ہزار حکمت
(تاویلی انسائکلوپیڈیا)
یکی از تصنیفاتِ
علّامہ نصیر الدّین نصیر ہونزائی
دانشگاہِ خانۂ حکمت پاکستان
INSTITUTE FOR SPIRITUAL WISDOM (I.S.W) U.S.A
www.monoreality.org
آغاز کتاب
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔ خداوندِ قدّوس کا پُرحکمت ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ وَ مَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیۡط یٰٓاَیُّھَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا (۳۳: ۵۶) بالتّحقیق اللہ اور اس کے فرشتے نبیؐ (محمّدؐ و آلِ محمّدؐ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجواور (ان کے فرمان کو) ایسا تسلیم کرو جیسا کہ تسلیم کرنے کا حق ہے۔
سورۂ احزاب ہی میں قبلاً یہ ارشاد بھی ہے: وہ وہی ہے جو خود اس کے فرشتے تم پر صلوات (درود) بھیجتے ہیں، تاکہ وہ تم کو (لاعلمی کی) تاریکیوں سے (علم و حکمت کی) روشنیوں میں لائے، اور وہ مومنوں پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے (۳۳: ۴۳)۔ پس ان دونوں حکمت آگین آیتوں کا مربوط مطلب یہ ہے: یا اللہ محمدؐ و آلِ محمدؐ کے وسیلے سے اہل ایمان پر درود نازل فرما، جس کا تو نے قرآن حکیم میں ذکر فرمایا ہے تاکہ سب کو نور یقین نصیب ہو، آمین!
آدم و حوّا کی لغزش: عقل و جان ہی عالم شخصی کے آدم و حوّا ہیں، جن کے اسرارِ معرفت کے جاننے میں بے شمار فائدے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے: فَاَزَلَّھُمَا الشَّیۡطَانُ عَنۡھَا (۰۲: ۳۶) پھر پسلا دیا ان دونوں کو شیطان نے۔ یعنی آدم و حوّا (عقل و جان) بہشتِ روحانیّت میں خصوصی ذکر کے قدموں سے چلتے ہوئے سیر و سیاحت کر رہے تھے کہ شیطان نے ان کے قدموں کو لغزش دی، اس کے معنی یہ ہیں کہ اسمِ اعظم
۱
کے ذکر میں مداخلت کی، اور وہ پھسل گئے، کیونکہ یہاں عنھا (اُس سے) اسم اعظم کے لئے ہے۔
عالم شخصی کی معرفت میں انبیاء و اولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام کی معرفت ہے اور اسی میں حضرت ربّ العزّت کی معرفت ہے جو کنز ازل ہے، اگر آپ اس خزینۃ الخزائن کے حقیقی طلبگار ہیں تو خود شناسی کے طریق سے قرآن حکیم کی حکمت میں داخل ہوجائیں، جیسا کہ اس عمل کا حق ہے، ورنہ آج پہلے سے کہیں زیادہ مشکلات ہیں، جبکہ یہ زمانہ دورِ قیامت ہے، جس میں تاویلی حکمت کے بغیر دین و ایمان کو قائم رکھنا محال ہے، کیونکہ دنیا میں ظاہری سائنس کا بہت بڑا طوفانی انقلاب آیا ہے، جس سے بڑے مشکل مسائل پیدا ہوگئے ہیں، مجھے یقین ہے کہ ان کا حل قرآنی حکمت (تاویل) میں ہے، جس کا استاد ہمیشہ دنیا میں موجود ہے، اور اس سے پوچھنے کا خاص نظام و طریقہ بھی ہے۔
باطنی نعمتیں: اگر ہم خدا کی نعمتوں کے بارے میں کم از کم علم الیقین کی حد میں بھی غور نہیں کرتے ہیں تو بہت بڑی ناشکری اور ناقدری ہوگی، جیسا کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۰۲) میں ہے: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمانبردار بنایا ہے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے، اور تمام کر دی ہیں اُس نے تم پر ہر قسم کی نعمیں ظاہری بھی اور باطنی بھی، یہ ایک نمائندہ آیت کا ترجمہ ہے، لہٰذا اس میں سارے معانی جمع ہیں، کیونکہ آسمان و زمین اور ظاہر و باطن کا مطلب سب کچھ ہے، اور اس کے سوا کوئی چیز نہیں، الغرض قرآن پاک میں باطنی نعمتیں کثرت سے موجود ہیں، جو تاویلی حکمت کی صورت میں حاصل ہوسکتی ہیں، اور قرآن و حدیث میں بار بار حکمت کی تعریف آئی ہے۔
۲
دعوتِ غور و فکر: اس حقیقت میں نہ کوئی شک ہے اور نہ کوئی اختلاف ہوسکتا ہے کہ بہت سی آیاتِ کریمہ قرآن اور آفاق و انفس میں غور و فکر کی پُرزور دعوت دے رہی ہیں، یہاں تک کہ ایک آیۂ شریفہ میں یوں ارشاد ہوا ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰی اَقۡفَالُھَا (۴۷: ۲۴) تو کیا وہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے، یا (ان کے) دلوں پر ان کے قفل لگے ہوئے ہیں؟ اسی وجہ سے پیر فرماتے ہیں کہ: قفل از دل بردار و قرآن رہبرِ خود کن + تا راہ شناسی و کشادہ شوَدَت در۔ تو اپنے دل سے تالا اٹھا اور قرآن کو اپنا رہنما بنالے تاکہ تو راہِ راست کو پہچان سکے اور تجھے (علم و حکمت کا) دروازہ کھل جائے۔
ھزار حکمت: اس کتابِ عزیز کا نام “ہزار حکمت” ہے، کیونکہ یہ بحمد اللہ ہزار عظیم حکمتوں پر مشتمل ہے، اس کا نام قاموس الحکمۃ یا تاویلی انسائیکلو پیڈیا بھی ہوسکتا ہے، یہ کام حقیقت میں اس بندۂ حقیر کی ناچیز کوشش کا نتیجہ اور ماحصل نہیں، بلکہ میرے تمام فرشتہ صفت ساتھیوں کی پُرسوز گریہ و زاری اور مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کا ایک خاص انعام ہے، اس کے علاوہ قانونِ یک حقیقت (مونو ریالٹی) کے مطابق جملہ عزیزان میرے دل و جان میں اس طرح بس رہے ہیں کہ وہی عالم شخصی کے فرشتے میرے لئے سب کچھ کر رہے ہیں۔
اصولِ مطالعہ: اے عزیز من! اگر آپ اس کتاب کے مطالعے سے بھرپور فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میری دوسری کتابوں کو بھی پڑھ لیں، اور ان سب میں جہاں جہاں قرآن پاک کے حوالہ جات درج ہیں، ان کے مطابق نہ صرف محوَّلہ آیاتِ مبارکہ ہی کو ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
۳
بلکہ ما قبل اور ما بعد کو بھی خوب غور سے دیکھ لیں، آڈیو اور ویڈیو دو قسم کے کیسٹوں سے بھی کام لیں، اگر پھر بھی کوئی حکمت سمجھ میں نہیں آتی ہے تو ہمارے سینئیر سکالرز سے پوچھ لیں، ان شاء اللہ تعالٰی آپ کی علمی اور روحانی ترقی ہوگی۔
میں ہمیشہ اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتا رہتا ہوں کہ وہ امامِ عالی مقام علیہ السّلام کے ہر فرمان اقدس کو خوب غور سے پڑھا کریں، خصوصاً اُن پُرحکمت ارشادات کو جو روحانی ترقی سے متعلق ہیں، جن میں آسمانی عشق کی تعلیم ہے، جن میں روح و روحانیّت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اور جو جو ارشادات خود شناسی اور خدا شناسی کے بارے میں ہیں۔
روحانی سائنس: سائنس چاہے مادّی ہو یا روحانی، وہ خدائے واحد کے خزائن سے نازل کی جاتی ہے (۱۵: ۲۱) اس کی منزل (اترنے کی جگہ) بھی ایک ہی ہے، اور وہ ہے انسان کا دل و دماغ، پھر سائنس (حکمت) کے ظاہری اور باطنی دو شعبے ہوتے ہیں، تاکہ جسم و جان دونوں کے لئے آسائش و راحت مہیّا ہوسکے، اگر سائنس جیسی عظیم نعمت صرف جسم ہی کے لئے مخصوص ہوتی، اور روح کے لئے کوئی سائنس نہ ہوتی تو یہ اس پر ظلم ہوتا، مگر ایسا نہیں ہے، بلکہ روحانی راحت کی خاطر جو سائنس یا حکمت ہے وہ بڑی زبردست ہے۔
دونوں کا تقابلی جائزہ: جس طرح جسم اور روح کے درمیان آسمان و زمین کا فرق ہے، اسی طرح مادّی سائنس اور روحانی سائنس کے مابین فرق ہے، کیونکہ ظاہری سائنس صرف ایک علامت اور مثال ہے باطنی سائنس کی، یہ ایک عارضی اشارہ ہے اُس دائمی اور لازوال نعمت کی طرف، اور یہ ایک آرزو اور احساس ہے اُس مقصد عالی کے
۴
کے حصول کیلئے، جیسے ہوائی جہاز ہر چند کہ سفر کیلئے ظاہراً بڑی اچھی چیز ہے، لیکن یہ اڑن طشتری جیسی چیز کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ اڑن طشتریاں روحانی سائنس کی پیداوار ہیں، میرا مقصد صرف یہی ایک تعارف نہیں، بلکہ میں نے پہلے ہی سے بھی بہت کچھ کہا ہے اور لکھا ہے۔
عالم شخصی کے بعض انکشافات: (۱) ستاروں پر لطیف آدمی موجود ہیں (۲) اڑن طشتری در اصل کوکبی بدن (ASTRAL BODY) ہے، جس کو استعمال کرکے انسان ستاروں کی سیاحت کر سکے گا (۳) جس کو آپ ایک انسانی روح کہتے ہیں، وہ فی الحقیقت بے شمار روحوں کا مجموعہ ہوا کرتی ہے (۴) ایک ایسا اڑنے والا لطیف ذرّہ دیکھا گیا ہے جو مادّہ اور روح کا مرکب ہے (۵) جنّ و پری ایک ہی مخلوق اور ایک ہی قوم ہے (۶) جسمِ لطیف یا کوکبی بدن میں انسان کائنات کے کسی بھی ستارے پر آرام سے رہ سکتا ہے، کیونکہ یہ گرمی، سردی، خشکی اور تری سے بالاتر ہے (۷) گوناگون خوشبوؤں کی صورت میں لطیف غذائیں ہوا میں پوشیدہ موجود ہیں (۸) انائے علوی اور انائے سفلی کا تصوّر بڑا عجیب و غریب ہے (۹) آگے چل کر اقوام عالم کا حتمی اور کلّی اتفاق ہونے والا ہے، پھر وہ سب ایک ہوجائیں گے (۱۰) اب عنقریب پہلے بڑی جنگ پھر چھوٹی چھوٹی جنگیں دنیا سے ختم ہوجانے والی ہیں (۱۱) روحانی سائنس کا دور آرہا ہے (۱۲) جہاں مادّی سائنس کے بہت سے سمعی و بصری آلہ ہوتے ہیں، وہاں ان سب کی جگہ ایک ہی روحانی طاقت کام کرے گی (۱۳) جب تک تسخیرِ ذات نہ ہو تسخیرِ کائنات نہ ہوگی (۱۴) جس طرح کوئی خاص کیڑا ایک وقت کے بعد پروانہ بن جاتا ہے، اسی طرح آدمی بھی ایک زمانے میں کثیف سے لطیف اور بشر سے ملک بن کر پرواز کرنے والا ہے (۱۵) آدم و آدمی ہی خداوند تعالٰی کا
۵
وہ انتہائی عظیم اور واحد و یکتا کارخانۂ قدرت ہے، جس میں خدا کے تمام عجائب و غرائب تیار ہوتے رہتے ہیں (۱۶) کوکبی بدن (یعنی لطیف نوری انسان) گویا ایک ٹھنڈا شعلہ ہے، وہ جسم عنصری سے بالا و برتر ہے۔
بورڈ آف گورنرز: اگرچہ بورڈ لفظی لحاظ سے عام ہے، لیکن معنوی اعتبار سے خاص بلکہ بیمثال ہے، کہ اس جیسا بورڈ دنیا میں کہیں بھی نہیں، کیونکہ اس کے گورنرز وہ عالی ہمّت مومین و مومنات ہیں جو ایک ایسی لاثانی و غیر فانی مقدّس خدمت کو سر انجام دے رہے ہیں کہ وہ تمام اعلٰی خدمات کی بادشاہ (مَلِکہ) ہے، وہ ہے بتدریج قرآنی حکمت کو ہر جگہ پھیلانے کا انتہائی عظیم کارنامہ، اور دنیا میں اس کا کوئی مقابلہ ہے ہی نہیں، یہی حکمت روحانی سائنس بھی ہے اور علمِ امامؑ بھی، پس ہمارے گورنرز کتنے خوش نصیب اور عالی قدر ہیں۔
علمی لشکر: حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: “میں اب لوہے کی ذوالفقار سے نہیں، بلکہ علم و حکمت کی ذوالفقار سے جنگ کروں گا”۔ چونکہ اب دورِ قیامت اور زمانۂ تاویل ہے، لہٰذا حضرت امامؑ ظاہراً و باطناً جہالت کے خلاف تاویلی جنگ کر رہا ہے، اور وہ اپنے علمی لشکر کو بھی دعوت دے رہا ہے کہ وہ ضروری اور لازمی طور پر تاویلی جنگ میں شریک ہوجائیں۔
عملداران و ارکان: میں خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، اور بی۔آر۔اے کے تمام عملداران و ارکان کو (جو شرق و غرب میں ہیں) ایسا مشتاقانہ اور محبّانہ سلام کرنا چاہتا
۶
ہوں کہ اس میں مونو ریالٹی کے جملہ اعلیٰ معانی مرکوز ہوں، کیونکہ آج ہمیں اور ہمارے ادارے کو جو ترقی نصیب ہوئی ہے، وہ ان سب کی دم قدم کی برکت سے ہے، ان شاء اللہ، ان کے لئے اسرارِ معرفت منکشف ہوجائیں گے، اور خداوند قدّوس اپنی رحمتِ بے نہایت سے ان کو دنیا و عقبیٰ میں نوازے گا، ان کو نسل در نسل امام اقدس و اطہر کی علمی خدمت سے وابستہ رکھے گا، آمین!
سَرَابِیۡل = کُرتے: یعنی ایسے اجسامِ لطیف جو فلکی اور معجزاتی ہیں، جن کو نہ تو گرمی، سردی، خشکی، اور تری سے کوئی مزاحمت ہوسکتی ہے، اور نہ ہی کوئی جنگ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے، خواہ وہ ایٹمی وار کیوں نہ ہو، یہ کائناتی لباس بموجب ارشاد قرآنی (۱۶: ۸۱) اہل ایمان کے لئے خاص ہیں، اسی لباس کا ایک اور نام دِفۡءٌ ہے (۱۶: ۰۵) ہمارے عزیزوں کے پاس علم الیقین کا بڑا ذخیرہ موجود ہے، اس لئے وہ اس راز سے بھی آگاہ ہیں کہ یہ معجزانہ کرتے یعنی انسان کامل کے ھیاکل منزل عزرائیلی اور مرتبۂ عقل پر بنتے ہیں، یہاں اس عجیب و غریب حکمت کو بھی یاد رکھیں کہ حدود دین کی ایک مثال قرآن حکیم میں حلال چوپایوں سے دی گئی ہے (۱۶: ۰۵)۔
عالم خلقی اور عالم امری: سورۂ اعراف (۰۷: ۵۴) میں ارشاد ہے: اَلَا لَهُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُؕتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ خبردار ہو! (عالمِ) خلق اسی کا ہے اور (عالمِ) امر اسی کا ہے، بڑا بابرکت ہے اللہ، سارے جہانوں کا پروردگار۔ یعنی خلق عالم جسمانی ہے، جس کی ہر چیز کچھ وقت کے بعد پیدا ہوتی ہے، اور امرعالمِ روحانی ہے، جہاں ہر شیٔ امرِ کُنۡ (ہوجا کے حکم) سے کسی تاخیر کے بغیر وجود میں آتی ہے، پیدائش کے ان دونوں
۷
طریقوں میں رحمت اور علم کی گونا گونی اور فراوانی ہے۔
حق سبحانہٗ و تعالٰی کُنۡ (ہوجا) فرمائے یا صرف ارادہ فرمائے، بہرکیف خواستہ چیز وجود میں آتی ہے، یہاں یہ نکتۂ دلپذیر بھی خوب یاد رہے کہ خداوند قدّوس کا ہر حکم “امرِ کُنۡ” ہی کی طرح ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ قادرِ مطلق اور فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیۡدُ (۸۵: ۱۶) ہے، لہٰذا وہ جب جب کسی کام کا حکم فرماتا ہے تو اس کی تعمیل عالم امر میں کسی تاخیر کے بغیر فورًا ہی ہوجاتی ہے، ہر چند کہ عالم خلق میں اس کے لئے وقت لگتا ہے۔
گنجینۂ حدیثِ قدسی: ارشاد ہے: اے ابن آدم! میں نے تجھ کو ہمیشہ کے لئے پیدا کیا ہے، اور میں خود زندۂ لا فانی ہوں، میری اطاعت کر جس چیز کے لئے میں تجھے امر کرتا ہوں، اور رک جا جس چیز سے میں تجھے روکتا ہوں، تاکہ میں تجھ کو ایسی حیات عطا کروں گا کہ تو کبھی نہیں مرے گا، اے ابن آدم! میں یہ قدرت رکھتا ہوں کہ کسی چیز کے لئے فرماؤں “ہوجا” تو وہ ہوجاتی ہے، میری اطاعت کر جس چیز کے لئے میں تجھے امر کرتا ہوں، اور رک جا جس چیز سے میں تجھے روکتا ہوں تاکہ میں تجھے یہ قدرت دوں کہ تو کسی چیز کے لئے کہے کُنۡ (ہوجا) اور وہ ہوجائے گی (اِسی کتاب میں ملاحظہ ہو: حَیّ۔ بحوالۂ رسائل اِخوانُ الصّفاء، جلد اوّل، الرّسالۃ التّاسعۃ، ص۲۹۸)۔
بھری ہوئی کشتی: سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱) میں ارشاد ہے: وَ اٰیَةٌ لَّهُمۡ اَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّیَّتَهُمۡ فِی الۡفُلۡكِ الۡمَشۡحُوۡنِ۔ ظاہری ترجمہ: اور ان کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا۔ باطنی ترجمہ: اور ان کے لئے یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم نے ان کے ذرّاتِ روح کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر
۸
دیا، کسی کی نسل یا اولاد ماضی میں نہیں بلکہ حال اور مستقبل میں ہوتی ہے، لہٰذا یہاں یہ کہنا درست ہے کہ ذرّیت سے ذرّاتِ روح مراد ہیں جو خدا کے حکم سے حضرتِ نوح علیہ السّلام کی روحانی کشتی میں سوار تھے، اور اس میں بھی ایک بہت بڑا راز ہے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے نورِ عین من! آپ حقیقی علم کے مدارج میں بلند سے بلند تر ہوکر اس سرّ عظیم کا یقین کامل حاصل کرلیں کہ آپ اپنی انائے عُلوی میں ہمیشہ اصل سے واصل بھی ہیں، اور انائے سفلی سے دنیا میں بھی آئے ہیں، چنانچہ جب آپ خدا کی رحمت سے بحرِعلم پر کشتی اور کشتیبان کو دیکھیں گے تو آپ پر یہ راز معرفت بتدریج منکشف ہوجائے گا کہ صاحبِ کشتی نفس واحدہ ہے جس میں سب ہیں، اور اس معنیٰ میں یہ بھری ہوئی کشتی ہے، یعنی کشتی میں جو پاک ہستی ہے، وہ ہر طرح سے کامل و مکمل اور اناہائے علوی سے مملو ہے، پس فُلکِ مشحون میں سوار ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کو یقین آیا کہ آپ پہلے ہی سے اُس میں ہیں۔
تخت یا کشتی؟: قرآن حکیم یا عالم شخصی کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کا ارضی تخت (عرش) پانی پر تھا، ہے، اور ہوگا (۱۱: ۰۷)۔ یہی مثالی تخت یقیناً کشتی بھی ہے، اور ایسی قرآنی مثالوں میں ہمارے علم و عمل کی زبردست آزمائش ہے، اور دوسری مثال کے مطابق خداوندِ قدّوس کا عرش عالمِ علوی میں ہے، یاد رہے کہ دینِ حق کی آخری منزل (منزلِ مقصود) معرفت ہی ہے، معرفت دیدار کے بغیر نہیں، دیدار خود شناسی کے بغیر نہیں، خود شناسی روحانی سفر کے بغیر نہیں، روحانی سفر اسماء الحسنٰی کے بغیر نہیں، اسماء الحسنٰی رسولؐ خدا کے برحق جانشینؑ ہی کی تعلیم سے حاصل ہوسکتے ہیں، الحمد اللہ ربّ العالمین۔
ن ن (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات ۳۔ جمادی الثّانی ۱۴۱۷ھ ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۹۶ء
۹
انتساب
برزرگانِ دین نے فرمایا ہے کہ قیامت کا دور برکات و کرامات کا دور ہوگا، اور اس میں علمی قحط دُور ہوگا۔ الحمد للہ ہمارا زمانہ وہی بابرکت و کرامت کا زمانہ ہے، جس طرح دنیاوی علم میں روز بروز ترقی ہوتی جارہی ہے، اس سے کہیں زیادہ روحانی اور قیامتی علم میں ترقی ہوتی جارہی ہے، اس مقدس علم کو پھیلانے میں بہت سے مخلص اور جانّثار مؤمنین و مؤمنات نے گونا گون قربانیاں دی ہیں، ان ہی مؤمنین و مؤمنات میں جماعت مومنہ کا مقام نہایت ممتاز اور بلند ہے، اسی جماعت میں سے ایک سربرآوردہ خاندان جناب قاسم علی وزیر مومن کا ہے، جناب قاسم علی اور آپ کی شریکۂ حیات محترمہ لاڈچی بائی قاسم علی مومن نہایت ہی خوش نصیب ہیں کہ آپ دونوں کی نیک بخت اولاد سب کی سب علمِ امامت و قیامت کی ترقی و ترویج کی بے لوث خدمت میں شب و روز لگی ہوئی ہے، آپ کا خاندان دانشگاہِ خانۂ حکمت کی جان کی طرح ہے، آپ کی اولاد میں عزیزم غلام مصطفٰی مومن جو کہ اس ادارے کے آئی۔ ایل۔ جی اور فرسٹ انٹرنیشنل پریذیڈنٹ ہیں، کی خدمات دوسرے سربرآوردہ عزیزوں کی طرح خانۂ حکمت کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھی جائیں گی۔ دوسری خدمات کے علاوہ آپ نے اس سے پہلے بھی کئی ایک کتابوں کی طباعت و اشاعت کی سرپرستی کی ہے۔ اس مرتبہ آپ نے کتابِ مستطاب ہزار حکمت کی طباعت و اشاعت کی سرپرستی کی ہے، کتابِ مذکور قیامتی علم کا بیش بہا خزانہ ہے، ان شاء اللہ اس خدمت سے جماعت اور انسانیّت کو بہت علمی فائدے حاصل ہوں گے، کتاب ہٰذا کا یہ انتساب آپ اور آپ کے بابرکت خاندان کے نام لکھا جاتا ہے:
عزیزم غلام مصطفٰی مومن ILG، پریذیڈنٹ BIG اور آپ کے خاندان کے اسمائے گرامی:
۱۰
والد محترم: قاسم علی وزیر مومن، جماعتی مجالس میں موکھی اور کامڑیا، جماعتی والینٹئیر اور ممبر آمین آباد، حیدر آباد ایجوکیشن بورڈ۔
والدۂ محترمہ: لاڈچی بائی قاسم علی مومن، جماعتی والینٹئیر
بیگم: ممتاز مومن ILG، ایچ۔ ڈی۔
بیٹی: نعئیہ مومن ILG، اے۔ ایل۔
آپ کے بھائی:
امیر علی مومن، ریلیجئیس ایجوکیشن ٹیچر اور والینٹئیر؛ بیگم: حمیدہ امیر علی مومن، جماعتی والینٹئیر؛
بیٹی: صبا مومن؛ بیٹا: سلمان علی مومن، جماعتی والینٹئیر؛ بیٹا عاشق علی مومن، جماعتی والینٹئیر، نور الدّین مومن ILG، ایڈوائزر B.R.A، جماعتی والینٹئیر، بیگم: الماس (ناہید) مومن ILG، ایچ۔ ڈی؛ جماعتی والینٹئیر؛ بیٹا: زین العابدین مومن، ایل۔ اے
ظاہر علی مومن: ILG، خزانچی BIG؛ بیگم: سارہ ظاہر علی مومن ILG، ایچ۔ ڈی؛ بیٹا: اسد ظاہر علی مومن ILG، ایل۔ اے؛ بیٹا: سنان ظاہر علی مومن ILG، ایل۔ اے
آپ کی بہنیں:
زرینہ؛ شوہر: جعفر علی کریم علی؛ بیٹا: ابوذر جعفر علی؛ بیٹی: انیلہ سلمان؛ بیٹی: گل آفتاب جعفر علی؛ بیٹا: رحیم جعفر علی
زبیدہ: شوہر: لیاقت علی نور علی؛ بیٹی: صائمہ لیاقت علی؛ بیٹا: فرید لیاقت علی؛ بیٹا: ریحان لیاقت علی
یاسمین؛ شوہر: مصطفٰی ولی محمد؛ بیٹا: نعمان مصطفٰی؛ بیٹا: سلمان مصطفٰی
خداوندِ ربّ العزّت جملہ افرادِ خاندان کو سعادتِ دارین سے نوازے! آمین یا ربّ العالمین!
نصیر الدّین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
منگل ۱۴۔ جون ۲۰۰۵ء
۱۱
خدمتِ ہزار حکمت
سورۂ محمّدؐ کے اس ارشاد (۴۷: ۰۷) میں ہر گونہ دینی خدمت قدر و قیمت میں گویا آسمان پر اٹھالی گئی ہے، وہ ارشاد مبارک یہ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰهَ یَنۡصُرۡكُمۡ وَ یُثَبِّتۡ اَقۡدَامَكُمۡ۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا، اور تمہارے قدم مضبوط جما دے گا۔ انسان ضعیف البنیان حق سبحانہٗ و تعالٰی کے کسی کام میں مدد نہیں کرسکتا، لیکن یہ دینی خدمت کی بہت بڑی اہمیت کی دلیل ہے کہ خداوند قدّوس نے نوازش فرمائی اور اپنے ہی غلاموں کی غلامی کو اتنا بلند درجہ عطا کیا، اور اپنی طرف سے آسمانی اور روحانی مدد کے ساتھ ساتھ نیک کاموں میں ترقی دینے کا وعدہ فرمایا۔
اس قرآنی تعلیم سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ دینی خدمت بہت بڑی عبادت ہے، خصوصاً علمی خدمت کہ وہ ہمہ رس اور عالمگیر وسعتوں کی حامل ہے، اور جہالت و نادانی کے خلاف سب سے مؤثر جہاد ہے، کیا آپ غور نہیں کرتے ہیں کہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں علمی جہاد کا اشارہ موجود ہے، جبکہ اس میں “نصرت” اور “ثابت قدمی” جیسی جنگی اصطلاحیں آئی ہیں، چنانچہ لفظ نصرت قرآن میں فتح سے پہلے بھی آیا ہے (۱۱۰: ۰۱) اور بعد میں بھی (۴۸: ۰۱ تا ۰۳) پس نصرت اللہ کی وہ مدد ہے جو آسمانی اور روحانی لشکر سے مومنین کو حاصل ہوتی ہے، اور ثابت قدمی لغزش کے بغیر آگے بڑھنے کو کہتے ہیں، اس کا مطلب ہے نیک کاموں میں خصوصاً علمی جہاد میں مستقل مزاجی سے ترقی کرنا۔
۱۲
اَنۡصَارُ اللہ = خدا کے مددگار: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۵۲) میں دیکھ لیں: جب عیسیٰ نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل کفر و انکار پر آمادہ ہیں تو اس نے کہا “کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار ہوتا ہے”؟ حواریوں نے جواب دیا: “ہم اللہ کے مددگار ہیں”۔ اَنۡصَارُ اللہ (خدا کے مددگار) کتنا عالیشان ٹائٹل ہے، ایسے مومنین زمانۂ نبوّت میں بھی تھے، اور ہر امام کے بھی انصار ہوا کرتے ہیں، اس کا مطلب ہے خادمین، (خدمت کرنے والے) الغرض قرآنِ عزیز کی بہت سی آیاتِ مقدّسہ میں دینی خدمت کی تعریف آئی ہے، اور اس حقیقت میں کوئی شک و شبہ ہو ہی نہیں سکتا۔
سوال: اگر شیطان کا ایک نام مُضِلّ (گمراہ کُنۡ = گمراہ کرنے والا) ہے تو یہ کُنۡ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے اور کُنۡ کو گمراہ کرسکتا ہے؟ جواب: شیطان کا خاص حملہ ان لوگوں پر ہوتا ہے جو صراط مستقیم پر روان دوان ہوتے ہیں، لیکن وہ اس میں صرف کسی کمزور مومن کو پھسلا کر گمراہ کرسکتا ہے، جس کے پاس حقیقی علم نہ ہو، اور جو عالی ہمّت مومنین علم حقیقت کے اسلحہ سے لیس ہیں، ان کے سامنے شیطان کا دامِ تزویر تارِ عنکبوت ہی کی طرح ہے۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ہر چیز میں علم ہے، سب سے پہلے خود قرآن کی ہر چیز میں زبردست علم ہے، یعنی قرآن پاک میں کوئی آیت یا کوئی کلمہ ایسا نہیں، جس کے معنی میں علم و حکمت کے عجائب و غرائب پنہان نہ ہوں، مثال کے طور پر لعنت کے مختلف صیغے قرآن میں ۴۱ بار آئے ہیں، مجھے یقین کامل ہے کہ ان مقامات میں کہیں بھی یہ حکم نہیں کہ تم شیطان یا کسی اور مخلوق پر لعنت بھیجو، کیونکہ لعنت در اصل دوری کے معنی میں ہے، جیسے اللّعین (دور کرنے والا) اُس ڈراوے کو کہتے ہیں جو فصل سے پرندوں کو دور کرنے کی غرض سے کھیت میں قائم کیا جاتا ہے، جس کو انگریزی میں (SCARECROW) کا
۱۳
نام دیا گیا، یہ چیز بروشسکی میں غہ قَلی اور ترکی میں غہ قُلی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمت الٰہی سے دوری کا نام لعنت ہے، جو کسی بڑی نافرمانی سے واقع ہوتی ہے، نتیجۂ بد اعمالی کا ذمہ دار ہر شخص خود ہے نہ کوئی اور انسان، چنانچہ ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ لَعَنَ الۡکٰفِرِیۡنَ (۳۳: ۶۴) (اہل کفر اللہ کی رحمت سے دور ہوچکے تھے اس لئے) خدا نے کافروں کو دور ہی رکھا۔ اللہ دعائے بد کے معنی میں کسی کے لئے لفظ لعنت استعمال نہیں کرتا، کیونکہ دعا اظہار حاجتمندی کے لئے ہے، اور خداوندِ عالم بے نیاز ہے، نیز لعنت لفظًا گالی نہیں بلکہ یہ تذکرہ، اعلان اور عبرت ہے شیطان وغیرہ کے بارے میں جو قانونِ مکافات کے مطابق رحمتِ خداوندی سے دور ہوچکے ہیں۔
سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۵۹) میں ہے: جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن دلائل اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، یقین جانو کہ اللہ بھی انہیں دور ہی رکھتا ہے اور دور رکھنے والے بھی ان کو دور ہی رکھتے ہیں۔ اس آیت میں لفظ “لَا عِنُوۡن” غور طلب ہے کہ یہ حضرات کون ہیں؟ فرشتے ہیں یا بشر؟ اگر بشر ہیں تو عوام ہیں یا خواص؟ جوابًا عرض ہے کہ کسی صفت میں خدا کے بعد رسولؐ کا مرتبہ آتا ہے اور اس کے بعد آپؐ کے جانشینوں کا ذکر جمیل آتا ہے، پس یہ حقیقت ہے کہ دور شدہ لوگوں کو دور ہی رکھنے والے حضرات محمّد و آلِ محمّد صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین ہیں، جو اللہ تعالٰی کی رحمت اور علم کے خزائن ہیں، اور بحقیقت انہی کی نسبت سے کسی کی نزدیکی یا دوری کا تعیّن ہوسکتا ہے۔
سورۂ مائدہ (۰۵: ۷۸) میں ہے: بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ان پر داؤدؑ اور عیسیٰ ابنِ مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یعنی جب ان لوگوں نے کفر کیا تب فورًا ہی وہ خود بخود رحمت الٰہی سے دور ہوگئے، اب اس کے بعد ان کے
۱۴
حق میں کسی پیغمبر کی زبان سے لعنت کہنا صرف اس واقعہ کا اعلان ہی ہے تاکہ اہل ایمان ایسے لوگوں سے خود کو بچائے رکھیں۔
اس مثال ہر دانشمند کو اندازہ ہوگا کہ تاویلی حکمت کے بغیر بے شمار پیچیدہ مسائل کا کوئی حل ہے ہی نہیں، پس ہم کو جس طرح امامِ آلِ محمّدؐ کے مقدّس در سے دریوزہ ملتا ہے، اسی طرح سعی کی گئی تاکہ بعض پرسیدہ یا نا پرسیدہ سوالات کی حکمتی تحلیل ہوجائے، کوئی باور کرے یا نہ کرے لیکن یہ ایک امرِ واقعی ہے کہ جس حکمت کے ساتھ خیر کثیر وابستہ ہے (۰۲: ۲۶۹) وہ صرف اور صرف حضرت امامؑ ہی کی مرتبتِ نورانیت سے مل سکتی ہے، دوستانِ عزیز! ہاں یہ حق بات ہے کہ علیٔ زمان صلوٰت اللہ علیہ کے بے شمار علمی معجزات ہوا کرتے ہیں، اور جس شخص کو خوش بختی سے ان کا مشاہدہ کرایا جاتا ہے، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن اور امام کی علمی خدمت کرے، لہٰذا اس مقدس عملی فرمان کو بجا لانے کے لئے ناچیز سی کوشش کی گئی، اور اس کارِ خیر میں مدد کے لئے دوستوں کو بلایا۔
الحمد للہ! میرے دوستانِ عزیز بہت ہی ہیں، لیکن میں آج ایک ایسے جانی، جگری اور روحانی دوست کا ذکر جمیل کر رہا ہوں جو تقریباً ربع صدی سے اس علمی خدمت میں شامل ہیں، ایک عرصہ ہوا وہ خانۂ حکمت کے نائب صدر ہیں، اور اب آپ لائف گورنر بھی ہیں، یہ بہت پیارا تذکرہ عزیز تر از جانم نصر اللہ ابنِ موکھی قمر الدّین (مرحوم) ابنِ موکھی رحیم کا ہے، نائب صدر اور گورنر نصر اللہ اُن صف اوّل کے عاشقوں میں سے ہیں، جن کو نہ صرف مولا سے عشق ہے بلکہ مولا کے نورانی علم سے بھی عشق ہے، اور آسمانی عشق کا یہ کمال ہے کہ اس میں اخلاق اور دین کی ساری خوبیاں خود بخود جمع ہوجاتی ہیں، عزیزم نصر اللہ کی بیگم محترمہ امینہ فرسٹ گورنر بڑی دیندار اور عبادت گزار ہیں، ان کے برادرِ محترم اکبر راجن صاحب نے ہماری ۲۵ سے زیادہ کتابوں کا گجراتی میں ترجمہ کیا ہے۔
۱۵
میرے عزیز دوست نصر اللہ کی بڑی دخترِ نیک اختر یاسمین سیکنڈ گورنر، بی۔ اے فائنل کی سٹوڈنٹ ہیں، ان کو انسانی شرافت اور مذہبی عقیدت کی لا زوال دولت پیارے والدین سے مل گئی ہے، نصر اللہ کی دوسری سعادت مند بیٹی فاطمہ سیکنڈ گورنر، انٹر کے بعد اب نرسنگ کے تیسرے سال میں ہیں، ان کو بھی شرافت و عقیدت کی وہ بیمثال دولت حاصل ہے، اور تمام افرادِ خاندان حقیقی علم کے شیدائی ہیں، اور نصر اللہ کی سب سے چھوٹی اولاد جو نیک بختی سے سیکنڈ گورنر ہے، وہ پیارے امین ہیں، جو میٹرک کرکے کالج میں داخل ہوگئے ہیں، جن کو “شاعر خانۂ حکمت” کا ٹائٹل مل گیا ہے، کیونکہ آپ بچپن ہی سے اردو شاعری کرنے لگے ہیں، مجھے یہ سب بہت ہی عزیز ہیں، ان شاء اللہ، تینوں پیارے بچے بہت ترقی کریں گے۔
اچھی سِفارش کرو: یعنی تمام دنیا والوں کے حق میں عفو و مغفرت کی دعا کرو، جیسے فرشتے اہل زمین کے لئے اللہ سے معافی مانگتے ہیں (سورۂ شوریٰ ۴۲: ۰۵) اور کوئی بری سفارش کبھی نہ کرنا، یعنی کسی کی بدخواہی ہرگز نہ کرنا، کسی کو گالی نہ دینا، اور نہ کوئی بد دعا قلب و زبان سے نکالنا، سنو، دیکھو، اور پڑھو، اس باب میں قرآن عزیز کیا فرماتا ہے: جو شخص اچھی سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصّہ ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصّہ ملے گا (۰۴: ۸۵)۔
ھماری دانشگاہ: خداوند قدّوس کے فضل و کرم سے اب ہماری دانشگاہ بڑا زبردست اور بے مثال کام کر رہی ہے، قرآنی حکمت کی جتنی بھی تعریف کریں وہ بہت ہی کم ہے، جبکہ خیرِ کثیر اسی کے ساتھ ہے، پس کتنی بڑی سعاتمندی اور خوش نصیبی ہے ان عزیزوں کی جو اس دانشگاہِ حکمت میں شب و روز آنریری خدمت بھی کرتے ہیں، سیکھتے بھی
۱۶
ہیں، اور دوسروں کو سکھاتے بھی ہیں، نیز کتب وغیرہ کے ذریعے کئی ممالک میں علم کی روشنی پھیلاتے بھی ہیں، پھر ایسے میں ان کی زبردست علمی ترقی کیوں نہ ہو۔
میں یہاں موقع و محل کی مناسبت سے سنہری خدمات اور علمی ترقی کا ایک بڑا عمدہ نمونہ پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ ایک لائق و دانشمند شخصیت ہے، گریہ و زاری و مناجات میں اپنی مثال آپ، ہوشمندی میں منفرد، ہمہ جہت خدمت میں یکتا، تقریر میں خوش بیان، تحریر میں خوش رقم، وہ ہیں سیکریٹری، ریکارڈ آفیسر، اور فرسٹ گورنر محترمہ زہرا بنت جعفر علی، جنہوں نے “ہزار حکمت” کو آگے بڑھانے کی غرض سے شب و روز جان فشانی سے کام کیا، اس تاویلی انسائیکلوپیڈیا کے ہزار عنوانات کا منظم انڈیکس بنانا اور ہزار سے زیادہ بکھری ہوئی حکمتوں کو اوراق میں سے کاٹ کاٹ کر ٹھیک تعداد اور حروف تہجی کے مطابق رجسٹر میں چسپان کرنا آسان کام نہ تھا، الغرض ادارے میں سب کو معلوم ہے کہ سیکریٹری زہرا شدید محنت اور شوق سے کام کر رہی ہیں، آپ ۸۷۔ ۱۹۸۶ء سے خانۂ حکمت سے وابستہ ہوئی ہیں، انہوں نے فارسی میں ایم۔ اے کیا اور اب عربی زبان کے کورس میں ایڈوانس لیول پر ہیں۔
تاویلی انسائیکلوپیڈیا (ہزار حکمت) کی تصنیف سے مشرق و مغرب کے تمام عزیزان بیحد شادمان ہیں، کیوں نہ ہوں، جبکہ یہ کتاب قرآنی حکمتوں کی وجہ سے بیمثال ہے، اور اس کی افادیت آفاقی اور ہمہ رس ہے، لہٰذا ان سب کی خوشی بجا ہے، کیونکہ خداوند تعالٰی نے علیٔ زمان کی اس نیک نام آرمی کو تاویلی جنگ میں فتح و نصرت کی لا زوال دولت سے مالامال فرمایا ہے، شاید کسی عزیز کو اس امرِ عظیم کا اندازہ نہ ہو کہ حضرت قائم القیامۃ علیہ افضل التّحیۃ و السّلام کس عجیب و غریب طریقے سے اپنا کام کر رہا ہے۔
۱۷
مشرق و مغرب کے جملہ عزیزان، گلگت ریجنل برانچ اور متعلقہ برانچز کے اولو العزم، دانشمند، اور نامور عملداران و ارکان کے بیحد شکرگزار اور ممنون ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے ادارے ہی کو مضبوط و مستحکم اور معزّز و محترم بنایا، بلکہ بارہا اسماعیلی جماعت کے وقار کو بھی حکومت اور عوام کی نظر میں کما حقہٗ بلند و بالا کیا، اس سلسلے میں ہمارے دانا دوستوں نے جتنے بھی عظیم الشّان کارنامے انجام دیئے، ان سب میں یقیناً جذبۂ للّٰہیّت کارفرما تھا اور ان شاء اللہ ہمیشہ ایسا ہی ہوگا، اسی لئے بفضل خدا روحانی تائید ان کے ساتھ ساتھ رہتی ہے، وہ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کے بغیر کوئی کارنامہ شروع نہیں کرتے ہیں، ہم انتہائی عاجزی سے دعا کرتے ہیں کہ خداوندِ قدّوس دین و دنیا کے ہر نیک کام میں ان کی دستگیری اور تائید فرماتا رہے، وہ ان پر ہمیشہ مہربان ہو، آمین!!
اے عزیزانِ من! آپ سب کو ان عزیزوں کی جانب سے قلبی مبارکباد کی دعا ہو جو پاکستان، لنڈن، فرانس، امریکہ، کنیڈا وغیرہ میں رہتے ہیں کہ آپ کو حق تعالٰی نے جو میدان عمل عطا کیا ہے وہ بیمثال ہے، اور جو جو قوّتین اور قابلیتیں عنایت فرمائی ہیں وہ بھی لاثانی ہیں، الحمد للہ، ہم سب ایک ہیں، یہ رسمی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے یعنی مونو ریالٹی کا اشارہ ہے جو گنج ازل ہے، اور یہ سرِّ عظیم اس دنیا میں کتنے لوگوں کو معلوم ہے؟
اے دوستانِ عزیز! جو شرق و غرب میں مقیم ہیں آپ دل و جان سے قرآنی حکمت کی خدمت کرتے رہیں، کیونکہ خیرِ کثیر کا خزانۂ بے پایان اسی میں ہے، اب وقت آچکا ہے کہ دنیا کی کوئی خوش نصیب یونیورسٹی قرآنی حکمت اور روحانی سائنس کی طرف توجّہ دینے میں دوسروں سے سبقت کرے، ان شاء اللہ، یہ اوّلیت و سبقت کنیڈا اور امریکہ کی سینئیر یونیورسٹی کو حاصل ہوئی ہے، دعا ہے کہ روحانی سائنس کی
۱۸
آواز سے آفاق و انفس گونج اٹھیں! اور اہل جہان کو اس کے بے شمار فوائد حاصل ہوں! آمین یا ربّ العالمین!!
نصیر الدّین نصیر ہونزائی
کراچی
بدھ ۱۶۔ جمادی الثّانی ۱۴۱۷ھ ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۹۶ء
۱۹
اے قلم جُنبشِ ازل ہے تو
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ط۔ اس آیۂ کریمہ کو سورۂ لقمان (۳۱: ۲۷) میں پڑھ لیں، جس کا ترجمہ یہ ہے: اور جتنے درخت زمین بھر میں ہیں اگر وہ سب قلم بن جائیں اور یہ جو سمندر ہے اس کے علاوہ ساتھ سمندر اور (روشنائی) ہوجائیں تو بھی کلماتِ خدا ختم نہ ہوں گے۔ یعنی کلمات تامّات جو علم الٰہی کے بے پایان خزائن ہیں۔
یا ربّ العالمین! اپنے محبوب رسولؐ محمّدؐ و آلِ محمّدؐ کی حرمت سے ہم خاکسار بندوں کو آسمانی عشق میں اشکبار اور ان بے شمار نعمتوں پر شکرگزار بنا دے، اے دانا و بینا! ہم سخت بیمار ہیں، کمزور اور عاجز ہیں، ہم کو عشق سماوی جیسی زبردست دوا چاہیے، یعنی خدا، رسولؐ اور امامِ زمانؑ کا پاک و پُرحکمت عشق، وہ مقدّس و مبارک عشق جس میں عقل و جان کی معموریت و آبادی کے لئے بے حساب رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ ہیں۔
دوستانِ عزیز! آؤ، ہم سب مل کر بارگاہِ ایزدی میں دعا، مناجات، اور گریہ و زاری کریں، دل کھول کر عشق کے آنسو بہائیں، اُسی حالت میں سجدہ ریز ہوجائیں، ہر قسم کی رنجش کو بھول جائیں، تمام لوگوں کے حق میں نیک دعائیں کریں، اور زیادہ سے زیادہ علمی خدمت کے لئے کمربستہ ہوجائیں، کیونکہ وہ سب سے اعلیٰ اور سردار بلکہ بادشاہ خدمت ہے جو خادموں کو نہ صرف مخدوم (آقا و مالک) بنا سکتی ہے، بلکہ ان شاء اللہ فرداً بہشت میں سلطان بھی بنا سکتی ہے، آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں خوب سوچ سمجھ کر اس کی وجہ معلوم کر سکتے ہیں کہ علمی خدمت کا اتنا عظیم ثواب کیوں ہے؟
۲۰
اس دائرے میں بیمثال خدمت: یہ تو مان لیا کہ اس دنیا میں قرآنی حکمت کی مقدّس خدمت کے برابر کوئی اور خدمت ہو ہی نہیں سکتی، لیکن اب ہمارے عزیزوں کو یہ جاننا ہے کہ اس علمی خدمت کے دائرے میں جو جو خدمات داخل و شامل ہیں، ان سب میں اوّلیت اور سب سے بڑی اہمیت کس خدمت کو حاصل ہے؟ سچ سچ بتانا ہوگا کہ وہ حضراتِ مترجمین کی زرّین خدمات ہیں، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ ہر ترجمہ بڑا مفید کارنامہ ہے، تاہم عالمگیر اور ہمہ رس ترجمہ وہ ہے جو عالمی (انگریزی) زبان میں ہے، جس کی برکت سے ہمیں بہت سی کامیابیاں نصیب ہوئیں، جس کے لئے ہم سب جناب پروفیسر ڈاکٹر فقیر محمّد ہونزائی صاحب، ان کی فرشتہ خصلت بیگم محترمہ رشیدہ نور محمد ہونزائی (صمصام) اور ان کے عزیز جان نثار ساتھیوں کے شکرگزار اور ممنون ہیں۔
میں آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پروفیسر ڈاکٹر فقیر محمد ہونزائی دنیا کے سب سے بڑے ربّانی عالم ہیں، ان کے پاس اسرارِ قرآن اور رموز عرفان کا ایک بڑا خزانہ موجود ہے، وہ عابد و ساجد اور شب خیز درویش ہیں، ان کی دعائے سحر آسمان کی بلندیوں سے بھی اوپر جاتی ہے، کیونکہ وہ نور کے ایسے عاشق ہیں جو طفل شِیر خوار کی طرح معصومانہ گریہ و زاری کرتے ہیں، ان کا حسن ظن یہ ہے کہ میں استاد ہوں، لیکن استاد کوئی اور ہے، اور ہم دونوں اُسی مکتب کے شاگرد ہیں اور بہت سے حضرات بھی، ان شاء اللہ اور بھی امامِ عالی مقامؑ کے علمی خزانے پیدا ہوں گے۔
وصیتِ رسولؐ کا ایک حصّہ: معاشر النّاس: ھذا علی بن ابی طالب خلیفۃ اللہ فیکم و خلیفۃ کتابہ المنزل علیکم….. کان من الاخٰسرین۔
۲۱
اے گروہانِ مردم! یہ علی ابن ابی طالب ہے جو تمہارے باطن میں (فیکم) خدا کا خلیفہ ہے، اور اس کی کتاب (قرآن) کا خلیفہ اور نمائندہ ہے، جو تم پر نازل ہوئی ہے، اور یہ اس کا وہ دروازہ اور حجاب ہے، جس کے سوا قرآن میں (بحقیقت) کوئی داخل ہی نہیں ہوسکتا، اور یہ میرے بعد برپا ہونے والا ہے، اور تم میں میرا جانشین ہے، پس تم اس کی بات سن لو اور اس کی اطاعت کرو، جو اس کی اطاعت اور محبت کو اختیار کرے، وہ بلند مرتبہ لوگوں میں شامل ہوگا، اور عالم علوی کی طرف چڑھ جائے گا، اور جو اس کی مخالفت اور نافرمانی کرے تو وہ سب سے زیادہ خسارہ اٹھانیوالوں میں سے ہوگا۔ (کتابِ سرائر، ص۱۱۵)
دعائے نوحؑ کی حکمت: سورۂ نوح کے آخر (۷۱: ۲۶ تا ۲۸) میں ہے: اور نوحؑ نے عرض کی پروردگارا! (ان) کافروں میں سے روئے زمین پر کسی کو بسا ہوا نہ رہنے دے، کیونکہ اگر تو ان کو چھوڑ دے گا تو یہ (پھر) تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولاد بھی بس گنہگار اور کٹی کافر ہی ہوگی۔ یعنی روحانی قیامت کی کار فرمائی سے اہل زمانہ کے نمائندہ ذرّات حضرت نوح علیہ السّلام کے عالم شخصی میں اس طرح بسنے لگے کہ اب ان میں کوئی کافر نہ تھا۔
پروردگارا! مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو مومن میرے (باطنی) گھر میں داخل ہو جائے اس کو اور تمام ایماندار مردوں اور مومنات کو بخش دے، اور ظالموں کی بس تباہی کو اور زیادہ کر۔ اس میں ایک بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ بعض مومنین حقیقی ایمان کے درجۂ کمال سے اپنے پیغمبر کے باطنی اور نورانی گھر میں داخل ہوکر اہل بیت میں سے ہوجاتے ہیں، جیسے سلمان فارسی کو یہ مرتبہ حاصل ہوا تھا۔
نصیر الدّین نصیر (حبّ علی) ہونزائی
کراچی
منگل ۸۔ جمادی الثّانی ۱۴۱۷ء ۲۲ اکتوبر ۱۹۹۶ء
۲۲
بابُ الالف
۲۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
۲۴
۲۵
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱
اٰتٰکُمۡ |
تم کو دیا: اور دیا تم کو ہر چیز میں سے جو تم نے مانگی (۱۴: ۳۴) خدا سے مانگنا زبانِ قال سے بھی ہے اور زبان حال سے بھی، اور اس کا عطا کرنا فعلاً بھی ہے اور امکاناً بھی، بہرکیف اللہ نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتیں دی ہیں کہ ان کی گنتی غیر ممکن ہے۔ |
|
۲
اٰدمؑ (۱) |
ابو البشر: اَکَانَ اٰدَمُ نَبِیًّا؟ قَالَ: نَعَمۡ کَلَّمَہُ اللہُ وَ خَلَقَہٗ بِیَدِہٖ۔ آنحضرتؐ سے پوچھا گیا، کیا آدمؑ پیغمبر تھے؟ فرمایا، ہاں اللہ تعالٰی نے ان سے کلام کیا تھا اور اُن کو اپنے دست خاص سے بنایا تھا۔ |
|
۳
اٰدمؑ |
بہت سے آدموں میں سے ایک آدم: قرآنی حکمت کا حتمی فیصلہ یہی ہے کہ فرشتے کسی اور چیز سے نہیں بلکہ ایسی ارواحِ انسانی سے پیدا کئے جاتے ہیں جن کو علم و عبادت میں کافی ترقی حاصل ہوئی ہو، درین صورت کوئی بھی آدم جو بھی مسجود ملائک ہو وہ بحقیقت انسانِ اوّل ثابت نہیں ہوسکتا، ہاں وہ اپنے دور کے اعتبار سے پہلا انسان اور ابو البشر کہلاتا ہے۔ |
۲۵
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۴
اٰفاق و انفس |
عالمِ ظاہر اور عالمِ نفس: اگر اللہ کی ظاہری نشانیوں کا نام مادّی سائنس ہے تو یقیناً باطنی نشانیوں کو روحانی سائنس کہا جاسکتا ہے، کیونکہ آفاق و انفس ان میں ظہور ہونے والی آیات سب کی سب خدا ہی کی ہیں (۴۱: ۵۳)۔ |
|
۵
اٰل ابرٰھیمؑ |
ابراھیم کی اولاد: ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی ہے اور ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی (۰۴: ۵۴) آسمانی کتاب کی وراثت، تاویلی حکمت اور روحانی سلطنت اس دور میں أئمّۂ اٰلِ محمّدؑ کے سلسلۂ پاک میں ہے۔ |
|
۶
اٰیات (۱) |
نشانیاں/معجزات: آج سے تقریباً چودہ سو سال قبل قرآن پاک نے بڑی صاف و صریح زبان سے یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب اللہ تعالٰی لوگوں کو آفاق و انفس میں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کا سلسلہ شروع کرے گا، چنانچہ ہم کسی شک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی وہ نشانیاں آج مادّی سائنس اور اس کی ایجادات کی شکل میں لوگوں کے سامنے ہیں، اور یہی نشانیاں کل بحیثیتِ روحانی سائنس عالمِ شخصی میں اپنا حیرت انگیز |
۲۶
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
کام کرنے والی ہیں (۴۱: ۵۳) |
||
۷
اٰیات (۲) |
قدرتِ خدا کی نشانیاں: یہ ارشادِ مبارک سورۂ ذاریات میں ہے: وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوۡقِنِیۡنَۙ۔ وَ فِیۡٓ اَنۡفُسِكُمۡؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) اور زمین میں اہل یقین (یعنی اہل معرفت) کے لئے نشانیاں (معجزات) ہیں اور خود تم میں بھی (یہ معجزات) ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ دوسری آیت پہلی آیت کی تفسیر و تاویل بھی ہے اور عالم نفسی کی طرف حکیمانہ دعوت بھی، کیونکہ موقن یا عارف صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جو پہلے پہل اپنے آپ کو پہچانتا ہے، اور اسی خود شناسی کے اسرار میں خدا شناسی (معرفت) پنہان ہوتی ہے۔ |
|
۸
اٰیات (۳) |
امامؑ جو خدا کی تمام نشانیوں کا مجموعہ ہے: سوال: قدرت کی نشانیاں زمین کی نسبت آسمان میں بہت زیادہ بھی ہیں اور نمایان بھی، جیسے سورج، چاند، ستارے وغیرہ، پھر اس میں کیا راز ہے کہ مذکورہ آیۂ مبارکہ میں ارضی آیات کی اہمیت کا اشارہ فرمایا گیا ہے؟ جواب: اس میں یہ راز ہے کہ ہر انسان مجموعۂ آیاتِ کائنات اور نور منزّل (۰۵: ۱۵) کو پہچان لے جو اس کی ہدایت |
۲۷
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
کے لئے زمین پر آیا ہوا موجود ہے، اور وہ امامِ مبین علیہ السّلام ہے، جس کی ذاتِ پاک میں سب کچھ موجود ہے۔ |
||
۹
اٰیات (۴) |
علمی معجزات: بحوالۂ قلب قرآن یعنی سورۂ یٰسین (۳۶: ۱۲) خدائے قادر مطلق نے کمال قدرت سے اپنی عظیم و بے مثال بادشاہی کی تمام لطیف اور باطنی چیزوں کو امام مبین علیہ السّلام میں گھیر کر رکھا ہے، یہی چیزیں خلاصۂ کائنات و موجودات اور مجموعۂ آیات ہیں، پس اسی سرچشمۂ علم و حکمت اور خزانۂ اسرارِ معرفت (یعنی امامِ مبین) کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ: زمین میں اہل یقین کیلئے نشانیاں ہیں اور خود تم میں بھی (بحدِّ قوّت یہی معجزات) ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں (۵۱: ۲۱ تا ۲۲)؟ |
|
۱۰
اٰیات (۵) |
امام کی نورانی ہستی جس میں تمام آیات محدود کی گئی ہیں: حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا کہ: اَنَا اٰیَاتُ اللہِ وَ اَمِیۡنُ اللہِ۔ یعنی میں ہوں رحمتِ خدا کی آیات اور میرے پاس خدا کی علمی امانتیں ہیں۔ (کوکب درّی، بابِ سوم، منقبت ۸۰) آیات بمعنی نشانہائے قدرت یا معجزات چار مقامات پر ہیں: عالمِ علوی، |
۲۸
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
قرآن حکیم، کائنات ظاہر، اور عالمِ شخصی، لیکن بفرمودۂ قرآن (۳۶: ۱۲) ان چاروں مقامات کی جملہ آیات امام مبینؑ کی نورانیت میں گھیری ہوئی ہیں، جبکہ امامِ عالی مقامؑ کا نورِ اقدس عالم بالا ہے، جبکہ وہ قرآنِ ناطق ہے، جبکہ وہ پاک ہستی خلاصۂ کائنات اور حقیقی معنوں میں پُرنور عالم شخصی ہے۔ |
||
۱۱
اٰیٰتٌم بیّنٰتٌ |
روشن معجزات: آیۂ شریفۂ پُرحکمت از سورۂ عنکبوت (۲۹: ۴۹) بَلۡ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیۡ صُدُوۡرِ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ۔ بلکہ وہ (یعنی قرآن) روشن آیات (کا مجموعہ) ہےان لوگوں کے سینوں میں جن کو علم عطا ہوا ہے (۲۹: ۴۹) یہ حضرات جن کے مبارک سینوں میں قرآن کریم بصورتِ نورانی موجود ہوتا ہے أئمّۂ اطہار علیہم السّلام ہی ہیں (دعائم السّلام، جلد اوّل، ولایتِ اَئمّہ) |
|
۱۲
اَبَدۡ (۱) |
ھمیشہ، جمع آباد: ہر چیز کی معرفت عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس میں ہے جبکہ وہاں علم و حکمت کی کائنات خداوند تعالیٰ کے ہاتھ میں یکجا اور لپیٹی ہوئی ہے، پس یقین کرلیں کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں اَبَدۡ کا ذکر آیا ہے وہاں |
۲۹
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اسی لفظ میں ازل کا تذکرہ بھی ہے، انشاء اللہ، ہم امام زمان علیہ السّلام کی دستگیری سے اس حقیقت کو بیان کریں گے۔ |
||
۱۳
اَبَدۡ (۲) |
ھمیشہ، جمع آباد: یہ سب سے عظیم کنز اسرار یعنی حظیرۃ القدس امام مبینؑ کے نورِ جبین میں ہے، جہاں اللہ پاک نے تمام کی تمام عقلی، علمی، عرفانی اور روحانی چیزوں کو گھیر کر رکھا ہے، اور یہ نورِ اقدس برائے معرفت عارفِ کامل کی پیشانی میں طلوع ہوجاتا ہے، پس احاطۂ نورِ جبین میں ازل و ابد اور دیگر جملہ حقیقتیں جمع اور مرکوز ہیں۔ |
|
۱۴
اَبَدۡ (۳) |
ھمیشہ، جمع آباد: قرآن حکیم کے جس پُرحکمت لفظ میں ازل و ابد کے ایک ہی معنی ہیں، وہ دَھَر (۷۶: ۰۱) ہے، یعنی آپ دَھَر (زمان ناگزرندہ) کو ایک اعتبار سے ازل اور دوسرے اعتبار سے ابد کہہ سکتے ہیں، حالانکہ حقیقت ایک ہی ہے، اے نورِ عینِ من! دھر کو پہچاننا انتہائی مفید کام ہے۔ آپ قرآنِ پاک کے سات مقامات پر لفظ مفعول کی حکمت کو دیکھ لیں |
۳۰
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
کہ عالمِ علوی میں خدا کا ہر کام اور ہر وعدہ پورا ہوچکا ہے، اور جن لوگوں کے ازلی و ابدی طور پر بہشت میں ہونے کا ذکر ہے وہ بھی کسی ابتداء و انتہاء کے بغیر ہمیشہ جنّت میں ہیں، یہ ازل و ابد کی ایک عمدہ تعریف ہے۔ |
||
۱۵
اِبداع |
اختراع، ایجاد، نئی چیز نکالنا: چونکہ ہر چیز کی معرفت عالمِ شخصی ہی میں ہے، اس لئے اِبداع اور کُنۡ (ہوجا) کی معرفت بھی اسی میں پوشیدہ ہے، چنانچہ کلمۂ کُنۡ کا مفہوم ہر عالم شخصی کی زبان میں موجود ہے مگر درجۂ کمال پر ظاہر ہوجاتا ہے، کیونکہ قرآن میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اُس کا اطلاق ہر پرسنل ورلڈ پر ہوتا ہے، جبکہ ہر شخص میں ایک مکمل کائنات اور ایک لا زوال سلطنت پنہان ہے۔ |
۳۱
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۷
ابراھیمؑ |
ابراھیمؑ، امامؑ، نفسِ واحدہ: اللہ تبارک و تعالٰی اپنی قدرت کاملہ سے انسانِ کامل میں سب کو جمع کر دیتا ہے، جیسا کہ سوۂ نحل (۱۶: ۱۲۰) میں ارشاد ہے: اِنَّ اِبۡرَاھِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیۡفًا۔ بیشک ابراہیمؑ (اپنے عالمِ شخصی میں) ایک پوری امّت تھا، خدا کا فرمانبردار اور یک سو (۱۶: ۱۲۰) ایسا کامل اور مکمّل شخص نفس واحدہ کہلاتا ہے کہ وہ تمام نفوس کو اپنی ذات میں ایک کر لیتا ہے، اور یہ لوگوں پر اللہ تعالٰی کا بہت بڑا احسان ہے۔ |
|
۱۸
ابصار |
آنکھیں: ابصار سے اساس مراد ہے، کیونکہ روحانیّت کا مشاہدہ اسی سے ہوتا ہے، آپ سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۹) میں غور سے دیکھیں۔ |
|
۱۹
ابو طالبؑ |
ابو طالبؑ: وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُ بِاَنَّ دینَ مُحَمَّدٍ؛ مِنۡ خَیۡرِ اَدۡیَانِ الۡبَرِیَّۃِ دِیۡنًا۔ اور یقیناً مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمدؐ کا دین ادیانِ خلائق میں سے بہترین دین ہے (ابو طالب مومن قریش از عبد اللہ الخنیزی، ص۱۶۱)۔ |
۳۲
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
ابوا المؤمنین | مومنین کے والدین:
رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے ارشاد فرمایا: انا و انت یا علی ابوا المومنین۔ اے علی! میں اور تم مومنین کے (روحانی) ماں باپ ہیں۔ یعنی ناطق اور اساس مومنین کے روحانی والدین ہیں، پھر اساس اور امام، پھر امام اور حجّت، اور دورِ قیامت میں خود امامِ زمان ہی مومنین و مومنات کے والدین ہے۔ (المجالس المؤیّدیّۃ، المنجد الاوّل) |
|
۲۱
ابوابُ الجنّۃ (۱) |
مجموعی بہشت کے دروازے: حدیث شریف میں ہے: ابوابُ الجنّۃ الثّمانیّہ۔ (مجموعی) بہشت کے دروازے آٹھ ہیں۔ (المعجم الفھرس لِالفاظِ الحدیثِ النّبویّ، الجز الۡاوّل، ص۳۰۲)۔ چونکہ بہشت آٹھ ہیں: چھ ناطق، حضرت قائم اور خلیفۂ قائم، لہٰذا ان کے ابواب (دروازے) بھی آٹھ ہیں، یہ حقیقت دورِ کبیر کے اعتبار سے ہے، اور دورِ صغیرکے لحاظ سے آٹھ بہشت یہ ہے: چھ امام، متم اور خلیفہ، پس ان کے ابواب بھی آٹھ ہیں (حوالۂ خلیفہ: آیۂ استخلاف: ۲۴: ۵۵)۔ |
۳۳
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۲۲
ابوابُ الجنّۃ (۲) |
بہشت کے آٹھ دروازے: یہ آٹھ زندہ بہشت جن کا اوپر ذکر ہوا حاملانِ عرش بھی ہیں، جیسا کہ سورۂ حاقّہ (۶۹: ۱۷) میں ارشاد ہے: وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَھُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ۔ اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اُس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے (۶۹: ۱۷) اس آیۂ کریمہ سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ عرش (نورِ عقل= خدا کی بادشاہی) اُن آٹھ عظیم حدود پر قائم ہے جن کا ذکر ہوا، چنانچہ یہی حاملانِ عرش بھی ہیں، اور آٹھ زندہ بہشت بھی، پس یقیناً مجموعی بہشت کے آٹھ دروازے ہیں۔ |
|
۲۳
ابوابُ الجنّۃ (۳) |
آٹھ حدودِ دین، دین کے آٹھ درجات: عرش کا قیامت آٹھ درجات پر ہے: یعنی کرسی اور سات آسمان، یہ وہی حضرات ہیں جو آٹھ حاملانِ عرش بھی ہیں، اور آٹھ بہشت بھی، جن کے ابواب کو ابوابُ السّماء (آسمان کے آٹھ دروازے کہا گیا ہے، یعنی بہشت کے دروازے (۰۷: ۴۰) جیسے سورۂ اعراف میں ہے: بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور تکبر کیا نہ اُن کے لئے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہونے پائیں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں ہوکر نکل جائے (۰۷: ۴۰)۔ |
۳۴
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۲۴
ابوابُ الجنّۃ (۴) |
بہشت کے آٹھ دروازے: خدائے علیم و حکیم نے سورۂ نبا (۷۸: ۱۲) میں یہ ارشاد فرمایا ہے: وَ بَنَیۡنَا فَوۡقَکُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا۔ اور ہم نے تمہارے اوپر سات سخت (آسمان) بنائے۔ شداد: سخت، زبردست، مضبوط، شدید کی جمع۔ ہمارے نزدیک یہ روحانی آسمان ہیں جو روحِ قدسی اور عقل کامل کے ساتھ ہونے کی وجہ سے سات بہشت بھی ہیں اور جب مومن سالک کے عالمِ شخصی میں بہشت بنائی جاتی ہے تو اُسی کے ساتھ آٹھ بہشت ہوجاتی ہیں۔ |
|
۲۵
ابوابُ الجنّۃ (۵) |
ابوابِ بہشت: حضرتِ آدم، حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ، حضرتِ عیسیٰ، حضرتِ محمّد اور حضرتِ قائم علیہم السّلام سات روحانی آسمان اور سات بہشت ہیں، آسمان اور بہشت کے معنی میں یہ حضرات تمام لوگوں سے بالاتر ہیں، اس لئے ان کی معرفت کا روحانی سفر اگرچہ بڑا سخت اور زبردست ہے لیکن ناممکن نہیں، چنانچہ جب مومن سالک کو گنجِ معرفت (کنزِ مخفی) حاصل ہوجاتا ہے تو اسی کے ساتھ اسی کے عالم شخصی میں جنّۃ الاعمال تیار ہوجاتی ہے، پس اس اعتبار سے بہشت آٹھ ہیں، اور اُن کے دروازے بھی آٹھ ہیں۔ |
۳۵
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۲۶
ابوابُ الجنّۃ (۶) |
بہشت کے آٹھ دروازے: اے نورِ عینِ من! آپ سورۂ رحمٰن (۵۵: ۳۳) میں بغور دیکھ لیں، یہاں روحانی آسمانوں اور زمین کے سفر کا ذکر ہے، یہ کام اگرچہ انتہائی مشکل ہے، لیکن نا ممکن نہیں، آپ “سلطان” کے ذریعے سے یہ کام بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں، سلطان کے معنی ہیں: دلیل، حجّت، زور، غلبہ، اقتدار، بادشاہ، یعنی امام، اور امامِ عالی مقام علیہ السّلام میں تمام مفید معانی جمع ہوجاتے ہیں، اعنی امامؑ کی نورانی معرفت ہی میں سب کچھ موجود ہے۔
|
|
۲۷
اَجِنۡحَۃ |
پر، بازو، واحد جَنَاح: سورۂ فاطر کے آغاز میں دیکھ لیں: تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رسان مقرر کرنے والا ہے، (ایسے فرشتے) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو ہیں (۳۵: ۰۱) یہاں یہ جاننا از حد ضروری ہے کہ فرشتوں کے بازو ایسے نہیں ہوتے جیسے پرندوں کے ہوتے ہیں، بلکہ فرشتوں کی پرواز ذکرِ الٰہی سے ہوا کرتی ہے، لہٰذا ذکر کے دو اسم دو پر کہلاتے ہیں، تین اسم تین پر اور چار اسم چار پر (بازو) ہیں، لیکن یاد رہے کہ فرشتوں کا ذکر خودکار قسم کا ہوتا ہے، یعنی ان کے دل و جان میں اسمِ اعظم خود بخود ذکر کرتا رہتا ہے۔ |
۳۶
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۲۸
اَحۡسَنَ |
حسین بنایا: ترجمۂ آیۂ شریفہ: خدا نے تمہاری صورت بنا دی پھر اس کو حسین و جمیل بنا دیا اور تم کو طیّبات (خوشبوؤں) سے رزق دیا، یعنی اس نے تم کو پہلے تو انسانی شکل میں پیدا کیا، پھر وہ تم کو پریوں کی صورت میں پیدا کرے گا، جو حسین و جمیل ہیں، اور تمہاری غذا خوشبوؤں سے ہوگی (۴۰: ۶۴) |
|
۲۹
اَحۡسَنُ (۱) |
بہت اچھا: اے نورِ عینِ من! یاد رکھو کہ “احسن” مضامینِ قرآن میں سے ایک عالیشان مضمون ہے، جن حضرات کو بحقیقت اللہ تعالٰی کی کتاب سے عشق ہو، انہیں ایسے مضامین میں غور و فکر کرنا ضروری ہے، یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ قرآنِ پاک کا ہر رکوع ایک جداگانہ عنوان رکھتا ہے، چنانچہ سورۂ زمر کے رکوعِ سوم کے آغاز میں ذکرِ الٰہی سے متعلق بیان آیا ہے (۳۹: ۲۲ تا ۲۳) جس کا مفہوم یہ ہے کہ خدا محویّت و فنائیت والے ذاکرین کے سینے کو کھول دیتا ہے اور اس کو نورِ علم و حکمت کا مسکن بناتا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ قساوت قلبی کی وجہ سے ذکرِ الٰہی کے بے شمار فوائد سے محروم ہیں، ان کے لئے بربادی ہے۔ |
۳۷
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۳۰
اَحۡسَنُ (۲) |
بہت اچھا: اس رکوع کی دوسری آیت (۳۹: ۲۳) میں ظاہراً قرآنِ پاک اور باطناً اسمِ اعظم کی تعریف ہو رہی ہے، کیونکہ خاصانِ خدا اسمِ اعظم ہی سے اللہ کا ذکر کیا کرتے ہیں، اسمِ اعظم جو احسن الحدیث ہے وہ خدا کی طرف سے ہے، وہ ایک ایسی پُر از تاویل کتاب ہے جو بار بار پڑھی جاتی ہے، جس کے باقاعدہ ذکر سے ان لوگوں کے بدن کانپتے ہیں جو خوفِ خدا رکھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہوکر اللہ کے معجزانہ ذکر کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ |
|
۳۱
اَحۡسَنُ (۳) |
بہت اچھا: اس میں بڑی عجیب بات تو یہ ہے کہ ذکرِ اسمِ اعظم کے زیر اثر بدن کانپتے ہیں، یعنی روحانی زلزلے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اذکار میں سے ایک ذکر کا نام “ذکرِ بدنی” ہے، تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ بدن میں کیا ہے؟ خلیات، پھر سوال ہے کہ خلیات میں کیا چیز ہے؟ روحیں جو بے شمار ہیں، آخری سوال ہے کہ یہ روحیں کن لوگوں کی ہیں؟ اہل زمین کی، جن میں آپ اور ہم ہیں۔ |
۳۸
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۳۲
اَحۡصٰی |
اُس نے گِن لیا: …. وَ اَحۡصٰی کُلَّ شَیۡءٍ عَدَداً۔ اور اس نے ہر چیز ایک خاص عدد میں گن کر رکھی ہے۔ یعنی تمام چیزوں کو عددِ واحد میں سما دیا ہے (۷۲: ۲۸) |
|
۳۳
اَحۡصٰھُمۡ (۱) |
اُس نے ان کو گھیر لیا ھے: اس انتہائی سرِّ اَسرار کے لئے عشق و محبت سے سورۂ مریم کے آخر (۱۹: ۹۳ تا ۹۵) میں دیکھ لیں کہ حق تعالٰی مقامِ عقل پر تمام خلائقِ ارض و سما کو گھیر کر عددِ واحد کی سالمیت و وحدت عطا کرتا ہے اور سب کو فرد واحد بنا دیتا ہے تاکہ اللہ جلّ جلالہٗ کی وحدانیت کی طرف رجوع ہو۔ |
|
۳۴
اَحۡصٰھُمۡ (۲) |
اُس نے ان کو گھیر لیا ہے: سورۂ نبا (۷۸: ۲۹) میں ارشاد ہے: وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ کِتٰبًا۔ اور ہم نے تمام چیزوں کو بصورتِ کتاب گھیر کر رکھا ہے۔ عقول و نفوس کے سوا کُلَّ شَیۡءٍ کے معنی منطقی نہیں ہوسکتے ہیں، اور نہ ہی کوئی خاموش کتاب تمام عقلی و روحانی (یعنی متحرک) چیزوں کی حامل ہوسکتی ہے، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ یہ کتاب ناطق یعنی امامِ مبین علیہ السّلام کی تعریف ہے۔ |
۳۹
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۳۵
اَذِّنۡ |
تو پکار: وَ اَذِّنۡ فِی النّاسِ بِالۡحَجِّ (۲۲: ۲۷) اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا روحانی انقلاب (ذاتی قیامت) تمام لوگوں کے لئے حجِ اکبر تھا، یہاں “ناس” دنیا بھر کے لوگوں کے لئے آیا ہے، اللہ کے حکم سے حضرتِ ابراہیمؑ کے عالمِ شخصی کی روحانی قوّتوں نے اپنا اپنا کام کردیا اور قوّتِ اسرافیلیہ نے دنیا بھر کے لوگوں میں سے نمائندہ ذرّات کو بلا لیا (۲۲: ۲۷)۔ |
|
۳۶
اَرَآئِک (۱) |
بہت سے تخت، اَرِیۡکَۃ کی جمع: سورۂ یٰسین میں ارشادِ الٰہی ہے: وہ بھی اور اُن کی بیویاں بھی سایوں میں (شاہی) تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے (۳۶: ۵۶) ان آراستہ و پیراستہ تختوں سے اجسام لطیف مراد ہیں جو روحِ قدسی اور عقلِ کامل کی لا زوال دولت سے مالامال ہیں، وہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے روحانی تختِ شاہی کی طرح پرواز کرسکتے ہیں۔ شاہی تختوں پر تکیے لگانے کے تین معنی ہیں: (الف:) کائناتی پروازوں کے لئے جسمِ لطیف پر اعتماد رکھنا (ب:) روحانی نعمتوں کے لئے روحِ قدسی |
۴۰
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
پر بھروسہ رکھنا (ج:) عقلانی نعمتوں کے لئے عقلِ کامل سے رجوع کرنا۔ |
||
۳۷
اَرآئِک |
تخت ھائے شاہی: قرآن حکیم کے پانچ مقامات پر اَرَآئِک کا ذکر آیا ہے، چونکہ اہل بہشت کے لئے سب سے بڑی نعمت ملکِ کبیر (عظیم الشّان سلطنت۔ ۷۸: ۲۰) ہے، لِھٰذا اَرَآئِک کا ترجمہ “تخت ہائے شاہی” کرنا درست ہے، اور بھی کئی آیاتِ مبارکہ ہیں، جن میں اس امرِ واقعی کی شہادت موجود ہے کہ بہشت میں درجۂ اوّل کی روحوں کے لئے عظیم بادشاہی ہے۔ |
|
۳۸
اربعین (۱) |
۴۰
چالیس، چلّہ، اعتکاف: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۴۲) میں ہے ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ سے تیس شبوں کا وعدہ کیا تھا اور ایک عشرہ اور ملا کر اس کو پورا کیا، پس اس کے پروردگار کی مقررہ مدّت چالیس شب کی پوری ہوئی (۰۷: ۱۴۲) اگرچہ موسیٰؑ نے چالیس دن رات خصوصی عبادت کی تھی، لیکن راتوں کا ذکر ہوا، جس میں کئی حکمتیں ہوسکتی ہیں، اور ایک حکمت بفرمودۂ قرآن یہ کہ نفس کی پامالی اور گفتگو کی عمدگی کے لئے شب خیزی زبردست مؤثر علاج ہے (۷۳: ۰۶) مذکورہ مدّت کی عبادت چِلّہ بھی ہے اور عبادت بھی۔ |
۴۱
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۳۹
اربعین (۲) |
چالیس، چہل روزہ عبادت، چلّہ، اعتکاف: پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا ارشاد ہے: من أخلص العبادۃ للہ اربعین یومًا فتح اللہ قلبہٗ و شرح صدرہ، و أطلق لسانہ بالحکمۃ و لو کان أعجمیًّا غلفًا۔ جو (مومن) شخص چالیس دن اللہ تعالٰی کی خالص عبادت کرے (جیسا کہ حق ہے) خدا اس کے دل کو کھول دیتا ہے، اور اس کے سینے کو کشادہ کرتا ہے، اور اس کی زبان کو حکمت بیان کرنے کی قوّت عطا کرتا ہے، اگرچہ وہ بولنے اور سمجھنے میں سخت کمزور ہو (لعل و گوہر، ص۱۶، بحوالۂ اخوان الصّفاء)۔ |
|
۴۰
اربعین (۳) |
چالیس، چالیس صبح: یہ حدیث قدسی حضرتِ آدم علیہ السّلام کی باطنی اور روحانی تخلیق کے بارے میں ہے: خَمّرۡتُ طِیۡنَۃَ آدَمَ بِیَدَیَّ اَرۡبَعِیۡنَ صَبَاحًا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چالیس صبحوں میں قالبِ آدم کیلئے گارا بنایا۔ اس سے آدمِ صفی اللہ کا وہ خاص اعتکاف اور چلّہ مراد ہے، جس مین وہ عقلی طور پر پیدا ہوئے تھے، کیونکہ انسانِ کامل کی باطنی پیدائش دو بار ہوتی ہے، اوّل مقام روح پر، دوم مرتبۂ عقل پر۔ |
۴۲
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۴۱
اربعین حدّاً |
چالیس حدودِ دین: جب حضورِ انور کی عمر کا چالیسواں سال مکمل ہوگیا تب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی، جیسا کہ اس کا اشارہ سورۂ احقاب (۴۶: ۱۵) میں موجود ہے، اس کی بہت بڑی حکمت کتاب اسرار النّطقاء میں اس طرح تحریر ہے: ناطقِ اوّل، وصی، اور چھ أئمّۂ دور، یہ آٹھ ہوگئے، یہی قانون ہر ناطق کے لئے رہا ہے، پس حضرت آدمؑ سے لیکر سیّد الانبیاء کے ظہور تک پانچ ناطقوں کے کل ایسے عظیم حدود چالیس ہوئے تھے، یہی وجہ ہے کہ حضرتِ محمّد مصطفٰےؐ کو چالیس برس کے بعد نبوّت عطا ہوئی، جبکہ آپؐ کی تشریف آوری کی غرض سے چالیس حدودِ دین نے کام کیا تھا۔ |
|
۴۲
اَرۡض |
زمین، خدا کی بے شمار زمینیں ہیں: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۲۸) میں ہے: موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا سے مدد مانگو اور صبر سے کام لو، زمین تو خدا کی ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے، اس کا وارث بناتا ہے اور اچھا انجام پرہیزگاروں کے لئے مخصوص ہے۔ زمین صرف یہی نہیں جس پر آج انسان بس رہا ہے، بلکہ بہشت کی انتہائی وسیع زمین عوالم شخصی، کائناتِ ظاہر، اور کائناتِ باطن میں پھیلی ہوئی ہے، اسی وجہ سے قرآنِ حکیم میں خدا کی بے پایان زمین کی تعریف آئی ہے۔ (۲۹: ۵۶؛ ۳۹: ۱۰) |
۴۳
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۴۳
ارض المقدّسۃ (۱) |
پاکیزہ زمین: موسٰی نے کہا: اے میری قوم! اس پاک زمین میں داخل ہوجاؤ، جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دی ہے (۰۵: ۲۱) اس مقدس زمین سے عالم شخصی مراد ہے، جس کی فتح ہادیٔ زمانؑ کی کامل اطاعت اور باطنی جہاد سے نصیب ہوجاتی ہے۔ |
|
۴۴
ارض المقدّسۃ (۲) |
پاکیزہ زمین: نور باطن اور عالم شخصی کے مشاہدات میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی پاک معرفت کے انمول خزانے موجود ہیں، آپ قرآن پاک کے ان پُرحکمت کلمات میں خوب غور کریں: اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُلُوۡکًا (۰۵: ۲۰) |
|
۴۵
ارض المقدّسۃ (۳) |
پاکیزہ زمین: یہ سرِّ عظیم کتنا عجیب و غریب ہے کہ عالمِ شخصی ہی میں تمام پیغمبروں اور اماموں کا ظہور ہوتا ہے، اسی وجہ سے اس کا نام “مقدّس زمین” ہوا ہے، جس میں اہل ایمان کے لئے بے شمار برکتیں ہیں، اور یہیں سے حقیقی مومنین ملوک و سلاطین ہوجاتے ہیں (۰۵: ۲۰)۔ |
۴۴
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۴۶
ارض المقدّسۃ (۴) |
پاکیزہ زمین: امام برحق علیہ السّلام کا ایک قرآنی نام مَلِکۡ ہے، جس کی جمع ملوک (۰۵: ۲۰) ہے، اور جو خوش نصیب مومنین فرمانبرداری اور عشق و محبت سے فنا فی الامام ہوجاتے ہیں، وہ بھی روحانیت اور بہشت کے بادشاہ ہوجاتے ہیں (۰۵: ۲۰) |
|
۴۷
ارض المقدّسۃ (۵) |
پاکیزہ زمین: ارشادِ نبوّی ہے: یا بنی عبد المطلب، اطیعونی تکونوا ملوک الارض و حکّامھا۔ اے اولادِ عبد المطلب! میری فرمانبرداری کرو تاکہ زمین کے بادشاہ اور حاکم ہوجاؤ گے (دعائم الاسلام، جلد اوّل عربی، ص۱۵) اس حدیث کا مطلب روشن ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی اطاعت کرنے والوں کو لا زوال سلطنت عالمِ شخصی اور بہشت میں حاصل ہوسکتی ہے۔ |
|
۴۸
ارواح (۱) |
روحیں، ھر گونہ شھیدوں کی روحیں: صحیح مسلم، جلد پنجم، کتاب الامارۃ میں ارواحِ شُھَدَآء کے بارے میں ارشاد ہے: حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں قندیلوں کے اندر ہیں جو عرش مبارک سے لٹک رہی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جنّت میں چرتی پھرتی ہیں پھر |
۴۵
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اپنی قندیلوں میں آ رہتی ہیں۔ یہ حدیث شریف گویا مفتاحِ ابوابِ حکمت ہے کہ یہ بہت بڑی سعادت نہ صرف ظاہری شہیدوں کو حاصل ہے، بلکہ اس میں باطنی شہداء بھی شامل ہیں، نیز ہر مومن کو شہید کا درجہ حاصل ہے، پس یہ تمام مومنین و مومنات کے لئے اللہ کا خاص انعام ہے کہ ان کو بوقتِ شہادت یا شہادت جیسی موت کے بعد جسم لطیف ملتا ہے، جس کا مخفی نام پرند ہے۔ |
||
۴۹
ارواح (۲) |
روحیں، جانیں، نفوس، لطیف ھستیاں: طُیر (پرند) جسم لطیف، فرشتہ، مومن جِنّ (پری)، جامۂ جنّت، جثّۂ ابداعیہ ، کوکبی بدن، جسمِ فلکی وغیرہ یہ سب نام ایک ہی چیز کے ہیں، اور وہ ہے لطیف انسان، جیسا کہ سورۂ یٰسین کا یہ ارشاد ہے: کیا وہ (خدا) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں کہ ان جیسی ہستیاں (اجسامِ لطیف) پیدا کر سکے؟ (۳۶: ۸۱) |
|
۵۰
ارواح (۳) |
جانیں، روح اپنے اصل مقام پر، رشتۂ روح کا بالائی سرا: وہ پُرنور اور حکمت آگین قندیلیں جو عرش اعظم سے لٹک رہی ہیں نورِ عقل کی علمی و عرفانی ظہورات و تجلّیات ہیں جو بہشت کی سب سے |
۴۶
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اعلٰی نعمتیں ہیں، جن کے ساتھ اہلِ ایمان کا ازلی و ابدی تعلق اور لگاؤ ہے۔ حضرتِ امامِ اقدس و اطہر صلوٰت اللہ علیہ و سلامہ کے پاک فرمان کا مفہوم ہے کہ ہر مومن اپنے اصل مقام کی طرف دیکھے، پس اے عزیزان! آپ سب ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ ربّ العزّت چشمِ بصیرت عطا فرمائے! آمین!! |
||
۵۱
اَرۡوَاح (۴) |
روحیں: حدیث شریف میں ہے: اَلۡاَرۡوَاحُ جُنُوۡدٌ مُجَنَّدَۃٌ۔ روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں تھیں (اور ہیں) یہ ارشادِ نبوّی حدیث کی کتابوں میں ہے، اور لغات الحدیث کتاب “ج” میں بھی ہے، جو آیۂ قرآنِ پاک: وَ لِلّٰہِ جُنُوۡدُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (۴۸: ۰۴) کی ایک تفسیر ہے، باطن اور روحانیّت میں جہاٖں جنگ، قیامت اور دعوتِ حق ہے وہاں لشکرِ ارواح اور ان کا سردار ہیں۔ |
|
۵۲
اَرۡوَاح (۵) |
روحیں، جانیں: اَرۡوَاحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ فِیۡ رَوۡضَۃٍ کَھَیۡأَۃِ الۡاَجۡسَادِ فِیۡ الۡجَنَّۃِ۔ مومنوں کی روحیں بہشت کے ایک چمن میں اپنے اپنے جسم کی شکلوں میں رہتی ہیں۔ (لغات الحدیث، کتاب “ر”) بہشت میں روح نوجوان جسم کی صورت میں ہوتی ہے مگر حسن و جمال میں بے مثال۔ |
۴۷
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۵۳
اَرۡوَاح (۶) |
جانیں، بہشتی لباس جو عقل و جان کے ساتھ ہیں: جب خدا کے فضل و کرم سے مومنین و مومنات بہشت میں داخل ہوجائیں گے تو وہاں ان کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوگا کہ ان کی لطیف ہستی کی عقل و جان سے آراستہ و پیراستہ کاپیاں بہت پہلے ہی سے بہشت میں موجود ہیں، یہ زندہ اور گوئندہ کاپیاں بہشتی لباس ہیں، کیونکہ جنّت کی ہر چیز کی اساسی خوبی یہ ہے کہ وہ حیاتِ طیّبہ اور عقلِ کامل رکھتی ہے، اس لئے بولتی ہے اور علم و حکمت کے جواہر بکھیرتی رہتی ہے۔
|
|
۵۴
اَرۡوَاح (۷) |
مجموعی روح، جان، شخصِ کامل: یہ پُرحکمت ارشاد سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۴) میں ہے: اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے، اور اصل زندگی کا گھر تو دارِ آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے۔ اس آیۂ کریمہ میں ایک خاص لفظ ہے: اَلۡحَیَوَانُ (زندگی) حکیم پیر ناصر خسروق س نے اس کو اَلۡحَیۡوَانُ (زندہ) پڑھا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشت حیوانِ ناطقِ کامل کی صورت میں ہے، اور وہ انسانِ کامل ہی ہے۔ (ملاحظہ ہو: وجہِ دین، گفتارِ چہارم تا آخر)۔ |
۴۸
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۵۵
اریکۃ |
آراستہ و مزیّن تخت: اریکۃ واحد ہے (جمع ارائک) ترجمۂ آیۂ کریمہ: وہ اپنی بیویوں کے ساتھ چھاؤں میں تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوئے ہیں (۳۶: ۵۶) بہشت کا کوئی تخت عقل و جان کے بغیر نہیں، پس ارآئک (بہت سے تخت) اجسام فلکی ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے آپ میں ایک لطیف عالم شخصی ہے۔ |
|
۵۶
اُزۡلِفَتۡ (۱) |
وہ نزدیک لائی گئی، قریب کی گئی: اے عزیزانِ من! قرآنی ارشاد کے مطابق بہشت کے طول و عرض کی مثال کائنات ہے، لیکن جہاں انفرادی قیامت برپا ہوئی ہو وہاں عالم شخصی میں بہشت نزدیک لائی جاتی ہے، جیسے سورۂ قٓ (۵۰: ۳۱) میں ہے: وَاُزۡلِفَتِ الۡجَنَّۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ غَیۡرَ بَعِیۡدٍ۔ اور جنّت پرہیزگاروں کے نزدیک لائی جائے گی کہ کچھ دور نہ رہے گی۔ یعنی حقیقی بہشت عقلِ کلّ اور نفس کلّ میں ہے جن کے ساتھ عالم شخصی کا رابطہ ہوجاتا ہے، جبکہ انفرادی قیامت قائم ہوجاتی ہے۔ |
|
۵۷
اُزۡلِفَتۡ (۲) |
وہ نزدیک لائی گئی، قریب کی گئی: جب بہشت نزدیک لائی جاتی ہے تو اس کی مکانی اور زمانی مسافت |
۴۹
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
ختم ہوجاتی ہے، وسیع و عریض کائنات اور اس کی گردش سے پیدا شدہ بے پایان زمانہ محدود ہوجاتا ہے، جس میں لازماً ماضی اور مستقبل کو حال میں شامل ہوجانا پڑتا ہے، ایسے میں انبیاء علیہم السّلام کے تمام معجزات بھی نزدیک آتے ہوں گے، اب آپ ہی بتائیں کہ بہشت میں کس نعمت کی کمی ہوگی؟ اہل جنّت میں سے بعض سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے معجزۂ معراج کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں، یہ بیمثال نعمت ان کے لئے ممکن ہے یا نہیں؟ |
||
۵۸
ازواج |
جوڑے: ذاتِ سبحان کے سوا کوئی چیز طاق نہیں جفت ہے یعنی ساری اشیاء کے جوڑے جوڑے ہیں، پس انسان اپنے آپ میں دوئی رکھتا ہے کہ وہ بہشت میں بھی ہے اور اس سے باہر بھی ہے (۳۶: ۳۶؛ ۵۵: ۵۲؛ ۱۱: ۴۰؛ ۵۱: ۴۹) |
|
۵۹
اَزۡوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ |
پاک کردہ بیبیاں: مُطَھَّرَۃ (پاک کی ہوئی) تطہیر سے اسمِ مفعول ہے، یاد رہے کہ بہشت کی تطہیر تین طرح کی ہوتی ہے: جسمِ کثیف کی جگہ جسمِ لطیف کا ہونا، نفسِ مطمئنّہ اور عقلِ کامل کی برکتیں، غرض جنّت |
۵۰
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
میں مرد و زن سب کے سب پاک ہوتے ہیں (۰۲: ۲۵؛ ۰۳: ۱۵؛ ۰۴: ۵۷) |
||
۶۰
اَسۡلَمَ (۱) |
اُس نے حوالہ کیا، وہ فرمانبردار ہوا: اسلام: اسلام کے اصل معنی ہیں: “اپنے آپ کو کسی کے حوالہ کردینا” مذہبِ اسلام کو اس لئے اسلام کہتے ہیں کہ اس کو قبول کرنے والا اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کر دیتا ہے، اور اس کے حکموں کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے، گویا اسلام خداوندِ قدّوس کی فرمانبرداری کا نام ہوا (قاموس القرآن، ص۵۶) اَسۡلَمَ وَجۡھَہٗ لِلّٰہِ (۰۴: ۱۲۵) اس نے اپنا (روحانی) چہرہ خدا کے لئے حوالہ کر دیا، یقیناً یہ عمل فنائیت اور یک حقیقت کے معنی میں ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: |
|
۶۱
اَسۡلَمَ (۲) |
اُس نے حوالہ کیا، وہ فرمانبردار ھوا: اور اس شخص سے دین میں بہتر کون ہوگا جس نے اپنا چہرۂ جان خدا کے حوالہ کر دیا ہے اور نیکوکار بھی ہے اور ابراہیمؑ کے طریقہ پر چلتا ہے جو باطل سے کترا کے چلتے تھے اور خدا نے ابراہیمؑ کو اپنا خالص دوست بنا لیا (۰۴: ۱۲۵) پس دینِ اسلام کا سب سے بڑا راز چہرۂ جان خدا کے لئے حوالہ کر دینے میں پوشیدہ ہے، جس کی مثال فنا فی اللہ و بقاء باللہ ہے یا یک حقیقت ہے، مثلًا خدا نے حضرت آدم کو اپنی رحمانی |
۵۱
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
صورت پر پیدا کیا، یہ صورت رحمان کی تھی، جو آدمؑ کو بھی عطا ہوئی، آدمؑ نے اپنا یہ چہرۂ جان (صورتِ رحمان) خدا کے لئے حوالہ کر دیا، یعنی اصل سے واصل ہوگیا اور ہر شخص کے لئے یہی دینِ اسلام ہے۔ |
||
۶۲
اَسۡلَمَ (۳) |
اُس نے حوالہ کیا، وہ فرمانبردار ہوا: سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں بجز اُس کے چہرہ (صورتِ رحمان) کے (۲۸: ۸۸) یعنی جب کسی عارف کو آخری درجے کا دیدار ہوتا ہے تو وہ صورتِ رحمان ہی ہوتی ہے، جس میں ہر عارف فنا ہوکر زندۂ جاوید ہوجاتا ہے اور یہی سعادت دوسرے الفاظ میں فنا فی اللہ و بقاء باللہ کہلاتی ہے، یہی ہے چہرۂ جان خدا کے حوالہ کر دینا، اور اس کے عوض میں صورتِ رحمان کا گنجِ ازل حاصل کرنا۔ |
|
۶۳
اسمِ اٰدم |
آدم کا نام: آدم کا خاص نام تخوم تھا، تخوم بن بجلاح بن قوّامہ بن ورقۃ الرّویادی (سرائر، ص۳۱) |
|
۶۴
اسمِ اعظم |
اللہ تعالٰی کا سب سے بڑا نام: حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا کہ اللہ نے ایک نام چھپا |
۵۲
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
رکھا ہے یعنی اسمِ اعظم، اور اللہ کے تین سو ساٹھ اسماء ہیں (لغات الحدیث، جلدِ دوم، کتاب السّین، ص۱۷۵) اس سرِّ عظیم کا لفظی پہلو “الحیّ القیّوم” ہے (۰۲: ۲۵۵؛ ۰۳: ۰۲) اور شخصی پہلو ہادیٔ برحق، یعنی پیغمبرؐ اور امامِ زمانؑ (دیکھو کتاب وجہِ دین، گفتار چہار دہم)۔ |
||
۶۵
اسمآء (۱) |
اسم کی جمع، خدا کے نام: ارشادِ نبوّی ہے: اِنَّ اللہ تِسۡعَۃ و تِسعین اِسمًا من احصاھا دخل الجنّۃ۔ خداوندِ عالم کے ننانوے اسماء ہیں جو شخص ان کی تعداد کو حفظ کرے اور پڑھے وہ جنّت میں داخل ہو جائے گا (کتابِ سرائر، ص۶۹)۔ اس کی تاویل کے بغیر چارہ نہیں، وہ یہ ہے کہ جو شخص یہ جانتا ہو کہ خدا کے اسمِ اعظم میں دوسرے تمام اسماء محدود اور گھیرے ہوئے ہیں، اور وہ اسمِ اکبر امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہے، تو ایسے دانشمند مومن نے گویا اللہ کے ۹۹ ناموں کا اِحصا کیا، پس وہ بہشت میں داخل ہوجائے گا۔ |
|
۶۶
اسمآء (۲) |
اسم کی جمع، بہت سے نام، خدا کے مبارک نام: حضرتِ آدم علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّھَا۔ اور خدا نے اپنے سب بزرگ نام آدم کو سکھا |
۵۳
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
دئیے (۰۲: ۳۱) حضرتِ امامِ اقدس صلوات اللہ علیہ کا مبارک وجود ربّ العزّت کا کلیدی اور کلّ صفاتِ عالیہ سے آراستہ اسمِ اکبر و اسمِ اعظم ہے، جس کا حکیمانہ ذکر قرآنِ پاک کے تین مقام پر موجود ہے، پس حضرتِ آدمؑ کو امامِ زمانؑ نے اپنا نمائندہ اسمِ اعظم سکھایا، جس میں تمام اسماء الحسنٰی پوشیدہ تھے۔ |
||
۶۷
اُسۡوَۃٌ |
نمونہ جس کی پیروی کی جائے: جس سے تسلّی پائی جائے، ترجمۂ آیۂ مبارکہ: تم لوگوں کے لئے ابراہیمؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے (۶۰: ۰۴) اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ ہر مومنِ سالک ہادیٔ برحق کے پیچھے پیچھے راہِ باطن کی منزلِ آخرین تک جا سکتا ہے، اور وہ یقیناً معراجی دیدار ہے، آنحضرتؐ کے اُسوۂ حسنہ سے متعلق آیۂ کریمہ کو بھی زیادہ غور سے پڑھیں (۳۳: ۲۱)۔ |
|
۶۸
اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ |
بھترین نمونۂ عمل: سورۂ احزاب (۳۳: ۲۱) میں ہے: در حقیقت تم لوگوں کے لئے خدا کے رسول میں ایک بہترین نمونۂ عمل ہے، ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرے۔ اس کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ رسولِ پاکؐ کی پیروی معراج پر جاکر ہی مکمل ہوجاتی ہے، |
۵۴
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اس لئے اہل معرفت کے لئے خصوصی خوشخبری ہے۔ |
||
۶۹
اَشَدُّ |
بہت سخت، نہایت سخت: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۶۵) میں ایسے مومنین کی تعریف ہے، جو خدا کے ساتھ نہایت سخت و قوّی محبت رکھتے ہیں، (اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ) در اصل ایسے دیندار خداوند عالم کے عاشق ہوتے ہیں، اسی سورہ (۰۲: ۲۰۰) میں اہل ایمان کو یہ حکم ہوا ہے کہ وہ خدا کو اس طرح یاد کریں جیسے اپنے آبا و اجداد کو یاد کرتے ہیں بلکہ یہ ذکر بڑی شدّت سے ہونا چاہئے (اَوۡ اَشَدُّ ذِکۡرًا)۔ اس نتیجہ خیز اور انتہائی مفید عمل کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں، اُن میں سے بڑا مؤثر طریقہ گریہ و زاری ہے، جو نفسِ امّارہ کو آسانی سے پگھلا دیتی ہے، پھر ذکرِ الٰہی اور عشقِ سماوی کا موقع کیوں نہ ہو۔ |
|
۷۰
اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ |
خدا کے لئے سب سے زیادہ محبت: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ اور جو ایمان لائے ہیں وہ تو خدا ہی کے سب سے زیادہ دوستدار ہیں۔ (۰۲: ۱۶۵) اسی شدید محبت کا دوسرا نام عشقِ الٰہی ہے۔ |
۵۵
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۷۱
اشرار |
برے لوگ: سورۂ صٓ (۳۸: ۶۲ تا ۶۳) میں ایک حکمت آگین ارشاد ہے: اور (اہلِ دوزخ) کہیں گے کہ کیا بات ہے ہم ان لوگوں کو (دوزخ میں) نہیں دیکھتے جن کو ہم برے لوگوں میں شمار کرتے تھے۔۔۔۔۔، ان لوگوں کی کتنی بڑی سعادت مندی ہے، جو دنیا میں خواہ مخواہ برے لوگوں میں شمار ہوجائیں، مگر وہ حقیقت میں اچھے ہوں، اس لئے بہشت مین داخل ہوجائیں، اور دوزخ میں ان کا نام و نشان نہ ملے (کتاب وجہِ دین، گفتار/کلام۲ میں دیکھیں)۔ |
|
۷۲
اصحاب الکھف (۱) |
