انتسابِ جدیدی
خانۂ حکمت کی یہ روز افزون ترقی علی اللہ، خداوندِ قیامت کے بے پایان احسانات و نوازشات اور اسی کی توفیقات سے ہمارے تمام عزیزان کی درویشانہ دعاؤں کی وجہ سے ہے، ہمارے ادارے کی بے مثال ترقی اور لا زوال نیکنامی ہوئی ہے، اگرچہ ہمارے پاس شائع شدہ کتابوں کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ تو نہیں ہے، لیکن اندازہ ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں کتابیں پھیلائی گئی ہیں، ہماری علمی بیٹی کریمہ ناتھانی بھی اسی سردار خدمت میں، یعنی علمی خدمات میں شامل ہیں، یا علی اللہ! تمام قائم شناس علمی خدمت والوں کو بہشت میں حدودِ دین اور سلاطین بنانا! ان کو فنا فی القائم کر کے بہشت کے عظیم خلفا اور فرشتے بنانا! آمین!
نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
بدھ ۲۹ ستمبر ۲۰۰۴ء
۱
انتسابِ کتابِ ہٰذا
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
سورۃ الملک (۶۷) کے آغاز میں ارشاد ہے: تبرک الذی بیدہ الملک و ھو علی کل شی قدیر الذی خلق الموت و الحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا۔
تاویلی مفہوم: حظیرۂ قدس کے معجزات کے دوران حضرتِ قائم کے دستِ مبارک میں گوہرِ عقل ہوتا ہے، یہ بہشت میں سلطنت عطا کرنے کا اشارہ ہے، وہ بے پایان برکات کا مالک ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا اور موت کی تمام قسموں میں ایک سردار موت ہے، وہ موتوا قبل ان تموتوا ہے تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے علم و عمل میں سب سے اچھا کون ہے؟ یہ ساری تعریف حضرتِ قائم (علی اللہ) کی ہے۔
میرے بہت ہی عزیز پسرزادے امین الدین ابنِ ایثار علی نے یہ مشورہ دیا کہ کتابِ ہٰذا کے ایڈیشن میں عائشہ بیگم (مرحومہ) کے حق میں دعاؤں کے ساتھ انتساب ہونا چاہئے، پس تمام اولین و آخرین کی دعاؤں کی سردار اور پادشاہ حاضر امام (روحی فداہ) کی دعا ہے، ملاحظہ ہو، کتابِ علمی بہار، ص ۴۔ محترمہ عائشہ بیگم (مرحومہ) کا آبائی نسب اس طرح ہے: عائشہ بیگم بنتِ اسد اللہ بیگ (عرف بلبل) ابنِ محمد رضا بیگ (فراج) ابنِ وزیر اسد اللہ بیگ ، ابنِ وزیر پونو۔ اور مادری شجرہ یہ ہے: عائشہ بیگم بنتِ تائفہ بانو، بنتِ ترنگفہ سلطان محمود، ابنِ غلامو، ابنِ سلطان بیگ، ابنِ خوش بیگ، ابن
۲
جٹوری۔
عائشہ بیگم کا آبائی شجرۂ نسب ص ۶۶ پر ہے، از کتابِ تاریخِ عہدِ عتیقِ ریاستِ ہونزا از حاجی قدرت اللہ بیگ۔
نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعہ ۲۸ مئی ۲۰۰۴ء
۳
حقوق کیا کیا ہیں
حقوق دو قسم کے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد، جو حقوق بندوں کے ہیں ان میں ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آباؤاجداد کے لئے دعا کریں، کیونکہ اگر ہم ان کی ذریت ہیں تو وہ ہماری روح کے ذرات تھے۔ (۳۶:۴۱)
پس میں اپنے تمام آباؤاجداد، امہات اور حجای غریب کے لئے انتہائی عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ پروردگار ان سب کو غریقِ رحمت کر دے! حجای غریب کو خاص طور سے اس لئے یاد کیا گیا کہ اس نے اپنے خاندان کا نام روشن کر دیا ہے۔
الحمد للہ علیٰ احسانہ
۴
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دیباچہ
زیرِ نظر کتاب حضرتِ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کے ان پرحکمت خطوط کا مجموعہ ہے، جو ان کے فرزندِ دلبند جناب ایثار علی مرحوم کے سانحۂ ارتحال کے موقع پر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے حضرات کی جانب سے بھیجے ہوئے تعزیت ناموں کے جواب میں لکھے گئے تھے، مرحوم کے نام کی نسبت سے اس کا عنوان ’’ایثار نامہ‘‘ رکھا گیا ہے، یہ عنوان اسم با مسمیٰ اور صوری و معنوی خوبیوں کا ایک بہترین مرقع اور آئینہ ہے۔ صوری لحاظ سے اس لئے کہ اس عنوان کے ذریعے مرحوم کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اور معنوی لحاظ سے اس لئے کہ اس کتاب میں دنیا کی ناپائیداری، رنج و مصیبت کے روحانی پہلو، موت کی حقیقت، روحانی عالم کی عظمت، جزع و فزع کی مذمت، صبر و شکر کی فضیلت، اور سب سے بڑھ کر فلسفۂ ایثار و قربانی کو، جو قربِ خداوندی کا نزدیک ترین باعث ہے، جوابی خطوط کی صورت میں مختصر مگر جامع انداز میں پیش کیا گیاہے۔ ناچیز کی نظر میں کتابِ مذکور شدائد و مصائب میں مومنوں کے لئے ایک ایسی مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی روشنی میں بندۂ مومن بے صبری و ناشکری کے دردناک ذہنی اور روحانی عذاب سے نکل کر صبر و شکر کی ابدی رحمتوں اور نعمتوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ایک عام انسان کے لئے ایک وجیہہ و شکیل، نڈر، بے باک پچیس سالہ نوجوان بیٹے کی یکایک موت قیامتِ کبریٰ نہ سہی تو قیامتِ صغریٰ سے کم
۵
نہیں، لیکن جہاں تک علامہ صاحب کا تعلق ہے، آپ کی روحانی مجالس میں شریک ہونے والوں، آپ کی وعظ و نصیحت کو گوشِ جان سے سننے والوں اور آپ کے دسترخوانِ علم و معرفت کی ریزہ چینی کرنے والوں کو یقینِ کامل تھا اور ہے، کہ آپ ایک فرزند کی جسمانی مفارقت کو کوئی ہنگامہ نہیں سمجھیں گے۔ اس لئے کہ آپ خاصانِ خداوند میں سے ہیں، اور علم و معرفت کے ایک ناقابلِ تسخیر پہاڑ کی حیثیت رکھنے کے باوجود جس منکسر المزاجی کے ساتھ جماعت کی روحانی اور علمی خدمت کرتے آئے ہیں، وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں، حقیقت یہ کہ آپ ان مردانِ حق اور خاصانِ خدا میں سے ہیں، جن کی زندگی کا شعار یہ ہوتا ہے کہ:
درینجا مردانی کہ ایشان در رہِ فرمان
بکارِ دین، نیندیشند، ہیچ از جان و از کالا
نہ از جستن نہ از بستن نہ از کشتن نہ از مردن
نہ از خنجر نہ از زوبین نہ از سلطان نہ از غوغا
یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک اضطراری قربانی اور وہ بھی ایک جوان سال بیٹے کی قربانی پر راضی برضائے الٰہی رہ کر صبر و شکر کرنا پہلے سے ارادی طور پر تیار ہو کر خداوندی حضور میں قربانی پیش کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ اس لئے کہ پہلی صورت میں عالمِ روحانی کے اجرِ عظیم کو خوش کن تصویر سامنے رہتی ہے اور اس روحانی کیفیت میں دنیوی مال و متاع اور زن و فرزند کی چمک دمک کوئی اثر نہیں رکھتی، اس کے برعکس دوسری صورت میں یہ کیفیت نہیں ہوتی، لہٰذا دفعۃً اس پر قابو پانا زیادہ دشوار کام ہے، لیکن یہ بات بھی عام انسانوں کے لحاظ سے ہے، خاصانِ خدا اور عاشقانِ مولا ہمیشہ اپنے ارادے سے فانی اور ارادۂ حق میں باقی ہوتے ہیں، اس لئے ان کی باطنی اور روحانی
۶
کیفیت باوجود بشری تقاضوں اور انسانی حالات کے لا خوف علیہم و لا ہم یحزنون کی رہتی ہے۔
علامۂ موصوف کی ذاتِ گرامی میں خاکسار کو ان معیاری صفات کا مشاہدہ رہا ہے، اور مجھے یقینِ کامل ہے کہ وہ تمام مومنین، جنہوں نے علامۂ موصوف کو دنیوی جاہ و حشمت، مال و متاع اور سیاسی و خاندانی تعلقات سے بالاتر ہو کر، محض دینی، علمی اور روحانی لحاظ سے پہچاننے کی کوشش کی ہے اور جو کریں گے ان کو یہ صفات اور یہ روحانی مرتبہ مشاہدہ کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں ہو گی اور نہ ہی آئے گی۔
موصوف کی زندگی ایک مردِ کامل کی حیثیت سے بڑی ہمہ گیر رہی ہے، آپ شبانی اور سپہ گری کی زندگی سے لے کر عالم، عاشقِ صادق اور عارف کی حیثیت تک گوناگون تجربات و معلومات کی زندگی گزارتے ہوئے آئے ہیں اور ان مختلف ادوار میں عشقِ حقیقی کا عنصر سب سے زیادہ کار فرما رہا ہے، اور چونکہ عشق نام ہی امتحانات کا ہے اور امتحان کا دوسرا نام قیامت ہے، لہٰذا آپ کی زندگی بھی بڑے بڑے امتحانات اور بار بار کی قیامات سے گزری ہے، جیسے خود فرماتے ہیں:
عشق دیدہ صد قیامت از قیامت پیشتر
از تو ہر دم صد قیامت نور مولانا کریم
لیکن عشقِ حقیقی میں ثابت قدمی کا اجرِ عظیم یہ ہے، کہ معشوقِ حقیقی کبھی اپنے عاشق کو بے نیل و مرام نہیں چھوڑتا، بلکہ زندگی کے ہرقدم میں اس کی رہنمائی کرتا ہے، اور اسی طرح عاشق عظیم سے عظیم امتحان میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے جیسا کہ خود علامہ صاحب فرماتے ہیں:
۷
عشقہ کاٹ لو منانکہ بیسنہ مہ کم
ای عقل میئمی مار امامِ زمان
یعنی اگر تم عشق کے عہد و پیمان پر ثابت قدم رہو گے تو تمہیں کسی چیز کی کمی نہ ہو گی، (اور اس حال میں) امامِ زمان خود تمہاری عقل کے استاد اور رہنما ہونگے۔
اکثر یوں ہوتا ہے کہ بزرگانِ دین کی اپنی زندگی کے دوران قدر شناسی کم ہوا کرتی ہے، لیکن اس لحاظ سے بھی علامہ صاحب نہایت سعادتمند ہیں، کہ آپ کی نہ صرف اسماعیلی جماعت میں قدر و منزلت ہے، بلکہ پوری مسلم برادری اور بالخصوص اہلِ علم حضرات آپ کو نہایت قدر و وقعت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اسماعیلی جماعت میں خاص و عام کو آپ کے ساتھ جو والہانہ عقیدت و محبت ہے، اس کی مثال آپ خود ہیں۔ ذیل میں علامہ صاحب کی ہمہ گیر زندگی کے بارے میں چند اقتباسات خود آپ کے اپنے نوشتہ جات سے پیش کئے جاتے ہیں، جو سبق آموز بھی ہیں اور بصیرت افروز بھی۔
چنانچہ لکھتے ہیں ’’کہ میری زندگی کی کہانی انتہائی عجیب و غریب ہے جسمانی اور روحانی قسم کی آزمائشوں کا نتیجہ ! مسافرت و غربت کا قصہ! درویشی و فقیری کا خلاصہ! محنت و مشقت کا مجموعہ! گریہ و زاری کا سرچشمہ! اور صبر و شکر کا ایک ادنیٰ نمونہ!‘‘ ان گوناگون آزمائشوں کے دوران ان کے احساسات کیسے تھے؟ ان کی روحانی کیفیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ایک قسم کے احساسات وہ ہیں، جن کی اساس و بنیاد خدا و رسول اور ائمۂ برحق علیہم السلام کے مبارک و مقدس ارشادات پر ہے، دوسری قسم کے احساسات وہ ہیں، جن کا تعلق طبعی میلان، دنیاوی رسم و رواج اور ظاہری ماحول پر ہے، لیکن الحمد للہ ہمارے دینی احساسات ہر وقت دنیاوی احساسات پر غالب و
۸
فاتح رہتے ہیں، یہ سعادت اس ذاتِ بابرکات کی تائید و نصرت کے بغیر ممکن نہیں جس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے‘‘۔
سطورِ بالا یہ اندازہ لگانے کے لئے کافی ہیں، کہ امامِ زمانؑ اپنے خاص بندوں اور عاشقانِ صادق کے لئے بڑے بڑے امتحانوں اور ابتلاؤں میں کس طرح خود عقل بنتے ہیں، اور کس طرح ان کو ادنیٰ اور طبعی خواہشات و احساسات سے نکال کر اعلیٰ اور روحانی خواہشات کی طرف ہدایت فرماتے ہیں، اور بزرگانِ دین اور عاشقانِ مولا اس باطنی ہدایت و تائید کی بدولت مصائب و شدائد میں بھی مومنوں کے لئے صبر و شکر اور ہمت و استقامت کا مثالی نمونہ بن کر دینی امور کی انجام دہی میں کس طرح سینہ سپر ہو جاتے ہیں، چنانچہ علامہ صاحب کی ایسی ایسی مثال ملاحظہ ہو کہ موصوف ۱۳ دسمبر ۱۹۷۲ء کو سرکار مولانا حاضر امام کے مبارک یومِ ولادت کے موقع پر دوسرے لوگوں کی طرح اپنے عزیز فرزند کی رحلت کے غم میں خانہ نشین نہیں ہوئے بلکہ امامِ زمان کے مقدس فرمان یعنی کہ: ’’اگر کسی کا جوان بیٹا بھی فوت ہو جائے تو غم نہ کرے‘‘ کے مطابق جوانمردانِ دین کے ایک قائد کی حیثیت سے میدان میں نکل کر جماعت کی قیادت فرمائی اور یہ معلوم ہونے بھی نہیں دیا کہ جسمانی لحاظ سے ان کی زندگی کی عزیز ترین شے یعنی لختِ جگر ان سے جدا ہو گیا ہے، بے شک مردانِ حق اور بزرگانِ دین کا یہی شیوہ و شعار ہوتا ہے جو نہ صرف وعظ و نصیحت کرتے ہیں بلکہ عین موقع پر عملاً جماعت کو دکھاتے ہیں اور یہی فلسفۂ ایثار و قربانی ہے۔
جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے کہ یہ کتاب فلسفۂ ایثار و قربانی کا ایک آئینہ ہے، چنانچہ علامۂ موصوف اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: ’’قربانی کا لفظ قرب سے نکلا ہے اور خدائے تعالیٰ کی قربت کے لئے قربانی کی ضرورت پڑتی ہے، اس
۹
معنی میں قربانی ایک ایسی قیمتی چیز کو کہتے ہیں جو خدا کی راہ میں اس کی قربت و نزدیکی کی غرض سے نکالی گئی ہو‘‘۔ نیز قربانی کی قسموں کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ مومنین سے دو قسم کی قربانی لیا کرتا ہے، ایک قربانی وہ ہے جو مومن سوچے سمجھے حال میں خدا کے حضور پیش کرتا ہے، دوسری قربانی وہ ہے جو خدا تعالیٰ اپنی مرضی سے مومن سے لیا کرتا ہے، اگر اس دوسری قربانی کے لئے مومن صابر و شاکر رہے تو یہ قربانی خدا کے نزدیک سب سے عظیم ہے‘‘۔
مجھے امید ہے کہ اس کتاب کو برابر پڑھنے اور سمجھنے کے بعد کوئی بھی حقیقی مومن مصیبت کو مصیبت نہیں بلکہ رحمتِ ایزدی ہی سمجھے گا، اس لئے کہ خدائے رحمان و رحیم ہماری اپنی جانوں سے زیادہ مہربان ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے جو کچھ کرتا ہے وہ یا تو سرزدہ گناہوں کے روحانی نقصان کی تلافی کے لئے کرتا ہے یا مزید روحانی ترقی کے لئے، اور ہر دو صورتوں میں رحمت ہی رحمت مقصود ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں آیا ہے: ۔۔۔ اولٰئک علیہم صلوٰت من ربھم و رحمۃ و اولٰئک ہم المھتدون (۲:۱۵۷)۔
فلسفۂ ایثار کی مزید وضاحت علامہ موصوف نے اس کتاب میں بار بار فرمائی ہے امید ہے کہ قاری جتنا زیادہ دقت کے ساتھ اس کو پڑھے گا اتنی زیادہ اس کی حقیقت کو پہنچے گا۔
اس کے علاوہ علامہ صاحب نے ’’سخنہائے گفتنی‘‘ میں بعض ناپسندیدہ اور مکروہ رسومات یعنی موت کے موقع پر زار و قطار رونا، مردے کی تعریف کرنا، خورد و نوش کی چیزیں لانے میں اسراف کرنا، ہفتوں مہینوں تعزیت کے لئے آنے وغیرہ سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے، امید ہے کہ اسماعیلی جماعت بالخصوص ان پر عقل و علم کی روشنی میں
۱۰
عمل کرنے کی کوشش کرے گی، اس لئے کہ یہ رسومات اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے، کہ ایسی رسوم اشاعتِ اسلام سے پہلے کے اثرات ہیں، اب جبکہ دن بدن امامِ زمان کے مبارک فرامین کے ذریعے دین کی حقیقت روشن سے روشن تر ہوتی جا رہی ہے تو جماعت کا فرض ہے کہ بیہودہ رسومات کو ترک کرے اور امامِ زمانؑ کے مقدس فرامین پر عمل کرے، امید ہے کہ ان حقائق کو علامہ صاحب نے جس حکیمانہ انداز میں سمجھایا ہے، جماعت کماحقہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی۔
آخر میں دعا ہے کہ خداوندِ کریم و رحیم مرحوم کو اپنے جوارِ مغفرت و رحمت میں ابدی سکون و سعادت اور سرمدی مسرت و راحت نصیب کرے! مصنف کو صبر و شکر کا اجرِ غیر ممنون عنایت کرے اور جماعت کو ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تکالیف و شدائد میں صبر و شکر اور امامِ زمانؑ کی اطاعت و فرمان برداری میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا کرے!
فقیر محمد
معہد الدراساتِ الاسلامیہ
جامعۂ میکگل، مونتریال کنادا
۱۵ نومبر ۱۹۷۳ء
۱۱
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
محترم و مکرم قبلہ و کعبہ ہمارے بہت ہی شفیق بزرگوار دادا جان علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی (ایس۔ آئی) کے منشا پر عمل کرتے ہوئے ہم نے چند الفاظ قلم بند کرنے کی جسارت کی ہے۔ علامہ بزرگوار نے کتاب ’’ایثار نامہ‘‘ میں اپنے فرزندِ جگر بند ایثار علی (مرحوم) سے جو محبت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے وہ کئی اعتبار سے مثالی اور دعائے جاریہ ہے۔ یہ ایک مردِ مومن کی آپ بیتی کا حصہ بھی ہے جس نے اس مشکل امتحان میں مذہبی تقاضوں کو نبھاتے ہوئے صبر و تحمل کی ایک نئی روایت رقم کی ہے تا کہ اس مثال کو اپناتے ہوئے ہر ذی شعور اور ایماندار انسان حکمِ خداوندی پر کما کان حقہ سرِ تسلیم خم کرے۔
دل بدست آور کہ حجِ اکبر است
از ہزاران کعبہ یک دل بہتر است
اس کتاب کی افادیت کے کئی پہلو ہیں جن میں سرِ فہرست یہ کتاب ایک دینی درس بھی ہے اور ایک اعلیٰ ادبی نسخہ بھی، کہ جس کو پڑھ کر قارئینِ کرام اپنے ذہنوں کو عالی ہمتی کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔
اولاد کی نعمت ایک فطری کشش کی حامل ہوا کرتی ہے۔ یہ عطیۂ خداوندی کائناتی نعمتوں میں سب سے شیرین اور دلفریب ہے۔ وہ جگر گوشے جو ماں باپ کے نورِ نظر اور دل کی ٹھنڈک ہوں یقیناً ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں مگر صد
۱۲
افسوس کہ ایسی اموات جو بھرپور جوانی میں واقع ہوں، پسماندگان کے لئے قیامتِ صغریٰ ثابت ہوتی ہیں جو بڑے سے بڑے مضبوط انسان کو بھی شکستہ خاطر اور بے بس کر دیتی ہیں۔ مغموم و دل سوز لواحقین آہ و نالہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے ہیں اور غمگین ہوتے ہیں۔ مگر یہ سوچنا اور سمجھنا از حد ضروری ہے کہ منشائے خداوندی کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ ہم سب اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اس کتاب کی مناسبت سے ہماری یہ دعا ہے کہ وہ تمام جانیں جو بھرپور جوانی میں دنیا سے چلی گئی ہیں، خداوندِ کریم و کارساز ان سب کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور تمام بنی نوع انسان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے! آمین یا رب العالمین!!
