ہے کہ میں فرشتہ بن جاؤں (راجکوٹ ۲۱۔۱۰۔۱۹۰۳) یعنی مومن روحانیّت اور عقلانیّت کی بلندی کو
۲۱۹
پیشِ نظر رکھتا ہے، اور علم و عمل کے وسیلے سے فرشتہ بن جانے کے لئے جہدِ مسلسل کرتا رہتا ہے، جیسے قرآنِ حکیم زبانِ حکمت سے فرما رہا ہے کہ حقیقی مومنین مقامِ روح اور مرتبۂ عقل پر فرشتے ہو جاتے ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ امرِ عظیم نورِ ہدایت کی روشنی میں ممکن ہے، میں نے اپنی تحریروں میں بار بار اس حقیقت کا ذکر کیا ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں۔
۴۔ ایک گھنٹہ خیال کرو کہ روح کیا ہے؟ اس قسم کی عادت ہو، تب ہی مومن بنا جا سکتا ہے، اسی طرح سوچو گے تو تب ہی مومن کی صفات اور مذہب کا تمہیں علم ہو گا۔ (دارالسّلام ۲۷۔۹۔۱۸۹۹)ایک گھنٹہ خیال کرنے سے بیت الخیال (کارِ بزرگ) مراد ہے، مذکورہ فرمانِ مبارک میں اسی بے مثال عمل کا ذکر ہے، اور اسی میں روحانی ترقی اور انتہائی بڑی کامیابی کا راز مضمر ہے۔
۵۔ تم مومن روحانی لشکر ہو، جو مومن شخص ہو، اس کی صحبت میں بیٹھنا۔ حقیقی مومن کی دوستی کرو گے تو فائدہ ہوگا۔ (راجکوٹ ۲۳۔۱۰۔۱۹۰۳) اس ارشادِ عالی سے معلوم ہوتا ہے کہ جہادِ روحانی ہمیشہ جاری ہے، کیونکہ “لشکر” کا لفظ یہی
۲۲۰
خبر دے رہا ہے، اس فرمانِ مبارک میں دوسری حکمت حقیقی مومن کی ہم نشینی اور دوستی ہے، جس سے علم و عمل اور دینداری کے تمام اوصاف مقصود ہیں۔
۶۔ جو مومن ہے، وہ فرشتے سے بھی بلند مقام پر جا سکتا ہے۔ (زنجبار۔ ۱۷۔۹۔۱۹۰۵)۔ یہ مرتبۂ فنا فی اللہ ہے، جو فنا فی الامام اور فنا فی الرسول کے بعد حاصل ہو جاتا ہے۔
۷۔ مومن دوزخ کے خوف یا جنت کی امید سے بندگی نہیں کرتا ، بلکہ خدا کی محبت اور عشق سے کرتا ہے، مومن جوں جوں خداوندِ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ محبت رکھتا ہے توں توں خداوند تعالیٰ کے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہوتا جاتا ہے، اس وقت وہ خداوند تعالیٰ کو حاضر و ناظر دیکھتا ہے۔ (زنجبار ۷۔۹۔۱۸۹۹) ارشادِ قرآنی ہے: و الذین اٰمنوا اشد حبا للّٰہ (۲: ۱۶۵) اور جو (حقیقی) مومن ہیں ان کو (صرف) اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہایت قوی محبّت (عشق) ہے۔ اور جس کو خدا سے کامل عشق ہو، وہ ہر بندگی اور ہر نیکی عشق ہی سے کرتا ہے، ایسا مومن بہت جلد منزلِ دیدار میں پہنچ جاتا ہے، جس کے عجائب و غرائب بیان میں نہیں آسکتے۔
۸۔ تمہارے دل میں یہ خیال ہونا چاہئے کہ روح کہاں
۲۲۱
سے آئی اور واپس کہاں جائے گی، اس خیال کو دل سے جدا نہیں کرنا، یہ تمام عشق تمہارے خیال اور محبت کے لئے ہے، ہم تمہارے حق میں عشق چاہتے ہیں، اس لئے تمہیں اچھا راستہ دکھاتے ہیں (زنجبار ۱۶۔۹۔۱۸۹۹) جو مومن کارِ بزرگ میں شامل ہو، وہ تو روح کی شناخت کی کوشش بیت الخیال ہی سے کرے گا، کیونکہ معرفت کا اصل وسیلہ یہی ہے، اور جس کو ہنوز یہ کام نہ ملا ہو، وہ عام فکر و خیال کی مدد سے روح کی پہچان کا شوق پیدا کرے، اور امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کا عشق ہی ہے، جس سے روحانی ترقی کی ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔
۹۔ روح قید خانے میں کبھی بھی خوش نہیں ہے، تم رفتہ رفتہ اڑنے لگو گے علم والی روح زینہ بزینہ اوپر چڑھے گی، وہ ایک زینہ مکمل کر کے دوسرے زینے پر چڑھ سکے گی، لیکن جس کے پاس علم نہیں، وہ کہتا ہے کہ میں تو کہیں بھی نہیں جاتا، یہیں بیٹھا ہوں (دارالسّلام ۲۹۔۹۔۱۸۹۹) معلوم ہوا کہ روحانی زندگی میں پرواز ہے، اور اس میں تمام درجات سے بالاتر ہو جانا ہے، اور یہ سب کچھ علم کی بدولت ہے۔
۱۰۔ تمہارا دین ایسا ہے کہ اس پر عمل کرو گے، تو فرشتہ
۲۲۲
اور ملائک جیسے بن جاؤ گے، اور تمہاری روح پاک ہو جائے گی (جام نگر ۱۴۔۴۔۱۹۰۰) امامِ برحق کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ یہی مذہب صراطِ مستقیم ہے، اور قرآنی علم و حکمت اور رشد و ہدایت کا رخ اسی کی طرف ہے۔ الحمدللہ۔
۱۱۔ جس طرح بڑی ندی کا پانی سمندر میں پہنچتا ہے، اسی طرح انسان کی روح بھی بڑے سمندر (یعنی روحِ کل) میں پہنچتی ہے۔ روح کا بھی سمندر ہے، روح بھی وہیں جائے گی، وہ امید رکھے کہ اصل مکان کو پہنچوں۔ تمہیں خیال کرنا چاہئے کہ روح کہاں سے آئی؟ روح واپس کہاں جائے گی؟ جنہوں نے فلسفے کی کتابیں پڑھی ہیں، وہ سب جانتے ہیں (زنجبار ۱۴۔۹۔۱۸۹۹) اس پاک فرمان میں انسانی روح کی تمثیل ایک بڑی ندی سے دی گئی ہے، اور نفسِ واحدہ کو سمندر کہا گیا ہے، اور روح سے متعلق حقائق و معارف کی کتابوں کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے۔
۱۲۔ استاد ہوشیار ہونا چاہئے اور روحانی علم سے بھی واقف ہونا چاہئے (کچھ ناگپور ۲۹۔۱۱۔۱۹۰۳) ۔
