انتساب
تسخیرِ کائنات
۱۔ اے عزیزان! علم الیقین کا دائرہ بڑا وسیع ہے، اور تمہاری کتابوں میں بفضلِ خدا بہت کچھ ہے، لہٰذا تم تسخیرِ کائنات کے بارے میں کافی معلومات حاصل کرو، یہ بے حد ضروری ہے، مذکورہ کتابوں میں منزلِ عزرائیلی کی معرفت بیان کی گئی ہے، خدا کرے کہ تمہاری روحانی ترقی ہو، اور تم پر قیامت برائے معرفت کا دروازہ کھول دیا جائے، ان شاء اللہ، اس وقت آپ بذاتِ خود دیکھنے لگیں گے کہ روحانیّت کے عجائب و غرائب کیسے ہیں، اس حال میں سب سے پہلے تم صورِ قیامت کی بابرکت آواز سننے لگو گے، اور صرف تمہارے لئے یعنی تنہا تمہاری نگاہوں کے سامنے یاجوج و ماجوج کا خروج ہوگا۔ جو روحانی لشکر ہے، اس لشکر کا اوّلین کام یہ ہوگا کہ تمہارے عالمِ شخصی کی ازسرِ نو تعمیر شروع کریں گے، دستور یہ ہے کہ جب پرانی عمارت کی جگہ نئی عمارت بنانی ہوتی ہے، تو پرانی عمارت کو گرا دیتے ہیں، اور پھر اس کی جگہ ایک نئی خوبصورت عمارت کو قائم کرتے ہیں، پس یاجوج و ماجوج سے ڈرنا لاعلمی کی وجہ سے ہے، ہم کو بتایا گیا ہے کہ یہ صاحبِ زمان کے لشکر ہیں، دنیا کی کسی بھی کتاب میں یاجوج و ماجوج کی حقیقت بیان نہیں کی گئی ہے، اس لئے یہ حقیقت صرف اور صرف آپ کو کتابِ نفسی ہی میں ملے گی، الحمدللہ! کتابِ نفسی سے
۳
عالمِ شخصی مراد ہے، یہ آپ کی بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ آپ معرفتِ ذات کی باتیں سن رہے ہیں، یہ تو آپ جان چکے ہیں کہ معرفتِ ذات سے معرفتِ ربِّ کائنات حاصل ہو جاتی ہے۔
۲۔ اے عزیزانِ من! اب بحرِ علم کی سطح پر تیرنا چھوڑ دو، اس میں غواصی اور غوطہ زنی سیکھو، کیونکہ گوہرہای گرانمایہ اس کی سطح پر نہیں ملیں گے، اگر تم انمول موتیوں کے! عاشق ہو تو دریا کی تہہ میں پہنچ جانے کی مشقیں کرتے رہو، آمین!
۳۔ اے میرے عزیز ساتھیو! میری باتوں کو غور سے سنو، دنیا کی تجارت میں وہی لوگ کامیاب ہو جاتے ہیں، جن کے پاس کوئی بڑا سرمایہ موجود ہوتا ہے، پس اگر تم کو آخرت کی تجارت میں کامیاب ہو جانا مقصود ہے تو پھر سب سے پہلے علم الیقین کا بہت بڑا سرمایہ جمع کرو، ورنہ کامیابی ناممکن ہوگی، تمہارے لئے اللہ کے فضل و کرم سے علم الیقین کا سرمایہ جمع کرنا آسان ہوگیا ہے، و ما توفیقی الا باللّٰہ العلی العظیم ۔
۴۔ اے رفیقانِ راہِ حقیقت! آپ سب کو ہمیشہ ہمیشہ علم و حکمت کا کامل شوق ہونا چاہئے، بلکہ مجھے یہ کہنا چاہئے کہ آپ ہر وقت نورِ علم کے عاشق بنے رہو، کیونکہ علم و حکمت ہی بہشتِ برین کی روحِ روان ہے، اور تمام بہشت کی نعمتوں میں سے اسی نعمت کی لذّت سب سے بڑھ کر ہے، جبکہ علم و حکمت ہی عقل و جان کی غذا بھی ہے اور دوا بھی۔
۵۔ اے دوستانِ عزیز! خدا کی قدرت وہ ہے جو ایک ہی چیز میں ساری چیزوں کو جمع کر سکتی ہے، پس آپ یقین کریں کہ بہشت کی ہر ہر نعمت میں عنصرِ غالب علم و حکمت ہی ہے اور کوئی نعمت اس قانون کے بغیر نہیں ہے، ایسے میں ہمارے وہ عزیزان کتنے بڑے خوش نصیب ہیں، جو ہمیشہ اپنے ذخیرۂ
۴
معلومات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، یہ کام ان گرانمایہ کتابوں سے ہو سکتا ہے، جن میں حضرتِ امام عالی مقام کا روحانی علم پایا جاتا ہے، میں اپنے حلقۂ ارباب میں سب سے زیادہ کہن سال، سب سے زیادہ کمزور اور کئی چھوٹی موٹی بیماریوں کا مریض شخص ہوں، لیکن اس حقیقت کا گواہ خدا ہے کہ میں علم و حکمت کی نعمتوں سے بے حد شادمان، خوش و خرسند اور پُرامید انسان ہوں مجھے روحانی سائنس اور قرآنی سائنس کی ان دو اصطلاحوں سے جو حیاتِ نو ملی ہے، وہ میرے لئے ازبس عجیب و غریب ہے، مجھے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کی شکرگزاری کی کمی کا احساس ہوتا رہتا ہے، یقیناً ہم خداوند تعالیٰ کی لاتعداد نعمتوں کو نہ گن سکتے ہیں اور نہ جیسا کہ اس کا حق ہے شکرگزاری کر سکتے ہیں۔
درجِ بالا انتساب میرے بہت ہی عزیز و محترم جناب غلام مصطفیٰ مومن صاحب پریسیڈنٹ آف بورڈ آف انٹرنیشنل گورنرز اور ان کے باسعادت اہلِ خانہ کے لئے لکھا گیا ہے، جو سب کے سب انٹرنیشنل لائف گورنرز ہیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
جمعہ ۲۸ جولائی ۲۰۰۰ء
یوسٹن امریکہ
۵
علمی شہد
ادارۂ عارف برانچ امریکا کے لئے میرے پرسنل سیکریٹری حسن (سابق کامڑیا) اور ان کی اہلیہ کریمہ حسن (سابق کامڑیانی) علمی شہد کے دلدادہ ہیں۔
ان کی دلی خواہش ہے کہ اُن کا نورِ چشم اور لختِ جگر سلمان بھی ایسا ہو۔
۶
نگارشِ آغاز
خدائے احکم الحاکمین نے اپنے محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو “رحمۃً للعالمین” کی حیثیت سے دنیا میں بھیجا اور اسے ایک ایسی حکمت آگین سماوی کتاب عنایت کی، جس میں نہ صرف روحانی حقائق کی تفصیل ہے بلکہ اس میں زمانۂ حاضرہ و آئندہ کے اُن دنیاوی پیچیدہ ترین مسائل کے حل بھی موجود ہیں جو سائنسی اور ایٹمی حیرت انگیز انقلاب و ارتقاء سے پیدا ہوئے ہیں، وہ آسمانی مقدّس کتاب قرآنِ حکیم ہے، جس کی آیتوں پر غور و فکر کرنا اس لئے واجب ہے کہ ہم ان کے صحیح معنی سمجھ سکیں اور جس کے بعد ان کی حکمت کے سہارے اپنے کسی بھی مسئلے کا صحیح حل نکال سکیں۔
خدا کی مقدّس کتاب خدا ہی کی روشنی میں پڑھی اور سمجھی جا سکتی ہے، یہی ہے وہ اوّلین شرط جسے خود قرآنِ حکیم نے واضح کر دیا ہے، اگر ہم سے ایسا نہ ہو سکا تو زمانۂ حاضرہ کا کوئی بھی مسئلہ ہم سے حل نہ ہو سکے گا جس کی حجت ہم پر ہی رہے گی نہ کہ خدا پر، کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ اس کی نعمت ہم پر پوری ہو چکی ہے اور دینِ اسلام میں اللہ نے کوئی حرج نہیں رکھا ہے۔
یہ کتاب مذکورۂ بالا اصولوں پر لکھی گئی ہے اور یہی اس کا نظریہ ہے تا کہ ان مسلم طلباء کے لئے دینی علوم کی اہمیت ظاہر ہو جائے جن کو ایسے علوم کی افادیّت معلوم نہ ہوئی ہو، یا جو سائنس سے مسحور اور مذہب سے دل برداشتہ ہو چکے ہوں، اس
۹
سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ ہم مادّیاتی ترقی نہیں چاہتے ہیں بلکہ ہم یہ مانتے ہیں کہ دین اور کسی چیز پر نہیں بلکہ دنیا پر قائم ہے اور دنیاوی ترقی مادّیاتی ترقی کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن یہ یقین رکھنا ضروری ہے کہ خدا کی مرضی کے بغیر کوئی دنیاوی کامیابی ممکن نہیں، بحیثیتِ حقیقی مسلم ہمیں لازمی طور پر یہ باور کرنا ضروری ہے کہ ایٹمی توانائی سے عالمگیر روحانی طاقت برتر ہے، جس میں سب کچھ سمایا ہوا ہے، اگر کوئی شخص اس قسم کا سوال پوچھے کہ اگر دینِ اسلام خدا اور اس کے رسول کا سچا دین ہے تو اس میں ادیانِ عالم کی مرکزی حیثیت اور مختاری طاقت کیوں موجود نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قادرِ مطلق نے جو کچھ اس کے بارے میں وعدہ فرمایا ہے، وہ حق ہے اور جس کا وقت آچکا ہے، کیونکہ دنیا والوں کو ایک زبردست اخلاقی قاہرانہ وحدت کی ضرورت پیش آئی ہے۔
یہ کتاب اس حقیقت کی بھی تصدیق کرے گی کہ بنی نوع انسان آغاز و انجام میں ہمگی یک صفت ہیں اور دین ان کے ہنگامی نظامِ حیات کا نام ہے، ان نظاموں میں سے صرف دینِ اسلام ہی وہ حقیقی نظام ہے، جو دنیا کے سارے انسانوں کے لئے باعثِ امن و ذریعۂ نجات بن سکتا ہے اس لئے کہ یہ اس دورِ عظیم کا آخری دین ہے، اور فی الواقع حقیقت یہی ہے کہ گزشتہ زمانوں میں بھی دانشمند لوگ خدا کے آخری دین میں پناہ لیتے تھے ورنہ کوئی بڑی مصیبت ناگاہ انہیں گھیر لیتی تھی، اب نہیں کہا جا سکتا ہے کہ خدا کا امتحان ہو گزرا ہے۔
میں نے اس کتاب میں اکثر ایسے مسائل پر بحث کی ہے جن سے ہمارا زمانہ دوچار ہوا ہے یا ہونے والا ہے، اس لئے کہ پیش آمدہ مسائل کا حل کرنا نہ صرف علومِ دین کی حقانیّت و قدر و منزلت کا ثبوت ہے بلکہ اس میں بنی نوع انسان کی خیرخواہی بھی مضمر ہے ان میں سے بیشتر ایسے مسائل ہیں جن کو بزرگانِ دین نے صریحاً حل نہیں کیا ہے اس لئے کہ ان چیزوں کے لئے ان کے زمانے کا کوئی تقاضا نہ تھا اس لئے
۱۰
انہوں نے اپنی کتابوں میں ایسے حقائق کو رموز و امثال میں پوشیدہ رکھا ہے تاکہ وقت آنے پر انہیں آشکارا کر لیا جائے۔
اس مقام پر میں اپنے ان مہربان احباب کا پُرخلوص شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے علم دوستی اور ترقی پسندی کی بناء پر اس تصنیف کی طباعت میں کسی قسم کی بھی میری عملی امداد یا ہمت افزائی کی ہو اور مجھے یقین ہے کہ میرے برادرانِ دین اور احباب اس علمی خدمت کی پذیرائی کرتے ہوئے مجھے شکرگزاری کا موقع بخشیں گے۔
و ما توفیقی الا باللّٰہ
نصیر الدین نصیر (حبِّ علی) ہونزائی
۱۵جون ۱۹۶۲ء
۱۱
بچوں میں تربیت و تعلیم کا فطری تقاضا
بنی نوع انسان کے ذہنی ارتقاء کے لئے حقائق کا انکشاف کرنا ازبس ضروری ہے، انسان جو شاہراہِ حیات کا ایک مسافر ہے منزلِ شیرخوارگی میں قدم رکھتے ہوئے حصول و طلب کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے، وہ اپنی روحِ نامیہ و حیوانیہ کی پوشیدہ قوّتوں سے اپنے اندر کسی چیز کی کمی محسوس کرتے ہوئے اپنی طلب کو ایک ایسی آواز میں ظاہر کرتا ہے جو حرف و لفظ سے مجرّد اور لہجہ کے زیر و بم سے عاری ہونے کے باوجود بھی مہرانگیز ہوتی ہے، پھر وہ قوّتِ ذائقہ کی مدد سے دودھ پیتا ہے اور اسی وقت سے فطری طور پر خفیف ورزش کا آغاز کرتا ہے، کیونکہ اسے غذا کو جزوِ بدن بنانا اور تندرست رہنا ہے، نیز آگے چل کر انفرادی و اجتماعی مفاد کے لئے جسمانی و دماغی قوّتوں سے کام لینے کے لئے بڑھنا ہے۔
اگرچہ اس شیرخوار بچے پر ہنوز کوئی دینی و دنیوی کام سرانجام دینے کا فرض عائد نہیں ہوتا ہے، تاہم اس کو قدرتی طور پر وقت کی قدردانی ہوتی ہے، اس لئے اس کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں وہ اپنے مسلسل پروگرام کے مطابق کچھ نہ کچھ عمل نہیں کرتا رہا ہو، مثلاً سونا، جاگنا، رونا، دودھ پینا، حرکت کرنا، نیز دیکھنے، سننے اور بولنے کی کوشش کرنا وغیرہ، جس طرح بچے اپنی شیرخوارگی کی عمر میں دودھ اور دیگر لطیف غذاؤں سے اپنی روحِ نامیہ کی تکمیل اور حس و حرکت کے ذریعے سے روحِ حیوانیہ کی تمامی کے متلاشی ہوتے ہیں، اسی طرح وہ گفت و شنید کے ذریعے نفسِ ناطقہ کے اتمام کے لئے بھی ساعی
۱۲
رہتے ہیں، چنانچہ بچہ اپنی ماں، بہن، باپ، بھائی اور اپنے ماحول کے دیگر انسانوں کی باتوں کو سنتا رہتا ہے تا کہ گفت و شنید کے ذریعے اس کے نفسِ ناطقہ کی تکمیل ہو سکے، پس اس بچے کے ماحول میں جس قسم اور جس نوعیت کی گفت و شنید ہو اس نوعیت کے زیرِ اثر نفسِ ناطقہ حلیۂ اخلاق اختیار کرے گا، یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ نفسِ ناطقہ کی غذا کلام ہے اور یہ روحانی غذا قوّتِ سامعہ کے ذریعے دماغ میں داخل ہوتی ہے اور نفسِ ناطقہ اس کے بغیر پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا، اس کی ایک زندہ دلیل بہروں کا کلام نہ کر سکنا ہے، حالانکہ اکثر ان کی زبان اور حلق وغیرہ میں کوئی نقص نہیں پایا جاتا ہے، دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کسی انسانی نوزائیدہ بچے کو انسانوں سے دور کہیں اس طرح پالا جائے کہ اس سے کوئی انسان ہم کلامی نہ کرے تو یہ یقینی بات ہے کہ وہ عمر کی آخری حد تک بات چیت کرنے کے قابل نہ ہو سکے گا اور وہ صرف ایک مہمل آواز کے سوا کچھ بھی نہ بول سکے گا، نفسِ ناطقہ کی شائستگی، عادات و اطوار، تعلیم و تربیت کے لئے بہترین ماحول کی ضرورت کی یہی وجہ ہے۔
قدرت نے نفسِ ناطقہ کی سرشت میں ہر چیز کے متعلق پوچھ کر علم حاصل کرنے کی خاصیت رکھی ہے اسی بناء پر چھوٹے بچے ہر وہ سوال پوچھتے ہیں جو ان کے سامنے آتا ہے اور جس سے ان کا واسطہ پڑتا ہے، بعض اوقات وہ ایسے سوالات بھی پوچھتے ہیں جنہیں ہم غیر ضروری سمجھ کر نہیں بتا دیتے یا بتا نہیں سکتے ہیں، اور بعض وقت انہیں کسی چیز کے متعلق پوچھنے سے روکتے ہیں، جو چھوٹے بچوں کے کلّی نقصان کا باعث بن جاتا ہے، یہ اس وجہ سے نہیں کہ ہم نے ان کے ایک یا دو سوال کا جواب نہیں دیا بلکہ اس لئے کہ ان میں جو قوّتِ تجسس کا فطری مادّہ ہے وہ مر جاتا ہے اور حقائق کی تلاش و تجزیہ کی وہ صلاحیت جو ان میں فطری طور پر موجود تھی یکسر ختم ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر انسان عقل و شعور کی عمر میں بھی حقائق کے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھتے اور بیشتر امور میں مقلّدانہ طور پر
۱۳
کسی چیز کو تسلیم کرتے ہیں۔
خدائے برحق نے حضرت ابراہیمؑ جیسے موحد کے اس واقعہ کے پسِ پردہ چھوٹے بچوں کی اس فطری نتیجہ خیز تجسس کی تصدیق فرمائی ہے جو بچپن میں سب سے پہلے ایک ستارے کو دیکھ کر اس کے دل میں پیدا ہوا تھا وہ ستارہ اُسے عجیب نظر آیا پھر اس کو اس نے خدا مانا، جب وہ غائب ہوا اور چاند نکلا تو چاند کو خدا کہا پھر جب چاند بھی غروب ہوا اور سورج نکل آیا تو اس نے کہا کہ یہی میرا خدا ہے جو ان سب سے بڑا ہے، جب وہ بھی غروب ہوا تو کہا کہ میں غروب ہونے والوں سے محبت نہیں رکھتا، متذکرہ بالا مثالوں سے حقائق کی تلاش کی ضرورت ظاہر ہے اب میں ایک ایسے مسئلے پر بحث کر رہا ہوں جو سخت پیچیدہ ہونے کے باؤجود زمانے کے تقاضے کے پیشِ نظر حل کرنا ازبس ضروری ہے اور وہ ہے قیامت کا مسئلہ، اس لئے کہ قیامت کی طول انتظاری کی ملالت اور سائنس اور ایٹم کی توانائی کے کرشمے کسی ضعیف الاعتقاد انسان کو اپنے دین اور عقیدے سے برگشتہ و بد دل نہ کریں اور نہ وہ اس مادیاتی اور دنیوی ارتقاء سے بے بہرہ، سائنس سے متنفر اور ایٹم سے ہراسان رہے۔
قرآن شریف کو اگر غور و فکر اور نظریۂ حکمت سے پڑھا جائے تو کوئی ایسی چیز بحالِ جسمانی و روحانی نہ ہو گی جس کے مفصل حالات کا ذکر قرآن میں موجود نہ ہو، بلا شک اسی طرح قیامت کے ان ناموں اور مثالوں میں جو قرآنِ مجید میں ہیں قیامت کے مفصل حالات کا ذکر ہے جن میں سے ایک نام “الساعۃ” ہے جس کی تفسیر کر رہا ہوں۔
۱۴
خدا کے نام حقائق کے میزان ہیں
اس بیان کے سلسلے میں حصولِ حقائق کا ایک طریقہ لکھ دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ علوم و معارف کے سرچشمے خدائے برتر کے اسمائے صفاتی ہوتے ہیں اور آیات ان اسموں کی تفصیلات ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اکثر قرآنی آیتوں کے اختتام پر یا کچھ پہلے ایک یا زیادہ اسمائے صفاتی آئے ہیں جن پر اس آیت کے معنی کا انحصار رہتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر کوئی انسان محض اپنی عقلی کمزوری کی وجہ سے اپنے مسئلے کے متعلق تفصیلاتِ قرآنی کی کثرت میں کوئی تضاد تصور کرے تو اسے چاہئے کہ اسمائے صفاتی کی طرف رجوع کرے تاکہ اس کا مسئلہ بطریقِ اختصار حل ہو سکے، مثال کے طور پر اگر کوئی سوال کرے کہ قرآن کی آیتوں کے بعض الفاظ میں ایک سے زیادہ معنی پائے جائیں تو اس کا کیا فیصلہ ہو سکتا ہے اور ان میں سے ایک معنی کسی دلیل کی بناء پر دوسرے معنوں سے مخصوص واجب العمل کا مستحق ہو سکتا ہے؟ تو اس کا جواب اسماء ہی سے نکلتا ہے، مثلاً حق و انصاف کے فیصلے کا تعلق خدا کے اسمِ صفت عدل کے ساتھ ہے لہٰذا اسمِ عدل سے اس مسئلہ کا حل ہم اس طرح نکالتے ہیں کہ عادل اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے غضب شدہ حق کو واپس دلا سکے اور اس کے برعکس ظالم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی کے حق کو غضب کرے، ظلم و عدل کا اطلاق اس حد تک ہوتا ہے جس کو جزو لا یتجزی کہتے ہیں۔
ان منطقی قضیوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ قرآنی الفاظ از روئے قانونِ عدل معنوی لحاظ
۱۵
سے اب بھی ویسے ہی مستعمل ہیں جس طرح وہ نزولِ قرآن سے پہلے تھے اور خدائے عادل نے کسی بھی کثیر المعانی لفظ کو اس کے ایک ہی معنی میں محدود و محصور نہیں کیا ہے کیونکہ وہ احکم الحاکمین ہے اور اس کا کلام خود حکمت ہے اور حکمت اس قول و فعل کو کہتے ہیں جو ایک ہونے کے باؤجود بہت سے مطالب و معانی رکھتا ہو، ایسے معنوں میں خدا کا عدل یہ ہے کہ اس کے حکم سے ایک معنی کو اصطلاحی حیثیت سے بروقت عمل میں لایا گیا اور دوسرے معانی کو بمقتضائے زمان و مکان لغوی حالت اور تاویلی صورت میں عقل و فکر سے وابستہ کیا گیا اور قرآن کے ہر اس لفظ کو جس کے کئی معانی ہوں “مشترک المعانی” کہتے ہیں اور جب کوئی حکیم اپنے کلام میں حکمت پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے تو وہ مشترک المعانی الفاظ میں کلام کرتا ہے جس میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، اس لئے قرآن کے اصطلاحی معانی کے ساتھ ان تمام دوسرے معانی کا جاننا اور ان سے حکمت کے نتائج اخذ کرنا ہی “خیرِ کثیر” ہے۔ چنانچہ حکیمِ مطلق کا فرمان ہے:
“حکمت دیتا ہے جس کو وہ چاہے اور جس کو حکمت دی جائے پس اسے دی گئیں بہت سی نیکیاں اور وہی سمجھتے ہیں جو عقل والے ہیں۔” ۰۲: ۲۶۹۔ اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ حکمت کوئی ایسی شے نہیں جسے کوئی شخص اپنے اختیار سے حاصل کر سکے، بلکہ یہ خدا کے قبضۂ اختیار میں ہے جو وہ اپنی مشیت سے عطا کرتا ہے اور یہ ایک ایسی عطا ہے جس میں بہت سی نیکیاں مضمر ہیں، خدا کی عطا کردہ نیکیاں حقائق و معارف ہی ہوتی ہیں جو کہ غیرفانی ہیں نہ کوئی جسمانی دولت و نعمت جو کہ فنا پذیر ہے، ہر ذی شعور انسان اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرے گا کہ حکمت خود عقل ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے کہ عقل والوں کے بغیر کوئی نہیں سمجھتا یعنی صاحبِ عقل ہی سمجھ سکتا ہے، یہاں پر سمجھنے یا نہ سمجھنے کا تعلق قرآن ہی سے ہے اور قرآن کو وہ سمجھ سکتا ہے جس کو حکمت دی گئی ہو جس کے ذریعے وہ قرآن کے علوم و حقائق سے باخبر
۱۶
ہو سکتا ہے۔ پس یہی حکمت یا عقل ہی بہت سی نیکیوں کی کلید ہے۔
۱۷
قیامت خدا کی گھڑی ہے
اب لفظ “الساعۃ” کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ الساعۃ کے کئی معنی ہیں جن میں سے ایک معنی گھڑی یعنی وہ ڈائل ہے جس کے ذریعے وقت معلوم کیا جاتا ہے، ہم اس معنی ہی کو لیتے ہیں، اس لئے کہ قیامت کی جملہ مثالوں میں سے یہ ایک ایسی مثال ہے جس کے ذریعے نظریۂ قیامت کو بآسانی سمجھایا جا سکتا ہے، قیامت کو گھڑی سے تمثیل دینے کی خاص وجہ یہ ہے کہ خود خدائے علیم و حکیم نے قرآنِ شریف میں جہاں کہیں بھی قیامت کا ذکر فرمایا ہے تو اس کو اکثر یوم اور ساعۃ کے نام سے یاد کیا ہے، حکیمِ مطلق نے (جس کا کلام صدق و عدل میں بدرجۂ اتم ہے) قیامت کی مثال جو گھڑی سے دی ہے، اگر ہم اس سے یہ معنی لیں کہ صرف ایک گھنٹہ میں واقعۂ قیامت ختم ہوگا، تو یہ معنی ان دوسرے معانی (یعنی جو چشمِ زدن، ایک دن، ایک ہزار برس اور پچاس ہزار برس کے عرصے میں قیامت واقع ہونے کے متعلق ہیں) کا مخالف ہو کر ہمارے مسئلے کو پیچیدہ تر بنائے گا جو عقلاً اور دلیلاً غیرممکن ہے، ہم اس کی غیر امکانیت کو علمِ ہندسہ کی روشنی میں بطریقِ ذیل ثابت کر دکھاتے ہیں۔ مثلاً:
لمح البصر ثانیہ ساعہ یوم
سیکنڈ منٹ گھنٹہ دن
۱ ۲ ۳ ۴
یہاں اس مسئلے کے صحیح حل کا اصول صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ۱، ۲، ۳ اور
۱۸
۴ کے ہندسوں میں جو اس مطلوبہ مثال کی ترتیبی ترجمانی ہے، آپ اپنی عقل سے اس طرح چلیں کہ وہ صراطِ مستقیم کے عین مطابق ہو، مثلاً:
یہ صراطِ معکوس (الٹا راستہ) ہے۔ | |
یہ سبیلِ جائیر (ٹیڑھا راستہ) ہے۔ | |
یہ بھی سبیلِ جائیر (ٹیڑھا راستہ) ہے۔ | |
یہ صراطِ مستقیم (سیدھا راستہ) ہے، پس قیامت کی یہی ترتیب درست ہے۔ |
پس جو مسئلہ صراطِ مستقیم کے مطابق حل نہ ہو سکے وہ غلط ہے، کیونکہ صراطِ مستقیم اس نظریاتی میزان کا نام ہے نہ کہ کوئی مادّی شیٔ، اور اس میزان سے ظاہر ہے کہ قیامت آغاز سے چل رہی ہے۔
۱۹
دائمی قیامت
اب جو میں تشریح کروں گا اس سے صاف ظاہر ہو گا کہ فی الحقیقت قیامت کی مثال گھڑی (الساعۃ) میں موجود ہے، جس طرح گھڑی کے ذریعے ایک سیکنڈ سے لے کر منٹ، گھنٹہ، دن، رات، ہفتہ، عشرہ، ماہ، سال، صدی اور دور و زمان کے مختلف اوقات کا تجزیہ و تکملہ ہو سکتا ہے، اسی طرح مختلف قسم کے زمانوں میں مختلف قیامات واقع ہوتی ہیں، جو کہ گھڑی کے اوقات سے متماثل ہوتے ہیں، گھڑی کی ہر زمانے میں ضرورت رہی ہے، اس لئے زمانۂ قدیم سے وقت کا اندازہ اور مقدار معلوم کرنے کے لئے مختلف گھڑیاں مثلاً: ساعتِ شمسیہ (دھوپ گھڑی) ، ساعتِ رملیہ (ریت گھڑی)، ساعتِ مائیہ (پن گھڑی)، ساعتِ فلکیہ (آسمانی گھڑی) اور آخر میں موجودہ گھڑی ایجاد ہوئی، مذکورۂ بالا مثالوں اور دلیلوں کے بعد خدائی گھڑی (الساعۃ) کی اس قیامت کا (جو ابتدائی، انتہائی اور دائمی ہے) ذکر کروں، جس کے متعلق آگاہی ازبس ضروری ہے، زمانہ جس سرعتِ رفتار سے حدِ “الآن” (ابھی) سے گزرتا رہا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وقت ایسا نہیں جو سیکنڈ سیکنڈ ہو کر نہ گزرا ہو اسی طرح دائمی قیامت طرفۃ العین (چشمِ زدن) سے بھی تیز تر رفتار سے متصل بلا منفصل گزر رہی ہے، ذیل کی آیتِ کریمہ سے یہ حقیقت عیان ہے۔
وَ لِلّٰهِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ مَاۤ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔ (۱۶: ۷۷)۔
۲۰
“اور اللہ کی ہیں آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں (اشیاء و ارواح) اور نہیں قیامت کا امر مگر مانند چشمِ زدن کی یا اس سے بھی قریب تر، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔”
تشریح: آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزیں جسمانی اور روحانی دونوں صورتوں میں اللہ کی ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں جہان اسی کے ہیں، لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ زمانۂ حاضرہ کی یہ ساری سائنسی اور ایٹمی ایجادات و انکشافات جو تیرہ سو (۱۳۰۰) سال قبل خدا کی پوشیدہ چیزوں میں سے تھیں، خدائے بے نیاز نے بے دریغ آج کے انسانوں کو عطا کیا، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ “فلان چیز میری ہے یا میرے نزدیک ہے” اس امر کی قطعی دلیل نہیں کہ خدائے جواد اسے انسانوں کو ہرگز نہ دے گا بلکہ بمطابق آیۂ کریمہ ” وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱) اور کوئی ایسی شی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں اور اسے نازل نہیں کرتے مگر بمقدارِ علم (اہلِ زمانہ)۔”
اس سے ظاہر ہے کہ کوئی شے ایسی نہیں جو بشرطِ قابلیتِ زمانہ دنیا میں ظہور پذیر نہ ہو، یہی حال علم و معرفت کا ہے جو ان ساری چیزوں سے ضروری اور برتر ہے اور یہی خدا کی حقیقی رحمت اور روحانی نعمت ہے، چونکہ خدا کی رحمت سے مایوسی کفر ہے اور علم و معرفت سے مایوسی عین خدا کی رحمت سے ناامیدی ہے لیکن یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ جسم جیسی کثیف چیز کو موجودہ ایجادات و انکشافات کے انتہائی تازہ ترین انعامات سے نوازا جائے اور روح جیسی لطیف اور عزیز چیز کو علم و معرفت سے محروم رکھ کر موجودہ مسائل کے الجھنوں میں لا علاج رکھا جائے، لہٰذا یہ یقینی امر ہے کہ جس طرح مادّی اشیاء بشرطِ استعدادِ زمانہ دنیا میں ظہور پذیر ہوتی ہیں اسی طرح روحانی نعمتوں سے بھی (جو علم و معرفت ہے) بشرطِ قابلیت
۲۱
و استعداد مستفیض ہونا امکانات میں سے ہے۔
اب آیتِ مذکورہ “ما امر الساعۃ” میں حرفِ ما علامتِ نفی ہونے کے باعث قیامتی گھڑی کے ابتدائی و انتہائی صفر کا معنی دیتا ہے، جس طرح مصنوعی گھڑی کا ہر سیکنڈ محض ایک فرضی صفر سے شروع ہو کر ایک فرضی صفر پر ختم ہو جاتا ہے اور جس طرح زمان سطحِ محیط سے مرکزِ کلی ہوتے ہوئے واپس عالمی سطحِ محیط کے فرضی صفر پر ختم ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح دائمی قیامت کے اثرات جسمِ کلّی (آسمان اور تمام اجرامِ فلکی) کی سطح سے شروع ہو کر سورج کے نقطۂ مرکز (مرکزِ کلی) سے ٹکراتے ہوئے پھر اسی سطحِ کلّی کے فرضی صفر میں ختم ہو جاتا ہے کیونکہ حدِ نیستئ جسم، ما، لا اور صفر کا معنی ایک ہی ہے اور یہ سطحِ محیط کی غایت ہے۔
“امر” یا دائمی قیامت اس ہمہ گیر فعلِ قدرت کا نام ہے جو جسمِ کل میں انتہائی سرعت کے ساتھ روان ہے، جس طرح سیکنڈ کی سوئی نہایت سرعت سے عرصۂ زمان میں چل رہی ہے اور جس سے منٹ سے لے کر سال وغیرہ تک کے اوقات بنتے ہیں اور وہ ان تمام اوقات میں روان دوان ہے، بالکل اسی طرح دائمی قیامت (جو سب سے چھوٹی قیامت ہے) سے بڑی قیامت بنتی رہتی ہے، اگر ہم عالمی واقعات و حالات کی تبدیلی کو فرضی طور پر ایک گھڑی کے اوقات تصور کریں اور مشاہدۂ تخیل کریں تو معلوم ہو گا کہ واقعات بلحاظِ زمان دو طرح کے واقع ہوتے ہیں ایک وہ جو سیکنڈ کی طرح مسلسل طرفۃ العین میں واقع ہو رہے ہیں جسے دائمی قیامت کہیں گے، دوسرے وہ جو منٹ، گھنٹہ، دن، رات، ماہ اور سال وغیرہ کی طرح جدا جدا اوقات میں واقع ہوتے ہیں وہ ہنگامی قیامت کہلاتے ہیں، اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ قیامت جسمانی و روحانی جزوی و کلی واقعات کا مجموعی نام ہے۔
۲۲
عالمگیر روح کی عملی طاقت قیامت خیز ہے
حکمائے دین کے اقوال اور عقلی دلائل سے یہ حقیقت اہلِ دانش کے لئے مسلمہ ہو سکتی ہے کہ جسمِ کل یا کہ فلکِ اعظم کی بیرونی سطح کروی (گیند نما) شکل کی ہے، جسے محیطِ کل، سطحِ مطلق، سطحِ کلّی اور جسم کی ابتداء و انتہا وغیرہ کہتے ہیں، جس سے باہر کوئی جسم نہیں، نہ یہ درست ہے کہ عالمی سطحِ محیط کے بعد کی حالت پر ہم لفظِ “باہر” کا اطلاق کریں، کیونکہ لفظِ “باہر” یا اس کی مانند الفاظ مکان کے لئے مستعمل ہو سکتے ہیں، لیکن عالمی سطح کے بعد کوئی مکان نہیں، اس حدِ لا مکان کے متعلق مکانی الفاظ کا استعمال کرنا تعلیمی ٖضرورت کی وجہ سے ہے۔
اس کروی شکل کی عالمی سطح پر عالمگیر روح (نفسِ کل) کی نورانی طاقت محیط ہے، جس کے روحانی اور نورانی اثرات عالمی مرکز (سورج) پر پڑتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں ھیولیٰ کے تحلیلی عمل سے غیرمنقطع دھماکہ اور نور پیدا ہوتا رہتا ہے، اور یہی نور جو دراصل حل شدہ ھیولیٰ ہے، ہمہ جہتی شکل کی رفتار میں حاشیۂ عالم تک مسلسل پھیلتا رہتا ہے، جس طرح کوئی شخص جب کسی تالاب کے عین وسط میں کوئی پتھر پھینک دیتا ہے تو وہاں سے ایک زور دار موج اٹھتی ہے، اور اپنے گرد کے ساکن پانی کو دھکیلتی ہے، اب وہاں سے چلتی لہریں حلقے در حلقے ہوتی ہوئی تالاب کے کناروں سے لگ لگ کر ختم ہو جاتی ہیں۔
۲۳
کوئی بھی حقیقت زمانے کی اصطلاحی مثال میں پیش کی جا سکتی ہے، چنانچہ سورج ایک عظیم ایٹمی گول شعلہ ہے، جس کا ایندھن اس سے متصل ھیولیٰ ہے، یہی متصل ھیولیٰ عالمی دباؤ سے (جو عالمگیر روح کی خولی گرفت کی وجہ سے ہے) اس شعلے میں ہمیشہ گرتا رہتا ہے اور وہاں سے گرمی اور روشنی کی شکل میں تحلیل ہو کر ساری کائنات میں پھیل جاتا ہے، سورج میں ایٹمی دھماکے اور زبردست جوشش موجود ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ بعض اوقات سورج کی سطح پر کچھ داغ نظر آتے ہیں، وہ دراصل سورج کی ایٹمی موجیں ہیں جو اس کے وسط سے کئی مدت تک اٹھتی رہتی ہیں، پس سورج کا یہ عمل نفسِ کلّی کی طاقت کا ظہور ہے جس کا مرکز عالمی محیط ہے۔
اس جوہرِ قائم بالذات یا نفسِ کلّی (جو سطحِ محیط پر مسلط و محیط ہے) کا تصور ایسا نہیں جس کو ہم کوئی جسم یا مادّہ خیال کریں، بلکہ یہ اپنے جوہری اثر اور روحانی فعل سے جسم کے محاط پر محیط ہے، اسی طرح گوہرِ عقل اپنے شرف اور اثر کے لحاظ سے نفسِ کل پر محیط ہے، جس طرح یہ مانا جاتا ہے کہ کرسی پر عرشِ الٰہی ہے، بشہادتِ قولِ خدا ” وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَۚ” (۰۲: ۲۵۵) یعنی “اس کی کرسی نے آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر سمو رکھا ہے۔” یہ دلیل کائنات کی سطحِ محاط پر نفسِ کلّ کے محیط ہونے کی ہے، جس سے کوئی مسلم حکیم انکار نہیں کر سکے گا دوسری شہادت بقولِ خدا “ربنا وسعت کل شی رحمۃ و علما (۰۷: ۴۰) یعنی اے ہمارے پروردگار تو نے ہر چیز (عالمِ کل) کو رحمت (نفسِ کل) اور علم (عقلِ کل) میں سمو رکھا ہے۔” پس ظاہر ہے کہ جسم کے محاطِ کل پر نفسِ کل اور اس پر عقلِ کل محیط ہے، بقولِ خدا ” وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ مُّحِیْطًا (۰۴: ۱۲۶) اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے۔” یعنی خدائے برتر اپنے فعلِ قدرت سے جو نفسِ کل ہے ساری کائنات پر محیط ہے۔
اس بنیادی حقیقت اور اصولی معرفت کے بعد مابقی یہ ہے کہ نفسِ کل جو
۲۴
یہی قیامت اور فعلِ قدرت ہے، جو سطحِ محیط سے مرکزِ عالم کی طرف ساری کائنات اور ان کے ذرات میں ساری اور اثر انداز ہے، جس کے اثرات کی پذیرائی کا انحصار ہر چیز کی طبیعی و روحانی لطافت و کثافت نیز حیث مقدار زمان و مکان پر ہے، پس نفسِ کل کے کائنات پر غیر منقطع اثرات اور ان کے روحانی و جسمانی واقعات کا نام قیامت ہے۔
۲۵
قیامت عالم کی بلندی و پستی میں بالفعل موجود ہے
مذکورہ حقائق کی مزید تصدیق و توثیق اس آیۂ کریمہ سے بھی ہوتی ہے:
یَسْأَلُونَکَ عَنِ السَّاعَۃِ أَیَّانَ مُرْسَاہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ رَبِّیْ لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَا إِلاَّ ہُوَ ثَقُلَتْ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لاَ تَأْتِیْکُمْ إِلاَّ بَغْتَۃً یَسْأَلُونَکَ کَأَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُہَا عِندَ اللّہِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُون ۔ (۰۷: ۱۸۷)۔ وہ تجھ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ وہ کب واقع ہوگی، کہہ اس کا علم میرے پروردگار کے نزدیک ہے (جو قربت حاصل ہونے کے بعد ملے گا) ظاہر نہیں کرے گا اسے اس کے وقت پر مگر وہی، آسمانوں اور زمین میں بھاری پن آئی ہے، وہ تم پر بے خبر آئے گی۔
قرآن پاک کی یہ تعلیم کہ قیامت آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوئی ہے، اس حقیقت کی ایک محکم دلیل ہے کہ قیامت اپنے فعل و اثر کے ساتھ عالم میں موجود ہے اور بلندی و پستی کا کوئی ذرہ اس کے فعل و اثر سے خالی نہیں، کیونکہ آسمان و زمین یا بلندی و پستی اس عالمِ جسمانی کے دو نام ہیں اور بلندی و پستی مکان و متمکن کی نسبت سے تصور میں آ سکتی ہے، مثلاً اگر کچھ لوگ زمین چھوڑ کر چاند پر بس جائیں اور کچھ لوگ اس زمین پر رہ جائیں تو بالضرور ان چاند والوں کو یہ زمین اور زمین
۲۶
والوں کو چاند صرف سمت الراس سے نظر آئے گا اور اس حالت میں چاند والوں کا وہ ہنگامی جہتی تصور بدل جائے گا جس سے وہ زمین کو پستی میں اور چاند کو بلندی پر خیال کرتے تھے، ان نتیجوں کے بعد یہ حقیقت بالضرور تسلیم کرنی پڑے گی کہ شش جہت یعنی اوپر، نیچے، آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں کا جہتی تعین صرف انسانی و حیوانی جسم کے اعتبار سے ہے، ان الفاظ کو جن میں جہت کے معنی ہوں، انسان اپنے یا کسی دوسرے حیوان کی نسبت سے استعمال کرتا ہے، مثلاً کوئی کہے کہ درخت کی داہنی شاخ، تو اس فقرے کا اطلاق کسی ٹہنی پر بھی صحیح نہیں ہوگا جب تک وہ اپنے یا کسی دوسرے انسان کے جسم کے اعتبار سے مد د نہ لے، ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس چیز کے سر، پاؤں، سینہ، پیٹھ، دائیں اور بائیں ہاتھ نہ ہو اس کی کوئی جہت نہیں، پس مرکز اور حاشیہ کی نسبت سے اجرام و افلاک کو اندرون و بیرون کہا جا سکتا ہے، اس کے سوا ان کی ذاتی نسبت سے کوئی جہت نہیں۔
جس طرح زمین سے چاند پر جانے کے بعد جملہ سیّاروں کے متعلق انسان کا جہتی تصوّر جزوی طور پر بدل جاتا ہے اسی طرح جملہ سیّارگان سے قطع نظر جسمِ کل یعنی عالم کی جہت کے متعلق غور کرنے کے بعد انسان کے نظریۂ جہت کا تصور کلّی طور پر بدل جاتا ہے، مختصر یہ ہے کہ عالم کے اجزاء یعنی سیّارے و دیگر اجسام بحالتِ افتراق ایک دوسرے سے مسافت پر ہونے کی وجہ سے اور انسان کی نسبت سے جہات کے تحت آتے ہیں لیکن عالم اپنے محدود مکان میں اپنے اجزاء سے متصل ہونے کی وجہ سے جہات کے تحت نہیں آتا ہے کیونکہ اس سے باہر مکان و زمان وغیرہ نہیں۔
مذکورۂ بالا کائناتی روشن دلائل سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ کوئی سیّارہ حتمی طور پر زمین یا آسمان کہلا نہیں سکتا، بلکہ یہ اس کے ہنگامی نام ہو سکتے ہیں، جس طرح
۲۷
چاند اور زمین کی مثال سے یہ حقیقت عیان ہوئی۔
اب لفظ “ثقل” اور “فی” کے متعلق کچھ نکات بیان کئے جاتے ہیں: حکمائے طبیعت کی اصطلاح میں ثقل ہر سیّارے کی اس قوتِ کشش کو کہتے ہیں جس سے وہ اپنے ذرّات یا اور کسی چیز کو اپنی معیّن حدِّ کشش سے اپنی طرف کھینچتا ہے، اگر اس کشش کی تفتیش کی جائے تو بالآخر ہمارے علم میں ایک ایسا نقطہ آئے گا جو زمین یا کسی اور سیّارے کے عین مرکز میں ہے جس پر سیّارہ کا وزن شش جہت سے برابر پڑتا ہے۔
لیکن کس دلیل سے کہا جا سکتا ہے کہ اس جزو لا یتجزی میں وہ ساری طبیعی غیر روحانی طاقت ہے جس سے وہ ایک بڑے سیارے کو اپنے ساتھ متصل رکھ سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سورج عالم کے عین وسط میں ہونے کی وجہ سے سطحِ محیط پر سے نفسِ کلی کی بہت سی نورانی کرنیں قبول کرتا ہے، اسی طرح ہر ایک سیّارہ اپنے مرکز کی غایت میں اپنی طبیعت اور جسامت کے مطابق نفسِ کلّی کی کچھ کرنیں قبول کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے وسط میں ایک طاقتور نور پیدا ہو جاتا ہے اور حقیقتاً ثقل اس نورانی طاقت کا نام ہے، جس طرح حرف “فی” سے عیان ہے کہ فی کا ترجمہ “درمیان میں” اور “بیچ” وغیرہ ہے، پس اگر خداوند فرمائے کہ “زمین میں” اس سے مراد مرکز ہے، اس لئے ازروئے قانونِ عدل “فی” حقیقت میں “مرکز” ہی ہے، پس جو طاقت آسمانوں اور زمین میں بھاری ہوئی ہے، وہ یہی قیامت کی طاقت ہے جو سیّاروں کو چلاتی اور انہیں فضائے بسیط میں منتشر ہونے سے بچاتی ہے اور اسی طرح افلاک کو بھی اسی طاقت نے تھام رکھا ہے۔
