چراغ روشن

اور

حکیم پیر ناصر خسروایک علمی کائنات

کوہِ قاف کا راستہ

کوئی کہتا ہے کہ کوہِ قاف ہے اور کوئی کہتا ہے کہ دنیا میں کوہِ قاف کا کوئی وجود ہی نہیں، میں عرض کروں گا کہ کوہِ قاف اپنے بیشمار عجائب و غرائب کے ساتھ ایک ایسے مخفی مقام پر موجود ہے کہ اس کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔ مگر حقیقی علم اور روحانیت، پس کتنی بڑی نیک بختی ہے ایسے خاص مومینن کی جوہمیشہ حقیقی علم اور روحانیت کی مقدّس خدمت میں لگے ہوئے ہیں جیسے جناب کیپٹن محمد یاربیگ ابنِ حُرمت اللہ بیگ حیدرآباد (ہونزہ) جناب احمد حسین ابنِ نیت شاہ، کریم آباد (بلتت ) جناب عبدالمجید ابنِ نعمت خان ، حسن آباد اور جناب فرمان علی ابنِ علی حرمت آغاخان آباد (علی آباد)۔

 

پیش گفتار

ابنِ مریم(حضرتِ عیسٰی) علیہ السّلام نے بارگاہِ خداوندی میں یوں عرض کی: اللَّہُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَاء ِ تَکُونُ لَنَا عِیْداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَۃً مِّنکَ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَیْرُ الرَّازِقِیْن(۰۵: ۱۱۴)۔

اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر(روحانی اور عقلانی) آسمان سے ایک خوان (پرُاز نعمت) نازل فرما کہ وہ ہم لوگوں کے لئے، ہمارے اگلوں کے لئے اور پچھلوں کے لئے  عید کا دن (یعنی باربار آنے والا جشن،خوشی کے عود کرنے کا دن) قرار پائے، اور (ہمارے حق میں) تیری طرف سے یہ ایک معجزہ ہو، اور تو ہمیں (عقل و روح کی) روزی دے اور تو سب روزی دینے والوں سے بہتر ہے (۰۵: ۱۱۴)۔

اس میں اہل دانش کو ذرا بھی شک نہیں کہ آیۂ مذکورۂ بالا سُنّتِ الٰہی کے مطابق ایک کلّیہ ہے، جس کا تعلق تمام زمانوں سے ہے، جیسا کہ اس دعا میں ماضی، حال، اور مستقبل کے مومنین کا ذکر موجود ہے، کیونکہ حضرتِ عیسٰیؑ اپنے وقت میں خدا کا نور تھا (۶۱: ۶ تا ۸) اس لیے اُس نے ہر زمانے کے

 

۵

 

اہلِ ایمان کے حق میں یہ دعا کی تھی، اور ظاہر ہے کہ کشف و کرامت کی خوشیوں کی یہ عید اوّلین، حاضرین اور آخرین سب کے لئے ہے، اور لفظ’’عید‘‘ پر غور کریں کہ عید عَوۡد سے ماخوذ ہے، جس کے معنی لوٹنے کے ہیں، یہاں یہ قانون بھی یاد رہے کہ ظاہری عید اپنے وقت پر آتی ہے، مگر روحانی عید وقت سے بالاتر ہے۔

اگر چہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مائدۂ عیسٰیؑ ایک محدود وقتی معجزہ تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر انسانِ کامل کی مکمل روحانیت کا عرصہ ہے، جس کی چند دلیلیں یہ ہیں:

(الف:) اس دعا میں جس آسمان کا ذکر ہے، وہ آسمان عقلِ کلّی ہے، اس لئے یہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی روحانیت کا دستر خوان ہے (ب:) اس میں اطمینانِ قلبی مقصود ہے، جو مشاہداتِ روحانیت و عقلانیت کے سوا ممکن نہیں (ج:) اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جو کل کے لئے وعدہ کیا گیا ہے، اس کا یقین آج ہوجائے: صدقتنا ۰۵: ۱۱۳ (د:) یہاں جو لفظِ شاھدین آیا ہے (۰۵: ۱۱۳) وہ بتاتا ہے کہ روحانیت کا مشاہدہ کرنا مطلوب ہے، (ھ: ) لَنَا (ہمارے لئے) کی تشریح ہے: اوّلین و آخرین، یعنی تمام انبیاء و أئمّہ علہیم السّلام اور اہلِ ایمان(و:) آیات معجزہ کا نام ہے، اور خدا کا معجزہ عقل، روحانی اور دائمی ہوا کرتا ہے، وہ نقش بر آب نہیں کہ فوراً

 

۶

 

ہی مٹ جائے(ز:) یہاں رزق مطلوب ہے، اور وہ عقل و جان کی ہرگونہ غذا کا نام ہے۔

خداوند تعالیٰ کا ہر امر منتظر نہیں، بلکہ فرمایا گیا ہے، اس کا ہر کام کیا ہوا ہے، اور اس کا ہر وعدہ عمل میں آچکا ہے (۳۳: ۳۷، ۰۸: ۴۴) یعنی اللہ کا کوئی امر نافرمودہ نہیں، نہ کوئی کام ناکردہ ہے، تو پھردعا اور طلب کیوں ضروری ہوئی؟ آیا اس قانونِ ازل کے مطابق عقلی اور روحی نعمتوں کا دسترخواں نازل شدہ نہیں ہے؟ کیا خدا کا کوئی کام ناکردہ(UNDONE)  ہوسکتا ہے؟

جواب: بیشک پروردگارِعالم کا فرمان فرمایا ہوا ہے، اس کا کام کیا ہوا ہے، اور اس کا وعدہ پورا ہوچکا ہے، نیز باطنی نعمتوں کا دسترخوان ہمیشہ کے لئے نازل ہوچکا ہے، لیکن پھر بھی قول و فعل اور دعا کی سخت ضرورت ہے، خصوصاً ہادیٔ برحق کی دعا بے حد ضروری ہے، کیونکہ خداتعالیٰ نے تو ہر نعمت عطا کر رکھی ہے (۱۴: ۳۴) لیکن ہمارے اعمال کی وجہ سے پردے حائل ہوگئے ہیں، پس کشفِ غطا یعنی پردہ کھولنے کے لئے علم و عمل کی بہت بڑی اہمیت ہے۔

اس بحث کی روشنی میں ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پیر ناصر خسرو ان عظیم المرتبت حکماء و عرفاء میں سے ہیں، جن کے لئے روحانی اور عقلی نعمتوں کا دستر خوان ہمیشہ بچھا ہوا رہتا ہے، چنانچہ حضرتِ پیر

 

۷

 

نے اس سماوی دسترخوان سے ایک دوسرے دسترخوان کو سجایا اور وہ ان کی گرانقدر کتابوں کا پُرحکمت ذخیرہ ہے۔

حکیم پیر ناصر خسرو کے قلبِ مبارک پر امامِ زمنؑ کا نور طلوع ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ اُن پر قرآنِ حکیم اور دینِ اسلام کے بے شمار تاویلی اسرارمنکشف ہوگئے، اسی نورِ ہدایت کی صورت میں امامِ برحقؑ نے ان کو رسمِ چراغ روشن بطرزِ جدید جاری کرنے کا حکم دے دیا، چنانچہ آپ کے شاگردوں نے رفتہ رفتہ چراغنامہ تیار کیا، اور موصوف پیر کے حلقۂ دعوت میں اس کا خوب رواج ہوا۔

رسمِ چراغ روشن بے شمار خوبیوں کا مجموعہ ہے، اگر تفصیل سے اس کا ذکر کیا جائے تو اس سے ایک اور کتابچہ تیار ہوسکتا ہے، لیکن ہم اختصار سے کام لینا چاہتے ہیں، اور اس میں بڑے بڑے مذہبی فوائد پنہان ہونے کی روشن دلیل یہ ہے کہ مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ اسے پُرازحکمت قرار دیتے ہیں، اسی لئے مولا نے اس درخواست کو نامنظور فرمایا، جو اس مقدّس رسم کو ترک اور ختم کرنے کے لئے لکھی گئی تھی۔

میرے خیال میں چراغ روشن فقہی مسئلہ ہرگز نہیں، یہ محض ایک خاص رسم اور ایک مخصوص عملی تاویل ہے۔ لہٰذا اس میں حلال و حرام کی

 

۸

 

بحث کی کوئی گنجائش نہیں، اور نہ اس میں متوّفی کی عمر کی کوئی حد مقرّر ہے، جبکہ دعوتِ بقاء کسی گھر کے افراد کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، جن میں چھوٹے بڑے سب شامل ہوتے ہیں، کیونکہ یہ عظیم کارِثواب بھی ہے۔

 

فقط بندۂ عاجز

نصیرالدّین نصیرؔ ہونزائی

۹۳۔۴۔۲۲

 

۹

 

شمالی علاقہ جات میں اسماعیلی دعوت کا پسِ منظر

 

حکیم ناصر خسرو کی ابتدائی زندگی:

مولوی عبدالرّزاق کانپوری جو سفرنامۂ ناصر خسرو کے مترجم ہیں، حکیم موصوف کے”عہدِ طفولیت و تعلیم و تربیت” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں، مدارجِ اربعہ کے بعد جب نفسِ ناطقہ میں ادراک کا مادّہ پیدا ہوگیا تو چھٹے سال ناصر کی مکتب نشینی ہوئی اور نو سال کی عمر میں حافظِ قرآن ہوگیا، اور پانچ سال کی محنت میں علمِ لغت صرف و نحو،  عروض و قافیہ اور حساب و سیاق حاصل کیا۔

تحصیلِ حبادیات کے بعد تین سال میں نجوم، ہیئت، رمل، اُقلیدس اور مجسطی کی تکمیل ہوئی،جب عمر کی سترہ (۱۷) منزلیں طے ہوگئیں تو علمِ ادب، فقہ، تفسیر اور حدیث کا درس شروع ہوا، اور اسی سِلسلے میں امام محمّد شیبانی کی کتاب جامع کبیر اور سیرِ کبیر بھی ختم ہوئی، اور قرآن کی تکمیل کے لئے تقریباً تین سو (۳۰۰) تفسیریں پٖڑھیں، ان میں کچھ تو داخلِ نصاب

 

۱۰

 

تھیں اور بقیہ کا بطورِ خود مطالعہ کیا، تفسیر اور علوم القرآن کے بعد فلسفۂ یونان کو پڑھا، چنانچہ پندرہ سال میں اس نصاب کی تکمیل ہوئی اور عالمِ شباب تک بلخ میں رہا، عربی کے علاوہ وہ ترکی، یونانی، عبرانی اور ہندوستانی (سندھی) زبان بھی جانتا تھا اور فارسی مادری زبان تھی، اور عبرانی کی تصدیق سفر نامہ سے ہوتی ہے۔۔۔۔۔

جب ناصر کی عمر۳۲ سال ہوگئی اس وقت تورات، زبور، انجیل کو یہودی علماء سے پڑھا، اس کے بعد بطورِ خود ہر سہ کتب کو کامِل چھ سال تک محققانہ اور مناظرانہ حیثیت سے دیکھا، اس کے بعد منطقِ الہٰی و طبیعی (مصنفۂ حکیم جاماسب) طب اور ریاضت کو ختم کیا، اور سب سے آخر میں تصوّف، روحانیت، علمِ تسخیر اور طلسمات کو حاصل کیا جس کے ماہر بابُل میں موجود تھے، اور تقریباً چوالیس (۴۴) سال کی عمر میں ناصر خسرو ایک عدیم  النظیرحکیم، فلسفی، عالم، مناظر اور شاعر بن گیا، اور یہ جملۂ علوم بلخ و بخارا، عراق اور اضلاع خراسان میں حاصل کئے جس کی تردید نہیں ہوسکتی ہے، جہاں ہر علم و فن کے باکمال علماء و حکماء موجود تھے، اور علمائے یہود و نصاریٰ نے ناصرسے اپنی مذہبی کتابیں پڑھی تھیں۔

 

۱۱

 

حکیم ناصر خسرو کا ایک پُرحکمت خواب:

آپ لکھتے ہیں: “میں شراب نوشی کرتا تھا، آنحضرت صلعم کا ارشادِ گرامی ہے: قولوالحقَّ وَ لَو عَلیٰ انفُسِکُم۔ سچی بات کہو اگرچہ وہ تمہارے حق میں مُضرّ کیوں نہ ہو۔

ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ کوئی بزرگ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ: ناصر! یہ شراب جو انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے کب تک پیتے رہو گے؟ اگر خودی میں رہو تو بہتر ہے۔

میں نے جواباً عرض کیا کہ “شراب کے سوا حکیموں نے کوئی ایسی شے ایجاد ہی نہیں کی ہے جو غم غلط کرنے والی ہو۔” بزرگ نے جواب دیا کہ “بے خودی اور بے ہوشی میں بھی کہیں راحت ملتی ہے؟ تم ایسے شخص کو حکیم مت کہو جو ہوشیاروں کو بے ہوش بنادے، بلکہ حکیم سے ایسی شے مانگو جس سے عقل و ادراک میں اضافہ ہو۔” تب میں نے سوال کیا کہ “وہ شے کہاں سے دستیاب ہوسکتی ہے؟” فرمایا “جو ڈھونڈتاہے وہ پاہی لیتا ہے۔‘‘ اور قبلہ کی طرف اشارہ کرکے خاموش رہا۔

 

۱۲

 

بعض سکالرز (عبدالوہاب طرزی، مؤلف کتاب “ناصر خسرو بلخی” ص۲۲، پروفیسر ہینری کوربن: مقدمہ جامع الحکمتین فرانسوی ص۳۰) کا خیال ہے کہ ناصر خسرو جس خواب کا ذکر کیا ہے وہ کسی اسماعیلی داعی سے متاثر ہونے کی مثال ہے، میرے نزدیک یہ خیال صحیح ہے، کیونکہ بسا اوقات حکیم ناصر خسرو رمزوکنایہ سے کام لیتا ہے، چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ کسی عظیم المرتبت داعی نے شراب نوشی کی مخالفت کی اور امامِ وقت کی نشاندہی کی جو عقلی راحت کاسرچشمہ تھا، ورنہ خواب جیسے بیان ہوا ہے وہ حالت شراب نوشی میں اتنا منظّم اور نورانیت سے بھر پور نہیں ہوسکتا ہے۔

 

پیر ناصر خُسر و یُمگان میں:

کتاب”ناصر خسرو و اسماعیلیان‘‘ صفہ ۱۸۴ پر درج ہے کہ درّۂ یمگان حجتِ خراسان (یعنی ناصرِخسرو) کی حقیقی کرسی بن گیا تھا، اور تحریر ہے کہ لوگوں کا شاہِ ناصر کہنا غلط نہیں ہے، یعنی جس طرح قریبی حلقۂ دعوت نے ان کو علم و حکمت کا بادشاہ مانا، وہ درست ہے، کتاب مذکورہ کے مؤلّف نے لکھا ہے کہ ناصر خسرو نے یمگان میں اپنے

 

۱۳

 

سِلسلہ دعوت کو جاری و ساری رکھا تھا، وہ اطراف میں دور دراز تک لوگوں کو اسماعیلی مذہب سے متعلق دعوت نامے بھیجا کرتے تھے،جیسا کہ ان کے دیوان میں ہے: (ص ۳۸۵)

ہر سال یکی کتابِ دعوت

با طراف جہان ہمی فرستم

تا داند خصم من کہ چون تو

در دین نہ ضعیف خواروستم

اپنے کئی قصائد میں فرماتے ہیں کہ: اگرچہ میں وطن مالوف سے مہجور و دور ایک غار میں مقیم ہوں، لیکن اپنے دوستوں کی نظر میں بہت معزز ومحترم ہوں، چنانچہ روشنائی نامہ میں فرمایا ہے:

زحجت این سخنہایاد میداد

کہ دریمگان نشستہ پادشہ وار

مذکورۂ بالا کتاب میں یہ بھی ہے کہ ناصر خسرو یُمگان سے مصر اپنے مرکز دعوت کے ساتھ خط و کتابت کرتے تھے،آپ نے اپنی اکثر فلسفی کتابیں یمگان میں لکھی ہیں، مثال کے طور پر روشنائی نامہ، جامع الحکمتین، زادالمسافرین وغیرہ۔

 

دعوتِ ناصری کا مرکزومنبع:

اہلِ دانش کے سامنے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیان ہے کہ چترال، شمالی علاقہ جات، سریقول اور یارقند میں جب بھی اسماعیلی دعوت

 

۱۴

 

کی روشنی پھیل گئی ہے، وہ بدخشان کی طرف سے آئی ہے، پیروں، داعیوں معلّموں اور نمائندوں نے علم و حکمت اور امام شناسی کے جیسے چراغ روشن کئے، ان کا سرچشمۂ نور ایک ہی تھا جسے پیر نامورحکیم ناصرخسرو نے بحکم امامِ عالیمقام بصد ہزار مشقت بدخشان میں تیار کیا تھا، اس بے پناہ روشنی کے ذخائر بڑی ضخیم کتابوں کی صورت میں تھے، اور ایک ایسے علمی لشکر کی شکل میں بھی، جو ناصری علم وحکمت کے اسلحہ سے لیس ہوکر ظلمتِ نادانی کے خلاف جنگ کرسکتا ہے۔

