کتاب العلاج  [قرآنی علاج]

کتاب العلاج

۱۔ یا الٰہی! یہ تیرا بندۂ کمترین اپنی بے شمار حاجات کا دریوزہ طلب کرنے کے لئے تیرے درِ اقدس کے سامنے گریان و سجدہ کنان (روتا اور سجدہ کرتا ہوا) حاضر ہے، اے دانا و بینا! تجھ سے اپنے ناچار بندوں کے احوالِ دل پوشیدہ نہیں، اے طبیبِ روحانی اے حکیمِ آسمانی! تو وہ عالم الغیب ذات ہے، جس کے علمِ محیط سے ظاہر و باطن کی کوئی شیٔ مخفی نہیں، اے طبیبِ عشق! اے طبیبِ عقل و جان! اے طبیبِ طبیبان! تو وہ طبیبِ کُل اور حکیمِ مطلق ہے، جو ہماری ہر ہر بیماری کو کسی قسم کی تشخیص کے بغیر جانتا ہے، وہ طبیبِ ازل جو حبل الورید سے بھی زیادہ قریب ہے بزبانِ پاکِ قرآن بار بار فرماتا رہتا تھا کہ دیکھو، تم دینِ اسلام کی تعلیمات پر پوری طرح سے عمل کرنا، اور کثرت سے خدا کو یاد کرتے رہنا، اس ہدایتِ کاملہ میں البتہ جسم، جان، اور عقل کی صحت و سلامتی بھی پیشِ نظر تھی، اے کاش! ہم متّقی

 

الف

 

ہوتے! اور بیماریاں ہم کو نہ ستاتیں!

۲۔ معجزۂ قرآن / معجزۂ محمدی: اللہ جلّ جلالہ نے اپنے محبوب رسول حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (روحی فداہ) کو ایک ایسا عظیم الشّان اور جلیل القدر معجزہ عطا فرمایا ہے، کہ جس کی مثال انبیائے سلف کے سارے عظیم معجزات میں بھی نہیں ملتی، وہ اعظم المعجزات قرآنِ اقدس و اطہر ہی ہے، جو پیغمبرِ اکرمؐ کا عقلی معجزہ بھی ہے، دائمی معجزہ بھی، لوگوں کے لئے ہدایت نامۂ سماوی بھی ہے، خزینۂ علم و حکمت بھی، طبِ الٰہی بھی ہے، اور شفا خانۂ آسمانی بھی، الغرض قرآنِ کریم کے فیوض و برکات بے حد و بے پایان ہیں جن کی تعریف و توصیف مجھ جیسا ناچیز انسان کبھی کر ہی نہیں سکتا۔

۳۔ نفسِ انسانی کے تین درجات: اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے تین بڑے درجے ہیں: ۱۔ نفسِ امّارہ (بہت حکم کرنے والا نفس) ۲۔ نفسِ لوّامہ (بہت ملامت کرنے والا نفس) ۳۔ نفسِ مطمئنہ (اطمینان یافتہ نفس = روح) نفس کے ان علی التّرتیب ناموں سے ترقی کا تصوّر سامنے آتا ہے، جیسا کہ سورۂ یوسف (۱۲: ۵۳) میں نفسِ امّارہ کی فطرت کا ذکر ہوا ہے، وہ یہ ہے: میں کچھ اپنے نفس کی برأت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الّا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو۔ یہ ہے نفسِ امّارہ جو بڑا سرکش ہے، لیکن جب جہادِ اکبر کا کوئی مجاہدِ اعظم اپنے نفس کو شکست دے

 

ب

 

کر تابعِ فرمان بناتا ہے تو اس وقت یہ اپنی بری عادتوں سے بدل کر نفسِ لوّامہ ہو جاتا ہے، جیسا کہ سورۂ قیامۃ (۷۵: ۰۱ تا ۰۲) میں ارشاد ہے: لا اقسم بیوم القیامۃ۔ و لا اقسم بالنفس اللوّامہ = نہیں، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی، اور نہیں، میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی۔

۴۔ یہاں اشارۂ حکمت یہ ہے کہ نفسِ لوّامہ ترقی کرتے کرتے منزلِ فنائے اوّل (منزلِ عزرائیلی) میں داخل ہو جاتا ہے، جس میں جیتے جی نفسانی موت کا قیامت خیز تجربہ ہوتا ہے، پس نفسِ لوّامہ کا یہی عظیم کارنامہ اور تقدس کافی ہے کہ خدا نے قیامت کی قسم کے ساتھ ساتھ نفسِ لوّامہ کی قسم بھی کھائی ہے، بعد ازان نفسِ مطمئنہ کا ذکر آتا ہے، جس کا تعلق عارف کی ذاتی قیامت کے تمام درجات سے ہے، کیونکہ نفسِ مطمئنہ کے معنی ہیں: اعلیٰ حقائق و معارف سے اطمینان یافتہ نفس، اس سے مراد ہر وہ عارفِ کامل ہے، جس نے عین الیقین کے پُرنور و تابندہ مشاہدات کے بعد حق الیقین کے انتہائی عظیم و اعلیٰ اسرار کو بھی چشمِ بصیرت سے دیکھا ہو، اس کے بغیر اطمینانِ کلّی کا مطلب ناتمام رہتا ہے، جیسے سورۂ فجر کے آخر (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) میں ہے: اے اطمینان والی روح (نفس) تو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا در حالے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے راضی ہے، پھر تو میرے خاص بندوں (یعنی حظیرۂ قدس) میں داخل ہو

 

ج

 

جا، پھر میری (کلّی) بہشت میں داخل ہو جا۔

۵۔ اسلامی عبادات میں طبی پہلو: دینِ اسلام جو دینِ فطرت ہے، اس میں کوئی ایسی عبادت نہیں، جس میں طبِ روحانی کا کوئی پہلو نہ ہو، کیونکہ یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ہر عبادت کا مقصدِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے، اور ذاتِ سبحان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسوۂ حسنۂ رسول کی پیروی ضروری ہے، جس میں عقل، روح، دل، اور دماغ کی کامل صحت و صفائی لازمی ہے، اس کے برعکس اگر باطن میں بیماری ہی بیماری ہے تو یہ حقیقت میں بے ہوشی یا نیم بے ہوشی کی مثال ہے، پھر ایسی حالت میں درست عبادت کیوں کر ہو سکتی ہے، جبکہ قرآنِ حکیم (۲۶: ۸۹؛ ۳۷: ۸۴) میں قلبِ سلیم کی بہت بڑی اہمیت بیان ہوئی ہے، دوسرے الفاظ میں ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر اسلامی عبادت ایک ساتھ عبادت بھی ہے اور باطنی علاج بھی، مثلاً روزہ ایک طرف سے اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت ہے، اور دوسری طرف سے علاج، اسی طرح نماز اور دوسری سب عبادات ہیں۔

۶۔ حکمت ایک بہت بڑی آسمانی دوا: افراد و اقوامِ عالم میں اگر جہالت و نادانی ہو تو یہ بہت بڑی عقلی بیماری ہے، جس کی مؤثر ترین دوا حضرتِ طبیب الاطباء (اللہ) نے آسمان سے نازل فرمائی ہے، جس کا نام “حکمت” ہے، جو قرآنِ پاک میں

 

د

 

ہے، جس کے بارے میں ارشاد ہے: یُّؤْتِی الْحِكْمَةَ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ (۰۲: ۲۶۹) خدا جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں خیرِ کثیر مل گئی۔ عجب نہیں کہ خیرِ کثیر سے خیرِ کل مراد ہو، کیونکہ حظیرۂ قدس میں جملہ حقائق و معارف کی ایسی وحدت و سالمیت ہے کہ ان کی تقسیم نہیں ہو سکتی، پس معلوم ہوا کہ حکمت خیرِ کل ہے، اور خیرِ کل حکمت، چونکہ بدن روح کے تحت ہے اور روح عقل کے تحت، لہٰذا حکمت جو عقلی امراض کے لئے آسمانی دوا ہے، وہ روح اور جسم پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔

۷۔ ایک ناچیز کوشش برائے تعریفِ حکمت: ۱۔ حکمت حکیمِ مطلق کی ضیا افشانی ہے۔ ۲۔ حکمت وہ کنزِ اسرارِ الٰہی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول حضرتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عطا فرمایا ہے۔ ۳۔ حکمت قرآنی بہشت کے ثمرات کا سلسلہ ہے۔ ۴۔ حکمت سرچشمۂ آبِ حیات ہے۔ ۵۔ حکمت سیرِ آسمانِ عقل و جان ہے۔ ۶۔ حکمت عالمِ شخصی کی روحانیّت و نورانیّت کا ماحصل ہے۔ ۷۔ حکمت جوہرِ علم کا نام ہے۔ ۸۔ حکمت روحانی سائنس اور اصل ظاہری سائنس ہے۔ ۹۔ حکمت ایک ایسی انتہائی گرانقدر شیٔ ہے جو مومن کی ملکیت تھی، مگر کھو گئی ہے۔ ۱۰۔ حکمت کی اصل صورت اسرارِ ازل کی معرفت ہے۔ ۱۱۔ حکمت طبِ روحانی اور

 

ہ

 

علاجِ آسمانی ہے۔ ۱۲۔ حکمت جوہر الجواہر ہے۔ ۱۳۔ حکمت عطیۂ الٰہی ہے۔ ۱۴۔ حکمت علاجِ کُل اور شفائے سرمدی ہے۔ ۱۵۔ حکمت سوغاتِ بہشت ہے۔ ۱۶۔ حکمت میوۂ عقل و جان ہے۔ ۱۷۔ حکمت سرمایۂ عقلاء ہے۔ ۱۸۔ حکمت میں فنا فی اللہ و بقاء باللہ کے عظیم اسرار ہیں۔ ۱۹۔ حکمت علم کی لپیٹی ہوئی کائنات ہے۔ ۲۰۔ حکمت خیرِ کثیر / خیرِ کُل ہے، لہٰذا اس میں تمام اچھی چیزوں کے ساتھ ساتھ باطنی امراض کی اعلیٰ دوائیاں بھی موجود ہیں، اللہ تعالیٰ مریضانِ ظاہر و باطن کو شفائے کُلی بخشے! آمین!

۸۔ ایک ہی کتاب میں تین کتابیں: زیرِ نظر مجموعے کا پسندیدہ نام کتاب العلاج ہے، اگرچہ یہ کوئی نئی تصنیف نہیں، لیکن ان تین کامیاب اور مشہور کتابوں (قرآنی علاج، علمی علاج اور روحانی علاج) کا مجموعہ یا سیٹ ہے، جو باطنی علاج سے متعلق قبلاً الگ الگ شائع ہو چکی تھیں، چونکہ ان کتابوں کا طریقِ علاج علم و حکمت یا روحانی سائنس کی روشنی میں ہے، اور یہ سچ ہے کہ وہ طرزِ جدید بھی ہے اور حصولِ علم کے لئے زبردست مفید بھی، لہٰذا موجودہ شکل میں ان کو دوبارہ چھپوانے کی ضرورت پیش آئی۔

۹۔ کلماتِ زرین برائے تاریخِ آئندہ: قرآنِ حکیم میں عجائب و غرائب کا سلسلۂ لا انتہا موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اپنی

 

و

 

کم علمی سے مایوس ہوئے بغیر ذاتی طور پر بھی اور احباب کے ساتھ مل کر بھی حکمتِ قرآن کی مقدّس خدمت کے لئے کوشش کر رہا ہوں، مجھے قرآنِ پاک کی ہر حکمت سے نہایت شادمانی ہوتی ہے، مجھے اس عجیب پیارے قرآنی نام سے ازبس خوشی ملتی ہے، یہ ہے: درِّ مکنون، لفظِ در (موتی) آیۂ مصباح (۲۴: ۳۵) سے لیا گیا ہے، اور مکنون کا مبارک لفظ قرآنِ مجید کے چار مقامات پر ہے، وہ یہ ہیں: ۳۷: ۴۹؛ ۵۲: ۲۴؛ ۵۶: ۲۳؛ ۵۶: ۷۸، درِ مکنون کے معنی ہیں: گوہرِ مخفی، اس عزیز نام میں (ان شاء اللہ) کئی برکتیں پوشیدہ ہیں، ان میں سب سے عظیم برکت یہ کہ لائف گورنر درِّ مکنون بنتِ ظہیر جو اس وقت شیر خوار بچی ہے، وہ کچھ آگے چل کر قرآنِ کریم میں اپنے پیارے نام کو دیکھے گی، اور بحکمِ خدا رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کی مقدّس کتاب سے وابستہ ہوگی، درِّ مکنون میں بہت سی نیک علامتیں ہیں۔

۱۰۔ ریکارڈ آفیسر، لائف گورنر ظہیر لالانی اور ان کی بیگم ریکارڈ آفیسر، لائف گورنر عشرت رومی جو میڈیکل پیٹرن بھی ہیں، اور ان دونوں عزیزوں کی بہت پیاری بیٹی لائف گورنر درّی (درِّ مکنون) میرے عالمِ شخصی کے فرشتوں میں سے ہیں، اس کی وجہ خدمت کی کثرت اور محبت کی شدت ہے، اگر کوئی محبت للّٰہی ہو یعنی جذبۂ للّٰہیت کے تحت ہو تو کتنا مبارک ہے، میرے باغِ برطانیہ کے سارے ثمردار درخت، شاداب و سرسبز پودے، عطر افشان پھول، اور

 

ز

 

مسکراتے ہوئے غنچے ایسی قابلِ رشک ترقی پر ہیں کہ ان کو زمانے کی کوئی نظر نہ لگے!

۱۱۔ ظہیر لالانی اور عشرت رومی (ظہیر) میرے قلبی اور جانی عزیزوں میں سے ہیں، یہ دونوں فرشتے اور دوسرے فرشتے سب ہمارے لنڈن کے “مرکزِ علم و ادب” میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ علمی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے علمی ذوق میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے، اللہ کی رحمت سے درّی بہت سی برکتوں کے ساتھ پیدا ہوئی ہے، لہٰذا عزیزانم ظہیر اور عشرت اپنے پیارے گھر کو علم و عبادت کی کارگاہ بنا رہے ہیں، تاکہ اس میں اولاد کی بہتر سے بہترین تربیت ہو۔

۱۲۔ کلماتِ زرین کی چوتھی شخصیت: حدیثِ شریف کا ارشاد ہے: الارواح جنود مجندۃ = (ہر عالمِ شخصی میں) روحیں جمع شدہ لشکر کی صورت میں موجود ہوا کرتی ہیں (ہزار حکمت، ح ۵۱) چنانچہ اس قانون کے مطابق میرے روحانی انقلاب میں جب میرے عزیزان سب کے سب حاضر تھے، پھر درّی، ظہیر، عشرت اور روبینہ ان چاروں کی روحیں اس جنگ میں کیوں کر شامل نہ ہوتیں، یہاں تذکرہ ریکارڈ آفیسر، لائف گورنر، میڈیکل پیٹرن، اور کریم آباد برانچ کی چیئرپرسن روبینہ برولیا سے متعلق ہے، ان کی بہت سی خوبیاں اس وصف میں جمع ہو جاتی ہیں کہ ان کو علم اور علمی خدمت سے والہانہ دلچسپی

 

ح

 

ہے، مزید برآن میڈیکل پیٹرن کی حیثیت میں بھی بہت بہت خدمات انجام دے رہی ہیں، جبکہ استاد ضعیف العمری کی وجہ سے بار بار بیمار ہو جاتا ہے، ہماری بہت عزیز دخترِ علمی روبینہ برولیا کی روز افزون ترقی ہے، تاہم میں چاہتا ہوں کہ دانشگاہِ خانۂ حکمت کے تمام شاگردوں کی اس سے بھی زیادہ ترقی ہو! آمین!!

۱۳۔ میں اپنے ہر عزیز (شاگرد) کے حق میں درویشانہ دعائیں کرتا ہوں، اور ان تمام ساتھیوں کے لئے بھی جو قرآنی علم و حکمت کو اس ادارے سے پھیلا رہے ہیں، دیکھتے رہنا، اور تجربہ کرنا کہ علمی زکات سے بے شمار برکتیں ملتی ہیں، اور علمی صدقہ سے بلائیں رد ہو جاتی ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
منگل ۹ ذوالحجہ ۱۴۱۸ء / ۷ اپریل ۱۹۹۸ء

ط

طبِ قرآنی

۱۔ اللّٰھم صل علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید۔ اللّٰھم بارک علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ اٰل ابراہیم انک حمید مجید ۔ (صحیح بخاری ، سورۂ احزاب)۔ درودِ شریف کے بغیر طبِ قرآنی کا دروازہ نہ تو مفتوح ہو جاتا ہے، اور نہ ہی کوئی دعا بارگاہِ خداوندی تک جا سکتی ہے، اسی درود کا ایک عظیم راز اور ایک نہایت شیرین بہشتی میوہ ہے، جس کی معرفت کے لئے آپ سورۂ احزاب (۳۳: ۴۳) میں دیکھیں۔

۲۔ سب سے بڑی بیماری: خوب یاد رہے کہ اگر کسی انسان میں جہالت و نادانی ہے تو یہی سب سے بڑی بیماری ہے، کیونکہ یہ عقلی بیماری ہے، اور عقل انسان میں سب سے خاص اور سب سے عظیم چیز ہے، پس سب سے پہلے عقلی بیماریوں کا

 

ی

 

علاج سیکھنا ازبس ضروری ہے، اس لئے کہ عقل کے بیمار رہنے سے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عذاب ہو سکتا ہے۔

۳۔ قلبِ سلیم کے معنی؟: قلبِ سلیم سے ایسی عقل مراد ہے جو ہر طرح کی عقلی بیماریوں سے صاف پاک ہو (۲۶: ۸۹؛ ۳۷: ۸۴) چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام بفضلِ خدا ایسی صحیح، سلامت، اور صحتمند عقل کے وسیلے سے اپنے رب کے قربِ خاص میں آئے تھے، اور یہ سارے لوگوں کے لئے عملی ہدایت کا بہترین نمونہ ہے، پس عقلی بیماری کو محسوس کر کے اس سے شفایاب ہونا ہر مومن کے لئے ازحد ضروری ہے۔

۴۔ اشک افشانی: خوفِ خدا یا عشقِ الٰہی سے بار بار اشکبار ہو جانا بہت بڑی عبادت بھی ہے، اور تمام ظاہری، باطنی، اخلاقی ، روحانی، اور عقلی امراض کے لئے بڑا زبردست اور نہایت مفید علاج بھی ہے، کیونکہ ایسی خالص اور عاجزانہ و عاشقانہ گریہ و زاری میں روحانی طبیب کا دستِ مبارک کام کرتا ہے، جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ ہر بیماری دور ہو جاتی ہے۔

۵۔ کرب = سخت غم: سخت غم (کرب) کی دوا بھی روحانی طبیب (اللہ تعالیٰ) کے پاس موجود ہے، ارشاداتِ قرآنی کے لئے دیکھ لیں: ۰۶: ۶۴؛ ۲۱: ۷۶؛ ۳۷: ۷۶؛ ۳۷: ۱۱۵، سورۂ مومن (۴۰: ۶۰) میں ارشاد ہے: وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ = تمہارے

 

ک

 

پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو تاکہ میں (تمہاری دعا کو) قبول کروں۔ خداوندِ قدوس کو کس طرح پکارنا چاہئے؟ ایسی دعا و درخواست کی کیا کیا شرطیں ہیں؟ یہ سب کچھ قرآنِ حکیم میں مذکور ہے۔

۶۔ اسماء الحسنیٰ: سورۂ اعراف (۰۷: ۱۸۰) میں ارشاد ہے کہ خدائے پاک و برتر کو اس کے اسماء الحسنیٰ سے پکارنا بے حد ضروری ہے، جن کی حکیمانہ تعریف قرآنِ عزیز کے چار مقامات پر آئی ہے: ۰۷: ۱۸۰؛ ۱۷: ۱۱۰؛ ۲۰: ۰۸؛ ۵۹: ۲۴، پس ہوشمند مومن وہ ہے جو ہر بیماری، ہر مشکل، ہر حاجت، اور ہر آزمائش میں گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی بے پایان رحمت سے قبول فرمائے، اگر قبولیت کے لئے کچھ وقت لگتا ہے، تو اس میں بھی یقیناًخداوند تعالیٰ کی کوئی حکمت ہو سکتی ہے، لہٰذا مایوسی منع ہے۔

۷۔ تضرع = عاجزی اور زاری: قرآنِ حکیم نے تضرع کو بہت بڑی اہمیت دی ہے، کیونکہ یہ بہت سے ظاہری اور باطنی امراض کے لئے دوا اور شفاء ہے، جس کی کئی مثالیں قرآنِ کریم میں موجود ہیں، آپ ان حوالوں میں دیکھیں: ۰۶: ۴۲؛ ۰۶: ۴۳؛ ۲۳: ۷۶؛ ۰۷: ۹۴؛ ۰۶: ۶۳؛ ۰۷: ۵۵؛ ۰۷: ۲۰۵، آپ ان آیاتِ کریمہ کو یقین سے پڑھیں، اور غور سے دیکھیں کہ تضرع یعنی گڑگڑانے سے عذابِ الٰہی بھی ٹل جاتا ہے۔

ل

۸۔ قساوتِ قلبی: یعنی ایسی سنگدلی یا قلب کی سختی کہ جس کی وجہ سے انسان پر ذکر و عبادت کا کوئی خوشگوار اثر نہیں پڑتا ہو، اور علم و حکمت کی باتوں سے کوئی حلاوت و خوشی نہ ملے، تو یہ قساوتِ قلبی کی روحانی بیماری ہے، جو بہت بڑی خطرناک بیماری ہے، قرآنِ حکیم چھ مختلف مقامات پر ایسی سخت دلی کی پُرزور مذمت کرتا ہے، وہ آیاتِ شریفہ یہ ہیں: ۰۲: ۷۴؛ ۰۶: ۴۳؛ ۵۷: ۱۶؛ ۰۵: ۱۳؛ ۲۲: ۵۳؛ ۳۹: ۲۲، جو حضرات طبیبِ آسمانی اور طبِ قرآنی سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ سب سے پہلے اپنے اندر نرم دلی کی صفت پیدا کریں۔

۹۔ حضرتِ ابراہیمؑ کی نرم دلی: انبیاء و اولیاء علیہم السّلام سب کے سب اخلاقِ عالیہ کے مالک ہوتے ہیں، تاہم حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی مثالی نرم دلی کا ذکر قرآنِ مجید میں اس طرح سے ہے: اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِیْبٌ (۱۱: ۷۵) بے شک ابراہیم بُردبار نرم دل (ہر بات میں خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے۔ اَوَّاهٌ = نرم دل، بہت آہ کرنے والا، لغات القرآن میں اس لفظ کے سولہ معنی درج ہیں، آن جناب کیسی آہیں بھرتے ہوں گے؟ فطری یا مصنوعی برائے مشقِ ریاضت؟ لیکن خدائے دانا و بینا صرف اصل چیز کی تعریف فرماتا ہے، کوئی شریف معصوم شیر خوار بچہ کب آہیں بھرتا ہے؟ رونے کے ساتھ ساتھ؟ یا اس کے بعد؟ یا گریہ کے بغیر؟

م

۱۰۔ قرآنِ کریم /شفاء خانۂ الٰہی: آپ مضمونِ شفاء کے یکجا مطالعے کے لئے ان آیاتِ کریمہ کو خوب گہرائی سے پڑھیں: ۰۹: ۱۴، ۲۶: ۸۰؛ ۱۰: ۵۷؛ ۱۶: ۶۹؛ ۱۷: ۸۲؛ ۴۱: ۴۴، آپ قرآنِ پاک کے اس عظیم معجزے پر یقین کریں گے کہ اگرچہ اس کے پُرحکمت مضامین الگ الگ ہیں، لیکن یہ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ ہر ایک مضمون کے ساتھ دوسرے سب مضامین مل کر بار بار ایک بھی ہو جاتے ہیں، اس قانون کے مطابق اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ جملۂ قرآن شفا خانۂ الٰہی ہے، جس نے بے حد و بے حساب لوگوں کو دہریت، کفر، شرک اور اصنام پرستی جیسی مہلک بیماریوں سے تو بچا لیا ہے، اور اب ظاہری، باطنی، اخلاقی، روحانی اور عقلانی بیماریوں کا علاج کر رہا ہے۔

۱۱۔ دارالسّلام = سلامتی کا گھر: سورۂ یونس (۱۰: ۲۵) میں ارشاد ہے: وَاللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِؕ = اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتا ہے۔ اس فرمانِ الٰہی سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ دنیا سلامتی کا گھر نہیں ہے، اس لئے یہاں کے اکثر احوال سلامتی کے برعکس ہیں، پس خدا لوگوں کو دارالسّلام کی طرف بلا رہا ہے، دارالسّلام ایک معنی میں بہشت ہے، اور دوسرے معنی میں خدا خود دارالسّلام ہے، کیونکہ “السّلام” اللہ کے ناموں میں سے ہے، سورۂ حشر کے آخر (۵۹: ۲۳) میں دیکھئے، یہ درحقیقت فنا فی اللہ

 

ن

 

اور بقا باللہ کی دعوت ہے، جو سب سے بڑی دعوت ہے، جیسے سیر الی اللہ (خدا کی طرف چلنا) ہے، اور اس کے بعد سیر فی اللہ (خدا میں چلنا) ہے، اور یہ تصوّر اُس آیۂ مبارکہ کے عین مطابق ہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ ساری کائنات کا نور ہے (۲۴: ۳۵)۔

۱۲۔ نارِ عشق / نورِ عشق: حدیثِ شریف ہے: ان اللّٰہ جمیل یحب الجمال = اللہ تعالیٰ صاحبِ جمالِ باطنی ہے وہ باطنی جمال کو پسند فرماتا ہے (مسلم، ابنِ ماجہ، احمد بن حنبل، لغات الحدیث) بہت بڑی شادمانی کی بات ہے کہ جب صورتِ رحمان بے حد حسین و جمیل ہے، تو اس کا نہایت پُرکشش عشق و محبت کیوں نہ ہو، چاہے دیدارِ پاک آسان ہو یا مشکل، وہ اس جہان میں بھی ہو یا صرف دوسرے جہان میں، بہ ہر حال عشقِ الٰہی ایک نار بھی ہے اور ایک نور بھی۔

۱۳۔ نار اور نور کا کام: ظاہری مثال میں نار اور نور (آتش و آفتاب) فعلاً ایک ہی ہیں، اور ان کا کام بھی ایک جیسا ہے، وہ ہے: روشنی پھیلانا، کچی اور خام چیزوں کو پکانا، کچھ چیزوں کو نار و نور بنانے کی خاطر جلانا، بعض چیزوں کو نیست و نابود کر دینے کی غرض سے جلانا، بعض اشیاء کو کثیف سے لطیف بنانے کے لئے گرمانا یا پگھلانا، وغیرہ وغیرہ، اسی طرح نار و نورِ عشق سے تمام تر بیماریوں کا

 

س

 

علاج ہو سکتا ہے، جس کی وضاحت مندرجۂ ذیل دعائے نور سے ہوتی ہے، جو آنحضرتؐ کی دعا ہے:
ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے، اور میرے کان، آنکھ اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر اور نیچے بھی نور مقرر فرما! (دعائم الاسلام، جلد اول، ص ۱۶۷، مسلم، جلد دوم، باب: نماز اور دعائے شب)۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو شروع ہی میں سراپا نور ہو چکے تھے، لہٰذا یہ دعا امت کے لئے ہے، پس اگر بعض مومنین کی یہ دعا خدا قبول فرماتا ہے، تو ان کی باطنی بیماریاں دریائے نور کی لہروں میں کس طرح ٹھہر سکتی ہیں۔

۱۴۔ اللہ کی ہر چیز نور ہے: اگر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے تو یقین آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز بصورتِ نور موجود ہے، چنانچہ اس کا پاک عشق بھی نور ہے، اور وہ ایک ایسا بے مثال جوہر ہے کہ اس میں تمام باطنی بیماریوں کے لئے بڑی زبردست دوا اور شفا ہے، (ان شاء اللہ العزیز) الحمد للہ ربّ العالمین۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی
کراچی
جمعرات ۴ ذوالحجہ ۱۴۱۸ھ / ۲ اپریل ۱۹۹۸ء

ع

 

قرآنی علاج

 

اس کتاب کی اہمیت

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ علیٰ منہ و احسانہ ، کہ ہمارے دونوں اداروں۔ خانۂ حکمت اور عارف ۔ کی جانب سے ایک اور ازبس جامع و نافع کتاب بنامِ “قرآنی علاج” مختلف مراحل سے گزر کر آپ کے پیشِ نظر ہو جانے کی سعادت حاصل کر رہی ہے، علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب کا متواضع اور عاجزانہ قلم ہر بار علمی عجائب و غرائب کو رقم کرتا ہے، زہے نصیب کہ موصوف نے اس دفعہ اسلام اور انسانیّت کے ایک وسیع میدان میں علمی خدمت انجام دینے کے لئے بھرپور کوشش کی ہے۔
روحانی علاج کا سادہ اور آسان طریقہ زمانۂ قدیم سے ادیانِ عالم میں رائج رہا ہے، لیکن علامہ ہونزائی کی اس پُرمغز کتاب کے مطالعے سے قرآنی افکار اور روحانی سائنس کے معجزات کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روحانی علاج کے کئی پہلو ہیں، بلکہ یہ ایک سلسلہ ہے، جس میں جدید اکتشافات کی بڑی

 

۵

 

گنجائش ہے۔

کوئی شک نہیں کہ قرآنِ پاک علم و حکمت کی ایک عظیم کائنات ہے، اس میں کیا نہیں، سب کچھ موجود ہے چنانچہ اسی یقینِ کامل کے ساتھ علامہ صاحب نے کتابِ “قرآنی علاج” کا منصوبہ بنایا، اور آج خدا کے فضل و کرم سے یہ علمی کام مکمل ہو چکا ہے، اور ان کے کہنے کے مطابق توقع سے بہت زیادہ کامیابی ہوئی ہے، اور یہ ساری مہربانیاں اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں۔

زیرِ نظر کتاب کے مطالعے سے نہ صرف ظاہری بیماریوں سے محفوظ رہنے کا امکان نظر آتا ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ باطنی صحت و بیماری کے متعلق بصیرت افروز بیان ملتا ہے، کیونکہ اس میں تمامتر روشنی اُن بیماریوں کے اسباب و علل پر ڈالی گئی ہے، جو روح، اخلاق، نظریہ اور عقل کو لاحق ہو جاتی ہیں۔

قرآنی علاج کی یہ مایۂ ناز اور قابلِ تعریف کتاب اصلاً چھبیس مقالوں اور ایک پیش لفظ پر مشتمل ہے، اور حق بات تو یہ ہے کہ ہر مقالہ ضخامت کے لحاظ سے نہیں، بلکہ علم و آگہی کے اعتبار سے ایک کتابِ جامع و نافع کا درجہ رکھتا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ خداوندِ عالم نے نصیر ہونزائی کو قرآنی جواہر کی لازوال دولت سے مالامال فرمایا ہے۔

جس طرح ایک شخص کو جسمانی طور پر تندرست و توانا رہنے کے

 

۶

 

لئے طب اور ڈاکٹری کے بہت سے اصولات پر شعوری یا غیر شعوری حالت میں عمل کرنا پڑتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ہر فردِ بشر کو اُس قرآنی اور روحانی علم و عمل کی شدید ضرورت ہے، جس سے کہ وہ روحانی، اخلاقی، نظریاتی، اور عقلانی طور پر صحتمند ہو سکتا ہے، ورنہ باطنی بیماریوں سے خلاصی کی کوئی دوسری صورت نہیں۔

قرآنی علاج کی اس انتہائی مفید کتاب کا مقصدِ اعلیٰ تو یہ ہے کہ ہر دانشمند انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لائے ہوئے احکامِ خداوندی پر عمل پیرا ہو کر باطنی امراض سے کلی طور پر نجات حاصل کرے، تاہم اس میں ذیلی اور ضمنی طور پر ظاہری بیماریوں سے بچ کر رہنے کے قوانین بھی درج کئے گئے ہیں، کیونکہ قرآنِ حکیم جسم و جان دونوں کے لئے ہدایت نامۂ آسمانی ہے، اور اس ہدایت کے معنیٰ سے کوئی آیۂ کریمہ خالی نہیں، یعنی سراسر قرآن کا مقصد و منشا یہی ہے کہ لوگ ہر اعتبار سے امن و سلامتی کے راستے پر گامزن ہو جائیں، تا کہ ظاہر و باطن میں ان کو کوئی دکھ درد نہ ہو۔

استاذِ بزرگوار کی روحانی اور علمی تحقیق کے مطابق جس طرح جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے ظاہری ڈاکٹرز بدنی ورزش ضروری قرار دیتے ہیں، اسی طرح طبیبِ روحانی نے اپنی آسمانی کتاب میں جابجا بنی نوع انسان کو محنت و مشقت کرنے کا درس دیا ہے، تاکہ اس سے ان کی بدنی، روحانی، اور عقلی ورزش ہو، اور نتیجے کے طور پر آدمی ہر

 

۷

 

طرح سے صحتمند رہ سکے، چنانچہ یہ بہت بڑی خوشی کی بات ہے کہ کتابِ ہٰذا میں کئی قرآنی ورزشوں کا انکشاف کیا گیا ہے، جن میں جسمانی صحت و توانائی کے علاوہ روح و عقل کی قوّت و ترقی کا راز بھی پوشیدہ ہے، مثلاً اس کتاب میں پاؤں کی حرکت سے متعلق تفصیلی وضاحت کو دیکھئے کہ کتنی عجیب و غریب باتیں ہیں: پاؤں کی راہ سے جسم میں ذرّاتِ روح کا داخل ہو جانا، اور ان سے غذائے لطیف اور دوائے روحانی کا کام بن جانا۔

اس طوفانی ترقی کے دور میں سائنسدان بامِ عروج پر پہنچ چکے ہیں، ان کو مسلسل کامیابیاں ہوتی چلی آئی ہیں، وہ اس وقت عالمِ انسانیّت سے ہر قسم کی بیماری کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس کتاب کے مصنف کا فرمانا یہ ہے کہ وہ لوگ قابلِ قدر ہیں، کیونکہ بیماریوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، تاہم جب تک روحانی طریقِ علاج کو بھی نہ اپنائیں، تو ان کو آخری اور کلی کامیابی نصیب نہیں ہو سکتی ہے۔

ویسے تو حضرت عزرائیل علیہ السّلام اور موت کے تذکرے سے ایک عام آدمی کا دل دہل جاتا ہے، لیکن استاذِ محترم نے جس طرح اپنے روحانی تجربات کی روشنی میں فرشتۂ موت کا ذکر فرمایا ہے، اس کو دیکھ کر ہمیں حیرت بھی ہوتی ہے، اور مسرت بھی، کہ روحانی علاج کے سلسلے میں قوّتِ عزرائیلی کا جو کردار ہے، وہ بڑا حیران کُنۡ ہے۔
اس کتاب میں جگہ جگہ اس حقیقت کی بڑی عمدگی سے وضاحت

 

۸

 

کی گئی ہے کہ انسانی وجود جسمانی بیماریوں کے علاوہ بہت سی باطنی بیماریوں کی زد میں آتا رہتا ہے، حالانکہ بسا اوقات ہم اپنی ایسی اندرونی کیفیات سے بالکل لاعلم اور بے خبر رہتے ہیں، لیکن جناب نصیر الدین نصیر ہونزائی صاحب کا ایک عظیم الشّان علمی کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اس پیاری کتاب میں انسانی ہستی کے ایک ایسے معیار و میزان (جو خدا کی طرف سے ہے) کی نشاندہی فرمائی ہے، جس سے ہر شخص کو اپنی باطنی صحت اور بیماری کا بخوبی علم ہو سکتا ہے، اور ایسا معیار خواب ہے۔

ماہرینِ نفسیات نے خواب کی کئی نفسیاتی تشریحات و توضیحات کی ہیں، چنانچہ FREUD نے خواب ROYAL ROAD TO UNCONCIOUS کہا ہے، لیکن جس طرح حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یوسفؑ کے قصّۂ قرآن میں خواب کی روحانی اور علمی اہمیت کا بیان فرمایا گیا ہے، وہ بے مثال ہے، اور یہ حقیقت ہم اس کتاب میں دیکھ سکتے ہیں، اسی لئے یہ کہنا بالکل درست اور بجا ہے کہ مصنفِ ہٰذا کی یہ کتاب ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے، جس میں دوسرے بہت سے امور کے ساتھ ساتھ خواب کے اشاروں کی مدلّل اور سائنسی وضاحت فرمائی گئی ہے، تاکہ اہلِ علم حضرات اس میں غور و فکر کریں، اور یہ سب کچھ قرآنِ پاک کی روشنی میں کیا گیا ہے۔

انسان ذکر و عبادت سے غفلت برتتے ہوئے حقیقی علم

 

۹

 

کی کمی یا نہ ہونے کی وجہ سے اپنے تئیں روحانی اور عقلی طور پر بیمار بنا دیتا ہے، لیکن ربِّ کریم نے اپنی اس اشرف ترین مخلوق کو ان امراض میں سرگردان و بے درمان نہیں چھوڑا ہے، بلکہ اس نے انسانی وجود ہی میں ایسی صلاحیتیں اور قوّتیں رکھی ہیں کہ اگر انہیں منشائے خداوندی کے مطابق استعمال کی جائیں، تو وہ انتہائی مؤثر ادویہ کا کام دے سکتی ہیں، جیسے اس کتاب میں انتہائی دلنشین الفاظ میں دعا کی صلاحیت کا ذکر کیا گیا ہے، کہ دعا ایک آسمانی دوا ہے، جسے طبیبِ ازل نے ہر دردمند، ہر رنجور، ہر مصیبت زدہ، اور ہر مبتلائے مشکل کے لئے بنا رکھی ہے۔

اس پیاری کتاب کی اہمیت اور پیشگی شہرت کا یہ عالم ہے کہ پی بی سی اور پندرہ روزہ آہنگ، نیز اخبارِ جنگ کے توسط سے جب یہ خبر پھیل گئی کہ علامہ نصیر الدین نصیر ہونزائی قرآنی علاج پر ایک کتاب لکھ رہے ہیں تو علمی قدر دانوں میں سے بہت سے حضرات نے بذریعۂ خط و کتابت یا ذاتی ملاقات سے کتابِ ہٰذا طلب کی، اور یہ امر بھی اس کی اہمیت و قدردانی کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ استادِ معظم کے عزیز ترین شاگردوں میں سے ایک عالی ہمت شیرِ مرد نے جو بہت بڑا عالمِ دین بھی ہے، اور انتہائی قابل ڈاکٹر بھی، شب و روز کی محنت سے اس کا انگریزی ترجمہ کر دیا، اور اس عظیم خدمت میں موصوف کی قابلِ قدر بیگم بھی مدد کر رہی تھیں،

 

۱۰

 

ایک بڑا دانشمند فرینچ سکالر جو مسلمان ہیں اس کا ترجمہ انگریزی سے فرانسیسی میں کر رہے ہیں، اور ایک تجربہ کار خاتون سکالر گجراتی میں ترجمہ کر رہی ہیں۔

الغرض کتاب آپ کے سامنے ہے، جن حضرات نے خوش بختی سے اعلیٰ علوم کا مزہ چکھ لیا ہو، وہی صاحبان صحیح معنوں میں اس کتاب کی اہمیت و افادیت، اور قدر و قیمت کا تعین کریں گے، بہ ہر حال ہماری نظر میں یہ کتاب بہت ہی عالی اور زبردست انقلابی ہے، اور کیوں نہ ہو جبکہ ایک عاشقِ رسول درویش نے تقریباً سو (۱۰۰) تصانیف کے بعد عمر کی پختگی اور وسیع تجربات و معلومات کی روشنی میں یہ کتاب لکھی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ قرآن، اسلام، پاکستان، اور انسانیت کی خدمت ہو، آمین یا رب العالمین!

خانۂ حکمت ۔ ادارۂ عارف
کراچی
۱۱ جمادی الثانی ۱۴۰۷ھ / ۱۰ فروری ۱۹۸۷ء

۱۱

ریڈیو انٹرویو
علامہ نصیر الدین نصیر
ملاقات: غلام قادر

ممتاز عالمِ دین علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی کا شمار ملک کے ان صفِ اوّل کے اہلِ قلم حضرات میں ہوتا ہے، جن کے قلم سے ایک سو سے زیادہ کتابیں رقم ہوگئیں، ان کتابوں کا فارسی، گجراتی، انگریزی، اور فرانسیسی زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ علامہ نصیر الدین نصیرؔ قومی ادب اور ثقافت کے افق پر اس لئے بھی ہمیشہ یاد کئے جائیں گے کہ وہ شمالی علاقوں میں بولی جانے والی “بروشسکی” زبان کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ہیں، انہوں نے بروشسکی زبان کی پہلی لغت اور کہاوتوں کی کتاب کا پچاس فیصد کام مکمل کیا ہے، انہیں وادئ ہونزہ میں بابائے بروشسکی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ علامہ نصیر الدین نصیرؔ نے بروشسکی زبان پر تحقیق کے سلسلے میں مانٹریال یونیورسٹی کینیڈا میں بھی کچھ عرصہ کے لئے

 

۱۲

 

کام کیا، ان کی ان خدمات کے پیشِ نظر یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انہیں ایسوسی ایٹ کی سند سے نوازا۔

علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی پچھلے دنوں جب گلگت تشریف لائے تو ریڈیو پاکستان گلگت کے نمائندے غلام قادر نے ان سے ان کی علمی خدمات اور سرگرمیوں کے بارے میں ایک تفصیلی انٹرویو کیا، جو براہِ راست نشر ہوا، اس انٹرویو کا مسودہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔ (یہ انٹرویو ریڈیو کے رسالے “آہنگ” کے ۱۶ سے ۳۱ جولائی ۱۹۸۶ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے)۔

غلام قادر: جناب علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی صاحب! آپ اپنی تصانیف کے بارے میں ہمارے سننے والوں کو کچھ بتائیں کہ آپ تصنیف کی اس منزل تک کیسے پہنچے؟

علامہ نصیر الدین: میری تصانیف اس وقت ایک سو کتابوں تک پہنچی ہیں، جن میں چھوٹے کتابچے بھی شامل ہیں، اور ان کا متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ یہ کتابیں ان دنوں مغربی ممالک کی لائبریریوں میں بڑی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اسلامی علوم کو کتابِ کائنات سے مثالیں دے کر سائنسی علوم کے مروجہ اصولوں سے ہم آہنگ کر کے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ کے فضل اور قوم کی دعا کی وجہ سے اس مقصد میں کافی کامیابی بھی ہوئی ہے۔ میری کتابوں میں “روح اور روحانیّت” ایک

 

۱۳

 

خاص موضوع ہے، جس کو میں نے قرآنِ مقدّس کی حکمت کی روشنی میں اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ سائنسی ایجادات و انکشافات سے پیدا ہونے والے سوالات اور شکوک و شبہات کا ازالہ کر سکے، رہی بات کہ میں تصنیف کی اس منزل تک کیسے پہنچا تو اس کا واحد جواب یہ ہے کہ میں نے (Self Development ) کے اصول پر سختی سے عمل کیا اور اس کے نتیجے میں یہ مقام مجھے حاصل ہوا۔

غلام قادر: آپ کی تصانیف زیادہ تر اسلامی علوم کی تشریح پر مبنی ہیں، کیا ان میں کوئی ایسا موضوع یا پہلو بھی ہے کہ جو پڑھنے والوں کے لئے حیرت انگیز اور فکر انگیز ہو، یا مستقبل میں اس قسم کا کوئی پروگرام ہے۔

علامہ نصیر الدین: جی ہاں! اگرچہ میری تصانیف میں کافی مواد ایسا ہے، جو بقول قارئین ان کے لئے ایک عجوبہ ہے، مثلاً میں نے اپنی تصنیف “میزان الحقائق” میں “اڑن طشتریوں کے وجود اور مقصدِ پرواز” اور “ایٹمی دور روحانی دور سے ملا ہوا ہے” کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور قرآن سے ان حقائق کے دلائل دئے ہیں۔

ان دنوں میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں، جس کا نام قرآنی علاج یا علمی علاج ہو گا، لیکن اس کا زیادہ تر مواد قرآنی ارشادات کی روشنی

 

۱۴

 

میں (Spiritual Science) سے متعلق ہوگا، اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ قرآن میں جسم سے بڑھ کر روحانی اور عقلی بیماریوں کے لئے شفا موجود ہے۔

غلام قادر: اس قسم کی کتاب لکھنے کا خیال آپ کو کیسے آیا؟

علامہ نصیر الدین: مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اسلام آباد میں ایک تقریب میں صدرِ مملکت جنرل محمد ضیاء الحق نے تقریر کرتے ہوئے اہلِ قلم حضرات کو تلقین کی تھی کہ وہ اسلامی طب کے موضوع پر نئے گوشے تلاش کریں تاکہ اسلامی طب فروغ پائے، اس اپیل نے میرے ذہن کو متاثر کیا اور میں نے سوچا کہ قرآن انسان کے لئے مکمل ضابطۂ حیات ہے، اس میں شفا جیسے اہم موضوع کے بارے میں اشارات کیسے نہیں ہو سکتے ہیں، چنانچہ ایک خاص پہلو سے مطالعۂ قرآن کے نتیجے میں، میں اس نتیجے پر پہنچا کہ قرآنِ مقدّس میں انسانی شفا کا موضوع حکمت کے انداز میں محفوظ ہے، چنانچہ ان دنوں میں اس موضوع پر مختلف زاویوں سے مقالے لکھ رہا ہوں، جن کو بہت جلد کتاب کی شکل دی جائے گی، اس سلسلے میں قومی سطح کے چند دانشوروں نے بھی تعاون کا یقین دلایا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل و کرم اور پاکستانی قوم کی دعا شاملِ حال رہی تو یہ منصوبہ کامیاب ہوگا۔ اور یہ نہ صرف پاکستان کی بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لئے ایک علمی خدمت ہوگی، کیونکہ آج تک اس موضوع پر براہِ راست کسی ادیب نے

 

۱۵

 

قلمی جوہر نہیں دکھایا ہے، ویسے بھی میری تصانیف کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ مغرب کے ادیبوں کے نظریاتی اور ثقافتی سیلاب کو جو مختلف افقوں پر عالمِ اسلام کی معصوم نئی نسل کی طرف امنڈ رہا ہے، اسلامی جدید تصورات کے ذریعے ایک فصیل، دیوار، یا بند تعمیر کر کے اسے روکا جا سکے، تاکہ ہماری اکیسویں صدی کی نئی نسل کے ذہنوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔

غلام قادر: آپ بروشسکی زبان کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر بھی ہیں، کیا آپ اس زبان کے بارے میں کچھ بتائیں گے۔

علامہ نصیر الدین: بروشسکی زبان میری مادری زبان ہونے کے علاوہ انتہائی قدیم زبان ہے۔ اب تک پاکستان اور مغرب کی یونیورسٹیوں میں اس زبان پر کافی تحقیق ہوئی ہے، جس کے نتیجے میں یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ زبان دنیا کی چند انتہائی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے، جو اپنی ساخت کے لحاظ سے منفرد ہے اور اس کی ہندی، سنسکرت، فارسی، عربی اور دوسری زبانوں سے کوئی قدر مشترک نظر نہیں آتی ہے۔ یہ زبان وادئ ہونزہ، نگر اور یاسین کے لاکھوں مکینوں کے علاوہ گلگت میں نقل مکانی کرنے والے ہزاروں لوگ بولتے ہیں، اس زبان پر کینیڈا کی مانٹریال یونیورسٹی اور جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں تحقیق ہو رہی ہے۔

غلام قادر: آپ نے بروشسکی شاعری کا آغاز کب کیا، کیا آپ

 

۱۶

 

کا کوئی مجموعۂ کلام شائع بھی ہوا ہے؟

علامہ نصیر الدین: میری شاعری ۱۹۳۹ء میں شروع ہوئی، اور پہلا مجموعۂ کلام نغمۂ اسرافیل کے نام سے شائع ہوا، پھر منظوماتِ نصیری کے نام سے، اور اب چند سال پہلے دیوانِ نصیری کے نام سے کتاب موجود ہے۔ دیوانِ نصیری رومن شکل میں ٹائپ شدہ مونٹریال یونیورسٹی میں بھی موجود ہے، اس کتاب میں قومی نغموں کے علاوہ زیادہ تر عارفانہ اور صوفیانہ کلام ہے۔

غلام قادر: اکثر شعراء و ادباء اپنی سوانح عمری لکھتے ہیں، کیا آپ نے بھی ایسا کیا ہے؟

علامہ نصیر الدین: جی! اب تک خود تو نہیں کیا البتہ میرے چند دوستوں اور طالب علموں نے میری زندگی اور تخلیقات و شاعری پر تحقیق کے لئے (Allamah Research Institute Foundation) ARIF کے نام سے چند سال قبل ایک علمی ادارہ قائم کیا ہے۔ جس کی شاخیں کینیڈا اور کراچی میں ہیں، میری زندگی پر تحقیق کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ میری زندگی میں ایک درس ہے وہ یہ کہ میں ایک عام گھرانے سے کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم پائے بغیر اس منزل تک آیا ہوں اور اس دوران محنت و مشقت سمیت بڑے کٹھن مراحل سے گزرا ہوں جس کی وجہ سے میری زندگی بڑے نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ میری زندگی میں ایک پہلو یہ بھی ملتا ہے کہ انسان کو

 

۱۷

 

تقدیر پر تکیہ لگا کر بیٹھنے کی بجائے اپنے اندر تسخیرِ کائنات کا جذبہ پیدا کر کے دنیا میں محبت و آشتی، علم و عمل اور جہدِ مسلسل کی ایک داستان رقم کرنا چاہئے۔

۱۸

 

یارقند سے مانٹریال تک

اور بہت سی تعجب انگیز اور قابلِ قدر خصوصیات کے علاوہ ہمارے روحانی دوست جناب علامہ نصیر الدین ہونزائی پاکستان کی ادبی اور لسانی تاریخ میں اس اعتبار سے بھی یاد رکھے جائیں گے، کہ انہوں نے ہونزہ (شمالی علاقہ جات) کی قدیم زبان بروشسکی کی قواعد کو مدوّن و مرتب کرنے کی تحریک میں یادگار حصہ لیا ہے۔ کیونکہ کنیڈا کی مانٹریال یونیورسٹی کے شعبۂ السنہ میں ہونزائی صاحب نے دو فرنچ پروفیسروں کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ بروشسکی زبان کے رسم الخط کو بھی ترتیب دیا ہے۔ موصوف کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ بروشسکی زبان کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر ہیں، اور ان کا “دیوانِ نصیری” بروشسکی زبان کے شعر و ادب میں یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کو مختلف لسانی علاقوں کے وفاق کا درجہ حاصل ہے۔ ہونزہ، نگر اور یاسین کی مروجہ زبان بروشسکی ، گلگت کی زبان ݽینا اور چترال کی بولی کھوار ہے، یہ زبانیں آریائی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہمارے

 

۱۹

 

ہونزائی صاحب اردو اور بروشسکی دونوں زبانوں میں شعر کہتے ہیں۔ اب تک ایک سو سے زیادہ رسالے اور کتابچے قلم سے نکل چکے ہیں، ادبیات اور لسانیات کے علاوہ علامہ نصیر ہونزائی کے پسندیدہ موضوعات ہیں: روحانیّت، قرآنیات، اسلامیات، تصوّف اور باطنیات وغیرہ، آج سے ۲۳۔۲۴ سال قبل بابائے پشتو غزل حضرت امیر حمزہ شنواری اور علامہ نصیر الدین ہونزائی سے روحانیّت اور روحیّت کے موضوعات پر طویل گفتگو ہوئی تھی اور ہونزائی صاحب نے اپنے تجربات اشتیاق انگیز اور شوق آمیز لہجے میں بیان کئے تھے۔ علامہ ہونزائی کی ولولہ انگیز زندگی کے پانچ چھ سال یارقند (سنکیانگ، چین) میں گزرے ہیں۔ جہاں سخت ریاضت کا موقع ملا۔ جس میں ان کے ذہن کا ایک دریچہ کھل گیا اور وہ شعوری انقلابات اور نفسیاتی تجربات کے ایک ایسے صبر آزما دور سے گزرے کہ دنیا ہی بدل گئی۔ پچھلے مضمون میں اسلامک ریسرچ سینٹر کی ایک تقریب کا ذکر کیا گیا تھا۔ جہاں میں نے “روحانیّت عہدِ جدید میں” کے موضوع پر چند معروضات پیش کی تھیں، عرض کیا تھا کہ روحیّت (سائی کک ازم) ایک فن ہے اور اس فن کا حصول انفرادی مجاہدوں، مشقوں اور ریاضتوں سے ممکن ہے۔ آج دنیا کے ہر ملک میں “روحیّت” کے مظاہر کی سائنسی تحقیقات کی جارہی ہیں، اس تحقیقی مہم میں امریکہ اور سوویت یونین پیش پیش ہیں۔ لیکن جہاں تک روحانیّت کا تعلق ہے تو انسان کی روحانی صلاحیتیں

 

۲۰

 

صرف ایک حقیقت کوش، انسانیت دوست اور ترقی پسند معاشرے ہی میں نکھر سکتی ہیں۔ روحانیّت نام ہے انسانی ذہن کے مثبت جذبات یعنی محبت، ایثار، روشن خیالی، خلوص، عزم محکم اور جذبۂ خدمتِ خلق کو بروئے کار لانے کا! صرف انسانی ہجوم ہی میں رہ کر ہی ہم ان تخلیقی اور مثبت جذبات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں، جن سے انسانی تہذیب کو فروغ نصیب ہوتا ہے، یوگیوں کے خارق العادات مظاہر جنہیں لوگ کشف و کرامت سے تعبیر کرتے ہیں، درحقیقت شعبدہ بازی سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ روحانیّت شعور کی ترقی کا ایک مختلف درجہ ہے، علامہ نصیر ہونزائی نے اپنی سو سے زیادہ تصانیف میں سچی اور حقیقی روحانیّت پر بڑی پیاری اور دل نشین بحث کی ہے، مثلاً “ذکرِ الٰہی” میں اس کی مختلف قسموں اور ان کے فوائد کا ذکر کیا ہے: ذکرِ فرد، ذکرِ جماعت، ذکرِ جلی، ذکرِ خفی، ذکرِ کثیر، ذکرِ قلیل، ذکرِ لسانی، ذکرِ قلبی، ذکرِ بصری، ذکرِ سمعی وغیرہ۔ نصیر ہونزائی روحانی اور نفسیاتی بیماریوں کا علاج ذکرِ الٰہی سے کرتے ہیں۔ ان موضوعات پر نصیر صاحب کی تصانیف پڑھنے کے قابل ہیں خصوصیت کے ساتھ ذکرِ الٰہی، روح کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ روحانیّت یہ نہیں کہ ہم دنیا پر لات مار کر اور معاشرے سے منہ موڑ کر ہمالیہ کی کسی تنگ و تاریک کھوہ میں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جائیں۔ انسان کی روحانی ترقی صرف اس طرح ممکن ہے کہ وہ اس دنیا کو سنوارنے، نکھارنے

 

۲۱

 

اور ابھارنے کی کوشش کرے وہ اپنی ذاتی انا کو معاشرے کی انا میں ضم کر دے، وہ رزقِ حلال اور صدقِ فعال (ہر حال میں راست بازی) پر عمل کرے۔ وہ مذہبی، نسلی، لسانی ، علاقائی تعصبات سے بلند ہو، وہ ایسے معاشرے کی تشکیل میں زبان، قلم اور قدم کے ذریعے حصہ لے جو مختلف طبقات (ظالم و مظلوم، حاکم و محکوم اور قادر و مجبور) میں بٹا ہوا نہ ہو، ایسا معاشرہ جہاں زبردست اور زیر دست کا کوئی تصور نہ ہو، بلاشبہ روحانیّت کا پودا صرف ایسی زمین میں نشونما پا سکتا ہے، جس کی آبیاری اور سیراب کاری، محبتِ انسانی، ایثارِ نفس، خلوصِ نیت، آزادئ فکر اور روشن خیالی کے چشمۂ کوثر سے کی گئی ہو، ہمارے دوست جناب نصیر ہونزائی نے اپنی تصانیف میں ان معاملات کی طرف خوبصورت اشارے کئے ہیں، علامہ ہونزائی کے سفرِ روحانی کی پہلی منزل تھی “یارقند سے مانٹریال تک” اب میں نے ان سے درخواست کی ہے کہ حضرت! آپ کی روحانی تگ و تاز کے لئے بہت بڑا میدان پڑا ہے: یورپ، امریکہ اور روس (نصیر ہونزائی کا پتہ ہے، خانۂ حکمت، ۱۷ ۔بی، نور ولا ، ۲۶۹، گارڈن ویسٹ، کراچی ۳)۔

علامہ صاحب اپنے مشاغل کے سبب عام ملاقات کا وقت نہیں نکال سکتے۔ احباب اس معذوری کو پیشِ نظر رکھیں۔

مطبوعات: علامہ نصیر الدین ہونزائی (ریسرچ ایسوسی ایٹ

 

۲۲

 

یونیورسٹی آف مونٹریال، کینیڈا) کا تعارف کرا چکا ہوں، گنجِ گرانمایہ میں انہوں نے تین اہم ترین سوالات کے جوابات قرآنِ مجید کی روشنی میں دیئے ہیں۔ یہ تین سوالات ہیں: (الف) حقیقی علم کے حصول میں حواسِ خمسہ کا کتنا حصہ ہے؟ (ب) ذہن اور روح کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ (ج) عبادت یا ذکر کے دوران لامکانی حد میں داخل ہونا اور پھر زمان و مکان کی حد میں واپس آنے کا عمل کس طرح بیان ہو سکتا ہے؟ تینوں سوال مشکل ہیں، علامہ ہونزائی نے ان کے جوابات اتنی صفائی اور خوبی سے دیئے ہیں کہ جی خوش ہو گیا، یہ رسالہ خانۂ حکمت (پتہ درج کر چکا ہوں) سے طلب کیا جا سکتا ہے۔

(رئیس امروہی۔ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۱۴ مارچ ۱۹۸۶ء)

علامہ نصیر الدین ہونزائی: اردو اور شمالی علاقائی زبان بروشسکی کے مصنف، شاعر اور روحانیّت و قرآنیات کے عالم و مفکر حضرت علامہ نصیر الدین ہونزائی کی بیس تصانیف اب تک قرآنِ مجید اور صحتِ روحانی و جسمانی کے موضوع پر شائع ہو چکی ہیں۔ یہ بیس رسالے (یا مقالے جو اس وقت بصورتِ کتاب ۲۶ ہیں) نہ صرف کلام اللہ کے طبی اشارات کی وضاحت کرتے ہیں، بلکہ ان میں تعبیرِ خواب، ذکر کے اثرات، دعا کے معجزے، روحانی سائنس، عشقِ الٰہی، انسان بہ حیثیتِ کائناتِ اکبر اور تقویٰ و عبادت کے رموز و اسرار پر عام

 

۲۳

 

فہم زبان میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں خانۂ حکمت (بی/۱۷، نور ولا، ۲۶۹، گارڈن ویسٹ ، کراچی) سے رجوع کریں۔

(رئیس امروہی۔ روزنامہ جنگ کراچی۔ ۲۰ جون ۱۹۸۶ء)

۲۴

 

 

پیش لفظ

۱۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس قرآنی حقیقت کے بارے میں کسی دیندار کو کیوں کر کوئی شک و شبہہ ہو سکتا ہے کہ قرآنِ حکیم اور دینِ فطرت یعنی اسلام اپنے ظاہر و باطن کی وسعت میں گوناگون آسمانی نعمتوں کی ایک بھرپور کائنات ہے (۰۵: ۰۳، ۳۱: ۲۰) جو انوارِ خداوندی سے منور و درخشان اور سماوی علم و حکمت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معمور و آبادان ہے، جس میں ربِ جلیل و کریم نے اپنی رحمتِ بے پایان سے جملۂ مسلمین و مومنین کو نہ صرف بحدِّ فعل بلکہ بحدِّ قوّت بھی سب کچھ عطا کر دیا ہے، اور اگر وہ سارے کے سارے مل کر پروردگارِ مہربان کی عنایت فرمودہ تمام نعمتوں کو شمار کرنے لگیں، تو اس سعئ محال میں کوئی کامیابی نہیں ہوگی (۱۴: ۳۴) کیونکہ خداوندِ رحمان و رحیم کی نعمتیں بے حد و بے انتہا ہیں، اس کا واضح و لائح مطلب اہلِ دانش کے ہاں یقیناًیہی ہو گا کہ جسم، جان، اور عقل کی صحت و شفا ایک بہت بڑی ربّانی نعمت ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تمام نعمتوں

