علم کی سیڑھی

انتساب

یہ کتاب ہماری بہت ہی عزیز بیٹی کریمہ سہیل رحمانی، جن کی (ان کے شوہر محترم سہیل رحمانی کے ساتھ) دانش گاہِ خانۂ حکمت کے حقیقی علم کے فروغ کے لئے بیش بہا خدمات ہیں، کی بھتیجی زینب اکبر (لٹل اینجل) کے لئے اس کے سالگرہ کے تحفے کے طور پر چھپوائی جارہی ہے۔

 

زینب ہمارے امریکہ کے عزیزان اکبر ناتھانی اور پروین اکبر کی صاحبزادی ہیں جن کی تاریخِ پیدائش ۱۶ فروری ۲۰۰۱ء ہے۔

 

والدین نے بچپن ہی سے زینب کی پرورش ایک مخصوص مذہبی و روحانی ماحول میں کی ہے جس کی بنا پر ان کی شخصیّت ایک خاص مذہبی سانچے میں ڈھلتی چلی گئی ہے، نیز زینب کی تربیت کے لئے سہیل اور کریمہ جیسی علم پرور اور دیندار ہستیوں کی خصوصی توجّہ اور ان کی شفقت و محبّت کے خزانے ایک لازوال آسمانی تحفہ ہیں۔

 

دعا ہے کہ خداوندِ ربّ العزّت زینب کے والدین اور سہیل اور کریمہ کی یہ خصوصی کاوشیں اپنے حضور میں قبول فرمائیں، اور زینب کو دینی و دنیوی طور پر بھرپور ترقی عنایت کرتے ہوئے ایک عظیم شخصیت بنائے!

 

سلمان غریبم قلبِ تو اللہ مولانا علی

 

۲۲ ستمبر ۲۰۰۴ء

 

ج

 

پیش لفظ

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اے میری ناچیز انائے سفلی! تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان عظیم احسانات کی عاجزانہ اور پُرسُوز شکرگزاری کرتے کرتے فنا ہوجا، اے دلِ ہیچ مدان! ہرگز ہرگز یہ دعویٰ نہ کر کہ کوئی علمی کام تو نے انجام دیا ہے، اے عقلِ جزوی تو اپنے وقتِ بے مائیگی کو نہ بھولنا، کہ علم کی دولت تیرے بس کی بات نہ تھی، اے نصیرِ حقیر! تو ذرا اپنے ماضی کا تصوّر کر کے دیکھ لے، کہ اس میں خزائنِ علم و حکمت کے ابواب کیسے مغلق و مقفل تھے، بتا دے کہ آخر کس مہربان بادشاہ نے یہ دروازے کھول دئے؟ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے برحق جانشین نے، جو نورِ مجسّم اور امامِ مکرّم (صلوات اللہ علیہ و سلامہ ) ہیں۔

 

کتاب کا نام:

قارئینِ کرام! کتاب یعنی “علم کی سیڑھی” آپ کے سامنے ہے، یہ کتاب بھی دوسرے کئی کتب کی طرح چند مقالوں کا مجموعہ ہے، جب اس بندۂ خاکسار (نصیر) نے بحقیقت اقرار کر لیا ہے کہ علم اس کا نہیں، کسی مقدّس ہستی کا ہے، تو پھر اس کتاب کے علمی و عرفانی تعارف میں خود ستائی کا شک کیونکر ہو سکتا ہے، پس حق بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ہر مقالہ بجائے خود ایک انتہائی مفید

 

۱

 

کتاب ہے، اور “علم کی سیڑھی” اس معنیٰ میں کئی کلیدی کتابوں پر مشتمل ہے، اور مجھے یقینِ کامل ہے کہ ہر دانشمند اس رسالے کو اسی نظر سے دیکھے گا، اور یہی اہمیت دے گا۔

 

سیڑھی:

اگرچہ ظاہراً ایک عام چیز ہے، لیکن اس کی مثال قرآنِ حکیم اور اسلام میں بڑی پُرحکمت ہے، اس کا قرآنی لفظ ایک تو سلم (۵۲: ۳۸، ۰۶: ۳۵) ہے، اور دوسرا معراج (۴۳: ۳۳، ۷۰: ۰۳) اس کے علاوہ قرآنِ پاک میں جا بجا درجاتی سیڑھی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

 

ہر چیز سیڑھی کی طرح:

موالیدِ ثلاثہ یعنی جمادات، نباتات، اور حیوانات میں سے ہر چیز تکوین و تخلیق کے اعتبار سے گویا ایک سیڑھی ہے، کیونکہ وہ زینہ بزینہ ترقی کرکے مکمل ہو جاتی ہے، یہی قانونِ فطرت ہے، اور اسلام اسی قانون کے مطابق ہے، پس دنیاوی اور دینی علم بھی سیڑھی کی طرح ہے، لیکن بہت ہی افسوس کی بات ہوگی، کہ اگر ہم میں سے ہر ایک اس بات کا یقین نہ کرے کہ حقیقی علم بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح ایک سیڑھی ہے، جس کے بہت سے زینے (یعنی درجات) ہیں، اور ہر عالی ہمت مومن خداوندِ تعالیٰ کی تائید سے اس علمی نردبان (سیڑھی) سے پایہ بپایہ چڑھ سکتا ہے، کیونکہ سیڑھی رحمت ہے، اگر یہ نہ ہوتی، تو پھر مایوسی ہوتی۔

 

صراط اور سیڑھی:

قرآنِ کریم کے حوالے سے نورِ ہدایت کی تشبیہہ و تمثیل نہ صرف صراط و سبیل سے دی گئی ہے، بلکہ یہی نور مثال کے طور پر خدا کی رسی اور علم کی سیڑھی بھی ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جتنی مثالیں آئی ہیں، ان سب کا آخری ممثول صرف ایک ہی ہے، اور وہ نور

 

۲

 

ہے۔

 

عرش کی سیڑھی:

جس طرح سورج کی روشنی کا زیرین سرا زمین پر اور بالائی سرا خود سورج میں ہوتا ہے، اسی طرح خدا کی نورانی رسی کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا سرا لوگوں کے درمیان ہوتا ہے، یہی مثال صراطِ مستقیم بھی ہے اور نور کی سیڑھی بھی، جو درجات کی سیڑھی ہے، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: رَفِیْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِۚ (۴۰: ۱۵) وہ درجات کا بلند کردینے والا ہے وہ عرش کا مالک ہے۔ اشارہ ہے کہ درجات کی سیڑھی آسمانوں سے گزر کر عرش سے جا لگی ہے، اور صاحبِ عرش کا یہ منشا ہے کہ حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے پیچھے پیچھے دوسرے تمام درجوں کو بھی نورِعرش تک رفعت دے، کیونکہ مذکورہ آیۂ کریمہ کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خداوندِ عالم نہ صرف بڑے درجات کو بلکہ چھوٹے درجات کو بھی عرش تک بلند کر دیتا ہے، اور یہ حقیقت فنا فی اللہ یا اصل سے واصل ہو جانے سے ہرگزمختلف نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ عرش (تخت) نہیں، بلکہ اس کا مالک ہے، یعنی جب اللہ کا انتہائی قرب اور وصال ممکن ہے تو عرش تک رسائی کس طرح ناممکن ہو سکتی ہے۔

 

معارج (سیڑھیاں):

سورۂ معارج (۷۰: ۰۳ تا ۰۴) میں ارشاد ہے کہ خدا تعالیٰ سیڑھیوں کا مالک ہے ان سیڑھیوں سے فرشتے اور روحیں پچاس ہزار برس کی مدت میں چڑھ کر اس کے پاس جاتی ہیں۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ ۵۰۰۰۰ کا جملِ اصغر ۵ (پانچ) ہے، اس طرح : ۰ +۰+ ۰+۰ +۰+ ۵ =۵، جس کی مراد ہے: ناطق، اساس، امام، حجت، اور داعی، کہ لوگ اسی سیڑھی سے خدا کے حضور پہنچ جاتے ہیں،

 

۳

 

کیونکہ بفرمودۂ رسولِ اکرمؐ ہر چیز کا ایک دروازہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ اللہ پاک کا دروازہ پیغمبر، پیغمبر کا دروازہ اساس، اساس کا دروازہ امام، امام کا دروازہ حجت اور حجت کا دروازہ داعی ہے۔

 

تاویل کی مختلف صورتیں:

میرے ایک معزز اسماعیلی دوست نے ازراہِ اخلاص و محبت تاویل کے بارے میں چند سوالات کئے، میں نے جواباً عرض کیا: امامِ زمان صلوات اللہ علیہ معلمِ قرآن کی مرتبت میں تنزیل سکھاتے ہیں یا تاویل؟ انہوں نے فرمایا کہ امام صاحبِ تاویل ہوا کرتے ہیں، لہٰذا آپ کی ہدایات و تعلیمات اکثر و بیشتر تاویلات ہوا کرتی ہیں، میں نے بڑی عاجزی سے کہا: جزاک اللہ! آپ نے سچ فرمایا، شروع سے لے کر اب تک أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام نے بحکمِ خدا تاویل کی ایک دنیا بنادی ہے، ہم اسی دنیائے تاویل میں رہنے کے عادی ہیں، لہٰذا ہم اسی کی باتیں کرتے ہیں، اور اسی میں اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔

 

تاویل کا ایک دوسرا لفظ حکمت ہے، اگر کوئی شخص آپ سے یا مجھ سے کہے کہ تم حکمت نہ سیکھو اور نہ کسی اور کو سکھاؤ، تو یہ قرآنِ پاک کے خلاف بات ہوگی، جبکہ خیرِ کثیر حکمت میں ہے، اس کے علاوہ قرآنِ کریم حکمت کی مختلف صورتوں کی طرف توجّہ دلاتا ہے۔

 

الف: اللہ تعالیٰ کی باطنی نعمتیں (۳۱: ۲۰) کیا ہیں؟ روحانی علم، یعنی تاویل۔

ب: قرآن، کائنات، اور اپنی ذات میں غور و فکر کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، سو یہ کامیاب فکری نتیجہ کس نام سے ہوگا؟ حقیقت، حکمت، اور تاویل کے نام سے۔

 

۴

 

ج: امامِ عالی مقام کی ذاتِ اقدس میں نورِ قرآن پوشیدہ ہے، جس کی روشنی میں اگر کسی مومن کو کوئی تاویل روشن ہوجاتی ہے، تو اس سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔

د: اس وقت کوئی پیر اور حجت امام کے پاک خاندان کے سوا نہیں، لیکن اس کے باؤجود مولائے اقدس و اطہر نے روحانی ترقی کے دروازے کو مومنین پر بند نہیں فرمایا ہے، وہ تو ہمیشہ کی طرح کشادہ ہے، یہاں اس سلسلے کی اتنی باتیں کافی ہیں۔

 

چھوٹی چھوٹی کتابیں:

بعض حضرات بطریقِ خیر خواہی فرمائش کرتے ہیں کہ ہم بڑی ضخیم کتابیں شائع کیا کریں، ہم جان و دل سے ان کے اس نیک مشورے کے ممنون ہیں، تاہم اپنی مجبوری کو بھی ظاہر کئے بغیر نہیں رہ سکتے، وہ یہ کہ آج اس مادّی ترقی کے طوفان میں قارئین چھوٹی چھوٹی مذہبی کتابوں کو البتہ بوقتِ فرصت ایک ایک کرکے پڑھ لیتے ہیں، مگر بڑی ضخامت والی کتابوں کے مطالعے کا امکان بہت کم ہے، یہی سبب ہے کہ چند سال پہلے جناب غلام حیدر بندہ علی نے ، جو اس وقت اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان کے پریذیڈنٹ تھے، مجھے چھوٹی چھوٹی کتابیں شائع کرنے کے لئے مشورہ دیا تھا۔

 

نسلِ آئندہ کے لئے تاریخ: قوموں کا تاریخی ذخیرہ ان کا ایک بڑا سرمایہ ہوا کرتا ہے، اور جس قوم کی کوئی تاریخ نہ ہو، یا ادھوری ہو، تو اس سے سب کو افسوس ہوتا ہے، یہی حال کسی ادارے کا بھی ہو سکتا ہے، چنانچہ میں خانۂ حکمت، ادارۂ عارف، اور بروشسکی ریسرچ اکیڈمی کے معزز و محترم عملداروں کو پرخلوص مشورہ دیتا ہوں کہ وہ حضرات

 

۵

 

تمام تاریخی نوعیّت کے واقعات کو ضبطِ تحریر میں لاتے رہیں، تا کہ بوقتِ ضرورت مواد فراہم ہوسکیں۔

 

وہ تاریخ جو نسلِ آئندہ کے لئے بنے گی خانۂ حکمت کے لائف پریسیڈنٹ جناب فتح علی حبیب، اور ادارۂ عارف کے پریسیڈنٹ جناب محمد عبد العزیز کی انمول خدمات کو کس طرح نظر انداز کر سکتی ہے یا بھول سکتی ہے، جبکہ انہوں نے شدید مشکلات کی آندھیوں میں بھی بلا خوف و خطر جوانمردی کا جوہر دکھایا ہے، اگر میں ان جیسے علم کے قدر دانوں کی مساعیٔ جمیلہ مورخین کی نظر سے چھپاؤں، اور ہر کارنامے کو اپنی ناچیز ذات سے منسوب کروں، تو فردائے قیامت خدا مجھ سے ضرور پوچھے گا، جس طرح کہ پوچھنا ہے، ان کی اتنی بڑی کامیابی اس لئے ممکن ہوئی ہے کہ دوسرے تمام عملداران اور ممبران بھرپور تعاون کرتے رہتے ہیں۔

 

یہ بھی ہمارے مشرق و مغرب کے دوستوں اور عزیزوں کی تاریخ سازی کا ایک اہم حصّہ ہے کہ گلگت میں یہ سب مل کر ایک دفتر تعمیر کر رہے ہیں، اور یہ کام ایک قابلِ فخر تعمیراتی کمیٹی کی نگرانی میں انجام پا رہا ہے، جس کے چئیرمین جناب صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبد الحکیم ہیں، جنہوں نے ملک و قوم کے لئے انتہائی اہم خدمات انجام دی ہیں، یہ صاحب اور جناب قربان علی خان صاحب نہ صرف اس کمیٹی میں کام کرنے کی وجہ سے عزیز و محترم ہیں، بلکہ یہ قوم کے ان نامور نمائندوں میں سے ہیں، جو ہر وقت قومی ضرورت و مفاد کی خاطر پیش پیش رہتے ہیں۔

 

بعض کتب کا ترجمہ:

اس درویشِ دلریش کی گریہ و زاری کے کئی مواقع ہوا کرتے ہیں، جن کا کبھی تفصیل سے ذکر ہونا

 

۶

 

چاہئے، ان میں سے ایک موقع اس وقت ہے جب کہ اس بندۂ حقیر کی کسی تصنیف کا ایک انتہائی شاندار و دلکش ترجمہ سامنے آ کر پڑھا جاتا ہے، نہ معلوم اس میں خداوند کا کیا رازِ حکمت پوشیدہ ہے، ہاں، یہ گمان ضرور گزرتا ہے کہ شاید اس میں ایک طرف شکرگزاری ہے، اور دوسری طرف بدرجۂ انتہا عاجزانہ دعا، ان حضرات کے حق میں جو شب و روز کی زبردست مشقت سے خون اور دل و دماغ کی شمع کو جلا جلا کر اتنا عظیم کارنامہ انجام دیتے ہیں، اسی طرح ان عظیم المرتبت محبِّ قوم سکالرز نے خانۂ حکمت کی چند کتابوں کا ترجمہ کر دیا ہے، ان شاء اللہ وقت آنے پر دنیا ان کی بجا طور پر قدر کرے گی۔

 

کیا میری کتابیں مشکل ہیں؟

بعض دوستوں کو یہ شکایت ہے کہ میری کتابیں الفاظ و معانی کے اعتبار سے انہیں مشکل ہوتی ہیں، اس لئے وہ مشورہ دیتے ہیں کہ میں بہت ہی آسان لفظوں کو استعمال کروں، اس بارے میں میری گزارش یہ ہے کہ میں اکثر جن موضوعات پر لکھتا ہوں، وہ مضامین بعض نو آموز حضرات کو مشکل ہوں تو ہوسکتے ہیں، ورنہ میں اکثر عام فہم انداز میں لکھتا ہوں، جو احباب میری کتابوں کو شروع سے پڑھتے ہیں، ان کو کوئی ایسی شکایت نہیں۔

 

علمی و ادبی ترقی اس کے بغیر ناممکن ہے کہ وہ ہربار کچھ نئے الفاظ و مطالب کوقبول کریں، بار بار مستند لغات کی ورق گردانی کریں، روز بروز ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتا جائے، کچھ دوستوں سے بھی سنیں، کچھ بولیں، کچھ کسی کو سکھائیں، کچھ علمی محفل میں بیٹھا کریں، کچھ عبادت کریں، کچھ دعا مانگیں، کچھ علم کی خدمت کریں، علم کا جذبہ پیدا کریں، قرآن، حدیث، اور فرمان کی روشنی میں علم کی تعریف کو دیکھیں اور سوچیں کہ وہ کس طرح علم میں ترقی کر سکتے ہیں، کیونکہ جو کامیاب تاجر ہے، وہ اس

 

۷

 

لئے کامیاب ہے، کہ وہ اپنی تجارت کی مضبوطی اور ترقی کے ہر گُر کو خوب جانتا ہے، اسی طرح سوچنا ہوگا کہ علم کی زیادہ سے زیادہ ترقی کس بات سے ہو سکتی ہے۔

 

ہماری کتابوں کا مجموعہ ایک ارتقائی سیڑھی ہے، لہٰذا ہر ہوشمند قاری سے گزارش ہے کہ وہ نیچے سے لے کر اوپر تک زینہ بزینہ چڑھتا جائے، تا کہ اس کوشش کا صحیح اندازہ کیا جا سکے، آئیے کہ ہم سب مل کر بارگاہِ ایزدی میں عجز و انکساری سے دعا کریں کہ: یا خداوند! تیری رحمت اور علم ہر چیز پر محیط ہے، ہماری تقصیرات سے درگزر فرما! اس ناچیز علمی خدمت میں توقع سے بہت زیادہ برکت پیدا کر، اور اسے سب کے لئے نافع بنا دے !آمین یا ربّ العالمین!!

 

بندۂ حقیر

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۳ ربیع الثانی ۱۴۰۶ھ

۲۶ دسمبر ۱۹۸۵ء

 

۸

 

قلبِ قرآن میں ایک عظیم سوال

 

اس عنوان کا یہ مطلب ہے کہ قلبِ قرآن یعنی سورۂ یاسین میں ایک بہت ہی عظیم سوال ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ چند بڑے اہم سوالات کا مجموعہ ہے، جس کی طرف کماحقہٗ توجہ نہیں دی گئی ہے، چنانچہ میں ایک عالی مرتبت پروفیسر کا بے حد شکرگزار اور ممنون ہوں کہ انہوں نے ازراہِ علم دوستی ۲۵ مارچ ۱۹۸۵ء کو بذریعۂ فون اس پُرحکمت سوال کی طرف توجہ دلائی، جو درجِ ذیل ہے:۔

 

سورۂ یاسین (۳۶) آیہ ۱۳ تا ۲۲ پیشِ نظر ہو (۳۶: ۱۳ تا ۲۲)۔

 

سوال۔ الف: اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو حکم دیا کہ آپ انہیں گاؤں والوں کی مثال بیان کریں، جن کے پاس یکے بعدِ دیگرے تین پیغمبر آئے تھے، اب اس قرآنی تعلیم سے متعلق پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ خداوند تعالیٰ نے وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا (آپ ان کے لئے ایک مثال بیان کریں) کیوں فرمایا؟ کیونکہ خود خدائے برتر نے قرآنِ حکیم میں جتنی مثالیں بیان فرمائی ہیں، وہ سب کی سب متشابہات کی حیثیت سے تاویل طلب ہیں؟ کیا یہاں ہمارا یہ تصوّر درست ہو سکتا ہے جو مانیں کہ اللہ کا یہ فرمان مقامِ روحانیّت پر مثال پیش کرنے سے متعلق ہے؟

سوال۔ب: وہ کون سا گاؤں تھا، جس میں خدا کی طرف سے دو پیغمبر

 

۹

 

آئے، مگر لوگوں نے ایمان نہیں لایا؟ ایک تیسرا پیغمبر بھی آیا، پھر بھی وہ لوگ انکار کرتے رہے، حالانکہ وہ رحمان کے قائل تھے؟ تیسرے پیغمبر سے کس طرح قوّت دی گئی؟ یعنی وہ قوّت کس نوعیت کی تھی؟

سوال۔ج: آیت ۱۵ سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ مذکورہ گاؤں والے وجودِ باری تعالیٰ کے منکر یا کافر تو نہ تھے، مگر پیغمبروں کو جھٹلاتے تھے، اس کا اصل سبب کیا تھا۔

سوال۔د: جب وہ پیغمبر جھٹلائے گئے، تو ان حضرات نے نہ تو کوئی معجزہ دکھایا اور نہ ہی کوئی دوسری دلیل پیش کی، صرف اتنا فرمایا کہ: “ہمارا پروردگار جانتا ہے کہ بے شک ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں۔” اس میں راز کیا ہے؟

سوال۔ھ: اس موقع پر ان لوگوں نے نحوست و بدشگونی کو پیغمبروں سے کیوں منسوب کیا؟ اور یہ کیوں کہا کہ: “اگر تم اس دعوت سے باز نہیں آؤ گے تو ہم تم کو سنگسار کریں گے اور ہم سے تم کو ایک دردناک عذاب لگے گا؟”

سوال۔و: یہاں یہ نکتہ بڑا عجیب ہے کہ شہر کے دور افتادہ کنارے سے ایک مرد دوڑتا ہوا آیا، اور کہنے لگا کہ: “اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔” یہ کون تھا؟ اور اس کے دوڑنے کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ اس کو کس نے خبر دی کہ تمہاری قوم کا نقصان ہو رہا ہے؟

سوال۔ز: وہ شخص جو برق رفتاری سے وہاں پہنچا اور جس طرح اس نے اپنی فطرت و پیدائش کے حوالے سے دعوتِ حق کی تائید و حمایت کی، اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟ آیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرطۂ (کرتۂ) ابداعی کا مالک تھا؟

 

۱۰

 

جواب نمبر۱: سب سے پہلے یہ اہم اصول خوب یاد رہے کہ جب قرآنِ حکیم میں بیک وقت ایک سے زیادہ رسولوں کے ہونے کا ذکر ہوتا ہے، تو اس میں دراصل ایک ہی رسول ہوا کرتا ہے اور باقی اس کے حدود ہوتے ہیں، اور ان پر لفظِ رسول کا اطلاق لغوی معنی میں ہوسکتا ہے، جیسے زمانۂ نبوّت میں آنحضرتؐ کے کسی ایلچی کو بھی رسول کہا جاتا تھا، یعنی رسولِ خدا کا فرستادہ، آپ سورۂ نمل (۲۷: ۳۵) میں دیکھ سکتے ہیں کہ قرآنِ حکیم نے بلقیس (ملکۂ سبا) کے ایلچیوں کا “المرسلون” کہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مذکورۂ بالا قریہ میں آئے ہوئے رسول عام ایلچیوں کی طرح تھے، بلکہ میں نے پہلے ہی عرض کیا ہے کہ وہ حضرات ناطق اور حدودِ ناطق تھے، اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ خداوندِ تعالیٰ نے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل ہر دورِ مہین (بڑا دور) کے ناطق کے ساتھ ایک اساس کو مقرر فرمایا، اور پھر امامِ زمانؑ کے تقرر سے ان کی دعوت کو تسلسل دے کر تقویت بخشی، اور پوشیدہ تاویل کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایا، چنانچہ حضورِ اکرمؐ نے بحکمِ خدا مقامِ روحانیّت پر اس امرِ واقعی کی عملی مثال پیش کی۔

 

جواب نمبر ۲: اللہ تعالیٰ کی پُرحکمت عادت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہر وقت درجات کی چوٹی پر کلام فرماتا ہے، تاکہ اس حکم کا تعلق خصوصاً درجۂ اعلیٰ سے اور عموماً ذیلی درجوں سے ہو، اس کے یہ معنی ہوئے کہ “قریہ” سے یہ جہان مراد ہے، جس میں ہر ناطق اسی شان سے آیا، جس کا اوپر ذکر ہوا، یعنی سب سے پہلے ناطق کا ظہور، پھر اساس کا قیام اور اس کے بعد ہر زمانے میں امام کا ہونا، اب اسی قریہ کے تحت قریۂ ہستی بھی آتا ہے، کیونکہ مطلوبہ مثال روحانیّت میں ہے، اور روحانیّت عالمِ صغیر میں ہے، جو عالمِ کبیر کا نمونہ اور آئینہ ہے، اور جس کے

 

۱۱

 

کئی نام ہیں، جیسے عالمِ شخصی، عالمِ ذرّ، خلافتِ صغریٰ، وغیرہ، پس روحانیّت کی مثال میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کس طرح عالمِ دین میں سب سے پہلے رسولِ ناطقؐ کا ظہور ہوا، پھر اساس اور أئمّہ کیسے ہوئے، اور امامِ زمانؑ نے کس طرح علم و حکمت سے ناطق اور اساس کی تصدیق کی۔

 

جواب نمبر ۳: گاؤں (دنیا) والوں نے کبھی اللہ تعالیٰ کی ہستی سے انکار نہیں کیا، لیکن وہ اپنے پیغمبر اور حدود کونہیں پہچان سکتے تھے، اگر وہ اپنے آپ کو پہچانتے تو رسول کو پہچانتے، اور بشریّت کو موضوعِ بحث نہ بناتے، لیکن وہ ایسا نہ کر سکے، اس کی وجہ بس یہی تھی، کہ وہ اپنی ہی خام و ناتمام بشریّت کی کسوٹی سے کامل انسانوں کو پرکھنے کی کوشش کرتے تھے، مگر یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا، کہ ناقص کامل کا وزن کرے، اور پرکھ لے۔

 

جواب نمبر۴: لوگوں کے حق میں سب سے بڑا مفید معجزہ علم و حکمت ہے، لہٰذا ان پیغمبروں نے: “ہمارے پروردگار کو علم ہے کہ بے شک ہم تمہارے پاس بھیجےگئے ہیں” کہہ کر علم کی طرف اشارہ کیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر لوگ جاہل نہ ہوتے اور دانا ہوتے، تو وہ پیغمبروں کو پہچانتے، اور ان کی اطاعت کرتے، جس سے ان کو فائدہ ہوتا۔

جواب نمبر۵: اس دنیا میں لوگوں سے مصائب و آلام کی آزمائش ہوتی رہتی ہے، جس میں درد اور دکھ کا اصل سبب وہ خود ہوا کرتے ہیں، لیکن منکرین نے جہالت و نادانی کی وجہ سے اس چیز کو بھی پیغمبروں سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی نحوست سے ہے، سنگسار کرنے سے بحث و مناظرہ میں غلبہ حاصل کرنا مراد ہے، اور دردناک عذاب کی تاویل عقلی اذیت ہے، یعنی جاہلوں نے بزعمِ خود یہ سمجھا کہ حضراتِ انبیاء کو مناظرے میں شکست دے کر

 

۱۲

 

عقلی عذاب پہنچانا آسان بات ہے، حالانکہ وہ خود عذابِ جہالت و نادانی میں مبتلا تھے۔

 

جواب نمبر۶: شہر کے دور افتادہ کنارے سے جو شخص بڑی تیزی سے آیا، وہ امامِ متم تھا، جو کرتۂ ابداعی میں ملبوس تھا، اور اسی وجہ سے وہ برق کی طرح آیا، اس کا تعلق شہرِ جسمانیّت کے اس کنارے سے ہے، یعنی وہ حدودِ جسمانی کے آخری سرے پر ہوتا ہے، یاد رہے کہ کوکبی بدن (ASTRAL BODY) امامِ ہفتم کے لئے خاص ہوا کرتا ہے، چنانچہ شہر کے دور کنارے سے جسمِ لطیف مراد ہے، جو حضرت قائم القیامت کا معجزاتی لباس ہے۔

 

جواب نمبر۷: وہ شخصِ کامل و مکمل جو شہرستانِ جسمانیّت کے آخری مقام سے بڑی سرعت کے ساتھ حاضر ہوگیا، امامِ متم یعنی حضرتِ قائم صلوات اللہ علیہ تھا، جس نے اپنی ابداعی پیدائش کو دینِ حق کا سب سے بڑا معجزہ قرار دیتے ہوئے دعوتِ حقہ کی تصدیق کی، ہاں اس کے پاس قرطۂ ابداعی ہوا کرتا ہے، جیسا کہ فرمایا گیاہے:۔

 

اور اسی کے معجزات میں سے ہے کہ وہ تم کو بجلی (یعنی نوری بدن) دکھاتا ہے جس سے ڈر بھی ہوتا ہے اور امید بھی (۳۰: ۲۴) یہی ارشاد سورۂ رعد (۱۳: ۱۲) میں بھی ہے، اگر کوئی شخص جسدِ نور کو دیکھے تو وہ یقیناً خوف و امید کی کش مکش میں پڑ جاتا ہے، آپ اپنے دل سے پوچھ لیں کہ کیوں ایسا ہونا چاہئے؟ اگر کسی آدمی کے پاس بوقتِ تنہائی کوئی یو۔ایف۔او۔ (یعنی اڑن طشتری) آ جائے تو ظاہر ہے کہ اس شخص کو نہ صرف خوف ہو گا، بلکہ امید بھی ہوگی، کہ کاش یہ اس کو مسخر کر سکتا!

 

سورۂ یاسین کی جن خاص آیات کے بارے میں سوالات پیدا ہو گئے

 

۱۳

 

تھے، ان کے جوابات کافی حد تک دئے گئے، اب یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس معنیٰ میں اس سورے کو قلبُ القرآن کا نام عطا کیا ہے؟ جیسا کہ آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا:۔ ان لکل شیءٍ قلبا و قلب القرآن یس (جامع ترمذی، جلدِ دوم، باب نمبر ۳۵۸) رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے، اور قرآن کا دل یٰسین ہے۔ عقل والے جانتے ہیں کہ سورۂ یاسین کی یہ اہمیّت، اور تعریف و توصیف اس کے معنی اور علم و حکمت کی وجہ سے ہے، یقیناً اس میں کوئی راز ہوگا، کوئی کلید ہوگی، دل جیسی کسی مرکزی طاقت کی نشاندہی ہوگی، جی ہاں، بالکل درست ہے کہ اس میں امامِ مبین کی ہمہ گیر حیثیت کا ذکر ہے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا پُرحکمت ارشاد ہے:  اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى: بے شک ہم روحانی اور جسمانی مردوں کو زندہ کرتے ہیں، مردے دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو جسمانی موت سے قبل روحانی کیفیت میں مر جاتے ہیں، جس میں بہت بڑی ترقی ہے، اور دوسرے وہ لوگ جو بدنی طور پر مر جاتے ہیں، وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْۣؕ: اور ہم لکھتے ہیں وہ اعمال بھی جن کو لوگ آگے بھیجتے ہیں اور ان کے وہ اعمال بھی جن کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (۳۶: ۱۲) اور ہم نے تمام چیزوں کو ایک پیشوائے ظاہر میں گھیر کر رکھا ہے۔

 

امامِ مبین کا دوسرا نام عالمِ ذرّ ہے، جس میں خدائے پاک و برتر قیامت کو برپا کرکے مردوں کو زندہ کر دیتا ہے، اور لوگوں کے دینی و دنیوی اعمال بھی اسی میں درج ہوتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امامِ عالی مقام کے عالمِ شخصی میں کائنات و مخلوقات کا عقلی، روحی، اور جسمی جوہر مرکوز کیا گیا ہے، اب آپ کے نزدیک

 

۱۴

 

یہ ایک روشن حقیقت ہوگی کہ قادرِ مطلق جس طرح آسمان و زمین (یعنی ہر ہر چیز) کو دستِ قدرت میں لپیٹ لیتا ہے، وہ خدائی معجزہ بھی اور اس کا مشاہدہ بھی امامِ مبینؑ کی ذاتِ اقدس میں ہوتا ہے، غرض قرآنِ حکیم میں کوئی ایسی آیت نہیں، جس میں چیزوں (یعنی ذرّاتِ روح) کے جمع ہو جانے کا ذکر ہو، اور وہ مذکورۂ بالا موضوع سے مربوط نہ ہو۔

 

قلبِ قرآن کی حکمت کو سمجھنے کے لئے قلبِ انسان کی مثال میں ٹھیک طرح سے غور کرنا چاہئے، وہ یہ کہ قلب یعنی دل انسانی جسم میں بذریعۂ خون نہ صرف زندگی کی لہر دوڑاتا رہتا ہے، بلکہ اسی دورانِ خون کے عمل سے حیات و بقا کو واپس مرکوز بھی کر لیتا ہے، تا کہ اس میں جدّت و تازگی پیدا کرے، اسی طرح قلبِ قرآن (یعنی امامِ مبین) ہے، جو بحکمِ خدا ایک طرف روحِ تاویل کو جملہ قرآن میں پھیلاتا بھی ہے، اور دوسری طرف سمیٹتا بھی ہے، تا کہ روحِ کتاب قانونِ فطرت کے مطابق ہمیشہ تر و تازہ رہے۔

 

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قلبِ قرآن کی اس مثال میں کتابِ سماوی کی مرکزیّت کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس کا ثبوت زمانۂ نبوّت ہے، کہ اس وقت آنحضرتؐ قرآن کا دل اور مرکز تھے، اس کے معنی ہیں نورِ قرآن یا روحِ قرآن، جو ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

 

خانۂ حکمت ، ادارۂ عارف

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۷ مارچ ۱۹۸۵ء

 

۱۵

 

نورانی حرکت

 

۱۔ “نورانی حرکت” کے اس موضوع میں پہلے تو ظاہری روشنی کا ذکر ہو جانا چاہئے، اور اس کے بعد باطنی روشنی کا، تا کہ مثال کے ذریعے سے ممثول کی شناخت ہو سکے، چنانچہ اس سلسلے میں انتہائی ضروری ہے کہ حکمتِ الٰہی کے منشاء کے مطابق ایک روشن چراغ کی مثال کو پیشِ نظر رکھا جائے، تا کہ حقائق و معارف قرآن پاک کی روشنی میں ظاہر ہو جائیں، جبکہ قرآنِ حکیم میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نورِ اقدس کی تشبیہہ و تمثیل مصباح (چراغ، ۲۴: ۳۵) اور سراجا (چراغ، ۳۳: ۴۶) سے دی گئی ہے، ظاہر ہے کہ یہ دونوں نام چراغ ہی کے ہیں، اور اس مثل میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

 

۲۔ خوب سوچنا اور جاننا چاہیے کہ چراغِ روشن پانچ مراتب پر مبنی ہوا کرتا ہے، وہ درجات یہ ہیں: ظرفِ چراغ، تیل، بتی، شعلہ، اور پھیلی ہوئی روشنی، اسی طرح لفظِ مصباح اور سراجا کے بھی پانچ پانچ اجزاء یعنی حروف ہیں، جیسے مصباح: م، ص، ب، ا، ح اور جس طرح سراجا: س، ر، ا، ج، ا، یہ اشارہ پانچ حدودِ روحانی اور پانچ حدودِ جسمانی کی طرف ہے، چنانچہ روحانی حدود یہ ہیں: قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، اور جبرائیل، جسمانی حدود اس طرح ہیں: ناطق، اساس، امام،  حجت، اور داعی، اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ قرآنِ مقدّس میں جہاں جہاں لفظِ نور اور اس کے

 

۱۶

 

مترادفات موجود ہیں، ان سب میں لازمی طور پر چراغ کی مثال بھی ہے، اور حدودِ مذکورہ کا حکیمانہ ذکر بھی، کیونکہ جملہ آیاتِ نور کا ایک ہی معنوی اور تشبیہی مرکز ہے، اور وہ مرکز وہی ہے، جس میں آسمان و زمین کی مادّی روشنی کے تمام ذرائع کو چھوڑ کر چراغِ خانہ سے نورِ خداوندی کی تشبیہہ و تمثیل دی گئی ہے۔

 

۳۔ پانچ حدودِ روحانی کے بارے میں یہاں ایک حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ کتاب الزینہ ، باب القلم کے آغاز میں ہے: “یروی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ (و آلہ و سلم) کان یاخذ الوحی عن جبرئیل و جبرئیل عن میکائیل، و میکائیل عن اسرافیل و اسرافیل عن اللوح، و اللوح عن القلم: روایت کی جاتی ہے کہ رسولِ خدا وحی کو جبرائیل سے لیتے تھے، جبرائیل میکائیل سے، میکائیل اسرافیل سے، اسرافیل لوحِ محفوظ سے، اور لوحِ محفوظ قلم سے لیتی تھی۔”

 

اسی طرح پانچ جسمانی حدود ہیں، جن کے توسط سے نورِ تاویل مومنین تک پہنچ سکتا ہے، وہ ناطق، اساس، امام،حجت، اور داعی ہیں۔

 

۴۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) اور سورۂ زمر (۳۹: ۶۷) میں جس طرح ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کا مختصر مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کو اپنے بابرکت ہاتھ میں لپیٹ لے گا، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو موجودات و مخلوقات کی کوئی چیز ضائع نہیں کی جاتی ہے، بلکہ دستِ قدرت کائنات کی کل اشیاء کو اپنی پُرحکمت مٹھی میں لیتا ہے، چنانچہ اس حکم کا اطلاق نہ صرف عالمِ شخصی پر ہوتا ہے، بلکہ اس میں عالمِ دین کا بھی ذکر ہے کہ اس کے تمام حدود دورِ قیامت میں امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے پاس جمع ہوں گے، اور آج امرِ واقعی ایسا ہی ہے، کیونکہ قیامت کو اگر ظاہری اور اجتماعی پہلو

 

۱۷

 

سے دیکھنا ہے تو وہ ایک عظیم اور طویل زمانہ ہے، جس کا آغاز ہوچکا ہے، تاہم جہاں تک “علمِ حدود” کا تعلق ہے، وہ ہر دانشمند مومن کے لئے ضروری ہے، کیونکہ جس طرح علمِ تاریخ ماضی کی شخصیات پر مبنی ہوتا ہے، اسی طرح علمِ تاویل حدودِ دین سے وابستہ ہے، پس تاویل کے لئے “حدود شناسی” کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

 

۵۔ اب ہمیں مادّی روشنی کی حرکت کے بارے میں دیکھنا چاہیے کہ اس کی کیفیّت کیا ہے، چنانچہ ہر شخص اس صورتِ حال میں غور کر سکتا ہے کہ چراغ کے تیل میں از خود کوئی حرکت نہیں، مگر وہ فتیلہ (بتی) اور شعلہ کے ذریعہ حرکت کر کے آگے بڑھ جاتا ہے، اور نور بن کر اعلیٰ و بسیط ہو جاتا ہے، یہ واقعہ اس حقیقت کی مثال ہے کہ ہر مومنِ صادق ہادیٔ زمان کی پیروی میں ترقی کرتے کرتے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے، جہاں نور ہی نور ہے، جس میں جب وہ فنا ہو جاتا ہے، تو اس پر یہ عظیم راز کھل جاتا ہے کہ وہ ازلی و ابدی طور پر اصل سے واصل ہے۔

 

۶۔ چراغ کا تیل فتیلہ کے وسیلے سے شعلہ میں مسلسل فنا ہوتا جاتا ہے، اور شعلہ بھی لحظہ بہ لحظہ منتشر روشنی میں فنا ہوتا رہتا ہے، اگر بکھری ہوئی روشنی گھر کی ہر سو ٹھہر سکتی، تو شعلۂ چراغ کو مزید دوام دینے کی ضرورت نہ رہتی ، مگر قانونِ فطرت میں ایسا نہیں کہ ایک بار کی پھیلی ہوئی روشنی اپنے سرچشمہ سے منقطع ہو جانے پر بھی قائم رہ سکے، اور ماحول کو منور کرے، لہٰذا شعلے کو اپنے حال پر رکھنا پڑتا ہے، تا کہ اس کے نورانی فوارے سے ہر لمحہ روشنی کے بادل چھائے رہیں، یہ مثال صرف گھر کے چراغ ہی کے لئے محدود نہیں، بلکہ روشنی کے ہر ذریعے کا یہی حال ہے، خواہ وہ سرچشمۂ آفتاب ہی کیوں نہ ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کارخانۂ نور چاہے ظاہری ہو یا باطنی دائمی حرکت میں ہے، وہ کسی وقفہ اور تاخیر کے بغیر مسلسل روشنی

 

۱۸

 

بکھیرتا رہتا ہے، جیسے کسی انتہائی ترقی یافتہ شہر کا بجلی گھر شب و روز کام کرتا ہے، اور لوگوں کے لئے راحت و آسائش اسی میں ہے کہ وہ ہمیشہ چلتا رہے۔

 

۷۔ ظرفِ چراغ داعی کی مثال ہے، روغنِ زیتون حجت ہے، اس میں فتیلہ کا ممثول امام ہے، کہ ہدایت کا وسیلہ وہی ہے، شعلہ کی تاویل اساس ہے، کیونکہ اسی کا مرتبہ نورِ فاعل ہے، اور منتشر روشنی درجۂ ناطق کی مثال ہے، اس لئے کہ آنحضرت رحمتِ عالم ہیں۔

 

۸۔ اس قرآنی حقیقت میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو عالمین یعنی دنیاؤں کے لئے رحمت بناکربھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) لیکن ہر طالبِ حقیقت کے دل میں یہ سوال پوشیدہ ہے کہ وہ دنیائیں کون سی ہیں، جن کے حق میں پیغمبرِ خدا رحمتِ کل کی عظیم مرتبت میں تشریف لائے؟ آیا اس کا جواب اس طرح درست ہو سکتا ہے جو کہا جائے کہ یہ عالمین (دنیائیں) جو ہزاروں کی تعداد میں ہیں، جمادات، نباتات، حیوانات، وغیرہ سے متعلق ہیں؟ نہیں، یہ جواب درست نہیں، کیونکہ رحمان و رحیم کی رحمت انتہائی خاص چیز ہے، لہٰذا ہمیں یوں کہنا چاہئے کہ یہ قانونِ کرامت و فضیلت (۱۷: ۷۰) کے مطابق بنی آدم کے لئے مخصوص ہے، پس عالمین سے آدم و اولادِ آدم مراد ہیں، کہ ان میں جو خواص ہیں، وہ بحدِّ فعل عوالمِ شخصی (ذاتی دنیائیں) ہیں، اور جو عوام ہیں وہ بحدِّ قوّت ایسے ہیں، اس بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ رسول اللہ کا نورِ اقدس ہر کامل انسان کے عالمِ شخصی میں بعنوانِ رحمت فعلاً محیط ہو جاتا ہے۔

 

۹۔ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) میں خدائے علیم و حکیم کا ایک بڑا اہم اور پُرحکمت ارشاد اس طرح ہے:  یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا (۳۳: ۴۵ تا ۴۶) ۔

 

۱۹

 

اے نبی ہم نے بے شک آپ کو اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ آپ گواہ ہیں اور آپ بشارت دینے والے ہیں اور ڈرانے والے ہیں اور (سب کو) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں اور آپ ایک روشن چراغ ہیں۔

 

اس بابرکت ارشاد کی چند حکمتیں اس طرح ہیں:

 

الف: مذکورہ دونوں آیتیں (جن کے آخر میں روشن چراغ کا ذکر ہے) براہِ راست اس انتہائی عظیم اور اعلیٰ حکمتوں سے بھرپور آیۂ مقدّسہ یعنی “اللہ نور السمٰوٰت” کے ساتھ مربوط و وابستہ ہیں، جس میں نورِ خداوندی کی مثال ایک روشن چراغ سے دی گئی ہے (۲۴: ۳۵) اس سے اہلِ دانش کو اس بات کا مکمل یقین ہو جاتا ہے، کہ بے شک اللہ کا نور رسول کا نور ہے، اور رسول کا نور اللہ کا نور، اور ایک ہی نور کی یہ نسبتیں ہیں کہ کبھی یہ خدا سے منسوب ہو جاتا ہے اور کبھی پیغمبر سے۔

 

ب: سراجِ منیر کی حرکتِ نورانی انتہائی تیز ہے، یہ روشن چراغ جہاں جسمِ لطیف میں مجسّم ہے اور جہاں نوری تصوّر میں متصوّر ہے، وہاں یہ چشمِ زدن میں زمان و مکان کی کلی مسافتوں کو طے کرتا ہے، اور آنِ واحد سے پہلے ہی مقامِ ازل و ابد پر پہنچ جاتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں رجل یسعیٰ (۲۸: ۲۰، ۳۶: ۲۰) فرمایا گیا ہے، جو ابداعی لطیف انسان کے بارے میں ہے، اور جس طرح یسعیٰ نورھم (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸) کا ارشاد ہے، وہ باطنی نور کے باب میں ہے، مذکورہ آیتوں کی تاویل میں نور کی تیز حرکت کا ذکر ہے۔

 

ج: چراغِ ہدایت کی ضرورت تین مقامات پر ہے: مقامِ جسم جو ظاہر ہے، مقامِ روح جو باطن ہے، اور مقامِ عقل جو باطن کا باطن ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم اپنے مخصوص تاویلی اشارے میں یہ فرماتا ہے کہ نور کے تعیّن و تقرر کا

 

۲۰

 

مقصد یہ ہے کہ مومنین ان مقامات میں چلتے رہیں اور ہر مقام پر ترقی کریں (تمشون بہ،۵۷: ۲۸، تا کہ تم اس نور کی روشنی میں چل سکو گے)۔

د: حضورِ اکرم رشد و ہدایت اور علم و حکمت کے روشن چراغ تھے، آپ صرف دعوتِ حق ہی کی تدریجی تعلیمات سے لوگوں کے دل وجان کو منور کر سکتے تھے، چنانچہ جنہوں نے اسلام کو قبول کیا، وہ روشنی کے درجات میں فطری طور پر آگے پیچھے اور مختلف تھے، اور اس میں کیا تعجب ہو سکتا ہے کہ خدا و رسول نے اس سلسلے میں ایک شخص کو کامل اور مکمل نور بنا لیا ہو، تا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں لوگوں پر پوری ہو جائیں۔

 

