کارنامۂ زرین – حصۂ دوم
درختِ سر بلند و شاخِ پُرثمر
اگر کوئی نیکوکار اور اعلیٰ شخصیّت شاخِ پُرثمر کی طرح سب کے لئے فائدہ بخش ہے تو اس کا درخت (شجرہ = خاندان) بیحد خوش نصیب، بڑا نیکنام اور قابلِ احترام ہوتا ہے، چنانچہ ہم جناب محترم و مکرم غلام قادریبگ صاحب کے عظیم آباؤ اجداد، جملہ خاندانِ محترم معزز والدین (ترنگفہ امیر اللہ بیگ مرحوم اور بی بی گل اندام ) اور عزیز قومیت و برادری کو تعظیم و تکریم اور خلوص و محبت سے سر خمیدہ سلام کرتے ہیں اور ہدیۂ دعا یہ ہے کہ خداوندِ قدوس اپنے آسمانِ نورو نورانیّت سے بطفیلِ اہلِ بیتِ اطہار علیہ السّلام ان سب مومنین و مومنات پر جہاں بھی ہیں نور و سرورِ سرمدی کی بارش برسائے، اور دیگر تمام اہلِ ایمان پر بھی ! آمین!!
جناب چیف ایڈوائزر … غلام قادربیگ صاحب جیسے عظیم المرتبت اور بیمثال انسان جس معزز خاندان کے چشم و چراغ ہیں، اس کا ذکرِ جمیل آج کارنامۂ زرّین کی سنہری تاریخ میں کیوں نہ ہو، ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کا ذاتی اور انفرادی کارنامۂ زرّین بھی اسی سلسلے میں خود بخود مرتب ہوتا رہے گا۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
خطبۂ کتاب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ ہی کے ذکرِ کثیر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوجاتا ہے، آپ قرآن و حدیث اور أئمّۂ آلِ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم) کے ارشادات کی روشنی میں یہ ضرور معلوم کر لیں کہ پروردگارِ عالم کے خوبصورت نام (اسماء الحسنیٰ) کیا ہیں؟ یا کون کون سے ہیں؟ کیونکہ خداوندِ قدّوس کا پاک منشا اور حکم ہے کہ اس کو اسماء الحسنیٰ سے پکارا جائے (۰۷: ۱۸۰) تاکہ اطمینانِ کلّی حاصل ہو جائے۔
یہ نکتہ خوب یاد رہے کہ قرآنی الفاظ کے معانی و مطالب اسرارِ معرفت کی بلندی تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں، مثال کے طور پر یہاں ایک سوال کریں گے، وہ یہ کہ خدا کی یاد سے قلوب کو جو اطمینان ملتا ہے (۱۳: ۲۸) اس کا آخری درجہ کیا ہے؟
جواب: قرآنِ پاک میں کل ۱۳ دفعہ اطمینان کا ذکر آیا ہے، منجملہ اطمینان کا سب سے اعلیٰ درجہ وہ ہے جو حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کو ذاتی قیامت اور ابداع و انبعاث کے بعد حاصل ہوا تھا( ۰۲: ۲۶۰) نیز کاملین و عارفین کے نفسِ مطمئن کو اپنی روحانیّت کی بہشت میں اطمینانِ
۹
کلّی حاصل ہو جاتا ہے، پس کوئی عزیز اسمِ عظم کے ثمرۂ ذکر کو عام اطمینان نہ سمجھ بیٹھے۔
اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ محمد و أئمّۂ آلِ محمد علیہم السّلام اللہ کے اسماء الحسنیٰ ہیں، اور انہی بزرگ ناموں سے اللہ کو پکارنے کا حکم ہوا ہے، کیونکہ خدا کی ہر چیز زندہ اور بولنے والی ہوا کرتی ہے، اور اس کی کوئی چیز عقل و جان کے بغیر نہیں، چنانچہ ذاتِ سبحان کا اسمِ اکبر ایک عالمِ شخصی ہے، جس میں روحِ اعظم اور عقلِ کامل کام کرتی ہے، جہاں بہشت ہے، اس لئے ہر چیز سے نورانیّت اور حسن و جمال کا ظہور ہوتا رہتا ہے، پس اسماءالحسنیٰ، یعنی اللہ کے حسین و جمیل اسماء کہنا بلاوجہ نہیں ہے، الغرض حضرتِ ربِّ کریم کے بزرگ ناموں میں جنّت کی ساری خوبصورتی و رعنائی موجود ہے، جسمانی حسن و جمال عارضی و فنا پذیر ہے، روحانی و عقلانی حسن و جمال دائمی وغیرفانی ہے۔
امام ِزمان صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ اسماء الحسنیٰ کا مجموعہ اور خزانہ ہے، کیونکہ اس کے نور میں تمام اسمائے بزرگ اور کلمات التّامات موجود ہیں، یعنی امامِ وقتؑ بذاتِ خود اللہ تبارک و تعالیٰ کا شخصی و نورانی اسمِ اعظم تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے پاس لفظی اسماء بھی ہیں، تاکہ ان میں سے کوئی اسم اپنے کسی مرید کو عطا کردے، اور وہ امامِ عالی مقامؑ کی طرف سے ہونے کی وجہ سے اسمِ اعظم کا کام کرے، بالفاظِ دیگر اس میں امامؑ کا نور عمل کرے، اور ذاکر پر روحانی انقلاب آجائے۔
۱۰
تحفۂ جمیل و دلپذیر:
شاید آپ کو تعجب ہوگا کہ ایسا تحفہ کون سا ہے جس کی ایسے شدّ و مد سے تعریف شروع ہوئی؟ جی ہاں، بتا رہا ہوں، مگر تعریف حقیر و بے مایہ ہے، جبکہ یہ تحفہ نادر و نایاب اور انمول ہے، کیونکہ وہ ایک بے مثال کتاب یا کتابوں کا مجموعہ ہے، جس کے ۳ حصّوں میں ۱۶ اجزاء ہیں، مجموعی صفحات ۴۹۶ +۶۶۱ + ۵۹۹ = ۱۷۰۶ ہیں، یہ کتابِ مستطاب “شرح الاخبار فی فضائلِ الائمّۃ الاطہار” ہے جو سیدنا قاضی نعمان کی عظیم الشّان کتب میں سے ہے، اس میں ان تمام احادیثِ نبوّی کی تشریح کی گئی ہے جو حضراتِ أئمّہ کی شان میں ہیں۔
یہ تحفۂ جمیل و دلپذیر میرے محسن اور عظیم دوست جناب ڈاکڑ (پی۔ایچ۔ڈی) فقیر محمد ہونزائی صاحب اور ان کی خوش خصال بیگم محترمہ رشیدہ نور محمد ہونزائی (صمصام) کے ان گنت احسانات و عنایات میں سے ہے، جماعتِ باسعادت کے لئے آپ دونوں عزیزان کی قلمی اور علمی خدمات از بس عجیب و غریب اور بے مثال ہیں۔
کارنامۂ زرین:
جس طرح علمی لشکر کا سارا کام امامِ زمانؑ کی نورانی تائید سے ہوا اور ہو رہا ہے، اسی طرح یہ پیارا نام بھی اسی کی مہربانی سے ہے،
۱۱
زیرِ نظر کتاب “کارنامۂ زرّین” حصّہ دوم ہے، ان دونوں کتابوں کے علاوہ جس کتاب میں بھی ہو، مجاہد صفت ساتھیوں کی حقیقی معنوں میں ہمت افزائی بے حد ضروری ہے، تاکہ جماعت میں علم پھیلانے کا کام تیزتر ہوسکے، اور آئندہ نسلیں خاندانی طور پر نہ صرف علمی خدمت کریں بلکہ علم کے ساتھ وابستہ بھی ہوجائیں۔
شرح الاخبار حصّۂ دوم ، جزءِ نہم ، ص ۳۸۱ پر بروایتِ سفیان الثوری آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا یہ ارشاد درج ہے، آپؐ نے فرمایا: نادیٰ مُنَادً مِنَ السَّمَآءِ یَوْمَ اُحُدْ: ۔ لَا فَتیٰ اِلَّا علی، وَلَا سَیْف اِلَّا ذُو لفقَار، ترجمہ: جنگِ اُحد کے دن آسمان سے ایک پکارنے والے نے یوں پکارا: علی کے سوا کوئی بہادر نہیں، اور ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں۔
ہر چند کہ مولا علیؑ کی مبارک شخصیّت کے حوالے سے یہ واقعہ تاریخِ اسلام کا ایک تابناک کارنامہ ہے جس کی تردید قطعاً ناممکن ہے، تاہم اس کا ایک تاویلی پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ علی علیہ السّلام سے نورِ امامت مراد ہے، جو ہر زمانے میں موجود ہے، جو روحانیّت اور علم و حکمت کی جنگ میں لاثانی ہے، اور ذوالفقار کی تاویل ہے: غلبۂ دلیل و بُرہان، یعنی امامِ زمانؑ کا روحانی علم جو بھی استعمال کرے، اس کے لئے عوالمِ شخصی میں فتح ہی فتح ہے۔
مذکورہ ص (۳۸۱) پر یہ حدیثِ شریف بھی ہے: النّظر الیٰ علی بن أبی طالب عبادۃ = علی ابنِ ابی طالب کی طرف دیکھنا
۱۲
ایک عبادت ہے۔
سوال: مولا علیؑ کا دیدار کس دلیل سے ایک عبادت ہوسکتا ہے؟
جواب: اس لئے کہ علیؑ رسولؐ اللہ کے بعد خداوندِ تعالیٰ کا زندہ اسمِ اعظم، قرآنِ ناطق، مظہرِ نورِ الٰہی، چہرۂ خدا، ید اللہ اور قبلۂ حقیقی ہے، اور ہر زمانے کا امامؑ بھی ایسا ہی ہے، ایک کتابچہ “حقیقی دیدار” کو پڑھ لیں۔
رحمت و برکت کا رخ:
اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت کا رخ اس کے بندوں کی طرف ہے، اور جتنی چیزیں اس کے ہاتھ میں ہیں، وہ سب عطا کر دینے کے لئے ہیں، مثلاً اس کے ہاتھ میں روحانی سلطنت ہے تو وہ عنایت کرنے کی غرض سے ہے، جیسے اہلِ بہشت کی بہت بڑی بادشاہی کا ذکر آیا ہے (۷۶: ۲۰) یقیناً ہر کامیاب عالمِ شخصی میں ایک روحانی سلطنت ہوگی، یعنی ان تمام لوگوں کے لئے جن کو فنا فی الامامؑ کا بلند ترین مرتبہ حاصل ہوا ہو، جو حضرتِ امام علیہ السّلام کی روحانی اور عقلانی تصویریں یا کاپیاں ہوگئے ہوں۔
یہ قانونِ رحمت ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ “بہشت میں کوئی چیز ناممکن نہیں” اݹ منݳسن اپݵ (OOMANASAN API) جیسا کہ قرآنِ حکیم کی کئی آیاتِ کریمہ میں اس حقیقت کی روشن دلیل موجود ہے کہ جنت کی نعمتیں حسبِ دلخواہ عطا کی جاتی ہیں، پس مولائے زمان
۱۳
صلوات اللہ علیہ و سلامہٗ کے تمام عشاق یہی سب سے بڑی نعمت چاہتے ہیں کہ وہ اپنے اسی معشوقِ حقیقی میں فنا ہوکر اسی میں ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جائیں۔
جشنِ خدمتِ علمی:
اس جشن کا منصوبہ سب سے پہلے امریکہ میں ہوا تھا، پھر سارے عزیزوں کو یہ بہت پسند آیا، میں اس سلسلے میں بفضلِ خدا اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں، اور میرے جملہ عزیزان بھی، چنانچہ ہر نئی کتاب اور ہر ترجمہ ایک دائمی جشن ہے، ہر کامیابی اور نیک نامی ساتھیوں کا جشن ہے، حضرتِ امامِ زمانؑ اور عزیزِ جماعت کی خوشنودی سب سے بڑا جشن ہے، اور رفقاء کارکی قلمی اور تاریخی حوصلہ افزائی خود یہی جشن ہے۔
میں جشنِ خدمتِ علمی کے اس زرّین موقع پر تمام عزیز ساتھیوں کو ان کی بے مثال کامیابی کی مبارک بادی پیش کرتا ہوں، قبول ہو! کتنی عظیم سعادت ہے کہ پیاری جماعت کی علمی خدمت کرتے کرتے خود بھی علم کی لازوال دولت سے مالا مال ہوگئے ہیں اور ہو رہے ہیں، الحمد للہ، اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے، وہ ہمیں توفیق و ہمت عنایت فرمائے! تاکہ ہم سے بڑی عاجزی کے ساتھ شکرگزاری ہو سکے، آمین !
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
منگل ۳؍ جمادی الثانی ۱۴۱۵ ھ ۸؍ نومبر ۱۹۹۴ء
۱۴
بابِ اوّل
قرآن، حدیث اور فرمان
۱۵
چالیس قرآنی معجزات
۱۔ خدا علمِ دین کا نور ہے ۲۴: ۳۵
۲۔ زمین پر مظہرِ نورِ ۰۵: ۱۵، ۰۷: ۱۵۷
۳۔ اللہ کی نورانی رسی ۰۳: ۱۰۳
۴۔ امامِ مبین ۳۶: ۱۲
۵۔ امام خدا و رسول کی طرف سے ہے ۵۷: ۲۸
۶۔ ہادئ زمان ۱۳: ۰۷
۷۔ رسول کی محبت کس طرح ہو ۰۳: ۳۱، ۱۹: ۹۶، ۴۲: ۲۳
۸۔ یومِ غدیر ۰۵: ۶۷
۹۔ صاحبانِ امر ۰۴: ۵۹
۱۰۔ راسخون فی العلم ۰۳: ۰۷، ۰۴: ۱۶۲
۱۱۔ اسم اعظمِ شخصی ۰۷: ۱۸۰
۱۲۔ نور کی شخصیت ۰۹: ۳۲، ۶۸: ۰۸
۱۳۔ شجرِ علم و حکمت ۱۴: ۲۴ تا ۲۵
۱۴۔ کتابِ ناطق ۲۳: ۶۲، ۴۵: ۲۹
۱۵۔ وہ شخص جس کے پاس قرآن کا علم ہے ۱۳: ۴۳
۱۶۔ قرآن بہ سینہ ۲۹: ۴۹
۱۷۔ خاندانِ نبوّت کا ایک گواہ ۱۱: ۱۷
۱۸۔ صادقین کے ساتھ ہو جاؤ ۰۹: ۱۱۹
۱۹۔ جو دنیا میں اندھا ہو ۱۷: ۱۷۲
۲۰۔ امام المتقین ۲۵: ۷۴
۲۱۔ وارثِ قرآن ۳۵: ۳۲
۲۲۔ دائمی خلافت ۰۲: ۳۰
۲۳۔ روحانی سلطنت ۰۴: ۵۴
۲۴۔ خزانہ، دروازہ، کلید ۰۲: ۱۸۹، ۱۵: ۲۱
۲۵۔ آیۂ تطہیر ۳۳: ۳۳
۱۷
۲۶۔ قرآنی امثال اور علم والے ۲۹: ۴۳
۲۷۔ معلمِ کتاب و حکمت ۰۴: ۵۴
۲۸۔ وزیرِ رسولؐ ۲۰: ۲۹، ۲۵: ۳۵
۲۹۔ صراطِ ناطق ۰۳: ۱۰۱
۳۰۔ دینی شمس و قمر ۹۱: ۱۰
۳۱۔ عالمِ علمِ لدنی ۲۵: ۴۸
۳۲۔ خلاصۂ حکمت از سورۂ یوسف ۱۲: ۰۱ تا ۱۱۱
۳۳۔ تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمت ۰۵: ۰۳
۳۴۔ سنتِ الٰہی کے اسرار ۱۷: ۷۷
۳۵۔ ظاہری اور باطنی نعمتیں ۳۱: ۲۰
۳۶۔ روحانی لشکر ۰۵: ۵۴
۳۷۔ زمانۂ تاویل ۰۷: ۵۳
۳۸۔ دنیا ہی میں بہشت کی معرفت ۴۷: ۰۶
۳۹۔ سب سے عظیم امتحان ۵۷: ۲۱، ۰۳: ۱۳۳
۴۰۔ دینِ فطرت کی علامت ۳۰: ۳۰
۱۸
فرمان خوانی کا بہترین نمونہ
زمانۂ ماضی میں اگرچہ آفتابِ علم ہنوز طلوع نہیں ہوا تھا، لیکن پھر بھی ہمارے علاقوں کے تمام اسماعیلی عقیدۂ راسخ کی دولت سے مالا مال تھے، لوگ خلیفوں کے توسط سے اپنےاپنے پیروں کے حلقۂ مریدی سے وابستہ رہتے تھے، آج کی طرح امامت کے مقدّس ادارے نہ تھے، امامِ وقت صلوٰت اللہ علیہ و سلامہٗ کا فرمانِ مبارک کسی پیرِ روشن ضمیر کے توسط سے آتا تھا، پیر صاحب اکثر اپنے کسی نمائندے کے ساتھ یہ فرمانِ اقدس ارسال کرتے ۔
یہ شاندار قصّہ قریۂ حیدرآباد (ہونزہ) سے متعلق ہے کہ ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں فرمان خوانی کا اہتمام تھا، افرادِ جماعت ہر طرف سے جمع ہو رہے تھے، کیونکہ گزشتہ شام اور پھر صبح منادی نے بالائی قلعہ کی چوٹی سے بار بار بآوازِ بلند ترین یوں ندا کی تھی:۔
۱۔ و امولا ڎم فرمانن دی بِلا، جیملے گٹی منین نالآؤ ۲۔ وا کھائم فرمان نُو کادُوّان، ݼݹر گٹی منین لآؤ۔
مرکزی جماعت خانہ کے سامنے احاطے میں لوگ اس طرح بھر گئے
۱۹
کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہی، امامِ اقدس و اطہر علیہ السّلام کے تمام پاک باطن مرید بڑے شوق سے اس بات کے منتظر تھے کہ کب فرمانِ عالی جلوہ گر ہوگا؟ اتنے میں یہ روح پرور تہنیت آئی کہ بس اب خلیفہ طیہان صاحب کے گھر سے نمائندۂ پیر فرمانِ مبارک لا رہے ہیں، سبحان اللہ! عقیدۂ راسخ کی شان دیکھئے! ایک نورانی شخص خصوصی لباس میں ملبوس نمودار ہوا، جس نے ایک خاص چپن پہن لیا تھا اور خوبصورت پگڑی باندھ لی تھی، اور سر پر اس عقیدت و محبت سے فرمان لئے ہوئے آرہا تھا کہ پاک فرمان ریشمی رومالوں میں ملفوف اور صاف نئے تھال میں رکھا ہوا تھا۔
جیسے ہی جماعت نے ذرا دور سے فرمانِ مقدّس کو اس شان کے ساتھ لاتے ہوئے دیکھا تو احتراماً اٹھ کھڑی ہوگئی، ہر شخص دست برسینہ اشک ریزی پر مائل نظر آرہا تھا۔
جناب حاجی قدرت اللہ بیگ صاحب (مرحوم) بلتت سے آئے ہوئے تھے، تاکہ جماعتِ باسعادت کے لئے فرمانِ مبارک پڑھ کر ترجمہ کریں، چنانچہ آپ نے پُرحکمت فرمان کو اٹھا کر عشق و محبت سے چوما اور آنکھوں سے لگالیا، ہر چند کہ اس زمانے میں فرمانِ مبارک لفظی اعتبار سے فارسی ادب کی چوٹی پر ہوتا تھا، لیکن نوجوان عالم حاجی صاحب نے ایک مخصوص حیران کن لہجے میں اسے پڑھا اور بڑی عمدگی سے بروشسکی ترجمہ بھی کردیا، ان تمام خوبیوں کی وجہ سے اکثر مومنین کے آنسو آرہے تھے، اور سب کے سب با ادب کھڑے ہی تھے۔
محترم حاجی قدرت اللہ بیگ صاحب (ابنِ خان صاحب محبت اللہ
۲۰
بیگ ابنِ محمد رضا بیگ ) بے شمار صلاحیتوں کے مالک تھے، آپ کی گفتگو بڑی مؤثر ہوا کرتی تھی، اس لئے کہ آپ ہمیشہ عاقلانہ بات کرنے کے عادی تھے، میں نے سنا ہے کہ ایک دفعہ مولانا حاضر امامؑ نے ان کے بارے “دانشمند شخص (WISE MAN) کا لفظ استعمال فرمایا تھا، الغرض حاجی صاحب علم و معلومات کا ایک جیتا جاگتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی ، کراچی
منگل ۲۶؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ یکم نومبر ۱۹۹۴ء
۲۱
Monogram
11th December 1990
My dear Chairman,
I have received your letter of 16th November, and I am very happy to know about the Seminar on the Life and Works of Sayyidna Pir Nasir Khusrow which was held in the Northern Areas recently.
I send my most affectionate paternal maternal loving blessing to the Scholars and all the spiritual children who helped in organising the Seminar, and the participants for their good work and devoted services.
I hope that the Tariqah and Religious Education Board in Pakistan will continue to hold such Seminars in the future.
Yours affectionately,
Sd/.
Aga Khan
The Chairman, The Shia Imami Ismaili Tariqah and Religious Education Board For Pakistan,
Karachi.
۲۲
The Shia Imami Ismaili
Tariqah and Religious Education board for Pakistan
Ref. No. HI/91/ 0029 January 08, 1991.
Allamah Nasir-ud-din Nasir Hunzai,
3.A, Noor Villa,
Mill Street,
269, Garden West,
Karachi.
Dear Allamah Saheb,
I have great pleasure in forwarding herewith a copy of Talika Mubarak date 11th December, 1990 received from Sarcar Mawlana Hazar Imam on the occasion of holding the Seminar on the life and works of Sayyidna Pir Nasir Khusrow, held in the Northern Areas recently.
On this happy occasion please accept our heartiest congratulations.
۲۳
With kind regards and Ya Ali Madad,
Yours sincerely,
(Sd/.)
NOOR ALI H. KARMALI,
CHAIRMAN.
Encls: as above.
