روشنائی نامہ – نورِ عرفان
گزارشِ احوال
عالمِ دین اور دُنیائے علم و ادب اس امر سے بخُوبی واقف و آگاہ ہے کہ حکیم نامور پیر سیّدنا ناصر خسرو قدس اللہ سرّہٗ کی حکیمانہ تعلیمات تحقیق و تدقیق اور حکمت و معنویّت کی ایک نرالی شان رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ہوش مند اور باشعور انسان آپ کے پیش کیے ہوئے اسرارِ روحانیّت سے بھرپور حقائق و معارف کی چاشنی اور لذّت سے ایک بار بہرہ ور اور لطف اندوز ہو جاتا ہے، تو پھر کبھی وہ ان روشن حقیقتوں اور اعلیٰ معرفتوں کی راہ و روش سے بے پرواہ نہیں رہ سکتا، تا آنکہ وہ دینی و روحانی علوم و حِکم سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ الغرض پیر صاحب کے علمی جاہ و جلال اور عرفانی فضل و کرم کا صحیح اندازہ اس وقت ہو سکتا ہے، جبکہ ان کی پُر حکمت اور پُر اسرار تصانیف کا بغور مطالعہ کیا جائے۔
زیرِ نظر کتاب موصوف حکیم کی ایک مشہور و معروف تصنیف
۳
“روشنائی نامہ” کی پہلی چوتھائی کے ترجمہ اور تشریح پر مشتمل ہے جو “نورِ عرفان” کے پیارے اسم سے موسوم کیا گیا ہے۔ اور روشنائی نامہ کے مرادی معنی بھی یہی ہیں، اگرچہ اصل کتاب کے تقریباً نصف حصّے تک ترجمہ ہو چکا ہے۔ لیکن اس مصلحت کے پیشِ نظر کہ کتاب کی ضخامت کم ہو، اس چوتھائی پر اکتفا کیا گیا ہے، تاکہ قارئین خصوصاً نئی نسل کو اس کے مطالعے کے لیے وقت مل سکے۔ اور یہی بہتر ہے کہ چھوٹی چھوٹی کتابوں کی صورت میں دینی علوم پیش کیے جائیں۔
اس کتاب میں جو اصل کتاب کے کل ۵۹۱ حکیمانہ اشعار میں سے صرف ۱۶۲ شعروں کا ترجمہ و تشریح ہے۔ دو دلکش اور اعلیٰ موضوع سموئے ہُوئے ہیں۔ جن میں سے پہلے کا عنوان “حمد باری تعالیٰ” اور دُوسرے کا “نصیحت” ہے۔
آپ شاید باور کریں گے کہ میں نے ترجمہ و تشریح کے سلسلے میں کافی کوشش کی ہے، کہ پیر ناصر خسرو کے حکیمانہ کلام کے مفہومات کو شایانِ شان طور پر اُردو میں منتقل کیا جائے، لیکن مجھے اعتراف ہے کہ مجھ سے ایسا نہ ہو سکا ہے،
۴
جس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔
مجھے آخر میں ایچ۔ آر۔ دی آغاخان اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے افسروں، اہلکاروں اور اسکالروں کا بہت بہت شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اُنھوں نے از راہِ علم گستری میری اس کتاب کی مکمل سرپرستی قبول فرما کر اس کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا، تاکہ ایسی کتابوں کے ذریعے جماعت کی علمی طاقت میں اضافہ ہو، دعا ہے کہ پروردگارِ عالم ہماری جماعت اور اس کے تمام اداروں کو علم و عمل کی نیک توفیق اور اعلیٰ ہمت عطا فرمائے! آمین یا ربّ العالمین
آپ کا ایک علمی خادم
نصیر اُلدّین نصیرؔ ہونزائی
۴/اپریل۱۹۷۶ء
۵
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(حمد باری تعالیٰ)
بنامِ آنکہ داریِ جہان است
خداوندِ تن و عقل و روان است
ترجمہ:اُس (خدا) کے نام سے (آغاز کرتا ہوں) جو کائنات کا نگہبان ہے، اور جسم و جان اور عقل کا مالک ہے۔
تشریح: حضرت پیر ناصر خسرو قدس اللہ سرّہٗ حکمت کی زبان میں فرماتے ہیں، کہ اگرچہ عام اعتقاد کے مطابق حق تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان اور مالک ہے، لیکن حقیقت میں اس کی صفاتِ عالیّہ کے فیوض و برکات سے تمام مخلوقات یکسان طور پر مستفیض نہیں ہو سکتیں، بلکہ وہ حسبِ مراتب فیض یاب ہوتی رہتی ہیں، پس اللہ تعالیٰ کائنات کا نگہبان ہے اور انسانوں کا حقیقی مالک ہے، اور دونوں صفتوں میں جو کچھ فرق و تفاوت ہے، وہ یہ ہے کہ نگہبانی اور محافظت کی جانے والی مخلوق کے لئے یہ قید و شرط ضروری نہیں، کہ وہ اپنے نگہبان اور محافظ کو پہچانے اور اس کی فرمانبرداری کرے، مگر مملوک ہونے کے لیے یہ شرط
۶
لازمی اور ضروری ہے، کہ اپنے مالک کو پہچان لیا جائے اور اس کی فرمانبرداری کی جائے۔
خرد زا ادراکِ او حیران بماندہ
دل و جان در رہش بی جان بماندہ
ترجمہ: عقل و دانش اس کے پانے سے (قاصر ہو کر) حیران رہ گئی ہے، دل اور جان اس کی راہِ طلب میں بیدم اور پژمردہ ہو گئی ہے۔
تشریح: حضرت پیر اپنے اِس قول میں اِس آیۂ کریمہ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ:
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَ(۰۶: ۱۰۳)
اُسے آنکھیں نہیں پا سکتیں وہ آنکھوں کو پا لیتا ہے۔ یہاں آنکھوں سے انسانی عقل و روح کی قوّتیں مراد ہیں، پس معلوم ہوا کہ عقل و روح کی قوّتیں خدا کو نہیں پا سکتیں، لیکن خدا خود ان قوّتوں کو پا لیتا ہے، جس کی مثال سورج کی طرح ہے، کہ حقیقت میں ہماری آنکھیں کروڑوں میل کی مسافت سے گزر کر سورج کو نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ سورج خود بخود ہماری آنکھوں میں آ جاتا ہے، یہاں سوچنے اور تجربہ کرنے کی ضرورت ہے۔
۷
بہر وصفی کہ گویم زان فزون است
زہر شرحی کہ من دانم برون است
ترجمہ: میں جیسے بھی اس کی تعریف و توصیف کروں وہ اس سے بڑھ کر ہے، ہر اس تشریح سے، جو میں جانتا ہوں، وہ بالا و برتر ہے۔
تشریح: حکیم صاحب کا یہ شعر اِس قرآنی تعلیم کے مطابق ہے:
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(۳۷: ۱۸۰)
آپ کا پروردگار جو عزّت کا پروردگار ہے ان باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں “رَبِّ الْعِزَّةِ” کے معنی ہیں عزّت کے کُل تقاضوں کو پورا کرنے والا، مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ عزّت کو انسانی صورت میں آگے بڑھا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ مجسمّہ عزّت انتہا کو پہنچتی ہے، پس تعریف و توصیف ذی عزّت کی ہے اور حق تعالیٰ تعریف و توصیف سے پاک و برتر ہے۔
بسی گفتند و می گویند ازین حال
ندانم تاکرا روشن شُد احوال
ترجمہ: بہت سے مدّعیوں نے اِس حال کے بارے میں قیل و
۸
قال کی ہے، اور کر رہے ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کس پر حالات (حقائق) روشن ہوئے۔
تشریح: پیر ناصر خسرو کا یہ قول اُن لوگوں کے بارے میں ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ وسیلہ اور واسطہ چھوڑ کر کسی غلط طریقے سے خدا شناسی کے مدّعی ہوا کرتے ہیں، اور اپنے گمان کے مطابق خدا کی حقیقت کے بارے میں قیل و قال کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ ان کی ایک ناکام کوشش ہے۔
ہزار ان سال اگر گویند و پویند
در آخر رُخ بخونِ دیدہ سویند
ترجمہ: اگر وہ ہزاروں سال اسی طرح قیل و قال کرتے چلے جائیں پھر بھی آخر کار وہ (ناکام ہو کر) خون کے آنسوؤں سے اپنا چہرہ دھو لیں گے۔
تشریح: حضرت پیر صاحب فرماتے ہیں، کہ خدا کی حقیقت سمجھنے کے لیے جن لوگوں کا نظریہ صحیح نہ ہو، تو وہ خواہ ہزاروں سال اپنے قول و عمل سے کوشش کیوں نہ کریں، یہ سب کچھ بے سود اور لا حاصل ہے، اور آخر کار وہ اپنی ناکامی پر خون کے آنسو بہائیں گے۔
۹
چنین گفتند رَو بشماس خود را
طریقِ کفر و دین و نیک و بدرا
ترجمہ: انہوں (یعنی پیغمبر اور امام علیھما السَّلام) نے یوں فرمایا: کہ جا تو اپنے آپ کو پہچان لیا کر، کفر و دین اور نیک و بد کا طریقہ سمجھنے کے لیے۔
تشریح: یہاں پیر صاحب کا اشارہ ”من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربّہ” نیز “اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربّہ” کی طرف ہے، یعنی جس شخص نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا، جو شخص تم میں سب سے زیادہ خود شناس ہو وہی شخص تم میں سب سے زیادہ خدا شناس ہے۔
پس اسی خود شناسی کے سلسلے میں دین و کفر اور نیک و بد کا تمام علم آ جاتا ہے، جیسا کہ قرآن پاک کی تعلیمات سے بھی ظاہر ہے، کہ خیر و شر کے دونوں راستے واضح کیے ہوئے ہیں، تاکہ نتیجے کے طور پر خدا کی طرف رجوع ہو¹۔
کزین رہ سوی یزدان است راہت
ترا بس باشد ایں معنی گواہت
__________________________
¹۔ ۲۱: ۳۵، ۷۶: ۰۳، ۹۰: ۱۰ وغیرہ
۱۰
ترجمہ: کیونکہ اسی (ذاتی معرفت کی) راہ سے تجھے خدا کی طرف راستہ میسّر ہے، اور یہی حقیقت تیرے لیے بطور گواہ کافی ہے۔
تشریح: موصوف حکیم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے، کہ انسان کی خود شناسی کا نتیجہ ہی خدا شناسی ہے، اور یہ ایک ایسی جامع حقیقت ہے، کہ تمام حقائق اسی میں سموئے ہوئے ہیں، پس ہر حقیقت کے لیے اسی سے استشہاد کیا جا سکتا ہے، کیونکہ خدا کی حکمتوں کی جیتی جاگتی نشانیاں صرف انسانی نفوس ہی میں پوشیدہ ہیں، جیسا کہ قرآن پاک کا قول ہے :
و فیٓ انفسکم افلا تُبصِرون ۵۱: ۲۱
اور تمہارے نفسوں میں بھی (نشانیاں یعنی معجزات) ہیں پھر کیا تم نہیں دیکھتے ہو۔
چو نادانی ندانی ہیچ ازیں حال
شود ضائع ترا روزمہ و سال
ترجمہ: چونکہ تو نادان ہے (اس لیے) تو اس حال کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، تیرے دن، مہینے اور سال ضائع ہوتے جاتے ہیں۔
۱۱
تشریح: ارشاد ہوتا ہے کہ تیری اپنی نادانی کے سبب سے معجزاتِ معرفت کا حال اور اس کی قدر و منزلت اور اہمیّت و افادیّت تجھ پر پوشیدہ ہے، اگر تجھے ذرا بھی عقل ہوتی، تو حصولِ معرفت کے لیے تو مساعی اور کوشان رہتا، اور تیری گرانقدر عمر اور قیمتی اوقات اسی طرح بیکار اور لا حاصل ضائع نہ ہوتے۔
ز دانش زندہ مانی جاودانی
ز نادانی نیابی زندگانی
ترجمہ: دانش و معرفت ہی سے تو زندۂ جاوید رہے گا، نادانی و ناشناسی سے تجھے کوئی حیات و بقا حاصل نہ ہو گی۔
تشریح: حضرت پیر کا اشارہ اس قرآنی تعلیم کی طرف ہے:
کیا وہ شخص جو مردہ تھا پس ہم نے اسے زندہ کیا اور اس کے لیے ایک نور قرار دیا جس کے ساتھ وہ لوگوں میں چلتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے، جو اندھیروں میں (پڑا) ہو جن سے وہ نکل ہی نہ سکے (۰۶: ۱۲۲) اس قرآنی تعلیم میں نور سے معرفتِ ذات مراد ہے، لوگوں میں نور کے ساتھ چلنے کے معنی ہیں ابدی طور پر زندہ رہنا، کیونکہ لوگ ہمیشہ پائے جاتے ہیں، اور اندھیرے جہالت و ناشناشی کی مثال ہیں، کیونکہ جہاں نور کے معنی علم و
۱۲
معرفت ہیں، تو وہاں ظلمت کے معنی جہالت و ناشناسی ہیں۔
اگر بشناختی خود را بتحقیق
ہم از عرفانِ حق یابی تُو توفیق
ترجمہ: اگر تو اپنے آپ کو بحقیقت پہچانے، تو (ساتھ ہی ساتھ) تجھے حق تعالیٰ کی معرفت کی توفیق بھی ملتی رہے گی۔
تشریح: ارشاد ہے کہ اگر تو اپنے آپ کو اس حد تک پہچانے، جس حد تک پہچاننے کا حق ہے، تو یہی پہچان نتیجے کے طور پر حق تعالیٰ کی پہچان (معرفت) ثابت ہو گی، کیونکہ اپنے آپ کو پہچاننے کا مطلب روح القدس کی پہچان ہے، جو خدا کا نور اور انسانِ کامل کی روح ہے، اور یہی روح درحقیقت انسان کی حقیقی خودی اور اصلی انائیّت ہے، بالفاظ دیگر کوئی انسان اپنے آپ کو نہیں پہچان سکتا جب تک کہ وہ انسانِ کامل میں فنا نہ ہو اور جب وہ انسانِ کامل میں فنا ہو کر اپنے آپ کو پہچاننے لگتا ہے، تو درمیان سے دوئی اٹھ کر ختم ہو جاتی ہے، اور وہ اب یقین رکھتا ہے کہ انسانِ کامل اس کی روح کی حیثیت سے ہے پس وہ شخص اپنے آپ کو انسانی کمالیّت کے بلند ترین درجے پر پہچان سکتا ہے، نیز اسی اثناء میں خدا کو بھی پہچانتا ہے۔
نماند بر تُو پنہاں ہیچ حالی
نبینی از جہان در دل ملالی
ترجمہ: (حصُولِ معرفت کے بعد) تجھ پر حقیقت کا کوئی حال
۱۳
پوشیدہ نہ رہے گا، نہ ہی تو اپنے دل میں دنیاوی تکالیف سے کوئی اکتاہٹ محسوس کرے گا۔
تشریح: اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ حقیقت مان لی جائے، کہ انسانِ کامل کی پاک روح نہ صرف خدا کے نور کی حیثیت سے ہے، بلکہ انسانی ارواح کی روحِ اعظم کا درجہ بھی رکھتی ہے پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہی پاک روح (روح القدس) حقیقت الحقائق ہے، یعنی ایک ایسی جامع حقیقت کہ جس میں تمام ذہنی و خارجی ممکنات کی حقیقتیں مجتمع ہیں، پس جب انسان خود شناسی کے عنوان سے حقیقت الحقائق کو سمجھ لیتا ہے، تو ضمناً ساری حقیقتیں خودبخود اس پر روشن ہو جاتی ہیں، اور ایسے عارف کو دنیا کی کوئی تکلیف نہیں ستا سکتی۔
بُوَد پیدا بر اہلِ علم اسرار
ولی پوشیدہ گشت از چشمِ اغیار
ترجمہ: اہلِ علم پر (حقائق کے) پوشیدہ بھید ظاہر ہیں، لیکن (یہ بھید) غیروں کی نظر سے پوشیدہ ہیں۔
تشریح: سِلسلۂ بیان سے ظاہر ہے کہ یہاں اہلِ علم سے اہلِ معرفت مراد ہیں، جن پر اسرارِ حقیقت ظاہر ہوتے ہیں،
۱۴
اور یہ بھی واضح ہے کہ معرفت کا سبب انسانِ کامل سے رشتہ قائم رکھنا اور اس کی فرمانبرداری کرنا ہے، اور جہالت (ناشناسی) کی وجہ اس سے رشتہ توڑنا اور اس کے فرمان سے روگردان ہونا ہے۔
بیا بکشای چشمِ دل و دین راہ
مگر از خویش و از حق گردی آگاہ
ترجمہ: آ جا اِس (معرفت کی) راہ میں دل کی آنکھ کھول کر دیکھ لیا کر، تاکہ تو اپنے آپ سے اور حق تعالیٰ سے واقف و آگاہ ہو سکے۔
تشریح: پیر صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ تجھے اپنی اصلیت اور خدا کی حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے لیے سر کی آنکھ کافی نہیں ہو سکتی، اس کے لیے ضروری ہے، کہ تو اپنے دل کی آنکھ کھول کر دیکھ لیا کرے، تاکہ عین الیقین سے خود کو اور خدا کو پہچان سکے۔
در امروز اندرین عالم نبینی
دران عالم بصد حسرت نشینی
ترجمہ: اور اگر تو آج اس دنیا میں نہ دیکھ سکے، تو اس عالم میں تجھے صد ہا حسرتیں لے کر رہنا پڑے گا۔
تشریح: حُجّتِ خُراسان کا یہ ارشاد اس آیۂ کریمہ کے
۱۵
مطابق ہے:
وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا (۱۷: ۷۲)
اور جو کوئی اس (دنیا) میں اندھا رہا پس وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور بہت زیادہ گمراہ رہے گا۔
نہ بہرِ خواب و خور دی ہچو حیوان
بر ای حکمت و علمی تُو انسان
ترجمہ: تو حیوان کی طرح سونے اور کھانے کے لیے نہیں (موجود ہوا) ہے، تو علم و حکمت کے لیے انسان (پیدا کیا گیا) ہے
تشریح: جاننا چاہئے کہ ہر مخلوق کے پیدا کرنے کی ایک غرض و غایت ہوا کرتی ہے، چنانچہ خلقتِ انسانی کا مقصدِ اعلیٰ اکتسابِ علم و حکمت اور حصولِ روحانیّت و معرفت ہے۔
خطاب از حق بجُز تو نیست باکس
اگر دریا بی این معنی ترا بس
ترجمہ: حق تعالیٰ کے ساتھ ہمکلام ہونے کا شرف تیرے سوا اور کسی مخلوق کو حاصل نہیں، اگر تو سمجھ سکے، تو یہی حقیقت تیرے لیے کافی ہے۔
تشریح: حُجّت الحق فرماتے ہیں، کہ اے انسان! تو موجودات و مخلوقات میں سے وہ ہستی ہے کہ جس کے سوا اور کوئی مخلوق یہ صلاحیّت و اہلیّت نہیں رکھتی، کہ خدا کا کلام سنے اور قبول کرے، چنانچہ حق تعالیٰ انسان کے روحانی ارتقاء کی ابتدائی منزلوں میں انسانِ کامل اور فرشتہ کی وساطت سے