۱۰۔ انسان کا خیال خواہ زیادہ روشن ہو یا کم، لیکن وہ بہرحال انتہائی تیزی سے حرکت کر سکتا ہے، آپ کا خیال لمحہ بھر میں نہ صرف مشرق و مغرب میں جا پہنچتا ہے، بلکہ آسمان کی بلندیوں پر بھی جا سکتا ہے، آپ پلک جھپکاتے میں ایک طرح سے عرشِ اعلیٰ تک تصوّراتی پرواز کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر کسی شخص نے جیسے ہی قصّۂ معراج کی طرف توجّہ دی، تو فوراً ہی اس کا خیال عرش پر گیا، چنانچہ خیال انسان میں وہ روحانی اڑان ہے، جس سے وہ کسی تاخیر کے بغیر زمان و مکان کی تمام تر مسافتوں کو طے کر سکتا ہے، دوسری مثال میں خیال وہ حیرت انگیز آئینۂ قدرت ہے، جو مسموعات ، مشاہدات، اور معلومات کی کسی بھی چیز کو فوراً ہی ذہنِ انسانی کے سامنے پیش کر دیتا ہے، پھر بھی ایک عام آدمی کی یہ صلاحیت خام و ناتمام ہونے کی وجہ سے شکوک و شبہات اور لا علمی کے اندھیروں میں کام کرتی ہے، ان مثالوں سے ایک ہوشمند مومن یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ قادرِ مطلق نے جس مبارک و مقدّس ہستی کو نورِ ہدایت کا روشن چراغ بنایا ہے، اس کی عالمگیری اور ہمہ رسی کی کیا شان ہوگی، اور عالمِ شخصی کے آسمان و زمین پر کس آسانی سے محیط ہوگا۔

 

۱۱۔ ہر شخص اپنے باطن میں ایک ذاتی اور انفرادی دنیا رکھتا ہے، جو عالمِ ظاہر

 

۲۱

 

سے بنائی جاتی ہے، اس کے وجود کی دو معتبر شہادتیں خواب اور خیال ہیں، اسی شخصی عالم کا ذکر قرآنِ پاک میں کثرت سے فرمایا گیا ہے اور اسی میں قیامت اور آخرت پوشیدہ ہے، اگر آپ اور بہت سے دوسرے حضرات بہ نتیجۂ علم و عمل اپنی روحانی دنیا کو منوّر و درخشندہ دیکھتے ہیں، اور اس کے آسمان و زمین کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو یہ نور، جس نے اس کو جگمگا دیا ہے، کس کا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ کا ہوگا، کیونکہ وہ آسمان و زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) آنحضرتؐ کا نور ہوگا، اس لئے کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے (۳۳: ۴۶) نیز یہ نور امام کا ہوگا، کہ زمانۂ نبوّت میں مستقبل کی ہدایت کا اہتمام اسی مرتبت میں کیا گیا ہے (۵۷: ۲۸) اور یہ نور اہلِ ایمان کا بھی ہے، کیونکہ اللہ، رسول، اور صاحبِ امر کی حقیقی اطاعت کا مکمل نتیجہ نور کی صورت میں ملتا ہے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸) اور بس نور ہی سب کچھ ہے۔

 

۱۲۔ نورانی حرکت کے بارے میں صرف چند نکات و اشارات مقصود تھے، ورنہ یہ مضمون تفصیلاً خاصا طویل ہوسکتا تھا۔ بہر کیف نور کا موضوع ہر پہلو سے بڑا اہم ہے، کیونکہ اس میں قرآنِ حکیم کے جملہ مطالب مرکوز ہو جاتے ہیں، اور پھر یہیں سے سارے قرآن میں پھیل جاتے ہیں، جس طرح سرچشمۂ آفتاب میں جملۂ کائنات رفتہ رفتہ جمع ہوکر نور بن جاتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ واپس پھیلتی رہتی ہے، پس نور کی اصلی اور کلی حرکت مستدیر (گول) ہے۔

 

خانۂ حکمت، ادارۂ عارف

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۶ جون ۱۹۸۵ء

 

۲۲

 

نورانی رشتے

 

۱۔ رشتہ دو قسم کا ہوتا ہے، جسمانی رشتہ اور روحانی رشتہ، رشتۂ روحانی کا دوسرا نام نورانی رشتہ ہے، یہ آسمانی رشتہ جو ہر قسم کے ظاہری و جسمانی رشتوں سے بلند و برتر اور پاک وپاکیزہ ہے، سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر انبیاء و أئمّہ صلوات اللہ علیہم کو ایک دوسرے سے منسلک کردیتا ہے، اور ان نفوسِ قدسی کے یہ موتی، جو اس وحدت و یگانگت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، گوہرِ یکدانہ یعنی نفسِ واحدہ کی طرح (۰۶: ۹۸، ۳۱: ۲۸) ایک ہی کرتۂ بدن میں سما جاتے ہیں، اور اگر اس حقیقتِ حال کو دیدۂ دل سے دیکھا جائے، تو ضرور معلوم ہو جائے گا کہ یہ وہ نمونۂ عمل ہے، جو ہادیانِ برحق نے اجتماعی طور پر تمام امتوں کے سامنے پیش کیا، تا کہ وہ اپنے اپنے وقت کی ہدایت کے مطابق صراطِ مستقیم پر چل کر رشتۂ نور سے وابستہ ہو جائیں۔

 

۲۔ رشتہ کے اصل معنی دھاگا کے ہیں، اور انسانوں کے آپس میں ماں باپ وغیرہ سے جو نسبت و قرابت ہوتی ہے، اس کو رشتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس دھاگے کی طرح ایک چیز ہے، جو تسبیح کے دانوں کو ایک دوسرے سے وابستہ رکھتا ہے، یا جس میں پروکر موتیوں کی لڑی بنائی جاتی ہے، یا جس کی وجہ سے پھولوں کا ایک ہار منظم ہو جاتا ہے، اور یہاں یہ نکتہ بھی خوب یاد رہے کہ قرآنِ حکیم نے

 

۲۳

 

کوئی موضوع اور کوئی مثال اپنے احاطۂ بیان سے باہر نہیں چھوڑی ہے، چنانچہ رشتۂ نورانیّت کی قرآنی مثال اللہ تعالیٰ کی “رسی” ہے (۰۳: ۱۰۳) اور اسی کے ساتھ مسلمانوں کے روحانی طور پر بھائی بھائی ہونے کا ذکر ہے (۰۳: ۱۰۳) آپ یہ جانتے ہیں کہ دینِ اسلام کا دروازہ سارے اہلِ جہان کے لئے کشادہ ہے (۰۷: ۱۵۸) پس ہر امت کے لوگ خدائی رسی کے ساتھ بمضبوطی وابستہ ہو کر نورانی رشتے کی وحدت میں مدغم ہو سکتے ہیں۔

 

۳۔ زمانۂ موسیٰؑ اور زمانۂ عیسیٰؑ کے ان لوگوں نے، جو دائرۂ دین میں داخل ہو گئے تھے، ایک بار خدا کی رسی پکڑ لی تھی، مگر ان میں سے اکثر کا دستِ علم و عمل ڈھیلا تھا، اسی سبب سے وقتِ آزمائش آنے پر ان سے نور کی رسی چھوٹ گئی، اور اسی کے ساتھ ان کا رہا سہا نورانی رشتہ بھی ٹوٹ گیا، اور اسی واقعہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ہم مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے: اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور فرقہ فرقہ نہ ہو جاؤ (۰۳: ۱۰۳) مگر آج جو صورتِ حال ہے وہ سب کے سامنے ظاہر ہے۔

 

۴۔ جس طرح قصصِ قرآن میں حضرتِ آدمؑ کا قصّہ بنیاد کا درجہ رکھتا ہے، اسی طرح رشتۂ نور کا موضوع بھی وہیں سے شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم (۰۷: ۲۶، ۰۷: ۲۷، ۰۷: ۳۱، ۰۷: ۳۵، ۰۷: ۱۷۲، ۱۷: ۷۰، ۱۹: ۵۸، ۳۶: ۶۰) میں بنی آدم اور ذریّتِ آدم کا ذکر فرمایا گیا ہے، جس کا ترجمہ ہے اولادِ آدمؑ، اگر میں یہاں یہ سوال کروں کہ قرآنِ پاک کے نزدیک اولادِ آدم کون سے لوگ ہیں؟ تو آپ میں سے کوئی فوراً یہ جواب دے گا کہ بنی آدم یہ تمام انسان ہیں، جو دیگر تمام مخلوقات پر بادشاہ ہیں، اگرچہ یہ جواب عوام کے نزدیک درست ہے، لیکن خواص کے نزدیک صحیح نہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم کے کہنے کے مطابق بہت سے لوگ درجۂ آدمیّت سے گر کر چوپایوں

 

۲۴

 

میں شامل ہو گئے ہیں (۰۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴) ایسے لوگوں کی یہ حالت نافرمانی کی وجہ سے ہے، اور اللہ کا قانون یہی ہے کہ ہر نافرمان شخص کو رشتۂ نور سے خارج کیا جائے، خواہ وہ پسرِ نوح کیوں نہ ہو، پس اولادِ آدم بحقیقت پانچ گروہ کے سوا کوئی نہیں، وہ گروہ یا درجات یہ ہیں:۔

 

انبیاء، صدیقین، شہدا، صالحین، اور مطیعین (فرمانبردار لوگ) یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں اولادِ آدم ہونے کی وجہ سے نورانی رشتے رکھتے ہیں، یعنی ایک طرف ان کا نورانی رشتہ حضرت آدم علیہ السّلام سے ہے، اور دوسری طرف ان کے آپس میں (۰۴: ۶۹)۔

 

۵۔ سوال: اس میں کیا راز ہے کہ قرآنِ حکیم نے آدم و حوّا علیہما السّلام کو لوگوں کے ماں باپ قرار دیا، حالانکہ وہ دادا اور دادی ہیں (۰۷: ۲۷)؟

جواب: کوئی شخص اس کو عربی زبان کا رواج کہہ سکتا ہے، لیکن اس کی حقیقت کچھ اور ہے، وہ یہ کہ جسمانی رشتہ وقت گزر جانے کے ساتھ ساتھ دور سے دور تر ہوتا جاتا ہے، مگر اس کے برعکس روحانی (نورانی) رشتہ ہمیشہ تازہ رہتا ہے، کیونکہ نورٌعلیٰ نور (۲۴: ۳۵) کے بموجب ہادیٔ زمانؑ میں نورِآدم موجود ہوتا ہے اور انبیاء و أئمّہ صلوات اللہ علیہم نفسِ واحدہ کی طرح ایک ہوتے ہیں۔

 

۶۔ سوال: قرآنِ پاک نے ہابیل اور قابیل کو اِبۡنَیۡ آدَمَ ( آدم کے دو بیٹے، ۰۵: ۲۷) کہا، کوئی شک نہیں کہ شروع شروع میں قابیل حضرت آدمؑ کے بیٹوں میں سے تھا، مگر اس کے رشتۂ نور سے منقطع ہو جانے کا ذکر کہاں ہے؟

جواب: حسد بہت بُری چیز ہے، جس کی وجہ سے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا، اور بحکمِ خدا وہ زیان کاروں میں شامل ہوگیا (۰۵: ۳۰) اور اس کا سب سے بڑا زیان یہ کہ اب وہ آدم کی اولاد نہ رہا، نور سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا، جبکہ

 

۲۵

 

خدا کی رسی سے اطاعت و فرمانبرداری کا ہاتھ چھوٹ گیا، پس ہر مومن کو حسد سے بچنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ یہ کسی مومن بھائی کے نقصان پر ابھارے، آپ ایسا ہرگز نہ سوچیں کہ قابیل شروع ہی سے برا آدمی تھا، کیونکہ اس کے اچھے اچھے اعمال تھے، مگر جب اس کے دل میں حسد پیدا ہوگیا، تو اس نے جملہ اعمال کو اس طرح کھا لیا، جس طرح آگ لکڑی کو کھاتی ہے، اور اسی معنیٰ میں وہ زیان کار ہوگیا، اعمال سے متعلق یہ ساری وضاحت لفظِ خاسرین (۰۵: ۳۰) میں پوشیدہ ہے۔

 

۷۔ سوال: قصّۂ آدم میں لفظِ نور کیوں نہیں؟ آیا حضرتِ آدمؑ نے فرشتوں کو علمِ اسماء کی تعلیم ظاہر میں دی تھی یا باطن میں؟ ملائکہ کا حضرت آدم علیہ السّلام سے کون سا رشتہ تھا؟

جواب: قصّۂ آدم میں اگرچہ لفظِ نور موجود نہیں، لیکن نورِ خداوندی کا ذکر لفظِ “روحی” (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اور “روحہ” (۳۲: ۰۹) میں فرمایا گیا ہے، کیونکہ خدائی روح نورِ الٰہی ہے، حضرت آدمؑ نے عالمِ شخصی میں فرشتوں کو تعلیم دی تھی، جو عالمِ باطن ہے، فرشتوں کا حضرت آدمؑ سے نورانی رشتہ تھا، کیونکہ وہ فرشتے اس زمانے کے مومنین کی ارواح تھے، نورانی علم سے نور کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، اور حضرت آدمّ نے اہلِ ایمان کی روحوں کو نورانی علم سے منوّر کر دیا تھا۔

 

۸۔ حضرت نوح علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں خدا کی رسی اور رشتۂ نور سے متعلق واضح مثالیں موجود ہیں، ایک تو یہ کہ حضرت نوحؑ کا بیٹا کنعان جو جسمانی اعتبار سے پیغمبر زادہ تھا نافرمانی کی وجہ سے سلسلۂ روحانیّت اور رشتۂ نورانیّت سے منقطع ہوکر دور جا پڑا، اور حضرت نوحؑ کی سفارش اس کو نہ بچا سکی، کیونکہ اس کا عمل غیر صالح تھا (۱۱: ۴۶) دوسری مثال یہ ہے کہ کئی مومنین اطاعت و فرمانبرداری کے وسیلے سے خانۂ نور میں داخل ہوکر اہلِ بیّت کہلائے، اور وہاں ان کا نورانی رشتہ

 

۲۶

 

بدرجۂ انتہا مضبوط ہوگیا (۷۱: ۲۸) اور تیسری مثال یہ ہے کہ اگرچہ بعض لوگ روحانیّت کے گھر میں نہیں تھے، تاہم وہ ایمان کے وسیلے سے رشتۂ نور سے منسلک ہو گئے تھے (۷۱: ۲۸)۔

 

۹۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی ترجمانی کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ (پھر جو شخص میری راہ پر چلے وہ میرا ہے، ۱۴: ۳۶) اس میں نور کے تمام رشتوں کا ذکر ہے، جیسے نورانی فرزند، نورانی ماں باپ، بھائی بہن وغیرہ، اس کی وضاحت یوں ہے: کہ حضرت اسماعیلؑ نے حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کی، جس سے وہ پہلے تو نور کا بیٹا ہوگئے، پھر خود نور بن گئے، اور اس کے بعد نور کا باپ، یہ عالمِ دین کی بات ہوئی، اور عالمِ شخصی میں بھی اس کی نظیریں موجود ہیں، وہ اس طرح کہ سلمانِ فارسی سب سے پہلے نور کا بیٹا قرار پایا، پھر رفتہ رفتہ نور بن گیا، اور اس کے بعد عالمِ شخصی میں نور نے اس سے کہا کہ اب میں تیرا بیٹا ہوں، اس معنیٰ میں وہ نور کا باپ بن گیا، یہ نور کی انتہائی نوازش ہے۔

 

۱۰۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ (۱۶: ۱۲۰) بے شک ابراہیم (اپنے باطن میں) ایک فرمانبردار امت تھے بالکل ایک ہی طرف کے ہو رہے تھے۔ اس آیۂ کریمہ کی حکمت یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے عالمِ شخصی میں اوّلین و آخرین کی ارواح جمع تھیں، ان میں سے مقربین کی روحیں جناب ابراہیم کی “انا” بن چکی تھیں، اور اسی معنیٰ میں آپ ایک امت ہوگئے تھے، پس یہ نورانی رشتہ کا آخری درجہ ہے۔

 

۱۱۔ آپ قرآنِ پاک (۰۸: ۲۸، ۶۳: ۰۹) میں دیکھ سکتے ہیں کہ دنیوی مال و اولاد ایک فتنہ (آزمائش) اور یادِ الٰہی سے غافل بنانے کا باعث ہے، اگر ایسا ہے تو حضرت یعقوب علیہ السّلام اپنے فرزند یوسف علیہ السّلام کے لئے کیوں آنسو بہایا

 

۲۷

 

کرتے تھے؟ اس میں جسمانی رشتے کی بات نہیں، بلکہ نورانی رشتے کا قصّہ ہے، کیونکہ بحکمِ خدا امامت حضرت یعقوب سے حضرت یوسف میں منتقل ہوگئی تھی، لہٰذا آپ نورِ امامت کے دیدار کی خاطر گریہ و زاری کرتے تھے، پس نورِ امامت کی اس سے بڑھ کر اور کیا عظمت و شان ہو، کہ اگر امام عالی مقام کے باپ ہیں تو وہ بھی فخر سے سر اونچا نہیں کرتے، بلکہ عجز و انکساری کے ساتھ نورِ امامت کے سامنے جھک جاتے ہیں، جیسے حضرت یعقوبؑ نے یہ نمونہ پیش کیا (۱۲: ۱۰۰)۔

 

۱۲۔ خدا تعالیٰ اپنے حضورِ خاص سے ہر پیغمبر اور ہر امام پر ایک آسمانی محبت ڈالتا ہے، اگر کسی خوش بخت شخص کو رسول اور امامِ زمانؑ کی یہ محبت حاصل ہو گئی، تو نتیجے کے طور پر نورِ اقدس سے اس کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، اس امر کی مثال قرآنِ کریم میں آسیہ زوجۂ فرعون ہے، کہ اس کے دل میں حضرت موسیٰؑ کی طرف سے حقیقی محبت کی بجلی چمک اٹھی تھی (۲۰: ۳۹) جس کی بدولت خدا تعالیٰ سے اس کو توفیق ملی کہ یہ دعا کرے: رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَكَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ (۶۶: ۱۱) اے میرے پروردگار میرے واسطے جنّت میں اپنے قرب میں مکان بنا دے۔

 

۱۳۔ جس طرح ابراہیم میں مقرب درجے کی بہت سی روحیں فنا ہو کر آپ کی “انا” ہو چکی تھیں (۱۶: ۱۲۰) اسی طرح أئمّۂ طاہرین کے نور میں حقیقی مومنین واصل ہو جاتے ہیں، اور اسی وصال میں ان کی بہشت اور روحانی سلطنت ہے، جیسا کہ بقولِ قرآنِ حضرت موسیٰؑ نے اپنے دور کے مومنین سے فرمایا: اور وہ وقت بھی قابلِ ذکر ہے جب موسیٰؑ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو، جب کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے اور تم کو ملوک (بادشاہ، یعنی بہ نتیجۂ فنا أئمّہ) بنایا اور تم کو وہ چیزیں دیں جو اہلِ جہان میں کسی کو نہیں دیں (۰۵: ۲۰)۔

 

۲۸

 

۱۴۔ یہ اساسی قانون خوب یاد رہے کہ ہر قرآنی پیغمبر اپنی بہت سی صفات میں دوسرے تمام پیغمبروں اور اماموں کی نمائندگی کرتا ہے، چنانچہ حضرتِ عیسیٰؑ کا خدائی کلمہ ہونا (۰۳: ۴۵) اس حقیقت کی دلیل ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے وقت میں “کلمۂ خدا” یعنی اسمِ اعظم ہوا کرتا ہے، یہی امرِ واقعی حضرت عیسیٰ کے لقب “مسیح” میں بھی ہے، مسیح کے معنی ہیں ہاتھ پھیرنے والا، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ بیماروں پر ہاتھ پھیرکر ان کو تندرست کر دیتے تھے، اس کی تاویل یہ ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے کوکبی بدن میں مومنین کے پاس پہنچ سکتا ہے، تا کہ ان کی روحانی بیماریوں کا علاج کیا جائے، تا کہ وہ نور سے واصل ہو جانے کے قابل ہو جائیں، اس کے لئے تقویٰ ، علم، اور کثیر ذکر و عبادت شرط ہے۔

 

۱۵۔ سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۴۶) اور سورۂ انعام (۰۶: ۲۰) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ: جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کتاب دی تھی وہ رسول کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ حدودِ دین میں سے جو حضرات کتابِ سماوی کی روح و روحانیّت کا مشاہدہ و مطالعہ کرتے تھے، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے عالمِ شخصی میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نورانی جنم ہوا ہے، اس معنیٰ میں آپ ان لوگوں کے بیٹے ہیں، اور وہ آسمانی کتاب جو نورانیّت میں ان کے سامنے ہے آنحضرتؐ کی ہے، اس مضمون سے ظاہر ہوا کہ نور نے لوگوں کو کئی طرح کے رشتوں سے منسلک کر لیا ہے۔

 

۱۶۔ اگر ہم قرآنِ حکیم کے لفظِ “بنی آدم” سے “آدم کی روحانی اولاد” مراد لیں، تو اس سے دو حقیقتیں روشن ہو جائیں گی، ایک یہ کہ اب تک حضرت آدم کی خلافت و دعوت کا نظام اپنی جگہ پر قائم ہے، اور یہ صرف سلسلۂ انبیاء و أئمّہ ہی کے توسط سے ممکن ہو گیا ہے، دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہر زمانے میں آدم کا ایک

 

۲۹

 

جانشین ہوا کرتا ہے، جس کی روحانی نسبت سے مومنین بنی آدم کہلاتے ہیں۔

 

۱۷۔ سوال: آپ نے”تصورِ بنی آدم” کو جس طرح پیش کیا، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بنی آدم سب کے سب اہلِ سعادت ہیں، جن کو نجات کے علاوہ درجات بھی حاصل ہیں، لیکن ہم سورۂ یاسین (۳۶: ۶۰ تا ۶۲) میں دیکھتے ہیں کہ بنی آدم شیطان کی عبادت کرنے پر ماخوذ ہو جاتے ہیں، اور ان کو حکم دیا جاتا ہے کہ جہنم میں داخل ہو جاؤ، اس کے بارے میں آپ کیا وضاحت کریں گے؟

جواب: اس میں میری عرض یہ ہے کہ بنی آدم کا تصوّر جیسا پیش کیا گیا، وہ بالکل درست اور حقیقت ہے کہ اس میں انبیاء ، صدیقین، شہداء، صالحین، اور مطیعین (فرمانبردار لوگ) ہیں، یعنی پیغمبروں، اساسوں، اماموں، حجتوں، اور داعیوں کے ساتھ مومنین، ان درجات سے حسبِ مرتبہ عہد لیا جاتا ہے، چنانچہ شیطان کی عبادت نہ کرنے کا عہد سب سے نچلے درجے سے متعلق ہے، یاد رہے کہ کوئی کوئی شخص دیدہ و دانستہ شیطان کی عبادت نہیں کرتا، مگر وہ عبادت اس معنیٰ میں ہے کہ اہلِ ایمان میں سے کچھ لوگ ہادیٔ برحق کے مخالف (شیطان) کی باتوں کو مانتے ہیں، اور گمراہ ہو جاتے ہیں، اور یہی شیطان کی پرستش ہے۔

 

۱۸۔ سورۂ احزاب میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: نبی (نورانی رشتے میں) مومنوں کے ساتھ خود ان کے نفوس سے بھی قریب تر ہیں اور آپ کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں (۳۳: ۰۶) اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ مومنین کی “حقیقی انا” عالمِ علوی میں ہے، جس سے پیغمبرِ اکرم جیسے قریب ہیں، ایسی قریب ان کی اپنی جانیں بھی نہیں، کیونکہ آپ مومنوں کے روحانی باپ ہونے کی وجہ سے عالمِ بالا سے وابستہ ہیں، اور آنحضرتؐ کے حجّتان ان کی روحانی مائیں ہیں، جیسے رسولِ خدا نے اپنے حجّتِ اعظم (باب یعنی علیؑ) سے فرمایا: انا و انت یا علی ابو المومنین = اے علی

 

۳۰

 

میں اور آپ مومنین کے (روحانی) ماں باپ ہیں۔

 

۱۹۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ان علیا منی و انا منہ = تحقیق علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ یعنی علی کا نور مجھ سے ہے، اور میرا نور علی و أئمّۂ اولادِ علی کے سلسلے میں قائم و برقرار رہے گا۔

 

۲۰۔ سوال: قرآنِ حکیم (۰۴: ۰۱، ۰۶: ۹۸، ۰۷: ۱۸۹، ۳۹: ۰۶) میں ارشاد ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا، پھر اسی سے اس کا جوڑا (بیوی) بنایا۔ آپ ہمیں اس کا مطلب سمجھا دیں کہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ تنہا باپ سے سارے بال بچے پیدا ہو گئے، اور ان کی ماں بعد میں پیدا ہوئی؟

جواب: اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ بے شک سب سے پہلے ایک مرد کی پشت میں لاتعداد ذرّاتِ روح کی تخلیق ہوتی ہے، جس میں عورت کی کوئی شرکت نہیں، پھر اس مرد کی کوئی بیوی ہوتی ہے، اور بیوی ایک اعتبار سے اپنے شوہر سے پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ اسے بیوی اور ماں ہونے کی جملہ صفات شوہر کی بدولت حاصل ہیں، یہ جسمانی تخلیق کے صرف مرحلۂ اوّل کی مثال ہے، اب اسی طرح روحانی تخلیق و تکمیل کے بارے میں سن لیجئے، کہ شروع شروع میں ناطق کی تنزیل سے مومنین کا ابتدائی وجود بن جاتا ہے، وہ اس وقت گویا پشتِ پدر میں ذرّیت ہوتے ہیں، مگر اولاد نہیں کہلا سکتے، کیونکہ وہ ہنوز بطنِ مادر میں منتقل نہیں ہوئے ہیں، پس بحکمِ: ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا (۳۹: ۰۶، پھر اسی سے اس کا جوڑا یعنی بیوی بنایا) ناطق کی روحانیّت و تعلیمات سے مرتبۂ اساس مکمل ہوگیا، اور مومنین ان کی تحویل میں آگئے تا کہ اساس کی تاویل سے ان کی آخری ہستی کی تکمیل ہو، یہ کامل سپردگی ایسی ہے، جیسے تخمِ انسانی جسمانی تخلیق و تکمیل کی غرض سے رحمِ مادر میں داخل ہو جاتا ہے، اس بیان سے یہ حقیقت کسی شک کے

 

۳۱

 

بغیر روشن ہوگئی کہ تخلیقِ انسانی، خواہ جسمانی ہو یا روحانی، دو مرحلوں میں مکمل ہوجاتی ہے، مرحلۂ اوّل باپ ہے، اور مرحلۂ دوم ماں، تاہم یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اس سلسلے میں ماں کا کردار بڑی اہمیّت کا حامل ہے۔

 

۲۱۔ سورۂ حج (۲۲: ۰۵) میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جنین (بچۂ بطنِ مادر) کو اللہ جتنا چاہے نام بردہ وقت تک ٹھہرائے رکھتا ہے۔ اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ بہت سے مومنین روحانی اعتبار سے ہنوز شکمِ مادر میں پڑے ہیں، یعنی ابھی ان کا روحانی جنم نہیں ہوا، آپ اس صورتِ حال کو خدا کی مرضی مانیں یا انسان کی غفلت و سستی بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ پر ہے، مگر ہاں، وہ ہمیشہ کے لئے ماں کے پیٹ میں نہیں رہ سکتے، لہٰذا کسی نہ کسی دن وہ روحانی طور پر پیدا ہو جائیں گے۔

 

۲۲۔ قرآنِ کریم اپنی متعدد آیاتِ مقدّسہ میں اس قانونِ فطرت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ ذاتِ خدا کے سوا جو کچھ بھی ہے، وہ جفت اور جوڑے کے بغیر نہیں، پھر اسلام میں، جو دینِ فطرت ہے، یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ دینی اور روحانی باپ ہو، اور ماں نہ ہو، حالانکہ قرآنِ حکیم میں جتنی مثالیں ہیں، وہ سب کی سب دین کی حقیقتِ حال سمجھانے کی خاطر ہیں، اس سے یہ حقیقت بدرجۂ انتہا یقینی ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیہما ہمارے روحانی ماں باپ ہیں۔

 

۲۳۔ عالمِ شخصی میں عقل و جان (روح) آدم و حوّا کی مثال ہیں، یہاں حوّا سے حضرت آدمؑ کا باب یعنی حجّتِ اعظم مراد ہے، نیز عقل و روح ناطق اور اساس کی دلیل ہیں، چنانچہ اہلِ دانش جانتے ہیں کہ عقل سے روحِ مومن کی نشاۃِ ثانیہ ہو جاتی ہے، جس طرح حضرتِ آدمؑ کے علم سے آپ کا اساس (حجّتِ اعظم = باب) علمی طور پر پیدا ہوا ، اور جیسے آنحضرتؐ کی نورانی تعلیم سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اساس (علیؑ) کا مرتبہ مکمل ہوا، پس ان تینوں مقامات کی حقیقتیں قانونِ

 

۳۲

 

فطرت کے مطابق ایک جیسی ہیں۔

 

خانۂ حکمت ، ادارۂ عارف

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۸ جولائی ۱۹۸۵ء

نوٹ: تمام کتابوں اور مقالوں کے سلسلے میں ہر حوالۂ آیت کو قرآن میں دیکھئے، تا کہ مطالعہ زیادہ سے زیادہ مفید ہو سکے۔

 

۳۳

 

عالمِ خیال

 

۱۔ عالم کہتے ہیں دنیا، جہان، حالت کو، اور خیال کے معنی ہیں گمان، وہم، دل و دماغ میں کسی بیرونی چیز کی صورت، خواہ یہ صورت بیداری میں ہو یا خواب میں، کوئی غیر مادّی شکل، کسی شیٔ کا عکس جو آئینے میں نظر آتا ہے، ڈراوا، یعنی وہ چیز جس کو کھیت میں نصب کر دیتے ہیں، تا کہ چوپائے اور پرندے ڈر جائیں۔

 

۲۔ اس عالمِ ظاہر یا عالمِ کبیر میں جتنے انسان رہتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کا ایک عالمِ صغیر ہے، آپ اس کو عالمِ شخصی (ذاتی دنیا) بھی کہہ سکتے ہیں، اس

میں چار عوالم (دنیائیں) شامل ہیں، بیداری، خیال، خواب، اور روحانیّت، چنانچہ آج کا موضوع “عالمِ خیال” ہے، جہاں جہاں خیال کے بارے میں جزوی طور پر لکھا گیا ہے، وہاں آپ کو بخوبی اندازہ ہوا ہوگا کہ خیال کے باب میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے، کیونکہ شروع شروع میں انسان کے پاس کوئی ایسا نمونہ یا ایسی مثال موجود نہیں ہوتی، کہ وہ اس کی مدد سے روحانیّت اور آخرت کی کچھ حالت و کیفیّت کو سمجھ سکے، مگر اس مقصد کے لئے دو بہترین عملی مثالیں ہیں، جو خیال اور خواب ہیں، خیال اور خواب ایک ہی دریا کے دو نام ہیں، مگر اس میں ضرور یہ نمایان فرق ہے، کہ خیال میں آپ کو اختیار حاصل ہے، لہٰذا آپ اپنی مرضی اور مہارت کے مطابق تیراکی اور غوطہ زنی کا لطف اٹھا سکتے ہیں، اگر یہ غواصی موتی نکالنے کی غرض سے

 

۳۴

 

ہے، تو اور بھی قابلِ تعریف ہے، اس کے برعکس آدمی بحالتِ خواب یا تو اس پانی میں ڈوب جاتا ہے یا دریا کا بہاؤ اسے کہیں دور لے جاتا ہے، کیونکہ وہ مجبور ہے، آپ اس میں خوب غور و فکر کریں۔

 

۳۔ مشرق و مغرب کے بہت سے علمی حلقوں میں طرح طرح کے سوالات اور خدا کے فضل سے ان کے تسلی بخش جوابات ہوگئے، ان میں ایک سوال ایسا بھی تھا، جو ہر جگہ اور ہر بار ایک جیسا اور مشترک رہتا تھا، وہ سوال تھا کہ: “ذکر و عبادت کے دوران پیش آنے والے برے خیالات سے کس طرح چھٹکارا حاصل ہو سکتا ہے؟” اس کا تفصیلی جواب تو کتاب “ذکرِ الٰہی” کی صورت میں دیا گیا ہے، تاہم عالمِ خیال کی زبردست اہمیّت اپنی جگہ پر ہے، کیونکہ جب علم و عمل میں کسی دیندار کی واجبی ترقی ہوتی ہے، تو اس وقت “عالمِ خیال” رفتہ رفتہ عالمِ  روحانیّت بن جاتا ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ اسی کے ساتھ ساتھ خواب کی کیفیّت بھی ایک روحانی حالت ہو جاتی ہے۔

 

۴۔ شیطان جو مومن کا دشمن ہے، وہ عالمِ شخصی کے مضبوط قلعے میں از خود داخل نہیں ہو سکتا، مگر اس کا ایک جاسوس اس حصار کے اندر موجود ہے، جو بعض دفعہ دشمن کو اندر لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، ورنہ گویا ایک قسم کی وائرلیس (WIRELESS) پر اس سے رابطہ رکھتے ہوئے نمائندگی کرتا ہے، شیطان کے اس جاسوسِ جہان سوز اور خطرناک نمائندے کو تو سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ نفسِ امّارہ ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم نے اس کو اور اس کے وسوسوں کو بے نقاب کر دیا ہے (۵۰: ۱۶) لیکن ایک معمولی کوشش سے اس کو پامال نہیں کیا جا سکتا، یا شکست نہیں دی جا سکتی، جب تک کہ اس کے خلاف “جہادِ اکبر” نہ کیا جائے، تا کہ اس کی شکست خوردگی پر برے خیالات کاخاتمہ ہو، اور پھر روشن خیالی کا

 

۳۵

 

دور دورہ ہو جائے۔

 

۵۔ قلم اور لوح دو انتہائی عظیم فرشتے ہیں، ان کے بعد تین بڑے فرشتوں کے نام یہ ہیں: جدّ (عظمت و بزرگی = اسرافیل)، فتح (کشائش= میکائیل)، اور خیال (یعنی نورِ خیال = جبرائیل) اگرچہ فرشتہ اپنے مختلف ظہورات میں محدود و مرکوز بھی ہوسکتا ہے، اور ظاہراً و باطناً مجسّم و مشکّل بھی ہو سکتا ہے، لیکن وہ دراصل ایک بسیط جوہر ہے، جیسے جبرائیل کے اس نام سے ظاہر ہے کہ وہ “نورِ خیال” ہے، یعنی وہ روشنی جو عالمِ انسانیّت کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہے، مگر انسان کی نافرمانی اس کا پردہ ہے، اور اگر یہ تصوّر نہ ہو، تو ایک اندھیرا گھپ خیال جبرائیل کا اسمِ صفت نہیں ہوسکتا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر دنیا بھر کے لوگ ایک ساتھ مشاہدۂ نورِ خیال کے قابل ہوسکتے، تو خدا کے حکم سے جبرائیل بآسانی سب کے دل و دماغ کو منوّر کر دیتا، بغیر اس کے کہ وہ کہیں سے آئے اور کہیں جائے، جبکہ وہ بسیط اور ہمہ جا ہے۔

 

۶۔ قرآنِ پاک دعوتِ حق کے سلسلے میں جہاں لوگوں کو توحید کی تعلیم دیتا ہے، وہاں وہ بڑی سختی سے ہرگونہ بت پرستی کی مذمت بھی کرتا ہے، چونکہ اصنام باعتبارِ ظاہر و باطن دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، لہٰذا صنم (بت) پرست بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، ان میں ایک گروہ وہ ہے، جس کا ظاہر میں کوئی منظم مندر (بت خانہ) ہوتا ہے، اور دوسرا وہ فرقہ ہوتا ہے، جس کے خیالات ہی میں جگہ جگہ بت پائے جاتے ہیں، یہ واقعہ شعوری طور پر بھی ہو سکتا ہے، اور غیر شعوری طور پر بھی، جیسا کہ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۳۸) میں ارشاد ہوا ہے، جس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ: جب اللہ نے بنی اسرائیل کے اہلِ روحانیّت کو عالمِ خیال میں ذرّاتِ روح کے طوفانی دریا سے پار اتار دیا، تو انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو خیالی اصنام کی پرستش میں لگے ہوئے تھے، وہ یہ سمجھنے لگے کہ شاید ہمیں اسی روحانی منزل میں ٹھہرنا ہے، مگر حضرت موسیٰ علیہ السّلام

 

۳۶

 

نے ان کو آگاہ کیا کہ یہ خیالی اور باطنی بت پرستی ہے۔

 

۷۔ قرآنِ حکیم سرچشمۂ حکمت اور قانونِ جمعیّت ہے، چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی ہر ایک آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور یہ حقیقت سردارِ رسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ گرامی ہی سے ثابت ہے، پس یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں بت پرستی کی مذمت کی گئی ہے، اس میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کے بتوں کی مذمت ہے، اس کی ایک قابلِ فہم مثال سورۂ انبیاء (۲۱: ۵۲ تا ۶۷) میں موجود ہے، جہاں اصنام کو تماثیل کہا گیا ہے، جس کی واحد تمثال ہے، جو مورت، مجسّمہ، اور تصویر کو کہتے ہیں، اس کا تاویلی واقعہ یوں ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی دعوتِ توحید سے پہلے لوگوں کی روحانی ترقی صرف اتنی ہو سکی تھی کہ ان کے خیال کی روشنی میں طرح طرح کی تصویریں نظر آتی تھیں، اور روحانیّت سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی اس پیش رفت سے مطمئن تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے جنابِ ابراہیم کو بمرتبۂ موحدِ اعظم روحانی انقلاب لا کر لوگوں کو وحدانیّت سے قریب ترکر دینے کے لئے بھیجا تھا، لہٰذا آپ نے عالمِ خیال کے سب سے بڑے صنم کو چھوڑ کر باقی تمام اصنام کو توڑ پھوڑ کے رکھا، اور اس عمل میں بہت سی حکمتیں جمع تھیں۔

 

۸۔ آپ کو اس بات سے شاید بڑی حیرت ہوئی ہوگی کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے لوگوں کے دل و دماغ میں یہ کیسے تصرّف اور معجزہ کیا کہ آپ نے ظاہراً و باطناً بڑے بت کے ماسوا بتوں کو توڑ دیا، لیکن آپ کی یہ حیرت اس وقت ختم ہو جائے گی، جبکہ آپ قرآنِ حکیم کی روشنی میں فرشتہ، جنّ، شیطان، وغیرہ کے ان عجیب و غریب کاموں کے بارے میں خوب سوچ لیں گے، جو انسان کے باطن میں انجام دیتے ہیں، حالانکہ یہ سب انبیاء علیہم السّلام کے خادم ہیں، چنانچہ

 

۳۷

 

اس امرِ واقعی کی چند قرآنی مثالیں درجِ ذیل ہیں:

 

۹۔ مثالِ اوّل: فرشتے: تمام مخلوقاتِ جسمانی و روحانی پر خلیفۂ خدا (یعنی ہر پیغمبر اور ہر امام) کی فوقیّت و برتری اور کرامت و فضیلت کا روشن ثبوت اس طرح ہے:

الف: انسانِ کامل کی روحانی اور عقلی تخلیق و تکمیل اللہ احسن الخالقین (۲۳: ۱۴) کے دونوں ہاتھوں سے انجام پاتی ہے (۳۸: ۷۵) اور یہ سب سے بڑی فضیلت کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں۔

ب: سب فرشتے بصورتِ ذرّات سجدہ کرتے ہوئے خلیفۂ خدا کی پاکیزہ شخصیّت میں داخل ہو گئے، جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل نے اپنے اپنے لشکر کے ساتھ متعلقہ خدمات انجام دیں۔

ج: جس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر سجدۂ آدم سے انکار کیا، وہ شیطانِ رجیم کہلایا۔

 

۱۰۔ مثالِ دوم: جنّات: سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۲) پیشِ نظر ہو، عالمِ خیال (روحانیّت) میں حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کی روحانی سلطنت تھی، اور اس میں خدا تعالیٰ کے حکم سے جنّات گوناگون خدمات بجا لاتے تھے، جیسے غور و فکر کے سمندر میں غوطہ لگا کر علم و حکمت کے موتیوں کو نکالنا، سورۂ نمل (۲۷: ۳۹) میں دیکھئے، کہ حضرت سلیمان کے حکم کرنے پر ایک زبردست طاقتور جنّ کس طرح ملکۂ سبا کے تخت یعنی لطیف شخصیّت کو حاضر کر دیتا ہے، یہ تخت دو دفعہ لایا گیا تھا، سورۂ سبا (۳۴: ۱۲ تا ۱۳) کے ارشاد کے مطابق جنّوں کا ایک بڑا اہم کام یہ بھی تھا، کہ وہ بادشاہ (سلیمان) کے نظارۂ عالمِ خیال کے لئے تماثیل (تصویریں، ۳۴: ۱۳) بنا دیا کریں، علاوہ برین آپ کے لئے اور بھی بہت سی چیزیں بنائی جاتی تھیں، اس بیان سے

 

۳۸

 

یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ عالمِ خیال دراصل ذاتی دنیا (عالمِ شخصی) کی روحانی سلطنت کا نام ہے، جس میں قانونِ قدرت کے مطابق خیر و شر کی تمام طاقتیں عمل پیرا ہیں۔

 

۱۱۔ مثالِ سوم: شیاطین: آپ ہمیشہ کے لئے یہ کلیدی حکمت یاد رکھیں، کہ خدائے علیم و حکیم نے خیر کو مستقل اور شر کو عارضی بنا کر دونوں کے مقابلے میں پلۂ خیر کو بھاری رکھا ہے، ورنہ حق و باطل کے درمیان کبھی کوئی فیصلہ ہی نہ ہوسکتا، ہاں یہ سچ ہے، کیونکہ باطل ختم ہو جانے والا ہے (۲۱: ۱۸، ۱۷: ۸۱)، شیطان کو ایک مہلت دی گئی ہے (۰۷: ۱۵، ۱۵: ۳۷، ۳۸: ۸۰) حزب الشّیطان پر حزب اللہ غالب آنے والا ہے (۵۸: ۱۹ تا ۲۱) پھر اس کی منطق یقیناً یہی بنتی ہے کہ اللہ جلّ شانہ نے مضل (شیطان) کے مقابلے میں ہادیٔ برحق کو زیادہ قدرت دے رکھی ہے، اگر آپ کے نزدیک یہ بات بالکل درست اور حقیقت ہے تو پھر قرآنی حکمت کی روشنی میں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کی غرض سے کیا کیا کر سکتا ہے، اور ایسی حکمت آگین آیات میں جو “تقابلی اشارے” پوشیدہ ہیں، وہ ہادیٔ برحق کے بارے میں کیا کہتے ہیں، مثال کے طور پر: شیطان اور اس کے ساتھی تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے (۰۷: ۲۷) اس میں بڑا حکیمانہ اشارہ بھی ہے اور تمام لوگوں کی آزمائش بھی، کہ اگر مضل اسی طرح دیکھتا ہے تو کیا نورِ ہدایت نہیں دیکھ سکتا؟ اگر باطل کی صوت یعنی شیطان کی آواز ظاہر و باطن میں سنائی دیتی ہے (۱۷: ۶۴) تو اس رمز کا مطلب یہ ہوا کہ حق (یعنی ہادی) کی آواز بھی قلوبِ مومنین میں گونج سکتی ہے، قرآنِ پاک فرماتا ہے کہ شیطان لباسِ لطیف میں کسی کے پاس حاضر بھی ہو سکتا ہے (۲۳: ۹۸) یہ بھی ہم سب سے ایک بہت بڑا عرفانی یا اعتقادی امتحان ہے ، گویا پوچھا جاتا ہے: “اس بارے میں تمہارا کیا خیال

 

۳۹

 

ہے؟ آیا امامِ عالی مقام کے پاس کوئی پیراہنِ یوسفی (قرطۂ سماوی) نہیں ہے؟” یقیناً امامِ اقدس و اطہر صلوات اللہ علیہ کے پاس سب کچھ ہے۔

 

۱۲۔ مثالِ چہارم: کائنات: قرآنِ حکیم کی متعدد آیات میں فرمایا گیا ہے کہ خدائے قادرِ مطلق نے آسمانوں اور زمین کی جملہ اشیاء تمہارے لئے مسخر کر دی ہیں، جیسے سورۂ جاثیہ (۴۵: ۱۳) میں ارشاد ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کا یہ احسانِ عظیم کس طرح ہے یا ہوگا، اس کو سمجھنے کے لئے حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی مثال کو دیکھنا ضروری ہے، چنانچہ آپ اس مقالے کی مدد سے قرآنِ پاک میں دیکھ سکتے ہیں کہ شیاطین دنیا میں شر پھیلانے کی غرض سے کیا کچھ نہیں کرتے، لیکن خیر کی طاقت ایسی زبردست ہے کہ وہ آخرکار انسانِ کامل کے خدمت گزار بن جاتے ہیں، جیسا کہ قصّۂ سلیمان میں ہے (۲۱: ۸۲، ۳۸: ۳۷) کہ شیاطینِ انسی و جنّی دونوں حضرت سلیمان کے کاموں میں لگے ہوئے تھے، پس عالمِ خیال تمام کائنات و موجودات کی اس روحانی صورت کا نام ہے، جو عالمِ شخصی میں نظر آتی ہے، جس میں سلیمانِ زمان کی سلطنتِ روحانی قائم ہو جاتی ہے، اب ان مثالوں کی روشنی میں آپ یقین کریں گے کہ زمانے کا معلمِ توحید (امامِ وقت) جو خدا و رسول کی طرف سے مقرر ہے، وہ ظاہری اور باطنی بتوں کو توڑ سکتا ہے، جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے اپنے وقت میں توڑا تھا، کیونکہ توحید اور خدا شناسی دین کی جان و جوہر ہے، اور اگر اس کے بغیر دین ہے تو وہ شرک ہے، و ما توفیقی الا باللہ۔

 

خانۂ حکمت، ادارۂ عارف

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۷ جولائی ۱۹۸۵ء

 

۴۰

 

عبادت کا آفاق گیر تصوّر

 

۱۔ عبد کہتے ہیں انسان، غلام، خادم کو، اور عبادت کے معنی ہیں اللہ کو ایک جاننا، پرستش کرنا، غلامی کرنا، خدمت کرنا، ذلیل ہونا، خشوع و خضوع کرنا، لفظِ عبد اور عبادت کی یہ لغوی وضاحت مستند کتبِ لغت کے مطابق ہے، اور اس تجزیہ و تحلیل میں سب سے پہلے جو کہا گیا ہے: “اللہ کو ایک جاننا” اس میں بڑی اہمیّت کے ساتھ خدا شناسی اور معرفت کا واضح اشارہ موجود ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کی توحید کا زبانی و ظاہری اقرار و عقیدہ اگرچہ آسان ہے، لیکن اس کی قلبی اور باطنی تصدیق بڑی دشوار چیز ہے، بلکہ ایک اعتبار سے یہ غیر ممکن ہے، لہٰذا پروردگارِ عالم نے وسیلۂ معرفت کو پیدا کیا، تا کہ اس کی مدد سے وحدانیّت کی شناخت اور قلبی و روحانی کیفیّت میں تصدیق ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں معبودِ برحق کی عبادت کا ذکر موجود ہے، وہاں لازمی طور پر خدا شناسی کا بھی اشارہ فرمایا گیا ہے، کیونکہ خدائے واحد کی مقبول عبادت کا نمونہ صرف انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ذاتِ عالی صفات میں پایا جاتا ہے، چنانچہ پیغمبرانہ عبادت اور اولیائی عبادت کی یہ شان ہے کہ وہ درجۂ اوّل کی عارفانہ عبادت قرار پاتی ہے، تاکہ مسلمین و مومنین ان ہادیانِ راہِ راست کے نقشِ قدم پر چل کر کامیاب ہو جائیں۔