۲۴
تحفۂ درّ و گوہر
۱۔ ہر روز خدا کی ایک نئی شان (۵۵: ۲۹) کاملین میں ہوا کرتی ہے۔
۲۔ سورج کی ہر نئی شان مختلف مظاہر میں ہوتی ہے۔
۳۔ عرش نورِعقل کا نام ہے۔
۴۔ روح بسیط یعنی ہر جا حاضر ہے۔
۵۔ جو چیز ہر جگہ موجود ہو، اس کے لئے آنے جانے کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا ہے، مگر ہاں مظہریت سے۔
۶۔ اللہ کے لئے کوئی کام نیا نہیں، بلکہ تجددِ امثال کا قانون جاری ہے (۲۳: ۳۷)۔
۷۔ بہشت سے مومن چاہے تو زمان ہائے دراز کے بعد یہاں آسکتا ہے ورنہ نہیں، کیونکہ وہاں کی ہر نعمت چاہت سے ملتی ہے (۱۶: ۳۱، ۲۵: ۱۶، ۳۹: ۳۴، ۴۲: ۲۲، ۵۰: ۳۵)۔
۸۔ کوئی ایسی چیز (نعمت) نہیں ، جس کے خزائن اللہ کے پاس نہ ہوں (۱۵: ۲۱)
۹۔ تنزیل پیغمبر اکرمؑ کا معجزہ ہے اور تاویل امام ِاطہرؑ کا معجزہ۔
۱۰۔ اللہ پاک باطنی کائنات کو ہمیشہ اپنے دوستوں میں لپیٹتا بھی ہے اور پھیلاتا بھی۔
۲۵
۱۱۔ بہشت کا سب سے بڑا درجہ خود مومن کا بہشت ہو جانا ہے۔
۱۲۔ حقیقی علم بہشت کی سیڑھی ہے۔
۱۳۔ موت دو قسم کی ہوتی ہے، نفسانی موت اور جسمانی موت۔
۱۴۔ حدیثِ قدسی ہے: اے اولادِ آدم! میری اطاعت کر، تاکہ مین تجھ کو اپنی کاپی بنادوں گا۔۔۔۔۔
۱۵۔ اگرچہ چھپا ہوا خزانہ سب کے لئے ہے، لیکن یہ اسی کا ہوجاتا ہے جو اس کو پہچانتا ہے۔
۱۶۔ سب سے عظیم اور سب سے مفید راز یہ کہ امامِ زمان اللہ کی تاویل ہے ، کیونکہ خدا و رسولؐ کا حقیقی نمائندہ وہی ہے۔
۱۷۔ اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں، یعنی دنیا میں ہمیشہ نورِ ہدایت موجود ہے۔
۱۸۔ جو شخص حقیقی علم سے نابلد اور جاہل ہو، وہ آتشِ دوزخ میں ہے۔ (والجاھلُ فی لنّار، حدیث)
۱۹۔ عبادت کی بڑی قسمیں تین ہیں: جسمانی عبادت، روحانی عبادت، اور عقلانی عبادت۔
۲۰۔ مومن اللہ کے نور کا پَرتو ہے، یعنی چہرۂ خدا کا عکس یا تصویر ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی ، جمعہ ۱۵؍ جمادی الثانی ۱۴۱۵ ھ ۲۱؍اکتوبر ۱۹۹۴ء
۲۶
بابِ دوم
کتاب کے مہمانِ خصوصی
۲۷
صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبد الحکیم خان
صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبدالحکیم خان حضور موکھی، اعلیٰ نمبردار ذوالفقار آباد گلگت) ابنِ خلیفہ جمعہ بیگ ابنِ خلیفہ ابوذر غفاری ابنِ حاجی حیدر علی ابنِ حاجی بیگ ابنِ حاجی علی شیر ( جو خاندان علی شیر کذ کا جدِ اعلیٰ ہے)۔
موصوف صوبیدار میجر ایک ایسے ناموار خاندان کے چشم و چراغ ہیں جو شروع ہی سے راجگانِ ہونزہ، رعایا اور پورے علاقے کی بے مثال خدمات انجام دیتے آیا ہے۔ شاید ئنی نسل کو اس بات سے بڑا تعجب ہوگا کہ قدیم ہنزو کڎ عملِ باران (بارش برسانے کی تعویذ) تیز ہوا چلا نے کی تعویذ اور کشائش (بادلوں کو ہٹانے کی دعا ) پر یقین رکھتے تھے، یہی عقیدہ بدخشان، کاشغر اور یارقند میں بھی تھا، اور قرآنِ حکیم اس حقیقت کی بار بار تصدیق فرماتا ہے کہ اہلِ ایمان کے لئے کائنات کی ہر چیز مسخر کی گئی ہے، اس کا ایک حوالہ سورۂ جاثیہ (۴۵: ۱۳) میں ہے، لیکن اس تسخیر کے لئے عظیم شرطیں ہیں، چنانچہ علی شیر کڎ کے نیک بخت خاندان نے انتہائی شدید ریاضت کے ساتھ ہونزہ کے تمام پہاڑوں، صحراؤں اور آبادیوں کے لئے عملِ باران کی گرانمایہ خدمات انجام دیں، جس کا ذکرِ جمیل اور شکریہ قوم کی جانب سے ہم ہی کرتے ہیں۔
۲۹
اللہ تبارک تعالیٰ نے صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) عبدالحکیم خان صاحب کو کئی زرین خدمات کے میدانوں کا بادشاہ بنایا ہے، اور وہ میدانیں آج تک آٹھ ہوئے ہیں، جن میں سب سے پہلا اور سب سے مشکل عسکری میدان ہے، دوسرا مشکل میدان سکردو جماعت خانے کی تعمیر سے متعلق ہے، تیسرا میدانِ خدمت وہ ہے، جس میں ذوالفقار آباد کی بستی نیست و نابود ہو جانے سے بچالی گئی، چوتھا میدان سوشل خدمات کا ہے، پانچواں میدان الازہر ماڈل سکول میں عرصۂ دراز تک خدمت کرنے سے متعلق ہے، چھٹا میدان ذوالفقار آباد کی تعمیر و ترقی کا ہے، ساتواں میدان یہاں کے مقدس جماعت خانے کی تعمیر سے متعلق ہے، اور آٹھواں میدان وہ ہے، جس میں ہمیشہ آپ نے خانۂ حکمت سے بے مثال تعاؤن کیا، کوئی شخص شاید یہ سوال کرے کہ آیا ہر میدان میں صوبیدار میجر صاحب اکیلے ہی تھے؟ جواب ہے کہ اکیلا کوئی نہیں ہوتا، مگر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر بے مثال خدمات کس نے انجام دیں۔
ظلم و ستم کرنے والے بادشاہوں کا زمانہ گزر گیا، اب صرف وہی فرشتہ صفت انسان تمام لوگوں کے دلوں پر بادشاہی کر رہے ہیں جن کو ہر گونہ خدمت عزیز ہے، یقیناً میرا دل کہتا ہے کہ جناب صوبیدار میجر عبدالحکیم خان صاحب سنہری خدمات کا خاموش اور بے تاج بادشاہ ہیں، جب ان کی خاندانی اور ذاتی تاریخ ایڈٹ ہو کر منظر عام پر آئے گی تو حقیقی معنوں میں پتہ چلے گا کہ آپ کی قومی خدمت کا دائرہ کس قدر وسیع اور کتنا عظیم ہے۔
خدائے بزرگ و برتر نے موصوف صوبیدار میجر صاحب کو قوم کے لئے قدرو منزلت کا ایک بڑا مضبوط پہاڑ بنا دیا ہے، اس کی بنیادی وجہ عسکری
۳۰
خدمت ہے جو اسلام، پاکستان اور علاقے کے لئے کی گئی ہے، اور یہ سچ ہے کہ ہمارے فوجی بھائی حکومت اور عوام کی نظر میں بڑے معزز ہیں، یہی سبب ہے کہ جب بھی کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہو تو اس میں اپنے فوجی بھائیوں پر اعتماد کیا جاتا ہے۔
مہمان نوازی جیسی اعلیٰ انسانی صفت ہر کس وناکس میں پیدا نہیں ہوتی ہے، کیونکہ یہ خداوندِ عالم کی ایک عنایت ہے جو اس کے نیک بخت بندوں کو نصیب ہوتی ہے، اس پسندیدہ عمل کے نتائج و ثمرات بے حد مفید ہوا کرتے ہیں، چنانچہ محترم صوبیدار میجر عبد الحکیم خان صاحب مہمان نوازی میں شاہانہ دستر خوان کے مالک ہیں، اور حق بات تو یہ ہے کہ کھلانے پلانے سے بھی بڑھ کر کسی باعزت میزبان کی تواضع اور عاجزی بہت بڑی چیز ہوتی ہے جس میں ہمارے صوبیدار میجر بے مثال ہیں۔
الغرض ہمارے ممدوح صوبیدار میجر صاحب خدا کے فضل و کرم سے ایک عظیم سدا بہار پُرثمر درخت کی طر ح ہیں جس کا خوشگوار سایہ ہے، خوشبودار پھول ہیں، اور لذیذ میوے، عاجزانہ دعا ہے کہ یہ زندہ اور ازبس مفید درخت قومی باغ میں ہمیشہ شاداب اور ترو تازہ رہے! آمین یاربّ العالمین!!۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
ہفتہ ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۴۱۵ ھ ۲۴؍ستمبر ۱۹۹۴ء
۳۱
“TRUE COPY”
Monogram
21st May, 1973.
My dear President and Members,
On the occasion of Imamat Day, 11th July, I would like you to perform the opening ceremony of the new Jamatkhana at Skardu. My spiritual children in Skardu should use the new Jamatkhana as from Imamat Day.
I send my most affectionate paternal maternal loving blessings to the following beloved spiritual children for their devoted services and good work.
Ghulam Mohamed Hunzai
S.M. Abdul Hakeem
Rahmatullah
Ghulam Ali Shah
Mashroof Khan
Mahmood Beg
۳۲
I give my most affectionate paternal maternal loving blessings to all beloved spiritual children for their donations towards the building of the new Jamatkhana with best loving blessings to all those who helped towards the constructions work.
Yours affectionately,
Sd/.
Aga Khan
The President and Members,
H.H. Aga Khan Ismailia Supreme
Council, Karim abad
۳۳
پہاڑ کی مثال
قرآنِ حکیم میں پہاڑ کی مثال بڑی عجیب و غریب حکمتوں سے مملو ہے، پہاڑ کے لئے قرآن میں اکثر لفظِ جَبَلْ اور طُوۡر آیا ہے، جبل کا ذکر ۶ بار ہوا ہے اور جِبال (صیغۂ جمع) ۳۳ مرتبہ مذکور ہے، اور طور ۱۰ دفعہ آیا ہے، جبل یا طور کی تاویل عالمِ علوی، عالمِ سفلی اور عالمِ شخصی کے اعتبار سے مختلف ہے، ہم آپ کی آسانی کی خاطر یہاں عالمِ شخصی کے پہاڑ کی بات کرتے ہیں، جس میں عالمِ دین کے آسمان و زمین کی ایک کاپی موجود ہے۔
جبل یا طور کی تاویل:
۱۔ مومن یا مومنہ کا سر، کیونکہ بدن زمین کی طرح ہے اور سر پہاڑ کی مثال ہے۔
۲۔ روحِ منجمد کہ اسی روح کے پہاڑ کو انفرادی قیامت کے آنے پر ریزہ ریزہ ہو جانا ہے۔
۳۔ ترقی یافتہ روح یعنی روحِ علوی جو کائنات میں سیر کرتی ہے۔
۴۔ عقلِ منجمد، کیونکہ جب تک کوہِ عقل پر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی تجلی
۳۴
نہ ڈالے تو وہ منجمد ہی رہتی ہے، اور کائناتی عقل نہیں ہوسکتی۔
۵۔ وہ کوہِ عقل جو تجلیٔ حق یعنی دیدارِ الٰہی سے ریزہ ریزہ ہوکر مکان و زمان پر محیط ہوگیا ہو۔
سوالِ اوّل: بعض انبیاء علیہم السلام کے اس عمل میں اہلِ ایمان کے لئے کیا اشارہ ہے کہ وہ حضرات پہاڑ پر جاکر ذکر و عبادت کیا کرتے تھے؟ جواب: یہ شروع شروع کی بات ہے، ان مقدس ہستیوں کی ایسی عبادت کا اشارہ یہ ہے کہ جو مومنین و مومنات اسمِ اعظم کی نورانی عبادت کر رہے ہیں وہ ذکرِ الٰہی کو بدن سے بلند کر کے سر کے پہاڑ پر لے جائیں، اور اپنی پیشانی کے غار میں بطریقِ خود کار اللہ کو یاد کرتے رہیں۔
سوال دوم: کوئی نیک بخت شخص اعتکاف و چلہ کے لئے کس طرح اپنے سر کے پہاڑ پر جا سکتا ہے؟ جواب: اختیاری نفس کشی اور نفرادی قیامت کے معجزے سے ذکر پیشانی پر بلند ہو جاتا ہے۔
سوالِ سوم: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اوپر پہاڑ کو بلند کیا (۲: ۶۳، ۷: ۱۷۱) اس کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ جواب: الف: مقامِ روح پر کوہِ روح سر کے اوپر بلند کیا جاتا ہے۔ ب: مقامِ عقل پر کوہِ عقل بالائے سر رفع کیا جاتا ہے۔
سوالِ چہارم: کیا حضرتِ موسٰی کی قوم کی اتنی روحانی ترقی ہوئی تھی کہ اس کے ہر فرد کے اوپر روحانی پہاڑ اور عقلانی پہاڑ اٹھائے گئے تھے؟ جواب: ایسا نہیں، بلکہ یہ معجزہ کاملین کےعالمِ شخصی میں ہوتا ہے، جس میں بصورتِ ذرات سب لوگ موجود ہوتے ہیں۔
۳۵
سوالِ پنجم: سورۂ حشر (۵۹: ۲۱) میں ہے: اگر ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے، اور ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا ہے۔ اس میں کیا حکمت پنہان ہے؟ جواب: جب خداوندِ قدوس جبلِ عقل پر اپنی پاک تجلّی ڈالتا ہے تو وہ اللہ کے خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے، یعنی علم و حکمت کے بے شمار اجزاء بن جاتا ہے، کیونکہ وہ تجلّی در اصل حق تعالےٰ کی کتاب بھی ہے۔
سوالِ ششم: قرآنِ پاک (۰۲: ۶۰، ۰۷: ۱۶۰) میں اس مبارک پتھر کا ذکر آیا ہے، جس سے حضرتِ موسیٰ علیہ السّلام کی قوم کے لئے بارہ چشمے جاری ہوئے تھے، آیا اس پتھر کا جبلِ عقل سے کوئی تعلق ہے؟ آپ یہ بھی بتائیں کہ بارہ چشموں کی کیا تاویل ہے؟ جواب: وہ بابرکت پتھر خود عالمِ شخصی میں کوہِ عقل ہے، جو اساس کا باطنی مرتبہ ہے، اور بارہ چشموں سے بارہ حجت مراد ہیں جو علمِ اساس کے چشمے ہیں ، اساس (علیؑ) کے بعد طورِ عقل کا مرتبہ امامؑ کو حاصل ہے۔ سوالِ ہفتم: حکیم پیر ناصر خسرو (قدس اللہ سرہٗ) کے اس شعر کی حکمت واضح کر دیں:
بسانِ طیرِ ابابیل لشکری کہ ہمی بیوفتد گہری زو بہ جاری ہر حجری
جواب: ترجمہ: جھنڈ کے جھنڈ پرندوں کی طرح ایک (روحانی) لشکر ہے، جس سے ہر پتھر کی جگہ ایک گوہر گرتا ہے۔ یعنی عالمِ شخصی میں سب کچھ موجود ہے، اور اصحابِ فیل (۱۰۵: ۰۱ تا ۰۵) کا واقعہ بھی ہے، مگر بطریقِ رحمت، کہ یہاں پرندوں کے لشکر پتھروں کی بجائے لعل و گوہر برسا دیتے ہیں، تاکہ کافروں
۳۶
کی ہلاکت کی عملی مثال بھی ہو اور عارفانِ حق کے لئے دولتِ لازوال بھی ہو۔
سوالِ ہشتم: (بحوالۂ سورہ ۰۲: ۷۴) وہ پہلا پتھر کون سا ہے جس سے نہریں جاری ہو جاتی ہیں؟ دوسرا پتھر کونسا ہے جس سے پانی نکلتا ہے؟ اور تیسرا پتھر کونسا ہے جو خدا کے خوف سے گر جاتا ہے؟ جواب: اساس اور امام علیہما السّلام، جن کے جبلِ عقل سے ہمیشہ علم کے بارہ چشمے جاری ہیں، حجت اور داعی جن کے توسط سے امامؑ کا علم ملتا ہے، اور ہر مرید (مرد و زن) جو بار بار خود کو گرا دیتا ہے، یعنی علم کی خاطر اللہ کے حضور میں عاجزی اور گریہ وزاری کرتا ہے۔
سوالِ نہم: اس حدیث شریف کی کوئی پوشیدہ حقیقت سمجھائیں: نزل الحجرالا سود من الجنۃ و ھوا شدٌ بیا ضاً سوّدتۃ خطایا بنی اٰدم ۔ حجرِ اسود بہشت میں سے اترا، وہ بہت سپید تھا، لیکن لوگوں کے گناہوں نے اس کو کالا کر دیا۔ جواب: بہشت سے کوئی چیز دنیا میں اس طرح نازل ہوتی ہے کہ وہ شیٔ بحالتِ روحانی وہاں موجود بھی رہتی ہے، اور یہاں اس کی ایک مادّی صورت بھی بنتی ہے، اگر بہشت کی ہر نعمت بعینہٖ اٹھ کر دنیا میں اتر آتی تو اس عمل سے بہشت رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی اور یہ دنیا بہشت بن جاتی ، مگر یہ ممکن نہیں، پس یہ مبارک پتھرہمیشہ جنت میں حجرِ ابیض اور کوہِ عقل ہے، اور دنیا میں حجرِ اسود ہے۔
سوالِ دھم: اس میں کیا رازِ حکمت پوشیدہ ہے کہ عقل کی تشبیہ و تمثیل پتھر سے دی گئی ہے، حالانکہ پتھر جماد (بیجان) ہے، اور کائنات میں اس کا درجہ سب سے نیجے ہے؟ جواب: ہر چیز کے
۳۷
د و پہلو ہوا کرتے ہیں، چنانچہ پتھر یعنی پہاڑ کا حکمتی (باطنی) پہلو بڑا عجیب و غریب ہے: (الف) سیّارۂ زمین کی تخلیق کے بعد پہاڑ پیدا کئے گئے، اور یہ پہاڑوں کی فضیلت کی دلیل ہے، پھر ان کی وجہ سے زمین کی برکتیں پیدا ہوگئیں (۴۱: ۱۰) ۔ (ب) ویسے تو پہاڑوں سے بے شمار مفید چیزیں حاصل ہوجاتی ہیں، لیکن ان میں جواہر کی کانیں بڑی حیرت انگیز ہیں (ج) کائنات و موجودات کی جملہ اشیاء دائرۂ اعظم پر واقع ہیں، جس میں سب سے پہلے ۹ آبائے علوی، یعنی عرش، کرسی، اور سات آسمان ہیں، پھر چار اُمہات (آگ، ہوا، پانی اور مٹی) ہیں، پھر موالیدِ ثلاثہ (جمادات، نباتات اور حیوانات) ہیں، پھر ان میں سے حیوانِ ناطق (یعنی انسان) ہے، پھر انسانِ کامل ہے، پھر اس میں سے فرشتۂ اعظم اور اس کے ہاتھ میں انتہائی گران مایہ پتھر (گوہرِ عقل) ہے، یہ ہوا دائرۂ اعظم کا کوہِ عقل سے شروع ہو کر پھر کوہِ عقل پر جاکر مکمل ہو جانا، عرش و کرسی یا قلم و لوح ہی دو عظیم فرشتے ہیں۔
سوالِ یازدھم: قرآنِ عزیز اللہ تعالےٰ کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: اُس نے تمہارے آرام کے لئے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں کے سائے بنائے، اور اسی نے تمہارے چھپ کے بیٹھنے کے واسطے پہاڑوں میں گھروندے (غار وغیرہ) بنائے (۱۶: ۸۱) اس کی کیا تاویل ہو سکتی ہے؟ جواب: یہ خداوندِ کریم کی بڑی بڑی نعمتوں اور عظیم احسانات کا ذکر ہے، اس لئے یہ مخلوقِ خاص کا سایہ یعنی کاپی ہے، جیسے عالمِ شخصی میں سایۂ عرش = نورِ عقل، سایۂ کرسی = روح الایمان ، سایۂ قرآن = روحانیّت، سایۂ امامؑ = تاویلی حکمت، وغیرہ۔
۳۸
پہاڑوں میں گھروندے یا غار = انبیاء و أئمّۂ علیہم السّلام (جو عقلی اعتبار سے پہاڑوں کی طرح ہیں ، ان ) کے اندر اہلِ ایمان کی مخفی زندگی ۔
سوالِ دوازدھم: آپ نے پہاڑ کی مثال میں کوہِ عقل کی تعریف و توصیف بیان کیا، جس سے عقل کی بہت بڑی اہمیت واضح ہوگئی، جب یہ امرِ واقعی ہے تو پھر پوچھنا پڑے گا کہ آیا امُ الکتاب (سورۂ فاتحہ) میں عقل کی اہمیت کے بارے میں کوئی اشارہ موجود ہے؟ جواب: جی ہاں، نہ صرف اشارے ہی ہیں، بلکہ عقل کا ایک نام بھی ہے، اور وہ ہے: حمد/ الحمد (بحوالۂ کتابِ وجہِ دین، گفتار / کلام: ۳۷)۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی حقیقی تعریف (الحمد) عقلِ کل ہی ہے، جس کے توسط سے عوالمِ شخصی کی عقلی پرورش ہوتی رہتی ہے، اسی پرورش کی روشنی میں صفتِ رحمان و رحیم کا ثبوت مل جاتا ہے، اور روزِ جزا کے مالک کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے، اسی معرفت کا اشارہ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْستَعِیْن میں موجود ہے، یہ سب کچھ ہادئ زمان علیہ السّلام کی نورانی ہدایت سے ممکن ہوا تھا، لہٰذا عطا کردہ نعمت کی شکرگزاری کے طور پر عرض کی جاتی ہے کہ: چلا ہم کو سیدھے راستہ پر، راستہ اُن کا جن پر تو نے انعام فرمایا، نہ ان کا جن پر غضب ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے امُ الکتاب میں عقلِ کل اور اس کے مظہر (امامِ زمانؑ) کا ذکر فرمایا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
ہفتہ ، ۱۲؍شعبان المعظم ۱۴۱۵ ھ ۱۴؍ جنوری ۱۹۹۵ء
۳۹
بابِ سوم
خانۂ حکمت ریجنل برانچ
۴۱
یارانِ طریق
اس پسندیدہ عنوان کے تحت ان عالی ہمت عزیزان کا کچھ تذکرہ مقصود ہے جو اس بندۂ خاکسار کے ساتھ جان و دل سے علمی خدمت کے راستے پرگامزن ہوتے رہتے ہیں، یعنی علمی ہمسفر اور رفقائے کار، جو مجھے بےحد عزیز ہیں، کیونکہ اس کے ساتھ میرا خاص روحانی اور اصل علمی رشتہ ہے، ان کی سکونت کی وجہ سے وہ ممالک اور مقامات بھی بہت دلکش لگ رہے ہیں، جہاں جہاں میرے عزیزان قیام پذیر ہیں، خدا کا شکر ہے کہ میں سارے انسانوں کو درجہ بدرجہ چاہتا ہوں، تاہم جو حضرات علمی خدمت میں میرے ساتھ ہیں، ان کو اپنی جان کی طرح یا اس بھی زیادہ عزیز رکھتا ہوں، میرا خیال ہے کہ ایسی بامقصد دینی اور علمی محبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی رحمت ہے۔
چیف ایڈوائزر غلام قادربیگ:
آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے، غلام قادربیگ (چیف ایڈوائزر) ابنِ ترنگفہ امیر اللہ بیگ ابنِ ترنگفہ فیض اللہ بیگ ثانی (وزیر ݽیناکی) ابنِ ترنگفہ فیض اللہ بیگ اوّل (سالار برائے ہنگامی عسکری امور) ابنِ وزیر اسد اللہ بیگ
۴۳
ابنِ وزیر پنو. . . ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے غلام قادر بیگ صاحب کی شخصیت کو گونا گون خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ فرمایا ہے، جس اصلی و اساسی خوبی سے انسان میں ہزارہا خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں، وہ ایمان اور خدا ترسی ہی ہے، الحمد للہ! یہ وصف عزیزِ جان غلام قادر میں بدرجۂ اتم موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ میدانِ علم و عمل میں نمایان کامیابی اور نیک نامی کے ساتھ آگے سے آگے بڑھ رہے ہیں، ہر شخص دل و جان سے آپ کی عزت کرتا ہے، کیونکہ آپ ہر دلعزیز اور بے مثال لیڈر ہیں، اور کئی حیثیتوں میں قوم کی اعزازی خدمات انجام دے رہے ہیں، یقیناً غلام قادر بیگ صاحب کی رہنمائی میں خانۂ حکمت ریجنل برانج گلگت نے کافی ترقی اور نیک نامی حاصل کر لی ہے، لہٰذا ہم سب غلام قادر (چیف ایڈوائزر برائےعلامہ نصیر ہونزائی) کے بہت بہت ممنون اور شکر گزار ہیں۔
بے حد خوشی اور انتہائی شادمانی کی بات ہے کہ عزیزم غلام قادر بیگ کی “پین پاور” میں بڑی تیزی سے ترقی ہورہی ہے، جس کی ہمیں ہر طرح سے ضرورت ہے، ان شاء اللہ عنقریب ایک بہت بڑے لیڈنگ سکالر کی حیثت سے نمایان ہو جائیں گے، کیونکہ آپ بڑے روشن دماغ اور پاک باطن ہیں، اور حقیقی علم کی مکانیت و ظرفیت کے لئے ان کا دل بہت پاکیزہ اور صاف ہے، میں باور کرتا ہوں کہ غلام قادر بیگ درویش صفت ہونے کی وجہ سے فرشتگانِ ارضی میں سے ہیں، آپ کا تعلق قریۂ علی آباد سے ہے۔
۴۴
علی آباد
حضرتِ مولانا امام سلطان محمد شاہ علیہ السّلام نے میر محمد غزنخانِ ثانی سے سوال فرمایا کہ آپ کی ریاست و حاکمیّت کے تحت جتنے گاؤں ہیں، ان کے کیا کیا نام ہیں؟ امامِ عالیمقامؑ کے اس ارشاد پر میر صاحب نے انتہائی اخلاص و ادب سے عرض کیا کہ یا مولا! ان تمام قریہ جات کے یہ یہ نام ہیں، پس امامِ اقدس و اطہر نے ایسے ناموں کو زیادہ پسند فرمایا جو اسلامی طرز پر ہیں، حضرتِ امام علیہ السّلام کی اس پسندیدگی میں بہت بڑی حکمت ہے، چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حسبِ اشارۂ ہادیٔ برحقؑ ہر اس گاؤں کے نام کو تبدیل کرنا چاہئے جو اسلامی نہ ہو، جس طرح اب متم داس کا نام رحیم آباد اور ہندی کا نام ناصر آباد رکھا گیا ہے۔
روحانی انقلاب کا زمانہ تھا، اور یہ درویش اپنے خیال ہی میں علی آباد کی کوئی بات یاد کر رہا تھا، اتنے میں روحانی نے ناقابلِ فراموش انداز میں کہا: ۔ اُلو کے علی اباتن بِلݳ (باطن میں بھی ایک علی آباد موجود ہے ) مجھے یقین ہے کہ اس میں بہت سے اشارے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ ہر اشارہ مسرّت بخش اور حیرت انگیز ہے، مثال کے طور پر: ۔
عالمِ شخصی کی گونا گون تجلّیات میں اس امر کا امکان ہے کہ آپ جس قریہ،
۴۵
شہر، اور جس سیّارے یا ستارے کو دیکھنا چاہیں، دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ بہشت ہے، جس میں ہر نعمت ممکن الحصول ہے، پس اگر کوئی مومن چاہے تو پرسنل ورلڈ کا روحانی ظہور اس کے اپنے گاؤں کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے، چنانچہ روحانی کا یہ فرمانا کہ:
“اُلو کے علی اباتن بِلݳ = باطن میں بھی ایک علی آباد ہے۔” یہ سب کے لئے کلّیہ بھی ہے اور اہلِ علی آباد کے لئے مژدہ بھی۔
صاحبِّ صدر:
اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور احسان ہے کہ خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت کو خدمتِ خلق کی یہ بہت بڑی سعادت نصیب ہوئی، میں اس موقعہ پر اپنی طرف سے اور شرق و غرب کے تمام عزیزوں کی طرف سے صاحبِ صدر سلطان اسحاق کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں، قبول ہو، نیک نام برانچ کے صدرِ عالی قدر کا شجرۂ نسب یہ ہے: سلطان اسحٰق ابنِ محمد شریف، ابنِ مظہر علی، ابنِ رحمت شاہ، ابنِ لولوخان، ابنِ لسکرِ خان، ابنِ محمد شریف۔
عزیزم سلطان اسحٰق اسلامی اور ایمانی اقدار کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں، اس لئے ہر نیک کام میں محنت اور صداقت ان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے، اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کے نورِ محبت نے ان کو کندن بنا دیا ہے، کتنی بڑی خوبی کی بات ہے کہ کوئی مومن ظاہراً افسر ہو اور باطناً درویش! آپ نے کئی دفعہ اپنے دولت خانے میں روحانی و علمی مجلس کا اہتمام فرمایا،
۴۶
جس میں آپ ہماری مقدّس روایت کے مطابق نہ صرف ایستادہ اور دست بستہ تھے، بلکہ نزولِ رحمت کی غرض سے اللہ کے حضور عاشقانہ آنسو بھی بہا رہے تھے، زہے نصیب!