۲۸
ہر شخص کی موت اس کی قیامت ہے
رسولِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ حدیث من مات فقد قامت القیامۃ (جو شخص مر جائے اس کی قیامت برپا ہوئی) اس حقیقت کی تصدیق کر رہی ہے کہ قیامت ہمیشہ عالم میں جاری ہے، ازآنکہ موت ہمیشہ جاری ہے اور موت دو طرح کی ہے، ایک اضطراری دوسری اختیاری، اضطراری موت جسم اور روح کی مفارقت ہے اور اختیاری موت تزکیۂ نفس کے ذریعے کسی عارف کا اپنی بہیمی صفات سے چھٹکارا حاصل کرنے کا نام ہے، جیسا کہ حدیثِ شریف میں فرمایا گیا ہے کہ: موتوا قبل ان تموتوا (یعنی جسمانی طور پر مرنے سے پہلے نفسانی طریقے پر مرو) پس اختیاری موت میں ان تمام نفسانی خواہشات کا ختم کرنا ہے، جن کی وجہ سے نفسِ ناطقہ روحانی عروج حاصل نہیں کر سکتی، یعنی عبادت و ریاضت کی طاقت سے نفس کشی کرنا ہی نفسانی موت اور نفسانی قیامت ہے اور جب جسمانی اور نفسانی دونوں صورتوں میں قیامت موت پر منحصر ہے تو موت دو چیزوں کی جدائی ہو یا ایک چیز کی فنا، بہر صورت اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عمل اور ہر واقعہ پر گو وہ چھوٹا ہو یا بڑا قیامت لازمی ہے، اس لئے کہ اگر یہ حقیقت ہے کہ قیامت پاداشِ عمل کے لئے ہے، پھر اس دنیا میں بھی جزوی طور پر پاداشِ عمل ملنا ضروری ہے درحقیقت ایسا ہی ہو رہا ہے اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ عالم میں اور کوئی بڑی قیامت نہیں، قیامت ضرور آئے گی اور اب بھی ہے، جس طرح ہر شخص کی موت ہی اس کی قیامت ہے۔
۲۹
اسی طرح کسی خاندان کی تباہی اس خاندان کی قیامت، کسی گاؤں کی بربادی اس کی قیامت اور کسی حکومت کا زوال اس کی قیامت ہے، طوفان، سیلاب، زلزلہ اور آندھی جیسی قدرتی یا بناوٹی تباہ کن واقعات قیامات ہیں اور دوسری طرف سے علم و فن، سائنس اور ایٹم جیسی چیزیں جو دنیا میں بڑی تبدیلیاں لاتی ہیں قیامات ہیں۔ کیونکہ یہ سب چیزیں قیامت کے زیرِ اثر ہیں اور قیامت کسی چیز کے فنا ہونے پر ضروری ہے اور یہ ساری چیزیں اگلی چیزوں کو ختم کر ڈالتی ہیں، پس جونہی کوئی شیٔ فنا ہوئی یا بدل گئی تو چشمِ زدن میں اس کی قیامت ہوئی، اب اخیر میں قیامت کی چند قسمیں لکھی جاتی ہیں:
۱۔ دائمی قیامت: یہ ہمیشہ دنیا میں روزِ اوّل سے جاری ہے۔
۲۔ ہنگامی قیامت: یہ ان واقعات کا نام ہے جو قیامت کے کم وقفے میں واقع ہوتے ہیں۔
۳۔ شخصی اختیاری قیامت: تزکیۂ نفس کا نام ہے۔
۴۔ شخصی اضطراری قیامت: یہ ہر شخص کی جسمانی موت ہے۔
۵۔ اجتماعی قیامت: یہ کسی گاؤں، شہر، ملک یا کسی حکومت کی تبدیلی کا نام ہے۔
۶۔ عالمی قیامت: یہ کسی بھی شکل میں آنے والی ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت بڑی قیامتیں ہیں، مثلا کسی سیّارے کا اپنے مدار سے ہٹ کر عالم کے حاشیہ کی طرف جانا یا حاشیہ کی طرف سے کسی سیّارے کا اندر کی طرف آنا یا سورج میں گر کر ختم ہو جانا یا سورج سے کسی سیّارے کا پیدا ہو جانا یا کل عالم کا ھیولیٰ میں فنا ہو کر پھر سے پیدا ہونا وغیرہ۔
۳۰
تبادلۂ اضداد و دائرۂ لامتناہی
خدائے برتر کا کلامِ حکمت نظام صدق و عدل کا سرچشمہ، علم و حکمت کا خزانہ اور رحمتِ سرمدی کا بحرِ بیکران ہے، جس کی ہر مختصر سے مختصر آیت بجائے خود ایک ایسی ضخیم کتاب کی حیثیت رکھتی ہے، جو سر تا سر اسرارِ علوم سے پُر ہو، مثال کے طور پر “وَ كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۔ (۳۶: ۴۰) ۔ اور ہر کوئی ایک چکر میں گھومتے ہیں۔” دوسری آیت “وَ هُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَؕ-كُلٌّ فِیْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ۔ (۲۱: ۳۳)۔ اللہ وہی ہے جس نے رات، دن، سورج اور چاند پیدا کیا اور سب ایک ایک دائرے میں چلتے ہیں۔” ہر دانشمند اس حکمِ کلّی سے انکار نہیں کر سکے گا کہ ہر کل اپنے اجزاء کی معیت میں ایک مسلسل روان پرکار کی مانند گھوم رہا ہے، مذکورہ دو آیتوں سے ظاہر ہے کہ سورج (جو ساکن ہے) بھی اپنی کروی حدِ جسامت کے اندر جوشندہ حرکت میں ہے، نیز چاند، سیّارے اور زمین کے علاوہ ہر کل اور جزو اپنے اپنے دائروں میں گھوم رہے ہیں اور اس کائناتی اٹل قانون سے کوئی شیٔ باہر نہیں گویا کوئی موجود شیٔ ایسی نہیں جو چال یا حال کے دائرے پر گردش نہ کرتی ہو، دائرۂ حال سے مراد دو (۲) مخالف حالتوں کا متواتر یکے بعد دیگرے بدلنا ہے، جس طرح روز و شب، اور ان کی گردش سے دائرہ بنتا ہے جو ان کے گول ہونے کی دلیل ہے، پس معلوم ہوا کہ ہر چیز جو دوری گردش کرتی ہو گول ہے، چنانچہ عالم، سورج، چاند، زمین، سیّارے، روز و شب، ماہ و سال، گرمی و سردی اور ہر چیز گول ہے۔ بارش کے قطرے
۳۱
سے لے کر درختوں اور فصلوں کے بیج، پرندوں کے انڈے تک ہر چیز گول ہے، سمندر سے بادل، بادل سے بارش اور بارش سے پانی بن کر سمندر میں مل جاتا ہے، اسی طرح زمین سے بھی بہت سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر فنا ہو کر اس میں مل جاتی ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بقاء و فناء بھی باہم ملی ہوئی صورت میں گول ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں لفظِ کل آئے تو اس کا اطلاق ساری کائنات پر ہوتا ہے، بشرطیکہ کسی خاص چیز کا نام نہ ہو، اس قسم کے کلی احکام کے ساتھ ایک یا زیادہ مثالیں بھی موجود ہوتی ہیں، جس طرح مذکورہ آیت کے پسِ پردہ بطریقِ حکمت انسانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دائرۂ قوسین (دو کمان) کی مثال ہے، جن میں سے ایک قوس فوری طور پر نظر آتی ہے، لیکن دوسری قوس غور و فکر کرنے سے تعلق رکھتی ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں قوسوں کو آپس میں ملی ہوئیں بلکہ اس سے بھی قریب تر یعنی خدا میں دو جہان اور دو جہان میں خدا دیکھا تھا۔
جسمانی طور پر انسان بیک نظر بہت سی کثیف چیزوں کا اس طرح مشاہدہ نہیں کر سکتا جس طرح کہ وہ کسی شفاف بلور کے کرے کے آر پار، یا اس کے ظاہر و باطن کا بیک وقت معائنہ کر سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات وہ کلّیات کے نصف دائرے کا تصوّر کرتا ہے، جس طرح زمین کے نصف دائرے پر رہنے کی وجہ سے دوسرے نصف دائرہ اس کی نظر سے اوجھل رہتا ہے اور اسی طرح آسمان، سورج، چاند اور ستاروں کے عقبی نصف کرے اس کی نظر سے ناپید رہتے ہیں، اسی قیاس سے معلوم ہوا کہ جزوی چیزوں میں بھی بیک وقت ان کا ظاہر و باطن دیکھنے میں نہیں آتا ہے۔
خدائے توانا و حکیم نے ضد سے ضد پیدا کیا یعنی رات سے دن، دن سے رات، اور اسی قسم کی بہت سی دوسری مثالیں ہیں، جن پر غور و فکر کرنے کے لئے
۳۲
صریحاً و اشارتاً ارشاد فرمایا ہے، پھر اگر ہم ان حکمت آگین آیات و امثال سے فکرِ عمیق اور عقلِ دقیق کے ذریعہ فائدہ نہ لیں تو یہ نہ صرف اس کے مقدّس فرمان سے روگردانی ہوگی بلکہ ساتھ ہی ساتھ بہت بڑا کفرانِ نعمت بھی ہوگا، کیونکہ ہم فکر و دانش جیسی نعمتِ غیر مترقبہ کو ٹھکرا رہے ہیں۔
اس حقیقت کو قرآنِ حکیم کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر واضح تر کر کے دکھاتاہوں قولہ تعالیٰ “وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَؕ- (الخ) (۱۱: ۱۱۸ تا ۱۱۹)۔ یعنی اگر تیرا ربّ چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا اور یہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جس پر تیرا ربّ رحم کرے اور اسی لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے اور تیرے ربّ کی بات طے ہوئی ہے کہ جہنم کو انسانوں اور جنّات سے بھر دوں۔”
خدائے علیم و خبیر کا یہ فرمانا کہ اگر تیرا ربّ چاہتا تو لوگوں کو ایک امت بنا دیتا، مشیتِ قدرت کی طاقت و توانائی پر غور کرنے کے لئے آگاہ کرنا ہے، گویا فرماتا ہے کہ یہ ناممکن نہیں کہ میں دنیا والوں کو ایک ہی طریقِ کار پر چلا سکوں، لیکن اس اختلاف میں ایک حکمت پوشیدہ ہے جس میں تمام آفرینش کی صلاح و بہتری مضمر ہے، اس ربّانی تعلیم سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو امر عرصۂ ممکنات میں ہو وہ بوقتِ معیّن قدرت کے ہاتھ ہی سے معرضِ وقوع میں آ کر رہے گا کیونکہ یہ یقینی امر ہے کہ مشیتِ ایزدی انسانی خیر و صلاح اور رحمت سے خالی ہرگز نہیں، اور رحمتِ ایزدی میں کسی کی حق تلفی نہیں اور نہ ایک دوسرے سے رقابت ہے بلکہ رحمت ہر چیز کی وسعت اور استعداد کے مطابق ہے جس میں روحانی مدارج کا ارتقاء ہے اور روحانی مدارج کے ارتقاء میں رقابت اور حق تلفی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا پھر ممکن ہے کہ جس طرح زمانوں سے یہ سارے انسان جہالت کی ظلمتوں میں ایک دوسرے کو بھوت پریت سمجھتے آئے ہیں
۳۳
اسی طرح اب وہ علم کی روشنی میں جلد یا بدیر ایک دوسرے کو فرشتہ سمجھنے لگیں گے، انسان نے اپنے شرف کی برتری سے ایسی مثالوں کا نظارہ کیا ہو گا جس میں بعض وقت ایک ہی قسم کے دو حیوان سمتِ مخالف سے لڑنے پر تلے ہوئے ترچھی نگاہوں سے دیکھتے آتے ہیں لیکن جب وہ ایک دوسرے کے بالکل قریب آتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے ہم جنسیت کی بو محسوس کر کے چونک پڑتے ہیں جس پر وہ بجائے ایک دوسرے کی زد و کوب اور دندان گزی کے، آپس میں اظہارِ محبت کرنے لگتے ہیں۔
اسی بناء پر مذکورہ آیت میں جو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جس پر تیرا ربّ رحم کرے۔” کی تہہ میں بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، کیونکہ اختلاف دینی اور دنیوی طور پر ضروری تھا، اس لئے کہ خلاف و تضاد کے بغیر کوئی شیٔ موجود نہیں ہو سکتی، چنانچہ رسولِ اکرم صلعم کا فرمان ہے کہ “تعرف الاشیاء باضدادھا” یعنی چیزیں اپنی ضدوں سے پہچانی جاتی ہیں، جس طرح سیاہ و سفید، اسی بناء پر تختۂ سیاہ پر سیاہی سے اور قرطاسِ ابیض (سفید کاغذ) پر سفیدی سے نہیں لکھا جاتا ہے بلکہ ان پر کسی مختلف یا متضاد رنگ سے لکھا جاتا ہے یا کندہ اور ابھار وغیرہ سے ان کی سطح پر ضد اور خلاف پیدا کیا جاتا ہے، اسی طرح دینی و دنیوی اختلاف زمانۂ حاضرہ کی ملی اور سیاسی حالات سے خود عیان ہے، لیکن صرف یہ دیکھنا ہے کہ “وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے” سے کیا مراد ہے؟ اوپر ثابت کیا گیا ہے کہ علانیہ اختلاف کے ساتھ ساتھ اتحاد بھی دلیلاً ممکن ہے، اب جب کہ لفظ “ہمیشہ” کا ربط یک طرفہ اختلاف کے ساتھ ہے تو اس مسئلہ کا حل یوں ہے کہ اسی اختلاف کے ساتھ اتحاد بھی مداماً لازم ہے، اس لئے کہ یہ دونوں چیزیں آپس میں لازم و ملزوم ہیں، نہ ایک طرف سے بلکہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، چونکہ یہ ممکن نہیں کہ ساری دنیا والے قولاً و فعلاً نقطۂ اتحاد
۳۴
میں اس طرح متحد ہو سکیں کہ وہ اپنی گفتار و کردار میں ایک آدمی جیسا نظر آنے لگے، اسی طرح اختلاف کی مثال بھی یہی ہے۔
نتیجۃً یہ ماننا دانش پذیری کا ثبوت ہے کہ دنیا میں روز و شب کی مانند دو بڑے دور چلتے ہیں جو لاانتہا وقتوں میں مسلسل طور پر روان ہیں، دائمیت کا اطلاق صرف اختلاف پر نہیں، یہ اس بات کی مانند ہے جو کوئی کہے کہ “دنیا میں رات ہمیشہ رہے گی۔” تو ہم اس کا مطلب یہ سمجھیں گے کہ بے شک رات ہمیشہ رہے گی اور اس کے ساتھ دن بھی لازمی طور پر ہو گا، کہنے والے کی مراد اس فقرہ سے صرف یہ ہو گی کہ وہ دن سے قطع نظر رات کا ذکر کرنا چاہتا ہے، اب آیت اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَؕ ، سے مراد یہ ہے کہ اس اختلاف میں اپنی رحمت کی ایک امتیازی و اختصاصی عطا کی امکانیت کا بھی اظہار کرتا ہے جس سے وہ نیک بنی نوع انسان مراد ہیں جو با این ہمہ وجوہِ اختلاف اپنی وسیع النظری، کشادہ دلی اور انسانی ہمدردی کے ساتھ غیر متعصبانہ طور پر اعمالِ حسنہ کے کوشان ہوں، جن کا نظریۂ وحدت الوجود اور جن کے خیالات ہر انسان کے حق میں نیک ہوں۔ ایسے لوگ ہی ہیں جو قدرتِ خداوندی کو مجبور، رحمتِ الٰہی کو محدود اور مشیتِ ایزدی کو محصور نہیں سمجھتے ہیں، وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ قطرۂ روح جس بحرِ محیطِ رحمت سے آیا ہو جلد یا بدیر انجامِ کار میں وہاں جائے گا۔
آیت کے دوسرے حصے سے ظاہر ہے کہ انہیں اسی اختلاف کے لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ اس ظاہری و ہنگامی اختلافی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہوئے دنیا کے مختلف مذاہب، ممالک اور شہر و دیار کے اقوام و افراد اپنے اندر وہ جذبہ پیدا کر سکیں، جس سے وہ کاہلی اور لا ابالی سے دور جولانگاہ سبقت کردار اور میدانِ عمل میں پیہمِ کوشان و شتابان نظر آئیں۔
جزوی اختیارات کے دائرۂ محدود میں انسان سے سرزد شدہ خطا و
۳۵
نسیان اور نفسانی لغزشوں کی مسؤلیت اور جواب طلبی کے بعد مصلحتاً جہنم میں سب کا وارد ہونا پروردگار کا ایک حتمی و مقضی امر ہے، چنانچہ خداوند تعالیٰ خود فرماتا ہے: ” وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَاۚ-كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا (۱۹: ۷۱) تم میں کوئی ایسا نہیں جو جہنم میں نہ اترے، یہ تیرے ربّ کا فیصل شدہ امر ہے۔” ظاہر ہے کہ سب کے لئے جہنم میں ایک بار اترنا ضروری اور مصلحتی امر ہے، پھر وہاں سے اعمالِ نیک و بد کے اعتبار سے یکے بعد دیگرے نکلنا ہوگا، یعنی جب خداوند ایک ہی خطاب میں ہر برے، بھلے سے مخاطب ہوتے ہوئے بلا امتیازِ اعمال جہنم میں اتر جانے کا فرمان سناتا ہے، اور فرماتا ہے کہ یہ ایک جزمی اور فیصل شدہ امر ہے تو یقین ہے کہ پھر نکل جانا ہے، کیونکہ جب یہ ممکن نہیں کہ صغائر والے تھوڑی سی سزا پانے کے بعد جہنم میں رہ جائیں تو پھر یہ بھی ممکن نہیں کہ کبائر والے زیادہ سزا پانے کے بعد جہنم میں رہ جائیں، اس معنوی تشریح میں ضمناً یہ بات بتانا باعثِ تفہیم ہوگا کہ اگر ہم خدائے برتر کے ان اسمائے صفاتی پر غور کریں جن سے انسان کی ابتدائی و انتہائی بقا کا خاص تعلق ہے تو ان میں سے کوئی ایک اسم ہرگز ایسا نہیں ملے گا جس کے معنی سے یہ ظاہر ہو جائے کہ خدا کے علم، رحمت، قدرت اور ارادت یا دوسرے صفات محدود ہیں، اگر خدا کا علم کارشناس و لاحد، اس کی مہر ہمہ رس و غیر منتہی ، اس کی توانائی انتھک و تمام کن، اور اس کا ارادہ خیر خواہ ممکنات ہے تو پھر ہمارے اس تصوراتی آئینے کی غلطی ہے جس کے بنانے میں ہم نے علم کے بعض غلط اصولوں سے کام لیا ہے، جس کی وجہ سے اس میں فعلِ قدرت کی بعض اشکال ہمیں خام و نا تمام نظر آتی ہیں، وہ غلط اصول ہماری سطح بینی کے حاصل کردہ تھے جن کی مثال اس طفل کی طرح ہے جس نے آئینہ کی پشت پر سندر کے مرکب کو دیکھا لیکن اس کی حکمت نہ سمجھ سکا کہ یہ کیوں ایسا ہے، جب وہ عقل و شعور کی عمر میں آئے گا تب اسے یہ حکمت سمجھائی
۳۶
جا سکتی ہے کہ ساری چیزیں اثر کے اعتبار سے چار حصوں میں منقسم ہیں، پہلی قسم کی چیزیں وہ ہیں جو کسی چیز کا اثر اس طرح قبول کرتی ہیں جس طرح بیابان کی مٹی بارش کو جذب کرتی ہے جو بادل کا اثر ہے، دوسری قسم کی چیزیں کسی چیز کے اثر کے لئے سدِ راہ نہیں ہوتی ہیں، جس طرح ہوا سورج کی روشنی کے لئے سدِ راہ نہیں ہوتی ہے، تیسری قسم کی چیزیں وہ ہیں جو کسی اثر کو جذب نہیں کر سکتی ہیں، جس طرح سخت پتھر پانی کو جذب نہیں کر سکتا اور چوتھی قسم کی چیزیں کسی چیز کے اثر کو منعکس کرتی ہیں جس طرح پہاڑ صدا کو واپس کرتا ہے۔
صاف اور شفاف شیشہ جو روشنی اور نظر کے لئے سدِ راہ نہیں ہو سکتا ہے اور اس میں روشنی کی ضد و خلاف کوئی خاصیت موجود نہیں ہوتی ہے، پس یہ امر لازمی ہوا کہ شیشے کی ایک طرف کی سطح پر روشنی کو واپس کرنے کی خاصیت پیدا کی جائے تا کہ نگاہ اور روشنی ملی ہوئی حالت میں واپس چہرے پر پڑے جس سے دیکھنے والا اپنے آپ کو اپنی نگاہ سے دیکھے، گویا آئینے سے انسان جو اپنے چہرے کا عکس دیکھتا ہے وہ حقیقتاً آئینے میں نہیں، بلکہ آئینہ کی خاصیت یہ ہے کہ نظر کو منعکس کر کے دیکھنے والے کے چہرے پر ڈالتا ہے۔
۳۷
ایک حکمت آگین مثال پرکار میں
