عملی تصوّف اور روحانی سائنس

و

روحانی سائنس کے عجائب و غرائب

دیباچہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ حضرتِ محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شانِ اقدس میں بہت سے قرآنی ارشادات ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہئے: قرآن تمام وصفِ کمالِ محمد است۔ ان میں سے ایک ارشاد یہ ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۲۱: ۱۰۷) اور (اے رسولؐ) ہم نے تو تم کو سارے (انسانی) عوالم کے حق میں از سر تا پا رحمت بنا کر بھیجا۔ صدق اللہ العلی العظیم۔

 

۱۔ “عملی تصوّف اور روحانی سائنس” کے نام سے یہ کتاب آپ کے سامنے ہے، اس مضمون میں خلوصِ نیت سے یہ سعیٔ بلیغ کی گئی ہے کہ قرآنی حکمت اور روحانیّت کے خزائن میں جو تمام لوگوں کے لئے بے شمار فائدے پنہان ہیں، ان کی طرف توجہ دلائی جائے، اگرچہ اس پاک خدمت میں یہ بندۂ ناچیز سب سے کمزور اور سب سے پیچھے ہے، لیکن کارِ خیر میں ثواب کی امید پر حقیر سی کوشش کی گئی ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو یہ کوشش مفید ہو سکتی ہے۔

۲۔ قرآنِ حکیم معجزۂ یکتا و بے ہمتا ہے، بلکہ یہ کائناتِ معجزات ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس میں غور و فکر کرنے کی عادت کی سعادت نصیب ہوئی، ہر بار نتیجہ اور ثمرہ خوب سے خوب تر تھا، اس کی برکات سے اسلامی روحانیّت کے زیرِ اثر رہا، جس سے مطالعۂ قرآن میں زبردست مدد ملتی رہی، اور جب جب کوئی اتفاقی چلہ ہوگیا، اس میں بھی حکمتِ قرآن اور روحانی سائنس کے سوا اور کوئی خاص بات نہ تھی، پس خیال آیا کہ اب خامہ فرسائی ہونی چاہئے، چنانچہ یہ کام ۱۹۵۷ء سے شروع ہوا، الحمد للہ اب تک جاری ہے، اور یہ ناچار

۷

اسّی (۸۰) سال کا بوڑھا ہے، کیونکہ سالِ پیدائش ۱۹۱۷ء ہے۔

 

۳۔ عملی تصوّف کہیں یا بار بار کا اتفاقی چلہ یا روحانیّت، جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ خدا کی رحمت سے حاصل ہوا، اس کے لئے میرا کوئی پروگرام نہیں تھا، کیسی پُرحکمت تھیں وہ آزمائشیں جن کی وجہ سے میں شب و روز مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات کرتا رہا، چونکہ دعا سوزشِ دل کے ساتھ تھی، اس لئے بارگاہِ ایزدی میں قبول ہوئی، اور خداوندِ قدوس کی طرف سے احسان پر احسان ہوتا رہا، تا آنکہ ہمارے لئے ایک مبارک عالم معمور ہو گیا، جس میں بہت سے عوالمِ شخصی آباد ہیں۔

۴۔ عملی تصوّف اور روحانی سائنس سے متعلق جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا ہے، وہ ان شاء اللہ مبنی بر حقیقت ہے، کیونکہ اتنی ساری سخت ریاضت سچائی کی روشنی پھیلانے کے لئے کرائی گئی ہے، اور اسی میں خداوند تعالیٰ کی خوشنودی ہے، ہاں یہ سچ اور حقیقت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے۔

 

۵۔ ہماری تمام تصانیف میں دیکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ ہم نے “روحانی سائنس” کی اصطلاح کب سے شروع کی ہے؟ کہاں کہاں اس کو استعمال کیا ہے؟ اور کیوں؟ یہ دراصل روحانی تجربہ اور عملی حکمت ہی ہے، لیکن عصرِ حاضر میں جس طرح مادّی سائنس کی طوفانی ترقی ہوئی ہے، اس کی وجہ سے اکثر لوگ صرف سائنسی موضوعات ہی سے دلچسپی رکھتے ہیں، لہٰذا یہ ایک مصلحت تھی کہ اہلِ زمانہ کی زبان کے مطابق حکمت کا ترجمہ لفظ سائنس سے کرتے ہوئے روحانی سائنس کہا جائے، تاکہ اس کے فوائد کا دائرہ وسیع تر ہوسکے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

۶۔ ہم مادّی سائنس کے بھی قدردان ہیں، بعض دفعہ اس کی مثالیں تقریر و تحریر میں اس طرح استعمال کرتے ہیں: (الف) کامیاب مومن کا نامۂ اعمال کاغذی کتاب نہیں، بلکہ نورانی موویز (movies) کی شکل میں کتاب ہے، جس کی بہت سی کاپیاں بھی ہیں۔ (ب) اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں داخل ہونے پر انسانِ کامل کی ہزاروں کاپیاں بنائی جاتی ہیں، تاکہ یہ اہلِ بہشت کے لئے نورانی ابدان ہو جائیں۔ (ج) جس طرح آپ کا

۸

ٹیلیفون سیٹلائٹ (satellite) کے ذریعے سے وسیع تر دائرے میں کام کرسکتا ہے، اسی طرح آپ کی آواز روحانیّت کے توسط سے کائنات میں پھیل جاتی ہے۔

 

۷۔ مجھے یقین ہے اور میرے تمام احباب بے حد شادمان ہیں، نیز امیدِ قوّی ہے کہ ہماری سینیئر یونیورسٹی کنیڈا کو بھی ازحد خوشی ہوگی کہ روحانی سائنس کی جدوجہد میں زبردست کامیابی ہوئی ہے، انکشافات کی فہرست بعد میں تیار ہوسکتی ہے، لیکن روحانیّت کی طرف دیکھنے والے لوگ اس دنیا میں بہت ہی کم ہیں، آج قرآنِ حکیم نے ہمیں سورج کے تجدّد سے متعلق جو انتہائی عظیم راز بتا دیا ہے، وہ انکشاف اگر کسی ظاہری سائنسدان کے ذریعے سے ہوتا تو نہ معلوم یہ خبر دنیا میں کس طرح پھیل جاتی، اور اس کو کتنا بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا۔

 

۸۔ سب سے پہلے آپ اس بات کو قبول کریں کہ قرآنِ حکیم میں بطریقِ حکمت ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) بعد ازان سورۂ فرقان (۲۵: ۶۱) سورۂ نوح (۷۱: ۱۶) اور سورۂ نباء (۷۸: ۱۳) میں دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورج کو روشن اور بہت تابناک چراغ بنایا ہے، اس کا اشارۂ حکمت یہ ہے کہ یقیناً آفتاب ہماری کائنات کا ایٹمی چراغ ہے، جس کا شعلہ بار بار ازسرِ نو بنتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے پورے نظامِ شمسی میں دو طرفہ حرکت پیدا ہوتی ہے، ایک  ہر طرف سے سورج کی جانب اور دوسری حرکت سورج سے حاشیۂ عالم کی طرف ہوتی رہتی ہے۔ (اس کتاب میں مضمون کو دیکھیں: آفتابِ عالمتاب = چراغِ روشن)۔

 

۹۔ خلاقِ علیم نے عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) کو بھی چھ دن یعنی چھ چھوٹے چھوٹے ادوار میں پیدا کیا، پھر عارف کے نورانی خواب میں فی المثل عرش (کشتی نما تخت) کا ظہور پانی پر ہوگیا، یہ بحرِ علم کی مثال ہے، اس بھری ہوئی کشتی میں صرف ایک ہی پُرنور شخصیت تھی، جس میں سب پہلے ہی سے فنا ہو چکے تھے (حکمتی مفہوم: ۱۱: ۰۷)۔

 

۱۰۔ سوال: سورۂ رعد (۱۳: ۲۸) میں ارشاد ہے: اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ =خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ہو جاتا ہے۔ اس حکم کی کچھ عارفانہ یا صوفیانہ تفسیر کس طرح ہوگی؟ جواب: قلوب کی واحد قلب ہے، قلب

۹

سے مراد دل، جان، اور عقل ہے، ان تینوں چیزوں کو جب تک کلی طور پر تسکین نہ ملے تو وہ حقیقی معیار کے مطابق اطمینان نہیں کہلائے گا، لہٰذا وہ اطمینان ہے: علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کی دولتِ لازوال۔

 

۱۱۔ بعض آیتوں کا حوالہ بار بار اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ بہت ہی ضروری ہوتی ہیں، جیسے سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) کا یہ ارشاد ہے: وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ = اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں (بہت سی) نشانیاں ہیں، اور خود تمہاری جانوں میں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ صرف زمین کی سطح پر نہیں، بلکہ اس کے باطن میں بھی بے شمار معجزات ہیں اور انسانوں کی جانوں میں بھی معجزات ہیں، تو کیا تم چشمِ باطن سے نہیں دیکھتے؟ اس ارشاد میں ذرا غور کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ زمین کی ایک بڑی روح ہے، اور اللہ کا یہ فرمانا: “تو کیا تم دیکھتے نہیں؟” اس معنیٰ میں ہے کہ عارفین اپنے عالمِ شخصی میں دیکھتے ہیں۔

 

۱۲۔ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سب لوگ ایک ہی امت ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے: كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً = سب لوگ ایک ہی امت تھے (اور ہیں، ۰۲: ۲۱۳) پہلے سارے لوگ عالمِ ذر میں بشکلِ ذرات ہوتے ہیں، اور آخراً عالمِ عقل میں جا کر سب کے سب فردِ واحد بن جاتے ہیں، جیسے حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں ارشاد ہے: یقیناً ابراہیم ایک امت (اور امام) تھے خدا کے فرمانبردار اور موحد تھے (۱۶: ۱۲۰) چونکہ عالمِ شخصی میں سب کچھ ہے اور اس میں انبیاء و رسل بھی ہیں اور امتِ واحدہ بھی ہے، لہٰذا یہاں اللہ تعالیٰ نے رسولوں سے فرمایا: بے شک یہ تمہاری امت (دراصل) ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا (واحد) پروردگار ہوں تو بس مجھ سے ہی ڈرتے رہو (۲۳: ۵۲)۔

 

۱۳۔ قرآنِ حکیم اور حدیثِ صحیحہ دونوں جوامع الکلم ہیں، جس کے تمام الفاظ منتخب اور مشترک المعانی ہیں، مثال کے طور پر لفظِ بعث کو لیتے ہیں کہ بعث کے یہ معنی ہیں: زندہ

۱۰

کرنا، اٹھا کھڑا کرنا، جی اٹھنا، بھیجنا، پس بعث کے معنی ہیں، اُس نے دوبارہ زندہ کیا، اس نے بھیجا، اب ایک متعلقہ آیۂ کریمہ کو لیتے ہیں، تفسیر: یہ کسی کلی ابتداء کے بغیر ہر دور کا تذکرہ ہے کہ لوگ عالمِ شخصی میں ایک ہی امت تھے، پھر وہ دنیا میں پیدا کئے گئے، اور ان کے لئے انبیاء علیہم السلام کا اہتمام اس طرح سے ہوا کہ ہر نبی اپنے وقت میں جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر گیا، اور اللہ نے تمام پیغمبروں کو دوبارہ زندہ کر دیا (فبعث اللہ النبیین، ۰۲: ۲۱۳)۔

 

۱۴۔ یہ بہت ہی عزیز کتاب میرے جملہ عزیزان کی جانب سے عالمِ اسلام اور دنیائے انسانیت کے لئے تحفۂ لاجواب ہے، میرے عزیزوں کا کیا کہنا وہ تو سب کے سب بے مثال ہیں، وہ میرے تینوں اداروں کے عملداران اور ارکان ہیں، جو بڑے معزز گورنرز اور علمی لشکر ہیں، لائف گورنرز، فرسٹ گورنرز، سیکنڈ گورنرز، علمی لشکر ۱، علمی لشکر ۲، اور علمی لشکر ۳، مجھے یقین ہے کہ میرے تمام شاگرد انسانی وحدت و سالمیت کے عظیم اسرار کو سمجھتے ہیں، وہ علم و حکمت کے ہزار بھیدوں کو جانتے ہیں، وہ اور بھی زیادہ علم رکھتے ہیں، کیونکہ ہزار حکمتیں تو صرف ایک ہی کتاب میں ہیں، ان میں جو صفِ اوّل کے ہیں، وہ بفضلِ خدا حقائق و معارف کے کامل استاد ہو چکے ہیں، اے خداوندِ قدوس! یہ سب کچھ تیرے فضل و کرم سے ہے۔

 

۱۵۔ مجھے اپنے تمام شاگرد بے حد عزیز ہیں، کیوں نہ ہوں، جب کہ وہ اپنے خزانۂ عمر کے انمول جواہر کو حصولِ علم کی خاطر صرف کرتے ہیں، اور علمی خدمت کے لئے ہر قسم کی قربانی اور جان نثاری کو اپنے حق میں بڑی سعادت سمجھتے ہیں، اور ترجمہ کرنے والے صاحبان، خصوصاً انگلش میں ترجمہ کرنے والے حضرات ہم سب کی جانِ شیرین کی طرح شیرین اور عزیز ہیں، الغرض ہم سب یقین سے کہتے ہیں کہ ہم کو ایک انتہائی عظیم اور عجیب و غریب بھید معلوم ہوگیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم سب (یعنی تمام انسان) شخصِ کامل کی مبارک پیشانی میں “یک حقیقت” ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

جمعہ، ۲۵ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ، ۴ اپریل ۱۹۹۷ء

۱۱

تسخیرِ کلّی اور ظاہری و باطنی نعمتیں

)انتساب(

 

اے عزیزانِ محترم! آپ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ علمی گفتگو کے دوران آپ کا عزیز استاد کسی نہ کسی عجیب و غریب حکمت کی طرف بھی اشارہ کرے، تو لیجئے آج کی بڑی عجیب و غریب حکمت یہ ہے جو آپ پر منکشف کی جاتی ہے: خداوند تعالیٰ جو علیم و حکیم ہے، اس نے اپنے کمالِ قدرت سے قرآنِ عظیم کو جگہ جگہ لپیٹ کر بھی رکھا ہے اور وہاں سے پھیلا بھی دیا ہے، پس ایک ایسی آیۂ شریفہ جس میں قرآن کی تمام حکمتیں مرکوز و مجموع ہیں، جو سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ہے، اس آیۂ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: “کیا تم لوگوں نے (چشمِ بصیرت سے یہ) نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقیناً تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور تم پر اپنی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں۔”

 

اے عزیزانِ سعادت مند! اس آیۂ مبارکہ میں تسخیرِ کلی اور تمام ظاہری و باطنی نعمتوں کا عظیم الشّان ذکر ہے، جس کی تفصیلات تعلیماتِ دانش گاہِ خانۂ حکمت میں بیان ہوتی آئی ہیں، اور وہ یہ ہے کہ کبھی آپ کو بہشت برائے معرفت کے عنوان سے بہت سے اسرار بیان ہوئے کبھی براہِ راست روحانیّت کا تذکرہ ہوتا رہا، کبھی روحانی سائنس کے عنوان کے تحت بہت سی حکمتیں بیان کی گئیں، اور کبھی قرآنی سائنس کی اصطلاح کے تحت علم و حکمت کے جواہرات کا مظاہرہ ہوتا رہا، الغرض آپ تمام عزیزان عنوانِ بالا کے مطالب کو جانتے ہیں، لہٰذا آپ پر واجب ہے

۱۲

کہ عملی شکرگزاری کریں، وہ یہ ہے کہ آپ دانش گاہِ خانۂ حکمت کی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھتے رہیں، اور خداوند تعالیٰ کے ان بے شمار احسانات کا جیسا کہ حق ہے شکر ادا کرتے رہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کی شکرگزاری ہوتی رہے۔

 

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے ساتھیوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں، جو ان نعمتوں کی شکرگزاری میں آنسو بہاتے ہوئے سجدوں میں گر پڑتے ہیں، وہ اکثر اوقات ذکر و عبادت میں مصروف رہتے ہیں، اور ان نیک بخت مومنین و مومنات نے علمی خدمت کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے، ایسے ارضی فرشتوں پر خداوندِ قدوس کی طرف سے نورانی بارش برستی رہتی ہے، ان کے قلوب میں نورِ ایمان کی روشنی داخل ہوچکی ہے، اس لئے وہ اپنے باطن میں خرسند و شادمان ہیں، ان کو نیک اعمال سے شادمانی حاصل ہوتی رہتی ہے، ان شاء اللہ وہ روز بروز علم الیقین کی راہ میں آگے سے آگے جا سکیں گے۔

 

حقیقی علم کی روشنی پھیلانا دین کی سب سے بڑی خدمت ہے، اور اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ آج جو لوگ حقیقی علم کی خدمت کرتے رہتے ہیں، کل بہشت میں وہی لوگ نورانی علم کی خدمت کریں گے، اور انہی نیک بخت لوگوں کو بہشت کی انتہائی عظیم بادشاہی سے خداوند تعالیٰ با نصیب کرے گا۔

 

خداوند تعالیٰ جب کسی خاص چیز کو وجود میں لانا چاہتا ہے تو اس کے جملہ اسباب و ذرائع کو مہیا کر دیتا ہے، ہمارے ادارے کے سینیئر اور جونیئر اسکالرز اور اہلِ قلم ہم پر اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات ہیں، اور ہم امید رکھتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ اس ادارے کو مزید اسکالرز سے نوازے گا، تاکہ ہم قرآن، اسلام، جماعت اور انسانیت کی خدمت کر سکیں۔

یہ پسندیدہ انتساب جناب سابق موکھی نزار علی علی بھائی، انٹرنیشنل لائف گورنر اینڈ لوکل پریذیڈنٹ اور ان کے باسعادت اہلِ خانہ کے لئے لکھا

۱۳

گیا ہے، اس مبارک گھر کے جملہ افراد انٹرنیشنل لائف گورنری کے رتبۂ عظمیٰ پر فائز ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

ہفتہ ۲۹ جولائی ۲۰۰۰ء

یوسٹن، امریکہ

 

۱۴

ہر چیز ۔ سب کچھ

(انتساب)

 

خزائنِ الٰہی میں کیا کیا نہیں ہے؟ ہر چیز موجود ہے، سب کچھ حاضر ہے، فیاضِ ازل نے اپنے بندوں کو سب کچھ دے رکھا ہے (۱۴: ۳۴) کائنات کی ہر چیز مسخر کر دی ہے (۴۵: ۱۳) اُس رحمٰن و رحیم نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں اہلِ ایمان پر پوری کر رکھی ہیں (۳۱: ۲۰) درختِ پاک کی پُرثمر شاخ عالمِ شخصی کے آسمان (حظیرۂ قدس) میں پہنچی ہے (۱۴: ۲۴) آپ ان تمام آیاتِ کریمہ کو قرآنِ پاک میں پڑھ لیں۔

 

۱۔ ہمیں امید ہے کہ ظاہری سائنسدان کچھ آگے چل کر اس حقیقت کے قائل ہو جائیں گے کہ اس کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، اُسی قادرِ مطلق نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ہے اور ہر وقت بناتا ہے (یعنی تجدّد کر رہا ہے) قرآنِ حکیم نے علی الاعلان فرمایا کہ: لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ (۳۰: ۳۰) خدا جس طرح پیدا (تجدّد) کرتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں۔ جیسے سنتِ الٰہی کے بارے میں ارشاد ہے: وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا (۳۳: ۶۲) اور تم خدا کی عادت میں ہرگز تغیر و تبدل نہ پاؤ گے۔ اس کلیدی حکمت میں اہلِ دانش کے لئے بہت سے مفید اشارے ہیں۔

 

۲۔ قرآنِ عزیز فرماتا ہے کہ کوئی شیٔ علم سے خالی نہیں، یعنی ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم رکھا ہوا ہے، مثال کے طور پر اس ارشاد میں دیکھ لیں: اے ایمان والو، خدا سے

۱۵

ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ (۰۹: ۱۱۹) دنیوی معاملات میں سچائی بہت عام بات ہے، لیکن علم میں سچائی بہت مشکل چیز ہے، لہٰذا ہر زمانے کے اہلِ ایمان کو حکم ہوا کہ وہ خدا سے ڈرتے رہیں اور اوصیائے رسول کے ساتھ ہو جائیں کہ علم میں سچ بولنے والے صرف وہی حضرات ہیں۔

 

۳۔ قرآن کی ہر چیز میں علم ہے، جیسے سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۵) میں ہے: اور بہشت میں ان کے لئے صاف ستھری بیویاں ہوں گی۔ یعنی ان کا لطیف جسم (نورانی بدن) ہوگا، پاکیزہ روح اور علم سے بھرپور عقل ہوگی، کیونکہ دنیا ہو یا آخرت علم کے سوا پاکیزگی کا کوئی تصوّر ہی نہیں، پس قرآن کے ہر مقام پر طہارت و پاکیزگی کے معنی میں علم کا تذکرہ ہے۔

 

۴۔ ثمرات (میوے) کا ذکر قرآن میں ۱۶ بار آیا ہے، جس میں علم کے معنی پوشیدہ ہیں، فاکھۃ (میوہ = پھل) ۱۱ دفعہ اور فواکہ ۳ دفعہ ہے، جو علم کے معنی میں ہیں، اکل (پھل) قطوف (میوے) اور جنی (تازہ چنا ہوا میوہ) یہ سب علم کی مثالیں ہیں، جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: اور اُسی نے آسمان سے پانی برسایا پھر اسی نے تمہارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئے (۰۲: ۲۲) یعنی جب آسمانی علم کی بارش تمہارے دل کی زمین پر برس پڑی تو اس سے تمہارے لئے طرح طرح کے علمی میوے پیدا ہوگئے۔

 

۵۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندۂ سالک کی انفرادی قیامت میں روحانی اور علمی کائنات کو حظیرۃ القدس میں لپیٹ دیتا ہے، تو اس وقت تمام حقیقتیں اور معرفتیں یکجا اور جمع ہو جاتی ہیں، ایسے میں عالمِ کثرت یقیناً عالمِ وحدت ہو جاتا ہے، جس میں صرف نفسِ واحدہ ہی سب کی نمائندگی کرتا ہے۔

۶۔ حظیرۂ قدس عرفا کی پیشانی میں ہے، جہاں کائنات بھر کی پھیلی ہوئی چیزیں گھیری ہوئی ہیں، اور ان گنجِ ازلِ تجدّد سے کوئی علمی چیز باہر نہیں، کیونکہ یہ وہ بہشتِ برین ہے جو دور دور سے نزدیک لائی گئی ہے، پس حظیرۂ قدس یعنی پاک احاطے میں ہر چیز ہے اور سب کچھ ہے، جیسے قرآنِ پاک کی بہت سی آیاتِ مقدّسہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر نعمت عطا فرمائی ہے۔

۱۶

۷۔ سوال: کیا بہشت میں قرآنِ کریم کے علاوہ دوسری تمام آسمانی کتابیں بھی مشاہدے میں آسکتی ہیں، کیونکہ کتبِ سماوی بہت بڑی نعمت ہیں؟ جواب: یقیناً بہشت میں حسبِ خواہش ہر نعمت ملتی ہے، مزید برآن یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ قرآنِ حکیم کے کمالات و معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں سابقہ کتبِ سماوی کا خلاصہ اور جوہر شامل ہے، پس آپ قرآنِ عظیم کو اسی نیت سے پڑھیں کہ اس میں سب کچھ ہے، اور قرآنِ کریم کو کتابِ مکنون میں چھو لینے کی سعیٔ بلیغ بھی کریں (۵۶: ۷۷ تا ۷۹)۔

 

۸۔ سوال: ہر نیکوکار مسلمان / مومن قرآن کی حرمت و محبت کرتا ہے اور اس کے احکام کے مطابق عمل کرتا ہے، تو آپ یہ بتائیں کہ اس کے نامۂ اعمال میں قرآنِ حکیم ہوگا یا نہیں؟ اگر ہو تو کس طرح ہوگا؟ جواب: مومنین کا نامۂ اعمال قرآن اور اس کے معلم (۰۵: ۱۵) کے تعلق اور گواہی کے بغیر کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے، آپ سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) اور سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں خدا کی کتابِ ناطق کے بارے میں پڑھیں، یہ خود قرآن اور معلّم ہے جو نامۂ اعمال بھی ہے۔

 

۹۔ اگر قرآنِ پاک کو عارف کے نامۂ اعمال میں دیکھا جائے جو حظیرۂ قدس میں ہے تو وہاں یہ انطوٰی کے سبب سے نہایت جامع الجوامع اور ناقابلِ فراموش تذکرہ ہے، اگر کوئی چاہے تو اس کو یاد کر سکتا ہے، وہ معزز صحیفوں (کلماتِ تامّات) میں ہے جو بلند کردہ اور پاک کردہ ہیں (۸۰: ۱۱ تا ۱۴) یہ سورۂ عبس کا حوالہ ہے، جس میں قرآن کا ایک نام مرفوعہ (بلندکردہ) ہے جو اسمِ مفعول ہے، جس پر بلند کرنے کا فعل واقع ہوگیا ہے، یعنی فرشتوں نے عارف کے نامۂ اعمال کے ساتھ قرآن کو زمین سے آسمان پر اٹھا لیا ہے۔

۱۰۔ اب اس مقام پر میں کچھ تاریخی کلمات درج کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ میرے سب شاگرد مجھے بہت ہی عزیز ہیں، بلکہ وہ میری اپنی جانی اور جگری اولاد ہی کی طرح بے حد شیرین اور دلنواز ہیں، اس نعمتِ عظمیٰ پر مجھے اپنے ربّ کے لئے گریہ کنان سجدۂ

۱۷

شکر بجا لانا ہے، مجھے وحدتِ انسانی کا عرفانی راز معلوم ہوگیا ہے، اسی لئے میں اپنے تمام عزیزوں کو پارہ ہائے جان سمجھتا ہوں، اور میری نظر کے مطابق قرآن و حدیث میں انسانی وحدت کی بہت سی خوبصورت مثالیں ہیں، جن میں سے ہر ایک میں بے حد شادمانی ہے۔

 

۱۱۔ میرے موصوف ساتھیوں نے ہمہ وقت میری معاونت فرمائی ہے، اداروں کو حسن و خوبی سے جاری رکھا ہے، عظیم کارنامے انجام دئے ہیں، ان کے بے شمار خدمات اور بے حساب قربانیاں ہیں، تب ہی ہمارے اس نیک نام ادارے کی (بہت سےممالک میں) ایک خاص پہچان ہوئی ہے، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔

 

۱۲۔ معزز گورنرز، علمی لشکر، عملداران اور ارکان میں سے آج جن عزیزوں کے بارے میں چند تعریفی کلمات لکھنے کا پروگرام ہوا ہے وہ ہیں ڈاکٹر رفیق جنت علی چیف سیکریٹری آف خانۂ حکمت، میڈیکل ایڈوائزر اینڈ پیٹرن، اور فرسٹ گورنر، ان کی فرشتہ خصلت بیگم ڈاکٹر شاہ سلطانہ، چیئرپرسن آف خانۂ حکمت برانچ کریم آباد، میڈیکل ایڈوائزر اینڈ پیٹرن، فرسٹ گورنر، اور ان کے دونوں پیارے بچے گلاب خانم اور شفیق، علمی لشکر، جو آگے چل کر (ان شاء اللہ) دو عظیم انسان ہوں گے۔

 

۱۳۔ ہر آزمائش میں دل و جان سے خدا کو یاد کرتے کرتے اور علم کی ہر تحریر کو پڑھتے پڑھتے امید ہے کہ ایک دن ڈاکٹر رفیق جنت علی کوہِ علم ہو جائیں گے، پھر اس کا دور رس فائدہ نہ صرف خاندان اور آئندہ نسل تک ہی محدود ہوگا، بلکہ اس کے لازوال فوائد اسلام اور انسانیت کے لئے بھی ہوں گے اور آخرت کی حیاتِ سرمدی کے لئے تو علم کی بے حد ضرورت ہے، ڈاکٹر رفیق اور ڈاکٹر شاہ کے حسنِ اخلاق پر فرشتے رشک کرتے ہوں گے، ایسے تمام ارضی فرشتوں کی دم قدم کی برکت سے ہمارے ادارے کی اتنی ترقی ہوئی ہے، یہ دونوں عزیزان ہماری تعلیمات کے عظیم قدردانوں میں سے ہیں، ان شاء اللہ العزیز تمام خدا شناس بندے عالمِ شخصی کے بادشاہ ہوں گے، آمین!

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

بدھ، یکم ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ، ۹ اپریل ۱۹۹۷ء

۱۸

قانونِ فطرت

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اے دوستان و عزیزانِ من! قرآنِ حکیم سورۂ قمر (۵۴: ۰۵) میں اپنی جس بے مثال اور عالی شان حکمتِ بالغہ کا ذکر فرماتا ہے، وہ یقیناً اس معنیٰ میں حکمتِ بالغہ ہی ہے کہ اہلِ بصیرت کے دل و دماغ اور تصوّر کو حظیرۃ القدس کے نورانی عجائب و غرائب تک پہنچا سکتی ہے، جہاں علم و معرفت اور اسرارِ فطرت کا سب سے عظیم خزانہ موجود ہے، کیونکہ لفظِ “بالغہ” بروزنِ فاعلہ (بلوغ سے) اسمِ فاعل ہے، جس کے معنی ہیں پہنچنے اور پہنچانے والی چیز، ساتھ ہی ساتھ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ قرآنِ حکیم جو ہم سب کے لئے ہدایت نامۂ الٰہی ہے، اس کی حکمت کی بڑی زبردست اہمیت ہے، جیسا کہ آیۂ شریفہ کا ترجمہ ہے: اور جس کو (خدا کی طرف سے) حکمت عطا کی گئی تو اس میں شک ہی نہیں کہ اسے خوبیوں کی بہت بڑی دولت ہاتھ لگی (۰۲: ۲۶۹)۔

 

دوستانِ عزیز! آئیے اب ہم سب مل کر بڑی عاجزی اور خلوصِ دل سے دعا کریں کہ خداوندِ قدوس اپنے نورِ علم و حکمت سے ارضِ عالمِ دین اور زمینِ دنیائے انسانیت کو ہمیشہ کے لئے منور فرمائے! جیسے قرآنِ حکیم میں اس کے ایسے سچے وعدے موجود ہیں، اور ہمیں کامل یقین ہے کہ اس کی سنتِ عالیہ میں ہرگز ہرگز کوئی وعدہ خلافی نہیں ہے، ان شاء اللہ، اب ظہورِ اسرار کا زمانہ آچکا ہے، یعنی جب خدا ہی نے آفاق کو مادّی سائنس کی دولت سے مالا مال فرمایا ہے تو یقیناً اسی کے ساتھ ساتھ یا اس کے بعد انفس کو بھی کوئی ضروری اور اعلیٰ نعمت عطا ہو گی (۴۱: ۵۳) ہم ایسی نعمتِ عظمیٰ کو روحانی سائنس کہہ سکتے ہیں۔

۱۹

قانونِ فطرت سے متعلق آیۂ کریمہ کا ترجمہ: پس (اے رسولؐ اور ان کے مومنین!) تم باطل سے کترا کے اپنا رخ دین کی طرف کئے رہو، یہی خدا کی بناوٹ (فطرت) ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں، یہی بالکل راست اور درست دین ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں (۳۰: ۳۰)۔

 

حکمت ۱: قرآنِ حکیم کی ہر ہدایت میں حکمتِ بالغہ پنہان ہے، لہٰذا یہ کسی بھی درمیانی منزل تک محدود و موقوف نہیں، بلکہ یہ منزلِ مقصود (حظیرۃ القدس) تک جا پہنچتی ہے، چنانچہ مذکورہ آیۂ کریمہ کی حکمت یہ ہے: پس اے رسولؐ اور ان کی اطاعت کرنے والو! تم عارف ہوکر اپنا چہرۂ جان دین کے لئے اُس روحانی بلندی پر قائم کرو، جہاں صورتِ رحمان کا آئینۂ وحدانیت سامنے آتا ہے، اللہ کا قانونِ فطرت یہی ہے جس کے مطابق اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا۔ یعنی فطرت کا بہترین اور سب سے اعلیٰ نمونہ انسان ہی ہے، کیونکہ یہ کائنات و موجودات کا خلاصہ اور جوہر ہے، درحالیکہ یہ عالمِ صغیر ہے (یعنی عالمِ شخصی) لیکن خدائے قادرِ مطلق عالمِ اکبر کو اس میں لپیٹ دیتا ہے، مگر یہ عملی حقیقت مادّی طور پر نہیں بلکہ روحانی کیفیت میں ہے، پس یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ ارض و سما کی فطرت کے اسرار عالمِ شخصی میں پنہان ہیں۔ یعنی آسمان، زمین، سورج، چاند، انجم، زمان اور مکان کے تمام بھید انسان کے باطن میں پوشیدہ ہیں، اور اس حقیقت پر محکم شہادتیں اور روشن دلیلیں قرآنِ عزیز میں جا بجا ملتی ہیں۔

 

حکمت ۲: زیرِ بحث آیۂ کریمہ میں یہ ارشاد بھی ہے کہ: خلق اللہ کے لئے کوئی تبدیلی نہیں (۳۰: ۳۰) اس میں دنیا کے سب سے بڑے سوال کا جواب موجود ہے جو تصورِ آفرینش سے متعلق پیدا ہوسکتا ہے، وہ یہ کہ آیا کبھی کوئی ایسا زمانہ ممکن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت کے تحت فعلاً مخلوق نہ ہو؟ اس کا جواب مذکورہ آیت میں اس طرح سے ہے: خلق اللہ کے لئے کوئی تبدیلی نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ خالقیت میں کوئی تغیر و تبدل ممکن ہی نہیں کہ وہ پہلے بحدِّ قوّت موجود ہو، اور پھر بحدِّ فعل اس کا ظہور ہونے لگے، یہ مفروضہ محال اور ناممکن ہے، اس کے برعکس حقیقت تو یہ ہے کہ خدا کی ہر صفت فعلاً قدیم

۲۰

ہے، چنانچہ وہ خالقِ قدیم ہے، اسی کے حکم سے ہمیشہ بقا و فنا کا سلسلۂ لا ابتدا و لا انتہا جاری ہے۔

 

حکمت ۳: یہ تمام حقائق و معارف دینِ اسلام میں موجود ہیں، لہٰذا آیۂ مبارکہ کے آخر میں دینِ قائم کی تعریف کی گئی ہے، جو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا دین ہے، اور ان کی پیروی کرنے والوں کا دین ہے، جس کا آخری مرتبہ دیدارِ الٰہی اور فنا فی اللہ ہے، ایسے میں کائنات بھر کی ارواح ساتھ ہوتی ہیں، اگر خدا کا حکم ہوا تو ان روحوں کی وجہ سے فطرت کے بہت سے بھیدوں کا پتا چل سکتا ہے۔

آسمان، زمین، سورج، چاند، انجم، زمان  (time) اور مکان (space)  سب کی روح ہے، جس کا انسانی روح سے نہ صرف رشتہ ہے بلکہ وحدت بھی ہے، یہی سبب ہےجو اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کو کائنات و موجودات کی باطنی اور روحانی فطرت کو جاننا ہے تو وہ اپنی روحانی فطرت کی معرفت کو حاصل کرے، کیونکہ قانونِ فطرت ایک ہی ہے، جس کے مطابق خداوند تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، تاکہ ہر عارف اپنی ذات کی شناخت سے نہ صرف خالق کی معرفت کو حاصل کرے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کے اسمائے صفات کی نسبت سے مخلوقات کو بھی پہچانے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

اتوار ۲۵ شعبان المعظم ۱۴۱۷ھ

۵ جنوری ۱۹۹۷ء

۲۱

آفاق و انفس

 

سورۂ حٰمٓ السجدہ کی آخری دو آیتوں کا ترجمہ ہے: ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ بے شک وہ حق ہے، کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا ربّ ہر چیز کا گواہ ہے؟ آگاہ رہو، یہ لوگ اپنے ربّ کی ملاقات میں شک رکھتے ہیں، سن رکھو، وہ ہر چیز پر محیط ہے (۴۱: ۵۳ تا ۵۴)۔

 

حکمت ۱: سوال: (الف) اللہ تعالیٰ کا ارشادِ بالا کن لوگوں کے بارے میں ہے؟ جواب: بظاہر اُن لوگوں کے بارے میں ہے جو قرآنِ حکیم سے ہٹ کر ہیں، سوال: (ب) آیات کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ جواب: ان کے معنی ہیں معجزات اور قدرت کی نشانیاں، سوال: (ج) بہت سے ایسے لوگ مرگئے در حالے کہ انہوں نے حسبِ وعدۂ الٰہی کوئی معجزہ نہیں دیکھا تھا، اس باب میں آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب: ان کے نمائندہ ذرات نے انسانِ کامل کی باطنی قیامت میں بہت کچھ دیکھا تھا، مزید برآن جب وہ مرگئے تو عالمِ آخرت میں معجزات نے ان کو گھیر لیا، سوال: (د) کیا آفاق و انفس کے معجزات کو دیکھنے کے لئے کوئی خاص زمانہ مقرر ہے؟ جواب: جی ہاں، وہ روحانی دور ہی ہے، لیکن دیکھنے والے ہر وقت دیکھ سکتے ہیں، سوال: (ھ) خداوند تعالیٰ لوگوں کو آفاق و انفس میں آیات دکھائے گا، اس میں نفسِ واحدہ کا کیا کردار ہوگا؟ جواب: نفسِ واحدہ (انسانِ کامل) ہی ہے، جس کی انفرادی قیامت میں سب کی اجتماعی قیامت قائم ہو جاتی ہے (۳۱: ۲۸)، سوال: (و) آپ عصرِ حاضر کی مادّی سائنس کے کمالات کو کیا

۲۲

سمجھتے ہیں؟ جواب: یہ خدائے بزرگ و برتر کی قدرت کی وہ نشانیاں یا معجزات ہیں، جن کی طرف مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ کا خاص اشارہ ہے۔

 

حکمت ۲: اُفق (۸۱: ۲۳) = کنارۂ آسمان، اس کی جمع آفاق ہے، جس کے معنی ہیں وہ جگہ جہاں زمین آسمان ملے ہوئے نظر آتے ہیں، اس سے جسمِ لطیف مراد ہے کہ وہ آسمانِ روحانیّت اور زمینِ جسمانیّت کے کنارے پر ہے، وہ جوہرِ جسم بھی ہے اور مظہرِ روح بھی، وہ ذرہ بھی ہے اور عالمِ ذرّ بھی، وہ بحرِ محیط بھی ہے اور اس کا گوہر بھی، وہ برقِ طور بھی ہے اور ظہورِ نور بھی، الغرض وہ بہت کچھ ہے بلکہ سب کچھ۔

 

حکمت ۳: آسمان اور زمین میں جیسی اور جتنی بے شمار چیزیں ہیں وہ سب کی سب یقیناً اللہ کی قدرت کی نشانیاں تو ہیں، لیکن اکثر لوگ چشمِ بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں، لہٰذا خداوندِ عالم کے حکم سے آج کے دور میں جسمِ لطیف کے زبردست معجزے ظہور پذیر ہو رہے ہیں، ان کی ایک نمایان اور قابلِ دید مثال ظاہری سائنس کے عجائب و غرائب ہیں، تاکہ تمام سائنسدان اور دیگر لوگ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھیں اور مادّی سائنس کو خدا کی ایک بہت بڑی نعمت قرار دیں، لیکن معلوم ہے کہ اب تک ایسا نہیں ہوا ہے، لہٰذا قرآنِ پاک کی پیش گوئی کے مطابق اب آفاق کے معجزوں کے ساتھ ساتھ انفس کے معجزات بھی شروع ہو جائیں گے، جن کے احساس و ادراک کے بعد کوئی شخص خدا سے انکار نہ کر سکے گا۔

 

حکمت ۴: اگر ان لوگوں سے پوچھا جائے جو حقیقی عقل رکھتے ہیں کہ ارض و سما اور ان کی ہر ہر چیز کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ فوراً جواب دیں گے کہ خالقِ یکتا نے پیدا کیا ہے، جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان کو کس نے بنایا؟ خداوندِ عالم نے، انسان کو عقل و جان کس کی طرف سے عطا ہوئی؟ اُسی خدائے مہربان کی طرف سے، ہر قسم کے علم و حکمت اور ظاہری و باطنی سائنس کے خزانوں کا حقیقی مالک کون ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پس حقیقت یہی ہے، اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، اس کے برعکس کسی بھی سائنسدان کا یہ کہنا کہ کائنات ازخود پیدا ہوگئی ہے، یہ اس کی بہت بڑی جہالت

۲۳

و نادانی اور بھول ہے۔

 

حکمت ۵: اس آیۂ کریمہ کے لئے سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں دیکھئے: اور یقین کرنے والوں (اہلِ معرفت) کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تم میں بھی ہیں تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ قرآنِ حکیم کی ہر آیۂ مبارکہ میں جو بھی حکمت ہوتی ہے، وہ اپنے مضمون کے لحاظ سے کامل اور مکمل ہوتی ہے، چنانچہ اس ربّانی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص بحکمِ من عرف۔۔۔ اپنی روح کو پہچان لیتا ہے تو وہ اپنے ربّ کو اس کے اسمائے صفاتی کے افعال کے ساتھ پہچان سکتا ہے، مثال کے طور پر اللہ اس بات پر قادر ہے کہ کائنات کو لپیٹ کر فنا کر دے، اور اس کی جگہ ایک نئی کائنات بنائے تاکہ عارف پر یہ عملی معرفت روشن ہو جائے کہ اللہ کس طرح خالقِ کائنات ہے، یہ قیاس اور مفروضہ ہرگز نہیں، بلکہ حقیقت ہے، اللہ تعالیٰ کے ہر اسمِ صفت کا فعل یا معجزہ عالمِ کبیر اور عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) دونوں میں مکرر، مسلسل، اور جاری ہے، جس کو تجدّدِ امثال کہا جاتا ہے، چونکہ خدا ذات میں بھی اور صفات میں بھی قدیم ہے، اس لئے تصوّرِ آفرینش خط (لکیر) کی طرح نہیں، جس کی ابتداء اور انتہاء ہوا کرتی ہے، بلکہ ایک دائرۂ دائمی جیسا ہے۔