سلطان اسحاق صاحب کا یہ عظیم احسان ناقابلِ فراموش ہے کہ انہوں نے نارتھ کے فوجی افسران کی خدمت میں بعض کتابیں پیش کیں، اور ساتھ ہی ساتھ پُرزور مشورہ دیا کہ میں میجر جنرل فضلِ غفور صاحب اور ان کے ساتھی آفیسرز کی خواہش و فرمائش کے مطابق اسلامی جہاد پر کوئی مضمون تحریر کروں، اس بابرکت مشورے کا بڑا میٹھا ثمرہ آج “چہل حکمتِ جہاد” سب کے سامنے ہے۔ اس چھوٹی سی کتاب کے توسط سے میں اپنے فوجی بھائیوں کے ساتھ ہوں، آج میں عزیزوں، کتابوں وغیرہ کی صورت میں ایک مکمل آرمی ہوں، الحمدُللہ علیٰ مَنِّہٖ و اِحْسَا نِہٖ۔
الغرض صدر سلطان اسحٰق اور ان کے عملداران و ممبران سب کے سب قابلِ صد مبارک باد ہیں کہ ان کی مجموعی کوشش سے ایسے عظیم الشّان کارنامے انجام دیئے گئے، جن سے ہر طرف خوشی اور شادمانی کی خوشبو پھیل گئی، آئیے! ہم سب مل کر کوئی ایسی عاجزانہ دعا کریں کہ جس س خداوندِ مہربان کو ہم پر رحم آئے، وہ ہمیشہ ہمیں نیک توفیقات عنایت فرمائے! تاکہ ہم کبھی مغرور نہ ہوجائیں، اس مہلک اخلاقی بیماری سے بچنے کی خاطر بار بار گریہ و زاری کریں، کیونکہ اس کے بغیر اللہ کی دوستی قائم نہیں رہتی، وہ بڑی مشکل اور نازک شیٔ ہے، یہی وجہ ہے کہ انبیاء و اولیاء علیہم السّلام ہمیشہ گریہ وزاری کیا کرتے ہیں (۱۷: ۱۰۹، ۱۹: ۵۸)۔
۴۷
دوستانِ عزیز! قرآنِ حکیم کے ان دونوں حوالوں میں غور سے دیکھ لیں کہ خدا کے خاص بندے گریہ وزاری کے دوران کیوں سجدہ ریزہ ہوجاتے ہیں؟ اس میں کیا راز پوشیدہ ہے؟
سابق صدر:
عزیزم خلیفہ غلام رسول قبلاً اس برانچ کے صدر تھے، اور اب ایڈوائزر ہیں، آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: غلام رسول ابنِ محمد حسن، ابنِ حسن شاہ، ابنِ دولت علی، ابنِ محسن، ابنِ دو دو، ابنِ مغل خان، ابنِ ممو، ابنِ رستم خان، ابنِ بجل خان جو میوری تھم کے زمانے میں ہونزہ آیا تھا۔
غلام رسول صاحب ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو قریۂ حیدرآباد میں پیدا ہوئے، ذہین اور دیندار ہونے کی وجہ سے آپ ۱۹۶۸ء کو مرکزی جماعت خانہ گلگت سے متعلق والنٹیئرز کے کیپٹن مقرر ہوگئے، بعد ازان مولانا حاضر امام علیہ السّلام نے آپ کو اسماعیلیہ ایسوسی ایشن ایریا کمیٹی گلگت کا سیکریٹری مقرر فرمایا، اس کے بعد لوکل کونسل گلگت کا ممبر منتخب ہوا، اور اس مقدّس خدمت میں ۶ سال تک ذوالفقار آباد ریلیجس گائیڈ کا فریضہ انجام دیتا رہا ، جب شاہ کریم ہاسٹل میں ٹریننگ کر کے اچھے نمبروں پر پاس ہوا تو ہیڈ کوارٹر کراچی طریقہ بورڈ نے آپ کو مقامی واعظ منتخب کیا۔
شروع ہی سے آپ خانۂ حکمت گلگت کے نائب صدر تھے، پھر صدارت پر فائز ہو گئے، اس کے بعد اب غلام رسول صاحب ایڈوائزر ہیں، اور یہاں کی جماعت کے خلیفہ بھی، آپ دیکھتے ہیں کہ عزیزم غلام رسول کی کتنی مفید خدمات ہیں!
۴۸
حضور موکھی رحمت علی
آپ کا شجرۂ نسب: رحمت علی ابنِ گوہر شاہ، ابنِ نادرشاہ، ابنِ حیات بیگ، ابنِ ایاز بیگ۔
گوہر شاہ عبادت گزار، شب خیز، منقبت خوان اور درویش صفت انسان تھے، خداوندِ قدوس ایسے مومنین کو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بڑے بڑے انعامات سے نوازتا ہے، آج ہم ان کے معزز افرادِ خاندان کو دیکھتے ہیں، وہ زمین پر چلنے پھرنے والے فرشتے ہیں، یہ بات معرفت کی روشنی میں ہے، اور یہ بڑا عجیب واقعہ کہ جو ارضی فرشتے ہوتے ہیں ان میں سے بعض کو یہ راز معلوم ہی نہیں کہ وہ یہاں کے فرشتے ہیں۔
حیات بیگ مسگار کا پہلا ارباب تھا، لفظِ ارباب علاقۂ گوجال میں ترکفا (ترنگفا / زکگوین) کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
جناب رحمت علی صاحب ہونزہ کے اوّلین اسماعیلی سول انجینیئر ہیں، آپ اپنی تمام تر اخلاقی خوبیوں میں بے مثال ہیں، عبادت اور علم سے بھر پور مزہ لینے والے، حضرتِ امامِ اقدسؑ کے دوستدار، اہلِ بیتِ اطہارؑ کے جان نثار، اپنی نیک نام جماعت کے خدمت گزار اور نیک عادتوں میں نامدار ہیں، آپ خانۂ حکمت کے لئے ایڈوائزر منتخب ہوئے ہیں۔
۴۹
مولانا حاضر امام صلوات اللہ علیہ کے لئے ان کے ظاہر و باطن میں کس درجے کا عشق ہے، اس کا اندازہ ان کے نورانی خوابوں سے ہوسکتا ہے، جبکہ اچھے خواب انبیاء علیہم السلام کے مجموعی معجزات میں سے ہیں، یہ قانونِ عشق خوب یاد رہے کہ فنا فی الا مامؑ، فنا فی الرسولؑ، اور فنا فی اللہ کا معجزۂ عشق ایک ہی ہے، اور اس کا نتیجہ و ثمرہ بھی ایک ہی ہے، الحمد للہ ربّ العٰلمین۔
ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
منگل ۲۰؍ ربیع الثانی ۱۴۱۵ ھ ۲۷؍ستمبر ۱۹۹۴ء
۵۰
اعزازی سیکریٹری
عزیزم شیراللہ بیگ خانۂ حکمت ریجنل برانچ گلگت کے آنریری سیکریٹری ہیں آپ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: شیر اللہ بیگ ابنِ پہلوان بیگ ابنِ رجب شاہ ابنِ پہلوان ابنِ شالی۔
آپ بڑے راسخ العقیدت اور علم دوست مومن ہیں، ان کو حلیمی اور نرم گوئی پسند ہے، عرصۂ دراز سے آنریری خدمات انجام دے رہے ہیں، کمپیوٹر میں اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی ہے، اس فن سے دوسروں کی بھی مستفیض کر رہے ہیں، دفتری امور کا خوب تجربہ رکھتے ہیں، ذکر و عبادت اور علم و حکمت کے شیدائی ہیں، اور اس مقدّس راہ میں ان شاء اللہ ان کی ترقی ہوگی، کیونکہ خداوندِ قدوس کے فضل و کرم سے آپ خصوصی علم و عبادت کے ماحول میں رہتے ہیں۔
میں انتہائی عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ حضرتِ ربّ العزّت تمام اہلِ زمین کو اپنے علم و حکمت کے نورمیں ایک کردے! تاکہ وہ بےشمار ہونے کے باؤجود شخصِ واحد کی کاپیاں ہو جائیں، جس طرح منزلِ عزرائیلی میں یہ عجیب و غریب معجزہ دیکھا گیا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک دن
۵۱
عالمِ انسانیت کو لپیٹ کر انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں رکھنے والا ہے، جیسے قرآنِ کریم میں اس حقیقت کا اشارہ موجود ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷)۔
تعجب کی بات ہے کہ لوگوں نے اپنی روح جیسی اعلیٰ حقیقت کی پہچان کی طرف توجہ نہ دی، جیسا کہ اس کا حق ہے، اور جس نے پہچاننے کی کوشش کی اس نے روح کو پانی سے بھی کم درجہ دیا، یہ تو روحِ انسانی پر ظلم ہوگیا، جیسے ہندؤوں کا تصوّر ہے کہ روح اس جنم میں محدود ہے، پھر دوسرے جنم میں بھی، حالانکہ پانی ایک مادّی چیز ہونے کے باوصف اپنی دنیا کے ہر مقام پر آزاد اور موجود ہے، آپ خوب غور کریں کہ عالمِ آب اور اس سے پیدا شدہ چیزیں کہاں سے کہاں تک ہیں، اور روح اس مثال سے انتہائی اعلیٰ ہے، کیونکہ وہ نورِ خداوندی کا عکس ہے، پس نور دونوں جہاں میں ہر جگہ حاضر ہے، اور عکس اس سے کیسے الگ ہوسکتا ہے، اب آپ خود بتائیں کہ حقیقی روح ہمیشہ بہشت میں ہے یا نہیں؟
حکیم پیر ناصر خسرو فرماتے ہیں: ۔
زنورِ او تو ہستی ہمچو پَرتَو حجاب از پیش بردار و تو اوشو
تو اس کے نور کا عکس ہے، پردہ سامنے سے ہٹا کر تو اس کے ساتھ ایک ہو جا ۔ الحمد للہ ربّ العالمین۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
۱۹؍ جون ۱۹۹۴ء
۵۲
کو آرڈینیٹر برائے مسگار
اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ ہماری ریجنل برانچ گلگت کے عملداروں نے مجموعی طور پر بہت سے اعلیٰ کارناموں کو انجام دیا ہے، چنانچہ اسی خوشی کے نتیجے میں یہاں کے عہدہ داروں کی ہمت افزائی کے لئے کچھ کلمات تحریر کرنے کی سعی ہورہی ہے۔
کامڑیا حاصل مراد صاحب نائب صوبیدار (ریٹائرڈ) قریۂ عزیز مسگار کے لئے کوآرڈینیٹر مقرر ہوگئے ہیں، تاکہ مسگار برانچ کو ترقی میں مدد ہو سکے، آپ میرے خاص علمی دوستوں میں سے ہیں، ہماری دوستی علمی خدمت کی غرض سے ہوا کرتی ہے، کیونکہ علم ہی سب سے بڑی دولت ہے جو لازوال اور غیر فانی ہے، پس جو شخص علم کا عاشق ہو وہ خوش نصیب بھی ہے اور ہوشمند بھی، اس پر خداوندِ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس کے دل میں علم و حکمت کا عشق پیدا کر دیا ، خدا کا شکر ہے کہ میرے جملہ عزیزان (متعلّمین) حقیقی علم کے شیدائی ہیں، کامڑیا حاصل مراد کا شجرۂ نسب یہ ہے: کامڑیا حاصل مراد ابنِ خلیفہ برات ابنِ لگری خان، ابنِ عاشور جان، ابنِ محمد رفیق ایرانی۔
مسگار کے توسط سے میرے مولا نے بہت سے باطنی معجزے کئے
۵۳
ہیں، کوئی شک نہیں کہ مسگار گوجال کا ایک گاؤں ہے، چنانچہ جب یہ بندۂ درگاہِ مولا چپورسن کے دورے پر گیا تو وہاں کے مقدس جماعت خانوں میں بھی ذکر و عبادت کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ ہوا، الگرض گوجال زمانۂ قدیم سے باکرامت مقام رہا ہے، میرا خیال ہے کہ گوجال کے بعض مقامات کوہِ طور کی طرح مقدس ہیں، تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ اسماعیلی مذہب میں سب سے مقدس جگہ جماعت خانہ ہی ہے، اور روحانی ترقی کا فائدہ بھی اسی میں ہے۔
میرا ایک پسندیدہ موضوع “جسمِ لطیف” ہے، لہٰذا اس مخلوق کی موجودگی پر دلیل و شہادت کی غرض سے میں یہ واقعہ یہاں درج کر رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ میر محمد جمال خان (مرحوم) کا زمانہ تھا، ان کے گلمت والے محل میں کئی دفعہ روحانیئن نے آکر سب کو حیران و پریشان کر دیا ، یہ واقعہ کئی دفعہ بلکہ کئی سال صرف گلمت محل میں پیش آیا، سوال ہے کہ دراصل یہ کون سی مخلوق تھی؟ اس کے آنے کا کیا مقصد تھا؟ یہ واقعہ کریم آباد محل میں کیوں پیش نہیں آیا؟
جواب: مؤکل، فرشتہ، جنّ، پری، راحی ، پیالی، جسمِ لطیف، جثّۂ ابداعیہ، مخلوقِ لطیف وغیرہ، کیونکہ یہ ایک ہی مخلوق ہے، جبکہ نام الگ الگ ہیں، یہ تمام لوگوں کو آزمانے کے لئے آئے تھے کہ جسمِ لطیف پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں، اور یہ واقعہ گوجال میں اس لئے پیش آیا کہ وہ علاقہ بڑا متبرک ہے، کیونکہ وہاں کے مومنین و مومنات زمانۂ قدیم سے خدا کو بڑی کثرت سے یاد کرتے آئے ہیں، جس کی برکت سے پورا علاقہ سوجو کم (مقدس) ہو چکا ہے۔
جو لوگ عقائد و اعمال میں پاک ہوتے ہیں، ان کا گھر، مقام اور علاقہ پاک ہوتا ہے، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وا ٓلہٖ وسلم کے تقدس کی وجہ سے
۵۴
آپ کے لئے ساری زمین کو مسجد کا درجہ دے کر پاک بنائی گئی تھی، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے:
جُعِلّتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدً اوَّطَھُرْراً =
زمین میرے لئے مسجد اور پاک بنا دی گئی (بخاری، کتابِ تیمم) اور جس طرح حضرتِ موسیٰ اور حضرت ہارون علیہا السلام اور ان کے مومنین کو اللہ نے حکم دیا کہ تم اپنے گھروں کو قبلہ بنا لو (۱۰: ۸۷) مان لیجئے کہ اس حکم کی تعمیل میں بہت سے قبلے بنائے گئے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایک سے زیادہ قبلے کس طرح جائز ہو سکتے ہیں؟
جواب: کوئی شک نہیں کہ ہر مومن کا گھر ایک قبلہ تھا، لیکن کوئی گھر یا قبلہ پیغمبرؐ اور امامؑ کے عالمِ شخصی سے باہر نہ تھا، کیونکہ یہ سارے بیوت مصر (شہر) یعنی مذکورہ عالمِ شخصی ہی میں بنائے گئے تھے (۱۰: ۸۷) اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ گھر دراصل باطنی ہیں، یاد رہے کہ کسی چیز کی کاپیاں بظاہر کثیر ہونے کے باوجود حقیقت میں ایک شمار ہو جاتی ہیں، جیسے سورج اگرچہ ہزار آئینوں میں نظرآتا ہے، تاہم وہ صرف ایک ہی ہے، اسی طرح اگر ایک شخص کی ہزار زندہ تصویریں بنائی گئی ہیں، تو پھر بھی وہ ایک ہی آدمی ہے۔
۵۵
کتبِ خانۂ حکمت کی چند خصوصیات
۱۔ قرآنیات
۲۔ اسلامیات
۳۔ توحید
۴۔ نبوّت و رسالت
۵۔ امامت
۶۔ روح و روحانیت
۷۔ عقل و عقلانیت
۸۔ قائم و قیامت
۹۔ حکمت
۱۰۔ تاویل
۱۱۔ عالمِ شخصی
۱۲۔ آیاتِ کائنات
۱۳۔ تصوف
۱۴۔ سوال و جواب
۱۵۔ ڈایا گرامز (نقوش)
۱۶۔ ابداع و انبعاث
۱۷۔ ازل و ابد
۱۸۔ گوہرِ عقل
۱۹۔ بہشت
۲۰۔ روحانی سلطنت
۲۱۔ یک حقیقت
۲۲۔ اسرارِ معرفت
۲۳۔ تصورِ آفرینش
۲۴۔ سائنس اور مذہب
۲۵۔ باطنی علاج
۲۶۔ علم کی اہمیت
۲۷۔ ذکر و عبادت
۲۸۔ عشقِ سماوی
۵۶
۲۹۔ حدودِ دین
۳۰۔ اسرارِ وحی
۳۱۔ حقیقتِ نور
۳۲۔ اسرارِ انبیاء
۳۳۔ اسرارِ امامت
۳۴۔ نفسِ واحدہ
۳۵۔ قانونِ خزائن
۳۶۔ قانونِ کل
۳۷۔ قانونِ قبض و بسیط
۳۸۔ روحِ کلّی
۳۹۔ انائے علوی
۴۰۔ عرش و کرسی
۴۱۔ قلم و لوح
۴۲۔ آدم و حوّا
۴۳۔ ملائکہ
۴۴۔ امام شناسی
۴۵۔ حکمتِ حدیث
۴۶۔ اسمِ اعظم
۴۷۔ باطنی دیدار
۴۸۔ عاجزی و گریہ و زاری
۴۹۔ ہمہ گیر خیرخواہی
۵۰۔ تخلیق در تخلیق
۵۱۔ لا ابتدا و لا انتہا
۵۲۔ تعلیمات کا پھیلاؤ
۵۳۔ سمعی و بصری تعلیم
۵۴۔ ادارۂ ہفت زبان
۵۵۔ آڈیو کیسیٹز
۵۶۔ تراجم
۵۷۔ جسمِ لطیف
۵۸۔ اڑن طشتری
۵۹۔ بقائے مستقر
۶۰۔ تصورِ رفعِ زمان
۶۱۔ نورانی جنم
۶۲۔ عالمِ وحدت
۶۳۔ تعبیرِ خواب
۶۴۔ منزلِ عزرائیلی
۶۵۔ عالمِ ذرّ
۶۶۔ ایک میں سب
۶۷۔ روحوں کا ریوائنڈ
۶۸۔ لطیف غذائیں
۵۷
۶۹۔ جنّات
۷۰۔ کوہِ قاف
۷۱۔ یاجوج و ماجوج
۷۲۔ حروفِ مقطعات
۷۳۔ کلمۂ کُنۡ
۷۴۔ علم الاعداد
۷۵۔ اشاراتی زبان
۷۶۔ پرندوں کی بولی
۷۷۔ حکمتِ تسمیہ
۷۸۔ اسماعیلیت
۷۹۔ تقویٰ
۸۰۔ اطاعت و فرمانبرداری
۸۱۔ باطنیت
۸۲۔ خدا کی ہر چیز زندہ ہے
۸۳۔ سنتِ الٰہی
۸۴۔ حکمتِ درود
۸۵۔ مطالعۂ قدرت
۸۶۔ علم الاشارات
۸۷۔ علم الاسرار
۸۸۔ عالمِ خیال
۸۹۔ عالمِ خواب
۹۰۔ عالمِ ملکوت
۹۱۔ حکمتِ تثنیہ
۹۲۔ لامکان
۹۳۔ دہر
۹۴۔ انسان
۹۵۔ وحدتِ انسانی
۹۶۔ روحانی مشقیں
۹۷۔ قصۂ معجزات
۹۸۔ روحانی خوشبوئیں
۹۹۔ روحانی سائنس
۱۰۰۔ روح اور مادہ
۱۰۱۔ دائرۂ دائم
۱۰۲۔ فنا فی اللہ
۱۰۳۔ فنا کے درجات
۱۰۴۔ درجاتِ یقین
۱۰۵۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد
۱۰۶۔ دینِ فطرت
۱۰۷۔ انسانِ کامل
۱۰۸۔ حقیقتِ توبہ
۵۸
۱۰۹۔ سلطنتِ سلیمانی
۱۱۰۔ دوزخِ جہالت
۱۱۱۔ ہر آیۂ قرآن کا معجزہ…۔
۱۱۲۔ نیستی ابداع کا نام ہے
۱۱۳۔ بہشت میں ہر نعمت ہے۔
۵۹
روحانی عجائب گھر
۱۔ قرآنِ عظیم عالمِ انسانیّت کے لئے نہ صرف ہدایت نامۂ سماوی اور ضابطۂ حیات ہی کے طور پر نازل ہوا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ کتابِ حکیم دعوت نامۂ روحانی اور وسیلۂ عرفانِ ذات بھی ہے، چنانچہ سالکانِ دینِ متین کے نزدیک طویل سفرِ روحانیّت کے ہر قدم پر عجائب و غرائب کا ایک عالم ظہور پذیر ہوتا جاتا ہے، اس اعتبار سے یہ کہنا حقیقت ہے کہ عالمِ شخصی قدرتِ خدا کا سب سے بڑا عجائب گھر (MUSEUM) ہے اور اس عجائبِ خانۂ قدرت کا سب سے اعلیٰ مقصد کنزِ مخفی تک رسا ہو جانا ہے۔
۲۔ کسی ملک کا میوزیم (عجائب گھر) اس مقصد کے پیشِ نظر ہوتا ہے کہ اس میں لوگوں کی دلچسپی، تفریح، اور معلومات کی خاطر تاریخی، ثقافتی اور سائنسی چیزیں رکھ دی جائیں، تاہم کسی ایک ملک کا عجائب خانہ تو درکنار اگر ہم ممالکِ عالم کے تمام عجائب گھروں کو ایک ہی میوزیم تسلیم کر کے بھی دیکھیں تو پھر بھی اس میں ہر ضروری اور مطلوبہ چیز کہاں ہے، اس مثال سے معلوم ہوا کہ دنیائے ظاہر میں کوئی چیز کامل و مکمل نہیں ہے
۶۰