بموجبِ فرمانِ الٰہی ہمیں یقین ہے کہ ہر چیز علم میں سموئی ہوئی ہے اور علم ہر چیز میں سمویا ہوا ملتا ہے، علم وسعت کے لحاظ سے وہ بحرِ بے پایان ہے جس میں کل عالم مستغرق ہے اور ہر جا رسی کے لحاظ سے علم وہ بارش ہے جس سے کوئی شے خالی نہیں، کیونکہ اگر کلی طور پر عالم علم کے گھیرے میں ٹھہرا ہے تو جزوی طور پر ہر چیز کا قیام علم پر ہے، پس ہر چیز کی خلقت، طبیعت، اثر اور فعل میں علم موجود ہے، اور ہر چیز کی اصلی حالت سے واقفیت حاصل کرنے کا نام علم ہے، ان میں سے بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے مرکب خصائص کے فعل سے کلیات کی مثالیں ملتی ہیں جیسا کہ پرکار ہے۔
پرکار اپنے اجزاء کے اتحاد و اتصال میں ایک ہے، اس میں پنسل وہ چیز ہے جس کے بغیر وہ مخصوص فعل نہیں کر سکتا ہے جس کے لئے اسے بنایا گیا ہے، پنسل منفصل و متصل ہو سکتی ہے تاکہ اس کی تجدید ہو سکے، ایک مکمل پرکار اپنی دونوں نوکوں پر دو مخالف نقطے رکھتا ہے جو ایک فرسا (گھسنے والا) اور دوسرا نا فرسا (نہ گھسنے والا) ہے، دونوں نقطے ایک دوسرے سے قریب تر اور دور تر ہو سکتے ہیں اور غایتِ نزدیکی سے ان کا دوئی ختم کر کے یکتا ہونا غیر ضروری اور خالی از حکمت ہے، کیونکہ ان کی وحدت پرکار میں ثابت ہے جس کی وجہ سے ان کو ایک بھی کہا جا سکتا ہے اور دو بھی۔
۳۸
جب ایک سے دو پیدا ہوا تو کثرت کی امکانیّت پیدا ہوئی اور اسی طرح جس چیز میں زیادہ خصوصیات پائی جائیں وہ کم خصوصیات والی چیز سے زیادہ مفید اور کارآمد ہوتی ہے اور اس میں زیادہ حکمت پوشیدہ ہوتی ہے، مثلاً پرکار میں یہ خصوصیت موجود ہیں:
(۰)وصل = فصل، (۱) وسعت =ضیق ، (۲) خلش =سیاق، (۳) سکون =حرکت، (۴) صلابت =فرسودگی، (۵) نگارش =گزارش، (۶) وحدت =تقسیم، (۷) موافق =خلاف، (۸) علت غایتی =علت تمامی، پس پرکار میں اٹھارہ خصوصیات موجود ہیں اور اس سے نہ کم ہیں نہ زیادہ، ان کے علاوہ اگر اور کوئی خاصیت تصور کی جائے تو وہ ان میں سے کسی ایک کا دوسرا نام ہوگا، پرکار کی ان خصوصیات کی اجتماع سے دائرہ کا مکمل ہو جانا ان کی علتِ غایتی ہے اور اس کام کا مکمل ہو جانا جس کے لئے دائرہ بنایا گیا ہے، علتِ تمامی ہے، پس یہ دونوں چیزیں اس کے ساتھ بھی ہیں اور جدا بھی، ساتھ اس لئے ہیں کہ ان سولہ چیزوں سے دائرہ مکمل ہوا اور دائرے سے وہ کام مکمل ہو گا جس کے لئے دائرہ بنایا گیا ہے اور جدا اس لئے ہیں کہ اب ان چیزوں کی ضرورت نہیں رہی جو دائرہ بنانے کے لئے ضروری تھیں۔
اسی طرح علتِ غایتی اور علتِ تمامی ایک وجہ سے ساتھ ہیں اور دوسری وجہ سے جدا ہیں، یہ دو ایک دوسرے کے ساتھ اس لئے ہیں کہ دائرہ کے بغیر وہ کام مکمل نہیں ہو سکتا جس کے لئے دائرہ مقصود تھا، جدا اس لئے ہیں کہ کام مکمل ہو جانے کے بعد دائرہ کی ضرورت نہیں، اب پرکار کی وہ سولہ مخالف خاصیت آٹھ جفت ہوئیں، علتِ غایتی اور علتِ تمامی آپس میں مخالف نہیں اس لئے یہ جفت نہیں، آٹھ جفت کے بعد علتِ غایتی زائد ہوئی اور علتِ تمامی کامل ہوئی، پس عدد آٹھ جفت، نو زائد اور دس کامل ہے جن کا ذکر علیحدہ کسی فصل میں آئے گا۔
۳۹
ہر چیز کی بناوٹ ذرات سے ہے
جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان کے اجسام ذرات یا نقاط کے مجموعے ہیں، یہ ذرے دوسرے اجسام سے آتے ہیں، مثلاً مٹی، پانی، ہوا اور اثیر (گرمی کا منبع) سے، جس طرح مٹی سے پتھر یعنی پہاڑ ذرہ ذرہ منجمد ہو کر بنتا ہے اسی طرح نباتات ابتداء میں کسی بیج یا گٹھلی میں صرف ایک نقطہ کی حیثیت رکھتی ہیں اور جس کا بیج نہ ہو وہ کسی ٹہنی کی کونپل میں بجز ایک نقطہ کے کچھ نہیں ہوتی، جس کے قلم زمین میں لگانے سے وہی نقطہ بتدریج ایک درخت بنتا ہے، شروع میں ایسا قلم جس میں کافی مقدار میں رطوبت اور جڑ اگانے کی صلاحیت ہوتی ہے، کچھ دنوں تک کوئی شے جذب نہیں کر سکتا، روحِ نامیہ موسم کی اعتدال کی وساطت سے اور اس قلم کی مابقی روحِ نامیہ سے مل کر اس قلم کی نشونمائی شروع کرتی ہے جس سے نرم نرم کونپلیں اور جڑیں اگتی ہیں، جس سے وہ قلم بہت ہی آہستگی سے اور بتدریج نقطہ نقطہ ہو کر بڑھتا ہے، یہاں تک کہ ایک بڑا درخت بنتا ہے۔
اسی طرح حیوان اور انسان کے جسم ابتداء میں بجز نقطے کے کچھ نہیں ہوتے اور انسان یا حیوان کے اجسام کی نشونمائی کی رفتار اور مقدار کی باریکی کی یہ حد ہوتی ہے کہ انسانی نگاہ نہیں دیکھ سکتی ہے، ان سب چیزوں کے احوال سے یہ معلوم ہوا کہ ذرہ اور نقطہ نہ صرف جسم کی بنیاد ہے بلکہ یہ حروف اور ہندسے کی بھی بنیاد ہے، ایک کنکر کو
۴۰
پیس کر غور سے دیکھو تو مٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات نظر آئیں گے، معلوم ہوا کہ پتھر مٹی سے پیدا ہوا ہے، کیونکہ کسی چیز کی فنا کی انتہائی حالت ہی اس کی پہلی بقا کی ابتدائی حالت ہوتی ہے، اسی طرح نباتات کی مثال ہے، اگر ہم ایک گیلی لکڑی کو جلتی ہوئی آگ پر رکھیں تو اس میں آگ نہیں لگے گی، اس لئے کہ پانی آگ کا مخالف ہے، پھر اگر آگ میں اپنے مخالف کی نسبت طاقت زیادہ ہے تو پہلے اسے نکال دے گی اور اس کے ساتھ ساتھ مخالف گیسیں اور ہوا بصورتِ دھواں نکال دیتی ہے اور جو حصہ ان چیزوں سے صاف اور آگ کی خاصیت سے بنی ہوئی چیزوں کے ساتھ رہ جائے تو اس میں آگ لگ جاتی اور جلاتی ہے، اب آگ بجھنے پر صرف وہ چیز باقی رہ جاتی ہے جسے معمولی آگ نہیں جلا سکتی اور وہ مٹی ہے، حیوان اور انسان کے اجسام بھی گلنے ، سڑنے اور خشک ہونے کے بعد مٹی کے ذرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں، پس معلوم ہوا کہ اجسام ذرات کے مجموعے ہوتے ہیں۔
۴۱
الف میں نقطہ پوشیدہ اور صفر ایک سے آگے
کسی بھی تحریر کے لئے جب کوئی محرر اپنے قلم کی نوک سے لکھنے لگتا ہے تو سب سے پہلے کاغذ پر نقطہ وجود میں آتا ہے، اسی طرح اگرچہ الف کا بظاہر نقطہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کی بنیاد اور ساخت نقطہ پر ہے، مثلاً الف لکھتے وقت آغاز میں جب کہ قلم کی نوک کاغذ کی سطح کو چھوتی ہے تو اسی لمحہ میں ہی نقطہ وجود میں آتا ہے، بعد ازان قلم کی حرکت کے ساتھ ساتھ نقطوں کا ایک تار سا بنتا ہے، جس کو پیچ و خم دیتے ہوئے حروف کی تشکیل دی جاتی ہے، یہی مثال جملہ تحریرات و نقوش کے لئے بھی ہے لیکن ہندسوں میں ترتیبی لحاظ سے ایک سے آگے صفر آنے کی مثالیں ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔
اگر ہم کسی کاغذ پر ایک دائرہ کھینچیں اور اسی پر ایک جگہ صفر لگا کر اسے حدِ آغاز تصوّر کرتے ہوئے دائیں طرف سے اسے دس مساوی حصوں میں ایک سے دس تک ہندسوں پر تقسیم کریں تو دس کے ہندسے کو آغاز کے صفر پر لکھنا پڑے گا، جس کے لئے صرف صفر کے پیچھے ایک لکھنا ہی بس ہے کیونکہ صفر پہلے سے موجود ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ صفر ایک کے ہندسے سے آگے ہے، مثلاً اگر ہم اس طرح صفر سے گزر کر اگلے ہندسے کے پیچھے بھی ایک لکھیں تو یہ گیارہ بن جائے گا اور اسی طریقہ سے ہندسوں کی ترتیب میں کوئی غلطی نہیں ہوگی، پس یہ اصول درست ہے کہ ایک سے آگے صفر ہے کیونکہ اگر کسی ترتیبی چیز کو دائرہ پر بالترتیب رکھا جائے تو انتہائی چیز ابتدائی چیز کے عقب سے ملے گی، چنانچہ اگر حروفِ تہجی ترتیب سے دائرہ پر لکھے
۴۲
جائیں تو حرف “ی” الف کے عقب میں آئے گا، معلوم ہوا کہ “الف” سے ابتداء ہے اور “ی” اخیر میں ہے۔
دوسری دلیل: صفر کے معنی “کچھ نہیں” یا “نیست” ہے اور الف کے معنی “کچھ ہے” یا “ہست” ہے، اس لئے ہست سے نیست پہلے آنا چاہئے۔
تیسری دلیل: جس طرح مذکورہ مثال میں صفر کو حدِ آغاز تصوّر کرتے ہوئے ہندسوں کی ترتیب درست ہوئی ہے اگر اس کے برعکس ہم سب سے پہلے ایک لکھیں تو یہ کون سی ناپی ہوئی چیز کے معنی دے گا؟ پھر اس کے بعد دو لکھیں اور غور کریں تو ایک اور دو کے درمیانی مسافت کا حصّہ صرف ایک ہی ہوگا، جو یہ نہ ایک سے تعلق رکھتا ہے اور نہ دو سے، ایک سے تعلق اس لئے نہیں رکھتا کہ ہر مسافتی ہندسہ اپنے عقب کے مقدار ظاہر کرتا ہے، اور دو سے اس لئے نہیں کہ حصہ تو ایک ہے اور ہندسہ دو، پس یہ اصول غلط ہے کہ صفر سے آغاز نہ کریں۔
چوتھی دلیل: کسی لمبی چیز کی مسافت ہندسوں سے ظاہر کرتے وقت ایک سے آگے صفر کی ضرورت اس صورت میں محسوس ہوتی ہے جب کہ اس چیز کے کنارے نہ ہوں، اگر کنارے ہوں تو ابتدائی کنارہ صفر تصور کیا جاتا ہے۔
پانچویں دلیل: اکائی کے ہندسوں میں اعداد کی جو ترتیب ہے وہی ترتیب دہائی کے ہندسوں میں بھی ہو گی، اگر دہائی کے ابتدائی ہندسہ کو مرکب بنانے کے لئے سب سے پہلے صفر آتا ہے تو اکائی کے ہندسوں میں بھی سب سے پہلے صفر آنا چاہئے، دلائل متذکرہ بالا سے ثابت ہے کہ ہندسوں کے آغاز میں صفر آتا ہے، اگرچہ بعض وقت نہ بھی لکھیں۔
۴۳
مردہ ایٹم اور زندہ ایٹم
“اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔” زمین اور آسمان یا بلندی و پستی ساری کائنات کے دو نام ہیں، اور ان ہی دو ناموں میں روحانی بلندی و پستی کا ذکر بھی ہے، جسمانی اور روحانی دونوں صورتوں میں جس حد تک انسان کی رسائی ہو چکی ہو وہی اس کی زمین اور جس مقام تک ہنوز نہیں پہنچا ہے وہ آسمان ہے، جسمانی روشنی کا تعلق آنکھوں کے ساتھ ہے جس سے بیرونی چیزوں کی حالت دیکھنے میں مدد ملتی ہے، خدا کی روشنی کا تعلق دیدۂ دل یعنی بصیرت سے ہے، جس سے ہر چیز کی اندرونی و بیرونی حالت دیکھنے میں مدد ملتی ہے، جس طرح ظاہری روشنی کے بغیر انسان کسی انجان شہر نہیں جا سکتا، اسی طرح باطنی روشنی کے بغیر کوئی مؤجد ایجاد کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ہے، انسان جسمانی مسافت طے کرنے کے لئے سب سے پہلے دونوں پیروں سے چلتا ہے اور دماغی ترقی کی راہ میں وہ فکر کے قدموں سے چلتا ہے، فکر کے سامنے جب خدا کی روشنی موجود ہو تو سوال و جواب کی چال سے وہ چلنے لگتی ہے جس کے ذریعے مؤجد منزلِ ایجاد تک پہنچ سکتا ہے لیکن یہاں مؤجد کے لئے یہ خطرہ رہتا ہے کہ وہ خدا کی روشنی کی مدد سے حاصل کردہ شے کو اپنے علم کا ثمرہ اور نتیجہ سمجھتا ہے، جس سے بعض انسان خدا کی ہستی سے منکر ہو جاتے ہیں، لیکن چونکہ خدائے تعالیٰ خیر الماکرین ہے اس لئے وہ اپنی روحانی روشنی کو نہیں روکتا
۴۴
ہے، کیونکہ اگر انسان کے اس انکار پر خدا علم اور روشنی کو روکتا تو شاید یہ اس کے لئے باعثِ رحمت ہوتا، کیونکہ انکار کے ساتھ ساتھ اگر کسی مؤجد کا دماغ کام نہیں کرتا تو یہ خدا کی طرف سے اس مؤجد کو ایک اشارہ ہوتا جس کے معنی سے یہ ظاہر ہوتا کہ “اے انسان دیکھ یہ میری روشنی ہی ہے جس سے تو ان دیکھی چیزیں دیکھتا ہے تو نے میری ہستی سے انکار کیا تو میں نے تجھے اندھیرے میں رکھا۔” تو پھر وہ شخص ایک دم چونک پڑتا اور روحانی ترقی میں قدم رکھتا اور یہاں تک کہ جسمانی ترقی کے ساتھ روحانی ترقی میں بھی ان لوگوں سے سبقت لے جاتا جنہوں نے اپنی ساری زندگی خدا کی عبادت کے لئے وقف کر رکھی ہے۔
خدا کے اس حکیمانہ مکر کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسان کو جس چیز کی خواہش ہو اس کو وہ چیز مل جائے یعنی جس کو دنیا چاہئے تو دنیا، اور جس کو آخرت کی تلاش ہو اسے آخرت اور جس کو دین و دنیا دونوں چاہئے تو حدِ اعتدال میں دونوں مل سکیں۔
نزولِ قرآن کا مقصد دینی و دنیوی ہدایت اور تعلیم ہے اور حقیقی تعلیم میں ہر سوال کے لئے جواب موجود ہوتا ہے، پس اگر حضرت محمد مصطفی صلعم سے کوئی شخص پوچھتا کہ وہ کون سی روشنی ہے جس سے لاعلمی کی ظلمت کو دور کیا جا سکے اور آسمان و زمین کے اسرار دیکھے جا سکیں؟ تو یقیناً یہی جواب ملتا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے اور واقعی اس سوال کا یہی جواب موجود ہے۔
روشنی کی حقیقت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آنکھوں کی بینائی اور روشنی آپس میں اس طرح مل کر کام کرتی ہیں جس طرح ایک انسان کی دونوں آنکھوں کی نگاہیں حسِ مشترک کے ذریعے مل کر ایک ہی کام کرتی ہیں، پس چشمِ بصیرت کا “دیکھنا” یا اللہ کی روشنی کا “دکھانا” ایک ہی معنی رکھتا ہے، “سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ (۴۱: ۵۳)۔
۴۵
یعنی ہم انہیں اپنی نشانیوں کو عالم میں اور ان کی جانوں میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ سچ ہے۔”حضرت محمد صلعم کے زمانے میں خدائے برتر فرماتا ہے کہ ہم آئندہ زمانے میں انہیں اپنی نشانیاں اسی عالم میں دکھائیں گے، اور وہ نشانیاں یہ ہیں جو سائنسی اور ایٹمی دور میں ایجادات کی شکل میں دکھائی دے رہی ہیں، پھر ترتیبِ الفاظ کی حکمت میں یہ اشارہ فرماتا ہے کہ اس کے بعد ان کی جانوں میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان کو اللہ کی حقانیت ظاہر ہو جائے، یہاں ظاہر ہے کہ جب تک مردہ ایٹم عالم میں سائنس دانوں کی زیرِ تسخیر رہے تب تک وہ اس چیز کو اپنی حکمت کا ثمرہ تصوّر کریں گے اور یہ بے جان ایٹم ہوگا، پھر جب قدرتی طور پر یا ان کے اس ایٹم کے تجزیے کے سلسلے میں زندہ ایٹم (نوری مخلوق) تک پہنچ جائیں گے تو وہ بہ شکل روح بیک وقت یا بتدریج انسانوں میں سرایت کرے گی۔ اس کا اثر سب سے پہلے انسانوں کے کانوں پر ہو گا اور معمولی تکلیف کے بعد کانوں کے وہ پردے کھل جائیں گے جو جسم اور روح کے درمیان ہوتے ہیں۔
۔۔۔۔ وہ روح ہوگی اور بحیثیتِ مجموعی اسلام کی روحانی طاقت ہو گی ایک ایسی اخلاقی طاقت جس سے دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکے اور بنی نوع انسان کی خوش حالی اور حقیقی راحت کا باعث بن سکے۔
ایک اور دلیل یہ ہے کہ کسی موجود ہستی پر دلیل کرنے والی شے کا نام و نشان ہے جس سے یہ یقین آئے کہ فلان شے ہے، مثلاً کسی مکان سے انسان کی آواز آرہی ہو تو یہ آواز انسان کی موجودیت کی نشان ہے، پس سمجھا جائے گا کہ اس مکان میں کوئی انسان ہے، پس آیۂ مذکورہ سب سے پہلے سائنس دانوں کے اس طبقہ کے متعلق پیش گوئی کرتی ہے جو خدا کی ہستی کے بارے میں مطمئن نہیں یا قطعی اسے نہیں مانتے ہیں، دلیل یہ ہے کہ “انہیں دکھائیں گے” سے ظاہر ہے کہ وہ لوگ قرآن کے
۴۶
خطاب سے دور ہیں اور یہ وعدہ حضرت محمد صلعم کے بعد کسی اور زمانے سے تعلق رکھتا ہے، پس سائنس کے کرشمے اور ایٹم کے عجائبات جو اس زمانے میں ظاہر ہوئے ہیں، خدائے توانا کے ارادے سے ہیں اور ان چیزوں کو دیکھنے والے سب سے پہلے وہی سائنسدان ہیں جو دیکھتے ہیں اور خدا کا شکر ادا نہیں کرتے جس نے انہیں یہ طاقت بخشی ہے۔
۴۷
ایٹمی دور روحانی دور سے ملا ہے
اگرچہ نظامِ کائنات کی ایک طرف باہمی وحدت ہے تو دوسری طرف ترتیب ہے۔ وحدتِ عالم کی ملی ہوئی حالت اور ترتیب اس کی جداگانہ صورتیں ہیں، ہمیں یہاں پر صرف ترتیب کے متعلق ذکر کرنا ہے، منشائے قدرت کے مطابق جسم کی ترتیب کثافت سے شروع ہو کر اپنی لطافت کی غایت میں روح سے مل جاتی ہے، اس کی مثال انسان کی خلقت میں موجود ہے، چنانچہ مٹی کی لطافت سے نباتات اگتی ہیں، جس کی غذا کی لطافت سے حیوانات کے جسم بنتے ہیں جن کے گوشت اور دودھ وغیرہ کی لطافت سے انسانی جسم میں خون بنتا ہے جس کی لطافت سے روحِ نامیہ اور اس سے روحِ حیوانیہ بنتی ہیں جس کی تحلیل سے روحِ انسانی بنتی ہے، جس سے عقل کا جوہر تیار ہوتا ہے، وہی خدا کی روشنی سے مل سکتا ہے، پس اسی طرح زمانے کے واقعات، ایجادات، انکشافات اور علوم و فنون وغیرہ کی ترتیب ہے اور اقتضائے زمان پر منشائے قدرت کارفرما ہے، یعنی اگر کوئی شخص مانے کہ منشائے قدرت میں انسانوں کی مجموعی حیثیت سے ترتیب لازمی ہے تو وہ سمجھے گا کہ جو کچھ عجیب و غریب چیزیں دنیا میں ظہور پذیر ہوتی ہیں وہ خدا کے حکم سے ہوتی ہیں، پھر اگر ہر چیز کی ترتیب ہے تو واقعات، انکشافات اور ایجادات کی بھی ترتیب ہے، جس طرح تواریخ سے یہ ظاہر ہے کہ انسان بھی، ترتیبی نظام کے تحت چیزیں ایجاد کرتے ہوئے یہاں
۴۸
تک پہنچا ہے لیکن جسم لا انتہا نہیں ہو سکتا یعنی ذرہ (Atom) کے بعد اور کوئی شے نہیں جس کو تجزیہ کرتے ہوئے ایٹمی طاقت کے علاوہ اور کوئی طاقت تسخیر کر سکے، سوائے اس کے کہ ایٹمی طاقت سے گوناگون فائدے اٹھائے، اس کے برعکس ذرہ تحلیل ہو جانے کے بعد روح کہلاتا ہے اور وہاں سے دورِ روحانی شروع ہو جاتا ہے، ہر گروہ اور ہر طبقہ کی اصطلاح کے مطابق اس دورِ روحانی کے کئی نام ہو سکتے ہیں مگر حقیقت ایک ہی ہے، اس دور کے چند ابتدائی واقعات حواسِ خمسۂ ظاہری سے تعلق رکھتے ہیں، جس کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی ان قوتوں کو پہلے ہی سے پاک رکھے۔
۴۹
کتابِ فطرت کا ایک سبق
اگر کوئی دانشمند مفکر چاہے کہ اپنے نفس و جسم کی منازلِ بقا اور ان کی ابتدائی اتصال کے متعلق علم حاصل کرے تو اسے چاہئے کہ شروع میں وہ ان چیزوں پر غور و خوض کرے جس سے اس کے جسم کے آغازی نقطہ کی تخلیق ہوئی ہے۔
قرآنِ پاک کی تعلیم نے انسانی خلقت کو موردِ غور و فکر ٹھہرایا ہے کیونکہ یہ نہ صرف عقلِ جزوی کی رسائی کے لحاظ سے حدِ مفروضہ ہے بلکہ علاوہ اس کے جن پست حالات سے اس کی بقا کا گزر اور جن ادنیٰ چیزوں سے اس کے جسم بننے کا آغاز ہوا ہے ان میں ایک ناقابلِ فراموش عبرت بھی ہے۔