مخلصان
امین الدین ابنِ ایثار علی ابنِ نصیر الدین ابنِ حبِ علی
عرفت روحی اہلیۂ امین الدین
حبِ علی ثانی ابنِ امین الدین ابنِ ایثار علی ابنِ نصیر الدین ابنِ حبِ علی
درِ علوی بنتِ امین الدین ابنِ ایثار علی ابنِ نصیر الدین ابنِ حبِ علی
درِ فاطمہ بنتِ امین الدین ابنِ ایثار علی ابنِ نصیر الدین ابنِ حبِ علی
پیر ۲۴ مئی ۲۰۰۴ء
۱۳
ہماری امہات کے خاندانوں کا تذکرہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
میری والدۂ محترمہ (مرحومہ) روزی بائی بنتِ حیدر محمد کے آبائی خاندان بختہ کد ہیں، شجرۂ نسب ملاحظہ ہو: ص ۷۱۔۷۲، از کتابِ تاریخِ عہدِ عتیقِ ریاستِ ہونزا۔ میری نانی فضہ سلطان محمد کی بیٹی تھیں، سلطان محمد ہکل کد خاندان کا تھا، جو التت اور احمد آباد میں ہیں۔ میری دادی صاحبہ کا نام بھی روزی بائی تھا، جو درس علی (درویش علی) ابنِ قلی لسکر کی بیٹی تھیں۔ قلی لسکر اپنے زمانے کا بڑا بہادر اور نامور شخص تھا، ملاحظہ ہو ص ۹۵، از کتابِ مذکور۔
میری پر دادی گل بی بی (Gal Bibi) بنتِ خوش حال، کے خاندان خروٹنگ ہیں اور ہماری ایک دادی میلی بنتِ بڈو چبوی بُتی کی نسل سے تھی، چبوی بُتی گنش میں تھا، اسی کے نام سے چبوی کشل ہے، ہماری ایک دادی بل التت اسیکد خاندان سے تھی، اور بشوکد خاندان سے یکے بعدِ دیگرے ہماری دو یا تین دادیاں ہوئی ہیں، بشو کا شجرہ ملاحظہ ہو: ص ۶۵، از کتابِ مذکور۔
نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
جمعرات ۲۷ مئی ۲۰۰۴ء
۱۴
حضرتِ قائم (ع۔س) کے عظیم احسانات
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
عائشہ بیگم کے لئے حضرتِ قائم (علی اللہ) کے حضورِ پر نور سے فوق العادہ عظیم انعامات ہوئے، ان کو کبھی کبھی خواب میں حضرتِ قائم علینا سلامہ کا حجابی دیدار ہوتا تھا یعنی کسی بزرگ کے عنوان سے دیدار ہوتا تھا (ملاحظہ ہو) کتاب علمی بہار ص ۱۶۔ ۲۰۔
عائشہ بیگم کے حق میں حضرتِ قائم (علی اللہ) کا ایک بہت بڑا معجزہ ہوا تھا، اب تک میں نے اس کی تاویل کو تو بیان کیا لیکن شخص کا نام نہیں بتایا، خوفِ بے جا لاحق ہوا تھا، اب میں اس امانت کو ادا کرنا چاہتا ہوں، کہ میں یارقند میں تھا اور میری اہلیہ عائشہ بیگم ہونزا میں تھی حضرتِ قائم علینا سلامہ کے نورانی معجزات جاری تھے، ایک دن ہمارے خداوند (علی اللہ) نے عائشہ بیگم کی نیک بخت روح کو اور نیک بخت مومنات کے ایک بڑے گروپ کا روحاً ملا کر ایک فرشتہ بنایا اور وہ فرشتہ کہہ رہا تھا: تھلا تھلا تھلا نی، تھلا تھلا تھلا ژو۔ یہ الہام حضرتِ خداوند کے حکم سے تھا، اس لئے یہ ایک تاویلی کلیہ بن گیا۔ (کتاب علمی بہار ص ۱۶ ۔ ۲۳ ملاحظہ ہو)
نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
۲۸ مئی ۲۰۰۴ء
۱۵
شبِ قدر اور ایک وفات
۱۔ شبِ قدر کی تنزیلی و تاویلی دُہری اہمیت و فضیلت ہے، کیونکہ وہ ظاہر میں ماہِ رمضان کی سب سے افضل رات ہے، جو ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے، اور باطن میں حجتِ قائم (علینا منہ السلام) ہے، جس میں صاحبِ قیامت اور جملہ اسرارِ قیامت پوشیدہ ہیں، چنانچہ جس کو حجتِ قائم (ع۔م۔س) کی معرفت حاصل ہو جائے، اس کو حضرتِ قائم اور قیامت کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اور گنجِ اسرارِ مخفی اسی بندۂ مومن کے نام پر یا ایسے مومنین و مومنات کے نام پر ہو جاتا ہے۔
۲۔ آپ تمام عزیزوں کے لئے از حد ضروری ہے کہ سورۂ قدر (۹۷:۱۔۵) کو بغور بار بار پڑھیں، اور اس کی تاویل کتابِ ’’وجہِ دین‘‘ میں دیکھیں، خاص کر گفتار سی و سوم (۳۳) میں، جس کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ قائم القیامت (ع۔س) کی شناخت نہیں ہو سکتی ہے، مگر پانچ حدود کے توسط سے، جیسے اساس، امام، باب، حجت، اور داعی۔
۳۔ خدا کے بارے میں ہمیشہ حسنِ ظن سے کام لینا بہت بڑی دانشمندی ہے، چنانچہ ہم یہ کہیں گے کہ: عائشہ بیگم (علامہ نصیر الدین کی اہلیہ) پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہوئی کہ عرصۂ دراز تک بیماری کی بندگی، ریاضت اور آزمائش کے بعد دار الفنا سے دار البقا کی طرف اٹھا لی گئیں، زہے نصیب کہ اس نیک بخت کی وفات یومِ شنبہ ۲۳ رمضان المبارک (۱۴۱۴ھ) ، ۵ مارچ (۱۹۹۴ء) کو ہوئی، جبکہ تدفین کے چند گھنٹے بعد آفتابِ عالمتاب لیلۃ القدر کی مبارک رات کے لئے غروب ہوا، اور یہ بڑا
۱۶
عجیب حسنِ اتفاق یا پرحکمت موت کا پروگرام تھا کہ شبِ قدر کی تاویل ہے، حجتِ قائم، اور سنیچر کی تاویل ہے، حضرتِ قائم (ع۔س) اور اس کا اشارہ یقیناً یہی ہے کہ ان کے گھر میں حجت اور قائم (ع۔س) کی شناخت ہے۔
۴۔ محترمہ عائشہ بیگم (مرحومہ) کا پدری نسب اس طرح ہے: عائشہ بیگم بنتِ اسد اللہ بیگ (عرف بلبل) ابنِ محمد رضا بیگ (فراج) ابنِ وزیر اسد اللہ بیگ ابنِ وزیر پونو، اور مادری شجرہ یہ ہے: عائشہ بیگم بنتِ تائفہ بانو بنتِ ترنگفہ سلطان محمود ابنِ غلامو ابنِ سلطان بیگ ابنِ خوش بیگ ابنِ جٹوری۔
۵۔ عائشہ بیگم کی پیدائش کا سال ۱۹۲۲ء ہے، تقریباً سات سال کی عمر میں وہ میرے نکاح میں لائی گئی تھیں، اور میں شاید اس وقت بارہ برس کا لڑکا تھا، بڑی عجیب بات ہے کہ ایسی نو عمری میں یہ شادی ہوئی، اس کی وجہ البتہ یہی ہے کہ میرے والدین کسی اچھے خاندان سے اپنی بہو کا انتخاب کرنا چاہتے تھے۔
۶۔ میری رفیقۂ حیات عائشہ بیگم (مرحومہ) ہونزا کی ان عالی ہمت خواتین میں سے تھیں، جو جذبۂ جان نثاری اور کامل وفاداری سے لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈالتی ہیں، جبکہ ان کے شوہر عرصۂ دراز تک وطن سے دور کہیں ہوتے ہیں، ہونزا میں اس کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں۔
۷۔ میں نے اس واقعہ کو بہت غور سے سنا ہے، اور میں تصدیق کرتا ہوں کہ عائشہ بیگم کو کبھی کبھی نورانی خواب میں ایک باجلالت و باکرامت بزرگ کا دیدار ہوا کرتا تھا، میری تحقیق کے مطابق وہ نورِ امامت کی ایک تجلی ہوا کرتی تھی، لیکن میں اس معجزے کی بہت کم تعریف کرتا تھا، تا کہ بیگم غرور کا شکار نہ ہو جائیں، ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں یارقند (چین) میں تھا کہ عائشہ بیگم میرے متعلق لوگوں کی باتوں سے بہت
۱۷
مغموم ہو رہی تھی، اندران حال انہوں نے خواب میں اپنے بزرگ کو دیکھا، جو فرما رہے تھے: ’’بیٹی! تم ہرگز غمگین اور مایوس مت ہو جاؤ، میرا بیٹا میرے دامنِ اقدس کے نیچے محفوظ و سلامت ہے، اور وہ آج سے تین مہینے کے بعد آنے والا ہے، تم کسی غریب عورت کو تین روز اپنا کھانا دینا‘‘۔ انہوں نے بزرگ کی ہدایت پر عمل کیا، اور یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔
۸۔ عائشہ بیگم نے زمانۂ غریبی کو دیکھ لیا تھا، اس لئے جب ہماری مالی حالت کچھ بہتر ہوئی تو آپ اپنی عادت کے مطابق گاہ و بے گاہ سخاوت کا مظاہرہ کرتی تھیں، یہاں تک کہ بعض دفعہ گھر کے استعمال کی کوئی ضروری چیز بھی کسی حاجت مند کو دینے سے دریغ نہیں کرتیں۔
۹۔ مرحومہ بڑی حد تک مذہبی ہونے کی وجہ سے جماعت خانہ اور روحانی مجلس کی شیدائی اور امامِ عالی مقام علیہ السلام کی منظومہ تعریف سننے کی دلدادہ تھیں، ان کے دل کو جوان سال فرزند (ایثار علی) کی اچانک موت نے مجروح اور بہت نرم بنا دیا تھا، بنا برین ذکر و مناجات کی محفل میں ان کی بہت گریہ و زاری ہوا کرتی تھی، بے شک دلِ مجروح کی مناجات حضرتِ قاضی الحاجات کو پسند آتی ہے، اور ہر مصیبت میں رجوع الی اللہ کی یہی حکمت و مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔
۱۰۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہر نیک عورت اپنے بچوں سے بہت زیادہ مادرانہ محبت رکھتی ہے، اسی طرح عائشہ بیگم اپنی ہر اولاد کو جانِ عزیز سے بھی زیادہ عزیز رکھتی تھیں، لیکن تعجب اس چیز میں ہے کہ وہ سیف سلمان خان کو بھی بڑی شدت سے چاہتی تھیں، ان کا سچے دل سے یہ کہنا تھا کہ آپ بے شک خدا کے دوست ہیں، لہٰذا یہ اسی کی توفیق اور حکمت تھی کہ آپ نے یارقند کی سخت مسافرت اور محبوس زندگی
۱۸
میں دوسری شادی کا سہارا لیا، جس کا میوۂ شیرین آج ہمارے لئے ایثار علی کی جگہ پر سیف سلمان خان ہے، اور ہر وقت ان کا یہی اصرار ہوتا تھا کہ سلمان کو یہاں لائیں، چنانچہ خوش بختی سے گزشتہ سال سلمان مختصر وقت کے لئے پاکستان آیا، اور اس نے اپنی بیمار ماں کی پہلی اور آخری ملاقات کر لی، اور اس کو اس ادھوری خوشی سے زیادہ افسوس ہوا۔
۱۱۔ اب میں اجتماعی مفاد سے متعلق کوئی بات کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں ایسی رسمِ چراغ روشن کے حامیوں میں سے ہوں، جو سادہ، اور کم خرچ پر مبنی ہو، لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ ساتویں دن کی رسم کا پس منظر کیا ہے، اس لئے میں نے عائشہ بیگم کی وفات کے یومِ ہفتم (تھلے کد) کے اخراجات کو صدقۂ جاریہ کے طور پر پاک جماعت خانہ میں پیش کیا، اور امید ہے کہ (ان شاء اللہ) آئندہ ہوشمند لوگ ایسا ہی عمل کریں گے، موکھی صاحب نے اس مثالی کام کو بڑی فراخدلی سے سراہا، اور بہت ساری عمدہ دعائیں دیں، یہ مبارک دعائیں دراصل حضرتِ مولا کی تھیں، جو نامدار موکھی کی پاکیزہ زبان سے ادا ہوئیں، الحمد للہ۔
۱۲۔ مجھے پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ ہونزا وغیرہ سے بہت سے لوگ فاتحہ خوانی اور اظہارِ ہمدردی کے لئے گاڑیوں پر گلگت آئیں گے، جس کی وجہ سے جماعت یا قوم کے ہزاروں روپے خرچ ہوں گے، اور بالکل ایسا ہی ہوا، حالانکہ میں نے اعلان کیا تھا کہ ہم نے اس رسم کو محدود کرنا ہے، اس لئے دور سے لوگ نہ آئیں، میں نے علی آباد کے بعض اکابرین سے گزارش کی کہ اگر آپ حضرات گلگت آنے جانے کا ٹوٹل کرایہ کسی جماعتی کام میں خرچ کرتے، اور مجھے صرف ایک چھوٹا سا تعزیت نامہ لکھتے، تو بہت اچھی بات ہوتی، میں نے مزید عرض کی کہ آپ جماعت کو آئندہ کے لئے سمجھائیں کہ وہ بڑی تعداد میں دور دور تک فاتحہ خوانی کی غرض سے نہ جایا کریں (ہر قسم کی دعا اور فاتحہ
۱۹
خوانی کی بہترین جگہ خدا کا گھر ہے) وہ دانا تھے، اس لئے یہ باتیں ان کو پسند آئیں۔
۱۳۔ انہی مجالس میں وقت کے موضوع پر بھی گفتگو ہوئی کہ وقت کیا ہے؟ وقت عمرِ عزیز کے ایک حصے کا نام ہے، اگر فرد کی زندگی انمول ہے تو قوم کی زندگی اس سے کہیں زیادہ انمول ہے، لہٰذا اجتماعی زندگی کے قیمتی ٹکڑوں (یعنی اوقات) کو غیر ضروری کاموں میں صرف نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ خرچ شدہ دولت مل سکتی ہے، لیکن صرف شدہ زندگانی واپس نہیں آ سکتی۔
۱۴۔ میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ شمالی علاقہ جات میں ایصالِ ثواب کی یہ رسم بہت اچھی ہے، لیکن یہ کہاں کی ہمدردی ہے کہ غمزدہ خاندان کو ذرا بھی آرام کی اجازت نہیں ہے، صبح سے لے کر شام تک باادب اور ہوشیار بیٹھنا ضروری ہے، کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ دن کے تقریباً دو بجے تک لوگ آیا جایا کریں؟ ورنہ غمگین لوگوں کو حسبِ دستور تکلیف ہوتی رہتی ہے، پھر علم و ترقی اور ڈاکٹروں کے مشوروں کا کیا فائدہ، الغرض بعض روایات میں سوچ سمجھ کر ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔
۱۵۔ اس بندۂ عاجز نے ہونزا ریجنل کونسل کے صدر جناب ڈاکٹر اسلم صاحب کی خدمت میں ایک بہت اہم مسئلہ پیش کیا تھا، اب میں وہ دوسرے الفاظ میں عرض کرتا ہوں کہ ’’مومن آباد‘‘ کے نام کا مشورہ میں نے ہی دیا تھا، اور بفضلِ خدا وہ کامیاب ہو گیا، کیونکہ وہ ہمارے بہت ہی عزیز، روحانی بھائی، جو مومن آباد میں رہتے ہیں، بڑے راسخ العقیدہ مومنین ہیں، لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ ان کے ایمان اور اخلاص کی قدردانی نہیں کی جاتی ہے، کیا وہ اور ہم سب ایک ہی امام علیہ السلام کی روحانی اولاد نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ان کو ’’برادری اور برابری‘‘ کے حقوق کیوں حاصل نہیں ہیں؟ میں ان کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ پرامن طریقے سے نامدار کونسل سے
۲۰
رجوع کریں، شاید اصلاحِ احوال کے لئے وقت لگے گا لیکن مسئلہ ان شاء اللہ حل ہو جائے گا۔
۱۶۔ خداوندِ قدوس کا شکر ہے کہ دعا کی غرض سے آئی ہوئی ہر جماعت کے سامنے علم کا کوئی نہ کوئی مناسب نکتہ بیان کیا، اور مجموعی طور پر البتہ علم و حکمت کی کافی باتیں ہوئیں، اس کے علاوہ بہت سے مومنین و مومنات کی پرخلوص دعاؤں کی سعادت و برکت بھی حاصل ہوئی، میں آخراً ان تمام افرادِ مومنین و مومنات کا قلبی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے عائشہ بیگم کی طویل علالت کے دوران بے مثال خدمات انجام دی ہیں، میں ان خواتین و حضرات کے حق میں عاجزانہ دعا کرتا ہوں جنہوں نے اس خدمت، عیادت اور تعزیت میں حصہ لیا، کہ رب العزت ان کو دین و دنیا کی لامحدود حسنات سے مالا مال فرمائے! آمین!! (بحوالۂ کتابِ علمی بہار، ص ۱۶ تا ۲۳)۔
نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
کراچی
جمعرات ۴ شوال ۱۴۱۴ھ، ۱۷ مارچ ۱۹۹۴ء
۲۱
فدائے مک کے یاسمین ۔ می اوشمکد
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
ان دونوں عزیزوں نے میری بہت ہی عزیز پڑپوتی درِ علوی امین الدین کو بطورِ بیٹی گود میں لیا ہے، ہم تھم (راجہ) نہیں کہ قطعۂ زمین کا انعام دیتے، صرف دعا دی اور ان شاء اللہ درویشانہ دعائیں کرتے رہیں گے، اور علمی خدمت میں ان سے تعاون حاصل کیا، جس کا انعام ان کو اللہ کے حضور سے ملے گا۔ ایثار نامہ کے تیسرے ایڈیشن میں ان دونوں عزیزان نے ٹائپنگ کی خدمات انجام دی ہیں۔
تاریخِ عہدِ عتیقِ ریاستِ ہونزا، ص ۶۵ کے شجرہ کے مطابق جبلِ ایمان، جبلِ قوم، فاتحِ ایورسٹ، ستارۂ امتیاز جناب نذیر صابر صاحب، غلام قادر بیگ مومنِ عالی ہمت، میں، فدائے مک، اور یاسمین درم دلتس نامی شخص کی نسل میں سے ہیں، یعنی میری ایک دادی جو بشوکد کی بیٹی تھی وہاں میری نمائندگی کر رہی ہے۔
نصیر الدین نصیر (حبِ علی) ہونزائی (ایس۔ آئی)
بدھ ۳۰ جون ۲۰۰۴ء
۲۲
این سعادت بزورِ بازو نیست
ہدیۂ عقیدت و احترام
از: فدا علی سلمان البدخشانی
انسان فطری خصائص کا ایک سمند ہے اس سمندر میں اوصاف کے ان گنت انمول موتی پنہان ہیں جب تک حوادث کا کوئی طوفان اس سمندر میں تلاطم پیدا نہیں کرتا ان بے بہا موتیوں پر نظر نہیں جاتی۔ غالباً صدمۂ مرگ اور وہ بھی مرگِ جوانی طوفانِ حوادث میں قہرمان ترین صدمہ ہے اور انسانی اوصاف کے موتیوں میں ہمدری اور غم گساری کا وصف سرِ فہرست ہے جو ورود و اظہار کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہو کر رہ گئے ہیں، مگر کبھی کبھی یہ تلازم کچھ اس انداز میں سامنے آتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ ایسے مواقع دراصل متاثر شخصیت کی عظمتِ ذاتی اور معاشرے میں اس کی اعلیٰ قدر و منزلت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ رشد و موعظت کا بھی ایک عظیم ذریعہ بن جاتے ہیں۔
عزیز مرحوم ایثار علی کی انتہائی جانکاہ حادثاتی جوانامرگی بھی ایک ایسا ہی صدمہ ہے جس نے دور و نزدیک کے تمام احباب، اعزا اور افرادِ جماعت کو جہاں ایک طرف متاثر کیا ہے وہاں دوسری طرف مرحوم کے عظیم والدِ بزرگوار جناب علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کی عظمت و بزرگی کو بھی جو شروع سے صرف حلقۂ احباب و ارادت مندان میں ہی نہیں بلکہ محافلِ اغیار میں بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں
۲۳
’’نور علیٰ نور‘‘ کر دیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک اور خاص پہلو ہمارے سامنے آیا ہے کہ معمولاتِ عالم کے خلاف جس کے بارے میں زبان زدِ خاص و عام ہے کہ:
مصیبت کی گھڑی میں کون کس کے کام آتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا انسان بے رہتا ہے
آزمائش کی اس گھڑی میں پوری قوم نے مجموعی طور پر علامۂ موصوف کی ذات سے اپنی جس وابستگی کا اظہار کیا ہے اور ہمدردی کے جن انمول موتیوں کو بے دریغ نچھاور کیا ہے اسے موصوف کے کمالِ عظمت اور نیک بختی کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس ذیل میں تاروں اور خطوط کے ایک بڑے انبار میں سے چند اقتباسات نمونتاً درج کئے جاتے ہیں۔
۱۔ مجھے آپ کے فرزند کے سانحۂ ارتحال کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صبرِ جمیل عنایت فرمائے!
میر آف ہونزا (تار)
۲۔ مجھے آپ کے فرزند کی حادثاتی موت کا سخت صدمہ ہوا۔ دلی تعزیت قبول کیجئے۔ مولا مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے!
وزیر غلام حیدر بندے علی کراچی (تار)
۳۔ آپ کے فرزند کی موت پر تمام جماعت غم و اندوہ کے ساتھ اظہارِ تعزیت اور مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہے۔
اسماعیلیہ کونسل سکردو (تار)
۲۴
۴۔ عزیز ایثار علی کی شہادت کا سن کر سخت صدمہ ہوا۔ ہم سب کو مرحوم سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں یہ ہم سب کا غم ہے۔ تعزیت قبول کیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو یہ صدمہ سہنے کی قوت اور مرحوم کو جوارِ رحمت مرحمت فرمائے!