 

۲۔ جب ہم عبادت کے دائرۂ خاص کی حدود سے گزر کر اس کی عمومیت پر

 

۴۱

 

نظر ڈالتے ہیں تو کائنات و موجودات کی ہر چیز اور ہر مخلوق ایک غیر شعوری عبادت یا اس کے کسی جزو سے وابستہ نظر آتی ہے، کیونکہ آسمان و زمین کی کوئی شیٔ خدا کی اس غلامی کے بغیر، جس کے لئے یہ پیدا کی گئی ہے، اپنے وجود کو قائم و برقرار نہیں رکھ سکتی، اسی طرح عبادت یعنی اللہ تعالیٰ کی غلامی کا تصوّر عالمگیر ہو جاتا ہے۔

 

۳۔ قرآنِ حکیم کا پاک و پاکیزہ ارشاد ہے: اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ کہ آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے (۵۷: ۰۱، ۵۹: ۰۱، ۶۱: ۰۱) یعنی اس وسیع و عریض کائنات کی ہر چیز اور ہر مخلوق زبانِ قال سے یا زبانِ حال سے خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہتی ہے، اور اس سلسلے میں یہ ارشاد بھی ہے: اور کوئی چیز ایسی نہیں جو حمد کے ساتھ اس کی پاکی (قالاً یا حالاً) بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان کی پاکی بیان کرنے کو سمجھتے نہیں ہو (۱۷: ۴۴) پس یہ حکمِ خداوند ایک ایسا کلّیہ ہے کہ اس سے کوئی چیز مستثنا نہیں ہوسکتی، لہٰذا کائنات و مخلوقات کی کسی چیز کی طرف انگلی اٹھا کر نہیں کہا جا سکتا کہ فلان شیٔ یا مخلوق خدا کی تسبیح نہیں کرتی ہے۔

 

۴۔ سورۂ نور کے رکوعِ ششم (۲۴: ۴۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: کیا تم کو معلوم نہیں ہوا کہ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں سب جو کچھ کہ آسمانوں میں اور زمین میں ہیں اور پرندے جو پر پھیلائے ہوئے (اڑتے پھرتے) ہیں سب کو اپنی اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے (۲۴: ۴۱) آپ چاہیں تو اپنے طور پر بھی غور کرسکتے ہیں کہ جملہ مخلوقات کی یہ نماز و تسبیح، جس میں آسمان و زمین کی ہر شیٔ شامل ہے، خاص نہیں بلکہ عام ہے، کیونکہ زبانِ قال سے نہیں، اور نہ شعوری طور پر ہے، یہ تو زبانِ حال کی غیر شعوری طاعت ہے، مثال کے طور پر سورج، چاند، ستارے، جمادات، نباتات، اور حیوانات جس خدمت و بندگی کو کرتے رہتے ہیں، وہ ان کا فطری

 

۴۲

 

فعل ہے، جو دنیائے ظاہر کے نظام کو قائم رکھنے کے لئے بہت ضروری ہے، مگر چونکہ اس میں شعور، اختیار، اور معرفت نہیں، اس لئے ان کو کوئی ثواب و صلہ نہیں، اور نہ ان پر کوئی عتاب و عذاب ہے۔

 

۵۔ آسمانوں اور زمین کی ساری مخلوقات جس طرح اللہ تعالیٰ کی تسبیح یعنی پاکی بیان کرتی ہیں، وہ باعتبارِ غیر ذوی العقول (ان موجودات کے پیشِ نظر، جن کی عقل نہیں) تسخیری تسبیح ہے، عقل والی مخلوق کی طرح ارادہ و اختیار سے نہیں، لہٰذا وہ زبانِ حال سے کہتی ہیں کہ خدا اس بات سے پاک و منزہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی طرح ہو، جیسے اس قرآنی تعلیم میں یہ پُرحکمت اشارہ ہے کہ: “پرندے اپنی پرواز کے فعل سے اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں (۲۴: ۴۱)۔” یعنی وہ اپنے اس عمل کی زبانی یہ کہہ رہے کہ اللہ جلّ شانہ اڑنے اور آنے جانے سے پاک و برتر ہے، اور اسی طرح ہر مخلوق اپنی صفت سے خالقِ یکتا کو پاک و برتر قرار دیتی ہے، اور یہ صرف زبانِ حال کی تسبیح ہے۔

 

۶۔ ارشاد ہے: كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَ تَسْبِیْحَهٗؕ (۲۴: ۴۱) سب کو اپنی اپنی نماز اور تسبیح معلوم ہے۔ تسبیح کے بارے میں اوپر عرض کی گئی، اب صلاۃ /صلوٰۃ کے باب میں گزارش یہ ہے کہ اس کے کئی معنوں میں سے یہاں پیروی مراد ہے، یعنی کسی کے پیچھے چلنا، اس کی مثال یہ ہے کہ عربی میں “سابق” اس گھوڑے کو کہا جاتا ہے جو دوڑ میں آگے ہوتا ہے، اور “مصل” اس گھوڑے کو کہتے ہیں، جو بالکل سابق کے پیچھے ہوتا ہے چنانچہ یہ معنی درست ہیں کہ اس کائنات کی ہر چیز قانونِ قدرت اور نظامِ فطرت کی پیروی کرتی ہے، اور یہی اس کی صلاۃ (نماز) ہے۔

 

۷۔ اب اس عالمگیر عبادت کے سلسلے میں، جس سے ہرہر مخلوق فطری طور

 

۴۳

 

پر وابستہ ہے، سجود کا ذکر کرنا ہے، کہ سجود کے اصل معنی اطاعت و فرمانبرداری کے ہیں، چنانچہ سر جھکانا، عاجزی، فروتنی، اور خاکساری کرنا یہ سب مطیع و فرمانبردار ہونے کی علامتیں ہیں، یہاں قصّۂ آدم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السّلام کو کس طرح سجدہ کیا؟ آیا ملائکہ روح ہوتے ہیں یا جسم؟ اگر آپ ملائک کو روحانی مانتے ہیں، تو بتائیے کہ انہوں نے کس طریقے سے جسمانیوں کی طرح سجدہ کیا؟ پس یاد رہے کہ وہ فرشتے، جنہوں نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا ذرّاتِ لطیف کی صورت میں تھے، اور ان کے سجدہ کرنے کی کیفیّت یہ تھی کہ وہ خلیفۂ خدا کی پاک ہستی میں اطاعت (فرمانبرداری) کے لئے جا گرتے تھے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) اس کی تنزیل یہ ہے: سو میں جب اس کو پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح ڈال دوں تو تم سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑنا۔ اور اس کی تاویلی حکمت یہ ہے: پس میں جب اس کو روحانی طور پر مکمل کر چکوں اور اس میں اپنا نور رکھ دوں تو تم سب اس کے عالمِ شخصی میں اطاعت کرتے ہوئے گر جانا، وقوع (گرنا) سے قعوا (گرو) کا صیغۂ امر ہے، اور اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

۸۔ سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) سے ظاہر ہے کہ مخلوقاتِ سماوی و ارضی سب کی سب خوشی سے اور مجبوری سے خدا کے لئے سجدہ کرتی ہیں، اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں، اس ربّانی تعلیم سے معلوم ہوا کہ سجدہ جو دراصل اطاعت ہے، وہ دو قسم کی ہوتی ہے، ایک خوشی سے ہے، اور دوسری مجبوری سے، خوشی کی اطاعت فرشتے اور مومنین کرتے ہیں، جس میں ارادہ، اختیار اور عرفان ہوتا ہے، اور ان کے سوا جو بھی ہیں، وہ مجبوری کی اطاعت کر رہے ہیں، جس کی مثال یہاں خود

 

۴۴

 

آدمی کے سائے سے دی گئی ہے، کہ جہاں وہ مجبوراً سجدہ یا اطاعت کر رہا ہے، وہاں اس کا اپنا کوئی مستقل وجود نہیں، وہ قیام و بقا کے لئے دوسروں کا محتاج ہے، صبح اس کا عارضی وجود بن جاتا ہے، اور شام کے وقت مٹ جاتا ہے، چونکہ اس کا یہ سجدہ مجبوری سے ہے، لہٰذا اس سے سائے کو کوئی فائدہ نہیں۔

 

۹۔ سورۂ نحل (۱۶: ۴۸ تا ۴۹) میں دیکھئے کہ ہر مخلوق کے سائے ہوا کرتے ہیں، اور وہ کس طرح ذلت کے ساتھ سجودِ تسخیری کی مثال پیش کرتے رہتے ہیں، کہ سایہ میں کوئی ذاتی حرکت نہیں، کیونکہ اس میں جان، عقل، ارادہ، اور اختیار نہیں، جس کی وجہ سے وہ کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف گرتا پڑتا رہتا ہے، اس کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے، جن کو قرآنِ حکیم نے: “اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍۚ (۱۶: ۲۱، مردے ہیں زندہ نہیں)۔” کہا ہے، آسمان زمین کی تمام چیزیں اللہ کے لئے سجدۂ اطاعت کرتی ہیں، مگر ان میں جو بے جان ہیں، وہ تو سائے کی طرح ہیں ہی، علاوہ برین ایسے لوگ بھی سایوں میں شمار ہوتے ہیں، جو روح الایمان سے خالی ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم نے سجدہ کے موضوع میں سایہ کے تسخیری سجود کی طرف توجّہ دلائی ہے، اس ارشاد میں فرشتوں کے سجود کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے، کہ ان کا سجدۂ اطاعت عاجزی اور خوفِ خدا سے معمور و پُرنور ہے۔

 

۱۰۔ جب ہم اس سلسلے میں سورۂ حج (۲۲: ۱۸) میں دیکھتے ہیں تو اس موضوع پر اور زیادہ روشنی پڑتی ہے، اس ارشاد کا ترجمہ یہ ہے: کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان، اور بہت سے ایسے ہیں جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں (۲۲: ۱۸) اس بابرکت اور پُرحکمت آسمانی تعلیم میں پانچ درجات کی مخلوقات کے سجدہ کرنے کا ذکر فرمایا گیا ہے:

 

۴۵

 

جمادات، نباتات، حیوانات، انسان، اور فرشتے، ان میں سے کسی کو آزمانا نہیں تھا، مگر صرف انسان ہی سے امتحان لینا مقصود تھا، چنانچہ انبیاء علیہم السّلام کے توسط سے لوگوں سے فرمایا گیا کہ دین کو قبول کرو، اور کسی قسم کے شرک کے بغیر یعنی خدا شناسی اور معرفت کی روشنی میں معبودِ برحق کے حضور میں سر جھکایا کرو، چنانچہ اس دعوتِ حق کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے سجدۂ اختیاری کیا، مگر ان میں سے کثیر لوگوں کی عبادت معرفت نہ ہونے کی وجہ سے مشرکانہ تھی، اس لئے وہ عذابِ الٰہی میں گرفتار ہو گئے، اسی طرح بہت تھوڑے تھے، جن کو نجات ملی۔

 

۱۱۔ حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی ذاتِ عالی صفات میں آسمان و زمین کی جملہ مخلوقات بصورتِ عالمِ ذرّ سمائی ہوئی ہوتی ہیں، جہاں صورِ اسرافیل کی گونج سے ہم آہنگ ہو کر ہر شیٔ خدا کی تسبیح کرتی رہتی ہے، اور اس حقیقت کی قرآنی مثال حضرت داؤد علیہ السّلام کا قصّہ ہے (۲۱: ۷۹، ۳۸: ۱۸) جس میں ذرّاتِ جمادات کو پہاڑ، اور نباتات، حیوانات، انسانوں، اور فرشتوں کے ذرّات کو پرندے کہا گیا ہے، قرآنِ حکیم کی ایک خصوصی تعلیم یہ بھی ہے کہ ہر چیز خدا کے حکم سے بولتی ہے (۴۱: ۲۱) خواہ وہ پتھر ہی کیوں نہ ہو، اور ایسی جگہ جہاں ہر بے جان کو جان اور ہر بے زبان کو زبان ملتی ہے، عالمِ ذرّ ہے، لیکن کسی کو یہ خیال نہ ہو کہ اس دنیا کی ہر چیز کا عالمِ ذرّ میں ہونا ہی اس کی نجات ہے، یہ بات درست نہیں، اس واقعہ کو سمجھانے کے لئے ایک عمدہ مثال پیش کی جاتی ہے، وہ یہ کہ ایک عظیم بادشاہ باغ و چمن وغیرہ کے دلکش مناظر کی فلم اتار کر اپنے محل میں لے جاتا ہے، اب سوال یہ کرنا ہے کہ آیا اسی کے ساتھ مذکورہ مادّی چیزیں اپنی جگہ سے ہٹ کر بادشاہ کے محل میں داخل ہوسکتی ہیں؟ درختوں، پھولوں، اور پرندوں کو اس عمل سے کیا لذّت و شادمانی حاصل ہو سکتی ہے کہ ان کی زندہ تصویریں شاہی محل میں ہیں؟

 

۴۶

 

ہاں اگر ان میں عقل و معرفت ہوتی تو یقیناً سب کچھ ہوتا۔

 

۱۲۔ عالمِ ذرّ میں ساری مخلوقات کی تسبیحات و عبادات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے، کیونکہ وہ عالمِ وحدت سے قریب تر ہے، لیکن عالمِ کثرت یعنی دنیائے ظاہر کا معاملہ اس کے برعکس ہے، کیونکہ یہاں عبادت کے مدارج و مراحل ہیں، اور مخلوقات درجات پر ہیں، چنانچہ سب سے بلند ترین عبادت انبیاء و أئمّہ صلوات اللہ علیہم کی ہوتی ہے، کہ ان کی بندگی میں ارواح و ملائکہ ہم نوا ہوتے ہیں، ان حضرات کے بعد مومنین و مسلمین کی بندگی کے کئی درجات ہیں، پھر اہلِ کتاب کی عبادت ہے، پھر دوسرے ادیان والوں کی عبادت ہے، پھر ان لوگوں کی عبادت ہے، جن کا کوئی دین نہیں، پھر جانوروں کی عبادت ہے، پھر نباتات یعنی درختوں وغیرہ کی عبادت ہے، اور سب سے نیچے جمادات کی عبادت ہے، یہ ہے “عبادت کا آفاق گیر تصور” جس کی وضاحت قرآنِ پاک کی روشنی میں کی گئی۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادمِ مسئول

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۵ جولائی ۱۹۸۵ء

 

۴۷

 

اسلام کا باطنی پہلو

 

۱۔ اسلام جو دینِ فطرت اور دینِ قیم (قائم، ۳۰: ۳۰) ہے، وہ حضرت محمد مصطفیٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دین ہے، جو سنت و قانون کے معنی میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا دین ہے، اسی کا نام صراطِ مستقیم یعنی راہِ راست ہے، اور اسی کی طرف جملہ انبیاء علیہم السّلام نے لوگوں کو بلایا، اور اس مقدّس و پُرحکمت دعوت کا مرکز سرورِ انبیاء صلعم کا وجودِ مبارک تھا۔

 

۲۔ سورۂ مومنون (۲۳) کی آیت ۵۱ تا ۵۳ (۲۳: ۵۱ تا ۵۳) کا ذرا غور سے مطالعہ کیجئے، تا کہ یہ حقیقت آپ پر روشن ہو کہ قرآنِ پاک کی اس حکیمانہ تعلیم میں کس طرح رفعِ زمان کرکے (یعنی زمانے کو اٹھا کر) تمام پیغمبروں کو یکجا کیا گیا ہے، جیسے وہ سب حضرات ہم عصر و ہم زمانہ ہوں، پھر ان سب سے ایک ساتھ فرمایا جاتا ہے کہ: اے پیغمبرو تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو (۲۳: ۵۱) چنانچہ جاننا چاہئے کہ اس ربّانی ارشاد میں “طیبٰت” کا بابرکت لفظ آیا ہے، جس کے ظاہری معنی ہیں پاکیزہ چیزیں، اور باطنی معنی ہیں پاکیزہ علم، یعنی وہ علم جو براہِ راست ملتا رہتا ہے، جو ہمیشہ عقل و جان کی غذا کا کام کرتا ہے، کیونکہ جب مقصودِ خدا عملِ صالح ہے، تو اس کا اصل سہارا روحانی علم سے ملتا ہے، نہ کہ عمدہ عمدہ چیزیں کھانے سے، لہٰذا پروردگارِ عزت نے ہر زمانے میں نورِ علم کے سرچشمے کو اس دنیا میں جاری کیا، اور تمام امتوں

 

۴۸

 

کو ایک بڑی امت قرار دیا (۲۳: ۵۲) جس میں مومنینِ اوّلین و آخرین آپس میں بھائی بھائی ہیں، اور جملہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اس دینی اور روحانی وحدت و سالمیّت میں نفسِ واحدہ یعنی ایک شخص کی طرح ہیں۔

 

۳۔ اس بیان سے یہ مطلب واضح اور روشن ہوگیا کہ دینِ حق فی الاصل ایک ہی ہے، اور وہ اسلام ہے، جو دینِ فطرت ہے، جس پر سارے پیغمبروں نے اپنے اپنے وقت کے مطابق عمل کیا، کیونکہ یہ امر ممکن ہی نہ تھا کہ رسولوں کے لئے الگ الگ ادیان مقرر کئے جائیں، جبکہ خدائے واحد کی سنت کے مطابق ایک ہی دینِ فطرت تھا، اور حضراتِ انبیاء علیہم السّلام اسی دینِ یگانہ پر یکجا و متحد ہونے والے تھے، مگر لوگوں نے ہر بار ظہورِ حق کے بعد اختلاف کیا جس کا ذکر قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر موجود ہے۔

 

۴۔ اس حقیقت کی کوئی تردید ہی نہیں ہو سکتی، کہ اسلام کامل و مکمل دین ہے، اور یہ ظاہراً و باطناً اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے (۰۵: ۰۳) جیسا کہ خود قرآن نے خدا کی ظاہری و باطنی نعمتوں کا ذکر فرمایا (۳۱: ۲۰) چنانچہ اسماعیلی مذہب اکثر و بیشتر امور کے اعتبار سے اسلام کا باطنی پہلو ہے، اور یہ اس کی ایک بے مثال خوبی ہے کہ قرآنِ حکیم کا باطنی رخ اسماعیلیّت کی طرف ہے، یہی وجہ ہے کہ اسماعیلی مذہب ہمیشہ سے اسلامی تاویلات کا مرکز رہا ہے، یا یوں کہنا چاہئے کہ اسلام کے علومِ باطنی کا گہوارہ یہی ہے، آپ جانتے ہیں کہ یہاں یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہوگیا؟ جی ہاں یقیناً نورِ امامت کے طفیل سے دین کی یہ ساری نعمتیں میسر ہوگئیں، اور خدا و رسول یہی چاہتے تھے۔

 

۵۔ اسماعیلی مذہب اسلام کی تدریجی ہدایت اور عروج و ارتقاء کا ایک روشن ثبوت ہے، جبکہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور “دینِ فطرت” کے صحیح معنی جاننے

 

۴۹

 

کے لئے عقلِ سلیم سے کام لے کر سوچنے کی ضرورت ہے، چنانچہ اس سلسلے میں بطورِ مثال قرآنِ حکیم کے ایک اسمِ صفت کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، اور وہ ہے: کتاب مبارک (۰۶: ۹۲، ۰۶: ۱۵۵، ۳۸: ۲۹، یعنی بڑی برکت والی کتاب) اب ہمیں “برکت” کی کیفیت وحقیقت کو سمجھنے کے لئے قرآنِ حکیم ہی سے رجوع کرنا ہوگا کہ کتابِ سماوی کے حقائق و معارف کی لا انتہا برکتوں کی ظاہری اور مادّی تشبیہہ و تمثیل کہاں اور کس چیز سے دی گئی ہے، چنانچہ ہم قرآنِ پاک کی (۴۱: ۱۰) میں واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ جب خداوندِ عالم نے سیّارۂ زمین کو پیدا کیا، تو اس وقت پہاڑ نہیں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کو بنایا، اور ان میں گوناگون برکتیں رکھ دیں، اور یہ مادّی برکتیں دنیا والوں کو جس طرح ابتداء سے حاصل ہوتی آئی ہیں، اسی طرح اس کا سلسلہ رہتی دنیا تک جاری رہے گا، اب اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ قرآنِ حکیم میں علم و حکمت کی جو بے پناہ برکات سمائی گئی ہیں، ان کا ظہور زمان و مکان کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بتدریج ہوتا رہتا ہے، اور دینِ فطرت کا مطلب یہی ہے۔

 

۶۔ قرآنِ کریم کے سلسلۂ برکات کو سمجھنے کی دوسری مثال “بارش کا برسنا” ہے، اور اس کا ذکر بھی خود قرآنِ مقدس (۵۰: ۰۹) میں موجود ہے، یعنی خدائے حکیم نے بارش کے پانی کو برکتوں کا سرچشمہ قرار دیا ہے، اس کا تاویلی اشارہ یہ ہے کہ قرآن کی روح و روحانیّت ہماری عقلی رسائی سے بالاتر ہے، لہٰذا دین کا یہ درجہ ہمارا روحانی اور علمی آسمان ہے، اور ہم ہر وقت اس امر کے محتاج ہیں کہ نورِ قرآن، یعنی آفتابِ ہدایت اپنے اس آسمان سے بار بار علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی بارش برساتا رہے، تا کہ کتابِ مبارک (یعنی قرآنِ پاک) کی برکتوں کا سلسلہ جاری و ساری رہے، اور خدا تعالیٰ کی لاتعداد نعمتوں کی دلیل ہو (۱۴: ۳۴)۔

 

۵۰

 

۷۔ اللہ تعالیٰ نے تین جگہوں کو مقاماتِ غور و فکر ٹھہرایا ہے، ان میں سب سے پہلا مقام قرآنِ مجید ہے، دوسرا عالمِ کبیر (یعنی کائناتِ ظاہر) ہے، اور تیسرا عالمِ شخصی، ان تینوں میں ربّ العزّت کی آیات ہیں، اور مقصودِ خدا یہ ہے کہ انسان ہر جگہ آیات میں غور و فکر سے کام لیا کرے، اب یہاں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ اسلام میں غور و فکر یا تفکر و تدبر کی اتنی زیادہ اہمیّت کیوں ہے، جبکہ فکر یا سوچ عقل کے اس فعل کا نام ہے، جس میں وہ (عقل) کسی عقلی چیز کے باطن یا گہرائی میں جاتی ہے؟ حالانکہ قرآنِ پاک کے ظاہر میں جو احکام فرمائے گئے ہیں، وہ سب ظاہر اور واضح ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر قرآنِ حکیم اور دیگر مقامات پر غور و فکر کرنے کی تجویز کسی انسان کی طرف سے ہوتی تو اس صورت میں کسی کا سوال جائز ہوتا، لیکن جب پروردگارِ عالم آیات میں غور کرنے والوں کو اہلِ دانش قرار دیتا ہے تو پھر ایسے سوال کے لئے کوئی جواز نہیں، مگر ہاں، جاننے کی خاطر فرضی سوال ہو تو وہ اور بات ہے۔

 

۸۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (۳۸: ۲۹) یہ بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ پر اس واسطے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور تا کہ اہلِ دانش نصیحت حاصل کریں۔ آپ اس ربّانی تعلیم کو واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں ہر زمانے کے لئے برکتیں پوشیدہ ہیں، اور ان سے فیض حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر ہر آیت میں غور کیا جائے۔

 

۹۔ دنیائے قرآن پر روشنی ڈالنے کی غرض سے خدا و رسول نے ایک نور مقرر فرمایا ہے، اگر ہم اس نور کے وسیلے سے قرآن، آفاق، اور عالمِ شخصی کی آیات میں غور و فکر کرتے ہیں تو بے شک کامیابی یقینی ہے، ورنہ یہ امر محال ہے، کیونکہ

 

۵۱

 

غور و فکر کرتے کرتے کسی آیت کے گنجِ مخفی تک جا پہنچنا صرف اور صرف ہدایتِ حقہ کی روشنی میں ممکن ہے۔

 

۱۰۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مومنین کو کتاب و حکمت سکھا کر (۰۲: ۱۵۱)، صلوٰۃ دے کر (۰۹: ۱۰۳) اور ان کے حق میں خدا سے بخشش مانگ کر ان کو پاک و پاکیزہ کیا کرتے تھے (۰۴: ۶۴) آپ ہرگز یہ گمان نہیں کرسکتے ہیں کہ یہ کوئی معمولی بات ہے حالانکہ دین کی سب سے بڑی سعادت اور ایمان کا سب سے عظیم فائدہ یہی ہے کہ مومنین جیتے جی پاک ہو جائیں، لیکن اب سوچنا یہ ہے کہ آنحضرت کی رحلت کے بعد بھی یہی وسیلۂ رحمت موجود ہے یا نہیں؟ اگر کہا جائے کہ اس زمانے میں علم و حکمت کا سرچشمہ، صلوٰۃ و دعا کا منبع اور مغفرت کا وسیلہ موجود نہیں، تو یہ رحمتِ خداوندی سے مایوسی و ناامیدی کی بات ہوگی، حالانکہ قرآنِ حکیم میں مایوسی کی ممانعت کی گئی ہے (۳۹: ۵۳) اور اگر مانا جائے کہ جب اللہ کی پاک کتاب موجود ہے، تو اس کے علم و حکمت سکھانے کا وسیلہ بھی موجود ہے، تو یہ حقیقت ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا چاہئے کہ صلوٰۃ اور مغفرت کا ذریعہ بھی وہی ہے۔

 

۱۱۔ قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے: (ترجمہ:) سو ہم نے ابراہیمؑ کے خاندان کو کتاب و حکمت بھی دی ہے اور ہم نے ان کو بہت بڑی سلطنت بھی دی ہے (۰۴: ۵۴) آلِ ابراہیمؑ کا سلسلہ اس دور میں أئمّۂ آلِ محمدؐ کے ذریعے سے جاری و باقی ہے، کتاب سے قرآن مراد ہے، جو سابقہ کتبِ سماوی کا مُهَیْمِنً (۰۵: ۴۸، محافظ) ہے یعنی اس میں ان کے حقائق و معارف محفوظ ہیں، اور یہاں یہ سوچنا ضروری ہے کہ کتاب و حکمت کس معنیٰ میں خاندانِ ابراہیم کو دی گئی ہے؟ نیز کس لئے؟ حالانکہ قرآنِ پاک تمام مسلمانوں کے پاس موجود ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ خدائے حکیم امامِ زمانؑ کو آسمانی کتاب کی روح و روحانیّت اور علم و حکمت عطا فرماتا ہے،

 

۵۲

 

تاکہ کتابِ سماوی کی برکتوں کا سرچشمہ جاری رہے، اور خاندانِ ابراہیم یعنی خاندانِ محمدؐ کو قرآن سے وابستہ عظیم روحانی سلطنت دینے کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ لوگ ہمیشہ حصولِ روحانیّت اور تاویلِ قرآن کے لئے آلِ محمد کی طرف رجوع کریں۔

 

۱۲۔ تقریباً سب مسلمان اس حدیث کو مانتے ہیں کہ مولا علیؑ آنحضرتؐ کے علم و حکمت کا دروازہ تھے، لیکن اس بارے میں کچھ مزید باتوں کو جاننا ہے:

 

اوّل: وہ بے نظیر علم و حکمت جو خدا تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کو دیا قرآن میں ہے، چنانچہ اس مشہور حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ علیؑ قرآن کا دروازہ ہیں۔

دوم: حضورِ اکرمؐ نے قرآنِ حکیم کے جس تاویلی دروازے کو بحکمِ خدا کھڑا کر دیا تھا، وہ صرف اس وقت کے لئے نہیں بلکہ ایک مستقل اصول کے طور پر تھا، لہٰذا ہمارا یہ ماننا بالکل درست ہے کہ أئمّۂ طاہرین میں سے ہر امام اپنے وقت میں قرآن کا دروازہ ہوا کرتا ہے۔

سوم: کیا آنحضرتؐ ہی کے زمانے سے ایسا ہوا کہ آسمانی کتاب میں داخل ہو جانے کے لئے ایک دروازہ قائم کیا گیا؟ آیا اس سے پہلے یہ قانون نہیں تھا؟ ایسی بات نہیں، بلکہ یہ قانون ابتداء ہی سے چلا آیا ہے، جیسا کہ رسولِ کریمؐ کا ارشادِ گرامی ہے کہ: “ہر چیز کے لئے ایک دروازہ ہوا کرتا ہے۔”

چہارم: باب اور ابواب کے تحت آپ قرآنِ حکیم میں دیکھ سکتے ہیں کہ تمام چیزوں کے دروازے ہیں (۰۶: ۴۴) جیسے آسمان کے (۰۷: ۴۰) بہشت کے (۳۹: ۷۳) دوزخ کے (۳۹: ۷۱) اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان خزانوں کے دروازے ہیں، جو آسمانوں میں بھی ہیں اور زمین پر بھی (۶۳: ۰۷) پس قرآنِ پاک نہ صرف زمین پر خدا کا سب سے بڑا خزانہ ہے ، بلکہ یہ آسمان میں بھی اس کا عظیم ترین خزانہ ہے، اس سے یہ حقیقت بدرجۂ انتہا روشن ہو گئی کہ گنجِ قرآن کا زندہ دروازہ اور خزینہ دار امامِ زمانؑ صلوات اللہ علیہ ہیں۔

 

۵۳

 

۱۳۔ اسلام کا باطنی پہلو ایسا نہیں کہ اس کے وجود سے کوئی بھی دانشمند انکار کر سکے، اور اس مقالے میں شروع سے آخر تک جو کچھ لکھا گیا، وہ سب اسی عنوان کے تحت ہے، دینِ اسلام میں جتنی چیزیں بھیدوں کی طرح مخفی اور پوشیدہ ہیں، ان کا شمار نہیں ہوسکتا، مگر ان میں سے یہاں ایک انتہائی ضروری اور عظیم چیز کا ذکر کیا جاتا ہے، اور وہ “کتابِ مکنون” ہے، جس میں قرآنِ حکیم کی روح و روحانیّت پوشیدہ ہے (۵۶: ۷۷ تا ۷۹) آپ کو یاد ہوگا کہ کتابِ مکنون کے معنی ہیں مخفی کتاب، یعنی زمانے کا امام، جو دنیا میں ظاہر ہیں، مگر ان کی مرتبت و معرفت لوگوں سے پوشیدہ ہے، جن کی روحِ اعظم لوحِ محفوظ ہے، جس میں قرآنِ مجید کی زندہ روح و روحانیّت محفوظ ہے۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادمِ مسئول :نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۲ اگست ۱۹۸۵ ء

 

۵۴

 

اسلام میں روحانی جہاد کا تصوّر ۔ ۱

 

۱۔ حضورِ اکرم رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: بعثت بجوامع الکلم: میں کلماتِ جوامع کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، یعنی قرآنِ پاک اور حدیثِ صحیح، جن کے مبارک الفاظ و کلمات میں پہلے ہی سے انتہائی بڑی جامعیّت رکھی ہوئی تھی، تا کہ خدا و رسول کا پاک وپاکیزہ کلام اپنی ہمہ گیر معنویّت کے معجزات میں بے نظیر ہو، اب ہم اسی اصولِ “جوامعِ کلم” کی روشنی میں قرآن و حدیث میں دیکھتے ہیں کہ روحانی جہاد کے بارے میں کیا فرمایا گیا ہے، چنانچہ اس باب میں آنحضرتؐ کے ایک خاص فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ: مومن کا اپنے نفسِ امّارہ کے خلاف لڑنا “جہادِ اکبر” ہے۔ یہ حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، تاہم اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ: یہ کیوں ایسا ہے؟ تنہا نفس کو کچل دینے سے کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ اس کے لئے جواب یہ ہے کہ نفس کو اکیلا خیال کرنا سراسر غلط ہے، جبکہ اس کے ساتھ شیطان ملا ہوا ہے، اور شیطان کے ساتھ دنیا بھر کی طاغوتی روحیں ملی ہوئی ہیں، پس یہی وجہ ہے کہ صاحبِ جوامع الکلم صلعم نے نفسِ امّارہ کے خلاف جنگ کو جہادِ اکبر یعنی روحانی جہاد قرار دیا۔

 

۲۔ اس سلسلے میں آپ قرآنِ پاک کے بعض حربی (جنگی) الفاظ و اصطلاحات کو غور سے دیکھیں، تا کہ نورِ حکمت کی روشنی میں روحانی جہاد کے حقائق و معارف

 

۵۵

 

ظاہر ہوں، جیسے مادّہ: ب أ س (باس = جنگ)، مادّہ: ج ہ د (جہاد)، ج ن د (جند = لشکر) ، ف ت ح (فتح)، ح ر ب (حرب= لڑائی) ، غ ل ب (غالب)، ہ ز م (ہزیمت = شکست)، غ ن م (غنیمت = لُوٹ)، ر ع ب (رعب = ڈر) ، ق ت ل (قتل)، ش ہ د (شہید)، ذب ح (ذبح)، ق ر ب (قربان)، ف د ی (فدا، فدیہ)، س ل م (سلم = صلح)، ث خ ن (اثخان = خونریزی)، ا س ر (اسیر = قیدی)، ل ب س (لبوس = زرہ)، غ ی ر (مغیرات= لوٹنے والیاں، یعنی مجاہدین کے گھوڑے) ی ج ج (یاجوج)، م ج ج (ماجوج) ، وغیرہ، مواد سے بنے ہوئے الفاظ میں تاویلاً روحانی جہاد کا ذکر موجود ہے۔

 

۳۔ مادّہ: ب أ س : باس (جنگ) سے متعلق کئی آیاتِ کریمہ میں روحانی جہاد کا ذکر آیا ہے، مثال کے طور پر سورۂ نساء (۰۴: ۸۴) میں بغور دیکھا جائے، جہاں یہ پیش گوئی فرمائی گئی ہے کہ ظاہری اور مادّی جنگ مستقبل میں کسی بھی وقت ختم ہو جائے گی، اور اسی کے ساتھ ارشاد ہوا ہے: و اللہ اشد باسا ( اور خدا جنگ کرنے میں سب سے زیادہ شدید ہے) اس نورانی تعلیم کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ باطنی جنگ ہی کے نتیجے میں ظاہری جنگ ختم ہو جائے گی، کیونکہ افعالِ خداوندی میں سے ایک زبردست فعل روحانی جنگ ہے، اور اس کا میدان یہی دنیائے ظاہر ہے۔

 

۴۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۰۵) میں اللہ تعالیٰ کے لشکرِ روحانی کی دو خوبیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ایک تو یہ ہے کہ وہ اطاعت و بندگی کے معنی میں خدا کے خاص بندے ہیں، اور دوسرا وصفِ کمال یہ ہے کہ وہ بڑی زوردار روحانی جنگ لڑنے والے ہیں، جو ذرّاتِ لطیف کی شکل میں ہیں، جو روحانی ترقی کی  اعلیٰ سطح پر نہ صرف نظر آتے ہیں، بلکہ فعلاً ان کے مظاہروں کا تجربہ بھی ہوتا ہے،

 

۵۶

 

چنانچہ مذکورہ آیۂ مقدّسہ میں جس طرح روحانی لشکر کا تذکرہ ہوا ہے، وہ بنی اسرائیل کے حدودِ دین کے روحانی تجربات کے ضمن میں ہے، چونکہ خدائی لشکر اپنی ذات ہی میں تمام آہنی اسلحہ جیسی صلاحیت رکھتا ہے، لہٰذا اس کو “حدید ، لوہا” کا ٹائٹل عطا ہوا، اور فرمایا گیا: وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْهِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ (۵۷: ۲۵) اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں شدید لڑائی ہے اور (اس کے علاوہ اس میں) لوگوں کے لئے بہت سے فائدے بھی ہیں۔

 

۵۔ روحانی لشکر کا حال بڑا عجیب و غریب اور اس کی شان بہت ہی نرالی ہے، کہ وہ کبھی تو رعد کی طرح گرجتا ہے، کبھی برق کی طرح چمکتا ہے، اور کبھی بارش کی طرح برس کر طوفان برپا کرتا ہے، کہنا یہ ہے کہ وہ گوناگون ظہورات میں کام کرتا ہے، آسمانی لشکر ایک ایسا زندہ معجزاتی کرتہ ہے کہ اس پر کوئی بھی گرمی اثر انداز نہیں ہوسکتی، نیز وہ انسانی شکل کا ایک ایسا بکتر ہے کہ دنیا کی کوئی جنگ اس کو متاثر نہیں کر سکتی ہے (۱۶: ۸۱)۔

 

۶۔ سورۂ مائدہ کی آیت ۵۴ (۰۵: ۵۴) میں عسکرِ روحانی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ وہ چھ معانی میں عالی صفات ہیں۔

الف: خدا تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔

ب: وہ خدا سے محبت کرتے ہیں۔

ج: مومنین کے حق میں نرمی سے پیش آنے والے ہیں۔

د: کافروں پر سخت گیری کرنے والے ہیں۔

ہ: وہ راہِ خدا میں جہاد کریں گے۔

و: وہ لوگ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے (۰۵: ۵۴) ۔

 

۷۔ سورۂ عنکبوت کے آخر (یعنی ۲۹: ۶۹) میں جس طرح ارشاد ہوا ہے، اس

 

۵۷

 

کا مفہوم یہ ہے: جو لوگ راہِ خدا میں اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ حقائق و معارف کے راستے دکھاتا ہے یا دکھائے گا، جس کے نتیجے میں ان کا ذاتی جہاد لشکرِ روحانی کے جہاد سے مل کر ایک ہوجائے گا، اور اسی طرح یہ جہادِ اکبر کہلائے گا، جیسا کہ شروع میں بتایا گیا۔

 

۸۔ دین و دنیا کے عساکر کا نظام امیر (سردار) کے بغیر ممکن ہی نہیں، چنانچہ زمانے کا امام جو ولیٔ امر ہے، وہی روحانی لشکر کا امیر بھی ہوا کرتا ہے، آپ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن کا مطالعہ کرسکتے ہیں، حضرت سلیمانؑ اپنے عہد کے امام اور روحانی عسکر کے سردارِ اعلیٰ تھے، اور اسی معنیٰ میں وہ بادشاہ بھی تھے، بادشاہ اس شخص کو کہتے ہیں، جو اکثر و بیشتر کاموں کو بذریعۂ حکم دوسروں سے کرواتا ہے، اور خود ان کے کرنے سے بالاتر رہتا ہے، پس سلیمان بادشاہ آئینۂ قرآن میں اسی طرح نظر آتے ہیں۔

 

۹۔ اگر آپ حضرات میں سے کوئی عزیز ایسا سمجھتا ہو کہ: “سلطنتِ سلیمانی صرف حضرت سلیمان ابنِ داؤد کی ذات تک محدود تھی، ایسی بادشاہی پہلے اور بعد میں کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔” تو یہ بات درست نہیں، اور اس کے برعکس درست یہ ہے کہ روحانی سلطنت کسی ابتداء و انتہا کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ موجود ہے، جس کے بہت سے نام ہیں، مگر ان میں ایک نام ایسا بھی ہے کہ اس میں ہوشمند مومن غور و فکر کر کے بہت کچھ سمجھ سکتا ہے، اور وہ ہے: خلافتِ الٰہیہ یعنی “زمین پر خدا تعالیٰ کی جانشینی” اور کسی شک کے بغیر اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلیفۂ خدا زمین پر دینی اور روحانی بادشاہ ہوا کرتا ہے، اور روحانی عساکر اسی کے تحت کام کرتے ہیں۔

 

۱۰۔ خلیفۂ خدا کے حضور میں روحانی جنگ کی غرض سے ایسے کرتے بنتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے ابداعی عجائب و غرائب اور معجزات سے بھرپور ہیں ( لبوس، ۲۱: ۸۰،

 

۵۸

 

سرابیل،۱۶: ۸۱) یہ ایک بہت بڑا راز ہے، جس پر پردہ رکھنے کی خاطر “کرتہ” جیسے عام نام سے اس کا ذکر فرمایا گیا، ورنہ یہ ابداع و انبعاث کا سب سے بڑا معجزہ ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے وقت میں بمرتبۂ خلیفۂ خدا یہی کرتے بناتے تھے، وہ اس طرح کہ آپ گویا ایک سانچا ( قالب) بن گئے تھے، اور عملِ عزرائیلی سے اس مبارک سانچے میں عالمگیر روح میں سے ڈال ڈال کر آپ کی پاک و پاکیزہ کاپیاں (نقلیں) نکالی جاتی تھیں (۰۳: ۴۹، ۰۵: ۱۱۰) اور یہ روحانی معجزہ ہر پیغمبر اور ہر امام کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔

 

۱۱۔ آپ اسلامی تعلیمات، مثلاً تصوّف اور امامِ عالی مقام کے ارشادات کی روشنی میں یہ یقین کرتے ہیں کہ مومنین حقیقی علم اور نیک عمل کے ذریعے سے فرشتے بن جاتے ہیں، یہ بات حقیقت ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ طین (گارا، ۰۳: ۴۹) سے اپنے لوگوں کے لئے پرندے بناتے تھے، اور “طین” کی تاویل مومن ہے، اگرچہ تمام انسانی ارواح عالمگیر روح کے اجزاء ہیں، لیکن لفظِ طین کے اشارۂ حکمت کے مطابق یہ صرف مومنین ہی کا خاصہ ہے، کہ وہ انسانِ کامل کے سانچے میں ڈھل کر فرشتے بن جاتے ہیں، جن کو قرآنِ حکیم نے طیر (پرندہ، ۰۳: ۴۹، ۰۵: ۱۱۰) کے نام سے یاد فرمایا ہے، اور یہی وہ معجزاتی کرتے ہیں، جن کا اوپر ذکر ہوچکا۔

 

۱۲۔ سالہا سال کی انتہائی محنت و مشقت کے بعد آج سائنسدانوں نے جو کچھ بنایا ہے، جو کچھ آئندہ بنانے والے ہیں، اور جن چیزوں کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں، وہ سب چیزیں عقل و جان کی تمامتر خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہوکر روحانیّت میں موجود ہیں، مثال کے طور پر کسی سپر پاور کے سائنسدان یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ ان کا ایک ایسا قلعہ ہو جو بہت سارے لشکر کو لئے ہوئے بڑی تیزی سے پرواز کرے، نہ اس کی کوئی آواز ہو، اور نہ

 

۵۹

 

وہ نظر آئے، تو اس نوعیت کے قلعے، بلکہ اس سے نہایت ہی اعلیٰ قلعے حضرت سلیمان علیہ السّلام کے لئے بنائے جاتے تھے، وہ محاریب (۳۴: ۱۳) کہلاتے ہیں، جس کے معنی قلعے کے بھی ہیں اور جنگجو رجال کے بھی، وہ اجسادِ ابداعی ہیں، ان میں کس طاقت کی کمی ہے؟ اور وہ کیا نہیں کر سکتے ہیں؟

 

۱۳۔ سورۂ فتح (۴۸) میں فرمانِ خداوندی ہے: وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا (۴۸: ۲۰) اللہ تعالیٰ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم لوگے۔ اس حکم میں عالمگیر روحانی جہاد کا ذکر ہے کہ وہ اہلِ ایمان کی کلّی اور دائمی فتح پر منتج ہوگا، اور دنیا بھر کی غیر مسلم روحیں بطورِ غنیمت ملیں گی، چونکہ یہ جہادِ اکبر ہے، لہٰذا اس کے نتائج و ثمرات کی بہت بڑی اہمیّت ہے، پس یہ ارواح جو مومنین کی مِلکِ یمین (لونڈی غلام) ہیں بہشت میں داخل ہوں گی، اور وہ لوگ وہاں اہلِ جنت کی سلطنت میں حور و غلمان بن کر خدمات انجام دیں گے۔

 

۱۴۔ خداوندِ عالم نے سورۂ عادیات (۱۰۰) میں صبح نورانی وقت کے ذکرِ قلبی کی توصیف فرمائی ہے، کہ اگرچہ یہ ظاہراً خاموش اور لب دوز حالت میں ہے، لیکن باطن میں بڑا تیز اور انقلابی ہوا کرتا ہے، اس لئے اس کی تشبیہہ و تمثیل مجاہدینِ ظاہر کے گھوڑوں سے دی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد کا ترجمہ ہے: قسم ہے ان گھوڑوں کی جو ہانپتے ہوئے دوڑتے ہیں پھر (پتھر پر) ٹاپ مار کر آگ جھاڑتے ہیں پھر صبح کے وقت تاخت و تاراج کرتے ہیں (۱۰۰: ۰۱ تا ۰۳) اس نورانی تعلیم سے ظاہر ہے کہ ہر ایسا مومن جو ذکر و بندگی میں باقاعدہ ہو روحانی جہاد کا مجاہد ہے، اور وہ ہر صبح کامیاب عبادت کے گھوڑے پر سوار ہوکر دشمنانِ اسلام پر حملہ آور ہو جاتا ہے، اور ان کو لوٹ لیتا ہے۔

 

۱۵۔ جس طرح ظاہر میں اسلامی فوج کے لئے دو چیزوں کی خاص ضرورت

 

۶۰

 

ہوتی ہے، وہ کھانے پینے کی چیزیں اور اسلحہ ہیں، اسی طرح روحانی جہاد کرنے والوں کے لئے ذکر و عبادت کی غذا اور علم و حکمت کے ہتھیار کا ہونا لازمی ہے، کیونکہ ایسا سپاہی کیا بہادری دکھا سکتا ہے جو خوب کھاتا پیتا ہو، مگر اس کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو اور ایسا فوجی جوان کب تک لڑے گا جس کے پاس سامانِ جنگ تو ہیں، لیکن پیٹ میں کچھ بھی نہیں، چنانچہ عبادت اور علم کی تیاری کے بعد اب یہ دیکھنا ہوگا کہ دشمن کون ہے؟ کہاں ہے؟ اور کس طرح حملہ کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ دشمن نفسِ امّارہ ہے، شیطان ہے جو دینی دشمن ہے اور کافر، اور یہ تینوں آپس میں مل کر ایک ہوگئے ہیں، جس طرح شروع میں بتایا گیا ہے، اب توجہ فرمائیں کہ شیطان ظاہر میں بھی ہے اور باطن میں بھی (۰۶: ۱۱۲) وہ صراطِ مستقیم پر چلنے والوں کے خلاف حملہ کرتا ہے، آگے سے پیچھے سے داہنی جانب سے اور بائیں جانب سے (۰۷: ۱۷) مومن کے آگے مستقبل ہے، پیچھے ماضی، داہنی طرف باطن، اور بائیں جانب ظاہر ہے، چنانچہ صرف ہادیٔ برحق ہی مستقبل کی ہدایت و رہنمائی کر سکتا ہے، اسی کی خبریں ماضی سے متعلق حق ہیں، وہی قرآن اور اسلام کے باطن پر روشنی ڈال سکتا ہے، اور اسی کی ظاہری تعلیمات میں دین و دنیا کی ترقی اور کامیابی ہے۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادمِ مسئول

