سخنہائے آغاز
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (۳۳: ۵۶) اے خداوندِ بخشندہ ومہربان! تو اپنی رحمتِ بے نہایت سے ہم جیسے عاجز و ناتوان بندوں کو ایک ایسی عالی ہمتی عنایت فرما کہ جس سے ہم خاکساران تیرے برگزیدہ اور محبوب رسولؐ اور آنحضرت کی آلِ اطہار پر جیسا کہ چاہئیے با معرفت صلوات پڑھیں: اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَدۡ۔
اے وہ ذاتِ پاک و یکتا! جو مکان ولامکان سے برتر بھی ہے، اور ہماری رگِ جان سے نزدیک تر بھی، تیرے حضورِ اقدس میں جملہ حاجاتِ ظاہری وباطنی پیش ہیں، اے خدائے احد وصمد! اے سبوح وقدوس! ہر بندۂ مومن ہمیشہ یہی چاہتا ہے کہ جی بھر کر تیری حمد وثنا اور تعریف و توصیف کرتا رہے، لیکن اے پادشاہِ بے چون و بے مثال! تو جانتا ہے اور کوئی حال تجھ سے پوشیدہ نہیں، کہ یہ امرِعظیم نہ صرف عقلِ جزوی کی وجہ
۵
سے سخت مشکل ہے، بلکہ الفاظ ومعانی کی تنگ دامانی کے سبب سے بھی یہ کام بدرجۂ انتہا دشوار ہے، اس لئے یا اللہ! تو اپنی ہدایتِ لاریبی سے اس غریب وبیچارہ دل کو سوزوگداز کا سرچشمہ بنادے، تاکہ یہ بندۂ مسکین طفلِ شیر خوار کی طرح ہر حاجت وطلب کے بہانے سے خوب خوب آنسو بہا سکے، تاکہ وسیلۂ ربوبیت اور دایۂ عاطفت (یعنی رحمتِ خداوندی) میری اس گریہ وزاری کی گونا گون ترجمانیاں اور تشریحیں کرے، جس طرح کوئی جسمانی مادرِ مہربان اپنے لختِ جگر کے بہتے ہوئے آنسوؤں کی طرح طرح سے تعبیریں کرتی ہے، مگر اس سے آسمانی نوازشات کا موازنہ ہر گز نہیں ہو سکتا، کہ ظاہری ماں کی مامتا قطرۂ کم مقدار کی طرح ہے، اور تیری رحمت (مہرونوازش) بحرِ بے پایان ہے۔
کتاب کا نام: یہ بہت ہی پیاری کتاب جوـ”میوۂ بہشت”کے پُرمغز اسم سے موسوم ہے، چند اہم اور مفید مقالات کا مجموعہ ہے، جو مختلف مواقع پر لکھے گئے تھے، جن کے آخر میں تاریخ وغیرہ درج ہے، تاکہ ناظرین وقارئین کو ہر مقالے کی اصل صورت اور کتاب کی نوعیت بخوبی معلوم ہو سکے، اگرچہ بعض ایسی کتابوں میں اس اصول پر عمل اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ بار بار مصنف کا نام آنا عجیب لگتا تھا۔ تاہم مستقبل کے لئے تاریخی معلومات کے پیشِ نظر یہی طریقِ کار بہتر ہے کہ جو کتاب خطوط اور مقالو ں پر مبنی ہو، اس کے اجزاء کو اصل صورت میں پیش کیا جائے، تاکہ تحریروں کی ترتیب اور ارتقائی شکل کا تعین ہو، نیز
۶
اگر کسی سکالر نے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف پر تحقیق (ریسرچ) کرنے کا ارادہ کر لیا تو وہ البتہ اپنے کام کے لئے ان چیزوں سے نتائج اخذ کرے گا۔
لفظ “میوۂ بہشت” کا مفہوم قرآنی حکمت میں بڑا جامع جوامع ہے، جس کی وجہ ظاہر ہے، کہ خداوندِ علیم وحکیم نے دنیائے مادّیت کی تمامتر غذاؤں میں سے میوہ (پھل) کو منتخب فرمایا، تاکہ اس سے روح اورعقل کی اعلیٰ نعمتوں کی تشبیہہ و تمثیل دی جائے، اس انتخاب کا سبب یقیناً یہی ہے کہ میوہ یعنی پھل (بزبانِ قرآنِ حکیم، ثمر، فاکھتہ، وغیرہ) کی مثال میں روحی اور عقلی جواہر کے اشارات موجود ہیں، جن کو صرف اہلِ دانش ہی سمجھ سکتے ہیں۔
میوۂ علمی: جس طرح ہر دنیاوی میوہ اپنے درخت کا مکمل جوہر، خلاصہ، اور نچوڑ ہوا کرتا ہے، یعنی اس میں تمام شجر کی ہر ہر قوّت بصورتِ جوہر موجود ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس میں اپنی قسم کا ایک دوسرا درخت اگانے کی صلاحیت بھی پوشیدہ ہے، اسی طرح بہشتِ برین کا روحانی، علمی، اور عقلی میوہ ہے، جو درختِ کائنات و موجودات کا جوہر (گوہر۔ ۔ ۔ ۔) ہے، جس کی رنگینی دیدۂ دل کے لئے، خوشبو مشامِ جان کے لئے، اور ذائقہ روح وعقل کے لئے مرغوب و پسندیدہ ہے۔
گلشن یا گلزار و ہ احاطہ ہے، جہاں پھول کھلتے ہیں، اور باغ اس چار دیواری کا نام ہے، جس میں میوہ دار درخت ہوتے ہیں، مگر
۷
روحانی بہشت کی یہ کیفیت ہے کہ وہ نہ صرف گلشن در گلشن اور باغ درباغ ہے، بلکہ وہ گلشن در باغ اور باغ درگلشن بھی ہے، کیونکہ وہ جہانِ لطیف اور عالمِ امر ہے، جس میں معجزۂ امرِ کُنۡ کی کارفرمائی ہے، اور چیزیں چشمِ زدن میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہیں، بہ ہر حال اگر ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو عالمِ شخصیّت کی جنّت میں پہلے تو روحانیّت کے پھول ہی پھول نظر آتے ہیں، اور پھر علم وحکمت کے پھل ہی پھل۔
کوئی بھی ہوشمند جو قرآنِ پاک کے ظاہر سے واقف و آگاہ ہو، یہ سوال کر سکتا ہے کہ قرآنِ مقدّس میں بہشت کے پھولوں کا ایسا تذکرہ کہاں ہے، جس کے حوالے سے آپ نے یہ ذکر کیا ہو؟ میں جواب کے طور پر یوں عرض کروں گا کہ قرآنِ حکیم میں بزبانِ حکمت سب کچھ مذکور ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں لفظِ جنّت، روضہ، حدیقہ اور بہشت کا کوئی بھی نام آیا ہے، اس میں پھولوں کا ذکر پوشیدہ ہے، نیز جن آیاتِ کریمہ میں جنت کے درختوں اور میوؤں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے، ان میں بھی یہ بات ہے، کیونکہ جنت (باغ) پھل اور پھول دونوں کا تصوّر پیش کرتی ہے، او ر شجر وثمر پھول کے بغیر نہیں، اس کے علاوہ ایک بڑا اہم نکتہ یہ بھی یاد رہے کہ جس طر ح حواسِ ظاہر میں سب سے اشرف حس بصارت ہے، اسی طرح حواسِ باطن میں بصیرت (روح کی بینائی) افضل ہے، جس کے لئے جنت میں گوناگون لطیف مناظر (دیکھنے کی چیزیں) موجود ہیں (۴۳: ۷۱) جن میں لطیف پھول بھی شامل ہیں۔
۸
قرآنِ حکیم میں کئی ایسی آیات ہیں، جن کامجموعی مفہوم یہ ہے کہ جب آسمان سے بارش برستی ہے تو مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے، وہ یہ کہ زمین کا آباد حصہ سر سبز اور گل وگلزار بن جاتا ہے، جس کی تاویل یہ ہے کہ جب نورِ نبوّت وامامت کے آسمان سے قلوبِ مومنین کی زمین پر حقیقی علم کی بارش برستی ہے، تو اس کے نتیجے میں انکے دل باغہائے بہشت کے انتہائی خوب صورت مناظر کو پیش کرتے ہیں، چنانچہ مشاہدۂ باطن میں جہاں پھول نظر آتے ہیں، وہ حکمت کی نشانی ہیں۔
ہر چیز کا میوہ: اگر قرآنی حکمت میں غور سے دیکھا جائے تو یقیناً معلوم ہو جائے گا کہ عالمِ روحانیّت میں ہر چیز کا پھول اور پھل ہے، اور کوئی چیز اس قانونِ کل سے باہر نہیں (۲۸: ۵۷) اور روحانی سلطنت کو جنت (باغ وگلشن) کے اسم سے موسوم کرنے کے معنی بھی یہی ہیں، چنانچہ ہر چیز کی حسین وجمیل روحانی صورت گویا گل ہے، ہر شی کا ذرۂ روح میوہ ہے، اور اس کی حکمت مغز ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمِ خیال بمرتبۂ نورانیت بہشت کا وہ گلشن ہے، جس میں کائنات وموجودات کی ہر چیز صبغتہ اللہ (۰۲: ۱۳۸) کے رنگ میں یا تو پھول ہے یا پھول کی طرح رنگین ہے، عالمِ ذر وہ باغِ میوہ دار ہے، جہاں تمام چیزوں کی روحیں موجود ہیں، اور وہ ثمرات یعنی میوے کہلاتی ہیں، اور کنزِ عقل وہ خزینۂ الہٰی ہے، جس
۹
میں ہر میوۂ بہشت کا مغزِ حکمت موجود ہے۔
اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ جنت میں کیا کیا نعمتیں ہیں؟ یا پوچھے کہ اس میں کتنی قسم کی نعمتیں ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہو گا کہ بہشت کی بیشمار نعمتیں ایک اعتبار سے دو قسم کی ہیں، پہلی قسم ان نعمتوں کی ہے جن کو انسان پہچانتا ہے، اس لئے ان کی خواہش کرتا ہے، دوسری نعمتیں وہ ہیں، جن کا آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا (۵۰: ۳۵) دوسرے اعتبار سے جنت کی چیزیں عقلی، روحانی، اور لطیف جسمانی قسم کی ہیں، ان کی بہت سی ذیلی قسمیں ہیں، اس بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ بہشت اور اس کی نعمتوں کی معرفت ضروری ہے، تاکہ صحیح خواہش پیدا ہو سکے، کیونکہ اگر کوئی آدمی ربّ العزّت کی اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتوں کا علم نہیں رکھتا اور خواہش وطلب پیدا نہیں کرتا ہے تو قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) قانونِ معرفت (۴۷: ۰۶) اور قانونِ چاہت (۵۰: ۳۵) ۱؎ کے بموجب وہ چیزیں اس کو نہیں ملیں گی۔
کائنات وموجودات کی ہر چیز درخت کی طر ح کام کرتی ہے، اور اس سے اپنی نوعیت کا ایک میوہ پیدا ہو جاتا ہے، آسمان کو دیکھئے، کیا سورج، چاند، سیارے، اور ستارے اس شجر کے پھل نہیں ہیں؟ پہاڑ جہاں درخت ہے، وہاں اس کے میوے جواہراور معدنیا ت ہیں، اگر سمندر درخت نہ ہوتا، تو گوہر (موتی) اس کے ثمرات نہ ہوتے، ایک اور حکمت یہ ہے کہ زمین
۱؎ ۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵
۱۰
درخت ہے، اور اس کے میوے نباتات ہیں، عالمِ نبات درخت ہے، جس کا پھل حیوان کہلاتا ہے، درختِ حیوان کا ثمر انسان ہے، اور دنیائے انسانیت کا میوۂ عقل و جان انسانِ کامل ہے، اب ایک اور نکتہ سن لیجئے: ایک شریف انسان عہدِ طفولیت میں غنچۂ ناشگفتہ جیسا محبوب اور پیارا ہوتا ہے، نوجوانی میں اس کی شخصیت گلِ رعنا کی طرح جاذبِ نظر اور پُرکشش ہوتی ہے، اور جب وہ عمر کی پختگی کو پہنچتا ہے، تو اس وقت وہ عقل ودانش کے اعتبار سے ایک ایسے پاکیزہ و پختہ پھل کے مشابہ ہوتا ہے، جو خوشبو، عمدہ ذائقہ، اور پُرقوّت مغز کے لحاظ سے بہترین ہوتا ہے، پس ان مثالوں سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ ہر چیز کا پھل ہے، اور نظامِ کائنات دراصل نظامِ ثمرات ہے، اور بہشت کا راز اسی میں مضمر ہے۔
شکر گزاری:
اگر اس علمی خدمت کو جہالت ونادانی کے خلاف ایک جہاد قرار دیا جائے تو اس صورت میں یوں کہنا حقیقت پر مبنی ہوگا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسولِ برحق صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی نورانی تائید ونصرت امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کے وسیلے سے حاصل ہو سکتی ہے، اور اس میں “خانۂ حکمت” اور “ادارۂ عارف” کے بہت سے جان نثار مجاہدین سینہ سپرہو گئے ہیں، آپ ان کے حق میں اس طرح دعا کریں کہ: “خداوندا! امامِ عالیمقامؑ کے جملہ مریدوں اور تمام پاک اداروں کے صدقے کے طور پر ان کو کامیابی اور فتح مندی سے ہمکنار کر دینا! آمین!!”
۱۱
ہمارے دونوں نامور پریذیڈنز فتح علی حبیب اور محمد عبد العزیز اس علمی جہاد میں صفِ اوّل کے مجاہد ہیں یہ صاحبان ہر متعلقہ کام کو، خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، بہ نفسِ نفیس انجام دیتے ہیں، وہ چراغِ امامت کے پروانے اور حقیقی علم کے شیدائی ہیں، ان کی دوستی میوۂ بہشت کی طر ح بیحد شیرین اور دلنواز ہے، کیونکہ وہ اخلاق و ایمان کی خوبیوں سے آراستہ ہیں، میں دونوں اداروں کے ہر عملداراور ہر ممبر کو فرشتہ بحدِّ قوّت سمجھتا ہوں، کہ ان تمام حضرات نے مل کر شرق و غرب میں ایک علمی انقلاب کو جاری وساری کردیا ہے۔
میں اس وقت بھی مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے دوستوں اور رفقائے کار کو یاد کرتا ہوں، میرے دل و دماغ اور تصوّر میں زیادہ سے زیادہ وہی عزیزان چھائے ہوئے ہیں، جنھوں نے اپنی گرانقدر خدمات سے ہمارے اداروں کو کامیاب بنا دیا ہے، میں ان سب کا شکر گزار اور ممنون ہوں، اگر یہ بات درست ہے کہ ہر روح لا تعداد ذرّات کا مجموعہ ہوا کرتی ہے، تو یہ انتہائی خوشی کی بات ہے، سو میں چاہوں گا کہ میری روح کے ذرات جس کثرت سے بھی ہوں، وہ سب کے سب ہمارے محسنین کے حق میں شکر گزار اور دعا گو رہیں! اور ان سے قربان بھی ہوجائیں! آمین!!
نوٹ: صدر فتح علی حبیب اور صدرمحمد عبد العزیز کا مشورہ ہے کہ اس جیسے مقالوں اور کتابوں کو بار بار پڑھا
۱۲
جائے، تاکہ قرآنی بھیدوں اور روحانی معلومات کے ذخیرے میں زبردست اضافہ ہو سکے۔
خاکپائے اہلِ ایمان
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۶۔ جون ۱۹۸۵ء
۱۳
تخلیق درتخلیق
آفرنیش در آفرنیش کہیں یا تخلیق درتخلیق یا پیدائش میں پیدائش، بہرحال اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کا سلسلۂ فعل، جس میں وہ کلی ابتداء وانتہا کے بغیر ہمیشہ ایک چیز سے دوسری چیز بنانے کے معنی میں پیدائش کے اندر پیدائش کرتا رہتا ہے، اور ہر دانشمند کے نزدیک اس حقیقت کی تحقیق و تصدیق اس وقت ہو سکتی ہے جبکہ وہ عالمِ شخصی کی تخلیق کو قرآن اور نورِامامت کی روشنی میں دیکھتا ہے، جیسا کہ حدیثِ شریف میں ارشاد ہوا ہے:۔
لما خلق اللہ العقل اسنطقہ ثم قال لہ: أقبل فاقبل ثم قال لہ: ادبر فادبر ثم قال: وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً ھوا حب الی منک ولاا کملتک الا فیمن احب، اما انی ایاک امر، وایاک انہی، و ایاک اعاقب، و ایاک اثیب۔ ۔ حضرت ابو جعفرؑ (یعنی حضرت امام باقرؑ) سے روایت ہے کہ: جب اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا تو وہ بحکمِ خدا بولنے لگی، پھر خدا نے اسے فرمایا:
۱۴
آگے آ، تو وہ آگے آئی، پھر اسے فرمایا: پیچھے جا، تو وہ پیچھے گئی، پھر ارشاد ہوا: میری عزت وجلال کی قسم! کہ میں نے کوئی ایسی خلق پیدا نہیں کیا ہے، جو تیرے مقابلے میں مجھ کو زیادہ محبوب ہو، اور بات یہ ہے کہ میں تجھ کو صرف ایسے شخص میں کامل اور مکمل کر دیتا ہوں جس سے میں محبت کرتا ہوں، ہاں میرے امرونہی کا خطاب ہمیشہ تجھ ہی سے ہوتا رہے گا، اور عذاب وثواب کا تعلق بھی تجھ ہی سے ہو گا۔
اس عالی شان اور پُرحکمت حدیث سے بیک وقت چند حقیقتیں نکھر نکھر کر سامنے آتی ہیں:
۱۔ مقامِ روحانیّت کے درجۂ اعلیٰ پر عقل گفتگو کرتی ہے، مگر زبانِ حکمت سے۔
۲۔ عقل نے ترقی وتنزل کا ایک بہت بڑا دور دیکھا ہے۔
۳۔ عقل خدا کے نزدیک محبوب ترین مخلوق ہے۔
۴۔ کامل اور مکمل عقل اس شخص میں پیدا ہوتی ہے جو خدا کو پہچانے اور اللہ اس سے محبت کرے۔
۵۔ خداوندی اوامرونواہی کا اطلاق صرف اور صرف عقل ہی پر ہوتا ہے۔
۶۔ سب سے بڑا عذاب بھی اور سب سے عظیم ثواب بھی عقلی صورت میں ہیں۔
آپ سب اس نورانی تعلیم میں بخوبی دیکھتے ہیں کہ یہ عالمِ شخصی کی
۱۵
تخلیق کا ذکر ہے، جو ایک دائمی سلسلہ ہے، جس کو یہاں تخلیق درتخلیق کہا گیا ہے، جس کی مثال انبیاء أئمّہ علیھم السّلام ہیں، چنانچہ جب باری تعالیٰ ایک کامل انسان کے بعد دوسرے کامل انسان کو پیدا کرتا ہے تو وہ تخلیق درتخلیق کرتا ہے، اسکے معنی یہ ہوئے کہ خداتعالیٰ یکے بعد دیگرے شخصی دنیائیں بناتا رہتا ہے، اور ان میں سے ہر ایک میں وہی ساری باتیں واقع ہوتی ہیں، جو مذکورہ حدیث میں ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم سب لوگوں کو اپنے آپ (عالمِ شخصی) میں سفر کرنے کی دعوت دیتا ہے، جیسا کہ ارشا د فرمایا گیا ہے:۔
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ یُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَؕ (۲۹: ۲۰) ان سے کہو کہ زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلق کی ابتدا کی، پھر اللہ بارِ دیگر بھی پیدا کرتا ہے۔ اگر ہم اس پُرحکمت حکم کا مطلب اس ظاہری اور مادّی زمین کی سیر وسیاحت تک محدود کریں، تو اس سے چند سوالات پیدا ہوجاتے ہیں، مثال کے طور پر:۔
۱۔ اگرمانا جائے کہ “الارض” سے یہاں سیّارۂ زمین اور “خلق” سے عالمِ ظاہر مراد ہے، تو اس زمین پر چلنے پھرنے سے یہ راز یا اس سوال کا جواب کہ: “خدا نے کس طرح تخلیقِ کائنات کی ابتداء کی؟ “کیسے معلوم ہو گا؟
۲۔ اگر کہا جائے کہ یہ حکم عالمِ انسان کے پہلوئے جسمانی کے بارے میں ہے، تو اس صورت میں سیّارۂ زمین کی سیر یا سفر سے خلقتِ آدمؑ
۱۶
کے بھید کیونکر کھل سکتے ہیں؟ اور کس طرح یقینِ کامل حاصل ہو سکتا ہے کہ خداوند تعالیٰ بارِ دیگر بھی پیدا کرے گا؟
اس بیان سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ “زمین میں سیر” سے اپنی ذات (یعنی عالمِ شخصی) میں سفر مراد ہے، جس کا ذکر قرآنِ حکیم میں۷+ ۷ = ۱۴ بار کے علاوہ بھی ہے، کوئی شک نہیں کہ انسانی ذات کی شناخت سے کائنات وموجودات کی شناخت حاصل ہو جاتی ہے، اور اسی کے نتیجے میں حضرتِ ربِّ عزت کی معرفت ہے۔
تخلیق درتخلیق کی ایک اور نمایان مثال یہ ہے: یَخْلُقُكُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍؕ (۳۹: ۰۶) خدا تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک قسم کی پیدائش کے بعد دوسری قسم کی پیدائش سے تین تاریکیوں میں پیدا کرتا ہے۔ یعنی جب انسان بحالتِ نطفہ اپنی ماں کی بچہ دانی میں ہوتا ہے۔ ایسی کیفیت میں اللہ تعالیٰ اس کی تخلیق کے اندر تخلیق کرتے ہوئے اسے جسمانی کمال کی طرف لے جاتا ہے، جیسے وہ جوہرِ خاک (سلالہ) سے نطفہ بناتا ہے، اس سے خونِ بستہ (علقہ) بناتا ہے، اس سے گوشت کی بوٹی (مضغہ) اس سے ہڈیاں (عظام) پھر ہڈیوں پر گوشت (لحم) چڑھاتا ہے، اور پھر خلقِ آخر بناتا ہے (۲۳: ۱۲ تا ۱۴)
مذکورۂ بالا آیۂ کریمہ بزبانِ حکمت انسانوں سے کہہ رہی ہے کہ تم جب اپنی ماؤں کے پیٹ میں تھے اس وقت جسم، روح، اور عقل
۱۷
تینوں کے انوار سے خالی ہو کر آگئے تھے، یہ بات بالکل ایسی ہے، جیسے حضرتِ آدم علیہ السّلام کا فردوسِ برین سے فرشِ زمین پر ہبوط ہوا تھا، اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو انسان پر جبکہ شکمِ مادر میں ہوتا ہے ایک ساتھ تین تاریکیوں کا اطلاق نہ ہوتا، کیونکہ قرآنی الفاظ واقعیت وحقیقت کے معنی لئے بغیر نہیں ہوتے۔
انسان کی جس حالت کا نام موت ہے، اور جس کیفیت کو حیات کہا جاتا ہے اور ان دونوں سے جنتی چیزیں متعلق ہیں، وہ سب کی سب مل کر ایک مکمل دائرے کو تشکیل دیتی ہیں، ظاہر ہے کہ دائرے کی بحقیقت کوئی ابتدا وانتہا نہیں، یعنی اس کا کوئی سرا نہیں، لیکن آپ جہاں سے کوئی کام شروع کریں گے وہی جگہ مجازاً مبدا کہلائے گی، کیونکہ اگر حقیقت کی کوئی تعبیر کرنی ہے تو اس کے لئے مجاز سے کام لیا جاتا ہے، اور اس کے بغیر براہِ راست حقیقت کو سمجھ لینا ممکن نہیں۔
آپ اس آیۂ کریمہ میں خوب غور کریں: الَّذِیْۤ اَحْسَنَ كُلَّ شَیْءٍ خَلَقَهٗ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ (۳۲: ۰۷) جو چیز بھی اس نے بنائی خوب ہی بنائی اور اس نے انسان کی تخلیق کی ابتداء گارے سے کی۔ اس آیۂ مقدسہ کی تاویل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس دنیا میں اچھی اور بری دونوں قسم کی چیزیں ہیں، اور وہ تاویل اس طرح ہے: “خدا وہ ہے جس نے تخلیق درتخلیق کرتے ہوئے عالمِ خلق کی ہر چیز کو عالمِ امر کی طرف بلند کیا، اور وہاں اسے ایک بہترین شکل دے دی، اور حقیقی انسان کی پیدائش
۱۸
درجۂ مومنی سے شروع کی۔ “پس آپ اس ارشاد میں بغور دیکھ سکتے ہیں کہ ہر آدم سے قبل مومنین موجود تھے۔
ہر کامل انسان اپنی ذات میں ایک مکمل لطیف کائنات (عالمِ شخصی) ہوا کرتا ہے، اور یہ ایک سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا، جس میں باعتبارِ شخصیت ہر ایسے عالم کی ابتداء سب سے جدا اور الگ ہے، بالفاظِ دیگریہ ابتداء دراصل انفرادی ہے اجتماعی نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کلّی طور پر کوئی ابتداء وانتہا نہیں، اور یہ بہت بڑا راز ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی بادشاہی میں دو قسم کی چیزیں ہوا کرتی ہیں، ایک ہے شیٔ مذکور، کہ خدا نے اس کا ذکر فرمایا ہے، اوردوسری ہے شیٔ غیر مذکور، کہ خدا نے اس کا ذکر نہیں فرمایا ہے، یہ دونوں مثالیں انسان ہی کی ہیں، جیسا کہ سورۂ دہر کے شروع (۷۶: ۰۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا (۷۶: ۰۱) کیا انسان پر دہر (زمانِ ناگزرندہ) میں سے ایک وقت آیا ہے جس میں وہ کوئی مذکور چیز نہ تھا (یعنی وہ تھا، مگر غیر مذکور) اس کا اشارہ یہ ہے کہ اگرچہ وہ وقت ہنوز نہیں آیا ہے، لیکن ضرور آنے والا ہے، اس ربّانی تعلیم سے تخلیق درتخلیق کے تصور پر روشنی پڑتی ہے، اور واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ تخلیق کا خدائی فعل قدیم ہے، جس کی کوئی ابتدا و انتہا نہیں۔
مذکور اشیاء بھی اور غیر مذکور اشیاء بھی اچھی اور بری دو دو
۱۹
قسم کی ہیں، چنانچہ غیر مذکور چیزوں میں بری وہ ہیں، جو ایک اعتبار سے کالعدم قرار دی گئی ہیں، مثلاً کافر کو”لاشیٔ” قرار دینا، یا مردہ ٹھہرانا، اور اچھی چیزیں وہ ہیں جو بے مثال ہونے کی وجہ سے غیر مذکور کہلاتی ہیں، جیسے عارفِ کامل کو”فنا فی اللہ” کا درجہ دے کر خدائی میں اس کا ذکر نہ کرنا، حالانکہ کافر بھی اور عارف بھی موجود ہیں، پس دہر کی مقاربت ومناسبت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں انسان کا غیر مذکور چیز ہونا قابلِ ستائش بات ہے، کیونکہ اس حال میں انسان کی حقیقت ہمیشہ اصل سے واصل رہنے کا ثبوت مل جاتا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ جو واحد وقہار (۴۰: ۱۶) ہے، عالمِ شخصی میں انقلاب لا کر بکھرے ہوئے مکان و زمان کو دستِ قدرت میں سمیٹ لیتا ہے (۳۹: ۶۷) اور حقیقتِ حقائق میں جملہ حقیقتوں کا مظاہرہ فرماتا ہے توا س میں نہ صرف دہر ہی سامنے ہوتا ہے، بلکہ ازل اور ابد کا تصوّر بھی ایک ہی ہوتا ہے، کیونکہ وہاں جو سب سے بنیادی، سب سے آخری اور سب سے عظیم خزانہ ہے، اس میں تمام حقائق ومعارف محدود وموجود ہیں، یہ گنج اصل واساس کی حیثیت اس لئے رکھتا ہے کہ اسی سے کائناتِ ظاہر وباطن کی ہر ہر چیز پیدا کی گئی ہے، اور آخری اس معنیٰ میں ہے کہ جملہ اشیائے مکانی و زمانی کا نچوڑ یعنی جوہر یہی ہے، اس خزانۂ بے بہا کا ایک خاص نام ملکِ خدا (یعنی خدا کی بادشاہی) ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:۔
تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘- وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ
۲۰
شَیْءٍ قَدِیْرُ (۶۷: ۰۱) وہ (خدا) نہایت بابرکت ہے جس کے ہاتھ میں سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس میں بطریقِ اشارہ یہ فرمایا گیا ہے کہ روحانیّت کے جس مقام پر خدا کے ہاتھ میں ملک وملکوت (یعنی گنجِ گوہر) ہے، وہیں تمام علمی وعرفانی برکتیں اور قدرتیں مرکوز ہو جاتی ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ نورِ عقل جو حقیقتِ حقائق ہے، اس میں ہر اعلیٰ سے اعلیٰ اور ہر مشکل سے مشکل تصوّر کی نمائندگی موجود ہے، اس لئے کہ وہ قلمِ قدرت ہے، کتابِ مکنون، سرچشمۂ نور، کوہِ طور، حجرِ مکرم، اور معدنِ علم وحکمت ہے۔
تخلیق درتخلیق کی ایک اورروشن مثال یہ ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے کوئی کامل انسان پیدا ہوجاتا ہے، پھر وقت آنے پر اس کا روحانی جنم ہوتا ہے، پھر وہ جیتے جی روحانی موت کے مرحلے سے گزر جاتا ہے، اور آخر میں جب اس کا انبعاث ہو جاتا ہے، تو تب وہ اس آیۂ کریمہ کا مصداق بن جاتا ہے، وہ ارشاد یہ ہے: اِنَّهٗ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ (۱۰: ۰۴) بیشک پیدائش کی ابتداء وہی کرتا ہے پھر وہی اس کا اعادہ کرتا ہے۔ یہاں انسانِ کامل کا ذکر اس لئے ضروری ہوا کہ صرف وہی مبارک ہستی ظاہراً و باطناً خداوند تعالیٰ کی آخری اور مکمل تخلیق کا نمونہ ہے، جیسے خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو کما حقہ پیدا کیا، اور سلسلۂ انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام میں اپنی پاک و پُرحکمت عادت (سنت۱۷: ۷۷، ۴۰: ۸۵) کو دہراتا رہا۔
۲۱
آپ یہ کلیدی حکمت ہر گز نہ بھولیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے جیسے صفاتی نام ہیں اور ان ناموں کے مطابق جیسا اس کا کام ہے، وہ سب کچھ اس کی سنتِ عالیہ میں داخل ہے، اور خدا کی پاک سنت وہ ہے، جو اس کا خالص بندوں یعنی کامل انسانوں میں ہو گزری ہے اور وہ کسی تبدیلی کے بغیر ہمیشہ جاری ہے (۳۳: ۶۲، ۳۵: ۴۳) پس اس کے معنی یہ ہوئے کہ خداوندِ تعالیٰ کے فعلِ تخلیق کی نہ کوئی ابتداء اور نہ کوئی انتہا، بلکہ وہ ہمیشہ تخلیق درتخلیق کرتا رہتا ہے اور اسی فعلِ قدرت سے خدائی رحمت وعلم کے سمندر ہر وقت موجزن رہتے ہیں۔
خانۂ حکمت ادارۂ عارف
ذرۂ خاک:
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۲۷۔ جنوری۱۹۸۵
۲۲
عبادت میں مخفی خزانے
قرآنِ حکیم میں لفظ “عبادت” کے مختلف صیغوں کا مجموعہ ۲۷۵ہے، ان الفاظ سے متعلق آیاتِ کریمہ میں براہِ راست بھی اور بالواسطہ بھی عبادت وبندگی کا ذکر فرمایا گیا ہے، صلوٰۃ، سجدہ، ذکر، تسبیح، دعا وغیرہ جیسے لفظوں میں جس طرح اللہ تعالیٰ کی بندگی کا بیان آیا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے، غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا موضوع جتنا اہم ہے اتنا وسیع وعمیق بھی ہے، کیونکہ جنّات اور انسانوں کی تخلیق کا مقصد عبادت ہی ہے، جیسا کہ پروردگارِ عالم کا فرمان ہے:۔
۱۔ وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۱: ۵۶) اور میں جنّوں اورآدمیوں کو اسی غرض سے پیدا کیا کہ وہ میر ی عبادت کریں۔ عبادت کی ارتقائی منزلیں ہوا کرتی ہیں، چنانچہ وہ شروع شروع میں معمولی نوعیت کی ہوتی ہے، مگر یہ رفتہ رفتہ اپنے عروج اور درجۂ کمال پر جا پہنچتی ہے، جبکہ ہر طرح کے شرک وشبہہ سے پاک اور خدا شناسی کے نور سے منور ہوتی ہے، پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم
۲۳
اور أئمّۂ ھدیٰ صلوات اللہ علیھم نے ہمیشہ ایسی کامیاب عبادت وبندگی کی عملی تعلیم دی ہے، اور اسی کو پیغمبرانہ یا عارفانہ عبادت کہتے ہیں، اور آنحضرتؐ کی حقیقی پیروی اسوۂ حسنہ (۳۳: ۲۱) اسی معنیٰ میں ہے۔
۲۔ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ عبادت کے ذ کر کے ساتھ ساتھ معرفتِ توحید کے بھی قابلِ فہم اشارے موجود ہیں، جیسے مذکورۂ بالا آیۂ مقدسہ کا واضح اشارہ یہ ہے کہ جنّ وانس کا کوئی فرد معبود نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ مخلوق ہے خالق نہیں، وہ عبادت کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اسے عبد اور عابد ہونا ہے، اور معبود ہونا نہیں، اور اس کو خدا کی معرفت اس وقت حاصل ہو گی، جبکہ وہ اپنی روحانی تخلیق کا مشاہدہ اور مطالعہ کر لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس آیۂ مبارکہ میں حقیقی عبادت سے پہلے روحانی تخلیق کا ذکر ہے، کیونکہ خلقت (میں نے پیدا کیا) کے اس خدائی فعل میں تخلیق کے تمام جسمانی اور روحانی مراحل کا ذکر فرمایا گیا ہے۔
۳۔ خدا شناسی اور بندگی (عبادت) ایک ایسا ضروری اور مشکل امر ہے کہ لوگ نہ تو اس کی اہمیت کو جانتے تھے اور نہ ہی اسے بجا لا سکتے تھے، لہٰذا خداوندِ عالم نے اس سلسلے میں لوگوں کو تعلیم دینے کی خاطر پیغمبروں کو معبوث فرمایا، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَۚ (۱۶: ۳۶) اور ہم نے تو ہر امت میں ایک (نہ ایک) رسول اس بات کے لئے ضرور بھیجا کہ لوگو خدا کی عبادت کرو اور بت (کی عبادت)
۲۴
سے بچے رہو۔ طاغوت کے معنی سرکش، شیطان، اور بت کے درمیان مشترک ہیں، چنانچہ اس آیۂ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ تم بالآخر خداشناسی اور علمِ توحید کی روشنی میں عبادت کرو، تاکہ تم سرکش شیطان اور بت کی پرستش سے نجات پاؤ گے۔
۴۔ شیطان سے بچ کر موحدانہ عبادت کرنے کے لئے لوگوں سے جیسا کہ فرمایا گیا ہے، اگر انھوں نے اس کے مطابق عمل نہ کیا تو اس کی پرستش اس طرح ہوگی (ترجمہ آیۂ کریمہ): اے اولادِ آدمؑ کیا میں نے تم سے یہ عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ یقیناً تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے اور یہ کہ صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھی راہ ہے (۳۶: ۶۰ تا ۶۱) آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا گروہ یا فرد نہیں ہو سکتا، جو شیطان کو جان پہچان کر اس کی عبادت کرتا ہو، مگر بات یہ ہے کہ جہالت و نادانی کی وجہ سے اکثر لوگ راہِ حق سے ہٹ کر شیطان کے پیچھے چلتے ہیں، اور یہی شیطان کی پیروی درحقیقت شیطان کی عبادت کہلاتی ہے۔
۵۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہر اطاعت عبادت ہے، اور اللہ کی وہ اطاعت بھی یقیناً عبادت ہے، جو رسولؐ اور صاحبِ امرؑ کے توسط سے بجا لائی جاتی ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور پیغمبرؐ کی اطاعت کرو اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم میں سے ہیں (۰۴: ۵۹) اس ربّانی تعلیم کی روشنی میں دیکھنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ رسولِ اکرمؐ اور امامِ زمانؑ
۲۵
کی فرمانبرداری دو طرح سے خدائے واحد کی عبادت قرار پاتی ہے، اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم رسولؐ اور امر والوں کی اطاعت کرو، اب اس خدائی حکم کی تعمیل عبادت ہوگی، دوم یہ کہ اولوالامر کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت ہے، رسولؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، اور اللہ کی اطاعت عبادت ہے۔
۶۔ عبادت کے دوران چہرۂ جان کو خدا تعالیٰ کی طرف قائم رکھنے اور دین کو شرک کی آمیزش سے خالص و پاک کر کے اسی کو پکارنے کے لئے یوں حکم دیا گیا ہے: وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْهَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ۬ (۰۷: ۲۹) اور یہ کہ تم ہر عبادت کے وقت اپنی توجہ قائم رکھا کرو اور اسی کو پکارو دین کو اس کے لئے خاص رکھ کر۔
۷۔ اللہ تعالیٰ کی جو زمین بے پناہ وسیع ہے، وہ زمینِ روحانیّت ہے (۰۴: ۹۷، ۲۹: ۵۶، ۳۹: ۱۰) چنانچہ ارشاد ہے: یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ (۲۹: ۵۶) اے میرے خاص بندو جو کماحقہ ایما ن لائے ہو یقنا میری زمین (روحانیّت) بہت وسیع ہے سو خالص میری ہی عبادت کرو (تاکہ تم کو اس زمین میں خلافت عطا کی جائے) جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: تم (مسلمین ومومنین) میں سے جن لوگوں نے ایمان لایا جیسا کہ اس کا حق ہے اور اچھے اچھے کام کئے ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ ان کو (روحانی) زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا
۲۶
جس طرح ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں (۲۴: ۵۵) مذکورہ دونوں آیتوں میں ایسے مومنین کا ذکر فرمایا گیا ہے، جو خدا شناس اور موحد ہونے کی بدولت اللہ تعالیٰ کے انعامات کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
۸۔ خدا شناسی، توحید، اور کسی آمیزش کے بغیر خالص عبادت کا ایک بڑا اہم قرآنی موضوع” اخلاص” ہے، جس کا مطلب ہے تصورِ توحید کو ہر قسم کے شرک کی آمیزش سے خالص اور پاک وپاکیزہ کرنا، اس عظیم الشّان موضوع سے متعلق پُرحکمت الفاظ میں سے ایک لفظ “مخلصین ” ہے، جو قرآنِ کریم میں آٹھ بار آیا ہے، جس کے وسیع تر معنی ہیں خدا کے ایسے بندے جو معرفت اورخالص عبادت کے وسیلے سے برگزیدہ کئے گئے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہے:۔
قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ (۳۸: ۸۲ تا ۸۳) ابلیس نے کہا تیری عزت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا، بجز تیرے ان بندوں کے جنھیں تو نے خالص کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خالص و برگزیدہ بندے سب سے پہلے انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام ہیں اور پھر ان کی پیروی کرنے والے مومنین ہیں، جو دامنِ امامت کے نیچے ہر طرح سے محفوظ وسلامت ہیں، اور نورِ ہدایت کی روشنی میں جادۂ مستقیم پر گامزن ہیں۔ لہٰذا شیطان ان کو گمراہ نہیں کر سکتا۔
۹۔ سورۂ صافات میں فرمایا گیا ہے: ….. مگر خدا کے برگزیدہ
۲۷
بندے (اہلِ نجات ہیں) ان کے واسطے دانستہ رزق ہے، ہر قسم کے میوے، اور وہ لوگ بڑی عزت سے نعمت کے باغوں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تخت نشین ہوں گے (۳۷: ۴۰ تا ۴۴) اس نورانی تعلیم میں بھی اخلاص کے شاندار نتائج کا ذکر ہے، یعنی خدا شناسی اور موحدِ لوگوں کو بہشت کی لازوال وابدی نعمتیں حاصل ہوں گی، اس سلسلے میں “رزقِ معلوم” یعنی ایسا رزق (روزی) جو پہلے سے جانا پہچانا ہوا ہے، بڑا اہم مسئلہ ہے، کیونکہ اگر ہم اس سے مادّی قسم کی نعمت مراد لیتے ہیں، تو پھر اس خیال سے ایک عجیب نتیجہ نکلے گا، وہ یہ کہ بہشت کی نعمتیں صرف ایسے لوگوں کو ملیں گی، جو اس دنیا میں مادّی طور بڑی آسائش میں رہتے ہوں، کیونکہ ظاہری نعمتوں کو وہی لوگ بہتر جانتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقی نعمت ہے جو عقل کے لئے ہے، اور جو روح کے لئے ہے، اور یہی وہ رزق ہے جو اہلِ حقیقت کو دنیا ہی سے معلوم ہے، اگرچہ دنیا میں یہ نعمت جزوی طور پر ہے اور آخرت میں کلّی طور پر۔
رزقِ معلوم عبادت کی چاشنی ہے، ثمرۂ عشقِ مولا ہے، اور نورانی علم، اور اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا بہشت میں اہلِ بہشت عبادت کرتے ہیں؟ اس کا جواب اثبات میں ہے، مگر وہاں عبادت بڑی آسانی، نورانیّت، زبردست لذّت اور کشفِ اسرار کے ساتھ ہو گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
(وہ زمینِ روحانیّت میں منصبِ خلافت پر فائز ہو جانے کے
۲۸
ساتھ) میری خالص عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گے (۲۴: ۵۵) یہاں شرک کا مطلب شرکِ خفی ہے، یعنی عبادت میں غیرِ خدا کے خیال یا وسوسے کو دل میں آنے دینا، جیسے سورۂ عنکبوت (۲۹: ۶۵) میں کچھ اہلِ ایمان کے بارے میں مثال دی گئی ہے کہ وہ لوگ جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو کسی شرک کے بغیر پکارتے ہیں، اور جب ان کو خدا نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے، تو پھر وہ فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں (۲۹: ۶۵) چنانچہ یہ شرک جو خیالاتِ باطن کی شکل میں ہے، جو بہت سے مومنین میں بھی ہو سکتا ہے، جس سے عبادت کو ہر بار نقصان پہنچتا ہے، وہ اہلِ جنت کے دل میں نہیں ہوگا، لہٰذا وہ لوگ بہشت میں ہر قسم کے شرک سے خالص عبادت کریں گے۔
۱۰۔ بہشت کی عبادت یقیناً معجزاتی ہے، جس کا نمونہ اس دنیا میں پیغمبرانہ اور اولیائی عبادت ہے، جیسا کہ قرآنِ پاک کا حکم ہے: درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسولؐ میں سے ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ اور روزِ آخر (یعنی امامؑ) سے امید وابستہ کرتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الہٰی کرے (۳۳: ۲۱) اس خدائی تعلیم کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا، رسولؐ، اور صاحبِ امرؑ کی اطاععت کرتے ہوئے دائم الذکر ہو جاتے ہیں، ان پر پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نمونۂ عمل کا روشن ہو جانا یقینی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو آنحضرتؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کی دعوت نہ دی جاتی۔
۲۹
۱۱۔ کوئی شک نہیں کہ شرکِ جلی اور شرکِ خفی سے پاک عبادت میں مخفی خزانے ہوا کرتے ہیں، جن میں جیسے لعل وگہر ہوتے ہیں، ان کی قدروقیمت روحانی، عقلی، علمی، اور عرفانی ہوتی ہے، اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ خداتعالیٰ ، رسولِ پاکؐ، اور امامِ برحقؑ گنجہائے مخفی ہیں۔
۱۲۔ معرفت اور عبادت کے درجات ایک دوسرے سے وابستہ ہیں، اور معرفت کا دوسرا نام یقین ہے، چنانچہ یقین یعنی معرفت کی وجہ سے عبادت کے تین بڑے مرحلے ہیں، عبادت بمرتبۂ علمِ یقین، عبادت بمرتبۂ عینِ یقین، اور عبادت بمرتبۂ حقِ یقین، اور اسی طرح عبادت مرحلۂ آخر تک ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: اور اپنے ربّ کی بندگی کرتے رہو یہاں تک کہ حق الیقین (کی منزل) آئے (۱۵: ۹۹) یہ مکلفانہ عبادت کی آخری حد ہے، مگر جہاں یہ میوۂ بہشت کی حیثیت سے ہے، وہاں اس سے ہمیشہ ہمیشہ نوروسرور حاصل ہوتا رہتا ہے۔