۱۶
کلام فرماتا ہے، اس کے بعد حجاب کے پیچھے سے اور آخری درجوں میں حجاب کے بغیر مگر اشاروں سے کلام فرماتا۱ ہے، اگر تو اِس حقیقت کو سمجھ سکے، تو بس تیرے لیے اسی میں سب کچھ ہے۔
زمین و آسمان بہرِ تو آراست
ازان بر خاستی با قامتِ است
ترجمہ: خدا نے زمین و آسمان تیرے لیے پیدا کر دیا، اسی سبب سے تو (پرورش پا کر) ایک سر و قد انسان بنا۔
تشریح: ارشاد ہوتا ہے کہ کائنات کی ساری قوّتوں اور نعمتوں سے مستفیض ہوئے بغیر انسان نہ تو پیدا ہو سکتا ہے، اور نہ ہی نشو و نما پا کر مکمّل ہو سکتا ہے، کیونکہ کائنات ایک ایسا درخت ہے کہ جس کا پھل انسان ہے، اور یہ پھل یعنی انسان اس درختِ کائنات کے بغیر اور کہیں سے حاصل نہیں آ سکتا، پس صحیح ہے، کہ آسمان و زمین کی تمام قوّتیں تیرے لیے ہی وقف ہیں، اور اسی سبب سے تو ایک سرو قد انسان بنا ہے۔
قیامت خاست زین قامت کہ داری
۲؎ دَیائت یار گشت و ہوشیاری
_______________________________________
۱؎ الشورای ۴۲۔ آیہ ۵۱ ۲؎ دَہائت: زیر کی، تیز ہوشی
۱۷
ترجمہ: تیرے اِس (متناسب اور موزون) قد و قامت (کی دلربائی اور فتنہ انگیزی) سے قیامت برپا ہوئی، (تجھے نہ صرف ایک نازنین جسم دے دیا گیا بلکہ) عقل و دانش نے بھی تیری ہی ہمراہی اختیار کی۔
تشریح: مطلب یہ ہے کہ انسان حسن و جمالِ صوری و معنوی سے آراستہ کیا گیا ہے، یعنی وہ جسمانی اور روحانی خوبیوں سے مالا مال ہے، جبکہ وہ ہر لحاظ سے اپنی اصلی حالت پر ہو، جیسے قرآن مجید کا ارشاد ہے :
وَ صَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ (۶۴: ۰۳)
اور (خدا نے) تمہاری صورتیں بنائیں پس اس نے تمہاری بہت اچھی صورتیں بنا دیں۔ چنانچہ اس آیۂ کریمہ میں انسان کے ظاہری و باطنی حسن و جمال کا ذکر ہے، جس سے جسم، روح اور عقل کی تمام امکانی خوبیاں مراد ہیں۔
تُوئی فرزندِ این عالم چو آرم
خلف بر خیز چون آدم ز عالم
ترجمہ: تو حضرت آدمؑ کی طرح اس کائنات کا فرزند (یعنی ما حصل) ہے، لہٰذا حضرت آدم صفیؑ کی طرح تو اس
۱۸
عالم کا ایک لائق فرزند ثابت ہو جا۔
تشریح: آپ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السّلام کی جیسی تخلیق ہوئی تھی اور جس طرح ان کی تعظیم و تکریم کی گئی تھی، حقیقت میں تیری بھی وہی سب کچھ ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (۰۷: ۱۱)
اور یقیناً ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورت بنا دی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ پس تو بھی اپنی فطری صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے علم و فضل اور برگزیدگی میں حضرت آدمؑ کی طرح اس عالم کا ایک لائق و قابل فرزند ثابت ہو جا۔
بفضل و دانش و فرہنگ و گفتار
تُوئی در ہر دو عالم گشتہ مختار
ترجمہ: علمیت و فضیلت اور شعور و گفتگو کے سبب سے، تو دونوں جہان پر برگزیدہ ہے۔
تشریح: اس قول میں حق تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے :
وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ . . . . . تَفْضِیْلًا۠ (۱۷: ۷۰)
اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو بزرگی بخشی ہے اور ہم نے انہیں خشکی اور تری میں اٹھایا اور پاکیزہ چیزوں سے انہیں رزق دیا اور جن
۱۹
جن کو ہم نے پیدا کیا ان میں سے بہتوں پر ہم نے انہیں بڑی فضیلت بخشی۔
جہالت ظُلمتِ جان و جہان است
برِ اہل دل این معنی عیاں است
ترجمہ: جہالت و نادانی جان اور جہاں دونوں کے لیے تاریکی ہے، بزرگوں کے نزدیک یہ حقیقت واضح ہے۔
تشریح: بزرگوں پر یہ حقیقت روشن ہے کہ روحانی اور جسمانی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ جہالت و نادانی کی تاریکی ہے، پس اگر انسان اپنے لیے علم و عرفان کا چراغ روشن نہ کرے، تو وہ ہرگز شاہراہ ترقی پر گامزن نہ ہو سکے گا۔
کنون آرایمت بر گلستانی
کہ در ہر یک نظر یابی تُو جانی
ترجمہ: اب میں تجھے ایک ایسا گلشن آباد و آراستہ کردوں گا کہ اس ( کے نظاروں) کے مشاہدے سے ہر بار تجھے ایک نئی روح ملتی رہے گی۔
تشریح: حکیم صاحب کو اس کتاب کی تیاری کے بارے میں اِس بات کا پورا پورا یقین ہے کہ یہ کتاب ایک ایسے خوش منظر اور سدا بہار گلشن کی طرح ہو گی کہ جس کے دلکش اور ہوشر با حسین
۲۰
پھولوں کے نزدیک آنے اور مشاہدہ کرنے والوں کو ہر بار ایک تازہ روح ملتی رہے۔
نصیحت نامۂ ہمچون بہاری
گُلِ دل کاندر آ نجا نیست خاری
ترجمہ: (اس سے مراد) ایک نصیحت نامہ ہے جو ایک ایسے خوشگوار موسم بہار کی طرح ہے کہ جس میں دل کے پھول ہیں اور کانٹے نہیں پائے جاتے۔
تشریح: پیر صاحب اپنی پُرحکمت نصیحتوں کو ایک ایسے مسرت بخش موسمِ بہار سے تشبیہہ دیتے ہیں کہ جس کے آنے سے باغ و گلشن کچھ اس طرح سے سر سبز و آباد ہوا ہو کہ اس میں رنگ برنگ کے مہکتے ہوئے پھول کھلے ہیں اور طرح طرح کے پھل پک کر تیار ہیں، اور اس میں کہیں بھی کسی کانٹے کا نام و نشان نہیں ملتا چنانچہ علم و حکمت سے بھری ہوئی نصیحتیں مومنین کے حق میں روحانی بہار کی حیثیت رکھتی ہیں، جن پر عمل کرنے سے وہ دین و دنیا کی شادمانی اور کامرانی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
ز بہرِ آن جہان این تو شہ بردار
کہ رہ بی زاد باشد سخت دُشوار
۲۱
ترجمہ: اُس عالم (کی طرف سفر) کے لیے تو یہی زادِ راہ لے لیا کر، کیونکہ راستہ زادِ راہ کے بغیر بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔
تشریح: یعنی انہی نصیحتوں پر عمل کر کے تقویٰ اور پرہیزگاری کو اپنا شعار بنا لے، اور یہی پرہیزگاری تجھے منزلِ مقصود کی طرف سفر کرنے میں زادِ راہ کا کام دے گی، کیونکہ سفر زادِ راہ کے بغیرانتہائی مشکل ہوتا ہے۔
بدین وہ روزۂ دُنیا چہ نازی
چو طفلان نیستی تا چند بازی؟
ترجمہ: تو دنیا کی اس چند روزہ زندگی پر کیا فخر و ناز کرتا ہے تو بچوں کی طرح (طفل) تو نہیں آخر کب تک کھیلتا رہے گا۔
تشریح: ناصر خسرو فرماتے ہیں کہ آخرت کی ابدی حیات و بقا کے مقابلے میں دنیاوی زندگی ایک انتہائی قلیل مدّت اور عالمِ روحانیّت کی حقیقتوں کے سامنے دنیا کے مشاغل بازیچۂ اطفال کی طرح ہیں، پس تجھے ایسی چند روزہ زندگی پر نازاں نہ ہونا چاہئے:
اور نہ ہی آخرت کو بھول کر ہر وقت دنیاوی مشاغل میں لگے رہنا چاہئے۔
بسی مہتر ز تو دید این زمانہ
بسی کہتر ز تو کرد اُو روانہ
۲۲
ترجمہ: اس زمانہ (یعنی دنیا) نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے، جو (مادّی طور پر) تجھ سے بھی بڑھ کر تھے، آخر کار اس نے ان کو تجھ سے بھی زیادہ حقیر کر کے یہاں سے اُٹھا لیا۔
تشریح: مطلب یہ ہے کہ دنیا پرست خواہ کتنا معمولی آدمی کیوں نہ ہو، خود کو بڑا ہوشیار اور برتر سمجھتا ہے، اور وہ اکثر اس خام خیالی کی وجہ سے خدا اور آخرت کو بھول جاتا ہے، حال آنکہ ہوشیاری اور برتری اسے موت سے نہیں بچا سکتی، کیونکہ زمانہ نے ان سب کو حقیر کر کے اٹھا لیا، جو دنیاوی طور پر اس سے بڑھ کر تھے۔
نہ صاحب گنج را بگذاشت درکار
نہ با مفلس بماند این رنج و تیمار
ترجمہ: زمانہ نے نہ تو خزانہ والے کو اپنے کام میں مصروف رہنے دیا، نہ مفلس اور نادار کے ساتھ ہمیشہ کے لیے یہ تکلیف اور غمخواری رہی۔
تشریح: یعنی موت سے نہ امیر جانبر ہو سکتا ہے نہ غریب بچ سکتا ہے، اس کے آنے اور واقع ہونے سے جس طرح امیر کی راحت کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں، اسی طرح غریب کی
۲۳
تکلیفات بھی یکسر مٹ کر ختم ہو جاتی ہیں۔
کسی دیگر خورد گنج او بر د رنج
بمعیارِ خرد این قول بر سنج
ترجمہ: وہ (مالک) رنج و مشقّت اٹھاتا ہے، اور خزانے سے فائدہ کوئی دوسرا شخص حاصل کر لیتا ہے، عقل و دانش کی کسوٹی پر اس قول کو پرکھ کر دیکھ لینا۔
تشریح: دنیوی دولت کی ناپائداری اور اس کے طلب گاروں کی بے بسی کا یہ حال ہے کہ کمایا کسی اور نے اور کھایا کسی اور نے، اگر تجھے اس حقیقت پر باور نہ ہو تو عقل و دانش کی کسوٹی پر میرے اس قول کو پرکھ کر بھی دیکھ لے۔
شُد آن گنج و بماند آن رنج در جان
مگر رحمت کند بر جانت یزدان
ترجمہ: (اسی طرح) وہ خزانہ تو چلا گیا اور اس کی تکلیف جان میں باقی رہی، مگر خدا تیری جان پر رحمت کرے (تو یہ اور بات ہے)
تشریح: فرماتے ہیں کہ وہ متمّول شخص جس کی نظر فقط دنیا پر ہو جب دولت چھوڑ جاتا ہے تو یہ دولت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور اس کی حسرت و تکلیف اس کی روح میں باقی رہتی ہے مگر یہ دوسری بات ہے کہ خدا کسی وسیلے سے اس پر رحم فرمائے۔
۲۴
گراین جا بخش کرد آن جاش سود است
گر این جا کِشت کرد آن جادر و داست
ترجمہ: اگر انسان نے اس دنیا میں کوئی سخاوت اور مہربانی کر دی، تو اس عالم میں اس کو فائدہ ہے، اگر یہاں اس نے کچھ بو دیا تو وہاں اسے فصل کاٹ لینا ہے۔
تشریح: یعنی قرآن و حدیث میں حصولِ آخرت کے لیے دنیا استعمال کرنے کی بہت سی مثالیں بیان کی گئی ہیں، ان میں سے ایک مثال تجارت کی ہے، وہ یہ ہے کہ دنیا فروخت کر کے اس کے عوض میں آخرت خریدی جائے، یعنی دنیا دے کر آخرت حاصل کر لی جائے، دوسری مثال زراعت کی ہے، کہ یہاں قولاً و عملاً نیکیوں کی کاشت کر کے وہاں اس کی فصل لے لی جائے۔
اگر کاری کنی مُز دی ستانی
چوبی کاری یقین بی مُزد مانی
ترجمہ: اگر تو کچھ کام کرے، تو تجھے اس کا کوئی صلہ ملے گا، جب تو کام کے بغیر ہے تو یقیناً تو بے صلہ رہے گا۔
تشریح: حجّتِ خراسان فرماتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں اجر و صلہ اسی شخص کو دیا جاتا ہے، جو کسی کام کو انجام دیتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں کرتا تو اس کو کچھ بھی نہیں دیا جاتا ہے۔
۲۵
بالکل اسی طرح اگر تو دین میں کچھ کام کرے، تو تجھے اس کا اجر و صلہ دے دیا جائے گا، اگر کچھ بھی نہیں کیا، تو تُو معاوضہ اور بدلہ سے محروم رہے گا۔
ز خوابِ غفلت آخر سر بر آور
بحال و کارِ خود در نیک بنگر
ترجمہ: خوابِ غفلت سے آخر ذرا سر اٹھا لے، اپنے حال اور کام کو اچھی طرح سے دیکھ لے۔
تشریح: غفلت کو نیند سے تشبیہہ اس لیے دی جاتی ہے کہ غافل آدمی اور سو کر نیند میں محو ہوا انسان دونوں ایک جیسے ہیں، کیونکہ سویا ہوا آدمی دنیا سے اور غافل دین سے بے خبر ہیں، پس ارشاد ہوتا ہے کہ خوابِ غفلت سے آخر ذرا سر اٹھا کر اپنی اس حالت خوابیدگی کو اور اپنے دین کے ادھورے کاموں کو اچھی طرح سے دیکھ لے، تاکہ تجھے پیشمانی اور افسوس ہو، اور تو اس خوابِ غفلت سے ہمیشہ کے لیے چونک جائے۔
کہ بنیانِ تو بر آب است و برباد
بر آب و باد کس بنیاد ننہاد
ترجمہ: کیونکہ تیری بنیاد پانی اور ہوا پر ہے، پانی اور ہوا پر کسی نے بھی بنیاد نہیں رکھی ہے۔
۲۶
تشریح: پیر صاحب کا ارشاد ہے کہ تو نے اپنی ان چند روزہ اور نا پائدار دنیاوی خواہشات کی جو عمارت بنائی ہے، اس کی بنیاد ایسی ہلنے والی اتنی کمزور اور اس قدر نا پائدار ہے جیسے پانی اور ہوا پر کسی بنیاد کے لیے کوشش کی گئی ہو، پس ظاہر ہے کہ تیری دنیاوی خواہشات کی یہ عمارت بہت ہی جلد گر جانے والی ہے کیونکہ پانی اور ہوا پر کوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔
چو میدانی کزین جا رہگذاری
رہا وردت ببین تا خود چہ داری
ترجمہ: جب تو جانتا ہے کہ اس جگہ (یعنی دنیا) سے تو نے سفر کرنا ہے تو اپنے تحفہ کے لیے ذرا دیکھ کہ تیرے پاس کیا ہے۔
تشریح: حضرت پیر کے اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک کامیاب اور بامراد مسافر جب کسی سفر سے واپس گھر جاتا ہے تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور موجود ہوتا ہے جو اپنے عزیزوں کو پیش کرتا ہے چنانچہ پیر صاحب پوچھتے ہیں کہ جب تو دنیا کے اس سفر سے اپنے حقیقی وطن (آخرت) کی طرف واپس جا رہا ہے تو دیکھ لے کہ تیرے پاس کوئی تحفہ بھی ہے کہ نہیں تاکہ تو وہ تحفہ
۲۷
اپنے معشوقِ حقیقی یعنی خداوند عالم کے حضور میں پیش کر سکے۔
فصل فی النّصیحۃ
دمی از حق مشو غافل درین راہ
چو میدانی کہ آید مرگ ناگاہ
ترجمہ: (اے مخاطب! دین کی) اِس راہ میں خدا کی یاد سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، جب تو یہ جانتا ہے کہ موت اچانک آتی ہے۔
تشریح: حضرت پیر ناصر خسرو ارشاد فرماتے ہیں کہ موت کسی کو قبل از وقت یہ اطلاع تو نہیں دیتی کہ میں فلاں وقت تجھ سے دوچار ہونے والی ہوں، لہٰذا مقررّہ مدّت کے اختتام تک تو اپنے لیے عالم آخرت کی خوب تیاری کر لے بلکہ وہ اس کے برعکس اچانک آ پہنچتی ہے اور جب تو یہ سب کچھ جان چکا ہے تو دین کے راستے میں ہر دم اور ہر لمحہ خدا کو یاد کرتا رہ تاکہ خدا کی معجزانہ یاد تجھ کو برائیوں سے بچا کر بھلائیوں کی ہمّت و توفیق بخشے گی اور موت کے یکایک آنے اور عالمِ آخرت کی تیاری نہ ہونے کا تجھے ہرگز کوئی اندیشہ نہ رہے گا۔
۲۸
از و خواہ استعانت در ہمہ کار
کہ چون اوکس نبا شد مر ترا یاد
ترجمہ: اسی سے تمام کاموں میں مدد طلب کر لیا کر، کیونکہ تجھ کو کوئی بھی شخص اس جیسا تمہارا مددگار نہیں۔
تشریح: اِس قول کی وضاحت اس طرح سے ہے کہ حق تبارک و تعالیٰ کی امداد و یاری (تائید) ہدایت کے ذرائع اور بندگی کے مراحل میں درجہ بدرجہ موجود ہے یعنی اخلاقی و روحانی ترقی کے راستے میں آگے سے آگے بڑے پیمانے پر اور معجزانہ طور پر خدا کی مدد اور تائید ملتی رہتی ہے جو فرمانبرداری، محبت، ذوق، توفیق، ہمّت، القاء، الہام، وحی وغیرہ کی صورتوں میں پائی جاتی ہے۔
توکّلُ در ہمہ کاری بر و کُن
ز غیرِ او بگرد ان رو در و کُن
ترجمہ: اسی پر ہر کام میں توکّلُ یعنی بھروسا اور اعتماد کر اس کے سِوا سے منہ موڑ لے اور صرف اسی کی طرف منہ کیے رہ۔
تشریح: اس شعر کی خاص باتیں دو ہیں، توکّل اور توجّہ، توکُّل کے ویسے تو بہت سے مقامات اور درجات ہیں، مگر یہ سب دو حصّوں میں ہیں، کیونکہ دین اور دنیا کے معاملات میں
۲۹
بندہ کچھ امور اختیار بھی رکھتا ہے اور کچھ امور کے اختیار سے بالاتر بھی ہیں اگر وہ ان امور کو جو اس کے دائرۂ اختیار میں ہیں خدا، رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کی ہدایت کے مطابق انجام دیتا ہے، تو یہ ابتدائی درجات کا توکُّل ہے، جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے :
“بر توکّل زانوی اشتر ببند” یعنی اونٹ کی حفاظت کے بارے میں خدا پر توکُّل بس یہی ہے کہ اس کے گننھ باندھ لے تاکہ کہیں نہ چلا جائے اور جو امور بندہ کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں اگر وہ ان کے متعلق خدا پر بھروسا رکھتا ہے جیسا کہ بھروسا رکھنا چاہئے، تو یہ آخری درجات کا توکُّل ہے۔