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۸ اگست ۱۹۸۵ ء

 

۶۱

 

اسلام میں روحانی جہاد کا تصوّر ۔ ۲

 

۱۔ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: “القرآن ذلول ذو وجوہ فاحملوہ علیٰ احسن وجوہہ = یعنی قرآن بہت ہی رام ہو جانے والی چیز ہے، اور وہ متعدد پہلو (وجوہ) رکھتا ہے لہٰذا تم اسے اس کی بہترین وجہ پر محمول کرو” (الاتقان اردو، دوم، ص ۵۷۰) : قرآنِ حکیم کی یہ صفت کہ وہ مسخر و مطیع ہو جاتا ہے، اس کے تمام پُرحکمت الفاظ کی بنیاد پر ہے کہ ان میں سے ہر لفظ کے کئی کئی معنی ہیں، اور یہ کتابِ سماوی اسی سبب سے “ذو وجوہ” کہلاتی ہے، یعنی نگینۂ پہلو دار کی طرح ہے، اور تاویل انہی پہلوؤں سے بنتی ہے، پس اس حقیقت میں ذرہ بھر شک نہیں کہ ظاہری جہاد سے متعلق قرآنی الفاظ کے باطن میں روحانی جہاد کا ذکر موجود ہے۔

 

۲۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم احسان ہے کہ اس بے نیاز نے مومنین کی حقیر جانوں اور برائے نام مالوں کو خرید لیا ہے، تا کہ وہ مہربان اس بہانۂ رحمت سے بہشتِ جاودانی میں ان پر نوازشات کی بارش برساتا رہے (۰۹: ۱۱۱) اس آسمانی سودے کا مقصد یہ ہے کہ ایمان والے ہر اعتبار سے غازیوں کی طرح زندگی گزاریں اور شہیدوں کی موت مر جائیں، اور یہ سب سے بڑی سعادت ہر زمانے کے

 

۶۲

 

مومنوں کو اس لئے حاصل ہوسکتی ہے کہ خداوندِ عالم نے روحانی جہاد کے حکم کو تمام زمانوں پر محیط کر دیا، جبکہ اوّلین و آخرین کا ہر مومن اس بیعت (خرید و فروخت) میں شامل ہے جس کا ذکر سورۂ توبہ (۰۹: ۱۱۱) میں ہے۔

 

۳۔ سورۂ حدید کے ایک ارشاد (۵۷: ۱۹) کا مفہوم یہ ہے: اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں پر ایمان لا چکے ہیں جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے ایسے ہی لوگ اپنے پروردگار کے نزدیک صدیقوں اور شہیدوں کا درجہ رکھتے ہیں، ان کے لئے اجر اور نور ہے (۵۷: ۱۹) اس مقام پر یہ بات یاد رہے کہ ایسا ایمان جو یہاں مذکور ہے، صرف ظاہری اور زبانی نہیں، بلکہ تمام شرائط کے ساتھ کامل اور مکمل ایمان ہے، اس کی ایک دلیل “تصدیق” ہے اور دوسری دلیل “شہادت،” یعنی اس نورانی تعلیم میں جن مومنین کی اس شان سے تعریف و توصیف کی گئی ہے، انہوں نے لسانی اقرار کے علاوہ قلبی (روحانی) طور پر ایمان کی عرفانی تصدیق بھی کی ہے، اور انہوں نے جسمانی موت سے قبل نفسانی کیفیت میں مرتے ہوئے جامِ شہادت بھی نوش کیا ہے، مگر شہادت کا یہ بہت بڑا مرتبہ علمی اور روحانی جہاد کے بغیر ممکن نہیں۔

 

۴۔ آپ کو یہ سن کر شاید تعجب ہوگا کہ حضرت امام حسین علیہ السّلام جسمانی طور پر شہید ہو جانے سے پہلے روحانیّت میں شہید ہوچکے تھے، کیونکہ انسانِ کامل کی یہ ایک لازمی صفت ہے کہ جسمانی موت سے پیشتر روحانی موت کا تجربہ کرے، اور حقیقی تقویٰ اسی عمل کا نام ہے، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سب سے پہلے دُہری شہادت (یعنی روحانی اور جسمانی شہادت) مولانا ہابیل علیہ السّلام نے پائی تھی، آپ حضرت آدم علیہ السّلام کے اساسِ اوّل تھے، اساسیت امامت کا ایک بڑا درجہ ہے، حضرت ہابیل کے مرتبۂ روحانیّت کا حکیمانہ ذکر قرآنِ پاک کے دو

 

۶۳

 

لفظوں میں موجود ہے، وہ “قربان” اور “متقین” ہیں، قربان کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ جنابِ ہابیل نے ایک دنبہ کو ذبح کرکے بطورِ قربانی خدا کے حضور میں پیش کیا تھا، جس کو ایک مقدّس معجزاتی آگ نے کھا لیا تھا، اور اسی طرح حضرت ہابیلؑ کی قربانی بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوئی تھی، اس کی تاویل یہ ہے کہ دنبہ کی قربانی سے راہِ خدا میں نفسِ حیوانی کو قتل کرنا مراد ہے، آسمانی آگ روحانیّت کے ناموں  میں سے ایک نام ہے، چنانچہ ہابیل کی روحانی (نفسانی) قربانی ہوئی تھی، جس کو آتشِ روحانیّت ایک طرح سے کھا گئی تھی، پس اسی طرح جسمانی موت سے قبل روحانی طور پر مرنا ہے، یہی روحانی شہادت ہے، اسی عمل کا نام تقویٰ ہے، اور یہی انفرادی قیامت ہے۔

 

۵۔ سورۂ آلِ عمران کے اس (۰۳: ۱۶۹ تا ۱۷۰) ارشاد میں دیکھیں، مفہوم: اور (اے مخاطب) جو لوگ راہِ خدا میں (روحانی طور پر یا جسمانی طور پر) قتل کئے گئے ان کو مردہ مت خیال کر بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے ربّ کے مقرّب ہیں اور ان کو عقل و جان کا رزق دیا جاتا ہے وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی (یعنی حقائق و معارف) اور جو لوگ ان کے پاس نہیں پہنچے ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر وہ خوش ہوتے ہیں کہ ان پر بھی کسی طرح کا خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اس ربّانی تعلیم میں جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر دونوں کا ایک ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے، چنانچہ دونوں قسم کے شہید حقیقی معنوں میں زندہ ہو جاتے ہیں، اور وہ حیاتِ طیبہ (۱۶: ۹۷) نہ صرف عقل و روح کی زبردست ترقی ہے، بلکہ اس میں جسم کی بھی انتہائی جدت ہے، کیونکہ وہ خلقِ جدید (۵۰: ۱۵) ہے، یعنی جسمِ ابداعی ، جس کا “کلمۂ کن” کے تحت ہر آن ایک نیا (جدید) ظہور ہوتا رہتا ہے۔

 

۶۔ اسلام کی وہ ظاہری جنگ جو پیغمبرِ اکرمؐ یا آپؐ کے برحق جانشین کے

 

۶۴

 

حکم سے ہو جسم کا درجہ رکھتی ہے، اور باطنی جنگ اس کی روح ہے، چنانچہ ہر جسمانی جہاد کے پس منظر میں ایک روحانی جہاد بھی ہوا کرتا ہے، جس کی ایک مثال غزوۂ خندق ہے (۳۳: ۰۹ تا ۱۱):۔

مفہوم: اس واقعہ کو سب نہیں صرف خاص مومنین دیکھ سکتے تھے کہ غزوۂ خندق کے موقع پر لشکرِ اسلام ایک روحانی جنگ سے بھی دوچار ہوا تھا، چنانچہ جب دشمنانِ دین کی طرف سے ایک لاتعداد ذرّاتی لشکر نے مسلمانوں پر حملہ کیا، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اس لشکر پر ایک غیبی آندھی اور ایک نادیدنی فوج بھیجی، وہ ذرّاتی لشکر مومنوں کے سر سے اور پاؤں سے داخل ہوچکے تھے، حقیقی مومنین کو اس سے بڑی حیرت ہو رہی تھی، ان کی ارواح (قلوب) جیتے جی نفسانی موت سے گزارنے کی خاطر حلق اور سر کی طرف کھینچ لی جاتی تھیں، اور یہی موت ان کی روحانی شہادت بھی تھی، وہ خدا کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرتے تھے، شاید وہ یہ سوچتے تھے کہ یہ قطعی اور جسمانی موت ہے یا اجتماعی قیامت ہے، وغیرہ (۳۳: ۰۹ تا ۱۱)۔

 

۷۔ قرآنِ مجید کی بہت سی آیاتِ کریمہ میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ادیانِ عالم پر اسلام غالب آنے والا ہے، اور اس نوعیت کی قرآنی پیش گوئی کو دیکھنے کے لئے تین مقامات خاص ہیں، مقامِ اوّل: سورۂ توبہ (۰۹: ۳۲ تا ۳۳) ، مقامِ دوم: سورۂ فتح(۴۸: ۲۸ تا ۲۹) ، اور مقامِ سوم: سورۂ صف (۶۱: ۰۸ تا ۰۹) چنانچہ ان پُرحکمت آیات کا مشترکہ اور مرکزی مفہوم یہ ہے کہ: کوئی شخص نورِ خداوندی کو بجھا نہیں سکتا، اللہ اپنے نور کو درجۂ تمام و کمال پر پہنچائے گا، ہر چند کہ خدا کا یہ کام شر کی طاقتوں کو پسند نہیں، قادرِ مطلق نے اپنے رسول کو ہدایت (قرآن اور امام) اور دینِ حق کے ساتھ اس مقصد کے پیشِ نظر بھیجا ہے تا کہ وہ اس کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ آپ مذکورۂ بالا آیاتِ مقدّسہ کو خود قرآنِ پاک میں غور سے دیکھیں، تو یہ حقیقت آپ

 

۶۵

 

کے سامنے زیادہ سے زیادہ روشن ہو جائے گی کہ اسلام کا ضروری اور اصل جہاد باطنی اور روحانی طرز کا ہے، جو خدا و رسول کی جانب سے ہے، جس کی سرپرستی ہر زمانے میں صاحبِ امر کرتا ہے۔

 

۸۔ خداوند تعالیٰ جو کچھ چاہتا ہے یا جیسا ارادہ کرتا ہے، وہ دراصل امر کہلاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کام کے لئے امر فرماتا ہے، وہ مفعول ( یعنی کیا ہوا، ۳۳: ۳۷) ہوتا ہے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ جب پروردگارِ عالم نے چاہا کہ اسلام کی فتح اور سربلندی ہو، تو یہی اس کا چاہنا اس چیز کو “کن” (ہو جا) فرمانا تھا، لہٰذا وہ ہوگئی، چنانچہ اگر کوئی شخص مکان و زمان سے ماوراء (بالاتر) ہوکر تصوّر کرے، تو اسے یقین آئے گا کہ دینِ فطرت یعنی اسلام ابتداء ہی سے غالب و فاتح رہا ہے، آپ درجِ ذیل آیۂ کریمہ میں خوب غور کرکے دیکھیں:

فرمانِ خداوندی ہے: كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْؕ (۵۸: ۲۱)

اللہ تعالیٰ نے یہ بات (اپنے حکمِ ازلی میں) لکھ دی ہے کہ میں اور میرے پیغمبر غالب رہیں گے۔ کیا میں حقائق کی طرف توجہ دلانے کی خاطر آپ سے ایک دوستانہ سوال کر سکتا ہوں؟ وہ پوچھنا یہ ہے کہ انبیاء علیہم السّلام کو بظاہر دینِ حق کی روشنی پھیلانے میں محدود کامیابی ہوئی، اور وہ حضرات اپنے اپنے وقت پر رحلت کرگئے، آیا مذکورۂ بالا آیت کا مطلب صرف اتنا ہی ہے؟ نہیں نہیں، یہ ظاہر اور جسمانیّت کی بات نہیں، بلکہ باطن اور روحانیّت کا ذکر ہے کہ ہر دور کے رسول اور أئمّہ علیہم السّلام نے بحکمِ خدا باطنی اور روحانی جہاد سے کام لے کر خداوندِ عالم کی اس پیش گوئی کو عمل میں لایا۔

 

۹۔ آپ اس کو امامِ عالی مقام کے خزانۂ معرفت کا ایک سرِ عظیم (بڑا بھید) سمجھ لیں، کہ اعلیٰ روحانیّت، روحانی جہاد، اور انفرادی قیامت ایک ہی چیز ہے،

 

۶۶

 

اس کی ایک قرآنی دلیل لفظِ “فتح” ہے، کہ اس میں یہ تین معانی ایک ہوگئے ہیں، یعنی فتح (کشائش، کھولنا) روحانیّت بھی ہے، جنگ کا کامیاب نتیجہ بھی ہے، اور روزِ قیامت کا فیصلہ بھی، چنانچہ یہ لفظ (فتح) قرآنِ حکیم میں جہاں بھی ہو، ان تینوں معنوں کے ساتھ ہوگا، تاہم ترجمہ و تفسیر یا خود تنزیل کی وجہ سے کہیں کہیں ان میں سے کوئی ایک معنی نمایان بھی ہوسکتے ہیں، اس صورت میں باقی دو معنی تاویلی حکمت کے لئے مخصوص ہوں گے۔

 

۱۰۔ سورۂ فتح کے آغاز کا ارشاد ہے: انا فتحنا لک فتحا مبینا (۴۸: ۰۱) (اے محمد) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح بھی صریح و صاف۔ اس میں دو طرفہ جہاد کے نتائج حضورِ اکرمؐ کے سامنے ہیں، کہ ظاہراً فتحِ مکہ ہے، اور باطناً فتحِ روحانیّت، جو عالمگیر فتح اور روحانی جہاد کا بے پایان اجر و صلہ ہے، اور یہی روحانیّت آنحضرتؐ کی انفرادی قیامت بھی تھی، جس میں آپ نے حق و باطل کے درمیان خدائی فیصلے کو دیکھا۔

 

۱۱۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۹۶) میں ہے: فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَ مَاْجُوْجُ۔ اس کے معنی ہیں کہ یاجوج اور ماجوج کھول دئے جائیں گے، نیز یہ معنی بھی درست ہیں کہ یاجوج اور ماجوج فتح کر لئے جائیں گے، یعنی ان پر غلبہ حاصل ہو گا، اور وہ اب امامی لشکر میں مل کر کام کریں گے، یاجوج حضرت آدمؑ جیسے کسی دور کے انسانِ اوّل کا خطاب ہے، اور ماجوج حضرت حوّا جیسی خاتونِ اوّل کا ٹائٹل ہے، پھر اسی نسبت سے ان کے ذرّاتِ نسل کو یاجوج و ماجوج کہا گیا۔

 

۱۲۔ تاویل کا ایک قدرتی نظام ہے، جس کے مطابق سیّارۂ زمین یا اقوامِ عالم کے بارہ حصے ہیں، ہر حصہ جزیرہ کہلاتا ہے، چنانچہ ہر جزیرے میں دن

 

۶۷

 

رات کے دو حجّت مقرر ہیں، جو کثیف یا لطیف جسم میں ہوتے ہیں، اور وہ ۱۲ x ۲ = ۲۴+ ۲= ۲۸

ہیں، یہ حضرات روحانیّت، علم، اور تجربہ کے اعتبار سے سب سے بڑے اور سب سے بوڑھے (معمر ترین) ہیں، لہٰذا قرآنِ حکیم نے ان کو خمیدہ پشت (حدب، ۲۱: ۹۶) کہا، نیز ذرّاتِ روح کے بارِ گران سے ان کی کمر جھکی ہوئی ہے، اس لئے بھی وہ حدب کہلاتے ہیں، پس انسانِ کامل کی انفرادی قیامت میں جب صور پھونکا جاتا ہے، تو اس کی آواز سن کر دنیا بھر کے ذرّاتِ روح، جو ان حجّتوں میں ہیں، اس طرف پرواز کرتے ہیں۔

 

۱۳۔ اگرچہ حضرت آدمؑ کی روحانیّت کا مظاہرہ ہر زمانے میں ہوتا ہے، تاہم زمانۂ آدمؑ ہی کی بات کریں گے، کہ ابتداء میں حضرت آدمؑ کی خاص روحانی اولاد آپ کے حجّتانِ شب و روز تھے، لہٰذا عہدِ الست کی غرض سے سب سے پہلے ان حجّتوں کے توسط سے لوگوں کے ذرّاتِ روح وارثِ آدم میں لئے گئے تھے (۰۷: ۱۷۲) اور یہ وہی تاویل ہے، جس کا اوپر ذکر ہوچکا ہے، اس وقت جانشینِ آدم کے کانوں میں صور بج رہا تھا، یہی اس کی تکمیلِ روحانیّت کا سلسلہ بھی تھا، روحانی جہاد بھی، اور ذاتی قیامت بھی تھی، خداوندِ قدوس کا بہت بڑا احسان ہے کہ یہاں تک روحانی جہاد کے بارے میں بہت سی کلیدی حقیقتیں روشن ہو گئیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادم

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۳ ستمبر ۱۹۸۵ء

 

۶۸

 

قرآنی تاویل پر سوال و جواب

 

س۱: لفظِ “تاویل” کا مادّہ کیا ہے؟ مصدر کیا ہے؟ یہ کس وزن پر ہے؟ اس کے لغوی اور اصطلاحی معنی کیا ہیں؟

ج: اس کا مادّہ: ا ، و، ل (اوّل) ہے، لفظِ تاویل خود مصدر ہے، جو تفعیل کے وزن پر ہے، اس کے لغوی معنی ہیں: کسی چیز کو اوّل (اصل) کی طرف لوٹانا، اور جس اوّل یا اصل کی طرف کوئی چیز لوٹ کر آئے، اسے مَوئِل (۱۸: ۵۸) یعنی جائے بازگشت کہا جاتا ہے، اور تاویل کے اصطلاحی معنی ہیں: قرآن اور اسلام کی کسی چیز کی باطنی حکمت و حقیقت کو بیان کرنا۔

 

س۲: آپ کسی واضح مثال سے ہمیں یہ سمجھا دیں کہ لفظِ تاویل کے لغوی معنی اور اصطلاحی معنی کے درمیان کیا مناسبت و مشابہت موجود ہے؟

ج: ان دونوں معنوں کے مابین رشتہ و مماثلت یہ ہے کہ جس طرح تاویل کے لغوی معنی میں کسی چیز کو اس کی اصل (اوّل) کی طرف لوٹایا جاتا ہے، اسی طرح اصطلاحی معنی میں بھی کسی چیز کی مثال کو ممثول (حقیقت) کی جانب پھیر دیا جاتا ہے، چنانچہ حبل اللہ (۰۳: ۱۰۳، خدا کی رسی) قرآنی مثالوں میں سے ہے، سو آپ تاویل کرتے ہوئے اس کو ممثول کی طرف راجع کر دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس کے باطنی معنی یا تاویل یا حکمت یہ ہے۔

 

۶۹

 

س۳: سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۰۷ تا ۰۹) میں تاویل سے متعلق بنیادی احکام موجود ہیں، انہی ارشادات کی روشنی میں آپ ہمیں یہ بتا دیں کہ جو حضرات اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک علم میں راسخ (۰۳: ۰۷، یعنی پختہ کار) ہیں، وہ کون ہیں؟ اور علم کے اس رسوخ (مضبوطی) کے کیا معنی ہیں؟

ج: وہ حضرات پیغمبرِ اکرم اور أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین ہیں، جو علم میں معیارِ خداوندی کے مطابق بڑے مضبوط اور پختہ کار ہیں، ان مقدّس و پاکیزہ ہستیوں کی اس علمی و عرفانی مضبوطی اور استواری کی یہ تعریف و توصیف خدا خود ہی فرماتا ہے، لہٰذا یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان عالی مرتبت کامل انسانوں کو محکمات اور متشابہات دونوں کا علم عطا کر دیاہے، اس کا صاف صاف مطلب یہ ہوا کہ خدا اور اس کے برحق رسول کے بعد أئمّۂ ہدا قرآنی تاویل کے مالک ہیں، آپ سورۂ نساء کی آیت: ۱۶۲ (۰۴: ۱۶۲) کی روشنی میں یہ حقیقت معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ آسمانی ٹائٹل ، یعنی “الراسخون فی العلم” ظہورِ اسلام سے قبل اہلِ کتاب میں بھی نظر آتا ہے، اور یہ مرتبہ اس ارشاد کے حکم کے مطابق جملہ مومنین کے درجات سے اوپر ہے، پس ظاہر ہے کہ علم میں پختہ کار (۰۳: ۰۷) حضرت محمد رسول اللہ اور أئمّۂ آلِ محمدؐ ہی ہیں، اور انہی حضرات کے وسیلۂ پیروی سے دوسروں کو علمِ تاویل کی برکتیں مل سکتی ہیں۔

 

س۴: کیا آپ علمِ تاویل کی اہمیّت و افادیت کے بارے میں کوئی اور قرآنی دلیل پیش کریں گے؟ آیا قرآنِ حکیم میں ایسی کوئی نظیر موجود ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ ماضی میں کوئی کامل انسان خدا کی جانب سے تاویل کے لئے مقرر کیا گیا تھا؟

ج: جی ہاں! قرآنِ مقدّس میں تاویل کی بہت بڑی اہمیت ہے، اور

 

۷۰

 

اس کی زبردست افادیت ہے، کیونکہ تاویل کا دوسرا نام حکمت ہے، اور قرآن کا ارشاد ہے کہ: جس کو حکمت دی جائے، اس کو خیرِ کثیر مل جاتی ہے (۰۲: ۲۶۹) اسی طرح دین کی تمام تر نیکیاں تاویل کے ساتھ وابستہ ہیں، جبکہ تاویل سے قرآن اور اسلام کا باطن مراد ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی جملہ مخفی نعمتیں مجموع ہیں (۳۱: ۲۰) چنانچہ ہر باطنی نعمت بجائے خود تاویل کی اہمیّت و افادیت کی دلیل ہے، پس جس طرح یہ نعمتیں بے شمار ہیں، اسی طرح یہ دلائل بھی لاتعداد ہیں، لہٰذا آئیے اب ہم قرآنِ حکیم میں یہ دیکھیں کہ عملی تاویل کہاں کہاں مذکور ہے، اور اس کو کسی پیغمبر یا کسی امام نے کیسے انجام دیا  ہے:۔

قرآنِ عزیز میں اگرچہ عملی تاویل کی مثالوں کی فراوانی ہے، تاہم سورۂ یوسف اس سلسلے کا بہترین نمونہ ہے، جس میں قانونِ تاویل سے متعلق ہر گونہ سوالات کے لئے حکیمانہ جوابات موجود ہیں (۱۲: ۰۷) یہاں سب سے پہلے یہ اہم نکتہ یاد رہے کہ حضرت یوسفؑ نے جس طرح گیارہ ستاروں، سورج، اور چاند کو دیکھا تھا، وہ دراصل عالمِ خیال اور روحانیّت کا واقعہ تھا، جس کی آنے والی تاویل آپ کے والدِ محترم حضرت یعقوب نے بتائی (۱۲: ۰۴ تا ۰۶) اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے حضرت امام یعقوبؑ کو علمِ تاویل عطا کر دیا تھا، چنانچہ انہوں نے اسی آسمانی اور لدّنی علم کی روشنی میں اپنے فرزندِ ارجمند حضرت یوسفؑ کو یہ بشارت دی کہ پروردگار ان کو مرتبۂ امامت کے لئے برگزیدہ فرمائے گا، اور ان کو علمِ تاویل کی نعمتِ عظمیٰ حاصل ہوگی، یہ نعمت اسی طرح بدرجۂ تمام و کمال ان کے آباو اجداد کو بھی عطا ہوئی تھی۔

 

تاویل کی اصطلاح تنزیل کے مقابلے میں ہے، یعنی اگر کوئی چیز باطن اور روحانیّت کی بلندی سے ظاہر اور مادّیت کی پستی پر اترگئی ہے تو یہ تنزیل کہلاتی ہے، اور جب بھی امامِ عالی مقام اسے لوٹاکر باطن اور روحانیّت کی بلندی پر دیکھتا

 

۷۱

 

ہے، تو یہ عملی تاویل ہے، سو کسی بات کی تاویل کرنے کے کئی درجات ہیں، اور اس کا بلند ترین درجہ مقامِ عقل ہے، پھر مقامِ روح و روحانیّت، جہاں حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام خدائے علیم و حکیم کے اذن سے متعلقہ چیز کی عقلانی اور روحانی صورت کو دیکھ سکتے ہیں، جیسے حضرت یوسفؑ نے “تاویلِ پیش بینی” کے طور پر اپنے قید خانہ کے دونوں ساتھیوں کو بتا دیا کہ تم کو اس قسم کا کھانا آ رہا ہے، آپ نورِ خیال کی روشنی میں اسے دیکھ رہے تھے ، اور یہ عملی تاویل کی ایک عمدہ مثال ہے (۱۲: ۳۷)۔

 

س۵: آیا امام یوسف علیہ السّلام صرف خوابوں کی تعبیر جانتے تھے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے؟ یا علمِ تاویل کے عالم تھے؟ تعبیر اور تاویل میں کیا فرق ہے؟

ج: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کو تمام باتوں کی تاویل سکھائی تھی (۱۲: ۰۶، ۱۲: ۲۱، ۱۲: ۱۰۱)، جو چار عوالم سے متعلق ہے: عالمِ روحانیّت، عالمِ خیال، عالمِ خواب، اور عالمِ بیداری، اس سے ظاہر ہے کہ تعبیر صرف خواب کی حد تک محدود ہے، مگر تاویل چاروں عوالم پر محیط ہے، اور یہی وہ فرق ہے جو تعبیر اور تاویل کے درمیان پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ لفظِ تعبیر قرآنِ کریم میں صرف ایک بار آیا ہے، جو سورۂ یوسف (۱۲: ۴۳) میں موجود ہے، مگر یہ حضرت یوسف کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے، بلکہ فعلِ تعبیر (تعبرون، ۱۲: ۴۳، تم تعبیر بیان کرتے ہو) بادشاہ کے سرداروں سے متعلق ہے۔

 

س۶: آیا قرآنِ حکیم کے ان مبارک الفاظ میں ان حضرات کے خواب دیکھنے کا ذکر موجود نہیں، جن کے متعلق یہ مذکور ہیں؟ وہ الفاظ یہ ہیں: الرویا (۱۲: ۴۳، ۱۷: ۶۰، ۳۷: ۱۰۵، ۴۸: ۲۷)، رویاک (۱۲: ۰۵)، رویای (۱۲: ۴۳، ۱۲: ۱۰۰)،

 

۷۲

 

اگر یہ نیند کی حالت میں سپنا (خواب) دیکھنے کی بات نہیں، تو پھر بتائیے کہ یہ کیا چیز ہے؟

ج: آپ اس بات پر دل و جان سے یقین رکھتے ہوں گے کہ قرآنِ پاک کا ہر لفظ ربّانی حکمت سے لبریز ہے، تا کہ ہمیشہ اہلِ ایمان کے لئے نورِ امامت کی روشنی میں کلامِ الٰہی کے علمی معجزات کا سلسلہ چلتا رہے، چنانچہ مذکورہ الفاظ اگرچہ بظاہر خواب سے متعلق ہیں، لیکن حق بات تو یہ ہے کہ ان پاکیزہ لفظوں میں نیند کی کسی کیفییت کا کوئی ذکر نہیں، جس طرح لفظِ “منام” میں نیند کا ذکر موجود ہے، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ اولیاء اللہ (یعنی انبیاء و أئمّہ) کی معجزاتی نیند ہے، جو صرف آنکھیں بند کر لینے کے لئے ہوا کرتی ہے، جس میں دل ذکرِ خدا میں فنا ہو کر کلّی طور پر جاگتا ہے، اور یہ حال انہی حضرات کا “خواب دیکھنا” کہلا سکتا ہے، جس کا احساس و شعور بیداری سے روشن تر اور بالاتر ہوتا ہے، پس اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ مندرجۂ صدر الفاظ میں عالمِ خیال اور عالمِ روحانیّت کے مشاہدات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔

 

س۷: ایسا لگتا ہے کہ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۵۲۔۵۳  (۰۷: ۵۲ تا ۵۳) میں موضوعِ تاویل سے متعلق کچھ کلیدی حکمتیں پوشیدہ ہیں، کیا آپ ان کی کچھ وضاحت کریں گے؟

ج: اس میں پہلی آیت کا تاویلی مفہوم یہ ہے: اور ہم نے ان لوگوں کے پاس ایک ایسی کتاب پہنچا دی ہے، جس کو ہم نے (اپنے نور یعنی امام کے) علمِ تاویل سے بہت ہی واضح کرکے بیان کر دیا ہے جو ذریعۂ ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو حقیقی معنوں میں ایمان لائے ہیں (۰۷: ۵۲) اور دوسری آیت کا تاویلی مفہوم اس طرح ہے: کیا وہ کسی چیز کا انتظار کرتے ہیں؟ سوائے اس (یعنی قرآن) کی تاویل کے؟ جس روز۱ (بصورتِ انقلاباتِ روحانی و مادّی) قرآن کی تاویل آئے گی

 

۱: روز سے زمانہ مراد ہے

 

۷۳

 

اس روز جو لوگ اس کو پہلے سے بھولے ہوئے تھے یوں کہنے لگیں گے کہ واقعی ہمارے ربّ کے پیغمبر سچی سچی باتیں لائے تھے سو اب کیا کوئی سفارش کرنے والا ہے کہ وہ ہماری سفارش کر دے؟ (۰۷: ۵۳) ۔ امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ جس طرح خدا کا نور ہے اسی طرح یہ اس کا علمِ تاویل ہے جس کی روشنی میں قرآن کی وضاحت ہو جاتی ہے، اسی عالمگیر نور سے سلسلۂ قیامات جاری و ساری ہے، اور اسی کی ایک عظیم الشّان قیامت کا آنا تاویلِ قرآن کا آنا ہے۔

 

س۸: قرآنِ پاک اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام ہے، لہٰذا یہ ایک لازمی امر ہے کہ قرآنِ حکیم میں خدا کی عادت پائی جائے، کیا آپ اس باب میں کوئی مثال پیش کریں گے؟

ج: یہ سوال بڑا انقلابی اور بے حد مفید ہے، چنانچہ عرض ہے کہ اللہ کی عادت کی تشریح اس کے مبارک ناموں میں ہے، اور ان بابرکت اسمائے صفات میں سے چار یہ ہیں: اوّل، آخر، ظاہر، باطن (۵۷: ۰۳) اسی طرح یقیناً قرآن ازل میں بھی تھا، ابد میں بھی ہوگا، ظاہر میں بھی ہے، اور باطن میں بھی، اور قرآن کے باطن سے تاویل مراد ہے، نیز اللہ کی عادت میں یہ بات بھی ہے کہ وہ پہلے تو حجاب سے کلام فرماتا ہے، پھر اس کے بعد وقت آنے پر دیدارِ اقدس کے گنجِ مخفی سے نوازتا ہے (۴۲: ۵۱) چنانچہ اللہ کی اس پُرحکمت عادت کے مطابق قرآن کا ظاہر خدا کے باحجاب کلام کرنے کی طرح ہے، اور اس کا باطن (یعنی تاویل) بے حجاب دیدارِ خداوندی کی طرح ہے۔

 

س۹: آپ کے انقلابی تصوّرات میں سے ایک “خدا کا علمی دیدار” ہے، کیا آپ اس کی مزید وضاحت کر کے ہمیں سمجھائیں گے کہ یہ حقیقت کس طرح

 

۷۴

 

ہے؟

ج: آپ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۴۳ (۰۷: ۱۴۳) کو چشمِ حقیقت بین سے دیکھیں، کیونکہ اس میں سب سے بلند ترین حقیقتوں اور معرفتوں کا خزانہ پوشیدہ ہے، یہ مثالی قصّہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا ہے، کہ آپ نے اپنے اس اعتکاف کے دوران (جو کوہِ طور پر کیا کرتے تھے) اللہ تعالیٰ کے دیدارِ پاک کے لئے درخواست کی تھی، جس کے نتیجے میں جو حکمتوں سے بھرپور واقعہ پیش آیا، اس کا ذکر اپنی جگہ موجود ہے، مگر یہاں یہ حقیقت خوب یاد رہے کہ یہ وہی روحانی اور عقلانی مظاہرہ تھا، جو حقائق و معارفِ ازل سے متعلق ہر پیغمبر اور ہر امام کے مشاہدۂ باطن میں آتا ہے، چنانچہ خداوندِ تعالیٰ نے ازل میں کوہِ عقل پر اپنے علمی و عرفانی جلال و جمال اور وصفِ کمال کا بے مثال جلوہ ڈالا، جس کے زیرِ اثر عقلی پہاڑ کے ایسے لاتعداد ٹکڑے ہوگئے، کہ وہ علم و حکمت کے پہلودار، آراستہ، پیراستہ، اور منظم جواہرات تھے، گوہر ہائے ایقان و عرفان کا یہ ذخیرہ، اور اسرارِ ازل کا یہ انمول خزانہ دراصل قرآنِ حکیم ہی تھا، جس کے ہر گوہرِ معنوی کے آئینۂ باطن میں تجلیٔ وجہ اللہ کا ایک لازوال عکس موجود ہے، سو قرآنِ مجید کی ہر باطنی حکمت کا مشاہدہ کرنا خداوندِ تعالیٰ کا علمی و عرفانی دیدار ہے، نیز اس حکمِ الٰہی میں بھی سوچنا چاہئے، ترجمۂ آیۂ کریمہ: پس تم جس طرف بھی منہ کرو وہیں چہرۂ خدا موجود ہے (۰۲: ۱۱۵) جب ہر جگہ خدا کا دیدار ہو سکتا ہے تو اس کا اطلاق سب سے پہلے دنیائے قرآن پر ہوتا ہے، یعنی اشارہ ہے کہ ہر آیت میں مرتبۂ وجہ اللہ کا ایک علمی مشاہدہ اور ایک معرفت پنہان ہے۔

 

س۱۰: کیا آپ حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشادِ مبارک سے ہمیں تاویلِ قرآن کی اہمیت سمجھا سکتے ہیں؟

 

۷۵

 

ج: جی ہاں، اس کے ثبوت میں آنحضرتؐ کے کئی ارشاداتِ گرامی موجود ہیں، مگر یہاں صرف ایک ہی حدیث پر اکتفاء کیا جاتا ہے کہ حضورِ اکرمؐ نے فرمایا: “خیرکم منکم من یقاتلکم علیٰ تاویل القرآن کما قاتلتکم علیٰ تنزیلہ۔ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو تاویلِ قرآن پر تم سے جنگ کرے، جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر تم سے جنگ کی ہے۔” (وجہِ دین، کلام ۳۵) رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد امت میں بہترین شخص مولا علی صلوات اللہ علیہ ہیں، اور آپ ہی نے قرآن کی تاویل پر ظاہراً و باطناً جہاد کیا، اور آلِ محمد و اولادِ علیؑ کے سلسلے میں یہ کام ہوتا رہا ہے، کہ یہ سلسلۂ امامت اور حبل اللہ ہے۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خادمِ مسئول

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۱ ستمبر ۱۹۸۵ ء

 

۷۶

 

 

تصوّرِ رفعِ زمان

 

۱۔ خدائے علیم و حکیم نے سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۲) میں زمانے کی قسم کھا کر انسان کے ایک بہت بڑے خسارے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، آدمی کا یہ خسارہ کسی اور چیز میں نہیں بلکہ اس انتہائی عظیم علم و حکمت میں ہے، جو عصر و زمان سے متعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان پُرحکمت بھیدوں کی قسم کھائی ہے جو عصر (زمانہ) کے پس منظر میں مخفی ہیں، کیونکہ جہاں خداوندِ پاک و برتر کی کوئی قسم ہوتی ہے، وہاں قرآنی علم و عرفان کا ایک بہت بڑا خزانہ پوشیدہ ہوتا ہے، سو آئیے کہ ہم نورِ ہدایت کے حضور میں انتہائی عاجزی اور حاجتمندی سے درخواست کریں ، کہ وہ اپنی خصوصی تائید سے ہماری دستگیری فرمائے، تا کہ ہم “تصورِ رفعِ زمان” کے کچھ بھیدوں کو بیان کر سکیں۔

 

۲۔ رفعِ زمان کے تصوّر میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ بعض آیاتِ کریمہ میں کس طرح زمانے کو سامنے سے اٹھایا گیا ہے؟ کیوں یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ لوگ زمان و مکان سے بالاتر ہوکر بھی سوچیں؟ آیا تصوّر و تفکر کے اس طریقِ کار سے ہمیں کچھ علمی و عرفانی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں؟ چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلے آیۂ اطاعت کو دیکھئے: اے ایمان والو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۰۴: ۵۹) یہ

 

۷۷

 

حکم زمانۂ نبوّت میں نازل ہوا تھا، اس وقت کے اعتبار سے صرف زمانۂ حال کے مسلمان موجود تھے، جن کی تعداد بہت کم تھی، اور زمانۂ مستقبل کے بے شمار مسلمین ہنوز پیدا نہیں ہوئے تھے کہ ان کو زمانۂ رسول کے مسلمانوں کی طرح مخاطب کیا جائے، لہٰذا خداوندِ عالم نے دنیا میں آنے والے تمام مسلمین و مومنین کے سامنے سے ماضی کو ہٹا دیا، جس کی بدولت ہر زمانے کے اہلِ ایمان کو براہِ راست اطاعت و فرمانبرداری کا یہ ارشاد فرمایا گیا۔

 

۳۔ قرآنِ حکیم جو پروردگارِ عالم کا کلامِ حکمت نظام ہے، وہ اپنے “روحانی پہلو” سے “قدیم” ہے، اور جو چیز قدیم ہو، وہ زمان و مکان سے بالاتر اور اس پر محیط ہوتی ہے، چنانچہ قرآنِ پاک کے قدیم ہونے کی مثال یہ ہے کہ اس کا خطاب مرتبۂ عقل اور مقامِ روح پر ازل سے جاری اور غیر فانی ہے، یہ لوحِ محفوظ (۸۵: ۲۲) پر “ہر طرح سے محفوظ” ہے، مگر اس کی حفاظت و نگہداشت کی مثال دنیا کی کسی خاموش، بے جان، اور بے عقل تحریری ریکارڈ سے نہیں دی جا سکتی، جبکہ لوحِ محفوظ میں قرآنِ مجید “عقلی، نورانی، علمی اور روحانی” کیفیات میں زندہ و گویندہ ہے، اور وہ لمحہ لمحہ اپنے پُرنور معجزات کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) بلکہ وہ ایک باعظمت (بزرگ) قرآن ہے جو لوحِ محفوظ میں موجود ہے۔

 

۴۔ لفظِ مجید خدائے بزرگ و برتر کے عظیم ناموں میں سے ہے (۱۱: ۷۳) جس کے معنی ہیں وہ ذات جو اپنے خصوصی فضل و کرم سے نوازنے میں انتہائی وسعت اور فراخی سے کام لینے والی ہو، خداوندِ عالم نے اپنے اسی بابرکت اسم سے عرشِ عظیم اور کتابِ عزیز (قرآن) کو بھی مسمیٰ فرمایا ہے، لہٰذا یہاں قرآنِ پاک کے درجۂ

 

۷۸

 

لوحِ محفوظ کی جیسی تعریف و توصیف کی گئی، وہ اگرچہ لفظی حسن میں شایانِ شان نہیں، لیکن حقیقت پر مبنی ہے۔

 

۵۔ قرآنِ مجید جہاں لوحِ محفوظ میں ہے، وہاں یہ مکانی اور زمانی حالات و کیفیات سے پاک و برتر ہے، کیونکہ عالمِ لوح و قلم دراصل عالمِ لامکان و لازمان ہے، وہ جسم نہیں، جس کے ابعادِ ثلاثہ (طول، عرض، عمق) ہوتے ہیں، اور اس میں دنیائے ظاہر کی طرح زمانہ نہیں پایا جاتا، کہ اس کے ماضی، حال ، اور مستقبل ہو، بلکہ اس میں نہ گزرنے والا زمان ہے، جس کو آپ لازوال اور ہمیشہ ٹھہرا ہوا زمانہ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ وہ “دہر” ہے (۷۶: ۰۱) جس کا دوسرا نام ازل ہے، اور یہی ازل دوسرے اعتبار سے ابد ہے، چنانچہ اگر آپ کسی قرآنی حقیقت کا تصوّر کلمۂ باری (یعنی کُنۡ) یا قلمِ الٰہی یا لوحِ محفوظ میں کرتے ہیں، تو یہ رفعِ زمان کا تصوّر ہے، کیونکہ ایسی صورت میں زمانۂ ظاہر کا حجاب سامنے سے اٹھ جاتا ہے۔

 

۶۔ قرآنِ حکیم میں فعلِ مضارع کا استعمال کثرت سے ہوا ہے، جس میں بہت بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں، آپ جانتے ہیں کہ مضارع وہ فعل ہے، جس میں حال اور مستقبل دونوں زمانے پائے جاتے ہیں، سو درحقیقت یہ مناسب نہیں کہ ہم ایسے لفظ کے دو زمانوں میں سے ایک کو لے کر دوسرے کو مہمل قرار دیں، بلکہ حق تو یہ ہے کہ دونوں معنوں کو برابر کی اہمیت دی جائے، جس کی ایک بہترین مثال ملاحظہ ہو:۔

وَ یَوْمَ یَقُوْلُ كُنْ فَیَكُوْنُ (۰۶: ۷۳) چونکہ صیغۂ یقول مضارع ہے، لہٰذا یہ حکم ہمیشہ زمانۂ حال اور مستقبل کے درمیان مشترک ہے، سو اس کا ترجمہ دونوں زمانوں سے متعلق ہو گا:۔

الف: اور جس دن (خدا) کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے۔

 

۷۹

 

ب: اور جس دن (خدا) کہے گا کہ ہو جا تو وہ ہو جائے گا۔ یہ امر انفرادی قیامت اور عالمِ شخصی کے روحانی ظہور سے متعلق ہے، جو حال میں بھی ہے اور مستقبل میں بھی، اب اگر اس حکمِ خداوندی کے نتیجے کو حال میں دیکھنا ہے تو روحانیّت میں اس کا تصوّر کرنا لازمی ہے، اور اگر مستقبل میں دیکھنا ہے تو جسمانی موت کا انتظار کرنا پڑے گا۔

 

۷۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں ارشاد ہے: پہلا ترجمہ: جس روز ہم آسمان (یعنی تمام کائنات) کو لپیٹ لیتے ہیں۔ دوسرا ترجمہ: جس روز ہم آسمان (یعنی تمام کائنات) کو لپیٹ لیں گے۔ یہ دو ترجمے اس لئے ضروری ہیں کہ اس آیۂ کریمہ میں لفظِ “نطوی” مضارع ہے، پس ہمیں یقینِ کامل ہے کہ قادرِ مطلق اس ظاہری اور مادّی دنیا کو نہیں، بلکہ اس کی عقلی اور روحانی حیثیت و ہستی کو ہمیشہ اور ہر زمانے میں اپنے دستِ راست میں لپیٹ لیتا ہے، جبکہ انفرادی قیامات کے سلسلے میں کوئی قیامت واقع ہو جاتی ہے۔

 

۸۔ سورۂ احزاب (۳۳: ۳۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا (۳۳: ۳۷) اور خدا کا امر کیا ہوا ہے۔ یعنی نہ صرف “کُنۡ” (ہو جا) کا حکم کیا گیا ہے، بلکہ جو کچھ ہو جانا چاہئے وہ بھی ہوچکا ہے، یہ عالمِ امر کی کیفیت و حقیقت ہے، کہ وہاں اللہ کا کوئی کام مستقبل پر چھوڑا ہوا نہیں ہے، وہاں تو مستقبل کا وجود ہی نہیں، چنانچہ کلمۂ باری (کُنۡ) ازل میں صرف ایک بار چشمِ زدن کی طرح فرمایا گیا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے:

وَ مَاۤ اَمْرُنَاۤ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۭ بِالْبَصَرِ (۵۴: ۵۰) اور ہمارا حکم (یعنی کُنۡ فرمانا) چشمِ زدن کی طرح صرف ایک بار ہے۔ آپ کو اس رازِ قرآنی سے بڑی حیرت ہو سکتی ہے کہ اس حقیقتِ حال کے باؤجود کہ کلمۂ باری صرف ایک بار

 

۸۰

 

فرمایا گیا ہے، لیکن پھر بھی کئی آیات سے یہ شہادت ملتی ہے کہ خداوندِ عالم چیزوں کو وجود میں لانے کے سلسلے میں ہمیشہ اور ہر وقت کُنۡ (ہو جا) فرماتا رہتا ہے، جیسے ہر کامل انسان پر جسمانی تخلیق اور روحانی تکمیل کے بعد اس کا اطلاق ہو جاتا ہے، جس کی مثال حضرت آدمؑ اور حضرت عیسیٰؑ ہیں (۰۳: ۵۹)۔

 

اس مسئلہ کے بارے میں عرض یہ ہے کہ یقیناً عالمِ روحانی میں کلمۂ امر نہ صرف اپنی ذات میں ایک ہے، بلکہ وہ اپنے جملہ ظہورات کو بھی ایک کر لیتا ہے، یہ ظہورات سلسلۂ نورِ ہدایت میں پائے جاتے ہیں، پس کلمۂ باری خورشیدِ انور ہے، جس کا عکسِ منیر (جو علم و حکمت کا سرچشمہ ہے) مکان و زمان کے حجابات کو سامنے سے ہٹا کر آئینۂ قلبِ مظہر کو اپنے ساتھ واصل کر لیتا ہے، جیسے آفتابِ ظاہر اپنے عکس کو آئینے سے اٹھا کر اپنی ذات سے ملا لیتا ہے، پھر ایسے کثیر آئینوں میں سورج کی دوئی اور کثرت ایک عارضی اور مجازی بات بن جاتی ہے۔

 