اس دنیا میں جہاں ہم سکونت پذیر ہیں، مٹی عناصرِ اربعہ میں سب سے پست، تاریک اور کثیف ہے، اور جب یہ اس سے بھی پست تر اور منکر ہو جاتی ہے تو یہ سڑی ہوئی کیچڑ یا گارے کی شکل اختیار کر لیتی ہے، چونکہ غایت پستی کا ابتدائی ہستی سے اتصال ہے، اس لئے اُس ذرہ نواز ذاتِ یگانہ کی رحمتوں کے نورانی شعاعوں نے اجرامِ فلکی کی وساطت سے طبیعت کی ایک لطیف ترین بارش اس کیچڑ پر برسانا شروع کیا، جس کی بدولت یہ کیچڑ خمیر سی بن گئی اور اس میں یہ قابلیت پیدا ہوئی کہ اپنی نرمی، لطافت، ذائقہ، کیمیائی طاقت اور محلول کھاد کی امتزاج اور طبائع کی لطافت کی مدد سے ایک نرم، لطیف، ذائقہ دار نباتاتی غذا کی شکل اختیار کرے،
۵۰
مٹی کی اس تبدیلئ حالت پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ تعجب نہیں کہ اس محلول کے خاکی ذرات میں بھی کوئی ایسی بقا موجود ہوگی جس کے متعلق خداوندِ عالم فرماتا ہے کہ “کوئی ایسی شے نہیں جو اپنے ربّ کی تسبیح نہ پڑھتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح نہیں جانتے۔” اگر ہم عالمِ جمادات کی طرف غور کریں تو قدرت کی حیات کاری کے ایسے مناظر نظر آئیں گے جن سے ہمیں بالضرور یہ باور کرنا پڑے گا کہ ہر چیز میں روح ہی کا ہاتھ ہے جو ہر جگہ گوناگون جلوہ نمائی کرتی ہے جو سب سے بڑی اور عالمگیر روح کہلائی اور بحرِ رحمت بن کر ساری کائنات کو اپنی لاغایت گہرائی میں ڈبوئے رکھا ہے اور اس کی پوشیدہ تابش سقفِ نیلگون سے آئی ہے، یہی یدِ قدرت ہے جو ہر جگہ پہنچ سکتا ہے اور جیسا چاہے خرچ کر سکتا ہے، رحمتِ عالمین اور نورِ محمدیؐ اسی کا نام ہے، اس حقیقی نور میں نہ صرف طبیعی روشنی کا سرمایہ ہوتا ہے، بلکہ روحانی اور عقلانی نور کا بھی یہ آفتابِ عالم تاب ہے، اصلی اور حقیقی نور ازل سے زندۂ جاوید ہے، اور اس میں حیات بخشی کی طاقت موجود ہے، یہ وہ نور ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو روشن کیا، نہ صرف بیرونی طور پر بلکہ ہر چیز کی باطنی تاریکیوں میں بھی یہ ضیا بخش ہے، راہ بقا کے چراغِ ہدایت اور سبیلِ حیات کے راہ نما کا دوسرا نام آسمان و زمین کا نور ہے، اگر ہم خدائی نور یا روشنی کا نام سنتے ہی فوراً سورج یا اور کسی مادّی روشنی کا تصوّر اپنے دماغ میں لاتے ہیں تو یہ ہماری عقل کی کمزوری، نارسائی اور حلقۂ جسم میں محدود و مقید ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ ہماری عقل کے لئے افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے کبھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہ کی کہ حقیقی روشنی کا کام کون سا ہے؟ کاش اگر ہم اس نور کے یہ معنی سمجھتے کہ نور وہ ہے جو ساری چھپی چیزوں کو دکھاتا ہے اور اس کے برعکس ظلمت وہ طاقت ہے جو چیزوں کو چھپاتی ہے، تو اس حقیقت سے ہم ہرگز منحرف نہ ہوتے جیسا کہ خدائے برتر خود فرماتا ہے کہ وہ بلندی و پستی اور ہر چیز کی روشنی ہے تو کوئی
۵۱
ذرہ ایسا نہ ہوگا جس کے وجود میں اس کی روشنی کی وہ بلا مادہ نورانی اور جوہری طاقت کارفرما نہ ہو، پس یہ طاقت جس چیز میں موجود ہو تو لازماً یہ اس چیز کی راہِ بقا کی ارتقاء کے لئے ہوگی جو صرف ایک مقررہ نظام کے تحت ہو سکتی ہے۔
ظاہری طور عالمِ جمادات میں پتھر سے بڑھ کر اور کسی شے کو بے جان نہیں کہا جا سکتا ہے، یہ آغاز میں اس پہاڑ سے ملا ہوا ہوتا ہے جس سے یہ ٹوٹ کر لڑھکتے ہوئے آیا ہو، پہاڑ کے ظاہر و باطن میں قدرت کے عجیب کرشمے اور مناظر موجود ہیں کیونکہ یہ دستِ قدرت کی صنعت کاری کے عظیم نمونے ہیں، ان کی بیرونی سطح کی طرف نظر کریں تو رنگ برنگ کے قطعے اور مختلف دھاریں دکھائی دیں گی جن سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ ان کے ہیولیٰ کا امتزاج اور ملاوٹ اس طرح نہیں جس طرح نباتات و حیوان کا ہے، نباتات کی غذا کا خمیر پہلے بیرونی طور پر پھر اس کی ذاتی سرشت میں یک جان کیا ہوا ہوتا ہے اور جس طرح انسان، اول اسے گوندھتا ہے پھر منہ میں چباتے ہوئے اس کے اجزاء کو باہم ملاتا ہے، بعد ازان معدہ و جگر وغیرہ سے گزرنے کے بعد غذا کا اصلی رنگ کھو جاتا ہے اور انسانی جسم کا رنگ اختیار کرتا ہے، اس کے برعکس پہاڑ کی بناوٹ اور رنگت جدا جدا ہے، جس کی وضع سے یہ ظاہر ہے کہ پہاڑ اپنی تہہ کی دبی ہوئی زمین سے اُگ آیا ہے اور اس کے مادہ کی کوئی خاص تخمیر نہیں ہوئی تھی، پہاڑ جس کو بے جان تصور کیا جاتا ہے اس کا زمین سے اُگنا قدرت کا ایک عجیب کرشمہ ہے جس کی کوئی خاص جڑ نہیں جس طرح کسی درخت کی جڑیں ہوتی ہیں، اگر اس کی جڑیں ہوتیں تو اس کا رنگ یکسر ایک جیسا ہوتا کیونکہ نباتات کی جڑیں اس غذا کو اپنی قوتِ جاذبہ سے جذب کرتی ہیں جو وہ ایک دفعہ گوندھی ہوئی ہوتی ہے، پھر نباتات مزید کیمیائی تحلیل سے اپنے رنگ کے ساتھ ملا دیتی ہے جس سے نباتات کا رنگ اپنی نوعیت کا ہوتا ہے لیکن پہاڑ کا مادہ جو دراصل مٹی کی تہیں ہوتی ہیں جو وہی
۵۲
کی وہی تہہ و بالا ہوئے بغیر آپس میں مل جاتی ہیں جن کی تخلیق میں قدرت کا ہاتھ ہوتا ہے جس طرح کہ ذکر کیا گیا کہ ہر چیز میں روح موجود ہوتی ہے، حکمائے طبیعت کا یہ کہنا کہ پہاڑ زیرِ سمندر سے اُگا ہے جب اس جگہ سے سمندر ہٹ گیا اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ سمندر کا وزن زمین پر پڑنے سے زمین میں سختی اور تبدیلی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے پہاڑ وجود میں آیا لیکن سمندر کا بوجھ نچلی زمین پر پڑنے کے بعد زمین کے مرکز پر پڑنا چاہئے نہ کہ زمین کے کچھ حصے پر۔
۵۳
انسان نے مرے ہوئے انسان کو زندہ کیا اور مصنوعی انسان پیدا کیا
خدا کی توانائی علم و حکمت کی صورت میں انسان سے ظہور پذیر ہو رہی ہے، اس لئے کسی باشعور دیندار کو یہ ہرگز نہیں چاہئے کہ اس سائنسی اور ایٹمی ترقی کردہ دور کی ایجادات و انکشافات سے حیرت زدہ ہو جائے اور نہ اسے یہ ضروری ہے کہ قانونِ قدرت کے متعلق کوئی شبہ دل میں لائے یا یہ سوچے کہ فلان فلان کام خدا کا ہے جس کے بغیر کوئی نہیں کر سکتا، مثلاً کسی مردہ انسان کو زندہ کرنا یا مصنوعی انسان پیدا کرنا وغیرہ، ایسے عجیب و غریب واقعات کے سننے سے سادہ لوح دینداروں میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں جن کے اثرات سے ممکن ہے کہ اپنے آپ میں یا اپنی قوم میں کوئی کمزوری محسوس کریں گے اگر واقعی ایسا کیا جائے تو وہ احساسِ کمتری ہوگی جس کا ازالہ اس چیز کے حاصل کرنے سے ہوگا جس کو وہ بڑی دور سے اور تعجب کی نگاہ سے دیکھ رہے ہوں یا ایک ایسے علم کے حاصل کرنے سے ہوگا جس سے انہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہر کامیابی کے پسِ پردہ قدرت کا ہاتھ ہے۔
میرا موضوع یہاں “کسی مردے کا زندہ کئے جانے کی امکانیت” کی تحقیق ہے، ہم اس کی امکانیت و غیر امکانیت کی تحقیق انسان کی جسمانی حیات و ممات کی حقیقت کی روشنی میں کرتے ہیں، اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اوّل انسان کی جسمانی ابتدائی زندگی کا کچھ ذکر کریں۔
۵۴
ہر ایک سالم الحواس انسان کے جسم میں روح تین درجوں میں کام کرتی ہے یعنی درجۂ زیرین روحِ نامیہ، درجۂ میانہ روحِ حیوانیہ اور درجۂ زبرین روحِ ناطقہ، روحِ نامیہ کا مرکز جگر ہے اور جسم کی نشونما اس کے سپرد ہے اور وہ ساری قوّتیں اسی کی ہیں جو ابتداء میں کسی بچے کا جسم مکمل کرتی ہیں، حواس و حرکت کی حامل روحِ حیوانیہ ہے اور اس کا مرکز دل ہے، نطق و شعور اور علم و فن روحِ ناطقہ سے ہے، جو دماغ میں رہتی ہے، ہر سہ روح ایک ہی جسم میں مقیم ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں، جن میں سے روحِ ناطقہ وہ ہے جو اپنے خواص و افعال کی وجہ سے نبات کو حیوان، حیوان کو انسان اور انسان کو فرشتہ بنا دیتی ہے اور اسے خدا سے ملا دیتی ہے جس کی مثال تخلیقِ جسم اور تکمیلِ روح میں موجود ہے، انسان کی وہ ساری خصوصیات جو کسی جانور میں نہ ہوں روحِ ناطقہ کی خصوصیات ہیں، اس کے علاوہ روحِ ناطقہ ہی نے انسانی جسم میں روحِ نامیہ اور حسیہ کی قوّتوں کو مہذب اور شائستہ بنائے رکھا ہے۔
مذکورہ ہر سہ روح انسانی جسم میں حیاتِ متحدہ اس ترتیب سے گزارتی ہیں کہ سب سے پہلے انسانی خون کا ایک مرکب خلاصہ کسی رحم میں جاگزین ہوتا ہے، جس میں ہر سہ روح کے جوہری اور مادّیاتی اثرات موجود ہوتے ہیں، بالفاظِ دیگر اس قطرہ میں نفسِ ناطقہ اور نفسِ حسی حدِ قوّت میں موجود ہوتی ہیں اور نفسِ نامیہ حدِّ فعل میں ہوتی ہے، جس طرح کسی درخت کے بیج میں اپنے قسم کا ایک مکمل درخت اگانے کی صلاحیت موجود رہتی ہے یا جس طرح کسی پرندے کے انڈے میں اپنی قسم کا ایک پرندہ حدِّ قوّت میں ہوتا ہے۔
تخلیقِ جسم کے لئے عورت کی چھاتی سے اس کے رحم میں کچھ مقدار خون مسلسل داخل ہوتا رہتا ہے جس سے روحِ نامیہ جسم کی تکمیل کرتی رہتی ہے، انسانی بچے کے جسم میں چار ماہ کے اختتام پر سوئی ہوئی روحِ حیوانی بیدار ہو جاتی ہے کیونکہ
۵۵
اس عرصے میں اس کے اعضاء و جوارح کسی قدر حرکت کے محتاج ہوتے ہیں تا کہ پٹھوں میں سختی، جوڑوں میں لچک اور پیچ و خم ہو سکے، چار ماہ کے بعد روحِ نامیہ پر روحِ حیوانیہ کا قیام ہونے کی خاص وجہ یہ ہے کہ روحِ نامیہ اس عرصے میں اپنی طبیعت کی غایت اعتدال پر آتی ہے یعنی اس میں روحِ حیوانی کی سی لطافت پیدا ہونے لگتی ہے جس سے روحِ حیوانی کو قوّت ملتی ہے اور وہ جاگ اٹھتی ہے، اس کی مثال ایسی ہے کہ جب کوئی آتش گیر مادہ مرطوب ہو جائے تو اسے آگ نہیں لگتی پھر جب کچھ دیر تک اسے آگ پر سکھایا جائے تو وہ آگ قبول کرے گا۔
روحِ نامیہ کا وہ طبیعی اعتدال جو کبھی کسی درخت یا نبات میں نہیں ہو سکتا، انسانی جسم کے ان اعضاء کی مدد سے پیدا ہوتا ہے جو نظامِ دورانِ خون کے لئے مکمل ہوئے تھے، پس اگر سائنسدان اس علم اور اس نظام سے واقف ہو چکے ہوں، جس کے تحت نقطۂ روح یا کہ نطفہ اپنی ماں کی بچہ دانی میں پرورش پاتا ہے اور ان چیزوں کو درست اور صحیح حالت میں اس طرح رکھ سکتے ہوں جس طرح قدرتی حالت میں اس کے گرد ہوتی ہیں تو کسی خاص مشین میں نطفہ پال کر ایک قسم کا انسان پیدا کرنا یقینی ہے لیکن کسی طرح سے بھی قدرت سے بے نیاز ہو کر کوئی شے پیدا نہیں کر سکتے ہیں، گویا صرف ایک بہت چھوٹے لطیف انسان کو قبل از وقت پالنے میں کامیاب ہوئے ہیں یعنی اس میں صرف وہ نو (۹) ماہ کے عرصے سے آگے بڑھ سکتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ روحِ نامیہ کے اعتدال پر روحِ حیوانیہ کی بقا اور اس کا عدم اعتدال روحِ حیوانیہ کی فنا ہے، نیز روحِ حیوانیہ کا اعتدال نفسِ ناطقہ کی جسمانی بقا اور اس کا عدم اعتدال نفسِ ناطقہ کی جسمانی فنا ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روحِ نامیہ کی بقا کس اعتدال پر ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ روحِ نامیہ کا اعتدال غذا پر ہے جس میں پانی، ہوا وغیرہ شامل ہیں، اور جب کسی وجہ سے روحِ نامیہ کے اعتدال میں کمی واقع ہو جائے تو روحِ
۵۶
حیوانیہ کچھ دیر بے حس اور خاموش ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے روحِ ناطقہ عالمِ خواب جیسی صورت اختیار کرتی ہے اور ان تینوں کی کمزوری اس کمزوری سے بھی پست تر ہوتی ہے جو روزِ اوّل میں رحمِ مادر میں تھی کیونکہ وہ کمزوری غذا حاصل کرنے کی وجہ سے روبکمال تھی اور یہ کمزوری حرارت غریزی اور سانس وغیرہ نہ ملنے کی وجہ سے روبزوال ہے، دراین اثنا حقیقی معنوں میں روح جسم سے ہنوز جدا نہیں ہوتی ہے۔
پس اگر اس بروقت صورت میں مردے کا کوئی ایسا چارہ کیا جائے یا اس کے جسم میں کوئی ایسا انجکشن لگایا جائے جس میں روحِ حیوانی کا مادّہ یا اس خموش روح کو بیدار کرنے والی کوئی مؤثر دوا ہو تا کہ جس سے روحِ حیوانی پھر ایک دفعہ جاگ اٹھے اور تینوں روح ایک دوسرے سے اس طرح قوّت اتحاد حاصل کریں جس طرح کسی مشین کے کسی خاص پرزے کی چال سے دوسرے چلنے والے پرزوں کو مدد ملتی ہے، پھر ان پرزوں کی چال سے اس خاص پرزے کو بھی مدد ملتی ہے تو پھر اس صورت میں مرے ہوئے انسان کو زندہ کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس مردہ جسم میں حیاتین اور نامیاتی طاقت ہنوز باقی ہو ورنہ نہیں، اور ان چیزوں میں خدا کا ارادہ سب سے بالاتر ہے اور انسان جو کچھ کرتا ہے قدرت کی تیار کردہ چیزوں سے کر سکتا ہے۔
۵۷
قوّتِ شامہ ایک نئی غذا دریافت کرے گی
جن لوگوں کو اس حقیقت کا عملی یا علمی تجربہ ہو چکا ہو وہ جانتے ہیں کہ انسان کے حواسِ خمسۂ ظاہری کی توانائی میں جس طرح روحِ حیوانیہ کی طاقت موجود ہے اسی طرح روحِ انسانیہ کی روشنی بھی موجود ہے لیکن یہ روشنی روحِ حیوانیہ کے دھوئیں کی وجہ سے کسی چیز کو دکھا نہیں سکتی ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ کسی مکان میں ایک ایسا چراغ جل رہا ہو جس سے روشنی کم اور دھواں زیادہ نکل رہا ہو اور اس مکان میں بجلی کی تیز اور صاف روشنی بھی موجود ہو تو عیان ہے کہ برقی روشنی اس دھوئیں میں چھپی رہے گی جس کی وجہ سے مکان کی بعض باریک چیزیں دکھائی نہیں دیں گی، اگر دھوئیں والا چراغ بجھایا جائے تو اس سے نہ صرف ہر چیز اپنی اصلی حالت میں دکھائی دے گی بلکہ وہ ساری باریک چیزیں بھی نظر آنے لگیں گی جو دھوئیں کی تاریکی کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتی تھیں، اگر انسان اپنی روحِ حیوانیہ کے دھوئیں کو اپنے حواسِ ظاہر و باطن سے نکال سکے تو نہ صرف اپنے باطن میں قدرت کے عجائبات کا نظارہ کرے گا بلکہ حواسِ خمسۂ ظاہری سے بھی فطرت کی غیر معمولی اور پر اسرار چیزوں کو محسوس کرے گا جن میں سے ہر ایک اسے علم کی ایک نئی راہِ فکر پیدا کر دکھائے گی۔
حواسِ خمسہ میں سے دو آنکھ، دو کان، دو نتھنے، ایک منہ اور دو ہاتھ ہیں جن کے قویٰ علی الترتیب باصرہ، سامعہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ ہیں، ان میں منہ کے علاوہ
۵۸
باقی چار جفت ہیں لیکن منہ بھی ایک وجہ سے جفت ہے، اگرچہ ظاہری صورت میں جفت نہیں، یعنی منہ نطق و گفتار میں ناک کے ساتھ جفت ہے، لیکن خورد و نوش میں کسی کے ساتھ جفت نہیں، اس کی تاویل یہ ہے کہ انسان کی قوّتِ باصرہ دو قسم کی ہے ایک ظاہری اور دوسری باطنی، یہ دونوں قوّتیں جدا بھی ہیں اور ایک دوسرے سے ملی ہوئی بھی، جس طرح ظاہری دونوں آنکھیں جدا جدا بھی دیکھ سکتی ہیں اور دونوں مل کر بھی، اسی طرح قوتِ سامعہ، قوتِ شامہ اور قوتِ لامسہ بھی دو قسم کی ہیں، ایک قسم ظاہری اور دوسری باطنی ہے، ان ظاہری و باطنی قویٰ حواس کا فعل روحانی اور جسمانی طور سے مل کر بھی ہو سکتا ہے، لیکن جس طرح منہ نطق میں ناک کے ساتھ جفت ہے اسی طرح کلام ظاہری و باطنی دونوں حالتوں میں ہے اور جس طرح یہ خورد و نوش میں کسی کی جفت نہیں تو معلوم ہوا کہ عالمِ باطن میں جسمانی خورد و نوش نہیں۔
پس معلوم ہوا کہ روحانی حالت میں بھی اپنی قسم کا دیکھنا، سننا، سونگھنا ، بولنا اور چھونا ہے لیکن کھانا اور پینا نہیں، کیونکہ حواسِ خمسہ کے متحمل اعضاء میں سے منہ ایسا عضو ہے جس کا تعلق بہ لحاظِ خورد و نوش کثیف چیزوں کے ساتھ ہے اور روحانیّت میں کثیف چیزیں نہیں ہوتی ہیں، دوسرے الفاظ میں انسان جس غرض کے لئے غذا کھاتا ہے، وہ غرض لذّت، قوّت اور صحت ہوتی ہے اور یہ چیزیں کثافت سے لطافت میں زیادہ ہوتی ہیں مثلاً پھلوں کی نسبت ان کا رس زیادہ لذّت بخش اور صحت افزا ہوتا ہے، کیونکہ ذائقہ اور بو لطافت کی طرف آئی ہے اور پھوک میں برائے نام ہے، اگر اس رس کا کشید کیا جائے تو تھوڑی سی چیز میں زیادہ لذّت اور طاقت جمع ہو گی، جس طرح بعض دوائیوں کی مثال سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ماہرانِ طب جڑی بوٹیوں کو کوٹ کوٹ کر زیادہ مقدار میں ملائم سفوف بنانے کے بجائے ان جڑی بوٹیوں کا جوہر کشید کرتے ہیں، اس لئے کہ جوہر میں سب کچھ ہے نہ پھوک میں۔ تجزیۂ
۵۹
غذا کے بارے میں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر غذا کی روح اس کی بُو ہوتی ہے اور جس غذا میں بُو موجود نہ ہو یا اعضائے ہاضمہ میں جا کر مطلوبہ قسم کی بو دینے کی خاصیت نہ رکھتی ہو وہ غذا طاقت بخش نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ بو سے روح بنتی ہے اور روح میں بو ہے، دوائیوں پر سوچئے جن میں زیادہ بو ہو وہ زیادہ مؤثر ہوتی ہے، اگر ان کی بو زائل ہو چکی ہو تو وہ ناکارہ ہو جاتی ہے، جڑی بوٹیوں میں جن کی خوشبو یا بدبو نہ ہو یا کوئی خاص ذائقہ نہ ہو وہ کم مستعمل ہوتی ہیں فصلوں کی غذا میں بھی یہی مثال موجود ہے، اگر کھاد، ہوا، بارش اور دھوپ کی وجہ سے اپنی بو زائل کر چکی ہو تو وہ فصل کی بہترین غذا نہیں بن سکتی ہے۔