اور یہ صورتِ حال اس حقیقت کی دلیل ہے کہ مکمل چیزیں صرف دینِ حق اور روحانیت ہی میں پائی جاتی ہیں۔
۳۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو اپنی خلق کی مثال پر بنایا تاکہ خلق سے دین کی استدلال کیا جائے اور دین سے اس کی وحدانیت کا استدلال کیا جائے (الحدیث) چنانچہ اگر دنیا میں ناقص اور نامکمل عجائب گھر ہے تو خدا کے ہاں عالمِ شخصی میں یقیناً ایک کامل و مکمل عجائب خانہ موجود ہے، جس کے دائرۂ نورِ عقل سے کوئی شے خارج نہیں، اس میں ہر عقلی، علمی، عرفانی اور روحانی چیز موجود و مہیا ہے، یعنی جو کچھ تھا، جو کچھ ہے، اور جو کچھ ہونے والا ہے، وہ سب وہاں حاضر و موجود ہے، اور اس کے تحتاتی باغوں میں اشیائے لطیف کی بہت بڑی کثرت ہے، وہاں ہر لمحہ عجائب و غرائب کی ایک نئی تجلّی اور ایک نئی شان ہے۔
۴۔ ظاہری عجائب گھر محض ایک نام ہے، اس میں کوئی ایسی چیز نہیں جو مافوق الفطرت ہو یا حقیقی معنوں میں عجیب و غریب کہلائے، جبکہ روحانی عجائب گھر واقعی اور سچ مچ عجائب و غرائب سے پُر ہے، جس کی عام فہم مثل عالمِ خواب ہے، جو انتہائی حیرت انگیز اور زندہ عجائب خانہ ہے، اس کی تمام چیزیں ہمیشہ دنیائے ظاہر سے انوکھی اور نرالی ہوا کرتی ہیں، کیا یہ قدرتِ خدا کے عجائبات میں سے نہیں کہ آدمی ہر خواب میں نہ صرف عجیب و غریب واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے، بلکہ وہ اپنے آپ کو بھی ہر بار مختلف حالت میں دیکھتا ہے، وہ کبھی بلندیوں میں پروں کے بغیر پرواز کر رہا ہوتا ہے، اور کبھی کسی پستی میں چلتا ہے، کبھی مسرور و خندان ہوتا ہے، اور
۶۱
کبھی غمگین و گریان، الغرض عالمِ خواب کے عجائب و غرائب کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔
۵۔ عجائب خانۂ قدرت ہی کا تذکرہ ہے کہ انسان کی روحانی و عقلانی تخلیق نردبانِ عروج (ارتقائی سیڑھی) پر زینہ بزینہ ہوتی جاتی ہے تا آنکہ مرتبۂ عقل پر جا کر اس کا عقلی تَولد (جنم) ہوتا ہے، جیسا کہ سورۂ تین (۹۵: ۰۴ تا ۰۶) میں ہے: ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا، پھر اسے ہم نے پھیر کر پست سے پست کر دیا، سوائے ان لوگوں کے جو (بحقیقت) ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔
تقویم کا لفظی ترجمہ ہے: سیدھا کرنا، اس سے روحانی ترقی کی سیڑھی مراد ہے، کیونکہ اس واضح ارشاد کے مطابق روحانی تخلیق و تکمیل کی سیڑھی پچاس ہزار برس کی مسافت رکھتی ہے، جس سے اگر خدا چاہے تو کوئی نیک بخت روح اپنے فرشتوں کے ساتھ بہت کم وقت میں بھی چڑھ کر اس کے حضور جاسکتی ہے (۷۰: ۰۴)۔
۶۔ اس دنیا کے مجموعی عجائب گھروں میں اور ان کے باہر جتنی چیزیں قابلِ دید ہیں، وہ سب کی سب روحانی عجائب و غرائب کے مقابلے میں ہیچ ہیں، اس لئے کہ عالمِ شخصی کارخانۂ خدا ہے، جس میں کل کائنات کی کاپیاں بنتی ہیں، اور اس حقیقت کی شہادت و دلیل اس آیۂ کریم سے مل سکتی ہے، جو قلب قرآن میں (۳۶: ۱۲) میں موجود ہے، یعنی عالمِ شخصی بہ حقیقت امامِ مبین ہی کا ہے، اگر آپ میں بھی ہے تو اَلْحَمْدُلِلّٰہِ، مبارک باد کہ یہ
۶۲
اسی کے نورِ اقدس کا عکس ہے، اور یہ حصولِ معرفت کی غرض سے ہے۔
۷۔ سوال: نزولِ قرآن کے دوران اللہ پاک نے فرمایا تھا کہ وہ تبارک و تعالیٰ عنقریب اپنے عجائب و غرائب لوگوں کو آفاق و انفس میں دکھائیں گے (۴۱: ۵۳) لیکن بہت سی صدیاں بیت گئیں، درحالے کہ لوگ ایسے معجزات کو دیکھے بغیر مر گئے، ہم اس کی اصل حقیقت کو کس طرح سمجھیں گے؟
جواب: الف: ہر زمانے کے لوگوں نے بحیثیتِ نمائندہ ذرات اپنے امام علیہ السّلام کے عالمِ شخصی میں اللہ کی نشانیوں کو دیکھا، جبکہ وہاں مخفی قیامت برپا ہو رہی تھی، ب: چونکہ صورِ اسرافیل کی آواز کے ڈر سے سارے لوگ بشکلِ ذرات امامِ عالیمقامؑ کی طرف بھاگتے ہیں، لہٰذا بعد از موت وہ سب کے سب فعلاً بہشت میں داخل ہو جاتے ہیں، جہاں وہ آفاق و انفس کے معجزات کو دیکھتے ہیں۔ ج؟ دینِ اسلام میں نمائندگی ایک مسلمہ حقیقت ہے، پس اگر آج کے لوگ ظاہری و باطنی عجائب و غرائب کو دیکھتے ہیں تو ایسا ہے جیسے اگلے زمانے کے لوگ دیکھ رہے ہوں۔
۸۔ سورۂ بقرہ کے اس ارشاد (۰۲: ۹۱) میں خوب غور کرنے کی ضرورت ہے: قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ ( اے رسولؐ) ان سے یہ تو پوچھو کہ تم اگر ایماندار ہو تو پھر کیوں خدا کے پیغمبروں کو سابق میں قتل کرتے تھے؟ یہاں رازِ حکمت جاننے کی غرض سے یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کئی سو سال قبل یہودیوں نے کچھ پیغمبروں کو قتل کیا تھا، اس جرم میں زمانۂ نبوت کے یہود کس طرح شریک ہو سکتے
۶۳
ہیں، حالانکہ یہ لوگ اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے؟
جواب: چونکہ ہر مذہب کے لوگ اجتماعی عقائد، نظریات، اور اعمال میں فردِ واحد کی طرح ایک ہوا کرتے ہیں، لہٰذا اگلے یہودیوں نے جو کچھ کیا تھا، اس میں پچھلے یہودی بھی شامل و شریک ہیں۔
۹۔ قرآنِ مجید اور روحانیت (عالمِ شخصی) کا کون سا مقام ایسا ہے جہاں اسرارِ معرفت کے عجائب و غرائب نہ ہوں، مثال کے طور پر سورۂ دہر کے شروع میں دیکھ لیں: کیا انسان پر زمانِ ناگزرندہ سے ایک وقت آیا ہے کہ جبکہ وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا (۷۶: ۰۱) یعنی انسان کی انائے علوی یک حقیقت میں ہر چیز سے مجرّد اور بے مثال ہے، جس کی معرفت تجدّدِ ازل کے وسیلے سے ہوجاتی ہے، اور یہی تجدّد دہر میں سے ایک وقت (حین) ہے، ارشاد ہے: ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا، تاکہ اس کا امتحان لیں، اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا (۷۶: ۰۲) خداوندِ قدوس نے جس طرح ہر انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا، اسی طرح اس نے مومنین ومومنات کو روحانی والدین (ناطق و اساس) کے مخلوط نطفے (تنزیل و تاویل کے امتزاج ) سے پیدا کیا، تاکہ آزمائش ہو، جس کے لئے انہیں مقامِ روح و روحانیّت پر سننے والے اور دیکھنے والے بنایا۔
۱۰۔ یہ روحانی عجائب گھر کی مثالوں میں سے ہے کہ آدمِ سراندیبی کی ابتدائی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی، یعنی وہ ابتداً صرف ایک مومنِ مستجیب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے درجہ بدرجہ بلند فرمایا، تا آنکہ مرتبۂ عقل پر خدا نے
۶۴
اپنے ہاتھ سے اس کی نورانی تخلیق کی، مگر ابلیس کی نظر مٹی سے زیادہ کچھ نہیں دیکھ سکتی تھی، جیسا کہ سورۂ صٓ (۳۸: ۷۵) میں ہے: رب نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا چیز اُس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟ تو بڑا بن رہا ہے یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے؟ اس نے جواب دیا “میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے، اور اس کو مٹی سے۔”
۱۱۔ یہ تحریر “مقالۂ مہمان” کے عنوان سے ہے، اس کا انگریزی نام شاید “گیسٹ آرٹیکل” ہوگا ، اس کے مہمانِ خصوصی جناب (ریٹائرڈ) صوبیدار میجر شاہین خان صاحب ہیں، دیگر مہانوں میں سب سے اوّل آپ کی فرشتہ خصلت بیگم محترمہ ثریا بانو ہیں، جن کی ایمانی خصوصیات بڑی عجیب و غریب ہیں، اور دوسرے پیارے مہمان ان دونوں جسمانی فرشتوں کے عزیز بچے ہیں، یعنی ریاض شاہین، رضیہ شاہین، اور اعجاز شاہین اس خاندان پر خدائے بزرگ و برتر کی نظرِ رحمت ہے۔
محترم صوبیدار میجر شاہین خان صاحب بروشسکی ریسرچ اکیڈمی گلگت برانچ کے چئیرمین ہیں، آپ نے بہت کم وقت میں علم، عبادت، اور خدمت میں بڑی ترقی کی ہے، اور ہم اس خاندانِ محترم کی روز افزون ترقی کے لئے دعا گو ہیں، بحرمتِ محمد و آلِ محمد صلوٰۃ اللہ علیہم۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعہ۹؍رمضان المبارک ۱۴۱۵ ھ ۱۰؍فروری ۱۹۹۵ء
۶۵
بابِ چہارم
ادارۂ عارف برانچ و مہمانان
۶۷
ادارۂ عارف
عزیزم موکھی شاہ جہانگیر حال ہی میں ادارۂ عارف برانچ گلگت کے چیئرمین منتخب ہوئے ہیں، آپ نوجوان مگر عقل و دانش میں پیرِ خردمند کی طرح ہیں، جماعتِ باسعادت کے نیک نام موکھی ہونے کا اعزاز اور پھر حقیقی علم کے شوق کا یہ عالم! یہ تو اللہ تعالیٰ کی ایک خاص رحمت ہے، آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: موکھی شاہ جہانگیر، ابنِ عرب خان، ابنِ نظر شاہ، ابنِ سلطان محمد، ابنِ رستم علی۔
“شاہِ جہان گیر” کے اس پیارے نام میں قدرتی طور پر تسخیرِکائنات کے معنی پنہان ہیں، وہ یوں کہ ہر مومن اور مومنہ بحدِّ قوّت ایک عالمِ شخصی ہے، جس میں ربّ العزّت کائنات کی ایک زندہ اور باشعور کاپی لپیٹنے والا ہے، تاکہ اسی طرح ہر عالمِ شخصی میں کائنات بھر کی روحانی سلطنت قائم ہوجائے، مگر ہاں اس عظیم مقصد کے حصول کے لئے علم و حکمت کی ضرورت ہے، کیونکہ جہادِ اکبر اس کے بغیر ممکن نہیں۔
وائس چیئرمین:
ادارۂ عارف برانچ گلگت کے وائس چیئرمین عزیزم علی یار خان مقرر
۶۹
ہوئے ہیں، آپ قبلاً ذوالفقار آباد والینٹیئرز کے کیپٹن بھی رہ چکے ہیں، جذبۂ دینداری سے معمور اور شوقِ علم سے سرشار ہیں، نیک کام اور دینی خدمت ان کو بہت عزیز ہے، خداوند تعالیٰ تمام عزیزوں کو دونوں جہان کی کامیابی اور سرفرازی عنایت فرمائے، آمین!
آپ کا شجرۂ نسب اس طرح سے ہے: علی یارخان، ابنِ ثناء خان، ابنِ محمد بیگ، ابنِ نامدار، ابنِ دولت بیگ، ابنِ میور بیگ، علی یارخان صاحب اے کے آر ایس پی کے ٹرانسپورٹ آفیسر بھی ہیں۔
آنریری سیکریٹری:
ادارۂ عارف برانچ گلگت کے اعزازی سیکریٹری عزیزم سخی احمد جان مقرر ہوئے ہیں، خداوندِ قدوس کے فضل و کرم سے آپ بہت سی صلاحیتوں کے مالک ہیں، علم و ادب سے دلچسپی اور وابستگی رکھنا آپ کا خاندانی ورثہ ہے، کیونکہ آپ خاندانِ اخون کڎ کے چشم و چراغ ہیں، آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: سخی احمد جان، ابنِ فرمان علی، ابنِ علی مراد شاہ، ابنِ آخون دولت شاہ، ابنِ وزیر فضل خان۔
کہتے ہیں کہ دولت شاہ اپنے وقت میں ایک عالم شخص تھے، انہوں نے اپنے والدِ محترم خلیفہ فضل سے تعلیم حاصل کر لی تھی، اور حصولِ علم کی خاطر بدخشان بھی گئے تھے، اس زمانے میں عالم شخص کو آخون (آخوند) کہا جاتا تھا، چنانچہ آخون دولت شاہ کی مناسبت سے اس خوش نصیب خاندان کا نام اخون کڎ ہوگیا، یعنی وہ گھرانا جس میں علم اور معلمی کی میراث رہی ہے۔
۷۰
افتخار حسین
آپ کا شجرۂ نسب: افتخار حسین (المعروف کلبِ علی) ابنِ ہزارہ بیگ (شاہ گل ہزار) ابنِ حسن علی، ابنِ قلندر خان، ابنِ حبِّ علی۔
جائے پیدائش: کریم آباد (بلتت) ہونزا۔
یومِ پیدائش: ۱۳ ؍جنوری ۱۹۳۸ء۔
قبیلہ: خور وکڎ۔
خاندان: جفوکڎ۔
آپ پنجاب یونیورسٹی سے بی ایڈ/ ایم ایڈ ہیں، قومی اور جماعتی خدمات کی تفصیلات کے لئے کئی صفحات درکار ہوں گے، لہٰذا میں ان کی بعض خصوصیات بیان کرنا چاہتا ہوں۔
یہ ایک مفید سوال ہے کہ بندۂ مومن کا باطنی و روحانی جوہر کھل سکتا ہے؟ اور وہ طریقِ کار کونسا ہے، جس کے مطابق عمل کر کے کوئی دیندار شخص راہِ روحانیّت پر گامزن ہو سکے؟
جواب: ہر انسان میں بہت سے جواہر ہیں، ان کے ظہور کے لئے کلی ریاضت کی ضرورت ہے، مثلاً مقررہ عبادت میں پابندی، شب خیزی،
۷۱
گریہ وزاری، مناجات، علمی قوّت، خدمت وغیرہ، اگر ہم ریاضت کے ان اجزاء میں سے صرف گریہ و زاری کی تحلیل کریں تو اس میں یہ معانی ہو سکتے ہیں: ۔
۱۔ کیفیتِ توبہ ۲۔ مناجات بدرگاہِ قاضی الحاجات
۳۔ حاجت طلبی ۴۔ خصوصی ذکرو عبادت
۵۔ نفسِ امّارہ کے خلاف شکایت ۶۔ خوفِ خدا
۷۔ اظہارِ عاجزی ۸۔ سب کے حق میں دعا
۹۔ شکر گزاری ۱۰۔ جذبۂ عشق
۱۱۔ شوقِ دیدار ۱۲ محویّت و فنائیت
۱۳۔ تطہیرِ باطن ۱۴۔ علاجِ روحانی
۱۵۔ رجوع الیِ اللہ ۱۶۔ انقلابی ریاضت
۱۷۔ تحلیلِ نفسی ۱۸۔ نورانی تائید کے لئے درخواست
۱۹۔ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام کی پیروی ۲۰۔ کم علمی کا احساس ، وغیرہ۔
آپ نے غور کیا ہوگا کہ ریاضت کی بہت سی چیزوں میں سے صرف گریہ و زاری ہی میں اتنے معانی پوشیدہ ہیں، بلکہ ان سے زیادہ بھی ہیں، پس ہم ایسے عزیزوں کی ہمت افزائی کیوں نہ کریں جو نرم دل اور آسمانی عشق میں آنسو بہانے والے ہیں، یہی تو ہمارا خاص کام ہے کہ ہم مولا کے دوستوں کے دوست بنیں، جب وہ اپنی آنکھوں سے حقیقی محبت کے موتی (آنسو) برساتے ہیں تو ہم بھی اس پاکیزہ عمل کے لئے سعی کریں۔
الحمد للہ، میں نے بطریقِ حکمت نہ صرف عزیزم افتخار حسین کی گریہ و زاری کو سراہا، بلکہ اس موقع پر جانِ جانان کے بہت سے عشاق کو بھی یاد کیا، افتخار صاحب
۷۲
جب جب مجلس میں تشریف لاتے ہیں تو احباب شادمان ہوجاتے ہیں، کیونکہ ایسے حضرات کی موجودگی سے محفل کی سطح بلند تر ہوجاتی ہے، آپ خود دانشمند ہیں، اسی لئے آپ روحانی علم کے بڑے قدردان ہیں، آپ کی تحریر سے معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ کے آباء و اجداد بڑے دیندار اور متقی تھے، یہی سبب ہے کہ جناب افتخار صاحب خاندانی طور پر مومنی کے بہت سے اوصاف کے مالک ہیں۔
سورۂ ذاریات (۵۱: ۵۰) میں ارشاد ہے:
“فَفِرُّوْ ا اِلیَ اللّٰہ =
پس دوڑو اللہ کی طرف۔” اس حکم میں سبقت والے اعمال کی ترغیب دی گئی ہے، جیسے سورۂ حدید (۵۷: ۲۱) میں ہے: (ترجمہ) دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اپنے ربّ کی مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے۔
فرمانبرداری میں سبقت، ذکر و عبادت میں سبقت، علم و دانش میں سبقت، خیرخواہی اور خدمت میں سبقت، غرض ہر نیک قول و فعل میں یا بحیثیتِ مجموعی سبقت ہو تو ایسے مومنین ہی قیامت میں مرتبۂ سابقون پر فائز ہو جائیں گے (۵۶: ۰۱ تا ۱۱)۔
ن۔ ن ۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعہ ۲۰؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۴؍نومبر ۱۹۹۴ء
۷۳
پرسنل سیکریٹری برائے گلگت
میرے عزیز علی مدد سابق چیف وارنٹ آفیسر (= صوبیدار میجر) چند سالوں سے میری بروشسکی ریسرچ میں پرسنل سیکریٹری کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، آپ محنت، ایمانداری اور شرافت جیسی صفات میں ایک مثالی مومن کی منزلت رکھتے ہیں، آپ کے آباء و اجداد شرافت اور صاف دلی میں مشہور تھے آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: علی مدد ابنِ دولت شاہ، ابنِ دیوان شاہ، ابنِ مبارک شاہ، ابنِ ہوس بیگ، ابنِ ایاز بیگ (یس بیگ)۔
ریکارڈ آفیسر:
ما شا ء اللہ ، عزیزم دلدار شاہ کی ذات میں ایک ساتھ بہت ساری خوبیاں جمع ہیں، موصوف میرے ان احباب میں سے ہیں، جن کو میں دوستانِ خدا سمجھ کر یاد کرتا ہوں، اور اس سے بے حد خوشی محسوس ہو تی ہے، کیونکہ ہر دوست ایک کائنات (عالمِ شخصی ) ہے، وہ مجموعۂ بہشت کی ایک کاپی ہے، اس میں سب کچھ ہے، سب کچھ، ریکارڈ آفیسر دلدار شاہ کے حلقۂ شاگردی میں ذکر و عبادت، اور علم کی ایک زندہ بہشت آباد ہو رہی ہے، جس کو میں نے اور بہت
۷۴
سے عزیزوں نے دیکھا، حیرت اور مسرت ہوئی، خداوندِ عالم اس بہشتِ اعمال کو اور زیادہ آباد کرے!