 

حکمت ۶: جو نشانیاں (آیات = معجزات) زمین میں ہیں، وہی آیات نفسِ انسانی میں بھی ہیں، اس کا اشارہ یہ ہے کہ جس طرح آدمی کی عقل و روح ہے، اسی طرح سیّارۂ زمین کی بھی اپنی عقل و روح ہے، اور یہ بہت بڑا انقلابی تصوّر ہے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے کم از کم ہمارے نزدیک “نظریۂ کششِ ثقل” ختم ہوگیا، جب کہ اس انکشاف سے معلوم ہوا کہ زمین اپنی عقل اور روح کی مضبوط گرفت میں منظم، مرکوز اور بکھر جانے سے محفوظ ہے، جس کی مثال انسان کی ہستی ہے، جو قانونِ فطرت کا بہترین نمونہ ہے (۳۰: ۳۰) اب اس سے یہ بھی پتا چلا کہ کائنات کے ہر سیّارہ اور ہر ستارہ کی عقل و جان ہے، جیسے حکیم ناصر خسرو ق س کا قول ہے:

 

گرفتہ ہر یکی عقلی و جانی

بکارِ خویشتن ہر یک جہانی

۲۴

ہر سیّارہ (اور ہر ستارہ) کو ایک عقل اور ایک جان (روح) حاصل ہے تاکہ ان میں سے ہر عالم اپنا کام کر سکے (روشنائی نامہ)۔

 

حکمت ۷: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) میں ارشاد ہے: جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی (بدل دئے جائیں گے)۔ معنیٔ اوّل: جب کوئی سالک اپنے عالمِ شخصی میں داخل ہوکر مشاہدہ کرنے لگتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی زمین ظاہری زمین سے قطعاً مختلف، لطیف، اور پُرنور ہے، اور اس کے آسمان کا کیا کہنا کہ اس سے علم و حکمت کے موتیوں کی بارش برستی رہتی ہے، معنیٔ دوم: وہ بڑا عجیب و غریب زمانہ آنے والا ہے جس میں لوگ جسماً یا روحاً اس طرح کثیف سے لطیف ہو جائیں گے، جیسے کیڑوں سے پروانے بنتے ہیں (فراش =۱۰۱: ۰۴) اس وقت لوگوں کو کسی دوسرے سیّارے پر منتقل کر دیا جائے گا، اس حال میں موجودہ زمین دوسری زمین میں بدل جائے گی اور آسمان بھی بدل جائیں گے۔

 

حکمت ۸: آیۃ الکرسی (۰۲: ۲۵۵) کو اعظم الآیات کہتے ہیں، اس کی عظمت و بزرگی کا راز اس کی باطنی حکمت میں پوشیدہ ہے، چنانچہ اس کا ایک جملہ یہ ہے: وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ = اس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے۔ یعنی کائنات اپنے تمام اجزاء اور ذرات کے ساتھ نفسِ کلّ کے بحرِ محیط میں مستغرق ہے، جس کی بدولت ہر ذرہ کے ظاہر و باطن میں روح موجود ہے، کیونکہ کائنات روح جو روح الارواح (نفسِ کلّی) ہے، وہ کائنات پر صرف خول کی طرح نہیں، بلکہ اس کی مثال انسانی روح ہے، جس کی لہر ہمیشہ تمام بدن میں دوڑتی رہتی ہے، پس ہر سیّارہ اور ستارہ نفسِ کلّ کے تحت ایک ذیلی کائنات ہے، جس کو ایک مخفی عقل و جان کا عطیہ ملا ہے۔

 

حکمت ۹: صوفیائے کرام وغیرہ انسانِ کامل کو “جانِ جہان” کہتے ہیں، یہ بات بے دلیل نہیں ہوسکتی، اس کی ضرور کوئی معقول وجہ ہوگی، شاید انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اس زمین یا کائنات کے دل و دماغ کا درجہ رکھتے ہیں، اور ان کے

۲۵

نور سے بقا و شعور کی لہریں جہان میں دوڑ رہی ہوں گی، جس طرح تمام انسانی اعضاء کو عقل و جان کا بھرپور فیض و فائدہ تو ملتا رہتا ہے، مگر عقل کا مرکز دماغ ہے اور حیات کا سرچشمہ دل۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

جمعرات ۲۹ شعبان المعظم ۱۴۱۷ھ

۹ جنوری ۱۹۹۷ء

۲۶

کلمۂ کن کے اسرارِ عظیم

 

اے دوستانِ عزیز! عنوانِ بالا کی بہت بڑی اہمیت و افادیت کی وجہ سے یہاں چند سوالات ضروری ہیں، سوالِ اوّل: لفظِ کُنۡ واقعی ہے یا عبارت؟ دوم: یہ خطابِ الٰہی عدمِ محض سے ہے یا عالمِ غیب کی کسی شیٔ سے؟ سوم؟ آیا یہ اللہ تعالیٰ کا قولی حکم ہے یا صرف ارادہ؟ چہارم: عالمِ شخصی میں اس کی معرفت ہوسکتی ہے یا نہیں؟ پنجم: کیا یہ کلمۂ تامّہ بھی ہے؟ ششم: کیا یہ ہمیشہ کا تجدّد ہے یا صرف ایک بار کا فرمانِ خداوندی ہے؟ ہفتم: اس امرِ عظیم کا اطلاق روح پر ہوتا ہے یا جسم پر یا دونوں پر؟ ہشتم: جسمانی، روحانی اور عقلانی تخلیق کے کس مرحلے میں حضرتِ آدمؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ کو کُنۡ فرمایا گیا تھا؟ نہم: کُنۡ (ہو جا) کا امرِ پاک تو عربی ہی ہے، کیا یہ کسی اور زبان میں بھی ہو سکتا ہے؟

 

۱۔ لفظِ کُنۡ ایک پُرازحکمت عبارت ہے ۲۔ اللہ کی بادشاہی ہر طرح سے کامل اور معمور ہے اس میں عدمِ محض کا کوئی تصوّر ہی نہیں، لہٰذا کُنۡ کا خطاب عالمِ غیب (عالمِ امر) کی کسی چیز کو ظہور دینے کے لئے ہے، بالفاظِ دیگر خزائنِ غیب سے کسی شیٔ کو نازل کرنے کے معنی میں ہے، آپ قرآنِ حکیم (۱۵: ۲۱) میں بغور دیکھیں، کیا تمام ممکن چیزیں پروردگارِ عالمین کے خزانوں میں موجود نہیں ہیں؟ ۳۔ امر خدا کا ارادہ بھی ہے اور قول بھی ۴۔ جب حضرتِ ربّ کی معرفت ہوسکتی ہے تو ظاہر ہے کہ کلمۂ کُنۡ کی معرفت بھی ہوسکتی ہے ۵۔ جی ہاں، یہ آخری کلمۂ تامّہ ہے ۶۔ یہ تجدّدِ قدیم ہے، جیسا کہ سورۂ رحمان (۵۵: ۲۹) میں ہے: ہر روز اس کی ایک نئی شان ہے ۷۔ کلمۂ باری کا اطلاق پہلے روح پر اور آخر میں عقل پر ہوتا ہے ۸۔ چیزیں دو دو ہیں، اس لئے یہ کہنا حقیقت ہے کہ نہ

۲۷

صرف حضرتِ آدمؑ اور حضرتِ عیسیٰؑ (۰۳: ۵۹) ہی کی بات ہے بلکہ ہر انسانِ کامل سے اس کا تعلق ہے کہ پہلے روحانی تخلیق کے لئے اور آخر میں جا کر عقلی پیدائش کے لئے فرمایا جاتا ہے: کُنۡ (ہو جا) تو وہ ہو جاتا ہے ۹۔ چونکہ ہر زبان آیاتِ قدرت میں سے ہے (۳۰: ۲۲) اس لئے جو بھی عارف ہوگا اور جیسی بھی اس کی مادری زبان ہوگی، اس میں کلمۂ کُنۡ کی ترجمانی (عبارت) ضرور ہوگی۔

 

قرآنِ حکیم میں حقائق و معارف سے متعلق بہت سے کلّیات (قوانین) ہیں، اور ہر کلّیہ لفظِ “کلّ” سے شروع ہوجاتا ہے، مثلاً سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۳) میں ہے: كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ = یعنی رات، دن، سورج اور چاند ہرایک، ایک ایک دائرے میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ یہ کلّیہ ہر چیز کے لئے مقرر ہے، پس آفرینش اور کلمۂ کُنۡ بھی ایک دائرے پر ہے، اسی معنیٰ میں یہ کہنا درست اور بجا ہے کہ حق تعالیٰ کے کُنۡ (ہو جا) فرمانے کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی کوئی انتہا، بلکہ یہ اُس ذاتِ قدیم کے ہمیشہ ہمیشہ کا فرمان ہے۔

 

تسخیرِ کائنات نہ صرف مادّی سائنس کا سب سے بڑا دلچسپ موضوع ہے، بلکہ اس کا خاص تعلق روحانی سائنس سے ہے، چنانچہ تسخیر سے متعلق جتنی قرآنی آیات ہیں، ان سب میں علم و حکمت والوں کے واسطے زبردست بشارتیں ہیں، اور ان خوشخبریوں میں یہ اشارہ ہے کہ ستاروں پر بہشت کی لطیف سلطنتیں ہیں، جن کی لازمی شرط خود شناسی اور خدا شناسی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کلمۂ کُنۡ کے عظیم اسرار کی لازوال دولت عطا فرمائے، کیونکہ امرِ کُنۡ ہی ہے، جس کے لئے شمس و قمر اور ستارے فرمانبرداری کرتے ہیں، جیسے سورۂ نحل (۱۶: ۱۳) میں ارشاد ہے: اسی نے تمہارے واسطے شب و روز اور شمس و قمر کو تابع بنا دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے امر سے (تمہارے) تابعدار ہیں، کچھ شک ہی نہیں کہ اس میں عقل والوں کے واسطے بہت سی نشانیاں ہیں۔ یعنی جب تک کنزِ معرفت حاصل نہ ہو جائے، تب تک نہ تو کلمۂ کُنۡ کے اسرارِ عظیم منکشف ہوجاتے ہیں اور نہ ہی تسخیرِ کائنات کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔

۲۸

اگر آفتاب، ماہتاب، اور ستارگان کے باطنی پہلو میں کوئی عقل و جان نہ ہوتی تو وہ امرِ کُنۡ کے لئے ہمیشہ کے تابعدار نہ ہوتے (۰۷: ۵۴، ۱۶: ۱۲) جیسا کہ اسی مضمون میں قبلاً تخلیقِ آدمؑ اور تخلیقِ عیسیٰؑ کے حوالے سے یہ ذکر ہو چکا کہ کلمۂ کُنۡ کا تعلق جسم سے نہیں بلکہ روح اور عقل ہی سے ہے (۰۳: ۵۹) پس کہنا یہ ہے کہ آیۂ فطرت (۳۰: ۳۰) کے مطابق کائنات باطناً انسانِ کبیر ہے، جس کی سب سے بڑی روشن دلیل: ” اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ ” ہے،(۲۴: ۳۵)  یعنی خدا کائنات کا نور ہے، ذاتِ سبحان کی یہ تجلّی نفسِ کلّی کے نام سے ہے، جس کے بہت سے اسماء میں سے چند یہ ہیں: روحِ اعظم، روح الارواح، عالمگیر روح، جانِ جہان، نفسِ واحدہ، کرسی وغیرہ۔

 

بیانِ بالا سے معلوم ہوا کہ کائنات میں دراصل کششِ ثقل کا کوئی وجود ہی نہیں، بلکہ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور اس کی عطا کردہ فطری ہدایت ہے، آپ قرآنِ حکیم کے پُرحکمت مضامین میں سے مضمونِ ہدایت کو خوب غور سے پڑھ کر بتائیں کہ آیا آسمان و زمین میں کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے جس کی حیثیت اور ضرورت کے مطابق ہدایت مہیا نہ کی گئی ہو؟ جب خدا خود یا اس کا کوئی عظیم نمائندہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے تو کیا اس پاک نور میں کائناتی اور عالمگیر ہدایت نہیں ہے؟ ضرور ہے، پس نظامِ کائنات نورِ ہدایت سے قائم و دائم ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۱۲ جنوری ۱۹۹۷ء

۲۹

 

آفتابِ عالمتاب = چراغِ روشن

 

قرآنِ حکیم نے آفتابِ عالمتاب کو چراغِ روشن کے لقب سے ملقب فرمایا ہے (۲۵: ۶۱، ۷۱: ۱۶، ۷۸: ۱۳) اگر ظاہراً دیکھا جائے تو گھر کا چراغ بمقابلۂ خورشیدِ انور ایک نہایت ہی چھوٹی سی چیز کے سوا کچھ بھی نہیں، جبکہ سورج اپنی بے پناہ جسامت و ضخامت کے ساتھ روشنی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے، اس کے طوفان خیز شعلوں کی شدت بیان سے باہر ہے، کائنات گیر روشنی، جہان سوز حرارت، اور بے قیاس ایٹمی طاقت کا تذکرہ کیوں کر ممکن ہوسکتا ہے؟ جب ان زبردست اوصاف کے باؤجود نیرِ اعظم کی تشبیہہ و تمثیل چراغ سے دی گئی ہے تو یقین کرنا ہوگا کہ اس حیران کن مثال میں کوئی بہت ہی بڑا راز پوشیدہ ہے، اور اگر فی الواقع وہ سرِعظیم منکشف ہو جاتا ہے تو ہم غریبان بڑی عاجزی اور شکر گزاری کے ساتھ اس کی کچھ وضاحت کرنے کے لئے سعی کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

خداوندِ قدوس کی توفیق و ہدایت کی امید کے ساتھ وضاحت کی جاتی ہے کہ آفتابِ جہان تاب کی مثال چراغِ خانہ سے دینے میں بہت سی حکمتیں ہوسکتی ہیں، لیکن یہ ناچیز بندہ بہت ہی محدود باتیں جانتا ہے:

 

۱۔ چراغ میں ایندھن (تیل) ڈالا جاتا ہے، اسی طرح سورج کے انتہائی عظیم چراغ میں بھی ایندھن (fuel) پڑتا رہتا ہے، وہ البتہ ایتھر (ether)  ہے، کوئی اور نام بھی ہوسکتا ہے، یاد رہے کہ اس کائنات میں کہیں ذرہ بھر خالی جگہ (خلا)  (space vacuum)  نہیں، کیونکہ کائنات سر تا سر لطیف مادّہ اور اجرامِ سماوی سے بھری ہوئی ہے۔

 

۲۔ چونکہ ظرفِ چراغ بہت ہی چھوٹا اور تنگ ہے اس لئے وقفہ وقفہ سے اس

۳۰

میں تیل ڈالتے ہیں، جبکہ دستِ قدرت سورج میں مسلسل برق رفتاری سے ایندھن ڈالتا رہتا ہے، اور اسی سرعت سے نورِ آفتاب کی لہریں اور کرنیں پھیلتی رہتی ہیں۔

 

۳۔ چراغِ خانہ میں ایک طرف سے شعلہ نکلتا ہے اور دوسری طرف سے تیل ڈالا جاتا ہے، مگر چراغِ کائنات ایسا نہیں، وہ تو اپنی گول شکل میں اندر سے اور باہر سے شعلہ ہی شعلہ ہے، لہٰذا اس کے گول ایٹمی شعلے کو چیرتے ہوئے ایندھن داخل ہو جاتا ہے، اس طرح کہ داخل ہو جانا اور خارج ہو جانا آگے پیچھے نہیں بلکہ ایک ساتھ ہے۔

 

۴۔ قرآن ہی نے فرمایا (۳۰: ۳۰) جس کا مفہوم یہ ہے کہ قانونِ فطرت کا بہترین نمونہ انسان خود ہے، اگر وہ اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے تو اپنے ربّ اور اس کی مخلوق (کائنات) کو پہچانتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم اس مثال سے اہلِ بصیرت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ چراغ کی پانچ مثالوں میں بجا طور پر غور و فکر کریں، پہلی مثال اللہ کے نور سے متعلق ہے (۲۴: ۳۵) دوسری مثال نورِ رسول کے بارے میں ہے (۳۳: ۴۶) تیسری مثال چراغِ کائنات کی ہے، چوتھی مثال چراغِ خانہ کی ہے، اور پانچویں مثال ہے چراغِ حیات (دل = قلب) کی۔

 

۵۔ جس طرح انسانی زندگی کا سرچشمہ اور مرکز دل ہے، اسی طرح نظامِ شمسی کا مرکز اور سینٹر سورج ہے، اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل صحیح اور درست ہے کہ چراغِ حیات (قلبِ انسانی) کی اصل معرفت سے چراغِ کائنات (سورج) کی شناخت میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے، جی ہاں، ایک مثال کے مطابق یہ دو چراغ ہیں، اور دوسری مثال میں یہ دو دل ہیں، جب یہ دل ہیں تو دونوں کا کام ہے ہمیشہ دھڑکنا، کائناتی دل (آفتاب) کی دھڑکنیں انتہائی زور دار اور مسلسل ایٹمی دھماکوں کی صورت میں جاری ہیں، کیونکہ اس عالم کی بقا کے لئے ایسی ہی زبردست طاقتور دھڑکنوں کی ضرورت ہے، مگر انسانی قلب کی دھڑکن جسمانی ضرورت کے مطابق بہت ہی نرم، آہستہ اور مختصر وقفوں کے ساتھ چلتی ہے۔

 

۶۔ حرکتِ قلب کی بدولت انسان کے بدن میں خون کی گردش کا نظام قائم ہے،

۳۱

جس سے زندگی کے سارے فوائد وابستہ ہیں، اسی طرح سورج ہی ہے جو نظامِ شمسی کے دل کی حیثیت سے کام کر رہا ہے، جس کی وجہ سے دورانِ خون کی طرح مادّۂ کائنات گردش کر رہا ہے، مادّہ یا ایتھر کی گردش کا یہ دائرہ سورج اور کائناتی ایتھر کے مابین ہے، یہ سرکل (circle) بڑا عجیب و غریب ہے کہ اس پر ایک اعتبار سے سورج گھوم رہا ہے اور دوسرے لحاظ سے ایتھر، جیسے سمندر اپنے مرکز پر ٹھہرا ہوا بھی ہے اور اپنے دائرے میں گردش بھی کر رہا ہے، اسی طرح دل اپنے مقام پر ساکن بھی ہے اور خون، حرارت، اور انرجی (energy)  کی شکل میں گردش بھی کر رہا ہے۔

 

۷۔ سورج میں قدرتِ خدا کے جو عظیم اسرار پنہان ہیں، ان کو دنیا کا کوئی فلاسفر یا سائنسدان نہیں جانتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات و موجودات کے خاص خاص بھیدوں کا خزانہ قرآنی حکمت میں پوشیدہ ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کی وہ بے مثال کتاب ہے، جس میں ہر چیز کا بیان آیا ہے (۱۶: ۸۹) اس سے روحانی سائنس کی عظمت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۱۴ جنوری ۱۹۹۷ء

۳۲

قانونِ قبض و بسط

 

اے عزیزانِ من! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ خدائے بزرگ و برتر کے بابرکت ناموں میں “القابض، الباسط” بھی ہیں، ان کے معنی ہیں: ۱۔ قانونِ قبض و بسط کا مالک ۲۔ واللہ یقبض و یبصط (۰۲: ۲۴۵) اور خدا (کائنات کو لپیٹ کر اپنی) مٹھی میں بھی لیتا ہے اور اسے پھیلاتا بھی ہے۔ ذیلی معانی اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں، لیکن حقیقتِ عالیہ اور حکمتِ بالغہ اس امر کی مقتضی ہے کہ اعلیٰ معنوں کے لئے سعیٔ بلیغ کی جائے، تاکہ حلِ مسائل کے ساتھ ساتھ اہلِ زمانہ پر قرآنِ حکیم کی عظمت و بزرگی بھی روشن ہو جائے۔

 

۱۔ یہ تو آپ مانتے ہیں کہ نہ صرف ذاتِ خدا ہی قدیم ہے بلکہ اس کی تمام صفات بھی قدیم ہیں، اللہ کے قدیم ہونے کے معنی ہیں کہ وہ بادشاہِ ازل ہے، یعنی وہ ہمیشہ ہمیشہ ہے، وہ حادث نہیں کہ پہلے نہ ہو اور پھر وجود میں آئے، اس کی ہر صفت قدیم ہے بغیر اس کے کہ مخلوق قدیم ہو، کیونکہ مخلوق ہونے اور نہ ہونے کے تجدّد سے گزرتی رہتی ہے۔

 

۲۔ حسبِ وعدۂ قرآن اہلِ بصیرت خدا کی آیات (معجزات: ۲۷: ۹۳، ۴۱: ۵۳، ۵۱: ۲۰) کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں فرمایا گیا کہ بس چند ہی معجزات پر اکتفا کیا جائے گا، اگر اللہ کی رحمت شاملِ حال ہوئی اور عبادت و ریاضت کا ثمرہ ملنے لگا تو آپ تمام ضروری معجزات کا مشاہدہ کریں گے، جن کا تعلق علم و حکمت اور اسرارِ کائنات سے ہے، ان تمام معنوں کو معرفت کہتے ہیں، اور دراصل معرفت کو جملہ معنوں پر فوقیت دی گئی ہے، کیونکہ یہ فنا فی اللہ  کے بعد مکمل ہو جاتی ہے۔

۳۳

۳۔ یہ آیۂ قدرت سب لوگوں کے سامنے ہی ہے کہ خداوند تعالیٰ گٹھلی (بیج) سے درخت کو پیدا کرکے جڑوں اور شاخوں کی صورت میں پھیلاتا ہے اور پھر اسی گٹھلی میں شجر کو بصورتِ جوہر لپیٹ لیتا ہے، اگر ذرا غور سے دیکھا جائے تو حیوان اور انسان کے لئے بھی یہی قانونِ فطرت مقرر ہے، تو کیا تخلیقِ کائنات کا قانون اس سے بالکل مختلف ہوسکتا ہے؟ آپ اس قرآنی مثال میں سوچیں: کائنات وہ بے مثال اور بابرکت زیتون کا درخت ہے جو نہ مشرق کا ہے اور نہ مغرب کا (۲۴: ۳۵) جس کو اللہ پاک ہمیشہ (یعنی ابتداء و انتہا کے بغیر) تخمِ خورشید سے پیدا کرکے پھیلاتا اور خورشید ہی میں بار بار لپیٹتا رہتا ہے، قبض و بسط کی سب سے بڑی مثال یہی ہے، یہی عمل خود دائرۂ لا ابتداء و لا انتہا بھی ہے، اور تجدّدِ امثال بھی۔

 

۴۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی نیک بخت مومن قبل از جسمانی موت نفسانی موت کا مکمل تجربہ حاصل کرتا ہے تو وہ ان اسرارِ قیامت کا مشاہدہ کر سکتا ہے، جن کا ذکر قرآنِ عزیز میں موجود ہے، جیسے القابض اور الباسط کے معنی میں خدا کا کائنات کے باطن کو لپیٹنا اور پھیلانا، اور متواتر ایسا کرنا، یہ معجزہ اس لئے ہے تاکہ عارف یقین کرے کہ کائنات از خود پیدا نہیں ہوئی، بلکہ خدا ہی اس کو ہمیشہ پیدا کرتا رہتا ہے، اور سنبھال رہا ہے۔

 

۵۔ اس دنیا میں جو لوگ وجودِ باری تعالیٰ کے قائل ہیں، ان کو اس حقیقت میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ خدا حقیقی بادشاہ ہے، جیسے قرآنِ عظیم کی متعدد آیاتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور آپ دنیوی دستورِ بادشاہت کو ضرور جانتے ہیں کہ جو شخص صاحبِ تخت و تاج ہوتا ہے، وہ فرمان روا اور حاکم ہوتا ہے، لہٰذا وہ اکثر امورِ سلطنت کی انجام دہی کے لئے دوسروں کو حکم دیتا ہے، اور خود بہت سی چیزوں سے بالاتر رہتا ہے، یہ مثال عبث اور فضول ہرگز نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظیم بادشاہی کے قانون کو سمجھنے کے لئے ہے۔

 

۶۔ خدا کی بادشاہی کو ہر شخص اپنی علمیت کے مطابق دیکھتا ہے، اور عارفین اسے

۳۴

نورِ معرفت کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے:

 

الف۔ قلمِ اعلیٰ اور لوحِ محفوظ سے مراد عقلِ کلّ اور نفسِ کلّ ہیں جو ہماری کائنات کی عقل اور جان ہیں، اس معنیٰ میں کائنات انسانِ کبیر ہے، جبکہ آدمی انسانِ صغیر ہے۔ ب۔ جب پوری کائنات اپنے اجزاء سمیت ایک آدمی کی طرح زندہ اور باشعور ہے تو مادّی سائنس کے وہ نظریات جو وجودِ کائنات سے متعلق ہیں درست نظر نہیں آتے ہیں، کیونکہ ان میں خالق اور مخلوق کا تصوّر نہیں ہے۔ ج۔ اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ آدمی کا دل آئینۂ حق نما بھی ہے اور حقائق نما بھی، اس لئے وہ اپنی ذات میں آیاتِ قدرت کا مشاہدہ کر سکتا ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم (۲۷: ۹۳، ۴۱: ۵۳، ۵۱: ۲۰) میں ہے۔ د۔ یہ بھی معرفت ہی کی دلیل ہے کہ ظاہری سائنسدان نے روح کو نہیں دیکھا، جب وہ ذرۂ روح کو دیکھے گا تو اس کے نظریات میں انقلاب آئے گا۔

 

۷۔ اہلِ دانش کو اس حقیقت میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ ربِّ جلیل کے ہر اسمِ صفت کا مضمون تمام قرآن میں پھیلا ہوا ہے، چنانچہ القابض اور الباسط کے عالم گیر معنی کو قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت  ہے، تا کہ روحانی سائنس کا حق ادا ہو سکے، ہاں، عملی روحانیّت میں داخل ہو جانا ہر شخص کے بس کی بات تو نہیں، پھر بھی علم الیقین کا سہارا بہت بڑی چیز ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۱۶ جنوری ۱۹۹۷ء

۳۵

 

اللہ تعالیٰ کے مبارک اسماء

 

جاننا چاہئے کہ خداوندِ قدوس کا ہر اسمِ صفت کسی ایسے خاص کام کے معنی میں ہوتا ہے جو صرف خدا ہی کر سکتا ہے اور اسی کے اختیار میں ہوتا ہے، جیسے: الخالق (پیدا کرنے والا) اسمائے الٰہی میں بڑے بڑے اصولی اور کلیدی اسرار پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، مثال کے طور پر خالق کے معنی میں غور کرتے ہیں: آیا یہ خیال درست ہے کہ خدا نے پہلے کچھ پیدا نہیں کیا تھا، پھر اس نے ارض و سماء کو پیدا کیا، اور اب وہ تخلیقِ کائنات سے فارغ ہے؟ یہ خیال یا مفروضہ ممکن اور درست نہیں، کیونکہ اللہ کی ہر صفت قدیم ہے، حادث نہیں، اس کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں (۳۳: ۶۲، ۴۰: ۸۵)۔

 

۱۔ ہمیں آیۂ قانونِ فطرت (۳۰: ۳۰) میں خوب غور کرکے یہ سمجھنا ہوگا، کہ عالمِ کبیر (کائنات) اور عالمِ صغیر (انسان) کی فطرت و آفرینش کے لئے ایک ہی قانون مقرر ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں میں تخلیق در تخلیق یا تجدّدِ امثال کا سلسلہ ابتداء و انتہاء کے بغیر جاری ہے، دونوں کا نام مذکورہ آیت میں خلق اللہ ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہیں (لا تبدیل لخلق اللہ، ۳۰: ۳۰)۔

 

۲۔ “خلق اللہ” دائرۂ اعظم کا نام ہے جس پر سب کچھ اور سارے احوال ہیں، جن سے انسان ہمیشہ ہمیشہ گزرتا رہتا ہے، اور یہ اس کی لاانتہا ترقی کا دائرہ ہے، یا یوں کہا جائے کہ یہ ترقی سے بھی بہت بڑی چیز ہے، کیونکہ ترقی اور ارتقاء کے لفظی معنی ہیں: پہاڑ پر چڑھنا، سیڑھی کے ڈنڈوں پر چڑھنا، اس میں یہ محدود تصوّر ہے کہ انسان کسی پستی میں گرفتار ہے، لہٰذا اسے وہاں سے نکل بھاگنا ہے، یہ کوئی خاص بات نہیں، بلکہ خاص بات

۳۶

تو یہ ہے کہ بندۂ مومن کے لئے ہر روز ایک نئی شان ہے۔

 

۳۔ سورۂ رحمان میں ارشاد ہے: كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (۵۵: ۲۹) یعنی خدا ہر روز (مخلوق کی نسبت سے) ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔ سورج کے اندر اور اردگرد نہ بادل ہے، نہ بارش، نہ موسموں کی تبدیلی، نہ شب و روز کا ادل بدل، نہ کوئی پہاڑ اور جنگل، نہ چشمہ، نہ کوئی ندی اور نہر، نہ دریا، نہ باغ و گلشن، نہ چرند و پرند اور آدمی، مگرسورج کے فیوض و برکات سے جوکچھ ہوتا ہے وہ سب زمین ہی پرموجود ہے، اس سے یہ شاندار حقیقت نکھر کر سامنے آگئی کہ صفاتِ الٰہیہ کا مظہر انسان، علی الخصوص انسانِ کامل ہی ہے۔

 

۴۔ اللہ جل جلالہ کی صفتِ خالقیت اور صفتِ علم کے بارے میں ہے: الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ (۱۵: ۸۶، ۳۶: ۸۱) یعنی پیدا کرنے والا (اور) جاننے والا۔ یہاں دوسرا اسم (علیم) تفسیر کے طور پر آیا ہے، جس میں یہ اشارہ ہے کہ اگرچہ تخلیق کے بہت سے درجات ہیں، لیکن آخری درجہ وہ ہے، جس میں نورِ علم کے ذریعے سے عقلی تخلیق ہوتی ہے اور یہ روحانیّت کا سب سے اعلیٰ مقام ہے۔

 

۵۔ اسمائے الٰہی کے مضمون میں آدمِ دور کا ذکر بھی ضروری ہے، کیونکہ ربِّ کریم نے آدم خلیفۃ اللہ کو اسمائے صفات کے نور کی روشنی میں حقائقِ اشیاء کی تعلیم دی تھی، چونکہ کائنات (آسمان زمین) اشیاء کا مجموعہ ہے، اس لئے حقائقِ اشیاء سے علم الکائنات مراد ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ آدمؑ کو خزائنِ اسماء سے کائناتی علم سکھایا تھا۔

 

۶۔ آدم خلیفۂ خدا کی ہستی میں گرتے ہوئے سب سے پہلے جن فرشتوں نے سجدہ کیا، وہ مادّۂ لطیف اور روح پر مبنی ذرات تھے، ان کے بہت سے ناموں میں سے چند یہ ہیں، ذرّات، ذرّیت، ارواح، ملائکہ، یاجوج و ماجوج، جنود، ثمرات، طوفان، طیر (واحد و جمع) حجارۃ، نجوم، جبال، وغیرہ، ذرّاتِ لطیف کے بہت سے نام اس لئے ہیں کہ وہ بہت سی مثالوں میں کام کرتے ہیں، اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ حضرتِ آدمؑ کے

۳۷

علم الاسماء کی کیا شان تھی، وہ صرف الفاظ ہی میں نہ تھا، بلکہ اس کے ساتھ بے مثال عملی نمونے بھی تھے۔

 

۷۔ حضرت آدم علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں روحانی علم کے سارے ذرائع مہیا تھے، جیسے عالمِ ذرّ، جس کا اوپر ذکر ہوا، روحانی قیامت، نورانی موویز(movies) مشاہداتِ عین الیقین، وحی، الہام، تجلّیات، تمثیلات، اور آگے چل کر حظیرۃ القدس میں بہت کچھ بلکہ سب کچھ تھا، اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے خلیفہ کو بدرجۂ انتہا علم کی دولت سے نوازا۔

 

۸۔ چونکہ یہ کتاب روحانی سائنس سے متعلق ہے، لہٰذا کسی جھجک کے بغیر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں قصّۂ آدم آیا ہے، وہاں درحقیقت بے شمار آدموں کا نمائندہ قصّہ ہے، جیسے “انسان” اگرچہ اسمِ واحد ہے، لیکن یہ قرآنِ پاک میں تمام انسانوں کی نمائندگی کر رہا ہے، آیۂ استخلاف (۲۴: ۵۵) میں خوب غور سے دیکھئے کہ اس میں بے حساب خلیفوں کا اشارہ موجود ہے، کیوں نہ ہو جب کہ ہر ستارے پر بہت سے خلفاء کی گنجائش ہے، اور ستارے اس کثرت سے ہیں کہ ان کا شمار بے حد مشکل ہے۔

 

۹۔ تصوّرِ آفرینش کا تذکرہ بار بار ہونا چاہئے کہ وہ ایک دائمی دائرہ ہے جس کا کوئی سرا ہی نہیں، جب بہشت اور اس کی نعمتیں ہمیشہ ہیں، جب بہشت کی مخلوق ہمیشہ ہے تو کائنات بھی ہمیشہ ہے، کیونکہ بہشت کا قیام کائنات پر ہے، اور یہ تمام باتیں قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں ہیں (دائم: ۱۳: ۳۵، مخلدون: ۵۶: ۱۷، دامت: ۱۱: ۱۰۸)۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ۸ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۱۸ جنوری ۱۹۹۷ء

۳۸

قانونِ خلود

 

انسانی روح کی مثال پانی ہے، پانی کا مرکز اور کل سمندر ہے، روح کا مرکز اور کل عالم گیر روح (نفسِ کلّی) ہے، جس طرح پانی کے اجزاء بہت سے مقامات پر ہیں، اسی طرح روح کے بہت سے ظہورات ہیں، اگر پانی کا دائرہ ہے تو روح کا بھی دائرہ ہے، پس آپ کی روح ہمیشہ کی بہشت میں بھی ہے، آپ اس تمام مضمون میں غور کریں:

 

۱۔ ہم نفسِ کلّ کے اجزاء میں سے ہیں، اس لئے ہماری موجودہ زندگی کلّی نہیں بلکہ جزوی ہے، ہماری اصل زندگی جو ازلی اور ابدی ہے وہ نفسِ کلّ میں ہے، جو بہشتِ دائم (۱۳: ۳۵) کی زندگی ہے، پس یقین کرنا ہوگا کہ جب قطرہ سمندر سے جا ملے تو کہے گا کہ میں ہمیشہ سمندر رہا ہوں، قطرے کے سامنے حجاب تھا، اب حجاب اٹھایا گیا۔

 

۲۔ بہشت میں ایسے نہایت حسین و جمیل لڑکے ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ لڑکے ہی رہتے ہیں (۵۶: ۱۷، ۷۶: ۱۹) خوب غور کریں کہ یہ لڑکے کہاں سے آتے ہوں گے؟ اگر یہ انسان زاد ہیں تو لازماً ان کی جائے پیدائش دنیا ہی ہوگی، اور فطرت کے اٹل قانون (۳۰: ۳۰) کے مطابق ماں باپ کے مخلوط نطفے سے پیدا ہوئے ہوں گے (نطفۃ امشاج ، ۷۶: ۰۲) یقیناً یہی حقیقت ہے، مگر اس میں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ بہشت زمان و مکان سے بالاتر ہے، لہٰذا جو حضرات و خواتین بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں، وہ خود کو ازلی و ابدی جوان پاتے ہیں، یہ قانونِ خلود کی تشریح ہے (الخلود، ۵۰: ۳۴)۔

 

۳۔ کائنات بھر کی باطنی اور روحانی جنت پرہیزگاروں کے لئے پہلے ہی سے تیار کی گئی ہے (اعدت، ۰۳: ۱۳۳) آخرت کا گھر زندگی سے بھرپور ہے (الحیوان، ۲۹: ۶۴)

۳۹

چنانچہ وہاں کی ہر چیز عقل و جان کی تمام تر خوبیوں سے آراستہ ہے، پس لباسِ بہشت روحِ قدسی اور عقلِ کامل کے ساتھ ایک نورانی شخصیت ہے، جو زمان و مکان سے بالاتر ہونے کی وجہ سے ازلی و ابدی ہے، پس کسی روح کا ایسی شخصیّت میں داخل ہو جانا خلود (بہشت میں ہمیشہ رہنا) ہے۔

۴۔ حضرتِ علی علیہ السّلام کہتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جنت میں ایک بازار ہوگا جس میں خرید و فروخت نہیں ہوگی، ہاں اس میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں ہوں گی جو جسے پسند کرے گا اسی کی طرح ہو جائے گا (جامعِ ترمذی، جلدِ دوم، جنت کے بازار)۔

 

۵۔ بہشت کی کوئی چیز عقل و روح کے بغیر نہیں، لہٰذا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بازارِ جنت کی مذکورہ تصویریں نہ تو کاغذی ہو سکتی ہیں، اور نہ ہی بے جان فلمی، بلکہ وہ ایسی تصویریں ہیں، جو عقل و جان کے اوصاف سے آراستہ ہوتی ہیں، الغرض وہ باکمال، پسندیدہ اور کامیاب اٍنسانوں کی لطیف ہستی کی کاپیاں ہیں، جو تجلّیاتِ جنت اور جامہ ہائے بہشت کے طور پر ہیں، بہشت کوئی عام خواب و خیال نہیں، افسانہ نہیں، جادو نہیں، بلکہ معجزۂ خداوندی اور حقیقت ہے اور کوئی ایسی نعمت نہیں جو انسانوں کی امکانی خواہش میں ہو، مگر بہشت میں فعلاً موجود نہ ہو۔

 

۶۔ روح کا اصل سرچشمہ ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں ہے، وہ یہاں آبِ نہر کی طرح آئی ہے، دوسری مثال میں ایسی رسی کی طرح آئی ہے جس کا بالائی سرا بہشت میں ہے، اور تیسری مثال بقولِ مولای رومی: ہم آئے نہیں ہیں، یہ ہمارا سایہ ہے۔

 

روح کی یہ تینوں مثالیں قرآنِ عزیز ہی کی روشنی میں ہیں، جیسے ارشاد ہے کہ: متقین بہشت کے باغوں اور چشموں میں ہیں (۱۵: ۴۵، ۴۴: ۵۲، ۵۱: ۱۵) یعنی پرہیزگار لوگوں کی بہشتی ہستی عقلِ کلّ، نفسِ کلّ وغیرہ کے چشموں میں ہے، جن کی نہریں اس دنیا تک پہنچی ہوئی ہیں، اسی طرح اللہ کی رسی کی مثال ہے (۰۳: ۱۰۳) اور سایہ کے بارے میں ارشاد ہے: اور خدا ہی نے تمہارے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے (۱۶: ۸۱) یہ

۴۰

ایسے سایوں کی بات نہیں جن سے جانور بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، بلکہ یہ ان سایوں کا ذکر ہے جو خاص اور اعلیٰ ہیں، وہ بہشت کی عظیم ہستیوں کے سائے ہیں۔

 

۷۔ روح کا اصل سرچشمہ آفتاب کی طرح ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں ہے، جس کی مسلسل کرنیں انسان کے باطن پر برستی رہتی ہے، اسی غیر مرئی نورانی بارش کے سلسلے کا نام روح اور حیات ہے، آپ اگر صحیح معنوں میں کوشش کریں تو آئینۂ دل میں خورشیدِ روح کو دیکھ سکتے ہیں، واللہ یہ امر کیوں کر ناممکن ہوسکتا ہے؟ اسی مقصد کے لئے اسلام میں سب کچھ ہے۔

 

۸۔ اے عزیزانِ من! آپ “قانونِ خلود” کو بھول نہ جائیں، یہ قرآنی قوانین میں سے ہے، لہٰذا اس میں بہت سی علمی برکتیں ہیں، جب آپ ان مضامین کو غور سے بار بار پڑھیں گے تو ان شاء اللہ حقیقت روشن ہو جائے گی، یاد رہے کہ عالمِ ظاہر کا زمانہ گزرتا جاتا ہے، لیکن عالمِ باطن (بہشت) کا زمانہ ساکن (ٹھہرا ہوا) ہے، آپ کا سرچشمۂ روح بہشت کا بادشاہ ہے، آپ کسی مقصدِ عالی کی خاطر بطورِ نوکر یہاں آئے ہیں، اگر امتحان میں کامیابی نصیب ہوئی تو آپ بہشت میں واپس اس طرح ہو جائیں گے کہ آپ کی جنت کا وقت کچھ بھی صرف نہ ہوا ہوگا، کیونکہ وہ تو ٹھہرا ہوا زمانہ ہے، اس معنیٰ میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آپ ہمیشہ ہمیشہ بہشت میں رہتے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۲۰ جنوری ۱۹۹۷ء

۴۱

روحانی سائنس کا ایک اعلیٰ نمونہ

 