 

۲۵

 

میں اسی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ ظاہری اور باطنی صحت ہی انسانی وجود کا کل اور کمال ہے، اور اس کے بغیر دوسری تمام نعمتوں کا احساس و ادراک ممکن ہی نہیں۔

۲۔ اگرچہ آج کی دنیا ظاہری علوم و فنون سے بہت کچھ آراستہ ہو چکی ہے، اور اس میں مادّی طریقہ ہائے علاج کی کوئی کمی نہیں، اور ان میں سے بعض بدرجۂ تعریف و توصیف مؤثر و مفید بھی ہیں، تاہم وہ سب جسمانی علاج کی حد تک محدود ہیں، اور اس میں ذرا بھی گلہ و شکوہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ کوئی انسان ازخود چارۂ روح کے سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا، اور نہ وہ امراضِ باطن کو دیکھ سکتا ہے، الا آنکہ قرآن و سنت سے جیسا کہ حق ہے کہ رجوع کیا جائے، اس لئے کہ قرآنِ کریم کا طبی پہلو ہر طرح سے کافی، شافی، اعلیٰ اور بے مثال ہے، جبکہ یہ بمرتبۂ کلامِ الٰہی ایک ایسی کامل و مکمل اور بے نظیر کتاب، اور ایک ایسا عالمگیر ہدایت نامۂ لاثانی ہے، کہ اس میں کسی کمی کے بغیر جسم و جان سے متعلق تمام موضوعات پر محیط علم و بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹)۔ آپ نے یہ تو سنا ہوگا کہ زمانۂ نبوّت میں اصحابِ کبار (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے درمیان بیماری بہت ہی کم پائی جاتی تھی، اس مجموعی سلامتی کا سبب قرآن اور معلمِ قرآن صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ وہ حضرات پرہیز و صحتمندی کے ان نسخہ ہائے لاہوتی پر عمل پیرا ہوتے تھے، جو قرآنِ حکیم میں درج ہیں۔

 

۲۶

۳۔ یہ کتاب جو بنامِ “قرآنی علاج” آپ کے سامنے ہے، ہر چند کہ کثیر موضوعات پر محیط نہیں، لیکن شاید یہ خیال درست ہو کہ اس کے اکثر نکات بڑے فکر انگیز واقع ہوئے ہیں، اور اگر اہلِ دانش کی نظر میں یہ کتاب واقعی پسندیدہ اور مفید قرار پائے، تو یہ قرآن ہی کا ایک علمی معجزہ ہوگا، نہ اس بندۂ ناچیز کا کوئی کمال، کیونکہ میں خاکسار اس قابل نہیں تھا کہ اپنے قلم کے زور یا ذاتی علم کی دولت سے قرآنِ مجید کی کوئی چھوٹی سی خدمت کر سکتا، پس اگر اس کتاب میں کچھ علم و حکمت کی خوبیاں ہیں، اور کچھ مجموعی صحت کے بھید ہیں، تو وہ قرآنی خزانوں کے ہیں، اور اگر اس میں بعض خامیاں ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ میری ہی وجہ سے ہیں، کیونکہ میں وہ انسان نہیں ہوں، جو ہر طرح سے کامل و مکمل ہوتا ہے، بلکہ ایک خام و ناتمام آدمی ہوں۔

۴۔ قرآنی علاج کی اہمیّت و افادیّت کے بارے میں ایک مزید گزارش یہ ہے کہ انسانی وجود نہ صرف دواؤں سے متاثر ہو جاتا ہے، بلکہ اس کے علاوہ یہ اقوال و احوال سے بھی اثر پذیر ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر جب کوئی آدمی شرم کے مارے پسینہ پسینہ ہو جاتا ہے، جس وقت کوئی شخص کسی قسم کے خوف سے لرزہ بر اندام ہو جاتا ہے، یا کسی خبر جانکاہ سے زار و قطار رونے لگتا ہے، یا کوئی کثرتِ غم سے یا خوشی سے رات بھر سو نہیں سکتا، تو اس وقت اس کی حالت دگر گون ہو جاتی ہے، پس ان کیفیات کا علمی یا

 

۲۷

 

نفسیاتی تجزیہ یہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی کیفیت ہرگز سطحی نہیں، بلکہ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ایک ذہنی چیز دل و دماغ کی گہرائی میں اتر گئی، جس کے نتیجے میں بدن کا ذرہ ذرہ اسی طرح متاثر ہوگیا، حالانکہ عقل کے نزدیک ایسا ہونا ضروری نہیں تھا، اب اگر کچھ نہ کچھ ایسے اثرات کسی ہوشمند انسان کے ذہن پر قرآنِ حکیم سے مرتب ہو جائیں، تو کیا اس کی حالت یکسر تبدیل نہ ہوگی؟ آیا وہ رفتہ رفتہ امراضِ روحانی سے نجات نہیں پائے گا؟ کیوں نہیں، یقیناً نجات ملے گی۔

۵۔ مطالعۂ قرآن سے یہ حقیقت روشن ہوکر سامنے آ جاتی ہے کہ انتہائی عاجزی اور درویشانہ اشک فشانی سے نہ صرف باطنی بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے، بلکہ اس میں عالمِ شخصی کی ایک انقلابی ترقی بھی پوشیدہ ہے، بشرطی کہ یہ چیز علم و عمل کے ساتھ ساتھ ہو، نماز و طاعات کے سلسلے میں جب سجدہ قربِ خداوندی کا درجہ رکھتا ہے (۹۶: ۱۹) تو اگر یہی سجدہ آپ اشکہائے للّٰہیت کے ساتھ کر سکتے ہیں، پھر میں بندۂ ناچیز اس کی کیا تعریف کر سکتا ہوں، آپ خود قرآن میں دیکھیں (۱۷: ۱۰۹) ایسے سجدے سے، جس میں بندۂ عاشق ایک طرح سے فنا ہو جاتا ہو، خدائے مہربان کی خوشنودی کا کیا عالم ہو گا۔

۶۔ جسمانی علاج کا طریقہ یہ ہے کہ ہر بیماری کے لئے نسخہ الگ ہوا کرتا ہے، اس کے برعکس روحانی علاج میں کوئی ایک دوا صد ہا امراض سے نجات دلا سکتی ہے، مثلاً ذکرِ الٰہی کو لیجئے، جس کے ذریعہ

 

۲۸

 

اطمینانِ قلب حاصل ہو جاتا ہے (۱۳: ۲۸) لیکن یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے خوب یاد رہے کہ خدائے علیم و حکیم نے قلبِ انسانی کی جس کیفیت کو اطمینان فرمایا ہے، اس کے معنی اتنے وسیع اور عالی ہیں کہ وہ بے شمار مشکلات کا حل ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی روحانی بلندیوں تک پھیل جاتے ہیں (۰۲: ۲۶۰) دوسری طرف اطمینان کی مثال فرشتگانِ ارضی ہیں (۹۵: ۱۷) نیز نفسِ مطمئنہ کے بارے میں تذکرۂ قرآن کو دیکھئے (۸۹: ۲۷ تا ۳۰) تاکہ اس پُرحکمت لفظ کے وسیع مفہوم کا اندازہ ہو جائے۔

 

۷۔ ذکر و عبادت مردِ درویش کے نزدیک بہ اعتبارِ مکان و لا مکان دو قسم کی ہوا کرتی ہے، ایک مکانی ہے، اور دوسری لامکانی، مکانی عبادت کا مطلب یہ ہے کہ بندگی کا مرکز دل میں قرار پاتا ہے، یا دماغ میں، یا آنکھ میں، یا کان میں ، یا ناک (سانس) وغیرہ میں ، اور لامکانی ذکر یہ ہے کہ اس میں صوفئ صاف باطن نہ صرف اپنے آپ کو بھول جاتا ہے، بلکہ وہ زمان و مکان کی ہر چیز سے لا تعلق اور بے خبر ہو کر یادِ الٰہی میں فنا ہو جاتا ہے، پس ان دونوں عبادتوں میں جو کچھ فرق و امتیاز ہے، وہ پوشیدہ نہیں، تاہم ہر درجے کی عبادت آخر عبادت ہی ہے، اور ہر چیز میں ایک رحمت اور ایک علم مخفی رہتا ہے (۴۰: ۰۷) چنانچہ قرآنی علاج کے بعض طریقوں میں آپ مکانی ذکر کر سکتے ہیں، جیسے “پاؤں کی حرکت سے علاج” کا طریقہ ہے، کہ اس

 

۲۹

 

میں دل و دماغ کے مرکز سے سارے بدن میں نورِ ذکر کی لہریں پھیل جانے کا تصوّر کرنا ہے، جس میں علاج و شفا کا بہت بڑا بھید پوشیدہ ہے۔

۸۔ اے کاش، میں یہ پیاری کتاب، جو “قرآنی علاج” جیسے امرِ عظیم سے متعلق ہے، شایانِ شان الفاظ و عبارات میں تحریر کر سکتا، جیسا کہ اس کا حق ہے! کاش میرے پاس بھی دوسرے بہت سے حضرات کی طرح اردو ادب کے گرانقدر ذخائر و خزائن موجود ہوتے! دریغا اسے ایسے عالی مرتبت اور نامور علمائے دین میں سے کوئی صاحب لکھتا، جو قرآنی علوم کے ساتھ ساتھ قلم کے بھی بادشاہ ہوا کرتے ہیں! اے افسوس! میری عمر کا وہ زمانہ، جبکہ میں اپنے والدِ محترم کی بکریاں چراتا تھا، کسی کالج میں صرف ہوتا! کاش شہسوارانِ رخشِ قلم میں سے کوئی اس جولان گاہ میں میری مدد کرتا! ہائے افسوس! علم و حکمت کا شہزادہ گاؤں کے ایک غریب آدمی کا متبنی تو ہو گیا، لیکن اب مشکل یہ ہے کہ یہ ناچار شخص اس کی پرورش کس طرح کرے گا، اور کس لباس میں لوگوں کے سامنے لائے گا۔

۹۔ دنیائے ظاہر میں ایک بار توڑا ہوا بت پھر کبھی اپنے آپ درست، سالم، اور بحال ہو کر بت نہیں بن سکتا، مگر آدمی کے اندر نفس یا خودی اور خودنمائی ہی کا صنم (بت) ایسا ہے، کہ اسے بار بار توڑ کر ریزہ ریزہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، کیونکہ وہ ہر بار از خود زندہ

 

۳۰

 

ہو جانے والا جادوگر ہے، خدا کرے کہ ہم اس جہادِ اکبر کا مقدس فریضہ حسن و خوبی سے انجام دیتے رہیں! اس سلسلے میں امرِ ضروری یہ ہے کہ بوقتِ کامیابی ہم قولاً و فعلاً اللہ تعالیٰ کا شکر کریں، کہ وہی بادشاہِ حقیقی ہے، حکم اسی کا ہے، اور توفیق و دستگیری بھی اسی کی ہے، ہاں حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا ذکر آتا ہے، لہٰذا یہ بات بھی لازمی ہے کہ ہم ان تمام حضرات کو شکر گزاری سے یاد کریں، جن کے تعاون سے، یا حوصلہ افزائی سے، یا اعتماد و خیر خواہی سے کوئی اہم کام پایۂ تکمیل پر پہنچ گیا ہو، کاش تاریخ کی کوئی ضخیم کتاب ہوتی، تو میں اپنے تمام دوستانِ حمیم اور یارانِ قدیم کے اسمائے گرامی درج کرتا، جو ہر بار کامیابی اور خوشی کے باعث بنتے چلے آئے ہیں، تاہم میرے دل میں ہمیشہ ان کی بے حد قدر دانی اور خیر خواہی موجود ہے لیکن اگر یہاں “خانۂ حکمت” اور “ادارۂ عارف” کا نمایان تذکرہ نہ کروں تو مجھ سے بہت بڑی ناشکری ہوگی، کیونکہ ان کے بے شمار احسانات ہیں اور یہ کتاب دراصل میری نہیں ان کی ہے۔

۱۰۔ مجھے دریائے گریہ و زاری میں مستغرق ہو کر خدائے بزرگ و برتر کی اس رحمت و مہربانی کا شکر بجا لانا چاہئے کہ اُس مہربان مسبب الاسباب نے اس بندۂ حقیر کے لئے خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کا وسیلہ عطا کر دیا، ورنہ اس ترقی کی زمانے میں، جبکہ لوگ بصورت ادارہ دریائے موّاج کی طرح طوفانی کام کرتے ہیں،

 

۳۱

 

ایک بیچارہ آدمی جو ۶۹ سال کا بوڑھا ہے، تنہا کس طرح علم کی کوئی خدمت کر سکتا ہے، اور اگر یہ کہوں کہ میں صرف خامہ فرسائی کرتا ہوں، تو یہ دعویٰ بھی ازروئے حقیقت بڑا عجیب ہو گا، کیونکہ قلم دراصل بہت ہی بھاری چیز ہے، مگر جب خدا چاہے تو ایک ہاتھ میں بہت سے ہاتھوں کو جمع کر دیتا ہے، پس اللہ تعالیٰ ہمیں عجب و خود بینی سے بچائے رکھے!

۱۱۔ کسی ادارے کی تعریف بحقیقت سرپرستِ ادارہ، عملداران، اور ارکان کی تعریف ہوا کرتی ہے، تاہم یہاں صدر فتح علی حبیب، اور صدر محمد عبد العزیز کا ذکرِ جمیل ضروری ہے یہ دونوں عزیز درویش ہیں، مگر ان کے پاس چار خزانے پوشیدہ ہیں، اخلاق، ایمان، ذوقِ علم، اور جذبۂ خدمتِ خلق، یعنی وہ علم کی روشنی پھیلانے والوں میں سے ہو جانا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک صرف علم ہی ایک ایسی ہمہ رس دولت ہے کہ جس سے سب کی یکسان خدمت کی جا سکتی ہے، یہ صاحبان ہمیشہ مل کر کام کرتے ہیں، اپنے دوسرے عملداروں اور ممبروں کو عزیز رکھتے ہیں، جس کی بدولت ہر مشترکہ میٹنگ بڑی درویشانہ اور پُرخلوص قسم کی ہوا کرتی ہے، چنانچہ ان کے یہ دو ادارے آدمی کی دونوں آنکھوں کی طرح متفق و متحد ہیں، جیسے آنکھوں کا انفرادی فعل ایک دوسرے میں فنا اور گم ہو کر اجتماعی فعل بن جاتا ہے، پس میں خانۂ حکمت اور ادارۂ عارف کے مرکز اور

 

۳۲

 

تمام شاخوں کا ممنون ہوں، اور بالکل اسی طرح بی۔آر۔ اے (بروشسکی ریسرچ اکیڈمی) کا بھی احسان مند ہوں، کہ ان اداروں کے عہدہ دار اور ارکان سب کے سب قرآنی علم کی خدمت کو اپنی جانِ عزیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، اور یہی ایک ایسی زبردست محرک چیز ہے، جس کی وجہ سے کسی خادم میں خدمت کے لئے ایک باہمت روح پیدا ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔

خاکسار:
نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
بدھ ۲۴ صفر المظفر ۱۴۰۷ھ / ۲۹ اکتوبر ۱۹۸۶ء

 

۳۳

 

 

قرآنی علاج کا ثبوت

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآنِ پاک ظاہری طب یا ڈاکٹری کی کتاب تو نہیں، اور نہ اس کا مقصد کوئی ایسا محدود کام ہے، بلکہ یہ عالمگیر ہدایت و رہنمائی کی سماوی کتاب ہے، جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے حضرت محمد مصطفی خاتمِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود قرآنِ حکیم جہاں بہت سے علوم کا سرچشمہ ہے، جیسی اس کی جامعیّت ہے، جس طرح یہ علم و حکمت میں بے مثال و بے نظیر ہے، اور جس معنیٰ میں ہر چیز کا بیان کرتا ہے (۱۶: ۸۹) اس کے پیشِ نظر، یعنی قرآنِ مقدّس کے بہت سے پہلوؤں کے ساتھ ساتھ روحانی سائنس (Spiritual Science) کے پہلو کو بھی عقیدت و محبت سے تسلیم کرنا چاہئے، جس میں بہت سی مفید چیزوں کے علاوہ علمِ علاج کے اشارات بھی موجود ہیں، چنانچہ ذیل میں اس حقیقت کے ثبوت کے طور پر چند دلائل درج کئے جاتے

 

۳۴

 

ہیں۔

۱۔ قرآنِ کریم بحیثیتِ مجموعی جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی اور عقلی بیماریوں کے لئے وہ واحد و یکتا آسمانی دوا اور شفا (۱۷: ۸۲) ہے کہ اس کی مثال جملہ ادوار میں نہیں مل سکتی۔

۲۔ اگر کسی کو روحانی طب اور آنحضرت کی حکمتِ علاج کے بارے میں جاننا ہو، تو علمِ فقہ کی کتابوں میں “طب” کے عنوان کے تحت دیکھے، تاکہ یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ اس سلسلے میں حضورِ اکرمؐ نے جیسے ارشاد فرمایا، اور جو کچھ کر کے دکھایا، وہ سب قرآن ہی سے، اور اسی کی روشنی میں تھا۔

۳۔ سورۂ فاتحہ اپنے اندر قرآنی حقائق و معارف کی جامعیّت رکھنے کی وجہ سے امُ الکتاب کہلاتا ہے، اور اس کا ایک نام سورۂ شفا بھی ہے، کیونکہ حدیثِ شریف میں ہے کہ اس کے پڑھنے سے ہر بیماری سے شفا ملتی ہے، ملاحظہ ہو، الاتقان فی علوم القرآن، حصّۂ دوم، نوع پچھتر، “خواصِ قرآن،” اس سے ظاہر ہوا کہ قرآن میں شفا ہے۔

۴۔ صحیح بخاری، جلدِ سوم، “کتاب الطب” کے شروع ہی میں یہ حدیث درج ہے: ما انزل اللّٰہ دآء الا انزل لہ شفاء = اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا کی ہے، اس کے لئے شفا بھی پیدا کی ہے۔ اس ارشادِ نبوّیؐ میں نہ صرف جسمانی بیماری کی بات ہے، بلکہ

 

۳۵

 

اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی بیماریوں کا بھی ذکر ہے، کیونکہ آنحضرتؐ انتہائی جامع کلمے فرمایا کرتے تھے، دیکھئے: لغات الحدیث، جلد اوّل، مادّہ: “ج م ع” کے تحت، پس باطنی بیماریوں کی شفاء قرآن میں ہے۔

۵۔ اصولِ کافی، جلدِ دوم، کتاب الدعا، باب ۵۶، “دعائے امراض” کے موضوع کے سلسلے میں دیکھئے کہ قرآنی طب اور روحانی علاج کی تائید و تصدیق ہو جاتی ہے۔
۶۔ سننِ ابنِ ماجہ، جلدِ دوم، ابواب الطب، زیرِ عنوان “قرآن سے دوا کرنا” حضرت علی علیہ السّلام سے یہ حدیث مروی ہے: نبئ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: سب سے بہتر دوا قرآن ہے (خیر الدواء القرآن)۔

۷۔ دعائم الاسلام، جلدِ دوم، کتاب الطب کو دیکھئے کہ اس سے بھی یہی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے کہ ہر قسم کی بیماری کے لئے دوا اور علاج کا ایک بنیادی طریقہ روحِ قرآن میں موجود ہے، خصوصاً روحانی بیماریوں کے لئے۔

۸۔ قرآنِ حکیم میں علمِ طب کا ایک نمایان ذکر سورۂ نحل (۱۶: ۶۹) میں موجود ہے، جہاں شہد کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے، جس سے نہ صرف قرآنی طب کا ایک روشن ثبوت مہیا ہو جاتا ہے، بلکہ اس میں دانشمند طبیبوں کے لئے یہ اشارہ بھی ہے کہ وہ ان پھولوں اور پھلوں میں تحقیق و تجربہ کر کے

 

۳۶

 

طب کو ترقی دیں، جن کے رس سے شہد بنتا ہے۔

۹۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں برکت رکھی ہے (۴۱: ۱۰) یہ برکت کس چیز کا نام ہے؟ پہاڑوں کی برکت میں بہت سی چیزیں شامل ہیں، اور ان میں وہ جڑی بوٹیاں بھی ہیں، جس سے دوائیاں بنتی ہیں۔

۱۰۔ پروردگارِ عالم نے درختِ زیتون کو بابرکت قرار دیا ہے (۲۴: ۳۵) چنانچہ اس کی برکتوں میں سے ایک برکت طبی نکتۂ نظر سے ہے، کہ روغنِ زیتون بہترین دواؤں میں سے ہے، آپ اس کے خواص طب کی مستند کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔

۱۱۔ برکتوں کا اصل سرچشمہ اللہ جلّ شانہ کا اسمِ بزرگ ہے (۵۵: ۷۸) جس کی برکتیں کبھی ختم نہیں ہوتی ہیں، منجملہ ہر قسم کی بیماری سے شفایابی کی برکت بھی ہے، اور خداوند تعالیٰ کے بابرکت نام میں یا نہیں ہے۔

۱۲۔ کلامِ الٰہی کے چار مقامات ایسے ہیں، جہاں قرآنِ پاک کے بابرکت (مبارک) ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان میں سے ایک مقام پر یہ اشارہ بھی ہے کہ قرآنی برکتوں کے لئے غور و فکر کی ضرورت ہے (۳۸: ۲۹)، جس طرح پہاڑ کی بعض برکتیں سطح سے اور بعض گہرائی سے حاصل ہو جاتی ہیں، اس سے ظاہر ہے کہ قرآن میں ہر قسم کی برکات موجود ہیں، اور ان میں روحانی طب بھی ہے۔

 

۳۷

۱۳۔ یہ ایک قرآنی حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام اپنے وقت کے روحانی طبیب تھے، آپ جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے، کیونکہ اللہ پاک اور اس کے پیغمبروں کے نزدیک یہ نعمت کافی نہیں کہ صرف بدن کی صحت برقرار ہو، اور جسم سے اعلیٰ انسان کی جو حیثیتیں ہیں، ان کو نظر انداز کر دیا جائے، یعنی، اخلاق، نظریہ، روح، اور عقل کی سلامتی کے لئے کوئی علاج نہ ہو، اس سے ظاہر ہے کہ آسمانی ہدایت اور ربّانی ہادی (پیغمبر) کی جملہ مثالوں میں سے ایک مثال ڈاکٹری اور ڈاکٹر کی طرح ہے۔

۱۴۔ قرآنِ حکیم کے ناموں میں سے ایک نام شفاء (۱۷: ۸۲) بھی ہے، آپ جانتے ہیں کہ شفاء مرض سے صحت یاب ہونے کا نام ہے، جیسے قرآن میں ہے: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ (۲۶: ۸۰، اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں تو وہی مجھ کو شفاء دیتا ہے) اس کے یہ معنی ہوئے کہ انسانیّت ہر طرح سے اور ہر حیثیت میں شدید بیماری کا شکار ہو چکی تھی، جس کو دیکھ کر خدائے رحمان و رحیم کو رحم آیا، لہٰذا، اُس مہربان نے آنحضرتؐ کو عظیم المرتبت روحانی طبیب بنا کر اور قرآنِ حکیم کی شفاء بخش تعلیمات کو آسمانی دواؤں کا درجہ دے کر بھیجا، پس قرآنِ پاک جہاں سر تا سر شفاء ہے، وہاں اس کے یہی معنی ہوتے ہیں۔

۱۵۔ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: اُن کے دلوں میں مرض ہے سو اور بھی بڑھا دیا اللہ نے ان کو مرض (۰۲: ۱۰) یہ لوگ کون تھے؟ زمانۂ نبوّت

 

۳۸

 

کے منافقین، ان کے دلوں میں کون سی بیماری پوشیدہ تھی؟ کفر و نفاق، جس کو آپ جہالت و نادانی بھی کہہ سکتے ہیں، پس اگر کفر و نفاق روحانی بیماری ہے تو وہ انسان کی ہستی میں اور کہیں نہیں صرف اخلاق، نظریات، روح، اور عقل میں ہو سکتی ہے، چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ بیماری کی بڑی قسمیں پانچ ہیں: جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی اور عقلی۔

۱۶۔ مذکورۂ بالا دلیل (نمبر ۱۵) میں آپ نے روحانی بیماری کے بارے میں سن لیا، اب دوسری جانب سے روحانی صحت کے باب میں بھی سن لیجئے، کہ قرآنِ حکیم اُس دل کو، جس میں کوئی ایسی بیماری نہ ہو، اور وہ ہرگونہ صحت و سلامتی کی دولت سے مالا مال ہو، قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) کہتا ہے۔

۱۷۔ قرآن اور اسلام میں لفظِ السلام یا سلام بڑے موضوعات میں سے ہے، جس کے معنی سلامتی کے ہیں، اور جب مسلمان آپس کی ملاقات میں بطورِ دعا کہا کرتے ہیں: السلام علیکم! (تم پر سلامتی ہو!) تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے: خدا تمہارے بدن، اخلاق، نظریات، روح اور عقل کو سلامتی دے! اور ہر بیماری و آفت سے محفوظ رکھے!

۱۸۔ ایک بڑا روحانی مرض قساوت (۰۲: ۷۴، سنگدلی) ہے، یعنی قلبی رقت و نرمی کا مفقود ہو جانا، قرآن ایسے بیمار دل کی مذمت

 

۳۹

 

کرتا ہے، کیونکہ صحت مند دل وہی ہے جو بار بار پگھل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاکہ وہ خوفِ خدا اور علم و عبادت کے فیوض و برکات سے معمور و منوّر ہو سکے۔

۱۹۔ سب سے بنیادی اور سب سے بد ترین مرض تکبر ہے، جو ہر قسم کی روحانی بیماریوں کو جنم دیتا ہے، یہ مرض اوّل اوّل ابلیس کو لاحق ہو گیا تھا (۳۸: ۷۴) چنانچہ شیطان تمام برائیوں کی جڑ اسی وجہ سے ہوا ہے کہ اُس نے کسی حق کے بغیر اپنے آپ کو بڑا سمجھ لیا، دراصل شیطان چھوت والی بیماری میں مبتلا ہے، یہی سبب ہے کہ اس کے چھونے سے آدمی خبطی ہو جاتا ہے (۰۲: ۲۷۵) یا کوئی اور بیماری ہو جاتی ہے۔

۲۰۔ اللہ تعالیٰ کا قانون (سنت ۳۵: ۴۳) بنیادی طور پر ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے، اور اسلام کی روح میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، چنانچہ قرآنِ حکیم کے اس پُرحکمت کلّیہ میں غور کیجئے کہ ہر پیغمبر کا ایک ایسا دشمن ہوا کرتا ہے کہ وہ چند انسی اور جنّی شیاطین کا مجموعہ ہوتا ہے (۰۶: ۱۱۲، متعلقہ آیت میں خوب غور کیجئے) بنا برین سامری (۲۰: ۸۵) زمانۂ موسیٰ علیہ السّلام کے انسی شیاطین میں سے تھا، جس کی وجہ سے اس کو وہی چھوت والی بیماری لگی تھی، جو دوسرے تمام شیاطین کے ساتھ ہوا کرتی ہے (۲۰: ۹۷) اور ایسی بیماری دراصل ظاہر میں نہیں، بلکہ باطن میں ہوا کرتی ہے۔

 

۴۰

۲۱۔ دینی اعتبار سے انسان کے تمام اقوال و افعال شروع میں بھی اور آخر میں بھی دو جامع اور متضاد لفظوں میں سما جاتے ہیں، جیسے اچھی چیزیں امر کے تحت آتی ہیں، اور بری چیزیں نہی کے تحت، یہی معنی خیر و شر، حسنات و سیئات، نور و ظلمت، اطاعت و معصیت، حق و باطل، اور خدا کی خوشنودی و ناراضگی جیسے دوسرے دو دو لفظوں میں بدل جاتے ہیں، اسی طرح اللہ اور رسول کی فرمانبرداری باطنی صحت ہے، اور نافرمانی بیماری، اور یہ دو معنی ایسے جامع ہیں کہ ان سے کوئی چیز باہر نہیں رہ سکتی، پس اس تصور سے زیرِ بحث موضوع کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
۲۲۔ بے حیائی اور برے کاموں میں جسمانی، اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی بیماریاں موجود ہیں، اور اس حقیقت سے کسی بھی دانشمند کو انکار نہیں ہو سکتا، چنانچہ قرآن ہی نے یہ فرمایا کہ اس خرابی کا سدِ باب نماز سے ہو سکتا ہے (۲۹: ۴۵)۔

۲۳۔ قرآنِ کریم بار بار تقویٰ کی اہمیت بیان کرتا ہے، اور بہت سی آیات میں اس کی طرف پُرزور توجہ دلاتا ہے، یہاں تک کہ تقویٰ ہی کو مسلمین کی عزت و بزرگی کا معیار قرار دیتا ہے (۱۳: ۴۹) اور فرماتا ہے کہ تقویٰ کے بغیر کوئی قول و عمل قبول نہیں ہو سکتا، یہ کیوں ایسا ہے؟ اس لئے کہ تقویٰ کے معنی ہیں خدا، یا قانونِ خدا سے ڈرنا، اور ہر قسم کی بدی و بیماری سے بچنا۔

 

۴۱

۲۴۔ جب قرآن ہی سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ کفر و نفاق قلبی مرض (۰۲: ۱۰) ہے، تو پھر اس کا علاج یہی ہے کہ ایسا شخص جان و دل سے اسلام و ایمان کو قبول کرے، اس بیان سے یہ حقیقت کسی شک کے بغیر روشن ہو جاتی ہے کہ طبِ روحانی کے اعتبار سے تمام قرآنِ پاک دو حصوں پر منقسم ہے، ایک حصے میں چھوٹی بڑی ہر قسم کی باطنی بیماریوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور دوسرے میں زبردست مؤثر دوائیاں، بدرجۂ کمال نسخے، اور انتہائی کامیاب طریقہ ہائے علاج مذکور ہیں، اب ان شاء اللہ تعالیٰ، آپ کو معلوم ہوا ہوگا کہ قرآنِ حکیم کے ناموں میں سے ایک نام “شفاء (۱۷: ۸۲)” کیوں ہے۔

علامہ نصیر الدین نصیرؔ (حبِّ علی) ہونزائی

۴۲

 

سورۂ شفاء میں طبی اشارات

۱۔ اگرچہ ہر چیز زبانِ قال سے یا زبانِ حال سے اللہ تعالیٰ کی تعریف و تسبیح کرتی رہتی ہے،اور اس “قانونِ کل” سے کوئی مخلوق باہر نہیں (۱۷: ۴۴) لیکن خود پروردگارِ عالم نے قرآنِ حکیم کے کئی مقامات پر جس شان سے اور جن معنوں کے ساتھ اپنی ذاتِ اقدس کی تعریف و توصیف فرمائی ہے، وہ سب سے برتر، بے مثال، اور حکمتوں سے لبریز ہے، خصوصاً سورۂ فاتحہ میں دیکھئے کہ خداوندِ تعالیٰ کی تعریف اُس کی صفتِ ربوبیّت (پروردگاری) کی وجہ سے ہے، چنانچہ اس مقام پر دانشمندوں کے لئے ایک بڑا اہم اشارہ ہے، تاکہ وہ ربّانی پرورش کے قوانین میں خوب غور و فکر کریں، کہ اگرچہ وہ ہر ہر عالم کا پروردگار ہے، لیکن خصوصیت کے ساتھ عوالمِ انسانیّت کی پرورش کرتا ہے، اور کوئی شک نہیں کہ انسانوں کے لئے بھی درجات مقرر ہیں، جو اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت و فرمانبرداری پر مبنی ہیں، سو درجۂ اعلیٰ کی سماوی پرورش کا شرف سب سے پہلے انبیاء علیہم السّلام کو حاصل ہوتا رہا ہے، پھر اولیاء کو، چونکہ انسانی

 

۴۳

 

وجود تین چیزوں کا مجموعہ ہے، وہ جسم، روح، اور عقل ہیں، لہٰذا آدمی ہمیشہ تین قسم کی پرورش کا محتاج ہے:

الف: ایک ایسی جسمانی پرورش، جو آسمانی کتاب (قرآن) اور دینِ فطرت کے مطابق ہونے کی وجہ سے باعثِ صحت و سلامتی ہو، بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھے، اور نیک کاموں کے لئے طاقت کا ذریعہ بن سکے۔

ب: ایک ایسی روحانی پرورش، جس سے نفسِ انسانی ہر قسم کی اخلاقی، نظریاتی اور روحانی بیماریوں سے بچے رہے، اور نتیجے کے طور پر درجۂ نفسِ مطمئنہ کو حاصل کر سکے (۸۹: ۲۷)۔

ج: ایسی عقلی پرورش، کہ اُس سے عقلِ جزوی کی تکمیل ہوتی جائے، وہ کسی بھی ذہنی و شعوری مرض میں مبتلا نہ ہو جائے، اور آیاتِ الٰہی میں غور و فکر کر کے نتائج کو اخذ کر سکے، تا کہ بالآخر خدا و رسول کی خوشنودی حاصل ہو۔

۲۔ ایک طبیبِ حاذق یا ایک ماہر ڈاکٹر ہمیشہ نہ صرف مریضوں ہی کے لئے بلکہ صحت مندوں کے واسطے بھی ایسی غذاؤں کو ترجیح دیتا ہے، جو غذائیت سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ دوا کا کام بھی کرتی ہوں، اس کے علاوہ ایک ہوشمند باپ بھی ہر وقت اپنی عزیز اولاد کی جسمانی تربیت و پرورش کے سلسلے میں حفظِ صحت کے اصولوں کو ملحوظِ نظر رکھتا ہے، اسی مثال کی انتہائی بلندی پر “اسلام کا تصوّرِ ربوبیّت” ہے، یعنی ربِّ عزّت کی جانب سے دینِ فطرت میں جو نظامِ پرورش ہے، وہ ایسی عالیشان، اور کامل و مکمل ہے کہ وہ پرورش بھی ہے، اور علاج و شفاء بھی، چنانچہ ہم

 

۴۴

 

یہاں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسمِ “رب” میں پروردگار (پالنے والا) کے معنی کے ساتھ ساتھ روحانی طبیب کی صفت بھی جمع ہے، پس یہی سبب ہے کہ سورۂ شفاء (سورۂ فاتحہ) میں دوا اور شفا کا اوّلین اشارہ آسمانی پرورش کی طرف فرمایا گیا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی تعریف اس کے بہترین نظامِ ربوبیّت (پروردگاری اور پرورش) کی وجہ سے کی گئی ہے۔

۳۔ بحوالۂ قاموس القرآن (از: قاضی زین العابدین) “حضرتِ امام جعفر الصادق علیہ السّلام سے روایت ہے کہ عالمین سے صرف انسان ہی مراد ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر ایک فرد اپنی جگہ ایک مستقل عالم ہے۔” بے شک خدا تعالیٰ عوالمِ شخصی کا پالنے والا ہے، کیونکہ جمادات، نباتات، اور حیوانات جیسی مخلوقات حضرتِ ربِّ کریم کی صفت کے فیوض و برکات کو جیسا کہ چاہئے اپنی طرف متوّجہ اور جذب نہیں کر سکتی ہیں، مگر صرف انسان ہی ہے، جو نہ صرف یہی کام کر سکتا ہے، بلکہ وہ حدیثِ نوافل کے مطابق حق تعالیٰ کے انتہائی قرب کو بھی حاصل کر سکتا ہے (دیکھئے: صحیح بخاری، جلدِ سوم، باب ۸۴۴، حدیث ۱۴۲۲) یہ وہ منزلِ مقصود ہے، جہاں مربوب اپنے ربّ میں فنا ہو جاتا ہے۔

۴۔ الرب کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کسی چیز کو تدریجاً نشونما دے کر حدِ کمال تک پہنچانا کے ہیں (مفردات القرآن) چنانچہ خداوند تعالیٰ کے اس فعل کا اطلاق حقیقی معنوں میں فقط انسان ہی پر ہوتا ہے، کیونکہ

 

۴۵

 

جملہ مخلوقات میں سے صرف وہی زمین پر خدا کا خلیفہ اور نائب ہو سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بر بنائے مصلحت و حکمت انسان کو شروع شروع میں ضعیف یعنی کمزور پیدا کیا گیا ہے (۰۴: ۲۸) تا کہ وہ آسمانی تربیت سے جو قرآن اور اسلام میں ہے بتدریج آگے بڑھے، یہاں تک کہ حق تعالیٰ کا قربِ خاص حاصل ہو، تاکہ اس کو ربّانی نعمتوں کی معرفت ہو کہ وہ غذائیں بھی ہیں اور ادویہ بھی۔

۵۔ پتھر جماد ہے، وہ ایک ہی حال پر ٹھہرا ہوا ہے، یعنی اس میں ترقی نہیں، درخت اور حیوان کے وجود میں بھی بڑی تنگی ہے، لہٰذا ایسی مخلوقات میں حضرتِ ربّ کے افعال کا انتہائی عظیم کارخانہ کیسے سما سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وجودِ انسانی کو بڑی وسعت دی گئی، تا کہ اس میں نہ صرف اسمِ ربّ کی جلوہ آرائی کے لئے جگہ ہو، بلکہ دوسرے تمام اسمائے صفاتی کے ظہورات و افعال کے لئے بھی گنجائش ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سارے ناموں کا فعلی میدان درحقیقت انسان ہی ہے، اب ذرا غور فرمائیے ، کہ انسان جہاں روح اور عقل ہے، وہاں اس کا عروج و ارتقاء یا ترقی خدا کی ایسی سیڑھیوں پر پھیلی ہوئی ہے، جن کی مسافت طے کرتے ہوئے پچاس ہزار برس کا زمانہ گزر جاتا ہے (۷۰: ۰۱ تا ۰۴) ممکن ہے کہ اس سے یہ مراد ہو کہ کافرِ مطلق سے لے کر نبئ مرسل تک انسانیّت کے پچاس ہزار درجات مقرر ہیں، اور اگر یہ حقیقت ہے تو پھر ان درجات میں بیماری اور صحت درجہ وار ہوں گی، وہ اس طرح کہ سب سے نیچے کفار و منافقین

 

۴۶

 

ہوں گے، جو کلی طور پر بیمار ہیں (۰۲: ۱۰) اور سب سے اوپر انبیاء و اولیاء ہوں گے، جو مرضِ جہالت سے بالکل پاک ہیں، کیونکہ وہ حضرات قلبِ سلیم (صحت مند دل) رکھتے ہیں (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴)، باقی درجات میں نیچے سے نیچے مرض زیادہ، اور اوپر سے اوپر صحت میں اضافہ ہوگا، کیونکہ اس قانون کے بغیر درجات نہیں ہو سکتے ہیں (۰۶: ۱۳۲، ۱۲: ۷۶، ۴۳: ۳۲)۔

۶۔ ربّانی نعمتوں اور دواؤں کے استعمال کے لئے انسان میں کتنی بڑی گنجائش ہے، یا اس کی مجموعی ہستی کا سفر کتنا دور و دراز ہے، اس کی ایک اورمثال سورۂ تین (۹۵: ۰۴ تا ۰۸) میں دیکھئے کہ انسان کی روحانی تعمیر و ترقی کا تصوّر ایک ایسے مینار (Tower) کی طرح ہے، جو بلندی میں آسمانوں سے بھی گزر کر عرشِ عظیم کو چھو لیتا ہو، یہ احسنِ تقویم (۹۵: ۰۴) کی وضاحت ہے، خدا انسان کو اس مینار کی آخری بلندی تک چڑھا بھی سکتا ہے، اور اسفلِ سافلین تک لوٹا بھی سکتا ہے۔

۷۔ قرآنی الفاظ و آیات کی ترتیب و ربط میں بھی حکیمانہ اشارات پوشیدہ ہوا کرتے ہیں، چنانچہ سورۂ شفاء کی طبی تفسیر کا سیاق و سباق (Context) اس طرح ہے: سب تعریف خدا ہی کے لئے ہے جو جہانوں (یعنی عوالمِ انسانیّت) کا پالنے والا ہے، کہ وہی انسانی جسم، روح اور عقل کی پرورش بھی کرتا ہے، اور انہیں بیماریوں اور آفتوں سے محفوظ و سلامت بھی رکھتا ہے، کیونکہ وہ بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے، اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے یہ سب کچھ اس لئے

 

۴۷

 

ہونا چاہئے کہ روزِ جزا کا مالک خدا ہے، جس کی عدالت گاہ میں کسی کو یہ عذر نہ ہو کہ خدا کے دین میں روح و عقل کے لئے ہر گونہ غذا اور دوا موجود نہ تھی۔

۸۔ اس کے بعد ہی روحانی غذا اور دوا کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور وہ ایک ایسی عارفانہ اور موحدانہ عبادت ہے، جو ہر قسم کے شرک سے پاک و پاکیزہ اور خدا شناسی و توحید کے نور سے مزین و منور ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: (خدایا) ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، یعنی ایسی مقبول عبادت کے وسیلے سے ہر نیک کام میں خدائے بزرگ و برتر کی تائید حاصل ہو سکتی ہے۔

۹۔ اب روح کے بعد عقل کی باری آتی ہے کہ اس کی غذا و شفاء کے لئے بارگاہِ خداوندی میں درخواست کی جائے، وہ آسمانی اغذیہ اور ادویہ راہِ راست کی ہدایات و تعلیمات ہیں، جن کا تعلق عقلِ انسانی سے ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ میوہ ہائے بہشتی ربّانی ہدایت و علم کی صورت میں ہیں، چنانچہ اللہ جلّ جلالہ کی جانب سے یہ دعا سکھائی گئی: تو ہم کو سیدھی راہ پر چلا دے، ان کی راہ، جنہیں تو نے (اپنی) نعمت عطا کی ہے، یہاں شاہراہِ مستقیم پر گامزن ہو کر منزلِ آخرین میں پہنچ جانا مطلوب ہے، جس کی مثال حضراتِ انبیاء ، صدیقین، شہداء، اور صالحین کی پاکیزہ زندگی سے ملتی ہے (۰۴: ۶۹) کیونکہ صراطِ مستقیم انہی

 

۴۸

 

کی راہ ہے، اور انہیں اللہ تعالیٰ نے روح و عقل کی نعمت و صحت سے نوازا تھا، پس جو لوگ خدا و رسول کی اطاعت کریں، وہ بھی ان حضرات کی رفاقت میں ہوں گے، اس دعا میں یہ آسمانی تعلیم بھی ہے: نہ اُن کی راہ جن پر تیرا غضب ہوا ہے، اور نہ گمراہوں کی۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم کے عجائب و غرائب اور بے مثال خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کا ہر بنیادی اور اہم موضوع جو سماوی حکمتوں کا خزانہ ہے اپنی جامعیّت میں تمام قرآن کو سما لیتا ہے، جیسے عقل کا مضمون ہے، کہ اس نے لوگوں کے سارے احوال کو جو قرآن میں مذکور ہیں “یعقلون” اور “لا یعقلون” میں گھیر لیا ہے، یعنی قرآنِ پاک دینی اعتبار سے بعض لوگوں کو جاننے والے، اور بعض کو نہ جاننے والے یا جاہل قرار دیتا ہے، سو موضوعِ عقل یا قانونِ عقل کا یہی فیصلہ ہے، اور یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جاننا صحتِ عقل کی دلیل ہے، اور نہ جاننا سقمِ (مرضِ) عقل کی علامت ہے، پس جن پر غضب کیا گیا ہے، وہ تو عقل کے لاعلاج مریض ہیں، اور جو گمراہ ہو گئے ہیں، وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہیں کہ اس کا علاج ممکن ہے۔

جب قرآنی مثالوں کی تصریف (۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴) موضوعِ شفاء (۱۷: ۸۲) کی طرف ہو جاتی ہے، تو اُس حال میں قلبی صحت و بیماری کے بہت سے مترادفات سامنے آتے ہیں، چنانچہ ذیل کے نقشے میں اس کی چند مثالیں درج کی گئی ہیں:

۴۹

 

نمبر شمار صحت اور صحت مند مرض اور مریض
۱ اسلام، ایمان (۰۲: ۱۰، ۰۹: ۱۴) کفر، نفاق (۰۲: ۱۰)
۲ توحید (۰۷: ۷۰) شرک (۳۱: ۱۳)
۳ نور [روشنی] (۰۷: ۱۵۷) ظلمت [تاریکی] (۱۳: ۱۶)
۴ عقل ، علم، دانائی (۰۲: ۱۶۴، ۰۳: ۱۸، ۲۰: ۵۴) بے عقلی، جہالت، نادانی (۳۹: ۰۹)
۵ ہدایت (۰۷: ۳۰) ضلالت [گمراہی] (۰۲: ۱۶)
۶ عدل (۱۶: ۷۶) ظلم (۰۲: ۲۵۴)
۷ پاک، پاکیزگی (۰۲: ۱۵۱) ناپاک، ناپاکی (۱۰: ۱۰۰)
۸ ذکرِ خدا (۱۳: ۲۸) غفلت (۱۸: ۲۸، ۴۳: ۳۶)
۹ خیر (۲۱: ۳۵) شر (۲۱: ۳۵)
۱۰ اطاعت (۰۴: ۸۰) معصیت [نافرمانی] (۳۳: ۳۶)
۱۱ قرب [نزدیکی] (۵۶: ۱۱) بُعد [دوری] (۲۳: ۴۴)
۱۲ یقین (۳۲: ۲۴) شک (۲۷: ۶۶)
۱۳ بصیرت (۱۲: ۱۰۸) کور باطنی (۲۲: ۴۶)
۱۴ اتحاد (۰۳: ۱۰۳) افتراق (۰۳: ۱۰۳)
۱۵ صدق (۳۹: ۳۲) کِذب (۳۹: ۳۲)
۱۶ شکر گزاری (۰۲: ۵۶) ناشکری (۱۴: ۰۷)
۱۷ خدا کی عبادت (۳۶: ۶۱) شیطان کی عبادت (۳۶: ۶۰)

 

۵۰

 

نوٹ: یہ کتاب (قرآنی علاج) پاکستان اور عالمِ اسلام کے لئے ایک علمی خدمت کی کوشش ہے، آپ کی دعا ضروری ہے۔

نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی
۲۰ جنوری ۱۹۸۶ء

خانۂ حکمت

۵۱

 

 

قرآن اور قلبِ انسان

۱۔ مطالعۂ قرآنِ حکیم سے ہر دانشمند مسلم پر یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ انسانی وجود میں قلب (دل) کو سب سے بڑی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ قلب ہی ہے جو عالمِ شخصی میں خیر و شر دونوں کی نمائندگی کرتا ہے، اور حقیقی صحت و بیماری اسی سے متعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبرِ آخر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہلِ اسلام کے دلوں کو بیماریوں سے محفوظ و سلامت رکھنے کے لئے، اور شیطانی وسوسوں سے سینہ ہائے مومنین کو بچانے کے واسطے ہر نیک قول و فعل کی بنیاد خلوصِ نیت پر قائم کی ہے، ایسی پاکیزہ نیت سے وہ دلی ارادہ مراد ہے، جس میں صرف اور صرف خداوندِ عالم کی خوشنودی مطلوب و مقصود ہوتی ہو، کیونکہ ہر ایسا قلب جو نیک نیتی کی آب و تاب سے چمکتا ہے، وہ منزل گاہِ توفیقِ الٰہی قرار پاتا ہے۔

۲۔ جب اسلام میں ہر عبادت اور ہر نیکی سے پہلے اصلاحِ نیت کا حکم ہے، تو ہمیں جاننا چاہئے کہ یہ حکم دراصل اصلاحِ قلب کے لئے ہے،

 

۵۲

 

کیونکہ اگر ہم دل کی زبان سے اچھی سے اچھی نیت بھی کریں، لیکن دل خود بیمار ہو، تو ایسی نیت سے وہ مقصد حاصل نہیں ہو گا، جو ایک صحت مند دل سے حاصل ہو سکتا ہے، اس مثال سے قلب کی اہمیت اور اس کی صحت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔

۳۔ “قلب” کے معنی الٹنا پلٹنا ہیں، علمِ تشریح الاعضاء (Anatomy) میں قلب صنوبری شکل کے اس گوشت کے لوتھڑے کو کہتے ہیں جو انسان کے سینہ کے بائیں پہلو میں ہے، چونکہ یہ دورانِ خون کا آلہ ہے اور ہر وقت حرکت میں رہتا ہے اس لئے “قلب” کے نام سے موسوم ہوا، علم النفس (Psychology) کی زبان میں اور ادب کے استعمال میں قلب اس صفتِ انسانی اور لطیفۂ روحانی کو کہتے ہیں جو حواس کے جمع کئے ہوئے معلومات و مدرکات کو ترتیب دے کر نتائج و احکام کا استخراج کرتی ہے، اور مناسب و نامناسب اور خوشگوار و ناخوشگوار امور کے مخفی احساسات کو قبول کرتی ہے، دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قلب کا اطلاق “عقل” کے معنی میں بھی ہوتا ہے اور “وجدانِ روحانی” کے معنی میں بھی، جسے آج کل کی زبان میں “ضمیر” کے نام سے صحیح طور پر یاد کیا جاتا ہے (قاموس القرآن)۔

۴۔ قلب کی مذکورہ تشریح بالکل درست ہے، تاہم مزید معلومات کی خاطر میں یہ عرض کروں گا کہ نفسِ حیوانی جب تک حیوان میں رہتا ہے، تو وہ حیوان ہی ہے، اور اس کی کوئی ترقی ممکن نہیں، لیکن یہی

 

۵۳

 

نفس جہاں کسی انسان میں ہوتا ہے، تو وہ ترقی پذیر ہوتا ہے، جیسا کہ آپ کو علم ہے کہ انسانی وجود میں علی الترتیب تین روحیں ہیں: روحِ نباتی، روحِ حیوانی، اور روحِ انسانی، اور ان پر عقلِ جزوی کی حکومت قائم ہے، ان تینوں ارواح کے مراکز یہ ہیں: جگر، دل، اور دماغ، اور انسانی روح کی کرسی پر عقل جلوہ گر ہے، چونکہ عقل اور نفسِ ناطقہ (روحِ انسانی) نفسِ حیوانی کو سکھانے اور ترقی دینے کے لئے مقرر ہیں، لہٰذا ان کی کارگاہ وہاں ہے، جہاں نفسِ حیوانی کا مرکز ہے، یعنی قلب، پس قرآنِ حکیم نے کارخانۂ عقل و جان یا روحانی اور عقلی انقلاب کے مرکز کو “قلب” کے نام سے یاد کیا، اور تمام تر ہدایتیں اور نصیحتیں اسی سے متعلق کی گئیں۔

۵۔ نباتات کے اندر نظامِ قدرت کا کونسا کارخانہ ہے؟ اور اس میں کیا چیز بنتی ہے؟ ان میں ایک ایسا عجیب کارخانہ ہے کہ اس میں مٹی جیسی بے جان چیزیں داخل ہو کر روحِ نباتی میں زندہ ہو جاتی ہیں، حیوانات کے باطن میں قدرتِ خدا کا جو کارخانہ قائم ہے، اس کی مصنوعات کیا ہیں؟ وہاں اللہ تعالیٰ کی یہ آیت (نشانی یا معجزہ) ہے کہ نباتات کو درجۂ حیوان میں بلند کیا جاتا ہے، تخلیق کے اس عروج و ارتقاء کے سلسلے میں انسان جو خدائے بزرگ و برتر کا سب سے آخری اور با کمال کارخانہ ہے، اس کی صنعتوں کا دائرہ کس حد تک وسیع ہے؟ اور اس میں کیا کیا چیزیں بنتی ہیں؟ قادرِ مطلق کا یہ زندہ اور

 

۵۴

 

بولنے والا کارخانہ، یعنی انسان باعتبارِ صنعت انتہائی وسیع و عظیم ہے، جس کو اگر کماحقہ ترقی دی جائے، اور پھر چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے، تو معلوم ہو گا کہ اس میں نہ صرف ارواحِ حیوانی ارواحِ انسانی میں فنا ہو جاتی ہیں، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہاں خدا کی خداوندی کی ہر ہر چیز بنتی ہے، کیونکہ انسان میں تمام دوسرے کارخانے اور خزانے بھی جمع ہیں، جبکہ یہ ایک مستقل عالم ہے، اور یہ ساری تعریف کارخانۂ قلب کی ہے۔

۶۔ مذکورۂ بالا بیان میں آپ نے غور سے دیکھا ہو گا ، کہ قلب انسانی قانونِ قدرت کا سب سے بڑا، زندہ، اور با اختیار کارخانہ ہے، جو برائے امتحان بڑا پیچیدہ بنایا گیا ہے، جس میں بہت سی باریکیاں اور نزاکتیں ہیں، لہٰذا اس میں بار بار کوئی خرابی یعنی بیماری پیدا ہونے کا امکان موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے “قلبِ انسانی” کے موضوع کو اتنی بڑی اہمیت دی، اور اس کو اپنی بھرپور توجہ کا مرکز قرار دیا، کیوں نہ ہو، جبکہ خیر و شر کی تمام طاقتیں اسی کارخانۂ قلب کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، جس میں عقل، روحِ ناطقہ، اور روحِ حیوانی کام کر رہی ہیں، پس قلب سے یہ تینوں چیزیں مراد ہیں۔

۷۔ اگر آسمانی دواؤں کی بدولت روحِ انسانی میں روحِ حیوانی تحلیل (Dissolve) ہو جاتی ہے، اور روحِ انسانی عقل میں فنا ہو سکتی ہے، تو یہ عقل کی صحت مندی اور کامیابی کی دلیل ہے، اُس حال میں ایسی عقل کو قلبِ

 

۵۵

 

سلیم (صحت مند دل) کہا جائے گا (۲۶: ۸۹) اور وہ نہ صرف آخرت ہی میں بلکہ دنیا میں بھی حضرت ابراہیم (۳۷: ۸۴، ۶۰: ۰۴) اور رحمتِ عالم (۲۱: ۱۰۷، ۳۳: ۲۱) کے پیچھے پیچھے چل کر خداوندِ مہربان کے قربِ خاص کو حاصل کر سکے گی۔

۸۔ اللہ تعالیٰ کے با برکت اسم اور اس کے ذکرِ کثیر میں عقل و جان کی گوناگون برکتیں ہیں، جن کے حصول سے دلوں کو اطمینان ہو جاتاہے (۵۵: ۷۸، ۳۳: ۴۱، ۱۳: ۲۸) اطمینانِ قلبی کا مفہوم کتنا عالی اور وسیع ہے، اس کے لئے قرآنِ پاک میں دیکھنا ہو گا، خاص کر حضرتِ ابراہیم کے قصے (۰۲: ۲۶۰) میں ، اور نفسِ مطمئنہ کے بیان (۸۹: ۲۷) میں چنانچہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے قلبی اطمینان کی یہ شان ہے کہ آپ نے درحقیقت معجزاتِ انبعاث کا مشاہدہ کیا تھا، اب اگر ہم نفسِ مطمئنہ سے حضراتِ انبیاء و اولیاء کی مثال لیں، تو پھر اس کا تصوّر بھی اسی بلندی پر جائے گا، جس بلندی پر حضرت ابراہیمؑ کے اطمینان کا درجہ ہے، ویسے بھی آپ متعلقہ آیۂ کریمہ (۸۹: ۲۷) میں غور و فکر کر سکتے ہیں کہ یقیناً یہاں اطمینان کے معنی بہشت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں، اس سے یہ حقیقت آفتابِ منیر کی طرح روشن ہو جاتی ہے کہ اسمِ خدا کے ذکرِ کثیر سے دلوں کو جو ربّانی اطمینان حاصل ہو جاتا ہے (۱۳: ۲۸) وہ غیر محدود ہے، اور اس میں عقل و روح کے لئے بہت سی غذائیں بھی ہیں، اور دوائیں بھی۔

۹۔ زمانۂ قدیم میں نظریۂ حکیم بطلیموس کے مطابق زمین کو کائنات کا مرکز قرار دیا گیا تھا، لیکن بعد کی تحقیق سے پتہ چلا کہ سورج ہی وسط

 

۵۶

 

میں ہے، اور وہی مرکز ہے، چنانچہ یہ کہنا درست اور حقیقت ہے کہ نظامِ شمسی (Solar System) یعنی عالمِ کبیر کا سنٹر اور دل خورشیدِ انور ہے، اور عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) کا مرکز (Centre) قلب ہے، بے شک سورج ساکن ہے، لیکن مادّی نور کی کائناتی بھٹی ہونے کی حیثیت سے سورج مسلسل بھڑکتا رہتا ہے، تا کہ دنیا زندہ اور قائم رہے، اسی طرح عالمِ شخصی کے سورج کی مرتبت میں دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے، اور ان نازک نازک دھڑکنوں سے عالمِ صغیر میں حیات و بقاء کی لہریں دوڑتی رہتی ہیں، اس سے یہ ناقابلِ تردید حقیقت نکھر نکھر کر سامنے آگئی کہ جیسی اہمیت دنیائے ظاہر میں سورج کی ہے، ایسی اہمیت وجودِ انسانی میں دل کی ہے۔

۱۰۔ قرآنِ حکیم کا کوئی مضمون ایسا نہیں جو براہِ راست یا بواسطہ قلب کا موضوع نہ ہو، کیونکہ قرآنِ کریم تمام انسانوں کے لئے ایک ایسا کامل و مکمل ہدایت نامۂ سماوی ہے، جس کی تعلیمات و ہدایات کا رخ انسان کے حواسِ ظاہر و باطن کے مرکز کی طرف ہے، اور وہ دل ہے، اس سے ایسا لگتا ہے کہ اصل انسان (خواہ نیک ہو یا بد) دل ہے، جس سے قرآنِ عزیز مخاطب ہے، اور اس کے خطاب کو سمجھنے کی ذمہ داری دل ہی پر عائد ہو جاتی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں (۴۷: ۲۴) یعنی قرآن فہمی دل و دماغ کا کام ہے، اگر کوئی شخص اس میں

 

۵۷

 

غور و فکر نہیں کرتا ہے، یا کسی کا دل مقفل ہے، تو یہ اور بات ہے، بہر کیف یہاں ہماری بحث دل کی اہمیت، نزاکت، اور بیماریوں سے ہے، لہٰذا اس مضمون کے آخر میں قلبی بیماریوں کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، جو قرآنی حوالہ جات کے ساتھ درجِ ذیل ہیں:

نمبر شمار قلبی بیماری آیت سورت
۱ دل پر مہر لگ جانا (۰۲: ۰۷) ۷ ۲
۲ خصومت، جھگڑا    (۰۲: ۲۰۴) ۲۰۴ ۲
۳ گواہی کو چھپانا (۰۲: ۲۸۳) ۲۸۳ ۲
۴ تنگئ دل،دل کی تنگی (۰۶: ۱۲۵) ۱۲۵ ۶
۵ یادِ خدا سے غفلت (۱۸: ۲۸) ۲۸ ۱۸
۶ مرعوب ہوجانا، بزدلی(۰۳: ۱۵۱) ۱۵۱ ۳
۷ نا سمجھی، بھولا پن (۰۷: ۱۷۹) ۱۷۹ ۷
۸ کج دلی، دل کی کجی، زیغ(۰۹: ۱۱۷) ۱۱۷ ۹
۹ بے عقلی، بے وقوفی (۲۲: ۴۶) ۴۶ ۲۲
۱۰ کور دلی، دل کا اندھا پن ۴۶ ۲۲
۱۱ منقبض، دل گرفتگی (۲۹: ۴۵) ۴۵ ۳۹
۱۲ دل پر قفل لگ جانا (۴۷: ۲۴) ۲۴ ۴۷

 

۵۸

 