خانۂ حکمت ادارۂ عارف
نصیرِ ؔحقیر
۲۸۔ دسمبر۱۹۸۴ء
۳۰
خوفِ خدا اور خوفِ بے جا
خوف ذی حیات مخلوق کی ایک صلاحیت ہے جو حیوان میں خود حفاظتی کی غرض سے ہے، مگر انسان میں اس کے ہونے کا خاص مقصد خدا ہی سے ڈرنا ہے، چنانچہ اگر انسانی خوف عملاً اسی مقصدِ اعلیٰ کے مطابق ہے تو بجا ہے، ورنہ بیجا (بے موقع، نامناسب) ہے، جیسے سورۂ احزاب (۳۳: ۳۹) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت انبیاء علیھم السّلام اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے، کیونکہ خالق ومالک وہی ہے، اور دوسرے سب مخلوق ومملوک ہیں۔
جو خوف جانوروں میں ہوتا ہے، اس کی عقلی اورعلمی ترقی ناممکن ہے، کیونکہ جانور عقل جیسی روشنی سے محروم ہیں، اس لئے وہ جب بھی ڈرتے ہیں تو قوّت واہمہ کے زیرِ اثرڈرتے ہیں، مگر جو خوف انسان میں ہے، وہ عقل کی ہم سایگی کی وجہ سے ترقی پذیر ہے، لہٰذا یہاں اس کا معیار بلند سے بلند تر ہو سکتا ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے ایک چھوٹا سا بچہ شروع شروع میں غیر موجود وہمی چیزوں کے نام سے ڈرجاتا ہے، لیکن وقت کے
۳۱
ساتھ جیسی جیسی اس کو تعلیم ملتی رہتی ہے، اس کے مطابق خوف پہلے سے کہیں زیادہ درست کام کرنے لگتا ہے، یہی حال دین کے معاملے میں بھی ہے کہ کامل انسانوں کو چھوڑ کر باقی سب لوگ خوفِ خدا کے سلسلے میں بچوں کی طرح ہیں، اور یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم تمام لوگوں کو خدا سے ڈرنے کی تعلیم دیتا ہے اور تاکید کرتا ہے کہ اللہ سے ڈرا کریں جیسا کہ بحقیقت اس سے ڈرنا چاہئے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے:۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ (۰۳: ۱۰۲) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اس حکم میں دو اہم مفہوم ہیں، اوّل یہ کہ کسی دوسرے سے نہیں بلکہ صرف خدا ہی سے ڈرنا، دوسرا یہ کہ خدا سے اس طرح ڈرنا، جس طرح کہ حقیقت میں اس سے ڈرنے کی کیفیت ہے، اور اس بلند ترین معیار کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:۔
اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ (۳۵: ۲۸) سوائے اس کے نہیں کہ خدا کے بندوں میں سے علم والے ہی اس سے ڈرتے ہیں۔ بقول حضرت امام جعفر الصادق علیہ السلام علماء سے أئمۂ طاہرینؑ مراد ہیں، کیونکہ یہی حضرات نورِعلم کی روشنی میں بحقیقت اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، اور بدرجۂ اعلیٰ خوفِ خدا کی صفت سے متصف ہیں، یعنی تقوٰی (خوف خدا) انسانِ کامل کے اوصافِ کمال میں سے ہے، جو اس کی ذات میں بمرتبۂ علمِ لدنّی موجود ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقویٰ کا معیارِ
۳۲
اعلیٰ حقیقی علم ہے۔
اگرچہ لفظِ خوف کا اطلاق حضراتِ انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام، اور عوام النّاس کے علاوہ حیوانوں پر بھی ہو جاتا ہے، لیکن جیسا کہ اوپربتایا گیا اس میں آسمان زمین کا فرق ہے، کیونکہ خوف کے بہت سے درجات ہیں، جن میں سب سے اوپرصرف خدا ہی کا خوف ہے، اور اس میں دنیاوی خوف وہراس کے برعکس حقیقی امن وسکون کی غیر فانی دولت موجود ہے، کیونکہ “خدا سے ڈرنا” دراصل خدا کو یاد کرنا ہے، اور خدا کی یاد سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے (۱۳: ۲۸)
دانشمندوں پر یہ حقیقت روشن ہے کہ خوفِ خدا میں علم وحکمت کے خزانے پوشیدہ ہیں، اور خوفِ دنیا میں مایوسی اور لاچاری کے سوا کچھ بھی نہیں، اللہ تعالیٰ کے خوف کی بدولت انسان کی زندگی رحمتوں اور برکتوں سے مملو ہو جاتی ہے، اور اگر کوئی شخص بادشاہِ حقیقی سے نہیں ڈرتا، تو اس کی یہ سزا مقرر ہے کہ وہ ہمیشہ خوفِ غیر میں مبتلا رہتا ہے، اور اس کی عمر تلخیوں میں گزرتی ہے۔
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ خوف الہٰی اور خوفِ دنیاوی کیفیت، تاثیر اور نتیجہ کے اعتبار سے ایک جیسے ہوں، اور خاص کر اس خوفِ خدا کی بات کریں، جو اللہ کے دوستوں کے دل میں ہوتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (۱۰: ۶۲) یاد رکھوخدا کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور
۳۳
نہ کوئی غم۔ اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں سب سے اوّل انبیاء وأئمّہ صلوات اللہ علیھم ہیں، جن کے مبارک دلوں میں جس طرح خوفِ خدا یا تقوٰی ہوا کرتا ہے، وہ اگر ظاہری اور دنیاوی خوف جیسا ہوتا، تو پروردگارِ عالم مذکورہ آیۂ مبارکہ میں ان کی ذاتِ شریف سے ایسے خوف وغم کی نفی نہ فرماتا، اس روشن دلیل سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ خوفِ مولا اور خوفِ دنیا ایک دوسرے کے برعکس ہیں، کیونکہ جب خدا بے مثل ہے تو اس سے ڈرنا کسی مخلوق سے ڈرنے کی طرح کیونکر ہو سکتا ہے۔
اب یہاں یہ سوال کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جب انسان میں درخت، حیوان، انسان تینوں کی روحیں جمع ہیں، تو پھر بتائیے کہ دنیاوی خوف کس طرح روح میں ہے، اور خدائی خوف کس روح میں؟ اس کا یقینی جواب یہ ہے کہ نباتات میں خوف وہراس کی کوئی علامت نہیں، مگر حیوانات میں خوف موجود ہے، لہٰذا ظاہری اور جسمانی خوف کا سبب روحِ حیوانی ہے، اور اب رہا خدا کا خوف تو اس کا وسیلہ عقل ہے، جو روحِ انسانی کا شعلہ ہے، اسی لئے قرآنِ حکیم نے فرمایا کہ خوفِ خدا کا خاص تعلق ربّانی عالموں سے ہے (۳۵: ۲۸)
قرآنِ پاک نے یہ بھی بتا دیا کہ خوفِ بیجا شیطان کا حربہ ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے: سوائے اس کے نہیں کہ یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے تم کو ڈراتا ہے (۰۳: ۱۷۵) اس میں کوئی سوال نہیں کہ یہ خوف نفسِ حیوانی میں ہے، یا شیطان سے؟ جبکہ شیطان نفسِ امّارہ کے توسط
۳۴
سے کام کرتا ہے، یا یوں کہا جائے کہ شیطان کا ایک بھیس نفسِ حیوانی ہے۔
خدائے بزرگ وبرتر نے اپنی عزیز کتاب میں جگہ جگہ مسلمین ومومنین کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ دشمنانِ اسلام کی کثرتِ ظاہری سے ہر گز خائف نہ ہو جائیں، جیسا کہ وہ جلّ شانہ، عالی ہمت اور بابصیرت مومنین کی ترجمانی کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ (۰۳: ۱۷۳) ہم کو خدا تعالیٰ کافی ہے اور وہی سب کا م سپرد کردینے کے لئے اچھا ہے۔
“خوفِ بے جا” جیسے مرض کی قرآنی دوا ایک تو خدا کی یاد ہے جو کثرت سے ہونی چاہئے، اور دوسری حقیقی علم کی روشنی ہے، جس سے اس بیماری کا مستقل علاج ہو جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے ذکر سے جنّی شیطان بھاگ جاتا ہے، اور علمِ یقین سے انسی شیطان شکست کھاتا ہے، جس طرح شیطان کے پتھراؤ سے بچنے کے لئے خداتعالیٰ کے قرب وحضور میں جانے کی تعلیم دی گئی ہے، جس کی تاویل ہے امامِ زمان صلوات اللہ علیہ وسلامہ کے نورانی علم میں خود کو محفوظ کر لینا۔
ارشادِ خداوندی ہے: وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ (۴۳: ۳۶) اور جو شخص اللہ کی یاد سے اندھا بن جائے ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں سووہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ امامِ اقدس واطہرؑخداتعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم اور نورانیت سے بھر پور ذکرِ پاک ہیں، کہ آپؑ ہی کے وسیلے سے یادِ الہٰی کا نور حاصل ہو جاتا ہے، اور شیطان کے چنگل سے
۳۵
مومنین کو چھٹکارا مل جاتا ہے، کیونکہ امامِ زمان علیہ السلام بمرتبۂ علیٔ وقت علم و حکمت کے باب (دروازہ) ہوا کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خوفِ خدا یعنی تقویٰ کے ظاہراً وباطناً کئی مدارج ہیں، چنانچہ یہ مقامِ روحانیّت اور درجۂ عقل پر علمی ظہورات ومعجزات کی شکل میں ہے، جیسے سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے “کلمۂ تقویٰ” مومنین سے وابستہ (لازم) کر دیا، سو تقویٰ کا کلمہ جو ایک بہت بڑا ااسم ہے وہ روحانیّت کا ایک علمی اور عملی معجزہ بھی ہے اور خود کار ذکرِ الہٰی بھی ہے، اور ان تمام معنوں میں اللہ تعالیٰ اپنے اس احسانِ عظیم کا ذکر فرماتا ہے کہ اس نے کچھ مومنین کا کلمۂ تقویٰ کا روحانی معجزہ دکھایا، جس میں تطہیر وتزکیہ کا ایک عزرائیلی راز پوشیدہ ہے۔
پروردگارِ عالم کا پُرحکمت ارشاد ہے: اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو (اے مخاطب) تو اس کو دیکھتا کہ خدا کے خوف سے دب جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سوچیں (۵۹: ۲۱) جب اللہ جل شانہ نے طور پر تجلی فرمائی تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا (۰۷: ۱۴۳) یہ تجلّی خالی از معنی نہ تھی، بلکہ وہ بصورتِ نور آسمانی کتاب تھی، یعنی توراۃ، اور یہ انتہائی عظیم واقعہ دو دفعہ پیش آیا، پہلی بار کوہِ روح پر، اور دوسری بار کوہِ عقل پر، اور خوفِ خدا کے یہی معجزے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانیّت میں بھی ہوئے کہ پہلے خداوندِ عالم نے حضورِ اکرمؐ کے کوہِ روح پر تجلّی فرمائی، جس میں قرآنِ
۳۶
پاک کا روحانی ظہور ہوا، اس کے بعد خدائے برتر نے آپؐ کے کوہِ عقل پر تجلّی کی، اور وہاں نورِ عقل میں قرآنِ حکیم کے ظہورات ہوئے، دونوں پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے تھے۔
پہاڑ کی کئی تاویلیں ہیں، ان میں سے ایک تاویل کوہِ روح ہے، اور دوسری کوہِ عقل، ان دونوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے میں فرق ہے، کیونکہ روح کے بیک وقت لا تعداد ذرّات ہیں، مگر عقل نمونۂ وحدت ہے، لہٰذا وہ عالمِ شخصی میں صرف ایک ہی گوہر ہے، تاہم جس طرح یکے بعد دیگرے اس کے علمی ظہورات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اس کے پیشِ نظر وہ بھی بے شمار عقلی ذرات کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ جو کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے دوبارہ تجلّی فرمائی تھی، اس کا ثبوت روح اور عقل کے دو پہاڑ ہیں، نیز یہ ہے کہ ذاتِ واحد کے سوا جو کچھ ہے، وہ سب سے پہلے دوئی رکھتا ہے، چنانچہ اگر مانا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی تجلّیات ہیں، تو اصولاً یہ کہنا پڑے گا کہ اساسی تجلّیاں دو ہیں، اور یہ بھی یاد رہے کہ سب سے پہلے قانونِ کثرت ہے، توحید کا تصوّر مسلّمہ ہے، اور کثرت بھی عیاں ہے، لہٰذا قانون دوئی کے بارے میں قرآنِ حکیم میں دیکھئے:۔
۱۔ حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی روحانیّت میں نہ صرف جانور بلکہ جملہ اشیاء کی قسموں میں سے جفت جفت یعنی دو دو لی گئی تھیں
۳۷
(۱۱: ۴۰، ۲۳: ۲۷)۔
۲۔ خالقِ برحق نے کل چیزوں کے دو دوجوڑے بنائے ہیں، اور کوئی چیز اس قانون سے باہر نہیں (۵۱: ۴۹، ۳۶: ۳۶)
۳۔ بہشت کے سب پھلوں کے جوڑے جوڑے ہیں، اور کوئی پھل اکیلا نہیں (۵۵: ۵۲، ۱۳: ۰۳)
۴۔ یہ بنیادی اور آخری حقائق دو دو ہیں: عرش وکرسی، قلم و لوح عقلِ کل ونفسِ کل، آدم وحوّا، آخرت ودنیا، آسمان وزمین، خیر وشر، ناطق واساس، امام وحجت، پدرومادر، دن رات، عقل وروح، وغیرہ وغیرہ۔
قرآنِ کریم تین چیزوں کی تعلیم ایک ہی شان سے اور ایک ہی نہج پر دیتا ہے: بلاشرکت غیرے صرف خدا ہی کی عبادت کرنا (۰۱: ۰۴، ۲۹: ۵۶) صرف خدا ہی سے مدد کے لئے درخواست کرنا (۰۱: ۰۴) اور صرف اسی ڈرنا (۰۲: ۴۰، ۰۲: ۴۱، ۱۶: ۵۱) اس کی وجہ یہ ہے کہ استعانت (خدا سے مانگنا) جزوعبادت ہے، اسی طرح اللہ سے ڈرنا شرطِ عبادت بھی ہے اور عبادت بھی، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خوفِ خدا تو ہر عبادت کی جان ہے، جیسا کہ اس فرمانِ خداوندی سے ظاہر ہے: وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ (۰۷: ۲۰۵) اور اپنے ربّ کو اپنی جان میں یاد کر عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور کم آواز کے ساتھ صبح اور شام اور غافلوں سے مت ہونا۔ اس پُرحکمت آیت
۳۸
میں ذکر وعبادت کے اسرارِ عظیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
اس موضوع کے سلسلے میں شاید یہ سوال پیدا ہو گا کہ جب حضرت ابراہیمؑ کے پاس کچھ فرشتے آگئے، تو آپؑ نے دل ہی دل میں ایک خوف محسوس کیا (۱۱: ۷۰) حضرت موسیٰؑ کئی مواقع پر ڈر گئے (۲۸: ۱۸، ۲۸: ۲۱، ۲۰: ۶۷، ۲۰: ۲۱) اور حضرت داؤدؑ کو بھی فرشتوں سے خوف ہوا (۳۸: ۲۲) اس میں کیا راز ہے، جبکہ اللہ کے دوستوں کو ماسواء اللہ سے نہیں ڈرنا ہے؟
جواب: (الف) مذکورہ پیغمبروں کی ان مثالوں میں روحانی معجزات کی عظمت وجلالت سے خوفزدہ ہونے کا ذکر ہے، اور یہ دنیا وی خوف ہر گز نہیں۔
(ب) انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام کی عملی زندگی لوگوں کے عروج وارتقا کا نمونۂ پیروی ہوا کرتی ہے، چنانچہ حکمت ومصلحت یہی تھی کہ وہ حضرات شروع شروع میں ایک طرح سے ڈر جائیں، اور اللہ ان میں سے ہر ایک سے فرمائے کہ: لاتخف= نہ ڈرو، تو پھر اس حکم کے بعد اولیاء اللہ (۱۰: ۶۲) دنیاوی خوف سے بالاتر ہو جاتے ہیں، اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے حکیمانہ ناموں میں سے ایک نام ذی المعارج (سیڑھیوں والا) نہ ہوتا، اور یاد رہے کہ خدا کی سیڑھیاں انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کی صورت میں ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے تو ہادیٔ برحق خود ارتقا کی سیڑھی زینہ زینہ چڑھتا ہے، اور خدا کی سیڑھی بن جاتا ہے، پھر دوسروں کو اسی طرح چڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۲۲۔ نومبر ۱۹۸۴ء
۳۹
حکمتِ حدیث
۱۔ حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضورِ اقدس آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ آپ میرے حق میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بہشت میں داخل کر دے، رسولِ اکرمؐ نے اس آدمی سے فرمایا کہ دیکھو میں تمہارے لئے دعا کروں گا اور تم سجدوں کی کثرت سے اس میں میری مدد کرو۔ اس حدیثِ شریف سے جہاں ایک طرف کثرتِ سجود کی فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے، وہاں دوسری جانب یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اعلیٰ ترین دعا بھی بندۂ مومن کے عمل سے مشروط ہے، جس کے بغیر کوئی سفارش آگے نہیں بڑھ سکتی ہے، جیسا کہ سورۂ نجم (۵۳: ۲۶) میں ارشاد ہوا ہے:۔
(ترجمہ): اور بہت سے فرشتے آسمان میں موجود ہیں ان کی سفارش ذرا بھی کام نہیں آسکتی مگر بعد اس کے کہ اللہ جس کے لئے چاہے اجازت دے اور راضی ہو (۵۳: ۲۶) اس ربّانی تعلیم کا واضح اشارہ یہ ہے کہ عظیم فرشتے تو اپنی خصوصیت وعادت کی بناء پر اہلِ زمین کے لئے
۴۰
نیک دعا کرتے رہتے ہیں، مگر وہ دعا کسی بندے کے حق میں اس وقت قبول ہو جاتی ہے جبکہ وہ علم وعمل سے آراستہ ہو جاتا ہے۔
۲۔ امامِ موصوفؑ سے روایت کی گئی ہے کہ پیغمرِ خداؐ نے ارشاد فرمایا: علم کا پہلا مرحلہ خاموشی ہے، دوسرامرحلہ غور سے سننا ہے، تیسرا اس پر عمل کرنا، اور چوتھا اس کا پھیلانا ہے۔ اس حدیث کا ظاہری پہلو محتاجِ وضاحت نہیں، کیونکہ وہ خود واضح ہے، چنانچہ یہاں جو سوال پیدا ہو جاتا ہے وہ اس حکم کی تاویلی حکمت سے متعلق ہے کہ اس سلسلے میں آنحضرت کی سیرتِ طیبہ سے کیا اشارہ ملتا ہے؟ اس کا جواب یقیناً یہی ہے کہ خاموشی سے ذکر وعبادت کا نتیجہ مراد ہے، جو محویّت وفنا کی شکل میں سامنے آتا ہے، جس کا نمونۂ اعلیٰ سرورِ انبیاء صلوات اللہ علیہ وآلہ کی ابتدائی زندگی ہی سے ملتا ہے کہ آپؐ علم کے مرحلۂ اوّل میں کثرت سے عبادت کرتے ہوئے عالمِ دل پر ایسے سکوت کی کیفیت طاری کر لیتے تھے، کہ اس میں اللہ جل شانہ کے اسمِ اکبر کے سوا ہر قلبی آواز مفقود ہو جاتی تھی، اس مثال کا منشا یہ ہے کہ اگر کسی انسان کے دل میں وسوسوں یا خیالات وافکار کا طوفان برپا ہے تو اس صورت میں اگرچہ وہ بظاہر خاموش ہو لیکن اصل خاموشی نہ ہوگی لہٰذا دنیائے دل کی مکمل خاموشی کے لئے پیغمبرِ اسلامؐ کی پیروی کرتے ہوئے یادِ خدا کا سہارا لینا ہوگا۔
۳۔ ایک موقع پرحضورِ انورؐ نے فرمایا: ان علیا منی وانا منہ۔ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ اس
۴۱
ارشاد میں بہت سے حکمتیں ہیں، ان میں سے چند اس طرح ہیں:۔
الف: نورِ نبوّت سے نورِ ولایت کا ظہور ہو جاتا ہے، اور پھر نبیؐ کا نور ولیؑ (امامؑ) کے نور میں مدغم ہو جاتا ہے۔
ب: پیغمبرؐ نے بحکمِ خدا مولا علیؑ کو تمام مسلمانوں کا امام بنایا، اور علیؑ نے علم وحکمت کے باب (دروازہ) کی مرتبت میں آنحضرتؐ کی نورانیت سے لوگوں کو آگاہ کر دیا۔
ج: مقامِ تنزیل پر ناطقؐ نے اساسؑ کا ظاہری تعارف کرایا، اور مقامِ تاویل پر اساسؑ نے ناطقؐ کی باطنی معرفت کی تعلیم دی۔
۴۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ روایت منقول ہے، آپ فرماتے ہیں کہ: جو لوگ خدا پر اور مجھ پر ایمان لے آئے ہیں اور میری نبوّت کی تصدیق کر چکے ہیں، میں ان کو امیر المومنین مولا علی ابنِ ابی طالب علیہ السّلام کی ولایت کی وصیت کرتا ہوں، کیونکہ علیؑ سے محبت کرنا مجھ سے محبت کرنا ہے، یہ ایک امر ہے جس کے لئے میرے ربّ نے مجھ کو مامور فرمایا ہے، اور ایک ایسا عہد ہے جو مجھ سے لیا گیا ہے، اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں یہ پیغام تم کو پہنچادوں۔
حضرت رسالت مآبؐ کی اس نورانی تعلیم میں سب سے عظیم حکمت یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا دین کا پہلا مرحلہ ہے، نبوّت ورسالت کی تصدیق کرنا دوسرا مرحلہ ہے، اور مولا علی صلوات اللہ علیہ کی ولایت کا اقرار کرنا تیسرا مرحلہ ہے، اس نکتہ میں بہت سے
۴۲
اشارے ہیں، دوسری حکمت لفظ “ولایت” میں ہے کہ اس کے کئی معنی ہیں، اور تیسری حکمت اس بات میں ہے کہ خداوندِ عالم نے حضرت خاتم الانبیاؐء سے ولایتِ علیؑ کے باب میں عہد لیا، اور یہ حکمت ایسی اہم ترین اور مفید ترین ہے کہ اس کے سمجھ لینے سے قرآنِ حکیم کے بہت سے اسرار کھل جاتے ہیں، جس کا ایک مثال اس طرح ہے:۔
سورۂ احزاب (۳۳: ۰۷) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: اور جبکہ ہم نے تمام پیغمبروں سے ان کا اقراراور آپؐ سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابنِ مریمؑ سے بھی اور ہم نے ان سے خوب پختہ عہد لیا (۳۳: ۰۷) جو حدیث صحیح ہوتی ہے وہ آیاتِ قرآنی کی عقلی اور منطقی ترجمانی کرتی ہے، چنانچہ ظاہر ہے کہ اس آیۂ کریمہ کہ وضاحت مذکوۂ بالا حدیث سے فرمائی گئی ہے، یعنی پروردگارِ عالم نے ہر پیغمبر سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ لوگو ں کو امرِ امامت سے آگاہ کرے گا۔
۵۔ حضرت علی علیہ السّلام سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ: علم کے اٹھ جانے سے پہلے اسے حاصل کر لو، آپ نے دستِ مبارک بلند کر کے فرمایا کہ علم اس طرح نہیں اٹھے گا، لیکن بات یہ ہے کہ قوم میں عالمِ ہو گا، پھر وہ اس دنیا سے چلا جائے گا اور اسی کے ساتھ علم بھی اٹھ جائے گا، اور قوم میں دوسرا عالِم ہو گا، وہ بھی وفات پائے گا اور اس کا علم بھی رفع ہو جائے گا……..
۶۔ رسول اکرم صلعم سے روایت کی گئی ہے، آپ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ
۴۳
لوگوں سے علم بطریقِ انتزاع (کھینچ کر) قبض نہیں کرتا، لیکن علماء کی وفات سے علم کو اپنے قبضۂ قدرت میں لیتا ہے…….
۵ اور ۶ سے ظاہر ہے کہ علم مٹی میں نہیں جاتا، بلکہ خدا اسے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتا ہے، جبکہ یہ ایک تخت پر بلند ہو جاتا ہے، اور تخت نیک اعمال سے بنتا ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: پاک قول (یعنی علم) اسی کی طرف بلند ہو جاتا ہے اور عملِ صالح ہی اس کو اٹھا کر لے جاتا ہے (۳۵: ۱۰)
۷۔ حضرت امیر المومنین علی صلوات اللہ علیہ و سلامہ سے روایت ہے کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کا مقام تمہارے درمیان کشتیٔ نوحؑ کی طرح ہے کہ جو اس میں سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس کی مخالفت کی وہ غرق ہو گیا، آپؑ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: میرے اہلِ بیت کے عالم سے علم حاصل کرو یا پھر اس سے جس نے خود اہلِ بیت کے عالم سے علم حاصل کر لیا ہو، تاکہ تم دوزخ سے نجات پاؤ گے۔ کشتیٔ نوحؑ اور عالِمِ اہلِ بیت سے امامِ زمانؑ مراد ہے، جو خدا اور رسولؐ کی طرف سے طوفانِ جہالت اور آتشِ نادانی سے لوگوں کو بچانے کے لئے مقرر ہے، یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم کی تمام مثالوں میں حقیقی علم کی جتنی تعریف کی گئی ہے، جہالت ونادانی ک اتنی مذمت ہے۔
۸۔ یہ ایک مشہور ومعروف تاریخی واقعہ ہے کہ غدیرِ خم میں حضورِ
۴۴
اکرمؐ نے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے لوگو! خوب جان لو کہ علیؑ کا مرتبہ میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کا مرتبہ موسیٰ کے نزدیک تھا مگر میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، علیؑ میرے بعد ولی ہے، اور جس کا میں مولا و آقا ہوں اس کا علیؑ مولا و آقا ہے، پھر آپ نے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کی کہ: اے اللہ! تو اس شخص سے محبت کر جو علیؑ سے محبت کرتا ہے اور اس سے عداوت کر جو علیؑ سے عداوت کرتا ہے اور اس کی مدد کر جو علیؑ کی مدد کرتا ہے اور اس کی مدد نہ کر جو علیؑ کی مدد نہیں کرتا، اور علیؑ جہان کہیں بھی ہو وہیں حق بھی اس کے ساتھ کر دے۔
رسولِ کریمؐ کا یہ ارشاد کئی اعتبارات سے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے، اور یہ نہ صرف دین کی اساسی حقیقتوں سے بھر پور ہے بلکہ اعلیٰ حکمتوں سے بھی مملو ہے، اس میں سب سے پہلے ضروری طور پر سنتِ خدائی اور قرآنی حوالے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دینِ حق میں آسمانی کتاب کی وراثت اور پیغمبر کی جانشینی کوئی نیا واقعہ نہیں، جبکہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا یہی قانون رہا ہے، مگر اس میں یہ فرق ضرور ہے کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں لوگوں کے لئے ہادیٔ برحق کا تقرر اپنی سنت قرار دیا ہے، جس کی روح میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
اس ارشادِ نبوّی سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد کوئی نبوّت و رسالت نہیں، مگر ولایت وامامت ہے، کیونکہ مذکورہ حدیث
۴۵
بزبانِ حکمت یہ کہہ رہی ہے کہ ہمیشہ مولا وآقا کا موجود ہونا ضروری ہے۔
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ صاحبِ خلقِ عظیمؐ (۶۸: ۰۴) کسی ایسے جذبے کے تحت مولا علیؑ کے حق میں دعا کرے جو سنتِ الہٰی اور قانونِ دین کے خلاف ہو، اس سے ظاہر ہے کہ یہ دعا دراصل دستورِ دین کی ترجمانی کی غرض سے ہے، اور یہ اسلام کی سب سے حسین ترین مثال ہے کہ خدا اس شخص سے محبت کرے جو اس کے مظہر سے محبت کرتا ہے، اور علم ورحمت کا سب سے عظیم خزانہ اسی تصور میں پوشیدہ ہے جو رسولِ اکرمؐ نے دیا۔
۹۔ ارشادِ نبوّی ہے: العلم نور یجعلہ اللہ فی قلب من یشاء من عبادہ= علم ایک نور ہے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے یہ (نور) اس کے دل میں رکھتا ہے۔ یہ صفت سب سے پہلے اور سب سے کامل طور پر حضراتِ انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام کے لئے شایانِ شان ہے، اور پھر اسی وسیلے سے بقدر اطاعت ہر مومن کو علم کی روشنی مل سکتی ہے، بہر کیف علم نور ہے اور نور علمی صورت میں ہے، چنانچہ قرآنِ مقدّس میں جہاں نور کا ذکر ہے وہ علم کی بات ہے، اور جہاں علم کا تذکرہ ہے، وہ نور کا بیان ہے۔
نور کی ظاہری تعریف یہ کی گئی ہے کہ نور وہ شی ہے جو پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کرتی ہے اور خود بھی ظاہر ہوتی ہے، جیسے سورج، مگر نور کی یہ تعریف کافی نہیں، کیونکہ اس کا دوسرا پہلو بھی ہے، جو اس سے مختلف ہے، مثال کے طور پر جب صبحِ صادق کا وقت ہوتا ہے تو تب سے روشنی پھیلنے لگتی ہے، بغیر
۴۶
اس کے کہ سورج طلوع ہو چکا ہو، نیز روشنی اس وقت بھی ختم نہیں ہوتی، جب سورج بادلوں کے اوٹ میں ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی، وہ دکھائی دیتا ہے اور دکھائی نہیں دیتا، چنانچہ نورِ علم کی دو صورتیں ہوا کرتی ہیں، ایک وہ جو نظر آتی ہے، اور دوسری وہ جو نظر نہیں آتی، مگر ان دونوں صورتوں میں علم کا وجود ہوتا ہے۔
۱۰۔ نور اگرچہ سرچشمۂ اعلیٰ میں ایک ہی ہے، لیکن مذکورہ دوصورتو ں (مرئی اور غیر مرئی) کے تحت اس کی بہت قسمیں ہیں، جیسے حضرت امام جعفر الصادقؑ کا یہ دعائیہ ارشاد ہے، جس میں یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے کہ ظاہر وباطن کے حواس میں سے ہر حس، ہر قوّت اور ہر جہت کے لئے ایک نور مقرر ہے، وہ دعا یہ ہے:۔
اللھم اجعل لی نورا فی قلبی، ونورا فی سمعی، ونورا فی بصری، ونورا فی لسانی، و نور ا فی شعری، ونورافی بشری، ونورافی لحمی، ونورافی دمی، ونورافی عظامی، و نورافی عصبی، ونورامن بین یدی ونورا من خلفی، ونورا عن یمینی، ونورا عن یساری، ونورا من فوقی، ونورامن تحتی۔
(ترجمہ) یا اللہ میرے لئے میرے دل میں ایک نور بنادے، میرے کان میں ایک نور، میری آنکھ میں ایک نور، میری زبان میں ایک نور، میرے
۴۷
بالوں میں ایک نور، میری کھال میں ایک نور، میرے گوشت میں ایک نور، میرے خون میں ایک نور، میری ہڈیوں میں ایک نور، میری رگوں میں ایک نور، میرے سامنے سے ایک نور، میرے پیچھے سے ایک نور، میرے دائیں سے ایک نور، میرے بائیں سے ایک نور، میرے اوپر سے ایک نور، اور میرے نیچے سے ایک نور بنادے۔
اس سے یقینی طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ انسانِ کامل کا مبارک وجود سراپا نور اور اللہ کی قدرتِ کاملہ کا ایک مکمل نمونہ ہوا کرتا ہے، جس میں اگرچہ نوراصلاً ایک ہی ہوتا ہے تاہم مختلف حواس ومدرکات کی تقویت ورہنمائی کی خاطر اس کی الگ الگ قسمیں ہوتی ہیں، جیسے مذکورۂ بالادعا سے ظاہر ہے۔
۱۱۔ أئمّۂ اہلِ بیت علیھم السّلام سے روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لاعمل الا بنیتہ، ولاعبادتہ الا لبیقین ولاکرم الا بالتقوی
کوئی عمل نیت کے بغیر مقبول نہیں، نہ یقین (معرفت) کے بغیر کوئی عبادت قبول ہوتی ہے، اور نہ تقویٰ کے بغیر کوئی کرامت وبزرگی ہے۔
نیت کے بارے میں جیسا حکم ہے اس کو سب جانتے ہیں، مگر بے یقین عبادت اور بایقین عبادت کے درمیان جو فرق وتفاوت ہے، اس کا جاننا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، چنانچہ جاننا چاہئے کہ لفظ یقین دراصل معرفت کے مترادفات میں سے ہے، جبکہ یقین کے معنی قرآنی
۴۸
اعتبار سے بہت اعلیٰ ہیں، جیسے علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مقبول عبادت کا پہلا مقام علم الیقین ہے، دوسرا عین الیقین، اور تیسرا حق الیقین ہے، اور یہ معرفت کے درجات ہیں، الحمد للہ ربّ العالمین۔
نوٹ: اس مقالہ کی تمام حدیثیں کتاب “دعائم الاسلام” جزئِ سے لی گئی ہیں۔
امامِ اقدس واطہرؑ کا ایک ادنیٰ غلام
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۲۔ نومبر۱۹۸۴ء
۴۹
روح اور حضرت آدمؑ
روح اور حضرت آدم علیہ السّلام کے موضوع کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ آیا قبل از آدمؑ لوگ کسی بھی سیّارے پر موجود تھے یا نہیں؟ اگر وجودِ انسانی کا سلسلہ پہلے ہی سے چلا آیا ہے، تو اس کا کیا ثبوت ہے؟ اگرچہ اس کا مدلل بیان کتابِ روح کیا ہے؟ میں ہو چکا ہے تاہم اس موضوع کی بہت بڑی اہمیت ہونے کی وجہ سے یہاں بھی چند روشن دلائل پیش کئے جاتے ہیں کہ انسان بالکل ایسا قدیم ہے، جیسی خدا تعالیٰ کی بادشاہی قدیم ہے، وہ دلیلیں مندرجۂ ذیل ہیں:۔
۱۔ سورۂ روم کے ایک ارشاد (۳۰: ۳۰) میں جس طرح فرمایا گیا ہے، اس کا واضح مفہوم یہ ہے: “دینِ حنیف (اسلام) دینِ فطرت ہے، اور اللہ تعالیٰ کی فطرت (تخلیق و پیدائش) وہی ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا، خدا کی پیدائش کا جو طریقہ مقرر ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں، اور یہی دینِ قائم ہے۔ “اس قرآنی دلیل سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام کی جسمانی پیدائش قانونِ فطرت کے عین مطابق تھی، یعنی آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے
۵۰
بالکل اسی طرح پیدا کیا تھا جس طرح وہ دوسرے سب لوگوں کو پیدا کرتا ہے۔
۲۔ لفظِ انسان، انس اور انسیا کو بھی ملا کر قرآنِ حکیم میں کل ۸۴ بار استعمال کیا گیا ہے، یہ افرادِ بشرکا ایک ایسا مشترکہ نام ہے، کہ اس کا اطلاق نہ صرف بنی آدم پر ہوتا ہے، بلکہ اس کا ارشاد سب سے پہلے آدمؑ کی طرف ہوتا ہے، چنانچہ سوۂ دہر کا آغاز (۷۶: ۰۲) میں جس طرح انسان کی پیدائش کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کی وضاحت کے بعد یہ کلیہ (عام قاعدہ) بن جاتا ہے کہ ہر انسان ماں باپ سے پیدا ہو جاتا ہے، خواہ وہ حضرت آدمؑ ہو یا حضرتِ عیسیٰؑ، کیونکہ وہ دونوں عظیم پیغمبر بھی جسم سے انسان تھے۔
۳۔ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر۲۱۳میں یہ تذکرہ موجود ہے کہ سلسلۂ انبیاء کے شروع ہونے سے قبل لوگ ایک ہی امت تھے، یا ایک ہی طریق پر تھے، پھر اللہ نے پیغمبروں کو بھیجا (۰۲: ۲۱۳) اس سے صاف ظاہر ہوا کہ حضرت آدم علیہ السّلام مذکورہ لوگوں کے بعد اور انبیاءعلیھم السّلام کے سلسلے میں نبیٔ اوّل کی حیثیت سے تھے۔
۴۔ قرآنِ حکیم میں آدم واولادِ آدم کی پیدائش سے متعلق ایک ہی قانون کا ذکر باربار ملتا ہے، جو لفظِ انسان کے تحت آتا ہے، جیسے سورۂ مومنون (۲۳: ۱۲ تا ۱۴) میں تخلیقِ انسانی کے سات مراحل کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ منزلیں یہ ہیں:
الف: خلاصۂ خاک۔
۵۱
ب: نطفہ۔
ج: علقہ۔
د: مضغہ۔
ھ: عظام۔
و: لحم۔
ز: خلقِ آخر۔
پیدائش کے ان درجات سے گزرے بغیر کوئی فردِ بشر خلقِ آخر نہیں بن سکتا، اور نہ ہی وہ احسن الخالقین کی مخلوق کہلا سکتا ہے (۲۳: ۱۴)
۵۔ آلِ عمران کے ایک ارشاد (۰۳: ۵۹) میں غور کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت آدمؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ایک جیسی (یعنی قانونِ فطرت کے مطابق) تھی، اور ان دونوں کی روحانی تکمیل کے موقع پر خداوند تعالیٰ نے کُنۡ (ہو جا) فرمایا تھا، اس حکم سے یقیناً یہ معلوم ہوگیا کہ حضرت آدمؑ کے جسمانی والدین تھے، جس طرح حضرت عیسیٰ کے ماں باپ تھے، وہ حضرت مریم اور یوسف نجار تھے۔
۶۔ آپ حکیم ناصر خسرو (ق س) کے “رسالۂ حکمتی” جو فارسی میں ہے کو دیکھ سکتے ہیں کہ جن کا اصل فارسی ترجمہ “پری” ہے، یعنی ایسی پوشیدہ اور لطیف مخلوق جو پرواز کر سکتی ہے، چنانچہ قرآنِ پاک (جو اللہ تعالیٰ کے عظیم بھیدوں کا خزانہ ہے) میں باعتبارِ پیدائش کبھی انسان پہلے ہیں (۵۵: ۱۴ تا ۱۵) اور کبھی جنّات (۱۵: ۲۷) جس کی وجہ دائرۂ آفرنیش ہے، جس پر یہ دونوں مخلوق شب و روز کی طرح ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ ریشم کے
۵۲
کیڑوں اور ان سے بنے ہوئے پروانوں کی طرح ہیں، اگر آپ کیڑوں کے موسم میں ان کے ماضی کا تذکرہ چھڑنا چاہتے ہیں تو یہ کہنا درست ہو گا، کہ پہلے پروانے تھے، اگر اس کے برعکس پروانوں کا وقت ہے تو آپ یہ کہیں گے کہ پہلے کیڑے تھے، یہ تو جزوی بات ہو گئی، اور اگر آپ کو اس سلسلے کی کلی بات کرنی ہے، تو پھر کہنے لگیں گے کہ دونوں قسم کی مخلوق میں کوئی زمانی تقدیم وتاخیر نہیں، یعنی باعتبارِ وقت ایک پیچھے نہیں۔
۷۔ اب یہاں مذکورہ حقیقتون کی روشنی میں یہ عرض کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کی نہ تو کوئی ابتداء ہے اور نہ کوئی انتہا، بلکہ یہ ہمیشہ قائم ہے، اور اس بادشاہی کے تحت انسان کا بھی ہمیشہ ہونا لازمی ہے، چنانچہ ہر دور کے لئے ایک آدم ہوا کرتا ہے، اور ہر دور کے آخر میں انسان کثیف سے لطیف ہو جاتے ہیں، یہ صرف جسم کی بات ہے، اعمال کی بات نہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس دور کے آدم سے قبل سیارۂ زمین پر جنات کے کثرت سے ہونے کی جو روایت ملتی ہے، وہ بالکل صحیح ہے، اور اس دور کے آخر میں بھی انسان کو جسمِ لطیف عطا ہو گا، جس کی مثال اڑن طشتری ہے، جس کے بہت سے قرآنی نام ہیں۔
۸۔ اگر ہم نظام ادوار کو مانتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ حکمتِ قرآن کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر اس قانونِ روح کو قبول کرنا ہو گا کہ جب آدمِ سابق کا دور مکمل ہو کر ہمارے بابا آدم کا دور شروع ہوا، تو اس وقت پروردگارِ عالمین نے تمام اگلے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی ذریات
۵۳
کو لے کر خلیفۂ دورؑ (یعنی آدم) کی روحانیت میں حاضر کر دیا، اور عہدوپیمان لینے کے بعد ان کو موجودہ آدم کی اولاد قرار دیا (۰۷: ۱۷۲) اور یہی معجزہ سلسلۂ خلافت (یعنی نبوّت وامامت) کی ہر شخصیت میں سب سے پہلے واقع ہوتا ہے۔
۹۔ قصۂ آدمؑ میں جس طرح روح کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس میں انتہائی عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں، جیسے خدائے بزرگ وبرتر نے روحِ کامل کو حضرت آدمؑ میں پھونک دینے سے پہلے اپنی ذاتِ پاک سے منسوب کرتے ہوئے فرمایا: روحی (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲، یعنی میری روح مگر یہاں جو سرِ عظیم پنہاں ہے، اس کی معرفت بڑی ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ مذکورہ خدائی روح، جو جنابِ آدمؑ میں پھونک دی گئی، یا جو نورمنتقل کیا گیا، وہ قبلاًدوسرے انسانِ کامل میں تھا، اور جہاں “روحِ خدا۔ نورِ خدا” میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی نسبت کا سوال پیدا ہوتا ہے، وہاں اس حقیقت کی کئی قرآنی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، کہ اس میں ذاتِ سبحان سے روحِ اعظم کی وابستگی جیسی کوئی بات نہیں، بلکہ یہ نسبت اس روح کی عظمت، علو مرتبت، پاکیزگی، شرافت، اور قربِ الہٰی کا نام ہے، اس کی کچھ مثالیں درجِ ذیل ہیں: ۔
۱۰۔ اللہ کی رسی (۰۳: ۱۰۳) خدا کا گھر (۰۲: ۱۲۵) خدا کا ہاتھ (۴۸: ۱۰) پہلوئے خدا (۳۹: ۵۶) چہرۂ خدا (۵۵: ۲۷) اللہ تعالیٰ کے ایام (۴۵: ۱۴) کتاب اللہ (۳۰: ۵۶) راہِ خدا (۱۲: ۱۰۸) اس کی کرسی (۰۲: ۲۵۵) اس کا تخت (۶۹: ۱۷) قلمِ الہٰی (۹۶: ۰۴) وغیرہ، یہ تمام عالی مرتبت اور مقدس چیزیں جس طرح خداوندِ تعالیٰ سے منسوب
۵۴
کی گئی ہیں، اس کی وجہ اللہ پاک کی قربتِ خاص ہے، اور خدا کی روح ان مثالوں سے ہرگز مختلف نہیں، یعنی خدائے پاک اس بات سے بے نیاز وبرتر ہے کہ روح اس کا جزو ہو۔
۱۱۔ آپ نے قرآنِ حکیم کی عظیم موضوعات کے سلسلے میں “سنت اللہ” کے موضوع کا خوب غور سے مطالعہ کیا ہوگا، کیونکہ یہ امر انتہائی ضروری ہے، خدا کی سنت یا عادت (جسے آپ قانونِ الہٰی بھی کہہ سکتے ہیں) یہ ہے کہ وہ تبارک وتعالیٰ ہمیشہ سلسلۂ ہدایت کو جاری وباقی رکھتا ہے، اللہ کی عادت کی سب سے روشن حقیقت نورٌ علی نور (۲۴: ۳۵) ہے، یعنی نور کی ایک شخصیت کے بعد دوسری شخصیت کا ہونا، اس سے ظاہر ہے کہ حضرت آدم علیہ السّلام وہ چراغ علم وحکمت تھے، جس کو سابق چراغ کے شعلے سے فروزان کیا گیا تھا، اور اگر آپ “ایک نور کے بعد دوسرا نور”اس کلیہ میں غور کریں، تو آپ کو بڑاتعجب ہو گا کہ سلسلۂ نور کا کوئی آغاز نہیں، یعنی اس کا کوئی ابتدائی سرا نظر نہیں آتا ہے، بلکہ یہ ازل سے ابد تک چلتا رہتا ہے۔