توجّہ کی حقیقت یہ ہے کہ بالواسطہ اور بلاواسطہ خدا کی طرف منہ کیا جائے، بالواسطہ خدا کی طرف منہ کرنا یہ ہے کہ ہر وقت خدا کے فرامین کو پیشِ نظر رکھا جائے اور کسی وقت بھی ان سے تجاوز نہ کیا جائے اور بلاواسطہ خدا کی طرف منہ کیے رہنا یہ ہے کہ ذکرِ الٰہی کی کثرت کے نتیجے پر مومن کے دل و دماغ کی کیفیت روحانی طور پر اتنی گرم اور ایسی روشن ہو کر رہے جس
۳۰
طرح لوہا زبردست انگاروں کے درمیان نہ تو منہ پھیر سکتا ہے نہ ہی اس کو بھلا سکتا ہے۔
ثباتِ دولت و دین راستی دان
ز کذب این ہر دوراکم کاستی دان
ترجمہ: سچائی ہی کو اقبال مندی اور دین کی پائداری و بقاء کا ذریعہ سمجھ لے (اس کے برعکس) جھوٹ کو ان دونوں کے نقصان اور زوال کا سبب قرار دے۔
تشریح: یعنی اگر کسی آدمی کی دولت، عزّت اور دین و ایمان حقانیّت و صداقت پر مبنی ہے، اور حق و راست بازی کی مدد سے ہے، تو وہ ہمیشہ کے لیے برقرار اور قائم رہ سکتا ہے، اس کے برعکس اس میں اگر جھوٹے اور باطل ذرائع سے کام لیا گیا تو اس میں نقصان اور زوال آتا ہے، کیونکہ قرآن کا قول ہے کہ حق تو قائم رہتا ہے اور باطل چلا جاتا ہے (۸۱: ۱۷)
چو عہدی باکسی کر دی بجا آر
کہ ایمان است عہد از خویش مگزار
ترجمہ: جب تو نے کسی سے کوئی وعدہ کر لیا، تو اس کو بجا لایا کر، کیونکہ وعدہ (پر عمل کرنا) ایمان میں سے ہے (اس لیے اس کو) اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے۔
۳۱
تشریح: اس شعر کے معنی و مطلب کے مطابق قرآن حکیم کا یہ ارشاد ہے :
وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۱۷: ۳۴)
اور عہد کو پورا کرو۔ بے شک عہد کے متعلق سوال کیا جائے گا، یعنی قیامت کے دن ہر شخص سے ان وعدوں اور عہدوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، جو اس نے خالق سے اور مخلوق سے کیے تھے، لہٰذا اِس اہم فرض کی ادائیگی اور جوابدہی ہر انسان پر عائد ہوتی ہے۔
خرد بہتر بُوَد از زر کہ داری
کہ در زر کس نہ بیند ہوشیاری
ترجمہ: علم و دانش بہتر ہے اس سونے (یعنی دولت) سے جو تو رکھتا ہے، کیونکہ زرّ یعنی دولت میں کوئی شخص ہوشیاری نہیں دیکھ پاتا ہے۔
تشریح: اس قوّل میں علم و دانش کو مال و دولت پر ترجیح دی گئی ہے، اور اس کی یہ توجیہہ کی گئی ہے کہ مادّی دولت ایک بے جان اور مردار جیسی چیز ہے، یہ اپنے مالک کو ظاہری و باطنی خطرات و آفات سے بچانے کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتی، کیونکہ اس کی
۳۲
ذات میں عقل و ہوشیاری نہیں پائی جاتی، اس کے برعکس علم و دانش بذاتِ خود ایک پاک روح ہے، اور وہی خدا کا نور ہے، اور دین و دنیا کی ساری بہتری اور کامیابی اسی کے تحت ہے۔
اگر صبرت بدل در یار گردد
ظفر آخر ترا دلدار گر دد
ترجمہ: اگر صبر تیرے دل ہی کے اندر ساتھی بن جائے، تو آخر کار فتحمندی بھی تیری دوست بنے گی۔
تشریح: حقیقت میں صبر کے معنی ہیں خدا کی راہ میں مصائب و آلام کو برداشت کرنا، اور اس کے موقعے دو ہیں، ایک موقع وہ ہے جس میں خدا تعالیٰ اپنے کسی بندے کو کسی مصیبت کے ذریعہ آزما لیتا ہے، دوسرا موقع وہ ہے جس میں خود بندہ خدا کی خوشنودی کی خاطر کسی اعلیٰ و افضل عبادت اور خدمت کو اختیار کرتا ہے، اور اس کی لازمی محنتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتا جاتا ہے، چنانچہ کلامِ مجید میں جگہ جگہ صبر کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، منجملہ یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ تم صبر اور عبادت سے خدا کی مدد طلب کر لیا کرو، پس اس کا مطلب یہ ہوا کہ صبر و عبادت کا پھل خدا کی مدد کی صورت میں ملتا ہے، اور اسی خدا کی مدد کو فتح و ظفر کہنا
۳۳
چاہئے۔
بہر سختی مکن فریاد بسیار
بنوش آن و مدہ دل را بتیمار
ترجمہ: ہر سختی میں زیادہ فریاد نہ کیا کر (بلکہ) اس کو برداشت کرتا رہ، اور دل کو کسی غمخواری کی طرف متوجہ نہ کیا کر۔
تشریح: انسانیّت کے اعلیٰ ترین اوصاف عالی ہمتی، اولوالعزمی، صبر، شکر وغیرہ ہیں اور خدا کی حکمت و مصلحت کے بموجب ان اوصافِ حمیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی جسمانی زندگی کا اکثر حصّہ تکلیفات اور مصیبتوں میں گزرنا چاہئے، اسی لیے پیر صاحب فرماتے ہیں کہ سختی کے وقت فریاد نہ کی جائے اور نہ کسی غیر کی ہمدردی و غمخواری کی امید بندھی جائے۔
برا در آن بُوَد کہ روز سختی
ترا یاری کند در تنگ بختی
ترجمہ: بھائی وہ ہے جو سختی کے دن اور مصیبت کے موقع پر تیری مدد کرے۔
تشریح: یعنی سختی اور مصیبت نہ صرف اس امر کے لیے ذریعۂ آزمائش ہے کہ اس میں بندگانِ خدا دین اور ایمان کے سلسلے میں آزما لیے جاتے ہیں بلکہ یہ اُخوت و برادری اور قرابت و
۳۴
رشتہ داری کے سچے اور جھوٹے دعویداروں کے درمیان فرق و امتیاز کرنے کا وسیلہ بھی ہے۔
نکوئی گر کنی منّت منہ زان
کہ باطل شُد ز منّت جود و احسان
ترجمہ: اگر تو کوئی نیکی کرے تو اس سے احسان نہ جتایا کر، کیونکہ احسان جتانے سے مہربانی اور نیکی باطل ہو جاتی ہے۔
تشریح: احسان جتانے سے کس طرح نیکی باطل ہو جاتی ہے، اس کی حقیقت خدا و رسول کے ارشادات کی روشنی میں معلوم کی جا سکتی ہے، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
اے ایمان والو! تم اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر باطل نہ کیا کرو (۰۲: ۲۶۴) اور رسول اللہ نے فرمایا کہ: ہر نیکی صدقہ ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نیکی صدقہ کا حکم رکھتی ہے، احسان جتلانے سے باطل ہو جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کسی محتاج و مستحق انسان کو نیکی کر کے خوش کرنے سے خدا خوش ہوتا ہے اور اس اچھے عمل کی وجہ سے ثواب ملتا ہے، اسی طرح اس کو احسان جتلا کر اور حقیر سمجھ کر ناراض کرنے سے خدا ناراض ہوتا ہے اس برے عمل کے سبب سے گناہ ہوتا ہے، اور ایسے گناہ کی سزا
۳۵
یہ ہے کہ ایسے صدقے کو باطل قرار دیا جائے۔
بوقتِ صبحدم می باش بیدار
مگر در صبحدم بکشا یدت کار
ترجمہ: علی الصّباح یعنی بہت سویرے جاگ اٹھا کر، تاکہ صبح سویرے تیرا مشکل کام آسان ہو۔
تشریح: حضرت پیر کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ صبح سویرے اٹھ کر حق تعالیٰ کی عبادت و بندگی کا فریضہ ادا کیا جائے تاکہ جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہو، اور دین و دنیا کے ہر مشکل کام کو آسانی سے کیا جا سکے، کیونکہ شب بیداری اور سحر خیزی میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے وہ اس طرح سے ہے کہ ایک عام انسان شروع شروع میں طبعاً صرف اپنے نفسِ امّارہ ہی کی غلامی میں ہمہ تن مصروف اور اسی کا عاشق رہتا ہے اور بس اسی کی خواہشات و فرمائشیات کی انجام دہی میں لذّت اور خوشی محسوس کرتا رہتا ہے، نتیجتاً اس کے دل و دماغ کی ساری قوّتیں اور صلاحیتیں نفسانی لذّتوں کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے اس کے باطن میں حقیقی محبت و عشق کے لیے ذرا بھی خالی جگہ نہیں پائی جاتی، پس اللہ تعالیٰ نے اپنی لا انتہا رحمت سے بندوں کو کچھ ایسے اصلاحی
۳۶
اعمال کی ہدایت فرمائی کہ جن کی تکمیل و انجام دہی کے سلسلے میں مومنین عزم و ارادہ کی قوّت سے نفس کی فرمائشیات اور محبت کو ٹھکراتے جائیں، یہاں تک کہ وہ خاص خاص موقعوں پر نفس کو نظر انداز کر دینے اور طاقِ نسیاں پر رکھنے کے عادی ہو جائیں تاکہ جس سے رفتہ رفتہ حقیقی محبت و عشق خود بخود مومنین کے دل میں جا گزین ہو آئے، جیسا کہ حق جلّ و علا کا فرمان ہے کہ تم ہر گز نیکی کو نہیں پہنچو گے جب تک کہ تم اس چیز سے (راہِ خدا میں) خرچ نہ کرو گے جس سے تم پیار کرتے ہو۔
انسان جن جن مادّی چیزوں سے پیار و محبت کرتا ہے، اور لطف و لذّت اُٹھاتا ہے، ان میں آرام اور نیند بھی شامل ہے، پس اگر وہ شب بیداری اور سحر خیزی کے اصول سے اپنے آرام اور میٹھی نیند کو خدا کی راہ میں قربان اور صرف کرے تو وہ لازماً بہت بڑی نیکی کو پہنچے گا، اور اس کی تمام مشکلات حل ہو جائیں گی، کیونکہ وہ نیند کی محبت و لذّت کو اپنے دل سے جس قدر نکال دیتا ہو، تو اس قدر حقیقی محبت و مسّرت اس کے دل میں داخل ہوتی ہے جس کی مثال ایک ایسے گلاس سے دی جا سکتی ہے، جو پانی سے بھرا ہوا ہو، اور ایک
۳۷
شخص اس گلاس کے پانی کو قطرہ قطرہ کر کے گراتا رہتا ہے، تو ظاہر ہے کہ جتنی جگہ سے پانی خارج ہوا، تو اتنی جگہ میں ہوا داخل ہو گی، اور یہ دونوں کام کسی تقدیم و تاخیر کے بغیر ایک ساتھ ہی مکمل ہوں گے، اس لیے کہ مکان اور متمکن کے لیے اٹل قانون ہے کہ جس وقت کوئی چیز ایک جگہ سے ہٹنے لگتی ہے تو اسی وقت دوسری چیز اس جگہ کی طرف بڑھنے لگتی ہے اور جن لمحوں میں یہ وہاں پہنچتی ہے تو انہی لمحوں میں وہ بھی یہاں پہنچتی ہے۔
بلایِ آدمی باشد ز بانش
کہ دروَی بستہ شدُ سُود و زیانش
ترجمہ: آدمی کے لیے بلا خود اس کی زبان ہی ہے، کیونکہ اس کا نفع و نقصان بس اسی سے وابستہ ہے۔
تشریح: حضرت پیر کے ارشاد کے مطابق اِس بلا سے وہ ظاہری تکلیف مراد ہے، جو لوگوں کی طرف سے رنجش، اذیّت وغیرہ کی صورتوں میں پہنچتی ہے، جس کی وجہ دراصل آدمی کی اپنی زبان ہی ہوتی ہے، کیونکہ زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس سے فائدہ بھی اٹھایا جا سکتا اور نقصان بھی، یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے اس نقصان کے سدِّ باب کرنے کی ہدایت فرما دی :
۳۸
وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (۰۲: ۸۳)
اور سب لوگوں سے اچھی گفتگو کرو۔
خموشی مایۂ مردانِ راہ است
کہ در گفتن بسی شرّو گناہ است
ترجمہ: خاموشی اختیار کرنا راہِ حقیقت کے ہمت والوں کا سرمایہ ہے کیونکہ بولنے میں بہت سی برائی اور بہت سا گناہ شامل ہے۔
تشریح: انسان کو اپنی زبان کی برائیوں، گناہوں اور بلاؤں سے محفوظ رہنے کیلئے بظاہر دو ہی راستے بتائے گئے ہیں کہ وہ یا تو سب لوگوں سے اچھی گفتگو کرے یا خاموش ہی رہے، مگر یہ دونوں راستے بھی اشکال اور سختی سے خالی نہیں کیونکہ اچھی گفتگو کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں اور صحیح معنوں میں خاموش رہنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے، اس لیے کہ اگر انسان بمشکل زبان سے چپ ہو بھی رہا تو اس کے دل میں خود بخود باتیں شروع ہو جاتی ہیں جن پر وہ ہرگز قابو نہیں پا سکتا، پس ان تمام مشکلات سے منزلِ مقصود کی طرف گزر جانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ بندۂ مومن اپنے دل و زبان کو دائم الوقت خدا کی معجزانہ یاد سے وابستہ رکھے جیسا کہ خود حضرت پیر کا ارشاد
۳۹
گرامی ہے :
از و خواہ استعانت در ہمہ کار
کہ چون اوکس نبا شد مر ترا یار
ترجمہ: ہر کام میں اسی (خداوند) کی مدد طلب کر، کیونکہ تیرے لیے اس جیسا مدد گار ہے ہی نہیں۔
وگر گُوئی نکو گو ای برادر
کہ نیکو گوی با نفع است بے ضرر
ترجمہ: اور اگر تو کچھ بولنا چاہتا ہے، تو اے بھائی! اچھی گفتگو کرنا کیونکہ اچھی بات کہنے والا نقصان کے بغیر فائدے میں ہے۔
تشریح: حضرت پیر ناصر خسرو فرماتے ہیں کہ اگر تو خاموشی و سکون کو توڑ کر بولنا چاہتا ہے تو تجھے تمام زبانی گناہوں سے بچتے ہوئے اچھی گفتگو کرنی چاہئے کیونکہ اچھی گفتگو کرنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے اور اس میں ذرا بھی نقصان نہیں۔
نکوئی جامۂ تُست آن ہمی پوش
ہمیشہ در نکو نامی ہمی کوش
ترجمہ: نیکی گویا تیرا لباس ہے سو اسے پہن لیا کر ہمیشہ نیکنامی کے لیے کوشش کیا کر۔
تشریح: یہاں پیر صاحب نیکی اور نیکنامی کے لیے تاکید فرماتے ہیں اور اس کی مثال ظاہری لباس سے دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے
۴۰
کہ جس طرح لباس انسان کے جسم کو ڈھانپ کر اس کو زیب و زینت بخشتا ہے، اسی طرح نیکی اس کی عقلی خامیوں اور اخلاقی کمزوریوں پر پردہ ڈال کر اس کو نیکنام بنا دیتی ہے۔
تواضع مر ترا دارو گرامی
زکر آید بدی در نیکنامی
ترجمہ: تواضع تجھ کو غیرت مند کر دیتی ہے، اور تکبر سے نیکنامی میں برائی (یعنی نقص) پیدا ہوتی ہے۔
تشریح: اِس ارشادِ گرامی کا مطلب یہ ہے کہ تواضع یعنی عاجزی اور فروتنی ایک ایسی اخلاقی طاقت ہے، جو انسان کو معزّز بنا سکتی ہے، اور تکبّر ایک ایسا اخلاقی نقص ہے کہ اس سے انسان کی نیکنامی میں زوال آتا ہے۔ چنانچہ جب حضرت آدم علیہ السَّلام نے تواضع سے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو حق تعالیٰ نے اسے برگزیدہ فرمایا، اور جب ابلیس نے تکبّر کیا تو اس کی عزت و نیکنامی میں زوال آیا۔
مودّت چون بخدمت استوار است
ازین بہتر ترا آخرچہ کار است
ترجمہ: جب دوستی خدمت ہی پر قائم ہوتی ہے تو تیرے لیے اس سے بہتر اور کونسا کام ہے۔
۴۱
تشریح: یعنی جب تجھے معلوم ہے کہ اخلاقی اور دینی قسم کی دوستی کا دارو مدار خدمت پر ہی ہے، تو تجھے خالق اور مخلوق کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے، پس خدمت کے سلسلے میں تاخیر اور کوتاہی نہ کیا کر۔
بخوش رُوئی و خوش خوئی درایام
ہمی رَوتا شوی خوش دل سر انجام
ترجمہ: خندہ پیشانی اور اچھی عادت کے ذریعہ زمانے میں آگے بڑھا کر تاکہ اس کے انجام میں تو شادمان ہو جائے۔
تشریح: شگفتہ رو اور ہنس مکھ ہونا خوش اخلاقی کی اوّلین صفت ہے، اور اس کے بغیر ہر دلعزیزی اور کامیابی مشکل ہے اسی سے انسان زمانے میں دینی اور دنیاوی طور پر ترقی کر سکتا ہے اور آخر کار ہر طرح سے کامیاب ہو کر ہمیشہ کے لیے شادمان رہ سکتا ہے۔
اگر بد باکسی در خاطر آری
مکن زود آنکہ نبود ہوشیاری
ترجمہ: اگر تیرے دل میں کسی شخص کے متعلق برا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو عجلت سے اس پر عمل نہ کیا کر، کیونکہ اس میں کوئی دانشمندی نہیں۔
۴۲
تشریح: حُجّت الحق فرماتے ہیں کہ انسانیّت اور دینداری کی شرط یہ ہے کہ اوّلاً دوسروں کے حق میں بدی اور برائی کا خیال اور جذبہ ہی دل میں نہ آنے دیا جائے، اگر ایسا کوئی خیال آ بھی رہا ہو، تو پھر اس کا سدِّ باب اس طرح سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی پیروی اور عمل میں تاخیر کی جائے، کیونکہ ناجائز جذبہ اور غصّہ آگ کی طرح ہے، جو انسانی طبیعت کو جلانے لگتی ہے اور اس کے دھوئیں میں عقل کی روشنی یکسر گُم ہو جاتی ہے۔ پس ایسے میں انسان جو کچھ کرتا ہے وہ عقل کی روشنی کے بغیر ہوتا ہے۔
چو نیکوئی کنی زان عذر می خواہ
کہ نیکوئی دوکر دد باش آگاہ
ترجمہ: جب تو کوئی نیکی کرتا ہے تو اس میں (بطور ادب) معذرت خواہ ہو جا کیونکہ اس سے نیکی دگنی ہو جاتی ہے، آگاہ ہو!