روحانی سائنس کی بہترین مثالیں مطلوب ہوں تو یہ حضراتِ انبیاء و اولیاءعلیہم السّلام کی ذواتِ قدسیہ سے مل سکتی ہیں، آپ جان و دل اور صدق و یقین سے قرآن میں دیکھیں، یہاں یہ ایک بنیادی سوال ضروری ہے کہ خاصانِ الٰہی کیوں بار بار آنسو بہایا کرتے ہیں؟ یہ ان کی شدید گریہ و زاری کسی بڑی مصیبت کی وجہ سے ہے یا یہ سب کچھ بہانۂ عشق ہے؟ کیا اس عملِ پُرحکمت سے کسی درویش کے باطن میں انقلاب آسکتا ہے؟ آیا یہ چیز خود روحانی سائنس کی بنیاد نہیں ہے؟ جواباً کہنا چاہئے کہ یہی شیٔ بنیاد ہے۔

 

۱۔ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کسی بھی بہانے سے عشقِ سماوی کی گریہ و زاری اور مناجات کرتے رہتے تھے، قرآنِ حکیم کا ہر قصّہ اور ہر آیت اشارۂ حکمت کے بغیر نہیں ہے، چنانچہ قرآنِ مجید (۲۱: ۷۹ تا ۸۰) میں یہ ذکر ہے کہ خدا کے حکم سے تمام پہاڑ اور پرندے حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے تابع ہوکر آپ کے ساتھ تسبیح خوانی کرتے تھے۔ اس باب میں قانونِ فطرت بڑے وثوق کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ یہ عالمِ ذر کی تسخیر کا تذکرہ ہے، یہاں بطریقِ حکمت پہاڑوں اور پرندوں کا ذکر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ پہاڑ جمادات اور بناتات کا نمائندہ ہے اور پرندہ تمام حیوانی اور انسانی روحوں کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ روحیں پرواز کرتی ہیں، پس قرآنِ پاک کی برکت سے آپ پر یہ عظیم راز منکشف ہوگیا کہ تسخیرِ کائنات کا مرحلۂ اوّل عالمِ ذرّ ہے جو عالمِ شخصی میں داخل ہوتا  ہے اور مرحلۂ دوم حظیرۃ القدس۔

 

۲۔ پہاڑ اور دیگر جمادات میں اگر روح نہ ہوتی تو یہ عالمِ ذرّ میں شامل ہوکر حضرتِ

۴۲

داؤد علیہ السّلام میں نہ آتی، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز کی نماز، تسبیح اور سجدہ اللہ کے لئے عالمِ شخصی میں ہے (۲۴: ۴۱، ۱۷: ۴۴، ۲۲: ۱۸) یہ رازِ سربستہ بھی خوب یاد رہے کہ اَنْطَقَ كُلَّ شَیْءٍ (خدا نے ہر چیز کو گویا کر دیا ہے، ۴۱: ۲۱) کا زبردست معجزہ عالمِ شخصی ہی میں رونما ہوتا ہے۔

 

۳۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرتِ کاملہ اور عنایت تھی کہ حضرتِ داؤد علیہ السّلام کے کارخانۂ روحانیّت میں عجیب و غریب قسم کی زندہ معجزاتی زرہیں بنتی تھیں، اور اس میں اہلِ معرفت کو کوئی شک ہی نہیں کہ یہ معجزہ ہر نبی اور ہر ولی کے لئے خاص ہوتا ہے، اس زندہ زرہ (لبوس = پوشش، ۲۱: ۸۰) کے بہت سے نام ہیں: جثۂ ابداعیہ، جسمِ لطیف، محراب، قرطۂ ابداعیہ، قمیصِ یوسف (۱۲: ۹۳)، ریش (۰۷: ۲۶)، سرابیل (۱۶: ۸۱) دفءٌ (۱۶: ۰۵)  جسمِ مثالی، جسمِ فلکی، کوکبی بدن

(astral body)

جامۂ جنت وغیرہ۔

 

۴۔ لوگوں نے جس مخلوقِ لطیف کو اڑن طشتری کا نام دیا ہے وہ حقیقت میں طشتری یعنی تھالی کیوں کر ہوسکتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی بے جان اور بے حس تھالی کو سچ مچ اڑتے ہوئے دیکھا ہے؟ مجھے یقین نہیں کہ آپ نے یا کسی اور نے ایسی چیز دیکھی ہے، پھر یہ ماننا ہی پڑے گا کہ یہ ایک لطیف مخلوق ہے، جس کا ظہور عصرِ حاضر میں ہوا ہے، ہر چند کہ یہ زمانۂ آدم ہی سے ہے، ہاں یہی ہے جسمِ لطیف، جس کے بہت سے نام بتائے گئے۔

 

۵۔ سورۂ یوسف کے اس ارشاد کو دیکھ لیں: اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کی قدرت کی) کتنی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ گزرا کرتے ہیں اور ان سے منہ پھیرتے رہتے ہیں (۱۲: ۱۰۵) یعنی قرآنِ پاک کو اس بات پر اعتراض ہے کہ یہ لوگ آسمان اور زمین کی چیزوں میں خدا کی قدرت اور حکمت کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے ہیں؟ قرآنِ حکیم میں ایسی آیاتِ کریمہ بہت ہیں، جو آیاتِ قدرت میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں۔

 

۶۔ قرآنِ عظیم کی ہر مثال مغزِ معنی سے بھرپور اور حکمتِ بالغہ سے مملو ہے، چنانچہ سورۂ قارعہ (۱۰۱: ۰۴) میں ہے: یَوْمَ یَكُوْنُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ۔ جس

۴۳

روز لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ یہ نمائندہ قیامت کا ذکر ہے جس میں لوگ کثیف سے لطیف ہو جائیں گے یعنی ذراتِ لطیف اور اجسامِ لطیف میں، جیسے خاص کیڑوں سے پروانے ہو جاتے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت چشمِ بصیرت کے سامنے روشن ہوگئی کہ آدم اور ان کے ساتھی جب بہشت میں تھے تو اس وقت وہ جسمِ لطیف میں پرواز کرتے رہتے تھے، لیکن وہ سب جب دنیا میں آئے تو لطافت اُن سے اٹھالی گئی، تاہم کائناتی بہشت جسمِ لطیف کے سوا ممکن نہیں۔

۷۔ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۸) میں یہ سرِ عظیم پوشیدہ ہے کہ جب خداوندِ عزّ و جلّ کسی مومنِ سالک کی روحانی تخلیق و تکمیل نفسِ واحدہ کے نمونے پر کرنا چاہتا ہے تو اس کی ذاتی اور نمائندہ قیامت برپا کرکے ساری کائنات کو اس کے عالمِ شخصی میں لپیٹ دیتا ہے، پھر اس کی ہزاروں زندہ اور عاقل کاپیاں بناتا ہے اور یہ جسمِ لطیف کی حقیقت ہے۔

 

۸۔ خدائے واحد کا کلامِ حکمت نظام قرآنِ حکیم کے نام سے ہے، جس کے ایک ہونے میں کوئی شک ہی نہیں، اور یہ حقیقت بھی سب کے سامنے روشن ہے کہ آج اس کی بے شمار کاپیاں دنیا میں موجود ہیں تاکہ جو شخص چاہے اس کے پاس وہی قرآنِ پاک حاضر ہو، اسی طرح ہر اعلیٰ روح کی کاپیاں ہوا کرتی ہیں، اور یہ اس روح کے نیک اعمال کا بیرون از شمار ثواب ہے، تاکہ بہت سے لوگوں کو انسانِ کامل کی کاپی ہونے کی سعادت حاصل ہو۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۲۱ جنوری ۱۹۹۷ء

۴۴

قانونِ خزائن

 

قرآنِ حکیم گویا علم و حکمت کی یکتا اور بے مثال کائنات ہے، اس کے عظیم پہاڑوں میں انمول جواہر اور عمیق سمندروں میں بے بہا موتی پنہان ہیں، جن کے حصول کے لئے سعیٔ بلیغ، فکرِ جدید، مناسب اجتہاد اور کماحقہ استنباط کی ضرورت ہے، چنانچہ “روحانی سائنس” کی اصطلاح افکارِ جدید میں سے ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ عالم اس کی پُرحکمت کتاب (قرآن) میں بجا طور پر غور و فکر کرتے رہیں، اس لئے کہ قرآنِ عظیم تمام زمانوں پر محیط ہونے کے انداز پر نازل ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی ہدایت و حکمت تہ بہ تہ پائی جاتی ہے تاکہ ہر زمانے کے علماء اس میں غور و فکر کریں، اور انقلاباتِ زمانہ سے جو جو نئے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان کا حل نکالیں۔

 

۱۔ قانونِ خزائن بے حد مفید اصطلاح ہے، اس سے روحانی سائنس کے تصوّر کو سمجھنے میں بیش از بیش مدد مل سکتی ہے، کیونکہ متعلقہ آیۂ کریمہ سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اشیائے ممکنہ سب کی سب اللہ تبارک و تعالیٰ کے خزانوں میں ہیں، اور اس ارشاد میں جہاں لفظِ عندنا (ہمارے پاس) فرمایا گیا ہے، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ خدا کے خزانے اصلاً حظیرۃ القدس میں ہیں، جو باطنی، روحانی، عقلی، اور امری ہیں، جہاں تک مادّی اشیاء نہیں جا سکتے ہیں، مگر ہر چیز کی حقیقتِ مجرّدہ وہاں موجود ہے، چنانچہ اس آیۂ مبارکہ کا ایک مستند ترجمہ یہ ہے:

 

کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں (۱۵: ۲۱) بقدر معلوم = معلومات کی

۴۵

مقدار کے مطابق۔ یہ بھی ہو سکتا ہے۔

 

۲۔ آیۂ خزائن کی بعض حکمتیں: (الف) خداوندِ تعالیٰ القابض بھی ہے اور الباسط بھی، اس لئے وہ کائنات (کے جوہر اور معنوں) کو حظیرۃ القدس کے خزانوں میں لپیٹتا ہے، اور پھر اسے پھیلاتا ہے، وہ ہمیشہ ایسا کرتا رہتا ہے، اور حظیرۃ القدس انسانِ کامل کی پیشانی میں ہے، اسی پھیلانے میں کسی چیز کے نزول کا امکان بھی ہے۔ (ب) یہاں خدا کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی اور کنٹرول (ملکوت، ۳۶: ۸۳) ہونے کی صراحت ہوئی۔ (ج) آپ کے پاس اصلی اور حقیقی معلومات کی جو بھی مقدار ہوگی اور آپ کی جیسی بھی علمی بلندی ہوگی اسی کے مطابق قانونِ خزائن سے فائدہ ملتا رہے گا۔ (د) اس سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوگئی کہ کوئی ایسی علمی چیز ہے نہیں جو خدا کے خزانوں میں موجود نہ ہو اور وہ کبھی آپ کو عطا نہ ہو جائے۔

 

۳۔ سورۂ رعد (۱۳) کی آیت ۳۹ میں ایک بڑی زبردست حکمت مخفی ہے جو حلِ مسائل کے لئے بے مثال، بے حد حیران کن اور بیش از بیش ثمر بخش ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب (لوحِ محفوظ = حظیرۃ القدس) ہے (۱۳: ۳۹) اس ارشادِ مبارک کے دوسرے مطالب بھی اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں، لیکن یہاں اس کی کائناتی حکمت کی وضاحت ضروری ہے، وہ یہ کہ خداوندِ تعالیٰ ایک زمانے کے بعد کسی ستارے کو مٹاتا ہے اور ایک زمانے کے لئے کسی ستارے کو باقی رکھتا ہے، کیونکہ ان خزائن میں جو حظیرۃ القدس میں اس کے پاس ہیں، یعنی کلمۂ کُنۡ، قلمِ اعلیٰ اور لوحِ محفوظ میں اصل اور مجرّد چیزیں ہمیشہ ہمیشہ موجود ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ تمام ستارے نہ تو ایک ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں اور نہ ہی یکبارگی مٹ جاتے ہیں، بلکہ یہ انسانوں ہی کی طرح ہیں کہ کوئی مر جاتا ہے اور کوئی پیدا ہوتا ہے، اور یہ سب کچھ خدا کے حکم سے ایسا ہے۔

 

۴۔ اے عزیزانِ من! اب یہاں یہ بتانے کا موقع ہے کہ ہر جزوی تخلیق کی ابتداء و انتہاء ہوا کرتی ہے، مگر دائرۂ کلّ (دائرۂ اعظم) کا سلسلۂ آفرینش ایسا نہیں کہ اس کا کوئی
۴۶

سرا مل جائے، اور یہ بھی یاد رہے کہ کائنات مجموعۂ عوالم ہے، کیونکہ اس میں ہر ستارہ ایک عالم ہے، ہر انسان ایک عالمِ شخصی ہے، اور دین سب سے اشرف و افضل عالم ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں آفرینشِ ارض و سماء کا ذکر آیا ہے، وہاں خوب غور سے دیکھنا ہوگا کہ یہ کس عالم کا تذکرہ ہے؟

 

۵۔ سورۂ انبیاء (۲۱: ۳۰) میں ارشاد ہے: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پس ہم نے انہیں الگ الگ کر دیا؟ یہ پُرحکمت مثال سب سے پہلے عالمِ شخصی سے متعلق ہے کہ اس میں ابتداءً آسمانِ عقل اور زمینِ روح مخلوط ہوتے ہیں پھر خدا عقلی آسمان کو روحانی زمین سے بلند کر دیتا ہے، یہی مثال حظیرۃ القدس میں آسمانِ عقلِ کلّ اور زمینِ نفسِ کلّ کے بارے میں بھی ہے کہ وہ دونوں باہم ملے ہوئے ہیں، لیکن گوہرِ عقل کے اشارے سے آسمان کی برتری ظاہر ہو جاتی ہے، ہماری زمین بھی ایک عالم ہے، اس میں بھی البتہ عقل و روح کی یہی مثال ہے، اور عالمِ دین میں بھی۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی۔ کراچی

جمعرات ۱۳ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۲۳ جنوری ۱۹۹۷ء

 

۴۷

 

عالمِ ذرّ

 

عالمِ ذرّ کی باطنی حکمت زمانۂ آدم سے شروع ہوئی ہے، کیونکہ جن فرشتوں نے شروع شروع میں بحکمِ خدا حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو سجدہ کیا، وہ سب مجموعاً عالمِ ذرّ ہی تھے، چونکہ ان تمام لطیف ذرّات کا سجدہ کرنا اطاعت اور تسخیرِ کائنات کے معنی میں تھا، اور وہ ذرّاتی فرشتے عالمِ کبیر اور عالمِ صغیر کی کلیدی قوّتیں تھے، لہٰذا اس میں نہ صرف اشارہ تھا بلکہ یہ پیش گوئی بھی تھی کہ آدم اور اولادِ آدم کے لئے کائنات مسخر ہونے والی ہے، اور یہ بہت بڑا کام ظاہری اور باطنی سائنس ہی سے ہوسکتا تھا۔

 

۱۔ عالمِ ذرّ کی تعریف میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ہر مخلوق کی نمائندہ روح موجود ہے، یہاں تک کہ اس میں پتھر اور لوہے کی روح بھی حاضر رہتی ہے، اور کوئی ایسی چیز نہیں جس کی روح عالمِ ذرّ میں نہ پائی جائے، عالمِ ذرّ کے کثیر ناموں سے آپ کو اس کے کثیر کاموں کا اندازہ بھی ہوگا اور تعجب بھی کہ ذرّاتِ لطیفِ روحانی کی اس کثرت سے حکمتیں ہیں؟ سبحان اللہ!

۲۔ لطیف مادّہ اور روح پر مبنی ذرّات روحانی لشکر ہیں، اس لئے ان کا ایک نام جنود ہے، یہ وہ روحانی لشکر ہے جس نے کئی نافرمان لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا، یاجوج و ماجوج کے نام سے عالمِ شخصی میں فساد کرتے ہیں، تاکہ اس میں تعمیرِ نو کا کام کیا جائے، ان کا ایک نام حجارۃ (حجر کی جمع = پتھر) بھی ہے (۱۱: ۸۲، ۱۰۵: ۰۴) یہ آسمان سے گرے ہوئے ستارے ہیں (۵۶: ۷۵) یہ کوہِ روح ہے جو ریزہ ریزہ ہوچکا ہے، یہ کل اشیاء کے ثمرات ہیں، یہ چیونٹیاں ہیں (۲۷: ۱۸) یہ حضرتِ سلیمان کے لشکر ہیں، جو جنّ، انس، اور پرندوں پر مشتمل ہیں (۲۷: ۱۷) الغرض ان کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔

۴۸

۳۔ الذرّ کے معنی ہیں: چھوٹی چیونٹیاں، کرمک، ہوا میں منتشر غبار، اسی سے عالمِ ذرّ کی اصطلاح بنی ہے، جس سے ذرّاتِ روح مراد ہیں، جن کی شبیہہ و تمثیل چھوٹی چیونٹیوں یا غبارِ منتشر سے دی گئی ہے، مومنِ سالک کو جب سے باطنی قیامت کا تجربہ ہونے لگتا ہے تب سے عالمِ ذرّ اس کے لئے کام کرتا رہتا ہے، اور یہ روحانی سائنس کا بہت بڑا انقلاب ہے۔

 

۴۔ چونکہ یہ ذرّات جوہرِ کائنات اور خلاصۂ موجودات ہیں، اس لئے یہ کوئی ایک چیز نہیں ہیں، بلکہ ان میں ہر چیز کی نمائندگی ہے، لہٰذا ان کا ایک ضروری نام “کل شیء” (ہر چیز) ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں کل شیء کا ذکر آیا ہے، وہاں اس مجموعۂ کائنات کا ذکر ہے جو عالمِ ذرّ کی صورت میں ہے، اور اس کا اطلاق حظیرۃ القدس پر بھی ہوتا ہے، کہ وہ وحدتِ اشیاء کا مرتبہ ہے، جیسے ارشاد ہے: وَ كُلُّ شَیْءٍ عِنْدَهٗ بِمِقْدَارٍ (۱۳: ۰۸) اور ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے۔ اگر کائناتیں ایک سے زیادہ ہیں تو پھر بھی عالمِ شخصی میں ایک ہی عالمِ ذرّ اور ایک ہی حظیرۃ القدس ہے۔

 

۵۔ یاجوج و ماجوج عالمِ شخصی کی جس دیوار کو چاٹ چاٹ کر ختم یا خراب کر دیتے ہیں، وہ نفسِ حیوانی کا حجاب ہے جو ظاہرو باطن کے درمیان قائم ہے، چنانچہ جس عرصہ کے لئے یہ دیوار نہیں ہوتی، اس میں حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن مل کر کام کرنے لگتے ہیں جس کے سبب سے آنکھیں ذرّاتِ لطیف کو دیکھتی ہیں، کان روحانی آوازوں کو سنتے ہیں، ناک باطنی خوشبوؤں کو سونگھتی ہے اور اسی طرح عجائب و غرائب اور بڑے بڑے معجزات کا عالم ہوتا ہے۔

۶۔ قرآنِ عزیز (۰۳: ۳۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ حضرتِ مریم سلام اللہ علیہا کے پاس خدا کے حکم سے کچھ غذائیں آتی تھیں، میرا عقیدہ ہے کہ روحانی غذائیں آتی تھیں، جو خوشبوؤں کی صورت میں ہوا کرتی ہیں، جن کا تجربہ خدا کے دوستوں کو ہوتا ہے، اسی امکانیّت کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ شاید مستقبل میں یہ غذا عام ہو جائے، کیونکہ اللہ

۴۹

تعالیٰ نے اپنے معجزات دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے (۴۱: ۵۳)۔

 

۷۔ مولا علی علیہ السّلام کا یہ ارشاد: “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” کتنا مختصر اور جامع الجوامع کلام ہے؟ کیا انسان سچ مچ اپنے چھوٹے سے جسم میں کوئی ایسی عجیب و غریب کائنات ہے، جس میں کائناتِ اکبر سما گئی ہو؟ کیا اس میں ہر روحانی چیز کا مشاہدہ اور خدا کا دیدار ممکن ہے؟ اگر نہیں تو معرفت کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے؟ آیا ہم ذات و کائنات کی معرفت کو روحانی سائنس کا نام دے سکتے ہیں؟ اگر عالمِ ذرّ اور حظیرۃ القدس کا نام کل شیء ہے تو کیا اس مجموعۂ کلّ میں اسرارِ قرآن بھی ہو سکتے ہیں؟

 

۸۔ ایک مثال کے مطابق کائنات و موجودات کا خلاصہ انسان ہے، انسان کا خلاصہ عالمِ ذرّ ہے، اور عالمِ ذرّ کا خلاصہ و جوہر حظیرۃ القدس، جہاں معرفت کے انتہائی عظیم اسرار انتہائی جامعیت کے ساتھ ہیں، اور فنا فی اللہ کا بے مثال و لازوال مرتبہ اسی مبارک مقام پر ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

سنیچر ۱۵ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۲۵ جنوری ۱۹۹۷ء

۵۰

جنّات کے بارے میں چند سوالات

 

روحانی سائنس کے سلسلے میں یہ بھی ایک اہم موضوع ہے کہ قرآنِ حکیم اور روحانیّت کی روشنی میں جنّات سے متعلق بطریقِ سوال و جواب کچھ معلومات فراہم کریں، کیونکہ بعض لوگ اس مخلوقِ لطیف کے وجود ہی سے انکار کرتے ہیں، اور بعض کو انکار تو نہیں، لیکن وہ جنّ کی اصل حقیقتوں سے نا آشنا اور نا بلد ہیں، لہٰذا ہماری کلیدی معلومات درجِ ذیل ہیں:

 

۱۔ س: جنّ اور پری قوم کے درمیان کیا فرق ہے یا کیا رشتہ ہے؟ لفظی لحاظ سے جنّ کے کیا معنی ہیں؟ اور پری کو کس معنیٰ میں پری کہا گیا؟ ج: جنّ اور پری ایک ہی قوم ہے، اس لئے فرق اور رشتے کا سوال خود بخود ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ ایک ہی قوم اور ایک ہی مخلوق ہے، جس کا نام عربی میں جنّ اور فارسی میں پری ہے، لفظِ جنّ پوشیدہ ہونے اور نظر نہ آنے کے معنی کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ پری (پریدن سے) اڑنے کو کہتے ہیں۔

۲۔ س: سورۂ نمل (۲۷: ۱۷) میں ایک آیۂ کریمہ وَ حُشِرَ تا یُوْزَعُوْنَ ہے، جس کا ترجمہ ہے: سلیمان کے لئے جنّ اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے تھے اور وہ پورے ضبط میں رکھے جاتے تھے۔ یہاں یہ ایک فطری سوال ہے کہ پرندے آدمیوں سے بھاگتے ہیں اور آدمی جنّات سے ڈرتے ہیں، پھر ان لشکروں کی یکجائی کیوں کر ممکن ہو سکتی ہے؟ ج: عالمِ ذرّ میں تمام مخلوقات اور جملہ اشیاء ایک جیسے ذرّات ہیں، لہٰذا ماننا ہوگا کہ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے یہ تمام لشکر ذرّاتی اور روحانی صورت میں تھے۔

۵۱

۳۔ س: یہ تو معلوم ہی ہے کہ ابلیس سجودِ آدم سے انکار کرنے پر راندہ ہوگیا، اس سے قبل وہ فرشتوں میں سے تھا (۰۲: ۳۴) یہ شہادت چند آیاتِ کریمہ میں موجود ہے، اور سورۂ کہف کے ایک ارشاد (۱۸: ۵۰) میں ہے کہ وہ اس نافرمانی سے پہلے جنّات میں سے تھا، آپ یہ بتائیں کہ اس میں کیا راز ہوسکتا ہے؟ جواب: اس میں بہت بڑا راز یہ ہے کہ مومن جنّ ہی فرشتہ ہوتا ہے، اور فرشتہ ہی مومن جنّ ہوتا ہے۔

 

۴۔ س: کہا جاتا ہے کہ انسان میں عاجزی اور حلیمی اس وجہ سے ہے کہ اس کی سرشت مٹی سے ہوئی، اور جنّ میں سرکشی اس سبب سے ہے کہ وہ شعلۂ آتش سے پیدا کیا گیا ہے، اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ج: خیر و شر کی یہ توجیہہ بڑی عجیب ہے، کیونکہ سارے انسان عاجز و حلیم نہیں ہیں، اور نہ ہی تمام جنّات سرکش ہو سکتے ہیں، آپ سورۂ جنّ (۷۲) میں آیت ۱۱ اور ۱۴ کو ذرا غور سے پڑھ لیں، مزید برآن نکتۂ راز تو یہ ہے کہ جنّ کو خداوند تعالیٰ آدمی کی روحانی ترقی سے پیدا کرتا ہے، یعنی جنّ انسان کا جسمِ لطیف ہی ہے کہ جب کوئی مومن عشقِ سماوی کی آگ میں جلتے رہنے کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اسی حال میں شعلۂ عشق سے جنّ (فرشتہ = جسمِ لطیف) کا ظہور ہوتا ہے۔

 

۵۔ س: آپ سورۂ رحمان (۵۵) کی آیاتِ شریفہ ۱۴ تا ۱۶ کی حکمت بیان کریں۔ ج: اسی (خدا) نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کھنکھناتی ہوئی مٹی (یعنی صورِ اسرافیل کی ابتدائی آواز) سے پیدا کیا اور اسی نے جنّات کو آگ کے شعلے (یعنی سالک کے نورِ عشق) سے پیدا کیا۔ پس اے جنّ و انس! تم اپنے ربّ کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اور جنات قانونِ کثرت کے تحت الگ الگ بھی ہیں، اور قانونِ وحدت کے مطابق ایک بھی ہیں۔

 

۶۔ س: اے گروہِ جنّ و انس! اگر تم سے ہو سکتا ہے کہ تم آسمانوں کے اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو (چلو) نکل جاؤ حالانکہ بغیر غلبہ تم نکل نہ سکو گے (۵۵: ۳۳) کیا آپ اس ارشاد کی کوئی حکمت بتا سکتے ہیں؟ ج: (ان شاء اللہ تعالیٰ) یہ بہت بڑا امتحان روحانی سفر سے متعلق ہے جو انسان کی اپنی ذات میں ہے کہ اگر کوئی مومنِ سالک علم و عبادت کے

۵۲

زور سے ذاتی کائنات کی چھت پر چڑھ سکتا ہے تو وہ یقیناً ان خزائنِ معرفت کو حاصل کر لیتا ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہیں، کیونکہ تمام تر مشکل مسائل قید خانۂ کائنات ہی میں ہیں۔

 

۷۔ س: آپ قرآنِ پاک کے حوالے سے یہ بھی کہتے ہیں کہ بہشت کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے، اور ستاروں پر لطیف زندگی ہے، ایسے میں کائنات سے باہر جانے کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ ج: کائنات بہشت معرفت سے مشروط ہے، معرفت کے خزانے لامکان میں ہیں، آپ اس کائنات کو دماغ میں رکھتے ہوئے ازل کا تصوّر نہیں کر سکتے ہیں، نہ لامکان کو پہچان سکتے ہیں، اور حظیرۃ القدس کے اسرار سے آگہی ہو سکتی ہے، پس سالک کے لئے یہ سفر ضروری ہے کہ وہ اپنے جنّات یعنی فرشتوں میں مدغم ہو کر عالمِ شخصی کی چھت پر چڑھ کر ایک بار دیکھے تا کہ تمام علمی و عرفانی عقدے کھل سکیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۷ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۲۷ جنوری ۱۹۹۷ء

۵۳

معجزۂ نوافل

(قسطِ اوّل)

 

اہلِ ایمان کی سب سے بڑی سعادت یہ ہے کہ وہ دینِ فطرت (اسلام) کی عظیم تر نعمتوں کو سمجھیں اور علم و عمل سے انہیں حاصل کریں، جو لوگ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روشن تعلیمات سے حقیقی معنوں میں فیض یاب ہوتے ہیں، وہ فی الواقع بڑے خوش نصیب ہیں، آپؐ کے نورِ ظاہر و باطن کی ہدایات میں احادیثِ قدسی بھی ہیں، جیسا کہ حدیثِ نوافل کا ارشاد ہے، جس کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے، اور میرا بندہ میری طرف سے فرض کی ہوئی اُن چیزوں سے جو مجھے پسندیدہ ہیں، میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔۔۔ (صحیح البخاری، جلدِ سوم، کتاب الرقاق، باب ۸۴۴، تواضع)۔

 

۱۔ اہلِ دانش کے لئے اس حدیثِ قدسی میں علم و معرفت کا وہ بے مثال اور لازوال خزانہ ہے جسے خداوندِ عالم نے کائناتِ علم و حکمت کو سمیٹ کر بنایا ہے، یہ گنجِ اسرار ایسا نہیں جو وضاحت کرنے سے ختم ہو جائے، اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ خدا کے ولی

۵۴

سے دشمنی بدبختی اور باعثِ ہلاکت ہے، اگر کسی کو اس سے دوستی ہے تو یقیناً اس میں اللہ کی خوشنودی ہے۔

 

۲۔ بے شک دینِ اسلام میں فرائض کے ساتھ اور فرائض کے بعد نوافل ہیں، جن کے ذریعے رفتہ رفتہ قربِ الٰہی کی منزلیں طے ہو جاتی ہیں، آسمانی محبت یکطرفہ ہرگز نہیں، جب تک ہم اس مقدّس محبت کو عشقِ سماوی نہ کہیں تو مزہ نہیں آئے گا، عشقِ الٰہی، عشقِ رسول، اور عشقِ ولی کی تعریف کوئی عاشق بھی نہیں کر سکتا ہے۔

 

۳۔ اس حدیثِ قدسی کا حکیمانہ مضمون ہے: فنا فی الولی، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ، اس بے مثال اور انتہائی عظیم عمل کے بغیر قربِ خداوندی کی اصل صورت نہیں بنتی ہے، اگر عام طور پر سوچا جائے تو کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں خدا نہ ہو، وہ تو ہر آدمی کے لئے رگِ جان سے بھی قریب تر ہے، پھر اس قربِ خاص کے کیا معنی ہوتے ہیں؟ فنا، فنا، فنا۔

 

۴۔ خدا اپنے عاشقوں کا کان بن جاتا ہے: عاشقانِ الٰہی جن کے کان میں خداوند تعالیٰ کا ظہور یا نور ہو، وہ کیسے کیسے عظیم بھیدوں کو سنتے ہوں گے؟ کیا ایسے میں بھی تسخیرِ کائنات کے اسرار سنائے نہیں جائیں گے؟ آپ خوب غور کرکے بتائیں کہ وہ کون کون سی آوازوں کو نہیں سنتے ہوں گے؟ وہ “فنا فی اللہ و بقا باللہ” کے اعلیٰ معنی میں جیتے جی مرکر زندہ ہو گئے ہیں، اس لئے انہوں نے ذاتی قیامت کے بے شمار اسرار کو سنا اور دیکھا ہوگا؟ یقیناً انہوں نے ذات و کائنات کے بہت سے روشن معجزات کو دیکھا ہوگا؟

 

۵۔ خدا اپنے عاشقوں کی آنکھ بن جاتا ہے: یعنی ربِّ کریم اپنے خاص بندوں کی عین الیقین اور چشمِ بصیرت بن جاتا ہے تا کہ وہ ان تمام اسرارِ باطن کا مشاہدہ کرسکیں جو ہر گونہ معرفت سے متعلق ہیں، یہ بڑا عجیب و غریب انقلابی تصوّر ہے، اس مقصدِ عالی اور نعمتِ عظمیٰ کے حصول کے لئے جانوں کی روحانی قربانی درکار ہے، اور اگر ہم اس گنجِ گرانمایہ کی طلب سے غافل رہتے ہیں تو یہ ہماری بہت بڑی نادانی ہوگی، الغرض حدیثِ نوافل کے مژدۂ جانفزا سے سالکینِ دینِ مبین کو زبردست حوصلہ ملتا

۵۵

ہے۔

 

۶۔ خدا اپنے عاشقوں کا ہاتھ بن جاتا ہے: اس حدیثِ قدسی کے انتہائی عظیم اسرار کی شکرگزاری اور قدردانی نہ ہونے کا ڈر رہتا ہے، کیونکہ یہ جملہ احوال وہ ہیں جو فنا فی اللہ و بقا باللہ کے بعد عارفِ کامل کے سامنے آتے ہیں، جیسے گوہرِ مقصود کو ہاتھ میں لینا اور افعالِ قدرت کا مظاہرہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔

۷۔ خدا اپنے عاشقوں کا پاؤں بن جاتا ہے: یعنی وہ پاؤں جو کعبۂ روحانی اور قبلۂ عقلانی تک چل سکتا ہے، وہ کامیاب ذکرِ خفی اور ذکرِ قلبی ہے، وہ اسمِ اعظم کا سب سے بڑا معجزہ ہے، وہ تمام ستاروں پر جسمِ لطیف کی سیاحت ہے، وہ عالمِ شخصی میں چلنا پھرنا ہے، اور وہ جنت کی سیر ہے۔

 

۸۔ معجزۂ نوافل سنتِ الٰہی کے مطابق ہے، لہٰذا یہ ہمیشہ اس جہان میں جاری و ساری ہے، کیونکہ یہ امر محال ہے کہ خورشیدِ انور کی شعاعیں کبھی کائنات میں برستی رہیں اور کبھی بند ہو جائیں، اب اس بیان کے بعد روحانی سائنس کے موضوع پر بے حد روشنی پڑتی ہے، اور بڑی جرأت مندی سے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک میں روحانی سائنس پر ریسرچ سے متعلق ادارے قائم کئے جائیں، تاکہ اس کوشش سے مستقبل میں بڑے بڑے مسلم سائنسدان پیدا ہو جائیں اور وہی دانشمند ظاہری و باطنی حکمت (سائنس) کی روشنی میں یہ ثابت کر سکیں کہ مادّی سائنس کی بنیاد میں خدا کی ہستی سے انکار کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۸ جنوری ۱۹۹۷ء

۵۶

معجزۂ نوافل

(قسطِ دوم)

 

نفل: وہ عبادت جو فرض نہ ہو، وہ نماز جو فرض، واجب اور سنت کے علاوہ پڑھی جائے، زائد عبادت جو شکرانہ کے طور پر ادا کی جائے،جمع: نوافل۔

 

حدیثِ نوافل میں ایک خاص اشارہ ذکرِ الٰہی کی طرف بھی ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی بابرکت یاد کا بیان کثرت سے آیا ہے، یقیناً خدائے بزرگ و برتر کے اسمِ بزرگ میں نور و سرور کا سرچشمہ پنہان ہے، جس سے ہر مومن اپنے علم و عمل کے مطابق فائدہ حاصل کر سکتا ہے، اور حکمت اسی میں ہے کہ آپ ہر لحظہ حضرتِ ربّ کو یاد کرتے رہیں، اور ہرگز ہرگز غافلوں میں سے نہ ہو جائیں۔

 

۱۔ اللہ تعالیٰ کی سنت (عادت) ہمیشہ ایک ہی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں، صراطِ مستقیم ایک ہی ہے، اور جن حضرات نے اس پر چل کر نمونہ دکھایا (۰۴: ۶۹) وہ بھی اس راہ کی روحانیّت اور معرفت میں ایک ہی ہیں، اور معجزۂ نوافل کا خاص تعلق بھی انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہی سے ہے، کیونکہ وہی حضرات پیشرو اور رہنما ہیں، لیکن پھر بھی راہِ مستقیم پر چلنے والوں کے لئے ربّ العالمین کے کیسے کیسے انعامات ہیں کہ پیشرو آگے آگے اور پیرو ان کے پیچھے پیچھے روحانی معجزات کرتے ہوئے منزلِ مقصود کی طرف روان دوان ہیں۔

 

۲۔ سورۂ فاتحہ کی پُرحکمت تعلیمات میں غور سے دیکھیں: ہم کو سیدھے رستے چلا، ان لوگوں کے رستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) یہ خاص الخاص دعا اللہ نے اپنے

۵۷

بندوں کو سکھا دی ہے، جس میں نہ صرف انبیاء و اولیاء کی پیروی اور روحانی ترقی مطلوب ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام روحانی نعمتیں (از قسمِ مشاہداتِ اسرار) بھی مقصود ہیں جو ان حضرات کو حاصل تھیں۔

 

۳۔ اے عزیزان! یہ نکتہ ہمیشہ یاد رہے کہ فنا فی اللہ کا اصل راز جذبِ دیدار ہے، اس لئے جب کسی سالک کو انتہائی قرب کا درجہ حاصل ہوتا ہے، تو وہ فوراً ہی فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیثِ نوافل میں بالآخر انتہائی قرب یعنی فنا فی اللہ و بقا باللہ کا تذکرہ ہے، اسی وجہ سے ہم معجزۂ نوافل کے عنوان سے کچھ حقائق و معارف بیان کرنے کی جسارت کر رہے ہیں تاکہ روحانی سائنس کے تصوّر کو زیادہ سے زیادہ تقویّت حاصل ہو سکے۔

 

۴۔ شاید لوگوں کو یہ گمان ہو کہ “فنا فی اللہ” اس دنیا میں کسی بشر کے لئے ممکن ہی نہیں، ایسا خیال اس وجہ سے آتا ہوگا کہ عوام کی نظر ہمیشہ ظاہر اور جسم ہی پر رہتی ہے، وہ روح کے باطنی احوال کو دیکھ نہیں سکتے ہیں، اور ان کو کوئی گلہ بھی نہیں ہے، کیونکہ خود شناسی اور خدا شناسی انتہائی مشکل کام ہے، لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس بہت بڑی کمی کے لئے کوئی چارۂ کار نہ ہو، جاننا چاہئے کہ یقین (معرفت) مرحلہ وار ہے، جیسے علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین، پس ہر شخص کو اوّل اوّل علم الیقین سے وابستہ ہو جانا چاہئے۔

 

۵۔ قرآنِ حکیم کی ایسی آیاتِ کریمہ میں “فنا فی اللہ” کا ذکرِ جمیل زیادہ نمایان ہے جن میں وجہ اللہ اور لقاء اللہ یا لقائے ربّ جیسے پاک و مبارک الفاظ آئے ہیں، کیونکہ فنا کا اصل راز جذبِ دیدارِ پاک ہی ہے، اس کے بعد بھی کوئی آیۂ مقدّسہ ایسی نہیں جس کی حکیمانہ ہدایت منزلِ مقصود کی طرف نہ جاتی ہو، اور وہ پاک منزل خداوندِ عالم ہی ہے اور اُس کا دیدارِ اقدس، جس میں جذبِ دیدار ہے، آپ نے دیکھا کہ قرآنِ عظیم میں کس طرح ہر چیز کا بیان ہوسکتا ہے۔

 

۶۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ روحانی سائنس ہی کا ذریعہ اور سلسلہ ہے کہ اگر حضرتِ خالق کی ملاقات کے اسرار معلوم ہو سکتے ہیں تو مخلوق (کائنات) کے ضروری بھید کیوں معلوم نہیں ہوسکتے؟ یقیناً دوستانِ خدا نورِ معرفت کی روشنی میں روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کو

۵۸

بیان کر سکتے ہیں۔

 

۷۔ انسان (بوسیلۂ مرشدِ کامل) کارخانۂ قدرت بھی ہے اور آئینۂ حسن و جمالِ الٰہی بھی، قادرِ مطلق عالمِ شخصی کے کارخانے میں ہمیشہ کے لئے کائناتیں بناتا ہے، ہر کائنات ایک عظیم فرشتے کی صورت میں زندہ اور عاقل ہوا کرتی ہے، اور وہ انسانِ لطیف بھی ہے، نیز وہ اس موجودہ کائنات کی جان بھی ہے، کیونکہ کائنات ہی خام مال کے طور پر اس کارخانے میں استعمال ہوتی رہتی ہے، اور یہ عملِ تجدّد کا سلسلۂ لاابتداء و لاانتہاء ہے۔

 

اب آپ یہ بتائیں کہ کائنات زندہ اور باشعور ہے یا نہیں؟ اگر یہ سچ مچ زندہ و عاقل آدمی کی طرح ہے تو یہ خدا ہی کی تعریف ہے کہ اسی نے ایسا عجیب و غریب عالم بنایا ہے، پھر مادّی سائنس کے ان نظریات کو رد کرنا ہوگا، جن سے وجودِ باری تعالیٰ کی نفی کی بو آ رہی ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

فرسٹ ہیڈکوارٹر کراچی

جمعرات ۲۰ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۵۹

۳۰ جنوری ۱۹۹۷ء

عالمِ شخصی

 

جیسا کہ آپ جانتے ہیں ظاہری کائنات انسان کی نسبت سے عالمِ کبیر کہلاتا ہے جبکہ انسان کو عالمِ صغیر کہا جاتا ہے، اور اسی کو ہم عالمِ شخصی بھی کہتے ہیں، یعنی ایسا جہان جو ہر شخص کے اندر پوشیدہ ہے یا ہر آدمی کی ذاتی کائنات جو اس کی ہستی میں پنہان ہے، چنانچہ عالمِ شخصی کی بے حد اہمیت اور بے قیاس قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ اس کی حقیقی اور کلی معرفت حضرتِ ربّ کی معرفت ہو جاتی ہے۔

 

۱۔ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: اعرفکم بنفسہٖ اعرفکم بربہٖ = تم میں جو شخص سب سے زیادہ اپنی ذات کا عارف ہے وہی شخص تم میں سب سے زیادہ اپنے ربّ کا عارف ہے (زاد المسافرین، ص ۲۸۷) اس حدیثِ شریف سے ایک طرف عالمِ شخصی کی بڑی زبردست اہمیت کا ثبوت ملتا ہے اور دوسری طرف صاف طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی معرفت کے درجات ہیں، جن پر لوگ اپنی اپنی سعی کے مطابق فائز ہو سکتے ہیں۔

 

۲۔ عالمِ شخصی کی تعریف دیوانِ علی میں اس طرح ہے: (ترجمہ) تیری دوا تیرے باطن ہی میں ہے اور تجھ کو خبر نہیں، اور تیری بیماری تجھ ہی سے پیدا ہوتی ہے اور تو دیکھتا نہیں، اور تو خیال کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر لپٹا ہوا ہے، اور تو ہی وہ کتابِ مبین ہے کہ جس کے حرفوں سے پوشیدہ راز ظاہر ہوتے ہیں۔

 

یہ عام باتیں نہیں بلکہ انتہائی خاص باتیں یا حکمتیں ہیں، خدا کرے کہ اسرارِ حکمت بہت سے دلوں میں نقش کالحجر ہو جائیں!