۱۲۔ اللہ تعالیٰ کے پروگرام یا اعلان کے مطابق خلافتِ آدمؑ کا تعلق اہلِ زمین سے تھا (۰۲: ۳۰) لیکن ایسا کیوں ہوا کہ حضرت آدمؑ کے “علم اسما” یعنی علمِ حقائق کا سارا فائدہ ہر بہانے سے فرشتوں کو حاصل ہوا؟ آیا اس میں کوئی راز ہے؟ جی ہاں! اس میں بہت بڑا راز اور بہت بڑی حکمت ہے، وہ اس طرح کہ قصۂ آدم کے فرشتے
۵۵
اہلِ زمین ہی میں سے تھے، وہ اہلِ ایمان تھے، جن کو اپنی روح کے پرلے سرے سے نورِ آدم تک رسائی ہوئی تھی، بالفاظِ دیگر وہ سب کے سب بصورتِ ذرات اپنے وقت کے “عالمِ شخصی” میں داخل ہوگئے تھے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ روح کے دو(۲) سرے ہواکرتے ہیں، یہ سرا بشر ہے اور وہ سرا فرشتہ، روح ایک رستے کی طرح یا پل کی طرح اس لئے ہے کہ وہاں سے کوئی چیز آئے، اور یہاں سے کوئی چیز جائے، ہم اس مثال کی روشنی میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پیاری روح کے اس پل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دنیا وآخرت کو باہم ملا دیتا ہے۔
۱۳۔ حضرت آدمؑ سے متعلق قصۂ قرآن کے ہر ہر لفظ میں معرفت کے بھیدوں کا ایک خزانہ پوشیدہ ہے، مثال کے طور پر لفظِ نفخ (پھونکنا) کو لیجئے، کہ یہ لفظ مختلف صیغوں میں قرآنِ حکیم کے بیس۲۰مقامات پر مذکور ہے، اور ظاہراً ایسے تین الگ الگ معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے کہ وہ باطناً یکجا ہیں، وہ تین معنی یہ ہیں:۔
الف: پھکنی (دھونکنی) سے پھونکنا، تاکہ لوہے کے ٹکڑے آگ کی طرح سرخ ہو جائیں (۱۸: ۹۷) اس کی تاویل “قیامت خیز عبادت” ہے، جو ہر پیغمبر اور ہرامام بجا لاتا ہے۔
ب: صورپھونکنا، کیونکہ انفرادی قیامت کے جملہ مراحل سے آگے گزرے بغیر آدم علیہ السّلام حاملِ نور، خلیفۂ خدا، سرچشمۂ علم وحکمت، اور فرشتوں کا مسجود معلم نہیں ہو سکتے تھے۔
۵۶
ج: روح پھونکنا، یہ نورٌ علی نور کے دائمی قانون کے تحت ایک کامل شخص سے دوسرے کامل شخص میں نور کی منتقلی کا نام ہے، پس جس طرح حضرت آدمؑ نے “انقلابی عبادت” کی، جیسی آپؑ کی ذاتی قیامت برپا ہوئی، اور جس معنیٰ میں ان میں نور منتقل ہو گیا، اس کے حقائق ومعارف اندرونی طور پر سراسر قرآنِ حکیم میں پھیل جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی بے بدل (اٹل) سنت کے مطابق جو حاملانِ نور میں سے گزرتی چلی آئی ہے تمام انبیاء علیھم السّلام کا ایک ہی قصہ بن جاتا ہے۔
۱۴۔ اگرچہ ظاہری تاریخ آپ کو واقعاتِ آدمؑ سے ہزاروں سال دور لے آتی ہے، لیکن قرآن اور نورِ ہدایت کا یہ معجزہ ہے کہ اس کی بدولت آپ یقیناً حضرت آدم علیہ السلام کو انتہائی قریب سے دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ عالم و آدم کی تخلیق سے خلافتِ الہٰیہ مقصود تھی، جو حسبِ منشائے خداوندی سلسلۂ انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام میں جاری وباقی ہے، جیسا کہ سورۂ نور (۲۴: ۵۵) میں ارشاد ہوا ہے:۔
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو (بحقیقت) ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے۔ اس پُرحکمت تعلیمِ سماوی میں پیغمبروں اور اماموں کی خلافت کا ذکر ہے، جو حضرت آدمؑ کی خلافتِ عالیہ کا سلسلہ ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی، مسلمین ومومنین کو اس سے بیش از بیش فائدہ حاصل ہونے کے لئے زیادہ سے زیادہ فرمانبرداری
۵۷
شرط ہے، تاکہ خلیفۂ خدا جو ہر زمانے میں موجود ہے کی معرفت حاصل ہو، پس اسی پہچان میں تمام معرفتیں مرکوز ہو جاتی ہیں، اور یہی روح کی تفصیلی ملاقات کا نتیجہ ہے۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۲۰۔ مارچ ۱۹۸۵
۱۔ ہر پیغمبر اور ہر امام خدا کے حکم سے روح پھونک دیتا ہے، حضرت عیسیٰ کی مثال دیکھئے: ۰۲: ۴۹، ۰۵: ۱۱۰
۵۸
روحِ اسلام
روح کے معنی جان، جیو، آتما، نور، ست، جوہر، اور دل ہیں، اسلام سے دینِ حق مراد ہے، جسے بحکمِ خدا حضورِ انورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے پیش کیا، چونکہ اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا دین ہے، اس لئے یہ تمام انبیاء علیھم السّلام کا واحد دین ہے، اور اسی کا نام دینِ فطرت ہے۔
اس اہم موضوع کے سلسلے میں سب سے پہلے اس حقیقت پر قرآنی روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے کہ جملہ انبیاء ورسل علیھم السّلام اپنے اپنے زمانے میں ایک ہی دینِ حق کی دعوت وتبلیغ کیا کرتے تھے، اور وہ خدائے واحد کا یکتا ویگانہ دین تھا، جس کی تعبیر بعد کے زمانے میں لفظِ “اسلام” سے کی گئی، جیسا کہ پروردگارِ عالم کا مقدس ارشاد ہے:۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسٰۤى اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِؕ (۴۲: ۱۳) اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے وہی دین مقرر کیا جس کا اس نے
۵۹
نوحؑ کو حکم دیاتھااور جس کو ہم نے آپ کے پاس وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کا ہم نے ابراہیمؑ اورموسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو حکم دیا تھا کہ اسی دین کو قائم رکھنا اوراس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔
اس آیۂ حکمت آگین سے یہ حقیقت بدرجۂ یقین روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ دینِ اسلام اور اس کی شریعتِ عالیہ کا آغاز دراصل زمانۂ نوحؑ سے ہوا، اس کے واضح معنی یہ ہوئے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور فطرت کا بہترین نمونہ اس کائنات میں انسان ہیں (۳۰: ۳۰) قرآنِ حکیم کے اس حوالہ میں کہ: “خداکی فطرت وہ ہے جس کے مطابق اس نے لوگوں کو پیدا کیا (۳۰: ۳۰)” بہت سے اشارات موجود ہیں، مختصر یہ کہ اسلام دینِ فطرت ہونے کی بناء پر اپنے اندر زمان ومکان کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگی کی صلاحیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ آفاقی دین ہے، لہٰذا یہ ہمیشہ زندہ غیر منجمد اور حرکیاتی (DYNAMIC) ہے، جیسا کہ شرع لکم….. (۴۲: ۱۳) کی آیتِ پاک میں بزبانِ حکمت فرمایا گیا ہے کہ حضراتِ انبیاؑء نے اسلام کو وقت اور جگہ کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کیاتھا۔ مگر دین کی روح اور حقیقت ہمیشہ سے کسی تبدیلی کے بغیر ایک ہی شان سے چلی آئی ہے۔
اس وضاحت کے باؤجود کوئی شخص قرآنِ مقدس ہی کے حوالے سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ: جب خداتعالیٰ نے ہر امت کے لئے ایک شریعت اور ایک منھاج یعنی طریقت (۰۵: ۴۸) مقرر کر دی ہے، تو پھر ہم کس طرح اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ آج جو شریعتِ محمدی ہے،
۶۰
وہ زمانۂ نوح میں بھی تھی؟
اس کے جواب کے لئے میں یہ عرض کروں گا کہ دین اس مقدس مجموعۂ تعلیمات کانام ہے جس میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت سے متعلق باتیں جمع ہوا کرتی ہیں، چنانچہ دین ہمیشہ بحیثیتِ مجموعی اپنی جگہ قائم رہتا ہے، مگر شریعت اور طریقت کے بعض امور میں بمقتضائے زمان ومکان ترمیم ہوسکتی ہے، پس شریعت کے دو پہلو ہو گئے، ایک وہ جو شروع میں جیسا تھا، اب بھی ویسا ہے، دوسرا پہلو وہ ہے جس میں بحکمِ خدا ترمیمات ہوتی رہی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا مبارک ارشاد ہے: وَ اِنَّ مِنْ شِیْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِیْمَ (۳۷: ۸۳) اور تحقیق نوحؑ کے طریقہ والوں سے ابراہیمؑ بھی تھے۔ یعنی حضرت ابراہیمؑ مذکورہ قانون کے مطابق حضرت نوحؑ کے پیرو بھی تھے، اور آپؑ کی اپنی ایک شریعت وطریقت بھی تھی، جس طرح آنحضرتؐ ایک طرف سے ملتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے تھے، اور دوسری طرف سے اپنی شریعت وطریقت رکھتے تھے، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے:۔
قُلْ اِنَّنِیْ هَدٰىنِیْ رَبِّیْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاۚ (۰۶: ۱۶۱)
آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے ربّ نے ایک سیدھا رستہ بتلا دیا ہے کہ وہ دین قائم ہے جو طریقہ ہے ابراہیمؑ کا جس میں ذرا کجی نہیں۔ اس قرآنی حکم سے ظاہر ہے کہ اگرچہ خدا تعالیٰ نے ہر بڑے پیغمبر کو ایک
۶۱
مخصوص ذیلی شریعت وطریقت عنایت کردی تھی، تاہم یہ بھی روشن حقیقت ہے کہ جملہ انبیاء و رسل علیھم السّلام کا مشترکہ دین اسلام ہی تھا، جس کا آغاز ظاہراً زمانۂ نوحؑ سے ہو گیا تھا، کیونکہ یہ صراط مستقیم اور دینِ قائم ہے، جس کو ہر زمانے میں موجود رہنا ہے، اور اس کی عدم موجودگی کے لئے وقت نہیں۔
یہاں یہ سوال بھی ممکن ہے کہ کوئی پوچھے کہ حضرت آدمؑ کا کیا دین تھا؟ اس میں کیا راز ہے کہ دورِ آدمؑ کے لوگوں کے مذہب اور شریعت کے بارے میں قرآنِ حکیم کچھ نہیں بتاتا؟
اس سلسلے میں یہ عرض ہے کہ نہ صرف حضرت آدمؑ کے زمانے میں بلکہ اس سے بہت بہت پہلے بھی”دینِ قائم” یعنی اسلام ہی تھا، مگر قانونِ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ دین کے اوّل و آخر کے مفصل حالات کو پردۂ اخفا میں رکھا جائے، تاکہ نظامِ امتحان میں خلل نہ پڑے، اور جو لوگ غافل وکاہل ہیں، ان کو قبل از وقت عظیم بھیدوں کا پتہ نہ چلے، بس یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں قصّۂ آدمؑ بہت ہی مختصر اور انتہائی جامعیّت کے ساتھ بیا ن ہوا ہے۔
ایک اور سوال: جب سب پیغمبرا یک ہی دین پر تھے، جس کا نام صراطِ مستقیم ہے (۰۱: ۰۶، ۰۴: ۶۹) تو پھر اس کی کیا وجہ تھی کہ حضورِ اکرمؐ نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کو چھوڑ کر حضرت ابراہیمؑ کی پیروی کی؟ کیا اس کاسبب یہ ہو سکتا ہے کہ خاتم الانبیاؐ ان دونو ں بزرگ پیغمبروں سے عظیم تر تھے؟ اگر بات
۶۲
یوں ہوتی تو پیغمبر آخر زمانؑ حضرت ابراہیمؑ کی بھی پیروی نہ کرتے، کیوں کہ حبیبِ خداؐ اعظم الانبیاء اور سردار رسل ہیں، تو پھر اس کا کیا سبب ہے؟
جواب: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مذکورہ پیروی کسی اورسبب سے نہیں بلکہ آسمانی پروگرام کے مطابق تھی، وہ مطالعۂ تاریخ اور پھر کسی طریقت ومسلک کا انتخاب جیسی بات نہ تھی، یہ پیروی اللہ کی مرضی سے ایک پیش آمدہ واقعیت وحقیقت کی صورت میں تھی، واقعہ یوں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے بڑے فرزند حضرت اسماعیلؑ امام مستقر تھے، اور چھوٹے فرزند حضرت اسحاقؑ امام مستودع، چنانچہ بنو اسماعیل میں امامت استقراری ہمیشہ کے لئے جاری وساری رہی، مگر حضرت اسحاقؑ کی نسل میں استیداعی امامت صرف آنحضرتؐ کے ظہور تک چل کر امامِ مستقر میں مدغم ہو گئی، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ حضورِ اکرمؐ کے اپنے خاندان میں أئمٔۂ مستقر کا پاک سلسلہ جاری تھا، جس کے توسط سے رسول اللہؑ نے بطورِخاص قبل از نبوّت ملت ابراہیمی کی پیروی کی۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی یہ خواہش تھی کہ نہ صرف اپنی زندگی ہی میں بلکہ آئندہ زمانے میں بھی آپ کے لئے دین کے حقائق ومعارف بیان کرنے والی زبان مقرر ہو، جیسا کہ قرآنِ حکیم میں اس حقیقت کا ذکر موجود ہے:
اے میرے پروردگار مجھے ایک حکم (یعنی کلمۂ باری کی معرفت) عنایت کر اور مجھ کو صالحین سے ملا دے، اور میرے واسطے آئندہ آنے والوں میں حق وصدق کی زبان مقرر کر دے (۲۶: ۸۳ تا ۸۴) حضرت ابراہیمؑ
۶۳
کی یہ دعا لفظی فرق کے باؤجود معنویت کی روح میں وہی ہے، جس میں آپؑ نے خدا تعالیٰ سے طلب کی تھی کہ آپؑ کی ذریت میں امامت قائم وبرجا ہے (۰۲: ۱۲۴) اور اللہ تعالیٰ نے آپؑ کی ہر دعا کو قبول فرمایا تھا (۰۴: ۵۴) سو اس کے معنی یہ ہوئے کہ امام ہر زمانے میں موجود اور حاضر ہوتا ہے، جو حق باتیں بتانے کیلئے حضرت ابراہیمؑ کی زبان ہے، جس کی تعلیمات کی آنحضرتؐ نے پیروی کی تھی۔
یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ قوانینِ اسلام اللہ تعالیٰ کی صفات وسنت ہی کے مطابق ہیں، اور دین کا کوئی قانون دائرۂ اسماء سے باہر نہیں، چنانچہ جب ارشاد ہوتا ہے کہ: ھوالاوّل والاخر والظاہر والباطن (۵۷: ۰۳) تو ان بابرکت ناموں کی اس نورانی تعلیم سے اہلِ دانش کو دینی حقیقتوں اور معرفتوں کے مقامات کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ نہ صرف ضیا پاشی اور روشنی ہی بلکہ دینی دولت کی فراوانی بھی وہاں ہوتی ہے، جہاں اللہ پاک کی کوئی صفت جلوہ گر ہو، جیسے ہم کائناتِ ظاہر کو روشن وتابان اور عجائیت و غرائب سے آراستہ اس لئے دیکھتے ہیں کہ یہ خدائے بزرگ وبرتر کے اس”الظاہر” کے تحت موجود اور قائم ہے، اور اس میں اشیائے ظاہر کی کوئی کمی نہیں، اس مثال سے یہ حقیقت نکھر نکھر کر روشن ہو جاتی ہے کہ اللہ جل جلالہ کے ان چار صفاتی اسماء سے چار عالموں کا وجود قائم وباقی ہے، یعنی”الاول” سے عالمِ ازل، “الآخر” سے عالمِ ابد “الظاھر” سے عالمِ جسمانی، اور “الباطن” سے عالمِ روحانی کا قیام ہے۔
مذکورہ حقائق ومعارف کی روشنی میں معلوم ہو جاتا ہے کہ دین کے بنیادی قوانین چار ہیں، یعنی قانونِ ازل، قانونِ ابد، قانونِ جسم (مادّہ)
۶۴
اور قانونِ روح، جیسے قلم، لوح، ناطقؐ اور اساسؑ ہیں۔ اب ہم ان شاء اللہ اس موضوع سے متعلق سوال وجواب سے کام لیتے ہیں۔
سوال۱: امامِ مستقر اور امامِ مستودع میں کیا فرق ہے؟ امام مستودع کا عمل کب سے شروع ہوا؟ کیا ہر زمانے میں امامِ مستودع کا ہونا ضروری ہے؟ امامت کے ان دو درجوں میں کیاحکمت پوشیدہ ہے؟
جواب: مذکورہ دونوں اماموں کے درمیان فرق یہ ہے کہ امامِ مستقر دینی بادشاہ کی حیثیت سے ہر زمانے میں موجود و حاضر ہوتا ہے، اور اس کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہے، اس کے برعکس امامِ مستودع صرف اس زمانے میں ہوتا ہے جبکہ بحکمِ خدا امام مستقر حجاب سے کام لینا چاہتا ہے، امام مستودع کا عمل حضرت اسحاقؑ ابنِ حضرت ابراہیمؑ سے شروع ہوا، امامِ مستودع کا ہر زمانے میں ہونا ضروری نہیں، امامت کے ان دو درجوں میں کئی عظیم حکمتیں ہیں، اور ان میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ جس طرح انسانی روح کے دو۲ سرے ہیں، دو انائیں ہیں، اور وہ بیک وقت عالمِ علوی میں بھی ہے اور عالمِ سفلی میں بھی، پس اسی حقیقت کی طرف علمی اور عملی رہنمائی اور اشارہ کی غرض سے نورِ امامت کے یہ دو شخصی ظہور ہیں۔
سوال۲: بنو حاجرہ جو آنحضرتؐ کے آباؤ اجداد تھے۔ ان میں أئمّۂ مستقرین کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے چلتا رہا، اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اسی پاک خاندا ن سے پیدا ہوئے، حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنی ذریت میں سلسلۂ امامت کے جاری وباقی رہنے کے لئے جو دعا کی تھی (۰۲: ۱۲۴) وہ بنو ہاجرہ اور بنو سارہ دونوں کے حق میں کی گئی تھی، پھر حضرت اسماعیلؑ کی اس فضیلت و فوقیت کا کیا سبب ہے کہ آپ کی نسل میں ہمیشہ
۶۵
روحانی سلطنت کا سلسلہ چلتا رہا، جس کا ذکر قرآن پاک (۰۴: ۵۴) میں موجود ہے؟
جواب: حضرت اسماعیلؑ ابن حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کے فضائل میں سے چند اس طرح ہیں:
۱۔ حضرت اسماعیلؑ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ خداوندِ تعالیٰ نے ان کو غلام حلیم (۳۷: ۱۰۱) جیسے پیارے نام سے یاد فرمایا، جس کا مطلب ہے تحمل والا لڑکا۔
۲۔ آپ سے راہِ خدا میں قربان ہوجانے کے لئے فرمایا گیا، جس پر آپ بصد شوق تیار ہو گئے (۳۷: ۱۰۲) جس کے نتیجے میں خداوندِ مہربان نے آپ کو محسنین میں شمار کیا۔
۳۔ آپ کو اپنی والدۂ محترمہ کے ساتھ بی بی سارہ نے گھر سے نکلوا دیا۔
۴۔ آپ کے حق میں والدِ بزرگوار کی دعا اور والدۂ مکرمہ کی فریاد قبول ہوئی، اور ہر قسم کی قبولیت کے معنی آپ ؑ کے مبارک نام “اسماعیل” میں موجود ہیں، کیونکہ فرشتہ نے عبرانی میں کہا: شماعِ ایل ” شماع (سماع= سننا) ایل (خدا) کے لفظی معنی ہیں خدا کا سننا۔
۵۔ جناب اسماعیلؑ نے اپنے عظیم باپ کے ساتھ تعمیرِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کر لی۔
۶۔ مقدس باپ بیٹے سے اللہ تعالیٰ نے خانۂ کعبہ کی صفائی وپاکیزگی کا عہد لیا (۰۲: ۱۲۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ آپؑ کچھ آگے چل کر اپنے والدِمحترم کے جانشین ہونے والے تھے۔
۶۶
۷۔ حضرت اسماعیل اپنے عالی قدر باپ کی کئی دعاؤں میں ساتھ تھے، خاص کر ایسی دعاؤں کی بات ہے، جو ان دونوں مقدس ہستیوں کی نسلِ آئندہ کے عروج وارتقاء کے لئے خاص تھیں، پس یہی وجہ ہے کہ آپؑ کی نسل سے حضورِ انورؐ کا ظہور ہوا، اور أئمّۂ مستقر کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے چلتا رہا۔
سوال۳: امامِ مستقر پر امامِ مستودع کس طرح حجاب ہوتا ہے؟ کیا ایک امام دوسرے امام کیلئے پردے کا کام دے سکتا ہے؟ اگر یہ درست ہے تو اسمائے الہٰی اور سنتِ خدائی کی کوئی مثال پیش کر کے ثابت کیا جائے۔
جواب: اس بارے میں خدا کے ناموں سے ثبوت یہ ہے کہ جہاں اللہ پاک کا ایک اسم “الظاہر” ہے وہاں اس کا دوسرا اسم ـ”الباطن” ہے، چنانچہ الظاہر امامِ مستودع کی دلیل ہے، اور الباطن امامِ مستقر کی دلیل، اور خدا کی سنت وعادت سے اس حقیقت کا ثبوت یہ ہے کہ وہ جل شانہ جب کسی بشر سے کلام کرتا ہے، تواس وقت حجاب کے پیچھے سے کلام کرتا ہے، اور جب اشارۂ خاص (وحیٔ خاص) کرنا چاہتا ہے، تو اس حال میں ظہور فرما ہو جاتا ہے (۴۲: ۵۱) اس کے علاوہ قرآن کی مثال یہ ہے کہ اس کے الفاظ و کلمات معانی پر حجاب ہیں اور تنزیل پردہ ہے تاویل پر، نیز مثال حجاب ہے ممثول کا، حالانکہ یہ ساری چیزیں خود قرآن ہی ہیں، اسی طرح ایک اعتبار سے امام خود اپنے آپ کا حجاب ہے، یعنی حقیقی نور پردۂ جسم کے اندر پوشیدہ ہے، جیسے سورج کے ظاہر میں باطن چھپا ہوا ہے۔
سوال۴: اس موضوع کا عنوان ہے “روحِ اسلام” اس سے
۶۷
اسلام کی کونسی چیزمراد ہے؟ آیا دینِ اسلام کی واقعی کوئی زندہ روح موجود ہے؟ یااس سے دین کے وہ اساسی امور مرادہیں، جو انتہائی اہم ہوا کرتے ہیں؟ اور جو دین کے جوہر کا درجہ رکھتے ہیں؟
جواب: دین کے اساسی اور انتہائی اہم امور کی اہمیت اپنی جگہ درست ہے، کیونکہ وہ دین کے جواہر ہہی ہیں تاہم اسلام کی ایک حقیقی روح بھی ہے، جو زمانۂ آدمؑ سے اس طرف چلی آئی ہے (۱۵: ۲۹، ۳۸: ۷۲) وہ روح بھی ہے اور نور بھی (۴۲: ۵۲) وہ ہمیشہ آسمانی کتاب کے ساتھ ہے (۰۵: ۱۵) کیونکہ یہ اس کی جان ہے، یہ سچ ہے کتابِ منیر دینِ خدا کی روح اور نور ہے (۰۳: ۱۸۴، ۲۲: ۰۸، ۳۱: ۲۰، ۳۵: ۲۵) یہ درست ہے کہ روحِ اسلام کا ایک خاص نام سراجِ منیر ہے (۳۳: ۴۶) اس میں کوئی شک نہیں کہ ہادیٔ برحق کا نور ہی روحِ اسلام اورنورِ اسلام ہے (۵۷: ۲۸)
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ سین جیسا ایک شریف ترین امرجمادات کی طرح بیجان ہو، یا اس میں حیوان کی طرح ایک ادنیٰ روح ہو، یا اس میں ایک عام انسان کی روح ہو، چنانچہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ دین کی روح سب سے اعلیٰ ہے، اور اس کے ناموں میں سے ایک نام “روح الایمان” ہے، یہ وقت آنے پر دل میں داخل ہو جاتی ہے (۴۹: ۱۴) جس سے دل روشنیوں کی دنیا بن جاتا ہے (۴۹: ۰۷) پس دین میں صرف روحِ اعظم ہے بلکہ عقلِ کامل بھی ہے، اور وہ اسی روح ونور سے الگ نہیں۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔
غلامِ غلامانِ امامِ زمانؑ
نصیرؔ الدین نصیر ہونزائی
۲ دسمبر ۱۹۸۴ء
۶۸
روح اور سائنس
عنوانِ بالا کا مقصد یہ ہے کہ روح کے چند حقائق ومعارف سائنسی مشاہدات کی روشنی میں پیش کئے جائیں، اور علمِ روح کی مدد سے سائنس کا تجزیہ کر کے دیکھا جائے کہ اس کی طاقت کا بنیادی اور اصل سرچشمہ کیا ہے؟ روح اور سائنس (یعنی مادّہ) کے درمیان ربط و رشتہ کیا ہے؟ ان دونوں چیزوں کے مابین کوئی حدِ فاصل ہے یا نہیں؟ اگر نہیں (یا ہے) تو کس طرح؟ آفاق و انفس کی آیات کیا ہیں؟ معرفتِ روح کے سلسلے میں سائنسی تمثیلات کس حد تک ممدومعاون ثابت ہو سکتی ہیں؟ آیا قرآنِ حکیم میں سائنس سے متعلق کوئی واضح تذکرہ یا کوئی حکیمانہ اشارہ موجود ہے؟ نزولِ قرآن کے ساتھ ساتھ مستقبل کے جن عظیم انقلابات کی پیش گوئی کی گئی تھی، ان میں کہاں یا کس میں سائنسی انقلاب کا اشارہ موجود ہے؟ کیا فرشتوں اور روحوں کے نزول کو سب لوگ دیکھ سکیں گے؟ ان جیسے سوالات سے یہاں بحث کی گئی ہے۔ کیونکہ آج کی دنیا میں منشائے قدرت کے مطابق جیسے بعض صحیح اور مفید علوم و فنون
۶۹
اوجِ کمال پر ہیں، اور جس طرح سائنسی عجائب وغرائب کا دور دورہ ہے، اس کی بدولت یہ بات پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوگئی ہے کہ روح و روحانیت کے بارے میں سوچا جائے، اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ اب سے تقریباً چودہ سو سال ۱۴۰۰ قبل آفاق وانفس کی جن آیات کے ظہور کی پیش گوئی کی گئی تھی (۴۱: ۵۳) ان میں سے آفاقی آیات یعنی سائنسی عجائبات نے دنیا میں رونما ہوتے ہی ایک ظاہری اور مادّی قیامت برپا کر دی ہے، اور جب اس پیش گوئی کے دوسرے معجزات یعنی روحانی عجائب وغرائب ظاہر ہوں گے، تو اس روحانی انقلاب یا قیامت سے احوالِ جہان بدرجۂ انتہا دگرگون ہوں گے۔
قیامت انفرادی ہو یا اجتماعی، جیتے جی ہو یا جسمانی موت کے بعد، بہرکیف اس کو اپنے وقت پر آنا ہی ہے، لہٰذا ہر مومن کی دانشمندی اس بات میں ہے کہ وہ اس کے لئے خود کو احکامِ خداوندی کے مطابق تیار کر رکھے، خودشناسی اور خدا شناسی کی طرف بھر پور توجہ دے، اور تین مقامات کی آیات میں غوروفکر کرے، اس سلسلے میں سب سے پہلے قرآنِ حکیم سے رجوع اہلِ ایمان کی بہت بڑی سعادت ہے، پھر قرآنِ پاک ہی کے بہت سے ارشادات کے بموجب آفاقی آیات میں تدبر کا مرحلہ آتا ہے، تاکہ فطرت کے اندر جس طرح فاطر (یعنی خالق) کی نشانیاں پوشیدہیں، اور جیسی اس کی صفات کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، اس سے آگہی ہو، چنانچہ یہ حقیقت سب کے نزدیک مسلّمہ ہے کہ سائنس مطالعۂ قدرت اور مشاہدۂ
۷۰
فطرت کی پیداوار ہے، پھر اس کے کامیاب اورمفید پہلو کو ہم کس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں، جبکہ یہ خدا کی نشانیوں اور نعمتوں میں سے ہے (۴۱: ۵۳، ۳۱: ۲۰)
آیات کا تیسرا مقام عالمِ نفسی (یعنی عالمِ روحانی) ہے، جس سے روح و روحانیّت مراد ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ عوالم یعنی دنیائیں تین ہیں، عالمِ دین، عالمِ ظاہر، اور عالمِ شخصی، ان میں سے ہر ایک بجائے خود اللہ کی ایک مکمل کتا ہے، اسی وجہ سے ان تینوں میں آیات ہیں، آیت کے معنی نشانی بھی ہیں اور معجزہ بھی، پس عالمِ دین یعنی قرآنِ حکیم میں جو کچھ الفاظ ومعانی میں ساکن اور یکجا ہے، وہ کائنات میں متحرک اور پھیلا ہوا ہے، اور عالمِ شخصی میں زندہ اور مجموع ہے۔
قرآنِ حکیم کے عظیم معجزات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے ظاہر و باطن کے وسیع معنی میں ہر چیز کا بیان کرنے والا ہے (۱۶: ۸۹) اور اس حقیقت کو عملاً دیکھنے کے لئے نورِ ہدایت کی روشنی چاہئے (۰۵: ۱۵) اگر وہ روشنی حاصل ہے تو اللہ تعالیٰ کی اس پُرحکمت کتاب میں ہر چیز کا ضروری بیان موجود ہے، چنانچہ سائنس جیسی بڑی اہم چیزاور اس کے انقلاب کا اشاراتی تذکرہ نہ صرف بہت سی پیش گوئیوں میں فرمایا گیا ہے، بلکہ اس کے علاوہ اور بھی کئی عنوانات ہیں، مثال کے طور پر خداتعالیٰ کا بار بار یہ اشارہ فرمانا کہ تم اس کائنات کی ہر چیز میں غور وفکر کرو، اس ہدایت میں انسان کی سعادتِ دارین پوشیدہ ہے، کیونکہ اس حکم کی تعمیل میں مادّہ اور روح
۷۱
دونوں کی حقیقت جاننے کا امکان ہے، یعنی اس مطالعۂ قدرت (NATURE STUDY) میں ایک طرف سائنس سے آگہی کا فائدہ ہے اور دوسری طرف حصولِ معرفت کا۔
سورۂ انفال کے ایک ارشاد (۰۸: ۶۰) میں اسلام کی حفاظت ومدافعت کی تیاری کے سلسلے میں جس جامعیّت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے، اس سے یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ آسمانی تائید کی بدولت جو بھی مادّی قوت ممکن ہے، وہ سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر مسلمانوں کے پاس ہونی چاہئے، پس ظاہر ہے کہ ایسی طاقت کی تحلیل صرف سائنسی ایجادات ہی کی صورت میں ہو سکتی ہے۔
یہاں اس امر سے بحث مقصود نہیں کہ ہم مسلمانوں نے دوسروں کے مقابلے میں سائنسی اعتبار سے کتنی ترقی و پیشرفت کی ہے، یا کس قدر پیچھے رہ گئے ہیں، اور اس کے اسباب وعلل کیا ہیں، لیکن ہم سب کو اس حقیقت کی طرف توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے، کہ سائنسی فکر وعمل کے نتیجے میں جو عجیب و غریب آلات اور ان کے گوناگون کرشمے سامنے آئے ہیں، وہ نہ صرف ظاہری اور مادّی نقطۂ نظر سے مفید ہیں، بلکہ ا ن کا سب سے بڑا فائدہ باطنی اور روحانی قسم کا ہے، وہ یہ کہ ان میں روح و روحانیت کی ایسی بہت سی تمثیلات وتشبیہات موجود ہیں، جن کی روشنی میں غور وفکر کر کے ہر دانشمند روح سے متعلق علم الیقین کو حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح ان چیزوں کو اپنی آیات کا درجہ دیا ہے، اس کی خاص غرض
۷۲
یہی ہے، اور آیات کے معنی یہاں معجزات ہیں، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّؕ (۴۱: ۵۳) ہم عنقریب ان کو اپنے معجزات دنیائے ظاہر میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی جانوں میں بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ (یعنی خدا) حق ہے۔ اس ربانی تعلیم میں، جو مادہ اور روح کی حکمتوں سے مملو ہے، نہ صرف امروز کی سائنسی ترقی کی پیش گوئی اور فردا کے روحانی انقلاب کی خوشخبری ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ پہلے پہل سائنسی معجزات کا ظہور ہوگا، اور اس کے بعد روحانی معجزات کا دور آئے گا، تاکہ لوگ ان ظاہری وباطنی عجائب وغرائب کے سلسلے میں غور وفکر کرتے ہوئے خودشناسی اور خدا شناسی کی سعادت حاصل کر سکیں۔
یقیناً روح عالمِ امر (یعنی کلمۂ کُنۡ) سے ہے، اس لئے وہ بحقیقت بے مثال ہے، تاہم اس مادّی دنیا میں بقدرِ امکان کوئی ایسی ظاہری چیز روح کی مثال ہو سکتی ہے، جوبہت سی اعلیٰ خصوصیات کی وجہ سے مادّیت کی چوٹی پر ہو، جو سب سے لطیف، سریع الحرکت، اور ہمہ رس ہو، جس میں ایک طرف وحدت اور دوسری طرف کثرت کا نمونہ پایا جائے، جو روح کے گونا گون ظہورات کی مثال کو پیش کر سکے، جو دکھائی دے اور نہ دکھائی دے، جو جسم کو چھوڑ کر اس کی صورتِ لطیف کو پیش کرسکے، جس میں ہر قسم کی آواز اور گفتگو محفوظ ہو سکے، جس کے ذریعہ دور دور بیٹھے ہوئے لوگ
۷۳
آپس میں گفت وشنید کر سکیں، جو بلندیوں میں اڑتا اور اڑاتا پھرے، جو زندہ چیزوں کی متحرک عکاسی کرے، اور ان کے ماضی کو حال بنائے، جو سعی اور بصری اشیاء کی ایک کائنات کو بنائے، جو باغ وگلشن کے حسین منظر کو سدا بہار محفوظ کر لے، جو ذرۂ بے مقدار کو آفتاب بنا کر اور آفتاب کو ذرے کے مشابہ کر کے دکھائے، اور جو ہر اعتبار سے عجائب وغرائب اور علم وفن کی ایک ایسی جدید دنیا ہو، کہ قبلاً اس کی کوئی مثال نہ ملے، جی ہاں، یقیناً ایسی انتہائی عجیب شے سائنس ہے، جس میں دوسری مادّی چیزوں سے بڑھ چڑھ کر، اور بڑی عمدگی کے ساتھ روح کی مثالیں موجود ہیں، پس اہلِ دانش پر واجب ہے کہ وہ اس میں چشمِ بصیرت سے دیکھیں، کہ دراصل یہ اللہ تعالیٰ کے ان معجزات میں سے ہے، جن کے دکھانے کی پیش گوئی نزولِ قرآن کے زمانے میں کی گئی تھی، اور ان کا اعلیٰ ترین مقصد روح شناسی ہے، جس میں خدا شناسی ہے۔
“روح اور سائنس” کے اس اہم ترین موضوع کے سلسلے میں یہ ایک بنیادی سوال سامنے آتا ہے کہ آیا روح اور مادّہ حقیقت میں دو الگ الگ چیزیں ہیں؟ اگر کہا جائے کہ ہاں، تو پھر سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان حدِ فاصل کیا ہے یا کون سی شے ہے، جو ان دونوں چیزوں کو ایک دوسرے سے قطعاً جدا کر دے؟ کیا اس کے برعکس یہ ممکن ہے کہ ان دونوں کا رشتۂ وجود (یعنی ہستی کا دھاگا) ہمیشہ اور ہر مقام پر متصل اور اٹوٹ ہو؟ اس کے بارے میں میری
۷۴
گزارش یوں ہے کہ روح اور جسم یعنی مادّہ اگرچہ ظاہراً الگ الگ دوچیزیں ہیں، لیکن بحقیقت یہ ایک ہی چیز ہے، جس کی یہ دو صورتیں ہیں، وہ واحد شیٔ وجود (ہستی) ہے، اور اس کی یہ دونوں شکلیں تحلیل وانجماد کے نام سے ہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ پتھر ہو یا لوہا، جو منجمد ہونے کی وجہ سے جماد کہلاتا ہے، اس کی تحلیل نباتات، پھر حیوانات، پھر انسان میں ہو سکتی ہے، او ر ان کی تحلیل انسان میں براہِ راست بھی ہو سکتی ہے، اس کی ایک روشن دلیل یہ ہے کہ بعض مقوی غذاؤں کا ایک اہم عنصر فولاد ہوتا ہے، نیز نہ صرف یونانی طب میں، بلکہ ڈاکٹری میں بھی بعض دواؤں میں فولاد ملا دیا جاتا ہے، اسی طر ح بعض خاص پتھروں اور ان جیسی جامد چیزوں کو بھی بطورِ دوا استعمال کرتے ہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ پتھر اور لوہے کی تحلیل سب سے پہلے روحِ حیوانی کی صورت میں ہو جاتی ہے، اور اس کے بعد روحِ انسانی میں۔
ہم اس اصول کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہر قسم کے مادّہ میں کوئی نہ کوئی روح پنہان ہوا کرتی ہے، مثلاً بیدار ومتحرک روح، نیم بیدار (نیم خوابیدہ) خوابیدہ، نیم مردہ، مردہ، نیم منجمد، منجمد روح، وغیرہ، تاکہ کارخانۂ قدرت چلتا رہے، اور نظامِ کائنات وموجودات قائم ہو۔
اس سلسلے کی وجہ آیۂ مبارکہ جو کلیدی حکمتوں سے مملو ہے، یہ ہے: قُلْ كُوْنُوْا حِجَارَةً اَوْ حَدِیْدًا (۱۷: ۵۰) ان سے کہو”تم پتھر ہو جاؤ یا لوہا”۔ اس ارشاد میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں؟ کیا اس امر کا تعلق
۷۵
آسمان سے ہے یا زمین سے؟ یا دونوں سے ہے؟ کیونکہ پتھر اور لوہا دونوں جگہ موجود ہیں، بہرحال جب اللہ تعالیٰ نے چاہا، اور اپنے رسولِ کریمؐ کی زبانِ پاک سے “کونو” فرمایا تو یقیناً ان لوگوں کے ذراتِ روح پتھر یا لوہا بن گئے، جیسے سورۂ بقرہ (۰۲: ۶۵) میں ارشاد ہے: ….. كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـٕیْنَ (۰۲: ۶۵) اور اپنی قوم سے ان لوگوں کی حالت تو تم بخوبی جانتے ہو جو شنبہ کے دن اپنی حد سے گزر گئے تو ہم نے ان سے کہا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔ یہ لوگ بنی اسرائیل میں سے تھے، جنھوں نے سنیچر کے دن مچھلیوں کا شکار کر کے نافرمانی کی تھی، اللہ تعالیٰ کا ان سے یہ فرمان کہ “تم ذلیل بندر بن جاؤ”۔ حضرت داؤد علیہ السّلام کی زبان کے توسط سے تھا (۰۵: ۷۸) اور اس امر کے بموجب ان لوگوں کے ذراتِ روح بندر بن گئے تھے، مذکورہ دونوں مثالوں سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہادیٔ زمان خدا کی زبان ہوا کرتا ہے۔
سورۂ لقمان (۳۱: ۱۶) میں ارشاد ہے: یٰبُنَیَّ اِنَّهَاۤ اِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِیْ صَخْرَةٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِهَا اللّٰهُؕ (۳۱: ۱۶، اور لقمان نے کہا تھا) بیٹٓا اگر کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو پھر وہ کسی چٹان کے اندر ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو اللہ اسے نکال لائے گا، یہ آسمان زمین کی ہر ہر چیز میں ذرۂ روح موجود ہونے اور انفرادی قیامت میں ایسے تمام ذرات کے محشور ہونے کی ایک مثال ہے۔
اس وسیع وعریض کائنات کی ایک عظیم الشّان رو ح ہے، جس کے
۷۶
کئی نام ہیں، جیسے کرسیٔ خدا (۰۲: ۲۵۵) نفسِ واحدہ (۰۶: ۹۸، ۳۱: ۲۸) جنت (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) لوحِ۔ (۸۵: ۲۲) روحِ قرآن (۴۲: ۵۲) سماء (آسمان، ۰۶: ۰۶) نفسِ کلّی، روحِ ارواح، روحِ اعظم، عالمگیر روح یا کائناتی روح، وغیرہ، یہ نکتہ انتہائی اہم ہے کہ ہم سب کرسی یعنی کائناتی روح کی شکل کا تصور کریں، کہ کرسی کائنات اور اس کی ہر چیز کے ظاہر وباطن سے وابستگی کی وجہ سے کائنات ہی کی طرح گول ہے، یعنی عالمگیر روح کا سمندر، جس میں دنیائے ظاہر ڈوبی ہوئی ہے، گول شکل رکھتا ہے، مگر اب یہ جاننا باقی ہے کہ کائنات بحرِ روح میں کس طرح غرق ہو گئی ہے؟ کیا اس پتھر کی طرح جو پانی میں ڈوب جاتا ہے؟ نہیں نہیں، کیونکہ پتھر تو بے شک پانی میں ڈوب جاتا ہے، مگر اس کے باطن میں پانی داخل نہیں ہو سکتا، اس کے برعکس جہاں سارا عالم روح کے سمندر میں مستغرق ہے، وہاں ہر ذرہ ظاہراً و باطناً روح کی لپیٹ میں ہے، جس طرح مٹی کی کوئی ایسی اینٹ جو پانی میں ڈالی گئی ہو، اور اس کے ظاہر و باطن میں پانی ہی پانی چھا جائے، یا اس مثال کو یوں سمجھ لیں کہ لوہے کا ایک بڑا سا گولہ ہے، جس کو لوہار نے بھٹی میں سرخ سنگارا بنا دیا ہے، اب آپ ہی بتائیے کہ اس گولے کے ہر ذرے میں آگ ہے یا نہیں؟ اور تمام گولہ کس طرح آگ میں ڈوب گیا ہے؟ اس مثال سے یہ حقیقت روشن ہو کر سامنے آئی، اور ذرابھی شک باقی نہ رہا کہ آسمان زمین میں ہر طرف، ہر جگہ، اور ہر چھوٹی بڑی چیز کے اندر باہر روح محیط ہے۔
اگر روح کا تصور جسم (مادّہ) کے بغیر کیا جائے، تو اس حال میں یہ
۷۷
کہنا درست نہیں ہو گا کہ روح کا سمندر گول ہے، یا کسی اور شکل کا ہے، کیونکہ روح پر، جبکہ مجرّد ہو، ابعادِ ثلاثہ (طول، عرض، عمق) کا اطلاق نہیں ہوتا ہے، مگر جہاں اس کی وابستگی عالمِ جسمانی سے ہے، وہاں یہ بات حقیقت ہے کہ روحِ کلّی کا سمندر اس کائناتِ ظاہر ہی کی طرح گول ہے، اور یہی سمندر جو بحرِ رحمت ہے بہشت بھی ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم نے فرمایا کہ جنّت کی عرض (چوڑائی، یعنی وسعت) کائنات کی عرض کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱)
سوال: آپ نے کہا کہ کرسی یعنی عالمگیر روح جو بحرِ رحمت بھی ہے اور جنت بھی، اس کی شکل اس کائنات کی طرح گول ہے، لیکن ہم کو کیسے یقین آئے کہ عالمِ ظاہر یعنی یہ مادّی کائنات گو ل ہے؟ کیا آپ اس سلسلے میں کوئی ٹھوس دلیل پیش کر سکتے ہیں؟
جواب: دلیل۱: جب خداوند تعالیٰ نے فرمایا کہ جنت کی عرض (چوڑائی، ۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) آسمان و زمیں یعنی کائنات کی چوڑائی کے برابر ہے، تو اس میں اس دانائے مطلق نے بہشت کی لمبائی اور گہرائی کا کوئی ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ وہ بھی اور یہ جہان بھی گول ہے، اور گول چیز کی جو کچھ چوڑائی ہوتی ہے، وہی اس کی لمبائی بھی اور گہرائی بھی شمار ہوتی ہے، یہی سبب تھا، کہ خدائے علیم وحکیم نے جنت اور کائنات کی صرف عرض کا ذکر فرمایا، اور طول وعمق کے بارے میں کچھ ارشاد نہیں کیا گیا، پس اس دلیل سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ کائنات اور عالمگیر روح کی شکل گول ہے۔
۷۸
دلیل۲: اس کائنات کا ہر سیّارہ اور ستارہ جب وجود میں آیا، تو وہ گول شکل میں تھا، اور اب بھی ایسا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ گول کائنات کی گول حرکت کے زیرِ اثر پیدا ہوا ہے، نیز ان میں سے ہر ایک جس طرح ایک دائرے میں گردش کرتا ہے، اس کا سبب بھی یہی ہے، کہ وہ کائناتی گول گردش کے دھکے میں ہے (۲۱: ۳۳، ۳۶: ۴۰)