ہمارے مومن کی جو خدمت کرتا ہے، وہ ہماری
۲۲۳
خدمت کرتا ہے، مومن کی روح ہماری روح ہے۔۔۔ (راجکوٹ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰) ۔ اس فرمانِ مبارک میں روحانی علم کی اہمیت و ضرورت کا ذکر ہے، اور یہ ارشاد عجیب و غریب حکمتوں سے مملو ہے کہ مومن کی روح امامِ عالی وقار کی روح ہے، اس خصوصی ہدایت سے علم و حکمت کا ایک خاص دروازہ کھل جاتا ہے، جس سے جو مومن داخل ہو جائے، وہ بڑا خوش نصیب ہے۔
۱۳۔ جو علم سے ناواقف ہیں، انہیں روحانی معاملات میں اپنے جیسے بناؤ (راجکوٹ ۲۰۔۲۔۱۹۱۰)۔
جو اپنی روح کی حفاظت کرتا ہے، اس نے تو ایک ہی روح کی حفاظت کی، جماعت کی خدمت کرنے میں عبادت سے بھی زیادہ فائدہ ہے، اور بہت سی روحوں کی حفاظت کرنے کے برابر ہے (احمد آباد ۱۳۔۱۰۔۱۹۰۳)۔ اس مبارک ارشاد میں روحانی علم سے جماعت کی خدمت کرنے کا حکم ہے، اور امام علیہ السّلام کی نظر میں یہی جماعت کی حفاظت ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
ذوالفقارآباد، گلگت
۲۱ شوال ۱۴۱۰ھ / ۱۷ مئی ۱۹۹۰ء
۲۲۴
قرآن اور اڑن طشتریاں
۱۔ یہ ہمارا ایمان اور پختہ یقین ہے کہ قرآنِ حکیم میں ہر ہر چیز کا بیان فرمایا گیا ہے (۱۶: ۸۹) اور کوئی شک ہی نہیں کہ اللہ جلّ جلالہ کی اس آخری کتاب میں واضح طور پر اڑن طشتریوں کا تذکرہ بھی ہے، جن کا قرآنی نام سرابیل ہے (۱۶: ۸۱) یعنی معجزاتی کرتے، جو ہر قسم کی گرمی اور تمام جنگوں میں اہلِ ایمان کی حفاظت کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں (۱۶: ۸۱) یہ کرتہ ہائے ابداعی ہیں تو قدیم ہی، لیکن خدا نے نزولِ قرآن کے وقت یہ وعدہ فرمایا تھا کہ آئندہ زمانے (یعنی دورِ روحانیّت) میں لوگوں کو آفاق و انفس میں اپنے معجزات دکھائے گا، اور یہ سلسلہ ظاہراً و باطناً جاری رہے گا، تا آنکہ عیان ہو جائے کہ وہ حق ہے (۴۱: ۵۳) پس اڑن طشتریوں کا واقعہ انہی معجزات میں سے ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔
۲۔ بندۂ ناتوان جو کہن سال بھی ہے، ۲۷ مئی ۱۹۹۰ء کو گلگت سے بذریعۂ طیارہ اسلام آباد آیا، پھر اسی روز کراچی پہنچا
۲۲۵
تھا، ۳۰ تاریخ تھی کہ میرا عزیز پوتا امین الدین ہاتھ میں ۲۹ مئی ۱۹۹۰ء کا روزنامہ جنگ کراچی لے کر میرے پاس آیا، اور کہنے لگا: “دادا ! اس میں اڑن طشتریوں کا ایک واقعہ درج ہے” میں نے غور سے پڑھا، اچھا خاصا معلوماتی مضمون تھا، اور اس میں بہت سے اسرار تھے، جن کا تعلق علمِ روحانی سے ہے، لہٰذا یہاں کچھ وضاحت کرنے کی جسارت کرتا ہوں، تا کہ مغرب کے دوستوں کی جو فرمائش ہے، وہ بھی پوری ہو جائے یعنی لنڈن، امریکا اور فرانس کے عزیزان یہ چاہتے ہیں کہ اس قسم کے مسائل پر روشنی ڈالی جائے، تا کہ ان کے یقین میں اضافہ ہو جائے کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ سے ہر چیز کا علم حاصل ہو سکتا ہے۔
۳۔ اس سلسلے میں مسئلۂ اوّلین یہ پیش آتا ہے کہ یو۔ایف۔اوز۔ ہر بار روس اور امریکا جیسے طاقتور ممالک میں منڈلاتی نظر آتی ہیں، اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے؟ یہ مخلوق کسی غریب یا مسلمان ملک میں کیوں ظہور پذیر نہیں ہوتی؟ چونکہ یہ قدرتِ خدا کا بہت بڑا معجزہ ہے، لہٰذا اس کا مظاہرہ ان لوگوں کے سامنے ہو رہا ہے، جو دین اور خدا کو بھول چکے ہیں، اور جن کو صرف سائنس ہی پر فخر ہے، حالانکہ صحیح سائنس اللہ کی
۲۲۶
طرف سے ہے، اس لئے پروردگار کو ماننا چاہئے، چنانچہ غور سے دیکھ لیں کہ سنریھم (ہم عنقریب انہیں دکھائیں گے ۴۱: ۵۳) کا قرآنی خطاب ان لوگوں کے بارے میں ہے، جو ربّ العزت سے روگردان ہو چکے ہیں، اور اب ایسے لوگوں کو خالقِ کائنات کے لئے قائل کر دینا ہے۔
۴۔ دوسرا سوال ہے کہ اڑن طشتری کی مخلوق سر کے بغیر کیوں نظر آئی؟ آیا ممکن ہے کہ اس کا سر ہی نہ ہو؟ جواب یوں عرض کرتا ہوں کہ جسمِ لطیف کے سر کا نہ ہونا ممکن ہی نہیں، مگر باور کیا جاتا ہے کہ وہ لطیف انسان جو اڑن طشتریوں سے ظاہر ہو جاتے ہیں، سر کو غائب اور دھڑ کو ظاہر کر سکتے ہیں، تا کہ ان کی شناخت نہ ہو سکے، جس طرح افرادِ پری (جنّات) اکثر بڑے بڑے رومال سر پر ڈال کر محجوب ہو جاتے ہیں، تا کہ دیکھنے والا یہ سمجھ سکے کہ اس مشاہدے کے باوجود بھی وہ جن (پوشیدہ مخلوق) ہی ہے۔
۵۔ گولہ یعنی اڑن طشتری ہوا میں تحلیل ہو گئی، مگر کیوں؟ اس لئے کہ یہ ابداعی چیز ہے، مختلف کیفیات میں تبدیل ہو سکتی ہے، کیونکہ اس کا تعلق عالمِ خلق سے نہیں، بلکہ عالمِ امر سے ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ یو۔ ایف۔ اوز (UFOs)
۲۲۷
بلا تاخیر وہ سب کچھ کر سکتی ہیں، جو اس دنیا کی کوئی مخلوق نہیں کر سکتی۔