نمبر شمار قلبی بیماری آیت سورت
۱۳ سنگدلی، سخت دلی (۰۲: ۷۴) ۷۴ ۲
۱۴ بد ظنی، بد گمانی (۴۸: ۱۲) ۱۲ ۴۸
۱۵ دل ڈھکا رہنا، ڈھکا ہوا دل (۰۴: ۱۵۵) ۱۵۵ ۴
۱۶ بے آرامی، بے قراری (۴۳: ۳۶) ۳۶ ۴۳
۱۷ دل پر غلاف ہونا (۴۱: ۰۵) ۵ ۴۱
۱۸ خواہشِ نفسانی کی پیروی (۱۸: ۲۸) ۲۸ ۱۸
۱۹ حد سے نکل جانا (۱۰: ۷۴) ۷۴ ۱۰
۲۰ باطل کی محبت (۰۲: ۹۳) ۹۳ ۲
۲۱ دشمنی، کینہ (۵۹: ۱۰) ۱۰ ۵۹
۲۲ لعنت، دوری از رحمت (۰۵: ۱۳) ۱۳ ۵
۲۳ دل کا بہرا پن (۰۷: ۱۰۰) ۱۰۰ ۷
۲۴ شک، تردُّد، شش و پنج (۰۹: ۴۵) ۴۵ ۹
۲۵ نفاق، منافقت (۰۹: ۷۷) ۷۷ ۹
۲۶ نجاستِ قلبی (۰۹: ۱۲۵) ۱۲۵ ۹
۲۷ حق سے دل کا پھر جانا (۰۹: ۱۲۷) ۱۲۷ ۹
۲۸ دل کی شدت (۱۰: ۸۸) ۸۸ ۱۰
۲۹ انکار (۱۶: ۲۲) ۲۲ ۱۶

 

۵۹

 

 

نمبر شمار قلبی بیماری آیت سورت
۳۰ تکبر (۱۵: ۲۲) ۲۲ ۱۶
۳۱ دل کا لہو و لعب (۲۱: ۰۳) ۳ ۲۱
۳۲ غمرت (سختی) غفلت (۲۳: ۶۳) ۶۳ ۲۳
۳۳ دلی عداوت (۴۷: ۲۹) ۲۹ ۴۷
۳۴ حمیتِ جاہلیہ، کافرانہ عار (۴۸: ۲۶) ۲۶ ۴۸
۳۵ قلبی پراگندگی، انتشار (۵۹: ۱۴) ۱۴ ۵۹
۳۶ دل پر زنگ لگنا، دل کا چرکین ہو جانا (۸۳: ۱۴) ۱۴ ۸۳
۳۷ وسوسہ، برے خیالات (۱۱۴: ۰۵) ۵ ۱۱۴
۳۸ فتنۂ شیطان، یا آزمائش (۲۲: ۵۳) ۵۳ ۲۲
۳۹ سرکشی، نافرمانی (۰۶: ۱۱۰) ۱۱۰ ۶
۴۰ آیات سے لطف نہ اٹھا سکنا (۰۶: ۱۱۰) ۱۱۰ ۶

حاشیہ: مذکورۂ بالا اور دوسری تمام باطنی بیماریاں جو شدید اور لاعلاج ہیں، وہ دراصل دائرۂ اسلام سے باہر موجود ہیں، اور قطعی ثبوت کے طور پر اکثر حوالے بھی انہی سے متعلق دیئے گئے ہیں، لیکن اگر ہم مسلمانوں میں خفیف اور قابلِ علاج بیماریاں بھی نہ ہوتیں، تو نہ فرمایا جاتا کہ قرآن ذریعۂ علاج ہے، اس مفہوم کے لئے دیکھئے: ۰۹: ۱۴، ۱۰: ۵۷، ۱۷: ۸۲، ۴۱: ۴۴، (سورہ:آیہ)۔

۲۹ جنوری ۱۹۸۶ء

۶۰

 

آیاتِ شفاء

۱۔ “قرآنی علاج” کے اس موضوع کا بنیادی تعلق اُن آیاتِ کریمہ سے ہے، جن میں نمایان طور پر “شفاء” کا ذکر فرمایا گیا ہے، اگرچہ لفظی اعتبار سے آیاتِ شفاء چھ ہیں: ۰۹: ۱۴، ۲۶: ۸۰، ۱۰: ۵۷، ۱۶: ۶۹، ۱۷: ۸۲، ۴۱: ۴۴، لیکن معنوی لحاظ سے دیکھا جائے، تو کوئی آیت اس موضوع سے الگ نہیں، جبکہ قرآنِ کریم کے اسماء میں سے ایک اسم “شفاء” ہے، اور جبکہ قرآنی موضوعات ایک دوسرے میں داخل و شامل ہیں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس آخری کتابِ حکیم میں ایک ہی حقیقت کی طرح طرح سے مثالیں بیان کی گئی ہیں، یہ قرآنِ پاک کا وہ اصول ہے، جس کے تحت آیات و امثلہ کی تصریف (پھیرنا) ہوتی ہے: ۰۶: ۶۵، ۰۷: ۵۸، ۱۷: ۸۹، ۱۸: ۵۴۔

۲۔ قرآنی علم و حکمت اُس چشمۂ بہشت کی طرح معجزاتی اور ہمہ رس ہے، جس کو اہلِ جنت جہاں چاہیں بہا کر لے جا سکتے ہیں (۷۶: ۰۶) چنانچہ آپ مضامینِ قرآن میں سے جس مضمون کو زیرِ بحث لائیں، اُسی پر ہر آیت روشنی ڈالے گی، یہ بے مثال خوبی صرف قرآنِ مقدس ہی کی ہے، پس

 

۶۱

 

یہاں ہم کسی جھجک کے بغیر یہ کہہ سکتے ہیں کہ رحمانی طب یا شفاء کا موضوع اتنا وسیع ہے، جتنا کہ خود قرآن ہے۔

۳۔ لفظِ “شفاء” سب سے پہلے سورۂ توبہ کے ایک ایسے حکم (۰۹: ۱۴) میں ملتا ہے جو جہاد سے متعلق ہے، جس کا واضح مفہوم یہ بتاتا ہے کہ فریضۂ جہاد میں مومنین کے صدور (قلوب) کے لئے شفاء ہے، کیونکہ جہاد کا عزمِ صمیم، جو ملک و ملت کی خیر خواہی میں ہو، مردِ مومن کو خود غرضی اور نفس پرستی کی بیماریوں سے نجات دلاتا ہے، اور آپ جانتے ہوں گے کہ جہاد کی کئی قسمیں ہیں، مثال کے طور پر ہر وہ عظیم خدمت، جو قوم اور اسلام کے لئے ضروری ہو، ایک جہاد ہے، پس ایسی اہم خدمات انجام دینے والے مومنین خدا تعالیٰ کی نظر میں نہ صرف مجاہدین ہیں بلکہ زندہ شہداء بھی ہیں (۵۷: ۱۹)۔

۴۔ سورۂ یونس (۱۰: ۵۷) میں شفاء سے متعلق ارشاد اس طرح ہے (ترجمہ): لوگو تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت (یعنی کتاب) آچکی ہے اور جو (برے کاموں کے امراض) دل میں ہیں اُن کی شفاء (دوا) اور ایمانداروں کے لئے ہدایت اور رحمت (۱۰: ۵۷) یعنی قرآنِ حکیم سر تا سر ابتداءً نصیحت کی دوا ہے، پھر ہدایت کی، اور آخر میں رحمت کی دوا ہے، تاکہ لوگ بتدریج قلبی صحت کے درجۂ کمال کی طرف آگے بڑھ سکیں، اور صحت مند دلوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب و حضور میں جو جو پاک اور اعلیٰ نعمتیں ہیں، وہ حاصل ہوں (۲۶: ۸۹)۔

۶۲

۵۔ سورۂ نحل (۱۶: ۶۹) میں قرآنِ کریم باطنی طب کے علاوہ ظاہری طب پر بھی روشنی ڈال رہا ہے، بلکہ اس ارشاد میں روح اور جسم دونوں کے لئے ایک ایسا ادویاتی (Medicinal) خزانہ ہے، کہ اس کی برکتیں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں، وہ قرآنی علم و حکمت کا شہد بھی ہے، اور ظاہری شہد بھی، جس میں اہلِ دانش کو غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، تاکہ اس کے ہر پہلو کو چشمِ بصیرت سے دیکھا جائے، کہ شہد خالقِ کائنات کے عجائب و غرائب میں سے ہے، سب سے پہلے نظامِ قدرت نے عناصرِ اربعہ کو باہم ملا کر نچوڑا، جس کا ست یا جوہر نباتات (جھاڑ، درخت وغیرہ) کی صورت میں ظاہر ہوا، پھر اس جوہر سے دوسرا جوہر نکالا گیا، وہ پھول اور پھل ہے، پھر شہد کی مکھی سے فرمایا گیا کہ اب تو تیسرا جوہر نکال، وہ رس ہے، پھر دستِ قدرت نے اسے چوتھا جوہر بنایا، جو شہد ہے، اور پھر اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک خصوصی شفاء رکھ دی، اب اگر کوئی مسلمان اسی قرآنی حوالے سے شہد کو بطورِ دوا و غذا استعمال کرتا ہے، اور دل و جان سے رحمانی طب پر یقین رکھتا ہے، تو اس کے لئے ظاہراً و باطناً بہت سے فائدے حاصل ہوں گے۔

۶۔ سورۂ بنی اسرائیل (۱۷: ۸۲) میں قرآنِ پاک کو سراسر دوا اور شفاء قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ اُس ارشادِ مبارک کا ترجمہ ہے: اور ہم تو قرآن میں وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے (سراسر) شفاء اور رحمت ہے (مگر) نافرمانوں کو تو گھاٹے کے سوا کچھ بڑھاتا ہی نہیں (۱۷: ۸۲) اسی

 

۶۳

 

آیۂ شفاء کے مطابق قرآنِ مجید کا ایک نام “شفاء” مقرر ہوا، اس کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ جلّ شانہ ربّ بھی ہے، اور بحقیقت روحانی طبیب بھی، جس نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیگر صفاتِ کاملہ کے ساتھ ساتھ طبیبِ روح کی صفت سے بھی آراستہ فرما کر بھیجا، قرآنِ حکیم کو ایک انتہائی عظیم شفا خانہ( Hospital) بنایا، اور رسول کے نمائندوں کو بھی یہ طبابت سکھائی گئی، تاکہ وہ اس دار الشفاء میں کام کریں، یقیناً قرآنی شفاء کا مقصد اسی طرح پورا ہو سکتا ہے۔

۷۔ سورۂ شعراء (۲۶: ۸۰) میں لفظِ شفاء حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ (۲۶: ۸۰) اور جب بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھے شفا عنایت فرماتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ خدائے دو جہان کو جسم و جان کا حقیقی طبیب مانتے ہیں، اور اسی کو جملہ اسباب (ذرائع اور وسائل) کا مسبب و کارساز تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ اگرچہ دوا کسی شک کے بغیر ایک سبب ہے، اور ڈاکٹر بھی ایک سبب ہے، لیکن ہر سبب کا پیدا کرنے والا خدا ہی ہے، جس نے صرف موت کو چھوڑ کر باقی ہر بیماری کے لئے دوا نازل فرمائی، یعنی ہر دوا کی روح خزانۂ خداوندی سے آتی ہے، اور روح نہ صرف متحرک ہے، بلکہ وہ ساکن اور جامد بھی ہے، پہاڑ کے سینے میں جواہر اور معدنیات کی متحرک ارواح داخل ہو کر جمود اختیار کر لیتی ہیں، تاکہ اس سکون اور ٹھہراؤ کی وجہ سے ذرۂ روح پتھر کی ایک چھوٹی سی مقدار کو یاقوت یا

 

۶۴

 

زمرد وغیرہ بنا سکے، غرض یہ کہ ہر چیز میں اور ہر دوا میں روح پوشیدہ ہوتی ہے، اور قانونِ فطرت کے مطابق کام کرتی ہے۔

۸۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام جیسے عظیم المرتبت پیغمبر اور خدا کے خاص دوست روحانی مریض ہو سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں، پھر کیا وہ جسمانی بیمار ہو سکتے ہیں؟ کیوں؟ جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے آپ خود طبیب تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح مومن کی بیماری اور کافر کی بیماری میں بڑا فرق ہے، وہ یہ کہ مومن کی ہر ہر مشقت اور بیماری عبادت میں شمار ہو سکتی ہے، مگر کافر کو یہ سعادت حاصل نہیں ہو سکتی، اسی طرح ایک پیغمبر کی جسمانی بیماری اور ان کی امت کی جسمانی بیماری میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے، کیونکہ ہر بڑے نبی کی زندگی میں سب کے لئے عملی ہدایت کے بہت سے نمونے ہوا کرتے ہیں، اور ان میں سے ایک نمونہ یا مثال بیماری بھی ہے، لیکن مؤمنین میں عام طور پر یہ بات نہیں ہو سکتی، اور نہ کوئی مؤمن سوائے اولیاء کے لوگوں کا مرکزِ توجہ ہو سکتا ہے۔

۹۔ سورۂ حٰم ٓ سجدہ (۴۱: ۴۴) میں شفاء کا ذکر اس طرح فرمایا گیا ہے (ترجمہ): (اے رسول) تم کہہ دو کہ ایمانداروں کے لئے تو یہ (قرآن از سر تا پا) ہدایت اور (ہر مرض کی) شفاء ہے، اور جو لوگ ایمان نہیں رکھتے، ان کے کانوں (کے حق) میں گرانی (بہرا پن)، اور وہ (قرآن) ان کے حق میں نابینائی ہے، تو وہ لوگ بڑی دور کی جگہ سے پکارے جاتے ہیں

 

۶۵

 

(۴۱: ۴۴) اس میں بڑی عجیب حکمت ہے کہ یہی قرآن ہے، جس کی وجہ سے ایک طرف اہلِ ایمان ہر بیماری سے شفا یاب ہو جاتے ہیں، اور دوسری طرف منکرین نظریاتی، روحانی، اور عقلی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جیسے چشمِ بینا کے لئے سورج روشنی کا باعث ہے، مگر ایک چندھا آدمی کے حق میں یہی آفتاب اذیت ناک ہوتا ہے، نیز قرآنی علم و حکمت کی تشبیہ و تمثیل ایسی مقوی، عمدہ، اور پُر لذّت غذاؤں سے دی جا سکتی ہے، جن کو تندرست انسان مزہ لے لے کر کھاتا ہے، لیکن پیٹ کا دائمی مریض نہیں کھا سکتا، اور اگر کھائے تو اس کی بیماری بڑھ جاتی ہے۔

۱۰۔ اس کتاب کے پڑھنے والوں میں سے کسی کے دل میں یہ سوال بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ: بیشک قرآنِ مجید میں اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی شفاء تو ضرور موجود ہے، لیکن اللہ کی اس کتاب میں بدنی صحت و سلامتی کی ضمانت کس طرح ہو سکتی ہے؟ سو جواباً میری گزارش یہ ہو گی کہ قرآنِ حکیم مسلمانوں کو جن پُرحکمت اقوال و اعمال کا حکم دیتا ہے، ان میں ظاہری و باطنی ہر قسم کی صحت و شفاء کی ضمانت ہے، مثال کے طور پر قرآن نے ان تمام چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، جو کسی بھی پہلو سے صحت کے لئے مضر ہوں، اس کے برعکس قرآن میں ہر ایسی چیز حلال ہے، جس سے تندرستی قائم رہتی ہو، اور حلال کے دائرے میں بھی حدِ اعتدال کے اندر رہنے کی تاکید ہے، تاکہ کسی بھی حلال چیز کے زیادہ کھانے سے صحت پر برا اثر نہ پڑے، اور علم و عبادت

 

۶۶

 

جیسے نیک کاموں میں خلل نہ آئے۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم کا ارشاد ہے: اور جو لوگ کافر ہیں وہ عیش کر رہے ہیں اور اس طرح کھاتے ہیں جس طرح چوپائے کھاتے ہیں (۴۷: ۱۲) یہ آسمانی تعلیم غور و فکر کی متقاضی ہے، تاکہ اہلِ دانش اپنے قریب کے حیوانوں کو دیکھیں، اور ان کی عادتوں کا تجزیہ کریں کہ وہ کھانے پینے اور زندگی گزارنے میں کتنے ذلیل اور پست ہیں، اور خود غرضی و پُرخوری (زیادہ کھانا) میں کس حد تک آگے بڑھے ہوئے ہیں، یہ مثال صرف اس لئے ہے کہ انسان اس سے اپنے لئے مفید نتائج اخذ کرے، اور فعلاً مرتبۂ انسانیّت کی قدر کرتا رہے، تاکہ وہ ہر قسم کی صحت اور دین کی ہر نعمت سے محظوظ ہو سکے، رہی چوپایوں کی بات، وہ تو غلبۂ نفس سے مجبور ہیں، کیونکہ ان میں عقل نہیں، لہٰذا ہم ان کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔

۱۲۔ انسان اپنی اصلی فطرت میں نہ تو فرشتہ ہے اور نہ حیوان، بلکہ وہ ان دونوں کے درمیان پیدا کیا گیا ہے، اور یہی اس کا سب سے بڑا مسئلہ و امتحان ہے کہ دونوں سے اس کا رشتہ قائم ہے، کیونکہ اس کا نفس عالمِ حیوان سے ہے، اور عقل عالمِ ملکوت سے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عقل و نفس کی اس کشاکش میں انسان کس کی مخالفت کرتا ہے اور کس کی حمایت کرتا ہے، اگر وہ عالمِ شخصی (Personal World) میں عقل کی سلطنت بناتا ہے تو عجب نہیں

 

۶۷

 

کہ وہ فرشتہ بن جائے، اور ظاہر ہے کہ اس کے برعکس نفس کی پیروی کرنے سے وہ حیوان بن جائے گا، اس کے باوجود کہ وہ بیرونی طور پر انسان نظر آتا ہے، یہ قرآنی تشخیص کی ایک وضاحت ہے، جو بیمار انسانیت سے متعلق ہے، آپ سورۂ اعراف (۰۷: ۱۷۹) اور سورۂ فرقان (۲۵: ۴۳ تا ۴۴) میں دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے دل مریض ہیں، جو اس معیار کے مطابق نہیں سمجھتے ہیں، جس کو خدا اور اس کے برحق رسول نے مقرر فرمایا ہے، ایسی آنکھوں میں بیماری ہے، جو منشائے دین کے موافق نہیں دیکھ سکتیں، اور ایسے کانوں میں روگ ہے جو حق کو نہیں سن سکتے، پس ایسے لوگ چوپایوں سے زیادہ بے راہ ہیں، اور ان جیسی نصیحتوں کی صورت میں قرآنِ حکیم پرہیز کو انتہائی بڑی اہمیت دیتے ہوئے دوا اور علاج پر مقدم رکھتا ہے۔

منگل ۲۳ جمادی الاول ۱۴۰۶ھ / ۴ فروری ۱۹۸۶ء

۶۸

 

قرآنی طب اور تقویٰ

۱۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے: بعثت بجوامع الکلم = میں جوامع الکلم کے ساتھ بھیجا گیا ہوں [صحیح بخاری، جلدِ سوم، کتاب الاعتصام، باب ۱۲۰۴] اس ارشادِ نبوّی میں قرآنِ حکیم اور احادیثِ صحیحہ کے ہر کلمے کی انتہائی جامعیّت کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، چنانچہ کلمۂ “تقویٰ” اس سلسلے کا ایک عالی شان نمونہ ہے، جس میں ظاہری اور باطنی ہر قسم کی پرہیز و پرہیز گاری کے تمام معانی جمع ہیں، جیسے نقصان دینے والی چیز سے بچنا، احتراز، اجتناب، علیحدگی، خود داری، شکیبائی، حذر، دوری، پارسائی، اتقا، زُہد، ورع، احتیاط، خوف، اندیشہ، ناجائزاور حرام چیزوں سے دوری، ان جیسے بہت سے مطالب تقویٰ کے معنی میں سمائے ہوئے ہیں، اس تمہید سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ آسمانی (قرآنی) طب تقویٰ کے اصول پر قائم ہے ، بلکہ تقویٰ خود بہت سی بیماریوں کے لئے شفاء ہے۔

۲۔ ایک مشہور مثل ہے: “پرہیز سب سے اچھا نسخہ ہے۔”

 

۶۹

 

یہ نسخہ عصرِ حاضر میں ایک مستقل علم کی صورت میں پہچانا جاتا ہے، وہ علمِ حفظانِ صحت یا حفظِ صحت (Sanitary Science) کہلاتا ہے، جو تندرستی کو برقرار رکھنے اور بیماریوں سے بچنے سے متعلق ہے، چنانچہ قرآنی حفظِ صحت کا علم تقویٰ کے موضوع میں ہے، جس کے زرین اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف عقل و جان کی صحت و سلامتی محفوظ رہتی ہے، بلکہ جسمانی صحت و کامیابی کے تمامتر بھید بھی اسی میں پوشیدہ ہیں۔

۳۔ تقویٰ کا مادّہ و ق ی ہے، جو قرآنِ حکیم میں بصیغہ ہائے مختلف ۲۵۸ بار مذکور ہے، ان میں بعض یہ ہیں: وقانا (اُس نے ہم کو بچایا ،۵۲: ۲۷) و من تق ( اور جس کو بچایا تو نے ،۴۰: ۰۹) قنا (بچا ہم کو ،۰۲: ۲۰۱) قوا (بچاؤ ،۶۶: ۰۶) لعلکم تنقون (تا کہ تم ڈرو /بچو ،۰۲: ۲۱) واقٍ (بچانے والا ،۱۳: ۳۴) تقی (پرہیزگار، متقی ،۱۹: ۱۳) اتقی /اتقا (بڑا پرہیزگار، بڑا ڈرنے والا ،۴۹: ۱۳) تقاۃ (بچنا، ڈرنا ،۰۳: ۲۸) تقویٰ (بچنا، پرہیزگاری ،۰۲: ۱۹۷) متقون، متقین (پرہیزگار لوگ، بچنے والے، ڈرنے والے) غرض یہ کہ تقویٰ اپنے تمام معنوں کے ساتھ ہر درختِ نیکی کی اصل (جڑ) بھی ہے، اور ثمر بھی، اور کوئی عبادت اس کے بغیر مقبول نہیں، اور تقویٰ کی یہ زبردست اہمیت اس لئے ہے، تاکہ انسان ظاہراً و باطناً ہر آفت و مرض سے محفوظ و سلامت رہے۔

۷۰

۴۔ اگرچہ قرآنِ پاک عمومی پہلو سے دنیا کے سب لوگوں کے لئے ہے (۰۷: ۱۵۸) تاہم اس کا خاص تعلق پرہیزگاروں سے ہے (۰۲: ۰۲) اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن اپنے ظہور ہی میں عوام کے لئے کچھ اور ہے اور خواص کے لئے کچھ اور، اور ان دونوں بڑے درجوں کے بہت سے ذیلی و ضمنی درجات ہیں، پس قرآن میں ہر درجہ کے لئے علاج و شفا موجود ہے۔

۵۔ قرآنِ شریف لوگوں کے درجات کا تصور دیتا ہے (۰۳: ۱۶۳) اور اسی سے متعلق مثالیں پیش کرتا ہے (۳۲: ۰۵، ۷۰: ۰۴، ۱۲: ۷۶) اسی طرح تقویٰ کے بھی مدارج ہیں (۴۹: ۱۳) اور یہی تقویٰ اہلِ ایمان کے لئے عزت و بزرگی کا معیار بھی ہے، اگرچہ اسلام میں اور بھی بہت سے فضائل ہیں، لیکن کسوٹی تقویٰ ہی سے بنائی گئی، اور ارشاد ہوا: اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ (۴۹: ۱۳) اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم میں بڑا معزز وہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو۔

۶۔ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے: التقیٰ رئیس الاخلاق = خوفِ خدا (پرہیزگاری) اخلاق کا رئیس ہے (نہج البلاغہ، ترجمۂ علامہ سید شریف، ارشاد: ۴۱۰) اسی کتاب کے ارشاد ۴۳۹ میں زہد (پرہیزگاری) کے بارے میں فرمایا گیا ہے: پورے کا پورا زہد قرآن کے دو کلموں میں منحصر ہے: اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: “تا کہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اُس کا غم نہ کھاؤ، اور جو کچھ خدا نے تمہیں دے دیا

 

۷۱

 

اُس کی خوشی نہ مناؤ۔” اور جس نے گزشتہ کا غم نہ کھایا، اور نہ آئندہ کی خوشی منائی، وہ سمجھ لے کہ اُس نے زہد کو دونوں سروں سے پکڑ لیا۔

۷۔ فرمایا گیا ہے کہ: ہر دل کے دو کان ہوتے ہیں، ایک میں ہدایت کرنے والا فرشتہ بات کہتا ہے، اور دوسرے میں فتنہ پرداز شیطان، یہ حکم دیتا ہے اور وہ منع کرتا ہے، شیطان گناہوں کا حکم دیتا ہے، اور فرشتہ اس سے روکتا ہے (اصولِ کافی، جلدِ دوم، باب ۱۰۹) حقیقت ظاہر ہے کہ جب تک کسی قلب میں آلودگی نہ ہو، تو شیطان اس میں وسوسہ نہیں ڈال سکتا، اور نہ ایسے دل میں فرشتہ کوئی القا کر سکتا ہے، جس میں تقویٰ کی پاکیزگی نہ ہو، اس بیان کا ماحصل یہ ہوا کہ انسان خود ہی اپنے اختیار سے یا تو فرشتہ کو موقع دیتا ہے یا شیطان کو۔

۸۔ فضول خرچی اصولِ تقویٰ کے خلاف ہے، کیونکہ اس میں شیاطین کو شرکت کا موقع مل جاتا ہے، اور اس سے کئی ظاہری و باطنی بیماریاں جنم لیتی ہیں، جیسا کہ خدائے پاک کے ارشاد کا ترجمہ ہے: اور قرابتداروں اور محتاج اور پردیسی کو ان کا حق دے دو اور (خبردار) فضول خرچی مت کرو، کیونکہ فضول خرچی کرنے والے یقیناً شیطانوں کے بھائی ہیں (۱۷: ۲۶ تا ۲۷) یہ ایک بہت برا فعل ہے کہ کوئی شخص ادائے حقوق کے بجائے مال کو بیجا خرچ کرے، اور شیطانوں کی برادری میں داخل ہو جائے، آپ جانتے ہیں کہ شیاطین انسی بھی ہیں، اور جنّی بھی (۰۶: ۱۱۲) تاہم یاد رہے کہ اوّل الذّکر شیاطین زیادہ خطرناک ہوا کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایک ٹھوس طاقت ہیں،

 

۷۲

 

اور دوسرے ان کے سائے۔

۹۔ پرہیزگاری کو قائم رکھنے یا حاصل کرنے کے لئے کھانے پینے میں حدِ اعتدال کے اندر رہنے کی ضرورت ہے، ورنہ پُرخوری سے کئی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں، جیسے مرضِ کثرت الاکل (زیادہ کھانا، Polyphagia) جس سے بعض دوسری بیماریاں جنم لیتی ہیں، لہٰذا قرآنِ حکیم نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا (ترجمہ): اور کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے نکلنے والوں کو دوست نہیں رکھتا (۰۷: ۳۱) اسی طرح حدیثِ شریف میں ہے: انسان نے پیٹ سے زیادہ برا برتن کوئی نہیں بھرا، آدم کے بیٹے کے لئے چند لقمے کافی ہیں، (جس سے زندہ رہ سکے) اور اگر اس سے (زیادہ کھانا) ضروری ہی ہو تو ایک تہائی اس کے کھانے کے لئے، ایک تہائی پانی کے لئے رکھے، اور ایک تہائی سانس کے لئے باقی رکھے، (ترمذی، جلدِ دوم، ابواب الزہد، باب ۱۲۶)۔

۱۰۔ اسلام کی کوئی عبادت طبی حکمت و منفعت سے خالی نہیں، مثال کے لئے روزۂ رمضان کو دیکھئے کہ وہ تزکیۂ قلب اور تحلیلِ نفس کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اور اس کا مقصد پرہیزگاری ہے، تاکہ منزلِ مقصود کی طرف پیش رفت ہو، جیسا کہ ارشادِ خداوندی کا ترجمہ ہے: اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے ) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ

 

۷۳

 

کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ (۰۲: ۱۸۳)۔

 

۱۱۔ دینِ اسلام کے احکام کی تعمیل سے بے شمار مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں، لیکن ہمیشہ سے حکمتِ الٰہی کا قانون یہی رہا ہے کہ آسمانی کتاب صرف مقصدِ اعلیٰ ہی کو بیان کرے، اور ذیلی فوائد و مقاصد کے علم و عرفان میں لوگوں کو آزمایا جائے، تاکہ لوگ ایمان کی پختگی کے ساتھ آیات میں غور و فکر کریں، کیونکہ اس بابرکت اور پُرحکمت محنت و ریاضت کے بغیر عقل کی تعمیر و ترقی نہیں ہو سکتی، جیسا کہ سورۂ بلد (۹۰: ۰۴) میں اس حقیقت کا ذکر فرمایا گیا ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍ (۹۰: ۰۴) تحقیق ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے۔ اس آیۂ حکمت آگین میں دراصل علمی و عرفانی مشقت کا تذکرہ ہے، کیونکہ اسی میں انسانی کمال پوشیدہ ہے۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم متعدد آیات میں ظاہری اور باطنی صفائی و پاکیزگی کی طرف توجہ دلاتا ہے، بلکہ اس پر زور دیتا ہے، اور اس کو عبادت کا درجہ عطا کرتا ہے، کیونکہ جسم و جان کی صحت کے لئے یہ انتہائی ضروری امر ہے کہ ہر متعلقہ چیز صاف و پاک ہو، جیسا کہ سورۂ بقرہ کے ایک ارشاد (۰۲: ۲۲۲) میں فرمایا گیا ہے (ترجمہ): یقیناً اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے (۰۲: ۲۲۲) خدا جن نیک بندوں سے محبت کرتا ہے، وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں، اور جن خوبیوں کی بدولت ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا ہو، وہ انتہائی

 

۷۴

 

بلندی کی نیکیاں ہوا کرتی ہیں۔

۱۳۔ پرہیزگاری سفرِ آخرت کے لئے بہترین زادِ راہ [توشہ] ہے (۰۲: ۱۹۷) تقویٰ ایک ایسا لباس سے جو بچاؤ کے لحاظ سے بھی اور زینت کے اعتبار سے بھی سب سے عمدہ ہے (۰۷: ۲۶) تقویٰ انسانی عفو اور عدل سے بھی بڑھ کر ہے (۰۲: ۲۳۷، ۰۵: ۰۸) جس کے دل میں تقویٰ ہو، وہی شعائر اللہ (خدا کی نشانیاں) کی تعظیم کرتا ہے (۲۲: ۳۲) کسی بھی قربانی کی کوئی چیز خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتی ہے، مگر تقویٰ (۲۲: ۳۷) اصل تقویٰ امتحان کے بعد مومنین کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے (۴۹: ۰۳)۔

۱۴۔ لفظِ “سکینۃ” قرآنِ پاک کے چھ مقامات پر موجود ہے: ۰۲: ۲۴۸، ۴۸: ۰۴، ۴۸: ۱۸، ۰۹: ۲۶، ۰۹: ۴۰، ۴۸: ۲۶، اس سے روحانیّت مراد ہے، جس میں تسکینِ قلب ہے، اور یہ بات خوب یاد رہے کہ اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم میں سے بعض حضرات پر خدا اور اس کے برحق رسول کے روحانی معجزات گزرتے تھے، چنانچہ “کلمۂ تقویٰ” اسی سلسلے کا ایک روحانی معجزہ ہے (۴۸: ۲۶) جیسا کہ قرآنی ارشاد کا ترجمہ ہے: پس خدا نے اپنے رسول اور مومنین (کے دلوں) پر اپنی طرف سے تسکین (یعنی روحانیّت) نازل فرمائی اور ان میں کلمۂ تقویٰ چسپان کر دیا اور یہ لوگ اسی کے سزاوار اور اہل بھی تھے (۴۸: ۲۶) یہ تقویٰ کا درجۂ کمال ہے کہ ان عظیم المرتبت اصحاب کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کا بزرگ اسم خود بخود بولتا رہتا تھا، اور ساتھ ہی ساتھ حضرتِ عزرائیل ان کی ارواح کو بار بار اوپر کی طرف کھینچتے ہوئے

 

۷۵

 

عملِ تطہیر و تزکیہ کرتے تھے، اور یہی نفسانی موت ہے، جو خدا کے خاص دوستوں کو جسمانی موت سے پہلے ہی دی جاتی ہے، ان بزرگوں کے دل میں پہلے ہی سے بامقصد موت کی شدید تمنا تھی، لہٰذا انہوں نے ایسی موت کا شعوری طور پر مشاہدہ کیا (۰۳: ۱۴۳)۔

۱۵۔ زمانۂ نبوّت کی روشنی میں دیکھنے سے دین کے بنیادی حقائق روشن ہو جاتے ہیں، چنانچہ قرآنِ پاک میں ہے کہ بوقتِ ضرورت خدا کے حکم سے فرشتے دورانِ جہاد لشکرِ اسلام کی بھرپور مدد کرتے تھے (۰۳: ۱۲۴ تا ۱۲۵، ۰۸: ۰۹) اور قانونِ رحمت کا تقاضا یہی ہے کہ جہادِ اکبر میں بھی یہ مدد شاملِ حال ہو، کیونکہ جو حکم (فیصلہ) اجتماعی حیثیت کے حق میں فرمایا گیا ہو، اس کا اطلاق ایک فرد پر بھی ہوتا ہے، جبکہ فرشتے مومنین کے دوست ہیں (۴۱: ۲۹ تا ۳۰) جبکہ فریاد، نالش، اور دہائی ہر وقت ہو سکتی ہے (۰۸: ۰۹) اور جبکہ تائیدِ الٰہی ہمیشہ ممکن ہے (۵۸: ۲۲) پس آپ یہ سمجھ لیں کہ دیگر فرشتوں کے ساتھ عزرائیل علیہ السّلام بھی مومنین کے دوست ہیں، اور وہ جس طرح موت کا فرشتہ ہیں، اسی طرح تقویٰ کا بھی فرشتہ ہیں، کیونکہ وہ ہر بندۂ مومن سے نیکی اور کثرتِ ذکر یا گریہ و زاری کے نتیجے میں کئی قسم کے جراثیم کو کھینچ نکالتے ہیں۔

۱۱ فروری ۱۹۸۶ء

۷۶

 

قرآنی طب اور آواز

۱۔ آواز کی اصل و اساس کیا ہے؟ یہ کس طرح پیدا ہو جاتی ہے؟ اس کی مختصر تعریف کیا ہے؟ آیا پانی میں غوطہ لگانے کی حالت میں آواز سنائی دیتی ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ ظاہر ہے کہ مادیّت میں آواز کی لہریں یا تو ہوا سے پھیل جاتی ہیں یا برقی طاقت سے، لیکن آپ یہ بتائیں کہ دل و دماغ کا حکم ہاتھ یا پاؤں کس طرح سنتا ہے، جبکہ فرمانے پر یہ پکڑتا ہے اور وہ چلتا ہے؟ کیا آدمی کے اندر بھی کوئی برقی نظام ہے یا روح خود برق کی طرح کام کرتی ہے؟ نیز آپ یہ بتائیں کہ انسان اپنے ضمیر کی آواز یا حدیثِ نفسی کس طرح سنتا ہے؟ یہاں یہ بھی ایک ضروری سوال ہے کہ آیا فرشتہ، جنّ اور شیطان کی آواز کا تعلق آدمی کے ظاہری کان سے ہے یا باطنی کان سے؟ یا دونوں سے؟ یہاں یہ سوالات کسی سے بحث کرنے کی غرض سے نہیں ہیں، بلکہ اس طریقِ گفتگو کا مقصد صرف یہی ہے کہ آپ آواز کی اہمیت و کیفیت کی طرف بھرپور توجہ دیں۔

۷۷

۲۔ آواز ظاہراً و باطناً ایک کائنات ہے، مگر موجودات و مخلوقات سے الگ نہیں، وہ سب سے پہلے بھی اور سب سے آخر میں بھی کلمۂ “کن” ہے، وہ بصورتِ نغماتِ بہشت ایک بے حد شیرین نعمت ہے، وہ کتبِ سماوی کی روح میں خدا کا کلام اور فرشتوں کا پیغام ہے، انبیاء و رسل علیہم السّلام کی نبوّت و رسالت بھی ایک مقدّس آواز تھی، بندگانِ حق پرست کی بندگی، اور عاشقانِ الٰہی کی گریہ و زاری بھی آواز ہی ہے، مگر بڑی بابرکت آواز، آپ خود بھی ذرا غور کریں کہ دنیائے آواز کہاں سے کہاں تک پھیلی ہوئی ہے، اور اس میں رحمت و علم کے کیا کیا خزانے ہیں، تاکہ نتیجے کے طور پر قرآنی طب میں آواز کی اہمیت کا پتہ چلے۔

۳۔ آپ جانتے ہیں کہ جسمانی دوا عام طور پر کھلائی جاتی ہے، مگر یاد رہے کہ روحانی دوا کھلائی نہیں جاتی، بلکہ سنائی جاتی ہے، کیونکہ روحِ حیوانی کی غذا و دوا کا راستہ حلق ہے، اس کے برعکس روحِ انسانی اور عقل کی اغذیہ و ادویہ کی راہ کان ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص جسمانی طور پر شروع ہی سے بہرا ہو، تو وہ بہرا ہونے کے سبب سے گونگا اور بے عقل رہتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بتوسطِ آواز روحِ ناطقہ کان سے داخل نہ ہو سکی، اس سے آواز یعنی علمی گفتگو اورقوّتِ سماعت دونوں کی اہمیت ظاہر ہو جاتی ہے۔

۴۔ روحانی غذا اور دوا کی سبیل کان ہے، لہٰذا آسمانی طبیب نے ارشاد فرمایا (ترجمہ): اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان

 

۷۸

 

لگایا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو (۰۷: ۲۰۴) ظاہر ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ پُرحکمت حکم ہر زمانہ اور ہر ملک کے مسلمانوں کے حق میں یکسان ہے، جن میں قرآن کی زبان کو سمجھنے والے بھی ہو سکتے ہیں، اور نہ سمجھنے والے بھی، کیونکہ قرآن کی مبارک آواز میں ہر درجہ کے مسلمانوں کے لئے غذائے روح اور دوائے باطن موجود ہے، جبکہ یہ تمام اہلِ ایمان کے حق میں وسیلۂ شفاء ہے (۱۷: ۸۲) اور جبکہ یہ نصیحت کے معنی میں بھی اور یادِ الٰہی کے معنی میں بھی “ذکر” کہلاتا ہے (۱۶: ۴۴) پس اگر کوئی مسلمان براہِ راست آوازِ قرآن کی نصیحتوں کو نہیں بھی سمجھتا ہو، تو وہ ضرور اس روح پرور ذکر سے اپنی غفلتوں کا مداوا کرتا ہے، اور کثرتِ ذکر ہی سے تمام بیماریاں اور کمزوریاں دور ہو جاتی ہیں (۶۲: ۱۰)۔

۵۔ قرآنِ پاک کا ایک حکمت آگین لفظ صیحہ (الصیحۃ) ہے، جو قرآن کے تیرہ مقامات پر مذکور ہے، جس کے معنی ہیں چنگھاڑ، چیخ، سخت یا بلند آواز، نعرہ، اور یہ صورِ اسرافیل سے متعلق ہے، چنانچہ قرآن میں ہے کہ اسی سخت آواز سے بہت سے سرکش ونافرمان لوگوں کو ہلاک کیا گیا ہے (۲۹: ۴۰) جب صورِ اسرافیل کی آواز کی طاقت کا یہ عالم ہے، تو کلامِ الٰہی یعنی قرآن کی آواز بندۂ مومن کے ان تمام جراثیم کو کیوں نہ مارے، جو شیطان سے آتے ہیں، اس دلیل سے قرآنی علاج کی حقیقت آفتابِ عالمتاب کی طرح روشن ہو جاتی ہے۔

۷۹

۶۔ صورِ اسرافیل کی آواز ایسی ہیبت ناک ہے کہ اس کے سننے سے آسمان و زمین میں رہنے والے سب ڈر جاتے ہیں، مگر خدا جس کو چاہے، وہ اس سے محفوظ رہے گا (۲۷: ۸۷) اس سے سماء و ارض والے بے ہوش ہو جاتے ہیں، اس سے پھر ہوش میں آتے ہیں (۳۹: ۶۸) اس کا معجزہ یہ ہے کہ اس کے سننے سے قبروں کے مردے زندہ ہو کر اپنے ربّ کی طرف دوڑنے لگتے ہیں (۳۶: ۵۱) اس کی زبردست آواز کے زیرِ اثر لوگ خدا کے حضور میں جمع ہو جاتے ہیں (۷۸: ۱۸) صورِ اسرافیل کی یہ انتہائی پُراثر اور معجزاتی آواز، جو نہ صرف مہلک ہے بلکہ حیات بخش بھی ہے، آخر کس کی طرف سے ہے؟ اللہ کی طرف سے ہے، پس آپ یقین کریں کہ دراصل آوازِ قرآن میں بھی ایسے معجزات پوشیدہ ہیں، جیسا کہ فرمایا گیا (ترجمہ): اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر (بھی) نازل کرتے تو تم اس (پہاڑ) کو دیکھتے کہ خدا کے ڈر سے جھکا اور پھٹا جاتا ہے (۵۹: ۲۱) یہ قرآن کی مخفی طاقت کی ایک مثال ہے۔

۷۔ طبیبِ حاذق کی ہر مؤثر دوا مریض کے جسم میں پہنچتے ہی اپنا بھرپور اثر دکھانے لگتی ہے، جس سے یہ سمجھنا چاہئے کہ دوائی سارے بدن میں پھیل کر بیماری کو مار رہی ہے، جیسا کہ طبیبِ روحانی دوائے قرآن کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے (ترجمہ): اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام (یعنی قرآن) نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ باہم ملتی جلتی ہے بار بار دہرائی گئی ہے جس سے اُن لوگوں کے جو اپنے ربّ

 

۸۰

 

سے ڈرتے ہیں بدن کانپ اٹھتے ہیں، پھر ان کے بدن اور دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں (۳۹: ۲۳) اس ربّانی تعلیم کی وضاحت یہ ہے کہ انسانی جسم میں ۵۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ [پانچ سنکھ] سے زیادہ خلّیات (Cells) ہوتے ہیں، جو زندہ ہیں، اور مرتے بھی ہیں، اور ہر خلیہ سے بے شمار روحیں وابستہ ہیں، چنانچہ آوازِ قرآن یا ذکرِ الٰہی سے جس طرح خوفِ خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، یا اُن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بدن کا ہر ہر خلیہ اور اس کی روحیں خوابِ غفلت سے بیدار ہو جاتی ہیں، اور جسم کا ذرّہ ذرّہ، جو زندہ ہے، یادِ الٰہی کے زیرِ اثر خوف و اشتیاق سے لرز اٹھتا ہے، اس بیان سے یہ معلوم ہوا کہ آیۂ کریمہ (یعنی ۳۹: ۲۳) میں جِلد (جسم) سے زندہ خلّیات مراد ہیں، اور خلّیات ہی کے معنی میں قلب کے ساتھ بدن بھی ذکرِ خدا میں مصروف ہو سکتا ہے۔

۸۔ ہمارے اجسام اربوں کھربوں انتہائی چھوٹے چھوٹے زندہ خلّیات سے بنائے گئے ہیں، خلیوں ہی سے ہماری جلد، ہڈیاں، عضلات، اور دوسرے تمام اعضاء بن جاتے ہیں، ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں، اس میں یہ تمام چھوٹے چھوٹے خلّیات، جو شکل اور جسامت میں مختلف ہیں، ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں، اور وہ سب آپس میں مل کر کام کرتے ہیں (برٹش میوزیم ، نیچرل ہسٹری) اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانی بدن کا کوئی حصہ ایسا نہیں، جو خلّیات سے پُر نہ ہو،

 

۸۱

 

خواہ وہ ہڈی کیوں نہ ہو، چنانچہ جب بندۂ مومن قرآنِ پاک پڑھتا ہے، یا کسی اور سے سنتا ہے، تو اس کی آواز دل میں اترتی ہے، اور وہاں سے اس کی گونج (Echo) سارے جسم کے خلیوں میں سنائی دیتی ہے، اب ہم اس مادّی اور روحانی سائنس کی روشنی میں یہ عرض کریں گے کہ انسان کی کوئی بیماری خواہ جسمانی ہو یا روحانی، آوازِ قرآن یا ذکر و عبادت کی گرفت و گیرائی سے نہیں بچ سکتی ہے، لیکن اس کی شرط پرہیزگاری ہے۔

۹۔ اب اگر ہم یہ کہیں کہ ہر بیماری کی ایک زندہ روح ہوا کرتی ہے، تو غلط نہ ہوگا، جبکہ انسانی جسم بے شمار زندہ خلّیات اور ان کی لاتعداد ارواح کا مجموعہ ہے، اور بدن کا کوئی ذرّہ روح سے خالی نہیں، اور یہی بیماری کی روحیں سائنس کی زبان میں جراثیم کہلاتی ہیں، جس کا صیغۂ واحد جرثومہ (Bacterium) ہے، جس طرح ایک حدیث میں بخار کی روح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اے بخار! اگر اللہ پر تیرا ایمان ہے تو نہ گوشت کھا اور نہ خون پی اور منہ کی جانب شعلہ زن نہ ہو، بلکہ تو اس شخص میں منتقل ہو جا جو خدائے واحد کے ساتھ ایک دوسرے خدا کا عقیدہ رکھتا ہے (دعائم الاسلام، جلدِ دوم، کتاب الطب، فصل ۳) اگر کسی شخص کو اس حقیقت پر یقین نہ ہو، تو وہ اس کا مشاہدہ اور تجربہ نہیں کر سکے گا۔

۱۰۔ اب مادّی سائنس کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے زیادہ سے

 

۸۲

 

زیادہ روحانی یعنی قرآنی سائنس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر آپ دیکھتے ہیں کہ آج کل ہر اہم واقعے کو فلما کر محفوظ کر لیا جاتا ہے، تاکہ بوقتِ ضرورت کسی کمی بیشی کے بغیر دور نما (ٹی وی) پر دکھایا جائے، چنانچہ میرا یہ عقیدہ قرآن ہی کی روشنی میں ہے کہ نامۂ اعمال نہ صرف ہر فرد کا ہوتا ہے، بلکہ ہر قوم اور ہر امت کا بھی ہوتا ہے، دیکھئے سورۂ جاثیہ، آیہ ۲۸ (یعنی ۴۵: ۲۸) پس شروع سے لے کر آخر تک امتوں کے اعمال نامے اور نازل شدہ آسمانی کتابیں عکسِ روحانیّت اور کتابِ منشور (۱۷: ۱۳) کی صورت میں محفوظ ہیں، مثال کے طور پر توراۃ کس طرح نازل ہوئی تھی، اس کی نزولی کیفیات کیا کیا تھیں، اور حضرتِ موسیٰؑ کی امت نے اپنی قومی زندگی کے سلسلے میں اس سماوی ضابطۂ حیات پر کس طرح عمل کیا، یہ سب کچھ یہودیوں کے اجتماعی نامۂ اعمال میں درج اور مکمل ریکارڈ ہے۔

۱۱۔ اب قرآنِ پاک کے بارے میں عرض ہے کہ یہ وہ کامل و مکمل اور انتہائی پُرحکمت کتاب ہے، جو حضرتِ خاتم، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوئی ہے، لہٰذا خداوندِ تعالیٰ کی یہ آخری کتاب اپنی روح و روحانیّت میں نہ صرف مسلم امت کا اعمال نامہ ہے، بلکہ یہ سابقہ امتوں کے تمام انفرادی اور اجتماعی اعمال ناموں پر بھی محیط ہے، کیونکہ یہ اپنے نور میں لوحِ محفوظ کی ایک مکمل کاپی (Copy) ہے، جو بالکل اصل ہی کی طرح ہے، جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ كُلَّ

 

۸۳

 

شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ كِتٰبًا (۷۸: ۲۹) اور ہم نے ہر چیز کو ایک کتاب میں گھیر کر رکھا ہے (۷۸: ۲۹) اب اس میں ذرا سوچ کر آپ ہی بتائیں کہ ایسی کتاب سے کیا چیز باہر ہو سکتی ہے، جو لوحِ محفوظ کا زندہ و گویندہ نورانی عکس ہے، جس میں اوّلین و آخرین کے تمام نامہ ہائے اعمال جمع ہیں، جس کو مرنے سے قبل مر کر دیکھو تو خود بولتی ہے (۲۳: ۶۳، ۴۵: ۲۹) جو ظاہراً و باطناً محفوظ قرآن ہے (۱۵: ۰۹) جس کی آواز اور تعلیمات لوگوں کے تمام درجات پر محیط ہیں، سو قرآنِ مقدّس کی آواز کو ہر شخص اپنی عقیدت، محبت اور رسائی کے مطابق سنتا ہے، اور اس سلسلے میں خدا کے وہ دوست بہت آگے ہیں، جو جیتے جی نفس سے مر چکے ہیں (۵۷: ۱۹)۔

۱۲۔ ہمیں خوب سوچنا چاہئے کہ انسان میں حواسِ ظاہر کے ساتھ حواسِ باطن کیوں ہیں؟ آخر ان کا کوئی مقصد ہو گا، اور وہ البتہ یہی ہے کہ ان کے ذریعہ اسلام کی روح و روشنی کا احساس و ادراک ہو، جس کے لئے جملہ ہدایت اور طریقِ علاج قرآن میں موجود ہے، جیسا کہ ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): (اے رسول) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نمازیں پڑھا کرو اور قرآنِ فجر بھی (یعنی نمازِ صبح اور قرآن خوانی) کیونکہ صبح کی قرآن خوانی سے (روح و روحانیّت کا) مشاہدہ ہو جاتا ہے (۷۸: ۱۷) مشہود کے جتنے دوسرے معنی کئے گئے ہیں، وہ سب اس مطلب میں شامل ہیں۔

نوٹ: اس مضمون کے شروع میں جو سوالات کئے گئے

 

۸۴

 

ہیں، ان کے جوابات ان شاء اللہ کسی مضمون میں یا الگ دئے جائیں گے۔

۷ جمادی الثانی ۱۴۰۶ھ / ۱۷ فروری ۱۹۸۶ء

۸۵

 

خواب کے اشارات

۱۔ روحانی علاج کے سلسلے میں خواب (Dream) کی اہمیت و افادیّت بے حد عجیب و غریب ہے، یعنی انسان نیند کے عالم میں جو خواب دیکھتا ہے، اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے علم و آگہی اور روح و روحانیّت کے لاتعداد اشارات کام کرتے ہیں، اور اسی ضمن میں یہ عقل و روح کا بڑا مفصل و مشرح ایکس ریز (X-Rays) بھی ہے، جو قانونِ قدرت کے تحت خود بخود تیار ہو کر آدمی کے سامنے آتا ہے، تاکہ ہر ہوشمند اور حقیقت پسند انسان، جس کو ترقی عزیز ہو اپنے متعلق خوب اندازہ کر سکے کہ وہ عقلی اور روحانی طور پر کس حد تک بیمار یا صحت مند ہے، تاکہ وہ اس صورتِ حال کے مطابق مرض کا علاج کرے، اور صحت کو قائم رکھے، ایکس ریز (X-Rays) کے معنی ہیں: لا شعاعیں، یعنی نامعلوم شعاعیں، چنانچہ عالمِ خواب بھی ایک ایسے نور کے زیرِ اثر کام کرتا

 

۸۶

 

ہے، جو خود نظر نہیں آتا۔

۲۔ اگرچہ عصرِ حاضر کے سائنسدانوں نے بیماریوں کی تحقیقات کی غرض سے ایکس ریز سے بڑھ کر جدید آلات و ذرائع بنا لئے ہیں، جن کی مدد سے بہت سی بیماریوں کا حال بآسانی معلوم ہو جاتا ہے، جیسے بصری خردبین (Optical Microscope) تپش نگاری (Thermography) برقیائی خردبین (Electron Microscopy) درون بینی (Endoscopy) وغیرہ، اور مستقبل میں بھی کئی اور آلے ایجاد کریں گے، جن سے امراض کو دیکھنے میں بڑی حد تک مدد ملے گی، لیکن پھر بھی روحانی سائنس کا یہ آلۂ واحد (خواب) جس طرح ہمیشہ سے معجزاتی کام کرتا ہے، اس میں یقیناً بے مثال و بے نظیر ہے، بشرطیکہ کوئی شخص اس کے مقاصد کو بجا طور پر سمجھے، اور اشارہ شناس ہو۔

۳۔ سورۂ روم کے ایک ارشاد (۳۰: ۲۳) کی یہ تفسیر ہو سکتی ہے: اور خدا تعالیٰ کی آیات یعنی نشانیوں یا معجزات میں سے ایک ایسا عظیم معجزہ جس میں بے حساب عجائب و غرائب سمیٹے ہوئے ہیں، تمہارا خواب ہے رات میں اور دن میں اور جسم و جان کے لئے اسی کی روزی تلاش کرنا ہے، یعنی خواب جسمانی آرام کے علاوہ غور و فکر کا مقام بھی ہے، بے شک خواب میں ان لوگوں کے لئے بہت سے معجزات ہیں، جو گوشِ ہوش سے سنتے ہیں، یعنی اس کے اشارے صرف اہلِ دانش ہی جانتے ہیں (۳۰: ۲۳) یہاں کوئی انجان شخص یہ

 

۸۷

 

سوال کر سکتا ہے کہ کسی آدمی کا خوابِ پریشان (یعنی ایسا بکھرا ہوا خواب کہ اس کا کوئی ربط ہی نہ ہو) کس طرح اللہ تعالیٰ کے معجزات میں سے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خواب اگر اچھا نہیں، تو اس کی وجہ آدمی کے قول و فعل میں ہے، لہٰذا یہ عملِ خواب کی تعریف ہے کہ اس نے انسان کے اندرونی انتشار کا ٹھیک ٹھیک ایکسریز (X-Rays) نکال کر سامنے رکھا، تاکہ وہ قرآن اور اسلام کی روشنی میں قولاً و فعلاً منظم ہو جائے ، اور ہر قسم کے انتشار و پریشانی سے خود کو بچائے۔

۴۔ خواب کے اشاروں کو سمجھنا پروردگارِ عالم کی ہدایت و تائید کے بغیر ممکن نہیں، اور اس کی ہدایت صراطِ مستقیم پر واقع ہوتی رہی ہے، اور راہِ مستقیم انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین اور بندگانِ مطیع کے لئے مقرر ہے (۰۴: ۶۹) اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواب کے اشارات کو سب سے پہلے اور سب سے اعلیٰ درجے پر انبیاء علیہم السّلام جانتے ہیں، پھر علی الترتیب وہ حضرات، جن کا یہاں ذکر ہوا ہے، آئیے ہم سورۂ صافات (۳۷) میں دیکھتے ہیں، جس کی ایک آیۂ کریمہ کی طبی تفسیر یہ ہے کہ: ابراہیم ایک صحت مند دل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے مرتبۂ قربِ خاص پر فائز ہو گئے تھے (۳۷: ۸۴) یہ توحید شناسی کا اصل مقام تھا، چنانچہ جب آپ نے ایک دفعہ خواب میں یا خیال میں ستاروں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ میں بیمار ہوں (۳۷: ۸۸ تا ۸۹) کیونکہ ان کا معیارِ روحانیّت ستارہ، چاند اور سورج کے مشاہدے سے بالاتر تھا

 

۸۸

 

(۰۶: ۷۵ تا ۷۹) اگرچہ عام خواب اور اس کی بشارت کے پیشِ نظر آسمان تو آسمان ہی ہے (جس کی چیزوں کو دیکھنے میں یقیناً روحانی ترقی کی خوشخبری ہے) زمین کی بعض چیزوں میں بھی کامیابی کے اشارے پنہان ہیں، مثال کے طور پر خواب میں پہاڑ دیکھنا، باغ و گلشن دیکھنا، صاف پانی دیکھنا، اسلام اور ایمان کی کوئی چیز دیکھنا اور اس سے اپنے آپ کو وابستہ پانا وغیرہ۔

۵۔ انبیائے کرام اور اولیائے عظام کا عالمِ خواب دراصل عوام النّاس کے عالمِ خواب سے مختلف ہوا کرتا ہے، کیونکہ وہ اولیائی خواب ہے، جو روحانیّت سے ملا ہوا ہے، وہ شعور کے اعتبار سے بیداری کی طرح ہے، لیکن اس میں احساس و ادراک کی توجہ عالمِ روحانیّت کی طرف رہتی ہے، یہی سبب ہے کہ حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام اپنے اُس خواب کے حکم پر بلا تأمل عمل کرنے لگے، جس میں آپ سے فرمایا گیا تھا کہ اپنے عزیز فرزند کی قربانی کرو (۳۷: ۱۰۲)۔
قاموس القرآن ، صفحہ ۵۵۶ پر درج ہے: سچا خواب بحکمِ حدیث نبوّت کا چھیالیسواں جزو ہے۔ (بخاری) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آن حضور علیہ الصلوٰۃ و السّلام نے فرمایا: لم یبق من النبوۃ الا المبشرات، قالوا و ما المبشرات؟ قال الرویا الصالحہ ۔ یعنی آنحضرت نے فرمایا کہ نبوّت تو مجھ پر ختم ہو چکی ہے، اب دنیا میں صرف ایک حصّہ یعنی مبشرات باقی رہ گئے ہیں، صحابۂ کرام نے عرض کیا

 

۸۹

 

مبشرات کیا ہیں؟ فرمایا: عمدہ خواب (یعنی نورانی خواب)۔

۶۔ مذکورہ حدیث سے یہ حقیقت روشن ہو جاتی ہے کہ اولیائے خدا اپنے سچے خوابوں میں نورِ نبوّت کے انتہائی قریب ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ روحانیّت کی صورت میں نکلتا ہے، ان کے بعد تمام مومنین میں خواب کی دو صورتوں کا امکان نظر آتا ہے، وہ یہ کہ کبھی تو کسی مسرّت بخش واقعے کی زبانی بشارت دی جاتی ہے، اور کبھی کسی ذریعے سے ڈرایا جاتا ہے، تاکہ ہر شخص اپنی روح کی صحت و بیماری کا بخوبی اندازہ کر سکے، اور ہر حال میں ذکرِ الٰہی کی دوا سے بیش از بیش کام لیا جائے۔

۷۔ سورۂ زمر کے ایک پُرحکمت ارشاد (۳۹: ۴۲) سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ نفسانی موت، جسمانی موت، اور نیند یہ تینوں چیزیں کئی معنوں میں ایک جیسی ہیں، کیونکہ تینوں حالات میں روح قبض کی جاتی ہے، تاہم روحانیّت میں یا جسمانیّت میں مر جانے کے بعد ہر شخص کو اس کے اعمال سے متعلق ایک مکمل کتاب دی جاتی ہے، اور جو لوگ زندہ ہیں، ان میں سے ہر فرد کو ہر روز اس کے نامۂ اعمال کا ایک جزو بطورِ نمونہ و مثال دیا جاتا ہے، یہ جزوِ کتاب خواب ہے، تاکہ وہ ضرور باالضرور بروقت اس میں اصلاح کر کے بہتر بنائے، تاکہ فردائے قیامت اسے یہ افسوس نہ ہو کہ اس نے اپنی بیماریوں کا علاج کیوں نہیں کیا، جبکہ اس نے اپنے باطن کے بنیادی امراض کو دیکھ لیا تھا۔

۹۰

۸۔ سورۂ قیامت (۷۵: ۱۴) میں ارشاد فرمایا گیا ہے: بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰى نَفْسِهٖ بَصِیْرَةٌ (۷۵: ۱۴) بلکہ انسان خود اپنی حالت پر خوب مطلع ہے، اس آیۂ کریمہ میں جیسے لفظِ “بصیرۃ” آیا ہے، وہ متعلقہ حکمت کی کلید ہے، جس کا حقیقی اطلاق انسانِ کامل پر ہو سکتا ہے، کیونکہ بصیرت دل کی بینائی کا نام ہے، جس سے ایک مکمل روحانیّت مراد ہے، اور یہ آیۂ شریفہ براہِ راست سورۂ یوسف کے اُس ارشاد سے (۱۲: ۱۰۸) مربوط ہے، جس میں لفظِ بصیرت پر روشنی اس طرح ڈالی گئی ہے کہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے استعمال کیا گیا ہے، اور آپ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے بھی، اور عوام کو اس سے جو حصہ ملا ہے، وہ خواب ہے، جس میں آدمی کی نیکی اور بدی کا نتیجہ سامنے آتا ہے۔