غار والے: عالم شخصی کا روحانی معجزہ، جس میں سات بڑے ادوار اور سات چھوٹے ادوار کی سمیٹی ہوئی روحانیت و معرفت موجود ہے (۱۸: ۰۹) |
|
۷۳
اصحاب الکھف |
غار والے: اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمام چیزیں امامِ مبین میں گھیر کر رکھی ہیں، اسی طرح وہ مہربان عالمِ شخصی میں اس کا تجدُّد فرماتا ہے، پس اصحابِ کہف کی تاویلی حکمت اس کلّیہ سے الگ نہیں۔ |
۵۶
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۷۴
اِصۡطَفٰی (۱) |
اُس نے برگزیدہ کیا، اُس نے چُن لیا: بے شک خدا نے آدمؑ اور نوحؑ اور خاندانِ ابراہیمؑ اور خاندانِ عمران کو سارے جہان سے برگزیدہ کیا ہے (۰۳: ۳۳) خاندانِ ابراہیم کا سلسلہ محمّد و أئمّۂ آلِ محمّدؐ کے توسط سے جاری ہے۔ |
|
۷۵
اِصۡطَفٰی (۲) |
اُس نے چُن لیا، اُس نے پسند کر لیا: یہ پُرحکمت تذکرہ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳ تا ۳۴) میں ہے: اِنَّ اللہَ اصۡطَفٰٓی اٰدَمَ۔ بیشک خدا نے منتخب فرمایا ہے آدمؑ کو۔ یعنی اہل زمانہ میں سے نبوّت و امامت کے لئے آدمؑ کا انتخاب ہوا۔ وَ نُوۡحًا۔ اور نوحؑ کو (منتخب فرمایا) وَ اٰلَ اِبۡرَاھِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرَانَ۔ اور آل ابراہیمِؑ کو اور آلِ عمران کو۔ عَلَی الۡعَالَمِیۡنَ۔ اہل جہان پر یا عوالم شخصی پر (منتخب فرمایا) دُرِّیَّۃً بَعۡضُھَا مِنۡ بَعۡضٍ۔ یہ ایک دوسرے کے سلسلۂ ذرّیّت و نسب ہیں۔ |
|
۷۶
اِطَاعَۃ |
اِطاعت یعنی خدا، رسولؐ، اور امامؑ کی فرمانبرداری: آن حضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حضرتِ علی علیہ السّلام سے فرمایا: من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد |
۵۷
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
عصی اللہ و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی۔ جس شخص نے میری اطاعت کی یقیناً اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی بیشک اس نے خدا کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی تو شک نہیں کہ اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی تو یہ سچ ہے کہ اُس نے میری نافرمانی کی (المُستَدۡرَکۡ۔ جلد سوم۔ مناقب، ص۱۳۹) یہ حدیث شریف آیۂ اطاعت کی تفسیر ہے۔ |
||
۷۷
اطعنی |
میری اطاعت کر: عبدی اطعنی اجعلک مثلی حیًّا لا تموت، و عزیزًا لا تزل، و غنیًا لا تفتقر۔ اے بندۂ من! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال (یعنی رحمانی صورت) پر کبھی نہ مرنے والا زندہ، کبھی ذلیل نہ ہونے والا معزز، اور کبھی مفلس نہ ہونے والا غنی بنا دوں گا۔ (اربع رسائل اسماعیلیۃ، ص۱۵) یہ علمی بہشت کی تعلیم ہے، اور سب سے بڑی خوشخبری۔ |
|
۷۸
اعمٰی |
اندھا، باطنی کور: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ہے: وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ھٰذِہٖٓ |
۵۸
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اَعۡمٰی فَھُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا۔ اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور زیادہ راہ گم کردہ ہوگا۔ یعنی جو شخص ہادیٔ برحق کی پیروی نہیں کرتا وہ گمراہ اور کورِ باطن ہوجاتا ہے، اس کی دنیا و آخرت میں چشمِ بصیرت نہیں ہوتی ہے۔ |
||
۷۹
افئِدۃ |
دل (فُؤاد کی جمع): اہل ایمان کے دلوں کا نور حضرتِ قائم ہے، لہٰذا یہی نور اصل دل/ قلب ہے (۳۲: ۰۹) خداوند تعالٰی ایسا دل دے کر ہی مومنین پر احسان رکھتا ہے۔ |
|
۸۰
اُقۡتُلُوۡا |
تم قتل کرو، تم مار ڈالو: تاریخ و تفسیر الگ ہے اور تحقیق الگ، مومنِ سالک کی کامیابی اس بات میں ہے کہ وہ جسمانی موت سے قبل نفسانی موت کا مزہ چکھ لے، جیسے قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کا ذکر آیا ہے، منجملہ ایک آیۂ شریفہ سورۂ بقرہ (۰۲: ۵۴) میں ہے، آپ پوری آیت کی حکمت میں غور کریں، پھر ان الفاظ کے صحیح مطلب کو سمجھ لیں: فَتُوبُوۡٓا اِلٰی بَارِئِکُمۡ فَاقۡتُلُوۡٓا اَنۡفُسَکُمۡ۔ سو تم اپنے خالق کی طرف |
۵۹
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
(عملی) توبہ کرو پھر تم اپنے اپنے نفس کو (اصولی ریاضت سے) قتل کر دو۔ |
||
۸۱
اُقۡتُلُوۡا (۲) |
تم قتل کرو، تم مار ڈالو: اس مضمون کی ایک دوسری آیۂ کریمہ اس طرح ہے: اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے اپنے نفس کو (اصولی ریاضت سے) قتل کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے، حالانکہ جو نصیحت انہیں کی جاتی ہے اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا (۰۴: ۶۶) قتل کن فرعونِ نفسِ خویش را در زمان موسائے عمرانت کنم |
|
۸۲
اَکۡنَان |
چھپنے کے مقامات: اور اس نے پہاڑوں میں تمہارے لئے چھپنے کے مقامات بنا دیئے (۱۶: ۸۱) یعنی کلمۂ باری اور کوہِ عقل کا اشارہ یوں ہے کہ تمہاری محیط اور کلّی زندگی پوشیدہ ہے، اور صرف معرفت ہی سے معلوم ہوجائے گا کہ تم کہاں کہاں تھے، ہیں، اور ہوں گے۔ |
۶۰
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۸۳
اَلۡبَابۡ (۱) |
عقلیں، واحد لُبّۡ، خالص عقل: اولوا الباب (صاحبانِ عقل) کا وصف قرآنِ حکیم کے ۱۶ مقامات پر آیا ہے، قرآنِ عزیز سر تا سر علم و حکمت کے عجائب و غرائب کی بہشت ہے، لہٰذا اولوا الباب کے باغ و گلشن کا نظّارۂ روح پرور کیونکر معمولی ہوسکتا ہے، آپ ان تمام آیاتِ کریمہ کی معنوی گہرائی میں اتر کر دیکھ لیں۔ |
|
۸۴
اَلۡبَابۡ (۲) |
عقلیں، واحد لُبّۡ، خالص عقل: جیسا کہ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) میں ہے: بیشک آسمانوں کی اور زمین کی پیدائش میں اور شب و روز کے اَدَلۡ بَدَل میں ان صاحبانِ عقل کیلئے نشانیاں موجود ہیں، جو کھڑے (کھڑے) اور بیٹھے (بیٹھے) اور کروٹوں کے بل (لیٹے لیٹے) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمان و زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ |
|
۸۵
اَلۡبَابۡ (۳) |
عقلیں، واحد لُبّۡ، خالص عقل: اگر کوئی سعادت مند مومن دائم الذّکر ہوکر یادِ الٰہی کی نعمتوں سے اپنی روح کو ترقّی دینا چاہتا ہے اور یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ذکر کی مدد اور قوّت سے عقل کس سرعت اور درستی سے کام کرسکتی ہے تو اسے قرآن پاک کی مذکورہ تعلیم پر سچّے دل اور عالی ہمّتی سے عمل کرنا چاہیے |
۶۱
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
تاکہ وہ صاحبانِ عقل میں سے ہوجائے۔ |
||
۸۶
اَلَسۡتُ (۱) |
کیا میں نہیں ہوں؟: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۲) میں ارشاد ہے: اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ۔ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ یہ عالم شخصی ہی کا واقعہ ہے کہ جب کوئی مومنِ سالک ربّانی ہدایت و پرورش سے مرتبۂ حقّ الیقین تک پہنچ جاتا ہے، اور اسے وہ تمام نعمتیں عطا کی جاتی ہیں جو منازلِ روحانیت اور مراحل عقلانیت میں درجہ بدرجہ رکھی ہوئی ہیں تو تب حق تعالٰی ایسے ہر عارف یعنی تمام عارفوں سے پوچھتا ہے: کیا میں تمہارا پروردکار نہیں ہوں؟ آیا میں نے تمہاری روحانی اور عقلی پرورش نہیں کی؟ اس لئے عُرَفاء اپنے اپنے وقت میں اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں: اے ربِّ کریم! کیوں نہیں۔ |
|
۸۷
اَلَسۡتُ (۲) |
عھدِ الست: اگرچہ ظاہراً سب لوگ بنی آدم کہلاتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ اس پُرحکمت لفظ میں وِرثۂ خلافت کا اشارہ پوشیدہ ہے، لہٰذا صرف انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہی بنی آدم اور وارثِ علمِ آدم ہیں، اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے بھی بنی آدم ہوسکتے |
۶۲
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
ہیں، تاکہ عہدِ الست تک رسا ہوجائیں۔ |
||
۸۸
اَلَسۡتُ (۳) |
مقام دیدار و معرفت: عالمِ عُلوی جو عالم وحدت ہے، اس کا سفر ظاہری و باطنی کثرت کے شور و غوغا میں ممکن نہیں، لہٰذا خداوندِ عالم نے انسانِ کامل کی پشت سے اس کی ذرّیّت کے عالمِ ذرّ کو الگ کر دیا، جو وقت آنے پر شخصِ کامل میں فنا ہوکر ایک ہوگیا، پھر خدا نے عارف کو اپنی روح کے بالائی سرے پر حاضر کردیا، اس کا مشاہدہ اور دیدار کرایا، نیز اسے اس عظیم معجزے پر گواہ بنا دیا، یہ سارے معانی “واَشۡھَدَھُمۡ عَلٰی اَنۡفُسِھِمۡ” میں موجود ہیں، بلکہ اس میں حضرتِ ربّ کے دیدارِ پاک اور معرفتِ عالیہ کا اشارہ بھی پوشیدہ ہے، پس آیۂ عہدِ الست تمام روحانی اور عقلانی واقعات پر محیط ہے۔ |
|
۸۹
اَلَسۡتُ (۴) |
میثاقِ الست: بنی آدم یعنی انسانانِ کامل کسی ایک وقت میں نہ تھے، بلکہ اُن کا سلسلہ ہمیشہ دنیا میں جاری ہے، لہٰذا الست کا انتہائی عظیم معجزہ ہر زمانے میں ہوتا رہتا ہے، جیسے ہم تجدّدِ امثال کو مانتے ہیں، اور یہ حقیقت ہے کیونکہ خالقِ اکبر عوالِم شخصی کو ہمیشہ اور مسلسل پیدا کرتا ہے، پس |
۶۳
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
معلوم ہوا کہ ہر انسانِ کامل کے عالم شخصی میں میثاقِ اَلَسۡت کا تجدّد ہوجاتا ہے۔ |
||
۹۰
اَلَسۡتُ (۵) |
آیۂ الست (۰۷: ۱۷۲): سوال: آیۂ الست میں بنی آدم کا ذکر ہے لیکن خود آدم علیہ السّلام کا تذکرہ نہیں، اس میں کیا راز ہے؟ آیا ابو البشر عہدِ الست کے قانون سے مستثناء ہے یا اس میں کوئی اور حکمت پوشیدہ ہے؟ جواب: زیر بحث آیۂ کریمہ میں آدمِ دور کا ذکر بھی موجود ہے، جبکہ وہ گزشتہ دور کے اعتبار سے ابنِ آدم ہے اور موجودہ دور کے لحاظ سے آدم اور ابو البشر ہے۔ |
|
۹۱
اَلَسۡتُ (۶) |
خزانۂ دیدار، بعد از فناء فی اللہ و بقاء باللہ (الف)۔ دیدار فناء سے پہلے بھی ہے اور بعد میں بھی (ب): جیسا کہ ذکر ہوا: واَشۡھَدَھُمۡ عَلٰی اَنۡفُسِھِمۡ (۰۷: ۱۷۲) کے مبارک الفاظ میں عظیم معنوی اسرار پوشیدہ ہیں، یعنی اس میں جانوں کی جان یا روح الارواح کے پاک دیدار کا اشارہ فرمایا گیا ہے، |
۶۴
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اور یہ حقیقت اظہر مِنَ الشّمس ہے کہ جس میں فناء ہوجانے سے ہم کو سب سے اعلٰی زندگی مل سکتی ہے، وہ ہماری روحِ اعظم یا جانوں کی جان ہے، پس اے نورِ عینِ من! آپ کائناتی سطح پر سوچنے کے عادی ہوجائیں کہ خداوند کریم نے اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ نہیں فرمایا مگر لازوال نعمتوں سے بھری ہوئی کائناتیں عطا کردینے کے بعد، اور تمام نعمتوں کی جان خدا تعالٰی کا دیدار ہے۔ |
||
۹۲
اللہ |
خدا: اگر آپ آخرت (بہشت) چاہتے ہیں تو اپنی روح کو خدا کے عشق و محبّت میں رکھنا، ہمیشہ خدا کے خیال میں رہنا، خدا کا خیال ایک لمحے کے لئے بھی نہ بھلانا۔ (فرمانِ مباک: حضرتِ امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ) اِس دنیا میں صرف امامؑ ہی کی نورانی ہدایت ہے جس کے مطابق چلنے سے لوگ خدا تک پہنچ جاتے ہیں۔ |
|
۹۳
اَللہُ یَتَوَفّیَ |
خدا قبض کرتا ہے: ترجمۂ آیۂ مبارکہ: اللہ موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے، اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے۔۔ (۳۹: ۴۲) انسان ایک مکمل عالم ہے، اس میں نباتی، حیوانی، اور انسانی درجے کی |
۶۵
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
لا تعداد روحیں موجود ہیں، جن میں جزوی طور پر موت اور از سرِ نو زندگی کا عمل جاری و ساری ہے۔ |
||
۹۴
اِلھام |
اِلقاء: الہام: خدا کی طرف سے دل میں کسی بات کے ڈالنے کو کہتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: فَاَلۡھَمَھَا فُجُوۡرَھَا وَ تَقۡوٰھا۔ پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہَام کر دی (۹۱: ۰۸) یہ الہام ان دو ساتھیوں کے توسط سے بھی ہوسکتا ہے جو دل کے دونوں کانوں کے پاس ہی ہیں، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ الہام ممکن ہے، تاہم اس کے مختلف درجات ہوسکتے ہیں۔ |
|
۹۵
اُمّ الکتٰبُ (۱) |
اصل کتاب: قرآنِ حکیم (۱۳: ۳۹؛ ۴۳: ۴) میں اُمّ الکتٰب کا ذکر آیا ہے جو بعض علماء کے قول کے مطابق لوحِ محفوظ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے حضرتِ علی علیہ السّلام مراد ہے، اور ہم اسی دوسرے قول کو مانتے ہیں، کیونکہ قلمِ اعلیٰ نورِ محمّدیؐ ہی ہے اور لوحِ محفوظ نورِ علیؑ، جیسے مولا علیؑ کا ارشاد ہے، انا اللّوحُ المحفوظُ۔ یعنی میں ہی لوح محفوظ ہوں، پس علیٔ مرتضٰی ہی امّ الکتاب ہے (بحوالۂ کوکب درّی، بابِ سوم، |
۶۶
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
منقبت نمبر۸، نیز وجہِ دین، کلام ۱۹ کے آخر میں دیکھیں: “حکایت”) |
||
۹۶
اُمّ الکتٰب (۲) |
اصل کتاب: سورۂ رعد کے اس خزانۂ علم و حکمت کی قدر و قیمت کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا، ارشاد ہے: یَمۡحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُج صلی وَ عِنۡدَہٗٓ اُمُّ الۡکِتٰبِ۔ خدا جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے قائم رکھتا ہے۔ اور (جبکہ) اُمّ الکتاب اسی کے پاس ہے (۱۳: ۳۹) یعنی جب ہر قیامت میں خدائے عزّ و جلّ کائنات کو امامِ مبین کے عالم شخصی میں گھیر کر رکھتا ہے تو اس حال میں چہرۂ خدا (امامؑ) سے باہر ہر چیز محو و فنا ہوجاتی ہے، یہی ہے اُمّ الکتاب کی تحریرات کے سوا تمام چیزوں کو مٹا دینا۔ |
|
۹۷
اُمّ الکتٰب (۳) |
اصل کتاب: مولا علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: اَنَا وَجۡہُ اللہِ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ۔ میں آسمانوں اور زمین میں خدا کا چہرہ ہوں۔ جیسا کہ ارشاد ہے: کُلَّ شَیۡءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجۡھَہٗ۔ یعنی چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہوجانے والی ہے (۲۸: ۸۸) کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت۶۹۔ |
۶۷
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
یہی چہرۂ خدا جو امامِ مبین ہے اُمُّ الکتاب اور لوحِ محفوظ بھی ہے اور خزینۂ خزائن بھی۔ |
||
۹۸
امام (۱) |
پیشوا: یاد رکھو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے ربّ نے چند باتوں (کلمات) میں آزمایا تو اس نے ان کو مکمل کر لیا، اللہ نے فرمایا کہ میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں (۰۲: ۱۲۴) سوال ہے کہ وہ کلمات کیا تھے؟ جواب: اللہ تعالٰی کے بزرگ ترین اسماء اور کلمات اور کلماتُ التَّامات۔ |
|
۹۹
امام (۲) |
پیشوا: اگر چہ حسبِ منشائے الٰہی نورِ امامت شروع ہی سے عالم دین میں جلوہ گر تھا، تاہم پروردگار نے حضرت ابراہیمؑ کی عظیم شخصیت میں اسے نمایان فرمایا، اگر اس مثال میں چشم بصیرت سے دیکھا جائے تو اس حقیت کا مکمل یقین آتا ہے کہ “امامت درختِ نبوّت کا ثمرۂ پُر حکمت ہے”۔ |
|
۱۰۰
امام (۳) |
پیشوا: سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۳) میں دیکھ لیجئے: وَ جَعَلۡنٰھُمۡ اَئِمَّۃً ۔۔۔۔ اور ہم نے ان کو امام بنا دیا۔۔۔ اس معنٰی میں امامؑ |
۶۸
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اہل زمانہ پر حجّتِ خدا ہے۔ |
||
۱۰۱
امام (۴) |
پیشوا: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۱) میں ہے: یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمۡ۔ اُس دن جب ہم کہ اہل زمانہ کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ خوب غور سے دیکھ لیں کہ “کُلَّ اُنَاسٍ” کے اس کلیّے سے کچھ لوگ مستثنا ہوسکتے ہیں؟ ہرگز نہیں، پس سلسلۂ امامت زمانۂ آدمؑ سے لیکر قیامۃ القیامات تک جاری و باقی ہے۔ |
|
۱۰۲
امام (۵) |
پیشوا: نورِ امامت شروع سے آخر تک ایک ہی ہے، مگر جامہ ہائے جسمانی زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے آئے ہیں، ایسے میں اگر حضرت ابراہیمؑ کو امامِ اوّلین و آخرین کہا جائے تو یہ بات نورِ واحد کی وجہ سے حقیقت ہوگی، اور یہی صفت ہر امام کی ہے۔ |
|
۱۰۳
امام (۶) |
پیشوا: سورۂ فرقان (۲۵: ۷۴) میں حضرات أئمّہ علیہم السّلام کی ایک خاص دعا کا ذکر آیا ہے، وہ یہ ہے: اور جو لوگ دعا مانگا کرتے ہیں کہ |
۶۹
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی ذرّیت سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ أئمّۂ طاہرین ہی ہیں اور اپنی پاک ذرّیت کے سلسلے میں بھی امام ہونے کے لئے دعا کرتے ہیں۔ |
||
۱۰۴
امام (۷) |
پیشوا: ذرّیت ذرّاتِ روح کو کہتے ہیں، (ذُرِّیَّتَھُمۡ۔ ۳۶: ۴۱) چنانچہ ہر شخص کے ذرّاتِ روحانی یا ذرّیت ماضی میں بھی تھی اور ہر مستقبل میں بھی ہوگی، پس یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ ہر امام باعتبارِ ذرّیت اور نور و نورانیت نہ صرف حال و مستقبل کا امام ہوا کرتا ہے بلکہ وہ ماضی میں بھی امام رہ چکا ہوتا ہے، یہ تناسخ ہرگز نہیں، آپ اسے تجدّدِ امثال کہہ سکتے ہیں۔ |
|
۱۰۵
امام (۸) |
پیشوا: بحوالۂ سورۂ ھود (۱۱: ۱۷) کتابِ موسیٰ کے امام اور رحمت ہونے کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ حضرتِ امام ہارونؑ توراتِ ناطق تھا، اور اسی آیۂ مبارکہ کے مطابق مولا علیؑ بمرتبۂ گواہِ رسولؐ قرآنِ ناطق، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر نے تمام اعلیٰ چیزوں اور جملہ معجزات کو امامِ مبین میں گھیر کر |
۷۰
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔ |
||
۱۰۶
امام (۹) |
پیشوا: یہ حدیث شریف تِرمذی، جلد دوم، فضائل قرآن میں ہے: اِنَّ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَلۡبًا وَ قَلۡبُ الۡقُرۡاٰنِ یٰسٓ۔ بیشک ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یاسیٓن ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس میں اللہ تعالٰی کے خزانۂ خزائن کا ذکر ہے، وہ یہ ہے: وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے تمام چیزوں کو پیشوائے ظاہر میں گھیر کر رکھا ہے۔ یعنی خدائے عزّو جلّ کائناتِ باطن کو امامِ حیّ و حاضر میں لپیٹتا بھی ہے اور اسی میں سے پھیلاتا بھی ہے۔ |
|
۱۰۷
امام (۱۰) |
پیشوا: اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ قادرِ مطلق ہر طرح کے مردوں کو زندہ کردیتا ہے، لیکن اس سلسلے میں سب سے عظیم معجزہ یہ دیکھنا ہے کہ جیتے جی (ریاضت سے) مرنے والوں کو خدا کس طرح پاکیزہ روح میں زندہ کرتا ہے، آپ یقین کریں کہ کلّیّۂ امامت کے آغاز (اِنَّا نَحۡنُ نُحۡیِ الۡمَوۡتٰی = یقینًا ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں) میں بطورِ خاص |
۷۱
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اسی معجزے کی طرف اشارہ ہے، وہ کلّیّۂ امامت یہ ہے۔ |
||
۱۰۸
امام (۱۱) |
پیشوا: یقنیناً ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور لکھ لیتے ہیں (ان کے اعمال کو) جو وہ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے آثار کو جو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، اور ہم نے تمام (مجرّد اور لطیف) چیزوں کو پیشوائے ظاہر میں گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲) اس آیۂ باحکمت میں سب سے پہلے احیائے موتٰی (مردوں کو زندہ کرنا) کا ذکر ہے جو انتہائی عظیم مضمون ہے، کیونکہ وہ فنا فی الامامؑ، فنا فی الرّسولؐ اور فنا فی اللہ ہے، اور یہ تینوں فنائیں یا بحقیقت ایک ہی فنا فی حضرتِ امام صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کے پاک عشق میں ہے۔ |
|
۱۰۹
امام (۱۲) |
پیشوا: حضرتِ مولا علی صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہ کے اس پُرحکمت کلام میں کماحقہ غور کیجئے: وَ تَحۡسَبُ اَنَّکَ جِرۡمٌ صَغِیۡرٌ وَ فِیۡکَ انۡطَوَی الۡعَالَمَ الۡاَکۡبَرُ ترجمہ: اور تو خیال کرتا ہے کہ تو عالمِ اصغر ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے۔ |
۷۲
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
یہ امرِ واقعی دو طرح سے ہے: بحدِّ قوّت اور بحدِّ فعل، چنانچہ امامِ مبین وہ مبارک ہستی ہے، جس کے عالم شخصی میں باری تعالٰی نے عالمِ اکبر کو بحدِّ فعل گھیر کر رکھا ہے، جس سے کوئی لطیف شَیٔ باہر نہیں، نہ عرش و کرسی اور نہ قلم و لوح، الغرض عالمِ دین تماماً و کاملاً امامِ مبین علیہ السّلام کے عالم شخصی میں مرکوز و محدود ہوتا ہے۔ |
||
۱۱۰
امام الوقت |
امامِ وقت: حدیثِ شریف ہے: مَنۡ مَاتَ وَ لَمۡ یَعۡرِفۡ اِمَامِ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیۡتَۃً جَاھِلِیَّۃً وَ الۡجَاھِلُ فِی النَّارِ۔ جو شخص مرجائے در حالے کہ اس نے امامِ زمان کو نہیں پہچانا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مر جاتا ہے اور جاہل کا ٹھکانا آتشِ (دوزخ) ہے (کتاب وجہِ دین، گفتار۳۶) یہ اس لئے ایسا ہے کہ خدا اور رسولؐ کے بعد صاحبِ امر(امامِ زمانؑ) کی اطاعت فرض ہے، تاکہ علم و معرفت کا گنجِ گرانمایہ حاصل ہو۔ |
|
۱۱۱
امام الزّمان (۱) |
امامِ زمان کی اطاعت: قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم: مَنۡ اَطَاعَنِیۡ فَقَدۡ اَطَاعَ اللہَ وَ مَنۡ عَصَانِیۡ فَقَدۡ عَصَی اللہَ وَ مَنۡ اَطَاعَ الۡاِمَامَ |
۷۳
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
فَقَدۡ اَطَاعَنِیۡ وَ مَنۡ عَصَی الۡاِمَامَ فَقَدۡ عَصَانِیۡ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امام کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (سننِ ابنِ ماجہ، جلد دوم، کتاب الجہاد، باب۳۹، طاعتہ الامام)۔ |
||
۱۱۲
امام الزّمان (۲) |
امامِ زمان کی معرفت: حدیثِ شریف ہے: مَنۡ مَّاتَ وَ لَمۡ یَعۡرِفۡ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیۡتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔ جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت جاہلیت کی سی موت ہوگی (لغات الحدیث، جلد چہارم، بابُ المیم مع الواؤ) |
|
۱۱۳
امام الزّمان (۳) |
امامِ زمان کی معرفت: ارشادِ نبوّیؐ ہے: مَنۡ مَّاتَ بِغَیۡرِ اِمَامٍ مَاتَ مِیۡتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔ جو شخص مرجائے امام (کی اطاعت) کے بغیر اس کی موت جاہلیت کی سی ہوگی۔ (مُسند احمد بن حنبل، ۵، حدیث ۱۶۴۳۴)۔ المستدرک، الجز الاوّل، ۲۵۹/ ۲۵۹ میں بھی دیکھ لیں۔ |
۷۴
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۱۴
امام الزّمان (۴) |
امام زمان کی معرفت: یہ حدیثِ شریف کتابِ وجہِ دین، گفتار/ کلام ۳۶ میں اس طرح ہے: مَنۡ مَّاتَ وَ لَمۡ یَعۡرِفۡ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیۡتَۃً جَاھِلِیَّۃً ، وَ الۡجَاھِلُ فِی النَّارِ۔ جو شخص مر جائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت جاہلیت کی سی موت ہوگی اور جاہل و نادان آگ میں ہے۔ یعنی بہشت وہاں ہے جہاں علم کا شہر اور حکمت کا گھر ہے، جس کا دروازہ علیٔ زمانؑ (امامِ وقت) ہے، اور جو اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرجائے تو اس کی موت زمانۂ جاہلیت کی موت جیسی ہو جاتی ہے، اور جاہل آتشِ جہالت میں گرفتار ہے۔ |
|
۱۱۵
امام الزّمان (۵) |
امامِ زمان کی معرفت: (دعائم الاسلام، المجلّد الاوّل، کتاب الولایۃ، ذکر ولایۃ الأئمّۃ کے حوالے سے) حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام سے روایت ہےکہ آپ نے رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے اس ارشادِ گرامی کے بارے میں فرمایا: من مّات لا یعرف امامِ دھرہٖ حیًّا مات میتۃً جاھلیَّۃً۔ جو شخص مر جائے در حالیکہ وہ اپنے زمانے کے امام کو نہیں پہچانتا ہے تو وہ (زمانۂ) جاہلیّت کی سی موت میں مر جاتا ہے۔ صادقِ آلِ محمّدؐ نے فرمایا کہ امامِ زمان سے زندہ امام مراد ہے۔ |
۷۵
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۱۶
امام الزّمان (۶) |
امامِ زمان اور قیامت: امامِ جعفر الصّادقؑ نے خداوند تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں فرمایا: یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمۡ (۱۷: ۷۱) جس دن کہ ہم ہر ایک جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اس سے ہر زمانے کا امام مراد ہے۔ |
|
۱۱۷
اُمّۃ (۱) |
جماعت: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۳) میں ارشاد ہے: سب لوگ ایک ہی جماعت تھے پھر اللہ تعالٰی نے پیغمبروں کو بھیجا۔ سوال: سورۂ فاطر میں فرمایا گیا ہے: اور کوئی امّت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو (۳۵: ۲۴) پھر لوگوں کی یہ امّتِ واحدہ پیغمبروں کے آنے سے پہلے کہاں تھی؟ اور یہ کس دور کی بات ہے؟ جواب: چونکہ تصوّرِ آفرینش خط جیسا نہیں بلکہ دائرے کی طرح ہے لہٰذا دائرۂ کُلّ پر آگے پیچھے نہیں، مگر ہاں عالم علوی کو تَقَدُّمِ شَرَفِیۡ حاصل ہے، جہاں لوگ پیکر نورانی میں صرف ایک ہی امّت تھے، ہیں اور ہوں گے۔ |
۷۶
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۱۸
اُمّۃ (۲) |
جماعت: تمام لوگ عالمِ ذرّ میں ایک ہی امّت ہیں، یہی حال نفسِ واحدہ میں بھی ہے اور جسمِ لطیف میں بھی، آپ سورۂ نحل (۱۶: ۱۲) میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی مثال کو پڑھ سکتےہیں: بیشک ابراہیمؑ ایک امّت تھے خدا کے لئے فرمانبردار اور خاص مُوَحِّد۔ |
|
۱۱۹
اَمۡثَال (۱) |
مثالیں، مانند، تبدّلِ امثال: جو لوگ مر جانے سے قبل مر کر زندہ ہوگئے تھے وہ اس راز کو جانتے تھے کہ موت کے بعد اصل زندگی جسمِ لطیف ہی میں ہے، کیونکہ موجودہ جسم بہشت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا، یہ تو صرف دنیوی زندگی ہی کے قابل ہے اور بس، چنانچہ سورۂ واقعہ (۵۶: ۶۰ تا ۶۱) میں ہے: اور ہم اس سے عاجز نہیں کہ تمہارا تبدّل امثال کریں اور تم کو ایسی صورت میں پیدا کریں جسے تم مطلق نہیں جانتے۔ یعنی تم کو موت کے بعد جسمِ مثالی ملنے والا ہے جس کو تم جانتے ہی نہیں۔ |
|
۱۲۰
اَمۡثَال (۲) |
مثالیں، مانند، تبدُّلِ امثال: یہ پُر از حکمت ربّانی تعلیم سورۂ دہر (۷۶: ۲۸) میں ہے: ہم نے اُن کو پیدا کیا اور اُن کے جوڑ بند مضبوط کئے اور جب ہم چاہیں تو ان کا تبدُّلِ امثال کر دیں۔ |
۷۷
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
یعنی ان کو جسم کثیف سے جسمِ لطیف میں تبدیل کریں، اس سے یقین آیا کہ جسمِ کثیف بہشت کے قابل نہیں کہ اس میں بہت سی کمزوریاں اور خامیاں ہیں۔ |
||
۱۲۱
اَمۡثَالَھُمۡ |
ان کی مثالیں: اور جب ہم چاہیں تو اُن کی مثالیں تبدیل کریں گے جیسا کہ تبدیل کرنا ہے۔ اس سے جسمِ مثالی مراد ہے (۷۶: ۲۸)۔ |
|
۱۲۲
امر |
کلمۂ کن، حکم، عالمِ امر: یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ (۱۳: ۰۲) وہی امر کے پیچھے امر فرماتا رہتا ہے تاکہ ایک آیت سے دوسری آیت الگ رہے۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۵۸) میں رازِ روح کا ذکر ہے کہ یہ عالمِ امر سے آئی ہے، منقطع ہوکر نہیں بلکہ سورج کی شعاعوں کی طرح یا آبِ روان کی طرح یا نورانی رسّی کی طرح یا بجلی کے کرنٹ کی طرح کہ روح کا سرچشمہ اور بالائی سرا کلمۂ کُنۡ میں ہے، جہاں سے زندگی کی نہر ہمیشہ جاری ہے۔ |
|
۱۲۳
اَمۡرُ اللہ |
اللہ کا فرمان، اللہ کا کام: وَ کَانَ اَمۡرُ اللہِ مَفۡعُوۡلًا (۳۳: ۳۷) خدا کا فرمانِ ازل عمل |
۷۸
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
میں آچکا ہے، اس کا کام کیا گیا ہے، یعنی اللہ کے لئے کوئی کام نیا نہیں، ہاں، تجدّدِ امثال کا سلسلہ جاری و ساری ہے، جس کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ |
||
۱۲۴
انبیاء (۱) |
پیغمبران: لغات الحدیث، جلدِ چہارم، کتاب “ن” میں ہے: اَلۡاَنۡبِیَآءُ مِائَۃُ اَلۡفٍ وَ عِشۡرُوۡنَ اَلۡفًا وَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ مِنۡھُمۡ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ۔ دنیا میں ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبر آئے ہیں، ان میں رسول (جو صاحبِ شریعت ہوں) تین سو تیرہ گزرے ہیں۔ |
|
۱۲۵
انبیاء (۲) |
طبقاتِ انبیاء: حضرتِ امام جعفر صّادق علیہ السّلام نے فرمایا: پیغمبروں کے چار طبقے ہیں، ایک تو وہ جو اپنے نفس کو خبر دیتے ہیں دوسرے کسی کو نہیں، دوسرے وہ جو خواب میں دیکھتے ہیں اور آواز بھی سنتے ہیں، لیکن بیداری میں کچھ نہیں دیکھتے نہ وہ کسی قوم کی طرف بھیجے گئے، تیسرے وہ جو خواب میں دیکھتے ہیں اور آواز سنتے ہیں اور بیداری میں بھی دیکھتے اور سنتے ہیں یہ اولوالعزم پیغمبر ہیں، چوتھے وہ پیغمبر جو خواب میں دیکھتے ہیں اور آواز سنتے ہیں اور فرشتہ کو دیکھتے ہیں۔ (لغات الحدیث، جلد چہارم، |
۷۹
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
کتاب “ن” ص۵)۔ |
||
۱۲۶
انبیاء (۳) |
پیغبران: حدیثِ شریف ہے: اَنَّ لِلّٰہِ مِائَۃ الف نبیٍّ و اربعۃ و عشرین الف نبیٍّ من ولدِ آدم اِلی الۡقائم۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہو گزرے ہیں اولادِ آدم سے لیکر قائم تک (کتابِ سرائر، ص۲۰۰)۔ |
|
۱۲۷
انسان (۱) |
بشر، آدمی: جب کسی سالکِ عارف کو مقامِ دھر میں اللہ کا پاک دیدار ہو جاتا ہے تو وہ بحقیقت فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، اس اعتبار سے اس کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا (۷۶: ۰۱)۔ خدا نے اپنے قانونِ فطرت کے مطابق ہر انسان کو اس کے ماں باپ کے نطفۂ مخلوط سے پیدا کیا (۷۶: ۰۲)۔ |
|
۱۲۸
انسان (۲) |
آدم و آدمی: قرآنِ عظیم میں جس پُرحکمت انداز سے انسان کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس پر درست غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت دلنشین ہوجاتی ہے کہ خداوندِ |
۸۰
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
تبارک و تعالٰی نے آدم و آدمی یعنی انسان کو اپنے لا ابتدا و لا انتہا معجزات کا سرچشمہ اور بے پایان عجائب و غرائب کا عظیم خزانہ بنا دیا ہے، وہ اصلاً ایک اکیلا شخص ہے مگر فرعاً بے شمار اشخاص کی صورت میں ظاہر ہے، عالمِ وحدت میں دیکھو تو سہی یہ وہاں فردِ واحد ہے، عالمِ کثرت میں ملاحظہ کرو، یہ تو یہاں نفوسِ خلائق کے نام سے جہاں بھر میں پھیل گیا ہے، وہ بحکمِ خدا کثیف سے لطیف ہوکر جنّ، پری، فرشتہ اور جامۂ جنّت بن جاتا ہے، اور ان شاء اللہ اس سے بھی اوپر جا سکتا ہے۔ |
||
۱۲۹
اِنسان (۳) |
بشر: انسان کی روحِ کلّی کس طرح کائنات میں پھیلی ہوئی ہے، اس کو سمجھنے کے لئے پانی کی کلّیت کا دائرہ سب سے بہترین نمونہ ہے، چنانچہ پانی اگر اپنے مرکز میں ہے تو اس کا نام “سمندر” مشہور ہے، اس میں سے جو پانی لطیف بن کر اڑ رہا ہو، اس کو بخارات کے اسم سے موسوم کیا جاتا ہے، ایسا پانی جب ہواؤں اور فضاؤں کے دوش پر سوار ہو تو وہ بادل کہلاتا ہے، جب پانی بادلوں سے برس رہا ہوتا ہے تو برف یا بارش کے نام سے پہچانا جاتا ہے، بلند پہاڑوں پر ذخیرۂ یخ، گلیشئیر، چشمہ، ندی، نالہ، نہر، تالاب، کنواں، جھیل، دریا وغیرہ سب کے سب ایک ہی پانی کے مختلف اجزاء کے اسماء ہیں، چنانچہ عالمِ انسانیت وہ بحر گوہرزا ہے |
۸۱
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
جس کے دائرۂ کلّیّت سے نہ جنّ و پری الگ ہیں اور نہ فرشتے۔ |
||
۱۳۰
اَنۡفُسۡ |
عالمِ شخصی، عوالمِ شخصی: جب مادّی سائنس کی برکتوں سے اہل دنیا کو طرح طرح کی سہولتیں مہیّا ہو رہی ہیں جن کی تعریف بیان سے باہر ہے، تو پھر جب عالمِ شخصی میں روحانی سائنس کا ظہور ہوگا اس وقت بنی نوع انسان کو کیسے کیسے عظیم فائدے حاصل ہوں گے (۴۱: ۵۳)۔ |
|
۱۳۱
اَوَّاہ |
نرم دل، آہ و زاری کرنے والا، دعا کرنے والا: سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۴) میں ہے: اِنَّ اِبۡرَاھِیۡمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیۡمٌ۔ واقعی ابراہیمؑ بڑے نرم دل (اور آہ و زاری کرنے والے) تھے۔ اللہ تعالٰی کے اس بابرکت ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ مومنین حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے نقشِ قدم پر چلیں تاکہ انہیں روحانی ترقّی اور خدا کی نزدیکی نصیب ہو۔ |
|
۱۳۲
اَوۡرَثۡنَا |
ھم نے وارث بنایا، یعنی قرآن کے وارث: سورۂ فاطر (۳۵: ۳۲) میں ارشاد ہے: ثُمَّ اَوۡرَثۡنَا الۡکِتٰبَ الَّذِیۡنَ اصۡطَفَیۡنَا مِنۡ عِبَادِنَا۔ پھر ہم نے اپنی اس کتاب کا وارث ان کو بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے منتخب کر لیا تھا۔ پس جب تک |
۸۲
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
دنیا میں کتاب یعنی قرآن ہے تب تک اس کے وارث بھی ہیں، اور وہ زمانے کا امامؑ ہے، اور اس بات کی کیا دلیل ہے کہ صرف امام زمانؑ ہی قرآن کا وارث ہے؟ دلیل یہ ہے کہ خداوند عالم نے امام علیہ السّلام کو جس طرح قرآن کی نورانیّت و تاویل سے نوازا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، الحمد للہ ربّ العالین۔ |
||
۱۳۳
اولی الامر (۱) |
صاحبانِ امر، حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام: آیۂ اطاعت کا ترجمہ: اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۰۴: ۵۹) یعنی خدا اور رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ أئمّۂ آل محمّدؐ کی اطاعت بھی فرض ہے، جن کی امامت قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اس کے برعکس دنیوی سلاطین و حکام اولوا الامر نہیں ہوسکتے ہیں، اور نہ ہی اسلام کے مثالی زمانے (یعنی زمانۂ نبوّت) میں اس کا کوئی نمونہ مل سکتا ہے۔ مذکورۂ بالا آیت (۰۴: ۵۹) سورۂ نساء کے اسی رکوعِ ہشتم میں ہے جس میں آلِ ابراہیمؑ کو کتاب، حکمت اور ملکِ عظیم عطا ہونے کا ذکر ہے (۰۴: ۵۴) پس مضمونِ رکوع کے مطابق یہاں آلِ ابراہیمؑ سے مراد محمّدؐ و آلِ محمّدؐ ہیں۔ |
۸۳
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۳۴
اُولی الامر (۲) |
آئمّۂ آلِ محمّدؐ: آیۂ اطاعت کے دوسرے حصّے کا ترجمہ: اور اگر تم (اولی الامر کی شناخت کی) کسی بات میں جھگڑا کرو تو اس امر میں خدا و رسولؐ کی طرف رجوع کرو(یعنی پھر سے قرآن و حدیث میں دیکھو) اگر تم خدا اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی (تمہارے حق میں) بہتر ہے اور تاویل کے اعتبار سے بھی بہت اچھا ہے (۰۴: ۵۹) |
|
۱۳۵
اولی الایدی |
ہاتھوں والے: اور (اے رسولؐ) ہمارے بندوں ابراہیمؑ اور اسحٰقؑ اور یعقوبؑ کو یاد کرو جو ہاتھوں اور آنکھوں والے تھے (۳۸: ۴۵) یعنی ان کو ید اللہ اور عین اللہ کا عظیم مرتبہ حاصل ہوا تھا، اور یہ عالمِ وحدت کے اسرار میں سے ہیں۔ |
|
۱۳۶
اُولِیۡ بَاۡسٍ |
جنگ والے: اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ۔ بڑی سخت جنگ لڑنے والے (۱۷: ۰۵) یعنی روحانی لشکر، جن کا ذکر سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۴) میں بھی ہے، اور اس مثالی لشکر کا نام یاجوج و ماجوج بھی ہے، قرآن کریم میں روحانی لشکر کا نمایان ذکر تو بہت سے مقامات پر موجود ہے۔ |
۸۴
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۳۷
اَوۡلِیَآء (۱) |
خدا کے خاص دوست: خدا کے خاص دوستوں کے بارے میں ارشاد ہے: اَلَا اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡھِمۡ وَ لَاھُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (۱۰: ۶۲) سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ غم، یہ اولیائے خدا أئمّۂ آلِ محمّدؐ ہی ہیں، جن کو خداوندِ عالم نے قرآن عظیم کے تاویلی معجزات دے کر سرفراز فرمایا ہے، کیونکہ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا سب سے بڑا معجزہ جو عقلی، علمی اور دائمی ہے وہ یقیناً قرآنِ حکیم ہی ہے، جس کے دو پہلو ہیں: تنزیل اور تاویل، تنزیل سے آنحضرتؐ نے لوگوں کو آگاہ کر دیا، اور تاویل کے لئے اپنا جانشین مقرّر فرمایا۔ |
|
۱۳۸
اَوۡلِیَآء (۲) |
دوستانِ خدا: اَلَا اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡھِمۡ وَ لَاھُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ (۱۰: ۶۲) آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ یاد رہے کہ خوف کا تعلق مستقبل سے ہے اور غم کا تعلق ماضی سے ہے، مثلًا ایک عام انسان آنے والی بیماری اور موت سے ڈرتا ہے، جو مستقبل کی طرف ہے، اور اپنی جوانی کی خوبیوں کے زوال پر غمگین ہو جاتا ہے جو ماضی کی جانب ہیں، اس کے برعکس خدا کے اولیاء علمی اور عرفانی طور پر خوب مطمئن ہیں، کیونکہ وہ اگرچہ جسماً دنیا |
۸۵
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
میں ہیں، لیکن روحًا و عقلًا بہشت میں ہیں۔ |
||
۱۳۹
اَوۡلِیَآء |
دوستانِ خدا: یہ وہ لوگ ہیں جو (حقیقی معنوں میں) ایمان لائے اور (خدا سے) ڈرتے تھے، ان ہی لوگوں کے واسطے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی بشارت ہے، خدا کے کلماتِ تامّات اَدَل بَدَل نہیں ہوا کرتے، یہی تو بڑی کامیابی ہے (۱۰: ۶۳ تا ۶۴) سوال: اولیاء کو بہشت کی خوشخبری کس طرح دی جاتی ہے؟ جب بہشت میں سب کچھ موجود ہے تو پھر مزید کس چیز کی خوشخبری ہوسکتی ہے؟ یہاں کلماتِ تامّات کا حوالہ دیا گیا ہے، اس میں کیا حکمت ہوسکتی ہے؟ |
|
۱۴۰
اَوۡلِیَآء (۴) |
دوستانِ خدا: جواب: انفرادی قیامت اور کمالِ روحانیّت ہی بہشت کی عملی خوشخبری ہے، بہشت خود بھی لا انتہا بہشتوں کے لئے بشارت ہے، کلماتِ تامّات میں خداوندِ عالم کے ملکِ قدیم کے اسرار پنہان ہیں۔ |
|
۱۴۱
اَوۡلِیَآء اللہ (۱) |
خدا کے دوست، دوستانِ خدا: سورۂ یونس (۱۰: ۶۲ تا ۶۴) میں اَوۡلِیَآء اللہ (دوستانِ خدا) کا |
۸۶
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
ذکرِ جمیل فرمایا گیا ہے، اِن آیاتِ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو (بحقیقت) ایمان لائے اور (خدا سے) ڈرتے تھے، اِن ہی لوگوں کے واسطے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے، خدا کے کلمات میں تبدیلی نہیں ہوا کرتی، یہی تو بہت بڑی کامیابی ہے (۱۰: ۶۲ تا ۶۴) |
||
۱۴۲
اَوۡلِیَآء اللہ (۲) |
اَئمّۂ اھلِ بیتؑ: سوال: یہ برگزیدہ حضرات کون ہیں؟ اس کے علاوہ ان کی مزید شناخت کیا ہے؟ ان کو خوف و غم کیوں نہیں؟ خوشخبری کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ کلمات کیا ہیں؟ جواب: أئمّۂ اہل بیت اطہار علیہم السّلام، آیات و احادیث در بارۂ ولایتِ علی علیہ السّلام، خوف و غم کا قانون قیامت تک جاری ہے، چونکہ اولیاء اللہ دنیاوی زندگی ہی میں تجربۂ ذاتی قیامت سے گزر جاتے ہیں، اس لئے ان کے خوف و غم کا خاتمہ ہو جاتا ہے، خوشخبری ذاتی قیامت کی شکل میں ملتی ہے، اور کلمات سے اللہ کے کلماتِ تامّات مراد ہیں، جن میں علم و حکمت کے نمونے اور اصل بشارت ہے۔ |
۸۷
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۴۳
اَوۡلِیَآء اللہ (۳) |
سلمان فارسی جیسے مومنین: سوال: کیا خدا، رسولؐ اور أئمّۂ ہدا (ع) کا یہی منشاء ہے کہ صرف ایک ہی خاندان سے اولیاء اللہ ہوتے جائیں؟ جواب: نہیں نہیں، یہ حضرات نمونۂ ہدایت، صراطِ مستقیم، اور دروازۂ نبیؐ ہیں، پس جو بھی سلمان فارسی کی طرح عشق و محبت سے ان میں فنا ہو جائے، وہ خدا کے ان خاص دوستوں میں سے ہو جائے گا۔ |
|
۱۴۴
اَھۡلَ الۡبَیۡت (۱) |
اھلِ بیتِ محمّدؐ: سورۂٌ احزاب (۳۳: ۳۳) میں ارشاد ہے: اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللہُ لِیُذھِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَھۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَھِّرَکُمۡ تَطۡھِیۡرًا۔ اے (پیغمبرؐ کے) اہل بیت خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو (ہر طرح کی) برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے۔ اہل بیت سے خود رسول اللہ، حضرت علی، حضرتِ فاطمہ، حضرتِ حسن اور حضرتِ حسین صلوات اللہ علیہم مراد ہیں (صحیح مسلم جلد ششم، کتاب الفضائل)۔ |
۸۸
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۴۵
اَھۡلَ الۡبَیۡت (۲) |
اھلِ بیتِ رسولؐ: حضورِ انور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے دو گھر تھے، ایک خانۂ ظاہر، اور دوسرا خانۂ باطن، جو نورانیّت کا گھر تھا، چنانچہ مذکورہ آیۂ مقدّسہ میں خانۂ نورانیت کا ذکر ہے، جس کے بارے میں آنحضرتؑ نے “دار الحکۃ” کا لفظ استعمال فرمایا۔ |
|
۱۴۶
اَھۡلَ الۡبَیۡت (۳) |
اھلِ بیتِ پیغمبرؐ: أئمّۂ آلِ محمّدؐ صلوٰۃ اللہ علیہ و علیہم اجمعین سب خانۂ روحانیّت و نورانیّت میں داخل ہیں، لہٰذا ہر امامؑ اہل بیتِ رسولؐ کہلاتا ہے، جبکہ سلمان فارسی ایک حقیقی مومن کی حیثیت سے اہل بیت میں شامل ہو گیا، تو پھر أئمّۂ طاہرین (حاملانِ نور) کے اہل بیت میں شامل ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ |
|
۱۴۷
اَھۡلَ الۡبَیۡت (۴) |
محمّدؐ و آلِ محمّدؐ: اسماعیلی مذہب میں ایک مخفی اصطلاح ہے، وہ ہے “بیت الخیال” یعنی خیال کا نورانی گھر، جس میں داخل ہوجانے کے لئے اسمِ اعظم کی خصوصی عبادت کی جاتی ہے، یہ روحانیّت و نورانی کا گھر در اصل محمّدؐ و آلِ محمّدؐ کا گھر ہے، جس میں جو بھی داخل ہوسکے وہ سلمان فارسی ہی |
۸۹
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
کی طرح اہلِ بیت میں سے ہوجاتا ہے، جس کے بارے میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوٰت اللہ علیہ نے عالیشان تعلیمات دی ہیں، جو درجِ ذیل ہیں: |
||
۱۴۸
اَھۡلَ البَیۡت (۵) |
سلمان الخیر سلمان فارسی: “آپ کا مکان کتنا عالیشان ہے، اس کا آپ کو علم نہیں ہے، سلمان فارسی اہلِ بیت آپ جیسا تھا، پیغمبرؐ فرماتے تھے کہ سلمان فارسی اہلِ بیت جیسا اچھا تھا، وہ اپنے اصل مکان پر پہنچا، سلمان فارسی بھی آپ جیسا انسان تھا، آپ بھی عبادت کرکے سلمان فارسی جیسے بن سکتے ہیں، آپ عبادت کریں، تو پیر صدر الدّین جیسے ہوسکتے ہیں”۔ (حضرت امام سلطان محمّد شاہؑ کا ارشاد: جام نگر، ۶/۴/۱۹۰۰ء)۔ |
|
۱۴۹
اَھۡلَ الۡبَیت (۶) |
سلمان فارسی: “دیکھیں مرتضٰی علیؑ کے اصحاب سلمان جیسے تھے، وہ سلمان فارسی ایرانی تھا، پھر بھی آپ نے عبادت بندگی کی بدولت اہل بیت کا درجہ حاصل کیا، آپ بھی ایسی ہی ہمّت کریں، اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ آپ ایسے نہ بن سکیں، فقط آپ کی اپنی نا ہمّتی ہے، آپ کے دل میں ہمّت ہونی چاہیے۔ (حضرت امام سلطان محمّد شاہ کا ارشاد: ۱۹/۱۰/۱۹۰۳ء)۔ |
۹۰
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۵۰
اَھۡلَ الۡبَیۡت (۷) |
اھلِ بیتِ پیغمبرؐ: سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیہما السّلام کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ دونوں اپنی قوم کے لئے مصر (شہر = عالم شخصی) میں گھر تیار کریں، اور ان گھروں کو قبلہ ٹھہرائیں (پھر ان کو روحانی ترقی دیکر خدا کے گھر کا درجہ دیں) اور نماز قائم کریں اور مومنین کے لئے خوشخبری دیں۔ اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ اللہ نے ہمارے پیغمبر اکرم اور علی زمان علیہما السّلام کو حکم دیا ہے کہ مومنین کے باطن میں بیت الخیال (خیال کا نورانی گھر) تیار کریں۔ |
|
۱۵۱
اَھۡلَ الۡبَیۡت (۸) |
آلِ محمّدؐ آلِ عبا: حضرتِ امّ سلمہ سے روایت کی گئی ہے کہ نبیّٔ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حسنؑ و حسینؑ، علیؑ اور فاطمہؑ کو ایک چادر اوڑھائی اور دعا کی کہ یا اللہ! یہ میرے اہل بیت اور خاص لوگ ہیں ان سے ناپاکی کو دور رکھ، انہیں اچھی طرح پاک کر دے، اُمِّ سلمہ نے عرض کیا: میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟ آپؑ نے فرمایا، تم خیر ہی پر ہو۔ جامع ترمذی جلد دوم، ابواب المناقب، حدیث۳۶۴۲)۔ |
۹۱
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۵۲
اَھۡلَ الۡبَیۡت (۹) |
اھلِ بیتِ رسولؐ: آیۂ مباہلہ کا ترجمہ: “پھر جب تمہارے پاس علم آچکا اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) عیسٰیؑ کے بارے میں حجّت کرے تو کہو کہ (اچھا میدان میں) آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو، اور ہم اپنی جانوں کو بلائیں اور تم اپنی جانوں کو، اس کے بعد ہم سب مل کر (خدا کی بارگاہ میں) گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں (۰۳: ۶۱)”۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حضرتِ علیؑ، اور حضرتِ فاطمہؑ اور حضرتِ حسنؑ و حضرتِ حسینؑ کو بلایا پھر فرمایا یا اللہ! یہ میرے اہلِ (بیت) ہیں۔ (صحیح مسلم، جلد ششم، کتاب الفضائل)۔ |
|
۱۵۳
اَھۡلَ الذِّکر |
ذکر والے، أئمّۂ آلِ محمّدؐ: سورۂ انبیاء (۲۱: ۰۷) میں ہے: اور اے نبیؐ! تم سے پہلے بھی ہم نے مرد ہی (پیغمبر بنا کر) بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے، اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔ اہل ذکر کون ہیں جو نبوّت و رسالت کے جملہ اسرار سے واقف و آگاہ ہونے کی وجہ سے پیغمبروں سے متعلق ہر سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ یہ حضراتِ أئمّۂ آلِ محمّدؐ ہی ہیں، جن کا سلسلۂ پاک قیامۃ القیامات تک جاری ہے۔ |
۹۲
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
۱۵۴
اھل الذّکر (۲) |
أئمّۂ طاھرین: ذکر حضرتِ رسولؐ کا نام ہے (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) اہلِ ذکر خاندانِ رسولؐ ہیں، ذکر قرآن ہے، (۲۱: ۵۰) اہل ذکر اہل قرآن ہیں، ذکر اسمِ اعظم ہے یعنی اسماء الحسنیٰ، اور اہلِ ذکر (اسمِ اعظم والے) أئمّۂ طاہرین ہیں، پس اہلِ ذکر سے أئمّۂ ھُدا مراد ہیں، جو علمِ لدنّی کی دولت سے مالا مال ہیں، اور وہ ہر مشکل علمی سوال کا جواب بہ آسانی دے سکتے ہیں۔ |
|
۱۵۵
اھل الذّکر |
اِمامانِ حق: یہاں کا طریقِ سوال عام نہیں بلکہ خاص ہے، وہ یہ ہے کہ آپ علم الیقین و عبادت سے بھرپور فائدہ حاصل کریں، پھر مظہرِ نورِ خدا (امامِ زمانؑ) کی دانشگاہِ روحانی میں داخل ہوجائیں، یہ صرف اسمِ اعظم ہی کی زبردست ریاضت سے ممکن ہے، اگر آپ کو خوش بختی سے کامیابی نصیب ہو جاتی ہے تو آپ کا یہ بیمثال عمل خود ایک ایسا بڑا علمی سوال ہے، جس میں لاکھوں سوالات سمائے ہوئے ہیں، اور اگر ایسا کام نہ کیا گیا تو گویا اہلِ ذکر سے خدائی قانون کے مطابق کوئی علمی سوال ہی نہ ہوا۔ |
|
۱۵۶
اَھِلَّۃ (۱) |
نئے چاند، واحد ھلال: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۸۹) میں ہے: یَسۡئَلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَھِلَّۃِط |
۹۳
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
قُلۡ ھِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَحِّ۔ لوگ تم سے نئے چاندوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ وہ لوگوں کے لئے اور حج کے لئے وقت بتانے کا آلہ ہیں۔ اس کی چند حکمتیں یہ ہیں: (۱) سورج نورِ ازل کی مثال ہے اور نیا چاند اس کے مظہرِ زمانہ کا نورانی تولّد ہے (۲) سورج پیغمبرِ اکرمؐ کی دلیل ہے اور چاند امامِ زمان ؑ کی علامت ہے (۳) ہر چیز کا تجدّد ہوتا ہے لیکن چاند کا تجدّد نمایان ہے۔ |
||
۱۵۷
اَھِلَّۃ (۲) |
نئے چاندوں کی حکمت: (۴) سورج کا زبانِ حال سے کہنا ہے کہ مجموعی طور پر خدا کی سنّت میں کوئی تبدیلی نہیں، چاند کہتا ہے کہ ذیلی طور پر ہر روز اس کی ایک نئی شان ہے (۵) سورج اس حقیقت کی شہادت ہے کہ اللہ کی ایک ہی بادشاہی کافی وافی ہے، نیا چاند یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہر عالمِ شخصی میں کائناتی سلطنت کی ایک کاپی ہے (۶) آفرینش ظاہراً سورج کی طرح ایک بار ہوئی، لیکن باطنًا نئے چاندوں کی طرح یہ ایک ایسا سلسلہ ہے کہ اس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔ |
|
۱۵۸
اَھِلَّۃ (۳) |
نئے چاندوں کی حکمت: (۷) دنیا میں مادّی روشنی کے ذریعے دو ہیں، دن کے وقت سورج |
۹۴
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
اور رات کے وقت چاند، اسی طرح دین میں نورِ ہدایت کے سرشمے دو ہیں، ظاہر میں رسولؐ اور باطن میں امامِ زمانؑ (۸) پہے ناطق سورج ہے اساس چاند، پھر اساس آفتاب ہے امامؑ ماہتاب، پھر امامؑ شمس ہے باب قمر (۹) جب مومن کے نور کا چاند مرتبۂ عقل پر جاکر بدرِ منیر ہو جاتا ہے تب اس کو دیدارِ اقدس اور حجِّ اکبر کی سعادت نصیب ہو جاتی ہے، یہ اشارہ لفظِ مواقیت اور حج میں موجود ہے۔ |
||
۱۵۹
اَھِلَّۃ (۴) |
حکمتِ ھلال: (۱۰) “تھݸݽ گٹو جو مین شرݸ جو” یہ زمانۂ قدیم سے رویت ہلال کی ایک دعا تھی، روحانی نے بار بار خاص طور سے پڑھ کر اس کی عظیم حکمتوں کی طرف توجہ دلائی (۱۱) چاند مثال کے طور پر ہر بار نیا لباس پہنتا ہے، مگر اس کا کام وہی ہے، چنانچہ حضرتِ امامؑ ہر زمانے میں جامہ تبدیل کرتا ہے، مگر اس کے پاس علمِ قدیم وہی ہے (۱۲) اس دعا میں جسم و جان کی تازگی اور عقلی نعمت مطلوب ہے۔ |
|
۱۶۰
ایّام اللہ (۱) |
خدا کے دن: حق تعالٰی کے سات دن یہ ہیں: چھ ناطق اور قائم علیہم السّلام، ان کی روحانیّت و نورانیّت عارفین و کاملین کے عالمِ شخصی میں دیکھی |
۹۵
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
جا سکتی ہے، جیسے قرآنِ پاک میں ارشاد ہے: وَ ذَکِّرۡھُمۡ بِاَیّٰمِ اللہِ۔ اور انہیں خدا کے وہ زندہ اور نورانی دن یاد دلاؤ جن میں علم و حکمت کے معجزے ہوئے تھے (۱۴: ۰۵) |
||
۱۶۱
ایّام اللہ (۲) |
خدا کے دن: اِنَّ فِیۡ ذَالِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ (۱۴: ۰۵) یقیناً اس طریقِ کار میں ہر صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لئے معجزے ہی معجزے ہیں، صبّار وہ شخص ہے جو راہِ روحانیّت کی شدید آزمائشوں میں صبر کرنے کی ہمّت رکھتا ہے اور شکور کے یہ معنی ہیں کہ وہ علم و عمل سے روحانی و عقلانی نعمتوں کی قدردانی کرتا ہے۔ |
|
۱۶۲
اَیَّدَھُمۡ |
ان کی تائید کی ہے، مدد فرمائی ہے: وَ اَیَّدَھُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡہُ (یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان کو لکھ دیا ہے) اور اپنی ایک خاص روح سے ان کی تائید کی ہے، (۵۸: ۲۲) پوری آیت اور ما قبل کو قرآن میں پڑھ لیں۔ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: مَا مِنۡ مُؤۡمِنٍ اِلَّا وَ لِقَلۡبِہٖ اُذُنَانِ فِیۡ جَوۡفِہٖ: اُذُنٌ یَنۡفَثُ فِیۡھَا الۡوَسۡوَاسُ الۡخَنَّاسُ، وَ اُذُنٌ یَنۡفُثُ فِیۡھَا الۡمَلَکُ، فَیُؤَیِّدُ اللہُ الۡمُؤۡمِنَ |
۹۶
لفظ | معنی و حکمت “الف” | |
بِالۡمَلَکِ فَذَالِکَ قَوۡلُہُ: وَ اَیَّدَھُمۡ بِرُوۡحٍ مِنۡہُ۔ ہر مومن کے باطن میں دل کے دو کان ہوتے ہیں ایک میں شیطان اپنے وسوسہ کی پھونک مارتا ہے اور دوسرے میں فرشتہ توفیق پھونکتا ہے پس خدا فرشتے سے مومن کی مدد کرتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اور اپنی ایک خاص روح سے ان کی تائید کی ہے (۵۸: ۲۲) (الشّافی، جلد چہارم، ص۲۰۵، نیز المیزان، ۱۹، ص۱۹۸)۔ |
||
۱۶۳
ایمان |
ایمان: حدیثِ شریف ہے: اَلۡاِیۡمَانُ یَمَانٍ وَ الۡحِکۡمَۃُ یَمَانِیَّۃٌ۔ ایمان یمن سے نکلا ہے اور حکمت بھی یمن ہی کی ہے (لغات الحدیث، باب الیاء مع المیم) اس کی ایک تاویل یہ ہے: ایمان باعثِ برکت ہے اور حکمت اس پر مزید باعثِ برکت ہے، پس ایمان اور حکمت دونوں ضروری ہیں۔ |
۹۷
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۹۸
بابُ الباء
|
۹۹
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۰۰
لفظ | معنی و حکمت “ب” | |
۱۶۴
بَثَّ (۱) |
اُس نے بکھیرا: خداوند تعالٰی کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان دونوں میں جانداروں کو پھیلا دیا (۴۲: ۲۹) اس سے یقینی طور پر یہ معلوم ہوا کہ کائنات کے ہر ستارے پر مخلوقات موجود ہیں، مگر ہاں، لطیف مخلوق کی بڑی کثرت ہے، جو دکھائی نہیں دیتی ہے۔ |
|
۱۶۵
بَثَّ (۲) |
اُس نے بکھیرا، پھیلایا: یہ سورۂ شوریٰ کی ایک آیت ہے: وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَثَّ فِیۡھِمَا مِنۡ دَآبَّۃٍ (۴۲: ۲۹) اور اس کی نشانیوں میں سے ہے، آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور جو چلنے والے ان دونوں میں پھیلائے۔ اس قرآنی دلیل سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ کائنات کا کوئی حصّہ مخلوقات سے خالی نہیں، عالمگیر روح کو حیات و بقا کا بحرِ محیط مان لیں، اور زندگی کے ایسے بے پایان سمندر کے ہر قطرے کو ایک مخلوق سمجھ لیں، سو عجب نہیں کہ آسمانوں اور ستاروں پر لطیف مخلوقات ہوں۔ |
|
۱۶۶
بَدِیۡع (۱) |
موجِد، ایجاد کرنے والا: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۱۷) میں ارشاد ہے: بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ۔ |
۱۰۱
لفظ | معنی و حکمت “ب” | |
(خدائے تعالیٰ) آسمانوں اور زمین کا مؤجد ہے۔ اللہ کی اس صفت کا خاص تعلق عالمِ امر سے ہے کہ وہ مبدِع ہے اور جب چاہے تو کُنۡ فرما کر کسی چیز کی اِبداع کرتا ہے۔ |
||
۱۶۷
بَدِیۡع (۲) |
ایجاد کرنے والا، مُبۡدِع: سورۂ انعام میں ہے: وہ آسمانوں اور زمین کا مؤجد ہے، اس کے اولاد کہاں ہوسکتی ہے؟ حالانکہ اس کی کوئی بی بی تو ہے ہی نہیں۔ ایک ہے عالمِ خلق، یعنی یہ جہان جو کثیف ہے، اور دوسرا ہے عالمِ امر، یعنی وہ جہاں جو لطیف ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اَلَا لَہٗ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُط تَبٰرَکَ اللہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۷: ۵۴) یاد رکھو کہ خدا ہی کے لئے خاص ہے عالمِ خلق اور عالمِ امر، وہ خدا جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے بڑا برکت والا ہے۔ یعنی عالمِ خلق بھی اور عالمِ امر بھی اُسی کے ہیں، لہٰذا اس کے پاس بے پایان برکتیں ہیں۔ |
|
۱۶۸
بَدِیۡع (۳) |
عجیب و غریب: رَوِّحُوۡا اَنۡفُسَکُمۡ بِبَدِیۡعِ الۡحِکۡمَۃِ فَاِنَّھَا تَکۡمُلُ کَمَا تَکۡمُلُ الۡاَبۡدَانُ۔ حکمت کی عجیب و غریب باتوں سے اپنی جانوں کو راحت دو کیونکہ جانیں بھی اس طرح سے مکمل ہوجاتی ہیں جیسے بدن مکمل |
۱۰۲
لفظ | معنی و حکمت “ب” | |
ہو جاتے ہیں (لغات الحدیث، جلد اوّل، کتاب “ب” ص۲۹)۔ یعنی جانوں کی راحت، قوّت، اور تکمیل علم و حکمت کے عجائب و غرائب سے ہوا کرتی ہے، جس طرح اجسام کی لذّت، خوشی، اور نشو و نما کیلئے ظاہری غذائیں ضروری ہوتی ہیں۔ |
||
۱۶۹
بُرُوۡج |
تاروں کے برج: سورۂ بروج کے شروع (۸۵: ۰۱ تا ۰۳) میں پڑھ لیں: آسمان کی قسم جس میں (بارہ) بُرج ہیں، اور اس دن کی (قسم) جس کا وعدہ ہے، اور گواہ کی (قسم) اور اس کی (قسم) جس کی گواہی دی گئی ہو۔ فلک البُرُوج سے امامِ زمانؑ مراد ہے، جس کے بارہ حجت ہوتے ہیں، وعدے کا دن قائم القیامت ہے، گواہی دینے والا اساس اور جس کیلئے گواہی دی گئی ہے وہ ناطق ہے۔ |
|
۱۷۰
بِسۡمِ اللہ |
اللہ کے نام کے ساتھ: رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم سے بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡم کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا: ھو اسم من اسماء اللہ و ما بینہ و بین اسم اللہ الاکبر الّا کما بین سواد العین و بیاضھا من القرب۔ وہ اللہ کے ناموں میں |
۱۰۳
لفظ | معنی و حکمت “ب” | |
سے سے ایک (بزرگ) نام ہے خدا اور اس کے اسمِ اکبر کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں مگر حقیقت ایسی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی کے درمیان قرب و اتّصال ہے۔ یہ اللہ کے زندہ اسمِ اعظم کی ایک مثال ہے۔ (المستدرک، کتاب الفضائل القرآن، ۲۰۲۷/۸) مزید تاویلی حکمت کیلئے رجوع کریں: کتابِ وجہِ دین، کلام: ۱۴۔ |
||
۱۷۱
بَعۡدِ عِلۡمٍ |
علم کے بعد، پیچھے، دُور: قرآنِ حکیم میں ظاہراً و باطناً ہر چیز کا بیان اور ہر سوال کا جواب باصواب موجود ہے (۱۶: ۸۹) چنانچہ اس میں بہت بڑا راز بھی ہے کہ مشاہداتِ روحانیت کے آخری درجے پر عقل اور علم کا سرچشمہ آتا ہے اور اس کے بعد کوئی چیز نہیں (لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡم بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا۔ ۲۲: ۰۵)۔ یعنی خداوندِ عالم کے خزانۂ علم میں ہر شَیٔ محدود و موجود ہے، اس سے باہر اور برتر چیز نہیں۔ |
|
۱۷۲
بَغۡتَۃ |
اچانک، ناگاہ، ناگہان: قیامت کے بارے میں جاننے کے لئے سب سے پہلے علم الیقین ضروری ہے اس کی ایک کلید بَغۡتَۃ (اچانک) ہے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ یہ لفظ قرآنِ حکیم میں کس طرح استعمال ہوا ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ بَغۡتَۃ |
۱۰۴
لفظ | معنی و حکمت “ب” | |
قرآنِ حکیم کے تیرہ مقامات پر آیا ہے، ان میں سے ایک جگہ بَغۡتَۃَ بمقابلۂ جَھۡرَۃ (کھلّم کھلّا) استعمال ہوا ہے (۰۶: ۴۷) تو یہاں سے معلوم ہوا کہ بَغۡتَۃ کا مطلب ہے مخفی اور باطن، اور چھ مقامات پر بَغۡتَۃ شعور کے معنی میں آیا ہے، تو بَغۡتَۃ کے معنی ہوئے غیر شعوری حالت، پس قیامت عوام النّاس اور اکثریت کے اعتبار سے مخفی اور غیر شعوری طریق پر آتی رہی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قیامت دراصل انتہائی عظیم باطنی اور روحانی واقعہ ہے۔ |
||
۱۷۳
بِغیرِ حساب (۱) |
قیامت کے حساب کتاب کے بغیر: ایک حدیثِ شریف کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ تین قسم کے لوگ قیامت کے حساب کتاب کے بغیر بہشت میں داخل کر دیئے جائیں گے، وہ یہ ہیں: اہلِ فضل، اہل صبر اور جیران اللہ (خدا کے ہمسائے) یعنی علم الیقین والے، عین الیقین والے اور حق الیقین والے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: دعائم الاسلام، حصّۂ دوم، کتاب العطایا، ۳۔ ذکر تباذل و تواصل)۔ |
|
۱۷۴
بِغَیرِ حِسَابٍ (۲) |
قیامت کے حساب کتاب کے بغیر: مریم سلام اللہ علیہا نے کہا: اِنَّ اللہَ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ۔ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے (۰۳: ۳۷) |
۱۰۵
لفظ | معنی و حکمت “ب” | |
یعنی اللہ جس کو چاہے قیامت کے حساب کتاب کے بغیربھی بہشت کا علم عطا کرسکتا ہے۔ |
||
۱۷۵
بُکِیّ |
رونے والے، واحد باکی: سورۂ مریم (۱۹: ۵۸) میں انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی نرم دلی، عاجزی، اور گریہ و زاری کا ذکر جمیل اس طرح آیا ہے: اِذَا تَتۡلٰی عَلَیۡھِمۡ اٰیٰتُ الرَّحۡمٰنِ خَرُّوۡا سُجَّدَا وَّ بُکِیًّا۔ جب ان کے سامنے رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے گر جاتے تھے۔ ایک ہوتا ہے مستانہ عشق، دوسرا ہوتا ہے دیوانہ عشق، پھر عاجزانہ، عارفانہ اور شاکرانہ عشق، اب آپ ہی بتائیں کہ ان حضرات میں کونسا عشق تھا؟ |
|
۱۷۶
بَلَد |
شھر: سورۂ بلد کی چار ابتدائی آیاتِ کریمہ (۹۰: ۰۱ تا ۰۴) کو پڑھیں: نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اس شہر (مکّہ) کی، اور تم باالآخر اس شہر میں اترنے والے ہو، اور قسم کھاتا ہوں باپ کی، اور اس کی اولاد کی جو اس سے پیدا ہوئی، درحقیقت ہم نے انسان کو مشقّت میں پیدا کیا ہے۔ شہر مکّہ سے اساس مراد ہے، جس میں رسولؐ کا نور منتقل ہونے والا تھا، |
۱۰۶
لفظ | معنی و حکمت “ب” | |
باپ سے عقلِ کل مراد ہے، اور اولاد نفسِ کلّ ہے، اس قَسم کے بعد فرمایا گیا کہ انسان کی روحانی تخلیق مشقّت و ریاضت ہی سے ہوتی ہے۔ |
||
۱۷۷
بنی اٰدم (۱) |
اولادِ آدمؑ: یہ بات خوب یاد رہے کہ خدا کے نزدیک بنی آدمؑ وہ حضرات ہیں جن کو حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کی سی خصوصیات عطا ہوئی ہیں، اور وہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور عارفین ہیں، جیسے سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۰) میں ہے: اور ہم نے آدمؑ کی اولاد کو عزّت دی اور ہم نے ان کو خشکی اور سمندر میں سوار کیا، اور ہم نے ان کو لطیف غذائیں عطا فرمائیں اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی۔ |
|
۱۷۸
بنی اٰدم (۲) |
اولادِ آدمؑ: یٰبَنِیۡٓ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ (۰۷: ۳۱) اے بنی آدمؑ! ہر عبادت کے موقع پر اپنی (باطنی اور روحانی) زینت سے آراستہ رہو، جو مومنین بحقیقت بنی آدمؑ ہوچکے ہیں، ان کا عالمِ شخصی روحانی آبادی سے پُربہار ہوگیا ہے، چنانچہ دورانِ عبادت ان کا باطن کسی بھی درجے میں رونق افروز اور منوّر ہوجاتا ہے۔ |
۱۰۷
لفظ | معنی و حکمت “ب” | |
۱۷۹
بُوۡرِکَ |
وہ برکت دیا گیا: سورۂ نمل (۲۷: ۰۸) کی اس عظیم حکمت میں غور و فکر کریں: پھر جب موسیٰؑ اس آگ کے پاس آئے تو ان کو آواز آئی کہ برکت دیا گیا ہے وہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد ہیں، اور پاک ہے وہ خدا جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے۔ حق بات تو یہ ہے کہ “بُوۡرِکَ” کی صفت ذاتِ سبحان کے لئے نہیں، بلکہ یہ نورِ منزّل کی تعریف ہے، جو نورِ یک حقیقت ہے۔ |
|
۱۸۰
بِئۡر |
کُنواں: قرآنِ حکیم میں عالمِ شخصی کی مختلف مثالوں کی فراوانی ہے، من جملہ وہ ایک مرکزی قریہ (بستی) کی طرح بھی ہے، جس میں آبِ شیرین کا ایک کنواں بھی موجود ہے اور ایک عالیشان محل بھی ہے (۲۲: ۴۵) کنویں سے سرچشمۂ علم مراد ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، اور محل اس حقیقت کی دلیل و علامت ہے کہ ہر عالمِ شخصی میں ایک روحانی سلطنت کا امکان ہے، اگر کسی نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو یہ سب کچھ برباد ہوجائے گا۔ |
|
۱۸۱
بیت |
گھر: وَ اِذۡ بَوَّاۡنَا لِاِبۡرَاھِیۡمَ مَکَانَ الۡبَیۡتِ (۲۲: ۲۶) اور جبکہ ہم نے ابراہیمؑ کو خانۂ کعبہ کی جگہ بتلا دی۔ اس آیۂ شریفہ کا باطن یہ |
۱۰۸
لفظ | معنی و حکمت “ب” | |
ہے کہ خداوندِ عالم نے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں بیت اللہ بنا دیا، کیونکہ آپ امام تھے (۰۲: ۱۲۴)۔ |
||
۱۸۲
بیتُ العتیق |
قدیم گھر، خانۂ کعبہ، امام کا مرتبہ: سورۂ حجّ (۲۲: ۲۹) میں دیکھ لیں: پھر چاہئے کہ دور کریں اپنی میل کچیل اور پوری کریں اپنی نذریں اور طواف کریں ایسے گھر کا جو بہت قدیم ہے (۲۲: ۲۹) بیت العتیق، قدیم گھر، خانۂ کعبہ جو عبادتِ الٰہی کے لئے دنیا میں سب سے پہلا مقام اور مکان ہے، جسے حضرتِ آدمؑ علیہ السّلام نے خدا کی عبادت کے لئے تعمیر کیا تھا۔ یہ مثال ہے اور اس کا ممثول امام علیہ السّلام ہے۔ |
۱۰۹
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۱۰
بابُ التّاء
|
۱۱۱
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۱۲
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۱۸۳
تَابُوۡت |
صندوق، تابوتِ سکینہ: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۸) میں جیسے ارشاد ہوا ہے، اس کا تاویلی مفہوم اس طرح ہے: تابوت (صندوق) سے مجموعۂ معجزاتِ روحانی مراد ہے، جس میں ربّ العزّت کی جانب سے روحی و عقلی تسکین ہے، اور نبوّت و امامت کے علمی تبرّکات ہیں، چونکہ صندوقِ سکینہ روحانی ہی ہے، لہٰذا اسے لے آنا فرشتوں کا کام ہے، یہ باطنی معجزہ امامِ عالی مقامؑ کی روحانی سلطنت کی دلیل ہے۔ |
|
۱۸۴
تأویل (۱) |
اوّل کی طرف پھیرنا، باطنی معنی، حکمت: تأویل لفظ “اوّل” سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کو اوّل کی طرف پھیرنا، اور اصطلاحاً کسی کلام کے باطنی معنی بیان کرنے کو کہتے ہیں، تأویل حکمتِ باطن ہے۔ |
|
۱۸۵
تأویل (۲) |
علمِ لَدُنِّی: تأویل کا ایک قرآنی نام “علمِ لَدُنِّی” ہے، جیسا کہ اللہ کے اُس بندۂ خاص کو علمِ لُدُنّی عطا ہوا تھا، جو دو دریاؤں کے سنگم پر رہتا تھا (۱۸: ۶۵) او یہی علمِ تأویل ہے (۱۸: ۷۸ تا ۸۲)۔ |
۱۱۳
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۱۸۶
تأویل (۳) |
قرآن کا باطن: اِنَّ لِلۡقُرۡاٰنِ ظَاہِرًا وَّ بَاطِنًا….. (قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ….. (احیاء العلوم، جلد اوّل، دوسرا باب، عقاید کا بیان) پس قرآن کا باطن ہی تأویل ہے جو بیحد ضروری ہے کہ اس میں جواہرِ اسرار پنہان ہیں۔ |
|
۱۸۷
تأویل (۴) |
حکمت: قرآنِ پاک کی متعدد آیات میں کتاب اور حکمت کا ذکر آیا ہے (۰۲: ۱۲۹) ایسی صورت میں کتاب سے تنزیل اور حکمت سے تأویل مراد ہے، جیسا کہ یہ مفہوم ہے: (اے گروہِ أئمّہ!) جس طرح ہم نے تم ہی میں سے ایک رسولؐ بھیجا جو تم کو (روحانیت میں) ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے (۰۲: ۱۵۱) |
|
۱۸۸
تأویل (۵) |
ممثول: جو تنزیل ہے وہ مثال ہے اور جو تأویل ہے وہ ممثول، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ حکیم کی مثالیں آنحضرتؐ کے بعد أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی جانتے ہیں، اور اسی معنٰی میں وہ حضرات صاحبانِ تأویل ہیں (۲۹: ۴۳) دعائم الاسلام، المجلّد الاوّل، کتاب الولایہ کو پڑھ لیں۔ |
۱۱۴
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۱۸۹
تأویل (۶) |
تطبیقِ روحانیت و عقلانیت: آیت، حدیث اور فرمان کے حقائق و معارف روحانیّت و عقلانیّت ہی میں موجود ہوتے ہیں، لہٰذا کسی ایسی چیز کی حقیقت و معرفت بیان کرکے اصل سے مطابقت پیدا کرنا تأویل ہے۔ |
|
۱۹۰
تأویل (۷) |
علمِ قیامت: کوئی شخص تجربۂ ذاتی قیامت کے بغیر تأویل نہیں کرسکتا، اور ذاتی قیامت موت قبل از موت کا نتیجہ ہے، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: مَنۡ مَّاتَ فَقَدۡ قَامَتۡ قِیَامَتُہٗ۔ جو کوئی مرتا ہے اس کی قیامت برپا ہوجاتی ہے (احیاء العلوم، جلد چہارم، دوسرا باب، صبر کی حقیقت)۔ |
|
۱۹۱
تأویل (۸) |
تعبیر: سورۂ یوسف کی آیت ۴۳ تا ۴۴ سے ظاہر ہے کہ تأویل کا نام تعبیر بھی ہے، جس کا علم حضرات أئمّہ علیہم السّلام ہی کے پاس ہے، جیسے خداوندِ قدّوس نے حضرتِ امام یوسف علیہ السّلام کو تأویل سکھایا تھا (۱۲: ۰۶؛ ۱۲: ۲۱؛ ۱۲: ۴۴؛ ۱۲: ۱۰۱)۔ |
۱۱۵
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۱۹۲
تأویل (۹) |
بیان: نہایت مہربان خدا نے قرآن کی لَدُنّی تعلیم دی، اسی نے انسانِ کامل کو (مرتبۂ اعلٰی پر) پیدا کیا اور اسے بیان یعنی تأویل سکھائی (۵۵: ۱ تا ۴) |
|
۱۹۳
تأویل (۱۰) |
تاویلی حکمت: اَللّٰھُمَّ فَقِّھۡہُ فِی الدِّیۡنِ وَ عَلِّمۡہُ التَّاوِیۡلَ۔ یعنی بارِ اِلٰھَا! تو اس کو دین کی سمجھ عطا فرما اور تأویل کا علم مرحمت کر۔ (الاتقان، حصّۂ دوم، نوع ۷۸) یہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کی وہ مبارک دعا ہے جو ابنِ عبّاسؓ کے لئے کی گئی تھی، یہ تأویل کی اہمیت و ضرورت پر بڑی روشن دلیل ہے۔ |
|
۱۹۴
تأویل (۱۱) |
قرآن کی باطنی حکمت: آنحضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اِنَّ منکم من یقاتل علٰی تأویل ھٰذا القراٰن کما قاتلت علٰی تنزیلہ۔ یقیناً تم میں وہ شخص بھی ہے جو اس کی تأویل پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی۔ یعنی علیؑ (شرح الاخبار، الجزاء الرّابع، ص۳۳۷) |
۱۱۶
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۱۹۵
تأویل (۱۲) |
علمِ مکنون: مولا علی صلوات اللہ علیہ نے قرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا: ظاھرہُ عملٌ موجوبٌ، و باطنہُ علمٌ مکنونٌ محجوبٌ، و ھو عندنا معلومٌ مکتوبٌ۔ قرآن کا ظاہر وہ عمل ہے جو لازم و واجب ہے، اور اس کا باطن درپردہ پوشیدہ علم ہے، اور وہ ہمارے پاس معلوم و مرقوم ہے (دعائم الاسلام، المجلد الاوّل، ذکر منازل الأئمّۃ، ص۵۳)۔ |
|
۱۹۶
تأویل (۱۳) |
اوّل کی طرف پھیرنا، ممثول بیان کرنا؛ سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲) میں ہے: اور ہم نے ان کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی ہے جس کی تفصیل ہم نے ایک خاص علم سے کی ہے، اور وہ مومن لوگوں کیلئے ہدایت اور رحمت ہے۔ یعنی قرآن کی تفصیل و توضیح نورِ منزّل (۰۵: ۱۵) میں کی گئی ہے، اور وہ تأویل ہی ہے۔ |
|
۱۹۷
تأویل (۱۴) |
باطنی معنی، تأویل: بعد ازان ارشاد ہے: ھَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا تَاۡوِیۡلَہٗ (۰۷: ۵۳) وہ اُس (یعنی قرآن) کی تأویل کے سوا کس چیز کے منتظر ہیں؟ سابقہ آیت میں کتاب (قرآن) کا ذکر ہوا ہے، اس لئے تَاۡوِیۡلَہٗ کی ضمیر قرآن |
۱۱۷
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
کی طرف راجع ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کی عملی اور آخری تأویل قیامتِ کُبریٰ ہے، جس کا ظاہری پہلو سائنسی انقلاب ہے اور باطنی پہلو روحانی انقلاب۔ |
||
۱۹۸
تأویل (۱۵) |
باطنی حکمت، تأویل: یَوۡمَ یَاتِیۡ تَاۡوِیۡلُہٗ….. جس روز اس کی تأویل آئے گی اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے بیٹھے تھے وہ یوں کہنے لگیں گے کہ واقعی ہمارے ربّ کے پیغمبرؐ حق لیکر آئے تھے، (۰۷: ۵۳) حق سے ولایتِ علیؑ مراد ہے، پس ان لوگوں کو بڑا افسوس ہوگا کہ وہ تأویل اور صاحبِ تأویل یعنی حضرتِ علی علیہ السّلام کو بھول چکے تھے۔ (الحق = ولایتِ علیؑ، دیکھو شرح الاخبار، جلد۲، ص۲۳۷، نیز دیکھو حق علیؑ کے ساتھ ہے، المستدرک، الجزء الثالث، ص۱۳۵) |
|
۱۹۹
تأویل (۱۶) |
حکمتِ باطن، تأویل: حدیثِ خاصفُ النّعل: انّ منکم من یّقاتل علٰی تأویل القراٰن کما قاتلت علٰی تنزیلہ۔ یقیناً وہ شخص بھی تم میں سے ہے جو قرآن کی تأویل پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی (المستدرک، الجزء الثّالث، کتاب معرفۃ |
۱۱۸
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
الصّحابۃ ص۱۳۲) |
||
۲۰۰
تأویل القراٰن (۱) |
قرآن کی تأویل: کوکبِ دُرّی، بابِ دُوم، منقبت۶۷ میں یہ حدیث اپنے حوالہ جات کے ساتھ درج ہے: اِنَّ مِنۡکُمۡ مَنۡ یُّقَاتِلُ عَلٰی تَاۡوِیۡلِ الۡقُرۡاٰنِ کَمَا قَاتَلۡتُ عَلٰی تَنۡزِیۡلِہٖ۔ تم میں سے ایک شخص ہے کہ وہ تأویلِ قرآن پر جنگ کرے گا، جیسا کہ میں نے تنزیلِ قرآن پر جنگ کی ہے، آنحضرتؐ سے پوچھنے پر اشارہ فرمایا گیا کہ وہ شخص علیؑ ہے، جس سے تمام أئمّۂ آلِ محمّدؐ مراد ہیں، جن میں علیؑ کا نورِ مقدّس تاویلی جنگ کرنے والا تھا۔ |
۱۱۹
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۲۰۱
تأویل القراٰن (۲) |
قرآن کی تأویل: عبد اللہ بن عباس بن عبد المطلب کے حق میں آن حضور اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے یہ دعا فرمائی تھی: اللّٰھُمّ فَقّھہ فی الدّین ع علّمہٗ التّاویل۔ اے اللہ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما اور (قرآن کی) تأویل سکھا دے۔ کسی اور موقع پر آنحضرت صلعم نے عبد اللہ بن عباس کے لئے ان الفاظ میں دعا فرمائی: اللّٰھمّ علّمہ تأویل القراٰن۔ اے اللہ اسے قرآن کی تأویل سکھا دے! (المستدرک، الجزء الثالث، |
۱۱۹
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
کتاب معرفۃ الصّحابۃ)۔ |
||
۲۰۲
تأویل القراٰن (۳) |
قرآن کی حکمت: یہ حدیثِ شریف خاص و عام میں مشہور ہے، اور یہ اس حقیقت کی ایک روشن دلیل ہے کہ خداوند تعالٰی نے ان حضرات کو علمِ تأویل کی دولت سے مالامال فرمایا ہے جن کا نامِ مبارک قرآنِ پاک میں راسخون فی العلم (۰۳: ۰۷) ہے اگر یہ بات نہ ہوتی تو حضورِ اکرم اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم غیر ممکن چیز کے لئے دعا نہ کرتے، پس تأویل حکمت کا دوسرا نام ہے، اور حکمت سے کون منکر ہوسکتا ہے۔ |
|
۲۰۳
تَأوِیۡلَہٗ (۱) |
اُس کی تأویل: سورۂ اعراف (۰۷: ۵۲) میں قرآنِ پاک کے ذکر کے بعد یہ ارشاد ہے: اب کیا یہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات کے منتظر ہیں کہ تأویل (بصورتِ قیامت) سامنے آئے گی ((۰۷: ۵۳)؟ اس حکم سے یہ ظاہر ہوا کہ اجتماعی اور عمومی تأویل اجتماعی قیامت کی شکل میں آنے والی ہے۔ |
|
۲۰۴
تَأوِیۡلَہٗ (۲) |
اس کی تأویل: بلکہ جس چیز (قرآن) کے علم پر قابو نہیں پاسکے اس کو (نادانی سے) جھٹلا دیا۔ |
۱۲۰
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
حالانکہ ابھی تک اُن کے پاس اس کی تأویل نہیں آئی ہے (یونس، ۱۰: ۳۹) یعنی اصل روشنی اور فیصلہ کن علم بس تأویل ہی ہے۔ |
||
۲۰۵
تائید |
مدد، خدا کی مدد: سورۂ مجادَلہ میں ارشاد ہے: وَ اَیَّدَھُمۡ بِرُوۡحٍ مِنۡہُ۔ اور خدا نے اپنی طرف سے ایک (خاص) روح عطا کرکے اُن کی مدد فرمائی (۵۸: ۲۲) یہ حزبُ اللہ (خدا کی جماعت) کی شان میں ہے، جس میں ہدایت کا سرچشمہ اور روح القدس کی تائید ہے، جبکہ حزبُ الشَّیطان (۵۸: ۱۹) کو یہ سعادت حاصل نہیں۔ |
|
۲۰۶
تَبَارَک |
بابرکت ہے: سورۂ اعراف (۰۷: ۵۴) میں ہے: آگاہ ہوجاؤ کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر اسی کے لئے ہیں، وہ خدا جو عوالمِ شخصی کا پروردگار ہے، بڑا بابرکت والا ہے (۰۷: ۵۴) یہاں دائرۂ کلّ کے سرِّ اسرار کا بے مثل خزانہ پوشیدہ ہے، وہ یہ کہ حضرتِ ربّ العزّت برکات کا بے پایان سمندر عالمِ خلق سے عالمِ امر کی طرف بہا دیتا ہے، اور برکتوں کا دوسرا سمندر عالمِ امر سے عالمِ خلق کی طرف بہاتا رہتا ہے، ان برکاتِ خداوندی کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ یہ دائرۂ قدیم ہے۔ |
۱۲۱
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۲۰۷
تَبَتَّلۡ |
تو کٹ جا، منقطع ھوجا: سورۂ مزمّل (۷۳: ۰۸) میں فرمایا گیا ہے: وَ اذۡكُرِ اسۡمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلۡ اِلَیۡهِ تَبۡتِیۡلًا۔ اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرتے رہو، اور سب سے منقطع ہوکر اسی (یعنی خدا) کی طرف توجّہ دو۔ اس سورہ کی تعلیمات کارِ بزرگ سے متعلق ہیں، شب خیزی اسی مقصد کے پیشِ نظر ہے، لیکن مومنِ ذاکر کس طرح تمام خیالات سے کٹ کر دریائے ذکر میں مستغرق ہوسکتا ہے؟ یہ ہنر ایسا نہیں جو ایک ہی دن میں کسی کو حاصل ہوسکے، فرمایا گیا کہ مسلسل شب خیزی سے نفس خوب پامال ہوسکتا ہے اور گفتگو کی درستی اور ترقی بھی اسی میں ہے (۷۳: ۰۶)۔ |
|
۲۰۸
تُبَدَّلُ الۡاَرۡض |
زمین بدل دی جائے گی: یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوۡا لِلّٰهِ الۡوَاحِدِ الۡقَهَّارِ۔ جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی (بدل دیئے جائیں گے) اور سب لوگ خدائے واحد و زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے (سورۂ ابراھیم ۱۴: ۴۸) قیامت کے دن لوگ اِس مادّی زمین سے عالمِ شخصی کی روحانی زمین میں منتقل کر دیئے جائیں گے، لہٰذا ان کے سامنے دوسری زمین ہوگی اور |
۱۲۲
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
آسمان بھی دوسرے ہوں گے اور سب لوگ خدائے یگانہ و زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے (مفہوم ۱۴: ۴۸)۔ |
||
۲۰۹
تَبِعَ |
اُس نے پیروی کی، وہ تابع ہوا: قرآنِ حکیم میں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا ایک بڑا اہم اصولی قول ہے: فَمَنۡ تَبِعَنِیۡ فَاِنَّہٗ مِنِّیۡ (۱۴: ۳۶) پس جو شخص میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے۔ یعنی وہ میری روحانی اولاد ہے، اگر ہم سوچ سکیں تو اس اصول میں بہت سی حکمتیں ہیں، یعنی اسلام جو دینِ فطرت ہے اس کی ترقّی میں کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ پیغمبرؐ اور امامؑ کے پیچھے پیچھے چل کر منزلِ مقصود تک پہنچ جانے کا روشن امکان ہے۔ |
|
۲۱۰
تَجَلّٰی (۱) |
وہ روشن ہوا، ظاہر ہوا، تجلّی کی: عالمِ شخصی کے روحانی سفر میں سب سے پہلے جبلِ روح سامنے آتا ہے اور آخر میں جبلِ عقل، جبلِ روح پروردگار کی تجلّی سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے، اس لئے وہاں حضرتِ موسیٰؑ کو ربّ کا دیدار نہیں ہوا (۰۷: ۱۴۳) لیکن جبلِ عقل پر ہر نبیؐ اور ہر ولی کو دیدار ہوتا ہے، کیونکہ وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہتا ہے۔ |
۱۲۳
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۲۱۱
تَجَلّٰی (۲) |
وہ روشن ہوا، ظاہر ہوا، تجلّی کی: انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کو نہ صرف آخر ہی میں بلکہ دنیا کی روحانیّت میں بھی اللہ کا دیدار حاصل ہوتا ہے، جس کی پہلی دلیل لفظِ تجلّٰی ہے، یعنی ظاہر ہوا (۰۷: ۱۴۳) دوسری دلیل اسمِ الظّاہر ہے (۵۷: ۰۳) تیسری دلیل اسمِ اَلنُّور ہے چوتھی دلیل اَلشہید (گواہ/حاضر) ہے، پانچویں دلیل فنا فی اللہ ہے کہ وہ نتیجۂ دیدار ہے، چھٹی دلیل لفظِ عارف اور معرفت ہے کہ وہ دیدار کے سوا ممکن ہی نہیں، اور ساتویں دلیل قرآنی لفظِ لقاء (ملنا، ملاقات کرنا) ہے۔ |
|
۲۱۲
تَرۡکَبُنَّ |