جملہ جماعتِ مسگر (تار)
۵۔ مجھے جان کر انتہائی صدمہ ہوا کہ حالیہ ہوائی حادثے کے المیے کا شکار ہونے والوں میں آپ کے جوان سال عزیز فرزند بھی شامل تھے۔
ہم سب کو راضی بہ رضائے مولا ہونا ہی پڑتا ہے۔ مولا پاک مرحوم کی روح کو دائمی سکون اور آپ کو بمعہ متعلقین اس ناقابلِ تلافی نقصان کو جھیلنے کی سکت بخشے! آمین!
وزیر کیپٹن امیر علی کریم ابراہیم
اسٹیٹ ایجنٹ مولانا حاضر امام
کراچی (مراسلہ)
۶۔ مجھے جمعہ ۸ دسمبر ۱۹۷۲ء کو آپ کے فرزندِ عزیز کے المناک حادثاتی سانحۂ ارتحال کا جان کر سخت صدمہ ہوا۔ جس کے لئے ہماری دلی تعزیت قبول فرمائیں۔
آپ ایک نور رسیدہ شخص ہیں مجھے امید ہے کہ آپ راضی بہ رضائے مولا کو اپنا شعار بنائیں گے۔ ہم سب یہاں پر مولانا حاضر امام کے حضور دست بہ دعا ہیں کہ مولا مرحوم کی روح کو دائمی سکون اور آپ کو یہ عظیم نقصان سہنے کی طاقت و ہمت عطا
۲۵
فرمائے! مجھے امید ہے کہ آپ کو ہمارا ۱۱ ماہِ روان والا تار ملا ہو گا۔
فقط
یا علی مدد
قاسم علی ایم جے
پریذیڈنٹ اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان۔ کراچی (مراسلہ)
۷۔ آپ کو معلوم ہے کہ کراچی میں مجھے والد صاحب کی وفات کی خبر ملی اس سے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ سعادت خان جدا ہوا۔ مگر کیا کریں۔ کہاں جائیں۔ کس کو سنائیں، چارہ نہیں۔ علاج نہیں۔ اجل معین ہے۔ تقدیر کے قاضی کا فیصلہ اٹل ہے۔ تسلیم و رضا آخری حل ہے۔ دل تھام کے کہنا پڑتا ہے مرضیٔ مولا از ہمہ اولیٰ۔
زندگی انسان کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا کوئی دم چہچہایا اڑ گیا
کیپٹن میر باز خان (اقتباس از مراسلہ)
۸۔ اصحابِ علم و دانش جن کو فلسفۂ زندگی سے کافی حد تک شناسائی ہے اس زندگیٔ ناپائدار پر کم اعتماد رکھتے ہیں اور ہر حالت میں کل شیء ہالک الا وجھہ (۲۸:۸۸) کے ارشادِ ربانی پر لبیک کہتے ہیں۔ گویا زخم ناقابلِ اندمال ہے اور یہ عظیم نقصان ناقابلِ تلافی، مگر سوائے صبر کے اور کوئی چارۂ کار باقی نہیں۔
محبوب علی کراچی (اقتباس از مراسلہ)
۲۶
۹۔ مرحوم عزیزم شادی شدہ تھا اور اس کے بچوں کی پرورش و کفالت بھی اب آپ کے کندھوں پر آن پڑی ہے۔ ان مصائب و آلام کوبرداشت کرنے کی مولا پاک آپ کو ہمت و استقامت عطا فرمائے! (آمین!)
تمام جماعتِ اسماعیلیۂ لائل پور (پنجاب) آپ کو بصد خلوص ہدیۂ تعزیت پیش کرتی ہےاور بارگاہِ رب العزت میں دست بہ دعا ہے کہ الہ العالمین مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور نورانی دیدار سے بہرہ ور فرمائے!
الواعظ عزیز علی فدائی لائل پور
(اقتباس از مراسلہ)
۱۰۔ اس اندوہناک حادثے نے ہمارے ہوش و حواس اڑا دئے ہیں اور اظہارِ ہمدردی اور قلبی کیفیت واضح کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں اگر ہوتے بھی تو ہم انہیں آپ کے پاس کیسے ادا کرتے کیونکہ آپ مصائب و آلام و ہمارے لئے ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے دکھ سکھ کی گتھیاں آپ کے علم و عقل سے کھلتی ہیں۔ ہاں البتہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ آپ ابتلا کی کٹھن گھڑی میں ہمارے لئے صبر و شکر کا ایک اچھا معیار قائم کریں گے۔
(ہونزا کی مختلف جماعتوں اور کونسلات کے مراسلات سے اقتباس)
۱۱۔ آپ کے عزیز فرزند کی حادثاتی موت سے بہت دکھ پہنچا۔ یقین کیجئے اس آزمائش میں آپ تنہا نہیں ہیں ہم سب کے دل آپ کے ساتھ ہیں اگرچہ فاصلوں کے لحاظ سے ہم دور ہیں۔
(چند انفرادی مراسلات کا مجموعی تاثر)
۲۷
۱۲۔ دنیا دین سے وابستہ ہے آپ ایک عالمِ دین اور صاحبِ معرفت شخص ہیں ہم نے دینی شعور آپ ہی سے سیکھا ہے اور نیک و بد کی تمیز بھی۔ ایسے کڑے وقت کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے اس کے بہترین مظاہرے کی ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں۔ ہم دلی اور روحانی طور پر آپ کے ساتھ شریکِ غم ہیں۔
(چند انفرادی خطوط کا مجموعی تاثر)
میں ذاتی طور پر علامہ صاحب کے مداحوں میں سے ہوں۔ جس وقت ہوائی حادثے کی خبر یہاں موصول ہوئی اور پھر جس وقت شہید ایثار علی کا جسدِ خاکی یہاں پہنچا ایک قیامت کا سماں تھا۔ میں تو یہی سمجھ رہا ہوں کہ جن راہوں سے جنازہ گزرا ہے پتھر بھی رو پڑے ہوں گے، مگر آفرین ہے اس مردِ جلیل کے صبر و استقامت پر۔ کیا مجال ہے جو ذرا کمزوری دکھائی ہو، تمام پروگراموں میں برابر شریک ہوتے رہے، نہ صرف یہی بلکہ عقیدت مندوں، احباب اور اعزا میں سے جو لوگ غم سے مغلوب ہوئے بزرگوارِ موصوف نے بطورِ پند ہر ایک کو حوصلہ دیا۔ اور صبر و شکر کی تلقین کرتے رہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ وابستگان، عقیدتمندان اور احباب نے جس والہانہ انداز میں اپنی وابستگی، عقیدتمندی اور محبت کا اظہار کیا ہے، وہ انہی کا حق ہے اور انہی کا حصہ۔
میری دعا ہے کہ مولائے کائنات متاثر خاندان کو ظاہری و باطنی عنایات سے نوازے اور تلافیٔ نقصان میں جسمانی و روحانی نعم البدل عطا فرمائے!
الشریک فی الغم و الداعی للنعم
فدا علی سلمان البدخشانی
۲۸
سخنہائے گفتنی
۱۔ مومنین میں سے جو افراد مشیتِ ایزدی کی لاتعداد حکمتوں کا یقین رکھتے ہیں، وہ البتہ دنیا کی کسی بھی بڑی مصیبت سے واویلا اور جزع و فزع نہیں کرتے۔
۲۔ مومن کی زندگی فی الواقع دہری ہے، یعنی ایک تو چھلکے کی طرح ظاہر ہے اور دوسری مغز کی طرح باطن، اب اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے کسی انسان کو باطن منظور ہو چکا ہے تو اس کے لئے چھلکے کو چھوڑنا اور ظاہر سے گزرنا پڑے گا، پھر اس پر کسی عزیز کو کوئی شکایت نہ ہونی چاہئے۔
۳۔ ہر انسان کی زندگی ہی میں کوئی نہ کوئی کارنامہ ہوا کرتا ہے، مگر اس عام اصول کے برعکس میرے عزیز فرزند ایثار علی کا ایک بڑا کارنامہ اس کی ناگہانی موت کے مکمل ہوا ہے، مثلاً ایک ایسے مردِ درویش کو اپنے عزیز بیٹے کی حادثاتی موت کے ابتلا و امتحان میں رکھنا جو صبح و شام کی عاجزانہ دعاؤں میں دوسرے مقاصد کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتا تھا کہ اس پر کوئی ایسا امتحان نہ آئے، سارے خاندان بلکہ پوری قوم کو خون کے آنسو رلانا، چند قیمتی جانوں کی اتفاقیہ موت سے اتفاق کر کے چہ ہونزا و چہ گلگت اور پاکستان بلکہ پوری دنیا کو یکبارگی ہمدرد بنا لینا، اور مردِ درویش کی اس مصیبت کے بارے میں بعض معتقدین کا پوشیدہ تعجب کہ جہاں خوفِ خدا سے ہمیشہ گریہ و زاری ہوتی رہتی ہے، وہاں بھی خدا کا امتحان آ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ اس درویش کے ہر قول و فعل کی طرف جماعت اور قوم کا متوجہ ہونا کہ اب دیکھیں کہ وہ عین مصیبت کے وقت کیا کرتا ہے، صبر و شکر کا مظاہرہ کر رہا
۲۹
ہے یا خود بے صبری اور نا شکری کا نمونہ بن رہا ہے، یہ تمام باتیں میرے عزیز بیٹے کی موت سے پیدا ہوئی ہیں، اس لئے میں ایثار علی کی موت کو اس کے حق میں قدرتی کارنامہ قرار دیتا ہوں۔
۴۔ میں ایک مصیبت زدہ باپ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک درویش بھی ہوں، ان دونوں صورتوں کے نتیجے میں میرے دل کے اندر جیسی جیسی عجیب و غریب کیفیات واقع ہوئی ہیں، وہ میں نے تعزیت کے جوابی خطوط میں بالکل صحیح طور پر ظاہر کر دی ہیں، پھر ان جوابی خطوط کو کتابی صورت دی گئی ہے، تا کہ ایک طرف سے تو یہ کتاب مسلمین و مومنین کے لئے پند و نصیحت کا ایک ذریعہ بن کر موجبِ ثواب ہو اور دوسری طرف سے اس پیاری روح کی یادگار باقی رہے جو پیارے ایثار علی کے نام سے میرے غریب خانے میں رہ چکی ہے۔
۵۔ یہ بات تقریباً سب جانتے ہیں کہ اولاد کی محبت ایک فطری امر اور ایک پیدائشی حقیقت ہے، اور ایک جوان بیٹے کی ناگہانی موت انسان کے لئے سب سے بڑا صدمہ ہے، لیکن انسان کیا کر سکتا ہے، کیا وہ قانونِ قدرت کے خلاف احتجاج کر سکتا ہے؟ کیا وہ خدا کے امتحان سے راہِ فرار اختیار کر سکتا ہے؟ نہیں نہیں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا، اس لئے بہتر تو یہی ہے کہ صبر و شکر جیسا کہ حق ہے اختیار کیا جائے تا کہ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور دونوں جہان میں رحمتِ خداوندی شاملِ حال رہے۔
۶۔ جماعت اور مسلم برادری کی طرف سے جو گہری ہمدردی مجھ سے کی گئی ہے، میرے خیال میں اس کی کوئی مثال نہیں اور جس خلوص اور دلسوزی سے دور و نزدیک کے عوام و خواص نے مجھے تعزیت دی ہے، اس کا تذکرہ کرنا میرے بس کی
۳۰
بات نہیں، اور تعزیت نامے اس قدر زیادہ موصول ہوئے کہ میں ان سب کو اس کتاب میں درج نہیں کر سکتا تھا، لہٰذا میں نے کوشش کی صرف ان کے مختصر جوابات شائع کئے جائیں، پھر بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید کچھ خطوط مجھے نہ مل سکے، لہٰذا ان کا جواب میرے لئے ناممکن تھا، نیز بعض خطوط اس کتاب کے مکمل ہو جانے کے بعد موصول ہوئے تھے۔
۷۔ اب مجھ پر واجب ہے کہ میں پھر ایک بار ان تمام حضرات کا قلبی طور پر شکریہ ادا کروں، جنہوں نے جلکوٹ کے جنگل میں میرے عزیز بیٹے کی لاپتا لاش کی تلاش کی، اسے یہاں لا کر سپردِ خاک کر دیا، مجھے اور تمام خاندان کو سہارا دیا اور سنبھالا، انہوں نے مجموعی طور پر اپنے قیمتی وقت سے ہزاروں گھنٹے ہماری تعزیت کی خاطر صرف کر دئے، مگر افسوس کہ ان میں سے بعض چیزیں حد سے بڑھ جانے کی صورت میں بت پرستی بن جاتی ہیں، میں نے اس سلسلے میں چند ایسی چیزیں بھی محسوس کی ہیں جو مذہبی نقطۂ نظر سے ناپسندیدہ اور مکروہ بلکہ بت پرستی ہیں، اگر میں یہاں ان کے تذکرہ سے گریز کروں تو نصیحت کی امانت میں خیانت ہو گی، وہ چیزیں یہ ہیں:
الف۔ بعض سادہ لوح مردوں اور خصوصاً عورتوں کا زار زار رونا اور آہ و فغان کرنا اور مردے کی تعریف و توصیف بیان کرنا، ب۔ دور دراز علاقوں سے تعزیت کے لئے آنا، ج۔ وقت گزر جانے کے بعد عرصۂ دراز تک تعزیت دیتے رہنا، د۔ زخم پر نمک پاشی کرنا یعنی لواحقین کے پاس بار بار متوفی کا تذکرہ کرنا، ہ۔ موت کی ناجائز رسومات کو جاری رکھنا اور اس سلسلے کی فضول خرچی یعنی وقت یا پیشہ بے جا طور پر استعمال کرنا۔
اب مجھے اخیر میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جن کو مجھ سے ہر قسم
۳۱
کی جسمانی ہمدردی کے علاوہ علمی تعاون بھی ہے، ان میں سے جناب پروفیسر فقیر محمد صاحب بی۔ اے (آنرز) ایم۔ اے (فلسفہ) ایم۔ اے (عربی) ایم۔ اے (فارسی) ڈبلیوم (جرمن) سرِ فہرست ہیں، جن کے گوناگون احسانات کو میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا، ان کی رفاقت سے میرے حوصلے بلند ہوئے ہیں، ان کی دوستی سے میری روح کو قوت ملی ہے، ان کی علمی تصدیق سے میری دور اندیشی کا ثبوت ملا ہے، آپ کی مایہ ناز شخصیت قوم کے لئے محنت و جفا کشی اور پھر کامیابی کا عملی نمونہ ہے، آپ کی ایمانی ذات خود شرافت و اصالت کی بہترین مثال ہے، آپ تحریر و تقریر دونوں میدان کے شہسوار ہیں، الحمد للہ علی احسانہ کہ یہ سب کچھ اسی حقیقی مالک کی مہربانی سے ایسا ہے تا کہ قوم اورجماعت زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ سکے۔ پس میں صاحبِ موصوف کا بطریقِ اخص شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کا ایک ایسا جامع اور دلکش دیباچہ تحریر فرمایا ہے کہ اس میں کتاب ’’ایثار نامہ‘‘ کے جملہ مطالب یکجا و واضح ہو چکے ہیں۔
پھر میں جناب فدا علی سلمان صاحب گوہر افشان کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی انوکھی اور بے مثال قابلیت اور جذبۂ اخوت سے میری مصیبت کے دوران نہ صرف جوابی خطوط میں میری معاونت فرمائی ہے بلکہ انہوں نے تمام تعزیت ناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک پرمایہ پیش لفظ بھی لکھا ہے جس کی بدولت اس کتاب کی قدر و منزلت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
فدا علی سلمان صاحب کی علمی مرتبت کی مثال ایک ایسے گنجگاہ کی طرح ہے جس کے متعلق لوگوں کو کوئی گمان نہیں کہ وہاں ایک گرانقدر خزانہ چھپا ہوا ہے، مگر ایسا خزانہ بھی ہمیشہ کے لئے مخفی نہیں رہ سکتا، وہ ایک نہ ایک دن ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔
۳۲
میں اپنے پگھلے ہوئے دل میں یہ دعا کرتا ہوں کہ یا الٰہ العالمین ان دونوں صاحبانِ علم و ادب کو اور دوسرے تمام ہمدرد حضرات کو علم و ہنر کے فیوض و برکات عطا فرمائے اور انہیں دونوں جہان کی کامیابی اور رو سپیدی عنایت کیجئے !!
آمین یا رب العالمین!!!
فقط
ذرۂ بے مقدار
نصیر ہونزائی
۳۳
گلگت
۱۳ دسمبر ۱۹۷۲ء
برادرانِ روحانی
جماعت ۱۔ حیدرآباد
۲۔ مرتضیٰ آباد
یا علی مدد!
میرے نوجوان فرزند کی ناگہانی اور اتفاقی موت اور اس ناقابلِ تلافی نقصان پر جس قدر خلوص اور دل کی گہرائیوں سے آپ سب نے ہمدردی کا اظہار کیا اور تعزیت کے متعدد پیغامات بھیجے ہیں اس کا میں تہِ دل سے شکر گزار ہوں۔ خداوندِ تعالیٰ کی شاید یہی مرضی تھی۔ اس کے حضور سرِ تسلیم خم ہے اور جیسا کہ آپ روحانی بھائیوں نے میرے لئے صبر و استقامت کی دعائیں مانگی ہیں مجھے یقین ہے کہ مولائے کریم آپ سب بھائیوں کی دعاؤں کے طفیل اس عظیم آزمائش میں مجھے ثابت قدم رکھے گا۔
ایک دفعہ پھر آپ سب روحانی بہن بھائیوں چھوٹے بڑے اور تمام خیرخواہوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میری عاجزانہ دعائیں ہیں کہ مولائے کریم تمام جماعت کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ظاہری و باطنی فیوض و برکات سے نوازے! (آمین!)
والسلام
آپ کا روحانی بھائی
نصیر ہونزائی
۳۴
گلگت
۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء
ملک جی!
سلام و دعائیں! واقعی انسانیت کا معیار غمخواری ہے، مبارک ہے وہ آدمی جو دوسروں کا درد محسوس کرتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کر و بیان
میرے عزیز لختِ جگر کی بے ہنگام مفارقت کا عظیم صدمہ اگر میں سہہ گیا ہوں تو محض اس برتے پر کہ آپ جیسے غم گسار موجود ہیں حکیم خیام فرماتے ہیں:
بیگانہ اگر وفا کند خویش من ست
ور خویش جفا کند بد اندیش من ست
گر زہر موافقت کند تریاق ست
ور نوش مخالفت کند نیش من ست
ایک وہ تھا چوتھائی صدی پہلے کا معصوم بے بس بچہ! میرے جگر کا ٹکڑا، میرے جوان بازوؤں کے مضبوط حصار میں شدائدِ ایام سے محفوظ پلتا رہا اور آج جبکہ اسے میرے بڑھاپے کی لاٹھی بننا تھا تو عین ضعیفی کی عمیق کھائی کے کنارے مجھے ہکا بکا چھوڑ گیا، نہ آگے کو سوجھتا ہے اور نہ پیچھے مڑ سکتا ہوں، ایک آپ ہیں سینکڑوں میل دور ہوتے ہوئے بھی میرا درد بانٹ رہے ہیں اس کا صلہ میں کیا دے سکتا ہوں وہ دے
۳۵
دے جس کے در سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا! آمین!