دلیل۳: سورج کا سرچشمہ جو کائنات کے مرکز یعنی وسط میں واقع ہے، وہ ہر طرح سے گول ہے، یہ روشن گیس کی ایک بہت بڑی طوفائی دنیا ہے، جہا ں عالمگیر روح کے دباؤ سے ایتھر (ETHER) کی تحلیل ہو کر روشنی کا انتہائی عظیم ذخیرہ بن جاتا ہے، اور اس کی شکل گول اس لئے ہے، کہ یہ گول کائنات اور گول عالمگیر روح کی گول گرفت میں ہے۔
دلیل۴: کائنات کی جو اصل ہے، اس کا تصوّر مدور (گول) ہے، اور وہ اصل لولوئے مکنون ہے، جس سے کائنات پیدا کی گئی ہے، اور جب جب اللہ تعالیٰ اپنے دستِ قدرت میں کائنات کو لپیٹ لیتا ہے تواس کے نتیجے میں پھر وہی لولو حاصل آتا ہے (۳۹: ۶۷، ۲۱: ۱۰۴) پس ان دلائل سے اس حقیقت کا کامل اور مکمل یقین ہوگیا کہ کائنات یعنی جسمِ کلی پوری طرح گول ہے۔
جس طرح پانی مختلف حالتوں میں پایا جاتا ہے، جیسے سمندر، بخارات، بادل، برف، بارش، شبنم، یخ، چشمہ، کنواں، کاریز، نہر، ندی، دریا، وغیرہ، اسی طرح فرشتہ ہو یا روح، اس کے مختلف حالات ودرجات ہوا کرتے
۷۹
ہیں، مثال کے طور پر وہ ایک عقلی نور ہے، وہ ایک رحمانی صورت ہے، وہ جامع الجوامع کلمہ ہے، وہ ایک نورانی آواز ہے، وہ ایک روشنی ہے، وہ ایک لطیف بشری ظہور ہے، وہ ایک صاعقہ (کڑکنے اور زمین پر گرنے والی بجلی) ہے، وہ ایک رعد (بادل کی گرج) ہے، وہ ایک برق (آسمانی بجلی) ہے، وہ ایک مجموعۂ ذرات ہے، وہ ایک تجلّی ہے، وہ ایک علمی دنیا ہے، وہ ایک بہشت ہے، اور اس کی کم سے کم شعاعوں کا ادراک حسنِ توفیق، نیک خیال، اور ایجادی وفنی سمجھ بوجھ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے:۔
فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا (۹۱: ۰۸) پھر اس (یعنی جان) کی بدکرداری اور پرہیز گاری (دونوں باتوں) کا اس کو القاء کیا۔ سب لوگ اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ برے خیالات شیطان سے ہیں، پھر دوسری طرف سے بھی اسی طرح ماننا ہوگا کہ اچھے خیالات فرشتے کے توسط سے ہیں، اس کا نتیجہ بڑی صفائی کے ساتھ یہ نکلا کہ سائنسدانوں نے غوروفکر کے بعد جو کچھ دنیا والوں کو دیا، وہ دراصل خزائنِ الہٰی میں تھا، جسے خداتعالیٰ نے فرشتوں اور روحوں کے ساتھ نازل فرمایا، اور ان سے سائنس والوں نے غیر شعوری کیفیت میں یہ ساری چیزیں حاصل کر لیں۔
وہ بابرکت شبِ قدر جو ہر سال رمضان المبارک میں واقع ہوتی ہے، جس میں جملہ امور سے متعلق فرشتوں اور روحوں کا نزول ہوتا ہے، لیکن جو کچھ لایا جاتا ہے اور جو کچھ دیا جاتا ہے، اس سے کوئی شخص آگاہ نہیں
۸۰
ہوتا، یہ علامت اور مثال ہے، اور اس کا ممثول “دوری شبِ قدر” ہے، جو بہت ہی عظیم ہے، اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ سب سے مبارک رات آچکی ہے اور نزولِ ملائکہ و ارواح بھی ہو چکا ہے، توکیا خداتعالیٰ کے نزدیک یہ بات ضروری ہے کہ اس واقعہ کی خبر سب لوگوں کو ہو؟ جب کہ رات کی تاویل باطن، پوشیدگی اور روحانیت ہے؟ اور فرشتوں نے بادلوں کے اوٹ میں اترنا تھا (۰۲: ۲۱۰، ۲۵: ۲۵) ؟ مگر ہاں، یہ صحیح ہے کہ اس عظیم الشّان روحانی انقلاب میں جن امور کا تعلق دنیائے ظاہر سے ہے، ان کی مادّی صورتیں ظہور پذیر ہوتی جا رہی ہیں، اور یہی چیزیں سائنسی ایجادات کہلاتی ہیں۔
اگر آج نہیں تو کل ضرور یہ راز سائنسدانوں پر روشن ہو جائے گا کہ سائنس روحانی انقلاب کا پیش خیمہ ہے، اور یہ سارے اکتشافات ایک عظیم الشّان آسمانی پروگرام (PROGRAMME) کے تحت ہوتے جا رہے ہیں، تاآنکہ اسرارِ روح و روحانیت ظاہر ہونے لگیں گے، اور اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے مطابق دنیا میں سب سے بڑی تبدیلی رونما ہو جائے گی۔
سائنس کا سارا نظام “روحِ مسخر” پر قائم ہے، جیسا کہ سورۂ جاثیہ (۴۵: ۱۳) میں ارشاد ہوا ہے: اور اس نے آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کو تمھارے لئے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے۔ اس سے ارواحِ سماوی وارضی کی تسخیر مراد ہے، کہ ظاہراً سائنسی نتائج وثمرات کی صورت میں ہے اور باطناً روحانی سلطنت کی شکل میں۔
۸۱
سورۂ حجر (۱۵: ۲۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۱۵: ۲۱) اور کوئی چیز (اس قانون سے باہر) نہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اس کو نازل نہیں کرتے ہیں مگر اس کے خزانے ہمارے پاس ہیں اور ہم اس کو نازل نہیں کرتے ہیں مگر دانستہ مقدار میں۔ اس آیۂ مبارکہ میں باربار غور وفکر کرنا چاہئے تاکہ اس سے بیش از بیش علمی برکتیں حاصل ہو جائیں، چنانچہ ہم سب سے پہلے عندنا کے بارے میں سوچتے ہیں کہ عندی (میرے پاس) کی جگہ عندنا (ہمارے پاس) کیوں فرمایا گیا ہے؟ اس میں کیا راز ہے؟ دوسرا سوچنا یا پوچھنا یہ ہے کہ ایک چیز کے کئی خزانے کیوں ہیں؟ ایک خزانہ کیوں نہیں؟ تیسرا سوال ہے کہ اس آیۂ مقدسہ کے مطابق کوئی چیز کب دنیا میں نازل ہوتی ہے؟ کیا ہر زمانے میں اور ہر وقت؟ یا یہ کسی خاص زمانے کی بات ہے؟ اور چوتھا سوال یہ ہے کہ دانستہ مقدار سے کیا مراد ہے؟ آیا اس میں علمِ الہٰی کا ذکر ہے یا انسانی معلومات کا؟ یا دونوں کا تذکرہ ہے؟
اس سلسلے میں میری انتہائی عاجزانہ گزارش یہ ہے کہ اس آیۂ حکمت آگین کی ایک تاویل کتاب “گنجِ گرانمایہ” میں موجود ہے، یہاں ایک اور تاویل بیان کی جاتی ہے، کہ قرآنِ حکیم میں جب اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا کوئی ذکر مقصود ہوتا ہے، تو اس میں لازم طور پر ہمیشہ ذاتِ یکتا کے لئے ضمیر واحد آتی ہے، لیکن جس وقت کسی خدائی فعل کا تذکرہ کرنا ہوتا ہے، تو اس صورت میں اکثر ضمیرِ جمع استعمال کی جاتی ہے، اس کی وجہ یہ
۸۲
ہے کہ باری سبحانہ کے لئے جس طرح امر خاص ہے، اس طرح فعل خاص نہیں، کیونکہ وہ بادشاہِ مطلق ہے، لہٰذا اس کے حکم کے تحت عظیم فرشتے یعنی قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، جبرائیل، نورِ نبوّت، اور نورِ امامت کام کرتے ہیں، چنانچہ خدائے پاک وبرتر نہ صرف ان فرشتوں کے اس کام کو اپنی ذاتِ اقدس سے منسوب کر لیتا ہے بلکہ خود ان پاکیزہ ہستیوں کو بھی اپنائیت سے سرفراز کر کے فرماتا ہے کہ: “یہ کام ہم نے کیا” یہی حقیقت مذکورۂ بالا آیت میں موجود ہے، سو اللہ تعالیٰ نے لفظ “عندنا”میں اپنے زندہ خزانوں کواپنایا ہے، اور ان کے قرب کو اپنے قرب کا درجہ دیا ہے، ورنہ مکان ولامکان میں کوئی ایسی حد نہیں جس کے متعلق کہا جائے کہ خدا کی نزدیکی یہ ہے۔
مذکورہ چیز سے انسان مراد ہے، جس کیلئے تین بنیادی خزانے چاہئیں، یعنی عقلی، روحانی، اور جسمانی، جو قلم، لوح، اور انسانِ کامل (پیغمبرؐ یا امامؑ) ہیں، دوسرے لفظوں میں یہی خزانے عالمِ عقل، عالمِ روح، اور عالمِ ذر کہلاتے ہیں، ان خزانوں سے بحکمِ خدا ہر وقت چیزیں آتی رہتی ہیں، مثال کے طور پر آدمیوں کے پیدا ہو جانے کا سلسلہ جاری ہے، اس میں سب سے پہلے ذرۂ جسم کو آنا چاہئے، پھر روح اور اس کے بعد عقل آتی ہے، ہر آنے والی چیز کی “دانستہ مقدار” میں دونوں اشارے موجود ہیں۔
مذکورۂ بالا قرآنی قانون کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہوگئی، کہ موجودہ سائنس کے تینوں اجزاء: عقل (علم) روح، اور مادّہ پہلے پہل خدا کے خزانوں میں تھے، وہاں سے یہ چیزیں خداوندِ تعالیٰ کے علم یعنی پروگرام اور سائنسدانوں کی معلومات کے مطالبق دنیائے ظاہر میں آگئیں
۸۳
تاہم اس میں شاید ایک بات سے آپ کو بڑا تعجب ہوا ہوگا، کہ مادّہ جواس کائنات میں آزاد اور بکھرا ہوا ہے، وہ اللّٰہ کے کسی خاص خزانے میں گھیرا ہوا اورلپیٹا ہوا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہاں یہ حیرت یا سوال ممکن ہے، مگر عالمِ ذرّ کے حقائق کے متعلق جس قدر آپ کے علم الیقین میں اضافہ ہوگا، اس قدر یہ حیرت کم ہوگی، اور جوں جوں آپ قرآنی اور روحانی حکمت سے واقف و آگاہ ہوتے جائیں گے، توں توں آپ کے سامنے یہ حقیقت روشن ہوتی جائے گی، کہ مادّۂ لطیف (عالمِ ذرّ) روحِ قدسی، اور عقلِ کامل یہ تینوں ایک ساتھ دستِ قدرت میں جمع و یکجا ہیں (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) دستِ قدرت یعنی اللّٰہ کا ہاتھ بفرمودۂ قرآن (۴۸: ۱۰) سب سے پہلے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہے، اور پھر بحکمِ خدا آپؐ کے جانشینوں میں سے ہر ایک اپنے زمانے میں دستِ خدا ہے، چنانچہ ایسے شخصِ کامل ومکمل کا ایک معجزاتی جسمِ لطیف ہوا کرتا ہے، جو عالمِ ذرّ کہلاتا ہے، جس کے بہت سے قرآنی نام ہیں، ان میں سے چند اسماء یہ ہیں:۔
سربال (کرتہ) جس کی جمع سرابیل ہے (۱۶: ۸۱) لبوس (پوشش، ۲۱: ۸۰) صاعقہ (۱۳: ۱۳) رعد (۱۳: ۱۳) برق (۱۳: ۱۲) الکوثر (۱۰۸: ۱) جسمِ بسیط (۲: ۱۴۷) بشرِ سوی (۱۹: ۱۷) وغیرہ، اس معجزاتی جسم میں نہ صرف مادّی سائنس کے ہر گونہ ذرات موجود ہیں، بلکہ جسدِ ابداعی ہونے کی وجہ سے روحانی سائنس کے لاتعداد عجائب وغرائب اور معجزات بھی ہیں، مثال کے طور پر آپ نے سنا ہوگا، کہ آج کل جن
۸۴
ممالک میں ظاہری سائنس کا دور دورہ ہے، وہاں فضا میں بعض دفعہ اڑن طشتریاں نظرآتی ہیں، جو ابھی تک سائنس دانوں کے نزدیک ناشناختہ چیزیں ہیں، جو حقیقت میں مادّیت اور روحانیّت کے سنگم پر ہیں، اور ان میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں، اگر آپ چاہیں تو ان کے بارے میں غور و فکر کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ ان کا ظہور ایک انتہائی عظیم روحانی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔
ایک عظیم اور زبردست روح کس طرح عالمِ ذرّ ہوا کرتی ہے، جسمِ لطیف یا ایتھر (ETHER) کو کس آسانی سے برقی توانائی میں تبدیل کر سکتی ہے، اور اس سے مستقبل کی روحانی سائنس کے متعلق کیا کیا امیدیں وابستہ ہو سکتی ہیں، اس کی مثال آپ یو۔ ایف۔ او (U.F.O) یعنی اڑن طشتری سے لے سکتے ہیں، کیونکہ وہ منشائے الہٰی کے مطابق فعلِ ابداع یعنی نتائجِ “کن” کا نمونہ ہے، لہٰذا ایک مخلوق ہونے کے باؤجود سب ہے، سو آپ کہہ سکتے ہیں، کہ وہ معجزاتی کرتہ ہے، یا صاعقہ اور رعد و برق ہے، یا فرشتہ ہے، یا ترقی یافتہ انسان ہے، یا جنّ ہے، یا کوکبی بدن ہے، یا عالمِ شخصی ہے، یا عالمِ ذرّ ہے، یا انسانِ کامل ہے، یا معجزۂ قیامت ہے، یا انائے علوی ہے، یا تختِ روحانیّت ہے، یا سلطنتِ سلیمانی ہے۔
نصیر الدین نصیرؔ۔ ہونزائی
۱۴۔ مارچ ۱۹۸۵ء
۸۵
معراج اور معارج
معراج کے معنی میں اوپر چڑھنے کی چیز، سیڑھی، زینہ، نردبان، رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عالمِ علوی میں نورِ خداوندی دیکھنے کا موقع اور اس کی جمع معارج ہے، جیسے قرآنِ حکیم (۷۰: ۰۱ تا ۰۴) میں ارشاد فرمایا گیا ہے:۔
سَاَلَ سَآىٕلٌۢ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ لِّلْكٰفِرِیْنَ لَیْسَ لَهٗ دَافِعٌ مِّنَ اللّٰهِ ذِی الْمَعَارِجِ تَعْرُجُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ اِلَیْهِ فِیْ یَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ (۷۰: ۰۱۔ ۰۴) ایک سائل نے ہونے والے (روحانی) عذاب کو مانگا جس کا کافروں کے واسطے کوئی دفع کرنے والا نہیں، یہ اللہ کی طرف سے واقع ہوتا ہے جو سیڑھیوں اور معراجوں کا مالک ہے، اس کی طرف فرشتے اور روحِ اعظم چڑھ کر جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ۵۰ ہزار برس کی ہے۔
حکمت: (۱) یہ اصول ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ ہر عظیم خدائی بھید کا ایک گونہ حجاب ہوا کرتا ہے، چنانچہ یہاں پسِ پردہ ایک بہت بڑا راز ہے۔
۸۶
(۲) عذاب دراصل راہِ روحانیت پر واقع ہے (۱۹: ۷۱) مگر اسے خدائے مہربان مومنین سے دفع کرتا ہے، جیسا کہ آیۂ مذکورۂ بالا میں اشارہ ہے۔
(۳) مانگنے والے نے روحانی ترقی مانگی تھی، وہ مومن تھا، مگر خدا تعالیٰ نے بمقتضائے حکمت اس بات پر ایک مناسب پردہ بنایا۔ جس کا ذکر ہو چکا۔
(۴) انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام خدا تعالیٰ کی زندہ سیڑھیاں (معارج) ہیں، ان حضرات میں سے ہر ایک (جو روحِ اعظم کا درجہ رکھتا تھا) نے بحکمِ خدا ارواحِ مومنین کو فرشتے بنا کر اللہ کی بارگاہِ عالی تک پہنچا دیا۔
(۵) اگرچہ روحانیّت کا یہ سفر دنیاوی حساب سے۵۰۰۰۰ (پچاس ہزار) برس کا ہے، لیکن اہلِ ایمان کا نور جس طرح ان کے آگے اور داہنے دوڑتا ہے، اس کی بدولت یہ مسافت کم مدت میں طے ہو جاتی ہے (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸)
سورۂ اعرافّ۰۷: ۴۰) کے اس پُرحکمت ارشاد میں خوب غور کرنا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ اسْتَكْبَرُوْا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَ لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِؕ (۰۷: ۴۰) یقین جانو لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں بڑائی کی ہے ان کے لئے آسمان کے دروازے ہر گز نہ کھولے جائیں گے، وہ لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے کے اندر سے گزر جائے۔
حکمت: (۱) خدا تعالیٰ کی آیات سے أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ
۸۷
علیھم مراد ہیں، لہٰذا ان حضرات کو جھٹلانا آیات اللہ کو جھٹلانا ہے، ان برگزیدہ ہستیوں کے منصب کا دعویٰ کرنا بدترین تکبر ہے۔
(۲) چونکہ آسمان سات ہیں، اس لئے یہاں روحانیت کے سات دروازوں کا ذکر ہے۔
(۳) اونٹ کی تاویل یہاں آدمی کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ہے، اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزر جانا یہ ہے کہ انسان حقیقی معنوں میں دین کی اطاعت کرے، اور عجز وانکساری سے اپنی منجمد روح کے اونٹ کے ذرات بنائے، اب یہ اونٹ جو ناقۂ صالحؑ کی طرح لطیف ذرّات کی حیثیت میں ہے، وہ سوئی کے ناکے سے گزر سکتا ہے۔
مذکورۂ بالا آیت سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ معراج، معارج، اور راہِ جنت کا مطلب ایک ہی ہے، کیونکہ روح اور عقل کے جس اعلیٰ مقام پر خداوند تعالیٰ کا انتہائی قرب حاصل ہوتا ہے، وہیں معراج بھی ہے اور بہشت بھی، یعنی انسان کا سفر عالمِ سفلی کی پیشی سے عالمِ علوی کی بلندی کی طرف ہے، جس کی مثال سیڑھی (معراج) سے دی گئی ہے، اور روحانیت کی سیڑھی ہادیٔ برحق کی مبارک ہستی ہے۔
حضراتِ انبیاء وأئمّہ علھیم السّلام بحقیقت بنی آدمؑ ہیں، کیونکہ یہی صاحبان اوصافِ آدمؑ کے وارث وممالک ہیں، چنانچہ بموجب آیۂ کریمہ (۰۷: ۱۷۲) پروردگار کی سنت یہ ہے کہ وہ ہر پیغمبر اور ہر امام کی پشت سے اس کی دنیا کی ذریت کو دستِ قدرت میں لیا کرے، جبکہ ایسے انسانِ کامل کی ذاتی
۸۸
قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور خدا نے ان ذریات (ذراتِ ارواح) کو اس معنیٰ میں لیا کہ ان میں حرکت پیدا ہوگئی، اور متعلقہ شخصیّت کے روحانی عروج و ارتقاء کے تحت ان کو ایک طرح کی رفعت دی گئی، جیسا کہ ارشاد ہے۔
اور جب آپ کے ربّ نے اولادِ آدمؑ کی پشتوں سے ان کی ذریت کو لیا اور ان کو اپنی جانوں پر حاضر کر کے گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں۔
حکمت: (۱) عہدِ الست کا واقعہ جس میں معجزۂ معراج ہے ہر کامل انسان کی روحانیّت میں پیش آتا ہے، جس میں تمام اہلِ زمانہ بصورتِ ذرّات شامل ہوتے ہیں۔
(۲) اسی طرح ربِّ کریم نے بنی آدمؑ (انبیاء وأئمّہ) کو روح کا مشاہدہ کرایا اور اس کی کامل معرفت عطا کر دی۔
(۳) اس بلندی پر لوگوں کے ذراتِ روح بھی موجود تھے، مگر غیر شعوری حالت میں۔
دنیا کی مثال میں راہ الگ ہوتی ہے اور رہنما اس پر ہوتے ہوئے ایک الگ وجود ہوتا ہے، مگر اس کے برعکس دین میں ایک ہی شخص (جو ہادیٔ برحق ہے) راہ ورہنما دونوں کا کام انجام دیتا ہے، چنانچہ اس کو قرآنِ حکیم نے کبھی تو صراطِ مستقیم کے نام سے پکارا، کبھی ہادی کہا، کبھی معراج وغیرہ، غرض جیسے جیسے اس کے بے شمار کام ہیں، ویسے ویسے اس کے بے حساب نام ہیں، کیونکہ خدا نے اس کوسب کچھ ہونے کا درجہ دیا ہے (۳۶: ۱۲)
۸۹
حضرت یعقوب علیہ السّلام اپنے وقت میں امامِ مستودع، صراطِ مستقیم، اور خدا کی سیڑھی تھے، جس کے چودہ زینے تھے، یعنی امامؑ، باب، اور بارہ حجت، جن کی مثال قرآنِ پاک (۱۲: ۰۴) میں سورج، چاند، اور گیارہ ستاروں سے دی گئی ہے، حضرت یوسفؑ نے جب نورانی خواب دیکھا کہ آپؑ کو گیارہ ستارے، سورج اور چاند سجدہ کر رہے ہیں، تو اس وقت آپؑ بھی اس سیڑھی کے زینۂ زیریں پر ایک ستارہ یعنی حجتِ اوّل تھے پھر بحکمِ خدا زینہ بزینہ اس نردبان (سیڑھی) کی چوٹی پر پہنچ گئے، جبکہ ان کو گیارہ ستاروں اور شمس وقمر نے فعلاً سجدہ (یعنی اطاعت) کیا، اس مثال سے دین کی یہ بنیادی حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام اللہ تعالیٰ کی جیتی جاگتی سیڑھیاں ہوا کرتے ہیں۔
خداوند تعالیٰ کی سیڑھی کی دوسری مثال یہ ہے:۔
۱۔ مستجیب
۲۔ ماذونِ اصغر
۳۔ ماذونِ اکبر
۴۔ داعیٔ مکفوف
۵۔ داعیٔ مطلق
۶۔ حجتِ جزیرہ
۷۔ حجتِ حضوری (مقرب)
۸۔ امامؑ
۹۰
۹۔ اساسؑ
۱۰۔ ناطقؑ
۱۱۔ نفسِ کل
۱۲۔ عقلِ کل
جیسا کہ ارشاد ہے:۔
ہُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ اللّہِ واللّہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُون (۰۳: ۱۶۳)
یہ وہ لوگ (یعنی حدودِ دین) قربِ خدا کے درجات ہیں، اوراللہ تعالیٰ خوب دیکھتا ہے ان کے اعمال کو۔
حکمت: (۱) اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کی نزدیکی کے درجات اور کہیں نہیں صرف صراطِ مستقیم پر واقع ہیں، بلکہ یہ خود راہِ راست اور خدا تعالیٰ کی سیڑھی ہیں۔
(۲) آپ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ ھم درجت (وہ درجات ہیں) اور لھم درجت (انکے لئے درجات ہیں ۰۸: ۰۴) کے درمیان فرق ہے۔
قرآنِ پاک میں جس طرح درجہ
۹۱
اوردرجات کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ حدودِ دین کا ذکر ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:۔
رَفِیْعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ یُلْقِیْ الرُّوحَ مِنْ أَمْرِہِ عَلَی مَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ لِیُنذِرَ یَوْمَ التَّلَاق (۴۰: ۱۵) ، خدا درجوں کا بلند کرنے والا ہے وہ عرش کا مالک ہے۔ اور اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے روح ڈالتا ہے اپنے امر سے تاکہ (وہ صاحبِ وحی) ملاقات کے دن سے ڈرائے۔ یعنی خدا حدودِ دین کو اور ان کے وسیلے سے دوسروں کو بلند کرتا ہے۔
حکمت: (۱) اللہ تعالیٰ جب کسی کو بلند کرنا چاہتا ہے تو مقررہ درجات کی سیڑھی سے بلند کر دیتا ہے، کیونکہ یہی صراطِ مستقیم ہے، اور یہی وہ سیڑھی ہے جو صاحبِ عرش کی طرف رجوع کرنے کے لئے بامِ عرش تک قائم کی گئی ہے۔
(۲) اسی سیڑھی پر پیغمبروں کو وحی کی زندہ روح آتی ہے، اوراس سے چڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاص معراج کا شرف حاصل ہوا۔
(۳) کوئی شیٔ نہیں، جس کے خزائن خدا کے پاس نہ ہوں، اور ان خدائی خزانوں سے جو جو چیزیں نازل ہوتی ہیں، وہ اسی سیڑھی سے اترتی ہیں۔
(۴) جب پروردگار کے عظیم اور پُرحکمت ناموں میں سے ایک نام ذی المعارج (سیڑھیوں والا ہے) ، تو پھر قرآن (جس میں ہر چیز کا بیان ہے (۱۶: ۸۹) میں اس کا کوئی منظم تصوّر ہوگا، کوئی تفصیل ہوگی، اور اس موضوع
۹۲
سے متعلق کچھ آیات ہوں گی، جی ہاں، ایسا ہی ہے، جیسا کہ یہاں اس کا کچھ ذکر ہوا، اور ہورہا ہے۔
حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے آیۂ مبارکۂ استرجاع (۰۲: ۱۵۶) کی طرف پُرزور توجہ دلائی ہے، اس سلسلے کی تین آیتوں کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے، اور (اے رسولؐ) ایسے صبر کرنے والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑی تو وہ (بیساختہ) بول اٹھے”ہم تو خدا ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں” خوش خبری دیدو کہ انھیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے درود اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں (۰۲: ۱۵۵ تا ۱۵۷)
حکمت: (۱) اگر مومن عالی ہمت ہے تو ہر امتحان روح کے حق میں سودمند ہو جاتا ہے، اور آزمائش کے بغیر کوئی عروج وارتقاء نہیں۔
(۲) خدائے علیم وحکیم کی نظر میں انتہائی مفید نتائج کے لئے جیسے بڑے اہم امتحانات ضروری تھے، وہ بس یہی ہیں۔
(۳) خوف دل کی ایک ایسی کیفیت کا نام ہے کہ اس میں نفس تمام دنیاوی خیالات کو چھوڑ کر عاجز اور قابلِ رحم صورت اختیار کر لیتا ہے، ایسے میں آدمی کی مکمل توجہ خدا کی طرف ہو جاتی ہے۔
(۴) بھوک سے نفسِ حیوانی کی اصلاح ہو جاتی ہے۔
(۵) مال وجان کے نقصان سے دل پر شکستگی اورفنائیت کی کیفیت
۹۳
طاری ہو جاتی ہے۔
(۶) ثمرات کے نقصان سے روحانیت کا نقصان مراد ہے، غرض یہ تمام احوال بشرطِ دینی شعور ایسے ہیں کہ ان کی بدولت خدا کی طرف ہنگامی اور دائمی رجوع کرنے میں زبردست مدد ملتی ہے۔
(۷) استرجاع کا مطلب….ـ”انا للّہ وانا الیہ راجعون” کہنا ہے، مگر اس میں یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان کا اصل مقام حضور الہٰی ہے، وہ خدا کی سیڑھی سے اتر کر یہاں آیا ہے، پھر اسی سیڑھی سے چڑھ کر اللہ تعالیٰ کے بحرِ نور میں رجوع کرنا ہے۔
جس طرح اس مضمون کے شروع میں یہ ذکر ہوا کہ انبیاء وأئمّہ صلوات اللہ علیھم خدا تعالیٰ کی سیڑھیاں ہوا کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر پیغمبر اور ہر امام اپنے حدود کے ساتھ ایک زندہ روحانی سیڑھی کا کام انجام دیتا ہے اوریہی شخصِ کامل ہادی بھی ہے، اور ہدایت بھی، وہ جس طرح آسمان اور عرشِ اعلیٰ کی مثال میں معراج (سیڑھی) ہے، اسی طرح زمین اور خانۂ خدا کی مثال میں صراطِ مستقیم بھی ہے، نیز وہ طوفان کی مثال میں کشتیٔ نجات بھی ہے، کیونکہ وہ ایک ایسی ہمہ گیر حقیقت ہے کہ اس کی طرح طرح سے مثالیں دی گئی ہیں۔
نصیر حقیر
۲جنوری۱۹۸۵ء
۹۴
سنتِ الٰہی
لفظِ سنت مادّہ س ن ن سے ہے، اور اس کے معنی ہیں طریقہ، دستور، عادت، اور قانون، اور سنتہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کی عادت اور حکمت مراد ہے، جیسے قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: سُنَّةَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ۚۖ-وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا (۴۸: ۲۳) (یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے۔ نیز ارشاد ہے: وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِیْلًا (۳۵: ۴۳) اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے۔ یعنی اگرچہ آنحضرت صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم سے قبل کی شریعتیں فروعی اعتبار سے مختلف صورتوں میں چلی آتی تھیں، لیکن ان سب کا مقصد ایک ہی ہے، اور وہ ہے خدا شناسی، اطاعت اور ابدی نجاب، جو روحِ اسلام کے مطابق عمل کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے۔
سنت کی جمع سنن ہے، اور یہ لفظ قرآنِ مقدس میں اس طرح آیا ہے: قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌۙ-فَسِیْرُوْا َ
۹۵
فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْن (۰۳: ۱۳۷) تحقیق تم سے قبل مختلف طریقے گزر چکے ہیں تو تم زمین میں سیر کرو اور دیکھ لو کہ تکذیب کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔ لفظ “سنن” میں یہاں تمام طریقوں کا ذکر ہے، خواہ مومنوں کا ہو یا کافروں کا، اور زمین میں سیر کرنا دو طرح سے ہے، یعنی سیارۂ زمین پر سیاحت کرنا اور زمینِ روحانیّت میں سیاحت کرنا، مگر یہاں جس زمین میں چلنے پھرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، وہ زمینِ باطن ہے، جو عالمِ شخصی کی زمین ہے، اور کافروں کے انجام دیکھنے کا جو مقصد ہے، وہ صرف کسی ایسی اجڑی ہوئی بستی پر نظر ڈالنے سے پورا نہیں ہو سکتا ہے، جو کسی قوم کی نافرمانی کے نتیجے میں تباہ وبرباد کی گئی ہو، کیونکہ جھٹلانے والوں کی عاقبت صرف ظاہری ہلاکت تک محدود نہیں، بلکہ عاقبت کا اصل مطلب روحانیّت اور آخرت ہے، پھر اس معنوی تحقیق سے یہ پتہ چلا کہ انبیاء واولیاء کی تکذیب کرنے والوں کے انجام (عاقبت) کا مشاہدہ مقامِ روحانیّت پر ہوسکتا ہے۔
سنن کا دوسرا استعمال اس آیۂ کریمہ میں ہوا ہے: یرید اللہ لیبین لکم ویہد یکم سنن الذین من قبلکم
۔۔۔۔۔۔۔۔
قرآنِ حکیم میں لفظِ سنت: ۱۷: ۷۷، ۳۳: ۳۸، ۳۳: ۶۳، ۳۵: ۴۳، ۴۰: ۸۵، ۴۸: ۲۳، ۰۳: ۱۲۷، ۰۴: ۲۶) ان آیاتِ کریمہ میں آپ ضرور غور کریں، اور ان کے ماقبل اور ما بعد کو بھی دیکھیں۔
۹۶
ویتوب علیکم (۰۴: ۲۵) اللّٰہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ تمہارے لئے بیان کرے اور تمہیں ان لوگوں کے طریقوں پر چلائے جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور تم پر توجہ فرمائے۔ بیان کرنے سے تاویل مراد ہے اور یہاں اگلے لوگوں سے انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین مراد ہیں (۰۴: ۶۹) جس طرح سورۂ فاتحہ میں تعلیمِ سماوی دی گئی ہے کہ: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ (۰۱: ۰۵ تا ۰۶) چلائیے ہم کو راہِ راست پر ان لوگوں کی راہ پر جن پرتو نے انعام فرمایا ہے۔ اس ارشاد سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ قبل از اسلام کی شریعتیں اگرچہ ظاہر میں الگ الگ اور مختلف تھیں، لیکن ان کا باطن ایک ہی ہے، اور دوسری طرف یہ پتہ چلا کہ جس معنیٰ میں خدا کی سنت میں تبدیلی وتغیر نہیں ہے، اس کا تعلق دین کے بنیادی اور باطنی امور سے ہے۔
مذکورۂ بالا آیت کی روشنی میں اس حقیقت کا یقین محکم ہو جاتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے دستور (سنت) کے مطابق ظہورِ اسلام سے پہلے اور زمانۂ نبوّت میں نورِ ہدایت کو جاری رکھا تھا، اسی طرح وہی سلسلہ اب بھی جاری ہے، کیونکہ یہ امر دین کے اساسی امور میں سب سے اہم ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۵۰) میں اپنی نعمت کی تکمیل کا مسلمانوں سے وعدہ فرمایا، اور اسی مقام پر (۰۲: ۱۵۱) اس عظیم نعمت کی نوعیت اور فوائد کا ذکر فرما دیا، اور پھر غدیر خم میں یہ حکم نازل ہوا: ۔
اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ
۹۷
وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ (۰۵: ۰۳) آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور (اس) دینِ اسلام کو پسند کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ دن تھا، جس میں حضورِ اکرمؐ نے خدائے پاک و برتر کے منشا و سنت کے مطابق مولا علیؑ کو اپنا خلیفہ وجانشین اور امام بنا دیا، کیونکہ امام جب پہلے سے ہوتا چلا آیا ہے تو ختمِ نبوّت کے بعد اس کا ہونا اور بھی زیادہ ضروری ہے، جیسا کہ فرمانِ خداوندی ہے:۔
سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا (۱۷: ۷۷) یہ ہمارا مستقل طریقِ کار ہے جو ان سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جنھیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اورہمارے طریقِ کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے۔ یعنی جس طرح دورِ نبوّت میں ہدایت کا سلسلہ جاری و باقی رہا ہے اسی طر ح یہ دورِامامت میں بھی چلتا رہے گا، اور خداوند تعالیٰ کی اس عاد ت میں کہ وہ ہمیشہ روئے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر فرماتے ہے کوئی تبدیلی نہ ہو گی۔
آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عادت ماضی، حال، اور مستقبل پر محیط ہے، اور اس میں کوئی تبدل و تغیر نہیں، چنانچہ ربِّ کریم نے اپنی عادت کے مطابق نورِ ہدایت اور کتابِ مبین کو نازل فرمایا (۰۵: ۱۵) کتابِ سماوی (قرآن) کے وجود کے بارے میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا تھا، لہٰذا نور کے باب میں ارشاد ہوا کہ: نورِ خداوندی کو کوئی نہیں بجھا سکتا، وہ تو درخشان وتابان قائم ودائم رہے گا (مفہوم ۰۹: ۳۲، ۶۱: ۰۸)
۹۸
کیونکہ نور کا آخری مقصد مومنین کی منازلِ روحانیّت اور مراحلِ قیامت میں رہنمائی کرنا ہے (۵۷: ۱۲)
سورۂ مومن کے آخر (۴۰: ۸۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِهٖۚ-وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ (۴۰: ۸۵) اللہ تعالیٰ کی عادت یہی ہے جو ہمیشہ اس کے بندوں میں جاری رہی ہے اور کافر لوگ اسی جگہ خسارے میں پڑ گئے “فی عبادہٖ” کے انتہائی معنی ہیں اس کے خاص بندوں کے باطن یعنی روحانیت میں، بالفاظِ دیگر انبیاء وأئمّہ صلوات اللہ علیھم کی ذاتِ با برکات میں، کیونکہ کسی انسان کی عادت ہر چند کہ ایک جیسی نہیں رہ سکتی ہے، لیکن وہ بہر حال اس کی خصوصیات کے تحت بنتی ہے، مگر خدا کی عادت ہمیشہ ایک جیسی ہے اور وہ اللہ کے جملہ اسمائے صفات اور قول وفعل کے تحت ہے، جس کا ظہور سب سے پہلے مظہرِ خدا کے آئینۂ دل (روحانیّت) میں ہوتا ہے، پس جو لوگ اس سرِ عظیم کو جانتے ہیں، وہ بڑے فائدے میں ہیں، اور جو اس بھید کو نہیں سمجھتے ہیں، وہ بڑے خسارے میں ہیں۔
یہ اصول خدائے حکیم کی عادت میں سے ہے کہ وہ ہمیشہ کارِ ہدایت کے لئے خاندانِ نبوّت کو برگزیدہ فرماتا ہے، جیسے اس نے حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، آلِ ابراہیمؑ، اور آلِ عمرانؑ کو سارے جہان والوں پر برگزیدہ کیا (۰۳: ۳۳) جیسے ربّ العزت نے آلِ ابراہیمؑ کو کتاب، حکمت اور ملکِ عظیم عطا کر دیا (۰۴: ۵۴) ، اور جس طرح حضرت ابراہیم
۹۹
علیہ السّلام نے اسی قانون کے مطابق اللہ کی اس خصوصی رحمت کے لئے دعا کی تھی کہ امامت تا قیامت آپؑ ہی کی نسل میں جاری رہے (۰۲: ۱۲۴)
سورۂ رعد (۱۳: ۳۸) میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایک حکمت آگین فرمان اس طرح ہے، جس سے سنتِ الہٰی کی ترجمانی ہوتی ہے: ولقد ارسلنا رسلامن قبلک وجعلنا لہم ازواجا وذریتہ (۱۳: ۳۸) اور یقینا ہم نے آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے انکو بیبیاں اور بچے بھی دئیے۔ لفظِ ذریت کے معنی ہیں اولاد، نسل، خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، کیونکہ یہ لفظ قرآنِ حکیم میں بچہ اور بچی دونوں کے لئے آیا ہے، جیسا کہ قولِ قرآن ہے: واذ اخذ ربک من بنی ادم من ظھور ھم ذریتہم واشد ھم علی انفسہم الست بربکم قالو ابلیٰ شھدنا (۰۷: ۱۷۲) اور جب آپ کے ربّ نے اولادِ آدمؑ کی پشت سے ان کی ذریت کو لے لیا اور ان سے انھیں کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں سب نے جواب دیا کیوں نہیں ہم گواہ بنتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں ذریت کا لفظ مرد عورت سب کے لئے استعمال ہوا ہے، چنانچہ خدا تعالیٰ کا آنحضرتؐ سے یہ فرمانا کہ ہم نے آپ سے قبل کے تمام پیغمبروں کو بیبیاں اور ذریت دی تھی، یہ معنی رکھتا ہے کہ حضورِ انورؐ کا بھی خاندان اور ذریت ہے، اور آپؐ کی وہ پاک و پاکیزہ ذریت حضرت فاطمۃ الزہرا صلوات اللہ علیھا ہیں، اور اسی عظیم تصور کے پیشِ نظر قرآنِ پاک میں
۱۰۰
لفظ ذریت کو انتہائی حکیمانہ انداز میں استعمال کیا گیا ہے، جیسے آیۂ اصطفا کے حصۂ ذُرِّیَّةًۢ بَعْضُهَا مِنْۢ بَعْضٍؕ (۰۳: ۳۴) میں کامل مردوں اور پاک عورتو ں کی اولاد کا ذکر فرمایا گیا ہے، کیونکہ جہاں کہیں کسی ذریت کی اصالت ونجابت کی تعریف وتوصیف ہو تو وہ حقیقت میں ماں باپ کی وجہ سے ہے۔
قرآنِ مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ۲۲ دفعہ”ابن مریم” کے نام سے یاد فرمایا گیا ہے، قرآنِ حکیم جیسی آسمانی کتاب میں اس قسم کے نام کا بار بار آنا حکمت سے خالی نہیں، چنانچہ اس میں پانچ حکمتیں پوشیدہ ہیں:
۱۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح پیغمبر اور امام کے پدری رشتے کی اہمیت ہے اسی طرح مادری رشتے کی بھی اہمیت ہے۔
۲۔ انسان کامل کو خاندانی فضائل باپ سے بھی آتے ہیں اور ماں سے بھی۔
۳۔ اس میں یہ مثال ہے کہ ہر کامل یا ہر مریم جیسی روحانی ماں حضرت عیسیٰؑ جیسے روحانی فرزند کو جنم دے سکتی ہے۔
۴۔ اس میں أئمّۂ طاہرین کے فاطمۂ زہراؑ کے توسط سے آلِ محمدؐ ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔
۵۔ یہ خواتین کی عظمت و بزرگی کی ایک روشن دلیل ہے۔
اللہ تعالیٰ کی عادت ہر پیغمبر اور ولیٔ امر کی ذاتِ اقدس میں گزرتی آئی ہے، اور اسی مرکز سے لوگوں پر اثر انداز ہوتی رہی ہے، آپ اس
۱۰۱
حقیقت کی تحقیق وتصدیق قرآنِ حکیم کے دو موضوع سے کر سکتے ہیں، وہ ہیں”سنتہ اللہ” اور قصۂ انبیاء “کیونکہ جس طرح ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے ہوا کرتی ہے، اسی طرح ایک موضوع کی وضاحت دوسرے موضوع سے ہوتی ہے، چنانچہ خدا کی عادت کی تفسیر و تاویل قصۂ انبیاء ہے، یہ تو معنی پھیلانے کی بات ہوئی، اور اگر معنی کو مرکوز کیا جائے تو پھر کہنا پڑے گا کہ انبیاء واولیاء علیھم السّلام خود سنتِ خدائی ہیں، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سنتِ مجسم ہیں۔
نوٹ: سنتِ الہٰی کے متعلق مزید معلومات کے لئے ملاحظہ ہو: “علم کے موتی” صفحہ نمبر۳۵
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۶۔ فروری ۱۹۸۴
۱۰۲
تطہیر وتزکیہ
(۱)
تطہیر و تزکیہ کے معنی ہیں بحکمِ خدا رسولؐ کا اہلِ ایمان کو ظاہراً و باطناً پاک وصاف کر دینا، جیسا کہ سورۂ توبہ (۰۹: ۱۰۳) میں ارشاد فرمایا گیا ہے:۔ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ-اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْؕ (۰۹: ۱۰۳) اے رسولؐ) تم ان کے مالوں میں سے صدقہ (یعنی زکات) لے لو کہ اس کے ذریعے سے تم ان کو ظاہر وباطن میں پاک وپاکیزہ کرو گے اور ان کو صلوٰۃ دو کیونکہ تمہاری صلواۃ ان کے لئے تسکینِ قلب ہے۔ اس آیۂ کریمہ میں سات اساسی یعنی بنیادی حکمتیں ذیل کی طرح ہیں:۔
۱۔ خذ (تو پکڑ، تولے) اخذ کے مصدر سے امر ہے، اس فعل کا تعلق ہاتھ سے ہے، اور یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا ہے، تاکہ آنحضرتؐ مومنین سے ظاہری (مادّی) اور باطنی (علمی) زکات لیا کریں، کیونکہ صدقہ اور زکات خدا کا حق ہے، اور آپؐ
۱۰۳
کا پاک ہاتھ ید اللہ (۴۸: ۱۰) کا درجہ رکھتا ہے، اور آنحضورؐ کے برحق جانشینوں (یعنی أئمّۂ طاہرینؑ) میں یہ مرتبہ باقی وجاری ہے، تاکہ اس دستِ خدا سے ظاہر و باطن میں جو جو رحمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی رہتی ہیں، ان میں کوئی کمی واقع نہ ہو، جیسے اخذ زکات کے علاوہ عملِ بیعت (۴۸: ۱۰) ہے جو انتہائی ضروری ہے، کیونکہ بیعت کے معنی ہیں خرید و فروخت، یعنی یہ عملی تشبیہہ وتمثیل اور اقرار ہے اس بات کا کہ خداوندِ عالم نے اپنے نمائندۂ حاضر اور موجود کے توسط سے مومنین کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو خرید لیا ہے اور اس کے عوض میں ان کو بہشت ملے گا (۰۹: ۱۱۱) غرض یہ کہ ذاتِ سبحان ہر قسم کے اعضاء سے پاک وبرتر ہے، لیکن اس نے جس نورِ مجسم کو اپنا ہاتھ قرار دیا ہے، اس کو یہ زبردست قدرت بھی عطا کر دی ہے، کہ جس سے وہ ظاہری وباطن کا ہر ہر کام کر سکتا ہے۔
۲۔ مال مادّی اور روحانی دو قسم کا ہوتا ہے، ظاہری اور جسمانی مال کو سب جانتے ہیں، باطنی اور روحانی مال سے حقیقی علم مراد ہے، چنانچہ زکات وصدقہ دونوں قسم کے مالوں سے لیا جاتا ہے، کیونکہ وہ دونوں چیزیں رزق اور دولت ہیں، اور دونوں کی پاکیزگی اور صفائی ضروری ہے، تاکہ وہ پاک ہوں، اور ان میں گوناگوں برکتیں پیدا ہو جائیں۔