۶۰

۳۔ فرمایا گیا کہ ساری کائنات عالمِ شخصی میں سمائی ہوئی ہے، تاکہ کائنات (ارض و سما) کے بھیدوں کی تحقیق کی جائے، چنانچہ عارفین و کاملین کے توسط سے بہت سے کلیدی اسرار منکشف ہوگئے ہیں، جیسے کائنات و موجودات کے نمائندہ ذرّات کو عالمِ شخصی میں بلانا، انفرادی حشر اور عالمِ ذرّ کا ظہور، ذرّۂ لطیف کا انکشاف، جو روح اور مادّہ کا سنگم ہے، اور یہی وہ بنیادی دریافت ہے جس پر روحانی سائنس کا دعویٰ کرنے والے فخر نہیں تو شکر کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ انتہائی عجیب و غریب شیٔ ہے، اور یہی نمائندۂ کُلّ ہے، اس لئے کہ یہ جوہرِ عالم اور گوہرِ آدم و ابنِ آدم ہے، سورج، چاند اور ستاروں کا نمونہ ہے، مادّۂ فلکی، آگ، ہوا، پانی اور مٹی کی مثال ہے، جماد، نبات، حیوان (چرند و پرند وغیرہ) انسان، جنّ اور فرشتہ کا نمونہ ہے۔

 

۵۔ خداوندِ تعالیٰ قادر علی الاطلاق (یعنی قادرِ مطلق) ہے، وہ ارض و سما اور ظاہر و باطن کی لامحدود چیزوں کو سمیٹ کر عالمِ شخصی میں محدود بناتا ہے، پھر انسان کے باطن کو کائنات میں پھیلا کر لامحدود بناتا ہے، درحالے کہ کائنات اور آدمی اپنی اپنی جگہ موجود بھی ہیں، یہ تسخیرِ کائنات کا عملی نمونہ ہے، اور اس ہمہ گیر اور بدرجۂ انتہا عظیم معجزاتی عمل سے کائناتی بہشت کا ظہور عالمِ شخصی میں ہونے لگتا ہے، جس کا اشارہ اور تذکرہ قرآنِ کریم کے کئی مقامات پر آیا ہے۔

۶۱

۶۔ سورۂ محمد (۴۷: ۰۶) میں بہشت کے مشاہدہ اور معرفت کے بارے میں انقلابی فیصلہ فرمایا گیا ہے: وَ یُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ۔ اور ان کو اس بہشت میں داخل کرے گا جس کا انہیں (پہلے سے) شناسا کر رکھا ہے۔ یہ آیۂ کریمہ خصوصاً شہدائے باطن کے بارے میں ہے کہ وہی نیک بخت لوگ جیتے جی روحانی جہاد میں جامِ شہادت نوش کرکے بہشت کے عظیم الشّان نمونوں کو دیکھتے ہیں، آپ مذکورہ سورہ (۴۷: ۰۶) میں دیکھیں کہ ربطِ مضمون جہاد فی سبیل اللہ اور شہداء سے متعلق ہے، اور شہید جیسا کہ معلوم ہے روحانی و جسمانی دو قسم کے ہوتے ہیں، جن میں سے روحانی شہیدوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ حضرات نہ صرف نفسانی موت اور ذاتی قیامت کو سر تا سر دیکھ لیتے ہیں، بلکہ عالمِ شخصی میں ان کو بہشت کی معرفت بھی حاصل ہو جاتی ہے جبکہ یہ اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

 

۷۔ عالمِ شخصی کے بہت سے باطنی درجات ہیں، ان میں سب سے اعلیٰ درجہ حظیرۃ القدس کے نام سے ہے یہ گویا عالمِ شخصی کے چھت (عرش) ہے، جہاں پہنچ جانے پر مکان و زمان کی سرحدیں ختم ہو جاتی ہیں، اور لامکان و دہر کے معجزات رونما ہوتے ہیں، وہاں کے معجزے بے شمار ہیں، لیکن عالمِ وحدت کی وجہ سے وہ سب اپنے اپنے خزانوں میں ایک ہوگئے ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

اتوار ۲۳ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۲ فروری ۱۹۹۷ء

 

۶۲

 

شعوری فنا اور غیر شعوری فنا

 

جاننا چاہئے کہ ہر انسان بحدِّ قوّت کائنات و مشمولات کی ہو بہ ہو کاپی  (copy)  ہے، اسی لئے ہم مانتے ہیں کہ: “ایک میں سب ہوتے ہیں۔” پس اگر کوئی سالک نیک بختی سے فنا فی المرشد، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو ایسی فنا اس کے حق میں شعوری اور عرفانی ہوتی ہے، مگر ان سب لوگوں کے لئے جو اس سالک میں بشکلِ ذرات موجود ہیں، یہ حالت غیر شعوری فنا ثابت ہو جاتی ہے، اس سے معلوم ہوا کہ شعور کے اعتبار سے فنا دو (۲) قسم کی ہوا کرتی ہے، یعنی ایک شعوری فنا ہے اور دوسری غیر شعوری فنا۔

 

۱۔ غیر شعوری فنا کی پہلی مثال مٹی (جماد) ہے جو نبات میں فنا ہو جاتی ہے، دوسری مثال نبات ہے جو حیوان میں فنا ہو جاتی ہے، اور تیسری مثال حیوان ہے جو انسان میں فنا ہو جاتا ہے، لیکن ان چیزوں میں قطعاً شعور نہیں ہے، اس لئے ان کو نہ اپنی ترقی کی کوئی خبر ہے اور نہ اس سے انہیں خوشی ہو سکتی ہے، جس کی وجہ بس یہی کہ یہ چیزیں غیر شعوری طور پر فنا ہو رہی ہیں کیونکہ ان میں عقل اور علم کی ذرہ بھر بھی روشنی نہیں۔

 

۲۔ آپ قرآنِ عزیز میں دیکھ لیں کہ بہت سے لوگ ظاہراً انسان ہونے کے باوصف چوپایوں میں کیوں شمار ہوتے ہیں (۰۷: ۱۷۹، ۲۵: ۴۴)؟ اس لئے کہ وہ حقائق و معارف کی طرف توجہ نہیں دیتے اور عقل کی نعمتِ عظمیٰ سے کام نہیں لیتے، ان کو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی کوئی پہچان نہیں، وہ قانونِ فنا کو نہیں جانتے ہیں، لہٰذا ان کو کوئی حقیقی خوشی نہیں۔

 

۳۔ قرآنِ کریم میں سر تا سر عقل و دانش اور علم و حکمت کی تعریف و توصیف آئی ہے، منجملہ

۶۳

صرف ایک ہی مثال پر اکتفا کرتے ہیں، وہ ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک بہت بڑا لقب: “اولوا الالباب” جو قرآنِ حکیم کے ۱۶ مقامات میں ہے، جس کے معنی ہیں صاحبانِ عقل، اور عقل والوں کے کیا کیا اوصاف ہیں، ان سب خوبیوں کو آپ قرآن بھر میں دیکھ سکتے ہیں، یہاں نفسِ مضمون سے متعلق اولوا الالباب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ حضرات اسرارِ فنا کو جانتے ہیں۔

 

۴۔ شعوری فنا کی تعریف سے زبان قاصر اور قلم عاجز ہے، اس سلطنتِ بے مثال و لازوال کے فوائد کبھی ختم ہونے والے نہیں، آپ علم الیقین کے ذریعہ غیر شعوری فنا سے فائدہ حاصل کرنے کی بات کیجئے، کہ تمام انسانوں کے نمائندہ ذرّات ہر نبی اور ہر ولی کے عالمِ شخصی میں موجود ہوتے ہوئے آئے ہیں، یہ تصوّر بڑا ایمان افروز اور روح پرور ہے، اور بار بار سمجھنے سے یہ آپ کے علم الیقین کا حصہ بن جاتا ہے، اب آئیے ہم قرآنِ حکیم میں اس کی چند مثالیں دیکھیں:

 

۵۔ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۱) میں ہے: اور ہم نے تم کو پیدا کیا پھر ہم نے ہی تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے۔ یعنی خدا تعالیٰ نے آپ کو اور ہمیں دیگر تمام لوگوں کے ساتھ حضرتِ آدم کے عالمِ ذرّ میں بشکلِ ذرّات پیدا کیا، ہم سب اس حال میں ذرّاتی فرشتے تھے، پس ہم سب نے خدا کے حکم سے عالمِ ذرّ میں آدم کے لئے سجدہ کیا جس سے ہماری ترقی ہوئی، اور ہم آگے چل کر خلیفۃ اللہ میں فنا ہوگئے تب خدا نے ہم سب کو عقلی صورت دے کر فرمایا کہ آدم کے لئے اب بارِ دوم سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔

 

۶۔ اے عزیزانِ من! قرآنِ پاک میں جو سنتِ الٰہی کی حکمتوں کا مضمون ہے اس کو خوب غور سے پڑھنے اور سمجھ لینے کی ضرورت ہے، اور اس میں یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ باطنی امور کے اعتبار سے اللہ کی سنت (عادت) میں کوئی تبدیلی نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر نبی اور ہر ولی کی روحانیّت میں قصّۂ آدم کے باطنی پہلو کا تجدّد ہوتا رہا ہے تاکہ

۶۴

علم و معرفت کا سرچشمہ کسی کمی کے بغیر جاری رہے۔

 

۷۔ حدیثِ شریف ہے: ان للقراٰن ظھراً و بطناً و لبطنہ بطن الیٰ سبعۃ ابطن۔ بے شک قرآن کا ظاہر اور باطن ہے اور اس کے باطن کا بھی باطن ہے، سات باطنوں تک (مثنوی مولانا روم، دفترِ سوم)۔

 

حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ظاہری کشتی مثال تھی اور باطنی کشتی ممثول، چنانچہ ہم سب لوگ بحالتِ ذرات ہر پیغمبر کے ساتھ تھے، اور اسی طرح حضرتِ نوحؑ کی روحانی کشتی میں بھی سوار ہوئے تھے، جیسا کہ سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱) میں ارشاد ہے: اور ان کے لئے یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ ہم نے ان کے (روحانی) ذرّات کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا۔ یہاں ایک قفلِ حکمت یہ ہے کہ جب کشتی پہلے ہی سے بھری ہوئی تھی تو اس میں مزید سواریوں کے لئے کیسے جگہ پیدا ہوگئی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ تمام نمائندہ ذرّات صاحبِ کشتی میں فنا ہوگئے تھے، اور یہاں یہی اشارہ مقصود ہے۔

 

۸۔ عالمِ شخصی کے روحانی سفر کے اختتام پر سالک کو فنا فی اللہ ہو جانا ہے، ایسے میں مقامِ فنا کون سا ہوگا؟ عرشِ سماوی؟ عرشِ ارضی؟ کعبۂ حقیقی؟ بیت المعمور؟ حظیرۃ القدس؟ یا وہ عرش جو علم کے پانی پر ہے؟ پس عجب نہیں کہ فنائیں ایک سے زیادہ ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ پانی پر، جو عرشِ الٰہی ہے اُس کا دوسرا نام بھری ہوئی کشتی ہو، کیونکہ اللہ کی ذات صمد ہے، یعنی وہ اس بات سے بے نیاز اور پاک و برتر ہے کہ کوئی شخص اس میں داخل ہو جائے، اور صمد کے معنوں میں سے ایک معنی ٹھوس کے ہیں، اس کا اشارہ یہ ہوا کہ ذاتِ خدا میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی ہے، پس فنا فی الولی اور فنا فی الرسول کے بعد دیدارِ خدا ہی بمرتبۂ فنا فی اللہ ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۲۵ رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ

۴ فروری ۱۹۹۷ء

 

۶۵

 

قرآنِ حکیم اور روحانی سائنس

 

یہ سورۂ نحل کے ایک ارشادِ مبارک کا ترجمہ ہے: اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا (شافی) بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے (سر تا پا) ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے (۱۶: ۸۹) اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ قرآنِ عزیز تمام ضروری اور مفید علوم پر حاوی اور محیط ہے، اور اس کے علم و حکمت اور روح و روحانیّت کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں۔

 

۱۔ اس آیۂ مبارکہ کے چار عنوانات کولیتے ہیں: (الف) قرآنِ پاک کے ظاہر و باطن میں اہلِ بصیرت کے لئے ہر چیز کا بیان موجود ہے۔ (ب) قرآن دین و دنیا میں آگے بڑھ جانے کے لئے روشن ہدایت ہے تاکہ مسلمانانِ عالم خصوصی طور پر سب سے آگے بڑھ سکیں۔ (ج) قرآن رحمت ہے یعنی یہ اخلاقی اور روحانی ترقی کا وسیلہ ہے۔ (د) قرآن خوشخبری ہے یعنی جو بھی اس پر عمل کرے اس کو روحانی اور نورانی خوش خبری مل سکتی ہے، اور یہ مکمل روحانیّت اور درجۂ معرفت کا اشارہ ہے۔

 

۲۔ اگر کوئی صوفیٔ صافی قرآن اور اسلام کی روشنی میں فنا فی المرشد یا فنا فی الشیخ یا فنا فی الامام ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد وہ فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ ہو جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ایسا بڑا خوش نصیب صوفی اسرارِ کائنات کو جانتا ہوگا، اور اسی وسیلے سے کائنات و مخلوقات کے باطنی قوانین کو جاننا روحانی سائنس ہی ہے، آپ اس کتاب میں معجزۂ نوافل کو پڑھیں اور یہ بتائیں کہ خدا اپنے جس بندۂ مومن کے حواسِ باطن کا نور بن جاتا ہے، کیا اس بندے کے پاس کوئی خاص علم نہیں ہو گا؟ کیوں نہیں، ضرور اس کے پاس علمِ لدنی

۶۶

ہو گا۔

 

۳۔ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السّلام سے قبل سیّارۂ زمین پر جنّ و پری رہتے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سب لطیف انسان تھے، کیونکہ انسان ہی ہے جو دورِ کثیف اور دورِ لطیف سے ہمیشہ گزرتا رہتا ہے، جس کی مثال ریشم کا کیڑا ہے جس کو زندگی کے دائرے پر رینگنا بھی ہے اور پروانہ بن کر اڑنا بھی ہے، اور یہ ہمیشہ کی بات ہے، اگر یہاں یہ کہا جائے کہ آگے چل کر انسان لطیف بن کر پرواز کرنے والا ہے تو شاید اکثر لوگ باور نہیں کریں گے، حالانکہ یہ بات اہلِ معرفت کے نزدیک ایک روشن حقیقت ہے۔

 

۴۔ ظاہری سائنسدان ابھی اس امکانیت پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ آیا سیّارۂ زمین کے علاوہ اور کہیں زندگی ہے یا نہیں؟ درحالے کہ قرآنِ عزیز فرماتا ہے: اور اس کی نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمانوں کی پیدائش، اور یہ جاندار مخلوقات جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہیں، اور وہ جب چاہے انہیں اکٹھا کر سکتا ہے (۴۲: ۲۹) سورۂ شوریٰ کی یہ آیۂ مبارکہ اس حقیقت کی برہانِ قاطع ہے کہ کائنات کا کوئی مقام کوئی گوشہ خدا کی مخلوقات سے خالی نہیں، مخلوق کثیف ہو یا لطیف، انس ہو یا جنّ، فرشتہ ہو یا روح، ذرّہ ہو یا جثۂ ابداعیہ، بہ ہر حال زمین کی طرح آسمان بھی مخلوقات سے بھری ہوئی ہے۔

 

۵۔ کائنات اپنے باطن میں ارواح و ملائکہ کا بحرِ محیط ہے، لہٰذا کسی ایک سیّارے پر زندگی موجود ہونے کی بحث ہی نہیں، اگر کائنات کے ہر ذرّہ میں ایک زندہ اور باشعور جہان پوشیدہ نہ ہوتا تو قرآنِ حکیم نہ فرماتا: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے) (۲۴: ۳۵) کیونکہ آپ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا جمادات، نباتات، اور حیوانات کا نور ہے، جبکہ نور کا تعلق عقل اور روح سے ہے۔

 

۶۔ ظاہری سائنسدان شاید کائنات کی ہر مخلوق کو جسمِ کثیف کی زندگی کی کسوٹی سے پرکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ جسمِ لطیف اس سے بہت مختلف ہے، وہ جسمِ فلکی ہے اس لئے اس کو گرمی، سردی، خشکی اور تری سے کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا ہے، یعنی مخلوقِ لطیف کا تذکرہ ہو رہا ہے، کہ وہ نورانی ہستی ہے، جو جنّ (یعنی پری) اور فرشتہ کی طرح پرواز کرتی

۶۷

ہے، وہ آسمان و زمین میں ہر جگہ موجود ہے، قرآنِ عزیز میں اس کے کئی نام آئے ہیں، آپ اس کتاب میں جگہ جگہ اس کے ناموں کو دیکھ سکیں گے، یہ انسانِ لطیف ہے جو سب کچھ ہے۔

 

۷۔ قرآنِ مجید میں ایسی بہت سی آیاتِ شریفہ موجود ہیں، جن کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ آسمانوں میں لطیف مخلوقات رہتی ہیں، جیسے سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں ہے: اور آسمانوں اور زمین میں (مخلوقات سے) جو کوئی بھی ہے سب طوعاً و کرہاً اللہ ہی کے لئے سجدہ کر رہے ہیں۔ یہی حقیقت سورۂ نحل (۱۶: ۴۹) اور سورۂ حج (۲۲: ۱۸) میں بھی ہے، الحمد للہ قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں ایک کہن سال درویش روحانی سائنس پر ریسرچ کر رہا ہے، بلکہ چشم دید واقعات بیان کر رہا ہے، بہت ممکن ہے کہ میرے قریبی دوستوں سے کوئی علمی ادارہ انٹرویو کرے، اور یہ کام کسی وقت بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا میں اپنے تمام شاگردوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ قرآنِ کریم، دینِ اسلام، اور دنیائے انسانیت کی خدمت کے لئے خود کو تیار رکھیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی ہیڈ آفس

۶ فروری ۱۹۹۷ء

 

۶۸

 

حقیقی محبت یا عشق

 

اے دوستانِ عزیز کی تمام پاکیزہ روحو! آؤ آؤ، تم سب خدا کے حکم سے تائیدی فرشتے بن کے آؤ، کیونکہ مجھے “حقیقی محبت یا عشق” کے موضوع پر کچھ لکھنا ہے، لیکن میں کیسے لکھوں اور کیا لکھوں! جبکہ اس وقت طفلِ دل گریہ کنان نہیں، لہٰذا تم سب ایک ایک قطرۂ اشکِ عشق بطورِ صدقہ مجھے دے دو یا سودا کرو میری زندگی کا سارا ثواب لے لو، میں آتشِ عشق سے اپنے دل کو پگھلانا، خود کو رلانا، اور غفلت کو مٹانا چاہتا ہوں، اے کاش ہم ہر وقت دریائے عشق میں مستغرق رہتے۔

 

۱۔ میرے نزدیک عقیدت، محبت، اور عشق ایک ہی حقیقت کے مختلف درجات ہیں، میرا خیال ہے کہ بہشت میں سب کچھ ہے مگر گریۂ عشق کی نعمتِ عظمیٰ وہاں موجود نہیں، اس لئے حضرتِ آدمؑ کو بہشت سے باہر آکر عشقِ الٰہی میں رونا پڑا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ مقدّس نارِ سماوی جس نے حضرتِ ہابیلؑ کی قربانی کو قبول کیا آتشِ عشق ہی تھی (۰۵: ۲۷) قرآن ہی کی روشنی میں میرا یقینِ محکم یہ ہے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا طرۂ امتیاز ربِّ جلیل کا پاک عشق ہے، پس کوئی نبی اور کوئی ولی ایسا نہیں جو گریۂ عشق سے خالی رہا ہو (۱۷: ۱۰۹، ۱۹: ۵۸)۔

 

۲۔ گریۂ عشقِ سماوی میں ایسے اعلیٰ معانی پوشیدہ ہوتے ہیں: کیفیتِ توبہ، مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات، حاجت طلبی، خصوصی ذکر و عبادت، نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد، خوفِ خدا، اظہارِ عاجزی، سب کے حق میں دعا، شکرگزاری، جذبۂ عشق، شوقِ دیدار، محویّت و فنائیت، تطہیرِ باطن، علاجِ روحانی، رجوع الی اللہ، انقلابی ریاضت، تحلیلِ نفس، نورانی تائید کے لئے درخواست، انبیاء و اولیاء کی پیروی، کم علمی کا احساس، وغیرہ، جس عبادت میں

۶۹

اس کثرت سے خوبیاں ہوں، اس سے روحانی ترقی کیوں نہ ہو۔

 

۳۔ میں اس حقیقت پر پورا  پورا یقین رکھتا ہوں کہ حضرتِ اسرافیل فرشتۂ عشق ہے، نفخۂ صور زمزمۂ عشق و فنا برائے اولیاء ہے، یہاں منزلِ عزرائیل کے عظیم معجزات بھی ہیں، عالمِ ذرّ کے عجائب و غرائب بھی، حضرتِ داؤد علیہ السّلام کی ملکوتی تسبیح خوانی بھی، اور اس انتہائی عاشقانہ تسبیح کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی روحانی ہم آہنگی بھی ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے (۲۱: ۷۹، ۳۴: ۱۰) خوب یاد رہے کہ عشق و فنا کے یہ تمام معجزے دوستانِ خدا کی ذاتی قیامت اور عالمِ ذرّ سے متعلق ہیں، کیونکہ تصوّف کا ایک خاص اصول ہے: جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جانا، یہ عمل اگرچہ انتہائی مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں، ایسا کرنا نہ فرض ہے نہ واجب، بلکہ یہ نوافل میں سے ہے، جیسے اس کتاب میں “معجزۂ نوافل” کا بیان ہے۔

 

۴۔ ذاتی اور انفرادی قیامت کے بارے میں ارشادِ نبوّی یہ ہے: من مات فقد قامت قیامتہ = جو شخص (نفسانی طور پر) مر گیا تو بے شک اس کی (ذاتی اور روحانی) قیامت برپا ہو جاتی ہے (احیاء العلوم، جلدِ چہارم، بابِ دوم) یہ مرشدِ کامل، رسولِ پاک، اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے شدید محبت کرنے کا پُرلذّت ثمرہ ہے، یہ پُرجلال آسمانی عشق کا لازوال انعام ہے، یہ جوابِ باصوابِ نامۂ عشق ہے، یہ لپیٹی ہوئی کائنات ہے، یہ وہ بہشتِ برین ہے جو نزدیک لائی گئی ہے، اور یہ کتابِ اعمالِ عشق ہے جو عقل و دانش اور علم و حکمت کی باتیں بتاتی ہیں۔

 

۵۔ جس بندۂ مومن کے پاکیزہ قلب میں عشقِ سماوی کا غلبہ ہو، وہ بڑی کثرت سے خدا کو یاد کرتا رہتا ہے، اس کو علم و عبادت کے بغیر کوئی قرار ہی نہیں، کیونکہ خدا اس کا محبوب ہے اور علم و عبادت محبوب کی محبوب چیزیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ خدا جس سے بہت راضی ہوتا ہے اس کو علم و عبادت کے شوق سے نوازتا ہے، کیونکہ علم عقلی نعمت ہے، عبادت روحانی نعمت اور عشق شرابِ جنت ہے۔

 

۶۔ آسمانی عشق کی خاص خاص باتیں قرآنِ حکیم کے اسرارِ باطن میں سے ہیں، جیسے ولی،

۷۰

نبی، اور خدا کی محبت کی تشبیہہ و تمثیل بہشت کی شرابوں سے دینا، ان میں سے ایک مثال شرابِ طہور (نہایت پاکیزہ شراب، ۷۶: ۲۱) کی ہے، جس سے آسمانی عشق مراد ہے کہ اسی سے اہلِ ایمان کا باطن کماحقہ پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے، یہ شرابِ عشقِ حقیقی دنیا میں بھی ہے اور بہشت میں بھی، تاہم دنیا میں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے، کیونکہ دنیا ہی میں ہر وقت نافرمانی اور گناہ کی آلودگی کا خطرہ رہتا ہے، مگر بہشت میں ایسی کوئی بات نہیں۔

 

۷۔ قرآنِ عظیم کے ظاہر و باطن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ہر اہم اور بڑا مضمون سر تا سر قرآن میں پھیلا ہوا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے اعلیٰ مضامین خداوند تعالیٰ کے اسمائے صفاتی سے متعلق ہوتے ہیں، جیسے محبت و عشق کے مضمون کا تعلق خدا کے اسمِ ودود (بہت محبت کرنے والا، ۱۱: ۹۰، ۸۵: ۱۴) سے ہے اور یہ اسم خود بھی اور دوسرے اسماء سے مل کر بھی سارے کلام اللہ کے معنی میں موجود ہے، اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآنِ حکیم کی کوئی آیۂ کریمہ ایسی نہیں جس میں آسمانی محبت کا کوئی ذکر یا کوئی راز نہ ہو۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۸ فروری ۱۹۹۷ء

۷۱

کنوزِ احادیث

 

عنوانِ بالا کا مطلب یہ ہے کہ ہر حدیثِ شریف بجائے خود علم و حکمت کا ایک لاثانی و غیر فانی خزانہ ہے، اہلِ سعادت ہمیشہ ایسے بے مثال خزانوں کے پوشیدہ اسرار کو جاننا چاہتے ہیں، اور ایسی اعلیٰ چاہت دراصل حق تعالیٰ کی جانب سے عطا شدہ توفیق و تائید ہی ہوا کرتی ہے، لہٰذا ایسے میں ہر ہوشمند مومن خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تاکہ کفرانِ نعمت نہ ہو۔

 

۱۔ صورتِ رحمان کے سرِ اسرار: فان اللہ خلق آدم علیٰ صورتہ فاعرف نفسک یا انسان تعرف ربّک = پس بے شک اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا آدمؑ کو اپنی صورت پر پس پہچان اپنے نفس کو اے انسان تاکہ پہچانے اپنے ربّ کو (کیمیائے سعادت، عنوانِ مسلمانی، فصل ۲)۔

 

اس حدیثِ شریف کی تابناک اور بے مثال تعلیم بدرجۂ انتہا دلنشین ہے، وہ روشن ہدایت یہ کہ جب مومنِ سالک عالمِ شخصی اور خود شناسی کے سفر میں آگے سے آگے جانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ حظیرۂ قدس میں داخل ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ اپنے باپ آدم کی صورت پر ہو جاتا ہے، اور آدمؑ رحمٰن کی صورت پر پیدا کیا گیا تھا، اور یہ معرفت کے درجۂ کمال کا اشارہ ہے۔

 

۲۔ چارۂ کار، حفاظت کی جگہ: اللہ تعالیٰ نے حضرتِ داؤدؑ پر وحی نازل کی اور فرمایا: ان بدک اللازم فالزم بدک = میں تیرا لازمی چارۂ کار (یا حفاظت گاہ) ہوں پس تو نے میرے ساتھ رہنا ہے، لہٰذا میری دوستی کا سامان

۷۲

فراہم کر (مذکورہ کتاب، دوسرا عنوان، فصل ۸)۔

 

۳۔ عجائب و غرائبِ حکمت: حکمت کی عجیب و غریب باتیں قرآن و حدیث میں پوشیدہ ہیں، اسی لئے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: روحوا انفسکم ببدیع الحکمۃ فانھا تکمل کما تکمل الابدان = حکمت کی عجیب اور غریب باتوں سے اپنی جانوں کو راحت دو، جان اس طرح پوری ہوتی ہے جیسے بدن ہوتا ہے (لغات الحدیث، لفظ: بدیع) یعنی جس علم و حکمت سے شادمانی ہوتی وہی عقل و جان کی تکمیل کا باعث ہو سکتا ہے۔

 

۴۔ نورانی قالب = جسمِ لطیف: ارشادِ نبوّی ہے: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا = مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے، جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا (لغات الحدیث، لفظ: قالب) اس سے جسمِ لطیف مراد ہے، کہ وہ ایک نورانی انسان ہے جو بہشت میں رہتا ہے، وہ مومن کے لئے زندہ اور عاقل جامۂ جنت ہے، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں۔

 

۵۔ کنزِ مخفی = گنجِ معرفت: حضرتِ داؤدؑ نے پروردگارِ عالم سے پوچھا: یا ربّ تو نے خلق کو کس غرض سے پیدا کیا ہے؟ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کنت کنزاً مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت الخلق لکی اعرف = میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو میں نے خلق کو پیدا کیا تاکہ میری شناخت ہو (احادیثِ مثنوی)۔

 

اس حدیثِ قدسی میں اس بے مثال و لازوال گنجِ ازل کا ذکرِ جمیل ہے جو عارفِ کامل کے لئے عالمِ شخصی کے حظیرۂ قدس میں پنہان رکھا ہوا ہے، یہاں جس تخلیق کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ روحانی اور عقلانی تخلیق ہے، کیونکہ اس کے سوا کوئی شخص حضرتِ ربّ کی معرفت تک رسا نہیں ہو سکتا، اور نہ وہ انمول خزانہ کسی کو حاصل ہو سکتا ہے

 

۶۔ تصوّف کے چار ارکان: تصوّف کی بعض کتابوں میں یہ حدیثِ شریف درج ہے: الشریعت اقوالی، الطریقت افعالی، الحقیقت احوالی،

۷۳

و المعرفت سری = شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے اعمال کا، حقیقت میری باطنی کیفیت کا، اور معرفت میرا راز ہے (روحانیّتِ اسلام، از مولانا الحاج (کپتان) واحد بخش سیال چشتی صابری)۔

 

۷۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لوگوں نے پوچھا کہ یا حضرت خدائے تعالیٰ کہاں ہے؟ زمین میں یا آسمان میں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ایمان والے بندوں کے دل میں ہے۔

 

حدیثِ قدسی میں ارشاد ہے:  نہ میری گنجائش زمین میں ہے نہ آسمان میں، اور میری گنجائش میرے بندۂ مومن کے دل میں ہے جو نرم اور ساکن ہو (احیاء العلوم، جلدِ سوم، بابِ اوّل، بیان ۶)۔

 

۸۔ مفرد لوگ آگے بڑھ گئے: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: مفرد لوگ آگے بڑھ گئے، یا (فرمایا:) خوشی اور مبارکبادی ہے مفرد لوگوں کے لئے، عرض کیا مفرد لوگ کون ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی یاد میں جھومتے رہتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی یاد پر حریص ہیں (۔۔۔ حضراتِ صوفیہ نے فرمایا: مفرد وہ لوگ ہیں جن کو خداوند کریم کا عشق ہے، ما سوٰی اللہ سے ان کو کچھ غرض نہیں) (لغات الحدیث، لفظِ فرد)۔

 

۹۔ عیال اللہ = خدا کی عیال: الخلق عیال اللہ، فاحب الخلق الی اللہ من نفع عیال اللہ، و ادخل علیٰ اہل بیت سرورا = مخلوق تمام کی تمام خدا کی عیال ہے، لہٰذا خدا کے نزدیک محبوب ترین شخص وہ ہے جو خدا کی عیال کو نفع پہنچائے اور اہلِ بیت کو خوشی دے (میزان الحکمت ۲، ص ۳۴۷)۔

 

۱۰۔ سب سے زیادہ محبوب شخص: سئل النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عن احب الناس الیہ، فقال: انفعھم للناس = حضرتِ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا:

۷۴

جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے (مذکورہ ص ۳۴۷)۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

۲ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ

۱۰ فروری ۱۹۹۷ء

۷۵

اسرارِ سالکین

 

اے عزیزان! جو باسعادت مومن اسلامی روحانیّت کی راہ پر چلتا ہو وہ سالک ہے، اور دینِ اسلام کے فیوض و برکات اور روشن تعلیمات کی یہ شان ہے کہ یہاں ہر زمانے میں سالکین و عاشقین پیدا ہوتے جاتے ہیں، سالک کا یہ نام دراصل علم الیقین سے آگے چل کر عین الیقین سے شروع ہو جاتا ہے، اگر سالک کی ذات میں دینِ اسلام کی تمام تر خوبیاں موجود نہ ہوں تو وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ہے، خصوصاً علم و عبادت، گریہ و زاری، عشقِ سماوی، فنا، فنا اور آخری فنا کا بے حد شوق لے کر منزل بمنزل آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کوئی قدم تائیدِ الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔

 

۱۔ اس زندگی کے باؤجود دو دفعہ پیدا ہو جانا: وجودِ انسانی جسم، روح اور عقل کا مجموعہ تو ہے، لیکن عملی تصوّف کی نظر میں یہ تینوں چیزیں اصلی اور حقیقی نہیں بلکہ علامتی اور آزمائشی ہیں، لہٰذا سالکینِ دینِ مبین کے لئے یہ امر ضروری ہے کہ وہ اپنی جسمانی زندگی ہی میں عالی ہمتی اور خدا کی یاری سے دو دفعہ مر کر دو دفعہ پیدا ہو جائیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے وہ منزلِ عزرائیلی میں نفسانیت سے مر کر روحانیّت میں زندہ ہو جائیں، پھر بہت آگے چل کر روحانیّت سے بھی مر جائیں اور عقلانیت میں پیدا ہو جائیں، ایسے میں مومنینِ سالکین حظیرۂ قدس میں حقیقتِ واحدہ ہو کر اسرارِ ازل کا مشاہدہ کریں گے، یہ ہوا دو دفعہ پیدا ہو جانا۔

 

۲۔ مشاہدۂ ملکوت کی دو عظیم شرطیں: جاننا چاہئے کہ صرف اور صرف ظاہری اور جسمانی پیدائش کوئی قابلِ ستائش چیز نہیں ہو سکتی، جب تک

۷۶

کہ انسان کی روحانی اور عقلانی تولد (پیدائش = جنم) نہ ہو، کیونکہ جسمانی تخلیق تو معدنیات، نباتات، حیوانات اور دین سے بیگانہ لوگوں کی بھی ہوتی آئی ہے، پس یہی سبب ہے کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا: لن یلج ملکوت السمٰوٰت من لم یولد مرتین =  جو شخص (اسی زندگی میں) دو دفعہ پیدا نہ ہو جائے وہ آسمانوں کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتا ہے (احادیثِ مثنوی، فارسی، ص ۹۶، ۱۹۴)۔

 

۳۔ اولیاء اللہ کی پُرحکمت توصیف: خدا کے خاص دوستوں کی نہایت عالی شان تعریف و توصیف یہ ہے: اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ = آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں (۱۰: ۶۲) ظاہر ہے کہ اولیاء کا مرتبہ انتہائی عظیم ہے اور وہ ہے فنا فی اللہ و بقا باللہ، اور ایسے میں وہ حضرات عالمِ شخصی کے حظیرۃ القدس کے تمام عظیم اسرار سے واقف و آگاہ ہوتے ہیں، مثلاً: ذاتی کائنات کی چھت (عرش) پر چڑھ کر چشمِ بصیرت سے یہ دیکھنا کہ عالمِ عُلوی (عالمِ امر) کا نظام عالمِ سُفلی سے قطعاً مختلف ہے، وہاں ازل و ابد ایک ہی حقیقت ہے، وہی دہر یعنی زمانِ نا گزرندہ ہے، وہاں سورج کے ساتھ چاند اور تمام ستارے ایک ہیں، وہی نورِ واحد نورِ ازل ہے، اسی کا نام نورِ عقل ہے، اسی کو نورِ معرفت اور نور الانوار کہتے ہیں، یہی سراجِ منیر بھی ہے، اور اس کے بے شمار نام ہیں، کیونکہ یہ عالمِ عقل کا مجموعۂ کُل شی ہے، الغرض وہاں اللہ تعالیٰ نے عالمِ باطن کو لپیٹ کر رکھا ہے یا یہ کہ خزائنِ ازل ہمیشہ ہمیشہ اپنی جگہ قائم ہی ہیں، جبکہ ان کے فیوض و برکات کا نزول ہی کائنات و مخلوقات کے لئے کافی وافی ہوتا رہتا ہے۔

 

۴۔ سالکین = عارفین: سالکین بعد از فنائے مطلق عرفاء و اولیاء میں شامل ہو جاتے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ان مبارک و مقدّس ہستیوں کو جو کچھ انعام ملتا ہے اس کی قدر و قیمت کا کیا کہنا، تسخیرِ کائنات، لازوال سلطنت، بہشتِ جاویدان، حیاتِ سرمدی، گنجِ اسرارِ ازل، وصلِ جانان، رضوانِ اکبر، فنا فی اللہ، بقا باللہ اور سیر فی اللہ۔

 

۵۔ کنزِ مخفی کے اشارے: اے عزیزِ من! اس حدیثِ قدسی کو خوب غور

۷۷

سے سن لیں: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے خلق (یعنی ہر عارف) کو پیدا کیا تاکہ مجھ کو پہچانے۔ جاننا چاہئے کہ یہ ارشاد یقیناً عالمِ شخصی سے متعلق ہے اور یہ عارف کی روحانی اور عقلانی تخلیق ہے، اور یہاں ایک اشارہ تو یہ ہے کہ عارف مشاہدہ اور پہچان کی غرض سے گنجِ مخفی (صفاتِ رحمانیہ) کے اندر داخل ہو جائے، جس کے بغیر معرفت ممکن ہی نہیں، اس نکتۂ دل نشین سے فنا فی اللہ کی تصدیق ہوگئی، دوسرا پُرحکمت اشارہ یہ ہے کہ عارف اس گنجِ مخفی کو بطورِ انتہائی عظیم انعام حاصل کرکے ہمیشہ ہمیشہ اپنائے رکھے، اور یہ حقیقت بقا باللہ اور سیر فی اللہ سے مختلف ہرگز نہیں۔

 

۶۔ حکمت مومن کی کھوئی ہوئی چیز ہے: ارشادِ نبوّی ہے: الحکمۃ ضالۃ المومن = حکمت مومن کی گمشدہ چیز ہے (میزان الحکمت ۲، ص ۷۶۶)۔ حدیثِ شریف میں بھی حکمتِ بالغہ پوشیدہ ہوتی ہے، لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکمت جو مومن کی گمشدہ متاع ہے وہ عالمِ علوی میں ہے، جس سے انسان الگ ہوکر بہت دور آیا ہے، اور اسی معنیٰ میں حکمت اس سے کھو گئی ہے۔

 

۷۔ الفاظ تھوڑے اور معانی بے شمار: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے: بعثت بجوامع الکلم = میں جوامع الکلم (تھوڑے الفاظ میں بہت سے معانی کو سمو دینا) کے ساتھ بھیجا گیا ہوں (صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتاب الاعتصام، نیز لغات الحدیث) جوامعِ کلم سے قرآن و حدیث مراد ہیں کہ ان کے ارشادات میں الفاظ کم اور معانی بسیار ہوتے ہیں، اور یہ خدا و رسول کے کلام کا ایک معجزہ ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

۱۳ فروری ۱۹۹۷ء

۷۸

روحانی دستر خوان

 

اے عزیزانِ من! آپ یہ بتائیں کہ انبیاء علیہم السّلام کی معرفت ممکن ہے یا محال (غیر ممکن)؟ اور اس سوال کا جواب بھی دیں کہ آیا قرآنِ پاک کی معرفت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ درحالے کہ آپ کی اپنی ذات کی معرفت حضرتِ ربّ کی معرفت ثابت ہو جاتی ہے؟ آپ خوب سوچ کر جواب دینا، میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ ہر چیز کی معرفت ممکن ہے، جبکہ پروردگار کی معرفت ہو سکتی ہے۔

 

۱۔ انبیاء و اولیاء کی معرفت: ظاہراً دیکھا جائے تو انبیاء و اولیاء علیہم السّلام الگ الگ ہیں، لیکن نفسِ واحدہ کی قیامت و روحانیّت میں سب ایک ہیں (۳۱: ۲۸) جبکہ خدا تعالیٰ نے سب کے لئے ایک ہی معرفت مقرر کر دی ہے کیونکہ ربِّ کریم اہلِ ایمان کے لئے آسانی چاہتا ہے، ان کو مشکلات میں رکھنا نہیں چاہتا، پس خداوندِ قدوس کے فضل و کرم سے جس نے اپنی ذات (روحِ علوی) کو پہچانا اس نے اولیاء، انبیاء اور پروردگار کو پہچانا، اب ایسی عالی شان اور ہمہ گیر معرفت سے کوئی شیٔ کس طرح باہر ہو سکتی ہے۔

 