۹۔ بعض دفعہ انسان درازیٔ زمانہ کے باب میں سوچتے سوچتے ذہنی پریشانی اور حیرت سے دوچار ہو جاتا ہے، وہ یوں سمجھتا ہے کہ طولِ زمانہ بے پایان ہے، ازل ایسے لا انتہا بعید ماضی کا نام ہے، جس کا آغاز بے قیاس ہے، وغیرہ۔ مگر حقیقت میں پریشانی کی کوئی بات ہے ہی نہیں، کیونکہ زمان دراصل دہر سے ہے (۷۶: ۰۱) جو گردشِ آسمان کے توسط سے بنتا ہے، اور قانونِ بقا و فنا یہ ہے کہ جو چیز جہاں سے پیدا ہو جاتی ہے، بالآخر وہاں جا کر فنا ہو جاتی ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ ظاہری زمانہ دہر (زمانِ ساکن، ٹھہرا ہوا زمان، یعنی ازل) سے بنتا ہے اور پھر یہ جا کر دہر میں فنا ہو جاتا ہے، پس یہ کہنا کوئی منطق ہی نہیں کہ: “کارخانۂ قدرت میں محدود چیز تو لا محدود ہوتی جاتی ہے، مگر غیر محدود شیٔ کبھی محدود نہیں ہو سکتی۔” جبکہ قرآنِ حکیم میں یہ تذکرہ موجود ہے کہ قادرِ مطلق تمام پھیلی ہوئی اور بکھری

 

۸۱

 

ہوئی چیزوں کو لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) محدود کر دیتا ہے (۳۶: ۱۲، ۷۸: ۲۹) عددِ واحد میں گن کر رکھتا ہے (۱۹: ۹۴، ۷۲: ۲۸) اور اسی طرح ہر چیز اس کے نزدیک ایک مخصوص مقدار میں ہے (۱۳: ۰۸، ۵۴: ۴۹) جس کا یہیں ذکر ہوچکا۔

 

۱۰۔ خدائے رحمان و رحیم اپنے نیک بندوں کے محدود اعمال کو بصورتِ اجر و ثواب کائنات بھر میں پھیلا دیتا ہے، اور خدائی رنگ (۰۲: ۱۳۸) کی نورانیّت سے رنگین کرکے ان سے بہشت بناتا ہے، پھر اسی بہشتِ برین کو جو کائناتی عقل، روحِ محیط، اور عالمگیر جسمِ لطیف کی شکل میں تھی (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اپنے بابرکت ہاتھ کی مٹھی میں محدود کر کے مومنین کو عطا کر دیتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) اور اسی آسمان کے لپیٹنے میں یہ حکیمانہ اشارہ بھی پوشیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ کل زمانوں (یعنی عالمِ ظاہر کی مدتِ عمر) کو مرکوز کر کے دہر (ازل = ابد) میں فنا کر دیتا ہے، جس کے نتیجے میں اہلِ ایمان کے وہ تمام نیک اعمال جو زمانۂ ظاہر میں کئے گئے تھے لازوال بن جاتے ہیں۔

 

۱۱۔ قانونِ قرآن بڑے صاف و صریح الفاظ میں کہتا ہے کہ چہرۂ خدا کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے (سورۂ رحمان، ۵۵: ۲۷؛ سورۂ قصص، ۲۸: ۸۸) ، اور زمانۂ ظاہر بھی ہلاک ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ فانی چیزوں سے وابستہ ہے، مثال کے طور پر جب سیّارۂ زمین ختم ہو جائے گا، تو اس کا زمانۂ گردش بھی ختم ہو جائے گا، مگر سوال ہے کہ زمانہائے ظاہر کہاں اور کس طرح ہلاک ہو جاتے ہیں؟ جواب عرض ہے کہ وہاں جہاں چہرۂ خدا کا دیدار اور معرفت کا سب سے اعلیٰ مقام ہے، اور جہاں دہر، ازل، اور ابد مل کر ایک ہے، اور وہ ہلاکت اس طرح ہے کہ یہ مادّی زمانہ فنا ہو کر روحانی

 

۸۲

 

زمانہ یعنی دہر بن جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗؕ (۲۸: ۸۸) چہرۂ خدا کے سوا ہر چیز ہلاک ہو جانے والی ہے۔

 

۱۲۔ جب ہم محوِ خواب ہو جاتے ہیں، تو اس دوران ہمارا ظاہری وقت فنا ہو کر عالمِ خواب کا وقت بن جاتا ہے جو قطعاً مختلف ہے، جیسے ہی جاگ اٹھتے ہیں، اسی کے ساتھ دنیائے خواب دنیائے بیداری میں فنا ہو جاتی ہے، جہاں ہم دنیا زمانے سے آنکھیں بند کر کے عالمِ خیال میں چلے جاتے ہیں، وہاں ہمارے مادّی لمحات فکری و خیالی لمحات میں بدل جاتے ہیں، اور اگر “خیال” علم و عبادت کے وسیلے سے “روحانیت” میں فنا ہو جائے، تو ظاہر ہے کہ اس کا زمانہ الگ اور سب سے نرالا ہو گا، کیونکہ وہ دنیا کے تمام زمانوں پر بادشاہ ہے، جبکہ ہر ماضی، حال، اور مستقبل اس کے تحت ہے، جس کی بہت سی مثالیں قرآنِ حکیم میں موجود ہیں، جیسے سورۂ جمعہ (۶۲: ۰۲ تا ۰۳) میں بزبانِ حکمت ارشاد ہے کہ ہر زمانے کے مومنین بوسیلۂ امامِ زمان راہِ روحانیّت پر پیش رفت کر کے زمانۂ نبوّت اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فیوض و برکاتِ باطن کو پہنچ سکتے ہیں، اور یہی رفعِ زمان کا واضح تصوّر ہے۔

 

۱۳۔ سورۂ رحمان (۵۵) جو “عروس القرآن” ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے ان تمام عظیم الشّان احسانات و انعامات کا تذکرہ ہے، جو انسانوں اور جنّات کو حاصل ہیں، یہاں آپ بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ ان جملہ ظاہری و باطنی نعمتوں کی چوٹی پر ایک انتہائی گرانقدر نعمت درخشان و تابان ہے، جو نہ صرف سب سے افضل و اعلیٰ ہے، بلکہ یہ لازوال، غیر فانی، ازلی، اور ابدی بھی ہے، اور ایسی نعمت جس کی تعریف کا قلمی احاطہ نہیں ہو سکتا نتیجۂ محویّت و فنائیّت ہے، وہ اس طرح کہ روحانیّت کے بحرِ محیط میں خدا کے بنائے ہوئے عظیم سمندری جہاز (یعنی عوالمِ شخصی) ذرّاتِ روح سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور یہ فضل دیگر فضائل سے کیوں بڑھ کر نہ ہو کہ ان

 

۸۳

 

روحانی جہازوں میں جو بھی ہیں وہ سب کے سب چہرۂ خدا (یعنی معرفتِ توحید) میں فنا ہوکر اس کی صفتِ جلالت و کرامت میں زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں (۵۵: ۲۴ تا ۲۷، کی روشنی میں خوب غور فرمائیں)۔

 

۱۴۔ قرآنِ پاک کے پُرحکمت و بابرکت ناموں میں سے دو مرفوع اور مطہر (۸۰: ۱۴) ہیں، جن کے معنی ہیں: بلند کیا گیا، اور پاک کیا گیا، آپ جانتے ہیں کہ یہ دونوں مبارک نام اسمِ مفعول ہیں، اب کسی ہوشمند کے دل میں یہ سوال ضرور ہوگا کہ قرآن پر بلند کرنے کا فعل کیسے واقع ہوا؟ آیا وہ نزول سے پہلے کبھی زمین کی پستی پر تھا؟ کس طرح اس کی تطہیر ہوئی؟ کیا وہ ازل ہی سے پاک و پاکیزہ اور برتر نہیں؟

 

اس کے جواب کے لئے گزارش یوں ہے کہ قرآنِ پاک بلاشک من عند اللہ (یعنی خدا کی جانب سے) نازل ہوا ہے، اس کے وجودِ پاک کے دو پہلو ہیں، ایک میں اللہ کی وہ پاک اور پیاری باتیں ہیں جو براہِ راست آسمان سے نازل ہوئی ہیں، اور دوسرے پہلو میں اہلِ زمین کی باتیں ہیں، جو آسمانِ علم و حکمت پر اٹھا کر پاک و پاکیزہ کی گئی ہیں، چنانچہ اسی پہلو کے اعتبار سے قرآنِ حکیم کے یہ دو نام مرفوع (بلند کیا گیا) اور مطہر (پاک کیا گیا) مقرر ہو گئے، اس کا واضح و عیان مطلب یہ ہوا کہ خدائے علیم و حکیم نے اپنی پُرحکمت کتاب (قرآن) میں جہاں جہاں کافروں، مشرکوں، وغیرہ کی ترجمانی کی ہے، وہاں بھی قرآنِ حکیم کے دوسرے مقامات ہی کی طرح باطنی بھیدوں کے خزانے موجود ہیں، بلکہ گنجہائے گرانمایہ بطورِ خاص ایسی جگہوں میں مخفی رہ سکتے ہیں کہ جہاں لوگوں کو اس کا گمان ہی نہ ہو سکے۔

 

۱۵۔ مذکورۂ بالا کلیدی حکمت کی روشنی میں آپ قرآنی بھیدوں کے بیش از بیش خزائن کو دیکھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر سورۂ جاثیہ (۴۵) کی آیتِ کریمہ ۲۴  (۴۵: ۲۴) ملاحظہ ہو، کہ اس میں لفظِ دہر موجود ہے، آپ اس کو سورۂ دہر (۷۶) کی ابتدائی

 

۸۴

 

آیت (۷۶: ۰۱)  سے ملا کر پڑھیں، نیز ہلاک (۲۸: ۸۸) اور فنا (۵۵: ۲۶) کی حکمت پیشِ نظر ہو، پھر سب سے پہلے یہ سوچ لیا جائے کہ “دہر” کیا ہے؟ اگر دہر چہرۂ خدا کے سوا کسی اور چیز کا نام ہے، تو اسے وہاں فنا یا ہلاک ہو جانا چاہئے، جہاں ذاتِ خدا کے سوا جو کچھ ہے وہ فنا یا ہلاک ہو جاتا ہے، مگر ایسا نہیں، پس ظاہر ہے کہ دہر حقیقتِ حقائق کا ایک مخفی نام ہے۔

 

۱۶۔ انسان جب دہر کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، تو وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر فنا ہو جاتا ہے، یہ بات شخصیّت میں بھی ہو سکتی ہے اور ذرّاتِ ارواح میں بھی، مگر اس فنا کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان اس حال میں نیست و نابود ہو جاتا ہو، بلکہ اس کی ایک مادّی مثال لوہے کے اس ٹکڑے کی طرح ہے جو دہکتے ہوئے انگاروں میں رہ کر سرخ انگارا بن جاتا ہے، اسی طرح انسان علم و عبادت کے ذریعے سے مکان و زمان سے بالاتر ہوکر اصل سے واصل ہو جانے کا تجربہ کرسکتا ہے، ایسے میں کچھ دیر کے لئے یا زیادہ عرصے کے لئے “انسان” کا یہ نام اٹھ جاتا ہے، جیسا کہ سورۂ دہر کے آغاز (یعنی ۷۶: ۰۱) میں ارشاد ہے: کیا انسان پر دہر سے ایک وقت آیا ہے جس میں وہ فنا ہو چکا تھا۔ اس میں واضح اشارہ یہ ہے کہ وہ وقت انسان پر پھر آنے والا ہے، یعنی انسان اس منزلِ فنا میں ایسا نہ تھا کہ اس کی اپنی طرف سے کوئی نام و نشان ہو۔

 

۱۷۔ صوفیوں کا نظریۂ “ہمہ اوست” (یعنی خدا سب کچھ ہے) بہت ہی خوب ہے، لیکن اس کا اطلاق دراصل فنا پذیر چیزوں پر نہیں ہوتا، بلکہ اس کا تعلق عالمِ امر کے لازوال اور غیر فانی حقائق سے ہے، جن کا مشاہدہ “محویت و فنائیت” کے بعد ہو جاتا ہے (۵۵: ۲۲ تا ۲۷) اگر یہ مانا جائے کہ منصورِ حلاج ایک کامیاب اور چوٹی کا صوفی تھا، تو پھر اس صورت میں لازماً ہمیں یہ بھی کہنا پڑے گا کہ اس

 

۸۵

 

کے سامنے سے زمانۂ ظاہر کا پردہ ہٹ گیا تھا، اور اس نے عالمِ امر میں اپنی “انائے علوی کا مشاہدہ” کر لیا تھا، اور اسی وجہ سے اس نے نعرۂ انا الحق بلند کیا۔

 

۱۸۔ وہ آیۂ کریمہ انتہائی اہمیّت و جامعیّت کی حامل ہے، جس کو “قانونِ خزائن، (۱۵: ۲۱)” کے پیارے نام سے ہمیشہ یاد کرنا چاہئے، ہم ایسی بابرکت آیات سے علمی و عرفانی روشنی حاصل کرنے کے لئے جتنی دفعہ بھی رجوع کریں کم ہے، چنانچہ یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ خداوندِ تعالیٰ کا قرب و حضور مکانی اور مادّی نہیں، بلکہ عقلی اور روحانی کیفیت میں ہے، لہٰذا یہ خزانے جن کا ذکر آیۂ محولۂ بالا میں ہے، زندہ اور بولنے والے ہیں، کیونکہ یہ عقل و جان کے سرچشمے ہیں، اور اسی وجہ سے ان کو پروردگارِ عالم کی انتہائی قربت و نزدیکی کا مرتبہ حاصل ہے، اس سلسلے میں ضروری طور پر یہ بھی سوچنا ہے کہ آیا انسانی صورت جو دراصل صورتِ رحمان ہے، وہ ان خدائی خزانوں سے باہر کہیں ہوسکتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں، کیونکہ ہر چیز ان خزائن میں ہے یا ان سے وابستہ ہے، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر گنجِ الٰہی انسانی شکل کا ایک عظیم فرشتہ ہے، اور تمام اعلیٰ حقائق جیسے دہر، ازل، ابد، بہشت وغیرہ ایسے ہی زندہ خزانوں میں محدود ہیں، جس طرح آیۂ قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) میں اس امر کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

 

۱۹۔ قرآنِ حکیم میں لفظِ السمآء (آسمان) اکثر کل کائنات کے لئے آیا ہے، کیونکہ یہ سارا جہان کرۂ فلک کے تحت ہے، چنانچہ سمآء یعنی آسمان کے بارے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے وہ قانونِ کلّ کا درجہ رکھتا ہے، جیسے ارشاد ہے: وَ اِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ (۸۱: ۱۱) اور جس وقت کہ آسمان کی کھال اتاری جائے گی۔ یعنی روحانیّت اور قیامت میں اس جہان کے ظاہری وجود کو ہٹا کر اس کے باطن کو سامنے لایا جاتا ہے، اسی طرح زمانۂ ظاہر کا چھلکا اتارا جاتا ہے، تا کہ اس کے نیچے سے بھرپور حسن و

 

۸۶

 

خوبی کے ساتھ دہر کا مشاہدہ ہو، جو تمام ظاہری زمانوں کی جان ہے، پس جس طرح آسمان کی کھال یا چھلکا یا ظاہر ہے، اسی طرح اس مادّی کائنات کی ہر چیز کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے، اور اسی سلسلے میں یہ کہنا حقیقت ہے کہ ہر آدمی کے اندر ایک صاف ستھرا بلکہ حسین و جمیل آدمی (یعنی روح) پوشیدہ ہے، کہ یہ چھلکا ہے اور وہ خوبصورت مغز، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اس کائنات کے ظاہر کا نام دنیا ہے، اور اس کا باطن آخرت، روحانیّت، اور بہشت ہے اور اسی معنیٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ جنّت طول و عرض میں اس جہان کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱)۔

 

فتح علی حبیب، صدرِ خانۂ حکمت

محمد عبد العزیز، صدرِ ادارۂ عارف

 

خاکسار خادم:

نصیر الدین نصیر ہونزائی

منگل ۸ محرم الحرام ۱۴۰۶ھ

۲۴ ستمبر ۱۹۸۵ء

 

۸۷

 

مسئلۂ شہادت

 

۱۔ شہادت کے معنی ہیں کسی چیز کا مشاہدہ کرنا۱، خواہ چشمِ ظاہر سے ہو یا دیدۂ دل سے، شہادت راہِ خدا میں شہید ہو جانا بھی ہے، حاضر ہونے کو بھی کہتے ہیں، اور گواہی کو بھی، جیسے سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۱۸) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اللہ تعالیٰ نے خود شہادت (گواہی) دی کہ بے شک اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور فرشتوں نے بھی، اور صاحبانِ علم (اولوا العلم) نے بھی، جو عدل کے ساتھ قائم ہیں (۰۳: ۱۸) یہ حضرات کون ہیں جو خدا اور ملائکہ کے ساتھ حقیقی معنوں میں وحدانیّت کی گواہی دیتے ہیں، جن کو ربِّ کریم نے آسمانی علم کے مرتبۂ اعلیٰ پر اٹھا کر “اولوا العلم” کے اسم سے موسوم فرمایا ہے، اور جو عدل و انصاف کے ساتھ قائم ہیں؟ یہ انبیاء و اوصیاء علیہم السّلام ہیں، کیونکہ کامل خدا شناسی (معرفت) علمِ توحید، اور عدل جیسے اعلیٰ اوصاف سے صرف یہی مقدّس ہستیاں موصوف ہیں۔

 

۲۔ آپ نے غور سے دیکھا کہ مذکورۂ بالا شہادت جو اللہ تعالیٰ کی وحدت و یکتائی سے متعلق ہے، وہ عام نہیں بلکہ خاص اور سب سے بالا و برتر ہے، کیونکہ وہ

 

۱: (جو روحانی شہید ہو، وہ آج دنیا ہی سے حقائق و معارف کا مشاہدہ کرنے لگے گا، اور جو جسمانی شہید ہو، وہ کل آخرت میں مشاہدہ کرے گا)

 

۸۸

 

اللہ اور فرشتوں کی گواہی کے ساتھ ہے، اور آسمانی علم و معرفت اور حقیقی عدل کی روشنی میں ہے، یعنی روحانی اور عقلی ظہورات و تجلّیات کے مشاہدۂ باطن اور کامل معرفت کے بعد ہے، کیونکہ اس کے بغیر وحدانیّت کی بحقیقت شہادت نہیں ہوسکتی ہے، اور یہ قانونِ حکمت ہمیشہ یاد رہے کہ جب بھی کوئی شہادت خداوندِ تعالیٰ کی شہادت سے جا ملتی ہے، وہ عالمِ روح اور عالمِ عقل کے “بھرپور مشاہدات” اور مکمل خدا شناسی پر مبنی ہوا کرتی ہے، جیسا کہ سورۂ رعد کی آخری آیۂ کریمہ (یعنی ۱۳: ۴۳) میں خداوندِ عالم کا فرمان ہے: اور (اے رسول) کافر لوگ کہتے ہیں کہ تم پیغمبر نہیں ہو تو تم (ان سے) کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کی) گواہی کے واسطے خدا اور وہ شخص جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا علم ہے کافی ہیں۔

 

اہلِ دانش کے نزدیک یہ حقیقت کتنی تابناک اور قابلِ فہم ہے کہ جہاں آنحضرتؐ کی رسالت کا پہلا گواہ خدا خود ہے، وہاں اس حقیقت کا دوسرا گواہ امام یعنی مولا علیؑ ہے، اس امر سے ہر دانا شخص بحسن و خوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ امامِ عالی مقام کا باطنی مرتبہ کتنا بلند ہے، اور اس نے کس طرح نبوّت و رسالت کے جملہ احوالِ روحانی و عقلی کو چشمِ بصیرت سے دیکھا ہے، کیونکہ اس کے سوا نہ تو خدا کے معیار کے مطابق کوئی شہادت ہو سکتی ہے، اور نہ ہی آسمانی کتاب کا نورانی علم ممکن ہے۔

 

۳۔ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالتِ عالیہ پر خداوندِ تعالیٰ کی شہادت قرآن کی تنزیل ہے، اور امامِ اقدس و اطہر کی شہادت قرآن کی تاویل ہے، یعنی جب اللہ نے قرآن کو نازل فرمایا، اور جب بحکمِ خدا نورِ امامت نے اس کی تاویل کا آغاز کیا، تو پہلی بار یہ دونوں عالی شان شہادتیں مکمل ہوئیں، تاہم تنزیل کی شہادت کے ساتھ ساتھ تاویل کی شہادت بھی ہمیشہ لازمی تھی ، لہٰذا اس

 

۸۹

 

کا ذریعہ یعنی امامِ عالی مقام ہر زمانے میں موجود اور حاضر ہے، اور اسی آیۂ کریمہ (یعنی ۱۳: ۴۳) کے مطابق حدیثِ ثقلین ہے، جس میں اسی شہادت کے ساتھ ساتھ امت کی ہدایت بھی مقصود ہے۔

 

۴۔ سورۂ ہود کی اس نورانی تعلیم کو دیکھئے: پس کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشن دلیل پر ہو (یعنی رسول) اور ایک گواہ اس کے پیچھے ہی پیچھے آتا ہو جو اسی کا جزو ہو (یعنی علی، ۱۱: ۱۷) آپ کو یہ معلوم ہے کہ اسلام کے ظاہری معاملات میں جہاں گواہی کی ضرورت ہوتی ہے تو وہاں غیر مسلم کو نہیں بلکہ دو ایسے معتبر مسلمانوں کو بطورِ گواہ لیا جاتا ہے، جنہوں نے متعلقہ واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، لیکن کارِ نبوّت و رسالت “باطنی اور نورانی معجزات کا مجموعہ” ہے، جس کو خدا، رسول، اور صاحبِ امر (یعنی امام) ہی دیکھ سکتے ہیں، لہٰذا اس کی شہادت کے لئے اللہ پاک نے اپنے ساتھ امامِ برحق کو لیا، جو پیغمبرِ اکرم کی جان ہے، پس یہ “شہادتِ رویت” ہے۱۔

 

۵۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ ہے (۲۲: ۱۷) اسی طرح وہ رسول پر بھی گواہ ہے، آنحضرت أئمّۂ طاہرین پر گواہ ہیں (۰۲: ۱۴۳، ۲۲: ۷۸) یعنی نورِ امامت نورِ نبوّت سے واصل ہے، اور حضراتِ أئمّہ اپنے اپنے زمانے کے لوگوں پر گواہ ہیں (۰۲: ۱۴۳، ۲۲: ۷۸) اس کے یہ معنی ہوئے کہ خدا کا دروازہ پیغمبر ہیں، اور پیغمبر کا دروازہ امام، اور یہی بے بدل سنت اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔

 

۶۔ سورۂ زمر (۳۹: ۶۹) کے اس ارشاد کو دیکھئے: اور زمین اپنے ربّ کے نور سے چمک اٹھے گی اور کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو لایا جائے

 

۱: چشم دید گواہی

 

۹۰

 

گا (۳۹: ۶۹) مذکورہ زمین جو اپنے پروردگار کے نور سے منوّر ہوجاتی ہے ارضِ عالمِ شخصی ہے، اس کتاب کو آپ نامۂ اعمال یا کتابِ روح یا روحانیّت کہہ سکتے ہیں، اور انبیاء کے ساتھ جو گواہ ہیں، وہ اوصیاء (یعنی أئمّہ) ہیں جیسے سورۂ ق (۵۰: ۲۱) میں ارشاد ہے: اور ہر نفس (یعنی روح) آئے گا (اس حال میں کہ) اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا اور ایک گواہ ہوگا (۵۰: ۲۱) یعنی اوّلین و آخرین کی ہر روح اپنے پیغمبر اور امام کے ساتھ آئے گی، کہ انبیاء لوگوں کو قانونِ شریعت کے مطابق چلاتے ہیں، اور أئمّہ لوگوں پر گواہ ہیں۔

 

۷۔ خدا تعالیٰ ہر جگہ حاضر ہے، اس معنیٰ میں وہ ہر چیز پر گواہ ہے، اور اس سلسلے میں وہ لوگوں پر بھی گواہ ہے، مگر ظاہری قانون یہ ہے کہ جس کو گواہ ہونا ہے، وہ غائب نہ ہو، بلکہ حاضر ہو، چنانچہ خداوندِ عالم نے ہر دور میں ایک پیغمبر کو بھیجا ، تاکہ وہ اپنی زندگی کے دوران لوگوں پر گواہ رہے، یعنی خدا کی گواہی کی نمائندگی کرے، اور پھر اپنے جانشین کو اس شہادت کے لئے مقرر کرے، اسی حقیقت کا یہاں قرآنِ حکیم کی روشنی میں ذکر ہو رہا ہے، اور یہی حقیقت سورۂ مائدہ کی ایک آیۂ کریمہ (یعنی ۰۵: ۱۱۷) میں نمایان طور پر جھلکتی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھ کو وفات دی تو تو ہی ان پر مطلع تھا (۰۵: ۱۱۷) یہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا تذکرہ ہے، کہ آپ اپنی حیاتِ طیبہ میں لوگوں پر گواہ تھے، اور آپ کے بعد آپ کے دور کے أئمّہ اس سماوی شہادت کی نمائندگی کرتے تھے، اور حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں بھی ایسا ہی ہے۔

 

۸۔ قیامت کے بارے میں جتنے ارشادات فرمائے گئے ہیں، وہ سب کے سب امثال کی صورت میں ہیں، چنانچہ ہر مثال کی مدد سے اس کے ممثول کی معرفت

 

۹۱

 

ضروری ہے، اور اگر یہ بات نہ ہوسکی تو مثال کا جو مقصد تھا، وہ لا حاصل ہو کر رہ جائے گا، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: پھر ہم ایک خاص علم سے ان کو بیان کریں گے اور ہم غائب نہ تھے ( ۰۷: ۰۷) یعنی مثالیں سب کی سب اس ظاہری دنیا میں رہ جائیں گی، اور مقامِ روحانیّت جو قیامت و آخرت ہے، اس میں ایک خاص علمِ الٰہی کے تحت ممثولات ہی ممثولات سامنے آئیں گے۔

 

یہاں یہ ارشاد:  وَّ مَا كُنَّا غَآىٕبِیْنَ (اور ہم غائب نہ تھے) زیادہ سے زیادہ توجہ طلب ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کے الفاظ عربی زبان اور لغت کی بنیاد پر قائم و استوار کئے گئے ہیں، چنانچہ مذکورہ آیۂ کریمہ میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر خدائے واحد “غائبین” نہ تھے تو لازمی طور پر “حاضرین” تھے لیکن یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم کسی واحد کو جمع تسلیم کریں، اور کسی غائب کو سامنے حاضر دیکھیں؟ جواباً عرض ہے کہ ان پُرحکمت الفاظ میں حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کا ذکر ہے کہ وہ صاحبان بہت سے معنوں میں اللہ پاک کی خلافت، نیابت، اور نمائندگی سے سرفراز ہوئے ہیں، اور کوئی بادشاہ اپنے نمائندوں کے بارے میں لوگوں سے یہ کہہ سکتا ہے کہ: “دیکھو یہ ہمارے نمائندے تمہاری طرف آ رہے ہیں، بلکہ یوں سمجھ لو کہ ان کی صورت میں ہم خود ہیں۔”

 

۹۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۸) کا ایک پُرحکمت مفہوم اس طرح ہے: بے شک صبح کا قرآن (پڑھنا) بمعنی نورانی عبادت مشہود (حاضر کیا گیا) ہے، یعنی اس کے نتیجے میں عالمِ روحانیّت کا مشاہدہ ہو جاتا ہے، پس یہی ذکر و عبادت قرآن کی خصوصی تلاوت ہے، اور یہی نورانی منظر قرآن کی روح و روحانیّت ہے، جیسے فرمایا گیا ہے (۰۵: ۴۴) کہ تورات کے پہلوئے ظاہر میں ہدایت تھی اور پہلوئے باطن میں نور تھا، تا کہ انبیاء ، أئمّہ (ربّانیوں) ، حجّج و دعاۃ (احبار) اپنے اپنے

 

۹۲

 

درجے کے مطابق اس نور کی روشنی میں لوگوں کو تورات کی تعلیم دیں (مفہوم: ۰۵: ۴۴)۔

 

مذکورۂ بالا آیۂ مقدّسہ میں : وَ كَانُوْا عَلَیْهِ شُهَدَآءَ (اور وہ اس پر بحالتِ روحانی حاضر تھے) کا ارشاد کلیدی حکمت کا حامل ہے، جس سے یہ واضح اشارہ مل جاتا ہے، کہ آسمانی کتاب کا نور پیغمبر اور امام کی ذاتِ عالی صفات میں اپنی بھرپور روحانی اور عقلی تجلّیات کے ساتھ موجود ہوتا ہے، اور انہی کے وسیلے سے حجّتوں اور داعیوں کو بھی اس کا مکمل تجربہ ہو سکتا ہے۔

 

۱۰۔ آپ کو شاید اس بھید کے سننے سے بڑا تعجب ہوگا کہ جو حضرات جسمانی موت سے پہلے نفسانی موت کا تجربہ کر لیتے ہیں، تو ان کی “ذاتی قیامت” برپا ہو جاتی ہے، ان کو بہت بڑی کامیابی کے ساتھ نامۂ اعمال دیا جاتا ہے، اس میں آسمانی کتاب کی عملی تاویل ہوا کرتی ہے، اور اسی کو کہتے ہیں تاویل کا آنا ایسے لوگ مقربین کہلاتے ہیں، دیکھئے سورۂ تطفیف (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) ہرگز ایسا نہیں، بے شک نیک لوگوں کا نامۂ اعمال علّیّین میں ہے اور تم کو کیا معلوم کہ علیّون کیا ہے وہ ایک تحریر پذیر کتاب ہے جس کو مقرّب لوگ (جیتے جی) دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) واضح رہے کہ علّیّین اور علیّون۱ سے علی اور أئمّۂ آلِ محمدؐ و اولادِ علیؑ مراد ہیں، جن کی مجموعی حیثیت کتابِ مرقوم ہے، یعنی ایسی کتاب کہ اس میں امامت کے عظیم کارنامے ہر وقت درج ہوتے رہتے ہیں، یہ کتاب بولنے والی ہے (۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹) یعنی قرآنِ ناطق، اور امامِ مبین، پس حقیقی مومنین کا نامۂ اعمال اسی نورانی کتاب کے اندر ہے، جس کو عالی ہمت مومنین صرف کل نہیں، بلکہ آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔

 

۱۱۔ یہ بھی امامِ عالی مقام صلوات اللہ علیہ کے خزانۂ علم و عرفان کا

 

۱: یہ علیؑ کی جمع ہے، وہ لوگ جو شہر کے اونچے مقامات پر رہتے ہیں، المنجد

 

۹۳

 

ایک عظیم راز ہے کہ جب کوئی کامل انسان روحانیّت کے دروازے سے داخل ہو جاتا ہے، تو اس وقت خدا تعالیٰ اس شخص کے سامنے عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کرتا ہے، اور اس کی روح و عقل کو درجۂ کمال پر پہنچا دیتا ہے، چنانچہ منفی سے مثبت کی طرف اشارہ کرنے کے اصول سے فرمایا گیا ہے کہ: میں نے ان کو نہ تو آسمانوں اور زمین پیدا کرنے کے وقت حاضر کیا اور نہ خود ان کے پیدا کرنے کے وقت (ان کوگواہ بنا لیا، ۱۸: ۵۱) اس کی ایک مشہور تاویل یہ بھی ہے کہ اہلِ باطن کے عقائد و نظریات ایسے نہیں ہو سکتے کہ ان کے ثبوت میں آفاق و انفس سے شہادت مل سکے۔

 

۱۲۔ حضرت آدمؑ کے مرتبۂ خلافت و نیابتِ الٰہیہ اور علم و عرفان کے ورثے کو اپنانے کے معنوں میں انبیاء و أئمّہ ہی بنی آدم ہیں، چنانچہ یہ عالمِ ذرّ کا واقعہ ہے کہ اللہ ہر پیغمبر اور ہر امام کی پشتِ مبارک سے ان تمام ذرّاتِ ارواح کو لیتا ہے، جو دنیا بھر کے لوگوں کے نمائندے یا انائیں ہیں، پھر ان کو اسی انسانِ کامل کے نور کی روشنی میں اپنی روح و روحانیّت کا بھرپور مشاہدہ کراتا ہے، اور اسی طرح ہر شخصِ کامل میں عہدِ الست کی تجدید ہوتی رہتی ہے (۰۷: ۱۷۲)۔

 

۱۳۔ قرآنِ حکیم کا ہر لفظ اعلیٰ حکمتوں کا ایک مرکز ہے، ایک ایسا پُرحکمت لفظ “جدید” ہے، اور اہلِ بصیرت کے لئے اس میں بہت بڑی حکمت یہ ہے کہ ہر بار اس کو پرانی چیز سے نئی چیز بنانے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، تاکہ تصوّرِ آفرینش کے بارے میں کوئی ہوشمند ہرگز یوں نہ سوچے کہ خدا نے اس جہان اور انسان کو ایسا جدید (نیا)  بنایا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا، جبکہ قرآن قدیم سے جدید، اور جدید سے قدیم بنانے کی مثالیں پیش کرتا ہے، اسی طرح “مسلسل تجدید کا عمل” لازوال اور ابدی بہشت کا موجب بن جاتا ہے۔

 

۹۴

 

۱۴۔ خلقِ جدید (۱۳: ۰۵، ۰۱: ۱۹، ۳۲: ۱۰، ۳۴: ۰۷، ۳۵: ۱۶، ۵۰: ۱۵، ۱۷: ۴۹، ۱۷: ۹۸) سے جسمِ لطیف مراد ہے، جو بطریقِ ابداع یعنی بذریعۂ کُنۡ (ہو جا) ذرّاتِ لطیف سے متشکل ہو جاتا ہے، مذکورہ آٹھ مقامات پر دراصل نہ صرف انبعاث کا ذکر ہے، بلکہ وہی خود ابداع بھی ہے۔

 

صدر فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

خادم:

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۳۰ ستمبر ۱۹۸۵ء

 

۹۵

 

تاویلِ قصّۂ ایوب

 

تاویل میں اختلافات کیوں؟

بعض لوگ علمِ تاویل کے عروج و ارتقاء کی صورت کو یا اس کی گوناگون برکتوں اور کثیر حکمتوں کو ایک دوسرے کی مخالف و متضاد تاویلات سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ بات ہرگز نہیں، کیونکہ تاویل جو حکمت اور خیرِ کثیر ہے (۰۲: ۲۶۹) وہ دراصل اولوالامر کو دی گئی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اولوالامر ہی صاحبانِ تاویل ہیں، چنانچہ انہی حضرات میں سے ہر ایک کے لئے آیۂ اطاعت (۰۴: ۵۹) میں یہ حکیمانہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے وقت میں ذخیرۂ تاویل میں سے بہ تقاضائے زمان و مکان تاویل بیان کرے، اور اسی بنیاد پر پورے دور میں پھیلے ہوئے مومنین کو حکم ہوا کہ وہ تاویل میں اپنے اپنے زمانے کے صاحبِ امر کی اطاعت کریں، اس سے ظاہر ہے کہ ہر ولیٔ امر (یعنی زمانے کا امام) اسلام کی “تدریجی ہدایت” کے سلسلے میں کچھ “جدید تاویلات” بیان کرتا ہے، جیسا کہ زمانۂ نزولِ قرآن میں ارشاد ہوا تھا کہ: جس دن اس کی تاویل آئے گی (۰۷: ۵۳) اس کامطلب یہ ہے کہ تاویل تو شروع ہی سے بتدریج آتی رہی ہے، اور کوئی زمانہ اس کے ظہور سے خالی نہیں رہا ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عجب نہیں کہ اس کا “نتیجۂ مجموعی اور زور” ایک خاص زمانے میں انقلابی شکل اختیار کرے۔

 

۹۶

 

عالمِ شخصی:

ایک تو ہے عالمِ ظاہر، یعنی یہ مادّی کائنات، دوسرا عالمِ دین، اور تیسرا عالمِ شخصی، چنانچہ تاویل کے معاملے میں ان تینوں عوالم کا ربط و رشتہ اس طرح ہے کہ مثالیں عالمِ ظاہر کی چیزوں سے دی گئی ہیں، مگر ممثولات عالمِ دین اور عالمِ شخصی میں دکھانا مقصود ہے، جیسے اس دنیا کے سورج اور چاند سے پیغمبر اور امام کی تشبیہہ و تمثیل دی گئی ہے، جو عالمِ دین کے آسمان سے ضیا پاشی کرتے ہیں، اور یہی نورانی شمس و قمر “عالمِ شخصی میں بھی اپنا کام کر رہے ہیں،” پس اس اعتبار سے تاویل کی دو قسمیں ثابت ہو گئیں، پہلی قسم عالمِ دین سے متعلق ہے، اور دوسری قسم عالمِ شخصی کے بارے میں ہے۔

 

یہاں ہم عنوانِ بالا کے تحت جو کچھ عرض کر دینا چاہتے ہیں، وہ عالمِ شخصی کی تاویل ہوگی، جیسا کہ ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: اور ایوب کا تذکرہ کرو جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ مجھ کو یہ تکلیف پہنچ رہی ہے اور تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے، ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو جو تکلیف تھی اس کو دور کر دیا اور ہم نے اس کو اس کا کنبہ عطا فرمایا اور ان کے ساتھ (شمار میں) ان کے برابر اور بھی اپنی خصوصی رحمت سے اور عبادت کرنے والوں کے لئے نصیحت کی غرض سے (۲۱: ۸۳ تا ۸۴)۔

 

تکلیف یا ایذا (الضُّرُّ):

حضرت ایوب علیہ السّلام دورِ ابراہیمی کے ساتھ امامانِ مستودع میں سے امامِ پنجم تھے، آپ کو سنتِ الٰہی کے مطابق مراحلِ روحانیّت سے گزرتے ہوئے وہی ساری مصیبتیں اٹھانی تھیں، جو عوام کی نسبت سے خاص اور بالاتر ہیں، لیکن تمام انبیاء و أئمّہ کے لئے عام اور مشترک ہیں، ان بلاؤں اور آزمائشوں کے بغیر کوئی کامل انسان “روح اور عقل کی سلطنت” کو

 

۹۷

 

حاصل نہیں کرسکتا، اور یہ سب امتحانات ظاہر میں بھی ہیں اور باطن میں بھی، خصوصاً اس کا روحانی پہلو بہت ہی بھاری اور بڑا عجیب و غریب ہوا کرتا ہے، جبکہ وہ دنیا بھر کی تکالیف کا جوہر ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی تشبیہہ و تمثیل طرح طرح سے دی گئی ہے، حالانکہ وہ صرف ایک ہی چیز ہے، یعنی روح، جو بے شمار ذرّات پر مشتمل ہے، اور یہی ذرّاتِ روح خیر و شر کے تمام نمونے پیش کر سکتے ہیں۔

حضرت ایوبؑ کے بدنِ مبارک میں کیڑے:

سورۂ فاطر (۳۵: ۱۲) میں کوئی دانشمند غور سے دیکھے تو اسے یہ راز معلوم ہو جائے گا کہ اگرچہ انسان کے نزدیک صرف خیر (راحت) ہی پسندیدہ ہے، اور شر (مصیبت) بالکل ناپسند ہے، لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے تجربۂ روحانیّت میں علمی اور عرفانی فائدے کی خاطر خیر و شر کے دو دریا پیدا کر دئے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: اور دونوں دریا برابر نہیں (بلکہ) ایک تو شیرین پیاس بجھانے والا ہے جس کا پینا بھی آسان ہے (یعنی خیر) اور ایک شور تلخ ہے (یعنی شر) اور تم ہر ایک سے تازہ گوشت کھاتے ہو (نیز) زیور نکالتے ہو جس کو تم پہنتے ہو (۳۵: ۱۲)۔

 

جب انسانِ کامل کی ذاتی قیامت قائم ہو جاتی ہے، تو اس میں سب سے پہلے یاجوج اور ماجوج کے عنوان سے ذرّاتِ روح آ کر شخصِ کامل کی روحِ حیوانی کو ایک طرح سے چاٹ چاٹ کر کھاتے ہیں، اور یہی واقعہ ہے جس کی تمثیل قصّۂ ایوب میں ان کے بدنِ مبارک کو کیڑوں کے کھانے سے دی گئی ہے، اس روحانی سرگزشت کی کئی مثالیں ہیں:

الف: ذوالقرنین کی قائم کردہ دیوار کو ریزہ ریزہ کر دینا (۱۸: ۹۸)

ب: یاجوج اور ماجوج کا زمین میں فساد مچانا۔

ج: مقدّس آسمانی آگ کا کسی متقی کی قربانی کو کھا لینا (۰۵: ۲۷)

 

۹۸

 

د: حجِ بیت اللہ میں قربانی کے گوشت میں سے کھانا اور کھلانا (۲۲: ۲۸)

ہ: غیبت کے معنی میں اپنے مردہ دین بھائی کے گوشت کو کھا لینا (۴۹: ۱۲)

و: گرنے پر مایل دیوار کو گرا کر نئے سرے سے بپا کر دینا، تا کہ خزانہ قبل از وقت ظاہر نہ ہو (۱۸: ۷۷)

ز: یہ آتشِ نمرود بھی ہے (۲۱: ۶۸ تا ۶۹)

ح: “آتشِ فرعون” بھی ہے (۲۸: ۳۸) ، وغیرہ۔

 

حضرت ایوب کی آل و اولاد:

حضرت ایوب کی آل و اولاد اور جملہ متعلقین مرچکے تھے، لیکن خدا نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انہیں زندہ کر دیا، صرف یہی نہیں بلکہ آپ کو مزید اتنے افراد اور بھی عطا کر دئے، جس کی تاویل یہ ہے کہ مردِ کامل (پیغمبر / امام) خلیفۂ خدا اور جانشینِ آدم ہوا کرتا ہے، جس کی ہستی میں دنیا بھر کے “لوگ بصورتِ ذرّات” جمع ہوتے ہیں، جو اس “آدمِ زمان” کی خاص اور عام ذرّیات کہلاتے ہیں، چنانچہ جب یہ شخصِ کامل جسمانی موت سے پہلے روحانی موت کا تجربہ کر لیتا ہے تو اسی وقت یہ سب لوگ بھی مر جاتے ہیں جو ذرّاتِ روحانی کی شکل میں تھے، پھر یہ اور وہ سب زندہ ہو جاتے ہیں، اور انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں جتنے نفوس ہیں، “اتنی عقول” بھی ہوتی ہیں۱، پس یہ ہوا حضرت ایوبؑ کے لوگوں کا مر کر زندہ ہو جانا، اور ان کا دو چند ہونا، مگر یہاں ایک ضروری نکتہ یاد رہے کہ نفوس الگ الگ ہوتے ہیں، مگر عقول جتنی بھی ہیں وہ سب کی سب مل کر ایک ہی ہو جاتی ہیں، اس

 

۱: نفوس پہلے اور عقول بعد میں بنتی ہیں

 

۹۹

 

کا مطلب یہ ہوا کہ گوہرِعقل اگرچہ ایک ہی ہے، تاہم اس میں سب لوگ ہیں، بلکہ اس میں تمام کائنات ملفوف اور لپٹی ہوئی ہے۔

 

شیطان کی ناکام کوشش:

جیسا کہ اس کا ذکر ہوچکا کہ آزمائش کے لئے خیر کے ساتھ شر کا بھی ہونا لازمی ہے، آپ سورۂ انعام (۰۶: ۱۱۲) میں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ خدائے علیم و حکیم نے بربنائے حکمت و مصلحت ہر کامل انسان کے لئے انسی اور جنّی شیاطین میں سے کئی دشمن بنا دئے ہیں، چنانچہ اس شیطان نے جو انسانی شکل میں تھا، حضرت ایوبؑ کی تبلیغ و دعوت کی وجہ سے آپ کی شدید مخالفت اور بدخواہی کی، جس کے نتیجے میں جنّی شیطان نے ان کے خواب میں ایک “جانور کا روپ” دھار کر جسمِ مبارک کو چھو لیا، جس سے آپ سخت علیل ہوگئے، مگر خدا کے برگزیدہ دوستوں کی طرح صابر رہے، حکم ہوا کہ: اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ (۳۸: ۴۲، “اپنا پاؤں مارو۔” یعنی زبردست و کثیر ذکر کرو) چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس کے نتیجے میں آپ کے سامنے روحانی علم و حکمت کا ایک انتہائی صاف شفاف اور بے حد شیرین سرچشمہ جاری ہوا، جس سے نہانے دھونے اور پینے کے لئے فرمایا گیا۔

 

ضغث کیا ہے؟

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَخُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْنَثْؕ- (۳۸: ۴۴) اور تم اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا سینکوں کا لو اور اس سے مارو اور قسم کو نہ توڑو۔ ضغث کے معنی ہیں گھاس کا مٹھا، نیز اس کے معنی ہیں کسی چیز کا مجموعہ، اور اس سے “مجموعۂ ذرّاتِ روح” مراد ہے، چنانچہ ان ذرّات کی لاتعداد مثالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان سے شخصیّت پر ایک پُرحکمت ضرب پڑتی ہے، جیسے آپ کو کسی دوست نے ایک گلدستے سے مارا، پھر اس نے نہ صرف پھولوں کو شمار

 

۱۰۰

 

کیا، بلکہ پنکھڑیوں کو بھی گن لیا، پس اس آیۂ کریمہ میں انتہائی لطیف اشارے ہیں۔

 

حضرتِ ایوب علیہ السّلام کی “تین بیویاں تھیں”: جسمانیت میں ایک خاتون، عالمِ دین میں حجّتِ اعظم (باب) اور عالمِ شخصی میں روح، جس کا دوسرا نام نفس ہے، جبکہ آپ کو “اپنی ذات میں عقل کا درجہ” حاصل تھا، چنانچہ یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ آپ کا نفس پاک اور بے عیب تھا، لیکن قانونِ اصلاح و تزکیہ کا نمونہ پیش کرنا قسم کی طرح ضروری تھا، لہٰذا آپ کے نفسِ مطمئنہ (۸۹: ۲۷) پر مجموعۂ ذرّاتِ لطیف (ضغث) سے ایک پُرحکمت ضرب پڑی۔

 

آپ کو اس حقیقت پر یقین ہے کہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ذاتی قیامت کو دیکھنے کے سلسلے میں سب سے پہلے “نفسانی موت کا تجربہ” کر لیتے ہیں، یہ تجربہ مومنین کے لئے اگرچہ سخت دشوار ہے، لیکن ناممکن کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ اسلام کے “سارے معجزات صراطِ مستقیم پر واقع ہیں،” نہ کہ اس سے ہٹ کر، اور جبکہ وہ حضرات اس راہِ راست پر پیشرو ہیں اور جملہ مومنین پیرو۔

 

آئیے مذکورۂ بالا “ضرب” کی بہت سی قرآنی حکمتوں میں سے کسی اور حکمت کو بھی دیکھیں، بنی اسرائیل نے بحکمِ خدا جس بیل کو ذبح کیا تھا (۰۲: ۷۱) وہ درحقیقت نفس کُشی کی مثال و علامت ہے، یعنی جسمانی موت سے قبل نفسانی موت مر کر زندہ ہو جانے کی دلیل ہے، جبکہ اس کے ایک ٹکڑے سے مارنے پر ایک مردہ شخص زندہ ہو جاتا ہے، اس مقام پر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ لفظِ “ضرب” یعنی اضربوہ (۰۲: ۷۳، اس کو مارو) استعمال ہوا ہے، اور “کذالک” (اسی طرح) فرما کر اس معجزے کو ایک ایسے عام قانون کا درجہ دیا گیا ہے کہ جس شخص کو جیتے جی مر کر زندہ ہو جانا عزیز ہو، وہ اپنے نفس کے بیل کو ذبح کرے، اور اس کے

 

۱۰۱

 

ایک ٹکڑے سے اپنی شخصیّت کو پُرحکمت ضرب لگائے۔

 

حضرت ایوبؑ کے اوصاف و کمالات:

سورۂ نساء (۰۴: ۱۶۳) میں آپ کا ذکرِ جمیل اس طرح فرمایا گیا ہے کہ آپ ان بابرکت اور عظیم المرتبت پیغمبروں میں سے تھے، جن کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی ہے، سورۂ انعام (۰۶: ۸۴) میں آپ کی تعریف و توصیف یہ ہے کہ آپ دوسرے انبیاء کی طرح ہدایت یافتہ تھے، آپ کو ذرّیتِ ابراہیم ہونے کا شرف بھی حاصل تھا، اور آپ کو خدا نے وہ بدلہ اور مرتبہ عطا فرمایا تھا، جو محسنین کو عطا فرمایا جاتا ہے۔

 

حضرت ایوب علیہ السّلام کا خاص قصّہ سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۳ تا ۸۴) اور سورۂ ص (۳۸: ۴۱ تا ۴۴) میں ہے، جس کی تاویلی حکمت بفضلِ خداوندِ برحق بیان کی گئی، ذکر و بندگی کے نتیجے میں ہر شخص کو اس کے مقام کے مطابق کس طرح کوئی انعام مل جاتا ہے، اس کے لئے آپ مثال تھے (۲۱: ۸۴) خدا تعالیٰ نے ان کو صابر، اپنا بندۂ خاص، اور رجوع ہونے والا قرار دیا ہے، اور آپ کے قصّے کو عابدوں اور دانشمندوں کے لئے نمونہ بنا دیا ہے، اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ آپ پر جو جو معجزات گزرے ہیں، وہ قانونِ معرفت سے مختلف نہ تھے۔

 

طرح طرح کی مثالیں:

اللہ تعالیٰ کی سنت جو بے بدل ہے اور جس میں کوئی تغیر نہیں، اس کا تعلق دین کے بنیادی امور سے ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اساسی حقیقتیں ہمیشہ سے ایک جیسی ہیں، جس طرح حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی روحانیّت ایک ہی ہے، لیکن اس کی مثالیں قرآنِ حکیم میں طرح طرح سے دی گئی ہیں (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) اس طریقِ کار کی وجہ آزمائش بھی ہے اور حقیقت کی وسعت بھی، یعنی روحانیّت

 

۱۰۲

 

کا سمندر ایسا بے پایان ہے کہ اس کا نمونہ پیش کرنے کے لئے دنیا بھر کی مثالوں کے ظروف سے کام لیا گیا ہے۔

 

نوٹ: خانۂ حکمت کی تحریروں کی جو بھی اہمیّت و افادیّت ہے، وہ آپ کے سامنے ہے، علاوہ برآن اس مضمون کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کی فرمائش ایک ایسے ذی علم، دانشمند سکالر کی جانب سے آئی تھی کہ میں ذاتی طور پر ان کو لاکھوں میں ایک تسلیم کرتا ہوں۔

 

صدر : فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خاکسار و ناچار

نصیر ہونزائی

۵ اکتوبر ۱۹۸۵ء

 

۱۰۳

 

انسان کا بہشتی لباس

 

۱۔ حضرتِ انسان کا وہ خاص لباس یا خلعت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جنت میں اسے پہنایا جائے گا کس نوعیت کا ہوگا؟ کیا بہشت کا حریر (ریشمی کپڑا) سندس (باریک ریشمی کپڑا)، استبرق (دبیز ریشمی کپڑا) وغیرہ دنیا ہی کے کپڑوں کی طرح ہوں گے؟ اگر بہشتی لباس دنیوی پوشاک سے مختلف نہیں ہے تو پھر اس کی ایسی شان سے تعریف و توصیف کیوں کی گئی ہے؟ اور اگر جامۂ روحانی پوششِ جسمانی سے مختلف ہے تو بتائیں کہ اس کی خصوصیات کیا ہیں؟ آیا جنت اور اس کی نعمتوں کی معرفت (۴۷: ۰۶) کے سلسلے میں پوشاکِ بہشت کی شناخت بنیادی اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے یا نہیں؟ یہ اور ان جیسے بہت سے اہم سوالات بہشتی لباسات سے متعلق ہر طالبِ حقیقت کے دل دماغ میں دبے ہوئے ہو سکتے ہیں، لہٰذا اس ضروری اور پسندیدہ موضوع پر قلم اٹھاتے ہوئے بصد عاجزی و خاکساری درخواست کی جاتی ہے کہ خداوندِ برحق جملہ مومنین کے صدقے اس میں ہماری دستگیری فرمائے! آمین!!