۹۔ آدمی درحقیقت آئینۂ خواب میں اپنے آپ کو دیکھتا ہے، لیکن وہ گمان کرتا ہے کہ کوئی اور ہے، کیونکہ خواب ایک طرح کا نامۂ اعمال ہے، جس کے مرقومات دنیا کی تحریروں سے قطعاً مختلف ہیں، جبکہ اس میں ہر قول و فعل کو اشاراتی یا تمثیلی شکل کا لباس پہنایا گیا ہے، اور ظاہر ہے کہ کتابِ اعمال، جو اشارہ و مثال کی زبان سے بولتی ہے، وہ ہر شخص کی اپنی ہی ہوتی ہے، اور اس میں دوسرے کسی کا دخل نہیں ہوتا، قادرِ مطلق کی شانِ قدرت دیکھئے کہ اس نے اشرفِ مخلوقات یعنی انسان کو کتنی عظیم اور کیسی عجیب و غریب روح عنایت کر دی ہے! کہ وہ دنیائے

 

۹۱

 

لطیف یا عالمِ مثال ہے، اس میں بے شمار صلاحیتیں پوشیدہ ہیں، اس میں خدا کا ہر خزانہ اور ہر درد کی دوا موجود ہے، اس سلسلے میں یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ اگر وجودِ انسانی کا صوفیانہ مطالعہ گہرائی سے کیا جائے تو وہ ایک کائنات ہے، اور اگر اسی نظر سے کائنات کو دیکھا جائے تو وہ ایک لطیف انسان کی شکل میں سامنے آتی ہے، جبکہ جسدِ کوکبی (Astral Body) کائنات کی تمام لطافتوں کا مجموعہ ہے، جبکہ سب کی سب بیرونی اقدار (Values) انسان میں جمع ہیں، اور جبکہ انسان وہاں، جہاں وہ کامل و مکمل ہے، خلیفۂ خدا ہو سکتا ہے۔

۱۰۔ کسی متّقی مسلمان کے خواب اچھے یعنی نورانی ہو سکتے ہیں، کسی غافل کے خواب برے یا ظلمانی ہو سکتے ہیں، اور کسی متوّسط شخص کے خواب دونوں قسم کے ہو سکتے ہیں، لہٰذا آپ ذاتی تعصب سے بالاتر ہو کر تنقیدی نظر سے اپنے خوابوں کا جائزہ لیں، اور باطنی بیماریوں کا علاج کرکے اپنے احوال کی اصلاح کریں، مومنین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ کتنا عظیم احسان ہے کہ اُس حکیمِ مطلق نے بکیفیتِ خواب ایک زندہ تصویری اور اشاراتی کتاب بنائی، جو ہر وقت حجاب میں رہتی ہے، اور ہر فرد کو اس کی بیماری اور کمزوری سے پردے ہی میں آگاہ کرتی رہتی ہے، اور جب تک آدمی خود اپنے خواب کو ظاہر نہ کرے، کوئی نہیں جانتا کہ اس کا خواب اچھا تھا یا برا، جس طرح قرآن کا قانون ہے کہ عام اصلاحی نصیحت اجتماعی انداز میں کی جائے، تا کہ یہ طریقِ کار

 

۹۲

 

پردے کا کام دے، اور ہر شخص دل ہی دل میں اپنی بیماری کو سمجھ سکے۔

۱۱۔ قرآنِ حکیم کے علمی عجائب و غرائب کے اندازے ہی سے انسان کی ناچار عقل دنگ رہ جاتی ہے، چنانچہ قرآنِ پاک میں جہاں دوسرے بہت سے علوم ہیں، وہاں علمِ تعبیر بھی ہے، مثال کے طور پر کسی شخص کا خواب میں عمدہ اور پاکیزہ لباس میں ملبوس ہونا تقویٰ کو ظاہر کرتا ہے (۰۷: ۲۶)، جبکہ میلے کچیلے یا پھٹے پرانے کپڑے پہننا، یا ننگا رہ جانا تقویٰ کے برعکس جانے کا اشارہ ہے (۰۷: ۲۷) آلودگی دیکھنا بت پرستی کی نشانی ہے (۲۲: ۳۰) ستارہ، چاند، اور سورج دیکھنا منزلِ توحید کی طرف جانے کی دلیل ہے (۰۶: ۷۶ تا ۷۹) باغ و گلشن دیکھنا علم اور روحانی ترقی کی علامت ہے (۲۷: ۶۰) جواہر یا سکّے دیکھنا علم و حکمت کی گرانقدر باتوں کی طرف اشارہ ہے (۱۵: ۲۱، ۱۸: ۱۹)۔

۱۲۔ جاننا چاہئے کہ چیزیں دو قسم کی ہوا کرتی ہیں: ذہنی، اور خارجی، چنانچہ جو چیز ذہنی ہوتی ہے، اس کی اپنی کوئی معیّن شکل نہیں ہوتی، اور نہ ہی اس کا جسم ہوتا ہے، جیسے کینہ، نیند، طمع، علم، حلم، غصّہ وغیرہ، اور جو چیز خارجی ہے، اس کی اپنی ایک خاص شکل ہوتی ہے اور جسم بھی ہوتا ہے، جیسے سانپ، خرگوش، بطخ، پانی، اونٹ، کتا، وغیرہ، پس اگر کسی شخص میں کینہ ہے، تو یہ اس کے خواب میں سانپ بن کر سامنے آئے گا، کیونکہ کینے کی خارجی شکل سانپ ہے،

 

۹۳

 

اسی طرح نیند کا مظہر خرگوش ہے، طمع کا بطخ یا چیونٹی، علم کی بیرونی شکل پانی، حلم یعنی حلیمی کی مثال اونٹ ہے، اور غصّہ یا مردم آزاری کا مجسم کتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگرچہ ذہنی چیزیں جسم و شکل کے بغیر ہیں، تاہم خارجی چیزیں ان کے لئے مظاہر کا کام دیتی رہتی ہیں، تاکہ قانونِ قدرت ہر آدمی کے خواب میں اشاراتی زبان سے یہ بتا سکے کہ تم میں یہ بیماری ہے، یا یہ کامیابی ہے۔

۱۴ جمادی الثانی ۱۴۰۶ھ / ۲۴ فروری ۱۹۸۶ء

۹۴

ذکرِ خدا ۔ اکسیرِ اعظم

۱۔ اللہ تعالیٰ کی بابرکت و پُرحکمت یاد گویا روحانیّت کی کیمسٹری (Chemistry) ہے، یعنی علمِ کیمیا، یا اکسیر (رساین ودیا) جس میں قدیم روایتی معنی بھی ہیں، جیسے دھات سے سونا یا چاندی بنانا، اور جدید عملی سائنس کی مصنوعات بھی، جن کا تعلق کیمسٹری سے ہو، اور اکسیر ایسی سریع التاثیر اور شافی دوا کو بھی کہتے ہیں، جو ہر مرض کو دفع کرے، اور جس کے کھانے سے آدمی کبھی بیمار نہ ہو، یقیناً ذکرِ الٰہی میں یہ دونوں معنی بدرجۂ کمال موجود ہیں، کہ اس نے بہت سارے انسانوں کو خاکِ ذلت سے اٹھا کر عقل و دانش کی بلندیوں میں گوہرِ گرانمایہ بنا دیا ہے، اور جس شخص نے اس کو دنیا کی تمام چیزوں میں سے درمانِ جان کے طور پر منتخب کر لیا، تو وہ ہر قسم کی باطنی اور روحانی بیماری سے محفوظ و سلامت رہتا ہے۔

۲۔ جس طرح علمِ کیمیا (Chemistry) کے ذریعے مختلف اشیاء کے مرکبات سے نئی چیز کا وجود عمل میں لایا جاتا ہے، اسی طرح ذکر و

 

۹۵

 

عبادت اور علم و عمل کے وسیلے سے ایک ہوشمند صوفی اپنے عالمِ شخصی (Personal World) میں ہر خوابیدہ صلاحیت کو بیدار کرکے انقلاب لاتا ہے، جس کو لمحہ بہ لمحہ حرکت دینے والی اصل طاقت یادِ خدا ہے، جس کی وجہ (جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے) یہ ہے کہ ہر دل کے دو کان ہوا کرتے ہیں، ایک طرف ایک فرشتہ کچھ کہتا ہے، اور دوسری طرف ایک شیطان وسوسہ ڈالتا ہے، لیکن جب ذکرِ الٰہی کی کثرت سے فرشتے کو مسلسل بولنے کا موقع فراہم ہوا، اور اس سے جیسے شیطان مایوس ہوگیا، تو نتیجے کے طور پر مردِ صوفی کو اپنے آپ پر ایک دائمی فتح حاصل ہونے لگتی ہے، چونکہ فرشتہ توفیقاتِ الٰہی کا خزینۂ بے پایان ہوا کرتا ہے، لہٰذا ذکر جس قدر بھی کثیر و طویل ہو، فرشتے کی فیض رسانی بھی اتنی زیادہ مفید ہوتی جاتی ہے۔

۳۔ آواز کی بلندی و پستی کے بہت سے درجات ہیں، کیونکہ وہ جہر سے زیادہ جہر بھی ہے، اور خفی سے زیادہ خفی بھی (۲۰: ۰۷) چنانچہ کسی بھی درجے میں ذکر و بندگی، اور علم و حکمت کی آواز، اور رشتۂ مجسم (۰۶: ۰۹) یا فرشتۂ مجرّد کی آواز قلبِ انسانی کے لئے دوا، شفاء اور صحت ہے، اس کے برخلاف شیطان خواہ انسی ہو یا جنّی (۰۶: ۱۱۲) اس کی آواز قلبِ بنی آدم کے لئے بیماری ہے، اس لئے ہر دانشمند مسلمان اپنے دل کو ذکرِ الٰہی کی گونج میں مستغرق رکھتا ہے، جس کی بدولت ایک

 

۹۶

 

طرف شیطانی وسوسے کا سدِ باب ہو جاتا ہے، اور دوسری جانب فرشتہ (ان شاء اللہ) اُس کے قلب میں کوئی نورانی بات ڈالتا ہے، جسے القاء کہا جاتا ہے، اور الہام (۹۱: ۰۸) یا توفیق و تائید (۵۸: ۲۲) بھی اسی طرح ہوتی ہے، مگر اس کی شرط تقویٰ ہے، جیسا کہ ہونا چاہئے۔

۴۔ چونکہ ذکرِ الٰہی زائد عبادات (نوافل) میں سے ہے، اس لئے یہ امر ازحد ضروری ہے کہ یہاں اس قسم کی عبادت کا مقصدِ اعلیٰ بیان کیا جائے، تاکہ وہ حضرات، جو یادِ خدا کی لازوال دولت چاہتے ہیں، اس کے مبارک و مقدّس نتائج و ثمرات کے بارے میں یقین کریں، چنانچہ صحیحِ بخاری، جلدِ سوم، کتابِ رقاق، باب ۸۴۴، حدیث ۱۴۲۲ کا ترجمہ ہے:
“اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ دیکھتا ہے، اور اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں، جس سے وہ چلتا ہے۔” اللہ تبارک و تعالیٰ کی یہ عادت و سنت ہمیشہ سے قائم ہے، اور اس سعادتِ عظمیٰ کا عملی نمونہ حضراتِ انبیاء و اولیاء ہیں، اور یہ دعوتِ عمل ہر فردِ مسلم کے لئے ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ حدیثِ شریف آیۂ نور (۲۴: ۳۵) کی ایک

 

۹۷

 

وضاحت ہے کہ خدا کا نور وہ ہے، جس کی روشنی کے بے پناہ سمندر میں آسمان و زمین اور ان کی تمام چیزیں ڈوبی ہوئی ہیں، چنانچہ جب کوئی ذاکر و سالک قدم بقدم اور منزل بمنزل قربِ خاص کی طرف آگے بڑھ جاتا ہے، تو نورِ ہدایت اُس پر طلوع ہو جاتا ہے، جس سے اُس کے حواسِ ظاہر و باطن منوّر ہوکر غیر معمولی طور پر (Extra Ordinary) کام کرنے لگتے ہیں، پس ایسے خوش نصیب حضرات یقیناً خدا کے دوستوں میں شامل ہو جاتے ہیں، اور یہ سب کچھ یادِ الٰہی کی اکسیرِ اعظم کی بدولت حاصل ہو جاتا ہے۔

۵۔ آپ قرآنِ مجید کے پُرحکمت موضوعات میں سے “برکت” کے موضوع کا بصد شوق مطالعہ کریں، جو صرف ۳۲ آیاتِ کریمہ پر مشتمل ہے، اس میں روحانی برکتوں کو سمجھنے کے لئے مادّی برکات کے ذرائع پر خوب غور کرنا ہوگا، مثال کے طور پر پہاڑ (۴۱: ۱۰) اور بارش کے پانی (۵۰: ۰۹) کو دیکھئے کہ یہ قرآن کے نزدیک مادّی اعتبار سے مبارک یعنی برکت دیئے گئے ہیں، جن کی برکتوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہتا ہے، اسی طرح بابرکت روحانی چیزوں میں سے تین کا یہاں مختصر ذکر کیا جاتا ہے، جو قرآنِ حکیم (۳۸: ۲۹) اللہ تعالیٰ کا اسمِ بزرگ (۵۵: ۷۸) اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذاتِ گرامی ہے (۲۵: ۰۱، ۱۱: ۷۳، ۱۹: ۳۱) اور اس حقیقت میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ حضورِ انورؐ کا انتہائی عظیم مرتبہ کئی معنوں میں لا انتہا فیوض و

 

۹۸

 

برکات کا سرچشمہ ہے، چنانچہ یہ تینوں مبارک و مقدّس چیزیں نہ صرف برکت کے رشتے سے بلکہ اور بھی کئی رشتوں سے آپس میں منسلک و مربوط ہیں، لہٰذا یہ یقین کرنا ہوگا کہ نورِ ذکر کی روشنی میں قرآن و حدیث کے حقائق و معارف نمایان ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں ہر متقی ذاکر کی رہی سہی اور بچی کھچی اخلاقی، نظریاتی، روحانی، اور عقلی بیماریاں ختم ہو سکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں جگہ جگہ ذکرِ الٰہی کا حکم دیا گیا ہے، اور طرح طرح سے اس کی تعریف و توصیف فرمائی گئی ہے، خصوصاً سورۂ رحمان کے آخر (۵۵: ۷۸) میں، جبکہ یہ سورہ عروس القرآن ہے، جو دنیائے قرآن کے حسن و جمال کا یکتا آئینہ ہے، جس کا خلاصہ یہ آیۂ مقدّسہ ہے (ترجمہ): بڑا بابرکت نام ہے آپ کے ربّ کا جو عظمت والا اور احسان والا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارے قرآن میں جتنی نعمتوں کا مفصل بیان ہوا ہے، ان سب کا مجمل تذکرہ سورۂ رحمان میں فرمایا گیا ہے، اور عروس القرآن کی جملہ برکات کا سرچشمہ و مرکز اس کی آخری آیت ہے، جس کا مقصد اللہ تعالیٰ کا اسمِ اکبر ہے، جو یادِ الٰہی کا وسیلہ ہے۔

۶۔ ذکرِ الٰہی ہر چند کہ بظاہر فیضِ عام ہے، تاہم یہ دراصل کچھ نزاکتوں کی وجہ سے خاص ہے، جس کی ایک مثال سورۂ اعراف کی آخری دو آیتوں (۰۷: ۲۰۵ تا ۲۰۶) کے مفہومات میں اس طرح ہے: الف: ربّ کو دل کی گہرائی یعنی روح میں انتہائی عاجزی اور بڑے خوف

 

۹۹

 

سے یاد کرناہے، اگر یہ عاجزی حقیقی ہے، یعنی دبی ہوئی یا سنجیدہ گریہ و زاری کا نتیجہ جیسی ہے، تو یہ روحانیّت کی جراثیم کش (Germicidal) دوا ہے، جس کے استعمال سے تمام باطل خیالات کے جراثیم مر جاتے ہیں، اور خوفِ خدا وہ حفاظتی دوا ہے، جو اپنی تاثیر کی بدولت ایسے جراثیم سے دل کو محفوظ رکھتی ہے۔ ب: اگر یہ ذکر خصوصی اور اخفیٰ (سب سے پوشیدہ) ہے، تو صبح و شام اس کے تلفظ کو جہر کے بغیر ادا کرنا چاہئے، یعنی یہ ذکر خفی سے بھی زیادہ خفی ہو، تاکہ دل کی زبان اس میں ایسی شدید اور مسلسل مصروف ہو کہ شیطانی وسوسہ اس کو نہ چھو سکے۔ ج: ان دو وقتوں کے علاوہ بھی خدا کو یاد کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے، کیونکہ ذکرِ کثیر (۰۳: ۴۱، ۳۳: ۲۱) میں بے شمار فائدے ہیں، اور ان میں سے ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ کثرتِ ذکر سے دل میں رقت، عاجزی، اور خوفِ خدا کی کیفیت پیدا ہو کر قائم رہتی ہے، تا کہ پہلے ہی سے ذکرِ قلبی کے لئے خوب تیاری ہو، ورنہ مشکل ہے۔ د: فرشتے اور خدا کے دوست اس کے مقرّب ہوا کرتے ہیں، وہ ہر وقت اس کی عبادت و بندگی میں مستغرق و محو رہتے ہیں، اور ذرّہ بھر تکبر نہیں کرتے، کیونکہ وہ کثرت سے خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور اس کے لئے انتہائی عاجزی سے سجدہ کرتے ہیں۔

۷۔ دنیا میں بھی، اور دین میں بھی، صرف وہی لوگ کامیاب، سربلند ، اور سرخرو ہوتے ہیں، جو حقیقی معنوں میں عقل و دانش رکھتے ہیں، مگر مرتبۂ

 

۱۰۰

 

عقل جتنا عالیشان ہے، اتنا اس کا حصول مشکل بھی ہے، کیوں نہ ہو، جبکہ عقل تمام چیزوں اور جملہ نعمتوں سے اعلیٰ و افضل، اور سب سے بیش بہا و گرانمایہ ہے، اور عقل ہی کی راحت و جنّت سب سے بڑی بہشت ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم کے مختلف الفاظ میں عقل سے متعلق کئی موضوعات ہیں، اور ان میں سے ایک زبردست دلکش موضوع “اولوا الالباب” (عقل والے) ہے، جو صرف ۱۶ آیاتِ کریمہ پر مشتمل ہے، جس میں آپ کو بڑے ذوق و شوق سے یہ دیکھنا بے حد مفید ہوگا کہ پروردگارِ عالم نے کس شان سے اہلِ عقل کی تعریف و توصیف فرمائی ہیں؟ ان کے کیا کیا اوصاف ہیں؟ ان کا طریقِ کار کیا ہے؟ اور وہ اصل راز یا کلیدی بھید کیا ہے، جس کے مطابق عمل کرنے سے لوگ اہلِ دانش کی صف میں آجاتے ہیں؟ سو آئیے کہ اب ہم اس سلسلے کی دو ایسی نورانی آیتوں کو دیکھتے ہیں، جن میں یہ نسخۂ کیمیا اور یہ راز موجود ہے کہ معمولی دھات سے سونا یا چاندی بنانے کی طرح ہر نیک نیت مسلمان اس قرآنی کیمیا (Chemistry) سے کس طرح اپنے آپ کو بحقیقت زمرۂ اہلِ دانش میں شامل کر سکتا ہے، ان دونوں پُرحکمت آیتوں کا ترجمہ درجِ ذیل ہے:
“بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور یکے بعد دیگرے رات اور دن کے آنے جانے میں نشانیاں ہیں اہلِ عقل کے لئے، جن کی یہ حالت ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی یاد کرتے ہیں کھڑے بھی بیٹھے بھی لیٹے بھی اور آسمانوں اور زمین کے پیدا ہونے میں غور کرتے

 

۱۰۱

 

ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ نے اس کو لایعنی پیدا نہیں کیا ہم آپ کو منزہ سمجھتے ہیں سو ہم کو عذابِ دوزخ سے بچا لیجئے۔” (سورۂ آلِ عمران، آیت: ۱۹۰ تا ۱۹۱) (۰۳: ۱۹۰ تا ۱۹۱) اس سماوی تعلیم میں آپ دیکھتے ہیں کہ عقل و دانش، غور وفکر، اخذِ نتائج، خدا شناسی، آتشِ دوزخ سے نجات، اور حصولِ بہشت، یہ سب کچھ ایسے ذکرِ الٰہی کا ثمرہ ہے، جو مذکورۂ بالا آیۂ مقدّسہ کے مطابق نشست و برخاست کی ہر حالت (Position) میں جاری رہتا ہے، پس یقیناًذکرِ خدا اکسیرِ اعظم ہے۔

۸۔ انسان کے دل کی کیفیت بار بار کیوں دگر گون ہوتی رہتی ہے؟ قلبی بیماریوں پر کیسے قابو (Control) ہو سکتا ہے؟ اس کے لئے (جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے) یہ جاننا نہایت ہی ضروری ہے، کہ قلبِ انسانی کے پاس ایک فرشتہ اور ایک شیطان دو ساتھی مقرر ہیں، چنانچہ ظاہر ہے کہ فرشتے کو ذکرِ الٰہی سے عمل کا موقع ملتا ہے، اور اس کے برعکس شیطان کو غفلت سے، جیسا کہ سورۂ زخرف میں ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): اور جو شخص خدا کی یاد سے اندھا بنتا ہے ہم (گویا خود) اس کے واسطے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہی اس کا (ہر دم کا) ساتھی ہے (۴۳: ۳۶) اس قانونِ خداوندی کا دوسرا رخ (پہلو) یہ ہے کہ یادِ الٰہی کی وجہ سے ایک فرشتہ بھی مقرر ہو جاتا ہے، تا کہ خدائے برحق کے عدل و انصاف کی خوبیوں میں کوئی کمی واقع نہ ہو جائے کہ اُس نے صرف بیماری نازل نہیں کی، بلکہ اس کی دوا بھی نازل فرمائی ہے۔

۱۰۲

۹۔ جب ایک حقیقی صوفی ذکرِ الٰہی کے نتائج و ثمرات کی لازوال و غیر فانی دولت سے مالامال ہو جاتا ہے، اور جسمانی موت سے پہلے ہی نفسانی موت کا مزہ چکھ لیتا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہ وہ مرشدِ کامل میں فنا ہو جاتا ہے، پھر رسول میں ، اور آخر میں فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، تو اس وقت ایسے کامیاب بندۂ مومن کے نامۂ اعمال (زبور = کتاب، مراد ہے: کتابِ اعمال) میں بحروفِ روحانی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ روئے زمین کے وارث خدا کے نیک بندے ہوں گے (۲۱: ۱۰۵)۔

۲۰ جمادی الثانی ۱۴۰۶ھ / ۲ مارچ ۱۹۸۶ء

۱۰۳

 

خوفِ بے جا کا علاج

۱۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے، اصل تقویٰ اور جملہ عبادات کی روح ہے، جس کا ذکر ہو چکا ہے، اور ہر مسلمان کا یہ پُرحکمت خوف رکھنا نہ صرف بجا اور درست ہے، بلکہ انتہائی ضروری بھی ہے، اور اس کے برعکس مخلوق سے ڈرنا “خوفِ بے جا” کہلاتا ہے، یعنی یہ خوف نامناسب ، فضول، اور باطل ہے، جس سے بہت سی ذہنی، نفسیاتی، اور روحانی بیماریاں جنم لیتی ہیں، اور ایسا آدمی مجاہدانہ قسم کے کارناموں کو انجام نہیں دے سکتا، چنانچہ قرآنِ حکیم نے اپنی حکمت آگین تعلیمات میں کسی غیر سے نہیں، بلکہ صرف خدا ہی سے ڈرنے کا حکم دیا ہے (۳۳: ۳۹) تاکہ اہلِ ایمان کے دلوں پر خوفِ خدا کے تسلّط و قبضہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے کا خوف قریب بھی نہ آسکے۔

۲۔ اس موضوع کے سلسلے میں آپ کو یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ بے جا خوف دراصل نفسِ امّارہ (نفسِ حیوانی) اور شیطان کی وجہ

 

۱۰۴

 

سے ہے، تاہم اس کی بنیاد نفس ہی ہے، جیسا کہ قرآنِ حکیم کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگرچہ بظاہر جملہ غلط کاریوں کا ذریعہ شیطان ہے، لیکن انسان کو اپنے دائرۂ اختیار میں جیسے تمام وسائل حاصل ہیں، اس کے سبب سے وہ خود اپنے اعمال کا مسئول ہے، چنانچہ ہر مومنِ صادق کے لئے یہ امر بے حد ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ ایمان کی پختگی، توکّل، عالی ہمتی اور ذکر و عبادت کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی خدمت میں لگے رہے، کیونکہ اس کا ثواب بہت ہی بڑا ہے۔

۳۔ سورۂ یونس کی اس آیۂ مقدّسہ کی روشنی میں بار بار غور کیجئے: اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ  (۱۰: ۶۲) آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ اس آیۂ کریمہ کی حکمت سے زیرِ بحث مضمون کے سمجھنے میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے، وہ اس طرح کہ خدا کے دوست بھی انسان ہی ہیں، مگر قرآنِ حکیم نے انہیں انسانی ترقی کا نمونہ قرار دیتے ہوئے واشگاف الفاظ میں یہ فرمایا کہ ان کو خوفِ بے جا کی بیماری لاحق نہیں ہو سکتی ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ ان کے قلب میں خوفِ خدا اس طرح موجود ہوتا ہے کہ وہاں اس کی اصل علمی صورت ہوتی ہے، کیونکہ خوفِ خدا یا تقویٰ درحقیقت علمی کیفیت میں ہے (۳۵: ۲۸) اس سے ایک طرف تو تقویٰ کے ساتھ ساتھ علم کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، اور دوسری طرف یہ امر ممکن نظر آتا ہے کہ مومنین علم و عمل کے

 

۱۰۵

 

ذریعے رفتہ رفتہ بے جا خوف سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں، کیونکہ اہلِ ایمان اگرچہ سب کے سب اولیاء (یعنی خدا کے خاص دوست ) تو نہیں، لیکن وہ خدا تعالیٰ کے عام دوست ضرور ہیں (۰۵: ۵۵)۔

۴۔ کسی عام جسمانی بیماری کے مقابلے میں سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں بعض افراد ایسے صفائی پسند، کھانے پینے میں محتاط، تندرست و قوّی، اور بہترین قوّتِ مدافعہ کے مالک ہوا کرتے ہیں کہ بسا اوقات مرض ان کو چھو بھی نہیں سکتا ، اس لئے کہ وہ حفظانِ صحت کے ہر اصول پر عمل کرتے ہیں، دوسرے لوگ وہ ہیں، جو ایک بار بیماری میں مبتلا ہو جانے کے بعد علاج و معالجہ سے اس کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور لوگوں کا تیسرا گروہ ایسا ہے کہ اس کے افراد و اشخاص بہ آسانی علیل ہو کر عرصۂ دراز تک صحت یاب نہیں ہو سکتے، یہی حال خوفِ بے جا کی بیماری کا بھی ہے، یعنی خوفِ باطل کے مقابلے میں لوگوں کے تین گروہ ہیں: الف: خدا کے اولیاء۔ ب: عالی ہمت مومنین۔ ج: کمزور مومنین۔

۵۔ جسمانی بیماریوں کا علاج عام طور پر دو طریقوں سے کیا جاتا ہے، پہلا: علاج بالضد، ایلو پیتھی (Allopathy) کہلاتا ہے، اور دوسرا: علاج بالمثل، ہومیو پیتھی (Homeopathy) ہے، ان دونوں کے درمیان یہ نمایان فرق ہے کہ طریقۂ اوّل میں مرض کی تاثیر کے برعکس علاج کیا جاتا ہے، اور طریقۂ دوم میں

 

۱۰۶

 

مرض کی تاثیر کے مطابق، اس کی ایک قابلِ فہم مثال ایسی ہے، جیسے کوئی دھوپ میں کام کرنے والا آدمی بار بار ٹھنڈا پانی پیتا ہو، یا اس میں نہاتا ہو، تاکہ گرمی کی تکلیف جاتی رہے، یہ “علاج بالضد” کی مثال ہے، اب اگر یہی شخص گرمی کی تکلیف کو گرمی ہی سے دور کرتا ہو، جیسے گرم چائے، وغیرہ پینا، یا کوئی موٹا کپڑا پہننا، یا چلنا پھرنا، تاکہ پسینہ کے ساتھ دھوپ کی گرمی نکل جائے، تو یہ “علاج بالمثل” کی مثال ہے، اسی طرح خوفِ بے جا کا چارہ یا تو ذکرِ الٰہی سے کیا جاتا ہے یا خوفِ خدا سے، کہ پہلا: علاج بالضد ہے، اور دوسرا : علاج بالمثل۔

۶۔ اگر آپ خوف کے بارے میں بنیاد اور گہرائی سے جاننے کے خواہشمند ہیں، تو دیکھئے کہ یہ موالیدِ ثلاثہ (جمادات، نباتات، حیوانات) میں سے صرف حیوان میں پایا جاتا ہے، حیوان دو قسم کے ہیں: حیوانِ صامت، اور حیوانِ ناطق، یعنی ایسی زندہ مخلوق جو خاموش ہے بول نہیں سکتی، جیسے چرند، پرند وغیرہ، اور ایسی زندہ مخلوق جو بولنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ انسان ہے، چنانچہ حیوانِ صامت میں خوف کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ یہ اس کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے، لیکن وجودِ انسانی میں آکر حیوانی خوف کو بشری اور ملکی (فرشتگانہ) خوف میں تحلیل و فنا ہو جانا چاہئے، کیونکہ پہلے میں علم و حکمت نہیں، دوسرے میں علم و حکمت ہے۔

۷۔ ڈرنے کو تو چوپایہ بھی ڈرتا ہے، اور انسان بھی ڈرتا ہے، لیکن

 

۱۰۷

 

انسان کے پاس جو عقلِ جزوی ہے، وہ خاموش جانور میں نہیں، لہٰذا ان دونوں کے ڈرنے میں بڑا فرق ہے، اب جوں جوں دینی علم کے ذریعے عقل کی ترقی ہوتی جائے گی، توں توں خوف کی نوعیّت بھی بدلتی جائے گی، تا وقتیکہ بشری خوف ملکی خوف میں تحلیل (Dissolve) ہو جائے گا، جیسا کہ قرآنِ حکیم کا اشارہ ہے کہ لوگوں کو خدا سے ڈرنا چاہئے، مگر علم کی روشنی میں، کیونکہ خوفِ خدا کا اصل مقام معرفت کی بلندی پر ہے، یعنی یہ روحانیّت اور خدا شناسی کے امور میں شامل ہے، اس تصوّر سے خوفِ خدا کے ذیلی درجات کی نفی نہیں ہو سکتی ہے، بلکہ اس سے یہ حقیقت روشن تر ہو جاتی ہے کہ خوفِ خدا علم کے ساتھ ساتھ پایہ بپایہ زیادہ سے زیادہ واضح اور بلند ہوتا جاتا ہے، جیسا کہ سورۂ فاطر (۳۵) کے ایک ارشاد (۳۵: ۲۸) سے یہ حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے (ترجمۂ اشرف علی:) (اور ) خدا سے وہی بندے ڈرتے ہیں جو (اس کی عظمت کا) علم رکھتے ہیں۔ (ترجمۂ فرمان علی:) اس کے بندوں میں خدا کا خوف کرنے والے تو بس علماء ہیں۔ یہ بات اہلِ قرآن سب جانتے ہیں کہ علم کے بہت سے درجات ہیں (۱۲: ۷۶)۔

۸۔ حیوانی خوف جو عقل و دانش اور علم و حکمت سے بالکل عاری ہے، وہ اگرچہ نفسِ حیوانی کے ساتھ انسان میں بھی آتا ہے، لیکن یہاں آکر وہ خوفِ بے جا قرار پاتا ہے، کیونکہ یہاں خوفِ خدا کا امکان موجود ہے، جو علمی اور ملکوتی قسم کا ہے، یعنی ایسا اور اس کیفیت کا خوف، جو فرشتوں

 

۱۰۸

 

میں ہوا کرتا ہے (۱۶: ۵۰) جو انبیاء (۳۳: ۳۹) اور اولیاء (۱۰: ۶۲) کے دلوں میں ہوتا ہے، اور جس کی معرفت اہلِ علم کو ہو سکتی ہے، وہی خوف تقویٰ اور مقصودِ قرآن ہے، اور وہی دوا ہے، جس سے خوفِ بے جا کی بیماری زائل ہو جاتی ہے۔

۹۔ جہاں خدا سے ڈرنا ممکن ہو، وہاں غیرِ خدا سے ڈرنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہو سکتا، اگر ہم غیر سے خوف کریں، تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ (نعوذ باللہ) خدا کے اذن کے بغیر ہم پر کوئی مصیبت پڑ سکتی ہے، حالانکہ یہ بات قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے، آپ قرآنِ حکیم میں “اذن اللہ” کے مضمون کو دیکھئے، اور یہاں مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: جب کوئی مصیبت آتی ہے تو خدا کے اذن سے (آتی ہے) اور جو شخص خدا پر ایمان لاتا ہے تو خدا اس کے قلب کی ہدایت کرتا ہے (سورۂ تغابن ،۶۴: ۱۱) اس سے ظاہر ہوا کہ غیرِ خدا سے ڈرنا شرک ہے، پس درجاتِ ایمانی میں ترقی ضروری ہے تاکہ قلبی ہدایت کی روشنی نصیب ہو، اور خوفِ خدا کی روحانیّت کا مشاہدہ ہو سکے۔

۱۰۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ جلّ شانہ سے ڈرنے کے کئی درجات ہیں، اور سب سے اوپر یعنی مقامِ روحانیّت پر خوفِ خدا کے (محیر العقول) معجزات رونما ہو جاتے ہیں، جن کا مجمل بیان قرآنِ پاک میں موجود ہے، جیسے چند خلّیاتی زلزلے (۰۲: ۲۱۴) نیم مردہ یا خوابیدہ خلّیات کا جاگنا (۳۹: ۲۳) دل کے ساتھ ساتھ بدن (خلّیات) کا بھی ذکرِ خدا

 

۱۰۹

 

میں مصروف ہو جانا (۳۹: ۲۳) کلمۂ تقویٰ اور عملِ عزرائیلی (۴۸: ۲۶، ۰۳: ۱۴۳) رویتِ روحِ قرآن (۵۹: ۲۱) یعنی قرآن کی روح و روحانیّت کو دیکھ کر اللہ سے ڈرنا، لشکرِ روحانی کے حملے سے جان بہ لب ہو جانا (۳۳: ۱۰، یہ بھی روحانی موت کا معجزہ ہے ) دل کا معیارِ روحانیّت کے مطابق ڈر جانا (۰۸: ۰۲) وغیرہ، یہ سب خوفِ خدا کے معجزات میں سے ہیں۔

۱۱۔ اس مضمون کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو اس امر کا بطورِ کامل یقین ہوگا کہ خوفِ بے جا ایک آزمائش بھی ہے (۰۲: ۱۵۵) اور ایک روحانی بیماری بھی، جس کا مکمل علاج تین چیزوں سے ہو سکتا ہے، ذکرِ خدا، خوفِ خدا، اور روحانی علم، ذکرِ خدا اس مرض کی دوا اس معنیٰ میں ہو سکتا ہے کہ اس میں معجزاتی طور پر دلوں کو آرام ملتا ہے (۱۳: ۲۸) جبکہ خوفِ بے جا سے دلی آرام چھن جاتا ہے، خوفِ خدا کی برکت سے خوفِ بے جا اس طرح نیست و نابود ہو جاتا ہے کہ جو دل بحقیقت اللہ سے ڈرتا ہو، وہ کسی مخلوق کا خوف و ہراس نہیں رکھتا، نہ اس میں خوفِ خدا کے سوا دوسرے خوف کے لئے جگہ ہوتی ہے، اور علم سے علاج ہونے کی توجیہہ یوں ہے کہ اس کی روشنی میں صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ خوفِ بے جا ایک جہالت کے سوا کچھ بھی نہیں، پس نورِ علم کی ضوفشانی سے جہالت کی یہ ظلمت کافور ہو جاتی ہے۔

۱۲۔ اس سلسلے میں سورۂ آلِ عمران کا یہ ارشاد بھی زیادہ سے زیادہ قابلِ توجہ ہے: (ترجمہ) اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ یہ شیطان ہے

 

۱۱۰

 

کہ اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، سو تم ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرنا اگر تم ایمان والے ہو (۰۳: ۱۷۵) اس تعلیمِ ربّانی میں خوفِ بے جا کی بیماری اور اس کی دوا دونوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ساتھ ہی ساتھ ارشاد ہوا ہے، کہ یہ مرض شیطان سے آتا ہے، اسی شیطان کے توسط سے، جو قلبی کان کے پاس بیٹھا ہے، چنانچہ جاہلانہ خوف کی وجہِ بیماری پوشیدہ نہ رہی، بلکہ ظاہر ہو گئی، اور اس کے ساتھ ساتھ کامیاب طریقِ علاج کا بھی علم ہوا، اب اس پر عمل کر کے کامیابی حاصل کرنے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہو جاتی ہے۔

۱۳۔ انبیائے کرام اور اولیائے عظام بیداری میں بھی اور خواب میں بھی اس طرح نہیں ڈرتے، جس طرح عامۃ الناس ڈرتے ہیں (۱۰: ۶۲) کیونکہ ان میں ہمیشہ خوفِ خدا کا معجزہ کام کرتا ہے، جو دنیاوی خوف سے بہت مختلف اور بے مثال ہے، اور اس بارے میں مومنین کے احوال الگ الگ ہوتے ہیں، یعنی ان کے بہت سے درجات ہوا کرتے ہیں، اور ہر درجہ میں خوف کی ایک جداگانہ کیفیت ہوتی ہے، حضراتِ انبیاء و اولیاء میں عام خوف نہ ہونے کی دوسری وجہ ذکر ہے، اور تیسری وجہ علم۔

۲۷ جمادی الثانی ۱۴۰۶ھ / ۹ مارچ ۱۹۸۶ء

 

۱۱۱

 

 

ایک آسمانی دوا ۔ دعا

۱۔ ایک زبردست مؤثر میڈیسن (Medicine)، نہایت ہی شفا بخش درمان، اور انتہائی کامیاب و مفید دوا، جو آسمانِ رحمت سے نازل کی گئی ہے، جو گرانقدر اور انمول ہے، جو دستیاب تو ہے، مگر پھر بھی ایک معنیٰ میں نایاب ہے، جو عام نظر آتی ہے، لیکن خاص ترین ہے، اور جس کی جتنی بھی تعریف و توصیف کی جائے کم ہے، کیونکہ وہ ہزاروں بیماریوں کی واحد و یکتا دوا ہے، آپ نے عنوانِ بالا سے یہ مطلب سمجھ لیا ہو گا کہ ایسی معجز نما دوا قرآنی دعا ہے، جسے آسمانی طبیب نے زمین کے لاتعداد آہ بھرنے اور کراہنے والے مریضوں اور دردمندوں کی حالتِ زار پر رحم فرماتے ہوئے نازل فرمائی ہے، یہ کیمیا اثر دوا اتنی قدیم ہے، جتنی کہ خود تاریخِ انسانیّت پرانی ہے، لیکن اس کے باوصف بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اگر عصرِ حاضر کے جدید علوم کی روشنی میں اس پر تحقیق (ریسرچ، Research) کی جائے، تو یہ اپنے تمام تر فائدوں کے لحاظ سے جدید ترین بھی ثابت ہو

 

۱۱۲

 

سکتی ہے، اور اس کی کراماتی تاثیر کے نتائج بڑے عجیب و غریب ہو سکتے ہیں، اور آئندہ روحانی دور میں تو بس اسی کی بادشاہی اور کارفرمائی ہوگی۔

۲۔ دعا کی جو اصل معنوی روح قرآنِ پاک میں موجود ہے، اس کو اپنانے کے لئے ان تمام شروط پر سختی اور پابندی سے عمل کرنا بہت ہی ضروری ہے، جو دعا کے عظیم قرآنی موضوع میں مذکور ہیں، جیسے ایمان، پرہیزگاری، نکو کاری، اخلاص، امید و بیم، عاجزی، رجوع، وغیرہ، ان شرائط کی بجا آوری کے بغیر قبولیت کا دروازہ نہیں کھل سکتا، اور نہ ہی روحِ قرآن کے مطابق عمل ہو سکتا ہے، چنانچہ قرآنِ حکیم نے صرف ان شرطوں کا حکم ہی نہیں دیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ کئی دلنشین عملی مثالیں بھی بیان کی گئیں، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالص اعتقاد کر کے اللہ ہی کو پکارنے لگتے ہیں پھر جب ان کو نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو وہ فوراً ہی شرک کرنے لگتے ہیں (۲۹: ۶۵) آپ اس ارشاد کے علاوہ سورۂ یونس (۱۰: ۲۲) اور سورۂ لقمان (۳۱: ۳۲) میں بھی دیکھئے، تاکہ مجموعی مفاہیم سے یہ حقیقت روشن ہو کہ اگرچہ سفرِ کشتی میں خوف و خطر سے دوچار ہونے والے لوگوں کا یہ اخلاص، عاجزی، رجوع، وغیرہ مستقل نہیں عارضی ہے، تاہم یہ کتنی عمدہ بات ہے، کہ اس سے خوفِ خدا اور قبولِ دعا کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے، قلب کی

 

۱۱۳

 

اس مخفی عاجزی کا نام تضرعِ خفیہ (۰۶: ۶۳) ہے، جس میں قلبی گریہ و زاری کے معنی موجود ہیں، اور اس معنیٰ میں اتنی زبردست جامعیّت ہے کہ قبولیتِ ذکرو دعا کی جملہ شرطیں اس میں داخل و شامل ہو جاتی ہیں، آپ تضرع کے مضمون کو سات آیاتِ کریمہ میں دیکھیں (۰۶: ۴۳، ۰۶: ۴۲، ۲۳: ۷۶، ۰۷: ۹۴، ۰۶: ۶۳، ۰۷: ۵۵، ۰۷: ۲۰۵)۔

۳۔ دعا کے سلسلے میں تضرع کرنے یعنی گڑگڑانے یا گریہ و زاری کرنے یا مناجات پڑھنے سے بے شمار روحانی فائدے حاصل ہو جاتے ہیں، چنانچہ اہلِ دانش پر واجب ہے کہ انفرادی طور پر بھی، اور اجتماعی طور پر بھی بار بار تضرع کر کے طرح طرح کی بلاؤں، آفتوں، اور بیماریوں سے اپنے آپ کو خدا کے حضور میں محفوظ و مامون رکھیں، ایسا نہ ہو کہ انسان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ناگہان قانونِ قدرت خود گریہ و زاری کا سامان لے کر آن پہنچے، جیسا کہ سورۂ انعام (۰۶: ۴۲ تا ۴۳) میں فرمایا گیا ہے (ترجمہ): اے رسول تم سے پہلے جو امتیں گزر چکی ہیں ہم ان کے پاس بہتیرے رسول بھیج چکے ہیں، جب انہوں نے نافرمانی کی تو ہم نے سختی اور تکلیف میں مبتلا کر دیا تا کہ وہ ہماری بارگاہ میں گڑگڑائیں، پس جب ان کے سر پر عذاب آ کھڑا ہوا تو وہ کیوں نہیں گڑگڑائے، (تا کہ ہم عذاب کو ہٹا لیتے) مگر ان کے دل تو سخت ہو گئے تھے، جو کچھ بد اعمالیاں کر رہے تھے شیطان نے ان کی نظر میں ان کو زینت دے دی تھی۔ یہ خوب سوچنے کا مقام ہے کہ گریہ و زاری

 

۱۱۴

 

کیوں اتنی ضروری ہے؟ کیا اس سے آدمی کا آئینۂ دل پاک و روشن ہو جاتا ہے؟ آیا ایسے میں ہر نیک دعا بہت جلد قبول ہو جاتی ہے؟

۴۔ جنّ و انس کی تخلیق کا مقصد معبودِ برحق کی عبادت ہے (۵۱: ۵۶) اور بحکمِ حدیثِ شریف عبادت کا مغز دعا ہے، مگر دعا کی اس فضیلت میں بڑی عجیب حکمت پوشیدہ ہے، جبکہ دعا کا مطلب ہے: اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور سے کچھ طلب کرنا، کچھ مانگنا، تو سوال ہے کہ عبادت میں جہاں دوسرے اجزاء بھی ہیں، ان سب کے مقابلے میں جزوِ دعا کی یہ اہمیت کیوں ہے؟ جب کہ اس کے معنی مانگنے کے ہیں؟ جواب عرض ہے: الف: دعا ایک عملی عبادت ہے، جس میں بندۂ مومن انتہائی عاجزی سے اپنی حاجتوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور میں پیش کرتا ہے، اور یہی ایک ایسا موقع ہے جس میں اپنے دل کو قابلِ رحم بنا کر خدائے مہربان کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کر سکتا ہے۔ ب: خداوندِ عالم بے نیاز ہے، اور انسان بے حد محتاج، لہٰذا تمام عبادات کے ثمرات کا حصول دعا سے انسان ہی کو ہو سکتا ہے، جیسے ایاک نعبد کا پھل ایاک نستعین میں مل رہا ہے، اور یہی وہ مثال ہے، جس سے ہم یقین کر سکتے ہیں کہ عبادت کا ایک خاص اجر و صلہ قبولیتِ دعا اور تائید کی صورت میں مل جاتا ہے۔ ج: اگر دعا گریہ و زاری کے عالم میں کی جاتی ہو، تو اس میں بہت سے فیوض و برکات کے حاصل ہونے کا امکان ہے۔

۱۱۵

۵۔ قرآنِ حکیم میں لفظِ “مضطر” بڑا فکر انگیز اور نتیجہ خیز ہے، اس کے معنی ہیں ناچار، بے چارہ، بے اختیار، یا مجبور، اور قرآن کے نزدیک ہر ایسا بندۂ مومن مضطر (بیچارہ) ہے، جس پر کوئی قدرتی آزمائش آتی ہو، تو ایسے میں نفسِ امّارہ کم از کم ہنگامی طور پر مر جاتا ہے، پس یہ روحانی سعادت کا وقت ہے، لہٰذا اس میں ربّ سے رجوع ضروری ہے، جیسا کہ ارشاد ہے (ترجمہ): بھلا وہ کون ہے کہ جب مضطر (بے چارہ) اسے پکارے تو دعا قبول کرتا ہے اورمصیبت کو دور کرتا ہے اور تم لوگوں کو زمین میں (اپنا) نائب بناتا ہے (سورۂ نمل ،۲۷: ۶۲)

۶۔ اگر آپ اس آیۂ کریمہ (۲۷: ۶۲) کے آئینے میں انسانِ کامل یا کسی حقیقی صوفی کو دیکھنا چاہیں تو یہ بھی ممکن ہے، کہ وہ حضرات مضطر یعنی بے چارہ ہیں، جبکہ ان کی مذہبی زندگی ظاہراً و باطناً طرح طرح کی آزمائشوں میں گزرتی ہے، جس میں وہ صاحبان نفسانی طور پر یعنی جیتے جی مرتے ہوئے بھی اور مر کر بھی کامل توجہ اور یکسوئی سے دعا کرتے رہتے ہیں، اور خدائے علیم و حکیم سب سے پہلے ان کی باطنی بیماریوں کو دور کر دیتا ہے، اور ان کو عالمِ شخصی (Personal World) یعنی عالمِ صغیر میں تاجِ خلافت سے سرفراز فرماتا ہے، پس آیۂ مذکورۂ بالا کی صوفیانہ تفسیر یہی ہے۔

۷۔ میں جو بزرگانِ دین کی خاکِ پا سے بھی کمتر ہوں ، دعا کے فضائل جیسا کہ چاہئے بیان نہیں کر سکتا، آپ عبادت و بندگی، اور ذکرِ کثیر

 

۱۱۶

 

سے اپنے آپ کو پگھلا کر براہِ راست قرآنی دعاؤں میں خوب غور کریں، اس جستجو اور غور و فکر کا نتیجہ قرآنِ حکیم کا یہ مفہوم ہو گا: “اللہ تعالیٰ اپنے بندوں (مسلمین و مومنین) کی دعا ہر وقت اور ہمیشہ قبول فرماتا ہے۔” اس قبولیت میں زیادہ سے زیادہ روحانی فائدے کا اشارہ ہے، جسمانی راحت اتنی ضروری نہیں، کیونکہ جسم اس مقصد کے پیشِ نظر بنا ہے کہ وہ طرح طرح شدائد و تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے روح کو فائدہ پہنچائے، دوسرے لفظوں میں یوں کہ بدن کو روحانی ترقی کی خاطر بار بار مصائب و آلام میں مبتلا ہو جانا ہے، تاکہ اس وسیلے سے گریہ و زاری، محویت، اور فنائیت کے عالم میں دعا کی جائے، جس سے باطنی بیماریاں ختم ہو جائیں، اس کے برعکس اگر دعا سے صرف جسمانی بیماری یا کوئی اور مادّی تکلیف دور ہو جاتی، تو پھر روحانی امراض کے لئے جداگانہ دعا کیونکر ممکن ہو سکتی، کیونکہ یہ امر سب سے دشوار ترین ہے کہ ہر شخص کو اس کا ادراک و احساس ہو، اس لئے کہ روح اور عقل کی بیماریاں نظر نہیں آتی ہیں، مگر ہاں، صرف اہلِ بصیرت جانتے ہیں۔

۸۔ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۸۶ (۰۲: ۱۸۶) پیشِ نظر ہو، جس کے مفہومات کی وضاحت یہ ہے: کوئی بندہ اپنی ذاتی کوشش سے نہیں بلکہ وسیلۂ رسول سے قربِ الٰہی کو حاصل کر سکتا ہے، اور ایسے بندوں کی دعا اللہ تعالیٰ کے حضور میں قبول ہو جاتی ہے، وہ اس طرح کہ ہمیشہ باطنی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں، اور کبھی کبھار ظاہری مشکلیں بھی، پس ایسے لوگوں کو

 

۱۱۷

 

چاہئے کہ احکامِ خداوندی پر عمل کرتے ہوئے روح و روحانیّتِ قرآن کو سنیں اور قبول کریں، تاکہ ایمان کے درجۂ کمال پر پہنچ جائیں، تاکہ رشد و ہدایت کی کامل روشنی حاصل ہو، اگر یہ سعادت نصیب ہو جاتی ہے، تو سمجھ لیجئے کہ اب باطنی بیماریاں ختم ہو رہی ہیں۔

۹۔ آپ نباتِ طبی، جڑی بوٹی (Medicinal Herb) کے سلسلے میں ضرور یہ جانتے ہوں گے کہ اس کے مختلف اجزاء سے دوا کا کام لیا جاتا ہے، چنانچہ بعض ایسی نباتات کی جڑیں کام آتی ہیں، اور بعض کے پھول، پھل، بیج وغیرہ، پس اگر قرآنِ حکیم کو بہشتِ برین مانتے ہوئے آیاتِ مقدّسہ کی تشبیہہ و تمثیل روضۂ رضوان کی جڑی بوٹیوں سے دی جائے، تو اس صورت میں بھی ہر آیۂ کریمہ کے ظاہر و باطن میں شفا ہی شفا کا تصوّر ہوگا، خاص کر ان طبی نباتات کی جڑوں اور بیجوں میں زبردست ادویاتی تاثیر ہوگی، جڑ سے معنویت کی گہرائی مراد ہے، اور بیج کا اشارہ خلاصۂ حکمت کی طرف ہے، البتہ یہی وجہ ہے کہ قرآنی فکر کی گہرائی میں اتر جانے کی تاکید فرمائی گئی ہے (۴۷: ۲۴) اور حکمت کو خیرِ کثیر کا درجہ دیا گیا ہے (۰۲: ۲۶۹)۔

۱۰۔ دعا و مناجات ایک ایسی شفا بخش دوا ہے، جو بہشتِ سماوی سے نازل کی گئی ہے، جو بعض دوسری مادّی دواؤں کی طرح تلخ نہیں، بلکہ بے حد شیرین و خوشگوار ہے، جو قوّتِ گویائی اور سماعت کے ذریعے قلب میں اتر جاتی ہے، اور وہاں سے تمام ہستی میں پھیل کر محیط ہو

 

۱۱۸

 

جاتی ہے، اس نورانی دوا کے اثر انداز ہونے کی مختلف علامات ہیں، ان میں سب سے بہترین علامت ہے: آنکھوں کا سنجیدگی اور شرافت سے اشکبار ہو جانا، اگر کسی درویش صفت مسلمان پر خدا کا یہ احسان ہو رہا ہو، تو اسے جبینِ نیاز مندی سے سجدہ کرنا چاہئے، تاکہ مناجات اور زیادہ قوّی ہو، اور عاجزی میں اضافہ ہو جائے، کیونکہ دعا، گریہ و زاری، اور سجدہ، یہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو ربّ العزّت بہت پسند فرماتا ہے، پس اگر کوئی مومن اس نسخۂ کیمیا سے کام لیتا ہو، تو اس کے لئے باطنی صحتمندی کی بشارت ہے (۱۷: ۱۰۹)۔

۱۱۔ بفرمودۂ حدیث مومنین کے حق میں دنیائے ظاہر کے دو پہلو ہیں: الف: دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کا باغ و گلشن ہے۔ ب: دنیا آخرت کی کھیتی باڑی ہے۔ یہ دونوں حدیث حکمت سے بھرپور ہیں، اور تضاد کا کوئی سوال ہی نہیں، اس سے ظاہر ہے کہ مومن کو اس دنیا میں رہتے ہوئے ہر حال میں رنج و مشقت کا ایک مقررہ حصہ اٹھانا ہے، خواہ وہ تکالیف قید خانے کی ہوں، یا کھیتی باڑی کی، لیکن کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ اپنے حصے کی ساری مشقت آخرت کی کھیتی باڑی کے کاموں میں برداشت کرے؟ تاکہ قید خانے کا تصوّر ہی ختم ہو جائے؟ کیونکہ قید خانے کا اشارہ یہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی مومن دینی اعمال کی محنت و مشقت سے گریز کرتا ہو، تو قانونِ

 

۱۱۹

 

خدا ایسے شخص کو طرح طرح کی سزائیں دیتا ہے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو مومنین ذکر و دعا، بندگی، اور (خلوصِ نیت) سے خدمتِ خلق میں سخت محنت کرتے ہیں، وہ بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

۳ رجب ۱۴۰۶ھ / ۱۵ مارچ ۱۹۸۶ء

۱۲۰

روحانی سائنس
(قسطِ اوّل)

۱۔ سائنس (Science) وہ علم، جس میں کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا جاتا ہے، اور تجربات سے نئی ایجادیں کی جاتی ہیں، ریڈیو، ٹیلیفون، تارِ برقی، فوٹو گرافی، سینما، خلائی راکٹ، ہوائی جہاز، تارپیڈو، ریل، موٹر، وغیرہ، ایجادات اسی علم کے طفیل معرضِ وجود میں آئیں، طبی سائنس کے ذریعے بے شمار بیماریوں کی وجوہات اور ان کے علاج کا پتا لگایا گیا ہے، یہ علم جس قدر اہمیت رکھتا ہے، اسی قدر وسیع بھی ہے، اور دنیا کے تمام علوم میں یہی ایک علم ایسا ہے، جو بنی نوعِ انسان کی زندگی میں ایک انقلابِ عظیم برپا کرنے کا موجب ہے، اور جس کی بدولت ہم آئے دن نئی ترقیات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں (فیروز سنز، اردو انسائیکلوپیڈیا) یہ مادّی سائنس کی تعریف ہے، اسی سے آپ روحانی سائنس کی مثال لیں۔

۲۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح کائنات کا ظاہری مشاہدہ اور مطالعہ مادّی سائنس ہے، اسی طرح اس کا باطنی مشاہدہ روحانی سائنس

 

۱۲۱

 

(Spiritual Science) ہے، چونکہ اس کی دائمی وابستگی نورِ خدا اور خلافتِ الٰہیہ سے ہے، لہٰذا یہ علم (روحانی سائنس) بذریعۂ اسمائے بزرگ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو سکھایا گیا، سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابو البشر (آدم) کو کسی قسم کی تخفیف اور چھوٹ کے بغیر تمام اسماء کی تعلیم دی تھی، ان جملہ اسماء میں سب سے پہلے اصولی طور پر خدائے بزرگ و برتر کے اسمائے عظام (۰۲: ۳۱، ۰۷: ۱۸۰) ہوا کرتے ہیں، جن کی سلطنت کے تحت باقی سب چیزوں کے نام آ ہی جاتے ہیں، مگر یہاں یہ سوچنا اور پوچھنا ہے کہ آیا اس ربّانی تعلیم میں، جو خلیفۂ روئے زمین کو دی گئی، ہر اسم صرف لفظ کی حد تک محدود تھا؟ یا اُس کی معنوی حقیقت بھی سکھائی گئی تھی؟ اس کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ درس گاہِ خلافتِ کبریٰ میں اسماء و مسمّا سب کے سب حقائق و معارف کے روپ میں تھے، یعنی حضرتِ آدمؑ پر ہر چیز کی اصلیت و حقیقت روشن ہوئی تھی، ایسے علم کو “علمِ حقائقِ اشیاء” کہا جاتا ہے، اور یہی روحانی سائنس کا قدیم نام ہے۔

۳۔ جس طرح ظاہری علاج طبی سائنس کی بنیاد پر قائم ہے، اسی طرح قرآنی علاج روحانی سائنس کی اساس پر استوار کیا گیا ہے، لہٰذا یہ امر لازمی ہے کہ اس موضوع کو زیرِ بحث لایا جائے، تاکہ ہر چیز حقیقی علم کی روشنی میں واضح ہو، سو جاننا چاہئے کہ روحانی سائنس بعنوانِ روحانیّت قرآنِ حکیم اور احادیثِ صحیحہ کی تعلیمات کی روشنی میں ہر متّقی مسلمان کو

 

۱۲۲

 

حاصل ہو سکتی ہے، اور خصوصاً عصرِ حاضر میں اس کی سخت ضرورت ہے، اور وقت بھی آ چکا ہے کہ اقوامِ عالم میں اس کی تشنگی محسوس کی جائے، اور اس کی زبردست اہمیت و افادیّت کو سمجھ لیا جائے، بہرحال روحانی سائنس ہمیشہ سے ہے، تاہم اس کا مکمل ظہور اب ہونے والا ہے۔

۴۔ اگرچہ آپ کے اور ہمارے نزدیک مادّی سائنس الگ ہے، اور روحانی سائنس الگ ہے، لیکن خدا اور رسول کی نظر میں دونوں کا مجموعہ ایک ہی سلسلہ ہے، اور فرق صرف اتنا ہے کہ اس زنجیر (سلسلہ) کا ابتدائی حصہ مادّی سائنس ہے، اور آخری حصہ روحانی سائنس، بالفاظِ دیگر ظاہری سائنس کا تعلق آفاق سے ہے، اور باطنی سائنس کا لگاؤ انفس سے ہے، اور دونوں خدا کے معجزات میں سے ہیں (۴۱: ۵۳) اور دونوں میں دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح ہے۔

۵۔ جب حضرت آدم علیہ السّلام نے بحکمِ خدا فرشتوں کو علمِ اسماء سکھایا، تو اس وقت آپ کس زبان سے بولتے تھے؟ زبانِ جسمانی سے؟ یا زبانِ روحانی سے؟ آیا سب فرشتے آپ کے سامنے جمع ہو گئے تھے؟ اگر نہیں تو یہ آواز کس طرح ان کو پہنچ رہی تھی (۰۲: ۳۳)؟ اس کلیدی حقیقت کے بارے میں ہمیں یہ قبول کرنا ہو گا کہ حضرتِ آدم کی یہ تعلیم جو فرشتوں کو مل رہی تھی، قلبی آواز میں تھی، جسے کائنات بھر کے فرشتے اپنی اپنی جگہ پر سن رہے تھے، اور اس کو ہم روحانی سائنس کہہ سکتے ہیں، اس کے علاوہ آپ کا ایک عالمِ ذرّ (عالمِ

 