۲۔ ایمان اور یقین: ایمان شروع سے لے کر آخر تک بہت سے درجات پر مبنی ہے، مگر یقین کافی آگے چل کر شروع ہو جاتا ہے، کیونکہ ایمان کے ابتدائی معنی باور کرنے کو کہتے ہیں اور لفظِ یقین معرفت کا ہم معنی ہے، پس جہاں سے یقین کا آغاز ہو جاتا ہے، وہاں ایمان کا دوسرا نام یقین ہو جاتا ہے، جیسے سورۂ نساء (۰۴: ۱۳۶) میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا  ۔۔۔ اے ایمان والو یقین حاصل کرو۔

۷۹

۳۔ آسمانی کتب کی تصدیق: یہاں ابتداءً یہ سوال بھی ہوا تھا: آیا قرآنِ پاک کی معرفت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اگرچہ ایک طرح سے اس کا جواب مثبت انداز سے دیا گیا ہے، تاہم مزید اطمینان کی خاطر مریم علیہا السّلام کی ایک قرآنی مثال پیش کی جاتی ہے: اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے پروردگار کے کلمات کی اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرمانبرداروں میں تھی (۶۶: ۱۲) یعنی مریمؑ ہمیشہ اپنے کان کو باطل باتوں سے محفوظ رکھتی تھی، تب اللہ کی رحمت سے اس کی روحانی قیامت برپا ہوئی، اور نفخۂ صور کے ذریعہ اس میں روحِ قدسی پھونک دی گئی، پھر نورِ معرفت کی روشنی میں اس نے کلماتِ تامّات اور کتبِ سماوی کی تصدیق کی اور وہ خاص فرمانبرداروں میں سے تھی، یہاں سے معلوم ہوا کہ آسمانی کتاب کی روح و روحانیّت ہے، جس کے تفصیلی مشاہدے سے کتابِ سماوی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔

 

۴۔ مائدۂ روحانی کی معرفت: لفظِ الشہید کے تین معانی ہیں: حاضر، گواہی میں امین جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو، اللہ کے راستے میں مارا جانے والا (المنجد) خدا کے سچے عشاق جو فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں وہ یقیناً شہدائے باطن کا مرتبہ رکھتے ہیں، وہ عالمِ شخصی کی ساری روحانیّت میں حاضر ہوتے ہیں، جملہ معجزاتِ انبیاء پر گواہ ہیں، وہ خدا کے راستے میں قتل کئے گئے ہیں، یہ سچ اور حقیقت ہے اور اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ ایسے کامل عارفین اللہ تعالیٰ کے نور سے انبیاء علیہم السّلام کے تمام معجزات کو دیکھتے اور پہچانتے ہیں، چنانچہ انہوں نے مائدۂ باطنی کا بھی مشاہدہ کیا ہے اور ان کو اس میں سے لذّت گیری کا تجربہ بھی ہو چکا ہے۔

 

۵۔ تین قسم کی اعلیٰ غذائیں: اہلِ معرفت کے نزدیک کثیف (جسمانی) خوراک کی کوئی تعریف ہی نہیں، کیونکہ وہ چوپایہ بھی کھا سکتا ہے، قابلِ ہزار ستائش وہ بے مثال اور عالی شان لطیف غذا ہے جو گوناگون خوشبوؤں کی صورت میں بہشتِ برین سے آتی رہتی ہے، جو خالص جوہر اور ہر طرح سے پاک و پاکیزہ ہے، جو بہشتی غذا بھی ہے اور آسمانی دوا بھی، اس سے بالاتر روحانی غذا ہے، جو ہر قسم کی عبادت اور ذکرِ الٰہی کی شکل میں

۸۰

ہے، اور سب سے بلند ترین غذا عقلی ہے، جو اعلیٰ علم و حکمت اور اسرارِ معرفت کے نام سے حاصل ہوتی رہتی ہے۔

 

۶۔ معجزانہ خوشبو والی غذا: یہ غذا دوستانِ خدا کو روحانی تجربات کے دوران ملتی ہے جب کہ وہ شدید ریاضت اور خصوصی عبادت کی وجہ سے یا دنیا کی کسی آزمائش کے سبب سے ظاہری خوراک کو ترک کرتے ہیں یا نہیں ملتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حیوانی خوراک کھاتے ہوئے ملکی (فرشتگی) غذا کا تجربہ محال ہے۔

 

۷۔ روحانی طب ایک قدیم مثال: اگرچہ “روحانی سائنس” ایک جدید اصطلاح ہے، لیکن اس کی ایک قدیم مثال طبِ روحانی ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے انبیاء علیہم السّلام کو عطا ہوئی تھی، اور اسلام میں طبِ نبوّی کا علاج بے مثال ہے، شریعتِ اسلامیہ کا کون سا فریضہ ایسا ہے جس میں روحانی طب کا کوئی فائدہ نہ ہو، جسم، روح، اور عقل کی کوئی ورزش نہ ہو، ہم اپنے دل و دماغ کی بیماریوں کو محسوس کریں یا نہ کریں، بہرحال نیک اعمال کی وجہ سے وہ رفع دفع ہو جاتی ہیں، یہ خاموش اور مخفی روحانی سائنس ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ اب روحانی سائنس کا دور شروع ہو رہا ہے، عجب نہیں کہ اس سے اہلِ دنیا کو بے شمار فوائد حاصل ہوں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

ہفتہ ۷ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ

۱۵ فروری ۱۹۹۷ء

۸۱

نور کی گوناگونی

 

یہ ہمارا عقیدۂ راسخ، ایمان اور یقین ہے کہ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نورِ مجسّم تھے، کیونکہ حضورِ اکرمؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بمرتبۂ نور مبعوث ہوئے تھے (۰۵: ۱۵) آپؐ کو خدا نے چراغِ روشن بنا دیا تھا (۳۳: ۴۶) اگر دنیا کا کوئی چراغ فی المثل زندہ، ناطق اور دانا ہوتا تو اس کی سماعت، بصارت، بصیرت اور گویائی (قوّتِ ناطقہ) بھی نور ہی کی ہوتی، وہ بڑی آسانی سے نور کو سن سکتا، نور کو ظاہر و باطن میں دیکھ سکتا، اور وہ جب بھی بولتا تو صرف اور صرف نور افشانی کرتا، یعنی پُرنور باتیں کرتا، کیونکہ اس کی روشن و پاکیزہ ذات میں ماسوائے نور کے اور کوئی چیز نہ پائی جاتی، یہ آنحضرتؐ ہی کی مثال در مثال ہے، پس معلوم ہوا کہ حضورِ پاکؐ کو سراجِ منیر کہنے کا مطلب یہی ہے کہ یقیناً آنحضرتؐ سرتاپا نور تھے، لہٰذا آپؐ کے حواسِ ظاہر و باطن نور ہی تھے، اور آپؐ کا کلامِ حکمت نظام بصورتِ قرآن و حدیث نور ہی تھا، یہی حقیقت دعائے نور سے بھی روشن ہو جاتی ہے، جو درجِ ذیل ہے آپ اسے غور سے پڑھیں:

 

۱۔ کتبِ احادیث میں رسول اللہ کی یہ انتہائی جامع دعا موجود ہے، جس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حضورِ پاکؐ سراپا نورِ مجسم تھے، اور دوسری طرف یہ پتا چلتا ہے کہ تجلّیاتِ نور میں گوناگونی ہے، اس پُرحکمت دعا کا ترجمہ اس طرح سے ہے: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے، اور میرے کان، آنکھ اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اورمیرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے بھی نور مقرر فرما!

۸۲

۲۔ اس تمہیدی بیان اور دعائے نور سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ خداوندِ عالم نے نور کو انسانِ کامل ہی میں پیدا کیا ہے، اس لئے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ نور کی اصل صورت نبی اور ولی ہیں، اور یہ ضروری نکتہ بھی یاد رہے کہ مذکورۂ بالا دعا کے مطابق انسانِ کامل ظاہراً و باطناً دریائے نور میں مستغرق ہو جاتا ہے، تب اس کی شخصیت کو سانچے کے طور پر استعمال کر کے بہت سے فرشتے بنائے جاتے ہیں، جو اس کے ہمشکل ہوا کرتے ہیں، اور یہ معجزانہ عمل اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں انجام پاتا ہے، حدیثِ شریف میں ایسے فرشتوں کا نام “بازارِ جنت کی تصویریں” ہے (جامعِ ترمذی، جلدِ دوم، جنت کے بازار)۔

 

۳۔ نور کی تجلیات کی گوناگونی انسان کے حواسِ ظاہر و باطن کے مطابق ہوا کرتی ہے، چنانچہ کان کے لئے جو نورہے وہ کئی طرح کی آواز میں ہے، آنکھ کے لئے جو نور ہے وہ مشاہدۂ آیات و معجزات میں ہے، اسی طرح ہر احساس و ادراک کے لئے نور کی ایک تجلّی مقرر ہے، تعجب خیز ذکر و علمی گفتگو، حیرت انگیز روحانی خوشبوئیں وغیرہ سب ظہورِ نور ہی کی وجہ سے ہیں، مومنِ سالک کے عرفانی مشاہدات، تجربات اور معلومات کے لئے چار عوالم ہیں: عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، اور عالمِ روحانیّت، جن میں سے ہر ایک میں تجلّیاتِ نور کے بے شمار عجائب و غرائب ہیں، کیونکہ ایسے میں ہر حالت پر نور غالب آتا ہے۔

 

۴۔ دعائے نور کے سلسلے میں شاید کوئی عزیز یہ سوال کرے، کہ بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں کے لئے جو نور مطلوب ہے اس کے کام کی نوعیت کیا ہوگی؟ اس کا کلی جواب تین حصوں میں ہے: (الف) نور کے بے شمار کاموں میں سے ایک زبردست مفید کام روحانی علاج ہے، لہٰذا جسم کے ان اجزاء میں نور کے آنے سے ہر قسم کی بیماری دور ہو جائے گی (ب) ان اجزاء میں روحِ نباتی اور روحِ حیوانی کام کر رہی ہے، اس لئے نور کی روشنی میں ان روحوں کی معرفت ہوگی (ج) جب عارف کے اجزائے جسمانی سب کے سب نور میں مستغرق ہو جاتے ہیں تو اس وقت اس کا نورانی بدن مکمل ہوکر الگ ہو جاتا ہے، جس کا اسی مضمون میں ذکر ہو چکا۔

 

۵۔ دوسرا امکانی سوال یہ بھی ہے کہ کوئی پوچھے کہ آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر،

۸۳

اور نیچے نور کس طرح ہو سکتا ہے؟ اور ایسے  میں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے؟ اس کا جواب دو طرح سے ہے، اوّل یہ کہ فی الواقع نور چھ اطراف سے آتا ہے اور ہر جانب سے کام کرتا رہتا ہے، یعنی آگے (پیشانی اور چہرہ)، پیچھے (پشت)، دائیں (گوشِ راست)، بائیں (گوشِ چپ)، اوپر (سر کا بالائی حصہ)، اور نیچے (پاؤں) دوسرا یہ کہ آگے= مستقبل ہے، پیچھے = ماضی، دائیں = ظاہر، بائیں = باطن، اوپر = عالمِ علوی، اور نیچے = عالمِ سفلی، ان میں سے ہر مقام کے لئے ایک نور کی ضرورت ہے، تاکہ علم و معرفت کے بے شمار فائدے حاصل ہو سکیں۔

 

۶۔ صوفیائے کرام کا یہ نظریہ بالکل صحیح ہے کہ جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جانا ضروری ہے، اس کے سوا معرفت کے لئے کوئی راستہ نہیں، نفسانی موت کے بعد ہی سالک حقیقی معنوں میں زندہ ہو جاتا ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: کیا جو شخص پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور مقرر کیا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں میں چلتا ہے اُس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی حالت یہ ہے کہ اندھیروں میں پھنسا ہوا ہے کہ وہاں سے نکل ہی نہیں سکتا (۰۶: ۱۲۲) یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ ہے کہ خدا نے جس شخص کو نورِ معرفت میں زندہ کیا ہے وہ کس طرح لوگوں میں چلتا ہے؟ کیا یہ چلنا وہی ہے جس طرح دوسرے سب لوگ چلتے ہیں؟ آیا یہ شخص لوگوں کے باطن میں چل سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا عارف اپنے عالمِ شخصی میں لوگوں کی روحوں کے درمیان چلتا ہے جہاں ہر چیز کی معرفت ہے، اور یہ بڑی قابلِ تعریف بات ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

پیر ۱۷ فروری ۱۹۹۷ء

۸۴

روح بعد از موت

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: روح المومن بعد الموت فی قالب کقالبہ فی الدنیا = مومن کی روح مرنے کے بعد ایک قالب میں رکھی جاتی ہے جو اسی صورت کا ہوتا ہے، جیسے دنیا میں اس کا قالب تھا (صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کا قالب کثیف تھا وہ لطیف اور نورانی ہوتا ہے۔ لغات الحدیث، جلدِ سوم، لفظِ قالب)۔

 

۱۔ روحِ مومن بحکمِ خدا عالمِ امر سے نورانی رسی کی طرح عالمِ خلق میں اتر آئی ہے، اس کا بالائی سرا اپنی اصل سے واصل ہی ہے، اور زیرین سرا قالبِ عنصری سے وابستہ ہے، روح کی دوسری مثال سیڑھی کی سی ہے، جو عالمِ علوی سے عالمِ سفلی تک لگی ہوئی ہے، تیسری مثال پل جیسی ہے جو آخرت اور دنیا کے درمیان ہے، چوتھی مثال میں روح گویا ایک نہر ہے جو چشمۂ بہشت سے لے کر تمہارے بدن تک جاری ہے، پانچویں مثال میں نفسِ کلّی سورج جیسا ہے اور نفوسِ جزوی کرنوں کی طرح ہیں، چھٹی مثال میں سرچشمۂ روح گویا بجلی گھر ہے اور انسان کی روح ایک بلب، جو کسی مکان میں لگا ہوا ہو، اور ساتویں مثال میں عالمِ بالا دارالسلطنت ہے، جہاں سے مومن کی روح بڑی اہم خدمات پر مامور ہو کر دنیا میں آئی ہے، اور اس کے ساتھ ایک وائرلیس (لاسلکی) سیٹ  (set)  بھی ہے، مگر افسوس کہ یہ کچھ خراب ہو گیا ہے۔

 

۲۔ جب سے روحِ لطیف جسمِ کثیف میں آتی ہے تب سے یہ عالمِ علوی کے ساتھ رابطہ نہیں کر پا رہی ہے، جس کی وجہ نفسانی کدورتیں ہیں، تاہم کوئی عالی ہمت مومن مایوس

۸۵

نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ فرائض و نوافل کے راستے پر سعی کرتا رہتا ہے، تا آنکہ ایک نہ ایک دن اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی دستگیری کرتی ہے، اور وہ خودشناسی اور خدا شناسی میں کامیاب ہوکر اپنے نورانی بدن (جثۂ ابداعی) کو دیکھتا ہے، اور یہ بہت بڑا معجزہ ہے۔

 

۳۔ خداوندِ مہربان کی قدرتِ کاملہ اور رحمتِ بے پایان میں یہ عجب نہیں کہ مومن زندگی ہی میں اپنی کامیاب اور عارفانہ موت اور جسمِ لطیف کو دیکھے، اور اس کو یہ راز بھی معلوم ہو کہ روحِ مومن کس طرح نورانی قالب میں رکھی جاتی ہے، کیونکہ مومن کی روح اپنی اصل اور کُلّ کی ایک مکمل کاپی  (copy)  ہے، لہٰذا اس کی اپنی معرفت میں ہر چیز کی معرفت ہے۔

 

۴۔ روحِ مومن بعد از موت جس قالب میں منتقل ہو جاتی ہے، اس کا نام جسمِ مثالی ہے، کیونکہ وہ اگرچہ نورانی اور لطیف ہے، لیکن آج دنیا میں جس شکل کا جسم ہے اسی کی مثال پر ہے، لہٰذا اس کا نام جسمِ مثالی ہوا، آپ اس باب میں قرآنِ حکیم کے کم سے کم حوالہ جات کے لئے دیکھیں: بنی اسرائیل (۱۷: ۹۹)، یاسین (۳۶: ۸۱)، صٓ (۳۸: ۴۳) ان آیاتِ کریمہ میں اجسامِ مثالی کے لئے لفظِ مثلھم آیا ہے۔

 

۵۔ جسمِ مثالی کا دوسرا نام “خلقِ جدید” ہے، آپ کو یہ نام قرآنِ پاک کے آٹھ مقامات پر ملے گا، خلقِ جدید (نئی پیدائش) جو جسمِ مثالی ہے، وہ اگرچہ زمانۂ آدم سے بھی قدیم ہے، لیکن پھر بھی جدید ترین ہے، کیونکہ وہ جثۂ ابداعیہ ہے، اور اس میں شعلۂ چراغ کی طرح تجدّد کا سلسلۂ دائم جاری ہے، اور یہ جاننے کے لئے بڑا عجیب و غریب راز ہے کہ جب چاہے تو دکھائی دیتا ہے اور جب چاہے غائب ہو جاتا ہے، اس کے لئے در و دیوار یا اور کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔

 

۶۔ کتبِ احادیث میں ہے: الارواح جنود مجندۃ = روحیں جمع شدہ لشکر تھیں۔ اور وہ ہمیشہ اسی طرح سے ہوتی ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے بدل اور اٹل سنت کے مطابق انسانِ کامل ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے، جو نفسِ واحدہ کی مثال اور معرفت کا نمونہ ہوا کرتا ہے، جس کے عالمِ شخصی میں ماضی کی تمام مثالوں کا مظاہرہ ہوتا ہے، تا کہ

۸۶

خزانۂ معرفت ہر وقت موجود ہو، اور اس میں ارواح کے دو مخالف لشکروں کی جنگ کا مظاہرہ بھی شامل ہے، جس کا مقصد عالمِ شخصی میں دینی سلطنت کو قائم کرنا ہے۔

 

۷۔ اسرارِ روح کو سمجھنا کسی مبتدی کے لئے اگرچہ بڑا مشکل کام ہے، لیکن کوئی بھی مشکل ہمیشہ کے لئے مشکل نہیں رہتی ہے، آپ خلوصِ نیت اور صدقِ دل سے اللہ کو یاد کریں اور کمرِ ہمت باندھ کر خود شناسی کے راستے پر آگے بڑھیں، ان شاء اللہ، کامیابی ہوگی، آپ کی روح بڑی عجیب و غریب شیٔ ہے، اس کا بالائی سرا اصل سے واصل ہے، پھر سمجھ لیں کہ یہ نفسِ کلّی میں بھی ہے، جس کے توسط سے یہ ہر اعلیٰ مقام تک پہنچی ہوئی ہے، جیسے آپ کا ٹیلیفون جب سیٹلائٹ سے مل جاتا ہے تو اس وقت آپ کی آواز دنیا بھر میں جا سکتی ہے، اسی طرح اگر آپ کی کوئی پاکیزہ دعا صاحبِ عرش کے امرِ کُنۡ (ہو جا) میں فنا ہو جاتی ہے (۳۵: ۱۰) تو پھر ایسی دعا ساری خدائی میں پھیل سکتی ہے، کیونکہ فنا فی اللہ، بقا باللہ اور سیر فی اللہ معمولی باتیں نہیں ہو سکتی ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

۲۰ فروری ۱۹۹۷ء

۸۷

عالمِ شخصی اور روحانی سفر

 

ہم میں سے ہر ایک کا عقیدۂ راسخ تو یہی ہے کہ صرف اسلام ہی دینِ فطرت ہے، تاہم یہ امر ضروری ہے کہ لفظِ فطرت کے درست ترین معنیٰ و منشا کو سمجھیں: الفطرۃ، وہ صفت کہ ہر موجود اپنی ابتدائے پیدائش میں اس کے ساتھ متصف ہو، طبعی حالت، دین، سنت، طریقۂ پیدائش (المنجد) چنانچہ قرآنِ حکیم (۳۰: ۳۰) میں ارشاد ہے: اللہ کے پیدا کرنے کا طریقہ (دین = سنت) وہ ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا (اور پیدا کرتا رہے گا) اور خدا کی آفرینش میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یعنی بنیادی قوانین اور دائرۂ اعظم میں کوئی تغیر نہیں۔

 

۱۔ انسان عالمِ امر میں ایک ازلی و ابدی حقیقت ہے، جس میں کوئی تبدل و تغیر نہیں، لیکن وہ عالمِ خلق میں ہمیشہ تبدیلیوں سے گزرتا رہتا ہے، آپ واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ آدمی ہر وقت اپنی ظاہری زندگی کے مختلف مراحل میں روان دوان ہے، جیسے قرآنِ پاک (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) کا مفہوم ہے کہ: وہ شروع شروع میں سلالہ (جوہرِ خاک) ہوتا ہے، پھر نطفہ بن کر رحمِ مادر میں ٹھہرتا ہے، پھر علقہ (جما ہوا خون) ہو جاتا ہے، پھر مضغہ (گوشت کا لوتھڑا) پھر عظام (ہڈیاں) پھر لحم (گوشت) ہو جاتا ہے اور پھر خلقِ آخر کے نام سے پیدا ہو جاتا ہے، یہ تو آدمی کا صرف ابتدائی سفر تھا جس کو اس نے شکمِ مادر ہی میں طے کیا، اب جنم لینے کے بعد سفر کا دوسرا حصہ شروع ہو جاتا ہے جو بڑا طویل اور پُرمشقت ہے۔

 

۲۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ سارا سفر صرف ظاہر میں ہو اور باطن میں کوئی سفر نہ ہو، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا مشکل ترین راستہ عالمِ شخصی میں ہے، جس پر سالک کو چلنا بے حد ضروری ہے، کیونکہ اسلام صراطِ مستقیم (راہِ راست) ہے جو علم و عمل سے چلنے کے لئے

۸۸

مقرر ہے، جیسے دعائے اوّلین ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ= (۰۱: ۰۵)  ہم کو سیدھے رستے چلا۔ یعنی ہمیں انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی پیروی نصیب فرما۔

 

۳۔ قرآنی الفاظ جوامع الکلم ہیں، لہٰذا جہاں جہاں چلنے اور آگے بڑھنے سے متعلق الفاظ آئے ہیں، وہاں یہ معنوی معجزہ ہوتا ہے کہ قرآن کے دوسرے تمام لفظوں سے بھی یہی حکمتی اشارہ ملنے لگتا ہے، جیسے صراط، سبیل، ہادی، ہدایت، نور، وغیرہ ہیں کہ ان میں سے ہر لفظ کا جو آخری مطلب ہے اس کے ساتھ دیگر سارے مطالب مل جاتے ہیں، اور ایسا ہونا قرآنِ کریم کے عظیم معجزات میں سے ہے، کیونکہ یہ اُس قادرِ مطلق کا کلامِ حکمت نظام ہے جس نے ہر شخص میں بحدِّ قوّت سب لوگوں کو جمع کر رکھا ہے۔

 

۴۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانِ واجب الاذعان بڑا پُرحکمت ہے: فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِؕ = پس تم اللہ کی طرف دوڑو (۵۱: ۵۰) یعنی تم کامل اطاعت، عبادت اور علم کی تیز رفتاری سے جلد از جلد قربِ الٰہی کو حاصل کرو، اور جملہ آفات و بلیات سے اُسی کی پناہ میں رہو، دوڑنے کی مثال میں اور بھی لطیف حکمتیں پنہان ہیں کہ اس میں مجاہدانہ اعمال کا اشارہ ہے، جیسے ذکرِ سریع کہ وہ شیطان اور نفسِ امّارہ کے خلاف جہاد ہے، اسی طاقت سے عالی ہمت مومن وسوسوں کو کچل ڈالتا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

 

۵۔ سورۂ صافات (۳۷: ۹۹) میں ارشاد ہے: وَ قَالَ اِنِّیْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّیْ سَیَهْدِیْنِ۔ اور (ابراہیم نے) کہا کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جاتا ہوں وہ میری (خصوصی) ہدایت کرے گا۔ روحانی سفر کے بارے میں یہ بڑی روشن مثال ہے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ صراطِ مستقیم تمام انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا راستہ ہے جس پر وہ حضرات عالمِ شخصی میں چلتے چلتے منزلِ مقصود تک پہنچ جاتے ہیں، اور وہ خدائے تعالیٰ ہی ہے۔

 

۶۔ قرآنِ حکیم میں اتباعِ انبیاء (پیغمبروں کی پیروی) ایک بڑا مضمون ہے، اس لفظ کا مادّہ “ت ب ع” ہے، آپ قرآنِ پاک میں اس کے بہت سے صیغے دیکھیں گے جن کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ سب لوگ راہِ مستقیم پر انبیاء علیہم السّلام کے پیچھے پیچھے

۸۹

چلیں، خصوصاً حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اتباع (پیروی) بے حد ضروری ہے، جیسا کہ حق تعالیٰ کا فرمان ہے: (اے رسول) کہہ دو کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع (پیروی) کرو کہ خداوند تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کر دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا بڑا عنایت فرمانے والا ہے (۰۳: ۳۱)۔

 

۷۔ یہ سورۂ نساء کے ارشادات میں سے ہے: اور اس شخص سے دین میں بہتر کون ہوگا جس نے اپنا (باطنی) چہرہ خدا کے سپرد کر دیا اور وہ نیکوکار بھی ہے اور ابراہیم کے طریقہ پر چلتا ہے جو باطل سے کترا کے چلتے تھے۔۔۔ (۰۴: ۱۲۵) چہرۂ باطن کو خدا کے سپرد کرنا یہ ہے کہ کوئی مومنِ سالک منزلِ فنا تک رسا ہو جائے اور اپنا چہرۂ باطن صورتِ رحمان میں فنا کر دے، اور یہ سب سے بڑی نعمت روحانی سفر کے بغیر ممکن نہیں۔

 

۸۔ سچ تو یہ ہے کہ قرآنِ حکیم شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت کے پُرمغز مضامین سے لبریز ہے، ان میں سے ہر مضمون اپنی جگہ بے حد ضروری ہے، ہر عالی ہمت صوفی عملی طور پر شرعِ شریف کا سخت پابند ہوتا ہے اور علمی طور پر بہت آگے جانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، کیونکہ علم کے تو بہت سے درجات ہیں، جیسا کہ سورۂ یوسف میں ارشاد ہے: ہم جسے چاہتے ہیں اس کے درجے بلند کر دیتے ہیں اور ہر صاحبِ علم سے بڑھ کر ایک اور عالم ہے (۱۲: ۷۶) اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآنی علم و حکمت میں علمائے کرام یکسان نہیں بلکہ وہ مختلف درجات پر فائز ہیں۔

 

۹۔ قرآنِ عظیم کے ظاہر و باطن میں عرفانی بہشت کی کبھی ختم نہ ہونے والی نعمتیں موجود ہیں، چنانچہ اگر کسی مبتدی کو سلامتی کی راہوں اور صراطِ مستقیم کا راز معلوم ہو جائے تو یقیناً اس کو ایک بہت بڑی لازوال خوشی حاصل ہو سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ سلامتی کی راہیں صراطِ مستقیم سے الگ نہیں بلکہ یہ اس کی چار منزلیں ہیں جو شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے نام سے ہیں، آپ سورۂ مائدہ (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) میں غور سے دیکھ سکتے ہیں۔

 

۱۰۔ دین کی خاطر ہجرت ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی، ہجرتِ باطن یہ ہے کہ کوئی مومن اپنے عالمِ شخصی میں چلا جائے، جیسے فرمایا گیا ہے: اور جو شخص خدا کی راہ میں ہجرت کرے گا

۹۰

تو اس کو زمین میں (مراغم) بھاگنے کی جگہ بڑی کثرت اور بڑی وسعت سے ملے گی (۰۴: ۱۰۰) یعنی جب کوئی مومن / سالک / عارف اپنے عالمِ شخصی کو فتح کر لیتا ہے تو اُسی سے وابستہ ہوکر ساری کائنات بھی فتح ہو جاتی ہے، ہم نے اس کا ذکر بار بار کیا ہے، پھر اس کو پاؤں سے بھاگنا نہیں بلکہ برقِ نور سے اپنے بے شمار کائناتوں میں بھاگنا ہو گا۔

 

۱۱۔ قرآنِ پاک زمین میں چل پھر کر آیاتِ قدرت دیکھنے کا حکم دیتا ہے، اس کے لئے ایک تو زمینِ ظاہر ہے اور دوسری زمینِ باطن، زمینِ باطن عالمِ شخصی میں ہے، اس کی ایک بڑی عالی شان اور عجیب و غریب مثال سورۂ عنکبوت (۲۹: ۱۹ تا ۲۰) میں یہ ہے: کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا ہے کہ کس طرح اللہ خلق کو بارِ اوّل پیدا کرتا ہے پھر اس کو دوبارہ پیدا کرتا ہے؟ یقیناً یہ (کام) اللہ کے لئے بڑا آسان ہے، ان سے کہو کہ (عالمِ شخصی کی) زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ وہ کس طرح خلق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر اللہ بارِ دیگر پیدا کرتا ہے یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

 

۱۲۔ جب علم الیقین کی بہت بڑی تعریف ہے اور اس کی بے حد ضرورت ہے تو بڑے شوق سے اس کے حصول کے لئے کمر بستہ ہو جانا پڑے گا، اگر آپ علم الیقین کے وصفِ کمال کو جاننا چاہتے ہیں تو سورۂ تکاثر (۱۰۲: ۰۱ تا ۰۸) کو خوب غور سے پڑھیں، تا کہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ علم الیقین کس طرح ابتدائی معرفت کا کام کرتا ہے، اگر آپ خدا کے فضل و کرم سے عارف ہیں اور دوستوں کو عین الیقین اور حق الیقین کے اسرارِ مخفی میں سے انکشاف کرتے ہیں تو یہی اصل علم الیقین ہے، اور یہ دولتِ لازوال عالمِ شخصی کے کامیاب سفر کی برکات میں سے ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۶ شوال ۱۴۱۷ھ ، ۲۴ فروری ۱۹۹۷ء

۹۱

انسان کے دو (۲) ہمنشین

(جنّ اور فرشتہ)

 

مشکوٰۃ، جلدِ اوّل، بابِ وسوسہ میں بحوالۂ مسلم ارشاد ہے: ما منکم من احد الا وقدو کل بہ قرینہ من الجن و قرینہ من الملٰئکۃ۔ قالوا و ایاک یا رسول اللہ، قال و ایای و لکن اللہ اعاننی علیہ فاسلم فلا یامرنی الا بخیر = آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کا ایک ہمنشین (ساتھی) جنّات میں سے اور ایک فرشتوں میں سے مقرر نہ کیا گیا ہو، صحابہ نے یہ سن کر پوچھا: اور یا رسول اللہ آپ کے لئے؟ فرمایا: ہاں، میرے لئے بھی، لیکن اللہ نے اس پر مجھ کو (اپنی مدد سے) غلبہ بخشا ہے، پھر اس نے اسلام اختیار کیا، اور وہ مجھ کو (اب ہر وقت) بھلائی کی ہدایت کرتا ہے۔

 

۱۔ کتابِ شافی، جلدِ چہارم، باب ۲۳۷ میں بھی دیکھیں، اسی باب میں حضرتِ امام جعفر صادق علیہ السّلام کا ارشاد درج ہے: (ترجمہ) ہر دل کے دو کان ہوتے ہیں، ایک کان کے پاس ہدایت کرنے والا فرشتہ مقرر ہے اور دوسرے کے پاس فتنہ پرداز شیطان، یہ (نیکی کا) حکم دیتا ہے اور وہ منع کرتا ہے، شیطان گناہوں کا حکم دیتا ہے اور فرشتہ اس کو روکتا ہے، اور فرمایا کہ سورۂ قٓ (۵۰: ۱۷ تا ۱۸) میں یہ تذکرہ ہے۔

 

۲۔ چونکہ یہ کتاب روحانی سائنس کے ثبوت میں پیش ہو رہی ہے، لہٰذا خداوندِ قدوس کی تائید سے اسرارِ روحانیّت کی باریکیوں کو بیان کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی کے یہی دو ساتھی بے شمار عجائب و غرائب کا خزانہ ہیں، جیسے: (الف) دو ملنے والے، متلقیان (۵۰: ۱۷ تا ۱۸)، ان کا یہ نام اس معنیٰ میں ہے کہ قانونِ تجدّد کے مطابق ہر بار دو (۲)

۹۲

نئے فرشتے آ کر ملتے ہیں، اور اسی طرح لاتعداد فرشتوں اور روحوں کو عالمِ انسانیت میں حافظین اور کراماً کاتبین کے مرتبے پر کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے (۸۲: ۱۰ تا ۱۱)۔

 

۳۔ (ب) یہ فرشتے جو بندوں کے نامۂ اعمال کو تیار کرتے ہیں، حافظین اور کاتبین کے نام سے ہیں، ان کا لکھنا مثال ہے اور ممثول یہ ہے کہ ہر قول و فعل ان کی ذات میں خود بخود ریکارڈ ہو جاتا ہے، اور یہی ریکارڈ جیسا ہو ویسا بولتا رہتا ہے۔ (ج) سورۂ قٓ (۵۰) کی آیت ۱۶ تا ۱۸ کو انصاف و دانشمندی کے ساتھ پڑھنے سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کے دل میں جو وسوسہ پیدا ہوتا ہے وہ اس کے اپنے نفسِ امّارہ ہی کی وجہ سے ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ شیطان کا وسوسہ صرف گنبد کی آواز ہے (د) جبکہ واقعی وسوسہ نفسِ امّارہ پیدا کرتا ہے، جس کے سبب سے انسان بڑے خسارے میں ہے (۵۰: ۱۶)۔

 

۴۔ (ھ) یہی دو فرشتے عرفانی قبر کے منکر اور نکیر بھی ہیں، کیونکہ جب صوفیانہ اور عارفانہ موت زندگی ہی میں واقع ہوتی ہے تو پھر لازمی طور پر اسی کے ساتھ احوالِ قبر بھی ہیں، یاد رہے کہ قبر تین قسم کی ہوا کرتی ہے، قبرِ جسمانی، قبرِ روحانی، اور قبرِ عقلانی (و) آدمی کے یہ دونوں ساتھی ہاروت اور ماروت بھی ہیں (۰۲: ۱۰۲) اور دو یتیم لڑکے بھی، جن کا باپ بڑا نیک آدمی تھا وہ جیتے جی عارفانہ طور پر مر گیا تھا (۱۸: ۸۲)۔

 

۵۔ (ز) دو یتیم لڑکوں میں قانونِ تجدّد کے مطابق لاتعداد لڑکے کام کرتے ہیں لہٰذا وہ سب سے بڑا خزانہ جو کنزِ معرفت ہے، ان تمام کو ملے گا جو عقلی معنوں میں جوان ہو جاتے ہیں (۱۸: ۸۲)۔

 

۶۔ صاحبِ جوامع الکلم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہر ارشاد جواہرِ حکمت کا ایک عظیم صندوق ہوتا ہے، چنانچہ مذکورہ حدیثِ شریف کی چند حکمتیں اس طرح سے ہیں: اوّل: اس حدیث سے صاف طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ شر عارضی ہے اس لئے وہ ختم ہو جاتا ہے، اور خیر مستقل ہے لہٰذا وہ ختم ہونے والی نہیں، اور شر کا ختم ہو جانا اس طرح ہے کہ وہ خیر میں بدل جاتا ہے، دوم: شیطان کے لئے جو مہلت دی گئی ہے وہ انبعاث تک ہے (۰۷: ۱۴ تا ۱۵) چنانچہ جب عارف کی ذاتی قیامت مکمل ہو جاتی ہے تو اس وقت اس کا ذاتی

۹۳

جنّ مسلمان ہو جاتا ہے، سوم: انسان کی لوحِ ضمیر پر ہر لحظہ اعمالِ نیک و بد کی تحریریں بنتی رہتی ہیں، نیکی ہے تو اس کو فوراً ہی فرشتہ پڑھتا ہے، جس سے مومن کو خوشی کا احساس ہوتا ہے، اور اگر بدی ہے تو اس کو جنّ پڑھتا ہے جس سے اداسی ہوتی ہے۔

 

۷۔ سورۂ زخرف (۴۳: ۳۶) میں ہے: اور جو شخص رحمان کی یاد سے اندھا بنتا ہے ہم اس کے واسطے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا (ہر دم کا) ساتھی ہے۔ اس کی دوسری حکمت یہ ہے کہ جو شخص حقیقی معنوں میں خدا کو یاد کرتا ہے اس کے لئے ایک فرشتہ مقرّر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے مومنِ ذاکر کا ہمنشین ہو جاتا ہے، پس بڑے مبارک ہیں وہ لوگ جو بڑی کثرت سے خدا کو یاد کرتے ہیں، اور فرشتہ بحکمِ خدا ان کے کاموں میں مصروف ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

بدھ ۱۸ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ

۲۶ فروری ۱۹۹۷ء

۹۴

 

جہادِ اکبر اور باطنی شہادت

 

کیا تم لوگوں نے (عالمِ شخصی میں) نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں تمہارے لئے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) کی اس ایمان افروز اور روح پرور تعلیم میں بڑی یقینی بشارتیں اور عظیم تر حکمتیں ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر ظاہری نعمت کے پیچھے ایک باطنی نعمت موجود ہے، کیونکہ ظاہری نعمت مثال ہے، اور اُس جیسی مگر لطیف و عالی شان باطنی نعمت ممثول۔

 

۱۔ حضرتِ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر = اب ہم چھوٹے جہاد سے لوٹ کر بڑے جہاد کی طرف آئے (اب ہم نفس سے جہاد کریں گے۔ احیاء العلوم، جلدِ سوم، بابِ اوّل)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا ہے: المجاہد من جاہد نفسہ = بڑا مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرے (جیسا کہ جہاد کا حق ہے)۔ حضورِ اکرمؐ کے اس ارشاد میں بھی غور کریں: اعدیٰ عدوک نفسک التی بین جنبیک = تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا وہ نفس ہے جو تیرے دو (۲) پہلوؤں کے درمیان ہے۔ آنحضرتؐ کی ان روشن تعلیمات سے صاف ظاہر ہے کہ نفس کے خلاف جنگ کرنے کا نام جہادِ اکبر ہے، اور وہ انتہائی ضروری امر ہے۔

 

۲۔ جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کو معبود مان کر اپنے آپ پر شرک کا بہت بڑا ظلم کیا تو اس وقت سزا اور باری تعالیٰ کی طرف لوٹ جانے کی غرض سے اُن پر نفس کشی

۹۵

واجب کی گئی، اور فاقتلوا انفسکم (۰۲: ۵۴) کے اصل معنی یہی ہیں، کیونکہ توبہ آدمی کا ذاتی عمل ہے، جس میں دوسرے کی تلوار کا کوئی دخل نہیں، نیز توبہ کے حقیقی معنی ہیں رجوع الی اللہ، یعنی مراحلِ روحانیّت سے آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا، پس فاقتلوا انفسکم میں بنی اسرائیل کی مثال کے حجاب میں خواص کو یہ حکم ہے کہ وہ اضطراری موت سے قبل اختیاری موت کے ثمرات سے فائدہ اٹھائیں۔

 

۳۔ ظاہری جہاد میں کوئی مومن یا غازی ہو سکتا ہے یا شہید، لیکن روحانی جہاد بڑا عجیب معجزہ ہے کہ اس میں جو شہید ہے وہی زندہ غازی بھی ہے، اس کی وجہ اور عظیم حکمت یہ ہے: (ترجمہ) اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں (۰۳: ۱۶۹) اس آیۂ کریمہ میں شہادتِ ظاہر اور شہادتِ باطن دونوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، شہدائے ظاہر کی یہ نشانی ہے کہ وہ جسماً مر جاتے ہیں، مگر روحاً زندۂ جاوید ہو جاتے ہیں، اور شہدائے باطن کی یہ علامت ہے کہ وہ نفساً مرکر فنا فی اللہ کا عظیم درجہ رکھتے ہیں، اس لئے ان کے پاس اعلیٰ رزق یعنی علمِ لدنی ہوتا ہے، یاد رہے کہ عند ربھم کا مطلب فنا فی اللہ ہے، کیونکہ عالمِ وحدت میں کثرت و دوئی ٹھہر نہیں سکتی، جیسے کوئی ذرۂ آہن یا تو مقناطیس سے دور رہ سکتا ہے یا مل کر، مگر انتہائی قریب ٹھہر ہی نہیں سکتا ہے۔

 

۴۔ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کے بعد عرفاء بھی جہادِ اکبر کے شہداء ہوا کرتے ہیں، آپ کو شاید ہمارے اس بیان سے بڑا تعجب ہوگا کہ روحانی شہادت کی عظیم فضیلت سب سے پہلے حضرتِ آدم خلیفۃ اللہ علیہ السّلام کو نصیب ہوئی تھی، چونکہ قانونِ فطرت ہرگز ایسا نہیں کہ جمادات، نباتات، حیوانات، اور عام انسانوں میں الٰہی روح پھونک دی جائے، بلکہ یہ صرف اور صرف کاملین میں پھونک دی جاتی ہے، چنانچہ حضرتِ آدمؑ تمام تر صفاتِ بشریت سے آراستہ ایک کامل انسان تھا، جب روحانیّت میں اسرافیل، عزرائیل وغیرہ کی منزل آئی تو آدمِ صفی اللہ پر انفرادی اور نمائندہ قیامت کے وہی تمام احوال گزرنے لگے جو دوسرے کاملین پر گزرتے ہیں، پس آدمؑ کے بہت سے کمالات

۹۶

میں روحانی شہادت کا کمال بھی تھا۔

 