 

۲۔ اس باب میں سب سے پہلے یہ جان لینا نہایت ہی ضروری ہے کہ بہشت کی کوئی چیز عقل و جان کے بغیر نہیں ہے، اس لئے کہ آخرت کا گھر کلّی طور پر زندہ ہے (۲۹: ۶۴) اور اس دنیا میں زندگی کا سب سے بہترین نمونہ انسان ہے جو تمام مخلوقات

 

۱۰۴

 

میں بہ حقیقت اشرف و اعلیٰ ہے، چنانچہ بہشت جو عقلی اور روحانی کیفیت میں ہے، وہ ایک کامل و مکمل نورانی شخص کی طرح ہے، اور وہی شخصیّت بہشتی لباس بھی ہے، کیونکہ قانونِ جنّت کے مطابق جو بہترین لباس عقل و جان کی خوبیوں سے آراستہ ہو سکتا تھا وہ انسانی صورت ہی ہے، یعنی انسان کا نوری بدن یا جسمِ لطیف، جس کے بہت سے نام ہیں۔

 

۳۔ آدمی نہ تو سب کے سب ایک ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں، اور نہ ایک ہی وقت میں ان تمام پر موت واقع ہو جاتی ہے، بلکہ وہ فرداً فرداً جنم پاتے اور جدا جدا وقتوں میں انتقال کر جاتے ہیں، اسی طرح اس کائنات کے ستارے اور سیّارے مختلف زمانوں میں جداگانہ طور پر پیدا ہوکر پھر اپنے اپنے وقت پر فنا ہو جاتے ہیں، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ انسانوں کی عمریں بہت ہی مختصر ہیں، مگر ہر ستارے اور سیّارے کی عمر بہت زیادہ ہے، چنانچہ ایک سائنسی اندازے کے مطابق سیّارۂ زمین کو وجود میں آئے ہوئے تقریباً پچاس لاکھ برس گزر چکے ہیں، اور اسی نوعیت کا دوسرا تخمینہ یہ ہے کہ انسان کم و بیش پندرہ لاکھ سال سے زمین پر رہ رہا ہے، اب سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اس سے پہلے کہاں تھا؟ جواب: کسی دوسرے سیّارے پر رہتا تھا۔ وہاں سے کس طرح یہاں منتقل ہو سکا؟ جواب: چونکہ اس سیّارے پر لطافت و روحانیّت کی بہشت تھی، لہٰذا وہ اپنے بہشتی لباس یعنی جسمِ لطیف سے پرواز کر کے سیّارۂ زمین پر اتر آیا، تاہم جامۂ بہشتی ایسا ہے کہ وہ کسی سیّارے کے بغیر بھی موجود ہو سکتا ہے۔

 

۴۔ سورۂ حج (۲۲: ۲۳) سورۂ فاطر (۳۵: ۳۳) اور سورۂ دہر (۷۶: ۱۲) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اہلِ جنّت کا لباس ریشم (حریر) کا ہے، جس کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے کہ

 

۱۰۵

 

بہشت والوں کا لباس زندہ، معجزاتی، اور ابداعی قسم کا ہے، اور وہ کوکبی بدن ہے، یعنی جسمِ لطیف کیونکہ ریشم ایک ایسے جانور کی پیداوار ہے کہ اس میں خلقِ جدید (جسمِ لطیف) کی مثال موجود ہے، وہ ریشم کا کیڑا ہے، جو نہ صرف انسان کے جیتے جی مر کر زندہ ہو جانے کا نمونہ ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ وہ اس امر کی بھی دلیل و علامت ہے کہ آدمی مذکورہ انبعاث کے بعد فرشتہ بن کر پرواز کرنے لگتا ہے، ہر چند کہ اس مثال میں ایک فرق بھی موجود ہے، وہ یہ کہ اُدھر کیڑا غائب (یعنی مر چکا) ہے اور پروانہ حاضر ہے، لیکن اِدھر آدمی سامنے ہے اور فرشتہ غائب، پس یہی بہت بڑا امتحان ہے۔

 

۵۔ آپ سورۂ قارعہ (۱۰۱: ۰۴) میں دیکھیں: یَوْمَ یَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ (۱۰۱: ۰۴) جس روز لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ قرآنی مثالوں کی غرض سے جن چیزوں کا انتخاب فرمایا گیا ہے، ان میں سے ہر ایک چیز میں بہت سی حکمتیں جمع ہیں، چنانچہ مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ میں انسانی روحوں کی تشبیہہ و تمثیل پروانوں سے دے کر یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ انسان اگرچہ جسمِ کثیف میں کیڑے کی طرح زمین پر رینگتا ہے، لیکن وہ جسمِ لطیف میں بمرتبۂ فرشتہ کائناتی بہشت کی فضاؤں میں پرواز کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

 

۶۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو آزمانے کے لئے حقیقتِ حقائق کی مثالیں طرح طرح سے بیان فرمائی ہیں، جن کو دیکھنے سے بظاہر ایسا لگتا ہے، کہ ان تمام مثالوں کے ممثولات الگ الگ ہیں، حالانکہ یہ بات نہیں، بلکہ حقیقتوں کی حقیقت صرف ایک ہی ہے، جس کی گوناگون مثالیں دی گئی ہیں، چنانچہ سوچنا چاہئے کہ آیا پیراہنِ یوسفی (۱۲: ۹۳)، زرۂ داؤدی (۲۱: ۸۰) ، محرابِ سلیمانی (۳۴: ۱۳) ، پرندۂ مسیحائی (۰۳: ۴۹) اور سرابیلِ ربّانی (۱۶: ۸۱) الگ الگ کرتے ہوا کرتے ہیں؟ ہرگز نہیں، وہ

 

۱۰۶

 

صرف ایک ہی پیراہنِ ابداعی ہونے کے سبب سے سب کچھ ہے، اس میں نہ صرف طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں روحانی غذائیں مہیا ہو جاتی ہیں، بلکہ اس میں بدرجۂ اعلیٰ بصیرت بھی ہے، وہ بکتر بھی ہے، قلعہ بھی، اور وہ پرندے کی طرح جہاں چاہے پرواز بھی کر جاتا ہے، وہ گرمی سے اور جنگ سے بچا بھی سکتا ہے، اور یہی کرتا بہشتی لباس ہے، جو زمانے کے امام علیہ السّلام سے مل سکتا ہے۔

 

۷۔ جب ایک سائنس دان کوئی ایسی مشین یا آلہ بنا دیتا ہے کہ اس سے کئی مختلف کام لئے جا سکتے ہیں، تو لوگوں کے نزدیک وہ چیز بڑی مفید اور قابلِ تعریف ثابت ہو جاتی ہے، یہ تو انسان کی مثال ہے جو اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں بڑا کمزور بلکہ بسا اوقات عاجز بھی ہے، لیکن قادرِ مطلق اپنی قدرتِ کاملہ سے جس طرح ہمیشہ شخصِ کامل کی شخصیّت کے سانچے میں ڈھال کر اہلِ ایمان کے لئے جامۂ بہشت بنا دیتا ہے، وہ ایسا معجزاتی اور عجائب و غرائب سے بھرپور ہے کہ اس کی تعریف و توصیف کا حق ادا نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہی بہشتی لباس سب کچھ ہے، جو پوری کائنات کے نچوڑ سے بنایا گیا ہے، جس میں جنّت کی جملہ نعمتیں مومنین کے انتہائی نزدیک لائی گئی ہیں (۵۰: ۳۱) اور یہی وہ عالمِ شخصی ہے جس میں گنجِ مخفی اور خدا کی خدائی سے متعلق ہر عظیم بھید موجود ہے۔

 

۸۔ یہ معرفت یا غور و فکر ہر مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ عالمِ شخصی کس طرح کائنات بھر میں پھیلا ہوا ہے؟ اور وہ وسیع و عریض کائنات کس صورت میں اس عالمِ شخصی یعنی انسان کے اندر سمٹ گئی ہے؟ چنانچہ اہلِ سعادت اپنا رشتۂ عقلی و روحی مظہرِ نورِ خدا کے ساتھ جوڑ لیتے ہیں، تا کہ وہ اسی کے توسط (وسیلہ) سے اپنے آپ کو تمام کائنات میں پائیں، اور ساری کائنات کو اپنی ذات میں دیکھیں، جبکہ

 

۱۰۷

 

وہی ولیٔ خدا کائناتی عقل (عرشِ عظیم) اور کائناتی روح (کرسیٔ خدا) ہے، اور یہی کرسی اور امامِ مبین جملہ اشیائے عقلی، روحی، اور مادّی پر محیط ہے (۰۲: ۲۵۵، ۳۶: ۱۲)۔

 

۹۔ قرآنِ حکیم کے پانچ مقامات (۱۸: ۳۱، ۳۶: ۵۶، ۷۶: ۱۳، ۸۳: ۲۳، ۸۳: ۳۵) پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جنت والے ارآئک پر ہوں گے، ارآئک اریکۃ کی جمع ہے، اریکۃ کے معنی ہیں آراستہ و مزین تخت، مسہری، حجلہ، چھپرکھٹ، یعنی پردہ دار تخت یا پلنگ، ان تمام معنوں کا مصداق جسمِ لطیف ہے، کیونکہ اس میں مومن کی روحانی سلطنت پوشیدہ ہے، سو یہی نورانی جسد بہشت کا زندہ گھر، بولنے والا تخت، اور پرواز کرنے والا لباس ہے، بلکہ یہ بہشت کا مجموعہ یعنی سب کچھ ہے۔

 

۱۰۔ اس سلسلے میں جنّ (پری) کی مثال بڑی دلچسپ بھی ہے اور بہت مفید بھی، لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ لوگوں نے کہانیوں کی بنیاد پر جنّ کو پری سے ایک الگ مخلوق قرار دیا ہے، حالانکہ جس لطیف مخلوق کا عربی نام جنّ ہے، اسی کا فارسی نام پری ہے، اگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی، تو قرآنِ حکیم میں کسی دوسرے نام سے پریوں کا جداگانہ ذکر ملتا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایسا نہیں، صرف جنّ کا تذکرہ ہے اور یہی پری ہے، اگر آپ اس حقیقت کو قبول کر سکتے ہیں تو نتیجے کے طور پر آپ کے سامنے سے روح کے بہت سے حجابات خود بخود ہٹ جائیں گے، کیونکہ قرآن فہمی میں بھی اور خود شناسی میں بھی جنّ (جو پری اور مخلوقِ لطیف ہے اس) کی شناخت بہت ہی ضروری ہے۔

 

۱۱۔ کوئی شک ہی نہیں کہ جنّات میں بھی آدمیوں کی طرح اچھے اور برے دو قسم کے نفوس ہوا کرتے ہیں، جو اچھے ہیں، ان کی قرآنی تعریف و توصیف

 

۱۰۸

 

لفظ صالحون (۷۲: ۱۱) میں ہے، صالحون کا صیغۂ واحد صالح ہے، جس کا مطلب نہ صرف نیک ہی ہے بلکہ نیکوکار بھی ہے، یعنی درست کام کرنے والا، اور یہ لفظ (یعنی صالح، صالحون، صالحین، وغیرہ میں سے ہر صیغہ) قرآنی حکمت میں اتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے طرح طرح سے اس کی توصیف فرمائی ہے۔

 

۱۲۔ اب اس مدلّل بیان کے بعد کہ جنّ ہی پری ہے، اور وہ سب کے سب خوبصورت ہیں، اور بعض نیک سیرت بھی ہیں، یہاں یہ عرض کی جائے گی کہ بہشتی لباس ایک نیکوکار اور فرمانبردار جنّ کی طرح کام کرتا ہے، وہ چشمِ زدن میں ہزاروں میل کی مسافت طے کر لیتا ہے، اس لئے کہ اس کی پرواز برق کی طرح ہے، وہ آسمانی بجلی کی کوند (چمک) کی طرح نظر بھی آتا ہے اور غائب بھی ہو جاتا ہے، اس میں اور جنّ میں کوئی فرق نہیں، کہ دونوں لطیف ہیں، لہٰذا وہ ہر قسم کی دیوار کو چیر کر گھر میں داخل ہو سکتا ہے، لیکن ہر گھر میں اس کے دروازے سے داخل ہو جانے کا حکم ہے (۰۲: ۱۸۹) اس لئے وہ جب برق رفتاری سے دروازے پر آتا ہے، تو انتہائی بند دروازہ بھی ازخود کھل کر پھر اپنے آپ اسی طرح بند ہو جاتا ہے، اور یہ عمل بڑی سرعت سے انجام پاتا ہے۔

 

۱۳۔ خدا کی خدائی اور اس بادشاہ کی بادشاہی میں جتنی چیزیں ہیں، وہ سب کی سب رحمت اور علم کے گوناگون ظہورات کی نمائندگی کر رہی ہیں (۴۰: ۰۷) تاہم اس سلسلے میں بعض چیزیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں، مثال کے طور پر اس زمانے میں، جبکہ روحانی دور کا آغاز ہو چکا ہے، اڑن طشتری (U.F.O) کا وجود لوگوں کے سامنے ہے، جس کے بارے میں اگرچہ سائنسدان حیرت میں پڑ گئے ہیں، اور کچھ نہیں بتا سکتے ہیں کہ یہ کونسی مخلوق ہے، اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کو “ناشناختہ (یعنی غیر پہچانی ہوئی) چیز جو پرواز کرتی ہے” قرار دیا ہے، جس

 

۱۰۹

 

کے انگریزی الفاظ اس طرح ہیں:  (unidentified flying object)، ظاہر ہے کہ یہ چیز دنیا والوں کے لئے ایک معما ہے، اور عجب نہیں کہ آگے چل کر اس کا راز لوگوں پر کھل جائے، بہر حال یہ بھی جامۂ بہشت ہی کی طرح ایک معجزاتی چیز ہے، جو پریوں کی طرح پرواز کرتی ہے، اگر یہ روحانی انقلاب سے یا سائنس کے عنوان سے انسان کے لئے مسخر و رام ہو جائے تو اس سے تسخیرِ کائنات میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے۔

 

۱۴۔ قانونِ قرآن (۴۰: ۰۷) کے مطابق ہر چیز کو ایک رحمت اور ایک علم نے گھیر لیا ہے، سو رحمت روح کے لئے ہے اور علم عقل کا حصّہ ہے، چنانچہ اڑن طشتری میں روح و عقل کے لئے بہت کچھ ہے، کہ ہم اس کو جامۂ بہشت کا نمونہ قرار دے سکتے ہیں، ترقی یافتہ انسان کہہ سکتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ عجب نہیں کہ یہ جنّ (پری) بھی ہو اور فرشتہ بھی، نیز یہی مخلوق آدمی کا انائے علوی اور جسمِ لطیف کہلائے، کیونکہ ایسے بہت سے نام ہیں، جو ایک ہی حقیقت سے متعلق ہیں، اور وہ حقیقت انسان کی ہے۔

 

۱۵۔ یہ حقیقت کسی شک کے بغیر سب کے نزدیک مسلّمہ ہے کہ انسان عالمِ صغیر ہے، اور اس میں وہ سب کچھ ہے، جو کچھ کہ عالمِ کبیر میں ہے، یعنی عالمِ شخصی اپنے لاتعداد ذرّات سے، جو روح اور جسمِ لطیف سے مرکب ہیں، پوری کائنات کی نمائندگی کر رہا ہے، اور آسمان و زمین میں کوئی ایسی چیز نہیں، جس کا نمونہ انسان کے وجود میں نہ ہو، جبکہ عالمِ صغیر عالمِ کبیر کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، گویا جہانِ ظاہر ایک انتہائی عظیم درخت ہے اور انسان اس کا میوہ و مغز، اس کے معنی یہ ہوئے کہ جب آدمی بطریقِ اطاعت اپنی انا کی گٹھلی باغبانِ ازل کے سپرد کر دیتا ہے تو وہ اسے باغِ فطرت میں بو کر نشونما دیتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان ایک لطیف کائنات بن جاتا

 

۱۱۰

 

ہے، کیونکہ قانونِ پیدائش (فطرت) یہی ہے کہ درخت سے بیج (گٹھلی) پیدا ہو، اور پھر بیج سے درخت، اس سے پتہ چلا کہ جہاں بنی بنائی بہشت ہے، وہ کائنات بھر میں پھیلی ہوئی ہے، لیکن اس کو اپنائیّت کی حکمت سے زیادہ سے زیادہ باحقیقت اور عملی جنت بنانے کی غرض سے ہر مومن میں لپیٹ دی جاتی ہے، تا کہ علم و عمل اور رنگِ خدا سے بہشت تازہ اور حقیقی ہو سکے۔

 

۱۶۔ قرآنِ حکیم ہر شخص کی نظر اور عقل کے مطابق کام کرتا ہے، اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی مختلف لوگوں سے ان کی عقلی مراتب کے مطابق گفتگو فرمائی ہے، چنانچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلِ وحدت کو جو سب سے خاص چیز نظر آتی ہے وہ ہے جملہ حقائق کی ہم آہنگی، یکجائی، اور وحدت، جیسے عالمِ صغیر اور عالمِ کبیر کا ایک ہو جانا، ازل میں بھی اور ابد میں بھی سب انسانوں کی یگانگت، ایک ہی انسان کا مختلف ظہورات میں جلوہ گر ہونا، مثلاً بشر، فرشتہ، پری (جنّ)، جسمِ مثالی، اڑن طشتری، جامۂ بہشتی، وغیرہ۔

 

۱۷۔ یہ ضروری نکتہ ہمیشہ کے لئے دل نشین ہو کہ ایک ہی عظیم فرشتہ کبھی جمع کہلاتا ہے اور کبھی واحد، جمع اس لئے کہ وہ اپنی ذات میں ایک روحانی کائنات ہے، اور جب بھی ارادۂ ’’کُنۡ‘‘ ہو جائے تو اس سے کسی تاخیر کے بغیر بے شمار فرشتوں کا ظہور ہو سکتا ہے، اور واحد اس معنیٰ میں کہ وہ سب فرشتے ذات و صفات میں مختلف و متضاد نہ ہونے اور ایک ہی جوہر سے ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ متحد ہو چکے ہیں، جیسا کہ قولِ قرآنِ پاک ہے:

ترجمہ: اور تمہارا ربّ جلوہ فرما ہوا (ہوگا) اس حال میں کہ فرشتے صف در صف کھڑے تھے (کھڑے ہوں گے، ۸۹: ۲۲)۔ اگرچہ عالمِ ذرّ میں فرشتوں کی کثرت درست ہے، لیکن مقامِ عقل اور مرتبۂ ابداع میں صرف ایک ہی انتہائی

 

۱۱۱

 

عظیم فرشتہ ہوا کرتا ہے، اور وہی وحدت و کثرت دونوں کی نمائندگی کرتا ہے، اگر یہاں سوال: صَفّاً صَفّا (قطار باندھ کر جیسا کہ اس کا حق ہے) کے بارے میں ہو، تو جاننا چاہئے کہ اس نوعیت کے قرآنی الفاظ کا مطلب اپنی انتہا پر پہنچ جاتا ہے، چنانچہ فرشتوں کے صف باندھنے کی آخری حد یہ ہے کہ وہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔

 

۱۸۔ اگر عالمِ شخصی کا روحانی سفر مدوّر (گول) ہے، تو پھر آپ آخر کار گھوم کر وہاں آئیں گے، جہاں سے روانہ ہو گئے تھے، اس صورت میں نقطۂ آغاز پر جو چیز ہے، وہ آپ کے نزدیک اوّل بھی ہوگی، اور آخر بھی، چنانچہ عرش سے متعلق آیۂ کریمہ (۱۱: ۰۷) کے یہ دونوں ترجمے درست ہیں:

الف: اور اس کا تخت پانی (علم) پر تھا۔

ب: اور اس کا تخت پانی (علم) پر ہوگیا (یعنی عرش پہلے ہی سے ایسا تھا، مگر مشاہدہ بعد میں ہوا)۔

 

۱۹۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے وقت میں ایک کامل و مکمل عالمِ شخصی تھے، لہٰذا آپ اگرچہ فردِ واحد تھے، لیکن آپ کی ذات میں تمام نفوس جمع تھے، ان سب میں سے صرف نفوسِ قدسی ہی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فرمایا گیا: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ (۱۶: ۱۲۰) بے شک ابراہیم ایک نہایت فرمانبردار امت تھے بالکل یک طرف ہو رہے تھے۔ یعنی آپ میں بے شمار ارواح تھیں۔

 

۲۰۔ سب اگلے اور پچھلے لوگ زمانے کے عالمِ شخصی (یعنی امامِ وقت) میں جمع کئے جاتے ہیں، کیونکہ میقات (وقتِ مقرر = جائے مقرر) وہی ہے، وقتِ مقرر اس کی ذاتی قیامت ہے، اور جائے مقرر اس کی مبارک شخصیت، اور اس قیامت کا کلی نتیجہ یومِ معلوم کہلاتا ہے (۵۶: ۴۹ تا ۵۰)۔

 

۱۱۲

 

۲۱۔ قرآنِ حکیم اپنی حکمت کی مخصوص زبان میں کہہ رہا ہے کہ تمام بزرگ انبیاء و مرسلین کے جملہ فضائل و معجزات آنحضرت صلی اللہ علیہ و ا ٓلہ و سلم میں جمع ہوئے تھے، جس کی ایک مثال یہ ہے: پس تم بھی ان (پیغمبروں) کی ہدایت کی پیروی کرو۔ (۰۶: ۸۹) اس میں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ حضورِ اکرمؐ انبیائے سلف کے طریق پر چلتے ہوئے ان کے سارے معجزات کو اپنائیں، اس کلیہ سے یہ حقیقت روشن ہوکر سامنے آتی ہے کہ سردارِ رسل کی روحانیّت سے کوئی فضیلت اور کوئی معجزہ باہر نہ تھا۔

 

۲۲۔ خداوندِ تعالیٰ جس مخلوق کی تخلیق پر اپنی ذاتِ پاک کی تعریف و توصیف فرماتا ہے وہ مخلوق بہترین ہوا کرتی ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَؕ-فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ (۲۳: ۱۴) پھر ہم نے اس کو آخری (درجے کی) مخلوق بنا دیا پس بہت برکت والا ہے اللہ جو تمام پیدا کرنے والوں سے بڑھ کر ہے، جیسا کہ بتایا گیا کہ عالمِ شخصی میں جو چیز سب سے آخر میں ہوتی ہے، وہی سب سے پہلے بھی ہوا کرتی ہے، چنانچہ یہ خلقِ آخر جس کا ذکر اس آیۂ مقدسہ میں ہوا اس طرف سے حضرت قائم القیامت ہے اور اس طرف سے حضرت مبدع۔ جامۂ بہشت کے بارے میں بہت سے اسرارِ معرفت کا ذکر ہوا۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نوٹ: خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے تمام عملداروں کا مشورہ یہ ہے کہ آپ حضرات ہمارے جملہ مقالوں اور کتب کا بخوبی مطالعہ کریں، کیونکہ یہ ساری تحریرات “ایک دوسرے کی تشریح” کے اصول پر قائم ہیں۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

خادمِ کمترین: نصیر الدین نصیر ہونزائی

۱۷ اکتوبر ۱۹۸۵ء

 

۱۱۳

 

علم اور اس کی ضد کی مثالیں

 

۱۔ علم کی اہمیّت و افادیّت:

اگر عالمِ ظاہر، عالمِ روح، اور عالمِ عقل کو تین سمندر کہا جائے، تو یہ تینوں سمندر علم ہی کے ہوں گے، درحالیکہ اصل سمندر عقل کا ہوگا، جس سے روح کا سمندر بھر گیا ہوگا، اور اس سے عالمِ جسمانی کا سمندر پُر ہوچکا ہوگا، یہ بات حقیقت ہے، مگر حیرت اس میں ہے کہ عقلی، روحی، اور جسمی سمندر جو علم سے بھرے ہوئے ہیں، وہ ایک اعتبار سے الگ الگ ہیں، اور دوسرے اعتبار سے مل کر ہیں، جیسے لوہے کا ایک بڑا گولہ ہو، جس کو لوہار نے آتشدان (بھٹی) میں سرخ انگارا بنایا ہے، اب اس عمدہ مثال میں ہر شخص کو خوب غور کرنا چاہئے کہ گولہ کائناتِ جسمانی ہے، حرارت کائناتی روح ہے، اور روشنی کائناتی عقل، جیسا کہ حاملانِ عرش اور اس کے گرداگرد کے فرشتوں نے خداوندِ تعالیٰ سے درخواست کی کہ: رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّ عِلْمًا  (۴۰: ۰۷) اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم میں سما لیا ہے۔ یعنی تیری رحمت اور علم ہر چیز کو محیط ہے۔

 

۲۔ علم اور جہالت (جہل):

قرآنِ حکیم میں تمام حقائق و معارف کی مثالیں موجود ہیں، ہر مثال کے مثبت و منفی دو پہلو ہوا کرتے ہیں، تاکہ سمجھنے والوں کے لئے حقیقت فہمی میں آسانی ہو، چنانچہ

 

۱۱۴

 

رسولِ خدا خاتمِ انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی آلِ پاک کے أئمّۂ ہدا صلوات اللہ علیہم کے وسیلے سے یہاں علم اور اس کی ضد (جہالت) کی بعض قرآنی مثالیں بیان کی جاتی ہیں، تا کہ قارئینِ کرام میں جو حصولِ علم کا جذبہ ہے وہ شدت اختیار کرے، اور جہالت جہاں بھی ہو، اور جس نام سے بھی ہو، وہ بے نقاب ہو جائے، تاکہ اس کو ختم کرنے کے لئے ہر شخص انتہائی محنت سے کام لے، ان شاء اللہ العزیز۔

 

۳۔ یقین اور شک:

علم کے بہت سے ناموں اور مثالوں میں سے ایک “یقین” ہے، جس کے تین درجے مشہور ہیں، یعنی علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، یقین کی ضد “شک” بھی ہے اور “گمان” بھی، پس یقین کے درجات کے مقابلے میں شک اور گمان کے بھی تین تین درجے مقرر ہوگئے، اسی طرح جہاں یقین کے معنی میں علم کی تعریف کی گئی ہے، وہاں شک و گمان کے معنی میں جہالت و نادانی کی مذمت کی گئی ہے، تا کہ براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی علم کی اہمیت ظاہر ہو، جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے: وہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں (۰۲: ۰۲) یعنی اس میں تین درجے کے شکوک میں سے ایک بھی نہیں، اس کا صاف و صریح مطلب یہ ہوا کہ اس کتاب (یعنی الٓمٓ) میں حق الیقین ہے، اور وہ نورِ امامت ہے۔

 

۴۔ شفا اور بیماری:

اس دنیا میں بےشمار لوگ جہالت و نادانی کے مریض تھے، لہٰذا خدا تعالیٰ کو رحم آیا، اور اس نے قرآنِ حکیم کو ایسی بیماری کی دوا اور شفا بنا کر نازل فرمایا، مگر جیسے جسمانی مرض میں علاج کے لئے کسی طبیب حاذق یا ماہر ڈاکٹر سے رجوع ضروری ہوتا ہے، ویسے روحانی بیماری کے معالجہ کی خاطر اس روحانی ڈاکٹر سے رجوع لازمی ہے،

 

۱۱۵

 

جس کو خدا و رسول نے مقرر فرمایا ہے، اور اس آیۂ کریمہ کی حکمت میں یہی سب کچھ ہے: اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت اور جو سینوں کے اندر (امراضِ روحانی) ہیں ان کے لئے شفا آگئی ہے اور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت (آ چکی ہے) (۱۰: ۵۷)۔

 

۵۔ نور اور ظلمت:

قرآنِ پاک میں نور سے علم اور ظلمت سے جہالت و نادانی مراد ہے، کیونکہ علم ہی وہ روشنی ہے جس میں حقیقتیں اپنی اصل صورت میں نظر آتی ہیں، اگر آپ اپنے باطن میں کوئی لطیف روحانی روشنی دیکھتے ہیں تو آپ بڑے خوش نصیب ہیں، تاہم یاد رہے کہ یہ اصل نور نہیں، بلکہ یہ اس کی مثال ہے، کیونکہ حقیقی انوار علم و حکمت کی شکل میں سامنے آنے والے ہیں، پس ظاہر میں ہو یا باطن میں روشنی علم کی مثال ہے اور تاریکی جہالت کی۔

 

۶۔ ہدایت اور ضلالت (گمراہی):

ہدایت علم کی مثال اور گمراہی جہالت کی مثال ہے جب کہ ہدایت کا ثمرہ علم کی صورت میں ملتا ہے، اور گمراہی کے انجام میں جہالت کی سزا مل جاتی ہے، کیونکہ مثال پہلے اور ممثول بعد میں آتا ہے، نیز یہ حقیقت ہے کہ تمام الفاظ و امثال اپنے ہنگامی معنوں سمیت رحمت اور علم کے لئے مختلف ظروف کی حیثیت سے ہیں، یا یوں سمجھ لیں کہ الفاظ و معانی کا بابا آدم علم ہے اور بی بی حوّا رحمت، پس جس طرح ہر شخص میں آدمیّت و حوائیّت (یعنی ابتدائی والدین کی خاصیت) ہوتی ہے، اسی طرح ہر لفظ کے معنی میں رحمت و علم (یا علم و رحمت) کے معنی موجود ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنِ مقدّس کے سب الفاظ کے معانی حکمت کی بلندی پر پہنچ کر رحمت، پھر علم بن جاتے ہیں، جیسے اگر آپ چاہیں تو بنی آدم کو تاریخی طور

 

 

۱۱۶

 

پر اٹھا کر حوّا، اور آدم سے ملا سکتے ہیں۔

 

۷۔ غنا اور فقر (دولتمندی اور مفلسی):

علم دولت و دولت مندی ہے، اور اس کا نہ ہونا مفلسی ہے، جیسا کہ سورۂ آلِ عمران کے ایک ارشاد (۰۳: ۱۸۱) کا ترجمہ ہے: بے شک اللہ تعالیٰ نے سن لیا ہے ان لوگوں کا قول جنہوں نے یوں کہا کہ خدا مفلس ہے اور ہم دولت مند ہیں۔ آپ سوچ کر اس حقیقت کو معلوم کر سکتے ہیں کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے قائل ہیں وہ ہرگز ہرگز ایسی بات نہیں کرتے ہیں، اور جو لوگ وجودِ باری تعالیٰ سے منکر ہیں، وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ: “خدا موجود تو ہے مگر مفلس ہے۔۔۔” کیونکہ ان کے نزدیک خدا سرے سے ہے ہی نہیں، پس اس آیۂ کریمہ میں تاویلی حکمت ہے، وہ یہ کہ ایک لادین گروہ نے جو فلسفیوں اور دہریوں میں سے تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حق میں یہ بات کہی تھی، اگرچہ بظاہر یہ ناحق اور بے جا طعنہ رسول کو دیا گیا تھا، لیکن تاویلی معنی میں خدا تعالیٰ کو دیا گیا، کیونکہ حضورِ انور پیغمبرِ خدا ہونے کی حیثیت سے جانشینِ خدا (یعنی خلیفہ) تھے، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ رسولِ کریم اور امامِ برحق کو روحانی علم کی دولت سے خالی سمجھنا ایسا ہے، جیسے کوئی شخص یا کوئی گروہ خدا کو مفلس قرار دیتا ہو۔

 

۸۔ بصیرت اور کور باطنی:

روحانی علم کا ایک نام بصیرت (چشمِ باطن) ہے اور اس کا نہ ہونا کور باطنی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (اے رسول!) کہہ دو یہ ہے میرا راستہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں (بھی) اور وہ (بھی) جس نے میری پیروی کی ہے، بصیرت پر ہیں (۱۲: ۱۰۸)۔ حضورِ اکرمؐ کی پیروی یعنی آپ کے پیچھے پیچھے چلنا بحقیقت یہ ہے کہ ظاہر کے علاوہ باطن میں بھی یہ عمل درجۂ انتہا کو پہنچ جائے، اور ایسی پیروی امیر المومنین حضرت علی علیہ السّلام

 

۱۱۷

 

نے کی ہے، اور آپ کی اولاد کے أئمّۂ ہدا علیہم السّلام نے یہی پیروی بجا لائی ہے، پس بصیرت کے معنی میں مشاہدۂ روح و روحانیّت اور علم و عرفان کے تمام درجات پیغمبر اور امام کو حاصل ہیں۔

 

۹۔ بولنے والا اور گونگا:

معلمِ قرآن جو نور (۰۵: ۱۵، یعنی امام) ہے وہ روحانی زبان سے بولتا ہے، لیکن کوئی بھی جاہل یہ زبان نہیں رکھتا، اس لئے وہ گونگا ہے، اور یہی مثال قرآنِ پاک میں موجود ہے، ملاحظہ ہو: اور اللہ تعالیٰ نے دو آدمیوں کی مثال دی ہے کہ ان میں سے ایک گونگا ہے جو کسی چیز پر قدرت نہ رکھتا ہے اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے وہ (آقا) اس کو جس طرف بھی بھیجے کبھی ٹھیک کام نہیں کرتا، کیا وہ اس شخص کے برابر ہو سکتا ہے، جو عدل کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے (۱۶: ۷۶)۔

 

۱۰۔ سننے والا اور بہرا:

مولا علی صلوات اللہ علیہ کے بہت سے قرآنی ناموں میں سے ایک اُذُنٌ وَّاعِیَةٌ (۶۹: ۱۲) ہے، جس کے معنی ہیں: “یاد رکھنے والا کان” قرآنِ کریم کا فرمانا ہے کہ حضراتِ أئمّہ لوگوں پر گواہ ہوا کرتے ہیں اور رسول اماموں پر گواہ ہیں (۰۲: ۱۴۳) اس کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ نورِ نبوّت قرآنِ حکیم کی روح و روحانیّت کے ساتھ نورِ امامت کے سامنے حاضر اور گواہ ہے، پس اسی طرح ہر امام نورانی علم کی آواز کو یاد رکھنے والا کان ہے کہ پیغمبر سے قرآن کو سنتا ہے اور اسے یاد رکھتا ہے، اور اسی روحانی تعلیم کی غرض سے امام ظاہراً و باطناً لوگوں کے سامنے حاضر اور گواہ ہے۔

۱۱۔ خیر اور شر:

علم و حکمت میں خیرِ کثیر ہے (۰۲: ۲۶۹) اور اس کے برعکس جہالت و نادانی میں شرِ کثیر ، اس میں

 

۱۱۸

 

کوئی شک نہیں کہ غیب کا علم صرف خدا ہی جانتا ہے، لیکن خداوندِ کریم نے اپنے رسول کو غیب کی باتوں سے آگاہ فرمایا ہے (۷۲: ۲۶ تا ۲۷) جس کا عملی ثبوت قرآنِ حکیم ہے کہ یہ قبل از نزول علمِ غیب تھا، جیسا کہ ارشاد ہے: وَمَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ (۸۱: ۲۴) اور وہ (جبرائیل یا پیغمبر) غیب کی باتوں پر بخیل نہیں۔ اس میں اعلان فرمایا گیا ہے کہ جو شخص علم و حکمت کو چاہتا ہو، وہ پیغمبرِ اکرمؐ کی طرف رجوع کرے مگر دروازے کی شناخت بہت ہی ضروری ہے، کیونکہ آنحضرتؐ اپنی نورانیّت میں بیت اللہ ہیں جو حکمت کا گھر ہے، اور مولا علیؑ یعنی ہر امام اپنے وقت میں اُس گھر کا دروازہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ اْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِهَا۪ (۰۲: ۱۸۹) اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو۔

 

۱۲۔ بلندی اور پستی:

علم بلندی ہے اور جہالت اس کے مقابلے میں پستی، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پاک و پاکیزہ پانی ہمیشہ بلندی سے آتا ہے، ایسی بلندیاں جہاں سے آبِ طہور آتا ہے دو ہیں، جو آسمان اور پہاڑ ہے، پیغمبرِ اکرم آسمان ہیں اور امامِ برحق پہاڑ، آسمان کی دوسری برکتوں کے ساتھ ساتھ پانی کی برکت بھی پہاڑ میں جمع ہو جاتی ہے، یعنی وہ چشموں، برف کے ذخائر، اور گلیشیرز (GLACIERS) کا حامل ہوتا ہے، جس سے بتدریج موسم کی ضرورت کے مطابق پانی آتا رہتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ امامِ عالی مقام کی ذاتِ عالی صفات میں ہر گونہ علم کے سرچشمے، ذخائر، اور منجمد اسرار موجود ہیں۔

 

۱۳۔ طہارت اور نجاست:

ظاہری طہارت (پاکیزگی) کو سب جانتے ہیں کہ وہ پانی سے ہوا کرتی ہے، مگر باطنی

 

۱۱۹

 

طہارت ایسے علم سے ہوتی ہے جو اصل سرچشمہ سے ہونے کی وجہ سے پاک ہو، علم کا پانی جہالت کی نجاست کو دھوتا ہے، کیونکہ جہالت بدترین نجاست ہے، اور جیسے مشرکین ناپاک ہیں (۰۹: ۲۸) تو اس کی وجہ ان کی جہالت و نادانی ہے، ان کو حرمت والی مسجد یعنی خانۂ کعبہ کے قریب جانے کی اجازت نہیں (۰۹: ۲۸) اس کی تاویل یہ ہے کہ خدا کا گھر امام ہے، جس کی طرف ظاہر میں آنے کے لئے علم چاہئے، اور باطن میں امام کا دیدارِ اقدس حاصل کرنے کے لئے اور زیادہ علم چاہئے، لیکن یہ علم خالص اور پاک ہو۔

 

۱۴۔ دوستی اور دشمنی:

روحانی علم کا سب سے اساسی اور عظیم وسیلہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کی پاک دوستی ہے، اور آپ سے دشمنی جہالت و نادانی کا اصل سبب ہے، دوستی کا دوسرا لفظ محبت ہے، اور شدید محبت کا نام عشق ہے اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ مومنین اس کے نمائندوں سے شدید محبت (یعنی عشق) رکھیں (۰۳: ۳۱، ۰۲: ۱۶۵)، تاکہ علم و حکمت کے مراحل بآسانی طے ہو جائیں، وہ نمائندے رسولِ خدا اور أئمّۂ ہدا صلی اللہ علیہ و علیہم ہیں، خدا کی اطاعت کے بعد پیغمبرِ اکرمؐ کی اطاعت ہے، اور پھر پاک اماموں کی اطاعت ضروری ہے، تاکہ حقیقی عشق اپنا معجزہ دکھائے، اور روحانی علم کے دروازے مفتوح ہوں۔

 

۱۵۔ انسانیّت اور حیوانیّت:

انسانیّت علم کی مثال ہے، اور اس کے مقابل میں حیوانیت جہالت کا نمونہ ہے، آپ قرآنِ حکیم میں دیکھیں اور غور کریں کہ جنّ و انس میں سے بہت سے ایسے

 

۱۲۰

 

ہیں جو اپنے درجے سے گر کر چوپایوں کی طرح ہو گئے ہیں (۰۷: ۱۷۹) جس کی وجہ جہالت ہے، پس اگر یہ ممکن ہے کہ بعض لوگ انسانی شکل ہی میں جہالت کی وجہ سے چوپائے قرار پاتے ہیں، تو دوسری جانب سے یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ بشری جسم ہی میں علم کے سبب سے فرشتے کہلائیں، ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیاء و أئمّہ صلوات اللہ علیہم عظیم جسمانی فرشتے ہوا کرتے ہیں۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

 

خاکسار خادم:

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۲ اکتوبر ۱۹۸۵ء

 

۱۲۱

 

رنگِ رحمان میں روح کی رنگینی

 

۱۔ بعض حقائق و معارف بے حد ضروری ہوتے ہیں، لہٰذا بار بار تذکرہ کرکے ان کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا ہے، تا کہ سامعین و قارئین کے ذخیرۂ معلومات میں تسلی بخش اضافہ ہو، اگرچہ آپ حضرات نے رنگِ خدا (صبغۃ اللہ) کے بارے میں جزوی طور پر پڑھا ہے، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس سے متعلق کوئی مکمل مضمون آپ صاحبان کی نظر سے نہیں گزرا ہے، چنانچہ یہ بندہ، جو از خود مفلس ہے، بصد حاجتمندی و عاجزی اس بادشاہِ پر نور کے حضور میں علمی صدقہ اور دریوزہ کے لئے رجوع کرتا ہے، جس کو خدا و رسول نے موروثی طور پر تاجِ علم و حکمت سے سرفراز فرمایا ہے، اور وہ ولیٔ امر زمانے کا امام ہے۔

 

۲۔ اگر صحیح معنوں میں سوچ لیا جائے تو قرآنِ حکیم کی کوئی آیت رنگِ خدا کے برملا ذکر یا رمز و اشارت سے خالی نہیں، لیکن اس کا مرکزی اور سب سے نمایان تذکرہ سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۳۸) میں ہے، وہ بابرکت ارشاد جس میں ہمہ گیر معنویّت کی ایک انتہائی رنگین و حسین دنیا پوشیدہ ہے، یہ ہے: صِبْغَةَ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً٘-وَّ نَحْنُ لَهٗ عٰبِدُوْنَ (۰۲: ۱۳۸) ہم نے خدا کا رنگ اختیار کر لیا ہے اور خدا سے بہتر کون رنگ دینے والا ہے اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔

 

۱۲۲

 

صبغۃ کے معنی ہیں رنگنے کا طریقہ، الصبغ کے اصل معنی تغیّر و تبدّل، یعنی تبدیلی پیدا کردینے کے ہیں، صبغ الثوب کے معنی ہیں کپڑا رنگنا، صبغ یدہ بالماء کے معنی ہیں اس نے اپنا ہاتھ پانی میں ڈبو لیا، صبغ فلانا فی النعیم ، فلاں شخص کو نعمتوں میں ڈبو دیا، سالن کو صبغ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں روٹی ڈبو کرکھائی جاتی ہے، عیسائی اپنے بچوں کو بپتسما دینے کے لئے پانی میں غوطہ دیتے ہیں، اسے صبغۃ یا اصطباغ کہا جاتا ہے۔