۱۲۳

 

شخصی) بھی تھا، جس کو تصوّف میں عالمِ صغیر کہا جاتا ہے۔

۶۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے انسانوں کے لئے ایک خودکار (Automatic) کائنات بنائی ہے، جس کے آسمان، زمین، سورج، چاند، ستارے، وغیرہ اپنے آپ کام کرتے ہیں، اسی قانونِ فطرت کی روشنی میں سائنسدانوں نے خودکار مشینیں بنائی ہیں، اب اس مثال سے روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کے بارے میں باور کرنا آسان ہوگیا، کہ نہ صرف فرشتوں ہی کا ذکر ہمیشہ اپنے آپ چلتا اور جاری رہتا ہے، بلکہ کامیاب صوفیوں اور حقیقی مومنین پر بھی خاص اوقات میں یہ معجزہ گزرتا ہے، اور اسی نوعیت کا ایک آٹومیٹک (خودکار) ذکر منزلِ عزرائیلی میں لازم ہو جاتا ہے، یعنی چمٹ جاتا ہے (۴۸: ۲۶) یہ ذکر اگرچہ حضرت عزرائیل علیہ السّلام کا ہے، جو صوفئ صافی کے تجربۂ موّت (قبل از جسمانی موّت) کے لئے استعمال ہوتا ہے، تاہم یہی خود کار ذکر اس نیک بخت شخص کا بھی ہے، جس کے کان میں عزرائیل یہ ذکر کر رہا ہو۔

۷۔ جب آدمی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی مکمل اطاعت کرتا ہے تو اس وقت کثرتِ ذکر کے نتیجے میں حواسِ باطن جاگ اٹھتے ہیں، اور وہ غیر معمولی چیزوں کو محسوس کرنے لگتا ہے، مثال کے طور پر وہ لشکرِ ارواح کو دیکھتا ہے،

 

۱۲۴

 

ان کی آواز سنتا ہے، تعجب خیز بات ہے کہ ہر چیز کی روح ہے، نباتات کو لیجئے، چاہے موسمِ خزان کیوں نہ ہو، مگر ہر پھول کی روح اپنی خوشبو کی دولت سے ہمیشہ مالامال نظر آتی ہے، اس کی مہک کبھی ختم نہیں ہو سکتی، نہ اس کا رنگ ماند ہو سکتا ہے، طرفہ یہ ہے کہ آبادی اور جنگل کے بعض درختوں اور جڑی بوٹیوں کے نمونے بہ کیفیتِ روح باری باری سنگھا دیئے جاتے ہیں، صرف یہی نہیں، بلکہ بہت سی چیزوں کی ارواح بہ حالتِ خوشبو آ کر جسم کو طاقت (Energy) مہیا کر دیتی ہیں، اس عملِ روحانیّت سے یوں لگتا ہے کہ یہ غریب آدمی عرصۂ دراز سے بیمار پڑا تھا، اب اس کا علاج ہو رہا ہے، اس سلسلے میں طرح طرح کی دوائیاں سنگھائی بھی جارہی ہیں، اور کھلائی بھی جا رہی ہیں، مگر کھلانے کا نمونہ بہت محدود ہے۔

۸۔ جس طرح بعض جسمانی بیماریوں کے علاج کے دوران پرہیز کی شرط لازمی اور ضروری ہوا کرتی ہے، اسی طرح روحانی علاج کے دنوں میں عام خوراک کی قلیل مقدار سے کام لینا پڑتا ہے، خصوصاً ان دنوں میں ، جبکہ مریضِ روحانی کو گوناگون خوشبوؤں کی صورت میں لطیف غذائیں دی جاتی ہیں، اور ویسے بھی یہ مناسب نہیں کہ اس حال میں، جبکہ من و سلویٰ اور مائدۂ عیسیٰ کی عملی مثال سامنے ہو، کثیف کھانے پینے کی چیزوں کو حسبِ معمول اہمیّت دی جائے، مگر افسوس اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ سفرِ روحانیّت

 

۱۲۵

 

کی ایک منزل ہے، جسے چھوڑ کر منزلِ مقصود کی طرف آگے سے آگے بڑھ جانا پڑتا ہے۔

۹۔ حکمائے دین کا فرمانا ہے کہ روح القدس کی تائید کے بغیر روحانیّت نہیں، یہ روح پیغمبروں اور ان کے خاص نمائندوں کے حق میں ایسی ہے، جیسے آسمان میں سورج مستقل ہوتا ہے، اور جہاں دائماً نورِ خورشید درخشان و تابان ہے، وہاں ظلمتِ شب نہیں پھیل سکتی، اور نہ ہی بادلوں کے سائے پڑ سکتے ہیں، مگر ہاں، زمین پر روشنی اور تاریکی کے مختلف احوال گزرتے رہتے ہیں، زمین اہلِ ایمان کی مثال ہے، کہ ان پر نورِ روحِ قدسی کی نسبت دن رات، دھوپ اور چھاؤں جیسے مختلف حالات آتے جاتے رہتے ہیں، لیکن تجربات کی دولت، جس کا نام علم و معرفت ہے، وہ لازوال ہے، اس مطلب کا اشارہ سورۂ مجادلہ (۵۸: ۲۲) میں موجود ہے، آپ اسے بار بار غور سے پڑھیں: بروح منہ (ایک خاص روح سے جو اس کی طرف سے ہے) سے روح القدس مراد ہے، جیسا کہ خواجہ حافظ نے فرمایا: فیضِ روح القدس ارباز مدد فرماید + دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا میکرد۔

۱۰۔ روح اصلاً یعنی اپنی ذات میں ایک مجرّد (غیر مادّی) حقیقت مانی جاتی ہے، مگر پانچ مقامات پر جسم کے ساتھ اس کا اتصال ہے، وہ یہ ہیں: الف: جسمِ کلّی، جو اس کائنات کا فلکی یعنی لطیف جسم ہے،

 

۱۲۶

 

جو کرسی بھی ہے (۰۲: ۲۵۵) اور عالمگیر بہشت بھی (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱)۔ ب: قمیصِ نورانی جو ہر قسم کی جنگ سے بچانے کی خاطر ہے (۱۶: ۸۱)۔ ج: قمیصِ روحانی جو ہر قسم کی گرمی سے محفوظ رکھتی ہے (۱۶: ۸۱)۔ د: ذرّۂ روح، یا ذرّاتِ روح، یا ذرّاتِ جسمِ لطیف، یہ آپ کی طرف سے دنیا بھر کے لوگوں میں، اور ان کی جانب سے آپ میں نمائندگی کے لئے ہیں، نیز بحدِّ قوّت یہ وہ روحانی لشکر ہے جو دنیا کو فتح کر سکتا ہے (۲۷: ۱۷) کیونکہ ہر شخص کے باطن میں ایک سلطنتِ سلیمانی خوابیدہ ہے۔ ھ: ظاہری جسم ہے، جو سب کے سامنے ہے، اور اس کی بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ دین و ایمان اور علم و عمل کا انحصار اسی پر ہے۔

۱۱۔ درحقیقت انسان فی الحال بحیثیتِ مجموعی مریض ہے، وہ طرح طرح کی ظاہری و باطنی بیماریوں میں مبتلا ہے، ورنہ وہ ہادیانِ برحق (انبیاء و اولیاء) کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے روحانیّت کے تمامتر عجائب و غرائب کا مشاہدہ کرتا، وہ بموجبِ ارشاد: “من عرف نفسہ فقد عرف ربّہ۔” اپنی ذات (روح) اور اپنے پروردگار کو پہچان لیتا، اسی کے ساتھ ساتھ پیغمبروں کو بھی پہچان سکتا، کیونکہ معرفتِ انبیاء کے بغیر کوئی شخص حق تعالیٰ کی معرفت کو نہیں پہنچ سکتا ہے، اور ظہورِ اسلام کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شناخت (معرفت) بہت ہی ضروری ہے، جس میں تمام معرفتیں

 

۱۲۷

 

جمع ہیں، مثال کے طور پر ملائکہ اور کتبِ سماوی کی معرفت، وغیرہ۔

۱۲۔ دورِ موسیٰؑ میں بھی، اور دورِ عیسیٰؑ میں بھی، بعض درویش صفت مومنین مقامِ روحانیّت پر فائز ہو چکے تھے، جس کی بدولت وہ دیدۂ دل سے آسمانی کتاب کو دیکھتے اور پہچانتے تھے، لہٰذا قرآنِ حکیم نے ان لوگوں کو یہ نام دیا: اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ (وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے ،۰۲: ۱۴۶، ۰۶: ۲۰)کیونکہ ظاہراً و باطناً کتاب دینے کا خدائی فعل ان پر مکمل ہوا تھا، چنانچہ ایسے صوفی نورِ نبوّت کو خویشی اور یگانگت کے ساتھ پہچانتے تھے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پاک و پاکیزہ شخصیت میں ظہور پذیر ہونے والا ہے (۰۲: ۱۴۶،۰۶: ۲۰)۔

۱۳۔ اب یہاں ایک بڑا اہم سوال پیدا ہو جاتا ہے، وہ یہ کہ اگر دورِ موسیٰؑ اور دورِ عیسیٰؑ کے کامیاب صوفیوں نے نورِ نبوّت اور آسمانی کتاب کو چشمِ باطن سے دیکھ کر پہچان لیا ہے، تو کیا ہم اس بات کا یقین نہیں کر سکتے کہ دینِ اسلام کے اولیاء ، اکابرِ صوفیاء، اور حقیقی مومنین نے نورِ خاتم الانبیاء اور قرآنِ پاک کی روح و روحانیّت کا عرفانی مشاہدہ کیا ہے؟ کیا نتیجۂ نوافل کے طور پر خدا تعالیٰ کا قربِ خاص حاصل نہیں ہوتا؟ اگر ہوتا ہے، اور خداوندِ عالم ایسے مقربین کا کان اور آنکھ ہو جاتا ہے، تو پھر وہ حضرات اپنے اس کان سے، جس میں نورِ الٰہی کام کر رہا ہو، کیا کیا نہیں سنیں

 

۱۲۸

 

گے؟ اور اس آنکھ سے، جس میں نورِ خدا ہے، کیا کیا نہیں دیکھیں گے؟ ظاہر ہے کہ ایسے دوستانِ خدا جن کے حواسِ باطن نورِ حق سے منور ہو چکے ہوں سب کچھ سنیں گے اور ہر چیز دیکھیں گے، اور یہی عقل و روح کی صحت مندی کی نشانی ہے۔

نوروز ۹ رجب ۱۴۰۶ھ / ۲۱ مارچ ۱۹۸۶ء

۱۲۹

روحانی سائنس
(قسطِ دوم)

۱۔ آئندہ (آنے والا) زمانے میں سیّارۂ زمین کے باشندے چار و ناچار روحانی علاج کی طرف رجوع کریں گے، کیونکہ مستقبل میں روحانی سائنس ہی کا دور دورہ ہونے والا ہے، اور یہ مسرّت بخش پیشگوئی قرآنِ حکیم کی متعدد آیات کی ہے، قرآنِ پاک ہی کا فرمانا ہے کہ ان مادّی سائنس کے معجزات کے فوراً بعد ہی روحانی سائنس کے عجائب و غرائب کا ظہور ہو گا (۴۱: ۵۳) چاہے روحانیّت اور علمِ مخفی کا یہ عظیم انقلاب ممالکِ اسلامیہ ہی سے شروع ہو، یا کسی آسمانی حکمت و مصلحت کی بناء پر امریکہ، روس، چین وغیرہ، جیسے کسی ملک میں اس کا آغاز ہو جائے، لیکن بہرحال اس کی نوعیت و صورت بالکل وہی ہوگی، جس طرح کہ قرآنِ مجید کی پیش گوئیوں میں ارشاد ہوا ہے، اور یہ پیش بینی اللہ تعالیٰ کی اس کتاب (قرآن) کے برحق اور بے نظیر ہونے کا ایک روشن ثبوت ہے، جو ہر طرح سے کامل و مکمل ہے، اور جو پیغمبرِ آخر زمان پر نازل کی گئی ہے۔

۲۔ روحانی سائنس کے مطابق علاج کے پانچ طریقے خاص ہیں:

 

۱۳۰

 

الف: علاج بالقرآن، یعنی قرآنی علاج، جس کا بیان اس کتاب میں ہو رہا ہے۔ ب: علاج بالعلم (علمی علاج) کیونکہ اکثر بلکہ تمامتر روحانی اور عقلی امراض عقل و علم نہ ہونے یعنی جہالت کی وجہ سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ ج: علاج بالذکر (ذکرِ خدا سے علاج) کیونکہ غفلت سے شیطان کو اپنے عمل کا موقع ملتا ہے، اور وہ آدمی کے دل میں ایک نہ ایک بیماری کے بیج (جراثیم) بکھیر دیتا ہے۔ د: علاج بالصوت (علاج بذریعۂ آواز) یہ اس لئے ہے کہ ہر مرض کی ایک زندہ روح ہوا کرتی ہے، لہٰذا آواز بحکمِ خدا اس پر اثر انداز ہو کر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ بیماری اس بدن سے نکل جائے۔ ھ: علاج با لمسح، یعنی چھونے سے علاج کرنا، اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر مریض کو چھونے والا معالج بڑا متّقی، کامل درویش، حقیقی صوفی، اور ذرّاتِ لطیف سے بھرپور ہے، تو ان شاء اللہ (اگر خدا چاہے) اس طریق سے کچھ ذرّات بیمار آدمی میں منتقل ہو کر جراثیم کو ہلاک کر سکتے ہیں، یا بھگا سکتے ہیں، یہ وہ طریقۂ علاج ہے، جس کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السّلام عمل کرتے تھے، اسی معنیٰ میں آپ مسیح کہلائے، یعنی ہاتھ پھیر کر تندرست کردینے والا (۰۳: ۴۵) یہ نام قرآنِ مجید کے گیارہ مقامات پر مذکور ہے۔

۳۔ خدا کی خدائی میں جہاں کلّیات ہیں، وہاں جزئیات بھی ہیں، چنانچہ اگر اللہ کے حکم سے حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کسی شخصِ

 

۱۳۱

 

کامل، یا صوفی، یا مومن کو جسمانی زندگی ہی میں شہید کر کے حقیقی معنوں میں زندہ کر دیتا ہے (۵۷: ۱۹) تو ایسے لوگ جیتے جی اپنے پروردگار کے نزدیک مرتبۂ شہادت پر فائز ہو جاتے ہیں، ان کو نہ صرف آخرت ہی میں بلکہ دنیا میں بھی اجر و صلہ اور نور ملتا ہے، اور یہ سعادت جزوی طور پر دوسرے اہلِ ایمان کو بھی نصیب ہوتی رہتی ہے، کیونکہ ہر عظیم کارنامہ یک لخت بھی انجام پاتا ہے، اور یقیناً اجزاء سے بھی پورا ہو سکتا ہے، جبکہ جان کی قربانی کئی معنوں میں اقساط میں بھی ہے، اور عزرائیل کا عمل جزوی طور پر بھی ہے (۳۹: ۴۲)۔

۴۔ حضرتِ عزرائیل کا کام بڑا عجیب و غریب اور حکمت سے بھرپور ہے، وہ پانچ مواقع پر قبضِ روح کا عمل کرتا ہے: پہلا موقع: بندۂ مومن کی کامیاب عبادت اور قلبی ذکر کے نتیجے میں جزوی طور پر قبضِ روح کا عمل وقوع پذیر ہو جاتا ہے، وہ اس طرح کہ کچھ فرسودہ ذرّاتِ روح خارج کر کے کچھ تازہ ذرّات داخل کر دیئے جاتے ہیں۔ دوسرا موقع: یہی واقعہ اس وقت بھی ہوتا ہے جبکہ کسی مصیبت یا سخت مشکل یا بیماری کی وجہ سے بارگاہِ ربّ العزّت میں گریہ و زاری، مناجات، اور دعا کی جاتی ہے۔ تیسرا موقع: چونکہ نیند کے عالم میں بار بار ذرّاتِ روح کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، یعنی بار بار روح قبض ہو جاتی ہے، لہٰذا وقت پر جاگ اٹھنا ضروری ہے، تاکہ اچھی روح حاصل ہو، اور وہ اس بار بار کے تبادلے میں چلی نہ

 

۱۳۲

 

جائے (۳۹: ۴۲) چوتھا موقع: جب کسی درویش صفت مومن کی روحانی ترقی ہوتی ہے، اور قیامت خیز موت کی منزل میں داخل ہو جاتا ہے، تو اس وقت وہ موتِ نفسانی کا مکمل تجربہ کر لیتا ہے (۰۳: ۱۴۳) پانچواں موقع: جب ظاہری اور جسمانی موت کا وقت آتا ہے، تو اس میں روح آخری بار اور کلی طور پر قبض کی جاتی ہے۔

۵۔ روحانی سائنس اور علاج کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السّلام کا یہ ارشاد قابلِ توجہ ہے: تیری دوا تجھ ہی میں پوشیدہ ہے اور (افسوس ہے کہ) تو نہیں سمجھتا ہے + اور تیری بیماری بھی تجھ ہی سے ہے حالانکہ تو نہیں دیکھتا + اور تیرا گمان ہے کہ تو ایک چھوٹا سا جسم ہے در حالے کہ عالمِ اکبر تجھ میں سمایا ہوا ہے + اور تو وہ بولنے والی کتاب ہے + کہ جس کے حروف سے پوشیدہ بھید ظاہر ہو جاتے ہیں (دیوانِ حضرتِ علی)۔
تشریح: تو اپنا علاج آپ کر سکتا ہے، مگر اس کے لئے حقیقی علم کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ جاننا از بس ضروری ہے کہ بیماری دراصل بیرونی نہیں، بلکہ اندرونی ہے، تو نے جس طرح اپنے آپ کو ایک بہت عام اور چھوٹا سا جسم سمجھ رکھا ہے، اس کے نتیجے میں احساسِ ذمہ داری محدود ہو کر بڑا نقصان ہوا ہے، اس کے برعکس اگر تو یقین کرتا کہ تیرے اندر ایک کائناتی سلطنت پنہان ہے، تو اس سے تیری تمامتر صلاحیتیں جاگ اٹھتیں، اور یہ خسارہ نہ ہوتا، کیونکہ

 

۱۳۳

 

جب تک کسی چیز کی اہمیت و افادیت، اور قدر و قیمت کا اندازہ نہ ہو، تب تک انسان اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا، اور نہ ہی اس کی ترقی کے لئے جدوجہد کرتا ہے، اگر تو جسمانی موت سے قبل نفسانی طور پر مر جاتا، تو اس وقت تو اپنے اعمال کی بولنے والی کتاب بن جاتا، جو معرفت کے بھیدوں سے مملو (بھری ہوئی) ہے۔

۶۔ اس آیۂ کریمہ میں جیسے ارشاد ہوا ہے، اس کا اشارہ ہے کہ کثیف سے لطیف کا ظہور ہوتا ہے، اور ظاہر سے باطن کی طرف جانا پڑتا ہے، وہ آیۂ مقدسہ یہ ہے: وَ اِذَا السَّمَآءُ كُشِطَتْ (۸۱: ۱۱) اور جس وقت کہ آسمان کی کھال اتاری جائے۔ یہاں آسمان سے پوری کائنات اور اس کے اندر کی تمام چیزیں مراد ہیں، اور کھال اتارنے کا مطلب ہے جسمِ کثیف کے اندر سے جسمِ لطیف کا ظاہر ہو جانا، یعنی عالمِ لطیف کا ظہور، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایک دن موجودہ آدمی کے کُرتۂ بدن کے نیچے سے ایک لطیف معجزاتی انسان برآمد ہوگا، جس طرح ریشم کے کیڑے سے پروانہ نکلتا ہے، پس اگر کسی صوفی پر جسمانی موت سے پیشتر یہ واقعہ گزرتا ہے، تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی اور روحانی سائنس کا تجربہ ہے، اب اسے پُرامید ہو جانا چاہئے، کہ ان شاء اللہ، وہ عقل و روح کے خزانۂ صحت سے مالامال ہو جائے گا۔

۷۔ حضرتِ آدمؑ تمام انسانوں کی ابتدائی اور آخری وحدت ہیں،

 

۱۳۴

 

کیونکہ آپ نفسِ واحدہ ہیں (۰۶: ۹۸، ۳۱: ۲۸) یعنی آدمی سب کے سب اپنی اصل روح میں حضرتِ ابوالبشر کی روحانی کاپیاں (Copies) ہیں، روحِ آدمؑ کی یہ لاتعداد زندہ تصویریں بحکمِ خدا حضرتِ عزرائیلؑ نے کھینچی تھیں، لیکن لوگ رفتہ رفتہ اپنی اصلیت و حقیقت سے دور ہو گئے، بالفاظِ دیگر وہ بیمار ہوگئے، جن کے علاج کے لئے قرآن حکیم کا نزول ہوا، تاکہ ہر شخص بتدریج اپنی اصل کی طرف لوٹ کر بحقیقت عکسِ آدم ہو جائے، بلکہ کثرت و دوئی کو چھوڑ کر نفسِ واحدہ کی وحدت میں فنا ہو جائے۔

۸۔ سورۂ لقمان کے ایک ارشاد (۳۱: ۲۸) کی اس صوفیانہ تفسیر میں غور کیجئے: تم سب کا بارِ اوّل پیدا کرنا اور پھر نفسانی موت کے بعد جِلا اٹھانا (انبعاث) نفسِ واحدہ (یعنی آدم) کی طرح ہے۔ جب حضرتِ آدم علیہ السّلام کی روحانی تخلیق ہوئی، تو اسی وقت آپ کی ہستی کے سانچے میں عالمگیر روح ڈھال ڈھال کر اتنی ساری کاپیاں (Copies) بنائی گئیں، جتنے کہ بنی آدم دنیا میں آنے والے تھے، اور جب جناب آدمؑ کا انبعاث ہوا تو آپ کے نزدیک اور آپ کی نمائندگی میں سب کا انبعاث ہوگیا، اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کا عالمِ شخصی نامکمل اور معرفت ادھوری ہوتی۔

۹۔ کائنات کا مجموعہ مکان کہلاتا ہے، اسی کی حرکت سے زمان بنتا ہے، مگر روحانیّت میں نہ مکان ہے اور نہ زمان، بلکہ وہ اس

 

۱۳۵

 

سے ماوراء (برتر) ہے، یعنی وہ لامکان و لازمان ہے، تاکہ ارادۂ “کُنۡ” جیسا بھی ہو، اس کے مطابق ہر مکان و زمان کی نورانی تصویر سامنے آسکے، وہ تصویر زندہ اور ہر طرح سے مکمل ہے، اس بیان سے یہ ظاہر ہوا کہ روحانی سائنس فرشتوں کے فعل کا نام ہے، جو قانونِ قدرت کے مطابق انجام دیا جاتا ہے، اور یہاں یہ بھی یاد رہے کہ فرشتہ مومن کے علم و عمل سے بنتا ہے، بہ ہر حال روحانیّت کے ریکارڈ (Record) یعنی نامۂ اعمال میں سب کچھ ہے، جیسا کہ نکتہ نمبر ۵ میں کتابِ مبین کی وضاحت ہوئی ہے، یہ بولنے والی کتاب کیا ہے؟ ایک عظیم روح، ایک بہت بڑا فرشتہ، ایک جیتی جاگتی دنیا، ایک بہشت، ایک خلاصۂ کائنات، ایک مکمل نور، ایک عالمِ شخصی، ایک مثیلِ آدم، ایک صورتِ رحمان، اور سب کچھ ہے۔

۱۰۔ روحانی سائنس کے سلسلے میں آئندہ، یعنی مستقبل میں کیا کیا معجزات رونما ہوں گے؟ یہ سوال بے حد دلچسپ بھی ہے، اور بڑا مشکل بھی، تاہم قرآن اور روحانیّت کی روشنی میں یہاں کچھ عرض کی جاتی ہے:
الف: چونکہ اب روحانیّت کا وقت آچکا ہے، لہٰذا دنیا بھر کے ممالکِ اسلامیہ سے میری عاجزانہ گزارش ہے کہ وہ روحانی سائنس کے ادارے قائم کریں۔ ب: کسی بڑے ملک کے ظاہری سائنسدان مادّی سائنس کی ترقی کے سلسلے میں آگے بڑھ کر روح کی تعجب خیز

 

۱۳۶

 

آواز کو سنیں گے، اور ذرّاتِ روح کو دیکھیں گے۔ ج: انسان کے حواسِ باطن کام کرنے لگیں گے، جیسے اپنے اندر ایک روشن دنیا کا مشاہدہ کرنا، غیر معمولی آوازیں سننا، خوشبوئیں سونگھنا، وغیرہ۔ د: روحانی سائنس کی بدولت اڑن طشتریاں مسخر ہو جائیں گی، جس سے سیّاروں کی سیاحت بڑی آسان ہو جائے گی۔ ھ: لوگ مشرق و مغرب میں بیٹھے ہوئے بغیر کسی آلے کے آپس میں باتیں کریں گے۔ و: اُس وقت ظاہری سائنس کے تمامتر آلات بیکار ہو جائیں گے، کیونکہ روحانیّت ان سے کہیں بڑھ کر کام کرے گی۔ ز: جنگ ختم ہو جائے گی، دنیا بھر کے لوگ صلح و آشتی کے معنی میں ایک دوسرے کے بہت قریب آئیں گے۔

۱۱۔ ح: یہ سب کچھ نورِ اسلام کی طاقت سے ہو گا، کیونکہ دراصل یہی دینِ فطرت ہے، جو شروع سے لے کر آخر تک قائم ہے۔ ط: وہ بھیدوں کا زمانہ ہوگا، کہ اس میں بہت سے اسرارِ باطن ظاہر ہو جائیں گے۔ ی: اُس وقت لوگوں کو احساس ہوگا کہ وہ مریض تھے۔ ک: اُس زمانے میں لوگ حضرت محمد رسولِ خدا خاتمِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روحانیّت، عظمت و بزرگی اور نظامِ ہدایت کے لئے اعتراف کریں گے۔ ل: ظہورِ روحانیّت کی وجہ سے قرآنی حکمتیں ظاہر ہو جائیں گی۔ م: لوگ جسمِ لطیف کو دیکھیں گے، اور اس میں منتقل ہو جانے کے لئے سعی کریں گے۔ ن: رفتہ رفتہ ہر قسم کی برائی کا

 

۱۳۷

 

خاتمہ ہو جائے گا، کیونکہ اُس زمانے میں شیطان کو دی ہوئی مہلت ختم ہو جائے گی، اور اُس کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔

۱۲۔ قرآنِ حکیم نورِ علم و حکمت کا ایک ایسا معجزاتی عمیق اور وسیع سمندر ہے، کہ اُس سے ہر وقت گوناگون موضوعات کی موجیں اٹھتی رہتی ہیں، اور یہ انتہائی تعجب خیز بات ہے کہ ہر ایسی موج بحرِ قرآن کے اِس کنارے سے اُس کنارے تک جا پہنچتی ہے، چنانچہ قرآنِ مجید روحانی سائنس کے موضوع سے بھرا ہوا ہے، اور وہ روحانیّت ہے۔

۱۴ رجب ۱۴۰۶ھ / ۲۶ مارچ ۱۹۸۶ء

۱۳۸

 

عشقِ الٰہی

۱۔ عشقِ الٰہی ہر شدید مشکل کو آسان بنا دیتا ہے، اور وہ صد ہا بیماریوں کی واحد دوا ہے، صرف یہی نہیں، بلکہ یہ وہ روحانی آبِ حیات بھی ہے، جس کے پینے سے آدمی ہمیشہ کے لئے امر (غیر فانی) ہو جاتا ہے، اور اس کے سوا سیّارۂ زمین کے کسی مقام پر آبِ حیوان کا کوئی سرچشمہ موجود نہیں، اور جیسی کہانی ہے، وہ اسی کی مثال ہو سکتی ہے، کیونکہ جسمانی موت لازمی ہے، مگر روحانی طور پر نیست و نابود اور معدوم ہو جانا عذاب کی انتہا ہے۔

۲۔ عشقِ الٰہی پروردگارِ عالم کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے، لہٰذا اگر چشمِ بصیرت سے کام لے کر دیکھا جائے، تو قرآنِ پاک کے شروع سے لے کر آخر تک ہر مقام پر عشق کا تذکرہ ملتا ہے، مثال کے طور پر سورۂ فاتحہ کو لیجئے: الف: “اللہ” میں حیرت کے معنی ہیں،(۰۱: ۰۱) کہ انوارِ تجلّی میں عاشقوں اور عارفوں کے لئے حیرت ہی حیرت ہے۔ ب: اسمِ ربّ کی عاشقانہ تفسیر یہ ہے کہ پروردگار

 

۱۳۹

 

ہر مخلوق کو اس کی ضرورت کے مطابق پالا کرتا ہے، اسی طرح وہ اپنے پاک فطرت عاشقوں کو غذائے عشقِ حقیقی سے تقویت دیتا ہے۔ ج: رحمان و رحیم میں خود آسمانی مہر و محبت اور عشق کا ذکر ہے۔(۰۱: ۰۲) د: مالک یوم الدین میں یہ اشارہ ہے کہ قیامت کے دن مومنین عشقِ خداوندی کی لازوال نعمت سے مالا مال ہو جائیں گے۔(۰۱: ۰۳) ھ: ایاک نعبد و ایاک نستعین کا مطلب یہ ہے کہ ہم عشق و معرفت سے تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اسی لئے تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ (۰۱: ۰۴) و: اھدنا الصراط المستقیم کے معنی یہ ہیں کہ ہم کو اسی عشق کی راہِ راست پر چلا، کیونکہ سب سے آسان ترین اور سب سے نزدیک ترین راستہ یہی ہے۔ (۰۱: ۰۵) ز: صراط الذین انعمت علیہم کی وضاحت یہ ہے کہ ہم ان حضرات کے پیچھے پیچھے چلنا چاہتے ہیں، جن کو تو نے دوسری تمام نعمتوں سے بڑھ کر اپنے پاک عشق کی نعمتِ عظمیٰ سے نوازا ہے۔ (۰۱: ۰۶) ح: غیر المغضوب علیہم و لا الضآلین میں یہ تعلیم ہے کہ جن لوگوں پر تیرا غضب ہوا ہے، اور جو گمراہ ہو گئے ہیں، وہ دراصل تیرے عشق کی نورانی دولت سے بے نصیب تھے۔ (۰۱: ۰۷)

۳۔ آپ قرآنِ حکیم کی روشنی میں یہ تو جانتے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے جن حضرات کو راہِ راست کی ہدایت دے کر اپنے پُرحکمت عشق کی نعمت سے نوازا ہے، وہ کون پسندیدہ اشخاص ہیں، جی ہاں، وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، اور جو لوگ حقیقی معنوں

 

۱۴۰

 

میں خدا و رسول کی اطاعت کریں، وہ بھی ان حضرات میں شامل ہو سکتے ہیں (۰۴: ۶۹) مگر اتنا بڑا کام ایک دن میں کیسے مکمل ہو سکتا ہے، اس کے لئے تو مسلسل محنت اور عظیم قربانیوں کی ضرورت ہے، تاکہ نفس ایک طرح سے مر جائے، اور اس کے نتیجے میں مقدّس عشق کا تجربہ ہو۔

۴۔ قرآنِ حکیم میں آسمانی عشق کا بیان نمایان بھی ہے، اور پوشیدہ بھی، اور یہ جن جن الفاظ میں ظاہر ہے، ان میں سے ایک لفظ حبّ (محبت) ہے، اگرچہ بعض علماء کے نزدیک محبت اور عشق دو الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن بعض کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں، اور یہی قول زیادہ صحیح ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ عشقِ الٰہی براہِ راست نہیں، بلکہ بواسطۂ رسول ممکن ہے، اور یہ قرآنِ پاک ہی کی تعلیم ہے (۰۳: ۳۱) کہ جب تک کوئی شخص محبت و عشق سے پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت نہ کرے، تو خدا اس سے محبت نہیں کرتا ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ لوگ علم و عمل کے وسیلے سے اللہ اور اس کے محبوب رسول کے نورِ عشق سے منوّر ہو سکتے ہیں۔

۵۔ بخاری جلدِ سوم، اور مسلم جلدِ سوم کی کتاب الرویا میں یہ ارشاد نبوّی موجود ہے: من رانی فقد را الحق = اس کا ترجمہ صوفیائے کرام کے نزدیک یہ ہے: جس نے مجھے دیکھا اُس نے خدا کو دیکھا۔ یہاں کوئی ہوشمند ضرور یہ سوال کرے گا کہ آیا یہ بیداری کی بات

 

۱۴۱

 

ہے یا خواب کی؟ جواباً یوں عرض کی جاتی ہے کہ خواہ بیداری ہو یا خواب یا روحانیت، بہرحال رسول کا دیدار خدا تعالیٰ کا دیدار قرار دیا گیا ہے، کیونکہ حدیثِ شریف کے الفاظ میں جیسی جامعیت ہوا کرتی ہے، اس کا تقاضا یہی ہے، اب اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عشقِ رسول عشقِ الٰہی ہے، اور حق تعالیٰ کا دیدار بھی بطریقِ مظہریت ممکن ہے۔

۶۔ عشقِ حقیقی کی دوسری مثال آگ کی طرح ہے، آگ قرآن کی زبان میں نور بھی ہے اور نار (۲۷: ۰۸) بھی، سورج، ہر قسم کی بجلی، اور آگ نور و نار ہے، چنانچہ کائناتی نور یعنی سورج میں نہ صرف اگانے اور پکانے کی صلاحیت موجود ہے، بلکہ وہ جلانے اور بعض چیزوں کو جِلانے کی قوّت بھی رکھتا ہے، اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ آگ سے بعض چیزیں پگھلائی جاتی ہیں، پس اگر کسی مومن کو روحانی بجلی کے کرنٹ (Current) سے علاج کرنا ہے، نفسانی جراثیم کو جلانا ہے، یا اپنے آپ کو پگھلا کر انسانِ کامل کے سانچے میں ڈھالنا ہے، تو پھر اُسے انتہائی محتاجی کے احساس کے ساتھ عشقِ الٰہی کے حضور میں گڑگڑانا اور آنسو بہانا ہو گا، تاکہ ہر قسم کی پاکیزگی کے بعد اس میں روح العشق داخل ہو سکے۔

۷۔ سورۂ انفطار (۸۲) کی آیت ۰۶ تا ۱۲ (۸۲: ۰۶ تا ۱۲) خوب غور سے پڑھئے، جہاں آیت نمبر ۶ میں ربِ کریم کے اوصاف کا جو تقاضا ہے، اس کے عین مطابق انسان کو نوازنے اور انسان کے اس سے غافل ہو

 

۱۴۲

 

جانے کا ذکر فرمایا گیا ہے، نمبر ۷ میں انسان کی جسمانی تخلیق مکمل ہو جانے، پھر روحانی ترقی کے سلسلے میں تسویہ اور تعدیل کا اشارہ ہے، اب نمبر ۸ میں فِٓیۡ اَیِّ صُوۡرَۃٍ مَّا شَآءَ رَکَّبَکَ میں صورتِ روحانی اور صورتِ عقلی کا ذکر ہے، کہ قالبِ روحانی (یعنی روحانی سانچا = Mould) اور قالبِ عقلی میں ڈھال کر انسان کو تمام امکانی صورتیں دی جاتی ہیں، اور یہ خدائی محبت کی آگ میں پگھل جانے کا انتہائی عظیم اجر و صلہ ہے، اور اسی طرح ہر آدمی کے لئے یہ امر ممکن ہے کہ نفسِ واحدہ (۳۱: ۲۸) کے سانچے میں ڈھل کر خود اس کی اور اس کی تمام کاپیوں (Copies) کی صورت اختیار کرے، اگر یہ سب سے بڑی سعادت اسے حاصل ہوئی، تو پھر اس کو اپنا کُل اور کمال مل گیا۔

۸۔ خدا کی محبت یا عشق یا دوستی ایسا لفظ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی انتہائی بڑی نوازش کا تصوّر ملتا ہے، بے شک ایسی عالی شان نوازش دوسرے کئی لفظوں میں بھی ہے، ان تمام اعلیٰ معنوں کے بعد “فنا فی اللہ” کا درجہ ہے، اور یہ انسان کی ابدی صحت و سلامتی کے لئے سب سے آخری اور سب سے کامیاب علاج ہے، اور سلامتی کے گھر میں داخل ہو جانا بھی یہی ہے، کہ اس میں سلامتی ہی سلامتی ہے، اور کسی بیماری کا کوئی خوف و خطر نہیں۔

۹۔ احادیثِ مثنوی کے صفحہ ۱۹۹ پر یہ حدیثِ قدسی درج ہے: من احبنی قتلت و من قتلتہ فانا دیتہ (المنہج القوی ۴، ص ۳۹۸)

 

۱۴۳

 

یعنی جو آدمی میرے ساتھ محبت کرتا ہے تو میں اسے قتل کر دیتا ہوں، اور جس کو میں قتل کرتا ہوں، میں بذاتِ خود اس کا خون بہا بھی بن جاتا ہوں۔ اس ارشاد میں زبردست حکمت پوشیدہ ہے، کہ مثبت راز کو منفی انداز میں ظاہر فرمایا گیا ہے، اور یہ دراصل خدا کا وہ احسان و نوازش ہے، جس کا تذکرہ سورۂ حدید (۵۷: ۱۹) میں ہے، کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو ایک اعتبار سے جہادِ اکبر میں اور دوسرے اعتبار سے اپنے پاک عشق میں شہیدوں کی موت عطا فرماتا ہے، حالانکہ وہ حضرات جسمانی طور پر زندہ ہوتے ہیں، اور ان کو ایسی شہادت کے عوض میں اجرِ عظیم اور نور دیتا ہے، اور جب کسی کو نور مل جاتا ہے، تو سمجھ لو کہ اس کو گنجِ مخفی کی مثال میں خدا مل جاتا ہے، پس مذکورہ حدیثِ قدسی کا مطلب یہی ہے۔

۱۰۔ احیاء العلوم، جلدِ چہارم، بابِ ششم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ دعا تحریر ہوئی ہے، جو بڑی حکمت آگین ہے: اللّٰھم ارزقنی حبک وحب من احبک و حب ما یقربنی الیٰ حبک و اجعل حبک احب الی من الماء البارد = یا اللہ مجھے تیری ذاتِ اقدس کی محبت نصیب فرما! اور اس شخص کی محبت بھی جو تجھ کو محبوب رکھتا ہے! اور جو چیز (قول و فعل) مجھے تیری محبت کے قریب کر دیتی ہو اس کی محبت بھی! اور اپنی محبت مجھے ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ عزیز اور لذیذ بنا دے! یہ دعا دین کی تمام اساسی اور اصولی خوبیوں پر محیط ہے، لہٰذا اس کی وضاحت بہت وسیع ہے۔

۱۴۴

۱۱۔ حدیثِ تقرب کا ذکر ہو چکا ہے، یہ حدیث کتابِ مجمع البحرین میں بھی “فنا فی اللہ” کے عنوان کے تحت درج ہے، جس کا خلاصہ یہ ہوتا ہے کہ فرائض و نوافل کی انجام دہی کے نتیجے میں بندۂ مومن کو اپنے ربّ کا قربِ خاص حاصل ہو جاتا ہے، جس کی علامت یہ ہے کہ خدا فعلاً ایسے بندے کو محبوب رکھتا ہے، وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا نورِ اقدس اس ولی کے باطن میں طلوع ہو جاتا ہے، اور اس کے حواسِ باطن اور مدرکّات سب بدرجۂ انتہا منوّر ہو جاتے ہیں، اور یہ اس کی محویّت و فنائیّت ہے۔

۱۲۔ خدائے بزرگ و برتر کی پاک و پاکیزہ محبت میں کس مرتبے کی لذّت و دلکشی پائی جاتی ہے، اس کے زیرِ اثر دل میں کس شان کی رقت و نرمی اور عاجزی پیدا ہو جاتی ہے، یا اس کے عجائب و غرائب اور معجزات کیسے ہیں، اس کا تجربہ اگرچہ انسان کی کوتاہیوں کی وجہ سے بہت ہی مشکل ہے، تاہم رحمتِ خداوندی جس غلبہ اور فراوانی سے کام کرتی ہے، اس کے پیشِ نظر ناممکن نہیں، اس کے علاوہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان یہ بھی ہے کہ اس علیم و حکیم نے اپنی محبت یا عشق کو یک لخت نہیں بنایا، بلکہ وہ مختلف درجات میں ہے، تاکہ ہر شخص بتدریج آگے بڑھ سکے۔

۱۳۔ قرآنی بیان میں جو بدرجۂ کمال معجز نمائی ہے، اسی شان سے خدا کی دوستی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، جیسا کہ سورۂ یونس (۱۰: ۶۲) میں

 

۱۴۵

 

ارشاد فرمایا گیا ہے (ترجمہ): یاد رکھو اللہ کے دوستوں (اولیاء) پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ عامۃ النّاس کو مستقبل کے خطرات کا خوف اور ماضی کے مافات کا غم ہوا کرتا ہے، مگر اولیائے خدا کے نزدیک دراصل نہ مستقبل اور ماضی ہے اور نہ کوئی خوف و غم ہے۔ کیونکہ وہ حضرات عالمِ “لامکان و لازمان” میں اس حقیقت کا مشاہدہ کر چکے ہیں کہ مکان (کائنات) اور زمان کی تمام چیزیں دستِ قدرت کی مٹھی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ و سلامت اور لازوال ٹھہری ہوئی ہیں (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) لہٰذا ان کو خوف و غم کی بیماری لاحق نہیں ہو سکتی۔

۱۴۔ شہیدانِ ظاہر (۰۳: ۱۶۹) اور شہیدانِ عشقِ الٰہی (۵۷: ۱۹) کے بارے میں قرآنِ حکیم نے یہ کلّیہ بتا دیا ہے کہ وہ خوش نصیب انسان ایک طرح سے قتل ہو جانے کے باوصف درحقیقت نہیں مرتے بلکہ زندہ ہو جاتے ہیں، ان کو گویا آبِ حیاتِ عشق پلایا جاتا ہے، اسی لئے وہ ابدی زندگی کے شرف سے مشرف ہو جاتے ہیں، پس ہر دانشمند اس روشن حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ جسمانی موت کے لئے کوئی علاج نہیں، مگر روحانی موت کا مداوا عشقِ الٰہی کے آبِ حیوان (آبِ حیات) سے ہو سکتا ہے۔

۲۶ رجب ۱۴۰۶ھ / ۷ اپریل ۱۹۸۶ء

۱۴۶

معیارِ صحت

۱۔ ہر چیز کے جانچنے پرکھنے کے لئے ایک معیار (Standard) ہوا کرتا ہے، یا یوں کہا جائے کہ اشیاء کی ناپ تول کا کوئی آلہ، پیمانہ، یا اندازہ مقرر ہوتا ہے، اور بعض جدید مشینوں میں تو کئی کئی میٹرز (Meters) لگے ہوئے ہوتے ہیں، تاکہ بحدِّ امکان اندرونی حالت کا پتا چلے کہ کوئی کمی بیشی تو نہیں، اور حسبِ منشا کام ہو رہا ہے یا نہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عالمِ اسلام میں حضورِ انور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرتِ طیبہ، سنتِ مطہرہ، اور اسوۂ حسنہ (۳۳: ۲۱) کو ایک ایسا کلِ کلّیات معیار بنا دیا ہے کہ اس کی روشنی میں اہلِ بصیرت نہ صرف باطنی بیماری اور صحت کی شناخت کر سکتے ہیں، بلکہ علم و معرفت کے خزائن کو بھی حاصل کر سکتے ہیں، چنانچہ آنحضرت کی ہرگونہ صحتمندی کے سلسلے میں یہاں ایک مثالی ڈایاگرام (Diagram) پیش کیا جاتا ہے:

۱۴۷

۲۔ وجودِ انسانی کی تخلیق و تکمیل کے سلسلے میں سب سے پہلے جسم بنتا ہے، پھر علی الترتیب روحِ نباتی، روحِ حیوانی، روحِ انسانی، اور اخلاق بنتے ہیں، اس کے بعد نظریہ ہے، جس سے عقیدہ، مذہب اور دین مراد ہے، پھر روح الایمان ہے، اور آخر میں عقل ہے، جس سے ایسی عقل مراد ہے، جو خدا شناس ہو۔

۳۔ مذکورۂ بالا ترتیب ظاہری تخلیق کے اعتبار سے بالکل درست ہے، تاہم فضیلت کے لحاظ سے عقل کا درجہ پہلے آتا ہے، دوم روحِ ایمان، سوم نظریہ یعنی عقیدہ، چہارم، اخلاق، اور پنجم جسم ہے، اسی

 

۱۴۸

 

لحاظ سے صحتِ عقلی، صحتِ روحانی، صحتِ نظریاتی، صحتِ اخلاقی، اور صحتِ جسمانی ہے۔

۴۔ صوفیائے کرام کا یہ طریق بڑا منطقی اور بہت معقول ہے کہ سالک (راہ چلنے والا) بصورتِ کامیابی پہلے اپنے شیخ (مرشد /امام) میں فنا ہو جاتا ہے، پھر رسول میں ،اور بالآخر خدا میں فنا ہو جاتا ہے، جب حقیقت اسی طرح سے ہے، تو نقشۂ اسوۂ حسنہ کو اور بھی زیادہ غور سے دیکھنا ہو گا، کیونکہ اگر کسی سالک کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ سلوک (راہِ روحانیّت طے کرنا) سے فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ ہو جاتا ہے، تو اس سے پہلے یہ لازمی امر ہے کہ خود حضرتِ مرشد پیغمبرِ اکرمؐ میں خداوندِ عالم میں فنا ہو چکے ہوں گے، اور اس کے بغیر فنا کا تصوّر بے معنی ہو جاتا ہے، اس سے یہ نکتہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ مذکورہ ڈایاگرام (نقشہ) میں رسول کے بعد انسانِ کامل کا بھی ذکر ہے، اور سالک کا بھی۔

۵۔ جسمِ اطہر (بہت پاک بدن) کا حوالہ سورۂ احزاب کا ایک ارشاد (۳۳: ۳۳) ہے، یہ پاکیزگی ظاہری بھی ہے، اور باطنی بھی، جس میں انسانانِ کامل آپ کے ساتھ ہیں، آنحضرتؐ کے اخلاقِ حسنہ [خلقِ عظیم ، ۶۸: ۰۴] بھی لوگوں کے لئے مثال ہیں، ہم کسی جھجک کے بغیر ضرور یہ کہیں گے کہ یہ اعلیٰ عادات اللہ تعالیٰ کی ہیں، جن کو رحمتِ عالم نے اپنایا تھا، اسی لئے فرمایا گیا کہ : تخلقوا باخلاق اللّٰہ (خدا کی عادتوں کو

 

۱۴۹

 

اپناؤ) ایمانِ کامل کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ اور نظریہ عام ہے، اور ایمانِ کامل خاص، نفسِ مطمئنہ روح کی ترقی یافتہ صورت ہے (۸۹: ۲۷ تا ۲۸) عقلِ سلیم کا قرآنی نام قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) ہے۔

۶۔ قرآنِ حکیم نے تمام باطنی بیماریوں کو قلبی یعنی عقلی بیماری کہا ہے (۰۲: ۱۰) کیونکہ اگر عقل بیمار ہوگئی ہے، تو روح، نظریہ، اخلاق اور جسم یہ سب خود بخود بیمار ہو جاتے ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ عقلی بیماری جہالت ہی ہوتی ہے، جس کے زیرِ اثر جسم و جان کی بہت سی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں، اور اگر اس کے برعکس عقل صحیح و سلامت ہے تو ہر چیز کی صحت ممکن ہو جاتی ہے، اور اس بات میں اہلِ دانش کو کوئی تعجب نہیں، جبکہ نباتات کا قیام روحِ نامیہ پر ہے، حیوانات کا دارومدار روحِ حسی پر ہے، اور انسان کی ہستی کی عمارت عقل کی بنیاد پر قائم ہے۔

۷۔ جو حضرات فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے انتہائی عظیم مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں، وہ انسانانِ کامل کہلاتے ہیں، ایسے ہدایت یافتہ مرشدین بمثل کائنات کا مرکز اور قلب ہو گئے ہیں، نقشۂ ذیل اور اس کی وضاحت کو غور سے دیکھئے:

۱۵۰

۸۔ میرے خیال میں یہ ڈایاگرام [نقشہ] حقائق و معارف کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بے حد مفید ثابت ہو سکتا ہے، اس نقشے میں قرآنی اشارات اور علمِ روحانی کی روشنی میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ انسانِ کامل دراصل کائناتِ ظاہر کے دل و دماغ کا درجہ رکھتا ہے، یعنی وہ مرکزِ عالم بھی ہے، اور دائرۂ محیط بھی، آپ ان سات دائروں کے بالائی حصے میں ایک چھوٹے دائرے کو دیکھ سکتے ہیں، یہ کیا ہے؟ یہ انسانِ کامل کا عالمگیر دماغ ہے، نیز کائنات

 

۱۵۱

 

کا دماغ ہے، اس کو ازل و ابد بھی کہتے ہیں، جو حقیقت میں ایک ہی مقام ہے، یہی عالمِ عُلوی اور عالمِ ذرّ ہے، معراجِ یقین کا مقام اور روحانی سائنس کا سرچشمہ بھی یہی ہے، یہی عالمِ لامکان و لازمان ہے، یہیں کائنات بھر کا علم و معرفت موجود ہے، کیونکہ دماغِ کائنات یہی ہے، اس کے اور بھی بہت سے نام ہیں، مگر مثال کے طور پر یہاں صرف چند اسماء درج کئے گئے ہیں۔

۹۔ ع۔ن۔ عروج و نزول کا اشارہ اور دل و دماغ کا رابطہ ہے، کیونکہ دماغ عالمِ شخصی کا آسمان اور دل زمین ہے، اور یہ آسمان و زمین کا فطری ربط ضبط ہے کہ کچھ چیزیں اترتی ہیں، اور کچھ چیزیں چڑھتی ہیں (۳۴: ۰۲) تاکہ پستی سے ہمیشہ دعا بلند ہو جانے اور بلندی سے دائم رحمت برسنے کا قانون جاری و باقی رہے، یہ تو دائمی عروج و نزول کی بات ہوئی، اب دخول و خروج [درآمد و برآمد] کے بارے میں بھی سن لیجئے، کہ ساری کائنات اور اُس کی تمام چیزیں انسانِ کامل کے وجودِ مبارک میں داخل ہو کر محصور و محدود بھی ہو جاتی ہیں، اور کائنات بھر میں پھیل بھی جاتی ہیں (۵۷: ۰۴) آپ نکتہ نمبر ۷ کے اس کائناتی نقشے میں عالمِ شخصی (Personal World) کی پوزیشن (Position) یعنی مقام کو دیکھ سکتے ہیں کہ فنا و بقا کے دائرۂ اعظم پر گھومنے والی کائنات کئی معنوں میں انسانِ کامل کی پُرحکمت ہستی میں سے گزرتی رہتی ہے (۲۱: ۳۳)۔

۱۵۲

۱۰۔ انسانِ کامل مکانی اور جسمانی اعتبار سے کائنات کا مرکز اور دل و دماغ نہیں، بلکہ اس کا یہ مرتبہ سرچشمۂ عقل و روح کی وجہ سے ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی آدم کو جو کرامت و فضیلت عطا فرمائی ہے، وہ اسی عقل و روح کی حقیقت پر مبنی ہے، جس میں کامل انسان حضرتِ پیغمبر کے بعد سب سے آگے ہے، اور اسی کی ذات میں یہ معرفت حاصل ہو سکتی ہے کہ جملہ مخلوقات پر اولادِ آدم کی کیا فضیلت ہے اور کس طرح ہے (۱۷: ۷۰)۔

۱۱۔ انسانیّت کا درجۂ کمال سب سے پہلے بھی تھا، اور سب سے آخر میں بھی ہے، لہٰذا نقشے میں انسانِ کامل ہفتم بھی ہے اور یکم بھی، اب پوچھنا چاہئے کہ ڈایاگرام میں ایک سیڑھی کیوں ہے؟ یاد رہے کہ آسمان اوپر بھی ہے اور نیچے بھی، چنانچہ یہ ارتقائی سیڑھی ہے، جس کے پہلے زینے پر آسمان ہیں، دوسرے پر عناصر ہیں، تیسرے پر جمادات، چوتھے پر نباتات، پانچویں پر حیوانات، چھٹے زینے پر عالمِ انسان ہے، اور انسانِ کامل اس نردبان (سیڑھی) سے چڑھ کر بامِ عروج و عزت پر پہنچ چکا ہے، جہاں وہ معیارِ صحت بن کر سب کو اس مقامِ اعلیٰ کی طرف دعوت دے رہا ہے۔

۹ شعبان ۱۴۰۶ھ / ۱۹ اپریل ۱۹۸۶ء

۱۵۳

 

حقیقی صحت

۱۔ جیسا کہ اس سے پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ بفرمودۂ قرآنِ حکیم (۰۲: ۱۰) سب سے بدترین اور انتہائی مہلک باطنی بیماری کفر و نفاق ہے، جو کافروں اور منافقوں کے دلوں میں ہوتی ہے، اور اس کے مقابلے میں سب سے بہترین اور مفید ترین صحت جو حیاتِ طیبہ کی حامل ہے، وہ ہے جو اسلام، ایمان، اور نورِ علم و معرفت کی صورت میں ہوا کرتی ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک میں قلبِ سلیم (۲۶: ۸۹، ۳۷: ۸۴) کے عنوان سے فرمایا گیا ہے، اور ایسا قلبِ پاکیزہ و منور جو حق تعالیٰ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق بدرجۂ کمال صحت مند ہو، انبیاء و اولیاء کا مبارک دل ہے، اور اہلِ ایمان کامل اطاعت و فرمانبرداری سے اسی دل کو اپنا سکتے ہیں، یعنی قلبِ سلیم اپنے بھرپور حسن و جمال کے ساتھ سفرِ روحانیّت کی آخری منزل میں یا ارتقائی سیڑھی چڑھ جانے کے بعد ہی مل سکتا ہے، چنانچہ یہاں انسان کی جسمانی اور روحانی تخلیق و تکمیل اور عروج و ارتقاء کا ایک نقشہ درج ہے، آپ اسے غور سے دیکھئے:

۱۵۴

 

۲۔ انسانی ہستی کی تعمیر و ترقی کا آغاز افلاک یعنی آسمانوں سے ہو جاتا ہے، کہ وہ ہمیشہ عناصر پر اپنا اثر ڈالتے رہتے ہیں، عناصر سے جسم کی تخلیق ہوتی ہے، جسم میں نفسِ نباتی پیدا ہو جاتا ہے، جس پر نفسِ بہیمی (نفسِ حیوانی) قائم ہے، نفسِ حیوانی پر نفسِ امارہ (۱۲: ۵۳) ٹھہرا ہوا ہے، اگر نفسِ امّارہ کی اصلاح کی گئی، تو وہ نفسِ لوامہ (۷۵: ۰۲) بن جاتا ہے، نفسِ لوّامہ علم و عمل سے نفسِ مطمئنہ (۸۹: ۲۷) ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد قلبِ سلیم ہے، اور یہی انسان کی آخری اور حقیقی صحت بھی ہے، اور تخلیق و تکمیل کی غایت بھی۔

۳۔ قرآنِ حکیم نے حقیقتِ انسانیہ کو سمجھانے کے لئے بہت سی مثالوں سے کام لیا ہے، من جملہ سیڑھی کی تشبیہہ و تمثیل بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے، البتہ اس لئے کہ یہ ایک ایسا واضح اور قابلِ فہم اشارہ ہے کہ اس سے انسانی عروج و ارتقاء کا مطلب نہ صرف ہر ہوشمند بلکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے، چنانچہ اگر آپ ذرا غور سے دیکھیں، اور حقیقت پسندی سے اپنے متعلق فیصلہ کریں، تو دل ہی دل میں اس بات کا اقرار کر سکتے ہیں کہ آپ اس ارتقائی سیڑھی کے کس زینے

 

۱۵۵

 

پر رکے ہوئے ہیں، اور کیوں ایسا ہے، یہ رکاوٹ دراصل کوئی پوشیدہ بیماری ہے، جس کا علاج بتوفیقِ الٰہی آپ خود کر سکتے ہیں۔

۴۔ آدمی کی عام عادت یہی ہے کہ وہ ہمیشہ جسم کو پیشِ نظر رکھتا ہے، اور روح کا خیال ہی نہیں کرتا، جس کی وجہ سے اس کا بہت بڑا خسارہ ہو جاتا ہے، جس کی طرف قرآنِ کریم (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳) میں بڑی تاکید کے ساتھ توجہ دلائی گئی ہے، اس پاک و پُرحکمت ارشاد کا ترجمہ یہ ہے: قسم ہے زمانہ کی کہ انسان بڑے خسارے میں ہے مگر جو لوگ کہ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق کی فہمائش کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی فہمائش کرتے رہے (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳)۔ یہاں ایمانِ کامل، اچھے کام، حق (حقیقت) اور صبر میں دین کے سارے مطالب سما دیئے گئے ہیں، اور جو شخص ان اوصاف کے بغیر ہو، وہ بہت بڑے خسارے میں ہے، وہ سب سے پہلے یہ کہ اس کو “قلبِ سلیم” نہیں ملے گا، جس کے حصول میں سب کچھ ہے۔

۵۔ حدیثِ قدسی کا ارشاد ہے: میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پھر میں نے یہ پسند کیا کہ مجھ کو پہچان لیا جائے پس میں نے خلق (یعنی بطورِ خاص اہلِ معرفت) کو پیدا کیا۔ کیونکہ اس تخلیق کا مقصد عارفوں کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا، اور عارف وہ شخص ہے، جو محویت و فنائیت کے ذریعے خدا کی معرفت حاصل کر لیتا ہے، جس کے لئے وہ دو وسیلوں سے کام لیتا ہے: الف: وہ ایسے مرشدِ کامل میں فنا

 

۱۵۶

 

ہو جاتا ہے جو فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ ہو چکا ہو۔ ب: پھر وہ رسول میں فنا ہو کر خدا میں فنا ہو جاتا ہے، تب ہی اس کو حق تعالیٰ گنجِ مخفی کے عنوان سے مل جاتا ہے، اور اگر کوئی انسان خود پیدا کردہ بیماریوں کی وجہ سے اس انتہائی عظیم اور لازوال خزانے کو حاصل نہیں کر سکتا، تو یہ اس کا سب سے بڑا خسارہ ہے، جس کا ذکر سورۂ عصر (۱۰۳: ۰۱ تا ۰۳) کے حوالے سے ہو چکا ہے، سامنے جو روحانی ترقی کی سیڑھی کا نقشہ ہے، اس میں آپ سوچ سکتے ہیں۔

۶۔ قرآنِ حکیم میں علم وحکمت کی کون سی چیز غیر موجود ہے، وہ تو ایک ایسی کامل و مکمل کتاب ہے، جو ہر چیز کو بیان کرتی ہے (۱۶: ۸۹) چنانچہ سورۂ قصص (۲۸: ۸۸) اور سورۂ رحمان (۵۵: ۲۷) میں فنا فی اللہ کا حکیمانہ اشارہ موجود ہے، اور حقیقت یہی ہے کہ نورِ مطلق سے واصل ہو جانے کا وسیلہ صوفیانہ فنا ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک کے مذکورہ حوالوں کے علاوہ بھی ہے۔

۷۔ سیڑھی کا ایک قرآنی نام سُلَّم ہے (۰۶: ۳۵، ۵۲: ۳۸) چونکہ آدمی

 

۱۵۷

 

سلامتی کے ساتھ اوپر پہنچ جاتا ہے، اس لئے اس کا نام سُلَّم ہوا (لغات القرآن، مولانا محمد عبد الرشید نعمانی) یہ تو اس لفظ کی لغوی تحلیل ہوئی، اب ہم اسی مثال کی بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک آسمانی (روحانی) سیڑھی بھی ہے، جو حقیقی صحت و سلامتی کی طرف بلند ہو جانے کا ذریعہ ہے، اور وہ مرتبۂ فنا فی اللہ ہے، جس کے کئی ہم معنی الفاظ (مترادفات) ہیں، یا اس کی کئی وضاحتیں ہیں، جیسے واصل بحق ہونا، دار السلام میں داخل ہو جانا (۱۰: ۲۵) جو بہشت اور سلامتی کا گھر ہے، خدا تعالیٰ کی معرفت سے گنجِ مخفی کو حاصل کرنا، عشقِ الٰہی میں شہید ہو کر زندۂ جاوید ہو جانا (۵۷: ۱۹) اللہ تعالیٰ کے حضور میں منفرد ہو کو جانا (۰۶: ۹۴) خدا کی طرف رجوع کرنا (۰۲: ۱۵۶) فرشتوں اور روح کا عروج (۰۴: ۷۰) اور حدیثِ قدسی کے مطابق پروردگار کا اپنے بندۂ مقرب کا کان، آنکھ وغیرہ ہو جانا، یہ تمام حقائق فنا فی اللہ سے متعلق ہیں۔