۵۔ اے نورِ عینِ من! یہ کلّیۂ پُرحکمت خوب یاد رہے کہ قصّۂ قرآن میں انبیاء علیہم السّلام نفسِ واحدہ کی طرح ہیں، لہٰذا ان میں سے ایک کی تعریف سب کی نمائندگی کر رہی ہے، بلکہ نفسِ واحدہ آدم و اولادِ آدمؑ کا نام ہے، اب کاملین کی بے مثال قربانی اور شہادت کو حضرتِ اسماعیلؑ ذبیح اللہ علیہ السّلام کی پاک ہستی میں دیکھ لیں، وہ خواب میں ذبیح ہو چکے تھے، اور بیداری میں بھی ان کو بصد شوق خنجرِ عشق سے ذبح ہو جانا تھا، کیونکہ عظیم المرتبت باپ کو خداوند تعالیٰ کا حکم آیا تھا، لیکن ربِّ کریم نے حضرتِ ابراہیم اور حضرتِ اسماعیل علیہما السّلام کے عزمِ صمیم اور بے مثال جذبۂ قربانی کو قبول فرماتے ہوئے ذبحٍ عظیمٍ کا فدیہ لیا، جس کی تفسیر آیۂ آلِ ابراہیم (۰۴: ۵۴) ہے۔

 

۶۔ سورۂ صافات (۳۷) میں حضرتِ اسماعیل ذبیح اللہ کی قربانی کی حکمتوں کو پڑھ لیں، قربانی اور شہادت جسمانی، روحانی، اور عقلانی ہے، جسمانی قربانی اس معنیٰ میں ہے کہ خوش نصیب سالک پر روحانی ترقی کا عظیم بابرکت دروازہ اس طرح کھولا جاتا ہے کہ ایک دن حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام اپنے بے شمار لشکر کے ساتھ آکر اس مومنِ سالک کی روح کو تقریباً ایک ہفتے تک اس نہج پر بار بار قبض کرتا اور واپس کرتا رہتا ہے کہ سوائے دماغ کے باقی بدن ہزارہا بار شہید اور قربان ہو جاتا ہے، اور اسی سلسلے میں روح بھی بار بار جانان کے لئے فدا ہوتی رہتی ہے، جبکہ جسمانی شہید صرف ایک دفعہ جانِ شیرین کی قربانی پیش کرتا ہے۔

 

۷۔ یہ عرفانی قصّہ اہلِ معرفت کی روحانی شہادت سے متعلق ہے، جس میں حضرتِ اسماعیلؑ سمیت تمام انبیاء، اولیاء، کاملین، اور عارفین شامل ہیں، چنانچہ حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کے قصّۂ ظاہر میں حکمتِ باطن محفوظ ہے تاکہ بوقتِ انکشاف بعض اس پر یقین کریں اور بعض اس کی طرف توجہ نہ دیں، بہ ہرکیف اس مبارک قصّے میں لفظِ جبین (پیشانی) حظیرۃ القدس کی نشاندہی کر رہا ہے (۳۷: ۱۰۳) جیسا کہ ارشاد ہے: فَلَمَّاۤ اَسْلَمَا وَ تَلَّهٗ لِلْجَبِیْنِ = (مفہوم) پھر جب دونوں نے منازلِ روحانیّت میں بدرجۂ کمال فرمانبرداری

۹۷

کی اور باپ نے بیٹے کو جبین (حظیرۂ قدس) کے اسرار کا پیرو بنا دیا (یعنی مطالعۂ اسرارِ ازل کے قابل بنا دیا)۔

 

۸۔ ہر چند کہ روحانی قربانی اور شہادت اسرافیلی اور عزرائیلی منزل سے شروع ہو جاتی ہے، لیکن یہ مکمل نہیں ہوتی، جب تک کہ مرتبۂ “سعی” (۳۷: ۱۰۲) نہ آئے، السعی دوڑنے کو کہتے ہیں، اور یہ نور کے دوڑنے کا نام ہے، جس کا مقام پیشانی (جبین) ہے، آپ نور کے دوڑنے کے بارے میں دیکھیں: سورۂ حدید (۵۷: ۱۲، ۵۷: ۱۹) سورۂ تحریم (۶۶: ۰۸)۔ الغرض حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کی جسمانی اور روحانی قربانی و شہادت کے بعد احاطۂ مقدّس میں عقلی قربانی بھی ہوگئی، اور یہ انتہائی حیرت انگیز روحانی سائنس ہے کہ ان تینوں قربانیوں میں سے ہر قربانی ہزاروں کی تعداد میں ہے، تاکہ اس سے بہشت میں خلقِ خدا کو زبردست فائدہ ملے۔

 

۹۔ حضرتِ اسماعیل علیہ السّلام کی ظاہری قربانی کا فدیہ ذبحِ عظیم (بہت بڑی قربانی) سے دیا گیا، وہ آلِ ابراہیم کی روحانی قربانی ہے، جو قیامۃ القیامات تک جاری اور باقی ہے، جس میں سب سے پہلے خود ذبیح اللہ کی روحانی قربانی ہوگئی تھی، جیسا کہ ذکر ہوچکا، اور اس قسم کی لطیف جسمانی، روحانی اور عقلانی قربانی میں تمام لوگوں کے حق میں انتہائی عظیم فائدے کا راز پوشیدہ ہے، یہ فدیۂ ذبحِ عظیم کی تفسیر ہے۔

 

۱۰۔ اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ انسانِ کامل کی روحانی قربانی اور شہادت سے اہلِ زمانہ کو کس طرح کوئی بہت بڑا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسانِ کامل نفسِ واحدہ ہے، وہ کُل ہے اور اہلِ زمانہ اس کے اجزاء ہیں، پس جب اس کی شعوری قیامت برپا ہو جاتی ہے تو خلائق کی غیر شعوری قیامت قائم ہو جاتی ہے، اور جب وہ روحانی طور پر قربان اور شہید ہو جاتا ہے تو سارے لوگ بھی اس میں قربان اور شہید ہو جاتے ہیں، لیکن ان کو اس کی خبر نہیں ہوتی، اسی وسیلے سے سب کے سب بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں، اس کی ایک بہت بڑی دلیل وہ حدیثِ شریف ہے، جس کا عنوان ہے: الخلق عیال اللہ (مخلوق گویا خدا کا کنبہ ہے)۔

۹۸

۱۱۔ سورۂ فتح میں دو مقام (۴۸: ۰۴، ۴۸: ۰۷) پر یہ مبارک ارشاد پڑھ لیں: وَ لِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ = اور سارے آسمان و زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں۔ آسمانی لشکر فرشتے ہیں اور زمینی لشکر ارواحِ اہلِ ایمان، اور اللہ کے یہ لشکر ہر زمانے میں موجود ہیں، پس جب انسانِ کامل کی نمائندہ قیامت برپا ہو جاتی ہے تو وہی روحانی جنگ بھی ہے، اور اسی میں فتح بھی ہے اور شہادت و حیات بھی، کیونکہ شہیدوں کا مرنا ہمیشہ زندہ ہو جانے کے لئے ہے، لہٰذا وہ شہید بھی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ زندۂ جاوید بھی۔

 

۱۲۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ہیں، ان کے رہنے کے لئے قندیلیں ہیں جو عرشِ مبارک سے لٹک رہی ہیں (صحیح مسلم، جلدِ پنجم، کتابِ امارت) ان پرندوں سے اجسامِ لطیف مراد ہیں، جو ظاہراً و باطناً پرواز کرتے ہیں، ان کی عرفانی رسائی عرش تک ہے، اور اس مثال میں شہداء فرشتے ہوگئے ہیں، کیونکہ اہلِ ایمان روحانی ترقی سے فرشتے ہو جاتے ہیں۔

 

۱۳۔ آپ کے عالمِ شخصی میں حدّ و حساب سے باہر روحیں رکھی ہوئی ہیں، اگر آپ آسمانی عشق میں شہید ہو گئے تو خداوندِ قدوس آپ کو زندہ بہشت بنا دے گا، آپ کی ذاتی بہشت میں دنیا بھر کے لوگ زندہ ہو جائیں گے، وہ سب آپ کے بڑے احسان مند ہوں گے، کیونکہ آپ نے خدا کے حکم سے ان سب کو زندہ کر دیا، جیسے قرآنِ حکیم میں ہے: وَمَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ= اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو زندہ کیا (۰۵: ۳۲) کوئی انسان جب تک خود حقیقی معنوں میں زندہ نہ ہو وہ کسی اور کو کس طرح زندہ کر سکتا ہے، ہاں اگر وہ مر کر زندہ ہوگیا ہے تو گویا اُس نے ایک آدمی (یعنی اپنے آپ) کو زندہ کیا اور اس کے عالمِ شخصی میں سارے جہان والوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا، یہ ہے جہادِ اکبر اور روحانی شہادت کا بیان، الحمد للہ ربِّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

اتوار ۲۲ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ، ۲ مارچ ۱۹۹۷ء

۹۹

کائناتی ہدایت کی معرفت

 

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵) خدا تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس آیۂ مبارکہ کی کثیر حکمتوں میں سے چند اس طرح سے ہیں: (الف) کائنات، اس کے بڑے بڑے اجزاء اور چھوٹے چھوٹے ذرّات سب کے سب نورِ ہدایت کے سمندر میں مستغرق ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ افلاک، سورج، چاند، انجم، زمین، اور ہر ذرّہ ان سب کے لئے اجتماعی ہدایت بھی ہے اور انفرادی ہدایت بھی (ب) سورج میں فطری ہدایت جس طرح کام کر رہی ہے وہ بڑی زبردست اور عجیب و غریب ہے، اور ذرے (ایٹم) میں جیسی ہدایت ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے (ج) مٹی، پانی، ہوا، اور آگ فطری ہدایت کے بغیر نہیں (د) جمادات کی ہدایت سے نباتات کی ہدایت بڑھ کر ہے، نباتات کی ہدایت سے حیوانات کی ہدایت اوپر ہے (ھ) انسانوں کی ہدایت بہت سے درجات میں ہے، اس میں ایماندار لوگ آگے ہیں، ان سے اولیاء آگے ہیں، اور سب سے انبیاء آگے ہیں۔

 

۱۔ سچ تو یہ ہے کہ کائنات میں کششِ ثقل  (gravity)  کے لئے کوئی جگہ ہے نہیں، کیونکہ ہر مادّی چیز حسبِ ضرورت ایک فطری ہدایت کے ساتھ پیدا کی گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے خاص مقام کی طرف مائل ہو جاتی ہے، اگر کششِ ثقل کا نظریہ واقعاً درست ہوتا تو ہر بار پانی کا ایک بڑا حصہ بخارات کی شکل میں سمندر سے جدا ہوکر بلندی پر نہ جاتا، بڑے بڑے پہاڑ زمین سے نہیں اگتے، درخت پیدا نہ ہوتے، سورج کی کششِ ثقل کی وجہ سے روشنی اور گرمی خارج نہ ہو سکتی، اور سورج ہی اپنے نظام

۱۰۰

(یعنی نظامِ شمسی) کی کشش کا بہت بڑا مرکز ہوتا، جس میں تمام اجرامِ فلکی گر کر تباہ ہو جاتے، مگر ایسا نہیں ہوتا ہے، کیونکہ کششِ ثقل کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں، بلکہ ہر جگہ ہدایت ہی ہدایت ہے، جس کی بدولت ہر چیز ایک دائرے میں گردش کر رہی ہے۔

 

۲۔ کائنات کوئی بے کار پڑی ہوئی چیز کی طرح نہیں، اس میں ہر لحظہ دستِ قدرت تجدّد اور تعمیرِ نو کا کام کر رہا ہے، اگر آپ کائنات کے بھیدوں کو جاننا چاہتے ہیں تو اپنے آپ کو ضرور پہچان لیں، کیونکہ جملہ اسرار کا خزانہ آپ کے باطن میں ہے، ازان جملہ تجدّد کا راز جاننا ازحد ضروری ہے، چنانچہ آپ میں تجدّد کی بعض خفی و جلی مثالیں یہ ہیں: سانس، نبض، حرکتِ قلب، چشمِ زدن (پلک جھپکنا)، دورانِ خون، سونا، جاگنا، کھانا پینا، بھوک، پیاس، خون اور خلیات کی تعمیرِ نو، شیو (حجامت)، نہانا دھونا، پہننا، ناخن تراشنا، مسواک کرنا وغیرہ، یہ سب تجدّد کے نمونے ہیں، اسی طرح کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز میں تخلیق و تعمیر کے تجدّد کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری ہے تاکہ کائنات کی تخلیق، بقا اور فنا چشمِ بصیرت کے سامنے رہے۔

 

۳۔ آپ نے تین سب سے بڑی چیزوں کے بارے میں شاید سنا ہوگا، وہ ہیں: اعظم الاسماء (اسمِ اعظم)، اعظم الآیات (آیۃ الکرسی)، اور اعظم السُّوَر (سورۂ فاتحہ) چنانچہ آیۂ کرسی کی عظیم الشّان حکمتوں میں سے ایک حکمت اس طرح ضوفگن ہے: وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ = اُس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (۰۲: ۲۵۵) کیسا پُرنور اور دل افروز ارشاد ہے اس سرِّعظیم کا انکشاف کرنا کہ کائنات کے باطن کا ذرّہ ذرّہ نفسِ کلّی کے نورانی سمندر میں ڈوبا ہوا ہے، کیونکہ کرسی سے نفسِ کلّی مراد ہے۔

 

۴۔ ارشادِ بالا کی اشاراتی حکمتیں یہ ہیں: (الف) کائنات کی ہر چیز میں روح ہے کوئی شیٔ روح سے خالی نہیں، حتیٰ کہ جمادات اور معدنیات میں بھی ایک گونہ روح موجود ہے، کیونکہ جب آپ لوہا اور پتھر جیسی ٹھوس چیزوں کو پانی میں ڈالتے ہیں تو پانی ان کے اندر داخل نہیں ہو سکتا، لیکن جب لوہے کو آگ میں رکھتے ہیں تو یہ تھوڑی ہی

۱۰۱

دیر میں سرخ ہو جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آگ پانی سے زیادہ لطیف ہے، اور یاد رہے کہ روح آگ سے بھی زیادہ لطیف ہے، اس مثال سے معلوم ہوا کہ کائنات کا کوئی حصّہ، کوئی جزو، اور کوئی ذرّہ روح کے بغیر نہیں، کیونکہ تمام عالم نفسِ کلّی کے سمندر میں مستغرق ہے۔

 

۵۔ (ب) ممکن ہے کہ سائنسدانوں کے کہنے کے مطابق ہماری کائنات کے علاوہ اور بھی کائناتیں ہوں، مگر لامحدود نہیں ہوسکتیں، کیونکہ ارشاد ہوا ہے کہ خدا کی کرسی (نفسِ کلّ) نے تمام آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے (ج) اس سے معلوم ہوا کہ بگ بینگ  (big bang)   وہ ابتدائی دھماکہ جس سے کائنات کا آغاز ہوا، ایک غیر منطقی قیاس پر مبنی نظریہ ہے جو سراسر غلط ہے جس کی تفصیل بعد میں بتائیں گے (د) انسان میں کششِ ثقل جیسی کوئی چیز موجود نہیں، پھر کائنات میں یہ چیز کہاں سے آئی، کیونکہ وہاں بھی اور یہاں بھی روح ہی روح ہے، وہ انسانِ کبیر ہے اور یہ انسانِ صغیر، اِس میں بھی اور اُس میں بھی روح کی گرفت، ہولڈ، کنٹرول، اور حفاظت ہے، یعنی جس طرح آدمی کا ہر ہر کام روح ہی سے چلتا ہے، اسی طرح کائنات کا سارا نظام روحِ اعظم (نفسِ کلّی) سے چلتا ہے۔

 

۶۔ سورۂ طٰہٰ کا ایک ارشاد ہے: موسیٰؑ نے کہا ہمارا ربّ وہ ہے جس نے (عالمِ امر کی) ہر چیز کو (اس جہان میں) ایک خلقی صورت دی پھر اس کی رہنمائی فرمائی (۲۰: ۵۰) اس کلّیہ سے ظاہر ہے کہ ہر درجہ کی مخلوق کو اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت عطا کی گئی ہے، اور کوئی چیز کلّیۂ ہدایت سے مستثنیٰ نہیں، اور یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ ہدایت و رہنمائی کا تعلق کسی بھی درجے کی روح سے ہے، اور روح کے بغیر ہدایت پذیری ممکن ہی نہیں، پس مذکورہ آیۂ کریمہ میں کائناتی ہدایت کا ذکر ہے۔

 

۷۔ سورۂ حدید میں ہے: اور ہم نے ہی لوہے کو نازل کیا۔۔۔ (۵۷: ۲۵) یعنی اللہ تعالیٰ نے عالمِ روحانی سے لوہے کی روح کو نازل کیا جس نے کسی زمین یا پہاڑ میں جا کر لوہے کے ذخائر بنانے کا کام انجام دیا، اس سے یقینی طور پر معلوم ہوا کہ ہر قسم

۱۰۲

کی معدنیات کی بھی روحیں ہوا کرتی ہیں، جیسے سونا، چاندی، پیتل، سیسا وغیرہ، پس یہ اس سلسلے کی ایک نمائندہ آیت ہے کہ جس سے اہلِ دانش بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جمادات کی بھی روح ہوتی ہے کیونکہ ہدایت کا تعلق روح سے ہے، مثال کے طور پر جب سونے کی روح مادّہ کے ذرّات کو بتدریج سونا بنا لیتی ہے تو اس وقت اس کی فطری ہدایت کام کرتی ہے، کتنی بڑی عجیب بات ہے کہ روح الذہب کو خدا نے سونا بنانے کی جو ہدایت دی ہے، اس کا راز دنیا میں کسی کو معلوم ہی نہیں، اگر کوئی دنیا پرست آدمی روحِ زرّ یا روحِ سیم کے ہنر کو جانتا تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا۔

 

۸۔ جو لوگ مر جانے کے بعد از سرِ نو پیدا کئے جانے پر ایمان نہیں لاتے تھے، ان کے بارے میں ارشاد ہوا: قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًا = (اے رسولؐ) کہہ دو کہ تم پتھر ہوجاؤ یا لوہا (۱۷: ۵۰) میرا یقین ہے کہ ایسے لوگ جن کو یہ امر ہوا روحانیّت میں روح الحجر یا روح الحدید ہو گئے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں غیر ممکن مثالیں نہیں ہیں، پس یہ روحِ منجمد کی مثال ہے، یعنی جمادات کی روح۔

 

۹۔ قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جو خزائنِ عالمِ روحانی سے نہ آئی ہو (مفہوم ۱۵: ۲۱) پس یقیناً پتھر، لوہا وغیرہ بھی دوسری تمام چیزوں ہی کی طرح خداوند تعالیٰ کے خزانوں سے آئے ہیں، لیکن عالمِ روحانی میں ہر چیز روح ہے جو دنیا میں آتے آتے مادّہ بن جاتی ہے، جیسے حدیثِ شریف میں حجرِ اسود سے متعلق ارشاد ہے: نزل الحجر الاسود من الجنۃ و ھو اشد بیاضا سودتہ خطایا بنی اٰدم = حجرِ اسود بہشت میں سے اترا، وہ بہت سفید تھا، لیکن لوگوں کے گناہوں نے اس کو کالا کر دیا (لغات الحدیث، لفظِ حجر) دنیا کے بڑے بڑے علمی اداروں میں روح اور مادّہ کا مسئلۂ لا ینحل زیرِ بحث ہو سکتا ہے، لیکن جوابِ شافی بہت مشکل ہے، کیونکہ صرف روحانی سائنس ہی ہے جس کی روشنی  میں ہر مشکل سوال کا جواب ممکن ہے۔

 

۱۰۔ حجرِ اسود دنیا میں نازل ہوا، اور یقیناً وہ عالمِ عُلوی میں اپنی جگہ موجود بھی ہے، یہ وہاں نور (روح = گوہر) ہے اور یہاں پتھر، اس عظیم الشّان

۱۰۳

حقیقت سے بہت سی حقیقتوں کی نمائندگی ہوتی رہتی ہے، وہ اس طرح ہے کہ بہشت سے یا خزائنِ الٰہی سے چیزیں دنیا میں نازل ہوتی رہتی ہیں، درحالے کہ وہ روحانی طور پر وہاں موجود بھی رہتی ہیں، گویا اصل چیزیں وہاں ہیں، اور ان کے سائے یہاں نمودار ہو رہے ہیں، پس سوچنے والوں کے لئے قرآن و حدیث کی حکمت (روحانی سائنس) میں بہت کچھ ہے۔

 

۱۱۔ قرآنِ حکیم اپنے تمام کمالات و معجزات کے ساتھ نازل ہوچکا ہے اور اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا میں سب کے سامنے موجود ہے، اور اس حقیقت میں بھی کوئی شک ہی نہیں کہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں بھی ہے (۸۵: ۲۱ تا ۲۲) حجرِ اسود خانۂ کعبہ میں بھی ہے اور عالمِ بالا میں بھی۔ آدم دنیا میں بھی آیا، اور اسی وقت وہ بہشت میں بھی تھا، اصل انسان ہمیشہ بہشت میں مقیم ہے، اور اس کا سایہ جیسا وجود اس دنیا میں آیا ہے۔

 

۱۲۔ روحانی سائنس دراصل بہت سے روحانی انکشافات کا نام ہے، منجملہ ایک بہت بڑا انکشاف یہ ہوا ہے کہ کائنات میں قانونِ انقباض و انبساط ہمیشہ جاری ہے، قبض سے انقباض (سکڑنا، بھینچنا) بسط سے انبساط (پھیلنا) اور یہ فعلِ قدرت ہے، جیسے اسی کتاب میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ القابض بھی ہے اور الباسط بھی، اور قرآنِ حکیم میں ان دونوں اسموں کی تفسیری آیت بھی ہے، وہ یہ ہے: وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ = اور اللہ تعالیٰ(کائنات کو) اپنی مٹھی میں لیتا ہے اور اس کو پھیلاتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹا دئے جاؤ گے (۰۲: ۲۴۵)۔

 

۱۳۔ کائناتی انقباض کی لہریں تمام نظامِ شمسی سے سورج کے مرکز کی طرف دوڑتی رہتی ہیں، اور وہاں سے انبساط کی لہریں اس نظام کے حواشی کی طرف دوڑتی رہتی ہیں، اور یہ ایک سلسلہ ہے جو ہمیشہ جاری ہے، اور انقباض و انبساط کا یہی قانون زمین وغیرہ کے لئے بھی ہے، اور انسان کے واسطے بھی یہی قانون ہے جو عالمِ شخصی ہے، کہ جس کی وجہ سے دل سکڑتا ہے اور کھلتا ہے، یعنی ہمیشہ حرکتِ قلب سے القابض الباسط کی ترجمانی ہو رہی ہے، جیسے ارشادِ نبوّی ہے: ان القلوب کلھا بین اصبعین من اصابع

۱۰۴

الرحمٰن = تمام دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے (لغات الحدیث، جلدِ سوم، لفظِ قلب)۔

 

۱۴۔ سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۰ تا ۲۱) میں ارشاد ہے: اور اہلِ یقین کے لئے زمین میں (قدرتِ خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں (فی الارض = یعنی زمین کے اوپر اور زمین کے اندر) اور خود تم میں بھی ہیں تو تم کیا دیکھتے نہیں؟ اس کا یہ مطلب ہوا کہ جس طرح آدمی میں انسانی روح کام کرتی ہے، اسی طرح زمین میں آفاقی روح کام کررہی ہے، اور جیسے انسان میں قلب حیات اور طاقت کا مرکز ہے، ایسے ہی کرۂ ارض کے بیچوں بیچ اس کی روح اور طاقت کا سینٹر ہے، جس کو ظاہری سائنسدان کششِ ثقل کا مرکز سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ نظریہ غلط ہے، جس کا ذکر ہوچکا، بلکہ یہ روحِ زمین کے انقباض و انبساط کا مرکز ہے۔

 

۱۵۔ سورۂ طٰہٰ (۲۰: ۰۶) میں کرۂ ارض کے بیچوں بیچ روح الارض کے مرکز ہونے کا اشارہ موجود ہے، جیسا کہ ارشادِ مبارک ہے: لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَا وَ مَا تَحْتَ الثَّرٰى = جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے بیچ میں ہے اور جو کچھ (زمین کی) مٹی کے نیچے ہے سب اسی کا ہے۔ زمین کی مٹی کے نیچے ضرور کوئی بہت بڑا راز ہے اور یقیناً قلبِ زمین یعنی مرکزِ روحِ زمین ہے، جہاں سے قبض و بسط کی لطیف لہریں دوڑتی ہیں، جیسا کہ حدیثِ شریف ہے: ان لکل شیءٍ قلبا و قلب القراٰن یس (لغات الحدیث، جلدِ سوم، قلب) = ہر چیز کا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یس ہے۔ پس بڑے شاندار طریقے سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ زمین کا جو مرکز ہے وہی اس کا قلب ہے، اور یہ روحانی سائنس کے بڑے بڑے انکشافات میں سے ہے۔

 

۱۶۔ سورۂ سبا (۳۴: ۰۲) اور سورۂ حدید (۵۷: ۰۴) کے اس مبارک ارشاد میں خوب غور کریں: یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْهَاؕ= جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے اور جو اس میں سے نکلتا ہے اور جو آسمان سے اترتا ہے اور جو اس پر چڑھتا ہے وہ سب کچھ جانتا ہے۔ اس میں کلیاتِ دائم

۱۰۵

کے طور پر دیکھنا ہوگا کہ سطحِ زمین کی ہر جانب یعنی گولائی سے انقباضِ روحانی کی پیاپے موجیں داخل ہو جاتی ہیں تا آنکہ مرکز میں پہنچ جاتی ہیں اور عملِ تحلیل کے فوراً بعد انبساط کی لہریں بن کر زمین کی گولائی سے خارج ہو جاتی ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

سنیچر ۲۸ شوال المکرم ۱۴۱۷ھ

۸ مارچ ۱۹۹۷ء

 

۱۰۶

 

کائنات کا لف و نشر

 

اس عنوان کے معنی ہیں: کائنات کے باطن کو لپیٹنا اور پھیلانا، یہ کام صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے، کیونکہ وہی قادرِ مطلق القابض بھی ہے اور الباسط بھی، یعنی قانونِ قبض و بسط کا مالک وہی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَاللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ (۰۲: ۲۴۵) اور اللہ ہی (کائنات کو لپیٹ کر اپنی) مٹھی میں بھی لیتا ہے اور اسے پھیلاتا بھی ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ ان شاء اللہ، ہم یہاں اس باب میں کچھ وضاحت کریں گے۔

 

۱۔ قرآنِ حکیم کو تجربۂ روحانیّت اور حکمت کے ساتھ پڑھنے سے روحانی سائنس کا خاص میدان سامنے آتا ہے، اور یہ غیر معمولی کام ہے اور اس کے نتائج بھی غیر معمولی ہیں، مثال کے طور پر قرآنِ پاک ہی کی روشنی میں یہ ثابت کرنا روحانی سائنس ہی کا کرشمہ ہے کہ آدمِ دور سے پہلے بھی بہت سے ادوار اور بہت سے آدم گزرے ہیں، اس کی بہت سی دلیلیں قرآنِ پاک میں موجود ہیں، اور ان روشن دلائل میں سے ایک آیۂ شریفہ اصطفا ہے، جو سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۳) میں ہے، وہ ارشادِ مبارک یہ ہے: اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ = اللہ نے آدمؑ اور نوحؑ اور آلِ ابراہیمؑ اور آلِ عمرانؑ کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب کیا تھا۔ اس آیۂ شریفہ سے یہ ثبوت مل جاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرتِ آدم کو اہلِ زمانہ میں سے منتخب فرمایا تھا، جیسے اس آیت میں مذکور و موصوف دوسرے حضرات کا انتخاب ہوا تھا۔

 

۲۔ سوال: اگر زمانۂ آدم میں اہلِ زمانہ موجود تھے تو ان سے بھی دنیا میں بہت

۱۰۷

سی نسلیں پھیل چکی ہوں گی، درین صورت کیوں کر تنہا آدم ابوالبشر ہوسکتا ہے اور کس طرح آج تمام لوگ بنی آدم کہلا سکتے ہیں؟ جواب: جب خداوندِ قدوس کے حکم سے انسانِ کامل کی باطنی قیامت برپا ہونے لگتی ہے تو اس وقت تمام اہلِ جہان کی نمائندہ روحیں جمع ہوکر اس کی نسل قرار پاتی ہیں اور ان کے سارے اگلے رشتے ختم ہو جاتے ہیں (۲۳: ۱۰۱) لہٰذا حضرتِ آدم کے ابوالبشر ہونے میں کوئی شک ہی نہیں۔

 

۳۔ ہر انسانِ کامل نمائندۂ آدم اور نفسِ واحدہ ہے، جس کی انفرادی قیامت میں سب کی اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوتی ہے، اور اسی طرح ہر قیامت میں کائنات کے لف و نشر کا تجدّد ہوتا ہے، اور قرآنِ پاک میں جتنے واقعاتِ قیامت مذکور ہیں، وہ سب کے سب عارف پر گزرتے ہیں، تاکہ اس کے لئے خزائنِ معرفت کے ابواب مفتوح ہو جائیں، کیونکہ خداوند تعالیٰ اس بات سے بے نیاز ہے کہ اپنی ذاتِ پاک کے لئے کسی خزانے کو پوشیدہ رکھے، جبکہ وہ کنزِ مخفی کو بھی اپنے دوستوں سے دریغ نہیں رکھتا ہے، پس اختیاری موّت اور انفرادی قیامت میں اولیاء کے لئے بہت کچھ ہے بلکہ سب کچھ ہے۔

 

۴۔ جب نفسِ واحدہ (انسانِ کامل) کی نمائندہ قیامت قائم ہو جاتی ہے تو اس حال میں اللہ تعالیٰ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے لوگوں کو انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سمیٹ لیتا ہے جو لطیف اور زندہ ذرّات کی شکل میں ہوتے ہیں، پھر ان سب کو سمیٹ کر مقامِ عقل (پیشانی) پر لے جاتا ہے، جہاں یہ سب نفسِ واحدہ کی صورت میں ایک ہی چہرہ نظر آتے ہیں، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۱۰۴) میں ہے: فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیْفًا = پھر جب آخرت کا وعدہ آپہنچے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے۔

 

۵۔ پھیلی ہوئی کائنات کے ظاہر کو نہیں بلکہ باطن کو لپیٹنا مقصود ہے تاکہ عارف کو علم و معرفت کا سب سے عظیم خزانہ حظیرۂ قدس ہی میں مل جائے، آپ سورۂ انبیاء (۲۱: ۱۰۴) میں آیۂ شریفہ کو پڑھیں: (ترجمہ) جس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے خطوں کا طومار لپیٹ لیتے ہیں، جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلے پیدا کیا تھا اُسی طرح دوبارہ پیدا کردیں گے۔ یعنی جب مومنِ سالک منزلِ مقصود (منزلِ فنا) میں پہنچ

 

۱۰۸

 

جاتا ہے تو وہاں ربِّ کریم اس کی آسانی کی خاطر علم و حکمت کی پھیلی ہوئی کائنات کو لپیٹ کر محدود بنا دیتا ہے، اور یہی مثال قرآنِ عظیم کی بھی ہے، جیسے تاکید و توجہ کے لئے ایک ہی سورہ (سورۂ قمر ۵۴) میں چار بار ارشاد ہوا ہے:

 

۶۔ وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ = اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت (اور ذکر و عبادت اور علم و حکمت) کے واسطے آسان کر دیا تو کوئی ہے جو اس بات کو سمجھے؟ (۵۴: ۱۷) یعنی اوّل سر تا سر قرآن، دوم سورۂ فاتحہ جو امُ الکتاب ہے، سوم اسمِ اعظم، اور چہارم کتابِ مکنون، تاکہ علم کے تمام درجات میں قرآن ہی قرآن کی آسانی ہو، پھر ایسے میں ان شاء اللہ مجموعی قرآن آسان ہوجائے گا، اے عزیزِ من! آپ برائے نام آسانی کو چاہتے ہیں یا حقیقی آسانی کو؟ اگر حقیقی آسانی چاہئے تو قرآنِ عزیز کی اس ہدایت پر عمل کرنا ہوگا: اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاﭤ = بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے (۹۴: ۰۶) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن فہمی کے چند طریقوں میں سے ایک طریقہ نہایت آسان ہو اور وہ اسمِ اعظم کی نورانیت میں قرآنی معرفت حاصل کرنے کا اصول ہو۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل یکم ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ

۱۱ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۰۹

چند کلیدی سوالات

 

سوال ۱: آپ نے روح پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے “روح کیا ہے” تو کیا روح سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ اس سے گفتگو؟ کیا اس کی کوئی خاص شکل ہے؟ وہ کس زبان میں بولتی ہے؟ ملاقاتِ روح کے لئے کیا کیا شرطیں ہیں؟ جواب: ہاں روح کے موضوع پر میری ایک قابلِ اعتماد تصنیف ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوئی تو روح سے ملاقات ہو جاتی ہے، اور خاص اصول کے مطابق گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے، روح کے بہت سے ظہورات ہیں، اس کی خاص شکل انسان کی سی ہے، مگر بہت ہی لطیف و جمیل، روح ہر شخص کی مادری زبان میں گفتگو کرتی ہے، روح سے ملاقات کے لئے شدید شرائط ہیں۔

 

سوال ۲: کیا آپ نے جنّ کو دیکھا ہے؟ وہ کیسی مخلوق ہے؟ جنّ کیا کھاتا ہے؟ آیا انسان اور جنّ کے درمیان کوئی رشتہ ہے؟ جواب: جی ہاں، میں نے جنّ کو بارہا دیکھا ہے، وہ بہت ہی اچھی مخلوق ہے، جنّ کی خوراک خوشبوؤں کی صورت میں ملتی ہے، جن دراصل انسان کے جسمِ لطیف کا نام ہے، لہٰذا یہ انسان کی ترقی یافتہ شکل ہے، مگر بے علم کہانیوں کی وجہ سے جنّ کا تصوّر وحشت ناک ہوگیا ہے۔

 

سوال ۳: جنّ اور پری میں کیا فرق ہے؟ ان دونوں کے لفظی معنی کیا ہیں؟ آیا یہ درست ہے کہ جنّ و پری صحراؤں، بیابانوں، اور پہاڑوں میں رہتے ہیں؟

۱۱۰

آخر کیوں ایسا ہے؟ جواب: جنّ اور پری ایک ہی مخلوق کے دو نام ہیں، جنّ عربی نام ہے اور پری فارسی، جنّ کے معنی ہیں پوشیدہ ہونا، نظر نہ آنا، اور پری کے معنی ہیں پرواز کرنا، اڑنا، ہاں یہ درست ہے کہ جنّات (یعنی پری مرد و زن) کا مسکن ایسے مقامات پر ہوتا ہے جہاں انسانوں کا گزر بہت کم ہوتا ہے یا گزر ہی نہیں ہوتا، اس میں تین حکمتوں کا پتا چلا ہے (الف) وہ لطیف اور پاکیزہ ہیں، اس لئے ان کو لوگوں کے گناہوں سے دور رہنا ہے (ب) تاکہ یہ اس حقیقت کی دلیل ہو کہ پروردگارِ عالم اپنی کائنات کے کسی مقام کو مخلوق سے خالی نہیں رکھتا، چنانچہ اس نے جس طرح سیّارۂ زمین کے بیابانوں میں جنّات کو جگہ دی ہے اسی طرح ان بے شمار ستاروں پر لطیف مخلوقات کو ٹھہرایا ہے جن پر کثیف مخلوق کی کوئی آبادی نہیں (ج) تاکہ لوگ جب ایسے پاکیزہ مقامات پر جاتے ہیں تو بڑی کثرت سے خدا کو یاد کرتے رہیں، کیونکہ یہ لطیف مخلوقات کا علاقہ ہے۔

 

سوال ۴: کبھی کبھار کوئی آدمی یہ شکایت کرنے لگتا ہے کہ اس کے گھر میں جنّ آ گیا ہے، جس کی وجہ سے گھر والوں کو ہر وقت خوف رہتا ہے، کیا یہ سچ ہے یا گمان؟ اگر سچ ہے تو یہ جنّ بیابان یا پہاڑ سے آبادی میں کیوں آیا؟ اس بیماری کا کیا علاج ہوسکتا ہے؟ جواب: امکان ہے کہ سچ مچ گھر میں جنّ آئے، دوسری طرف سے یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا نہ صرف وہم و گمان ہو، اگر واقعاً جنّ ہے تو گھر میں اکثر قرآنِ پاک پڑھنے سے چلا جائے گا، کیونکہ قرآنِ حکیم (۴۶: ۲۹) میں اس کا حکمتی اشارہ موجود ہے اور ہر قسم کے خوف سے امتحان لینے کا ذکر بھی ہے (۰۲: ۱۵۵)۔

 

سوال ۵: آیا کوئی ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سے ہر مومن اپنے گھر کو بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رکھ سکے؟ جواب: جی ہاں، بڑا یقینی اور قابلِ اعتماد عمل ہے، وہ یہ ہے کہ گھروں میں بلند آواز سے خدا کا ذکر کیا جائے، ان میں صبح و شام تسبیح پڑھی جائے (۲۴: ۳۶) آپ نے سورۂ رحمان کی فضیلت کے بارے میں سنا ہوگا

۱۱۱

اسی عروس القرآن کے آخر میں ہے: (اے رسولؐ) تمہارا پروردگار جو صاحبِ جلال و کرامت ہے اس کا نام بڑا بابرکت ہے (۵۵: ۷۸) یعنی جس گھر میں اور جس دل میں اللہ کے مبارک نام کو کثرت سے یاد کیا جائے گا اس میں ہرگونہ برکت ہوگی۔

 

سوال ۶: بحوالۂ سورۂ نمل (۲۷: ۱۸ تا ۱۹) وہ چیونٹی کیا تھی جس کی گفتگو سے حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کو تعجب ہوا تھا؟ اور وادیٔ نمل کہاں ہے؟ جواب: عالمِ ذرّ کی ایک سردار روح کو چیونٹی کے نام سے یاد فرمایا گیا ہے جو حضرتِ سلیمانؑ کے کان میں بول رہی تھی، وادیٔ نمل روحانی سائنس کی زبان میں کان (گوش) کو کہتے ہیں، اور مذکورہ روح کو بعوضہ (مچھر، ۰۲: ۲۶) کا نام بھی دیا گیا ہے۔

 

سوال ۷: آپ روحانی سائنس کی روشنی میں اس کا جواب دیں: آیا انسان بہ یک وقت ایک سے زیادہ اجسام میں یا ہستیوں میں موجود ہوسکتا ہے؟ اگر ایسا ہونا ممکن ہے تو کوئی مثال بتائیں۔ جواب: اگر کوئی دانا شخص نورِ معرفت یا علم الیقین کی روشنی میں دیکھ سکتا ہے تو وہ یقین کرے گا کہ یہ نعمت غیر ممکن نہیں، جبکہ انسانِ کامل کی پیشانی میں جو معجزۂ وحدت ہے اس میں آدم و اولادِ آدم سب کے سب ایک ہی ہیں، پس یہ وحدت آپ بھی ہیں اور دنیا بھر کے لوگ جو اس وحدت کے ظہورات ہیں، وہ بھی آپ ہیں۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۱۲ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۱۲

بہشت میں ہر نعمت ممکن ہے

 

قرآنِ حکیم وہ واحد بے مثال آسمانی کتاب ہے، جس میں اعلیٰ علوم سے متعلق ہزاروں سوالات کے حکیمانہ جوابات پہلے ہی سے مہیا کئے ہوئے ہیں، ان میں لازمی طور پر ہر ایسے سوال کا جواب بھی موجود ہے جو بہشت کی نعمتوں سے متعلق ہوسکتا ہے، مثلاً کسی شخص کا یہ پوچھنا کہ اہلِ بہشت کو وہاں کیا کیا نعمتیں مل سکتی ہیں؟

 

جوابِ اوّل: سورۂ قٓ (۵۰: ۳۵) میں ارشاد ہے: لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ = بہشت میں یہ لوگ جو چاہیں گے ان کے لئے حاضر ہے اور ہمارے ہاں تو (اس سے بھی) زیادہ ہے۔ ایسے جواب والی آیات کل پانچ ہیں، یاد رہے کہ انسان کو بہشت میں تین قسم کی نعمتیں ہمیشہ ملتی رہیں گی، لطیف جسمانی نعمتیں، روحانی نعمتیں اور عقلانی نعمتیں، کیونکہ انسان کا وجود تین چیزوں پر مبنی ہے: جسم، روح، اور عقل، مگر بہشت میں کثیف جسم کی جگہ لطیف جسم ہوگا، پس اہلِ بہشت کی چاہت مذکورہ تین طرح کی نعمتوں میں ہوگی۔

 

جوابِ دوم: سورۂ ابراہیم (۱۴: ۳۴) میں ہے: خدا نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا، اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے۔ یہاں ایک لطیف اشارہ یہ ہے کہ تم حقیقی علم حاصل کرو تاکہ اس کی روشنی میں اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں طلب کر سکو۔

 

جوابِ سوم: سورۂ لقمان (۳۱: ۲۰) میں ہے: کیا تم نے (چشمِ بصیرت سے) نہیں

۱۱۳

دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر رکھا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہیں  اور جو کچھ زمین میں ہیں اور اس نے تم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں۔ دیکھنے والوں نے خوب دیکھا اور بتایا کہ یہ کل کائنات کی بادشاہی عطا کرنے کی بات ہے۔

 