۶۔ اڑن طشتریوں کے عجیب و غریب مظاہر نے انسانی سرگرمیوں میں دخل اندازی شروع کر دی ہے، جس کی متعدد مثالیں ہیں، وہ کیوں؟ کیا وہ اس تمام مادّی سائنس پر کنٹرول کرنا چاہتے ہیں؟ جی ہاں، یہی اشارہ ہے، اور ضروری بھی ہے، کیونکہ ان سے رابطہ رکھے بغیر آدمی روحانی سائنس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اس لئے یو۔ایف۔اوز کے بارے میں عالمی طور پر حسنِ ظن اور تحقیق کی اشد ضرورت ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم وعدہ پورا ہو جائے، جو بہت بڑا روحانی انقلاب آنے سے متعلق ہے۔
۷۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ یہ کرتہ ہائے ابداعی ہیں تو قدیم ہی سے، لیکن عوام سے بالکل پوشیدہ تھے، اب روحانی دور کے آغاز پر ظاہر ہونے لگے، آپ ان کو اچھے اور برے دو قسم کے جنّات بھی کہہ سکتے ہیں، جو حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی سلطنت کے لئے کام کرتے رہتے تھے، اب اُس زمانے سے بھی زیادہ حیرت انگیز کام ہو سکتا ہے، کیونکہ اس وقت مادّی ترقی آسمان کو چھو رہی ہے، اور جنّاتی (روحانی) طاقت وہ ہے،
۲۲۸
جو چاہے تو ظاہری کام کو مزید تقویت دے کر آگے لے جاتی ہے، اور چاہے تو اسے درہم برہم بھی کر سکتی ہے، تاہم یہ خدا کی مرضی و مصلحت سے ہے۔
۸۔ قرآنِ حکیم میں ایک ہی عظیم شیٔ کے بہت سے نام ہوا کرتے ہیں چنانچہ آپ جب روحانی علم کا خوب مطالعہ کریں گے، تو اس وقت معلوم ہوگا کہ قرآن میں جگہ جگہ اڑن طشتریوں کا ذکر موجود ہے، مثال کے طور پر اس چیز کا ایک نام قلعہ ہے (قرآنی لفظ محراب، جس کی جمع محاریب ہے ۳۴: ۱۳) یعنی روحانیّت کی زندہ لشکر گاہ، جس میں روحانی فوج رہتی ہے، اور اس میں یاجوج و ماجوج کا لشکر بھی ہے، جو ذرّاتِ لطیف کی شکل میں ہے۔
۹۔ یہ بات قرآنی حکمت پر مبنی ہے کہ خدا شناس مومن کے عالمِ شخصی میں جب حضرتِ ربّ العزّت جملہ کائنات کو لپیٹ لیتا ہے، تو اس وقت نہ تو فرشتہ باہر رہتا ہے، نہ جنّ، اور نہ ہی اڑن طشتری کی مخلوق، بلکہ ہر چیز مومن عارف کے ساتھ ایک ہو جاتی ہے، اور یہ بہت بڑا تجربہ امامِ مبین علیہ السّلام کے نور میں داخل ہو جانے کے بعد ہی حاصل ہو جاتا ہے، پس اڑن طشتری کا سوار دورِ روحانیّت کے بھیدوں کا
۲۲۹
خزانہ ہے۔
۱۰۔ اڑن طشتری لوگوں کے لئے امتحان اور معمّہ ہے، ورنہ اس میں سے ظاہر ہونے والی مخلوق وہی جسمِ فلکی (Astral Body) ہے، جس کو بعض لوگوں نے اڑن طشتری کے بغیر دیکھ لیا ہے، اور اس سے رابطہ ہوا ہے، وہ جسمِ لطیف دنیا کی ہر زبان کو خوب جانتا ہے، آپ اپنی زبان کی باریکیوں کو اسی طرح نہیں سمجھتے، جس طرح اس کو مہارتِ تامّہ حاصل ہے، غرض اس کے عجائب و غرائب بے شمار ہیں جن سے واقف و آگاہ ہو جانے کے لئے لوگوں کو ایک طویل وقت درکار ہے، اور کم سے کم یہاں یہ اشارہ تو جاننا چاہئے کہ بلندی سے آنے والوں کا جہاز (اڑن طشتری) ہوا میں کیوں تحلیل ہوا؟ یقیناً اس لئے کہ وہ جب چاہتے تو آنِ واحد میں اسے بنا سکتے تھے، اور اس کے بغیر بھی وہ ہر جگہ پرواز کر سکتے ہیں۔
۱۱۔ بعض دفعہ اڑن طشتریوں کے نمودار ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کے انجن بند ہو جاتے ہیں، یہ اشارہ ہے کہ روحانی لشکر کے مکمل ظہور کے ساتھ ساتھ مادّی سائنس خاموش ہو جانے والی ہے، تاکہ اس کی جگہ پر روحانی سائنس انتہائی عمدگی
۲۳۰
سے کام کرے، مثال کے طور پر جب اڑن طشتری جیسی طاقت مسخر ہو جائے، تو اس وقت نہ صرف ہر قسم کا جہاز بے کار ہو جائے گا، بلکہ ہر مہلک ہتھیار اور ہر آلہ بھی ختم ہو جائے گا، جو آج لوگوں کے لئے مہیا ہوگیا ہے، پس خدائے واحد و قہار کی خاص بادشاہی اسی طرح ہوگی (۴۰: ۱۶)۔
۱۲۔ جب روحانی انقلاب برپا ہو، اور روحانیّت کا دور دورہ ہو جائے تو اس وقت جنّت اس قدر نزدیک لائی جائے گی کہ وہ آدمی کے دل و دماغ اور حواسِ باطن کے ساتھ ایک ہو جائے گی (۲۶: ۹۰، ۵۰: ۳۱) پھر کوئی نعمت آنکھ، کان، وغیرہ سے کس طرح دور رہ سکتی ہے، اور اگر ہر چیز اتنی نزدیک آگئی، تو پھر ان ظاہری آلہ جات کی کیا ضرورت ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
کراچی
۱۴۱۰۔۱۱۔۸ / ۱۹۹۰۔۶۔۲
۲۳۱
ناصر ق س کیسیٹ لائبریری
۱۔ الحمد للہ کہ عنقریب “شاخِ خانۂ حکمت و ادارۂ عارف، ذوالفقارآباد، گلگت” میں “ناصر کیسیٹ لائبریری” کا قیام عمل میں آنے والا ہے، جس میں ایک ہزار (۱۰۰۰) سے زیادہ اعلیٰ علمی کیسیٹ ہوں گے۔ جن میں علم و حکمت کی اتنی بڑی گنجائش اور مواد کی ایسی فراوانی ہے کہ آئندہ تحقیق کے زمانے میں اگر کسی یونیورسٹی کو ریسرچ (Research) کی توفیق ملی، تو کم سے کم ایک سو کتابیں تحریر کی جائیں گی، انہی کیسیٹوں میں “زبورِ قیامت” بھی موجود ہے، میں یہاں آپ کو یہ بھی بتا کے چلوں کہ مجموعۂ گریہ و زاری کا یہ نام جناب ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی نے رکھا ہے۔