۸۔ آدم و آدمی کی لطیف ہستی ایک بے مثال شیٔ ہے، اور جو چیز بے مثال ہو، اس کے بارے میں سمجھانے کے لئے اگر آپ جملہ مثالوں کو استعمال کرتے ہیں، تو پھر بھی کم ہیں، جیسے پانی کی اپنی کوئی معینہ و مقررہ شکل نہیں، لہٰذا وہ جتنے مختلف ظروف میں ڈالا جائے، اس کی اتنی الگ الگ شکلیں ہوں گی، چنانچہ انسان کی لاتعداد مثالوں میں سے ایک کو لیجئے کہ وہ سیڑھی جیسی ہے، یعنی انسانِ کامل بحدِّ فعل اور ہر عام انسان بحدِّ قوّت ایک ایسی سیڑھی کی طرح ہے،

 

۱۵۸

 

جو آسمانِ روحانیّت پر چڑھنے کے لئے لگی ہوئی ہے، یقیناًاسی معنیٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سیڑھیوں والا ہے (۷۰: ۰۳) اس حقیقت کا پتا کسی سالک کو اس وقت چل سکتا ہے، جبکہ وہ تینوں فناؤں (فنا فی المرشد، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ) کی عملی معرفت حاصل کرتا ہے۔

۹۔ یہاں پر ایک ضروری سوال برائے تفہیم مناسب ہے، اس میں یہ پوچھنا ہے کہ ظاہری اور جسمانی طور پر تندرستی اور بیماری کے درمیان کیا نمایان فرق ہے؟ جواب: الف: ایک تندرست آدمی آرام و راحت محسوس کرتا ہے، جبکہ ایک مریض درد و رنج میں مبتلا رہتا ہے۔ ب: صحت مند انسان کو زندگی کی ہر ہر نعمت سے بیحد لذّت اور مسرّت و شادمانی ملتی رہتی ہے، اور اس کے برعکس بیمار کو ہرگونہ نعمت سے بد مزگی اور محرومی کا احساس ہوتا ہے۔ ج: تندرست انسان اپنے تمام کاموں کو حسن و خوبی سے انجام دیتا ہے، مگر بیمار آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا، پس یہی حال باطنی صحت اور بیماری کا بھی ہے، تاہم اس میں ایک اور مسئلہ باقی ہے، وہ یہ کہ جو شخص حیوانی زندگی میں محدود ہو کر سوچتا ہو، اس کو اسلام کی روحانی اور عقلی نعمتوں کا کوئی شعور ہی نہ ہو، تو پھر ایسا آدمی اپنی باطنی بیماریوں کو محسوس نہیں کر سکتا ہے۔

۱۰۔ ایک دنیا دار انسان ہے، اور ایک آدمی حقیقی معنوں میں

 

۱۵۹

 

دیندار ہے، ان دونوں میں کیا فرق ہو سکتا ہے؟ ان میں جو فرق و تفاوت ہے، وہ ظاہری نہیں باطنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ مذکورہ دیندار شخص میں روح الایمان ہے، جبکہ دوسرے میں یہ روح نہیں، سو ایسا نیک بخت آدمی جو ایمانی روح میں زندہ ہو چکا ہو، اپنی باطنی بیماریوں کا احساس یا اندازہ کرتے ہوئے ہر وقت حقیقی صحت کی تلاش کرتا رہتا ہے، اگرچہ حقیقی صحت بہشت میں ہے، لیکن اسی دنیا سے ایک صحت مند عقل و روح [قلبِ سلیم ، ۲۶: ۸۹] کو ساتھ لے کر اللہ کے حضور جانا ہے، ورنہ بڑی سخت نامرادی ہوگی۔

۱۱۔ جب تک کسی مریض کو اپنے درد کا احساس نہیں ہوتا، اس کو طبیب کوئی درمان نہیں دیتا، لیکن یہ امر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ کوئی انسان اپنے باطنی امراض کو دیکھے یا سمجھے اور محسوس کرے؟ یہ کام ایمان اور علم کی روشنی میں انجام پا سکتا ہے، یعنی جب مسلمین و مومنین علم الیقین کے ذریعہ روح و روحانیّت کی امکانی ترقی اور بے پناہ باطنی دولت کے متعلق جاننے لگتے ہیں، تو پھر وہ اس بات کا بخوبی اندازہ بھی کر سکتے ہیں کہ انہیں گنجِ مخفی کے حصول میں کیوں تاخیر ہوئی ہے، غرض یوں سمجھ لیجئے کہ بندۂ مومن کا اعترافِ نافرمانی اور توبہ گویا احساسِ بیماری اور رجوع برائے علاج ہے، مگر توبہ پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

۱۲۔ اس کتاب میں جو کچھ بیان ہو رہا ہے، اس کا مقصد قارئین

 

۱۶۰

 

کو بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس دلانا ہے کہ ظاہری بیماریوں کے مقابلے میں باطنی بیماریاں کہیں زیادہ خطرناک اور مہلک ہوا کرتی ہیں، کیونکہ وہ نہ تو نظر آتی ہیں، اور نہ ہی محسوس ہوتی ہیں، بلکہ وہ ایک ایسے بڑے خطرناک جانی دشمن کی طرح اثر انداز ہوتی رہتی ہیں، جو انتہائی مخفی تحریکوں سے کسی کی جڑوں کے کاٹنے میں شب و روز لگا ہوا ہو، پھر بھی ایسا دشمن ایمان، روح، اور عقل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، بلکہ عینِ ممکن ہے کہ ایسی ناحق دشمنی کے ردِ عمل کو خدائے علیم و حکیم کسی مومن کے لئے بیحد مفید بنا دے، جبکہ باطنی امراض میں بیشمار نقصانات اور ہلاکتوں کے سوا کچھ بھی نہیں، لہٰذا یہ ہر فردِ مسلم کا فریضہ ہے کہ وہ حقیقی صحت کے روحانی مقام تک رسا ہو جانے کے لئے شب و روز سخت محنت کرے۔

۱۷ شعبان ۱۴۰۶ھ / ۲۷ اپریل ۱۹۸۶ء

 

۱۶۱

 

 

انسان دنیا میں ۔ دنیا انسان میں

۱۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ انسان جسمانی طور پر اس مادّی دنیا میں مقیم و محدود ہے، لیکن اس حقیقت سے بہت ہی کم لوگ واقف و آگاہ ہیں کہ یہ دنیا بصورتِ لطیف انسان کے باطن میں سما جاتی ہے، سو آئیے ہم دیکھیں کہ یہ امرِ واقعی کس طرح ہے، جاننا چاہئے کہ کائناتِ ظاہر کو عالمِ کبیر کہتے ہیں ، اور انسان عالمِ صغیر ہے، جس کو ہم عالمِ شخصی (Personal World) بھی کہہ سکتے ہیں، جو دراصل پانچ عوالم کا مجموعہ ہے، وہ یہ ہیں: عالمِ بیداری، عالمِ خیال، عالمِ خواب، عالمِ روحانیّت، اور عالمِ عقل، جس کا ڈایاگرام سامنے درج ہے:

۲۔ خوب یاد رہے کہ دنیائے ظاہر

۱۶۲

 

کئی طرح سے انسان کے اندر سما جاتی ہے، اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ آدمی بفرمانِ الٰہی سب سے پہلے اپنے قول و فعل اور احساسات کے ذریعہ اس اجتماعی دنیا میں سے اپنے لئے ایک انفرادی اور ذاتی دنیا بنا لیتا ہے جس کا نام عالمِ صغیر یا عالمِ شخصی ہے، یہی ہر شخص کا عالمِ بیداری ہے، اور اسی میں عالمِ خیال، عالمِ خواب، عالمِ روحانیّت اور عالمِ عقل شامل ہیں۔
۳۔ حواسِ خمسۂ ظاہر [دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا، اور چھونا] خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے عطا ہوئے ہیں، تاکہ ہر دیندار شخص منشائے دین کے مطابق اپنے لئے محسوسات کی ایک ایسی پاکیزہ اور پسندیدہ ذاتی دنیا آباد کرے، جو ہر قسم کی بیماری سے پاک و صاف اور بدرجۂ کمال صحتمند ہو، چنانچہ پانچ حواس گویا پانچ دروازے ہیں، جن سے ہمیشہ جہانِ ظاہر کی لطیف چیزوں کا ایک بے پایان سلسلہ عالمِ شخصی میں داخل ہوتا رہتا ہے، یہی کاروانِ زندگی بھی ہے اور زندگی کی چہل پہل بھی۔

۴۔ پرسنل ورلڈ [عالمِ شخصی] میں جو ایک عظیم اور بے مثال سلطنت قائم ہونے والی ہے، اس کے لئے حواسِ ظاہر کی جو بے شمار خدمات ہیں، اور جیسے بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے گئے ہیں، ان میں قوّتِ باصرہ کی حسنِ کارکردگی سرِفہرست ہے، کہ آنکھ اپنے پُرمعلومات مطالعے سے، جو دینی اور دنیوی کتب سمیت صحیفۂ کائنات

 

۱۶۳

 

پر مبنی ہے، ہر وقت علم و آگہی کے انمول خزانے دل و دماغ میں بھیجتی رہتی ہے، ہر چیز فطری طور پر ترقی پذیر ہوا کرتی ہے، اسی طرح ایک حقیقی مومن کثرتِ ذکر سے آنکھ کو اتنی ترقی دے سکتا ہے کہ وہ چشمِ باطن کے ساتھ مل کر ایک مخصوص وقت کے لئے ایک ہو جاتی ہے، نہ صرف تنہا آنکھ بلکہ دوسرے حواس کا بھی یہی عالم ہوتا ہے، اُس حال میں مافوق الفطرت (Metaphysical) عجائب و غرائب کا ایک ایسا پُرشکوہ ظہور ہو جاتا ہے، کہ اس کو دیکھ کر آدمی ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے، یہ حقیقت ہے کہ ایسے میں سالکِ صادق کی آنکھ روحانیّت کی دوربین (Telescope) اور حقیقت کی خردبین  ہو جاتی ہے۔

۵۔ آنکھ کے بعد کان کا درجہ ہے کہ وہ مادیّت سے لے کر روحانیّت یا مافوق الفطرت تک جس طرح اپنا کام کرتا ہے وہ حیرت انگیز ہے، کان دروازۂ ارواحِ خلائق ہے، وہ فرشتوں کی آواز سن سکتا ہے (۴۱: ۳۰) اگر کسی کا روحانی انقلاب برپا ہو، تو وہ کیا کیا نہیں سنتا ہے، اگر نورِ خدا کسی بندۂ مقرب کی آنکھ اور کان ہو جائے، تو پھر وہ کیا نہیں دیکھتا ہوگا، اور کیا نہیں سنتا ہوگا، الغرض جب درمیان سے حجاب اُٹھ جاتا ہے، یا دیوار گرائی جاتی ہے تو اس وقت حواسِ ظاہر اور حواسِ باطن مل کر ایک ہو جاتے ہیں، اور عالمِ شخصی کی تعمیر و تکمیل کے لئے بڑے پیمانے پر کام کرنے لگتے ہیں، اور علم و

 

۱۶۴

 

حکمت کے عظیم خزانے حاصل ہو جاتے ہیں۔

۶۔ آپ جانتے ہیں کہ عالمِ بیداری سے عالمِ خیال وجود میں آتا ہے، جس کی دلیل صاف روشن ہے کہ آدمی کے خیال میں وہی چیزیں آتی ہیں، جن کو اس نے بیداری میں دیکھا ہو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اشیاء لباسِ مادیّت سے مجرّد ہو کر عالمِ خیال میں پرواز کر جاتی ہیں، اگر کچھ دیر کے لئے حواس کے کام نہ کرنے کی وجہ سے خیال منجمد ہو جاتا ہے، تو اس سے عالمِ خواب پیدا ہو جاتا ہے، اگر مناسب عبادت و ریاضت سے خواب کی تحلیل ہو جاتی ہے تو اس سے روحانیّت بن جاتی ہے، کیونکہ ابتدائی روحانیّت ایک پُرسکون لطیف خواب کی طرح ہے، جس کا ایک قرآنی نام نعاس [اونگھ، ۰۳: ۱۵۴، ۰۸: ۱۱] ہے، اور بالآخر روحانیّت کے جوہر سے عالمِ عقل یا عالمِ امر بنتا ہے، مگر یہاں یہ نکتہ ہمیشہ کے لئے یاد رہے کہ جو چیز آخر ہو وہی اوّل بھی ہوا کرتی ہے، اور جو چیز ازل میں ہو، وہی ابد میں بھی ہوتی ہے۔

۷۔ دنیائے ظاہر کا کوئی کامیاب غواص سمندر میں غوطہ لگا کر بڑی مشکل سے صرف چند مادّی موتیوں کو نکال سکتا ہے، لیکن عالمِ شخصی کے عارفوں نے بحکمِ خدا نہ صرف گوہر ہائے اسرار ہی کو حاصل کر لیا، بلکہ ساتھ ہی ساتھ بحرِ کائنات کو بھی اپنے کوزۂ وجود [عالمِ شخصی] میں انڈیل لیا، اور یہ سارا کام دراصل دستِ قدرت ہی سے انجام پاتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) پس یہی ہے انسان کا دنیا میں ہونا ، اور دنیا کا

 

۱۶۵

 

انسان میں سما جانا۔

۸۔ قادرِ مطلق نے اپنی خدائی اور بادشاہی میں ایک طرف ایسی وسیع و عریض کائنات پھیلائی اور اس میں اتنی کثیر چیزیں بنائی ہیں کہ جنّ و انس نہ تو اس جہان کا احاطہ کر سکتے ہیں، اور نہ ہی اس کی اشیاء کا شمار، لیکن خود ملیکِ مقتدر (بادشاہِ قادر، ۵۴: ۵۵) نے دوسری طرف تمام آسمانوں اور زمین کو اپنی مبارک مٹھی میں نہ صرف لپیٹ ہی لیا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) بلکہ اسی حال میں یعنی مشتِ نورانیّت میں ساری چیزوں کو ایک کر کے عددِ واحد میں شمار بھی کر رکھا ہے (۷۲: ۲۸) یاد رہے کہ یہ سب سے عظیم علمی و عرفانی معجزہ انسانِ کامل کے عالمِ شخصی یا عالمگیر دل و دماغ میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔

۹۔ ویسے تو کائنات میں بیشمار معنی ہیں، مگر اختصار اور آسانی کی خاطر اس نقشے میں بطورِ نمونہ صرف بارہ معانی درج کئے گئے ہیں، جن کا فیضان انسان کو حاصل ہو رہا ہے، یا ہونے والا ہے، مثال کے طور پر: الف: عرش کو لیجئے کہ جو شخص رفیع الدرجات اور صاحبِ

 

۱۶۶

 

عرش (۴۰: ۱۵) میں فنا ہو جائے تو ظاہر ہے کہ ایسا بندہ عملاً سیڑھی کا نمونہ ہو چکا ہوگا، اور عرش کے خزینۂ اسرار سے مستفیض ہوگا۔ ب: عرش قلمِ الٰہی بھی ہے (۹۶: ۰۴) اور کرسی لوحِ محفوظ بھی (۰۲: ۲۵۵، ۸۵: ۲۲) چنانچہ اس معنیٰ میں عرش و کرسی کے فیوض و برکات کا رخ انسان کی طرف ہے۔ ج: آسمان میں نہ صرف رزق ہے، بلکہ ہر وہ چیز بھی ہے، جس کے بارے میں وعدہ کیا گیا ہے (۵۱: ۲۲)۔ د: کائنات (موجودات، خلق اللہ) بنی آدمی کے لئے پیدا کی گئی ہیں، جس کی دلیل اولادِ آدم کی تکریم و تفضیل ہے (۱۷: ۷۰)۔

۱۰۔ ھ: آسمانوں اور زمین یعنی ساری کائنات کا ایک لطیف جسم ہے، جو طبیعتِ پنجم رکھتا ہے کہ وہ نہ تو خشک ہے نہ تر، نہ گرم ہے اور نہ سرد جس کی چوڑائی اور وسعت کائنات کے برابر ہے (۰۳: ۱۳۳، ۵۷: ۲۱) اور وہی بہشتِ کلّی ہے، جو انسان کے لئے ہے، جو نزدیک بھی لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱)۔ و: ہر چیز کے ظاہر و باطن میں علم ہے (۰۶: ۸۰، ۰۷: ۸۹) اور کائنات تو سب چیزوں کا مجموعہ اور کُل ہے، لہٰذا وہ علم ہی علم ہے، ویسے بھی مادّہ اور وزن کے لحاظ سے عالم وہ چیز ہے جو “علم” جاننے کا آلہ بنے، جیسے خاتم اس چیز کو کہتے ہیں جو مہر کرنے کا آلہ ہو، یعنی مہر (قاموس القرآن) چنانچہ عالمِ کبیر میں علم کا جو سرچشمہ ہے، اس کا مکمل نمونہ عالمِ صغیر یعنی انسان میں موجود ہے۔

۱۱۔ ز: عالم جس طرح علم کا سمندر ہے اسی طرح رحمت کا بھی سمندر

 

۱۶۷

 

ہے (۲۱: ۱۰۷، ۴۰: ۰۷) اور اس کی روانی (بہاؤ) رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے توسط سے عالمِ انسان کی طرف ہو رہی ہے۔ ح: کائنات کے عجائب و غرائب اور بہت بڑی چیزوں میں سے ایک لطیف جسم ہے، جس کو جسمِ مثالی بھی کہتے ہیں (۱۹: ۱۷، ۱۷: ۹۹، ۳۶: ۸۱) یہ قرطۂ ابداعی ہے (۱۶: ۸۱) جس کے ذریعے بہشت نزدیک لائی جاتی ہے۔ ط: اس کائنات کے ظاہر و باطن میں دنیوی اور دینی سائنس کے لاتعداد قدرتی وسائل موجود ہیں، اور ان سب کا فائدہ عالمِ شخصی کی طرف آتا ہے۔

۱۲۔ ی: قرآن کا کہنا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی چیزیں کسی استثناء اور چھوٹ کے بغیر سب کی سب حقیقی انسانوں کے لئے مسخر کر دی گئی ہیں (۴۵: ۱۳) اور یہ تسخیر ظاہری بھی ہے، اور باطنی بھی، اور باطنی تسخیر یہ ہے کہ کائنات و موجودات کا زندہ نچوڑ یعنی جسمِ مثالی (جو عالمگیر عقل اور روحِ اعظم سے وابستہ ہے) انسان کی دوسری انا کی حیثیت سے کام کرتا ہے، نیز یہ کہ کُل اشیاء کی نمائندہ روحیں انسانِ کامل کے عالمِ شخصی میں کام کرتی ہیں، جس کی مثال مملکتِ سلیمانی ہے۔ ک: کُل کے معنی ہیں مجموعۂ عالم، نیز اس کے معنی ہیں انسانِ کامل، کیونکہ یہ کائنات کی کاپی ہے،اور اس کی بھی بہت ساری کاپیاں ہیں، پس خدا تعالیٰ نے ہرمومن کو اس کی ایک کاپی دیتے ہوئے سب کچھ دے دیا (۱۴: ۳۴)۔

 

۱۶۸

۱۳۔ ل: اگر آپ قوانینِ قرآن کے سلسلے میں “قانونِ خزائن” کا خوب گہرائی سے مطالعہ کریں، تو یقیناً آپ کے ہر مشکل سوال کا ایک تسلی بخش جواب مل سکتا ہے، دیکھئے کہ یہ کتنا منظم اور پُرحکمت قانون ہے کہ تمام کی تمام چیزیں قربِ خدا کے خزینوں میں ہیں، اور آپ کے پاس جتنا علم ہوگا اور جیسی معرفت ہوگی، اس کے مطابق آپ کو خدائی خزانوں کی چیزیں اور نعمتیں حاصل ہو سکتی ہیں (۱۵: ۲۱) میں سمجھتا ہوں کہ یہ علمی کوشش ایک با اثر ترغیب ہے، جو حقیقت پر مبنی ہونے کی وجہ سے اہلِ دانش کو باطنی صحت کی طرف توجہ دلا سکتی ہے۔

۲۶ شعبان ۱۴۰۶ھ / ۶ مئی ۱۹۸۶ء

۱۶۹

 

خدا کن سے محبت کرتا ہے اور کن سے محبت نہیں کرتا؟

۱۔ جیسا کہ ہم نے اس کتاب میں قبلاً ایک پُرنور و حکمت آگین حدیثِ قدسی کی روشنی میں یہ ذکر کیا تھا جس کا مطلب یہ ہے، کہ تمام باطنی بیماریوں سے ابدی نجات اور کُلی صحت و سلامتی منزلِ مقصود یعنی منزلِ فنا ہی میں میسر آتی ہے، اور یہ سب سے بڑی اور آخری سعادت ایسے مقرب بندوں کو نصیب ہو جاتی ہے، جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ محبت کرتا ہو، اور ان پر اپنے نورِ پاک کی بارش برساتا ہو، تا آنکہ یہ حضرات اس میں فنا ہو جائیں، چنانچہ اب یہاں یہ بتانا انتہائی ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے جن خاص بندوں سے محبت کرتا ہے، ان کے کیا کیا اوصاف ہوا کرتے ہیں، اور اللہ جن دوسرے انسانوں سے محبت نہیں کرتا، ان میں کیا کیا بیماریاں اور خرابیاں ہوتی ہیں، اس

 

۱۷۰

 

بارے میں جاننے کے لئے درجِ ذیل ڈایاگرام اور اس کی وضاحت کا مطالعہ ازبس مفید ثابت ہو سکتا ہے، ملاحظہ ہو:

۲۔ اس نقشے کا سب سے بیرونی دائرہ ناسوت [عالمِ اجسام = دنیا] کو ظاہر کرتا ہے، جس میں براہِ راست یا بالواسطہ قرآنِ حکیم کے اٹھائیس الفاظ درج ہیں، جن میں سے چودہ لفظوں کے مثبت معنی ہیں، اور چودہ کے منفی، کیونکہ ان میں بطریقِ اثبات و نفی جوابات ہیں، اس

 

۱۷۱

 

سوال کے لئے جو شروع (یعنی عنوان) میں کیا گیا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں مثبت معنوں کا رخ عالمِ بالا (ملکوت) کی طرف ہے، مگر منفی معانی ایسے نہیں، اس کا واضح اشارہ یہ بتاتا ہے کہ اگر سالک کو فی الحقیقت منزلِ مقصود تک پہنچ جانا ہے، تو لازمی طور پر ان اعلیٰ اوصاف کو اپنانا چاہئے۔

۳۔ (۱۔۲:) سورۂ آلِ عمران (۰۳: ۳۱ تا ۳۲) میں جس طرح رسولِ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری محبتِ الٰہی کی واحد شرط قرار دی گئی ہے، کہ ایمانِ کامل اسی میں ہے، اور جیسے ارشاد ہوا ہے کہ اس حکم سے سرکشی کرنا کفر ہے، اور اللہ کافروں سے دوستی و محبت نہیں کرتا، تو یہی قرآنی مفہوم نہ صرف مذکورہ نقشے کا مقصدِ اصلی ہے، بلکہ مضمون کا جوہر بھی یہی ہے، اور باقی جو کچھ ہے، وہ اس کی وضاحت ہے۔ (۳۔۴:) ارشاد کا ترجمہ ہے: اور نیکی کرو، بے شک خدا نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (۰۲: ۱۹۵) لیکن کون سی نیکی؟ کیونکہ مذاہبِ عالم کی الگ الگ کسوٹیوں کی وجہ سے جب کسی چیز کو ایک شخص نیکی قرار دیتا ہے، تو ممکن ہے کہ وہ چیز دوسرے کے نزدیک بدی ہو، چنانچہ یہ عمل یعنی نیکی کرنا اطاعتِ رسول کے تحت درست ہو گا، اور جو بات اس کے برعکس ہو، وہ بدی ہوگی، کیونکہ وہ اسلامی حسنہ (بھلائی) کی طرح نہیں (۴۱: ۳۴)۔

۴۔ (۵۔۶:) اصلاح و خرابی ایک دوسرے کی ضد ہیں، چنانچہ

 

۱۷۲

 

جب قرآنِ کریم فرماتا ہے کہ: خدا کو فساد (خرابی) پسند نہیں (۰۲: ۲۰۵) تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ خرابی کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا، بلکہ اصلاح کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، کیونکہ یہاں معنی کا اطلاق حقیقی لفظ کی ضد پر ہوتا ہے۔ (۷۔۸:) جو لوگ ظاہراً و باطناً پاک و صاف رہتے ہیں، اللہ ان سے محبت کرتا ہے (۰۹: ۱۰۸) اور جو اس کے برعکس ہیں، ان کو یہ سعادت نصیب نہیں (۰۹: ۲۸) آپ جانتے ہیں کہ وجودِ آدمی تین چیزوں کا مجموعہ ہے، وہ چیزیں ہیں: جسم، روح، اور عقل، پس پاکیزگی بھی اور ناپاکی بھی تین قسم کی ہے: جسمانی، روحانی اور عقلی۔

۵۔ (۹۔۱۰:) جن لوگوں سے خدا محبت کرتا ہے، ان میں وہ لوگ بھی ہیں، جو بحقیقت توبہ کرتے ہیں، اور جو لوگ اپنی غلط کاریوں پر مصر رہتے ہیں، ان سے خدا ہرگز دوستی نہیں کرتا۔ (۱۱۔۱۲:) اسلام کی ساری خوبیاں ایمان میں جمع ہو جاتی ہیں، اور کفر میں سوائے برائی کے اور کوئی چیز نہیں، چنانچہ جب ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتا (۰۳: ۳۲) تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ یقیناً مومنین سے محبت کرتا ہے، کیونکہ ایمان دونوں طرف سے محبوب ہے (۴۹: ۰۷) یعنی اللہ کی طرف سے بھی، اور بندوں کی طرف سے بھی۔

۶۔ (۱۳۔۱۴:) خدائے بزرگ و برتر ان لوگوں سے محبت کرتا ہے

 

۱۷۳

 

جو حقیقی معنوں میں عدل و انصاف کرنے والے ہیں (۰۵: ۴۲) مگر ظالم لوگ اس انتہائی پاک دوستی کے قابل نہیں ہیں (۰۳: ۵۷) عدل بھی اور ظلم بھی دو طرح سے ہے: اپنے حق میں ، اور دوسروں کے حق میں۔ (۱۵۔۱۶:) ایک جانب تقویٰ ہے اور دوسری جانب فسق و فجور (گناہ گاری)، تقویٰ میں دینداری کے تمامتر معنی موجود ہیں، لہٰذا خداوندِ عالم پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے (۰۳: ۷۶) اور دوسری جانب سے نہیں (۳۸: ۲۸) یعنی کوئی فاسق و فاجر خدا کا دوست نہیں ہو سکتا۔

۷۔ (۱۷۔۱۸:) صبر انبیاء و اولیاء کی بڑی بڑی صفات میں سے ہے، اور اس کا تعلق جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی مصائب سے ہے، پس صبر کی کامل صفت نہیں بنتی، جب تک کہ کوئی مومن طرح طرح کی مصیبتوں میں نہیں پڑتا، اور یہ امر بیحد ضروری ہے، کیونکہ خدا کسی شخص سے دوستی نہیں کرتا، جب تک کہ وہ دیندار اور صابر و شاکر نہ ہو (۰۳: ۱۴۶) اگر آدمی آزمائش کے دوران جزع فزع اور بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یہ خدا کی محبت جیسی سب سے بڑی نعمت سے محرومی کا باعث بنتا ہے (۷۰: ۲۰)۔ (۱۹۔۲۰:) حقیقی توکل ایمان کے درجۂ کمال پر ہے، جہاں ہر کامل مومن خدا کو اپنا وکیل قرار دے لیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ایسے مومنین سے بکمالِ مہربانی دوستی و محبت کرتا ہے (۰۳: ۱۵۹) لیکن کافروں کے لئے کوئی کارساز یعنی وکیل نہیں (۴۷: ۱۱)۔

۱۷۴

۸۔ (۲۱۔۲۲:) اسلام کی موجودگی میں اگر کسی دوسرے دین میں کوئی بشارت ہے، تو وہ صرف ایک ایسی بات ہو سکتی ہے، جس کے کچھ معنی نہ ہوں، اس کے برعکس قرآن میں جہاں جہاں جن مومنین کو خوشخبری دی جاتی ہے، وہاں یہ بشارت ان کے حق میں عملی ہے، جس میں اسی زندگی کے اندر ارواح و ملائکہ کی ملاقات اور خدا کی محبت حاصل ہونے کا ذکر ہے (۴۱: ۳۰، ۰۹: ۱۱۲) اور یہی بشارت ان مومنین کے لئے بھی ہے، جو حدود یعنی قوانینِ دین کی پابندی کرتے ہیں، مگر جو لوگ حد سے تجاوز کرتے ہیں، ان سے خدا ہرگز دوستی نہیں کرتا (۰۵: ۸۷)۔ (۲۳۔۲۴:) دنیا میں زہر ہر ذی حیات مخلوق کے لئے بڑی خطرناک اور مہلک چیز ہے، اسی طرح اخلاقی اور روحانی زندگی کے لئے تکبر زہر ہے، اس سمِ قاتل یا زہرِ ہلاہل کے لئے کوئی دوا نہیں، مگر ہاں صرف ایک چیز ہے، جو اسے مار سکتی ہے، اور وہ عاجزی ہے، پس عاجزی کرنے والوں سے خدا محبت کرتا ہے، اور تکبر اللہ کو پسند نہیں (۲۲: ۳۴، ۱۶: ۲۳)۔

۹۔ (۲۵۔۲۶:) قرآنِ حکیم کا کہنا ہے کہ خدائے پاک فضول خرچی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے (۰۷: ۳۱) اس کا واضح اشارہ یہ ہے کہ اللہ ایسے مومنوں کو چاہتا ہے اور ان کو اپنی پُرحکمت محبت کی لازوال دولت سے مالامال فرماتا ہے جو اس کی راہ میں مالی قربانیاں پیش کرنے سے دریغ نہیں رکھتے ہیں (۰۲: ۲۶۱)۔ (۲۷۔۲۸:) جیسا کہ آپ

 

۱۷۵

 

جانتے ہیں کہ جہاد کئی معنوں میں ہے، یعنی اس کی چند قسمیں ہیں، اور ہر جہاد اپنی جگہ پر بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے، من جملہ ملک و ملت کی ضرورت کے مطابق ترقیاتی امور کی اجتماعی جدوجہد جب سیسہ پلائی ہوئی عمارت کی طرح مربوط و منظم ہو جاتی ہے، تو خدا تعالیٰ ایسے اجتماع سے محبت کرتا ہے، اور جو لوگ بلاوجہ ایسے کاموں میں حصہ نہیں لیتے، وہ گویا جہاد کے موقع پر گھر میں بیٹھے رہتے ہیں (۶۱: ۰۴، ۰۴: ۹۵)۔

۱۰۔ یہ ہماری کتنی بڑی ناشکری اور غفلت ہے، کہ خدائے پاک و برتر کے نورِ محبت سے متعلق بہت کچھ سنتے ہیں، مگر پگھلتے نہیں، نہ اس کے حصول کے لئے کوئی انقلابی عمل کرتے ہیں، حالانکہ ساری باطنی شفا اور صحت اسی محبت میں مضمر ہے، اور جملہ بیماریاں اس اکسیرِ اعظم کے نہ ہونے میں ہیں، پس یہ چودہ صفاتِ عالیہ، جو آسمانی محبت سے متعلق ہیں، حقیقی صحت کی علامات ہیں، اور ان کے سامنے جو صفاتِ مذمومہ ہیں، وہ یقیناً باطنی امراض ہیں۔

۱۱۔ خدائی محبت ایک روح پرور اور ایمان افروز نور ہے، جس کی ضیا پاشی سے جہالت و نادانی کی ظلمتیں کافور ہو جاتی ہیں، یہ نور حیاتِ طیبہ یعنی حقیقی زندگی (۱۶: ۹۷) کا سرچشمہ ہے، پس خداوندِ تعالیٰ جس بندۂ مومن سے محبت کرتا ہے، وہ اس نور میں فنا ہو کر از سرِ نو زندہ ہو جاتا ہے، اور یہ فنا فی اللہ کی ایک وضاحت ہے، تمام انبیاء علیہم السّلام فنا فی اللہ کا مرتبہ رکھتے تھے، اور وہ حضرات کسی

 

۱۷۶

 

فرق و امتیاز کے بغیر سب انسانوں کو اسی منزلِ آخرین کی طرف دعوت و نصیحت کرتے تھے، کیونکہ ہر عظیم ہادی کی ہدایت و رہنمائی منزلِ مقصود تک ہوتی ہے، اس مطلب کو دوسرے لفظوں میں یوں ادا کرنا چاہئے کہ ہر پیغمبر اپنے دور کے حقیقی مومنین کو ان کی جسمانی موت سے پہلے ہی خدا سے واصل کر دیتا ہے، اور ظاہر ہے کہ ذاتِ خدا ہی سب کی آخری منزل ہے۔

۱۲۔ اسلام میں بہت سے عظیم المرتبت بزرگ ایسے بھی گزر چکے ہیں، جو فنا فی اللہ کا درجہ رکھتے تھے، مگر دنیا ان کو نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا ہیں، کیونکہ جو شخص بحکمِ “من عرف” اپنے آپ کو نہیں پہچانتا ہے، وہ خدا اور اس کے اولیاء کو بھی نہیں پہچان سکتا، تاہم دینِ فطرت (اسلام) میں رحمتِ خدا سے مایوسی نہیں، کیونکہ اس میں علم و معرفت کے تمامتر ذرائع موجود ہیں۔ والسلام۔

۴ رمضان ۱۴۰۶ھ / ۱۴ مئی ۱۹۸۶ء

۱۷۷

انبیاء و اولیاء کی شناخت

۱۔ آپ حضرات میں سے کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کی بعض باتیں اصل موضوع سے ہٹ کر ہیں، لیکن میں عرض کروں گا کہ ایسا نہیں، کیونکہ جہاں قرآنِ حکیم اپنے معجزاتِ علمی کے بہت سے پہلوؤں میں سے ایک پہلو میں دوا، علاج، شفاء ، اور “موضوعِ شفاء” ہے، تو پھر کوئی ایسی بات جو قرآن سے ہو یا اس کی روشنی میں، کس طرح “قرآنی علاج” کے مضمون سے باہر ہو سکتی ہے، چنانچہ یہاں انبیاء و اولیاء کی شناخت یا معرفت کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے تاکہ ان برگزیدہ اور مقدّس ہستیوں کے ذریعے سے اہلِ دانش پر یہ حقیقت روشن ہو کہ باطنی صحت کا اصل مقام کہاں ہے، اور اس کا ثمرہ کیا ہے، کیونکہ یہی حضرات خود راہِ مجسم بھی ہیں، راہنما بھی، اور منزلِ مقصود تک پہنچ جانے کا بہترین نمونہ بھی ہیں۔

۲۔ آپ یہ حقیقت جانتے ہوں گے کہ ہر نبی ولی بھی ہے، لیکن ہر ولی نبی نہیں، اوّل اس لئے کہ نبوّت ولایت سے برتر ہے، اور دوم

 

۱۷۸

 

اس لئے کہ ولی کے معنی ہیں دوستِ خدا، یعنی اس میں نبوّت کے معنی نہیں، اور ہر پیغمبر اللہ تعالیٰ کا دوست ہوا کرتا ہے، پس قرآنِ کریم میں جہاں اولیاء یعنی دوستانِ خدا کا ذکر آیا ہے وہاں اس تذکرہ میں انبیاء علیہم السّلام بھی ہیں، جیسے ارشاد ہوا ہے (ترجمہ): آگاہ رہو اس میں شک نہیں کہ دوستانِ خدا پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں (۱۰: ۶۲) اس آیۂ پُرحکمت میں جبکہ انبیاء و اولیاء یکجا ہیں، نبوّت و رسالت کی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر باقی تمام ازلی و ابدی اسرار کے خزانے جمع ہیں، اور علم و معرفت کی کوئی چیز ان سے باہر نہیں۔

۳۔ اولیائے خدا ولایت کے اعتبار سے ایک ہیں، مگر نبوّت و رسالت کی وجہ سے دو ہیں، کہ گروہِ اوّل کا نام انبیاء ہے، اور گروہِ دوم کا نام صدیقین (۰۴: ۶۹) جو کچھ انبیاء علیہم السّلام نے دیکھا ہے، اس کو صدیقین بھی دیکھتے ہیں، اور اسی حق الیقین کے مشاہدے کی بناء پر یہ حضرات اُن حضرات کی لائی ہوئی کتابوں اور معجزات کی شہادت دیتے ہیں، اور تصدیق کرتے ہیں، اور صدیقوں کے انبیاء کے ساتھ ہونے کا پتا اس بات سے بھی چلتا ہے کہ ان کے بعد شہداء ہیں، پھر صالحین، اور آخر میں تابعین (۰۴: ۶۹) آپ شاید یہ کہیں گے کہ مذکورہ صاحبان میں سے باقی بھی تو خدا کے دوست ہیں، آپ کا کہنا بالکل بجا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی دوستی کے درجات ہیں، چنانچہ خداوند تعالیٰ کے اولیائے خاص انبیاء و صدیقین ہیں، جن کا ذکر ہوا۔

۱۷۹

۴۔ حضرت آدم علیہ السّلام کا ایک قرآنی نام نفسِ واحدہ ہے (۰۷: ۱۸۹، ۳۹: ۰۶) واحدہ بروزنِ فاعلہ کے معنی ہیں ایک، نیز اس کے معنی ہیں ایک کر لینے والا، سورۂ اعراف اور سورۂ زمر کے مذکورہ دونوں حوالوں میں خوب غور سے دیکھئے تو معلوم ہو جائے گا کہ ابوالبشر کے عالمِ ذرّ میں تمام انسانوں کے ذرّاتِ نفوس اُس وقت پیدا ہو چکے تھے، جبکہ ہنوز حضرتِ آدمؑ سے حضرت حواؑ کا وجودِ سکینت نہیں بنا تھا، کیونکہ جو خدائی روح (نور) خلیفۂ خدا میں نفخ کی گئی، وہ اپنے ساتھ ارواح و ملائکہ کا ایک بہت بڑا عالم لئے ہوئے تھی، اور یہ نفسِ واحدہ کی تعریف ہے۔

۵۔ ہر پیغمبر اور ہر ولئ کامل اپنے وقت میں نفسِ واحدہ ہوا کرتا ہے، کیونکہ روحِ خدا یا نورِ خدا اور عالمِ ذرّ کو تو ہمیشہ ہمیشہ موجود رہنا ہے، اور اس امرِ واقعی کی ایک روشن دلیل کہ کس طرح انسانِ کامل میں سب ہوتے ہیں، حضرتِ ابراہیم علیہ السّلام کی مبارک ہستی سے مل سکتی ہے کہ آپ نہ صرف ایک مؤحدّ فرد اور ایک عظیم پیغمبر تھے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک فرمانبردار اور خداشناس امت (جماعت) بھی تھے (۱۶: ۱۲۰) اور ایسی جماعت، جس کی اللہ جلّ شانہ نے تعریف فرمائی ہے، انبیاء و صدیقین کی روحانی جمعیت تھی، جس کی نمائندگی سے آپ علیہ السّلام ماضی، حال، اور مستقبل کے تمام لوگوں کے امام مقرر ہوئے (۰۲: ۱۲۴) اور آپ کی ایسی پُرحکمت نمائندگی بر نمائندگی سے سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ صرف خلائقِ اوّلین و آخرین کے امام ہیں، بلکہ

 

۱۸۰

 

آنحضرت تو سارے انبیاء و اولیاء کے بھی امام اور پیشوا ہیں، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضورِ انورؐ کو جملہ جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے (۲۱: ۱۰۷) اور یہ رحمت ہر زمانے کے لئے ہے، لہٰذا یہ کہنا حقیقت ہے کہ یہ آفاقی رحمت سلسلۂ انبیاء و اولیاء کے توسط سے پھیلتی چلی آئی ہے۔

۶۔ رحمت کی ایک خاص صورت قرآن اور نورِ قرآن ہے (۱۰: ۵۷، ۰۵: ۱۵) قرآنِ حکیم کی روح و روحانیّت، اور علم و حکمت پہلی امتوں کی آسمانی کتابوں میں بھی تھی (۲۶: ۱۹۶) اور اب وہ کتابیں ایک طرح سے قرآن میں ہیں (۰۵: ۴۸) کیونکہ جس قانونِ وحدت کی رو سے کتبِ سماوی کے معلّمین ایک دوسرے میں ہوتے ہوئے اپنے عظیم مرکز سے وابستہ ہیں، اور وہ نورانی مرکز رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں، اسی قانون کے مطابق سارے صحائف بھی ایک دوسرے میں منتقل ہوتے ہوئے قرآنِ عظیم میں جمع ہیں، کیونکہ وجودِ مرکز اور مرکزی کشش کے بغیر کوئی نظام ٹھہر نہیں سکتا۔

۷۔ صدق (سچائی، سچ، سچا) کتنا پیارا لفظ ہے، یقیناً بے حد عزیز ہے، خصوصاً اس لئے کہ یہ یعنی صدق قرآنِ پاک کے ناموں میں سے ہے (۳۹: ۳۳) صدق سے صادق (سچا، سچ بولنے والا) ہے، جس کی مراد ہے، دین کی صداقتوں اور حقیقتوں کو جاننے والا، اور بیان کرنے والا، نیز قولاً و فعلاً ان کی تصدیق کرنے والا، اور صدیق

 

۱۸۱

 

اسی کا صیغۂ مبالغہ ہے، یعنی نہایت سچا، سراپا صدق، اور دین کی حقانیت و صداقت کو اصل و اساس سے جاننے والا، اس سے ولی مراد ہے، جس کا درجہ نبی کے بعد ہے، چنانچہ سورۂ نساء کے ایک ارشادِ مبارک (۰۴: ۶۹) کے مطابق روحانی ترقی کا پہلا درجہ اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کا ہے، دوسرے زینے پر صالحین ہیں، تیسرے پر شہداء، چوتھے پر صدیقین، اور سیڑھی چڑھ کر انبیاء علیہم السّلام ہیں، درجِ ذیل نقشہ کو دیکھئے:

۱۸۲

۸۔ الف: ویسے تو عالمِ ناسوت میں سب لوگ رہتے ہیں، لیکن صرف مومنین ہی عروج و ارتقاء کی سیڑھی کے پہلے زینے پر پہنچ گئے ہیں، سیڑھی پر رکنا ممکن ہے، مگر گمراہی ناممکن (۰۳: ۱۰۱)۔ ب: صالحین بھی دوسرے تمام انسانوں کے ساتھ اسی دنیائے ظاہر میں رہتے ہیں، لیکن ان کی روحانی رسائی دوسرے زینے پر عالمِ ملکوت تک ہوئی ہے، جہاں وہ نور کی روشنیوں کو دیکھ رہے ہیں، اور ان کے عالمِ شخصی کی زمین کی اصلاح ہو رہی ہے۔ ج: شہداء دو قسم کے ہیں: ظاہری اور باطنی، ظاہری شہادت کا حال کسی پر پوشیدہ نہیں، باطنی شہید وہ ہے جو راہِ خدا (روحانیّت) میں جیتے جی مارا جاتا ہے، یا یوں کہا جائے کہ وہ منزلِ عزرائیلی سے گزر جاتا ہے، اور قیامت کی معرفت حاصل کرنے لگتا ہے، عالمِ جبروت میں صفاتِ الٰہیہ کا نورانی ظہور ہوتا ہے۔ د: صدیق (ولی) کی رسائی عالمِ لاہوت تک ہوتی ہے، جہاں وہ ذاتِ خدا میں فنا ہو جاتا ہے، اور اس کو دستِ قدرت کا لپیٹا ہوا سمیٹا ہوا سب سے عظیم خزانہ مل جاتا ہے، جس میں کلیدی نوعیت کے بھید ہی بھید ہیں، اب ایسا شخص جب علم بیان کرے گا، تو نہایت ہی سچ بولے گا، کیونکہ اس کا بیان ان ازلی اور ابدی اسرار یعنی بھیدوں کی روشنی میں ہے، جن کو اس نے عالمِ لاہوت میں دیکھا ہے، پس وہ اسی معنیٰ میں صدیق (نہایت سچ بولنے والا) ہے۔ ھ: نبی پہلے صاحبِ ولایت ہوا کرتا ہے، اور اس کے بعد مرتبۂ نبوّت پر فائز

 

۱۸۳

 

ہو جاتا ہے، نبی کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اپنی نبوّت کا اعلان کر کے لوگوں کو خدا کی طرف بلائے، مگر ولی کو ایسا کوئی حکم نہیں ہوتا، ہاں وہ اپنے پیغمبر کے تحت کام کرتا ہے، نبوّت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر آکر ختم ہوئی، مگر سلسلۂ ولایت جاری و باقی ہے۔

۹۔ جبرائیل علیہ السّلام کا مقام جبروت ہے، اور وہ وہاں سے اوپر نہیں جا سکتا ہے، کیونکہ جبریل ایک ایسا فرشتہ ہے جو کسی پیغمبر یا ولی کے ارتقائی سفر میں ساتھ ہوتا ہے، لیکن چونکہ لاہوت عالمِ وحدت ہے، اس لئے اس میں دو ہستیوں کی دوئی ایک ساتھ داخل نہیں ہو سکتی ہے، صرف ایک ہی فرد وہاں تک جا سکتا ہے، اور وہ بھی ہر طرح سے مجرد اور فنا ہو کر، جیسا کہ فنا ہو جانے کا حق ہے۔

۱۰۔ قرآنِ کریم میں حضرت ادریس علیہ السلام کا ایک تذکرہ اس طرح فرمایا گیا ہے: (ترجمہ:) اور (اے رسول) قرآن میں ادریس کا بھی تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ صدیق (ولی اور) نبی تھے (۱۹: ۵۶) اور ایسا ارشاد حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں بھی ہے (۱۹: ۴۱) اس مثال سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہر پیغمبر پہلے ولی ہوتا ہے، اور اس کے بعد نبی، اب یہاں مذکورہ ڈایاگرام کی روشنی میں ایک اہم سوال کا جواب دیا جاتا ہے، اور وہ سوال یہ ہے، جو پوچھا جاتا ہے کہ: عورت کی روحانی ترقی کس حد تک ممکن ہے؟ آیا کوئی

 

۱۸۴

 

خاتون کسی زمانے میں پیغمبر نبی تھی یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کا کیا سبب ہو سکتا ہے؟ بطورِ جواب عرض ہے کہ عورت کی روحانی ترقی اور مرد کی روحانی ترقی میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ جائے بازگشت اور منزلِ فنا دونوں کے لئے ایک ہی ہے، اور وہ عالمِ لاہوت ہے، جہاں سب کو فرداً فرداً فنا ہو جانا ہے، چنانچہ خواتین کی روحانی ترقی کی ایک روشن مثال حضرت مریم علیہا السّلام سے متعلق ہے، کہ آپ صدیقہ تھیںِ جس کا ترجمہ ہے ولی خاتون یا ولیہ، یعنی وہ کامل اولیاء اللہ میں سے تھیں، مذکورہ نقشے میں دیکھئے کہ صدیقین کی آخری منزل لاہوت ہے، پس یقیناً بی بی مریم صدیقہ (۰۵: ۷۵) اور ان جیسی نیک بخت خواتین کی پاکیزہ روحیں ملکوت تک پہنچ سکتی ہیں، میرے خیال میں مساواتِ رحمانی کے اس روشن ثبوت کی وجہ سے سوال کے باقی حصے کو خود بخود ختم ہو جانا چاہئے۔

۱۲ رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ / ۲۲ مئی ۱۹۸۶ء

۱۸۵

قرآن میں جسمانی شفاء

۱۔ قرآنِ حکیم اللہ تبارک و تعالیٰ کی عدیم المثال حکمت آگین کتاب ہے، یہ بابرکت ہدایت نامۂ سماوی انسان کے دین و دنیا کی صلاح و فلاح سے متعلق مکمل و شافی ہدایات و تعلیمات پر مبنی ہونے کی وجہ سے ہر گونہ صحت و سلامتی کے حکیمانہ اسرار سے مملو (پُر) ہے، یہ صرف عقیدہ ہی نہیں، بلکہ حقیقت بھی یہی ہے، کہ قرآنِ عظیم خدائے واحد کا کلامِ قدیم اور خزانۂ ازل ہے، یعنی جہاں یہ عالی مرتبت کتاب کلمۂ “کُنۡ” اور قلمِ الٰہی میں نورِ اوّل اور سرِ اسرار کی حیثیت سے ہے، اور جس عظمت و بزرگی اور نورانیّت سے لوحِ محفوظ میں ہے (۴۳: ۰۴، ۸۵: ۲۲) وہاں قرآنِ کریم ہر درجہ پر ایک انمول خزینہ ہے، اور آپ البتہ قانونِ خزائن (۱۵: ۲۱) سے باخبر ہیں، جس کی بہت بڑی اہمیت کی بناء پر بار بار تذکرہ ہوتا رہا ہے، کیونکہ انتہائی ضروری قوانین کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے، پس ہر چیز خداوند تعالیٰ کے مذکورہ خزانوں سے نازل ہوتی ہے، چنانچہ تاریخِ انسانیت کے آغاز سے لے کر آج تک دینی اور

 

۱۸۶

 

دنیوی علوم و فنون کو جیسے ابتدائی وجود ملا، اور جس طرح ان میں اضافہ و ترقی ہوتی آئی ہے، وہ سب قرآنِ پاک کے نورانی سرچشموں کی بدولت ہے۔
۲۔ ہم یہاں یہ بھی عرض کریں گے کہ قرآنِ حکیم کے بے مثال اور تمام علوم کے جامع ہونے کا ایک روشن ثبوت یہ ہے کہ یہ عالمِ بالا سے امرِ کُنۡ، قلمِ الٰہی، لوحِ محفوظ اور خزائنِ خدا کی خصوصیات، خوبیوں، حقائق، اور معارف سے بدرجۂ کمال آراستہ کر کے نازل کیا گیا ہے، لہٰذا حق بات تو یہ ہے کہ قرآن پاک بنی نوعِ انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے، کہ اس میں آدمی کے دین و دنیا اور جسم و روح کی بہتری اور سلامتی کی کامل ترین ہدایات کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹)۔

۳۔ اب ہم نفسِ مضمون کی طرف آتے ہیں، جس میں عنوانِ بالا کے مطابق یہ مدلل بیان کرنا ہے کہ کس طرح قرآنِ حکیم میں روحانی شفاء کے ساتھ ساتھ جسمانی شفاء کے رموز بھی موجود ہیں، چنانچہ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ یقین ضروری ہے کہ جس چیز کو قرآن نے حرام قرار دیا ہے، وہ یا جسم و روح دونوں کے لئے مضرِ صحت ہے، یا ایک کے لئے، اور جو شیٔ حلال ہونے کے علاوہ حدِ اعتدال کے اندر ہو، وہ جسم و جان کی سلامتی کے لئے ضامن ہو سکتی ہے، اگرچہ قرآن اور اسلام کے ہر حکم کا مقصدِ اعلیٰ اللہ پاک کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، لیکن اس اخلاصِ عمل سے جو عظیم ثواب [نیک بدلہ] ملتا ہے، وہ

 

۱۸۷

 

نہ صرف آخرت ہی میں ہے، بلکہ دنیا میں بھی ہے، اور دنیا کے ہر ثواب میں جان و تن ایک ساتھ ہیں، مثال کے طور پر اسلام میں جو پاکیزگی کی اہمیت ہے، اس پر سائنس کی روشنی میں ذرا غور کیجئے، یا نماز کے قیام و قعود، اور رکوع و سجود کو طبی نکتۂ نظر سے دیکھئے، یا روزۂ رمضان کے باب میں اسی طرح سوچئے، غرض آنکہ قرآنی تعلیمات میں کوئی گوشہ ایسا نہیں، جس میں عقل و روح کی بہتری کے ساتھ ساتھ بحدِّ امکان جسمانی صحت پیشِ نظر نہ ہو۔

۴۔ قرآنِ حکیم میں جسمانی شفاء اور اس کی بہت بڑی اہمیت کا اندازہ اس آیۂ کریمہ سے بھی لگایا جا سکتاہے، جس میں حکیمِ برحق اور طبیبِ مطلق نے شہد کی طبی تاثیر اور منفعت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے، خدائے دانا و بینا کا وہ پُرحکمت فرمان یہ ہے: فیہ شفآء للناس (۱۶: ۶۹) اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔ یاد رہے کہ یہاں لفظِ ناس (لوگ) مطلق ہے، یعنی اس میں زمان و مکان، عمر وغیرہ کی کوئی قید و شرط نہیں، سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شہد نہ صرف ہر قسم کے مریضوں کے واسطے اکسیر کا کام دیتا ہے، بلکہ یہ ہر عمر کے تندرست لوگوں کے لئے بھی بدرجۂ انتہا مفید ہے، خواہ وہ کسی گرم ملک میں رہتے ہوں، یا سرد علاقے میں، چاہے زمانۂ قدیم کے لوگ ہوں، یا جدید سائنسی دور کے، کسی بھی فرق و امتیاز کے بغیر شہد سارے انسانوں کے لئے بے حد مؤثر اور فائدہ بخش ہے، اس سے یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ شہد تمام بیماریوں

 

۱۸۸

 

کے لئے دوا ہے، کیونکہ مذکورہ آیۂ مبارکہ ہر ہر بیماری کو چیلنج (Challenge) کرتی ہے، اور یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ جملہ اقسام کے پھولوں اور پھلوں کی طبی اور ادویاتی تاثیر و فائدہ رسانی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، جبکہ خدائے علیم و حکیم نے شہد کی مکھی سے فرمایا کہ: پس ہر قسم کے پھلوں سے رس چوستی پھر (۱۶: ۶۹)۔

۵۔ آپ نورِ قرآن کی روشنی میں لفظِ برکت اور موضوعِ برکت میں خوب غور کیجئے ، ان شاء اللہ ، آپ کی گرانقدر معلومات میں اضافہ ہو جائے گا، برکت کی عظمت و بزرگی کا یہ عالم ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس اور اسمِ بزرگ کے لئے وارد ہوئی ہے (۰۷: ۵۴، ۵۵: ۷۸) برکت کا مطلب ہے فیوض کی کثرت اور اس کا دوام، پھر خانۂ کعبہ اور قرآنِ کریم کے لئے لفظِ مبارک (برکت والا) استعمال ہوا ہے (۰۳: ۹۶، ۰۶: ۹۲) پروردگارِ عالم نے مادّی برکتیں پہاڑوں اور بارش کے پانی میں رکھی ہیں (۴۱: ۱۰، ۵۰: ۰۹) خدائے پاک نے کسی درخت، پھل، اور تیل کو براہِ راست برکت والا نہیں فرمایا، مگر درختِ زیتون، میوۂ زیتون، اور روغنِ زیتون کو (۲۴: ۳۵) یقیناً اس کے مرادی معنی کچھ اور ہو سکتے ہیں، لیکن لغوی معنی شجرۂ زیتون ہی ہیں، پس اس کی برکت پہاڑ اور پانی کی برکت سے بالکل مختلف ہے، اور وہ ہے اس کی زبردست طبّی تاثیر اور ادویاتی قوّتوں کی فروانی، آپ طب کی کتابوں میں بھی دیکھیں۔

۶۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں جن جن چیزوں کی قسم کھائی ہے، ان میں کچھ بھید ہوا کرتے ہیں، مثلاً ذاتِ پاک نے درختِ انجیر اور درختِ

 

۱۸۹

 

زیتون کی قسم کھائی ہے (۹۵: ۰۱) اس میں کئی اسرار پوشیدہ ہیں، اور ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ میوۂ انجیر اور روغنِ زیتون میں صحت کے دو خزانے پنہان ہیں۔

۷۔ تمام میوؤں میں جسمانی شفاء ہے، لہٰذا ان سے علاج کیا جا سکتا ہے، اور اس حقیقت کے دلائل یہ ہیں: الف: میوے سب کے سب بہشت کے ربّانی خزانوں سے نازل ہوئے ہیں (۱۵: ۲۱)۔ ب: پھلوں کو بارانِ رحمت کی برکت حاصل ہے (۵۰: ۹)۔ ج: ثمرات ایک معنی میں امن و امان والے حرم (خانۂ کعبہ کی چار دیواری) کے تبرک ہیں (۲۸: ۵۷)۔ و: یہ بھی پھلوں کی ایک بہت بڑی فضیلت ہے کہ جنت کی نعمتوں کی تشبیہہ میوؤں سے دی گئی ہے (۴۷: ۱۵)۔ ھ: جس طرح اللہ تعالیٰ کائنات کو لپیٹ کر لولوئے مکنون بناتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) اسی طرح عالمِ ظاہر میں دستِ قدرت درخت کی بے مزہ لکڑی کو نچوڑ کر خوشبودار اور خوشذائقہ پھل بناتا ہے، اور یہ اہلِ بصیرت کے لئے بہت بڑا معجزہ ہے، پس عقل و روح کے لئے وہ موتی دوا ہے، اور جسم کے لئے یہ پھل دوا ہے۔

۸۔ پہاڑوں کے ظاہر و باطن میں گوناگون مادّی برکتیں موجود ہیں، ان برکتوں میں بے شمار طبی جڑی بوٹیاں (Medicinal Herbs) بھی ہیں، جن کی دولت رہتی دنیا تک ختم نہیں ہو سکتی ہے، شاید آپ نے کسی پہاڑ کے سبزہ زار کی دل آویز بہار اور خودرو پھولوں کی طراوت و تازگی

 

۱۹۰

 

دیکھی ہوگی، دراصل منظرِ گل ہائے رنگین کی یہ کشش ایک دعوتِ فکر ہے کہ ان میں سے ہر پھول میں بڑی قیمتی دوا ہے، جیسے جنگلی گلاب (Wild Rose) اپنے مسرّت بخش رنگ و بو کی زبانی آپ سے کہتا ہو کہ دیکھئے میرے گنجینۂ وجود میں شفا کی ایک دولت پوشیدہ ہے۔

۹۔ ارشادِ قرآنی کا ترجمہ ہے: پھر اُس (پانی) کے ذریعہ سے ہم نے رونق دار باغ اگائے (۲۷: ۶۰) سبحان اللہ! باغوں کی دل نواز رونق! سبزۂ نوخیز ہے یا فرشِ زمردین! ٹھنڈے ٹھنڈے سایوں میں اشجار کی گل افشانی اور عطر بیز خوش گوار ہوا! خوش الحان پرندوں کی نغمہ خوانی! بیدِ مجنون کی شاخوں کا جھولنا! سپیدار (Poplar)  کا جھومنا! اور بہت سے ایسے دلفریب مناظر باغ کی رونق میں شامل ہیں، جن کو دیکھنے سے طبیعت کی افسردگی دور ہو جاتی ہے، اور یہ ایک بنیادی علاج ہے۔

۱۰۔ تمامتر جسمانی بیماریوں کے سدِ باب کے لئے کام کاج، اور ورزش و حرکت بہت ہی ضروری ہے، کیونکہ قانونِ قرآن کا مفہوم ہے کہ انسان کی ظاہری اور باطنی تخلیق و تکمیل محنت و مشقت کے بغیر نا ممکن ہے (۹۰: ۰۴) کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (۰۲: ۲۳۳) آدمی جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، تو قانونِ فطرت اس کو ابتدائی حرکت کے لئے مجبور کرتا ہے، جس وقت وہ پیدا ہو جاتا ہے، تو یہ حرکت جو بظاہر غیر منظم ہے، روز بروز اضافے کے ساتھ قوّی سے قوّی تر ہوتی جاتی ہے، غرض یہ کہ دائمی حرکت اور محنت میں صحت و کامیابی کا عظیم