دلدار شاہ صاحب کا شجرۂ نسب یہ ہے: دلدار شاہ ابنِ زیارت شاہ، ابنِ زینت شاہ، ابنِ مایوں شاہ، ابنِ نور شاہ، ابن ڈکوؤ (ڈکویٔ)۔
۷۵
گلِ صد رنگ
۱۔ آیا اے عزیزانِ شرق و غرب! آپ میں سے کسی نے گلِ صد رنگ کو دیکھا ہے یا اس کے بارے میں پڑھا ہے یا کہیں سنا ہے؟ یقیناً اس سوال کا جواب نفی ہی میں ہوگا، کیونکہ دنیائے ظاہر میں کوئی ایسا پھول ممکن ہی نہیں جو متضاد و مختلف رنگوں اور گونا گون خوشبوؤں کا حامل ہو، اگر دنیا کے کسی خاص ملک کے بلند ترین پہاڑ پر گلِ صد رنگ کی عجیب و غریب بہار ہوتی تو دورو دراز ممالک کے تمام باشندے ایسے طرفہ تماشا اور اعجوبۂ عالم کا نظارہ کرنے کے لئے مشتاق ہوتے۔
۲۔ بہشت کے عجائب و غرائب کا تصوّر کرنے کے لئے قرآنِ حکیم نے جیسے جیسے کلیات عطا کئے ہیں، ان کی روشنی میں یوں لگتا ہے کہ جنت میں گلہائے صدرنگ اس طرح کھلتے ہیں کہ ہر لحظہ ان کا رنگ اور روپ بدلتا رہتا ہے، ان کی ہر گونہ تجلّی ہوتی رہتی ہے، اسی طرح “آیئنۂ یک حقیقت” میں باری باری سب نظر آتے ہیں، لیکن آدم علیہ السّلام کی صورت میں ، اور آدمؑ کو اللہ نے اپنی رحمانی صورت پر پیدا کیا تھا۔
۷۶
۳۔ اس مزرعۂ عمل یعنی کاشتگاہِ آخرت میں قرآنِ عظیم اور امامِ آلِ محمدؐ علمی و عرفانی بہشت ہیں، لہٰذا اس مثالی جنت میں بھی کوئی گلِ صد رنگ موجود ہو سکتا ہے، یقیناً ہر ایسا عالی ہمت عزیز جو ہمہ رس علمی خدمات میں بھرپور حصہ لے رہا ہو وہ ایک زندہ گلِ صد رنگ ہے، اس کی ہر خوبی گویا ایک گونہ خوش رنگ اور ایک قسم کی خوشبو ہے، اور وہ ایسا سدا بہار اور بے مثال پھول ہے جو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دلآویز رنگ و بو کے لطیف خزانے لٹانے کی اہلیت رکھتا ہے۔
۴۔ کوئی ظاہر بین کبھی یہ نہیں سوچتا کہ باغ و گلشن کی اس زبردست دلکشی و نظر فریبی میں کون سا راز پوشیدہ ہے؟ حالانکہ خدا کی خدائی میں کوئی شے اشارۂ حکمت کے بغیر پیدا نہیں ہوئی، خصوصاً ایسی چیزیں جن کی طرف نگاہیں فوراً ہی مائل ہو جاتی ہیں، میرا عقیدہ ہے کہ پھول زبانِ حال سے بہت کچھ کہہ رہے ہیں، وہ حمد (عقلِ کلّ) کے توسط سے بہشت کی رعنائی، زیبائی، اور حسن و جمال پر اللہ جل شانہٗ کی تسبیح کرتے ہیں، اور ان میں بہشت کی حسین نعمتوں کی دعوت بھی ہے۔
۵۔ میرے بروشسکی اشعار کا دوسرا مجموعہ “بشہتے اسقرگ” ہے، اس میں “ذکرِ خدا اسقرݣ” کے عنوان کے تحت علم و عبادت کے انتہائی خوبصورت پھولوں کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے، مثال کے طور پر یہاں شعرِ چہارم و پنجم کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے: ۔
اے آفتابِ انوار! علم کے سمندر کو لئے ہوئے طلوع ہوجا، اب ہم جو آفتابِ انوار کے “سورج مکھی” ہیں، تیری طرف رخ کر لیں گے۔ کیا نور کی مثالوں
۷۷
میں جملہ تشبیہات جمع نہیں ہیں؟ (کیوں نہیں) چنانچہ وہ اپنی نورانیت کی “تجلیات در تجلیات” میں ایک (انتہائی خوبصورت) باغ بھی ہے، تو (چشمِ بصیرت پیدا کرکے ) اپنے دل میں دیکھ لے، تاکہ تجھ کو نورانی دیدار کے گلوں کا مشاہدہ ہو۔
۶۔ اس میں بڑی سنجیدگی سے سوچنے اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی ضرورت ہے کہ موجودات و مخلوقات کی کوئی چیز نماز، سجدہ، اور تسبیح کے بغیر نہیں (۲۴: ۴۱، ۱۳: ۱۵، ۱۶: ۴۹، ۱۷: ۴۴) اور یہ ارشاد بھی ہے کہ آسمانوں اور زمین کی ہر مخلوق اور ہر چیز خدا ئے رحمان کے پاس غلام (بندہ) ہو کر آتی ہے (۱۹: ۹۳) ۔
یہ عبادت ظاہراً زبانِ قال سے بھی ہے، زبانِ حال سے بھی، اور باطناً مقامِ روح سے بھی ہے، اور مرتبۂ عقل کی نمائندگی میں بھی، لیکن سب سے بڑی کامیابی ان لوگوں کی ہے جو نورِ ہدایت کی روشنی میں علم و عبادت کی ترقی کرتے ہیں، اور گنجِ عقل و معرفت کی دولتِ لازوال سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔
۷۔ جو مومنین و مومنات حقیقی معنوں میں نورِ ہدایت کی پیروی کرتے ہیں، وہ نور کو ہر منزل میں دیکھ سکتے ہیں، جس کا ایک نام رنگِ خدا ہے (صِبْغۃ اللہ ۰۲: ۱۳۸) یعنی عالمِ شخصی سبز نور، زرد نور، سرخ نور، اور سفید نور سے منور ہو جاتا ہے، اور انہی پرنور رنگوں میں بارونق اور خوشنما باغات بھی ہیں (حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ ۲۷: ۶۰) حَدَائِقَ: چہار دیواری سے گھرے ہوئے باغات: جن میں کوئی چوپایہ وغیرہ داخل نہ ہوسکے، اگر اہلِ ایمان کے باطن میں اس طرح بہشت کی مثالیں نہ ہوتیں تو بہشت کی بشارت اور معرفت محال ہوتی۔
۸۔ بہشت میں کیا کیا نعمتیں ہیں، ان کے بارے میں ارشاد ہے:
۷۸
وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الأَنفُسُ وَتَلَذُّ الأَعْيُنُ (۴۳: ۷۱) اور وہاں ہر وہ چیز موجود ہے جس کو جی چاہے اور جس سے آنکھیں لذت اٹھائیں ۔ اَنْفُسُ =جانیں، واحد نفس = جان، روح جو عقل کی حامل ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنّت میں ہر طرح کی روحی اور عقلی نعمتیں مہیا ہیں، اور جن نعمتوں سے آنکھوں کو لذّت حاصل ہو جاتی ہے ان کا ذکر الگ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ ان میں سب سے اعلیٰ نعمت اللہ تعالیٰ کی تجلّی اور دیدارِ اقدس ہے، پس چشمِ باطن کے سامنے گونا گون مشاہدات کا ایک طویل سلسلہ موجود ہوتا ہے، جس میں باغ و بہار اور گل و گلزار بھی ہے۔
۹۔ خداوندِ قدوس کی رحمتِ بیکران سے ہماری عزیز کتابوں اور ان کے تراجم کا گرانمایہ مجموعہ بے حد عجیب گلِ صدرنگ ہے، جس کی دوررس اور ہمہ گیر رنگینیوں اور خوشبوؤں سے بے شمار لوگ اپنے دیدۂ بینا اور مشامِ جان کو محفوظ و مسرور کرتے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ان عظیم احسانات پر ہم سب لشکرِ علمی خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے جتنا بھی شکر کریں، کم ہے، کیونکہ اس کی رحمت طوفانی شکل میں کام کر رہی ہے۔
۱۰۔ حضرتِ امام زمان صلوٰۃ اللہ علیہ و سلامہٗ کا روحانی اور عقلانی تَوَلُّدْ (جنم) اپنی مقدّس شخصیّت کے علاوہ پاک باطن مریدوں میں بھی ہوسکتا ہے، یقیناً ہمارے عظیم پیروں میں یہ معجزہ ہوا تھا، اس کی ایک پُرحکمت مثال سورۂ بقرہ کی اس آیۂ کریمہ میں ہے، جس کا ترجمہ اس طرح ہے:
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس سے سات بالیں
۷۹
نکلیں، اور ہر بال میں سو (۱۰۰) دانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے( ۰۲: ۲۶۱)۔
حکمت: جب عالی ہمت اور مخلص مریدوں کو اسمِ اعظم عطا ہوتا ہے، تو اس یکتا دانۂ نور کو دل کی زمین میں بویا جاتا ہے، جس سے سات بالیاں اور ان میں سات سو دانے پیدا ہوتے ہیں، جن سے عالمِ شخصی کے سات ادوار اور سینکڑوں اسرارِ معرفت مراد ہیں، یعنی چھ حضراتِ ناطقان اور حضرتِ قائم علیہم السّلام کی روحانی مثالیں، اور دوسرے اعتبار سے ہفت أئمّہ علیہم السّلام کی مثالیں اور صد ہا بلکہ ہزارہا عرفانی مشاہدات مراد ہیں۔
۱۱۔ یہ نورِ امامت ہی کی بہت بڑی مہربانی ہے کہ اس وقت دنیا کے کسی گوشے میں کچھ نیک بخت سکالرز ابتدائی روحانیّت پر پریکٹیکل ریسرچ (عملی تحقیق) کر رہے ہیں، طریقِ کار تصوف سے ملتا جلتا بھی ہے اور مختلف بھی ہے، اس عظیم الشّان کام کی اوّلین شرط آسمانی محبت ہے، یعنی خدا، رسولؐ، امامؑ کی پاک دوستی، پھر شب خیزی، حقیقی علم اخلاقی پاکیزگی، باادب گریہ و زاری و عاجزی، کثرتِ ذکر اور اپنے احوال و اسرار سے خاموشی ہے، تا آنکہ کمال حاصل ہو جائے، پھر بھی بہترین صورت یہی ہے کہ آپ روحانیّت کی باتیں قرآنِ پاک کے حوالے سے کریں۔
۱۲۔ کوئی مردِ حکیم کسی ایسی مجلس میں کس طرح حکمت پر مبنی تقریر کر سکتا ہے جہاں قطعی خاموشی اور کامل توجہ کی بجائے لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہوں، چنانچہ آپ جب تک سوائے قلبی ذکر کر کے ظاہراً و باطناً
۸۰
خاموش نہ ہوجائیں، تو عالمِ شخصی کے عجائب و غرائب کے ظہورات غیر ممکن ہیں، سورۂ قٓ (۵۰: ۱۶) میں ہے: (ترجمہ) اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا، اور جو وسوسے اس کے دل میں گزرتے ہیں، ہم ان کو جانتے ہیں، اور ہم تو اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں، اس حکیمانہ تعلیم میں عقل و دانش سے سوچنے کی سخت ضرورت ہے، کیونکہ یہاں اشارہ یہ ہے کہ جیسے ہی وسوسہ ختم ہوجائے تو اس کی جگہ کوئی رحمانی چیز کام کرنے لگے گی، جبکہ اللہ پاک اور اس کے فرشتوں کی یہ انتہائی نزدیکی معنیٔ جودو عطا کے بغیر نہیں ہے۔
ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات یکم رمضان المبارک ۱۴۱۵ ھ ۲؍فروری ۱۹۹۵ء
۸۱
بابِ پنجم
بروشسکی ریسرچ اکیڈمی و مہمانان
۸۳
صدربابر خان
آپ کا شجرۂ نسب: بابر خان (صدر بی۔ آر۔ اے۔ کراچی) ابنِ حضور موکھی محبت شاہ ابنِ نیت شاہ ابنِ حسن ابنِ دِرم (ہونزائے پائیں کا ترنگفا / ترکفا ) کہتے ہیں کہ یہ ترکفگی ایک وزارت کے برابر سمجھی جاتی تھی ۔
جناب بابر خان صاحب زمانۂ طالبِ علمی ہی سے آج تک جماعت اور مختلف افراد کی جو بے شمار خدمات انجام دیتے آئے ہیں، ان کا احاطۂ تحریر میں لانا میرے لئے بے حد مشکل بلکہ ناممکن ہے، لیکن میں قرآنِ پاک پر کامل یقین رکھتا ہوں کہ مومنین کا نامۂ اعمال آئمۂ طاہرین علیہم السلام کی نورانیت میں درج ہوتا ہے (۸۳: ۱۸ تا ۲۱) جس کو اہلِ معرفت دنیا میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ جب ’’فنا فی الامام‘‘ ایک عظیم حقیقت ہے تو بندۂ مومن کا قول و فعل اس پرحکمت فنا سے کس طرح مستثنا ء ہو سکتا ہے۔
عزیزم بابر خان کی ذات میں لاتعداد خوبیان جمع ہیں، اور ان تمام کی سردار اور بادشاہ خوبی امامِ زمان علیہ السلام کی شدید محبت یعنی عشق ہے، یہ سچ ہے کہ سعادت مندی سے مولائے پاک کا عشق ان کے دل و دماغ اور جسم و جان میں جا گزین ہو سکتا ہے، جس کی علامات روحانی محفل میں ظاہر ہو جاتی ہیں، میں نے بارہا دیکھا ہے، اب میں دوسرے بہت سے عشاق کو بھی یاد
۸۵
کروں گا کہ جب علیٔ زمان کا نورِ عشق کسی عاشق پر طلوع ہو جاتا ہے، تو اس سے غیر معمولی حالات رونما ہونے لگتے ہیں، ان میں سے ہر حالت بڑی عجیب و غریب اور قرآنی حکمت کے مطابق ہوا کرتی ہے، مثلاً گریۂ عشق، زلزلۂ عشق، سجدۂ عشق، نعرۂ عشق، بادۂ عشق، نغمۂ عشق وغیرہ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
بدھ ۲۱؍ربیع الثانی ۱۴۱۵ ھ ۲۸؍ستمبر ۱۹۹۴ء
۸۶
LETTER OF APPOINTMENT
For Mr. Ghulam Abbas Hunzai
On behalf of the Headquarters of the Burushaski Research Academy, it gives me great pleasure to appoint Mr. Ghulam Abbas Hunzai as the Chairman of the London branch to oversee the research and other related activities concerning Burushaski in the Western Hemisphere.
Mr. Ghulam Abbas Hunzai has an outstanding record of serving the Burushaski language and culture for many years. While a student at Karachi University, he taught the Burushaski language to interested foreign scholars and researchers. He has been instrumental in arousing awareness of and interest in Burushaski poetry and Qasidahs in Canada and Britain. He is himself a gifted poet.
His appointment is being made in the context of the growing interest in Burushaski in the western world, such as United Kingdom, Germany, France, Canada and United States of America. Mr. Ghulam Abbas Hunzai’s position, living in London, gives him the unique opportunity to act as a bridge between the east and the west in respect of the promotion of the Burushaski language and culture.
۸۷
Mr. Ghulam Abbas Hunzai also has a profound knowledge of Islamic Studies, which he pursued at McGill University in Canada and deep knowledge of Ismaili philosophy. He is further endowed with the ability to communicate effectively with people of diverse backgrounds. With all these admirable qualities, the Burushaski Research Academy has great expectations of his continuing contribution in enhancing the cause of Burushaski globally.
On this happy occasion, on behalf of the Burushaski research Academy, I which him vigour and wisdom in his future work and pray to Allah to give him greater energy and strength and to crown all his efforts with success. Amin.
Sd/.
Allamah Nasir al-Din Nasir Hunzai
London 7th July, 1993.
۸۸
صوبیدار میجر (ریٹائرڈ) شاہین خان
صوبیدار میجر شاہین خان ابنِ محمد خان ابنِ بائے خان۔
قبیلہ: ݽڈ ِ(ق ) قڎ۔
مقامِ پیدائش اور تاریخ: نظیم آباد( ݽݽکٹ) گوجال، ۱۹۴۹ء اندازاً ابتدائی تعلیم: گاؤں میں پرائمیری تک، اور بعداً فوج میں میٹرک تک۔
سروس: ۱۹۶۶ء میں بحیثیت ریکروٹ فوجی زندگی کا آغاز کیا، تعلیم کے مقدس پیشے سے ہر وقت منسلک رہا، مختلف عہدوں پر ترقی کرتے ہوئے ۱۹۸۷ء میں صوبیدار میجر کے عہدے پر فائز ہوا، اور عرصۂ ۲۵؍ سال عسکری زندگی خوش اسلوبی کے ساتھ گزارنے کے بعد ۱۹۹۲ء میں صوبیدار میجر کے عہدے سے ریٹائر ہوا۔
کارنامے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات اور معجزات جو منفرد مقام رکھتے ہیں: (۱) انفنڑی سکول کوئٹہ سے مارٹر کورس میں TOP کیا، جس پر شیلڈ اور تعریفی سند مل گئی (۲) صوبیدار میجر عہدے پر جو ترقی ملی وہ مقابلے کی بنیاد پر ملی (۳) اچھی خدمات کے صلے میں پاکستان آرمی GHQ کی طرف سے پنجاب میں ۲۰۰کنال نہری زمین ملی۔
باطنی معجزات: (بندۂ ناچیز کی سروس کے دوران بونجی میں ایک
۸۹
عالیشان جماعت خانہ تعمیر ہوا (۲) جب یہ خاکسار ہسپتال میں زیرِ علاج تھا اس وقت ایک بزرگ ہستی کے دیدار کا شرف حاصل ہوا، ان کی ہدایات پر دینی کتب کا مطالعہ شروع ہوا ، عظیم شخصیّت کی زبانِ مبارک سے یہ فرمانا کہ: UN HAN MUKAN BA. KHIN HAN DAYMANA BAY ان جانفزا الفاظ کو کیا درجہ دوں؟ کیا ان میں صورِ اسرافیل کی سی تاثیر نہیں ہے؟ جن سے میرے عالمِ شخصی میں روح کے مردہ ذرات زندہ ہوگئے۔
(۳) استادِ محترم کا عظیم احسان ہے کہ آپ نے اس بندۂ ناچیز کو بے مثال حوصلہ دیا، اپنے حلقۂ شاگردی میں قبول فرمایا، اور امامِ عالی مقامؑ کے روحانی، نورانی و لدنّی علم سے نوازتے رہے، میری روح امامِ برحقؑ سے فدا ہو!
میری دعا ہے کہ آپ سلامت رہیں، تاکہ پیارے مولا کے پیارے دین کی علمی خدمت ہوسکے، اور ہم اس نعمت کے لئے شکر کریں، جیسا کہ حق ہے، آمین یا ربّ العالمین!