۲۔ شاید آپ یہ بات جانتے ہوں گے کہ میری ایک کتاب “رموزِ روحانی” میری ایک بروشسکی نظم کے ترجمہ و تشریح پر مبنی ہے، جس میں صرف ۲۱ اشعار ہیں، اور یہ ایک مثال ہے کہ جس نظم و نثر میں روحانی علم ہو، اس کی تشریح و توضیح بڑی
۲۳۲
طویل ہوا کرتی ہے، کیونکہ یہ علم جامعیّت سے بھرپور ہوتا ہے۔
۳۔ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کی دعائے ظاہر و باطن کی برکت سے ہمارے بے حد عزیز رفقا اور شاگرد جو شرق و غرب میں پھیلے ہوئے ہیں، انتہائی گرانمایہ خدمات انجام دے رہے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی علم کے ان عاشقوں نے خدا کے فضل سے ایک روحانی یونیورسٹی پیاری جماعت کے سامنے پیش کر دی ہے، جس کا دائمی سرمایہ نہ صرف کتابوں اور کیسیٹوں ہی کے خزائن ہیں، بلکہ بہت سے سکالرز اور دانشور کے قیمتی جواہر بھی پیدا ہو رہے ہیں، پس خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے، کہ اس نے مومنین کو دریائے نعمت میں غرق کر دیا۔
۴۔ ہماری سب سے بڑی خوشی اس بات سے ہے کہ حضرتِ مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوات اللہ علیہ اس علمی خدمت سے بے حد راضی ہیں، اور ہمیں اس کا یقین ہو چکا ہے کہ مولائے زمان ہماری ناچیز کوشش سے خاص طور پر خوش ہیں، اور مولا جانتے ہیں کہ اظہارِ خوشی کے معاملے میں انسان کتنا بے صبر ہوتا ہے، چنانچہ اگر امامِ برحقؑ کوئی ایسا
۲۳۳
فرمان صادر فرماتے تو نہ معلوم فخر و خوشی سے ہمارا کیا حشر ہوتا، اس لئے جن معتبر ذرائع نے بتایا ہے کہ مولائے پاک اس کام سے بے حد راضی ہیں، اسی پر یقین کرتے ہوئے مزید خدمت کے واسطے کمر بستہ ہونا چاہئے اور بس۔
۵۔ بروزِ ہفتہ ۲ جون ۱۹۹۰ء کو محترم ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب سے (لنڈن۔ کراچی) فون پر گفتگو ہوئی، جس میں انہوں نے میرے لنڈن کے پروگرام کے باب میں دریافت فرمایا، تو میں نے اسے آئندہ سال پر چھوڑدینے کے لئے گزارش کی، انہوں نے تو میری خواہش پر مجبور ہو کر منظوری دے دی، مگر ہماری نیک بخت بیٹی صمصام (رشیدہ) اپنے استاد باپ کی ایسی بات سے رونے پر تلی ہوئی تھی، اور فرما رہی تھیں کہ یہاں سب عزیزان انتظار کر رہے ہیں، پھر ٹیلیفون ڈاکٹر صاحب کو دیا گیا۔
۶۔ لنڈن کے سفر کا ایسا التوا کیوں؟ بہت سے اساسی کام تو وہیں پر انجام دیئے جاتے ہیں، تو پھر کیوں نہیں گیا؟ کیا کروں! اس دفعہ بہت سی مجبوریاں جمع ہوئی ہیں، سب سے خاص بات یہ ہے کہ ابھی اسی موسم میں مسگار جانا ہے، کتنے سال ہوئے ملاقات نہیں ہوئی ہے، ہونزہ میں بھی عزیزوں
۲۳۴
سے ملاقات باقی ہے، گلگت میں عزیز دوستوں نے کہا کہ آپ کی موجودگی کے بغیر کتابوں کی نمائش، کیسیٹوں کا افتتاح، وغیرہ نہیں ہو سکتا، اور سچ بات ہے کہ میری صحت بھی احتیاط اور پرہیز کی متقاضی ہے۔
۷۔ لنڈن میں کتنا کام ہوا ہے؟ اور کنیڈا میں؟ ایسے سوالات کے جوابات بعد کے مؤرخ مہیا کر دیں گے، فی الحال ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ لنڈن میں ہر سال کئی کتابوں کا نہایت ہی عمدہ اور اعلیٰ ترجمہ ہوتا ہے، تاہم اس سال جو کام ہوا ہے، وہ بے مثال ہے، اور وہ ہے: “بہشتے اسقرک” کا انگریزی ترجمہ، جو ڈیووشنل لٹریچر کا ایک بہترین نمونہ ہے، یہ ترجمہ بصورتِ کتاب مولا کے حضورِ پاک میں پیش ہوگا، جس طرح دیگر تمام کتابیں جاتی ہیں، آپ سب خلوص و عاجزی سے دعا کرتے رہیں۔
۸۔ کراچی میں شروع ہی سے قابلِ تعریف کام ہو رہا ہے، صدر فتح علی حبیب، صدر محمد عبد العزیز، چیف ایڈوائزر خان محمد، نائب صدر نصر اللہ، نائب صدر محیّ الدین، ڈاکٹر رفیق ، جائنٹ سیکریٹری الامین، اور دیگر عملداران و ارکان دن رات بڑی جانفشانی اور زبردست محنت سے مختلف کاموں کو
۲۳۵
انجام دے رہے ہیں، جن کے ایسے جذبۂ خدمت کی بدولت مزید کتابیں چھپ کر شائع ہو رہی ہیں، کراچی میں ایک اور قابلِ ذکر ترقی “خزائن کیسیٹ لائبریری، کریم آباد” بھی ہے، جس کے ممبران بدرجۂ انتہا علم دوست، ازحد ترقی پسند، اور دل و جان سے جماعت کے خادم ہیں، لہٰذا ان کو علم، عبادت اور خدمت کے بغیر کوئی آرام و سکون نہیں۔
۹۔ عالمِ شخصی میں ساری کائنات موجود ہوا کرتی ہے، اس میں سب سے پہلے سیّارۂ زمین کی صورتِ لطیف پنہان ہے، جس میں لازماً تمام چھوٹے بڑے ممالک اور اقوامِ عالم ہیں، اور ان میں فرانس کیوں کر نہ ہو، فرانس میں ایک بلند ترین پہاڑ اپنا کام کر رہا ہے، یہ میرا ایک عجیب نورانی خواب تھا، جو تقریباً تین سال قبل لنڈن میں دیکھا تھا، جس کے اصل الفاظ یہ ہیں “The Highest Mountain in France” (فرانس کا بلند ترین پہاڑ) جس کی تعبیر عزیز و محترم امام داد کریم ہیں۔