تشریح: جیسا کہ اس سے پہلے پیر نے فرمایا کہ احسان جتلانے سے نیکی برباد و ضائع ہو جاتی ہے، اسی طرح یہاں فرماتے ہیں کہ نیکی کر کے ادب کے اصول پر اس کی کمی و کوتاہی کے بارے میں معذرت چاہنے سے یہ دگنی ہو جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہے، کہ نیکی کرنے والے کو برتری کا جو گھمنڈ ہوتا ہے، اس کا ازالہ وہ عذر خواہی سے کر سکتا ہے۔
۴۳
سخاوت پیشہ کن تُو از کم و بیش
کزان بیگا نگان گر دند چون خویش
ترجمہ: تو کچھ نہ کچھ سخاوت کی عادت اختیار کر لے، کیونکہ اس سے پرائے بھی اپنے ہو آتے ہیں۔
تشریح: آپ اس شعر میں سخاوت کی حکمت بیان فرماتے ہیں کہ تجھ میں کم و بیش سخاوت کی بھی عادت ہونی چاہئے کیونکہ یہ عادت اس قدر مؤثر اور ایسی نتیجہ خیز ہے کہ اس سے قرابت داروں کو جو خوشی ہوتی ہے، اس کا کیا کہنا ہے اس سے تو پرائے لوگ بھی اپنوں کی طرح خیر خواہ ہو جاتے ہیں۔
جمالِ مردمی در حِلم باشد
کمالِ آدمی در عِلم باشد
ترجمہ: انسانیّت کا حسن و جمال برداشت اور بردباری میں ہے اور انسانیّت کا فضل و کمال علم و دانش میں ہے۔
تشریح: اس شعر کے مرادی معنی یہ ہیں کہ قانونِ قدرت نے مخلوقات میں سے ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی خوبی اور کمالیّت مقرر کر دی ہے، چنانچہ انسانیت و آدمیت کی خوبی حلیمی اور بردباری میں ہے، اور اس کی کمالیّت علم و دانش میں ہے، پس آدمی کو چاہئے کہ حلم اور علم کے اوصاف سے متصف ہو جائے، تاکہ وہ
۴۴
حقیقت میں جمال و کمال کے درجے پر فائز ہو سکے۔
ثباتِ تن بما کو لات بینی
ثباتِ جان بمعلومات بینی
ترجمہ: تو دیکھتا ہے کہ جسم کا قیام و قرار کھانے پینے کی چیزوں پر ہے۔ (اسی طرح آئندہ) تو دیکھے گا کہ روح کا قیام و قرار معلومات پر ہے۔
تشریح: اِس شعر میں لفظ “بینی” جو فعلِ مضارع ہے، اپنے حال اور مستقبل کے دونوں معنوں کو ظاہر کرتا ہے، جس کی مناسبت و موزونیّت یہی ہے کہ پیر صاحب جسم کی مثال پر روح کی حقیقت سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تجھ سے یہ حال پوشیدہ نہیں کہ جسم کا انحصار کھانے پینے کی چیزوں پر ہے، اسی طرح آگے چل کر تجھے یہ بھی معلوم ہو گا کہ روح کا دار و مدار علم و معرفت پر ہے۔
اگر بر جہل یک ساعت کنی کار
بعلم جہل جاویدی تو بیدار
ترجمہ: اگر تو ذرا سے وقت کے لیے جہالت کا کوئی کام کرتا ہے تو (آگاہ ہو! کہ اس وقت) تو اپنی دائمی جہالت کو سمجھنے کے لیے جاگ اٹھتا ہے۔
تشریح: یعنی جاہل اپنی دائمی جہالت سے بے خبر اور خوابِ غفلت میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، جب وہ جہالت کا کوئی کام کر ڈالتا ہے، تو اس
۴۵
وقت اس کو جاگنے اور اپنی جہالت کو سمجھنے کا موقع میسر ہوتا ہے ورنہ وہ دوسرے اوقات میں اپنی جہالت کو کہاں سمجھ سکتا ہے۔
غنیمت ہمنشینی با خرد دان
کہ اہل عقل را بگزید یزدان
ترجمہ: دانش مند کی صحبت میں رہنا غنیمت سمجھ لے، کیونکہ حق تعالیٰ نے اہلِ دانش کو برگزیدہ کیا ہے۔
تشریح: اہل دانش سے انبیاء، اولیاء اور حکمائے دین مراد ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہی کو برگزیدہ فرمایا ہے، اور انہی کی ہمنشینی فرض کی گئی ہے۔ تاکہ علم و عمل کے فیوض و برکات حاصل ہوں۔
سخن کم گو و نیکو گوی در کار
کہ از بسیار گفتن مرد شُد خوار
ترجمہ: کام کی بات مختصر اور بہتر کر لیا کر کیونکہ زیادہ باتیں کرنے سے آدمی خوار ہو جاتا ہے۔
تشریح: ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر بات کرنے کی ضرورت ہے تو بے شک تو کر سکتا ہے، مگر مختصر اور مفید ہونی چاہئے، کیونکہ زیادہ اور بے فائدہ باتیں کرنے کا نتیجہ خواری اور ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
ترا پیرا یہ از دانش پدید است
کہ بابِ خُلد را دانش کلید است
ترجمہ: ظاہر ہے کہ تیرا زیور علم و دانش سے ہوتا ہے کیونکہ
۴۶
علم و دانش ہی بہشت کے دروازہ کے لیے کلید ہے۔
تشریح: قول ہٰذا کا مطلب یہ ہے کہ اگر تو اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے علم و دانش کے زیور موجود ہیں، کیونکہ علم و دانش ہی حسن و جمال اور آرائش و زیبائش کے مقام یعنی جنّت کی کلید ہے۔
ز شرم ار با فرشتہ ہم نشینی
زبی شرمی تو با دیوان قرینی
ترجمہ: اگر ( یہ بات صحیح ہے کہ) تو شرم و حیا کی حالت میں فرشتہ کا ہمنشین ہے تو (یہ بھی صحیح ہے کہ) بے شرمی و بے حیائی کی حالت میں تو جنّات کا ساتھی ہے۔
تشریح: اس سے حضرت پیر کی مراد یہ ہے کہ بشریت کا دائرۂ اختیار و امکان اس قدر وسیع ہے کہ اس میں تمام موجودات و مخلوقات کے خواص و افعال سموئے ہوئے ہیں، پس انسان موجودہ شکل و صورت میں ہوتے ہوئے بھی جو کچھ بننا چاہے بن سکتا ہے کیونکہ انسان کی عادت جس مخلوق سے ملتی جلتی ہو اس کو حقیقت میں وہی مخلوق قرار دیا جاتا ہے۔
ترا گر دوستی با ید سزا وار
خرد را یار خودکن در ہمہ کار
۴۷
ترجمہ: اگر تجھے ایک لائق اور بہتر دوست چاہئے تو تمام امور میں عقل و علم ہی کو اپنا یار و مددگار بنا لے۔
تشریح: یعنی تیرے دل و دماغ میں جتنی صلاحیتیں اور جس قدر قوّتیں ہیں اور تیرے نفس کے اندر جتنے جذبات و خواہشات ہیں ان سب میں سے عقل و علم کو اپنا بہترین دوست قرار دے اور اسی کے فیصلے کے مطابق ہر کام کو انجام دیا کر۔
بہینِ دوستان را آن کسی دان
کہ او راہت نماید سُوی احسان
ترجمہ: دوستوں میں سب سے بہتر اسی شخص کو قرار دے جو تجھے صرف نیکی ہی کا راستہ بتا دیتا ہو۔
تشریح: یعنی تیرے دوستوں میں سب سے سچا دوست وہ ہے جو تجھے نیکی کی طرف رہنمائی کرے۔ اس کے برعکس جو دوست تجھے بدی اور برائی کا راستہ بتاتا ہے وہ تجھے ہلاکت اور بربادی کی طرف لے جانا چاہتا ہے، لہٰذا وہ حقیقت میں دوست نہیں بلکہ تیرے جسم و جان کا دشمن ہے۔
ز دشمن بدتر آن کس راہمی بین
کہ در بدمر ترا کردست تحسین
ترجمہ: (دوستوں میں سے) اس شخص کو دشمن سے بھی بدتر
۴۸
قرار دے جس نے تجھے برے کام میں شاباش دی ہے۔
تشریح: یعنی اگر تیرے دوستوں میں کوئی ایسا دوست بھی ہو کہ جب تو کوئی بری بات کہتا ہے یا کوئی برا کام کرتا ہے تو وہ تجھے اس سے منع نہیں کرتا بلکہ تجھے تحسین و آفرین کہتا ہے، پس تیرا ایسا دوست دشمن سے بھی بدتر ہے کیونکہ دشمن تو دشمنی ہی کے لباس میں ظاہرہے جس سے بچنا آسان ہے مگر یہ ایک ایسا دشمن ہے جو دوستی کے روپ میں چھپ کر تیری ہلاکت و بربادی کے لیے لگا ہوا ہے جس سے بچنا مشکل ہے۔
دلیلِ عقل مرد آمد سخن باز
چو آید در شخص پیدا شود راز
ترجمہ: گفتگو کرنا آدمی کی عقل و دانش کی دلیل (یعنی کسوٹی) ہے (کیونکہ) جب وہ بات کرتا ہے تو (فوراً اس کی اہلیت کا) بھید ظاہر ہو جاتا ہے۔
تشریح: اس مطلب کے بارے میں مولانا علی علیہ السَّلام کا کلام یہ ہے :
المرءُ فحبوءٌ تحتَ لِسانہ
انسان اپنی زبان (کے پردے) میں چھپا ہوا ہے یعنی انسان
۴۹
اپنی عقلی صورت اور علمی حیثیت میں خواہ کچھ بھی ہو گفتگو کے پردے میں پوشیدہ ہے جب وہ گفتگو کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس حیثیت میں ظاہر کر دیتا ہے۔
دوامِ شادمانی روی اخوان
کہ بی اخوان بود غمگین دل و جان
ترجمہ: (ہمخیال) بھائیوں کی ملاقات مسرّت و شادمانی کے ہمیشہ رہنے کا سبب ہے کیونکہ بھائیوں کے بغیر جان و دل غمگین ہوتے ہیں۔
تشریح: فرماتے ہیں کہ جب انسان کو کامیابی کے نتیجے پر خوشی کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ پھر بھی خوش نہیں رہ سکتا جبکہ وہ اپنے عزیزوں اور ہم جنسوں سے جدا اور دور رہتا ہو کیونکہ بھائیوں اور عزیزوں کے بغیر انسان کی خوشی ایک عارضی شے ثابت ہوتی ہے۔
چو دولت ساخت با نادان سر و کار
دلِ عاقل شود زین محنت افگار
ترجمہ: جب دولت و ثروت کا تعلق اور واسطہ نادان کے ساتھ ہونے لگتا ہے تو دانا کا دل اس امتحان سے زخمی ہو جاتا ہے۔
۵۰
تشریح: نادان وہ ہے جو اخلاقی اور دینی اعتبار سے گرا ہوا ہے جب ایسے نادان کو دولت و ثروت حاصل ہوتی ہے تو وہ اس کو انسانیت اور دیانت کے خلاف استعمال کرتا ہے جس سے دانشمند کو دکھ ہوتا ہے۔
اگر رنجی زنا گہ در دل آید
ز تسلیم و رضا کارت کشاید
ترجمہ: اگر یکایک کوئی تکلیف تیرے دل میں محسوس ہونے لگے، تو (خود کو خدا کی مرضی کے) سپرد کرنے اور اس سے راضی رہنے سے تیری مشکل کشائی ہو گی۔
تشریح: سیّدنا ناصر خسرو مصائب و آلام کے آنے پر تسلیم و رضا اختیار کرنے کی ہدایت فرماتے ہیں، تسلیم کا مطلب ہے اپنے آپ کو خدا کی مرضی کے سپرد کرنا یا خدا کے فیصلہ کے لیے قبول کرنا اور رضا کے معنی ہیں خدا کی مرضی کے لیے راضی رہنا چنانچہ حق تعالیٰ کے اس ارشاد سے تسلیم و رضا کی حقیقت ظاہر ہے :
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ (۰۲: ۱۵۶)
وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم
۵۱
خدا ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
ذلیلی در طمع میدان بتحقیق
چو عزت را قناعت دان و توفیق
ترجمہ: طمع کو تحقیق و یقین کے ساتھ ذلت و خواری کا سبب قرار دینا یوں سمجھنا جس طرح قناعت اور توفیق باعثِ عزّت ہوتی ہیں۔
تشریح: مولانا علی علیہ السَّلام کا کلام ہے کہ :
اَ لطَّمَعُ رِقٌّ مُؤَ بَّدٌ
یعنی لالچ دائمی غلامی ہے اور غلامی ہی ذلت و خواری ہے اور قناعت کے بارے میں یہ کلام ہے کہ :
اَلْقَنَاعَۃُ مَالٌ لاَّ یَنْفَدُ
یعنی قناعت وہ مال ہے جو ختم نہیں ہوتا۔
چو ظلمی از تو آید نا سزا وار
ہمیشہ آن عمل را یاد میدار
ترجمہ: جب تجھ سے کسی کو کوئی ناحق نقصان پہنچ جائے تو ہمیشہ اس عمل کو (پیشمانی سے) یاد رکھنا۔
تشریح: پیر صاحب اس نصیحت میں فرماتے ہیں کہ اگر تو نے ناحق کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو اپنی اس غلطی کو ہمیشہ یاد
۵۲
رکھ لینا تاکہ آئندہ ہرگز ایسی غلطی نہ ہو۔
چونا دان زہد و رزد ہست ظلمت
ز دانا ذلّت آید ہست رحمت
ترجمہ: جب نادان پرہیزگاری اختیار کرتا ہے تو یہ اس کے لیے تاریکی ہے، اگر دانا سے (کبھی) کوئی لغزش ہو جائے تو یہ اس کے لیے رحمت ہے۔
تشریح: پرہیز گاری صفاتِ انسانیّت میں سب سے برتر ہے، مگر ایک نادان جو دیدۂ دل سے بے بہرہ ہے اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے چونکہ وہ خود چشمِ حقیقت بین سے نابینا ہے اس لیے پرہیزگاری اس کے نزدیک ایک تاریک شے سے زیادہ کوئی قدر و اہمیّت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس اگر دانا سے کوئی لغزش بھی ہو جائے تو اس کے لیے باعثِ رحمت ہے کیونکہ لغزش کہتے ہیں چلتے چلتے پاؤں پھسل جانے کو اور اس میں گر جانے کا ارادہ نہیں پایا جاتا اور لغزش سے کوئی ایسا گناہ مراد ہے جو بھول اور غلطی سے ہوا ہو، تو ایسے میں دانا چونکتا ہے اور گریہ و زاری سے توبہ کرتا ہے، پس اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما کر اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔
بباید عاقبت اندیش بودن
برون از خویش و ہم با خویش بودن
۵۳
ترجمہ: (تجھے) انجامِ کار کے متعلق سوچنے والا ہونا چاہئے، بے خود بھی ہونا چاہئے اور باخود بھی۔
تشریح: حضرت پیر کے اس شعر میں عاقبت اندیشی کی نصیحت فرمائی گئی ہے، جس کا مطلب ہے، ہر قول و فعل میں آخرت کو پیشِ نظر رکھنا اور ابدی فلاح و نجات کے متعلق سوچنا اس شعر کا پس مصرع اگلے مصرع کے اسی مطلب کی اس طرح سے وضاحت کرتا ہے کہ نہ صرف حصولِ دنیا ہی کی خاطر ہر وقت اپنے آپ میں ہوتے ہوئے رہنا چاہئے، بلکہ نجاتِ آخرت کے لیے سوچتے سوچتے اپنے آپ سے باہر بھی ہونا چاہئے۔
اگر بر کارِید لو داست بگذار
کہ آخر ہم ببدگر دد گرفتار
ترجمہ: اگر (کوئی شخص) برے کام سے باز نہیں آتا ہے تو تو اسے چھوڑ دے، کیونکہ آگے چل کر وہ خود بخود اسی برے کام کی وجہ سے گرفتار ہونے والا ہے۔
تشریح: “بگذار= چھوڑ دے” کے یہاں دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ جب کوئی آدمی برا کام کر رہا ہے تو اسے کچھ نہ کہا جائے اور اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، دوسرا یہ کہ اگر وہ برائی