خیام ہی نے فرمایا ہے:
مردانہ در آ ز خویش و پیوند ببر
خود را تو ز بندِ زن و فرزند ببر
ہر چیز کہ ہست سدِ را ہست ترا
با بند چگونہ رہ روی بند ببر
یہ دنیا اگر فانی ہے تو یہاں کی ہر چیز فانی ہے۔ آنی جانی چیزوں کا غم کرنا بے سود ہے اور لاحاصل۔ راہِ سلوک میں بڑے کڑے مقام آتے ہیں راستے میں آنے والے مقامات سے گزر کر ہی کوئی راہی منزلِ مقصود تک پہنچ سکتا ہے، یہ کیسے کہا جا سکتا کہ منزل بھی ملے اور راستہ بھی طے نہ کرنا پڑے۔ سپاہی کو میدانِ جنگ میں نہ بھیج کر جنگ جیتنے کی امید رکھنا دیوانے کا خواب ہے، ہاں البتہ ضروری اسلحہ مہیا کرنے سے نہ صرف جنگ جیتنے کی امید ہو سکتی ہے بلکہ یقین کی حد تک سپاہی کی حفاظت بھی ہو جاتی ہے۔ کیا حیاتِ انسانی خیر و شر کی جنگ نہیں ہے اس جنگ کو جیتنے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں یعنی صبر و شکر۔ میں نے انہی ہتھیاروں سے کام لینے کا فیصلہ کیا ہے آپ میرے لئے ثبات کی دعا کیجئے۔ مولا اجر دے گا۔
فقط
آپ کا خیر اندیش
نصیر ہونزائی
۳۶
جناب محترم شاہ زمان صاحب ڈورکھنڈ، ہونزا
یا علی مدد! اگرچہ یہ سانحہ آپ اور آپ کے خاندان کے لئے بلکہ ساری قوم اور جماعت کے لئے بہت ہی بڑا ہے، کہ اس جہاز کے حادثہ میں بیک وقت آپ کے چھ عزیز افراد جان بحق ہو گئے، امرِ الٰہی کے سامنے انسان کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے، پس بہتر یہی ہے کہ اب صبر و شکر کا راستہ اختیار کیا جائے اور اس آیۂ کریمہ کی حکمت پر عمل کیا جائے کہ: ’’قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ یعنی حقیقت میں ہم اپنی ذات کے لئے نہیں ہیں، بلکہ ہم اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہیں، وہ ہمیں جس طرح استعمال کرے، اسی میں حکمت اور بہتری ہے اور اسی سے ہم کو دنیا و آخرت میں حق تعالیٰ کی قربت و نزدیکی حاصل ہو سکتی ہے۔
خدا تعالیٰ کے قرب کے لئے قربانی کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ قربانی کا لفظ قرب سے نکلا ہے، اسی معنی میں قربانی ایک ایسی قیمتی چیز کو کہتے ہیں، جو خدا کی راہ میں اس کی قربت و نزدیکی کی غرض سے نکالی گئی ہو، چنانچہ اللہ تعالیٰ حقیقی مومنین سے دو قسم کی قربانی لیا کرتا ہے، ایک قربانی وہ ہے جو مومن سوچے سمجھے حال میں خدا کے حضور میں پیش کرتا ہے، دوسری قربانی وہ ہے، جو خدا تعالیٰ خود اپنی مرضی پر مومن سے لیا کرتا ہے، اگر اس دوسری قربانی کے لئے مومن صابر و شاکر رہے، تو یہ قربانی خدا کے نزدیک سب سے عظیم ہے۔
اس کے علاوہ اگر یہ حقیقت مان لی جائے، کہ روح کی لا انتہا زندگی کے مقابلے میں جسم کی دو روزہ زندگی نہ ہونے کے برابر ہے، ساتھ ہی ساتھ اگر اس بات پر بھی یقین رکھا جائے کہ مومن کے لئے دنیا میں رنج وغم کے سوا کچھ بھی نہیں اور آخرت میں اس کے لئے راحت ہی راحت ہے۔ پھر اس صورت میں ہمیں اس مختصر سی جسمانی زندگی
۳۷
کی ناگوار تلخیوں کو ضروری طور پر برداشت کرنا ہو گا۔
پس دعا ہے کہ خدائے علیم و حکیم اس حادثہ میں گزرے ہوئے مومنین کی ارواح کو شہیدانِ اسلام کا درجہ عنایت فرمائے! اور پس ماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق و ہمت عطا فرمائے ! آمین ثم آمین !!
فقط
آپ کا خیر اندیش
نصیر ہونزائی
۱۸ دسمبر ۱۹۷۲ء
۳۸
جنابِ محترم ماسٹر سلطان علی صاحب غلکنی
یا علی مدد! میں آپ اور آپ کے جملہ خاندان کا نیز موکھی علی شفا صاحب اور غلکن کی نیک نام جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں، کہ آپ صاحبان نے مجھے اس جان گداز مصیبت پر ایک صبر آموز اور حوصلہ بخش تعزیت نامہ لکھا ہے۔
آپ اس حقیقت سے باخبر ہیں، کہ یہ دنیا دارالفنا ہے دارالبقا نہیں، اور ہم میں سے ہر ایک کو کسی بھی وقت یہاں سے کوچ کر جانا ہے، لہٰذا ہمیں موت کی اس تلخ حقیقت کو گوارا کرنا ہو گا۔
ہم پس ماندگان میں سے عزیزم ایثار علی کی والدہ کے لئے اپنے فرزندِ جگر بند کی مفارقت ناقابلِ برداشت نظر آ رہی تھی، مگر ہم نے بفضلِ مولا صد ہا نصیحتوں سے اس بارِ غم کو ہلکا کر دیا ہے۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء
۳۹
اس حادثہ کے جملہ مصیبت زدہ خاندانوں کی خدمت میں
السلام علیکم! حضرات میں آپ سے معذرت خواہ ہوں کہ ان جوابی خطوط کی تیاری میں اب تک تماماً اپنی ہی مصیبت کا ذکر کرتے آیا ہوں، حالانکہ یہ میرا اسلامی اور انسانی فرض تھا کہ سب سے پہلے ان تمام قیمتی جانوں کی مجموعی موت کے بارے میں کچھ تحریر کرتا، جو یکایک اس حادثہ کا شکار ہو چکی ہیں۔
بہر حال مجھے اپنے درد کے قیاس پر آپ صاحبان کے درد کا بھی احساس ہے، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کہ ہم سب اپنے اس دردِ بے درمان کا کوئی دوسرا علاج نہیں کر سکتے، بجز آنکہ ہم صبر و شکر کا راستہ اختیار کریں، بے شک خلقِ اولین و آخرین میں یہی ایک نسخہ رہا ہے، جو مرضِ مصیبت میں نہایت ہی موثر ہے۔
صاحبان! آئیے ہم سب مل کر بارگاہِ ایزدی میں دعا و التجا کریں، کہ پروردگارِ عالم ہمارے ان عزیزوں کو، جو ہم سے جدا ہو کر عالمِ آخرت کو سدھارے ہیں، اپنے جوارِ رحمت میں مقام عنایت کرے! اور ہم سب پس ماندگان کو صبر و شکر اور عرفان و ایقان کی اعلیٰ توفیق و ہمت عطا کرے!! آمین ثم آمین!!!
فقط
نصیر ہونزائی
۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء
۴۰
جناب حاجی عزیز محمد خان صاحب راولپنڈی
یا علی مدد! آپ کے تعزیتی خط کا شکریہ! بے شک میرا عزیز فرزند آپ کو بھی بہت عزیز تھا، لیکن موت کے لئے کیا چارہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کی مصیبتوں کا آپ کو بھی خوب تجربہ ہے، اور کوئی انسان مصائب و آلام سے خالی نہیں، پس ہمیں اس قانونِ قدرت میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، بلکہ ایسے امتحانات کے وقت صبر و شکر کر کے روحانی طور پر فائدہ اٹھانا چاہئے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ اس مطلب کا تذکرہ موجود ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم یہ یقین کر سکتے ہیں، کہ جب ہم اس دنیا کی زندگی سے فارغ ہو جائیں گے، تو ہمیں روحانی عالم میں اپنے تمام عزیزوں کی ملاقات حاصل ہو گی، پھر ہم مایوسی میں کیوں روئیں۔
فقط
آپ کا روحانی بھائی
نصیر ہونزائی
۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء
۴۱
گلگت
۲۰ دسمبر ۱۹۸۲ء
عزیز الواعظ نظر شاہ صاحب گلمت
مولا آپ کو خوش رکھے! میرے عزیز فرزند کی حادثاتی موت پر آپ نے جس انداز سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے، میں اس سے آپ کی محبت کا اندازہ کر سکتا ہوں، ایک فقیر کے پاس محبت کے جواب میں دعا کے سوا اور کیا ہوتا ہے۔ سو میں دعا کرتا ہوں کہ مولا پاک آپ کو روحانی سکون عطا کرے!
جیسا کہ آپ نے آیتِ مبارکہ کا حوالہ دیا ہے، اگر ہمارا کوئی عزیز اپنے مرکز کی طرف لوٹتا ہے اور کامیاب لوٹتا ہے تو اس میں خوشی ہونی چاہئے نہ کہ رنج۔ آپ سب کو جو اس سانحہ کے وقت میری طرف نگران ہیں میرا پرخلوص مشورہ ہے کہ ایسے مواقع پر صبر و شکر اظہارِ عبودیت کا بہترین ذریعہ ہے، میں مولا کی مرضی پر راضی ہوں آپ میرے لئے استقامت کی دعا کیجئے، مولا پاک مجھ ناچیز کو اس عظیم نعمت کا اہل ہونے کی توفیق بخشے! مجھ فقیر کی دعا ہے کہ مولا پاک ہر درد مند دل کو حقیقی راحت عطا فرمائے!
فقط
دعا گو
نصیر ہونزائی
۴۲
گلگت
۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء
عزیزانِ محترم امیر گل صاحب و امیر احمد صاحب مسگر
آپ کا ہمدردیوں بھرا تار موصول ہوا۔ دلوں کی قربت فاصلوں کی دوری مٹا دیتی ہے یہ ایک امرِ واقعہ ہے۔ اس ابتلا کے وقت آپ جیسے احباب کی ہمدردیاں میرے صبر و تحمل کی گرتی دیوار کے لئے عظیم سہارا ہیں۔
خدا کی کمالِ مہربانی کا یہ بھی ایک عظیم اظہار ہے کہ قوموں پر آنے والی ابتلا کی خبر پہلے یا تو اجتماعی تکلیف کی صورت میں یا اس کے سرکردہ افراد پر ناگہانی آزمائشات کی شکل میں مل جایا کرتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ قومیں جو وقت اور حالات سے نصیحت پکڑتی ہیں۔ میں نے مختلف مواقع پر اپنی قوم کو آنے والے کڑے وقت سے خبردار کیا ہے۔ اب بھی میں یہی کہتا ہوں اے میری قوم ہوشیار! خبردار!! بندہ بہرحال بندہ ہے۔ مادی طمطراق اور خورد و نوش کی آسائشوں کی خاطر اپنا منشائے تخلیق مت بھولو۔ دیکھو ایک دن اچانک ہم میں سے ہر ایک کو موت کا کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ اے عزیزو! وہ وقت بہت ہی کٹھن ہے۔ مولا ہر مومن کو اس روز اپنے دامنِ عفو و کرم میں جگہ دے! آپ کی ہمدردیوں کے لئے بہت ہی شکر گزار ہوں۔
فقط
دعا گو
نصیر ہونزائی
۴۳
گلگت
۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء
عزیز بھائی موکھی غلام قادر صاحب حیدرآباد
فرزندِ عزیز ایثار علی کی حادثاتی موت پر آپ نے جن دلی جذباتِ ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے۔ اس پر میں آپ کا بہت ہی ممنون ہوں۔ اس خانۂ دودر میں جو آیا ہے اسے یہاں سے جانا لازمی ہے اس پر رنج و غم بے معنی ہے۔ انسانی فطرت کی کمزوری بعض دفعہ ناگہانی صدمات پر ہمیں دل برداشتہ ضرور کر دیتی ہے۔ تاہم عقل کی کسوٹی پر جو انسانی شرف کا واحد سبب ہے حالات کو پرکھا جائے تو حقیقتِ حال واضح ہو کر سامنے آتی ہے۔ قرآن کہتا ہے: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا ۔ ہم کیسے اس حقیقت کو جھٹلائیں نعوذ باللہ من ذالک۔ ابراہیم نبی سے اپنے نورِ نظر کی حلقوم پر چھری چلوائی اور فرمایا: انی جاعلک للناس اماما۔ اس حکیمِ مطلق کی حکمتوں کا شمار کون کرے۔ روحانی طور پر مجھے ایک گونہ طمانیت محسوس ہوتی ہے کہ میں بھی اپنے محبوب کی نظر میں ہوں۔ میرا محبوب یہ نذرانہ قبول فرمائے اور مجھے اس دریا کو عبور کرنے کی ہمت ودیعت فرمائے ! میرے ساتھ آپ نے جو ہمدردی فرمائی ہے، مولا آپ کو اس کا اجر بخشے ! آمین!
فقط
دعا گو
نصیر ہونزائی
۴۴
گلگت
۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء
عزیزِ من موکھی علی رہبر صاحب مرتضیٰ آباد
ارشادِ ربانی ہے: و کل نفس ذائقۃ الموت۔ جو پیدا ہوا ہے اسے آخر ایک دن مرنا بھی ہے۔ لیکن بعض دفعہ حیاتِ انسانی کا یہ لازمی نتیجہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ ایسا ہونا تھا انسان کچھ دیر اچنبھے میں پڑ جاتا ہے کہ ’’ہائیں! یہ کیا ہوا؟‘‘ مگر عزیزِ من! ہمیں بحیثیتِ بندگانِ پروردگار یہ فرمانِ خداوندی ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ: لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر
پیارے ایثار علی نے جس انداز سے داغِ مفارقت دیا وہ ایک گران بار صدمہ تو ہے مگر روحانیت کی نظر سے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا منزلِ حقیقت آنا ہی چاہتی ہے۔ اور محبوبِ حقیقی پردۂ مجاز کی اوٹ سے بنظرِ امتحان مشاہدہ کر رہا ہے کہ جسے میں نے اپنے لئے چن لیا ہے وہ میری طرف سے امتحان و ابتلا میں کتنا ثابت قدم رہتا ہے۔ میں راضی برضا ہوں آپ ہی میرے لئے استقامت کی دعا کیجئے۔
آپ نے اس عظیم ابتلا کے وقت جس اپنائیت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے وہ میرے لئے بہت تقویت کا باعث ہے۔ مجھ دل شکستہ فقیر کی دعا ہے کہ مولا پاک آپ کو اور تمام جماعت کو اپنے حفظ و امان میں رکھے! آمین!
اور درویش کی دعا کیا ہے
فقط
دعا گو
نصیر ہونزائی
۴۵
گلگت
۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء
عزیزانِ من ولایت خان و نیت شاہ مرتضیٰ آباد
اپنے روحانی بھائی کی ناگہانی مفارقت پر آپ نے جس اندازِ یگانگت سے اور جن خوبصورت الفاظ میں میری اور میری بیگم کی دلجوئی کی ہے۔ مولا پاک ہر دو جہان میں اس کا بدلا آپ کو مرحمت فرمائے!
یہ دنیا دارالفرار ہے دارالقرار نہیں۔ دل کی دھڑکن، گزرتے لمحات، بدلتے دن رات اور ماہ و سال کی گردش سے جو خاموش سبق ہمیں ملتا ہے جب ہم اس سے غافل ہو جاتے ہیں تو نظامِ قدرت جو بندوں پر بے انتہا مہربان ہے ایسے حوادثات کے ذریعے ہمارے سوتے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر جگانے کا بندوبست کرتا ہے۔ بڑی سے بڑی ابتلا قدرت کی طرف سے بڑے سے بڑا انعام ہے۔ ہاں! البتہ دنیاوی بندھنیں ایسے مواقع پر ہمارے اذہان کو قدرے مکدر ضرور کر دیتی ہیں۔ سو اس کے لئے ہمیں پروردگار سے معافی کا طالب ہونا چاہئے۔
میں اپنے تمام عزیزوں، دوستوں، شاگردوں اور عموم جماعت کو ایسے مواقع پر صبر و شکر کی تلقین کرتا آیا ہوں۔ آج جب کہ میں خود امتحان میں ہوں تو آپ مجھ سے بہتر رویہ اور مثالی کردار کی توقع کر سکتے ہیں میرے لئے دعا بھی کیجئے کہ مولا ہمت عطا فرمائے! مولا پاک آپ سب کو حقیقی راحت و دائمی سکون عنایت فرمائے!
فقط
دعاگو
نصیر ہونزائی
۴۶
گلگت
۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء
بہت ہی پیارے مجیب!
پیارے ایثار نے اچانک اس طرح ہمیں چھوڑ دیا کہ بے ساختہ کہنا پڑا:
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے!
کیا خوب! قیامت کا بھی ہو گا کوئی دن اور؟
آپ نے جس اندازِ یگانگت سے ہماری دلجوئی کی ہے میں اس کی بہت قدر کرتا ہوں اور مرحوم کے بارے میں آپ نے جن اچھے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ مولا پاک آپ کو اس کا اجر بخشے! مگر میں آپ پر واضح کر دوں کہ انسان یہی کچھ نہیں ہے کہ:
پیدا ہوا، کھایا پیا، اور مر گیا
بلکہ حقیقت میں انسان وہ ہے جو مر کر جیے، وہاں اس دائمی منزل میں جہاں ابدیت ہے، ایک لافانی عالم، جو انسان کی حقیقی آسودگاہ ہے۔ پھر یہ دنیا تو آنی جانی ہے اس کا کیا غم، اور جو عزیز اس دارِ محن سے جس قدر جلد چھٹکارہ پائے اسی قدر خوشی کا مقام ہے۔ البتہ بشر کی فطری کمزوری آڑے آتی ہے۔ آپ جیسے غمگساروں کی موجودگی میرے لئے بڑی تقویت کا باعث ہے۔ میرے لئے صبر و استقامت کی دعا کیجئے۔ مولا کی مرضی پر جان قربان! یہ میرے الفاظ نہیں ہیں بلکہ میرے دلی جذبات کا اظہار ہے میں نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا:
جا ھیرسٹہ مشغول گمنس با کہ یہ آور
ان خوش گمنس نا جہ یہ جا اسلوبم اکگو
۴۷
اگر میرے مولا کو میرے چمنِ زندگی کا بہترین پھول پسند آیا تو یہ میرے لئے فخر اور خوشی کا مقام ہے نہ کہ رنج اور افسوس کا:
بے وجہ نہیں گرمیٔ حالت میرے دوست
کچھ تو ہے پسِ پردہ نہان میرے لئے بھی
آپ کی ہمدردیوں کا ایک بار شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ کی والدہ بھی بہت دعائیں دیتی ہے۔
فقط
دعاگو
نصیر ہونزائی
۴۸
میرے روحانی عزیزانِ مرتضیٰ آباد
یا علی مدد! آپ کی ہمدردیوں اور غمگساریوں کا بہت بہت شکریہ! کہ آپ نے میرے مرحوم فرزند کی مغفرت اور ہمارے صبر و استقلال کے لئے بارہا دعائیں کی ہیں۔
جاننا چاہئے کہ حق تعالیٰ اپنے دوستوں سے سب سے پیاری چیز کی قربانی چاہتا ہے، تا کہ اس امتحان سے اس کی سچی دوستی ثابت ہو جائے۔
ظاہر ہے کہ مومن اکثر اپنے آقا و مولا کے لئے فدا اور قربان جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے، لیکن جب کوئی قدرتی قربانی اور فدیہ واقع ہوتا ہے تو اس میں جزع و فزع کرنے لگتا ہے، پس کسی بھی موت پر کوئی افسوس نہیں، بلکہ انسان کی پست ہمتی پر بہت افسوس ہے۔
فقط
آپ کا استاد
نصیر ہونزائی
۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ء
۴۹
بخدمتِ ممبران نامدار کونسل حیدرآباد۔ ہونزا
یا علی مدد! آپ صاحبان کی طرف سے مجھے نامۂ تعزیت موصول ہوا، ماتم پرسی اور اظہارِ افسوس کا بہت بہت شکریہ!