۱۰۔ مجھے فخر سے نہیں بلکہ شکرگزاری سے کہنا چاہئے کہ ہمارے بعض عزیزان (یعنی شاگرد) امریکا جیسے عظیم ملک میں بھی قیام پذیر ہیں، وہ فرخندہ بخت افراد ہمارے ساتھ
۲۳۶
مل کر حقیقی علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں، ان کو یقین ہے کہ روحانی علم خزینۂ امامت ہی سے حاصل ہوتا ہے، اس لئے وہ جان و دل سے اس علم کے عاشق ہیں، وہ ہمارے ہر مقالے اور ہر نئی کتاب کا بڑی شدت سے انتظار کرتے رہتے ہیں۔
۱۱۔ شمالی علاقہ جات کے عزیزان بھی انتہائی مخلص، مولا کے عاشق، علم دوست، اور ترقی پسند مومن ہیں، انہوں نے تمام عزیزوں کی مدد سے ایک عالی شان دفتر بنایا ہے، جس میں بڑی گنجائش ہے، اس دفتر میں خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے لئے الگ الگ کمرے ہیں، نیز کتابوں کی لائبریری اور کیسیٹ لائبریری کی جگہ بھی ہے، ہال میں میٹنگ، مجلس، اور اجتماع ہوتا ہے، اور خاص مہمانوں کی رہائش کے لئے بھی ایک روم ہے۔
۱۲۔ جب یہ بندۂ حقیر یارقند (چین) میں تھا، تو اُس وقت ایک روشن خواب میں کوئی مقدّس آواز کہہ رہی تھی کہ: “گلگت میں بہت ترقی ہو رہی ہے۔” ناچیز کے دل میں خیال آیا کہ وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوں گے، جو ایسی ترقی کے لئے کام کرتے ہوں، اب اگر ہم پھیلی ہوئی حقیقی علم کی روشنی کو اصل ترقی مانیں، تو یہ بات حقیقت ہو گی، ورنہ ہماری کون سی
۲۳۷
مادّی ترقی ہے، اور ہم کس شمار و قطار میں ہیں۔
۱۳۔ اب میرے دل میں ایک ہی شدید ارمان ہے، جو بعض دفعہ درد کی صورت اختیار کرتا ہے، وہ یہ کہ میرے شاگردوں میں سے جو عزیزان ہر وقت بادۂ علم سے مخمور رہتے ہیں، وہ تو مست ہی ہیں، لیکن جن عزیزوں کے دل و دماغ میں ہنوز علمی جنون پیدا نہ ہو سکا ہے، ان کے لئے کیا کروں؟ کیسے پُرکشش الفاظ میں علم و حکمت کی اہمیت کا ذکر کروں؟ یا ربّ العالمین! یا خیر الناصرین! یا مسبب الاسباب! یا مفتح الابواب! یا اللہ تو ہی کوئی وسیلہ بنا دے، تاکہ ہر عزیز دلدادۂ علمِ روحانی ہو جائے! تاکہ اب سے شروع کرکے اسلام اور انسانیّت کی کوئی خدمت انجام دی جائے۔
۱۴۔ دوستانِ عزیز! آپ میں سے کوئی شاید یہ خیال کرے کہ استاد ہمیشہ اور ہر وقت علم ہی کی رٹ لگاتا ہے، نہیں نہیں، کہاں؟ کب؟ علم کی اہمیت کا یہ تذکرہ تو نہ ہونے کے برابر ہے، اگر قدرتِ خدا سے آپ کے قرب و جوار میں علم کا کوئی کارخانہ ہوتا، تو اس میں شب و روز علمی اشیاء بنتی جاتیں، ساتھ ہی ساتھ لازمی طور پر اس کی کوئی مسلسل آواز بھی ہوتی، اور اُس لگا تار آواز کا ترجمہ ہوتا: علم، علم، علم، علم،
۲۳۸
علم، علم، جس طرح نہر پر پن چکی گویا کہتی رہتی ہے: آٹا، آٹا، آٹا، آٹا، آٹا، آٹا۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
جمعرات ۱۳ ذیقعدہ ۱۴۱۰ھ
۷ جون ۱۹۹۰ء
۲۳۹
چہار ارکانِ تصوّف
۱۔ تصوف کے چار ارکان یہ ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ اصطلاحات بعد میں بنائی گئی ہیں، جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ شروع ہی سے ہیں، جیسا کہ وہ اس حدیث کو بیان کرتے ہیں الشریعۃ اقوالی، والطریقۃ افعالی، والحقیقۃ احوالی، والمعرفۃ سری (شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے افعال کا مجموعہ ہے، حقیقت میرے روحانی کوائف میں ہے، اور معرفت میرا راز ہے)۔
۲۔ اسلام کے دینِ فطرت ہونے میں کس کو شک ہو سکتا ہے، لیکن آپ یہ نکتہ ضرور جانتے ہیں کہ فطرت ہمیشہ عروج و ارتقاء کی متقاضی ہوتی ہے، اسی لئے ارشاد ہوا: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ (۰۵: ۴۸) تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے شریعت اور طریقت مقرر کر دی ہے “لکل= ہر ایک کے لئے،” میں اہلِ کتاب کا بھی ذکر ہے کہ
۲۴۰
قبلاً ان کے لئے بھی یہ نعمت عطا ہوئی تھی، مگر اب نہیں۔
۳۔ اگر دینِ اسلام دینِ فطرت نہ ہوتا، اور اس میں قدم بقدم اور منزل بمنزل ترقی و پیشرفت کی کوئی گنجائش نہ ہوتی، تو صراطِ مستقیم اور سبیل جیسے نام اس کے لئے استعمال ہی نہ ہوتے، اور قرآنِ حکیم میں بار بار لفظِ ہدایت اور اس کے ہم معنی الفاظ نہ آتے، نہ خدا کی کوئی رسی ہوتی، اور نہ ہی اسوۂ حسنہ میں سیڑھی (معراج) کیونکہ یہ تمام معانی حرکت، ترقی، اور عروج کا حکم دیتے ہیں، غرض قرآن اور حدیث کی ہر بات ہدایت ہے، یعنی مسلمین و مومنین کو راہِ راست پر چلا کر خدا سے واصل کر دینا، اور یہ ہدایت اتنی ضروری اور ایسی خاص ہے، کہ بہت کچھ کرنے کے بعد ہی خصوصی ہدایت کے لئے درخواست کی جا سکتی ہے، سورۂ فاتحہ میں ذرا غور کیجئے، سب سے پہلے عام ہدایت کی روشنی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تعریف و توصیف ضروری ہے، پھر عبادت، جیسا کہ حق ہے، پھر استعانت کا حکم ہے، اور پھر اس ساری تیاری کے بعد ہی خصوصی ہدایت کے لئے بارگاہِ ایزدی سے درخواست ہونی چاہئے، تاکہ نورِ ہدایت طلوع ہو کر مومن سالک کی رہنمائی اور دستگیری کرے، اور درجہ بدرجہ آگے لے چلے۔