تم ضرور سوار ھوگے: لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ۔ تم کو درجات (کی سیڑھی) سے ضرور چڑھنا ہے، اس ارشاد میں مادّی اور روحانی تمام مدارج کا اشارہ موجود ہے، یقیناً انسان علم و معرفت یا روحانی سائنس کی غرض سے مطالعۂ کائنات کے عظیم سفر پر روان دوان ہے (۸۴: ۱۹)۔ |
|
۲۱۳
تَطۡمَئِنُّ (۱) |
وہ آرام پاتی ہے، وہ مطمئن ھو جائے: ذکر الٰہی کی سب سے بڑی تعریف اِس آیۂ کریم میں ہے: اَلَا بِذِکۡرِ اللہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۔ خبردار رہو! خداوندِ قدّوس کی یاد ہی سے (مومنین کے) دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے (۱۳: ۲۸) سوال: |
۱۲۴
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
اطمینان کا قرآنی معیار اور پیغمبرانہ نمونۂ عمل کیا ہے؟ جواب: اس کا معیار باطنی معجزات کا مشاہدہ اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا مثالی عمل ہے (دیکھو قرآن میں اطمینان کے آٹھ مختلف صیغے)۔ |
||
۲۱۴
تَطۡمَئِنُّ (۲) |
وہ آرام پاتی ہے، وہ مطمئن ھوجائے: حقیقی اطمینان وہ ہے جو اسمِ اعظم کے ذکر سے خدا کے دوستوں کو مشاہدۂ باطن، دیدارِ الٰہی، معرفت، علم اور حکمت کی صورت میں نصیب ہوجاتا ہے، کیونکہ اصل ذکر جس میں آخری درجے کا اطمینان پوشیدہ ہے وہ اسماء الحسنٰی (۰۷: ۱۸) کے سوا نہیں، ہم نے اپنی کتابوں میں اس مبحث پر گفتگو کی ہے۔ |
|
۲۱۵
تَطۡمَئِنُّ (۳) |
وہ آرام پاتی ہے، وہ مطمئن ھوجائے: سورۂ فجر (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) میں دیکھ لیں: اے نفسِ مطمئنّ اپنے ربّ کی طرف واپس چلو اس حال میں کہ تو اُس سے خوش اور وہ تجھ سے راضی ہے، پس داخل ہوجاؤ میرے خاص بندوں میں (یعنی فنا فی الامام اور فنا فی الرّسولؐ ہوجاؤ کہ اسی درجے میں تمام خاص بندے جمع ہیں) اور میری جنّت میں داخل ہوجاؤ (کہ یہی مرتبۂ فنا جنّت ہے)۔ |
۱۲۵
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۲۱۶
تَطۡمَئِنُّ (۴) |
وہ آرام پاتی ہے، وہ مطمئِن ھوجائے: آیۂ مذکورۂ بالا کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ یاد الٰہی کا تعلق دل سے ہے، لہٰذا اذکار میں سے ذکرِ قلبی سب سے زیادہ مؤثر اور مفید ہوسکتا ہے، جبکہ دل بالکل نرم ہوچکا ہو، اگر دل سخت ہے تو پھر ذکرِ جلی وغیرہ سے دل کو نرم کرنا پڑے گا تاکہ ذکرِ قلبی بحال ہو سکے۔ |
|
۲۱۷
تَعۡمٰی (۱) |
اندھی ہوجاتی ہے: اے نورِ عینِ من! اس حکمت کو سورۂ حجّ (۲۲: ۴۶) میں دیکھ لیں: کیا یہ لوگ (عالمِ شخصی کی) زمین میں چلے پھرے نہیں تاکہ ان کے دل ایسے ہوتے جیسے (حق) باتوں کو سمجھتے یا ان کے ایسے کان ہوتے جن کے ذریعے سے (سچّی باتوں کو) سنتے کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں، بلکہ دل جو سینے میں ہیں وہی اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔ |
|
۲۱۸
تَعۡمٰی (۲) |
اندھی ہوتی ہے: سورۂ حجّ (۲۲: ۴۶) میں ہے: کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ دل جو سینے میں ہیں وہ اندھے ہوجایا کرتے ہیں۔ اس قرآنی تعلیم کا دوسرا پہلو یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے دل کی آنکھ (چشمِ بصیرت) روشن ہوگئی ہے، اور دل کی آنکھ (چشمِ باطن) |
۱۲۶
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
بہت بڑی چیز ہے، جس سے عالمِ شخصی کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوجاتا ہے، اور تمام باطنی نعمتوں کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے۔ |
||
۲۱۹
تَعۡمٰی (۳) |
اندھی ہوتی ہے: سورۂ رعد (۱۶: ۱۳) میں ہے: تم کہو کہ آیا نابینا اور بینا برابر ہوتے ہیں؟ یا اندھیریاں اور روشنی برابر ہے؟ اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ دنیا میں بہت بڑی اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کے دل اندھے ہیں، ان کے مقابلے میں بابصیرت مومنین بہت ہی کم ہیں، بہ ہرکیف چشمِ باطن سے خدا کا دیدار ممکن ہے۔ |
|
۲۲۰
تقویم |
سیدھا کرنا: اللہ تعالٰی نے انسان کو جسماً، روحاً، عقلاً درجات کی سیڑھی پر زینہ بزینہ خلق کرتے ہوئے اعلی العلّیّین تک پہنچا دیا ہے پھر اسے سایۂ بدن اور انائے سفلی کے اعتبار سے ہر نیچی سے نیچی حالت کی طرف پھیر دیا، مگر جو لوگ حقیقی معنوں میں ایمان لائے اور علم و معرفت کی روشنی میں اچھے کام کئے ان کا اجر و صلہ ہمیشہ اور غیر منقطع ہے (۹۵: ۰۳ تا ۰۶) یعنی جو لوگ اپنی روح کو پہچانتے ہیں، وہ خداوندِ قدّوس کی اس بے مثال و لازوال نعمت کو بھی جانتے ہیں کہ اُن کی انائے علوی ہمیشہ بہشت |
۱۲۷
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
میں ہے۔ |
||
۲۲۱
تَلَذُّ الۡا عَیۡنُ |
آنکھوں کو لذّت ہوگی۔ سورۂ زخرف میں جنّت کی نعمتوں کے متعلق ارشاد ہوا ہے: وَ فِیۡهَا مَا تَشۡتَهِیۡهِ الْاَنۡفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعۡیُنُۚ۔ اور وہاں جس چیز کو جی چاہے اور جس سے آنکھیں لذّت اٹھائیں (سب موجود ہیں۔ ۴۳: ۷۱) یعنی بہشت میں نفوس و عقول کیلئے تمام چیزیں (نعمتیں) مہیّا ہیں، اور ان میں سب سے بڑی نعمت خدائے بزرگ و برتر کا دیدارِ اقدس ہے، کیونکہ عاشقانِ الٰہی کی آنکھیں اسی کے لئے روتی رہی ہیں۔ |
|
۲۲۲
تماثیل (۱) |
مورتیں، صورتیں، تصویریں، واحد تمثال: تماثیل: مجسمے بھی ہیں اور تصویریں بھی، تصویریں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں: ظاہری و باطنی، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے جن تماثیل (۲۱: ۵۲) کا ذکر کیا وہ دونوں قسم کے بت ہیں، لہٰذا بہت سے لوگ ظاہری بتوں سے نفرت اور باطنی اصنام سے محبت کرتے ہیں، جس میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔ |
|
۲۲۳
تماثیل (۲) |
روحانی تصویریں: کسی مومنِ سالک کے لئے یہ بات بت پرستی ہرگز نہیں کہ اُس نے |
۱۲۸
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
روحانی سفر کے دوران کوئی معجزہ دیکھا اور اس میں غور کرنے لگا، بلکہ صنم پرستی یہ ہے کہ وہ راہِ روحانیّت کے کسی عجوبہ کا مجاوِر (معتکف) ہوجائے، یعنی اس کو منزل مقصود اور معبود سمجھ کر ٹھہر جائے، کیونکہ آیۂ کریمہ (۲۱: ۵۲) میں جس اندازِ حکمت سے بت پرستی کی مذمّت کی گئی ہے اس کا اشارہ یہ ہے کہ کوئی عاقل کسی ذیلی معجزے کا مجاور بن کر کنزِ ازل سے محروم نہ رہ جائے، جیسا کہ لفظ عاکِفون (۲۱: ۵۲) میں یہ راز پوشیدہ ہے۔ |
||
۲۲۴
تماثیل (۳) |
بہشت کی زندہ تصویریں: حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی حقیقی اور اصل سلطنت باطن اور روحانیت میں تھی، ان کے لئے جنّات عالمِ شخصی میں تماثیل یعنی تصویریں بناتے تھے، بعض علماء کا قول ہے کہ یہ تصویریں صرف ملائکہ اور انبیاء علیہم السّلام کی ہوتی تھیں، لیکن عقلی دلیل یہ ہے کہ روحانی سلطنت میں بہشت کی زندہ عکاسی ہوا کرتی ہے نہ کہ کاغذی تصویریں اور مجسّمے۔ |
|
۲۲۵
تَمَثَّلَ |
اس نے صورت پکڑی، وہ متَمَثَّل ہوا: تَمَثَّلَ = وہ مُتَمَثَّل ہوا، اُس نے صورت پکڑی، یہ مریم سلام اللہ علیہا کے قصّۂ قرآن (۱۹: ۱۷) میں ہے کہ خدا کے حکم سے اس کے پاس انسانِ کامل کی صورت میں فرشتۂ اعظم آیا تھا، جس کو تأویل کی زبان |
۱۲۹
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
میں امامِ زمان صلوٰۃ اللہ علیہ کا جُثَّۂ اِبداعیہ کہا جاتا ہے، جس کو اساس، امام، باب، حجّت اور داعی دیکھ سکتے ہیں، مریمؑ اپنے وقت کے حجج میں سے تھی، اس لئے وہ حجّت کی مثال ہے۔ |
||
۲۲۶
تَمَثَّلَ (۲) |
وہ مُتَمَثَّل ھوا، اُس نے صورت پکڑی: بی بی مریم سلامُ اللہ علیہا ان نیک بخت لوگوں کی قرآنی مثال ہے جو اسمِ اعظم کے مقدّس ذکر میں کامیاب ہوجاتے ہیں، چنانچہ حق تعالٰی کا ارشاد ہے: فَاَرۡسَلْنَاۤ اِلَیۡهَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا (۱۹: ۱۷) پس ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا تو وہ ان کے سامنے ٹھیک آدمی (کی شکل) بن گیا۔ یاد رہے کہ مریم علیہا السّلام حُجَجۡ میں سے ایک حُجّت تھی، اس لئے وہ درجۂ حُجّتی کی مثال ہے۔ |
|
۲۲۷
تَمَثَّلَ (۳) |
اُس نے صورت پکڑی: بَشَرًا سَوِیًّا سے جُثَّۂ ابداعیہ مراد ہے، اور اس کا ایک نام مُبۡدَعۡ بھی ہے، جو بڑا حیران کن معجزہ ہے، وہ یقیناً بہت بڑا فرشتہ ہے اور وہ خود مومن کی ترقّی یافتہ ہستی بھی ہے، یعنی عقلِ کامل، روحِ قدسی، اور جِسمِ لطیف، اسی کا نام بَشَرًا سَوِیًّا ہے۔ |
۱۳۰
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۲۲۸
تَمۡشُوۡنَ (۱) |
تم چلو گے: اے عزیزانِ من! قرآنی حکمتوں کو قدردانی اور شکرگزاری کے ساتھ ذہن نشین کرلواور آیاتِ نور کے سلسلے میں اس آیۂ کریمہ کو بھی بچشمِ بصیرت سے دیکھ لو۔ ترجمہ: اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور اس کے رسول (محمّدؐ) پر ایمان لاؤ (جیسا کہ حق ہے) تاکہ خدا تم کو اپنی رحمت کے دو حصّے اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے ایسا نور مقرر فرمائے گا کہ جس کی روشنی میں تم چلوگے، اور تم کو بخش بھی دے گا (۵۷: ۲۸)۔ |
|
۲۲۹
تَمۡشُوۡنَ (۲) |
تم چلوگے: اے عزیزانِ من! مذکورۂ بالا آئۂ شریفہ کے اِن پُرحکمت الفاظ “وَ یَجۡعَلۡ لَکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ = اور (خدا) تمہاے لئے ایسا نور مقرر فرمائے گا کہ جس کی روشنی میں تم چلو گے۔”میں خوب غور کرکے بتائیں کہ آیا اس نور سے امام علیہ السّلام مراد نہیں ہے؟ یقیناً یہ نور امامؑ ہی ہے جس سے وابستگی کی اوّلین شرط یہ ہے کہ ہم خدا سے ڈریں اور اس کے رسولؐ صاحبِ قرآن پر کما حقہٗ ایمان لائیں، پس صاف طور پر معلوم ہوا کہ خدا ہی نے امامِ آلِ محمّد کو ختم نبوّت کے بعد نورِ ہدایت کی مرتبت پر مقرر فرمایا ہے۔ |
۱۳۱
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۲۳۰
تَمۡشُوۡنَ (۳) |
نورِ ھدایت کی روشنی میں چلوگے: صراطِ مستقیم دنیا کی کوئی سیدھی سڑک ہو نہیں سکتی، یہ در اصل زندہ نورِ ہدایت ہے، اور وہ امامِ زمانؑ صلواۃ اللہ علیہ کی مبارک ہستی ہی ہے، یہ اللہ کا نازل کردہ نور ہے (۰۵: ۱۵) خدا جس کو چاہے اپنے نور کی طرف رہنمائی فرماتا ہے (یَھۡدِی اللہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ۲۴: ۳۵)۔ |
|
۲۳۱
تَنُّوۡرُ |
تنّور: وَ فَارَ التَّنّور (۱۱: ۴۰) اور تنّور اُبل پڑا۔ یعنی اسمِ اعظم کے ذکر نے جوش مارا، ذکر خود بولنے لگا اور طوفانِ روحانیّت کا آغاز ہوا، پس تنور سے اسمِ اعظم کا ذکر مراد ہے۔ |
|
۲۳۲
توبۃ (۱) |
لوٹ جانا: توبہ کے کئی معنی ہیں، سب سے آخری اور سب سے اعلٰی معنی ہیں: رجوع الی اللہ، فنا فی اللہ، جیسا کہ آیۂ پُرحکمت کا ترجمہ ہے: پس تم اپنے خالق کے حضور لوٹ جاؤ اور اپنے نفوس کو قتل کرو (۰۲: ۵۴) یعنی کامیاب توبہ یہ ہے کہ جسمانی موت سے پہلے نفسانی طور پر مر جاؤ، اور یہی فنا فی اللہ ہے۔ |
۱۳۲
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۲۳۳
توبۃ (۲) |
رجوع اِلَی اللہ: اللہ اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات کو لیتا ہے (۰۹: ۱۰۴) یعنی خداوندِ عالم مرتبۂ عقل پر اپنے خاص بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہاں ان سے جواہر کے صدقات کو لیتا ہے۔ |
|
۲۳۴
توبۃ (۳) |
منزلِ فنا کی رسائی: ایک آیۂ کریمہ (۶۶: ۰۵) میں اسلام، ایمان اور فرمانبرداری جیسی صفاتِ عالیہ کے بعد توبہ کا ذکر آیا ہے، جس سے منزلِ فنا کی رسائی مراد ہے، اس آیۂ مبارکہ کو غور سے پڑھ کر دیکھ لیں کہ یہ کسی گناہ کے بعد کی جانے والی توبہ ہرگز نہیں۔ |
|
۲۳۵
توبۃ (۴) |
گریۂ عشقِ الٰہی: بیشک اللہ دوست رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے صاف ستھرا رہنے والوں کو (۰۲: ۲۲۲) ظاہری توبہ اور جسمانی صفائی اللہ کی دوستی کے لئے کافی نہیں ہوسکتی، جب تک عاشقانہ و عارفانہ توبہ (رجوع الی اللہ) اور روح و عقل کی کامل پاکیزگی نہ ہو۔ |
۱۳۳
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
۲۳۶
تَوَکُّلۡ (۱) |
بھروسہ کرنا، کسی کو وکیل بنانا: آپ جب دل میں کہتے ہیں کہ میں خدا پر تَوَکُّلۡ کروں گا تو یہ صرف نیت ہی ہے، آپ زبان سے کہتے ہیں کہ میں تَوَکُّلۡ کرتا ہوں تو یہ محض ایک قول ہے، تا آنکہ آپ ایمان اور علم و عمل کے بہت سے مراحل سے آگے نہ جائیں، کیونکہ تَوَکُّلۡ ایک عملی حقیقت ہے، جس میں چشمِ باطن سے یہ مشاہدہ ہونے لگتا ہے کہ اب خداوند تعالٰی فِعۡلًا وکیل ہو رہا ہے۔ |
|
۲۳۷
تَوَکُّلۡ (۲) |
بھروسہ کرنا، کسی کو وکیل بنانا: اے نورِ عینِ من! قرآنِ حکیم کے الفاظ کے معنی میں حکمتِ بالغہ پوشیدہ ہوتی ہے، اور وہ گویا حظیرۃ القدس تک ایک سیڑھی ہے، ان شاء اللہ جب آپ کو اس کی معرفت حاصل ہوجائے گی تو یقیناً آپ کی قرآن فہمی میں انقلاب آئے گا، چنانچہ حقیقی تَوَکُّلۡ کے معنی یہ ہیں کہ خدا فعلاً آپ کا وکیل ہوجائے اور آپ کا اختیار ختم ہو جائے یا برائے نام رہے، یہ خوشگوار حالت کم از کم روحانی انقلاب کے دوران دیکھی گئی ہے تاکہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی معرفت حاصل ہو۔ قرآنِ حکیم میں تَوَکُّلۡ کا مضمون بڑا عالیشان ہے، جو تقریبًا ۷۰ (ستّر) مقامات پر پھیلا ہوا ہے، آپ اسے خوب غور سے پڑھیں، ان شاء اللہ تائید |
۱۳۴
لفظ | معنی و حکمت “ت” | |
حاصل ہوگی۔ |
||
۲۳۸
تَھۡوِیۡ |
مائل ہوتی ہے: ….. فَاجۡعَلۡ اَفۡىٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهۡوِیۡٓ اِلَیۡهِمۡ۔ تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ یعنی ان کے قلوب میں آلِ ابراہیمؑ اور آلِ محمّدؐ کی محبت ڈال دے (۱۴: ۳۷)۔ |
۱۳۵
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۳۶
بابُ الثّاء
|
۱۳۷
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۳۸
لفظ | معنی و حکمت “ث” | |
۲۳۹
ثَابِتٌ |
مضبوط: اَصۡلُھَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُھَا فِی السَّمَاءِ (۱۴: ۲۴) اس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے۔ یعنی درختِ امامت کی جڑ بڑی مضبوط ہے اور وہ آنحضرتؐ ہیں، اور شاخ عالمِ عُلوی میں ہے، جہاں امامِ زمانؑ کے علم و حکمت کا میوۂ شیرین تیار ہوتا ہے۔ |
|
۲۴۰
ثُعۡبَانٌ |
اژدھا: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۰۷) اور سورۂ شعرأ (۲۶: ۳۲) میں ہے: فَاَلۡقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ھِیَ ثُعۡبَانٌ مُّبِیۡنٌ۔ موسٰیؑ نے اپنی لاٹھی ڈال دی، تو وہ دفعۃً ایک نمایان اژدھا بن گیا۔ کامل انسانوں کے لئے خداوند تعالٰی کا اسمِ اکبر عصائے موسٰی کا معجزہ ہے، چنانچہ عالمِ شخصی میں اس مبارک عصا کے اژدھا بن جانے کی کئی مثالیں ملتی ہیں: (۱) جب روحانی انقلاب برپا ہو جاتا ہے تو عالمِ صغیر گویا اژدھا بن کر عالمِ کبیر کو نگل لیتا ہے (۲) حق و باطل کی روحانی جنگ میں اسمِ اعظم کا کامیاب ذکر عصائے موسیٰؑ کی طرح کام کرتا ہے (۳) عقلِ کامِلہ اور حکمتِ بالغہ گویا اژدھا ہے جو ادیانِ باطل کی بے شمار دلائل کو نگل لیتا ہے۔ |
۱۳۹
لفظ | معنی و حکمت “ث” | |
۲۴۱
ثِقال |
بھاری: سورۂ رعد (۱۳: ۱۲) میں ہے: اور (خدا) وہی تو ہےجو تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی (برق) دکھاتا اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے (۱۳: ۱۲)۔ خداوندِ عالم کا یہ خطاب عارفین و کاملین سے ہے جو اہل ایمان کے نمائندے ہیں، انہی حضرات کو ظاہری نورانی دیدار کا شرف حاصل ہوتا ہے جو برق کی مثال پر ہے، حُکَمَاء اس ظہور کو مُبۡدِعۡ اور مُبۡدَعۡ کہتے ہیں، اور حقیقت میں یہ الظّاھِرُ (۵۷: ۰۳) کی تجلّی ہے، کیونکہ یہ اسمِ پاک صرف کہنے اور کہلانے کے لئے نہیں بلکہ واقعیّت اور حقیقت بھی ہے۔ |
|
۲۴۲
ثَقَلَیۡن (۱) |
دو گرانقدر چیزیں: صحیح مسلم، جلد ششم، کتاب الفضائل، باب: “حضرت علیؑ کی بزرگی” اور کوکبِ درِّی، بابِ دوم، منقبت نمبر۷۴ اور ۷۵ میں حدیثِ ثقلین کا ذکر ہے، نیز کتاب شرح الاخبار، جلد دہم، “فضائل اہل البیت” میں دیکھ لیں: اِنِّیۡ تَارِکٌ فِیۡکُمُ الثَّقَلَیۡنِ اَحَدُھُمَا اَکۡبَرُ مِنَ الۡآخِرِ: کِتَابُ اللہِ حَبۡلٌ مَمۡدُوۡدٌ مِنَ السَّمَآءِ اِلٰی الۡاَرۡضِ طَرَفٌ مِنۡہُ عِنۡدَ اللہِ وَ طَرَفٌ مِنۡہُ فِیۡ اَیۡدِیۡکُمۡ فَاسۡتَمۡسِکُوۡا بِہِ وَ عِتۡرَتِیۡ۔ |
۱۴۰
لفظ | معنی و حکمت “ث” | |
یقیناً میں تمہارے درمیان دو عظیم الشّان اور گرانقدر چیزیں چھوڑ جانے والا ہوں، اُن میں ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ کی کتاب (قرآن) آسمان سے لیکر زمین تک کی تانی (پھیلائی) ہوئی رسّی ہے، جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں، پس تم اس کو محکم پکڑے رہو اور ساتھ ہی ساتھ میری عترت کو۔ |
||
۲۴۳
ثَقَلَیۡن (۲) |
دو عظیم الشّان چیزیں: شرح الاخبار کی مذکورہ جلد میں دیکھ لیں: قَدۡ خَلَّفۡتُ فِیۡکُمُ الثَّقَلَیۡنِ اَحَدُ ھُمَا اَکۡبَرُ مِنَ الۡآخِرِ سَبَبًا مَوۡصُوۡلاً مِنَ السَّمَاءِ اِلٰی الۡاَرۡضِ: کِتَابُ اللّٰہِ وَ عِتۡرَتِیۡ اَھۡلَ بَیۡتِیۡ، فَاِنَّھَمَا لَنۡ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الۡحَوۡضَ۔ میں نے اپنے پیچھے تمہارے درمیان دو عظیم الشّان چیزیں چھوڑ دی ہیں، اُن میں سےایک دوسری سے بڑی ہے، جو آسمان اور زمین کے مابین لگائی ہوئی رسی ہیں، کتاب خدا اور میرے اہل بیت، یہ دونوں چیزیں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگی، تا آنکہ یہ دونوں حوض کوثر پر مجھ سے مل جائیں۔ |
|
۲۴۴
ثَقَلَیۡن (۳) |
دو عظیم الشّان چیزیں: عترت کے بارے میں زیادہ صحیح اور زیادہ واضح قول یہ ہے کہ آدمی |
۱۴۱
لفظ | معنی و حکمت “ث” | |
کی عترت اس کے اقرباء ہیں، جیسے اس کی اولاد، اولاد کی اولاد، اور چچا کے بیٹے، چنانچہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی عترت یہ حضرات ہیں: اولادِ فاطمہ، اولاد کی اولاد حسن و حسین، اور چچا زاد بھائی علیؑ بن ابی طالب صلوات اللہ علیہم اجمعین (بحوالۂ مذکورہ جلد)۔ |
||
۲۴۵
ثَلٰثَۃ |
تین: سورۂ واقعہ کے شروع (۵۶: ۰۱ تا ۱۱) میں دیکھ لیں: …. اور تم تین گروہ ہو جاؤ گے، پس دائیں طرف والے، کیا کہنے دائیں طرف والوں کے، اور بائیں طرف والے، پھوٹ گئے نصیب اُن کے بائیں طرف والوں کے، اور آگے بڑھنے والے، وہ تو آگے ہی بڑھنے والے ہیں، مقرّبِ بارگاہ تو وہی ہیں۔ عالم شخصی میں جو راہِ روحانیّت اور سفرِ معرفت ہے اُس میں ایسے تمام ضروری واقعات کا مشاہدہ اور تجربہ ہوجاتا ہے، اس مبارک و مقدّس سفر کی منزلِ مقصود مومنِ سالک کی پیشانی میں ہے۔ |
|
۲۴۶
ثَمَّ |
اُس جگہ، وھاں، وھیں: خداوندِ قدّوس کا پُرحکمت ارشاد ہے: فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللہِ (۰۲: ۱۱۵) پس تم لوگ جس طرف منہ کرو ادھر (ہی) اللہ تعالٰی |
۱۴۲
لفظ | معنی و حکمت “ث” | |
کا رُخ (چہرہ) ہے۔ اس قانونِ قرآن سے معلوم ہوا کہ ذاتِ سبحان اگرچہ مکان و لامکان سے ماوراء اور بے نیاز ہے، تاہم وہ اپنی قدرتِ کاملہ سے ہرجگہ موجود ہے، اور اس میں کتنا واضح اور بابرکت اشارہ ہے کہ وہ سچ مچ اپنے بندوں کے دل میں بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ معرفتِ الٰہی کی خاطر خود شناسی ضروری اور لازمی قرار دی گئی تاکہ جیتے جی نفسانی موت کی قربانی دیکر اس کے پاک دیدار اور معرفت کا کنزِ مخفی حاصل کیا جائے۔ (دیکھو عنوان: وجہ علی)۔ |
||
۱۴۷
ثَمٰنِیَۃٌ |
آٹھ: ارشاد ہے: وَ یَحۡمِلُ عَرۡشَ رَبِّکَ فَوۡقَھُمۡ یَوۡمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ۔ اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اُس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے (سورۂ حآقّہ ۶۹: ۱۷) یہاں عرش کے معنی ہیں نورِ عقل، جو سات أئمّۂ اہل بیت علیہم السّلام کی نورانی پیشانی میں ہوتا ہے، اور جب جب مومنین و مومنات میں سے کوئی فرد بوسیلۂ ذاتی قیامت امامِ زمان علیہ السّلام میں فنا ہو جاتا ہے تو وہ بھی نورِ عرش (نورِ عقل) کا حامل ہوجاتا ہے (۵۷: ۱۲؛ ۵۷: ۱۹؛ ۶۶: ۰۸)۔ |
۱۴۳
لفظ | معنی و حکمت “ث” | |
۲۴۸
ثَمَرَات (۱) |
میوے، پھل: سورۂ نحل (۱۶: ۶۷) میں ہے: اور کھجور کے درختوں اور انگور کی بیلوں کے پھلوں سے تم لوگ نشہ کی چیز اور عمدہ کھانے کی چیزیں بناتے ہو بیشک اس میں اہل دانش کے لئے ایک نشانی ہے۔ یہ دو قسم کے درخت جن کا آیۂ شریفہ میں ذکر ہے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی مثال ہیں، جن کے میوہ ہائے معرفت سے شرابِ عشق حاصل آتی ہے، کیونکہ ربّ العزّت نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے باطنی حسن و جمال اور وصفِ کمال کو عشقِ حقیقی کا وسیلہ بنا دیا ہے۔ |
|
۲۴۹
ثَمَرَات (۲) |
میوے، پھل: سورۂ نحل (۱۶: ۱۱) میں یہ ذکر آیا ہے: اسی پانی سے تمہارے واسطے کھیتی اور زیتون اور خرمے اور انگور اگاتا ہے اور ہر طرح کے پھل (پیدا کرتا ہے) یقیناً اس میں غور کرنے والوں کے لئے بڑی نشانی ہے۔ روحانی بارش کے پانی سے عالمِ شخصی کے معمور ہو جانے اور عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس کے ظہور اور دیگر حدود کے فوائد کی مثال ہے۔ |
۱۴۴
بابُ الجیم
|
۱۴۵
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۴۶
لفظ | معنی و حکمت “ج” | |
۲۵۰
جَاھَدُوۡا |
انہوں نے جھاد کیا: سورۂ عنکبوت کی آخری آیت (۲۹: ۶۹) میں ایسے لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جو اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے رہتے ہیں، آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: اور جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کرتے رہتے ہیں انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً خدا نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔ اس ربّانی تعلیم میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے راستوں کا اشارہ ہے، جن کی ہدایت جہادِ اکبر سے مشروط ہے۔ |
|
۲۵۱
جَدّ |
اسرافیل، فرشتۂ عشق: سورۂ جِنّ (۷۲: ۰۳) میں ہے: وَ اَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّ لَا وَلَدًا۔ اور یہ کہ ہمارے ربّ کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے۔ جَدّ فرشتۂ اسرافیل ہے، جس کے صور پھونکنے سے خدا کی ایک بہت بڑی شان ظاہر ہوجاتی ہے، یقیناً یہ فرشتۂ عشقِ الٰہی ہے۔ |
|
۲۵۲
جلیس (۱) |
ھمنشین: أنا جلیس من ذکرنی۔ حدیث قدسی ہے کہ حق تعالٰی نے فرمایا: جس نے مجھ کو یاد کیا میں اس کا ہمنشین ہوں۔ ربِّ کریم کی رحمت و |
۱۴۷
لفظ | معنی و حکمت “ج” | |
برکت درجہ بدرجہ ہوسکتی ہے تا آنکہ دیدارِ اقدس حاصل ہوکر یہ حقیقت روشن ہوجائے کہ وَ مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیۡثًا (۰۴: ۸۷) اور خدا سے بڑھ کر بات میں سچا اور کون ہوسکتا ہے۔ |
||
۲۵۳
جلیس (۲) |
ھمنشین: قال موسیٰ علیہ الصّلاۃ و السّلام: ربّ اقریب انت فأناجیک او بعید فأنا دیک، فقیل لہ: یا موسیٰ، انا جلیس من ذکرنی۔ حضرتِ موسٰی علیہ الصّلاۃ و السّلام نے کہا: اے میرے پروردگا! آیا تو اتنا نزدیک ہے کہ تجھ سے سرگوشی کروں؟ یا ایسا دُور ہے کہ تجھے بآوازِ بلند پکاروں؟ پس اسے فرمایا گیا: اے موسیٰ! جس نے مجھے یاد کیا میں اس کا ہمنشین ہوں (المعجم الصّوفی)۔ |
|
۲۵۴
جُمِعَ |
وہ اکٹّھا کیا گیا: سورۂ قیامہ میں ہے: پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا؟ تو جب آنکھیں چندھیا جائیں گی، اور چاند کو گہن لگ جائے گا اور سورج اور چاند جمع کر دئیے جائیں گے (۷۵: ۰۶ تا ۰۹) سالک پر قیامت اس وقت آتی ہے جب ابتدائی روشنی سے اس کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں اور واقعۂ قیامت کی سختی کی وجہ سے وہ علم کو بیان نہیں کرسکتا، اور وہ اس حال میں امام علیہ |
۱۴۸
لفظ | معنی و حکمت “ج” | |
السّلام میں فنا ہوجاتا ہے۔ |
||
۲۵۵
جِنّ (۱) |
پری، لطیف مخلوق: مخلوقِ لطیف، غیر مرئی، قرآنِ حکیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں اس کا ذکر آیا ہے، “جِنّ” عربی لفظ ہے جس کا اصل فارسی ترجمہ “پری” ہے، یعنی پری مردوں اور پری عورتوں کو عربی میں جنّ کہتے ہیں (المنجد، قرۃ العین، ضمیمہ)۔ |
|
۲۵۶
جِنّ (۲) |
پری، مخلوقِ لطیف: سورۂ جنّ (۷۲) کو خوب غور سے پڑھ لیں، پری قوم کی ایک جماعت نے قرآن پر ایمان لایا (۷۲: ۰۱ تا ۰۲) جب پری مردوں کا ذکر ہے تو اشارہ ہوا کہ لازمی طور پر پری عورتیں بھی ہیں (۷۲: ۰۶)۔ |
|
۲۵۷
جَناح |
پرند کا بازو، پرwing، اسم، ذکرِ خدا، جس سے ہر لطیف مخلوق پرواز کرتی ہے: رسولِ خدا اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا تھا: دخلتُ الجنّۃ البارحۃ فنظرتُ فیھا فاذا جعفر یطیر مع الملائکۃ و اذا حمزۃ مُتکّیٔ علٰی سریر۔ میں گزشتہ شب جنّت میں داخل ہوکر وہاں کیا |
۱۴۹
لفظ | معنی و حکمت “ج” | |
دیکھتا ہوں کہ جعفر (بن ابی طالب) فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہا ہے اور حمزہ ایک تخت پر تکیہ لگائے بیٹھا ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے: رأیتُ جعفر بن ابی طالب ملکًا یطیر مع الملائِکۃ بجناحَیۡن۔ میں نے جعفر بن ابی طالب کو دیکھا کہ وہ ایک فرشتہ ہوگیا ہے اور دو بازوؤں سے فرشتوں کے ساتھ اڑ رہا ہے۔ (مُستدرِک) جسمِ لطیف ہی فرشتہ اور تخت ہے، اور جَنَاحَیۡن (دو بازو) برائے ذکر دو اسم ہیں کہ فرشتے اسماء الحسنٰی سے پرواز کرتے ہیں۔ |
||
۲۵۸
جنّۃ |
بہشت: حضرتِ علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: جنّت میں ایک بازار ہوگا، جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، جو جسے پسند کرے گا، اسی کی طرح ہوجائے گا (جامع ترمذی، جلد دوم، جنّت کا بیان، حدیث۲۳۶۳) اس میں عظیم حیران کن حکمتیں ہیں۔ |
|
۲۵۹
جِیۡرَانُ اللہ (۱) |
خدا کے ہمسائے: وَ اللہُ یَدۡعُوۡآ اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ۔ اور اللہ تمہیں دار السّلام کی طرف دعوت دے رہا ہے (۱۰: ۲۵) بنا برین تمام بہشتوں میں سے |
۱۵۰
لفظ | معنی و حکمت “ج” | |
دار السّلام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، اور حدیثِ شریف میں ہے کہ: ادخلوا الجنّۃ فَاَنتم جِیۡرانُ اللہ فی دار السّلام۔ جنّت میں داخل ہوجاؤ کہ تم دار السّلام میں اللہ کے پڑوسی ہو (دعائم الاسلام، حصّۂ دوم، تباذُل و تواصُل) اس میں عجیب و غریب بہت بڑی حکمت ہے، ہاں اس کیلئے کوئی کام غیر ممکن نہیں کہ مومنین و مومنات جو مرتبۂ حق الیقین پر فائز ہوچکے ہیں، وہ سب جِیۡرَانُ اللہ ہیں۔ |
||
۲۶۰
جِیۡرَانُ اللہ (۲) |
خدا کے ہمسائے: سورۂ تحریم (۶۶: ۱۱) میں ہے: اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ۔ جب (فرعون کی بیوی نے) دعا کی: اے میرے پروردگار! میرے لئے اپنے پاس جنّت میں ایک گھر بنا دے۔ اس کی تأویل یہ ہے کہ وہ فنا فی اللہ اور حق الیقین کا مرتبہ چاہتی تھی تاکہ جیران اللہ میں سے ہوجائے۔ |
۱۵۱
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۵۲
بابُ الحاء
|
۱۵۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۵۴
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
۲۶۱
(ال) حُبُّ لِلّٰہِ |
خدا کے لئے محبت: حدیثِ شریف ہے: اَلۡحُبُّ لِلّٰہِ و البغضُ لِلّٰہِ، یعنی کسی سے محبت بھی خدا کی وجہ سے ہو اور عداوت بھی اسی کی وجہ سے ہو۔ |
|
۲۶۲
حِبال |
رسّیاں: فرعون کے جادوگروں کی رسّیاں، یعنی قصّے جو فرعون کے دعویٰ کے ثبوت میں بیان کئے گئے (۲۰: ۶۶) |
|
۲۶۳
حُبُک |
راھیں، راستے: وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡحُبُکِ۔ راستوں والے آسمان کی قسم ہے (۵۱: ۰۷) ایسے پرحکمت آسمان سے امامِ زمان علیہ السّلام مراد ہے کیونکہ اسی کے نورِ اقدس سے سلامتی کی راہیں بنی ہوئی ہیں اور وہی خود ان راہوں کا رہنما بھی ہے (۰۵: ۱۵ تا ۱۶)۔ |
|
۲۶۴
حَبۡلُ اللہ (۱) |
خدا کی رسّی، امامِ زمانؑ: خداوند کریم نے عالمِ علوی سے اپنے پاک نور کی رسّی عالمِ سفلی کے باشندوں کے لئے اِس غرض سے اتاری ہے کہ وہ سب مل کر اس کو مضبوطی سے پکڑیں تاکہ انہیں عالمِ بالا پر اٹھایا جائے (۰۳: ۱۰۳) خدا کی نورانی |
۱۵۵
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
رسّی ظاہراً امامِ زمان علیہ السّلام کی مقدّس شخصیت ہے اور باطناً اس کا ہمہ رس نور، نورِ اقدس آپ کی ذات میں بطورِ خاص اسمِ اعظم کے وسیلے سے آتا ہے، پس امامؑ آپ کے باطن میں بحیثیت اسمِ بزرگ اللہ کی رسّی ہے، جس کو آپ نے اس طرح مضبوط پکڑنا ہے کہ دل و دماغ کی ساری قوّتیں اس کی طرف متوجّہ اور مرکوز ہوجائیں۔ |
||
۲۶۵
حَبۡلُ اللہ (۲) |
خدا کی نورانی رسّی، امامِ زمانؑ: زمانۂ نبوّت میں خود رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ذاتِ عالی صفات اللہ کی رسّی تھی، آپؐ قرآنِ ناطق بھی تھے اور اسلامِ مجسّم بھی، اور آپ صلعم کے بعد آپ کی آل کے أئمّۂ حق علیہم السّلام اپنے اپنے وقت میں خدا کی یہی رسّی تھے، اور یہی بلند ترین مرتبہ یقیناً آج امامِ زمانؑ کو حاصل ہے، الحمد لِلّٰہ۔ |
|
۲۶۶
حَبۡلُ الۡوَرِیۡد (۱) |
رگِ جان، شہ رگ، وہ رگ جو دل سے دماغ تک ہے؛ سورۂ قٓ (۵۰: ۱۶) میں ہے: اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے، اور ہم دل کی رگ سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں۔ اگر خداوندِ قدّوس اپنے ہر بندے کی انا سے |
۱۵۶
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
اس قدر قریب ہے تو ماننا چاہیے کہ ہرمومن بحدِّ قوّت اس میں فنا ہے، اب بحدِّ فعل فنا فی اللہ ہوجانے کے لئے وسوسہ اور نفس کو ایک بار ختم کرنا ہوگا، اور یہ خاص کام فنا فی الامامؑ اور فنا فی الرّسولؐ کے ذریعے سے ہوسکتا ہے۔ |
||
۲۶۷
حَبۡلُ الۡوَرِیۡد (۲) |
رگِ جان، شہ رگ، وہ رگ جو دل سے دماغ تک ہے: اے نوِ عینِ من! آپ یقین جانیں کہ مذکورہ فنا سلسلۂ قیامت و روحانیت ہے، اور اسی میں دیدارِ اقدس اور گنج معرفت کے اسرارِ عظیم پوشیدہ ہیں، پس ایسے تمام لوگوں کی بہت بڑی سعادت ہے جو حقیقی اطاعت، کثرتِ ذکر، علم، اور آسمانی عشق کے وسیلے سے فنا ہوجانا چاہتے ہیں، اللہ جو مسبّب الاسباب ہے ان کے لئے کوئی خاص سبب بنائے گا، اور وہ ایک نہ ایک دن کامیاب اور شادمان ہوجائیں گے۔ |
|
۲۶۸
(ال) حجّ الۡاکبر (۱) |
حجِّ اکبر، بڑا حج: سورۂ توبہ (۰۹: ۰۳) میں حجِّ اکبر کا ذکرِ جمیل آیا ہے، جو باطنی، روحانی اور عقلانی حجّ ہے، جس کی مثال ظاہری حجّ ہے، کیونکہ اکبر کا لفظ (یعنی اسمِ تفضیل) اصغر کے بغیر نہیں ہوسکتا، چنانچہ حکمتِ بالغہ اس بات میں تھی کہ خداوندِ عالم کے دو گھر ہوں، ایک مثال دوسرا ممثول، تاکہ اہلِ |
۱۵۷
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
دانش حقائق و معارف سے باخبر ہوسکیں۔ |
||
۲۶۹
(ال) حجّ الۡاکبر (۲) |
باطنی حجّ: اللہ تعالیٰ جو احد و صمد ہے، وہ ہر چیز سے بے نیاز و برتر ہے، وہ مکان و لامکان سے بالاتر ہے، اس لئے اس کا ظاہری گھر (خانۂ کعبہ) دلیل ہے اور باطنی گھر مدلول، جو الحیّ یعنی زندہ ہے، اور یہی مظہر بھی ہے اور آئینہ بھی، جس میں ذاتِ حق جلّ جلالہ کی بے مثال معرفت کا کنزِ مخفی موجود ہے۔ |
|
۲۷۰
(ال) حجّ الۡاکبر (۳) |
روحانی حجّ: اللہ تبارک و تعالیٰ کا باطنی گھر بیت المعمور ہے (۵۲: ۰۴) وہ امام علیہ السّلام کا نورانی مرتبہ ہے، جس میں علمِ الٰہی کا خزانہ رکھا ہوا ہے، کیونکہ بیت المعمور سے خدا کا ایسا گھر مراد ہے جو روحانی اور عقلانی برکتوں سے آباد ہے، تاویلِ حجّ البیت اور بیت المعمور کے لئے دیکھیں: وجہِ دین، گفتار۳۴، حجّ۔ |
|
۲۷۱
(ال) حجّ الۡاکبر (۴) |
عقلانی حجّ: بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے، جس کی زیارت کے لئے ہر روز ستّر |
۱۵۸
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
ہزار فرشتے آتے ہیں، اور زیارت کرکے چلے جاتے ہیں، پھر دوبارہ نہیں آسکتے، یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر عالمِ شخصی میں حضرتِ امام علیہ السّلام کا نورانی ظہور بیت المعمور ہے، جس کے دیدار کے لئے ستّر ہزار عظیم فرشتے آتے ہیں۔ |
||
۲۷۲
حجّۃ |
دلیل، غلبہ: یہ ارشادِ مبارک سورۂ نساء (۰۴: ۱۶۵) میں ہے: لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌ بَعۡدَ الرُّسُلِ۔ تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کی خدا پر کوئی حجّت باقی نہ رہ جائے۔ اِس اشارۂ حکمت کی وضاحت یہ ہے کہ ہر پیغمبرؐ کے بعد وصی اور زمانے کا امام بھی خدا کی جانب سے مقرر ہوتا رہا ہے، تب ہی یہ حقیقت دل نشین ہوجاتی ہے، کہ خدا پر لوگوں کی کوئی حجّت نہیں ہوسکتی ہے، یعنی روزِ قیامت لوگ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ اُن کے زمانے میں خدا نے کوئی زندہ اور حاضر پیشوا (ہادی) مقرّر نہیں فرمایا تھا۔ |
|
۲۷۳
(ال)حجرُ الاسود |
حجرِ اسود: الحجرُ الاسودُ یمینُ اللہِ فی ارضہٖ۔ حجرِ اسود (گویا) اللہ تعالٰی کا داہنا ہاتھ ہے اس کی زمین میں (لغات الحدیث، جلد چہارم، باب |
۱۵۹
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
الیاء مع المیم) یمین کے معنی ہیں: قوّت، طاقت، سعادت، برکت، دایاں ہاتھ، قسم۔ حجرِ اسود سے اساس مراد ہے جو تمام اعلٰی معنوں کے ساتھ امامِ زمانؑ کی صورت میں موجود ہے (بحوالۂ وجہِ دین، موضوعِ حجّ)۔ |
||
۲۷۴
حَدِیۡد (۱) |
لوھا، تیز: سورۂ حدید (۵۷: ۲۵) میں ہے: اور ہم نے ہی لوہے کو نازل کیا جس کے ذریعے سے سخت جنگ اور لوگوں کے لئے منافع ہیں، یعنی امام علیہ السّلام کی روحانیّت وہ علمی لوہا ہے جس سے قیامت کی شدید روحانی جنگ کے لئے اسلحہ تیار ہوجاتے ہیں، تاکہ اس سے ایک طرف اسلام کی فتح و فیروزی و سربلندی ہو، اور دوسری طرف سب لوگ زبردستی سے یا خوشی سے بہشت میں داخل ہوجائیں، جہاں نعمتیں ہی نعمتیں ہیں۔ |
|
۲۷۵
حَدِید (۲) |
لوھا، تیز: ٹھنڈا لوہا بڑا سخت ہوا کرتا ہے، اس سے کوئی چیز نہیں بنائی جاسکتی، لیکن خدا نے حضرتِ امام داؤد علیہ السّلام کے لئے ایسے لوہے کو گوندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم بنا دیا تھا (۳۴: ۱۰) یہ اس حقیقت کی روشن دلیل ہے کہ خداوند تعالیٰ نے امامؑ کو روحانیّت کا معجزہ عطا کیا ہے۔ |
۱۶۰
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
۲۷۶
حَدِیۡد (۳) |
لوھا، تیز: حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے اس آہنی معجزے سے زِرہیں یعنی فولاد کے جالی دار کرتے بنتے تھے (۲۱: ۸۰؛ ۳۴: ۱۱) اس کی تأویل یہ ہے کہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی روحانیّت سے جامہ ہائے جنّت تیار ہوجاتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: فَھَلۡ اَنۡتُمۡ شٰکِرُوۡنَ (۲۱: ۸۰) تو کیا تم (اس بیمثال نعمت پر) شکر کروگے؟ نیز یہ وہ سرابیل (کرتے) ہیں جو کاملین حربِ روحانی میں پہنتے ہیں (۱۶: ۸۱) |
|
۲۷۷
حَرَمًا (۱) |
حرم، پناہ کی جگہ: کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پر امن حَرَمۡ کو ان کے لئے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف (ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیۡءٍ) تمام چیزوں کے پھل کچے چلے آتے ہیں، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟ سورۂ قصص ۲۸: ۵۷)۔ اے نورِ عینِ من! اس آیۂ مبارکہ میں بڑی زبردست حکمت پوشیدہ ہے، کیونکہ تمام چیزوں کے ثمرات ظاہر میں نہیں صرف باطن ہی میں ہوتے ہیں، یہاں تک روحانیت و عقلانیت میں پتھر جیسی اشیاء بھی بغیر از ثمر نہیں ہیں۔ |
۱۶۱
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
۲۷۸
حَرَمًا (۲) |
حرمِ باطن، حرمِ روحانی، حرمِ عقلی: اے عزیزانِ من! ظاہری حرم مثال ہے اور باطنی حرم ممثول، وہ روحانی بھی ہے اور آگے چل کر عقلانی بھی، یہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کا نورانی مرتبہ ہے، ان ثمرات کا ذکرِ جمیل یوں ہے کہ جب مومنِ سالک پر باطنی اور روحانی قیامت واقع ہوجاتی ہے اس وقت وہ عالمِ ذرّ کے گھیرے میں ہوتا ہے، ان ذرّات کے بہت سے اسماء ہیں، جیسے ارواح، ملائکہ، یاجوج و ماجوج، جنود، ناس، طوفان، ھبَاء، ثمرات وغیرہ وغیرہ، پس یہ ذرّات دوسری بہت سی مثالوں کے ساتھ ساتھ روحانی ثمرات بھی ہیں، جو حرمِ باطن کی طرف کشان کشان چلے آتے ہیں۔ |
|
۱۷۹
حَرَمًا (۳) |
باطنی حرم: ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیۡءٍ (۲۸: ۵۷) کا یہ مطلب ہے کہ ہر چیز کا ایک روحانی میوہ اور ایک عقلی میوہ ہے، اس کا علم روحانی انقلاب (ذاتی قیامت) کے بعد ہوتا ہے، تب ہی روشنی ملتی ہے کہ قرآن میں بھی ہر چیز کا بیان ہے، سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں غور سے دیکھ لیں کی پتّھر آسمان اور زمین کی ہر چیز سے ذرَّۂ روح حاضر کردینے کا اشارہ ہے، سورۂ بقرہ (۰۲: ۷۴) کا بغور مطالعہ کرکے بتائیں کہ کونسے پتّھر ہیں جن سے پانی نکلتا ہے؟ اس کا درست جواب یہ ہے کہ اس میں روحانی پانی |
۱۶۲
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
ہے، سورۂ مومن (۴۰: ۰۷) کا ارشاد ہے کہ ہرچیز رحمت اور علم کو شامل ہے، اور یاد رہے کہ رحمت میں روحانی نعمتیں اور علم میں عقلی نعمتیں ہوا کرتی ہیں، پس ہر چیز میں دو قسم کے میوے (پھل) ہوتے ہیں، یعنی روحانی اور عقلی۔ |
||
۲۸۰
حَرَمًا (۴) |
روحانی حرم، عقلی حرم: کل اشیاء کے ثمرات کے معنی میں انبیائے قرآن علیہم السّلام کے تمام معجزات حرمِ باطن میں مرکوز ہوجاتے ہیں، جن میں بیشمار حکمتیں ہیں، بالفاظِ دیگر حضرتِ ربّ العزّت اس مقام پر کائناتِ باطن کو لپیٹتا ہے جس سے ماضی اور مستقبل زمانۂ حال میں شامل ہوتے ہیں، اور ازل و ابد کا تصوّر سامنے ہی آتا ہے، اسی کے بارے میں ارشاد ہے: وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ فِیۡ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ (۳۶: ۱۲)۔ |
|
۲۷۹
حَرَمًا (۳) |
باطنی حرم، جہاں باطنی ثمرات جمع ھوتے ہیں: قرآنِ حکیم میں بہشت کی نعمتوں کا اکثر تذکرہ ثمرات کے عنوان سے ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ دنیا کے میوے ہیں، بلکہ روحانی اور عقلی پھلوں کا ذکر ہے، کیونکہ جسمانی غذاؤں کا تجربہ تو دنیا |
۱۶۳
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
ہی میں ہوچکا ہے، اب بہشت میں روحانی اور عقلی ثمرات ہی سے لطف اندوز ہونا باقی ہے، چنانچہ روحانیّت اور ذاتی قیامت میں خوشخبری کے طور پر بہشت کے ثمرات دکھائے جاتے ہیں۔ |
||
۲۸۲
حِسَاب |
شمار، روزِ قیامت: سورۂ انشقاق (۸۴: ۰۷ تا ۰۹) میں ارشاد ہے: پھر (اُس دن) جس کا نامۂ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے تو حساب آسان طریقہ سے لیا جائے گا اور (پھر) وہ اپنے (مومنین کے) قبیلہ کی طرف خوش خوش پلٹے گا۔ یہ نمائندہ قیامت کا تذکرہ ہے جس سے مومنِ سالک فارغ ہوکر علم و معرفت کے خزانوں کی شادمانی کے ساتھ اپنے لوگوں کی طرف لوٹ جاتا ہے، آپ مذکورہ سورہ کو تماماً غور سے پڑھ لیں، کیونکہ اس میں علمِ قیامت کے اسرار آئے ہیں۔ |
|
۲۸۳
حُشِرَ |
جمع کیا گیا: وَ حُشِرَ لِسُلَیۡمَانَ جُنُوۡدُہٗ۔ اور سلیمان کے لئے اُن کا لشکر جمع کیا گیا جنّ بھی اور انسان بھی اور پرندے بھی اور اُن کو صف آرا کیا جاتا تھا (۲۷: ۱۷) یہ لشکرِ ذرّات کا تذکرہ ہے، جو انفرادی قیامت کا نتیجہ |
۱۶۴
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
ہے، اور روحانی جہاد کے لئے ہے۔ |
||
۲۸۴
حَشَرنَا |
ھم نے جمع کیا: اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے اور ان سے مُردے باتیں کرنے لگتے اور ہم تمام موجودات کو اُن کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو لاکر جمع کردیتے تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے ہاں اگر خدا ہی چاہے تو اور بات ہے (۰۶: ۱۱۱) یہ روحانیّت کے عظیم معجزات میں سے ہیں۔ |
|
۱۸۵
حِکۡمَۃ (۱) |
عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش: لفظ حِکۡمَۃ قرآنِ حکیم میں اگرچہ بظاہر صرف ۲۰ مرتبہ آیا ہے، لیکن معنوی طور پر یہ مبارک کتاب (قرآن) از اوّل تا بہ آخر حکمت ہی حکمت ہے، اور اس حقیقت میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں، جبکہ یہ خدائے علیم و حکیم کا پاک و پُرحکمت کلام ہے، اور قرآنِ عزیز کا نام بھی حکیم ہے (۳۶: ۰۲) پس بڑے سعادت مند ہیں وہ لوگ جو قرآنی حکمت کی طرف توجّہ دیتے ہیں۔ |
۱۶۵
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
۲۸۶
حِکۡمُۃ (۲) |
عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش: حکمت وہ سب اعلٰی شَی ہے کہ اگر یہ کسی کو خدا کی جانب سے عطا ہوئی تو اس سے وابستہ بھلائی جس کی بڑی کثرت ہے خود بخود آجاتی ہے (مفہوم، ۰۲: ۲۶۹)۔ |
|
۲۸۷
حِکۡمَۃ (۳) |
عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش: حکمت کسی مومن کے دل و دماغ میں اُس مُعلّمِ رَبّانی کی تعلیم سے آتی ہے، جس کو خدا و رسولؐ نے مقرر فرمایا، جو آلِ محمّدؐ میں سے ہے، اور وہ زمانے کا امام ہے، کیونکہ اللہ کی کتاب کسی بھی دَور میں اکیلی نہ تھی، اور نہ اب اکیلی ہے، دیکھیے خاندانِ ابراہیمؑ سے متعلق آیۂ شریفہ کہ یہی آیۂ کریمہ خاندانِ محمّدؐ کی شان میں بھی ہے (۰۴: ۵۴)۔ |
|
۲۸۸
حِکۡمَۃ (۴) |
عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش: اللہ تعالٰی نے حضرتِ لقمان کو حکمت عنایت فرمائی تاکہ وہ خدا کا شکر کرے (مفہوم، ۳۱: ۱۲) اے نورِ عینِ من! آپ یہ خیال ہرگز نہ کریں کہ خداوندِ عالم باطنی خزانوں کے بغیر شُکر کا حکم دیتا ہے، ایسا نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شکر اور حکمت کے پس منظر میں یقیناً روحانی اور عقلانی نعمتوں کی فراوانی ہوا کرتی ہے۔ |
۱۶۶
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
۲۸۹
حِکۡمَۃ (۵) |
عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش: علماء اور دانشوروں نے جس طرح حکمت کی تعریفیں کی ہیں، وہ تقریباً ایک جیسی ہیں، ہمارے نزدیک قرآنی تأویل بنیادی حکمت ہے، اور یہی ظاہری سائنس کا روحانی پہلو ہے، جیسے آفاق و انفس کی آیات/نشانیوں میں ربط و رشتہ ہوتا ہے (۴۱: ۵۳) پس اگر یہ ظاہری نشانیاں آج سائنس کے نام سے مشہور ہیں تو ان جیسی باطنی نشانیوں کو روحانی سائنس کیوں نہ کہیں، تاکہ اس عمدہ طریقِ کار سے سائنس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہوجائے، صرف یہی نہیں بلکہ مذہب اور سائنس بالکل ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں۔ |
|
۲۹۰
حِکۡمَۃ (۶) |
عقل مندی، خاص علم، حکمت، دانش: سورۂ بقرہ کے رکوع ۱۵ میں آٹھ آیاتِ کریمہ کو خوب غور سے پڑھ لیں، خصوصًا آیت ۱۲۴ کو نیز ۱۲۸ اور ۱۲۹ کو، کیونکہ یہاں حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اور ان کے سلسلۂ ذرّیت کی امامت کا بیان آیا ہے، اور أئمّۂ کرام کی جماعت میں حضرتِ رسول صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ظہورِ قدسی کی دعا کی گئی ہے تاکہ آنحضرت أئمّہ پر خدا کی آیات پڑھا کریں اور کتاب و حکمت سکھاتے ہوئے ان کو پاک و پاکیزہ کردیں۔ |
۱۶۷
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
۲۹۱
حکیم |
حکمت والا، علیؑ کا قرآنی نام: حضرت علی علیہ السّلام نے فرمایا: اسمی فی القرآن حکیمًا و فی التّوراۃ کُلًّا و فی الانجیل حتمًا و فی الزّبور بشرًا و فی صحف ابراھیم اوّلًا و آخرًا و اَنَا…. بما یکون علیم و فی العالم قدیم و فی السّمٰوٰت بصیرو بما فی الارضین عارف۔ میرا نام قرآن میں حکیم ہے، توراۃ میں کلّ، انجیل میں حتم، زبور میں بشر، صحف ابراہیمؑ میں اوّل و آخر اور میں ….. جو کچھ ہوتا ہے اس کو جانتا ہوں، اور میں اس جہاں میں قدیم آسمانوں میں بصیر اور جو کچھ زمینوں میں ہے اس کا عارف ہوں، (سرائر، ص۱۱۷، بروایتِ ابوذر جندب) اس سے یہ حقیقت بحدِّ انتہا روشن ہوگئی کہ علیؑ کا نور ہمیشہ زمان و مکان کی وسعتوں پر محیط ہے۔ |
|
۲۹۲
حِمَار |
گدھا: ان لوگوں کی مثال جن پر توریت (کے علم و عمل) کا بار ڈالا گیا تھا پھر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا اس گدھے کی مثال ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو، ان لوگوں کی حالت جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہو کیا ہی بری ہے، اور اللہ نافرمان لوگوں کی راہبری نہیں فرماتا (۶۲: ۰۵)۔ اس میں بے عملی سے کہیں زیادہ بے عقلی کی مذمّت کی گئی ہے، کیونکہ گدھا بڑی بڑی کتابوں کے بارِ گران کو تو اٹھا سکتا ہے، لیکن اس میں عقل |
۱۶۸
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
نہیں کہ اپنے بوجھ کے ظاہر و باطن کی قدر و قیمت کو سمجھ سکے۔ |
||
۲۹۳
حَمَلَۃُ القراٰن |
حاملانِ قرآن: حَمَلَۃُ الۡقُرۡاٰن عُرَفَاءُ اَھۡلَ الۡجَنَّۃ۔ حاملانِ قرآن اہلِ جنّت کے عارفین ہیں۔ یعنی جو لوگ قرآن کی روح و روحانیّت اور معرفت کے حامل ہیں وہی اہل بہشت کے عارفین بھی ہیں کہ بہشت والے ان سے معرفت کے اسرار کی تعلیم حاصل کرتے رہیں گے (حدیث، دعائم الاسلام، جلد ثانی، ص۳۵۱)۔ |
|
۲۹۴
حوت (۱) |
مچھلی: ارواح گویا بحرِ روحانیّت کی چھوٹی بڑی مچھلیاں ہیں، ماہیٔ روح جب تک ہمارے بدن میں محبوس ہے تب تک مردہ یا نیم مردہ ہے لیکن جس وقت روحانیّت کے سمندر سے سالک کا رابطہ ہوجاتا ہے تو اس وقت یہ مچھلی زندہ ہوکر اپنے سمندر میں داخل ہوجاتی ہے، سورۂ کھف (۱۸: ۶۳) میں غور سے دیکھیں۔ |
|
۲۹۵
حُوت (۲) |
حضرتِ یونس علیہ السّلام کے باطنی سفر کا واقعہ ہے کہ اُن کو ایک زبردست |
۱۶۹
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
روحانی مچھلی نے نگل لیا، اور یہ بہت بڑی آزمائش تھی، ایسے شدید ترین مشکل وقت میں کس عاجزی سے اللہ تعالٰی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اس کا عملی نمونہ قرآنِ پاک میں موجود ہے، دیکھئیے سورۂ انبیاء (۲۱: ۲۷)۔ |
||
۲۹۶
حُوۡرٌ (جمع) (۱) |
جنّت کی عورتیں، واحد: حَوۡراء: لفظ حور قرآنِ پاک کے چار مقامات پر موجود ہے، حُور جمع ہے جس کی واحد حَوۡراء ہے، کچھ حوریں مثال ہیں اور کچھ ممثول، جو ممثول ہیں وہ لطیف جسمانی بہشت کے بہت سے درجات پھر روحانی بہشت کے بہت سے درجات سے بھی اوپر عقلی بہشت میں ہیں، وہ کثیف جسمانی نہیں، لطیف جسمانی نہیں، روحانی بھی نہیں، بلکہ عقلانی وجود رکھتی ہیں، جو حظیرۃ القدس کے خیموں میں رہتی ہیں، وہ اسرارِ علم و معرفت اور دُرَّرِ گنجِ حکمت ہیں۔ |
|
۲۹۷
حُور |
بہشت کی عورتیں: روحانی ریسرچ اور مطالعۂ قرآن سے جیسی معلومات حاصل آئی ہیں، وہ یہاں درج کی جاتی ہیں، تاکہ آئندہ لوگوں کے لئے کام آئیں، جیسے ذکر ہوا کہ عقلی حوریں سب سے اعلیٰ ہیں، ان کے بعد روحانی حوریں ہیں جو لطائفِ روحانی اور نورانی صُورِ مجرَّدہ ہیں، اور یہ اُن نعمتوں میں شامل ہیں جو لذائذِ عُیُون کے لئے پیدا کی گئی ہیں، تاہم اشارۂ |
۱۷۰
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
علم و حکمت سے کوئی چیز خالی نہیں، ان سے نچلے درجات پر لطیف جسمانی حوریں ہیں، اگر میں مثال کے طور پر کہوں کہ یہ واقعًا قومِ جنّ کی عورتیں ہیں تو آپ کو بڑی حیرت ہوگی، لہٰذا وہی مطلب دوسرے الفاظ میں بیان کرتا ہوں کہ لطیف جسمانی حوریں قومِ پری کی عورتیں ہیں، کاش! اگر آپ جنّ و پری کو کما حقّہ پہچان لیتے تو خود شناسی بڑی آسان ہوجاتی! |
||
۲۹۸
حُور (۳) |
لطیف عورتیں: سورۂ واقعہ میں اس عظیم راز کا اشارہ موجود ہے کہ حق تعالیٰ انسان کو جسم کثیف کے بعد ایک لطیف جسم عطا کرتا ہے، جیسے فرمایا: اِنَّآ اَنۡشَاۡ نٰھُنَّ اِنۡشَآءً۔ ہم نے ان عورتوں کو (پہلے پہل دنیا میں) پیدا کیا جیسا کہ حق ہے۔ فَجَعَلۡنٰھُنَّ اَبۡکَارًا۔ پھر (اس کے بعد) ہم نے ان کو (بہشتی جسمِ لطیف میں) کنواریاں بنایا۔ عُرُبًا اَتۡرَابًا۔ محبوبہ ہیں ہم عمر ہیں (۵۶: ۳۵ تا ۳۷) ہم عمر ان معنوں میں کہ ازلی پیدائش ایک ساتھ ہے، نفسِ واحدہ سے پیدا ہونا ایک ساتھ اور کثیف سے لطیف ہوجانا ایک ساتھ ہے۔ |
|
۲۹۹
حُور (۴) |
پریان بہشت: کتاب دعائم الاسلام، جلد اوّل، کتاب الجنائز، ذکر العلل….. میں |
۱۷۱
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
حضرتِ علی علیہ السّلام سے روایت ہے: وَ کُلُّ مؤمنٍ شھید، وَ کُلُّ مؤمِنَۃٍ حَوراء۔ ہر مومن (جس موت سے بھی مرے) شہید ہوجاتا ہے، اور ہر مومنہ (عورت مرکر کوکبی بدن میں) حَوراء بن جاتی ہے۔ اس کلّیّہ سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ بہشت کی عورتیں یعنی حوریں پہلے پہل دنیا میں پیدا ہوجاتی ہیں، کیونکہ مرد و زن کے لئے ایک ہی قانونِ فطرت ہے۔ |
||
۳۰۰
حور (۵) |
جسم لطیف میں بہشت کی عورتیں: سورۂ رحمٰن میں دیکھ لیں: خیموں میں ٹھہرائی ہوئی حوریں ہیں۔ اپنے ربّ کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے؟ ان جنّتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جنّ نے ان کو نہ چھوا ہوگا (۵۵: ۷۲ تا ۷۴) اس ربّانی تعلیم کی پہلی حکمت: قرآنِ حکیم کا خطاب ہر زمانے کے مسلمانوں سے ہے، پس اللہ جلّ شانہٗ کا ہر وعدہ بھی تمام زمانوں کے اہل ایمان سے فرمایا ہوا ہے اور اس کا یہ وعدہ بھی ایسا ہی ہے، وَعَدَکُمُ اللہُ مَغَانِمَ کَثِیۡرَۃً تَاۡخُذُوۡنَھَا۔ اللہ تعالٰی نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم لوگے (۴۸: ۲۰)۔ جاننا چاہیے کہ خدا کا ہر وعدہ فرمانبرداری اور علم و عمل سے مشروط ہوتا ہے، پس ہر کامیاب عالمِ شخصی کی قیامتِ صغرٰی جہادِ اکبر اور دینِ اسلام |
۱۷۲
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
کی عالمی فتح ہے، یہ فتح صرف روحانی اور اُخروی ہی ہے، اس بے مثال آفاقی فتحمندی کے اموالِ غنیمت میں حوران و غلمانِ بہشت بھی ہیں۔ |
||
۳۰۱
حور (۶) |
حُوریں جسمِ فلکی میں: دوسری حکمت: خدا کے فضل و کرم سے ہر وہ عورت نوجوان کنواری ہوجاتی ہے جبکہ جسمِ کثیف کو چھوڑ کر بلباسِ کوکبی بدن (ASTRAL BODY) بہشت میں داخل ہوجاتی ہے، پھر اس کی وہی صفت بنتی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا۔ |
|
۳۰۲
حور (۷) |
بہشت کی عقلی حوریں: تیسری حکمت: عقلی حوریں دونوں جہان کے حسن و جمال اور رعنائی و زیبائی کے اسرارِ مخزون ہیں، وہ ازلی خیموں میں پوشیدہ ہیں، ان کے جنّتی شوہروں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جنّ نے ان کو نہیں چھوا ہے، یعنی یہ ہر عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس کے رازہائے سربستہ ہیں، حورٌ مقصورات کی تأویل ہے اسرارِ کون و مکان کے بے بہا جواہر، کیونکہ مقصور اسمِ مفعول ہے جس میں کائناتِ علم و حکمت کو مختصر ترین اشارات میں لانے کا مفہوم ہے، المنجد سے مثالیں: اَقۡصَرَہٗ، کسی چیز کو چھوٹا کرنا، لمبائی کم کرنا، کوتاہ و مختصر کرنا۔ تَقَاصَرَ الظِلُّ، سایہ |
۱۷۳
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
کا قریب ہونا اور سکڑنا۔ الاحادِیۡثُ القِصَارُ، جامع و مفید کلام۔ |
||
۳۰۳
حُوۡر (۸) |
بہشت کی پریاں: سورۂ بقرہ میں ہے: وَ لَھُمۡ فِیۡھَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ۔ اور ان کے واسطے (ان بہشتوں میں) بیویاں ہوں گی صاف پاک کی ہوئی (۰۲: ۲۵) یعنی جسمِ کثیف سے جسمِ لطیف میں منتقل کردہ، وہ جسماً، روحاً اور عقلاً پاک و پاکیزہ ہوں گی، کیونکہ مُطَھَّرَۃ اسمِ مفعول ہے جس پر خداوندِ تعالٰی یا اس کے فرشتوں کے پاک کر دینے کا فعل واقع ہوا ہے، اور وہ بھی آخرت میں، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ حورانِ بہشت کلّی پاکیزگی کی حامل ہوں گی، وہ ہے جسمانی لطافت مثلِ شعلۂ شمع، روحانی ترقّی مانندِ فرشتہ، عقلی طہارت (پاکیزگی) تاکہ کتابِ مکنون کو ہاتھ میں لیا جائے، اور ان کے سعادت مند شوہر بھی انہی اوصاف کے مالک ہوں گے، کیونکہ اشارۂ حکمت بس یہی کہتا ہے۔ |
|
۳۰۴
حُوۡر (۹) |
زنانِ بہشت: سورۂ دُخان (۴۴: ۵۴) میں ہے: وَ زَوَّجۡنٰھُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ۔ اس کا ایک مستند ترجمہ یہ ہے: اور ہم گوری گوری آہوچشم عورتیں ان سے بیاہ دیں گے (۴۴: ۵۴) یہاں ظاہری آنکھوں کے حسن و جمال |
۱۷۴
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
زنانِ بہشت: کی مثال سے چشمِ بصیرت کی تعریف کی گئی ہے لہٰذا ہمیں یقینِ کامل ہے کہ یہ مرتبۂ عقل کی حوریں ہیں، جن کا ذکر ہوچکا۔ سوال: لوگ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آیا بہشت میں تولید کا نظام ہے؟ اگر ہے تو کس طرح؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بہشت وہ جگہ ہے جس میں ہر طرح کی نعمت موجود ہے، اور اولاد کی خوشی ایک بڑی نعمت ہے تو یہ بہشت میں کیوں نہ ہو، مگر ہاں، وہ عالم امر ہے، اس لئے ہر چیز کا ظہور فورًا کلمۂ کن سے ہوتا ہے۔ |
||
۳۰۵
حَیّ |
زندہ، ھمیشہ زندہ: قال اللہ تعالٰی: “یٰابۡنَ اٰدَمَ خَلَقۡتُکَ لِلۡاَبَدِ، وَ اَنَا حَیُّ لَا اَمُوۡتُ، اَطِعۡنِیۡ فِیۡمَا اَمَرۡتُکَ بِہَ، وَانۡتَہِ عَمَّا نُھَیۡتُکَ عَنۡہُ اَجۡعَلۡکَ حَیًّا لَا تَمُوۡتُ اَبَدًا یَابۡنَ آدَمَ اَنَا قَادِرٌ عَلیٰ اَنۡ اَقُوۡلَ لِلشَّیۡءِ کُنۡ فَیَکُوۡنُ، اَطِعۡنِیۡ فِیۡمَا اَمَرۡتُکَ بِہِ وَانۡتَہِ عَمَّا نَھَیۡتُکَ عَنۡہُ، اَجۡعَلۡکَ قَادِرًا عَلٰی اَنۡ تَقُوۡلَ لِلشَّیۡءِ کُنۡ فَیَکُوۡنُ۔ حدیثِ قدسی ہے: اے ابن آدم! میں نے تجھ کو ہمیشہ کیلئے پیدا کیا ہے، اور میں خود زندۂ لافانی ہوں، میری اطاعت کر جس چیز کیلئے |
۱۷۵
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
میں تجھے امر کرتا ہوں، اور رُک جا جس چیز سے میں تجھے روکتا ہوں، تاکہ میں تجھے ایسی حیات عطا کرونگا کہ تو کبھی نہیں مریگا، میں یہ قدرت رکھتا ہوں کہ کسی چیز کیلئے فرماؤں ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوجاتی ہے، میری اطاعت کر جس چیز کیلئے میں تجھے امر کرتا ہوں اور رک جا جس چیز سے میں تجھے روکتا ہوں تاکہ میں تجھے یہ قدرت دوں کہ تو کسی چیز کیلئے کہے ’’کُنۡ‘‘ (ہوجا) تو وہ ہوجائے گی۔ |
||
۳۰۶
حَیَوَان (۱) |
زندہ، زندگی، جینا: اصولی اور بنیادی حکمتوں کا یہ ربّانی خزانہ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۴) میں ہے: وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَھِیۡ الۡحَیَوَانُ لُوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ۔ اور بلا شبہ آخرت کا گھر زندہ ہے، اگر اُن کو اس کا علم ہوتا۔ تفصیل کے لئے دیکھیں: کتابِ وجہِ دین، کلام۴۔ |
|
۳۰۷
حَیَوَان (۲) |
زندہ، زندگی، جینا: اس آیۂ کریمہ کا واضح و صریح مطلب یہ ہے کہ عالمِ آخرت سارے کا سارا زندہ، بولنے والا، اور جاننے والا ہے، وہاں کی ہرہر چیز بولتی اور تسبیح کرتی رہتی ہے (۴۱: ۲۱؛ ۱۷: ۴۴) اور کوئی شَی عقل و جان اور علم و حکمت کے بغیر نہیں، سچ تو یہ ہے کہ دارِ آخرت انسانِ لطیف کی صورت میں ہے، |
۱۷۶
لفظ | معنی و حکمت “ح” | |
اور قرآنِ حکیم میں برائے امتحان اس کے بہت سے مخفی نام ہیں۔ |
||
۳۰۸
حَیٰوۃً طَیِّبَۃً |
پاک زندگی: مرد ہو یا عورت، جو بھی حقیقی معنوں میں ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرے، اس کو خدا حیاتِ طیّبہ (روحِ قدسی) میں زندہ کرے گا، وہ لطیف جسم اور عقلِ کامل کی دولت سے مالامال ہوگا (۱۶: ۹۷)۔ |
۱۷۷
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۷۸
بابُ الخاء
|
۱۷۹
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۸۰
لفظ | معنی و حکمت “خ” | |
۳۰۹
خَرَّ |
وہ گر پڑا: انسان روحاً آسمان سے آیا ہے، اس لئے اس کا آخری مرجع و ماوا آسمان پر ہے، جبکہ وہ خدا شناسی میں کامیاب ہوجاتا ہے، اگر اس کو معرفت حاصل نہیں ہوئی تو یہ شرک ہے، اس صورت میں وہ گویا آسمان کی بلندیوں سے گرگیا (مفہوم ۲۲: ۳۱) سورہؙ حج کے رکوعً چہارم کو خوب غور سے پڑھیں۔ |
|
۳۱۰
خَرۡدَل |
رائی: پتّھر جیسی چیزوں میں بھی روح موجود ہے، جس کا اشارہ سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں فرمایا گیا ہے: اے میرے بیٹے! اگر وہ (عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو، پھر وہ کسی پتھر کے اندر ہو، یا آسمانوں میں ہو، یا زمین میں ہو، اللہ تعالیٰ اسے لے آئے گا، یقیناً اللہ تعالیٰ بہت باریک بین پورا پورا خبر رکھنے والا ہے۔ |
|
۳۱۱
خزائِن (۱) |
خزانے: مادّی سائنس کے ایجادات ہوں یا روحانی سائنس کے انکشافات، ان میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو خزائنِ الٰہی سے نہ آئی ہو، جب اللہ کے انتہائی عظیم اور کبھی ختم نہ ہونے والے خزانے موجود ہیں تو ان کی |
۱۸۱
لفظ | معنی و حکمت “خ” | |
بے شمار برکتوں کا صاف شفاف دریا ہمیشہ دنیا والوں کی طرف بہتا رہے گا (۱۵: ۲۱)۔ |
||
۳۱۲
خزائن (۲) |
خزانے، خدا کے خزانے: س: خزائنِ الٰہی کا ذکر قرآنِ حکیم کے کس مقام پر ہے؟ ج: سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں، س: ان خزانوں میں کیا کیا چیزیں ہیں؟ ج: ہر چیز یعنی ہر نعمت، س: خزائنِ خدا کی خاص نعمتیں کس طرح حاصل کی جاسکتی ہیں؟ ج: فرمانبرداری اور علم و معرفت کے وسیلے سے، س: ان خزانوں کی نعمتوں میں سردار نعمت کونسی ہے؟ ج: وہ خدا کا دیدارِ پاک ہے جس میں آپ کو فنا ہوجانا ضروری ہے تاکہ آپ خود کو ازلی و ابدی طور پر اسی میں زندہ پائیں، س: خزائنِ الٰہی کہاں ہیں؟ س: عالمِ شخصی میں، س: کُنوزِ خداوندی کی طرف رہنمائی کون کرتا ہے؟ ج: امامِ مبین علیہ السّلام۔ |
|
۳۱۳
خَزَائِن (۳) |
خزانے، خدا کے خزانے: سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں بار بار غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں حق تعالٰی کے خزانوں کی معرفت کے اسرار منکشف ہوسکتے ہیں، یقینًا یہ خزائنِ الٰہی عقلِ کل، نفسِ کلّ، ناطق، اساس، اور امام ہیں، اور یہ کنوزِ |
۱۸۲
لفظ | معنی و حکمت “خ” | |
خداوندی لاہوت، جبروت، اور ملکوت کے انمول جواہر سے بھرے ہوئے ہیں۔ |
||
۳۱۴
خَزَائن (۴) |
خزائنِ الٰھی: اے نورِ عینِ من! یہ نکتۂ دلپذیر کبھی بھول نہ جانا کہ اللہ کی خاص چیزیں اشرف و اعلیٰ ہوا کرتی ہیں، مثال کے طور پر قلمِ الٰہی ایسا نہیں جیسے دنیا کا بے جان و بے عقل قلم ہوتا ہے بلکہ خدا کے قلم و لوح دو عظیم فرشتے ہیں، اسی طرح ربّ العزّت کے خزائن بھی فرشتوں کی شکل میں ہوتے ہیں، اور یہ قانون بھی یاد رہے کہ فرشتے روحانی اور جسمانی دو قسم کے ہوتے ہیں، پس خداوندِ عالم نے اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے آسمان اور زمین کے باشندوں کے لئے ایسے پانچ عظیم خزانے بنا دیئے کہ اُن تک رسائی کے لئے مکان و زمان سے کوئی رکاوٹ نہیں۔ |
|
۳۱۵
خَزَائن (۵) |
خدا کے خزانے جو عظیم فرشتوں کی صورت میں ہیں: خزائنِ الٰہی جو عظیم فرشتے ہیں وہ کس طرح کام کرتے ہیں، اس کی ایک مثال یہ ہے: ترجمۂ آیۂ پُرحکمت: (خدا) وہی تو ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر نور |
۱۸۳
لفظ | معنی و حکمت “خ” | |
کی طرف لے آئے (۳۳: ۴۳)۔ اللہ کا درود بھیجنا یہ ہے کہ وہ عَزَّ اِسۡمُہٗ صرف امر کرتا ہے، درود اور کوئی بھی چیز اس کے حکم سے نازل کر دینے کا فریضہ وہ بڑے فرشتے ہی انجام دیتے ہیں، جن کو خزائنِ الٰہی ہونے کا مرتبہ حاصل ہوا ہے یاد رہے کہ امر ہر کام سے برتر ہے، اور کام امر کے تحت ہے، لہٰذا خداوند تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ وہ ہر کام کے لئے امر فرماتا ہے کام نہیں کرتا۔ |
||
۳۱۶
خَزَائن (۶) |
خزائنِ الٰھی: دوسری مثال یہ ہے کہ اگر خداوند کریم چاہتا تو بذاتِ خود اہل ایمان پر درود بھیجتا لیکن ایسا نہیں کیا بلکہ زمین کے فرشتۂ اعظم اور سب سے عظیم ارضی خزانہ (ناطق) یعنی آنحضرتؐ سے فرمایا: وَ صَلِّ عَلیۡھِمۡ اِنَّ صَلوٰتَکَ سَکَنٌ لَّھُمۡ (۰۹: ۱۰۳) اے نبیؐ تم ان پر درود بھیج دو کیونکہ تمہارا درود ان کے لئے (روحانی اور عقلانی) تسکین کا باعث ہے۔ |
|
۳۱۷
خَزَائن (۷) |
خزانے: قرآنِ حکیم (۱۵: ۲۱) میں ہے: اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور ہم کسی چیز کو نازل نہیں کرتے ہیں مکر (لوگوں |
۱۸۴
لفظ | معنی و حکمت “خ” | |
کے) علم و دانش کے مطابق۔ یہ بہت بڑی روشن حقیقت ہے بلکہ قانونِ الٰہی ہے کہ کوئی چیز خزائنِ خدا سے باہر نہیں، پس یقیناً انسان کی سعی اور معلومات کے مطابق سائنس اور اس کی تمام پیداوار اللہ کے خزانوں سے آئی ہیں، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عالمِ بالا میں روحانی سائنس اور مادّی سائنس ایک ہی چیز ہے۔ |
||
۳۱۸
خَزَائن الارض |
زمین کے خزانے: (یوسفؑ نے) کہا مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کیجئے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں (۱۲: ۵۵) یعنی یوسفؑ امامِ مستودع نے امامِ مستقرؑ سے کہا کہ مجھے عالمِ شخصی کے خزانے سپرد کر دیں، تاکہ حفاظت اور علم کے ساتھ خزانے استعمال ہوسکیں۔ |
|
۳۱۹
خَزَائنُ رَبِّکَ |
تیرے ربّ کے خزانے: کیا تیرے ربّ کے خزانے ان کے پاس ہیں (۵۲: ۳۷) یعنی ان کے پاس کوئی ایسا خزانہ نہیں، بلکہ پروردگار کے تمام خزائن امامِ مبین علیہ الصلوٰۃ و السّلام کے بابرکت عالمِ شخصی میں ہیں، جس میں اللہ تعالٰی نے ساری چیزوں کو گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔ |
۱۸۵
لفظ | معنی و حکمت “خ” | |
۳۲۰
خزائنُہٗ |
اللہ کے خزانے: ترجمۂ آیۂ پاک: اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں (۱۵: ۲۱) حضرتِ امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام اللہ کا خزانۂ خزائن ہے، اور اسی کو خدا کا قربِ خاص حاصل ہے۔ |
|
۳۲۱
خلق |
آفرینش: اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ (۰۷: ۵۴) یاد رکھو کہ عالمِ خلق اور عالمِ امر اللہ ہی کے لئے ہے۔ یعنی عالمِ سفلی اور عالمِ عُلوی۔ |
|
۳۲۲
خلق الرّحمٰن (۱) |
نہایت مہربان خدا کی آفرینش: اے نورِ عینِ من! خداوند تعالیٰ کی بے مثال بادشاہی میں ایک طرف دَرَجات ہیں اور دوسری طرف مساوات، اے عزیز تر از جان، از تو قربان! آپ یہ بھی یاد رکھیں کہ دنیا و آخرت میں لوگوں کے درجات ہیں، اور ازل و ابد میں مساوات یعنی برابری ہے، اسی برابری کو قرآنِ حکیم نے “خلقِ رحمان” کے اسم سے موسوم کیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ (۶۷: ۰۳) تو نہایت مہربان خدا کی آفرینش میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔ اسی تصوّر کو سمجھانے کے لئے حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ نے |
۱۸۶
لفظ | معنی و حکمت “خ” | |
مونو ریالٹی (یک حقیقت) کا انقلابی نظریہ پیش کیا ہے، جو علم و معرفت کے خزینۃ الخزائن کی کلید ہے۔ |
||
۳۲۳
خلق الرّحمٰن (۲) |
نہایت مہربان خدا کی آفرینش: (۱) قرآنِ پاک ایک ہی ہے لیکن اس کی کاپیاں شروع سے لیکر اب تک لا تعداد ہیں، پھر بھی یہ مقدّس آسمانی کتاب حقیقت میں ایک ہی ہے سو یہ کتنی عمدہ مثال ہے کہ اس کی روشنی میں ہر دانا مومن تصوّرِ “یک حقیقت” کو سمجھ سکے (۲) مساوات اور یک حقیقت کی دوسری بہترین مثال انسانِ کامل کی بابرکت ہستی ہے، جس کی بیرون از حساب کاپیاں بنائی جاتی ہیں، تاکہ اہل معرفت بہشت میں فردِ واحد بھی ہوجائیں اور ہزار و بے شمار بھی رہیں (۳) سائنسی عجائب و غرائب کی مثالوں سے کام نہ لینا دانشمندی نہیں ہے، چنانچہ آپ اندازہ کریں کہ ٹیلی وژن سے تنہا ایک ہی شخص کی تصویر اور آواز کی کتنی کاپیاں ہوسکتی ہیں، کہاں کہاں تک اور کتنے گھروں میں پہنچتی ہیں، کوئی چیز اشارۂ حکمت سے خالی نہیں۔ |
|
۳۲۴
خَلۡقٍ جَدِیۡدٍ |
نئی پیدائش: بلکہ وہ نئی پیدائش کے بارے میں شک میں ہیں۔ یعنی جسمِ لطیف کی زندگی سے بے خبر ہیں (۵۰: ۱۵)۔ |
۱۸۷
لفظ | معنی و حکمت “خ” | |
۳۲۵
خَلِیۡل |
گہرا دوست: حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ پروردگارِ عالم نے جناب ابراہیمؑ کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اپنا عبد مقرر کیا اور رسول مقرر کرنے سے پہلے نبی بنایا اور خلیل کا درجہ عطا کرنے سے پہلے رسول مقرر کیا اور امام مقرر کرنے سے پہلے خلیل بنایا، (المیزان، الجزء الاوّل، ص۲۷۶، نیز حاشیۂ ترجمۂ قرآن از سیّد مقبول احمد، ص۲۲)۔ |
|
۳۲۶
خَیۡر |
شرّ کی ضد، نیکی، بھلائی، نیک کام: اے نورِ عینِ من! حق بات تو یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں سر تا سر روحانی اور عقلانی عجائب و غرائب ہی کا تذکرہ ہے، اس کی ایک بہت بڑی مثال یہ ہے کہ جب عالمِ شخصی میں انفرادی قیامت برپا ہوجاتی ہے، اس دوران بہت سے مراحل کے بعد منزلِ عقل میں فنائے عالم کا مشاہدہ ہوتا ہے، یعنی حضرتِ ربّ العزّت کائنات کو لپیٹ لیتا ہے، ایسے میں خیر تو خیر ہی تھی شرّ بھی دستِ قدرت میں خیر ہوجاتا ہے، یہ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ کی تفسیر و تأویل ہے (۰۳: ۲۶)۔ |
|
۳۲۷
خَیۡرُ الۡوَرِثِیۡنَ |
سب وارثوں سے بہتر: قرآنِ حکیم (۲۱: ۸۹) میں ہے کہ خدا خَیۡرُ الۡوَارِثِیۡنَ (سب وارثوں |
۱۸۸
لفظ | معنی و حکمت “خ” | |
سے بہتر) ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ نیک بخت لوگوں کو فنا فی اللہ و بقاء باللہ کا مرتبہ عطا ہوجاتا ہے، اس معنٰی میں ان کا بہترین وارث اللہ ہے اور وہ حقیقت میں مرے بھی نہیں بلکہ زندۂ ازل و ابد ہوگئے ہیں۔ |
||
۳۲۸
خِیَرَہ |
اختیار، اسمِ مصدر ھے: سورۂ احزاب (۳۳: ۳۶) میں ارشاد ہے: وَ مَا كَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوۡلُهٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّكُوۡنَ لَهُمُ الۡخِیَرَةُ مِنۡ اَمۡرِهِمۡ۔ (۱) اور کسی مومن اور مومنہ کو گنجائش ہی نہیں جبکہ اللہ اور اس کا رسولؐ کسی کام کا فیصلہ فرمائیں کہ ان کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار رہے (۲) اس ارشاد کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ جب کسی مومن یا مومنہ کے عالمِ شخصی کی روحانی ترقّی مقامِ توکّل اور کلمۂ کُنۡ تک پہنچ جاتی ہے تو اس وقت حقیقی وکیل ایسے شخص کے اختیار کو بڑی حد تک محدود کر دیتا ہے۔ |
۱۸۹
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۹۰
باب الدّال
|
۱۹۱
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۹۲
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
۳۲۹
دَآبَّۃً (۱) |
ایک چلنے والا: اور جب ان لوگوں پر (قیامت کا) وعدہ پورا ہوگا تو ہم ان کے واسطے زمین سے ایک چلنے والا نکال کھڑا کریں گے جو ان سے یوں باتیں کرے گا کہ (اکثر) لوگ ہماری آیتوں کا یقین نہیں رکھتے تھے (۲۷: ۸۲) یہ اگرچہ ایک جانور ہے لیکن اس کے بے شمار ذرّات ہیں، جو پوری دنیا میں پھیل جائیں گے، اور مولا علی علیہ السّلام نے فرمایا ہے کہ: میں ہی دابۃ الارض ہوں (کوکبِ درّی، بابِ سوم، منقبت ۲۲)۔ |
|
۳۳۰
دَآبَّۃً (۲) |
زمین پر رینگنے والا، چلنے والا: آیۂ مبارکہ: وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ (تا آخر۔ ۰۶: ۳۸) اور کوئی زمین پر رینگنے والا اور کوئی پرندہ جو اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتا ہے ایسا نہیں ہے مگر یہ کہ وہ بھی تم ہی جیسے گروہ ہیں، ہم نے کتاب میں کسی طرح کی کمی نہیں کی ہے، پھر وہ سب اپنے پروردگار کے حضور میں جمع کئے جائیں گے۔ اس آیۂ مقدّسہ کی تاویلی حکمت ذیل کی طرح ہے: اگرچہ دنیائے ظاہر میں ذی حیات (انسان وغیرہ) کے بے شمار درجات ہیں، لیکن یہ سب بنیادی طور پر دو بڑے گروہ میں تقسیم ہیں، یعنی بعض زمین پر چلتے ہیں اور بعض ہوا میں پرواز کرتے ہیں، یہی مثال عالمِ ذرّ میں بھی ہے، تاکہ ہم ان دو شہادتوں سے یہ سمجھ سکیں کہ تمام امّتوں کے لوگ بہشت میں دو طرح |
۱۹۳
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
طرح سے ہوں گے، کچھ زمین پر چلیں گے، اور کچھ فضا میں پرواز بھی کر سکیں گے۔ |
||
۳۳۱
دَآبَّۃً (۳) |
چلنے والا، انسان وغیرہ: ارشاد ہے: “ہم نے کتاب میں کسی طرح کی کمی نہیں کی ہے۔” یعنی قرآن میں، جبکہ نورِ منزّلۡ (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں دیکھا جائے، کتابِ نفسی میں، جبکہ امامِ زمانؑ کا نور اُس پر طلوع ہوجاتا ہے، کتابِ کائنات میں، جبکہ چشمِ بصیرت سے پڑھی جاتی ہے، اور کتابِ ناطق (نورِ امامت) میں، جبکہ کسی کو معرفت عطا ہوتی ہے۔ |
|
۳۳۲
دَآبَّۃً (۴) |
جاندار، اس معنی میں انسان بھی ہے: “پھر وہ سب اپنے پروردگا کے حضور میں جمع کئے جائیں گے”۔ دنیا والوں کا حشر (اجتماع) سب سے پہلے بشکلِ ذرّات عالمِ ذرّ میں ہوجاتا ہے، یہ عالم انسانِ کامل میں ہے، پھر درجات کی مثالیں ہیں، اس کے بعد سب کو مرتبۂ فردانیت پر نفسِ واحدہ (ایک شخص) کی صورت میں جمع کیا جاتا ہے، اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ اہل جنّت پہلے تو مختلف مراتب پر فائز ہوجاتے ہیں، پھر رفتہ رفتہ حظیرۃ القدس میں پہنچ کر ایک ہی ہیکلِ نور میں سب کے سب ایک ہوجاتے ہیں، یہ حشر کی حکمت ہے۔ |
۱۹۴
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
۳۳۳
دَآبَّۃً (۵) |
ایک چلنے والا: آیۂ کریمہ: وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡھِم (تا آخرأ ۲۷: ۸۲) اور جب بات ان پر آپڑے گی تو ہم زمین سے ان کے لئے ایک جانور نکالیں گے، جو لوگوں سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہ لاتے تھے۔ دَآبّۃُ الۡاَرۡض، امامِ عالی مقامؑ کے مخفی ناموں میں سے ہے، جیسے مولا علیؑ کا ارشاد ہے: اَنَا دَآبَّۃُ الۡاَرۡض۔ یعنی میں ہوں دابۃ الارض جو قیامت کے علامات و نشانات میں سے ہے (کوکبِ دُرِّی، بابِ سوم، منقبت۲۲)۔ انفرادی قیامت میں نورِ امامت کے بےشمار عجائب و غرائب کا ظہور ہوتا ہے۔ |
|
۳۳۴
دَآبَّۃً (۶) |
دآبۃ الارض، یاجوج و ماجوج، زندہ ذرّات: ہر اسانِ کامِل کی جسمانی موت سے بہت پہلے نفسانی موت واقع ہوتی ہے، اسی سے ذاتی یا انفرادی قیامت کا آغاز ہوتا ہے، آپ سورۂ سباء (۳۴: ۱۴) میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں دآبۃ الارض کا ذکر آیا ہے، یہ دراصل یاجوج و ماجوج کا نام ہے جو عالمِ شخصی کی تعمیرِ نو کے لئے تخریب کرتے ہیں، چنانچہ یہ زندہ ذرّات حضرتِ سلیمانؑ کے عصا (نفسِ حیوانی) کو کھا رہے تھے، تاکہ آپؑ پر نفسانی موت واقع ہو۔ |
۱۹۵
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
۳۳۵
دارُ الحکمۃ |
حکمت کا گھر: اَنَا دَارُ الۡحِکۡمَۃ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا۔ حضرتِ علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ۔ (ترمذی اور مشکوٰۃ) اس کا اشارہ یہ ہوا کہ علیِ زمانؑ ہی کے توسط سے قرآن و حدیث کے خزائنِ حکمت مل سکتے ہیں۔ |
|
۲۳۶
دحیۃ الکلبی |
ایک صحابی کا نام: آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: اذا رأیتم دحیۃ الکلبی عندی فھو جبرائیل یأتینی فی صورتہٖ جب تم میرے پاس دحیۃ الکلبی کو دیکھتے ہو تو سمجھ لو کہ اس کی صورت میں جبرائیل ہے جو میرے پاس آتا ہے۔ (سرائر، ص۸۱) اس سے معلوم ہوا کہ مجرّد فرشتے مومنین کی شکل میں ہوتے ہیں، اور مومنین ہی علم و عبادت سے ملائکہ بن جاتے ہیں۔ |
|
۳۳۷
دَرَجَاتٌ (۱) |
درجے، مرتبے: بعض کتبِ تصوّف میں یہ حدیث درج ہے: الشّریعۃُ اقوالی، و الطّریقۃُ الفعالی، و الحقیقۃُ الاحوالی، و المعرفۃُ سِرِّی۔ یعنی شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے افعال کا مجموعہ ہے، حقیقت میرے روحانی احوال میں ہے، اور معرفت میرا راز ہے۔ |
۱۹۶
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
اے نورِ چشمِ من! جیسا کہ آپ جانتے ہیں: جمادات قدر و قیمت کے اعتبار سے مختلف درجات پر ہیں، نباتات کے بھی بہت سے درجات ہیں، حیوانات بھی نوع بنوع اور درجہ بدرجہ ہوئے ہیں، اور انسانوں کے مدارج و مراتب کا سلسلہ تو بڑا طویل ہے، پس اسی طرح قرآنی اور اسلامی تعلیمات کے بھی بہت سے مراحل ہیں۔ |
||
۳۳۸
دَرَجَاتٌ (۲) |
مراتب: سورۂ آلِ عمران کے اس ارشاد کو دیکھ لیں: ھُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ اللہِط وَ اللہُ بَصِیۡرٌ مبِمَا یَعۡمَلُوۡنَ۔ ان لوگوں کے خدا کے ہاں (مختلف اور متفاوت) درجے ہیں اور خدا ان کے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے (۰۳: ۱۶۳) یعنی علم و عمل کے فرق و تفاوت کی وجہ سے لوگوں کے بہت سے درجے بن جاتے ہیں۔ |
|
۳۳۹
دَرَجَاتٌ (۳) |
مدارج: سورۂ یوسف (۱۲: ۷۶) میں ارشاد ہے: نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَاءُط وَ فَوۡقَ کُلِّ ذِیۡ عِلۡمٌ عَلِیۡمٌ۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں اور ہر علم والے سے دوسرا علم والا بڑھ کر ہے (۱۲: ۷۶) یعنی خداوندِ عالم جس کے درجے کو بلند کرنا چاہے اس کو علم و عمل کی توفیق عنایت |
۱۹۷
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
کرتا ہے، اور اسی طرح لوگوں کے بہت سے درجات بن جاتے ہیں، پس شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے مدارج حق ہیں۔ |
||
۳۴۰
دَھۡر (۱) |
زمان: اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ دہر کو گالی نہ دو، کیونکہ میں خود دہر ہوں (حدیث)۔ |
|
۳۴۱
دَھۡر (۲) |
زمانِ ساکن، ازل، تجدُّدِ ازل: سورۂ دہر کے شروع (۷۶: ۰۱) میں یہ حکمت آگین ارشاد ہے: هَلۡ اَتٰى عَلَى الۡاِنۡسَانِ حِیۡنٌ مِّنَ الدَّهۡرِ لَمۡ یَكُنۡ شَیۡــٴًـا مَّذۡكُوۡرًا۔ ترجمۂ اوّل: یقینًا انسان پر دہر (زمانِ ناگزرندہ) سے ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے، جبکہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔ ترجمۂ دوم: آیا انسان پر ظہورِ ازل (اور منزلِ فنا) کا وہ وقت آیا ہے جبکہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا (یعنی ہر طرح سے فنا بحَق ہوگیا تھا)۔ انسان ازل میں ایک بے نام و نشان اور بے مثال حقیقت تھا (ہے اور ہوگا) یعنی فانیٔ مطلق اور گُم گشتۂ عالمِ وحدت، کیونکہ قابلِ ذکر نہ ہونے کے دو پہلو ہیں، ایک منفی ہے اور دوسرا مثبت، منفی حجاب ہے اور مثبت محجوب، پس یہاں فنا فی اللہ کا سرِّ عظیم موجود ہے۔ زمانِ ناگزرندہ جس کا تجدّد عالمِ شخصی کے مقام عقل پر ہوجاتا ہے (۷۶: ۰۱)۔ |
۱۹۹
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
۳۴۲
دَھۡر (۳) |
زمانِ ناگزرندہ، ازل و ابد: جب کوئی سعادتمند مومن اپنے عالمِ شخصی کے روحانی سفر اور باطنی ترقّی کے سلسلے میں مرتبۂ ازل پر پہنچ کر فنا بحق ہوجاتا ہے تو اس کو یہ ضروری اور اعلیٰ معرفت حاصل ہوجاتی ہے کہ اس کی انائے علوی کسی ابتداء و انتہاء کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ عالمِ وحدت (مونور یالٹی) میں موجود ہے، اسی معنٰی میں “حِیۡنٌ مِّنَ الدَّھۡرِ” فرمایا گیا ہے کہ حِیۡن کا تعلق انائے سفلی سے ہے، اور دَھۡر انائے علوی کے لئے ہے۔ |
|
۳۴۳
دَھۡر (۴) |
ٹھہرا ھوا زمانہ: قرآنِ حکیم میں ایک سے زیادہ مقامات پر ارشاد ہوا ہے کہ خدا نے تم کو نفسِ واحدہ یعنی ایک جان سے پیدا کیا ہے، اس میں روحانی والدین کی طرف اشارہ ہے، اگرچہ روحانی حوّا کا ذکر الگ یا بعد میں ہوا ہے، اب جس شخص کو اپنی اصل کی طرف لوٹ جانا ہے تو پہلے پہل اسے روحانی ماں (امامؑ) میں فنا ہوجانا پڑے گا، پھر روحانی باپ (رسولؐ) میں، تاکہ آخراً فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوسکے، کیونکہ انسان جس طرح خدا کی جانب سے آیا ہے، اسی طرح اس کی جانب جانے والا ہے، سورۂ انعام، رکوعِ یازدہم کے آخر (۰۶: ۹۴) میں خوب غور سے دیکھ لیں۔ |
۱۹۹
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
۳۴۴
دَھۡر (۵) |
ٹھہرا ہوا زمانہ جو عالمِ امر میں ہے: سورۂ انعام (۰۶: ۹۴) میں ارشاد ہوا ہے: اور تم ہمارے پاس ایک ایک ہوکر آگئے جس طرح ہم نے اوّل بار تم کو پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا اس کو اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے ۔ اس حجاب کی محجوب حکمت یہ ہے: (۱) در اصل کاملین ہی کی روحانی پیدائش اور قیامت میں لوگوں کی روحانی پیدائش اور قیامت پوشیدہ ہے (۳۱: ۲۸) (۲) لہٰذا لوگ اپنے اپنے وقت کے کاملین میں فنا ہوکر ہی فرداً فرداً خدا کے پاس جاسکتے ہیں (۳) اس کے معنی ہیں خدا میں فنا ہوجانا (۴) بعد از فنا بشر اور بشریت کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی (۵) وہ لَمۡ یَکُنۡ شَیۡئًا مَّذۡکُوۡرًا کا مصداق ہوکر حقیقتِ مجرّدہ بن جاتا ہے۔ |