 

۳۔ روحانیّت و نورانیّت کے مختلف رنگوں کا وجود ہے یا نہیں اس کے بارے میں کتاب الزینۃ، باب العرش میں حضرتِ امام زین العابدین علیہ السّلام سے ایک مستند اور پُرحکمت روایت درج کی گئی ہے اور وہ یہ ہے: ۔۔۔ ثم خلقہ من الوان انوار مختلفہ، من ذالک نور اخضر منہ اخضرت الخضرۃ، و نور اصفر منہ اصفرت الصفرۃ، و نور احمر منہ احمرت الحمرۃ، و نور ابیض، و ھو نور الانوار، و منہ ضوء النہار ۔

پھر خدا تعالیٰ نے عرش کو مختلف رنگوں کے انوار سے بنایا ، ان (انوار) میں سے سبز نور ہے، جس سے سبز رنگ بنا، زرد نور ہے، جس سے زرد رنگ بنا، سرخ نور ہے، جس سے سرخ رنگ پیدا ہوا، اور سفید نور ہے، جو تمام انوار کا نور ہے، اور جس سے دن کی روشنی بنی۔ اس مبارک ارشاد سے یہ حقیقت روشن ہو گئی کہ صبغۃ اللہ کی حکمت میں مختلف رنگ کے انوار کا ذکر موجود ہے، یعنی خداوندِ تعالیٰ کے حضور میں جتنے رنگ ہیں، وہ سب بصورتِ انوار ہیں، اور یہ رنگین روشنیاں وہی ہیں، جن سے عالمِ شخصی میں عرش بنایا جاتا ہے۔

 

۴۔ عقیدت، حقیقی محبت، علم، اور معرفت (خدا شناسی) جیسی صفات کے ساتھ عبادت میں مستغرق ہو جانا، بالفاظِ دیگر اپنے آپ کو نورِ بندگی کے رنگ میں ڈبو لینا، اور اپنے باطن میں انقلاب یا تبدیلی لانا، یہ سب حکیمانہ اشارے آیۂ

 

۱۲۳

 

مقدّسہ صبغۃ اللہ میں موجود ہیں، کیونکہ قرآنی الفاظ کی حکمتیں لغوی معنوں کے ساتھ مربوط ہوا کرتی ہیں، اور یہاں جن معانی سے بحث ہے، ان کا ذکر ہو چکا ہے، نیز یہاں یہ بات بھی بتا دینا ضروری ہے کہ اس آیۂ کریمہ کا اوّلین تعلق رسولِ خدا اور أئمّۂ ہدا صلوات اللہ علیہ و علیہم اجمعین سے ہے، اور پھر اہلِ ایمان کے مختلف درجات اس سے وابستہ ہیں۔

 

۵۔ عالمِ ظاہر کے ہفت رنگ یہ ہیں: سیاہ، سفید، سرخ، سبز، پیلا، قرمزی، کبود (نیلا) ان تمام رنگوں کا ذکر قرآنِ پاک میں موجود ہے، یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ علمِ کثیف کی ہر چیز عالمِ لطیف سے آئی ہے، اسی طرح اس مادّی دنیا میں جتنے رنگ ہیں، وہ سب روحانی عالم سے آئے ہیں، مگر یہ وہاں روحِ لطیف اور نورِ حسن و جمال سے وابستہ ہیں، بلکہ یہ خود مختلف رنگ کے انوار ہیں، جن سے بہشت کی بے نظیر رنگینیاں بنی ہیں، مگر یہ الوان (رنگہا) جیسے ہی اس دنیا میں آ گئے تو اسی وقت یہ کثیف ہو چکے تھے، یا یوں کہا جائے کہ وہ خود یہاں نہیں آ سکتے تھے، صرف ان کے سائے آ سکتے تھے، لہٰذا یہ کہنا درست ہو گا کہ دنیا کی نعمتیں آخرت کی نعمتوں کے سائے ہیں۔

 

۶۔ اس حقیقت میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ آیۂ مبارکۂ صبغۃ اللہ میں روحِ ایمان کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اگر ایسا ہے تو آئیے کہ ہم براہِ راست ایمان کو دیکھیں، جیسا کہ ارشاد ہے: خدا تعالیٰ نے ایمان کو تمہاری طرف (یعنی تمہارے لئے) محبوب بنا دیا اور تمہارے دلوں (باطن) میں اس کو زینت دی ہے (۴۹: ۰۷) اس میں مشاہدۂ باطن کا ذکر ہے، جبکہ نورِ ایمان خدائی رنگوں سے رنگین ہو کر انتہائی محبوبیّت و دلکشی کے ساتھ عالمِ شخصی میں طلوع ہو جاتا ہے، دنیائے ظاہر کا سورج مادّی چیزوں کو صرف سطحی طور پر روشن کر دیتا ہے مگر اس کے برعکس

 

۱۲۴

 

باطنی نور ہر روحانی چیز کو اندر سے بھی اور باہر سے بھی اپنی روشنی میں ڈبو لیتا ہے، جیسے سورج کی شعاعوں میں صاف شفاف (TRANSPARENT) شیشہ ظاہراً و باطناً غرق ہو جاتا ہے، اور جس طرح ایک کوئلہ آگ کی حرارت و روشنی میں اندرونی و بیرونی طور پر ڈوب جاتا ہے، یہ نورِ ایمان کی مثال ہے جو رنگِ رحمان ہے، جس میں مومن کی روح کلّی طور پر رنگین ہو جاتی ہے۔

 

۷۔ عالمِ امر جو لطیف اور سراسر عقل و جان ہے، جہاں کلمۂ کُنۡ کے تحت ہر چیز کا وجود ظہور و تجلّی سے بن جاتا ہے، وہاں اگر گلِ سرخ کا مشاہدہ ہو جاتا ہے تو وہ نورِ احمر کا ایک جلوہ ہے، اگر سبزہ زار اور درخت ہیں تو یہ نورِ اخضر کے ظہورات ہیں، اگر گلہائے زرد ہیں تو یہ نورِ اصفر کی تجلّیات ہیں، اگر سفید پھول ہیں یا موتی ہیں تو یہ نورِ ابیض کے معجزات میں سے ہیں، اسی طرح ہر چیز کے وجود کے لئے اسی رنگ کے نور کا ظہور ہوتا ہے، تا کہ رنگِ رحمان اور نورِ ایمان کا نظارہ و مشاہدہ نمونۂ بہشت کے طور پر ہو۔

 

۸۔ صبغۃ اللہ کے سلسلۂ تشریح سے متعلق ایک خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ جب عالمِ شخصی پر رحمتِ خداوندی کی بارش برستی ہے تو اس کے نتیجے میں یہاں ایسے لطیف و رنگین روحانی باغ و گلشن (حدائق ذات بھجۃ، ۲۷: ۶۰) کا ظہور ہوتا ہے، جو انوار کی رنگینیوں سے بھرپور ہونے کی وجہ سے انتہائی رونق دار، بدرجۂ کمال خوبصورت اور نہایت روح پرور ہوا کرتے ہیں، تا کہ دیکھنے والوں کو خود شناسی اور خدا شناسی کے عظیم بھیدوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو کہ عالمِ شخصی کی جنت میں باغبانِ ازل کیسے کیسے پرنور درختوں اور پھولوں کو اگا دیتا ہے۔

 

۹۔ جب اللہ تعالیٰ کائنات و موجودات کے ظاہر کا چھلکا یا پردہ (۸۱: ۱۱، ۵۰: ۲۲)

 

۱۲۵

 

اٹھائے تو اسی وقت عالمِ لطیف بصورتِ بہشت سامنے ہوتا ہے، جس میں چار اصل (دو روحانی اور دو لطیف جسمانی) چار عناصر بھی ہیں، اور چار دریا (نہریں) بھی، اور ان چاروں دریاؤں سے کائناتی اور عالمِ شخصی کی جنت خداوندِ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق معمور و پُرنور ہو گئی ہے، جس میں وہ تمام نعمتیں موجود و مہیا ہیں، جن کی خواہش بشری نفوس میں پائی جاتی ہے، علی الخصوص ایسی نعمتیں، جن سے اہلِ بہشت کو عینی لذات حاصل ہو جاتی ہیں (۴۳: ۷۱) عینی لذّتوں کا بلند ترین درجہ نورِ خداوندی کا دیدارِ اقدس ہے، اور اس بابرکت دیدار کے گوناگون ظہورات و تجلّیات ہیں۔

 

۱۰۔ منازلِ روحانیّت میں سب سے پہلے چشمِ باطن کھل جانے کے بعد روح کی حیرت انگیز رنگینی نظر آتی ہے، جو اس حقیقت کی مثال اور بشارت ہے کہ کچھ آگے چل کر عقل و جان علم و حکمت سے رنگین ہو جانے والی ہیں، جیسا کہ سورۂ مومنون (۲۳: ۲۰) میں فرمایا گیا ہے: وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِن طُورِ سَيْنَاءَ تَنبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْآكِلِينَ (۲۳: ۲۰) اور ایک (زیتون) کا درخت بھی (ہم نے پیدا کیا) جو کہ طورِ سینا میں پیدا ہوتا ہے، جو اگتا ہے تیل لئے ہوئے اور کھانے والوں کے لئے سالن لئے ہوئے۔ درختِ زیتون نفسِ کلّی ہے، پھر ناطق، اساس، اور امام یہ درخت ہیں، طورِ سینا سے پیشانی مراد ہے، تیل کی تاویل عقلِ کلّی ہے، جس کا ذکر سورۂ نور (۲۴: ۳۵) میں بھی ہے، سالن کی تاویل کلمۂ باری ہے، جو حکمتوں کا سرچشمہ ہے، پس روحانی غذا کھانے والے تنزیل کی روٹی کو تاویلی حکمت کے سالن میں ڈبو کر کھاتے ہیں، جس سے یہ روٹی رنگین ہو جاتی ہے یعنی ظاہری علم باطنی علم سے مل کر پُرمایہ اور عالی شان ہو جاتا ہے۔

 

۱۱۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے قصّے میں چار پہاڑ موجود ہیں، ان میں سے ایک ظاہر اور تین پوشیدہ ہیں، جو ظاہر ہے وہ سب کو معلوم ہے، اور جو پہاڑ

 

۱۲۶

 

مخفی ہیں، وہ کوہِ پیشانی، کوہِ روح، اور کوہِ عقل ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بھی ایسے چار پہاڑ تھے، اس کے علاوہ ناطق، اساس، اور امام کے حجج (حجتان) قرآنی پہاڑوں کا کام کرتے ہیں، مثال کے طور پر حضرت داؤد علیہ السّلام کے ساتھ جبال اور پرندے تسبیح کیا کرتے تھے (۲۱: ۷۹) پس پہاڑوں سے یہاں آپ کی پیشانی، روح، عقل ، اور حجج مراد ہیں، اور پرندے دیگر سب ارواح ہیں، اور یہ سارے آپ کے ساتھ مل کر ذاتِ سبحان کی پاکی بیان کرتے تھے۔

 

۱۲۔ چمن کے خوش منظر اور دلفریب پھول کچھ دن اپنے رنگ و بو کی دولت لٹا دینے کے بعد اگرچہ مرجھا مرجھا کر ختم ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے مجموعی وجود کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا، اسی طرح میوہ دار درختوں کے پھول محویّت و فنائیّت کے وسیلے سے اپنے اپنے پھلوں میں منتقل ہوجاتے ہیں، جہاں ان کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے، انسان بھی بچپن میں غنچۂ نا شگفتہ جیسا پیارا اور نوجوانی میں گلِ خندان کی طرح خوبرو ہوتا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ آیا یہ پھول بھی آگے چل کر اپنی نوعیت کا کوئی بیش بہا، خوشبو، اور خوشذائقہ میوہ بن سکتا ہے یا نہیں؟ کیوں نہیں، جب کہ ہر کلی زبانِ حال سے پھول کی خوشخبری دیتی ہے، اور ہر پھول جو درختِ ثمر دار سے متعلق ہے، وہ بجائے خود پھل کی بشارت ہے۔

 

۱۳۔ قادرِ مطلق جب عالمِ شخصی کو رنگ دیتا ہے، تو وہ ہر طرح سے اور ہر معنی میں رنگین ہو جاتا ہے، جس کی صرف ایک مثال یہ کہ اس میں لطیف باغ و گلشن کا ظہور ہوتا ہے، جو دراصل یہ تمام چیزیں سبز نور کی تجلیات ہیں، اب ایسی بہار کے پھول اپنے اپنے پھلوں اور بیجوں کی طرف آگے بڑھ جائیں گے، یا ان پھولوں سے جنت کا عطر نکالا جائے گا، یا ان سے بہشت کا شہد بنایا جائے گا، یا ان کے رنگوں (یعنی انوار) سے خدا کے لئے ایک تخت (عرش) بن جائے گا، یہ ساری مثالیں اپنی اپنی جگہ

 

۱۲۷

 

درست ہیں، جن کا ممثول علم و حکمت ہے۔

 

۱۴۔ ہر چیز، ہر لفظ، اور ہر مثال میں ایک رحمت اور ایک علم ہے، چنانچہ رنگوں کی مثال میں بطورِ خاص رحمت و علم ہے، جیسا کہ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے منقل ہے کہ آپ سے اس آیۂ کریمہ کے بارے میں پوچھا گیا: ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ (۶۸: ۰۱) قسم ہے نون کی اور قلم کی اور اس چیز کی جو لکھتے ہیں۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا: نون نھر فی الجنۃ اشد بیاضا من الثلج و احلیٰ من الشھد۔ قال اللہ لہ: اجمد! فجمد۔ ثم قال للقلم: اکتب! فکتب القلم ما ھو کائن الیٰ یوم القیامۃ۔ (کتاب الزینۃ، باب القلم، صفحہ ۱۴۴)۔

نون بہشت میں ایک نہر ہے جو برف سے زیادہ سفید اور شہد سے بڑھ کر شیرین ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا: منجمد ہو جا! پس وہ منجمد ہو گئی، پھر خدا نے قلم کو حکم دیا: لکھ دے ! تو قلم نے لکھ دیا جو کچھ کہ قیامت تک ہونے والا تھا۔ اس قول میں انقلابی حکمتیں پوشیدہ ہیں، کہ نون یعنی قلمِ عقل کی دوات (دہنِ مبارک) کی مداد (روشنائی) سفید ہے، یعنی نورِ ابیض، اور یہ بہشت کی ایک نہر کی حیثیت سے ہے، جو حلاوت میں شہد سے بڑھ کر ہے، اور اسی کے منجمد ہونے سے عالمِ شخصی میں قلمِ قدرت کا ظہور ہو جاتا ہے۔

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۹ اکتوبر ۱۹۸۵ء

 

۱۲۸

 

واحد اور جمع

 

۱۔ قرآنِ حکیم میں علم و حکمت کے عجائب و غرائب بے شمار ہیں، لیکن سب سے بڑا عجوبہ اس قانونِ وحدت کا حکیمانہ ذکر ہے، جس کے مطابق ایک میں سب پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، اور سب میں ایک پنہان ہوتا ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا (۳۹: ۰۶) اس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔ یہ عالمِ شخصی کی بات ہے، کہ اس میں جب انسانِ کامل کی روحانی تخلیق ہوتی ہے، تو اسی کے ساتھ ساتھ اس کے روحانی بچوں کے ذرات کی بھی تخلیق ہوتی ہے، کیونکہ یہ لوگ اس کے اجزا ء ہیں، پھر عالمِ دین میں روحانی ماں باپ سے ان کی مکمل تولید ہوتی ہے، اور مومنین کے روحانی والدین ناطق و اساس ہیں، پھر اساس و امام، اور پھر امام و باب ہیں۔

 

۲۔ نفسِ واحدہ کے معنی ہیں ایک جان، نیز اس کے معنی ہیں ایک کرنے والی جان، کیونکہ واحدہ بروزنِ فاعلہ میں ایک کرنے کے معنی پوشیدہ ہیں، اس کی مثال روحِ نباتی، روحِ حیوانی اور روحِ انسانی ہیں، کہ ان میں سے ہر ایک نے بحدِّ قوت اپنی نوعیت کی لاتعداد روحوں کو ایک کر لیا ہے مگر انسانِ کامل بحکمِ خدا فعلاً نفسِ واحدہ ہے، یعنی وہ تمام نفوس کو اپنی ذات میں ایک کر لیتا ہے، اور دوسرے میں بھی ایک

 

۱۲۹

 

کر دیتا ہے، اسی طرح وہ ذرّاتِ روح کو مجتمع بھی کرتا ہے اور منتشر بھی۔

 

۳۔ لفظِ انسان واحد ہے، اور اس کی جمع اناسی ہے، مگر قرآنِ کریم میں کل انسانوں کا ذکر اکثر صیغۂ واحد (یعنی انسان) میں فرمایا گیا ہے، ایسے میں سب انسان ایک نظر آتے ہیں، اسی طرح جن کا تذکرہ ہے، جس میں سارے جنّات ایک ہیں، پھر اس میں کیا تعجب ہے کہ اسی نہج پر لفظِ آدم میں بھی بہت سے آدموں کا ذکر موجود ہو، اور خدا تعالیٰ نے رفعِ زمان کے طور پر ان سب آدموں سے متعلق ارشاد فرمایا ہو کہ: قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا (۰۲: ۳۸) ہم نے حکم فرمایا نیچے جاؤ اس بہشت سے سب کے سب۔

 

۴۔ آسمان اگرچہ سات ہیں، لیکن جس طرح وہ باہم ملے ہوئے ہیں، اس کے پیشِ نظر وہ ایک ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں آسمانوں کا ذکر صیغۂ جمع (سماوات) میں بھی ہے، اور صیغۂ واحد (سماء) میں بھی تا کہ “وحدتِ کثرت نما” کے بھیدوں سے لوگ واقف و آگاہ ہو جائیں، آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات ہیں (۶۵: ۱۲) لیکن قرآنِ مقدّس میں ہر جگہ زمین کا تذکرہ اسمِ واحد (ارض) میں فرمایا گیا ہے، اور ان اعداد کی ایک بہت دلنشین تاویل ہے وہ یہ کہ سات آسمان سے روحانیّت کے سات درجات مراد ہیں، جو صاحبانِ ہفت ادوار سے متعلق ہیں، مگر اس کے باوجود روحانیّت ایک ہی ہے، اور صاحبانِ ادوار بھی ایسے متحد ہیں، جیسے ایک نے اپنے باطن میں سب کو سما لیا ہو، اور سات زمین کی تاویل ان حضرات کے ابواب (حجّتانِ اعظم) ہیں، جو سات ہیں، اور مل کر ایک ہو گئے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین سات سات بھی ہیں، اور ایک ایک بھی۔

 

۵۔ جبرائیل، میکائیل، اسرافیل، اور عزرائیل علیہم السّلام میں سے ہر ایک واحد بھی ہے اور جمع بھی، واحد اس لئے کہ وہ ایک فرشتہ ہے، اور جمع اس معنیٰ میں کہ وہ

 

۱۳۰

 

فرشتوں کا ایک بہت بڑا لشکر ہے، جیسے سورۂ سجدہ (۳۲: ۱۱) میں ارشاد ہوا ہے کہ موت کا فرشتہ ایک ہے (یعنی عزرائیل) لیکن سورۂ انعام (۰۶: ۶۱، ۰۶: ۹۳) میں جیسی ربّانی تعلیم ہے، اس سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ عزرائیل دراصل بہت سے فرشتوں کی وحدت کا نام ہے، جبکہ قبضِ ارواح کے لئے بہت سے فرشتے مقرر ہیں۔

 

۶۔ پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیہما واحد بھی ہیں، اور جمع بھی، وہ ایک ایک ہیں، اس لئے واحد ہیں، اور اس بات کے سمجھنے میں کسی کو دقت نہیں ہو سکتی، مگر سوچنا یہ ہے کہ وہ کس طرح جمع ہیں؟ اس کے بارے میں عرض یہ ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے اندر ایک عالمِ شخصی رکھتا ہے، جس میں اگرچہ ہر چیز اور سب لوگ ہوتے ہیں، تاہم مومنین کو اس میں خاص مقام حاصل ہے، اور وہ مقام یہ ہے کہ ہر مومنِ صادق کی “انائے علوی” پیغمبر اور امام سے ملی ہوئی ہوتی ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بنی اسرائیل پر اللہ جلّ شانہ کا سب سے بڑا احسان یہ تھا کہ ان کو اس دور کے أئمّہ کی “نورانیت و معرفت” کے وسیلے سے روحانی سلطنت عطا کر دی گئی تھی، اس بابرکت آیت کا ترجمہ یہ ہے:

اور وہ وقت بھی ذکر کے قابل ہے جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کے انعام کو جو تم پر ہوا ہے یاد کرو جب کہ اس نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے اور تم کو سلاطین بنایا اور تم کو وہ چیزیں دیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیں (۰۵: ۲۰) اور یہی مفہوم سورۂ قصص (۲۸: ۰۵) میں بھی ہے، دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حضراتِ أئمّہ علیہم السّلام بحقیقت ملوک و سلاطین ہیں، اور جو لوگ علم و عمل کے ذریعہ “فنا فی الامام” (ف ن ا ف ی ا ل ا م ا م) کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں، وہ بھی روحانیّت و قیامت میں بادشاہ ہوں گے۔

 

۱۳۱

 

۷۔ ظاہر میں سب لوگ بنی آدم کہلاتے ہیں، مگر حقیقی معنوں میں صرف حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام بنی آدم ہیں، اسی طرح “بنی آدم کی ذریّت” بھی خاص و عام دو قسم کی ہے، چنانچہ خداوندِ تعالیٰ نے اولادِ آدم کے ہر پیغمبر اور ہر امام کی پشتِ مبارک سے اس کی روحانی ذریّت یعنی ارواحِ مومنین کو لیا، اور ان کو نورِ معرفت سے واقف کر دیا، پھر پوچھا کہ آیا با این ہمہ میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں (۰۷: ۱۷۲) اس سے ظاہر ہے کہ خدا شناسی اور توحید کا دروازہ ہر وقت کشادہ ہے۔

 

۸۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السّلام ایک امام تھے، مگر آپ میں سب أئمّہ جمع تھے، لہٰذا وہ تمام آیات و احادیث جن میں مولا علیؑ کی ولایت و امامت کا ذکر ہے، وہ سب آپ کے بعد ہر امام سے متعلق ہو جاتی ہیں، علی مرتضیٰ واحد ہونے کے باوجود کس طرح جمع تھے، اس کی ایک قرآنی مثال ملاحظہ ہو: ماسوا اس کے نہیں کہ تمہارا ولی (حاکم اور دوست) اللہ تعالیٰ ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لا چکے نماز قائم کرتے اور زکات دیتے ہیں، در آنحالیکہ وہ رکوع کرنے والے ہیں (۰۵: ۵۵) مشہور و مستند روایت ہے کہ یہ آیۂ کریمہ مولا علی صلوات اللہ علیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، کیونکہ آپ ہی نے حالتِ رکوع میں ایک سائل کو زکات دی تھی، لیکن جاننے کی خاطر یہ ایک سوال ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر خدا اور پیغمبر کے ذکر کے بعد جیسا ارشاد ہوا ہے وہ سب صیغہ ہائے جمع میں کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں خدا تعالیٰ نے زمانۂ مستقبل کو اٹھا کر تمام اماموں کو ابو الأئمّہ مولا علی علیہ السّلام کی صورتِ مبارکہ میں جمع کر دیا ہے، جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام میں ایک امت جمع کر دی تھی (۱۶: ۱۲۰)۔

 

۹۔ اعداد کی ترتیب کا جو قاعدہ و قانون ہے، وہ سب کو معلوم ہے کہ سب سے

 

۱۳۲

 

پہلے ایک ہے، پھر دو، پھر تین، وغیرہ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ “ایک” حضرت آدم کی مثال ہے کیونکہ وہ نفسِ واحدہ کی حیثیت سے انسانِ اوّل ہے (۰۷: ۱۸۹، ۳۹: ۰۶) دو کا عدد بی بی حوّا کی مثال ہے، اس لئے کہ جس طرح ایک سے دو پیدا ہو جاتا ہے، اسی طرح آدم سے حوّا پیدا کی گئی ہے، اور باقی اعداد جتنے بھی ہیں وہ سب کے سب اولادِ آدم کی مثال ہیں، رسمہ ملاحظہ ہو:۔

اولادِ آدم

آدم     حوّا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱      ۲      ۳      ۴      ۵     ۶     ۷      ۸      ۹      ۱۰     ۱۰۰     ۱۰۰۰ وغیرہ

 

یہاں ایک اعلیٰ درجے کا سوال اٹھایا جاتا ہے، جس کا جواب بے حد مفید ہو سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ بحوالۂ قرآن (۰۷: ۱۸۹، ۳۹: ۰۶) کس طرح یہ امر ممکن ہوا کہ خدا تعالیٰ نے نفسِ واحدہ یعنی صرف آدم ہی سے سارے آدمیوں کو پیدا کیا، جبکہ حوّا ہنوز پیدا نہیں ہوئی تھی؟ اس کا جواب کئی طرح سے دیا جا سکتا ہے:

الف: یہ عالمِ ذرّ (عالمِ ارواح) تھا، جہاں ذرّاتِ ارواح کی تخلیق ہوئی تھی۔

ب: یہ تصویری تخلیق تھی، جس میں ایک اکیلے آدم کی بے شمار تصویریں بنا کر ذرّاتِ لطیف یا جسمِ لطیف سے وابستہ کی گئی تھیں، اور ہر تصویر کا نام آدمی یا انسان تھا، تا کہ وقت آنے پر ساری انسانیّت پھر اصل سے رجوع کرے، اور جتنی تصویریں ہیں، وہ سب کی سب صاحبِ تصاویر یعنی نفسِ واحدہ سے مل جائیں۔

ج: حکماء کا قول ہے کہ: لا تلد الوحدۃ الا الوحدۃ (وحدت صرف وحدت ہی کو جنم دیتی ہے) چنانچہ نفسِ واحدہ (یعنی آدم) جو واحد تھا، سو اس نے وحدت کو جنم دیا، یعنی عددِ واحد سے بے شمار اعدادِ واحد بنے جیسے:

 

۱۳۳

 

۱،۱،۱،۱،۱،۱،۱، وغیرہ، تا کہ رجوع کا علم و عمل آسان ہو۔

د: وجودِ آدم گزشتہ دور کا خلاصہ، جوہر اور نچوڑ تھا، جس میں جملہ ذرّاتِ ارواح منتقل ہو چکے تھے، ان کا سابقہ رشتہ بحکمِ قرآن (۲۳: ۱۰۱) ختم ہو چکا تھا، اور اب ان کو “تخلیق در تخلیق” کے قانونِ فطرت کے مطابق اس آدم کی روحانی اولاد بنانا تھا۔

 

۱۰۔ واحد اور جمع میں سے ایک کو حقیقی اور دوسرے کو مجازی ہونا ضروری ہے چنانچہ معلوم ہے کہ واحد بحقیقت واحد ہے، اور جمع مجازاً جمع کہلاتی ہے، جس کی یہاں ایک عددی مثال درج کی جاتی ہے:

ایک (۱)، دو (۱+۱ = ۲) ، تین (۱+۱+۱= ۳)، چار (۱+۱ + ۱ + ۱ = ۴)، پانچ (۱+۱+ ۱+۱+ ۱ = ۵)، چھ (۱+۱+۱+ ۱+۱ +۱ = ۶)، سات (۱+۱+۱+۱+۱+۱+۱ = ۷)، آٹھ ( ۱+۱ + ۱ + ۱ + ۱+۱+ ۱ + ۱ = ۸)، نو    (۱+۱ + ۱ + ۱+  ۱+۱ + ۱ + ۱ +۱ =  ۹)، دس ( ۱+۱ + ۱ + ۱ + ۱+۱+  ۱ + ۱+ ۱+ ۱  = ۱۰ )۔

آپ دیکھتے ہیں کہ عددِ واحد کا وجود جداگانہ بھی ہے، اور دوسرے اعداد میں پوشیدہ بھی، لہٰذا وہ حقیقی اور باقی سب مجازی ہیں، آپ حضرات اس میں خوب غور کریں۔

 

۱۱۔ روح ایک لامکانی چیز ہے، وہ اپنی اصلیت میں جگہ کے بغیر موجود ہو سکتی ہے، تاہم ادراک، احساس، اور فعل کے لئے اسے یا تو ذرۂ لطیف چاہئے، یا جسمِ لطیف، یا جسمِ کثیف، ان تینوں میں سب سے چھوٹا اور انتہائی کم مقدار جسم ذرہ ہے، وہ البتہ تکوینِ جسم کا نقطۂ آغاز اور تجزیۂ مادّہ کا آخری ریزہ ذرہ ہے لیکن اس کے باوجود اس میں روح کی ایک مکمل دنیا سمائی ہوئی ہے، یہ ذرہ انتہائی تیزی سے پرواز کر سکتا ہے، اور قرآنِ حکیم میں بہت سے ناموں کے تحت اس کا ذکر فرمایا گیا ہے۔

 

۱۲۔ ہر قسم کا ظرف (برتن) جسم ہے، اور اس میں جو چیز رکھی جاتی ہے، وہ بھی

 

۱۳۴

 

جسم ہے، چنانچہ جسم میں جسمانی چیز ایک حد تک سما سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں، مگر اس کے برعکس روح میں تمام روحانی چیزیں سما جاتی ہیں، کیونکہ روح لامکانی ہے، لہٰذا اس میں جگہ کی تنگی کا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں، پس ہر شخص کی روح میں سب روحیں آ سکتی ہیں، اور اسی طرح ہر فرد کی روح سب میں چل سکتی ہے، اور آپ بے حد شادمان ہوں گے کہ یہ کلیہ بدرجۂ اعلیٰ مفید اور قرآنِ حکیم (۰۶: ۱۲۲) کے عین مطابق ہے، وہ یہ ہے: وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ (۰۶: ۱۲۲، اور ہم نے اس کے لئے ایک نور بنا دیا ہے وہ اس کے ذریعہ لوگوں میں چلتا ہے) یاد رہے کہ یہاں باطن اور روح میں چلنے کی بات ہے، اور اس کے لئے وسیلہ نورِ ہدایت ہے۔ والسلام۔

 

نوٹ: صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز کا فرمانا ہے کہ اگر اس سلسلۂ مقالات و کتب سے جیسا کہ چاہئے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر پیاری جماعت کی ایک اہم علمی خدمت کس طرح انجام دی جا سکتی ہے۔

 

خاکسار خادم

نصیر فقیر

۵ نومبر ۱۹۸۵ء، ۲۱  صفر ۱۴۰۶ھ

 

۱۳۵

 

حکمتِ عددی ۔ چالیس (۴۰)

 

۱۔ حقیقی مومنین کو اس امرِ واقعی میں کوئی شک و شبہ نہ ہوگا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مقدّس ارشاد (۳۶: ۱۲) کے بموجب کائنات و موجودات کی ہر چیز کو رشتۂ قدرت و حکمت میں پرو کر امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کی ذاتِ بابرکات سے وابستہ کر دیا ہے، تمام اشیائے ظاہری کی ارواحِ لطیفہ اور اسرارِ بدیعہ کو مرتبۂ امامت میں سما دیا ہے، اور کون و مکان کی وسعتوں کو اسی مظہرِ صفاتِ قدسیہ کے بحرِ نورانیّت میں غرق اور محدود کر کے رکھا ہے، پس جاننا چاہئے کہ عالمِ ہست و بود کے ظاہر و باطن میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جو زبانِ حال اور لسانِ حکمت سے اس حقیقت کی شہادت نہ دیتی ہو کہ امامِ برحق دنیا میں ہمیشہ کے لئے حیّ و حاضر ہیں، چنانچہ ہم یہاں بتوفیقِ نورِ الٰہی چالیس (۴۰) کی حکمتِ عددی میں سے کچھ بیان کر دیتے ہیں۔

 

۲۔ خدائے علیم و حکیم نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چالیس (۴۰) برس مکمل ہونے کے بعد نبوّت و رسالت کے مرتبۂ عالی سے نوازا، اگرچہ حضورِ اکرمؐ بچپن ہی سے بلکہ پیدائشی طور پر انتہائی پاک و پاکیزہ تھے، اور آپ شروع ہی سے اخلاقِ حمیدہ اور خصائلِ محمودہ کے مالک تھے، لہٰذا آپ کو حضرتِ یحییٰؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ کی طرح ابتدائی عمر میں درجۂ پیغمبری کی موہبت و عنایت ممکن تھی، لیکن اس امرِ عظیم کے اعلان کے لئے چالیس سال کی شرط محض اسی لئے لازمی ہوئی کہ نبوّت و امامت

 

۱۳۶

 

کا ایک مخصوص عدد ۴۰ ہے، پس معلوم ہوا کہ چالیس کا عدد پیغمبر اور امام علیہما السلام کے خاص درجات میں سے ہے۔

 

۳۔ حضرت پیر ناصر خسرو قدّس سرّہ (اس کی روح (راز) پاک ہے) کی مشہور کتاب وجہِ دین کے کلام نمبر ۳۰ میں زیرِ عنوانِ: “تاویلِ صدقۂ گوسفند۔” ارشاد ہوا ہے کہ حدودِ دین کا مجموعہ چالیس (۴۰) ہے، یعنی : ۵ + ۲ + ۷ + ۲۴ + ۲ = ۴۰، تشریح: پانچ حدودِ روحانی (عقل، نفس، جد، فتح، خیال)، ناطق، اساس، سات امام، چوبیس حجّتانِ روز و شب، داعی اور ماذون، ان سب کا مجموعی عدد ۴۰ ہے، پس یہی عدد یعنی چالیس پیغمبر اور امام کا بھی ہے، کیونکہ نبوّت و امامت کا نور ایک ہی ہے اور اس پاک نور میں جملہ حدودِ دین مجموع ہیں۔

 

۴۔ سورۂ احقاف (۴۶: ۱۵) میں جیسے ارشاد ہوا ہے، اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اکثر انسانی سمجھ بوجھ کی تکمیل اور عقل و شعور کی پختگی چالیس برس میں ہوتی ہے چنانچہ ایک نیکوکار اور دور اندیش انسان عمر کی اس حد میں پہنچ کر اپنے پروردگار سے اس بات کی توفیق طلب کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بڑے پیمانے پر اخلاقی اور روحانی انقلاب لا سکے، پس جاننا چاہئے کہ انسانی عمر میں چالیس (۴۰) کے عدد کی یہ اہمیّت اس حقیقت کے پیشِ نظر ہے کہ اس کی تاویلی حکمت کا تعلق پیغمبر اور امام سے ہے۔

 

۵۔ حدیثِ شریف میں ہے کہ دستِ قدرت نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے قالب کا گارا چالیس صبحوں میں گوندھ کر تیار کیا، یعنی ہر صبح نورانیّت کے وقت آدم کے جسمانی وجود کا خمیر تیار ہوتا رہا، تا آنکہ چالیس (۴۰) دن گزر گئے، اس کی تاویل یہ ہے کہ آدم صفی اللہ کی اعلیٰ روحانی ہستی چالیس (۴۰) صبحوں کی کامیاب اور عارفانہ عبادت سے مکمل ہوئی تھی، نیز یہ روحانی تخلیق ۴۰ حدود کے زیرِ اثر تھی، پس چالیس (۴۰) کے عدد کی تاویل میں نبوّت و امامت کے اسرارِ معرفت پنہان ہیں۔

 

۱۳۷

 

۶۔ قرآنِ پاک کے قولِ حکمت آگین سے ظاہر ہے کہ حضرتِ موسیٰؑ کوہِ طور پر جس مسلسل عبادت کے لئے گئے تھے، اس کی مدت چالیس (۴۰) راتوں کی تھی (۰۷: ۱۴۲) تا کہ حضرتِ موسیٰؑ اس خصوصی اور اعلیٰ اعتکاف کے ذریعے اپنے ربّ کے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہو سکیں، جس کا تاویلی اشارہ یہ ہے کہ نورِ نبوّت و امامت کی معرفت کے بغیر روحانیّت کے مراحل طے نہیں ہو سکتے، کہ وہی چالیس (۴۰) حدودِ دین کا مرکز ہے۔

 

۷۔ فریضۂ جہاد ترک کرنے کی سزا میں بنی اسرائیل کو ارضِ مقدّس (ملکِ شام) سے چالیس (۴۰) سال تک محروم کر دیا گیا، اور انہیں اس عرصے میں وادیٔ تیہ میں محدود ہو کر سرگردان ہونا پڑا، اس کی تاویل بھی یہی ہے کہ انہوں نے اپنے پیغمبر اور امامِ وقت کی نافرمانی کی تھی، جن کا نشان چالیس (۴۰) تھا، لہٰذا انہیں ۴۰ سال کی سزا ملی، تا کہ غور و فکر کرنے والے اس حکمت کو سمجھ سکیں۔

 

۸۔ جملِ کبیر کے سلسلے میں چالیس (۴۰) کے عدد کا حرف “م” ہے، اور میم (م) عربی میں ایک ایسا انتہائی عجیب حرف ہے کہ اس کے اسماء و الفاظ کے شروع میں داخل ہونے سے طرح طرح کے معنوں کا تعین ہو جاتا ہے، اور ان سب میں اسرارِ امامت پوشیدہ ہوتے ہیں، مثلاً اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک اسم جو علمِ الٰہی سے متعلق ہے، وہ علیم ہے، یا علام یا اعلم ہے یا الاعلم ہے، یہ ظاہری بات ہوئی، مگر حقیقت میں اس سلسلے کا سب سے بڑا نام معلّم یا کہ المعلم ہے۔ جس میں حرفِ میم ہے، جس کی بزرگی کی دلیل یہ ہے کہ کسی ہستی کے علم و دانش رکھنے میں اتنی فضیلت نہیں جتنی کہ دوسروں کو علم سکھانے کی فضیلت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو تمام اسماء کا علمِ حقیقت سکھایا (۰۲: ۳۱) اس سے صاف ظاہر ہے کہ خداوندِ عالم خود ہی آدم صفی کا معلّم تھا، اس بیان سے نہ صرف یہی حقیقت واضح و روشن ہو گئی کہ حرفِ “میم” میں معنویّت و حقیقت کی انتہائی بلندی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی

 

۱۳۸

 

معلوم ہوا کہ “علم الاسماء” میں تمام حقائق و معارف کے خزانے موجود ہیں۔

 

۹۔ بیانِ بالا میں حقیقی اور دانشمند مومنین کے لئے بہت کچھ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور ہی ہر زمانے میں ظاہراً و باطناً صحیح معنوں میں معلم و رہنما ہے، اور یہی نور یعنی امامِ زمانؑ قادرِ مطلق کا اسمِ اعظم ہیں، یہ بیان ایسا ہے کہ اس میں حقائق و معارف کی جملہ کلیدیں شامل ہو جاتی ہیں۔

 

۱۰۔ خوب جاننا چاہئے کہ چالیس (۴۰) کے عدد کا جملِ اصغر ۴ ہے، اور محمد و علی صلوات اللہ علیہما کے مبارک و مقدّس اسموں کا جملِ اصغر بھی ۴ ہے، یہ اس طرح سے ہے: ۴۰ = ۰ +۴ = ۴ ، جواب (جملِ اصغر) اب محمد و علی کے پُرحکمت ناموں کا بسطِ حرفی ملاحظہ ہو: م ح م د ع ل ی، ان پاکیزہ حروف کے اعداد اور مجموعہ یہ ہیں: ۴۰ + ۸ + ۴۰ + ۴ + ۷۰ + ۳۰ + ۱۰ = ۲۰۲، دو سو دو کا جملِ اصغر یہ ہے: ۲+۰+۲=۴ جواب (یعنی جملِ اصغر) اس عددی تاویل سے ظاہر ہے کہ محمد و علی صلوات اللہ علیہما وہ چہل (۴۰) شب ہیں، جن میں کوہِ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے خصوصی اعتکاف کیا تھا۔

 

۱۱۔ سورۂ احقاف (۴۶: ۱۵) میں ضروری طور پر اس حکمت کو دیکھ لیجئے کہ اس کا تعلق سب سے پہلے ناطق سے ہے، پھر اساس، امام، حجّت، اور داعی پر اس کا اطلاق ہو جاتا ہے، بعد ازان یہ حکم مومنین کی طرف آتا ہے، اور ان تمام درجات میں سے ہر درجہ کے لئے روحانی والدین ہوا کرتے ہیں، جی ہاں، آنحضرتؐ کے بھی اصولاً روحانی ماں باپ تھے، اس آیۂ کریمہ میں اشارہ ہے کہ جس طرح انسان کی جسمانی ماں بڑی مشقت کے ساتھ اس کو پیٹ میں رکھتی ہے، اور بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنتی ہے، یہی حال روحانی ماں کا بھی ہے۔

 

۱۲۔ مذکورۂ بالا آیت کا تاویلی مفہوم ہے کہ جب انسان یعنی نورِ ہدایت کا پیرو علم و عمل اور روحانیّت کی بھرپور جوانی کو پہنچ جاتا ہے، اور چالیس (۴۰) حدود کی مجموعی

 

۱۳۹

 

معرفت کو حاصل کرتا ہے، تو وہ اس نعمتِ عظمیٰ کی شکر گزاری کے لئے اپنے پروردگار سے توفیق طلب کرتا ہے، اور وہ اس معرفت کی روشنی میں یہ بھی جانتا ہے، کہ اس کے روحانی والدین پر خدا تعالیٰ کے کیسے کیسے احسانات ہوئے ہیں (۴۶: ۱۵)۔

 

۱۳۔ ارشاد ہے: وَاَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي (۴۶: ۱۵) اور میری ذریت میں بھی میرے لئے صلاحیت پیدا کر دے، یعنی مجھے رفیقِ اعلیٰ (انائے علوی) سے ملا دے، اور میری انائے سفلی کے لئے میری ذریت کو اس قابل بنا دے کہ میں ایک طرح سے ان میں رہ کر نیک کام کرتا رہوں، کیونکہ بہشت میں ہر خواہش پوری ہوتی ہے، اور ایک بہت بڑی خواہش یہ ہے کہ انسان ہمیشہ زندہ رہ کر نیک کام کرنا چاہتا ہے، اور یہ ممکن نہیں، مگر دوسروں میں زندہ ہوکر، پس مذکورۂ بالا دعا میں یہی اشارہ موجود ہے۔

 

۱۴۔ قرآن کہتا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضراتِ أئمّہ پر گواہ (یعنی حاضر) ہیں، اور أئمّۂ طاہرین علیہم السّلام لوگوں پر گواہ ہیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ نورِ نبوّت کی کارفرمائی نورِ امامت میں ہوتی ہے، اور أئمّہ علیہم السلام لوگوں کے ظاہر و باطن میں کام کرتے ہیں، خصوصاً اپنی روحانی ذریات میں، اور یہ سلسلہ بہشت کا ہے، لہٰذا یہ مومنین تک پہنچ جاتا ہے، پس ہر انسان جو صحیح معنوں میں انسان ہو، اور بحقیقت مومن ہو، وہ مذکورۂ بالا آیت کا مصداق ہو گا، وہ اپنے روحانی والدین کے حق میں احسان کر سکے گا، جبکہ وہ علم و عمل اور حدود شناسی کے چالیس (۴۰) سال کو پہنچ جاتا ہے، اور اپنی ذریت میں زندہ رہ کر نیک کام کرے گا۔

 

۱۵۔ اس آیۂ مقدّسہ کے آخر میں یہ ارشاد فرمایا گیا ہے: اِنِّي تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (۴۶: ۱۵) میں نے تیری طرف توبہ کی اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ توبہ کی تاویل ہے خدا کی طرف رجوع کرنا اور اس سے انتہائی

 

۱۴۰

 

نزدیک ہو جانا، اور مسلم کی تاویل ہے اپنی انائے علوی کو خدا کے سپرد کر دینے والا، پس اس آیۂ حکمت آگین میں روحانی والدین اور حدودِ دین کا ذکر ہے، جس کی یہاں کچھ وضاحت کی گئی۔

 

۱۶۔ ایک عزیز دوست نے بڑی سادگی سے یہ سوال اٹھایا اور کہنے لگا کہ اب اس زمانے میں امامِ وقت کے سوا حدودِ دین کہاں ہیں؟ جب ہر چیز کے ساتھ ساتھ حدودِ دین بھی امامِ مبین میں جمع ہیں (۳۶: ۱۲) تو پھر حدودِ دین کے عنوان سے مزید مسائل پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

میں نے خلوص، محبت اور عاجزی سے عرض کیا کہ: آپ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ حدودِ دین کہاں ہیں؟ اور دوسری طرف خود ہی جواب دیتے ہیں کہ وہ حدود امامِ زمان میں ہیں، اس منطق سے سوال کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا سوال کا آخری حصہ غیر منطقی ہو کر رہ گیا ہے، تاہم جواباً عرض ہے:

الف: قرآنِ حکیم اور حدیثِ شریف کی تاویل حدودِ دین کے نظام کے مطابق ہے، چنانچہ علمِ تاویل کے لئے علمِ حدود شرط ہے۔

ب: اگر کہا جائے کہ حدودِ دین کا تعلق گزشتہ زمانے سے ہے، تو پھر بھی ان کی اہمیّت اپنی جگہ پر قائم ہو گی، کیونکہ کوئی بھی دانشمند قوم اپنی تاریخ کو بھلانا نہیں چاہتی ہے، پس علمِ حدود تاریخی اعتبار سے بھی ضروری ہے۔

ج: زمانۂ ماضی کے ہمارے دینی بزرگوں کو نورِ امامت سے جیسی جیسی تاویلات حاصل ہوئی تھیں، اور ان کی گرانمایہ کتابوں میں سے جتنی آج دستیاب ہیں، ان کی تحلیل علمِ حدود کے بغیر ناممکن ہے۔

د: اگرچہ خاندانِ امامت سے باہر آج کوئی حجت اور کوئی پیر نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ اس وقت روحانی اور علمی ترقی کا دروازہ

 

۱۴۱

 

بند ہو چکا ہے، جبکہ امام شناسی یا معرفت کے عنوان کے تحت بہت کچھ ہے۔

ہ: دینِ حق ایک سیدھی راہ کی طرح ہے، نیز یہ ایک پل کی طرح بھی ہے، اور ایک سیڑھی کی مثال پر بھی، جس طرح کہ آنحضرت کی معراج اور آیۂ معارج (۷۰: ۰۳) سے اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے، اور معراج (سیڑھی) ، معارج (سیڑھیاں) سے درجات یعنی حدودِ دین مراد ہیں۔

 

والسلام

 

نوٹ: صدر فتح علی حبیب اور صدر محمد عبد العزیز ، نیز یہاں کے دوسرے عملداران و ارکان ان تمام خوش نصیب حضرات کو “مبارک باد” کہتے ہیں، جو اس انتہائی کامیاب گشتی کورس میں شرکت کر رہے ہیں۔

 

نصیر ہونزائی

۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء

 

۱۴۲

 

انسان در انسان

 

۱۔ یہ سورۂ انعام کے ایک ارشاد (یعنی ، ۰۶: ۱۲۲) کا ترجمہ ہے: ایسا شخص جو کہ پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ بنا دیا اور ہم نے اس کو ایک ایسا نور دے دیا کہ وہ اس کے ذریعہ آدمیوں (کے باطن) میں چلتا ہے کیا ایسا شخص اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کی حالت یہ ہو کہ وہ تاریکیوں میں ہے ان سے نکلنے ہی نہیں پاتا (۰۶: ۱۲۲)۔

 

اللہ تعالیٰ کبھی نچلی سطح کی بات نہیں کرتا، اور نہ ہی درمیانی درجے کی بات کرتا ہے، بلکہ وہ علیم و حکیم ہمیشہ اور ہر وقت امور، واقعات، اور حالات کی چوٹی پر کلام فرماتا ہے، اور اسی درجۂ اعلیٰ سے فرمانِ خداوندی کی روشنی تمام درجات پر پڑتی رہتی ہے، چنانچہ آیۂ بالا میں حق و باطل کی دو چوٹیوں کا تقابلی تذکرہ فرمایا گیا ہے، یعنی انسانِ کامل اور اس کے مخالف کا قصّہ ہے، لہٰذا یہاں ایک تقابلی نقشہ درج کیا جاتا ہے، آپ اس کو خوب غور سے دیکھیں، اور بہت سے مفید منطقی نتائج اخذ کریں:۔

 

تقابلی نقشہ

مخالف (وہ، اُس) انسانِ کامل (یہ، اِس)  
وہ بحقیقت مردہ ہے یہ بحقیقت زندہ ہے ۱
وہ بے نور اور تاریک ہے یہ بانور اور روشن ہے ۲

 

۱۴۳

 

وہ لوگوں کے باطن میں نور کے ساتھ نہیں چل سکتا یہ لوگوں کے باطن میں نور کے ساتھ چل سکتا ہے ۳
وہ اپنوں کو روشنی نہیں دے سکتا یہ اپنوں کو روشنی دے سکتا ہے ۴
وہ باطن میں آ کر علم نہیں دے سکتا یہ باطن میں آ کر علم دے سکتا ہے ۵
اُس کے پیرو ایسے نہیں ہو سکتے اس کے پیرو زندہ اور بانور ہو سکتے ہیں ۶
اُس کے پیرو ایسے نہیں چل سکیں گے اِس کے پیرو بھی باطن میں بانور چل سکیں گے ۷

 

۲۔ “انسان در انسان” یعنی ایک آدمی کے اندر دوسرے آدمی کا موجود ہونا، یا داخل ہو جانا کس طرح ممکن ہے، اس کی ایک روشن دلیل آیۂ مذکورۂ بالا میں ہے، جس کی عام فہم منطقی وضاحت یہاں نقشے کی مدد سےکی گئی ہے، اور یہ نقشہ بے حد مفید ہے، جس سے ہر دانشمند طرح طرح کے مثبت نتائج اخذ کر سکتا ہے، اس کے علاوہ یہ بھی سوچنا ہے کہ صلبِ پدر (باپ کی پشت) میں بصورتِ ذرّات کس طرح بے شمار چھوٹے چھوٹے انسان پوشیدہ ہیں، کہ اگر ان کو سیّارۂ زمین کے باشندوں میں تقسیم کر دیا جائے، تو فی کس ایک ذرہ کے اندازے سے بھی زیادہ ہوں گے، تا کہ ہر مرد اپنی زندگی ہی میں بحدِّ قوّت تمام انسانوں کا باپ ہو۔

 

۳۔ “آدمی در آدمی” کی ایک نمایان اور مادّی مثال وہ بچہ ہے جو شکمِ مادر میں ہوتا ہے، وہ پشتِ پدر سے لے کر جنم دن تک جن مراحل سے گزر جاتا ہے، اور جیسا یہ سفر ہے، اس میں زبردست حکمتیں پوشیدہ ہیں، کیونکہ بہ فرمودۂ مولا علی صلوات اللہ علیہ انسان کتابِ مبین (بولنے والی کتاب) ہے، یہ صفت انسانِ کامل میں بحدِّ فعل موجود ہوتی ہے، اور دوسروں میں بحدِّ قوّت، پس جس طرح جسمانیّت میں “انسان در انسان” ہے، اسی طرح روحانیّت میں بھی آدمی کے اندر آدمی رہتا ہے، مگر اس میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ جسم مکانی ہونے

 

۱۴۴

 

کی وجہ سے محدود ہے، اور روح لامکانی ہونے کے سبب سے غیر محدود۔

 

۴۔ سورۂ حدید کے آخر (۵۷: ۲۸) میں ذرا غور سے دیکھئے، جہاں ارشاد ہوا ہے کہ: اور تم کو ایسا نور مقرر کرے گا کہ تم اس کے ذریعہ چلو گے پھرو گے (۵۷: ۲۸) جاننا چاہئے کہ اس نور کی روشنی میں جن جن مقامات میں چلنا چاہئے، ان میں سے اوّلین عالمِ انسانیت کا باطن ہے، جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں قرآنِ پاک کے حوالے سے ذکر ہوا، اور نقشے سے اس کی وضاحت کی گئی ہے، پس ایک انسان دوسرے انسان میں اس طرح داخل ہو جاتا ہے جس طرح کہ نورِ ہدایت سلسلۂ أئمّۂ طاہرین میں منتقل ہوتا رہتا ہے، یعنی نور کے اس عمل میں کہ وہ ایک شخصِ کامل سے دوسرے شخصِ کامل میں منتقل ہوتا رہتا ہے، انسان در انسان کا عملی نمونہ موجود ہے۔

 

۵۔ ایک بروشسکی شعر یاد آیا، جو اسی موضوع سے متعلق ہے، اور وہ اس طرح ہے:

مُردہ قبرر اکی اُن تِکُ لو پسوم عاشقݺ رُو!