قرآنِ حکیم کے ارشادِ گرامی کے بموجب ہم اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، جب حقیقت یہی ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں، تو بندۂ مومن کے لئے کسی عزیز کی موت پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے، جبکہ مومن کی موت اللہ تعالیٰ کی قربت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
آپ صاحبان نے جس خلوص و محبت سے میرے نورِ نظر کے لئے مقدس عبادت خانہ میں دعائیں مانگی ہیں، میں اس کا ممنون ہوں، یقین ہے کہ آپ کی دعاؤں سے میرے عزیز فرزند کو ثواب اور مجھے صبر و سکون ملے گا۔
فقط آپ کا دینی خادم
نصیر ہونزائی
۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۰
بخدمتِ موکھی صاحب، کامڑیا صاحب
اور جماعتِ خروکشل حیدرآباد
یا علی مدد! میرے فرزندِ دلبند کی جدائی پر آپ صاحبان نے جس دل سوختگی اور ہمدردی سے اظہارِ افسوس کیا ہے، میں اس کے لئے قلبی طور پر شکرگزار ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صدمۂ جانکاہ میں میرا سخت امتحان ہو رہا ہے لیکن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں، کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ میں ایک حقیقی مسلمان اور امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے سچے مریدوں میں سے ہوں، لہٰذا میں حق تعالیٰ کی ذاتِ اقدس پر توکل کرتا ہوں۔
آپ نے میرے عزیز ایثار علی کے حق میں جو بار بار دعا کی اور تسبیح پڑھی، اس کا صلہ و بدلہ خداوندِ تعالیٰ دونوں جہان میں عطا فرمائے گا۔
فقط
آپ کا اپنا
نصیر ہونزائی
۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۱
میری عزیز جماعتِ بر بر حیدرآباد
یا علی مدد! آپ نے جناب غلام قادر کے توسط سے مجھے جو تعزیت نامہ لکھا ہے اور جس یگانگت سے اظہارِ ہمدردی کیا ہے، میں اس کا دل و جان سے احسان مند ہوں۔ جیسا کہ آپ میرے متعلق یہ توقع رکھتے ہیں، کہ میں اس ابتلا و آزمائش کے موقع پر صبر اور شکر سے کام لوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ میں ایسا ہی کروں گا، کیونکہ میرے دین و دنیا کے فوائد اسی عمل میں پوشیدہ ہیں۔
معلوم ہوا کہ آپ نے اپنے پاک عقیدے کے مطابق میرے لختِ جگر کی مغفرت اور ثواب کے لئے دعائیں اور تسبیحیں پڑھی ہیں، یقین ہے کہ اس کے اجرِ عظیم میں سے آپ کو بھی ایک بڑا حصہ ملے گا۔
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۲
بخدمتِ شاہین والنٹیئرز حیدرآباد، ہونزا
یا علی مدد! مجھے سب سے پہلے آپ کی دینی خدمات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ آپ کے کارنامے بے مثال ہیں، بعد ازان میں صمیمیتِ قلب سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اور حیدرآباد کی تمام جماعت نے میری اس مصیبت کے موقع پر نہ صرف دعائیں پڑھی ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہمدردی اور شرکتِ غم کے خطوط بھی بھیجے ہیں۔
میں آپ کی امید کے مطابق ان شاء اللہ تعالیٰ صابر و شکر رہوں گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے اسی میں مومن کی بہتری ہے، ہمیں دنیا کے مقابلے میں آخرت کی زیادہ ضرورت ہے، پس حصولِ آخرت کے لئے ایک عزیز پچیس سالہ جوان بیٹے کی قربانی ضروری ہوئی۔
آپ کا دعاگو فقیر
نصیر ہونزائی
۲۳ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۳
محترم عباد اللہ بیگ صاحب گلگت، ہونزا نیشنل گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی راولپنڈی
السلام علیکم و یا علی مدد! میں آپ کا نہایت ہی شکرگزار ہوں کہ آپ نے میرے ساتھ عملی ہمدردی میں کوئی کسر فروگذاشت نہیں کی، بے شک ایک حقیقی مومن کا شیوہ و شعار ایسا ہی ہونا چاہئے، میں آپ کے ساتھیوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ جماعت اور بنی نوع انسان کی خدمت کرنا اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں۔
فی الواقع پیارے ایثار علی کی اچانک موت سے اس کے والدین اور اقربا کے لئے بہت بڑا صدمہ ہوا، لیکن جب ہم حقیقت کی روشنی میں دیکھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ جسمِ خاکی فانی ہے اور روحِ پاک باقی ہے، اور طائرِ روح کے قفسِ عنصری کو چھوڑنے کا وقت کسی کو معلوم نہیں، پس اگر ہم روحانیت کے قائل ہیں، تو ہمیں اپنے عزیز فرزند کی روحانی ملاقات پر یقین رکھنا چاہئے۔
آپ کا روحانی بھائی
نصیر ہونزائی
۲۳ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۴
محترم میر جہان شاہ صاحب
نیشنل گڈز ٹرانسپورٹ کمپنی
یا علی مدد! میں آپ کے مکتوب کا شکرگزار ہوں، جو میرے غم کو کم کرنے کی غرض سے لکھا گیا تھا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: لا تقنطوا من رحمۃ اللہ یعنی تم خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی سخت ترین مصیبت میں بھی خدا کی رحمت سے مایوسی نہ ہونی چاہئے، چنانچہ اگر ہم پس ماندگان میں سے کوئی فرد اس لئے روتا ہے کہ اب ایثار علی کا دیدار نہ ہو گا، تو یہ خیال آیۂ مذکورۂ بالا کی رو سے غلط ہے کیونکہ آیت بزبانِ حکمت اعلان کر رہی ہے کہ اللہ کی رحمت سے عزیزوں کی ملاقات ہونے والی ہے، اوروہ روحانی عالم میں ہو گی۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۵
بخدمتِ شناکی جماعت مقیم کراچی
ممبران شناکی ملٹی پرپز سوسائٹی کراچی
یا علی مدد! آپ روحانی بھائیوں نے جس ہمدردی اور اخوت سے میری ماتم پرسی کی ہے، میں اس کا واجبی طور پر شکریہ ادا نہیں کر سکتا ہوں، خداوندِ تعالیٰ خود آپ کو اس نیکی کا اجر عطا فرمائے گا۔
اگرچہ میرے نورِ نظر ایثار علی نے اپنی جدائی سے میرے ناچار دل کو پارہ پارہ کر دیا ہے، تاہم حکمِ مولا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر رہا ہوں، البتہ یہ امتحان میرے لئے لازمی تھا، کیونکہ میں نے مولا کی عاشقی کا دعویٰ کیا تھا، اور میں نے یہ راستہ آسان سمجھا تھا، بقولِ حافظ شیرازی کہ عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکلہا۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۶
بخدمتِ موکھی صاحب، کامڑیا صاحب اور
جماعتِ مرکزی جماعتخانہ ہونزا حیدرآباد
یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ موصول ہوا، جس میں میرے جگر پارہ فرزند ایثار علی کے حادثۂ جان گسل پر اظہارِ افسوس کیا گیا تھا، میں آپ کے اس نامہ کا احسان مند ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیارے ایثار علی کی جدائی ہمیں بہت ستا رہی ہے لیکن اس زخمِ دل کا مرہم صبر اور شکر کی صورت میں ہے اس کے سوا اور کوئی دوا نہیں۔
صبر اور شکر حقیقی معنوں میں ہو، تو فی الواقع مرہم ہی ہے، ورنہ سطحی صبر و شکر سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔
آپ کا
ایک علمی خادم
نصیر ہونزائی
۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۷
میری روحانی بہنیں لیڈی والنٹیئرز حیدرآباد ہونزا
یا علی مدد! آپ مہربان بہنوں نے جن الفاظ میں مجھے تعزیت نامہ لکھا ہے، اور جس اخلاص سے دعا کی ہے، میں اس کا شکرگزار ہوں۔
اگرچہ جوان لڑکے کی اچانک موت ہر انسان کے لئے ایک بہت بڑا صدمہ ہے، تاہم حقیقی مومن کو تسلیم و رضا پر عمل پیرا ہونا چاہئے، چنانچہ میں اس بڑی آزمائش میں پروردگارِ عالم سے عاجزانہ دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اور میرے خاندان کو صبر و ثبات کی توفیق و ہمت عنایت فرمائے! ہم میں سے کسی کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکلے جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنے!
شکر ہے کہ محبوبِ حقیقی نے میری مسرتوں کے گلشن سے ایک تازہ گلاب کے پھول کو پسند فرمایا۔
آپ کا
روحانی بھائی
نصیر ہونزائی
۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۸
بخدمتِ جناب صدر و سیکریٹری
نامدار لوکل کونسل علی آباد ہونزا
یا علی مدد! آپ صاحبان نے اپنی نامدار کونسل اور نیکنام جماعت کی جانب سے مجھے جس ہمدردی اور دلسوزی سے تعزیت نامہ لکھا ہے، میں اس کا شکرگزار ہوں۔
جیسا کہ آپ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، پس اگر خدا تعالیٰ اپنی کسی امانت کو واپس لیتا ہے، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے، مجھے شکر کرنا چاہئے کہ ایک امانت پھول پچیس سال تک میری خوشیوں کے گلشن کی زینت بنا رہا۔
اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روحانی عالم ایک ایسا مقام ہے جہاں ہمیں اپنے تمام عزیزوں کی ملاقات میسر ہونے والی ہے، پھر ہمیں اس ابتلا میں صبر و شکر کرنا ازبس ضروری ہے۔
فقط
آپ کا قومی خادم
نصیر ہونزائی
۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء
۵۹
عزیزم درویش علی حیدرآباد ایمان زیاد باد!
بعد دعائے یا علی مدد واضح آنکہ عزیز کا خط ملا اور آپ کی ہمدردیوں کا شکریہ ادا کیا، ظاہر ہے کہ آن عزیزان ہماری خوشی میں خوش اور ہمارے غم میں غمگین ہوتے ہیں، جس کی وجہ آپ کا دین اور ایمان ہے، خداوندِ عالم جملہ عزیزوں کے نورِ ایمان میں اضافہ فرمائے! آمین!!
ثانیاً معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص مومنی اور عاشقی کا دعویٰ کرتا ہے، خدا تعالیٰ اس سے طرح طرح کا امتحان لیا کرتا ہے، تا کہ ظاہر ہو جائے کہ وہ شخص فی الواقع مومن و عاشق ہے یا جھوٹا مدعی۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۰
عزیزم صحت علی کراچی ایمان زیاد باد!
یا علی مدد! میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، نیز عزیزانم سلیمان شاہ، صفت خان، علی مدد، مولا مدد، شیر اللہ، شاہ غریب، محمد ضمیر، مبارک شاہ، احمد بیگ وغیرہ کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ عزیزوں نے میرے فرزندِ جگر بند کے انتقالِ پر ملال پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
آپ عزیزان سے پوشیدہ نہیں کہ حقیقی مومنوں سے ایسے امتحانات لئے جاتے ہیں، تا کہ ظاہر ہو جائے کہ مال و اولاد پیاری ہے یا کہ خدا کی خوشنودی عزیز ہے۔
یہ مجھ سے نہ پوچھا جائے کہ ایثار علی مجھے کس قدر عزیز تھا، مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہئے کہ میرے خزانوں میں سے ایک گرانقدر خزانہ خدا کی راہ میں صرف ہوا، جبکہ اولاد سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۱
محترم کامڑیا ایوب صاحب مسگر
یا علی مدد! آپ نے جن پیارے الفاظ میں ہمیں تعزیت نامہ لکھا ہے اور جس ہمدردی سے اظہارِ افسوس کیا ہے، ہم اس کے شکرگزار ہیں، دعا ہے کہ پروردگارِ عالم آپ کو، آپ کے عزیزوں کو اور تمام جماعت کو دونوں جہان کی کامیابی عنایت فرمائے! آمین!!
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سانحہ ہمارے لئے بہت بڑا ہے، کیونکہ ایثار علی ہمارے جگر کا ٹکڑا تھا اور دل کا پیوند، لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہمیں مولا کی خوشنودی اس سے زیادہ عزیز اور عظیم ہونی چاہئے۔
ایک دین شناس شخص کی حیثیت سے مجھے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا چاہئے، کہ اس نے امتحان کے لئے مجھے انتخاب فرمایا اور قربانی کے لئے میرے پیارے نوجوان بیٹے کو۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۲
جناب غلام محمد خان صاحب نمائندۂ جماعتِ مسگر
یا علی مدد! میرے اس غم و الم کے موقع پر آپ نے مسگر کی نیک نام جماعت کی طرف سے جس شانِ اخلاص و محبت اور ہمدردی سے خط لکھا ہے اور جس شفقت و الفت سے میری تسلی و تشفی کی گئی ہے، میں اس کے لئے شکر گزار ہوں۔
برادرِ محترم! جیسا کہ آپ پر یہ حقیقت روشن ہے، کہ معشوقِ حقیقی اپنے عاشقوں سے ایک محبوب ترین چیز کی قربانی طلب کرتا ہے، چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام سے اپنے عزیز اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اسی اصول کے مطابق مانگی گئی تھی، پس مجھے شکرگزار رہنا چاہئے، کہ مجھ سے بھی اپنی حیثیت کے مطابق ایک قربانی طلب کی گئی۔
دعا ہے کہ خداوندِ عالم تمام جماعت کو دین و دنیا کی کامیابی اور سرخروئی عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!
فقط
آپ کا بھائی
نصیر ہونزائی
۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۳
جناب صدر صاحب لوکل کونسل گلمت۔ ہونزا
یا علی مدد! میں آپ کا اور آپ کی کونسل کے جملہ اراکین کا نیز آپ کی متعلقہ جماعتوں کا شکرگزار ہوں، کہ آپ نے ان تمام کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے میرے دردِ فراق میں مجھ سے ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے۔
اے میرے دیرینہ دوست! میرا دل تو فطری طور پر اپنے عزیز فرزند کی جدائی کے خنجر سے پارہ پارہ ہو چکا ہے، اور اگر میں اپنی اندرونی کیفیت بیان کروں، تو دنیا کا سب سے بڑا سنگ دل انسان بھی رونے پر مجبور ہو جائے گا، لیکن آپ یقین کیجئے کہ میں نے اس سانحہ سے بہت پہلے اپنے خداوند سے عہد کر لیا ہے کہ میں دنیا کی کسی بھی مصیبت پر ہرگز آنسو نہ بہاؤں گا، پس الحمدللہ میں اپنے عہد پر قائم ہوں، یہ مہربانی اس ذاتِ اقدس کی ہے، جس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے، ہاں اس میں شک نہیں کہ میں جب بھی موقع ہو خدا کے حضور میں درویشانہ انداز میں گریہ و زاری کرتا رہتا ہوں، یہ میری روحانی آبادی کے لئے بارانِ بہار کا حکم رکھتی ہے۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۴
میرے عزیز ماسٹر صاحب علی پناہ گلمت ہونزا
یا علی مدد! آپ نے جو مجھے تسلی و تسکین کے لئے خط لکھا ہے۔ میں اس کا ممنون و شکرگزار ہوں، پروردگارِ عالم آپ کو دینی اور دنیاوی طور پر کامیابی عطا فرمائے!
امید ہے کہ آپ میری باتوں پر اعتماد کریں گے، کہ میں ایک درویش آدمی ہوں، اور سچے درویش کو اللہ تعالیٰ ہر قسم کی مصیبتوں کا متحمل بنا دیتا ہے، چنانچہ میں اپنے جوان اور خوبصورت بیٹے کی ناگاہ موت کے سنگین بوجھ کو صبر و شکر کے ساتھ اٹھا رہا ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے متعلق قوم و جماعت کی نیک دعا سن لی ہے۔
آپ اپنے قبلہ اورخاندان کے ہر فرد کو میری دعا اور تسلیم پہنچا دیں اور محترم غلام الدین صاحب کو بھی اسی طرح سے۔
خداوندِ تبارک و تعالیٰ جملہ جماعت کو دین و دنیا کی کامیابی اور سربلندی عطا فرمائے! کہ اس نے ہر موقع پر اس درویش سے تعاون کیا۔
آپ کا دعا گو
نصیر ہونزائی
۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۵
برادرِ محترم دولت شاہ صاحب بر بر حیدرآباد
یا علی مدد! آپ نے جس دلسوزی اور ہمدردی سے مجھے تعزیتی خط لکھا ہے اور جن ناصحانہ الفاظ میں خطاب کیا ہے، میں اس کے لئے بے حد ممنون ہوں، ہمشیرہ صاحبہ کو ہمارے متعلق یقین دلانا کہ ہم صابر و شاکر ہیں۔
واضح رہے کہ معشوقِ حقیقی نے میری خوشیوں کے باغ سے ایک ایسے خوبصورت اور خوشبودار پھول کو چن لیا، جو نہ تو غنچہ تھا اور نہ مرجھایا ہوا، بلکہ پوری طرح سے کھل گیا تھا، پھر کیا میں اپنے معشوق کے اس انتخاب پر کوئی اعتراض کر سکتا ہوں؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں۔
اے پروردگار! میرے اس روحانی پھول کو جنت الفردوس کے پھولوں کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تر و تازہ رکھنا! اور ہمیں فردائے قیامت اس کے رنگ و بو سے مستفیض ہونے کی سعادت بخشنا! اے خداوندِ عالم! جملہ جماعت کی نیک مرادیں پوری کر دے! آمین یا رب العالمین!
فقط
آپ کا بھائی
نصیر ہونزائی
۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۶
محترم کامڑیا دولت علی صاحب، بلتت ہونزا
یا علی مدد! آپ کا نوشتہ جو میرے زخم خوردہ دل کی تسکین کے لئے تھا، موصول ہوا۔ میں صمیمیتِ قلب سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، خدائے حکیم آپ کو نیک مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے!
آپ نے مشہور انبیاء علیہم السلام کے حالاتِ زندگی کا خوب مطالعہ کیا ہے، جبکہ ان حضرات میں سے ہر ایک کی زندگی ہمارے لئے ہدایت نامۂ عمل کی حیثیت سے ہے، پس پیغمبروں کی مجموعی زندگی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ انسان کی دنیاوی اور جسمانی زندگی مصائب و آلام سے کبھی خالی نہیں ہو سکتی ہے، لہٰذا ہمیں اس نقصان پر نالان نہ ہونا چاہئے، بلکہ صبر اور شکرجیسے اوصاف کو اپنانا چاہئے۔
میں پوری قوم اور جماعت کا شکرگزار ہوں، کہ میرے مرحوم بیٹے کے لئے جگہ جگہ دعائیں مانگی گئیں۔
آپ کا بھائی
نصیر ہونزائی
۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۷
عزیزم ولایت علی (برادرزادہ) کراچی
یا علی مدد! عزیز کا تعزیتی خط موصول ہوا، اظہارِ ہمدردی کا بہت شکریہ! جاننا چاہئے کہ درجۂ اول کی بلائیں انبیاء و ائمہ علیہم السلام پر آتی ہیں، اس کے بعد بزرگانِ دین اور حقیقی مومنین پر، الحمدللہ کہ اگر خدا کو منظور ہوا تو ہم بھی آج ان مومنین میں سے ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ امتحان لیا کرتا ہے، پھر صبر و شکر کے بعد ان کو نوازتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سی نعمتیں عطا فرمائی ہیں، آج اگر ان میں سے ایک نعمت امتحاناً ہم سے واپس لی گئی، تو پھر بھی ہمارے پاس بہت سی نعمتیں موجود ہیں، پس ہمیں شکر کرنا چاہئے تا کہ ان باقی ماندہ نعمتوں میں برکت پیدا ہو۔
فقط
آپ کا چچا
نصیر ہونزائی
۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۸
جنابِ عزت مآب وزیر امیر علی صاحب کریم ابراہیم کراچی
یا علی مدد! میرے جگر پارہ فرزند کے انتقالِ پرملال پر آپ نے جس شانِ شفقت و محبت اور جن معنی خیز الفاظ میں اظہارِ ہمدردی فرمایا ہے، میں اس کے لئے بہت ہی شکرگزار ہوں۔
جنابِ عالی! میں اپنے ان احساسات کی بابت جو اس وقت مجھ میں پائے جا رہے ہیں، اظہارِ خیال کرنا چاہتا ہوں کہ انسان تو انتہائی درجے کی ایک حساس مخلوق ہے، حیوان بھی اپنی اولاد کی جدائی سے رنج و غم محسوس کرتے ہیں، لہٰذا فطرتاً یہ لازمی تھا کہ اپنے عزیز جوان بیٹے کی اچانک موت سے ہم پر رنج و غم کا ایک عظیم پہاڑ ٹوٹ پڑے، لیکن اس کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنا کرشمہ دکھاتی رہتی ہے، چنانچہ ہم نے اس کمرشکستگی کے عالم میں تائیدِ غیبی کے لئے دعا کی، پس اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہماری اور جملہ مومنین کی دعا قبول ہوئی، کہ ہم بھی صحیح معنوں میں صبر و شکر کرنے لگے۔
امید ہے کہ ہم اپنی زندگی کے آخری ایام تک حسبِ معمول اپنے دینی فرائض کی انجام دہی کرتے رہیں گے، ہمارے لئے مزید دعا کیجئے۔
فقط
آپ کا تابعدار
نصیر ہونزائی
۲۷ دسمبر ۱۹۷۲ء
۶۹
گلگت
۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ء
برادر دوست و محترم آقای دارا بیگ صاحب روزگارتان خوش باد!
نمی توانم احوالِ خود را شرح دہم و مآل این صدمۂ جانکاہ را بیان کنم۔ آرے از وصالِ ناگہانیٔ لختِ جگرم جگرم لخت لخت شدہ و جنگ فلک نا ہنجار کہ ہموارہ پے جورِ بے سبب میگردد برجانِ منِ ناتوان سخت تر از سخت۔ مگر با اینکہ بر استخوان ہائے پیرم بارے بس گران افتادہ مطمننم، بدو وجہ، اول این کہ این دنیا را بقائے نیست ہر کہ درین خانۂ دودر آمدہ باید کہ روزے ازین جا برود و بقولِ سعدی:
من این جا دیر ماندم خور گشتم
عزیز از ماندنِ دانم شود خوار
ہر کہ دیر تر زید خوارتر گردد بقولِ خدائے تعالیٰ: و من نعمرہ ننکسہ فی الخلق۔ از روی عقل ہر کہ ازین جا زود تر برود از خواریٔ بسیار ایمن میگردد۔ من سپاس میگونم خداوندِ عالمین را کہ عطیۂ کہ بصورتِ پسر بر من ارزانی فرمودہ بود۔ پیشتر ازین کہ ناشکریٔ درین خصوص از من سرزد گردد دادۂ خود را بخود باز گرفت و ہمچنین دو نعمت مزید برین بندۂ سر افگندۂ خود عنایت نمود کہ رہاند مرا از
۷۰
ناشکریٔ عطا و فرزندِ مرا از ازدیادِ خطا کہ بصورتِ زندگانی درین عالمِ فانی واجبِ انسان است۔
دوم اینکہ سرکار سلطان محمد شاہ روحنا فداہ فرمودہ است ’’خوش نصیب است کسے کہ اندرین عالم دوستانِ غمگسار دارد کہ ایشان وقت تنگی از حال او بے خبر نمی مانند و پیٔ چارۂ آن میکوشند‘‘۔ برادران و دوستان مثل شما برای یکی ہمچو منِ پامالِ غم عطائے الٰہی ہستند۔ من نمی توانم جزائے این غم خواری را بدہم۔ خدائے تان دہاد! و صد گونہ دہاد!! از شما دعائے صبر و استقامت را جویانم و ہمشیرۂ خویش را بیشتر ازین چہ گویم کہ:
درین دنیا کسی بے غم نباشد
اگر باشد بنی آدم نباشد
فقط
برادر غمزدۂ تان
نصیر ہونزائی
۷۱
محترم ایکس حوالدار شاہ زرین صاحب تمغۂ جرات بلتت
یا علی مدد! میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے میری اس مصیبت پر بڑی ہمدردی سے اظہارِ افسوس کیا ہے اور صبر و سکون کا مشورہ دیا ہے۔
آپ کا فرمانا بجا ہے، کہ چند سال قبل آپ سے بھی انتہائی سخت امتحان لیا گیا تھا، ایک بار نہیں دو بار، آپ کی دوسری مصیبت پر میں نے ذیل کے اشعار کہے تھے جن کی معنی میں میری طرح کے مصیبت زدہ انسانوں کے لئے کافی نصیحت و عبرت موجود ہے، وہ عنوان اور اشعار یہ ہیں: پیغام از زبانِ حالِ نیت زرین (۱۹۳۶ ۔ ۱۹۶۸) بہ پدرِ گرامی شاہ زرین صاحب تمغۂ جرات:
۱۔ روح را بشناس و تن را در گذار
تا شوی در ہر دو عالم کامگار
۲۔ من کہ روحم جسم را بگذاشتم
تا رسم در روضۂ دار القرار
۳۔ تو مرا فردا بہ بینی اے پدر
اشکِ غم از دیدۂ حسرت مبار
۴۔ نیستم امروز ہم از تو جدا
در خیال و خواب تو اے غمگسار
۵۔ پیش و پس اولادِ تو خدامِ تو
زان توئی در این و آن چون شہریار
۶۔ پس چرا غمگین شوی اے شیر مرد
رحمتِ حق چون بود انجامِ کار
۷۲
۷۔ ای پدر گر خیرِ ما خواہی مدام
در دعائے خیر ما را یاد دار
۸۔ از زبانِ حالتِ نیت زرین
این نصیحت باد دائم یادگار
ترجمہ: ۱۔ روح کو پہچان لے اور جسم کو چھوڑ دے، تا کہ تو دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائے۔
۲۔ میں نے جو روح ہوں جسم کو چھوڑ دیا، تا کہ میں دارالقرار (جنت) کے باغ میں پہنچ سکوں۔
۳۔ اے میرے باپ! تو مجھے کل (قیامت کے دن) دیکھے گا، غم کے آنسو حسرت کی آنکھ سے نہ بہا۔
۴۔ آج بھی میں تجھسے جدا نہیں ہوں، تیرے خیال اور خواب میں اے غمخوار!