۲۴۱
۴۔ آیا قرآنِ عزیز میں درجات کا ثبوت نہیں ہے (۰۳: ۱۶۳)؟ یقیناً اٹھارہ مقامات پر موجود ہے، کیا یہ درجے جتنے بھی ہوں صراطِ مستقیم پر نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، جبکہ راہِ راست سے باہر سوائے گمراہی کے کچھ بھی نہیں، اگر ایسا ہے تو یہ بھی سچ ہے کہ دینِ اسلام جو خدا کی طرف جانے کا واحد راستہ ہے، اس کے بڑے بڑے درجے یا بڑی بڑی منزلیں چار ہیں، جو شریعت، طریقت، حقیقت ، اور معرفت ہیں، مگر اس راہ کی چھوٹی چھوٹی منزلیں بہت زیادہ ہیں۔
۵۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ خداوند تعالیٰ درحالے کہ آدمی کی رگِ جان سے بھی قریب تر ہے (۵۰: ۱۶) انسان قولاً و فعلاً اس ذاتِ اقدس سے بہت دور پڑا ہے، اسی دوری کو قدم بقدم اور منزل بمنزل ختم کر کے قربِ خاص حاصل کرنے کے لئے حکم ہوا: ۔۔۔ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْ (اور سجدہ کرتے رہو اور نزدیک ہوتے جاؤ ۹۶: ۱۹) یعنی ہر کامیاب بندگی اور سجدے سے راہِ حق کی کچھ مسافت طے ہوتی رہتی ہے تا آنکہ فنا فی اللہ کی آخری منزل نمودار ہو جائے۔
۶۔ صراطِ مستقیم پر حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی روحانی ترقی کس طرح ہوئی، اس کے لئے سورۂ انعام
۲۴۲
(۰۶: ۷۵ تا ۷۹) میں دیکھ لیں، مختصر یہ کہ آپ نے سب سے پہلے رات دیکھی، پھر ستارے کی چمک نظر آئی، پھر چاند کی روشنی، پھر سورج کی ضو فشانی، اور آخر میں معرفت حاصل آئی آپ کو شاید اعتراض ہو کہ رات تاریک کیوں؟ میں کہوں گا کہ اگر شبِ تاریک نہ ہوتی، تو ستاروں اور چاند کا مشاہدہ ہی نہ ہوتا، اور رات ہی تو ہے، جو دن کو جنم دیتی ہے، جس میں آفتاب کی ضیا پاشی ہوتی ہے، یعنی شریعت پر درست عمل کرنے سے سب کچھ ہو جاتا ہے۔
۷۔ اگرچہ منزلِ مقصود سب کی ایک ہی ہے، اور وہ ہے “فنا فی اللہ و بقا باللہ” تاہم صراطِ مستقیم پر خاصانِ الٰہی کے چار درجات ہیں: درجۂ انبیاء، درجۂ اولیاء (صدیقین)، درجۂ شہداء، اور درجۂ صلحا، (۰۴: ۶۹) اس کا واضح اشارہ یہ ہوا کہ راہِ دین کی بڑی منزلیں چار ہیں: شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت، اور اس کا نقشہ حسبِ ذیل ہے:
صراطِ مستقیم
معرفت
انبیاء |
حقیقت
اولیاء |
طریقت
شہداء |
شریعت
صلحاء |
۲۴۳
۸۔ ارشادِ باری تعالیٰ کا ترجمہ ہے: اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا مان لے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں (۰۴: ۶۹) یہ قرآنِ حکیم کی روشن ترین دلیلوں میں سے ہے اور اس میں ہر ہر مومن کی روحانی ترقی کی انتہاء کا ذکر فرمایا گیا ہے، ظاہر ہے کہ راہِ روحانیّت میں بھی اور منزلِ مقصود میں بھی نورِ ہدایت مومنین کے ساتھ ہوتا ہے، کیونکہ یہی نورِ نبوّت اور نورِ ولایت ہے، اور اسی نور میں شہداء اور صالحین بھی جمع ہیں، اور یہی حضرات رفاقت کے لئے سب سے بہترین ہیں، مومنین کے اس نور کا تذکرہ دیکھیں، ۰۵: ۱۵ تا ۱۶، ۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹، ۵۷: ۲۸، ۶۶: ۰۸۔
۹۔ جب شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کر لیتی ہیں، تو اس حال میں ایک پھول کا رس دوسرے پھول کے رس کے ساتھ بلا فرق و امتیاز بڑی آسانی سے مل جاتا ہے، بالکل اسی طرح قرآنی آیات اگرچہ ظاہری موضوعات کے اعتبار سے الگ الگ اور مختلف ہیں، لیکن وہ اپنے جوہرِ حکمت میں مل کر ایک ہو جانے کا خاصہ رکھتی ہیں، چنانچہ یہاں روحانی اور نورانی
۲۴۴
رفیق و رفاقت (ہمراہ اور ہمراہی) کے تذکرے سے نورِ ہدایت کی نوازشات کا اشارہ ملتا ہے، کیونکہ رہنماؤں کو مومنین کے لئے رفقاء قرار دینا، اور وہی باطنی نعمتیں عطا فرمانا، جو ان حضرات کو عنایت کی گئی ہیں، خدا کا بہت ہی بڑا احسان ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ مومنین روحانیّت اور معرفت کے بڑے سے بڑے اسرار میں بھی انبیاء و اولیاء کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔
۱۰۔ جاننا چاہئے کہ بے شمار شکوک و شبہات کا ازالہ اور تمام تر مشکل مسائل کا حل نظریۂ تجدّدِ امثال سے کام لینے میں ہے، اور فنا فی اللہ و بقا باللہ کا تصوّر علم کی بازگشت (لوٹ جانے کی جگہ) بھی ہے، اور معرفت کا سرچشمہ بھی، اس کا یہ مطلب ہوا کہ آپ نورِ ہدایت کی روشنی میں پیغمبروں کا ہر معجزہ دیکھ سکتے ہیں، یہی روحانیّت کا تجدّد ہے، اور اسی میں سب کچھ ہے، الحمدللہ۔