|
۳۴۵
دَیَّارًا |
رہنے والا، بسنے والا: یہ آیۂ کریمہ سورۂ نوحؑ میں ہے: وَ قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَى الۡاَرۡضِ مِنَ الۡكٰفِرِیۡنَ دَیَّارًا (۷۱: ۲۶) اور (پھر) نوح نے (یہ) دعا کی کہ میرے پروردگار کسی کافر کو روئے زمین پر بستا نہ رہنے دے۔ سوال: حضرتِ نوحؑ کی اس پُر اثر دعا کا تعلق دنیائے ظاہر سے ہے یا عالمِ شخصی سے؟ جواب: آخری دعوتِ حق عالمِ شخصی ہی کی طرف ہوتی ہے اور اصلاحِ احوال بھی اسی ہی میں کی جاتی ہے، لہٰذا اس |
۲۰۰
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
دعا کا اصل مقصد یہ ہے کہ اہل جہان سب کے سب پرسنل ورلڈ میں داخل ہوکر مسلمان اور مومن ہوجائیں اور کفر و کافری ختم ہوجائے۔ |
||
۳۴۶
دِیۡن (۱) |
اسلام، دینِ حق: یہ ارشاد قرآنِ پاک کے تین مقامات پر ہے: (خدا) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کر دے (۰۹: ۳۳؛ ۴۸: ۲۸؛ ۶۱: ۰۹)۔ اس قرآنی پیش گوئی کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، باطنی پہلو یہ ہے کہ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی اور باطنی قیامت میں دینِ حق دوسرے تمام ادیان پر غالب ہوتا رہا ہے، اور یہ عظیم روحانی واقعہ سب سے پہلے حضورِ اکرمؑ کی حیاتِ طیّبہ میں ہوا، آپ سورۂ فتح (۴۸) کو باطنی اور روحانی نقطۂ نظر سے پڑھیں۔ |
|
۳۴۷
دِیۡن (۲) |
خدا کا دین، آنحضرتؐ کی پاک ہستی: سورۂ نصر میں ارشاد ہے: جب خدا کی مدد آ پہنچی اور (روحانی) فتح حاصل ہوگئی، اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہو رہے تھے۔ وہی قیامت جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں آیا ہے زمانۂ آدمؑ سے سلسلۂ |
۲۰۱
لفظ | معنی و حکمت “د” | |
کاملین میں بطریقِ روحانی قائم ہوتی آئی ہے، چناچنہ رسولِ خدا پر قیامت کے عظیم اسرار اس وقت عملًا منکشف ہوگئے، جبکہ دنیا بھر کے لوگ بشکلِ ذرّات دینِ خدا (آپؐ کی ہستیٔ مبارک) میں داخل ہوگئے اور حضورِ پاکؐ کو آفاقی فتح حاصل ہوئی۔ |
||
۳۴۸
دین (۳) |
دینِ حق: ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سنّتِ الٰہی کا تجدّد ہوتا ہے (۴۰: ۸۵) یہ وہ اصل قانونِ قدرت ہےجس سے کوئی بھی بڑا واقعہ باہر نہیں ہوسکتا، مثلًا تخلیقِ ارض و سما، بہشت اور دوزخ کی تجدید، ازل و ابد کے عظیم واقعات کا ظہور، عہد الست کے معجزات، انبیائے قرآن وغیرھم کے قصّے، قیامت کے احوال، دینِ حق کا دوسرے ادیان پر غالب آنا وغیرہ۔ |
|
۳۴۹
دینُ اللہ |
خدا کا دین: مولا علیؑ نے فرمایا: انا دینُ اللہ حقًّا، انا نفسُ اللہ حقًّا لا یقولھا غیری ولا یدّعیھا مُدّعٍ اِلّا کذّابا۔ میں بحقیقت خدا کا دین ہوں، میں بحقیقت خدا کا نفسِ کلّی ہوں، یہ بات میرے سوا کوئی نہیں کہہ سکتا اور نہ کوئی مدعی ایسا دعوٰی کرسکتا ہے مگر کوئی کذّاب۔ (کتابِ سرائر، ص۱۱۷)۔ |
۲۰۲
بابُ الذّال
|
۲۰۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۲۰۴
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
۳۵۰
ذا النُّوۡنِ |
مچھلی والا، یعنی حضرتِ یونسؑ: سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۳۹) سے آگے پڑھیں، مچھلی کی چند تاویلیں ہیں، اور آخری تأویل نفسِ کلّی ہے، چناچنہ اس عظیم مچھلی نے حضرتِ یونس علیہ السّلام کو اُٹھا کر میدانِ عقلِ کل میں اُگل دیا۔ |
|
۳۵۱
ذَھِبٌ (۱) |
جانے والا: سورۂ صافات (۳۷: ۹۹) میں ہے: وَ قَالَ اِنِّیۡ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیۡ سَیَھۡدِیۡنِ۔ اور ابراہیمؑ نے کہا: “میں اپنے ربّ کی طرف جاتا ہوں، وہی میری رہنمائی کرے گا (۳۷: ۹۹) اس آیۂ مبارکہ میں اہل دانش کے لئے زبردست روشنی اور بہت ہی بڑا سرِّ مکشوف ہے، وہ یہ کہ اسلام دینِ فطرت یعنی ظاہراً و باطناً ترقّی کا مذہب ہے لہٰذا شریعت پر حقیقی معنوں میں عمل کرتے ہوئے طریقت، حقیقت اور منزلِ مقصودِ معرفت تا رسا ہوجانا بے حد ضروری ہے، پس حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام جیسے موحّد اعظم کے اس عزمِ صمیم (میں اپنے ربّ کی طرف جاتا ہوں) کے یہی معنی ہیں۔ |
|
۳۵۲
ذَاھِبٌ (۲) |
سالکِ دینِ متین: انبیائے کرام اور اولیائے عظّام علیہم السّلام کے نقشِ قدم پر چل کر |
۲۰۵
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
خزائنِ معرفت تک پہنچ جانا انتہائی مشکل کام تو ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں، یہی سبب ہے کہ اسلام کی بنیادی اور اصولی تعلیمات میں ایک بہت بڑی اہم اور خاص الخاص دعا سکھائی گئی ہے، وہ پُرحکمت دعا اُمُّ الۡکتاب میں اس طرح ہے: اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (یا ربّ العزّت!) ہمیں راہ راست پر چلا دے۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ۔ ان لوگوں کی راہ (پر) جن پر تو نے انعام فرمایا (یعنی پیغمبران، اساسان، امامان اور حجّتان ۰۴: ۶۹) |
||
۳۵۳
ذَاھِبٌ (۳) |
راہِ روحانیت کا مسافر: حضرتِ ابراہیم صلوات اللہ علیہ کے بابرکت روحانی سفر کی پہلی منزل شبِ باطن ہے، دوسری منزل ستارہ، تیسری منزل چاند، چوتھی منزل سورج اور اس کے بعد آپؑ کو معراج کی عظیم سعادت نصیب ہوئی (سورۂ انعام میں آیات ۷۵ تا ۷۹ کو خوب غور سے پڑھیں)۔ |
|
۳۵۴
ذَاھِبٌ (۴) |
مذھب (راستہ) پر چلنے والا: بعض کتبِ تصوّف میں یہ حدیث درج ہے: الشّریعۃ اقوالی، و الطّریقۃُ افعالی، و الحقیقۃُ احوالی، و المعرفۃ سِرّی۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے افعال کا مجموعہ |
۲۰۶
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
ہے، حقیقت میرے روحانی احوال میں ہے، اور معرفت میرا راز ہے۔ اے نورِ عینِ من! قرآنِ حکیم آفاق و انفس کی آیات میں نہ صرف غور و فکر کی دعوت دیتا ہے بلکہ اسی امر کی بار بار تاکید بھی کرتا ہے، لہٰذا اہل دانش پر فرض ہے کہ وہ قانونِ فطرت کے بارے میں سوچیں، مثال کے طور پر آبائے علوی (۹ آسمان) درجہ وار کیوں ہیں؟ اُمّھات (عناصرِ اربع) کثافت یا لطافت میں یکسان کیوں نہیں؟ موالیدِ ثلاثہ (جماد، نبات، حیوان) میں درجات کا فرق کیوں ہے؟ وہ بھی حیوان یہ بھی حیوان، لیکن وہ صامت اور یہ ناطق کیوں ہے؟ پھر جماد، نبات، حیوانِ صامت اور حیوانِ ناطق میں سے ہرایک کے لا تعداد و بے شمار درجے کیوں ہیں؟ |
||
۳۵۵
ذَاھِبٌ (۵) |
طریقِ دین پر چلنے والا: یہ نظامِ فطرت کی ارتقائی سیڑھی ہے، جو روحانی سیڑھی کی مثال بھی ہے، صراط مستقیم اور رسنِ خدا کا نمونہ بھی، جس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ انسانو! یقین کرو کہ جب تک عالمِ وحدت دور ہے تب تک درجات ہی درجات ہیں، قرآنی علم میں درجات، اسلامی عمل میں درجات، روحانی سفر اور قربِ خدا کے درجات، پس دین کی چار بڑی منزلیں یعنی شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت حق ہیں اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کا منزل بمنزل چلتے ہوئے اپنے ربّ کے پاس جانا بھی حق ہے۔ |
۲۰۷
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
۳۵۶
ذِبحۡ (۱) |
ذبح کرنے کا جانور، قربانی: سورۂ صٰفّٰت (۳۷: ۱۰۷) میں ارشاد ہے: وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی اس کے عوض دیدی۔ یعنی حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کی ظاہری اور جسمانی قربانی کے عوض باطنی اور روحانی قربانی ہوئی، اور وہ کئی معنوں میں عظیم قربانی تھی، ان کو خواب میں ذبح کیا گیا، بیداری میں کئی کئی دن تک ان کی روح قبض ہوتی رہی، روحانی جہاد میں مرتبۂ شہادت بھی حاصل ہوا، اور مقام عقل پر جاکر بھی بار بار قربان ہوتے گئے۔ |
|
۳۵۷
ذِبۡحۡ (۲) |
ذبح کرنےکا جانور، قربانی: حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام امامِ مستقر اور اساس تھے، اُن کی مذکورہ قربانیوں کی نیّت اور عبادت اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے تھی، اور باطنی فوائد تمام لوگوں کے لئے تھے، کیونکہ خدا کی طرف سے دنیا میں ہمیشہ امام اس لئے موجود و حاضر ہوتا ہے کہ وہ اہل جہان کے حق میں ایسے مفید روحانی امور کو انجام دے، جن کو لوگ خود انجام نہیں دے سکتے ہیں، مثلًا باطنی قربانی وغیرہ، جو ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ |
۲۰۸
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
۳۵۸
ذِبۡحۡ (۳) |
ذبح کرنے کا جانور، قربانی: سوال: حضرتِ امامِ عالی مقامؑ کی باطنی قربانیوں سے تمام اہل جہان کو کس طرح فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ اور ایسا کوئی اشارہ قرآنِ پاک میں کہاں ہے؟ جواب: قرآنِ حکیم کا اشارۂ حکمت کہتا ہےکہ ہادیٔ زمان نہ صرف امام المتّقین ہی ہے (۲۵: ۷۴) بلکہ وہ امامُ النّاس بھی ہے (۰۲: ۱۲۴) اس میں بہت بڑا فرق یہ ہے کہ متّقین کو بر وقت علم و حکمت کا دروازہ کھل جاتا ہے، لیکن عوام النّاس پر دنیا میں یہ دروازہ بند ہے۔ |
|
۳۵۹
ذِکۡر |
خدا کی یاد: سوال: انسان اپنے پیارے باپ کو کس عمر میں شدید محبّت سے یاد کرتا ہے؟ کب؟ کیوں؟ اور کس طرح؟ جواب: انسان اپنے باپ کو اکثر بچپن کی عمر میں یاد کرتا ہے، خصوصاً اس وقت جبکہ وہ باپ سے دور ہوجاتا ہے، ایسے میں ملنے کے لئے شدید محبّت سے روتے ہوئے باپ کو یاد کرتا رہتا ہے، قرآنِ کریم میں اس مثال سے بھی زیادہ شدّت کے ساتھ خدا کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے (۰۲: ۲۰۰)۔ |
|
۳۶۰
ذِکر الرّحمٰن (۱) |
خدا کی یاد: سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں ارشاد ہے: اور جو شخص خدا کی یاد سے |
۲۰۹
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
اندھا (اور غافل) بنتا ہے، تو ہم اس پر ایک شیطان مسلّط کر دیتے ہیں پس وہ بُرا ساتھی ہے۔ یہ انسانی حالت کا منفی پہلو ہے اور مثبت پہلو یہ ہے کہ مومن حضرتِ رحمان کو کثرت سے یاد کرے تاکہ اس پر ایک فرشتہ مقرر کیا جائے، یقیناً اسی آیت کی تفسیر میں وہ حدیث ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر دل کے دو کان ہیں، جن میں سے ایک کے پاس ایک شیطان اور دوسرے کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہے۔ |
||
۳۶۱
ذِکر الرّحمٰن (۲) |
خدا کی یاد: اے نورِ عینِ من! آپ خداوندِ تعالٰی کو شب و روز عشق سے یاد کریں، مناجات اور گریہ و زاری کی آسمانی دواؤں سے اپنے باطنی امراض کا علاج کرتے رہیں، علم و حکمت کی روشنی میں جانِ جان اور قبلۂ عاشقان کا تصوّر کریٖں، ان شاء اللہ شیطان خاموش ہوجائے گا، اور فرشتہ بولنے لگے گا، فرشتہ کی آواز شروع شروع میں سنائی نہیں دیتی، وہ ابتداءً دل کے کان تک محدود ہوتی ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کی ترقّی ہوتی رہتی ہے، تا آنکہ روحانی انقلاب آتا ہے۔ |
|
۳۶۲
ذِکۡرًا کَثِیۡرًا |
بہت یاد کرنا، کثرت سے یاد کرنا، ذکرِ کثیر: حق تعالٰی کا یہ حکم سورۂ احزاب (۳۳: ۴۱ تا ۴۳) میں ہے: اے ایمان لانے والو! اللہ کی یاد بہت کچھ کیا کرو، اور اس کی پاکی صبح و شام بیان |
۲۱۰
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
کیا کرو، وہ وہی ہے جو خود اور اس کے فرشتے تم پر صلوات (درود) بھیجتے ہیں تاکہ وہ تم کو (غلفلت و نادانی کی) اندھیریوں سے (ذکر علم کے) نور کی طرف نکال لائے، اور وہ مومنین پر بہت ہی رحم کرنے والا ہے۔ یہ حکم دَورِ قیامت کے لئے خاص ہے۔ |
||
۳۶۳
ذِکۡرُکُمۡ |
تمھارا ذکر: سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰) میں ان مبارک الفاظ کو دیکھ لیں: فِیۡہِ ذِکۡرُکُمۡ (۱) قرآن میں تمہاری نصیحت ہے (۲) اس میں تمہارے لئے اسمِ اعظم کا ذکر ہے (۳) اس میں بشرطِ کامیابی تمہارا ذکرِ جمیل ہے۔ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ و سلامہ جب اپنے کسی مرید کو اسمِ اعظم عطا فرماتے ہیں تو وہ یقیناً قرآنِ پاک میں ہوتا ہے، پس خصوصی عبادت کا یہ معجزاتی پل اس لئے ہوتا ہے کہ مومن یا مومنہ امام اور قرآن میں داخل ہوجائے۔ |
|
۳۶۴
ذَلُوۡلٌ (۱) |
نرم، رام، فرمانبردار ہوا: حدیثِ شریف میں آیا ہے کہ: اَلۡقُرۡاٰنُ ذَلُوۡلٌ ذُوۡ وُجُوۡہٍ فَاحۡمَلُوۡہُ عَلٰی اَحۡسَنِ وُجُوۡھِہٖ۔ یعنی قرآن بہت ہی رام ہوجانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے لہٰذا تم اسے اس کی بہترین |
۲۱۱
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
وجہ پر محمول کرو (الاتقان، دوم، نوع ۷۸)۔ بخاری جلد سوم، کتاب الاعتصام اور لغات الحدیث کتاب “ج” میں یہ حدیث درج ہے: اُوۡتِیۡتُ جَوَامِعَ الۡکَلِمۡ۔ میں جامع کلمے دیا گیا ہوں (یعنی قرآن اور حدیث جس کے الفاظ تھوڑے اور معانی و مطالب بے شمار ہیں)۔ پس قرآنی تعلیمات و ہدایات لوگوں کے طبقات و درجات کے مطابق ہیں۔ |
||
۳۶۵
ذَلُوۡل (۲) |
رام، فرمانبردار: حدیثِ شریف ہے: القراٰنُ ذَلولٌ ذُو وُجوہٍ فاحملوہُ علٰی احسنِ وُجوھِہٖ۔ یعنی قرآن بہت ہی رام ہوجانے والی چیز ہے، اور وہ کئی پہلو (وجوہ) رکھتا ہے لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو۔ (الاتقان، حصّۂ دوم، نوع۷۸)۔ یعنی قرآنِ حکیم کے ظاہراً و باطناً درجہ بدرجہ معانی ہیں، اس لئے تم رفتہ رفتہ اعلیٰ سے اعلیٰ معنوں کو سمجھ لو۔ |
|
۳۶۶
ذوالفقار |
تلوار کا نام: شرح الاخبار، جلد ۹، ص۳۸۱ پر ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: جنگِ احد کے دن آسمان سے ایک پکارنے والے نے پکارا: |
۲۱۲
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
لا فتٰی اِلّا علی، و لا سیف اِلّا ذوالفقار۔ علیؑ جیسا کوئی بہادر نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں۔ سوال: اب وہ بہادری اور اُس ذوالفقار کی کاٹ کہاں ہے؟ جواب: قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت معلوم ہے کہ شروع شروع میں تنزیلی جنگ کی ضرورت پیش آتی تھی، جو تاویلی جنگ کی علامت و مثال تھی، چنانچہ جب سے حسبِ منشائے الٰہی زمانۂ تأویل کا آغاز ہوا تب سے علیٔ زمانؑ تاویلی حکمت کی ذوالفقار سے کام لے رہا ہے، جو لوہے کی ذوالفقار جیسی محدود نہیں، بلکہ ہمہ رس اور عالمگیر ہے (زمانۂ تأویل، ۰۷: ۵۳؛ ۱۰: ۳۹)۔ |
||
۳۶۷
ذِیۡ عِوَجٍ (۱) |
کجی اور پیچیدگی والا: سورۂٌ زمر (۳۹: ۲۸) میں ہے: قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا غَیۡرَ ذِیۡ عِوَجٍ لَّعَلَّھُمۡ یَتَّقُوۡنَ۔ ترجمۂ اوّل: ایک عربی قرآن جس میں ذرا بھی کجی (پیچیدگی) نہیں تا آنکہ یہ لوگ (سمجھ کر) خدا سے ڈریں۔ ترجمۂ دوم: تمہاری اپنی زبان میں ایک قرآن جس میں ذرا بھی کجی (پیچیدگی) نہیں تاکہ یہ لوگ متّقی ہوجائیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ عظیم کا باطنی اور روحانی پہلو ہر مسلمان کی مادری زبان میں ہے اور یہ قرآنِ حکیم کا آفاقی اور ہمہ گیر معجزہ ہے۔ |
۲۱۳
لفظ | معنی و حکمت “ذ” | |
۳۶۸
ذِیۡ عِوَجٍ (۲) |
کجی اور پیچیدگی والا: عِوَجۡ= کجی، پیچیدگی زبان نہ سمجھنے کے معنی میں ہے، جس کی ایک روشن مثال یہ ہے کہ قیامت کا اعلان کرنے والا داعی دنیا کی تمام زبانوں میں پکارے گا اور کسی بھی فردِ بشر کو اس کی بات سمجھنے میں کجی اور پیچیدگی نہ ہوگی، جیسا کہ ارشاد ہے: یَوۡمَئِذٍ یَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِیۡ لَا عِوَجَ لَہٗ۔ اس روز لوگ پکارنے والے (کے حکم) کی پیروی کریں گے اس کے لئے کوئی پیچیدگی نہ ہوگی (۲۰: ۱۰۸) یعنی وہ ہر زبان میں بولے گا اور لوگ کسی دقت کے بغیر سنیں گے اور سمجھ لیں گے۔ |
۲۱۴
بابُ الرّاء
|
۲۱۵
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۲۱۶
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
۳۶۹
رَاجِعُوۡن |
پھر جانے والے، لوٹنے والے: آیۂ اِستِرجاع سے یہ روشن حقیقت جھلک رہی ہےکہ روحِ انسانی اللہ تعالٰی کے حضور سے یہاں آئی ہے، اسی معنٰی میں پلٹ کر خدا کی طرف جانے کا ذکر آیا ہے، جیسے ارشاد ہے: قَالُوۡا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیۡہِ رَاجِعُوۡنَ (۰۲: ۱۵۶) خوب یاد رہے کہ رجوع الی اللہ کا آخری مقام فنا فی اللہ ہے۔ |
|
۳۷۰
راسخون فی العلم |
پختہ کارانِ علم: حالانکہ اللہ اور ان لوگوں کے سوا جو علم میں بڑے پختہ کار ہیں اس کی تأویل کوئی نہیں جانتا ہے (۰۳: ۰۷) حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام نے فرمایا: رسول اللہ (صلعم) افضل الراسخین فی العلم۔ رسولِ خدا علم کے پختہ کاروں میں سب سے افضل ہیں، اللہ تعالٰی نے تنزیل و تأویل میں سے جو کچھ آنحضرتؐ پر نازل فرمایا اس کی تعلیم دی، اور جو چیز آپؐ پر نازل ہوتی آپؐ اس کی تأویل جانتے تھے، پھر آنحضرتؐ کے بعد آپؐ کے اوصیاء علم میں پختہ کار ہیں اور اس کی تأویل جانتے ہیں (دعائم الاسلام جلد اوّل |
۲۱۷
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
ذکرِ ولایتِ أئمّہ) |
||
۳۷۱
رَاعٍ (۱) |
چرواھا، بادشاہ: حدیثِ شریف ہے: کُلُّکُمۡ رَاعٍ وَّ کُلُّکُمۡ مَسۡئُوۡلٌ عَنۡ رَّعِیَّتِہ۔ ترجمۂ اوّل: تم میں سے ہر شخص چرواہا ہے اور تم میں سے ہر ایک سے (روزِ قیامت) اس کے مویشی کے بارے میں سوال ہوگا۔ ترجمۂ دوم: تم میں سے ہرشخص (بحدِّ قوّت) بادشاہ ہے اور تم میں سے ہر ایک سے (قیامت کے دن) پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی رعیت کے لئے کیا کام کر دیا۔ (صحیح بخاری، جلد اوّل، کتاب الجمعہ، نیز لغات الحدیث، لجد دوّم، کتاب “ر”)۔ |
|
۳۷۲
رَاعٍ (۲) |
چرواھا، بادشاہ: اے نورِ عینِ من! جیسا کہ آپ یہ امرِ واقعی جان چکے ہیں کہ ہر شخص کے عالمِ شخصی میں کائنات و موجودات کی ایک مکمل کاپی رکھی ہوئی ہے، اسی طرح ہر آدمی خداوند قدّوس کی رحمت بیکران سے بحدِّ قوت بادشاہ ہوگیا ہے اور اس کی رعایا کائنات بھر میں ہیں، پس اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ علم و عمل کے وسیلے سے عالمِ شخصی کی بادشاہی کو احیا کریں، یعنی حدِّ قوت سے حدِّ فعل میں لائیں۔ |
۲۱۸
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
۳۷۳
رَاعٍ (۳) |
چرواھا، بادشاہ: قرآن و حدیث کے کئی ارشادات میں یہ ذکر آیا ہے کہ فرمانبردار اور کامیاب نفوس بہشت میں بادشاہ ہوں گے، اور جن کو یہ مرتبہ نہ ملے، اس کی یہ وجہ ہوگی کہ انہوں نے اپنے عالمِ شخصی پر لا علمی اور بے عملی سے ظلم کیا ہوگا، اے عزیزان! آپ یقین کریں کہ عالمِ شخصی کے تصوّر سے حقائق و معارف کا سمجھانا خدا کا بہت بڑا انعام ہے، یہی سبب ہے کہ اِس طریقِ تعلیم میں بہت بڑی کامیابی ہوئی اور ہو رہی ہے۔ |
|
۳۷۴
ربّ (۱) |
پروردگار: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۰۱: ۰۱) سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو ہر ہر عالمِ شخصی کا پروردگار ہے، یعنی انسانوں کی جسمانی، روحانی، اور عقلانی پرورش کرتا ہے۔ |
|
۳۷۵
ربّ (۲) |
پالنے والا: تَبٰرَکَ اللہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ (۰۷: ۵۴) وہ خدا جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے بڑا برکت والا ہے۔ یعنی عوالمِ شخصی کی عقلی پرورش کے لئے ایسا بابرکت مربّی موجود ہے جس کو خدا نے مقرر فرمایا ہے۔ |
۲۱۹
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
۳۷۶
رَتۡقُ (۱) |
منہ بند، جڑا ہوا: سورۂ انبیاء میں ہے: اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰھُمَاط وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیِّ۔ کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی (۲۱: ۳۰) یعنی انسان کبھی عقل و روح کے آسمان پر تھا، پھر خدا نے اسے مادّی دنیا میں لایا، اور علم کے پانی سے سیرابی لازمی قرار دیا تاکہ وہ بحقیقت زندہ ہوکر عالمِ علوی کی طرف رجوع کرے۔ |
|
۳۷۷
رَتۡقُ (۲) |
منہ بند، جڑا ہوا: کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے تو ہم نے جدا جدا کر دیا (سورۂ انبیاء ۲۱: ۳۰) یہ راز انتہائی عظیم ہے کہ فرشتۂ عقلِ کل آسمان ہے اور فرشتۂ نفسِ کلّ زمین، یہ دونوں خدا کے حکم سے ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی، اور اس حکم میں بے شمار حکمتیں ہیں۔ |
|
۳۷۸
رَتۡقُ (۳) |
منہ بند، جڑا ہوا: جس اعلٰی مقام پر آسمان اور زمین ملائے ہوئے ہیں وہاں آسمان آکر |
۲۲۰
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
زمین بن گیا ہے، اور زمین جاکر آسمان بن گئی ہے، اس اعتبار سے خلافتِ آدمؑ کا تعلق نہ صرف سیّارۂ زمین سے ہے بلکہ مقصود اصلی کائناتی زمین کی خلافت ہے اور وہ نفس کلّی ہے جس سے عقل کلّ جدا نہیں، پس ایسی ہی کلّ کائناتی خلافت آدمؑ و اولادِ آدمؑ کے لئے بنائی گئی ہے۔ |
||
۳۷۹
رَجِیۡم |
اصل معنی ہیں: پتّھر مارنے والا، اور پتّھر مارا گیا: رجم (پتّھر مارنا) سے رجیم (فعیل= فاعل) بھی ہے اور بمعنی مفعول (مرجوم= پتّھر مارا گیا) بھی ہے، مراد ہے دھتکارا ہوا، مردود۔ شیطان اس لئے رجیم کہلاتا ہے کہ اس کا کام ہے جھوٹ اور غلط باتوں سے پتھراؤ کرنا تاکہ کوئی ایسا مومن جو حقیقی علم میں کمزور ہے مرعوب ہوکر اس کا شکار ہوجائے یا روح الایمان سے مر جائے یا شک میں مبتلا ہوجائے، یہ باطنی حکمت ہے، لیکن ظاہر میں لوگ نہ تو شیطانِ رجیم کو پہچانتے ہیں اور نہ ہی اس کے پتھراؤ کا درد محسوس کرتے ہیں۔ |
|
۳۸۰
رَحۡمَان (۱) |
نہایت مہربان: اَلرَّحۡمٰنُ۔ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ۔ ترجمہ: نہایت مہربان (خدا) نے قرآن کی تعلیم دی۔ تفسیر و تأویل: نہایت مہربان خدا نے اپنی سُنّتِ عالیہ کے مطابق اسماء الحسنٰی |
۲۲۱
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
کے وسیلے سے انسانِ کامل کو قرآن کے روحانی اور عقلانی اسرار کی تعلیم دی۔ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ۔ ترجمہ: اُس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ تفسیر و تأویل: خداوندِ عالم نے اپنی پاک کتاب کی باطنی اور نورانی تعلیم سے شخصِ کامل کو روحًا و عقلًا پیدا کیا اور اب اس کو بیان (تأویل) سکھایا (۵۵: ۰۱ تا ۰۴)۔ |
||
۳۸۱
رَحۡمَان (۲) |
نہایت مھربان: اَلشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ (۵۵: ۰۵) ترجمہ: سورج اور چاند ایک حسابِ مقرر سے چل رہے ہیں۔ تفسیر و تأویل: ناطق اور اساس عالمِ دین کے آفتاب و ماہتاب ہیں، لہٰذا یہاں رات بھی روزِ روشن ہی کی طرح تابناک ہے، کیونکہ ظاہری چاند سورج سے بہت دور ہے اور یہ اُس کے ساتھ ایک نہیں ہوسکتا کہ آفتابِ جہان تاب بن کر کائنات کو جگمگائے، لیکن دین کے شمس و قمر نورٌ علٰی نور کے مصداق ہیں (۲۴: ۳۵) نیز سورۂ قیامہ (۷۵: ۰۹) میں دیکھ لیں: جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ۔ اور سورج اور چاند ایک کردیئے جائیں۔ |
|
۳۸۲
رَحۡمَان (۳) |
نہایت مھربان: وَالنَّجۡمُ والشَّجَرُ یَسۡجُدَانِ (۵۵: ۰۶) ترجمہ: اور ستارہ اور درخت |
۲۲۲
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
دونوں سجدہ کرتے ہیں۔ تفسیر و تأویل: عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس میں ستارہ عقلِ کل ہے اور درخت نفسِ کلّ، دونوں اطاعت کے معنی میں خدا کے لئے سجدہ کرتے ہیں تاکہ جہانِ علم و معرفت کا نظام قائم رہے۔ |
||
۳۸۳
رَحۡمَان (۱) |
نہایت مہربان: وَالسَّمَآءَ رَفَعَھَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ (۵۵: ۰۷) اور آسمان کو خدا نے بلند کیا اور (اس میں) ترازو رکھی۔ تفسیر و تأویل: عالمِ شخصی کے آغاز میں آسمان اور زمین ملے ہوئے ہوتے ہیں (۲۱: ۳۰) پھر حق تعالیٰ روحانی ترقّی کے ساتھ ساتھ آسمان کو زمین سے الگ کرکے بلند کر دیتا ہے، اور علم و حکمت کے ترازو زمین پر نہیں بلکہ آسمان پر رکھتا ہے تاکہ وہی شخص اس کو استعمال کرے جو وہاں تک جا سکتا ہے۔ |
|
۳۸۴
رَحۡمَان (۱) |
نہایت مہربان: آسمان کو زمین سے الگ کرکے بلند کر دینے کی دوسری تأویل یہ ہے کہ خدائے عزّ و جلّ ہر نبی اور ہر امام کو زمینِ دعوت سے ترقّی دے کر آسمانِ علم و حکمت بنا دیتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: کیا کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئےتھے تو ہم نے ان کو جدا کر دیا (سورۂ انبیاء ۲۱: ۳۰) |
۲۲۳
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
۳۸۵
رَحۡمَۃ |
رحمت، بخشش، مہربانی، ھر وہ نعمت جو روح کے لئے ضروری ھے: سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۷) میں ارشاد ہے: وَ مَا اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ۔ اے رسولؐ ہم نے تو تم کو کلّ جہانوں (عوالمِ شخصی) کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام کے ارشاد کے حوالے سے اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ عالمین سے صرف انسان مراد ہیں، اور انسان تمام زمانوں میں پیدا ہوتے ہیں، پس دورِ انبیاء کے لئے بھی اور دَورِ أئمّہ کے لئے بھی خدا نے آنحضرتؐ کو رحمت کا خزانہ اور مرکز یا رحمتِ کلّ بنا دیا ہے، لہٰذا حضور اکرم صلعم اپنے ارشاد مبارک کے مطابق سیّد الانبیاء (تمام پیغمبروں کے سردار) ہیں، اگر کوئی شخص کسی قوم کا سچ مچ سردار ہے تو وہ قولاً و فعلاً سردار ہوا کرتا ہے، یعنی حقیقی سردار وہ ہے جس سے قوم کو ہر گونہ فائدہ ہو۔ |
|
۳۸۶
رَحِیۡق (۱) |
شرابِ خالص: مختوم= سربمہر، سورۂ تطفیف (۸۳: ۲۵ تا ۲۶) میں ہے: یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ۔ خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ….. ان کو نفیس ترین سربند شراب پلائی جائے گی جس پر مشک کی مہر لگی ہوگی۔ سربمہر خالص شراب سے قرآن، حدیث اور امامِ زمانؑ کے روحانی کلمات مراد ہیں، جن میں حکمت |
۲۲۴
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
اور معرفت کے عجائب و غرائب پوشیدہ ہیں جو رحیق مختوم کی مثال پر مسرت انگیز اور روح پرور ہیں۔ |
||
۳۸۷
رَحِیۡق (۲) |
نفیس ترین شراب: رَحِیۡقٍ مَّخۡتُومٍ۔ سربمہر خالص شراب۔ علمِ لَدُنّی، علمِ تأویل، جو علم کلماتُ التّامّات اور کتابِ مکنون سے ملتا ہے، پس یہ امام علیہ السّلام کا علم بھی ہے اور اس کے عشق کی شراب بھی، جس طرح دنیوی شراب کے پینے سے مجازی عشق زندہ ہوجاتا ہے، اسی طرح رحیقِ مختوم سے امامِ عالیمقام کا علمی دیدار ہوتا ہے کہ علمِ حقیقی اس کا نور ہے، اور نور کا احساس و ادراک کئی طرح سے ہوتا ہے۔ |
|
۳۸۸
رِزۡقۡ |
روزی: یہ ارشاد سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵) میں ہے: کُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡھَا مِنۡ ثَمَرَۃٍ رَّزۡقًا قَالُوۡا ھٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ۔ جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل بطورِ روزی دیا جائے گا تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے ہم کو دیئے جاتے تھے۔ دنیا میں تین قسم کی غذائیں مل سکتی ہیں: جسمانی، روحانی اور عقلانی، جسمانی غذا وہ ہے جس میں مومن، کافر اور حیوان برابر کے شریک ہیں، روحی و عقلی رزق اہلِ ایمان |
۲۲۵
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
کے لئے خاص ہے، اور بہشت میں یہی رزق ہے، مگر بہت ہی عمدہ اور نہایت ہی اعلیٰ۔ |
||
۳۸۹
رَسُوۡل اللہ |
پیغمبرِؐ خدا: آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے مبارک اسماء میں سے چند اسماء، اسمہ فی الانجیل: طاب طاب أی طیّب (یعنی پاک) و فی التّوراۃ: مارماد أی الموجود (یعنی موجود) و فی الزّبور: بارقلیط أی فارِق بین الحق و الباطل (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا) و فی صحفِ ابراھیم: اخری یا قدما أی سابق الآخر (یعنی آخر میں آکر سب سے سبقت کرنے والا، و فی صحف شیث: صام صام أی القطّاع بالحُجّۃ (یعنی دلیل [کی تلوار] سے کاٹنے والا)۔ و فی صحفِ آدم: مقنع۔ و فی صحفِ اشعیا و ارمیا: قانع۔ و بین طوائف الطّیور: عبد الجبّار۔ و بین البھائم: عبد الغفور۔ و عند الجنّ: نبی الرّحمۃ۔ و عند الشّیاطین: نبی الملحمۃ (منتخباتِ اسماعیلیّہ، ص۲۱۵)۔ |
۲۲۶
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
۳۹۰
رفیع |
بلند کرنے والا: سورۂ مومن (۴۰: ۱۵) میں یہ حکمت آگین ارشاد ہے: رَفِیۡعُ الدَّرَجٰتِ ذُوۡ الۡعَرۡشَ۔ خدا درجے بلند کر دینے والا عرش کا مالک ہے۔ اس ربّانی تعلیم کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ درجات کی سیڑھی عرش تک ہے، آپ سورۂ معارج (۷۰) کے شروع کی چار آیاتِ کریمہ کو غور سے پڑھ لیں، اور یہ بتائیں کہ “فنا فی اللہ” کا مقام عرشِ برین ہے یا فرشِ زمین؟ کیا بندۂ مومن کا قلب عرشِ معرفت نہیں ہے؟ |
|
۳۹۱
(ال) رفیق الاعلٰی |
رفیقِ اعلیٰ، انائے علوی، یک حقیقت: آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنی حیاتِ طیّبہ کے آخری لمحات میں یہ پُرحکمت دعا کی تھی: اَللّٰھُمَّ اغۡفرۡلِیۡ وَارۡحَمۡنِیۡ وَ الۡحِقۡنِی بِالرَّفِیۡقِ الۡاعۡلیٰ۔ یا اللہ! مجھے بخش دے اور رحم فرما اور مجھے رفیقِ اعلیٰ سے ملا دے (احادیثِ مثنوی، فارسی، ص۱۳۰)۔ رفیق اعلٰی کون ہے؟ انائے علوی، وہ رفیق (ہم سفر) کس معنٰی میں ہے؟ وہ بے پایان زندگی کے سفر کا ساتھی ہے، یعنی ہر مومن کا رفیقِ اعلٰی ہے۔ |
|
۳۹۲
رقیم |
نوشتہ: روحانی عجائب و غرائب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار کوئی تحریر |
۲۲۷
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
دیدۂ باطن کے سامنے آجاتی ہے، اس کا یقینی اشارہ یہ ہے کہ بہشت میں تحریری نعمتیں بھی ہیں (۱۸: ۰۹)۔ |
||
۳۹۳
رَمَیۡتَ |
تو نے پھینکا: وَ مَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَ لٰکِنَّ اللہَ رَمٰی۔ اور (اے رسولؐ) تم نے خاک نہیں پھینکی جس وقت پھینکی تھی، لیکن اللہ نے پھینکی (۰۸: ۱۷) یہاں سے ظاہر ہوا کہ اللہ اپنے رسولؐ کے ہاتھ سے بھی کوئی کام کرسکتا ہے، کیونکہ دستِ پیغمبرؐ دستِ خدا ہے (۴۸: ۱۰)۔ |
|
۳۹۴
رَوۡح اللہِ (۱) |
خدا کی رحمت: وَلَا تَایۡئَسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰه۔ خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہو (۱۲: ۸۷) خدا کی رحمت در اصل ایک بہت بڑی رُوح کا نام ہے، اور وہ امامِ زمان علیہ السّلام ہی ہے، پس رَوۡحُ اللہِ اور رُوۡحُ اللہِ |
۲۲۸
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
ایک ہی ہے۔ |
||
۳۹۶
رُؤۡیَا (۱) |
خواب: رُؤۡیَا الۡمُؤۡمِنِ جُزۡءٌ مِنۡ سِتَّۃِ وَ اَرۡبَعِیۡنَ جُزۡءً امِّنَ النُّبُوّۃِ۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ: مومن کا خواب نبوّت کے چھیالیس حصّوں میں سے ایک حصّہ ہے (مسلم) یہ بات سچّے مومنین سے متعلق ہے، کیونکہ باکرامت خواب از قسمِ روحانیّت ہے۔ |
|
۳۹۷
رُؤۡیَا (۲) |
خواب: رُؤۡیَا الۡاَنۡبِیَاءِ وَحۡیٌ۔ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں (جیسے قرآن میں ہے:) اِنِّیۡٓ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡٓ اَذۡبَحُکَ (۳۷: ۱۰۲)۔ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ (حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا خواب) اور مومنِ صادق کا خواب نبوّت کے ۴۶ حصّوں میں سے ایک حصّہ ہے (صحیح البخاری، جلد اوّل، کتاب لوضوءِ باب۱۰۰)۔ |
|
۳۹۸
رُؤۡیَا (۳) |
خواب، خواب دیکھنا: عوام الناس یہ نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا خواب عالمِ روحانیّت سے مل چکا ہوتا ہے، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام |
۲۲۹
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
کا خواب پیغمبرانہ اور اولیائی خواب تھا جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے امر سے اپنے لختِ جگر حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کو ذبح کیا (۳۷: ۱۰۲) یقیناً اسی طرح کے روحانیّت سے بھرپور نورانی خواب میں حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو معراج کے انتہائی عظیم اسرار کا مشاہدہ ہوا (۱۷: ۶۰) خداوندِ عالم نے آنحضرتؐ کے اس مبارک خواب پر لوگوں کو آزمایا، جب امتحان لینا مقصود تھا تو واقعۂ معراج کی کلیدی وضاحت نہیں کی گئی بلکہ علم و معرفت پر چھوڑ دیا اور سنّتِ الٰہیّہ اسی طرح چلی آئی ہے کہ بار بار امتحان لیا جاتا ہے۔ |
||
۳۹۹
ریح یوسف |
یوسفؑ کی خوشبو، یعنی روحانی خوشبو: یعقوبؑ نے کہا کہ یوسفؑ کی خوشبو محسوس کرتا ہوں (۱۲: ۹۴) حضرتِ یوسف علیہ السّلام کے پاس امامت تھی، اور امامؑ کے روحانی معجزات میں سے ایک روحانی خوشبو کا ظہور ہے۔ |
|
۴۰۰
رَیۡحَان |
رُوزی: رُوزی، خوشبودار گھاس، اس سے روحانی خوشبو مراد ہے جو اہلِ بہشت کی غذا ہے، جیسا کہ سورۂ واقعہ (۵۶: ۸۹) میں ارشاد ہے: فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ۔ پس (اس کے لئے) راحت |
۲۳۰
لفظ | معنی و حکمت “ر” | |
اور خوشبو کی غذا اور نعمت کے باغ ہیں۔ (بحوالۂ مقالہ: روحانی سائنس کے عجائب و غرائب قسطِ اوّل، نیز ملاحظہ ہو: میزان الحقائق، قوّتِ شامّہ ایک نئی غذا دریافت کرے گی)۔ |
۲۳۱
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۲۳۲
بابُ الزّاء
|
۲۳۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۲۳۴
لفظ | معنی و حکمت “ز” | |
۴۰۱
زَبُوۡر (۱) |
لکھنا، لکھا ہوا: وہ کتابِ سماوی جو حضرتِ داؤد علیہ السّلام پر نازل ہوئی، بعض علماء کے رائے ہے کہ زبور اُس آسمانی کتاب کو کہتے ہیں جس میں صرف حکمتیں اور دانائی کی باتیں بیان کی گئیں ہوں (قاموس القرآن)۔ میں کہتا ہوں کہ البتہ یہ سچ ہے جبکہ زبور خزانۂ عشقِ الٰہی کی ایک روشن مثال ہے، خداوندِ عالم کے سچےّ عاشقوں کے پاس کیا کیا ساز و سامان ہونا چاہئے؟ اس کا مفصّل جواب زبور سے ملے گا۔ |
|
۴۰۲
زَبُوۡر (۲) |
کتاب، زبور: بعض حضرات کا خیال ہے کہ قرآنِ حکیم میں کہیں بھی عشق کا لفظ نہیں آیا ہے اور نہ یہ خدا کے لئے استعمال ہوسکتا ہے، میری گزارش ہے کہ قرآنِ پاک میں نہ صرف عشق کے مترادفات ہی ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کتاب سماوی کی تصدیق بھی موجود ہے، جس کے شروع سے لیکر آخر تک صرف عشقِ الٰہی اور اس کے وسائل کے سوا اور کچھ بھی نہیں، اور وہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی زبور ہی ہے (سورۂ نسآء ۰۴: ۱۶۳؛ سورۂ بنی اسرائیل ۱۷: ۵۵)۔ |
۲۳۵
لفظ | معنی و حکمت “ز” | |
۴۰۳
زَبُوۡر (۳) |
نامۂ عشقِ الٰہی: قرآنِ عظیم میں عشق کے مترادفات کی موجودگی اور کتابِ عشق سماوی (زبور) کی تصدیق کے علاوہ عشق کے احوال بھی مذکور ہیں، مثال: اور وہ ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں او روتے جاتے ہیں اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پیدا ہوجاتی ہے (۱۷: ۱۰۹) کیا یہ خداوندِ عالم کا عشق نہیں ہے؟ آیا یہ اُس عشق کا نمونہ نہیں جو صاحبِ زبورؑ میں تھا؟ |
|
۴۰۴
زَبُوۡر (۴) |
نامۂ عشقِ خداوندی: ارشادِ قرآنی ہے: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡآ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں ان کو (صرف) خدا ہی کے ساتھ نہایت قوّی محبّت ہے (۰۲: ۱۶۵) ایسی نہایت سخت محبت کسی میں خدا کے لئے ہو تو وہ عشق ہی ہے، اور خداوندِ قدّوس کا پاک عشق وہ پُرحکمت اور بابرکت نور ہے جو نہ صرف دل و دماغ اور عقل و جان کو منوّر کر دیتا ہے بلکہ اس سے بدن کے تمام خلیات و ذرّات بھی مستنیر ہوجاتے ہیں، یہی سبب ہے کہ ربِّ کریم نے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کو کتابِ عشق یعنی زبور عطا کردی اور ان کو معلّمِ عشق بنا دیا۔ |
۲۳۶
لفظ | معنی و حکمت “ز” | |
۴۰۵
زَبُوۡر (۵) |
کتاب، مراد نامۂ اعمال: سورۂ انبیاء کے آخری رکوع (۲۱: ۱۰۵) میں ارشاد ہے: اور ہم نے تو یقیناً (اپنے دوستوں کے) نامۂ اعمال میں (ان کی تکمیلِ) ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ میرے نیک بندے کائناتی زمین کے وارث ہوں گے۔ آپ اس کو بہشت کی زمین بھی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ جنّت کائنات کے طول و عرض میں ہے (۰۳: ۱۳۳؛ ۵۷: ۲۱)۔ |
|
۴۰۶
زِدۡنِیۡ عِلۡمًا |
مجھے اور زیادہ علم دے: سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۱۱۴) میں اللہ جَلَّ جَلَالہٗ نے اپنے محبوب رسول صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو جس بابرکت دعا کی تعلیم فرمائی ہے، اس میں بڑی حیران کن حکمتیں رکھی ہوئی ہیں، مثال کے طور پر: (۱) مذکورہ حکمت آگین دعا کے حکم میں جیسا کہ منشائے خداوندی ہے، اس کے مطابق ہر روز آسمانی ہدایت و تائید سے آن حضورؐ کے علم و حکمت میں بیحد و بیقیاس اضافہ ہوتا گیا (۲) اللہ کی خوشننودی اور پیغمبر اکرمؐ کی سُنّتِ مطہّرہ اس بات کی مظہر ہے کہ تمام مسلمین و مومنین پورے دور میں قرآن فہمی کی سیڑھی پر چڑھتے جائیں، تا آنکہ اسرارِ علم و حکمت کے خزانے کھل جائیں۔ |
۲۳۷
لفظ | معنی و حکمت “ز” | |
۴۰۷
زَکَرِیَّآ (۱) |
زکریّآ: ایک جلیل القدر پیغمبرؐ جو باطناً امام بھی تھے، سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۹) میں ارشاد ہے: اور زکریاؑ (کو یاد کرو) جب اُس نے اپنے ربّ سے دعا کی: اے میرے پروردگار مجھے تنہا (بے اولاد) نہ چھوڑ اور بہترین وارث تو تو ہی ہے۔ اس آیۂ شریفہ کی صرف چار عظیم حکمتیں سمجھ میں آتی ہیں: (۱) دینی کام کی غرض سے اولاد کے لئے دعا کی گئی ہے (۲) یہی اولاد عالمِ شخصی کے مقامِ عقل پر بھی پیدا ہو (۳) اپنا تولدِ عقلانی بھی مطلوب ہے (۴) آخراً یہ اشارہ بھی ہے کہ مرتبۂ عقل پر سب سے بہترین وارث تو ربِّ کریم خود ہی ہے۔ |
|
۴۰۸
زَکَرِیَّآ (۲) |
زکریّآ امامؑ: سوۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۷) میں ہے: وَکَفَّلَھَا زَکَرِیَّآ۔ اور خدا نے زکریاؑ کو مریمؑ کا کفیل بنا دیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زکریا علیہ السّلام کو مریم علیہا السّلام کی روحانی پرورش کا ضامن و ذمہ دار بنا دیا، پس حضرتِ امامؑ نے دینِ فطرت کے قانون کے مطابق اپنی اس نیک بخت شاگرد کو اسمِ اعظم کی مقدس تعلیم دی، اس روحانی طریقِ تعلیم کا نام “عِلمُ الاسماء” ہے، جو زمانۂ آدمؑ سے قیامۃ القیامات تک جاری و ساری ہے۔ |
۲۳۸
لفظ | معنی و حکمت “ز” | |
۴۰۹
زَکَرِیَّآ (۳) |
امام زکریّاؑ: زکریّاؑ جب کبھی مریمؑ کے پاس محراب میں داخل ہوجاتا تو اس کے پاس (روحانی) رزق پاتا، پوچھتا مریم! یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ وہ جواب دیتی اللہ کے پاس سے آیا ہے، اللہ جسے چاہتا ہے حساب کے بغیر رزق دیتا ہے (۰۳: ۳۷) محراب سے عالمِ شخصی مراد ہے، حساب (یوم الحساب) قیامت کا نام ہے، حساب کے بغیر رزق دینا یہ ہے کہ خدا آپ کو وہ علم عطا فرمائے جو بعض کو جسمانی موت اور قیامت کے بعد بہشت میں ممکن ہے۔ |
|
۴۱۰
زَکَرِیَّآ (۴) |
امام زکریّآ: محراب کا لفظ حرب سے بنا ہے، المحرب والمحراب، جنگجو، لڑاکا، بہادر، قلعہ وغیرہ، پس محراب سے عالمِ شخصی کا قلع مراد ہے، جس میں روحانی جنگ سے متعلق ہر چیز موجود ہے، یہی قلعہ عبادت خانہ بھی ہے، نیز محراب مقامِ عقل کا نام ہے کہ امامِ ذکریّا علیہ السّلام کا اشارہ وہیں سے کیا گیا تھا (۱۹: ۱۱) کیونکہ آخری درجے کی تمام تاویلات حظیرۃ القدس میں جمع ہیں۔ |
۲۳۹
لفظ | معنی و حکمت “ز” | |
۴۱۱
زِلزالًا شَدِیدًا |
سختی سے ھلانا: روحانی بھونچال کئی درجوں پر ہے، جیسے سورۂ احزاب (۳۳: ۱۱) میں ہے: اُس وقت مومنین خوب آزمائے گئے اور سختی سے ہلائے گئے یعنی اُن پر زلزلۂ روحانی مسلّط کیا گیا، جس میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے۔ |
|
۴۱۲
زُلۡزِلَتۡ |
وہ ھلائی گئی: سورۂ زلزال (۹۹: ۰۱ تا ۰۸) میں انفرادی قیامت کے بھونچال کا ذکر آیا ہے، جو عالمِ شخصی کا ایک زبردست روحانی معجزہ ہے، جس کی بدولت مومنِ سالک کی تطہیر ہوجاتی ہے، اور وہ مخاطبہ سنتا ہے، اور اس ذاتی قیامت میں پوشیدگی سے تمام لوگوں کے نمائندہ ذرات کی قیامت پربا ہوجاتی ہے۔ |
|
۴۱۳
زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ |
قیامت کا زلزلہ: سورۂ حج کے شروع (۲۲: ۰۱ تا ۰۲) میں ہے: لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی (ہولناک) چیز ہے، جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہوگا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوجائے گی، اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حال آنکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ |
۲۴۰
لفظ | معنی و حکمت “ز” | |
کا عذاب ہی کچھ ایسا ہوگا۔ یعنی ہر معلّم ذاتی قیامت کی سختی کی وجہ سے اپنے شاگردوں کو بھول جاتا ہے، ہر سالک کی اضافی روحیں نکل جاتی ہیں، اور نمائندہ ذرّات مدہوش نظر آتے ہیں۔ |
||
۴۱۴
زُلۡزِلُوۡا |
وہ ھلائے گئے: سورۂ بقرہ کی ایک پُرحکمت آیت (۰۲: ۲۱۴) کا ترجمہ ہے: پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہےکہ یونہی جنّت (روحانیّت) کا داخلہ تمہیں مل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ اُن پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلائے گئے، حتّٰی کہ وقت کا رسولؐ اور اس کے ساتھی اہل ایمان کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ (ایسے میں انہیں تسلّی دی گئی کہ) ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ یہ روحانی بھونچال سے متعلق مضمون کا حصّہ ہے۔ |
|
۴۱۵
زِیۡنَۃَ اللہ (۱) |
خدا کی زینت، باطنی اور روحانی زینت، زیبائش، آرائش: سورۂ اعراف (۰۷: ۳۲) میں ہے: اے نبیؐ! ان سے کہو کس نے خدا کی اُس زینت کو حرام (ممنوع) کر دیا ، جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے نکالا ہے اور کس نے اللہ کی عطا کردہ لطیف غذائیں ممنوع کردیں؟ |
۲۴۱
لفظ | معنی و حکمت “ز” | |
کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی صرف مومنین ہی کے لئے خاص ہوں گی جبکہ دورِ قیامت آئے گا۔ اس ربّانی تعلیم کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، تاہم باطنی پہلو بڑا عقلی، منطقی اور ضروری ہے تاکہ اس حکمتِ الٰہی سے اہل دانش باطنی تأویل کی طرف رجوع کریں۔ |
||
۴۱۶
زِیۡنَۃَ اللہ (۲) |
آرائشِ روحانی: خدا کی خاص اور انتہائی دلکش زینت عالمِ شخصی میں ہے، جس کو حق تعالٰی نے اپنے خاص بندوں کے لئے پیدا کیا ہے، اس کے مشاہدات کی غرض سے عبادت و ریاضت کرنے سے کس نے منع کیا ہے؟ حالانکہ یہ بہشت کی نعمتیں، خوشبوئیں وغیرہ مومنین کو دنیا کی زندگی میں بھی حاصل ہوسکتی ہیں، خصوصًا دورِ روحانیّت میں۔ |
۲۴۲
بابُ السّین
|
۲۴۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۲۴۴
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۱۷
سَاھِرَۃ |
میدان، زمین، میدانِ قیامت، عالمِ شخصی کی زمین: اَلسّاھِرَۃ۔ عالمِ شخصی کی زمین کا ایک مخفی نام جو شب بیداری کی نسبت سے مقرر ہوتا ہے، چنانچہ کہتےہیں: السَّھَّارُ و السُّھَرَۃُ، بہت جاگنے والا، السَّاھِرَۃُ، مؤنث۔ سورۂ نازعات (۷۹: ۱۳ تا ۱۴) میں ارشاد ہے: فَاِنَّمَا ھِیَ زَجۡرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ فَاِذَا ھُمۡ بِالسَّاھِرَۃِ۔ بس وہ ایک سخت آواز ہوگی، جس سے سب لوگ فوراً ہی ساہرہ میں آ موجود ہونگے۔ |
|
۴۱۸
سبب |
رسّی، ذریعہ: باطن میں قرآن اور عترت (اہل بیت= امام) ایک ہی نور ہے، جو آسمان اور زمین کے درمیان لگائی ہوئی رسّی یا سیڑھی کی طرح ہے او یہی سیڑھی صراطِ مستقیم بھی ہے، حبلِ ممدود اور سبب موصول یعنی نورانی رسّی جو عرشِ برین سے فرشِ زمین تک سیڑھی کی طرح لگائی ہوئی ہے تاکہ لوگ علم و معرفت کی اس رسّی یا سیڑھی سے صاحبِ عرش تک پہنچ سکیں، یہ مثال سب سے عجیب و غریب بھی ہے اور سب سے دل نشین بھی، کہ جب کوئی عارف درجہ بدرجہ اوپر کی طرف جاتا ہے تو ہر درجہ میں نورِ واحد کی شکل میں قرآن اور امام ہوتا ہے، یہاں تک کہ خدا کے حضور میں بھی نورانی رسّی کا بالائی سرا موجود ہے، جو قرآنِ عظیم بھی ہے اور |
۲۴۵
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
امامِ مبین بھی۔ |
||
۴۱۹
سَبۡع (۱) |
سات: یہ آیۂ شریفہ سورۂ حجر (۱۵: ۸۷) میں ہے: وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ۔ اور ہم نے تم کو سبعِ مثانی (سورۂ حمد) اور قرآنِ عظیم عطا کیا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی تأویل یہ ہے کہ سبع المثانی (سات دہرائی جانے والی چیزیں) حضراتِ أئمّہ ہیں، چنانچہ اگلے ناطقوں کے ادوار میں سات سات اماموں کا سلسلہ چلتا تھا، لیکن اللہ انے اپنے حبیبؐ پر احسان کیا کہ آنحضرتؐ کے کام کی خاطر سلسلۂ سبع المثانی کو طول دیا، اور آپؐ کو قرآنِ عظیم (قائم القیامت) عطا کیا۔ |
|
۴۲۰
سَبۡع (۲) |
سات: مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کی کلّی اور دُور رس تأویل یہ ہے کہ سبعِ مثانی (سات سات اماموں کا سلسلہ) جس کا ذکر ہوا، وہ فی الحقیقت شروع ہی سے حضرتِ سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے مبارک نام پر ہے، جبکہ آپؐ ہی تمام پیغمبروں کے سردار ہیں، جبکہ دورِ اعظم حضورؐ ہی کا ہے، اور جبکہ مقصدِ تخلیقِ کائنات آپ ہی کی ذاتِ عالی صفات ہے۔ |
۲۴۶
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۲۱
سبعۃ احرف |
سات حروف: پیغمبرؐ اکرمؐ کا بابرکت قول ہے: نزل القرآن علٰی سبعۃِ احرفٍ، کلّ حرفٍ منھا کافٍ شافٍ۔ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، ان میں سے ہر حرف (علم و حکمت میں) کفایت کرنے والا (اور باطنی امراض سے) شفا بخشنے والا ہے۔ سیّدنا منصور الیمنقس کی کتاب سرائر، ص۸۸ کے مطابق اس حدیثِ شریف کی تاویلی حکمت یہ ہے: یہاں قرآن سے آنحضرتؐ کا وصی اور اساس مراد ہے کیونکہ وہ قرآن کی تاویل کا مالک اور اس کے عجائب و غرائب کا مظہر ہے، اور سات حروف اس کی اولاد میں سے ساتھ أؑئمّہ طاہرین ہیں، جن میں سے ہر امامؑ اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے علم و حکمت میں کفایت کرنے والا اور باطنی بیماریوں سے شفا بخشنے والا ہے۔ |
|
۴۲۲
سِتَّۃِ اَیَّامٍ (۱) |
چھ روز: بیشک تمہارا ربّ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر مساوات کیا (۰۷: ۵۴) اس سے عالمِ دین کی تخلیق مراد ہے، جو چھ بڑے ادوار میں مکمل ہوئی، اور عالمِ شخصی کی روحانی تخلیق کا ذکر ہے، جو چھ چھوٹے ادوار میں بنایا گیا۔ |
۲۴۷
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۲۳
سِتَّۃِ اَیَّامٍ (۲) |
چھ روز: اللہ تعالٰی کے چھ بابرکت دن یہ ہیں: حضرتِ آدم، حضرتِ نوح، حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسٰی، حضرتِ عیسٰی اور حضرتِ محمّد علیہم السّلام، ان چھ ناطقوں کے چھ بڑے ادوار میں عالمِ دین مکمل کیا گیا، اور ساتویں دن جو سنیچر یعنی حضرتِ قائم علیہ السّلام ہے، اس میں خدا نے عرش (نورِ عقل) کے ذریعے سے مساوات کا کام کیا، اس کا تجدّد اور معرفت عالمِ شخصی میں ہے (۱۰: ۰۳) ۔ |
|
۴۲۴
سِتَّۃِ اَیَّامٍ (۳) |
چھ دن: خداوندِ عالم کا ایک دن ہزار سال کا ہوتا ہے (۲۲: ۴۷) اس حساب سے عالمِ دین کی تخلیق چھ ہزار برس میں ہوئی، اور ایک ہزار سال کا آخری دور حضرتِ قائم القیامت علیہ السّلام کے لئے مقرر ہے (۱۱: ۰۷؛ ۲۵: ۵۹)۔ |
|
۴۲۵
سخَّرَ |
اُس نے فرمانبردار بنایا: پروردگارِ عالم نے ارض و سماء کی تمام چیزوں کو انسان کے لئے بحدّ امکان فرمانبردار بنا دیا ہے، یہ ذکر قرآنِ عظیم کی متعدد آیات میں آیا ہے، اس ربّانی تعلیم میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کی سائنس کی طرف بھرپور توجہ دلائی گئی ہے، وہ آیاتِ کریمہ “وَسَخَّرَ لَکُمۡ” کے عنوان سے ہیں (۴۵: ۱۳؛ ۳۱: ۲۰)۔ |
۲۴۸
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
سِدۡرَۃ
(۱) |
بیری کا درخت:
سِدۡرَۃُ الۡمُنۡتَھٰی۔ پرلی حد کی بیری، یہ نفسِ کلّی کی مثالوں میں سے ہے جو مکان و زمان سے بالاتر ہے، چنانچہ سورۂ نجم میں ارشاد ہے: وَ لَقَدۡ راٰہُ نَزۡلَۃً اٰخۡرٰی۔ عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَھٰی۔ اور انہوں (یعنی آنحضرتؐ) نے اس کو ایک اور بار بھی دیکھا ہے، پرلی حد کی بیری کے پاس (۵۳: ۱۳ تا ۱۴)۔ یہاں طالبانِ حقیقت کے لئے ایک خاص سوال ہے کہ محبوبِؐ خدا نے کس کو دیکھا؟ آپ کو کس کی دعوت تھی؟ ظاہر بات ہے کہ ربّ العزّت کا دیدارِ پاک ہی مقصود تھا، جو حاصل ہوگیا۔ |
|
۴۲۷
سِدۡرَۃ (۲) |
بیری کا درخت، نفسِ کُلّی: عِنۡدَھَا جَنَّۃُ الۡمَاوٰی۔ اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی۔ اس کے پاس رہنے کی بہشت ہے، جبکہ بیری کا درخت (ایک انمول چیز کو) چھپا رہا اور دکھا رہا تھا (۵۳: ۱۵ تا ۱۶) حظیرۃ القدس اسرارِ دو جہان کا خزانہ ہے، جس میں سب کچھ موجود ہے، اور اس سے کوئی حقیقی نعمت باہر نہیں۔ |
۲۴۹
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۲۸
سِدۡرَۃ (۳) |
نفسِ کُلّی: سِدۡرَۃُ الۡمُنۡتَھٰی۔ پرلی حد کی بیری، یعنی نفسِ کلّی جو مکان و زمان سے ورا (وَرَاء) ہے، وہ روحانی سفر اور قیامت کی انتہا پر ہے، اس لئے وہاں بہت سی چیزیں ختم ہوجاتی ہیں، مثلًا بشریت، کثرت، دوئی، شک، لاعلمی، جدائی، موت، محتاجی، ذلّت، خوف، غم وغیرہ، پس سدرۃ المنتہٰی کا نام اس معنٰی میں ہے کہ اس تک پہنچ جانے پر مذکورہ قسم کی تمام چیزیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اس حال میں مکان نہیں لامکان ہوتا ہے، زمان لازمان (دھر) میں بدل جاتا ہے، قیامت کی جگہ آخرت، بشر کی جگہ فرشتہ، کثرت و دوئی کی جگہ وحدت، شک کی جگہ حق الیقین، لاعلمی کی جگہ علم، جدائی کی جگہ وصال، موت کی جگہ ابدی زندگی، محتاجی کی جگہ خزانہ، ذلّت کی جگہ لازوال عزّت، خوف کی جگہ امن اور غم کی جگہ دائمی شادمانی ہوتی ہے۔ |
|
۴۲۹
سِدۡرَۃ (۴) |
بیری کا درخت: سِدۡرَۃُ الۡمُنۡتَھٰی۔ وہ بیری کا درخت جو آخری یا انتہائی سرے پر واقع ہے، سورۂ نجم (۵۳) میں واقعۂ معراج کے ساتھ اس کا ذکر اس طرح آیا ہے: اور انہوں نے وہ جلوہ دو بار دیکھا، سدرۃ المنتہٰی کے پاس، جس کے پاس جنّتُ الماوٰی ہے، جبکہ سِدرہ چھپارہا تھا جو کچھ |
۲۵۰
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
چُھپا رہا تھا (۵۳: ۱۳ تا ۱۶)۔ اہلِ ظاہر کے بڑے بڑے علماء نے سدرۃ المنتہٰی کی حقیقت سے لاعلمی کا اعتراف کرلیا ہے، کیونکہ ایسے اسرار کا انکشاف انتہائی مشکل کام ہے، مگر امامِ زمان علیہ السّلام کے خزانے میں یقیناً اسرارِ قرآن موجود ہیں۔ |
||
۴۳۰
سِدۡرَۃ (۵) |
بیری کا درخت: سِدۡرَۃُ الۡمُنۡتَہٰی سے نفسِ کلّی مراد ہے، جس کے پاس جاکر عالمِ شخصی کا روحانی سفر ختم ہوجاتا ہے، لفظ منتہٰی کا یہی اشارہ ہے، اور وہ بیری کا درخت اس معنٰی میں ہے کہ اس کے پاس خزانۂ الٰہی کے انمول موتی موجود ہیں، جن کی تشبیہہ و تمثیل بیروں سے دی گئی ہے، اور یہی بیحد گرانقدر جواہر دکھائے جا رہے تھے اور چھپائے جا رہے تھے۔ |
|
۴۳۱
سَرَابِیۡل |
کرتے: ایسے عجیب و غریب کرتوں کا ذکر آیا ہے کہ ان پر نہ تو گرمی کا کوئی اثر پڑتا ہے اور نہ ہی سردی کا، اور نہ کوئی جنگ ان کو تباہ کرسکتی ہے (۱۶: ۸۱) یہ لطیف کائناتی کرتے بیجان نہیں زندہ ہیں، اس میں جو عظیم روح ہے، وہ آپ ہیں، ہم ہیں، اور سب ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جثّۂ ابداعیہ میں اب بھی ستاروں پر رہتےہیں اور یہی ہماری |
۲۵۱
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
انائے علوی ہے۔ |
||
۴۳۲
سِرَاج (۱) |
چراغ: قرآنِ حکیم میں سورج کی تشبیہہ و تمثیل چراغ (سراج) سے دی گئی ہے، اور چاند کو منیر اور نور کا نام دیا گیا ہے (۲۵: ۶۱؛ ۷۱: ۱۶؛ ۷۸: ۱۳) اس کی عظیم حکمت بڑی عجیب و غریب ہے وہ یہ کہ جس طرح چراغ تیل سے فروزان ہوتا ہے اور رات بھر اسے روشن رکھنے کے لئے اس میں بار بار تیل ڈالا جاتا ہے، اسی طرح دستِ قدرت مسلسل چراغِ آفتاب میں کائناتی ایندھن ڈالتا رہتا ہے، اس کی تفصیل “میزان الحقائق” میں ہے۔ |
|
۴۳۳
سِرَاج (۲) |
چراغ: رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے اسمائے گرامی میں سے ایک اسم “چراغِ روشن” (سِراجًا مُنِیۡرًا ۳۳: ۴۶) ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ جو جو نیک بخت روحیں حقیقی عشق سے فنا فی الامامؑ اور فنا فی الرّسولؐ ہوجاتی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نور بن جاتی ہیں جس طرح کائناتی ایندھن سورج میں پڑ کر روشنی بن جاتا ہے۔ |
۲۵۲
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۳۴
سِرَاج (۳) |
چراغ: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ سِراجِ منیر یعنی آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم عالمِ دین کا سورج ہیں، اور آپ کا وصی (علیؑ) چاند، جیسے خداوندِ بزرگ و برتر کا ارشاد ہے: وَ الشَّمۡسِ وَ الضُّحٰھَا۔ و الۡقَمَرِ اِذَا تَلٰھَا (۹۱: ۰۱ تا ۰۲) قسم ہے سورج کی اور اس کے چاشت کی، اور چاند کی جب سورج کے پیچھے آئے۔ یہاں سورج سے ناطق اور چاند سے اساس مراد ہیں جو عالمِ دین کے آفتاب اور ماہتاب ہیں۔ |
|
۴۳۵
سَعٰے |
وہ دوڑا، اُس نے کوشش کی: سورۂ نجم (۵۳: ۳۹) میں ارشاد ہے: وَ اَنۡ لَیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰے۔ اور یہ کہ انسان کو وہ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، اس آیۂ کریمہ میں بہت سے سوالات کے لئے جواباتِ شافی موجود ہیں، الحمد للہ علٰی منّہٖ و احسانہٖ۔ |
|
۴۳۶
سَفینۃ |
کشتی، کشتیٔ نوحؑ، اہلِ بیت: آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے: یقیناً میرے اہلِ بیت کی مثال تمہارے درمیان سفینۂ نوحؑ کی طرح ہے، اس کی قوم میں سے جو شخص اس میں سوار ہوا وہ ناجی ہوگیا اور جس نے مخالفت کی |
۲۵۳
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
وہ غرق ہوگیا (المستدرک، الجزاء الثّالث، ص۱۶۳)۔ |
||
۴۳۷
سِکّین |
چھری: عہد و پیمان اور اسمِ اعظم، تاکہ جس کے ذکر سے بقرۂ نفس کو ذبح کیا جائے، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: اور جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے (۰۲: ۶۷)ؕ۔ |
|
۴۳۸
سُلالۃ |
خلاصہ، نچوڑ: سورۂ مومنون (۲۳: ۱۲) میں ہے کہ انسان کو خلاصۂ خاک سے پیدا کیا گیا ہے، اور سورۂ سجدہ (۳۲: ۰۸) میں ارشاد ہے کہ خدا نے آدمی کو خلاصۂ آبِ حقیر سے پیدا کیا ہے، اس سے ذرّۂ روح مراد ہے جو پشتِ پدر سے ہوکر آتا ہے جو دراصل خزانۂ الٰہی سے ہے (۱۵: ۲۱) اے نورِ عین من! ہر چیز ابتداءً ذرّہ ہوا کرتی ہے، اور کوئی شیٔ اس قانونِ فطرت کے بغیر نہیں۔ |
|
۴۳۹
سلام (۱) |
سلامتی، امان: خداوندِ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے: سَلٰمٌ عَلٰی نُوۡحٍ فِی الۡعٰلَمِیۡنَ (۳۷: ۷۹) ظاہری ترجمہ: نوحؑ پر سلام ہو عالم والوں |
۲۵۴
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
میں۔ لیکن دنیا والے سب کے سب حضرتِ نوحؑ پر سلام نہیں بھیجتے، لہٰذا اس کی تاویلی حکمت ضروری ہے، وہ بہت مختصر مگر جامع الجوامع ہے کہ “حضرتِ نوح پر ہر عالمِ شخصی میں سلامتی ہے” یعنی حضرتِ نوحؑ کا روحانی اور نورانی ریکارڈ یا روحانی سائنس کی مووی (MOVE) بلا کم و کاست عالمِ شخصی میں سلامت، محفوظ اور موجود ہے۔ |
||
۴۴۰
سلام (۲) |
سلامتی، حفظِ ابدی: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: سَلٰمٌ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ (۳۷: ۱۰۹) حضرتِ ابراہیمؑ پر ہر عالمِ شخصی میں سلامتی ہے۔ یعنی آپ عالمِ صغیر میں ابدی طور پر زندہ و سلامت ہیں، آپؑ سے متعلق قرآن میں جو کچھ ہے وہ بھی روحانی حالت میں محفوظ و موجود ہے، الغرض عالمِ شخصی روحانیت کا وہ آئینہ ہے جس میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی کامل معرفت سے متعلق تمام اشیاء کا بخوبی مشاہدہ ہوجاتا ہے۔ |
|
۴۴۱
سلام (۳) |
ابدی سلامتی: حضرتِ موسٰی اور حضرتِ ہارون علیہم السّلام کے بارے میں ارشاد ہے:سَلٰمٌ عَلٰی مُوۡسٰی وَ ھٰرُوۡنَ (۳۷: ۱۲۰) یعنی حضرتِ موسٰیؑ |
۲۵۵
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
اور حضرتِ ہارونؑ پر عوالمِ شخصی میں سلامتی ہے۔ ناطقان و اساسان کے وسیلے سے تمام اُمتوں کے مومنین اور مومنات کو بھی سلامتی حاصل ہوسکتی ہے، کیونکہ جو حضرات خدا کی طرف سے ہوتے ہیں وہ اس کی رحمت کو پھیلا دیتے یں۔ |
||
۴۴۲
سلام (۴) |
ابدی سلامتی، باعثِ سلامتی: ارشادِ باری تعالٰی ہے: سلامٌ علٰی اِلۡ یَاسِیۡنَ (۳۷: ۱۳۰) اس کے بارے میں دو قسم کے اقوال ہیں، لہٰذا ہم دو ترجمے کرتے ہیں (۱) حضرتِ اِلیاسؑ پر عوالمِ شخصی میں سلامتی ہے (۲) آلِ یاسین یعنی آلِ محمّد پر ہر عالمِ صغیر میں سلامتی ہے۔ یقیناً آلِ محمّد (صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم) امامِ مبین اور بحقیقت عالمِ شخصی ہے لہٰذا وہ خدا کی طرف سے سلام بھی ہے اور باعثِ سلامتی بھی (۳۶: ۱۲) جس کے سوا کوئی عالمِ شخصی نہیں۔ |
|
۴۴۳
سلام (۵) |
سلامتی، بقا باللہ کی سلامتی: مذکورہ آیاتِ کریمہ کے ساتھ یہ آیۂ شریفہ بھی سورۂ صافات میں ہے: وَ سَلٰمٌ عَلٰی الۡمُرۡسَلِیۡنَ (۳۷: ۱۸۱) اور سب پیغمبروں پر عوالمِ شخصی میں سلامتی ہے۔ یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کو فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوا ہے، اس لئے وہ خداوند تعالیٰ کے |
۲۵۶
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
اسمِ مبارک “السّلام” میں زندۂ جاوید اور سلامت ہیں، اور اللہ جلّ جلالہ کے اُن پر “سلام” فرمانے کے یہی معنی ہیں۔ |
||
۴۴۴
سلام (۶) |
دائمی سلامتی کی لازوال نعمت: اے نورِ عینِ من! جب انسان ایک دوسرے کو رسمی سلام کرتے ہیں تو وہ صرف سلامتی کی دعا ہی کے معنی میں ہوتا ہے، لیکن جب پرودگارِ عالم لفظ “سلام” کو استعمال فرماتا ہے تو اس میں دعا نہیں ہوتی، کیونکہ قولِ خدا دعا سے بالاتر ہے بلکہ اس میں خود سلامتی کی نعمت موجود ہوتی ہے۔ |
|
۴۴۵
سلام (۷) |
دار السّلام، ابدی سلامتی کا گھر، بہشت: سورۂ یونس (۱۰: ۲۵) میں ہے: وَ اللہُ یَدۡعُوۡآ اِلٰی دَارِ السَّلام۔ اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔ جو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی امامِ مبین علیہ الصلاۃ والسّلام کا عالمِ شخصی ہے اور یہی زندہ بہشت ہے، جو عقل و دانش اور علم و حکمت کے خزائن سے مملو ہے۔ |
۲۵۷
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۴۶
سَلۡسَبِیۡل |
بہشت کے ایک چشمے کا نام ھے: یہ سورۂ دھر (۷۶: ۱۸) کا ایک ارشاد ہے: عَیۡنًا فِیۡهَا تُسَمّٰى سَلۡسَبِیۡلًا۔ یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے۔ سل+ سبیل (پوچھ لے راستہ) = سلسبیل، یہ صاحبِ امر کا ایک نام ہے، جو علم و ہدایت کا سرچشمہ ہے، جس سے ظاہراً و باطناً راہِ ہدایت دریافت کی جاتی ہے، جیسا کہ پوچھنے کا حق ہے، الحمد اللہ ربّ العالمین۔ |
|
۴۴۷
سُلّمٌ |
سیڑھی: سورۂ طور (۵۲: ۳۸) میں ہے: کیا ان کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ عالمِ عُلوی کے اسرار کو سنتے ہیں؟ (اگر ایسا ہے) تو ان میں سے سننے والا کوئی روشن دلیل لے آئے۔ یہ اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد صرف امامِ مبینؑ ہی اللہ کی رسّی اور عالمِ بالا کی سیڑھی ہے۔ |
|
۴۴۸
سلمان (۱) |
نام: سلمانُ مِنّا أھل البیت۔ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ اس حدیثِ شریف کا اشارہ یہ ہے کہ صفِ اوّل کے مومنین و مومنات میں سے بھی اہل بیتِ اطہار علیہم السّلام میں شامل ہو |
۲۵۸
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
سکتے ہیں۔ |
||
۴۴۹
سلمان (۲) |
سلمان فارسی: اِنَّ سَلۡمَانَ مِنَّا اَھۡلَ الۡبَیۡتِ۔ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا کہ: بیشک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ سلمان فارسی کو یہ نام (سلمان) آنحضرتؐ نے عطا فرمایا تھا، لہٰذا یہ لفظ “جَوَامِعُ الۡکَلِمۡ” میں سے ہے، جیسے آن حضورؐ نے فرمایا: اُوۡتِیۡتُ جَوَامِعُ الۡکَلِمۡ میں جامع کلمے دیا گیا ہوں (یعنی قرآن وحدیث جس کا ہر لفظ جامع ہونے کہ وجہ سے کئی معنی رکھتا ہے) پس اسمِ “سلمان” جامعیت کے لحاظ سے ایک منتخب لفظ ہے۔ |
|
۴۵۰
سلمان (۳) |
سلمان الخیر: (الف) سلمان زمانۂ نبوّت کا ایک مثالی مومن تھا، (ب) سلمان کو آیۂ قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹) کا مصداق سمجھ لیں (ج) وہ بہشت کے دروازوں میں سے ایک درواز ہوا (د) سلمان فارسی کے عالمِ شخصی میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کا مقدّس نور طلوع ہوچکا تھا (ھ) ہر امامؑ کے زمانے میں مومنین و مومنات میں سے بعض پاکیزہ نفوس سلمان کی طرح ہوتے ہیں۔ |
۲۵۹
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۵۱
سلمان (۴) |
یکے از اہل بیتِ رسولؐ: آنحضرتؐ کا ارشادِ مبارک ہے: اِنَّ سَلۡمَانَ مِنَّا اَھۡلَ الۡبَیۡتِ۔ یقینًا سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہے۔ (تحلیلِ اشعارِ ناصر خسرو، ص۲۹، بحوالۂ سفینۃ البحار، جلد اوّل، ۶۴۷)۔ آنحضرتؐ نے سلمان کے بارے میں یہ بھی فرمایا: لَقَدۡ اُوۡتِیَ سَلۡمَانٌ مِنَ الۡعِلۡمِ۔ تحقیق سلمان کو علم کا ایک حصّہ دیا گیا ہے۔ نیز رسالت مآبؐ نے فرمایا: سَلۡمَانٌ عَالِمٌ لَا یُدۡرَکۡ۔ سلمان ایسے عالم ہیں کہ کوئی اُن کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ (از کتاب سیرتِ سلمان، علّامہ فضل احمد عارف)۔ |
|
۴۵۲
سلمان (۵) |
سلمان فارسی عالِمِ علمِ لدنّی: امیر المومنین حضرتِ علیؑ سے سلمان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: اُوۡتِیَ الۡعِلۡمَ اَوّلَ وَ الۡعِلۡمَ الۡاٰخِرَ لَا یُدۡرَکُ مَا عِنۡدَہٗ۔ وہ علمِ اوّل اور علمِ آخر دیئے گئے تھے، جو کچھ اُن کے پاس ہے اُسے نہ حاصل کیا جاسکتا ہے نہ ان پر اُس معاملے میں سبقت لی جاسکتی ہے۔ مولا نے یہ بھی فرمایا: عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الاوّلِیۡنَ والاٰخِرِیۡنَ۔ یعنی اُن کے پاس اوّلین و آخرین کا علم تھا۔ (کتابِ مذکورۂ بالا)۔ |
۲۶۰
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۵۳
سَلُوۡنِیۡ (۱) |
تم مجھ سے پوچھ لو: مولا علی صلوات اللہ علیہ نے اپنے وقت کے حاضرین سے فرمایا: سلونی قبل ان تفقدونی۔ مجھ سے (علم و حکمت کی باتیں) پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھ کو کھو بیٹو۔ یہ حقیقت ہے کہ خدائے مہربان اور رسولِ کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے لوگوں کی ہدایت کے لئے جس امامِ عالیمقامؑ کو مقرّر کر دیا تھا، وہ اکثر فرقوں سے کھو گیا ہے۔ |
|
۴۵۴
سَلۡوۡنِیۡ (۲) |
تم مجھ سے سوال کرو: حضرتِ علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: سلونی عمّا دونی العرش۔ مجھ سے ہر اس چیز کے بارے میں پوچھو جو نورِ عقل (عرش) کے تحت ہے۔ یعنی میرے پاس نورِ عقل ہے جو تمام اشیاء پر محیط ہے، پس جس چیز کے بارے میں جاننا چاہتے ہو تو مجھ سے سوال کرو جیسا کہ سوال کرنے کا طریقہ مقرر ہے۔ |
|
۴۵۵
سَلِیۡم (۱) |
بے عیب، سُتھرا، قلبِ سلیم، وہ دل جو باطنی بیماریوں سے پاک ہو: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ (۳۷: ۸۴) ترجمۂ اوّل: جب وہ اپنے |
۲۶۱
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
پروردگار کے پاس (عیب سے) پاک دل لے کر آئے۔ ترجمۂ دوم: جب وہ اپنے ربّ کے پاس سپرد کردینے کے قابل دل لیکر آئے۔ تاکہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے ایسے پاک و پاکیزہ دل کو ربِّ کریم اپنے بابرکت ہاتھ میں لے، اپنی انگلیوں میں سے دو انگشت کے درمیان رکھ کر جیسے چاہے پھیرتا رہے، اپنے حسن و جمال اور اوصافِ کمال کا آئینہ اور اسرارِ ازل و ابد کا خزانہ بنا دے تاکہ امامُ النّاس (حضرتِ ابراہیمؑ ۰۲: ۱۲۴) کے اس قائدانہ عمل میں لوگوں کے لئے ہمیشہ ایک پُرنور مثالی ہدایت موجود و مہیّا رہے۔ |
||
۴۵۶
سَلِیۡم (۲) |
قلبِ سلیم، وہ دل جو خدا کو سونپا ھوا ہو: مُقَلِّبُ الۡقُلُوۡبِ۔ اللہ تعالٰی کا ایک نام ہے، یعنی دلوں کے ارادوں کو پلٹنے والا، اس میں تاویلی حکمت ہے، وہ ہم اس حدیث کے تحت بیان کریں گے: اِنَّ الۡقُلُوۡبَ کُلَّھَا بَیۡنَ اِصۡبَعَیۡنِ مِنۡ اَصَابِعِ الرَّحۡمٰن۔ تمام دل اللہ تعالٰی کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں (وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے) جن عرفاء کو خداوندِ دو جہان کا پاک دیدار حاصل ہوا ہو، وہ آپ کو بتا سکتے ہیں کہ رحمان کی پانچ انگلیوں سے پانچ حدودِ علوی مراد ہیں، یعنی عقلِ کلّ، نفس کلّ، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل اور خدا کی دو انگشت کے بیچ میں تمام قلوب |
۲۶۲
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
کے ہونے کی تاویل “قلبِ سلیم” ہے جو امام کا دل (عقل) ہے جس کو تمام دلوں کی نمائندگی حاصل ہے، اور وہ عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے بیچ میں ہے۔ |
||
۴۵۷
سلیم (۳) |
قلبِ سلیم، وہ دل جو باطنی بیماریوں سے پاک ھو: اِلَّا مَنۡ اَتٰی اللہَ بَقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ (۲۶: ۸۹) ہاں جو شخص خدا کے پاس پاک دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا) یہ کوئی معمولی بات ہرگز نہیں، بلکہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اور ان کے روحانی ساتھیوں کا اسوۂ حسنہ ہے (۶۰: ۰۴) اور آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا اسوۂ حسنہ ہے (۳۳: ۲۱)۔ |
|
۴۵۸
سَمَاء (۱) |
آسمان، یعنی آسمانِ نزدیک: قرآنِ حکیم میں سماء الدّنیا (آسمانِ نزدیک) کا ذکر آیا ہے (۳۷: ۰۶؛ ۴۱: ۱۲؛ ۶۷: ۰۵؛ ۱۵: ۱۶) یہ عالمِ شخصی کا آسمان ہے جو سات روحانی آسمانوں کے نیچے ہونے کی وجہ سے نزدیک ہے، جیسے سورۂ صٰفٰت میں ارشاد ہے: ہم نے آسمانِ نزیک کو تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے اور ہر سرکش شیطان سے اس کو محفوظ کر دیا ہے، یہ شیاطین سردارانِ اعلٰی کی باتیں نہیں سُن سکتے (۳۷: ۰۶ تا ۰۸)۔ |
۲۶۳
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۵۹
سَماء (۲) |
عالمِ شخصی کا آسمان: سورۂ حٰمٓ السّجدہ میں ارشاد ہے: وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ڰ وَ حِفۡظًا۔ اور ہم نے آسمانِ نزدیک کو چراغوں سے آراستہ کیا اور (اوپر والے آسمانوں کو شیطانوں سے) محفوظ رکھا (۴۱: ۱۲) چند بڑے بڑے شیاطین انتہائی مشکل سے عالمِ شخصی کے آسمان تک پرواز کرجاتے ہیں، وہاں کی رنگ برنگ روشنیاں اتنی پُرکشش اور مسحور کُن ہیں کہ وہ ان سے نکل کر اوپر کے آسمانوں میں جا ہی نہیں سکتے۔ |
|
۴۶۰
سَماء (۳) |
وہ آسمان جو سب سے نزدیک ہے: جن چراغوں سے عالمِ شخصی کا آسمان منوّر ہو رہا ہے وہ نور بھی ہے اور نار بھی، جیسا کہ سورۂ ملک کا یہ ارشاد ہے: اور ہم نے آسمانِ نزدیک کو چراغوں سے زینت دی ہے اور انہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے، اور ان شیطانوں کے لئے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے (۶۷: ۰۵) عالمِ بالا کے عظیم اسرار سے شیاطین کی محرومی کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے خلیفۃ اللہ کو نہیں پہچانا۔ |
۲۶۴
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۶۱
سمآء الدّنیا (۱) |
آسمانِ نزدیک: ارشاد ہے: وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ڰ وَحِفۡظًا۔ اور ہم نے آسمانِ نزدیک کو چراغوں سے مزیّن کیا اور (شیطانوں سے) حفاظت کا ذریعہ بنایا (۴۱: ۱۲) یعنی خدائے غالب و حکیم نے عقلانی اور روحانی آسمانوں کو شیطان سے اس طرح محفوظ رکھا کہ آسمانِ نزدیک (ہادیٔ برحق) کو علم و حکمت کے چراغوں سے سجایا، جن میں اہل ایمان کے لئے ہدایت کی روشنی ہے اور شیطانوں پر برسنے والے شعلے ہیں (۶۷: ۰۵)۔ |
|
۴۶۲
سَمَاءَ الدّنیا (۲) |
آسمانِ نزدیک: اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب رسول حضرتِ محمد مصطفیٰ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کو ہدایت کا روشن چراغ بںا دیا تھا (۳۳: ۴۶) آپؐ ہی اپنے وقت میں علم و حکمت کا وہ زندہ اور بولنے والا انسان تھے جو لوگوں کے نزدیک آسکتا ہے، حضورِ انورؐ کا ہر قول ایک چراغ اور ہر فعل ایک چراغ تھا، جس سے مومنین کے لئے ہدایت کی روشنی ملتی تھی، اور منکرین پر شعلے گرتے تھے۔ |
۲۶۵
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۶۳
سَمَاءَ الدّنیا (۳) |
آسمانِ نزدیک: سورۂ نوحؑ میں ارشاد ہوا ہے: یُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَاراً۔ وہ تم پر آسمان بھیجے گا خوب بارشیں برسانے والا (۷۱: ۱۱) یعنی اطاعت اور عاجزی کے عمل سے روحانی آسمان تم پر بہت مہربان ہوگا، اور علم و ہدایت کی بارش برسائے گا۔ |
|
۴۶۴
سَمَاءَ الدّنیا (۴) |
آسمانِ نزدیک: سورۂ جنّ کی آیتِ ہشتم (۷۲: ۰۸) کو پڑھ لیں: اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اس کو بہت قوی نگہبانوں اور شعلوں سے بھرا ہوا پایا۔ اس سے یہ حقیققت روشن ہوئی کہ یہ روحانیت کا وہ آسمان ہے جو انس و جنّ کے قریب ہی ہے، یعنی مرتبۂ امامت، مگر اس میں حفاظت کے بہت سے چراغ ہیں، جن سے روشنی بھی پھیل رہی ہے اور شعلے بھی برس پڑتے ہیں۔ |
|
۴۶۵
سَمۡع |
کان: ناطق اہلِ باطن کی روحانی سماعت کا کام کرتے ہیں، کیونکہ اس آیۂ مبارکہ (۳۲: ۰۹) میں انسانِ کامل کی معرفت کا اشارہ ہے، جس میں ظاہری کانوں کا تذکرہ نہیں۔ |
۲۶۶
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۶۶
سِمِیًّا/سَمِیّ |
ھمنام، نظیر: سورۂ مریم (۱۹: ۰۷) میں ہے کہ ذکریاؑ کے بیٹے سے پہلے کسی شخص کا نام “یَحۡیٰی” نہ تھا، پھر اسی سورہ میں آگے چل کر یہ ذکر ملتا ہے کہ خدا کا کوئی ہمنام نہیں (۱۹: ۶۵) ھَلۡ تَعۡلَمُ لَہٗ سَمِیًّا۔ بھلا تمہارے علم میں اس کا کوئی ہمنام بھی ہے؟ یعنی انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام جو اپنے اپنے زمانے میں خدا کے اسماءُ الحسنٰی ہوا کرتے ہیں، وہ خدا کے بزرگ نام ہیں، اس لئے وہ بیمثال ہیں اُن کا کوئی ہمنام نہیں، چونکہ یہ سب حضراتؑ ان بے شمار خوبیوں کے ساتھ پروردگار ہی کے نام ہیں، اس معنی میں حضرتِ ربّ کا کوئی ہمنام نہیں (۱۹: ۶۵)۔ |
|
۴۶۷
سُنّۃ |
طریقہ، رسم، چلن، عادت، اللہ کا دستورِ حکمت اور قانونِ قدرت: قرآنِ حکیم میں سنّتِ الٰہی کا مضمون اساسی مضامین میں سے ہے، دینِ حق کی جتنی اصولی اور بنیادی چیزیں ہیں، ان کی نسبت اللہ کی سنّت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے، خدا کی سنّت کا ظہور کاملین کے عالمِ شخصی میں ہوتا رہا ہے، اور اس کا تجدّد ہمیشہ ہمیشہ جاری ہے، آپ سُنّتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ شریفہ کو خوب غور سے پڑھیں۔ |
۲۶۷
لفظ | معنی و حکمت “س” | |
۴۶۸
سَوِیّ |
سیدھا، برابر، درست: سورۂ مریم میں (۱۹: ۱۷) بَشَرًا سَوِیًّا کے یہ معنی ہیں: (۱) جُثَّۂ ابداعیہ (۲) ظہورِ فرشتہ بشکلِ انسانِ کامل (۳) کوکبی بدن (۴) جامۂ جنّت (۵) مخلوقِ بہشت (۶) مومن جنّ/پری (۷) ظہورِ مبدَع (۸) جسمِ لطیف (۹) معجزۂ ابداع (۱۰) معجزۂ انبعاث (۱۱) جسمِ مثالی (۱۲) خلقِ جدید (۱۳) محراب (۱۴) صفًّا (۱۵) صفًّا صفًّا (۱۶) کائنات/ انسانِ کبیر (۱۷) جوہر کائنات (۱۸) تھݸݽ گٹݸ جݹ مݶن شرݸ جݹ (جامۂ نو) وغیرہ، الحمد اللہ علٰی مَنِّہٖ و احسانِہٖ۔ |
|
۴۶۹
سِیۡرُوۡا |
تم پھرو، سیر کرو: یہ قرآنی ارشاد سورۂ عنکبوت (۲۹: ۲۰) میں ہے: قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا كَیۡفَ بَدَاَ الۡخَلۡقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنۡشِئُ النَّشۡاَةَ الۡاٰخِرَةَ کہہ دو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کیا ہے پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرتا ہے، یعنی حقیقی علم اور خصوصی عبادت کے وسیلے سے عالمِ شخصی میں داخل ہوجاؤ اور اس کی زمین پر چلو پھرو تاکہ تم کو مخلوق اور خالق کی معرفت حاصل ہوجائے، اس کے بغیر زمینِ ظاہر پر چلنے پھرنے سے معرفت کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ |
۲۶۸
بابُ الشّین | ||
۲۶۹
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۲۷۰
لفظ | معنی و حکمت “ش” | |
۴۷۰
شَاھِد |
گواہ، حاضر ھونیوالا: اِس آیۂ کریمہ کو سورۂ ھود (۱۱: ۱۷) میں پڑھ لیں: اَفَمَنۡ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنۡ رَّبِّهٖ وَ یَتۡلُوۡهُ شَاهِدٌ مِّنۡهُ۔ تو کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے دلیلِ روشن پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے انہی کا ایک گواہ ہو۔ (شرح الاخبار، ج۸، ص۳۱۱)۔ دلیلِ روشن پر آنحضورؐ ہیں اور انہی کا ایک گواہ حضرتِ علیؑ، پیغمبرِ اکرمؑ کی نبوّت و رسالت کا گواہ کوئی عام آدمی کیونکہ ہوسکتا ہے، جبکہ یہ امرِ عظیم ظاہری نہیں باطنی اور روحانی ہے، یعنی دیدۂ دل سے یہ دیکھنا تھا کہ قرآنِ عظیم کلمۂ باری، قلمِ اعلٰی، لوحِ محفوظ اور فرشتوں سے کس طرح آنحضرتؐ پر نازل ہوا؟ ان تمام مشاہدات کے بغیر حقیقی گواہی نہیں ہوسکتی ہے۔ |
|
۴۷۱
شَجَرَۃ |
درخت: قرآنِ حکیم میں جتنے پاک درختوں کی مثالیں بیان کی گئی ہیں، ان سب کا ممثول عالمِ شخصی کے آسمان پر ایک ہی ہے، وہ صورتِ رحمان اور فرشتۂ اعظم ہے، چونکہ وہی عالمِ وحدت ہے اس لئے وہ عقلِ کلّ بھی ہے، نفسِ کلّ بھی، ناطق بھی اور اساس بھی ہے، اور مرتبۂ یک حقیقت اس کے سوا نہیں، الغرض تمام اعلٰی معانی یہیں جمع |
۲۷۱
لفظ | معنی و حکمت “ش” | |
ہوجاتے ہیں اور یہیں سے پھیل جاتے ہیں (بحوالۂ تاویلاتِ قرآن)۔ |
||
۴۷۲
شَرَابًا طَہُوۡرًا |
نہایت پاکیزہ شراب: سورۂ دھر میں ارشاد ہے: وَ سَقٰىهُمۡ رَبُّهُمۡ شَرَابًا طَهُوۡرًا۔ اور ان کا ربّ ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا (۷۶: ۲۱) اس سے حق تعالٰی کا دیدارِ پاک مراد ہے جو شرابِ عشق ہے، اسی شراب کو پی کر دوستانِ خدا پاک ہوجاتے اور پاک رہتے ہیں۔ |
|
۴۷۳
شِعۡر |
موزوں مقفّٰی کلام، نظم، بیت، سُخنِ موزون۔ حضرتِ ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اِنَّ مِنَ الشِّعۡرِ لَحِکۡمَۃً۔ یعنی بعض اشعار میں حکمت ہوتی ہے۔ یعنی جو شاعر ہدایت حقّہ سے وابستہ ہیں اُن ہی کی شاعری میں حکمت ہوسکتی ہے، کیونکہ قرآنِ پاک میں گمراہ شاعروں کی مذمّت کی گئی ہے (۲۶: ۲۲۴)۔ |
۲۷۲
لفظ | معنی و حکمت “ش” | |
۴۷۴
شُغُلٍ |
کام، دھندا: اہل بہشت آج (روزِ آخرت) مسرّت بخش کام میں ہیں (۳۶: ۵۵) مثلًا جو لوگ صور اسرافیل کی زبردستی سے بہشت میں داخل کیے گئے ہیں، ان کو تعلیم دینے کا کام۔ |
|
۴۷۵
شِفاء |
تندرستی: روحانی سائنس کا ثبوت اس روشن دلیل سے بھی مل سکتا ہے کہ قرآن و حدیث کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو آسمانی طبّ اور علاج و شفا سے متعلق ہے، اسی وجہ سے قرآنِ حکیم کے اسماء میں سے ایک اسم “شفاء” ہے (۱۰: ۵۷؛ ۱۷: ۸۲)۔ |
|
۴۷۶
شَفَاعَۃ |
سِفارش: آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اِنَّ مِنۡ اُمَّتِیۡ مَنۡ یَّشۡفَعُ لِلۡفِئَامِ مِنَ النَّاسِ۔ میری امّت میں سے کوئی کئی جماعتوں (لاکھوں) کی شفاعت کریگا۔ (ترمذی، جلد دوم، ابواب صفۃ القیامۃ، شفاعت سے متعلق) یہ کاملین و عارفین کے بارے میں ہے۔ |
۲۷۳
لفظ | معنی و حکمت “ش” | |
۴۷۷
شَکُوۡر (۱) |
بڑا شکر گزار، بڑا قدر شناس: عام شکر گزاری کوئی بھی کرسکتا ہے لیکن خاص شکر گزاری بہت مشکل ہے، کیونکہ وہ صرف حکمت ہی کی روشنی میں ہوسکتی ہے، جیسے سورۂ لقمان (۳۱: ۱۲) میں خداوندِ عالم کا فرمان ہے: اور یقیناً ہم نے لُقمان کو حکمت عطا کی کہ تم خدا کا شکر کرو۔ حکمت اللہ تعالٰی کا بہت بڑا عطیہ ہے، اور یہ بہت کم بندوں کو نصیب ہوتا ہے، جیسا کہ سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں ارشاد ہے: اور میرے بندوں میں سے شکر کرنے والے (بندے) تھوڑے سے ہیں۔ یعنی اہلِ حکمت بہت ہی کم ہیں۔ |
|
۴۷۸
شَکُوۡر (۲) |
بڑا شکر گزار، بڑا قدر دان: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۳) میں ہے: اِنَّهٗ كَانَ عَبۡدًا شَكُوۡرًا۔ بیشک نوحؑ بڑا شکر گزار بندہ تھا، یعنی اُن کے عالمِ شخصی میں کل کائنات کی باطنی دولت اور حکمت موجود تھی اور اسی کے مطابق عملًا شکر گزاری اور قدر دانی کرتے تھے، اور تمام انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے ایسے اوصاف و کمالات ہوتے ہیں۔ |