آپ کا خادم
صوبیدار میجر شاہین خان
چیئرمین BRAگلگت برانچ
۹۰
ڈاکٹر انعام محمد بیگ
کیپٹن ڈاکٹر(MBBS) انعام محمد بیگ ابنِ غلام محمد بیگ، ابنِ میرزا حسن (ثانی)، ابنِ محمد امیر ابنِ سید امیر ، ابنِ میرزا حسن، ابنِ فرحت بیگ ابنِ دارا بیگ عرف تھرا (ثانی)۔
پسند یدہ خصائل، سِتودہ شمائل اور ہمارے میوۂ دل انعام محمد بیگ کا کیا کہنا! ما شا ء اللہ اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان بھی ہیں، ڈاکٹر بھی اور فوجی افسر بھی ہیں، لیکن ان کی اخلاقی درویشی ہر چیز پر غالب آگئی ہے، اسمِ شریف کا پہلا لفظ ’’انعام‘‘ ہے، اسی لئے آپ کو اللہ، رسولؐ، اور امام ِزمانؑ کے باطنی انعامات حاصل ہور رہے ہیں، آپ نے پہلی بار ایک بہت پیاری کتاب لکھی ہے، اس پر تبصرہ الگ ہو گا، اللہ تعالیٰ کی شانِ قدرت دیکھئے، وہ فرشتۂ مجسم ہیں۔
تحفۂ حکمت:
شروع شروع میں عالمِ شخصی کا نام عالمِ ذر ہوتا ہے، جس میں تمام چیزیں لطیف ذرات کی شکل میں ہوتی ہیں، ان ذرّات کی بہت سی مثالیں ہیں اور ایک مثال کے مطابق یہ سب فرشتے ہیں، چنانچہ حضرت آدم خلیفۃ اللہ کیلئے پہلا سجدہ عالمِ ذر کے منتشر فرشتوں نے کیا، دوسرا اور آخری سجدہ عالمِ عقل
۹۱
کے متحد فرشتوں نے کیا، وہ سارے مرتبۂ عقل پر مل کر ایک ہو جاتے ہیں، یا یوں کہنا چاہئے کہ سب کا مجموعہ فرشتہ ایک ہی ہے۔
عالمِ ذر کے ذرات کی چند مثالیں:
۱۔ یہ گویا وہ لوگ ہیں جو دنیا میں آنے سے پہلے عالمِ ذر میں موجود تھے۔
۲۔ یہ وہ اولین فرشتے ہیں جنہوں نے آدمؑ کو سجدہ کیا۔
۳۔ یہ مثلاً حضرتِ نوحؑ کی طوفانی بارش ہیں۔
۴۔ ان میں حضرتِ ابراہیمؑ کے گل و گلستان (۲۱: ۶۹) ہیں۔
۵۔ بھیڑ بکریاں (۲۰: ۱۸) حضرتِ موسیٰؑ کے قصے میں۔
۶۔ پرندے (۰۳: ۴۹) حضرتِ عیسیٰؑ کی مثال میں۔
۷۔ یا جوج و ماجوج (۱۸: ۹۴، ۲۱: ۹۶) جو تعمیر کی غرض سے تخریب کرتے ہیں۔
۸۔ ثمرات (۲۸: ۵۷) خانۂ کعبہ کے لئے۔
۹۔ سورۂ فیل (۱۰۵: ۰۴) کی مثال میں کنکریاں۔
۱۰۔ آنحضرتؐ کی مثال میں دنیا بھر کے لوگ (۱۱۰: ۰۱) جو خدا کے دین میں داخل ہو گئے۔
۱۱۔ وہ تمام چیزیں (۳۶: ۱۲) جو امامِ مبینؑ کی ذات میں محدود ہیں۔
۱۲۔ روزِ قیامت کے اوّلین و آخرین یعنی سب لوگ (۵۶: ۵۰) وغیرہ وغیرہ ۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات ۱۴؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۹۴ء
۹۲
قرآنے باراؤ لو سوالِݣ
سوال نمبر ا۔ قرآن شریف امن پیغمبر روسوکلا؟ امت ملک لو؟ امت باݽ لو نازل منیلا؟
جواب: قرآن مجید نلݳ کے نلݳ اتسکلا، بلکہ کحتا کحتا سوکلا، قرآنَ پاک ٹوک نازل منݽ خا التراسکی دین نی بلم۔
سوال۳: اللہ تعالی امن فرشتا کا پاک پیغمبرر قراآنے آیتݣ دوشم؟ فرشتہ اڈِمے کا غیئچما، بے اقائچم؟
جواب: خدائݺ جبرائیل فرشتا کا سمولو پیغمبر علیہ السلامر قرآنے آیتݣ دوشم، جبرائیل روحانی بای، انے وجہ ڎم بُٹ پݳ وقتُ لو اقائچم، فقط التو ہیشی غوم۔
سوال ۴: مشہور اآسمانی کتابچݣ بیرم بڎن؟ دا ایکے ایکچݣ بیسن بڎن؟
جواب: مشہور اآسمانی کُتُب دلتو بڎن: تورات، زبور، انجیل، قرآنِ مجید۔
سوال ۵: قرآن پاکݺ سورݣ بیرم بڎن؟ پارݣ بیرم بڎن؟ دا قرآنِ کریم لو بسم اللہ بیرم ہیشی دی بلا؟
جواب: قراآنِ پاکݺ سورݣ ہک تھاکے ترمݳ دلتو بڎن، پارݣ التر توزمݹبڎن، بسم اللہ ہک تھاکے ترماولتی ھیشی دی بلا۔
سوال۶: قرآنݺ سورݣ ایون ببر چسکو بڎنا، بے کھیرمن غسائکو کھیرمن کھٹوئکو بڎن؟
جواب: پاک قراآنݺ سورݣ ببر چکوابی، بلکہ کھیر من غسائکو کھیرمن کھٹوئکو بڎن۔
سوال۷: حضرت رسول صلی اللہ علیہ و اآلہ وسلمے وحی گر منسے گنے ببرمن اصحابرحکم ایتم؟
سوال: وحی گرمنسر حضوریکل ڎم التوالتر(۴۰) اصحاب مقرریم۔
سوال ۸: ایون ڎم یرکماس امتِ آیت نازل منی می؟
جواب: وحی گرمنسر حضوریکل ڎم التوالتر اصحاب مقرریم۔
سوال ۸: ایون ڎم یر کماس امتِ آیت نازل منی می؟
جواب: یرکماس سورۂ علقے شروے ۵ (ݼندو)آیݣ نازل منیڎن۔
سوال ۹: پاک قرآنے آخری وحی امت بلا؟
جواب: قرآنے آخری وحی: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا.(۰۵: ۰۳)بلا؟
جواب: سورہ بقرۂ ایون ڎم غسنم بلا۔
سوال ۱۱: ایون م کھٹ سورہ امتَ بلا؟
جواب: سورہ کوثر ایون ڎم کھٹ بلا؟
سوال ۱۲: چار قل امک سورݣ بڎن؟
جواب: سورۂ کافرون، سورۂ اخلاص، سورۂ فلق، سورۂ ناس۔
سوال۱۳: قرآن لو بیرم پیغمبرتݣے چغہ بلا؟
جواب: التر ݼندو (۲۵) پیغمبر انے څغہ بلا: آدمؑ، نوحؑ، ادریسؑ، ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحٰقؑ، یعقوبؑ، یوسفؑ، لوطؑ، ہودؑ، صالحؑ، شعیبؑ، موسیٰؑ، ہارونؑ، داؤدؑ، سلیمانؑ، ایوبؑ، ذوالکفلؑ، یونسؑ، الیاسؑ، الیسعؑ، زکریاؑ، یحییٰؑ، عیسیٰؑ، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔
سوال۱۴: غارِ حرا (حراکور) امُ لو بی؟
جواب: مکّا شمال یکل کوہِ نورٹے بی۔
سوال۱۵: سورۂ فاتحا بیرم آیتݣ بڎن؟
جواب: تھلو آیتݣ بڎن۔
سوال ۱۶: اُمُ الکتاب امتِ سورار سیئبان؟
جواب: سورہ فاتحا اُم الکتاب سیئبان۔
سوال ۱۷: قراآنِ کریمݺ بیرم منزلݣ بڎن؟
جواب: تھلو بسݣ (منزلݣ) بڎن۔
۹۳
بابِ ششم
عزیزان و احباب
۹۷
راعی ابراہیم شاہ موکھی
راعی ابراہیم شاہ ابنِ غلام شاہ ابنِ محمد ولی ابنِ غلام شاہ ابنِ پویو ابنِ بیر ابنِ بلیک ابنِ کنو، قوم: شین۔
آپ کو مقدس جماعت خانے سے وابستگی، مانوسیت اور محبت کی یہ سعادت بچپن ہی سے حاصل رہی، یہی سبب ہے کہ آپ زمانۂ طفولیت میں بڑے شوق سے اپنے والدِ محترم کے ہمراہ عبادت کے لئے جایا کرتے تھے۔
آفتابِ نورِ عشق روحانیّت کے آسمان پر ہے، اس کی کرنیں جماعت پر اس وقت برسنے لگتی ہیں، جبکہ کوئی عاشقِ صادق سریلی آواز اور ترنم سے منظوم حمد، نعت یا منقبت پڑھ رہا ہو، الحمدللہ! ہمارے نامور موکھی صاحب اس نیک عمل میں بھی پیش پیش ہیں، ان کو بچپن کے ایام سے منقبت خوانی کی توفیق عطا ہوئی ہے، آپ کو دینی علم سے بڑی دلچسپی ہے، اور جماعت کے نیک کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔
۱۳ ؍دسمبر ۱۹۷۶ ء کو سرکار مولانا حاضر امام علیہ السّلام نے ازراہِ مرحمت انہیں جوائنٹ کامڑیا برائے سنٹرل جماعت خانہ مقرر فرمایا، اور اس سلسلے میں ایک الگ تعلیقہ بھی صادر ہوا۔
۹۹
۱۹۸۳ء میں جشنِ سیمین (سلور جوبلی) کے دیدار کے موقع پر گلگت کے پنڈال میں مولانا حاضر امامؑ کے حضورِ اقدس میں ابراہیم شاہ نے پہلی بار بروشسکی گنان (منقبت) “دیدارِ مبارک مار” پڑھنے کی عظیم سعادت حاصل کر لی، جسے سرکارؑ نے بہت سراہا۔
۱۹۸۷ء تک جوائنٹ کامڑیا کے فرائض کی انجام دہی کے بعد ۱۱ جولائی ۱۹۸۷ء کو امامِ زمانؑ نے آپ کو سنٹرل جماعت خانہ کے موکھی کے عہدے پر فائز فرمایا، اس عہدے کے ساتھ یہ خدمات اب بھی جاری ہیں۔
درست لفظ راعی ہے، راعی = چرواہا (کنایتاً) بادشاہ، جیسا کہ ارشادِ نبوّی ہے: کُلُّکُمْ رَاَعْیٍ و کُلُّکُمْ مَسئُوْلٌ عَنْ رَعیّتِہٖ= تم میں سے ہر شخص چرواہا (حاکم) ہے، اور ہر شخص سے اس کے گلے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ یعنی ہر مرد و زن بحدِّ قوّت بادشاہِ بہشت ہے، اور ہر فرد سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا، کہ اس نے اپنی رعیت کے لئے کون کون سے شاہانہ امور انجام دیئے؟
سلیمان شاہ:
سلیمان شاہ صاحب راعی ابراہیم شاہ (موکھی) صاحب کے برادرِ حقیقی ہیں، اس لئے شجرۂ نسب ایک ہی ہے۔
اسماعیلیوں میں جتنے اشخاص امامِ عالیمقامؑ کے مختلف اداروں میں کام کرتے ہیں، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں، چنانچہ جناب سلیمان شاہ صاحب کی خوش بختی ہے کہ وہ مکمل چھ سال کے عرصے تک نامدار ریجنل کونسل
۱۰۰
گلگت کے ممبر رہے۔
آپ شمالی علاقوں کے وہ مثالی ڈونر (DONOR)ہیں جو جماعت خانوں، اسکولوں، لائبریریوں، فلاحی عمارتوں کی تعمیر میں اور دوسرے نیک کاموں کے مواقع پر فراخدلانہ طور پر عطیات دیا کرتے ہیں، خداوندِ قدوس نیکو کاروں کو دین و دنیا کی کامیابی اور سربلندی عنایت فرمائے ! آمین!!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
منگل ۲۲؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۱۸؍اکتوبر ۱۹۹۴ء
۱۰۱
حضور موکھی سرفراز شاہ
حضور موکھی سرفراز شاہ صاحب مجھے اتنے پیارے کیوں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بار بار یاد آتے ہیں؟ اس کا جوابِ باصواب یہ ملتا ہے کہ وہ انتہائی شریف دیندار ہیں، حسنِ اخلاق اور مذہب دوستی کا نمونہ، ہر شناسا مومن کے لئے ایک مثالی آئینہ ، اپنی ذات میں انسانی خوبیوں کا گنجینہ، اور جماعتی عملداری کا ایک زینہ ہیں۔
میں نے ( ان شاء اللہ العزیز) یہاں نہ صرف سرفراز شاہ کے ایمانی اوصاف کی تعریف کی، بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس پاکیزہ آئینے میں بہت سے ہم صفت مومنین کا تصور بھی کیا، جس کے سوا کامل مسرت و شادمانی ممکن نہیں، اب کوئی علمی تحفہ چاہئے: ۔
عرش کی ایک تاویل نورِ عقل ہے، لہٰذا حاملانِ عرش سے حاملانِ نور مراد ہے، اور یہ حضرات آئمہ علیہم السلام ہیں، سورۂ مومن کی آیۂ ہفتم (۴۰: ۰۷) کی معنوی گہرائی میں اتر جانے کے لئے خوب غور وفکر کریں، دیکھئے کہ حاملانِ عرش (حاملانِ نور) کیا کہہ رہے ہیں؟ کہتے ہیں: “اے ہمارے ربّ! تو نے ہر چیز کے ظاہر و باطن میں رحمت و علم رکھا ہے” یعنی پہلی نظر میں بحرِ کائنات ہے،
۱۰۲
دوسری نظر میں یہاں روحِ اعظم کا سمندر ہے، اور تیسری نظر میں یہ عالمگیر عقل کا بحرِ محیط ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات و موجودات کا کوئی جز، کوئی ذرہ، رحمت و علم کے بغیر نہیں، اور نہ ہی قرآنِ حکیم کی کوئی شے اس کے سوا ہے۔
سوال: اس میں کیا حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات حاملانِ نور کے حوالے سے فرمائی، حالانکہ وہ خود بھی فرما سکتا تھا کہ یہ حقیقت یوں ہے؟
جواب: اس اندازِ کلام میں یہ اشارہ ہے کہ لوگ حاملِ نور کو پہچان لیں تاکہ اس کے وسلیے سے یہ سرِعظیم منکشف ہو جائے کہ کسی استثناء کے بغیر ہر شیٔ کے اندر اور باہر کسی طرح رحمت و علم پایا جاتا ہے، تاہم یاد رہے کہ اس آیۂ کریمہ کی مقدس تعلیم انتہائی بلندی پر ہے، وہ مشکل ترین ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔
حضور موکھی سرفراز شاہ کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: سرفراز شاہ ابنِ مہربان شاہ (حضور موکھی) ابنِ گل بہار شاہ، ابنِ حیدر علی، ابنِ درویش علی، ابنِ سلاح، ابنِ فقیر، اس کے بعد چند ناموں کے بارے میں پوچھنا ہے ، پھر جوشای ثانی ابنِ سرنگ ابنِ وزیر بوٹو ابنِ وزیر چوسنگو ہے، جو گرکِس تھم کا وزیر تھا۔
یہاں پر بروشسکی قواعد (گرامر) کا ایک مسئلہ ہے کہ “چوشاݶ بوٹو” کی تحلیل کس طرح ہو سکتی ہے؟ جواب: چوسنگھ کا بیٹا بوٹو کہنے کے لئے چوشاݶ بوٹو کہتے ہیں، جیسے ہمارے شجرۂ نسب میں حجی (حاجی) کا بیٹا غریب کے نام سے تھا ، اسے حجاݶ غریب کہا گیا (حجݷ = حج + اݷ = حجاݷ ) اسی طرح لفظِ چوسنگھ کا تیسرا حرف ش ہوا اور باقی (نگھ) حذف ہو کر اݷ کے دونوں حرف اس میں داخل ہو گئے تو یہ اسمِ چوشاݷ ہو گیا، اس قاعدے کی چند مثالیں درجِ ذیل ہیں: ۔
۱۔ اَیَشو سے اَیَشوݷ = خاندانِ اَیَشو کا کوئی فرد۔
۱۰۳
۲۔ غلو سے غلواݷ = غلو کا بیٹا یا اس خاندان کا کوئی شخص۔
۳۔ ھنو سے ھنوݷ = ھنو کا فرزند۔
۴۔ خرو سے خروݷ
۵۔ برگوش سے برگوشاݷ
۶۔ لسکری سے لسکراݷ ، وغیرہ۔
چوسنگھ کے معنی ہیں شیر کو چھونے ( یعنی نہ ڈرنے ) والا، چو اور چھو دراصل ایک لفظ ہے، سنگھ شیر کو کہتے ہیں، ایسے ناموں کو تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ کس دور کے لو گ تھے۔
امام شناسی ( سیٹ، نیا ایڈیشن) کے شروع میں دیکھ لیں، جہاں برادرِ بزرگ حضور موکھی مہربان شاہ (مرحوم) کے بارے میں تذکرہ ہے، جو صفحہ ۳ تا ۷ پھیلا ہوا ہے، علاوہ برآن کتاب چراغِ روشن ص ۱۸ پر بھی ان کا ایک حوالہ دیا ہوا ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
ہفتہ ۹؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۹۴ء
۱۰۴
Monogram
16th November, 1991.
My Dear Wazir Akbar Ali,
It is with deep sadness that I have learnt about the passing away of Huzur Mukhi Maherban Shah Gul Baher Shah.
I give my most affectionate paternal maternal loving blessings for the soul of the late Huzur Mukhi Maherban Shah and I pray that his soul may rest in eternal peace. The long devoted services of the late Huzur Mukhi Maherban Shah to the Imam of the Time and to the Jamat in Jutiyal will always be remembered, and he will be greatly missed by all.
I send my warmest and most affectionate loving blessings to Huzur Mukhiani Gool Bibi, and all the
۱۰۵
members of the late Huzur Mukhi Meherban Shah’s family for courage and fortitude in their immense loss.
Yours affectionately,
Sd/.
Aga Khan
Vazir Akbar Ali Karmali,
Karachi.