 

۱۹۱

 

راز پوشیدہ ہے۔

۱۱۔ بعض لوگ اس بات سے ڈر جاتے ہیں کہ اگر انہیں شب خوابی کا وقت کم ملا، تو وہ بیمار ہو جائیں گے، ہر چند کہ ان کی اپنی عادت کی وجہ سے یہ بات درست بھی ہو سکتی ہے، لیکن اصل حقیقت وہی ہے، جس کی تعلیم قرآنِ حکیم دیتا ہے، وہ یہ کہ جن مومنین کو دین و دنیا کی ترقی اور کامیابی عزیز ہو، ان کو بہت ہی کم سونا ہے (۲۵: ۶۴، ۵۱: ۱۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنتِ مطہرہ بھی یہی طریقہ سکھاتی ہے، شروع شروع میں ریاضت تو لازمی ہے، مگر جس عمل کے لئے قرآنِ پاک حکم دے، اس میں کوئی بیماری نہیں، صرف صحت ہی صحت ہے۔

۱۲۔ روحانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟ نفسِ حیوانی، یا نفسِ امّارہ، جس کو آپ ہٹا تو نہیں سکتے ہیں، مگر اس کی تطہیر و تحلیل کر سکتے ہیں، وہ یہ کہ اس کو اس کی خواہشات سمیت پامال کیا جائے، یعنی روندا جائے، روندنے کے کئی طریقے ہیں، مگر سب سے مؤثر طریقہ شب خیزی (اور عبادت) ہے (۷۳: ۰۶) یہ طریقہ نفس کو کچل دینے کے ساتھ ساتھ بات کو بھی بہت سیدھا کرنے والا ہے، یہاں بات سے اوّل تو عبادت و ذکر مراد ہے، اور دوم ہر قسم کی گفتگو، کہ شب بیداری سے نہ صرف بندگی کے لب و لہجہ میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے، بلکہ اس کی برکت سے کلام اور بیان بھی ہر قسم کی لغزشوں سے پاک ہو کر مقبولِ خاص و عام اور دل نشین ہو جاتا ہے۔

۱۹۲

۱۳۔ جب آپ اچھی طرح مسواک کرتے ہیں، خوب نہا دھو کر صاف ستھرے لباس پہنتے ہیں، اور کسی پاک جگہ میں عبادت کرتے ہیں، تو اس سے آپ کی یکسوئی میں مدد ملتی ہے، اور عبادت سے زیادہ سے زیادہ لذّت حاصل ہو جاتی ہے، ایسی روحانی حلاوت و شادمانی کا راز کیا ہے، جس میں مادّی چیزوں کا سہارا لیا گیا ہے؟ وہ راز یہ ہے کہ روح جب تک اس دنیا میں سے، جسم سے وابستہ ہے، اور جب تک بدن زندہ ہے تو روح کے ساتھ ہے، چنانچہ یہ امر لازمی ہے کہ روحانی صحت و صفائی سے جسم کے ہر کام میں مدد ملے، اور اسی طرح جسمانی صحت مندی روح کے لئے کام آئے۔

۱۴۔ جسم و جان کی صحت اور روحانی حکمت اسی میں ہے کہ آپ شام کو خدا کا نام لے کر بر وقت سو جائیں، اور خداوندِ بزرگ و برتر کے اس احسانِ عظیم کا شکر بجا لائیں کہ اس مہربان نے اپنی رحمتِ بے پایان سے آپ کے سلا دینے کی خدمت حضرت عزرائیل کو دی، اور جگا دینے کے لئے حضرت اسرافیل کو مقرر فرمایا، اگر آپ نے حقیقی معنوں میں خدا و رسول کی اطاعت کی، تو یقیناً دیکھیں گے کہ یہ دونوں عظیم فرشتے آپ سے کیسی معجزاتی دوستی کرتے ہیں (۲۱: ۱۰۳،۴۱: ۳۰ تا ۳۱) آپ شروع شروع میں محنت کریں، اور سورۂ مزمل (۷۳) کے حکم کے مطابق نصف شب کو یا قدرے آگے پیچھے اٹھا کریں، ماسواء اللہ کو فراموش کرکے اسمِ خدا میں کھو جانے کے لئے دل کی نرمی از حد

 

۱۹۳

 

ضروری ہے، مثل مشہور ہے: ’’مشتے نمونہ از خر وارے‘‘۔ چنانچہ ہم نے ’’قرآن میں جسمانی شفاء‘‘ کے بارے میں صرف چند ہی مثالوں پر اکتفا کیا۔

والسلام

۱۸ رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ / ۲۸ مئی ۱۹۸۶ء

۱۹۴

 

بعض اہم مشورے

۱۔ قرآنِ حکیم کے بہت سے مقامات پر جس طرح حکمت سے بھرپور الفاظ میں بہشتِ برین کی تعریف و توصیف کی گئی ہے، اس پرہم مسلمانوں کا ایمان و یقین ہے، لیکن ایک ایسی بلند ترین مرتبت بھی ہے، جو جنت سے بدرجہ ہا بہتر اور بہت بڑی ہے، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا چیز ہے؟ جی ہاں، وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی [رضوان اللہ، ۰۹: ۷۲] ہے، اللہ کی رضا یا خوشنودی کے حصول کا طریقِ کار کیا ہو سکتا ہے؟ خدا و رسول کے ہر حکم کو ایسی خالص نیت سے بجا لانا، کہ اس میں اللہ کی رضا کے سوا اور کوئی مقصد پیشِ نظر نہ ہو، یہ ہے خلوصِ نیت، یعنی ارادۂ دل کی پاکیزگی اور صحت، بے شک بفرمودۂ حضرتِ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اعمال کی درستی و نادرستی کا دارومدار نیتوں پر ہے، پس ہر نیکی کا اصل و اساس نیت ہے، پھر قول، اور اس کے بعد عمل ہے۔

۲۔ حسنِ توفیق یا قلبی ہدایت (۱۱: ۸۸، ۶۴: ۱۱) کے لئے نہ صرف ہر نماز کے

 

۱۹۵

 

بعد بلکہ ہمیشہ دعا کیجئے ، اس میں انتہائی عاجزی اور اظہارِ حاجتمندی کی ضرورت ہے، تاکہ دل میں کوئی کدورت باقی نہ رہے، اور درگاہِ خداوندی سے رجوع ہو، دعا اپنی زبان میں بھی ہو سکتی ہے، تاکہ صورتِ حال سے متعلق درد بھری فریاد سے دل پگھل جائے، اور خدائے مہربان کو آپ کی اس حالت پر رحم آئے مگر یہ نکتہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس میں کوئی تغیر نہیں، کہ کبھی اس کو غصہ اور کبھی رحم آتا ہو، لیکن حالات کے مطابق یہ تبدل نورِ خدا کی ان شعاعوں میں واقع ہوتا ہے، جو ہر آدمی کے باطن پر پڑتی رہتی ہیں، چنانچہ اگر دورانِ دعا آپ کی سنجیدہ گریہ و زاری ہو رہی ہے، یا دل خوب نرم سے نرم تر ہو رہا ہے، تو یقین کریں کہ خداوند تعالیٰ آپ پر نظرِ رحمت ڈال رہا ہے۔

۳۔ اگر کسی وصف کی وجہ سے لوگ آپ کی تعریف کرتے ہیں، تو شکر گزاری کے آنسو بہاتے ہوئے عجز و انکساری کے دریائے سلامتی میں ڈوب جانا، تاکہ فخر و غرور کا مرض نہ ہو سکے، اور اگر مخالفت کرتے ہیں، تو صبر کا راستہ اختیار کرنا، اور ہر حال میں خدا کو کثرت سے یاد کریں، کیونکہ اسی کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز ہے، اور وہی حکمت والا ہے، مثل ہے: “خدا شرے بر انگیزد کہ خیرِ ما دران باشد۔” یعنی خدا ایسا قادرِ مطلق ہے کہ اگر چاہے تو شر سے بھی خیر بنا سکتا ہے۔

۴۔ اپنے شدید غصّے کا علاج کئی طرح سے کیا جا سکتا ہے: الف: وہ غصہ جس سے دل پر ضرب پڑتی ہو، جو سخت اور بے معنی ہو، وہ خطرناک ہے، ایسے غصے کا علاج ضروری ہے، وہ یہ کہ آپ حلیمی سیکھئے،

 

۱۹۶

 

اور اسی سے علاج کیجئے، ورنہ اس کے نتائج برے ہو سکتے ہیں۔ ب: غیظ و غضب کی کیفیت کسی کڑوی دوا کی طرح ہے، آپ ہر بار اسے پیتے رہیں، جیسا کہ قول ہے: شفا بایدت داروئے تلخ نوش (اگر تجھ کو شفاء چاہئے، تو تلخ دوا پی لے) سورۂ آلِ عمران کی آیت ۱۳۳ تا ۱۳۴ (۰۳: ۱۳۳ تا ۱۳۴) کو خوب غور سے دیکھئے کہ وہ جنّت جو کائنات کے برابر ہے، پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے، اور پرہیزگاروں کے چند بڑے اوصاف یہ ہیں: (ترجمہ:) ایسے لوگ جو خرچ کرتے ہیں فراغت میں اور تنگی میں اور غصے کے ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کو محبوب رکھتا ہے، اسی طرح اپنے غصے کے علاج کا کورس چالیس دن تک جاری رکھیں، ان شاء اللہ غصہ بڑی حد تک کم ہو جائے گا، اگر ایک کورس سے مقصد پورا نہ ہو، تو دوسرا کورس بھی ہو سکتا ہے۔

۵۔ قرآنِ کریم اور دینِ اسلام میں چالیس کے عدد کی بہت بڑی اہمیت ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۴۰ دن کی مدت میں تمام انسانی بدن کی تجدید ہو جاتی ہے، یعنی جسم کا ذرہ ذرہ یا ہر ہر خلیہ ازسرِ نو بنتا ہے، اور وجودِ آدمی کی شکست و ریخت اور مرمت کا یہ عمل تا حیات جاری رہتا ہے، چنانچہ اگر کوئی بندۂ مومن فرائض کے علاوہ چالیس دن تک بطریقِ خاص کثرت سے خدا کو یاد کرے ، یا معتکف (گوشہ نشین) ہو جائے، یا کوئی مخفی عبادت کرتا رہے، تو امید ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ انقلاب آئے گا، کیونکہ ان چالیس دنوں میں جسم و جان دونوں کی پاکیزگی

 

۱۹۷

 

ہوتی ہے۔

۶۔ جس کا علم محدود ہوتا ہے، وہ تھوڑے لوگوں کا خیر خواہ ہوا کرتا ہے، اور جس کا علم بڑا وسیع ہوتا ہے، وہ جملہ خلائق کی خیر خواہی کر سکتا ہے، جیسے عظیم فرشتے علم و حکمت کے زندہ خزانے ہوا کرتے ہیں، اور وہ کسی فرق و امتیاز کے بغیر تمام اہلِ زمین کے خیر خواہ ہیں، جبکہ وہ ان سب کے لئے معافی مانگتے ہیں، جو کرۂ ارض پر رہتے ہیں (۴۰: ۰۷) اور سفارش کرتے ہیں (۵۳: ۲۶) ہر چند کہ یہ قانون اپنی جگہ پر ہے کہ آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے، غرض یہ ہے کہ آپ علم کے ساتھ ساتھ اپنے دائرۂ خیر خواہی کو بڑھاتے جائیے۔

۷۔ مسلمانوں کی خیر خواہی بطورِ خاص کیجئے ، کیونکہ وہ تو رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جان و دل سے مانتے ہیں، اور وہ قرآنِ پاک کے اس حکم پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے کل جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں (۲۱: ۱۰۷) اور جہانوں (عالمین) سے سب انسان مراد ہیں، اس کے یہ معنی ہوئے کہ حضورِ انور بتوسطِ جملہ انبیاء تمام زمانوں کے سارے انسانوں کے لئے رحمت ہیں، لیکن پھر بھی شاید آپ کا یہ سوال ہو کہ: “مومن اور کافر کے فرق کے بغیر اور بہشت و دوزخ کے ابدی وجود کے باوصف یہ امر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ سب لوگوں پر یکسان رحمت ہو؟” اس باب میں میری گزارش یہ ہے کہ مومن، کافر، بہشت اور دوزخ کے بارے

 

۱۹۸

 

میں جو کچھ ارشادِ ربّانی ہے، اس میں کسی مسلمان کو کیا شک ہو سکتا ہے، تاہم یہ بھی ایک قرآنی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام دنیائے انسانیّت کے لئے رحمت ہیں، پس آپ کو مشورہ ہے کہ سورۂ ہود (۱۱) کی آیت ۱۰۷ تا ۱۰۸ (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸) میں خوب فکری ریاضت کریں، ان شاء اللہ سوال کا جواب بحسن و خوبی مل جائے گا۔

۸۔ ان دونوں پُرحکمت آیتوں کا ایک مستند ترجمہ یہ ہے: وہ ہمیشہ (دوزخ) میں رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں، الا یہ کہ تیرا رب کچھ اور چاہے، بے شک تیرا ربّ پورا اختیار رکھتا ہے کہ جو چاہے کرے، رہے وہ لوگ جو نیک بخت نکلیں گے، تو وہ جنت میں جائیں گے اور وہاں ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہیں، الا یہ کہ تیرا ربّ کچھ اور چاہے، ایسی بخشش ان کو ملے گی جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہ ہو گا (۱۱: ۱۰۷ تا ۱۰۸)۔

۹۔ اگر آپ یہاں مذکورہ دونوں آیتوں سے متعلق غور و فکر کرنے کے لئے سوال و جواب سے کام لیں، تو بہتر ہوگا، مثال کے طور پر: سوال: الف: زیرِ بحث آیتوں میں جیسا کہ حکمِ خداوندی ہے، آیا اس کا اطلاق عالمِ کبیر پر ہوتا ہے؟ یا عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) پر؟ یا دونوں پر؟۔ دونوں پر اطلاق ہوتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ یہ دونوں خدائے واحد کے ایک ہی قانون کے تحت ہیں۔ ب: اگر ایسا ہے تو عالمِ شخصی کے حقائق و معارف کو بھی ملحوظِ نظر رکھنا ہو گا، کیونکہ یہاں جیسی مثال ہے، وہاں یعنی عالمِ کبیر میں ویسا ممثول ہے۔ ج: آیۂ کریمہ میں دوزخ کی مدتِ

 

۱۹۹

 

عمر کا کیا اندازہ بتایا گیا ہے؟ جب تک آسمان و زمین قائم ہیں، تب تک دوزخ باقی رہے گا۔ د: کیا اس ارشادِ ربّانی میں کوئی ایسا اشارہ بھی موجود ہے، جس کا مطلب یہ ہو کہ کائناتِ ظاہر و باطن ایک دن فنا ہو جائیں گی، یا دستِ قدرت میں لپیٹ لی جائیں گی؟ جی ہاں، یہی اشارہ ہے۔ ھ: کیا ایسے میں دوزخ کی عمر ختم نہیں ہوگی؟ ضرور ختم ہو گی۔

۱۰۔ عالمِ شخصی کی مثال میں جب خدائے بزرگ و برتر ارض و سما کو دستِ راست میں لپیٹ لیتا ہے (۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) تو یہ وہ دن ہوتا ہے جس میں دوزخ تو ختم ہو جاتا ہے، اور بہشت نزدیک لائی جاتی ہے (۵۰: ۳۱) کیونکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ خیر اور بہشت کی سلطنت ہے (۰۳: ۲۶، ۳۶: ۸۳) مگر وہ پاک و برتر اپنی بابرکت مٹھی میں دوزخ کو نہیں لیتا، اس لئے کہ وہ شر ہے، پس خداوندِ عالم بالآخر شر اور باطل کو فنا کر ڈالتا ہے (۲۱: ۱۰۸)۔

۱۱۔ اگر ہم قرآنِ مجید کے اس قانون کو سمجھیں کہ ہر چیز کا سفر گول ہے (۲۱: ۳۳، ۴۶: ۴۰) تو ماننا پڑے گا کہ لوگ جس طرح پہلے کبھی ایک ہی امت تھے (۰۲: ۲۱۳) اسی طرح اہلِ دنیا آگے چل کر پھر متحد ہو جائیں گے، نیز یہ سب کے سب جیسے ازل میں فردِ واحد تھے، ویسے ابد میں بھی ایک ہی ہستی ہوں گے (۰۶: ۹۴) اس بات میں بھی بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے کہ لفظِ انسان، جو صیغۂ واحد ہے، یہ قرآنِ حکیم میں بطورِ واحد وارد ہوا

 

۲۰۰

 

ہے، مگر یہ کہ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۹) میں اناسی آیا ہے، اور سارے انسانوں کو ایک ہی عادت کے ذمہ دار ٹھہرا کر اور ایک ہی انا سے منسلک کرتے ہوئے نصیحت فرمائی گئی ہے، شاید اس لئے کہ اسلام آفاقی دین ہے، لہٰذا اس میں انسانی وحدت کی بہت بڑی اہمیت ہے، پس تمام لوگوں کی خیر سگالی مومنین کی اعلیٰ صفات میں سے ہے۔

۱۲۔ سورۂ نساء کے اس ارشادِ مبارک میں جملہ خلائق کی خیر خواہی کا یہ عظیم بھید پوشیدہ ہے (ترجمہ): جو شخص اچھی سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصہ ملے گا اور جو شخص بری سفارش کرے اس کو اس کی وجہ سے حصہ ملے گا (۰۴: ۸۵)۔ اچھی سفارش کیا ہے؟ لوگوں کی خیر خواہی، دعائے نیک، اور انسانیّت کی خدمت ہے، کہ اس میں نیت، قول، اور فعل آ گیا، اور اگر ایسی سفارش علم کی روشنی میں کی جائے، تو بہت مفید ہو سکتی ہے، ظاہر ہے کہ اس آدمی کو فائدہ ملے گا، جو یہ سفارش کرتا ہو، بری سفارش کیا ہے؟ لوگوں کی بدخواہی، لعن طعن، گالی گلوچ، دعائے بد، فساد اور تخریب کاری، جس کے مرتکب کو نقصان ہو گا۔

۱۳۔ حسد، دشمنی اور کینہ جیسے اخلاقی امراض سے خدا بچائے! ایسا ہر مرض ایک آسمانی عذاب ہے، جو نافرمانی کی وجہ سے نازل ہو جاتا ہے، چنانچہ دانشمند مومنین وہ ہیں، جو اپنے دل کو ذکرِ الٰہی اور خیر خواہی کا مسکن بناتے ہیں، جس میں کوئی برا خیال داخل نہیں ہو سکتا، اور اگر کسی طرح سے داخل ہو گیا تو ٹھہر نہیں سکتا ہے، کیونکہ ذکرِ خدا برکتوں کا عظیم طوفانی

 

۲۰۱

 

سرچشمہ ہے (۵۵: ۷۸، ۲۹: ۴۵) جس کے سیلابی بہاؤ کے ساتھ ہر چیز بہہ جاتی ہے، اور کوئی شیٔ ان موجوں کو چیر کر قلب کو چھو نہیں سکتی، اور یہ اس وقت کی بات ہے، جبکہ خدائے بزرگ و برتر کا سب سے بڑا نام کثرتِ ذکر سے قیامت خیز ہو جاتا ہے۔

۱۴۔ اللہ تعالیٰ کی کتابِ عزیز (قرآن) کو زندگی بھر عقیدت و احترام کے ساتھ سینے سے لگائے رکھئے، اس کی تعلیمات پر جان و دل سے عمل کرتے رہیں، اس کے حکیمانہ بھیدوں (حکمتوں) کو سمجھنے کے لئے بجا طور پر ریاضت کا عمل جاری رکھیں، اور اسی طرح قرآنی علاج کے اسرار سے واقف و آگاہ ہو جائیے، اگر آپ اس پُرآشوب زمانے میں قرآنِ پاک سے وابستہ رہتے ہوئے اس کی کوئی خدمت کریں، تو عجب نہیں کہ اس پسندیدہ کام کے عوض میں خداوند تعالیٰ آپ کو دونوں جہان میں نوازے، کیونکہ قرآنی خدمت کا ثواب انتہائی عظیم ہوا کرتا ہے۔

۱۵۔ قرآنِ حکیم میں مادّہ کے لحاظ سے جتنے الگ الگ الفاظ ہیں، اور ان میں سے ہر لفظ کے جتنے مختلف معانی ہیں، اتنے سارے موضوعات بیان ہوئے ہیں، اگر کوئی لفظ کثرت سے مذکور نہیں، صرف دو یا ایک بار آیا ہے، تو پھر بھی وہ ایک مفصل مضمون ہے، کیونکہ ہر قرآنی لفظ کے صوری اور معنوی مترادفات ہوا کرتے ہیں، اسی طرح یہ قرآنِ کریم کا بہت بڑا معجزہ ہے کہ اس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے (۱۶: ۸۹) آخری مشورہ یہ ہے کہ آپ قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ کا پُرحکمت اور بے مثال

 

۲۰۲

 

دارالعلوم (یونیورسٹی) سمجھتے ہوئے ارتقائی تصور سے اس کے حقائق و معارف کو درجہ وار پڑھتے رہا کریں، تاکہ کلّی شفاء حاصل ہو، آمین!

۲۸ رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ / ۷ جون ۱۹۸۶ء

۲۰۳

 

 

روحانی علاج اور عقیدۂ راسخ

۱۔ روحانی یا قرآنی علاج کی سب سے اوّلین اور بنیادی شرط عقیدۂ راسخ ہے، یعنی ربّانی طب سے صرف وہی خوش نصیب لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جو قرآنِ پاک اور اس کی روحانیّت کی جملہ برکتوں پر ایمان رکھتے ہیں، اور جس شخص کو کلامِ الٰہی سے کوئی عقیدت و محبت ہی نہ ہو، وہ قرآنِ مجید کے تمام خزانوں سے دور ہے، کیونکہ دین اور روحانیّت کی ہر نعمت عقیدۂ توحید و رسالت سے وابستہ ہے، اور اس کے بغیر حقیقی معنوں میں کہیں بھی کوئی نعمت نہیں، اب یہ بات توجہ سے سن لیجئے کہ ہر عظیم چیز کو پہچاننے اور اس سے مستفید ہو جانے کے کئی مراحل یا درجات ہوا کرتے ہیں، چنانچہ قرآنی فیوض و برکات کا پہلا مرحلہ عقیدہ ہے، جو صحیح، درست، اور راسخ ہونا چاہئے، دوسرا مرحلہ علم الیقین ہے، تیسرا عین الیقین، چوتھا اور آخری مرحلہ یا درجہ حق الیقین کا ہے، پس اس بیان کی روشنی میں نہ صرف قرآنی علاج و شفاء کے بے پایان خزانوں کا پتا چلتا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ

 

۲۰۴

 

کی آخری کتاب کی روح و روحانیّت، اور عظمت و جلالت کا بھی اچھی طرح سے اندازہ ہو جاتا ہے۔

۲۔ عقیدۂ راسخ دراصل ابتدائی اور بنیادی ایمان ہی کا دوسرا نام ہے، جو بتدریج آگے سے آگے چل کر درجۂ کمال پر نورِ ایمان بن جاتا ہے (۴۹: ۰۷، ۵۷: ۱۲) دوسری طرف سے یہ بھی یاد رکھئے کہ ایمان علم کے مقام پر پہنچ کر یقین کہلاتا ہے، جیسے علم الیقین، عین الیقین، اور حق الیقین، اور یقین دیدۂ دل روشن ہو جانے کے بعد معرفت ہو جاتا ہے، پس مرتبۂ اعلیٰ پر نورِ ایمان، نورِ یقین، اور نورِ معرفت ایک ہی حقیقت ہے۔

۳۔ یہاں ایک ایسی قرآنی مثال کی ضرورت ہے، جس سے یہ حقیقت روشن ہو کہ ایمان شروع شروع میں عقیدہ، اعتقاد، بھروسہ اور باور کرنے کے معنی میں ہوتا ہے، لیکن یہی ایمان علم و عمل کی منزلوں میں پیشرفت کر کے یقین و معرفت بھی کہلاتا ہے، جبکہ مرحلۂ عین الیقین میں حقائق کا براہِ راست مشاہدہ ہو جاتا ہے، وہ مثال یہ ہے: اور جب ابراہیم نے (خدا سے) درخواست کی کہ اے میرے پروردگار تو مجھے بھی تو دکھا دے کہ تو مردہ کو کیونکر زندہ کرتا ہے، خدا نے فرمایا کیا تمہیں (اس کا) ایمان (یعنی عقیدہ، یا باور) نہیں، ابراہیم نے عرض کی (کیوں نہیں) عقیدہ تو ہے مگر (دیدۂ دل سے دیکھنا اس لئے چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو پورا اطمینان ہو جائے (۰۲: ۲۶۰) اس سے ظاہر ہوا کہ

 

۲۰۵

 

اگرچہ ابتداء سے لے کر منزلِ آخرین تک ایمان ہی ایمان ہے، مگر اس کے کئی درجات ہیں، جبکہ شروع میں عقیدۂ محکم اور آخر میں یقین و معرفت ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے یقین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: (ترجمہ:) اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی (روحانی) سلطنت دکھاتے رہے تاکہ وہ اہلِ یقین (عارفین) سے ہو جائیں (۷۵: ۰۶) یہ اس حقیقت کے بارے میں ایک روشن دلیل ہے کہ عقیدۂ راسخ بنیادی ایمان ہے، اور ایمانِ کامل یقین بھی ہے اور معرفت بھی۔

۴۔ عقیدۂ راسخ (مضبوط عقیدہ) کی اساسی اہمیت اور اس کے عروج و ارتقا کی افادیت پر غور کرنے کی غرض سے ذیل میں ایک نقشہ پیش کیا جاتا ہے، ملاحظہ ہو:

۵۔ اس ڈایاگرام کا نام “نقشۂ عروجِ عقیدہ” ہے، یعنی یہ ہر راسخ العقیدت مسلمان کے ایمان اور روحانی عروج و ارتقاء کا نقشہ ہے، جس میں ایک ارتقائی سیڑھی بھی ہے، جس کے زینۂ اوّل پر عقیدۂ راسخ ہے، دوسرے زینے پر علم الیقین ہے، تیسرے پر

۲۰۶

 

عین الیقین، اور چوتھے پر حق الیقین ہے، جہاں مرکزِ نور ہے، نیز یہ بھی دیکھئے کہ عقیدۂ محکم کا مطلب ایمان ہے، اور ایمان شروع سے لے کر آخر تک تمام درجات میں موجود ہے، مگر علم اور یقین دوسری منزل سے شروع ہو کر درجۂ انتہا (نور) تک پہنچ جاتے ہیں، اور مشاہدہ و معرفت کا آغاز تو منزلِ سوم سے ہوتا ہے، یاد رہے کہ مشاہدہ اور اس کا ثمرہ (یعنی معرفت) دو درجوں میں ہے، پہلا درجہ روح کا ہے، اور دوسرا درجہ نمونۂ عقل سے متعلق ہے۔

۶۔ عقیدۂ استوار کی ضرورت و اہمیت اس لئے ہے کہ اسی پر دین کی اصل و اساس قائم ہے، لہٰذا عقیدے میں کوئی سقم نہیں ہونا چاہئے، اور نہ ہی اس میں کوئی کجی کی گنجائش ہے، جیسا کہ مولوی معنوی فرماتے ہیں: خشتِ اوّل چون نہد معمار کج + تا ثریا می رود دیوار کج۔ جب عمارت بنانے والا بنیادی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے، تو ایسی دیوار آسمان تک ٹیڑھی ہی جاتی ہے۔ پس قرآنِ کریم سے قلبی عقیدت و محبت رکھنا گویا اس شفا خانۂ سماوی سے رجوع کرنا ہے، جس میں ہر قسم کی شفا ہے۔

۷۔ سورۂ تکاثر (۱۰۲: ۰۵، ۱۰۲: ۰۷) میں علم الیقین اور عین الیقین کا ذکر موجود ہے، سورۂ واقعہ (۵۶: ۹۵) اور سورۂ حاقہ (۶۹: ۵۱) میں حق الیقین کا تذکرہ آیا ہے، ان حوالوں کا مقصد یہ ہے کہ درست عقائد کو علم الیقین کی روشنی میں دیکھنے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ شیطان شکوک کی بیماری پیدا کر

 

۲۰۷

 

سکتا ہے، اور شیطان کی شکست اسی امر میں ہے کہ آپ علم الیقین کے اسلحہ سے اچھی طرح لیس ہو جائیں، نیز یقینی علم اس لئے بھی انتہائی ضروری ہے، کہ آپ اس کے بغیر منزلِ عین الیقین میں داخل نہیں ہو سکتے ہیں، اور دیکھئے کہ قرآنِ پاک میں جس علم کی تعریف کی گئی ہے، وہ علم الیقین سے شروع ہو جاتا ہے (۱۰۲: ۰۵) اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی علم کے ذریعہ تمام ظاہری شکوک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے۔

۸۔ عین الیقین ۔ یقین کی آنکھ، دیدۂ دل یا چشمِ باطن کا نام ہے، اگر رحمتِ خداوندی اور علم و عمل کے نتیجے میں آپ کی قلبی آنکھ کھل کر روشنی نظر آنے لگے، تو ہرگز اس کو ایک عام نعمت نہ سمجھ لینا، کیونکہ یہ گویا عالمِ روحانی میں آپ کی پیدائش ہے، جہاں تمام عظیم روحانی نعمتیں جمع ہیں، جس طرح دنیائے ظاہر میں جب کوئی بچہ پیدا ہو جاتا ہے، تو وہ بہت سی مادّی نعمتوں کی طرف رخ کر لیتا ہے، اسی طرح آپ روحانیّت کے اس مقام پر بہشت اور اس کی ہر نعمت کی جانب متوجہ ہو گئے، پس مبارک ہو! کہ یہ آپ کی بہت سی بیماریوں سے شفا یابی اور شادمانی کا موقع ہے، تاہم یہ نکتہ بھول نہ جائیں، کہ اس منزل میں جیسی انتہائی تیز بوقلمونی روشنی ہے، وہ نہ صرف درخشان ہدایت و رہنمائی ہے کہ آپ اور آگے جائیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ زبردست آزمائش اور سب سے آخری رکاوٹ بھی یہی ہے (۶۷: ۰۵، ۷۲: ۰۸) لہٰذا آپ بصد عاجزی

 

۲۰۸

 

دعا کریں، کہ خدائے بزرگ و برتر آپ کی دستگیری و رہنمونی فرمائے! اور منزلِ مقصود تک پہنچا دے ! آمین!!

۹۔ آپ کے عالمِ شخصی میں یہ عجائب و غرائب، یہ نور کے طوفانی بادل، یہ چمکتی ہوئی موجیں، یہ درخت جن کے ہر پتے سے قوسِ قزحی نور پھوٹ رہا ہے، یہ نورانی پھول، جن کا ظہور ہر لحظہ بدلتا رہتا ہے، یہ ذرّات مثلِ آفتاب، یہ بہشت جیسے مسرّت بخش مناظر، جو چشمِ زدن میں جلوہ نمائی کی کروٹ بدلتے رہتے ہیں، یہ درخشان و تابان مگر خاموش بھیدوں کی دنیا، اور یہ عالمِ خیال کے بے شمار عظیم معجزات کیا ہیں؟ اور کیوں ہیں؟ یہ قرآنِ پاک کی روح و روحانیّت ہے، اور یہ معجزے بحکمِ خدا اس لئے رونما ہوگئے، تاکہ آپ کو عین الیقین کے مقام پر شکوک و شبہات کی بہت سی بیماریوں سے شفاء مل جائے، اور آپ پُرخلوص شکر گزاری کے ساتھ اس منزل سے اور بھی آگے بڑھ جائیں۔

۱۰۔ حق الیقین ۔ یقین کا حق، یعنی یقین کی اصل حقیقت، جس سے نورِ قرآن مراد ہے (۵۶: ۹۵، ۶۹: ۵۱) جو سب کچھ ہے، جیسے نورِ عقل، نورِ معرفت، نورِ یقین، نورِ علم، نورِ ایمان، نورِ ازل، نورِ محمدی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) وغیرہ، چونکہ حق الیقین موجوداتِ لطیف کا مرکز بھی ہے، کائناتِ ظاہر کا خلاصہ، نچوڑ، اور ست بھی، اور خدائی داد و سند (لین دین) والی بابرکت مٹھی کا نمونۂ پر حکمت بھی ہے، اس لئے یہ ایک طرف سے کل چیزوں کا ازلی سرچشمہ ہے، اور دوسری طرف سے تمام اشیاء (حقائق) کا ابدی مجموعہ بلکہ

 

۲۰۹

 

وحدت ہے، پس اسی گوہر یا جوہر کو دستِ قدرت بشکلِ آسمان و زمین اور ہر چیز پھیلا دیتا ہے، اور پھر لپیٹ لیتا ہے۔

۱۱۔ ہم اپنی عقلِ جزوی پر اتراتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہر چیز کا سایہ ہوا کرتا ہے، مگر نور کا کوئی سایہ نہیں ہوتا، لیکن قرآنِ حکیم کا اشارہ ہے کہ نور بھی اپنی نوعیت کا ایک سایہ رکھتا ہے، پھر ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ بے شک نور کا سایہ عکس کہلاتا ہے، جیسے آئینے میں سورج کا عکس پڑتا ہے، چنانچہ آپ سورۂ فرقان (۲۵: ۴۵ تا ۴۶) میں بغور دیکھئے، ان دونوں پُرحکمت آیتوں میں بظاہر سایۂ جسم کا ذکر ہے، بباطن سایۂ نور کا، یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے نورِ ازل کے عکس کو پھیلا کر آسمانوں، زمین، اور تمام مخلوقات کو بنایا، وہ اگر چاہے تو یہ سایہ ٹھہرا ہوا رکھے، تاکہ بھید کھل نہ جائے، اور اگر چاہے تو آفتابِ نور طلوع ہو جائے، اور اس کی روشنی میں چیزوں کی شناخت ہو، پھر مجموعی سائے کو جو دراصل ایک ہی عکس ہے بڑی آسانی سے اپنی طرف لپیٹ لیتا ہے (۲۵: ۴۵ تا ۴۶، ۲۱: ۱۰۴، ۳۹: ۶۷) تاکہ اس واقعہ کی معرفت حاصل ہو کہ ذاتِ خدا کے سوا جو کچھ بھی ہے، وہ کس طرح فنا ہو جاتا ہے (۲۸: ۸۸،۵۵: ۲۶ تا ۲۷)۔

۱۲۔ سورۂ نحل میں حضرتِ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ اللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّمَّا خَلَقَ ظِلٰلًا (۱۶: ۸۱) مفہوم: اور خدا نے اپنی مخلوقِ ازل سے تمہارے لئے سائے بنائے، یعنی تم میں سے ہر فرد کے لئے ایک عالمِ شخصی اور اس میں اپنے زندہ نور کا ایک عکس بنا دیا، تاکہ یہ گنجِ مخفی

 

۲۱۰

 

وقت آنے پر ہر خدا شناس مومن کے لئے “انائے علوی” ثابت ہو جائے، اس حقیقت کے دلائل یہ ہیں: الف: سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس آیۂ کریمہ کا خطاب اہلِ ایمان سے ہے، لہٰذا یہاں جس نعمت کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ عام نہیں، بلکہ خاص ہے، کیونکہ خداوندِ علیم و حکیم کسی ایسی چیز کے دینے میں مسلمانوں پر احساس نہیں رکھتا، جس میں کافروں اور جانوروں کی بھی شرکت ہو۔ ب: اگرچہ ہر مخلوق کا ایک سایہ ہوا کرتا ہے، لیکن مخلوقات کے اعلیٰ اور ادنیٰ درجات ہیں، چنانچہ مسلمانوں کے لئے سب سے مفید ترین سایہ وہی ہوگا، جس کا تعلق سب سے اعلیٰ ترین مخلوق سے ہو، اور وہ نورِ ازل ہے۔ ج: ہر چند کہ ہم ایک اعتبار سے جمادات، نباتات، حیوانات، وغیرہ کو مخلوق کہہ سکتے ہیں، لیکن صانعِ مطلق کسی چیز کو تخلیق کے درجۂ کمال پر پہنچا کر ہی اپنی ذاتِ پاک کی تعریف فرماتا ہے (۲۳: ۱۴) کیونکہ اُس نے ایسی مخلوق کو حقیقی معنوں میں، اور خلقِ اوّل و آخر کے طور پر پیدا کیا، اس کا مطلب یہ ہوا، کہ جس مخلوق کے سایۂ عاطفت میں عقل و جان کے لئے امن و راحت ہے، وہ سب سے کامل اور سب سے عظیم ہے، اور شفائے کلّی کا ذریعہ بھی وہی ہے۔

۱۳۔ اگر کوئی عزیز سوال کرے کہ قرآن کے حوالے سے اور عالمِ شخصی کے حوالے سے ازل کی کیفیت و حقیقت کیا ہے؟ یا اس کا تصوّر کس طرح ہے؟ میں بطورِ جواب یہ عرض کروں گا کہ ازل دونوں حوالوں سے

 

۲۱۱

 

زمانِ ظاہر کی نفی کا نام ہے، کیونکہ وہ اس کے برعکس ہے، اس لئے کہ اس میں گزر جانے والا زمانہ یعنی ماضی، حال، اور مستقبل نہیں، وہ تو ٹھہرا ہوا زمانہ ہے، جبکہ اُس میں ہمیشہ ہمیشہ ایک ایسا مظاہرہ (Demonstration) ہوتا رہتا ہے، کہ اس میں ازل و ابد ایک ہی حقیقت ہے، اور ابداع و انبعاث ایک ہی ظہور ہے، جیسے ہمیشہ اور ہر وقت کائنات کا لپیٹنا اور پھیلانا چشمِ زدن میں ایک ساتھ واقع ہوتا رہتا ہے، جو کلمۂ کُنۡ کا فعل ہے (۵۰: ۵۴) آپ اس کتاب کو غور اور دقیقہ رسی سے پڑھیں، اور ڈایاگرامز کو خوب دلنشین کر لیں، ان شاء اللہ شفا حاصل ہوگی۔
۹ شوال ۱۴۰۶ھ / ۱۷ جون ۱۹۸۶ء

۲۱۲

 

 

امواجِ نور کا تصوّر

۱۔ جیسا کہ اس حقیقت کا ذکر ہو چکا ہے کہ ایک راسخ العقیدت مسلمان کا عقیدہ یعنی ایمان درجۂ کمال پر جا کر نور بن جاتا ہے، اس لئے شروعات کے کسی بھی درجے میں نور کا خیال کرنا، یا امواجِ نور کا تصوّر کرنا ایمان میں سے ہے، یاد رہے کہ وجودِ انسانی میں بے شمار صلاحیتیں پنہان ہیں، ان میں سے قوّتِ خیال و تصوّر کی بہت بڑی اہمیت اس لئے ہے کہ اس کا تعلق کچھ ترقی کے بعد مشاہدۂ نور سے ہے، چنانچہ امواجِ نور کا تصور ایک بے حد مفید شغل (خدا کا دھیان) ہے، اور یہ بڑا اہم شغل علم و حکمت کی روشنی میں طلبِ نور سے متعلق کسی دعائے ماثورہ کے ذریعہ ہونا چاہئے، مثال کے طور پر درجِ ذیل دعا کو لیجئے، جسے حضرت امام جعفر الصادق علیہ السّلام ہر نمازِ فجر کے بعد پڑھا کرتے تھے:
اللّٰھم اجعل لی نورا فی قلبی، و نورا فی سمعی، و نورا فی بصری، و نورا فی لسانی، و نورا فی شعری، و نورا فی بشری، و نورا فی لحمی، و نورا

 

۲۱۳

 

فی دمی، و نورا فی عظامی، و نورا فی عصبی، و نورا بین یدی، و نورا من خلفی، و نورا عن یمینی، و نورا عن یساری، و نورا من فوقی، و نورا من تحتی (دعائم الاسلام، جلدِ اول، ذکر الدعا بعد الصلوٰۃ)۔
ترجمہ: یا اللہ! میرے لئے میرے دل میں ایک نور مقرر کر دے، اور میرے کان، آنکھ، اور زبان میں بھی نور بنا دے، میرے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں، اور رگوں میں بھی نور بنا دے، اور میرے آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، اوپر، اور نیچے بھی نور مقرر فرما!

۲۔ مذکورۂ بالا دعائے مبارکہ سے ایک طرف تو یہ پتا چلتا ہے کہ انسانی عقل، روح، اور جسم کی صحت و سلامتی کے لئے نور کی لہروں (امواج) کی کتنی بڑی ضرورت ہے، اور دوسری طرف یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ پُرحکمت دعا اگرچہ شروع شروع میں ایک عقیدہ، امید، اور تصوّر کی حیثیت سے ہے، لیکن آگے چل کر مومن کے حق میں ایک عملی حقیقت بن سکتی ہے، جیسا کہ سورۂ حدید کے ایک ارشاد (۵۷: ۱۲) سے ظاہر ہے کہ نورِ ایمان جب مرتبۂ کمال پر پہنچ جاتا ہے، تو اس وقت وہ مومنین و مومنات کے آگے اور دستِ راست کی جانب دوڑتا ہے، اور اس حال میں ہر ایسا مومن متذکرۂ بالا دعا کا مصداق بن جاتا ہے، یعنی وہ شش جہت (چھ اطراف) سے امواجِ نور کے گھیرے میں گھرا ہوا ہوتا ہے، کیونکہ سامنے سے ظہورِ نور درجۂ کمال کی بات ہوتی ہے، اور قرآنِ حکیم کا حکیمانہ اصول یہ ہے کہ اکثر چوٹی کی بات کرتے ہوئے ذیلی اور ضمنی باتوں کا احاطہ کر

 

۲۱۴

 

لیتا ہے۔

۳۔ جب قرآنِ مجید کہتا ہے کہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۴: ۳۵) تو اس عظیم الشّان حکم سے مجموعۂ کائنات کا تصوّر (جس میں لازماً انسان بھی شامل ہے) اہلِ دانش کے نزدیک ایسا ہوتا ہے، جیسے لوہے کا کوئی گولا دہکتی ہوئی آگ میں سرخ انگارا ہوگیا ہو، اگر یہ تصوّر صرف حق الیقین ہی کے مقام پر قابلِ فہم ہو سکتا ہے، تو پھر یوں سمجھ لیجئے کہ نورِ الٰہی ایک بے پایان سمندر ہے، جس میں آسمان زمین کی ہر ہر چیز ڈوبی ہوئی ہے، اور انسان اس میں مچھلی کی طرح تیر رہا ہے، یہ تصوّر عین الیقین سے متعلق ہے، اور ان دونوں مثالوں میں بہت بڑا فرق ہے، کیونکہ جو لوہا آگ میں گرم ہو کر سرخ انگارا ہوگیا ہو، وہ تو ایک طرح سے آگ میں فنا ہوگیا ہے، مگر مچھلی جو پانی میں تیر رہی ہو، وہ پانی کی ذات میں فنا نہیں۔

۴۔ اب آئیے ہم یہی بات علم الیقین کی روشنی میں کریں، تاکہ مطلب زیادہ سے زیادہ آسان ہو، اس سلسلے میں سب سے پہلے نور کی کیفیت و ماہیّت کے بارے میں جاننا از بس ضروری ہے، کیونکہ نور صرف وہی روشنی نہیں، جو چشمِ باطن کے لئے ہوا کرتی ہے، بلکہ نور کی صورت و فعل حواسِ ظاہر و باطن میں سے ہر حس کی ضرورت کے مطابق ہے، جس کی ایک چھوٹی سی مثال پاور ہاؤس (Power House) یعنی بجلی گھر سے دی جا سکتی ہے، کہ پاور ہاؤس شہر کے لئے صرف روشنی ہی مہیا نہیں کرتا، بلکہ وہ اور

 

۲۱۵

 

بھی بہت سے ضروری اور مفید کاموں کو انجام دیتا ہے، چنانچہ قلب یعنی دل و دماغ کے لئے جس نورِ ہدایت کی ضرورت ہے، وہ عقل و دانش، اور علم و حکمت جیسی کیفیات میں ہے، ظاہری اور باطنی کان کے لئے جو نور مقرر ہے، وہ بابرکت آواز کی مختلف حیثیتوں میں ہے، بصارت اور بصیرت کا نور بے شک روشنی ہے، جس کا تعلق مشاہدے سے ہے، اور زبان کے واسطے جو نور ہونا چاہئے، وہ ایک غیر معمولی قوّتِ گویائی کی کیفیت میں ہے، یہ امواجِ نور کا قصہ ہو رہا ہے۔

۵۔ مذکورۂ بالا دعائے نور کے مستند و پُرحکمت ہونے میں کوئی شک و شبہہ نہیں، اور یقیناً یہ زبردست مربوط و منظم اور جامعیّت و کاملیّت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے، جس میں بحیثیتِ مجموعی عقل، جان، اور جسم کی صحت و سلامتی مطلوب و مقصود ہے، اب یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا آدمی کے بال، کھال، گوشت، خون، ہڈیوں اور رگوں کے لئے بھی الگ الگ انوار کی ضرورت پڑتی ہے؟ جی ہاں، کیوں نہیں، جبکہ بدن کے ان اجزاء میں سے ہر ایک کی بناوٹ، فعل، اور ضرورت جدا اور مخصوص ہے، چنانچہ بال انسانی جسم میں روحِ نباتی موجود ہونے کی نمایان علامت ہیں، پس روحِ نباتی ذاتی طور پر نورِ ہدایت کی محتاج ہے، کیونکہ اسے پورے بدن میں صحت و صفائی سے کام کرنا ہے، نیز کچھ مواد کو بالوں کی شکل میں اگا دینا ہے، علاوہ ازین اس میں علمِ نباتات (Botany) کی طرف بھی اشارہ ہے۔

۲۱۶

۶۔ کھال یا جلد کے واسطے جو نور مقرر ہے، اس کا تذکرہ بے حد دلچسپ ہے، چنانچہ اس نور کی امواج میں سے ایک موج انسانی جلد کے بیرونی حصے میں منجمد ہو گئی ہے، یہ نورِ منجمد خصوصاً چہرے پر پایا جاتا ہے، اور اگر چہرے کا یہ نور نہ ہوتا، تو پھر آدم و آدمی کو صورتِ رحمان سے کوئی نسبت ہی نہ ہوتی، جب بندۂ مومن قرآن اور اسلام کی کسی خوشخبری سے شادمان ہو کر مسکراتا ہے، تو آپ سمجھ لیجئے کہ اس کے چہرے پر یہ ایک نورانی لہر ہے، اگر وہ دین کی فکر و غمخواری میں سنجیدہ ہو جاتا ہے، تو یہ نور کی دوسری موج ہے، اور اگر کوئی نیک بخت عشقِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور روحانی ترقی کی خاطر اشک ریز ہو جاتا ہے، تو یہ نور کی تیسری موج ہے، جو بڑی زبردست ہے، اور اس سے ایک انفرادی انقلاب آنے کی توقع ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ آپ سورۂ زمر (۳۹: ۲۳) میں دیکھ لیں، تاکہ جِلدی نور کے معجزات پر یقین ہو، اور ظاہری و باطنی شفاء کی دولت حاصل ہو سکے۔

۷۔ گوشت جسمانی طاقت کا اصل سرچشمہ ہے، لہٰذا اس کو نورِ ہدایت چاہئے، تاکہ وہ ہر شر و بدی، اور بیماری سے محفوظ و سلامت رہے، اور اس میں صبر و عبادت اور نیکی کا رجحان و میلان پیدا ہو، بندۂ حق پرست کے گوشت میں نور کی لہریں دوڑنے کی کئی علامات ہیں، جیسے یکایک کسی روحانی کرنٹ (Current) کا احساس، ذکرِ الٰہی اور یقینی علم کی باتوں کے اثر سے وجد و مستی یا رقتِ قلبی کا غلبہ، عشقِ خداوندی سے

 

۲۱۷

 

مست و سرشار ہو جانا، اور کامیاب ذکرِ کثیر کے نتیجے میں زلزلۂ طہور کا آنا، جو ایک بدنی معجزہ ہے، جس کا ذکر قرآنِ پاک کے پانچ مقامات پر ملتا ہے، یہ نورِ متلاطم منزلِ عزرائیلی اور بھرپور روحانیّت سے بہت پہلے آتا رہتا ہے، جبکہ کوئی درویش یا صوفی کثرتِ ذکر کے بعد نیم خوابی کی حالت میں لیٹا ہوا ہوتا ہے، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ گوشت عالمِ شخصی (عالمِ صغیر) کی مٹی اور زمین ہے، جِلد اس کی سطح ہے، بال اس کی نباتات، خون اس کا پانی، رگیں پانی کی راہیں (یعنی ندیاں، نہریں، وغیرہ) ہیں، اور ہڈیاں پہاڑوں کا حکم رکھتی ہیں۔

۸۔ ایک انتہائی ضروری اور پُرحکمت مثال: پن چکی میں گندم کس طرح پس کر آٹا بن جاتی ہے؟ چکی کا پاٹ اپنے وزن کے ساتھ گھوم گھوم کر اس کو پیستا ہے، پاٹ کو کیا چیز گھماتی رہتی ہے؟ وہ مشینری جو اس کے نیچے لگی ہوئی ہے، اس مشینری کی محرک طاقت کیا ہے؟ آبشار جو چرخےّ پہیا = گراری) پر گرتا رہتا ہے، آبشار کو کون دھکیل رہا ہے؟ نہر کا پانی، نہر کے پانی کا سبب کیا ہے؟ ندی کا پانی، ندی کا ذریعہ کیا ہے؟ پہاڑی ذخائرِ آبی، ان کے اسباب کیا ہیں؟ برف و باران، بادل، سمندر، اور سورج، سورج کے اس عجیب و غریب فعل کا سبب کیا ہے؟ عالمگیر روح (نفسِ کلّی = روحِ اعظم) کا وہ مسلسل دباؤ، جو کائنات پر پڑتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے مرکزِ عالم کا ایتھر (Ether) تحلیل ہو کر ایک روشن گیس بن جاتا ہے، جس کو سورج کہتے ہیں، روح الارواح یا نفسِ کلی یہ

 

۲۱۸

 

کام کس کے حکم سے کر رہا ہے؟ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے، پس اس مثال سے یہ قانون ظاہر ہوگیا کہ خدا مسبب الاسباب (سبب پیدا کرنے والا) ہے، یعنی اللہ نے ہر کام کی تکمیل کے لئے کئی کئی اسباب پیدا کر دیئے ہیں، کہ اس سلسلے میں ایک سبب کے پیچھے دوسرا بڑا سبب نظر آنے لگتا ہے، تا آنکہ اہلِ بصیرت کو اسبابِ اعلیٰ اور حضرتِ مسبب کا یقین آتا ہے۔

۹۔ مذکورۂ بالا مثال کا مقصد یہ ہے کہ علاج و شفاء کے تمام جسمانی اور روحانی اسباب و وسائل خدا نے بنائے ہیں، لیکن اس میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم کس طرح خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کر سکتے ہیں، اور کس ذریعے سے اس کو پہچان سکتے ہیں، تاہم اس حقیقت کے باؤجود خداوند تعالیٰ کی رحمتِ عمیم اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہر شخص اپنی علمیت و رسائی کے مطابق جملہ اسباب میں سے کسی بھی سبب سے کام لے سکتا ہے۔

۱۰۔ خون کی حرکت و گردش کے واسطے نور کی مسلسل لہروں کی ضرورت اس لئے ہے کہ ان نورانی موجوں کے بغیر نظامِ دورانِ خون باطنی صحت کے موافق نہیں چل سکتا ہے، جس کی ظاہری مثال یہ ہے کہ پانی جس طرح ایک دائرے پر گردش کر رہا ہے، وہ نورِ آفتاب کی طاقت و توانائی کی وجہ سے ہے، جیسے دریاؤں کا سمندر سے جا ملنا، سمندر سے بخارات، بخارات سے بادلوں کا وجود میں آنا، اور پھر بارش کا

 

۲۱۹

 

سلسلہ، یہ سب کچھ مادّی نور کی بدولت جاری ہے، اسی طرح نورِ باطن کی امواج کی مدد سے خون انسانی جسم میں کسی خرابی اور بیماری کے بغیر چل سکتا ہے، عالمِ شخصی کا سورج دل ہے، لیکن دعائے نور کی حکمت یہ کہتی ہے کہ یہ بات اس وقت درست ہو سکتی ہے، جبکہ دل میں نور ہو۔

۱۱۔ ہڈی میں بھی کوئی مرض ہو سکتا ہے، لہٰذا اس کے سدِ باب کے طور پر، یا علاج کے طور پر نورِ صحت و شفاء مطلوب ہے، کامل انسانوں پر جیسے نور کے بے شمار معجزات گزرتے ہیں، ان میں ہڈیوں سے متعلق عظیم الشّان معجزہ یہ ہے کہ وہ عالمِ شخصی کے پہاڑوں کی حیثیت سے انسانِ کامل کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں، جس کی مثال حضرت داؤد علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن میں موجود ہے (۷۹: ۲۱، ۳۴: ۱۰، ۳۸: ۱۸) اس کے علاوہ پیشانی کی ہڈی عالمِ صغیر کا کوہِ طور ہے، جو حق الیقین کا مقام ہے، جہاں معجزات ہی معجزات ہیں۔

۱۲۔ رگوں کی اہمیت یہ ہے کہ وہ آبی راہوں کی مثال ہونے کے علاوہ مواصلات کی طرح بھی ہیں، جن کے ذریعے سے دل و دماغ کا ہر پیغام اور حکم تمام بدن کے خلّیات  اور اجزاء کو موصول ہوتا رہتا ہے، پس ضرورت اس بات کی ہے کہ قلب میں نور کا ایک سرچشمہ پیدا ہو، تاکہ رگوں کے ذریعہ سارے جسم میں نور کی صحت بخش لہریں دوڑتی رہیں، اس مقصد کے حصول کے لئے قرآنی ہدایت کے

 

۲۲۰

 

مطابق کثرت سے خدا کو یاد کیا جاتا ہے، کیونکہ دینی احکام پر عمل کرتے ہوئے شب و روز علم الیقین کی روشنی میں قلبی عبادت کرنے سے خود بخود امواجِ نور کا تصور ہو جاتا ہے، جس میں عقل و جان، اور جسم کی صحت کا راز مضمر ہے۔

۲۲ شوال ۱۴۰۶ھ / ۳۰ جون ۱۹۸۶ء

۲۲۱

پاؤں کی حرکت سے علاج

۱۔ اس مادّی دنیا میں اب تک کوئی ایسی کراماتی یا طلسماتی دوا ایجاد نہیں ہوئی، جو ایک اکیلی ہونے کے باوجود ہر قسم کی جسمانی بیماریوں سے انسان کو صحت یاب کر سکے، کیونکہ جب تک طرح طرح کی بیماریوں کے لئے بہت ساری دوائیاں موجود و مہیا نہ ہوں، تو یہ امر ناممکن ہے، لیکن صرف قرآنِ حکیم ہی کا ہر نسخۂ کیمیا ایسا معجزاتی ہے کہ اس میں تمام عقلی، اور روحانی امراض کے مکمل علاج کے ساتھ ساتھ بہت سی بدنی بیماریوں کے لئے شفائے کلی موجود ہے، چنانچہ “قرآنی علاج” کی اس کتاب میں جتنے بھی نسخے درج ہوئے ہیں، ان میں سے ہر ایک کو مجموعی علاج سمجھنا چاہئے، تاکہ اس مقدّس اور بابرکت طریقِ علاج کا مفہوم کماحقہ وسیع تر ہو۔

۲۔ آئیے آج ہم یہاں قرآنی اور روحانی سائنس کی روشنی میں “علاج بطریقِ رکض” یعنی پاؤں کی حرکت سے علاج کے بارے میں گفتگو کریں گے، رَکضۡ یا رَکۡضٌ ایک قرآنی لفظ ہے، جس کے کئی

 

۲۲۲

 

معنی ہیں، جیسے دوڑنا، پاؤں ہلانا، دفع کرنا یا ہٹانا، گھوڑے کو مہمیز کرنا یعنی دوڑانے کے لئے ایڑ لگانا، پرندے کا بازو پھڑپھڑانا، تیزی سے بھاگ جانا، زمین یا کپڑے کو پاؤں سے ملنا (پامال کرنا) وغیرہ (مصباح اللغات، المنجد، مدُّ القاموس)  چونکہ یہ قرآنِ حکیم کے حکمت آگین الفاظ میں سے ہے، اس لئے عجب نہیں کہ اس کے ان معنوں میں ظاہراً و باطناً پاؤں وغیرہ کی طبی ریاضتوں اور ورزشوں کے اشارے موجود ہوں، اور یقیناً یہی بات ہے۔

۳۔ جس طرح “امواجِ نور کا تصور” کے موضوع میں یہ ذکر ہوا تھا کہ ہر مومن کے پاؤں کے لئے بھی نور کی سخت ضرورت ہے، اور ایک روحانی کرنٹ پاؤں کے نیچے سے داخل ہو جاتا ہے، جیسے سورۂ مائدہ (۰۵: ۶۶) میں اس حقیقت کا ایک واضح اشارہ موجود ہے کہ پاؤں کی راہ سے جو ذرّاتِ روح بدن میں داخل ہو جاتے ہیں، ان میں لطیف غذا بھی ہے اور روحانی دوا بھی، نیز حضرت ایوب علیہ السّلام کے قصّۂ قرآن (۳۸: ۴۲) کو غور سے دیکھئے کہ آپ نے بحکمِ خدا زمین پر پاؤں مارا، جس سے نہ صرف ظاہر میں، بلکہ باطن میں بھی ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ جاری ہوگیا، جس کو استعمال کرنے سے آپ کی بیماری رفع دفع ہوگئی، باطن کے لئے جو ٹھنڈا پانی ہے، وہ نورِ صحتِ کل ہے۔

۴۔ پاؤں کی حرکت کی بہت سی قسمیں ہیں، اگر آپ چاہیں تو

 

۲۲۳

 

کوئی بھی منظم مشق کو اختیار کرسکتے ہیں، لیکن ہر ریاضت کو درجۂ کمال پر پہنچا کر بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ آپ پانچ کام ایک ساتھ انجام دیتے جائیں: ذکرِ خدا، حرکتِ پا، کان سے ذکر کی سماعت، نظر سے حرکت کی نگرانی، ہم آہنگی و ہم نوائی، یعنی یہ چیزیں الگ الگ نہ ہوں، بلکہ اس نغمۂ ذکرِ الٰہی میں سب ہم آہنگ ہو جائیں، تاکہ یہ صورتِ حال رقت انگیز یا وجد آور ثابت ہوسکے، آپ نیم دلی اور بے یقینی سے یہ ریاضت ہرگز نہ کریں، بلکہ پختہ مزاجی اور یقینِ کامل کے ساتھ مشق کو جاری رکھیں، ان شاء اللہ، کامیابی ہو گی۔

رکض نمبر ۱: آپ کرسی یا سوفہ (Sofa) پر اس طرح آرام سے بیٹھ جائیں کہ آپ کا وزن زیادہ سے زیادہ کرسی پر رہے، اور پیروں کے تلوے بڑی آسانی سے فرش کو چھوتے ہوں، دونوں ہاتھ گھٹنوں پر، اور نظر پاؤں پر ہو، اب آپ بصد عجز و انکساری اللہ جلّ شانہ کی بارگاہِ عالی سے توفیق و تائید طلب کر کے دل ہی دل میں یہ انتہائی مقدّس ذکر، جو عشقِ الٰہی کا ایک نغمۂ ملکوتی اور ذریعۂ پروازِ ملائک ہے، شروع کریں:

یاْھو

۸

یآھو

۷

یاْھو

۶

ھو

۵

+ یاْھو

۴

یآھو

۳

یاْھو

۲

ھو

۱

 

۲۲۴

 