۳۔ صدقہ ظاہر میں مادّی زکات ہے، اور باطن میں صدقہ سے علمِ تاویل مراد ہے، کیونکہ صدقہ کا لفظ صدق سے نکلا ہے اور صدق کے معنی ہیں سچ بولنا، اور صاحبِ تاویل کو سچا ماننا، کہ وہ اپنی تاویل سے رسول اللہ کے روحانی معجزات
۱۰۴
کی تصدیق کرتا ہے، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مولا علی علیہ السّلام سے فرمایا: انت الصدیق الاکبر۔ یعنی تم سچ بولنے والا اور تاویل کی روشنی میں میری تصدیق کرنے والا ہو، پس باطنی صدقہ یا زکات (یعنی تاویل) کے مختلف درجات ہیں۔
۴۔ تطہیر یعنی تطھرھم کا تعلق ظاہری مال، جسم اور جان سے ہے، کہ زکاتِ ظاہر کے دینے سے نہ صرف مادّی مال پاک ہو جاتا ہے، بلکہ اس سے جسم و جان کی بھی پاکیزگی ہو جاتی ہے، وہ اس طرح کہ حکمِ زکات پر عمل کرنے سے مال حلال ہو جاتا ہے، حلال مال کھانے سے جسم پاک ہو جاتا ہے، اور جسم کے پاک ہونے سے جان پاک ہو جاتی ہے۔
۵۔ تزکیہ یعنی تزکیھم کا اشارہ مومنین کی عقلی پاکیزگی کی طرف ہے، کیونکہ قرآنِ کریم کی کئی آیاتِ مبارکہ میں ارشاد موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایمانداروں کو کتاب و حکمت (یعنی تنزیل وتاویل) سکھا کر پاک کیا کرتے تھے (۰۲: ۱۲۹، ۰۲: ۱۵۰ تا ۱۵۱، ۰۳: ۱۶۴، ۶۲: ۰۲) چنانچہ ظاہر ہے کہ علم وحکمت کے زیرِ اثر جو چیز پاک وصاف ہو جاتی ہے، وہ صرف مومن کی عقل ہی ہے، اور قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں جسم و جان کی پاکیزگی کا ذکر آیا ہے، اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان کو عقلی پاکیزگی کی طرف لایا جائے، کیونکہ منزلِ آخرین اسی عقل میں ہے، لہٰذا یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے کہ اس مہربان نے ہر زمانے میں لوگوں کے درمیان وسیلۂ تطہیر وتزکیہ کو موجود وحاضررکھا ہے، تاکہ وہ اہلِ ایمان کے مال، جسم، جان، اور
۱۰۵
عقل کو پاک وپاکیزہ کرے، جیسے قرآنِ مجید (۰۲: ۱۵۰ تا ۱۵۱) میں نورِنبوّت کے بعد نورِ امامت کے تقرر کا ذکر فرمایا گیا ہے:۔
اور تاکہ تم پر جو میرا انعام ہے اس کی تکمیل کروں اور تاکہ تم راہِ حق پر چلو (مسلمانو! یہ احسان بھی ویسا ہی ہے) جیسے ہم نے تم میں تم ہی میں کا ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے اور تم کو پاک کرے اور تمہیں کتاب (قرآن) اور حکمت کی باتیں سکھائے اور تم کو وہ باتیں سکھائے جن کی تم کو خبر بھی نہ تھی (۰۲: ۱۵۰ تا ۱۵۱) یہ تو ایک قرآنی حقیقت ہے کہ آنحضرتؐ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں (۳۳: ۴۰) اس کے معنی یہ ہوئے کہ کوئی جدید وحی نازل نہیں ہو گی (یعنی قرآنِ مقدس اور دینِ اسلام ہی قائم رہے گا) باقی جتنی چیزیں علم وحکمت اور رشد وہدایت کے عنوان سے ہیں، ان کا جانشینِ رسولؐ یعنی امامِ برحقؑ میں ہونا ضروری اورلازمی ہے، یہاں تک کہ خدائے علیم وحکیم ہر امام کے سامنے سے زمان ومکان کے تمام ظاہری اور باطنی حجابات کو اٹھاتا ہے، تاکہ نورِ امامت نورِ نبوت کو نزولِ وحی کے مقامات پر دیکھے، اور جملہ احوال سے باخبر ہو کر آنحضرتؐ کی نبوّت و رسالت پر شاہد (گواہ) ہو، اس حد تک رسائی، حاضری، اور مکمل آگہی کے بغیر کوئی شخص کارِ نبوّت کا حقیقی شاہد نہیں بن سکتا ہے۔
۶۔ صَلِّ کے لفظ میں رسولِ اکرمؐ سے فرمایا گیا ہے کہ آپؐ مومنین کو صلوٰۃ دیں، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ صلوٰۃ کس معنیٰ میں ہے؟ کیونکہ صلوٰۃ کے کئی معنی ہیں، چنانچہ قرآنِ کریم کی روشنی میں یہ حقیقت
۱۰۶
روشن ہو جاتی ہے کہ یہ لفظ (یعنی صلوٰۃ) درود کے معنی میں ہے، کیونکہ سورۂ بقرہ ۰۲: ۱۵۷ سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ درود، رحمت، اور ہدایت تمام اہلِ ایمان کے لئے مشترک ہے، جس طرح سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: خدا ایسا ہے کہ وہ اور اس کے فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں، تاکہ خدا تعالیٰ تم کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے اور اللہ تعالیٰ مومنین پر بہت مہربان ہے (۳۳: ۴۳) اب اس مقام پر ہر دانشمند کو یہ سوچنا ہوگا کہ آیا یہ ممکن ہے کہ ربّ العزت اور اس کے ملائکہ کا یہ درود رحمتِ عالمؐ کے بغیر دینداروں پر نازل ہو جائے؟ حالانکہ ادھر خداوند عالم کا حکم ہو رہا ہے کہ: وصل علیھم (اور تم ان کو صلواتہ دو) ؟ اس سے ظاہرہے کہ یہ صلوٰۃ (درود) جو خدائے پاک اور اس کے عظیم فرشتوں کی جانب سے ہے، جس کا مقصد نورِ علم ہے، حضورِ انورؐ کے توسط سے مومنین کو پہنچتی ہے، کیونکہ آپؐ ہی کی ذاتِ عالی صفات ہر ہر عالمِ شخصی کے لئے رحمت ہے (۲۱: ۱۰۷)
قانونِ حکمت کہتا ہے کہ جب مومنین محمد وآلِ محمد پر درود پڑھتے ہیں، تو یہ ایک پاک کلمے کی حیثیت سے بلند ہو کر خداوندِ عالم کے حضور میں پہنچ جاتا ہے (۳۵: ۱۰) پھر اللہ اس کو ایک نورانی ہیئیت دے کر پیغمبرِ برحقؐ اور امامِ زمانؑ کے توسط سے مومنین کی طرف بھیجتا ہے، کیونکہ ہر چیز ایک دائرے پر واقع ہے، لہٰذا وہ جہاں سے روانہ ہو جاتی ہے، آخر کار کسی نہ کسی صورت میں وہاں گھوم کر واپس آتی ہے، مگر
۱۰۷
یہ ہے کہ بعض چیزیں بڑی سرعت سے اور بعض زمانہائے دراز کے بعد لوٹ جاتی ہیں (۲۱: ۳۳، ۴۶: ۴۰)
جب پروردگارِ عالم تابعدار مومنین کے جملہ اقوال و اعمال کو نورِ روحانیّت کے رنگ سے رنگین بنا دیتا ہے (۰۲: ۱۳۸) تو پھر سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صلوٰۃ کی کیا شان ہوگی، جو آپؐ بحکمِ خدا ایمانداروں کو دیتے ہیں؟ جس میں خدا اور فرشتوں کی صلوٰۃ بھی شامل ہے؟ یقیناً وہ نور کی شعاعیں برسنے کی صورت میں ہے، چنانچہ وصلی علیھم (اور ان پر درود بھیجو) کی تاویل یہ ہے کہ اے رسولؐ ان پر نورِ علم و حکمت کی شعاعیں برساؤ، کیونکہ اس آسمانی درود کا مقصد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اہلِ ایمان کو جہالت کی تاریکی میں رکھنا نہیں چاہتا ہے، ان کے باطن کو نور یقین سے منور کر دینا چاہتا ہے، جیسا کہ اس کے پاک فرمان کا ذکر ہوا (۳۳: ۴۳)
۷۔ تسکین زیرِ بحث آیۂ کریمہ کی آخری حکمت ہے، لہٰذا وہ عظیم شیٔ ہے، اور وہ نور ہے، یعنی کرنیں برسنے کے نتیجے میں نور کا سامنے آنا، جس سے کئی معنوں میں حقیقی مومنین کو تسکین و تسلی حاصل ہوگی، مثال کے طور پر:
الف: اس بات کا یقین ہوگا کہ خدا و رسولؐ برحق ہیں، قرآن، اسلام، اور امامِ زمانؑ برحق ہیں، کیونکہ ان کے یہاں روشنی پر روشنی ہے۔
ب۔ روشنی کو دیکھ کر یوں یقین آئے گا کہ الحمد للہ مال، جسم، اور جان کی تطہیر کا معاملہ درست چل رہا ہے، اور تزکیۂ عقل کے آثار نمایان ہو رہے ہیں۔
۱۰۸
ج: ذکر وعبادت اور ہر نیک عمل خدا کے حضور میں قبول ہو رہا ہے۔
د: یقیناً یہی قرآنِ حکیم اور نورِ امامت کی پُرحکمت ہدایت و رہنمائی ہے، اور یہی صراطِ مستقیم پر مومن کی ترقی و پیشرفت ہے۔
ھ۔: اس حال میں وسوسۂ شیطانی اور خیالِ باطل کی پریشانی نہ ہوگی۔
و: ایسے میں ابدی نجات کی امید کا وابستہ ہو جانا لازمی امر ہے۔
قرآنِ حکیم میں بظاہر طہارت کے معنی عام بھی ہیں اور خاص بھی، کیونکہ یہ لفظ ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی چیزوں کے لئے استعمال ہوا ہے، مگر زکات کے معنی عام نہیں خاص ہیں، کیونکہ یہ باطنی چیزوں کے لئے مستعمل ہے، طہارت وتطہیر کے مختلف الفاظ قرآنِ پاک میں کل ۲۱مقامات پر ہیں، جبکہ زکات وتزکیہ سے متعلق تمام صیغے ۵۹ جگہوں میں مذکور ہیں۔
کامل انسانوں کی تطہیر کی ایک خاص مثال اس آیۂ کریمہ میں موجود ہے: اذقال اللہ……الیٰ یوم القیامۃ (۰۳: ۵۵) جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے عیسیٰؑ بیشک میں تم کو وفات دینے والا ہوں اور تم کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور جنھوں نے تمہارا انکار کیا ہے ان سے تم کو پاک کرنے والا ہوں اور تمہاری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان پر بالادست رکھوں گا جنھوں نے تمہارا انکار کیا ہے، اس ربّانی تعلیم میں کئی تاویلی اشارے موجود ہیں، چنانچہ یہاں حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام
۱۰۹
کی جس وفات کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ آپؑ کی روحانی موت تھی، جو تمام کامل انسانوں پر جسمانی زندگی ہی میں واقع ہو جاتی ہے، اور اسی کے ساتھ ذاتی قیامت برپا ہو جاتی ہے، جس کا بارہا ذکر ہو چکا ہے، اس دوران شخصِ کامل کی صورتِ روح بلکہ صورِ روح کو اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھالیا جاتا ہے، رفیعِ روح کا یہ معجزۂ متواتر جو حضرت عزرائیل علیہ السّلام دکھاتا ہے بڑا حیرت انگیز ہے، اسی کے ساتھ ساتھ انسانِ کامل کی تطہیر بھی ہو جاتی ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عالمِ شخصی میں منکرین کے جتنے ذراتِ روح ہیں وہ ایک طر ح سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
سورۂ بقرہ (۰۲: ۱۷۴ ) اور سورۂ آلِ عمران ( ۰۳: ۷۷ ) کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن بعض لوگ اپنی نافرمانیوں کی وجہ سے کلامِ خداوندی کی سماعت اور وجہ اللہ کی رویت سے محروم ہو جائیں گے، جس کی وجہ سے ان کی کوئی پاکیزگی نہ ہوگی، اس کے برعکس کچھ دوسرے لوگوں کو کلامِ کچھ دوسرے لوگوں کو کلامِ پاک اور دیدارِ اقدس کی سعادت حاصل ہوگی، جس کی بدولت وہ بدرجۂ کمال پاک وپاکیزہ ہوں گے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نہ صرف کلمۂ باری علم وحکمت کا سب سے بلند ترین سر چشمہ ہے، بلکہ رویت میں بھی سب سے بڑا اشاراتی خزانہ پوشیدہ ہے، پس عقل کا انتہائی تزکیہ اسی مقام پر ہو جاتا ہے۔
اس مادّی دنیا میں ظاہری صفائی اور پاکیزگی کے کئی ذرائع ہیں، اور پانی اس مقصد کے لئے خاص ہے، کہ اس میں چیزیں دھو لیا کرتے
۱۱۰
ہیں، اور پانی خود بھی فطری طور پر بہت سی چیزوں کو دھو لیتا ہے، بالفاظِ دیگر اس میں کئی صاف و ناصاف اشیاء حل ہو جاتی ہیں، مگر آخر کار آپ دیکھتے ہیں کہ سمندر اپنے وجود کی صفائی و پاکیزگی کے لئے نور (سورج) سے رجوع کرتا ہے، اور نور یعنی آفتابِ جہاں تاب ہی ہے، کہ وہ صرف آفاقی دولاب (رہٹ) کوچلاتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پانی کو لطافت، جدت، اور پاکیزگی بھی بخشتا ہے، پس یہ نور علم وحکمت کی ایک روشن مثال ہے کہ وہی عقلی وعلمی پاکیزگی کا سب سے آخری اور سب سے اعلیٰ وسیلہ ہے۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۳۔ فروری ۱۹۸۵ء
۱۱۱
تطہیر وتزکیہ
(۲)
آپ جانتے ہیں”تطہیر وتزکیہ” کے موضوع کی ان دونوں قسطوں میں طہارت و زکات کے باطنی پہلو پر روشنی ڈالنا مقصود ہے، اس موضوع کی بہت بڑی اہمیت اس لئے ہے کہ طہارت و زکاتِ اسلام کے سات ارکان میں سے ہیں، چنانچہ قانونِ قرآن کے مطابق روحی اور عقلی صفائی و پاکیزگی اتنی ضروری اور لازمی ہے کہ اس کے بغیر کوئی کامیابی نہیں، جیسا کہ خداوندِ عالم کا فرمان ہے:۔
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاﭤ (۹۱: ۰۹ تا ۱۰) یقیناً وہ مراد کو پہنچا جس نے اس (جان) کو پاک کر لیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو (نافرمانی میں) گاڑ دیا۔ یہ سورۂ شمس (۹۱) کا ارشاد ہے، جس کا خاص موضوع نفس یعنی روح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس حکمت آگین سودے کی سات ابتدائی آیات میں الگ الگ گیارہ عالی مرتبت چیزوں کی قسم کھائی ہے، اور اسی حکیمانہ طریق پر اصل موضوع کی طرف مکمل توجہ دلانے کے بعد یہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ روح کو کیا کیا صلاحتیں دی گئی ہیں،
۱۱۲
پھر بڑی شدت کے ساتھ انسان کو احساس دلایا گیا ہے کہ وہ خود اپنی روح کی پاکیزگی کا ذمہ دار ہے، اور یہ ذمہ داری اس معنیٰ میں ہے کہ وہ وسیلۂ تطہیر وتزکیہ سے رجوع کرے۔
مذکورہ سورۂ مبارکہ میں پروردگارِ پاک نے سورج، چاند، وغیرہ کی تاویلی حکمت میں جن بلند درجات کی قسم کھائی ہے، ان میں سے ایک درجہ روح بھی ہے، جس سے حقیقی روح کی عظمت وبزرگی کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ربِّ کریم بحقیقت عام چیزوں کی قسم نہیں کھاتا، پس یہ خدائے علیم وحکیم کی جانب سے لوگوں کے لئے پُر زور اشارہ ہے، تاکہ وہ اپنی رو ح کی قدرومنزلت کو سمجھتے ہوئے اس کو پاک وپاکیزہ کر لیں۔
اگر رات کے و قت آسمان پر بادل چھائے ہوئے نہیں ہیں، تو ایک دوسرے سے الگ الگ اور دور واقع ہونے کے باؤجود تمام ستاروں کی روشنی ایک ہو کر زمین کی طرف آتی ہے، اسی طرح ہر قرآنی موضوع سے متعلق آیات اگرچہ یکجا نہیں، بلکہ قرآنِ حکیم میں پھیلی ہوئی ہیں، لیکن اہلِ بصیرت کے نزدیک متعلقہ آیتوں کی حکمتیں مرکوز ہو جاتی ہیں، کیونکہ قرآنِ پاک دراصل سماوی نظام کے عین مطابق ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حکم سے سرچشمۂ نور نہ صرف ذاتی طور پر پاک و پاکیزہ کہلاتا ہے، بلکہ دوسروں کے لئے بھی یہی تطیہر وتزکیہ کا ذریعہ اور وسیلہ ہوا کرتا ہے، چنانچہ کسی مومن کو اس حقیقت میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پیدائشی طور پر نور اور
۱۱۳
مقدس تھے، اور اسی طرح آپؐ کا خاندانِ عالی مرتبت بھی، یعنی حضرت مولا علیؑ، حضرت فاطمۂ زہراؑ، حضرت حسن مجیبیٰؑ، حضرت حسین سید الشہداء، اور سلسلۂ نور کا ہر امامؑ۔
خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندے کس طرح پیدائشی پاک ہوا کرتے ہیں، اس کے لئے بہت سے دلائل موجود ہیں، مگر یہاں صرف دو قرآنی شہادتوں سے کام لینا کافی ہوگا، چنانچہ اس حقیقت کی پہلی گواہی یہ ہے کہ حضرت زکریا علیہ السّلام نے ربّ کریم کی بارگاہ سے ایک پاک ذریّت (اولاد) کے لئے دعا کی، حالانکہ لفظِ “ذریت” انسان کا ایک ایسا نام ہے کہ اس کا اطلاق آدمی پر سلسلۂ تخلیق کی ہرکڑی میں ہوتا ہے، پس پیغمبر موصوف کی اس طلب کے یہ معنی ہوئے کہ انھوں نے ایک ایسا فرزند چاہا، جو نہ صرف پشتِ پدر اور شکمِ مادر میں پاک ہو، بلکہ قبل ازیں بھی معصوم و پاکیزہ رہ چکا ہو، وہ دعا یہ ہے: قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ (۰۳: ۳۸) اس جگہ حضرت زکریاؑ نے دعا کی اور) کہا کہ اے میرے پروردگار مجھے اپنے حضور سے ایک پا ک ذریت (اولاد) عنایت کر دے۔ چنانچہ خداوند عالم نے حضرت زکریاؑ کو ایک معصوم و پاک فرزند عطا کر دیا، جس کا پیارا نام یحییٰؑ تھا۔
دوسری شہادت یہ ہے کہ روح القدس نے ایک کامل ومکمل انسان کی شکل اختیار کر کے حضرت مریمؑ سے کہا: قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا (۱۹: ۱۹) اس نے
۱۱۴
کہا کہ میں تمہارے رب کا بھیجا ہوا (فرشتہ) ہوں تاکہ تم کو ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ اس قرآنی ارشاد سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نہ صرف پیدائش کے وقت ہی معصوم تھے، بلکہ اس سے پہلے بھی ہر طرح سے پاک وپاکیزہ تھے، کیونکہ آپؑ کو نورِ خدا کا درجہ حاصل تھا (۶۱: ۰۶ تا ۰۸) پس اس مثال سے یہ دعویٰ حق بجانب ہو گیا کہ پیغمبرِ اکرمؐ اور امامِ عالیمقامؑ پیدائشی طور پر معصوم وپاک ہوا کرتے ہیں، کیونکہ نورِ نبوّت اور نورِ امامت ہمیشہ سے پاک وپاکیزہ ہوتا ہے۔
سوال: آیۂ تطہیر سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ بیت یعنی حضرت محمد، حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، اور حضرت حسین صلوات اللہ علیھم کو زمانۂ نبوّت کے کسی سال میں بدرجۂ کمال پاک و پاکیزہ کیا (۳۳: ۲۳) اس سے پہلے نہیں، پھر کوئی کس طرح قبول کرے گا کہ وہ حضرات فطری طور پر پاک تھے؟
جواب: اس سلسلے میں سب سے بنیادی اور عمدہ بات یہ ہے کہ ہم حضرت خاتم الانبیاءؐ سے قبل کے انبیائے قرآن کو آنحضرتؐ کی گونا گون صفات کے آئینے مانیں، چنانچہ جب ہم حضورِ انورؐ اور آپؐ کے اہلِ بیت کو آئینۂ عیسیٰؑ میں دیکھتے ہیں تو شروع ہی سے معصوم و پاک نظر آتے ہیں، ہم ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ بموجبِ قرآن (۳۳: ۳۳) اھل بیت پاکیزگی میں ایک ساتھ ہیں، اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی عالمگیر صفات نہ صرف آپؐ
۱۱۵
کے ظاہری تذکرے میں ہیں، بلکہ دوسرے پیغمبروں کی اعلیٰ مثالوں میں بھی ہیں، اب آئیے ہم اس پُرحکمت قانون کے مطابق اہلِ بیتِ عظام کی تطہیر کو حضرت عیسیٰؑ کی پاکیزگی سے متعلق آیۂ مبارکہ (۰۳: ۵۵) کی تاویلی حکمت پڑھی ہوگی کہ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ عالمِ شخصی میں اہلِ انکار کے جتنے ذرات روح داخل ہوئے تھے، وہ سب کے سب ہلاک کئے گئے، اور یہ واقعہ اس وقت رونما ہو جاتا ہے، جبکہ انسانِ کامل منزلِ عزرائیلی کے عظیم الشّان عجائب وغرائب سے گزرنے لگتا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰؑ اور حضرات اہلِ بیتؑ کی تطہیر ان کی ذواتِ عالی صفات کی کسی کدورت کی وجہ سے نہیں، بلکہ منکرین کے ذراتِ ارواح کے سبب سے ضروری تھی، کیونکہ انبیاء اولیاء خانۂ خدا کا درجہ رکھتے ہیں، لہٰذا اگر اس میں مشرکین داخل ہوگئے تو انھیں نکال دینا ہے، کیونکہ وہ اعتقادی طور پر نجس ہیں (۰۹: ۲۸) اس قرآنی دلیل سے یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اہلِ بیت کرامؑ خدا کے برگزیدہ بندے ہونے کی بنا پر پیدائشی پاک و پاکیزہ تھے۔
جس نورِ ازل (۰۹: ۴۶) کو خدائے پاک وبرتر کی جانب سے یہ حکم ملا ہو کہ وہ اہلِ ایمان کی تطہیر وتزکیہ کرے (۰۹: ۱۰۳) اس کو اس سے پہلے مطھراور مزکی (یعنی لوگوں کو ظاہر وباطن میں پاک وپاکیزہ کر دینے والا) بنایا گیا ہے، اور یہ فعل دراصل علم وحکمت کی صورت میں ہے، چنانچہ
۱۱۶
اللہ تعالیٰ نے نورِ امامت کو نورِ نبوّت کا جانشین مقرر فرمایا، تاکہ وہ لوگوں کو نور (یعنی حقیقی علم) کے پانی میں نہلا کر صاف و پاک کرتا رہے، اور یہ سلسلہ کبھی منطقع نہ ہو جائے، اور ایسے بہت سے اعلیٰ معنوں میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کا نور ہمیشہ ضوفشانی کرتا رہے گا (۰۹: ۳۲، ۶۱: ۰۸، ۵۷: ۲۸) اور اس کو کوئی نہیں بجھا سکتا۔
آپ یہ پُرحکمت اصول ضرور یاد رکھیں کہ علم کی ضد جہل (جہالت= نادانی) ہے، لہٰذا قرآنِ حکیم میں براہِ راست بھی اور گونا گوں مثالوں میں بھی جس کثرت سے علم کا ذکر آیا ہے، اسی طرح اور اتنا زیادہ جہالت کا بھی ذکر ہوا ہے، چنانچہ اگر علم نور ہے تو اس کے مقابلے میں جہالت ظلمت کہلائے گی، خواہ یہ مقابلہ لفظی طور پر ہو یا تصوراتی کیفیت میں، اگر علم کا نام یقین رکھنا ہے تو جہل کو شک قرار دینا پڑے گا، اگر اس کو بہشت کہنا ہے تو اس کو دوزخ کہنا ہوگا، اگر علم کو ہدایت کے اسم سے موسوم کیا گیا تو اس وقت جہالت کو ضلالت (گمراہی) کا نام دینا ہوگا، اگر شفاء سے علم مراد ہے تو بیماری کی تاویل جہالت ہوگی، اگر سننے، بولنے، اور دیکھنے کا اشارہ علم کی طرف ہے تو صمٌ بکمٌ عمیٌ (یعنی بہرے، گونگے، اور آندھے ہیں) میں جاہلوں کی مذمت ہو گی، اور اگر علم سے عقل وجان کی صفائی وپاکیزگی ہوتی ہے تواس کے برعکس جہالت سے نجاست وغلاظت ہوگی۔
سورۂ رعد (۱۳: ۲۹) میں درختِ طوبیٰ کا ذکر ہے اور سورۂ
۱۱۷
ابراہیم (۱۴: ۲۴) میں شجرۂ طیبہ کا، اور دونوں کے معنی ہیں پاک درخت، یہ نور امامت کی مثالوں میں سے ہے، کہ امامِ زمانؑ دنیا وعقبیٰ میں وہ پاک و پاکیزہ علمی درخت ہے، جس کے ثمرۂ طیبہ کھانے سے مومنین کی پاکیزگی ہو جاتی ہے، یعنی امامِ اقدس و اطہرؑ کی تعلیمات و ہدایات کی بدولت غیروں کی باتیں مومن کے دل ودماغ سے دھل جاتی ہیں، تاہم تطہیر وتزکیہ کا سلسلہ اتنا طویل ہے، جتنا کہ تعلیم وتربیت کا سلسلہ ہے، کیونکہ طفلِ مکتب کی طرح بتدریج آگے بڑھنے کے لئے لوحِ ضمیر کی تحریر کو دھو کر از سرِ نو لکھنے کا عمل ہر وقت جاری رہتا ہے۔
سورۂ فرقان (۲۵: ۴۸) میں اس پانی کو “طہور” یعنی بہت پاک قرار دیا گیا ہے، جو آسمان سے برستا ہے، اس سے رسولِ خداؐ کا وہ علم مراد ہے، جو آنحضرتؐ کے باب (دروازہ) یعنی امامِ برحقؑ سے ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ آسمانِ رسالت سے جو علم کی بارش برسی تھی، اس کے تمام تر ذخائر کوہِ امامت میں بن گئے ہیں، جس طرح دنیا کا پہاڑ مادّی قسم کی برف وبارش کو اپنے ظاہر وباطن میں نہ صرف جمع کر لیتا ہے، بلکہ اس کو اصلی حالت میں پاک و پاکیزہ محفوظ بھی رکھتا ہے، سو جو لوگ اس مبارک اور عالی شان پہاڑ سے متصل آباد ہیں، ان کو دینی علم کا یہ پانی جو بہت پا ک ہے ہمیشہ مہیا ہوتا ہے، جس سے ان کی عقل و جان کی پاکیزگی ہوتی رہتی ہے، جیسے سورۂ دہر (۷۶: ۲۱) میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہلِ جنّت کو شرابِ طہور یعنی ایک بہت پاک پینے کی چیز پلائے
۱۱۸
گا، پس یہ وہی حقیقی علم ہے، جس کا ذکر ہوا۔
تطھیر و تزکیہ کے بہت سے مقاصد ہیں، اور ان میں بلند ترین مقصد یہ ہے کہ مومنین کو اسرارِ معرفت تک رسائی ہو، جبکہ معرفت کے بھیدوں قرآنِ حکیم کی تاویل میں پوشیدہ ہیں، اور قرآنی تاویل امامِ زمانؑ کے مرتبۂ باطن (نور) میں ہے، جس کا ایک نام “کتابِ مکنون” ہے، جس کو کوئی شخص دستِ عقل سے چھو نہیں سکتا، مگر صرف ایسے لوگ جو عقلی اور علمی حیثیت میں پاک کئے گئے ہیں (۵۶: ۷۷۔ ۷۹) چنانچہ اسلام میں جتنی عبادات ومعاملات ہیں، وہ سب اسی آخری مقصد کے پیشِ نظر ہیں، کہ معرفتِ توحید کے نتیجے میں مومنوں کو گنجِ مخفی حاصل ہو۔
سورۂ فاطر میں ارشاد ہے: پاکیزہ باتیں اسی کی طرف چڑھتی ہیں اور نیک عمل ان کو اٹھاتا ہے (۳۵: ۱۰) اس پُرحکمت آیت کا اشارہ یہ ہے کہ جب امامِ برحقؑ کی طرف سے مومنین ومومنات کی عقل وجان اور اقوال واعمال کی تطہیر مکمل ہو، تو اس وقت ان کی رسائی عالمِ عُلوی سے ہوگی، جس کے لازوال خزانوں کو دیکھ کر ان کو بیحد مسرت وشادمانی حاصل ہو گی۔
سورۂ نحل کے ایک پُرحکمت ارشاد (۱۶: ۳۲) کو دیکھئے، جس کے خاص وعام دو پہلو ہیں، چنانچہ یہاں اس کے خاص پہلو کے مطابق بات کی جاتی ہے، وہ یہ کہ کامل انسان پاک و پاکیزہ ہوا کرتے ہیں، لہٰذا ان کی روحانی ترقی کسی رکاوٹ کے بغیر آگے بڑھتی ہے، اور اس سلسلے میں ان کی انفرادی
۱۱۹
قیامت (جس میں ایک اجتماعی قیامت بھی پوشیدہ ہے) برپا ہو جاتی ہے، اس وقت فرشتے آ کر ان کی روح کو قبض کر لیتے ہیں، درحالی کہ وہ زندہ ہوتے ہیں، فرشتے ان سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہے، اب تم اپنی نیکو کاری کی بدولت بہشتِ روحانیّت میں داخل ہو جاؤ۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۲۰۔ فروری ۱۹۸۵
۱۲۰
خانۂ خدا۔ خانۂ جماعت
(پہلی قسط)
اسلام اپنی روح میں کامل ومکمل دین ہے، اس میں رشد وہدایت اور علم وحکمت کی فراوانی ہے، اس کا ہر قول وعمل اور ہر چیز ظاہراً وباطناًعقلی اور روحانی خوبیوں سے مالا مال اور یقین ومعرفت کے اشارات سے بھر پور ہے، چنانچہ آج ہم یہا ں عنوانِ بالا (خانۂ خدا۔ خانۂ جماعت) سے بحث کرتے ہیں، اور یہ معلوم کر لینا چاہئے کہ آیا ذاتِ سبحان بحقیقت کسی گھر کے لئے محتاج ہے یا اس کی حاجت وضرورت دراصل اہلِ ایمان کو ہے؟ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ جو کون ومکان کا خالق ومالک ہے، وہ مکان ولامکان سے بے نیاز وبرتر ہے، سو اس حال میں یہ سوال ہوگا کہ اگرخانۂ خدا کا یہ تعین لوگوں کی دینی ضرورت کے پیشِ نظر ہے تو پھر بتائیے کہ اس سے ان کو کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں؟ اور اس میں کیا کیا اسرار پنہاں ہیں؟ اس کا مفصل جواب ذیل میں درج ہے:۔
۱۔ جاوجہت یا مکان وزمان کے اعتبار سے خدا کا تصور تین
۱۲۱
درجوں پر مبنی ہے، اوّل یہ گویا خداوند تعالیٰ ایک خاص گھر میں جلوہ نما ہے، جس طرح بیت اللہ کا تصور ہے (۲۲: ۲۶) دوسرا یہ کہ وہ ہر جگہ موجود ہے (۰۲: ۱۱۵) اور تیسرا یہ ہے کہ وہ مکان ولا مکان سے بے نیاز وبرتر ہے، کیونکہ وہ سبحان، قدوس، اور صمد ہے، اور یہ حقیقت مسلمہ اور نا قابلِ تردید ہے، چونکہ اسلامی تعلیمات وہدایات تدریجی صورت میں ہیں، لہٰذا یہ امر ضروری قرار پایا کہ ہر فرد مسلم سب سے پہلے خانۂ خدا کے عقیدۂ راسخ کو اپنائے، اور اس سے وابستہ ہو جائے، تاکہ اس کو یہیں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت حاصل ہو، اور اگر کوئی شخص اس بنیادی تصور کی حکمت کو نہیں سمجھتا، اور اسے نظر انداز کرتا ہے، تو وہ دوسرے اور تیسرے تصور کے خزانوں کو براہِ راست حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ خدائی قانون کے خلاف چلنا باعثِ نامرادی ہے۔
۲۔ اسلام میں جس طرح عرشِ عظیم کا تصور ہے، وہ بھی دینِ حق کی جملہ حکمتوں کا مرکز ہے، اس سے نہ صرف خدا کے گھر کی عظمت و بزرگی کا ثبوت مل جاتا ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس بہت بڑی فضیلت کا یقین بھی ہو جاتا ہے کہ جو مومنین زمین پر خانۂ خدا کی آبادی وترقی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، وہ عالمِ بالا کے ان پاکیزہ فرشتوں کی طرح ہیں، جو عرشِ الٰہی سے متعلق ہیں یا اس کے گردا گرد طواف کرتے ہیں، اس بیان سے یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ جس طرح خانۂ خدا کی نزدیکی
۱۲۲
اور شناخت سے انسانوں کوفائدہ ہے، اسی طرح عرشِ اعلیٰ کی قربت ومعرفت سے فرشتوں کو فضیلت حاصل ہوتی ہے، مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہر شیٔ سے بے نیاز وبرتر ہے۔
۳۔ خدائے واحد کی ذاتِ پاک ومنزہ اس وقت بھی تھی، جبکہ خانۂ کعبہ نہ تھا، اور بیت اللہ کی تعمیر اس وقت ہوئی، جبکہ حضرت آدم علیہ السّلام کے سیّارۂ زمین پر اترنے کا وقت آیا، چنانچہ خداوندِ عالم کے امر سے فرشتوں نے خانۂ خدا کی تعمیر کی، تاکہ آدمؑ واولاد آدمؑ اس سے رجوع کر کے روحانی فائدے حاصل کریں، اس سے معلوم ہوا کہ دین کی اصل واساس خانۂ خدا ہے، اور یہی خدا کا گھر خانۂ جماعت بھی ہے، جس کی اردو عبارت “جماعت خانہ” ہے” خدا کا گھر” کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں انوار واسرارِ خدا وندی کا ظہور اور فیوض وبرکات کا نزول ہوتا رہتا ہے، تاکہ مومنین ہمیشہ خدا کے اس گھر میں جا کر مستفیض ہوتے رہیں اور روز بروز علم وعمل میں ترقی کرتے جائیں۔
۴۔ خانۂ کعبہ جس میں عظیم تاویلی حکمتیں پوشیدہ ہیں اپنی جگہ بیحد ضروری ہے تاکہ جملہ مسلمانانِ عالم اس کی ظاہری و باطنی حکمتوں کو سمجھتے ہوئے باہمی اتفاق و یکجہتی کی دولت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں، اور زمانۂ نبوّت کے مسلمانوں کی طرح سب کے سب سلکِ وحدتِ ملی سے منسلک ہی رہیں، اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی ضروری تھا کہ ذیلی طور پر ہر مسلم قریہ میں خدا کا ایک گھر بنایا جائے، کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں
۱۲۳
کہ دور دراز ممالک کے مسلمین روزانہ عبادت کے لئے خانۂ کعبہ میں پہنچ جائیں چنانچہ سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے نام سے خدا تعالیٰ کا مقامی گھر بھی بنا دیا، یہ صرف ایک چار دیواری تھی، جس میں تین طرف دروازے تھے…. آنحضرتؐ کے بعد جتنی نئی مسجدیں تعمیر ہوئیں سب کا بنیادی ڈھانچہ یہی رہا، رفتہ رفتہ مسجد کی تعمیر مسلمانوں میں ایک فن بن گئی، اس طرح ایک خاص طرزِ تعمیر کا ارتقاء ہوا………. (فیروز سنز۔ اردو انسائکلو پیڈیا)
۵۔ قبلۂ اسلا م کے کئی نام ہیں، جیسے کعبہ، جس کے لفظی معنی ہیں چار گوشہ مکان (۰۵: ۹۵) البیت (گھر۰۲: ۱۲۵) البیت العتیق (قدیم گھر۲۲: ۲۹) بیت اللہ (خدا کا گھر۰۲: ۱۲۵) بیت وضع للناس (وہ گھر جو لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا ۰۳: ۹۶) البیت الحرام (حرمت والا گھر۰۵: ۰۲) المسجد الحرام (حرمت والی مسجد ۰۱: ۱۴۴) وغیرہ۔
خانۂ خدا کے مذکورہ اسماء میں کسی ابہام کے بغیر یہ جواز موجود ہے کہ جس طرح مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام مسجد درست ہے، اسی طرح اس کا نام “جماعت خانہ” بھی درست ہے، یعنی جماعت کا مذہبی گھر، کیونکہ اللہ کا گھر لوگوں کا دینی گھر ہوا کرتا ہے، جبکہ بیت اللہ لوگوں کے لئے مقرر ہے (۰۳: ۹۶) جب ہم تاریخی تحقیق (ریسرچ) کی روشنی میں زمانۂ نبوّت کو دیکھتے ہیں، تو اس میں باعتبارِ شکل مسجد اور جماعت خانہ ایک ہی چار دیواری نظر آتی ہے، چنانچہ میرے نزدیک مسجدِ رسولؐ
۱۲۴
خدا کا مقامی گھر اور حال ومستقبل کا جماعت خانہ تھی، جس کو اللہ تعالیٰ پاک کے مرکزی گھر کی نمائندگی حاصل تھی۔
۶- مسجد کے معنی ہیں جائے سجدہ (سجدہ کرنے کی جگہ) عبادت خانہ، نیز اس کے معنی ہیں عبادت، اور اس کی تاویل ہے اسمِ اعظم، اساسؑ، اور امامِ زمانؑ، کیونکہ ربّ العالمین کا حقیقی اسمِ اعظم اور عقل وجان والا گھر ہادیٔ زمان ہوا کرتا ہے، جیسا کہ کتابِ دعایم الاسلام جلد اوّل (عربی) کتابِ حج کے سلسلے میں صفحہ ۲۹۲ پر ذکر ہے کہ فرشتوں نے خانۂ خدا کی تعمیر کی، اس کے یہ معنی ہیں کہ ملائکہ نے انسان کامل کے عالمِ شخصی میں بیت اللہ کی روحانی تعمیر کی، کیونکہ فرشتوں کا اصل کام روحانی قسم کا ہوتا ہے، اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فرشتوں نے واقعی کعبۂ ظاہر کو بنایا تھا، تو اس کی تاویلی حکمت یہ ہو گی کہ مومنین نے جو جسمانی فرشتے ہیں عالمِ جسمانی میں ایک جماعتخانہ بنایا، اور”جیسا عمل ویسا بہترین ثواب” کے قانون کے مطابق ان کے ہاتھ سے روحانیت میں کعبۂ جان کی تعمیر کروائی گئی۔
۷۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی تعمیرِنو اسی مقام پر کیا، جہاں یہ طوفانِ نوحؑ سے پہلے تھا، اس جگہ کی نشاندہی ایک ایسی ہوا نے کی جو حضرت ابراہیمؑ کی تسکین کے لئے خداوندِ تعالیٰ نے بھیجی تھی جس کا نام سکینہ تھا، اس ہوا کے دو سر تھے، جو ایک دوسرے کے پیچھے گھومتے تھے، جس کی تاویل ذکر خدا اور اس کی روحانیّت ہے، اس سے یہ
۱۲۵
حقیقت نمایاں ہو جاتی ہے کہ اللہ کے خانۂ ظاہر کے تاویلی پسِ منظر میں خانۂ نورانیّت کا تذکرہ موجود ہے، کیونکہ ہر ظاہر کا ایک باطن ہوا کرتا ہے، جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اَسْبَغَ عَلَیْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةًؕ (۳۱: ۲۰) اوراس نے تم پر اپنی نعمتیں ظاہری اور باطنی پوری کر رکھی ہیں۔
۸۔ اللہ تعالیٰ پاک فرمان ہے: وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ (۰۲: ۱۲۵) اورجس وقت ہم نے خانۂ کعبہ کو لوگوں کیلئے جائے ثواب اور مقامِ امن مقرر کر رکھا اور مقامِ ابراہیمؑ کو جائے نماز بنا لیا کرو۔
اس آیۂ کریمہ کی پہلی تاویل: جس طرح خُدا کے حکم سے خانۂ کعبہ ظاہر میں ثواب اور امن کی جگہ ہے، اسی طرح امامِ زمان صلوات اللہ علیہ باطن میں بیت اللہ کی حیثیت سے ہر قسم کے ثواب کا وسیلہ اور ہر طرح کے امن کا ذریعہ ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ امامِ برحقؑ قبلۂ باطن ہیں، جس کی طرف قلبی توجہ ہر نیک کام میں لازمی ہے، اور طریقِ ثواب یہی ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ ثواب کا ذکر پہلے ہے اور امن کا
۱۲۶
ذکر بعد میں، اس کی حکمت یہ ہے کہ پہلے مومنین امام اقدس و اطہرؑ کی اطاعت و فرمانبرداری سے ثواب و نیکی کے مراحل طے کر لیتے ہیں، پھر نتیجے کے طور پر امامِ عالیمقامؑ کی روحانیّت و نورانیّت میں داخل ہو جاتے ہیں، اور یہی اللہ تبارک و تعالیٰ کا خانۂ باطن ہے، جس میں امن ہی امن ہے، یعنی کوئی خوف وخطر نہیں۔
جس طرح ظاہر میں مقامِ ابراہیمؑ خانۂ کعبہ کی ایک ایسی جگہ ہے، جہاں ایک پتھر تھا، اسی طرح خانۂ باطن یعنی امامِ مبینؑ کی نورانیت میں ایک عقلی گوہر ہے، اُس تک رسائی حاصل کر کے نماز کی حکمتوں کو حاصل کر لینے کے لئے فرمایا گیا ہے۔
دوسری تاویل: جس طرح خانۂ کعبہ اللہ کا مرکزی گھر ہے، اسی طرح جماعت خانہ خدا کا مقامی گھر ہے، یا یوں کہا جائے کہ جیسے بیت اللہ شریف مقامِ شریعت پر ہے، ویسے مقدس جماعت خانۂ مقامِ حقیقت پر ہے، لہٰذا مذکورہ آیۂ کریمہ میں جو فضائل بیان ہوئے ہیں، وہ خدا کے اس گھر کے بارے میں بھی ہیں، جو جماعت خانہ کے نام سے مشہور ہے، چنانچہ عقیدۂ اسماعیلیت اور قرآنی حکمت کے مطابق جماعت خانہ جائے ثواب اور مقامِ امن ہے، اس کے کئی معنی یہ ہیں کہ دین کے کُل اوامرونواہی کا جملہ ثواب جماعت خانہ میں مرکوز ہے، اور روحانی امن وسکون بھی اسی میں ہے، کیونکہ جماعت کے اس خانۂ دین کو دُہری فضیلتیں حاصل ہیں کہ یہ اگر ایک جانب سے خانۂ کعبہ کا نمائندہ ہے، تو دوسری جانب
۱۲۷
سے امام برحقؑ کی مثال ہے، جبکہ امامؑ نے بمنشائے الٰہی شخصیت اور ظاہری و باطنی قربت کی جگہ جماعت خانہ دیا ہے، پس مرحلۂ اوّل میں جماعت خانہ کے لئے یہی مقامِ ابراہیم ہے۔
۹۔ سورۂ آل عمران (۰۳: ۹۶) میں ربِّ عزت کا فرمان ہے: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ (۰۳: ۹۶) یقیناً وہ مکان جو سب سے پہلے لوگوں کے واسطے مقرر کیا گیا وہ مکان جو کہ مکہ میں ہے، جس کی حالت یہ ہے کہ وہ برکت والا ہے اور جہان بھر کے لوگوں کے لئے رہنما ہے۔ اس آیۂ مبارکہ میں کئی حکیمانہ اشارات ہیں، منجملہ ایک اشارہ یہ ہے “اوّل” اعداد ترتیبی (ORDINALS) کی بنیاد ہے، اور اس کا تقاضا ہمیشہ یہ ہوا کرتا ہے کہ اوّل (پہلا) کے بعد دوسرا، تیسرا، چوتھا، پانچواں وغیرہ بھی ہو، اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اگرچہ لوگوں کا اوّلین اور مرکزی گھر مکہ میں ہے، تاہم زمانۂ نبوّت اور دورِ امامت میں ذیلی اور مقامی طور پر بہت سے گھر (جماعت خانے) ہوں گے۔
دوسرا اشارہ یہ ہے کہ جس طرح لوگوں کے واسطے اوّلین دینی گھر مکہ میں مقرر ہوا، اسی طرح امامِ اوّل (مولا علیؑ) بھی مکہ میں مقرر ہوئے، جو لوگوں کے لئے روحانیّت و نورانیّت کا گھر ہیں، جس میں اُن لوگوں کے لئے برکات و ہدایات ہیں، جو عالمِ شخصی بن جاتے ہیں۔
تیسرا اشارہ یہ ہے کہ “بکۃً” کا ایک اشاراتی قرأت گریہ وزاری کے معنی میں بھی ہے، سو اس کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے لئے اوّلین
۱۲۸
روحانیّت کا گھر عشقِ مولا کے تابناک آنسوؤں سے بنایا جاتا ہے، جو اہلِ دل کے لئے برکتوں اور ہدایتوں سے بھرپور ہے۔
چوتھا اشارہ یہ ہے کہ خانۂ کعبہ، امامؑ، اور جماعت خانہ اگر ایک طرف سے خدا کے گھر ہیں تو دوسری طرف سے لوگوں کے گھر ہیں، کیونکہ ان پاک گھروں میں جو برکتیں اور ہدایتیں ہیں، وہ لوگوں کے لئے ہیں، اور ان کا خدا تعالیٰ سے منسوب ہو جانا خصوصی ملکیت کی وجہ سے ہے۔
۱۰۔ سورۂ نور میں فرمایا گیا ہے: فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗۙ-یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ (۲۴: ۳۶) (وہ نور) ایسے گھروں میں روشن ہے جن کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں، ان گھروں سے حضراتِ أئمّۂ طاہرین صلوات اللہ علیھم مراد ہیں، نیز یہ گھر جماعت خانے ہیں، جن میں نورِ خداوندی کا چراغ روشن ہوتا ہے، جس کا مشاہدہ اور عرفان یقینی ہے۔
۱۱۔ خانۂ کعبہ ظاہری علامت، مثال اور نمونہ ہے اُن آیاتِ کریمہ کا، جن کی تاویلی حکمت کا تعلق خدا تعالیٰ کے زندہ گھر یعنی امام علیہ السّلام سے ہے، اور امامِ عالیمقامؑ کی معرفت جو نہایت ہی ضروری ہے، وہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی، مگر اطاعت سے، اور اطاعت و فرمانبرداری کا مرکز جماعت خانہ ہے، کیونکہ یہ جائے ثواب اور مقامِ امن ہے۔
جس طرح ہر چیز کی روح ہوا کرتی ہے، اسی طرح جماعت خانہ