۵۔ تیرے آگے اورپیچھے یعنی دنیا و آخرت میں تیری اولادیں تیرے خدمتگار ہیں، اس لئے تو دونوں جہان میں پادشاہ کی طرح ہے۔
۶۔ اے شیر مرد! تو کیوں غمگین ہے، جبکہ اس کام کا نتیجہ خدا کی رحمت ہے۔
۷۔ اے باپ! اگر تو ہمیشہ ہماری بہتری چاہتا ہے، تو نیک دعا میں ہمیں یاد رکھنا۔
۸۔ نیت زرین کی زبانِ حال سے، یہ نصیحت ہمیشہ کے لئے یاد رہے۔
۷۳
خلاصۂ مطلب یہ ہے، کہ جسم کی کوئی اہمیت نہیں، اصل حقیقت روح ہے، روح ہی بہشت میں پہنچ سکتی ہے، کسی عزیز کی موت پر افسوس و غم کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ قیامت کی ملاقات برحق ہے، اس حیات میں بھی روح ہمارے ساتھ ہے، یہ مومن کی خوش بختی ہے کہ کچھ اولادیں اس کے آگے بھی جائیں، متوفی کے حق میں دعا ضروری ہے۔
فقط
آپ کا روحانی بھائی
نصیر ہونزائی
۳۰ دسمبر ۱۹۷۲ء
۷۴
محترم نائب صوبیدار صاحب نظر صاحب عطا آباد
یا علی مدد! آپ کی جانب سے تعزیت نامہ موصول ہوا، میری اس مصیبت کے متعلق آپ نے اظہارِ افسوس و ہمدردی کے لئے جو مشفقانہ الفاظ استعمال کیے ہیں اور جس محبت و یگانگت سے نیک مشورے اور دعائیں دی ہیں، میں ہمیشہ اس کا احسانمند رہوں گا۔ میں اس وقت اپنے ما فی الضمیر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں، کہ انسانی فطرت کے نزدیک دنیا میں اولاد سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں ہو سکتی ہے، خصوصاً ایک جوان، ہوشیار اور خوبصورت بیٹاۛ! لیکن حقیقی مومن کے نزدیک بموجب یہ قول: ’’امرِ مولا از ہمہ اولیٰ‘‘ مولا کا حکم ہر چیز سے برتر اور عزیز تر ہے، الحمد للہ میں خود بھی یہی عقیدہ رکھتا ہوں۔
دعا ہے کہ خداوندِ برتر و توانا ساری قوم اور جماعت کے افراد کو دونوں جہان کی سعادتمندی عطا فرمائے! کہ انہوں نے اس موقع پر میرے مرحوم فرزند کے ثواب کے لئے کچھ دعائیں کی ہیں۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۳۰ دسمبر ۱۹۷۲ء
۷۵
مومنینِ بایقینِ جماعتِ خیر آباد (رامنج)
یا علی مدد! آپ حقیقی مومنین نے میرے فرزندِ دلبند کی ناگہانی موت پر جس جذبۂ ہمدردی سے متاسفانہ پیغام بھیجا ہے اور جس خلوصِ ایمانی سے دعا و نصیحت کی ہے، میں اس کا ہمیشہ معترف اور شاکر رہوں گا۔
اے میری عزیز قوم! اس میں کوئی شک نہیں، کہ میرا ایثار علی مجھے بہت ہی عزیز تھا، اتنا عزیز کہ میں بیان نہیں کر سکتا، لیکن خدا و رسول صلعم اور ائمۂ اطہار علیہم السلام کی ان پرحکمت ہدایتوں سے میں کس طرح چشم پوشی کر سکتا ہوں، جو مصائب و آلام میں صابر و شاکر رہنے کے لئے فرمائی گئی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی یہ مشہور ہدایت: انا للہ و انا الیہ راجعون یقیناً ہم اللہ کے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، یعنی ہم اللہ کی ملکیت ہیں وہ ہمیں جس طرح استعمال کرے اسی میں ہماری بہتری ہے اور اسی سے ہم دنیا اور آخرت میں اللہ کے نزدیک ہو سکتے ہیں۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۳۰ دسمبر ۱۹۷۲ء
۷۶
گلگت
۳۱ دسمبر ۱۹۷۲ء
عزیز بھائی غلام محمد جی!
ہاں! ہونہار جوان سال بیٹا ایک باپ کے لئے جس پر بیک وقت کئی ذمہ داریاں لاگو ہوں نہ صرف عزم و ہمت کی ڈھال ہے آلامِ زمانہ سے مقابل ہونے کے لئے بلکہ ایک ایسی دو دھاری تلوار بھی ہے جو ایک طرف اغیار کی مخاصمانہ نگاہوں کو اپنی چمک سے خیرہ کر دیتی ہے تو دوسری طرف مختلف ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا کر ایک رو بہ پیری باپ کے لئے یادِ خدا کے لئے یکسوئی کے اوقات مہیا ہو جاتے ہیں، جو ایک انسان کے لئے حقیقی نعمت ہیں۔
مگر میرے عزیز! مالک فرماتا ہے: عسی ان تکرھوا شیئا و ھو خیر لکم (۲:۲۱۶)۔ میرے لختِ جگر کی نگہانی موت میری کمرِ ہمت پر ضرب کاری ضرور ہے مگر میں نے عزم کر لیا ہے کہ اس چوٹ کو سہا جائے نہ صرف یہ بلکہ صبر و شکر کے مرہم سے اس چوٹ کا مداوا بھی کیا جائے۔ الرحمٰن الرحیم خدا کو اپنے بندوں کا بھلا ہی مطلوب ہوتا ہے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا میرا پیارا ایثار میرے آس پاس کہیں موجود ہے اور چپکے چپکے، ہولے ہولے، مجھے ایثار و قربانی کی تلقین کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے، ’’ابو! آپ نے ایک دن کہا تھا کہ سفرِ زندگی میں مرد کی نظر ہمالیہ کی چوٹی پر ہونی چاہئے۔ کہا تھا نا ابو! مجھے وہ بات ہمیشہ یاد رہی۔ دیکھیے نا! امی کی نرم اور گرم گود سے میں نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، اسے یخ بستہ برف پوش پہاڑوں کے پتھریلے آغوش میں انجام کو پہنچایا۔ ابو! سچ ابو! اس دنیا میں میری آخری نظر نانگا پربت کی سب سے اونچی چوٹی پر تھی۔ ہاں! مجھے یاد ہے آپ نے پھر ایک دن کہا تھا انسان اس دنیا میں
۷۷
سیکھنے اور سکھانے کے لئے آیا ہے۔ ابو! میری جانکاہ جدائی نے آپ کو جو سبق دیا ہے کیا اسے آپ صبر و استقلال کا مظاہرہ کرکے دوسروں کو جو اس وقت آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں نہیں سکھائیں گے؟ میرے اچھے ابو!‘‘ احساسات کے سمندر میں طوفان اٹھتا ہے جس میں ڈولتی ہوئی میرے صبر و ہمت کی کشتی ڈوبتے ابھرتے، ڈوبتے ابھرتے، دور، بہت دور جذبات کے افق کے اس پار نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے، اور سکوت کے اس عالم میں جبکہ دل کی دھڑکن تک سنائی دیتی ہے میری سوچوں کی رسی کا آخری سرا بھی گم ہو جاتا ہے۔ اور پھر دل کے ساز پر وہ لاہوتی دھن چھڑ جاتی ہے۔ جس سے روح جھوم اٹھتی ہے: و لنبلوکم بشی من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات و بشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون (۲:۱۵۵۔۱۵۶)۔
جذبات کی رو میں مجھے یاد ہی نہیں رہا آپ کا تعزیتی تار ملا تھا۔ تار نہیں تھا، ہمدردیوں اور اظہارِ برادری کا ایک دیوان تھا جس سے میری بہت ہمت بندھی۔ مولا پاک آپ کو اجر بخشے! آمین!
فقط
آپ کا بھائی
نصیر ہونزائی
۷۸
گلگت
۳۱ دسمبر ۱۹۷۲ء
ضیاء
پیارے!
غالب نے کہا ہے:
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
موت سے مفر نہیں مرے بغیر گذر نہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ زندگی کا انجام موت ہی ہے دل اس حقیقت کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ مرنے والا چین سے مر جاتا ہے مگر اپنے پیچھے غم و آلام کے وہ بگولے چھوڑ جاتا ہے جو آن کی آن برسوں کی بڑی محنت اور شوق و آرزو سے سجائی ہوئی زندگی کو تہ و بالا کر چھوڑتے ہیں۔ تمہارے ماموں زاد بھائی کی موت نے میری بوڑھی کمر پر جو لات ماری اس کا درد تم سے زیادہ کون محسوس کرے گا۔ تم میری ماں جائی کے نورِ نظر ہو نا آخر:
پیر میں جب چبھ جائے کانٹا آنکھ بچاری روتی ہے
پھانس سا جب لگ جائے دل میں آنکھ بچاری روتی ہے
سارے بدن کا درد اسی کو رونے پر مجبور کرے
ہر تکلیف میں ہر مشکل میں ۔۔۔ آنکھ بچاری روتی ہے
مگر میرے عزیز! جب انجامِ کار فنا ہے تو اس کے لئے آہ و بکا کیوں؟ غم پالنے
۷۹
سے بڑھتا ہے اور پھر کوئی فائدہ بھی تو نہیں دیتا۔ کیوں نہ ایسی فضول چیز کو صحرائے نسیان میں دل بدر کر دیا جائے۔ سندِ فضیلت امتحان کا مرحلہ طے کر کے ہی ملتی ہے، اور و بشر الصابرین کی سند لینے کے لئے تو لازماً بڑا کڑا امتحان دینا ہو گا۔ دعا کرو مولا ثبات بخشے! ہاں! تمہارا تار ملا میری ہمت بندھی۔ سچ جانو تم مجھے اپنے مرحوم بھائی سے کم عزیز نہیں ہو اور مجھے تمہارا اتنا ہی مان ہے۔
فقط
تمہارا اپنا ماموں
۸۰
مقامی نامدار کونسل اور اسماعیلی نیک نام جماعت سکردو
یا علی مدد! آپ کی طرف سے ہمیں تعزیتی ٹیلیگرام موصول ہوا، ہم آپ کی اس ہمدردی اور تعزیت کے بے حد ممنون و شکرگزار ہیں۔
فی الوقت مناسب ہے کہ میں دین کی کوئی حقیقت بیان کروں، اور وہ یہ ہے کہ مصیبتیں یا کہ اللہ کے امتحانات پانچ ہیں: ہر قسم کا خوف، ہر قسم کی بھوک، ہر قسم کا مالی نقصان، ہر قسم کا جانی نقصان اور ہر قسم کے پھلوں کا نقصان، ظاہر ہے کہ ان سب میں سے جانی نقصان بڑا ہے، چنانچہ اس کے صبر و شکر کا ثواب و صلہ بھی انتہائی عظیم ہے، پھر اموات میں بھی فرق ہے، چنانچہ سب سے بڑی موت جوان کی موت ہے، پس آپ دعا کریں کہ میرے اس عظیم امتحان میں مجھے کامیابی حاصل ہو! آمین!
آپ کا
علمی خادم
نصیر ہونزائی
یکم جنوری ۱۹۷۳ء
۸۱
میرے عزیز ضعیف اللہ بیگ صاحب اورسیئر ای۔ ایم سکردو
یا علی مدد! آپ کا ٹیلیگرام اور خط موصول ہوا، آپ کی یہ انتہائی ہمدردی یقینی ہے کیونکہ ایثار علی اور اس کے مصیبت زدہ والدین آپ ہی کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کو پیارے ایثار علی کی جوان سالی کی ناگاہ موت سے بڑا صدمہ ہوا ہے، اور میرے رنج و غم کے متعلق آپ کو فکر لاحق ہوئی ہے، لیکن اگر بہ نگاہِ حقیقت دیکھا جائے تو ماننا ہی پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا روحانی اور حقیقی وکیل ہے، ہمارے لئے وہ جو کچھ کرے اسی میں ہماری سعادتمندی پوشیدہ ہے، وہ جو کچھ کرتا ہے اس میں ہماری اخروی فلاح اور ابدی نجات پیشِ نظر رہتی ہے۔ دعا ہے کہ ہر حقیقی مومن کو صبر و شکر کی حکمت سمجھنے کی توفیق نصیب ہو!
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
یکم جنوری ۱۹۷۳ء
۸۲
محترم غلام محمد خان صاحب اور محترم محمد رضا بیگ صاحب مسگر
یا علی مدد! آپ کی اور آپ کے خاندان کی طرف سے ہمیں تعزیتی تار موصول ہوا، جس کے لئے ہم آپ کے شکرگزار ہیں، خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو دونوں جہان کی کامیابی اور سرفرازی عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!
آپ کو اس بات کا یقین ہے، کہ یہ فقیر امام علیہ السلام کے عاشقوں میں سے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اور بسا اوقات جان قربان اور روح فدا کے نعرے لگاتا رہا ہے، اب جبکہ ایک جانی قربانی کا امتحان لیا گیا ہے، تو پھر گھبرانا عبث ہے، اس میں تو صبر اور شکر کی ضرورت ہے۔
فقط
آپ کا قومی خادم
نصیر ہونزائی
یکم جنوری ۱۹۷۳ء
۸۳
برادرِ محترم مجیب اللہ بیگ صاحب، کراچی
یا علی مدد! آپ کے حوصلہ بخش تعزیت نامہ کا بہت بہت شکریہ! ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اور میری عزیز بھانجی اس رنج و غم میں ہمارے ساتھ برابر کے شریک ہیں، لیکن ہمیں صابر و شاکر رہنا چاہئے، تا کہ حق تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو۔
دعائم الاسلام جزء اول صفحہ ۲۲۶ پر شہادت کی قسموں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جس میں ’’صاحب الھدم‘‘ کے عنوان سے اس شخص کو بھی شہید قرار دیا گیا ہے، جو کسی مکان، دیوار وغیرہ کے گرنے سے مر جائے، نیز یہی مطلب ’’لغات الحدیث‘‘ جلدِ ششم کتاب الھاء میں بھی مذکور ہے، پس خدا کا شکر ہے، کہ میرے عزیز! ایثار علی کو بھی شہادت کے درجات میں سے ایک درجہ ملا ہے۔
فقط
آپ کا بھائی
نصیر ہونزائی
۲ جنوری ۱۹۷۳ء
۸۴
جناب پریذیڈنٹ صاحب اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کراچی
یا علی مدد! میرے فرزندِ دلبند کے انتقالِ پرملال پر آپ نے اپنی جمعیت کی طرف سے اور اپنی جانب سے ٹیلیگرام کے بعد جو تعزیت نامہ بھیجا ہے اور جس پرحکمت انداز سے مجھے حوصلہ بخش مشورہ دیا گیا ہے، میں اس کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شکرگزار اور احسان مند رہوں گا۔
آپ کی جمعیت کا ہر فرد اورآپ خود اولاد کی بے پناہ محبت کا تجربہ رکھتے ہیں، کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، لیکن اس تلخ حقیقت کے لئے کیا کیا جائے، کہ حقیقی مومنین سے بڑی بڑی قربانیوں کے امتحانات لیے جاتے ہیں، ہاں! بس یہی کہ صبر کیا جائے، اور صبر ہی سے یہ تلخی بھی شیرینی کی صورت میں بدل سکتی ہے:
’’صبر تلخ است و لیکن برِ شیرین دارد‘‘۔
فقط
آپ کا تابعدار
نصیر ہونزائی
۳ جنوری ۱۹۷۳ء
۸۵
میرے بہت ہی عزیز برکت علی۔ این۔ بھامانی، کراچی
یا علی مدد! آپ نے اپنی طرف سے نیز اپنے احباب اور ماں جی کے گروپ کی طرف سے جو تعزیتی پیغام بھیجا ہے اور جو دعا کی گئی ہے میں اس کا بے حد شکرگزار اور ممنون ہوں، مولائے حکیم آپ سب کو دونوں جہان کی کامیابی عطا فرمائے! ایک حقیقی اسماعیلی ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے عزیز بیٹے کی ناگہان موت پر آنسو نہ بہانا چاہئے، بلکہ مجھے یہ یقین رکھنا چاہئے، کہ بحکمِ کلامِ مولانا علیؑ: کل مومن شہید (ہر مومن شہید کا درجہ رکھتا ہے) میرا عزیز ایثار علی آج (ان شاء اللہ) شہید ہے، چنانچہ مولا نے فرمایا ہے: ای میتۃ مات بھا المومن فھو شہید (مومن جس موت سے بھی مرے وہ شہید ہے) اور قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: و الذین امنوا باللہ و رسلہ اولٰئک ھم الصدیقون و الشھداء عند ربھم (۵۷:۱۹) اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے یہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیقوں اور شہیدوں کے درجے میں ہیں۔
فقط
آپ کا استاد
نصیر ہونزائی
۳ جنوری ۱۹۷۳ء
۸۶
میرے بہت ہی عزیز علی مدد سارجنٹ، کراچی
یا علی مدد! میرے فرزندِ ارجمند کے بارے میں آپ نے پریشانی سے تار دیا تھا، لیکن ہم کس زبان سے جواب دے سکتے تھے، کہ ایثار علی خیریت سے ہے، افسوس کہ یہ پیارا جملہ ۸ دسمبر ۱۹۷۲ء کے بعد ہم پھر کبھی استعمال نہ کر سکیں گے۔
اے میرے عزیز! مذکورہ باتیں جسمانیت سے تعلق رکھتی ہیں، مگر روحانی حقائق اس کے برعکس ہیں، جن کی طرف سابقہ ایک خط میں اشارہ کیا گیا ہے، امید ہے کہ میرے جملہ عزیز اب ایثار علی کی جسمانی حیثیت کے تصور کو بتدریج بھول جائیں گے، اور اس کو ایک روحانی مخلوق سمجھیں گے، پس بحکمِ حدیث: المومن حی فی الدارین (مومن دونوں گھروں میں، یعنی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی زندہ ہے) میرا ایثار روحانی کیفیت میں زندہ ہے، کاش میرے عزیزوں میں سے ہر ایک کو روحانیت کا وہ مقام حاصل ہوتا، جس میں کہ ارواح کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، آپ اور میری بیٹی فدا بی بی کو اس حقیقت کا یقینِ کامل ہونا چاہئے
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۳ جنوری ۱۹۷۳ء
۸۷
جنابِ محترم و معظم فقیر محمد صاحب کراچی
یا علی مدد! اے میرے محسنِ عظیم! میں آپ کی بے مثال ہمدردیوں اور شفقتوں کی صحیح ترجمانی کے لئے ایسے بہترین الفاظ کا انتخاب نہیں کر سکتا، جیسے کہ چاہئیں، اور نہ میں آپ کے احسانات کا کوئی حساب و شمار کر سکتا ہوں، اے رب العزت! تو ہی میرے دل کی صداقت کا گواہ ہے۔
اے علم و فضل کے آسمان کے درخشندہ و تابان ستارے! یہ بات بہت پہلے ہی سے آپ کو معلوم ہے، کہ ایثار علی مجھے کس قدر عزیز تھا، لیکن میں نے شاید آپ سے اس بات کا تذکرہ ہی نہیں کیا تھا، کہ میرا نورِ نظر ایک خاص اسماعیلی عقیدے کے مطابق مہمانی نامزد کیا گیا تھا، یہ عظیم مہمانی ۱۹۴۷ء سے ۱۹۷۲ء کے اخیر تک میرے پاس امانت تھی، مگر اب بروزِ جمعہ ۸ دسمبر کو یہ امانت یکایک مجھ سے واپس لی گئی ہے، آپ خود جانتے ہیں، کہ ایثار علی کی معنوی نسبت بھی ایثار و قربانی سے لازمی تھی۔
اے پروردگارِ عالم! تو ہی میرے دل کی کیفیت کا گواہ ہے کہ میں اس عظیم ابتلا و امتحان میں صابر و شاکر ہوں، پس اے خداوندِ تبارک و تعالیٰ! تو ہی دونوں جہان میں ہمارا مددگار اور کارساز ہے۔
اخیر میں ایک بار پھر آپ کے احسانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اپنی طرف سے اور نامدار اسماعیلیہ ایسوسی ایشن کے بہت سے حضرات کی طرف سے مجھے اور میرے خاندان کے ہر فرد کو اس سانحہ کے موقع پر ہر قسم کی ہمت دہانی فرمائی ہے، دعا ہے کہ خداوندِ کریم آپ کو اور ان حضرات کو اپنے جملہ
۸۸
عزیزوں کے ساتھ دنیا و عقبیٰ کی کامیابی سے نوازے! آمین!!
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۴ جنوری ۱۹۷۳ء
۸۹
عزیز ترینِ من جوہر علی حیدرآباد ہونزا
یا علی مدد! آپ کے پیغامِ تعزیت کا بہت ہی شکریہ! اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو دین و دنیا کی سعادتوں اور برکتوں سے نوازے! آمین!!