اس میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ اگر حضرت حسن صباح نے ایک ظاہری قلعہ بنایا تو پیرناصر نے بدخشان میں علم و حکمت کا ایک اور قلعہ بنایا، جیسے ایک ہلاکوخان کیا ہزار ایسے ظالم بھی نہیں توڑسکتے، اس کا ثبوت حکیم ناصر کی وہ گرانمایہ کتب ہیں جو نہ صرف دنیائے اسماعلیت کے لئے باعثِ فخروناز ہیں، بلکہ اقوامِ عالمِ کے ہر علمی ادارے میں بھی موجود و محفوظ ہیں۔

حکیم ناصر خسرو نے بڑی جراتمندی اور بڑی حکمت سے دعوت کا فریضہ انجام دیا اور جیسی بھی حالت پیش آئی، اس سے فائدہ اٹھایا، یعنی جب آزادی اور موقع میسر آتا تو زبانی دعوت اور جہاد کرتے اور جب مخالفین کی وجہ سے عرصۂ حیات تنگ ہوجاتا، تو قلمی طور پر اس کام میں مصروف ہوجاتے تھے، تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دعوت و نصیحت کا سلسلہ جاری رہے۔

 

۱۵

 

ہُنزہ میں اثناعشری مذہب کا آغاز:

زمانہ قدیم میں باشندگانِ ہنزہ دینِ اسلام سے بیگانہ تھے، مردوں کو جلانا یا بعض وابستہ چیزوں کے ساتھ دفنانا ان کی رسومات میں شامل تھا، بعض قرائن سے ایسا لگتا ہے کہ پورے علاقے میں بُدھ مت اور زرتشتی مذہب کی روایات پھیلی ہوئی تھیں، لوگ بویو(BOYO) کی پرستش کرتے تھے، بوئن (BOYN) جس کی جمع بویو ہے، کتے کے پلّے(بچہ) کی طرح ایک چھوٹا سا جانور تھا،جو کسی درخت سرو کوہی(گل) کے نیچے یا سنگلاخ سے نکلتے تھے، ان کے لئے کوئی نذرانہ از قسم مکھن یا دودھ یا خونِ گوسفند رکھا جاتا تھا، اور اگر وہاں سے بویو پیدا ہوگئے اور اس نیازکو چاٹ لیا تو وہ لوگ اُسے شرفِ قبولیت سمجھتے تھے۔

کہتے ہیں کہ جب میوری تھم کا بیٹا عیݳ شݹ دوم سُخݳݷ ہنزہ کا حکمران ہوا تو اس نے  بلتستان سے ابدال خان کی بیٹی شہ خاتون سے شادی کی، اور اسی رشتہ و رابطہ کی بدولت  بلتستاب سے ہُنزہ میں بصورتِ اثنا عشری دعوتِ اسلام کا آغاز ہوا، اور وہاں بتدریج اثنا عشریت پھیل گئی، تاہم بعض لوگ عرصۂ  دراز تک بویو کو بھی مانتے تھے ہر چند کہ مبلغین و ناصحین انہیں اس بت پرستی سے باز لانے کی کوشش کرتے تھے ۔

 

۱۶

 

ہنزہ میں اسماعیلی دعوت کی روشنی کا آغاز:

ہنزہ میں عیݳ شݹ خاندان کا پہلا حاکم گِر کِس تھا، اس کے بعد پانچ نمبر پر عیݳ شݹ سُخݳݷ ابن مَیُوری تھم کا نام آتا ہے، جس نے بلتستان سے ابدال خان کی بیٹی شہ خاتون سے شادی کرلی، اور حاکمِ وقت کے اسی رشتے کی وجہ سے بلتستان سے ہنزہ میں اثنا عشری مذہب کی تبلیغ کی گئی، اور رفتہ رفتہ لوگ اس مذہب میں داخل ہوگئے، تاہم بعض لوگ اپنی پُرانی عادتوں سے باز نہیں آرہے تھے۔

اس کے بعد ۱۹ نمبر پر سِلُم خان کا نام آتا ہے، جس نے آخری عمر میں اسماعیلی مذہب کو صرف ذاتی طور پر قبول کرلیا، اور اس نے اس پاک مذہب میں تنہائی محسوس کرتے ہوئے سید حسین ابنِ شاہ اَردَبیل سے پوچھا کہ ’’میری تجہیز و تکفین وغیرہ کون کرے گا؟‘‘ پیر نے فرمایا کہ اِن شاء اللہ تعالیٰ اس وقت اسماعیلی داعیوں میں سے کوئی ضرور آئے گا۔

جب سِلُم خان قریب المرگ ہوگیا تو اسے اپنی تجہیز و تکفین اور نمازِجنازہ کی بڑی فکر ہوئی، اور وہ اس بات کا منتظر تھا کہ حسبِ وعدہ پیر آخری وقت میں کوئی آئے گا،لہٰذا وہ اپنے معتمدین سے کہتا

 

۱۷

 

رہتا تھا کہ دیکھو، کیا کوئی آرہا ہے، آخرکار خبر ملی کہ ہاں دور میدان سے کوئی سوار اس طرف آرہا ہے، وہ پیر شاہ حسین ابنِ اَردَبیل تھے، جنہوں نے حَسبِ وعدہ سِلُم خان کو تسلّی دی اور جب اس کا انتقال ہوگیا تو اس کی تجہیز و تکفین کی اور نمازِ جنازہ پڑھی۔

نوٹ: حضور موکھی خلیفہ مہربان شاہ(۱۹۱۰۔۱۹۹۱ء،ابنِ گل بہار شاہ)کھِسݣاݷ سید کے حوالے سے بتاتے تھے کہ مولانا قاسم شاہ علیہ السّلام کی امامت کے زمانے میں تاج مغل نے گلگت کے بعد ہونزہ کو بھی فتح کرکے اس کے باشندوں کو اسماعیلی بنایا تھا، تاہم ایسا لگتا ہے کہ اس نے دعوتِ حق کا کوئی خاص انتظام نہیں کیا، اس لئے لوگ یہ پاک مذہب بھول گئے، یہ واقعہ تقریباً چھ سو۶۰۰ سال کا ہے۔

 

نصیر ہونزائی

۹۳۔۴۔۱۱

 

۱۸

 

چراغِ روشن ۔ عملی تاویل

 

عنوانِ بالا کا واضح مطلب ہے: ’’رسمِ چراغِ روشن ایک عملی تاویل۔‘‘ تاویل لفظاً کسی چیز کو اوّل کی طرف لوٹانے کو کہتے ہیں، اور اصطلاحاً باطنی حکمت کا نام ہے، جو منازلِ روحانی سے لے کر مراتبِ عقلانی کے آخر تک پائی جاتی ہے، تا آنکہ عُرفاء کو یقین آتا ہے کہ تاویلی حکمت کا اصل سرچشمہ آفتابِ  نورِ ازل ہی ہے، یعنی گوہرِعقل، اسی مقام پر جیسی عظیم الشّان اور بے مثال حکمت ہے، اسی کی قرآنِ مجید میں یوں تعریف کی گئی ہے:

یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًا

جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی،اسے حقیقت میں خیر کثیر مل گئی (۰۲: ۲۶۹) حکمت تمام نعمتوں کی بادشاہ ہونے کی وجہ سے فوقانی ہے، اور دوسری ساری نعمتیں رعایا کی طرح تحتانی ہیں، اگر آپ یہ معلوم کرلینا چاہیں کہ براہِ راست باطنی حکمت یا تاویل کن مقدّس ہستیوں کو عطا ہوتی ہے؟ تو آپ قرآنِ پاک میں دیکھ سکتے ہیں

 

۱۹

 

کہ ایسے حضرٰت انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام ہیں:

نورِ نبوّت حکمت کا زندہ گھر ہے،اور نورِ امامت اس کا زندہ دروازہ، اس کا واضح اشارہ یہ ہوا کہ قرآن وحدیث کی حکمت ہمیشہ امامِ عالیمقامؑ کے توسط سے ملتی رہی ہے، اور اس پر عمل بھی ہوتا رہا ہے، کیونکہ حکمت کا مقصد ہی عمل ہے، جب کہ حکمت کے معنی ہیں دانشمندی سے کام کرنا، چنانچہ قرآن کا اشارہ ہے کہ لقمان کو حکمت اس لئے دی گئی تھی کہ وہ اللہ کا شکر حکمت کے ساتھ کرے، یعنی اس کا ہر نیک قول و فعل حکمت پر مبنی ہو، تاکہ حقیقی معنوں میں اس بے مثال نعمت کی شکرگزاری اور قدردانی ہو۔

عربی کا کوئی لفظ جہاں کسی لغات میں ہے تو عموماً اس کی کوئی تاویل نہیں ہوتی، اگر یہی لفظ قرآنِ حکیم میں آیا ہے، تو اس کی تاویل ہوسکتی ہے،جیسے ’’حبل‘‘ عربی میں رسی کا نام ہے، اور قرآن میں آنے سے قبل اس میں کوئی حکمت نہ تھی، لیکن جب یہی لفظ قرآنِ پاک میں داخل ہوکر اسمِ اللہ سے مضاف ہوگیا، اور حبل اللہ (خدا کی رسّی) کہلانے لگا، اور اس کو ایک زبردست تمثیلی حیثیت مل گئی، تو پھر اس میں بڑی تاویلی حکمتوں کی گنجائش پیدا ہوگئی، ورنہ رسّی وہی بے جان اوربےعقل چیز ہے، جسے لوگ اپنی مرضی سے استعمال کرتے رہتے ہیں،

 

۲۰

 

یہاں تک کہ اگر کوئی آدمی اس سے خود کشی کا پھندا بنالے، تو اس حال میں بھی وہ کچھ منع نہیں کرسکتی، اس کے برعکس خدا کی رسّی عقلِ کامل اور روحِ قدسی کے جملہ اوصاف سے موصوف اور ہر عیب سے پاک و برتر ہے، جو طولِ زمانہ پر محیط، ہمہ رس اور ہمہ گیر ہے، اس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے، اور دوسرا سرا لوگوں کے سامنے تا کہ جو شخص چاہے وہ اس کو مضبوطی سے تھامے رہے، یہ تاویلی حکمت کا ایک ناقابلِ تردید نمونہ ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم میں جہاں جہاں مثالیں آئی ہیں، وہاں ان کی تاویلات ہوا کرتی ہیں۔

اب ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں، اور سب سے پہلے یہ سوال خودبخود ہمارے سامنے آتا ہے کہ رسم چراغ روشن کے عملی تاویل ہونے کی دلیل کیا ہے؟ یہ تاویل کس آیۂ کریمہ سے متعلق ہے؟ آیا اس عمل کے بارے میں قرآن کا کوئی اشارہ ہے؟ جواباًعرض ہے کہ قرآن اور اسلام کی کوئی چیز تاویل کے بغیر نہیں، لہٰذا ہمارا مذہب تاویلی ہے، حکیم ناصرخسرو تاویل کے قائل تھے، اس لئے  آپ نے اپنے حلقۂ دعوت میں چراغِ روشن کو حضرتِ امام علیہ السّلام کے منشاء کے مطابق جاری کیا، حالانکہ یہ رسم محدود اور مخصوص طریق پر شروع سے چل کر ختم ہورہی تھی، جیسے کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے

 

۲۱

 

آنحضرت صلعم نے اپنے ایک صاحبزادے کی وفات پر بہت ہی مختصر چراغِ روشن کیا تھا، چنانچہ چراغ نامہ میں یہ قول ہے:

چراغِ اوّل بدستِ مصطفٰے بود

دلیلش با علیٔ مرتضٰی بود

مذکورہ روایت میرے نزدیک صحیح ہے، اور اس کی ایک شہادت یہ ہے: جب امام محمد باقر علیہ السّلام کا انتقال ہوا، تو امام جعفر صادق علیہ السّلام نے اس گھر میں چراغ جلانے کا حکم  دیا، جس میں حضرت (یعنی امام محمد باقرؑ) رہا کرتے تھے۔ (الشّافی،جلد سُوم،ص۲۱۴)

’’چراغِ روشن‘‘ کو عملی تاویل اس معنی میں کہا کہ یہ ایک پُرحکمت عمل ہے، جس کے توسط سے آیۂ مِصباح (۲۴: ۳۵) کی بے مثال کلیدی حکمتوں پر غور وفکر کرنا مقصود ہے، اس آیۂ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے، خدا تو (عالمِ شخصی کے) آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا، اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، نور پر نور ہے، خدا اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے، وہ لوگوں کو مثالیں بیان کرتا ہے اور

 

۲۲

 

خدا ہر چیز کو خوب جانتا ہے (۲۴: ۳۵)۔

حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے مذ کورہ آیۂ مبارکہ کی طرف جس حکیمانہ انداز میں پر زور توجّہ دلائی ہے، اور جس شان سے اس کی تاویلی روح کی نشاندہی فرمائی ہے، وہ یقیناً ہمارے  لئے روشن ہدایات میں سے ہے۔ (ملاحظہ ہو: کتابچہ: اسلام میرے مورثوں کا مذہب، ص ۶۔۷)

آیۂ مصباح کے بعد جو ارشاد ہے، اس کا ترجمہ اور قوسین میں مفہوم اس طرح ہے: (مصباح = چراغِ روشن کا عملی نمونہ) ان گھروں میں ہے، جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کے ذکر کا خدا نے اذن دیا ہے، ان میں ایسے لوگ صبح وشام اس کی تسبیح کرتے ہیں (۲۴: ۳۶) اس کی کم سے کم حکمیتں دو ہیں: پہلی حکمت: انبیاء و أ ئمّہ علیہم السّلام اور مومنین کے ظاہری گھروں میں آیۂ مصباح  کا تاویلی چراغ روشن کیا جاسکتا ہے، کیونکہ وہ گھر ذکرِالٰہی کی وجہ سے بلند ہیں، کہ ان میں صبح و شام خدا کی تسبیح کی جاتی ہے، پس ایسے گھروں میں چراغِ روشن کا مقدّس عمل کیا جاسکتا ہے۔

دوسری حکمت: پیغمبرؐ اور امامؑ کی تعلیم و ہدایت کی روشنی میں اہلِ ایمان اپنے باطنی گھروں (قلوب) میں نورِ خداوندی کے چراغ

 

۲۳

 

کو روشن کرسکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ خدائے علیم و حکیم نے اپنے پاک نور کی تشبیہ و تمثیل آفتابِ عالمتاب سے دینے کی بجائے گھر کے چراغ سے دی، کیونکہ جو جو اشارے چراغ میں ہیں، وہ سورج میں کہاں، جیسے علم، عمل، ریاضت، یعنی باطن میں ایک مقدّس گھر بنا کر اس کی دیوار کے طاق میں ایک روشن چراغ سجانے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، پھر دیکھنے اور سوچنے کی خاطر ظرفِ چراغ، تیل، بتی، آگ، شعلہ، دُھواں، پھیلی ہوئی روشنی اور ایک چراغ سے دوسرے چراغ کو روشن کرنا، اس میں انسانِ کامل کی معرفت کے لئے بہت سی حکمتیں ہیں، مگر سورج میں یہ حکمتیں نہیں۔

اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی سب سے روشن اور فیصلہ کن آیات کی شناخت حاصل کریں، تو آیاتِ نور کو لیں اور خوب غور سے ان کا مطالعہ کریں، تا کہ اس عمل سے بہت سی حقیقتیں منکشف ہوجائیں، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہو کہ ان سب خزانوں کی کُنجیاں تو آیۂ مصباح کے خزانے میں پوشیدہ ہیں، آپ وہاں سے ہر نورانی کنز کی کُنجی لے کر علم و حکمت کی لازوال دولت سے ابدی طور پر مالامال ہوسکتے ہیں، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ آیاتِ نور کے تین درجے ہیں، جو اللہ، رسولؐ اور أئمّہؑ کے بارے میں ہیں،

 

۲۴

 

کائنات کی روشن آیات بھی تین درجوں میں ہیں: سورج، چاند اور ستارے، اور اسی قانون کے مطابق عالمِ شخصی میں بھی تین مراتب کی نشانیاں (آیات) ہیں، یعنی عقل، روح اور احساس وادراک کی بہت سی قوّتیں، جیسا کہ نقشۂ درجِ ذیل سے یہ مطلب واضح ہو جاتا ہے:

نقشۂ آیاتِ نور

عالمِ شخصی کائنات قرآن
عقل سورج آیۂ مِصباح(۲۴: ۳۵)
روح چاند آیۂ سراجِ مُنیر(۳۳: ۴۶)
انسانی قوّتیں ستارے آیۂ کِفِلیَن(۵۷: ۲۸)

 