دوستݺ جسمُ لو دُکوَر ڞا گنݺ زندَلو ھُرُٹ

ترجمہ: اے روحِ عاشق! مردہ قبر میں داخل نہ ہو جا، تو مٹی میں رہے یہ تیری شان نہیں، دوست کے جسم میں زندہ ہو جا، اور ہمیشہ کے لئے اس زندۂ جاوید میں جاگزین ہو جا۔

 

۶۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: بین قبری و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ = میری قبر اور منبر کے درمیان بہشت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ دیکھئے کتابِ “وجہِ دین” گفتار نمبر ۱۹ کے آخر میں زیرِ عنوان “حکایت” کہ حضورِ اکرمؐ کی قبرِ مبارک آپ کے وصی (مولا علیؑ) ہیں اور منبر حضرتِ قائمؑ، اس سے یہ حقیقت روشن ہو

 

۱۴۵

 

جاتی ہے کہ روح زندہ قبر میں جاتی ہے، اور جسم بے جان قبر میں دفنایا جاتا ہے۔

 

۷۔ انسانی قلب و روح اگر پاک و پاکیزہ ہے، تو وہ ایک ایسے معجزاتی آئینے کی طرح کام کرتی ہے، جس میں ہر چیز کی لطیف صورت نظر آتی ہے، اور وہ لطیف انسانوں کی ایک دنیا دکھاتی ہے اس کی ایک چھوٹی سی مثال ایسے دو آئینوں سے دی جا سکتی ہے، جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے قائم ہوں، یہ دونوں آئینے الگ الگ بھی ہیں، اور ایک دوسرے میں بھی، مادّیت میں صرف چند آئینے یہ کام کر سکتے ہیں، کیونکہ زیادہ ہونے سے رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، مگر آئینۂ روح کے لئے نہ تو کم و زیادہ سے کوئی فرق ہوتا ہے، اور نہ دور و نزدیک سے۔

 

۸۔ لفظِ ربّ ۔ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے، اور انسان کے لئے بھی، جیسے کہتے ہیں: ربّ الدّار = گھر کا مالک، ربّ الفرس= گھوڑے کا مالک، اسی طرح قرآنٗ کریم میں ہے: اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ (۱۲: ۴۲) اپنے آقا سے میرا تذکرہ کرنا، اب سورۂ یاسین کے ایک ارشاد (۳۶: ۵۱) کا تاویلی مفہوم ملاحظہ ہو: اور جب انسانِ کامل کی ذاتی قیامت کا صور بجتا ہے تو وہ سب یکایک انسانی اجسام کی قبروں سے اپنے آقا (یعنی امام) کی طرف دوڑ جاتے ہیں (۳۶: ۵۱) إِلَى رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ کے دو معنی ہیں:

الف: اپنے آقا (مربی) کی طرف دوڑتے ہیں۔

ب: اپنے مربی کی روحانی نسل ہو جاتے ہیں، کیونکہ ہر قیامت کے آنے پر لوگوں کا سابقہ رشتہ ختم ہو جاتا ہے (۲۳: ۱۰۱) اور زمانے کے علمی ربّ (مربّی) سے ایک “جدید رشتہ” قائم ہو جاتا ہے، پس جملہ ذراتِ روحانی انسانِ کامل کی شخصیت میں داخل ہو جاتے ہیں، اور سب کے

 

۱۴۶

 

سب اسی کی نسل قرار پاتے ہیں۔

 

۹۔ دینِ اسلام میں خلافتِ الٰہیہ کا منصب سب سے بنیادی اور ضروری ہے، مگر اکثر لوگ خلیفہ اور خلافت کے معنوں اور بھیدوں سے قطعاً نابلد ہیں، حالانکہ اللہ پاک نے بزبانِ حکمت سب کچھ بتا دیا ہے، مثال کے طور پر:

الف: اعلانِ خداوندی کا یہ اشارہ کہ یہ خلافت کسی ایک ملک اور محدود زمانے کے لئے نہیں، بلکہ اس کا سلسلہ رہتی دنیا تک چلتا رہے گا، جبکہ خلیفہ کا تعلق پوری زمین سے ہے، جس سے تمام زمانوں کے لوگ مراد ہیں۔

ب: اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو فرشتوں میں سے کسی کو خلیفہ اور علم کا سرچشمہ بناتا، مگر اس نے انسان کو اپنا نائب بنا کر روئے زمین کا اختیار دے دیا، اور یہ خلیفۂ خدا کی کتنی بڑی سرفرازی ہے کہ خدا خود اس کا معلم ہے اور وہ فرشتوں کا معلم!

ج: قرآنِ حکیم اشاراتی زبان میں کہہ رہا ہے کہ ہر پیغمبر اور ہر امام خلیفۂ خدا کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

د: خلیفۂ زمان اپنے وقت کے فرشتوں یعنی نیک لوگوں (مومنین) کو ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی حقیقی علم سکھاتا ہے، باطنی اور روحانی تعلیم کا واحد طریقہ یہ ہے کہ نائبِ خدا کے عالمِ ذرّ میں لوگ بصورتِ ذرات جمع ہو جاتے ہیں، اور عالمِ ذرّ سے انسانِ کامل کی شخصیت مراد ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ “انسان در انسان” کا اصل نمونہ شخصِ کامل کی ذاتِ عالی صفات ہے۔

 

۱۰۔ ایک کشادہ مکان میں گھر والوں کے علاوہ کچھ مہمان بھی رہ سکتے ہیں، یا

 

۱۴۷

 

لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، یہی مثال آپ کے بدن کی بھی ہے، کہ اس میں آپ کی اپنی روح کے بے شمار ذرّات کے ساتھ ساتھ دوسرے لاتعداد “نمائندہ ذرات” بھی ہیں، لیکن اس حقیقت کے لئے گھر کی مثال بہت چھوٹی ہے، لہٰذا ایک عظیم ملک کی مثال لیجئے، کہ اس میں کس طرح اصل باشندوں کے علاوہ بیرونی ممالک کے لوگوں کا آنا جانا اور بسنا ہوتا ہے، اسی طرح آپ کی “روح کی مملکت” ہے، جس کی سلطنت آپ کے نام پر ہو سکتی ہے۔

 

۱۱۔ قرآنِ حکیم ایک ہی حقیقت کو گوناگون مثالوں میں پیش کرتا ہے، چنانچہ آپ کی روح گویا “ارضِ مقدّس” ہے (۰۵: ۲۱) جس کو علم و عمل کے شدید جہاد سے فتح کر لینا آپ کے لئے ضروری ہے، جیسا کہ حضرتِ موسیٰ نے اپنے لوگوں سے فرمایا: اے میری قوم تم اس پاک زمین (ملک) میں داخل ہو جاؤ کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے واسطے لکھ دیا ہے اور پیچھے واپس مت چلو کہ پھر خسارے میں پڑ جاؤ گے (۰۵: ۲۱) یہ قصّہ تاویلی اعتبار سے بے حد ضروری ہے، لہٰذا آپ ۰۵: ۲۰ تا  ۰۵: ۲۶  بغور دیکھیں، اس میں فرمایا گیا ہے کہ: “تم دروازے سے داخل ہو کر ان پر حملہ کرو۔” جس میں یہ اشارہ ہے کہ تم امامِ زمانؑ کے توسط سے ملکِ روحانی کو فتح کر سکتے ہو، کہ امامِ وقت ہی روح و روحانیّت، اور علم و حکمت کے باب (یعنی علیؑ) کا جانشین ہے۔

 

۱۲۔ روح خدا سے واصل ہو جانے کے لئے “سلامتی کا راستہ” ہے، یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک پل کی طرح کام کرتی ہے، اور عقلی آسمان کی چھت پر چڑھنے کے لئے یہی سیڑھی ہے، اس میں ایک درخشان و تابان علم پوشیدہ ہے، جس میں بہشتِ جاودانی معمور ہے، جہاں ہر ہر نعمت موجود و مہیا ہے، اس میں کوہِ قاف ہے، روح میں سلطنتِ سلیمانی رکھی ہوئی ہے،

 

۱۴۸

 

یہ جملہ بھیدوں کی “بولنے والی کتاب” ہے، یہ خانۂ خدا ہے، عرشِ رحمان ہے، گنجِ مخفی ہے، خزانۂ غیب ہے، بحرِ گوہر زا (موتیوں کو جنم دینے والا سمندر) ہے، یہ ایک گاؤں بھی ہے، اور ایک ملک بھی، ایک اکیلا بشر بھی ہے، اور بے شمار انسانوں کی “وحدت و سالمیت” بھی، غرض قرآنِ حکیم میں بہت سے ناموں اور مثالوں میں روح کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، کسی چیز کے کثیر نام اس کی اہمیت ، عظمت، اور منفعت پر دلیل ہیں۔

 

۱۳۔ روح ایک انتہائی سریع الحرکت چیز ہے، یہ لمحہ بھر میں عالمِ انسانیّت کی سیر کر سکتی ہے، اور ہمیشہ حرکت میں ہے، حرکت ہی ہر زندہ مخلوق کی زندگی کا نام ہے، پس “انسان در انسان” ایک حقیقت ہے، لہٰذا آپ بیک وقت بہت سے نیک انسانوں میں زندہ ہو جانے کے لئے سعی کریں۔

 

والسلام

 

خادمِ مسئول:

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۰ نومبر ۱۹۸۵ء

 

۱۴۹

 

پیغمبرانہ عبادت ۔ مثالی عبادت

 

۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خالص عبادت و یاد کے سلسلے میں ترقی کے لئے مومنین جس قدر زیادہ کوشش کریں، اور جیسی بیش از بیش معلومات انہیں حاصل ہوں، اس قدر اور ویسی پیشرفت و فائدہ ممکن ہے، کیونکہ قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) (ہر مضمون سے متعلق آیات کو قرآنِ پاک میں دیکھئے، ماقبل اور ما بعد کو بھی) میں غور کرنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ آسمانی رحمت کی چیزیں اہلِ زمین کے لئے اتنی نازل ہو جاتی ہیں، جتنی کہ ان کی معلومات ہیں، اس لئے کہ “رحمت علم کے تحت ہے” پس لوگوں پر ان کے “علم کی مقدار کے مطابق” خدا کی رحمت اترتی رہتی ہے۔

 

۲۔ پیغمبرانہ عبادت، یعنی مثالی عبادت کے اس موضوع میں سب سے پہلے بطریقِ سوال و جواب چند حقائق و معارف بیان کئے جاتے ہیں، تا کہ قارئین کو مضمون سے کافی دلچسپی ہونے کے ساتھ ساتھ حکمت کی بعض کلیدوں کی نشاندہی بھی ہو:

 

(سوال و جواب اگلے صفحہ پر ملاحظہ کریں)

 

۱۵۰

 

(ان سوالات و جوابات کو خوب غور سے دیکھیں اور ان میں سے ہر ایک کی اچھی طرح سے وضاحت کر کے نتائج اخذ کریں)

 

جواب سوال
انبیاء علیہم السلام کی عبادت۔ ۱۔ قرآنِ حکیم میں مثالی عبادت کون سی ہے؟
حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی راہ۔ ۲۔ صراطِ مستقیم کن حضرات کی راہ کہلاتی ہے؟
حضرت ابراہیمؑ اور آنحضرتؐ میں۔ ۳۔ تمام انبیاء و أئمّہ کس عظیم پیغمبر میں جمع ہیں؟
حضرت ابراہیمؑ اور رحمتِ عالمؐ کے اسوۂ حسنہ کا۔ ۴۔ قرآنِ پاک میں کس کے اسوۂ حسنہ کا ذکر ہے؟
ہمیشہ آسمانی کتاب اور معلم کا ایک دوسرے کے ساتھ رہنا۔ ۵۔ سنتِ الٰہی میں کوئی تبدیلی نہ ہونے سے کیا مراد ہے؟
نور، ہادی، کتابِ ناطق، اور امامِ زمان۔ ۶۔ ایسے معلم کا کوئی دوسرا نام بتائیے۔
دو موضوع ہیں: ہدایت اور نور (۰۵: ۴۴، ۰۵: ۴۶، ۲۴: ۳۵) ۷۔ تورات، انجیل، اور قرآن کے اصل اور اساسی موضوع کتنے اور کون کون سے ہیں؟
یقیناً نور ہے، مگر معلم کی ذات میں (۲۹: ۴۹) ۸۔ کیا آسمانی کتاب نور نہیں ہے؟
اس لئے کہ ہدایت کتابِ سماوی ہے، اور نور اس کا معلم۔ ۹۔ ہدایت اور نور کا ذکر الگ الگ کیوں ہے؟ (۰۵: ۴۴)
وہ جگہ جس کو خدا، رسول، اور صاحبانِ امر نے مقرر فرمایا ہے۔ ۱۰۔ عبادت و ذکر کے لئے بہترین مقام کون سا ہے؟

 

۱۵۱

 

وہ عبادت جو خدا کی شدید محبت اور معرفت کے ساتھ کی جائے۔ ۱۱۔ مثالی عبادت سے کیا مراد ہے؟
معرفت، یعنی خدا شناسی۔ ۱۲۔ عبادت کی خاص شرط کیا ہے؟
سورۂ فاتحہ میں، جہاں ایاک نعبد (۰۱: ۰۴) ہے۔ ۱۳۔ قرآنِ پاک میں معرفت کا اولین ذکر کہاں ہے؟
پیغمبرِ اکرمؐ اور أئمّۂ طاہرینؑ۔ ۱۴۔ “ایاک نعبد” کے مصداق کون سے حضرات ہیں؟

 

۳۔ سورۂ مریم (یعنی ۱۹: ۵۸) میں دیکھئے کہ حضراتِ انبیاء علیہم السلام کی گریہ و زاری کے نمونۂ عمل کی کیا شان ہے، اور وہ کامل اشخاص ظاہر و باطن میں آیاتِ رحمان کو سن کر کس طرح آنسو بہاتے ہوئے سجدۂ خاکساری میں جاتے تھے! ان برگزیدہ اور مکمل انسانوں کی محویّت و فنائیّت کا یہ عالم، اور پے در پے گرنے والے آنسوؤں کے تابناک موتی زبانِ حال سے کیا کہتے تھے؟ ان کا کہنا تھا کہ لوگو! پیغمبروں کی مثال کو خوب غور سے دیکھو، اگر تم چاہو تو “آسمانی محبت اور عشق” کے گوہرِ آبدار بن سکتے ہو، جن کو خدا تعالیٰ بڑی قدردانی سے خرید لیتا ہے۔

 

۴۔ سورۂ بنی اسرائیل کے آخری رکوع (۱۷: ۱۰۷، ۱۷: ۱۰۹) میں اولیاء اللہ (أئمّۂ طاہرین) کے اس حال کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، جبکہ وہ “اپنے باطن میں” آیاتِ قرآن کو سن کر ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں، وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گرتے ہیں، اور قرآن اپنی روحانی آواز سے ان کا خشوع اور بڑھا دیتا ہے۔ اس میں لوگوں کے لئے اشارہ ہے کہ وہ انبیاء و

 

۱۵۲

 

اولیاء کے نقشِ قدم پر چل کر آگے بڑھ جائیں، اور عشقِ الٰہی کی آگ میں جل جل کر “نور بن جائیں،” ممکن ہے کہ فوری طور پر روشنی نہ ہو دھواں ہو، تاہم ہرگز مایوسی نہیں، کیونکہ آگے چل کر دھوئیں کی جگہ شعلہ پیدا ہو جانے والا ہے۔

 

۵۔ قرآنِ پاک اپنے حکیمانہ اشاروں سے گریہ و زاری کے ساتھ ساتھ سجدۂ عاجزی کو لازمی قرار دیتا ہے، جب تنہا سجدہ قربِ خدا ہے (۹۶: ۱۹) تو پھر “آنسوؤں سے بھرپور سجدہ” ایک طرح کی فنا فی اللہ کیوں نہ ہو، درحالیکہ بندۂ مومن اپنے آپ کو انتہائی خاکسار و ناچیز پاتا ہے، اور اس کیفیت میں دینداری کی بہت سی خوبیاں جمع ہو جاتی ہیں، جیسے خوفِ خدا، توبہ، عشق، تحلیلِ نفسی، تزکیۂ قلب، وغیرہ۔

 

۶۔ سورۂ نجم کی چار آخری آیات (۵۳: ۵۹ تا ۶۲) کو دیکھئے: تو کیا تم لوگ اس بات سے تعجب کرتے ہو، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں، اور تم اس قدر غافل ہو، تو خدا کے آگے سجدے کرو اور (اسی کی) عبادت کرو (۵۳: ۵۹ تا ۶۲) یاد رہے کہ دل کا پتھر کی طرح سخت بن جانا عبادت سے غافل ہو جانے کی وجہ سے ہے، جس کا علاج سجود، عبادات، اور کثرتِ ذکر میں پوشیدہ ہے۔

 

۷۔ اگر کسی شخص کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت چاہئے، تو اس کے لئے قرآنِ پاک کا حکم ہے کہ وہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کرے (۰۳: ۳۱) اور اہلِ ایمان پر یہ بھی فرض ہے کہ آنحضرتؐ کے قرابت داروں کو دوست رکھیں (۴۲: ۲۳) یعنی جان و دل اور محبت و عشق سے أئمّۂ پاک کی اطاعت کریں، تا کہ یہ لوگ ایسے مومنین میں سے ہوں، جن کی تعریف و توصیف میں فرمایا گیا ہے: وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ (۰۲: ۱۶۵) اور جو لوگ ایماندار ہیں وہ ان سے کہیں بڑھ کر خدا کی محبت رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی “شدید محبت کا دوسرا نام عشق ہے۔”

 

۱۵۳

 

۸۔ “الحب للہ و البغض للہ” کی حکمت میں خوب غور کر کے جواب دیجئے کہ آیا امامِ برحقؑ کی محبت رسولؐ کے لئے، اور آنحضرتؐ کی محبت خدا کے لئے نہیں ہے؟ اگر آپ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، تو پھر یہ بھی سن لیجئے کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں کسی منظور و مقبول عبادت کا ذکر ہو، وہاں لازمی طور پر “نورِ امامت کا راز پوشیدہ” ہوا کرتا ہے، کیونکہ قانونِ دین کی بنیادیں ہمیشہ سے ایک جیسی مستحکم ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیغمبرانہ عبادت کے بھیدوں سے واقف و آگاہ ہو جانے کے لئے “بابِ امامت” سے داخل ہو جانا ضروری ہے۔

 

۹۔ بنی اسرائیل کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تم سے کہا کہ اس گاؤں (یعنی قریۂ ہستی، جو پیغمبر کا شہر ہے) میں داخل ہو جاؤ اور اس میں سے جہاں چاہو فراغت سے کھاؤ اور دروازے پر سجدہ کرتے ہوئے اور حطہ (بخشش) کہتے ہوئے اندر آؤ تا کہ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور نیکی کرنے والوں کی نیکی بڑھا دیں گے (۰۲: ۵۸) یعنی ہر عظیم پیغمبر اپنے دور کے لئے علم کا شہر اور حکمت کا گھر ہوا کرتا ہے، اور اس کا “اساس” باب (یعنی دروازہ) ہوتا ہے، چنانچہ بنی اسرائیل سے فرمایا گیا کہ تم اساس کی اطاعت کرتے ہوئے قریۂ باطن (عالمِ شخصی) میں داخل ہو جاؤ کہ مدینۂ علم اور دارِ حکمت یہی ہے، اور اسی میں ہر قسم کی روحانی غذائیں مہیا ہیں، اس سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ پیغمبرانہ عبادت (مثالی عبادت) کا راز “امام شناسی” میں پوشیدہ ہے۔

 

۱۰۔ یہ پیغمبرانہ اور موحدانہ عبادت ہی کی تعلیم ہے، جو ارشاد فرمایا گیا ہے: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۚ (۶۰: ۰۴) تمہارے واسطے تو ابراہیم اور ان کے ساتھیوں (کے قول و فعل) کا اچھا نمونہ موجود ہے (۶۰: ۰۴) ۔

 

۱۵۴

 

حضرتِ ابراہیمؑ کے روحانی ساتھی انبیاء و أئمّہ تھے، جن کا اسوۂ حسنہ ہر زمانے میں زندہ اور موجود رہا ہے، جس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت و بندگی مطلوب ہے کہ وہ ظاہری اور باطنی (ہر قسم کی) بت پرستی سے خالص اور پاک و پاکیزہ ہو، یعنی اس میں جسمانی اور نظریاتی بت تو درکنار، خیالی لغزش کا بت بھی نہ ہو، کیونکہ ہر موحد کے نزدیک وحدت کے سوا جو کچھ بھی ہو، وہ بت قرار پاتا ہے۔

 

۱۱۔ عظیم پیغمبروں اور پاک اماموں کو اصنامِ ظاہر و باطن کی آلائش سے پاک و بالاتر سمجھنا کافی نہیں، بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ان قدسیوں کے طریقِ عبادت کو جاننا ہے، کہ اس میں وہ حضرات دنیا و مافیہا کے علاوہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی عبادت ایک زندہ نور بن کر حسبِ منشا خود بخود بولتی جاتی ہے، جیسے کوئی مصنوعی سیّارہ جب کششِ زمین (کششِ ثقل) سے آزاد ہوکر خلا میں پہنچ جاتا ہے، تو وہ اندرونی طاقت کے بغیر بھی گردش کرتا رہتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ برگزیدہ اور کامل اشخاص اس حال میں عالمگیر روح سے واصل ہو جاتے ہیں۔

 

۱۲۔ قرآنِ مقدّس میں فرشتوں کے سجود کا ذکر ہے (۱۶: ۴۹) ان کی عبادت و تسبیح کا تذکرہ ہے (۲۱: ۱۹ تا ۲۰) لیکن یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ ایسی اہم چیزیں اور اتنی اعلیٰ حقیقتیں خلیفۂ خدا کے عالمِ شخصی سے باہر ہوں، جبکہ وہاں تمام چیزیں محدود یکجا ہیں، پس پیغمبرانہ اور اولیائی عبادت کی ایک اہم ترین مثال یہ ہے کہ نورِ نبوّت اور نورِ امامت کے دائرۂ خاص میں فرشتے شب و روز ذکر و عبادت کرتے رہتے ہیں، چونکہ ملائکہ قانونِ وحدت کی رو سے سرچشمۂ نور کی بے شمار شعاعوں کی حیثیت سے ہوا کرتے ہیں، لہٰذا فرشتوں کی یہ نورانی عبادت بھی دراصل انسانِ کامل ہی کی عبادت ہے۔

 

۱۵۵

 

۱۳۔ سورۂ انشراح (الم نشرح، ۹۴) میں غور سے دیکھئے، جہاں سردارِ انبیاء و رسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیاتِ طیبہ کی ایک طرح سے تصویر کشی کی گئی ہے، حقیقت روشن ہے کہ شروع شروع میں حضورِ اکرمؐ کے سامنے بہت سی مشکلات تھیں، جن کے باؤجود آپ نے ذکر و عبادت کے سلسلے کو نہ صرف قائم رکھا، بلکہ اسے پُرمعنی اور جاندار بنا کر آگے بڑھا دیا، تا آنکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرتؐ کے سینۂ مبارک کو علم و حکمت سے کشادہ کر دیا، آپؐ پر سے اختیار اور ذمہ داریوں کے بوجھ کو اتار دیا، یعنی اب ہر بات آسمانی ہدایت کے ذمہ ہو گئی، کیونکہ اس حال میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسمِ اعظم، ذکر، تسبیح اور عبادت قلبِ مبارک سے بلند ہو کر “پیشانیٔ پاک” میں پہنچ گئی تھی، جہاں اللہ تعالیٰ کا اسمِ بزرگ خود معجزاتی زبان سے اپنا ذکر کرتا رہتا ہے، اور کئی دوسرے اسمائے بزرگ بھی، آپ اس درجہ کے ایسے زندہ و گویندہ اسماء ُ الحسنیٰ (۰۷: ۱۸۰) کو فرشتے کہہ سکتے ہیں، جن کی نورانی عبادت کا ذکر ہو چکا ہے، چنانچہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ اقدس میں معجزۂ عبادت کی انہی آسانیوں کے پیشِ نظر فرمایا گیا ہے کہ: پس تحقیق مشکل کے ساتھ آسانی ہے، تحقیق مشکل کے ساتھ آسانی ہے (۹۴: ۰۵ تا ۰۶) اس قانون کی اہمیت کی طرف توجہ دلانے کی غرض سے یہ آیۂ مبارکہ دہرائی گئی ہے۔

 

۱۴۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پیغمبرانہ عبادت یا اولیائی عبادت کا موضوع کتنا عالی شان اور کس قدر مشکل ہے، پھر میں ناچیز کماحقہ کیسے بیان کر سکتا تھا، لیکن جس طرح ایک گونگا بچہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہے مگر نہیں کہہ سکتا، پھر بھی وہ آواز سے اور ہاتھ سے کچھ اشارے کرتا ہے، جن کو اس کی ماں اور گھر کے افراد ہی جانتے ہیں، اسی طرح میں نے اس

 

۱۵۶

 

بلند ترین موضوع پر کچھ خامہ فرسائی کی ہے، اور دانشمندوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ حضرات اس انتہائی مفید مضمون میں سوچ سوچ کر عزیزوں کے لئے اشارات کی وضاحت کریں گے۔

 

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۶ نومبر ۱۹۸۵ء

 

۱۵۷

 

خیر خواہی

 

۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: الدین النصیحۃ، فقیل: لمن یا رسول اللہ؟ قال: للہ و لرسولہ و لائمّۃ المومنین و لجماعتھم = دین (کا مطلب) اخلاص و خیر خواہی ہے، پس پوچھا گیا: یا رسول اللہ کس کے لئے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: خدا تعالیٰ، اس کے پیغمبر، أئمّۂ مومنین اور ان کی جماعت کے لئے (دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، عربی، صفحہ ۱۳۴) ۔

 

۲۔ ہر حدیثِ صحیحہ کسی ایک آیت یا چند آیات کی وضاحت کرتی ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا ارشادِ نبوّی میں اس اخلاص و خیر خواہی کی صراحت فرمائی گئی ہے، جس کا ذکر سورۂ توبہ (۰۹: ۹۱) میں موجود ہے، یعنی خلوص و خیر اندیشی سب سے پہلے خدا کے لئے ہے، پھر رسول کے لئے، پھر امامِ وقت کے لئے، اور پھر جماعتِ مومنین کے لئے، لیکن یہاں بظاہر سب سے نچلے درجے کے لئے خیر خواہی مشکل نظر آتی ہے، اگرچہ حقیقت ایسی نہیں ہے۔

۳۔ قرآنِ حکیم مسلمانانِ عالم کو براہِ راست اور بالواسطہ خیر خواہی کا درس دیتا ہے، جبکہ قرآنِ پاک سراسر نصیحت ہے اور نصیحت کا مطلب خیر خواہی ہے، جبکہ اسلامی عبادات کا لبِ لباب دعا ہے، اور دعا میں بندۂ مومن نہ صرف اپنی ذات کے لئے طلبِ خیر کرتا ہے، بلکہ تمام مومنین و مسلمین کے حق میں بھی نیک دعائیں

 

۱۵۸

 

کرتا رہتا ہے، اور جبکہ خیر کے سوا جو کچھ ہے، وہ شر ہے، اور شر وہ چیز ہے کہ جس سے خود کو بچانے کے لئے اللہ کے حضور میں پناہ لی جاتی ہے۔

 

۴۔ دین کا ہر قول و فعل نیک نیت کے بغیر مقبول نہیں، نیک نیتی کا دوسرا لفظ ہی خیر خواہی کہلاتا ہے، جس دل میں خیر خواہی ہو، وہ فرشتوں کا مسکن ہے، اس میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ وہاں ٹھہر سکتا ہے، کیونکہ شیطان ایسے دل میں رہ سکتا ہے، جس میں شر کی آلودگی ہوتی ہے، جیسے مکھیوں کی بھنبھناہٹ اس جگہ ہوتی ہے، جہاں غلاظت و گندگی پائی جاتی ہے۔

 

۵۔ قرآنِ مقدّس میں دیکھئے کہ عظیم فرشتوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت دعا ہے (۴۰: ۰۷ تا ۰۹) جس سے خیر خواہی مراد ہے، یہ صفت ان کی پاک باطنی اور علم کی وجہ سے ہے، قرآنِ حکیم (۵۳: ۲۶) میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ بہت سے آسمانی فرشتے انسانوں کے حق میں سفارش کرتے رہتے ہیں، کیونکہ بڑے فرشتے ہمیشہ خیر خواہ ہوا کرتے ہیں، مگر یہ بات الگ ہے کہ کوئی شخص اس سفارش سے فائدہ اٹھا سکتا ہے یا نہیں، بہر کیف یہ خیر خواہی کی تعریف ہے کہ جو مومن ہمیشہ خیر خواہی کرتا ہو، وہ فرشتوں کے انتہائی قریب ہو جاتا ہے۔

 

۶۔ ہر حکمت نہ صرف ایک اکیلی خیر ہے، بلکہ وہ خیرِ کثیر بھی ہے (۰۲: ۲۶۹)، چنانچہ مومنین اور مسلمین کی خیر خواہی کرنے میں حکمت پوشیدہ ہے، اور اگر آپ تمام لوگوں کی خیر خواہی کر سکتے ہیں تو یہ سب سے بڑی حکمت ہے، وہ یہ ماننا ہے کہ مومنین کی خیر خواہی اور سفارش سے اہلِ دوزخ بھی آخر کار بہشت میں جائیں گے، کیونکہ لوگ جس طرح ازل میں ایک تھے، اسی طرح ان کو ابد میں بھی ایک ہو جانا ہے۔

 

۷۔ اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہاتھ میں کیا نہیں، اس میں جملہ اشیاء “یک حقیقت”

 

۱۵۹

 

ہو گئی ہیں، حقیقتِ واحدہ کے بے شمار ناموں میں سے ایک خیر بھی ہے (۰۳: ۲۶) پس جو مومن علم کی روشنی میں لوگوں کا خیر خواہ ہو، اس کو خداوندِ عالم اپنے مبارک ہاتھ سے خیر عطا فرمائے گا، جس میں روحانی سلطنت ہے (۶۷: ۰۱)۔

 

۸۔ آپ شاید سوال کریں گے: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم کافروں کی خیر خواہی کریں، جبکہ مومنین سے دوستی اور کافرین سے دشمنی رکھنے کا حکم ہے (۰۹: ۱۶)؟ اس کا جواب یہ ہے ، کہ ہاں، مگر خوب جان لیں کہ یہ دوستی مستقل ہے، اور دشمنی عارضی، چنانچہ آپ تاریخِ اسلام میں یہ واقعہ دیکھ سکتے ہیں کہ زمانۂ نبوّت میں جب کوئی کافر مسلمان بن جاتا تھا، تو یہ دشمنی جو صرف ایک وقت کے لئے تھی دوستی میں بدل جاتی تھی، اسی طرح قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اسلام دوسرے تمام ادیان پر غالب آنے والا ہے، مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: ۰۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸، ۶۱: ۰۹، پس اسی قرآنی پیش گوئی کو حقیقی علم کی روشنی میں سمجھ لینا عالمِ انسانیّت کی خیر خواہی ہے، اور بے حد خوشی کی بات ہے کہ سب لوگ بہشت کی سلطنت میں یکجا ہو جائیں گے۔

 

۹۔ اس سلسلے میں کسی کو ہرگز ہرگز یہ گمان نہ ہو کہ دوزخ اور اس کا عذاب نہیں ہے، وہ تو حق ہے، مگر یہ جاننا ضروری ہے کہ سب سے بڑا عذاب عقلی کیفیت میں ہے، اور وہ جہالت ہے جس سے چھٹکارا حقیقی علم کے ذریعہ ہو سکتا ہے، چنانچہ جہالت باطل ہے جو زائل ہو جانے کے لئے ہے، اور علم حق ہے جو قائم رہنے کے لئے ہے (۱۷: ۸۱)۔

 

۱۰۔ خیر خواہی کے اس موضوع میں “خیر و شر” سے بھی کچھ بحث لازمی ہے، وہ یہ کہ خیر دائمی یا مستقل ہے، اور شر ہنگامی یعنی عارضی ہے، اور اس کے برعکس اگر دونوں چیزیں برابر یعنی مستقل ہوتیں، تو پھر کبھی قیامت برپا نہ ہوتی،

 

۱۶۰

 

نہ شیطان کو دی ہوئی مہلت کسی وقت ختم ہو جاتی اور نہ ہی باطل پر حق کا غلبہ ہوتا، اس سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ مختلف حکمتوں کے تحت شر کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور خیر ہی خیر باقی رہ جاتی ہے۔

 

۱۱۔ یہ ایک عقلی کیفیت کی مثال ہے کہ جب خداوندِ تعالیٰ کائنات اور اس کی تمام چیزوں کو دستِ راست میں لپیٹ لیتا ہے یا آئندہ زمانے میں لپیٹ لے گا (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) تو اس وقت یومِ بعث ہوگا، جس میں شیطان کی مہلت ختم ہو جانے کے ساتھ ساتھ شر خود بخود ختم ہو جائے گی، اور اللہ کے ہاتھ میں آ کر شر بھی خیر ہو جائے گی، جس طرح کافر اسلام میں داخل ہو کر مومن ہو جاتا ہے۔

 

۱۲۔ علم و معرفت ہی سے آپ کی خیر خواہی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ تمام انسانوں کی خیر خواہی پیدا ہو جاتی ہے، کیونکہ دراصل آپ ہی کی روح کو پھیلا کر سب لوگ بنائے گئے ہیں، اور سب کو لفیف (۱۷: ۱۰۴) یعنی لپیٹے بغیر آپ کامل و مکمل نہیں ہو سکتے ہیں، اور نہ اللہ کے حضور پہنچ سکتے ہیں، لہٰذا ہر بندۂ مومن کے لئے عرفانی طور پر بنی نوع انسان کی خیر خواہی ضروری ہے۔

 

۱۳۔ انسان جسم، روح، اور عقل تین چیزوں کا مرکب یا مجموعہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ تین عالم سے تعلق رکھتا ہے: عالمِ جسم یعنی یہ دنیا، عالمِ روح، اور عالمِ عقل، چنانچہ ہم تصوّف کی زبان میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان در حقیقت (یعنی عالمِ وحدت یا عالمِ عقل میں) صرف ایک ہی ہے، عالمِ روحانی میں وحدت و کثرت دونوں کا حامل ہے، اور عالمِ کثرت میں وہ اپنے کثیر مظاہر میں منتشر ہے، پس دانشمند جب تمام لوگوں کی خیر خواہی کرتا ہے، تو حقیقت میں وہ اپنے آپ کی خیر خواہی کرتا ہے، کیونکہ لوگ اس کے اجزاء ہیں۔

 

۱۴۔ قرآنی حکمت یہ بتاتی ہے کہ جب رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو

 

۱۶۱

 

معراج ہوئی، تو اس وقت مقامِ روح پر تمام روحیں آپ کے ساتھ تھیں، اور مرتبۂ عقل پر جملہ عقول آپ کی ذاتِ عالی صفات میں فنا ہو چکی تھیں، اور آپ جانتے ہیں کہ فنا کا مطلب ایک ہو جانا ہے، یہ ہوئی حضورِ انورؐ کی رہنمائی کی شان کہ آنحضرتؐ نے لوگوں کو بحدِّ قوّت خدا تعالیٰ سے واصل کر دیا، اب یہ ہر شخص کا فریضہ ہے کہ وہ راہِ مستقیم پر چلے اور علم و حکمت کے دروازے سے داخل ہو کر اپنے آپ کو رسولؐ میں فنا ہو جانے کی معرفت حاصل کرے، یہ اسوۂ حسنہ کی روشنی میں چل کر سب کے ایک ہو جانے کی بہترین مثال ہے۔

 

۱۵۔ بد خواہی سے بچ کر کامل طور پر خیر خواہی کو اپنانے کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ انسانی وحدت و سالمیت کو خوب سمجھ لیا جائے، وہ اس طرح کہ عالمِ وحدت یعنی مرتبۂ ازل میں صرف ایک ہی انسان پیدا کیا گیا ہے، ہر چند کہ آج یہاں عالمِ کثرت میں اس کے بہت سے ظہورات ہیں، اور جب یہ لوٹ کر عالمِ وحدت میں جائے گا، تو پھر پہلی حالت کی طرح ایک اکیلا فرد ہو جائے گا، درحالیکہ دنیا بھر کے لوگ اس میں عقلی کیفیت میں مدغم و متحد ہوں گے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے کہ لوگوں کو ایک ایک ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جانا ہے (۰۶: ۶۴) مگر یہ نکتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ ایک ہو جانے کے کم سے کم تین طریقے ہیں:۔

 

اوّل یہ کہ ایک کو لے کر باقی سب کو چھوڑ دیا جائے، دوم یہ کہ سب کو ایک کر کے لیا جائے، اور سوم یہ ہے کہ ظاہراً ایک کو اور باطناً (یعنی عقلی طور پر) سب کومتحد کرلیا جائے، پس تیسرا طریقہ انسانی وحدت کے لئے مقرر ہے، اور اسی کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔

 

۱۶۔ سورۂ حشر کی ایک آیۂ کریمہ (۵۹: ۱۰) سے ظاہر ہے کہ حقیقی مومن کسی بھی مومن

 

۱۶۲

 

سے کوئی عداوت و کینہ نہیں رکھتا، یہ ظاہری زندگی کی بات ہوئی، اب مومنین کی علمی ترقی اور روحانی زندگی کا حال سنیے، جس کا نام بہشت ہے، چنانچہ سورۂ حجر (۱۵: ۴۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے:

 

ترجمہ: اور ان کے دلوں میں جو کینہ تھا ہم وہ سب دور کر دیں گے کہ سب بھائی بھائی کی طرح (الفت و محبت سے) رہیں گے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھا کریں گے (۱۵: ۴۷) یہ کینہ کون سا ہو سکتا ہے، جو مومنین کے دلوں سے جنّت میں نکالا جاتا ہے؟ یہ تو ناممکن ہے کہ اہلِ ایمان بہشت میں داخل ہونے تک آپس میں دشمنی اور کینہ رکھتے ہوں، لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ یہ کینہ وہی ہے جو بربنائے مصلحت و حکمت دعوتِ اسلام کی غرض سے وقتی طور پر دینی دشمنوں سے ہوتا ہے، لیکن جب انفرادی یا اجتماعی قیامت برپا ہو جاتی ہے، تو اس وقت سب لوگ دینِ خدا کی بہشتِ روحانیّت میں داخل ہو جاتے ہیں، اور کینہ ختم ہو جاتا ہے۔

 

۱۷۔ دینِ اسلام میں بہ سلسلۂ جہاد و سزا جس طرح کسی کو قتل کر دیا جاتا تھا، وہ ایک دور رس اور نتیجہ خیز خیر خواہی کے تحت ہے، اور ایسا نہیں کہ اس میں کوئی حقیقی اور ابدی دشمنی ہو، ہاں اگر دشمنی کہا جائے تو وہ ظاہری، سطحی، اور ہنگامی نوعیت کی ہو سکتی ہے، جو دینی مقصد کی خاطر ہوتی ہے، مگر جب وہ مقصد پورا ہو جاتا ہے، تو پھر باہمی اخوت و الفت پیدا ہو جاتی ہے۔

 

۱۸۔ جو شخص بدباطنی کی وجہ سے لوگوں کی برائی چاہتا ہو، اور اس کا دل ہمیشہ کینہ سے خالی نہ ہو، وہ ہر وقت ذہنی عذاب میں مبتلا رہتا ہے، اور یہ اس کی بد نیتی کی سزا ہے، اس کے برعکس جو انسان دینی ہدایات کی روشنی میں لوگوں کے حق میں نیک خیالات رکھتا ہو، وہ یقیناً خیر خواہی کی بہشت میں ہے، ایسا

 

۱۶۳

 

آدمی بڑا خوش نصیب ہے، کہ وہ خالق اور اس کی مخلوق کے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم کا مفہوم ہے کہ اللہ وہ ہے جس کے قانونِ رحمت کے تحت لوگوں کو دو طرح سے جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے: جاننے والوں کو رضا و رغبت سے، اور نہ جاننے والوں کو زبردستی سے (۰۳: ۸۳، ۲۳: ۱۱۵) اس حقیقت کی ایک روشن مثال دعوتِ اسلام ہے، جبکہ اسلام بحدِّ قوّت بہشت ہے، جس میں لوگ نہ صرف خوشی سے داخل ہو گئے تھے، بلکہ بذریعۂ جہاد زبردستی سے بھی مسلمان بنائے گئے تھے، اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے جس طرح ارادہ فرمایا ہے، وہ آخر کار پورا ہو کر رہے گا، جس کی خاطر دوزخِ جہالت میں سزا پا کر بھی لوگ اہلِ جنت میں شامل ہو جائیں گے، الحمد للہ ربّ العالمین!

 

صدر: فتح علی حبیب، خانۂ حکمت

صدر: محمد عبد العزیز، ادارۂ عارف

خادمِ مسئول

نصیر الدین نصیر ہونزائی

۲۲ دسمبر ۱۹۸۵ء

 

۱۶۴