اس تشریح سے یہ معلوم ہوا کہ بو پُرقوت چیز ہے اور یہ نامعلوم طور پر اڑتی ہے اور ہوا سے مل جاتی ہے، جو چیز اُڑ کر غائب ہو جائے وہ روح کی مانند ہوتی ہے، جو چیز جس طرف جائے وہ اس طرف سے آئی ہوئی ہوتی ہے اور ہمیشہ آ سکتی ہے، اس بیان کا خلاصہ یہ ہوا کہ اگر کوئی شخص یا اشخاص روحانیّت کی طرف چند قدم آگے بڑھیں یا روحانیّت خود دوری نوبت کی وجہ سے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لے تو وہ حواسِ ظاہری سے عجیب و غریب چیزیں محسوس کر سکتے ہیں، جن میں سے قوتِ شامہ وہ حس ہے جو روحانی غذا یا ایٹمی خوراک براہِ سانس جسم کو مہیا کر سکتی ہے، دراصل یہ جلالی غذا مختلف خوشبوئیں ہوں گی، جن سے روح و جسم دونوں کو تقویت ملے گی۔
حضرت محمد صلعم نے فرمایا: “انی لاجد نفس الرحمان من قبل الیمن ۔ مجھے یمن کی طرف سے رحمان کی بو آ رہی ہے۔” کہتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے زمانے میں اویس قرنی نامی ایک ولی یمن میں رہتا تھا اور آنحضرت اس حدیث میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں، بہر حال یہ کوئی خالی از حقیقت مثال ہرگز نہیں بلکہ اس کے یہ معانی ہیں کہ آنحضرتؐ اس سے یہ راز انکشاف کرتے ہیں کہ جسم و روح دونوں کے لئے ایک سہارا موجود ہے۔ حضرت یوسفؑ کے مشہور قصّے میں جو قرآنِ شریف میں
۶۰
ہے یہ آیا ہے کہ یوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے ہاتھ اپنا قمیض بھیجا تاکہ اس سے ان کے باپ حضرت یعقوبؑ کی آنکھوں میں دوبارہ طاقتِ بینائی آ جائے، جب قافلہ مصر سے روانہ ہوا تو کنعان میں حضرت یعقوبؑ نے حضرت یوسف کی بو محسوس کی، معرفت پروردہ عقل جانتی ہے کہ یہ بو جو حضرت یوسفؑ کی طرف سے حضرت یعقوبؑ کو ملی تھی جس سے وہ بینا ہوئے، روحانی خوشبو تھی نہ کوئی جسمانی خوشبو۔
قرآنِ شریف کے ایسے کلمات میں مثلاً الطیبٰت من الرزق (۰۷: ۳۲) میں رزق سے خوشبوئیں یا رزق کے نچوڑ جو خواصِ بندگان کے بارے میں مستعمل ہیں اس حقیقت کی شہادت دیتی ہیں کہ روحانی طور پر بزرگانِ دین کو یہ چیزیں میسر ہو رہی تھیں، ورنہ اس کے برعکس اگر ہم رزق سے پاکیزہ چیزیں مراد لیں تو پھر اس صورت میں رزق میں پاک و ناپاک کا سوال پیدا ہو گا، حالانکہ بظاہر انبیاء و اولیاء اور عوام الناس ایک ہی قسم کا رزق کھاتے تھے، پس اگر خیر الرازقین نے اولیاء و انبیاء کے بارے میں رزق کا احسان جتایا ہے تو وہ رزق ایسا نہیں جو دوسروں کو مل رہا ہو، بہرحال دنیاوی رزق کی غایت سے مل کر یہ رزق بھی دریافت ہو گا، کیونکہ قانون یہ ہے کہ ظاہر و باطن آپس میں ملے ہوئے ہیں، جب یہ چیز کم کی جائے گی تو وہ چیز اس کی جگہ لے گی۔ اللّٰھم ارزقنا و انت خیر الرازقین ۔
۶۱
اڑن طشتری یا اور کوئی نام
حقائق الاشیاء کی تعلیم کا ایک بہترین طریق یہ ہے کہ حقیقت اس امکانی مثال میں لوگوں کے سامنے لائی جائے جس کی طرف متوجہ ہو سکتے ہوں اور جس چیز کا جیسا نام انہوں نے رکھا ہے اسی نام سے اس کا ذکرِ آغاز کیا جائے مثلاً ایٹم، اڑن طشتری وغیرہ، پھر دلائل سے انہیں سمجھانے کے ساتھ ساتھ اصلی نام ظاہر کرتے ہوئے اس کی شناخت کرائی جائے۔
حقیقی اسلام کا قانون یہ ہے کہ جس چیز کے متعلق کسی مسلم کو کچھ علم یا تجربہ حاصل نہ ہوا ہو وہ اس پر نہ ٹھہرے، کیونکہ کان، آنکھ اور دل یہ سب پوچھے جانے والے ہیں، جس طرح آج کل اڑن طشتری کی پُر اسرار مخلوق کا مسئلہ ہے جس کے متعلق بظاہر کسی دینی کتاب میں کوئی ذکر نہیں، سوائے اس کے کہ کچھ لوگوں نے بارہا دور و نزدیک سے اسے دیکھا ہے جو طاس نما چھوٹے جہاز میں انتہائی سرعت سے اڑتی جا رہی تھی، بعض خبروں کے مطابق وہ انسانی شکل کی مخلوق بتائی جاتی ہے، ایسی مخلوق واقعی پُراسرار ہو گی۔
اس غیبی مخلوق کی حقیقت کی راز افشائی کے لئے جسارت کرنے سے پہلے شاید میں اس بیان کے نتائج و انجام کا بھی خیال کر چکا ہوں کہ قبل از وقت افشائی راز کرنا، قسطاس المستقیم کے بغیر کوئی بات کہہ دینا اور سب سے بڑھ کر مذہب کے مختارِ
۶۲
برتر کی مرضی کے خلاف کسی بھید کا بتانا کس قدر خطرے کا کام ہوتا ہے، جس شخص کو ایسے خطرات کا خدشہ رہتا ہو اور اسے ہنوز موازینِ حقائق کے ذریعے اپنے مسئلوں کے متعلق کوئی اطمینان حاصل نہ ہوا ہو تو اسے چاہئے کہ بموجب من صمت نجا (جو خاموش رہا اسے نجات ملی) خاموشی اختیار کرے۔
اب اس یقینِ محکم کے اظہار کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس آسمانی مخلوق کی حقیقت کیا ہے اور وہ کہاں سے آتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کسی ایسے سیارے سے آتی ہے جس کے باشندے وہ انسان ہیں جو علم و فن کے مدارج سے گزر کر بامِ عروج پر پہنچے ہیں، آپ انہیں فرشتہ، روحانی اور ایٹمی انسان وغیرہ کہہ سکتے ہیں، کیونکہ فرشتہ یا روحانی کسی اور چیز سے پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ انسان ہی کسبِ کمال کے بعد فرشتہ اور روحانی بن جاتا ہے، ایٹمی یا اور کسی چیز کا بنا ہوا انسان بھی پہلے یہی انسان تھا لیکن فرق یہ ہے کہ وہ ایٹمی لباس حاصل کر چکا ہے اور یہ جامۂ خاکی رکھتا ہے، خدائے حکیم جو ساری کائنات کا بادشاہِ مطلق ہے ذیل کی آیت میں نہ صرف ایٹمی اور خاکی انسانوں کو یہ فرماتا ہے کہ تم ایٹمی نیچے آؤ گے اور یہ خاکی اوپر جائے گا بلکہ اس میں تمام سیارے بلکہ جملہ کائنات کے عروج و زوال کا فرمان بھی نافذ کرتا ہے، کیونکہ پادشاہِ یگانہ کے متحدہ ملک (عالم) میں جزو و کل کے لئے ایک ہی قانون ہے، لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (۸۴: ۱۹) یعنی تمہیں ایک طبق سے دوسرے طبق چڑھا دیا جائے گا۔ نیز یہ معنی کہ تمہیں ایک حال سے دوسرے حال میں بدل دیا جائے گا اور دونوں معنوں میں حقیقتِ حال ایک ہی ہے، قرآنی بیان کے مطابق انسان کا ایک حال سے دوسرے حال میں بدل جانے کی واقعیت یہ ہے کہ انسان مٹی، نبات، نطفہ، علقہ، مضغہ، عظام اور لحم سے ہو کر موجودہ حال میں آتا ہے، اگر غذا کی تبدیلی یا کسی اور حکمت سے انسانی خلقت کی خاصیت بدل جائے
۶۳
تو اس میں کوئی تعجب نہیں، کیونکہ انسان پہلے بھی کئی چیزوں سے بنتے بدلتے آیا ہے، اگر انسان کوئی ایٹمی یا روحانی غذا حاصل کر سکے اور اسے کھائے تو بالضرور وہ ثقل طبیعت سے آزاد ہو جائے گا یعنی غذا ایسی ہو کہ جس میں تری، خشکی، گرمی اور سردی ہرگز نہ ہو، تو ایسی ایٹمی یا روحانی غذا ہی سے ہو سکتا ہے کہ انسانی جسم کو کرۂ خاک کی کشش سے آزاد کیا جائے اور انسان کو جسم کی فنا سے بچایا جائے، کیونکہ جسمانی موت طبیعت کی بگاڑ سے واقع ہوتی ہے یعنی چار مخالفین کی ناچاقی اور نا اتفاقی سے انسان مر جاتا ہے۔
اب دوسرے سوال کی نوبت آتی ہے کہ وہ نوری انسان کس چیز کی تلاش میں ہمارے سیّارے کے گرد اڑ رہا ہے؟ اس کا جواب بھی چندان دشوار نہیں، اس لئے کہ خدا کی مقدس اور آخری کتاب میں ایسے تمام مسائل کے حل موجود ہیں جن سے ہم دوچار ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ (۹۵: ۰۴ تا ۰۵) “بے شک ہم نے انسان کو ایک بہترین ترتیب میں پیدا کیا ہے پھر ہم نے اسے پست ترین مقام میں واپس کر دیا ہے۔” یعنی اس آیت میں بھی سارے انسانوں کے لئے حکمِ کلّی ہے جو فرماتا ہے کہ انسان کو ایک بہترین ترتیب میں پیدا کیا گیا اور زندگی کے بامِ عروج پر چڑھا دیا اور پھر اسے پست ترین مقام میں لایا گیا ہے، اگر یہ حقیقت مان لی جائے کہ اس فعلِ خدا کا اطلاق نوری اور خاکی، دونوں قسم کی انسانوں پر واقع ہو چکا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نوری انسان کو موجودہ حالت کے برعکس اعلیٰ علیین سے اسفل سافلین لایا گیا تھا اور خاکی انسان کو موجودہ حالت کے برعکس اسفل سافلین سے اعلیٰ علیین پہنچایا گیا تھا، کیونکہ ان دونوں قسم کے انسانوں میں سے کسی ایک کو تقدمِ زمانی کا فضل ثابت نہیں، ان دونوں پر احسنِ تقویم سے پیدا کرنے اور اسفل سافلین
۶۴
واپس بلانے کا فعل بلا امتیاز ختم ہو چکا ہے، لیکن نوری اور خاکی انسان کے متعلق یہ تصور ضروری نہیں کہ انسانی زندگی کے اس لاانتہا نشیب و فراز کا تبادلہ صرف دو سیّاروں کے درمیان ہی رہے۔
اب اس سوال کا جواب کہ وہ نوری مخلوق کس چیز کی تلاش میں ہے؟ یہ ہے کہ قانونِ فطرت یا قدرت کا ارادہ ایسا ہے کہ ہر چیز کی ارتقاء حدِ کمال کے بعد روبزوال ہو جائے اور ہر زوال ازسرِ نو روبکمال ہو جائے اس کی مثال خدا کا وہی قانون یا عادت ہے جو ہرگز نہیں بدلے گی یعنی ہر چیز کو اس کی ضد ہی سے پیدا کرتا رہے گا، جس کی شہادت قرآن میں موجود ہے کہ زندگی اور موت، شب و روز وغیرہ ایک دوسرے سے پیدا کئے جاتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں، ان دو مخالف حالتوں کو اگر ہم روحانیّت و جسمانیّت سمجھیں یا حیات و ممات تصور کریں یا آخرت و دنیا، بہر حال یہ میزانِ عدل کے خلاف اور حق سے دور نہ ہو گا، اگر ہم کسی جفت میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح دیں جس کے بارے میں خدائے عادل نے فرمایا ہے کہ: وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ (۵۵: ۰۹) “اور (حقائق کے) وزن قسط کے ساتھ برابر رکھو اور ترازو میں کمی نہ کرو۔” مثلاً عقلِ سلیم کے لئے یہ نکتہ پسندیدہ ہو گا کہ جتنی آخرت ضروری ہے اتنی دنیا بھی ضروری ہے کیونکہ دنیا ہی تو آخرت کی کشت گاہ ہے، اس میں کچھ بوئے بغیر وہاں کوئی کیا فصل کاٹے گا، اور اگر دنیا کے بارے میں کوئی ایسا حکم کیا گیا ہو، جس سے دنیا کی کچھ اہمیت نہ ہو تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسے امر کا اطلاق ان لوگوں کے احوال پر ہے، جن کا نصب العین محض دنیاوی ہو اور وہ آخرت سے غافل ہوئے ہوں، اس لئے کہ دنیا کلیۃً شر نہیں اور نہ آخرت کلیۃً خیر ہے جس طرح دنیا میں بھلائی اور برائی دونوں موجود ہیں، اسی طرح آخرت میں ثواب و عقاب دونوں موجود ہیں، دنیا کی بھلائی و برائی اور آخرت کے
۶۵
ثواب و عقاب کا انحصار انسان کے اپنے اعمال پر ہے، پس جو کچھ بھی دنیا و آخرت کے متعلق فرمایا گیا ہے وہ انسانوں کے اعمال کی نسبت سے فرمایا گیا ہے، مثلاً دنیا کے معنی ہیں قریب اور آخرت کے معنی ہیں بعید، یہ دو نام اس کائنات کے دو حصے ظاہر نہیں کر سکتے ہیں، جس سے ہم یہ سمجھتے کہ یہاں سے یہاں تک دنیا ہے اور وہاں سے وہاں تک آخرت ہے، بلکہ یہ دو لفظ “دنیا و آخرت” انسان کی موجودہ حالت اور آئندہ حالت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اگر نوری انسان کسی ایسے سیّارے سے اس زمین پر اترنے والے ہوں جو کمالِ تخلیق و تعمیر سے بہشتِ برین بن چکا ہو تو ان پر یہ کوئی ظلم ہرگز نہیں کہ انہیں اس جنت سے یہاں لایا گیا، کیونکہ خدا کی تائید میں علم و فن، تخلیق و تعمیر ہی لذّتوں کی جنت تھی، گویا اعمال میں حقیقی خوشی تھی، نہ کسی خالی چیز کے دیکھنے میں، پس ایسے روحانین اگر اس دنیا کو بھی جنت بنانے کے لئے آئیں تو نہ صرف انہیں اس کی تعمیر و تخلیق کی خوشی ہو گی بلکہ دنیا والے بھی خوش و خرم رہیں گے، کیونکہ وہ ان کی جانوں کی حیثیت سے رہیں گے، پس اس چیز کے لئے ان کی تلاش ہے۔
۶۶
انسان کی اصلی زندگی روح القدس میں
انسان اپنے مستقر سے جدا ہو کر بطورِ مسافر اس زمین پر آیا ہوا ہے اور اسے عالمِ بالا واپس جانا اس قدر ضروری ہے جس قدر ایک مسافر اپنا مقصد حاصل کرنے کے بعد ضروری طور پر اپنے وطن واپس جاتا ہے اس لئے فرمایا گیا ہے حب الوطن من الایمان “وطن کی محبت ایمان میں سے ہے۔” یہی وطن روح کا اصلی اور دائمی وطن ہے اور جس کی محبت اس کا ایمان ہے، اس دنیاوی سفر کے دوران روحِ انسانی جو کچھ علم و معرفت کی غنیمت حاصل کر سکتی ہے وہ اس حدیث سے عیان ہے: “سافروا تغتنموا ۔ سفر کرو تا کہ تم مالِ غنیمت لے سکو۔” اور اس دنیا میں روح کو جو تکلیف و مشقت لازمی طور پر ملتی ہے اس کی ترجمانی اس حدیث میں ہے کہ السفر من السقر۔ سفر جہنم کے عذاب سے ہے۔
مومن کی جزوی روح جب اپنی کلّی روح سے جدا ہو کر اس دنیا میں آئی ہے تو اس کی یہ مختصر سی زندگی حقیقت میں موت شمار ہوتی ہے جس طرح کہ گندم کا دانہ یا درخت کی گٹھلی غلہ یا درخت سے دور کسی زمین میں کھو جائے تو یہ اس کی موت ہے، یہ چیزیں یہاں سے ختم بھی ہو سکتی ہیں اور زندہ بھی، ختم اس صورت میں کہ جب کوئی جانور انہیں کھا جائے یا اسی طرح افتادہ صورت میں ضائع ہو جائیں جبکہ ان کی ازسرِ نو زندہ ہونے کی صورت یہ ہے کہ وہ کسی مناسب جگہ اور موزون وقت میں زمین میں ایک دفعہ
۶۷
اپنی خودی کو فنا کریں تا کہ فنا کے بعد اصلی بقاء انہیں مل جائے، ان کی بقاء کی نشانی یہ ہے کہ اس ایک دانے سے سینکڑوں کی تعداد میں گندم اور اس ایک گٹھلی سے ایک میوہ دار درخت پیدا ہو گا۔
اسی طرح جزوی طور پر پہلے فنا پھر بقاء ہے، اگر جزوی روح اس حیات نما موت کو فنائی خودی کی حد تک نہ پہنچا سکی تو یہ حقیقی بقا کی مستحق نہیں ہو سکتی ہے چنانچہ حضرت محمد صلعم کا یہ فرمان اس حقیقت کا مصداق ہے:
المومن لا یموت الا ینتقل من دار الفناء الی دارالبقاء یعنی مومن نہیں مرتا ہے بلکہ دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرتا ہے۔ پھر اگر مومن کی روح جسم سے جدا ہوتے وقت نہیں مرتی اور زندگی کے گھر کی طرف کوچ کرتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنی زندگی کے گھر میں پہنچتے ہی زندہ ہو جاتی ہے اور جتنے عرصے تک اس خانۂ حیات سے باہر رہی اتنے عرصے یہ موت کی ظلمت میں پوشیدہ تھی، اس آیۂ کریمہ میں بھی مطلوبہ حقیقت تفصیلاً موجود ہے۔ وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌؕ-قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ (۰۶: ۹۸) “اور (اللہ) وہی ہے جس نے تمہیں ایک نفسِ (کل) سے پیدا کیا، پس جائے قرار اور جائے امانت ہے بلاشک سمجھنے والوں کے لئے ہم نے نشانیوں کی تفصیل کی ہے۔” نفسِ واحدہ نفسِ کلّ کا نام ہے، اس سے ارواحِ قدسی پیدا ہوئیں اور ان میں انسانی بقاء کا مستقر یعنی دائمی زندگی ہے، ان کے مظاہرات انسان کے اجسام ہیں جو یہی انسانی حیات کے مستودع ہیں، اس صورت میں انسان کی ایک چوتھی روح ثابت ہوئی جس کے متعلق وہ بھول چکا ہے، جس طرح انسان نفسِ نامیہ کی بقاء میں نفسِ حیوانیہ کو اور نفسِ حیوانیہ کی بقاء میں نفسِ ناطقہ کو نہ پہچانتا تھا، اسی طرح
۶۸
محض نفسِ ناطقہ کی بقاء میں انسان روحِ قدسی سے غافل رہتا ہے، لیکن جس طرح انسان اگلے مراتب سے گزرا ہے اسی طرح روحِ قدسی سے بھی بصورتِ اختیار یا اضطرار دوچار ہو جاتا ہے کیونکہ حقیقت میں خدا کی معرفت یا قیامت اسی روح القدس کو پہچاننے سے ہوتی ہے جیسا کہ رسول صلعم نے فرمایا ہے: من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ۔ “یعنی جس نے اپنی روح کو پہچان لیا بلاشک اس نے اپنے پروردگار کو پہچان لیا۔” بالفاظِ دیگر انسان اپنی بالاتر روح میں خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے نہ کسی پست تر روح میں، انسان کی بالاتر روح روح القدس ہے اور یہی روح صفاتِ الٰہیہ کا آئینۂ جمال و جلال ہو سکتی ہے۔
مستقر اور مستودع کی مثال سورج اور اس کے عکس کی ہے جو کسی آئینے میں نظر آتا ہو، آئینے سے ظاہر ہونے کے لئے سورج کا اپنی جگہ چھوڑنا اور کلیۃً آئینے میں سمو جانا ضروری نہیں، بلکہ سورج اپنے نورانی اثر سے اپنا عکس آئینے سے ظاہر کر سکتا ہے جب تک آئینے کا رُخ سورج کی طرف رہے تو اس میں سورج کا عکس نظر آئے گا اور جس وقت آئینہ کو سورج کی طرف سے الٹایا جائے تو روشنی اور عکس اس سے ناپید ہوگا، اگر ہم دیکھیں تو آئینے سے سورج کی طرف کوئی مادہ نہیں جاتا ہے، سوائے اس کے کہ اگر سورج کا یہ فعل بالارادہ ہوتا تو ان کارناموں کو اپناتا اور انہیں زندہ تصویریں بنا کر ان سے حظ اٹھاتا جن کو اس آئینے کی وساطت سے اس نے انجام دیا تھا۔
۶۹
دائمی اور چند روزہ بقاء
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خدائے برتر کی ذات و صفات قدیم ہیں، اس لئے اس کی عادت میں کوئی تبدیلی نہیں پائی جاتی ہے، جیسا کہ خود فرماتا ہے: فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا ﳛ وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِیْلًا (۳۵: ۴۳) “پس تجھے اللہ کی عادت میں کوئی تبدیلی نہ ملے گی، اور ہرگز تجھے اللہ کی عادت میں تحویل نہ ملے گی۔” سنت سے مراد عادت یا دستور ہے اور یہ صفاتِ الٰہیہ کے افعال کی مجموعی حیثیت کا نام ہے، تبدیل کے معنی ایک چیز کی بجائے دوسری چیز اختیار کرنا ہے اور تحویل کے معنی اسی موجودہ چیز کی حالت میں تغیر لانا ہے پس فرماتا ہے کہ اے محمد باآنکہ تو مقاماتِ معرفت کے بلند ترین درجے پر ہے تجھے اللہ کے اس بہترین دستور کے سوا اور کوئی ایسا دستور نہیں ملے گا جس کو کسی وجہ سے اس پر ترجیح دی جا سکے اور کلیۃً اس دستور کو اُس دستور میں بدل دیا جائے اور نہ کوئی ایسی صفات ممکن ہیں جن کو اس میں بتدریج شامل کرنے سے تغیر آ جائے بلکہ اللہ کی عادت یا دستور صدق و عدل کی تمامیت و کمالیت کی وجہ سے بے بدل ہے۔