۲۷۴
لفظ | معنی و حکمت “ش” | |
۴۷۹
شَکُوۡر (۳) |
بڑا شکر گزار، بڑا قدر شناس: اگرچہ ہر حال میں شکر کرنا ایک مفید بندگی ہے، تاہم وہ شکر جو حقیقی معنوں میں ہے عظیم نعمتوں کی بلندی پر ادا ہوسکتا ہے، جیسے حضرتِ سلیمانؑ کی روحانی سلطنت میں جنّات کی کار کردگی کے ذکر کے بعد فرمایا گیا کہ: اے آلِ داؤد! شکر کے طریقے پر عمل کرو، کیونکہ میرے بندوں میں کم ہی شکر گزار ہیں (۳۴: ۱۳) یعنی خدا تعالٰی نے تم کو جن عظیم نعمتوں سے مالامال فرمایا ہے انہی کے مطابق لوگوں پر احسان کرو تاکہ اس سے خدا کی عملی شکرگزاری یعنی اس کی نعمتوں کی قدر دانی ہوسکے۔ |
|
۴۸۰
شُھَداء (۱) |
گواہ، واحد شھید: اللہ تعالٰی کا یہ خطاب أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی سے ہے: وَ كَذٰلِكَ جَعَلۡنٰكُمۡ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوۡنُوۡا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡكُمۡ شَهِیۡدًاؕ۔ (۰۲: ۱۴۳) اور اسی طرح ہم نے تم کو عادل اُمّت بنایا تاکہ اور لوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو اور رسول (محمّدؐ) تمہارے مقابلے میں گواہ بنیں۔ گواہ وہ شخص ہوتا ہے جو حاضر اور موجود ہو، پس امام علیہ السّلام لوگوں پر اس معنٰی میں گواہ ہے کہ وہ ہمشہ خدا کے حکم سے ان کے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی حاضر اور موجود ہے۔ |
۱۷۵
لفظ | معنی و حکمت “ش” | |
۴۸۱
شُھَداء (۲) |
گواہ، واحد شھید: اس آیۂ کریمہ کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ عارفین و کاملین امامِ زمانؑ کو باطن میں بھی دیکھ سکتے ہیں، بالفاظِ دیگر اُس کا دیدار کرسکتے ہیں، کیونکہ امام علیہ السّلام لوگوں کے اعمال پر گواہ کی صورت میں ظاہراً و باطناً حاضر و موجود ہے، اور اس دلیلِ محکم کو جو قرآن حکیم کی روشنی میں ہے کوئی شخص رد نہیں کرسکتا کہ رسولؐ اماموں پر گواہ ہیں اور أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں۔ |
|
۴۸۲
شُھَداء (۳) |
گواہ، واحد شھید: یہ ارشاد سورۂ توبہ میں ہے: وَ قُلِ اعۡمَلُوۡا فَسَیَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمۡ وَ رَسُوۡلُهٗ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَؕ (۰۹: ۱۰۵) اور (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ تم اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی تو خدا اور اس کا رسولؐ اور مومنین (أئمّہ) تمہارے کاموں کو دیکھیں گے۔ حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام کے حوالے سے یہاں المؤمنون سے أئمّۂ ھُدٰی علیہم السّلام ہی مراد ہیں (ملاحظہ ہو کتاب دعائم الاسلام، عربی، حصّۂ اوّل، ص۲۱)۔ |
|
۴۸۳
شُھَداء (۴) |
گواہ، واحد شھید: اللہ اور اس کے رسولِ پاکؐ کے بعد حضرات أئمّہ لوگوں کے اعمال |
۲۷۶
لفظ | معنی و حکمت “ش” | |
کو دیکھتے ہیں، جبکہ وہ اس معنٰی میں حاضر و موجود اور گواہ ہیں، پس یقیناً عارفین و کاملین امامِ زمان کو نورانیت میں دیکھ سکتے ہیں، اور اس سے روحانی علم حاصل کرسکتے ہیں، کہ وہ کتابِ ناطق ہے (۲۳: ۶۲ نیز ۴۵: ۲۹)۔ |
||
۴۸۴
شُھَداء (۵) |
گواہ، واحد شھید: سورۂ مومںون میں ارشاد ہے: وَ لَدَیۡنَا كِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ هُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ۔ اور ہمارے پاس (یعنی قربِ خاص میں) ایک ایسی کتاب ہے جو سچ سچ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا ہے (نہیں کیا جائے گا)۔ “یُظلمون” مظارع ہے، یہ بولنے والی کتاب کیونکر قرآنِ عظیم سے الگ ہوسکتی ہے کہ اگر جُدا ہوتی تو قرآن کی تمامیّت و کمالیّت میں فرق آتا، لیکن ایسا نہیں، بلکہ یہ تو قرآنِ پاک کا نورِ باطن اور معلّم ہے، جو حقیقت میں قرآن سے الگ نہیں، جیسے ارشادِ رسولؐ ہے کہ: قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ۔ جیسے رسولِ اکرمؐ قرآن سے الگ نہ تھے۔ |
|
۴۸۵
شُھَداء (۶) |
گواہ، حاضر موجود: حضرتِ امام علیہ السّلام سے روحانیّت اور باطنیّت میں کلام |
۲۷۷
لفظ | معنی و حکمت “ش” | |
ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ گواہ ہے اور گواہ غائب نہیں بلکہ حاضر اور موجود ہوتا ہے، وہ کتابِ ناطق ہے جو عارفوں سے کلام کرنے کے معنی میں ہے، وہ نورِ ہدایت ہے جس کی شعاعیں سورج کی کرنوں کی طرح بیجان، بے عقل، اور خاموش نہیں، بلکہ اس کے برعکس ہیں۔ |
||
۴۸۶
شُھُوۡر |
مہینے: سورۂ توبہ میں ارشاد ہوا ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ مہینوں کی تعداد جب سے خدا نے آسمان و زمین کو پیدا کی ہے اللہ کی کتاب میں بارہ ہی ہے اور ان میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں، یہی دینِ قائمؑ ہے (۰۹: ۳۶) یعنی عالمِ شخصی کی روحانی تخلیق اور تعمیر و ترقی کے دوران امامِ زمانؑ کے بارہ حجت کام کرتے ہیں، خدا کی بولنے والی کتاب (امامؑ) میں یہی تعداد ہے، ان میں سے چار حجت محترم اور مقرب ہیں، اور یہی حضرتِ قائم القیامت علیہ افضل التحیۃ والسّلام کا دینِ متین ہے۔ |
|
۴۸۷
شَیَاطِیۡن |
انس و جنّ کے سرکش افراد، شریر لوگ: ہر پیغمبر کے لئے انسی اور جنّی شیاطین دشمن ہوا کرتے تھے (۰۶: ۱۱۲) یہ حکمتِ الٰہی کا بہت بڑا راز ہے کہ انسانِ کامل کی آزمائش اس کے |
۲۷۸
لفظ | معنی و حکمت “ش” | |
بغیر ممکن نہیں ہے۔ |
||
۴۸۸
شَیۡطَانٌ |
شیطان (ذاتی): مَا مِنۡکُمۡ مِنۡ اَحَدٍ اِلَّا وَ لَہٗ شَیۡطَانٌ، قَالُوۡا: وَ اَنۡتَ یَا رَسُوۡلَ اللہِ؟ قَالَ: وَ اَنَا اِلَّا اَنَّ اللہَ اَعَانَنِیۡ عَلَیۡہِ فَاَسۡلَمَ فَلَا یَاۡمُرُ اِلَّا بِخَیۡرٍ۔ آنحضرت حضور نے فرمایا: تم میں سے ہر شخص کا ایک (ذاتی) شیطان ہے، اصحاب نے پوچھا: اور آپ کا؟ فرمایا: میرا بھی تھا، لیکن اللہ نے مجھے اس پر غلبہ بخشا، پس وہ تابعدار ہوگیا اور اب وہ صرف بھلائی کا حکم دیتا ہے (تحلیل اشعارِ ناصرِ خسرو، بحوالۂ احیاء العلوم، جلد سوم، بیان نمبر۱۱) |
۲۷۹
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۲۸۰
بابُ الصّاد
|
۲۸۱
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۱۸۲
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
۴۸۹
صٓ |
صورت: سورۂ صٓ کے شروع ہی (۳۸: ۰۱) میں ارشاد ہے: صٓ وَ الۡقُرۡاٰنِ ذِی الذِّکۡرِ۔ قسم ہے صورتِ رحمان کی اور ذکر والے قرآن کی۔ اس خدائی قسم کی نسبت یہ ہے کہ عالم علوی میں جہاں خدائے رحمان کا دیدار ہے وہاں قرآنِ عظیم کا ظہورِ ازل ہے، جو کتابِ مکنون میں ہے (۵۶: ۷۷ تا ۷۹)۔ |
|
۴۹۰
صَاحِب (۱) |
رفیق، ساتھی: سورۂ نجم کے شروع (۵۳: ۰۱ تا ۰۲) میں پڑھ لیں: وَ النَّجۡمِ اِذَا هَوٰى۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمۡ وَ مَا غَوٰى۔ ستارۂ ازل کی قسم جب (طلوع ہوجانے کے بعد) غروب ہوا کہ تمہارے رفیق (محمّد صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم) نہ گمراہ ہوئے نہ بہکے۔ پہلی آیت میں منزلِ مقصود کی نشاندہی فرمائی گئی، وہ حظیرۃ القدس اور مقامِ ازل ہے، جہاں نورِ عقل اپنے مختصر ترین طلوع و غروب سے بے شمار اشارے کرتا ہے، یہی نور عالمِ وحدت کا سورج بھی ہے چاند بھی، ستارہ بھی ہے اور ستارے بھی، بلکہ سب کچھ ہے، جبکہ وہ کائنات و موجودات کا خلاصہ اور جوہر (گوہر) ہے۔ |
۲۸۳
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
۴۹۱
صَاحِب (۲) |
رفیق، ساتھی: دوسری آیت میں مذکورہ قَسم کا یہ جواب ہے کہ جب رحمتِ عالم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم معراج پر تشریف لے گئے اُس وقت تم سب مومنین و مومنات کا عالمِ ذرّ فنا اور وحدت کی حالت میں پیغمبرؐ کے ساتھ تھا، یہ عظیم حکمت “صَاحِبُکُمۡ” میں پنہان ہے، یعنی آنحضرتؐ معراج تک اہل ایمان کے رفیق و رہنما ہیں، اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ربّ العالمین۔ |
|
۴۹۲
صَاحِب (۳) |
رفیق، ساتھی: سورۂ حدید کی ایک پُرحکمت آیت (۵۷: ۲۸) میں سے ان روح پرور الفاظ پر غور کریں: وَ یَجۡعَلۡ لَّكُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِهٖ۔ اور خدا تم کو ایسا نور عطا فرمائے گا جس کی روشنی میں تم چلوگے۔ یہ نورِ امامت ہی ہے، جس کا مقصد ہے اہل ایمان کو صراطِ مستقیم پر چلانا، چلنے کا مقصد ہے منزلِ مقصود میں پہنچ جانا، منزلِ مقصود خدا ہے، اور جہاں خدا ہے وہاں اس کا پاک دیدار بھی ہے اور آنحضرتؐ کی معراج کے اسرار کا مشاہدہ بھی۔ |
۲۸۴
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
۴۹۳
صادقیں (۱) |
سچّے، جن کو قرآنی حکمت دی گئی ھے: سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۹) کی یہ آیت پُرحکمت أئمّۂ آلِ محمّد صلّی اللہ علیہ و علیہم اجمعین کی شان میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ۔ اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور سچّوں کے ساتھ ہوجاؤ (۰۹: ۱۱۹) صادقین صرف وہی حضرات ہیں جن کی مبارک پیشانی میں نُوۡرِ مُنَزَّل (نورِ ہدایت) کی جلوہ گری اور روشنی کا معجزہ ہے، پس قرآن اور اسلام کی صداقت و حقیقت انہی قدسیوں کے پاس ہے (بحوالۂ دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الولایہ)۔ |
|
۴۹۴
صادقیں (۲) |
علیؑ، أئمّۂ طاھرین: خوب یاد رہے کہ “صدق” قرآنِ پاک کے ناموں میں سے ہے (۳۹: ۳۳) ملاحظہ ہو: الاتقان، حصّۂ اوّل، نوع ۱۷، پس صادقین وہ حضرات ہیں جن کے پاک سینوں میں قرآنِ حکیم کی تمام باطنی اور نورانی آیات یعنی معجزات محفوظ ہیں (۲۹: ۴۹) جیسے آنحضرتؐ نے فرمایا: علیّ مع القراٰن، والقراٰن مع علیّ، لن یتفرّقا حتٰی یردا علی الحوض۔ علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ، یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے تا آنکہ حوضِ |
۲۸۵
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
کوثر پر دونوں اُتر جائیں گے (المۡسۡتَدۡرَکۡ، الجُزء الثالث، مناقب امیر المؤمنین علیؑ، ص۱۳۴) یعنی قرآن اور علیؑ ایک ساتھ دنیا میں قیامۃ القیامات تک موجود ہوں گے، کس طرح؟ قرآن ہر بار ایک جدید ایڈیشن میں اور علی امامت کے نئے لباس میں۔ |
||
۴۹۵
صَالِح |
نیک، اچھّا، صلاح سے اسمِ فاعل: الصّالح: درست، ٹھیک، نیک، حقوق و ذمہ داریوں کو پورا کرنے والا (المنجد) سورۂ تحریم (۶۶: ۰۴) میں یہ ارشاد آیا ہے: فَاِنَّ اللہَ ھَوَ مَوۡلٰہُ و جِبۡرِیۡلُ و صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔ تو خدا اور جبرائیل اور تمام ایمانداروں میں نیک شخص ان کے مددگار ہیں۔ اِس آیۂ شریفہ میں صالحُ المومنین سے حضرتِ مولانا علی علیہ السّلام مراد ہے (دیکھئے: المیزان، جلد ۱۹، ص۳۴۱) یہاں آیۂ مقدّسہ کا یہ اشارہ ہے کہ جب تک اس دنیا میں مومنین ہیں، تب تک ان کے درمیان صالح المومنین بھی موجود ہے۔ |
|
۴۹۶
صَدَقَۃ |
خیرات، صدقہ: اَفۡضَلُ الصَّدَقَۃِ اَنۡ یَتَعَلَّمَ الۡمَرۡءُ الۡمُسۡلِمُ عِلۡمًا، ثُمَّ یُعَلِّمَہُ اَخَاہُ الۡمُسۡلِمَ۔ بہترین صدقہ یہ ہے کہ مسلمان مرد علم |
۲۸۶
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
سیکھے پھر اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے (سننِ ابنِ ماجہ، جلد اوّل، حدیث۲۴۳)۔ |
||
۴۹۷
صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ |
اِذَا مَاتَ الۡاِنۡسَانُ انۡقَطَعَ عَنۡہُ عَمَلُہُ اِلَّا مِنۡ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوۡ عِلۡمٍ یُنۡتَفَعُ بِہِ اَوۡ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدۡعُوۡ لَہُ۔ جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہوجاتا ہے، مگر تین چیزیں باقی رہتی ہیں: صدقۂ جاریہ یا علم نافع یا نیک اولاد جواس کیلئے دعا کرے۔ (مشکوٰۃ، جلدِ اوّل، کتاب العلم)۔ | |
۴۹۸
صِدِّیۡقَۃ |
بہت سچّی عورت، ولی عورت: صِدِّیۡقَۃ در اصل وہ عالی مرتبت خاتون ہے جو آسمانی کتاب کی روحانیت و نورانیت تک رسا ہوگئی ہو، جس کی وجہ سے کتبِ سماوی کی تصدیق کرتی ہے اور تاویل جانتی ہے، قرآنِ حکیم میں یہ وصف مریم سلام اللہ علیہا کے لئے آیا ہے (۰۵: ۷۵) سورۂ تحریم کے آخر (۶۶: ۱۲) میں دیکھ لیں کہ حضرتِ مریمؑ کے کان میں خداوندی روح پھونک دی گئی تھی، جس کی مدد سے انہوں نے کلماتِ تامّات اور کتب سماوی کی عرفانی تصدیق کی، اور وہ بحقیقت اطاعت والوں سے تھیں۔ |
۲۸۷
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
یقیناً بی بی مریمؑ کا قصّہ بطریقِ تمثیل حجّت کا قصّہ ہے، چنانچہ مریم کا کوئی روحانی واقعہ ایسا نہیں جو حجّت میں نہ ہو، آپ اس سلسلے کے سوالات کرسکتے ہیں، اور ہماری تحریروں میں بھی دیکھ لیں۔ |
||
۴۹۹
صراطٍ مستقیمٍ (۱) |
سیدھا راستہ، خدا کا راستہ، نورِ نبوّت اور نورِ امامت: سورۂ انعام (۰۶: ۱۵۳) میں ارشاد ہے: وَ اَنَّ هٰذَا صِرَاطِیۡ مُسۡتَقِیۡمًا فَاتَّبِعُوۡهُۚ۔ اور یہ (بھی سمجھ لو) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، اسی پر چلے جاؤ، یعنی ناطق اور امام صلوات اللہ علیہما کی پیروی کرتے چلے جاؤ کہ خدا کا سیدھا راستہ نورِ نبوّت اور نورِ امامت ہی ہے (ملاحظہ ہو: اخوان الصّفاء کا آخری رسالہ: جامِعۃ الجامعۃ، فصل ۴۳)۔ |
|
۵۰۰
صراطٍ مستقیمٍ (۲) |
راہِ راست: یہ آیۂ مبارکہ سورۂ حجر (۱۵: ۴۱) میں ہے: قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسۡتَقِیۡمٌ۔ خدا نے فرمایا کہ یہی راہ سیدھی ہے کہ مجھ تک (پہنچتی) ہے۔ اہلِ دانش کے لئے ظاہر ہے کہ صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود حق تعالٰی خود ہے، اس لئے اہلِ ایمان کو اس پر ضرور چلنا اور آگے سے آگے جانا ہے تا آنکہ خدا سے واصل ہوجائیں، اور ایسا بہت |
۲۸۸
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
بڑا کامیاب روحانی سفر نورِ ہدایت کی روشنی میں ممکن ہے۔ |
||
۵۰۱
صراطٍ مستقیمٍ (۳) |
نورانی راستہ: سورۂ ھود (۱۱: ۵۶) میں ہے: اِنَّ رَبِّیۡ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ۔ اس میں تو شک ہی نہیں کہ میرا پرودگار سیدھی راہ پر ہے یعنی نمائندۂ خدا (ہادیٔ زمام علیہ السّلام) خود شروع سے لیکر آخر تک نورانی علم و ہدایت کا راستہ ہے، اور صراطِ مستقیم کی تأویل یہی ہے۔ |
|
۵۰۲
صراطٍ مستقیمٍ (۴) |
نورانیت کا زندہ راستہ: صراطِ مستقیم کی دوسری مثال کشتی کی طرح ہے، کیونکہ اہلِ بیتِ رسولؐ کی ایک تمثیل کشتیٔ نوحؑ سے دی گئی ہے، اس صورت میں یہ سرِّ عظیم منکشف ہوجاتا ہے کہ صراطِ مستقیم درحقیقت وہ ہے جو باطنی اور روحانی مسافروں کو اپنی نورانیّت میں اٹھا کر منزلِ مقصود تک پہنچا سکتی ہے، اور یہ ہادیٔ برحق کی روشن مثال ہے۔ |
|
۵۰۳
صراطٍ مستقیمٍ (۵) |
نمائندۂ خدا، ھادیٔ زمانؑ: اس آیہ مبارکہ کے لئے آپ سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۰۱) میں دیکھ لیں: وَ مَنۡ یَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰهِ فَقَدۡ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ۔ |
۲۸۹
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
اور جس نے اللہ تعالٰی (کے نمائندے) کو مضبوط پکڑا تو ضرور وہ سیدھی راہ (کی غایت) دکھایا گیا۔ یعنی ہر وہ شخص صراطِ مستقیم کی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے جو نمائندۂ خدا کے دامنِ اقدس کو مضبوط پکڑتا ہے، پس صراط مستقیم مثال ہے اور ہادیٔ زمانؑ ممثول۔ |
||
۵۰۴
صراطٍ مستقیمٍ (۶) |
اللہ تعالٰی کی نورانی رسّی: صراطِ مستقیم کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ایک اور متبادل مثال اللہ کی رسّی ہے، جیسے ارشاد ہے: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا (۰۳: ۱۰۳) اور سب کے سب مل کر خدا کی (نورانی) رسّی کو مضبوط پکڑے رہنا اور جدا جدا نہ ہوجانا۔ یعنی نمائندۂ خدا (نبیؐ اور امامؑ) کی پاک و مبارک ہستی ربّ العزّت کی سبیلِ پُرنور بھی ہے اور اس کی نورانی رسّی بھی ہے۔ |
|
۵۰۵
صراطٍ مستقیمٍ (۷) |
راہِ راست، یعنی علیؑ: حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام کا ارشاد ہے: الصراط المستقیم أمیر المؤمنین (علی) علیہ السّلام۔ یعنی راہِ راست (صراطِ مستقیم) سے حضرتِ امیر المومنین علی علیہ السّلام مراد ہیں (المیزان، جلدِ اوّل، ص۴۱) اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ دینِ حق کی راہ |
۲۹۰
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
مادّی سڑک نہیں ہوسکتی، بلکہ یہ خدائے پاک کا زندہ، عاقل، اور پُرنور راستہ ہے، یعنی امامِ عالی مقام۔ |
||
۵۰۶
صلاۃ/صلوٰۃ (۱) |
درود: سورۂ احزاب (۳۳: ۵۶) میں پیغمبرِ مکرّم پر درود بھیجنے کا ذکر آیا ہے، وہ پاک ارشاد یہ ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِیِّط-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡهِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًاؕ ۔ اس میں شک نہیں کہ خدا اور اس کے فرشتے پیغمبرؐ (اور اُن کی آل پر) درود بھیجتے ہیں، تو اے ایماندارو تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو (۳۳: ۵۶) اس حکمِ الٰہی میں آن حضورؐ اور آپؐ کی آلِ پاکؑ کی عظمت و بزرگی کے عظیم اسرار پوشیدہ ہیں۔ |
|
۵۰۷
صلاۃ (۲) |
درود: قُوۡلُوۡا: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیۡتَ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبۡرَاھِیۡمَ اِنَّکَ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ۔ اے اللہ! درود نازل فرمائیے محمّد پر اور آلِ محمّد پر جیسا کہ آپ نے درود نازل فرمایا ابراہیم پر اور اٰلِ ابراہیم پر، بے شک آپ ستودہ صفات اور عظمت والے ہیں۔ (صحیح البخاری، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء، حدیث |
۲۹۱
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
۵۹۵)۔ المیزان، المجلد۱۶، ص۳۴۴ پر بھی دیکھ لیں۔ |
||
۵۰۸
صلاۃ (۳) |
درود: اہل دانش و بصیرت کے لئے یہ ایک بہت بڑا عرفانی خزانہ ہے کہ جہاں درود کے بارے میں بہت سے پیچیدہ سوالات ہیں، وہاں خود آن حضورؐ نے بطریقِ حکمت اُن آیاتِ قرآن کا حوالہ دیا جو حضرتِ ابراہیم اور ان کی آل علیہم السّلام کی شان میں ہیں، پس آپ ان تمام آیاتِ کریمہ میں درودِ شریف کے معانی و مطالب کو دیکھیں جو حضرتِ ابراہیم و آلِ ابراہیم علیہم السّلام پر خدا کی رحمتوں اور برکتوں سے متعلق ہیں، کیونکہ اللہ کا درود صرف ارادہ اور قول نہیں، بلکہ ایک ایسا ہمہ گیر فعل بھی ہے، جس میں سب کا فائدہ ہو۔ |
|
۵۰۹
صلاۃ (۴) |
علم و حکمت: قبلاً جو حکم ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ: ہمہ وقت بڑی کثرت سے خدا کی ذکر کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو (۳۳: ۴۱ تا ۴۲) اس کے بعد یوں ارشاد ہوا ہے: وہی تو خدا ہے جو خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تاکہ تم کو (نادانی کی) تاریکیوں سے نکال کر (علم کی) روشنی میں لے جائے (۳۳: ۴۳) یعنی خدا اور اس |
۲۹۲
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
کے عظیم فرشتے (محمّد و آلِ محمّد کے أئمّۂ ہداؑ) تم پر درود بھیجتے ہیں، جس میں تائید، توفیق، ہدایت، علم اور حکمت ہے۔ |
||
۵۱۰
صلاۃ (۵) |
نورِ علم: مذکورۂ بالا آیۂ مبارکہ (۳۳: ۴۳) کے مطابق جب اہلِ ایمان پر آسمانی درود نازل کردینے کا مقصد نورِعلم ہے تو ایسا درود یقینًا صاحبِ تنزیل اور صاحبِ تأویل علیہم السّلام کے توسط سے آتا ہے جیسے اللہ تعالٰی نےاپنے محبوب رسولؐ کو حکم دیا: وَ صَلِّ علیھمط اِنَّ صَلوٰتَکَ سَکَنٌ لّھُم۔ اور (اے پیغمبرؐ) تم اُن پر درود بھیجا کرو (کیونکہ) تمہارا درود اُن کے لئے باعث تسکین ہے (۰۹: ۱۰۳) یعنی آنحضرتؐ کی صلاۃ (درود) ربّ العالمین کی طرف سے ہے، لہٰذا اس میں مومنین کی عقل و جان کے لئے تسکین ہے۔ |
|
۵۱۱
صُمّ |
بہرے، واحد اَصَمّ: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۸) میں ہے: صُمٌّۢ بُكۡمٌ عُمۡیٌ فَهُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ۔ بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں سو یہ اب رجوع نہ ہوں گے۔ اس آیۂ کریمہ کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے کہ سب سے پہلے علم الیقین کی باتوں کو سننا ہے، پھر اسی علم کی روشنی میں بولنا ہے، اور اس کے بعد |
۲۹۳
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
عین الیقین سے دیکھنا ہے، کیونکہ جسماً و روحاً سماعت کی یہ اہمیّت ہے کہ جو آدمی شروع ہی سے بہرا ہو وہ لازماً گونگا بھی ہوجاتا ہے، اور نتیجے کے طور پر اس کی عقل بھی نہیں بنتی ہے، یعنی وہ چشمِ بصیرت سے اندھا ہی رہتا ہے۔ |
||
۵۱۲
صُوَرُ (۱) |
تصویریں: حضرتِ علی علیہ السّلام کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اِنَّ فِیۡ الۡجَنَّۃِ لَسُوۡقاً مَا فِیۡھَا شِرۡیً وَ لَا بَیۡعٌ اِلَّا الصُّوَرُ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَاءِ فَاِذَا اشۡتَھَیٰ الرَّجُلُ صُوۡرَۃً دَخَلَ فِیۡھَا۔ جنت میں ایک بازار ہوگا، جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اُس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہونگی، جو جس کو پسند کریگا اس کی طرح کا ہو جائے گا۔ (جامع تِرمذی، جلدِ دوم، جنّت کے بازار)۔ |
|
۵۱۳
صُوَرُ (۲) |
زندہ اور باشعور تصویریں: بہشت کی کوئی چیز جان اور عقل کے بغیر نہیں، لہٰذا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بازارِ بہشت کی مذکورہ تصویریں نہ تو کاغذی ہوسکتی ہیں اور نہ ہی فلمی، بلکہ وہ ایسی تصویریں ہیں جو روح اور عقل کی خوبیوں |
۲۹۴
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
سے آراستہ ہوتی ہیں، الغرض وہ باکمال، پسندیدہ اور کامیاب انسانوں کی لطیف ہستی کی کاپیاں ہیں۔ |
||
۵۱۴
صُوَرُ (۳) |
روحانی تصویریں، جامہ ہائے جنّت: یہ جنّت کے وہ قابل تعریف اور بیمثال لباس ہیں جو حیاتِ طیّبہ اور عقلِ کامل کی لازوال دولت سے مالا مال ہیں، اسی لئے روحانی نے فرمایا: تھݸݽ گٹݸ جݹ مݶں شرݸ جݹ (یا ربّ مجھے) نیا لباس عطا فرما اور پرانا رزق عنایت فرما: یعنی جامۂ جدیدِ روحانی اور رزقِ قدیمِ عقلانی، یہ حکمت بازارِ جنّت کی تصویروں سے الگ ہر گز نہیں۔ |
|
۵۱۵
صُوَرُ (۴) |
کاملین کی روحانی کاپیاں: یہ روحانی سائنس کا بڑا کامیاب تجربہ ہے کہ راہِ روحانیّت کی اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں بھی اور بہت آگے چل کر مقامِ عقل پر بھی کاملین کی ہزاروں کاپیاں (روحانی تصویریں) بنائی جاتی ہیں، تاکہ بہشت کی عظیم نعمتیں قرار پائیں، اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ بازارِ بہشت کی روحانی تصویروں میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی مبارک تصویریں بھی ہیں۔ |
۲۹۵
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
۵۱۶
صُوَرُ (۵) |
تماثیل، زندہ تصویریں، ھیاکِلِ نورانی: حدیث سے پہلے یا اس کے ساتھ قرآنی شہادت بھی ہو تو زیادہ بہتر ہوتا ہے، چنانچہ سورۂ سبا (۳۴: ۱۳) میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے لئے جنّات تماثیل (تصویریں) بناتے تھے، زبردست دلچسپ اور بیحد خوشی کی بات ہے کہ یہ تماثیل خود سلیمانؑ کی روحانی کاپیاں ہیں، جو نبوّت، امامت اور سلطنت کا مالک تھا، پس اے نورِ عینِ من! آج دنیا میں تم “فنا فی الامام” کا مرتبہ حاصل کرو، تاکہ کل بہشت میں سلیمانِ زمانؑ کی ایک حقیقی کاپی ہوسکو گے۔ |
|
۵۱۷
صُوَرُ (۶) |
جُثَّۂ اِبداعیہ کی کاپیاں، ھیاکِلِ نورانی: امامؑ علیہ السّلام کو صاحبِ جثّۂ ابداعیہ کہتے ہیں، اسی معنٰی میں حضرتِ طالوت علیہ السّلام کے علم اور جسم کی توصیف آئی ہے: فرمایا اسے اللہ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی (۰۲: ۲۴۷) وَ زَادَهٗ بَسۡطَةً فِی الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِؕ۔ علم کی کشادگی اور ہمہ رسی ہی کی طرح جسم کا بھی کشادہ اور ہمہ رس ہونا سوائے جثّۂ ابداعیہ کے اور کسی جسم کے لئے ناممکن ہے۔ |
۲۹۶
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
۵۱۸
صُوَرُ |
نرسنگھا: ایک اعرابی نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم سے پوچھا کہ صور کیا چیز ہے؟ حضورؐ نے جواب دیا: قَرۡنٌ یُنۡفَخُ فِیۡہِ۔ ایک نرسنگھا ہے جس میں (قیامت برپا کرنے کے لئے) پھونک ماری جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السّلام لوگوں کی عقلی ظرفیت کے مطابق کلام کرتے ہیں، لہٰذا اس اعرابی کو صرف اتنا فرمایا گیا۔ |
|
۵۱۹
صُوۡرَۃ (۱) |
شکل، صورت: صحیح بخاری (جلدِ دوم، کتاب الانبیاء) میں ہے: پس جو کوئی بھی جنّت میں داخل ہوگا وہ آدم علیہ السّلام کی شکل و صورت میں داخل ہوگا۔ صحیح مسلم (جلد ششم، کتاب الجنّہ) میں ہے: خَلَقَ اللہُ عَزَّ وَ جَلَّ اٰدَمَ عَلٰی صُوۡرَتِہٖ۔ اللہ جلّ جلالہ نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ یہ تخلیق نہ جسمانی ہے اور نہ روحانی بلکہ حظیرۃ القدس (جنّت) میں عقلانی ہے، اور جو بھی اس میں داخل ہوجاتا ہے وہ اپنے باپ آدم کی شکل و صورت میں ہوتا ہے، اور آدم علیہ السّلام کو اللہ نے اپنی روحانی صورت پر پیدا کیا تھا۔ |
۲۹۷
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
۵۲۰
صُوۡرَۃ (۲) |
شکل، صورت: عالمِ شخصی میں کائنات بھر کے لوگ اور فرشتے آکر آدمِ زمان علیہ السّلام میں فنا ہوجاتے ہیں، اور اسی طرح وہ سب جنّت میں داخل ہوکر اپنے روحانی باپ آدمِ زمان کی شکل و صورت پر ہوتے ہیں، اور اس کا پُرحکمت اشارہ یہ ہے کہ یہاں ایک میں سب ہوتے ہیں، جس طرح پہلے تھے، یہی صورتِ رحمان کا سرِّ عظیم اور یک حقیقت (مونو ریالٹی) ہے۔ |
|
۵۲۱
صُوۡرَۃ (۳) |
شکل، صورت: حدیثِ قدسی ہے: اے بندۂ من! میری اطاعت کر تاکہ میں تجھ کو اپنی مثال (یعنی رحمانی صورت) پر کبھی نہ مرنے والا زندہ، کبھی ذلیل نہ ہونے والا معزّز، اور کبھی مفلس نہ ہونے والا غنی بنا دوں گا (دیکھئے: اطعنی، نیز کتاب زاد المسافرین، ص۱۸۳)۔ |
|
۵۲۲
صُوۡرَۃ (۴) |
شکل، صورت: سورۂ نساء (۰۴: ۱۲۵) میں ہے: اور اس شخص سے دین میں بہتر کون ہوگا جس نے اپنا (روحانی) چہرہ خدا کے سپرد کردیا ہو، اور وہ نیکوکار بھی ہو اور ابراہیمؑ کے طریقہ پر چلتا ہو جو باطل سے کترا کے چلتے تھے، اور خدا نے ابراہیمؑ کو تو اپنا خالص دوست بنا لیا۔ |
۲۹۸
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
یہ ہر ایسے عارف کی توصیف ہے جس کا چہرۂ جان صورتِ رحمان ہوچکا ہے۔ |
||
۵۲۳
صَوَّرۡنٰکُمۡ (۱) |
ھم نے تمھاری صورت بنا دی: اے نورِ عینِ من! خدا کے دوست آدمِ زمان علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں ہیں، کیونکہ وہ کلّ اور یہ سب اس کے اجزاء ہیں، اور ربِّ کریم کے اس احسانِ عظیم کا ذکر اس طرح ہے: اور ہم نے تم کو (روحانیّت میں) پیدا کیا پھر ہم نے تمہاری (رحمانی) صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے (سورۂ اعراف ۰۷: ۱۱)۔ |
|
۵۲۴
صَوَّرۡنٰکُمۡ (۲) |
ھم نے تمھاری صورت بنا دی: عالمِ ظاہر کے درجۂ اسفل میں جمادات ہیں، دوسرے درجے میں نباتات، تیسرے درجے میں حیوانات، اور چوتھے درجے میں انسان ہیں، یہ حقیقت سب پر روشن ہے کہ ان میں سے ہر درجے کے تحت بے شمار قسم کی مخلوقات پائی جاتی ہیں، چنانچہ عالمِ انسانیت کے بے حساب طبقات میں سے سب سے ارفع و اعلٰی طبقہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا ہے، جن کے عالمِ شخصی میں اسمائے حسنٰی کی معرفت |
۲۹۹
لفظ | معنی و حکمت “ص” | |
ہے، پس سورۂ حشر کی آخری آیت (۵۹: ۲۴) میں سب سے پہلے اسمِ اللہ ہے، پھر الخالق، پھر الباری، اور آخراً المصوّر ہے، جس کی تاویلی حکمت یہ ہے: اللہ وہی تو ہے جو انبیاء و اولیاء کو پہلے جسمانیّت میں پیدا کرتا ہے پھر روحانیّت میں، اور آخر میں عقلانیّت میں پیدا کرکے انہیں اپنی رحمانی صورت عطا فرماتا ہے۔ |
۳۰۰
بابُ الضّاد
|
۳۰۱
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۳۰۲
لفظ | معنی و حکمت “ض” | |
۵۲۵
ضَالَّۃُ (۱) |
کھوئی ہوئی چیز: کَلِمَۃُ الۡحِکۡمَۃِ ضَالَّۃُ الۡمُؤۡمِنِ۔ حکمت اور عقلمندی کی بات مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے (جہاں اس کو پائے اپنی کھوئی ہوئی چیز سمجھ کر فوراً لے لے یا ہمیشہ اس کی تلاش میں رہے)۔ لغات الحدیث، جلدِ دوم۔ |
|
۵۲۶
ضَالَّۃُ (۲) |
کھوئی ہوئی چیز: اس حدیثِ شریف میں ایک عظیم راز کی طرف اشارہ ہے، وہ یہ کہ کسی کی کھوئی ہوئی چیز وہ ہوتی ہے جو پہلے کبھی اس کی ملکیت میں رہی ہو، ہاں یہ سچ ہے کہ مومن جہاں بہشت اور انائے عُلوی میں ہے وہاں اس کے پاس حکمت کا بہت بڑا خزانہ ہے، اور جہاں دنیا اور انائے سفلی میں ہے وہاں اس کی حکمت کھو گئی ہے۔ |
|
۵۲۷
ضَرَبَ |
اُس نے بیان کیا: سورۂ ابراہیم میں ہے: اَلَمۡ تَرَ كَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے پاک کلمے کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے (وہ ایسا ہے) جیسے |
۳۰۳
لفظ | معنی و حکمت “ض” | |
پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں (۱۴: ۲۴)۔ پاکیزہ کلمہ وہ اسمِ اعظم ہے جو حضرتِ امامؑ سے کسی دیندار مرید کو مل جاتا ہے، اور پاکیزہ درخت خود امامِ عالیمقامؑ کی مبارک ہستی ہے، ان میں سے ایک شخصی اسمِ اعظم ہے اور دوسرا لفظی اسمِ اعظم، لیکن خدا کا بہت بڑا معجزہ یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں جاکر دونوں اسمِ اعظم ایک ہوجاتے ہیں، یعنی امام کلمۂ ناطق بن جاتا ہے اور کلمہ امامؑ کا مبارک نور۔ |
||
۵۲۸
ضِغۡث |
گھاس یا شاخوں کا مٹھا، جھاڑو: ذرّاتِ روح کی بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال ہے (۳۸: ۴۴) ترجمۂ ارشاد ہے: اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو، عقل گویا شوہر ہے اور نفس بیوی، پس اصلاحِ نفس کے لئے سزا بھی ہے اور موقع پر تخفیف بھی۔ |
|
۵۲۹
ضَفَادِعۡ |
مینڈک، واحد ضِفۡدِعۡ: پھر ہم نے ان (یعنی فرعون اور اس کی قوم) پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور چیچڑیاں اور مینڈک اور خون کہ یہ سب کُھلے کُھلے معجزے تھے (سورۂ اعراف۷، آیت۱۳۳)۔ (۰۷: ۱۳۳) |
۳۰۴
لفظ | معنی و حکمت “ض” | |
جو مومنین راہِ روحانیت اور سبیلِ معرفت پر چلتے ہیں، وہ یقیناً آپ کو بتا سکتے ہیں کہ عالمِ شخصی میں انبیاء علیہم السّلام کے تمام معجزات کا مشاہدہ ہوجاتا ہے، تاکہ ان کی تفصیلی معرفت حاصل ہو، انہوں نے ایسے بہت سے جانوروں کو ابداعی شکل میں دیکھا ہے۔ |
۳۰۵
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۳۰۶
بابُ الطّاء |
۳۰۷
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۳۰۸
لفظ | معنی و حکمت “ط” | |
۵۳۰
طِبُّ النّبی |
پیغمبرؐ کا طریقِ علاج: اسلامی فقہ کے علمی ذخیرے میں جہاں ذیلی کتابیں درج ہوتی ہیں، وہاں لازمًا کتابُ الطّب بھی ہوتی ہے، جس میں حضورِ اکرمؐ کی وہ پُرحکمت احادیث ہیں جو جسمانی، اخلاقی اور روحانی صحت کے بارےمیں ہیں۔ |
|
۵۳۱
طَبَقَ (۱) |
درجے، واحد طَبَقَۃ: لَتَرۡكَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍؕ۔ (۸۴: ۱۹) تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔ یہ آسمانوں/کائنات میں انسان کی سیاحت کا ذکر ہے، کیونکہ طبق مربوط ہے سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا کے ساتھ، دیکھو سورۂ ملک (۶۷: ۰۳) اور سورۂ نوح (۷۱: ۱۵) میں کہ سات آسمان سات بڑے طبقات ہیں، اگر سات زمینوں کو بھی شمار کرتے ہیں تو چودہ طبقات ہوتے ہیں (۶۵: ۱۲) اور ان کے ذیلی درجات بے شمار ہوسکتے ہیں۔ |
|
۵۳۲
طَبَقَ (۲) |
درجے، واحد طَبَقَۃ: عالمِ شخصی میں بھی ہفت آسمان اور ہفت زمین اور ان کے بہت سے ذیلی درجات ہیں، یعنی چھ ناطق اور حضرتِ قائم سات آسمان |
۳۰۹
لفظ | معنی و حکمت “ط” | |
ہیں، اور ان کے حُجَجۡ سات زمین ہیں، یہ سب معارج اور معراج (سیڑھیاں اور سیڑھی) ہیں تاکہ ہر عارف کو خداوندِ تعالٰی سے واصل کردیا جائے۔ |
||
۵۳۳
طَرِیٌّ |
تر و تازہ: سورۂ نحل (۱۶: ۱۴) اور سورۂ فاطر (۳۵: ۱۲) میں ترو تازہ گوشت کا ذکر آیا ہے، اور وہ مچھلی کا گوشت ہے، جس کی تأویل وہ ترو تازہ علم ہے جو حدودِ روحانی سے براہِ راست ملتا ہے، جبکہ گوسفند وغیرہ کے گوشت کی تأویل علم الیقین ہے، جو حدودِ جسمانی سے ملتا ہے، سمندر سے مچھلیوں کے علاوہ موتی بھی نکالے جاتے ہیں،جس کی تأویل ہے عارفین کی گوہرِ عقل تک رسائی۔ |
|
۵۳۴
طَعَام (۱) |
کھانا، خوراک، خوردنی: سورۂ بقرہ کے رکوعِ ہفتم (۰۲: ۶۱) میں ہے: وَ اِذۡ قُلۡتُمۡ یٰمُوۡسٰى لَنۡ نَّصۡبِرَ عَلٰى طَعَامٍ وَّاحِدٍ۔ یاد کرو جب تم نے کہا تھا کہ اے موسٰی! ہم ایک ہی طرح کے کھانے (منّ و سلوٰی) پر صبر نہیں کرسکتے۔ اس حکیمانہ حجاب کے پیچھے سرِّ اسرار یہ ہے کہ طعامِ واحد سے عقلِ کلّ |
۳۱۰
لفظ | معنی و حکمت “ط” | |
اور نفسِ کلّ کی تجلّی اور معرفت مراد ہے، کیونکہ منّ عقل کی مثال ہے، اور سلوٰی نفس کی دلیل ہے۔ |
||
۵۳۵
طَعَام (۲) |
عقل، جان، اور جسمِ لطیف کی غذا: طعامِ واحد کے عام و خاص دو معنی ہیں: (۱) ایک یا ایک قسم کا کھانا (۱) ایک ایسی انتہائی عظیم اور بیمثال باطنی نعمت جو تمام روحانی اور عقلی نعمتوں کا مجموعہ اور خزانہ ہے، کیونکہ واحد بروزنِ فاعل (طعامِ واحد) سب کی سب باطنی نعمتوں کو ایک اور یکجا کرنے کے معنی میں ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ جس اعلٰی مقام پر عقل و نفس کی تجلّی اور معرفت ہے، وہاں کسی شک کے بغیر خزانۂ خزائن مل سکتا ہے، اسی مقامِ عالی سے متعلق ترجمانی ہے: اݹمںسں اپݵ کوئی چیز ناممکن نہیں، یعنی کوئی نعمت ایسی نہیں جو حاصل نہ ہوسکے۔ |
|
۵۳۶
طَعَام (۳) |
ھر گونہ باطنی نعمت: ہر مناسب سوال باطنی بھوک کی دلیل ہے، اور ہر تسلّی بخش جواب بہشت کا طعام ہے، تو کیا یہ امر ممکن نہیں کہ امام علیہ السّلام کے علمی خزانے میں پہلے ہی سے کوئی ایسا عجیب و غریب جامع جواب مہیّا اور موجود ہو، جس سے ہر گونہ سوالات ٹکرا ٹکرا کر ختم ہوجائیں۔ |
۳۱۱
لفظ | معنی و حکمت “ط” | |
کیوں نہیں، ایسے معجزانہ جوابات بہت ہیں، وہ قرآنِ حکیم، حدیثِ شریف اور صاحبِ امر کے مدرسۂ روحانی میں ہیں، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ کوئی نعمت غیر ممکن نہیں۔ ÓOMANASAN APÍ |
||
۵۳۷
طَعَام (۴) |
ہر گونہ باطنی نعمت: طعامِ واحد کا ظاہری ترجمہ ہے: صرف ایک ہی قسم کا کھانا، لیکن اس کا تاویلی مفہوم ہے: کُلّ گونا گون باطنی نعمتوں کی لپیٹی ہوئی کائنات، جس میں تجلّیاتِ ربّانی و اسرارِ عرفانی کے انمول جواہر بھرے ہوئے ہیں، ان میں کلیدی علم و حکمت اور بے شمار سوالات کے لئے مختصر ترین اور انتہائی جامع جوابات موجود ہیں، مثال کے طور پر اݹ مُش او، یہ کلمۂ باری کا ایک روحانی ترجمہ ہے، اور آپ کو اس کے حکمتی عجائب و غرائب جان کر از بس حیرت ہوگی، ان شاء اللہ العزیز اس کے اسرار و رموز سے کبھی بحث کریں گے، آپ درختِ طوبٰی کو بھی پڑھ لیں۔ |
|
۵۳۸
طَلٌّ |
شبنم، اوس، پھوار، خفیف بارش: سورۂ بقرہ کی ایک حکمت آگین آیت (۰۲: ۲۶۵) کا ترجمہ ہے: اور جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اور خلوصِ نیت سے |
۳۱۲
لفظ | معنی و حکمت “ط” | |
اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو (جب) اس پر مینہ پڑے تو دگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار (یا شبنم) ہی سہی اور خدا تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے (۰۲: ۲۶۵)۔ ترقی یافتہ عالمِ شخصی ایک ایسے باغ کی طرح ہےجو اونچی جگہ پر واقع ہو، اس میں روحانی علم جو نمایان اور آواز کے ساتھ ہو وہ گویا موسلا دھار بارش ہے، اور اگر باطنی علم بغیر کسی آواز کے آتا ہے تو اس کی مثال پھوار (خفیف بارش) یا شبنم ہے۔ |
||
۵۳۹
طَلَبُ الۡعِلۡم (۱) |
طلبِ علم: حضرتِ سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا ارشاد ہے: طَلَبُ الۡعِلۡمِ فَرِیۡضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسۡلِمٍ وَ مُسۡلِمَۃٍ۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے مرد ہو یا عورت ہو۔ حصولِ علم کا حکم لفظ “طلب” کے ساتھ ہوا اس میں بہت بڑی حکمت ہے، اس میں زمان و مکان اور ظاہر و باطن کی طرف اشارہ ہے۔ |
|
۵۴۰
طَلَبُ الۡعِلۡم (۲) |
علم کو ڈھونڈنا، علم کی تلاش: اُطۡلُبُوا الۡعِلۡمَ وَ لَوۡ بِالصِّیۡنِ۔ تم علم کو ڈھونڈ لوخواہ (اس |
۳۱۳
لفظ | معنی و حکمت “ط” | |
کی خاطر) چین جانا پڑے۔ اس ارشادِ نبویؐ میں ممالکِ عالم میں سے ملکِ چین کا نام لیا گیا ہے جو خالی از حکمت نہیں۔ |
||
۵۴۱
طیّبٰت (۱) |
حلال و پاک چیزیں، پاک عورتیں، روحانی غزائیں، عقلی غذائیں: طیّبات کے چار معنی ہیں: (۱) ایسی چیزیں جو حلال بھی ہیں اور پاکیزہ بھی، جن کو قرآن نے حَلَالًا طَیِّبًا (۰۵: ۸۸) کا نام دیا، (۲) پاک عورتیں، جن کا ذکر سورۂ نور (۲۴: ۲۶) میں ہے (۳) روحانی غذائیں بصورتِ خوشبوئیں وغیرہ، جن کی ایک روشن مثال ریحِ یوسفؑ (۱۲: ۹۴) ہے (۴) عقلی غذا جس کی ایک قرآنی مثال منّ و سلوٰی (۰۲: ۵۷) ہے، جس میں عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ کے اسرارِ عظیم ہیں۔ پس سورۂ مومنون (۲۳: ۵۱) میں ارشاد ہے: اے رسولان! پاکیزہ چیزوں (روحانی اور عقلی غذاؤں) میں سے کھاؤ اور نیک کام کرو۔ ظاہر ہے کہ یہ نعمتیں انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے لئے خاص ہیں۔ |
|
۵۴۲
طیّبٰت (۲) |
پاکیزہ چیزیں، لطیف غذائیں، روحانی غذائیں: طَیِّبٰت کا لفظ قرآنِ کریم میں بیس دفعہ آیا ہے، اس میں تقریباً |
۳۱۴
لفظ | معنی و حکمت “ط” | |
دس مقامات پر طَیِّبٰت روحانی غذاؤں کے معنی میں آیا ہے، اور وہ روحانی خوشبوئیں ہیں، ایسی آیاتِ کریمہ کی ایک مثال یہ ہے: یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعۡمَلُوۡا صَالِحًاؕ۔ اے پیغمبرو! تم پاکیزہ چیزیں (روحانی غذائیں) کھاؤ اور نیک کام کرو (۲۳: ۵۱)۔ |
||
۵۴۳
طیّبٰت (۳) |
روحانی خوشبوئیں: جن باسعادت مومنین کو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی پُرنور معرفت حاصل ہوئی ہو وہ بتا سکتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی جانب سے طَیِّبٰت یعنی خوشبوؤں کا معجزہ حق ہے، مقامِ روح پر یہ منّ و سلوٰی کی پاکیزہ نعمت بھی ہے اور مائدۂ عیسٰیؑ بھی، قرآنِ حکیم کثیر مقامات پر ثمرات کا ذکر فرماتا ہے جن سے ذرّات لطیف اور خوشبوئیں مراد ہیں۔ |
|
۵۴۴
طیّبٰت (۴) |
روحانی خوشبوئیں: حضرتِ سیّد الانبیاء و المرسلینؐ ظاہری خوشبو کو بھی پسند فرماتے تھے، یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ روحانیّت اور جنّت میں تمام دوسری نعمتوں کے ساتھ ساتھ خوشبوؤں کی نعمت بھی ہے، جاننا چاہیے کہ پھلوں، پھولوں، درختوں اور جڑی بوٹیوں کی مختلف خوشبوئیں خالی از حکمت ہرگز نہیں۔ |
۳۱۵
لفظ | معنی و حکمت “ط” | |
۵۴۵
طیّبٰت (۵) |
لطیف غذا کے لئے روحانی خوشبوئیں: پیراہنِ یوسف کو حضرتِ یعقوبؑ کے چہرے پر حواسِ باطن کی بحالی کی غرض سے ڈالا گیا (۱۲: ۹۳) اس میں قمیص صرف مثال ہے، اور ممثول میں بہت کچھ ہے، منجملہ خوشبو بھی ہے اور وہ ہے ہر قسم کی، کیونکہ قرآن کی ایک چیز میں بہت سی برکتیں ہوا کرتی ہیں، میں نے روحانی خوشبوؤں پر پہلے بھی لکھا ہے، آپ میری تمام تحریروں کا مطالعہ کریں۔ |
۳۱۶
بابُ الظّاء
|
۳۱۷
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۳۱۸
لفظ | معنی و حکمت “ظ” | |
۵۴۶
ظاھر (۱) |
آشکار: سورۂ حدید (۵۷: ۰۳) میں جیسا ارشاد ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نورِ اقدس کے بارے میں ہے، قولہ تعالٰی: هُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الۡبَاطِنُ- وَ هُوَ بِكُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ۔ وہ (خدا کا نور) سب سے اوّل ہے اور سب سے آخر ہے اور سب سے ظاہر ہے اور سب سے باطن ہے، اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ |
|
۵۴۷
ظاھر (۲) |
آشکار: آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) میں مثالی بیان اسمِ “اللہ” سے شروع ہوتا ہے جس سے یوں لگتا ہے کہ یہ عالیشان مثال ذاتِ سبحان کے بارے میں ہے، لیکن جب کوئی صاحب بصیرت عالِم اسی آیۂ کریمہ میں مَثَلُ نُوۡرِہٖ (اس کے نور کی مثال) پر آکر سوچتا ہے تو اس کو یقین آتا ہے کہ یہ انتہائی خوبصورت مثال نورِ الٰہی سے متعلق ہے، اور آگے چل کر نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ سے اس حقیقت کی تصدیق ہوجاتی ہے، اور یَھۡدِی اللہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَاءُ کے مبارک الفاظ سے یہ حقیقت مزید درخشان ہوجاتی ہے، پس اوّل، آخر، ظاہر اور باطن نور کے اسماء میں سے ہیں۔ |
۳۱۹
لفظ | معنی و حکمت “ظ” | |
۵۴۸
ظاھر (۳) |
آشکار، عیان: نور کی بڑی عمدہ مثال سورج ہے جو نہ صرف خود ظاہر ہے بلکہ ان تمام چیزوں کو بھی ظاہر کردیتا ہے جن کو رات کی تاریکی چھپا لیتی ہے، مادّی سورج سے دائرۂ نظامِ شمسی اور سیّارۂ زمین کو کیا کیا اور کتنے فائدے حاصل ہیں، اس کی تحقیق (ریسرچ) کرنے کے لئے صدیوں کا زمانہ بھی کم ہے، تو پھر عالمِ دین کے سورج (امامؑ) کے فیوض و برکات کا شمار یا اندازہ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے۔ |
|
۵۴۹
ظاھر (۴) |
ظاہر، آشکار: خداوندِ عالم کا پاک نور ہمشہ دنیا میں ظاہر ہے، اگر ظاہر اور حیّ و حاضر نہ ہوتا، غائب و نادیدنی ہوتا تو منکرین اس کو بجھانے کے لئے کوشش ہی نہ کرتے (۶۱: ۰۸) کیونکہ کوئی غیر ظاہر چیز مٹانے کا ارادہ محال ہے۔ |
|
۵۵۰
ظِلّ (۱) |
سایہ، جمع ظِلال: سورۂ واقعہ (۵۶: ۳۰) میں اصحاب الیمین کی بہشتی نعمتوں کا تذکرہ ہے: وَ ظِلٍّ مَّمۡدُوۡدٍ۔ اور (ان کے لئے) کھینچا ہوا سایہ ہوگا۔ سوال: یہ کھینچا ہوا سایہ کیا ہے؟ جواب: یہ وسیع سایہ اس طرح |
۳۲۰
لفظ | معنی و حکمت “ظ” | |
سے ہے کہ امرِ کُلّ کا سایہ عقلِ کلّ ہے، عالمِ عقل کا سایہ عالمِ روح ہے، اس کا سایہ عالمِ جسمِ لطیف اور جسمِ کثیف ہے، پس ظِلِّ ممدود سے کائناتِ ظاہر و باطن کی کلّیت مراد ہے، اس سے یہ معلوم ہوا کہ اہلِ دنیا پر بھی بہشت والوں کی سلطنت ہوگی۔ |
||
۵۵۱
ظِلّ (۲) |
سایہ: سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں دیکھ لیں: (اے رسولؐ) کیا تم نے اپنے ربّ کو نہیں دیکھا کہ کیسا پھیلایا سایہ اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرایا ہوا کر دیتا، پھر ہم نے اس پر سورج کو رہنما بنا دیا، پھر ہم نے اسے بہ آسانی اپنی مٹھی میں لے لیا۔ اس پُرحکمت ارشاد میں یہ اشارہ ہے کہ معراج کی رات سیّد الۡانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو نہ صرف اللہ جلّ شانہٗ کا پاک دیدار ہوا بلکہ ساتھ ہی ساتھ آپؐ نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ خدا ارض و سما کی کائنات کو کیوں کر پھیلاتا ہے اور کس طرح بہ آسانی لپیٹ کر اپنی مٹھی میں لیتا ہے۔ |
|
۵۵۲
ظِلّ (۳) |
سایہ: خداوندِ قدّوس نے امرِ کلّ (کلمۂ کُن) سے عقلِ کلّ پیدا کیا تو عقل گویا |
۳۲۱
لفظ | معنی و حکمت “ظ” | |
سایۂ امر ہے، عقلِ کلّ سے نفس کلّ پیدا کیا، اس لئے نفس سایہ ہے عقل کا، اور نفسِ کلّی سے جسمِ کلّی (لطیف و کثیف) پیدا کیا، پھر جسمِ کلّ سایۂ نفسِ کلّ ہے، پس لفظ ظِلّ میں جملہ نعمت ہائے ظاہری و باطنی کا ذکر آگیا۔ |
||
۵۵۳
ظِلال (۱) |
سائے: اللہ تعالٰی نے عالمِ دین کی تمام مقدّس چیزوں کے سائے عالمِ شخصی میں بنا دیئے، خصوصاً عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق، اور اساس، نیز جدّ، فتح، خیال، امام، حجّت، اور داعی (۱۶: ۸۱؛ ۲۵: ۴۵)۔ |
|
۵۵۴
ظِلال (۲) |
سائے: ارشادِ باری تعالٰی کا ترجمہ ہے: اور اللہ نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے تمہارے لئے سائے بنا دیئے (۱۶: ۸۱) اس میں ایک اشارۂ حکمت یہ بھی ہے کہ انسان ہمیشہ عالمِ بالا میں ہے، اور اس کا سایہ عالم سفلی میں بھیجا گیا ہے، اس دلیل سے ہر شخص کی دو انائیں (انائے عُلوی اور انائے سفلی) درست اور حقیقت ہیں۔ |
۳۲۲
لفظ | معنی و حکمت “ظ” | |
۵۵۵
ظِلَالًا |
سائے: اور خدا ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے (۱۶: ۸۱) تمام چیزوں کے حسین و جمیل روحانی اور عقلانی سائے عالمِ شخصی میں ہیں۔ |
|
۵۵۶
ظِلَالَہٗ |
اُس کا سایہ: یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ الشَّمَآىٕلِ۔ ہر مخلوق کا سایہ کبھی داہنی طرف اور کبھی بائیں طرف پلٹا کرتا ہے کہ (گویا) خدا کے سامنے سربسجود ہیں (۱۶: ۴۸) داہنی طرف کا سایہ وجود کثیف ہے اور بائیں طرف کا سایہ وجودِ لطیف یا باطن ہے۔ |
|
۵۵۷
ظُلُمٰت |
تاریکیاں: سورۂ زمر (۳۹: ۰۶) میں ارشاد ہے: یَخۡلُقُكُمۡ فِیۡ بُطُوۡنِ اُمَّهٰتِكُمۡ خَلۡقًا مِّنۢۡ بَعۡدِ خَلۡقٍ فِیۡ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍؕ۔ تم کو ماؤں کے پیٹ میں ایک تخلیق کے بعد دوسری تخلیق میں پیدا کرتا ہے تین تاریکیوں میں۔ سوال: یہ تین تاریکیاں کیا ہیں؟ جواب: جسمانی تاریکی، روحانی تاریکی اور عقلانی تاریکی، اس سے معلوم ہوا کہ روشنی بھی تین قسم کی ہوا کرتی ہے: مادّی روشنی، روحانی روشنی، |
۳۲۳
لفظ | معنی و حکمت “ظ” | |
اور عقلانی روشنی۔ |
||
۵۵۸
ظَلُوۡم |
بڑا ظالم/بہت تاریک: سورۂ احزاب (۳۳: ۷۲) میں ہے: ہم نے اپنی امانت (اختیار اور ذمہ داریٔ معرفت) کو سارے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس کے (بار) اٹھانے سے انکار کیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ بڑا ظالم (اور) نادان ہے۔ یا یہ کہ وہ بڑا تاریک (ظَلوم) اور نادان تھا، اس لئے اس کو نور اور عقل کی ضرورت تھی، اور وہ اس بارِ امانت کے اٹھانے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ |
|
۵۵۹
ظَنّ |
گمان: حُسنِ ظَنّ (نیک گمان) حلال ہے، اور سُوءِ ظَنّ (بُرا گمان) حرام، سورۂ حُجرات (۴۹: ۱۲) میں ہے: اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعضے گمان گناہ ہوتے ہیں۔ |
۳۲۴
بابُ العین
|
۳۲۵
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۳۲۶
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
۵۶۰
عادِیَات |
تیز دوڑنے والیاں: وَ الۡعَادِیَاتِ ضَبۡحًا۔ قسم ہے اُن (گھوڑوں) کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑتے ہیں (۱۰۰: ۰۱) بظاہر یہ غازیوں کے گھوڑے ہیں، بباطن ذکرِ تنفّس، ذکرِ سریع اور نفخِ صور کے ساتھ ذکر کرنے والے فرشتے ہیں۔ |
|
۵۶۱
عارف |
خدا شناس: اَلۡعَارِفُ کَالۡبَحۡرِ۔ اللہ کا پہچاننے والا دریا کی طرح ہے (لغات الحدیث) سب سے پہلے علم کے معنی میں۔ |
|
۵۶۲
عالَمین (۱) |
سب جہان: حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ عالمین سے صرف انسان ہی مراد ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک فرد اپنی جگہ ایک مستقل عالم ہے (قاموس القرآن۳۴۴)۔ |
|
۵۶۳
عالَمین (۲) |
عالم کی جمع: عوالمِ شخصی، یعنی ہر انسان ایک عالم ہے، جس میں کائناتِ ظاہر لپیٹ دی جانے والی ہے، لفظِ عالمین قرآن میں ۷۳ بار آیا ہے۔ |
۳۲۷
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
۵۶۴
عالَمین (۳) |
عوالم: ہر شخص ایک جہان ہے، اس لئے تمام لوگوں کا نام عالمین ہوا، خدائے بزرگ و برتر کے اسمائے صفاتی کا تعلق انہی عالموں سے ہے۔ |
|
۵۶۵
عائشہ |
حضرتِ عائشہؓ: علّامہ ابنِ القیم لکھتے ہیں: حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا، معاویہ، اور حسنِ بصری سے روایت ہے کہ اَسرٰی (معراج آنحضرتؐ کی) روحِ مبارک کو ہوا تھا، اور جسمِ مبارک اپنی جگہ سے مفقود نہیں ہوا تھا۔ (بحوالۂ کتاب رحمۃً للعالمین، جلد اوّل، فُٹ نوٹ، ص۶۵)۔ عبد اللہ ابن عباس کا بھی قرآن (۱۷: ۶۰) کے حوالے سے یہی قول ہے (مُسنَد احمد بن حنبل، جزء الاوّل، ص۳۶۵)۔ |
|
۵۶۶
عَجَل (۱) |
جلدی: یہ ارشادِ مبارک سورۂ انبیاء میں ہے: خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍؕ- سَاُورِیۡكُمۡ اٰیٰتِیۡ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡنِ (۲۱: ۳۷) انسان جلدی سے پیدا کیا گیا ہے، عنقریب میں تم کو اپنی نشانیاں دکھلاؤں گا، پس تم مجھ سے جلدی کی خواہش نہ کرو۔ مومنِ سالک کی روحانی روشنی اور ترقی شروع شروع میں ذکرِ سریع |
۳۲۸
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
کی سرعت اور شدید ریاضت سے ہوتی رہتی ہے، لیکن جب قیامتِ صغرٰی اور ظہورِ آیات (معجزات) کا آغاز ہوتا ہے تو پھر بہت سے ذرائع و اسباب خود بولتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ |
||
۵۶۷
عَجَل (۲) |
جلدی: زمانۂ دنیا گزرتا جا رہا ہےاس لئے اس میں جلدی سے نیک کاموں کو انجام دینے کی ضرورت ہے، جیسے قرآنِ پاک کا حکم ہے: و سارِعوا۔ اور دوڑو (۰۳: ۱۳۳) سابقوا۔ آگے بڑھو، سبقت کرو (۵۷: ۲۱) ففِرّوا الی اللہ۔ تو اللہ کی طرف بھاگو (۵۱: ۵۰) اس کے برعکس زمانۂ آخرت ٹھہرا ہوا ہے وہ کبھی گزرتا نہیں۔ |
|
۵۶۸
عَرۡشُہٗ (۱) |
اس کا تخت: سورۂ ھود (۱۱: ۷) کی اس ربّانی تعلیم کو خوب غور سے دیکھ لیں: اور وہ تو وہی (قادرِ مطلق) ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس کے عرش کا (تمثیلی) ظہور پانی پر ہوگیا تاکہ تم لوگوں کو آزمائے کہ تم میں زیادہ اچھی کار گزاری والا کون ہے۔ وکان عرشہ: اور اس کا عرش تھا/ ہوگیا/ ہے، چونکہ اصل اور بامقصد قصّہ عالمِ دین کا ہے، جس کا عارفانہ مشاہدہ عالمِ شخصی |
۳۲۹
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
ہی میں ہوتا رہتا ہے، پس نورانی خواب میں عارفین یہ دیکھتے ہیں کہ سمندر پر ایک کشتی نما تخت اور اس پر نور کی تجلّی ہے، یہ صاحبِ عرش کا تمثیلی ظہور اور اِشارہ ہے اس امر کی طرف کہ اب عالم شخصی مکمل ہوکر مرحلۂ علم و معرفت میں داخل ہوچکا ہے۔ |
||
۵۶۹
عَرۡشُہٗ (۲) |
اس کا تخت: خدائے احد و صمد کے تخت کا پانی (سمندر) پر ہونا عالمِ شخصی کی چوٹی کی مثالوں میں سے ہے، جس کا ذکر ہوچکا اور یقیناً یہی تخت فُلکِ مشحون (بھری ہوئی کشتی ۳۶: ۴۱) بھی ہے اور اس کا نام جَارِیَۃ (کشتی ۶۹: ۱۱) بھی ہے یعنی سفینۂ نجات۔ |
|
۵۷۰
عَرۡشُہٗ (۳) |
اس کا تخت: سورۂ حاقّہ میں فرمایا گیا ہے: اِنَّا لَمَّا طَغَا الۡمَآءُ حَمَلۡنٰكُمۡ فِی الۡجَارِیَةِۙ۔ جب پانی چڑھنے لگا تو ہم نے تم کو کشتی پر سوار کیا (۶۹: ۱۱) یعنی جب تمہارے زمانے میں قیامت صغرٰی کا طوفان ہونے لگا تو ہم نے تم کو کشتیٔ اہل بیتؑ میں سوار کر لیا، یہ سفینۂ نجات بحرِ علم کا عرش بھی ہے، اور صاحبِ عرش وہ ذاتِ عالی صفات ہے، جس میں کشتی والوں کو فنا ہوکر ابدی طور پر زندہ ہوجانا ہے، یہی |
۳۳۰
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
سبب ہے کہ بھری ہوئی کشتی میں سوائے وجہ اللہ کےاور کوئی نظر ہی نہیں آتا کیونکہ سب کے سب اسی میں فنا اور واصل ہوچکے ہیں۔ |
||
۵۷۱
عَرۡشُہٗ (۴) |
اس کا تخت: سورۂ رحمان میں صرف عظیم نعمتوں ہی کا ذکر ہے، منجملہ ہر عالمِ شخصی کے سمندر میں ایک بے مثال کشتی کا ہونا بہت بڑی نعمت ہے (۵۵: ۲۴) جو وہی پانی پر عرشِ الٰہی بھی ہے (۱۱: ۰۷) یہ وہی بھری ہوئی کشتی ہے (۳۶: ۴۱) جس کے تمام سوار “وجہ اللہ” میں فنا ہوجاتے ہیں (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) یاد رہے کہ وجہ اللہ سے امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام مراد ہے، قال الصّادق علیہ السّلام: نحن وجہ اللہ۔ امام جعفر الصّادقؑ نے فرمایا کہ ہم أئمّہ چہرۂ خدا ہیں (المیزان، ۱۹، ص۱۰۳)۔ |
|
۵۷۲
عَرَّفَ (۱) |
اُس نے پہچنوا دیا، شناسا کردیا، شناخت کرا دی: اے عزیزانِ من! خوب غور اور احساسِ ذمّہ داری سے سُن لو کہ قرآنِ حکیم میں جس طرح معرفت کا مضمون آیا ہے اس کا گہرا مطالعہ |
۳۳۱
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
بیحد ضروری ہے، اس سلسلے میں ایک زبردست کلیدی حکمت سورۂ محمّد میں یہ ہے کہ شہیدانِ باطن کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ بہشت کے عارف یہی لوگ ہیں (۴۷: ۰۴ تا ۰۶)۔ |
||
۵۷۳
عَرَّفَ (۲) |
خدا نے ان کو بہشت کی معرفت عطا کر دی: باطنی شہادت اور بہشت کی معرفت کا مربوط مضمون یہ ہے: اور جو لوگ خدا کی راہ میں (بباطن) شہید کئے گئے ان کے اعمال کو خدا ہرگز ضائع نہ کرے گا، انہیں عنقریب منزلِ مقصود تک پہنچائے گا اور اُن کی حالت سنوار دے گا، اور اُن کو اس بہشت میں داخل کرے گا جس کا انہیں (پہلے سے) شِناسا کر رکھا ہے (۴۷: ۰۴ تا ۰۶)۔ |
|
۵۷۴
عَرَّفَ (۳) |
ہر چیز کی معرفت: کیا یہ ممکن ہے کہ خدا، رسولؐ، امامؑ، اور اپنے آپ کی معرفت کے بغیر کوئی شخص بہشت کا عارف ہوجائے؟ نہیں ہرگز نہیں، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشت عالمِ معرفت ہے، جس سے کوئی معرفت باہرنہیں لہٰذا جو جنّت کے عارف ہیں وہ ہر چیز کے عارف ہیں۔ |
۳۳۲
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
۵۷۵
عٓسٓقَ (۱) |
عشق: عشقِ الہٰی عظیم اسرار میں سے ہے، لہٰذا اس کا ذکر اسی طرح صیغۂ راز اور حجاب میں آیا، یقیناً حروفِ مقطّعات ایسے ہی چھپے ہوئے بھیدوں کے حامل ہیں، نیز ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ قرآن حکیم میں جہاں کہیں بھی “کَذَالِک” کا اشارہ آیا ہے وہاں کوئی بڑی حکمت پنہان موجود ہوتی ہے، اور اس حقیقت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، جیسا کہ ارشادِ نبیؐ ہے: نزل القرآنُ علٰی سبعۃِ اَحۡرُفٍ۔ (الاتقان، حصّۂ اوّل، سولہویں نوع (۱۶) قرآن اتارے جانے کی کیفیت، مسئلۂ سوم)۔ |
|
۵۷۶
عشق (۲) |
عشقِ الٰہی: شاید کوئی شخص یہ خیال کرے کہ قرآنِ عظیم میں لفظ عشق موجود نہیں، میں کہتا ہوں کہ یہ لفظ جیسا کہ آپ نے دیکھا قرآن میں ہے، اس کے کئی مترادفات بھی ہیں، اور بہت سی مثالوں میں بھی یہی ممثول ہے، مترادفات یہ ہیں: محبّت، مؤدّت، ولایت، خُلّت، شَغَف، اُنسیّت، رحمت وغیرہ۔ |
۳۳۳
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
۵۷۷
عشق (۳) |
آسمانی عشق: خدا، رسولؐ اور امامؑ کا پاک عشق فردوسِ برین کی وہ بیمثال شراب ہے، جس کی لذّت و شادمانی کی تعریف کے لئے الفاظ نہیں، کیونکہ وہ خمرِ عشق بھی ہے اور نورِ عقل بھی، ہم اس حقیقت کی دلیل پیش کریں گے کہ شرابِ جنّت یعنی حقیقی عشق میں کیوں کر عقل اور علم ہوسکتا ہے۔ |
|
۵۷۸
عشق (۴) |
عشق و عقل: ارشاد ہے: ان کو سر بمہر خالص شراب (رحیقِ مختوم) پلائی جائے گی، جس کی مُہر مُشک کی ہوگی، اور اس کی طرف البتہ شائقین کو رغبت کرنی چاہیے، اور اس (شراب) میں آبِ تسنیم کی آمیزش ہوگی، وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے مقربین پیتے ہیں (۸۳: ۲۵ تا ۲۸) پس شرابِ خالص میں آبِ تسنیم کی آمیزش کی یہ تأویل ہوئی کہ عشقِ حقیقی عقل اور علم کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ |
|
۵۷۹
عشق (۵) |
خدا، رسولؐ اور امامؑ کا عشق: اے نورِ عینِ من! قرآنِ حکیم (۰۲: ۱۶۵) کے ان مبارک کلمات میں غور سے دیکھو: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (اور جو مومنین ہیں اُن کو خدا کے ساتھ نہایت قوی محبّت ہے) اس باب میں قرآنِ |
۳۳۴
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
کریم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ کی پاک محبّت بلا واسطہ ممکن ہی نہیں، یہ رسولِ اکرمؐ کے توسط سے کسی کو حاصل ہوسکتی ہے (۰۳: ۳۱) اور آنحضرتؐ کی اصل محبّت بہ اشارۂ احادیثِ صحیحہ أئمّۂ اہل بیت کے وسیلے سے ممکن ہے، پس ہمارے نزدیک “اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ” میں خدا، رسولؐ اور امامؑ کی دوستی، محبّت اور عشق کا ذکر ہے جو اہلِ ایمان کو حاصل ہوتا ہے۔ |
||
۵۸۰
عشق (۶) |
آسمانی عشق، یعنی خدا، رسولؐ اور امامِ زمانؑ کا عشق: اے برادران و خواہرانِ روحانی! آپ سب کو نورِ واحد کا پاک عشق مبارک ہو، آپ علم، عبادت، عاجزی، مناجات، خدمات، اچھی عادات اور نور کے عشق سے اتنی ترقی کریں کہ حجاب اُٹھ جائے اور نورانی دیدار ہو، اور رفتہ رفتہ فنائے اوّل، دوم، سوم آجائیں، پھر آپ علم ومعرفت کی لازوال دولت سے مالامال ہوجائیں گے۔ |
|
۵۸۱
عشق (۷) |
ںوراںی محبّت: حدیثِ قدسی ہے: مَنۡ اَحَبَّنِیۡ قَتَلۡتُہُ وَ مَنۡ قَتَلۡتُہُ فَاَنَادِیَتُہُ۔ جس نے مجھ سے محبّت کی میں نے اس کو قتل |
۳۳۵
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
کیا اور جس کو میں نے قتل کیا تو میں خود اس کی خونبہا (خون کی قیمت) ہوں۔ (احادیثِ مثنوی، فارسی، ص۱۳۴) عاشقِ جانباز کے لئے اس سے بڑا کوئی انعام نہیں، اور عشقِ الٰہی سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں، یہ نفسانی موت کی سب سے اعلٰی تعبیر ہے۔ |
||
۵۸۲
عشق (۸) |
خدا کا عشق: حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ نے بڑی عمدگی سے عشقِ الٰہی کی تعلیم دی ہے، جی چاہتا ہے کہ ہر ایسے فرمانِ عالی کو محفلِ عشّاق میں بار بار پڑھتے رہیں، اور گریہ کنان دریائے عشق میں ڈوب جائیں، اے کاش ہم عشقِ سماوی کے قابل ہوتے! کاش ہم عشق کے معجزات کو سمجھ سکتے! لیکن ہم مایوس نہیں اور نہ ہی محروم ہیں۔ |
|
۵۸۳
عشق (۹) |
آسمانی عشق: جس مقدّس اور پُرحکمت تعلیم سے مومنین و مومنات کی روح الایمان میں عالمِ علوی کی طرف پرواز کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے، وہ بابرکت تعلیم صرف امامِ عالیمقامؑ ہی کے پاس ہے، لہٰذا اے عزیزان! آپ سب فرمانِ اقدس کی جملہ کتابوں اور ساری تحریروں کو عشق و |
۳۳۶
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
محبّت سے پڑھا کریں، خصوصاً آسمانی عشق سے متعلق ہدایاتِ عالیہ کو مل کر عشق سے پڑھیں تاکہ برکت حاصل ہو۔ |
||
۵۸۴
عشق (۱۰) |
آسمانی عشق: “آسمانی عشق” میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری اصطلاح ہے، اس کو عموماً حقیقی عشق کہا جاتا ہے، آسمانی عشق سے مراد خدا، رسولِ پاکؐ اور أئمّۂ ہدٰی کا عشق ہے، جس کا بیان و برہان آسمانی کتاب (قرآن) میں موجود ہے اور یہ (آسمانی عشق) بڑا عالیشان اشارہ ہے، دین ہو یا دنیا اس میں لوگ عام بھی ہوتے ہیں اور خاص بھی، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صرف عوام ہی کا وجود ہو اور خواص نہ ہوں، پس آسمانی عشق خاصانِ الٰہی کے لئے ہے، اور یہ بات غیر ممکن بھی نہیں کہ کوئی آدمی ترقی کرکے عام سے خاص ہوجائے۔ |
|
۵۸۵
عشق (۱۱) |
آسمانی عشق: انسان پر لازم ہے کہ خداوندِ تعالٰی کا عشق دل میں رکھے، انسان دنیا کے عشق میں کتنا مدہوش رہتا ہے اور کتنی زحمت اور بے قراری محسوس کرتا ہے، اس سے ہزار درجے زیادہ خدا کا عشق رکھنا چاہیے۔ خداوند کریم کا نور آپ کے دل میں بس رہا ہے، اُس نور کو محبّت |
۳۳۷
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
کے ذریعے روز بروز بڑھاتے جائیں (حضرتِ امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ)۔ |
||
۵۸۶
عَصًا (۱) |
لاٹھی، عصا: عصائے موسٰیؑ کا ذکر قرآنِ حکیم کے دس مقامات پر موجود ہے، اُن میں سے ایک اس طرح ہے: اور جب موسٰی نے اپنی قوم کے لئے (خدا سے) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتّھر پر مارو (انہوں نے لاٹھی ماری) تو پھر اُس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے (۰۲: ۶۰) عصا= اسمِ اعظم اور معجزۂ نبوّت، حجرِ مکرّم= اساس (حضرتِ ہارونؑ)، بارہ چشمے= اساس کے بارہ حجّت جو آبِ علم کے سرچشمے تھے، پتھر پر لاٹھی مارنا= اسمِ اعظم اور نورِ نبوّت کو اساس پر استعمال کرنا۔ |
|
۵۸۷
عَصًا (۲) |
لاٹھی، عصا، اسمِ اعظم: سورۂ شعرآء (۲۶: ۶۳) میں ارشاد ہے: فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰى مُوۡسٰۤى اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاكَ الۡبَحۡرَؕ۔ پس ہم نے موسٰی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی دریا پر مارو (تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا کہ گویا بڑا پہاڑ ہے)۔ جب حضرتِ موسٰی علیہ السّلام نے خدا کے حکم سے اسمِ اعظم اور |
۳۳۸
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
معجزۂ نبوّت کو دریائے روحانیّت پر استعمال کیا تو اس کے آرپار بنی اسرائیل کے لئے راہِ سلامتی پیدا ہوگئی، مگر فرعون اور اس کے لوگ اس دریا میں غرق ہوگئے۔ |
||
۵۸۸
عَصًا (۳) |
اسمِ اعظم کی لاٹھی: جب عصائے اسمِ اکبر حضرتِ موسٰی کی گرفت میں ہوتا (یعنی سلسلۂ ذکر جاری رہتا) تو علم و عبادت کے فیوض و برکات کا یہ عالم ہوتا تھا، اور جب جب ذکر کا عصا ہاتھ سے چھوڑ دیا جاتا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر ہر باطل چیز کو نگل لیتا تھا، اس کے یہ معنی ہوئے کہ کارِ بزرگ (بڑا کام) میں بدرجۂ اعلٰی علم و عبادت بھی ہے اور روحانی جہاد بھی۔ |
|
۵۸۹
عَصَاہُ |
اس کی لاٹھی: یعنی حضرتِ موسٰی کی لاٹھی، جس کی تأویل روحانیت میں اسمِ اعظم اور عقلانیت میں مظاہرۂ عقل ہے، علمِ حقیقی کا اژدھا جس کے سامنے اہلِ باطل کی غلط باتیں اور دلیلیں ذرا بھی ٹھہر نہیں سکتی ہیں (۲۶: ۴۵)۔ |
|
۵۹۰
عَصۡر (۱) |
زمانہ: سورۂ عَصۡر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳) عجائب و غرائبِ حکمت سے مملو ہے، لہٰذا اس |
۳۳۹
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
سے بیش از بیش فائدہ حاصل کرنے کی خاطر کچھ تعلیمی سوالات بناتے ہیں: سوال (۱): عصر کا تقدّس کیا ہے کہ خدا اس کی قسم کھاتا ہے؟ (۲) انسان سے یہاں کونسے لوگ مراد ہیں؟ وہ کس قسم کے خسارے میں ہیں؟ (۳) دنیا میں ایک استاد ہوتا ہے اور دوسرا شاگرد، لیکن یہاں ایک دوسرے کو وصیت کرنے کا ذکر ہے، اس میں کیا راز ہے؟ (۴) حق سے کیا مراد ہے اور صبر کے کیا معنی ہیں؟ |
||
۵۹۱
عَصۡر (۲) |
زمانہ (صاحبِ عصر): (۱) جواب: خداوندِ عالم کبھی کسی عام چیز کی قسم نہیں کھاتا، عصر سے صاحبِ عصر (امامِ زمان) مراد ہے، خداوند تعالٰی نے اسی کی قسم کھائی ہے (۲) جواب: یہاں لفظ انسان سارے لوگوں کے لئے آیا ہے، پھر کچھ لوگ خسارہ کے بیان سے مستثنا ہیں، اور اکثریت کے خسارے میں ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صاحب عصر کو نہیں پہچانا، ورنہ سارا زمانہ باطنی طور پر ان کا ہوجاتا۔ (۳) جواب: دین فطرت (اسلام) کی ہر حکمت دائرہ نما ہوا کرتی ہے، چنانچہ اگر کوئی کامیاب معلّم اپنے عزیز شاگردوں کو حقیقی علم سکھاتا ہے تو خدا اس کے شاگردوں کی روحوں سے اس کی مدد فرماتا ہے، یہ ہوا باہم وصیت کرنا (۴) حق سے دین کی وہ سچائی مراد ہے جس |
۳۴۰
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
کے بارے میں آنحضرتؐ نے دعا کی تھی کہ حق علیؑ کے ساتھ رہے، اور صبر راہِ روحانیت میں ثابت قدم رہنے کا نام ہے۔ |
||
۵۹۲
عَصۡر (۳) |
صاحبِ عصر: قسم ہے (صاحبِ) عصر کی کہ انسان بڑے خسارہ میں ہے (کیونکہ وہ صاحبِ عصر کو نہیں پہچانتا ہے) مگر جو لوگ (بحقیقت) ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی فہمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی فہمائش کرتے رہے (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳)۔ |
|
۵۹۳
عِصِیّ |
لاٹھیاں:
فرعون کے جادوگروں کی لاٹھیاں، یعنی دلائل، چونکہ دلیل کا سہارا لیا جاتا ہے اس لئے اس کی تمثیل لاٹھی سے دی گئی ہے (۲۰: ۶۶)۔ |
|
۵۹۴
عَقِب (۱) |
اولاد، نسل: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے کہ وہ اس (علمِ توحید) کو اپنی اولاد میں بھی ایک قائم رہنے والی بات کر گئے تاکہ ہر زمانہ میں لوگ رجوع کریں (۴۳: ۲۸)۔ سوال: حضرتِ امامؑ اور اس کے وارث اور مریدوں کے درمیان ربطِ روحانیت کا پُل کس طرح بنایا جاتا |
۳۴۱
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
ہے؟ جواب: چار بیمثال چیزوں سے، وہ یہ ہیں: امامؑ کی محبّت، خاص دعا، خصوصی تعلیم، اور عطائے اسمِ اعظم سے، یہ چیزیں گویا اور روحانی تعمیر کے چار عناصر ہیں۔ |
||
۵۹۵
عَقِب (۲) |
اولاد، نسل: آیۂ عقب کی حکمت کو سمجھنے کے لئے کم سے کم چار مزید آیات میں بھی غور کرکے دیکھ لیں کہ سلسلۂ نورِ ہدایت دنیا میں قائم و دائم ہے یا نہیں، وہ آیات یہ ہیں: آیۂ اصطفاء (۰۳: ۳۳) آیۂ امامتِ ابراہیمؑ (۰۲: ۱۲۴) آیۂ آلِ ابراہیمؑ (۰۴: ۵۴) اور آیۂ شجرۂ طیّبہ (۱۴: ۲۴ تا ۲۵)۔ |
|
۵۹۶
عَقِبِہٖ (۱) |
اس کی اولاد: المیزان، ۱۸، ص۱۰۶ پر درج ہے: فی المجمع فی قولہٖ تعالٰی: وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیۡ عَقِبِهٖ (۴۳: ۲۸) و قیل: الکلمۃ الباقیۃ فی عَقِبِہٖ ھی الامامۃ الٰی یوم الدّین۔ عن ابی عبد اللہ (امام جعفر الصّادق علیہ السّلام) تفسیر مجمع البیان میں حق تعالٰی کے اس ارشاد (اور ابراہیمؑ نے اس کو اپنی اولاد میں کلمۂ باقیہ بنا دیا) کے بارے میں کہا گیا ہے: کلمۂ باقیہ ابراہیمؑ کی اولاد میں امامت ہی ہے جو قیامت القیامات تک جاری اور باقی ہے (بقولِ |
۳۴۲
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام)۔ |
||
۵۹۷
عَقِبِہٖ (۲) |
اس کی اولاد: حضرتِ ابراہیمؑ نے سورۂ زخرف (۴۳: ۲۶ تا ۲۷) کے مطابق جس طرح اپنی قوم کی ظاہری و باطنی اصنام پرستی کی شدید مذمّت کی وہ نورِ امامت ہی کی روشنی میں تھی، لہٰذا یہ امر ضروری تھا کہ ابراہیمؑ کی اولاد میں امامت بشکلِ اسمِ اعظم تا قیامۃ القیامات کلمۂ باقیہ قرار پائے تاکہ لوگ دین شناسی اور خدا کی معرفت کے لئے امامِ زمانہ سے رجوع ہوجائیں۔ |
|
۵۹۸
عَقۡل (۱) |
روحانی نور جس سے غیر محسوسات کا ادراک ہوتا ہے، دل: اللہ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، ایک اور حدیث کے مطابق اللہ نے سب سے پہلے نورِ محمّدی کو پیدا کیا، یقیناً یہ ایک ہی حقیقت ہے جس کے بہت سے ناموں میں سے تین کا اسی طرح ذکر ہوا ہے، کیونکہ عقل نور ہے، قلم نور ہے اور نورِ محمّدی نور ہی ہے، اور یہ تین نہیں، ایک ہی زندہ نور بصورتِ عظیم فرشتہ ہے۔ |
۳۴۳
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
۵۹۹
عَقۡل (۲) |
نورِ عقل: انسان کو ہر چیز کی معرفت عالمِ شخصی ہی میں حاصل ہوجاتی ہے، چنانچہ بالیقین یہ کہا جاسکتا ہے کہ خداوندِ تعالٰی نے عالمِ شخصی میں سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، یہ تقدُّمِ شَرَفی کا تذکرہ ہے، کیونکہ عقل ہی وہ شیٔ ہے جس کو دوسری تمام اشیاء پر بہ اعتبارِ عِزّ و شَرَف اوّلیت و فوقیت حاصل ہے۔ ہر ایسا عالمِ شخصی جب تک اس میں نورِ عقل پیدا نہ ہو، وہ کالعدم ہے، اس حال میں جب خدا نے عقل کو پیدا کیا تب اس کی بَرَکات سے عالمِ شخصی کی حقیقی تخلیق ہوئی، پس عقل کو عالمِ شخصی میں نہ صرف تقدُّمِ شرفی بلکہ تقدُّمِ زمانی بھی حاصل ہے۔ |
|
۶۰۰
عَقۡل (۳) |
نورِ عقل: عقل کا مادّہ ہے: ع ق ل، قرآنِ حکیم میں اس کے مختلف صیغے یہ ہیں: عقلوہ (ایک بار) تعقِلون (۲۴ دفعہ) نعقل (ایک مرتبہ) یعقِلھا (ایک بار) یعقِلون (۲۲ دفعہ) اسی طرح قرآن کے کُلّ ۴۹ مقامات پر عقل کا تذکرۂ توصیف آیا ہے، اور یہ بڑی عجیب بات ہے کہ “عقل” کا نام جہاں کہیں بھی ہو وہاں وہ بہت اعلٰی تعریف کے معنی میں ہوتا ہے، مثلًا جب کسی کو عاقل کہا جاتا ہے تو اس میں پہلی |
۳۴۴
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
تعریف عقل کی ہوتی ہے اور اسی کی نسبت سے دوسری تعریف عاقل کی، یہ تعریف تو براہِ راست ہے، اگر آپ کسی کو بے عقل قرار دیتے ہیں تو اس میں بھی بالواسطہ عقل کی توصیف ہے، اس معنٰی میں کہ وہ نادان شخص عقل جیسی لازوال دولت سے محروم ہے۔ |
||
۶۰۱
عَقۡل (۴) |
نورِ عقل: حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے کہ: جب اللہ تعالٰی نے عقل کو پیدا کیا تو وہ بحکمِ خدا بولنے لگی، پھر خدا نے اسے فرمایا: آگے آ، تو آگے آئی، پھر اسے فرمایا: پیچھے جا، تو وہ پیچھے گئی، پھر ارشاد ہوا: میری عزّت و جلالت کی قسم! کہ میں نے کوئی ایسی خلق پیدا نہیں کیا ہے جو تیرے مقابلے میں مجھ کو زیادہ محبوب ہو، اور بات یہ ہے کہ میں تجھ کو صرف ایسے شخص میں کامل اور مکمّل کر دیتا ہوں، جس سے میں محبّت کرتا ہوں، ہاں میرے امر و نہی کا خطاب ہمیشہ تجھ ہی سے ہوتا رہے گا، اور عذاب و ثواب کا تعلق بھی تجھ ہی سے ہوگا۔ (الشّافی ترجمۂ اصولِ کافی، کتاب العقل)۔ |
|
۶۰۲
عَقۡل (۵) |
گوھرِ عقل: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ عذاب و ثواب کا تعلق عقل ہی سے |
۳۴۵
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
ہے، جیسے قرآنِ شریف میں جگہ جگہ اس حقیقت کی روشن دلیلیں موجود ہیں، جیسا کہ سورۂ ملک (۶۷: ۱۰) میں ارشاد ہے: وَ قَالُوۡا لَوۡ كُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا كُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ۔ اور وہ کہیں گے کاش! ہم سنتے اور جانتے (یعنی عقل رکھتے) تو (آج) ہم دوزخیوں میں نہ ہوتے۔ اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ بنیادی نافرمانی اور ناقابلِ معافی گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص سرچشمۂ عقل کی ہدایت سے روگردان ہوجائے، اور یہ نافرمانی سب سے پہلے ابلیس سے سرزد ہوئی تھی۔ |
||
۶۰۳
عَقۡل (۶) |
گوھرِ عقل: قلمِ اعلٰی آفتابِ عقل ہے، اور قرآنِ حکیم اس کی ضوفشان شعاعوں کا بحرِ بیکران، پھر یہ سوال ختم ہوجاتا ہے کہ قرآن میں کہاں کہاں عقل اور علم کے اوصاف بیان ہوئے ہیں، جبکہ کلامِ الٰہی (قرآن) سر تا سر نورِ عقل (قلم) کی علمی کرنوں کا بیحد عظیم و عمیق سمندر ہے، پس اس کتابِ سماوی میں کوئی آیت ایسی نہیں، جس میں بالواسطہ یا بلا واسطہ عقل اور علم کی تعریف و توصیف نہ ہو۔ |
۳۴۶
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
۶۰۴
علم (۱) |
دین کی سمجھ: جامعِ ترمذی، جلد دوم، ابواب العلم میں یہ حدیث ہے: من یُرِدِ اللہُ بِعَبۡدِہٖ خَیۡرًا فَقَّھَہٗ فی الدِّیۡنِ۔ جب خدا اپنے کسی بندے کے حق میں خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا کر دیتا ہے۔ |
|
۶۰۵
علم (۲) |
فقیہ: عالم: فَقِیۡہٌ اَشَدُّ عَلٰی الشَّیۡطَانِ مِنۡ اَلۡفِ عَابِدٍ۔ ایک ہی فقیہ، شیطان کے (خلاف جنگ کے) لئے ایک ہزار عابدوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ یعنی آپ صرف حقیقی علم ہی سے شیاطینِ اِنسی و جِنّی کو ظاہراً و باطناً مغلوب کر سکتے ہیں۔ |
|
۶۰۶
علم (۳) |
طالبِ علم: حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے یہ بھی فرمایا کہ: اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو خداوندِ عالم اس کے لئے جنّت کا ایک راستہ آسان کر دے گا، اور فرشتے طالب علم کی خوشنودی کے لئے اپنے پر بچھاتے ہیں، نیز عالِم کے لئے آسمان و زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے، یہاں تک مچھلیاں بھی پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں، پھر عالم کی عابد پر اسی طرح |
۳۴۷
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
فضیلت ہے جیسے چاند کی ستاروں پر۔ |
||
۶۰۷
علم (۴) |
معلّم: قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ اٰلِہِ وَسَلَّمَ: اِنَّ اللہَ وَ مَلائِکَتَہُ وَ اَھۡلَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِیۡنَ حَتّٰی النَّمَلَۃَ فِیۡ حُجۡرِھَا وَ حَتّٰی الۡحُوۡتَ لَیُصَلُّوۡنَ علیٰ مُعَلِّمِ النَّاسِ الۡخَیۡرَ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ، فرشتےاور تمام اہل زمین و آسمان یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں تک ایسے معلم پر درود بھیجتے ہیں، جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے۔ (بحوالۂ جامعِ ترمذی، جلد دوم، ابواب العلم)۔ |
|
۶۰۸
علم (۵) |
جاننا، بوجھنا، علمِ الٰہی: علمِ الٰہی کا خزانہ دار کون ہے؟ یہ سب سے بڑا سوال الگ ہے مگر یہاں اِس کے تحت یہ پوچھنا ہے کہ علم کی وسعت اور پھیلاؤ کس حدّ تک ہے؟ علم کی مکانیت و ظرفیت کا کیا تصوّر ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ خداوندِ قدّوس کا علم قرآنِ حکیم میں ہے، لیکن یہ بھی جاننا ہوگا کہ عالمِ اکبر اور عالمِ اصغر کی تمام چیزیں قرآنی علم و حکمت کی گواہی دیتی ہیں یا نہیں؟ اگر کہا جائے کہ آفاق و انفس کی آیات میں قرآنی |
۳۴۸
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
آیات کی شہادت موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ مجید علمِ الٰہی کا وہ سمندر ہے جس میں کائنات اور عالمِ شخصی کی ہر ہر چیز ڈوبی ہوئی ہے۔ |
||
۶۰۹
علم (۶) |
جاننا، بوجھنا، علمِ الٰہی: علم ایک نور ہے جس کی تمثیل آگ سے دی جاسکتی ہے، چنانچہ چشمِ بصیرت کے سامنے عالمِ اکبر ہو یا عالمِ شخصی سرخ انگارا نظر آتا ہے، کیونکہ یہ آتشِ علم (نورِ علم) کے سمندر میں غرق ہے، درین صورت ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم کی روشنی کیوں نہ ہو، اور وہ ساکن علم نہیں بلکہ متحرک علم ہے کیونکہ روشنی/ آگ متحرک ہوا کرتی ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ روحانی علم مختلف تجلّیات و ظہورات کے قانون پر ہے، اس کی مثال کوئی کلمۂ تامّہ ہوسکتا ہے کہ جس کے کُنۡ (ہوجا) فرمانے سے ہر بار ایک نئی معنوی چیز وجود میں آتی ہے۔ |
|
۶۱۰
علم (۷) |
جاننا، بوجھنا، علمِ الٰہی: قرآن، عالمِ ظاہر اور عالمِ شخصی کی ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم کی روشنی موجود ہے، اور علم کی مکانیت و ظرفیت کا تصوّر یہی ہے، آپ قرآنِ عزیز کے ان تین مقامات پر خوب غور سے دیکھ لیں: |
۳۴۹
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
سورۂ انعام (۰۶: ۸۰) سورۂ اعراف (۰۷: ۸۹) سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۹۸) مقصد یہ ہے کہ خدائے علیم و حکیم نے ہر چیز کے ظاہر و باطن میں بڑی کاریگری سے علم کو رکھا ہے، اور اس قانونِ خداوندی سے کوئی شیٔ مستثنا نہیں۔ |
||
۶۱۱
عَلَّمَ (۱) |
اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّھَا (۰۲: ۳۱) اور اللہ تعالٰی نے آدمؑ کو تمام اسماء الحسنٰی کی تعلیم دی، سب سے پہلے ذکرِ خفی و ذکرِ قلبی کےلئے ایک ہی اسمِ اعظم عطا کیا، اور اس کی تکمیل و کامیابی پر دوسرے اسمائے بزرگ منکشف ہوگئے، اور ان اسمائے مبارک کے مسمّیان أئمّۂ کرام علیہم السّلام تھے، کیونکہ جب آپ کہتے ہیں کہ امامِ زمان خدا کا زندہ اسمِ اعظم ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذاتِ سبحان کا سب سے بزرگ نام صرف اسمِ ہی نہیں بلکہ مسَمّٰی بھی ہے۔ |
|
۶۱۲
عَلَّمَ (۲) |
اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی: اگر یہ مانا جائے کہ آیۃ الکرسی میں اسمِ اعظم موجود ہے تو یہ اپنے مسَمّٰی کے سوا کام نہیں کرے گا، جب تک کوئی شخص زندہ اسمِ بزرگ کے لئے اقرار نہ کرے، یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ خزینۂ اسمِ اعظم سے بے بہرہ |
۳۵۰
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
رہتے ہیں۔ |
||
۶۱۳
عَلَّمَ (۳) |
اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی: خداوند تعالٰی کی خاص چیزیں اشرف، افضل، اکمل، اور اعلٰی ہیں، اس لئے وہ سب سے بڑی روح اور سب سے عظیم عقل کے ساتھ زندہ ہیں، چنانچہ اس کا قلم زندہ ہے، لوح زندہ ہے، عرش و کرسی زندہ ہیں، اس کے ساتھ دن زندہ ہیں، اور اس کی ہر چیز زندہ ہے، پس اسماء الحسنٰی زندہ ہیں۔ |
|
۶۱۴
عَلَّمَ (۴) |
اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی: پرودگارِ عالم نے اپنے خلیفہ حضرتِ آدمؑ کو ہر اسم اور اس کے مسمّٰی کی معرفت عنایت کردی، پھر اُن مسمّیان کو فرشتوں کے سامنے لایا اور فرمایا کہ اگر تم سچّے ہو تو مجھے ان کے نام بتاؤ(۰۲: ۳۱) ہر اسم اور اس کا مسمّٰی امامِ مبین علیہ السّلام میں ہے لہٰذا اس کی پُرنور معرفت میں تمام معرفتیں جمع ہیں۔ |
|
۶۱۵
عَلَّمَ (۵) |
اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی: سورۂ بقرہ (۰۲: ۳۱) میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ |
۳۵۱
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