۵۴
پر عمل کرتا جا رہا ہے اور تیری نصیحتوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو اسے چھوڑ دیا جائے، پس یہاں پہلا مطلب موزوں نہیں دوسرا مطلب درست ہے، کیونکہ اگلا مطلب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اصول کے خلاف ہے اور پچھلے مطلب میں اتمامِ حُجّت کے بعد اس کا جواز موجود ہے۔
بشادیٔ جہان دل را مکن شاد
کہ آن دارِ غرور آمدز بنیاد
ترجمہ: دنیاوی خوشی سے دل کو خوش نہ رکھا کر کیونکہ وہ شروع ہی سے دھوکا اور فریب کا گھر ہے۔
تشریح: غرور کے معنی فریب، دھوکا اور غرور کے معنی دھوکا باز ہیں یہاں شاید پہلا لفظ ہے دوسرا نہیں مطلب یہ ہے کہ دنیا تجھے جو خوشی دیتی ہے وہ دھوکا اور فریب دینے کے لیے ہے تاکہ وہ تجھے آخرت سے غافل کر سکے، شروع سے ہی یہی دھوکا بازی دنیا کی عادت رہی ہے کیونکہ یہ مکر و فریب کا گھر ہے۔
بخوی بد مرو گر ہوشیاری
کہ این رہ نیست راہ ہوشیاری
ترجمہ: اگر تو ہوشیار ہے تو کسی طرح بھی بری چال اختیار نہ کر کیونکہ یہ طریقہ ہوشیاری کا طریقہ نہیں۔
۵۵
تشریح: اس ارشاد کا مطلب ہے کہ ہوشیار اور دانا صحیح معنوں میں وہ شخص ہے، جو حُسنِ سلوک سے زندگی گزارے کیونکہ انسان کو جو عقل و دانش دی گئی ہے وہ اس لیے ہے کہ نیک و بد میں فرق و امتیاز کرے اور بد و بدی کو چھوڑ کر نیک اور نیکی کو اختیار کرے۔
زیارت کردنِ اصحاب و احباب
روان را تازگی بخشد زہر باب
ترجمہ: رفیقوں اور دوستوں سے ملاقات کرنا، روح کو ہر طرح کی تازگی و توانائی بخشتی ہے۔
تشریح: حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ ہمخیال رفیقوں اور دوستوں کی ملاقات ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے روح کو دینی اور دنیاوی ہر قسم کی مدد اور خوشی ملتی ہے۔
ضعیفان راز یارت کن زا کرام
کہ از اکرام برداری بسی کام
ترجمہ: مہربانی اور سخاوت کی صورت میں کمزوروں کی ملاقات کر لیا کر تاکہ تو مہربانی و سخاوت سے بہت سی کامیابی حاصل کر سکے۔
تشریح: غریبوں اور کمزوروں پر کچھ مہربانی کرتے
۵۶
ہوئے ان کی ملاقات کرنا دو طرح سے ہے ان کو بلا کر اور ان کے پاس جا کر مگر “زیارت کُن” کے اس صیغۂ امر سے یہ ظاہر ہے کہ پیر صاحب کے اس ارشاد کا مطلب ہے کہ غریبوں اور کمزوروں کے پاس جایا جائے اور ان کی ملاقات کرتے ہوئے انہیں کچھ دیدیا جائے، اِس صورت میں وہ کس قدر خوش ہوں گے اور ان کے بہت زیادہ خوش ہونے سے کسی مومن کو کتنی خوشی ہو گی اس کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔
نہ فعلِ شخص حالِ شخص میدان
بتوشد حِلّ این اسرارِ پنہان
ترجمہ: آدمی کے (ظاہری) کام سے اس کا (اندرونی) حال معلوم کر لے تجھ پر (باطن بینی کے) یہ پوشیدہ بھید کھل گئے۔
تشریح: یعنی اگر کسی شخص کے بارے میں تجھے یہ جاننا ہو کہ اس کے باطن میں کیا ہے؟ نیکی ہے یا بدی؟ تو اس کے پرکھ لینے اور جاننے کا طریقہ یہ ہے کہ تو اس کے ظاہری افعال کے آئینے میں اس کی اندرونی صورت حال دیکھ لیا کر اور باطن بینی کا فوری طریقہ یہی ہے۔
۵۷
سلامت دان کہ درکم گفتنِ تُست
چو صحت کان ہم از کم خفتن تُست
ترجمہ: سلامتی کے متعلق جان لے کہ یہ تیرے کم بولنے میں ہے، تندرستی کی طرح کہ وہ بھی تیرے کم سونے میں ہے۔
تشریح: سلامت کے معنی ہیں جسم و جان اور مال و اولاد کا ہر قسم کے نقص اور آفت سے محفوظ رہنا، پیر صاحب فرماتے ہیں کہ ایسی سلامتی کی دولت تیرے کم بولنے میں ہے، جس طرح صحت کہ وہ بھی تیرے کم سونے میں ہے کیونکہ ایک عام انسان کے زیادہ بولنے میں مذہبی اور اخلاقی طور پر غلطیوں اور لغزشوں کا امکان ہے جس میں روحانی اور جسمانی خطرات موجود ہیں جیسے انسان جب زیادہ سویا کرتا ہے تو وہ نہ صرف روح کے لحاظ سے بیمار ہو جاتا ہے، بلکہ ذہنیّت اور جسمانیّت کے اعتبار سے بھی وہ علیل ہو جاتا ہے۔
بزرگی جز بدانائی مپندار
کہ نادان ہمچو خاکِ راہ شد خوار
ترجمہ: دانائی کے بغیر (کسی اور شے کو) بزرگی نہ قرار دے کیونکہ نادان (مادّی طور پر جو کچھ بھی ہو) خاکِ راہ کی طرح خوار ہے۔
۵۸
تشریح: پیر صاحب اس قول کے پیش مصرع میں جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں اس کی دلیل پس مصرع میں دیتے ہیں یعنی دیکھا گیا ہے کہ مادّی لحاظ سے سب کچھ رکھنے والا نادان علم و دانش کے نہ ہونے سے خاکِ راہ کی طرح خوار ہو جاتا ہے تو اس سے ثابت ہوا کہ بزرگی کسی اور شے کی وجہ سے حاصل نہیں آتی، مگر یہ علم و دانش کی بنا پر قائم ہے۔
خرد مند از تواضع مایہ گیرد
بزرگی از کرم پیرایہ گیرد
ترجمہ: دانشمند تواضع اور فروتنی سے قوّت حاصل کرتا ہے بزرگی کو بخشش اور سخاوت سے زیب و زینت ملتی ہے۔
تشریح: تواضع کا لغوی مطلب ہے کسی چیز کو نیچے رکھنا اور تواضع کے اصطلاحی معنی ہیں فروتنی اور انکساری کرنا، ان دونوں معانی کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ انسان کے اندر ابلیسیت کی بنیادی اور خطرناک خواہش بھی پائی جاتی ہے، جس کے سبب سے انسان اپنے آپ کو ہر وقت دوسروں پر فوقیت دیتا رہتا ہے، اس فعل کو تکبر کہتے ہیں، پس اخلاقی اور دینی لحاظ سے یہ امر ضروری ہوا کہ علاجِ بالضّد کے اصول پر مؤدبانہ پستی (تواضع) کی قوّت
۵۹
سے اپنی ذات کو فوقیت دینے کی خواہش کو ختم کر دیا جائے، یا کم از کم اُسے نشوونما نہ پانے دیا جائے۔
بکویِ معرفت گر تُو در آئی
زہیتہایِ عالم بر سر آئی
ترجمہ: اگر تو خود شناسی و معرفت کی گلی میں داخل ہو جائے تو تُو (اشیائے) کائنات کی تمام صورتوں پر غالب آئے گا۔
تشریح: پیر صاحب کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اے مخاطب تو اسی طرح اپنے آپ کو فوقیّت نہ دیا کر، اگر تو حقیقی معنوں میں فوقیّت چاہتا ہے، تو اس کے لیے مناسب چارۂ کار یہ ہے کہ تو سب سے پہلے پستی اختیار کر یعنی تواضع سے معرفت کی گلی میں داخل ہو جا، پھر اس کے بعد یقیناً تو اپنے آپ کو کائنات کی تمام روحانی صورتوں سے برتر پائے گا، یعنی حصولِ معرفت کے بعد ہر چیز تیری روحانی سلطنت کے نیچے آئے گی۔
شفای درد دلہا گشت عرفان
ز عرفان روشن آمد جا و دان جان
ترجمہ: معرفت دلوں کے درد کے لیے شفا ثابت ہو چکی ہے، معرفت ہی سے ہمیشہ جان روشن ہوتی چلی آئی ہے۔
تشریح: دل کا درد یعنی بیماری اور جان کی تاریکی جہالت و
۶۰
نادانی کی بے شمار مثالوں میں سے دو مثالیں ہیں اور معرفت ہی ہمیشہ سے اس درد کی دوا و شفا اور اس تاریکی کے لیے نور ثابت ہو چکی ہے۔
صلاحِ دین بُود پرہیز گاری
طمع دین را کشد در خاکِ خواری
ترجمہ: پرہیزگاری دین کے حق میں بہبودی و بہتری ہے، طمع دین کو ذلت و خواری کی مٹی میں ملا دیتی ہے۔
تشریح: دین کا تعلق قوم سے بھی ہے اور فرد سے بھی، پس اس قول میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ قوم کا ایک شخص پرہیزگاری کے ذریعہ اپنے دین کو بہتر اور برتر ثابت کر سکتا ہے اور دوسرا شخص طمع کی وجہ سے اپنے دین کو خوار بھی کر سکتا ہے۔
امیدار جُز بحق داری بگردان
کہ آن امید باشد عین نقصان
ترجمہ: اگر تو خدا کے ماسوا سے امید رکھتا ہے تو ایسی امید کو خدا کی طرف پھیر دے، کیونکہ ایسی امید (انجام میں) عینِ نقصان ثابت ہوتی ہے۔
تشریح: یعنی انسان کو دینی اور دنیاوی مقاصد کے حصول کے سلسلے میں صرف اللہ تعالیٰ ہی سے توقع رکھنی چاہئے، کیونکہ
۶۱
مسبب الاسباب وہی ہے یعنی اسباب و ذرائع اسی نے پیدا کیے ہیں، اور یہ ہرگز درست نہیں کہ اسباب و ذرائع پر بھروسا رکھ کر مسبب سے مایوس ہو جائے۔
چو جسم و جان و روزی ہرسہ او داد
بوَد جہل ارکنی از دیگری یاد
ترجمہ: جب (معلوم ہے کہ) جسم، جان اور روزی تینوں چیزیں اسی نے دی ہیں (پھر) اگر تو کسی اور کو یاد کرتا ہے تو یہ جہالت و نادانی ہے،
تشریح: پیر صاحب فرماتے ہیں کہ جب جسم و جان اور روزی کے پیدا کرنے میں خدا کے سوا کسی اور سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی، پھر اگر اب تو کسی اور کو یاد کرتے ہوئے خدا کو فراموش کر دیتا ہے، تو یہ جہالت و نادانی نہیں تو اور کیا ہے۔
بخر سندی براور سرکہ رُستی
ز حرص اردو رگشتی بُت شکستی
ترجمہ: اگر تو حرص و ہوا سے دور ہو سکا، تو تُو نے بت کو توڑ ڈالا (اب) تُو مسرت و شادمانی سے سر اونچا کر کہ تُو رست گار ہوا۔
تشریح: پیر صاحب نے یہاں حرص کی ایک مثال بیان
۶۲
فرمائی ہے کہ حرص بت ہے اور جو شخص دنیاوی چیزوں کی حرص رکھتا ہے، وہ بت پرستی کرتا ہے، حرص کا بت بار بار روپ بدلتا رہتا ہے، یعنی نفسانی خواہشات کی مختلف صورتیں اختیار کرتے ہوئے دل و دماغ میں موجود رہتا ہے، پس اگر تو نے حرص کے اس بت کو توڑا، تو تُو رستگار ہوا۔
نصیحت بشنوار تلخ آید از یار
کہ در آخر بشیرینی رسد کار
ترجمہ: دوست کی نصیحت سن لیا کر ہر چند کہ تلخ و ناگوار گزرے کیونکہ بالآخر اس سے کام خوشگوار اور پُر لطف بن جاتا ہے۔
تشریح: نصیحت کرنے والا کسی شخص کو اس وقت نصیحت کرتا ہے جبکہ وہ عقل کی پسندیدہ راہ چھوڑ کر اپنے نفس امّارہ کی پیروی و غلامی کر رہا ہو، پھر نفس کو یہ نصیحت تلخ و ناگوار کیسے نہ گزرے، جبکہ اِس شخص کو اس کی غلامی سے چھڑایا جا رہا ہے۔
ہُنر جو زانک در عقل او نکوتر
کہ باشی در زمانہ طالبِ زر
ترجمہ: ہُنر کی جستجو کر اس لیے کہ عقل کے نزدیک وہی بہتر ہے، بنسبت اس کے کہ تُو عمر بھر دولت کا طلبگار رہے۔
۶۳
تشریح: اس شعر میں ہُنر کو دولت پر ترجیح دی گئی ہے، کیونکہ ہُنر کے بغیر دولت حاصل ہو آنے اور قائم رہنے کا کوئی اعتبار نہیں، مگر اس کے برعکس ہُنر کے ہونے میں سب کچھ ہے، اور سب سے بڑا ہُنر علم و دانش ہے۔
کسی کو قانع است او شہر یار است
گُلی دا رد کہ او بی زخم خار است
ترجمہ: جو شخص قناعت پیشہ ہو، تو وہی (دنیائے دل کا) بادشاہ ہے، اس کے پاس ایک ایسا پھول ہے جو کہ کانٹوں کی چُبھن اور خلش کے بغیر ہے۔
تشریح: یعنی اگر کوئی بادشاہ اپنی مملکت کے خزانوں سے اپنی خواہشات کی تکمیل کر کے حِظّ اٹھاتا ہو تو اس کے مقابلے میں ایک قناعت پیشہ فقیر یادِ الٰہی کے ذریعہ اپنے نفس کے بے شمار ارمانوں کو توڑ پھوڑ کر لذّت محسوس کرتا ہے پس قناعت ایک ایسا پھول ہے جس میں کوئی چبھن اور خلش نہیں۔
بدان کان تشنۂ دنیای غدّار
بتر از تشنۂ آبست بسیار
ترجمہ: جان لے کہ وہ شخص جو اس بے وفا دنیا کا پیاسا ہے پانی کے لیے ہمیشہ پیاسا رہنے والے سے بدتر ہے۔
۶۴
تشریح: اس قول میں حضرت پیر نے حصولِ دنیا کے لیے ہمیشہ پیاسا رہنے والے کی مثال استسقاء سے دی ہے، استسقاء وہ بیماری ہے جس میں دل اور جگر کی خرابی کی وجہ سے مریض کو ہمیشہ پیاس لگی رہتی ہے، یہی مثال حریصِ دنیا کی بھی ہے کہ حصولِ دنیا کے لیے اسے جو تشنگی محسوس ہو رہی ہے وہ کبھی بجھ نہیں سکتی۔
سخن را از درازی دار کو تاہ
کہ از بسیار گفتن گم شود راہ
ترجمہ: بات کو طول دینے سے بچا کر مختصر کر دے کیونکہ زیادہ بولنے سے (مقصد کا) راستہ گم ہو جاتا ہے۔
تشریح: ناصر خسرو فرماتے ہیں کہ گفتگو کرنا ادائے مطلب کے لیے ہے، اور ادائے مطلب مختصر طریقے سے بہتر رہتا ہے کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ باتیں کرنے سے اکثر مطلب الجھ جاتا ہے۔
چو در رہ می روی منگر چپ و راست
نظر بر خویش کن کین سخت زیباست
ترجمہ: جب تو کسی راہ سے گزرتا ہے، تو دائیں بائیں نہ دیکھا کر اپنے آپ پر نظر رکھ کیونکہ یہ نہایت ہی اچھا ہے۔
تشریح: چلتے ہوئے دائیں بائیں متوجّہ ہو جانا کسی ضرورت کے بغیر شانِ بزرگی کے خلاف ہے، خصوصاً شہر و بازار اور محفلوں
۶۵
میں بلکہ چلتے ہوئے آدمی کو اپنے آپ پر نظر رکھنی چاہئے، یعنی اپنے آپ کو اخلاق و تہذیب کی حدود کے اندر رکھنا چاہئے۔
ز ہمّت چون تو در عالم بلندی
سزد کز ہر زہ بسیاری نخندی
ترجمہ: جب تو (انسانی) عزم و ہمّت سے کائنات پر فوقیّت رکھتا ہے تو تیرے شایانِ شان ہے کہ فضول باتوں سے زیادہ نہ ہنسا کرے۔