جس طرح ذکر کیا گیا کہ صفاتِ الٰہیہ کے افعال کی مجموعی حیثیت کا نام دستورِ قدرت یا عادتِ الٰہی ہے اور یہی خدا کی قدیم یعنی بے بدل عادت ہے، اب یہ سوال پیدا ہو گا کہ اگر خدائی قانون بے بدل ہے تو مکان و زمان کے زیرِ اثر کائنات
۷۰
و موجودات میں اتنی تبدیلی کس وجہ سے اور کہاں سے آرہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کائنات و موجودات نفسِ کلّ اور جسمِ کلّ کے اجزاء ہیں، اور یہ اپنے ناتمامی کی وجہ سے اپنے کلّ کے بسط و حصار میں متبدل و متحرک ہوتے ہیں، لیکن نفسِ کلّ اور جسمِ کلّ اپنی تمامی کی وجہ سے اپنے بسط میں غیر متبدل و ساکن ہیں، جس طرح جسمِ کلّ یعنی عالم کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اس سے زیادہ وسیع تر ہو جائے یا تنگ تر ہو جائے یا اپنی جگہ چھوڑ کر اور کہیں چلا جائے، اسی طرح نفسِ کلّ کا قیاس ہے پس بدین دلیل کل کلیات میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں اور وہی خدا کی عادت اور دستور ہے جو بے بدل ہے۔
قانونِ قدرت کی لاتبدیلی کی ایک اور صورت یہ ہے کہ ہر چیز کی جزوی تبدیلی اور کلّی یک حالی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، اس کی مثال یہ ہے کہ عناصرِ اربعہ میں کلّی طور پر کوئی تبدیلی نہیں اور ان سے پیدا ہونے والی چیزوں میں تبدیلی ہے، روشنی کے منبع (سورج) میں کوئی تبدیلی نہیں اور سیّاروں کے تقابل میں تبدیلی ہے۔
اسی طرح انسان کی بقاء کا بھی یہی حال ہے کہ وہ جزوی طور پر متغیر و متبدل ہے اور کلّی طور پر قدیم و بے بدل ہے، انسان کی جو حیات متبدل ہے وہ چند روزہ جسمانی بقا ہے اور جو زندگی بے بدل ہے وہ دائمی اور روحانی حیاتِ طیبہ ہے، اگر انسان کی اس حیاتِ جاویدانی کو بیداری اور اس عمرِ بے ثبات کو خواب سے تشبیہہ دی گئی ہو تو کیا تعجب ہے جو مقابلتاً اُسے حیاتِ حقیقی اور اسے موتِ مجازی کہا جائے لیکن بہر کیف جزوی بقا سے کلّی بقاء میں انسان کی تبدیلی یقینی ہے، اس حقیقت کے مثالی تصورات جسمانیّت میں سے یہ ہیں کہ پانی کا قطرہ جب سمندر سے جدا ہو جاتا ہے تو یہ اپنی دائمی اور کلی بقاء (جو سمندر میں ہے) اپنے ساتھ نہیں لا سکتا ہے بلکہ وہ اپنی وسعت کے مطابق ایک جزوی بقا رکھتا ہے، اب اس قطرہ اور سمندر کی وحدت اور دوئی کے لحاظ سے دو تصور قائم کئے جا سکتے ہیں، پہلا تصوّر یہ کہ قطرہ اور
۷۱
سمندر ایک ہی پانی ہے جس کی خاصیت ایک ہی ہے اور یہ دونوں بحیثیتِ جزو و کل ایک ہیں، پس قطرہ کی دائمی بقا کلّ میں ہے، دوسرا تصوّر یہ کہ قطرہ اور سمندر بحیثیتِ مکان دو ہیں جن کی توانائی میں زمین و آسمان کا فرق ہے یعنی سمندر وہ ہے جو کرۂ ارض کی تین چوتھائی کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ بارش برسا کر دنیا کی ساری آبادی کو سیراب کر سکتا ہے، اس کے برعکس قطرہ وہ ہے جسے ہوا یا کسی زبردست پانی کی معیّت کے بغیر سمندر سے جا ملنا دشوار نہیں بلکہ غیر ممکن ہے پس اس صورت میں قطرہ اور سمندر کی دوئی ہے لیکن قطرہ کی یہ کمزوری اور دوری اس کی خاصیت اور جوہر کی وجہ سے نہیں بلکہ جبری اور عارضی ہے جو سورج کی تپش کی وجہ سے اس پر واقع ہوئی ہے پھر جو چیز کسی جبری یا عارضی حالت میں ہو وہ اس حالت سے گزرنے والی ہے۔
پس جب یہ قطرہ سمندر میں مل جائے تو اس کی جزوی بقاء کلّی بقاء میں منتقل ہو جاتی ہے، اب قطرہ اور سمندر کی وحدت کا یہ حال ہے کہ سمندر میں قطرے کا نام ہے نہ نشان، قطرے کی وہ جزوی تاریخ بھی سمندر کی تاریخ بنی ہوئی ہے اور سمندر کی کلّی تواریخ قطرے کی تواریخ بنی ہوئی ہے اور دونوں کی بقاء سے دوئی اُٹھ گئی ہے۔
دوسری مثال یہ ہے کہ سورج ایک غیر متبدل شے ہے اس کی روشنی بسیط عالم میں یکسان طور پر پھیلتی ہے جس سے کائنات کی سطحی چیزیں روشن ہوتی ہیں اور ان میں بعض ایسی شفاف چیزیں بھی ہیں جن میں سے کچھ مقدار میں روشنی نظر آتی ہے، یہ روشنی اپنے منبع سے جدا نہیں ہو سکتی ہے ایسی چیزوں کی عارضی روشنی کو انسان کی چند روزہ بقاء تصوّر کیجئے اور سورج کی جوہری روشنی کو انسان کی دائمی بقا فرض کیجئے، نیز سورج کی سیدھ سے کسی چیز کا رُخ بدل جانا انسان کی جسمانی فنا کی مثال سمجھ لیجئے، اب ظاہر ہے کہ اس قسم کی جسمانی فنا کے بعد انسان کی دائمی بقاء میسر ہو سکتی ہے۔
اس مقام پر کوئی یہ پوچھے کہ اگر انسان کی ایک دائمی حیات موجود ہے تو اس
۷۲
نے اپنی گزری ہوئی ایک پرلذّت زندگی کو کس طرح بھلا دیا ہے، جس کے متعلق کچھ یاد نہیں؟ اور جب دوبارہ انسان اس حیاتِ دائمی میں زندہ ہو جائے تو اس کے احساسات و ادراکات ماضی و حال و مستقبل کے متعلق کیسے ہوں گے وغیرہ؟ ان سوالات کے جوابات یہ ہیں کہ انسان اس دنیا میں علم کی تلاش میں آیا ہے جو اسے خدا کی اطاعت اور اعمالِ صالحہ کی مدد سے بصورتِ معرفتِ نفس مل سکتا ہے اور اس اثناء میں جسم کے تعلق کی وجہ سے ایسے نسیان سے گزرا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی روحانی سرگزشت بھول چکا ہے، پھر جب یہ عالمِ بالا کی دائمی بقاء سے متصل ہو جائے تو اسے ایسا معلوم ہو گا جیسا کہ وہ دائم اس جہان میں موجود تھا۔ اس صورت میں وہ ماضی و حال و مستقبل سے برتر ہو گا، اس لئے کہ عالمِ امر فوق الزمان و المکان (زمان و مکان سے برتر) ہے، یعنی روح القدس کے سامنے وہ زندہ تصویریں ہوں گی جن کو وہ چاہتا ہو گو کسی زمانے کا کیوں نہ ہو۔ بحکم لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ (۵۰: ۳۵) ان کے لئے بہشت میں ہر وہ چیز ہے جس کو وہ چاہتے ہیں، اور ہمارے پاس اس سے بھی زیاہ ہے۔
بقائے عالیہ تک انسان کی رسائی کی امکانیّت کے اثبات کے لئے نفسِ کلّ کا یہی فرمان ازبس ہے۔ یا بنی اٰدم اطعنی اجعلک مثلی حیاً لا یموت و عزیزاً لا یزل و غنیاً لا یفتقر ۔ اے بنی آدم میری اطاعت کر تا کہ میں تجھے اپنی مانند زندۂ نامیرندہ، عزیزِ بے ذلت اور توانگرِ بے احتیاج بنا دوں گا۔ یہ مقام نفسِ کلّ کا ہے لیکن باری سبحانہ مثل و مانند سے برتر ہے۔
حیاتِ جاویدانی کا یہ بلند ترین مرتبہ ابرار کے لئے نعیم مقیم ہو گا اور ان کی بقاء نفسِ کلّی کی بقاء سے بلا فرق ملی ہوگی، انہیں ایسا معلوم ہو گا جیسا کہ کچھ دیر حیاتِ جزوی کے خوابِ غفلت میں سو گئے تھے اب وہ جاگ گئے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ کوئی وقت
۷۳
ان سے فوت نہیں ہوا کیونکہ وہ زمان سے برتر مقام پر ہیں جسے لامکان و لا زمان کہتے ہیں، جس میں کسی چیز کے درک کرنے اور اسے دیکھنے کے لئے مکان و زمان کی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہاں ہر چیز ارادہ کے تابع رہتی ہے۔
كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّیُّوْنَ كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ یَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) ۔ ایسا نہیں بے شک نیکیوں کی کتاب عالمِ بالا میں ہے اور تجھے کس چیز نے درک کرایا کہ عالمِ بالا کیا ہے؟ وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے جس کے پاس مقرب لوگ حاضر ہوتے ہیں۔
اس آیت کا مفہوم اسی طرح ہے کہ ابرار کے اعمال نامے اجتماعی طو پر عالمِ بالا یعنی نفسِ کلّی میں ہیں جو اس مکان و زمان سے بالاتر ہے۔ “اور کس چیز نے تجھے درک کرا دیا۔” آنحضرت کے ان احوال کی طرف اشارہ ہے جو قبل از معراج تھے، کتابِ مرقوم سے وہ کتاب مراد ہے جس کی کتابت کسی ضد رنگ سے نہ ہو بلکہ کاغذ کی ذات میں سرشتی تفاوت سے ہو جس طرح بعض کاغذ کی بناوٹ میں ہوتی ہے، یعنی نفسِ کلّی خود ایسی کتاب ہے جس کی ذات میں نوشتۂ قدرت موجود ہے اور اس میں کسی ضد کے لئے ہرگز راہ نہیں، مقرب لوگ اس کتاب کے پاس حاضر ہوتے ہیں یعنی اس کتاب میں مندرجہ اعمال کے وقوعات کا وہ عینی مشاہدہ کرتے ہیں۔
نفوسِ ابرار کی وحدت اور اس بلند مرتبہ تک رسائی کے بارے میں ہے: انما المومنون اخوۃ و الانبیاء کنفس واحدۃ ۔ “تمام امتوں کے مومنین بھائی ہیں اور سارے پیغمبر ایک جان کی مانند ہیں۔ “اگر انبیاء ایک جان کی مانند ہیں تو اُن کا قانون بھی ایک ہے، چنانچہ ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا کہ جو کوئی میری اطاعت کرے وہ مجھ سے ہے۔”
۷۴
فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ (۱۴: ۳۶) ۔ پس ہر پیغمبر کا تابعدار اس سے جدا نہیں۔ اس صورت میں انبیاء اور ابرار کی جان ایک ہے، جیسا کہ فرمایا کہ: مَا خَلْقُكُمْ وَ لَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍؕ ۔ (۳۱: ۲۸) یعنی تمہاری پیدائش اور زندہ ہونا ایک جان کی طرح ہے۔ نیکوں کی روحانی وحدت اس حقیقت سے عیان ہوئی کہ ان سب کی ایک ہی کتاب ہے جو نفسِ کلّ ہے جس کی تحریر ذاتی ہے یعنی نفسِ کلّ ان سب کی جان ہے چونکہ عملِ عظیم سے روحِ کلّ بنتی ہے، وہ کتاب کی ذاتی تحریر ہی میں ظاہر ہو سکتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے اور دوسرے کے اعمال کی روحانی حقیقت زندہ تصویروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
۷۵
حقائقِ کن فیکون
باری سبحانہ کا امر کلمۂ کن میں ہے، عالمِ خلقی اور عالمِ امری کا وہی فرمان روائے مطلق ہے، اس کی ذاتِ پاک خلقت و صنعت کے فعل سے برتر و منزہ ہے، ارواح و اشیاء اس کے فرمان سے حدِ خلق و امر سے گزرتی ہیں وہ خلق و امر دونوں کا پروردگار ہے ۔ “اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُؕ-تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ (۰۷: ۵۴) آگاہ ہو کہ خلق اور امر اسی کے ہیں، بہت برکت والا ہے اللہ جو عالموں کا پروردگار ہے۔” یعنی عالمِ اجسام و عالمِ ارواح کا وہی پادشاہ ہے اور ان دونوں میں اس کی نعمتیں لا انتہا ہیں، اور وہ خلق و امر دونوں کا پروردگار ہے۔
امر سے مراد فرمانِ الٰہی اور وہ ارواح ہیں جو حدِ تمامی میں ہوں جن پر کلمۂ کن واقع ہوتا ہو، چنانچہ فرماتا ہے۔ “بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۔ (۰۲: ۱۱۷) ۔ آسمانوں اور زمین کی ایجاد کرنے والا، اور جب کوئی امر تمام ہو جائے تو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ اسے کہتا ہے “ہو جا” پس وہ ہو جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں کوئی شک نہیں رہا کہ باری سبحان نے آسمانوں اور زمین کو امرِ کُنۡ سے بطریقِ ابداع پیدا کیا ہے اور جب ان میں کوئی امر حدِ تمامی میں پہنچے تو اسے صرف کُنۡ فرماتا ہے جس سے وہ ہو جاتا ہے جس طرح جدا وقتوں میں حضرت آدمؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی جسمانی تخلیق اور روحانی تکمیل کے بعد خدائے حکیم نے انہیں
۷۶
“کن” فرمایا جس سے وہ امر بن گئے، یعنی ان میں روحِ قدسی آئی اور عالمِ امر سے متصل ہوئے، چنانچہ فرمایا: “اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ۔ (۰۳: ۵۹)۔ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی مانند ہے، اس (عیسیٰ ) کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس سے کہا کہ ہو جا پس ہوا۔” اس آیت میں “اس کو مٹی سے پیدا کیا۔” آدم اور عیسیٰ دونوں کی ہمان گونہ فطرت، جسمانی نشونمائی اور روحِ ناطقہ کی تکمیل کی طرف اشارہ ہے جس میں انہیں دوسرے انسانوں سے کوئی امتیاز نہیں، لیکن اس کے بعد انہیں کلمۂ کُنۡ کہنا ان کے “موجودِ حق” ہونے کی دلیل ہے جس سے ان کا اختصاصی درجہ ظاہر ہے۔
مذکورہ بیان سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ بادشاہِ مطلق کے امرِ کل سے عالم کی ایجاد ہوئی، اسی طرح اب بھی جب کوئی شے “خلق” میں تمام ہو جائے تو اسے “امر” بنانے کے لئے “کُنۡ” فرمایا جاتا ہے جس سے وہ شیٔ بحقیقت ہست ہو جاتی ہے، اب چاہئے کہ “کلمۂ کُنۡ” کی واقعیت کے بارے میں کچھ حقائق بیان کئے جائیں تا کہ طالبِ حقائق کو یہ معلوم ہو جائے کہ “کلمۂ کُنۡ” ایک ایسا سرِ عظیم ہے جس میں قدرت کی جملہ کارکردگی کی رمزی ترجمانی موجود ہے، کلمۂ کُنۡ نہ صرف عربی میں ہے بلکہ وہ دنیا کی ساری زبانوں میں ہو سکتا ہے، چنانچہ فرمایا “اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَاۤ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (۱۶: ۴۰)۔ کسی چیز کے لئے ہمارا قول سوائے اس کے کچھ نہیں جب ہم چاہیں کہ اسے “ہو جا” کہیں تو وہ ہو جاتی ہے۔”
اس حقیقت کے بارے میں قرآنِ پاک کی ایک اور آیت۔ اِنَّمَاۤ اَمْرُهٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیْــٴًـا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (۳۶: ۸۲)۔
۷۷
“اس کا امر سوائے اس کے کچھ نہیں جب کسی شے کو وہ کہنا چاہے کہ “ہو جا” تو وہ ہو جاتی ہے۔” یعنی ہر چیز میں یہ فطری صلاحیت اور قدرتی ہدایت موجود ہے کہ وہ جسمانی اور روحانی تمامی کے بعد خود بخود عالمِ امر سے متصل ہو جاتی ہے، پس کسی چیز کا عالمِ امر سے متصل ہو جانا باری سبحانہ کا عملی فرمان ہے، اس مقام پر قدرت کا ارادہ، امر اور مامور کی وحدت ہوتی ہے۔ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (۳۶: ۳۸) اس توانا و دانا کی تقدیر وہی ہے۔
ہر چیز کو قدرت کی طرف سے ایک خاص وضع اور ایک قسم کی فطری ہدایت دی گئی ہے جس کے مطابق وہ دائم عمل کرتی رہتی ہے۔ افلاک، اجرام، طبائع اور موالید میں بشکل طبیعت یا بشکلِ روح یہ فطری ہدایت موجود ہوتی ہے، پھر یہ ساری چیزیں اس فطری ہدایت کی ترتیب کے لحاظ سے سبیلِ ارتقاء میں رخ بہ معاد ایک سے ایک آگے ہوتی ہیں، چنانچہ احکم الحاکمین فرماتے ہیں: “قُلْ كُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰى شَاكِلَتِهٖؕ-فَرَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اَهْدٰى سَبِیْلًا (۱۷: ۸۴)۔ اے رسول تم کہدو کہ ہر ایک اپنی وضع کے مطابق عمل کرتا ہے پس تمہارا پروردگار اسے بہتر جانتا ہے جو راستے کی ہدایت میں سب سے آگے ہو۔” پس عجب نہیں اگر ہر چیز اس سبیلِ ارتقاء کی منزل “اھدیٰ” سے آگے اس صلاح سے چلے اور کام کر لے کہ جس میں ارادہ، امر اور عمل کی حقیقت ایک ہو۔
۷۸
تسخیرِ روح اور تسخیرِ کائنات
تسخیرِ کائنات کے اسرار جویندگان ایک ایسی کٹھن منزل پر پہنچ رہے ہیں، جہاں انہیں طوعاً و کرھاً اپنا تحقیقاتی نظریہ بدلنا پڑے گا، ایسے سائنسی مفکرین کے موجودہ اور آئندہ نظریہ کا فرق اتنا ہوگا، جتنا کہ کسی ثمردار درخت پر چڑھنے کے لئے اس کے تنا اور شاخ کے راستے میں فرق ہوتا ہے، اگر درخت کی کوئی شاخ انسان کی دست رس حد تک پست یا جھکی ہوئی ہو، تو اس صورت میں درخت پر چڑھا جا سکتا ہے، ورنہ بصورتِ عکس ناممکن ہے، یہ اس حقیقت کی مثال ہے کہ درخت کائنات، اس کا تنا روح اور اس کی شاخ مادّہ (جسم) ہے، اس کا یہ مطلب ہوا کہ تسخیرِ روح کے بغیر تسخیرِ کائنات غیر ممکن ہے۔
اگرچہ سائنسدان طبقہ بحقیقت موجودہ صورت میں بھی تسخیرِ روح سے بے نیاز نہیں ہو سکتے ہیں، تاہم اس کی بڑی سخت ضرورت اس وقت پڑے گی، جب انہیں ساری کائنات میں روح چھائی ہوئی نظر آئے گی، کیونکہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ انسانوں کی اجتماعی ارتقاء کی منازل اوّل تا آخر محض مادّیاتی معلومات کے سوا کچھ نہ ہوں، بلکہ دراصل ان کے عروج کا نصف آخر راستہ روحانی منازل میں بٹا ہوا ہے، بالفاظِ دیگر اس عالم میں شب و روز کی مانند جسمانی اور روحانی دو عظیم دور دائم روان ہیں، جو مرورِ ایام کے بعد ایک دوسرے کے حاصل کردہ آثارات اسی طرح مٹا کر غیر معلوم
۷۹
کر دیتے ہیں، جس طرح شب روشنی کو اور روز تاریکی کو محو کر دیتا ہے، بدین گونہ انسانی زندگی ایک ایسے روحانی دور سے گزر جانے والی ہے جس کی ترقی کے زیرِ اثر اس دور کی مفید ترین ایجادات بھی ناقابلِ استعمال اور بعد ازان معدوم ہوں گی۔
اس عظیم الشّان عالمی روحانی انقلاب کا پیش خیمہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی وجہ سے جوہرِ ہیولیٰ کے انتہائی چھوٹے اڑتے ذرّات (بسببِ صلاحیّت و لطافت جن پر روح تصرف رکھتی ہے) انسانوں میں سرایت کر جائیں گے، جن کا اثر ہر انسان پر اس کے ذاتی اعتقادی تصوّر اور اس کی دانش و عمل کے مطابق ہوگا، یہ ذرّات جملہ مادّیاتی اور روحانی خصائص کے حامل ہونے کے باعث انسان کے حواس و مدرکات کو ایک سخت ترین تجربہ کے بعد طاقتور و تیز تر بنا دیں گے، یہاں تک کہ انسانی دماغ مشاہدہ اور گفت و شنود کے لئے کسی بھی جسمانی آلے کا محتاج نہ رہے گا، ان زندہ ذرّاتِ جوہری کے ساتھ کچھ آسمانی انسان بھی نازل ہوں گے جن کی بعض نشانیاں ایسی ہوں گی کہ وہ اپنی سرعتِ گفتار و کردار کے باعث اور اپنے نوری جسم کے شہود و غیب کی وجہ سے اور اپنی زبردست ہیبت کے سبب سے برق کی مانند ہوں گے، وہ نہایت فصاحت و بلاغت سے ہر بولی بول سکیں گے، ان کا سانس وغیرہ نہیں، انہیں کوئی شے حجاب نہیں ہو سکے گی، ہو سکتا ہے کہ بعض نفسانی چیزوں سے ابتداء میں وہ نفرت رکھیں، پس ان کی مدد سے انسان حقیقی معنوں میں تسخیرِ کائنات کے لئے مصروفِ عمل ہو سکتا ہے۔