الۡاَسۡمَآءَ کُلَّھَا۔ اور اللہ نے آدمؑ کو کلّ اسماء سکھائے۔ یعنی اسمِ اعظم اور اَسۡمَاءُ الۡحُسۡنٰی کی تعلیم دی اور یہی اسماء علمِ حقائق الۡاشیاء کے خزانے تھے یعنی ہر چیز کی حقیقت کا علم یہیں سے شروع ہوا، آپ اسی علمِ آدم کو بحدِّ قوّت روحانی اور مادّی سائنس کی بنیاد کہہ سکتے ہیں، کیونکہ سائنس “علمِ حقائقِ اشیاء” میں سے ہے۔ |
||
۶۱۶
عَلَّمَ (۶) |
اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی: اگر روحانی سائنس حکمت کا جدید نام ہے تو کیا حضرتِ آدم علیہ السّلام نے عاجزی و گریہ و زاری کی حکمت INVENT (ایجاد) نہیں کیا؟ جس میں بے شمار فائدے پوشیدہ ہیں، کیا انہوں نے سب سے پہلے خدا کے حکم سے اسمِ اعظم اور کثرتِ ذکر کی روحانی سائنس کا کامیاب تجربہ نہیں کیا؟ جس میں بنی آدم کے لئے لا تعداد فوائد پنہان ہیں۔ |
|
۶۱۷
عَلَّمَ (۷) |
اُس نے سکھایا، اُس نے تعلیم دی: قرآنِ حکیم اللہ تعالٰی کا پاک کلام اور اس کی بے مثال معجزاتی کتاب ہے، لہٰذا اس کے علم و حکمت کی گونا گون تجلّیات ہیں، مِن جملہ اس کی ایک تجلّی سائنسی بھی ہے، جبکہ قرآن کا ایک نام شفاء ہے (۱۰: ۵۷) |
۳۵۲
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
اور ایک نام حکمۃ ہے (۵۴: ۰۵) جب قرآن از اوّل تا آخر حکمت (روحانی سائنس) ہے تو یقیناً روحانی سائنس حضرتِ آدمؑ کے علم الاسماء سے شروع ہوئی ہے۔ |
||
۶۱۸
عِلۡمُ الۡکِتَاب (۱) |
کتاب کا علم، آسمانی کتاب کا علم: یہ آیۂ مبارکہ سورۂ رعد کے آخر میں ہے: اور (اے رسولؐ) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں ہو تو تم (اُن سے) کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے کافی ہیں (۱۳: ۴۳) حبیبِ خدا خاتم الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے برحق پیغمبر ہونے کا گواہِ اوّل خود خدا ہی ہے اور گواہِ دوم نورِ امامت، چونکہ یہ گواہی ظاہری نہیں بلکہ باطنی معجزات سے متعلق ہے سرسری نہیں، تفصیلی اور کُلّی ہے، لہٰذا اللہ نے اس عظیم شہادت میں اپنے مظہر کو ساتھ رکھا۔ |
|
۶۱۹
عِلۡمُ الۡکِتَاب (۲) |
کتاب یعنی قرآن کا علم: مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کا آخری حصّہ یہ ہے: وَ مَنۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ الۡکِتٰبِ (۱۳: ۴۳) اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے۔ یقیناً اس کا مصداقِ اوّل حضرتِ علی علیہ السّلام ہے، یعنی |
۳۵۳
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
خدا اور رسولؐ نے امامِ علیؑ کے نور میں جو آسمانی علم رکھا ہے وہ کہیں بھی نہیں، قرآنِ پاک کے اسرارِ باطن کہاں کہاں واقع ہیں؟ کلمۂ کُن میں، قلمِ اعلٰی میں، لوحِ محفوظ میں، اسرافیل، میکائیل اور جبرائیل کی ہستی میں رسولِ اکرمؐ کے نور میں، اس کلامِ الٰہی میں جو حجاب کے پیچھے سے سنائی دیتا ہے، اُس دیدارِ اقدس میں جبکہ کلام نہیں ہوتا، مرتبۂ معراج میں، کتابِ مکنون وغیرہ میں، اب آپ کو اس بات کا اندازہ ہوا ہوگا کہ یہاں جس گواہی اور جس علم کا ذکر آیا ہے، وہ کیسے کیسے عظیم اسرار سے بھرا ہوا ہوگا۔ |
||
۶۲۰
علیؑ (۱) |
سیّد، امام، قائد: قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم: انّ اللہ تبارک و تعالٰی اوحٰی فی علیّ ثلاثۃ اشیاء لیلۃ اسرٰی بی بانّہ سیّد المؤمنین و امام المتّقین و قائد الغرّ المُحَجَّلین۔ آنحضرت صلعم فرماتے تھے کہ شبِ معراج میں جنابِ ایزدی نے ہم کو علیؑ کے تین خطاب القاء فرمائے کہ وہ مومنین کے سردار اور متّقیوں کے امام اور جن کے منہ اور ہاتھ پاؤں سفید اور نورانی ہیں اُن کے پیشوا ہیں، یعنی اُن کو بہشت کی طرف لے جانے والے ہیں۔ (ارجح المطالب اور مُسۡتَدۡرَکۡ)۔ |
۳۵۴
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
۶۲۱
علیؑ (۲) |
علیؑ کا دیدار: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم: النّظرُ اِلٰی وجہٖ علی عبادۃ۔ علیؑ کے چہرے کی طرف دیکھنا ایک عبادت ہے (المستدرک، شرح الاخبار، کوکبِ درّی وغیرہ) علی کا دیدار ایک عبادت اس وجہ سے ہے کہ وہ قرآنِ ناطق، اسمِ اعظم، مظہرِ نورِ خدا، آئینۂ حق نما، اور وصیٔ مصطفٰیؐ ہے، یہی سبب ہے کہ عشّاق جان و دل سے علیٔ زمان علیہ السّلام کے پاک دیدار کو چاہتے ہیں۔ |
|
۶۲۲
علیؑ (۳) |
ذالک الکتٰب، وہ کتاب، یعنی قرآنِ ناطق: مولا علی علیہ السّلام کے خطبۃ البیان میں ہے: انا ذالک الکتٰب لا ریب فیہ، انا الاسمآء الحُسنٰی الّتی امر اللہ ان یُّدعٰی بھا۔ میں وہ کتاب ہوں جس میں کوئی شک نہیں، (یعنی قرآنِ ناطق)، میں ہی وہ اسمائے عظّام ہوں جن کے بارے میں خدا نے فرمایا کہ انہی کے توسط سے مجھے پکارا کرو (کوکبِ دُرّی) اس میں کوئی شک نہیں کہ الٓمّٓ اور دیگر تمام حروفِ مقطَّعات کا سرِّ عظیم علیؑ ہی ہے، مولائے پاک وہ کتاب ہے جس میں یقین ہی یقین ہے۔ |
۳۵۵
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
۶۲۳
علیؑ (۴) |
اساس: اِنَّ نُوۡرَ ابی طالب یومَ القیامۃ لَیُطۡفِیءَ اَنوار الۡخَلائق اِلّا خمسۃ انوار۔ یقیناً ابوطالب کا نور قیامت کے دن سوائے پانچ انوار(نوروں) کے باقی خلائق کے انوار کو بجھا دے گا۔ (ص۲۴۸ ابو طالب مومنِ قریش از عبد اللہ الخنیزی)۔ |
|
۶۲۴
عَلِیًّا |
علیؑ: جامِع تِرمذی، جلدِ دُوم، ابواب المناقب میں مولا علی علیہ السّلام کے بارے میں چند احادیثِ شریف درج ہیں، منجملہ ایک ارشادِ نبوّیؐ یہ ہے: اِنَّ عَلِیًّا مِنِّیۡ وَ اَنَا مِنۡہُ وَ ھُوَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤۡمِنٍ مِنۡم بَعدِی۔ علیؑ مجھ سے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا سرپرست اور والی ہے۔ یعنی نورِ نبوّت سے نورِ ولایت کا ظہور ہوتا ہے، پھر نورِ ولایت میں نورِ نبوّت پوشیدہ ہوجاتا ہے۔ |
|
۶۲۵
عمر الدّنیا |
دنیا کی عمر: روی عن النّبیّ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم انّہ قال: “عمر الدّنیا سبعۃ آلاف سنۃ بعثت فی آخر الف منھا”، و قال: “لا نبیّ بعدی” و علی آخر ھٰذہ المدۃ تقوم الساعۃ۔ آنحضرت صلعم سے روایت کی گئی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: “دنیا کی عمر سات ہزار سال تک ہے میں اس کے آخری ہزار سال میں بھیجا گیا ہوں”، اور فرمایا: “میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں”، اس امت کے آخر میں قیامت برپا ہوگی (اخوان الصفاء کا آخری رسالہ: جامعۃ الجامعۃ، الفصل التاسع، ص۸۸)۔ دنیا سے جسمانی دور مراد ہے اور قیامت کے معنی ہیں روحانی دور، جس میں روحانی سائنس سے دنیا کی بہت ترقی ہونے والی ہے۔ |
|
۶۲۶
عَمُوۡنَ (۱) |
دل کے اندھے: بَلۡ ھُمۡ مِنۡھَا عَمُوۡنَ۔ بلکہ وہ اُس (آخرت) سے دل کے اندھے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یقین کی حد تک آخرت کا باطنی مشاہدہ ہوسکتا ہے (۲۷: ۶۶)۔ |
|
۶۲۷
عَمُوۡنَ (۲) |
دل کے اندھے: قیامت اور آخرت کا علم اہل دانش کے لئے ضروری ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں ایک فیصلہ کن آیت سورۂ نمل (۲۷: ۶۶) میں ہے: بَلِ ادّٰرَكَ عِلۡمُهُمۡ فِی الۡاٰخِرَةِ بَلۡ هُمۡ فِیۡ شَكٍّ مِّنۡهَا- بَلۡ هُمۡ مِّنۡهَا عَمُوۡنَ۔ بلکہ آخرت کا تو علم ہی ان لوگوں |
۳۵۷
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
سے گم ہوگیا ہے، بلکہ یہ اس کی طرف سے شک میں ہیں، بلکہ یہ اس سے اندھے ہیں۔ اگر جسمانی موت سے قبل نفسانی موت اور ذاتی قیامت و آخرت کا علم ممکن نہ ہوتا تو خداوند نہ فرماتا کہ ان کا علم ختم ہوچکا ہے، وہ شک میں ہیں، وہ اس سے اندھے ہیں۔ |
||
۶۲۸
عن علیؑ (۱) |
علیؑ سے روایت ہے: حضرتِ علی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے، اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دیدی اور مجھے دار الحجرت لیکر آئے پھر بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا، اللہ عمر پر رحم فرمائے، یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو، اس لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں، اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے، اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں، اللہ علیؑ پر رحم فرمائے ، اللّٰھُمّ اَدِرِ الۡحَقَّ مَعَہُ حَیۡثُ دَار۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق ان کے ساتھ رہے! (ترمذی)۔ محبوبِ خدا کی یہ بابرکت دعا نورِ امامت کے لئے ہے کہ باطل ہمیشہ دور ہو اور حق ساتھ رہے، کیونکہ اساس کے بارے میں خدا اور رسولؐ نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، وہ تمام أئمّۂ طاہرین کے بارے میں ہے۔ |
۳۵۸
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
۶۲۹
عن علیؑ (۲) |
علیؑ سے روایت ہے: علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: اَنَا دَارُ الۡحِکۡمَۃِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا۔ میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ۔ (جامِع ترمذی، جلد دوم، ابوابُ المناقب) سوال: یہ کونسی حکمت کا ذکر ہے؟ جواب: قرآن و حدیث اور روحانیّت کی حکمت، جس کا گھر رسولؐ ہیں اور دروازہ علیٔ زمانؑ ہے۔ |
|
۶۳۰
عن علیؑ (۳) |
علیؑ فرماتے ھیں: حضرتِ علیؑ بن ابی طالبؑ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبیٔ کریم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حسنؑ اور حسینؑ کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا: جو مجھ سے محبّت کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ اِن دونوں اور ان کے والدین سے بھی محبّت کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگا (جامِع ترمذی)۔ یعنی ایسے شخص کو فنا فی الرّسولؑ کا مرتبہ نصیب ہوگا۔ |
|
۶۳۱
عِیَالُ اللہ (۱) |
خدا کی عیال، کنبہ: الخلق عِیال اللہ، فاحبّ الخلق الی اللہ من نفع عیال اللہ و ادخل علٰی اھل بیت سرورًا۔ مخلوق تمام کی |
۳۵۹
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق وہ ہے جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے اور اہلِ بیت کو خوش رکھے۔ (میزان الحکمت۲، ص۳۴۷)۔ حدیثِ نبوی۔ |
||
۶۳۲
عِیَالُ اللہ (۲) |
خدا کی عِیال، کنبہ: قَال اللہ عزّ وجلّ: الخلق عیالی فاحبّھم اِلَیَّ الطفھم بھم، و اسعاھم فی حوائجھم۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: تمام مخلوق میرا کنبہ ہے لہٰذا میرے نزدیک محبوب ترین بندہ وہ ہے جو ان پر زیادہ مہربان ہے اور ان کی حاجات کو پورا کرنے میں کوشش کرتا رہتا ہے۔ (میزان الحکمت۲، ص۸۲۷)۔ حدیثِ قدسی۔ اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات درجہ بدرجہ ہیں اور یہ تعلیم سب سے آخری درجے کی ہے، جس کی مثال بڑی عالیشان ہے۔ |
|
۶۳۳
عُیُوۡن |
چشمے: سورۂ حجر (۱۵: ۴۵) میں ہے: اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ۔ یقیناً پرہیزگار (بہشت کے) باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ سوال: قرآنِ حکیم کی اصل لغت ہی میں تاویلی حکمت پوشیدہ رہتی ہے، لہٰذا پوچھنا یہ ہے کہ متّقیۡن بہشت کے چشموں کے اندر |
۳۶۰
لفظ | معنی و حکمت “ع” | |
کس طرح رہتے ہوں گے؟ جواب: بہشت کی چار نہروں کے چار چشمے یہ ہیں: عقلِ کلّ، نفسِ کلّ، ناطق اور اساس، چنانچہ پرہیزگار لوگ ان حدودِ عُلوی کے انوار میں مستغرق رہتے ہیں، بہشت میں یہ فضیلت صرف متّقین ہی کو حاصل ہے۔ |
۳۶۱
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۳۶۲
بابُ الغین
|
۳۶۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۳۶۴
لفظ | معنی و حکمت “غ” | |
۶۳۴
غالب |
جیتنے والا، مغلوب کرنے والا: یہ حربی اصطلاح ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: اِنۡ یَّنۡصُرۡكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمۡ۔ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا (۰۳: ۱۶۰)۔ نیز سورۂ مجادلہ میں ہے: كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ۔ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسولؐ ہی غالب ہوکر رہیں گے (۵۸: ۲۱) اس قرآنی تعلیم سے ایسا لگ رہا ہے جیسے تمام رسولوں نے ظاہری جہاد کیا ہو، مگر ایسا نہیں ہے، پس یہی کہنا حقیقت ہے کہ ہر قیامت صغرٰی حِزُب اللہ کا روحانی جہاد ہے، جس میں یقیناً دینِ حق غالب آتا ہے۔ |
|
۶۳۵
غَدَاۃ |
صبح کا وقت، تڑکا: سورۂ انعام (۰۶: ۵۲) میں ہے: اور جو صبح و شام اپنے پرودگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا (یا دیدار= وَجۡہ) کے طالب ہیں ان کو نہ نکالو (تا آخرِ آیت) اس ارشاد میں البتہ شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا اشارہ ہے، کیونکہ دیدار تک یہی چار منزلیں ہیں۔ |
|
۶۳۶
غَرَابِیۡبُ |
سورۂ فاطر (۳۵) کی آیات ۲۶ تا ۲۸ کا بغور مطالعہ کریں، وہاں |
۳۶۵
لفظ | معنی و حکمت “غ” | |
پہاڑوں کی مثال میں یہ اشارہ ہے کہ گوہرِ عقل کے ظہورات مختلف رنگوں میں ہوتے رہتے ہیں، تاکہ اس حکمتِ الوان سے مختلف رنگ کے جواہرات طرح طرح کے ثمرات، نوع بنوع اشخاص، اور دیگر مختلف قسم کی مخلوقات کے رنگ رُوپ کی ترجمانی ہو۔ |
||
۶۳۷
غَرِیۡب (۱) |
مفلس، نادار: اِنَّ الۡاِسۡلَامَ بَدَأَ غَرِیۡبَا وَ سَیَعُوۡدُ کَمَا بَدَأَ فَطُوۡبٰی لِلۡغُرَبَاءِ۔ ترجمہ: اسلام غربت سے شروع ہوا اور ایک زمانہ میں پھر غریب ہو جائے گا تو غربا کیلئے طوبیٰ یعنی بہشت ہے۔ (لغات الحدیث، جلد سوم)۔ |
|
۶۳۸
غَرِیۡب (۲) |
اجنبی، عجیب: حکمت: اسلامِ مُجسّم رسولِ ناطقؐ تھے، نیز اساسؑ اور امامؑ اور آخر میں قائمِ آلِ محمّدؐ دینِ مجسّم ہیں، پس جس طرح لوگوں نے شروع میں آنحضرتؐ کو نہیں پہچانا، اسی طرح آخر میں آپؐ کے جانشین لوگوں کی نظر میں غریب (اجنبی) ہوگئے، اسی لئے فرمایا گیا ہے: ۔۔۔۔ غریبم قلبِ تو ۔۔۔۔۔ مولانا علی۔ |
۳۶۶
لفظ | معنی و حکمت “غ” | |
۶۳۹
غِلۡمَانٌ |
بہشت کے لڑکے: یہ سورۂ طور کا ایک ارشاد ہے: وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡهِمۡ غِلۡمَانٌ لَّهُمۡ كَاَنَّهُمۡ لُؤۡلُؤٌ مَّكۡنُوۡنٌ۔ اور نوجوان لڑکے جو چھپائے ہوئے موتی کی طرح ہیں اُن کے آس پاس خدمت کے لئے پھریں گے (۵۲: ۲۴) یعنی عقلی غلمان جو بار بار نمونۂ علم اور مظاہرۂ حکمت پیش کرتے رہتے ہیں۔ اِس آیۂ کریمہ میں اسرارِ گنجِ ازل ، لُؤلوئے عقل اور کتابِ مکنون کی طرف لطیف اشارے ہیں۔ |
|
۶۴۰
غَوَّاص (۱) |
غوطہ مارنے والا: حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی ظاہری بادشاہی سے باطنی بادشاہی کہیں زیادہ زبردست تھی، چنانچہ خیر و شر کی دونوں طاقتیں ان کے لئے مسخّر کی گئی تھیں، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ الشَّیٰطِیۡنَ كُلَّ بَنَّآءٍ وَّ غَوَّاصٍ (۳۸: ۳۷) اور دیووں کو بھی (ان کے زیر فرمان کیا) وہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ مارنے والے تھے۔ جب ظاہری بادشاہ خود کام نہیں کرتا ہے بلکہ مختلف کارکنوں سے کام لیتا ہے تو یقین کرنا ہوگا کہ روحانی بادشاہ بھی کسی کام کو بنفسِ نفیس انجام نہیں دیتا بلکہ اس کے حکم سے خیر و شرّ کی تمام طاقتیں |
۳۶۷
لفظ | معنی و حکمت “غ” | |
کام کرتی رہتی ہیں۔ |
||
۶۴۱
غَوَّاص (۲) |
غوطہ زن: اے نورِ عینِ من! ایسا خیال نہ کرنا کہ صرف ظاہر ہی میں خوبصورت عمارتیں بنائی جاتی ہیں اور صرف مادّی سمندر میں غوّاصی ہوتی ہے، ایسا نہیں، بلکہ یہ تمام چیزیں انتہائی عمدگی کے ساتھ روحانیّت میں ہیں، روحانی سلطنت کی بہت بڑی شان ہے کہ اس میں شیاطین بھی تعمیری کاموں کو انجام دیتے ہیں، کتنی عجیب بات ہے کہ شیاطین بحرِ روحانیّت میں غوطہ لگا کر علم و حکمت کے موتی نکالتے ہیں، سُبحان اللہ! |
۳۶۸
بابُ الفاء
|
۳۶۹
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۳۷۰
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
۶۴۲
فاطمہ (۱) |
بنتِ رسولؐ، خواتینِ جنّت کی سردار: قال النّبی صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم: فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ اَھۡلِ الۡجَنَّۃِ۔ آن حضورؐ نے فرمایا تھا کہ فاطمہؑ جنّت کی عورتوں کی سردار ہے (صحیح البخاری، جلد دوم، باب۳۹۴) یہ حدیثِ شریف اہل بیتِ اطہار علیہم السّلام کی عظمت و بزرگی کی دلیلوں میں سے ہے۔ قال النّبی صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم: فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ اَھۡلِ الۡجَنَّۃِ۔ فاطمہؑ جنّت کی خواتین کی سردار ہیں (صحیح بخاری، جلد دوم، کتاب الانبیاء، باب ۳۹۴ اور باب ۴۱۳) یعنی بہشت کی خواتین کی بادشاہ کیونکہ وہاں عظیم اہل ایمان کے لئے بادشاہی ہے (دیکھئے سورۂ دھر ۷۶: ۲۰)۔ |
|
۶۴۳
فاطمہ (۲) |
سیّدۂ نساءِ مومنین: آنحضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حضرتِ فاطمہؑ سے فرمایا: اِلَا تَرۡضَیۡنَ اَنۡ تَکُوۡنِیۡ سَیِّدَۃَ نِسَاءِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَوۡ سَیِّدَۃَ نِسَاءِ ھٰذِہِ الۡاُمَّۃِ۔ فاطمہ! کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو؟ کہ تم مومنین کی عورتوں کی سردار ہو یا (فرمایا) اس امّت کی عورتوں کی سردار ہو (صحیح بخاری، جلد سوم، کتاب الاستیذان، باب۷۲۷، نیز صحیح |
۳۷۱
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
مسلم، جلد ششم، کتاب الفضائل، باب: حضرتِ فاطمہ کی فضیلت)۔ | ||
۶۴۴
فاطمہ (۳) |
سیّدۂ نساءِ عالمین: پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے حضرتِ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: بیٹی! تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم نساءِ عالمین کی سیّدہ (سردار) ہو، فاطمہؑ نے فرمایا: باوا جان! مریم علیہا السّلام کدھر گئیں؟ فرمایا: وہ اپنے زمانے کے عورتوں کی سردار ہے اور تم اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہو اور تمہارا شوہر دنیا اور آخرت میں سیّد ہے (رحمۃ للعالمین، جلد دوم)۔ |
|
۶۴۵
فاطمہ (۴) |
سیّدۂ خواتینِ جنّت: ایک دفعہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے زمین پر چار خط کھینچے پھر لوگوں سے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ سب نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں، آپؐ نے فرمایا: فاطمہؑ بنتِ محمّدؐ، خدیجہ بنتِ خُوَیۡلِد، مریم بنتِ عمران، آسیہ بنتِ مزاحم (زوجۂ فرعون) ان لوگوں کو جنّت کی عورتوں پر سب سے زیادہ فضیلت ہے (کتاب: فاطمۃ الزّہرا، از طالب ہاشمی، بحوالۂ الاستیعاب، حافظ ابنِ عبد البّر)۔ |
۳۷۲
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
۶۴۶
فَجۡر |
صبح، صبحِ ازل: سورۂ قدر (۹۷) صرف پانچ آیات پر مبنی ہونے کے باوجود دورِ قیامت کی بہت سی عالمگیر حکمتوں اور حقیقتوں سے لبریز ہے، اس کی آخری آیتِ کریمہ یہ ہے: سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ (۹۷: ۰۵) یہ رات طلوعِ صبح تک (امان اور) سلامتی ہے۔ تأویل: حجّتِ قائم کا زمانہ روحانی تائیدات کا باعث ہے تا آنکہ صبحِ ازل کا طلوع ہوجائے، چونکہ ہر چیز کی گردش ایک دائرے پر ہے (۲۱: ۳۳؛ ۳۶: ۴۰) اس لئے روحانی سفر کا رجوع ازل کی طرف ہے، جہاں قیامت کی صبح ہوجاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: قیامت تمہارے پروردگار کے پاس جاکر ختم ہوجاتی ہے (۷۹: ۴۴)۔ |
|
۶۴۷
فِداء (۱) |
نثار، قربان، صدقے، عوض، بدلہ: حضرتِ علیؑ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے اپنے ماں باپ کو کسی کے لئے جمع نہیں کیا (یعنی یوں نہیں فرمایا کہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں) مگر سعد بن مالک (یعنی سعد بن وقاص) کے لئے آپؐ نے اُحُد کے دن اُن سے فرمایا: تیر مار اے سعد! میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں! اِرِمِ فِدَاکَ اَبِیۡ وَ اُمِّیۡ)۔ |
۳۷۳
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
۶۴۸
فِداء (۲) |
قربان کرنا، نثار کرنا، وارنا، تصدق کرنا، چھڑکنا: کتنا عمیق اور تہ بہ تہ حکمتوں پر مبنی ارشاد ہے کہ اس عظیم المرتبت پیغمبرؐ نے اُوپر کی طرف فرمایا جو ارض و سما میں بے مثیل و بے عدیل اور محبوبِ خدا ہیں، لفظِ فداء فدیہ سے ہے اس کے مختلف صیغے قرآنِ حکیم کے تیرہ مقامات پر موجود ہیں، اور ان میں سب سے روشن مثال یہ ہے: وَ فَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی (یعنی مینڈھے) کا فدیہ دیکر اس کو چھڑایا (۳۷: ۱۰۷) اس کی تأویل یہ ہے کہ حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کی جسمانی قربانی کے عوض باطنی اور روحانی قربانی ہوئی، جو بہت بڑی قربانی ہے۔ |
|
۶۴۹
فِداء (۳) |
قربان ہونا: میرے نزدیک قربانی دو طرفہ ہے، اس لئے دو قسم کی ہے، ایک عروجی اور دوسری نزولی، مثلًا جو ایندھن کائنات سے سورج میں پڑ جاتا ہے وہ عروجی قربانی ہے اور جو روشنی سورج سے خارج ہوکر کائنات میں بکھر جاتی ہے وہ نزولی قربانی ہے، امام علیہ السّلام کے عشق و محبّت میں مریدوں کا پگھل جانا عروجی قربانی ہے اور اُن پر نور کی کرنوں کی بارش نزولی قربانی ہے۔ |
۳۷۴
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
۶۵۰
فَرَاش |
پروانے، چراغ کے پتنگے، واحد فَرَاشَہ: سورۂ قارعہ (۱۰۱: ۰۴) میں ارشاد ہے: یَوۡمَ یَکُوۡنُ النَّاسُ کَا لۡفَرَاشِ الۡمَبۡثُوۡثِ۔ (وہ قیامت ہے) جس دن لوگ ایسے ہوں گے جیسے بکھرے ہوئے پروانے۔ اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ قیامت کی تاریکی اور ہولناکی سے گھبرا کر تمام پروانہ ہائے ارواح چراغِ نورِ امامت کے ارد گرد بکھر جائیں گے، جیسا کہ دوسری متعلقہ آیۂ کریمہ کا ارشاد ہے: یَوۡمَ نَدۡعُوۡا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِھِمۡ (۱۷: ۷۱) جس روز ہم اہلِ زمانہ کو اُن کے امامؑ کے ساتھ بلائیں گے۔ |
|
۶۵۱
فرقان (۱) |
(مصدر) حق و باطل کو جدا جدا کرنا: بنی اسرائیل سے خطاب ہے: وَ اِذۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ وَ الۡفُرۡقَانَ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسٰیؑ کو کتاب (توریت) عطا کی اور حق و باطل کا جدا کرنے والا مجموعۂ معجزات بھی (عنایت کیا) تاکہ تم ہدایت پاؤ (۰۲: ۵۳) لفظِ “فرقان” اصل میں مصدر ہے بمعنی حق و باطل میں فیصلہ کرنا، فرق کرنا، جُدا کرنا، نیز اس کا استعمال بمعنیٔ فاعل “حق و باطل کے درمیان امتیاز کر دینے والی چیز” کے لئے ہوتا ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں اس لفظ کا استعمال مردِ مومن کی |
۳۷۵
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
روشنیٔ قلب، توفیقِ خداوندی، کلامِ الٰہی اور معجزہ کے لئے ہوا ہے (قاموس القرآن)۔ دورِ موسٰی کی ہدایت کے لئے اللہ تعالٰی نے جو وسائل عطا کئے وہ یہ تھے: آسمانی کتاب، پیغمبر (موسٰی) امام (ھارون) فرقان (معجزات) اسی طرح آنحضرتؐ کے دور کی ہدایت کے لئے بھی چار مگر بہت ہی عظیم چیزیں ہیں: قرآنِ حکیم، پیغمبرِ اکرمؐ، امامِ عالی مقامؑ، قرآنی تاویلات جو پیغمبرؐ اور امامؑ کے عقلی معجزات ہیں۔ |
||
۶۵۲
فرقان (۲) |
توریت اور معجزات: یہ ارشاد سورۂ انبیاء (۲۱: ۴۸) میں ہے: وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰى وَ هٰرُوۡنَ الۡفُرۡقَانَ وَ ضِیَآءً وَّ ذِكۡرًا لِّلۡمُتَّقِیۡنَ۔ اور یقینًا ہم نے عطا فرمایا موسٰی اور ہارون (علیھما السّلام) کو فرقان (توریت) اور نور اور ذکر پرہیزگاروں کے لئے (۲۱: ۴۸) یہاں آپ حدیثِ مماثلتِ ھارونی کو ذہن و خاطر میں لاکر خوب سوچیں اور مولا علیؑ کے مرتبۂ تأویل کو پہچان لیں، نیز اس حقیقت کا بھی یقین کرلیں کہ نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے توسط سے آسمانی کتاب کے تمام روحانی، علمی، عقلی، اور عرفانی معجزات ان پرہیزگاروں کی طرف آتے ہیں جو ذکر اسمِ بزرگ سے وابستہ ہیں، کیونکہ یہ سب کچھ بالآخر متّقین ہی |
۳۷۶
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
کے لئے ہے۔ |
||
۶۵۳
فرقان (۳) |
قرآن کی روح او روحانیت: سورۂ انفال (۰۸: ۲۹) میں ہے: اے ایمان والو! اگر تم خدا سے ڈرتے رہوگے تو وہ تمہارے واسطے ایک فرقان (یعنی قرآن کا باطنی علم) عطا کرے گا (۰۸: ۲۹) وسیع تر معلومات کے لئے آپ اس آیۂ کریمہ کے مختلف ترجموں کو بھی دیکھ لیں، میرے عقیدے کے مطابق یہاں بھی وہی مفہوم ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، یعنی قرآن کے روحانی اور عقلی معجزات پرہیزگاروں کے لئے ہیں۔ |
|
۶۵۴
فرقان (۴) |
نورانی معجزات: لُغاتُ القرآن، جلد سوم، صفحہ ۹۸ پر بقولِ مجاہد لکھا ہے کہ “رمضان” اسماء الٰہی میں سے ہے، جس طرح “شَھۡرُ اللہ” (خدا کا مہینہ) کہتے ہیں، اسی طرح “شَھۡرُ رمضان” (خدا کا مہینہ) کہا جاتا ہے (لغات الحدیث میں بھی اس لفظ کو دیکھیں)۔ پس وجہِ دین کی یہ تأویل درست ہے: شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡٓ اُنۡزِلَ فِیۡهِ الۡقُرۡاٰنُ۔ خدا کا مہینہ وہ شخص ہے جس کی ذات میں قرآن (بصورتِ تأویل) نازل کیا گیا ہے (یعنی وصیٔ رسولؐ) تاکہ وہ لوگوں کو سیدھا |
۳۷۷
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
راستہ دکھائے اور راہِ راست کے بیانات کو وہی جدا کرے، (۰۲: ۱۸۵۔ وجہِ دین، گفتار/ کلام۳۳)۔ |
||
۶۵۵
فِرُّوۡا |
تم دَوڑو: ارشاد ہے: فَفِرُّوۡا اِلَی اللہِ (۵۱: ۵۰) پس تم خدا کی طرف دوڑو۔ دوڑنے کا حکیمانہ اشارہ ہے کہ دین کا ہر عمل بھرپور قوّت اور سرعت سے انجام دیا جائے، مثال کے طور پر ذکرِ جلی یا ذکرِ خفی تسلّی بخش نہیں ہو رہا ہو تو اس کی وجہ سوائے سستی کے اور کیا ہوسکتی ہے، سو اس کا چارۂ کار یہ ہے کہ آپ اللہ کی طرف دوڑتے جائیں، یعنی ذکر سریع کریں۔ |
|
۶۵۶
فَصۡلَ الۡخِطَاب |
قولِ فیصل اور بیانِ شافی: سورۂ ص (۳۸: ۲۰) میں حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی ظاہری اور روحانی بادشاہی کے باب میں ارشاد ہوا ہے: اور ہم نے ان کی بادشاہی کو مستحکم کیا اور ان کو حکمت عطا فرمائی اور “فصل الخطاب” کا مرتبہ عنایت کیا۔ تأویل: عالمِ شخصی میں گوہر عقل کی عملی معرفت کا نام حکمت ہے اور کلمۂ باری کی ایسی معرفت کو فصل الخطاب کہا گیا ہے یہ سِرّ الاسرار اتنا عظیم اور ایسا مخزون و مکنون ہے کہ اس کے انکشاف سے ڈر لگتا ہے، پھر مزید کیا بیان کریں۔ |
۳۷۸
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
۶۵۷
فِطۡرَۃ (۱) |
تخلیق، آفرینش، بناوٹ، قانونِ فطرت: قانونِ فطرت کی کئی تعریفیں ہوسکتی ہیں، لیکن ایک چوٹی کی تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا، اور جب بنی آدمؑ بہشت میں داخل ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے باپ آدمؑ کی صورت پر ہوتے ہیں، یعنی ان کو بھی صورتِ رحمان پر پیدا کیا جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صورۃ)۔ |
|
۶۵۸
فِطۡرَۃ (۲) |
تخلیق، آفرینش، بناوٹ، قانونِ فطرت: ارشادِ قرآنی ہے: فَاَقِمۡ وَجۡهَكَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًاؕ- فِطۡرَتَ اللّٰهِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡهَا۔۔۔۔ (۳۰: ۳۰)۔ سو تم یکسو ہوکر اپنا چہرۂ جان دین کے لئے قائم کرو (یعنی صورتِ رحمان میں فنا ہوکر صورتِ رحمان ہوجاؤ) اللہ کی (عقلانی اور پُرنور) آفرینش وہ ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (یعنی جسمانی تخلیق کے بعد روحانی تخلیق ہے، اور آخراً عقلانی تخلیق ہے، جس میں حضرتِ آدمؑ کی طرح صورتِ رحمان پر پیدا ہوجانا ہے)۔ |
|
۶۵۹
فِطۡرَۃ (۳) |
تخلیق، آفرینش، بناوٹ، قانونِ فطرت: لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰهِؕ ذٰلِكَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ۔۔۔۔ (۳۰: ۳۰) |
۳۷۹
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
خدا کی (خاص اور عقلی) آفرینش میں کوئی تبدیلی نہیں، اور یہی ملّتِ قائمہ ہے (لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے) یہ ممکن نہیں کہ لوگ خدا کی ذات سے آئے ہوں، بلکہ اس کی صورتِ رحمانی کے عکس سے پیدا کئے گئے ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ نفس واحدہ (آدمؑ) کو صورتِ رحمان پر پیدا کیا گیا، جس میں سب تھے اور جب لوگ اپنی اصل سے واصل ہونے لگتے ہیں تو پھر اُن کی صورت وہی ہوجاتی ہے جو پہلے تھی۔ |
||
۶۶۰
فِطۡرَۃ (۴) |
دینِ اسلام: حدیثِ شریف میں ہے: کُلُّ مَوۡلُوۡدٌ یُوۡلَدُ عَلَی الۡفِطۡرَۃِ وَ اَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوۡ یُنَصِّرَانِہٖ اَوۡ یُمَجِّسَانِہٖ۔ ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوجاتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ بہت بڑا راز ہے کہ اس حدیث میں لفظِ “فطرت” دینِ اسلام کے معنی میں آیا ہے۔ قانونِ فطرت اور قانونِ دین کیونکر مختلف اور دو ہوسکتے ہیں، جبکہ اسلام ہی دینِ فطرت ہے، یعنی یہ ایسا دین ہے جو قانونِ آفرینش کے عین مطابق ہے۔ |
۳۸۰
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
۶۶۱
فِطۡرَۃ (۵) |
دینِ اسلام: اس حدیث کی حکمت یہ ہے کہ اقوامِ عالم کا ہر بچہ بحدِّ قوّت فطرت (اسلام) پر پیدا ہوجاتا ہے، اور آگے چل کر بحدِّ فعل اسلام کی تمام تر خوبیوں کو اپنا سکتا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پر والدین کا کیا اثر پڑتا ہے، کیونکہ اگر والدین اس باب میں اپنے بچوں کے لئے کچھ بھی نہ کرسکتے تو قرآنِ حکیم یوں نہ فرماتا: یٰٓاَیُّهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡٓا اَنۡفُسَكُمۡ وَ اَهۡلِیۡكُمۡ نَارًا (۶۶: ۰۶) اے ایمان والو! تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) آگ سے بچاؤ۔ |
|
۶۶۲
فُلۡک |
سفینہ، کشتی، امامِ مبینؑ کا عالمِ شخصی: زمانے کا امامؑ کشتیِ نوحؑ ہے جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱ تا ۴۲) میں ارشادِ خداوندی ہے: (ترجمہ) ان کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کے روحانی ذرّات کو (نوحؑ کی) بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا، اور پھر ان کے لئے ویسی ہی کشتیاں اور پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں، امامِ برحق علیہ السّلام کا مبارک عالمِ شخصی ہمیشہ سفینۂ باطن رہا ہے، جس میں عالمِ ذرّ موجود ہے تاکہ اس میں جملہ اشیاء اور سارے لوگوں کے روحانی ذرّات محفوظ ہوں۔ |
۳۸۱
لفظ | معنی و حکمت “ف” | |
۶۶۳
فَنَا |
نیستی، موت، نفسانی موت: اے نورِ عینِ من! اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ امامِ زمانؑ آپ کی پاک و پاکیزہ روح ہے، پس آپ عشق و محبّت، علم اور حقیقی فرمانبرداری کے وسیلے سے امامؑ میں فنا ہوکر اس پاک روح کو حاصل کرو تاکہ جہالت و نادانی کے عذاب سے نجات ملے۔ آپ نے بارہا سنا اور دیکھا ہے کہ جماد کی روح نبات ہے اور نبات کی اضافی روح حیوان، حیوان کی باشعور روح انسان ہے، اور تمام انسانوں کی قدسی (پاک) روح امامِ مبینؑ ہے، کیونکہ اللہ جلّ جلالہ کے پاس جانے کے لئے روحانی ترقّی کی سیڑھیاں ہیں (۷۰: ۰۳)۔ |
|
۶۶۴
فی اللہ |
خدا کے بارے میں: حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام کا مبارک ارشاد ہے: ما قیل فی اللہ فھو فینا ، و ما قیل فینا فھو فی بلغاء من شیعتنا۔ جو بات اللہ تعالٰی کے متعلق کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے، اور جو بات ہمارے متعلق کہی گئی ہے وہ ہمارے بلیغ شیعوں پر صادق آتی ہے (تأویل الزّکوٰۃ، لِسّیِدنا جعفر بن منصور الیمن، ص۱۴۰)۔ یہ ایک بے مثال اور لازوال عرفانی خزانہ ہے۔ |
۳۸۲
بابُ القاف
|
۳۸۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۳۸۴
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
۶۶۵
قٓ (۱) |
قلمِ اعلٰی: سورۂ قٓ کے آغاز (۵۰: ۰۱) میں ہے: قٓ ڟ وَ الْقُرۡاٰنِ الۡمَجِیۡدِ۔ قسم ہے قلمِ اعلٰی کی اور معزّز قرآن کی۔ قرآن جو لوحِ محفوظ میں ہے وہ قلمِ اعلٰی کا لکھا ہوا ہے، یہاں اِس قَسم میں یہی اشارہ فرمایا گیا ہے۔ |
|
۶۶۶
قٓ (۲) |
کوہِ قاف: اس سے کوہِ عقل مراد ہے، جیسے مولا علی علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: انا لؤلؤ الاصداف، انا جبل قاف۔ یعنی میں ہی وہ گوہرِ یکدانہ ہوں، جس میں تمام اعلٰی مقاصد جمع ہیں، اور میں ہی کوہِ قاف ہوں، جس پر عالمِ عقل کے عجائب و غرائب موجود ہیں (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: چہل کلید، کلید نمبر۳۳ کوہِ قاف، نیز لُبِّ لباب، کوہِ قاف، ص۲۸)۔ |
|
۶۶۷
قال النّبی |
آنحضرتؐ نے فرمایا: وَالَذِیۡ نَفۡسِیۡ بِیَدِہِ لَا یَدۡخُلُ قَلۡبَ عَبۡدٍ اِیۡمَانُ حَتـّٰی یُحِبَّ اَھۡلَ الۡبَیۡتِ لِلّٰہِ عَز وَ جَلَّ وَلِیۡ۔ اُس ذات پاک کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، کسی بندے کے دل |
۳۸۵
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
میں ایمان داخل نہیں ہوتا، جب تک کہ میرے اہل بیت سے خدائے عزو جلّ کے لئے اور میرے لئے محبت نہیں کرتا ہے۔ یہاں یہ روشن حقیقت ہے کہ حقیقی ایمان کی اوّلین اور بنیادی شرط اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کی دوستی و محبت ہے (شرح الاخبار، جلد۱۰، ص۴۸۳)۔ |
||
۶۶۸
قال باقر |
امام محمّد باقرؑ کا ارشاد: حضرتِ امام محمّد باقر علیہ السّلام نے فرمایا: ما قیل فی اللہ فھو فینا ، و ما قیل فینا فھو فی بلغاء من شیعتنا۔ جو بات اللہ تعالٰی کے متعلق کہی گئی ہے وہ ہم پر صادق آتی ہے، اور جو بات ہمارے متعلق کہی گئی ہے وہ ہمارے بلیغ شیعوں پر صادق آتی ہے (تأویل الزّکوٰۃ، ص۱۴۰ از سیّدنا جعفر بن منصور الیمن)۔ |
|
۶۶۹
قال رسول اللہ (۱) |
آنحضرت نے فرمایا: قَدۡ خَلَّفۡتُ فِیۡکُمُ الثَّقَلَیۡنِ اَحَدُ ھُمَا اَکۡبَرُ مِنَ الۡآخِرِ سَبَبًا مَوۡصُوۡلاً مِنَ السَّمَاءِ اِلٰی الۡاَرۡضِ: کِتَابُ اللّٰہِ وَ عِتۡرَتِیۡ اَھۡلَ بَیۡتِیۡ، فَاِنَّھَمَا لَنۡ یَتَفَرَّقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ الۡحَوۡضَ۔ میں نے اپنی جگہ دو گرانقدر چیزیں تم میں چھوڑ دی |
۳۸۶
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
ہیں، اُن میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے، وہ (گویا) آسمان اور زمین کے مابین لگائی ہوئی رسی ہیں، وہ اللہ کی کتاب (قرآن) اور میرے اہلِ بیت کی عترت ہیں، پس یہ دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، تا آنکہ حوض کوثر پر مجھ سے مل جائیں۔ دو ایسی عدیم المثال اور عظیم الشّان چیزیں ہیں جن میں سے ہر ایک آسمان زمین بلکہ کون و مکان سے بھی زیادہ بھاری ہے، یعنی قرآن اور اس کا معلّم (امامؑ) جن کو آنحضورؐ نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہی اللہ کی رسّی ہے، جو آسمان سے زمین تک باندھی ہوئی ہے تاکہ اہل زمین کو آسمان پر اٹھا لیا جائے (شرح الاخبار، جُز۱۰، ص۴۸۱)۔ |
||
۶۷۰
قال رسول اللہ (۲) |
آنحضرت نے فرمایا: اِنِّیۡ تَارِکٌ فِیۡکُمُ الثَّقَلَیۡنِ اَحَدُھُمَا اَکۡبَرُ مِنَ الۡآخِرِ: کِتَابُ اللہِ حَبۡلٌ مَمۡدُوۡدٌ مِنَ السَّمَآءِ اِلٰی الۡاَرۡضِ طَرَفٌ مِنۡہُ عِنۡدَ اللہِ وَ طَرَفٌ مِنۡہُ فِیۡ اَیۡدِیۡکُمۡ فَاسۡتَمۡسِکُوۡا بِہِ وَ عِتۡرَتِیۡ۔ یقینا میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ جانے والا ہوں ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے، اللہ کی کتاب ہے جو (گویا) آسمان سے لیکر زمین تک ایک کھینچی ہوئی رسّی ہے، |
۳۸۷
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
جس کا ایک سرا خدا کے پاس ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے، اور میری عترت بھی اسی سے مل کر ہے۔ قرآن اور امامؑ عالمِ وحدت میں ایک ہی نور ہے جو عرشِ برین سے فرشِ زمین تک ایک کھینچی ہوئی رسی (یا ستون) کی طرح قائم ہے۔ (شرح الاخبار، جزء۱۰، ص۴۷۹)۔ |
||
۶۷۱
قال علی |
علیؑ نے فرمایا: نزل قراٰن أرباعًا، فَرُبعٌ فینا، و ربعٌ فی عدوِّنا، و ربعٌ سِیَر وّ امثال، و ربعٌ فرائض وّ أحکام، و لنا کرائم القراٰن۔ قرآن چار چوتھائیوں میں نازل ہوا ہے، پس ایک چوتھائی ہمارے بارے میں ہے، ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے، ایک چوتھائی میں عادتیں اور مثالیں ہیں، اور ایک چوتھائی فرائض و احکام پر مبنی ہے، اور قرآن کی (سب سے) باکرامت آیات ہمارے بارے میں ہیں۔ (شرح الاخبار، جلد۹، علیؑ فی القرآن، ص۳۵۳)۔ |
|
۶۷۲
قالب (۱) |
سانچا، ڈھانچہ، قالب، جسم: حدیثِ شریف ہے: روحُ المؤمنِ بَعد الموتِ فِی قالِبٍ |
۳۸۸
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
کقالِبہٖ فی الدّنیا۔ مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا (صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا قالب کثیف تھا، وہ لطیف اور نورانی ہوتا ہے، لغات الحدیث، جلد سوم، کتاب “ق” ص۱۴۲)۔ |
||
۶۷۳
قالب (۲) |
سانچا، جسمِ کثیف، جسمِ لطیف: حکمتِ حدیث کے مطابق جسمِ انسانی کا دوسرا نام “قالب” یعنی سانچا (MOULD) اس لئے استعمال ہوا ہے کہ یہ خدا کے حکم سے مقامِ روحانیّت پر سچ مچ سانچے کا کام کرتا ہے چنانچہ ہر انسانِ کامل کے قالب میں ڈھلی ہوئی روح کائناتی روح کی بےشمار کاپیاں یعنی زندہ تصویریں ہوا کرتی ہیں، حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی مثال کو لیجئے، کہ ان کے مبارک قالب کی ہر کاپی خود داؤدؑ بھی ہے، عالم شخصی بھی، لپیٹی ہوئی کائنات بھی، فرشتہ بھی ہے، جسمِ لطیف بھی، اور جامۂ جنّت بھی۔ |
|
۶۷۴
قالب (۳) |
جسمِ لطیف، لَبُوس، جُثَّۂ اِبداعیہ: سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۰) میں خداوندِ عالم اپنے احسانِ عظیم کا ذکر جمیل |
۳۸۹
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
فرماتا ہے: وَ عَلَّمۡنٰہُ صَنۡعَۃَ لَبُوۡسٍ لَّکُمۡ۔ اور ہم نے داؤدؑ کو تمہارے لئے ایک پُوشِش بنانا سکھا دیا۔ اگر ان پُرحکمت الفاظ میں سے لَبُوۡسٍ (پُوشِش) کی مثال اور ممثول کی وضاحت کرکے خداوندِ قدّوس کے اصل احسان کو ظاہر نہ کیا جائے تو مثال یعنی ذرّہ سے متعلق آج کے زمانے میں کئی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں، لہٰذا ہم یہ کہیں گے کہ لبوس کی تاویل جسمِ لطیف ہے اور داؤد سے ہادیٔ زمان مراد ہے۔ |
||
۶۷۵
قالب (۴) |
جامۂ جنّت، اُڑن طشتری جیسا باکمال انسان: دنیا کے لباس میں نہ تو عقل و جان ہے اور نہ حس و حرکت، لیکن بہشتی لباس حیاتِ طیّبہ اور عقلِ کامِل کی خوبیوں سے مزیّن و آراستہ ہیں، چنانچہ جامۂ جنّت کے جتنے کام ہیں اتنے نام بھی ہیں، جیسے جسمِ لطیف، جُثّۂ ابداعیہ، جسمِ فلکی، کوکبی بدن، فرشتہ، لطیف انسان، مومن جنّ/ پری، محراب (قِلعہ)، سِربال (جمع سرابیل)، رِیش، لَبُوس، حریر وغیرہ، پس یہ مومنین و مومنات کے لئے نُورِ منزّل کے قالب (سانچے) میں بنائے ہوئے نورانی لباس ہیں، جس کے طریقِ کار کا ذکر ہوچکا، اور ہماری کئی تحریروں میں اس راز کا تذکرہ ہے۔ |
۳۹۰
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
۶۷۶
قالب (۵) |
زندہ اور باشعور تصویریں: حضرتِ علیؑ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: جنّت میں ایک بازار ہوگا، جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہوں گی، جو جسے پسند کرے گا اُسی کی طرح ہوجائے گا، (جامع ترمذی، جلد دوم، جنّت کا بیان)۔ بہشت کی کوئی چیز عقل و جان کے بغیر نہیں، لہٰذا یہ تصویریں خاص و عام انسانوں کی خوبصورت کاپیاں ہیں، اور ان میں عارفین و کاملین کی کاپیاں بھی ہیں، جو انفرادی قیامت میں تیار ہوتی ہیں۔ |
|
۶۷۷
قَانِتۡ |
فرمانبرداری کرنے والا، خشوع و خضوع کرنے والا: اے عزیزانِ من! سورۂ نحل (۱۶: ۱۲۰) میں اس عجیب و غریب حکمت کو چشمِ بصیرت سے دیکھ لیں کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے عالمِ شخصی میں ایک ایسی بہت بڑی اُمّت تھے جس کی صفت تھی عاجزی اور خشوع کے ساتھ فرمانبرداری میں لگے رہنا اور خدائے واحد کو پہچاننا، اس کے معنی ہیں کہ اگرچہ ان کی ذات میں ساری کائنات لپیٹی ہوئی تھی لیکن تذکرہ خدا کے ان فرمانبرداروں کا ہے جو آپؑ |
۳۹۱
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
کی ہستیٔ مبارک کے سانچے میں ڈھل ڈھل کر آپ کی کاپیاں ہوگئے تھے، اور حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام لوگوں کے امام تھے۔ |
||
۶۷۸
قائم |
حضرتِ قائمؑ: کتاب وجہِ دین، گفتار/ کلام۳۳ کے آخر میں ہے: قائم (علیہ السّلام) کو کوئی شخص نہ پہچان سکے گا، مگر پانچ حدود کے ذریعے سے، جیسے اساس، امام، باب، حجّت اور داعی۔ مذکورہ کتابِ مستطاب میں جگہ جگہ حضرتِ قائم القیامۃؑ کا ذکر آیا ہے، آپ اس کو پڑھیں۔ |
|
۶۷۹
قَبۡر |
گور، قبر، جمع قبور: وجودِ انسانی تین چیزوں کا مجموعہ ہے: جسم، روح اور عقل، لہٰذا قبر بھی تین قسم کی ہوا کرتی ہیں: جسمانی، روحانی اور عقلانی، اس سے معلوم ہوا کہ خاکی قبر صرف جسم ہی کے لئے ہوتی ہے، اور روح حدودِ دین میں سے کسی حد میں جاتی ہے، اور عقلی قبر مظاہرۂ حکمت کی خاطر ہوتی ہے۔ |
۳۹۲
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
۶۸۰
قَبَس (۱) |
اںگارا، چںگاری، آگ کا شعلہ، جلتی ہوئی لکڑی کا شعلہ: اَلۡقَبَسُ وَ الۡمِقۡبَاسُ۔ آگ کا وہ شعلہ جو بڑی آگ سے لیا جائے۔ حضرتِ موسٰی علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں جس نار (آگ) کا ذکر آیا ہے (۲۰: ۱۰؛ ۲۷: ۰۷؛ ۲۸: ۲۹) وہ آتشِ عشق بھی ہے، چراغِ ہدایت بھی اور نورِ عقل بھی، یہ قرآنِ حکیم کے معجزات میں سے ہے کہ اس میں جگہ جگہ اچھوتے اسرار پنہان ہیں، جیسے حکایتِ موسٰیؑ میں ارشاد ہے: اِذۡ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهۡلِهِ امۡكُثُوۡٓا اِنِّیۡٓ اٰنَسۡتُ نَارًا۔ جب انہوں نے آگ دیکھی تو اپنے لوگوں سے کہنے لگے کہ ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ پس یہاں “اٰنَسۡتُ” میں ایک لطیف اشارہ ہے جبکہ اِنِّیۡ رَأَیۡتُ نَارًا بھی ہوسکتا تھا، لیکن اٰنستُ میں نور سے عشق و محبّت ہونے کا اشارہ موجود ہے، کیونکہ اس کے مادّہ (ا ن س) سے بننے والے الفاظ میں مانوسیت، لطف، مہربانی، محبّت، اور تسلّی جیسے معنی ہیں۔ |
|
۶۸۱
قَبَس (۲) |
نور کی چنگاری: سورۂ طٰہٰ میں جہاں (۲۰: ۱۰) نور کی چنگاری یا شعلہ لانے کا ذکر آیا ہے، وہاں قبلًا (۲۰: ۰۸) الۡاَسۡمَاءُ الۡحُسۡنٰی کا تذکرہ ہے، جس کا اشارہ |
۳۹۳
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
یہ ہوا کہ ہادیٔ برحق اللہ کے فضل و کرم سے اپنی ذات اور اپنے تابعدار لوگوں کے درمیان اسمِ اعظم کا نورانی پُل تعمیر کرسکتا ہے، ان کو شروع شروع میں نور کی چنگاری دیکر رفتہ رفتہ اسے کامل نور بنا سکتا ہے، مگر عشق اور علم و عمل شرطِ لازمی ہے۔ |
||
۶۸۲
قَبَس (۳) |
شعلۂ نور: نور کا ایک نام صِبۡغَۃ اللہ (۰۲: ۱۳۸) یعنی رنگِ خدا ہے تو وہ رنگ کیسا ہوگا؟ دنیا میں جتنے عمدہ سے عمدہ رنگ ہیں، ان میں جیسی رعنائی اور دلکشی ہے، اس کی نسبت بہت زیادہ بلکہ بیحد دلنواز، ایمان افروز، روح پرور، جانفزا، حیران کن، اور عجائب و غرائب کا مظہر ہے تو پھر وہاں عشق و محبّت کیوں نہ ہو۔ |
|
۶۸۳
قبلۃ (۱) |
خدا کا گھر: یہ حکمت آگین ارشاد سورۂ یونس میں ہے: اور ہم نے موسٰی اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ مصر میں چند گھر اپنے قوم کے لئے مہیّا کرو اور اپنے ان گھروں کو قبلہ (خانۂ خدا) بنا لو اور نماز قائم کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو (۱۰: ۸۷) اس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن۔ |
۳۹۴
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
۶۸۴
قبلۃ (۲) |
خدا کا گھر: مصر کے معنی ہیں شہر، جس سے عالمِ شخصی مراد ہے، پس اللہ جَلَّ شَانہُ کے حکم سے حضرتِ موسٰی پیغمبر اور حضرتِ ھارون امام علیہما السّلام نے عالمِ شخصی میں چند حدودِ دین کو قومی گھروں کا درجہ دیا، تاکہ ان کو مزید ترقی دے کر قبلہ (خانۂ خدا) بنا دیا جائے، جس میں حقیقی نماز قائم کی جائے، اور یہ امر اہل ایمان کے لئے خوشخبری ہو۔ |
|
۶۸۵
قبلۃ (۳) |
خدا کا گھر: سورۂ نور کی آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) کے بعد یہ ارشاد ہے: (یہ نورِ الٰہی کا چراغ) ایسے گھروں میں ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کو بلند کیا جائے اور ان میں اللہ تعالٰی کے اسمِ پاک کا ذکر کیا جائے (۲۴: ۳۶) خدائے بزرگ و برتر کا باطنی گھر پہلے انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور عارفین کے دل میں ہوتا ہے، لیکن روحانی انقلاب کے ساتھ ساتھ بلند ہوکر پیشانی پر جاتا ہے، جیسے طوفانِ نوحؑ کے آنے پر خانۂ کعبہ کو آسمان پر اٹھایا گیا تھا۔ |
|
۶۸۶
قبلۃ (۴) |
خدا کا گھر: حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام نے خدا کے حکم |
۳۹۵
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
سے کعبۂ ظاہر کے ساتھ ساتھ قبلۂ باطن کو بھی بنا لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے فرمایا: مقامِ ابراہیمؑ کو جائے نماز بنا لو (۰۲: ۱۲۵) یعنی تم بھی ابراہیمؑ کی طرح کعبۂ روحانی میں نماز باطن پڑھا کرو۔ |
||
۶۸۷
قراٰن (۱) |
قرآن: کَمۡ مِنۡ قَارِیءٍ لِلۡقُرۡاٰنِ وَ الۡقُرۡاٰنُ یَلۡعَنُہٗ۔ کتنے قرآن پڑھنے والے (قاری) ایسے ہیں کہ قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے (لغات الحدیث، جلد سوم، کتاب ق) ایسی لعنت کے معنی ہیں قرآنی خزائن سے محرومی اور دوری۔ |
|
۶۸۸
قراٰن (۲) |
قرآن: پیغمبرِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: اِنَّ لِلۡقُرۡاٰنِ ظَھۡرًا وَ بَطۡنًا وَ لِبَطۡنِہِ بَطۡنًا اِلیٰ سَبۡعَۃِ اَبۡطُنٍ وَ فِیۡ رِوَایَۃٍ اُخۡرٰی سَبۡعِیۡنَ بَطۡنًا۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے، یہ سلسلہ سات بواطن اور دوسری روایت میں ستر بواطن تک جاتا ہے۔ (المیزان، جلد اوّل، ص۷) یہی دینِ حق کی ظاہری اور باطنی نعمتیں ہیں، جیسا کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ارشاد ہے: وَ اَسۡبَغَ عَلَیۡکُمۡ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً۔ اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں |
۳۹۶
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
پوری کر دیں۔ |
||
۶۸۹
قُرَّۃُ اَعۡیُنٍ |
آنکھوں کی ٹھنڈک: سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۷) میں بہشت کی نعمتوں کا ذکر اس طرح آیا ہے: فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَهُمۡ مِّنۡ قُرَّةِ اَعۡیُنٍ۔ سو کسی شخص کو خبر نہیں جو کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے لئے چھپا رکھا گیا ہے (۳۲: ۱۷) اُخۡفِیَ (وہ چھپایا گیا) سے یہ حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ بہشت دور نہیں، سامنے ہے، یعنی عالمِ شخصی میں، لیکن اس پر پردہ پڑا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک کے تین اشارے ہوسکتے ہیں: (۱) بہشت کی تمام نعمتیں (۲) جنّت میں اولاد سے متعلق ہر خواہش پوری ہوگی، (۳) وہاں آنکھوں کے لئے ہر نظّارہ اور ہر دیدار ہے، لیکن اللہ کی ہر تجلّی اور دیدار کی تعریف و توصیف وہ خود ہی کرسکتا ہے۔ |
|
۶۹۰
قَرِیۡنٌ (۱) |
ساتھی: قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم: ما منکم من احد الّا و معہ قرینہ من الجنّ و قرینہ من الملائکۃ، قالوا: و ایّاک؟ قال: نعم و ایّای، و لٰکن |
۳۹۷
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
اللہ اعاننی علیہ فأسلم۔ (دارمی، جلد ثانی، کتاب الرقاق، ۲۵باب) تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک ساتھی جنوں میں سے اور ایک ساتھی فرشتوں میں سے، پوچھا گیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کا بھی ایسا ہے؟ فرمایا: ہاں میرا بھی، لیکن اللہ تعالٰی نے مجھے اس پر غلبہ بخشا پس وہ تابعدار ہوگیا۔ |
||
۶۹۱
قَرِیۡنٌ (۲) |
ساتھی: سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں ارشاد ہے: اور جو شخص خدا کی یاد سے اندھا بنتا ہے ہم اس کے واسطے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا (ہر دم کا) ساتھی ہے (۴۳: ۳۶) اس آیت کی حکمت اس حدیث سے ظاہر ہوجاتی ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر شخص کے دل کے دو کان ہیں، جن میں موقع کے مطابق کچھ کہنے کے لئے ایک شیطان اور ایک فرشتہ دو ساتھی مقرر ہیں، غفلت رہی تو شیطان کو موقع مل جاتا ہے، ذکرِ الٰہی کا دور دورہ ہے تو فرشتہ کچھ نیک باتیں کرنے لگتا ہے۔ |
|
۶۹۲
قَرِیۡنٌ (۳) |
ساتھی: یہ قانونِ الٰہی نہ صرف باطن میں ہے بلکہ ظاہر میں بھی ہے کہ امامِ |
۳۹۸
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
زمان علیہ السّلام اللہ تعالٰی کا اسمِ اعظم اور اس کا پاک ذکر ہے، جو شخص اپنے وقت کے امامؑ کو پہچانتا ہے اور اس وسیلے سے خدا کو یاد کرتا رہتا ہے، وہ ہمیشہ کے لئے بڑے شیطان سے بچ کر اللہ کی پناہ گاہ میں محفوظ و سلامت رہتا ہے، پس قلبِ انسانی کی ایک طرف جو فرشتہ ہے وہ امامؑ کے نور کی چنگاری ہے، اور دوسری طرف جو شیطان ہے وہ امامِ زمان کے اعداء کی روح ہے۔ |
||
۶۹۳
قلب (۱) |
دل: سورۂ انفال (۰۸: ۲۴) میں جو عظیم حکمت پنہان ہے اس کے مطابق “قلب” سے امام یعنی حضرتِ قائم علیہ السّلام مراد ہے، جو ہر مومن اور مومنہ کا دل ہے۔ |
|
۶۹۴
قلب (۲) |
دل: حدیثِ قدسی ہے: ما وَسِعَنی ارضی ولا سمائی وَ وَسِعَنِی قلب عبدی المومن۔ خداوندِ قدّوس کا ارشاد ہے: نہ میری زمین مجھ کو سما سکی نہ میرا آسمان، ہاں میرے مومن بندے کے دل نے مجھ کو سما لیا (المعجم الصّوفی) یعنی میں اپنے بندۂ مومن کے دل میں رہتا ہوں، پس ہمیں جاننا چاہیے کہ ایسا باکمال مومن جس کے |
۳۹۹
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
آئینۂ قلب میں خدا کی تجلّی ہو جانشین رسولؐ ہی ہے اعنی امامؑ جو فی الحقیقت مظہرِ نورِ خداوندی ہے۔ |
||
۶۹۵
قلب (۳) |
دل، وہ دل جو عالمِ عُلوی میں ربّ کی دو انگلیوں کے درمیان ھے: حدیثِ شریف میں ہے: ما مِن قلبٍ الّا و ھو بین اصبعَین من اصابع ربّ العالمین۔ کوئی دل نہیں مگر وہ پروردگارِ عالمین کی انگلیوں میں سے دو انگشت کے درمیان ہے (مسند احمد بن حنبل، ۵، حدیث النّواس، ص۹۷)۔ اس حدیث کی تاویلی حکمت بہت ضروری ہے کیونکہ خدا نے ہر شخص کو اختیار دیا ہے، وہ کسی کو مجبور نہیں کرتا ، چناچہ اس کی تأویل یہ ہے: تمام دلوں کا نمائندہ گوہرِ عقل ہے، حضرتِ ربّ کی انگلیاں عقلِ کلّ، نفس کلّ، جدّ، فتح، خیال ہیں، ان میں سے دو انگشت عقل و نفس ہیں، جن کے درمیان گوہر کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے، جس میں علم و حکمت کی کلیدیں ہیں، اس کے برعکس اگر ہم صرف ظاہر پر ٹھہریں تو اختیار کا نظریہ ختم ہوجاتا ہے۔ |
۴۰۰
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
۶۹۶
قلبِ سلیم (۱) |
بے عیب دلِ صحتمند دل: ایسا دل جو باطنی بیماریوں سے پاک ہو، اور ہر وقت اس پر حق تعالٰی کی نظرِ عنایت و ہدایت رہے، جیسے حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السّلام کا قلبِ مبارک تھا (۳۷: ۸۴)۔ |
|
۶۹۷
قلبِ سلیم (۲) |
وہ دل جو صحیح سلامت ھو: سورۂ شعراء (۲۶: ۸۹) میں قلب سلیم کا ذکر آیا ہے جس سے ایسا دل مراد ہے جو نورِ امامت سے منوّر ہوچکا ہو، ایسے میں امامِ عالیمقامؑ ہی بندۂ مومن کا دل قرار پائے گا۔ |
|
۶۹۸
قَمِیۡص (۱) |
کُرتہ: حضرتِ یوسفؑ نے کہا: اِذۡھَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ھَذَا۔ یہ میرا کرتہ لے جاؤ (۱۲: ۹۳) یہ معجزاتی کرتہ حضرتِ امام علیہ السّلام کا جُثَّۂ ابداعیہ ہی ہے، یہ گویا ایک حجاب ہے، اور اس میں جو ہستی محجوب ہے وہ خود امامؑ ہی ہے۔ |
|
۶۹۹
قَمِیۡص (۲) |
کرتہ، پیراھن، قمیص: سورۂ یوسف (۱۲: ۹۳) میں حکایۃً ارشاد ہے: اِذۡھَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ |
۴۰۱
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
ھٰذَا فَاَلۡقُوۡہُ عَلٰی وَجۡہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًا۔ یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو، وہ بینا ہوجائیں گے۔ یہ امام علیہ السّلام کے معجزۂ نورانیت کی ایک درخشان مثال ہے کہ وہ اپنے نور کا عکس کسی عاشق پر ڈال سکتا ہے، اور جثّۂ ابداعی کی کاپی دے سکتا ہے، حضرتِ یوسفؑ حضرتِ یعقوبؑ کا جسمانی فرزند بھی تھا اور نورانی فرزند بھی، لیکن یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ جنابِ یعقوب کی ساری گریہ و زاری نورانی فرزند کے نورانی دیدار کی غرض سے تھی۔ |
||
۷۰۰
قَمِیۡص (۳) |
کُرتۃ، پیراھن، قمیص: سوال: حضرتِ یعقوب اور حضرتِ یوسف علیہما السّلام کی مثال میں خداوند عالم نے بہت پہلے ہی امامت باپ سے بیٹے میں منتقل کر دی، پھر دونوں کے درمیان جدائی ڈال کر خوب رُلایا، اس میں کیا حکمت ہے؟ جواب: انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ہر مثال میں اہل ایمان کے لئے ہدایت ہے، چنانچہ امام علیہ السّلام اور عاشقِ صادق کے درمیان کئی اعلٰی رشتے ہیں، منجملہ وہ باپ بھی ہے اور ایک خاص مقام پر بیٹا بھی، مثال کے طور پر حجّت امامؑ کا روحانی فرزند ہے، اور یہ بھی درست ہی ہے کہ حجّت کے عالمِ شخصی میں امام |
۴۰۲
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
اس کا ںوراںی اور عقلی بیٹا ہے، پس اے نورِ عینِ من! حضرتِ یعقوبؑ میں آپ ہی کے لئے اشارہ ہے کہ آپ اپنے عالمِ شخصی کے نورانی فرزند کے باطنی دیدار کی غرض سے عشق کے آنسو بہایا کریں۔ |
۴۰۳
لفظ | معنی و حکمت “ق” | |
۷۰۱
قِیَامَتُہٗ |
اس کی قیامت: احیاء العلوم، جلد چہارم، ص۹۱ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: مَنۡ مَّاتَ فَقَدۡ قَامَتۡ قِیَامَتُہٗ۔ جو مرگیا بیشک اس کی قیامت برپا ہوگئی۔ اس میں عارفانہ موت اور انفرادی قیامت کا ذکر ہے، تاہم قیامتِ صغرٰی (ذاتی قیامت) وہ ہے، جس میں قیامتِ کُبرٰی پوشیدہ ہوا کرتی ہے، اور یہی روحانی انقلاب قرآنِ حکیم کی تأویل بھی ہے۔ |
۴۰۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۴۰۴
بابُ الکاف
|
۴۰۵
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۴۰۶
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۰۲
کَاۡس |
جامِ شراب: ارشادِ باری تعالٰی ہے: یُطَافُ عَلَیۡهِمۡ بِكَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍ۔ چشمۂ شراب سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھرائے جائیں گے (۳۷: ۴۵) قرآنِ پاک میں جہاں جہاں شرابِ بہشت کا ذکر آیا ہے وہاں اس سے عشقِ حقیقی مراد ہے، یہ پاک عشق سرچشمۂ دیدارِ الٰہی سے پیدا ہوگا، جو کُلَّ یَوۡمٍ ھُوَ فِیۡ شَاۡنٍ (۵۵: ۲۹) کے مطابق مختلف تجلّیات و ظہورات کا متقاضی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مظہر اور مظاہرِ اسمائے صفات حق ہیں۔ لفظِ مَعین کو لغات میں بھی دیکھ لیں، یہ عین (آنکھ) کا اسمِ مفعول ہے، اس لئے یہاں شرابِ دیدار کی طرف اشارہ ہے جو شرابِ عشق ہے، کیونکہ جب لفظ “معین” پانی کی صفت کے لئے ہو تو اس کے لُغوی معنی ہیں وہ چشمہ جو سطحِ زمین پر جاری ہو اور آنکھوں سے دیکھا جائے۔ |
|
۷۰۳
کِتَاب (۱) |
نامۂ اعمال: سورۂ تطفیف میں ہے: ہرگز ایسا نہیں نیک لوگوں کا نامۂ اعمال عِلِّیِّین میں ہے، اور تم کو کیا معلوم کہ عِلِّیِّین کیا چیز ہے ایک دفتر ہے لکھا ہوا، جس کو مقرّب لوگ دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱)۔ عِلِّیِّین ایک پُرنور لطیف ہستی کا نام ہے، آپ اسے فرشتہ بھہ کہہ |
۴۰۷
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
سکتے ہیں، وہ واحد بھی اور جمع بھی ہے، وہ خود کتاب و دفتر بھی ہے اور اس میں نیکوکاروں کا نامۂ اعمال بھی ہے، اُس کا مشاہدہ دنیا میں صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خداوند تعالٰی کے مقرّب ہیں۔ |
||
۷۰۴
کِتَاب (۲) |
نامۂ اعمال: وَ لَدَیۡنَا كِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ هُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ۔ اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو حق بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں ہوگا (۲۳: ۶۲)۔ یہ امامِ عالیمقام علیہ السّلام کا مقدّس نور ہے جو کتابِ ناطق (قرآنِ ناطق) بھی ہے اور گواہ ہونے کی حیثیت سے لوگوں کا نامۂ اعمال بھی ہے۔ |
|
۷۰۵
کِتَاب (۳) |
نامۂ اعمال: جن سالکین کو نفسانی موت کا تجربہ حاصل ہوتا ہے وہ لازمی طور پر اپنے نامۂ اعمال کو دیکھتے ہیں، کیونکہ ذاتی قیامت اس کے سوا نہیں، اور یہی طریقہ “فنا فی الامام” بھی ہے، جس کے بغیر کوئی شخص آنحضرتؐ کے شہرِ علم اور دارِ حکمت میں داخل نہیں ہوسکتا ہے۔ |
۴۰۸
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۰۶
کِتَاب (۴) |
نامۂ اعمال: یہ ارشاد سورۂ نبا (۷۸: ۲۹) میں ہے: وَ کُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰہُ کِتٰبًا۔ اور ہم نے ساری چیزوں کو ایک کتاب (کی صورت) میں گھیر لیا ہے۔ یعنی ہر آدمی کے عالمِ شخصی میں جملہ کائنات لپیٹی ہوئی ہے اور یہی بڑی مفصّل کتابِ اعمال یعنی نورِ امامت کی گواہی ہے۔ |
|
۷۰۷
کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن (۱) |
پوشیدہ کتاب: فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ (بے شک وہ معزّز قرآن ہے) پوشیدہ کتاب میں۔ یعنی قرآنِ پاک کے جملہ اسرارِ حکمت گوہر عقل کے عظیم الشّان اشارات میں مخفی ہیں (۵۶: ۷۷ تا ۷۸)۔ |
|
۷۰۸
کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن (۲) |
پوشیدہ کتاب: یہ خزانۂ حکمت سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) میں ہے: بے شک وہ بڑا باعزّت قرآن ہے جو ایک پوشیدہ کتاب میں (محفوظ) ہے، جس کو چھو نہیں سکتے ہیں مگر وہی لوگ جو پاک کئے گئے ہیں (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) یعنی لؤلؤئے عقل۔ |
۴۰۹
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۰۹
کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن (۳) |
پوشیدہ کتاب: سورۂ صٓ (۳۸: ۴۵) میں حضرتِ ابراہیم، حضرتِ اسحٰق اور حضرتِ یعقوب علیہم السّلام کی تعریف ہے کہ یہ حضرات دستِ رسا اور چشمِ بینا رکھتے تھے، اس کا اشارہ ہے کہ وہ اُن مقدّس ہستیوں میں سے تھے جو کتابِ مکنون کو چھو سکتے ہیں اور حظیرۃ القدس کو دیکھ سکتے ہیں۔ |
|
۷۱۰
کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن (۴) |
پوشیدہ کتاب: سامری بنی اسرائیل میں وہ نادان شخص تھا جس نے حضرتِ ہارون علیہ السّلام کو نہیں پہچانا، اس نے محض ابتدائی اور آزمائشی روحانیّت کو اپنی عزّت و شہرت کی خاطر استعمال کرکے لوگوں کو گمراہ اور اعلٰی تصوّرات سے محروم کر دیا، جس کی سزا نہ چھونے (لا مساس) کی صورت میں دی گئی (۲۰: ۹۷) اس کا اشارہ یہ ہے کہ ہادیٔ برحق کی رہنمائی کے سوا کوئی شخص کتابِ مکنون کو چھو نہیں سکتا۔ |
|
۷۱۱
کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡن (۵) |
پوشیدہ کتاب: ہر قرآنی آیت کے باطن میں حکمتِ بالغہ پنہان ہے، یعنی ایسی اعلٰی اور رسا حکمت کہ اس میں حظیرۃ القدس کا کوئی بڑا راز ہوتا ہے، چاہے |
۴۱۰
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
کوئی آیت ابولہب کے بارے میں کیوں نہ ہو، جیسا کہ سورۂ لَھَبۡ (۱۱۱: ۰۱) میں ہے: تَبَّتۡ یَدَآ اَبِیۡ لَھَبٍ وَّ تَبَّ۔ ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ہلاک ہوگیا (۱۱۱: ۰۱) یعنی وہ اس قابل نہیں ہوسکا کہ آگے چل کر کبھی کتابِ مکنون کو چھوسکے کیونکہ اس کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ خود بھی روحانی طور پر ہلاک ہوگیا۔ |
||
۷۱۲
کِتٰبٍ مُّنِیۡر |
روشن کتاب، تابناک کتاب، یعنی نورِ حقّ الیقین: کتابِ منیر سے نورِ عقل مراد ہے جو مرتبۂ حقّ الیقین پر ہے، اور اسی کا نام کتابِ مکنون بھی ہے، جیسا کی ارشاد ہے: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ لَا هُدًى وَّ لَا كِتٰبٍ مُّنِیۡرٍ (۲۲: ۰۸) اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کے بغیر خدا کے بارے میں جَدَل کرتے ہیں (۲۲: ۰۸؛ ۳۱: ۲۰) کتابِ منیر کے لئے سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۸۴) اور سورۂ فاطر (۳۵: ۲۵) میں بھی دیکھ لیں۔ |
|
۷۱۳
کِتٰبٌ یَّنطق (۱) |
بولنے والی کتاب، امامؑ میں قرآن: اے نورِ عینِ من! تم اس آیۂ شریفہ کی حکمت کو سمجھنے کے لئے سعی |
۴۱۱
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
کرو: وَ لَدَیۡنَا كِتٰبٌ یَّنۡطِقُ بِالۡحَقِّ وَ هُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ۔ (۲۳: ۶۲) اور ہمارے پاس کتاب ہے جو سچ سچ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ یہ کتاب امام علیہ السّلام کی ذاتِ عالی صفات میں قرآنِ عزیز ہی ہے، اس معنٰی میں امام صلوات اللہ علیہ قرآنِ ناطق کہلاتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو کلام اللہ ہمہ گیر نہ ہوتا، محدود ہوتا، اور یہ بات محال ہے۔ |
||
۷۱۴
کِتٰبٌ یَّنطق (۲) |
امام کے باطن میں قرآن: اے عزیزان! قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں لفظِ “کلّ” آتا ہے وہاں وہ اکثر ایک “کلّیہ” یعنی قائدہ و قانون کو ظاہر کرتا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: قَالُوۡٓا اَنۡطَقَنَا اللّٰهُ الَّذِیۡٓ اَنۡطَقَ كُلَّ شَیۡءٍ (۴۱: ۲۱) تو وہ (اعضاء) جواب دیں گے کہ جس خدا نے ہر چیز کو گویا کیا اُسی نے ہم کو بھی گویا کیا۔ اس کائناتی (UNIVERSAL) قانون کا مطلب یہ ہوا کہ جو چیزیں بظاہر نہیں بولتی ہیں وہ بھی کسی ایک مقام پر جاکر خدا کے حکم سے بولنے لگتی ہیں، پس قرآنِ پاک اگرچہ ظاہراً صامت (خاموش) ہے لیکن وہ وصیٔ رسولؐ میں ہمیشہ بولتا رہتا ہے، اسی وجہ سے امامؑ کو قرآنِ ناطق کہتے ہیں۔ |
۴۱۲
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۱۵
کِتٰبٌ یَّنطق (۳) |
امام کے باطن میں قرآن جو ابرار کا نامۂ اعمال بھی ھے: باری تعالٰی کا ارشاد ہے: هٰذَا كِتٰبُنَا یَنۡطِقُ عَلَیۡكُمۡ بِالۡحَقِّ (۴۵: ۲۹) یہ ہماری کتاب (جو تمہارے اعمال کی کتاب بھی ہے) تم پر سچ سچ بولتی ہے (۴۵: ۲۹) یعنی قرآن اور امامؑ، اگر کوئی بولنے والی معجزانہ کتاب الگ اور مخصوص رکھی ہوئی ہوتی تو وہی زیادہ قابلِ تعریف ہوتی اور قرآنِ حکیم کی یہ محیط اور ہمہ گیر صفت نہ ہوتی، جو ارشاد ہے: وَ نَزَّلۡنَا عَلَیۡكَ الۡكِتٰبَ تِبۡیَانًا لِّكُلِّ شَیۡءٍ (۱۶: ۸۹) اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا (شافی) بیان ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قرآنِ عظیم اور امامِ اقدس کا نورِ واحد ابرار یعنی نیک لوگوں کا نامۂ اعمال بھی ہے جو علّیّین میں ہے (۸۳: ۱۸)۔ |
|
۷۱۶
کِتٰبٌ یَّنطق (۴) |
امام کے باطن میں قرآن جو ابرار کا نامۂ اعمال بھی ھے: ہر مسلمان اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ حضرتِ سیّد الانبیاء صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم اپنے وقت میں نورِ مجسّم اور قرآنِ ناطق تھے، جیسے خداوندِ قدّوس کا ارشاد ہے: وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡھَوٰی۔ اِنۡ ھُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی (۵۳: ۰۳ تا ۰۴) اور وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی |
۴۱۳
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
نہیں، یہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے۔ یعنی آپؐ کا بولنا تو قرآن ہی کا بولنا ہے، اس لئے آپؐ قرآنِ ناطق ہوگئے ہیں۔ |
||
۷۱۷
کِتٰبٌ یَّنطق (۵) |
بولنے والی کتاب یعنی امامؑ: اے عزیزان! اس امرِ واقعی کو سورۂ شورٰی (۴۲: ۵۲) میں چشمِ بصیرت سے دیکھ لینا کہ اللہ تعالٰی کا پاک کلام (قرآن) آنحضورؐ کے قلبِ مبارک پر ایک قدسی روح اور نور کی کیفیت میں نازل ہوا، رفتہ رفتہ یہ بے مثال اور آخری کتابِ سماوی تحریری صورت میں لائی گئی، مگر روح و نورِ قرآن کو بدستور آنحضرتؐ ہی کی ذاتِ اقدس میں رہنا تھا تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی منتقلی آپؐ کے وصیؑ میں ہوجائے۔ |
|
۷۱۸
کِتٰبٌ یَّنطق (۶) |
قرآنِ ناطق: اے نورِ عینِ من! (اعنی ہر وہ چیز جو علم کا شیدائی ہے) اس بات کو بھول نہ جانا کہ اگر کسی آیۂ شریفہ میں ایک سے زیادہ نام آئے ہیں تو وہاں جتنے نام ہیں اتنی چیزیں بھی ہیں، مثال کے طور پر جس آیۂ مقدّسہ (۰۵: ۱۵) میں نور اور کتابِ مبین کے دو نام آئے ہیں وہاں کسی شک کے بغیر دو مقدّس چیزیں ہیں، یعنی رسولِ اکرمؐ اور قرآنِ |
۴۱۴
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
پاک، ہاں اللہ تعالٰی کی یہی سنّت چلی آئی ہے کہ آسمانی کتاب کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ربّانی معلّم بھی ہوا کرتا ہے، پس وہی معلّم کتابِ ناطق کہلاتا ہے۔ |
||
۷۱۹
کِتٰبٌ یَّنطق (۷) |
قرآنِ ناطق: کتابِ مبین کے یہاں کم سے کم دو معنی درج کرتے ہیں: (۱) ظاہر (۲) اور بولنے والی، یعنی قرآن جہاں آپ کے سامنے ہے وہاں وہ ظاہر ہے اور بولتا نہیں، اور جہاں یہ ربّانی معلّم کے باطن میں پوشیدہ ہے وہاں قرآن کلام کرتا رہتا ہے۔ |
|
۷۲۰
کِتٰبٌ یَّنطق (۸) |
قرآنِ ناطق: اے نورِ عینِ من! قرآن شناسی کے سلسلے میں سورۂ بروج کے آخر (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) میں بھی دیکھو کہ قرآن لوحِ محفوظ میں عظمت و جلالت کے ساتھ ہے، یعنی وہاں قرآن کا اسمِ صفت مجید ہے اور خداوند تعالٰی کا ایک اسم بھی مجید ہے، آپ نے یہ بھی پڑھا ہوگا کہ قلمِ الٰہی سب سے عظیم زندہ فرشتہ یعنی عقلِ کلّ ہے اور لوحِ محفوظ دوسرا بڑا فرشتہ نفسِ کلّ، وہ نورِ نبیؐ ہے اور یہ نورِ علیؑ، پس قلم (نورِ محمدیؐ) نے بحکمِ اِلٰہ قرآنِ مجید کو لوحِ محفوظ (نورِ علیؑ) میں ازلی نورانی صورت میں لکھ دیا، |
۴۱۵
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
یہ عالمِ عُلوی کا واقعہ ہے، اور اللہ تعالٰی کا یہی حکم عالمِ سفلی میں ہوا کہ مظہرِ قلم اعلٰی (آنحضرتؐ) قرآنِ پاک کی روحانیت و نورانیّت کو مظہرِ لوحِ محفوظ یعنی علیؑ امامِ مبین میں منتقل کر دیں، اور یقیناً ایسا ہی کیا گیا۔ |
||
۷۲۱
کِتٰبٌ یَّنطق (۹) |
یعنی امامؑ جو قرآنِ ناطق ھے: سورۂ عنکبوت میں ہے: بَلۡ ھُوَ اٰیٰتٌ فِیۡ صُدُوۡرِ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ (۲۹: ۴۹) بلکہ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے اُن کے دل میں وہ (قرآن) روشن معجزات کی صورت میں ہے۔ یہ آیۂ مبارکہ أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام کے بارے میں وارد ہوئی ہے کہ ہر امامؑ کے باطن میں قرآنِ پاک کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیت کار فرما ہوتی رہتی ہے، بلکہ یہ عظیم روحانی اور قرآنی معجزہ امام صلوات اللہ علیہ کے وسیلے سے کاملین و عارفین کو بھی حاصل ہوجاتا ہے۔ |
|
۷۲۲
کُرسیّ (۱) |
چبوترا: قرآنِ حکیم میں لفظ کُرسی دو بار آیا ہے (۰۲؛ ۲۵۵؛ ۳۸: ۳۴) عالمِ کبیر کے اعتبار سے کائناتی جسم زمین ہے، نفسِ کلّی چبوترا (کُرسیّ DAIS = ) عقلِ کلّی تخت (عرش) ہے، اسی قانون کے |
۴۱۶
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
مطابق عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کی زمین انسانی بدن ہے، چبوترا یا کُرسی روح، اور تختِ شاہی عقل ہے۔ |
||
۷۲۳
کُرسیّ (۲) |
نفسِ کلّی: آیۃُ الکرسی میں ہے: وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ۔ اس کی کرسی میں تمام آسمان و زمین سمائے ہوئے ہیں (۰۲: ۲۵۵) یعنی نفسِ کلّی کے بحرِ بے پایان میں کائنات ڈوبی ہوئی ہے، اور اس بحرِ عمیق کی گہرائیوں سے لؤلؤئے عقل برآمد ہوتا ہے۔ |
|
۷۲۴
کُرسیّ (۳) |
انسانی روح: سورۂ صٓ کے اس ارشاد میں بھی غور کریں: اور ہم نے سلیمانؑ کو بھی آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لاکر ڈال دیا، پھر اُس نے رجوع کیا (۳۸: ۳۴) یعنی انسانانِ کامل کو جو لطیف جسم ملتا ہے وہ ابتداءً آزمائشی اور تکلیف دہ ہوتا ہے، وہ اسی کرسیٔ جسم و جان پر ڈالا جاتا ہے، اس میں کیڑے مکوڑے وغیرہ ہوتے ہیں، اور اس کے بعد معجزاتی لطیف جسم کا ظہور ہوجاتا ہے۔ |
۴۱۷
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۲۵
کُرسیّ (۴) |
عالمِ شخصی: امامِ مبین صلواۃ اللہ علیہ و سلامہ کا مبارک و مقدّس جسم گویا ایک پاکیزہ گراؤنڈ ہے جس پر اس کی روحِ اطہر بمرتبۂ نفسِ کلّی ایک بے مثال چبوترا (کرسیٔ خدا) اور اس پر عقلِ کامل عالمِ شخصی کا عرش ہے، یہ ہوا اللہ کی کرسی میں تمام آسمان و زمین سموئے ہوئے ہونا (۰۲: ۲۵۵) جیسا کہ ارشاد ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے تمام چیزوں کو امامِ مبین میں گھیر کر رکھا ہے (۳۶: ۱۲)۔ |
|
۷۲۶
کُرسیّ (۵) |
نفسِ کُلّی، کائناتی روح، روح الارواح، لوحِ محفوظ: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵۵) میں ارشاد ہے: وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ۔ اُس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر سما رکھا ہے۔ کرسی سے نفسِ کلّی مراد ہے، جبکہ عرش عقلِ کلّی ہے، پس کرسی کائناتی روح ہے، اور عرش کائناتی عقل۔ |
|
۷۲۷
کُرسیّ (۶) |
نفسِ کلّی، عالمگیر روح: حضرتِ علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: انّ السّماء والارض و ما بینھما من خلق مخلوق فی جوف الکرسی، و لہ اربعۃ |
۴۱۸
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
أملاک یحملونہ بأمر اللہ۔ یقیناً آسمان اور زمین اور ان دونوں کے درمیان جتنی مخلوق ہے وہ سب کچھ کرسی کے اندر موجود و محدود ہے، اور کرسی کو بحکمِ خدا چار عظیم فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں۔ (المیزان، جلد۲، ص۳۴۱)۔ چار عظیم فرشتے (أربعۃ أملاک) دو روحانی: عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ، اور دو جسمانی: ناطق اور اساس ہیں، چونکہ وہاں عالمِ وحدت ہے اس لئے یہ چار فرشتے الگ الگ نہیں، بلکہ چاروں کی ازلی وحدت میں ایک ہی عظیم فرشتہ ہے جو حاملِ کرسی بھی ہے اور خود کرسی بھی۔ |
||
۷۲۸
کُرسیّ (۷) |
نفس، جان، روح: لفظِ کرسی قرآنِ پاک میں صرف دو بار آیا ہے (۰۲: ۲۵۵؛ ۳۸: ۳۴) آیۂ شریفہ کا ترجمہ ہے: اور ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور ان کی کرسی پر ایک جسد ڈال دیا پھر انہوں نے (خدا کی طرف) رجوع کیا (۳۸: ۳۴)۔ حضرتِ سلیمانؑ کی آزمائش اس طرح ہوئی کہ ابتداءً ان کے نفس (جان = روح) پر ایک ادنٰی جسمِ لطیف ڈالا گیا، جو بے شمار چھوٹے چھوٹے جانوروں کا مجموعہ تھا، جس میں زبردست اِبداعی حکمت |
۴۱۹
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
پوشیدہ تھی۔ |
||
۷۲۹
کُرسیّ (۸) |
چبوترا، ڈائس: بادشاہ تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہوتا ہے، تخت چبوترے پر سجاتے ہیں، اور چبوترا زمین پر بنایا جاتا ہے، اس طرح انسانی حقیقت (انا) کا تختِ شاہی عقل ہے، جس کا چبوترہ روح، اور زمین بدن ہے، جیسے عالمِ کبیر میں عقلِ کل عرش ہے، نفسِ کلّ کرسی (چبوترا) ہے، اور جسمِ کلّ بمنزلۂ زمین۔ |
|
۷۳۰
کُلُّ شَیۡءٍ (۱) |
ہر چیز، تمام چیزیں: اے نورِ عینِ من! ہر چیز بصورتِ امکان کلمۂ کن میں موجود ہے، آپ قرآنِ حکیم کی ان آیاتِ کریمہ کو پڑھیں جن میں امرِ “کُنۡ” کا ذکر آیا ہے، اسی طرح ہر شے قلمِ اعلٰی میں بھی ہے، اشیائے کلّ بشکلِ روحانی تحریر لوحِ محفوظ میں بھی ہیں، اور امامِ مبین میں بھی، خوب یاد رہے کہ قلم سے نورِ محمّدی مراد ہے اور لوحِ محفوظ امامِ مبین کا نور ہے، خدا ہی نے ان تمام مراتبِ عالیہ کو پیدا کیا، اور ان کے روحانی اور عقلانی سایوں کو عالمِ شخصی میں ظہور دیا (۱۶: ۸۱) یہ سائے روشن ہیں، جیسے سایۂ خورشید آئینے میں نظر آتا ہے۔ |
۴۲۰
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۳۱
کُلُّ شَیۡءٍ (۲) |
ہر چیز، تمام چیزیں: ارشادِ خداوندی ہے: وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمۡ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا (۱۶: ۸۱) اور اللہ نے تمہیں اپنی بنائی ہوئی چیزوں سے سائے دیئے۔ یہ پروردگارِ عالمین کے احسانِ عظیم کا تذکرہ ہے، لہٰذا یہاں عام اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی کوئی بات ہی نہیں، بلکہ اس کی بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ عالمِ شخصی میں ہر اعلٰی چیز کا روحانی اور عقلی ظِلّ (سایہ= زندہ عکس) موجود ہے، وہ عظیم الشّان سایہ فگن خزائن اس قسم کے ہیں: کلمۂ کُنۡ، قلمِ اعلٰی، لوحِ محفوظ، امامِ مبین وغیرہ۔ |
|
۷۳۲
کُلُّ شَیۡءٍ (۳) |
ہر چیز، تمام چیزیں: قرآنِ حکیم وہ کامل اور مکمّل آسمانی کتاب ہے جس کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) اس کے خزانۂ قلب (دل= سورۂ یاسین) میں جو عظیم الشّان اور بیمثال کلّیہ ہے اس کی تعریف و توصیف ہم جیسے انسانوں سے ہو ہی نہیں سکتی، وہ مغزِ حکمت سے مملو ارشاد یہ ہے: وَ كُلَّ شَیۡءٍ اَحۡصَیۡنٰهُ فِیۡٓ اِمَامٍ مُّبِیۡنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے ہر چیز کو ایک پیشوائے ظاہر میں گھیر دیا ہے۔ یعنی خدا کی خدائی کی تمام لطیف اشیاء از قسمِ روحانی و عقلانی امامِ مبین میں سمیٹی اور |
۴۲۱
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
لپیٹی ہوئی صورت میں موجود مل سکتی ہیں، جس کی شرط خود شناسی ہی ہے۔ |
||
۷۳۳
کَلۡب |
کُتّا، غضب، غُصّہ، مردُم آزاری: حدیث شریف میں ہے: جس گھر میں کتّا یا کوئی تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، الجزء الاوّل، ص۱۶۷) سگِ ظاہر یا تو دروازے پر نگہبانی کرتا ہے یا وہ باجازۂ قرآن شکار کے لئے استعمال ہوتا ہے (سورۂ مائدہ۔ ۰۵: ۰۴) سگِ باطن (غضب، غصّہ) خانۂ دل میں رہتا ہے، آپ خود اندازہ کریں کہ جب ایک کتّا کسی کے دل میں رہتا ہوگا تو کیا فرشتے ایسے دل میں داخل ہوسکتے ہیں؟ اسی طرح تصویریں ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی، جو باطن میں ہیں وہ دنیاوی محبّت کے اصنام (واحد صنم، بُت) ہیں، پس یہ ممکن ہی نہیں کہ جس دل میں شب و روز بت پرستی ہوتی ہو اس میں فرشتے داخل ہوجائیں۔ |
|
۷۳۴
(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ (۱) |
پاکیزہ کلام: سورۂ فاطر میں ہے: اِلَیۡهِ یَصۡعَدُ الۡكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُهٗ۔ پاکیزہ کلام اس کی طرف چڑھتا ہے اور نیک عمل پاکیزہ |
۴۲۲
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
کلام کو بلند کرلیتا ہے (۳۵: ۱۰) یہ علم و معرفت اور نیک کاموں کا ذکر ہے، کیونکہ اسی وسیلے سے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے۔ |
||
۷۳۵
(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ (۲) |
پاکیزہ کلام: پاکیزہ کلام جملہ عبادت اور ذکر الٰہی ہے، نیز دعائے دلسوز اور مناجات و گریہ و زاری ہے، اور نیک عمل مذہبی خدمت، پس یہ خدمت اِس عبادت کو صاحبِ عرش کے حضور تک لے کر جاتی ہے۔ |
|
۷۳۶
(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ (۳) |
پاکیزہ کلام: جب جب نیک بخت مومنین و مومنات کارِ بزرگ (بڑا کام) کے سلسلے میں منزلِ عزرائیلی میں داخل ہوجاتے ہیں تو پاکیزہ کلام یعنی اسمِ اعظم کا ذکر بذریعۂ اسرافیل و عزرائیل آسمانوں سے بلند ہوجاتا ہے تاکہ کل کے لئے کائنات مسخّر ہوجائے (ان شاء اللہ العزیز)۔ |
|
۷۳۷
(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ (۴) |
پاکیزہ کلام: بعض درویشوں نے فنائے روحانی اور فنائے عقلانی کے بعد بھی ایک عجیب فنا کو دیکھا، وہ یقیناً فنائے عشق تھی، شام کے وقت ایک لطیف تخت سامنے آیا، ایک زندہ مُتَرَنِّمۡ کلمۂ تامّہ اور |
۴۲۳
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
ایک سازِ بہشت کی ہم آہنگی کے ساتھ دریائے روح کی نرم لہریں تخت کی طرف جا رہی تھیں اور تخت روح کو لیکر بتدریج بلند ہو رہا تھا۔ |