جوابِ چہارم: ایک طرف اپنی تمام نعمتوں کے ساتھ بہشت ہے، اور دوسری طرف رضوان (۰۹: ۷۲) یعنی اللہ کی خوشنودی یا ایک عظیم فرشتہ یا خدا خود ہے جو بہشت سے بھی اکبر (بہت بڑا) ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہشت کے ساتھ اور بہشت کے بعد خدا مل سکتا ہے، اس طرح کہ پھر کبھی ہم اس سے جدا نہ ہو جائیں۔

 

جوابِ پنجم: اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ قرآن اور اسلام کے مطابق لوگوں کے لئے درجات ہیں، چنانچہ سارعوا (۰۳: ۱۳۳) اور سابقوا (۵۷: ۲۱) کے حکم کی تعمیل میں جو لوگ سب سے سبقت لے جائیں گے، ان کے عالمِ شخصی کو کائنات کے ساتھ ملا کر بہشت بنا دیا جائے گا، یہ قدیم و جدید بہشت ہوگی، جس میں اہلِ زمانہ سب کے سب داخل ہو جائیں گے۔

 

جوابِ ششم: جنت میں ربّ العزّت اپنے خاص دوستوں کو بہت بڑی سلطنت عطا کرے گا (۷۶: ۲۰) ایسی بلند ترین عزّت اور عظیم ترین نعمت کی تعریف ہم جیسے ناچار بندوں سے کیوں کر ہوسکتی ہے، الغرض بہشت کی بادشاہی میں ایسی عظیم الشّان نعمتیں ہیں کہ ان کی مثال صرف وہ خود ہیں۔

 

جوابِ ہفتم: سورۂ قمر کے آخر (۵۴: ۵۴ تا ۵۵) میں ارشاد ہے: بے شک پرہیزگار لوگ باغوں میں اور نہروں میں ہوں گے مقامِ صدق میں قدرت والے بادشاہ کے پاس۔ جب کبھی اللہ تعالیٰ کے قربِ خاص کا ذکر ہو تو وہ فنا فی اللہ کے معنی میں ہوتا ہے، کیونکہ دیدارِ پاک کے بعد بحقیقت عارف فنا ہو جاتا ہے۔

 

جوابِ ہشتم: بہشت کی نعمتیں دنیا میں نہیں آسکتی ہیں، مگر اُن کے سائے یہاں کی نعمتوں کے نام سے ہیں، آدمی جب شکمِ مادر میں تھا تو اس وقت وہ نہ اصل نعمت کو جانتا تھا اور نہ ظلِ نعمت کو، لیکن جب سے وہ پیدا ہوکر ہوش سنبھالنے لگا،

۱۱۴

تب سے اس میں محدود خواہشات پیدا ہوتی گئیں جو سایہ جیسی نعمتوں کی بنیاد پر تھیں، جب ایسے لوگ خدا کے فضل و کرم سے بہشت میں جائیں گے تو ان کی خواہشات محدود اور وہاں کی نعمتیں لامحدود ثابت ہوں گی۔

 

جوابِ نہم: آپ سورۂ تطفیف کو پڑھیں، اور اس ارشاد میں غور کریں: ہرگز ایسا نہیں، بے شک نیک لوگوں کا نامۂ اعمال بلند مرتبہ فرشتوں میں ہے، اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ بلند مرتبہ فرشتے کیا ہیں؟ وہ لکھی ہوئی کتاب ہیں، جس کو مقربین (دنیا میں بھی) دیکھ سکتے ہیں (۸۳: ۱۸ تا ۲۱)۔ نیکوکاروں کا نامۂ اعمال بلند مرتبہ فرشتوں کی صورت میں ہے، جس کو دنیا کی روحانیّت میں اگرچہ سب نیک لوگ تو نہیں دیکھ سکتے ہیں، لیکن مقربین جو اہلِ معرفت ہیں وہ ایسے عجیب و غریب نامۂ اعمال کو چشمِ بصیرت سے دیکھ لیتے ہیں، یہ عظیم فرشتے بالآخر حظیرۂ قدس میں ہوتے ہیں، کراماً کاتبین ہیں، جو چند ہیں، مگر مقامِ وحدت پر سب کو ایک ہونا ہے، لہٰذا وہاں صرف ایک ہی ہے اور بس۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعہ ۴ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ، ۱۴ مارچ ۱۹۹۷ء

 

۱۱۵

 

حق تعالیٰ کا دیدارِ اقدس

 

حدیثِ شریف میں ہے: ان الناس قالوا یا رسول اللہ ہل نریٰ ربنا یوم القیٰمۃ قال ہل تمارون فی القمر لیلۃ البدر لیس دونہ سحاب قالوا لا یا رسول اللہ قال فھل تمارون فی الشمس لیس دونھا سحاب قالوا لا قال فانکم ترونہ کذالک = کہ لوگوں نے پوچھا، یا رسول اللہ، کیا ہم قیامت میں اپنے ربّ کو دیکھ سکیں گے؟ آپ نے (جواب کے لئے) پوچھا، کیا تمہیں چودھویں کے چاند میں جبکہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو، کوئی شبہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! پھر آپؐ نے پوچھا، اور کیا تمہیں سورج میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل نہ ہو شبہ ہوتا ہے؟ لوگ بولے کہ نہیں، پھر آپؐ نے فرمایا کہ ربّ العزت کو تم اسی طرح دیکھو گے (صحیح البخاری، جلدِ اوّل، کتاب الاذان، باب ۵۲۰)۔

 

دلیلِ اوّل: سورۂ قیامت (۷۵: ۲۲ تا ۲۳) میں ہے: وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌ اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ = اُس روز بعض چہرے تروتازہ ہوں گے، اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ ایسے چہروں کی تروتازگی کا سبب پوشیدہ نہیں کہ ان کو پروردگارِ عالم کا پاک دیدار حاصل ہوگا، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کے لئے سب سے بڑا انعام ہے۔

 

دلیلِ دوم: سورۂ تطفیف کے اس مبارک ارشاد کا مجموعی مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن کچھ لوگ خداوند تعالیٰ کے دیدارِ مقدّس سے مستنیر و مستفیض ہوں گے، اور کچھ لوگ دیدارِ الٰہی سے محروم ہو جائیں گے، جیسے ارشاد ہے: كَلَّاۤ اِنَّهُمْ عَنْ

۱۱۶

رَّبِّهِمْ یَوْمَىٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ (۸۳: ۱۵) ہرگز ایسا نہیں یہ لوگ اس روز اپنے ربّ (کا دیدار دیکھنے) سے روک دئے جائیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرتِ ربّ العزت کا دیدار حق ہے۔

 

دلیلِ سوم: یہ پُرحکمت ارشاد سورۂ انعام (۰۶: ۱۰۳) میں ہے: لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘-وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ = (وہ ایسا ہے کہ) نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کو ادراک کر سکتا ہے اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہے۔ اگر سورج کی روشنی برق رفتاری سے چل کر ہماری آنکھوں کے سامنے نہ آتی تو ہم سورج کو کبھی دیکھ ہی نہیں سکتے، اسی طرح خدا جب اپنے عاشقوں کی آنکھ ہو جاتا ہے تو یقیناً ان کو دیدارِ پاک کا سب سے بڑا شرف حاصل ہو جاتا ہے۔

 

دلیلِ چہارم: آپ قرآنِ حکیم میں اللہ تعالیٰ کی ملاقات (لقاء اللہ، لقاء ربّ، لقاءنا، لقائہٖ) سے متعلق تمام آیات کو غور سے پڑھیں، لقاء کے معنی ہیں: آمنے سامنے آنا، ملنا، ملاقات کرنا، کیا ملاقات دیدار کا دوسرا لفظ نہیں ہے؟ آپ اس آیۂ کریمہ میں خوب سوچ لیں: قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ اللّٰهِ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ (۱۰: ۴۵) فی الواقع سخت گھاٹے میں رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا اور ہرگز وہ راہِ راست پر نہ تھے۔

 

دلیلِ پنجم: آپ نے اس کتاب میں “معجزۂ نوافل” کے مضمون کو پڑھا ہوگا، جو عملی تصوّف کے بارے میں جاننے کے لئے بے حد ضروری ہے، جس میں یہ ذکر ہوا ہے کہ خدا اپنے عاشق کی آنکھ بھی ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس عنایتِ بے نہایت کا سب سے بڑا مقصد یہی تو ہے کہ جس کی تجلی چشمِ بصیرت ہی میں ہوتی ہے، اس کا دیدارِ اقدس اور کنزِ معرفت حاصل ہو۔

 

دلیلِ ششم: سورۂ نجم (۵۳: ۱۱) کے ارشادِ مبارک: مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى (قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں کوئی غلطی نہیں کی) سے متعلق ابنِ عباس کا یہ قول ہے: رای محمد ربّہ عزّ و جل بقلبہ مرتین = حضرتِ محمدؐ نے اپنے

۱۱۷

ربّ عزّ و جل کو دیدۂ دل سے دو دفعہ دیکھا تھا (بحوالۂ مسند، جلدِ اوّل، ص ۳۶۹)۔

 

دلیلِ ہفتم: قرآنِ حکیم کی بعض سورتوں کے آخر میں عظیم الشّان اور حیران کن اسرارِ معرفت پنہان ہیں، جیسے سورۂ قصص کے اختتام پر ارشاد ہے: (ترجمہ) سب چیزیں فنا ہونے والی ہیں بجز اُس کے چہرہ (وجہ) کے۔ یعنی اے سالک، تم اپنے عالمِ شخصی کے روحانی سفر میں تمام چیزوں کو پیچھے چھوڑ کر منزلِ دیدار کی طرف آگے جانے والے ہو، جہاں چہرۂ جانان (صورتِ رحمان) ہے جس میں اپنی حقیقتِ ازل کو پانے کے لئے تمہیں علمی طور پر فنا ہو جانا ہے، جیسے مذکورہ آیۂ شریفہ کا آخری حصّہ ہے: اسی کا امر ہے اور اسی کی طرف تم لوگ لوٹائے جاؤ گے (۲۸: ۸۸) اس ارشاد میں فنا کی بات پہلے ہے اور رجوع کا تذکرہ بعد میں، جس سے معلوم ہوا کہ یہی وہ سب سے اعلیٰ حقیقت ہے جس کو “فنا فی اللہ و بقا باللہ” کہتے ہیں۔

 

دلیلِ ہشتم: سورۂ رحمٰن میں ارشادِ عالی ہے: (ترجمہ) وہ سب جو (عوالمِ شخصی کی مذکورہ ۵۵: ۲۴) کشتیوں میں ہیں فانی ہیں، اور تمہارا ربّ جو عظمت و کرامت والا ہے اس کا چہرہ (یعنی مظہر) غیر فانی ہے۔ ہر عالمِ شخصی میں ایک بھری ہوئی کشتی نمائندۂ عرش علی المآء ہے (۱۱: ۰۷) جس میں انسانِ کامل وجہ اللہ اور مظہرِ خدا ہے، اس میں وہ سب فنا ہو چکے ہیں جو فلکِ مشحون میں تھے (۳۶: ۴۱)۔

 

دلیلِ نہم: اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدمؑ کو اپنی (رحمانی) صورت پر پیدا کیا۔ عقلی تخلیق کا یہ کام خدا نے حظیرۃ القدس میں کیا جو عالمِ شخصی کی بہشت ہے، اسی تخلیق کے ساتھ ساتھ آدم کو دیدارِ خدا اور مرتبۂ فنا بھی حاصل ہوا، پس جو شخص بھی بہشت (حظیرۂ قدس) میں داخل ہو جائے وہ آدم علیہ السّلام کی صورت پر ہوگا (صحیحِ بخاری، جلدِ سوم، استئذان) اس سے ظاہر ہوا کہ دیدار کے بغیر فنا فی اللہ نہیں ہے۔

 

دلیلِ دہم: بزرگانِ دین نے آیۂ مصباح کی بڑی زبردست تعریف فرمائی ہے، اس کے ابتدائی کلمات ہی سے امواجِ نور کائنات کی بلندی و پستی میں پھیل رہی ہیں، اس آیۂ مبارکہ کا اوّلین حصّہ یہ ہے: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ (۲۴: ۳۵)

۱۱۸

اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ یعنی اللہ نورِ ہدایت ہے کہ اسی نے عالمگیر روح اور عالمگیر عقل و پیدا کیا، اور خدا خاص طور پر عالمِ شخصی کا نور ہے، جس کی نہ صرف مثال بلکہ مرکز بھی سراجِ منیر ہے (۳۳: ۴۶) پس نور یا النور اللہ جل جلالہ کا ایک اسمِ صفت ہے جو چشمِ بصیرت کے سامنے ظہور فرما ہونے کے معنی رکھتا ہے، اور اس حقیقت کی تائید و تصدیق خدا کے ایک اور اسم سے ہو رہی ہے اور وہ اسم ہے: الظاہر (۵۷: ۰۳) یعنی اہلِ معرفت کے دل میں جلوہ نما ہونے والا اور ان کو دولتِ دیدار سے نوازنے والا۔

 

دلیلِ یازدہم: سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۷۲) میں ارشاد ہے: وَ مَنْ كَانَ فِیْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِی الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَ اَضَلُّ سَبِیْلًا = اور جو شخص دنیا میں اندھا رہے گا سو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور زیادہ راہ گم کردہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر زمانے میں مظہرِ نورِ خدا موجود ہوا کرتا ہے، جس سے ہدایت اور چشمِ بصیرت مل سکتی ہے، اگر دنیا میں کوئی ایسا وسیلہ نہ ہوتا تو آخرت کی بے بصیرتی سے ایسی شدید وارننگ (تنبیہہ) نہ دی جاتی۔

 

دلیلِ دوازدہم: لغات الحدیث، کتاب “ف” میں ہے: اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ = مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ ایسا مومن انسانِ کامل ہی ہے، کہ خدا اس کی آنکھ ہوگیا ہے، اس نے دیدۂ دل سے خدا کو دیکھا ہے اور اسرارِ باطن کا مشاہدہ کیا ہے، اس کی فراست سے ڈرنے کے معنی ہیں کہ اس کے علم سے ڈرو، اور اس سے مباحثہ و مناظرہ نہ کرو، ورنہ تمہاری خفت و کم مائیگی ظاہر ہو جائے گی۔

 

دلیلِ سیزدہم: عشق کا مقصد دیدار ہے، فنا دیدار ہی سے واقع ہوتی ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک دیدار میں ہے، تجلیات دیدار ہی کے لئے ہیں، عقل و جان کی پاکیزگی دیدار سے ہوتی ہے، معرفت دیدار ہی کا نتیجہ ہے، اشارۂ خاص دیدار ہی سے ہوتا ہے، اصل سے واصل ہو جانے کا راز دیدار ہی میں ہے، حظیرۂ

۱۱۹

قدس دیدار کا مقام ہے، کنزِ مخفی دیدار ہی سے ملتا ہے، اللہ کے جمیل ہونے کی نعمت دیدار کے لئے ہے، بصیرت کا میوہ دیدار ہے، نور کا ثمرہ دیدار ہے، اور حق الیقین کا مرتبہ دیدار ہے۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

منگل ۸ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ

۱۸ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۲۰

نرالی نرالی حکمتیں

 

روحانی سائنس کے ذریعے سے معلوم ہوا ہے کہ سیّارۂ زمین کے گرداگرد اس کا اپنا غیر مرئی آسمان ہے، جس کا نام قرآنِ حکیم میں “السمآء الدنیا” ہے (۳۷: ۰۶، ۴۱: ۱۲، ۶۷: ۰۵) جس میں ذرّاتِ لطیف کے ستاروں کا گویا سمندر ہے، نیز اس نزدیک ترین آسمان میں لطیف محلات ہیں جن کو بروج کہا گیا ہے (۱۵: ۱۶) یہ بہشت کے محلات ہیں، کیونکہ بہشت افسانہ نہیں، خواب و خیال نہیں، بلکہ ٹھوس حقیقت ہے، لہٰذا یہ جسمانی، روحانی، اور عقلانی طور پر موجود ہے۔

 

۱۔ قرآنی حکمت ہی میں ہے کہ خداوندِ عالم نے سیّارۂ زمین کو پہلے پیدا کیا، اور اس کے ماحولی آسمان کو بعد میں بنایا، یہ کائناتِ اکبر کا تذکرہ نہیں، صرف ایک سیّارے کی بات ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین و آسمان کو ایک بڑی روح کے نظم و نسق میں رکھا، اور اس ذیلی کائنات میں خارجی، داخلی، عروجی اور نزولی بہت سے راستے بنائے، آپ سورۂ سبا (۳۴: ۰۲) اور سورۂ حدید (۵۷: ۰۴) میں دیکھ لیں۔

 

۲۔ سورۂ ابراہیم (۱۴: ۴۸) سے یہ حکمت مستنبط ہو جاتی ہے کہ ایک زمانے میں پروردگارِ عالم سارے لوگوں کو اس زمین سے دوسری زمین پر منتقل کر لے گا، یہ بڑی قیامت کا عظیم واقعہ ہوگا، اس وقت لوگ جسمِ لطیف میں خدائے واحد و قہار (غالب) کے سامنے ہوں گے، اور سب کے سب دین کے ایک ہی طریق پر جمع ہوں گے، پس اگر ہر سیّارے کا اپنا وابستہ اور ماحولی آسمان نہ ہوتا، اور صرف نظامِ شمسی کا سب سے بڑا آسمان ہوتا تو اس صورت میں زمین تو بدل جاتی، مگر آسمان وہی رہتا، اس

۱۲۱

روشن دلیل سے معلوم ہوا کہ ہر مکمل سیّارے کا اپنا آسمان ہے، بلکہ سات آسمان ہیں۔

 

۳۔ یہ ارشاد سورۂ حجر (۱۵: ۱۶) میں ہے: (ترجمہ) اور ہم ہی نے آسمان میں برج (بروج) بنائے اور دیکھنے والوں کے واسطے اُن کو آراستہ کیا۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا برج محل ہے اور بروج محلات ہیں، مگر ان کو سب نے نہیں دیکھا، صرف دیکھنے والوں نے ہی دیکھا، وہ عارفین ہیں، جنہوں نے آسمانوں کے زندہ پرواز کرنے والے محلات کو دیکھا، جو اشخاصِ لطیف ہیں۔

 

۴۔ یہ ارشادِ مبارک سورۂ ذاریات (۵۱: ۲۲) میں ہے: وَفِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ = اور تمہاری روزی اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے۔ اس آیۂ کریمہ کا اشارہ یہ ہے کہ آسمان میں بہشت ہے، جہاں سے زمین پر ہر رزق کی روح نازل ہوتی ہے، تاکہ زمین سے طرح طرح کی ظاہری نعمتیں پیدا ہو جائیں، نیز آسمان سے براہِ راست لطیف غذائیں بھی آتی ہیں۔

 

۵۔ کیا ہم آپس میں یہ سوچ سکتے ہیں کہ انسان کس چیز کے بل بوتے پر کسی دوسرے سیّارے کو اپنا مسکن بنا سکے گا؟ اس سلسلے میں ظاہری سائنسدانوں کی موجودہ کوشش بھی آیاتِ قدرت میں سے ہے، اور امید ہے کہ اس تحقیق میں بہت ترقی ہوگی، ساتھ ہی ساتھ یہ توقع بھی ہے کہ ایک نہ ایک دن جسمِ لطیف (UFO) کا راز معلوم ہو جائے، اور اسی کے ذریعے سے تسخیرِ کائنات کا عمل شروع ہو، کیونکہ قرآنِ پاک میں مختلف ناموں سے اس کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ بہشت کا زندہ اور گویندہ کرتہ ہے، آپ اسے پہن لیں اور قدرتِ خدا کو دیکھیں۔

 

۶۔ آپ کی روح دراصل کائناتی روح کی کاپی (copy)  ہے، اس لئے یہ مکان و زمان پر محیط و بسیط اور ہمہ رس و ہمہ گیر حقیقت ہے۔ انسانی روح کو اس کی تمام تر خوبیوں کے ساتھ نہ ماننا اور نہ پہچاننا بہت بڑی غفلت اور ناشکری ہے، پس آپ کثرتِ ذکر اور اعلیٰ علم کی روشنی میں سوچیں کہ آپ اس کائنات کے کس چمکتے ہوئے ستارے پر موجود نہیں ہیں؟ روحانی سائنس کا ایک عجیب دور ایسا بھی آنے والا ہے جس میں کسی سواری

۱۲۲

کے ذریعے سے نہیں، بلکہ صرف توجہ اور خیال ہی سے ستاروں پر جانا ہوگا، کیونکہ آپ کی روح کا پھیلاؤ ہر جگہ پہلے ہی سے موجود ہے، کیا قرآن میں یہ ذکر نہیں ہے کہ کائنات تمہارے لئے مسخر کی گئی ہے؟ آیا اللہ جل شانہ نے نہیں فرمایا کہ تمہیں سب کچھ دیا گیا ہے؟

 

۷۔ یہ آپ کے خیال کو ایسی بلند پروازی کی صلاحیت کیوں عطا ہوئی ہے؟ کہ آپ خیال ہی خیال میں بیک چشمِ زدن آسمانوں کو عبور کرتے ہیں؟ خیال کوئی محدود چیز نہیں، بلکہ یہ ایک عالم ہے، جو فی الوقت حدِّ قوّت میں ہے، آگے چل کر یہ حدِّ فعل میں آئے گا، یعنی آپ کا عالمِ خیال عالمِ روحانی بن جائے گا، جس میں سچ مچ آپ کائنات میں ہر سو پرواز کر سکیں گے یا یہ کہ کائنات آپ کے عالمِ شخصی میں محدود کر دی جائے گی، اور رفتہ رفتہ اس کے بھید کھول دئے جائیں گے، الغرض خیالی پرواز مہمل نہیں، اس میں معنی پوشیدہ ہیں، وہ یہ کہ جس طرح طفلِ شیر خوار کے ہاتھ پاؤں کی حرکت اور منہ سے بغیر الفاظ کی آواز فضول نہیں، بلکہ یہ مشقیں ہیں اور خواہشات ہیں چلنے، پھرنے، کام کرنے، اور بولنے کی، اسی طرح آپ کی خیالی پرواز بہشت کی اصل پرواز کی مشق اور آرزو ہے، ان شاء اللہ العزیز۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

جمعرات ۱۰ ذیقعد ۱۴۱۷ھ

۲۰ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۲۳

بہشتِ برین کے علمی مشاغل

 

سورۂ یاسین (۳۶: ۵۵) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) بے شک اہلِ بہشت آج (حسبِ مراتب) اپنے اپنے شغل سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ اس ربّانی تعلیم سے روشنی حاصل کر کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہشت میں سب سے بہترین شغل عقل ودانش اور علم و حکمت سے متعلق ہوگا، بلکہ اس کے تو بہت سے مشاغل ہوں گے، ان میں سے ایک خاص مشغلہ حقیقی علم سکھانا ہے، کیونکہ بہشت میں علمی درجات ہیں، نیز بہشت میں دنیا بھر کے لوگ زبردستی سے داخل کئے جائیں گے، ان کے پاس علم نہ ہو گا، لہٰذا انہیں بتدریج علم دینا ہوگا۔

 

۱۔ ہر چیز گویا علمی میوہ ہے: بہشتِ برین کی تمام تر نعمتوں کی تشبیہہ و تمثیل پھلوں سے دی گئی ہے، جیسے سورۂ واقعہ (۵۶: ۳۲ تا ۳۳) میں ارشاد ہے: وَّ فَاكِهَةٍ كَثِیْرَةٍ لَّا مَقْطُوْعَةٍ وَّ لَا مَمْنُوْعَةٍ = اور میوہ ہائے کثیرہ (کے باغوں) میں، جو نہ کبھی ختم ہوں اور نہ ان سے کوئی روکے۔ اس تعلیمِ سماوی میں بہت بڑا راز اور بہت سے بنیادی سوالات کے لئے جوابِ واحد موجود ہے، وہ حقیقتِ لا ابتدائی و لا انتہائی ہے، وہ اس طرح سے ہے کہ خط (لکیر) شروع میں بھی اور آخر میں بھی مقطوع (کٹا ہوا) ہوتا ہے، جیسے یہ لکیر ہے: مقطوعہ          مقطوعہ، اس کے برعکس دائرہ ہے جو “لا مقطوعہ” ہے، اس سے نہ صرف بہشت کی لا ابتدائی و لا انتہائی کا ثبوت ملتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ بہشت ہمیشہ آباد ہے۔

 

۲۔ ہر چیز گویا جواہرِ علم کا ایک صندوق ہے: پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ مبارک ہے: اللھم ارنا الاشیاء کما ھی = یا اللہ ! ہمیں چیزیں اصل

۱۲۴

صورت میں دکھا دے (کتاب: احادیثِ مثنوی) یعنی ہمیں کائنات، سورج، چاند اور ستاروں کی حقیقت سے آگہی عطا فرما، ہمیں اپنے جسم و جان اور عقل کی معرفت عنایت کر، اور قرآنِ حکیم کے عظیم اسرار ہم پر منکشف کر دے، الغرض یہ ایک ایسی پُرحکمت کلی دعا ہے کہ اس کی جامعیّت سے کوئی علمی یا عرفانی چیز باہر نہیں ہے، پس عارف کی نظر میں ہر چیز گویا ایک علمی صندوق ہے، جس سے انمول دُرِّ شہوار برآمد ہو سکتے ہیں۔

 

۳۔ ہر چیز کی معرفت ضروری ہے: صاحبِ جوامع الکلم کی مذکورہ دعائے مبارک میں چشمِ بصیرت اور ہر شیٔ کی معرفت مطلوب ہے، کیونکہ ارنا (ہم کو دکھا دے) میں مشاہدۂ باطن کے لئے درخواست ہے، تاکہ اہلِ ایمان کو عالمِ شخصی میں تمام اشیاء کی معرفت حاصل ہو جائے، اس لئے کہ ہر چیز کی معرفت ضروری ہے، اور یہ امر ناممکن نہیں۔

 

۴۔ علم الاسماء: حضرتِ آدم علیہ السّلام کو جو علم الاسماء سکھایا گیا تھا، کہتے ہیں کہ وہ دراصل حقائق و معارفِ اشیاء کا علم تھا، کیونکہ کسی چیز کے ظاہری نام جاننے میں چندان فائدہ نہیں، جب تک کہ اس چیز کی باطنی حقیقت معلوم نہ ہو، مثال کے طور پر آپ کسی جڑی بوٹی کے نام کو جانتے ہیں، مگر اس کے طبی خواص و تاثیرات کو نہیں جانتے ہیں تو اس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں۔

 

۵۔ بہشت کے اکثر لوگ بھولے بھالے ہیں: حدیثِ شریف میں آیا ہے: اکثر اہل الجنۃ البلہ = اہلِ بہشت میں سے اکثر بھولے بھالے ہیں (لغات الحدیث، ب) یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ جنت میں جو علمی نعمت ہے وہ سیکھنے اور سکھانے کی صورت میں ہے، لہٰذا یہ بھولے بھالے لوگ آگے چل کر عالم و دانا ہو جائیں گے۔

 

۶۔ بہشت میں ہر دل خواستہ نعمت ہے: کوئی ایسی نعمت ممکن ہی نہیں جو دلوں کی خواہش میں ہو، مگر بہشت میں نہ ہو، قرآنِ پاک میں بہشت کی ان نعمتوں کا ذکر بھی نمایان ہے، جن سے آنکھوں کو لذّت ملتی ہے، وہ سب سے اعلیٰ درجے پر حق سبحانہ و تعالیٰ کی تجلّیات ہیں، جس کو رویت یا دیدار کہتے ہیں، جس کے مظاہر ہو

۱۲۵

سکتے ہیں، اہلِ معرفت کہتے ہیں کہ بہشت میں معجزاتی کتابیں بھی ہیں، وہ آسمانی کتابیں ہو سکتی ہیں اور اچھے اچھے نامہ ہائے اعمال بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ قرآن (۶۹: ۱۹) میں ہے: فَیَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْ = وہ تو (خوش ہوکر لوگوں سے) کہے گا کہ لو میرا نامۂ اعمال پڑھو۔

 

سوال: دنیا میں ہر کتاب کی کاپیاں ہوا کرتی ہیں، اور قرآنِ حکیم کی تو بے شمار کاپیاں ہیں، کیا بہشت میں ہر نبی اور ہر ولی کے نامۂ اعمال کی بے شمار کاپیاں ہو سکتی ہیں تاکہ بے شمار لوگ ان کو پڑھ کر شادمان ہو سکیں؟ جواب: جی ہاں، قانونِ بہشت کے مطابق ہر نعمت ممکن ہے، یہ تو ایک نعمتِ عظمیٰ ہے، اس لئے اس کا ہونا لازمی ہے، اس آیۂ کریمہ میں ایک پُرحکمت لفظ ھآؤم (تم پکڑو، تم لو) ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تم میرے نامۂ اعمال کی یہ کاپی لے لو۔

 

۷۔ نامۂ اعمال خود انسان ہی کی طرح ہوتا ہے: راہِ روحانیّت کی اسرافیلی اور عزرائیلی منزل میں بھی اور آخری منزل میں بھی خود عارف کی لاتعداد کاپیاں بنتی ہیں، ان کے بہت سے نام ہیں، جیسے نامۂ اعمال کی کاپیاں، خود عارف کی کاپیاں، فرشتے، پرندے، جنّات (پری مرد و زن)، اجسامِ لطیف، لباسِ جنّت، سرابیل، بروج (محلات)، محاریب (قلعے)، بازارِ جنّت کی تصویریں، وغیرہ۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

پیر ۱۴ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ

۲۴ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۲۶

نامۂ اعمال کی معرفت

 

“عملی تصوف اور روحانی سائنس” کے موضوع کے سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہم نامۂ اعمال کے بارے میں کچھ تحریر کرنے کے لئے حقیر سی کوششیں کریں، ان شاء اللہ، محمد و آلِ محمد کا صدقۂ علمی ملتا رہے گا، ان کے بابِ اقدس پر حسبِ عادت شیئاً للہ کی صدا لگاتے رہیں گے، تا آنکہ کشکولِ گدائی میں کچھ دریوزہ رکھ دیا جائے، اے کاش! ہم اس درِ دولت سے وابستگی کی نعمتِ عظمیٰ پر کما حقہ خدا کا شکر ادا کر سکتے۔

 

۱۔ نامۂ اعمال ۔ کتابِ ذرّاتِ لطیف: نامۂ اعمال کی چند صورتیں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عالمِ ذرّ میں ذرات پر مبنی ہوتا ہے، یعنی وہ سب سے عجیب و غریب کتاب ہے جو بکھرے ہوئے لطیف زندہ ذرّات کی شکل میں آتی ہے، جیسے سورۂ انفطار (۸۱: ۱۰) میں فرمایا گیا ہے: وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ = اور جب نامہ ہائے اعمال منتشر کر دئے جائیں گے۔ سورۂ بنی اسرائیل میں بھی اسی کتابِ منشور (بکھری ہوئی کتاب) کا ذکر ہے: (ترجمہ) اور ہم نے ہر انسان کا عمل اس کی گردن سے چسپان کر دیا ہے اور (پھر) قیامت کے دن ہم اس کا نامۂ اعمال اس کے واسطے نکال کر سامنے کر دیں گے جس کو وہ بکھرا ہوا دیکھ لے گا، اپنا نامۂ اعمال (خود) پڑھ لے آج کے دن اپنی ذات کا حساب لینے کو تو خود ہی کافی ہے (۱۷: ۱۳ تا ۱۴)۔

 

۲۔ حشر، نشر، اور ناشرات: جو مومنِ سالک جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جاتا ہے، اس کی ذاتی قیامت برپا ہو جاتی ہے، یہ البتہ قیامتِ صغریٰ ہے، جو ہر اعتبار سے قیامتِ کبریٰ ہی کی طرح ہوتی ہے، صرف اتنا فرق ہوتا ہے کہ اہلِ دنیا کو اس

۱۲۷

کی کوئی خبر نہیں ہوتی، درحالے کہ سالک میں سب کا حشر ہوتا ہے، اور یہیں سے نشر ہوتا ہے، یعنی اسرافیلی اور عزرائیلی قوّت سے کائنات بھر کی روحوں کو مرکزِ قیامت پر جمع کرنا حشر ہے، پھر ان کو کائنات میں بکھیر دینا نشر ہے، اور اسرافیل و عزرائیل کے روحانی لشکر سات رات اور آٹھ دن مسلسل روحوں کو جمع کرتے اور بکھیرتے رہتے ہیں، اس لئے ان کا ایک نام ناشرات (۷۷: ۰۳) ہے، بڑی عجیب بات ہے کہ یہی منتشر روحیں مومنِ سالک کا نامۂ اعمال بھی ہیں۔

 

۳۔ تمام چیزیں ایک کتاب میں گھیری ہوئی ہیں: حضرتِ ربّ العزّت نے علم و معرفت کے آسمان و زمین کو اپنے بندوں کے نامۂ اعمال میں لپیٹ کر رکھ دیا ہے، تاکہ خزانۂ اسرارِ مومن کی ذات سے دور نہ ہو، چنانچہ ارشاد ہے: وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر (علمی و عرفانی) چیز کو کتابی صورت میں گھیر کر رکھا ہے۔ یہ نامۂ اعمال ہے، جس کی ایک اور صورت انسانِ کامل ہے۔

 

۴۔ انفرادی قیامت کی روشن دلیل: سورۂ انشقاق (۸۴: ۰۶ تا ۰۹) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) اے انسان! تو محنت سے کوشان رہتا ہے اپنے ربّ کے پاس پہنچنے تک پس تیری اُس سے ملاقات ہوکر رہتی ہے، پس جس کو نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا گیا، تو اس سے حساب آسانی سے لیا جائے گا، اور وہ اپنے لوگوں کی طرف شادان و فرحان لوٹے گا۔ اس عظیم الشّان ربّانی تعلیم کا تعلق ہر عارف سے ہے جو دنیا ہی میں ذاتی قیامت کی کامیابی کے بعد گنجِ معرفت کی شادمانی کے ساتھ قوم کی طرف لوٹتا ہے، اگر اجتماعی قیامت ہوتی تو سب کے احوال پر کچھ روشنی ڈالی جاتی، جیسے سورۂ عبس (۸۰: ۳۳ تا ۴۲) میں ہے۔

 

۵۔ نامۂ اعمال کا عروج و ارتقاء: چونکہ عارف کی انفرادی قیامت میں سب کی اجتماعی قیامت پوشیدہ ہوتی ہے، لہٰذا اس کے نامۂ اعمال میں یقیناً سب کی نمائندگی ہے، پس کتابِ اعمال سب سے پہلے بائیں کان میں بولتی ہے، پھر دائیں کان میں، اور آخراً یہ کتابِ ناطق پیشانی میں منتقل ہو جاتی ہے، یہ اصحاب الشمال، اصحاب الیمین،

۱۲۸

اور مقربین کے نامہ ہائے اعمال کی مثالیں ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عارف کا نامۂ اعمال درجہ بدرجہ بلند ہوتا جاتا ہے، تا آنکہ علیین میں پہنچ جاتا ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۱)۔

 

۶۔ کتابِ ناطق: سورۂ مومنون (۲۳: ۶۲) اور سورۂ جاثیہ (۴۵: ۲۹) میں کتابِ ناطق کا ذکر آیا ہے، یہ بے شک نامۂ اعمال ہے، مگر مرشدِ کامل کی صورت میں، اور یہ عارف خود ہے، لیکن مرشد میں فنا ہوکر، بلکہ سب ہیں، ہاں ہاں غیر شعوری طور پر، یہ تو صرف فنا فی المرشد کی بات ہوئی، حالانکہ اس میں فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ کی حقیقت بھی ہے، پس اب کتابِ ناطق (نامۂ اعمال) بہت بڑا انقلابی تصوّر بن کر سامنے آیا، نامۂ اعمال = کتابِ ناطق؟ فنا فی اللہ کا سب سے بڑا انعام؟ کتابِ ناطق بشکلِ انسانِ کامل؟

 

۷۔ نامۂ اعمال کی زبان؟ علم و ادب کے حلقوں اور باذوق افراد کی طرف سے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ کتابِ ناطق کی زبان کیا ہے؟ اور اس کی تحریر کیسی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصولاً ہر شخص کا اعمال نامہ اس کی اپنی (مادری) زبان میں ہوتا ہے، روحانیّت میں تحریر اور عجیب و غریب کتابوں کے نمونے ضرور موجود ہیں، مگر نامۂ اعمال ایک زندہ کائنات کے طور پر ہوتا ہے، جس میں بے شمار چیزیں شامل ہیں، ان میں سے بعض چیزوں کی تشبیہہ و تمثیل ظاہری سائنس کے سمعی و بصری آلہ جات سے دی جا سکتی ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

بدھ ۱۶ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ

۲۶ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۲۹

قرآنِ حکیم اور اسرارِ معرفت

 

عملی تصوّف اور روحانی سائنس کا مضمون اسرارِ معرفت ہی کی بنیاد پر قائم ہے، لہٰذا ہمارے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ بحث معرفت ہی سے کریں، لیکن آپ جانتے ہیں کہ تنہا بحث کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، جب تک کہ خدا تعالیٰ کسی کو عملی تجربہ کی ہدایت و توفیق عطا نہ کرے، پس جاننا چاہئے کہ یہ قرآنِ کریم کے معجزات میں سے ہے کہ اس میں غور و فکر کرنے سے کوئی محدود مضمون لا محدود ہو جاتا ہے، مثال کے لئے دور کیوں جائیں، معرفت ہی کو لیجئے کہ اس کا مادّہ ع ر ف ہے، جس کے مختلف صیغے قرآن کے کل ۷۱ مقامات پر موجود ہیں، چنانچہ پہلی نظر میں مضمونِ معرفت کا دائرہ صرف اتنا ہی لگتا ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ دوسرے بہت سے الفاظ میں بھی معرفت کے معنی پوشیدہ ہیں، آپ اس مضمون کو غور سے پڑھ لیں۔

 

۱۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، یعنی نورِ معرفت کہ اس کی روشنی میں آسمان زمین کی ہر چیز اور قرآن کے ہر لفظ سے سرِ معرفت منکشف ہو جاتا ہے، وہ نورِ ہدایت ہے، اس لئے اہلِ ایمان کو ہر آیت سے لے کر دیدارِ اقدس تک جو معنوی راستہ ہے اس پر روشنی ڈال سکتا ہے، اللہ کا ایک اسم النور ہے اور وہ الظاہر بھی ہے، اور خدا نے عالمِ شخصی میں دونوں معنی میں تمام روحوں کو دیدارِ پاک عطا فرما کر پوچھا کہ: الست بربکم؟ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا: کیوں نہیں (۰۷: ۱۷۲) پس حضرتِ ربّ العزّت کے اس عظیم الشّان سوال میں کم سے کم تین معانی پوشیدہ ہیں: کیا میں نے تمہاری روحانی اور عقلانی پرورش نہیں کی؟ کیا میں تمہارے سامنے ظاہر نہیں ہوں اور یہ میرا دیدار نہیں

۱۳۰

ہے؟ آیا میں تمہارا کنزِ مخفی یعنی خزانۂ معرفت نہیں ہوں؟

 

۲۔ اہلِ معرفت کے لئے اس راز میں زبردست روحانی خوشی اور شادمانی ہے کہ قرآنِ عظیم کی معنوی اور عرفانی تجلّیات ہیں، جیسے تجلیٔ عقل، جس میں قرآنِ حکیم شروع سے لے کر آخر تک موضوعِ عقل ہو جاتا ہے، اسی طرح تجلیٔ علم، تجلیٔ رحمت، تجلیٔ محبت، تجلیٔ عشق، تجلیٔ نور، تجلیٔ ہدایت، تجلیٔ حکمت، تجلیٔ دیدار، تجلیٔ معرفت، وغیرہ، ان تجلیات کو دیکھنے کے لئے چشمِ بصیرت کا ہونا ضروری شرط ہے، چنانچہ یہاں تجلیٔ معرفت کی وضاحت ہو رہی ہے۔

 

۳۔ اگرچہ نزولِ قرآن کے کثیر مقاصد ہیں، لیکن سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ مقصد معرفت ہی ہے، کہ ہر شخص اپنے آپ کو اور اپنے ربّ کو پہچان لے، جیسا کہ آیۂ الست کے ارشاد سے یہ منشائے الٰہی ظاہر ہے (۰۷: ۱۷۲) کہ ربِّ کریم اپنی ربّوبیت کے بارے میں جن روحوں سے پوچھنا چاہتا ہے ان کو پہلے درجۂ کمال پر نورِ معرفت کی روشنی میں لاتا ہے، اور اس کے بعد سوال فرماتا ہے، ورنہ روحانی اور عقلی پرورش، دیدار، اور معرفت کے بغیر یہ سوال ممکن ہی نہیں۔

 

۴۔ اگر معرفت کے نہ ہونے سے آخرت میں کسی کا کوئی نقصان نہ ہوتا تو قرآنِ حکیم ایسے لوگوں کو ملامت نہ کرتا جو چشمِ باطن سے اندھے ہیں، جیسے سورۂ حج (۲۲: ۴۶) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ جو دل سینے میں ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ حقائق و معارف کا مشاہدہ دل کی آنکھ سے ہوتا ہے۔

 

۵۔ قرآنِ عزیز میں ذکر یعنی یادِ الٰہی کا مضمون بہت بڑی اہمیت کے ساتھ موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کس طرح خدا کو یاد کر سکتے ہیں، جب کہ آپ نے کبھی اپنے ربّ کو دیکھا ہی نہیں؟ کیونکہ کسی نادیدہ و ناشنیدہ چیز کی یاد نہیں بن سکتی، جواب: (الف) اسمِ اعظم کا ذکر خدا کی یاد ہے (ب) دیگر اسماء کا ذکر خدا کا ذکر ہے (ج) نیز علم الیقین، عبادت اور کثرتِ ذکر کے ساتھ ساتھ واقعۂ الست کا عاشقانہ تصوّر