۱۰۶
آدمِ زمان
ناطق و اساسؑ تمام مومنین اور مومنات کے روحانی ماں باپ ہیں، پھر یہی مرتبہ اساسؑ اور امامؑ کو حاصل ہے، پھر امامؑ اور باب زمانے کے آدم و حوّا اور ہر مومن و مومنہ کے روحانی والدین ہیں، اور اسی سرِ عظیم میں جملہ اسرارِ معرفت پنہان ہیں۔
نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ (۲۴: ۳۵) کے قانونِ حکمت میں خصوصی غور و فکر کرنے کی غرض سے نیت کر کے کبھی اس کا ورد کر لیجئے، آیۂ مصباح کے اس پُرحکمت جزو کا یہ اشارہ ہے کہ نور ہی عالمِ وحدت اور یک حقیقت (مونوریالٹی) ہے، جس میں جملہ انبیاء و أئمّہ علیہم السّلام اور مومنین و مومنات کے انوار ایک ہیں، یا یہ کہوں کہ سب کا ایک ہی نور ہے، اور اسی نورِ واحد (ایک کرلینے والا نور) میں بار بار تجدّد ہوتا رہتا ہے، کیونکہ نور کی مثالوں میں سے ایک مثال آگ کی سی ہے، آگ بعض چیزوں کو جلا کر نیست و نابود کر دیتی ہے، اور بعض کو ہم رنگ و ہم صفت بنا کر اپنے ساتھ ایک کر لیتی ہے۔
آپ سورۂ نمل (۲۷: ۰۸) میں خوب غور سے دیکھ لیں، جہاں نور کی تشبیہہ و تمثیل آگ سے دی گئی ہے: بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَهَاؕ = برکت دیا گیا ہے جو آگ (نور) میں ہے، اور جو اس کے گرد ہے (۲۷: ۰۸) دراصل یہ
۱۰۷
فنا فی اللہ و بقا باللہ کا سرِ عظیم ہے، اور اس کے سوا وہ برکت ممکن نہیں جس کی تعریف اللہ خود فرماتا ہے۔
یہ جدید طرز کا انتساب جو علمی اعتبار سے بڑا مفید اور کلیدی اہمیت کا حامل ہے، ایسی بہت ہی عزیز چار شخصیتوں کے حق میں ہے، جنہوں نے پیہم گرانقدر خدمات کی انجام دہی سے اپنی ذات میں جذبۂ خدمت کی پاکیزہ روح پیدا کر لی ہے، جس کی وجہ سے اب ان کو علمی خدمت سے بدرجۂ انتہا خوشی و شادمانی حاصل ہو رہی ہے، ان کو علم و عبادت اور ذکر و مناجات کی لذّتوں اور بے شمار فوائد کا تجربہ ہو رہا ہے، اور وہ اپنے ربّ کی نعمتوں پر شکر گزار ہیں، وہ چار نیک بخت عزیزان یہ چار ریکارڈ آفیسرز ہیں، یعنی ظہیر لالانی، عشرت رومی ظہیر، روبینہ برولیا، اور زہرہ جعفر علی۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات ۲۸؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۳؍نومبر ۱۹۹۴ء
۱۰۸
شاہ ظاہر خان ایڈوکیٹ
شاہ ظاہر خان (ایڈوکیٹ) ابنِ دینار خان ابنِ قربان غازی خان ابنِ مقصد ابنِ بیگ ابنِ عیدو ، ساکنِ گاؤں تھوئی، تحصیل یاسین، ضلع غذر، حال مقیم شیر قلعہ، تحصیل پونیال، ضلع غذر۔
عزیزم شاہ ظاہر خان ایڈوکیٹ اپنے پیشۂ وکالت کے علاوہ ہماری کتابوں کو بھی بڑے شوق سے پڑھتے رہتے ہیں، اور ہماری کلاسوں سے بھی ان کو بے حد دلچسپی ہے، دینی علم و حکمت کتنی عظیم اور عالی قدر شے ہے کہ اس کے حصول کی خاطر جج، وکیل، ڈاکٹر، انجینیئر وغیرہ سب آتے ہیں، میں اپنی ناچیز خودی کو خاکِ پائے جماعت قرار دیتے ہوئے علمِ اہلِ بیت اطہار علیہم السّلام کی تعریف کرنا چاہتا ہوں، یقیناً وہ قابلِ تعریف اور لائقِ تحسین ہے۔
مظہرِ نورِ خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ہیں، مظہرِ نورِ محمد مصطفیٰؐ، علیِ مرتضیٰؑ ہیں ، اور نورِ علیؑ کا مظہر امام ِزمانؑ ہیں، جس کے لئے “ما کان و ما یکون” مسخر ہے، پس معجزاتِ عالیہ کیونکر مسخر نہ ہوتے ، اے عاشقِ صادق! آپ خود کو عقلی اور علمی معجزے کے لئے تیار کرلیں، مولا یہ روحانی معجزہ آپ کے دل و دماغ میں کرے گا، اور جو لوگ غافل ہیں، ان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔
۱۰۹
خدائے بزرگ و برتر کے اس بابرکت ارشاد کے مطابق جو قلبِ قرآن (سورۂ یاسین) میں ہے، امام ِمبین کی ذاتِ اقدس میں تمام عقلی اور روحانی چیزیں محدود و موجود ہیں (۳۶: ۱۲) پس یقیناً اللہ تعالیٰ کی کتابِ ناطق میں عقلی اور علمی عجائب و غرائب اور معجزات کا ہونا بد یہی اَمر ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
اتوار ۱۰؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء
۱۱۰
صوبیدار شاہ بیگ
صوبیدار شاہ بیگ ابنِ ہنر بیگ ابنِ گلاب ابنِ محمد ابنِ مون ابنِ آمون ابنِ شاہ بیگ، خاندان: شابیگے، ساکن موضع اشکومن، مقام: مومن آباد۔
صوبیدار شاہ بیگ صاحب حقیقی علم کے بڑے قدردان اور عاشق ہیں، ان میں حقائق و معارف سمجھنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے، آپ میری کتابوں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں، اور کبھی کبھی ملاقات بھی ہوتی ہے، عزیزم کیپٹن ڈاکٹر انعام محمد بیگ نے اپنی اوّلین کتاب کے آخری عنوان “میرے محسنین” کے تحت کچھ حضرات کا ذکر کیا ہے، ان میں صوبیدار شاہ بیگ صاحب کی تعریف بھی ہے۔
آپ کے لئے تحفہ علمی:
عالمِ شخصی کے اعتبار سے عقل آدم اور روح حوّا ہے، اور روحانیّت کا وہ اعلیٰ مقام بہشتِ برین ہے، جہاں عقلانی (علمی) اور روحانی نعمتوں کی کثرت ہے، الغرض آدم شخصی میں واقعۂ عالم کا تجدّد ہوتا ہے، جس میں سب کچھ ہے، مگر یہاں بعض اسرار ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے، کیونکہ ان کا تعلق علمی معرفت سے ہے۔
۱۱۱
حضرتِ آدم علیہ السّلام پر جو جو واقعات گزرے، وہ سب قانونِ خیر و شر کے مطابق تھے، اس لئے کوئی دانشمند آدم پر اعتراض نہیں کر سکتا، دیکھنا یہ ہے کہ خلافتِ آدم کے کیا معنی ہیں؟
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات ۱۴؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۹۴ء
۱۱۲
عزیزم صفی اللہ بیگ مسگاری
صفی اللہ بیگ ابنِ علی حرمت، ابنِ محمد نعیم ابنِ صفر علی ابنِ غلام ابنِ عاشور ابنِ کچور، خاندانِ قدیم بوشو کڎ، قبیلہ درَمِتݣ (درمتِنگ) قریہ مسگار گوجال، حال مقیم ذوالفقار آباد گلگت۔
میری ایک اصطلاح: “فلسفۂ وحدتِ انسانی” میرے عزیزوں کو بہت پسند ہے، کیوں نہ ہو جبکہ اس فلسفے کے پس منظر میں تمام انسانوں کی روحی اور عقلی وحدت اب بھی موجود ہے، کیونکہ عالمِ شخصی انسانِ کامل کی ایک مکمل کاپی ہے، جس میں نہ صرف مکان و زمان کی ساری چیزیں مرکوز و محدود ہیں، بلکہ لامکان و لا زمان (دہر = زمانِ نا گزرندہ) کی تمام حقیقتیں بھی یہاں جمع و یکجا ہیں، چنانچہ اس میں جملہ واقعاتِ ازل و ابد حاضر اور موجود ہیں، اور سب سے عظیم واقعہ یہ کہ وہاں رحمانی صورت پر شخصِ وحدت کا دیدار ہوتا ہے، جس میں اوّلین ، حاضرین اور آخرین سب ایک ہیں، پس کیا خوب شعر ہے:
اُیُم دِشن ئیڎ با ایلے سس ایون ببر بان
ازلے ببربم جون ابدے ببر بُٹ اُیَم
میں نے ایک بڑا مقام (مرتبہ) دیکھا ہے، جس میں سارے لوگ برابر ہیں،
۱۱۳
کتنی شیرین بات ہے کہ لوگ جس طرح ازل میں ایک اور برابر تھے، اسی طرح ابد میں بھی ایک ہوجاتے ہیں۔
مسگار کے تمام لوگ جو گلِ مقدّس (سوجو پونر) کی طرح بلندی پر رہتے ہیں، وہ اپنی پاک باطنی کی وجہ سے علمی خادموں کو بہت چاہتے ہیں، اور سب کی عزت کرتے ہیں، ان شاء اللہ، سب سے پہلے مومنین و مومنات ہی اپنے آپ کو شخصِ وحدت میں پائیں گے، اس کے لئے علم الیقین کی سخت ضرورت ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
اتور ۱۰ ؍ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۹۴ء
۱۱۴
صوبیدار نادرجان
آپ کا شجرۂ نسب: (ایکس) صوبیدار نادر جان ابنِ عبدالقادر ابنِ عبد اللہ جان ابنِ ہجوم، گاؤں غوجلتی یاسین، شریفے خاندان، حالِ مقیم ذوالفقار آباد ۔ گلگت۔
آپ سے میری ملاقات ۱۹۹۴ء کے موسمِ بہار میں ہوئی تھی، میں ان کے پسندیدہ اخلاق سے بہت متاثر ہوں، خداوندِ قدوس کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسے عظیم انسان ہماری کلاس میں تشریف لاتے ہیں، یہ اس بندۂ خاکسار سے ایک بڑی آزمائش بھی ہے کہ شکر کرتا ہے یا کفر؟
ہمارے عزیزانِ گلگت محترم صوبیدار نادر جان صاحب کی ایمانداری اور قابلیت کی بڑی تعریف کرتے ہیں، وہ یقیناً بہت ہی اچھے ہیں، ان شاء اللہ اب ان کی اور بھی ہرگونہ ترقی ہوگی۔
ہماری بہت ہی عاجزانہ دعا ہے کہ ربِّ کریم انہیں اپنے جملہ عزیزوں کے ساتھ دین و دنیا کی کامیابی و سربلندی سے نوازے! آمین یاربِّ العالمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی ہیڈ آفس
جمعرات ۲۲؍ رمضان المبارک ۱۴۱۵ ھ ۲۳؍فروری ۱۹۹۵ء
۱۱۵
خلیفہ برات خان
ہمارے بہت ہی پسندیدہ علاقۂ گوجال کا ایک پیارا گاؤں مسگار ہے، جہاں میں بار بار جاتا رہا ، جس کی کئی وجہیں ہیں، اور ایک وجہ یہ کہ وہاں قدرتی طور پر ذکرو عبادت اور علم و حکمت کا ایک خصوصی لگاؤ پیدا ہوگیا، میرا خیال ہے کہ اس قریہ میں ذکر و عبادت کے عجائب و غرائب ظہور پذیر ہو رہے تھے۔
میری ملاقات شروع ہی میں محترم خلیفہ برات خان (مرحوم) سے ہوئی تھی ، آپ علیٔ زمان علیہ السّلام کے خاص دوست داروں میں سے تھے، اس لئے وہ میری علمی خدمات سے بے حد متاثر تھے، وہ مولائے پاک کے عشق میں مست و مستانہ رباب بجاتے اور منقبت پڑھا کرتے تھے، آپ نے بحیثیتِ خلیفہ ساٹھ سال تک جماعت کی مقدس خدمت انجام دی، جبکہ اس زمانے میں اسی خدمت کی بہت بڑی اہمیت تھی، کیونکہ اس وقت آج کی طرح جماعتی امور کی انجام دہی کے لئے مقدس ادارے نہ تھے، لہٰذا مذہبی رسومات کی چھوٹی بڑی تمام خدمات کو خلیفہ ہی انجام دیا کرتا تھا۔
آپ کا شجرۂ نسب یہ ہے: خلیفہ برات خان ابنِ لگری خان ابنِ عاشور جان، ابنِ محمد رفیق ایرانی۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
۲۶؍ رمضان المبارک ۱۴۱۵ ھ ۲۷؍فروری ۱۹۹۵ء
۱۱۶
صوبیدار رستم خان
(تمغۂ پاکستان _______ خدمت پاکستان)
صوبیدار رستم خان (تمغۂ پاکستان۔ خدمت پاکستان کا شجرۂ نسب یہ ہے: رستم خان (مرحوم) ابنِ قدیر خان ابنِ رستم خان ابنِ دولت علی ابنِ خرم شاہ ابنِ شاہ برگوش ابنِ شاہ برگل ثانی ابنِ فقراء شاہ ابنِ خواجہ بہرام شاہ ثانی ابنِ خواجہ رؤف ابنِ خوجہ بہرام شاہ ابنِ خواجہ برگل اوّل ابنِ صفر ، جو قبیلۂ بروک ھری سے تعلق رکھتا تھا اور صفر کے بعد یہ خاندان صفر ہراݷ کے نام سے بھی مشہور ہوا۔
کاش میرے پاس تاریخ نویسی کا بھی کوئی ادارہ ہوتا تو شاید اپنے علاقے کے نامور لوگوں کے بارے میں کچھ تحریر کرتا! لیکن اے دلِ دیوانہ! تجھ میں خیر خواہی کی حد سے بڑھ کر یہ جنون کیوں ہے؟ تو اگر درویش ہے تو بڑی عاجزی سے سب کے حق میں دعا کر، اور جو خصوصی علمی خدمت تجھے عنایت کی گئی ہے اس کو حسن و خوبی سے انجام دیتے ہوئے بے شمار دلوں کی دعائیں حاصل کرتا رہ، ورنہ بہت بڑی ناشکری ہوگی۔
برادرِ محترم صوبیدار رستم خان کے حالاتِ زندگی اور تمام خدمات کے بارے میں لکھنے کی ذمہ داری عزیزم ماسٹر الیاس خان پر عائد ہو جاتی ہے،
۱۱۷
اسی طرح ہر تعلیم یافتہ شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کے کارناموں کو لکھ کر رکھیں، میں یہاں موصوف صوبیدار کے بارے میں ایک روحانی راز انکشاف کرنا چاہتا ہوں، تاکہ اہلِ علم اس میں غور کریں:
یارقند میں میرے اندر روحانی انقلاب برپا ہو رہا تھا، جس میں عجائب و غرائب کی ایک عظیم کائنات کا مشاہدہ ہوا، جس کے بے شمار واقعات میں ایک واقعہ یہ بھی تھا کہ ایک دفعہ ذرّاتِ ارواح کا ایک لشکر میری حمایت کے لئے آرہا تھا، جس میں صوبیدار رستم خان پیش پیش تھے، اس روحانی آرمی کے بہت کم لوگوں کو پہچان سکا، میں نے اس قسم کی امانتیں علمی و عرفانی صورت میں قوم کے سپرد کر دی ہیں، تاکہ میں قیامت کے دن / امانت میں خیانت کرنیوالوں میں سے نہ ہوجاؤں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
صوبیدار رستم خان کی تاریخ پیدائش فروری ۱۹۱۴ء
تاریخِ وفات ۲۴؍ مئی ۱۹۹۰ء
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
۲۰؍مارچ ۱۹۹۵ء
۱۱۸
بابِ ہفتم
بعض برانچز
۱۱۹
تحدیثِ نعمت
ہر وہ نام کتنا حسین و دلنشین ہوتا ہے، جس میں اہلِ بیتِ اطہار علیہم السّلام کی کوئی نسبت ہو، چنانچہ عزیزم امام داد کے اسمِ گرامی سے دینی عقیدت و محبت کے لازوال عِطر کی خوشبو آتی رہتی ہے، جبکہ اس بابرکت نام میں حضرتِ امام علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل موجود ہے، اور ہر بار امامِ عالی مقام کی مبارک یاد پاکیزہ دلوں کو منور کرتی رہتی ہے۔
کریم امام داد صاحب کی گرانقدر خدمات ناقابلِ فراموش ہیں، وہ ہمارے درختِ پُرثمر کی ایک اہم شاخ بھی ہیں، اور اب ۲؍ اگست ۱۹۹۴ء سے چیف ایڈوائزر برائے فرانس کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوگئے ہیں، اور یہ اعلیٰ منصب ان کے شایانِ شان ہے۔
میرے لئے دورۂ فرانس کی بہت بڑی سعادت موصوف کی تجویز اور کوشش سے حاصل ہوئی، یہ ایک ایسی نعمتِ عظمیٰ ہے جس کو جب بھی یاد کرتا ہوں تو خود کو بواسطۂ عالمِ خیال فرانس میں پاتا ہوں، جہاں میرے محبوبِ جان (مولائے زمان) کا مسکن اور مرکزی دفتر ہے، کاش میں مولا سے نہیں تو کم از کم اس کے مسکن اور دفتر سے قربان ہو جاتا!
۱۲۱
میں ہر بہانے سے مولائے پاک کے مقدّس عشق کی باتیں کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ راحتِ روح اسی عشق میں ہے، کریم امام داد ہمارے ان خاص دوستوں میں سے ہیں، جن کے ساتھ ہم بوقتِ فرصت پاک امام کے عشق میں رویا کرتے ہیں، جس سے ہماری پژمردہ روح ترو تازہ ہو جاتی ہے، خدا کرے کہ ہم سب کے لئے یہ نعمت برقرار رہے! آمین! یا ربّ العالمین !
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
ذوالفقار آباد ، گلگت
۶؍اگست ۱۹۹۴ء
۱۲۲
یاسمین شیرولی برانچ
اساسی طور پر صرف دو ہی ہیں، لیکن یہ سچ ہے کہ ہزاروں کے برابر ہیں، بلکہ اس مثال سے بھی بڑھ کر ہیں، کیونکہ ان کی بے شمار خدمات جو پیاری جماعت کے لئے انجام دی گئی ہیں، وہ بے حد مفید اور ہمہ رس ہیں، میں اپنے ان دونوں عزیز سکالرز کو مشورہ دوں گا کہ وہ اپنی اپنی زرین خدمات مستقبل کی تاریخ سازی کے لئے تحریر کر کے رکھیں، تاکہ آئندہ نسل کو اس سے درسِ خدمت ملتا رہے۔
تحفۂ علمی:
قرآنِ حکیم کی حکمت کا یہ فرمانا ہے کہ بہشت (اب لوگوں سے دور ہے لیکن) قیامت کے دن نزدیک لائی جائے گی (۲۶: ۹۰، ۵۰: ۲۱،: ۸۱: ۱۳) لفظِ اُذْلِفَتْ والی تین آیاتِ کریمہ کی روشنی میں دیکھ لیں ، چنانچہ اگر عالمِ لامکان کے پیش نظر دیکھا جائے تو اس حال میں دور و نزدیک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا، لہٰذا یہ بہت بڑی روشن حقیقت ہے کہ بہشت دراصل نورِ امامت میں ہے، وہاں سے اس کا زندہ اور روشن عکس عالمِ شخصی میں انتہائی نزدیک لایا جاتا
۱۲۳
ہے، اور یہ عظیم واقعہ انفرادی قیامت میں پیش آتا ہے۔
جنت آسمانوں اور زمین کے طول و عرض پر محیط بھی ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اور امام ِمبینؑ میں محدود بھی (۳۶: ۱۲) اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ عالم گیر روح بہشت ہے جو کائنات بھر میں اپنا کام کر رہی ہے، اور اس کا مرکز انسانِ کامل کا عالمِ شخصی ہے۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
پیر ۲۵؍جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۳۱ ؍اکتبور ۱۹۹۴ء
۱۲۴
خانۂ حکمت برانچ اوشی کھنداس
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ روحانی اخوت اور دوستی کا دائرہ سیّارۂ زمین پر محیط ہو سکتا ہے، تاہم وطن، علاقہ اور مانوس و مالوف مقامات کی محبت بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے، چنانچہ جب اوشی کھنداس (شدید ہوا کی گزرگاہ) صحرا و بیابان تھا، اس وقت ہم نے حصۂ جاگیر میں ایک گسݷ حاصل کر لی تھی ، ہم شروع شروع میں مشکلات کی وجہ سے وہاں سالن کی جگہ بَبُوݼل (نمکین پانی)یادغوی ݽکر کڎ (خشک میتھی) کو استعمال کرتے تھے، اور اگر موسم ہے تو چوپری کی ڎمک بناتے ، اب اللہ کے فضل و کرم سے اوشی کھنداس میں ظاہری و باطنی نعمتوں کی فراوانی ہے۔
خدائے رحمان و رحیم کی کیسی کیسی عظیم اور بے پایان عنایات ہیں کہ اب قطعۂ زمین کی فکر سے آگے بہت ہی آگے بڑھ کر ایسے عوالمِ شخصی کی بات ہو رہی ہے، جن میں سے ہر ایک میں کل کائنات سمائی ہوئی ہے، بہت بڑی سعادت ہے کہ یہاں علمِ امامت کی روشنی میں انقلابی تعلیم دی جاتی ہے، اور وہ عالمِ شخصی کے عجائب و غرائب سے متعلق ہے۔
میں اس برانچ کے صدر حوالدار (ریٹائرڈ) جابر خان ابنِ محمد جلیل اور ان کے تمام ساتھیوں کے جذبۂ ایمان اور شرافت کو دل و جان سے
۱۲۵
سلام کرتا ہوں کہ وہ سب دینداری اور علم دوستی کے جذبے سے ہمارے ادارے کی ہرگونہ حمایت و مدد کرتے ہیں، دعا ہے کہ ربّ العزّت تمام نیک کاموں میں ان کی مدد فرمائے ! آمین!!
۱۲۶
فہرست ِ کارکنانِ اوشی کھنداس برانچ
۱۔ صدر (ایکس حوالدار) اجان خان ابنِ محمد جلیل ابنِ سعدان
۲۔ ممبر (ایکس حوالدار) محمد جامی ابنِ محمد جلیل ابنِ سعدان
۳۔ ممبر صغیر الدین ابنِ غلام سرور ابنِ محمد مراد
۴۔ ممبر درویش علی ابنِ مبارک شاہ ابنِ ظہیر شاہ
۵۔ ممبر خلیفہ نیاز علی ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع
۶۔ ممبر (ایکس صوبیدار) یوسف علی ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع
۷۔ ممبر فدا علی ابنِ خلیفہ عافیت شاہ ابنِ خلیفہ محمد رفیع
۸۔ موسیٰ بیگ ابنِ غلام قدیر ابنِ بختی
۹۔ ممبر ضمیر ابنِ مصیر ابنِ محمد ضمیر
۱۰۔ ممبر غلام سرور ابنِ نیت شاہ ابنِ ہاشم شاہ
۱۱۔ ممبر مشغول عالم ابنِ علی گوہر ابنِ رحمت اللہ امان
۱۲۔ ممبر غلام محمد ابنِ علی نظر ابنِ غلام حسن
۱۳۔ ممبر رحمت علی (انجینیئر) ابنِ علی گوہر ابن رجب علی
۱۴۔ ممبر کریم خان (گنان خوان) ابنِ محمد جان ابنِ شکر علی
۱۲۷
۱۵۔ ممبر مہربان علی ابنِ عبادت شاہ ابنِ شکر علی
۱۶۔ ممبر میر عالم ابنِ نیت شاہ ابنِ دیوانہ بیگ
۱۷۔ ممبر جل بالد خان ابنِ غلام محمد ابنِ علی نظر
۱۸۔ ممبر بی بی ناجرہ زوجۂ جابر کان
۱۹۔ ممبر بی بی شافعہ زوجۂ نیاز علی
۲۰۔ ممبر بلقیس زوجۂ یوسف علی
۲۱۔ ممبر بی بی بانو زوجۂ فدا علی
۲۲۔ ممبر امان بی بی زوجۂ محمد ضمیر
۲۳۔ ممبر بی بی سونی زوجۂ موسیٰ بیگ
۲۴۔ ممبر بی بی زیب النساء زوجۂ شا گل حیات
۲۵۔ ممبر بی بی زیبون زوجۂ امیر حیات
۲۶۔ ممبر بی بی نوئنی زوجہ علی گوہر
۱۲۸
زیارت خان برانچ
عزیزالقدرم زیارت خان (ابنِ صمد خان ابنِ نو خان ابنِ بولیو) میرے ان خوش نصیب عزیزوں میں سے ہیں، جو فرداً فرداً برانچ ہونے کا عظیم درجہ رکھتے ہیں، یہ ان کی بہت اہمیت اور قدر و قیمت والی خدمت کی وجہ سے ہے، کیونکہ اگر تنہا ایک فرد کوئی ایسا عظیم کارنامہ انجام دیتا ہے، جو ہزار آدمی مل کر بھی اتنا بڑا کام نہیں کر سکتے ہوں تو ایسے میں یقیناً وہ عالی ہمت فرد ہزار آدمیوں سے بہتر ہوگا۔
جناب زیارت خان صاحب کا مختصر مگر جامع تذکرہ کتاب قوانینِ قرآن ص ۱۲ پر بھی موجود ہے، اور شجرۂ کار میں آپ کا اسمِ شریف درج ہے، جو بہت سی کتابوں کے آغاز میں ہے، کوئی شک نہیں کہ آپ کی جماعتی خدمات کی خوبصورت فہرست بڑی طویل ہے۔
سوغاتِ علمی:
عالمِ شخصی میں آفاقی سلطنت قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دو دفعہ جہاد نہ کیا جائے ، جہادِ اوّل روحانی اور جہادِ دوم عقلی و علمی ہے، تاہم یہ دونوں باطنی جنگیں تائیدِ الٰہی اور آسمانی لشکر کے ذریعے سے
۱۲۹
لڑی جاتی ہیں، اس کی مثال کے لئے آپ سورۂ بنی اسرائیل کے شروع (۱۷: ۰۴تا۰۵) میں خوب غور سے دیکھ لیں۔
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
پیر ۲۵ جمادی الاول ۱۴۱۵ ھ ۳۱ ؍ اکتوبر ۱۹۹۴ء
۱۳۰
یوسٹن برانچ کے معزز ارکان
۱۔ قاسم علی نور محمد (برادرِ رشیدہ نور محمد ہونزائی)
۲۔ روزینہ نور محمد
۳۔ ملک جعفر
۴۔ روشن صدر الدین
۵۔ خیر النساء سرفانی
۶۔ نیلم جاوید
۷۔ نوشاد پنجوانی
۸۔ روزینہ نوشاد پنجوانی
۹۔ فتح علی تیجانی
۱۰۔ نیلوفر فتح علی تیجانی
۱۱۔ غلام مصطفیٰ قاسم علی مومن
۱۲۔ شیر آزاد خان
۱۳۔ فردوس مومن
۱۴۔ نور علی مامجی
۱۵۔ نادر علی نورعلی مامجی
۱۶۔ یاسمین نادر علی نور علی مامجی
۱۷۔ نسرین نور علی مامجی
۱۸۔ یاسمین نور علی مامجی
۱۹۔ ظہیر علی قاسم علی مومن
۱۳۱
دینی مکتب جیسا گھر
۱۔ دنیا کے سارے انسان ظاہری اعتبار سے حضرتِ آدم اور حضرتِ حوّا علیہما السّلام کی اولاد ہونے کی وجہ سے برابر اور ایک جیسے ہیں، لیکن دین، ایمان، تقویٰ اور علم کے لحاظ سے سب لوگ یکسان نہیں ہیں، جیسے قرآنِ عظیم کا مقدّس ارشاد ہے: (ترجمہ): لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے، تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو، (اور) خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے، بیشک خدا سب کچھ جاننے والا اور سب سے خبردار ہے (الحجرات ۴۹: ۱۳)۔
۲۔ یہ قرآنِ پاک کے واضح مفہومات میں سے ہے کہ تقویٰ اور خوفِ خدا علم کے بغیر ممکن نہیں ( ۳۵: ۲۸) اور نہ ہی حکمت کے سوا خیر کثیر کے حصول کا کوئی امکان ہے (۰۲: ۲۶۹) پس ہر مومن اور مومنہ کی باطنی ترقی کے لئے عام و خاص عبادت اور علمِ و حکمت ضروری اور لازمی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے سب کچھ حاصل ہو۔
۳۔ خانۂ خالقِ اکبر کجا، اور خانۂ مخلوقِ ضعیف کجا، ان دونوں گھروں
۱۳۲
کے درمیان آسمان زمین سے بھی زیادہ کا فرق ہے، خدا کا گھر عرشِ عظیم کی طرح ہے، تاہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی شانِ قدرت بڑی عجیب ہے کہ وہ اپنے بندگان کے قلب کو عرش کا نمونہ بنا سکتا ہے، جبکہ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے:
لا یسعنی ارضی و لا سمائی و یسعنی قلب عبد المؤمن = “مجھ کو میری زمین سما نہیں سکتی اور نہ میرا آسمان سما سکتا ہے، لیکن میرے بندۂ مومن کا دل مجھ کو سما لیتا ہے، یعنی دیدارِ الٰہی اور معرفت کی قابلیت و اہلیت صرف اہلِ ایمان ہی کو عطا ہوئی ہے۔
۴۔ دینی مکتب جیسا گھر بہت سے نیک بخت افرادِ خاندان اور بہت سے سعادت مند متعلقین سے کئی بار ملاقات ہوچکی ہے، اور ان کی بہشت جیس محفلِ ذکر میں شرکت کی سعادت بھی نصیب ہوئی ہے، میرا عقیدہ ہے کہ دنیا میں علم و عبادت سے بڑھ کر کوئی عظیم تر نعمت نہیں ہے، کیونکہ اس حال میں اہلِ مجلس پر نور کی بارش برستی رہتی ہے۔
۵۔ “دینی مکتب جیسا گھر” جناب انجینیئر دلدار شاہ صاحب ریکارڈ آفیسر کا دولت خانہ ہے، جس میں کبھی کبھی بہت سے ارضی فرشتے جمع ہوجاتے ہیں، یہ سب سعادت مند افراد موصوف کے شاگرد ہیں، مولا کے پسندیدہ روحانی بیٹے اور بیٹیاں، جن کی بندگی، دعا، مناجات، اور گریہ و زاری کو دیکھ کر بڑا تعجب ہو جاتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اپنی عبادت کے لئے کیسے کیسے عاجز اور مناجاتی درویشوں کو پیدا کیا ہے۔
۶۔ قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر خدا کو کثرت سے یاد
۱۳۳
کرنے کا حکم ہے، جس کا منشا ہے کہ مومنین و مومنات دائم الذکر ہو جائیں تاکہ اس کی برکتوں سے ان کو دنیا و آخرت کے بے شمار فائدے حاصل ہوں، اگرچہ یہ کام بہت ہی مشکل ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں، اس نیک عمل سے جماعت کو بھی فائدہ ہے، اور مقدس اداروں کو بھی، کیونکہ اس سے اجتماعی نیکی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور مسائل کم ہو جاتے ہیں۔
۷۔ اے کاش! ہر شخص کے لئے “دینی مکتب جیسا گھر” ہوتا تو کتنی روحانی ترقی ہوتی، آپ سب دعا کریں کہ بغض، حسد، کینہ اور ہر قسم کی برائی ختم ہو جائے اور علم و عبادت کا دور دورہ ہو، تاکہ زندگی روحانی خوشیوں سے معمور ہو سکے، آمین!