تشریح: بموجبِ ارشادِ قرآنی جب یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کو تمام موجوداتِ عالم پر کرامت و فضیلت بخشی ہے، پھر یہ اس کے لیے ہر گز جائز نہیں کہ فضول باتوں میں ہنسی مذاق کر کے اپنی اصالت و شرافت اور عزّت و وقار کو یکسر ختم کر دے۔
عدویِ عاقلت بہتر بسی زان
کہ باشد مر ترا صد دوستِ نادان
ترجمہ: تیرا ایک دانا دُشمن اس سے بہت بہتر ہے کہ تیرے سو نادان دوست ہوں۔
تشریح: عاقل دشمن سے ایک شخص مراد ہے جو انسانی مرتبت کی اعلیٰ صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے تیرے مخالفت پر اترتا ہے، جس کے مقابلے کے لیے تجھے یہ موقع ملتا ہے کہ تو بھی اپنی اعلیٰ
۶۶
درجے کی صلاحیتوں کو اجاگر کرے، لیکن تیرے نادان دوست ہمنشینی کے اثر سے تجھے جہالت و نادانی کا درس پڑھاتے رہتے ہیں۔
ترا گر کو د کی یار است و عاقل
بہ از پیری بُوَد نادان و جاہل
ترجمہ: اگر ایک چھوٹا سا بچہ تیرا دوست ہو اور دانا ہو تو یہ بہتر ہے اس بوڑھے (دوست) سے جو نادان اور جاہل ہو
تشریح: بوڑھے آدمی کی بزرگی اس لیے مانی جاتی ہے کہ وہ اپنی طویل عمر میں بہت سے تجربات و معلومات حاصل کر کے عاقل اور دانشمند ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ چھوٹا سا بچہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے، جو فطری صلاحیتوں یا علمی ماحول کی بنا پر ہوشیار اور دانا ہے۔
بنرمی گر سخن رانی ہمی ران
کہ از تیزی برنج آید دل و جان
ترجمہ: اگر تو نرمی سے بات کرتا ہے تو بیشک کرتے جا کیونکہ تیزی و تندی کے ساتھ بات کرنے سے دل و جان کو رنج ہوتا ہے۔
تشریح: بات اگر کسی قدر کُھردری بھی ہو تو قابلِ قبول ہو سکتی ہے، جبکہ انتہائی نرم لہجے میں ہے اور تیز و تند لہجے میں جو بات کی جاتی ہے، اُس سے غُصّہ اور تکبّر کی علامتیں ظاہر
۶۷
ہونے لگتی ہیں، لہٰذا اِس اندازِ گفتگو سے قدرتی طور پر لوگوں کو نفرت ہوتی ہے۔
ہم از نرمی بسی دل رام گردد
ز تُندی پختہا بس خام گردد
ترجمہ: نیز نرمی کی وجہ سے بہت سے دل تابعدار بن جاتے ہیں اور تُندی کے سبب سے بہت سی پختہ چیزیں خام و نا تمام ثابت ہو جاتی ہیں۔
تشریح: نرم لہجے میں بات کرنے سے انسانی شفقت، مہر اور ہمدردی کی علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں، جن کے سبب سے بہت سے دل تابعدار ہو سکتے ہیں، اس کے برعکس تیز و تند گفتگو کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے بنے بنائے کام بگڑ جاتے ہیں۔
حسد را سُویِ جان و دل مدہ بار
کہ حاسد را نبا شد ہیچ مقدار
ترجمہ: حسد کو جان و دل کی طرف (جانے کی) اجازت ہی نہ دینا کیونکہ حسد کرنے والے کی کچھ بھی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔
تشریح: حسد کا مطلب ہے کسی کی نعمت کا زوال چاہنا اور کسی کی ترقی سے جلنا یہ آدمی کو اسی طرح کھاتا ہے جس طرح گُھن لکڑی کو اندر ہی سے کھا کھا کر کھوکھلی بنا دیتا ہے، پس حسد
۶۸
کرنے والے کی کوئی مقدار نہیں رہتی ہے، جیسے بڑھئی کے نزدیک کھوکھلی لکڑی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے۔
با فراط ارکنی شہوت زیان است
ضعیفئی تن است و قطعِ جان است
ترجمہ: اگر تو شہوانی عمل کثرت سے کرتا ہے تو یہ مضر ہے (کیونکہ یہ) جسم و جان کی کمزوری اور رشتۂ جان کے ٹوٹ جانے کا باعث ہے۔
تشریح: اس سلسلے میں حرام کا تو ذکر ہی کیا، حلال میں بھی اعتدال سے کام لینے کی ضرورت ہے ورنہ آدمی کو اس کا چسکا لگتا ہے کہ خون کی کمی کے شکار ہونے کی بھی خبر نہیں ہوتی، پس شہوانی عمل کثرت سے نہ کیا جائے۔
ہمہ رنجِ جہان از شہوت آمد
کہ آدم زان برون از جنّت آمد
ترجمہ: دنیا والوں کی ساری تکالیف نفسانی خواہش کے سبب سے ہیں، کیونکہ آدمؑ کو اسی بنا پر جنّت سے نکال دیا گیا ہے۔
تشریح: انسان اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے سلسلے میں بہت سی تکالیف اور مشکلات سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اخلاقی دائرے
۶۹
میں محدود رکھنے اور نفس پرستی کے بیابان میں گُم گشتہ ہو جانے سے روکنے کے لیے ان کے گردا گرد بڑی بڑی اخلاقی اور مذہبی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں، مگر پھر کچھ لوگ نا جائز نفسانی لذّتوں کی تلاش میں ان رکاوٹوں سے ٹکرا ٹکرا کر تکلیف اور مصیبت اُٹھاتے ہیں۔
نشین با اہلِ علم ای دوست ماوام
کہ از دانش بہی یابی سر انجام
ترجمہ: اے دوست ہمیشہ اہلِ علم کے ساتھ رہا کر، بالآخر تجھے علم و دانش سے بہتری و بہبُودی حاصل ہو سکے۔
تشریح: ایک نیک فطرت انسان اکثر اہلِ علم کی صحبت میں رہ کر بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے جس کا سبب یہ ہے کہ مختلف موقعوں پر علم کے مختلف مباحث سامنے آتے ہیں، جن پر اہلِ علم آزادیٔ فکر کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں اور اسرار سر بستہ کی بہت سی باتیں بتایا کرتے ہیں۔
ہر آنک اونیست از توبہ بدانش
بصحبت ہمدم و محرم مدانش
ترجمہ: جو شخص علم و دانش میں تجھ سے بہتر اور بالاتر نہ ہو تو اس کو ہمنشینی کے لیے رفیق اور ہمراز نہ سمجھ لے۔
۷۰
تشریح: فیضِ صحبت اس وقت حاصل ہوتا ہے، جبکہ وہ شخص جس کی صحبت مطلوب ہے، علم و دانش میں تجھ سے بہتر اور بالاتر ہو، اور اگر وہ شخص بھی تیری طرح کا ہے تو اس کی صحبت میں رہنے سے تنہائی ہی بہتر ہے۔
مکن با اہلِ جہل ای یار صحبت
کہ زان صحبت رسی ہر دم بمحنت
ترجمہ: اے دوست جہالت والوں کے ساتھ ہمنشینی نہ کیا کر کیونکہ ایسی ہمنشینی سے تجھے ہمیشہ تکلیف ہوتی رہے گی۔
تشریح: یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ انسان پر صحبت کا اثر ہوتا ہے۔ پس ظاہر ہے کہ جو لوگ جاہلوں کی صحبت اختیار کرتے ہیں وہ جاہل بن جائیں گے یا کم از کم ان کی جاہلانہ باتوں اور کاموں میں ملوث ہو کر تکلیف اُٹھائیں گے۔
اگر احسان کنی با مستحق کُن
نہ از بہرِ ریا از بہرِ حق کُن
ترجمہ: اگر تو کوئی نیکی کرتا ہے، تو حقدار کے لیے کر، دکھاوے کے لیے نہیں خدا کے لیے کیا کر۔
تشریح: حکیم پیر ناصر خسرو کا فرمانا ہے کہ اگر تو نیکی کرتا ہے اور وہ نیکی ہمہ رس نہیں بلکہ صرف چند افراد کو یا ایک فرد کو کافی
۷۱
ہو سکتی ہے، تو اس صورت میں تجھے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس نیکی کا اوّلین حقدار کون سا شخص ہے، پھر اس کا فیصلہ تُو قانونِ شریعت یا اصولِ حقیقت کی روشنی میں کر سکتا ہے، نیکی کی دوسری شرط یہ ہے کہ یہ محض خُدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیّت سے ہونی چاہئے نہ کہ دنیاوی طور پر نام و نمود کے لیے۔
چو پیش جاہلی نعمت نہی تو
چو تیغی شد کہ با دیوی دہی تو
ترجمہ: جب تو کسی جاہل کے سامنے نعمت (یعنی دولت) رکھ دیتا ہے، تو یہ ایک تلوار کی مثال ہوئی، جو تو ایک جنّ (بھوت) کو دیتا ہے۔
تشریح: پیر صاحب نے اگلے شعر میں فرمایا تھا کہ جب تو نیکی کرتا ہے تو اس میں حقدار کی ترتیب کو پیشِ نظر رکھنا، چنانچہ اسی ربط میں فرماتے ہیں کہ جاہل کو دولت و نعمت سے نواز کر قوّت دینا کسی شریر جنّ کے ہاتھ میں تلوار پکڑانے کے مترادف ہے۔
کہ چون نادان بیا بداز تُو قوّت
جہانی را در انداز بمحنت
ترجمہ: کیونکہ جب نادان کو تجھ سے قوّت حاصل ہو جائے، تو وہ ایک عالم کو مشقّت میں ڈالے گا۔
۷۲
تشریح: پیر صاحب اِس شعر میں اگلے شعر کے مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، کہ جاہل کو دولت و نعمت سے قوّت دینا کسی شریر جنّ کے ہاتھ میں ایک ہتھیار پکڑانے کے برابر اس لیے ہے کہ جاہل تجھ سے یہ قوّت حاصل کر کے بہت سے لوگوں کو اذّیت و تکلیف پہنچا دیا کرے گا۔
ندا رد دین اگر مردی سخی نیست
اگر باشد سخی اور دوزخی نیست
ترجمہ: اگر کوئی آدمی سخی نہیں تو اس کا دین نہیں، اگر وہ سچی ہے، تو ہرگز وہ دوزخی نہیں۔
تشریح: حضرت مولانا علی علیہ السَّلام سخاوت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
اَ لَّخَآ ءُ مَا کَانَ اِ بْتدِ آ ءً فَاَ مَّاَ مَا کَانَ عَن تَسْا ءَ لَۃٍ فَحَیآ ءٌ وَ تَذَ ھُّمٌ :
یعنی سخاوت یہ ہے کہ مانگنے سے پہلے عطا ہو، لیکن جو سوال کے بعد سخاوت کی جائے وہ سخاوت نہیں بلکہ وہ شرم (کا تحفظ) اور مذّمت سے بچاؤ ہے۔
مشو خود بین کہ آن باشد ہلاکت
و زان تیرہ بماند جانِ پاکت
۷۳
ترجمہ: خود بین اور خود نگر نہ ہو جا، کیونکہ یہ باعثِ ہلاکت ہے، اور اس سے تیری پاک جان تاریک رہ جاتی ہے۔
تشریح: خود بین کا مطلب ہے مغرور اور متکبّر، یعنی غرور اور تکبّر کرنے والا، اور ظاہر ہے کہ تکبّر روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے باعثِ ہلاکت ہے اور اس کی ابتدائی علامت یہ ہے کہ دل و جان میں ہر وقت تاریکی چھائی رہتی ہے۔
نمی بینی کہ ابلیس است خود بین
و زان آمد سزای طرد و نفرین
ترجمہ: کیا تو نہیں دیکھتا ہے، کہ ابلیس خود بین و خود نگر ہے اسی سبب سے وہ راندگی اور لعنت کا سزا وار ہوا۔
تشریح: اگر سوال ہو کہ نافرمانیوں اور گناہوں کی جڑ اور بنیاد کیا ہے؟ تو اس کا جواب بس یہی ہوگا کہ تکبر ہے کیونکہ ابلیس کی سرگزشت سے ظاہر ہے کہ وہ سب سے پہلے تکبّر کا شکار ہوا، جس کی وجہ سے اس نے یکے بعد دیگرے تمام گناہوں کا ارتکاب کیا، یہاں تک کہ دنیا میں کوئی گناہ نہیں چھوڑا۔
تواضع بندگان را ہست بہتر
تلطّف از ملوک آمد نکوتر
ترجمہ: بندوں کو تواضع اور انکساری اختیار کرنا بہتر ہے،
۷۴
بادشاہوں کی طرف سے مہربانی کا روّیہ زیادہ اچھا ہے۔
تشریح: پیر صاحب کی اِس تعلیم میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جس شخص کا جیسا مقدور اور استطاعت ہو اسی کے مطابق نیکی کر لیا کرے چنانچہ بندوں کے لیے مناسب ہے کہ تواضع کو اپنا شعار بنائیں، اور بادشاہوں کے شایان شان یہ ہے کہ وہ مہربانی کرنے کے خوگر ہو جائیں۔
کسی کو عاقل آمد نیست درویش
کہ درویش آنک بی عقل است و بی کیش
ترجمہ: جو کوئی عاقل و دانا ہو تو وہ (حقیقت میں) مفلس و نادار نہیں، کیونکہ مفلس و نادار وہ شخص ہے جس کی عقل اور دین نہ ہو۔
تشریح: یہ ایک مُسلّمہ حقیقت ہے کہ انسان صرف دُنیاوی زندگی تک محدود نہیں بلکہ وہ ابدی طور پر زندہ رہنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، دریں صورت صحیح معنوں میں امیر وہی شخص ہے، جو دین و ایمان اور عقل و دانش کی لازوال دولت رکھتا ہو اور جو آدمی اس کے بغیر ہو تو وہی حقیقت میں غریب اور مفلس ہے۔
مکن کذّاب را ہرگز کرامت
کہ از کذّاب دُور افتد سلامت
ترجمہ: جھوٹ بولنے والے کی عزّت نہ کیا کر، کیونکہ جھوٹ بولنے والے سے سلامتی دور رہتی ہے۔
۷۵
تشریح: یعنی حقیقی عزّت خدا کے لیے ہونی چاہئے، پھر اس کے رسولؐ اور ولیٔ امرؑ اور مومنین کے لیے دیکھئے قرآن (۶۳: ۰۸) ہاں بنی نوع انسان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا چاہئے، مگر پھر بھی جھوٹ بولنے والے کی عزّت لازم نہیں آتی، کیونکہ اگر اس کی عزّت کی جائے تو یہ اپنے صحیح مقام پر نہ رہے گی، اور کسی چیز کو اپنی جگہ پر نہ رکھنا ہی ظلم ہے۔
ہم از نماّم پرہیز ای برادر
کہ از نماّم جان افتد در آذر
ترجمہ: اے بھائی! چغلخور سے بچ کر رہنا، کیونکہ چغلخور کی وجہ سے جان آگ میں رہتی ہے۔
تشریح: چغلخور کے سبب سے جان میں آگ کس طرح لگتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چغلی کی باتیں جلانے کی لکڑی اور ایندھن کی طرح ہیں، اور غیض و غضب آگ کی مثال ہے، پس چغلی کی باتیں جس کو سنائی جاتی ہیں وہ بھی جلتا ہے اور جس کے متعلق یہ باتیں ہوتی ہیں وہ بھی جلتا ہے۔
ز خائن دُور باش ای دوست ہموار
کہ خائن رانبا شد دین بکیبار
ترجمہ: اے دوست، خیانت کرنے والے سے ہمیشہ دُور
۷۶
رہنا، کیونکہ خیانت کرنے والے کا قطعاً کوئی دین نہیں۔
تشریح: حضرت پیر کا اشارہ یہ ہے کہ دین کی بنیاد امانت گذاری پر ہے، جیسے آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہٖ و سلّم نے لوگوں کو دین اسلام کی دعوت کرنے سے قبل اپنے آپ کو امین ثابت کر کے امانت گذاری کی مثال پیش کی، اور اسی اخلاقی قوّت کی اساس و بنیاد پر دین کی عمارت قائم ہونے لگی، پس جو شخص امین نہ ہو، وہ خائن ہے اور جو خائن ہو اس کے دین کی کوئی بنیاد نہیں۔