نقشۂ مرقومۂ صدر سے ظاہر ہوا کہ عالمِ قرآن کے خورشیدِ انور کا نام مِصباح (روشن چراغ) ہے، کیونکہ جو باطنی اور نورانی چراغ اپنی نوعیت کی کائنات کو منوّر کر رہا ہو، وہ آفتاب کیوں نہ کہلائے، یہ بات سب جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا چراغ ہے ہی نہیں، جو سورج کی طرح کام کرے، اور اس کا نام ایک جانب سے چراغ ہو، اور دوسری

 

۲۵

 

جانب سے سورج، لیکن نورِباطن ’’اصغر واکبر‘‘ سب کچھ ہے، اس لئے وہ چھوٹا بڑا ہر کام کرسکتا ہے، اور کثیر کاموں کی وجہ سے ناموں کی کثرت ہوسکتی ہے۔

سورۂ نبا (۷۸: ۱۳) میں ارشاد ہے: وَجَعَلْنَا سِرَاجاً وَہَّاجاً: اور ہم نے (سورج کو) روشن چراغ بنایا (۷۸: ۱۳) آپ خوب سوچ لیں، کہ اس میں سورج کی بہت بڑی تعریف کی گئی ہے، لیکن کس طرح؟ روشن چراغ کی تشبیہ و تمثیل دے کر، اس کی حکمت یہ ہے کہ قرآن اور روحانیت میں جہاں کہیں بھی سورج کا ذکر آئے، یا  خود سورج کا مشاہدہ ہو، تو جان لینا کہ یہ وہی روشن چراغ ہے، جس کی تعریف و توصیف آیۂ مصباح میں آئی ہے، اس سے پتا چلا کہ’’چراغِ روشن‘‘ میں مرکزِ انوارِباطن کی تاویل پوشیدہ ہے، بظاہر ایک رسم سہی، لیکن اس کی باطنی حکمتیں بڑی عجیب و غریب ہیں، ان شاء اللہ، امامِ زمان علیہ السّلام کی تائید سے ہم یہاں بعض حکمتوں کا تذکرہ کریں گے، تاکہ عزیزوں اور دوستوں کی معلومات میں گرانقدر اضافہ ہو۔

حکمت نمبر۱: چراغِ روشن کا تعلّق بالعموم تمام آیاتِ نور سے اور بالخصوص آیۂ مصباح سے ہے، بِنا برین اس میں نور کی مختلف مثالیں اور تاویلیں پنہان ہیں، چنانچہ اس کا ایک بڑا اہم نمونہ تجدّد

 

۲۶

 

ہے کہ شعلۂ چراغ میں لمحہ بہ لمحہ تبدیل و تجدید کا سلسلہ جاری ہے، اس سے یہ راز پردۂ خفی سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ نورٌعلیٰ نور(ایک روشنی پر دوسری روشنی) کی عمل میں کوئی تاخیر اور کوئی وقفہ نہیں، بلکہ وہ سلسلہ یعنی زنجیر اور رسّی کی طرح ہے، اور شعلے کے اس تجدّد میں بے شمار حکمتیں ہیں۔

حکمت نمبر۲: آیۂ مصباح میں نورونار کے دونوں لفظ آئے ہیں، چراغِ روشن میں بھی آگ اور روشنی لازم و ملزوم ہیں، پس اس کی حکمت یہ ہے کہ نار عشق ہے اور نور علم و معرفت، چنانچہ جب تک کوئی مومن آتشِ عشقِ مولا میں جلتا نہ رہے، اس کے دل میں علم و معرفت کی روشنی پیدا نہیں ہوگی، آگ کی یہ مثالیں بھی خالی از حکمت نہیں کہ اگر آتش زیرِخاکستر ہے تو یہ پوشیدہ عشق کی مثال ہے، چنگاری کا اشارہ ہے کہ کم عشق، انگاروں کے معنی ہیں خاموش عشق، اور شعلہ متحرک عشق کو ظاہر کرتا ہے۔

حکمت نمبر ۳: دعوتِ بقا ہو یا دعوتِ فناء  اس موقع پر حسبِ دستور جب کسی گھر میں مقدّس چراغ فروزان ہونے لگتا ہے، اور جب تک وہ روشن رہتا ہے، اس دوران چراغِ روشن کی روشنی کی موجودگی میں کسی اور روشنی کو استعمال کرنے یا رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی

 

۲۷

 

ہے، تا کہ اس گھر میں وہی روشنی منفرد اور یگانہ قرار پائے، اس کی تاویل یہ ہے کہ دراصل نور ایک ہی ہے اور وہی نورِ واحد عالمِ شخصی کے آسمانوں اور زمین کو منور کردینے کے لئے کافی ہے۔

حکمت نمبر۴: رسمِ چراغِ روشن کے آغاز میں یہ بات بھی ہے کہ خلیفہ صاحب کے سامنے قاضی بحالت اِستادگی اجتماعی درودِ شریف کے ساتھ ظرفِ چراق کو تین دفعہ زمین سے بلند کر کے رکھ دیتا ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کا نور ایک ہی ہے، ہر چند کہ اس کی نِسبتیں تین ہیں: نسبتِ خدا، نسبتِ رسول اور نسبتِ امامِ زمان، اور جب چراغ کو فروزان کیا جاتا ہے، تو اس وقت بھی ایک بار کچھ دیر کے لئے چراغِ منوّر کو زمین سے ہاتھ میں اٹھا لیا جاتا ہے ، تاکہ اس حکمتی اِشارے سے یہ ظاہر ہو کہ اللہ کا نورِواحد آسمان میں بھی ہے اور زمین پر بھی۔

حکمت نمبر۵: چراغ روشن کرنے کا دوسرا نام دعوت ہے، جس کا اصل مقصد دو مرحلوں میں ہے، اوّل اسلام و ایمان کی طرف بلانا جس طرح ماضیٔ بعید میں ہوا اور دوم روحانیت کے درجاتِ عالیہ اور نورِ معرفت کی طرف بلانا، جیسے بعد کے دور میں یہ  کام ہونے لگا، مگر یہ بہت بڑا منصوبہ علم و حکمت اور ذکر و عبادت کے بغیر ممکن ہی نہ تھا،

 

۲۸

 

پس اس پُرحکمت رسم میں دوقسم کی موثر عبادات ضروری ہوئیں، ایک علمی عبادت اور دوسری عملی عبادت، تاکہ اس کی بجا آوری سے زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی ثواب اور اجرِاعظیم حاصل ہو۔

حکمت نمبر ۶: اس دعوت کی غرض سے جو گوسپند ذبح کی جاتی ہے، وہ “دعوتی” کہلاتی ہے، جو قربانی کی طرح حرمت والی قرار پاتی ہے، ایسے جانور کے انتخاب کی ایک ضروری شرط یہ ہے کہ وہ لاغر(دُبلا) نہ ہو، بلکہ اس میں چربی ہو، تاکہ اس کو پگھلا کر تیل سے چراغ کو روشن کیا جاسکے، اس کا حکیمانہ اشارہ یہ ہے: جو مومنین عقیدہ، عبادت اور حقیقی علم میں کمزور ہیں، وہ مرتبۂ روحانیت کی گوسفندِ دعوت (دَعوَتی = قربانی) نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان میں ہنوز ترقی و کمالیت کا وہ جوہر پیدا نہیں ہوا، جس سے نورانیت کا چراغ روشن ہو جاتا ہے، جس کی مثال چربی سے دی گئی ہے۔

حکمت نمبر۷: حضرتِ امام جعفرالصّادق علیہ السّلام کا یہ ارشادِ مبارک ایک عظیم نورانی خزانے کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے عرفانی جواہر گرانمایہ اور انمول ہیں، وہ ارشاد یہ ہے، ماقیل فی اللہ فھوفینا،وماقیل فینا فھوفی البلغاء من شیعتنا: جو کچھ خدا کے بارے میں کہا گیا ہے وہ (تاویلاً) ہمارے بارے میں ہے، اور جو کچھ ہمارے

 

۲۹

 

بارے میں کہا گیا ہے وہ (تاویلاً) ہمارے دوستوں میں سے ان کے لئے ہے جو پہنچے ہوئے ہیں، اس کلیدی حکمت سے خزانے کھل سکتے ہیں، اور چراغِ روشن کی مثال میں بھی ایک خزانہ پوشیدہ ہے، یہاں یہ نکتہ دلپذیر یاد رہے کہ جس جگہ کوئی خزینۂ دفینہ ہوتا ہے، وہ جگہ اکثر دیدۂ ظاہر بین کے سامنے حقیر نظر آتی ہے۔

حکمت نمبر۸: حضرتِ امام جعفرالصّادق علیہ السّلام سے آیۂ مصباح یعنی اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۔۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: ھو مثل ضربہ اللہ لنا فالنبی و الأئمّۃ صلوات اللہ علیہم من دلالات اللہ و آیاتہ التی یھتدی بھا الی التوحید۔۔۔ وہ ایک مثل ہے جسے خدا نے ہمارے حق میں بیان فرمائی ہے، پس نبی اور أئمّہ صلوات اللہ علیہم خدا کی طرف سے وہ  رہنما اور معجزات ہیں جن کے توسط سے وہ توحید کی طرف لے جاتا ہے۔۔۔۔ (المیزان، جلد۱۵، ص۱۴۱)۔

حکمت نمبر۹: اس مضمون میں جو نقشہ ہے، اس کو غور سے دیکھ لیں، وہاں آیۂ مصباح، سورج اور عقل ایک دوسرے کے سامنے ہیں، جس کی وہاں توجیہ کی گئی ہے، یہاں ایک اور وجہ بیان کی جاتی ہے کہ لفظِ ’’مصباح‘ ‘ گرامر(GRAMMAR)  میں “صبح”

 

۳۰

 

سے اسمِ آلہ ہے، یعنی مصباح وہ چیز ہے جس سے صبح بنائی جاتی ہے، اور وہ سورج ہے، مگر یہاں عالمِ شخصی کا سورج مراد ہے، جو انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کے بعد صفِ اوّل کے مومنین میں بھی طلوع ہوجاتا ہے، تاہم یہ بات خوب یاد رکھو کہ روحانیت کے آغاز میں جس روشنی کا مشاہدہ ہوتا ہے، وہ نہ تو سورج کی ہے اور نہ ہی چاند کی، صرف اور صرف ستاروں ہی کی روشنی ہے، پھر بھی اس کی رعنائی اور دلکشی ایسی زبردست مسحورکن ہے کہ بہت سے لوگ ان روشنیوں کو تجلّیاتِ الٰہی سمجھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں  (۶۷: ۵ ،۷۲: ۸، ۳۷: ۶ تا ۷)۔

حکمت نمبر۱۰: ان نجوم، کواکب اور مصابیح (چراغوں) میں بہت بڑا امتحان ہوا کرتا ہے، کیونکہ یہاں بڑی گمراہی بھی ہے اورکامیاب ہدایت بھی، اس کے بعد چاند کی روشنی آتی ہے، اور آخر میں مرتبۂ ازل پر آفتابِ نورِعقل طلوع ہوجاتا ہے(۰۶: ۷۵ تا ۷۹) تب عالمِ شخصی میں صبحِ ازل اور شامِ ابد ہوجاتی ہے، اور دونوں کے درمیان صرف چند ہی سیکنڈ لگتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پردستِ قدرت ہر وسیع اور پھیلی ہوئی چیز کو لپیٹ کر محدود کرلیتا ہے، جیسا کہ خداوندِعالم کا ارشاد ہے: وَکُلُّ شَیْءٍ عِندَہُ بِمِقْدَاراور ہر چیز اس کے پاس ایک مقدار میں ہے (۱۳: ۸) یہ ہے مِصباح (چراغِ

 

۳۱

 

روشن) جو ہمیشہ مرتبۂ ازل پر خورشیدِ عقل کی صورت میں طلوع وغروب ہوتا رہتا ہے۔

حکمت نمبر۱۱: اب اس ضروری سوال کا جواب بھی دینا ہوگا کہ مومن کی موت سے چراغِ روشن کا کیا تعلق ہے؟ آیا نجاتِ روحانی صرف اسی میں ہے کہ چراغ جلایا جائے؟ یا اس میں کوئی اور راز ہے؟ اگر چہ قبلاً اس قسم کے مسائل کے جوابات خود بخود آچکے ہیں، تاہم مزید گزارش ہے کہ جب رسمِ چراغِ روشن آیۂ مصباح کی مثال اور تاویل ہے تو اس سے حکمت اور معرفت کی بہت سی باتیں بتانا مقصود ہیں، ان میں ایک خاص بات یہ ہے کہ مومن اگرچہ جسماً مرجاتا ہے، لیکن روحاً نہیں مرتا، وہ جسمِ کثیف کو چھوڑ کر جسمِ لطیف کا بہشتی لباس پہن لیتاہے، پہلے تاریک تھا، اب وہ روشن ہوجاتا ہے، ساکن سے متحرّک، محدود سے وسیع ، اورپست سے بلند ہوجاتا ہے، یہ سارے اشارے چراغِ روشن کے عمل میں موجود ہیں، جیسے چراغ جلانا اِنبعاث کی طرح ہے، روغنِ کثیف سے شعلۂ لطیف بن جاتا ہے، تاریک ماحول روشن ہوجاتا ہے، تیل کا روشنی بن کر حرکت کرنا، اور پھیل کر وسیع ہوجانا، اور شعلۂ چراغ کا بلندی کی طرف جانا۔

حکمت نمبر۱۲: اہلِ ایمان کے باطن میں جو خدائی چراغ روشن ہو

 

۳۲

 

سکتا ہے، اس کے بارے میں حضرت مولانا امام سلطان محمد شاہ صلوات اللہ علیہ نے کئی مواقع پر حکیمانہ انداز میں ذکر فرمایا ہے، جیسے آپ کا ارشاد ہے: اسلام کے نزدیک ایک صحت مند انسانی جسم ایک ایسا عبادت خانہ (معبد TEMPLE=) ہے، جس میں روحِ قدسی کا شعلہ فروزان رہتا ہے۔۔ پھر امامِ عالیمقامؑ نورانی چنگاری(SPARK)  کی اہمیت وترقی پر زور دیتے ہیں، مولائے پاک کا ایک بابرکت فرمان یہ بھی ہے: آپ کی روح کے چراغ میں تیل کا ذخیرہ ہے، لیکن اگر آپ اس کو دیا سلائی سے نہیں سلگائیں گے تو روشنی کیسے ہوگی؟ آپ باقی ماندہ زندگی کو بے فائدہ اور بے خبری میں کتنے عرصے تک گنواتے رہیں گے؟ آپ باطنی علم سے آگاہ ہوجائیں۔

امامِ اقدس و اطہرؑ کے ایک خصوصی فرمان میں بھی بے حد دلنشین انداز میں روحانی اور عقلانی چراغ کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور اس کو روشن کرنے سے متعلق تمام ضروری ہدایت دی گئی ہیں۔

حکمت نمبر۱۳: چراغِ روشن اس امرواقعی کی علامت ودلالت ہے کہ ہر مومن زندہ شہید ہے، اور ایسے شہیدوں کے لئے دنیا میں بھی اور عقبیٰ میں بھی اجراور نور ہے۔ آیۂ کریمہ قرآن پاک (۵۷: ۱۹) میں پڑھ لیں، اور حدیثِ شریف یہ ہے: کُلُّ مومنٍ شھید: یعنی ہر مومن

 

۳۳

 

شہید کا درجہ رکھتا ہے۔

حکمت نمبر۱۴: چراغِ روشن ایک مادّی روشنی ہے، جو نورِ ہدایت (امامِ زمانؑ) کی مثال بھی ہے اور گواہی بھی، چنانچہ جب چراغ جلایا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ مومنین امامِ برحق وحاضر کو برحق مانتے ہیں، اور گواہی دیتے ہیں کہ یہی مولا مظہرِ نورِ الہٰی، نورِ نبیؐ، اور نورِ علیؑ ہیں۔

حکمت نمبر۱۵: خداوندِ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ’’النّور‘‘ ہے، اورخدا کا یہی نام یعنی نور آیۂ مصباح میں آیا ہے، جیسے: اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْض۔ اور اللہ تعالیٰ کے اسماءُ الحُسنٰی آنحضرتؐ اور أئمّہ طاہرینؑ ہیں، جیسا کہ مولاعلی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: انا اسمآءُ الحُسنٰی وامثالہ العُلیا و ایاتہ الکُبریٰ: میں اس کے اسماءِ حُسنیٰ اور امثالِ عُلیا اور اس کی آیاتِ کبریٰ ہوں۔ یعنی خدا کے بزرگ نام زندہ اور گویندہ ہیں (۰۷: ۱۸۰) اسی طرح اس کی اعلیٰ مثالیں (۳۰: ۲۷) اور بہت بڑے معجزات بھی زندہ ہیں (۵۳: ۱۸)۔

حکمت نمبر۱۶: چراغِ روشن، جس میں آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) اور آیۂ سراجِ مُنیر(۳۳: ۴۶) کا یکجا ذکرِ جمیل موجود ہے، وہ کتابِ روح و روحانیت اور نور و نورانیت کی مثال پر قائم ہے، اس لئے