اے میرے عزیز! میری مصیبت سے شاہ زمان صاحب کی مصیبت بہت بڑی ہے کہ اس کے خاندان کے چھ افراد اس بدقسمت جہاز میں سوار تھے، جن کی لاشیں اگر مل جاتیں اور سپردِ خاک ہو جاتیں، تو شاہ زمان اور ان کے خاندان کے افراد کس قدر شکرگذار رہتے، پس اگر میں اللہ تعالیٰ کا شکر نہ کروں اور ناشکری کروں، تو کافر بن جاؤں گا، اور کافر بن جانا کہیں دور نہیں بلکہ شکر نہ کرنا ہی کفر ہے۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۴ جنوری ۱۹۷۳ء
۹۰
برادرِ محترم پلشیر بیگ صاحب حیدرآباد
یا علی مدد! آپ کے تعزیتی پیغام اور گہری ہمدردی کا بہت ہی شکرگزار ہوں، فقیرانہ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو سعادتِ دارین عطا فرمائے! اور آپ کے عزیزوں کو بھی۔
یہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ میری زندگی کی کہانی انتہائی عجیب و غریب ہے، جسمانی اور روحانی قسم کی آزمائشوں کا نتیجہ! مسافرت و غربت کا قصہ! درویشی و فقیری کا خلاصہ! محنت و مشقت کا مجموعہ! گریہ و زاری کا سرچشمہ! اور صبر و شکر کا ایک ادنیٰ سا نمونہ!
الحمد للہ میری پرمشقت زندگی کی اس مرحلے میں مجھ سے جو عظیم امتحان لیا گیا ہے اس میں بھی صبر و شکر کر رہا ہوں۔
فقط
آپ کا قومی خادم
نصیر ہونزائی
۴ جنوری ۱۹۷۳ء
۹۱
محترم سیکریٹری سلطان پناہ صاحب اشکومن
یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ موصول ہوا، آپ نے میرے فرزندِ جگر بند کے انتقالِ پر ملال پر جس اخوت و یگانگت سے اور جن محبت انگیز الفاظ میں افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا ہے، میں اس کا قلبی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں، خداوندِ کریم آپ کو اپنے عزیزوں کے ساتھ دین و دنیا کی سلامتی و عافیت سے نوازے!! آمین یا رب العالمین! اے مہربان! قانونِ قدرت کی بالادستی اور موت کے بہانے کا حال ذرا سنیے، کہ شروع شروع میں ہمارے گھر کا معمول یہ رہا تھا، کہ جب کبھی ہمارا عزیز ایثار علی کسی سفر پر جانے لگتا، تو اسلامی عقیدہ اور اس کی والدہ کی خواہش کے مطابق میں اپنے فرزندِ دلبند کی سلامتی کے لئے خدا کے حضور میں گڑگڑاتے ہوئے دعا کرتا تھا، اور سب سے باہر کے دروازے کے سامنے تک ایثار علی کے آگے آگے قرآن نکالتا تھا، تا کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کی برکت سے اور اپنی عزیز کتاب کی حرمت سے ہمارے بیٹے کو بخیریت و عافیت گھر واپس پہنچا دے، نیز ایثار علی کی ماں درِ بلا کی نیت سے کسی چیز کا صدقہ نکالتی تھی، مگر افسوس کہ بعد میں یہ معمول یکسر بدل گیا، جس کی وجہ یہ ہوئی کہ چند سالوں سے اس طرف عزیزم ایثار (احسان نصیر) ہر کام کو میری مصلحت کے بغیر اپنی مرضی سے کرنے کا عادی ہو گیا، اور سفر بھی اکثر مجھ سے چھپے چھپائے کرنے لگا، چنانچہ مرحوم کے اس آخری سفر کے متعلق بھی مجھے کوئی علم نہیں تھا، جس سے کہ بموجبِ قانونِ اجل میرا عزیز پھر کبھی واپس گھر نہیں آ سکتا تھا۔
ان تمام افسوسناک صدمات کے باوجود یہ درویش بتائیدِ الٰہی صبر و شکر کے راستے پر ثابت قدمی سے چل رہا ہے، آپ دعا کیجئے کہ آئندہ بھی اس کے قدم میں کوئی
۹۲
لغزش نہ آئے!
فقط آپ کا خیر اندیش
نصیر ہونزائی
۷ جنوری ۱۹۷۳ء
۹۳
محترم محمد شفیع صاحب گرین جنرل سٹور چیلاس
یا علی مدد! آپ کے تعزیتی پیغام کا ممنون و احسان مند ہوں، جس میں آپ نے اپنی طرف سے اور اپنے خاندان کی طرف سے میرے جگر پارہ ایثار علی کی ناگہانی موت پر رنج و الم اور افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا تھا، عاجزانہ دعا ہے کہ قادرِ مطلق آپ کو دونوں جہان میں سلامت اور خوش و خرم رکھے! آمین یا رب العالمین!! اے میرے مشفق و مہربان! میرے دل اور جگر کے زخموں پر صبر و شکر کی مرہم پٹی تو ہو رہی ہے، لیکن میری بیوی کے یہ زخم کچھ لاعلاج نظر آ رہے ہیں، ہر چند کہ میں اسے طرح طرح کی نصیحتوں سے علاج کے لئے کوشش کر رہا ہوں، تاہم مجھے مایوس بھی نہ ہونا چاہئے، آخرکار پروردگارِ عالم اسے بھی توفیق و ہمت عطا فرمائے گا۔
میں تو یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤں، کہ اس نے مجھے نیستی سے نکال کر ہستی میں لایا، پھر اس نے مجھے یکا بعد دیگرے طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا، یہاں تک کہ اس کی نعمتوں کا حساب و شمار نہیں ہو سکتا، اب اگر امتحاناً ایک نعمت ہم سے واپس لی گئی ہے تو ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اس کے متعلق گلہ کریں۔
اے پروردگارِ عالم! ہمیں اور جملہ مومنین کو ہر آزمائش پر صابر و شاکر رہنے کی توفیق و ہمت عنایت فرما! آمین یا رب العالمین!!
فقط
آپ کا خیر اندیش
نصیر ہونزائی
۸ جنوری ۱۹۷۳ء
۹۴
محترم ماسٹر غلام حیدر صاحب مسگر
یا علی مدد! آپ کا رقیمہ جو میرے دردِ دل پر دل سوزی، ہمدردی، افسوس اور دعائے خیر کے معنوں سے مملو تھا، موصول ہوا، ان شاء اللہ تعالیٰ میرا دل آپ کی اس ہمدردی اور جذبۂ یگانگت کو ہرگز فراموش نہ کرے گا۔
اے میرے عزیز! اس مصیبت کے وقت ہمارے باطن میں دو طرح کے احساسات پائے جاتے ہیں، ایک قسم کے احساسات وہ ہیں، جن کی اساس و بنیاد خدا و رسول اور ائمۂ برحق علیہم السلام کے مبارک و مقدس ارشادات پر ہے، دوسری قسم کے احساسات وہ ہیں، جن کا تعلق طبعی میلان، دنیاوی رسم و رواج اور ظاہری ماحول پر ہے، لیکن الحمد للہ ہمارے دینی احساسات ہر وقت دنیاوی احساسات پر غالب و فاتح رہتے ہیں، یہ سعادت اس ذاتِ بابرکات کی تائید و نصرت کے بغیر ممکن نہیں جس کے قبضۂ قدرت میں سب کچھ ہے۔ میں اپنے تمام خاندان کی طرف سے ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں اور فقیرانہ دعا ہے کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو اور جملہ جماعت کو دین و دنیا کی برکتوں اور سعادتوں سے نوازے! آمین یا رب العالمین!!
فقط
آپ کا استاد
نصیر ہونزائی
۹ جنوری ۱۹۷۳ء
۹۵
جناب کیپٹن میر باز صاحب حیدرآباد
یا علی مدد! آپ نے جن درد انگیز الفاظ میں تعزیت نامہ لکھا ہے، اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے، بے شک ایثار علی آپ کو بے حد عزیز تھا، لہٰذا آپ کے نزدیک ایسے دردمندانہ جذبات کا اظہار صحیح ہے۔
مگر میں جیسا کہ آپ کو یقین ہے ایک ایسا درویش آدمی ہوں، جس کے ہاتھ پاؤں رضائے مولا کی رسی سے بندھے ہوئے ہیں، اس لئے اس فیصلۂ الٰہی کے خلاف کوئی فکری حرکت تک نہیں کر سکتا ہوں، مجھے اب بس طوعاً یا کرھاً صبر اور شکر کرنا چاہئے۔
جہاں تک میرے ایثار کی غریب ماں کا سوال ہے، اسے تو میں نصیحت کر کر کے تھک جاتا ہوں، مگر وہ نالہ و فغان سے نہیں تھکتی، آپ دعا کریں کہ خدا اسے ہلاکت سے بچائے، کیونکہ اس کے نظامِ قلب میں خرابی پیدا ہو رہی ہے۔
فقط
آپ کا اپنا
نصیر ہونزائی
۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء
۹۶
جناب میجر شاہ مکین صاحب نومل
یا علی مدد! آپ نے جو رقیمہ اظہارِ افسوس اور میری ہمدردی میں لکھا تھا، میں اس کی قدر اور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ہوائی جہاز کا یہ حادثہ واقعاً سب کے لئے بڑا درد ناک تھا۔
میجر صاحب! میں تو اپنے عزیز، جوان، اور ہنرمند فرزند کی ناگہانی موت کے بارِ غم کو صبر اور شکر کے ساتھ اٹھائے جا رہا ہوں، مگر افسوس صد افسوس کہ میری اہلیہ سے یہ سنگین بوجھ اٹھایا نہیں جا رہا ہے، حالانکہ میں شروع ہی سے اسے صد گونہ نصیحتیں کرتے آیا ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسہم و اموالھم بان لھم الجنۃ (۹:۱۱۱)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے، کہ ان کو جنت ملے گی۔ پس معلوم ہوا کہ مومنین کی جانیں اور ان کے اموال اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں، اور اگر خدا تعالیٰ اپنی کوئی امانت واپس لیتا ہے، تو اس پر پشیمان و نالان ہونا سراسر نادانی اور جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء
۹۷
جناب غازی جوہر خان صاحب
اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ خپلو
یا علی مدد! میں آپ کی روحانی اخوت و یگانگت اور دینداری کی بے حد قدر و تکریم کرتا ہوں، کہ آپ نے باندازِ کریمانہ قلمی طور پر اس بندۂ مصیبت زدہ کی دلجوئی فرمائی ہے۔
آپ اس فلسفے کو بخوبی جانتے ہیں، کہ غم حقیقت میں زوالِ نعمت کا تصور ہے، جس کا علاج دو طرح سے ہو سکتا ہے، یا ہمیں نعمت کا امانت سمجھنا چاہئے، تا کہ امانت کی واپسی پر ہمارا کوئی اعتراض نہ ہو سکے، یا نعمت کے زوال کو عارضی قرار دیتے ہوئے یوں سمجھنا چاہئے کہ اگر اس چند روزہ زندگی میں ہم سے کوئی نعمت اٹھائی جاتی ہے، تو پھر وہ ہمیں ابدی زندگی میں بصورتِ احسن واپس ملنے والی ہے۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء
۹۸
محترم محمد شفیع صاحب
یا علی مدد! آپ نے میری شدتِ درد کو کم کر دینے اور مجھے تسلی و تسکین دینے کے لئے جو تعزیت نامہ لکھا تھا، وہ انسانی اور قومی ہمدردی کا ایک صحیح مظہر تھا، میں آپ کی اس ہمدردی کو ہرگز فراموش نہ کروں گا۔
اے دوستِ مہربان! جگرپارہ کی جدائی کا امتحان واقعی بڑا سخت ہے، لیکن اب اس خدائی امتحان سے میرے لئے گریز کی کوئی راہ نہیں ملتی، لہٰذا اس میں مجھے صبر و شکر جیسے اعلیٰ اوصاف سے کما کان حقہ فائدہ اٹھانا چاہئے، ورنہ گرانمایہ موتیوں کا خزانہ لٹ جانے کے ساتھ ساتھ اس کا ثواب بھی ضائع ہو جائے گا۔
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء
۹۹
عزیزانِ من صدر و اراکینِ اسماعیلیہ ہونزا کواپریٹو کریڈٹ سوسائٹی کراچی
یا علی مدد! آپ کا تعزیتی خط، جس میں مشفقانہ الفاظ سے میرے زخمِ دل پر مرہم لگانے کی کوشش کی گئی تھی، موصول ہوا، میں آپ کی اس ہمدردی اور سعیٔ صالحہ کے لئے نہایت ہی شکرگزار اور ممنون ہوں۔
اگرچہ ظاہری طور پر میرا نوجوان اور خوبرو بیٹا میری مسرتوں کا خزانہ تھا، اور اس کی ناگاہ موت کے ہاتھوں میری مادی خوشیوں کا یہ خزانہ لٹ گیا، تاہم میں دینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا ہوں، کہ میں بدقسمت ہوں، بلکہ میں عرفان و ایقان کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں خوش قسمت ہوں، کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کے عطا کردہ خزانوں میں سے ایک گرانقدر اور بیش بہا خزانہ حصولِ آخرت کے امتحان میں صرف ہوا، آپ سب اس عظیم امتحان میں میری کامیابی کے لئے دعا کیجئے۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۲۵ جنوری ۱۹۷۳ء
۱۰۰
عزیزِ من حسام الدین
یا علی مدد! میرے پیارے ایثار نے بموجبِ امرِ الٰہی یکایک نوجوانی میں ہی اس دنیائے ناپائدار کو خیرباد کہا ہے، ایسے حال میں ظاہری طور پر ہمیں اور آپ کو صدمہ ہونا لازمی تھا، لیکن تعجب کی بات ہے، کہ اس موقع پر ہمارے ساتھ ایک وسیع دنیا شریکِ غم ہے اور سبھی دعا کرتے ہیں، اور دعا بھی ایسی کہ وہ زبان کی نوک سے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے ہے، پس بڑا نیک بخت ہے وہ مومن جوان جو اپنے داغِ مفارقت سے انسانی ہمدردی کا ایک عظیم الشان انقلاب لائے اور نیک دعاؤں کی ایک ابدی دنیا بسائے۔
بڑھاپے کی موت کے نتیجے میں نہ کسی کو کوئی درد ہوتا ہے نہ ہمدردی، نہ یہ کوئی خاص امتحان ہے نہ آزمائش، اور نہ اس کے صبر و شکر کا کوئی خاص پھل ہے، اس میں محدود دعائیں ہوتی ہیں وہ بھی صرف رسمی طور پر۔
فقط
آپ کا اپنا
نصیر ہونزائی
۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء
۱۰۱
عزیز جماعتِ حسین آباد
یا علی مدد! آپ کی ہمدردیوں اور دعاؤں کے لئے شکرگزار اور ممنون ہوں، خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو ان نیک خیالات کے عوض اجرِ عظیم عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!
یہ حقیقت واضح رہے، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے امتحان و ابتلا کے لئے موت اور زندگی بنائی ہے، تا کہ یہ ظاہر ہو کہ خوبیٔ عقیدہ اور حسنِ عمل کے اعتبار سے کون آگے ہے اور کون پیچھے، پس مومنین پر واجب و لازم ہے کہ وہ حیات و ممات کے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائیں۔ آپ سب دعا کریں کہ خدا تعالیٰ جملہ مومنین کو نیک توفیق عنایت کرے!
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۲۶ جنوری ۱۹۷۳ء
۱۰۲
محترم الواعظ غلام الدین صاحب التت
یا علی مدد! آپ نے تعزیت نامہ میں جس خلوص و محبت سے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے، وہ قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہے، خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو دونوں جہان کی سربلندی عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنین سے پانچ چیزوں میں امتحان لیا کرتا ہے، وہ ہیں خوف، بھوک، مال کا نقصان، جان کا نقصان اور ثمرات کا نقصان، ان میں سب سے بڑا امتحان جانی نقصان ہے، اور کامیابی کی صورت میں اس کا اجر و صلہ بھی انتہائی عظیم ہے، پس آپ ہمارے حق میں دعا کیجئے، کہ ہم اس عظیم ابتلا و امتحان میں کامیاب ہو سکیں۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۸ جنوری ۱۹۷۳ء
۱۰۳
محترم غلام الدین صاحب گلمت
یا علی مدد! آپ کا تعزیتی مراسلہ موصول ہوا، میں آپ کی اور آپ کے خاندان کی اعلیٰ انسانیت، سچی دینداری اور پرخلوص ہمدردی پر یقین رکھتا ہوں، خدائے برتر و توانا آپ اور جملہ مومنین کو دونوں جہان کی کامیابی عطا فرمائے! آمین ثم آمین!!
میرے عزیز فرزند ایثار علی کی بے ہنگام موت اگرچہ ایک ناقابلِ فراموش صدمہ ہے، تاہم مجھے اپنے مولا پر بھروسہ ہے، کہ اس نے مجھ سے یہ امتحان ایک عظیم اجر کے لئے لیا ہو گا، جیسے اس سے قبل مجھ سے طرح طرح کے امتحان لیے گئے ہیں۔
فقط
آپ کا دعا گو
نصیر ہونزائی
۲۹ جنوری ۱۹۷۳ء
۱۰۴
عزیزِ من حمید اللہ بیگ سکردو
یا علی مدد! میرا لختِ جگر ایثار علی یقیناً آپ کا بھی عزیز تھا لیکن موت کا پیغام ایسا ہے کہ اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، لہٰذا اب ہمیں صبر و شکر کی حکمتوں کا سہارا لینا چاہئے اور ہمیں یقین رکھنا چاہئے، کہ ہماری جسمانی زندگی چند روزہ ہے، اور ہماری روحانی حیات لاانتہا ہے، جب ایسا یقینِ کامل ہمارے دنیاوی احساسات پر غالب آئے تو اسی وقت ہمیں تائیدِ الٰہی حاصل ہو سکتی ہے۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۲۹ جنوری ۱۹۷۳ء
۱۰۵
محترم محبوب علی صاحب کریم آباد کراچی
یا علی مدد! میرے دل و دماغ کے درد سے آپ نے جو ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا ہے، میں اس کا قلبی طور پر شکرگزار ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو اور آپ کے جملہ عزیزوں کو روحانی اور جسمانی سلامتی و کامیابی کی نعمتوں سے نوازے! آمین!!
آپ اس واقعہ کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ میرے سامنے صرف ایک نوجوان اور ہوشیار فرزند کی ناگاہ موت اور داغِ مفارقت کا امتحان نہیں ہے بلکہ اس امتحان نے کئی اور امتحانات جنم دئے ہیں، جن کی تفصیل کے لئے اس مختصر سے خط میں کوئی گنجائش نہیں ان تمام مصائب و آلام کے باوجود میں نے رب العزت کے حضور میں سر بسجود ہو کر مناجات کی ہے، کہ اگر وہ میری ان مصیبتوں سے خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں، صرف اتنا ہے کہ وہ مجھے اس بارِ غم کو خندہ پیشانی سے اٹھانے کی قوت و ہمت عنایت فرمائے! آمین!!
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۹ جنوری ۱۹۷۳ء
۱۰۶
حضور امیر صاحب ہونزا
یا علی مدد! آپ نے ٹیلیگرام اور خط کے علاوہ بنفسِ نفیس تشریف لا کر جس عنایت و مہربانی سے میرے اس دردِ بے درمان پر افسوس و ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے، اور جن شفقت آمیز الفاظ میں دعا و نصیحت فرمائی ہے، میں اسے (ان شاء اللہ تعالیٰ) ہمیشہ ہمیشہ قدردانی سے یاد کروں گا۔
میرا مرحوم فرزندِ جگر بند کس قدر خوش نصیب تھا، کہ اس کی مغفرت اور روحانی سکون کی دعا کرنے کے لئے بادشاہِ وقت تشریف فرما ہوئے، شاہی خاندان کی بہت سی معزز ہستیوں نے اس میں حصہ لیا، جناب ریزیڈنٹ صاحب تشریف لائے، جناب پولیٹیکل ایجنٹ صاحب اور دوسرے بہت سے اعلیٰ افسروں نے شرکت کی، غرض کہ ہمدردی کی ایک بھرپور دنیا جوش و خروش کے ساتھ حرکت میں آ گئی، جس میں ہر نوع، ہر صنف اور ہر درجہ کے لوگ موجود تھے۔
جنابِ عالی! ہمیں ہر ابتلا و امتحان میں صبر اور ہر حالت میں شکر کرنا چاہئے کیونکہ ہم اپنے حقیقی مالک کے بندے یعنی غلام ہیں، اور ہماری روحانی اور جسمانی فلاح و بہبود صرف اسی امر میں پوشیدہ ہے کہ اپنے مالک و آقا کی فرمانبرداری اور غلامی کرتے ہوئے اس کی خوشنودی و رضا حاصل کریں۔
دعا ہے کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو اور ہم سب کو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق دینی اور قومی خدمت کا اعلیٰ ترین جذبہ و شوق اور توفیق و ہمت عنایت کرے! آمین یا رب العالمین!!