ن۔ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
۲۴؍ رمضان المبارک ۱۴۱۵ ھ ۲۵؍فروری ۱۹۹۵ء
۱۳۴
بابِ ہشتم
ریکارڈ
۱۳۵
THE INSTITUTE OF ISMAILI STUDIES
26th August 1994
Mr. Khan Muhammad
15 Rahim Court
312 – Garden West
Nr. Rose Garden Apt.,
KARACHI – 74550
PAKISTAN
Dear Mr. Khan Muhammad
Thank you for your letter of 26th July 1994 and the enclosed newspaper cuttings about the recent conferment of covetous literary title of “Hakeem-ul-Qalam” upon Allamah Nasiruddin Hunzai.
Indeed it is an honour for the Ismaili Community world wide and we equally share your pride at Allamah Hunzai’s extraordinary accomplishments in the literary world.
Thank you again for providing us with the information and we will ensure a wide coverage at this end.
With kind regards and Ya Ali Madad.
Yours sincerely
Sadruddin Nathoo
Administrator
۱۳۷
ایک یاد گار نظم
یہ کس کے نور سے معمور ہیں ارض و سما دیکھو
یہ کس کا نام ہے ہم معنیٔ نامِ خدا دیکھو
میرے بہت ہی عزیز بھائی، بہت ہی پیارے دوست، اور عظیم رفیقِ کار فدا علی سلمانؔ البدخشانی صاحب (مرحوم و مغفور) کی ایک عالیشان نظم اسماعیلی بلیٹن میں شائع شدہ ملی ہے، جو مولانا حاضر امام علیہ السّلام کی شان میں تحریر کی گئی ہے، چونکہ مولائے پاک کی تعریف ہے، اور ایک عزیز بھائی کی یادگار نظم، اس لئے حوالے کے ساتھ اس کو یہاں درج کرتے ہیں: ۔
مسندِ امامت اور امام ِزمانؑ
از: فدا علی سلمانؔ البدخشانی
یہ کس مسند کے اونچے آسمانوں سے بھی پائے ہیں؟ زمین و آسمان کس کے ادب میں سر جھکائے ہیں؟
۱۳۸
یہ کیسے شادیانے بج رہے ہیں چار سُو یا رو؟ یہ کیسا غلغلہ ہے دیکھو! دیکھو! کو بہ کو یارو؟
یہ کس کے نور سےمعمور ہیں ارض و سما دیکھو یہ کس کا نام ہے ہم معنیٔ نامِ خدا دیکھو
یہ مسند، مسندِ رشد و ہدایت ہے زمانے میں اس مسند کی سب سے بڑھ کر عظمت ہے زمانے میں
تجلیٰ گاہِ انوارِ خدا مسند امامت کی امانت گاہِ علم مصطفیٰ مسند امامت کی
اسی مسند پہ ہے جلوہ فگن اِک شخصِ نامی آج ہے فخر شاہی و شاہنشہی جن کی غلامی آج
کریمؑ ابنِ علیؑ ہے نام امامِ وقتِ حاضر کا ہے مومن کے لئے یہ نام باعثِ جمع خاطر کا
کہ باب و پور کے اسماء اسماءِ الٰہی ہیں پناہِ کُل یہی اسماء ازمہ تابہ ماہی ہیں
اشارت بس یہ سلمانؔ کافی ہے خمش ہو جا حریم ِ یار دل تیرا ہے اپنے دل ہی میں کھو جا
اسماعیلی بلیٹن جلد ۔ ۲ شمارہ ۱۰۔ ۱۱ م رجب شعبان ۱۳۹۶ ھ
جون ۔ جولائی ۱۹۷۶ء
۱۳۹
ایک تاریخی حوالہ
محترم و مکرم جناب ڈاکٹر (پی۔ ایچ۔ ڈی) فقیر محمد صاحب کے احسانات اس کثرت سے ہیں کہ ہم ان کو شمار ہی نہیں کرسکتے ہیں، جب موصوف نے “برکاتِ دعا” تالیف فرمائی اور پہلی بار شایع ہوئی تو اس میں ذیل کی طرح فلسفۂ دعا ( دعا مغزِ عبادت) کا حوالہ دیا ہوا تھا، ہم اس بہت بڑے انعام کو اپنی کتاب میں محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، اَلَحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ ۔
اس کتاب کے مرتب کرنے میں جہاں میں نے تفاسیرِ قرآن اور دوسری کتابوں سے مدد لی ہے وہاں میں نے زیادہ تر مواد علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کی کتاب “فلسفۂ دعا” سے لیا ہے اور اس کتاب کو بنیاد بنا کر میں نے اس کام کو مکمل کیا ہے۔ جس کے لئے میں جناب علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کا تہہ دل سے مشکور و ممنون ہوں۔
فقیر محمد
۱۴۰
برکاتِ دعا
مؤلف
فقیر محمد ہونزائی
ایم ۔ اے
شائع کردہ: ۔
دی اسماعیلیہ ایسوسی ایشن برائے پاکستان
۱ / ۲۳۰ ڈکروزروڈ ۔ گارڈن ایسٹ
کراچی نمبر۳۔
۱۴۱
FARMAN MUBARAK
Hazrat Imam Sultan Mohammad Shah
“This praying house is of stone; Ismailis have their praying house in their hearts. It is no use to have only a stone building for praying. Every Ismaili has got a praying house in his heart, head, sense and conscience. But such house helps to meet each other and to promote brotherly fellow feeling and help each other.”
Farman No. 32, Pg 23
Precious Pearls
Published by Ismailia Association for Pakistan
۱۴۲
یک قطعۂ شعر شاگردانہ بہ اوستادِ معظم نابلغۂ دوران
علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۱۔ ایکہ شمعِ عشق در دلہا فروزان کردۂ خانۂ دلہاز نورِ عشق تابان کردۂ
۲۔ طالبانِ حسنِ معنا را بہ شہراہِ امید بردۂ، مفتونِ حسنِ شاہِ خوبان کردۂ
۳۔ ماہر ا نہ گلعذ ارش را چنان بستودۂ کاند لیبان راز شو قش زارو نا لان کردۂ
۴۔ اے محبِّمصطفےٰ ای دوستد ارِ مرتضیٰ خویش رادر راہِ عشقِ آل قربان کردۂ
۵۔ مشکلی صعب است درسِ عشق را آموختن اوستادا! معجزانہ مشکل آسان کردۂ
۶۔ عاجزی دارم زوصفِ مہربانی ہای تو لطفِ بے حد اے معظم باعزیزان کردۂ
۷۔ اندرین دوران مثالت می ندانم نابلغہ ! فتحِ شہرت از بدخشان تا بدخشان کردۂ
۱۴۳
۸۔ مخزنِ گنجِ علوم و حکمت اندرسینہ ات سائلان رابہرہ مند از گنجِ آن کان کردۂ
۹۔ با ریاضت و ادئ مقصود را پیمودۂ جلوہ را دیدار انبر طورِ عرفان کردۂ
۱۰۔ خانۂ حکمت ز فردوسِ برین دارد نشان بلغجائب خانۂ را باغِ رضوان کردۂ
۱۱۔ روحِ پاکِ ناصرِ خسرو نصیری ! از تو شاد درہمہ جملس کہ یادی ہم زبرہان کردۂ
۱۲۔ ای قوی پنجہ مجاہد در طریق، دینِ شاہ دفعِ شیرِ دیو را باحِرزِ ایمان کردۂ
۱۳۔ جاودانی زانکہ فرقِ مرگ رابشکستۂ از زہابِ عشقِ توشِ آبِ حیوان کردۂ
۱۴۔ درسِ نو آموخت انور کان ز دانشگاہِ تان باطنش را با چراغِ نو چراغان کردۂ
انور اندرابی (از تاجیکستان)
کراچی، پاکستان۔ فروری ۱۹۹۵ ء
۱۴۴
ترجمہ:
۱۔ اے وہ شخص جس نے (بہت سے لوگوں کے) دلوں میں عشقِ حقیقی کی شمع روشن کر دی ہے، اسی طرح قلوب کے گھر کو (امامِ برحقؑ کے ) نورِ عشق سے منور کر دیا ہے۔
۲۔ آپ نے حقیقی حسن و جمال کے طلب گاروں کو امید و یقین کی شاہراہ پر گامزن کر کے شاہِ خوبان (امامِ زمان علیہ السّلام) کے جمالِ معنوی کے دلدادہ عاشق بنا دیئے ہیں۔
۳۔ آپ نے بڑی مہارت سے اس کے پھول جیسے چہرے کی ایسی تعریف و توصیف کی ہے کہ جس کی وجہ سے آپ نے بلبلوں کو اس کے عشق میں زار و قطار رلا دیا ہے۔
۴۔ اے محمد مصطفےٰ کا شیدائی اے علیٔ مرتضےٰ کے دوستدار، آپ نے تو آلِ محمد صلعم کے عشق کی راہ میں اپنے آپ کو قربان کر دیا ہے۔
۵۔ ہر چند کہ عشق کا درس سیکھ لینا مشکل کام ہے، لیکن اے استاد! آپ نے تو معجزانہ طور پر یہ مشکل بھی آسان کر دیا ہے۔
۶۔ میں آپ کی مہربانیوں کی تعریف و توصیف کرنے سے عاجز ہوں، اے عظیم استاد! آپ نے اپنے شاگردوں کے حق میں بیحد مہربانی کی ہے۔
۱۴۵
۷۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں آپ ہی کی طرح کوئی شخص بےحد ذہین ہے، آپ نے سارے جہان میں شہرت و ناموری کی جنگ جیت لی ہے۔
۸۔ آپ کے سینے میں علم و حکمت کے ذخائر و خزائن موجود ہیں، آپ نے ان خزانوں سے طالبانِ علم کو بہرہ ور کر دیا ہے۔
۹۔ آپ نے عبادت و ریاضت سے وادیٔ مقصود کی مسافتوں کو طے کر لیا ہے، جلوۂ جانان کا دیدار آپ نے معرفت کے “طور” ہی پر کر لیا ہے۔
۱۰۔ خانۂ حکمت بہشتِ برین کی مثال ہے، انتہائی عجیب بات ہے کہ آپ نے ایک گھر یعنی ادارے کو باغِ بہشت بنا دیا ہے۔
۱۱۔ اے نصیر! ناصر خسرو کی پاک روح آپ سے شادمان ہے، کیونکہ آپ نے ہر مجلس میں پیر ناصر خسرو کی دلیل کو یاد کیا ہے۔
۱۳۔ اے وہ مجاہد جس کی گرفت شاہِ دین کی راہ میں بڑی مضبوط ہے، آپ نے شیطان کے شر کو ایمان کے تعویذ کی مدد سے دفع کر دیا ہے۔
۱۳۔ آپ زندۂ جاوید ہوگئے ہیں، کیونکہ آپ نے موت کو شکست دی ہے اور چشمۂ عشقِ مولا سے آبِ حیات پی لیا ہے۔
۱۴۔ آپ کی دانش گاہ سے انور خان نے جدید تعلیم حاصل کر لی ، آپ نے اس کے باطن کو چراغِ نَو سے تابان کر دیا ہے۔
۱۴۶
May 22, 1950
Dear Dr. Hakim,
I was very glad to get your letter. Of course I looked through your book on Roumi which the Finance Minister gave me to read, I also vaguely remember meeting the young philosopher at the Taj Mahal Hotel ages ago.
I may have been prejudiced against you by the fact that all your friends have spoken to me about your knowledge of Muslim and Eastern Philosophy. They have compared you with the poet Iqbal, but I feel very strongly that our philosophers interpreted the universe from the objective knowledge they then had. Even for man like Roumi, the earth was the center and his evolutionary view was the transmission of life in the abstract rather than the physical body. The European philosophers earlier than Kant suffered from similar weakness.
No doubt Hafiz as a poet has found short cuts and so have other Moslems, either by instinct or by the influence of the Qur’an, but these short cuts however excellent and ultimately true will not win us over those who seek not only the journey’s end but the journey itself.
۱۴۷
Not only the dialects of Marx but the Mathematical philosophy of Russel, and later travelers on that road, need our main attention and exposure on Qur’anic principles. As i understand Islam, it is unlike Jewish Monotheism, in fact it is Monorealism.
I hope to be in Karachi in November, in any case from a few days, and if you will kindly come there, and after personal discussion, we might find a way to carry on the work of the late Z. Hasan.
I am sure the Finance Minister will be very happy to put you up during your visit.
Yours Sincerely,
Sd/.
Aga Khan
۱۴۸
September 14, 1950
Dear Sir,
I was very glad to get your letter and it has cleared up the misconceptions which I had.
The beauty of the Qur’an is that its conception of Reality automatically adapts itself to the highest and most up to date as well as the most primitive thought.
Even the new fashionable logical positivism of England and both the forms of existentialism, whether of the Danes of Copenhagen or of Sartre of St. Germaindes press, cannot free themselves from Qur’anic Absolut.
Only energy without extension is our saviour today. Even our old and glorious friend Hume Having destroyed alike object and subject cannot clear himself from the facts which he assumes in spite of his philosophy in every line of his history of England.
In the work which you wish to take up, we must first realize for whose benefit we are acting. Is it for the half Educated, failed and successful graduates of our Universities or is it for a small and restricted coterie of intelligencers through-out the world?
۱۴۹
I think the professional writing should attach both but by different routes for no mixing is possible. That means you must remember the French saying namely “Clerkcalism is a different article for export and import.”
I very much look forward to meeting you when I come to stay for sometime in Karachi in March with our friend the Finance Minister we may then be able to get something done.
Zafar Hasan’s work remains unfinished. Will you be able to get from his over heirs what ever has been completed so that may used after what you reported to me on it that his remanism philosophical ideas were not completed by him but the embryo was put together and published after his death.
Your’s Truly,
Sd/.
Aga Khan
P.S. I think Marx Dialectical Matter and our Monoreal are very same conceptions, the fundamental difference is value.
Dr. Khalifa Abdul Hakim.
۱۵۰
Alijah Mohamed Keshavjee,
Secretariat De son Altesse 1′ Aga Khan,
Aliglemont, 60270 Gouviexu, France.
14th July, 1993
Dear Alijah Mohamed Keshavjee,
I am indeed extremely grateful to you for your affection and kindness that, despite your extremely important work, you graciously spared so much of your valuable time and came to the Embassy of Pakistan in Paris to meet this most humble servant of the Imam of the time. To meet an eminent ‘amaldar like you has historical significance for me.
Your kind encouragement has given me new vigour and strength to serve the cause of our holy faith.
Despite my greatest effort, I do not think that I am able to thank you adequately. I will cherish the memory of the meeting which I had with you and the Chairman of the Tariqah Board of France and I will derive immense pleasure when I share the experience with my circle of friends everywhere.
۱۵۱
Regarding the books, in accordance with your helpful advice, I would like to send you the English translations in installments of five books, so that it may be easier for you to edit and publish and thus it will be possible to accomplish a staggered and smooth transference of all the books to you. I would also like to inform you that I have over fifteen hundred audio cassettes of lectures on numerous subjects related to the Ismaili Tariqah, as well as munajat and if you are interested, I would also like to submit them to you. However, this is my humble suggestion, but the final decision will depend on the guidance of Mawlana Hazir Imam. I hope to receive the guidance of Mawlana Hazir Iamam through you.
With best wishes and Ya Ali Madad,
Yours sincerely,
Sd/-
Allama Nasir al-Din Nasir Hunzai
۱۵۲
ایک یادگار خط
از بمبئی ۲۳ ؍ دسمبر ۱۹۴۵ ء
قبلہ و کعبۂ من در ظلِ عنایت
خداوندِ قدوس باشند!
بعد از التماس قبولیت یا علی مدد و دعائے عجز برائے فلاح و صلاح صغیر و کبیر واضح آنکہ تبریک از جانب این بندۂ احقر بہ جملۂ عقید تمندانِ جماعتِ فلاحیۂ اسماعیلیہ قبول و مقرون باد ! کہ درین اوانِ سعادت اقتران تشریفِ مبارکِ صاحب الزمان در شہر بمبئی شریف مقیم گشتہ، روزی کہ بندۂ خاکسار در بمبئی رسیدہ بود مولائے نامدار در مقام پونا تشریف داشتند، بہ شوقِ دیدارِ فیض آثار بندۂ ھمان وقت سوئی بونا روانہ شد، روزِ دیگر کہ یومِ مبارک پنجشنبہ بود بوقتِ چاشت در موضع مذکور در باغے وسیع باجملۂ جماعتِ پونا منتظر بودیم کہ مولانا تشریف آوردندو تشنگانِ شوقِ وصال را سیراب فرمودند۔
دلم بہ حی و حاضر بودنِ “نورِ زمانہ” گواہی داد، گاہی از
۱۵۳
فرطِ مسرت بگریستم و گاہی شکر کنان با خود خندیدم، در دلِ گفتم: یاری کہ بہ طلب و صال او پدر و مادر و خویش و قوم را گزاشتہ بودم، الحمد للہِ، اکنون اورا یافتم ، بہ نتیجۂ رنج غریب الوطنی چہ گنج گوہری بدست آمد۔
حاصل کلام آنکہ بندۂ عاجز را طاقتِ آن کجا کہ حدیثِ لذت دیدارِ یار را بہ احاطۂ قلم در آرد، مگر آنچہ از عنایتِ بی نہایت او باشد۔
الوقت بندۂ مسکین در بمبئی اقامت دارد، ازان کہ تشریفِ مبارک در ہمیں جاست، امید کہ بمدتِ چہار ماہ یعنی تا اختتامِ ماہِ مارچ ۱۹۴۶ ء تشریف ہمدرینجا خواہد بود، میگو یند کہ بتاریخِ سومِ مارچ ۱۹۴۶ ء جشنِ ڈائمنڈ (ڈائمنڈ جوبلی) شروع خواہد شد۔
فرمانِ مبارک از بہرِ جماعتِ پونا این طور شدہ ، شما ہمہ سعی نمائید کہ دنیا و آخرت ہر دو از برائے بندگا نیست کہ از کسبِ حلال و از اعمالِ صالحۂ خویش این ہر دو را خریدارند۔ نیز فرمودہ اند کہ: بندہ از حصول رزقِ حلال ہر گز غافل نباید شدن، دیگر فرمودند:
رسمہائے قدیم کہ از پئ آنہا حصہ از مال خود خرج کنند درست نیست، ہمچو پرستشِ عمارتہا، قبور، آستانہا
۱۵۴
وغیرہ۔
دیگر آنچہ امرِ پاکِ امامِ زمان (صلوات اللہ علیہ) صادر شود نوشتہ خواہد شد، ان شاء اللہ، ازبہر وطن خود خصوصاً در حقِ ہمۂ جماعت دعائے خیر خواہیم طلبید، دعائے ظاہری ہم دعائے باطنی، ازانکہ او بادشاہِ ظاہر و باطن است۔ والسلام
فقط بندہ، نصیر الدین
۲۳ ؍ دسمبر ۱۹۴۵ ء
نوٹ: ۔ یہ وہ یاد گار خط ہے ، جو میں نے بمبئی سے اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں تحریر کیا تھا، جبکہ مجھے بارِ اوّل امامِ اقدس و اطہرؑ کا مبارک دیدار حاصل ہوا، اس میں معجزہ یا کرامت کا اشارہ وہاں ملتا ہے جہاں یہ جملہ ہے: دلم بہ حیّ و حاضر بودن “نورِ زمانہ” گواہی داد۔
ن۔ ن۔ (حبِّ علی) ہونزائی
۳؍جون ۱۹۸۳ء
۱۵۵