خدا کی آخری کتاب کا نتیجہ خیز مطالعہ، بزرگوں کے رموز کا تجزیہ اور صوفیانہ تجربہ کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سیّارے کے انسانوں کے علاوہ انسانوں کے آٹھ قسم کے گروہ اور بھی ہیں، ان میں سے ایک بن دیکھے گروہ اسی سیّارہ پر موجود ہے اور سات گروہ دوسرے سیّاروں میں رہتے ہیں، ان آٹھ قسم کے روحانیوں کے
۸۰
اجسام گرمی، سردی، تری اور خشکی سے بالاتر مختلف جوہروں سے ہو سکتے ہیں، آپ اگر چاہیں تو انہیں فرشتہ، روحانی، دوسرے سیّاروں کے انسان اور بہشت کی مخلوق وغیرہ سے یاد کر سکتے ہیں، کیونکہ ان سب کی حقیقت ایک ہی ہے، ابتداء میں یہ انسان تھے اور اب بھی شکل و شباہت میں انسان ہی ہیں، صرف فرق ان میں اور اُن میں اتنا ہے کہ وہ تسخیرِ کائنات کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچ چکے ہیں، اور انہوں نے اپنی ذات کی معرفت میں اپنے ربّ کی اور اس کی پیدا کردہ کائنات کی شناخت حاصل کر لی ہے، پس وہ اپنے ربّ کی طرف سے نوازے ہوئے ہیں۔
اس حقیقت کی پہلی دلیل بقولِ خدائے جلیل: وَّ بَنَیْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا۔ (۷۸: ۱۲) “اور ہم نے تم سے برتر سات (قسم کے) سخت بنایا۔” یہ درست ہے کہ “خلق الانسان” اس نے انسان پیدا کیا ۔ اور “بنی البیت ۔ اس نے گھر بنایا۔” میں ضرور فرق ہے لیکن یہاں ان سات قسم کے آسمانی انسانوں کی خلقت مراد ہے اور ان کی پیدائش کے معنی ظاہر کرنے کے لئے “خلقنا” کی بجائے “بنینا” فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری آخرت کے زندہ گھروں کی حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ حکیم مطلق کے اس قولِ برتر سے ظاہر ہے: وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ (۲۹: ۶۴)۔ “بے شک آخرت کا گھر زندہ ہے، اگر وہ جانتے ہوں” اور انہیں “سخت” کہنے کی وجہ ان کی لازوالی ہے، کیونکہ وہ دارالبقاء ہیں، اب رہا اس سوال کا جواب کہ کیا اس آیت سے سات آسمانوں کی خلقت مراد نہیں؟ سو حقیقتاً وہ زندہ سماوات بھی یہی ہیں، جو کائنات پر دائم فیض برساتے ہیں ورنہ فضائی بسیط کی فرضی تقسیم کی کوئی خاص دلیل نہیں۔
دوسری دلیل یہی متفقہ روایت ہے کہ بہشت آٹھ قسم کی ہیں، پس یہ حقیقت
۸۱
درست ہے کہ فلکی و ارضی یہی آٹھ قسم کے روحانی بہشت ہیں، جس طرح ذکر ہو چکا ہے کہ آخرت کا گھر زندہ ہے، پس زندگی کا نمونہ انسان ہے اور زندہ بحقیقت انبیاء و اولیاء ہیں اور یہی امتوں کے لئے بہشت اور آسمان ہیں، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہشت آسمان میں ہے، سو آسمان نبی و ولی ہے، جس کے بارے میں خدا کا یہی فرمان ہے: وَ اَرْسَلْنَا السَّمَآءَ عَلَیْهِمْ مِّدْرَارًا۪ (۰۶: ۰۶)۔ “اور ہم نے ان پر بہت برسانے والا آسمان بھیجا۔” پس لفظ “بھیجا” رسول کے لئے آیا ہے نہ کہ فضائی بسیط کے لئے اور بارش سے فیضِ علم مراد ہے۔
انسانوں کے لئے نزدیک تر آسمان اسی زمین پر ہے اور وہ انبیاء و اوصیاء اور ان کے جانشین ہو سکتے ہیں، جس کی دلیل اسی آیۂ کریمہ سے مل سکتی ہے۔ وَ لَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَ جَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ (۶۷: ۰۵)۔ “اور بلا شک ہم نے نزدیک تر آسمان کو چراغوں سے زینت دی اور اسے شیطانوں کو سنگسار (دور) کرنے والا ٹھہرایا، اور انہیں آگ کا عذاب تیار کر رکھا۔”
پس حضرتِ محمد مصطفیؐ اپنے دور کے لوگوں کے لئے روحانیّت کا نزدیک تر آسمان تھے، جس کی زینت محض حقائق، علوم، معارف، حکمت اور ہدایت کے چراغوں سے تھی، جن کی روشنی میں مومنین راہِ راست پر چل سکتے تھے، اس روحانی زینت کے سوا بظاہر وہ ایک بشر تھے اور اس میں بشریت کی تمام ضروری صفات موجود تھیں، مثلاً کھانا، پینا، سونا، شادی بیاہ کرنا، چلنا، کام کرنا اور بعض جسمانی تکالیف و بیماری وغیرہ سے مجبور ہونا اور ان کے لوازمات وغیرہ پھر ان صفاتِ بشریہ کی وجہ
۸۲
سے بہت سے لوگ شک میں پڑ جاتے اور دور بھاگتے تھے، یہی حقیقت ہے جو خداوندِ برتر نے فرمایا کہ ہم نے نزدیک تر آسمان کو (ہدایت کے) چراغوں سے زینت دی ہے، پھر اسے (اپنی صفاتِ بشریہ کی وجہ سے) شیطانوں کو بھگانے والا ٹھہرایا ہے۔
۸۳
سورج میں روشنی کس طرح پیدا ہوتی ہے؟
قانونِ قدرت نے ہر چیز کو اس کی ضد سے ایک مطلوبہ مقدار میں بنایا، پھر ان دونوں کے تبادلہ سے سلسلۂ ادوار جاری رکھا، تاکہ ہر چیز کو اس کی ضد سے پیدا کئے جا سکنے کی دلیل سے صانعِ عالم کی ہستی کا ثبوت مل سکے، بدین طریق اس عالمِ جسمانی کو ایک محدود کروی شکل میں بنایا گیا ہے، گویا اس کی وسعت و مقدار لاانتہا نہیں بلکہ انتہا ہے، جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت سے ظاہر ہے: و کل شیءٍ عندہ بمقدارٍ (۱۳: ۰۸)۔ “اور ہر چیز اس کے پاس مقدار میں ہے۔” پس معلوم ہوا کہ مکان، زمان، محسوسات اور معقولات میں سے ہر ایک چیز ایک معین مقدار میں ہے اور مقدار سے مراد مکان و زمان کی کمیت ہے، جس میں کسی چیز کی مسافت، وزن اور اس کی اکائیوں کے متعلق بحث کی جا سکتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر یہ عالم ایک مطلوبہ مقدار میں بنا ہوا ہے تو اس کی مقدار کا تعیّن کس پیمانہ اور کس مناسبت سے کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عالم کی وسعت کے مقدار کا تعین روح (نفسِ کلّی ) کی توانائی کی مناسبت سے ہے، اس لئے کہ کارخانۂ عالم، عالمگیر روح کی توانائی سے چل رہا ہے، گویا عالمگیر روح ہی عالم کے لئے بدرجۂ جان ہے۔
۸۴
جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ عالم ایک ہی طاقت سے منظم و کارندہ ہے، تو بلاشک اس کی مثال ایک ایسی عظیم ترین مشین کی سی ہے جسے ایک اکیلا حکیم چلا رہا ہے، اس مشین کے مختلف اجزاء اسی ایک ہی شخص کی طاقت اور ضابطہ کے زیرِ اثر مختلف حرکات کرنے کے باؤجود اخیر میں وہ جو کچھ کام کر دیتے ہیں، اس سے ان کی عملی وحدت ظاہر ہے، اس مثال سے یہ عیان ہوا کہ ثوابت، سیّارے، سورج اور فضاء وغیرہ جو کچھ فعل و اثر کرتے ہیں وہ ایک متحدہ طاقت کے زیرِ اثر ہے، اور عالمی مشین کے یہ اجزاء ایک خاص مطلوبہ تعداد و مقدار میں ہیں، اس لئے کہ عالمی مشین کے ان پُرزوں کی تقسیم حکیمانہ طرزِ صنعت کے اقتضا پر ہے، نہ کہ وہ کسی اتفاقیہ تصادم یا حادثے سے منتشر ہوئے ہیں، پس معلوم ہوا کہ ثوابت اور سیارگان وغیرہ کی تعداد، جسامت اور باہمی مسافت باقتضائے حکمت ہے، تاکہ ان بے شمار انسانوں کو عملی طور پر ان علوم و معارف کے حاصل کرنے کا موقع مل سکے، جو اس وسیع کائنات کی حکمت آگین تخلیق میں پوشیدہ ہیں، اس طرح سورج کی ایک مطلوبہ مقدار ہے، جس کی مناسبت مرکزِ عالم (مقامِ سورج) اور مرکزِ نفسِ کلّ (عالمی سطحِ محیط) کی درمیانی مسافت سے ہے!
اب سورج کی روشنی کے باب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دراصل اس کی روشنی ذاتی نہیں، نہ وہ کوئی ٹھوس جسم ہے، بلکہ اس میں بھی وہی جوہر (ہیولیٰ ) ہے جو فضائے بسیط میں بھرا ہوا ہے، گویا جہاں کہیں بھی ستاروں سے خالی اور صاف، نیلا آسمان نظر آ رہا ہو، وہ دراصل خالی نہیں بلکہ جوہرِ ہیولیٰ سے پُر ہے، کیونکہ اس کائنات میں کوئی ذرّہ بھر بھی خالی جگہ نہیں، ازآنکہ مکان بغیر متمکن کے محال ہے اور مکان و متمکن جسم کے دو نام ہیں، گویا جسمِ لطیف کو مکان اور کثیف کو متمکن مانا گیا ہے۔
۸۵
پس اسی طرح عالمی مرکز میں بھی وہی ہیولیٰ ہے، جو فضائے بسیط میں ہے اور حقیقت میں سورج کی وہ روشنی نفسِ کلّی کی نورانی شعاعوں کا اثر ہے جو عالمی سطح سے مقامِ مرکز پر متواتر پڑ رہا ہے، جس کی وجہ سے ایک مناسب گھیرے میں ہیولیٰ تحلیل ہو کر نور بن رہا ہے، بالفاظِ دیگر جیسا کہ اس کتاب میں ذکر ہو چکا کہ عالمی کروی سطح پر نفسِ کلّی محیط ہے، اور وہ اپنی اس گول قاہرانہ گرفت میں عالم کو اس کے مرکز کی طرف دبا رہی ہے، جس کی وجہ سے عالم کے عین وسط کا ہیولیٰ تحلیل ہو کر نور بن رہا ہے، کیونکہ جب کسی گول جسم پر اس کی ساری سطح سے کوئی طاقتور اثر پڑ جائے تو اس کے مرکز میں وہی اثر انتہا پر آجاتا ہے، جس طرح موسمِ گرما کی فضائی گرم ہوائیں سرد بادلوں کے گھیرے میں آ کر خولی شکل میں نہایت سختی سے دب جاتی ہیں، تو سب سے پہلے اس قطعۂ ہوا کا مرکزی ذرہ پھٹ جاتا ہے، پھر یکے بعد دیگرے دوسرے تمام ذرات پھٹ جاتے ہیں، جس سے ایک زبردست طاقت، خیرہ کن روشنی اور ہولناک گرج پیدا ہو جاتی ہے، یہی حال عالمی مرکزی ہیولیٰ کا بھی ہے جسے تحلیلی روشنی کی وجہ سے سورج کہا جا سکتا ہے اور جس پر نفسِ کلّ کی نورانی شعاعوں کا زبردست اثر پڑ رہا ہے۔
اب اس حقیقت کی دلیل کہ سورج کی روشنی ذاتی نہیں، نہ وہ کوئی ٹھوس جسم ہے، یہ ہے کہ اگر ہم یہ مانیں کہ سورج کی روشنی ذاتی اور اس کا جسم ٹھوس ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پرورش سے بے نیاز ہے، یعنی اسے باہر سے کوئی قوّت نہیں ملتی ہے، کیونکہ کسی چیز کے ذاتی اور ٹھوس ہونے کے معنی یہی ہیں، کہ اس میں عارضیت اور لطافت پذیری نہیں، پس اگر یہ تصور درست ہو سکتا تو روزِ اوّل سے اب تک سورج کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا یا گھٹتے گھٹتے چھوٹے سے چھوٹا رہ جاتا، کیونکہ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایسا جسم بھی ہو جو دائم روشنی اور جوہری طاقت صرف کرتا رہے، اور کہیں سے کوئی قوّت حاصل نہ کرے اور اس کے باؤجود اس میں کوئی کمی بھی واقع نہ ہو سکے،
۸۶
ایسا کوئی جسم نہیں، پھر معلوم ہوا کہ سورج کی روشنی ذاتی نہیں اور نہ یہ عالمی ہیولیٰ کے بغیر کوئی چیز ہے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ اگرچہ جسم اور روح کی کثافت و لطافت کی تقسیم میں جسم کثیف (ٹھوس) اور روح لطیف (شفاف و ہمہ رس) ہے لیکن گوناگون اجسام کی اسی تقسیم میں بعض اجسام کثافت کی وجہ سے روح سے دورتر ہیں، اور بعض اجسام اپنی طبیعی لطافت کی وجہ سے روح کے قریب تر ہیں، جن میں بسببِ لطافت روح کا عمل نسبتاً تیز تر ہو جاتا ہے، بالفاظِ دیگر جسمانی اور روحانی موجودات کی ایک کلّی ترتیب ہے جس کی مثال ایک بہت لمبی زنجیر سے دی جا سکتی ہے اس زنجیر کے ابتدائی نصف حصے میں جسمانی مراتب کی کڑیاں ہیں، ان کے بعد ایک ایسی متوسط کڑی بھی ہے جو اگر ایک وجہ سے جسمانی ہے تو دوسری وجہ سے روحانی ہے، اور اس کے بعد آخری نصف حصے میں روحانی حلقے ہیں، اس سلسلۂ کائنات کی وہ متوسط کڑی جس نے سلسلۂ جسمیہ و روحیہ دونوں کے درمیان جاگزین ہو کر انہیں باہم ملا رکھا ہے وہ سورج ہے۔
۸۷
عجائبات السنّہ قدرت کی نشانیوں سے ہیں
السنّۂ اقوامِ عالم کی تخلیق بالتمام قدرتی ہے، اور ان سب میں قدرت کی صنعت کاری کے ظاہری و باطنی عجائبات موجود ہیں، یہی عجائبات صانعِ حکیم کی ہستی اور اس کی تمام صفات کی نشانیوں میں سے ہیں، جن پر کسی انسان کا غور و فکر کرنا اور ان سے اہلِ زبان کو روشناس کرانا خدا کی ایک گونہ عارفانہ عبادت ہے، درین اثناء اسے براہِ فکر و نظر جو معلوماتی لذّت و مسرّت ملے وہ حقیقت میں اس امر کی دلیل ہے کہ اس انسان کی یہ عبادت خدا کی درگاہ میں مقبول ہو رہی ہے، اور اسی وقت سے لا انتہا ثواب اسے مل رہا ہے، کسی قوم کی زبان کی اہمیت کے بارے میں اس آیت پر غور و فکر کرنا باعثِ یقین ہو سکتا ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَ اَلْوَانِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّلْعٰلِمِیْنَ (۳۰: ۲۲)۔ اور اس کی نشانیوں میں سے ہیں آسمان و زمین کی پیدائش اور تمہاری بولیوں اور رنگوں کا اختلاف بے شک جاننے والوں کے لئے ان میں نشانیاں ہیں۔
پس دنیا کی ساری بولیاں خدا کی پیدا کردہ ہیں، اور ان کے اختلاف میں اس کی نشانیاں پوشیدہ ہیں، پھر کسی پس ماندہ بولی پر تمسخر کرنا، یا اسے لغو، مضحکہ خیز
۸۸
اور خالی از حکمت قرار دینا، ان دانشمندوں اور شریفوں کا شیوہ نہیں، جنہیں ہر چیز میں خدا کی توانائی دیکھنے کی بصیرت ملی ہے، گو قوموں کی لسانی ترقی یا پس ماندگی کا کچھ سطحی فرق بھی نظر آتا ہے، لیکن حقیقتاً ہر زبان خدا کی پیدا کردہ ہے، اور اس میں علم گیری، معنی خیزی، ترقی پذیری اور تعلیم و تفہیم کی اتنی قدرتی صلاحیت موجود ہے، جتنی کہ کسی عالمی زبان میں ہو سکتی ہے، بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو خدا نے یکسان طور پر پیدا کر کے دنیا کی مختلف قوموں کو عطا کیا، پھر ان چیزوں کی ترقی و تنزل کا جو فرق و امتیاز پیدا ہوا وہ دراصل ان قوموں کی جد وجہد یا تساہل کے فرق و امتیاز کے سوا کچھ نہیں۔
ہر قوم کی لسان کے آغاز و انجام کے متعلق دلیلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمِ سفلی اور عالمِ علوی دونوں میں ربّ العالمین نفوسِ ناطقہ کی پرورش اس علم سے کر رہا ہے جو ان کی اپنی بولیوں میں ہے، اس کے بارے میں وہ خود فرما رہا ہے: اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَیَانَ۔ (۵۵: ۰۱ تا ۰۴) “رحمٰن نے قرآن سکھایا، انسان کو پیدا کیا اسے بولنا سکھایا۔” اس کی تاویل یہ ہے کہ رحمٰن نے انسان کی بقائے علوی یعنی روحِ مستقر کو عالمِ امر میں “علم الاسماء” سکھایا اور یہ علم اس انسان کی اپنی بولی میں تھا، پھر اس بقا کے سائے کو جو جسمانی تھا اس عالمِ خلق میں پیدا کیا یہ انسان کی بقائے سفلی یا روحِ مستودع تھی، پھر اسے عام طور پر بواسطۂ گفتگو علم سکھایا، انسان کی دائمی بقاء (مستقر) اور عارضی بقاء (مستودع) کے متعلق میں نے اسی کتاب “میزان الحقائق” میں لکھا ہے، اس کتاب میں اس قسم کے جو کچھ حقائق بیان کئے گئے ہیں، بغور پڑھے جانے کے بعد نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔
خدائے برتر نے جب کبھی کسی قوم کو کوئی رسول بھیجا تو اس قوم کی بولی میں بھیجا جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ:
۸۹
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَیِّنَ لَهُمْؕ (۱۴: ۰۴) ۔ “اور ہم نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی زبان کے ساتھ تا کہ وہ انہیں بیان کرے۔”
ایسی قوم کی اپنی زبان میں نہ صرف رسول آیا، بلکہ اس کے ساتھ اسی زبان ہی میں آسمانی کتاب یا صحیفہ بھی نازل ہوا، جس کی وجہ سے اس قوم کی عبادت، ذکر اور دعا وغیرہ اسی زبان میں ہوئی، تاکہ اس قوم کے لوگ ان ساری باتوں کی حقیقت بخوبی سمجھ سکیں جو خدا کی طرف سے انہیں بتائی جا رہی ہیں۔
ہر زبان کی اہمیت اور اس کے عروج کی امکانیت کے بارے میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ انسان عالمِ صغیر ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ عالمِ کبیر ہے، بہر حال یہ صغیر ہو یا کبیر، لیکن یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ روحِ انسانی بذاتِ خود ایک وسیع روحانی جہان ہے، جس میں عالم کی ساری چیزیں بحالِ نطق و حیات موجود ہیں، پھر اگر انسان اس ذاتی اور روحانی سلطنت کا مستحق ہو سکے تو اس کی ذاتی نورانی جہان کی زبان وہی ہے، جو دنیا میں اس کی مادری اور قومی زبان تھی یا جس کو وہ چاہتا تھا: لَهُمْ مَّا یَشَآءُوْنَ فِیْهَا وَ لَدَیْنَا مَزِیْدٌ (۵۰: ۳۵)۔ “ان کے لئے اس (بہشت) میں وہ چیز ہے جسے وہ چاہتے ہوں اور ہمارے پاس ان کی خواہش سے مزید نعمت موجود ہے۔” یعنی ایسے مراتب بھی ہیں جن کے متعلق انہیں کوئی خیال بھی نہیں۔
بہشت کے متعلق اگر کوئی پوچھے کہ وہاں کیا کیا چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں؟ تو اس کا جواب مذکورۂ بالا آیت میں ہے کہ بہشت میں وہ ساری نعمتیں ہیں جن کو انسان چاہتا ہو، پھر انسانوں کی سب سے پہلے چاہنے والی نعمت ان کی اپنی بولی ہے، جس
۹۰
میں وہ اپنے ملک اور قوم کے اوّلین و آخرین سے گفتگو کریں گے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شخصی اور اجتماعی بہشت میں اپنے اور دوسروں کے اقوال و افعال کا سننا اور دیکھنا ہے جو یہ سب خدا کی رحمت اور علم کے نور میں ہو گا، جس سے بہشتیوں کو لا انتہا خوشی حاصل ہو گی گویا اس کی مثال ایسی ہے کہ ہر شخص اور ہر قوم کے اقوال و اعمال کو خدا کی قدرت سے کرام کاتبین زندہ کر دیں گے، ہر انسان کے قول و فعل کا بعینہٖ زندہ کرنا لکھنے کی نسبت زیادہ حیرت انگیز واقعہ ہے بہرحال بہشت والوں کی لازوال سلطنت ان کی اپنی زبان میں ہے، پس زبان لازوال چیز ہے اور یہ بہشت میں بطریقِ حکمت بن کر آئی ہے اور وہاں اب بھی موجود ہے۔
۹۱