۱۲۹
کی ایک عظیم روح ہے، یہ امامِ زمانؑ کی روح یعنی نور ہے، جس میں جماعتی روح زندہ ہو جاتی ہے، پس اگر آپ باور کرتے ہیں کہ جماعت خانہ میں امامِ برحقؑ کا نور موجود ہے، تو یہ بھی جان لیں کہ یہی نور اللہ تعالیٰ کا زندہ گھر ہے، جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے:۔ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۚ (۶۰: ۰۴) تمہارے واسطے تو ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں (کے قول وفعل) کا اچھا نمونہ موجود ہے۔ اس ربّانی تعلیم سے یقینی طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ویسے تو ظاہر میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ بہت سے لوگ تھے، مگر جو حضرات باطن میں آپ کے ساتھ تھے، وہ آپؑ کی پیروی میں درجۂ انتہا پر پہنچ گئے تھے، اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کا اسوۂ حسنہ حضرت ابراہیمؑ کے اسوۂ حسنہ سے نہیں ملتا، اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسے حضرات کون تھے یا کون ہے؟ آلِ ابراہیمؑ ہیں، یعنی انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام، جن کا ظہور جناب خلیل اللہؑ کے نزدیک بہت ہی ضروری تھا (۰۲: ۱۲۴) اور خدائے مہربان نے آل ابراہیم کو سب کچھ دے رکھا تھا (۰۴: ۵۴) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بحکمِ خدا حضرتِ ابراہیمؑ کی پیروی کرتے ہوئے نہ صرف خانۂ کعبہ کو قبلہ بنا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مقامی طورپر بھی خدا کا ایک گھر (مسجد) بنایا، اور پاک اماموں نے بھی اپنے اپنے وقت میں مسجد یا جماعخانہ کے نام سے اللہ کے ایسے گھروں کی تعمیر کی۔
۱۳۰
۱۲۔ سورۂ قصص (۲۸: ۵۷) میں فرمایا گیا ہے: کیا ہم نے ان کو امن و امان والے حرم میں جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے پھل کھینچے چلے آتے ہیں، جو ہمارے پاس سے کھانے کو ملتے ہیں و لیکن ان میں اکثر لوگ نہیں جانتے (۲۸: ۵۷) اگر آپ غور کریں تو صاف طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ثمرات کل شیٔ یعنی تمام چیزوں کے ظاہری میوے کہیں بھی خود بخود کھینچ کھینچ کر نہیں آسکتے، مگر یہ حقیقت ہے کہ پیغمبر اور امام صلوات اللہ علیھما جس جگہ کو عبادت کے لئے مقرر فرمائیں، وہاں کُل اشیاء کے روحانی میوے کھینچ کھینچ کر خودبخود آتے رہتے ہیں، اور یہی روحانی معجزات جماعتخانہ سے متعلق ہیں۔
جب قرآنِ حکیم نے کہا کہ ثمرات کل شی (جملہ اشیاء کے میوے) تو اس خداوندی کلیہ کے مطابق جمادات، نباتات، حیوانات، اور انسان سب کے سب درخت قرار پائے، تاکہ ان میں سے ہر ایک کا پھل خانۂ خدا کی طرف آئے، مگر یہ صرف اور صرف روحانی صورت میں ممکن ہے، چنانچہ جماعت خانہ وہ مقام ہے، جہاں امامِ زمانؑ کی عظیم المرتبت روح (یعنی نور) کام کرتی ہے، جس کی طرف دنیا بھر کی چیزوں کی روحیں کھینچ کھینچ کر آتی ہیں، جیسا کہ امامِ مبین میں اشیائے کائنات جمع ہوتی ہیں (۳۶: ۱۲) پس حقیقی مومنین کے لئے جماعتخانہ سے متعلق یہ روشن دلائل کافی ہیں۔
نصیر الدین نصیر ہونزائی
۱۰دسمبر ۱۹۸۴ء
۱۳۱
خانۂ خدا ۔ خانۂ جماعت
(دوسری قسط)
۱۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ خانۂ خدا خانۂ جماعت ہے، اور نہ ہی اس بات میں کوئی شبہ ہے کہ جس طرح دین کا مرکزی گھر خانۂ کعبہ ہے، ا سی طرح مقامی گھر جماعتخانہ ہے، اور یہ نظام اللہ تعالیٰ کی سنت اور قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے، کہ ہمیشہ رحمتو ں اور برکتوں کا مقام ظاہراً وباطناً بندوں سے قریب تر کر دیا جاتا ہے، جیسے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے اس دنیا میں آنے کے ساتھ ساتھ آپؑ اور آپؑ کی اولاد کی خاطر یہاں خانۂ خدا کی تعمیر کی گئی، جو اس زمین پر عرشِ عظیم کا درجہ رکھتا ہے، کیونکہ خدا کے عرش (تخت) کا جو مفہوم ہے، وہی مفہوم خدا کے گھر کا بھی ہے، اور جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینۂ منورہ میں اللہ پاک کا ایک دوسرا گھر بنایا، جس کو ہم پہلی مسجد بھی کہہ سکتے ہیں، اور اولین جماعت خانہ بھی، کیونکہ فی الاصل ان دونوں کی شکل اور حقیقت ایک ہی ہے، بہر حال وہ خدا کے قدیم گھر کا قائمِ مقام تھا، اس کے
۱۳۲
یہ معنی ہوئے کہ خانۂ کعبہ کو عرشِ عظیم کی نمائندگی حاصل ہے، اور جماعت خانہ کو کعبۂ شریف کی نمائندگی۔
۲۔ آپ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلام میں تقویٰ کی بہت اہمیت ہے، کیونکہ تقویٰ جملہ عبادات کی جان ہے، اور اس مقصد کے حصول کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے، مگر شعائِر اللہ یعنی خدا کی نشانیوں کی شانِ رحمت دیکھئے کہ ان کی حُرمت و تعظیم سے قلبی تقویٰ کا عمل بن جاتا ہے (۲۲: ۳۲) امامِ زمان صلوات اللہ علیہ وسلامہ‘ جو قرآنِ ناطق ہیں، ان کی پاک و پاکیزہ شخصیت اور جماعت خانہ شعائِر اللہ میں سے ہیں، لہٰذا ان کی تعظیم کرنا قلبی تقویٰ کا نتیجہ بھی ہے اور درجہ بھی، کیونکہ ان میں سے ایک خدا کا باطنی گھر ہے اور دوسرا ظاہری گھر۔
۳۔ سورۂ حج کے ایک ارشاد (۲۲: ۲۶) کا تاویلی مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیمؑ کو بیت اللہ قرار دیا تھا، تاکہ اِس مرتبہ کی روحانیّت ونورانیّت میں توحید کی معرفت حاصل ہو، اور خدا کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا جائے، ربّ العزت نے آپؑ کو یہ بھی حکم دیا کہ آپ اللہ کے اس زندہ گھر کی نظریاتی، روحانی اور عقلی پاکیزگی کریں، تاکہ اس میں تین قسم کے فرشتے آجائیں، اور وہ ہیں طواف کرنے والے، قیام یا اعتکاف کرنے والے، اور رکوع وسجود کرنے والے۔
۴۔ پیغمبر اور امام کی پاک شخصیت میں روحانی مسجد اور نورانی جماعت خانہ ہونے کا خدائی قانون ہمیشہ سے جاری ہے، جیسے حضرت
۱۳۳
نوحؑ نے اس خانۂ نورانیت کو “بیتی ۷۱: ۲۸) کہا، اور مومنین میں سے جو افراد اس میں داخل ہو چکے تھے، وہ “اھلِ بیت” کہلاتے تھے وہ قرآنی ارشاد یہ ہے:۔
رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ (۷۱: ۲۸) اے میرے رب مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو کمالِ ایمان سے میرے (روحانی) گھر میں داخل ہو گئے ہیں ان کو اور تمام مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو بخش دے، آپ دیکھتے ہیں کہ حضرتِ نوحؑ کی اس پُرحکمت دعا میں اہلِ ایمان دو درجوں میں ہیں، یعنی بعض مومنین کمالِ ایمان کی بدولت آپٖ صلوات اللہ علیہ کے خانۂ نورانیت (یعنی خانۂ خدا) میں داخل ہو چکے ہیں، اور بہت سے مومنین و مومنات ہنوز اس درجے میں داخل نہیں ہو سکے ہیں۔
۵۔ پیغمرِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وقت میں خدا تعالیٰ کا زندہ گھر (۲۲: ۲۶) اور نورانیت سے بھر پور معجزاتی جماعت خانہ تھے، جیسا کہ سورۂ احزاب (۳۳: ۳۳) میں فرمایا گیا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا (۳۳: ۳۳) اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اے (نورانیت کے) گھر والو تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو (ہر طرح سے ظاہراً وباطناً) پاک و صاف رکھے، یہ مقدس گھر نورِ نبوت وامامت تھا، اور اہلِ بیت (گھر والے) پنجتن پاک تھے، یعنی حضرت محمد مصطفٰی، حضرتِ علی مرتضٰی، حضرتِ فاطمۂ زہرا،
۱۳۴
حضرتِ حسنِ مجتبیٰ اور حضرتِ حُسین سید شہداء صلوات اللہ علیھم، یہی خانۂ نورانیت اللہ تعالیٰ کا بولنے والا گھر اور عقلی و روحانی جماعت خانہ ہے، اور یہی وہ حکمت کا گھر ہے، جس کے بارے میں آنحضرتؐ ارشاد فرمایا کہ “میں حکمت کا گھر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے” نیز یہ وہی مبارک ومقدس گھر ہے، جس میں بموجب آیۂ قرآن (۲۴: ۳۵) نورِ خداوندی کا چراغ روشن ہے۔
۶۔ یہاں متعلقہ حقیقت کو دل نشین انداز میں پیش کرنے کی غرض سے یوں سوال کیا جاتا ہے کہ صراطِ مستقیم (راہِ راست) کس کی ہے؟ آیا یہ خدا کی ہے یا انبیاء کی؟ کیا یہ راہ آنحضرتؐ کی ہے یا امامؑ کی؟ کیا یہ مومنین کے لئے نہیں ہے؟ اس کا جواب اس طرح سے ہے کہ صراطِ مستقیم سب سے پہلے خدائے پاک وبرتر کی ہے، کیونکہ راہِ راست کی منزلِ مقصود وہی ہے، یعنی سب کو اسی کے خانۂ نور میں جانا ہے (۴۲: ۵۳، ۰۲: ۱۵۶) نیز صراطِ مستقیم جملہ انبیاء علیھم السّلام کی ہے، کیونکہ وہ حضرات اس پر لوگوں کے رہنما تھے، (۰۱: ۰۷، ۰۴: ۶۸) یہ راہِ راست پیغمرِ آخر زمان صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے، اس لئے کہ حضورؐ سرورِ انبیاء وسردارِ رسل ہیں (۱۲: ۱۰۸) نیز یہ رستہ امامِ عالیمقام علیہ السلام کا ہے، کہ آپ ہادیٔ برحق ہیں (۱۳: ۰۷) اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صراطِ مستقیم مومنین کی ہدایت کے لئے بنائی گئی ہے (۰۴: ۱۱۵) بالکل اسی طرح وہ انتہائی پاک و پاکیزہ گھر جو ربّ العزت کا ہے، وہ مذکورۂ بالا تمام درجات
۱۳۵
کا ہے، اگرچہ ذاتِ خدائے بے مثل مکان اور لامکان سے بے نیاز و برتر ہے، لیکن اس کی وحدانیت کی معرفت خانۂ نورانیت سے باہر ممکن نہیں (۲۴: ۳۵) یہ گھر جو رحمتوں اور برکتوں سے مملو اور نورِ معرفت سے منور ہے وہ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کا نور ہے (۲۴: ۳۶) اور یہی نور سے معمور گھر مومنین و مومنات کا بھی ہے، جبکہ وہ مکمل پیروی کرتے ہیں (۵۷: ۱۲، ۶۶: ۰۸)
۷۔ قانونِ فطرت (پیدائش) یہ ہے کہ ہر چیز ابتداءً ایک محدود سانچے میں بنتی ہے، اس کے بغیر کسی چیز کا وجود میں آنا غیر ممکن ہے، درختوں کا پھل چھلکے کے بغیر اور مغز گُٹھلی کے سوا نہیں بن سکتا، اور جس طرح انسان کی ہستی و شکل اپن ماں کی بچہ دانی سے باہر نہیں بن سکتی ہے، اور دوسری طرف سے آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض اشیاء موجود تو ہیں، مگر اُن کی کوئی مخصوص شکل و صورت نہیں، کیونکہ وہ سانچے کے بغیر بکھری ہوئی ہیں، جیسے عناصرِ اربعہ، یعنی مٹی، پانی، ہوا، اور آگ، چنانچہ بحکمِ خدا رسول اللہؐ اور صاحبِ امر نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک مقامی گھر بنا دیا، تاکہ اسی سانچے میں ڈھل کر ہر مرید بحقیقت مومن کہلائے، اور اس کی ایک خاص ایمانی اور روحانی صورت بن جائے۔
۸۔ جہاں رحمتِ کُل کے قانون کی رو سے یہ ممکن ہے کہ عرشِ عظیم کا ایک نمونہ بصورتِ خانۂ کعبہ زمین پر اتارا جائے، پھر زمانۂ طوفان میں آسمانِ چہارم پر اٹھایا جائے، پھر زمانۂ ابراہیمؑ میں زمین پر اس کی تعمیرِ نو ہو سکتی ہو، اور پھر عہدِ نبوّت میں جہاں مقامی طور پر بھی خدا کا
۱۳۶
ایک گھر بنایا جا سکتا ہو، تو وہاں یہ بھی ممکن ہے کہ جماعت خانہ خدائے مہربان کے خانۂ ظاہر یعنی کعبۂ شریف اور خانۂ باطن (امامؑ) کی حقیقی نمائندگی کرے، اور یہ بات حق و حقیقت ہے، اور اس میں ذرہ بھر شک نہیں۔
۹۔ جماعت خانے تین ہیں پہلا عالمی جماعت خانہ، جو امامِ زمان صلوات اللہ علیہ کا مبارک وجود، دوسرا مقامی جماعت خانہ، جو شہر یا قصبہ یا گاؤں یا محلے کا جماعت خانہ ہے، اور تیسرا انفرادی جماعت خانہ، جو بندۂ مومن کا دل ہے، مگر ان تینوں کی مربوط حکمت مقامی جماعت خانے میں ہے، کہ وہیں پر رفتہ رفتہ روحانی ترقتی ہوتی ہے، اور قلبی جماعت خانے کا دروازہ کُھل جاتا ہے، پھر وہ نورِ ایمان سے منور ہو جاتا ہے، اور اسی میں امامِ اقدس و اطہرؑ کا پاک دیدار ہوتا ہے، جو نورانیت کا حقیقی جماعت خانہ ہے۔
۱۰۔ سورۂ یونس (۱۰: ۸۷) میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ۔
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (۱۰: ۸۷) اور ہم نے موسیٰؑ اور ان کے بھائی (ہارونؑ) کے پاس وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لئے گھر بناؤ اور اپنے اپنے گھروں ہی کو مسجدیں قرار دے کر پابندی سے نماز پڑھو اور مومنین کو خوشخبری دے دو، ہر ایسے شہر کو مصر کہتے ہیں جس کے گردا گرد فصیل (شہر پناہ) ہو اس سے شہرِ روحانیت مراد ہے، کیونکہ
۱۳۷
اس کے گردا گرد صرف فصیل ہے، بلکہ اس کا ایک دروازہ بھی ہے، چنانچہ اس آیۂ حکمت آگین میں انفرادی جماعتخانوں کی روحانی ترقی کا ذکر فرمایا گیا ہے، یعنی اللہ پاک نے پیغمبر اور امام علیھما السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کے حدودِ دین کے لئے شہرِ روحانیت میں گھر بنائیں، اور ان گھروں کو خانۂ خدا کا درجہ دے کر دعوتِ حق کا کام کریں، اور ان گھروں کو خانۂ خدا کا درجہ دے کر دعوتِ حق کا کام کریں، اور ایسے عروج و ارتقاء سے مومنین کو عملاً خوشخبری دیدیں۔
۱۱۔ سورۂ توبہ (۰۹: ۱۸) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: خدا کی مسجدوں کو بس صرف وہی شخص (جا کر) آباد کر سکتا ہے جو خدا اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور نماز پڑھا کرے اور زکوٰۃ دیتا رہے اور خدا کے سوا (اور) کسی سے نہ ڈرے تو عنقریب یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں سے ہو جائیں گے (۰۹: ۱۸) اگر کہا جائے کہ یہاں “مساجد اللہ” سے دنیا بھر کے جماعت خانے یا مسجدیں مراد ہیں، تو پھر ایک شخص اُن سب کی آبادی میں کس طرح حصہ لے سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ بات ناممکن ہے، چنانچہ یہ ارشاد تاویلی حکمت کا متقاضی ہے، اور وہ حکمت یہ ہے کہ خدا کی مسجدیں یعنی جماعت خانے تین درجوں میں ہیں، جیسا کہ (۹) میں بتایا گیا ہے، عالمی جماعتخانہ (یعنی امامِ وقت) مقامی جماعت خانہ، اور قلبی جماعت خانہ، اور ان تینوں کو ایک ساتھ صرف وہی شخص اپنی حاضری سے آباد کر سکتا ہے، جو خدا اور یوم آخر (امامؑ) پر ایمان لائے اورنماز قائم کرے، یعنی کارِ دعوت کو انجام دے، اور ظاہری وباطنی زکات
۱۳۸
دیتا رہے۔
جب بندۂ مومن عقیدت و محبت سے متعلقہ جماعت خانے میں جا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے، تو اس پُرحکمت عمل سے نہ صرف جماعت خانہ آباد ہو جاتاہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی اور عالمی جماعت خانہ بھی معمور ہو جاتا ہے، کیونکہ خداتعالیٰ کے یہ تینوں گھر مربوط اور یکجا ہیں، جبکہ مومن جماعت خانے سے وابستہ ہے، اور جبکہ امامِ زمان صلوات اللہ علیہ جماعت خانے کی روح ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو مومن جماعت خانے پر یقینِ کامل رکھتا ہے اس کی روح کے ذرات میں سے ایک خاص ذرہ ہمیشہ امامِ برحقؑ کی مبارک ومقدس شخصیت کی خدمت میں رہتا ہے، آپ حقیقتِ روح کے بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں، اور ذرات سے متعلق مضامین کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں، تاکہ روح کے بسیط و ہمہ جا ہونے کا حال معلوم ہو سکے۔
۱۲۔ فرمایا گیا ہے کہ: “مومن کا قلب (دل) اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔” لیکن یہا ں پوچھنے اور جاننے کی ضرورت ہے کہ اس قول کی اصل حقیقت کیا ہے؟ کیونکہ لفظِ “مومن” کا اطلاق تو بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے، مگر عرش کا تصور بہت بلند ہے، لہٰذا آپ اس حکمت کو بخوبی دلنشین کر لیں، کہ مومن کا قلب امامِ زمان صلوات اللہ علیہ ہیں، اور اسی مقدّس ہستی میں خدا کا نور جلوہ گر ہے، جیسے قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ (۰۸: ۲۴) اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ
۱۳۹
آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان۔ ۔ یعنی حقیقی علم کی روشنی میں تم اس قانونِ امتحان کو جان لو کہ آدمی اس کے دل (یعنی امامِ زمانؑ) کے درمیان خدا کیوں حائل ہو جاتا ہے؟ یقیناً اس میں حکیمانہ اشارہ اور کامیابی کا راز بس یہی ہے کہ ہر شخص اپنے حقیقی دل کے ساتھ اللہ سے رجوع کرے، وہ لوٹ کر اس طرف سے آگے بڑھے، جس طرف اس کا دل ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ درحقیقت قلبی جماعتخانہ بھی امامِ زمان ہیں۔ وماتوفیقی الا بااللہ۔
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۰۔ دسمبر۱۰۸۴ء
۱۴۰
تاویلی سوالات
سورۂ مائدہ (۵) کا چوتھا رکوع (یعنی ۰۵: ۲۰ تا ۲۶) پیشِ نظر رہے، اور اس سلسلے میں یہاں چند تاویلی سوالات اور جوابات درج کئے گئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں:۔
سوال (۱): جعل فیکم انبیاء (اللہ تعالیٰ نے تم میں بہت سے پیغمبر بنائے) کی تاویلی وضاحت کس طرح ہو سکتی ہے، کیونکہ “فیکم” کے معنی “تمہاری قوم میں” تک محدود نہیں، بلکہ اس کا مطلب “تمہاری ذات میں” بھی ہے؟
جواب: کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل میں سے بہت سے ابنیاء علھیم السّلام ہوئے تھے، اور یہ بات عالمِ ظاہر سے متعلق ہے، لیکن جہاں تک عالمِ شخصی کا تعلق ہے، تو اس میں جملہ پیغمروں کی نمائندگی نفسِ واحدہ کرتا ہے، چنانچہ فیکم کے معنی مطلق ہیں (یعنی محدود نہیں) لہٰذا اس پُرحکمت آسمانی تعلیم میں بنی اسرائیل سے یہ فرمایا گیا تھا، کہ وہ بذریعۂ علم و عمل حدِ قوّت سے حدِّ فعل میں ترقی کر کے دیکھیں کہ ربِ کریم کی
۱۴۱
طرف سے انھیں کیسی کیسی عظیم نعمتیں عطا کی گئی ہیں، کہ ان کے باطن میں ایک ایسا عالم پوشیدہ ہے، جس میں ماضی اور مستقبل اپنی اپنی جگہ سے ہٹ کر حال کے طور پر سامنے آتے ہیں، یہاں یہ اصول خوب یاد رہے کہ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں”فیکم” ہے، اس میں یہی حکمت پوشیدہ ہے۔
سوال (۲): آیا زمانۂ ماضی میں نبوّت کے علاوہ دنیوی قسم کی بادشاہت بھی مسلمہ ہوتی تھی؟ اگر نہیں تو یہ قرآنی ارشاد کیوں ہے کہ خداوند تعالیٰ نے حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے لوگوں کو ملوک (بادشاہ ۰۵: ۲۰) بنایا تھا؟
جواب: خدا کے نزدیک نبوّت اور امامت کے سوا کوئی حقیقی بادشاہت نہیں، اور جس طرح بنی اسرائیل کے ملوک (بادشاہ) ہونے کا ذکر ہے، اس کی تاویلیں ہیں، اوّل یہ کہ ان کی قوم سے ایک شخص کا بادشاہ (امامؑ) ہونا گویا ان کا بادشاہ ہونا تھا، دوم یہ کہ وہ اپنے اماموں کے وسیلے سے بحدِّ قوّت بادشاہ تھے، جبکہ حضراتِ ائمّہ بحدِّ فعل دینی بادشاہ ہوا کرتے ہیں، جس طرح درخت بحدِ فعل درخت ہوتا ہے، مگر اس کا تخم بحدِ قوت درخت ہوتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا ہے: سو ہم نے ابراہیمؑ کے خاندان کو کتاب بھی دی ہے اور حکمت بھی دی ہے اور ہم نے ان کو بڑی بھاری سلطنت بھی دی ہے (۰۴: ۵۴) اس حکم میں پہلے نبوّت کا ذکر ہے، اس کے بعد امامت کا۔
سوال (۳): ظاہر ہے کہ مذکورۂ بالا حکم صرف اور صرف خاندانِ
۱۴۲
ابراہیم علیہ السّلام کے لئے خآص ہے، اور اس میں کسی اور شخص کی شرکت نہ تو حدِّ فعل میں ہو سکتی ہے اور نہ حدِّ قوت میں، پھر دوسرے لوگوں کا وسیلہ نجات کیا ہے؟
جواب: جو لوگ انبیاء و ائمّہ علیھم السّلام کی بحقیقت پیروی کرتے ہیں، وہ ان حضرات کی روحانی ذریت (اولاد) قرار پاتے ہیں، جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کی زبان سے فرمایا گیا ہے: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ (۱۴: ۳۶) پس جو کوئی میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے۔ جس طرح حضرت نوح علیہ السّلام کا ایک بیٹا نافرمانی کی وجہ سے پیغمر کا فرزند نہ ہو سکا، اور جس طرح اس کے برعکس تابعداری کے سبب سے سلمان فارسی اہلِ بیتِ رسولؐ سے جا ملا، ان روشن مثالوں سے دین کا قانون ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس میں یہ ممکن ہے کوئی شخص یا اشخاص بسببِ نافرمانی نبوّت و امامت کے خاندان سے خارج ہو جائیں، اور دوسری جانب یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی فرد یا افراد اطاعت و فرمانبرداری کی بدولت پیغمبر اور امام کے روحانی فرزند قرار پائیں۔
سوال (۴): آیۂ کریمہ کا ترجمہ ہے: اور تم کو وہ چیزیں دیں جو دنیا جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیں (۰۵: ۲۰) کیا اس قرآنی تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بنی اسرائیل کو عطا ہوا تھا، وہ اولین و آخرین میں سے کسی کو نہیں دیا گیا تھا؟ اگر حقیقت یوں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا یہ اختصاص صرف حضرت موسیٰؑ کی قوم کے لئے کیوں ہے؟
جواب: آیۂ مقدسہ کی حکمت یہ بتاتی ہے کہ بنی اسرائیل کے اس
۱۴۳
تذکرے میں ان تمام لوگوں کی مثال دی گئی ہے، جن کو اپنے اپنے دور میں انبیاء و اولیاء (ائمّہ) کی ظاہری نزدیکی حاصل تھی، مگر ہر زمانے میں رحمتِ خداوندی کو فعلاً حاصل کرنے کے لئے علم و عمل ضروری ہوتا ہے، پس بنی اسرائیل کو اوّلین وآخرین پر نہیں بلکہ اہلِ زمانہ پر فضیلت دی گئی تھی، اور وہ بھی بحقیقت فرمانبردار ہونے کی صورت میں، جیسا کہ آپ قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں۔
سوال (۵): آیۂ کریمہ (۰۵: ۲۱) کے مطابق “ارضِ مقدّسہ” کی تاویل کیا ہے؟ جب اللہ تعالیٰ نے یہ پاک زمین بنی اسرائیل کے نام پر لکھ دیا تھا، تو پھر وہ لوگ اس میں کیوں داخل نہیں ہو سکتے تھے؟
جواب: ارضِ مقدّسہ کی تاویل روحانیت اور عالمِ شخصی ہے، جس کو خدا تعالیٰ نے ہر مسلم اور مومن کے نام لکھ دیا ہے، لیکن ہر رحمت و نعمت پہلے تو حدِّ قوت میں ہوا کرتی ہے، جس کو حدِّ فعل میں لانے کے لئے علم و عمل کی سخت ضرورت ہوتی ہے، اگر یہ نہ ہوا تو کوئی رحمت اور کوئی نعمت اپنے آپ حدِّ قوت سے حدِّ فعل میں نہیں آ سکتی ہے، جس کی ایک مثال گندم کے بیج ہیں، جو بحدِّ قوت کسی زمیندار کے سال بھر کا غلہ اور سرمایہ ہیں، اب آپ خود بتائیے کہ کھیت میں بیج بکھیرنا، ہل چلانا، وغیرہ زمیندار کا کام ہے یا خدا کا؟ تاکہ یہ بیج حدِّ قوت سے حدِّ فعل میں آ کر گندم کا ایک بڑا ذخیرہ بن سکیں، ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ جو صاحبِ حکمت ہے صرف اپنا کام کرتا ہے وہ ظاہری اور جسمانی کام نہیں کرتا، اس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انسان کو بیشمار عقلی، روحی
۱۴۴
اور جسمی عمل کی صلاحییتوں سے نوازا ہے، پس علم و عمل میں انسان کی سعادت پوشیدہ ہے۔
سوال (۶): قرآنِ حکیم کی کئی آیات میں خاسرین یعنی زیانکاروں کا بھی ذکر ہے، اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لوگ اچھے اچھے کام انجام دیں، اور اللہ تعالیٰ ان کو کوئی اجر و صلہ نہ دے، پھر وہ لوگ زیان کار کہلائیں؟
جواب: اگر کسی انسان کا قول و فعل خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی خوشنودی کے مطابق ہے تو یہ مقبول ومفید ہوتا ہے، ورنہ وہ ضائع ہو جاتا ہے، اور خدا کی سنت ہمیشہ سے یہی چلی آئی ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دین کی ہر بات اور ہر کام نورِ ہدایت کی روشنی میں ہونا چاہئے، تاکہ موجبِ ثواب ہو، کیونکہ نورِ ہدایت کے ہمیشہ کے لئے موجود و حاضر رہنے کے یہی معنی ہوتے ہیں۔
سوال (۷): اگر ارضِ مقدسہ سے روحانیّت اور عالمِ شخصی مراد ہے، تو اس میں وہ زبردست لوگ کون تھے، جن کے خوف سے بنی اسرائیل اس پاک سر زمین یا اس پاک عالم میں داخل نہیں ہو سکتے تھے؟
جواب: ان سرکش لوگوں کی تاویل، جو پاک و پاکیزہ زمین پر قابض تھے، ظاہری طاغوتی قوتیں ہیں، جو نفسِ امّارہ کے توسط سے انسان کے باطن میں کام کرتی ہیں، جن کی موجودگی میں کمزور مومن عالمِ
۱۴۵
شخصی میں داخل نہیں ہو سکتا ہے، اور آیۂ کریمہ میں اسی مطلب کی ترجمانی کی گئی ہے (۰۵: ۲۲)
سوال (۸): وہ دو مرد کون تھے؟ جنھوں نے اپنی قوم کو باطنی جہاد کے لئے حوصلہ دیا؟ اور وہ دروازہ کیا تھا، جس سے لوگوں کو روحانیّت میں داخل ہو جانا چاہئے؟
جواب: وہ دو مرد جو خوفِ خدا رکھتے تھے، اور جن پر اللہ کا فضل و احسان تھا، وہ اساس اور امام علیھما السّلام تھے، اور وہ دروازہ (حجتِ اعظم) تھا، کیونکہ اللہ جل شانہ کا باب (دروازہ) ناطقؑ ہوا کرتا ہے، ناطق کا باب اساس، اساس کا باب امام، اور امام کا باب حجتِ اعظم ہوتا ہے، جس سے امامِ برحق کا وہ فرزند مراد ہے، جو وقت آنے پر مرتبۂ امامت پر فائز ہو جاتا ہے۔
سوال (۹): خدا، رسولؐ، اور امام کے دروازے کیوں ہیں؟ اور ان کی خصوصیت کیا ہے؟ کیا اس تصور کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص خدا تک پہنچ جائے؟
جواب: دیکھئے کہ خدا تعالیٰ مکان و لامکان سے برتر تھی ہے، وہ ہر جگہ بھی ہے، او اس کا ایک مقرر گھر بھی ہے، چنانچہ اوّل الذکر دونوں تصور ایسے نہیں کہ کوئی بندہ ان سے خدا تک رسائی کر سکے، لہٰذا ضروری ہے کہ خانۂ خدا سے رجوع کیا جائے، اور خانۂ خدا دروازے
۱۴۶
کے بغیر نہیں ہو سکتا، جیسے پیغمبرِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ: میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے، اس سے ظاہر ہے کہ مراتبِ عالیہ کے دروازے منارۂ ہدایت کے طور پر ہیں، اور ان کی خاصیت علم و حکمت ہے، پس اس تصور کے بغیر خدا شناسی ممکن نہیں، یعنی خدا کا دروازہ پیغمبرؐ اور پیغمبرؐ کا دروازہ امام ہے اور راہِ ہدایت کا قانون یہی ہے۔
سوال (۱۰): اس ارشادِ خداوندی میں کیا حکمت ہے، جو فرمایا گیا ہے: “پس جب تم دروازے سے داخل ہو جاؤ گے تو اسی وقت غالب آؤ گے؟
جواب: حجتِ اعظم جو امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کا روحانی دروازہ ہے، اس کے وسیلے سے امامِ عالیمقامؑ کی روحانیّت میں داخل ہو جانے کے نتیجے میں بندۂ مومن کا شخصی عالم فتح ہو جاتا ہے، اور تمام طاغوتی طاقتیں مغلوب ہو جاتی ہیں۔
سوال (۱۱) اس پاک آیت میں جس طرح توکل کا ذکرِ روحانی فتح کے بعد آیا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟
جواب: چونکہ توکل ایمان کے درجۂ کمال پر ہے، لہٰذا اس کا ذکر اسی طرح آخر میں آیا ہے، یعنی مومن جب اپنے عالمِ شخصی میں داخل ہو جاتا ہے تو تب حقیقی وکیل کارسازی کرتا ہے۔
نصیر الدین نصیرہونزائی
۱۸۔ اکتوبر ۱۹۸۴ء
۱۴۷
سلمان فارسی
۱۔ لفظِ سلمان کا مادہ س، ل، م ہے، چنانچہ اس کے خاص مفہومات یہ ہیں: سلامتی والا، ناجی، تسلیم وتفویض کرنے والا، یعنی اپنی انا کو خدا کے سپرد کر دینے والا، صلح جُو، امن پسند، اطاعت گزار، فرمانبردار، وغیرہ، چونکہ حرفی لحاظ سے “سلمان” کا اسم مصغیر (DIMINUTIVE) سلیمان ہے، لہٰذا یہ کہنا ایک حقیقت ہے کہ اس خوبصورت اور پیارے نام کی قرآنی بہشت، یعنی حکمتوں کی جنت وہ قصۂ قرآن ہے، جو حضرتِ سلیمان علیہ السّلام سے متعلق ہے، کیونکہ یہ عزیز نام (یعنی سلمان الخیر) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا، جبکہ سلمانِ فارسی کا سابق نام روزبہ یا مابہ تھا، اور اس بات میں کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں کہ حضورِ انورؐ کا فرمایا ہوا ہر لفظ ایک طرح کی آسمانی وحی کا درجہ رکھتا ہے (۵۳: ۰۳ تا ۰۴) اس وجہ سے یہ نام بابرکت اور پُرحکمت ہو گیا، اگرچہ یہ نام پہلے ہی سے لوگوں میں رائج تھا، لیکن جس وقت اس کا تسمیہ (نام رکھنا) نورِ نبوّت کی روشنی میں کیا گیا، تو اس کے مرادی معنی لغوی مناسبت کے
۱۴۸
ساتھ ساتھ کچھ اور ہو گئے، وہ یہ کہ سلمان کے نام میں حضرت سلیمان کی روحانی سلطنت کا تصور آ گیا۔
۲۔ آپ نے شاید “حکمتِ تسمیہ” کے مضمون کو غور سے پڑھا ہو گا، کہ تسمیہ میں کوئی تصور، کوئی حکمت اور کوئی فلسفہ ہوا کرتا ہے، بالفاظِ دیگر نام رکھنے کے پس منظر میں کسی امید کا ذکر ہوتا ہے، یا کوئی سعادت وبہتری مطلوب ہوتی ہے، اور اگر یہ کام ہادیٔ برحق کا ہے تو یقیناً اس میں اعلیٰ درجے کی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، چنانچہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو پسندیدہ نام اپنے عاشقِ صادق کو دیا ہے، اس میں دینی کامیابی، طلوعِ نور، دیدارِ اقدس اور روحانی سلطنت کی بشارت کیوں نہ ہو۔
۳۔ سلمانِ فارسی ارادۂ الٰہی کے مطابق نورِ نبوّت اور نورِ امامت کی ایک خصوصی پیداوار تھے، لہٰذا ان کی تاریخ میں جذبۂ دینداری اور اہلِ بیتِ اطہارؑ سے والہانہ محبت کی درخشان مثال موجود ہے، ہمیں نظامِ ہدایت کے باطنی پہلو کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے کہ کس طرح سلمان فارسی کے دل میں تلاشِ حقیقت کا طوفانی شوق ابھرا؟ وہ کون سی ہستی تھی جس نے شہرِ اصفہان کے ایک مجوسی (آتش پرست) فرزند کے دل و جان میں ایسی آتشِ عشق جلائی؟ یقیناً کوئی ایسا ہمہ گیر وسیلہ تھا، جس کو نورِ ہدایت کہنا چاہئے۔
۴۔ کتابِ”بخاری” حصّۂ اوّل کے شروع میں حدیثِ نبوّی ہے:
۱۴۹
واحیا نایتمثل لی الملک رجلا۔ اور کبھی فرشتہ آدمی کی صورت میں میرے پاس آتا ہے (اور مجھ سے کلام کرتا ہے) اس ارشاد میں آپ دیکھتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے پاس بعض دفعہ جبرائیلؑ ایک مرد کی شکل میں وحی لے کر آیا کرتا تھا، لیکن عقل پوچھتی ہے کہ فرشتہ کس مرد کی صورت میں آتا تھا؟ اس کے جواب میں قانونِ روحانیّت کہتا ہے کہ ویسے تو عظیم فرشتہ جملہ مومنین کا آئینۂ روح ہوا کرتا ہے، اس لئے اس کا ظہور ایک مشترکہ صورت میں ہوتا ہے، تاکہ وحدتِ ارواح کی حقیقت ظاہر ہو جائے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جبرائیلؑ رسول کریمؐ کے پاس سلمان فارسی کی روحانی شکل میں آیا کرتا تھا، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ ظہور بدحیۂ کلبی کی صورت میں ہوتا تھا، میں عرض کرتا ہوں کہ اس میں کوئی تضاد نہیں، جبکہ روح القدس میں سب ہیں،
۵۔ سنن ابن ماجہ، جلد اوّل، باب ۲۴، حدیث ۱۵۵ میں ارشاد ہے، ان اللہ امرنی بحب اربعۃ واخبرنی انہ یحبھم قیل یا رسول اللہ من ھم؟ قال علی منھم یقول ذالک ثلاثا وابوذر و سلمان والمقداد۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کرنے کا حکم دیا، اور یہ خبر دی ہے کہ وہ بھی ان سے محبت رکھتا ہے، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ وہ کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: علی بھی ان میں سے
۱۵۰
ہے، اور یہ بات آپؐ نے تین بار فرمائی، اور ابوذر، سلمان، اور مقداد ہیں۔
۶۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک تو ہوتا ہے خدا کا عام طور پر سب مومنوں سے محبت کرنا، اور دوسرا ہوتا ہے اس کا خاص طورپرچند سے محبت کرنا، چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں صرف چار ہستیوں سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذکر ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ یہ خصوصی محبت کی بات ہے، جس میں مولا علی صلوات اللہ علیہ کی شانِ ولایت تابان و درخشان ہے، اب آپ کو اس ارشادِ نبوّی کی روشنی میں متعلقہ آیاتِ قرآنی کا بغور مطالعہ کر کے یہ دیکھنا ہے کہ خدا تعالیٰ کن لوگوں سے محبت و دوستی کرتا ہے، آپ قرآن میں دیکھیں گے کہ پروردگارِ عالم ان حضرات سے محبت کرتا ہے جو بحقیقت متقی ہیں (۰۳: ۷۶) ان مومنین سے دوستی کرتا ہے جو اس کے رسولؐ کے فرمان بردار ہیں (۰۳: ۳۱) ان بندوں کو چاہتا ہے جو نیکو کار ہیں (۰۳: ۱۳۴) خدا ان لوگوں کا دوست ہے جو عالی ہمت اور صابر ہوا کرتے ہیں (۰۳: ۱۵۹) جو عادل ہیں (۰۵: ۴۲) اور جو پاک و صاف ہوا کرتے ہیں (۰۹: ۱۰۸)
۷۔ غزوۂ احزاب (غزوۂ خندق) میں سلمان فارسی کے بارے میں رسولِ اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: سلمان منا اھل البیت۔ سلمان ہم اہلِ بیت میں سے ہے، یہاں ہمیں کس طرح سوچنا چاہئے؟ کیا ایسے خاص موقع پر آقا اور غلام ایک دوسرے کے انتہائی قریب نظر نہیں آتے ہیں؟ آیا اس پُرحکمت حدیث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے
۱۵۱
ہیں کہ سلمانِ فارسی جیتے جی نور میں فنا ہو گئے تھے؟ وہ اپنی پاک و پاکیزہ روح کو (اُس کیفیت میں جس میں کہ نہ مکان ہے نہ زمان) ازلی و ابدی طور پر اصل سے واصل دیکھتے تھے، اور یہ سب کچھ اس وجہ سے حاصل ہوا تھا کہ آپ کے دل میں ہمیشہ پیغمبرؐ اور امامؑ کا دریائے عشق موجزن رہتا تھا، آپ اپنے باطن میں ایک روشن دنیا تھے، آپ کے سینے میں علم و عرفان کے بیش بہا خزائن پوشیدہ تھے۔
۸۔ اس حدیثِ شریف میں، جو سلمانِ فارسی سے متعلق ارشاد ہے، یہ واضح اور قابلِ فہم مثال موجود ہے کہ اگر مومنین چاہیں تو عالی ہمتی، سخت محنت، جان فشانی، جذبۂ قربانی، اور حقیقی محبت سے کام لے کر نور سے اپنا رشتہ جوڑ سکتے ہیں، یعنی وہ چشمِ باطن سے یہ دیکھ سکتے ہیں، کہ جس طرح ان کی انائے علوی ازلی طور پر اصل سے واصل و وابستہ رہی ہے، یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن ناممکن ہر گز نہیں، جیسے قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے، جس میں اسی قانونِ دین سے متعلق حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی ترجمانی کی گئی ہے: فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ (۱۴: ۳۶) پس جو کوئی میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے، یعنی جو شخص اس راہ پر گامزن ہوتا جائے، جس پر میں چلا ہوں، تو ایک دن اس کو یہ بھید بحقیقت معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح وہ میرا روحانی اور نورانی فرزند ہے، پس یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص چاہے تو سلمان کی طرح اپنا ازلی رشتہ نور کے ساتھ جوڑ سکتا ہے، اور جو اس کے برعکس چاہے وہ کنعان (پسرِ
۱۵۲
نوحؑ) کی طرح اس رشتے کو توڑ سکتا ہے۔
۹۔ سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سلمان فارسی کو کس معنیٰ میں اہلِ بیت اطہار کے ایک فرد کا درجہ دیا؟ اس میں “بیت” سے کون سا گھر مراد ہے؟ آیا آیۂ تطہیر میں پنجتن پاک کے ساتھ سلمان فارسی کا ذکر موجود ہے؟ کیا اس آیۂ مبارکہ میں جملہ آنے والے أئمّۂ ہدا صلوات اللہ علیھم کا ذکر موجود ہے؟
جواب: پیغمبر خداؐ نے سلمان کو جس طرح اہلِ بیتِ پاک میں شامل کر لیا، اس کے معنی یہ ہیں کہ سلمان فارسی بوسیلۂ اطاعت و فرمانبرداری خانۂ نورانیت میں داخل ہو کر پنجتن کے ہمنشین ہو گئے تھے، یہاں بیت سے خانۂ نور و نورانیت مراد ہے، جی ہاں آیۂ تطہیر میں سلمان کا بھی ذکر ہے، ہر چند کہ ظاہراً عمل کِساء سے ایسا نہیں لگتا ہے، کیونکہ وہ کام محض ایک علامت کے طور پر تھا، اور اُن حضرات کی تطہیر دراصل جدا جدا وقتوں میں فرداً فرداً ہوئی تھی، جی ہاں، آیۂ تطہیر میں تمام پاک اماموں کا ذکر موجود ہے، کیونکہ بعد کا ہر امام بھی اسی خانۂ نور میں رہتا ہے، جس میں پنجتنِ پاک رہتے تھے، لہٰذا ہر امام پر اہلِ بیت کا اطلاق ہو جاتا ہے۔
۱۰۔ اگر دنیا کا کوئی بادشاہ کسی غریب سے دوستی کرنے لگتا ہے، تو پھر وہ شخص غریب نہیں رہتا، رفتہ رفتہ امیر بن جاتا ہے، چنانچہ جب یہ حقیقت ہے کہ خدا ورسولؐ سلمان سے محبت کرتے تھے، اور ان کا نام
۱۵۳
حضرت سلیمانؑ کے نام مبارک پر رکھا گیا تھا، تو پھر اس کے معنی یہ ہوئے کہ اللہ اور اس کے پیغمبرؐ سلمان کو عالمِ شخصی میں سلیمان بنانا چاہتے تھے، اور خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے (۲۲: ۱۴)