فقط آپ کا تابعدار
نصیر ہونزائی، یکم فروری ۱۹۷۳ء
۱۰۷
عزیزِ من امام یار بیگ لاہور
یا علی مدد! ایثار علی کے بے وقت موت سے مجھے جو طرح طرح کی تکالیف اٹھانا پڑی ہیں، ان میں آپ بھی شریک ہیں، لیکن میرا عقیدہ مجھے یہ بتاتا ہے، کہ اپنی انہیں تکالیف کو صبر اور شکر کی قوت سے اٹھانے میں حکمت ہے اب اس کے سوا فلاح و نجات کا کوئی راستہ نہیں۔
مومنین کے لئے مایوسی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ اس دنیا میں مومن سے جو کچھ لیا جاتا ہے، آخرت میں وہ ہزار ہا درجہ بہتر بنا کر واپس کر دیا جاتا ہے۔
فقط
آپ کا اپنا
نصیر ہونزائی
یکم فروری ۱۹۷۳ء
۱۰۸
محترم الواعظ عزیز علی فدائی صاحب لائل پور (پنجاب)
یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ، جو محبت و یگانگت اور اخوت و ہمدردی کا آئینہ دار تھا، موصول ہوا، میں آپ کی اس ناقابلِ فراموش ہمدردی و محبت کو ہمیشہ یاد رکھوں گا۔
واعظ صاحب! جیسا کہ آپ جانتے ہیں، کہ حقیقی مومنین کی موت دراصل شہادت کے سوا کچھ نہیں، اور شہادت کا نتیجہ خوشی ہونا چاہئے، نہ کہ غم، ہر چند کہ انسانی نفس اس امر کے لئے ہرگز تیار نہیں، کہ ایک نوجوان، عزیز اور ہر طرح سے مستعد بیٹے کی موت کے غم کو شہادت کی خوشی کی صورت دے کر مطمئن ہو جائے، مگر جس عقل کی صحیح پرورش امامِ برحق علیہ السلام کی مقدس ہدایات سے ہوئی ہے، اس کے لئے یہ امر مشکل نہیں، والسلام۔
فقط
آپ کا روحانی بھائی
نصیر ہونزائی
۷ فروری ۱۹۷۳ء
۱۰۹
محترم میجر مستی بیگ صاحب
یا علی مدد! آپ کا مکتوب جس میں آپ نے میرے نورِ نظر کے انتقالِ پرملال پر افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا تھا، اور مہر و محبت سے میری دلجوئی کی تھی، موصول ہوا، خداوندِ تبارک و تعالیٰ آپ کو دین و دنیا کی سعادت مندی عنایت فرمائے! آمین ثم آمین!!
جیسا کہ آپ کو اس بات کا یقین ہے کہ میں ایک درویش آدمی ہوں، اور میرے نزدیک دنیا و ما فیہا کی چندان اہمیت نہیں، اور اگر اس کی کوئی اہمیت ہے، تو وہ صرف یہی کہ یہاں کی ہر چیز کو راہِ مولیٰ اور طریقِ عقبیٰ میں قربان کر دیا جائے، اور قربانی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر پیاری چیز سے دل اٹھا کر ذاتِ یگانہ کی طرف متوجہ کر دیا جائے۔
میرا ایثار علی مجھے نہایت ہی عزیز تھا، لیکن اب میں نے اپنے پیارے بیٹے کی محبت کو صبر اور شکر کی صورت میں فنا کر کے راہِ مولیٰ میں قربان کر دیا ہے۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۱۰ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۰
محترم افتخار حسین صاحب اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول بلتت ہونزا
یا علی مدد! آپ نے پیغامِ تعزیت میں جس دوستانہ طریق سے اور جن پیارے الفاظ میں میرے دردِ دل کے متعلق افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا ہے، میں اس کا ہمیشہ شکرگزار رہوں گا، خداوندِ کریم دائم الوقت آپ کے لئے علم و حکمت کے ابواب کشادہ رکھے! اور آپ کو دونوں جہان کی سرفرازی و کامرانی نصیب ہو!!
آپ اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں، کہ پیارے ایثار علی کے چالیس دن ابھی پورے نہیں ہوئے تھے، کہ عزیزم شیر سلمان نے میرے داغے ہوئے دل کو پھر داغ دیا، مگر رضائے الٰہی کے خلاف کسی بندے کی مرضی لمحہ بھر بھی ٹھہر نہیں سکتی، اس لئے بہتر یہی ہے، کہ اس طوفانِ غم سے بچنے کے لئے صبر اور شکر کی کشتی بنا لی جائے۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۱۱ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۱
محترم موکھی عصمت اللہ صاحب چپورسن
یا علی مدد! آپ کا تعزیتی خط جو خلوص و محبت کے پیرایہ میں مرقوم تھا ملا، پروردگارِ عالم اس ہمدردی و دلسوزی کے عوض آپ کو اور تمام جماعت کو دین و دنیا میں ہزار ہا نیکیاں عطا فرمائے!
نیکنام موکھی صاحب! بظاہر میرا پیارا ایثار علی دینی و دنیاوی کاموں میں میرے ہاتھ بٹانے سے گریز کر گیا، مگر حقیقتِ حال کچھ اور ہے، وہ یہ کہ میرے فرزندِ دلبند کی روح ایک روحانی کیفیت بن کر میری حقیقی ہستی میں موجود ہے، اس روحانی کیفیت سے مجھے بہت مدد ملتی رہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے فرمایا ہے: لا تقنطوا من رحمۃ اللہ (اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ)۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۱۲ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۲
عزیزِ من دولت شاہ خروکشل حیدرآباد
یا علی مدد! ہاں عزیز مجھے خوف تھا کہ میرے اس غم کی وجہ سے جماعت کے بے شمار افراد کو دکھ ہو گا، لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے، تو غم کا کوئی مستقل وجود نہیں، کیونکہ عوام کے نزدیک غم کا سبب کسی پیاری چیز کا فوت ہو جانا ہے مگر خواص کے نزدیک ہر چیز امامِ برحق کے نور کی روشنی میں حاضر اور موجود ہے (بحکمِ: وکل شی احصینٰہ فی امام مبین)۔
جاننا چاہئے، کہ ہر چیز کی دو ہستیاں ہیں، ایک ہستی چیز ہے اور دوسری ہستی اس کا سایہ ہے، چنانچہ روح چیز ہے اور جسم اس کا سایہ، سایہ کا وجود کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا، مگر چیز سایہ نہ ہونے کی صورت میں بھی موجود ہوتی ہے، اسی طرح پیارے ایثار علی کی روح جسم کے سایہ نہ ہونے کے باوجود امامِ عالی مقامؑ کے نور کی روشنی میں موجود ہے۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۱۳ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۳
جناب صوبیدار میجر عبد الحکیم صاحب سکردو
یا علی مدد! میرے دل و دماغ کے اس گہرے زخم پر آپ نے جو افسوس و ہمدردی کا اظہار کیا ہے، میں اس کا شکرگزار اور ممنون رہوں گا، خداوندِ تعالیٰ آپ کی عزتِ دینی و دنیاوی میں ہر دم اضافہ کرے! آمین ثم آمین!!
یہ ایک فطری امر ہے کہ عزیز جوان اور ہر طرح سے مستعد بیٹے کی یکایک موت سے ایک حساس انسان زندہ درگور ہو جاتا ہے، مگر چونکہ مجھے رحمت کے فرشتوں نے پہلے ہی سے اس بات کے لئے تیار کر رکھا تھا، کہ میں ہر آنے والی مصیبت کو برداشت کروں اور یہ سمجھوں کہ مصیبت میں ایک عظیم حکمت پنہان ہے، پس میں پیارے ایثار علی کے داغِ مفارقت سے اُف تک نہ کر سکتا ہوں۔
فقط
آپ کا علمی خادم
نصیر ہونزائی
۱۸ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۴
محترم رحمت اللہ بیگ صاحب بلتت
یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ موصول ہوا، آپ کی ہمدردی اور دعا کا شکرگزار ہوں، اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو دونوں جہان کی کامیابیاں عطا فرمائے!
آپ جانتے ہیں کہ موت خاص کر ایک جوان بیٹے کی موت دنیاوی نظر کے سامنے ایک عظیم مصیبت ہے، لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے، تو موت روحانیت کا دروازہ ہے اور حقیقی مومن کے لئے یہ خوشی کے پھولوں کا گلدستہ ہے، نیز اس میں ایک سرِ مگو یہ بھی ہے، کہ روح خدا تعالیٰ کے نور کی کرن کی حیثیت سے قدیم ہے، یعنی یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، اس میں روح کے دنیا میں آنے اور یہاں سے جانے کی کوئی ابتداء و انتہا نہیں، جیسا کہ مولائے روم صرف ایک دور کے متعلق فرماتے ہیں:
گر ہمی پرسی ز حالِ زندگی
نُہ صد و ہفتاد قالب دیدہ ام
ترجمہ: اگر تو میری زندگی کا حال پوچھتا ہے، تو وہ یہ ہے کہ میں نے اس دفعہ نو سو ستر (۹۷۰) اجسام دیکھے ہیں، یعنی میں اس دور میں نو سو ستر مرتبہ دنیا میں پیدا ہوا ہوں۔
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۰ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۵
عزیزم غلام حیدر مسگر
یا علی مدد! آپ کا تعزیت نامہ جو دلسوزی و ہمدردی سے مملو تھا، موصول ہوا، میں آپ عزیزوں کی اس بے لوث و بے غرض محبت کا اعتراف کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ اس دردمند کے ہمدردوں کو ہر قسم کی سلامتی و کامیابی عطا فرمائے! آمین یا رب العالمین!!
میرے عزیز! اگر یہ فقیر صبر و شکر جیسا کہ چاہئے، کر سکے تو اس کے اپنے پیارے سے صبر و شکر کا وہ اجرِ عظیم بدرجہا افضل و اعلیٰ اور عزیز ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا اور آخرت میں اسے ملنے والا ہے۔
فقط
آپ کا دعاگو
نصیر ہونزائی
۲۴ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۶
برادرِ محترم جوہر بیگ صاحب راولپنڈی
یا علی مدد! آپ کے خط سے ظاہر ہے، کہ عین عالمِ شباب میں عزیزم ایثار علی کی ناگہانی اور حادثاتی وفات سے آپ کو ذہنی طور پر سخت تکلیف محسوس ہوئی ہے ہمیں اس میں ذرہ بھر شک نہیں، کیونکہ میرا فرزندِ جگر بند آپ کے عزیزوں میں سے تھا، لیکن اب ہمارے لئے صحیح راستہ یہ ہے کہ ہم صبر اور شکر پر عمل کریں، تا کہ بموجبِ ارشادِ الٰہی ہمیں صلوات، رحمت اور ہدایت حاصل ہو۔ اولٰئک علیہم صلوٰت من ربھم و رحمۃ و اولٰئک ہم المھتدون (۲:۱۵۷)۔
فقط
آپ کا بھائی
نصیر ہونزائی
۲۵ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۷
عزیزِ من امان اللہ خان لاہور
یا علی مدد! عزیز کا پیغامِ تعزیت موصول ہوا، اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے نورِ چشم ایثار علی کے انتقالِ پرملال سے آن عزیز کو بھی بڑا رنج ہوا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے بعد نہ کسی کا کوئی چارہ ہے اور نہ کوئی اعتراض، چنانچہ حق تعالیٰ حدیثِ قدسی میں ارشاد فرماتا ہے کہ: ’’جو شخص میرے فیصلہ کے لیے راضی نہ ہو اور میری آزمائش پر صبر نہ کرے، تو اسے چاہئے، کہ میرے سوا کسی دوسرے پروردگار کو ڈھونڈ لے اور میرے آسمان کے نیچے سے نکل جائے‘‘۔
پس ہم اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پر اپنی خوشنودی کو قربان کر دیتے ہیں اور وہ ہم سے جو کچھ امتحان لینا چاہے، ہم اس پر اس سے مدد چاہتے ہوئے صبر کرتے ہیں۔
فقط
عزیز کا اپنا
نصیر ہونزائی
۲۷ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۸
محترم غلام محمد صاحب و محترم محمد علی صاحب سکردو
یا علی مدد! آپ صاحبان کے اظہارِ افسوس اور ہمدردی کا بہت بہت شکریہ! آپ جانتے ہیں کہ عقل و نفس کے نام سے انسان کے باطن میں دو متضاد قوتیں موجود ہیں، عقل ہمیشہ دینی ہدایات کے مطابق عمل کرنے کی خواہان ہوتی ہے اور نفس ہر وقت عقل کے خلاف چلتا ہے، چنانچہ جب عقل صبر و قناعت اختیار کرتی ہے، تو نفس بے صبری اور طمع کو لیتا ہے، پس اگر میں اپنے عزیز فرزند کی موت پر صبر کروں تو یہ ہدایت کے مطابق عقل کا کام ہو گا اور اگر میں جزع فزع کروں تو یہ نفس کا عمل ہو گا، جو امرِ الٰہی اور عقل کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور جملہ مومنوں کا ہدایاتِ مقدسہ اور عقلِ سلیم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق و ہمت عنایت کرے! آمین یا رب العالمین!!
فقط
آپ کا مخلص
نصیر ہونزائی
۲۷ فروری ۱۹۷۳ء
۱۱۹
میرے عزیز بھائی صوبیدار یوسف علی صاحب
یا علی مدد! ہاں، میرا نورِ چشم دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گیا، اس فرزندِ ارجمند سے میری بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، لیکن اللہ کو کچھ اور امر منظور تھا، لہٰذا اب ہمیں ماننا چاہئے، کہ امرِ مولیٰ از ہمہ اولیٰ۔
عزیز بھائی! میرا ایثار علی کتنا خوش قسمت تھا! کہ دنیا کی ہرگونہ الجھنوں سے فارغ ہو اور آزاد ہو کر جوانی ہی میں انتقال کر گیا، بے شمار ہمدردیاں اور لاتعداد دعائیں حاصل کر لیں، بہت سے جماعت خانوں میں تسبیحِ مغفرت پڑھی گئی، گھر میں قرآن خوانی اور دوسری ثوابی رسموں کے علاوہ روحانی مجلسیں منعقد کی گئیں، ہر درجہ کے بے شمار انسانوں اور بہت سی جلیل القدر شخصیتوں نے تحریری یا ذاتی طور پر ماتم پرسی کی اور بے حساب آنکھوں نے اس کے غم میں آنسو بہائے۔
فقط
آپ کا بھائی
نصیر ہونزائی
۲۷ مارچ ۱۹۷۳ء
۱۲۰
بخدمتِ نیکنام صدر صاحب و ممبران نامدار مقامی کونسل گلگت مرکز
یا علی مدد! آپ کی جماعت اور ملحقہ جماعتوں کے اولواالعزم اور فرمانبردار اسماعیلیوں نے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنے تاریخ ساز کارناموں کے سلسلے میں جہاں اسلام، پاکستان اور جماعت کی بے شمار و دور رس خدمات انجام دی ہیں، وہاں ان کی ایسی لاتعداد خدمتوں اور امدادوں کی مثالیں بھی موجود ہیں، جو ضرورت مند یا مصیبت زدہ خاندانوں اور مستحق افراد کے لئے کی گئی ہیں، میں اپنے اس مختصر خط میں ان حقیقی اسماعیلیوں کی ان گوناگون قربانیوں کا مفصل بیان نہیں کر سکتا، جو نہ صرف اسماعیلیوں کے جماعتی دائرے تک محدود ہیں، بلکہ ان کی بدولت اسلام اور پاکستان کی مقامی ضرورتوں کو بھی پورا کیا گیا ہے۔
چنانچہ آپ حضرات نے میرے فرزند ایثار علی کے انتقال پر جس گہری ہمدردی سے اظہارِ افسوس کیا، جس خلوص و محبت سے میرے ساتھ شریکِ غم ہوئے اور جس عزت و تکریم سے مجھے اور میرے خاندان کو سہارا دیا، میں اس کا شکریہ، جیسا کہ اس کا حق ہے ادا نہیں کر سکتا ہوں، اور نہ ہی یہ امر میرے لئے آسان ہے کہ میں ان جماعتی اداروں اور تمام افراد کی شب و روز کی انتھک خدمات کی تفصیلات بیان کروں، جو مقدس مذہب کو تقویت پہنچانے اور امامِ برحقؑ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر انجام دی گئی ہیں۔
چنانچہ مثال کے طور پر مرد اور خواتین والنٹیئرز کی بے لوث اور خالص خدمات کی طرف اشارہ کرتا ہوں، کہ انہوں نے شروع ہی سے نہ صرف مذہبی اجتماعات کی خدمت کو اپنا فریضہ سمجھا، بلکہ اپنی جماعت کے کسی گھر کو بھی اس بات کی فکر کرنے کا موقع ہی نہیں دیا، کہ اب ہم اپنے گاؤں اور برادری سے دور اس مصیبت
۱۲۱
میں کیا کریں گے، دونوں قسم کے والنٹیئرز کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، امیدِ واثق ہے کہ جماعتی خدمت کی قدر و قیمت جہاں کہیں بھی ہو روز بروز بڑھتی جائے گی۔
اس کتاب کے آخر میں عاجزانہ اور درویشانہ دعا ہے کہ پروردگارِ عالم ان تمام جماعتی خدمت گزاروں کے دلوں کو اپنے پاک نور کی روشنی سے منور فرمائے! انہیں دونوں جہان کی سعادت مندی عطا ہو! اور جملہ جماعت کو نیک توفیق، بلند ہمت اور فلاحِ دارین عنایت ہو!!!
فقط
آپ کا دعاگو درویش
نصیر ہونزائی
۱۲۲
ترجمانیٔ زبانِ حالِ مجیب الدین (مرحوم = بہشتی) ابنِ علی یار خان مرتضیٰ آباد
رشتہ دارو! فضلِ مولا پر رکھو محکم یقین
میں تو ہوں الحمد للہ ساکنِ خلدِ برین
موت میری تھی شہادت میں مریدِ شاہ تھا
پس بہشت میں شادمان ہوں تم نہ ہو جانا حزین
میری طوفانی خوشی کا تم کو اندازہ نہیں
تم نے دیکھی ہی نہیں ہے باغِ جنت کی زمین
تم دعائیں کر کے مجھ کو کچھ تحائف بھیج دو
تا کہ راضی ہو ہمیشہ تم سے رب العالمین
ہر بہشتی شادمان ہے اور دائم ہے جوان
سب کو حاصل ہے لقائے حضرتِ سلطانِ دین
مجلسوں میں حور و غلمان لعل و گوہر کی طرح
ہیں مناظر سب حسین اور اہلِ جنت نازنین
۱۲۳
علم و حکمت کی مجالس نور کا دیدار بھی
نغمہ ہائے مدحِ مولا دل نواز و دل نشین
خواب میں اے کاش تم جنت کا منظر دیکھتے!
تا کہ تم ہرگز نہ ہوتے میرے بارے میں غمین
معرفت ہی معرفت ہے تیری باتوں میں نصیر!
اس لئے اشعارِ شیرین ہیں مثالِ انگبین
ذوالفقار آباد، گلگت
جمعرات ۲۴ مئی ۲۰۰۱ء
۱۲۴
پیغامِ روحانی بزبانِ حال
من جانبِ غزالہ مرحومہ
اے قبلہ! نہ کر غم کہ یہاں زندہ ہوئی میں
یہ اس کی نوازش ہے کہ تابندہ ہوئی میں
ہیں حور و پری ساتھ کہ میں خود بھی پری ہوں
اس انجمنِ نور میں خوشیوں سے بھری ہوں
میں دخترِ روحانیٔ مولائے زمان ہوں
شہزادیٔ عالم ہوں مگر سب سے نہان ہوں
ہم نور کی اولاد ابھی نور ہوئے ہیں
دنیا کی مصیبت سے بہت دور ہوئے ہیں
جنت میں عجب شاہی محل ہم کو ملا ہے
ہم زندۂ جاوید ہوئے فضلِ خدا ہے
شاہوں کی طرح شاد ہیں ہم اس کا کرم ہے
بیماری نہیں، موت نہیں اور نہ ہی غم ہے
۱۲۵
ہاں تیری غزالہ پہ علیؑ سایہ فگن ہے
وہ اس لئے جنت میں سدا زندہ چمن ہے
صد گونہ خوشی ہے ہمیں دیدارِ علیؑ سے
گنجینہ ملا ہے ہمیں اسرارِ علیؑ ہے
طوفانی خوشی ہے ہمیں، تم ہم پہ نہ رونا
ڈیڈی! ممی! تم کبھی بے صبر نہ ہونا
لینا ہے تمہیں علم و عبادت کا سہارا
ہے دینِ خدائی میں یہی شیوہ ہمارا
کس شان سے آیا ہے یہ پیغامِ غزالہ
روشن ہو زمانے میں سدا نامِ غزالہ
غزالہ بنتِ امام یار بیگ جنرل منیجر، آغا خان ہیلتھ سروسز، پاکستان، ناردرن ایریاز اینڈ چترال۔
غزالہ کی تاریخِ پیدائش: ۱۵ جولائی ۱۹۸۷ء
تاریخِ وفات: ۸ جنوری ۱۹۹۹ء
انا للہ و انا الیہ راجون (۲:۱۵۶)
۱۲۶
قانونِ بہشت
(ایک بہشتی کی زبانِ حال سے)
یہ رب کا کرم ہے کہ میں جنت میں گیا ہوں
اک نور یہاں ہے کہ مجھے اس نے لیا ہے
(س) ہو گی کہ نہیں کل کو ہمیں تیری ملاقات؟
اے جان! بتا ہم کو بتا جلدی یہی بات؟
(ج) وہ کیسی بہشت ہے کہ نہ ہو جس میں ملاقات
وہ کیسا سوال ہے! صد حیف ہے، ھیھات!
دانا ہیں وہی لوگ جو جنت کو سمجھتے
آیات کے باطن سے وہ حکمت کو سمجھتے
قانونِ بہشت دیکھ کہ وہ رحمتِ کل ہے
واں کوئی نہیں خار فقط غنچہ و گل ہے
جمعرات ۲۴ اگست ۲۰۰۰ء
نوٹ: قانونِ بہشت سے وہ آیاتِ کریمہ مراد ہیں جو بہشت کی توصیف میں وارد ہوئی ہیں۔
۱۲۷