||
۷۳۸
(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ (۵) |
پاکیزہ کلام: روح کا بالائی سرا ہمیشہ اپنے سرچشمۂ کُلّ سے وابستہ ہے، اور نچلا سِرا حصولِ معرفت کی غرض سے عالمِ ناسوت میں اتر آیا ہے، اگر خوش بختی سے وقت پر اس کا کام مکمل ہوجاتا ہے تو ایسے میں نفسِ مطمئنہ کو بڑی عزّت سے عالمِ عُلوی پر اُٹھا لیا جاتا ہے۔ |
|
۷۳۹
(ال) کَلِمُ الطَّیِّبُ (۶) |
پاکیزہ کلام: سورۂ فاطر (۳۵: ۱۰) میں ارشاد ہے: اِلَیۡهِ یَصۡعَدُ الۡكَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُهٗ۔ اُسی (خدا) کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتے ہیں۔ یعنی حقیقی علم اور خالص عبادت ہی کی پاکیزہ باتیں خداوندِ عالم کی طرف چڑھتی ہیں اور نیک اعمال ہی کی وجہ سے اللہ کے حضور تک بلند ہوسکتی ہیں، تاکہ سالک کا قول و فعل خدا کے قول و فعل میں فنا ہوجائے۔ |
۴۲۴
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۴۰
کَلِمَۃُ اللہ (۱) |
اسمِ اعظم: اے ںورِ عینِ من! آپ کو یہ سن کر بڑا تعجب ہوگا کہ قرآنِ پاک کے شروع سے لیکر آخر تک اسمِ اعظم اور کارِ بزرگ ہی کا اشارہ ہوتا رہتا ہے، اس مطلب کو ان حکمتی سوالات کی مدد سے سمجھ لیں: کیا آنحضرتؐ ابتداء ہی سے بوسیلۂ اسماء الحسنٰی عبادت نہیں کرتے تھے؟ آیا رسولؐ اور امامؑ اسمِ اعظم نہیں ہیں؟ آیا سارے قرآن میں چوٹی کی بندگی مطلوب نہیں ہے؟ کیا اسمِ اکبر راہِ مستقیم سے ہٹ کر ہوسکتا ہے؟ کیا نورِ ہدایت الگ اور خدا کا اسمِ بزرگ الگ ہوسکتا ہے؟ کیا قرآن کی روحانیت اور اسماء الحسنٰی کی روحانیت ایک نہیں ہے؟ کیا انبیاء و اولیاء (ائمّہ) علیہم السّلام نے اپنے اپنے وقت میں خاص مومنین کو اسمِ اعظم کی تعلیم نہیں دی تھی؟ |
|
۷۴۱
کَلِمَۃُ اللہ (۲) |
اسمِ اعظم: یہ حقیقت ہے کہ حضرتِ مریم سلامُ اللہ علیہا اسمِ اعظم کی پیداوار اور حجّت کی مثال ہے، مریمؑ کو امامؑ نے اسمِ اعظم دیا، اسم کو کلمہ بھی کہتے ہیں (۰۴: ۱۷۱) اس کلمہ یعنی اسمِ اعظم میں حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام کا نور بحدِّ قوّت پنہان تھا، جو مریم علیہا السّلام کے باطن میں کچھ وقت کے بعد بحدِّ فعل جلوہ گر ہوگیا، یاد رہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام |
۴۲۵
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
کلمۃ اللہ (اسمِ اعظم) ہوا کرتا ہے، چنانچہ اگر آپ کو اسمِ اعظم عطا ہوا ہے تو بہت زیادہ خیال رکھنا کہ آپ کے باطن میں بحدِّ قوّت امام آگیا ہے، لیکن آپ کو جیتے جی اس میں فنا ہوجانا ہے تاکہ وہ بحدِّ فعل آپ کی رہنمائی کرے۔ |
||
۷۴۲
کَلِمَۃُ اللہ (۳) |
اسمِ اعظم: مریمؑ کی پاک پیشانی میں نہ تو نورِ نبوّت تھا اور نہ ہی نورِ امامت، مگر ہاں نورِ معرفت ضرور جلوہ گر تھا، یعنی اس کو پیغمبر اور امام کے بعد کا درجہ حاصل تھا، وہ ایک حجّت تھی، جو اہلِ ایمان کی روحانی ترقی کی ایک روشن مثال ہے جو ہر مومن اور ہر مومنہ کے لئے ممکن ہے۔ |
|
۷۴۳
کَلِمَۃُ اللہ (۴) |
اسمِ اعظم: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۲۴) میں پاک کلمہ سے اسمِ اعظم مراد ہے اور پاک درخت کی تأویل نورِ نبوّت اور نورِ امامت ہے، جس میں شجرۂ طیّب کی جڑ آنحضرتؐ ہیں، اور اس کی شاخ جو عالمِ علوی میں پھل دے رہی ہے وہ امام ہے، کتنی عجیب و غریب، عالیشان اور حکمت آگین مثال ہے کہ جس کے مطابق حضرتِ امامؑ ظاہراً عالمِ جسمانی میں ہے اور باطناً عالمِ علوی میں۔ |
۴۲۶
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۴۴
کَلِمَۃُ اللہ (۵) |
اسمِ اعظم: سورۂ توبہ (۰۹: ۴۰) میں ہے: وَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الۡعُلۡیَا۔ اور کلمۃ اللہ (اسمِ اعظم) ہی سب سے بلند ہے۔ اس کا مبارک اشارہ یہ ہے کہ اسمِ اعظم کا اصل مقام عالمِ عُلوی ہے، لہٰذا جو شخص بحقیقت اس سے وابستہ ہو اس کو یہ بدرجۂ انتہا بلند کر لیتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ (۹۴: ۰۴) اور ہم نے آپؐ کے لئے آپؐ کے ذکر کو بلند کر دیا۔ |
|
۷۴۵
کَلِمَۃُ اللہ (۶) |
اسمِ اعظم: حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیۡ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ (۴۳: ۲۸) اور اسی (نورانیّت و معرفت) کو ابراہیمؑ اپنی اولاد میں ہمیشہ باقی رہنے والا کلمہ چھوڑ گئے تاکہ لوگ خدا کی طرف رجوع کریں۔ کلمۂ باقیہ (اسمِ اعظم) ہمیشہ حضرتِ ابراہیمؑ کے سلسلۂ اولاد میں جاری و باقی ہے تاکہ ہر زمانے کی قیامت کی وجہ سے لوگ خدا کی طرف رجوع کریں، کیونکہ قیامت اسمِ اعظم میں پوشیدہ ہے۔ |
۴۲۷
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۴۶
کُلِّیّۃ |
عام قاعدہ، اُصول، پرنسپل: سورۂ ابراہیمؑ (۱۴: ۳۴) میں عنایاتِ خداوندی اور خزائنِ رحمت کا ایک بیمثال کلّیہ بیان ہوا ہے، اگر اس میں چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یقین آتا ہے کہ روحانیّت اور بہشت میں کوئی نعمت غیر ممکن نہیں، وہ ارشادِ مقدّس و مبارک یہ ہے: وَ اٰتٰىكُمۡ مِّنۡ كُلِّ مَا سَاَلۡتُمُوۡهُ۔ اُس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ عوام النّاس کو کیا معلوم کہ کونسی نعمتیں ممکن الحصول ہیں، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام نے لوگوں کے لئے سب کچھ مانگا، کیونکہ وہی حضرات حقیقی نمائندے ہیں، پس کاملین اللہ کے وہ خزانے ہیں جن میں اس نے اہل ایمان کو تمام نعمتیں دے رکھی ہیں۔ |
|
۷۴۷
کُنۡ (۱) |
ھوجا: اللہ تبارک و تعالٰی کی بادشاہی میں سب سے عظیم راز کلمۂ “کُنۡ” ہے، جس کے لفظی معنی ہیں: ہوجا، یہ لفظ قرآنِ پاک میں بصیغۂ واحد گیارہ دفعہ آیا ہے، تاہم اس کا تعلق آٹھ مقامات پر فعلِ خدا سے ہے، سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۱۷) آلِ عمران (۰۳: ۴۷) آلِ عمران (۰۳: ۵۹) انعام (۰۶: ۷۳) نحل (۱۶: ۴۰) مریم (۱۹: ۳۵) یٰسٓ (۳۶: ۸۲) غافِر (۴۰: ۶۸)۔ |
۴۲۸
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۴۸
کُنۡ (۲) |
ھوجا: آیۂ کریمہ ہے: بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَهٗ كُنۡ فَیَكُوۡنُ۔ آسمانوں اور زمین کا مؤجد ہے جب کوئی کام مقرر ہوتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہوجاتا ہے (۰۲: ۱۱۷) یعنی کلمۂ کن ہی سے عالمِ امر کے آسمانوں اور زمین کا اختراع ایجاد کیا، اور یہ اس کی ہمیشہ کی سنّت ہے کہ جب بھی کوئی کام مقرر ہو تو فرماتا ہے کہ “ہوجا” تو وہ ہوجاتا ہے۔ |
|
۷۴۹
کُنۡ (۳) |
ھوجا: وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ کُنۡ (ہوجا) اور وہ ہوجاتا ہے (۰۳: ۴۷) یہ باری تعالٰی کا وہ قانون ہے جو ہمیشہ عالمِ امر میں جاری و ساری ہے، جس کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، جیسے قول ہے: اݹ مُش او، اس کے بہت سے معانی ہیں، منجملہ: ازل و ابد کا کوئی سرا نہیں، تم اسی کو رکھو۔ |
|
۷۵۰
کُنۡ (۴) |
ھوجا: ترجمۂ آیۂ مبارکہ: بیشک خدا کے نزدیک عیسٰیؑ کی مثال آدمؑ کی سی ہے کہ خدا نے اسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے حکم دیا کہ ہوجا اور |
۴۲۹
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
وہ ہوگیا (۰۳: ۵۹) اِس سماوی تعلیم میں حکمتِ بالغہ کے کئی اشارے موجود ہیں: (الف) ہر انسان کی ظاہری تخلیق عالمِ خلق کے قانون کے مطابق ہے (ب) ہر انسانِ کامل کی باطنی تکمیل عالمِ امر کے قانون کے مطابق ہے اور وہ ہے اللہ تعالٰی کا کُنۡ فرمانا۔ |
||
۷۵۱
کُنۡ (۵) |
ھوجا: ارشاد ہے: وَ یَوۡمَ یَقُوۡلُ کُنۡ فَیَکُوۡنُ۔ اور جس دن وہ حکم دیتا ہے کہ ہوجاؤ تو ہوجاتا ہے (۰۶: ۷۳) یعنی اللہ جلّ جلالہٗ کے امر سے انسانِ کامل کی انفرادی قیامت میں عالمِ کبیر سے عالمِ صغیر کا وجود بن جاتا ہے (خوب یاد رہے کہ یُقول اور یکون دونوں مُضارِع ہیں)۔ |
|
۷۵۲
کنز (۱) |
خزانہ: یہ حدیثِ قدسی مشہور ہے: کنتُ کنزً مخفیًّا فاحببتُ ان اُعۡرِفَ فخلقتُ الخلق۔ خداوندِ عالم کا پاک ارشاد ہے: میں چھپا ہوا خزانہ تھا سو میں نے چاہا کہ مجھ کو پہچان لیا جائے پس میں نے (اسی مقصد کے لئے) خلق کو پیدا کیا۔ اے نورِ عینِ من! اِس پُراسرار حدیثِ قدسی کو عالمِ ظاہر کی نسبت |
۴۳۰
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
سے نہیں بلکہ عالمِ شخصی کے تناظر میں سمجھ لینا، کیونکہ یہ سچ ہے کہ خدا اپنے دوستوں کے عالمِ شخصی ہی میں چھپا ہوا خزانہ تھا پھر حضرتِ ربّ نے اُن کو روحانی اور عقلانی طور پر پیدا کیا اور خزانۂ معرفت سے انہیں ہمیشہ کے لئے مالامال فرمایا۔ |
||
۷۵۳
کنز (۲) |
خزانہ، گنجِ اسرار: حدیث قدسی ہے: کنتُ کنزًا لا أعرف فأحببتُ ان أعرف فخلقتُ خلقًا فعرّفتھم فبی عرفونی۔ میں ایک ناشناختہ خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ میری شناخت ہو سو میں نے ایک خلق کو پیدا کیا اور ان کو اپنا عارف بنالیا پس انہوں نے خود میرے ہی وسیلے سے مجھ کو پہچان لیا۔ اس حدیثِ قدسی کا تعلق بیرونی جہان سے نہیں عالمِ شخصی سے ہے، کیونکہ جب تک مومنِ سالک روحانی طور پر پیدا نہ ہوجائے تب تک اس کے حق میں ربّ العزّت ایک ناشناختہ خزانہ ہے، روحانی تولّد کے بعد عارفین و کاملین دیدار اور معرفت کی لازوال دولت سے مالامال ہوجاتے ہیں۔ |
۴۳۱
لفظ | معنی و حکم “ک” | |
۷۵۴
کنز (۳) |
خزانۂ معرفت: سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۶) میں ہے: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (أَیۡ لِیَعۡرِفُوۡنِ) میں نے جنّوں اور اور آدمیوں کو اُسی غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں (یعنی اس لئے کہ وہ مجھ کو پہچان لیں) ابنِ عبّاسؓ نے اس آیۂ کریمہ کی تفسیر اسی طرح سے فرمائی ہے (المعجم الصّوفی، ص۱۲۶۷)۔ |
|
۷۵۵
کنز (۴) |
گنجِ اسرارِ معرفت: عن عائشۃ سُئِلَ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم من اعرف الناس بربّہ، قال: اعرفھم بنفسہ۔ حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ سے پوچھا گیا: لوگوں میں ربّ کا سب سے بڑا عارف کون ہے؟ آن حضورؐ نے فرمایا: وہ شخص جو اپنے آپ کو پہچاننے والوں میں سب سے بڑھ کر ہے۔ (المعجم الصّوفی، ص۱۲۶۱) یہ سچ ہے کہ حق تعالٰی کی معرفت عالمِ شخصی ہی میں ہے۔ |
|
۷۵۶
کنز (۵) |
صفاتِ حق تعالٰی، نورِ مطلق: حضرتِ داؤد علیہ السّلام نے کہا: یا ربّ تو نے خلق کو کس غرض |
۴۳۲
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
سے پیدا کیا ہے؟ خدا نے فرمایا: کُنۡتُ کَنۡزاً مَخۡفِیًّا فَاَحۡبَبۡتُ اَنۡ اُعۡرَفَ فَخَلَقۡتُ الۡخَلۡقَ لِکَیۡ اُعۡرَفَ۔ میں ایک پنہان خزانہ تھا تو میں نے چاہا کہ میری پہچان ہو پس میں خلق کو پیدا کیا تاکہ مجھ کو پہچان لیں (احایثِ مثنوی) اس ارشاد کا تعلق عالمِ شخصی اور اہلِ معرفت سے ہے۔ ربِّ کریم نے اپنی ذاتِ پاک کی تمثیل گنجِ پنہان سے اس لئے دی تاکہ ہر عارف اس خزانۂ ازل کو عالمِ شخصی ہی میں حاصل کرے، جیسا کہ ارشادِ نبوّیؐ ہے: من کان اللہ کان اللہ لہ۔ جو شخص خدا ہی کا ہوجاتا ہے تو خدا بھی اسی کا ہوجاتا ہے، یعنی جو معرفت کو حاصل کرتا ہے وہ خود گنجِ معرفت ہوجاتا ہے۔ |
||
۷۵۷
کنز (۶) |
ایک خزانہ، بہشت کا ایک خزانہ: ارشادِ نبوّیؐ ہے: اِنَّ قَوۡلَ لَا حَوۡلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الۡعَلِیِّ الۡعَظِیۡمِ کَنۡزٌ مِنۡ کُنُوۡزِ الۡجَنَّۃِ وَ ھُوَ شِفَاءٌ مِنۡ تِسۡعَۃٍ وَ تِسۡعِیۡنَ دَاءً اَوَّلُھَا الۡھَمُّ۔ کوئی شک نہیں کہ قول: لا حول ولا قوۃ الاّ با للہ العلی العظیم بہشت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے اور یہ ننانوے بیماریوں کی دوا ہے، اُن میں سے پہلی بیماری غم ہے۔ (دعائم الاسلام، وجہِ دین، اور چند کتبِ احادیث)۔ |
۴۳۳
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
۷۵۸
کنزًا |
خزانہ، گنجِ مخفی، چھپا ہوا خزانہ: پیغمبرِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: یاعلی اِنّ لک کنزًا فی الجنّۃِ و اِنّک ذو قرنیھا۔ اے علی! بیشک تیرے لئے بہشت میں ایک خزانہ حاصل ہے اور تو جنّت کا ذوالقرنین (یعنی ہمہ گیر بادشاہ) ہے۔ (المستدرک)۔ بہشت میں بہت سے خزانے ہوسکتے ہیں، لیکن آنحضرتؐ کی یہ بشارت جو جنّت کے ذوالقرنین کے لئے ہے وہ سب سے بڑے خزانے سے متعلق ہے، اور وہ سب سے عظیم اور بیمثال خزانہ جس کی تعریف و توصیف کے لئے مناسب الفاظ نہیں ملتے وہ سیم و زرّ اور لعل و گوہر کا ہرگز نہیں بلکہ یہ کنزِ مخفی ہی ہے، جو علیؑ اور اُس کے دوستداروں کے نام پر ہے، اس گنجِ اسرارِ ازل و ابد کی خصوصیت یہ ہے کہ جو شخص اس میں داخل ہوجائے وہ اپنے آپ کو یہی خزانہ پاتا ہے۔ |
|
۷۵۹
کُوۡنُوۡا |
ھوجاؤ: قرآنِ حکیم کی ہر آیت بجائے خود ایک صحیفۂ حکمت بھی ہے اور ایک قطعی حکم بھی ہے، چناچنہ خداوندِ قدّوس کے اس امر میں بہت سے مذہبی اور سائنسی سوالات کے لئے جوابِ شافی موجود ہے، وہ ارشاد یہ ہے: قُلۡ کُوۡنُوۡا حِجَارَۃً اَوۡ حَدِیۡدًا (۱۷: ۵۰) (اے رسولؐ!) |
۴۳۴
لفظ | معنی و حکمت “ک” | |
کہہ دو کہ تم پتّھر ہوجاؤ یا لوہا۔ یاد رہے کہ قرآنِ حکیم میں بدونِ حکمت کوئی بات نہیں، لہٰذا یہ حقیقت ہے کہ روح اور مادّہ الگ الگ نہیں بلکہ دونوں ایک ہی شی کی دو صورتیں ہیں۔ |
۴۳۵
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۴۳۶
بابُ اللّام
|
۴۳۷
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۴۳۸
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
۷۶۰
لَا تَقۡنَطُوۡا |
مایوس نہ ھوجاؤ: لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللہِ (۳۹: ۵۳) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ خدا کی رحمت رسولؐ کے بعد امامِ زمانؑ ہے (بحوالۂ روح اللہ)۔ |
|
۷۶۱
لا ریب (۱) |
شک نہیں: ذَالِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ۔ وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں۔ وہ اساس ہے (۰۲: ۰۲؛ ۱۰: ۳۷)۔ |
|
۷۶۲
لا ریب (۲) |
شک نہیں، یعنی یقین ھے: روزِ قیامت کے بارے میں بارہا یوں ارشاد ہوا ہے: لَا رَیۡبَ فِیۡہِ۔ اس میں کوئی شک نہیں (یعنی اس میں یقین ہی یقین ہے) شاید کوئی ہوشمند حکمت کو سمجھنے کی خاطر کوئی ایسا سوال کرے کہ آیا یہ حکم عقیدۂ قیامت سے متعلق ہے؟ حالانکہ بعض لوگ اس کے معتقد بھی نہیں، اور جن کو اعتقاد ہے، ان کی اکثریت بلکہ سب نے ہنوز قیامت کو نہیں دیکھا، پھر اُن کو یقین کیسے ہوا؟ جواب: روزِ قیامت حضرتِ مولا علیؑ ہے او علیِٔ زمان وہی مرتبہ رکھتا ہے، جیسا کہ مولا کا مبارک ارشاد ہے: اَنَا السَّاعَۃُ الَّتِیۡ لِمَنۡ کَذَّبَ |
۴۳۹
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
بِھَا سَعِیۡرًا۔ یعنی میں وہ ساعت (قیامت) ہوں کہ جو شخص اس کو جھٹلائے اور اس کا منکر ہو اس کے لئے دوزخ واجب ہے، اور اس ساعت سے مراد روزِ قیامت ہے۔ (کوکبِ درّی، بابِ سوم، ص۲۰۰، منقبت۲۷)۔ |
||
۷۶۳
لا ریب (۳) |
شک نہیں، یعنی یقین ھے: “لَا رَیۡبَ فِیۡہِ” کی حکمت: لَا رَیۡبَ، شک نہیں، فیہ، اُس میں، مراد علیؑ یا علیِّ زمانؑ کے باطن میں شک نہیں، جبکہ عارف اس کی روحانیت و نورانیت میں داخِل ہوجاتا ہے یا اس کا نور خود عارف کے باطن میں طلوع ہوتا ہے تو اُس وقت تمام شکوک و شبہات زائل ہوجاتے ہیں، پھر یقین ہی یقین کا عالم ہوتا ہے، الغرض لا ریب فیہ میں شک کی مذمّت اور یقین کی تعریف کے ساتھ ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ اہلِ ایمان امامِ زمانؑ کی باطنی معرفت میں داخل ہوجائیں۔ |
|
۷۶۴
لا ریب (۴) |
شک نہیں، یعنی یقین ھے: سورۂ بقرہ کے شروع میں بہت بڑی بنیادی حکمت حجابِ تنزیل میں مستور ہے: الٓمّٓ۔ ذَالِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ۔ الف، لام، میم، وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک ہیں۔ یعنی قرآنِ ناطق، جس کی باطنی |
۴۴۰
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
معرفت میں داخل ہوجانے کے بعد یقین کے جملہ خزانے مل جاتے ہیں، جیسے مولا نے فرمایا: انا ذالک الکتٰب لا ریب فیہ۔ میں وہ کتابِ ناطق ہوں جس میں کوئی شک نہیں۔ (کوکبِ درِّی، بابِ سوم، منقبت۲۸)۔ |
||
۷۶۵
لامکان (۱) |
عالمِ روحانی: عالمِ لامکان، وہ جہان جس میں مادّی جگہ نہیں، جیسے عالمِ خواب یا عالمِ خیال، جس میں جگہ کا تصوّر تو ہوتا ہے لیکن اس کی مادّیت و جسمانیت نہیں ہوتی، اور اس طرح عالمِ روحانیت ہے جو عالمِ لامکان ہے، اور وہی درجۂ کمال پر بہشت ہے۔ |
|
۷۶۶
لامکان (۲) |
عالمِ روحانی: جسم کو الگ اور روح کو الگ دیکھنا ہے تو یہ مکانی ہے اور وہ لامکانی، اور اگر ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھنا ہے کامل عالمِ شخصی کو دیکھو، بہشت دراصل عقل و جان ہونے کی وجہ سے لامکانی ہے، لیکن کائناتی روح کی وجہ سے ارض و سما سے مربوط ہے (۰۳: ۱۳۳، نیز ۵۷: ۲۱)۔ |
۴۴۱
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
۷۶۷
لا مکان (۳) |
عالمِ روحانی: جو لامکان ہے وہی ایک اعتبار سے لازمان بھی ہے، کیونکہ مکان یعنی آسمان کی گردش ہی سے زمان بنتا ہے، اور جہاں مکان نہ ہو وہاں زمان بھی نہیں، جیسے بہشت میں زمانۂ ماضی نہیں، زمانۂ مستقبل نہیں، اور ایسا زمانۂ حال بھی نہیں جو بڑی سرعت کے ساتھ گزر رہا ہو، مگر زمانِ ہمیشگی (خُلُود) ہے (۵۰: ۳۴)۔ |
|
۷۶۸
لا مکان (۴) |
عالمِ روحانی: لامکان سے عالمِ عُلوی مراد ہے جو زمان و مکان سے ماؤراء ہے، جی ہاں، وہی بہشت ہے، جس میں مکان و زمان کا روشن تصوّر آپ کی چاہت کے مطابق ہوتا ہے، آپ جس جگہ، جس وقت، اور جس چیز کو دیکھنا چاہتے ہیں، صرف وہی چیز سامنے آتی ہے، اور باقی چیزیں غائب ہی رہتی ہیں۔ |
|
۷۶۹
لا ینفع |
جو چیز فائدہ نہ دے: رسولِ خدا کی ایک پُرحکمت دعا یہ بھی تھی: اللّٰھُم انّی اعوذبک من الاربع: مِن علمٍ لا ینفع، و قلبٍ لا یخشع و نفسٍ لا تشبع، و دعاءٍ لا یسمع۔ اے اللہ! میں چار چیزوں سے تیرے |
۴۴۲
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
پاس پناہ لیتا ہوں: غیر مفید علم سے، ایسے دل سے جس میں (خدا کا) خوف نہ ہو، ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو، اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو (مستدرک، کتاب العلم) اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو علم کا دعوٰی کرتے ہیں، در حالے کہ ان کا علم غیر مفید ہے۔ |
||
۷۷۰
لِبَاس (۱) |
پوشاک، لباس: سورۂ اعراف (۰۷: ۲۶) میں دیکھ لیں: اے بنی آدم! ہم نے تم پر پوشاک نازل کی کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور زینت کے کپڑے (ریشًا۔ جسمِ لطیف) اور پرہیزگاری کا لباس اور یہ سب لباسوں سے بہتر ہے۔ اس آیۂ کریمہ میں تین قسم کی لباس کا ذکر آیا ہے: جامۂ ظاہر، جامۂ جسمِ لطیف اور جامۂ روحِ لطیف یا لباسِ تقوٰی جو سب سے اعلٰی ہے۔ ہم میں سے کسی نے خواب دیکھا کہ وہ اچھے صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہے تو یہ اُس کے لئے “لباسِ تقوٰی” کا اشارہ ہے، اس کے برعکس پھٹے پرانے یا گندے کپڑے یا عریانی اس بات کی علامت ہے کہ تقوٰی کا فقدان ہے۔ |
۴۴۳
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
۷۷۱
لِبَاس (۲) |
لباسِ تقوٰی: لباسِ تقوٰی کی سب سے اعلٰی مثال یہ ہے کہ کوئی عالی ہمت مومن گنج ازل کی بلندی تک پہنچ جائے، اور وہاں اس کو سب سے بڑا دیدار ہو، یہ پاک دیدار مرتبۂ فنائیت، عالمِ وحدت اور یک حقیقت ہے، لہٰذا اس میں تمام معنی جمع ہیں، اور ایک معنی بموجب مَنۡ عَرَفَ یہ ہے کہ اُس عارف نے اپنے آپ کو لباسِ تقوٰی میں پہچان لیا۔ |
|
۷۷۲
لِبَاس (۳) |
بہشت کے ریشمی لباس: سورۂ حج (۲۲: ۲۳) اور سورۂ فاطر (۳۵: ۳۳) میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ اہل جنّت کے لباس ریشمی ہوں گے۔ ان سے اجسامِ لطیف مراد ہیں، جو مومن جنّوں، پریوں یا فرشتوں کی طرح ذی عقول ہیں، ریشم اور جسمِ لطیف کی مشابہت کا حال یوں ہے کہ جب ریشم کا کیڑا پروانہ بن جانے کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے اسی وقت وہ اپنے باطن سے ریشم کا تار نکالنے لگتا ہے، اسی طرح جب انسانِ کامل بشر سے فرشتہ بن رہا ہوتا ہے، اور قبضِ روح کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو ایسے میں اس کی ہزاروں کاپیاں بنائی جاتی ہیں، یہ ہیں اجسامِ لطیف یا فرشتے یا بہشت کے ریشمی لباس۔ |
۴۴۴
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
۷۷۳
لحم طیر (۱) |
پرند کا گوشت: بہشت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت پرند کا گوش ہے، جیسا کہ سورۂ واقعہ میں باری تعالٰی کا یہ ارشاد ہے: وَ لَحۡمِ طَیۡرٍ مِّمَّا یَشۡتَھُوۡنَ۔ اور پرندوں کا گوشت بھی جس کی وہ رغبت کریں گے (۵۶: ۲۱) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ بہشت میں دنیا کی کثیف غذائیں نہیں ہیں، لہٰذا پرندوں کا گوشت اس حقیقت کی مثال ہے کہ اہل بہشت کو بڑی پاکیزہ روحوں اور فرشتوں کا دیدار حاصل ہوگا، جس سے سب بیحد محظوظ و مسرور ہوں گے، اور ان کو ازلی و ابدی وحدت و یک حقیقت کا علم ہوجائے گا، جس سے بیگانگی کا تصوّر ختم ہوجائے گا، اور ہر فرد کو یقین کر لینا ہوگا کہ وہ ایک کُلّ ہے اور اور باقی سب اس کے اجزاء ہیں۔ |
|
۷۷۴
لحم طیر (۲) |
روحوں اور فرشتوں کا دیدار: مومنین و مومنات میں سے ہر فرد منجملۂ کلّیّات ایک کُلّ ہے تو یہ کتنی عجیب و غریب اور کتنی عظیم حکمت ہے پس بہشت میں ہر شخص اللہ کی رحمت سے رفتہ رفتہ ارواح و ملائکہ کو اپنی ہستیِٔ کُلّ کے اجزاء قرار دیتا جائے گا، تا آنکہ مرتبۂ حقّ الیقین پر اسرارِ معرفت منکشف ہوجائیں، یہ ہے جنّت میں پرندوں کا گوشت کھانے کی تأویل، الحمد للہ۔ |
۴۴۵
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
۷۷۵
لِسان (۱) |
زبان: ہر زبان قدرتِ خدا کی نشانیوں میں سے ہے، جیسا کہ سورۂ روم (۳۰: ۲۳) میں ارشاد ہے: وَ مِنۡ اٰیٰتِهٖ خَلۡقُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافُ اَلۡسِنَتِكُمۡ وَ اَلۡوَانِكُمۡ۔ اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق ہے، نیز تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف (بے شک اس میں اہل علم کے لئے نشانیاں ہیں ۳۰: ۲۲) پس زبانوں کی تخلیق اور گوناگونی اللہ کی طرف سے ہے، اور اس میں بھی قدرتی حسن و جمال کے بے شمار مناظر ہیں، جیسے آسمان کے ستارے، زمین کے خوبصورت نظّارے، اور انسانوں کے چہرے۔ |
|
۷۷۶
لِسان (۲) |
زبان: یہ بھی روحانی سائنس کا ایک زبردست انکشاف ہے کہ ہر آسمانی کتاب کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن، مثال کے طور پر قرآن کا ظاہر یعنی تنزیل جو عربی میں ہے، اور باطن یعنی تأویل جو دنیا بھر کی تمام زبانوں میں ہے، اور ایسا ہونا قرآن کا سب سے بڑا عالم گیر معجزہ ہے، جیسا کہ ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ تا کہ وہ اُن کو بیان (یعنی تأویل) کرے (۱۴: ۰۴)۔ |
۴۴۶
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
۷۷۷
لِسان (۳) |
زبان: سورۂ اعراف میں ارشاد ہے: قُلۡ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ اِلَیۡكُمۡ جَمِیۡعَا۔ آپ فرمائیے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف (۰۷: ۱۵۸) اس حکم سے یہ ظاہر ہوا کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم تمام لوگوں کے لئے بھیجے گئے ہیں، اس لئے آپؐ رحمتِ عالم (۲۱: ۱۰۷) کی مرتبہ میں باطناً ہر زبان میں بول سکتے تھے۔ |
|
۷۷۸
لِسان (۴) |
زبان: اَلۡمُنۡجِد (عربی= اردو) ص۱۰ پر ایک حدیثِ شریف درج ہے، جس کے مطابق رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اہل جنّت کی زبان عربی ہے۔ بیشک میرا ایمان ہے کہ جنّت کی سب سے اعلٰی اور مرکزی زبان عربی ہے (دیکھئے جلال الدّین سیوطی کی کتاب جامع الاحایث، ص۱۳۳ پر بھی) لہٰذا تمام مومنین و مومنات نہ صرف عربی میں گفتگو کرسکیں گے، بلکہ قرآن و حدیث کی باطنی حکمتوں سے بھی مستفیض ہوجائیں گے، تاہم عقل باور کرتی ہے کہ بہشت میں ذیلی طور پر بے شمار زبانوں کا رواج ہے، جس کی شہادت ایسی قرآنی آیات میں موجود ہے، جو جنّت میں ہر |
۴۴۷
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
دلپسند نعمت موجود و مہیّا ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ |
||
۷۷۹
لِسان (۵) |
زبان: سوال: ذرا یہ تو بتا دیں کہ بہشت میں کیا کیا نعمتیں ہیں ہوں گی؟ جواب: کوئی ایسی نمعت نہیں جو بہشت میں نہ ہو، آپ جن جن نعمتوں کو چاہتے ہیں وہ سب کی سب بہشت میں مل جانے والی ہیں، مثلًا اگر آپ اپنی زبان کے بارے میں ہر بات کو جاننا چاہتے ہیں تو یہ اس طرح ممکن ہے کہ وہاں خدا کے پاس تمام چیزوں کے خزانے ہیں، جن میں علم کے خزانے بھی ہیں (۱۵: ۲۱) زبانوں سے متعلق حقیقی معلومات بھی ہیں، اقوامِ عالم کی سچّی تاریخ بھی ہے۔ |
|
۷۸۰
لِسان (۶) |
زبان: جب اللہ تعالٰی کسی زبان کو وجود دینا چاہتا ہے تو سب سے پہلے کلمۂ کُلّ کو پیدا کرتا ہے، یہ گویا اس زبان کے بے شمار الفاظ کا آدم ہے، پھر اسی کلمے سے حوّا کی مثال پر دوسرا کلمہ پیدا کرتا ہے، اور ان دونوں سے دیگر لفظوں کی بہت سی شاخیں بنا بنا کر ایک زبان کو مکمّل کرتا ہے۔ |
۴۴۸
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
۷۸۱
لَفِیۡف |
لپیٹا ھوا، سمٹا ھوا: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۴) میں ارشاد ہے: پھر جب آخرت کا وعدہ آجائے گا تو ہم تم سب کو لپیٹ کر لے آئیں گے۔ اہلِ زمانہ کے نفوس نفسِ واحدہ سے پھیلائے گئے تھے، پھر ان کو نفسِ واحدہ ہی میں لپیٹ کر آخرت کی طرف لیا جاتا ہے، یعنی جس شخصِ کامل پر قیامت گزرتی ہے اسی میں سب لوگ فنا ہوجاتے ہیں، اور اسی کے وسیلے سے شخصِ واحد بن کر سب خدا کے پاس جاتے ہیں۔ |
|
۷۸۲
لِقَآء (۱) |
ملنا، ملاقات کرنا: قرآنِ حکیم میں خدائے بزرگ و برتر کی پاک ملاقات سے متعلّق متعدد آیاتِ کریمہ وارِد ہوئی ہیں، یہاں یہ سوال بیحد ضروری ہے کہ آیا یہ ملاقات دیدار کے معنی میں ہے؟ جی ہاں، کیا دنیا میں بھی ربّ العزّت کا دیدار ہوسکتا ہے یا صرف آخرت میں ممکن ہے؟ اگر دنیا کی زندگی میں کوئی دیدار ممکن نہ ہوتا تو یہ نہ فرمایا جاتا: اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا (۱۷: ۷۲)۔ |
|
۷۸۳
لِقَآء (۲) |
ملنا، ملاقات کرنا: اے نورِ عینِ من! آپ سورۂ نجم (۵۳: ۱۱) میں غور سے دیکھ لیں |
۴۴۹
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
کہ حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے دل کی آنکھ سے اپنے ربّ کو دیکھا تھا، اور یہ سب کے لئے آنحضرتؐ کی طرف سے عملی ہدایت ہے، کیونکہ اصل ہدایت وہ ہے جس کے پیرو منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں، اور اہل ایمان کے لئے ایسی آخری منزل خدا ہی ہے، پس پروردگارِ عالم کی ملاقات حق ہے۔ |
||
۷۸۴
لقمان |
لقمانِ حکیم: حضرتِ لقمان اور حضرتِ داؤد علیہما السّلام ہمعصر تھے (کتابِ سرائر، ص۱۸۹، جعفر بن منصور الیمن)۔ روایت ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضرتِ لقمان کی طرف وحی بھیجی اور یہ ارشاد فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ طالوت کے بعد تم کو بنی اسرائیل پر خلیفہ بنا دوں، تو اُس نے درخواست کی: اگر میرے پروردگار کو گستاخی نہ ہو تو وہ مجھے اس سے معاف رکھے کیونکہ میں خواہشِ نفس اور خود غرضی سے ڈرتا ہوں، اور اگر ارادۂ الٰہی کا نفاذ ضروری ہے تو میں اس کے حکم اور فیصلے کے لئے صبر کروں گا، پس خدا نے اس سے خلافت کو پھیر دیا اور حضرتِ داؤد کو عطا کر دی اور اُس نے قبول کرلی (مذکورہ صفحہ) |
۴۵۰
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
۷۸۵
لِلۡقَلۡبِ اُذُنان |
دل کے دو کان: کتاب الشَّافی، جلد چہارم، باب۲۳۷ میں ہے: مَا مِنۡ قَلۡبٍ اِلَّا وَ لَہٗ اُذُنَانِ، عَلٰی اِحۡدَاھُمَا مَلَکٌ مُرۡشِدٌ وَ عَلَی الۡاُخۡرٰی شَیۡطَانٌ مُفَتِّنٌ۔ ہر دل کے دو کان ہوتے ہیں، ایک میں ہدایت کرنے والا فرشتہ بات کہتا ہے اور دوسرے میں فتنہ پرداز شیطان وسوسہ ڈالتا ہے۔ |
|
۷۸۶
لِوَاءُ الحمد |
حمد کا جھنڈا: اِنَّ لِلّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ لِوَاءً مِنۡ نُوۡرٍ وَ عَمُوۡدًا مِنۡ نُوۡرٍ خَلَقَھَا قَبۡلَ اَنۡ یَخۡلُقَ الدُّنۡیَا بِاَلۡفِ عَامٍ مَکۡتُوۡبٌ علیٰ ذَالِکَ اللِّوَاءِ اَنَااللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا مُحَمَّدٌ عَبۡدِیۡ وَ رَسُوۡلِیۡ اِلیٰ خَلۡقِیۡ وَ اٰلُ مُحَمَّدٍ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ۔ بیشک خدائے عز و جل کا ایک علم ہے، جو نور سے ہے اور اس کا رستہ بھی نور سے ہے، جس کو اللہ نے آفرینش دنیا سے ایک لاکھ سال قبل پیدا کیا ہے، اس علم پر یہ تحریر ہے: میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، محمدؐ میرا بندہ ہے اور میری خلق کی طرف میرا رسول ہے اور آلِ محمد بہترین خلائق ہیں۔ (شرح الاخبار، جزء ۱۰، ص۴۷۲) لِواء الحمد /لوائے عقل، یعنی نورِ عقل۔ |
۴۵۱
لفظ | معنی و حکمت “ل” | |
۷۸۷
لُوۡط |
ایک نبی کا نامِ نامی ھے، یہ حضرتِ ابراھیمؑ کے بھائی کے بیٹے تھے: سورۂ انبیاء (۲۱: ۷۱) میں ہے: وَ نَجَّیۡنٰهُ وَ لُوۡطًا اِلَى الۡاَرۡضِ الَّتِیۡ بٰرَكۡنَا فِیۡهَا لِلۡعٰلَمِیۡنَ۔ اور ہم نے ابراہیم کو اور لوط کو ایسی سرزمین کی طرف بھیج کر نجات دی جس میں ہم نے جہانوں (عوالمِ شخصی) کے لئے برکت رکھی ہے۔ دنیائے ظاہر میں کوئی ایسا ملک یا شہر نہیں، جس میں کل جہانوں کے لئے برکت ہو، پس یہ حقیقت ہے کہ خداوند تعالٰی کی عنایتِ بے نہایت سے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ لوط علیہما السّلام زمینِ نفسِ کلّی تک رسا ہوگئے، جس میں تمام عوالمِ شخصی کے لئے رحمت رکھی ہوئی ہے۔ |
|
۷۸۸
لَوۡلَاکَ |
اگر تو نہ ہوتا: حدیثِ قدسی ہے: لَوۡ لَاکَ لَمَا خَلَقۡتُ الۡاَفۡلَاکَ۔ اے رسولؐ! اگر تم نہ ہوتے تو میں آسمانوں (یعنی کائنات) کو پیدا ہی نہ کرتا۔ اللہ کے ایسے محبوب پیغمبرؐ نے ارشاد فرمایا: اَنۡتَ مِنِّیۡ وَ اَنَا مِنۡکَ۔ (اے علیؑ!) تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں (صحیح بخاری، جلد دوم، کتاب الانبیاء، باب۳۹۱)۔ |
۴۵۲
بابُ المیم
|
۴۵۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۴۵۴
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۷۸۹
مَاتَ |
مرگیا: حدیثِ شریف ہے: مَنۡ مَّاتَ فَقَدۡ قَامَتۡ قِیَامَتُہٗ۔ ترجمہ: جو شخص مرگیا اس کی قیامت برپا ہوگئی۔ تشریح: جو مومنِ سالک جسمانی موت سے پہلے نفسانی طور پر مر جاتا ہے اس کی ذاتی (روحانی) قیامت برپا ہوجاتی ہے (احیاء العلوم، جلد چہارم، صبر کی فضلیت، ص۹۱)۔ |
|
۷۹۰
مَاء (۱) |
پانی: تاویلاً علم، اس آیۂ مبارکہ کو سورۂ نور (۲۴: ۴۵) میں پڑھ لیں: اور اللہ نے ہر چلنے والے کو پانی سے پیدا کیا (یعنی ذکر و عبادت سے چلنے والے کو علم سے پیدا کیا) کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے (کسی کا ذکر باطنی کیفیت میں ہے معیّن الفاظ میں نہیں) تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر چلتا ہے (یعنی کسی کا ذکر دو اسموں میں ہے تو کسی کا چار اسماء میں)۔ |
|
۷۹۱
مَاء (۲) |
پانی: نورِ ہدایت کے آسمان سے ہمیشہ روحانی علم کا پانی برستا رہتا ہے، جیسا کہ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۸) میں ارشاد ہے: وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ |
۴۵۵
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
مَآءً طَھُوۡراً۔ اور ہم ہی نے آسمان سے بہت پاک اور سُتھرا پانی برسایا۔ پانی تو بہت دُور کی نہروں سے بھی آتا ہے۔ لیکن اس پانی کی کوئی ایسی تعریف نہیں کی گئی۔ | ||
۷۹۲
مُبَارَک (۱) |
برکت والا: قرآن جو خداوندی خیر و خوبی کا مخزن اور بخشش و نعمت کا مرکز ہے (۰۶: ۹۲) جس کی آیات میں بار بار غور و فکر کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی روحانی اور عقلی (علمی) برکتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں (۳۸: ۲۹) قرآنِ صامت کی باطنی برکتیں اس وقت حاصل ہونے لگتی ہیں جبکہ کوئی نیک بخت مومن قرآنِ ناطق کو پہچان لیتا ہے، کیونکہ یہ کلام اللہ کا نور اور معلّم ہے۔ |
|
۷۹۳
مُبَارَک (۲) |
برکت والا: اسی کتاب (ہزار حکمت) میں عنوان “علم” کے تحت دیکھیں کہ ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم ہے، چنانچہ قرآن پاک میں بہت سے مقامات پر برکۃ کا ذکر آیا ہے، جس کا آخری اور خاص مطلب عقلی اور علمی برکت ہے، کیونکہ علم عقل کی روشنی ہے، اور عقل بفرمودۂ حدیثِ قدسی خدا کی محبوب ترین مخلوق ہے جو اللہ کے کسی محبوب میں |
۴۵۶
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
پیدا کی جاتی ہے، پس علم میں سب سے بڑی عزّت بھی ہے اور حبِّ الٰہی کی خوشبو بھی ہے۔ |
||
۷۹۴
مُبَارَک (۳) |
برکت والا: سورۂ مومنون (۲۳: ۲۹) میں ایک بڑی پُرحکمت نمائندہ دعا ہے: اور دعا کرو کہ اے میرے ربّ! تو مجھ کو بابرکت جگہ میں اتارنا اور تُو تو سب اتارنے والوں سے بہتر ہے۔ مردہ قبرر اکݵ اُن تِکُ لݸ پسوم عاشقݺ روح + دوستݺ جسم لݸ دُکُوَر ڞا گنݺ زندَولݸ ہُرُٹ۔ ترجمہ: اے روحِ عاشق! مردہ قبر میں داخل نہ ہوجا تیری شان مٹی میں رہنے کے لئے نہیں، تو محبوب کے جسمِ لطیف میں زندہ ہوجا اور ہمیشہ کے لئے اسی زندۂ جاوید میں جاگزین ہوجا۔ پس ہماری ارواح کے لئے بابرکت جگہ حضرتِ امام علیہ السّلام کا کوکبی بدن ہے۔ |
|
۷۹۵
مِثۡلَھُمۡ |
اُن کی مثال: …. اَنۡ یَّخۡلُقَ مِثۡلَھُمۡ۔ کہ اُن کی مثال پیدا کرے۔ یعنی جسمِ مثالی جو جثّۂ ابداعی ہے، پس بہشت میں جسمِ خاکی نہ ہوگا، جسمِ فلکی ہوگا (۳۶: ۸۱)۔ |
۴۵۷
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۷۹۶
مِثۡلَھُنَّ |
انہی کے مانند: سورۂ طلاق کی آخری آیت میں ارشاد ہے: اَللّٰهُ الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الۡاَرۡضِ مِثۡلَهُنَّ۔ خدا ہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور زمین کی قسم سے بھی انہی کے مانند (۶۵: ۱۲) یعنی ہر آسمان کے تحت ایک زمین ہے، اسی طرح سات آسمان اور سات زمین ہیں، جن کی معرفت عالمِ دین اور عالمِ شخصی میں یوں ہے کہ صاحبانِ ہفت ادوار سات آسمان ہیں اور اُن کے ہفت ابواب سات زمین۔ |
|
۷۹۷
مثیلِ ھارون |
ھارون جیسا: آنحضرتؐ نے مولا علیؑ سے فرمایا: یاعلی انت منّی بمنزلۃ ھارون من موسٰی اِلّا اَنّہ لا نبیٌّ بعدی۔ اے علیؑ! تیرا مرتبہ مجھ سے ایسا ہے جیسے ہارونؑ کا مرتبہ موسٰیؑ سے تھا، مگر یہ فرق ہے کہ میرے بعد اور کوئی پیغمبر نہیں (شرح الاخبار، جزء۱۰، ص۱۷۷) صاحبِ جوامع الکلم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے اس ارشاد کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ ہم اور آپ قرآنِ حکیم کے آئینۂ مظہریتِ ہارونی میں حضرتِ مولا علیؑ کو بھی دیکھیں۔ |
۴۵۸
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۷۹۸
مَجۡذُوۡذٍ |
مُنۡقَطَع، کاٹا ہوا: غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ، غیر منقطع، لا زوال، ازلی و ابدی، سورۂ ھود (۱۱: ۱۰۸) میں دیکھ لیں کہ با سعادت لوگ بہشت میں ہمیشہ ہمیشہ رہتے ہیں: عَطَاءً غَیۡرَ مَجۡذُوۡذٍ۔ یہ وہ بخشش ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگی۔ یہاں یہ اشارہ موجود ہے کہ انسانی روح کا بالائی سرا یا انائے علوی ہمیشہ بہشت میں ہے، کیونکہ وہ خدا کے نور کا ازلی عکس ہے، لہٰذا وہ ہرجا حاضر ہے۔ کائنات و موجودات کی ہرچیز ایک دائرے پر گردش کر رہی ہے (۲۱: ۳۳؛ ۳۶: ۴۰) چنانچہ بہشت کی لا تعداد و لا محدود نعمتیں ایک ایسے دائرے پر واقع ہیں جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔ |
|
۷۹۹
مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ |
خدائی محبّت: وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِیۡ (۲۰: ۳۹) اللہ پاک نے حضرتِ موسٰیؑ سے فرمایا: اور میں نے تجھ پر اپنی محبّت کا پرتو ڈالا۔ یہاں یہ حقیقت روشن ہے کہ پیغمبر اور امام علیہما السّلام سے محبّت کرنا واجب ہے، کیونکہ ان کی مبارک ہستی شروع ہی سے محبّتِ الٰہی کی مظہر ہوتی ہے۔ |
۴۵۹
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۰۰
مَحۡجُوۡبُوۡن |
روکے ھوئے، منع کئے ھوئے: سورۂ تطفیف (۸۳: ۱۵) میں دیکھ لیں: كَلَّاۤ اِنَّهُمۡ عَنۡ رَّبِّهِمۡ یَوۡمَىٕذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ۔ ہر گز ایسا نہیں، یقیناً یہ لوگ اس روز اپنے ربّ کے دیدار سے محروم رکھے جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت میں بعض لوگوں کو ربِّ کریم کا پاک دیدار ہوگا۔ |
|
۸۰۱
مُحَمّدۡ |
تعریف کیا ہوا، سراھا ہوا۔ اسمِ مفعول: سیّد المرسلین، خاتم النّبیّین صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا اسمِ گرامی، حضور اکرم کا نامِ نامی قرآنِ حکیم کے چار مقامات پر ظاہر ہے: (۱) آلِ عمران (۰۳: ۱۴۴) (۲) احزاب (۳۳: ۴۰) (۳) سورۂ محمّد (۴۷: ۰۲) (۴) فتح (۴۸: ۲۹)۔ لفظ محمّد کا مادّہ “حمد” ہے، جو عقلِ کلّ کے ناموں میں سے ہے، اس کی تأویل یہ ہے کہ آنحضرتؐ مظہرِ عقلِ کلّ ہیں، ہر عالمِ شخصی میں نورِ محمّدی سب سے مقدم ہے۔ |
|
۸۰۲
مَدَّ الظِّلَّ |
سایہ کو پھیلا دیا: کیا تم نے اپنے پروردگار کی طرف نہیں دیکھا کہ اُس نے کیونکہ سایہ کو پھیلا دیا، اگر وہ چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا کر دیتا، پھر ہم نے آفتاب |
۴۶۰
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
کو اس کا رہنما بنا دیا، پھر ہم نے اس کو آسانی سے اپنی مٹھی میں لے لیا (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) یہاں سایہ مثال ہے، اس کا ممثول عالمِ باطن ہے، جس کو خداوندِ قدّوس کائنات بھر میں پھیلاتا بھی ہے، لپیٹتا بھی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ہمیشہ پھیلا ہوا رکھ بھی دیتا ہے، اور یہ آفتابِ عقل ہی کی روشنی میں ہے۔ |
||
۸۰۳
مِدۡرَارًا |
بہت برسنے والا، آسمانِ روحانیت: سورۂ انعام (۰۶: ۰۶) سورۂ ھود (۱۱: ۵۲) اور سورۂ نوح (۷۱: ۱۱) میں آپ کو خوب غور سے دیکھنا ہوگا تاکہ اس حقیقت کا یقین حاصل ہو کہ خدا اپنے خاص بندوں پر علمِ لدنّی کا بہت برسنے والا آسمان بھیج سکتا ہے: یُرۡسِلِ السَّمآءَ عَلَیۡکُمۡ مِدۡرَارًا۔ |
|
۸۰۴
مدینۃ العلم |
علم کا شھر: اَنَا مَدِیۡنَۃُ الۡعِلۡمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا فَمَنۡ اَرَادَ الۡعِلۡمَ فَلۡیَأۡتِ الۡبَابَ۔ آن حضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے پس جو شخص علم کو چاہتا ہو اس کو لازم ہے کہ شہر کے دروازے سے داخل ہوجائے۔ (شرح الاخبار، ج۱، ص۸۹) یعنی جو شخص علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین |
۴۶۱
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
کے خزانوں کو چاہتا ہو، تو اس کے لئے یہ امر ضروری اور لازمی ہے کہ علیّٔ زمان علیہ السّلام کی بیمثال ہدایات کی روشنی میں چل کر علمِ نبیؐ کے شہر میں داخل ہوجائے۔ |
||
۸۰۵
مَرَّتَیۡن (۱) |
دو دفعہ، مراد دو دفعہ پیدا ھونا: انسانِ کامل کا پہلا مرحلۂ سفر اسرافیل اور عزرائیل علیہما السّلام کی منزل تک ہے، جہاں وہ بار بار مرکر زندہ ہوجاتا ہے اور اسی عمل کے ساتھ اس کی ذاتی قیامت شروع ہوجاتی ہے، اور دوسرا سفر عالمِ عُلوی تک ہے جہاں اُس پر فنا فی اللہ و بقا باللہ کا سب سے عظیم معجزہ گزرتا ہے، اسی معنٰی میں وہ دو دفعہ پیدا ہوجاتا ہے، جیسا کہ حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: لَنۡ یَّلِجَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ مَنۡ لَّمۡ یُوۡلَدۡ مَرَّتَیۡن۔ جو شخص (مرتبۂ روح اور مرتبۂ عقل پر) دو دفعہ پیدا نہ ہوجائے وہ ہرگز آسمانوں کی بادشاہی میں داخل نہیں ہوسکتا ہے (احادیثِ مثنوی)۔ |
|
۸۰۶
مَرَّتَیۡن (۲) |
دو دفعہ: بحوالۂ سورہ: ۱۷، آیت: ۴، (۱۷: ۰۴) دو دفعہ زمین میں فساد کی تأویلی حکمت ہے: دو مرتبہ عالمِ شخصی کی زمین میں بگاڑ، پہلی دفعہ روحانی تعمیر |
۴۶۲
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
کے لئے اور دوسری دفعہ عقلانی ترقی کے لئے، یہی ہے دو دفعہ مر جانا اور دو دفعہ پیدا ہوجانا (۴۰: ۱۱)۔ |
||
۸۰۷
مریم (۱) |
دخترِ عمران: وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡٓ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا (۶۶: ۱۲) اور دوسری مثال مریم دخترِ عمران کی ہے جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی (پھر ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی)۔ یعنی اس نے اپنے کانوں کو اغیار کی باتوں سے محفوظ رکھا، تب ہی ان کی سماعت نفخۂ روح القدس کے قابل ہوسکی۔ |
|
۸۰۸
مریم (۲) |
عمران کی بیٹی: اور وہ خاتون جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی تھی، ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی اور اسے اور اس کے بیٹے کو عالمین کے لئے نشانی بنا دیا (۲۱: ۹۱) یعنی حجّت جس نے اپنی سماعت کو باطل باتوں سے محفوظ رکھا، اور خدائی روح اس میں پھونک دی گئی، اس کے عالمِ شخصی میں شخصِ کامل کا نورانی تولّد ہوا، اور وہ دونوں ان لوگوں کے لئے امکانی رحمت کا نمونہ بن گئے جو راہِ روحانیّت اور عالمِ شخصی کو چاہتے ہیں۔ |
۴۶۳
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۰۹
مُسۡتَعَان |
وہ جس سے مدد مانگی جائے: سورۂ یوسف میں ہے: وَ اللّٰهُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوۡنَ (۱۲: ۱۸) اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے، خدا سے مدد مانگنے کے لئے دو ضروری شرطیں ہیں: صبر اور صلوٰۃ (۰۲: ۴۵؛ ۰۲: ۱۵۳) صبر تاویلاً پیغمبرؐ ہیں اور صلوٰۃ امامؑ، انہی قدسی ہستیوں کے وسیلے سے خدا کی مدد حاصل ہوسکتی ہے، ورنہ ظاہری شرطوں کو بجا لاکر یہودی و نصارٰی بھی خدا کی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ |
|
۸۱۰
مَسۡجِد |
سجدہ کی جگہ، عبادت خانہ، عبادت: لفظِ مسجد عبادت کے معنی میں بھی آیا ہے جیسے سورۂ اعراف (۰۷: ۳۱) میں ہے، چنانچہ مسجد الحرام کے دو معنی ہیں (۱) حرمت والی مسجد (خانۂ کعبہ) اور (۲) حرمت والی عبادت، یعنی اسمِ اعظم کی عبادت، اب اس آیۂ شریفہ میں غور سے دیکھیں: ترجمہ: وہ خدا پاک و پاکیزہ ہے جو اپنے بندہ کو راتوں رات مسجدِ حرام (حرمت والی عبادت= اسمِ اعظمِ اوّل) سے مسجدِ اقصٰی (نہایت دور کی مسجد یعنی آخری اسمِ اعظم) کی طرف لے گیا جس کے گردا گرد ہم نے ہر قسم کی برکت مہیّا رکھی ہے تاکہ ہم اس کو اپنے کچھ عجائباتِ |
۴۶۴
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
قدرت دکھلا دیں۔ |
||
۸۱۱
مسکین |
فقیر، محتاج: نیک لوگ خدا کی محبّت میں مسکین، یتیم، اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں، یعنی حجّت، امام، اور اساس کے علمی طعام کا دسترخوان بچھاتے ہیں (۷۶: ۰۸)۔ |
|
۸۱۲
مُسۡلِمۃ |
أئمّۂ طاھرینؑ کی جماعت: اے نورِ چشمِ من! حقیقی مسلم وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کردیتا ہے، اسی معنٰی میں حضرتِ ابراہیم او حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام نے یہ دعا کی: اے ہمارے پروردگا! ہم کو ایسا بنا دے کہ اپنے آپ کو تیرے حوالہ کر دیں اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک ایسی جماعت پیدا کر دے جو حقیقی فرمانبرداری سے خود کو تیرے سپرد کر دے (۰۲: ۱۲۸)۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ اُمَّۃً مُسۡلِمَۃً أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کی جماعت ہے، جو حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کی ذرّیّت ہے (ملاحظہ ہو: دعائم الاسلام عربی، جلد اوّل، ص۳۳)۔ |
۴۶۵
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۱۳
مُسَوِّمِیۡنَ (۱) |
نشان والے: روحانی جہاد میں جب خدا کی طرف سے مدد کے لئے فرشتے آتے ہیں تو وہ نشان والے ہوتے ہیں، یعنی ان کے پاس زمانے کے مطابق علامتی ہتھیار ہوتے ہیں تاکہ یہ سگنل ملے کہ وہ جنگی مدد کے لئے آئے ہیں، اس معجزے کا مشاہدہ کسی مومن کو بیداری یا خواب میں ہوسکتا ہے، چنانچہ جنگِ بدر میں بعض اصحابِ کبار رضوان اللہ علیھم نے ایسا معجزہ دیکھا تھا (۰۳: ۱۲۵)۔ |
|
۸۱۴
مُسَوِّمِیۡنَ (۲) |
نشان والے: اب سے بہت پہلے کا قصّہ ہے کہ ایک طرف شدید تکلیف اور قیدی و بندی کا عالم تھا، اور دوسری طرف پُرحکمت روحانی انقلاب کا دور دَورہ، رات کی تنہائی میں برق رفتاری سے فرشتہ آیا، ایک بدیع الجمال عظیم المرتبت، اور نورانی جوان کی صورت میں تھا، دائیں ہاتھ میں سنگین کے ساتھ رائفل تھی اور بائیں ہاتھ میں ٹارچ، اس کی بیمثال و لاثانی جلالت و بزرگی سے میں سخت مرعوب ہوگیا، بلکہ ایک قسم کی فنائیت طاری ہوگئی، بات کرنے کی نہ تو ہمّت ہوئی اور نہ ہی کوئی اجازت ملی، بس بہت ہی جلد چلا گیا، لیکن اس کی یاد ایسی زبردست پُرکشش ہے کہ بار بار ستاتی رہتی ہے۔ |
۴۶۶
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۱۵
مُسَوِّمِیۡنَ (۳) |
نشان والے: اُسی زمانے کی بات ہے کہ ایک نورانی خواب میں حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ کا پاک دیدار ہوا، اِس بندۂ ناچیز کے پاس ایک عجیب قسم کی اِن ڈائریکٹ رائفل ہوتی ہے، مولا نے فرمایا: یہ مجھے دو، میں اسے خوب استعمال کروں گا، اسی کے ساتھ رائفل امام علیہ السّلام کے دستِ مبارک میں گئی، یقیناً یہ نورانی خواب روحانی جہاد سے متعلق ہے۔ |
|
۸۱۶
مُسَوِّمِیۡنَ (۴) |
علامت لگانے والے: جنگ بدر میں لشکرِ اسلام کی مدد کے لئے جو فرشتے آئے تھے، وہ علامتی اسلحہ کے ساتھ تھے، جن کو آنحضرتؐ (صلعم) کے علاوہ بعض اصحاب نے بھی دیکھا تھا، اور یہ صرف آئندہ روحانی اور علمی جنگ میں دینِ حق کی فتح سے متعلق خوشخبری اور دلجمعی تھی (۰۳: ۱۲۵ تا ۱۲۶)۔ |
|
۸۱۷
مُسَوِّمِیۡنَ (۵) |
علامت لگانے والے: اے نورِ عینِ من! اِن باطنی اسرار کو بھول نہ جانا کہ نمائندہ قیامت (انفرادی قیامت) دعوتِ حق، روحانی جہاد، اور علمی جہاد ایک ساتھ واقع ہوجاتے ہیں، باطنی جنگ کے مرکز کو “قلب” کہتے ہیں، |
۴۶۷
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
اور وہ حضرتِ امام (قائم) ہے، جس کے بغیر روحانی اور علمی جہاد ممکن ہی نہیں۔ |
||
۸۱۸
مَشَارِقۡ |
سورج نکلنے کے مقامات، واحد مشرق: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۳۷) میں ارشاد ہے: اور ہم نے ان لوگوں کو جوکہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے مشرقوں اور مغربوں کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔ یہ عالمِ شخصی کی سرزمین ہے جس کے مشارق و مغارب کی طرف خصوصی توجہ دلانے کی عظیم حکمت یہ ہے کہ وہاں کا آفتابِ نور اپنے ہر طلوع و غروب سے بیمثال علمی و عرفانی اشارے کرتا رہتا ہے، اور خداوندی برکتوں کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ |
|
۸۱۹
مع القرآن (۱) |
قرآن کے ساتھ: قال رسول اللہ (صلعم) علیّ مع القرآن و القرآن مع علیّ لا یفترقان حتّٰی یردا علی الحوض (ینابیع المُودّۃ، ص۱۰۳) آنحضرتؐ نے فرمایا: علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علیؑ کے ساتھ، یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے تا آنکہ دونوں حوضِ کوثر پر اتر جائیں۔ |
۴۶۸
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
اس کی حکمت یہ ہے: علی (یعنی ہر امامِ برحق) اپنی روحانیت و نورانیت میں قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اپنی روحانیت و نورانیت میں علیؑ کے ساتھ ہے، پس قرآن اور علیؑ باطن میں نورِ واحد ہیں، اور یہ وحدت قیامِ قیامت اور حوض کوثر تک قائم رہے گی۔ |
||
۸۲۰
مع القرآن (۲) |
قرآن کے ساتھ: علیؑ (امامِ زمان) ظاہر میں ایک پاک شخصیت ہے اور باطن میں نور، اور قرآن ظاہر میں ایک عظیم آسمانی کتاب ہے، اور باطن (پیغمبر اور امام) میں نور، اس سے معلوم ہوا کہ علیؑ اور قرآن ظاہر میں الگ الگ ہیں، اور باطن میں نہ صرف ساتھ ہی ہیں بلکہ نورِ واحد بھی ہیں۔ |
|
۸۲۱
مَعَ اللہ |
خدا کے ساتھ، فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ: صاحبِ جَوامِعُ الۡکَلِم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم (روحی فِداہٗ) کا یہ پُر از اسرارِ معرفت ارشاد ہے: لِیۡ مَعَ اللہِ وَقۡتٌ لَا یَسۡعُنِی فِیۡہِ مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌّ مُرۡسَلٌ۔ لفظی ترجمہ: خدائے واحد کے ساتھ میرا ایک وقت (حال) ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس میں (بظاہر) میرے ساتھ کسی مقرب فرشتے یا نبیّٔ مُرسل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ |
۴۶۹
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے سب سے پہلے نورِ محمّدی کو پیدا کیا، پھر اسی نور سے سب کو پیدا کیا، لہٰذا رجوع الٰی اللہ یعنی خدا کی طرف لوٹ جانے کا قانون یہ ہے کہ پھر سب پہلے کی طرح رسولؐ کے نور میں ایک ہوجائیں، اور یہ فنا فی الرّسولؐ کے ذریعے سے ہوسکتا ہے، تاکہ آنحضرتؐ جو فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ رکھتے ہیں سب کو خدا میں فنا کردیں، اسی طرح بالواسطہ فنا سب کے لئے ممکن ہے، لیکن رحمتِ عالم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کی ذاتِ عالی صفات ان معنوں میں بیمثال ہے کہ پروردگارِ جہان نے آپؐ کو نورِ ازل، قلم اعلٰی، اور عقلِ کل جیسے انتہائی عظیم مراتب سے نوازا ہے، اور آپؐ بِلا واسطہ خدا سے واصل ہیں۔ |
||
۸۲۲
معارج |
سیڑھیاں: سورۂ معارج کے شروع (۷۰: ۰۳) میں یہ اشارہ ہے کہ ناطق، اساس، امام، حجّت، داعی اللہ تعالٰی شانہ کی سیڑھیاں ہیں۔ |
|
۸۲۳
مُعۡجِزِیۡنَ (۱) |
عاجز کرنے والے: اے عزیزانِ من! آپ سب اِس قانونِ قرآن کو ہرگز بھول نہ جانا کہ اس کی ہر مثال میں زبردست علم و حکمت کے اسرار پنہان ہیں (۰۶: ۸۰) |
۴۷۰
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
چنانچہ سورۂ عنکبوت (۲۹: ۲۲) میں ہے: وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ۔ اور نہ تو تم خدا کو زمین میں عاجز کرسکتے ہو اور نہ آسمان میں۔ یعنی خدا کی خدائی میں کوئی عقلی (علمی) اور روحانی نعمت ایسی نہیں جو انسان کو حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کہا جائے کہ اللہ نے ایسا کیوں کیا؟ اور ایسا کیوں نہیں کیا؟ |
||
۸۲۴
مُعۡجِزِیۡنَ (۲) |
عاجز کرنے والے: خداوندِ تعالٰی کو نہ کوئی عاجز کرسکتا ہے نہ ہرا سکتا ہے اور نہ تھکا سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے علیم و حکیم کا کام دائرے کی طرح کسی ابتداء و انتہا کے بغیر جاری و ساری ہے، جس میں ہر نعمت اپنے وقت پر سامنے آتی ہے، اور بہشت میں کوئی نعمت ناممکن نہیں، یہاں تک کہ خود خدا بھی کنزِ مخفی کے معنی میں مل جاتا ہے۔ |
|
۸۲۵
معراج (۱) |
سیڑھی، روحانیت کا بلند ترین درجہ: قرآنِ عزیز میں معراج کا سب سے عالیشان اور سب سے نمایان تذکرہ حضرتِ محمّد مصطفٰی رسولِ خدا سیّد الانبیاء و المرسلین صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم سے متعلق ہے، کیونکہ آپ ہی اوّل، آخر، خاتم اور صاحبِ وصفِ لَولاک ہیں، حضورِ انورؐ کے اور بھی ایسے بہت سے کمالات |
۴۷۱
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
ہیں جو دوسرے انبیاء کو حاصل نہیں، تاہم منزلِ مقصود تک رسائی کے بغیر کوئی نبی اور کوئی ولی نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی رہنمائی کا حق ادا ہوسکتا ہے، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ کاملین و عارفین اسرارِ معراج سے فعلًا واقف و آگاہ ہوتے ہیں۔ |
||
۸۲۶
معراج (۲) |
معراجِ آدمؑ: روحانی سائنس اور قرآنِ پاک کی روشنی میں یہ حقیقت پایۂ ثبوت پر پہنچ چکی ہے کہ عالمِ شخصی کے شروع شروع میں ذرّاتی فرشتے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو بار بار سجدہ کر رہے تھے اور اُن کا نمایان سلسلہ تقریباً ایک ہفتہ تک رہا اور اس کے بعد خلیفۃ اللہ رفتہ رفتہ کائناتی زمین (نفسِ کُلّی) میں عملًا نائب ہوگئے، وہاں بھی ملائکہ نے باقاعدۂ تجدّدِ امثال آدمؑ کو بار بار سجدہ کیا مگر بڑی عجیب بات تو یہ ہے کہ یہاں تو صرف ایک ہی نورانی فرشتہ دکھائی دیتا تھا، جس میں سب تھے، اور اسی مقام پر حضرتِ آدم علیہ السّلام کو معراج ہوئی۔ |
|
۸۲۷
معراج (۳) |
معراجِ ادریسؑ، بہت ھی بلند جگہ: حضرتِ ادریس علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: وَ رَفَعۡنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا۔ اور ہم نے ان کو بہت اونچی جگہ (معراجِ روحانیت میں) |
۴۷۲
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
بلند کرکے پہنچا دیا (۱۹: ۵۷) جب خداوندِ کریم کسی پیغمبر پر کیا ہوا اپنے احسان کا ذکر فرماتا ہے تو وہ احسان انتہائی عظیم ہوتا ہے، پس یہاں بلند جگہ (مکانًا علیًّا) سے مقامِ معراج مراد ہے، جو حضرتِ ادریس علیہ السّلام کو عالمِ شخصی میں حاصل ہوا۔ |
||
۸۲۸
معراج (۴) |
معراجِ نوحؑ: تمام انبیاء علیہم السّلام کی راہِ روحانیت ایک ہی ہے، منزلِ مقصود بھی ایک ہی ہے، اور شروع سے آخر تک سارے معجزات بھی ایک جیسے ہیں، مگر ان کی مثالیں لوگوں کو آزمانے کے لئے طرح طرح سے دی گئی ہیں، چنانچہ حضرتِ نوح علیہ السّلام کے روحانی انقلاب کا نام طوفان ہے، جس نے کشتیِٔ روحانیّت کو جبلِ جودی کے عروج تک پہنچا دیا (۱۱: ۴۴) جودی بظاہر ایک پہاڑ ہے، بباطن کوہ عقل، جو عالمِ معراج میں متحرک ہے، پس یہی باطنی پہاڑ حضرتِ نوح علیہ السّلام کی معراج کی نشانی ہے۔ |
|
۸۲۹
معراج (۵) |
معراجِ نوحؑ سے متعلق سوال: سوال: اس کا مطلب یہ ہوا کہ کشتیٔ نوحؑ میں جو اہل ایمان سوار ہوئے تھے ان کو بھی معراج کی عظیم سعادت نصیب ہوئی، کیا یہ درست |
۴۷۳
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
ہے؟ ہاں درست تو ہے، لیکن اس طرح سے نہیں کہ معراج پر کوئی جماعت جدا جدا افراد کے ساتھ جاتی ہے، چونکہ وہاں عالمِ وحدت ہے اس میں کثرت کی گنجائش نہیں، لہٰذا جتنے بھی ہوں ان کو نفسِ واحدہ میں فنا ہوکر جانا پڑتا ہے۔ |
||
۸۳۰
معراج (۶) |
مرتبۂ فنا فی اللہ و بقا باللہ، معراجِ انبیاؑء: اے نورِ عینِ من! معرفت کے اس سرِّ عظیم کو ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمام انبیاء علیہم السّلام اللہ جلّ شانہٗ کی رحمت و دستگیری سے جیتے جی مرکر زندہ ہوگئے، اس وجہ سے وہ حضرات یقیناً فنا فی اللہ و بقا باللہ کا بے مثال درجہ رکھتے تھے، اور یہ بھی یاد رکھنا کہ ایسا سب سے بڑا مرتبہ معجزۂ معراج کے بغیر ممکن ہی نہیں، اب اسی حقیقت کی شہادت قرآنِ حکیم (۰۲: ۲۱۳) سے پیش کی جاتی ہے: فَبَعَثَ اللہُ النَّبِیّینَ۔ (۱) پس خدا نے پیغمبروں کو (فنا فی اللہ و بقا باللہ کے معنی میں) زندہ کیا۔ (۲) پھر خدا نے پیغمبروں کو (گویا معراج سے) بھیجا۔ کیونکہ انبیائے کرام علیہم السّلام اگرچہ بظاہر دنیا ہی میں تھے، لیکن باطنی طور پر اُن کی پاک روح عالمِ علوی اور مقامِ معراج سے ہوکر آئی تھی، اس معنٰی میں وہ حضرات اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے۔ |
۴۷۴
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۳۱
معراج (۷) |
معراجوں کا یکجا تذکرہ: اے عزیزان! ہم آپ کو اُس آیۂ مبارکہ کی طرف پُرزور توجّہ دلا رہے ہیں جس میں جملہ انبیائے کرام علیہم السّلام کی معراج کا یکجا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہ سورۂ بقرہ کی آیت دو سو تیرہ (۰۲: ۲۱۳) ہے، اس آیۂ مقدّسہ میں ایک حکمت آگین لفظ بَعَثَ (فَبَعَثَ) ہے جس کی تحلیل سے پیغمبروں کی معرفت کا بڑا اہم دروازہ کھل جاتا ہے، جس کا ذکر ہوچکا کہ خدا نے پیغمبروں کو (فنا فی اللہ و بقا باللہ کے معنی میں) زندہ کیا۔ کیونکہ بَعَثَ کا صیغہ بَعۡث سے ہے، اور بَعۡث کے معنی ہیں: جی اٹھنا، زندہ کرنا، اُٹھا کھڑا کرنا، اور قرآنِ حکیم (۲۲: ۵؛ ۳۰: ۵۶) میں البعث اور یوم البعث کو بھی دیکھ لیں۔ |
|
۸۳۲
معراج (۸) |
منزلِ مقصود، حقائق و معارف کا سرچشمہ اور مرکز: زیر بحث آیۂ شریفہ (۰۲: ۲۱۳) میں یہ ذکر بھی ہے کہ جملہ انبیاء علیہم السّلام خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے تھے، اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ معراج کے روحانی سفر کے دوران خدائے علیم و حکیم کے حکم سے پیغمبروں نے بہت کچھ دیکھا، منجملہ بہشت اور دوزخ کا مشاہدہ |
۴۷۵
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
ضروری تھا، تبھی وہ حضرات حقیقی معنوں میں لوگوں کو خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے مقرر ہوگئے۔ |
||
۸۳۳
معراج (۹) |
نورِ انبیاءؑ کا روحانی عروج: آیۂ کریمۂ مذکورہ کا ایک اہم جزو یہ ہے: وَ اَنۡزَلَ مَعَهُمُ الۡكِتٰبَ بِالۡحَقِّ (۰۲: ۲۱۳) اور ان پیغمبروں کے ساتھ برحق کتاب بھی نازل کی۔ اِن پُرمایہ الفاظ سے عجیب و غریب اصولی حکمتوں کا انکشاف ہوتا ہے: اوّل یہ کہ ساری آسمانی کتابیں دراصل ایک ہیں، اس عظیم مجموعے کا نام الکتاب (یعنی قرآن) ہے، دوم یہ کہ آسمانی کتابوں کی مثال پر تمام انوارِ انبیاء بھی ایک ہیں اور اس مجموعۂ انوار کا مبارک نام نورِ محمّدیؐ ہے، سوم یہ کہ عالمِ عُلوی کی جس بلندی سے نورِ انبیاء کا نزول ہوا، اُسی بلندی کے ساتھ ساتھ (مَعَھُمۡ) الکتاب بھی نازل ہوئی، چہارم یہ کہ جب اصل کتاب ایک ہی ہے تو دعوتِ حق اور دینِ انبیاء علیہم السّلام بھی ایک ہی ہے، اور وہ اسلام ہے جو حضرت محمّد رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا دین ہے۔ |
|
۸۳۴
معراج (۱۰) |
سیڑھی: اے نورِ عینِ من! یہ روایت درست اور حقیقت ہے کہ قرآنِ حکیم |
۴۷۶
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
میں تین سردار چیزیں ہیں جو سب سے عظیم ہیں، اُمّ الکتاب (سورۂ فاتحہ) تمام سورتوں سے اعظم ہے، آیۃ الکرسی ساری آیات سے اعظم ہے، اور جملہ اسمائے الٰہی میں ایک ایسا بزرگ نام بھی ہے جو زندہ ہے، اس لئے وہ اسمِ اعظم ہے، ربُّ العزّت کے اس طریقِ کار میں بندوں کے لئے بے شمار رحمتیں ہیں، اب آئیے ہم امّ الکتاب کی اُس پُرحکمت اور بہت ہی پیاری دعا اور اس کی تفسیر میں سوچتے ہیں جو راہِ مستقیم پر چلتے چلتے اُن حضرات میں شامل ہونے کے لئے ہے، جن کو پروردگارِ عالمین نے اپنے خاص انعامات سے نوازا ہے، اور وہ یقیناً اسرارِ معرفت سے واقف و آگاہ ہیں جو اسرارِ معراج ہیں۔ |
||
۸۳۵
معرفۃ (۱) |
خدا شناسی: اِعۡرِفُوۡا اللہَ بِاللہِ۔ اللہ کو اللہ ہی سے پہچانو۔ (لغات الحدیث) یعنی خدا کی معرفت اُس کے نور کی روشنی میں ممکن ہے، اور اللہ کا نور آنحضرتؐ اور امامؑ ہیں۔ |
|
۸۳۶
معرفۃ (۲) |
خدا کی پہچان: معلوم ہے کہ حضرتِ ربّ العزّت کی معرفت کا وسیلہ خود شناسی ہی |
۴۷۷
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
ہے اور جو شخص اپنی روح کی شناخت میں سب سے آگے ہو وہی اپنے ربّ کی معرفت میں سب سے زیادہ کامل ہے، جیسا کہ آنحضرتؐ کا ارشاد ہے: اَعۡرَفُکُمۡ بِنَفۡسِہٖ اَعۡرَفُکُمۡ بِرَبِّہٖ۔ تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنے آپ کا عارف ہو وہی تم میں سب سے زیادہ اپنے پروردگار کا عارف ہے۔ یہاں پر انسانی روح کی عظمت اور یک حقیقت کا سب سے بڑا راز پوشیدہ ہے (زاد المسافرین، ص۲۸۷)۔ |
||
۸۳۷
مَعۡلُوۡم |
جانا ھوا: سورۂ صٰفّٰت میں ارشاد ہے: اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الۡمُخۡلَصِیۡنَ۔ اُولٰٓىٕكَ لَهُمۡ رِزۡقٌ مَّعۡلُوۡمٌ (۳۷: ۴۰ تا ۴۱) مگر اللہ کے مخصوص بندے وہ ہیں جن کے لئے جانا بوجھا رزق ہے۔ خداوندِ عالم کے خاص بندے کون ہیں اور ان کا جانا ہوا رزق کیا ہے؟ وہ حضرات اولیاء، کاملین اور عارفین ہیں، اور رزقِ معلوم (جانا ہوا رزق) دیدار، معرفت، حکمت، علم، اور کامل روحانیّت ہے، الغرض خدا کے مقرّب بندوں کو دنیا ہی میں بہشت اور اس کی نعمتوں کی ضروری معرفت حاصل ہوجاتی ہے، آپ سورۂ محمّد (۴۷: ۰۶) میں بھی دیکھ لیں، نیز اس کتاب میں عَرَّفَ کے عنوانات کو بھی دیکھیں۔ |
۴۷۸
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۳۸
مَغَانِم |
غنیمت کے اموال، واحد مَغۡنَم: سورۂ فتح (۴۸: ۲۰) میں خدا نے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، یہ غنیمتیں روحانی ہیں، جو روحانی اور عقلانی جہاد میں حاصل ہوسکتی ہیں، یعنی روح اور عقل کی کثیر نعمتیں۔ لوگ روحانی جہاد سے بے خبر ہیں، جبکہ قیامت کے بارے میں باور کرتے ہیں، حالانکہ قیامت ہی دعوتِ حق بھی ہے اور جہادِ روحانی بھی ہے، چنانچہ جہاں یہ جہاد ہے، وہاں اس میں اموالِ غنیمت بھی ہیں، جیسے بے شمار غلام، کنیزیں، اور لاتعداد دوسری چیزیں، اور جو لوگ روحانی جہاد (قیامت) کے زور سے خدا کے دین میں داخل ہوجاتے ہیں ان کو بھی بالآخر نجات مل جاتی ہے۔ |
|
۸۳۹
مقام |
کھڑا ھونے کی جگہ: عالمِ عُلوی میں جو قبلۂ عقل و جان ہے، اسی کا ذکرِ جمیل ہے، جیسا کہ ترجمۂ ارشاد ہے: اس میں بہت واضح و روشن نشایناں ہیں (اور) مقامِ ابراہیم ہے (یعنی حجرِ ابیض) اور جو اس گھر میں داخل ہوا امن میں آگیا (۰۳: ۹۷)۔ |
۴۷۹
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۴۰
مِقۡدَار |
اندازہ، جمع مقادیر: وَ كُلُّ شَیۡءٍ عِنۡدَهٗ بِمِقۡدَارٍ (۱۳: ۰۸) اور ہر چیز اس کے پاس ایک اندازے سے ہے۔ یعنی بہت سی کائناتیں ہوسکتی ہیں مگر بے پایان ہرگز نہیں، کیونکہ حکمت مقدارمیں ہے، جس کا مطلب ہے انسان کا احاطۂ معرفت۔ |
|
۸۴۱
مَقۡطُوۡعَۃٍ |
کاٹی ھوئی: اصحاب الیمین کے بارے میں ارشاد ہے: وَّ فَاكِهَةٍ كَثِیۡرَةٍ۔ لَّا مَقۡطُوۡعَةٍ وَّ لَا مَمۡنُوۡعَةٍ (۵۶: ۳۲ تا ۳۳) اور وہ میوہ ہائے کثیرہ (کے باغوں) میں ہوں گے جو نہ کبھی منقطع ہوں اور نہ ان سے کوئی روکے۔ مقطوعہ کی مثال خط یعنی لکیر (__________) اور لا مقطوعہ دائرے کی طرح ہے: |
|
۸۴۲
مُقِیۡم |
قائم کرنے والا، برپا کرنے والا: امامِ مقیم دعوتِ حق میں وہ عظیم امام ہے جو صاحبِ دور (ناطق) |
۴۸۰
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
کو روحانی تربیت دیکر قائم کرتا ہے، چنانچہ مقیمِ اوّل مولانا ھنید، مقیمِ دوم مولانا ھود، مقیمِ سوم مولانا صالح، مقیمِ چہارم مولانا آد، مقیمِ پنجم مولانا خزیمہ، اور مقیمِ ششم مولانا ابوطالب ہے، اسی طرح چھ صاحبانِ ادوار کے لئے چھ أئمّۂ مقیمین مقرر ہوگئے (کتاب کنز الولد، عربی، ص۲۰۶)۔ |
||
۸۴۳
مَکۡنُوۡن |
چھپایا ھوا، پوشیدہ: اے نورِ عینِ من! آپ اس سرِّ عظیم کو سورۂ واقعہ (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) میں دیکھیں: بیشک وہ بڑے رتبہ کا قرآن ہے جو پوشیدہ کتاب میں ہے، اس کو بس وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک کئے گئے ہیں۔ ںورِ عقل ہی کتابِ مکنون (پوشیدہ کتاب) ہے، جس میں قرآنِ کریم کی ازلی نورانیّت ہے، اور نورانیّت میں تمام تاویلی اسرار پنہان ہیں، اس کتابِ مکنون اور ازلی قرآن کو کوئی شخص چھو نہیں سکتا مگر وہ حضرات جو پاک کئے گئے ہیں، اور وہ أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام ہی ہیں، اور انہی کے ذریعے سے کسی کو علمی صدقہ مل سکتا ہے۔ |
|
۸۴۴
مُلۡک (۱) |
بادشاھی: سورۂ مومن (۴۰: ۱۶) میں خدائے عزّ و جلّ فرماتا ہے: لِمَنِ الۡمُلۡکُ |
۴۸۱
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
الۡیَوۡمَط لِلّٰہِ الۡوَاحِدِ الۡقَھَّارِ۔ آج (قیامت کے دن) کس کی بادشاہت ہے؟ (کہا جائے گا) خداوند تعالٰی کی، جو اکیلا اور غالب ہے۔ واحد بر وزنِ فاعل، ایک اکیلا اور سب کو ایک کر دینے والا، اور قہّار کے معنی ہیں غالب، زبردست، یعنی خدا اپنے ہر ولی کے عالمِ شخصی میں جب قیامت برپا کرتا ہے تو اسی وقت وہاں خدا کی بادشاہی قائم ہوجاتی ہے، اور اسی نمونے پر ساری دنیا میں بھی سلطنتِ الٰہیّہ قائم ہونے والی ہے۔ |
||
۸۴۵
مُلۡک (۲) |
بادشاھی: اللہ تعالٰی کی سنّت یہ ہے کہ وہ جلّ و اعلٰی مثالوں میں کلام کرتا ہے، چنانچہ آپ جب خدا کو ہر چیز سے بے نیاز و برتر یا بادشاہِ قدیم مانتے ہیں تو اس حال میں ذاتِ سبحان کی ایک نئی بادشاہی خواہ عالمِ شخصی میں ہو یا سیّارۂ زمین پر صرف ایک تاویلی مثال قرار پاتی ہے، اور اس کی تأویل کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسی بادشاہی ولیّٔ امر اور مومنین کی ہوتی ہے۔ |
|
۸۴۶
مُلۡک (۳) |
بادشاھی: ہر ولیّٔ زمان کی روحانیّت و قیامت میں بہت سے مومنین و مومنات کو روحانی سلطنتیں عطا کی جاتی ہیں، جیسے زمانۂ موسٰیؑ کی مثال موجود |
۴۸۲
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
ہے: اور جب موسٰی نے اپنے قوم سے کہا اے میری قوم! اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو تم پر ہوا ہے، جب اس نے تم میں سے انبیاء بنائے اور تمہیں سلاطین بنا دیا (۰۵: ۲۰)۔ عالمِ ظاہر اور عالمِ دین کی ساری مثالیں عالمِ شخصی میں جمع و موجود ہیں، اسی حقیقت کے پیشِ نظر اِذۡ جَعَلَ فِیۡكُمۡ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمۡ مُّلُوۡكًا (۰۵: ۲۰) کے معنی یہ ہوں گے: جب تمہارے عالمِ شخصی میں انبیاء بنائے اور تمہیں روحانی سلاطین بنا دیا۔ یہ خطاب عارفین سے ہے۔ |
||
۸۴۷
مُلۡک (۴) |
بادشاھی: سورۂ دھر (۷۶: ۲۰) میں خوب غور سے دیکھ لیں، بہشت کا سب سے بڑا درجہ ملکِ کبیر (عظیم الشّان سلطنت) ہے جیسا کہ ارشاد ہے: وَ اِذَا رَاَیۡتَ ثَمَّ رَاَیۡتَ نَعِیۡمًا وَّ مُلۡكًا كَبِیۡرًا (۷۶: ۲۰) اور جب تم نظر ڈالو گے تو ہر طرح کی نعمت اور عظیم الشّان سلطنت دیکھو گے۔ لیکن اس اعلٰی مقام کے لئے حقیقی علم و عمل کی ضرورت ہے۔ |
|
۸۴۸
مُلۡک (۵) |
بادشاھی: یہاں یہ نکتہ بھی خوب اچھی طرح یاد رہے کہ قرآنِ حکیم میں آلِ ابراہیمؑ کی جیسی شاندار تعریف آئی ہے اس کا مقصد محمّدؐ و آلِ محمّدؐ کی معرفت |
۴۸۳
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
ہے، اُس آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: ہم نے تو مرحمت فرما دی ہے ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت اور عنایت فرما دی ہے انہیں عظیم الشّان سلطنت (۰۴: ۵۴) آپ سلمان فارسی کی طرح ان میں فنا ہوجائیں تاکہ آپ کتاب، حکمت اور عظیم سلطنت کی وراثت حاصل کرسکیں، آمین! |
||
۸۴۹
مَلَکُ الۡمَوۡت |
موت کا فرشتہ، عزرائیل: سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۱) میں فرمایا گیا ہے: کہہ دو کہ موت کا فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ موت ہر روز جزوی بھی ہے، عمر میں ایک بار کلّی بھی، اختیاری بھی ہے اور اضطراری بھی، لہٰذا ہر شخص پر ایک فرشتۂ موت مؤکل بنایا گیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر عالمِ شخصی میں بے شمار قوّتیں ہیں، اور ان میں سب سے بڑی قوّتیں جو انقلابی ہیں وہ چار ہیں: قوّتِ جبریلیہ، قوّت میکائیلیہ، اسرافیلیہ اور عزرائیلیہ۔ |
|
۸۵۰
ملکوت |
عالمِ ارواح و ملائکہ، روحانی بادشاھی: حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام نے فرمایا: لو لا انّ الشّیاطین یحومون حول قلوب بنی آدم لراؤا ملکوت السّمٰوٰت و |
۴۸۴
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
والارض۔ اگر بنی آدم کے دلوں کے گرد شیاطین نہ پھرتے ہوتے تو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کو دیکھتے۔ اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ خدا کے مخلص بندے کائنات کی روحانی سلطنت کو دیکھتے ہیں، اور یہ عظیم معجزہ عالمِ شخصی میں ہوتا ہے۔ (المیزان، الجزء الخامس، ص۲۷۰)۔ |
||
۸۵۱
مَلَکَیۡن (۱) |
دو فرشتے، ھاروت و ماروت: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۰۲) میں ارشاد ہے: وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَى الۡمَلَكَیۡنِ بِبَابِلَ هَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ۔ اور وہ پیچھے پڑے اُس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھے۔ اس آیۂ شریفہ کے باطنی پہلو کا تعلق روحانی سائنس سے ہے، جس کی تجربہ گاہ عالمِ صغیر میں ہے، پس وہ دو آزمائشی فرشتے بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت اب بھی موجود ہیں، جن کے اور بھی کئی مشہور نام ہیں۔ |
|
۸۵۲
مَلَکَیۡن (۲) |
دو فرشتے، دو ساتھی: سورۂ بلد (۹۰: ۱۰) میں پڑھ لیں: وَ ھَدَیۡنٰہُ النَّجۡدَیۡنِ۔ اور ہم نے اس کو (خیر و شر) دونوں راستے دکھا دیئے۔ یعنی دو فرشتوں کے توسط سے جو عالمِ شخصی میں مقرر ہیں۔ |
۴۸۵
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۵۳
مَلَکَیۡن (۳) |
دو فرشتے، دو ساتھی: سورۂ شمس (۹۱: ۰۸) میں دیکھ لیں: فَاَلۡھَمَھَا فُجُوۡرَھَا وَ تَقۡوٰھَا۔ پھر اس (یعنی جان) کی بدی اور اس کی پرہیزگاری اس پر الہام کردی۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اعمالِ نیک و بد کے نتیجے پر انسان کے دل میں خیر غالب ہے یا شر؟ اس کے مطابق یہ دونوں فرشتے الہام کرتے ہیں تاکہ قانونِ اختیار کے مطابق عمل ہوسکے، اور کسی آدمی پر کوئی ظلم و زیادتی نہ ہونے پائے۔ |
|
۸۵۴
مَلَکَیۡن (۴) |
دو فرشتے، دو ساتھی: حدیثِ نبوّی ہے: اِذَا وُضِعَ الۡمَیِّتُ فِی الۡقَبۡرِ اَتَاہُ مَلَکَانِ مُنۡکَرٌ وَّ نَکِیۡرٌ۔ جب میّت قبر میں اتار دی جاتی ہے تو اس کے پاس منکر و نکیر دو فرشتے آتے ہیں۔ (لعل و گوہر، ص۱۲۳) عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے، اور اس میں دنیا بھر کے لوگوں کے لئے قبرستان بھی ہے، اس سلسلے میں ظاہری قبر صرف تمثیل ہے۔ |
|
۸۵۵
مُلُوۡک |
سلاطین، بادشاہ: دعائم الاسلام، عربی، المجلّد الاوّل، ص۱۵ کے آخر ص۱۶ کے شروع میں آنحضرتؐ کا یہ ارشاد درج ہے: ترجمہ: اے عبد المطلب کی اولاد! |
۴۸۶
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
میری اطاعت کرو تاکہ تم زمین کے سلاطین و حکّام ہوجاؤ گے، بیشک خدا نے ہر پیغمبر کے لئے ایک وصی، وزیر، وارث، بھائی او ولی بنا دیا۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ جو لوگ خدا، رسولؐ اور صاحبِ امر کی اطاعت کرتے ہیں، وہ ظاہر میں بادشاہ نہیں ہوتے، بلکہ روحانیّت اور آخرت میں بادشاہ ہوا کرتے ہیں، اور زمین سے عالمِ شخصی مراد ہے۔ |
||
۸۵۶
مَلِیۡک (۱) |
بادشاہ: فرمانِ الٰہی کا ترجمہ ہے: جو کچھ انہوں نے کیا ہے وہ سب اعمال ناموں میں درج ہے، اور ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی موجود ہے، جو پرہیزگار ہیں وہ باغوں اور نہروں میں ہوں گے، حقیقی علم کے مقام پر، قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ یعنی واصل باللہ ہوکر (سورۂ قمر ۵۴: ۵۲ تا ۵۵)۔ عالمِ وحدت میں قربت و عندیت فنا فی اللہ کی صورت میں ہوتی ہے، کیونکہ کوئی آتش گیر چیز آگ کے انتہائی قریب ٹھہر نہیں سکتی مگر یہ ہے کہ اس میں آگ لگ جاتی ہے۔ |
|
۸۵۷
مَلِیۡک (۲) |
بادشاہ: سورۂ قمر (۵۴: ۵۴ تا ۵۵) میں دیکھ لیں: اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ |
۴۸۷
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
وَّ نَھۡرٍ۔ فِیۡ مَقۡعَدِ صِدۡقٍ عِنۡدَ مَلِیۡکٍ مُّقۡتَدِرٍ۔ بے شک پرہیزگار لوگ (بہشت) کے باغوں اور نہروں میں ہوں گے سچائی کے مقام میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے قرب میں۔ خدا کیا نہیں کرسکتا، وہ ابرار/ نیکوکاروں کو بہشت میں داخل کر دیتا ہے، اور اپنے دوستوں کے عالمِ شخصی کو بہشت بنا دیتا ہے۔ |
||
۸۵۸
مَلِیۡک (۳) |
بادشاہ: جب اور جہاں مومنِ سالک خدا سے انتہائی قریب ہوجاتا ہے تو وہ تجلّیٔ حق میں فنا ہوئے بغیر ٹھہر نہیں سکتا، لیکن فنا سے عارف کی انفرادیت ختم نہیں ہوتی، مثلًا آنحضورؐ مرتبۂ معراج پر “فنا فی اللہ” ہوگئے تھے، لیکن سوائے عرفاء کے اس سرِّ عظیم کو کوئی نہیں جانتا تھا، پس بہشت میں متّقین قربِ خاص کی وجہ سے حضرتِ ملیکِ مقتدر میں فنا ہوکر بادشاہ ہوں گے، ہاں یہ فنا عاشق کو نوازنے کی غرض سے ہے، معدوم کر دینے کے لئے ہرگز نہیں۔ |
|
۸۵۹
مَلِیۡک (۴) |
بادشاہ: اے عزیزانِ من! بہشت کا سب سے بلند ترین مرتبہ “ملکِ کبیر (عظیم سلطنت ۷۶: ۲۰)” ہے، لہٰذا تمام اہل ایمان کے لئے متعلقہ |
۴۸۸
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
آیاتِ کریمہ کی حکمت سے آگہی ضروری ہے، تاکہ امیدِ فردا قوّی تر ہوجائے، اِن آیاتِ مبارکہ میں سے ایک یہ بھی ہے: و جعلکم ملوکًا (۰۵: ۲۰) اور خدا نے تم لوگوں کو بادشاہ بنا دیا۔ یعنی جب تمہارا امامؑ یا اس کا حجّت منزلِ عزرائیلی میں تھا تو اُس حال میں وہ تمہارے لئے جامہ ہائے جنّت بنا رہا تھا، جس کو تم سب بہشت میں پہنو گے تو وہاں کے بادشاہ ہوجاؤ گے، اگرچہ یہ قصّہ بظاہر بنی اسرائیل کے مومنین کا ہے، لیکن بباطن ہر زمانے کے مومنین کے حق میں ہے۔ |
||
۸۶۰
مَنۡ عَرَفَ |
جس نے پہچانا: مَنۡ عَرَفَ نَفۡسَہٗ فَقَدۡ عَرَفَ رَبَّہٗ۔ جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اُس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، (لغات الحدیث) یعنی جس نے فنا فی اللہ و بقا باللہ کا تجربہ حاصل کیا اُس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔ |
|
۸۶۱
منام |
خواب/ سونا: مَنۡ رَاٰنِیۡ فِی الۡمَنَامِ فَقَدۡ رَاٰنِیۡ۔ آنحضرتؐ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا قول ہے کہ جس نے خواب میں مجھے دیکھا بیشک اس نے مجھے ہی دیکھا (جامعِ ترمذی، جلدِ اوّل، ابواب الرّؤیا، باب۱۴۴۶) یعنی آنحضورؐ |
۴۸۹
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
کو خواب میں دیکھنا اصل دیدارِ مبارک کی طرح حقیقت ہے، پس اس میں کوئی شک نہیں کہ خواب و روحانیّت میں ھادیِٔ برحق کا دیدار اور کلام ہوسکتا ہے۔ |
||
۸۶۲
منطق الطّیر (۱) |
پرندوں کی بولی: سورۂ نمل (۲۷: ۱۶) میں ہے کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام پرندوں کی بولی جانتے تھے، قرآن کا یہ حکیمانہ انداز تمام لوگوں سے علمی امتحان لینے کے لئے ہے درحالے کہ جملہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام نہ صرف پرندوں کی بولی سمجھ لیتے ہیں بلکہ ہوا، پانی وغیرہ کی بولی کو بھی جانتے ہیں، دراصل یہ روح القدس کے معجزات میں سے ہے کہ ایسی بہت سی عام آوازوں سے گفتگو بن جاتی ہے، جبکہ پرندوں وغیرہ کو خبر تک نہیں ہوتی، پس عارفِ کامل ایسے بہت سے صوتی معجزات اپنی ہی زبان میں سنتا رہتا ہے۔ |
|
۸۶۳
منطق الطّیر (۲) |
ارواح و ملائکہ کی زبان: ظاہری پرندے مثال ہیں، اور ارواح و ملائکہ ممثول، چنانچہ انبیاء و اولیاء (أئمّہ) علیہم السّلام روحوں اور فرشتوں کی زبان جانتے ہیں، اس قانون کے مطابق یہ کہنا حقیقت ہے کہ مرغِ سلیمان (ھُدھُد) سے کوئی روح یا کوئی فرشتہ مراد ہے۔ |
۴۹۰
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۶۴
مَوَاقِع |
گرنے کی جگہیں: فَلَاۤ اُقۡسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوۡمِ (۵۶: ۷۵) میں تاروں کے گرجانے کی قسم کھاتا ہوں۔ تارے کائناتی فرشتے ہیں، جن کے نمائندہ ذرّات عالمِ ذرّ کے فرشتوں کے ساتھ مل کر حضرتِ آدمؑ کے سجود کے لئے گر گئے، یاد رہے کہ عالمِ شخصی میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے متعلق تمام روحانی اور عقلی چیزوں کا تجدّدِ امثال موجود ہے۔ |
|
۸۶۵
مُوۡتُوۡا (۱) |
مر جاؤ: جب شخصِ کامل میں روحانی قیامت برپا ہوجاتی ہے تو تمام اہلِ زمانہ کی نمائندہ روحیں یا ذرّات موت کے ڈر کے مارے بدنوں سے نکل کر قیامت گاہ میں جاتے ہیں، تو خدا اُن سے فرماتا ہے کہ مرجاؤ تو وہ سب مرجاتے ہیں، پھر ان کو زندہ کر دیتا ہے (۰۲: ۲۴۳)۔ |
|
۸۶۶
مُوۡتُوۡا (۲) |
مر جاؤ: بیشک خدا لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے، مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے (۰۲: ۲۴۳) یعنی لوگ علم الیقین کی روشنی میں خدا کی نعمتوں کو جانیں اور ان کی قدر و قیمت کو سمجھ لیں تاکہ وہ صحیح معنوں میں خداوند تعالٰی کا شکر کرسکیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ معنوی شکر علم ہی سے ہوسکتا ہے۔ |