ز نامحرم نظر ہم دُور می دار
کہ از دیگر نظر گردی گرفتار
ترجمہ: نا محرم (عورت) کی طرف دیکھنے سے نظر کو بچا لیا کر کیونکہ (قصد سے) دوسری بار دیکھنے سے تو (خدا کے نزدیک) ماخوذ ہو گا۔
تشریح: حدیث میں ہے کہ اگر ارادہ کے بغیر یکایک کسی نا محرم عورت پر نظر پڑتی ہے اور فوراً نظر بچالی جاتی ہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں اور اگر اس غیر شعوری نظر کے بعد تجسس کی نگاہ سے عورت کی طرف دیکھا جاتا ہے، تو یہ گناہ ہے چنانچہ پیر کے اس قول میں یہی معنی پوشیدہ ہیں۔
۷۷
مکن عیبِ کسان تامی تو ا نی
کہ تُو ای دوست عیبِ خود ندانی
ترجمہ: جہاں تک تجھ سے ہو سکے لوگوں کی عیب جوئی نہ کیا کر کیونکہ اے دوست تو اپنے عیوب کو تو نہیں جانتا (یعنی تیرے اپنے عیوب اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو شمار ہی نہیں کر سکتا)
تشریح: پیر صاحب اپنے مخاطب کو لوگوں کی عیب جوئی کرنے سے منع فرماتے ہیں، کیونکہ جو شخص کسی اصلاحی امر کے بغیر سب لوگوں کی عیب جوئی کرتا ہو، وہی شخص اپنے اندر بہت سے عیوب پوشیدہ رکھتا ہے۔
مکن شادی ز مرگِ دیگران ہم
کہ زان شادی رس جانِ تراغم
ترجمہ: نیز دوسروں کی موت پر تو خوش نہ ہو کیونکہ ایسی ظاہری خوشی سے تیری روح کو رنج و غم پہنچتا ہے۔
تشریح: کسی دشمن یا مخالف شخص کی موت واقع ہونے سے خوش ہونا مذہب اور انسانیت کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے، اور ایسی خوشی سے روح کو غم پہنچتا ہے، کیونکہ قانونِ الٰہی یہ ہے کہ عمل کی برعکس صورت میں بدلہ ملا کرتا ہے، یعنی جو شخص ناجائز طور پر خوشی کرے، تو اسے غم ملتا ہے، اور جو خدا کی محبت میں
۷۸
یا اپنے گناہوں سے پریشان ہو کر گریہ وزاری کرے تو اسے روحانی طور پر خوشی ملتی ہے جو شخص یہاں خدا کی راہ میں رنج اٹھائے اسے قیامت میں راحت حاصل ہوتی ہے اور جو لوگوں کی غلطیوں سے درگذر کرے تو خدا اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔
چونیکو خواہ باشی برتنِ خود
دگر کس را چرا خواہی تو در بد
ترجمہ: جب تو اپنے آپ کے لیے بھلائی ہی چاہتا ہے تو تُو کسی دوسرے کے حق میں کیوں برائی چاہتا ہے؟
تشریح: پیر صاحب اپنے مخاطب پر اس طرح اعتراض اٹھاتے ہیں کہ جب تو اپنے آپ کے لیے کوئی بھی برائی نہیں چاہتا اور بھلائی ہی بھلائی چاہتا ہے تو پھر عدل و انصاف اور انسانیّت کے اصول سے ہٹ کر دوسرے کے حق میں کیوں برائی چاہتا ہے؟ حالانکہ جس طرح تو خیر و سلامت کا محتاج ہے، اسی طرح دوسرا بھی اس کا محتاج ہے۔
لیمان را مکن اکرام و اعزاز
کریمان را مدار از پیش خود باز
ترجمہ: بد سرشت لوگوں کی تعظیم و تکریم نہ کیا کر، نیک فطرت لوگوں کو اپنے سامنے سے نہ روک دیا کر۔
۷۹
تشریح: مطلب یہ ہے کہ بد سرشت لوگوں کی تعظیم و تکریم کرنے سے ان کی ہمت افزائی ہو گی، بجائے اس کے کہ تو ان کو قوّت دے، نیک فطرت لوگوں سے تعاون کیا کر تاکہ تو بدی سے خود کو بچا سکے اور نیکی میں شامل ہو سکے۔
بر اہلِ جہل رحمت ہیچ ماور
ولی بر اہلِ دانش صدق آور
ترجمہ: جہالت والوں پر کچھ بھی رحم نہ کیا کر لیکن اہلِ دانش کے ساتھ صداقت سے پیش آ۔
تشریح: جہالت و نادانی روحانی قسم کی تاریکی ہے، پس جاہل و نادان سے مہر و شفقت کا سلوک کر کے تاریکی و ظلمت نہ بڑھا دی جائے، اس کے برعکس علم و دانش روحانی قسم کی روشنی ہے لہٰذا اہلِ علم و دانش کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے کہ جس سے علم و دانش کی روشنی میں اضافہ ہو۔
اگر مالت خورد دانائی ہشیار
از و منّت بسی بر خویش می دار
ترجمہ: اگر ہوشیار دانا تیرا مال کھا جائے تو اس سے اپنے اوپر بہت سا احسان رکھا کر۔
تشریح: حضرت پیر علم و دانش کی تعریف کرتے ہوئے
۸۰
فرماتے ہیں کہ اگر حقیقی دانا پیر مریدی یا استادی و شاگردی یا دوستی اور برادری کے طریق پر تیرا مال خرچ کرتا ہے تو تجھے خوش ہونا چاہئے کہ دانا اسی طرح تجھ کو اپنا رہا ہے، اور تیرے مال کو راہِ خدا میں صرف کر رہا ہے۔
مدہ یاریٔ نادان تا توانی
کہ تادر رنجِ نادان نمانی
ترجمہ: جہاں تک تجھ سے ہو سکے، نادان سے تعاون نہ کیا کر، تاکہ تو نادانوں کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا نہ ہو جائے۔
تشریح: یعنی اگرچہ تو محض انسانی ہمدردی سے کسی نادان کی مدد کرتا ہے، تاہم لازمی ہے کہ وہ اپنی نادانی کے سبب خلافِ دین و آئین کوئی نہ کوئی غلط کام کر کے ماخوذ ہو گا، جس میں بسا ممکن ہے کہ تجھے بھی تکلیف ہو گی کہ تو اس کی مدد کر رہا تھا۔
اگر بد گوی نزدیکِ تو آید
بران اورا ز نزدیکت نشاید
ترجمہ: اگر بد گو تیرے پاس آئے تو اسے دور کر دے کیونکہ وہ تیرے پاس رہنے کے قابل نہیں۔
تشریح: یعنی جس شخص کی یہ عادت ہو کہ وہ جہاں کہیں بھی جائے لوگوں کی غیبت و شکایت کرتا ہے اور ان کو برا بھلا کہتا ہے،
۸۱
تو ایسے شخص کو اپنے پاس سے دور کر دے، ورنہ وہ اپنے معمول کے مطابق تیرے پاس لوگوں کی اور لوگوں کے پاس تیری بد گوئی کرے گا۔
از و مشنو سخنہای خرافات
کزان آید ترا در آخر آفات
ترجمہ: اس کی بیہودہ باتیں نہ سنا کر، کیونکہ ان باتوں سے آخر کار تجھ کو آفت آئے گی۔
تشریح: یعنی جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ بدگو تیرے پاس لوگوں کی بدگوئی کر کر کے لوگوں سے تیری دشمنی کرا دے گا، یہی نہیں پھر اس طرف سے لوگوں کو بھی تیری دشمنی پر آمادہ کر دے گا۔
چو خشم آری مشو چون آتشِ تیز
کز آتش بجز دان را ہست پرہیز
ترجمہ: جب تجھے غصّہ آتا ہے تو تیز آگ کی طرح مت ہو جا، کیونکہ اہلِ دانش آگ سے محتاط رہتے ہیں۔
تشریح: حجّت الحق فرماتے ہیں کہ غصّہ آگ کی طرح ہے، آگ سے لوگوں کو فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی، فائدہ اس وقت ہے جبکہ اس کو قابو میں رکھیں، اور نقصان اس وقت جبکہ اس کو آزاد چھوڑ دیں، یہی حال غصّے کا بھی ہے، چنانچہ استاد کے معمولی غصّے سے خام و نا تمام شاگرد علم و ہنر میں پختگی حاصل
۸۲
کر سکتا ہے، مگر تیز غصّہ سے اس کا ذہن جل جاتا ہے جیسے نرم آنچ سے سالن خوب پکتا ہے، مگر تیز آگ سے یا تو جل جاتا ہے یا جوش کھا کر چھلکتا چھلکتا ختم ہو جاتا ہے۔
کسی کو با تو نیکی کرد یک بار
ہمیشہ آن نکوئی یاد می دار
ترجمہ: جس شخص نے تیرے ساتھ ایک بار نیکی کی ہو اس کی نیکی کو ہمیشہ یاد کرتے رہنا۔
تشریح: یعنی قول و فعل کے ذریعہ نیکی کے عوض میں نیکی کر دی جائے اور اس کی نیکی کو دل سے فراموش نہ کر دیا جائے۔
مگو اسرارِ حالِ خویش بازن
کہ یابی راز فاش از کُوی و برزن
ترجمہ: اپنے احوال کے بھید عورت کو نہ بتا دیا کر (ایسا نہ ہو) کہ تو اپنا کھلا بھید گلی کوچے میں سنے۔
تشریح: یعنی اپنے پوشیدہ حالات کے بھیدوں کا تذکرہ عورت سے نہ کیا کر، ورنہ راز فاش ہونے کی نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ تو اپنی ان پوشیدہ باتوں کو گلی کوچے کے لوگوں سے بھی سننے لگے گا۔
زنان را لطف و خوش خوی است دو کار
چو طفلاں را بُوَد شفقت سزا وار
۸۳
ترجمہ: عورتوں کے حق میں صرف مہربانی اور خوش خلقی ضروری ہے، جیسے بچوں کے لیے محبت و شفقت درکار ہوتی ہے۔
تشریح: ارشاد ہے کہ جس طرح چھوٹے بچوں کو غیر ضروری باتیں نہیں بتائی جاتی ہیں، ان کے ساتھ محبت و شفقت کا سلوک کیا جاتا ہے، اسی طرح عورتوں پر پوشیدہ حالات کے بھید ظاہر نہ کیے جائیں صرف ان سے مہربانی اور خوش اخلاقی کا برتاؤ کیا جائے کیونکہ عورتیں بھی چھوٹے بچوں کی سی عادت رکھتی ہیں۔
سوی پیران بحرمت گر گرائی
تو در پیری ز پیران برسر آئی
ترجمہ: اگر تو بوڑھوں کی طرف عزّت و حرمت سے مائل ہو جائے تو تُو بڑھاپے میں سب بوڑھوں سے معزز ہو جائے گا۔
تشریح: قانونِ فطرت کا فیصلہ یہی ہے کہ جو شخص جیسا کرے گا ویسا پائے گا، اس کے مختلف اسباب ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ تم جس خاندان، جس قبیلے اور جس قوم کے بزرگوں کی عزّت کرتے ہو اس خاندان، قبیلے اور قوم کے لوگ بھی یہ چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں تمہاری عزت کریں۔
گناہِ بندگان پوشیدہ می دار
کہ تو ہم بندۂ حق را گنہگار
۸۴
ترجمہ: بندوں کے گناہ کو چھپا دیا کر کیونکہ تو بھی تو خدا کا ایک گنہ گار بندہ ہے۔
تشریح: جو لوگ از قسم نوکر وغیرہ تیرے ماتحت ہیں، ان کے گناہوں کو مشتہر نہ کر دیا کر بلکہ سن کے سب عیوب کو چھپا دیا کر کیونکہ آخر تو بھی ایک گناہگار بندہ ہے، اور تو چاہتا ہے کہ تیرا مالک یعنی خدا تیرے گناہوں کو چھپا دے۔
گنہ بخشا و عفو اندوز می باش
بخوش خوئی چو روشن روزی باش
ترجمہ: گناہ معاف کرنے والا اور بخشش حاصل کرنے والا ہو جا، خوش اخلاقی میں روزِ روشن کی طرح نمایان ہو جا۔
تشریح: یعنی لوگوں کے گناہ معاف کر اور اس کے عوض میں خدا کی بخشش حاصل کرتا رہ اور خوش خلقی میں روزِ روشن کی طرح آشکار ہو جا۔
مبین در ہیچ شخصی از حقارت
کہ نپذیرد دریں جا دل عمارت
ترجمہ: کسی بھی شخص کی طرف حقارت کی نظر سے نہ دیکھا کر، کیونکہ ایسے مقام میں دل کی تعمیر نہیں ہوتی۔
تشریح: فرماتے ہیں کہ کسی آدمی کی طرف حقارت کی نگاہ
۸۵
سے دیکھنے سے تیرے دل کی روحانی تعمیر نہ ہو سکے گی، جس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک انسان کسی دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے تو اس وقت اس کے دل میں تکبر موجود ہوتا ہے اور تکبر کے ہوتے ہوئے روحانی تعمیر و ترقی نہیں ہوتی۔
مدان مرخصم را خرد ای برادر
کہ سوز و عالمی یک ذرّہ آذر
ترجمہ: اے بھائی دشمن کو حقیر نہ سمجھ لے، کیونکہ آگ کا ایک ہی ذرہ ایک دُنیا کو جلا سکتا ہے۔
تشریح: کسی کو حقیر سمجھنا روحانی اور جسمانی دونوں اعتبار سے نقصان دہ ہے، چنانچہ پیر صاحب نے اس سے پہلے شعر میں یہ بیان فرمایا کہ کسی کو حقیر سمجھنے سے روحانی طور پر کیا نقصان ہوتا ہے۔ اب اِس شعر میں جسمانی طور پر اس سے جو کچھ نقصان ہوتا ہے، اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دشمن کو حقیر نہ سمجھ لیا جائے کیونکہ دشمنی کا معاملہ آگ کی طرح ہے اور آگ شروع شروع میں ایک چھوٹی سی چنگاری کی صورت میں پنہاں ہوتی ہے جب اسے ایندھن مل گیا تو یہ بڑھتے بڑھتے ایک دنیا کو جلا سکتی ہے۔
سخن ہای نکورا یا دمی دار
و زان در پیش خویش استا و می دار
۸۶
ترجمہ: اچھی باتوں کو یاد رکھا کر اور ان (کی مجموعی صورت) کو اپنے پاس استاد قرار دے۔
تشریح: یعنی اعلیٰ درجے کے ذرائع سے دینی اور دنیاوی علم کی باتوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ یاد رکھا کر اور اس کو اپنا استاد قرار دے کر ہمیشہ اُس سے استفادہ کرتا رہ۔
دلِ اہلِ دل است آن کعبۂ داد
مکن ویران مرا ور ادار آباد
ترجمہ: بزرگوں کا دل جو عطا و بخشش کا کعبہ ہے اسے ویران و خراب نہ کیا کر اُسے آباد رکھا کر۔
تشریح: خانۂ کعبہ ایک ظاہری مثال ہے تاکہ یہ حقیقت سمجھ لی جائے کہ خدا مکان و لامکان سے پاک و برتر ہونے کے باوجود ہر جگہ بھی موجود ہے اور اپنے لیے ایک مخصوص نورانی گھر بھی رکھتا ہے وہ گھر بالعموم بزرگوں کا دل اور بالخصوص بزرگوں کے بزرگ کا دل ہے اور ایسے دل کو جو عطا و بخشش کا کعبہ ہے، آباد رکھنا یہ ہے کہ تابعداری اور فرمانبرداری کی جائے۔
کہ حق راشد دلِ مردان نظر گاہ
ترا کردم ز حالِ کعبہ آگاہ
ترجمہ: کیونکہ اہلِ ہمّت کا دل خدا کے نظر کرنے کی جگہ ہے
۸۷
میں نے تجھے (حقیقی) کعبہ کے حال سے آگاہ کر دیا۔
تشریح: کعبہ کا مطلب بیت اللہ (خدا کا گھر) ہے، خدا کے گھر کا اشارہ خدا کے دیدار اور پہچان کی امکانیّت بتاتا ہے، پس اہل ہمّت کا دل خدا کا گھر ہے جس میں خدا کے نور کا مشاہدہ اور اس کی نظرِ رحمت کی جگہ ہے۔
مدہ بر عیبِ کس نا دیداہ اقرار
وگر بینی بپوستی بہتر ای یار