۱۱۔ خدائے حکیم نے روحِ نباتی کی وجہ سے نباتات کو جمادات پر فوقیت دی ہے، روحِ حیوانی کے سبب سے جانوروں کو نباتات پر رفعت دی ہے، روحِ ناطقہ کی بدولت انسانوں کو حیوانات کا بادشاہ بنا دیا ہے، روحُ الایمان کے وسیلے سے مومنین کو لوگوں پر برتری دی، اور روحِ قدسی یا نور کے ذریعے سے حضراتِ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کو مومنین پر فضیلت بخشی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: اور ہم نے داؤدؑ اور سلیمانؑ کو (روحانی) علم عطا فرمایا اور ان دونوں نے کہا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت دی (۲۷: ۱۵) اس ربّانی تعلیم میں، جو حکمت سے مملو ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مومنین پیغمبروں اور اماموں کے انتہائی قریب ہیں، اس معنیٰ میں کہ انبیاء وأئمّہ پیغمبروں اوراماموں کے انتہائی قریب ہیں، اس معنیٰ میں کہ انبیاء و أئمّہ اُن سے افضل ہیں، جبکہ اہلِ ایمان دنیا والوں سے افضل ہیں، جس طرح بنی اسرائیل سے اس کی مثال ملتی ہے (۰۲: ۴۷، ۰۲: ۱۲۲) کہ وہ اپنے وقت کے مومنین ہونے کی وجہ سے اہلِ جہان پر فضیلت رکھتے تھے۔
۱۲۔ سوال: جب حضرتِ سلیمانؑ حضرتِ داؤد کے قائم مقام (جانشین) ہو گئے، تو انھوں نے دعوتِ حق کا اعلان اس طرح کیا: اے لوگوں ہم کو پرندوں کی بولی کی تعلیم دی گئی ہے اور ہم کو ہر چیز سے دی
۱۵۴
گئی ہے (۲۷: ۱۶) اس میں پوچھا یہ ہے کہ آپؑ نے دینی دعوت میں اپنی سلطنت کو کیوں موضوع بنایا؟ لوگوں کو اس سے کیا تعلق تھا؟ آیا پرندوں کی بولی کی کوئی تاویل ہے؟ انھوں نے “مجھ کو” کی جگہ “ہم کو” کیوں کہا؟ ہر چیز کا مطلب کُل کائنات ہے، سو کل کائنات سے ان کو کیا دیا گیا تھا:
جواب: حضرتِ سلیمان علیہ السلام نے دعوت کا جو طریقہ اختیار کیا وہ منشائے الٰہی کے عین مطابق تھا، آپؑ تمام انبیاء و ائمّہ علیھم السّلام اور مومنین کی روحانی بادشاہی کی جیتی جاگتی تصویر تھے، لہٰذا یہ امر بہت ہی ضروری تھا کہ لوگوں کو مملکتِ بہشت کا ذکر کر دیا جائے، جس سے لوگوں کا تعلق ہے، پرندوں سے ارواحِ خلائق مراد ہیں، جن سے بہشتِ روحانیّت میں گفتگو ہوتی ہے، اس کے علاوہ اس میں ظاہری پرندے بھی ہیں، اور “مجھ کو” کی جگہ “ہم کو” کہنے کی وجہ یہ ہے کہ آپؑ اس روحانی سلطنت کے بیان میں تمام کامل انسانوں کی طرف سے نمائندگی کر رہے تھے، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آپؑ کے ساتھ حدودِ دین تھے، اور ہر چیز سے یا کُل کائنات سے جو کچھ اُن کو دیا گیا تھا، وہ عالمِ شخصی تھا، جو کل عالم کی ایک زندہ تصویر کی حیثیت سے ہوتا ہے۔
۱۳۔ حضرتِ سلیمان علیہ السّلام کے قصۂ قرآن میں جہاں تمام حکمتوں کا مرکز ہے، اور جس سے یہ حکمتیں پھیل کر متعلقہ قصّے کو مکمل کر دیتی ہیں، وہ مرکز یہ ہے: وَ اُوْتِیْنَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍؕ (اور ہم کو ہر چیز سے دی گئی ہے)(۲۷: ۱۶) اور باقی جو کچھ ہے وہ اسی کی وضاحت
۱۵۵
ہے، چنانچہ کل شی کے معنی ہیں تمام عقلی، روحی، اور جسمی چیزوں کا مجموعہ، یعنی پوری کائنات جس کی عقل، جان، اور جسم ہے، اور من کل شی کا مطلب ہے اس کائنات کی ایک لطیف زندہ تصویر، یعنی عالمِ شخصی، جس میں سب کچھ ہے، اور یہ حقیقت وہی ہے جو سورۂ یاسین (۳۶: ۱۲) میں امامِ مبین کے بارے میں مذکور ہے، مطلب یہ ہے کہ حضرتِ سلیمانؑ امام تھے، لہٰذا ان کی ذات میں کائنات و موجودات کی لطیف صورت سے عالمِ شخصی بنایا گیا ہے۔
۱۴۔ سوال: وَ حُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ (۲۷: ۱۷) اور سلیمان کے لئے ان کے لشکر جمع کئے گئے تھے، جو جنّات اور انسانوں اور پرندوں میں سے تھے اور وہ مکمل ضبط میں لائے جاتے تھے، آپ اکثر کہتے ہیں کہ قرآن الفاظ کے آپس میں معنوی ربط ورشتہ ہوا کرتا ہے، تو بتائیے کہ اس آیۂ مقدسہ میں جس طرح لفظ “حشر” آیا ہے، اور جیسے قرآنِ پاک کے بہت سے مقامات پر قیامت کا ایک نام “حشر” ہے ان دونوں کے درمیان کیا مناسبت ہے؟ سلیمان علیہ السلام کے یہ لشکر کہاں سے جمع کئے گئے؟ یوزعون کے کیا معنی ہوتے ہیں؟
جواب: ان دونوں لفظوں کے درمیان انتہائی ربط و رشتہ یہ ہے کہ یہ لفظاً ومعناً ایک ہی ہے، کیونکہ یہ حضرت سلیمان ؑ کی ذاتی قیامت کا واقعہ ہے، جس میں روحانی طور پر آپؑ کے لشکر بصورت ذرات جمع ہو گئے، یہ ذرات خلائق میں پوشیدہ تھے، قرآنِ حکیم میں لفظ (حشر) اپنی مختلف شکلوں میں کل ۴۳ بار آیا ہے، اور ہر مقام پر قیامت ہی کے معنی میں
۱۵۶
ہے، یہاں تک کہ قصۂ فرعون میں جہاں لفظ “حشر” استعمال ہواہے، وہ بھی حضرتِ موسیٰؑ کی انفرادی اور شعوری قیامت کی بات ہے، جس میں ساحروں کو شکست ہوئی تھی، یوزعون میں کئی معنی جمع ہیں، جیسے منظم کرنا، ترتیب دینا، کنٹرول کرنا، وغیرہ، کیونکہ جب انسانِ کامل کی روحانیت میں صور بجنے لگتا ہے تو اس کی انفراد ی قیامت برپا ہو جاتی ہے، اور اس کے لشکر جنوں، اور پرندوں (یعنی فرشتوں) میں سے جمع ہو کر روحانی جہاد کی پوزیشن لیتے ہیں، تاکہ خداکا دین ادیانِ عالم پر غالب ہو (۰۹: ۳۳، ۴۸: ۲۸، ۶۱: ۰۹)
۱۵۔ سوال: یہ ہمارے نزدیک بہت ہی عجیب بات ہے کہ آپ نے روحانی جہاد کا تصور پیش کیا، کیا آپ اس سلسلے میں ہمیں کچھ مثالوں اور دلیلوں سے مزید سمجھا سکتے ہیں کہ یہ جہاد کس طرح ہے؟
جواب: قرآنِ حکیم میں جا بجا باطنی اور روحانی جہاد کا ذکر موجود ہے، یہ مقدس جنگ ظہورِ اسلام سے پہلے بھی تھی، زمانۂ نبوّت میں بھی اور اب بھی ہے، مگر یہاں یہ بات یاد رہے کہ جہاد ظاہراً و باطناً پیغمبرِ خدا اور امامِ برحقؑ کے ذریعے سے ہو سکتا ہے، چنانچہ قرآنِ پاک میں جہاں جہاں خدائی لشکر یا آسمانی جنگ کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں اسی روحانی جہاد کی نشاندہی کی گئی ہے، جیسے سورۂ فتح (۴۸: ۰۴، ۴۸: ۰۷) میں ارشاد ہے: وللہ جنود السموات والارض۔ اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں۔ سماوی لشکر فرشتے ہیں، اور ارضی لشکر جنّ و انس ہیں، اور کسی بادشاہ یا حکومت کی فوجی جنگی مقصد کے سوا نہیں
۱۵۷
ہوتی، اسی طرح سورۂ صافات (۳۷: ۱۷۱، ۳۷: ۱۷۳) میں فرمایا گیا ہے: اور ہمارے خاص بندوں یعنی پیغمبروں کے لئے ہمارا یہ قول پہلے ہی سے مقرر ہو چکا ہے کہ بیشک وہی غالب کئے جائیں گے اور (ہر بار) ہمارا لشکر غالب رہتا ہے۔ اس کے علاوہ سورۂ مائدہ (۰۵: ۵۶) میں حزب اللہ (خدا کا گروہ) کے معنی میں لشکرِ خدا کے غالب وفاتح ہونے کا بیان ہے، اسی سورہ (۰۵: ۵۴) میں ایک ایسی قوم کے آنے کی بشارت ہے کہ اُن سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہو گی اور ان کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہو گی، وہ مومنین پر مہربان ہوں گے اور کافروں پر سخت گیر ہوں گے وہ خدا کی راہ میں جہاد کریں گے (۰۵: ۵۴) اس حکم میں آپ واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ جن کے ظہورِ روحانی کی خوشخبری دی گئی ہے، وہ لوگ دنیائے ظاہر کے مسلمین و مومنین سے افضل ہیں، جبکہ وہ اہلِ ایمان پر بڑے نرم دل اور مہربان ہیں، اور جہاد کرنے والے ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ یہ روحانی لشکر ہی ہیں، جو ہر زمانے میں وہ نورِ ہدایت کے تحت اپنا حربی عمل انجام دیتے رہتے ہیں، اس سلسلے کے قرآنی حوالے بہت زیادہ ہیں، لہٰذا روحانی جہاد پر کوئی الگ مضمون ہونا چاہئے۔
۱۶۔ سوال: سورۂ نساء کے ایک ارشاد (۰۴: ۶۸) میں یقیناً درجہ وار پیغمبروں، صدیقوں، شہیدوں، اور صالحوں کے بعد فرمانبردارمومنین کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے صاف طور پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ صالحین عام مومنین سے آگے ہیں، اُن سے شہداء آگے ہیں، شہیدوں سے صدیقین آگے ہیں، اُن سے انبیاء آگے ہیں، لیکن
۱۵۸
مراتب کے اس تعین کے باوجود اس کی کیا وجہ ہے کہ انبیاء علیھم السّلام جسمانی زندگی کے اختتام پر صالحین یعنی نیکوکاری میں داخل ہو جانا چاہئے تھے؟ جیسے حضرتِ سلیمانؑ نے اس مقصد کے لئے دعا کی (۲۷: ۱۹) آپ قرآنِ حکیم میں دیکھیں: (۰۲: ۱۳۰، ۱۲: ۱۰۱، ۱۶: ۱۲۲، ۲۶: ۸۳، ۲۹: ۰۹، ۲۹: ۲۷)
جواب: بے شک آیۂ کریمہ (۰۴: ۶۸) میں جس ترتیب سے درجاتِ جسمانی کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ حقیقت ہے، کیونکہ اس میں سب سے پہلے ناطقوں (نبیین) کا ذکر ہے، پھر اساسوں (صدیقین) کا، پھر اماموں (شہداء) کا، اور اس کے بعد ابواب (صالحین) کا ذکر ہے، اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ہر ناطق کا باب اساس ہوتا ہے، ہر اساس کا باب امام ہوتا ہے، اور ہر امام کے لئے باب اس کا فرزند ہوتا ہے جو تختِ امامت کا وارث ہو، سو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرتِ سلیمانؑ اور دوسرے تمام حضراتِ انبیاء و ائمّہ اپنے اپنے باب (صالح) میں زندہ رہنا چاہتے تھے، تاکہ صالحین یعنی نیکو کاروں کا جو سب سے آخری مقصد ہے، اس کے حصول کے لئے عمل کیا جائے۔
سورۂ شعراء (۲۶: ۸۳ تا ۸۴) میں ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام نے اس طرح دعا کی: اے میرے پروردگار مجھ کو ایک حکم (یعنی “امرِ کُن” کی شناخت) عطا فرما اور مجھ کو صالحین (یعنی نورِ نبو_ت و نورِ امامت) میں زبانِ صدق مقرر فرما۔ اس سے یہ حقیقت عیان
۱۵۹
ہو جاتی ہے کہ حضرتِ ابراہیمؑ بحکمِ خدا اپنے نور کو باب یعی حضرتِ اسماعلیلؑ (جو اساس تھے) میں منتقل کر دینا چاہتے تھے، تاکہ نور اسی طرح سسلہ ٔ صالحین یعنی آئندہ ابواب سے وابستہ رہے۔
۱۷: سوال: باب کی اتنی بڑی اہمیت کیوں ہے کہ اس کو صالح کا ٹائٹل دیا گیا ہے؟ اور کیوں ایسا ہے کہ ہر ناطق ہر اساس اور ہر امام اپنے باب میں داخل ہو جاتا ہے؟
جواب: باب کی بہت بڑی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ ناطقؑ کا سارا نورانی عمل اساسؑ کی ذات میں واقع ہوتا ہے، جو ناطق کے لئے باب (دروازہ) ہے، اساسؑ کا نور امامؑ میں کام کرتاہے جو اساسؑ کا باب ہے، اور اسی طرح امام کا نور بھی اپنے اس فرزند میں کام کرتا ہے جو امام کے بابِ اقدس کا درجہ رکھتا ہے، اور بعد میں امام مقرر ہونے والاہے، ان تینوں صورتوں میں ’نورِ فعال‘ باب کی مبارک ذات میں ہوا کرتا ہے، جس میں دنیا اور اہلِ دنیا کی صلاح و فلاح پوشیدہ ہے، لہٰذا سلسلۂ ابواب کو صالحین کہا گیا ہے، کہ سب سے زیادہ روحانی حرکت باب میں پائی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ جن معنوں میں اس وسیع وعریض کائنات کو دستِ قدرت میں لپیٹ لیتاہے، اس میں بہت سے حکیمانہ اشارے ہیں، چنانچہ وہ اس میں ہر قسم کے بعید چیزوں کو قریب لاتا ہے، وہ ازل و ابد کو یکجا کر کے دکھاتا ہے، ماضی (جس کا اگلا سرا زمانۂ آدمؑ ہے) کو لوٹا کر زمانۂ حال میں مرکوز
۱۶۰
کر دیتا ہے، اور مستقبلِ بعید کو اجتماعی قیامت سمیت کھینچ کر انفرادی روحانیت میں سما دیتا ہے، اور اگر ہم مانتے ہیں کہ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے، تو چلئے اسی قانون کے مطابق یہ بھی مانیں کہ یہ سب کچھ ’’نور علٰی نور‘‘ (۲۴: ۳۵) کے مقام پر واقع ہوتاہے، یعنی روح و روحانیّت کی اس منزل میں، جہاں ناطقؐ یا اساسؑ یا) امام دودریاؤں کی طرح باہم مل جاتے ہیں، (۱۸: ۶۰ تا ۶۱)
۱۸۔ سوال: قصّۂ سلیمانؑ (۲۷: ۳۴) میں ایک امکانی فساد کا بھی ذکر ہے، تو پیغمبر اور امام جیسی مبارک ہستی کے عمل میں کیوں فساد ہونا چاہئے؟ کیا آپ اس بارے میں ہمیں کچھ سمجھا سکتے ہیں یا کوئی حکمت بیان کر سکتے ہیں؟
جواب: فساد، (خرابی، بگاڑ) دو قسم کا ہوتا ہے، ایک فساد برائے تخریب ہے، اور دوسرا فساد برائے تعمیر، اگر حضرتِ سلیمان علیہ السلام ظاہری جہاد کی غرض سے شہرِ سبا کا یہ کہنا کہ ’’جب مُلوک (أئمّہ) کسی شہر میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس کو خراب کرتے ہیں۔‘‘ یہ بات ظاہراً بالکل درست ہے کہ یاجوج وماجوج (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶) جو امام علیمقامؑ کے لشکر میں سے ہیں، ہر مناسب قریۂ ہستی کو تعمیرِ نور کے پیشِ نظر زیر و زبر کر دیتے ہیں، لیکن اگر خودی کے بُت کو توڑنے سے خدا مل جاتا ہے، تو پھر اس سے بڑی سعادت
۱۶۱
اور کیا ہو سکتی ہے۔
۱۹۔ اس میں بہت بڑی حکمت ہے کہ قرآنِ حکیم نے کسی بھی کافر حکمران کو بادشاہ (مَلِک) نہیں کہا، کیونکہ مَلِک خدا تعالیٰ ہے، اوراس کی جانب سے امام مَلِک ہے، اگر دوسروں کے بقول کسی باطل شخص کو مَلِک کہنا مناسب ہوتا تو سب سے پہلے اس کا اطلاق فرعون پر ہوتا، کیونکہ قرآنِ پاک میں اس کا ایک طویل قصہ آتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے، کیونکہ خدوند تعالیٰ کا کلام قانون ہے، لہٰذا وہ واحد وقہار اپنے قانون سے کسی کافر کی ناجائز حکومت کی توثیق کرنا نہیں چاہتا۔
۲۰: سلمانِ فارسی سے متعلق موضوع میں انبیائے قرآن کی عظیم حکمتوں کو بیان کرنا یہ خود سلمان کی روحانی اور علمی عظمت وبزرگی کا ایک بین ثبوت ہے، لہٰذا آئیے ہم ایک بہت بڑی نعمت کی شناخت کر لیتے ہیں، وہ سرِ عظیم (بڑا بھید) سورۂ انبیاء (۲۱: ۸۰) کے اس مبارک ارشاد میں پوشیدہ ہے: اور ہم نے اُس (یعنی داؤدؑ) کو ایک قسم کا لباس بنانے کی کاریگری سکھائی تمہارے لئے تاکہ وہ (لباس) تم کو تمہاری لڑائی سے بچائے پس کیا تم شکر کرنے والے ہو؟ یہ کونسی صنعت (کاریگری) تھی، جو خداتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا؟ آیا یہ زِرَہ بنانے کی کاریگری تھی؟ آپ اچھی طرح سے سوچ لیں۔
اس ربّانی تعلیم میں جیسا کہ حکیمانہ خطاب فرمایا گیا ہے، اس سے ظاہر ہے کہ یہ احسان ہر زمانے کے لئے ہے، اور جس نعمت کا یہاں ذکر
۱۶۲
ہوا ہے، وہ ایسی نہیں کہ دنیائے ظاہر کی مادّی ترقی اس کی اہمیت، اور قدر و قیمت کو کم کر سکے، پس ایسا لباس جو خدا کے بندوں کو جسمانی، روحانی، اور عقلی ہر گونہ جنگوں سے بچاسکتا ہے جسمِ لطیف ہے، اور یہی اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے، اسی لئے شکر کرنے کا حکم دیا گیا۔
تاریخِ امامت کا مطالعہ حضرتِ آدمؑ سے شروع کر کے دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ حضرتِ داؤدؑ یکے بعد دیگرے مرتبۂ امامت پر فائز ہو گئے تھے، چنانچہ یہ لباس آپ جب بھی دیکھ سکیں امام عالیمقام کا سب سے بڑا معجزہ ہو گا، اور جیسا کہ مذکورۂ آیت سے ظاہر ہے امامِ برحقؑ کی یہ صنعت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔
۲۱۔ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ جسمِ لطیف کا ذکر موجود ہے، اگر صرف روحانی جہاد کی مناسبت سے اس کا بیان مقصود ہے تو ہر ایسی آیت میں ذرا غور کریں، جس میں جنگی الفاظ میں سیکوئی لفظ مذکور ہو، جیسے فرمایا گیا ہے: اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے، جن کو تم لو گے (۴۸: ۲۰) اس میں فلکی جسم اور روحانی جہاد کے نتیجے میں دنیا کودنیا کو فتح کرلینے کی بات ہے، اسی طرح سورۂ حدید ۵۷: ۲۵ میں (لوہا) سے یہی کوکبی جسم مراد ہے، سورہ نحل (۱۶: ۸۱ ) آپ نے پڑھا ہوگا کہ سرابیل (کُرتے) اجسامِ لطیف خُود قصّۂ سلیمان میں سارے لشکر اسی جسمِ لطیف کے ذرّات ہیں ( ۲۷: ۱۷ ) عفریت جنّی (۲۷: ۳۹) اور وہ شخص جو کتابِ کائنات کی روحانی سائنس جانتا تھا (۲۷: ۴۰) یہی زندہ جسمِ لطیف تھا، یاجوج و
۱۶۳
ما جوج کا ذکر ہو چکا ہے، یاد رہے کہ جسمِ لطیف کا ذکر اُن لفظوں میں ہے جو فرشتوں سے متعلق ہیں۔
غلامِ غلامانِ امامِ زمان
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی
یکم مارچ ۱۹۸۵ء
۱۶۴
چند اعلیٰ سوالات
سوال۱: روح اور مادّہ میں سے کون سی چیز پہلے پیدا کی گئی ہے؟ ان دونوں میں کس کو تقدمِ شرفی حاصل ہے؟
سوال۲: آپ کہتے ہیں کہ ہر چیز میں روح ہے، کیا جمادات میں بھی روح ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو وہ روح کس نوعیت کی ہے، حالانکہ جماد بیجان چیزکو کہا جاتا ہے؟
سوال۳: آپ نے ’’وحدتِ کثرت نما‘‘ کا تصور پیش کیا ہے، اس کی وضاحت کیجئیے، تاکہ ہم اچھی طرح سے سمجھ سکیں۔
سوال۴: آپ نے اپنی کسی تقریر کے دوران فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ عدد ایک (یعنی واحد) ہے، لہٰذا قرآنِ پاک میں جہاں جہاں خدا کے تمام چیزوں کو شمار کر رکھنے کاذکر آیا ہے، وہاں ایسے شمار سے ان چیزوں کی وحدت مراد ہے، مگر قرآن میں ایسیی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جو کثرت کو ظاہر کرتی ہیں، جیسے سات آسمان، وغیرہ، تو کیا سات میں وحدت کی کوئی علامت ہو سکتی ہے!
۱۶۵
سوال۵: براہِ کرم عروۃ الوثقیٰ (۰۲: ۲۵۶، ۳۱: ۲۲) کی حکمت بیان کیجئیے، کہ اس کی تاویل کیا ہے؟
سوال۶: کیا ابرار یعنی نکوکاروں کا اعمال نامہ امامِ وقت علیہ السّلام میں ہوتا ہے یا علیّین میں؟ جبکہ امام ایک پاکیزہ شخصیت کا نام ہے اور علیّین ایک بلند ترین جگہ ہے (۸۳: ۱۸) ؟
سوال۷: آیا صوفیوں کا یہ دعویٰ درست ہے کہ علمِ تصوف کا سرچشمہ مولا علیؑ کی ذاتِ عالی صفات ہے؟ اگر یہ حقیقت ہے تو کوئی مثال پیش کر کے وضاحت کریں۔
سوال۸: سلام، دارالسلام اور اسلام ان تینوں الفاظ کے معنی اور حکمت بتائیے۔
سوال۹: ’’ایک میں سب اور سب میں ایک‘‘ کی ریاضی تحلیل کر کے سمجھا دیجئے، کہ کس طرح ایک ہستی میں ساری ہستیاں سمائی ہوئی ہیں اور کیسے وہی ایک ہر ہستی میں موجود ہے؟
سوال۱۰: وہ جامعِ جوامع جواب کونسا ہے، جس میں ہر بڑے سوال کا جواب مہیا ہو؟
سوال۱۱: خدا اور بندوں کا ازلی اور ابدی رشتہ کیا ہے؟ کیا یہ رشتہ بدعملی کے سبب ٹوٹ جاتا ہے یا ہمیشہ ایک شان سے قائم ہے؟
سوال۱۲: قرآنِ حکیم کہتا ہے کہ خدانے قلم کے ذریعے سے سکھایا (۹۶: ۰۴) مگر یہ بات سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیھمم السلام کو
۱۶۶
ظاہری قلم سے نہیں، بلکہ بطریقِ وحی سب کچھ سکھا دیا ہے، پھر یہاں قلم سے کیا مراد ہے؟
سوال۱۳: ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗ (۷۵: ۱۹) اس آیۂ کریمہ کی تفسیر و تاویل کیجئیے۔
سوال۱۴: خداتعالیٰ نے حضرِتِ موسیٰ اور حضرتِ ہارون علیھما السّلام کو کتابِ مستبین (۳۷: ۱۱۷) عنایت کر دی تھی، یہ کونسی کتاب تھی؟
سوال۱۵: یہ ہمارا ایمان ہے کہ نور ایک ہے، لیکن ہم ظاہری کائنات میں نور کی کثرت دیکھ رہے ہیں، جیسے سورج، چاند اور بیشمار ستارے، پس یہ تمام چیزیں نورِ واحد کی مثال کس طرح ہو سکتی ہیں؟
سوال۱۶: ان دونوں طریقوں سے کونسا زیادہ صحیح اور آسان ہے؟
(۱) قرآن سے امام کو پہچاننا۔
(۲) امام سے قرآن کو پہچاننا۔
سوال۱۷: کیا قرآنِ حکیم میں لامکان، لازمان، ازل اور ابد کا ذکر ہے؟ اگر ہے تو کس طرح سے ہے؟ وضاحت فرمائیے۔
سوال۱۸: آیا اس دنیا میں کوئی ایسا فرد یا کوئی گروہ ہو سکتا ہے جو خدا سے دشمنی رکھتا ہو؟ اگر ایسا کوئی نہیں ہے تو پھر قرآنِ حکیم میں خدا کے دشمنوں کا ذکر کیوں ہے (۰۲: ۹۸، ۶۰: ۱)
نوٹ: ان سوالات کے جوابات کے لئے مورخہ ۲۴ فروری
۱۶۷
۱۹۸۴ء کے کیسٹ کو سُنیں۔
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی
۲۳۔ فروری۱۹۸۴ء
۱۶۸
اشاراتی زبان۔ ۲
میں نے کہا: اس نے کہا
۱۔ میں نے کہا: قرآنِ پاک میں بہت سے عالی شان درختوں کی الگ الگ تعریف و توصیف کی گئی ہے، جن میں سے بعض اس دنیا سے متعلق ہیں اور بعض بہشت سے، اُس نے کہا: ایسا نہیں، وہ درحقیقت ایک ہی درخت ہے، لیکن چونکہ قرآنِ کریم علم وحکمت کی جنت ہے، اور جنت میں ہرچیز کے مختلف ظہورات ہوتے رہتے ہیں، لہٰذا یہی ایک درخت قرآنی بہشت میں کبھی زیتون (۲۴) کی شکل میں جلوہ نمائی کرتا ہے، کبھی شجرِ طور (۲۸: ۳۰) بن کر حاملِ نور نظر آتا ہے، کبھی شجرۂ طیبہ (۱۴: ۲۴) کی صورت میں نورانی پھل دینے لگتا ہے، کبھی درختِ انجیر (۹۵: ۰۱) کبھی انار (۵۶: ۶۸) کبھی انگور کی بیل (۱۶: ۱۱) کبھی سدرہ (۵۳: ۱۴) کبھی طوبیٰ (۱۳: ۲۹) کبھی کھجور (۵۵: ۶۸) کبھی کیلا (۵۶: ۲۹) وغیرہ کی صورت میں ظہور پذیر ہو جاتا ہے، جیسا کہ قرآن حکیم زبانِ حکمت سے فرماتا ہے کہ حقیقت تو ایک ہی ہے، مگر اس کی مثالیں
۱۶۹
بہت زیادہ اور گونا گون ہیں (۱۷: ۸۹، ۳۰: ۵۸)
۲۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ کے سو۱۰۰ اسمائے صفاتی ہیں، بلکہ اس کے ہزار نام ہیں، بلکہ ایک اور روایت کے مطابق کئی ہزار اسماء ہیں، اُس نے کہا: اچھی طرح کان لگا کر سُن لو، اگرچہ ظاہراً خدا تعالیٰ کے بہت سے نام ہیں، لیکن دراصل اس کا صرف ایک ہی نام ہے، کیونکہ وہ واحد و یکتا ہے، چنانچہ اللہ پاک کا حقیقی نام اسم اعظم ہے، جو ہر زمانے میں زندہ وگویندہ ہے، اس سے انبیاء و أئمّہ علیھم السلام مراد ہیں، اور دوسرے لفظی نام علمی ظہورات بھی ہیں اور حجابات بھی، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآنِ مجید میں ’’الاسمآئُ الحسنٰی‘‘ کا تصور ہی نہ ہوتا (۰۷: ۱۸۰، ۱۷: ۱۱۰، ۲۰: ۰۸، ۵۹: ۲۴)
۳۔ میں نے کہا: قرآنِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ: قیامت کے دن الروح اور فرشتے (خدا کے سامنے) صف باندھ کر کھڑے ہوں گے (۷۸: ۳۸) اُس نے پوچھا: کیا تم نے اس آیت میں یقوم (کھڑے ہوں گے) کی حکمت کو ٹھیک طرح سے سمجھ لیا ہے؟ آیا تم صف باندھنے کا مطلب بھی جانتے ہو؟ کیونکہ کھڑے ہونے سے انبعاث مراد ہے، اور یہ واقعہ مقامِ عقل پر پیش آتا ہے، اور صف باندھنے کے معنی ہیں منظم و متحد ہونا ایک ہو جانا، یہ عالمِ شخصی کی بات ہے، کہ عالمِ صغیر کی روح اور جملہ ملائکہ نورِ عقل کی ہمہ گیر نمائندگی میں ایک ہو جاتے ہیں، دیکھو صف باندھنے کی تشبیہہ و تمثیل سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے دی گئی ہے (۶۱: ۰۴) ظاہر ہے کہ ایسی دیوار کسی درز و شگاف کے بغیر کُلی وحدت وسالمیت رکھتی ہے،
۱۷۰
دوسری مثال پرندوں کے پرکھولنے سے دی گئی ہے، تم دیکھتے ہو کہ پرندے سے پر جدا نہیں ہوتے (۶۷: ۱۹)
۴۔ میں نے کہا: قرآنِ مقدس میں یہ بھی ہے: اور تمہارا پروردگار اور فرشتے صف درصف آئیں گے (۸۹: ۲۲) اُس نے کہا: خوب یاد رکھو کہ ظاہر میں آنا جانا جسم کی صفت ہے، اورخداوند تعالیٰ ہر جسمانی صفت سے پاک و برتر ہے، چنانچہ یہ ارشاد نورِ عقل کے بارے میں ہے، جو اپنے ظہوراتِ عقلی میں نہ صرف فرشتوں کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ ربِّ عزت کا بھی مظہر ہے۔
۵۔ میں نے کہا: قرآنِ حکیم میں ارشاد ہے: پھر جب (روزِ قیامت) آسمان پھٹ کر تیل کی طرح لال ہو جائے گا (۵۵: ۳۷) اُس نے کہا: ہاں، مگر تم نے یہ نہیں سوچا ہے کہ اُس موقع پر آسمان صاف ہو گا یا ابر آلود؟ اور حق بات تو یہ ہے کہ یہ واقعہ بادلوں کے اوٹ کے پیچھے ہوگا، لہٰذا لوگ اُس سے بے خبر رہیں گے، یعنی یہ دراصل روحانیت کا قصہ ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے: اور جس دن آسمان بادل کے پھٹ جائے گا اور فرشتے نازل کئے جائیں گے جیسا کہ نازل کرنے کا حق ہے (۲۵: ۲۵) اسی موضوع سے متعلق ایک اور ارشاد یہ ہے: کیا وہ لوگ اس کے منتظر ہیں کہ حق تعالیٰ اور فرشتے بادل کے سائبانوں میں آئیں اور امر پورا ہو جائے (۰۲: ۲۱۰) یاد رکھو کہ یہ سب عالمِ شخصی کے روحانی واقعات ومعجزات ہیں، اور ان میں سے کوئی بات فرضی مثال نہیں، بلکہ حقائق ہی حقائق ہیں۔
۶۔ میں نے کہا: قرآنِ پاک کہتا ہے کہ: خدا تعالیٰ نے رسولوں
۱۷۱
کے جملہ علمی وعرفانی احوال کا احاطہ کر لیا ہے اور ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے جیسا کہ شمار کرنا چاہئے (۷۲: ۲۸) اُس نے کہا: یہ کام اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں کیا ہے، کیونکہ لوحِ محفوظ وہیں ہے، جان لو کہ احاطہ کرنا یعنی گھیرنا اس معنیٰ میں ہے کہ خدائے علیم وحکیم نے حضراتِ انبیاء علیھم السلام کے علومِ مخفی کے گردا گرد ایک مضبوط دیوار بنائی ہے، تاکہ کوئی شخص اذنِ خداوندی کے بغیر اس میں داخل نہ ہو سکے، جیسا حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو خدائے پاک نے علم کا شہر اور حکمت کا گھر بنا کر اس کا دروازہ مولا علی علیہ السلام کو قرار دیا تھا، اور یہاں یہ بھی یاد رکھو کہ خدائے واحد کا تمام چیزوں کو شمار کرنا یہ ہے کہ اُس حکمت والے نے جملہ اشیاء کو عددِ واحد میں سما دیا ہے، اور ایسا عدد جو ایک ہے مگر سب ہے، وہ نورِ عقل ہے۔
۷۔ میں نے کہا: قرآنِ مقدس میں پانچ بار لفظ ارائک استعمال ہوا ہے، اُس میں سے ایک سورۂ یاسین (۳۶: ۵۶) میں اس طرح ہے: ۔ هُمْ وَ اَزْوَاجُهُمْ فِیْ ظِلٰلٍ عَلَى الْاَرَآىٕكِ مُتَّكِــٴُـوْنَ (۳۶: ۵۹) وہ اپنی بیویوں کے ساتھ چھاؤں میں تکیے لگائے تختوں پر بیٹھے ہوئے ہیں، اُس نے کہا: شاید تم اہلِ جنت کو الگ الگ تختوں پر سمجھتے ہو، اس لئے کہ تم اب تک اسرارِ وحدت سے ناواقف ہو، یاد رکھو کہ بہشت قانونِ وحدت کے تحت ہے، لہٰذا وہاں سب کے سب ایک ہو جاتے ہیں، اور ان کے تخت بھی ایک ہو جاتے ہیں، مگر ہاں، لاتعداد
۱۷۲
علمی و عرفانی ظہورات ہوا کرتے ہیں، دوسری طرح سے بھی یہ سوچنا چاہئے کہ جب چہرۂ خدا میں سب لوگ فنا ہو جائیں گے (۵۵: ۲۶ تا ۲۸) تو اس حال میں سب ایک ہو جائیں گے، اور ظہورات میں ہر ایک کی انفرادیت قائم رہے گی، جس طرح اس دنیا میں کوئی شخص ایک ہوتا ہے، اسکی جان بھی ایک کہلاتی ہے، مگر اس میں بیشمار ذرات ہوتے ہیں۔
۸۔ میں نے کہا: لفظِ سریر (تخت) کی جمع سُرر جو قرآنِ مجید میں چار بار مذکور ہے، اس سے متعلق ایک ارشاد یہ ہے: وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ (۱۵: ۴۷) اور ان کے دلوں میں جو کینہ تھا، ہم وہ سب نکال دیں گے کہ سب بھائی بھائی کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھا کریں گے۔ اُس نے کہا: اگرچہ شروع شروع میں یہ درست ہے کہ خدا کی وجہ سے دوستی اور خدا کی وجہ سے دشمنی کی جاتی ہے، لیکن ایمان کے درجۂ کمال پر پہنچ جانے کے بعد معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسی دشمنی عارضی ہوا کرتی ہے، خدا کی وجہ سے دوستی اور خدا کی وجہ سے دشمنی کی جاتی ہے، لیکن ایمان کے درجۂ کمال پر پہنچ جانے کے بعد معلوم ہو جاتا ہے کہ ایسی دشمنی عارضی ہوا کرتی ہے، خداوندِ قدوس دنیا ہی سے کامل انسانوں کے قلب کو ہر قسم کی کدورت سے پاک و پاکیزہ رکھتا ہے، چنانچہ یہ ایک مجموعی تذکرہ ہے، یا یہ کہا جائے کہ یہ عوام کی نسبت سے ہے کہ خدا اہلِ بہشت کے دلوں سے کینہ نکال دیتا ہے، بہر کیف جب بہشت میں عداوت نہ ہوگی تو دوستی و محبت ہوگی، اور جب شدید محبت ہو گی، تو پھر وحدت ہی وحدت ہو گی، پس اس ربانی تعلیم کا اشارہ یہ ہے کہ تصورِ ازل و ابد میں تمام انسانوں کو بہشت کے مساوی تختوں یعنی تختِ یک رنگی پر یکجا قرار دیا جائے، اور ان کو آپس میں بھائی بھائی سمجھ لیا جائے، کیونکہ وہ
۱۷۳
سب کے سب اس مقامِ اعلٰی پر معنوی آدم و حوّا یعنی عقلِ کُلی اور نفسِ کُلی کی اولاد ہیں۔
۹۔ میں نے پوچھا: حکما کا قول ہے کہ: لایولدالوحدۃ الا الوحدۃ = وحدت صرف وحدت ہی کو جنم دیتی ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ ایسی وحدت کونسی ہے جو ایک اکیلی ہونے کے باوجود ماں باپ کی سی دوئی اختیار کر کے وحدت کو جنم دیتی ہے؟ اُس نے جواب دیا: اس کا مطلب یہ ہے کہ عقل کُل اور نفسِ کُل ایک وجہ سے ایک وحدت کا نام ہے، اور دوسری وجہ سے یہ دو ہیں اور جفتِ بسیط، چنانچہ اس وحدت نے جو کچھ جنم دیا، وہ دراصل وحدت ہی ہے، دوسرے لفظوں میں ان والدین سے جتنے لوگ پیدا ہوئے، ان کے مجموعی وجود کے دو پہلو ہیں، یعنی وہ ظاہراً کثیر ہیں اور باطناً ایک، جیسے ان کے ازلی والدین میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں، اور یہاں یہ بات ہمیشہ کے لئے یاد رکھو کہ انسانوں کی وحدت ازلی اور ابدی ہے، اور کثرت عارضی اور چند روزہ ہے، پس حکماء نے اپنے اس قول میں موجودات کے باطنی اور ازلی پہلو کو پیشِ نظر رکھا ہے۔
۱۰۔ میں نے کہا: سورۂ حجرات (۴۹: ۱۰) میں فرمایا گیا: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْكُمْ (۴۹: ۱۰) مومنین تو سب بھائی ہیں سو اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دیا کرو۔ اس سے صرف یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ دینی برادری فقط مسلمین و مومنین
۱۷۴
تک محدود ہے، پھر ہم کس طرح یہ بات سمجھیں کہ سارے انسان دینی اخوت کے رشتے سے منسلک ہیں؟ اُس نے کہا: توجہ سے سنو، قرآنِ کریم کی بہت سی آیاتِ کریمہ زبانِ تنزیل سے یا زبانِ تاویل سے کہہ رہی ہیں کہ دینِ اسلام عالمِ ذرّ میں ادیانِ عالم پر غالب آ چکا ہے، اور آگے چل کر یہ واقعہ ظاہر میں بھی پیش آنے والا ہے، جیسے حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے فرمایا گیا: اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًا (۴۸: ۰۱) بے شک ہم نے تم کو ایک کھلم کھلا فتح دی، نیز فرمایا: (اے رسولؐ) جب خدا کی مدد آ پہنچے گی اور فتح ہو جائے گی، اور تم لوگوں کو دیکھو گے کہ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں (۱۱۰: ۰۱ تا ۰۲) یہ عالمِ ذرّ میں دینِ خدا کی فتح کی مثال ہے، اسی طرح سب لوگ پہلے تو درجۂ روح میں ناطقؐ اور اساس کے روحی فرزند ہوں گے، اور اس کے بعد مرتبۂ عقل میں عقلِ کُل اور نفسِ کُل کے عقلی فرزند قرار پائیں گے۔
۱۱۔ میں نے کہا: قرآنِ حکیم میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَ ذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا (۲۱: ۸۷) اور مچھلی والے (پیغمبر یعنی یونسؑ جو یاد کرو) جبکہ وہ خفا ہو کر چل دیئے۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد ہے: نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ (۶۸: ۰۱) قسم ہے دوات کی اور قلم کی اور اُس چیز کی جو لکھتے ہیں، پہلی آیت میں نون مچھلی کا نام ہے اور دوسری آیت میں نون دوات ہے، ان دونوں چیزوں کے درمیان کیا تاویلی ربط و رشتہ ہے؟ اُس نے جواب دیا: حضرتِ یونس علیہ السلام کو جس مچھلی
۱۷۵
نے نگل لیا تھا وہ آپ کی روحانیت کی ایک زبردست روح تھی، اور نون جہاں دوات ہے، جس کی خدا قسم کھاتا ہے، اس سے نفسِ کُلی مراد ہے، جبکہ قلم کا مطلب عقلِ کلّی ہے، اور یہ بھی یاد رکھو کہ جہاں نفسِ کلّی کی مثال مچھلی ہے وہاں عقلِ کُلی کی تشبیہہ سمندر ہے، کیونکہ جملہ کائناتِ ظاہر بحرِ روح میں غرق ہے، اور یہ سمندر یعنی روحِ اعظم غریق بحرِ علم ہے، اور علم سے برتر و بیرون کوئی شیٔ نہیں۔
۱۲۔ میں نے کہا: جس طرح اہلِ بہشت کے لئے تختوں کے معنی ہیں سرُر اور ارائک جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، آیا اسی طرح لفظِ عرش بھی ان کے لئے استعمال ہوا ہے، یا یہ صرف حضرتِ رحمان کے لئے خاص ہے؟ اُس نے کہا: عرش جہاں لغوی معنی میں ہے، وہ عام ہے، اور جہاں اصطلاحی معنی میں ہے، وہاں یہ خاص ہے، تم سورۂ نمل (۲۷: ۲۳) میں دیکھو کہ ملکۂ سبا کا عرش (تخت) عام ہے، اور سورۂ طٰحٰہ (۲۰: ۰۵) میں دیکھو یہ خاص ہے، تاہم عرش اصطلاحی معنی میں بھی بطریقِ حکمت اہلِ جنت کے لئے مستعمل ہے، جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:۔
(الف): عرش سب سے بلند ترین مثال ہے (۱۶: ۶۰، ۳۰: ۲۷) وہ دنیا کی کسی مادّی شیٔ کی طرح بیٹھنے کی چیز نہیں، بلکہ دیکھنے کی چیز ہے، یعنی وہ نورِ عقل ہے جس کا اہلِ بہشت انتہائی شوق سے مشاہدہ کرتے ہیں۔
(ب): جو لوگ چہرۂ خدا میں فنا ہو جاتے ہیں، ان کے لئے عرش اپنے تمام معنوں کے ساتھ استعمال ہو جاتا ہے۔
(ج): عرش نور ہے اس لئے جہاں نور مومنین و مومنات کے
۱۷۶
آگے اور دائیں چلتا ہے وہاں وہ عرش سے وابستہ ہیں (۵۷: ۱۲)
(د): ہر مومن اور مومنہ کا عقلی جنم عرشِ اعلٰی پر ہوتا ہے، یاد رکھو کہ انبعاث ہی عقلی جنم ہے۔
(ھ): جس کو معرفت کے بھیدوں سے خدا مل جاتا ہے اس کو عرش بھی مل جاتا ہے۔
(و): عرش و کرسی جیسا کہ ذکر ہوا انسان کے عقلی والدین ہیں، لہٰذا ان کی گود میں پلنا لازمی ہے۔
(ح): ہر عالمِ شخصی میں ایک عرش (تخت) اور روحانی سلطنت ہے۔
(ط): بندۂ مومن کا قلب عرشِ الٰہی ہے، یعنی امامِ زمان صلوات اللہ علیہ، جو مومن کا حقیقی دل ہے، جس سے مومنین وابسہ ہیں۔
(ی): خدا کا گھر اور خدا کا تخت ایک ہی معنی میں ہیں، پس جو لوگ خانۂ خدا میں داخل ہیں، ان کی انائے علوی یقیناً عرشِ اعلیٰ پر ہے۔
بندۂ کمترین
نصیر الدّین نصیرؔ ہونزائی
۳۱۔ جنوری ۱۹۸۵
۱۷۷
سورۂ ہُمزہ (۱۰۴: ۰۱ تا ۰۹)
(ترجمہ) ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لئے جو (منہ در منہ) طعن اور (پیٹھ پیچھے) برائی کرتا ہے، جس نے کچھ مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا، وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ اس کے پاس رہے گا، ہر گز نہیں، وہ شخص تو ریزہ ریزہ کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا، اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ ریزہ ریزہ کر دینے والی جگہ؟ اللہ کی آگ، خوب بھڑکائی ہوئی، جو دلوں تک پہنچے گی۔ وہ اُن پر ڈھانک کر بند کر دی جائے گی (اس حالت میں کہ وہ) لمبے لمبے ستونوں میں کھڑے ہوں گے) ۔
تاویلی حکمت: ہر ایسے شخص کے لئے روحانی ہلاکت ہے جو جہالت و نادانی اور کُور باطنی کی وجہ سے ہادیٔ برحق پر طعن اور برائی کرتا ہے، جس نے کچھ مال جمع کیا، یعنی کچھ ظاہری علم حاصل کیا جو بہت قلیل ہے، جس کو وہ بہت زیادہ شمار کرتا ہے، یعنی اس کے نزدیک یہ محدود علم بیشمار ہے، جس کے سبب سے اس کو گھمنڈ ہو گیا ہے، وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا یہ علم ہمیشہ کار آمد ثابت ہو گا، ہر گز ایسا نہیں، وہ آدمی تو ریزہ ریزہ
۱۷۸
کر دینے والی جگہ میں پھینک دیا جائے گا، یعنی داعی کے عالمِ شخصی میں جہاں درجۂ بدرجہ ذرات ہیں، جہاں نور بھی ہے اور نار بھی، علم بھی ہے اور جہالت بھی، اور سب سے بڑا عذاب ہے جو جہالت ونادانی کی صورت میں دل کو جلاتا رہتا ہے، پس وہ ۱۹ ستونوں میں گھرے ہوئیں ہوں گے (۴۷: ۳۰) جیسا کہ ارشاد ہوا ہے: ۔
انیس۱۹ کارکن دوزخ پر مقرر ہیں، ہم نے اس کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں، اور انکی تعداد کو کافروں کے لئے آزمائش بنایا ہے، تاکہ اہلِ کتاب کو یقین آ جائے اور ایمان والوں کے ایمان میں اضافہ ہو (۷۴: ۳۰ تا ۳۱)
مذکورہ ۱۹ فرشتے:
(الف): صاحبانِ دورِ بزرگ ۷ + اُن کے حجتانِ جزائر ۱۲= ۱۹
(ب): چھوٹے دور کے أئمہ ۷+ جزائر کے حجت ۱۲= ۱۹ (ملاحظہ ہو کتابِ وجہ دین، کلام ۱۴)
ذراتِ ارواح کس طرح حدودِ دین سے وابستہ رہتے ہیں، اس کے بارے میں ایک کلیدی حکمت سورۂ یاسین (۳۶: ۴۱) میں ہے، اور وہ ارشاد یہ ہے: اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کے ذراتِ (ارواح) کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا، اور ہم نے ان کے لئے ویسی ہی کشتیاں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں (۳۶: ۴۱ تا ۴۲) اس سے ظاہر ہے کہ تمام ذراتِ ارواح کشتیٔ نوحؑ میں سوار تھے، یہ کشتی روحانیت کی
۱۷۹
ہوا کرتی ہے، اور ہمیشہ امامِ برحقؑ اور آپؑ کے حدود کی روحانیت سے بنائی جاتی ہے، جس سے لوگ شعوری حالت میں وابستہ رہتے ہیں۔
آپ اس قرآنی منطق میں خوب غور کریں کہ تمام چیزوں پر خزائنِ الٰہی محیط ہیں، اور کوئی شی ان خزانوں سے باہر نہیں (۱۵: ۲۱) تو پھر بہشت اور دوزخ کو خدا کی اس بادشاہی سے باہر کہاں ہونا چاہئے؟ کوئی حکومت جتنی ترقی یافتہ ہوتی ہے، اس کا جیل (JAIL) اتنا منظم ہوتا ہے، ہر چند کہ مجرموں کے لئے وہ بُری جگہ ہے، لیکن اصلاحِ معاشرہ کے لئے اس کی بڑی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ قید خانہ لوگوں کے وطنِ عزیز کے اندر ہوتا ہے، باہر نہیں۔
نصیر االدین نصیر ہونزائی
۲۵۔ نومبر ۱۹۸۴ء
۱۸۰
گلہائے دَانش
خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے جملہ جان نثاروں کے نام پر، جو شرق و غرب میں رہتے ہیں، خداوندِ عالم اپنی خاص رحمتوں اور برکتوں سے ان عزیزوں کو نوازے!