۴۹۱
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۶۷
مُوۡسِعُوۡن |
وسعت دینے والے: اور آسمان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اور بیشک ہم وسعت دینے والے ہیں، (۵۱: ۴۷) کائناتِ ظاہر ہو یا عالمِ شخصی خدا اس کو لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی ہے، سائنسدان کہتے ہیں کہ کائنات پھیل رہی ہے، میں کہتا ہوں کہ اللہ اسے پھیلا رہا ہے اور پھر وہی اسے لپیٹ دے گا، ہم نے بار بار اس کا ذکر کیا ہے۔ |
|
۷۶۸
مُوۡقِنِین |
یقین کرنے والے: آیۂ مبارکہ کا ترجمہ ہے: اور اسی طرح ہم ابراہیمؑ کو سارے آسمان اور زمین کی سلطنت دکھاتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں (۰۶: ۷۵) حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے عُلُوِ مرتبت کی دلیل سے کہہ سکتے ہیں کہ یہاں حق الیقین والوں کا ذکر ہے۔ |
|
۸۶۹
مَوۡلَا |
سرپرست، آقا، مالک: مَنۡ کُنۡتُ مَوۡلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوۡلَاہُ۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: میں جس کا آقا ہوں علیؑ بھی اس کا آقا ہے۔ لفظِ “مولا” کے جتنے بھی معنی ہیں، ان میں سے یہاں آنحضرتؐ کی وجہ سے اعلٰی معنی مراد ہیں، پھر یہ معنی علیؑ کے لئے بھی ہیں (تِرمِذی، ابواب المناقب)۔ |
۴۹۲
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
۸۷۰
مُھَاجِرۡ (۱) |
ھجرت کرنے والا، دین کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑنے والا: ہجرت ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی، حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے دونوں معنوں میں کہا: وَ قَالَ اِنِّی مَھَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیط اِنّہٗ ھُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ (۲۹: ۲۶) اور ابراہیمؑ نے کہا میں اپنے ربّ کی طرف ہجرت کرتا ہوں، وہ زبردست ہے اور حکیم ہے۔ ہر عارف اپنے پروردگار کی طرف اس طرح ہجرت کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ میں روحانی سفر کرتے کرتے اپنے عالمِ شخصی میں پہنچ جاتا ہے، جہاں ربّ العزّت کی پُرحکمت ملاقات یا پاک دیدار ممکن ہے۔ |
|
۸۷۱
مُھَاجِرۡ (۲) |
ظاہر سے باطن کی طرف جانے والا: انبیائے قرآن علیہم السّلام کے تذکروں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ دینِ حق میں ہجرت کیوں اور کب ضروری ہوتی ہے، تاہم اس عمل کا ایک تاویلی پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ جب تک مومن اپنے ظاہر سے باطن کی طرف ہجرت نہیں کرتا تب تک روحانی جہاد میں نفسِ امّارہ اور شیطان کو شکست نہیں دے سکتا ہے ظاہری ہجرت کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ جگہ تبدیل کرکے دشمن کو حربی فریب دیا جائے، اور پھر موقع پر بھرپور حملہ کیا جائے، چنانچہ عظیم پیغبروں نے ایسا ہی |
۴۹۳
لفظ | معنی و حکمت “م” | |
عمل کیا۔ |
||
۸۷۲
مھجور |
چھوڑا ہوا: سورۂ فرقان (۲۵: ۳۰) میں ارشاد ہے: وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا هٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَهۡجُوۡرًا۔ اور (اس دن) رسولؐ (بارگاہِ خداوندی میں) عرض کریں گے کہ اے میرے پروردگار! میری قوم نے تو اس قرآن کو بے کار بنا دیا (۲۵: ۳۰) یعنی نورِ ہدایت (۰۵: ۱۵) کی روشنی میں اس کے باطنی علم و حکمت پر عمل نہیں کیا گیا۔ |
|
۸۷۳
مَھۡد |
گہوارہ، بچھونا، جُھولا: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۴۶) اور سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۱۰) میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام گہوارہ میں بھی اور پکّی عمر میں بھی لوگوں سے باتیں کرتا تھا، اس کی تأویل یہ ہے کہ روحانیّت کے آغاز میں روحانئین کی آواز اور گفتگو طفلِ گہوارہ کی طرح ہوتی ہے مگر صاف اور لغزش سے پاک، اور آگے چل کر پکّی عمر کے آدمی کی آواز میں کلام ہوتا ہے۔ |
۴۹۴
بابُ النُّون
|
۴۹۵
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۴۹۶
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
۸۷۴
نٓ (۱) |
نون، دوات، جنّت کی ایک نہر، روشنائی، نور کی روشنائی: سورۂ قلم کے آغاز (۶۸: ۰۱) میں خداوندِ عالم کا ارشاد ہے: نٓ وَ الۡقَلَمِ وَ مَا یَسۡطُرُوۡنَ۔ نٓ، قسم ہے قلم کی اور (قسم ہے) اُن (فرشتوں) کے لکھنے کی۔ حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام سے منقول ہے کہ نون جنّت کی ایک نہر ہے، اللہ تعالٰی نے اسے فرمایا: جم جا، وہ جم گئی اور روشنائی بن گئی، پھر خدا نے قلم کو حکم دیا: لکھ، تو قلم نے جو کچھ ہوچکا تھا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا وہ سب لوحِ محفوظ میں لکھ دیا، پس وہ روشنائی نور کی روشنائی ہے، وہ قلم بھی نور کا قلم ہے، اور لوح بھی نور کی لوح ہے (المیزان، جلد۱۹، ص۳۷۶)۔ |
|
۸۷۵
نٓ (۲) |
نون، ایک فرشتہ، لوح و قلم دو فرشتے ھیں: حضرتِ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: نون ایک فرشتہ ہے جو قلم کو خبریں دیتا ہے، اور قلم بھی ایک فرشتہ ہے جو لوح تک احکامِ خداوندی کو پہنچاتا ہے، اور لوح بھی فرشتہ ہے جو اسرافیل کو پیغام دیتا ہے، اور اسرافیل میکائیل کو اور میکائیل جبرائیل کو اور جبرائیل انبیاء و رُسُل کو پیغام دیتا ہے، موصوف امامؑ نے فرمایا کہ لوح و قلم دو فرشتے ہیں۔ |
۴۹۷
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
۸۷۶
نٓ (۳) |
جنّت کی ایک نہر، روشنائی: حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام نے فرمایا: نون جنّت میں ایک نہر تھی، برف سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی، خدا تعالٰی نے اسے حکم دیا کہ اے نہر تو مداد (روشنائی) بن جا، اور وہ روشنائی ہوگئی، پھر اس نے اپنے دست (قدرت) سے ایک درخت لگایا، پھر خدا نے درخت کو قلم بن جانے کا امر فرمایا، جب وہ قلم ہوگیا تو حکم دیا کہ لکھ دے، اس نے عرض کی پروردگار! کیا لکھوں؟ ارشاد ہوا کہ جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے، پس اس نے لکھ دیا، اس کے بعد خدا نے اس پر مہر فرما دی، اور ارشاد کیا کہ اب سے قیامت تک کلام نہ کرنا (ترجمۂ قرآن از مقبول احمد، ص۶۷۵ نوٹ۵)۔ |
|
۸۷۷
نٓ (۴) |
دوات: سورۂ قلم (۶۸: ۰۱) میں ہے: نٓ وَ الۡقَلَمِ وَمَا یَسۡطُرُوۡنَ۔ قسم ہے دوات کی اور قلم کی اور جو کچھ لکھتے ہیں۔ یعنی دہنِ مبارک ، نورِ عقل (قلم)، اور تحریرِ لوحِ محفوظ جو زندہ ہے (کلمۂ امر)۔ |
|
۸۷۸
نازعات |
کھینچنے والے فرشتے: اے نورِ عینِ من! آپ سورۂ نازعات کے آغاز (۷۹: ۰۱ تا ۰۵) میں |
۴۹۸
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
پڑھ لیں، ارشاد ہے: ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر (جان کو) کھینچ لیتے ہیں۔ اور ان کی (قسم) جو آسانی سے کھول دیتے ہیں۔ اور ان کی جو تیرتے پھرتے ہیں۔ پھر لپک کر آگے بڑھتے ہیں۔ پھر امر کا اعادہ کرتے ہیں۔ عالمِ شخصی ہی کے روحانی اور قیامت خیز معجزات کا ذکر ہے کہ اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں مومنِ سالک کی روحِ پُرفتوح بار بار قبض کرلی جاتی ہے اور بار بار واپس بدن میں ڈال دی جاتی ہے، جس میں بمقتضائے حکمت فرشتوں کی طرف سے پہلے جان کنی کی سختی اور تلخی پھر نرمی اور شیرینی کا تجربہ ہوتا ہے، ساتھ ہی ساتھ فرشتے مذکورہ روح کو کائنات میں پھیلا دیتے ہیں، اور یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہتا ہے، جس کا ذکر کسی اور کتاب یا کتابوں میں ہوچکا ہے۔ |
||
۸۷۹
نَاظِرَۃٌ |
دیکھنے والی: سورۂ قیامت میں ارشاد ہوا ہے: وُجُوۡهٌ یَّوۡمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ۔ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ۔ اُس دن کئی چہرے تروتازہ (خوبصورت) ہوں گے پھر اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے (۷۵: ۲۲ تا ۲۳) اللہ تعالٰی ایسے نیک بخت لوگوں کو بیحد حسین و جمیل بنا دے گا، کیونکہ خدا خود صاحبِ جمال ہے اور وہ جمالِ صوری و معنوی کو |
۴۹۹
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
پسند فرماتا ہے، جیسا کہ رسولِ اکرمؐ کا ارشاد ہے: اِنَّ اللہَ جَمِیۡلٌ یُحِبُّ الۡجَمَالَ۔ |
||
۸۸۰
نَبِیّ (۱) |
پیغمبر: سورۂ احزاب (۳۳: ۰۶) میں ہے: اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَ اَزۡوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمۡ۔ نبیؐ مومنین کے حق میں اُن کی جانوں سے بھی بڑھ کر ہیں (کیونکہ وہ گویا مومنین کے مہربان باپ ہیں) اور ان کی بیویاں (گویا) ان کی مائیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک نہ ایک دن مومنین رسولؐ میں فنا ہوجانے والے ہیں۔ |
|
۸۸۱
نَبِیّ (۲) |
پیغمبر: آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے ارشاد فرمایا: یاعلی انا وَ انتَ اَبَوا الۡمؤمنین۔ اے علی! میں اور تم مومنین کے (روحانی) ماں باپ ہیں۔ یعنی أئمّۂ طاہرین اہل ایمان کی روحانی مائیں ہیں، جبکہ نبیِّ اکرمؐ ان کے باپ ہیں (ملاحظہ کتابِ وجہ دین، کلام۳۶)۔ |
|
۸۸۲
نبیؐ و علیؑ |
پیغمبر اور امام: قال النّبی صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم لِعَلِیٍّ: اَنۡتَ |
۵۰۰
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
مِنِّیۡ وَ اَنَا مِنۡکَ۔ نبیّ کریمؐ نے علیؑ سے فرمایا تھا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ اس میں نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے اسرارِ خفی و جلی ہی۔ |
||
۸۸۳
نَطۡوِیۡ (۱) |
ھم لپیٹ لیں گے: اے عزیزانِ من! ہم نے بعض آیاتِ کریمہ کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے اور یہ امر بیحد ضروری ہے، جیسے آیۂ یَوۡمَ نَطۡوِیۡ (۲۱: ۱۰۴) کا ارشاد ہے: جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلے پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کریں گے۔ خداوندِ بزرگ و برتر ہر اِنسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ایسا ہی کرتا ہے جبکہ اس میں انفرادی قیامت برپا ہوجاتی ہے۔ |
|
۸۸۴
نَطۡوِیۡ (۲) |
لپیٹ لیں گے: جب بحکمِ خدا انفرادی قیامت برپا ہوجاتی ہے اور امامِ آلِ محمّدؐ یعنی امامِ مبین کا نور عارف کے باطن میں طلوع ہوجاتا ہے تو اسی نورانیّت میں کُلّ کائنات کا باطنی پہلو لپیٹ دیا جاتا ہے تاکہ تمام اشیائے روحانی و عقلانی کے مشاہدات سے کامِل معرفت حاصل ہو، |
۵۰۱
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
آپ نے قلبِ قرآن میں آیۂ امامِ مبین (۳۶: ۱۲) کو دیکھا ہوگا، پس اسی آیۂ کریمہ میں عارفین و کاملین کی باطنی قیامت کا تذکرہ موجود ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔ |
||
۸۸۵
(ال) نظرُاِلٰی علیّ |
علی کی طرف دیکھنا: شرح الاخبار فی فضائل الأئمّۃ الاطھار، جلد۹، ص۳۸۱ پر یہ حدیثِ شریف درج ہے: النّظرُ الٰی علی بن أبی طالب عبادۃ۔ علی بن ابی طالب کی طرف دیکھنا ایک عبادت ہے۔ سوال: اس کی کیا دلیل ہے؟ جواب: رسولؐ کا ارشاد سب سے بڑی دلیل ہے، علیؑ اسمِ اعظم ہے، قرآنِ ناطق ہے او وجہ اللہ ہے (ملاحظہ ہو: حقیقی دیدار)۔ |
|
۸۸۶
نُعَمِّرُ |
ھم عمر دیتے ھیں: یہ ارشاد سورۂ یٰسٓ میں ہے: وَ مَنۡ نُّعَمِّرۡهُ نُنَكِّسۡهُ فِی الۡخَلۡقِؕ- اَفَلَا یَعۡقِلُوۡنَ (۳۶: ۶۸) اور ہم جس کو زیادہ عمر دیتے ہیں اس کو (عالمِ امر سے عالمِ) خلق میں اوندھا کر دیتے ہیں تو کیا وہ لوگ نہیں سمجھتے۔ ایک باطنی تأویل ہے: تھلا(ک) تھلا(ک) تھلا(ک) نݵ + |
۵۰۲
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
تھلا(ک) تھلا(ک) تھلا(ک) ژُݸ۔ |
||
۸۸۷
نُعِیۡدُ |
ھم لوٹائیں گے، ھم اعادہ کریں گے: سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں ہے: جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا اسی طرح اس کا اعادہ کریں گے۔ یعنی ہم اس کام کا اعادہ کرتے رہیں گے۔ وہ اوّلین سے بھی اوّل تو ہے لیکن اس کی کوئی ابتداء نہیں وہ آخرین سے بھی آخر ضرور ہے مگر اس کی کوئی انتہا نہیں، ہر عالمِ شخصی میں دیکھا جائے تو اس کی ایک نئی شان ہے، اسی عالمِ شخصی میں کائنات کو بار بار لپیٹتا اور پھیلاتا رہتا ہے تاکہ اس اشارۂ حکمت سے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کی بادشاہی قدیم ہے، جس کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔ |
|
۸۸۸
نَفَخَۃ |
ایک مرتبہ پھونکنا، مسلسل پھونکنا: صورِ اسرافی کی آواز کسی وقفہ کے بغیر مسلسل ہے، مگر جب جب آدمی سو جاتا ہے تو یہ مقدّس آواز خاموش ہوجاتی ہے، صور کی آواز سے عارفین پر جو موت طاری ہوتی ہے وہ جسمانی نہیں نفسانی (روحانی) |
۵۰۳
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
ہے، پس راہِ روحانیّت کے شروع شروع میں موتِ نفسانی اور بعد ازان حقیقی زندگی ہے، اس اعتبار سے سلسلۂ نفخ کا ابتدائی حصّہ نفخۂ اولٰی اور دوسرا حصّہ نفخۂ ثانیہ کہلاتا ہے۔ |
||
۸۸۹
نَفۡس |
ذات، روح، جان: ارشادِ مولا علی ہے کہ جس نے اپنی روح (نفس) کو پہچان لیا یقیناً اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ لیکن یاد رہے کہ عام انسانی روح میں گنجِ معرفت نہیں، جب تک ہادیٔ برحق سے روحِ قدسی حاصل نہ کرلی جائے، بیشک حضرتِ امامِ زمانؑ میں روحِ قدسی ہے اور امام دراصل آپ کی اپنی روح ہے، اگر آپ نے امام کو پہچان لیا تو سمجھ لیں کہ اپنے آپ کو اور ربّ کو پہچان لیا۔ |
|
۸۹۰
نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (۱) |
ایک شخص: مَا خَلۡقُكُمۡ وَ لَا بَعۡثُكُمۡ اِلَّا كَنَفۡسٍ وَّاحِدَةٍ۔ تم سب کا پیدا کرنا اور پھر (مرنے کے بعد) جِلا اٹھانا ایک شخص کی طرح ہے (۳۱: ۲۸) یعنی تمہاری روحانی پیدائش اور قیامت انسانِ کامل میں پوشیدہ ہے۔ |
۵۰۴
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
۸۹۱
نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (۲) |
آدم، ھر ناطق، ھر امام: ربّ العزّت نے تمام نفوسِ انسانی کو نفسِ واحدہ سے پیدا کیا، یہ اجتماعی اور یکبارگی تخلیق ذرّاتِ نفوس کو روحانی باپ کی پُشت میں لانے کے لئے تھی، یہی سبب ہے کہ روحانی ماں کا تعیّن بعد میں ہوا، جیسا کہ سورۂ نساء کے شروع (۰۴: ۰۱) میں ارشاد ہے: (ترجمہ:) لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دئیے (۰۴: ۰۱) اسی طرح خدا ہی نے نفسِ واحدہ کو تمام لوگوں کے لئے جائے باز گشت اور منزلِ فنا بنا دیا ہے۔ |
|
۸۹۲
نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (۳) |
انسانِ کامل: اس آیۂ کریمہ کو سورۂ انعام (۰۶: ۹۸) میں پڑھ لیں، ترجمہ یہ ہے: اور وہ وہی خدا ہے جس نے تم لوگوں کو ایک شخص سے پیدا کیا پھر (تمہارے لئے) ایک قرار گاہ ہے اور ایک امانت گاہ (۰۶: ۹۸) اسی آیۂ مبارکہ سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ہر انسان کی دو انائیں ہیں، انائے علوی اور انائے سفلی۔ |
۵۰۵
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
۸۹۳
نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (۴) |
امامِ زمان: قرآن و حدیث میں جس طرح اللہ تعالٰی کی رسّی کا ذکر آیا ہے، اُس سے یہ قابلِ یقین تصوّر ملا کہ اللہ کی قدرت سے روح بھی اس دنیا میں رسّی کی طرح آئی ہے، جس کا ایک سرا عالمِ علوی میں اور دوسرا سرا عالمِ سفلی میں ہے، عالمِ علوی سے نفسِ واحدہ کی نورانیت مراد ہے۔ |
|
۸۹۴
نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (۵) |
آدمِ زمان: (نفسِ) واحدۃ بر وزنِ فاعِلۃ اپنی ذات میں ایک بھی ہے، اور وہ خدا کے امر سے سب لوگوں کو بعنوانِ قیامت ایک بھی کرلیتا ہے، پس نفسِ واحدہ کے دو معنی ہیں: خود بھی ایک اور دوسرے تمام لوگوں کو بھی جمع کرکے اپنے ساتھ ایک کر لینے والا، اس اعتبار سے ہر شخص کی دو بقائیں مقرر ہوئیں، ایک بقائے مستقر جو اس کے لئے نفسِ واحدہ میں ہے، دوسری بقائے مستودع جو الگ بطورِ امانت ہے۔ |
|
۸۹۵
نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (۶) |
ایک جان، ایک شخص، آدم: ہر ناطق، اساس، امام، اور حجّت نفسِ واحدہ اور آدم کی تأویل ہوا کرتا ہے، یعنی ان کے عالمِ شخصی میں آدم خلیفۃ اللہ کے تمام روحانی |
۵۰۶
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
اور عقلانی واقعات کا تجدّد ہوتا ہے، اس کا ذریعہ روحانی قیامت ہے، چنانچہ (نفسِ) واحدہ بر وزنِ فاعلہ اس شخصِ کامل کو کہتے ہیں، جو بحکمِ خدا ذاتی قیامت کی قہرمانی طاقت سے تمام نفوس کو اپنے عالمِ شخصی میں ایک کرلیتا ہے۔ |
||
۸۹۶
نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (۷) |
ایک جان، ایک شخص، آدم: یہ ربّانی تعلیم سورۂ زمر (۳۹: ۰۶) میں ہے: اُسی (خدا) نے تم سب کو ایک ہی شخص (آدم) سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کی بیوی (حوّا) کو پیدا کیا۔ یہ آدم کی روحانی بیوی یعنی حجّتِ اعظم ہے، جس کو خداوندِ عالم نے حضرتِ آدمؑ کے علم سے پیدا کیا، یہ ہے بی بی حوّا کا آدم کے پہلو سے پیدا ہوجانا، اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ہمیشہ کا واقعہ ہے، کیونکہ ہر قابل شاگرد علمی حیثیت میں اُستادِ کامل ہی سے پیدا ہوجاتا ہے۔ |
|
۸۹۷
نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (۸) |
ایک جان، ایک شخص، آدم: اللہ تعالٰی کی سنّت جس میں کوئی تبدیلی نہیں عارفین و کاملین کے عالمِ شخصی میں جاری ہے (۴۰: ۸۵) پس بہشت میں بنی آدم کی بیویاں اسی طرح پیدا ہوں گی جس طرح حضرتِ آدمؑ سے حوّا پیدا ہوئی تھی، آپ سورۂ روم (۳۰: ۲۱) میں غور سے دیکھیں اور مِنۡ اَنۡفُسِکُمۡ |
۵۰۷
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
اَزۡوَاجًا (تمہارے نفوس سے بیویاں) کے معنی میں خاص خیال رکھیں۔ |
||
۸۹۸
نَفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (۹) |
ایک جان، ایک شخص، آدم: سوال: آپ کی تحریریں عالمِ شخصی کی تعلیمات سے بھری ہوئی ہیں کیونکہ آپ کے نزدیک اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، لیکن جنّت میں عالمِ شخصی کہاں ہوگا؟ اور اس کی شناخت کس طرح ہوگی؟ جواب: ہر شخص ایک عالم ہے یعنی عالمِ شخصی یا عالمِ صغیر، مزید برآن ہر جامۂ جنّت (ابداعی کرتہ) ایک عالمِ شخصی ہے، جو نفسِ واحدہ کی ہزاروں جیتی جاگتی کاپیوں میں سے ایک کاپی ہے، پس عالمِ شخصی ہر جنتّی کی جان اور ذاتی بہشت ہے۔ |
|
۸۹۹
نُقطہ |
بِندی، صفر، مرکز، ذرّہ: اے نورِ عینِ من! آپ سب مولا علی علیہ السّلام کے اس ارشاد میں خوب غور کریں: “میں وہ نقطہ ہوں جو بائے بسم اللہ کے نیچے ہے”۔ قرآن میں آیات ہیں آیات میں الفاظ، الفاظ میں حروف، اور ان میں سے ہر حرف نقطوں کی ترکیب سے بنا ہے، پس سرتا سر قرآنِ عزیز میں نقطے ہی نقطے ہیں، اور یہ سب کے سب نقطۂ علیؑ کی تصویریں اور کاپیاں ہیں۔ |
۵۰۸
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
۹۰۰
نوافل |
حدیثِ نوافل پر ایک سوال: یہ ایک بڑا مفید علمی سوال ہے جس سے کوئی بھی مومن اس مشہور حدیثِ قدسی میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کر سکتا ہے جو نوافل سے متعلق ہے، وہ سوال یہ ہے: (۱) جب اللہ پاک اپنے بندۂ مقرّب کا روحانی کان بن جاتا ہے تو اس وقت وہ خدا کا دوست کیا کیا سن سکتا ہے؟ (۲) جب وہ مہربان اپنے عاشق کی چشمِ دل بن جاتا ہے تو ایسی باطنی آنکھ کے سامنے کیسے کیسے مناظر آتے ہیں؟ کیا ایسے میں خدا کا دیدار ممکن ہے؟ (۳) جب خدا مومنِ سالک کا باطنی ہاتھ بن چکا ہوتا ہے تو اس حال میں ایسا ہاتھ کیسے کیسے امور کو انجام دے سکتا ہے؟ (۴) جس وقت ربِّ کریم کمالِ مہربانی سے مومنِ خاص کا روحانی پاؤں بن جاتا ہے تو اس پاؤں سے کس منزل کی طرف چلا جاتا ہے؟ |
|
۹۰۱
نور السّمٰوٰت (۱) |
آسمانوں کا نور: قرآنِ حکیم میں آیاتِ نور اس مثال پر ہیں جیسے سورج، چاند اور ستارے، چنانچہ آیۂ مصباح گویا آفتابِ عالمتاب ہے (۲۴: ۳۵) آیۂ سراج عَلَی الدّوام ماہِ کامل ہے (۳۳: ۴۶) اور دیگر آیاتِ نور |
۵۰۹
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
ستاروں کی طرح ہیں، اس واقعی مثال سے آپ کو آیۂ مصباح (اللہ نور السّمٰوٰت) کی مرکزیت و جامعیت کا اندازہ ہوا ہوگا۔ |
||
۹۰۲
نور السّمٰوٰت (۲) |
کائنات کا نور: خداوند تعالٰی کا بابرکت ارشاد ہے: اللہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ (۲۴: ۳۵) خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ نور کے بعض عشّاق اس باب میں سوال و جواب کے طریق پر حقیقتِ حال کو جاننا چاہتے ہیں، چنانچہ دوستانہ سوال ہے: س: یہ عالیشان صفت (نورِ کائنات) خود ذاتِ خدا ہی کی ہے یا نمائندۂ خدا کی؟ ج: اللہ تعالٰی کا کوئی ضد نہیں جبکہ نور کی ضد ظلمت (تاریکی) ہے، اللہ خالق ہے اور نور و ظلمت مخلوق (۰۶: ۰۱) پس یہ حقیقت ہے کہ خدا نے سب سے پہلے نورِ محمّدی کو پیدا کیا، یہ ایسا کامل و مکمّل اور کائنات گیر تھا کہ اس سے عرض و سماء منوّر ہوگئے، جس طرح نورِ محمّدی کا دوسرا نام قلمِ قدرت یا قلمِ اعلٰی ہے کہ وہ ایک ایسا توانا قلم ہے جو تن تنہا ساری خدائی کو رقم کرسکتا ہے۔ |
|
۹۰۳
نور السّمٰوٰت (۳) |
کائناتِ باطن کا نور: آیۂ مصباح کو خوب غور سے پڑھ لیں، ذاتِ سبحان کسی بھی مادّی چیز کی طرح نہیں، دراصل اس میں ہم سب کا بہت بڑا امتحان ہے، |
۵۱۰
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
جبکہ یہ آیۂ سراج (۳۳: ۴۶) کی تفسیر و تأویل ہے کہ وہی روشن چراغ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، یہ سچ ہے کہ خدا نے جس ذاتِ عالی صفات کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے وہی ہمہ رس و ہمہ گیر کائناتی نور بھی ہے، ہاں اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ نورٌ علٰی نورٍ میں انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہی کا ذکرِ جمیل ہے، کیونکہ نورِ ہدایت سلسلۂ مظاہر میں جاری ہے۔ |
||
۹۰۴
نور السّمٰوٰت (۴) |
عالمِ شخصی کا نور کہ اس میں عرش و کرسی، سات آسمان اور سات زمین ہیں: یہ روحانی سائنس ہی کا کرشمہ ہے کہ ہرمشکل سے مشکل مسئلہ عالمِ شخصی کے تناظر میں بہ آسانی حل ہوجاتا ہے، چنانچہ نورِ مطلق یقیناً خدا تعالٰی کا ہے کہ وہی اس کا خالق و مالک ہے، یہ نور جیسا کہ ذکر ہوا آنحضرتؐ کا ہے، بحکمِ نورٌ علٰی نورٍ یہی نور امام کا بھی ہے، اور تابعداری و فنائیت کے نتیجے میں یہی نور اہلِ ایمان کا بھی ہے، نورِ واحد کے یہ چار رشتے قرآنی دلائل سے ثابت ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا، رسولؐ، امامِؑ برحق اور مومنین و مومنات کا پاک نور (۵۷: ۱۲؛ ۶۶: ۰۸) عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس میں اسی شان سے جلوہ افروز ہے جس طرح کہ آیۂ مصباح میں ارشاد ہوا ہے۔ |
۵۱۱
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
۹۰۵
نور السّمٰوٰت (۵) |
عالمِ شخصی کا نور: حضرتِ مولانا امام سلطان محمّد شاہ صلوات اللہ علیہ و سلامہ ظاہراً و باطناً علمی و عرفانی عجائب و غرائب کے مالک اور زمانۂ روحانیّت و تأویل کے عظیم الشّان امام تھے، آپ نے کیسی کیسی از بس مفید، پُر مغز، انقلابی اور قیامت خیز تعلیمات دیں، اس سے بہت کم لوگ باخبر ہیں، ان کی بے مثال روحانی و نورانی خصوصیات کے بارے میں تقریبًا ایک ہزار سال قبل جو پیش گوئی کی گئی تھی، وہ کتابِ وجہِ دین میں محفوظ و موجود ہے، آپ نے آیۂ مصباح یعنی اللہ نور السّمٰوٰت کی بے مثال جامعیت و حکمت کی طرف پُرزور توجّہ دلائی ہے، ملاحظہ ہو: “اسلام میرے مورثوں کا مذہب”۔ |
|
۹۰۶
نُوۡرُھُمۡ |
اُن کا نور: جس دن تم مومنین و مومنات کو دیکھو گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور داہنی طرف دوڑ رہا ہوگا (۵۷: ۱۲) یہ انتہائی عظیم معجزہ عالمِ شخصی سے متعلق ہے، جہاں شخصِ واحد ہی میں سب ہوتے ہیں، کیونکہ نفسِ واحدہ میں سب کی نمائندہ قیامت برپا ہوجاتی ہے (۳۱: ۲۸)۔ |
۵۱۲
لفظ | معنی و حکمت “ن” | |
۹۰۷
نُوۡن |
مچھلی: سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۷) سورۂ انبیاء میں ہے: اور ذَا النُّوۡن (مچھلی والے یونس کو یاد کرو) جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور گمان کیا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے، آخر کو اس نے تاریکیوں میں سے پکارا کہ: لا الٰہ الّا انت سبحانک انّی کنتُ من الظّٰلمین۔ (“حوت” کے عنوان کے تحت دیکھو)۔ |
۵۱۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۵۱۴
بابُ الواؤ
|
۵۱۵
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۵۱۶
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
۹۰۸
وَاحِدَۃ (۱) |
ایک، ایک کرنے والا: خالقِ یکتا نے لوگوں کو کس طرح پیدا کیا؟ اعنی سرچشمۂ ارواح کیا ہے؟ خدا نے لوگوں کو نفسِ واحدہ سے پیدا کیا اور وہی سرچشمۂ ارواحِ خلائق ہے (۰۶: ۹۸؛ ۰۷: ۱۸۹؛ ۳۱: ۲۸؛ ۳۹: ۰۶) اب اس سوال کا جواب عوام کے لئے بہت مشکل ہے لیکن خواص کے لئے مشکل نہیں، وہ مسئلہ یہ ہے: کیا خلقِ آخر میں بھی خلقِ اوّل ہی کی طرح نفسِ واحدہ سے ہوسکتی ہے؟ اس بارے میں قرآنِ حکیم کا کیا ارشاد ہے؟ |
|
۹۰۹
وَاحِدَۃ (۲) |
ایک، ایک کرنے والا، نفسِ واحدہ: جس طرح تمام انسانوں کی پہلی پیدائش نفسِ واحدہ سے ہوئی ہے، اسی طرح ان کی دوسری پیدائش بھی اسی سے ہونے والی ہے، چنانچہ خدا قیامت القیامات میں لوگوں سے فرمائے گا: اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ (نفسِ واحدہ سے) پیدا کیا تھا ایسا ہی آج (اپنے اپنے وقت کے نفسِ واحدہ میں) اکیلے اکیلے ہمارے پاس آئے (۰۶: ۹۴)۔ نفسِ واحدہ ہر ناطق اور ہر امام ہے، اکیلے اکیلے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے وقت کے نفسِ واحدہ میں فنا ہوکر ایک ہوچکے ہوں گے، جیسے رحمتِ عالمؐ جب معراج پر گئے تو اکیلے ہی گئے، در حالے |
۵۱۷
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
کہ عالمِ انسانیت آپؐ کی ذاتِ عالی صفات میں بحدّ فعل یا بحد قوّت فنا ہوچکا تھا۔ |
||
۹۱۰
وَاحِدَۃ (۳) |
نفسِ واحدہ: خدا نے ان سب کو (بدرجۂ انتہا) گھیر لیا ہے اور ان کو ایک خاص عدد (یعنی عددِ واحد) میں گن لیا ہے (۱۹: ۹۴) یعنی سب کو نفسِ واحدہ میں ایک کر دیا ہے، دوسری آیت کا ارشاد ہے: اور سب کے سب قیامت کے دن (نفسِ واحدہ میں) فردِ واحد بن کر اس کے پاس حاضر ہوں گے (۱۹: ۹۵)۔ یہ اس لئے ایسا ہے کہ خداوند تعالٰی کا پاک دیدار عالمِ وحدت میں ہوتا ہے، جہاں کسی کثرت کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ |
|
۹۱۱
وَاحِدَۃ (۴) |
نفسِ واحدہ: روحانی ترقی اور انفرادی قیامت کا تجربہ انتہائی مشکل کام ہے، لہٰذا خداوندِ تعالٰی نے اپنی بے پایان رحمت سے لوگوں کی اجتماعی قیامت نفسِ واحدہ کی انفرادی قیامت میں پوشیدہ رکھی ہے، پس سب کی روحانی پیدائش اسی میں ہوتی ہے اور سب کا انبعاث بھی اسی میں ہوتا ہے، جیسا کہ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے: |
۵۱۸
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
مَا خَلۡقُكُمۡ وَ لَا بَعۡثُكُمۡ اِلَّا كَنَفۡسٍ وَّاحِدَةٍ۔ تمہاری (روحانی) پیدائش اور تمہارا انبعاث نفسِ واحدہ کی طرح ہے۔ یعنی اہلِ جہان کے نمائندہ ذرّات انسانِ کامل کی ذاتی قیامت میں حاضر ہوجاتے ہیں۔ |
||
۹۱۲
وَارِثِیۡنَ |
میراث لینے والے، وارث کی جمع: یہ زبردست حکمت والی آیت سورۂ قصص (۲۸: ۰۵) میں ہے: اور ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین میں کمزور کر دیئے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی کو (لوگوں کا) پیشوا (امام) بنائیں اور ان ہی کو وارث بنائیں۔ اِس آیۂ شریفہ کے مصداق امامِ زمان علیہ السّلام کے روحانی فرزندان ہیں، انہی لوگوں کو خداوندِ جلّ و علا کائناتی زمین (ستاروں) میں أئمّہ (۲۸: ۰۵) بنائے گا۔ |
|
۹۱۳
وَارِدۡ (۱) |
اُترنے والا، دوزخ میں اترنا: یہ حدیثِ شریف اس آیۂ کریمہ کی تفسیر ہے جو تمام نیک و بد انسانوں کے جہنّم پر وارد ہونے سے متعلق ہے (۱۹: ۷۱) حدیث: لَا یَبۡقٰی بَرٌّ وَ لَا فَاجِرٌ اِلَّا دَخَلَھَا فَتَکُوۡنُوۡ عَلٰی الۡمُؤۡمِنِ بَرۡدًا وَّ سَلَامًا کَمَا کَانَتۡ عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ۔ کوئی نیک آدمی یا فاجر آدمی باقی نہ |
۵۱۹
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
رہے گا جو ابتداءً جہنّم میں داخل نہ ہو مگر اس وقت مومنینِ متّقین کے لئے جہنّم بَرد و سلام بن جائے گی جیسے ابراہیم علیہ السّلام کے لئے نارِ نمرود برد و سلام بنا دی گئی تھی (احایثِ مثنوی ۱۸۷، بحوالۂ مستدرک حاکم، ج۴، ص۵۸۷، نیز ملاحظہ ہو: معارف القرآن، ج۶، ص۵۰) میں نے “سراج القلوب” میں بھی “دوزخ کا ایک راز” کے عنوان سے اس باب میں گفتگو کی ہے۔ |
||
۹۱۴
وَارِدۡ (۲) |
اترنے والا، دوزخ میں اترنا: سورۂ مریم (۱۹: ۷۱ تا ۷۲) میں ہے: وَ اِنۡ مِّنۡكُمۡ اِلَّا وَارِدُهَاج كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتۡمًا مَّقۡضِیًّا۔ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا وَّ نَذَرُ الظّٰلِمِیۡنَ فِیۡهَا جِثِیًّا (۱۹: ۷۱ تا ۷۲) تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے، جو جہنّم پر وارد نہ ہو، یہ تو ایک طے شدہ بات ہے جسے پورا کرنا تیرے ربّ کا ذمّہ ہے، پھر ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو (دنیا میں) متّقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔ |
|
۹۱۵
وَجۡہ (۱) |
چہرہ، دیدار: سورۂ انعام (۰۶: ۵۲) میں ارشاد ہے: وَ لَا تَطۡرُدِ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَدٰوةِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡهَهٗ۔ اور (اے رسولؐ!) |
۵۲۰
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
ان لوگوں کو نہ ہانک دو جو اپنے پروردگار کو صبح و شام پکارتے ہیں (اور) وہ اس کے دیدار کو چاہتے ہیں۔ اسلام میں جہاں جہاں خدا کے عشق و محبّت کا ذکر آیا ہے وہاں اس کے پاک دیدار اور معرفت کی طرف ایک پُرکشش دعوت ہے۔ |
||
۹۱۶
وَجۡہ (۲) |
چہرہ، دیدار: سورۂ بنی اسرائیل کے رکوعِ ہشتم کے شروع کی دو آیتوں (۱۷: ۷۱ تا ۷۲) کو خوب غور سے دیکھ لیں، یہ دونوں آیتیں مضمونِ قیامت میں مربوط ہیں، ان کی حکمت یہ ہے کہ رسول اور امام علیہم السّلام اللہ کے نمائندے ہیں، لہٰذا اُن کا دیدار گویا خدا کا دیدار ہے، اسی وسیلے سے آخرت کے لئے چشمِ بصیرت پیدا کی جاسکتی ہے، چنانچہ آنحضرتؐ نے فرمایا: جس نے مجھ کو دیکھا اس نے گویا خدا کو دیکھا۔ اور مولا علیؑ نے فرمایا: میں زمین پر خدا کا چہرہ ہوں۔ |
|
۹۱۷
وَجۡہُ اللہ (۱) |
چہرۂ خدا: جب آیۂ بیعت کے مطابق دستِ خدا کی نمائندگی درست اور حقیقت ہے تو پھر چہرۂ خدا (وجہُ اللہ) کی نمائندگی بھی صحیح ہے، جیسے مولا علیؑ نے فرمایا: انا وجہُ اللہِ فِی السّمٰوٰتِ والارضِ۔ |
۵۲۱
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
کُلُّ شیءٍ ھالکٌ الّا وجۡھَہٗ۔ یعنی میں ہوں آسمانوں اور زمین میں چہرۂ خدا، جیسے ارشاد ہے: چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز ہلاک ہوجاتی ہے (۲۸: ۸۸) کوکبِ دُرّی، بابِ سوم، منقبت۶۹) وجہ اللہ، چہرۂ خدا، خدا کا دیدار، خدا کی معرفت یہ سب اوصاف حضرتِ امامِ عالی مقامؑ ہی کے ہیں۔ |
||
۹۱۸
وَجۡہُ اللہ (۲) |
چہرۂ خدا، دیدارِ الٰہی، معرفت، وسیلۂ عشق و فنا: آسمانوں سے درجاتِ روحانیّت مراد ہیں، ہر درجے پر چہرۂ خدا کی مظہریت و نمائندگی امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام ہی کو حاصل ہے تا آنکہ منزلِ حق الیقین آتی ہے جو منزلِ فنا ہے، جہاں امامِ عالی مقامؑ کو حضرتِ ربّ کے سب سے بڑے دیدار کی نمائندگی عطا ہے، پس جتنے سالکین و عارفین وہاں تک پہنچ جاتے ہیں، وہ سب اس بیمثال و لا زوال نورِ دیدار میں پروانہ وار فنا ہوجاتے ہیں، بس یہی ہے فنا فی الامامؑ، فنا فی الرّسولؐ، اور فنا فی اللہ۔ |
|
۹۱۹
وَجۡہُ اللہ (۳) |
چہرۂ مظہرِ خدا: حدیثِ شریف ہے: خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰی صُوۡرَتِہٖ۔ اللہ تعالٰی نے |
۵۲۲
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
حضرتِ آدمؑ کو اپنی صورت پر بنایا (گویا آدمؑ کو اپنا مظہر بنایا، جب ہی تو اُن کو ساری مخلوقات کی سرداری عنایت فرمائی، لغات الحدیث، کتاب “ص”)۔ |
||
۹۲۰
وَجۡہُ اللہ (۴) |
صورتِ رحمان: حضرتِ علی امیر المومنین علیہ السّلام کے وجہ اللہ ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے، جبکہ حق تعالٰی نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا، اور جبکہ لوگ بہشت میں داخل ہوکر اپنے باپ آدم کی صورت (یعنی رحمانی صورت) پر ہوتے ہیں، حدیث کے الفاظ یہ ہیں: عَلٰی صُوۡرَۃَ اَبِیۡھِمۡ اٰدَمَ عَلَیۡہِ السَّلَامُ (بخاری، جلدِ دوم، کتاب الانبیاء، مسلم، جلد ششم، کتاب الجنّۃ)۔ |
|
۹۲۱
وَجۡہُ اللہ (۵) |
چہرۂ خدا، منزلِ فنا: سورۂ رحمان معنوی حسن و جمال کی وجہ سے عروس القرآن کہلاتا ہے، یہ مبارک و مقدّس ارشاد اُسی میں سے ہے: كُلُّ مَنۡ عَلَیۡهَا فَانٍ۔ وَّ یَبۡقٰى وَجۡهُ رَبِّكَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِكۡرَامِ (۵۵: ۲۶ تا ۲۷) ہر مخلوق جو اس زمین پر (یا عالمِ شخصی میں) ہے فنا ہونے والی ہے اور صرف تیرے پروردگار صاحبِ جلالت و کرامت کا چہرہ (یعنی نمائندہ) ہی |
۵۲۳
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
باقی رہتا ہے (۵۵: ۲۶ تا ۲۷)۔ |
||
۹۲۲
وَجۡہُ اللہ (۶) |
چہرۂ نمائندۂ خدا: سوال: ارشادِ بالا میں جس طرح مخلوق کی فنا اور چہرۂ خدا کا یکجا ذکر آیا ہے، اس کی کیا مناسبت ہوسکتی ہے؟ جواب: اس یکجائی کی مناسبت یہ ہے کہ جس مرتبۂ عقل پر چہرۂ خدا (نمائندۂ خدا یعنی امامؑ) کا عظیم دیدار ہے وہاں عشّاق کے لئے شرابِ طہورِ عشق اور فنا کیوں نہ ہو، الغرض یہ فنا فی الامام کا سرِّ عظیم ہے، جس میں فنا فی الرَّسولؐ اور فنا فی اللہ بھی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔ |
|
۹۲۳
وَجۡہُ اللہ (۷) |
چہرۂ خدا: سورۂ بقرہ، رکوع چہاردھم (۰۲: ۱۱۵) میں ہے: ترجمۂ ظاہر: اور مشرق بھی اللہ کا ہے اور مغرب بھی، سو جدھر بھی تم رخ کرو وہیں خدا کا چہرہ ہے۔ اس کا تاویلی مفہوم عالمِ شخصی کے اعتبار سے: اے عارفین! تم کو عالمِ شخصی میں جہاں جہاں بے حجاب دیدار ہوا وہ تو نمایان ہے، اس کے باؤجود کوئی ایسا مقام نہیں جہاں در پردہ خدا کا چہرہ اور دیدار نہ ہو تو تم ایک ایک کرکے تمام معجزات پر خوب غور کرو۔ |
۵۲۴
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
۹۲۴
وجہُ علی |
علیؑ کا چہرہ، علیؑ کا دیدار، امامِ زمان کا دیدار: رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کا ارشاد ہے: النّظرُ اِلٰی وجہِ علی عبادۃٌ اعظمُ مِنَ الطّاعۃ۔ چہرۂ علیؑ کی طرف دیکھنا ایک ایسی عبادت ہے جو فرمانبرداری سے بھی بڑی ہے۔ (سرائر، ص۱۱۶)۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ علیؑ خدا کا چہرہ ہے، جیسا کہ خود مولا علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: انا وجہ اللہ الّذی ذکرہ بقول: فاینما تُوَلُّوۡا فثمّ وجہ اللہ (۰۲: ۱۱۵) میں اللہ کا وہ چہرہ ہوں جس کا اُس نے یوں ذکر فرمایا ہے: سو جس طرف تم منہ کرو وہاں ہی خدا کا چہرہ موجود ہے۔ (صفحۂ مذکورہ)۔ |
|
۹۲۵
وحی (۱) |
اشارہ، اِشارۂ دیدار: سورۂ شورٰی کی آخری تین آیاتِ کریمہ (۴۲: ۵۱ تا ۵۳) بہت زیادہ قابلِ توجّہ اور اسرارِ معرفت سے لبریز ہیں، چنانچہ پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور کسی بشر کے لئے ممکن نہیں کہ خدا اس سے کلام کرے مگر (دیدارِ اقدس کے) اشارے سے یا پردہ کے پیچھے سے یا کوئی فرشتہ بھیج دے غرض وہ اپنے اختیار سے جو چاہتا ہے وحی بھیجتا ہے بیشک وہ عالیشان حکمت والا ہے (۴۲: ۵۱)۔ |
۵۲۵
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
۹۲۶
وحی (۲) |
دیدار کے اشارے: جو نیک بخت مومنِ سالک اِضطراری موت سے قبل اختیاری موت سے مرجاتا ہے، اس کو خداوندِ قدّوس اپنے فضل و کرم سے سرتا سر عارفانہ قیامت دکھاتا ہے، جس میں ہرچیز کی معرفت موجود ہے، خصوصًا دیدارِ الٰہی کے مقامات، جن کے بغیر معرفت خالی از معنی رہ جاتی ہے۔ |
|
۹۲۷
وحی (۳) |
سب سے اعلٰی وحی دیدارِ الٰہی ھے: وحی کے لغوی معنی ہیں اشارہ، چنانچہ اللہ جلّ جلالہ کے دیدارِ اقدس میں سب سے عالیشان اور سب سے زیادہ اشارے ہیں، جن کی تفصیل و تشریح خود قرآنِ عظیم ہے۔ |
|
۹۲۸
وحی (۴) |
اشارۂ حکمتِ الٰہی: خدائے بزرگ و برتر کے ہر دیدار میں اشارے ہیں، کلمۂ کُنۡ اور گوہر عقل میں اشارے ہیں، کلماتِ تامّات میں اشارے ہیں، اور قرآن کا ایک نام “وحی” اس لئے ہے کہ اُس کی ہر آیت میں ظاہری معنی کے علاوہ ایک اشارۂ حکمت بھی مخفی ہے، الغرض اللہ کی ہرچیز میں صاحبانِ عقل کے لئے لطیف اور پُرحکمت اشارے ہیں، تاکہ خاصانِ خدا کے لئے زبانِ حکمت اور گنجِ معرفت خاص اور |
۵۲۶
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
مخصوص ہو۔ |
||
۹۲۹
وُدًّا |
محبّت: یقیناً جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور عملِ صالح کر رہے ہیں، عنقریب رحمان اُن کے لئے دلوں میں محبّت پیدا کر دے گا (۱۹: ۹۶) یہ ارشادِ مبارک أئمّۂ اہلِ بیت علیہم السّلام کے بارے میں ہے، اور بہشت میں حقیقی مومنین کے لئے بھی ہے۔ |
|
۹۳۰
وَدُوۡدُ |
بہت محبّت کرنے والا: اِنَّ رِبِّیۡ رَحِیۡمٌ وَّدُوۡدٌ (۱۱: ۹۰) بے شک میرا پروردگار بہت رحم والا بہت محبّت کرنے والا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر اپنے دوستوں سے کس طرح محبّت کرتا ہے اور ان کو کیسے کیسے انعامات سے نوازتا ہے، اس کا یقین مرتبۂ عقل پر ہوجاتا ہے۔ |
|
۹۳۱
وَسِعَ |
اُس نے گھیر لیا: وَسِعَ رَبِّیۡ کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا۔ میرے ربّ نے ہر چیز کو علم میں گھیر لیا ہے۔ یعنی ہر چیز کے اندر اور باہر علم ہے، بالفاظِ دیگر ہر شیٔ کے ظاہر و باطن میں روحانی سائنس ہے، کیونکہ سائنس علم ہی |
۵۲۷
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
کا نام ہے (۶۰: ۸۰)۔ |
||
۹۳۲
وِلۡدَانٌ (۱) |
بہشت کے غلمان: سورۂ واقعہ میں دیکھ لیں: یَطُوۡفُ عَلَیۡهِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ۔ اُن کی مجلسوں میں ابدی لڑکے دوڑتے پھرتے ہوں گے (۵۶: ۱۷) یہ عقلی غلمان ہیں، جن کا کام ہے مقرّبین کے لئے عقل اور عشق کی اعلٰی نعمتیں مہیّا کر دینا، یہ نوجوان لڑکے بہشت میں ہمیشہ نوجوان ہی رہیں گے، اور اس میں بہت بڑا راز مخفی ہے۔ |
|
۹۳۳
وِلۡدَانٌ (۲) |
عقلی غلمان: سورۂ دھر میں ہے: ان کی خدمت کے لئے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ نوجوان لڑکے ہی رہیں گے، تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیئے گئے ہیں، وہاں جدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سرو سامان تمہیں نظر آئے گا (۷۶: ۱۹ تا ۲۰) بہشت کی بے شمار نعمتوں کی چوٹی پر “یک حقیقت” کی انتہائی عظیم نعمت ہے جس کی طرف جانے کے لئے سب سے پہلے بہت درجات ہیں، پھر مساوات، اور سب |
۵۲۸
لفظ | معنی و حکمت “و” | ||
سے آخر میں ایک حقیقت (مونو ریالٹی) ہے۔ |
|||
۹۳۴
وِلۡدَانٌ (۳) |
بہشت کے ابدی لڑکے: سوال: حور و غلمان کی پیدائش کہاں ہوتی ہے؟ دنیا میں یا بہشت میں؟ جواب: اہل بہشت سب کے سب شروع شروع میں دنیا ہی کے لوگ ہوتے ہیں، جب وہ مر جاتے ہیں تو اُن کو جسمِ لطیف میں زندہ کرکے جنّت میں داخل کر دیا جاتا ہے، تاہم کلّی تخلیق درجات کی سیڑھی پر ہوتی ہے۔ |
||
۹۳۵
وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ (۱) |
ابدی لڑکے: وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ (ابدی لڑکے) سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ انسان کی انائے علوی ہمیشہ بہشت میں موجود ہے (۵۶: ۱۷)۔ |
||
۹۳۶
وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ (۲) |
ابدی لڑکے: ابدی لڑکے بہشت میں ہمیشہ موجود بھی ہیں اور دنیا میں آکر پیدا بھی ہوجاتے ہیں، اسی لئے ان کی دو انائیں ہوجاتی ہیں، یعنی انائے عُلوی اور انائے سِفلی (۰۶: ۹۸؛ ۵۶: ۱۷)۔ |
||
۵۲۹
لفظ | معنی و حکمت “و” | ||
۹۳۷
وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ (۳) |
ابدی لڑکے: بہشت کے ازلی و ابدی لڑکے (۵۶: ۱۷؛ ۷۶: ۱۹) یہ کون ہیں؟ یہ خلود (۵۰: ۳۴) کی حکمت و علامت ہیں اور اہلِ بہشت ہیں، یہ دنیا میں آتے بھی ہیں اور نہیں بھی آتے ہیں، جس طرح پانی کا مرکز (سمندر) اپنی جگہ ساکن بھی ہے اور اپنے دائرے پر گردش بھی کر رہا ہے۔ |
||
۹۳۸
وَلِیُّ الامر (۱) |
صاحبِ امر: نور مولانا شاہ کریم الحسینی حاضر امام صلوات اللہ علیہ کا ہر فرمانِ اقدس ہم سبے کے لئے بیحد ضروری اور واجب العمل ہے، جیسے یہ ارشادِ مبارک ہے: “تم میں سے ہر ایک کو اپنے مذہب کی حقیقی سمجھ اور گہرا علم ہونا چاہیے۔” حقیقی سمجھ ایک واضح، روشن اور کُلّی مطلب ہے، اور گہرا علم (علمِ عمیق) ایک ایسا ہمہ گیر مفہوم ہے کہ اس میں کوئی شک ہی نہیں، جس میں عقل و دانش اور علم و معرفت اور اسرارِ باطن جیسے تمام معانی آجاتے ہیں۔ |
||
۵۳۰
لفظ | معنی و حکمت “و” | |
۹۳۹
وَلِیُّ الامر (۲) |
صاحبِ امر: آپ یہ بھول نہ جائیں کہ ہماری شاخِ اسلام دینِ اسلام کی ایک باطنی شاخ ہے، باطن کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر میں جو کچھ لکھا ہوا ہے وہ تو اپنی جگہ ہے ہی، لیکن اس کے (باطنی) معنی ہر ایک کے لئے نہیں، یہ صرف انہی لوگوں کے لئے ہے، جو ہماری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ اگر آپ قرآنِ پاک کے (بعض) حصّے سیکھتے ہیں تو آپ کو اس قابِل ہونا چاہیے کہ ان حصّوں کے باطنی معنی سمجھا سکیں (حاضر امامؑ کا فرمان، انمول موتی، حصّۂ اوّل، ص۴۵)۔ |
۵۳۱
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۵۳۲
بابُ الھاء
|
۵۳۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۵۳۴
لفظ | معنی و حکمت “ھ” | |
۹۴۰
ھَادٍ |
ھدایت کرنے والا، ھادی، امام: سورۂ رعد (۱۳: ۰۷) میں ارشاد ہے: اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرٌ وَّ لِكُلِّ قَوۡمٍ هَادٍ۔ (اے رسول!) تم تو صرف ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک ہدایت کرنے والا ہے (قرآن کے شیعی تراجم اور تفاسیر نیز کتبِ مناقبِ علیؑ میں دیکھ لو)۔ زمانۂ آدمؑ سے لیکر قیامۃ القیامات تک ہر زمانہ کے لوگ قوم ہیں، اور ہر قوم کے لئے خدا نے ھادی مقرّر فرمایا ہے اور وہ زمانے کا امام ہی ہے۔ |
|
۹۴۱
ھارونؑ (۱) |
امامِ اساس: حدیثِ شریف میں ہے: یا علیُّ انتَ مِنّی بمنزلۃِ ھارون مِن موسٰی اِلّا اِنَّہٗ لا نبیَّ بعدی۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا: اے علیؑ! تیرا مرتبہ مجھ سے ایسا ہےجیسے ھارون کا درجہ موسٰی سے تھا، مگر یہ کہ میرے بعد پیغمبری نہیں ہے۔ (یہ اُن مشہور احادیث میں سے ہے جو تینوں فرقوں کی کتبِ حدیث وغیرہ میں ملتی یں)۔ |
|
۹۴۲
ھارونؑ (۲) |
امامِ اساس: صاحبِ جوامعُ الکلم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے مذکورۂ بالا حدیث |
۵۳۵
لفظ | معنی و حکمت “ھ” | |
میں جس شانِ حکمت سے مولا علی علیہ السّلام کی تعریف فرمائی ہے اس کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کرنے کے لئے اُس آئینۂ ہارونی میں علیؑ کو دیکھنا ہوگا، جو قرآنِ حکیم میں ہے، وہ اس طرح کہ دونوں امام اپنے پیغمبر کے وزیر ہیں (۲۰: ۲۹؛ ۲۵: ۳۵) اس لئے یہ کہنا روشن حقیقت ہے کہ دونوں پیشوا اپنی اپنی آسمانی کتاب کی تأویل کے مالک تھے، اور کتابِ سماوی کے باطن میں روحانیت و عقلانیت پر حاضر ہوئے بغیر تأویل نہیں کی جاسکتی۔ |
||
۹۴۳
ھارونؑ (۳) |
وزیرِ موسٰیؑ: لفظ وزیر وِزر (بوجھ) سے مشتق ہے بمعنی بوجھ اٹھانے والا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح حضرتِ ہارونؑ توریت کی روحانیت، نورانیت اور تأویل کے حامل تھے، اسی طرح حضرتِ علیؑ قرآن کی روح و روحانیّت اور نور و نورانیت (یعنی تأویل) کا بارِ گران اٹھانے والے تھے، اور بجامۂ حاضر اب بھی ہیں۔ |
|
۹۴۴
ھارونؑ (۴) |
صاحبِ تأویل: بحوالۂ قرآن (۲۱: ۴۸) حضرتِ موسٰیؑ اور حضرتِ ھارونؑ کو فرقان |
۵۳۶
لفظ | معنی و حکمت “ھ” | |
(توریت اور حسّی معجزات) نور اور اسماء الحسنٰی کا ذکر عطا کیا گیا تاکہ یہ ساری برکتیں متّقین کی طرف آئیں، اور یقیناً حضرتِ محمّد سیّد الانبیاءؐ کے برحق وصی حضرتِ علیؑ نبوّت کے سوا ہر وصف میں مثیلِ ھارون تھے۔ |
||
۹۴۵
ھارونؑ (۵) |
ھارونؑ: قرآن عزیز میں حضرتِ ھارون علیہ السّلام کا اسمِ مبارک کُلّ بیس مرتبہ آیا ہے، ایسے تمام مقامات پر نورِ امامت کا تذکرہ ہے، جبکہ حضرتِ ھارونؑ کی مبارک پیشانی میں امامت کا نور جلوہ گر تھا، جبکہ مولا علی علیہ السّلام مثیلِ ھارون تھے، مگر یہ ہے کہ آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ |
|
۹۴۶
ھارونؑ (۶) |
ھارونؑ: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۸) میں ہے: ان کے نبی نے ان کو یہ بھی بتا دیا کہ طالوت کی بادشاہی کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آئے گا جس میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہارے لئے سکونِ قلب کا سامان ہے، جس میں آلِ موسٰیؑ اور آلِ ھارونؑ کی چھوڑی ہوئی (روحانی) چیزیں ہیں، جس کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے، اگر تم مومن ہو تو یہ تمہارے لئے بہت بڑی نشانی ہے۔ |
۵۳۷
لفظ | معنی و حکمت “ھ” | |
۹۴۷
ھارونؑ (۷) |
ھارون امامؑ: اہلِ ایمان کے لئے سکونِ قلب روحانی علم اور معرفت کے سوا ممکن نہیں، لہٰذا یقیناً صںدوقِ سکینہ سے مجموعی روحانیّت مراد ہے، جو امامِ زمانہ علیہ السّلام کی روحانی سلطنت کے تحت ہے، اور روحانی جہاد بھی حضرتِ امامِ عالیمقام ہی کی نگرانی میں ہوتا ہے، اب رہا سوال کہ آلِ موسٰیؑ اور آلِ ھارونؑ کی چھوڑی ہوئی چیزیں کیا ہیں؟ وہ بظاہر کچھ مادّی تبرّکات سہی لیکن دراصل نبوّت و امامت کے باطنی اور روحانی معجزات ہیں۔ |
|
۹۴۸
ھالکٌ (۱) |
ھلاک ہونے والا، فنا ہونے والا: اے نورِ عینِ من! اکثر یا بعض سورتوں کے آخر میں خاص خاص جواہر ہوتے ہیں، اِس قانونِ قرآن کو نہ بھولنا، جیسا کہ سورۂ قصص کے آخر (۲۸: ۸۸) میں ہے، یہ گوہرِ بحرِ حکمت اسی آیۂ کریمہ میں ہے: كُلُّ شَیۡءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجۡهَهٗ۔ ہر چیز سوائے وجہ اللہ کے ہلاک ہونے والی ہے۔ |
|
۹۴۹
ھالکٌ (۲) |
ھلاک ہونے والا، فنا ہونے والا: تفسیرِ اوّل: اگر یہاں ہم یہ کہیں کہ ذاتِ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہونے |
۵۳۸
لفظ | معنی و حکمت “ھ” | |
والی ہے تو اس سے (نعوذ باللہ) یہ لازم آئے گا کہ اس کی تمام صفات بھی فنا ہوجانے والی ہیں، یہ تصوّر غیر ممکن اور غیر مناسب ہے، تفسیرِ دوم: اگر یہ کہا جائے کہ چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے تو پھر ایسے میں (نعوذ باللہ) اللہ کی تجسیم کا عقیدہ ہوگا، اور بالآخر چہرہ باقی رہنے کا تصوّر ہوگا، جو محال ہے۔ |
||
۹۵۰
ھالکٌ (۳) |
ھلاک ہونے والا، فنا ہونے والا: تفسیرِ سوم: دراصل خدا کُلَّ شی کے زمرے میں نہیں آتا، بلکہ اس کا مظہر (نمائندہ) آتا ہے، جب اسلام کے شروع ہی سے خلیفۃ اللہ کا ہونا لازمی ہے تو یہی خلیفہ خدا کا مظہر بھی ہے اور چہرۂ خدا بھی، اب سب سے مشکل ترین مسئلہ ختم ہوگیا کہ اس آیۂ شریفہ میں خدا کی ہستی سے بحث نہیں بلکہ اس کے مظہر میں فنا ہوجانے کی تعریف ہے، الحمد للہ۔ |
|
۹۵۱
ھالکٌ (۴) |
ھلاک ہونے والا، فنا ہونے والا: اس ارشاد میں خوب غور کریں: من عرف نفسہٗ فقد عرف ربّہ۔ جس نے اپنی روح کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ روح جس میں پروردگار کی معرفت ہے، کوئی |
۵۳۹
لفظ | معنی و حکمت “ھ” | |
عام روح کیونکر ہوسکتی ہے یہ تو مظہرِ نورِ خدا اور وجہ اللہ کی بات ہے، جس میں اگر ہم فنا ہوگئے تو وہ ہماری روح ہوگیا، اسی طرح ہم وجہ اللہ (ہادیٔ زمانؑ) کے وسیلے سے حضرتِ ربّ کو پہچان سکتے ہیں۔ (دیکھو: وجہُ اللہ)۔ |
||
۹۵۲
ھُبُوۡط (۱) |
اُترنا: اللہ تبارک و تعالٰی نے حضرتِ آدم اور اس کے تمام ساتھیوں سے فرمایا کہ تم سب جنّت سے نیچے اتر جاؤ: اِھۡبِطُوۡا مِنۡھَا جَمِیۡعًا (۰۲: ۳۸) اس سے یہ ظاہر ہوا کہ سب لوگ بہشت سے یہاں آئے ہیں، مگر کس طرح؟ سائے کی طرح، کیونکہ روح کا بالائی سرا اپنی اصل سے ہمیشہ واصل رہتا ہے، اس لئے وہ اس دنیا میں نہیں آسکتا، جیسا کہ قول ہے: ما آمدہ نیستیم این سایۂ ماست۔ ہم دراصل آئے نہیں یہ تو ہمارا سایہ ہی ہے۔ |
|
۹۵۳
ھُبُوۡط (۲) |
آدمؑ کا اترنا: خدائے حکیم کی طرف سے لوگوں کے لئے جتنا بڑا امتحان قصّۂ آدمؑ میں ہے اتنا عظیم امتحان کہیں بھی نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قصّۂ آدم علیہ السّلام سرتاسر اسرارِ حکمتِ الٰہیہ سے پُر ہے، مثال کے |
۵۴۰
لفظ | معنی و حکمت “ھ” | |
طور پر صرف ھُبُوطِ آدمؑ کو سوال بنا کر تجربہ کرلیں کہ یہ آدمؑ کا ھبوط (اُترنا) کس معنی میں ہے؟ جسمانی ہے یا روحانی؟ یا دونوں اعتبار سے ہے؟ بہشت کے کس درجے سے اُترنا پڑا اور کتنی مدّت کے بعد؟ کیا یہ ہر انسانِ کامِل کا قصّہ ہے یا صرف ایک فرد کا واقعہ ہے؟ |
||
۹۵۴
ھُدًی |
ھدایت: اے نورِ عینِ من! سورۂ بقرہ کے شروع (۰۲: ۰۱) میں خوب غور سے دیکھو، الٓمّٓ۔ یعنی کتابِ آفاق و انفس اور قرآنِ ناطق مولا علی علیہ السّلام ہے، اس کی حاضر دلیلیں یہ ہیں: (۱) ذالک الکتٰب (وہ کتاب) ذالک اشارۂ بعید ہے دُور کی چیز کے لئے آتا ہے (۲) لا ریب فیہ (اُس میں شک نہیں، (۰۲: ۰۲) یعنی اُس میں علم الیقین، عین الیقین اور حقّ الیقین ہے) (۳) ھُدًی للمتّقین (۰۲: ۰۳)(اُس میں پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے، کیونکہ سب لوگ قرآنِ ناطق کو نہیں مانتے ہیں)۔ |
|
۹۵۵
ھَلَک (۱) |
وہ ھلاک ہوا، ضائع ھوا، مرگیا، مٹ گیا: سورۂ حاقّہ (۶۹: ۲۹) میں ہے: ھَلَکَ عَنِّیۡ سُلۡطَانِیَہۡ (۱) میری سلطنت ضائع ہوگئی (۲) میری حجّت (دلیل) مٹ گئی۔ یعنی میں اپنے |
۵۴۱
لفظ | معنی و حکمت “ھ” | |
عقیدے کی حمایت میں جتنی دلائل رکھتا تھا وہ سب کی سب باطل ثابت ہوئیں۔ |
||
۹۵۶
ھَلَکَ (۲) |
وہ ھلاک ھوا، ضائع ھوا، مرگیا، مٹ گیا: سورۂ انفال (۸: ۴۲) میں ہے: لِّیَهۡلِكَ مَنۡ هَلَكَ عَنۢۡ بَیِّنَةٍ وَّ یَحۡیٰى مَنۡ حَیَّ عَنْۢ بَیِّنَةٍ۔ تاکہ مرجائے وہ شخص جو دلیلًا مرچکا ہے اور زندہ رہے وہ شخص جو دلیلًا زندہ ہوگیا ہے۔ یعنی جس کی دلیل پر آفاق و انفس کی گواہی نہ ہو (۱۸: ۵۱) وہ دینِ فطرت یعنی اسلام اور عقل کے مطابق نہیں باطل ہے، پس ہر ایسا شخص دلیلًا ہلاک ہوچکا ہے۔ |
۵۴۲
بابُ الیاء
|
۵۴۳
مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃً فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا
|
۵۴۴
لفظ | معنی و حکمت “ی” | ||
۹۵۷
یأتی زمان |
ایک زمانہ آئے گا: حدیث شریف ہے: اِنَّکُمۡ فِیۡ زَمَانٍ مَنۡ تَرَکَ مِنۡکُمۡ عُشۡرَ مَا اُمِرَ بِہِ ھَلَکَ ثُمَّ یَأۡتِیۡ زَمَانٌ مَنۡ عَمِلَ مِنۡھُمۡ بِعُشۡرِ مَا اُمِرَ بِہِ نَجَا۔ تم لوگ ایک ایسے دور سے گزر رہے ہو کہ اگر تم احکام کے دسویں حصّے سے بھی تغافل برتو تو تم برباد ہوجاؤ گے، اس کے بعد ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس وقت جو احکام دیئے گئے ہیں، اگر کوئی ان کے دسویں حصّے پر بھی عمل کرے گا تو اسے نجات نصیب ہوجائے گی۔ (روحِ اسلام، سیّد امیر علی، ترجمۂ محمّد ہادی حسین، ص۳۰۵ تا ۳۰۶، بحوالۂ تِرمذی و مشکوٰۃ)۔ |
||
۹۵۸
یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج (۱) |
عالمِ ذر: ذرّاتِ لطیف، مخلوقِ اصغر، نسلِ انسانی، ارواحِ خلائق، لشکرِ روحانی، عالمِ ذرّ آغاز کے معنی میں بھی اور انجام کے معنی میں بھی (۱۸: ۹۴؛ ۲۱: ۹۶)۔ |
||
۹۵۹
یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج (۲) |
ذرّاتی لشکر، روحانی لشکر: یاجوج و ماجوج دراصل ذرّاتی لشکر کا نام ہے، یہ زمانۂ آدمؑ سے آفاق و انفس کی روحانی جنگ کے لئے متعیّن ہیں، کسی عالمِ شخصی کی |
||
۵۴۵
لفظ | معنی و حکمت “ی” | ||
زمین کے حق میں وہ دن بڑا مبارک ہوتا ہے جس میں معجزانہ ذرّات تعمیرِ نوع کی غرض سے فساد کرتے ہیں، ان کا یہ کام ایسا ہے جیسے پرانے مکان کو گرا کر اُس کی جگہ نیا مکان بنانا، یاجوج و ماجوج کا برملا تذکرہ قرآن کے دو مقام پر ہے (۱۸: ۹۴؛ ۲۱: ۹۶ ) لوگ جن چیزوں کو پسند نہیں کرتے عجب نہیں کہ وہ ان کے لئے مفید ثابت ہوجائیں، دیکھو قرآن (۰۲: ۲۱۶)۔ |
|||
۹۶۰
یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج (۳) |
خدا کا ارضی لشکر: دینی ہو یا دنیوی جہاں کوئی لشکر ہو وہاں لا محالہ اس کا اعلٰی سردار بھی ہوا کرتا ہے، چنانچہ لشکرِ یاجوج و ماجوج کی عظیم الشّان سرداری سب سے پہلے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو عطا ہوئی، یہی سبب ہے کہ فرشتوں نے زمینِ ظاہر و باطن کے امکانی فساد و خونریزی کو آدم خلیفۃ اللہ سے منسوب کردیا، یعنی ان کا کہنا تھا کہ آدمؑ عالمِ شخصی میں اور سیّارۂ زمین پر اس لشکر سے فساد کرتا رہے گا (۰۲: ۳۰)۔ خلیفۂ خدا کا فساد (بگاڑ) تعمیرِ نو اور ترقّی کے لئے ہوا کرتا ہے، جیسا کہ ذکر ہوا، اور خونریزی کی تأویل ہے: اِزالۂ شکوک و شبہات، جو علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین سے ہوسکتا ہے۔ |
||
۵۴۶
لفظ | معنی و حکمت “ی” | ||
۹۶۱
یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج (۴) |
لشکرِ صاحبِ زمان: سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۶) میں ہے: یہاں تک کہ یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے نکل رہے ہوں۔ یعنی امامؑ اور تمام ذیلی حدود سے ذرّاتی لشکر نکل کر روحانی جہاد اور باطنی قیامت کے امور کو انجام دیں گے۔ |
||
۹۶۲
یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج (۵) |
باطنی لشکر: سورۂ کہف (۱۸) کے رکوعِ یازدہم میں ذوالقرنین اور یاجوج و ماجوج کے پُرحکمت قصّے کو خوب غور سے پڑھ لیں، ذوالقرنین کو خدا نے مرتبتِ امامت و روحانی سلطنت عطا کردی تھی، لہٰذا اُن کا یہ سارا قصّہ روحانی اور تاویلی ہی ہے، اگر آپ اِن عجیب و غریب واقعات کو صرف ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں تو آج کے روشن زمانے میں اُن کی عقلی توجیہہ ناممکن ہوگی۔ |
||
۹۶۳
یَاۡجُوۡجَ وَ مَاۡجُوۡج (۶) |
روحانی لشکر: جو لوگ خاص علم و عمل اور اذن و ریاضتِ شب خیزی سے اِس قابل ہوچکے ہوں کہ اب وہ بفضلِ الٰہ اختیاری موت کی تلخی اور ذاتی قیامت کی سختی کو برداشت کرکے روحانیت و عقلانیت کے |
||
۵۴۷
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
انمول خزانوں کو حاصل کرسکتے ہیں، تو ایسے نیک بخت لوگوں پر یاجوج و ماجوج کا حملہ آور ہوجانا باعثِ رحمت و برکت ہوگا، اور جو ان کے سوا ہیں، ان سے امام علیہ السّلام ذرّاتی لشکر کو روک لیتا ہے۔ |
||
۹۶۴
یَتَدَبَّرُوۡنَ |
غور و فکر کرتے ھیں: سورۂ محمّد (۴۷: ۲۴) میں ارشاد ہے: اَفَلَا یَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰى قُلُوۡبٍ اَقۡفَالُهَا۔ تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگ رہے ہیں۔ اس سماوی تعلیم سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ قرآن میں غور و فکر کرنے کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور دوسری طرف یہ پتہ چلا کہ اس معاملے میں بعض دلوں پر قفل لگ جاتے ہیں، چنانچہ پیر ناصر خسروق س نے اپنے دیوان میں فرمایا: قفل از دل بردار و قرآن رہبرِ خود کن + تا راہ شناسی و کشادہ شوَدَت در۔ دل سے قفل اٹھا اور قرآن کو اپنا رہبر بنا لے، تاکہ تو راستے کو پہچان کر چل سکے، اور تیرے لئے (مدینۂ علم اور دارِ حکمت کا) دروازہ کھل جائے۔ |
|
۹۶۵
یتیم (۱) |
بے نظیر: دُرَّۃٌ یَّتِیۡمَۃٌ، گوہر یکدانہ، بے نظیر موتی، گوہرِ عقل/ کتابِ مکنون/ امام علیہ السّلام (۵۶: ۷۸)۔ |
۵۴۸
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
۹۶۶
یتیم (۲) |
بے مثال: تم ذاتی طور پر امام کے روحانی علم کے قریب نہ جاسکوگے مگر اسمِ اعظم کے ذریعے سے، پھر تم کو عالمِ شخصی ہی میں امام کے روحانی بچپن سے لے کر بھرپور جوانی تک سخت محنت اور خدمت کرنا پڑے گی (۰۶: ۱۵۲؛ ۱۷؛ ۳۴)۔ |
|
۹۶۷
یَتِیۡمَۃُ الدَّھۡر |
یگانۂ روزگار: یتیم یعنی امام علیہ السّلام جو یگانۂ روزگار ہے اس کی تکریم و تعظیم نہ کرنے اور حجّت کے علم پر ایک دوسرے کو نہ اُبھارنے ہی سے ذلّت آتی ہے (۸۹: ۱۷ تا ۱۸)۔ |
|
۹۶۸
یُحِبُّھُمۡ (۱) |
وہ اللہ کو محبوب ھیں: یُحِبُّھُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗ۔ وہ خدا کو محبوب ہیں اور خدا ان کو محبوب ہے (۰۵: ۵۴) اس بات میں اختلاف ہے کہ ایسے لوگ کون ہیں یا کون ہوں گے جو مومنوں پر نرم اور کافروں پر سخت ہوں گے؟ تاہم دنیا کے مومنین پر نرم ہونے کے عمل سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ جسمانی مومنین نہیں، بلکہ یہ وہ روحانی لشکر ہے جو انفرادی قیامت کا جہاد کرکے عالمِ شخصی کو فتح کرلیتا ہے۔ |
۵۴۹
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
۹۶۹
یُحِبُّھُمۡ (۲) |
وہ اللہ کو محبوب ھیں: سورۂ فتح کے شروع ہی میں جس فتحِ مبین کا ذکر آیا ہے (۴۸: ۰۱) وہ آنحضور صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے عالمِ شخصی کی فتح تھی، وہ جملہ بیمثال عفو و مغفرت، وہ عظیم باطنی نعمتوں کی تمامیّت ، وہ راہِ مستقیم کی نورانی ہدایت، اور وہ زبردست مدد و نصرت اسی روحانی فتح کی وجہ سے تھیں، دیکھئے آیتِ چہارم (۴۸: ۰۴) میں آسمانی و زمینی (یعنی باطنی) لشکر کا ذکر بھی ہے۔ |
|
۹۷۰
یُحِبُّھُمۡ (۳) |
وہ اللہ کو محبوب ھیں: انفرادی قیامت روحانی جنگ بھی ہے، اسلام کی آخری دعوت بھی، عالمِ شخصی کی فتح بھی، کائنات کی تسخیر بھی، اور رجوع الٰی اللہ بھی ہے، الغرض اس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ |
|
۹۷۱
یُحِبُّھُمۡ (۴) |
وہ اللہ کو محبوب ھیں: یہ آیۂ کریمہ جو قرآنِ حکیم کے تین مقامات پر وارد ہوئی ہےاُن آیاتِ مبارکہ میں سے ہے، جو بڑی زبردست اہمیت کی حامل ہیں، اُس کا ترجمہ یہ ہے: وہی تو (وہ خدا) ہے جس نے اپنے رسول (محمّدؐ) کو ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب |
۵۵۰
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
کرے (۰۹: ۳۳؛ ۴۸: ۲۸؛ ۶۱: ۰۹) چنانچہ حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے منشائے الٰہی کے مطابق اس کارِ عظیم کو مکمّل کرلیا، یعنی آپؐ کی اور آپؐ کے خاندان کے ہر امامؑ کی ذاتی قیامت میں دینِ اسلام دوسرے تمام ادیان پر غالب ہوتا رہا، اور ان شاء اللہ اسی طرح قیامۃالقیامات میں بھی اسلام ہی غالب ہوکر رہے گا۔ |
||
۹۷۲
یحۡیٰی (۱) |
یحیٰیؑ: لفظی معنی ہیں: جیتا رہے، اللہ نے اس کو مرتبۂ نبوّت و امامت سے سرفراز فرمایا، انبیائے کرام علیہم السّلام کی جسمانی پیدائش کی مثال میں روحانی اور عقلانی دلالت کا ذکر موجود ہے، چنانچہ یحیٰی کی ظاہری پیدائش کی بشارت دراصل عقلی پیدائش کی خوشخبری تھی، پس یحیٰی کی تأویل ہے وہ شخص جو مرتبۂ عقل پر پیدا ہوجانے کی وجہ سے زندۂ جاوید ہوگیا، اور کلمۃ اللہ کی تصدیق کے تین معنی ہیں: (۱) کلمۃ اللہ اپنے وقت میں حضرتِ عیسٰی علیہ السّلام تھا (۲) یہ ہر زمانے میں اسمِ اعظم ہے (۳) یہ کلمۂ کُن ہے، پس عالمِ شخصی میں ان تینوں چیزوں کی عملی معرفت کا حصول کلمۃ اللہ کی تصدیق ہے (۰۳: ۳۹)۔ |
۵۵۱
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
۹۷۳
یحۡیٰی (۲) |
یحیٰی امامؑ: یہ ارشاد سورۂ مریم میں ہے: اے زکریا! ہم تم کو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا۔ یہ حقیقت اظہر من الشّمس ہے کہ یہاں حضرتِ امامؑ کا یہ مبارک اور پُرحکمت نام یحیٰی (جیتا رہے) خدا ہی نے رکھا، پس اس لفظ کے معنی میں جو ارادۂ الٰہی پوشیدہ ہے وہ امرِ کُن (ہوجا) کی حیثیت سے ہے، لہٰذا ہمیں اس حقیقت کا پختہ یقین ہے کہ امامِ زمان علیہ السّلام اللہ تعالٰی کا وہ زندہ اور بزرگ ترین اسم ہے جس کو الحیّ القیّوم کہا جاتا ہے، اور یہ نام منفرد اور بیمثال ہے۔ |
|
۹۷۴
یحۡیٰی (۳) |
یحیٰی، امامِ زمانؑ: لفظِ “یحیٰی” خداوندِ عالم کے اسمِ اکبر پر بڑا خوبصورت معنوی حجاب ہے، جس کا اوپر ذکر ہوا، پس معنوی کمالات کے اعتبار سے یحیٰی (امام) کا کوئی ہمنام نہیں (۱۹: ۰۷) چونکہ یہ ہمیشگی کا زندہ اور پائندہ نام اللہ تعالٰی ہی کا بیمثال اسمِ اعظم ہے، لہٰذا خدا کا کوئی ہم نام نہیں (۱۹: ۶۵)۔ |
۵۵۲
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
۹۷۵
یَدُ اللہ |
خدا کا ہاتھ: سورۂ فتح (۴۸: ۱۰) میں آیۂ بیعت کو غور سے بامعنی پڑھ لیں اور اس کی ہمہ گیر حکمت کو ذہن نشین کرلیں، ارشاد ہے: اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰهَط یَدُ اللّٰهِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡهِمۡ۔ اے نبیؐ! جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے، وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے، اُن کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا (۴۸: ۱۰) پس یہاں یہ حقیقت روشن ہے کہ خدا کے نمائندے کا ہاتھ دراصل خدا کا ہاتھ ہے، یہ قیاس ہرگز نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ یہ خود خداوندِ تعالٰی ہی کا فرمان ہے۔ |
|
۹۷۶
یَدَا |
دونوں ہاتھ: سورۂ مائدہ (۰۵: ۶۴) میں ہے: اور یہود نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بند ہوگیا ہے، انہی کے ہاتھ بند ہیں اور اپنے اس کہنے سے یہ رحمت سے دور کر دیئے گئے، بلکہ اس کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے۔ خدا کے دنوں ہاتھ عالمِ روحانی میں عقلِ کلّ اور نفسِ کُلّ ہیں، عالمِ جسمانی میں ناطق اور اساس ہیں، اور بعد ازان امام اور حجّت اللہ کے ہاتھ ہیں۔ |
۵۵۳
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
۹۷۷
یُدۡرِکُ |
وہ پاتا ھے: سورۂ انعام (۰۶: ۱۰۴) میں ہے: لَا تُدۡرِکُہُ الۡابۡصَارُ وَ ھُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ۔ اُس کو نظریں نہیں پاتیں اور وہ سب نظروں کو پاتا ہے۔ یعنی خداوندِ تعالٰی کا دیدار اس طرح ممکن نہیں کہ بشری آنکھ اس کو دیکھ سکے، بلکہ وہ خود عارفوں کی آنکھوں کا نور ہوجاتا ہے، جیسے حدیثِ قدسی میں ہے کہ خدا اپنے دوست کی آنکھ ہوجاتا ہے۔ |
|
۹۷۸
یَدَّعُوۡن |
وہ طلب کرتے ہیں، طلب کریں گے: سورۂ یاسین (۳۶: ۵۷) میں ہے: لَھُمۡ فِیۡھَا فَاکِھَۃٌ وَّ لَھُمۡ مَّا یَدَّعُوۡنَ۔ ان کے لئے اس (بہشت) میں میوہ ہے، اور جو کچھ وہ طلب کریں اُن کے لئے حاضر ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواہش و طلب کے مطابق بہشت میں ہر نعمت مل سکتی ہے، اور کوئی چیز ناممکن نہیں، لیکن علم و معرفت اور عمل کے بغیر اعلٰی نعمتوں کی خواہش کیونکر پیدا ہوسکتی ہے۔ |
|
۹۷۹
یُرۡسِل |
وہ بھیجے گا: یُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡكُمۡ مِّدۡرَارًا۔ وہ تم پر بہت مینہ برسانے والا آسمان بھیجے گا۔ یعنی اللہ کے حکم سے تمہارے باطن میں نورِ |
۵۵۴
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
امامت کا ظہور ہوگا، جس کی بدولت تم پر روحانی علم کی بارش برستی رہے گی (۷۱: ۱۱)۔ |
||
۹۸۰
یَسۡتَنۡبِطُوۡنَہٗ (۱) |
استنباط کرتے ھیں: تحقیق کرتے ہیں: استنباط کے اصل معنی ہیں کنواں کھود کر پہلے پہل پانی نکالنا، اور مجازًا اس کا استعمال غور و فکر اور تحقیق و تعمّق کے لئے ہوتا ہے (قاموس القرآن) اِسۡتَنۡبَطَ الشّیء۔ کسی چیز کو پوشیدگی کے بعد ظاہر کرنا۔ قرآنِ کریم کی جس آیۂ شریفہ (۰۴: ۸۳) میں یہ لفظ آیا ہے اُس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کے بعد ولی الامر (أئمّۂ آلِ محمّدؐ) ہی ہیں جو آیاتِ قرآنی کے باطن کو ظاہر کرسکتے ہیں، کیونکہ وہی حضرات قرآن کی تأویل جانتے ہیں۔ |
|
۹۸۱
یَسۡتَنۡبِطُوۡنَہٗ (۲) |
استخراج کرتے ھیں: آیۂ کریمہ کا ترجمہ: اور جب ان کے پاس کوئی بات اطمینان یا ڈر کی آتی ہے اس کا چرچا کر بیٹھتے ہیں اور اگر اس میں رسولؐ اور اپنے صاحبانِؑ امر کی طرف رجوع کرتے تو ضرور ان سے اس کی حقیقت جان لیتے (۰۴: ۸۳) اس سے معلوم ہوا کہ رسولؐ کے بعد اولوا الامر |
۵۵۵
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
ہی ہیں جو قرآن کے باطنی معنی جانتے ہیں۔ |
||
۹۸۲
یَسۡجُدُ |
وہ سجدہ کرتا ھے: وہ اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں ہیں (۱۳: ۱۵؛ ۱۶: ۴۹؛ ۲۲: ۱۸)۔ اس سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ ستاروں پر لطیف مخلوق موجود ہے، چاہے آپ ان کو ترقّی یافتہ انسان کہیں یا ملائک یا ارواح، بہ ہرکیف کوئی آسمان مخلوق سے خالی نہیں۔ |
|
۹۸۳
یَشۡرَبُوۡنَ |
وہ پیتے ھیں، پئیں گے (مضارع ھے): سورۂ دھر/ ھل اتٰی (۷۶: ۰۵ تا ۰۶) میں ہے: بیشک نیکوکار لوگ شراب کے وہ ساغر پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی، یہ (کافور) ایک چشمہ ہے جس میں سے خدا کے (خاص) بندے پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بہا لے جائیں گے۔ شراب آسمانی عشق کا نام ہے، آبِ کافور روحانی علم ہے، شرابِ کافور آمیختہ، عارف کی وہ حالت ہے جس میں اس پر عشق اور علم دونوں کی ملی جلی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اور چشمۂ کافور سے بآسانی نشیب و فراز اور نزدیک و دُور کے تمام مقامات تک پانی بہا لے جانا یہ ہے کہ امام علیہ السّلام کا روحانی علم دونوں جہان کے حقدار مومنین |
۵۵۶
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
کو کسی قسم کی رکاوٹ کے بغیر پہنچ جاتا ہے۔ |
||
۹۸۴
یَطۡبَعُ |
وہ مہر کرتا ھے: سورۂ روم (۳۰: ۵۹) میں ارشاد ہے: كَذٰلِكَ یَطۡبَعُ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ۔ اسی طرح مہر لگا دیتا ہے اللہ ان لوگوں کے دلوں پر جو جاہل ہیں۔ سورۂ یونس (۱۰: ۴۴) میں ہے: بیشک اللہ لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا ہاں لوگ ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ یقیناً جو لوگ علم و حکمت سے دور رہتے ہیں وہ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، حالانکہ علم و دانش بیحد ضروری ہے۔ |
|
۹۸۵
یَطُوۡفُ (۱) |
وہ گھومتا ھے، گھومے گا: طَوۡف سے مضارع ہے، طواف، کسی چیز کے گرد پھرنا، کسی بزرگ یا مقدس مقام کے گرد چکر کھانا، گردش۔ سورۂ واقعہ (۵۶: ۱۷) میں ہے: یَطُوۡفُ عَلَیۡھِمۡ وِلۡدَانٌ مَخَلَّدُوۡنَ۔ گردش کرتے ہوں گے ان کے ارد گرد نوجوان لڑکے جو ہمیشہ ایک جیسے رہیں گے (۵۶: ۱۷) یہ بہشتِ برین کے عقلی و علمی غلمان ہیں، یہ دراصل کون ہیں؟ کب پیدا ہوئے؟ کس طرح؟ طواف کیوں کرتے ہیں؟ کیا ان کی گردش میں دائرۂ لا ابتداء و لا |
۵۵۷
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
انتہا کا عظیم راز پنہان ہوسکتا ہے؟ کیا وہ آپ خود تو نہیں؟ |
||
۹۸۶
یَطُوۡفُ (۲) |
وہ طواف کرتا ھے: سورۂ طور (۵۲: ۲۴) میں ہے: وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡهِمۡ غِلۡمَانٌ لَّهُمۡ كَاَنَّهُمۡ لُؤۡلُؤٌ مَّكۡنُوۡنٌ۔ اور (خدمت کے لئے) نوجوان لڑکے اُن کے ارد گرد چکر لگایا کریں گے وہ (حسن و جمال میں) گویا چھپائے ہوئے موتی ہیں (۵۲: ۲۴) زمین پر حجّاج خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، آسمان میں فرشتے بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں، عالمِ عُلوی میں عظیم فرشتے عرشِ اعلٰی کا طواف کرتے ہیں، اور بہشت میں غلمان کا عمل بھی اس قسم کا طواف ہے، پس طواف بڑا پُرحکمت عمل ہے جو گردش، دائرہ، لا ابتداء و لا انتہا، تجدّدِ امثال، اور تمام اسرارِ مستدیر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ |
|
۹۸۷
یَعۡرِفُوۡن |
وہ پہچانتے ھیں: اہلِ کتاب بعد میں گمراہ ہوگئے، اس سے پہلے ان میں حدودِ دین اور عارفین ہوا کرتے تھے، جنہوں نے رحمتِ عالمؐ کو روحانیت و نورانیت میں پہچان لیا تھا، جس نور کا ظہور عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، اس کی بہت سی مثالیں اور کئی رشتے ہیں، اس لئے وہ کبھی |
۵۵۸
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
عارف سے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں آپ کا بیٹا ہوں، اسی مثال پر عارفوں کو آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم کی معرفت حاصل ہوئی تھی، آپ سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۶) اور سورۂ انعام (۰۶: ۲۰) میں غور سے دیکھ لیں۔ |
||
۹۸۸
یقین (۱) |
وہ حقیقت جس میں شک نہ ھو: ترجمۂ آیۂ شریفہ: اور تم اپنے پروردگار کی عبادت کرتے جاؤ تا آنکہ تمہارے سامنے حق الیقین کی منزل آئے (۱۵: ۹۹) عبادت کا مقصد موت نہیں، بلکہ اس کا مقصد سب سے اعلٰی معرفت ہے، اور وہ حقّ الیقین ہی ہے۔ |
|
۹۸۹
یقین (۲) |
حقّ الیقین، یقین کا درجۂ کمال: ارشاد ہے: اور تم عبادت کرتے رہو، یہاں تک کہ تمہارے پاس حقّ الیقین آئے (۱۵: ۹۹) یقین کے درجۂ کمال پر شخصِ کامل کو فنا فی اللہ و بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے، جہاں ہرگونہ عبادت آسان بلکہ خودکار (AUTOMATIC) ہوجاتی ہے کیونکہ یہ دراصل بہشت کی نعمتوں میں سے ہے۔ |
۵۵۹
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
۹۹۰
یقین (۳) |
حقّ الیقین، یقین کا آخری درجہ: سورۂ انعام (۰۶: ۷۵) میں ہے: اور اسی طرح ہم نے ابراہیمؑ کو آسمانوں اور زمین کی ساری بادشاہی (ملکوت) دکھا دی تاکہ وہ حقّ الیقین والوں میں ہوجائے۔ یعنی خدا نے حضرتِ ابراہیمؑ کو عالمِ شخصی کے آسمان و زمین کی عظیم الشّان سلطنت کا مکمّل مشاہدہ کرایا، یہ مشاہدہ یقینِ کامل (کُلّی معرفت) کی غرض سے تھا، جو دیدارِ الٰہی کے بغیر ممکن ہی نہیں، تجلّیاتِ حق تعالٰی کے دیدار کا اشارہ یہاں (۰۶: ۷۵) لفظ ملکوت میں بھی ہے اور موقنین میں بھی۔ کیونکہ ملکوت کا مشاہدہ نہ صرف کائنات ہی میں ہوا بلکہ دستِ خدا (۲۳: ۸۸؛ ۳۶: ۸۳) میں بھی ہے، اور موقنین (حقّ الیقین والے) دیدار ہی کی وجہ سے فنا فی اللہ ہوجاتے ہیں۔ |
|
۹۹۱
یقین (۴) |
یقین کے درجات: سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ارشاد ہے: اور زمین میں اہل یقین کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، اور خود تم میں بھی ہیں، تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ عالمِ جمادات، عالمِ نباتات، عالمِ حیوانات، عالمِ انسان، عالمِ دین اور اس کی تمام چیزیں، خصوصًا نورِ منزّل اور کتابِ سماوی کا تعلق |
۵۶۰
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
یقین سے ہے، پس یقین والوں کے لئے آیات و معجزات زمین میں بھی ہیں اور عالمِ شخصی میں بھی، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم اور امامِ مبین کی قیامت خیز روحانیت موقنین کے باطن میں کام کر رہی ہے۔ |
||
۹۹۲
یقین (۵) |
شک کی ضد، یقینی بات، بے شک و شبہ، علم جو دلائل سے حاصل ھو: یقین کے تین درجے ہیں، علم الیقین، عین الیقین اور حقّ الیقین، تین درجات کا ذکر قرآنِ حکیم میں موجود ہے: علم الیقین (۱۰۲: ۰۵) عین الیقین (۱۰۲: ۰۷) حقّ الیقین (۵۶: ۹۵) سورۂ تکاثر میں ارشاد ہے: ہرگز نہیں اگر تمہارے پاس علم الیقین ہوتا تو تم (اس علم کی روشنی میں) ضرور دوزخ کو دیکھتے، پھر اس کو عین الیقین سے دیکھتے (۱۰۲: ۰۵ تا ۰۷) |
|
۹۹۳
یُکَلِّمُ |
وہ بات کرتا ھے، بات کرے گا، بات کرے: سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۷۴) اور سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۷۷میں دقّتِ نظر سے دیکھ لیں، اس میں بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ خدا قیامت کے دن بعض لوگوں سے کلام کرے گا اور بعض لوگوں سے کلام نہیں کرے گا، ظاہر ہے جو کلامِ الٰہی سنیں گے وہ پاک و پاکیزہ ہوجائیں |
۵۶۱
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
گے، لیکن یہ واقعہ کب ہوگا؟ انفرادی قیامت میں، اجتماعی قیامت یعنی دورِ روحانیّت میں، اور جسمانی موت کے بعد۔ |
||
۹۹۴
یُکَلِّمُھُمۡ |
وہ ان سے بات کرتا ہے، ان سے بات کرے گا: قیامت کے دن خداوندِ قدّوس بعض لوگوں سے کلام کرے گا، اور ان کو اپنے پاک دیدار کی لازوال دولت سے نوازے گا، جس کی برکت سے یہ لوگ نہایت پاک و پاکیزہ ہوجائیں گے، جبکہ بعض لوگوں سے نہ کلام کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا (سورۂ بقرہ ۰۲: ۱۷۴، سورۂ آلِ عمران ۰۳: ۷۷)۔ |
|
۹۹۵
یَنۡظُرُوۡنَ (۱) |
وہ دیکھتے ہیں، (کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟ اے نورِ عینِ من! ایک ہی انتہائی عظیم واقعہ ہے، جس کا انتظار سب کو ہے، اور وہ واقعۂ قیامت ہی ہے، لہٰذا آپ قرآنِ حکیم میں مضمونِ انتظار (ھَلۡ ینظرون) کو پانچ مقامات پر کامل توجّہ سے پڑھ لیں، حوالہ جات یہ ہیں: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۰) سورۂ انعام (۰۶: ۱۸۵) سورۂ اعراف (۰۷: ۵۳) سورۂ نحل (۱۶: ۳۳) اور سورۂ زخرف (۴۳: ۶۶) حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا دائمی تعلق باطن اور روحانیّت ہی سے ہے، جس کو عوام النّاس دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں۔ |
۵۶۲
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
۹۹۶
یَنۡظُرُوۡنَ (۲) |
وہ دیکھتے ھیں، وہ دیکھیں گے، وہ انتطار کرتے ھیں: آپ قرآنِ عزیز میں ان پانچ آیاتِ کریمہ کو غور سے دیکھ لیں جو ھل ینظرون سے شروع ہوجاتی ہیں، ان میں مختلف عنوانات سے ایک ہی واقعۂ عظیم کی پیش گوئی ہے، اور وہ عنوانات یہ ہیں: عالمِ دین میں ظہورِ قائم، نزولِ ملائکہ، زمانۂ تأویل کا آغاز، امرِ قیامت (فیصلہ) اور قیامت کا اس طرح برپا ہوجانا کہ لوگوں کو اس کا شعور ہی نہ ہو، کیونکہ قیامت ہمیشہ روحانی طور پر آتی رہی ہے۔ |
|
۹۹۷
یَنۡظُرُوۡنَ (۳) |
(کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟ قرآنِ حکیم اسرار الٰہی کا سب سے بڑا خزانہ ہے، اور اس میں ایک بڑی اصولی حکمت یہ بھی ہے کہ لوگوں کی زبانِ قال کے علاوہ زبانِ حال کے بیانات بھی ہیں، جن کی ترجمانی خداوندِ تعالٰی نے فرمائی ہے یا فرشتے نے کی ہے، اور یہ لوگوں کے لئے انتہائی مشکل حجاب ہے کہ رازوں کو دیکھ سکیں، الغرض احوالِ قیامت عامۃ النّاس سے بالکل پوشیدہ ہیں، لیکن زبانِ حال کی بہت سی باتوں سے ایسا لگتا ہے جیسے سب لوگ قیامت کے تمام واقعات کو دیکھ رہے ہوں۔ |
۵۶۳
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
۹۹۸
یَنۡظُرُوۡنَ (۴) |
(کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟ قرآنِ عظیم (۱۷: ۷۲) میں ہے کہ: اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں کو قرآن نے بہرے، گونگے اور اندھے قرار دیا ہے (۰۲: ۱۸) وہ قیامت اور آخرت میں نہ سن سکیں گے نہ بول سکیں گے اور نہ دیکھ سکیں گے، اس کے باؤجود وہاں جس طرح اُن کے سننے، بولنے، اور دیکھنے کا بار بار ذکر آیا ہے، وہ حقیقت میں ان کی حالت کی ترجمانی ہے۔ |
|
۹۹۹
یَنۡظُرُوۡنَ (۵) |
(کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟ دوزخیوں کے بارے میں فرمایا: آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور ان کے پاؤں شہادت دیں گے جو کچھ یہ لوگ کیا کرتے تھے (۳۶: ۶۵) یہ اہل دوزخ سے متعلق ایک کلّیّہ (قانون) ہے کہ وہ بزبانِ قال خدا سے کلام نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ یہ ان کی زبانِ حال کی ترجمانی ہے۔ |
۵۶۴
لفظ | معنی و حکمت “ی” | |
۱۰۰۰
یَنۡظُرُوۡنَ (۱) |
(کیا) وہ انتظار کرتے ھیں؟ سورۂ مومنون (۲۳: ۱۰۸) میں ہے: قَالَ اخۡسَــٴُـوۡا فِیۡهَا وَ لَا تُكَلِّمُوۡنِ۔ ارشاد ہوگا کہ اسی (جہنّم) میں راندے ہوئے پڑے رہو اور مجھ سے بات مت کرو۔ اس حکمِ خداوندی سے یہ معلوم ہوا کہ اہل دوزخ خدا سے دُور ہی رہتے ہیں اور وہ اس سے کبھی کلام نہیں کرسکتے۔ |
۵۶۵