۱۳۱

بھی یادِ الٰہی ہے۔

 

۶۔ نزولِ قرآن کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ جل جلالہ لوگوں کو اپنی آیات (معجزات) دکھائے گا، اس کی غرض معرفت تھی، چنانچہ خداوندِ تعالیٰ ہر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں تمام لوگوں کو روحانیّت اور قیامت کا منظر دکھاتا ہے، اور اس کے بعد ظاہر و باطن کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جاتی ہے جس میں ایک دروازہ ہوتا ہے (۵۷: ۱۳) اس کے اندر کی جانب تو رحمت ہے اور باہر کی جانب عذاب۔

 

۷۔ سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۳) میں خوب غور سے دیکھ لیں، یہاں معرفت ہی کا مضمون ہے، یہ لفیف (۱۷: ۱۰۴) اور نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) کا مقام ہے، اس لئے یہاں مومنین و مومنات کا مجموعہ صرف ایک ہی شخص ہے، اسی کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے وہ گویا ان اہلِ ایمان کے سامنے ہو رہا ہے، پس جو شخص اس دروازے سے داخل ہو جائے، وہ اسرارِ معرفت کا مشاہدہ کرے گا، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

پیر ۲۱ ذیقعدہ ۱۴۱۷ھ، ۳۱ مارچ ۱۹۹۷ء

۱۳۲

ذکرِ الٰہی کے چھوٹے بڑے معجزات

 

اے نورِ عینِ من! قرآنِ عزیز کی عالی شان حکمتوں کو عقل و دانش سے سن لو، اور اُن پر جان و دل سے عمل کرو تاکہ اس سے بھرپور فائدہ حاصل ہوگا، اگر تم کسی کام کی اہمیت و افادیت کو اوّل اوّل علم وحکمت کی روشنی میں دیکھ سکتے ہو تو یہ بہت ہی عمدہ بات ہے کیونکہ ہر نیک کام حکمت سے وابستہ ہے، پس اگر حکمت ہے تو خیرِ کثیر ہے اور سب کچھ ہے، اور اگر حکمت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

 

۱۔ سورۂ رعد میں گنجِ سعادت کی یہ کلید سب کے لئے رکھی ہوئی ہے، اور وہ یہ ہے: اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ = خبردار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے (۱۳: ۲۸) اطمینان کے خاص خاص معانی چوٹی پر ہیں، یعنی اس سے درحقیقت بڑے بڑے معجزے مراد ہیں، لیکن بڑے معجزات صرف وہی خوش نصیب لوگ دیکھ سکتے ہیں، جنہوں نے پہلے ہی سے چھوٹے چھوٹے عجائب و غرائب اور معجزات دیکھنے کی نیک عادت بنا لی ہو، کیونکہ ہر عالی شان چیز کے بہت سے درجات ہوا کرتے ہیں۔

 

۲۔ حدیثِ شریف میں ہے: ان لکل شیء قلبا و قلب القراٰن یٰسٓ = ہر چیزکا دل ہوتا ہے اور قرآن کا دل سورۂ یاسین ہے (لغات الحدیث) پس ایک صحیح آدمی کی ہستی میں تین قلب ہیں: قلبِ جسم، قلبِ جان اور قلبِ عقل، اور اسی بناء پر اطمینان بھی تین قسموں میں ہے: جسمانی، روحانی، اور عقلانی، نیز بے اطمینانی یا بیماری بھی تین قسم کی ہوا کرتی ہے، اس سے ایک جانب تو یہ معلوم ہوا کہ اطمینان کی بہت سی

۱۳۳

قسمیں اور بہت سے درجات ہیں، اور دوسری جانب یہ پتا چلا کہ ذکرِ الٰہی شفاخانۂ سماوی ہے، جس میں ہر قسم کے مریضوں کا علاج و معالجہ ہو سکتا ہے۔

 

۳۔ سوال: آپ روحانی سائنس کی روشنی میں یہ بتائیں کہ ذکرِ الٰہی سے کس طرح اطمینان کی بنیاد شروع ہو جاتی ہے؟ کیوں کر آگے بڑھتی ہے؟ اور کہاں تک اس کا عروج ممکن ہے؟

 

جواب: ہر انسان کے دو روحانی ہمنشین ہیں، ایک جنّ اور ایک فرشتہ، خدا کا ذکر بہشت کا راستہ ہے، جس سے فی الوقت بہشت کی کچھ غذائیں اور دوائیں آسکتی ہیں، پس اگر آدمی سلسلۂ ذکر کو قائم اور جاری رکھتا ہے تو راہِ جنت کھل جاتی ہے اور ذرّہ بعد ذرّہ بہشت کی غذا اور دوا آنے لگتی ہے، یعنی روح الایمان، روح العشق، اور عقل کے لئے غذا اور دوا کے ذرات حاصل ہونے لگتے ہیں، جس میں ایک طرف سے جنّ رکاوٹ ڈالتا رہتا ہے، اور دوسری طرف سے فرشتہ بڑھ چڑھ کر بندۂ ذاکر کی مدد کرتا رہتا ہے، اگر عالی ہمتی اور اولوا العزمی سے کام لے کر علم و عبادت کی شرطیں پوری کی جاتی ہیں تو ممکن ہے کہ سلسلۂ اطمینان عین الیقین کے بہت سے مراحل سے آگے گزر کر حق الیقین کے درجۂ کمال پر پہنچ جائے، اور اس میں کوئی شک ہی نہیں، کیونکہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کی حقیقی پیروی کی یہی شان ہوتی ہے۔

 

۴۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۹۵) میں ارشاد ہے: (ترجمہ) (اے رسولؐ) تم کہہ دو اگر زمین پر فرشتے (بسے ہوئے) ہوتے کہ اطمینان سے چلتے پھرتے تو ہم ان لوگوں کے پاس فرشتہ ہی کو رسول بنا کر نازل کرتے۔ اس سے یہ بہت بڑا راز معلوم ہوگیا کہ فرشتے دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک ارضی فرشتے اور دوسرے سماوی فرشتے، ارضی فرشتوں کی صفت یہ ہے کہ وہ ذکر و عبادت اور علم و حکمت کی راہوں میں کسی رکاوٹ کے بغیر اطمینان سے چلتے پھرتے ہیں اور ان پر آسمانی فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں، یہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام کا عظیم مرتبہ ہے، اور اس میں اطمینان کی مثال بھی ہے۔

 

۵۔ جمادات، نباتات اور حیوانات کے بعد انسان کی تخلیق و ترقی اس طرح سے

۱۳۴

ہے، نفسِ نباتی، نفسِ حیوانی، نفسِ امّارہ، نفسِ لوّامہ، اور نفسِ مطمئنہ، اور اسی آخری درجہ کے نفس (جان = روح) کو مکمل اطمینان حاصل ہو جاتا ہے، اسی وجہ سے اس کو نفسِ مطمئنہ کہا جاتا ہے، جیسے قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: اے اطمینان پانے والی جان (روح) اپنے پروردگار کی طرف چل تو اس سے خوش وہ تجھ سے راضی، تو میرے (خاص) بندوں میں داخل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہو جا (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) آپ دیکھتے ہیں کہ اطمینان کے معنی بہشت تک جاتے ہیں، اور اطمینان کی یہ دولتِ لازوال ذکرِ الٰہی کی پیداوار ہے۔

 

۶۔ قرآنِ کریم (۰۳: ۱۲۶، ۰۸: ۱۰) میں ارشاد ہے کہ جنگِ بدر میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نازل کرکے مسلمانوں کی مدد فرمائی تھی، یہ عالمی فتح کی خوشخبری ہونے کی وجہ سے سب کے لئے اطمینان تھا، کیونکہ ہر انسانِ کامل کی ذاتی قیامت میں اسلام کی روحانی دعوت، جنگ، اور عالمی فتح پوشیدہ ہے، اور یقیناً ہر زمانے میں ایسی قیامت کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ خداوندِ کریم اکثر اہلِ زمانہ کو زبردستی سے بہشت میں لے جاتا ہے، جبکہ خوشی سے بہشت میں جانے والے لوگ بہت تھوڑے ہیں، جیسے قرآن میں طوعاً و کرہاً (خوشی سے یا زبردستی سے، ۰۳: ۸۳، ۱۳: ۱۵) رجوع اور سجدہ کا قانون موجود ہے، الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

ہفتہ ۴ ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ

۱۲ اپریل ۱۹۹۷ء

۱۳۵

روحانی سائنس کے بعض انقلابی تصوّرات

 

۱۔ سب سے بڑا جدید انقلابی تصور سورج سے متعلق ہے، آپ “عملی تصوّف اور روحانی سائنس” کی اس کتاب کو پڑھیں۔

۲۔ ستاروں پر بہشتِ برین کی لطیف ابدی زندگی موجود ہے۔

۳۔ ابداعی مخلوق کو لوگوں نے اڑن طشتری کا نام دیا، جن (پری)، فرشتہ، اور لطیف انسان ابداعی مخلوقات ہیں۔

۴۔ عوام کا کہنا ہے: ایک جسم میں ایک جان ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، وہ یہ کہ ہر آدمی کی بحدِّ قوّت پھر بحدِّ فعل بے شمار جانیں ہیں۔

۵۔ ایک ایسا اڑنے والا ذرّہ دیکھا گیا ہے جو مادّہ اور روح کا مرکب ہے، بلکہ یہی جسمِ لطیف اور روحِ شریف کے ایک ہونے کا نمونہ ہے۔

۶۔ جن کے بارے میں دنیا بھر میں غلط فہمی پھیل گئی ہے، مثال کے طور پر لوگوں نے جن کو الگ اور پری کو الگ سمجھا ہے، حالانکہ دونوں نام ایک ہی مخلوق کے لئے ہیں، اس خوبصورت لطیف مخلوق کا نام فارسی میں پری ہے اور عربی میں جنّ۔

۷۔ جسمِ لطیف / جسمِ فلکی  / ایسٹرل باڈی / کوکبی بدن گرمی، سردی، خشکی، تری سے بالاتر ہے، لہٰذا وہ کسی بھی ستارے پر اور کسی بھی مقام پر رہ سکتا ہے۔

۸۔ روحانیّت کے بے شمار عجائب و غرائب میں سے ایک عجوبہ لطیف روحانی غذا ہے جو طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں ملتی ہے۔

۹۔ روح کا بالائی سرا جو ہمیشہ اصل سے واصل ہے وہ انائے علوی ہے اور جو

۱۳۶

نچلا سرا جسم سے وابستہ ہے، یہ انائے سفلی ہے، یہ بڑا انقلابی تصوّر ہے۔

۱۰۔ آگے چل کر اقوامِ عالم کا کلی اتفاق ہونے والا ہے، پھر وہ سب ایک ہو جائیں گے، ان شاء اللہ العزیز۔

۱۱۔ اب عنقریب دنیا سے جنگ کو ختم ہو جانا چاہئے تاکہ سیارۂ زمین امن کا گہوارہ بن جائے۔

۱۲۔ مادّی سائنس کے تمام سمعی و بصری آلہ جات کے بعد انسان میں روحانی قوّتیں کام کرنے لگیں گی۔

۱۳۔ تسخیرِ ذات ہی سے تسخیرِ کائنات ممکن ہو سکتی ہے۔

۱۴۔ اولوا الالباب (صاحبانِ عقل) ہر چیز میں قدرت و حکمت کو دیکھتے ہیں، چنانچہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جس طرح بعض کیڑے ایک وقت کے بعد پروانے بن کر اڑنے لگتے ہیں، اسی طرح بعض انسان وقت آنے پر فرشتے بن جاتے ہیں۔

۱۵۔ انسانِ کامل خداوند تعالیٰ کا وہ کارخانۂ قدرت ہے، جس میں ہر گونہ عجائب و غرائب تیار ہوتے رہتے ہیں۔

۱۶۔ کوکبی بدن (لطیف نوری انسان) میں خون وغیرہ جیسی کوئی چیز نہیں، سانس اور نیند بھی نہیں۔

۱۷۔ دین و دنیا کا ہر نیک کام اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق و ہدایت سے ہو سکتا ہے۔

۱۸۔ خدا شناسی کے لئے خود شناسی بے حد ضروری ہے، اس کے سوا معرفت ممکن ہی نہیں، پس کتابِ نفسی کتابِ معرفت ہے۔

۱۹۔ سورۂ مائدہ (۰۵: ۴۸) میں غور سے پڑھ لیں: لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّ مِنْهَاجًاؕ = تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے شریعت اور طریقت مقرر کی ہے۔

۲۰۔ قرآنِ حکیم میں لفظِ “حق / الحق” کثرت سے آیا ہے، اسی میں حقیقت کا ذکر ہے، کیونکہ حقیقت حق سے مشتق ہے، نیز حق و حقیقت کے ایک ہی معنی ہیں، جیسے المنجد
۱۳۷

میں ہے: حق الخبر = خبر کی حقیقت تک پہنچنا، الحق، سچائی، راستی، یقین، انصاف، ثابت شدہ، نصیب، مال، ملک، ہوشیاری، فیصل شدہ امر، موت، ج: حقوق۔

۲۱۔ قرآنِ عزیز کی متعدد آیاتِ مقدسہ میں معرفت کا بھی تذکرہ آیا ہے، جیسے یہ ارشاد ہے کہ پیغمبرِ اکرمؐ کے ظہورِ قدسی سے قبل ہی آپؐ کی معرفت اہلِ کتاب کے عارفوں کو حاصل ہو چکی تھی (۰۲: ۱۴۶، ۰۶: ۲۰) انہوں نے اپنی روحانیّت میں رسولِ پاکؐ کے نورِ اقدس کا دیدار کیا تھا۔

۲۲۔ ہم نے اپنے ہی دائرۂ کار میں زیادہ سے زیادہ اسرارِ معرفت پر لکھنے کی سعی کی ہے، کیونکہ قرآنِ عظیم میں جن سلامتی کی راہوں کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ یقیناً شریعت، طریقت، حقیقت، اور معرفت کی راہیں ہیں (۰۵: ۱۵ تا ۱۶) الحمد للہ ربّ العالمین۔

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی

کراچی

۹۔۹۔۹۶

بدھ ۱۵ ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ

۲۳ اپریل ۱۹۹۷ء

۱۳۸

روحانی سائنس کے عجائب و غرائب

(قسطِ اوّل)

آج سے تقریباً چودہ سو (۱۴۰۰) سال قبل قرآنِ پاک نے بڑے واضح الفاظ میں یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب اللہ تعالیٰ لوگوں کو آفاق و انفس میں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھانے کا سلسلہ شروع کرے گا (۴۱: ۵۳) چنانچہ ہم کسی شک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی وہ نشانیاں یا عجائب و غرائب آج مادّی سائنس اور اس کے ایجادات کی شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہیں، اور قدرتِ خدا کی یہی نشانیاں کل بحیثیتِ روحانی سائنس عالمِ شخصی میں اپنا انتہائی حیرت انگیز کام کرنے والی ہیں۔

اگر قادرِ مطلق کی ظاہری و مادّی نشانیوں کو سائنس کا نام دیا جا سکتا ہے تو یقیناً اس کی باطنی و روحانی نشانیوں کو روحانی سائنس کہا جا سکتا ہے، کیونکہ آفاق و انفس اور ان میں ظہور پذیر ہونے والی آیات سب کی سب خدا ہی کی ہیں، تاہم ان آیات اور اس سائنس کی بہت بڑی اہمیت و فضیلت ہوگی، جس کے حیران کن معجزات عالمِ شخصی میں رونما ہونے والے ہیں، کیونکہ انسان کا مرتبہ تمام کائنات و موجودات سے ارفع و اعلیٰ ہے۔

روحانی سائنس کے عظیم الشّان ظہور سے متعلق قرآنِ حکیم کی یہ پُرحکمت پیش گوئی عوام النّاس اور اکثریت کی نسبت سے فرمائی گئی ہے، ورنہ حضراتِ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام اور عارفین و کاملین کے نزدیک روحانی سائنس انسانی تاریخ کی ابتداء ہی سے اپنا کام کرتی چلی آئی ہے، جس کی مثالیں کتبِ سماوی میں بکثرت ملتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ روحانی ترقی کی بدولت روحِ اعظم کے عظیم اسرار سے ہمیشہ استفادہ کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ:

۱۴۱

خواجہ حافظ کا یہ مشہور شعر ہے

فیضِ روح القدس ار باز مدد فرماید
دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد

روح القدس کا فیض اگر پھر سے مدد فرمائے، تو دوسرے لوگ بھی ایسے معجزے کریں گے جیسے حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کرتے تھے۔
اگر آج مجھ ایسا ایک ناچیز عام آدمی روحانی سائنس کے بھیدوں سے بحث کر رہا ہو تو ضروری طور پر آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اب وہ بابرکت زمانہ آ رہا ہے جس میں مذکورۂ بالا قرآنی پیش گوئی کے مطابق خاص روحانی سائنس عوام کی خاطر عام ہونے والی ہے تاکہ حقیقی معنوں میں عالمِ انسانیّت کی مادّی، اخلاقی اور روحانی ترقی ہوسکے، جی ہاں، یقیناًیہ بات زرِّ خالص کی طرح صاف اور سچ ہے کہ جب تک روحانی سائنس کا عظیم الشّان انقلاب نہ آجائے تب تک دنیا والوں کے یہ تمام سخت پیچیدہ مسائل ختم نہیں ہوسکتے، اور نہ ہی سیّارۂ زمین کی غربت و جہالت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، کیونکہ صرف روحانی سائنس ہی ہے جس میں پروردگارِ عالمین نے تمام لوگوں کے لئے بے حد و بے حساب علمی برکتیں رکھی ہیں، جس کی ایک روشن مثال مادّی سائنس ہے جس کی وجہ سے دنیا کی ظاہری ترقی ہوئی ہے۔

خدائے بزرگ و برتر نے ارض و سماء کی جملہ اشیاء کو انسان کے لئے بحدِّ فعل یا بحدِّ قوّت مسخر بنا دیا ہے۔ اس عظیم ترین احسان کا ذکر قرآنِ پاک کی متعدد آیاتِ کریمہ میں آیا ہے، اس ربّانی تعلیم میں ظاہری و باطنی دونوں قسم کی سائنس کی طرف بھرپور توجہ دلائی گئی ہے، اب ہم سطورِ ذیل میں روحانی سائنس کی بعض ایسی اہم اور عجیب و غریب چیزوں کا ذکر کر دیتے ہیں جن کا کسی ادارے کو مشاہدہ اور کسی حد تک تجربہ ہو چکا ہے

سب سے پہلے اس بے مثال حقیقت کی تصدیق کی جاتی ہے کہ انسان نہ صرف عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) ہی ہے، بلکہ یہ خدا کی خدائی میں واحد روحانی عجائب گھر بھی ہے، اس عجائب خانۂ قدرت میں بے حد و بے حساب زندہ اور بولنے والے عجائب و غرائب موجود ہیں، منجملہ یہاں طرح طرح کی پُرحکمت مثالوں پر محیط ذی حیات ذرّات پائے جاتے

۱۴۲

ہیں، یہ آپ کو نہ صرف یاجوج و ماجوج اور روحانی لشکر کی حیران کن مثال پیش کرسکتے ہیں، بلکہ عالمِ ذرّ سے متعلق تمام عرفانی اسرار کا عملی مظاہرہ کرنا بھی انہی کا کام ہے، چنانچہ جسمِ لطیف اور روح پر مبنی ان چھوٹے چھوٹے لاتعداد ذرّات کا انوکھا قصّہ بڑا طویل ہے۔

اس سلسلے میں یہ بھی بتا دینا ضروری ہے کہ روحانی سائنس میں حواسِ ظاہر و باطن مل کر کام کرتے ہیں، لہٰذا ان کی روحانی تربیت بے حد ضروری ہے، جس طرح کسی قابل شخص کو خلا میں بھیجنے سے قبل شدید بدنی مشقیں کراتے ہیں، پھر اس کو سیّارۂ زمین کی کشش سے باہر جانا پڑتا ہے، اسی طرح روحانی سائنس کے تجربے کی خاطر انتہائی شدید ریاضت کے ساتھ ساتھ کرّۂ نفسانیت کی کشش سے بھی بالاتر ہو جانے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ ممکن ہے کہ کوئی آدمی یہ کہنے کی جرأت کرے کہ “روحانی سائنس” نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔

بابرکت روحانی سائنس کا ایک عظیم اور بڑا مفید تجربہ یہ بھی ہوا ہے کہ آدمی کی قوّتِ شامّہ کو ایسی گوناگون خوشبوئیں حاصل ہو سکتی ہیں، جن میں لطیف جوہری غذائیں بھی ہیں اور مختلف بیماریوں کے لئے روحانی دوائیں بھی، اس مقام پر خوب غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر چیز کی اصل جوہر کا خزانہ روح ہی ہے، یعنی ہر پھول، پھل اور جڑی بوٹی میں جیسا رنگ اور جس قسم کی خوشبو ہے، وہ روح کی وجہ سے ہے، کیونکہ یہ روح ہی کا کمال ہے جو رنگ و بو اور ذائقہ لے کر پھول، پھل، فصل اور دیگر نباتات میں آتی ہے۔

چلہ جیسے شدید حالات کسی درویشِ دلریش کے حق میں کتنے بابرکت ہوا کرتے ہیں، اس کا اندازہ صرف اہلِ دانش ہی کر سکتے ہیں، ایک ایسے گرانقدر وقت میں جبکہ بھوک اور پیاس بے حد عزیز لگ رہی تھی مؤکل نے پوچھا: بتاؤ کن کن خوشبوؤں کی کیفیت میں لطیف غذا کا تجربہ چاہتے ہو؟ عرض کی گئی کہ میں روحانی دولت کے لئے بے حد محتاج اور غریب ہوں، لہٰذا چند ایسے پھولوں، پھلوں اور نباتات کی الگ الگ خوشبوؤں کا تجربہ چاہتا ہوں، تو ان خوشبوؤں کا تجربہ کرایا گیا، جس کو اگر روحانی سائنس کی خوشخبری قرار دی

۱۴۳

جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

روحانی سائنس کا ذاتی تجربہ بطورِ خاص اس منزل میں شروع ہو جاتا ہے، جہاں سالک پر جیتے جی نفسانی موت واقع ہو جاتی ہے، اس موت کے تجدّد کا سلسلہ سات رات اور آٹھ دن تک جاری رہتا ہے تاکہ اس کے عظیم الشّان معجزات اور عجائب و غرائب پر خوب غور و فکر کیا جا سکے، اُس حال میں کائنات و موجودات کا روحانی نچوڑ یا جوہر بشکلِ ذرات سالک میں بھر دیا جاتا ہے، اور سالک کی روح کائنات میں پھیلا دی جاتی ہے، اور یہ عمل مذکورہ عرصے تک دہرایا جاتا ہے، اسی معنٰی میں دو سانچے مقرر ہو جاتے ہیں، ایک سانچا (قالب) عالمِ کبیر کا، دوسرا سانچا عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کا، تاکہ کائنات انسانی سانچے میں ڈھل کر انسانِ کبیر ہو جائے، اور انسان کائناتی قالب میں ڈھل کر عالمِ اکبر ہو جائے، جیسا کہ مولا علیؑ  نے فرمایا:
اے انسان! کیا تو گمان کرتا ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سمایا ہوا ہے، پس روحانی سائنس اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ ہے جس سے نہ صرف عالمِ شخصی اور کائنات کی تسخیر ہو جاتی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان دونوں کی بے شمار کاپیاں حاصل ہو سکتی ہیں۔

اب ایک بہت بڑا عالمی مسئلہ سامنے ہے، اور وہ ہے: یو۔ ایف۔ اوز سے متعلق سوال کہ وہ در حقیقت کیا چیزیں ہیں؟ یہ سوال جتنا مشکل اور جیسا ضروری ہے، اس کا جواب اتنا دلچسپ اور ایسا مفید بھی ہے، وہ یہ ہے کہ یو۔ ایف۔ او اُس ترقی یافتہ انسان کا عارضی نام ہے جو کسی سیّارے سے آتا ہے یا اس دنیا میں رہتا ہے، کیونکہ انسان ہی ہے جو کثیف سے لطیف ہو کر پرواز کر سکتا ہے، اور انسان ہی سے جنّ و پری ہو جاتا ہے، اس لطیف مخلوق پر خدا ہم کو آزما رہا ہے، نیز اس کے ظہور سے یہ اشارہ بھی مل رہا ہے کہ روحانی سائنس کا زمانہ آچکا ہے ، اور “یو۔ ایف۔ او” وہ انسان ہے جو وقت آنے پر فرشتہ ہوچکا ہے، اور بحکمِ خدا اپنے ظہور سے یہ سگنل دے رہا ہے کہ دیکھو زمانہ بدل گیا، اور روحانیّت کا دور آ گیا۔

۱۴۴

کیا جمادات کی ترقی یافتہ صورت نباتات نہیں ہیں؟ کیا نباتات سے حیوانات کا وجود نہیں بنتا ہے؟ آیا حیوان کا خلاصہ انسان نہیں ہے؟ آیا انسان روحانی ترقی سے فرشتہ نہیں بنتا ہے؟ کیا فرشتہ پوشیدہ ہونے کے معنی میں جنّ نہیں کہلاتا ہے؟ کیا مخلوقات کے آپس میں ظاہراً رشتہ اور باطناً وحدت نہیں ہے؟ اس کا مجموعی جواب اور خلاصہ یہ ہے کہ یو۔ ایف۔ اوز حقیقت میں دوسرے سیّاروں کے ترقی یافتہ انسان ہیں، جن کی روحانی سائنس درجۂ کمال پر پہنچ چکی ہے۔

عالمی یا بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ قانونِ اخلاق یہی حکم دیتا ہے کہ ہر وہ ملک و قوم جس نے ترقی کی ہے، وہ پس ماندہ لوگوں کی مدد کرے، چنانچہ دوسرے سیّاروں پر رہنے والے انسانوں یا فرشتوں کا مقدّس فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو جو روحانی سائنس میں غریب ہیں، زمین سے اُٹھا کر دوسرے ستاروں پر پہنچا دیا کریں، اللہ کے حکم سے یقیناً ایسا ہی ہوگا، یہ اُڑن طشتریاں جہاز کی شکل میں کیوں نظر آتی ہیں؟ یہ اشارۂ حکمت ہے، جس میں ان کا یہ کہنا ہے کہ ہم تمہارے کائناتی جہاز ہیں تاکہ تم کو مستقبل میں کائنات کی سیاحت کرا دی جائے۔

عظمت و بزرگی اور سلطنت و سلطانی کا ایک عجیب منشا یہ بھی ہوا کرتا ہے کہ بادشاہ کبھی کبھار بھیس بدل کر اپنے ملک میں گھومے پھرے، تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ لوگ کسی بھی علامت و نشان سے اس کو پہچانتے ہیں یا نہیں، خصوصاً ایسا امتحان رات کے وقت ہوا کرتا تھا، رات لا علمی کی مثال بھی ہے اور یہ باطن بھی ہے چنانچہ ترقی یافتہ انسان یا فرشتے اُڑن طشتریوں کے بھیس میں آ کر دنیا کے بڑے دانشمندوں، سائنس دانوں اور بڑی بڑی قوموں سے امتحان لیا کرتے ہیں۔

“یو۔ ایف۔ او” دراصل وہ مافوق الفطرت بشر ہے جس کو جثۂ ابداعیہ یا آسٹرل باڈی کہا جاتا ہے، نیز یہ وہ معجزاتی کُرتا ہے جس کو پہن کر یعنی اس میں منتقل ہوکر آپ نہ سردی محسوس کریں گے نہ گرمی، اور نہ ہی کوئی جنگ اس کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، لندن
۱۴ جولائی۱۹۹۵ء

۱۴۵

روحانی سائنس کے عجائب و غرائب
(قسطِ دوم)

اگر قصّۂ آدم پر روحانی سائنس کی روشنی ڈالی جائے تو یقیناً اس میں سے فائدۂ بنی آدم کے بہت سے اسرار منکشف ہو سکتے ہیں، مثال کے طور پر یہ سوال کیا جائے کہ خدا کے حکم سے جن فرشتوں نے پہلے پہل حضرتِ آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا وہ کونسے فرشتے تھے؟ ان کی ہستی کا تصوّر کیا ہے؟ سجود میں کیا حکمت پنہان تھی؟ آیا اس میں اولادِ آدم کے لئے بھی کوئی نویدِ جانفزا ہے یا نہیں؟

اس کے لئے روحانی سائنس میں یہ جواب ہے: سب سے پہلے عالمِ ذرّ کے ملائکہ نے حضرتِ آدمؑ کو سجدہ کیا، وہ ہستی کے اعتبار سے صرف ذرّات ہی تھے، وہ آدمؑ کی ہستی میں گر رہے تھے اور یہی سجدے کی ظاہری شکل تھی، یہ فرشتے بظاہر ذرّات لیکن بباطن تسخیرِ ذات و کائنات کی کلیدیں تھے، لہٰذا سجود اظہارِ اطاعت کے معنی میں تھا کہ یہ فرشتے آدمؑ کے لئے عالمِ شخصی اور کائنات کو حقیقی معنوں میں مسخر کر دیں گے، جی ہاں، قانونِ رحمتِ الٰہی ہرگز ایسا نہیں کہ باپ کو تاجِ خلافت سے سرفراز فرما کر مسجودِ ملائک بنا دیا جائے، اور اولاد کو ہمیشہ کے لئے آتشِ دوزخ میں دھکیل دیا جائے، لہٰذا یہ ایک یقینی حقیقت ہے کہ حضرتِ ابو البشر کے لئے جس طرح فرشتوں نے عالمِ ذرّ میں بھی اور آگے چل کر عالمِ عقل میں بھی سجدۂ فرمانبرداری بجا لایا، اس میں اس کی اولاد کے لئے دو مرحلوں میں خوشخبری ہے

مرحلۂ اوّل یہ کہ دورِ خواص میں فضائل و کمالاتِ آدمؑ صرف انبیاء و اولیاء (علیہم السّلام)

۱۴۶

ہی کو حاصل ہو جائیں گے، اور مرحلۂ دوم میں بشارت یہ ہے کہ دورِ عوام میں روحانی انقلاب کے آنے سے آدم کی روحانیت عوام کے لئے بھی کام کرنے لگے گی، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں بنی آدم کی کرامت و فضیلت بیان ہوئی ہے، اور ان کے لئے نصیحت بھی ہے۔

روحانی سائنس کی روشنی میں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ فرشتوں نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے لئے دوسرا اور آخری سجدہ عالمِ عقل میں کیا، جس میں وہ سب کے سب ایک ہی عظیم فرشتہ تھے، جب روحانی اور عقلانی قوّتوں نے فرشتوں کی مثال میں سجدہ کیا تو حضرتِ آدمؑ کی خلافت کائناتی زمین میں فعلاً قائم ہوگئی، یہاں یہ ضروری نکتہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خلافت صرف سیّارۂ زمین تک محدود نہیں، بلکہ یہ کائنات بھر کی خلافت ہے، کیونکہ قرآنِ پاک کا فرمانا ہے کہ خلافتِ الٰہیہ کی زمین بے حد وسیع ہے (۲۴: ۵۵،  ۲۹: ۵۶،  ۳۹: ۱۰) اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ زمین (۱) نفسِ کلّ ہے (۲) کائنات اور اس کے سارے ستارے ہیں (۳) اور عوالمِ شخصی ہیں۔
قصّۂ آدم کے روحانی اسرار بہت سے ہیں، ان میں سے صرف چند مثالیں پیش کرنے کے بعد اب ہم اُس نویدِ جانفزا کی طرف آتے ہیں جو بنی آدم کے عوام کے لئے ہے، وہ یہ کہ جب خلافتِ آدم کا اعلان فرمایا گیا تو اس میں یہ ہمہ رس و ہمہ گیر خوشخبری تھی کہ یہ خلافت آدم کی حیاتِ جسمانیہ تک محدود نہیں بلکہ اس کے سلسلۂ وارثین (انبیاء و اولیاء علیہم السّلام) میں یہ ہمیشہ جاری و باقی رہے گی، اور جب دورِ عوام آئے گا تو اس وقت خلافتِ آدم کے عظیم معجزات ظاہر ہو جائیں گے تاکہ عوام الناس کو روحانی سائنس کے بے شمار فائدے حاصل ہو سکیں۔

اللہ جل جلالہ کے اسرارِ حکمت بڑے عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں، وہ تعالیٰ شانہ لوگوں کو ظاہر میں اختیار دیتا ہے کہ کوئی اس کی عبادت کرے یا نہ کرے مرضی ہے، لیکن باطن میں سب لوگوں کو زبردستی سے ہدایت و عبادت کے راستے پر چلاتا رہتا ہے، اور یہ بڑا حیرت انگیز کام انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں ہوتا ہے، آپ سورۂ رعد (۱۳: ۱۵) میں دیکھ لیں: اور اللہ ہی کے لئے سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین

۱۴۷

میں ہیں خوشی سے اور مجبوری سے۔ نیز سورۂ نور (۲۴: ۴۱) میں پڑھیں: سب کو اپنی اپنی دعا /نماز اور اپنی تسبیح معلوم ہے۔ اس نوعیت کی آیاتِ کریمہ اور بھی ہیں۔

جی ہاں، یہ بات سچ اور حقیقت ہے کہ عالمِ ذرّ میں تمام چیزوں کے نمائندہ ذرات موجود ہیں، اور اس میں ہر خاص و عام انسان کا بصورتِ ذرّۂ نمائندہ حاضر رہنا از بس ضروری ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا قرآنی حوالہ جات کے مطابق عالمِ ذرّ میں (جو شخصِ کامل میں ہے) اللہ ہی کے لئے سب کے سب عبادت اور سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ مریم میں ہے۔

إِن کُلُّ مَن فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِیْ الرَّحْمَنِ عَبْداً = جتنے بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں سب کے سب خدا تعالیٰ کے روبرو غلام ہوکر حاضر ہوتے ہیں (۱۹: ۹۳)۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہت سے مشکل اور پیچیدہ مسائل ایسے ہیں جن کی تحلیل صرف روحانی سائنس ہی سے ہو سکتی ہے، جس کا ظہور بتوسطِ عالمِ شخصی دورِ عوام میں ہونے والا ہے، جیسا کہ سورۂ زمر میں ربّ العزت کا ارشاد ہے:

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّھَا = اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی (۳۹: ۶۹)۔ یہ قیامت القیامات کا ذکر ہے، جس میں روحانی سائنس یعنی ربّانی علم و حکمت سے زمین منور ہو جانے والی ہے، اور یہاں زمین سے باشندگانِ زمین مراد ہیں، پس حسبِ وعدۂ الٰہی (۴۱: ۵۳) آفاق کے بعد انفس (عوالمِ شخصی) میں بھی آیاتِ قدرت کا ظہور ہوگا، اور اسی مجموعۂ معجزات کا نام روحانی سائنس ہے، جس کی مدد سے لوگ ایسی عجیب و غریب روحانی قوّتوں کو استعمال کر سکیں گے جو مادّی سائنس سے تیار کردہ آلہ جات کی مثال پر ہیں، لیکن ان سے بدرجہ ہا برتر اور بہتر ہیں، ایسی زبردست روحانی ترقی کے دور میں یہ امر ممکن ہے کہ ظاہری آلہ جات رفتہ رفتہ ختم ہوتے چلے جائیں، مثال کے طور پر اگر ٹیلی پیتھی (اشراق) کا رواج عام ہو جائے تو ظاہری ٹیلی فون کا دردِ سر کون مول لے گا، اگر اُڑن طشتریاں رام ہو جاتی ہیں تو پھر ہوائی جہاز کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔

۱۴۸

انسانوں کی روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ سیّارۂ زمین پر بڑی بڑی تبدیلیاں آنے کا ذکر ہے، سورۂ کہف (۱۸: ۰۷ تا ۰۸) ہم نے زمین پر کی چیزوں کو اس کے لئے باعثِ رونق بنایا تاکہ ہم لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے، اور ہم زمین پر کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان کر دیں گے۔ یعنی جب سارے انسانوں کو خوشبوؤں کی روحانی غذا ملتی رہے گی، اس کے نتیجے میں وہ جسمِ لطیف ہو جائیں گے، اور کھیتی باڑی کی ضرورت ہی نہ رہے گی، کیونکہ لوگ لطیف ہستی کی بہشت میں ہوں گے۔
قرآنِ حکیم فرماتا ہے: کَانَ النَّاسُ أُمَّۃً وَاحِدَۃ (۰۲: ۲۱۳) لوگ سب ایک ہی امت تھے (اور ہیں) یعنی تصوّرِ ازل و ابد اور عالمِ ذرّ میں تمام انسان ایک ہی جماعت ہیں،اور سب سے بڑی قیامت میں بھی سب ایک ہو جانے والے ہیں، لیکن وہ اس دور میں مختلف نظریات رکھتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ظاہر میں لوگوں کو اختیار دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ متفرق و منتشر ہوگئے ہیں، اور باطن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا اختیار ہے، جس کے سبب سے وہ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں سلکِ وحدت سے پروئے ہوئے ہیں۔

بعض قرآنی سورتوں کے آخر میں بطورِ خلاصہ زبردست علم و حکمت والی آیاتِ کریمہ وارد ہوئی ہیں، جن کو علمائے علوم القرآن “خواتم” کے نام سے جانتے ہیں، ایک ایسی پر از علم و حکمت آیۂ شریفہ سورۂ نمل کے آخر میں ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے:
اور آپ کہہ دیجئے کہ تمام خوبیاں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ تم کو عنقریب اپنی نشانیاں دکھلا دے گا سو تم ان کو پہچانو گے اور آپ کا ربّ ان کاموں سے بے خبر نہیں ہے جو تم سب لوگ کر رہے ہو (۲۷: ۹۳)۔ قرآنِ عظیم کا یہ حکمت آگین خطاب بتوسطِ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم تمام انسانوں سے فرمایا گیا ہے، جس میں ظاہری اور باطنی سائنس کی شکل میں معجزاتِ قدرت کے ظہور، مشاہدہ اور معرفت کی پیش گوئی ہے، یہ ان عظیم آیات و معجزات کا ذکرِ جمیل ہے جن کے مشاہدۂ عین الیقین اور حق الیقین سے مومنِ سالک کو اپنی ذات اور حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

۱۴۹

میں یہاں اپنے مضمون کی دونوں قسطوں کے اصل مطلب کو واضح کر دینے کے لئے ایک بڑا اہم سوال کرتا ہوں، وہ یہ کہ خالقِ اکبر نے تمام لوگوں کو کس ارادے سے پیدا کیا؟ آیا خدا یہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ خوشی سے یا زبردستی سے اس کے پاس لوٹ جائیں؟ کیا حقیقت کچھ ایسی نہیں ہے کہ اگر ایک آدمی اپنے اختیار سے بڑا غلط کام کرتا ہے تو اس کو ایک وقت کے لئے سزا دی جاتی ہے، لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ کے ارادۂ ازل کے مطابق فیصلہ ہو جاتا ہے جس میں خیر ہی خیر ہے؟
اس کا پُرحکمت جواب یہ ہے: الخَلقُ عِیالُ اللّٰہ، وَ اَحَبُ الخلقِ اِلَی اللّٰہِ مَن نَفَعَ عِیالَہ، وَ اَدْخَلَ السّرورَ عَلیٰ اَہلِ بَیتہ۔ ساری مخلوق (گویا)اللہ کا کنبہ ہے، لہٰذا خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک سب سے محبوب و پسندیدہ شخص وہ ہے جو اُس کے کنبے کو زیادہ فائدہ پہنچائے اور اس کے اہلِ خانہ کو مسرور و شادمان کر دے۔

والسلام مع الاحترام
نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
لندن
۱۸ جولائی۱۹۹۵ء

۱۵۰

علم و عمل کی افضلیت

 

خورشیدِ عیان عالمِ جان علم و عمل ہے

معمارِ جہان گنجِ نہان علم و عمل ہے

تحقیق یہی ہو گئی ہے فکر و نظر سے

سرمایۂ اقوامِ جہان علم و عمل ہے

ہر فرد کی معراجِ ترقی بھی یہی ہے

ہاں مرتبۂ کون و مکان علم و عمل ہے

یہ خاصۂ انسان ہے یہ فضلِ خدا ہے

عزّت کے لئے روحِ روان علم و عمل ہے

پتھر کی نہ قیمت ہے نہ سودا کبھی ہوگا

بس بیش بہا گوہرِ کان علم و عمل ہے

فردوسِ برین جانِ چمن چہرۂ  جانان

در عالمِ دل جلوہ کنان علم و عمل ہے

ہے اشرف و اعلائے خلائق وہی انسان

ہوجائے اگر اس سے عیان “علم و عمل” ہے

جو چیز سدا باعثِ صد فخر و خوشی ہے

وہ میوۂ  دل راحتِ جان علم و عمل ہے

اک بھید ہے اس عالمِ شخصی میں بڑا سا

وہ سرِّ ازل رازِ جنان علم و عمل ہے

اک نغمۂ قدسی ہے نہان ذاتِ بشر میں

وہ زمزمۂ پیر و جوان علم و عمل ہے

علیین میں اک زندہ کتاب بول رہی ہے

وہ معجزۂ  شرح و بیان علم و عمل ہے

کچھ اور خزانہ نہیں مطلوب نصیرا!

دنیا میں فقط گنجِ گران علم و عمل ہے

 

نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی، کراچی

۳۰ جولائی ۱۹۹۵ء

۱۵۱