 

۳۴

 

چراغِ روشن گویا ایک حکمت آگین کتاب ہے، جس کا سب سے بڑا مقصد نور کی معرفت ہے، چنانچہ نور کی تین نسبتوں کا قبلاً ذکر ہوچکا، اب ہم یہاں چوتھی نسبت کا تذکرہ کرتے ہیں کہ نور خدا، رسولؐ، اور امامؑ کے بعد مومنین و مومنات کا بھی ہے، جیسے سورۂ حدید (۵۷: ۱۲ تا ۱۳، ۵۷: ۱۹، ۵۷: ۲۸) اور سورۂ تحریم (۶۶: ۸) میں ہے، اس بات کی شاندار تصدیق حضرتِ امام جعفرالصّادق علیہ السّلام کے ارشاد سے بھی ہوتی ہے، آپ نے فرمایا: فالمومن یتقلّب فی خمسۃ من النّور مدخلہ نور، و مخرجہ نور، و علمہ نور، وکلامہ نور و مصیرہ الی الجنّۃ نور = پس مومن پانچ مقام پر نور سے بہرہ اندوز ہوتا رہتا ہے: اس کے داخل ہونے کی جگہ نور ہے، اس کے نکلنے کی جگہ نور ہے: اس کا علم نور ہے، اس کا کلام نور ہے، اور اس کا جنّت کی طرف لوٹ جانا نور ہے۔ (المیزان،جلد۱۵،ص۱۴۰)۔

حکمت نمبر۱۷: جب کوئی مومنِ سالک جسمانی موت سے پہلے ہی علم و عمل سے امامِ زمانؑ میں فنا ہو جاتا ہے تو اس معنی میں وہ فنا فی الرسولؐ، اور فنافی اللہ بھی ہوچکا ہوتا ہے، ایسے میں خدا اور رسولؐ اور امام کا نورِ واحد اس کا نور ہوجاتا ہے، یعنی اس پر یہ سرِّعظیم منکشف ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی انائے علوی میں نورِ مطلق سے

 

۳۵

 

واصل رہا ہے، اور کبھی جُدا ہی نہیں ہوا، کیونکہ نور ایک ہی ہے، مگر آئینوں کی وجہ سے کثرت نظر آتی ہے، جیسے سورج کے لئے چاند اور بے شمار ستارے گویا آئینے یا مظاہر ہیں، پس ان کے اجرام میں فصل (جدائی) تو ہے، لیکن روشنی میں فصل نہیں، وصل ہی وصل ہے پھر بھی یہ چیزیں مادّی ہیں، اس لئے حقیقت کی کُلّی ترجمانی مشکل ہے۔

حکمت نمبر۱۸: عالمِ کثرت (دُنیا) میں آفتاب، ماہتاب اور بے حساب ستارے سب کے سب الگ الگ اور منتشر ہیں، جبکہ عالمِ وحدت کا قانون اس سے بالکل مختلف ہے، اس میں ایک ہی نور ہے، جو شمس و قمر اور نجوم سب کا کام کر رہا ہے، وہی مِصباح ومصابیح اور سِراجِ مُنیر بھی ہے، کیونکہ خدائے بزرگ و برتر کا یہ معجزۂ اکبر بڑا قیامت خیز ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی خدائی میں قبض و بسط کا کام کرتا رہتا ہے (۰۲: ۲۴۵) یعنی عالمِ کثرت کو دستِ قدرت میں لپیٹ کر عالمِ وحدت بنا لیتا ہے، حالانکہ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ قائم بھی ہیں، پس اگر ہم یہاں یہ کہیں کہ عالمِ وحدت یا عالمِ لطیف یک حقیقت (MONOREALITY) ہے تو ان شاء اللہ یہ بات غلط نہ ہوگی۔

 

۳۶

 

حکمت نمبر۱۹: آپ کو اس حکمتِ خداوندی میں بجا طور پر غور و فکر کرنا ضروری ہے کہ قرآنِ حکیم میں نورِالٰہی کی مثل روشن چراغ (مصباح۲۴: ۳۵) ہے، اور نورِنبیؐ کی مثل بھی روشن چراغ (سِراجِ مُنیر۳۳: ۴۶) ہے، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا کہ اس چراغِ ہدایت کو اہلِ انکار نہیں بجھاسکتے ہیں (۹: ۳۲،۶۱: ۸) تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ بحقیقت عالمِ باطن میں دو نہیں ایک ہی روشن چراغ کافی ہے، کیونکہ جب خدا خود ہی اپنی کتابِ عزیز میں لفظِ “مُنیر” کو  اعلیٰ معنوں میں استعمال کرتا ہے (نورِازل = نورِعقلِ کُلّی = کتابِ مُنیر ۳: ۱۸۴،۲۲: ۸،۳۱: ۲۰،۳۵: ۲۵، عرش وکرسی = قلم ولوح: سِراجاً (وھّاجًا۷۸: ۱۳) قمراًمنیراً۲۵: ۶۱) تو اسی نورِ واحد میں عالمِ وحدت کی جملہ خوبیاں جمع ہوجاتی ہیں، اور امامِ حیّ و حاضرؑ کی پاک و پاکیزہ ہستی بمرتبۂ جانشینِ رسولؐ اسی نورِمطلق کی حامل ہے جس کا نام روشن چراغ ہے۔

حکمت نمبر۲۰: اگر کوئی عزیز مجھ سے یہ سوال کرے کہ جن اسمٰعیلی جماعتوں میں چراغِ روشن کا رواج نہیں ہے، ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آیا وہ اس نعمتِ عُظمٰی سے محروم ہیں؟ یا اس جیسی نعمتیں ان کے پاس بھی ہیں؟ میں جواباً عرض کروں گا کہ دنیا میں

 

۳۷

 

امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کی کوئی ایسی جماعت موجود نہیں، جس کو کوئی خاص دینی نعمت حاصل نہ ہو، میں نے دُنیا کی کئی جماعتوں میں جاکر دیکھا اور جن ممالک میں نہیں جاسکا، ان کے بارے میں سُنا کہ مولا کے مرید دنیا کے جس حصّے میں بھی ہوں، ان کے پاس امامِ زمانؑ کی محبت اور وابستگی کے لئے کوئی نہ کوئی رسم ہوتی ہے، جس سے ان کو اعتقادی طور پر بڑا فائدہ ملتا ہے۔

حکمت نمبر۲۱: قانونِ فطرت اور فعلِ قدرت لوگوں کے ساتھ ساتھ ہے، جب کہ خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اور وہ آدمی کی شہِ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے(۵۰: ۱۶) تو پھر اس میں کیا راز پہنان ہے جو فرمایا گیا کہ خدا نے پیغمبروں کو بھیجا (اَرسَلَ)؟ کتابیں نازل کی گئیں؟ روح بھیجی گئی (۱۹: ۱۷)؟ اور اس نے نور نازل کیا (۰۴: ۱۷۴) آیا اس قسم کے خطابات میں مکانی دوری اور بلندی کا تصوّر موجود نہیں ہے؟ جواب: یہ مثالیں اور حجابات ہیں، اور ان کے ممثولات و محجوبات بڑے عجیب و غریب ہیں، چنانچہ قرآنِ حکیم میں عوام کو سمجھانے کی خاطر فرمایا گیا: اَرسَلَ، اور یہی مثال حقیقت پر حجاب بھی ہے، پس اس کا ممثول و محجوب ہے: بَعَثَ (۰۲: ۲۱۳) جس کے معنی ہیں: زندہ کیا، اور تاویل ہے: کاملین کو جیتے جی مقامِ روح پر بھی اور مرتبۂ عقل پر بھی موت و

 

۳۸

 

حیات کا مکمل عملی تجربہ کرانا، تاکہ ان کو ہرگونہ علم و معرفت حاصل ہو، اب ایسے میں خاصانِ الہیٰ کو ہر نعمت دست بدست سامنے سے دی جاتی ہے، بھیجی نہیں جاتی، اور نہ ہی نازل ہوتی ہے، تاہم مکانی اور جغرافیائی اعتبار سے نہیں، بلکہ روحانی اور شرفی لحاظ سے دوری و نزدیکی یا پستی و بلندی بھی ہے۔

تاریخی نوٹ نمبر۱: اس دفعہ سفرِ مغرب کے بعد یارقند (چین) جانے کا ارادہ مُصمم ہوا، اور ۳ ستمبر۱۹۹۲ کو گلگت سے روانہ ہوکر سوست پہنچ گیا، دوسرے دن یعنی ۴ ستمبر کو کاشغر گیا، اور پانچ تاریخ کو یارقند، جہاں زرافشان میں میرا فرزندِ عزیز سیف سلمان خان اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر ہے، یارقند اور کاشغر میں تقریباً ۲۲ دن رہنے کے بعد واپسی ہوسکی، پروردگارِعالم کے فضل و کرم سے سفر بہت کامیاب ہوا، ہر چند کہ طوفانی بارش کی وجہ سے ہمارے علاقے کا راستہ بڑی حد تک خراب ہوچکا تھا، جس کے سبب سے بہت کچھ تکلیف ہوئی، لیکن کامیابی کے بعد تکلیف کہاں یاد رہ کر ستاتی ہے؟

نوٹ نمبر۲: خدا کی قدرت انتہائی نرالی شیٔ ہوا کرتی ہے، چنانچہ نہ تنہا مجھے بلکہ بہت سے لوگوں کو بھی اس واقعہ سے بڑا تعجب ہوا کہ میرے بڑے بھائی سہرابی خان (جن کی عمر تقریباً ۹۷ برس کی تھی جو عرصے

 

۳۹

 

سے علیل تھے) ملاقات اور مختصر سی بات چیت کے بعد ہی رات کے وقت انتقال کر گئے، ایسا لگا ، جیسے اس میں خداوندِ عالم کی کوئی حکمت ہو، پھر ہم نے اپنی سی حقیر کوشش کی، تاکہ ان بے شمارلوگوں کوجو سات دن تک مسلسل آتے رہے، کچھ نہ کچھ علم کی باتیں بتائیں، ہمارے علاقے کا رواج بھی یہی ہے کہ اگر ایسی محفل میں کوئی عالم شخص ہو، تو اس کی باتوں سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں، خداوندِ قدوس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ برادرِ بزرگ کی روح کے حق میں بہت سے مومنین و مومنات کی پُرخلوص دعاؤں کے علاوہ علمی گفتگو کا کارِ خیر بھی ہوا۔

نوٹ نمبر ۳: گلگت ہمارے علاقہ جات کا چھوٹا سا شہر اور مرکز ہے میں ۶اکتوبر ۱۹۹۲ کو گلگت آیا، یہاں عظیم اور عزیز دوستوں کی ملاقاتوں کی ایک تازہ بہار کی آمدآمد تھی، احباب بار بار پوچھے تھے کہ ڈاکٹر فقیر محمد صاحب ہونزائی، رشیدہ نور محمّد ہونزائی، اور مسٹر ظہیر لالانی کب تشریف لاتے ہیں؟ ان کی اور دوسرے احباب و رفقاء کی ملاقات کی حلاوت اس وقت نقطۂ وعروج پر پہنچ جاتی تھی، جب کہ ہم سب کسی روحانی مجلس میں جمع ہوتے تھے، چنانچہ چند بابرکت گھروں میں نورِ امامت کے بہت سے پروانوں کے ساتھ علم و ذکر کی محفلیں ہوئیں، جن میں ہر عاشقِ مولا مست و بیخود نظر آتا تھا، جیسے چیف ایڈوائزر

 

۴۰

 

غلام قادر صاحب، صدر سلطان اسحاق صاحب، صوبیدار میجرعبدالحکیم صاحب، اور رسیئردلدار صاحب، محبوب صاحب، الف خان صاحب، اور میں نے سنا کہ علی آباد میں ڈاکڑ اسلم صاحب کے گھر میں بھی سب پر  یہ کیفیّت گذری۔

نوٹ نمبر۴: میں حیرت زدہ اور مبہوت ہوں کہ کس  ملک کے عزیزوں کا ذکرِ جمیل کروں! حالانکہ یہ بات ایک طرح سے آسان بھی ہے کہ ہم ایک میں سب کے قانون کو مانتے ہیں، تاہم باطن سے قبل ظاہر کے بہت سے مراحل آتے ہیں، لہٰذا کسی وجہ یا بہانے سے دوستانِ حمیم کا کچھ تذکرۂ شیرین ہونا چاہئے، چنانچہ حسنِ اتفاق سے جب اس دلپسند مقالہ کی حکمتیں ۲۱ ہوگیئں، تو مجھے شکاگو (امریکہ) کا ایک خوشگوار وقعہ یاد آیا، وہ یہ ہے: ۔

 

میں ان دنوں عزیزانم حسن کامڑیا اور کریمہ حسن کے گھر آیا ہوا تھا، میرے دوسرے عزیزوں میں سے ایڈوائزر اکبر اے علی بھائی اور انکی بیگم شمسہ اے علی بھائی ملاقات کے لئے آئے، اور انہوں نے اکیس(۲۱) قسم کے پھلوں کا دسترخوان بچھادیا، میں نے کہا کہ اتنے سارے  پھل کیوں؟ کہنے لگے کہ آپ میں جو ریسرچ اور ہر چیزکو جاننے کا ذوق ہے اس کی تسکین کی خاطر، پھر میں نے شمسہ بیٹی سے کہاں کہ پلیز، آپ ان

 

۴۱

 

پھلوں کی لسٹ بنادیں، تو انہوں نے ۲۱ میوؤں کو انگریزی میں لکھ کر دیا، جو اب تک میرے پاس محفوظ ہے، اور اس کی تاریخ ہے،۱۹،جولائی ۱۹۹۲ء۔

نوٹ نمبر۵: علم کی اس مقدّس خدمت کے سلسلے میں جن جن عزیزوں کی جیسی قابل قدر شرکت ہے، اس کے باب میں ہم چند حقیر الفاظ لکھیں یا نہ لکھیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ خدائے علیم وحکیم کی طرف سے جو حافظین/ کراماً کاتبین مقرر ہیں، (۸۲: ۱۰ تا ۱۱) وہ تو کسی فروگذاشت کے بغیر ہر چیز کو لکھتے ہیں، لیکن قرآنِ پاک میں جس تاویل کے آنے کی پیش گوئی ہے (۰۷: ۵۳) اس کا سلسلہ جاری ہے، اس لئے ہمیں حافظین: کراماً کاتبین اور نامۂ اعمال کے بارے میں فکرِجدید کے تقاضوں اور روحانیت کے اصولوں کے مطابق سوچنا ہوگا، کیونکہ ہمارا یہ خیال درست نہیں کہ نامۂ اعمال کسی دنیوی کتاب کی طرح مادّیت میں ہوگی، جب کے فرشتوں کی تحریر دنیا کی لِکھت جیسی نہیں ہے، وہ تو اس سے قطعاً مختلف ہے، آپ کو کس طرح سمجھائیں کہ نامۂ اعمال ایسا ہے؟ تاہم ایک چھوٹی سی مثال ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ بتایا جاسکتا ہے، وہ متحرّک فلم (مووی  MOVIE) ہے، لیکن کتابِ

 

۴۲

 

اعمال جو روحانیت کی مووی ہے وہ معزز فرشتوں کی تیار کردہ ہوتی ہے، اس لئے وہ عقل و جان اور علم و حکمت کی خوبیوں سے آراستہ ہوا کرتی ہے، جبکہ دنیا کی فِلم میں نہ تو عقل ہوتی ہے اور نہ جان، پھر بھی وہ اخلاقی، مذہبی اور علمی قسم کی ہوسکتی ہے، تاکہ ہم اس کے پیشِ نظر یہ کہہ سکیں کہ روحانیت یا فرشتوں کی تحریر کچھ ایسی ہوا کرتی ہے۔

نوٹ نمبر۶: خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت کے صدر سلطان اسحاق صاحب کی پُرخلوص فرمائش پر چراغِ روشن کا یہ مقالہ لکھاگیا۔ ان کا دل امامِ زمانؑ کے نورِ عشق سے معمور اور روشن ہے اور آپ پیاری جماعت کے خیرخواہ اور علم و حکمت کے بڑے قدردان ہیں، اسی وجہ سے ان کے مشورے پر ایسا پُرحکمت مضمون تیار ہوگیا، الحمداللہ! خداوندِعالم کا بہت بڑا احسان ہے،

نصیر حقیر۔ کراچی

۹۲۔۱۲۔۶

 

۴۳

 

حکیم پیر ناصرِخسرو ایک علمی کائنات

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ تو ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ جہانِ ظاہرعالمِ کبیر ہے اور انسان عالمِ صغیر، جیسا کہ پیر ناصرخسرو نے ’’روشنائی نامہ‘‘ میں ارشاد فرمایا:

مراین را عالمِ صُغراش گفتند

مرآن را عالمِ کُبراش گفتند

(ترجمہ) اس یعنی انسان کو عالمِ صغیر کا نام دیا گیا ہے، اور بیرونی جہان عالمِ کبیر یا عالمِ اکبر کہلاتاہے، دیکھئے قاموس القرآن، صفحہ۳۴۴ پر حضرتِ امام جعفرالصّادق علیہ السّلام کے حوالے سے لفظِ عالم اور عالمین کی تفسیر، تشریح، اورحقیقت۔

لیکن کیا اس معنٰی میں عوام و خواص بلافرق و امتیاز سب ایک جیسے ہوسکتے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں، بلکہ امرِواقعی یوں ہے

 

۴۵

 

کہ انسان اگرچہ بحدِّ قوت ایک عالم ہے، تاہم یہ کاملین ہی کی مرتبتِ عُلیا ہے کہ صرف وہی حضرات اپنے آپ کو فِعلاً ایک روحانی اور علمی کائنات پاتے ہیں، اور بس، اور یقیناً یہی وصف بدرجۂ کمال حکیم ناصرِ خسرو کا ہے۔

 

آپ کا ایک عرفانی خزانہ: روشنائی نامہ:

اس مثنوی کا آغاز اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعریف و توصیف سے ہوتا ہے ، اس سلسلے میں پیر صاحب فرماتے ہیں:

ہزاران سال اگر گوُیند و پوُیند

در آخررُخ بخونِ دیدہ شوُیند

(ترجمہ): اگر وہ ہزاروں سال اسی طرح قیل و قال کرتے چلے جائیں، پھر بھی آخرکار وہ (ناکام ہوکر) خون کے آنسوؤں سے اپنا چہرہ دھولیں گے، اس کے بعد فرماتے ہیں:

چُنین گفتند رَو بشناس خود را

طریقِ کفر و دین ونیک و بد را

(ترجمہ): انھوں (یعنی پیغمر اور امام علی علیھماالسّلام) نے یوں ارشاد فرمایا کہ جا تو اپنے آپ کو پہچان لیا کر، تاکہ تو خود شناسی کے ذریعہ کفروایمان اور نیک و بد کی شناخت کرسکے۔ موصوف پیر کا اشارہ ’’اعرفکم بنفسہ اعرفکم بربّہ‘‘ اور ’’من عَرَفَ نفسہ فقدعرف ربّہ‘‘ کی طرف ہے۔ یہاں

 

۴۶

 

معرفت سے متعلق پہلا ارشاد آنحضرت صلعم کا ہے، اور دوسرا ارشاد مولا علیؑ کا، آپ اس کی حکمت پر خوب غور کریں: یعنی جو شخص تم میں سب سے زیادہ خود شناس ہو، وہی تم میں سب سے زیادہ خدا شناس ہے، جس شخص نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔

اب یہ پوچھنا ضروری ہوا کہ حکیم ناصرِخسرو کے نزدیک انسان کی خودی، یا انا، یا حقیقت کیا ہے؟ یا یوں سوال ہونا چاہیے کہ آیا نفس سے روح مراد ہے؟ روحِ نباتی؟ روحِ حیوانی؟ روحِ انسانی؟ یا روحِ قدسی؟ آیا ایسی کتاب میں کہیں ہمارے  اس اہم ترین سوال کا تسلّی بخش جواب مل سکتا ہے؟ کیوں نہیں، وہ جوابِ باصواب حسبِ ذیل ہے:

۱۔ توئی جانِ سخن کوئی حقیقی

کہ باروح القدس دائم رفیقی

۲۔ بہ چشمِ سر جمالت دیدنی نیست

کسی کودید رُؤیت چشمِ معنیست

۳۔ زجای و از جہت باشی مُنزّہ

ببین تاکیستی انصافِ خود دہ

۴۔ نگر تادرگمان این جا نیفتی

قدم بفشار تا از پا نیفتی

 

۴۷

 

۵۔ صفت ہایت صفت ہای خدائیست

ترا این روشنی زان روشنائیست

۶۔ ہمی بخشد کزوچیزی نکاہد

ترا دادودہد آن را کہ خواہد

۷۔ زنورِ اُو تو ہستی ہمچو پرتَو

وجودِخود بپرداز وتو اوشو

۸۔ حجابت دور دارد گر نجوئی

حجاب ازپیش برداری تو اُوئی

۹۔ اگر دعوٰی کنم واللہ کہ جایست

حقیقت ناصرِ خسرو خدایست

ترجمہ: ۔

۱۔ تو دراصل وہ روح ہے جو حقیقی معنوں میں بولنے والی ہے، کیونکہ تو ہمیشہ روح القدس کی رفاقت میں ہے،

۲۔ تیرے روحانی حسن و جمال کو ظاہری آنکھ دیکھ نہیں سکتی، جس نے یہ دیدار دیکھا ہو وہ تو دیدۂ باطن ہی سے ہے،

۳۔ توبحقیقت مکان و اطراف کی قید سے پاک و برترہے، ایسے میں دیکھ کہ تو کون ہے اور اپنا انصاف خود کرلے۔

۴۔ اچھی طرح دیکھ لے تاکہ یہاں گمان میں نہ پھنس جائے قدم

 

۴۸

 

جما کر چلنا تاکہ تو گر نہ جائے،

۵۔ تیری اصل صفات خداوندِ عالم کی صفات ہیں (بحکمِ حدیثِ شریف: تُخلِّقوا باخلاق اللہ) تجھ کو یہ روشنی اسی روشنی سے حاصل ہے۔

۶۔ خدا تعالیٰ اس طرح نور عطا فرماتا ہے کہ اس سے کوئی شیٔ ہرگز کم نہیں ہوسکتی، تجھے دیا ہے اور جس کو چاہے دے سکتا ہے۔

۷۔ اس کے نور کا تو گویا زندہ عکس(تصویر) ہے، اپنی ہستی سے فارغ(فنا) ہوکر تو ”وہ” ہے۔

۸۔ اگر تو اس کو طلب نہ کرے تو تیرا حجاب تجھ کو اس سے دور رکھے گا، اور جب تو اپنے سامنے سے حجاب (پردہ) ہٹائے تو یقین ہوگا کہ تو” وہ” ہے۔

۹۔ اگر میں دعوٰی کروں تو خدا کی قسم بر محل ہے کہ حقیقت میں ناصرِ خسرو فنافی اللہ و بقا بااللہ کا ایک نمونہ ہے۔

ترکِ تقلید۔ دعوتِ فکر و تحقیق اور تاویل:

حضرتِ پیر فکرو تحقیق اور تاویل کی طرف پرزور دعوت دیتے  ہوئے تقلید کی مذمّت کرتے ہیں، جیسا کہ سورۂ محمد (۴۷: ۲۴) میں ہے: أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا = تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے

 

۴۹

 

(لگے ہوئے) ہیں، چنانچہ شاہ ناصر کا قول ہے:

سراسر پُر زتَمثالست تنزیل

تو زو تفسیر خواند ستی نہ تاویل

قرآن کا ظاہر (تنزیل) شروع سے لے کر آخر تک تمثیلات و تشبیہات سے پُر ہے، تو نے اس کی تفسیر پڑھی ہے، لیکن تاویل سے بے خبر ہے۔

 

خزانۂ دوم: خوانُ الأخوان:

یعنی برادرانِ دوستانِ کرام کے لئے علم و حکمت کی گوناگون نعمتوں کا دائمی دسترخوان، جس کی روحانی اور عقلی لذّتیں کبھی کم نہیں ہوسکتیں، جبکہ ہر مادّی نعمت یا تو ختم ہو جاتی ہے یا شکم سیری کی وجہ سے پھیکی ہونے لگتی ہے، لیکن علمی نعمت کا مزہ عقلی ارتقاء کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ بہشتِ روحانیتِ کی لافانی حلاوتوں کو چھونے لگتا ہے۔

دسترخوان کی مناسبت سے یہ بات یاد آگئی کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کا ایک عظیم معجزہ یہ ہے کہ آپؑ کی درخواست پر خدائے بزرگ و برتر نے حواریوں کے  لئے مائدہ علمِ روحانی(۰۵: ۱۱۴) نازل فرمایا، جس کا بہت  بڑا  رازِ روحانیت اس طرح ہے: ۔۔۔۔۔ تَکُونُ لَنَا عِیْداً لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا (تا کہ یہ ہمارے اوّلین و آخرین کے

 

۵۰

 

حق میں عیدِ سعید ثابت ہو) یعنی اس میں اللہ کے اس لطفِ عمیم کا مظاہرہ ہوجائے، جو ہر زمانے میں حدودِ دین پر محیط ہے۔

نمو نٔہ نعمت از خوانِ نعمت:

علم و حکمت کے اس وسیع و عریض دسترخوان کی انتہائی شیرین و خوشگوار نعمتوں کی رعنائی اور دلکشی کا کیا کہنا، جس پر سو۱۰۰ صفوں میں قطار درقطار بہشتی غذائیں چُنی گئی ہیں، میں عالمِ حیرت میں دماغ پر زور دے دے کر سوچتا رہا کہ اس گنجِ گرانمایہ سے کس دُرِّ شہوار کو برائے نمونہ منتخب کروں، درحالے کہ یہاں علم و معرفت کا ہر موتی انمول اور تابناک ہے! پس میں نے تھوڑی دیر کے لیے کتابِ ہذا بند کرلی، اور نیّت کرکے دوبارہ کھولی، تو اس حال میں ص۷۹ پر”صفِ بیست۲۴وچہارم” کا عنوان میرے سامنے آیا، جس کے تحت ہمارے عظیم المرتبت اور نامور حکیم پیر نے اپنے مخصوص اندازِ تحریرمیں اسمِ بزرگِ ”اللہ” کی دلنشین تاویل بیان کی ہے، پیر فرماتے ہیں کہ: ۔

جان لو کہ یہ چار حروف (ال ل ہ) جو اس بزرگ اسم (اللہ) میں ہیں، وہ چار اصول کی دلیل ہیں، جن میں سے دو روحانی اور دو جسمانی ہیں، کیونکہ تمام روحانی اور جسمانی مخلوق کا قیام انہی کے نظام پر ہے، جیسے مقرّب فرشتوں اور نیک بندوں کی مثال سے یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے، چنانچہ ان حروف میں سے ہر حرف دونوں جہان کی خوبیوں کا

 

۵۱

 

سرچشمہ ہے، جیسے” الف” کہ وہ عقلِ کلّ کے مقابل ہے، جو سرچشمۂ تائید ہے، اسم ”اللہ” سے” لام” جو نفسِ کلّ کے مقابل ہے، جو ترکیب (تخلیق) کا سرچشمہ ہے، دوسرا لام جو ناطق کے مقابل ہے، جو تالیف (جمع آوری) کا سرچشمہ ہے، اور”ھا” کہ وہ مقابلِ اساس ہے، جو بیان وتاویل کا سرچشمہ ہے، پس خدا کے اس نام کے حروف برابر ہیں دونوں عالم کی خیر و خوبی کے سرچشموں کے ساتھ، (یعنی عقلِ کلّ / قلم، نفسِ کلّ / لوح، ناطق اور اساس)۔

 

خزانۂ سوم: گشائش و رہائش:

اس پُرحکمت رسالے میں حضرتِ پیر نے تیس۳۰ انتہائی پیچیدہ مسائل کے حکیمانہ جوابات مہیّا کردیئے ہیں، ان اُلجھے ہوئے اور شکوک و شبہات بھرے ہوئے سوالات کو زمانے میں سوائے حکیم ناصرخسرو کے اور کوئی حل نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا آپ ہی نے یہ کام اپنے ذمّہ لیا، اور حجّتِ امامؑ کی مرتبتِ عالیہ میں ہر بیان اور جملے سے علمِ روحانی کے جواہر بکھیر دیئے، لیکن مجھے بڑا افسوس ہے کہ ایسی عزیز و عالیشان کتاب کے متن میں چند مقامات پر کُورانہ تقلید و تعصّب کی وجہ سے مخالفانہ جملے اس طرح داخل کردیئے ہیں کہ ان کی شناخت طالب علموں کے لئے مشکل ہوگئی ہے، کیونکہ ایسی باتیں فٹ نوٹ، حاشیہ، یا بریکٹ میں نہیں ہیں، تاہم اس پیاری کتاب کا وہ اردو ترجمہ جو

 

۵۲

 

اسماعیلیہ طریقہ بورڈ میں محفوظ ہے، مذکورہ آلائش سے پاک ہے، کیونکہ جب محترم دوست جون ایلیا صاحب “گشائش ورہائش”  کا ترجمہ کر رہے تھے، تو اس دوران یہ خاکسار ان داغوں کی نشاندہی کرتا تھا۔

بطورِ نمونہ: سولھواں مسئلہ:

اے برادر تم نے یہ پوچھا ہے کہ ”عالَم ” کیا ہے؟ اور جس شَیٔ کو عالَم کہتے ہیں، وہ کیا ہے؟ اسے عالَم کیوں کہا گیا؟ اور عالَم کتنے ہیں؟ بیان کرو، تا کہ ہمیں اس کی معرفت حاصل ہو۔

جواب: اے بھائی! جاننا چاہیے کہ ”عالَم” علم سے مشتق ہے، اس لئے کہ عالَمِ جسمانی کے اجزاء میں علم کے آثار نمایان ہیں، ہم کہتے ہیں کہ عالَم کی نہاد و بنیاد بطورِ خود ایک حکمت اور تمامتر حکمت ہے، مثلاً عناصرِاربعہ کا اجتماع، جن میں سے ہر ایک عنصر ایک اعتبار سے دوسرے کے موافق ہے، اور ایک اعتبار سے مخالف، جیسے آگ اور ہوا کہ یہ دونوں گرمی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مُتحد ہیں اور خشکی اور تری کے  اعتبار سے مخالف اور جُدا، اسی طرح ہوا اور پانی تری کے اعتبار سے ایک دوسرے سے متحد ہیں، مگر گرمی و سردی کے اعتبار سے  جُدا، یہی صورت پانی اور مٹی کی ہے کہ یہ دونوں سردی کے اعتبار سے مُتحد ہیں، اور خشکی کے اعتبار سے جُدا،

 

۵۳

 

اسی طرح مٹی اور آگ خشکی کے اعتبار سے آپس میں مُتّحد ہیں اور سردی و گرمی کے اعتبار سے جُدا۔۔۔۔۔۔۔۔

 

خزانۂ چہارم: رسالۂ حکمتی:

ہر چند کہ یہ رسالہ صرف ۲۰ صفحات پر مشتمل ہے، لیکن یہ حجّتِ امامؑ کے تائیدی علم کی دولت سے مالامال ہے، اس لئے اہلِ دانش کے نزدیک یہ علمی کرامات کا مجموعہ ہے، اگر چہ ظاہری دریا کُوزے میں بند نہیں کیا جاسکتا، لیکن شاہ ناصر نے خدا کے فضل و کرم سے ہر بار دریائے علم و حکمت کو کوزے میں بند کردیا ہے، یہی سبب ہے کہ دنیائے علم و ادب میں آپ کی گرانمایہ کتابوں کا چرچا ہوتا رہا، جن پر بڑے شوق سے ریسرچ (تحقیق) کرتے ہوئے بہت سے محقّقین اپنی عمریں صرف کر رہے ہیں، ہمیں دیکھنا اور سوچنا ہوگا موصوف حکیم کی طرف ایک دنیا کیوں مائل نظر آرہی ہے؟ آخر اس میں کوئی بڑا راز ہوگا، ہاں، وہ عظیم راز سید شاہ ناصر کا “علمِ لدنّی”  ہے اور یہ آپ کے علمی ذخائر میں آج بھی درخشان و تابان موجود ہے۔

رسالۂ حکمت کے جواہر پارے:

رسالۂ ہذا چوٹی کے ۹۱ أسئِلہ کے جواب میں ہے، وہ سوالاتِ حذف شدہ فلسفی، منطقی، طبعی، نحوی، دینی، اور تاویلی ہیں، چنانچہ

 

۵۴

 

حکیمِ نامور سب سے پہلے ”دَھر” سے  بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دہر ارواحِ مجرّد کی بقائے مطلق کا نام ہے، جس کا تعلق ان موجودہ جسموں سے نہیں، دہر میں بگاڑ اور فنا کی کوئی گنجائش نہیں، نیزکہتے ہیں کہ دہر ایک ایسا زندہ وجود ہے جو اپنی ذات کو قائم رکھتا ہے، یعنی جس کی حیات اپنی ذات سے ہو وہ نہیں مرتا ہے ، اور جو چیز نہیں مرتی ہے، اس کی بقا خود دہر ہی ہے ، اور کہتے ہیں کہ دہر(ساکن ہے، یعنی اٹل، جس) سے زمان گردش کرتا ہے، ۔۔۔۔۔

 

خزانۂ پنجم: سفر نامہ:

دنیائے علم و ادب کے بڑے نامی وگرامی علماء، فُضلاء، ادباء، شُعراء، ڈاکٹرز، اور ریسرچ سکالرز نے جس شان سے حکیم ناصر خسرو کی پُرمغزو پُرمایہ کتابوں کی تعریف و توصیف فرمائی ہے، اورجیسے مرقوماتِ زرّین کی جگمگاہٹ ہے، اس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں، اور شدید خجالت و شرمساری کا احساس ہوتا ہے، اور اس بندۂ ناچیز کا دل کہتا ہے کہ کاش! اے کاش، ہم بھی ایسی سنہری تحریروں سے ان عالیقدر کتب کا تعارف کراسکتے! جبکہ ہم بجاطور پر علمِ امامت کے دلدادہ عاشق ہیں، جو ہم کو اپنے حجّتوں اور پیروں کے توسط سے ملاہے، کیونکہ بحکمِ قرآن و حدیث مومینن کے روحانی ماں باپ ہوا کرتے ہیں۔

 

۵۵

 

سفرنامہ کا ایک کمال:

سلسلۂ مطبوعاتِ انجِمن ترقّیٔ اردو(ہند)نمبر۱۳۷۔ سفرنامۂ (حکیم) ناصرِخسرو۔ مترجمۂ: مولوی محمّدعبدالرّزاق، کانپوری۔ شائع کردہ: انجمنِ ترقّی اردو،(ہند)، دہلی۱۹۴۱ء

۱۔ تمہید: ۱۳۱۶ھ ۱۸۹۸ء میں دہلی جانے کا اتفاق ہوا، زمانۂ طالبِ علمی سے شمس العُلمَاء خان بہادر ذکاءُ اللہ دہلوی سے شَرفِ نیاز حاصل تھا، لہٰذا سلام و مزاج پرسی کے لئے مولانا کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔

اثنائے گفتگو میں عربوں کی سیروسیاحت کا تذکرہ شروع ہوگیا، اس کے بعد سیاّحانِ عجم کی باری آئی، تو شمس العُلَماء نے سفر نامہ فارسی حکیم ناصر خسرو کا ذکر کیا، اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ ”خواجہ الطاف حسین حالی نے چند سال ہوئے کہ یہ سفر نامہ مع مقدمہ شائع کیا ہے تم اس کو ضرور پڑھو۔”

مولانا سے رخصت ہوکر دریبہ (دہلی کا مشہور بازار) کی سَیر کی اور مشہور کتاب خانوں کو دیکھا تو حسنِ اتفاق سے سفر نامہ مذکور جو۱۳۰۰ھ ۱۸۸۲ء میں شائع ہوا تھا مل گیا، یہ نادرالوجود سفرنامہ نواب ضیاء الدّین احمد خان بہادر، رئیسِ لوہارو کے قلمی نسخے

 

۵۶

 

کی نقل تھا، میں نے یہ سیاحت نامہ دورانِ سفر(ازدہلی اسٹیشن تا کانپور) میں پڑھا اور پڑھ کر بے انتہا مسرّت ہوئی، کیونکہ نہ صرف ادبی حیثیت بلکہ وقایعِ سیاحت اور عجائباتِ عالم کے لحاظ سے بھی نہایت جامع اور دل چسپ تھا، اس بناء پر تنقید کی نظر سے دو مرتبہ اور مطالعہ کیا، جب  مضامین اور طرزِ انشاء پر عبور ہوگیا تو نُدرت کے لحاظ سے ترجمے کا خیال پیدا ہوا، اور اس ضرورت سے خواجہ بزرگ حالی کو جنوری۱۳۱۸ھ؍۱۹۰۰ء میں ایک عریضہ لکھا،۔۔۔۔۔

 

خزانہء ششم: جامع الحکمتَین:

یعنی ایسی کتاب، جس کے موضوعات میں حکمتِ ظاہر(فلسفہ وغیرہ) اور حکمتِ باطن دونوں سے کام لیا گیا ہے، یہ پُرحکمت کتاب بھی ایسی بہت سے اسئلہ کے جواب میں تصنیف ہوئی ہے، جو انتہائی مشکل ہیں، لیکن جن حضرات کے ساتھ آسمانِ روحِ اعظم کی تائیدات کام کر رہی ہوں، ان کے نزدیک کوئی مسئلہ مشکل نہیں ہوسکتا، چنانچہ حجّتِ خراسان کی یہی عادت تھی کہ آپ ہمیشہ انتہائی مشکل سوالات اور عُقدہ ہائے ناکُشودنی کو لوگوں کے لئے حل کردیتے ہیں کہ اپنی پسند اور معلومات کے مطابق بولنا اور لکھنا بڑا آسان کام ہے، لیکن علم و حکمت کا سب سے بڑا امتحان اس وقت سامنے

 

۵۷

 

آتا ہے، جبکہ کسی مشکل سوال سے واسطہ پڑے، مگر ہم یہ بات یقین سے کہتے ہیں کہ حُجّتِ مستنصری وہ عظیم المرتبت شخصیّت تھے، جن پر ہر وقت علمِ لدُّنی کے ابواب مفتوح رہتے تھے۔

نمونۂ حکمت ازجامع الحکمتَین:

ص۱۰۹،امّااہلِ تاویل علیھم السّلام کا جواب عالمِ ابداع کے سات انوار کی نسبت یہ ہے جو فرمایا: جو کچھ عالمِ حسّی میں موجود ہے، وہ اس چیز کے اثر سے ہے جو عالمِ علوی میں موجود ہے، جب ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمِ ظاہر میں سات ستارے ہیں، جن سے مخلوقات روشنی اور لطافت حاصل کر رہی ہیں، تو یہ موجوداتِ نورانی (یعنی ستارے) اس حقیقت پر دلیل ہیں کہ عالمِ علوی میں سات انوارِ اوّلی و ازلی ہیں، کہ وہ ازلی چیزیں  علِّتیں ہیں ان جسمانیوں کے انوار کے لئے، اور وہ سات ازلی انوار میں سے ایک تو ابداع ہے، دوسرا جوہرِعقل، تیسرا مجموعِ عقل، کیونکہ اس کے تین مرتبے ہیں، یعنی وہ عقل بھی ہے، عاقل بھی ہے ، اورمعقول بھی، اورکسی موجود کے لئے یہ خاصیّت نہیں سوائے عقل کے، کہ وہ (یعنی فرشتۂ عقل) اپنے آپ کو جاننے والا ہے، اوراس کی ذات جانی ہوئی ہے، چوتھا نور نفسِ کُلّ ہے، جوعقل سے مُنبعِث (برانگیختہ) ہوا ہے، پانچواں نور جدّ (اسرافیل) ہے، چھٹا فتح (میکائیل) ہے، اور ساتواں نور خیال

 

۵۸

 

(جبرائیل) ہے۔

 

خزانہ ہفتم: دیوانِ اشعار:

حضرتِ پیر کے ان القاب سے آپ کی روحانیّت و نورانیّت اور علم و حکمت کا پتا چلتا ہے: حجّت، حجّتِ خراسان، حجّتِ مستنصری، حجّتِ فرزندِ رسولؐ، حجتِ نائبِ پیغمبرؐ، سفیرِ امامِ زمانہؑ، مامور، امینِ امامِ زمانؑ، مختارِ امامِ عصرؑ، مُستعینِ محمّدؐ، اور برگزیدۂ علیّ المرتضیٰ (دیوانِ اشعار، چاپِ دوم، مقدمّہ و شرحِ احوالِ ناصرِ خسرو، بقلمِ آقای تقی زادہ، ص۱۴۔۱۵)۔

ایک بڑا اہم سوال:

قرآنِ حکیم میں شاعری اور شُعرا کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ہر شاعر کی یہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ وہ اپنی خیالی کائنات کی بلندیوں میں پرواز کرتا رہے، اور خود سِتائی کا مزہ بھی اڑائے، آیا ناصرِ خسرو کا شاعرانہ کلام عام شاعری سے بالاتر اور اپنی ذات کی ستائش سے پاک ہوسکتا ہے؟ وہ کیسے؟

اس کا جواب:

قرآن و حدیث کی حکمتوں سے ظاہر ہے کہ شاعری دوقسم کی ہوا

 

۵۹

 

کرتی ہے، ایک حق پر مبنی ہوتی ہے، اور دوسری برباطل، یعنی جو شاعر ہادیٔ برحق کی نورانی ہدایت سے مستفیض ہو، اس کے کلام میں خود ازخود حکمت داخل ہو جاتی ہے، اور جوشاعر صراطِ مستقیم سے ہٹ گیا ہو، وہ گمراہ ہوچُکا ہے، اس کی باتوں میں گمراہی کے سوا کچھ بھی نہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں گمراہ شاعروں کی پیروی کی مذّمت کی گئی ہے، (۲۶: ۲۲۴ تا ۲۲۵) پس اگر شاعری محض گمراہی کے سبب سے قابلِ مذّمت ہے، تو پھر یہ ہدایت کی وجہ سے لائقِ تحسین کیوں نہ ہو، جیسے رسولِ خداؐ حَسّان بن ثابت سے فرماتے تھے: ”پڑھو روح القدس تمھارے ساتھ ہے۔” اس سے ظاہر ہوا کہ جہاں حق کی حمایت میں شاعری ہو، وہاں فیضِ روح القدس  شاملِ حال رہتا ہے، اور یقیناً یہ بات پیر شاہ ناصر کی شاعری پر صادق آتی ہے، ایسے میں آپ کے پُرحکمت اشعار عالی اور پاک و پاکیزہ نظر آتے ہیں۔

خود سِتائی وہاں ہوتی ہے، جہاں آدمی صرف اور صرف اپنی ہی ذات پر نظر رکھتا ہو، لیکن جب کوئی شاعر کسی رشتہ و نسبت کی بنا پر اپنی توصیف کر رہا ہو، تو یہ وصف درحقیقت اس شخص کا ہوتا ہے، جس سے اس کو نسبت یا قربت حاصل ہے، جیسے خواجہ حافظ کا قول ہے:

 

۶۰

 

مصرع: اے دل غلامِ شاہِ جہان باش و شاہ باش

یعنی اے دل شاہِ جہان کی غلامی بہت بڑی عزت ہے، اس لئے تو اس کا غلام ہوکر ایسی عزّت کا بادشاہ ہوجا۔ آپ اس مثال میں خوب غور کرکے یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آیا یہ حافظ کی خود سِتائی ہے، یا بادشاہِ عالم کی مدح سرائی؟

دوسرا اہم سوال:

سورہ یاسین(۳۶: ۶۹) میں ارشاد ہے: وَ ما علمنہ الشعر و مَا یَنبَغِیْ لَہُ ۔۔۔۔اور ہم نے نہ اُن (پیغمبرؐ) کو شعر کی تعلیم دی ہے اور نہ یہ ان کی شان کے لائق ہے۔ یہاں یہ مسئلہ ہے کہ جس شاعری کی تائید (مدد) روح القدس سے ہوتی ہے، اس میں کیا کمی تھی، جس کی وجہ سے وہ آنحضرت صلعم کی شان کے لائق نہ ہوسکی؟

جواب:

روح القدس کی تائید کے مختلف مدارج ہوا کرتے ہیں، جبکہ پیغمبروں میں سے بعض پر فضیلت دی گئی ہے (۰۲: ۲۵۳) اسی طرح مراتب کا فرق اولیاء اور مومنین میں بھی پایا جاتا ہے (۰۳: ۱۶۳) درحالے کہ ان میں سے ہر ایک کو حسبِ مرتبہ تائید حاصل ہوسکتی ہے (۵۸: ۲۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ حضرتِ داودؑ اور حضرتِ سلیمانؑ کے مقدّس نغمے (مزامیر) خداوندی

 

۶۱

 

تعلیم کے بغیر نہ تھے، لیکن جس ذاتِ جامع الصّفات پر قرآنِ عظیم نازل ہورہا تھا، وہ اس قرآنِ عزیز کی بدولت شعرگوئی سے بے نیاز وبرتر تھی، پس آیۂ مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ خداوندِ عالم جس کو چاہے روح القدس کے توسّط سے لاہوتی اشعار کی تعلیم سے نوازتا ہے، لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مرتبہ عالیہ اس سے بہت بڑا ہے۔

نمونۂ اشعار: ص۳۲۶:

مراحسّانِ اوخوانند ازیراک

من ازاحسانِ اوگشتم چو حسّان

(ترجمہ:) مجھے اس کا حسّان کہتے ہیں اس لئے کہ میں اس کے احسان سے حسّان (بن ثابت)کی طرح ہوچکا ہوں، پیر صاحب کے اس پرحکمت اور روح پرور شعر میں بتائیدِ الہٰی بہت سی اعلیٰ خوبیاں جمع ہیں، مثال کے طور پر دیکھ لیں:

(الف) اس میں حسّان بنِ ثابت کی شاعری اور ان سے متعلق ارشادِ رسول صلعم کی طرف اشارہ ہے۔

(ب) زمانۂ نبوّت اور اصحابِ کبار کی یاد دہانی ہے۔

(ج) اس حوالے سے دینِ حق میں شاعری کی اہمیّت و افادیت کی دلیل ہے۔

 

۶۲

 

(د)  اس میں یہ ذکر ہے کہ امامِ عالیمقامؑ ہی کے احسان سے پیر ناصر حسّان ہوگیا ہے۔

(ھ) حسّان کے معنی ہیں بہت خوبصورت، بہت نیکوکار۔

(و) پیر فرماتے ہیں کہ حضرتِ امام علیہ السّلام کے احسانات سے میری روح بیحد خوبصورت ہوگئی ہے، اور میں بہت نیکوکار ہوا ہوں، حضرتِ پیر نے دیوان کے چھ مقامات پر اپنے آپ کی تشبیہہ و تمثیل حسّان بن ثابت سے دی ہے، تاکہ ہم حقیقتِ حال کو سمجھ سکیں کی اُن کہ اشعار علمِ لَدّنی کے نور سے منوّر ہیں۔

حکیم ناصرِ خسرو کا گرانمایہ دیوان ایک ایسے بحرِعمیق کی طرح ہے کہ اس کی سطح پر اگرچہ مال و متاع اور سَیروسیاحت کی کشتیاں چلتی رہتی ہیں، تاہم انمول موتیوں کو صرف اس کی گہرائیوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے، جس کا سمجھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں، مثال کے طور پر اس قصیدہ کو لیں، جس کا مطلع یہ ہے:

ای خواندہ بسی علم و جہان گشتہ سراسر

تو برزمی وازبَرَت این چرخِ مُدوّر

اس نظم میں آگے چل کے فرماتے ہیں کہ:

روزی برسیدم بدرِشہری کان را

اِجرامِ فلک بندہ بُد آفاق مسخّر

 

۶۳

 

(ترجمہ) میں ایک دن ایک ایسے شہر کے دروازے پر پہنچ گیا کہ اس کے لیے اِجرامِ سماوی (سورج، چاند، ستارے، اور سیّارے) غلامی کر رہے تھے، اور دُنیا مسخّر تھی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ یہ دُنیائے ظاہر کے کس شہر کا دروازہ تھا؟ آیا یہ روحانی سفر اور امامِ زمانؑ کے نورِ اقدس تک رسائی کی مثال نہیں ہے؟ کیا یہ: “انا مدینۃ العلم و علی بابھا” کی عملی تفسیر و تاویل نہیں ہوسکتی؟ ہوسکتی ہے، اور یقیناً اس میں یہی حکمت ہے۔

حکیم ناصر فرماتے ہیں: وہ ایک ایسا شہر تھا کہ اس کے سارے باغات پھلوں اور پھولوں سے بھرے ہوئے تھے، تمام دیواریں نقش  و نگار سے آراستہ تھیں اور زمین پردرخت ہی درخت نظر آرہے تھے، اس کا صحرا سب کا سب پھولدار ریشمی کپڑے کی طرح مُنقّش تھا، اس کا پانی پاکیزہ اور کوثر جیسا تھا، ایسا شہر کہ اس میں بغیر(علم و) فصل کے کوئی گھر ہی نہیں ہے، ایک ایسا باغ کہ اس میں عقل کے سوا کوئی درخت صنوبر نہیں مل سکتا، وہ ایسا شہر ہے کہ وہاں حُکَماء ریشمی لباس پہنتے ہیں، جن کو نہ کسی عورت نے بُنا ہے اور نہ کسی مرد نے، ایسا شہر کہ جب میں اس میں داخل ہوگیا تو میری عقل نے کہا کہ: یہیں سے اپنی حاجت کو طلب کر اور اس منزل کو نہ چھوڑ، تب میں اس شہر کے محافظ (دربان، جس سے امامِ وقتؑ مراد ہیں) کے پاس گیا، اور گزارش کی، انھوں

 

۶۴

 