ترجمہ: دیکھے بغیر کسی شخص کے عیب کے متعلق اقرار نہ کر لے، اے دوست اگر تو نے (عیب کو) دیکھ بھی لیا تو تُو اسے چھپا دے تو بہتر ہو گا۔
تشریح: گناہ سے بچنے اور ثواب حاصل کرنیکا طریقہ یہ ہے کہ نہ کسی شخص کے عیب دیکھے بغیر اس سے بدظن ہوا جائے اور نہ ہی عیب دیکھنے کے بعد ظاہر کر دیا جائے۔
کہ تو ہم عیب داری عیب ناکی
خدا را شد سزا از عیب پاکی
ترجمہ: کیونکہ تیرے بھی عیب ہیں اور تو عیب ناک ہے، عیب سے پاک ہونا خدا ہی کے شایانِ شان ہے۔
تشریح: یعنی کسی کے عیب کے بارے میں بدظن نہ ہو جانا،
۸۸
اور اگر عیب معلوم بھی ہو تو اسے چھپا دیا کر، کیونکہ تو خود بھی عیب دار ہے اس لیے تجھے کوئی حق حاصل نہیں کہ دوسرے پر اعتراض اٹھائے اور صرف حق تعالیٰ کی ذات عیب سے پاک ہے۔
بنیکوئی بکن مرخصم را شاد
کزان اندیشۂ بد نا و رد یاد
ترجمہ: نیکی سے دشمن کو خوش رکھا کر تاکہ جس سے وہ (اپنی) بری تدبیر بھول جائے۔
تشریح: یہ امر دین و دانش کے خلاف ہے کہ تو ہمیشہ اپنے دشمن سے انتقام لینے کے درپے ہو جائے، بلکہ تجھے معاشرہ کی اس بیماری کو حسنِ تدبیر سے ختم کر دینا چاہئے تاکہ تُو مخالفت اور دشمنی کے بکھیڑوں میں پھنس کر دین و دُنیا کے مقاصد عالیہ حاصل کرنے سے باز نہ رہ جائے۔
مگو مدحِ خود و عیبِ دگر کس
وگر گوید کسی گو زین سخن بس
ترجمہ: اپنی تعریف کرتے ہوئے دوسرے کی عیب جوئی نہ کیا کر، اگر دوسرا کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو اسے کہدے کہ یہ بات بس کر۔
تشریح: یعنی اپنی تعریف اور دوسرے کی عیب جوئی
۸۹
کرنا بیک وقت دوگنا کا ارتکاب ہے، کیونکہ انسان نہ تو تعریف کے قابل ہے اور نہ کسی کی عیب جوئی کا حق رکھتا ہے، نیز اسے اس بات کی بھی اجازت نہیں کہ کسی شخص کی خودستائی یا اس کی طرف سے کسی اور کی عیب جوئی سنتا رہے۔
جوابِ ہر سوال اندیشہ می کُن
سکونت را دران دم پیشہ می کُن
ترجمہ: ہر سوال کا جواب سوچ کر بتا دے، اس وقت سکون و اطمینان کا پیشہ اختیار کر۔
تشریح: یعنی علمی طور پر غور و فکر کی گہرائیوں میں اتر جانا روحانی قوّتوں سے قریب تر ہو جانے کا ذریعہ ہے، مگر یہ کام سکون و اطمینان سے زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے، اور ہر سوال کا جواب اسی طریق سے دینا چاہئے۔
ہر آنچ دادی اندر دل میاور
چو بگذشتی ازان یکبارہ بگذر
ترجمہ: تو نے جو کچھ دیا ہے اس کو دل میں نہ لایا کر، جب تو اس واقعہ سے گزرنے لگے تو اسے یکبارگی بھول جا۔
تشریح: یعنی اگر تو نے خدا کی راہ میں کچھ دیا ہے اور ہر وقت اس کو یاد کرتا ہے تو بہت ممکن ہے کہ تجھ میں فخر و غرور پیدا
۹۰
ہو جائے یا جس کو دیا ہے اس سے کوئی دنیاوی بدلہ یا شکرگزاری کی توقع پیدا ہو، اس لیے بہتر یہ ہے کہ تو اس نیکی کو یکسر فراموش کر دے۔
بپر خور دن مکن عادت بکیبار
کزان دل تیرہ گر دد جانت افگار
ترجمہ: ایک ہی وقت میں زیادہ کھانے کا عادی نہ ہو جانا کیونکہ اِس سے تیرا دل تاریک اور جان رنجیدہ ہو جاتی ہے۔
تشریح: یعنی زیادہ غذا کھانے سے طبیعت بوجھل ہو جاتی ہے حرکت قلب کی فضا تنگ ہو جاتی ہے، اور دل معمول سے زیادہ بوجھ اُٹھا اُٹھا کر تھک جاتا ہے، جس کے نتیجے پر روح کو بھی دکھ ہوتا ہے۔
ز طاعت جامۂ نو پوش ہر دم
کہ طاعت می کند اندوہِ جان کم
ترجمہ: طاعت و عبادت سے ہر بار ایک نیا (روحانی) لباس پہن لیا کر کیونکہ طاعت جان کا غم غلط کر دیتی ہے۔
تشریح: یعنی طاعت و عبادت سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے، جو روحانی لباس کی حیثیت سے ہے اور چشمِ باطن کے سامنے یہ حقیقت ایک مثال کی صورت میں نمودار ہو جاتی ہے چنانچہ آدمی جب خواب
۹۱
میں اپنے آپ کو پھٹے پُرانے کپڑوں میں دیکھتا ہے تو یہ اس کے لیے اشارہ ہوتا ہے کہ عبادت و پرہیزگاری میں کمزوری کی بنا پر اس کے روحانی لباس کا یہ حال ہوا ہے، یہی مشاہدہ خیال میں بھی ہو سکتا ہے، مگر یہ بات ہے کہ اس صورت میں خیال بھی اکثر تاریک رہتا ہے۔
چو آئی در نماز از پردۂ راز
دلِ خودرا زہر باطل بپر داز
ترجمہ: جب تو راز داری کے پردے سے داخل ہو کر نماز میں آتا ہے تو (اُس وقت) اپنے دل کو ہر قسم کے باطل (خیال) سے فارغ و خالی کر دے۔
تشریح: عبادت و بندگی مومن کے لیے ایک ایسا بہترین موقع ہے کہ جس میں وہ دنیا اور اس کی تمام چیزوں کے خیالات دل سے نکال کر یکاّ و تنہا راز داری کے پردے میں اپنے حقیقی مالک کے سامنے ہو جاتا ہے اور اپنے آقا سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے اور خداوندِ عالم اس کی مناجات کو قبول فرما کر توفیق و ہدایت عطا کرتا ہے اس کے برعکس اگر مومن کے دل میں طرح طرح کے باطل خیالات لیے ہوئے ہیں تو کسی طرف سے بھی راز داری نہیں
۹۲
ہو سکتی۔
بپیشِ چون خودی کو ہست سلطان
نیاری دم زدن ازروی امکان
ترجمہ: اپنے مانند ایک انسان کے سامنے جو بادشاہ ہے تو (رعب کے مارے) امکانی پہلو سے بھی بات نہیں کر سکتا۔
تشریح: یعنی جب تُو کسی بادشاہ کے حضور میں ہوتا ہے تو اس وقت خوف اور ادب کے سبب سے تو بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا، حالانکہ وہ بھی تیری طرح کا ایک انسان ہے اور جب عبادت و بندگی کے دوران تُو خدا کے حضور میں ہوتا ہے تو اس وقت تیرے دل میں طرح طرح کے باطل خیالات موجود ہوتے ہیں پھر یہ کیسے جائز ہیں۔
ندا رد سوداگر حاضر نیائی
چو حاضر نیستی حق رانشانی
ترجمہ: اگر تُو (قلبی طور پر عبادت میں) حاضر نہیں ہے تو عبادت کا کوئی فائدہ نہیں، جب تُو حاضر نہیں تو تُو خدا (کی عبادت) کے قابل نہیں۔
تشریح: ذکر و عبادت کی لازمی شرط حضورِ قلب ہے یعنی دل کو خدا کے سامنے حاضر رکھنا اگر یہ نہ ہو، تو ذکر و عبادت نہ ہوئی
۹۳
کیونکہ انسان کی حقیقت جسم نہیں بلکہ دل ہے اور اللہ تعالیٰ دل ہی کو چاہتا ہے۔
بفکرت حاضرِ اوقاتِ خود باش
چہ باشی باکسان با ذاتِ خود باش
ترجمہ: فکری طور پر اپنے اوقات میں حاضر رہ تُو (خیال میں) لوگوں کے ساتھ کیوں رہتا ہے، اپنی ذات کے ساتھ رہ۔
تشریح: پیر صاحب کا مطلب ہے کہ انسان کو دنیاوی زندگی کو جو مختصر سا وقت دیا گیا ہے وہ اس کو غیر ضروری خیالات اور فضول اقوال و افعال میں صرف نہ کرے، وہ اپنی روح کی نجات کے لیے سوچا کرے۔
زیادِ مرگ غافل چون نشینی
چوبا افتادگان آخر قرینی
ترجمہ: تُو موت کی یاد سے کس طرح غافل رہتا ہے جب تُو آخر کار عاجزوں کے ساتھ (موت کے) نزدیک ہے۔
تشریح: موت کو پیش نظر رکھنے سے دنیا کی محبت کم اور آخرت کا کام درست ہو جاتا ہے ورنہ انسان کا نصب العین دنیاوی زندگی تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔
چہ داری عزمِ چندین استقامت
کہ ہم روزی بر اید بانگِ قامت
۹۴
ترجمہ: تُو (دنیا میں) اس قدر زیادہ رہنے کا ارادہ کیوں کرتا ہے کیونکہ کسی نہ کسی دن تیرے دنیا سے اٹھ جانے کی منادی ہونے والی ہے۔
تشریح: فرماتے ہیں کہ تیرا یہ ارادہ اور توقع سراسر قانونِ فطرت کے خلاف ہے کہ تو دنیا میں عرصۂ دراز تک رہنا چاہتا ہے حالانکہ ناگاہ کسی دن تیری موت واقع ہو کر تجہیز و تکفین کی منادی ہونے والی ہے۔
ببیں تا چون بُوَد حالت سر انجام
کہ باید رفت ازیں جا کام و نا کام
ترجمہ: آخر کار تیری جو کچھ حالت ہونے والی ہے تو اس کو پیشِ نظر رکھ کیونکہ یہاں سے تجھے کامیاب یا ناکام ہو کر چلے جانا ہے۔
تشریح: یعنی ہوشمندی یہ نہیں کہ تو اپنی موجودہ زندگی کی بہتری جانتا ہے بلکہ صحیح ہوشمندی یہ ہے کہ تو اپنے انجام یعنی آخرت کو پیشِ نظر رکھے کیونکہ تجھے دُنیا سے ہر حالت میں جانا ہی ہے۔
تو باشی وانچ کر دی جاودانی
نمیدانم چکردی آن تو دانی
ترجمہ: تُو بھی اور جو کچھ تو نے کیا وہ بھی ہمیشہ یاد رہے گا (لیکن) میں نہیں جانتا کہ تو نے کیا کام انجام دیا ہے وہ تو تُو خود جانتا ہے۔
تشریح: اس شعر میں حکیم ناصر خسرو اپنے مخاطب کو اس بات
۹۵
کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ اس دُنیاوی زندگی میں کچھ ایسے مفید کام کر کے جائے کہ جن کی وجہ سے لوگ اس کو ہمیشہ ہمیشہ یاد کرتے رہیں۔
برون کن از دل اندوہِ زمانہ
مگر خوشدل شوی زینجا روانہ
ترجمہ: اپنے دل سے زمانے کا غم نکال دے تاکہ تُو اس دنیا سے شادمان جا سکے۔
تشریح: یعنی جو شخص دنیا کے لالچ اور محبت میں پھنس جاتا ہے، وہ دنیا کی صدہا حسرتیں لے کر اور بہت ہی مایوسی کے ساتھ مرتا ہے اور جو شخص دُنیا سے فارغ و آذاد اور آخرت کا طلب گار ہو وہ موت کے آنے سے شادمان و مسرور ہو جاتا ہے۔
اگر خوشدل شوی در شادمانی
بماند آن شادمانی جاودانی
ترجمہ: اگر تُو (زمانے کا غم دل سے نکال کر) خوشدل ہو سکا تو سمجھ لے کہ تو شادمانی میں ہے اور یہ شادمانی ہمیشہ کے لیے رہ گئی۔
تشریح: پچھلے بیت میں پیر صاحب نے فرمایا تھا کہ اپنے دل سے زمانے کا غم نکال دے تاکہ تو اس دنیا سے شادمان جا سکے یہاں اسی سلسلے میں فرماتے ہیں کہ اگر تو اسی طرح خوشدل ہو سکا
۹۶
تو یہ ابدی نجات کا پیش خیمہ اور دائمی خوشی کی علامت ہے۔
بدانش شادگردی از دل و جان
کہ بی دانش بُوَد جاوید حیران
ترجمہ: علم و دانش سے تُو دلی اور جانی طور پر شادمان ہو گا کیونکہ بے دانش انسان ہمیشہ کے لیے حیران ہے۔
تشریح: جب یہ معلوم ہے کہ جاہل اور نادان ذہنی طور پر حیرت اور تکلیف میں ہے تو پھر اس حقیقت میں کوئی شک ہی نہیں کہ عالم اور دانشور قلبی اور روحانی طور پر مسرت و شادمانی میں ہے۔
ز راہِ دوستی این پند بنیوش
کہ رستی گر کنی این پند را گوش
ترجمہ: (اعتماد اور) دوستی کے طریق پر نصیحت سُن لیا کر اگر تُو نے کان دھر کر یہ نصیحت سُن لی تو تُو رستگار ہوا۔
تشریح: دانشمندوں سے علم و حکمت حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی شرط اُن سے دوستی و محبت ہے ورنہ دشمنی کی صورت میں ان کی باتوں پر عمل کرنا تو درکنار، باتوں کو سننا بھی ناگوار گزرتا ہے، اسی لیے حضرت پیر نے فرمایا کہ دوستی کے طریق پر یہ نصیحت سن لیا کر۔
ندانم کس چنین اسرار گفت است
ندانم کس چنین گو ہر کہ سفت است
۹۷
ترجمہ: میں نہیں سمجھتا کہ کسی انسان نے ایسے اسرار کا تذکرہ کر دیا ہے میں نہیں جانتا کہ کسی شخص نے ایسے موتی پرو دیئے ہیں۔
تشریح: اِس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کے شروع سے یہاں تک اور اس کے بعد کا حصہ دین، اخلاق اور انسانیت کی خیر و فلاح کی ایسی بہترین نصیحتوں، حقیقتوں اور حکمتوں سے بھرپُور ہے جو اب تک اسرارِ سربستہ کی حیثیت سے تھیں۔
مدار این مو عظت را خوار و آسان
کہ دروی درج کردم صورتِ جان
ترجمہ: اس نصیحت و موعظت کو حقیر اور آسان نہ سمجھنا، کیونکہ میں نے اس میں روح کی نقشہ کشی کی ہے۔
تشریح: فرماتے ہیں کہ اے مخاطب! ممکن ہے کہ تُو ان نصیحتوں کو حقیر اور معمولی سمجھے مگر یہ خود تیری نا سمجھی کی وجہ سے ہو گا، حالانکہ میں نے ان نصیحتوں کو جس ہمہ رس طریق سے پیش کیا ہے اُس میں روح کی مکمل تصویر موجود ہے پھر تُو اس کے ذریعہ اپنی روح کو پہچان سکتا ہے اور اس کی اصلاح کر کے ترقی دے سکتا ہے۔
۹۸
اگر رو کار بندی و کنی یاد
یقین شُد خانۂ جانِ تو آباد
ترجمہ: اگر تُو اس کے مطابق عمل کرتا رہے اور اسی کو ذہن میں رکھے تو یقیناً تیرا روحانی گھر آباد ہوا۔
تشریح: مطلب اس کا یہ ہے کہ آخرت کا گھر بنا بنایا نہیں ہوتا بلکہ جب مردِ مومن دنیا میں اچھے اعمال کرتا ہے تو اسی کے ساتھ ساتھ حسبِ عمل اس کا روحانی گھر اس کے دل میں اور آخرت میں تیار ہو جاتا ہے، چنانچہ پیر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر تو نے ان نصیحتوں پر عمل کیا اور ہمیشہ کے لیے ذہن میں رکھ لیا تو یقیناً تیرا روحانی گھر آباد ہُوا۔
بر اوراقِ زمان شد یادگاری
اگر تو کار بندی بختیاری
ترجمہ: (یہ نصیحت) صفحاتِ زمانہ پر ایک یادگار بن گئی، اگر تُو نے اس پر عمل کیا تو تُو بڑا سعادت مند ہے۔
تشریح: یہ پند نامہ یا کتاب اپنی خوبیوں کی وجہ سے صفحاتِ روزگار پر ایک یادگار کی حیثیت سے رہے گی، پس اے مخاطب اگر تُو نے اس کے مطابق عمل کیا تو تُو بڑا خوش نصیب اور سعادت مند ہے۔
۹۹