یاد رہے کہ ۲، ۴، ۶، ۸  کے خانوں میں الف پر جو صفر دیا ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں الف کی آواز زبر کے برابر ہے، مگر ۳،۷ میں الف کی آواز معمول کے مطابق لمبی ہے، پس آپ خدائے بزرگ و برتر کے اس حسین ترین اسم کو ہزاروں نیک امیدوں کے ساتھ دل و دماغ میں پڑھتے ہوئے اپنے پیروں کو اجازت دیجئے کہ وہ بھی آپ کے ساتھ اس لاہوتی عشق میں شریک ہو کر ایک مخصوص صوفیانہ اور مستانہ حرکت سے یہ پاک و پُرحکمت ذکر کرتے جائیں، یہاں تک کہ ان میں موجِ نور یا روحِ اضافی آنے لگے، جس کی علامات کو آپ ضرور محسوس کریں گے، کچھ دنوں یا ہفتوں یا مہینوں کے بعد آپ اپنی مشق کے باب میں شاید یہ خیال کریں گے کہ کوئی مسلمان جنّ آپ کے پیروں میں داخل ہو کر اس پُرحکمت ذکر کی بزمِ جانفزا میں مست و مدہوش ہو چکا ہے، اور وہ بے خودی اور وارفتگی کی کیفیت میں عجیب و غریب حرکتیں کر رہا ہے، اور اگر اس حالت کو کوئی ناتجربہ کار یا ناواقف آدمی دیکھے تو فوراً ہی گمان کرے کہ یہاں کوئی ایسا شخص ہے جو بیٹھے بٹھائے محوِ رقص ہو رہا ہے، حالانکہ یہ دنیوی رقص ہرگز ہرگز نہیں، بلکہ یہ رکض اور وجد کا عالم ہے، ہاں اگر کوئی اسے رقصِ بسمل کہے تو کہہ سکتا ہے، اگر فی الواقع ایسا ہو گیا، تو یہ آپ کی بہت بڑی سعادت ہو گی۔

رکض نمبر ۲: بطریقِ مذکورۂ بالا آپ اپنی روحانی مشق کو جاری

 

۲۲۵

 

رکھیں، مگر اس دفعہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو بھی اس پاک اور بابرکت حرکاتی ذکر میں شامل کر لیں، تاکہ ہاتھ پاؤں کی بیس انگلیاں جو پانچ پانچ کے چار گروپ ہیں، اس نعرۂ “یا ھو” سے، جس کی صدائے بازگشت آسمان سے ہو کر آتی ہے، مست و سرشار ہو کر جھوم اُٹھیں، چونکہ ہاتھ کی انگلیاں بڑی آسانی سے ہر جانب حرکت کر سکتی ہیں، جس کی بدولت وہ بے شمار خلّیات (Cells) جو خوابِ خرگوش میں سوئے پڑے تھے، بیدار ہو کر انگڑائی لے سکتے ہیں، جس سے مسرّت و شادمانی کی لہر دوڑنے لگتی ہے، کیونکہ صحت مند انگڑائی سے جو لذّت حاصل ہوتی ہے، وہ خلّیات کا جمود ٹوٹ جانے کی وجہ سے ہے، اور اگر کوئی جمود یادِ خدا سے ٹوٹ جاتا ہے تو زہے خوش نصیبی۔

رکض نمبر ۳: آپ پلنگ، یا چارپائی، یا فرشِ زمین پر بطریقِ خواب آرام سے چِت (پشت کے بل) لیٹ جائیں، اور وہی ریاضت کا آغاز کریں، جس میں ہاتھ پاؤں کی تمام انگلیوں کو مخصوص و منظوم ذکر سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ہلانا ہے، اور ان میں روحانی برق کی لہر دوڑانے کے لئے سعی کرنا ہے، ظاہر ہے کہ اس پوزیشن میں آپ پیروں کو بہ آسانی نہ دیکھ سکیں گے، کوئی فکر کی بات نہیں، آپ اپنی نگاہ کو ہاتھوں کی نگرانی میں مصروف رکھیں، اور اگر رات کی تاریکی ہے، یا سردی کی وجہ سے ہاتھوں کو کمبل وغیرہ کے نیچے چھپانا ہے، تو پھر چشمِ خیال سے اپنی مشق کو دیکھتے رہیں، ان شاء اللہ، اس انتہائی مفید

 

۲۲۶

 

عمل سے جسم و جان کی صحت بہتر ہونے کے علاوہ ہر مشکل بھی آسان ہو جائے گی۔

ہمارے بے حد عزیز ٹرینیز (Trainees = کارآموز) یا حضراتِ قارئین میں سے کوئی شاید یہ سوال کرے کہ پیروں کی اتنی بڑی اہمیت کیوں ہے؟ ان کی مذکورہ ورزش سے بدن اور روح کو ایسے بڑے بڑے فائدے کس طرح حاصل ہو سکتے ہیں؟ آیا پیروں کے لئے بھی کوئی ذکر ضروری ہے؟ ماسوائے اس کے کہ وہ ہمیشہ نیک کاموں کے پیچھے چلتے رہیں، خواہ ان میں چھالے کیوں نہ پڑیں، اور کیوں نہ پھوٹیں؟

اس اہم سوال کا جواب جسمانی نکتۂ نظر سے اس طرح ہے کہ گاڑی کے دو دو پہیے ہوا کرتے ہیں، کشتی کے دو یا دو طرفہ چبو، پرندے کے دو بازو، اور ہوائی جہاز کے دو انجن (Engine)  ہوتے ہیں پس ان چیزوں کی جو اہمیت ہے، اس سے کہیں زیادہ اہمیت انسان کے پیروں کی ہے، کیونکہ وہ اشرف المخلوقات ہے، اگر گاڑی کا پہیا پنکچر (Puncture) ہو جائے، تو کوئی غم نہیں، جبکہ دوسرا پہیا مل سکتا ہے، اس کے برعکس اگر آدمی کے پاؤں میں کوئی علت (بیماری) پیدا ہو گئی، تو بہت بڑا مسئلہ بلکہ خطرہ ہو سکتا ہے، پیر کی بیماری کا اندیشہ اس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ دوسرے تمام اعضاء کے مقابلے میں دل سے بہت دور ہے، جس کی وجہ سے پیروں میں خون کی رفتار سست ہو کر حرارتِ غریزی اور آکسیجن (Oxygen) کی کمی واقع ہوتی ہے،

 

۲۲۷

 

اور یہ ان لوگوں کی بات ہے، جن کو کسی بھی وجہ سے چلنے پھرنے، اور بھاگنے دوڑنے کا موقع نہ مل رہا ہو، پس ایسے لوگوں کے لئے یہ صرف پاؤں کی ورزش ہی نہیں، بلکہ ایک افضل ترین عبادت بھی ہے، اور ہر عضو کے لئے ایک ذکر مخصوص و مقرر ہے۔

اس سوال کا روحانی جواب یہ ہے کہ نور شش جہت سے انسانی جسم میں آسکتا ہے، ارواحِ علوی سر کی طرف سے نازل ہوتی ہیں، جو سب کی سب مفید ہیں، اور ارواحِ سفلی پاؤں کی جانب سے داخل ہو جاتی ہیں (۰۵: ۶۶) جن میں سے بعض فائدہ بخش ہیں، اور بعض مضر، جیسے جراثیم، بری روحیں، اور شیاطین، چنانچہ قدم ایک ایسا گیٹ (دروازہ) ہے جس سے نیک روح بھی آسکتی ہے اور بد روح بھی، پس اگر کوئی مومن ذکر کے بہانے جسمانی ورزش، اور ورزش کے بہانے سے ذکر کرتا ہے، تو یہ اس کی بہت بڑی دانشمندی ہوگی، اور ظاہر ہے کہ یہ عمل پاؤں کے لئے بے حد ضروری ہے، تاکہ جسم و جان ہر طرح سے محفوظ و سلامت رہیں۔

رکض نمبر ۴: سرہانا حسبِ معمول ہو، مگر پائینتی میں تین یا چار تکیے اس طرح رکھیں کہ ان پر آپ کے دونوں پیر کسی دقت کے بغیر اونچے رہ سکیں، پھر آپ اس بستر پر پشت کے بل (چِت) لیٹ جائیں، اور پاؤں پھیلا کر ان تکیوں کے اوپر رکھیں، اور اس حکمت کو ترنم سے پڑھیں:
الحق، الحق، ھُوَ الحق + الحق، الحق، ھُوَ الحق۔

۲۲۸

 

اب ذکر کی رفتار اور زیر و بم سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ہاتھ پاؤں کو بہ اندازِ مستانہ ہلاتے جائیں، مزاج میں ذرا بھی سختی اور مایوسی نہ ہو، امید، یقین، نرم دلی، اور عاجزی جیسے اوصاف سے یہ کام بن سکتا ہے، اس مشق میں اور دوسری ایسی مشقوں میں بھی پاؤں کے پنجوں کو گھمانے کے لئے کوشش کریں، ان شاء اللہ، جسمانی اور روحانی بہت سی بیماریاں دور ہو جائیں گی، کیونکہ اس بے مثال ریاضت میں قانونِ مذہب اور اصولِ سائنس دونوں مل کر کام کرتے ہیں۔

رکض نمبر ۵: چہل قدمی اس سلسلے کی ایک بہترین مشق ہے، باغیچہ، صحن، گھر، باہر، جہاں مناسب ہو، آپ خدائے دانا و بینا کو یاد کرتے ہوئے ٹہل سکتے ہیں، لیکن یہ بات ازحد ضروری ہے کہ گفتار اور رفتار کا ایک ہی وزن ہو، اور بالکل ایسا لگے، جیسے قلب قدم میں، اور قدم قلب میں ذکر کر رہا ہے، اور یہ بول رہا ہے: حق، حق، ھُو، حق + حق، حق، ھُو، حق۔ درین اثنا آپ آٹھ قدم ٹہل گئے، آپ یہ خیال کریں کہ اس عمل سے نفس پر ضرب پڑ رہی ہے، اور وہ پامال ہو رہا ہے، پس آپ ہر ذکر میں زور پیدا کریں، اور وہ عاجزی، منظوم ذکر، ہم آہنگی، توجہ، تسلسل، سخت محنت، اور عشقِ الٰہی سے ممکن ہے۔

رکض نمبر ۶: آپ طریقِ بالا کے مطابق چہل قدمی کریں، مگر اس دفعہ دونوں ایڑیوں کو زمین سے اٹھائے ہوئے صرف پنجوں پر چلتے جائیں، ہر ایسا قدم رکھنے کے ساتھ ساتھ گھٹنے کا سیدھا ہو جانا ضروری

 

۲۲۹

 

ہے، تاکہ اس ورزش کا جو مقصد ہے، وہ پورا ہو سکے، مگر یہ قانونِ الٰہی ہمیشہ یاد رہے کہ انسان کی تخلیق و تعمیر اور ترقی خواہ جسمانی ہو، یا روحانی محنت و مشقت ہی میں ہوتی ہے، جیسا کہ سورۂ بلد (۹۰: ۰۱ تا ۰۴) میں اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر اس حقیقت کا ذکر فرمایا ہے، پس آپ بدنی اور روحانی ریاضت ایک ساتھ کر کے دونوں قسم کی صحت مندی کا بھرپور فائدہ حاصل کریں۔

۲۷ شوال ۱۴۰۶ھ / ۵ جولائی ۱۹۸۶ء

۲۳۰

 

جراثیم اور قوّتِ عزرائیلی

۱۔ جرثومہ عربی لفظ ہے (Bacterium) یعنی وہ چھوٹا کیڑا، جو خردبین کے بغیر نظر نہیں آتا، جس کی جمع جراثیم ہے، چنانچہ جراثیم اچھے بھی ہوتے ہیں، اور برے بھی، اچھے جراثیم کی ایک عام فہم مثال کے لئے جرثومۂ حیات (Life Germ) کو لے سکتے ہیں، پس جراثیم چھوٹے چھوٹے کیڑے ہیں، جن کی روح اور ایک مختصر سی جسمانی زندگی ہے، لہٰذا وہ حیات اور موت کے مقررہ قانون سے باہر نہیں جا سکتے ہیں، اس کے علاوہ جس طرح وہ کسی جسم میں داخل ہو جاتے ہیں، اسی طرح وہ کسی وجہ سے خارج بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ ہر چھوٹی بڑی چیز پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت چلتی ہے۔

۲۔ اگرچہ حضرت عزرائیل علیہ السّلام بظاہر ایک اکیلے فرشتے کا نام ہے، لیکن در حقیقت وہ ایک لشکرِ جرار ہے، جو انسان پر مؤکل ہے (۳۲: ۱۱، ۰۶: ۹۳) تاکہ جزوی موت، کلّی موت، روحانی موت، جسمانی موت، نیند وغیرہ کے وقت قبضِ روح کا کام کرے، ایسا ہرگز نہیں کہ موت

 

۲۳۱

 

کا فرشتہ ہماری زندگی کے صرف آخری سرے پر ہم سے دوچار ہو جاتا ہے، بلکہ ہم پر اس کے مؤکل یا وکیل ہو جانے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے، اور شب و روز اس عالمِ شخصی (Personal World) میں مصروفِ عمل ہے، جس سے انسان کی بے شمار ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں۔

۳۔ قرآنِ حکیم میں جس طرح تمام ضروری موضوعات نمایان طور پر موجود ہیں، اسی طرح مضمونِ تسخیر بھی موجود ہے، جس کے ایک ارشادِ گرامی کا ترجمہ یہ ہے: اور جتنی چیزیں آسمانوں میں ہیں اور جتنی چیزیں زمین میں ہیں ان سب کو اپنی طرف سے تمہارے لئے مسخر بنا دیا (۴۵: ۱۳) اس تسخیر کا صحیح مطلب سمجھنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے، الا آنکہ انسانِ کامل کی نظر سے دیکھا جائے، کیونکہ وہی شخص انسانیّت کا حقیقی معیار ہے، یعنی جب تک آپ اور ہم فنا فی المرشد، فنا فی الرسول، اور فنا فی اللہ نہیں ہونگے، تب تک آسمان و زمین کے فرشتوں اور روحوں کے مسخر ہو جانے کا مشاہدہ اور تجربہ نہ ہوگا، اگر یہ بات بہت بلندی کی ہے تو کم از کم علم الیقین کی سطح پر یہ جاننا ضروری ہے کہ بہ اشارۂ قرآنِ پاک (۴۱: ۳۰ تا ۳۱) عظیم فرشتوں کی دوستی اور مدد حاصل ہو سکتی ہے، اور اسی طرح قوّتِ عزرائیلی سے کام لے کر بیماری کے جراثیم کو ہلاک یا دور کیا جا سکتا ہے۔

۴۔ مجاہدینِ اسلام کا سب سے بڑا نعرہ زمانۂ نبوّت سے لے کر

 

۲۳۲

 

آج تک “اللہ اکبر” کیوں مقرر ہوا؟ اس کی جگہ کوئی اور نعرہ کیوں نہیں؟ گوسفند کو ذبح کرتے وقت یہی کلمہ کیوں پڑھا جاتا ہے؟ تسبیحِ فاطمہ کے شروع میں اللہ اکبر کیوں ہے؟ ان تینوں سوالات کا ایک ہی جواب ہے، وہ یہ کہ “اللہ اکبر” حضرت عزرائیل علیہ السّلام کے لئے اسمِ اعظم ہے، اسی لئے مجاہدین اپنے اندر جو قوّتِ عزرائیلی ہے، اس کو دشمنانِ اسلام کے خلاف حرکت میں لانے کی غرض سے نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہیں، ذبحِ گوسفند کے موقع پر اللہ اکبر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس عمل میں عزرائیل کو شرکت کی دعوت دیتے ہیں یا کہ خود اس کی نمائندگی کرتے ہیں، اور تسبیحِ فاطمہ کے آغاز میں یہ بزرگ اسم اس لئے ہے کہ اس کی برکت سے وہ ذرّاتِ روح بدن سے نکل جائیں، جو کام کاج کی وجہ سے فرسودہ ہو چکے ہوں، اور ان کی جگہ جدید ذرّات داخل ہو جائیں، تاکہ اسی طرح تھکاوٹ دور ہو کر آدمی تر و تازہ ہو سکے۔

۵۔ بیانِ بالا سے یہ حقیقت روشن ہوئی کہ عزرائیل علیہ السّلام کا سارا کام اللہ تبارک و تعالیٰ کے اسمائے بزرگ کے ذکر سے انجام پاتا ہے، چنانچہ ہوشمند مومنین دن رات یادِ الٰہی میں مشغول رہتے ہیں، تاکہ اس وسیلے سے عزرائیل ان کا دوست بنے، اور ان کے لئے کام کرتا رہے، یا ان کے عالمِ شخصی میں قوّتِ عزرائیلی اجاگر ہو جائے، کیونکہ انسان جن معنوں میں عالمِ صغیر ہے، ان معنوں میں

 

۲۳۳

 

اس میں سب کچھ ہے۔

۶۔ صرف عزرائیل ہی نہیں، بلکہ تمام فرشتے ہمیشہ اور مسلسل خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے رہتے ہیں (۲۱: ۱۹ تا ۲۰) اور انبیاء و اولیاء کثرتِ ذکر و عبادت میں فرشتوں کی طرح ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں اسمِ اعظم کا نور اور دوسرے اسماء الحسنیٰ ہر وقت خود از خود بولتے رہتے ہیں، ایسے میں ہر بزرگ اسم ایک عظیم فرشتے کی طرح کام کرنے لگتا ہے۔

۷۔ سورۂ فتح (۴۸: ۲۶) میں جس سکینہ (تسکین) کا ذکر فرمایا گیا ہے، وہ بھرپور روحانیّت ہے، اور کلمۂ تقویٰ سے وہ اسمِ اعظم مراد ہے، جس کا تعلق حضرت عزرائیل سے ہے، جو اللہ اکبر کے علاوہ ہے، یہ بہت بڑا اسم اپنے آپ ذکر ہوتا رہتا ہے، یا یہ کہ ملک الموت اس کو پڑھتا جاتا ہے، اور اسی معنیٰ میں یہ اسم (کلمہ) خاص خوش بخت مومنین کے کان میں چسپان (لازم) کر دیا جاتا ہے، تاکہ اس منزلِ عزرائیلی میں ان کو جسمانی موت سے قبل روحانی موت کا تجربہ حاصل ہو، جس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں، اور یہ درجۂ کمال کا تقویٰ ہے، اس دوران قبضِ روح کا عمل کئی دن تک دہرایا جاتا ہے، وہ اس طرح کہ رشتۂ روح کا نچلا سرا دماغ سے وابستہ رہتا ہے، اور باقی جسم ہر بار مردہ ہو جاتا ہے، انسان اس وقت نہ تو بدن میں ہوتا ہے اور نہ ہی قلب میں، بلکہ وہ اپنے آپ کو دماغ میں پاتا ہے۔

۸۔ اس حال میں خلّیات اور جراثیم کی روحیں اس روحانی موت

 

۲۳۴

 

کے طوفان سے خود کو نہیں بچا سکتی ہیں، اور نہیں کوئی بیماری اپنی جگہ ٹھہر سکتی ہے، پس اس روشن مثال سے پتا چلا کہ قوّتِ عزرائیلیہ وہ وسیلہ ہے، جس کی بدولت ہر قسم کی بیماری کے جراثیم سے نجات مل سکتی ہے، اور کیا عجب ہے کہ مستقبل میں روحانی سائنس کی اتنی ترقی ہو کہ سب لوگ اس کی طرف توجہ دیں، اور اس سے لاعلاج بیماریوں کا علاج کرنے لگیں، کیونکہ جس طرح انسان کو مادّی سائنس کی سخت ضرورت ہے، اسی طرح اس سے کہیں زیادہ روحانی سائنس بھی ضروری ہے۔

۹۔ یہ نکتۂ نغز خوب یاد رہے کہ جبرائیلی علاج علم سے کیا جاتا ہے، میکائیلی علاج حکمت سے، اسرافیلی معالجہ گریہ و زاری اور عشقِ الٰہی سے اور عزرائیلی چارہ سازی محویّت و فنائیّت سے ہوتی ہے، اور یہ سب سے آخری علاج سب سے زیادہ مؤثر ہے، کیونکہ کامل تقویٰ اور کلّی تطہیر اسی میں ہے، کہ زندگی ہی میں نفس پر ایک زبردست موت واقع ہو جائے، اور یہ بہت بڑا معجزہ ہے، اس لئے کہ یہاں نہ صرف حیات کے بعد موت کا منظر ہے، بلکہ دوسری زندگی کی بھی ایک جھلک نظر آتی ہے۔

۱۰۔ حضرتِ عزرائیل علیہ السّلام کا عمل مثال کے طور پر روحانیّت کا پُرحکمت زہر ہے، جس کے کھانے سے شر کا خاتمہ ہو کر خیر نکھر جاتی ہے، لیکن آپ ضرور یہ کہیں گے کہ اتنی بڑی کامیابی اور ایسا عظیم

 

۲۳۵

 

کارنامہ بہت ہی مشکل ہے، تو میں مانتا ہوں اور بڑی عاجزی سے گزارش کرتا ہوں کہ پھر آپ مذکورہ زہر ملا کر بنائی گئیں جراثیم کُش دوائیاں استعمال کرتے رہیں، تاکہ رفتہ رفتہ نفسانی جراثیم مر جائیں، وہ ادویہ کیا ہیں؟ ہر ایسا قول و فعل جو نفس کے لئے انتہائی تلخ اور دین کے حق میں بے حد مفید ہو، تاکہ نفسِ امّارہ جزوی طور پر مر جائے، کیونکہ موت جزوی بھی ہے اور کلی بھی۔

۱۱۔ فرشتہ ایک مجرّد روح کا نام ہے، وہ خیال، خواب، روحانیّت، اور بیداری میں متمثل و متشکل تو ہو سکتا ہے، لیکن وہ فی الحقیقت شکل و اعضاء سے پاک ہے، وہ ذکرِ الٰہی سے ضروری اعضاء کا کام لیتا ہے، اس کے ہاتھ، پاؤں، زبان، اور پرواز کرنے والے بازو اسی ذکر و عبادت کے ہیں، پس اگر آپ قرآنِ حکیم اور دینِ اسلام کے منشاء کے مطابق کثرت سے ذکر و عبادت کریں، جیسا کہ اس کا حق ہے، تو بندگی کی اس قیامت خیز فراوانی سے آپ کے عالمِ شخصی میں فرشتے پیدا ہو جائیں گے، اور قوّتِ عزرائیلی ہر وقت آپ کے مفاد میں کام کرتی رہے گی، کیونکہ آپ نے دن رات کی عبادت سے اس کی مدد کی ہے، اور جو شخص اسی طرح فرشتے کی مدد کرتا ہے، تو فرشتہ بڑی عمدگی سے اس کی مدد کرتا ہے۔

۱۲۔ سورۂ زمر (۳۹) کی آیۂ کریمہ نمبر ۴۲ (۳۹: ۴۲) پیشِ نظر ہو، جس میں آپ واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ آدمی کی موت اور نیند کے وقت روح قبض کر

 

۲۳۶

 

لینے کا ذکر فرمایا گیا ہے، یہ کام کون کرتا ہے؟ اللہ پاک کے حکم سے عزرائیل کرتا ہے، پس اس کا حکمتی اشارہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہر بیماری میں اس خلوصِ نیت اور یقینِ کامل کے ساتھ بکثرت خدا کو یاد کریں کہ حضرت عزرائیل علیہ السّلام ہم پر نیند کی کیفیت طاری کرتے ہوئے بیماری کی روح کو قبض کر لے گا، یا تخفیف کرے گا، اور اسی طرح یہ عظیم فرشتہ مومنین کے غم و غصہ کو بھی بحالتِ نیند نکال لیتا ہے، بشرطیکہ وہ مومنین دائمی ذکر کے عادی ہوں۔

۱۳۔ اگر ایک عام آدمی نیند کی خاطر رات کو لیٹ جاتا ہے، اور دیر دیر تک اس کی نیند نہیں آتی ہو، تو یہ مرضِ بے خوابی ہے، جس کا نام طب میں سَہَرْ ہے، جس کو ڈاکٹری میں ایگرپنیا (Agrypnia) کہا جاتا ہے، یہ بڑی موذی بیماری ہے، جسمانی اعتبار سے اس کی وجہ کچھ بھی ہو، لیکن حقیقت میں یہ وہ عذاب ہے، جو یادِ الٰہی سے غافل ہو جانے اور حضرتِ عزرائیل کے روٹھ جانے کے سبب سے نازل ہو جاتا ہے، ایسی بے معنی اور بے حکمت بیداری ایک شیطان کی صورت ہے، جیسا کہ قرآنِ مقدّس کا ارشاد ہے (ترجمہ): اور جو کوئی یادِ رحمان سے شب کوری کرے تو ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں سو وہ اس کے ساتھ رہتا ہے (۴۳: ۳۶) اس حقیقتِ حال سے قوّتِ عزرائیلی کے کام کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کتنا ضروری ہے۔

۲۳۷

۱۴۔ عالمِ کبیر میں جتنی عظیم چیزیں ہیں، اور جو جو واقعات رونما ہو جاتے ہیں، ان سب کے نمونے عالمِ صغیر (عالمِ شخصی) میں موجود ہیں، مثال کے طور پر اگر وہاں عرش، کرسی، اور سات آسمان ہیں، تو یہاں ان کا ایک ایک نمونہ ہے، جیسے سر عرش، گردن کرسی، کندھا آسمانِ ہفتم، بازو آسمانِ ششم، کلائی آسمانِ پنجم، ہتھیلی اور اس کی پشت آسمانِ چہارم، انگلی کی جڑ والی پور آسمانِ سوم، درمیانی پور آسمانِ دوم، اور ناخن والی پور آسمانِ اوّل یا آسمانِ دنیا ہے، پس جس طرح عالمِ کبیر کا آسمانِ دنیا شیاطین پر شعلے برسا کر اوپر جانے سے روکتا ہے (۶۷: ۰۵، ۷۲: ۰۸) اسی طرح عالمِ شخصی کا آسمانِ اوّل (ناخن والی پور) ذکر و عبادت کے دوران پیروں کی طرف سے آنے والے شیاطین اور جراثیم پر شعلہ باری کر کے ان کو دور کر دیتا ہے، کیونکہ اس میں محافظت کے چراغ روشن ہیں (۳۷: ۰۶ تا ۰۷، ۴۱: ۱۲)۔

۱۵۔ یہ قدیم عقیدہ اب جدید سائنس کی روشنی میں بھی درست ثابت ہونے لگا ہے کہ ہر نبی اور ولی کے جسمِ اطہر کے گرداگرد ہالۂ نور کا ظہور ہوتا رہتا ہے، بلکہ یہ دوسرے انسانوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے، البتہ ان کامل انسانوں کے ہالۂ نور کا درجہ بہت اعلیٰ ہے، جیسے مقالہ نمبر ۲۲ (امواجِ نور کا تصوّر) سے ظاہر ہے کہ انبیاء و اولیاء ہر طرف سے نور کے گھیرے میں ہوا کرتے ہیں، تاکہ وہ حضرات ہر قسم کی برائی سے محفوظ و سلامت رہیں، (Aura)  یا (Halo)  (ہالۂ نور) جو انگلیوں

 

۲۳۸

 

سے نکلتا ہے، وہی مذکورۂ بالا آسمانِ دنیا (قریب کا آسمان) کے شہابِ ثاقب کا کام کرتا ہے، اور شیاطین کے جراثیم کو شعلوں سے مارتا ہے، مگر یہ ایمان، عبادت، اور علم کے بغیر ممکن نہیں۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی) ہونزائی
یکم ذوالحجہ ۱۴۰۶ھ / ۸ اگست ۱۹۸۶ء

۲۳۹

 

سانس سے علاج

۱۔ ہوا، پانی، اور غذا انسانی حیات و بقا کی اصلی اور اساسی ضروریات میں سے ہیں، تاہم پیاس لگے یا بھوک، وہ تو کچھ وقت کے لئے برداشت کی جا سکتی ہے، مگر تقریباً آدھ منٹ کے لئے سانس کو روک کر تازہ ہوا سے بے نیازی کا تجربہ کرنا بڑا تلخ گزرتا ہے، اس مثال سے عملِ تنفس (سانس لینے کا عمل = Respiration) کی اہمیت و ضرورت کا اچھی طرح سے اندازہ ہو جاتا ہے، کیونکہ تنفس سے ایک طرف تو ہمارے بدن کے سارے خلیوں (Cells) کو آکسیجن (Oxygen) مہیا ہوتی رہتی ہے، اور دوسری طرف کاربن ڈائی آکسایڈ (Carbon Dioxide) خارج ہو جاتی ہے۔

۲۔ ہمارا جسم جو بے شمار زندہ خلّیات کا مجموعہ ہے، یعنی ہم میں سے ہر ایک میں جو اتنے سارے ذرّاتِ روح ہیں، ان کو ہر دم آکسیجن کی ایسی شدید ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ آکسیجن میں کیا چیز پنہان ہے؟ آیا اس میں کوئی روحِ حیوانی یا روحِ نباتی پوشیدہ ہو سکتی ہے؟ کیا

 

۲۴۰

 

لفظِ روح اور ریح (ہوا) ایک ہی مادّہ سے ہیں؟ آیا یہ سچ ہے کہ چاند پر ہوا نہیں، اس لئے وہ ایک طرح سے مردہ ہے؟ اور سیّارۂ زمین ہوا کے خول میں رہتا ہے، لہٰذا یہ زندہ ہے؟ الغرض ان سوالوں میں بجا طور پر سوچنے سے پتا چلتا ہے کہ ہوا میں ایک روح ہے، جس طرح غذا میں ایک روح ہوا کرتی ہے۔

۳۔ جس طرح کھانے پینے کی چیزوں سے عمدہ صحت اور مسرّت و شادمانی حاصل کر لینے کے لئے دینی حکمت، ظاہری طب، اور ڈاکٹری کے الگ الگ قوانین مقرر ہیں، اسی طرح سانس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی غرض سے بھی ظاہری اور باطنی بہت سے قواعد و ضوابط ہیں، جن پر بہت سے حضرات نے مذہبی اور سائنسی نکتۂ نظر سے کافی روشنی ڈالی ہے، آپ اس نوعیت کی کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں، اور یہ مقالہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ، یہاں بھی کچھ نہ کچھ مفید باتیں ہو سکتی ہیں، پروردگارِ عالم تمام اہلِ ایمان کی نیک دعاؤں کی حرمت سے اس بندۂ ناچیز کی دستگیری فرمائے! آمین!!

۴۔ جیسے روح اور ریح دونوں لفظ ایک ہی مادّہ سے ہیں، اسی طرح نفس (جان) اور نَفَس (دم، سانس) بھی ایک ہی روٹ (Root) کے ہیں، چنانچہ اس میں بہت بڑی حکمت اور ایک عظیم راز پوشیدہ ہے، کیونکہ السنۂ اقوامِ عالم از خود وجود میں نہیں آئی ہیں، بلکہ ان کو خلاقِ کائنات نے انتہائی منظم طریقے سے بنایا ہے، علی الخصوص

 

۲۴۱

 

عربی زبان کو، جو قرآنِ حکیم کی زبان ہے، اس کی بڑی روشن دلیل خود قرآنِ پاک میں موجود ہے، آپ کلامِ مقدّس کو کھول کر سورۂ روم (۳۰) کے رکوعِ سوم (۳۰: ۲۰ تا ۲۷) کو غور سے دیکھئے، اس میں چھ مرتبہ آیاتِ خداوندی کی طرف پُرزور توجہ دلائی گئی ہے، اور اس سلسلے میں ارشاد ہوا ہے کہ: اور اسی کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا بنانا ہے اور تمہاری بولیوں اور رنگتوں کا الگ الگ ہونا ہے (۳۰: ۲۲) اس سے یہ حقیقت نورِ یقین کی سطح پر ابھر کر روشن ہو جاتی ہے کہ ظاہری اور تاریخی اسباب خواہ کچھ بھی ہوں، لیکن ہر لسان دراصل اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، اس امرِ واقعی کے بغیر زبان (لسان، بولی) آیاتِ الٰہی میں شمار نہیں ہو سکتی ہے۔

۵۔ خدا وحدہٗ لا شریک ایک ہی ہے، اس کی ایک ہی سنت ہے، اس نے قانونِ وحدانیّت کے طور پر ایک ہی بشر (یعنی آدم) کو پیدا کیا، اور اسی سے اس کی بیوی کو وجود میں لایا (۰۷: ۱۸۹، ۲۹: ۰۶) اور ان دونوں سے تمام انسانوں کو پھیلا دیا، بالکل اسی طرح ہر عالمِ لسان میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے ایک ہی کلمہ ارشاد فرمایا، جو تمام معنوں کا سرچشمہ ہوا کرتا ہے، جیسے حضرت آدم علیہ السّلام سارے نفوسِ آدمی کا منبع تھے (۰۴: ۰۱) اور کلمۂ اوّل کے معنی سے دوسرا کلمہ بنایا، جو حضرت بی بی حوا علیہا السّلام کی طرح بابرکت ہوتا ہے، پھر دوسرے کلمات اور الفاظ ایسے بنائے گئے، جیسے بنی آدم رفتہ رفتہ اس دنیا میں

 

۲۴۲

 

پھیل گئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ زبان کوئی بھی ہو، اس کے جملہ الفاظ کا باہمی معنوی رشتہ ایسا ہے، جیسے اولادِ آدم کے خاندانوں، قبیلوں، اور قوموں کے آپس میں رشتہ ہوتا ہے، چنانچہ آپ اگر چاہیں تو اس وقت بھی اپنے تصوّر میں سب آدمیوں کو حضرتِ آدمؑ میں دیکھ سکتے ہیں۔

۶۔ اس بیان کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ روح کا ریح (ہوا) سے اور نفس کا نَفَس (سانس) سے بہت ہی قریبی معنوی رشتہ ہے، کیونکہ سانس زندگی کی علامت ہے، اور روح وہ چیز ہے، جو پھونک دی جاتی ہے، جبکہ اذن یا امر کی صورت میں بھی، اور علم و عبادت کی کیفیت میں بھی سانس ہی سے کام لیا جاتا ہے، یعنی جب خلیفۂ خدا (پیغمبرِ اکرم) یا خلیفۂ رسول کسی کو کوئی اذن، یا تعلیم و ہدایت دیتا ہے، تو وہی مبارک سانس نفخِ روح ثابت ہو سکتی ہے، مگر اس کی شرط یہ ہے کہ بندۂ مسلم اپنی زندگی کی تمام سانسوں کو خدا اور اس کے پیغمبرِ برحق کی اطاعت میں صرف کرے، اور دم بدم سلسلۂ ذکر کو جاری رکھے۔

۷۔ قرآنِ کریم میں جہاں کسی قسم کی ہوا کا ذکر آیا ہے، اس میں روحانی ہوا اور سانس کا بھی ذکر ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم کے قوانین میں سے ایک خاص قانون یہ ہے کہ وہ ایک جیسی کئی چیزوں کا ذکر ملا کر کرتا ہے، مثال کے طور پر سورۂ ذاریات (۵۱) کے آغاز میں جن ہواؤں کا بیان فرمایا گیا ہے، وہی ہوائیں ظاہری بھی ہیں، باطنی بھی، اور وہ دمِ ذکر بھی ہے، یعنی وہ ذکرِ الٰہی جو سانس میں

 

۲۴۳

 

پوشیدہ رکھ کر کیا جاتا ہے، بہت ہی مقدّس، زبردست مؤثر، اور نتیجہ خیز ہوا کرتا ہے، جس کی بدولت بندۂ ذاکر کے دل و دماغ سے غبارِ غفلت اڑ جاتا ہے، طبیعت کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے، اور عبادت کی کشتی بڑی آسانی سے چلنے لگتی ہے (۵۱: ۰۱ تا ۰۳) اور یہی علامت روحانی صحت کا پیش خیمہ ہے۔

۸۔ روحانی ہوائیں زندہ ہیں، اور ان سے فرشتے مراد ہیں، جیسا کہ سورۂ مراسلات کے شروع میں ان ہواؤں یا فرشتوں اور دمِ ذکر کے بارے میں ارشاد ہوا ہے (۷۷: ۰۱ تا ۰۵) سانس کے اذکار جو طرح طرح کے ہیں، مختلف فرشتوں کے نمونے ہیں، لہٰذا ان میں بہت سی بیماریوں کے لئے شفاء ہے، پس آپ اسمِ “یا ھُو” کا ذکرِ خفی اس طرح کرتے رہیں، کہ “یا” کے ساتھ معمول کے مطابق سانس لیں، اور “ھُو” کے ساتھ اسے چھوڑ دیں، زبان کو نہ ہلائیں، تاکہ رفتہ رفتہ روح کی زبان کو بولنے کا موقع مل سکے، یہ ذکر نسیمِ سحر کی طرح ہے، اور اگر آپ چاہیں تو اس سلسلے میں ترقی کر کے ذکرِ جلی یعنی سب سے زور دار ذکر بھی کر سکتے ہیں، اور وہ ذکرِ عاصفہ ہے، جو آندھی کی طرح تیز ہے(۲۱: ۸۱) یہ ذکر حضرت سلیمان علیہ السّلام کے لئے مسخر کیا گیا تھا۔

۹۔ یاد رہے کہ ہر عظیم روحانی طاقت کے دو پہلو ہوا کرتے ہیں، ایک میں دوستانِ خدا کے لئے ثواب ہے، اور دوسرے میں اس کے دشمنوں کے واسطے عذاب، چنانچہ ذکرِ عاصفہ یا ذکرِ صرصر ہی ہے، جس

 

۲۴۴

 

نے قومِ عاد جیسے بہت سے لوگوں کو، جو انتہائی نافرمان ہو چکے تھے، ہلاک کر ڈالا ہے، ملاحظہ ہو: ۴۱: ۱۶، ۵۴: ۱۸ تا ۲۰، ۶۹: ۰۶ تا ۰۷، عالمِ شخصی کے سفرِ روحانیّت میں جب منزلِ عزرائیلی آتی ہے، تو اس وقت ایک بہت عظیم روحانی انقلاب برپا ہو جاتا ہے، جو احاطۂ بیان سے باہر ہے، مگر ایک متعلقہ بات یہ ہے کہ اس کی مسلسل سات رات اور آٹھ دن ایک طرف سے نحس ہیں، اور دوسری طرف سے سعد (مبارک، نیک) کیونکہ اس مدت میں قومِ عاد کی طرح دشمنانِ اسلام روحانی طور پر ہلاک ہو جاتے ہیں، اور اہلِ ایمان کے لئے ابوابِ رحمت مفتوح کئے جاتے ہیں۔

۱۰۔ اگرچہ اصل ذکرِ صرصرایک خود کار روحانی طاقت ہے، تاہم ذکرِ تنفس اس کا ایک نمونہ ہے، لہٰذا جو شخص سات رات اور آٹھ دن تک خلوصِ نیت سے یہ ذکر و عبادت کرے، تو ان شاء اللہ، اس کو ہر قسم کی بیماری سے شفا ملے گی، اور وہ ہر نوع کے شر سے محفوظ رہے گا، اس کی شرطیں تقریباً اعتکاف کی طرح ہیں، یعنی وہ ضرورت کے مطابق وقفہ کر سکتا ہے، تاہم اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ذاکر کو خداوند تعالیٰ کے بابرکت اسم پر کامل یقین رکھنا چاہئے، اور اس کے لئے قرآن فہمی یا کم از کم ان آیاتِ کریمہ کا مطلب سمجھنا ضروری ہے، جو اس موضوع سے متعلق ہیں، تاکہ اس کے یقین میں اضافہ ہو۔

۱۱۔ سانس ایک بحرِ عمیق ہے، آپ نے اس اتھاہ سمندر کو اوپر اوپر سے دیکھا ہے، مگر کبھی اس کی گہرائی کا تجربہ نہیں کیا ہے، ایک

 

۲۴۵

 

بار اس کی تہ تک غوطہ لگا کر دیکھئے تو سہی، تاکہ معلوم ہو کہ اس میں کیسے کیسے درہائے گرانمایہ پنہان ہیں، پھر آپ شاید ہر وقت ان موتیوں کی تلاش میں لگے رہیں گے، الغرض ذکرِ تنفس میں قدرتِ خدا کے بہت سے عجائب و غرائب موجود ہیں، جن کا خاطر خواہ مشاہدہ کرنے کے لئے آپ خوب سے خوب تر ریاض کر سکتے ہیں۔

۱۲۔ سورۂ عادیات کے شروع (۱۰۰: ۰۱) میں خدائے بزرگ و برتر نے جن چیزوں کی قسم کھائی ہے، وہ بظاہر مجاہدینِ اسلام کے دوڑائے جانے والے گھوڑے ہیں، مگر بباطن تیز قسم کے اذکارِ تنفس ہیں، جن کی سرعتِ رفتار سے نور کی چنگاریاں جھڑتی ہیں، اس روحانی جہاد کے نتیجے میں بوقتِ صبح نور و سرور کا مالِ غنیمت ملتا ہے، اس سے علم و حکمت مراد ہے، جس سے عقل و جان کی ہر کدورت و بیماری دور ہو جاتی ہے، تاکہ براہِ جنگِ روحی اسلام دشمن قوّتوں کی جماعت میں جا گھسیں، اور کوئی کاری ضرب لگائیں۔

۱۳۔ قرآنِ حکیم (۱۲: ۹۴) میں، جہاں پیراہنِ یوسف کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، وہاں لفظِ ریح (ہوا) بو یا خوشبو کے معنی میں استعمال ہوا ہے، چنانچہ سورۂ اعراف (۰۷: ۵۷) سورۂ فرقان (۲۵: ۴۸) سورۂ نمل (۲۷: ۶۳) اور سورۂ روم (۳۰: ۴۶) میں بھی “الریاح” کے معنی ہوائیں یعنی خوشبوئیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے، جس کی روح سے قریب تر ہو جانے سے بہشتِ برین کی ہوائیں آنے لگتی ہیں، جن میں گوناگون

 

۲۴۶

 

خوشبوئیں ہوا کرتی ہیں، اور یہ خوشبوئیں زبانِ حال سے خوشخبری دیتی ہیں کہ اب روحانیّت کی بھرپور اور موسلادھار بارش برسنے والی ہے، پس ذکرِ تنفس ان خوشبوؤں کی طرف آگے بڑھتا چلا جاتا ہے، جن سے عقل و جان، اور جسم کی بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے۔

۱۴۔ زمانۂ نزولِ قرآن میں ایک انتہائی عظیم انقلابی پیش گوئی فرمائی گئی تھی، جو آفاق و انفس کی آیاتِ خداوندی کے ظہور سے متعلق ہے (۴۱: ۵۳) اب اس کا وقت آچکا ہے، بلکہ حق بات تو یہ ہے کہ آفاقی نشانیوں یعنی معجزات کے بعد عالمِ نفسی یا عالمِ شخصی کے معجزات بھی شروع ہو گئے ہیں، اور ان کا مشاہدہ اور تجربہ کرنے کا راستہ اور دروازہ (ان شاء اللہ) ذکرِ تنفس ہے، سو آئیے، ہم سانسوں میں “یاھُو” کا یا کسی اور اسم کا پُرحکمت ذکر کریں، تا کہ ہمارے بدن کے خلّیہ خلّیہ اور ذرّہ ذرّہ میں بذریعۂ آکسیجن جنت کی خوشبوئیں بس جائیں، جبکہ یہ ہر مرض کے لئے نہ صرف روحانی سائنس کا علاج ہی ہے، بلکہ ساتھ ہی ساتھ یہ ایک اعلیٰ عبادت بھی ہے، یہاں یہ بھی خوب یاد رہے کہ روحانی چیزوں کے ظہورات بحالتِ لطافت حواسِ خمسہ کے مطابق ہوتے ہیں، اور ان میں سے ایک ظہور سونگھنے سے متعلق ہوا کرتا ہے، جس میں طرح طرح کی خوشبوؤں کی صورت میں لطیف غذائیں ہوتی ہیں۔

۸ ذوالحجہ ۱۴۰۶ھ / ۱۵ اگست ۱۹۸۶ء

 

۲۴۷

 

 

کپکپی سے علاج

۱۔ کیا کپکپی یعنی تھرتھراہٹ سے بھی کوئی علاج ہو سکتا ہے؟ لرزہ بر اندام ہو جانے سے؟ اور کانپنے سے؟ جی ہاں، اس کیفیت میں ایک بہت بڑی حکمت پوشیدہ ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ اس میں بہت سے اسرار و رموز پنہان ہیں، جن کا جاننا بے حد مفید ہے، حالانکہ کپکپی بظاہر ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے علاج و دوا کا کام لینا تو درکنار، بلکہ یہ خود ایک بیماری سمجھی جاتی ہے، جبکہ یہ کسی بھی وجہ سے ازخود طاری ہو جاتی ہے، لیکن اس بات سے شاید آپ کو تعجب ہو گا کہ بعض جسمانی بیماریاں مفید ہوا کرتی ہیں، کیونکہ ان کی وجہ سے کئی مہلک بیماریوں کو حملہ آور ہو جانے کا موقع نہیں ملتا ہے، جیسے چیچک کے سدِ باب کے لئے ٹیکا لگایا جاتا ہے، جس کی بدولت ایک عارضی اور مفید بیماری پیدا ہو کر آدمی کو اس پُرخطر بیماری سے محفوظ رکھتی ہے۔

۲۔ کپکپی یا زلزلہ کی روحانی اور جسمانی کئی قسمیں ہیں، سو اگر

 

۲۴۸

 

کوئی مظلوم کسی ظالم کے خوف سے کانپ اٹھتا ہے تو یہ تھرتھراہٹ خالی از حکمت ہرگز نہیں، جبکہ یہ ایک عملی فریاد ہے، جو کسی رکاوٹ سے دوچار ہوئے بغیر بارگاہِ ربّ العزّت کی طرف بلند ہو جاتی ہے، تاکہ حقیقی بادشاہ کا قانونِ عدل و انصاف حرکت میں آئے، اور اگر ایسی کوئی لرزش شدید سردی کی وجہ سے ہے، تو یہ بھی ایک قدرتی علاج ہے، تاکہ اس حرکت سے روحِ حیوانی کی حرارتِ غریزی میں اضافہ ہو، اور نظامِ دورانِ خون جاری رہے، القصہ کوئی کپکپی ایسی نہیں جو معنی اور حکمت کے بغیر ہو۔

۳۔ دعائم الاسلام، جلدِ اوّل، کتاب الجنائز کے شروع ہی میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشادِ گرامی درج ہے: ان الحمی طھور من رب غفور ۔بخار خدائے غفور کی طرف سے ایک پاکیزگی ہے، یعنی اس سے گناہ دھل جاتا ہے، چونکہ گناہ روحانی بیماری ہے، لہٰذا یہ کہنا درست ہو گا کہ ظاہری اور باطنی بخار سے اس کا ازالہ ہو جاتا ہے، پس اس حدیثِ شریف سے یہ قول درست ثابت ہوا کہ بعض عارضی بیماریوں سے مہلک امراض کا علاج ہو جاتا ہے، البتہ اس میں ایمان، یقین، علم ، اور عمل شرط ہے۔

۴۔ قرآنِ حکیم کی وہ کون سی آیۂ مبارکہ ہے، جو بجائے خود علم و حکمت کا ایک خزانہ نہ ہو، مگر مشکل یہ ہے کہ ہم عقلِ جزوی رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے قرآن فہمی کے لئے زیادہ غور و فکر کرنے کی ضرورت پڑتی

 

۲۴۹

 

ہے، چنانچہ اگر آپ سورۂ توبہ کی آیۂ مقدسہ نمبر ۵۲ میں غور سے دیکھیں، تو یقیناًآپ بہت خوش و خرسند ہو جائیں گے، کیونکہ اس میں یہ حکیمانہ اشارہ موجود ہے، کہ اس دنیا میں مومنین کی بہتری براہِ راست بھی ہے، اور بالواسطہ بھی، یعنی اگر راحت حاصل ہے، تو یہ کسی شک کے بغیر ڈائریکٹ (براہِ راست) بھلائی ہے، اور اگر کوئی مصیبت آتی ہے، تو وہ اِنڈائریکٹ (بالواسطہ) بھلائی کہلاتی ہے، اور قرآنِ حکیم میں اس قانونِ رحمت کا نام احدی الحسنیین (دو بھلائیوں میں سے ایک ،۰۹: ۵۲) ہے، پس ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے مومن پر آئی ہوئی ہر ایسی تکلیف میں یقیناًایک بڑی حکمت پوشیدہ ہوا کرتی ہے اور صرف حکمت ہی ایک ایسی شیٔ ہے، جو خیرِ کثیر کا درجہ رکھتی ہے۔

۵۔ زلزلۂ روحانیّت و قیامت یا حیرت انگیز بھونچال کا واسطہ نہ صرف عالمِ ظاہر سے ہے، بلکہ اس کا تعلق عالمِ شخصی سے بھی ہے، چنانچہ اس کا نمایان تذکرہ قرآنِ کریم کے ان چار مقامات پر موجود ہے: سورۂ بقرہ (۰۲: ۲۱۴) سورۂ حج (۲۲: ۰۱ تا ۰۲) سورۂ احزاب (۳۳: ۱۱) اور سورۂ زلزال (۹۹: ۰۱ تا ۰۸) ان کے علاوہ اور بھی کئی آیاتِ کریمہ ہیں، جو بزبانِ حکمت اسی موضوعِ برتر کے اسرار و رموز کو بیان فرماتی ہیں، جیسا کہ سورۂ زمر میں ارشاد فرمایا گیا ہے:

اللہ تعالیٰ نے بڑا عمدہ کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے

 

۲۵۰

 

کہ باہم ملتی جلتی ہے بار بار دہرائی گئی ہے جس سے ان لوگوں کے جو کہ اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں بدن کانپ اٹھتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں (۳۹: ۲۳) اگر اس کپکپی کو عالمِ نفسی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ قرآنِ پاک اور اسمِ اعظم کا ایک بہت ہی عظیم روحانی معجزہ ہے، لیکن یہاں ایک بڑا اہم سوال یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جب قرآنی حکمتِ بالغہ کے بموجب خدا سے ڈرنے میں متعلقہ اور ضروری خوف کے تمام معانی جمع ہیں، تو پھر کسی دوسرے موقع پر کانپنے کا جداگانہ ذکر کیوں فرمایا گیا ہے؟ اور اس کپکپی میں کیا حکمت پنہان ہے؟

۶۔ روحانی زلزلہ یا کپکپی انبیاء، اولیاء، اور عالی ہمت مومنین کے لئے سب سے آخری درجے کا امتحان بھی ہے، اور خوفِ خدا کا نتیجہ و ثمرہ بھی، نیز اس سے تطہیر و تزکیہ بھی ہو جاتا ہے، تاکہ لوگ اس منزل کے بعد روحانیّت اور جنت میں داخل ہو سکیں، اس کے علاوہ یہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر حقیقی زندگی سے قریب تر ہو جانے کی دلیل ہے۔

۷۔ جب زمین کے کسی حصے میں زلزلہ آتا ہے، تو اس وقت بھونچال کی اصل طاقت گہرائی میں ہوا کرتی ہے، اسی طرح جسمانی بخار ہو یا روحانی زلزلہ، اس کے عوامل و محرکات آدمی کے قلب اور بدن کے سارے خلّیات (Cells) میں ہوتے ہیں، ہر چند کہ

 

۲۵۱

 

ابتدائی تحریک و تاثیر سطحی اور بیرونی بھی ہو سکتی ہے، اور یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ انسان اور حیوان دل و دماغ سے پیغام بھیج کر اپنے جسم کے خلّیوں کو بیدار کرنے اور حرکت میں لانے میں مختلف ہیں، مثلاً جب گھوڑے کی پشت پر کوئی زخم ہوتا ہے، اور اس پر مکھی جا بیٹھتی ہے، تو گھوڑا مخصوص اسی جگہ کو لرزش دے سکتا ہے، اور دوسرے بہت سے جانور بھی ایسا کر سکتے ہیں، بلی بوقتِ غصہ اپنے جسم کے تمام خلّیات کو حرکت دے کر کس طرح رونگٹے کھڑے کر لیتی ہے، مرغی جب اپنے چوزوں کی محافظت کرتی رہتی ہے، تو اس حال میں وہ اپنے خلیوں کو چوکس کر کے جسم کے سارے پروں کو پھلائے رکھتی ہے، مگر انسان اپنی مرضی سے رونگٹے کھڑے نہیں کر سکتا، اور نہ ہی وہ پیٹھ کے کسی حصے کو لرزش دے سکتا ہے، تاہم یہ بات الگ ہے کہ ایک کامیاب باڈی بلڈر (Body Builder = تن ساز) لگاتار مشقوں کی بنیاد پر اپنے خلّیات اور گوشت کو غیر معمولی حرکت دے سکتا ہے۔

۸۔ اگر دیدۂ دانش سے دیکھا جائے تو یہ کائنات ۔ جو ایک کھلی کتاب ہے۔ ہمیں بہت کچھ سکھا سکتی ہے، اور حیوانات اسی اشاراتی کتاب کا سب سے اہم باب کی حیثیت سے ہیں، کیونکہ یہ زندہ ہیں، اور اسی زندگی کی بدولت انسان کے بہت ہی قریب

 

۲۵۲

 

ہیں، جن کی فطرت میں مثبت اور منفی انداز میں ہمارے واسطے بہت سے اشارے موجود ہیں، پس آپ غور و فکر کو اپنا شعار بنا لیں، اور قرآنِ حکیم میں تفکر و تدبر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات اور کائنات میں بھی سوچ لیں، تاکہ یہ معلوم ہو کہ انسان کیا کیا کر سکتا ہے، اور کیا کیا نہیں کر سکتا، میرے خیال میں خدا کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کام لے کر انسان آج نہیں تو آئندہ سب کچھ کر سکے گا۔

۹۔ ہم اس گفتگو کی گل گشت میں اصل مقام سے کسی قدر دور نکل گئے، ہر چند کہ بات کا رخ اصل موضوع ہی کی طرف ہے، بہ ہر کیف مذکورہ مثالوں کے بعد اب ہمیں یہ بیان کرنا ہے کہ اگرچہ حقیقی اور روحانی کپکپی اپنے معجز نما اثرات کے ساتھ انتہائی بلندی پر واقع ہے، تاہم قانونِ قدرت یہ ہے کہ ہر بلندی کے ساتھ ساتھ ایک ارتقائی سیڑھی بھی ہوا کرتی ہے (۷۰: ۰۳) اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ بیدریغ اور کسی شرم و ناموس کے بغیر کپکپی کی مختلف مشقیں شروع کریں، کبھی ہاتھوں کو تھرتھرا لیں، کبھی پیروں کو، یہ مشق آپ کندھوں سے بھی کر سکتے ہیں، اور زانوؤں سے بھی، اور ہمیشہ اس ورزش میں یادِ الٰہی کی روح پھونکتے رہنا، تاکہ زینہ بزینہ آپ بلند ہو سکیں، ان شاء اللہ، کامیابی ہوگی۔

۱۰۔ خدا تعالیٰ کے نیک بندوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں

 

۲۵۳

 

کہ وہ بہ اندازِ دعا ہاتھوں کو لرزاتے ہیں، اور تھوڑی دیر کے بعد ان پر قدرتی کپکپی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، جس میں روحانی علاج و شفا موجود ہے، اس حال میں ان نیک بخت افراد کی خوب گریہ و زاری ہو جاتی ہے، جس کا ذکر بہ حوالۂ قرآن اس کتاب میں ہو چکا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ دو قسم کی عبادت کر سکتے ہیں، ایک وہ جس میں آپ تنِ تنہا ہوتے ہیں، دوسری بندگی اتنی فضیلت والی ہے، کہ اس میں خلّیاتِ بدن کی بے شمار روحیں خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر آپ کے ساتھ شریک ہو جاتی ہیں، یہ زلزلۂ خاص اور گریہ و زاری کا نتیجہ ہے، پس “کپکپی سے علاج” زبردست مؤثر ہو سکتا ہے۔

۱۱۔ اسی مقالہ کے نکتہ نمبر ۵ میں دیکھئے، جہاں سورۂ زمر کے ایک ارشاد (۳۹: ۲۳) کا ترجمہ درج ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خاص مومنین کے بدن قرآنِ پاک اور اسمِ اعظم کے زیرِ اثر کانپ اٹھتے ہیں، اور یہ کانپنا اتنا زبردست مفید معجزہ ہے کہ اس سے ان کے بدن یعنی تمام خلّیات اور دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ چونکہ بدن خلّیات ہی کا مجموعہ ہے، اور خلیوں میں بے حساب ذرّاتِ روح ہیں، لہٰذا بدن کا نرم ہو کر دل کے ساتھ ساتھ ذکر کرنا یہ ہے کہ خلّیاتی روحیں بیدار ہو کر یادِ الٰہی میں مصروف ہو جاتی ہیں، پس ظاہر ہوا کہ عارفانہ

 

۲۵۴

 

کپکپی سے جسم کا ہر ہر خلیہ جاگ اٹھتا ہے، اور خدائے بزرگ و برتر کے اسمِ اکبر کے فیوض و برکات کی بدولت جملہ بیماریوں اور آفتوں سے محفوظ رہتا ہے۔

۱۲۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ بیماری خلّیات میں ہوتی ہے، قرآن اشارہ فرماتا ہے کہ تم جو خلّیاتی ارواح کا مجموعہ ہو ہر شر اور ہر بیماری سے بچنے کے لئے اپنے پروردگار کی پناہ میں رہا کرو (۱۱۳: ۰۱ تا ۰۵،۱۱۴: ۰۱ تا ۰۶) سائنس کا کہنا ہے کہ مریض کے جسم میں جراثیم ہوا کرتے ہیں، قرآن بزبانِ حکمت کہتا ہے کہ دنیا کی ہر مفید چیز اور ہر دوا خزائنِ خداوندی سے نازل کی گئی ہے (۱۵: ۲۱) نیز یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ عزرائیل جو تم پر مؤکل ہے (۳۲: ۱۱) وہ جراثیم کی جان لے سکتا ہے، سائنس ہر قسم کی ظاہری صفائی اور پاکیزگی کو بے حد ضروری قرار دیتی ہے، قرآن اس بات کی برملا تصدیق کرتا ہے، اور فرماتا ہے کہ صرف یہی نہیں، بلکہ روح کی پاکیزگی اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے، کیونکہ انسان کی رستگاری اسی میں ہے (۹۱: ۰۹) سائنس بدنی ورزش کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہے، اور اسے صحت کے لئے مفید ٹھہراتی ہے، قرآن کا حکیمانہ اشارہ ہے کہ انسان کی تخلیق و تعمیر اور صحت کا راز مشقت میں مضمر ہے (۹۰: ۰۴) اور مشقت یا ورزش کے دو پہلو ہیں: روحانی اور جسمانی، پس قرآن کے نزدیک جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ

 

۲۵۵

 

روحانی ورزش بھی ازحد ضروری ہے۔

۱۳۔ سوال: کپکپی اگر حقیقی معنوں میں ہو، تو اس میں کیا کیا عظیم فائدے پوشیدہ ہوتے ہیں؟ جواب: اس میں عملاً خوفِ خدا اور ثمرۂ خوفِ خدا ہے (۳۹: ۲۳) حقیقی عشق کی بیچارگی، بے قراری، اور فریاد ہے (۲۷: ۶۲) عاجزی اور نیازِ پنہانی کا انعام ہے (۰۷: ۵۵) قدرتی تطہیر و تزکیہ ہے (۰۹: ۱۰۳) روحانیّت کا ایک عظیم معجزہ ہے (۴۱: ۵۳) رحمت ہے کہ زمینِ روح سر سبز و آباد ہو جانے کے لئے ہلتی ہے (۲۲: ۰۵) یہ باطنی انقلاب ہے، اور قیامتِ کبریٰ کا نمونہ بھی (۲۲: ۰۱) ابدی زندگی کی ایک بڑی علامت ہے (۰۸: ۲۴) رابطۂ روحِ اعظم کا تجربہ ہے (۵۸: ۲۲) عالمِ شخصی کی قیامتِ صغریٰ کا بھونچال ہے (۹۹: ۰۱ تا ۰۸) آخری مرحلے کا امتحان و آزمائش ہے (۳۳: ۱۱) صبر و صلوٰۃ کا میوۂ شیرین و پُرمغز ہے (۰۲: ۱۵۳) آسمانی نصرت و تائید کا آغاز اور خلّیاتی ارواح کی بیداری ہے (۰۲: ۲۱۴) اور روحِ قرآن ہے، جو ایسے باسعادت مومنین کے لئے دوا اور شفا لے کر آیا کرتی ہے (۱۷: ۸۲)۔

نصیر الدین نصیرؔ (حبِ علی) ہونزائی
۱۸ ذوالحجہ ۱۴۰۶ھ / ۲۵ اگست ۱۹۸۶ء

 

۲۵۶