نے فرمایا کہ: اب غم نہ کر کیونکہ تیری کان جواہر سے بھر گئی، ۔۔۔۔۔۔۔۔

حق بات تو یہ ہے کہ حضرتِ پیر یہاں اپنی ابتدائی روحانیت کے واقعات و مشاہدات کو اس حدیثِ شریف کے مطابق پیش کر رہے ہیں، جس میں ارشاد ہوا کہ: انا مدینۃ العلم و علی بابھا (یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی (امامِ زمانہ) اس کا دروازہ ہے)، اس حکیمانہ نظم کے اس مقام پر آپ اچھی طرح دیکھ رہے ہیں کہ ہرعمدہ سے عمدہ تعریف و توصیف شہرِ علم کی ہورہی ہے، تاہم بڑا عجیب واقعہ ہے کہ شہر میں داخلہ ملنے کے باوجود گیٹ (باب، دروازہ، دربان، محافظ) ہی سے رجوع ضروری ہے، اور حکمت اسی میں ہے، حضرتِ پیر شاہ ناصر اپنے اسی قصیدہ میں آگے چل کر فرماتے ہیں:

دستم بکفِ دستِ نبی داد بیعت

زیرِ شجرِ عالی پُرسایہ و مُثمر

(ترجمہ) اس ( یعنی امامِ عصرؑ) نے میرے ہاتھ کو بیعت کے لئے دستِ پیغمبرؐ کی ہتھیلی میں دے دیا، اس عالیقدر اور بلندترین درخت کے نیچے جو وسیع سایہ رکھتا ہے اور بہت زیادہ میوہ دیتا ہے۔ یہ بیعتِ رضوان (۴۸: ۱۸) کی عملی تاویل ہے، جو روحانیت کی انتہا اور مرتبتِ عقل میں پیش آتی ہے، اس مقام کے بے شمار نام ہیں، چنانچہ درخت کی مثالیں جو صرف

 

۶۵

 

ایک ہی ہے، یعنی وہ درخت، جس کے نیچے روحانی اور عقلی بیعت لی جاتی ہے، لیکن آپ کو تعجّب ہوگا کہ یہی درخت شجرِ موسیٰؑ، درختِ زیتون، سِدرۂ منتہا وغیرہ بھی ہے۔

خزانۂ ہشتم: تحلیلِ اشعارِ ناصر خسرو:

یہ بیحد دلپسند کتاب مہدی محقّقِ استادِ دانش گاہِ تہران نے تألیف کی ہے، جس میں حضرتِ پیر کے ایسے اشعار کی تحلیل کی گئی ہے، جن پر براہِ راست قرآن و حدیث کی روشنی پڑتی ہے، یا وہ امثالِ عرب کے مطابق ہیں، اسی طرح خدا کے فضل و کرم سے یہ ایک اور گنجینہ مہیّا ہوا ہے۔

تحلیلِ اشعار کے نمونے:

پیر صاحب فرماتے ہیں کہ:

ہر کس کہ نیلفنجد اونصیرت

فرداش بہ محشر بصر نباشد

(ترجمہ) جو شخص یہاں (اپنے لئے) بصیرت جمع نہ کرتا ہو، کل قیامت میں اس کی آنکھ نہیں ہوگی۔ جیسا کہ ارشادِ قرآنی ہے: وَمَن کَانَ فِیْ ہَـذِہِأَعْمَی فَہُوَ فِیْ الآخِرَۃِ أَعْمَی وَأَضَلُّ سَبِیْلا ۱۷: ۷۲

 

۶۶

 

ایزد عطاش داد محمّد را

نامش علی شِناش و لقب کوثر

(ترجمہ) خداوندِ عالم نے حضرت محمّد صلعم کو عطا کردیا، (وہ شخص) جس کا نام علیؑ ہے، اور لقب کوثر۔ اِنا اعطینک الکوثر (۱۰۸: ۱)

تن تُرا گوُراست بی شک ہم چُنان چون وعدہ کرد

روزی ازگورت برون آردخدایِ دادگر

(ترجمہ) یقیناً جسم تیرے لئے قبر ہے (لہٰذا) جیسے اس نے وعدہ کیا  ہے، ایک دن خدائے عادل تجھے اس قبر سے نکال دے گا۔ (۲۲: ۷) اس سے ظاہر ہوا کہ قبر کی تاویل جسمِ انسانی ہے۔

بغارِ سنگین در نہ بٖغارِ دین اندر

رسول را بدلِ پاک صاحبُ الغاریم

(ترجمہ) پتھر کے غار میں نہیں، دین (یعنی روحانیت) کے غار میں ہم اپنے پاکیزہ دل سے پیغمبرؐ کے یارِ غار ہیں (۰۹: ۴۰) یہاں سے معلوم ہوا کہ غار سے روحانیت مراد ہے، پس اصحابِ کہف کچھ ارواح کا نام ہے۔

چو جانت قوی شد بایمان وحکمت

بیا موزی آنگہ زبانہای مرغان

بگویند باتوھمان مور و مرغان

 

۶۷

 

کہ گفتند ازین پیش تر با سلیمان

(ترجمہ) جب تیری روح ایمان اور حکمت کی بدولت مضبوط ہوجائے، تو اس وقت تو پرندوں کی بولی سمجھنے لگے گا، تجھ سے چیونٹیوں اور پرندوں کی وہی گفتگو ہو گی، جو اس سے پہلے حضرتِ سلیمان سے ہوئی تھی، (۲۷: ۱۶) صراطِ مستقم ہی راہِ روحانیت ہے، جو انبیاء، اولیاء، شہدا، اور صالحین کا راستہ ہے، اور انہی حضرات کے نقشِ قدم پر مومنین کو چلنا ہے (۰۴: ۶۹) جس میں معجزات ہی معجزات ہیں، تاکہ معرفت حاصل ہو۔

آلِ رسولِ خدای حبلِ خدایست

گرش بگیری ز چاہِ جہل  بر آئی

(ترجمہ) خدا کے پیغمبر کی آل (امام  عصرؑ) ہی خدا کی رسی ہے، اگر تو نے اسے مضبوطی سے تھام لیا، تو تُو نادانی کے کنویں سے نکل کر مرفوع ہو جائے گا، (۰۳: ۱۰۳) دنیا کی اچھی اور بری بہت سی مثالیں ہیں، اور ایک مثال تاریک کنواں ہے، جس سے لوگوں کو نکالنے کے لئے اللہ نے عالمِ بالا سے اپنے پاک نور کی رسی اتار دی ہے۔

رسول خود سخنی باشد ازخدای بخلق

چُنانکہ  گفت خداوند درحقِ عیسیٰ

(ترجمہ) (کتاب کے علاوہ) پیغمبرؐ خود بھی خدا کی جانب

 

۶۸

 

سے لوگوں کے لئے کلمہ اور کلام کا مرتبہ رکھتا ہے، جیسا کہ خداوندِ تعالیٰ نے حضرتِ عیسٰے کے بارے میں فرمایا (۔۔۔۔ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ ۰۳: ۴۵) اس دلیل سے حضرتِ رسولؐ اور حضرتِ امامؑ کے قرآنِ ناطق ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

بسانِ طیرِ ابابیل لشکری کہ ھمی

بیوفتد گُھری زوبجای ہر حجری

(ترجمہ) جھنڈ کے جھنڈ پرندوں کی طرح ایک لشکر(آئے گا) کہ ( جہاں ہاتھی والوں پر پتھر گرائے گئے، وہاں) اس لشکر سے ہر پتھر کی جگہ ایک گوہر گرے گا (۱۰۵: ۳ تا ۴) بہت زیادہ سوچنے کا مقام ہے کہ حکمتِ قرآن بڑی عجیب و غریب ہوا کرتی ہے۔

قصّہ  سلمان شنید ستی  و قولِ  مصطفی

کوز اہل البیت چون شد با زبانِ پھلوی

(ترجمہ) تو نے سلمان فارسی کا قصّہ اور حضرتِ محمّد مصطفیؐ کا ارشاد سنا ہوگا، وہ (ایرانی تھا تو) فارسی زبان کے ساتھ کس طرح اہل بیت میں سے ہوگیا؟ حدیثِ شریف ہے: اِنَّ سلمانَ مِنّااھلَ البیتِ (بیشک سلمان (بلحاظِ روحانیّت) ہم اہلِ بیت میں سے ہے)۔

گرچت یکبار زادہ اند بیابی

عالمِ دیگر اگر دوبارہ بز ائی

 

۶۹

 

(ترجمہ) اگرچہ تجھے (فی الوقت) ایکبار جنم دیا گیا ہے، تاہم تو نے اگر دوبارہ جنم لیا تو تجھ کو دوسرا عالم مل جائے گا۔ جیسا کہ حضرتِ عیسیٰ کا قول ہے: لن یَلجَ ملکوتَ السّمٰوٰتِ من لم یُو لَد مَرَّ تَینِ (جو شخص (جیتے جی مر کر) دوبارہ پیدا نہ ہوجائے، وہ آسمانوں کی بادشاہی یعنی روحانیت میں داخل نہیں ہوسکتا)۔

بمیانِ قدر و جبر رہِ راست بجوی

کہ سُوی اہلِ خرد جبر و قدر دردوعناست

(ترجمہ) تقدیر اور جبر(اختیار کا نہ ہونا) کے درمیان سیدھا راستہ ڈھونڈلے، کیونکہ اہلِ دانش کے نزدیک جبر و قدر دکھ اور تکلیف ہے۔ جیسا کہ حضرتِ امام جعفر الصّادق علیہ السّلام کا فرمانِ عالی ہے: لاجبَر وَلا تفویضَ بَل امر بَینَ الا مَرَینِ (آدمی(اعمال میں) نہ تو مجبور ہے اور نہ ہی مختارِکلّ، بلکہ دونوں حالتوں کے درمیان ایک حالت ہے) کتابِ کُشائش و رہائش کے آخر میں ملاحظہ ہو۔

سُوی آن باید رفتنت کہ ازامرِ خدای

برخزینۂ خِرد وعلمِ خداوند وراست

(ترجمہ) تجھے اس شخص (یعنی امامِ برحقؑ) کی طرف جانا چاہئے۔ جو خدا کے حکم سے خداوندی عقل و علم کے خزانے پردرودربان کا مرتبہ رکھتا ہے۔ انا مدینۃ العلم و علی بابھا

 

۷۰

 

فمن اراد العلم فلیات الباب۔

پرت از پرہیز و طاعت کرد باید کزحجاز

جعفرِ طیّار بر عُلیا بدین طاعت پرید

(ترجمہ) تجھ کو پرہیز وبندگی سے اپنے پَربنا لینا چاہئے، کیونکہ حجاز سے جعفرِطیّار(بن ابی طالب) اسی طاعت (کے پروں) سے پرواز کرکے عالمِ عُلوی میں پہنچ گیا ہے۔ رایت جعفرا لہ جناحان فی الجنۃ  (میں نے جعفر کو بہشت میں دو پروں کے ساتھ دیکھا۔ حدیث)۔

بفرمود جُتن بچین علمِ دین را

محمّد شُدم من بچینِ محمّد

(ترجمہ) حضرتِ محمّد صلعم نے فرمایا: علمِ دین کی جستجو میں چین جانا چاہئے، اس لئے میں آنحضرتؐ کے چین (یعنی امامِ عالیمقامؑ کی نورانیت) میں گیا۔ اطُلبوٰالعلمَ وَلو بِالصِّینِ (تم علم کو طلب کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے)۔

اندک اندک علم یابد نفس چون عالی بُوَد

قطرہ قطرہ جمع گردد وانگھی دریا شود

(ترجمہ) جب کسی کی روح باسعادت اور عالیقدر ہو، تو اس کو ہر وقت تھوڑا تھوڑا (تائیدی) علم ملتا رہتا ہے، پانی قطرہ قطرہ جمع ہوجائے تو تب دریا بن جاتا ہے۔

 

۷۱

 

و قطر الیٰ قطر اذا اجتمعت نہر

و نہر الیٰ نہر اذا اجتمعت بحر

(گلستانِ سعدی)

 

خزانۂ نہم: زادالمسافرین:

یعنی طریقِ روحانیت اور سبیلِ آخرت کا تَوشہ (زادِ راہ) اس بیمثال و لاجواب کتاب کے بارے میں یہ کہوں کہ مجھ ناچیز سے اس کا حقِ تعریف ادا نہیں ہوسکتا، تو شاید یہ اپنی ہی جگہ بلند رہے گی، ورنہ میرے طفلانہ الفاظ سے اس پر ایک حجاب پڑے گا، تاہم اس کے لئے ایک چارۂ کار بھی ہے، وہ یہ کہ ہم حضرت پیر ہی کے قول سے اس حکیمانہ کتاب کی تعریف کریں، جیسا کہ موصوف نے اپنے دیوان میں فرمایا:

زتصنیفاتِ من زادُالمسافر

کہ معقولات رااصلست وقانون

اگر بر خاکِ افلاطون بخوانند

ثنا خواند مرا خاک فلاطون

(ترجمہ) میری تصانیف میں سے زادالمسافرین ایسی کتاب ہے، جو علمِ معقولات کی چیزوں (کو جانچنے اور پرکھنے) کے لئے ”اصولات و قوانین” کا درجہ رکھتی ہے، اگر (یونان کے

 

۷۲

 

مشہور حکیم) افلاطون کی قبر پر یہ کتاب پڑھی جائے، تو (اس کے عجائب و غرائب کے شدید اثر سے) افلاطون کی مٹی میری تعریف و ستائش کرنے لگے گی۔ یہ ہے اس گنجِ گوہر ہائے علم و حکمت کی تعریف۔

اس کتاب سے حکمت کے نمونے:

زادالمسافرین کے بڑے مضامین (اقوال) ۲۷ ہیں، اور ذیلی عنوانات یا فصلیں ۳۳۵، صفحات ۵۱۹۔ حکیم ناصر خسرو علوی نے یہ کتابِ شریف ۴۵۳ھ/۱۰۶۱ء میں تصنیف کی ہے، آپ کی بابرکت پیدائش۳۹۴ھ میں ہوئی تھی، اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ حکیم نے یہ کتاب ۵۹ برس کی عمر میں تحریر کی ہوگی، آپ زادالمسافرین کے قول شانزدھم (۱۶) میں ”مُبدِعِ حق ، اِبداع، اور مُبدَع” کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مُبدِع حق تعالیٰ کے اثر سے ہے، یہ نکتہ کلیدی اہمیّت کا حامل ہے، کیونکہ یہ علمِ اسرار میں سے ہے۔

اس کتابِ عزیز میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ معقولات (عقلی چیزیں) زمان سے برتر ہیں (ص۱۱۷) اور محسوسات زمان کے نیچے ہیں۔

کسی چیز کے ختم ہوجانے سے اس کا زمان ختم ہوجاتا ہے، لیکن دھر زمان نہیں، جیسے کسی آدمی کے مر جانے پر اس کا

 

۷۳

 

زمان اٹھایا جاتا ہے، پس اگر آسمان جس کی حرکت تمام حرکتوں پر محیط ہے ختم ہوجائے تو زمان کلّی طور پر ختم ہو جائے گا، امّا دہر زمان نہیں، بلکہ یہ اپنی ذات کو زندہ رکھنے والی چیز کی زندگی ہے، جس طرح زمان ایک ایسی چیز کی زندگی کا نام ہے، جس کو کوئی اور چیز زندہ رکھتی ہے، اور دھر کو گزر جانا نہیں، بلکہ وہ ایک ہی حال ہے، کیونکہ وہ ایسی شیٔ کی زندگی ہے، جس کا حال کبھی بدلتا نہیں، اور جب اس حقیقت کا تصوّر کیاجائے، تو اس وقت معلوم ہوگا کہ روحانین پر زمان کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔

انسان ہر اس چیز پر بادشاہ ہے، جو آفرینش میں ہے، اور یہ روئے زمین پر خدا کا خلیفہ اور نائب ہے (ص۴۶۲)۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ملکِ باطن پر بھی بادشاہ بنا دیا ہے (ص۴۶۴)۔۔۔

انسان اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہے، اور اس کی منزلِ مقصود حضرتِ خالقِ کائنات ہے (ص۴۶۵)۔

یہ دنیا ایک ابتدائی منزل ہے، اور آدمی کی عمر ایک راستہ کی مثال ہے، اور انسان کا سفر اس راستے پراسی منزلِ مقصود کی جانب ہے، تاکہ وہ حضرتِ صانع عالم تک پہنچ جائے۔۔۔۔۔

حضرتِ پیر ناصر خسرو(قدّس اللہ سِرّہ) کی اس کتابِ شریف و لطیف میں بے شمار حکمتیں ہیں، جن کا قلمی احاطہ کجا! اور میرا

 

۷۴

 

چھوٹا سا مقالہ کجا! یہ تو کئی کئی جلدوں کے دائرۃُ المعارف (انسائیکلوپیڈیا) کی صورت میں بھی انتہائی مشکل کام ہے۔

 

خزانہ دھم: وجہِ دین:

اگرچہ یہ ایک روشن اور مُسلّمہ حقیقت ہے کہ سیّدنا حکیم ناصرِخسرو علوی (قدّس اللہ سِرّہ) کی ہر کتاب بجائے خود علم و حکمت کا ایک گرانمایہ اور پائندہ گنجینہ ہے، تاہم کتابِ وجہِ دین کئی اعتبارات سے ان پیرِ کبیر کے جملہ کتب کا خلاصہ اور لُبِ لباب (COMPENDIUM) ہے، پس ہم بجاطور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتاب خزینۂ خزائن کا درجہ رکھتی ہے، کیونکہ کتابِ ہٰذا پیر شاہ ناصر کی آخری تصنیف ہے۔