۱۱۔ آپ اپنے زمانے کے امام میں فنا ہو جائیں، تاکہ اس مبارک عمل سے فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کا دروازہ کھل جائے، اور آپ کو بعون و عنایتِ الٰہی یہ سب سے بلند ترین مرتبہ حاصل ہو، اور گنجِ مخفی آپ ہی کا ہو جائے، جس
۲۴۵
میں آپ دیکھیں گے کہ وہاں کس طرح اسرارِ ازل و ابد سب کے سب یکجا ہیں۔
۱۲۔ امامِ وقت میں فنا ہو جانا کوئی بازیچۂ اطفال تو نہیں، اس راہ میں ہزاروں مشکلات اور رکاوٹیں ہیں، اور وہ بھی انتہائی شدید، تاہم کوئی غم نہیں، نورِ عشق کا بھرپور سہارا لیں نورِ عشق، نورِ عشق، نورِ عشق۔۔۔ وہ خود، وہ خود، وہ خود آپ کو بتائے گا کہ کیا کیا کرنا ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
پیر ۲۴ ذیقعدہ ۱۴۱۰ھ
۱۸ جون ۱۹۹۰ء
۲۴۶
گل ہائے بہشت
۱۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ اس خاکسار کی اوّلین باقاعدہ بروشسکی نظم ۱۳۵۹ھ /۱۹۴۰ء میں منظرِ عام پر آگئی، لیکن بتوفیقِ الٰہی ابتدائی نوعیت کی شاعری کچھ پہلے سے شروع ہوئی تھی، اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس کریمِ کارساز نے اپنے فضل و کرم سے اس بندۂ ناچیز کو نصف صدی تک بروشسکی زبان کی خصوصی خدمت کا نہ صرف بہترین موقع ہی عنایت فرمایا، بلکہ اس قومی اور مذہبی کام میں تائیداتِ لاریبی سے بھی نوازا، جس کی برکتوں سے آج ان نظموں کو یہ مقام حاصل ہوا ہے۔
۲۔ بروشسکی ریسرچ اکیڈمی (Academy) کا قیام اگرچہ ۱۹۸۲ء میں عمل میں آیا، لیکن جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، استادِ ازل نے اپنی حکمت سے ایک چوپان (گڈریا) کے دل و دماغ میں اس ادارے کا سنگِ بنیاد بہت پہلے ہی رکھا تھا، یقیناً اسی وجہ سے وہ خادم (یعنی یہ بندہ) ظاہراً میدان بنانے
۲۴۷
میں مصروف تھا، اور اب خدا کی رحمت و مہربانی سے یہ درویش اس میدانِ عمل میں تنہا نہیں ہے، اس کے ساتھ بہت سے رفقائے کار بھی ہیں، جو بڑے دانشمند اور مہربان ہیں، جن کو میں اپنی جانِ شیرین ہی کی طرح بے حد عزیز رکھتا ہوں، بے حد عزیز۔
۳۔ “خانۂ حکمت(۱)” جبکہ اس کا پہلا نام “دار الحکمت” تھا سب سے پہلے میرے خوش نصیب گاؤں حیدرآباد (ہونزہ) میں قائم ہوا، یہ اتوار ۹ محرم ۱۳۸۳ھ / ۲ جون ۱۹۶۳ء کی بات ہے، اس ادارے کے اوّلین صدر جناب غلام محمد بیگ صاحب تھے، لیکن اُن دنوں میں یہ ادارہ صرف ایک چھوٹا سا مذہبی مکتب تھا، تاہم اس کی ترقی کی خاطر ہماری کوششیں جاری تھیں، جی۔ایم۔بیگ میرے نوجوان دوست اور شاگرد تھے، وہ میری تقریروں کو شوق و غور سے سنتے، اور فارسی کتابِ وجہِ دین کی تعلیم لیتے تھے، میں خود ان کے گھر جا کر پڑھایا کرتا تھا، انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے کام لے کر ہر میدان میں ترقی کی۔
۴۔ پھر جب خانۂ حکمت کا اصلی و اساسی کام کراچی میں شروع کیا گیا، اور تصنیف و اشاعت کی طرف بھرپور توجہ دی
۲۴۸
گئی، تو اس کی ترقی کے آثار نمایان ہونے لگے، اسی دوران ادارے کی تنظیمِ نو بھی عمل میں آئی، جس میں ہم نے جناب فتح علی حبیب کو صدر بنایا، پھر چند سالوں کے بعد ان کی انمول خدمات کی بناء پر تاحیات صدر ہونے کا اعلان ہوا، اور ان کی بیگم محترمہ گل شکر کو ایڈوائزر کا اعزاز دیا، محترمہ شاہ بی بی کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے، جناب خان محمد چیف ایڈوائزر کا درجہ رکھتے ہیں، جناب غلام قادر (سابق صدر گلگت برانچ) ناردرن ایریاز کے لئے مشیر (ایڈوائزر) ہیں، جناب ڈاکٹر رفیق جنت علی خانۂ حکمت کے آنریری سیکریٹری /میڈیکل ایڈوائزر ہیں، اور ان کی بیگم محترمہ شاہ سلطان بھی میڈیکل ایڈوائزر ہیں، ہمارے ادارے سے اور بھی قابل ڈاکٹرز منسلک ہیں، ہم ان شاء اللہ تعالیٰ ان کے اسمائے گرامی کو بھی اپنی تاریخ میں ثبت کرلیں گے۔
۵۔ ادارۂ عارف کو پہلے پہل کنیڈا میں جناب شیراز شریف نے میری تجویز سے اُس وقت قائم کیا تھا، جبکہ میں پہلی بار شرقی کنیڈا کے دورے پر گیا تھا (یعنی ۷ دسمبر ۱۹۷۷ء تا ۲۷ مارچ ۱۹۷۸ء) لازمی طور پر اس ادارے کے اوّلین چیئرمین شیراز صاحب ہی ہوئے، جن کا ذکرِ جمیل
۲۴۹
کتابِ “مطالعۂ روحانیت و خواب” میں موجود ہے، اور اب چند سال ہوئے “عارف” کا مرکز کراچی (پاکستان) منتقل ہو چکا ہے جس کے صدر جناب محمد عبد العزیز اور سیکریٹری ان کی بیگم محترمہ یاسمین ہیں، ہم نے بارہا اپنے عملداروں کی گرانقدر خدمات کا ذکر کیا ہے، اگر میں کراچی، شمالی علاقہ جاتِ پاکستان، کنیڈا، لنڈن، فرانس، اور امریکا کے عزیزان کی تمام تر خدمات کو تفصیل سے قلمبند کر سکتا، تو اس سے ایک بے حد دلکش اور بڑی ضخیم کتاب بن جاتی، لیکن نامۂ اعمال سے بڑھ کر کوئی کتاب نہیں۔