یہ عاجزبندہ انتہائی عاجزی اور خلوص سے یا علی مدد کی حکمت آگین دعا کرتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ خواہش یہ بھی ہے کہ یہی پاک و پاکیزہ دعا آفاق و انفس کے تمام ذرّات سے گونج اٹھے، تاکہ گوشِ ہوش کو رازِ روحانیت کی خبر ہو، اور ابوابِ عرفان یکے بعد دیگرے کُھلتے جائیں۔
۱۔ ہر عزیز کو یہ پُرحکمت اخلاقی اصول ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ حسنِ عمل کی سب سے بڑی طاقت عاجزی اور فروتنی میں پوشیدہ ہوا کرتی ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (۰۲: ۸۳) اور لوگوں سے اچھی طرح بات کرو۔ اس حکم میں گفتگو کی تمام تر خوبیوں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، کیونکہ خداتعالیٰ کا ہر فرمان تمام متعلقہ معنوں پر
۱۸۱
محیط ہوتا ہے، پس اس ربّانی تعلیم میں لوگوں سے بات چیت کرنے کی ظاہری خوبیوں کے علاوہ باطنی خوبیاں بھی مقصود ہیں۔
۲۔ آپ اپنی ذات میں یا کسی دوسرے مومن میں اللہ تعالیٰ کے اس حکیمانہ انعام کے اشارے پر بخوبی غور کر سکتے ہیں جو کسی عمدہ سے عمدہ عبادت کے بعد رقتِ قلبی اور عاجزی کی صورت میں مل جاتا ہے، قانونِ فطرت کا یہ اشارہ نورِ ہدایت کی جانب سے ایک عقلی معجزہ ہے، جو زبانِ حال سے یہ کہتا ہے کہ تم اسی شاہراہِ مستقیم پر ثابت قدم رہو، اور اسی روحانی لذّت وشادمانی کو اپناتے رہو جو ہر وقت کسرِ نفسی اور توضع سے ملتی رہتی ہے۔
۳۔ ارشادِ بنوّی ہے کہ: ان من الشعر لحکمتہ بیشک بعض نظمیں حکمت ہوا کرتی ہیں۔ یعنی جن کا نظریہ صحیح نہ ہو ان کی شاعری بے مغز اخروٹ کی طرح ہوتی ہے، اورجن لوگوں کا عقیدہ حقیقت پر مبنی ہو، اُن کے اشعار علم وحکمت کے مغز سے بھر پور ہوا کرتے ہیں، اس لئے کہ وہ حق و حقیقت کی نمائندگی و ترجمانی کرتے ہیں۔
۴۔ قرآنِ کریم (۰۹: ۱۶) میں قلبی دوستی (ولیجتہ) کا ذکر آیا ہے، جو خدا، رسولؐ، امامِ زمانؑ، اور مومنین کے لئے خاص ہے، ولیجہ کا مادہ ’’ول ج‘‘ ہے، جس کا مصدر وُلوج (داخل ہونا) ہے چنانچہ اس لفظ (ولیجۃ) کی تاویل ہے خدا، پیغمبرؐ اور امام کے نور اور مومنوں کی روح کو دل میں داخل کر لینا اور حقیقی معنوں میں اپنائے رکھنا، اس آیۂ کریمہ میں
۱۸۲
امامِ عالیمقامؑ کا ذکرِ جمیل دو طرح سے فرمایا گیا ہے: خلیفۂ رسولؐ کی مرتبت میں اور امیر المومنین کی حیثیت سے، کیونکہ منصبِ جلیلۂ نبوّت کا لازمہ خلافت (امامت) ہے، اور لفظِ ’’مومنین‘‘ میں ہمیشہ سردارِ مومنین ساتھ ہے۔
۵۔ حضرِتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اسماعیلی عقیدہ نور کی طرح ہے، تم نور جیسے بن جاؤ، آگ کی مثال نہ بنو، ایک اسماعیلی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کسی شخص سے دشمنی کرے یہاں تک کہ تم غیر مسلم کا بھی (خواہ مخواہ) دشمن نہ ہو جاؤ‘‘ اسماعیلی مذہب کی بے مثال رواداری اور وسعتِ قلبی کا یہ عالم ہے، تاہم امامِ عالیقمامؑ کی اس نورانی ہدایت سے مذکورۂ بالا آیت کی تاویل متاثر نہیں ہوتی، کیونکہ دوستی کے دو درجے ہیں: ایک ہے انسانی روح میں دوستی، اور دوسرا ہے مذہبی روح میں دوستی۔
۶۔ اہلِ ایمان کی سب سے بلند ترین صفت تقویٰ یعنی خوفِ خدا ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب سے بڑھ کر متقی ہے وہی سب سے بڑا معزز ہے (۴۹: ۱۳) مگر یہ تقویٰ جو آسمان معیار کے مطابق ہے علم لدّنی پر مبنی ہے (۳۵: ۲۸) اور یہ مرتبۂ اعلٰی سب سے پہلے سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو پھر امامِ برحقؑ کو حاصل ہے، اور اسی وسیلے سے سب فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
۷۔ سورۂ نور (۲۴: ۵۵) میں اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان والوں سے جس خلافتِ ارضی کا وعدہ فرمایا ہے، اور جیسی اس کی مثال زمانۂ ماضی سے دی گئی ہے، وہ دراصل عالمِ شخصی کی خلافت ہے، جس میں یہ ممکن اور بڑی گنجائش ہے کہ
۱۸۳
اہلِ بہشت کی طرح ہر مومن اپنے انفرادی عالم میں خلیفہ ہو، اور کوئی شک نہیں کہ اسی مقصد کے پیشِ نظر ہر شخص کی ذات میں ایک کائنات پوشیدہ رکھی ہوئی ہے۔
۸۔ یہ کیوں ایسا ہے کہ خلافتِ کبریٰ اور خلافتِ صغریٰ کا تعلق آسمان سے نہیں بلکہ زمین سے ہے؟ اس لئے کہ اس منصبِ جلیلہ کا مقصد لوگوں کی اصطلاح ہے، اور لوگ زمین پر رہتے ہیں، تاہم خلیفۂ خدا کے لئے فرشتوں کی اطاعت (سجدہ) کرنے میں بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ ملائکہ گویا آسمانی مخلوق ہیں، اس معنیٰ میں خلیفۂ خدا کو آسمان بھی مسخر ہے (۳۱: ۲۰)
۹۔ بڑی خلافت کے تحت زمینِ ظاہر اور زمینِ باطن دونوں آتی ہیں، اوریہ مرتبہ انبیاء و أئمّہ علیھم السّلام کے لئے مخصوص ہے، اور چھوٹی خلافت کے تحت صرف باطنی زمین آتی ہے، جس کا دوسرا نام عالمِ صغیر یا عالمِ شخصی ہے، تاہم اس پوشیدہ دنیا میں وہ سب کچھ ہے، جو دنیائے ظاہر میں ہے، کیونکہ یہ اس مادّی کائنات کی لطیف روحانی صورت ہے، جیسے ایک قرآنی آیت کا مفہوم ہے کہ آسمان (کائنات) کے کثیف چھلکے کو اتار کر لطیف صورت میں پیش کیا جائے گا (۸۱: ۱۱)
۱۰۔ خالقِ برحق نے جتنی دنیائیں پیدا کی ہیں، اُن سب میں بہترین دنیا عالمِ شخصی ہے، جس کو قرآنِ حکیم نے ’’احسنِ تقویم‘‘ کا خطاب (TITLE) دیا ہے (۹۵: ۰۴) اور انسانوں کو عالمین (دنیائیں) کہا ہے، اس کا یہ مطلب ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنی ذات میں بحدِّ قوّت ایک کائنات ہے، مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کثرت سے دنیائیں کیوں ہیں؟ اس کا جواب
۱۸۴
یہ ہے کہ بشرطِ اطاعت ہر شخص کو بہشت کی ایک سلطنت دینے کے لئے یہ اہتمام فرمایا گیا ہے۔
۱۱۔ قرآنِ مقدس میں جہاں جہاں تک اصنام پرستی (بت پرستی) کا موضوع پھیلا ہوا ہے اس میں یہ جان لینا ضروری ہے کہ بُت ظاہری اور باطنی دو قسم کے ہوا کرتے ہیں، چنانچہ دنیا میں اکثر لوگ ایسے ہیں، جو دوسروں کی بُت پرستی پر طنزو تشنیع تو کرتے رہتے ہیں مگر اپنی بُت پرستی کو نہیں سمجھتے۔
۱۲۔ انسان کا حقیقی دل امامِ عالی مقامؑ ہے، جس کو قرآن حکیم نے قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) اور قلبِ منیب (۵۰: ۳۳) کہا ہے، یہی حقیقت انائے علوی بھی ہے، یعنی وہ دل جو خدا کو سونپا گیا ہے اور رجوع کیا گیا ہے، اب اگر آدمی اور اس کے دل کے درمیان کوئی بڑی آزمائش حائل ہو گئی ہے، تو اس میں کامیاب ہو کر اپنے قلب تک پہنچ جانے کے لئے علم و عمل کی سخت ضرورت ہے۔
۱۳۔ قرآنِ حکمت آگین کا ارشاد ہے کہ شیطان کو کام کرنے کی جو مہلت دی گئی ہے، وہ کسی کی انفرادی قیامت میں منزلِ انبعاث تک ہے، اور ایک حدیثِ شریف سے اس حقیقت کی تصدیق ہو جاتی ہے، کہ ہر شخص کا ایک انفرادی شیطان ہوا کرتا ہے، اور حضوراکرمؐ کا شیطان ختم ہو گیا تھا، یعنی آنحضرتِؐ کے انبعاث کی وجہ سے شیطان کی مہلت ختم ہوئی تھی، اور وہ مسلمان بن گیا تھا، اب اس میں سب سے بڑا دلچسپ سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ یہ کیو ں ایسا ہے؟ اور اس میں رازکی بات کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شیطان کو شکست حقیقی علم میں ہے، چنانچہ جوں جوں علم و حکمت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،
۱۸۵
توں توں شیطان کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ انبعاث کا وقت آتا ہے، اور اس کی مہلت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔
۱۴۔ یہ کہنا عجیب ہے کہ شیطان کے پاس بہت علم تھا، کیونکہ اگر اس کے پاس حقیقی علم ہوتا تو وہ ہر گز گمراہ نہ ہوتا، مگر ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اس نے بہت بندگی کی ہو اور علم کے نام سے بہت سی باتیں بغیر کسی حقیقت کے جانتا ہو، جیسا کہ قرآنِ حکیم کی ایک آیۂ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ: انسی اور جنّی شیاطین سوائے ایسی باتوں کے جو (اندر سے خالی خولی اور) اوپر سے ملمع کی ہوئی ہے کچھ نہیں جانتے ہیں (۰۶: ۱۱۲)
۱۵۔ قرآنِ پاک کے معروف ناموں میں سے ایک نام ’’ذکر‘‘ ہے (۲۱: ۵۰) اور پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا ایک با برکت نام بھی ذکر ہے (۶۵: ۱۰ تا ۱۱) اور آپ جانتے ہیں کہ ذکر کے معنی یادِ خدا کے بھی ہیں اور نصیحت کے بھی، چنانچہ جو لوگ قرآنی علم کو حاصل کرتے ہیں، وہ نہ صرف اللہ کی یاد کرنے اور نصیحت سننے کا ثواب پاتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کو رسولؐ اور اہلِ ذکر یعنی أئمّہ کی ہمنشینی کا ثواب بھی مل جاتا ہے۔
۱۶۔ عبادت وبندگی کے کئی پہلو ہیں، بالفاظِ دیگر اللہ جل شانہ کی غلامی کی بہت سی صورتیں ہیں، ان میں قرآنی علم کی خدمت ایک افضل واعلٰی عبادت ہے، جبکہ قرآن اسلام و ایمان کی اصل و اساس ہے، اور جبکہ قرآن خداوند تعالیٰ کی آخری پیاری کتاب ہے۔
۱۷۔ سورۂ نمل میں فرمایا گیا ہے: اور جب قولِ قیامت اُن پر واقع
۱۸۶
ہوگا تو، ہم ان کے لئے زمین (یعنی ارضِ روحانیّت) سے ایک جانور نکالیں گے جوان سے باتیں کرے گا کہ لوگ ہماری (یعنی اللہ کی) نشانیوں پر یقین نہ لاتے تھے (۲۷: ۸۲) دابتہ الارض سے مولا علی علیہ السلام کی وہ مرتبت مراد ہے جو وقت آنے پر بصورتِ ذرّات بولنے لگتی ہے، اور خدا کی نشانیوں کے معنی ہیں أئمّۂ طاہرین علیھم السلام۔
۱۸۔ آپ کو اس بات کا علم ہے کہ بموجبِ حدیث سفینۂ نوح اہلِ بیت رسولؐ کی مثال ہے، سو آئیے ہم اس کی مربوط حکمت قرآنِ حکیم میں دیکھتے ہیں، ارشاد ہے: پھر ہم نے نوحؑ اور کشتی والوں کو بچا لیا اور ہم نے اس (یعنی کشتی) کو دنیا والوں کے واسطے ایک نشانی بنایا (۲۹َ: ۱۵) متعلقہ حدیثِ شریف کی روشنی میں اس آیۂ کریمہ کے اشارے یہ ہیں کہ کسی بھی صورت میں ہمیشہ طوفان برپا ہوتا رہتا ہے، جس سے لوگوں کے بچ جانے کا وسیلہ پیغمبرِ برحقؐ کے اہلِ بیت ہیں، اور خداوندِ عالم نے اس وسیلۂ نجات کو ایک مستقل آیت کے طور پر قائم رکھا ہے، تاکہ دینِ اسلام کے وسائل میں کوئی کمی واقع نہ ہو، کیونکہ دینِ فطرت کامل اور مکمل ہے، اور اللہ تعالیٰ کی نعمت بدرجۂ تمام وکمال موجود ہے (۰۵: ۰۳)
۱۹۔ حضرتِ نوح علیہ السلام نے ایک پُرحکمت دعا اس طرح کی:۔ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِؕ (۷۱: ۲۸) اے میرے ربّ مجھ کو میرے ماں باپ کو بخشدے اور جو (خاص) مومن ہو کر میرے (اہل) بیت میں داخل
۱۸۷
ہیں ان کو اور (عام) مومنین اور مومنات کو بھی، اس آیۂ مبارکہ میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ جس طرح حضرتِ نوحؑ کے اہلِ بیت سے ایک فرد نافرمان ہو کر خارج ہو گیا تھا، اسی طرح کئی افراد حقیقی فرمانبرداری سے آپؑ کے اہلِ بیت میں داخل وشامل ہو گئے تھے۔
۲۰۔ انبیاء وأئمّہ علیھم السّلام کے گھر سے ان کی روحانیت ونورانیت مراد ہے، جس میں مومنین کا آج یا کل داخل ہونا لازمی ہے، ورنہ جسمانی حالت میں ہادیٔ برحق کے گھر میں اہلِ ایمان کا داخل ہو جانا ضروری نہیں، پس یہی وجہ ہے کہ زمانۂ نبوت کے اہلِ بیت محمدؐ رسول اللہ، علیُ مرتضٰی، فاطمۂ زہرا، اور حَسَنین صلوات اللہ علیھم تھے، اور سلمان فارسی کی مثال سے یقین آتا ہے کہ اور بھی کئی مومنین خانۂ نور میں داخل ہو گئے تھے، اگرچہ ان کے نام ظاہر نہیں، کیونکہ امامؑ اسی مقصد کے لئے دین کا زندہ راستہ یعنی صراطِ مستقیم بھی ہے، راہنما بھی ہے، اور شہرِ روحانیّت کا دروازہ بھی، تاکہ مومنین کو منزلِ مقصود تک پہنچا دیا جائے۔
۲۱۔ قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ: جو شخص نیک کام کرے گا اُس کو دس گنا بدلہ ملے گا (۰۶: ۱۶۰) یعنی جو اس دنیا میں ایک نیکی کرے، اس کو آخرت میں دس نیکیاں ملیں گی، اس کی تاویلی حکمت یہ ہے کہ جو شخص دعوتِ حق کو قبول کر کے مستجیب بن جاتا ہے، تو وہ ایک بہت بڑی نیکی کرتا ہے لہٰذا اسے دس حصّہ نیکی ملے گی، جو اس طرح ہے: مستجیب۱ ، مازونِ اصغر۲ ، مازونِ اکبر۳ ، داعیٔ مکفوف۴ ، داعیٔ مطلق۵ ، حجّتِ جزیرہ۶ ، حجّتِ اعظم۷ ، امامؑ۸،
۱۸۸
اساس۹ ، اور ناطقؐ۱۰، یہ نیکی کے وہ دس درجات ہیں، جو تمام نیکیوں پر محیط ہیں۔
۲۲۔ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں کسی کام کے لئے حکم دیا گیا ہے، اس کا اطلاق عمل کے ادنیٰ اور اعلٰی تمام مدارج پر ہوتا ہے، مثال کے طور پر الگ الگ آیتوں میں ۲۷ بار واعلموا (اور جان لو) فرمایا گیا ہے، جس کا مقصد صرف یہی نہیں کہ لوگ دنیا میں علم کو حاصل کرتے رہیں، بلکہ آخرت میں بھی علم سے وابستہ رہنا ہے، جیسے ارشاد ہوا ہے: وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِهٖ وَ اَنَّهٗۤ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ (۰۸: ۲۴) اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی اور اس کے قلب کے درمیان اور بلاشبہ تم سب کو اس کے پاس جمع ہو جانا ہے۔ پس اس امر کا منشا یہ ہے کہ ذات انسانی سے متعلق علم ومعرفت کو بدرجۂ تمام وکمال حاصل کیا جائے، تاکہ یہ راز معلوم ہو سکے کہ کس طرح خدا بندۂ مومن اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے؟ الحمد للہ ربّ العلمین
بندۂ غریب
نصیرالدّین نصیرہونزائی
۵ نومبر۱۹۸۴ء
۱۸۹
دو انتہائی عظیم فرشتے
ترجمہ از
دیوانِ پیر ناصر خسرو ق س
مطلع: بالای ہفت چرخ مُدّور دو گوہرند
۱۔ ان سات گول آسمانوں کے اوپر دو گوہر ہیں، جو حقائق آسمان سے اوپر یا باہر ہیں، وہ ازلی، ابدی اور لامکان ہیں، جن کے نور سے عالم اور انسان منور اور درخشان ہیں۔
۲۔ یہ دونوں خود تو شکل و صورت سے برتر ہیں، مگر تصویر بنانے والے ہیں اور نیستی کی بچہ دانی میں ہستی کے نطفہ سے تصویر بنا دیتے ہیں۔
۳۔ وہ ان چیزوں میں سے نہیں جو محسوسات کہلاتی ہیں، وہ حواس میں نہیں سماتے، اور نظر نہیں آتے، کیونکہ وہ نہ تو تاریک ہیں اور نہ ہی روشن۔
۴۔ یہ قدیم یعنی ازل کی بات ہے کہ وہ دایۂ قدس کے پروردہ ہیں۔ وہ گوہر نہیں اگرچہ اوصافِ گوہر رکھتے ہیں۔
۵۔ آفرنیش کی اس جانب سے بھی اور کائنات کی اُس طرف (یعنی لامکان) سے بھی، حدودِ زمان میں بھی اور لازمان میں بھی وہ ساتھ
۱۹۰
رہتے ہیں۔
۶۔ وہ ایک اعتبار سے اس جہاں میں نہیں ہیں اور وہ دوسرے اعتبار سے اس میں موجود ہیں، وہ ہم میں غیر موجود بھی ہیں اور ہمارے بدن میں روح پرور بھی۔
۷۔ کہتے ہیں کہ انہی معنوں میں وہ دونوں گوہر دونوں جہان کی حیثیت سے ہیں، اسی طرح وہ سات اقلیم میں حاضر بھی ہیں اور غائب بھی، یعنی دنیا ہونے کی مرتبت میں عیان اور آخرت ہونے کے مرتبت میں نہان ہیں۔
۸۔ ان میں سے ایک روحِ قدسی کا درجہ رکھتا ہے اور دوسرا جبرائیل کی ذات ہے، یعنی یہ دونوں پرواز کرنے والے فرشتے ہیں مگر مادی قسم کے پر نہیں رکھتے۔
۹۔ تعجب ہے کہ یہ دونوں فرشتے عالمِ سفلی میں پروں کے بغیر پر کھولے بیٹھے ہیں، اور بازؤں کے بغیر عالمِ علوی پر اڑ جاتے ہیں۔
۱۰۔ دنیا کے عناصرِ اربعہ جو گرم، سرد، خشک اور تر ہیں، یعنی مٹی، ہوا، پانی اور آگ، ان کے ساتھ وہ گوہر موافقت رکھتے ہیں۔
۱۱۔ گنج خانۂ ازل میں اور خزینۂ ابد میں یہ دونوں، جوہر (گوہر= موتی) نہیں، لیکن مثال کے طور پر جوہر کے نام سے ہیں۔
۱۲۔ یہ دونوں گوہر عالم بھی ہیں اور آدم بھی، دوزخ بھی ہیں اور بہشت بھی، حاضر بھی ہیں اور غائب بھی، زہر بھی ہیں اور شہد بھی۔
۱۳۔ اور نور سے لے کر ظلمت تک بلندی سے لے کر پستی تک،
۱۹۱
مشرق سے لے کر مغرب تک اور سمندر سے لے کر خشکی تک یہی محیط ہیں۔
۱۴۔ یہ موجود بھی ہیں اور معدوم بھی، باطن بھی ہیں اور ظاہر بھی، اسی سبب سے یہ تجھ سے الگ بھی ہیں اور تیرے ساتھ ایک ہی گھر میں بھی رہتے ہیں۔
۱۵۔ دوسرے جہان میں کہ وہ ان کا کارخانہ ہے، یہ ہر عمارت اور اس کے بانی کو فنا کر ڈالتے ہیں۔
۱۶۔ حواسِ خمسہ اور چار طبائع یعنی، مٹی، پانی، ہوا اور آگ کے روزی دینے والے ہیں، اور نو آسمانوں اور سات ستاروں کے خالی کرنے والے ہیں، جس کا مطلب ہے زمین کی طرف گونا گوں قوتوں کو فیض بھیجتے رہنا۔
۱۷۔ اُن سے مشرف ومستفید ہونے والے دس ہیں جو ان کے دولت کدہ کے گردا گرد بیٹھے ہوئے ہیں، ان سے پانچ حواسِ باطن۔
۱۸۔ دونوں کے سامنے آسمانِ ظاہر اور آسمانِ باطن دونوں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: دو گوہر سے عقلِ کل اور نفسِ کل مراد ہیں، اور دو انتہائی عظیم فرشتے یہی ہیں۔
بعض جگہوں میں آزاد ترجمہ کیا گیا ہے۔
۱۹۲
دکاندار کھڑا ہے، اور جو کچھ بتدریج فروخت کرتا ہے تو یہ اسے خرید لیتے ہیں۔
۱۹۔ وہ بادشاہ جس کے دس سر چھ چہرے اور سات آنکھیں ہیں، اور چار افراد جو ہمیشہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں، یہ گوہر ان سب کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، بادشاہ سے کائنات مراد ہے، جس کے دس سر ہیں یعنی آسمان اور زمین، چھ چہرے ہیں یعنی چھ اطراف، اورسات آنکھیں ہیں یعنی سات ستارے، اور چار مخالف افراد چار عناصر ہیں۔
۲۰۔ وہ جوہر نہیں ہیں، ان کا جوہر عرض ہے، نوٹ: جوہر کے دو معنی ہیں: (۱) گوہرِ عقل، یعنی مثلِ اعلیٰ کا موتی (۲): وہ چیز جو بذاتِ خود قائم ہے، جیسے کاغذ کہ از خود قائم ہے، مگرتحریر کاغذ پر قائم ہے، پس کاغذ جوہر ہے اور تحریر عرض، یعنی جوجوہران کی مثال کو پیش کرتا ہے، وہ اپنے آپ قائم نہیں بلکہ یہ ان دونوں پر قائم ہے، اس معنیٰ میں یہ جوہر دراصل عرض ہے، انھوں نے عرض کے مدارومحور کو بنایا ہے اور وہ خود محور نہیں ہیں۔
۲۱۔ یہ تجھ کو ظاہری حروف کے بغیر کتابِ اسرار پڑھ کر سنا سکتے ہیں، اور دیکھے بغیر اعمال کو جانتے ہیں۔
۲۲۔ ان کو ظاہر ہو جانا اس لئے ہے کہ یہ دراصل باطن میں ہیں، یہ اپنا جسم اور سر نہیں رکھتے کیونکہ یہ ہر تن اور ہر سر میں ہیں۔
۲۳۔ یہ ان کی صفات میں سے ہے کہ کائنات میں نہیں سماتے، لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ہمارے جسم و سر میں مضمر ہیں۔
۱۹۳
۲۴۔ یہ مکان تیرے ہی واسطے بنایا گیا ہے، ورنہ ان کے لئے مکان کی کیا اہمیت ہے، کہ وہ تو مکان سے برتر ہیں۔
۲۵۔ وہ ایک ایسی جگہ سے تیری طرف آئے ہیں کہ وہ دراصل جگہ ہی نہیں بلکہ لامکان ہے، وہ وہاں فرشتے ہیں اور یہاں پیامبر ہیں۔
۲۶۔ وہ صفات میں درجۂ ملکوت سے بالاتر ہیں، کیونکہ وہ ذات ذوالجلال کی طرح نہ عنصر ہیں اور نہ جوہر۔
۲۷۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دونوں جہان ان دونوں کے زیرِ نگین ہیں، اگر تو چاہے تو یہ تیری روح کے تابعِ فرمان ہو سکتے ہیں۔
مترجم:
نصیر الدّین نصیر ہونزائی
۱۴۔ مارچ ۱۹۸۴ء
۱۹۴
موت کی عظیم حکمتیں
ہماری بہت ہی عزیز فرشتہ صفت بیٹی ماہِ محل پر نورِامامت کی شعاعیں برستی رہیں!
میں انتہائی خیرخواہی اور قلب کی گہرائی سے ’’یاعلی مدد‘‘ کی مقدس دعا کرتا ہوں، اور اس پُرحکمت دعا میں اپنی بہت ہی پیاری بیٹی کے ساتھ وہاں کے جملہ عزیزوں کو بھی یاد کرتا ہوں، خداوندِ قدوس اُن سب کو نوازے! دونوں عالم کی کامیابی اور سربلندی عنایت فرمائے!
عزیز بیٹی، بہت ہی عزیز بیٹی! ہمیں معلوم ہے: فون پر آپ کو بتایا گیا ہے کہ آپ کے والدِ محترم کا انتقال ہو چکا ہے،۔ ۔ ۔ ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون (ہم اور ہمارا سب کچھ خدا کی ملکیت ہے اور ہم وقتی طور پر بھی اور دائمی طور پر بھی اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) یہ اس سلسلے میں قرآنِ پاک کی ایک تعلیم ہے، جس پر ہم سب کا ایمان ہے، چونکہ آپ اور ہم امامِ برحق صلوات اللہ علیہ کے علمی سپاہی ہیں، لہٰذا آئیے ہم معمولی اور رسمی باتوں کو چھوڑ کر کچھ حقیقی علم کی باتیں کریں، تاکہ اس سے
۱۹۵
ایک طرف مرحوم کے لئے کوئی تحفۂ ثواب ہو، اور دوسری طرف علمی لشکر کی معلومات میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہو سکے۔
۱۔ موت کی بہت سی قسمیں ہیں، مگر سب سے عالی شان اور پُرحکمت موت وہ ہے، جو خدا کے دوستوں یعنی مومنین سے متعلق ہے، انبیاء وأئمّہ علیھم السلام دوستانِ خدا کے سردار ہیں، چنانچہ حدیثِ شریف میں ارشاد ہے کہ ’’موت مومن کا گلدستہ ہے‘‘ گلدستہ کتنا خوبصورت اور پیارا ہوتا ہے، اس میں کیسی رنگینی اور دلکشی ہوتی ہے، اس کی خوشبو سے یکایک قلبِ بشر میں فرحت وشادمانی کی ایک لہر دوڑنے لگتی ہے، یہ تو صرف چند ظاہری اور مادی پھولوں کے مجموعے کی بات ہوئی اور اگر ایسا کوئی گلدستہ نہ مرجھانے والے لازوال اورغیر فانی پھولوں کا ہو، اور وہ محبوبِ جان کی جانب سے آئے، تو پھر مسرت وشادمانی کا ایک عجیب طوفان برپا ہو گا، یہ مومن کی موت کی مثال ہے، تاہم قانونِ حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ جب تک روح جسم سے جدا نہیں ہوتی، تب تک کوئی بھی خوشی طوفانی قسم کی نہ ہونی چاہئے، کیونکہ انسان جس طرح شدید غم کے بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتا، اسی طرح وہ حد سے زیادہ خوشی کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
۲۔ قرآنِ حکیم میں موت سے متعلق جو کلیہ (عام قاعدہ) ہے (۰۳: ۱۸۵) اس کی روشنی میں صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر وہ جان (نفس) جو اللہ کے معیارکے مطابق جان کہلاتی ہو، وہ موت کی وجہ سے معدوم یا نیست و نابود نہیں ہوتی، بلکہ وہ موت کے بہت سے تجربات
۱۹۶
سے گزرتی ہے، کیونکہ روحانی موت داصل ایک دنیاہے، اس میں یقین ومعرفت کے بھید ہی بھید ہیں، یہی سبب ہے کہ قرآنِ حکیم نے اپنی مخصوص حکمت کی زبان میں موت کو چاہنے اور دل میں اس کی آرزو پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے، کیوں نہ ہو جبکہ یہ درسگاہِ علم و معرفت اور بہشتِ برین کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے (۰۲: ۹۴)
۳۔ موت کی حکمتیں عظیم ہیں، جیسے سورۂ مُلک (۶۷: ۰۱ تا ۰۲) میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وہ (یعنی خدا) بہت برکت والا ہے جس کے ہاتھ میں (ہر چیز کی عقل وروحانی) بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے (۶۷: ۰۱ تا ۰۲)
جیسا کہ دانشمند مومنین اس سرِ عظیم سے واقف و آگاہ ہیں کہ قرآنِ مقدس میں جہاں جہاں دستِ خدا کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہاں ذاتِ سبحان کے اصل اور سب سے خاص خزانے کا ذکر ہوتا ہے، جیسا کہ کتابِ ’’گنجِ گرانمایہ ‘‘ میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے، چنانچہ مذکورۂ بالا ارشاد میں بزبانِ حکمت یہ فرمان ہوا ہے کہ جسمانی پیدائش کے بعد روحانی جنم ہے، پھر روحانی موت کا تجربہ ضروری ہے، اور آخر میں انبعاث کا مرحلہ ہے، تاکہ قبضۂ قدرت میں جو بادشاہی ہے، اس کی برکتوں سے فیض حاصل کیاجائے۔
خلق الموت والحیوتہ (اُس نے موت اور حیات کو پیدا
۱۹۷
کیا) یہ انسان کی سب سے اعلٰی موت اور سب سے پاکیزہ زندگی کا بیان ہے، وہ روحانی موت اور انبعاث ہے، اگر یہ جسم کی بات ہوتی تو وہ اس طرح ہوتی اُس نے حیات اور موت کو پیدا کیا۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ پہلے تو جسمانی پیدائش ہے، پھر موت، نیز یہ بھی سوچنا ہے کہ جسمانی موت پر لفظِ خلق (پیدا کیا) کا بحقیقت اطلاق نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ یہ موت جسم سے الگ بذاتِ خود کوئی مخلوق شی نہیں کہ محسوس ہو سکے، اس کے برعکس یہ کہنا بالکل درست اور حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کے معیار کے مطابق جیتے جی انبعاث سے قبل کی زندگی موت اور مخلوق ہے، موت اس معنیٰ میں بھی کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے اس میں بار بار قبضِ روح کا عمل کیا۔ اور مخلوق اس لئے کہلائے کہ وہ موجود اور محسوس ہے۔
۴۔ اگرچہ ہر مومن جیتے جی روحانی موت کا مزہ چکھ نہیں سکتا، لیکن اس مقصد کے پیشِ نظر امامِ زمانؑ کی فرمانبرداری بیحد ضروری ہے، تاکہ اس کی روح کا ذرّہ حدودِ دین میں سے کسی سے واصل ہو جائے (آپ اس سلسلے میں کتابِ ’’وجہِ دین‘‘ گفتار۲۶ کا مطالعہ کر سکتے ہیں) ایسے افرادِ مومنین حدود کے وسیلے سے روحانی مراحل کو طے کر سکتے ہیں، جیسا کہ خداوند تعالیٰ کے کلام حکمت نظام میں ہے: ۔
وَ تَحْمِلُ اَثْقَالَكُمْ اِلٰى بَلَدٍ لَّمْ تَكُوْنُوْا بٰلِغِیْهِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِؕ (۱۶: ۰۷) اور وہ (چوپائے) تمہارے بوجھ ایسے شہر کو لے جاتے ہیں جہاں تم اپنی جانوں (روحوں) کے ذرّات بنائے
۱۹۸
بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے۔ چوپایوں سے حدودِ دین مراد ہیں، جن کے سہارے پر مومنین شہرِ روحانیت میں پہنچ جائیں گے، اور بہشت میں سابقہ روحانی سفر کی ہر ہر منزل کا مشاہدہ ہو گا۔
۵۔ جس طرح جسمانی موت سے کوئی بھاگ نہیں سکتا، اسی طرح روحانی موت بھی کسی نہ کسی صورت میں آنے والی ہے، جیسا کہ سورۂ نسا (۰۴: ۷۸) میں ہے: اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍؕ (۰۴: ۷۸) تم چاہے کہیں بھی ہو وہاں ہی تم کو موت آدبادے گی، اگرچہ تم مضبوط قلعوں ہی میں ہو، مضبوط قلعوں کی تاویل ہے امامِ زمانؑ اور آپؑ کے حدود، ان روحانی اور علمی قلعوں میں رہنے والوں پر بھی روحانی موت کا تجربہ گزرے گا، کیونکہ اسی میں قیامت سے متعلق سارا علم پوشید ہے۔
۶۔ اس سلسلے کا ایک اور ارشاد سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۴۳) میں اس طرح ہے: (اے رسول) کیا تم نے ان لوگوں کے (حال) پر نظر نہیں کی، جو موت کے ڈر کے مارے اپنے گھروں سے نکل بھاگے اور وہ ہزاروں آدمی تھے تو خدا نے اُن سے فرمایا کہ سب کے سب مرجاؤ (اور وہ مر گئے) پھر خدا نے انھیں زندہ کیا، بیشک خدا لوگوں پر بڑا مہربان ہے، مگر اکثر لوگ اس کا شکر نہیں کرتے۔ یہ لوگ کون تھے جو ہزاروں کی تعداد میں بلکہ بیشمار تھے؟ اور اللہ نے ان سے کیوں فرمایا کہ مرجاؤ؟ یہ ذرّاتِ روح تھے جو صورِ اسرافیلؑ کے خوف سے اشخاص کی قبرستانوں
۱۹۹
سے نکل کر بلانے والے کی طرف جارہے تھے، جہاں حدودِ دین میں سے کسی کی ذاتی قیامت اور روحانی موت واقع ہو رہی تھی، اسی کے ساتھ ساتھ ان بیشمار ذرّات پر بھی پُرحکمت موت آئی، اور اسی طرح ان کا انبعاث بھی ہو گیا، مگر یہ سب کچھ غیر شعوری حالت میں تھا، اور ہاں یہ عمل بہشت میں بطریقِ روحانی عکس سامنے آئے گا۔
۷۔ سورۂ دخان (۴۴: ۵۶) میں فرمایا گیا ہے: لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا الْمَوْتَ اِلَّا الْمَوْتَةَ الْاُوْلٰى (۴۴: ۵۶) وہ لوگ بہشت میں موت کا ذائقہ نہ چکھیں گے بجز اُس موت کے جو دنیا میں آچکی تھی، یعنی جنت میں روحانی موت نہیں، وہ تو براہ راست یا بالواسطہ شعوری یا غیر شعوری طور پر دنیاوی زندگی میں واقع ہو چکی تھی، اب بہشت میں صرف اس عظیم کارنامے کا نظارہ کرنا اور علمی لذت اٹھانا ہے۔
۸۔ حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی روحانی موت کا تذکرہ اس طرح ہے پھر جب ہم نے سلیمان پر (روحانی) موت مقرر کیا تو کسی چیز نے ان کے مرنے کا پتہ نہ بتلایا مگر گھٹن کے کیڑے نے کہ وہ سلیمان کے عصا کو کھاتا تھا سو جب وہ گر پڑے تب جنات کو حقیقت معلوم ہوئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ رہتے (۳۴: ۱۴) دابتہ الارض (گُھٹن کا کیڑا) سے کچھ روحیں یعنی یاجوج وماجوج مراد ہیں، عصا کا مطلب یہاں روحِ حیوانی ہے، کیونکہ اسی سے انسانی روح کو سہارا ملتا رہتا ہے، مگر اس لاٹھی کو یاجوج وماجوج چاٹ لیتے ہیں، گرنے کا مطلب عملِ عزرائیلؑ
۲۰۰
کی خاطر لیٹ جانا ہے۔
۹۔ عالمِ شخصی کی زمین میں زندوں اور مردوں کی لاتعداد روحیں جمع ہیں، سورۂ مرسلات میں فرمایا گیا ہے، (۷۷: ۲۵ تا ۲۶) کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کی سمیٹنے والی نہیں بنایا، ظاہری زمین پر لوگ ہر جگہ بستے ہیں، اور مردے ہر مقام پر دفنائے یا جلائے جاتے ہیں، اس میں سمیٹنے کی کوئی بات نہیں، مگر جب انفرادی قیامت قائم ہو جاتی ہے، تو اس وقت انسانِ کامل کی شخصیت کی زمین تمام زندوں اور مُردوں کی ارواح کوسمیٹ لیتی ہے۔
۱۰۔ روحانی موت دراصل روح کے عروج و ارتقاء کا سلسلہ ہے، لہٰذا خدا کے دوست اس کو بہت چاہتے ہیں، جس کی دلیل اس آیۂ کریمہ میں موجود ہے: (اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ اے یہودیواگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ تم ہی خدا کے دوست ہواور لوگ نہیں تو اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو موت کی تمنا کرو (۶۲: ۰۶) اس سے ظاہر ہے کہ روحانی موت کی تمنا خدا کی دوستی کی علامت ہے، کیونکہ جسمانی موت کی آرزو کوئی ایسا کافر بھی کر سکتا ہے، جو دنیا کی کسی سخت تکلیف سے تنگ آچکا ہو، اور ایسا شخص اللہ کا دوست نہیں ہو سکتا، یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ روحانی موت کی تمنا کسی بھی عنوان سے ہو سکتی ہے، جیسے روحانی ترقی، دیدارِ خداوندی، حصولِ معرفت وغیرہ کو چاہنا۔
۱۱۔ سورۂ انعام (۰۶: ۱۲۲) میں انسان کامل کی روحانی موت اور
۲۰۱
حیاتِ طیبہ کا بیان اس طرح فرمایا گیا ہے: اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ وَ جَعَلْنَا لَهٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَاؕ (۰۶: ۱۲۲) کیا جو شخص (پہلے) مُردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس کے لئے ایک نور بنایا جس کے ذریعے سے وہ لوگوں (کے عالمِ شخصی) میں چلتا ہے اُس شخص کا سا ہو سکتا ہے جس کی یہ حالت ہے کہ (ہر طرف سے) اندھیروں میں (پھنسا ہوا) ہے کہ وہاں سے کسی طرح نکل نہیں سکتا، یہ زبانِ حکمت کی باتیں ہیں، لہٰذا ان کی سطح بہت بلند ہے، چنانچہ یہاں مُردہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسانِ کامل منزلِ عزرائیلی سے ہو کر آگے گزر چکا تھا، جس کو مقامِ انبعاث پر حیاتِ طیبہ میں زندہ کرکے نورِ کامل مقرر کیا گیا، وہ لوگوں کے باطن میں چل سکتا ہے، اور ایسا شخص صرف اور صرف امامِ زمان علیہ السلام ہیں اور ا س میں تعجب کی کوئی بات نہیں، کیونکہ لوگوں کے اندر جب مضلِ (گمراہ کرنے وا لا، یعنی شیطان) داخل ہو کر اپنا کام کر سکتا ہے، تو وہاں برحقؑ کی رسائی انسانوں کے دل و دماغ تک کیوں نہ ہو۔ والسلام۔
خاکپائے مومنان
نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی
۶۔ جنوری ۱۹۸۵ء
۲۰۲