اس کتاب کی حکمت کے نمونے:

میں کتابوں کا بیحد دلدادہ رہا ہوں، اور جس قدر بھی ہوسکا میں نے مختلف کتب کے مطالعے سے لطف اور فائدہ اُٹھایا، لیکن پیر ناصر خسرو کی کتابیں بڑی عجیب و غریب ہیں، خصوصاً وجہِ دین، کیونکہ یہ کتاب ایسی حیرت انگیز جامعیّت اور مغز حکمت سے بھر پور ہے کہ جہدِ مسلسل کے باوصف اس کی علمی برکتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ وجہِ دین کا خاص تعلق قرآن

 

۷۵

 

و حدیث کی تاویل اور علمِ امامت سے ہے، یہ سب کچھ طریقِ باطن اور راہِ روحانیت کا نتیجہ ہے، یعنی اس میں کشف و کراماتِ روحانی کا عالم ہے۔

اگر آپ عرصۂ دراز سے کتابِ وجہِ دین کو پڑھتے آئے ہیں، پھر بھی آپ باور کریں کہ ہنوز اس کے بہت سے تاویلی بھید پردۂ اخضا سے ظاہر نہیں ہوئے، مثال کے طور پر گفتار ہشتم کی متعلقہ عبارت کو غور سے پڑھ کر تجربہ کریں، اور جواب دیں کہ سیّارۂ زمین (جو ہمیشہ گھومتا رہتا ہے) کی شِش جہت یعنی آگے پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے کا تعیّن کس طرح ہوسکتا ہے؟ تاکہ ہم یقین کرسکیں کہ زمین کے باشندوں کی چھ طرفیں ہیں، اور خدا نے ہر طرف سے ان کے پاس ایک عظیم پیغمبر بھیجا ہے؟ لیکن نقشۂ دنیا کے گلوب پر الگ الگ چھ نشانات لگا کر کوئی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ اسی طرح لوگوں کو چھ اطراف سے چھ بڑے پیغمبر آئے ہیں، کیونکہ لوگ کسی ایک شہر یا کسی خاص ملک میں نہیں، بلکہ مختلف بّرِاعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں، اس لئے لوگوں کی مجموعی اطراف نہیں ہیں، سوائے اوپر کے۔

لوگوں کے لئے چھ پیغمبر چھ اطراف سے کیسے آگئے، اس کی روحانی مثال اور معرفت عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) میں ہے، چنانچہ کسی شک کے بغیر انسانی جسم کی چھ اطراف ہیں: آگے،

 

۷۶

 

پیچھے، دائیں، بایئں، اوپر نیچے، پس حضرتِ پیر کا اشارہ ہے کہ: عالم شخصی میں حضرت آدمؑ کا نور سر کی بالائی جانب سے آتا ہے، حضرت نوحؑ کا نور بائیں کان سے، حضرتِ ابراھیمؑ کا نور پشت سے، حضرتِ موسیٰؑ کا نور پاؤں سے، حضرتِ عیسیٰؑ کا نور داہنے کان سے، اور آنحضرت صلعم کا نور پیشانی سے داخل ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت امام جعفر الصّادقؑ کا دعائیہ قول ہے:

۔۔۔۔ وَنوراً بَینَ یَدَیّ وَ نوراً مِن خلفی وَ نوراًعن یمینی وَ نوراً عن یساری وَ نوراً من فوقی وَنوراً من تحتی ۔۔۔ (ملاحظہ ہو: قرآنی علاج، ص۲۰۵)

وجہِ دین کے موضوعات:

اس مبارک و باکرامت کتاب کے بڑے بڑے موضوعات ۵۱ ہیں، اور ذیلی عنوانات ۲۴، تاہم سر تا سر کتاب میں پھیلے ہوئے مضامین اور بھی ہیں، جیسے خدا شناسی اور علمِ توحید، نبوّت، امامت، علمِ حدُود، روحانیّت، قیامت، حضرتِ قائم، حجّتِ قائم، علمِ تاویل، عددی تاویل، اسمِ اعظم، آفاق و انفس، پیش گوئی، اسرارِ روحانیت، اصولِ دین، فروعِ دین، کلید ہائے حکمت، خود شناسی، سلسلۂ

 

۷۷

 

ہدایت، قانونِ وصایت، اسرارِ قرآن، وغیرہ۔

وجہ دین کی ایک کرامت:

جناب فضیلت مآب سیّد منیر صاحب (مرحوم) بدخشان کا ایک راسخ العقیدت اور علم دوست شاگرد ہے، اس نے بہت پہلے مجھ سے یہ ذکر کیا تھا، کہ اس کو مطالعۂ وجہِ دین سے بیحد مزہ آنے لگا، جس کی بنا پر وہ روزانہ اسے پڑھا کرتا تھا، تا آنکہ یہ کام اس کا معمول بن گیا، اور زیادہ سے زیادہ خوشی محسوس ہونے لگی، اور نتیجے کے طور پر اس کی دیدۂ باطن کُھل گئی، یہ وجہِ دین پر علمی ریاضت کرنے کی کرامت تھی، یاد رہے کہ اگر علم وحکمت کی خوشی سے آپ کو جھٹکے لگتے ہیں، تو یہ فیضِ روح القدس کی بہت بڑی خوشخبری ہے۔

کلیدی تاویل:

کتاب وجہِ دین میں عملی اور کلیدی نوعیّت کی تاویل کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، جس کی برکتوں سے قارئین کے نہ صرف شکوک و شبہات ہی کا اِزالہ ہو جاتاہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بے شمار سوالوں کے جوابات بھی مہیّا ہوجاتے ہیں، کیونکہ مرضِ جہالت و نادانی کا انتہائی موثّر علاج تاویل ہی سے ہوسکتا ہے،

 

۷۸

 

جبکہ تاویلی حکمت ہی وہ شہد ہے، جس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛ فِیْہِ شِفَاء  لِلنَّاس (۱۶: ۶۹: اس میں لوگوں کی (بیماریوں کی)  شِفا ہے)۔

حُدودِ  د ین:

تاویل کی بنیاد حدودِ دین پر قائم ہے، جس کے بغیر تاویل نہیں ہوسکتی ہے، اور یہ حقیقت وجہِ دین سے ظاہر ہوجاتی ہے، اگرچہ اب دورِ قیامت ہے، جس میں صرف آفتابِ امامت کے سوا اور کوئی ستارا نظر نہیں آتا، لیکن ہم اپنے پاک مذہب کی روحانی تاریخ کیسے بھول سکتے ہیں، جس میں قلم، لوح، اسرافیل، میکائیل، ناطق، اساس، امام، حجّت، داعی وغیرہ کے کارناموں کا تذکرہ ہے، اور اسی کا نام تاویل ہے، اور معرفت کا راستہ بھی یہی ہے۔

امامِ عالیمقامؑ ۔۔ عالمِ شخصی:

حضرتِ امیرالمومنین علی علیہ السّلام کا ارشاد ہے: کیا تیرا یہ گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے، حالانکہ تجھ میں عالمِ اکبر سما گیا ہے؟ اور تو وہ بولنے والی کتاب ہے، جس کے حروف سے پوشیدہ اسرار ظاہر ہوجاتے ہیں۔ پس اس قول و معنیٰ کا اطلاق سب سے پہلے خود مولاعلیؑ اور ہر امامؑ پر ہوتا ہے کہ وہی عالمِ شخصیٔ نورانی ہے،

 

۷۹

 

اور ایسی بولنے والی کتاب، جس سے تاویلی بھید ظاہر ہوتے رہتے ہیں، اب بہت بڑا سوال یہ ہے کہ ناصر خسرو پر امامِ وقتؑ کا نور کس شکل میں طلوع ہوا؟ کیونکہ پیر صاحب اپنے دیوان میں کہتے ہیں: “جب میری روح پر امامِ زمان کا نور طلوع ہوگیا، تو میں جو قبلاً شبِ تاریک تھا روزِ روشن بن گیا۔ ”اس انتہائی عظیم سوال کا ازبس عجیب و غریب جواب یہ ہے کہ حکیم ناصر خسرو پر امامِ عصرؑ کا نور عالمِ شخصی اور عالمِ اکبر کی صورت میں طلوع ہوچکا تھا، جس میں سب کچھ تھا، اور وہی نورانی کائنات بولنے والی کتاب بھی ہے، اور حضرتِ شاہ ناصر کا علمِ تاویل اسی عالمِ لطیف سے متعلّق ہے، جس کا بیان وجہِ دین، کلام ۴ میں ہے۔

علمِ بیان ۔۔ علمِ تاویل:

پیر صاحب نے وجہِ دین کے بہت سے مقامات پر تاویل کا ایک دوسرا ہم معنی لفظ ”بیان” بھی استعمال کیا ہے، اور علمِ تاویل کو علمِ بیان کہا ہے، مثال کے طور پرملاحظ ہو: وجہِ دین اردو، کلام ۴۶ کا آخری حِصّہ، ص۲۰۹، نامور حکیم کی اس لطیف تعلیم سے ایک بیحد خوبصورت معنوی انقلاب رونما ہوجاتا ہے، وہ یہ ہے: ثُمَّ إِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ (۷۵: ۱۹)، پھر یقیناً اس کی تاویل بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے) یعنی اے رسولؐ! قرآن

 

۸۰

 

کی تاویل کا کام ہم ہی آپ کے جانشین سے کرادیں گے۔ جیسا کہ حدیثِ شریف سے ظاہر ہے: (وجہِ دین اردو، کلام۔ ۳۵، ص۱۲۲)۔

امامِ مُبین(۳۶: ۱۲):

جب سیّدناحکیم ناصر خسرو کی شُہرۂ آفاق کتاب (وجہِ دین) میں تاویل کا دوسرا لفظ ” بیان” ، تو آئیے اب ہم قرآنِ حکیم میں لفظِ مُبین کو بھی دیکھتے ہیں ، چنانچہ معلوم ہے کہ سورہ زُخرف (۴۳: ۱۸) میں اس لفظ کے معنی ہیں بولنے والا، بیان کرنے والا، پس امامِ مُبین کے معنی ہیں وہ امام جو ظاہر ہے اور تاویل کرتا ہے، کیونکہ جس کی ذات میں تمام روحانی اور عقلی چیزیں محدود اور جمع ہوں، وہی صاحبِ تاویل ہوسکتا ہے۔

عددی تاویل:

حضرت سیّد شاہ ناصر خسرو حجّتِ خراسان کی اس پُرمایہ اور بیمثال کتاب (وجہِ دین) میں جابجا عددی تاویل کی حکمت بھی نمایان ہے، اس علمِ مخفی کا انتہائی اہم اور اساسی حوالہ کتابِ ہذا کے کلام ۴۸ میں ہے، جس میں مومنوں پر حقِ واجبات کا ذکر ہے، آپ وہاں اس روشن حقیقت کا بحسن و خوبی مشاہدہ کرسکتے ہیں کہ خدا و رسولؐ کے منشا کے مطابق دینِ حق میں عددی تاویل کا آغاز سب سے پہلے  حضرتِ مولا علی علیہ السّلام نے کیا، آپ وجہِ دین ترجمۂ اردو، کلام

 

۸۱

 

۴۸ کو ازصفحہ ۲۱۳ تا ۲۱۹ اچھی طرح سے پڑھ لیں۔

ایک علمی کائنات:

میرے نزدیک سب سے پسندیدہ اور سب سے زیادہ قابلِ فہم بات یہ ہے کہ موصوف حکیم علم و حکمت کی ایک کائنات ہیں، لیکن یہ وصف محض آپ کے خزائنِ کتب ہی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس میں اور بھی بے شمار چیزیں شامل ہیں، جو زمانے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہیں، مثال کے طور پر پیر ناصر کے حلقۂ دعوت کا پھیلاؤ کہاں کہاں تک ہے؟ اور دائرہ فیوضاتِ کتب کی وسعت کا کیا اندازہ ہے؟ تقریباً ایک ہزار سال کی اس دعوتِ حق کے نتیجے میں جتنے خوش نصیب لوگ امامِ برحقؑ کے دامنِ اقدس سے وابستہ ہوچکے ہیں، ان کے کیا تعداد ہوسکتی ہے؟ کیا ہر ایسا آدمی جو ناصر خسرو کا شاگرد ہو، بجائے خود ایک عالمِ شخصی نہیں ہے؟ اگر یہ تمام اثری وسعتیں اپنی اپنی جگہ درست اور حقیقیت ہیں، اور یہ سب کچھ دعوتِ ناصری کی کائنات میں ہورہا ہے، تو آئیے ان کے کچھ ایسے اشعار کو دیکھتے ہیں، جن میں ان تمام حقائق کی طرف اشارہ موجود ہے، وہ حکمت آگین اور دلنشین اشعار درجِ ذیل ہیں:

گر بایدت ہمی کی ببینی مرا تمام

چون عاقلان بچشمِ بصیرت نگر مرا

 

۸۲

 

منگر بدین ضعیف تنم ز آنکہ درسخن

زین چرخِ پُر ستارہ فزونست اثر مرا

ہر چند مسکنم بزمین است روزوشب

بر چرخِ ہفتمست مجالِ سفر مرا

(ترجمہ) اگر تو مجھ کو بطورِکلّی دیکھنا چاہتا ہے، تو داناؤں کی طرح مجھے چشمِ بصیرت سے دیکھ لے، میرے اس کمزور جسم کو نہ دیکھا کر کیونکہ میرے قول کا اثر اس فلکِ پُرانجم سے بھی زیادہ ہے، اگرچہ دن رات میری جائے سکونت زمین ہی پر ہے، تاہم میں آسمانِ ہفتم پر بھی سفر کرسکتا ہوں (اس سے آسمانِ روحانیت مراد ہے)۔

اہلِ دانش کے نظر میں ان پُرمغز و حکمت آگین اشعار کا مجموعی مطلب واضح اور روشن ہے کہ حکیم ناصر خسرو (ق ۔ س) ظاہراً و باطناً ایک علمی کائنات ہیں، اگر بات یہ ہوتی، تو آپ ہر گز یہ فرماتے کہ مجھے چشمِ بصیرت سے دانشمندوں کی طرح کلّی طور پر دیکھنا، میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی دینی حکیم جو حجّت یا پیر کا مرتبہ بھی رکھتا ہو، وہ کبھی مُبالغہ آمیز باتیں نہیں کرتا، اس کا قول صداقت، حقیقت، اور حکمت سے بھر پور ہوتا ہے، تاکہ اس کے توسط سے امامِ برحق علیہ السّلام کی روشن ہدایت مہیا ہوتی رہے، پس یقیناً حضرتِ پیر ناصر خسرو پر امامِ زمانؑ کا مقدّس نور اپنی تمامیّت و کمالیّت کے ساتھ طلوع ہوچکا تھا، جس سے حضرتِ پیر کا عالمِ شخصی (PERSONAL WORLD)

۸۳

 

منوّر و تابان ہوا، جس کا ذکر شروع میں بھی ہوا ہے۔

اختتام:

بڑی خوش آئند اور بیحد مفید بات ہے کہ گلگت میں حضرتِ پیر ناصر خسرو پر ایک دو روزہ سیمینارکا اہتمام ہوا ہے، یقیناً اس علمی کام سے پوری جماعت کو زبردست خوشی اور شادمانی ہونے کے ساتھ ساتھ دور رس فائدہ بھی حاصل ہوگا، اور ہر طرف امام شناسی کی خوشبو پھیل جائے گی، جب اہلِ دنیا چاہتے ہیں کہ ان کے ماحول میں پھول ہی پھول نظر آئیں، تو پھر دین میں علم کے پھولوں اور حکمت کے پھلوں کی کثرت و فراوانی کیوں نہ ہو۔

الحمدللہ کہ ہمارے نامدار طریقہ بورڈ کے اعلیٰ افسروں نے ازراہِ عنایت اس بندۂ کمترین کو بھی اس تاریخی سیمینار میں مدعو فرمایا ہے، ولایت نامہ کی تاریخ ۸ ستمبر۱۹۹۰ء ہے، مجھے یہ معززخط بمقامِ گلگت ۱۵ ستمبر میں موصول ہوا، اس خاکسار نے کراچی آکر۲۴ستمبر میں تَعمیلِ حکم کے لئے شروع کیا، پس قلیل وقت کی وجہ سے اس مقالے میں کوئی خامی رہ گئی ہو، تو میں معافی چاہتا ہوں، دعا ہے کہ خداوندِ قدّوس اپنی ہر ہر نعمت پر ہمیں شاکر بنائے! آمین!

نصیرُالدّین نصیر ہونزائی

بروزِ عیدِ میلادُالنبی۱۲۔ ربیع الاوّل ۱۴۱۱ھ ، ۳ اکتوبر ۱۹۹۰ء

 

۸۴