۶۔ آج جمعۂ مبارک ۲۸ ذیقعدہ ۱۴۱۰ھ / ۲۲ جون ۱۹۹۰ء ہے، اس موقع پر یہاں ہمارے عزیز و محترم صدر فتح علی حبیب کے بابرکت گھر میں یہ پُر وقار اجتماع کیوں ہے؟ اور اس میں کلاس کے عزیزوں کے علاوہ بعض عالی قدر دوستوں کو کیوں مدعو کیا گیا ہے؟ ایک بڑی عجیب جامع قسم کی سالگرہ کے لئے اہتمام ہے، کہ اس میں بیک وقت تینوں اداروں کی یکجا سالگرہ یعنی یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ درپردہ اپنے پیارے استاد کی پیدائش کا دن بھی ملحوظِ نظر ہے گویا سالگرہ اس دفعہ چار تہوں میں لپٹی ہوئی ہے، شاید یہی
۲۵۰
وجہ ہے کہ ہمارے ساتھیوں اور دوستوں کے چہرے فرطِ مسرّت و شادمانی سے مثلِ ماہِ کامل چمک رہے ہیں، کیونکہ ان کی خوشی چار چند (چوگنی) ہو گئی ہے۔
۷۔ اس انتہائی خوشی کے موقع پر ہمارے احباب نے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ گل فروش کی دکان سے ترو تازہ گلاب کے پھولوں کو مہیا کر رکھا ہے، اور سچ تو یہ ہے کہ پھول ہی قانونِ فطرت کا ایک شہکار، سب سے حسین اور دلکش ترین تحفہ ہے، جس کے رنگ و بو کی لطیف اور مسحور کن گدگداہٹ سے ہر شخص کا دل مسکرانے لگتا ہے، اور شاید اس دنیا میں کوئی ایسا شاعر نہیں آیا ہو گا، جس نے گل اور گلستان جیسے فطرت کے جانفزا نظاروں کی تشبیہات کا سہارا نہ لیا ہو۔
۸۔ کاش، اے کاش! اس خاص موقع کی خاطر میں بھی کچھ عمدہ پھولوں کو یہاں حاضر کر سکتا، یہ میرے منتخب پھول کوہِ ہمالیہ کی درمیانی بلندیوں کے ہوتے! یا یہ گل ہائے رعنا و دلفریب میر غزن خان (مرحوم) کے “شمال باغ” سے لائے ہوئے اب تک تازہ رہتے! کاش، کوئی باکرامت جن میرا دوست ہوتا! اور وہ گوناگون پھولوں کو اس مقدّس محفل میں
۲۵۱
بکھیر دیتا! گلِ سرخ، گلِ سوری، گلِ داؤدی، گلِ شبو، گلِ شب افروز، گلِ صد برگ، گلِ بنفشہ، گلِ لالہ، گلِ خیرو (خطمی) وغیرہ وغیرہ! یا میں خود باغبان ہوتا! اور ایک بہت بڑے باغ میں پھول ہی پھول اگاتا!
۹۔ کاش، میں بحرِ گوہر زا (موتیوں کو جنم دینے والا سمندر) کا غواص ہوتا! تاکہ اس سمندر کی گہرائیوں میں اتر کر انمول موتیوں کو حاصل کرتا! اور انہیں ان لوگوں میں بے دریغ تقسیم کر دیتا، جو ایسے جواہر کے طلبگار اور قدر دان ہیں! کاش، میرے پاس عقیقِ یمن، درِ عدن اور لعلِ بدخشان کا کوئی بڑا خزانہ ہوتا! تاکہ میں اس کے ذریعہ اسلام اور انسانیّت کی خاطر خواہ خدمت کرتا! (یہ بڑے معنی خیز اشارے ہیں)۔
۱۰۔ پھولوں کے اس تذکرے سے ایک بہت بڑی مسرّت انگیز خوش خبری یاد آگئی، وہ یہ ہے کہ عنقریب لنڈن سے ایک انتہائی عجیب گشتی گلشن آنے والا ہے، جس کے سدا بہار پھول کبھی مرجھاتے نہیں، اسی لئے ان گلوں کا بروشسکی نام “بہشتے اسقرک” (گل ہائے بہشت) ہے، جی ہاں، اگر جنت کے پھولوں کو قبل از روحانیّت و آخرت ظاہر میں دیکھنا ہے، تو کسی ایسی کتاب میں ممکن ہے، جو حقیقی علم پر مبنی ہو،
۲۵۲
جناب ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی صاحب اور ان کی نیک نام بیگم محترمہ سکالر رشیدہ (صمصام) نے از راہِ علم گستری اس دفعہ “بہشتے اسقرک” کا عالمی (Global) زبان یعنی انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، اس بندۂ ناتوان پر ان دونوں ارضی فرشتوں کے ایسے بہت سے احسانات ہیں، میری دعا ہے کہ ان کے حق میں میری طرف سے اصل دعا اُس بلندی پر ہو، جہاں ارواحِ مومنین کی ایک بے مثال وحدت موجود ہے، اور وہ کائناتی کام کر رہی ہے! آمین یا رب العالمین!
۱۱۔ ظاہری پھول مثال ہیں، باطنی پھول ممثول، مادّی موتی دلیل ہیں، روحانی اور عقلانی موتی مدلول، جبکہ عالمِ ظاہر عالمِ شخصی میں ملفوف و مجموع ہے، پس میں نے اسی وجہ سے کتاب کو “گشتی گلشن” کا نام دیا، کیونکہ یہ عالمِ دل کی زندہ بہشت کی ایک خاموش تصویر ہے۔
۱۲۔ یہ سورۂ نمل کی ایک آیۂ کریمہ کا حصّہ ہے، ترجمہ: اور اس نے تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس (پانی) کے ذریعہ سے ہم نے رونق دار باغ اگائے (حدآئق ذات بھجۃ ، ۲۷: ۶۰) اس حکم کا ایک ظاہر بھی ہے اور ایک باطن بھی، ظاہراً خدا کی قدرت عجیب ہے کہ بارش کے پانی
۲۵۳
سے طرح طرح کے درختوں اور رنگ برنگ پھولوں کے پُررونق باغ بنے، اور باطناً عالمِ شخصی میں علم و عبادت کے پانی سے باغ و چمن پیدا ہوئے، جو انتہائی عجیب و غریب ہیں، جیسا کہ حضرتِ مریم علیہا السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: اور اگایا اس کو احسن طریقے سے (۰۳: ۳۷) یہ روحانیّت کی وہ ابتدائی منزل ہے، جس میں صرف عالمِ شخصی کی بہاروں کے مناظر کا مشاہدہ ہوتا ہے، مثلاً سبزہ زار، گل ہائے رنگ برنگ، ہرے بھرے درخت وغیرہ۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی، کراچی
سنیچر ۲۹ ذیقعدہ ۱۴۱۰ھ
۲۳ جون ۱۹۹۰ء
(۱)۔ لفظِ “حکمت” کی تجویز برادرِ عزیزم بلبل جان نے گلگت میں کی تھی۔
۲۵۴